Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 6

Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 6

تفسیر حضرت مسیح موعودؑ (جلد ۶)

Chapters: 23-35
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام


Book Content

Page 1

تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد سورة المؤمنون تا سورة فاطر

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وو نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.66 اس کا مقابلہ کر سکے.“ میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو ( ضرورت الامام - روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مد مقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." (اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۲،۵۵ - اردو تر جمه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں ، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک

Page 3

ii کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہوگئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ کتاب مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.ا.- تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳ اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.66 حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین

Page 4

iii بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) الْحَمدُ لِلهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فر ما یا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوٹی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.

Page 5

iv > جون ۱۹۶۹ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے سے مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.

Page 6

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم صفح ۲،۱ ۳،۲ L نمبر شمار مختصر فہرست مضامین جلد ششم مضمون انسان مراتب ستہ کو طے کر کے جو اس کی تعمیل کے لئے ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو پہنچتا ہے خالق حقیقی رحم کے اندر تمام اعضاء اندرونی و بیرونی کو ایک ہی زمانہ میں بناتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں سب بنتے ہیں تاخیر تقدیم نہیں جسمانی مراتب ستہ کے مقابل پر روحانی مراتب ستہ کی تفصیل خدا تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے بعد پہلا مرتبہ انسانی وجود کا جسمانی رنگ میں نطفہ کو قرار دیا ہے اول مرتبہ مؤمن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نماز اور یا دالہی میں مؤمن کو میسر آتی ہے جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے رحم اور رحیم کا تعلق یا عدم تعلق ایک ہی بنا پر ہوتا ہے صرف جسمانی اور ۶ 1.روحانی عوارض کا فرق ہے خشوع اور نطفہ میں مشابہت 1 ۹

Page 7

صفحہ 11 = 11 11 ۱۴ ۱۵ ۱۵ ۱۶ ۱۶ لا 19 vi نمبر شمار مضمون دابتہ الارض یعنی وہ علماء واعظین جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتے اس جگہ لفظ دابتہ الارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةً مِنَ الْأَرْضِ....ہم ایک گروہ دابتہ الارض کا زمین میں سے سے نکالیں گے...جن کو علم کلام اور فلسفہ میں ید طولی ہوگا دنیا کی لغو باتوں اور لغو کاموں اور اغور سیر و تماشا اور لغو صحبتوں سے واقعی طور پر اسی وقت انسان کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے لغو باتوں اور لغو کاموں کو چھوڑ دینا یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں تعلق باللہ کہتے ہیں جسمانی وجود کے تیسرے درجہ کے مقابل پر روحانی وجود کے تیسرے درجے کی تفصیل قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں زکوۃ کا نام اسی لئے زکوۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے اللہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہو جاتا ہے روحانی وجود کے چوتھے درجہ کی تفصیل لفظ ر عون عرب کے محاورہ کے موافق اس وقت بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹

Page 8

صفح ۲۱ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸،۲۷ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ vii مضمون تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خدو خال ہیں ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک وشبہات سے ہنوز لڑائی ہے خدا کی ذاتی محبت ایک نئی روح ہے جو شعلہ کی طرح ان کے دلوں پر پڑتی ہے محبت سے بھری ہوئی یا دالہی جس کا نام نماز ہے وہ درحقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے وو یہ نئی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلے روحانی قالب تیار ہو چکتا ہے روح بھی خدا کی ایک پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا ہے محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں انسانی پیدائش کے دو حسن حسن معاملہ اور حسن بشرہ تفصیل اخلاق رویہ اور اخلاق فاضلہ کی تشریح عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مرجاتا ہے قبولیت دعا کے لئے تین شرائط روحانی مراتب ستہ اور جسمانی مراتب ستہ کے علمی معجزہ کا تقابلی جائزہ اور کتب سماوی سے نظیر پیش کرنے کا چیلنج علمی معجزہ مذکورہ بالا ایک صاف اور کھلی کھلی اور روشن اور بد یہی سچائی ہے أفْلَحَ کے لغت میں یہ معنی ہیں اُصِیرُ اِلَی الْفَلَاحِ یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا نمبر شمار ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ { { 1 ٣٣

Page 9

صفح ۳۷ ۳۹ ? ۴۷ ۴۷ ۴۸ ۴۸ :: 우우우으 ۵۷ ۵۵ ۵۴ ۵۳ ۵۲ ÷ ۶۰ ۶۱ viii نمبر شمار ۳۴ ۳۵ ۳۶ مؤمن کے چھ کاموں کی تفصیل مضمون خدا کی محبت ذاتیہ ایک روح ہے اور روح کا کام مؤمن کے اندر کرتی ہے اس لئے وہ خود روح ہے اور روح القدس اس سے جدا نہیں نفس نا قصہ کی پانچ خراب حالتیں ۳۷ تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضا جوئی میں اور تمام خدا ۳۸ ۳۹ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ کی رضا جوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں مؤمن کامل کی پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ بھی ایک نئی صورت کی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے جب رقت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی انسان اس کے مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے یا گذشتہ زمانہ میں قادر نہ ہوسکا ہو اور نہ بعد میں قادر ہونے کا ثبوت ہو عالم صغیر اور عالم کبیر پیدائش کے تعمیل کی تدریجی مراحل طے کرنے کے بعدا پنی تکمیل کو پہنچے عالم صغیر اور عالم کبیر کی پیدائش کے چھ طریق نطفہ کی مختلف حالتیں اور درجے انسان کی تکمیل چھ مراتب کے بعد ہوتی ہے انسان کی روحانی پیدائش کے مراتب ستہ کلام کے چھ مراتب نطفہ کے تغیراتی مراحل ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ آدم سے لے کر آخیر دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے

Page 10

ix مضمون لبید بن ربیعہ العامری کے کلام میں آخری زمانہ کی نسبت عظیم الشان پیشگوئی کاتب وحی عبداللہ ابن ابی سرح کو ابتلا پیش آ گیا تھا خدا تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں مابہ الامتیاز مرد اور عورت کا نطفہ جب تدریجی ترقی کے مراحل سے گذرتا ہے تو اسی قالب میں روح پیدا ہو جاتی ہے موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے ضعف اسلام کا زمانہ ابتدائی یہی ۱۸۵۷ء ہے جس کی نسبت آیا ہے جب وہ زمانہ آئے گا قرآن زمین سے اُٹھ جائے گا مسیح موعود کے ظہور کی خاص علامت ہے کہ وہ دجال معہود کے خروج کے بعد نازل ہوگا مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی پیشگوئی موجود ہے قرآن شریف نے مسیح کے نکلنے کی ۱۴۰۰ برس تک مدت ٹھہرائی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں کا حال خدا نے نوح کے زمانے میں ظالموں کو ایک ہزار سال مہلت دی تھی خیر القرون کی صدیوں کو الگ کر کے تقریباً ہزار برس ہو جاتا ہے اوی کا لفظ لغت عرب میں کسی مصیبت یا تکلیف سے پناہ دینے کے لئے آتا صفح ۶۲ ۶۳،۶۲ ۶۳ ۶۴ } ۶۶ ۶۷ ۶۷ ۶۸ ۶۹ ۶۹ ہے اور صلیب سے پہلے عیسی اور اس کی والدہ پر کوئی زمانہ مصیبت کا نہیں گذرا قرار کا لفظ مسیح علیہ السلام کے خطہ کشمیر میں امن و عافیت کے ساتھ بغیر کسی مخالفت کی مزاحمت کے اندیشے کے رہائش اختیار کرنے پر دلالت کرتا ہے ۷۱، ۷۲ نمبر شمار ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰

Page 11

صفح ۷۴ ۷۵ ۷۵ ΔΙ ۸۲ ᎪᎨ ۸۴ ۸۵ ۸۶ X مضمون لفظ کشمیر وہ لفظ ہے جس کو کشمیری زبان میں کشیر کہتے ہیں....پس معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ لفظ عبرانی ہے جو کاف اور اشیر کے لفظ سے مرکب ہے اشیر عبرانی زبان میں ملک شام کو کہتے ہیں دو ہزار قبل ایک اسرائیلی نبی کشمیر آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور شہزادہ نبی کہلاتا تھا اس کی قبر محلہ خانیار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے آسف عبرانی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو قوم کی تلاش کرنے والا ہو...حضرت عیسیٰ اپنی قوم کو تلاش کرتے کرتے کشمیر میں پہنچے تھے ایک طائفہ کو سزا ملتی دیکھ کر دوسرے اپنی اصلاح کرلیں گے بری کا لفظ صرف ایسی صورت میں بولا جاتا ہے جب کہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرار داد جرم لگائی جاتی ہے پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل کر رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی تو بہ واستغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے مرد اگر پارسا نہ ہو تو عورت کب صالح ہوسکتی ہے اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالح بن سکتی ہے مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو پھر کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے اگر انسان تقوی اختیار کر لے باطنی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرے....تو وہ ایسی ابتلاؤں سے بچا لیا جائے گا نمبر شمار บ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ 72 ۶۸ ۶۹

Page 12

صفح AL ۸۸ ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۶ xi ☑ نمبر شمار ۷۰ اے ۷۲ مضمون اگر تیری بیوی زنا تو نہیں کرتی مگر شہوت کی نظر سے غیر لوگوں کو دیکھتی ہے....اگر وہ باز نہ آئے تو تو اسے طلاق دے سکتا ہے ہر ایک نادیدنی اور ناشنیدنی اور نا کردنی سے پر ہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہوگا تجر بہ بلند آواز سے چیچنیں مار کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ بیگانہ عورتوں کو دیکھنے میں ہرگز انجام بخیر نہیں ہوتا ۷۳ یورپ کی پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۷۴ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کر دورنہ یا درکھو اسلام کا تو ۷۵ ZY کچھ حرج نہیں ہے اس کا ضر ر تو تم ہی کو ہے اسلامی پردے کا راز خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں ۷۷ اسلامی پردہ کی حقیقت ۷۸ ۷۹ ۸۰ ΔΙ غض بصر کے بارے قرآنی تعلیم کا انجیل کی تعلیم سے موازنہ یورپ کی پردہ کے بارے میں افراط و تفریط بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے

Page 13

صفح 1+1 ۱۰۵ ۱۰۵ 1+4 1+2 +11 ۱۱۶ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۸ xii مضمون خلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں رجال لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ.....یہ ایک ہی آیت صحابہ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے خدا کا ہرگز یہ منشا نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو خدا کے حکم سے تخلف کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اگر چہ بنی اسرائیل میں کئی مسیح آئے لیکن سب سے پیچھے آنے والا مسیح وہی ہے جس کا نام قرآن کریم میں مسیح عیسی بن مریم بیان کیا گیا ہے مِنكُمُ کا لفظ قرآن کریم میں بیاسی جگہ آیا ہے بجز دو یا تین جگہوں کے تمام مواضع میں منکھ کے خطاب سے وہ تمام مسلمان مراد ہیں جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وه پلی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی برکات لوگوں کو دکھائیں حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح تک ہزار ہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہو کر تو رات کی خدمت میں مصروف رہے یا در ہے کہ مجد دلوگ دین میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں پر قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجد دوں پر ایمان لا نا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے نمبر شمار ۸۲ ۸۳ ΔΙ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ۸۸ ۸۹ ۹۰ ۹۱

Page 14

Xiii نمبر شمار ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1+1 ۱۰۲ مضمون اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یرتھا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے جب امت کو اندھارکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھنا ہی مدنظر ہے تو پھر یہ کہنا تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور راہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے کیا....معنی رکھتا ہے مماثلت تامہ کاملہ استخلاف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا قرآن جیسا کہ گما کے لفظ سے مستنبط ہوتا ہے دونوں سلسلوں کے تمام خلیفوں کو من وجه مغائر قرار دیتا ہے شیخ محی الدین ابن عربی اپنی کتاب فصوص میں مہدی خاتم الاولیاء کی ایک علامت لکھتے ہیں اس کا خاندان چینی حدود میں سے ہوگا اس کی پیدائشی میں یہ ندرت ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک لڑکی بطور توام پیدا ہوگی تمام شبہات کو حضرت ابوبکر نے کمال صفائی سے حل کر دیا تمام صحابہ میں سے ایک فرد ایسا نہ رہا جس کا گذشتہ انبیاء کی موت پر اعتقاد نہ ہو سلسله محمدی اور سلسلہ موسوی کی مشابہتیں حضرت ابو بکر اور حضرت مسیح موعود کی مشابہتیں یوشع بن نون اور حضرت ابوبکر کی مشابہتیں سلسلہ عیسوی اور سلسلہ محمدی میں مسئلہ تکفیر میں باہمی مشابہت صفح ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۲ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۸

Page 15

صفحہ ۱۵۱ ۱۵۵ ۱۶۱ F ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۲ ۱۷۵ 127 122 12A ۱۷۹ xiv نمبر شمار ۱۰۳ ۱۰۴ مضمون اگر تم یہ چاہتے ہو کہ بعینہ عیسی نازل ہو تو تم نے قرآن کریم کو جھٹلا دیا اور تم نے سورۃ نور سے کوئی نور حاصل نہیں کیا مسیلمہ کے ساتھ قریباً ایک لاکھ جاہل اور فاجر لوگ شامل ہوئے اور فتنوں نے جوش مارا اور مصائب بڑھ گئے ۱۰۵ گما کا لفظ جس مشابہت کو چاہتا ہے اس میں زمانہ کی مشابہت بھی داخل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت ایسے آئے تھے جس وقت میں ایک ۱۰۶ 1+2 1+A 1+9 11 + ۱۱۲ ۱۱۳ سچے اور کامل نبی کو آنا چاہیے نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تقدیر کے لفظ کو ایسے طور پر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خدا داد قومی سے محروم رہنے کے لئے مجبور کیا جاتا تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک کا نام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتے ہیں دعا،صدقہ و خیرات سے عذاب کا ٹلنا ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اکثر ایک تقدیر جو معلق ہوا کرتی ہے ایسی بار یک رنگ میں ہوتی ہے کہ اس کو سرسری نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہرم ہے تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی.مبر حقیقی ٹل نہیں سکتی غیر حقیقی ٹل سکتے ہیں ہمارے تجربہ میں آیا ہے اہل اللہ قرب الہی میں ایسے مقام تک جا پہنچتے ہیں جبکہ ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بوکو....اپنے رنگ کے نیچے متواری کر لیتا ہے

Page 16

صفح ١٨١ ۱۸۲ ۱۸۵ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۹۱ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ١٩٦ XV نمبر شمار ۱۱۴ ۱۱۵ 117 ۱۱۷ ۱۱۸ 119 ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۵ مضمون یا درکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذ الرحمن کہلاتے ہیں ان کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور ان کی امت کے نیک لوگ ان کی روحانی نسلیں ہیں هون......دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو....بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو منتقیانہ زندگی بنادے نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو..قطع نظر اس کے کہ ثواب ہو یا نہ ہو میری تو کوئی نماز ایسی نہیں جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا اولاد کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ جانشین بنانے کے واسطے ۱۲۴ قرآن بار بار کہتا ہے کہ بہشت میں جسم اور روح دونوں کو جزا ملے گی انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بریکار کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا

Page 17

xvi نمبر شمار ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۱ ۱۳۲ مضمون ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے یہ نور ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا....یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا خدا تعالیٰ مخلوق کے مستعد دلوں پر اپنے نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دیتا ہے اور اس کی پر جوش دعاؤں کی تحریک سے....خدا تعالیٰ کے نشان زمین پر بارش کی طرح برستے ہیں مامورمن اللہ جب آتا ہے اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی معلم اور واعظ کا تو اتنا ہی فرض ہے کہ وہ بتا دے دل کی کھڑکی تو خدا کے فضل سے کھلتی ہے خدا کے نبی شہرت پسند نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے تئیں چھپانا چاہتے ہیں مگر حکم الہی انہیں باہر نکالتا ہے اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے رسول اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے ۱۳۳ اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اللہ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے ۱۳۴ نودی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس نے آگ کے اندر اور اردگر دکو ۱۳۵ برکت دی وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمُ ان کے دل ان نشانوں پر یقین کر گئے صفح ۱۹۶ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۷ ۲۱۸

Page 18

صفح ۲۱۸ ۲۱۸ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۳ ۲۲۴ تا ۲۲۵ ۲۲۵ ۲۲۵ ۲۲۵ xvii نمبر شمار ۱۳۶ مضمون جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے ۱۳۷ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں ۱۳۸ پانچویں حالت جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفس امارہ سے ہے ۱۳۹ ایک برتر ہستی کی تلاش اور کشش انسان کی فطرت میں پائی جاتی ہے ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ قرآن شریف میں ملکہ بلقیس کا قصہ یہ بڑے بڑے اجرام جو نظر آتے ہیں جیسے آفتاب و مہتاب وغیرہ یہ وہی صاف شیشے ہیں جن کی غلطی سے پرستش کی گئی دنیا ایک شیش محل ہے تمام کاموں کے پیچھے ایک مخفی طاقت ہے جو خدا ہے ۱۴۳ مدینہ میں نوشریروں کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قتل کا منصوبہ ۱۴۴ عذاب الہی جب دنیا میں نازل ہوتا ہے وہ بھی نازل ہوتا ہے جب شرارت، ظلم اور تکبر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۱۴۵ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خداوہ ہے جو بے قراروں کی دعا سنتا ہے ۱۴۶ کلام الہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلاء کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر ۱۴۷ دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو اس کے لئے دل میں درد ہو

Page 19

صفح ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ٢٣١ ۲۳۲ ۲۳۲ ۲۳۲ ۲۳۳ xviii مضمون نمبر شمار ۱۴۸ جو آسمانی قوت کے ساتھ آنے والا تھا اس کو نزول کے لفظ سے یاد کیا گیا جو زمینی قوت کے ساتھ نکلنے والا تھا اس کو خروج کے لفظ کے ساتھ پکارا گیا ۱۴۹ دابتہ الارض در حقیقت اسم جنس ایسے علماء کے لئے ہے جو ذ و جہتین واقع ہوئے ہیں ایک تعلق ان کا دین اور حق سے ہے ایک تعلق دنیا اور دجالیت سے ہے ۱۵۰ ۱۵۱ میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ دابتہ الارض طاعون ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے قرآن شریف میں جہاں کہیں ( دابتہ ) کا یہ مرکب نام آیا ہے اس سے مراد کیٹر الیا گیا ہے ۱۵۲ جب بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہام باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑنا کمال جہالت ہے اسی عادت سے بد بخت یہودی قبول حق سے محروم رہ گئے ۱۵۳ آنحضرت کی تدریجی ترقی میں یہ سر تھا کہ آپ کی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا وہ دابتہ الارض زمین سے نکلے گا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابتہ الارض بن جائیں گے ۱۵۴ ۱۵۵ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس کے وقت تثلیث کا مذہب ترقی پر ہوگا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اس نے مسلمانوں کو دعا سکھائی اور دعا میں مغضوب کا لفظ کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے ۱۵۶ دابتہ الارض کے دو معنی ہیں ایک وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا دوسرے دابتہ الارض سے مراد طاعون ہے

Page 20

صفح ۲۳۴ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۳۹ ،۲۴۰ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۴ ۲۴۷ ۲۴۹ ۲۴۸ Xix مضمون نمبر شمار ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی ہے کہ اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دارو مدار نشانات پر ہوگا یہ بات بالکل غلط ہے کہ امت میں الہام کا دروازہ بند ہے اللہ تعالیٰ کے امت کے بعض مردوں اور عورتوں سے کلام کا قرآن کریم میں ذکر ہے موسیٰ پر مکا مارنے کا عیسائیوں کا الزام ہے وہ گناہ نہیں تھا انبیاء کو خدا ذلیل نہیں کیا کرتا انبیاء کی قوت ایمانی یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جان دینا وہ اپنی سعادت جانیں یادر ہے کہ اگر چہ شرک بھی ایک ظلم بلکہ ظلم عظیم ہے مگر اس جگہ ظلم سے مراد وہ سرکشی ہے جو حد سے گذر جائے اور مفسدانہ حرکات انتہا تک پہنچ جائیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو احمد وں کا ذکر فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے ہر ایک چیز کے لئے بجزا اپنی ذات کے موت ضروری ٹھہرادی پس جیسا کہ جسمی ترکیب میں انحلال ہو کر جسم پر موت آتی ہے ایسا ہی روحانی صفات میں تغیر پیدا ہوکر روح پر موت آجاتی ہے ۱۹۴ ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا جبکہ ابھی علم کمال ۱۶۵ ۱۶۶ تک نہیں پہنچا اور شکوک وشبہات سے ہنوز لڑائی ہے رضوان و قرب الہی حاصل کرنے کے دو ہی طریق ہیں ایک تو تشریح احکام سے ترقی ہوتی ہے...دوسرے وہ تکالیف ہیں جو خدا انسان کے سر پر ڈالتا ہے آیت قرآنى آحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ کا ایک یہودی کے دل پر غیر معمولی اثر ہوا اور قبول اسلام کا باعث بنی

Page 21

صفح ۲۴۸ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۲ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۷ ۲۶۱ XX نمبر شمار مضمون ۱۷ مؤمن کو چاہیے کہ دوسرے کے حالات سے عبرت پکڑے ۱۶۸ ۱۶۹ 12.121 اہل اللہ مصائب شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں ی غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صد بہاولی فی الفور بن گئے اللہ تعالیٰ کا یہ خاصا ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے دعا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے ۱۷۲ امتحان یا آزمائش سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے ۱۷۳ عملی نمونے ایسے اعلیٰ درجے کے ہوں کہ ان سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے ۱۷۴ یا درکھو کہ ابتلا اور امتحان ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر ایمان کامل ہوتا ہی نہیں اور کوئی عظیم الشان نعمت بغیر ابتلا ملتی ہی نہیں ۱۷۵ اکثر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ تھیلی پر سرسوں جمادی جائے.....وہ دنیا جس کے لئے وہ رات دن مرتے ہیں اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لئے تو برسوں انتظار کرتے ہیں...لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں اور 129 کہتے ہیں پھونک مار کر ولی بنا دو جب انسان اپنے ایمان کو استقامت کے ساتھ مدد نہ دے تو خدا کی مدد بھی منقطع ہو جاتی ہے ۱۷۷ صلاحیت کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ انسان تکالیف شاقہ اٹھا کر نیکیوں کا بوجھ اٹھاتا ہے دوسرے وہ تکلف اور تکلیف جو پہلے ہوتی تھی ذوق اور لذت سے بدل جاتی ہے

Page 22

صفحہ ۲۶۳ ۲۶۵ ۲۶۵ ۲۶۵ ۲۶۶ ۲۶۶ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۶۷ ۲۶۸ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۳ ۲۷۷ ۲۷۹ ۲۸۱ xxi نمبر شمار مضمون ۱۷۸ نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا 129 ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ہوتا ہے نماز گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے حضور اکرم سے نماز معاف کرانے کی درخواست خدا کی محبت ، اسی کا خوف ، اسی کی یاد دل میں لگارہنے کا نام نماز ہے جو شخص خدا کے دربار میں پہنچنا چاہتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے ۱۸۳ درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے ۱۸۴ حقیقی نماز کے ثمرات ۱۸۵ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اول اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی ۱۸۶.مقصود ہے نہ کچھ اور برکات نماز ۱۸۷ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محض ناخواندہ اور ۱۸۸ ۱۸۹ امی تھے اعجاز قرآن.نہ توراۃ اور نہ انجیل وہ اصلاح کرسکی جو قرآن شریف نے کی قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ توریت اور انجیل یہود اور نصاری کے دلوں سے محو کی گئی کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے مفتری کا انجام اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے کا اجر اور انعام ۱۹۰ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ مجاہدہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا

Page 23

xxii نمبر شمار ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ مضمون اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو تزکیہ نفس کے لئے غار حرا میں کوشش ا اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو ۱۹۷ عمدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی نا کام نہیں رہتا مکاشفات اور رویائے صالحہ اکثر استعارات سے پر ہوتے ہیں ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ حادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کا تمام زمین پر قبضہ ہو گا یہ دونوں صفات یا جوج ماجوج اور دجال ہونے کی یورپین قوموں میں موجود ہیں توحید پر قائم ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے جس پر انسان کی پیدائش ہے ۲۰۲ من نفوس مقدسه کوخدا اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے وہ بھی رفع حجب ر مکمل صفوت میں اس شیش محل کی طرح ہوتے ہیں جن میں نہ کوئی کثافت ۲۰۳ ۲۰۴ ہے اور نہ کوئی حجاب.تمام قومی جو انسانوں کو دیئے گئے ہیں اصل مقصد خدا کی معرفت اور خدا کی دا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے نسانی روح کسی چیز سے تسلی اور سکینت بجز وصال البی کے نہیں پاسکتی ۲۰۵ کر کے معنی پھاڑنے کے ہیں اور فطرت سے یہ مراد ہے کہ انسان خاص طور صفحہ ۲۸۷ ۲۸۷ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۹۱ ۲۹۱ ۲۹۴ ۲۹۸ ۲۹۹ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۱۵ پر پھاڑا گیا ہے ترک کی تین قسمیں ۲۰۶ ۲۰۷ السلام کا مدار نیات پر ہے

Page 24

صفح ۳۱۸ ۳۱۹ ٣٢ ۳۲۱ ۳۲۵ ۳۲۶ ۳۲۷ ۳۳۲ ۳۳۴ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۷ ۳۳۷ ۳۴۵ ۳۴۵ Xxiii نمبر شمار مضمون ۲۰۸ ساعت سے مراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے ۲۰۹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا زمانہ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ضلالت کا دور ایک ہزار سال تک ممتد رہے گا صدق اور صلاح اور عفت کا زمانہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے ۲۱۳ اخروی نعماء جنت کی حقیقت ۲۱۴ تمام انبیاء آسمانوں میں زندہ ہیں مسیح علیہ السلام کے لئے کون سی ۲۱۵ ۲۱۶ خصوصیت ثابت ہے حضرت زینب کے نکاح کا قصہ ابتلاء میں خدا تعالیٰ مامور کاصبر واستقلال اور جماعت کی استقامت دیکھتا ہے ۲۱۷ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کی اتباع چھوڑ خواہ کوئی ساری عمر نکرمیں مارے گوہر مقصود اس کے ہاتھ نہیں آتا دنیا میں جس قدر انبیاء آئے ان میں ایک کشش ہوتی ہے جس سے لوگ ۲۱۸ ۲۱۹ ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا وہ ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیں کرتا خدا کے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوتے ۲۲ ۲۲۱ جزئی طور پر وحی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے ۲۲۲ نبی محدث ہوتا ہے اور محدث نبوت کی انواع میں سے ایک نوع کے حصول کی وجہ بنی ہے

Page 25

XXIV نمبر شمار مضمون ۲۲۳ ایسی نبوت جس میں صرف مبشرات ہوں وہ قیامت تک باقی ہے ۲۲۴ رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل حاصل کئے ہوں ۲۲۵ خاتم النبین کے بعد مسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے ۲۲۶ رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرئیل حاصل کرے ۲۲۷ اور یہ کہنا کہ " حضرت عیسیٰ نبوت سے معطل ہو کر آئے گا نہایت بے حیائی اور گستاخانہ کلمہ ہے صفح ۳۴۶ ۳۴۷ ۳۴۷ ۳۴۸ ۳۵۴ ۲۲۸ جو شخص خدا تعالیٰ سے براہِ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا اس پر نبی یا رسول کا لفظ بولنا غیر موزوں نہیں ۳۵۵ ۲۲۹ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول ۲۳۰ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا ۲۳۱ نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اسی لفظ کو نالی کہتے ہیں ۲۳۲ بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں ۲۳۳ میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے ۲۳۴ آپ کے بعد نبوت کے مقام پر وہی شخص فائز ہوسکتا ہے جو آپ کی امت میں سے ہو اور آپ کا کامل پیر و ہو ۳۵۶ ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۸ ۳۶۰ ۳۶۳

Page 26

صفح ۳۶۹ ۳۷۳ ۳۷۵ ۳۷۸ ۳۸۳ ۳۸۴ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۹۰ ۳۹۴ XXV مضمون نمبر شمار ۲۳۵ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعوی کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں ۲۳۶ ۲۳۷ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو پہلے نبی اور ان کی نبوتوں کے پہلو مخفی رہتے ۲۳ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے ہم جس قوت یقین ، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لا کھواں حصہ بھی وہ نہیں مانتے ۲۳۹ لفظ خاتم کی تشریح ۲۴۱ تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی خدا تعالی کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جوان جھوٹی نبوتوں کے بت کو توڑ کر نیست و نابود کر دے ختم نبوت بھی ایک عجیب علمی سلسلہ ہے ۲۴۲ ختم نبوت کے بارے محی الدین ابن عربی کا مذہب ۲۴۳ نبی کے لفظی اور اصطلاحی معنی ۲۴۴ عظمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عظمت اسلام کی وجہ سے خلیفوں یا صلحاء کے لئے نبی کا لفظ نہ بولا گیا حضرت ابن عربی کا ختم نبوت کے متعلق عقیدہ ۲۴۵

Page 27

xxvi نمبر شمار مضمون ۲۴۶ ختم نبوت کے بارے حضرت عائشہ کا قول ۲۴۷ آپ کا نام چراغ رکھنے میں حکمت ۲۴۸ آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گذاری کے طور پر درود بھیجیں ۲۴۹ قبولیت دعا کے تین ذرائع ۲۵۰ لفظ ملعون کے بولے جانے کی وضاحت ۲۵۱ ظَلُومًا جَهُولا کی لطیف تشریح ۲۵۲ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.....۲۵۳ ظلوم اور جہول کا لفظ اس جگہ محل مدح میں ہے ۲۵۴ اللہ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا ۲۵۵ معجزہ کی تعریف.نبی ان تدابیر اور اسباب سے الگ ہو کر وہی فعل کرتا ہے اس لئے وہ معجزہ ہوتا ہے ۲۵۶ دابتہ الارض کے معنی ۲۵۷ یہ مسلمان دابتہ الارض ہیں ۲۵۸ ابتدا میں ان تمام مذاہب کی بنیاد حق اور راستی پر تھی ۲۵۹ خشیت اور اسلام در حقیقت اپنے مفہوم کے رو سے ایک ہی چیز ہے صفح ۳۹۴ ۳۹۶ ۳۹۸ ۳۹۹ ۳۹۹ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۵ ۴۰۸ ۴۱۱ ۴۱۳ ۴۱۳ ۴۲۰ ۴۲۳ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۶ عالم ربانی سے مراد تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۲ کتاب کے وارث تین گروہوں کا ذکر

Page 28

Xxvii نمبر شمار مضمون ۲۶۳ قرآن کریم اپنی لغات کے لئے آپ متکفل ہے ۲۶۴ ظالم کی دو اقسام ۲۶۵ ہدایت کے تین ذرائع ۲۶۶ مومنوں کے تین طبقات ۲۶۷ ایمانداروں کی تین قسمیں ۲۶۸ | اہل اللہ کے دوکام ۲۶۹ تزکیہ نفس بجر فضل خدا میسر نہیں آسکتا صفح ۴۲۷ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۴ ۴۳۵ ۴۳۶ ۴۳۷

Page 29

فہرست آیات XXIX اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے آیت آیت صفحہ نمبر ۸،۷ ۲۳ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ صفحہ ۸۳ ۸۳ ۲ تا ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۹ ۲۵ ۲۸ ۳۸ ۴۵ ۵۱ ۵۲ ۵۴ سورة المؤمنون قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَميِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ.فَقَالَ الْمَلوا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ...۲۸ فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ.رود اِنْ هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ.ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَنْرَا كُلَّمَا جَاءَ.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً.ياَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ.فَتَقَطَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرا.b اَم يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُمُ....۲۷ الْخَبِيثَتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ.۶۶ ۳۱ ۶۶ ۳۲ ۶۶ ۳۳ ۳۴ ۶۹ ۳۶ ۶۹ ۳۸ ۴۶ ۵۵ LL ۵۶ LL ۵۷ ۷۸ ۶۲ ۲۹،۲۸ يَاَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تَدخُلُوا.قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ AL ۹۳ وَقُل لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِن......٩٢ وَاَنْكِحُوا الْأَيَا فى مِنْكُمُ الصّالِحِينَ...وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.۹۷ ۹۸ ۱۰۵ رجال لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيع...١٠٧ وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ.قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُم.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة.لَيْسَ عَلَى الْأَعْلَى حَرَم وَ لَا عَلَى..۱۰۷ 1+2 ۱۰۷ ۱۰۷ ۱۶۸ ۹۲ ۹۶ ۹۷ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَ مَا كَانَ......۷۸ وَإِنَّا عَلَى أَنْ تُرِيكَ مَا نَعِدُهُم اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ.ا ١٠ حَتَّى إِذَا جَاءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ.۱۰۲ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ..۵ سورة النور ZA ۷۹ ۲ ۷۹ ۴ ،۳ ۷۹ ۵ ۲۱ ۲۸ ΔΙ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ...۸۱ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ سورة الفرقان تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى.الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ..وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا.وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ.ومَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ......وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ..۱۶۹ 127 ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۰

Page 30

فہرست آیات آیت وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ اِنَّ قَوْمِي.۳۳ ۴۲ ۴۵ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَو لَا نُزِلَ وَاِذَا رَاَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا.اَم تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ.۴۶ تا ۴۸ اَلَمْ تَرَ إلى رَبَّكَ كَيْفَ مَدَّ الظَّلَّ.۵۰،۴۹ وَهُوَ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ بُشْراً.XXX صفحہ نمبر آیت صفحہ ۱۳۱ ۱۸۱ ۱۸۴ ۱۸۱ ۱۹۶ ۱۸۲ ۲۱۵ ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۴ ۲۲۴ ۱۸۴ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۵ ۹ ۱۵ ۱۸۶ ۳۵ IAZ ۴۵ ۱۸۹ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشُتُم جَبَّارِينَ.۲۱۱ وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمُ.۲۱۱....بِلِسَانٍ عَرَبيّ مُّبِيْنٍ ۲۱۱ وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ۲۱۲ ۲۱۸ تا ۲۲۰ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ.۲۱۲ ۲۲۲ ۲۲۳ هَلْ أَنَبْتَكُم عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ.۲۱۲ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَاكْثَرُهُمْ كُذِبُونَ...۲۱۳ ۲۲۵ تا ۲۲۸ وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ.۲۱۳ سورة النمل فَلَمَّا جَاءَ هَا نُودِيَ أَن بُورِكَ.وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا.قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً.قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا.۱۸۹ ۴۹ تا ۵۴ وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ.۲۱۷ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۳ ۲۲۵ ۵۱ وَلَقَدْ صَرَّفْنَهُ بَيْنَهُمْ لِيَذْكُرُوا.۵۳،۵۲ وَلَوْ شِعْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ.۵۵ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا.۵۸ ۶۰ قُلْ مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ الَّذِى خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَمَا....۱۸۹ ۱ تا ۶۴ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحين.وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا..۶۸ ۷۳ ۷۵ 2^ ۱۵ ۲۰ وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا.وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ النُّورَ.وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا.، أولَبِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَولا.سورة الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا.۶۳ 190 ۷۲ ۱۹۴ ΔΙ ۱۹۵ وو أمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ.وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِن.......۲۲۶ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ.۸۳ تا ۸۶ وَإِذَا وَقَعَ الْقَولُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا.۹۰ ۹۱ ۱۹۹ ۹۴ وَلَهُمْ عَلَى ذَنْبٌ فَأَخَافُ اَن.......۲۰۶ وَفَعَلْتَ فَعَلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ.۲۰۷ ۶۲ ۶۳ فَلَمَّا تَرَاءَ الْجَبْعَن قَالَ أَصْحَبُ.ΔΙ ۸۲ ۹۲ ،۹۱ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ووو وَالَّذِي يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ وَازْ لِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ.۲۰۷ Δ ۲۰۹ ۱۶ ۲۱۰ ۳۴ ۲۱۰ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكَبَتْ.وَقُلِ الْحَمْدُ لِلهِ سَيُرِيكُمُ ايْتِه.سورة القصص ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۳۵ ۲۳۵ ۲۳۵ وَأَوْحَيْنَا إِلَى أَمْ مُوسَى اَنْ اَرْضِعِيهِ...۲۳۷ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ.قالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا.....۲۳۹.۲۳۹

Page 31

فہرست آیات آیت فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسى بايتِنَا.XXXi صفحہ نمبر آیت فَاقِمُ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا.منِيُبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا اللهُ الَّذِى خَلَقَكُمُ ثُمَّ رَزَقَكُم ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا......قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا.وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا.۴۹ تا ۵۱ اللهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيحَ فَتْثِيرُ.۵۴ وَمَا اَنْتَ بِهْدِ الْعُنِي عَنْ ضَلَلَتِهِمُ سورة لقمان وَإِذْ قَالَ نُقُمنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ..۳۷ ۳۹ ۴۸ ۶۰ وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَايُّهَا المَلا.وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ.وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى.اے وَهُوَ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ لَهُ.۸۶ ۸۹ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ.وَلَا تَدعُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ.۳۱ ۲۳۹ ۳۲ ۲۴۰ ۴۱ ۲۴۰ ۴۲ ۲۴۰ ۴۳ ۲۴۱ ۴۸ ۲۴۴ ۲۴۴ سورة العنكبوت أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُترَكُوا.1.وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ...۲۶۱ ۱۸ ۳۷ ۴۴ ۴۶ ۴۷ اِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ.وَ إِلَى مَدينَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا.۲۴۷ ۲۶۰ ۱۴ ۱۶ ۲۶۲ ۱۹ ۲۶۲ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ....٢٦٣ اُتْلُ مَا أُوحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتب.وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتب الا.۴۸ تا ۵۰ وَكَذلِكَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتب.۵۱ تا ۵۴ وَقَالُوا لَو لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أيْتَ.۵۸ ۶۹ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُو.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ۳۵ ۲۶۳ ۲۶۷ ۲۶۸ ۶ ۲۶۸ ۱۲ ۲۷۷ ۱۸ ۲۷۷ ۲۲ ۲۷۷ ۲۴ ۲۷۸ سورة الروم ۲۸ ۲ تا ۵ اله غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أَدْنَى الْاَرْضِ..11 ۲۳ ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا..وَ مِنْ أَيْتِهِ خَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ....۲۹۴ ۲۸۹ ۶،۵ ۲۹۴ 11 صفحہ ۲۹۴ ۳۰۵ ۳۰۵ ۳۱۱ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۲ ۳۱۵ وَ إِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي....٣١٦ وَلَا تُصَعِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا.وَاقْصِدُ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ اِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ.سورة السجدة ۳۱۷ ۳۱۸ يديرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ....٣١٩ قُلْ يَتَوَفكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا يُخْفِيَ لَهُمُ ۳۲۵ ۳۲۶ وَلَنْذِ يُقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدنى...۳۲۷ وَلَقَد أَتَيْنَا مُوسَى الكتب فَلَا تَكُن..اَوَ لَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاء إِلَى.۳۲۷ ۳۲۸ سورة الاحزاب مَا جَعَلَ اللهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ.۳۳۱ إِذْ جَاء وَكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِن.......٣٣٣

Page 32

نمبر فہرست آیات آیت XXXII صفحہ نمبر ۱۲ ۲۲ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ.۲۴ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا.۳۴ ۳۶ ۳۷ ۳۸ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ.إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَتِ.وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ.وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللهُ.الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسُلتِ اللهِ.۴۱ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ.۴۴ هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَيكَتُهُ.۱۴ ۳۳۳ ۱۵ ۳۳۴ ۳۳۵ ۲۹ ۳۳۹ ۳۱ ۳۴۰ ۴۴ ۳۴۰ ۵۰ ۳۴۱ ۵۳ ۳۴۵ ۳۴۵ ۳۹۴ ۴۷ ۴۹ ۵۷ وَدَاعِيًا إلى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ۳۹۵ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ.اِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى.۶۲ ،۶۱ 4.لينْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا.اے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا...۴۰۰ ۷۳ اِنا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ..۹ ۳۹۶ 11 ۳۹۷ ۱۹ ۳۹۹ ۲۳ ۳۹۹ ۲۵ ۲۹ ۴۰۰ ۳۳ 11 سورة سبا وَلَقَدْ أَتَيْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلًا.۴۱۱ ۴۴ ۴۶ آیت صفحہ يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ.فَلا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةً لِلنَّاسِ.قُل لَّكُم مِّيُعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ.وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمُ ايْتُنَا بَيِّنَتِ.۴۱۲ ۴۱۲ ۴۱۴ ۴۱۴ ۴۱۴.......قُل جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِى الْبَاطِلُ.۴۱۵ وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَانّى لَهُمُ وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ.۴۱۶ ۴۱۶ سورة فاطر أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.۴۱۷ ۴۱۷ ۴۱۹ وَمَا يَسْتَوَى الْأَحْيَاء وَلَا الْاَمْوَاتُ....۴۲۰ انَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا..وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِ وَالْأَنْعَامِ.ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا.اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكَرَ السيئ.وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا..۴۳۷.......۴۲۰ ۴۲۳ ۴۲۵...۴۳۵

Page 33

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ سورة المؤمنون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المؤمنون بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لا قَد اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ لا لا اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ فى وَ الَّذِينَ هُمْ لِلزَّكوة فَعِلُونَ وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حفِظُونَ إِلا عَلَى اَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ® فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْعُدُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِم رعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَهُ أُولَبِكَ هُمُ الْوَرِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِردَوسَ - هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُللَةٍ مِنْ ، طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِى قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ) الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظمَ لَحْمًا ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أخَرَ ، فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کے ابتدا میں جو سورۃ المؤمنون ہے جس میں یہ آیت فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الخلقین ہے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ کیوں کر انسان مراتب ہے کو طے کر کے جو اس کی تکمیل کے لئے

Page 34

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة المؤمنون ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو پہنچتا ہے.سوخدا نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ چھ مرتبہ پر تقسیم کیا ہے اور مرتبہ ششم کو کمال ترقی کا مرتبہ قرار دیا ہے اور یہ مطابقت روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی ایسے خارق عادت طور پر دکھلائی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن نے اس نکتہ معرفت کی طرف سبقت نہیں کی.اور اگر کوئی دعوے کرے کہ سبقت کی ہے تو یہ بار ثبوت اُس کی گردن پر ہوگا کہ یہ پاک فلاسفی کسی انسان کی کتاب میں سے دکھلاوے اور یہ یادر ہے کہ وہ ایسا ہرگز ثابت نہیں کر سکے گا.پس بدیہی طور پر یہ معجزہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وہ عمیق مناسبت جو روحانی اور جسمانی وجود کی اُن ترقیات میں ہے جو وجود کامل کے مرتبہ تک پیش آتی ہیں ان آیات مبارکہ میں ظاہر کر دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ظاہری اور باطنی صنعت ایک ہی ہاتھ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جو خدا تعالی کا ہاتھ ہے.بعض نادانوں نے یہ بھی اعتراض کیا تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے نطفہ کی حالت سے لے کر اخیر تک جسمانی وجود کا قرآن شریف میں نقشہ کھینچا ہے یہ نقشہ اس زمانہ کی جدید تحقیقات طبی کی رُو سے صحیح نہیں ہے.لیکن اُن کی حماقت ہے کہ ان آیات کے معنی انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ گویا خدا تعالیٰ رحم کے اندر انسانی وجود کو اس طرح بناتا ہے کہ پہلے بکی ایک عضو سے فراغت کر لیتا ہے پھر دوسرا بناتا ہے.یہ آیات الہیہ کا منشا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے اور مضغہ سے لے کر ہر ایک حالت کے بچے کو دیکھ لیا ہے.خالق حقیقی رحم کے اندر تمام اعضاء اندرونی و بیرونی کو ایک ہی زمانہ میں بناتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں سب بنتے ہیں تا خیر تقدیم نہیں.البتہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے تمام وجود انسان کا ایک جما ہوا خون ہوتا ہے اور پھر سارے کا سارا ایک ہی وقت میں مضغہ بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں کچھ حصہ اس کا اپنے اپنے موقعہ پر ہڈیاں بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں اس تمام مجموعہ پر ایک زائد گوشت چڑھ جاتا ہے جو تمام بدن کی کھال کہلاتی ہے جس سے خوبصورتی پیدا ہوتی ہے.اور اس مرتبہ پر جسمانی بناوٹ تمام ہو جاتی ہے اور پھر جان پڑ جاتی ہے.یہ وہ تمام حالتیں ہیں جو ہم نے بچشم خود دیکھ لی ہیں.اب ہم روحانی مراتب ستہ کا ذیل میں ذکر کرتے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (1) قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِيْنَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ (٢) وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (۳) وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكوة فَعِلُونَ (۴) وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا - و مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْعَدُونَ (۵) وَالَّذِينَ هُمْ

Page 35

سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام لأمنتِهِمْ وَعَهْدِهِم رُعُونَ (٦) وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُونَ اور ان کے مقابل جسمانی ترقیات کے مراتب بھی چھ قرار دیے ہیں جیسا کہ وہ ان آیات کے بعد فرماتا ہے (۱) ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي ط قَرَارٍ مَّكِينِ (۲) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً (۳) فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً (٤) فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا (۵) فَكَسَوْنَا الْعِظمَ لَحْمًا (٦) ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ - جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں ظاہر ہے کہ پہلا مرتبہ روحانی ترقی کا یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یا دالہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقت اور گدازش سے ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں.اس کے مقابل پر پہلا مرتبہ جسمانی نشوونما کا جو اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے یعنی ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةٌ ہا في قَرَارٍ تمکین یعنی پھر ہم نے انسان کو نطفہ بنایا اور وہ نطفہ ایک محفوظ جگہ میں رکھا.سوخدا تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے بعد پہلا مرتبہ انسانی وجود کا جسمانی رنگ میں نطفہ کو قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نطفہ ایک ایسا تخم ہے جو اجمالی طور پر مجموعہ ان تمام قومی اور صفات اور اعضاء اندرونی اور بیرونی اور تمام نقش و نگار کا ہوتا ہے جو پانچویں درجہ پر مفصل طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور چھٹے درجہ پر اتم اور اکمل طور پر اُن کا ظہور ہوتا ہے اور با ایں ہمہ نطفہ باقی تمام درجات سے زیادہ تر معرض خطر میں ہے.کیونکہ ابھی وہ اُس تخم کی طرح ہے جس نے ہنوز زمین سے کوئی تعلق نہیں پکڑا.اور ابھی وہ رحم کی کشش سے بہرہ ور نہیں ہوا ممکن ہے کہ وہ اندام نہانی میں پڑ کر ضائع ہو جائے جیسا کہ تم بعض اوقات پتھریلی زمین پر پڑ کر ضائع ہو جاتا ہے.اور ممکن ہے کہ وہ نطفہ ہذا تہا ناقص ہو یعنی اپنے اندر ہی کچھ نقص رکھتا ہو اور قابل نشو ونما نہ ہو.اور یہ استعداد اُس میں نہ ہو کہ رحم اس کو اپنی طرف جذب کرلے اور صرف ایک مردہ کی طرح ہو جس میں کچھ حرکت نہ ہو.جیسا کہ ایک بوسیدہ تنم زمین میں بویا جائے.اور گوز میں عمدہ ہو مگر تا ہم تم بوجہ اپنے ذاتی نقص کے قابل نشو ونما نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ بعض اور عوارض کی وجہ سے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں نطفہ رحم میں تعلق پذیر نہ ہو سکے اور رحم اس کو اپنی کشش سے محروم رکھے.جیسا کہ تخم بعض اوقات پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے یا پرندے اس کو چنگ جاتے ہیں یا کسی اور حادثہ سے تلف ہو جاتا ہے.لے درجات سے مراد وہ درجے ہیں جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں.پانچواں درجہ وہ ہے جب قدرت صانع مطلق سے انسانی قالب تمام و کمال رحم میں تیار ہو جاتا ہے.اور ہڈیوں پر ایک خوشنما گوشت چڑھ جاتا ہے.اور چھٹا درجہ وہ ہے جب اس قالب میں جان پڑ جاتی ہے.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ حالت خشوع اور عجز و نیاز اور سوز وگداز ہے اور درحقیقت وہ بھی اجمالی طور پر مجموعہ اُن تمام امور کا ہے جو بعد میں کھلے طور پر انسان کے روحانی وجود میں نمایاں ہوتے ہیں.منہ

Page 36

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون یہی صفات مومن کے روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کے ہیں اور اول مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رفت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الہی میں مومن کو میسر آتی ہے یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا.اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وار د کر کے خدائے عز وجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ.یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یاد الہی میں فروتنی اور عجز و نیاز اختیار کرتے ہیں.اور رقت اور سوز و گداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں.یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیاری کے لئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر ان تمام قومی اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش و نگار اور حسن و جمال اور خط و خال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے.جو پانچویں اور چھٹے درجہ میں انسان کامل کے لئے نمودار طور پر ظاہر ہوتے اور اپنے دلکش پیرایہ میں تجلی فرماتے ہیں لے اور چونکہ وہ نطفہ کی طرح روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس لئے وہ آیت قرآنی میں نطفہ کی طرح پہلے مرتبہ پر رکھا گیا ہے اور نطفہ کے مقابل پر دکھلایا گیا ہے تا وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قومی اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں.اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرض خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے.ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے.یاد رہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیض رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے.یہی لے پانچواں درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی وَ الَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَ عَهْدِهِم رعُونَ.اور چھٹا درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرما یا گیا ہے یعنی وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَواتِهِمْ يُحَافِظُونَ.اور یہ پانچواں درجہ جسمانی درجات کے پنجم درجہ کے مقابل پر ہوتا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے یعنی فَكَسَوْنَا الْعِظْمَ لَحْماً اور چھٹا درجہ جسمانی درجات کے ششم درجہ کے مقابل پر پڑا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ - منه 1991

Page 37

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة المؤمنون سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے پس جب کہ انسان نماز اور یاد الہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے.سونطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہو جائے.ایسا ہی رُوحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی برباد ہو جائے.جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کا نام رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا اور نہ اُس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اُس کی طرف کھنچے جاتے ہیں اس لئے ان کا وہ تمام سوز و گداز اور تمام وہ حالت خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسا اوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں.پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحم کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں ایسا ہی حالت خشوع روحانی وجود کا اول مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ حالت خشوع کچھ بھی چیز نہیں.اسی لئے ہزار ہا ایسے لوگوں کو پاؤ گے کہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں یاد الہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی لعنت نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے.یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالت خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت بر با داور نابود ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں وہ حالت جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس نطفہ سے مشابہت رکھتی ہے کہ جو رحم سے تعلق پکڑنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے.غرض روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے اور جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ جو نطفہ ہے با ہم اس بات میں تشابہ رکھتے ہیں کہ جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی نطفه بغیر کشش رحم کے بیچ ہے اور روحانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی حالت خشوع بغیر جذب رحیم کے بیچ اور جیسا کہ دنیا میں ہزار ہا نطفے تباہ ہوتے ہیں اور نطفہ ہونے کی حالت میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اور رحم سے

Page 38

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶ سورة المؤمنون تعلق نہیں پکڑتے.ایسا ہی دنیا میں ہزار باخشوع کی حالتیں ایسی ہیں کہ رحیم خدا سے تعلق نہیں پکڑتیں اور ضائع جاتی ہیں.ہزار ہا جاہل اپنے چند روزہ خشوع اور وجد اور گریہ وزاری پر خوش ہو کر خیال کرتے ہیں کہ ہم ولی ہو گئے ،غوث ہو گئے ، قطب ہو گئے اور ابدال میں داخل ہو گئے اور خدارسیدہ ہو گئے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہنوز ایک نطفہ ہے.ابھی تو نام خدا ہے غنچہ صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے.افسوس کہ انہیں خام خیالیوں سے ایک دنیا ہلاک ہوگئی.اور یادر ہے کہ یہ روحانی حالت کا پہلا مرتبہ جو حالت خشوع ہے طرح طرح کے اسباب سے ضائع ہو سکتا ہے جیسا کہ نطفہ جو جسمانی حالت کا پہلا مرتبہ ہے انواع اقسام کے حوادث سے تلف ہوسکتا ہے منجملہ ان کے ذاتی نقص بھی ہے.مثلاً اس خشوع میں کوئی مشرکانہ ملونی ہے یا کسی بدعت کی آمیزش ہے یا اور لغویات کا ساتھ اشتراک ہے.مثلاً نفسانی خواہشیں اور نفسانی ناپاک جذبات بجائے خودزور ماررہے ہیں یا سفلی تعلقات نے دل کو پکڑ رکھا ہے یا جیفہ دنیا کی لغو خواہشوں نے زیر کر دیا ہے پس ان تمام نا پاک عوارض کے ساتھ حالت خشوع اس لائق نہیں ٹھہرتی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ جائے جیسا کہ اس نطفہ سے رقم تعلق نہیں پکڑ سکتا جو اپنے اندر کسی قسم کا نقص رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہندو جوگیوں کی حالت خشوع اور عیسائی پادریوں کی حالت انکساران کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور گوہ سوز و گداز میں اس قدر ترقی کریں کہ اپنے جسم کو بھی ساتھ ہی استخوان بے پوست کردیں تب بھی رحیم خدا ان سے تعلق نہیں کرتا کیونکہ اُن کی حالت خشوع میں ایک ذاتی نقص ہے ایسا ہی وہ بدعتی فقیر اسلام کے جو قرآن شریف کی پیروی چھوڑ کر ہزاروں.بدعات میں مبتلا ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ بھنگ، چرس اور شراب پینے سے بھی شرم نہیں کرتے اور دوسرے فسق و فجور بھی اُن کے لئے شیر مادر ہوتے ہیں چونکہ وہ ایسی حالت رکھتے ہیں کہ رحیم خدا سے اور اُس کے تعلق سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے بلکہ رحیم خدا کے نزدیک وہ تمام حالتیں مکروہ ہیں اس لئے وہ باوجود اپنے طور کے وجد اور رقص اور اشعار خوانی اور سرود وغیرہ کے رحیم خدا کے تعلق سے سخت بے نصیب ہوتے ہیں اور اُس نطفہ کی طرح ہوتے ہیں جو آتشک کی بیماری یا جذام کے عارضہ سے جل جائے اور اس قابل نہ رہے کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے پس رحم اور رحیم کا تعلق یا عدم تعلق ایک ہی بنا پر ہے صرف روحانی اور جسمانی عوارض کا فرق ہے.اور جیسا کہ نطفہ بعض اپنے ذاتی عوارض کی رُو سے اس لائق نہیں رہتا کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے اور اس کو اپنی طرف کھینچ سکے ایسا ہی حالت خشوع جو نطفہ کے درجہ پر ہے بعض اپنے عوارض ذاتیہ کی وجہ

Page 39

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام 2 سورة المؤمنون سے جیسے تکبر اور عجیب اور ریا یا اور کسی قسم کی ضلالت کی وجہ سے یا شرک سے اس لائق نہیں رہتی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ سکے پس نطفہ کی طرح تمام فضیلت روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کی جو حالت خشوع ہے رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے جیسا کہ تمام فضیلت نطفہ کی رحم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے پس اگر اس حالت خشوع کو اس رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں اور نہ حقیقی تعلق پیدا ہو سکتا ہے تو وہ حالت اُس گندے نطفہ کی طرح ہے جس کو رحم کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا نہیں ہوسکتا اور یا درکھنا چاہیئے کہ نماز اور یاد الہی میں جو کبھی انسان کو حالت خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہوجاتا ہے بالذت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہو جائے اور لذت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اُس نطفہ کو رحم سے تعلق ہو گیا ہے بلکہ تعلق کے لئے علیحدہ آثار اور علامات ہیں.پس یاد الہی میں ذوق شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالت خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اُس حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورت انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گر جاتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ جسمانی عالم میں ایک کمال لذت کا وقت ہوتا ہے لیکن تاہم فقط اُس قطرہ منی کا اندر گرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ ہیم سے اُس نطفہ کا تعلق بھی ہو جائے اور وہ رحم کی طرف کھینچا جائے.پس ایسا ہی روحانی ذوق شوق اور حالت خشوع اس بات کو مستلزم نہیں کہ رحیم خدا سے ایسے شخص کا تعلق ہو جائے اور اس کی طرف کھینچا جائے.بلکہ جیسا کہ نطفہ کبھی حرامکاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تو اس میں بھی وہی لذت نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ.پس ایسا ہی بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالتِ ذوق اور شوق رنڈی بازوں سے مشابہ ہے یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور اُن لوگوں کا جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جا کر باعث لذت ہوتا ہے.بہر حال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے حالت خشوع میں بھی تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حالت خشوع اور رقت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق ہو بھی گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہو جائے اور اس کو اس فعل سے کمال لذت حاصل ہو تو یہ لذت اس بات پر دلالت نہیں

Page 40

سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرے گی کہ حمل ضرور ہو گیا ہے.پس ایسا ہی خشوع اور سوز و گداز کی حالت گووہ کیسی ہی لذت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لئے کوئی لازمی علامت نہیں ہے لہ.یعنی کسی شخص میں نماز اور یاد الہی کی حالت میں خشوع اور سوز وگداز اور گریہ وزاری پیدا ہونا لازمی طور پر اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلق بھی ہے.ممکن ہے کہ یہ سب حالات کسی شخص میں موجود ہوں مگر ابھی اس کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو.جیسا کہ مشاہدہ صریحہ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے لوگ پند و نصیحت کی مجلسوں اور وعظ و تذکیر کی محفلوں یا نماز اور یا دالہی کی حالت میں خوب روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اورسوز وگداز ظاہر کرتے ہیں اور آنسوان کے رخساروں پر پانی کی طرح رواں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض کا رونا تو منہ پر رکھا ہوا ہوتا ہے.ایک بات سنی اور وہیں رود یا.مگر تا ہم لغویات سے وہ کنارہ کش نہیں ہوتے اور بہت سے لغو کام اور لغو باتیں اور لغو سیر و تماشے اُن کے گلے کا ہار ہو جاتے ہیں.جن سے سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی اُن کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کچھ اُن کے دلوں میں ہے.پس یہ عجیب تماشا ہے کہ ایسے گندے نفسوں کے ساتھ بھی خشوع اور سوز و گداز کی حالت جمع ہو جاتی ہے.اور یہ عبرت کا مقام ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجرد خشوع اور گریہ وزاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو کچھ فخر کرنے کی جگہ نہیں اور نہ یہ قرب الہی اور تعلق باللہ کی کوئی علامت ہے.بہت سے ایسے فقیر میں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ے ابتدائی حالت میں خشوع اور رقت کے ساتھ ہر طرح کے لغو کام جمع ہو سکتے ہیں.جیسا کہ بچہ میں رونے کی عادت بہت ہوتی ہے اور بات بات میں ڈر جاتا اور خشوع اور انکسار اختیار کرتا ہے مگر با ایں ہمہ بچپن کے زمانہ میں طبعاً انسان بہت سے لغویات میں مبتلا ہوتا ہے اور سب سے پہلے لغو باتوں اور لغو کاموں کی طرف ہی رغبت کرتا ہے اور اکثر لغوحرکات اور لغوطور پر کو دنا اور اچھلنا ہی اس کو پسند آتا ہے جس میں بسا اوقات اپنے جسم کو بھی کوئی صدمہ پہنچا دیتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کی راہ میں فطرتا پہلے لغویات ہی آتے ہیں اور بغیر اس مرتبہ کے طے کرنے کے دوسرے مرتبہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکتا.پس طبعا پہلا زینہ بلوغ کا بچپن کے لغویات سے پر ہیز کرنا ہے سو اس سے ثابت ہے کہ سب سے پہلا تعلق انسانی سرشت کو لغویات سے ہی ہوتا ہے.منہ

Page 41

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة المؤمنون ہونے کے اندر لے جاسکیں لیکن میں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مگار بلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو میں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے اُن کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع و خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں.ہاں کسی زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ نیک بندوں کی علامت تھی مگر اب تو اکثر یہ پیرا یہ مکاروں اور فریب دہ لوگوں کا ہو گیا ہے سبز کپڑے، بال سر کے لیے، ہاتھ میں تسبیح، آنکھوں سے دمبدم آنسو جاری ، لبوں میں کچھ حرکت گویا ہر وقت ذکر الہی زبان پر جاری ہے اور ساتھ اس کے بدعت کی پابندی.یہ علامتیں اپنے فقر کی ظاہر کرتے ہیں.مگر دل مجذوم محبت الہی سے محروم.الا ماشاء اللہ.راستباز لوگ میری اس تحریر سے مستقلی ہیں جن کی ہر ایک بات بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے نہ بطور تکلف اور قال کے، بہر حال یہ تو ثابت ہے کہ گریہ وزاری اور خشوع اور خضوع نیک بندوں کے لئے کوئی مخصوص علامت نہیں بلکہ یہ بھی انسان کے اندر ایک قوت ہے جو محل اور بے محل دونوں صورتوں میں حرکت کرتی ہے.انسان بعض اوقات ایک فرضی قصہ پڑھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فرضی اور ایک ناول کی قسم ہے مگر تا ہم جب اس کے ایک دردناک موقعہ پر پہنچتا ہے تو اس کا دل اپنے قابو سے نکل جاتا ہے اور بے اختیار آنسو جاری ہوتے ہیں جو تھمتے نہیں.ایسے دردناک قصے یہاں تک مؤثر پائے گئے ہیں کہ بعض وقت خود ایک انسان ایک پر سوز قصہ بیان کرنا شروع کرتا ہے اور جب بیان کرتے کرتے اس کے ایک پُر درد موقعہ پر پہنچتا ہے تو آپ ہی چشم پر آب ہو جاتا ہے اور اس کی آواز بھی ایک رونے والے شخص کے رنگ میں ہو جاتی ہے آخر اس کا رونا اچھل پڑتا ہے اور جو رونے کے اندر ایک قسم کی سرور اور لذت پر ہے وہ اس کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ جس بنا پر وہ روتا ہے وہ بنا ہی غلط اور ایک فرضی قصہ ہے.پس کیوں اور کیا وجہ کہ ایسا ہوتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ سوز و گداز اور گریہ وزاری کی قوت جو انسان کے اندر موجود ہے اُس کو ایک واقعہ کے صحیح یا غلط ہونے سے کچھ کام نہیں بلکہ جب اس کے لئے ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو اس قوت کو حرکت دینے کے قابل ہوتے ہیں تو خواہ نخواہ وہ رقت حرکت میں آجاتی ہے اور ایک قسم کا سرور اور لذت ایسے انسان کو پہنچ جاتا ہے گو وہ مومن ہو یا کافر.اسی وجہ سے غیر مشروع مجالس میں بھی جو طرح طرح کی بدعات پر مشتمل ہوتی ہیں بے قید لوگ جو فقیروں کے لباس میں

Page 42

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة المؤمنون اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں مختلف قسم کی کافیوں اور شعروں کے سننے اور سرود کی تاثیر سے رقص اور وجد اور گریہ وزاری شروع کر دیتے ہیں اور اپنے رنگ میں لذت اُٹھاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ ہم خدا کومل گئے ہیں.مگر یہ لذت اُس لذت سے مشابہ ہے جو ایک زانی کو حرامکار عورت سے ہوتی ہے.اور پھر ایک اور مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہ رونے کی صورت پر ہوتا ہے جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے.یہی صورت کمال خشوع کے وقت میں رونے کی ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اُچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتا ہے اور کبھی حرام طور پر جب کہ انسان کسی حرام کا ر عورت سے صحبت کرتا ہے.یہی صورت خشوع اور سوز و گداز اور گریہ وزاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اور سوز و گداز محض خدائے واحد لاشریک کے لئے ہوتا ہے جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا.پس وہ لذت سوز وگداز کی ایک لذت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوز و گداز اور اس کی لذت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اور بتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے مگر وہ لذت حرامکاری کے جماع سے مشابہ ہوتی ہے.غرض مجرد خشوع اور سوز وگداز اور گریہ وزاری اور اس کی لذتیں تعلق باللہ کو مستلزم نہیں بلکہ جیسا کہ بہت سے ایسے نطفے ہیں جو ضائع جاتے ہیں اور رحم اُن کو قبول نہیں کرتا.ایسا ہی بہت سے خشوع اور تضرع اور زاری ہیں جو محض آنکھوں کو کھونا ہے اور رحیم خدا ان کو قبول نہیں کرتا.غرض حالت خشوع کو جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے نطفہ ہونے کی حالت سے جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے ایک کھلی کھلی مشابہت ہے جس کو ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور یہ مشابہت کوئی معمولی امر نہیں ہے بلکہ صانع قدیم جل شانہ کے خاص ارادہ سے ان دونوں میں اکمل اور اتم مشابہت ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی لکھا گیا ہے کہ دوسرے جہان میں بھی یہ دونوں لذتیں ہوں گی.مگر مشابہت میں اس قدر ترقی کر جائیں گی کہ ایک ہی ہو جائیں گی یعنی اُس جہان میں جو ایک شخص اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرے گا وہ اس بات میں فرق نہیں کر سکے گا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرتا ہے یا محبت الہیہ کے دریائے بے پایاں میں غرق ہے اور واصلانِ حضرت عزت پر اسی جہان میں یہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو اہل دنیا اور مجبوبوں کے لئے ایک امر فوق الفہم ہے.

Page 43

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11 سورة المؤمنون اب ہم یہ تو بیان کر چکے کہ روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالت خشوع ہے جسمانی وجود کے پہلے مرتبہ سے جو نطفہ ہے مشابہت تام رکھتا ہے.اس کے بعد یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ سے مشابہ اور مماثل ہے.اس کی تفصیل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغوحرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.اور اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام عزیز میں علقہ کے نام سے موسوم فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً یعنی پھر ہم نے نطفہ کو علقہ بنایا.یعنی ہم نے اُس کو لغو طور پر ضائع ہونے سے بچا کر رحم کی تاثیر اور تعلق سے علقہ بنا دیا.اس سے پہلے وہ معرض خطر میں تھا اور کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ انسانی وجود بنے یا ضائع جائے.لیکن وہ رحم کے تعلق کے بعد ضائع ہونے سے محفوظ ہو گیا اور اس میں ایک تغیر پیدا ہو گیا جو پہلے نہ تھا.یعنی وہ ایک جمے ہوئے خون کی صورت میں ہو گیا.اور قوام بھی غلیظ ہو گیا اور رحم سے اس کا ایک علاقہ ہو گیا اس لئے اس کا نام علقہ رکھا گیا اور ایسی عورت حاملہ کہلانے کی مستحق ہوگئی.اور بوجہ اس علاقہ کے رحم اس کا سر پرست بن گیا اور اس کے زیر سایہ نطفہ کا نشو و نما ہونے لگا.مگر اس حالت میں نطفہ نے کچھ زیادہ پاکیزگی حاصل نہیں کی.صرف ایک خون جما ہوا بن گیا اور رحم کے تعلق کی وجہ سے ضائع ہونے سے بچ گیا اور جس طرح اور صورتوں میں ایک نطفہ لغو طور پر پھیلتا اور بیہودہ طور پر اندر سے بہ نکلتا اور کپڑوں کو پلید کرتا تھا اب اس تعلق کی وجہ سے بریکار جانے سے محفوظ رہ گیا.لیکن ہنوز وہ ایک جما ہوا خون تھا جس نے ابھی نجاست خفیفہ کی آلودگی سے پاکی حاصل نہیں کی تھی.اگر رحم سے یہ تعلق اس کا پیدا نہ ہوتا توممکن تھا کہ وہ اندام نہانی میں داخل ہو کر بھی رحم میں قرار نہ پاسکتا اور باہر کی طرف بہ جا تا.مگر رحم کی قوت مد ترہ نے اپنے خاص جذب سے اُس کو تھام لیا اور پھر ایک جھے ہوئے خون کی شکل پر بنا دیا.تب جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس تعلق کی وجہ سے علقہ کہلایا اور اس سے پہلے رحم نے اُس پر کوئی اپنا خاص اثر ظاہر نہیں کیا تھا اور اسی اثر نے اس کو ضائع ہونے سے روکا اور اسی اثر سے نطفہ کی طرح اُس میں رقت بھی باقی نہ رہی یعنی اس کا قوام رکیک اور پتلا نہ رہا بلکہ کسی قدر گاڑھا ہو گیا.

Page 44

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة المؤمنون اور اور اس علقہ کے مقابل پر جو جسمانی وجود کا دوسرا مرتبہ ہے روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جس کا ابھی ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں جس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغوحرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور ایمان ان کا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس قدر کنارہ کشی اُن پر سہل ہو جاتی ہے کیونکہ بوجہ ترقی ایمان کے کسی قدر تعلق اُن کا خدائے رحیم سے ہو جاتا ہے جیسا کہ علقہ ہونے کی حالت میں جب نطفہ کا تعلق کسی قدر رحم سے ہو جاتا ہے تو وہ لغوطور پر گر جانے یا بہ جانے یا اور طور پر ضائع ہو جانے سے امن میں آجاتا ہے الا ماشاء اللہ.سو روحانی وجود کے اس مرتبہ دوم میں خدائے رحیم سے تعلق بعینہ اس تعلق سے مشابہ ہوتا ہے جو جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر علقہ کو رحم سے تعلق ہو جاتا ہے اور جیسا کہ قبل ظہور دوسرے مرتبہ وجو دروحانی کے لغو تعلقات اور لغوشغلوں سے رہائی یا نا غیر ممکن ہوتا ہے اور صرف وجود روحانی کا پہلا مرتبہ یعنی خشوع اور عجز و نیاز کی پانا حالت اکثر بر بادبھی چلی جاتی ہے اور انجام بد ہوتا ہے.ایسا ہی نطفہ بھی جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے علقہ بنے کی حالت سے پہلے بسا اوقات صدہا مرتبہ لغو طور پر ضائع ہو جاتا ہے پھر جب ارادہ الہی اس بات کے متعلق ہوتا ہے کہ لغوطور پر ضائع ہونے سے اس کو بچائے تو اُس کے امر اور اذن سے وہی نطفہ رحم میں علقہ بن جاتا ہے تب وہ وجود جسمانی کا دوسرا مرتبہ کہلاتا ہے غرض دوسرا مرتبہ روحانی وجود کا جو تمام لغو باتوں اور تمام کاموں سے پر ہیز کرنا اور لغو باتوں اور لغو تعلقات اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہونا ہے یہ مرتبہ بھی اسی وقت میسر آتا ہے کہ جب خدائے رحیم سے انسان کا تعلق پیدا ہو جائے.کیونکہ یہ تعلق میں ہی طاقت اور قوت ہے کہ دوسرے تعلق کو توڑتا ہے اور ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور گو انسان کو اپنی نماز میں حالت خشوع میسر آجائے جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے پھر بھی وہ خشوع لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو جوشوں سے روک نہیں سکتا.جب تک کہ خدا سے وہ تعلق نہ ہو جو روحانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ گو ایک انسان اپنی بیوی سے ہر روز کئی دفعہ صحبت کرے تاہم وہ نطفہ ضائع ہونے سے رُک نہیں سکتا ہر جب تک کہ رحم سے اس کا تعلق پیدا نہ ہو جائے.پس خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ والَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ اس کے یہی معنے ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ سے تعلق کا موجب

Page 45

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳ سورة المؤمنون ہے یہ گو یا لغو باتوں سے دل کو چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے کیونکہ انسان تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور طبعی طور پر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے پس اسی وجہ سے انسان کی روح کو خدا تعالیٰ سے ایک تعلق از لی ہے.جیسا کہ آیت اَلَستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی (الاعراف : ۱۷۳) سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ تعلق جو انسان کو رحیمیت کے پر توہ کے نیچے آکر یعنی عبادات کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے حاصل ہوتا ہے جس تعلق کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان لاکر ہر ایک لغو بات اور لغو کام اور لغومجلس اور لغوحرکت اور لغو تعلق اور لغو جوش سے کنارہ کشی کی جائے.وہ اُسی از لی تعلق کو مکمن قوت سے جیتر فعل میں لانا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے.اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جونماز اور یا دا ہی میں حالت خشوع اور رشت اور سوز و گداز ہے یہ مرتبہ اپنی ذات میں صرف اطلاق کی حیثیت رکھتا ہے یعنی نفس خشوع کے لئے یہ لازمی امر نہیں ہے کہ ترک لغویات بھی ساتھ ہی ہو یا اس سے بڑھ کر کوئی اخلاق فاضلہ اور عادات مہذبہ ساتھ ہوں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص نماز میں خشوع اور رفت و سوز اور گریہ وزاری اختیار کرتا ہے خواہ اس قدر کہ دوسرے پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے ہنوز لغو باتوں اور لغو کاموں اور اغوحرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو تعلقوں اور لغو نفسانی جوشوں سے اس کا دل پاک نہ ہو یعنی ممکن ہے کہ ہنوز معاصی سے اس کو رستگاری نہ ہو کیونکہ خشوع کی حالت کا کبھی کبھی دل پر وارد ہونا یا نماز میں ذوق اور سرور حاصل ہونا یہ اور چیز ہے اور طہارت نفس اور چیز.اور گوکسی سالک کا خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز بدعت اور شرک کی آمیزش سے پاک بھی ہوتا ہم ایسا آدمی جس کا وجود روحانی ابھی مرتبہ دوم تک نہیں پہنچا ابھی صرف قبلہ روحانی کا قصد کر رہا ہے اور راہ میں سرگردان ہے اور ہنوز اُس کی راہ میں طرح طرح کے دشت و بیابان اور خارستان اور کوہستان اور بحر عظیم پر طوفان اور 1 لغو تعلقات سے الگ ہونا خدا تعالیٰ کے تعلق کا اس لئے موجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں آیات میں افئع کے لفظ کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کی طلب میں کوئی کام کرے گا وہ بقدر محنت کشی اور بقدرا اپنی سعی کے خدا کو پائے گا.اور اس سے تعلق پیدا کر لے گا.پس جو شخص خدا کا تعلق حاصل کرنے کے لئے لغو کام چھوڑتا ہے اس کو اس وعدہ کے موافق جو لفظ افلح میں ہے ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے.کیونکہ جو اس نے کام کیا ہے وہ بھی بڑا بھاری کام نہیں صرف ایک خفیف تعلق کو جو اس کو لغویات سے تھا چھوڑ دیا ہے اور یادر ہے کہ جیسا کہ لفظ افتح اول آیت میں موجود ہے یعنی اس آیت میں کہ قَد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خشعُونَ یہی لفظ عطف کے طور پر تمام آئندہ آیتوں سے وعدہ کے طور پر متعلق ہے.پس یہ آیت کہ وَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یہی معنی رکھتی ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ اور افلاح یعنی افلح کا لفظ ہر ایک مرتبہ ایمان پر ایک خاص معنی رکھتا ہے اور ایک خاص تعلق کا وعدہ دیتا ہے.منہ

Page 46

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴ سورة المؤمنون درندگان دشمن ایمان و دشمن جان قدم قدم پر بیٹھے ہیں تا وقتیکہ وجود روحانی کے دوسرے مرتبہ تک نہ پہنچ جائے.یادر ہے کہ خشوع اور معجز و نیاز کی حالت کو یہ بات ہر گز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے بلکہ بسا اوقات شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ان کو کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا اور نہ لغو کاموں سے ابھی رہائی ہوتی ہے.مثلاً وہ زلزلہ جو چارا پریل ۱۹۰۵ء کو آیا تھا اُس کے آنے کے وقت لاکھوں دلوں میں ایسا خشوع اور سوز و گداز ہوا تھا کہ بجز خدا کے نام لینے اور رونے کے اور کوئی کام نہ تھا یہاں تک کہ دہریوں کو بھی اپنا د ہر یہ پن بھول گیا تھا.اور پھر جب وہ وقت جاتا رہا اور زمین ٹھہر گئی تو حالتِ خشوع نابود ہوگئی یہاں تک کہ میں نے سنا ہے کہ بعض دہریوں نے جو اس وقت خدا کے قائل ہو گئے تھے بڑی بے حیائی اور دلیری سے کہا کہ ہمیں غلطی لگ گئی تھی کہ ہم زلزلہ کے رعب میں آگئے ورنہ خدا نہیں ہے.غرض جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں خشوع کی حالت کے ساتھ بہت گند جمع ہو سکتے ہیں البتہ وہ تمام آئندہ کمالات کے لئے تخم کی طرح ہے مگر اسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکہ دینا ہے.بلکہ بعد اس کے ایک اور مرتبہ ہے جس کی تلاش مومن کو کرنی چاہئے اور کبھی آرام نہیں لینا چاہئے اورست نہیں ہونا چاہئے جب تک وہ رتبہ حاصل نہ ہو جائے اور وہ وہی مرتبہ ہے جس کو کلامِ الہی نے ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی مؤمن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر وہ مومن ہیں کہ جو باوجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملا کر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغویات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اس بات پر دلیل ہوتی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہو گیا ہے کیونکہ ایک طرف سے انسان تب ہی منہ پھیرتا ہے جب دوسری طرف اس کا تعلق ہو جاتا ہے.پس دنیا کی لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو سیر و تماشا اور لغو صحبتوں سے واقعی طور پر اُسی وقت انسان کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے.ایسا ہی نطفہ بھی اسی وقت لغوطور پر ضائع ہو جانے سے محفوظ ہوتا ہے جب رحم سے اس کا تعلق ہو جائے اور رحم کا اثر اس پر غالب آجائے اور اس تعلق کے وقت نطفہ کا نام علاقہ ہو جاتا ہے.پس اسی طرح

Page 47

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة المؤمنون روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جو مومن کا معرض عن اللغو ہونا ہے روحانی طور پر علقہ ہے کیونکہ اس مرتبہ پر مومن کے دل پر ہیبت اور عظمت الہی وارد ہو کر اس کو لغو باتوں اور لغو کاموں سے چھڑاتی ہے اور ہیبت اور عظمت الہی سے متاثر ہوکر ہمیشہ کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو چھوڑ دینا یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں تعلق باللہ کہتے ہیں لیکن یہ تعلق جو صرف لغویات کے ترک کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے یہ ایک خفیف تعلق ہے کیونکہ اس مرتبہ پر مومن صرف لغویات سے تعلق توڑتا ہے لیکن نفس کی ضروری چیزوں سے اور ایسی باتوں سے جن پر معیشت کی آسودگی کا حصہ ہے ابھی اس کے دل کا تعلق ہوتا ہے اس لئے ہنوز ایک حصہ پلیدی کا اس کے اندر رہتا ہے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے وجو د روحانی کے اس مرتبہ کو عالقہ سے مشابہت دی ہے اور عالقہ خون جما ہوا ہوتا ہے جس میں باعث خون ہونے کے ایک حصہ پلیدی کا باقی ہوتا ہے اور اس مرتبہ میں یہ نقص اس لئے رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگ پورے طور پر خدا تعالیٰ سے ڈرتے نہیں اور پورے طور پر ان کے دلوں میں حضرت علات جل شانہ کی عظمت اور ہیبت نہیں بیٹھی اس لئے صرف نکمی اور لغو باتوں کے چھوڑنے پر قادر ہو سکتے ہیں نہ اور باتوں پر.پس ناچار اس قدر پلیدی اُن کے نفوس نا قصہ میں رہ جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایک خفیف سا تعلق پیدا کر کے لغویات سے تو کنارہ کش ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان کاموں کو چھوڑ نہیں سکتے جن کا چھوڑنا نفس پر بہت بھاری ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کے لئے ان چیزوں کو چھوڑ نہیں سکتے جو نفسانی لذات کے لئے لوازم ضرور یہ ہیں اس بیان سے ظاہر ہے کہ محض لغویات سے منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے جو بہت قابل تحسین ہو بلکہ یہ مومن کی ایک ادنیٰ حالت ہے ہاں خشوع کی حالت سے ایک درجہ ترقی پر ہے.اور جسمانی وجود کے تیسرے درجہ کے مقابل پر روحانی وجود کا تیسرا درجہ واقع ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی وجود کا تیسرا مرتبہ یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةٌ یعنی پھر بعد اس کے ہم نے علقہ کو بوٹی بنایا.یہ وہ مرتبہ ہے جس میں وجود جسمانی انسان کا ناپاکی سے باہر آتا ہے اور پہلے سے اس میں کسی قدر شدت اور صلابت بھی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ نطفہ اور خون جما ہوا جو علقہ ہے وہ دونوں ایک نجاست خفیفہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اپنے قوام کے رو سے بھی بہ نسبت مضغہ کے نرم اور رقیق ہیں مگر مضغہ جو ایک گوشت کا ٹکڑہ ہوتا ہے پاک حالت اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے قوام میں بھی ایک حد تک تختی پیدا کر لیتا ہے.یہی حالت روحانی وجود کے تیسرے درجہ کی ہے اور روحانی

Page 48

۱۶ سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وجود کا تیسرا درجہ وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكوة فعِلُونَ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن کہ جو پہلی دو حالتوں سے بڑھ کر قدم رکھتا ہے وہ صرف بیہودہ اور لغو باتوں سے ہی کنارہ کش نہیں ہوتا بلکہ بخل کی پلیدی کو دور کرنے کے لئے جو طبعاً ہر ایک انسان کے اندر ہوتی ہے زکوۃ بھی دیتا ہے یعنی خدا کی راہ میں ایک حصہ اپنے مال کا خرچ کرتا ہے.زکوۃ کا نام اسی لئے زکوۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے للہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے.اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کر خدا سے جو اپنی ذات میں پاک ہے ایک مناسبت پیدا کر لیتا ہے کوئی اس پاک سے جو دل لگا وے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے اور یہ مرتبہ پہلی دو حالتوں میں پایا نہیں جاتا.کیونکہ صرف خشوع اور معجز و نیاز یا صرف لغو باتوں کو ترک کرنا ایسے انسان سے بھی ہو سکتا ہے جس میں ہنوز بخل کی پلیدی موجود ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرقریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں اُن میں یہ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے.اس میں حکمت یہی ہے کہ لغویات سے منہ پھیرنے میں صرف ترک شہر ہے اور شر بھی ایسی جس کی زندگی اور بقا کے لئے کچھ ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں لیکن اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسب خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپا کی جو سب نا پاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دُور ہوتا ہے لہذا یہ ایمانی حالت کا تیسرا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں سے اشرف اور افضل ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی وجود کے تیار ہونے میں مضغہ کا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں نطفہ اور علقہ سے فضیلت میں بڑھ کر ہے اور پاکی میں خصوصیت رکھتا ہے کیونکہ نطفہ اور علقہ دونوں نجاست خفیفہ سے ملوث ہیں مگر مضغہ پاک حالت میں ہے اور جس طرح رحم میں مضغہ کو بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے ایک ترقی یافتہ حالت اور پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ نسبت نطفہ اور علقہ کے رحم سے اس کا تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے یہی حالت وجود روحانی کی مرتبہ سوم کی ہے جس کی تعریف خدا تعالیٰ نے یہ فرمائی ہے

Page 49

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۷ سورة المؤمنون وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكوة فعِلُونَ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے نفس کو بخل سے پاک کرنے کے لئے اپنا عزیز مال خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور اس فعل کو وہ آپ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں.پس وجود روحانی کی اس مرتبہ سوم میں وہی تین خوبیاں پائی جاتی ہیں جو وجود جسمانی کے مرتبہ سوم میں یعنی مضغہ ہونے کی حالت میں پائی جاتی ہیں.کیونکہ یہ حالت جو بخل سے پاک ہونے کے لئے اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنی محنت سے حاصل کردہ سرمایہ محض للہ دوسرے کو دینا بہ نسبت اس حالت کے جو محض لغو باتوں اور لغو کاموں سے پر ہیز کرنا ہے ایک ترقی یافتہ حالت ہے اور اس میں صریح اور بدیہی طور پر بخل کی پلیدی سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور خدائے رحیم سے تعلق بڑھتا ہے کیونکہ اپنے مال عزیز کو خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو باتوں کے چھوڑنے کے زیادہ تر نفس پر بھاری ہے اس لئے اس زیادہ تکلیف اٹھانے کے کام سے خدا سے تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور باعث ایک مشقت کا کام بجالانے کے ایمانی شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے.اب اس کے بعد روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِم حفظون یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کر مومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں.یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اُس کے نفس کو نہایت پیارا اور عزیز ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے درجہ کا مومن وہ چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں شمار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ.کیونکہ انسان کو اپنی شہوات نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزار ہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا.جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج بھو کے اور ننگے کو باعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزار ہارو پیہ دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایساتند اور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہا لے جاتا ہے.اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوت ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہوات نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں

Page 50

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۸ سورة المؤمنون نہایت سخت اور نہایت دیر پا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفس اتارہ جیسے پرانے اثر دہا کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے.اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریا اور نمود کے وقتوں میں بھی دُور ہوسکتا ہے مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے.یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوتِ ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی بھی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے کیونکہ شہوات نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پر آشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہو سکتا.اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا وَمَا أُبَرَى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبّی (یوسف :۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرما دے.اس آیت میں جیسا کہ فقره الا مَا رَحِمَ رَبّی ہے طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ (هود) (۴۴) پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہوات نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے.اور اس درجہ روحانی کے مقابل پر جو وجو د روحانی کا چوتھا درجہ ہے جسمانی وجود کا درجہ چہارم ہے جس کے بارے میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظا یعنی پھر ہم نے مضغہ سے ہڈیاں بنائیں.اور ظاہر ہے کہ ہڈیوں میں بہ نسبت مضغہ یعنی بوٹی کے زیادہ صلابت اور تختی پیدا ہو جاتی ہے اور نیز بڑی بہ نسبت مضغہ کے بہت دیر پا ہے اور ہزاروں برس تک اس کا نشان رہ سکتا ہے پس وجود روحانی کے درجہ چہارم اور وجود جسمانی کے درجہ چہارم میں مشابہت ظاہر ہے کیونکہ وجود روحانی کے درجہ چہارم میں بہ نسبت وجود روحانی کے درجہ سوم کے ایمانی شدت اور صلابت زیادہ ہے اور خدائے رحیم سے تعلق بھی زیادہ.ایسا ہی وجود جسمانی کے درجہ چہارم میں جو استخوان کا پیدا ہونا ہے بہ نسبت درجہ سوم وجود جسمانی کے جو حض مضغہ یعنی ہوئی ہے جسمانی طور پر شدت اور صلابت زیادہ ہے اور رحم سے تعلق بھی زیادہ.پھر چہارم درجہ کے بعد پانچواں درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے وَالَّذِيْنَ هُمْ لِأَمْنَتِهِمْ وَعَهْدِهِم رُعُونَ.یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے

Page 51

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۹ سورة المؤمنون بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفس امارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں.اور جہاں تک طاقت ہے اس راہ پر چلتے ہیں.خدا کے عہدوں سے مراد وہ ایمانی عہد ہیں جو بیعت اور ایمان لانے کے وقت مومن سے لئے جاتے ہیں جیسے شرک نہ کرنا، خونِ ناحق نہ کرنا وغیرہ.لفظ رھون جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنے ہیں رعایت رکھنے والے.یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجالانا چاہتا ہے اور کوئی پہلو اس کا چھوڑ نا نہیں چاہتا.پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو وجو د روحانی کے پنجم درجہ پر ہیں حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقویٰ کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ در پردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو.پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسانہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے.خلاصه مطلب یہ کہ وہ مومن جو وجود روحانی میں پنجم درجہ پر ہیں وہ اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیج الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی ڈور بین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قومی اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں.ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں اُن سب میں تابمقدور تقوی کی پابندی سے کار بند ہوتے

Page 52

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة المؤمنون ہیں.اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں گو اس فیصلہ میں نقصان اٹھا لیں.یہ درجہ چوتھے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ اس میں حتی الوسع تمام اعمال میں تقویٰ کی باریک راہوں سے کام لینا پڑتا ہے اور حتی الوسع جمیع امور میں ہر ایک قدم تقویٰ کی رعایت سے اٹھانا پڑتا ہے مگر چوتھا درجہ صرف ایک ہی موٹی بات ہے اور وہ یہ کہ زنا سے اور بدکاریوں سے پر ہیز کرنا اور ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہوات نفس سے اندھا ہوکر ایسانا پاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضیع نسل کا موجب ہوتا ہے.اسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حد شرعی مقرر ہے.پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پر ہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو برا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا.پس اس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں لیکن انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے لیے تقویٰ کی باریک را ہیں رُوحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں سے کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں.ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے اے ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور زکوۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں اور پھر شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور تختی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کا اپنے مضبوط تنہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول.وہی طاقت روحانی پیدائش کے مرتبہ ششم میں خلق آخر کہلاتی ہے اور اسی مرتبہ ششم پر انسانی کمالات کے پھل اور پھول ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں اور انسانی درخت کی روحانی شاخیں نہ صرف مکمل ہو جاتی ہیں بلکہ اپنے پھل بھی دیتی ہیں.منہ ایمانی عہدوں سے مراد وہ عہد ہیں جو انسان بیعت اور ایمان لانے کے وقت ان کا اقرار کرتا ہے جیسے یہ کہ وہ خون نہیں کرے گا.چوری نہیں کرے گا.جھوٹی گواہی نہیں دے گا.خدا سے کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اور اسلام اور پیروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرے گا.

Page 53

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة المؤمنون پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِباسُ التَّقوی قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.یہ تو وجود روحانی کا پانچواں درجہ ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا پانچواں درجہ وہ ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے فکسَوْنَا الْعِظمَ لَحْمًا.یعنی پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت مڑھ دیا اور جسمانی بناوٹ کی کسی قدر خوبصورتی دکھلا دی.یہ عجیب مطابقت ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایک جگہ روحانی طور پر تقویٰ کولباس قرار دیا ہے ایسا ہی گسونا کا لفظ جو کسوت سے نکلا ہے وہ بھی بتلا رہا ہے کہ جو گوشت ہڈیوں پر مڑھا جاتا ہے وہ بھی ایک لباس ہے جو ہڈیوں پر پہنایا جاتا ہے.پس یہ دونوں لفظ دلالت کر رہے ہیں کہ جیسی خوبصورتی کا لباس تقویٰ پہناتی ہے ایسا ہی وہ کسوت جو ہڈیوں پر چڑھائی جاتی ہے ہڈیوں کے لئے ایک خوبصورتی کا پیرا یہ بخشتی ہے.وہاں لباس کا لفظ ہے اور یہاں کسوت کا اور دونوں کے معنے ایک ہیں اور نص قرآنی بآواز بلند پکار رہی ہے کہ دونوں کا مقصد خوبصورتی ہے اور جیسا کہ انسان کی رُوح پر سے اگر تقویٰ کا لباس اتار دیا جائے تو روحانی بدشکلی اس کی ظاہر ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر وہ گوشت و پوست جو حکیم مطلق نے انسان کی ہڈیوں پر مڑھا ہے اگر ہڈیوں پر سے اتار دیا جائے تو انسان کی جسمانی شکل نہایت مکروہ نکل آتی ہے مگر اس درجہ پنجم میں خواہ درجہ پنجم وجود جسمانی کا ہے اور خواہ درجہ پنجم وجود روحانی کا ہے کامل خوبصورتی پیدا نہیں ہوتی.کیونکہ ابھی رُوح کا اُس پر فیضان نہیں ہوا.یہ امر مشہو دو محسوس ہے کہ ایک انسان گو کیسا ہی خوبصورت ہو جب وہ مر جاتا ہے اور اُس کی روح اس کے اندر سے نکل جاتی ہے تو ساتھ ہی اس حُسن میں بھی فرق آ جاتا ہے جو اُس کو قدرت قادر نے عطا کیا تھا.حالانکہ تمام اعضاء اور تمام نقوش موجود ہوتے ہیں مگر صرف ایک رُوح کے نکلنے سے انسانی قالب کا گھر ایک ویران اور سُنسان سا معلوم ہوتا ہے اور آب و تاب کا نشان نہیں رہتا.یہی حالت روحانی وجود کے پانچویں درجہ کی ہے کیونکہ یہ امر بھی مشہود ومحسوس ہے کہ جب تک کسی مومن میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس رُوح کا فیضان نہ ہو جو و جو در وحانی کے چھٹے درجہ

Page 54

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة المؤمنون پر ملتی ہے اور ایک فوق العادت طاقت اور زندگی بخشتی ہے تب تک خدا کی امانتوں کے ادا کرنے اور اُن کے ٹھیک طور پر استعمال کرنے اور صدق کے ساتھ اس کا ایمانی عہد پورا کرنے اور ایسا ہی مخلوق کے حقوق اور عہدوں کے ادا کرنے میں وہ آب و تاب تقویٰ پیدا نہیں ہوتی جس کا حسن اور خوبی دلوں کو اپنی طرف کھینچے اور جس کی ہر ایک ادا فوق العادت اور اعجاز کے رنگ میں معلوم ہو بلکہ قبل اس روح کے تقویٰ کے ساتھ تکلف اور بناوٹ کی ایک ملونی رہتی ہے کیونکہ اس میں وہ رُوح نہیں ہوتی جو حسن روحانی کی آب و تاب دکھلا سکے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ ایسے مومن کا قدم جو ابھی اس روح سے خالی ہے پورے طور پر نیکی پر قائم نہیں رہ سکتا بلکہ جیسا کہ ایک ہوا کے دھکا سے مُردہ کا کوئی عضو حرکت کر سکتا ہے اور جب ہوا دُور ہو جائے تو پھر مُردہ اپنی حالت پر آجاتا ہے ایسا ہی وجود روحانی کے پنجم درجہ کی حالت ہوتی ہے کیونکہ صرف عارضی طور پر خدا تعالیٰ کی نسیم رحمت اس کو نیک کاموں کی طرف جنبش دیتی رہتی ہے اور اس طرح تقویٰ کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں.لیکن ابھی نیکی کی رُوح اس کے اندر آباد نہیں ہوتی اس لئے وہ حسن معاملہ اس میں پیدا نہیں ہوتا جو اس رُوح کے داخل ہونے کے بعد اپنا جلوہ دکھلاتا ہے.غرض پنجم مرتبه وجود روحانی کا گو ایک ناقص مرتبہ حسن تقویٰ کا حاصل کر لیتا ہے مگر کمال اس حُسن کا وجودِ روحانی کے درجہ ششم پر ہی ظاہر ہوتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کی اپنی محبت ذاتیہ روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کی طرح ہو کر انسان کے دل پر نازل ہوتی اور تمام نقصانوں کا تدارک کرتی ہے اور انسان محض اپنی قوتوں کے ساتھ کبھی کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ روح خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہو.جیسا کہ حافظ شیرازی نے فرمایا ہے ما بدان منزل عالی میتوانیم رسید ہاں مگر لطف تو چوں پیش نہد گامے چند پھر درجہ پنجم کے بعد چھٹا درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَتِهِمْ يُحافظون یعنی چھٹے درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدار آرام اور مدار زندگی ان کے لئے ہو گئی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یاد الہی میں گزرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں.ا

Page 55

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة المؤمنون اب ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کی محافظت اور نگہبانی میں تمام تر کوشش کر کے ہر دم لگا رہتا ہے جس کے گم ہونے میں اپنی ہلاکت اور تباہی دیکھتا ہے جیسا کہ ایک مسافر جو ایک بیابان بے آب و دانہ میں سفر کر رہا ہے جس کے صد با کوس تک پانی اور روٹی ملنے کی کوئی امید نہیں وہ اپنے پانی اور روٹی کی جو ساتھ رکھتا ہے بہت محافظت کرتا ہے اور اپنی جان کے برابر اس کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ضائع ہونے میں اس کی موت ہے.پس وہ لوگ جو اُس مسافر کی طرح اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں اور گو مال کا نقصان ہو یا عزت کا نقصان ہو یا نماز کی وجہ سے کوئی ناراض ہو جائے نماز کو نہیں چھوڑتے اور اس کے ضائع ہونے کے اندیشہ میں سخت بے تاب ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے گویا مر ہی جاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی یا دالہی سے الگ ہوں.وہ در حقیقت نماز اور یاد الہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبت ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کہنا چاہیئے اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے اور ان کو حیات ثانی بخش دیتا ہے اور وہ رُوح ان کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے.تب وہ نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طور پر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی روحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کر دیتا ہے.اس لئے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں.اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس رُوح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کی طرح اُن میں ڈالی جاتی ہے.جس سے عشق الہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ یاد الہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے.وہ اس کے لئے دکھ اُٹھاتے اور مصائب دیکھتے ہیں مگر اس سے ایک لحظہ بھی جدا ہونا نہیں چاہتے اور پاس انفاس کرتے ہیں.اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں.اور یہ امر اُن کے لئے طبعی ہے کیونکہ درحقیقت خدا نے اپنی محبت سے بھری ہوئی یاد کو جس کو دوسرے لفظوں میں نماز کہتے ہیں ان کے لئے ایک ضروری غذا مقرر کر دیا ہے اور اپنی محبت ذاتیہ سے اُن پر تجلی فرما کر یاد الہی کی ایک دلکش لذت ان کو عطا کی ہے.پس اس وجہ سے یاد الہی جان کی طرح بلکہ جان سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوگئی ہے اور خدا کی ذاتی محبت ایک نئی رُوح ہے جو شعلہ کی طرح ان کے دلوں پر پڑتی ہے اور ان کی نماز اور یاد الہی کو ایک غذا کی طرح ان کے لئے بنادیتی ہے.پس وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی روٹی اور پانی سے نہیں بلکہ نماز اور یاد الہی سے جیتے ہیں.

Page 56

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة المؤمنون غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا نام نماز ہے وہ در حقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہ اس مسافر کی طرح وہ کرتے رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے.واہب مطلق نے انسان کی روحانی ترقیات کے لئے یہ بھی ایک مرتبہ رکھا ہوا ہے جو محبت ذاتی اور عشق کے غلبہ اور استیلا کا آخری مرتبہ ہے اور درحقیقت اس مرتبہ پر انسان کے لئے محبت سے بھری ہوئی یا دالہی جس کا شرعی اصطلاح میں نماز نام ہے غذا کے قائم مقام ہو جاتی ہے بلکہ وہ بار بار جسمانی روح کو بھی اس غذا پر فدا کرنا چاہتا ہے وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اور خدا سے علیحدہ ایک دم بھی بسر کرنا اپنی موت سمجھتا ہے.اور اس کی روح آستانہ الہی پر ہر وقت سجدہ میں رہتی ہے اور تمام آرام اُس کا خدا ہی میں ہو جاتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں اگر ایک طرفتہ العین بھی یاد الہی سے الگ ہوا تو بس میں مرا.اور جس طرح روٹی سے جسم میں تازگی اور آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء کی قوتوں میں توانائی آجاتی ہے.اسی طرح اس مرتبہ پر یا دالہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے یعنی آنکھ میں قوت کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سکتے ہیں اور زبان پر وہ کلام نہایت لذیذ اور اجلی اور اصفی طور پر جاری ہو جاتا ہے اور رویا ء صادقہ بکثرت ہوتے ہیں سے جو فلق صبح کی طرح ظہور میں آجاتے ہیں اور بباعث علاقہ صافیہ محبت جو حضرت عزت سے ہوتا ہے مبشر خوابوں سے بہت سا حصہ اُن کو ملتا ہے.یہی وہ مرتبہ ہے 1 بہت سے نادان اس وہم میں گرفتار ہیں کہ ہمیں بھی بعض اوقات سچی خواب آ جاتی ہے یا سچا الہام ہو جاتا ہے تو ہم میں اور ایسے اعلیٰ مرتبہ کے لوگوں میں فرق کیا ہوا اور ان عالی مرتبہ لوگوں کی کیا خصوصیت باقی رہی.اس کا جواب یہ ہے کہ اس قدر طاقت خواب دیکھنے یا الہام کی اس غرض سے عام لوگوں کی فطرت میں رکھی گئی ہے کہ تا ان کے پاس بھی ان بار یک باتوں کا کسی قدر نمونہ ہو جو اس جہان سے وراء الوراء باتیں ہیں.اور اس طرح پر وہ اپنے پاس ایک نمونہ دیکھ کر دولت قبول سے محروم ندر ہیں اور ان پر اتمام حجت ہو جائے.ورنہ اگر انسانوں کی یہ حالت ہوتی کہ وحی اور ڈیا صادقہ کی حقیقت سے وہ بالکل بے خبر ہوتے تو بجز انکار کے کیا کر سکتے تھے اور اس حالت میں کسی قدر معذور تھے.پھر جبکہ با وجود موجود ہونے اس نمونے کے زمانہ حال کے فلسفی اب تک وحی اور رو یا صادقہ کا انکار کرتے ہیں تو اس وقت عام لوگوں کا کیا حال ہوتا جب کہ ان کے پاس کوئی بھی نمونہ نہ ہوتا.اور یہ خیال کہ ہمیں بھی بعض اوقات کچی خوابیں آ جاتی ہیں یا کوئی بچے الہام ہو جاتے ہیں اس سے رسولوں اور نبیوں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ایسے لوگوں کے رویا اور الہام شکوک اور شبہات کے دُخان سے خالی نہیں ہوتے اور با ایں ہمہ مقدار میں بھی کم ہوتے ہیں.پس جیسا کہ ایک مفلس ایک پیسہ کے ساتھ ایک بادشاہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس بھی مال ہے اور اس کے پاس بھی ایسا ہی یہ مقابلہ بھی نیکی اور سراسر حماقت ہے.منہ

Page 57

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة المؤمنون جس مرتبہ پر مومن کومحسوس ہوتا ہے کہ خدا کی محبت اس کے لئے روٹی اور پانی کا کام دیتی ہے.ینی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلے روحانی قالب تمام تیار ہو چکتا ہے.اور پھر وہ رُوح جو محبت ذاتیہ الہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسی مومن کے دل پر آپڑتا ہے اور یک دفعہ طاقت بالا نشیمن بشریت سے بلند تر اُس کو لے جاتی ہے.اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خلق آخر کہتے ہیں.اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دُور کر دیتا ہے.اور اس رُوح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حسن جو ادنیٰ مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی کی کبودگی بکلی دور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی روح اس کے اندر داخل ہوگئی ہے جو پہلے نہیں تھی.اُس رُوح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتی ہے اور محبت ذاتیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے.اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے.تب اُس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سُرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے.اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں.جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ا ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے.اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے.اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے.اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ وریشہ میں سرایت کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنالیتا ہے.تب وہ اپنی رُوح سے نہیں بلکہ خدا کی رُوح سے دیکھتا اور خدا کی رُوح سے سنتا اور خدا کی رُوح سے بولتا اور خدا کی رُوح سے چلتا اور خدا کی رُوح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استہلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی روح اس پر اپنی محبت ذاتیہ کے ساتھ تجلی فرما کر حیات ثانی اس کو بخشتی ہے.پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی

Page 58

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶ سورة المؤمنون بے ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ - یہ تو وجو دروحانی کا مرتبہ ششم ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی پیدائش کا مرتبہ ششم ہے اور اس جسمانی مرتبہ کے لئے بھی وہی آیت ہے جو روحانی مرتبہ کے لئے اوپر ذکر ہو چکی ہے یعنی ثمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب ہم ایک پیدائش کو طیار کر چکے تو بعد اس کے ہم نے ایک اور پیدائش سے انسان کو پیدا کیا.اور کے لفظ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ وہ ایسی فوق الفہم پیدائش ہے جس کا سمجھنا انسان کی عقل سے بالا تر ہے اور اُس کے فہم سے بہت دُور یعنی روح جو قالب کی طیاری کے بعد جسم میں ڈالی جاتی ہے وہ ہم نے انسان میں روحانی اور جسمانی دونوں طور پر ڈال دی جو مجہول الکنہ ہے اور جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے تمام مقلد حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے.اور جب کہ حقیقت تک اُن کو راہ نہ ملی تو اپنی انکل سے ہر ایک نے تکیں لگائیں.کسی نے روح کے وجود سے ہی انکار کیا.اور کسی نے اس کو قدیم اور غیر مخلوق سمجھا.پس اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ ”روح بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا تر ہے اور جیسا کہ اس دنیا کے فلاسفر اس رُوح سے بے خبر ہیں جو وجود جسمانی کے چھٹے مرتبہ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جسم پر فائض ہوتی ہے ویسا ہی وہ لوگ اس رُوح سے بھی بے علم رہے کہ جو وجود روحانی کے چھٹے مرتبہ پر مومن صادق کو خدا تعالیٰ سے ملتی ہے اور اس بارے میں بھی مختلف را ہیں اختیار کیں.بہتوں نے ایسے لوگوں کی پوجا شروع کر دی جن کو وہ روح بھی دی گئی تھی اور ان کو قدیم اور غیر مخلوق اور خدا سمجھ لیا اور بہتوں نے اس سے انکار کر دیا کہ اس مرتبہ کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور ایسی روح بھی انسان کو ملتی ہے.لیکن اس بات کو بہت جلد ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور خدا نے زمین کے تمام پرند و چرند پر اس کو بزرگی دے کر اور سب پر حکومت بخش کر اور عقل و فہم عنایت فرما کر اور اپنی معرفت کی ایک پیاس لگا کر اپنے ان تمام افعال سے جتلا دیا ہے کہ انسان خدا کی محبت اور عشق کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس سے کیوں انکار کیا جائے کہ انسان محبت ذاتیہ کے مقام تک پہنچ کر اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کی محبت پر خدا کی محبت ایک رُوح کی طرح وارد ہو کر تمام کمزوریاں اس کی دُور کر دے.اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وجود روحانی کے ششم مرتبہ کے بارے میں فرمایا ہے وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ایسا ہی دائمی حضور اور سوز و گداز اور عبودیت انسان سے سرزد ہو اور اس طرح پر وہ اپنے وجود کی علت غائی کو

Page 59

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۷ سورة المؤمنون پورا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷) یعنی میں نے پرستش کے لئے ہی جن و انس کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بحجر محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں.اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اُس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں.یہی وہ کامل صورت ہے جس میں انسان ان امانتوں اور عہد کو جن کا ذکر وجود روحانی کے مرتبہ پنجم میں تحریر ہے کامل طور پر اپنے اپنے موقع پر ادا کر سکتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ مرتبہ پنجم میں انسان صرف تقویٰ کے لحاظ سے خدا اور مخلوق کی امانتوں اور عہد کا لحاظ رکھتا ہے اور اس مرتبہ پر محبت ذاتی کے تقاضا سے جوخدا کے ساتھ اس کو ہو گئی ہے جس کی وجہ سے خدا کی مخلوق کی محبت بھی اُس میں جوش زن ہو گئی ہے اور اس رُوح کے نقا ضا سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر نازل ہوتی ہے ان تمام حقوق کو طبعاً بوجہ احسن ادا کرتا ہے اور اس صورت میں وہ حسن باطنی جو حسن ظاہری کے مقابل پر ہے بوجہ احسن اس کو نصیب ہو جاتا ہے کیونکہ وجود روحانی کے مرتبہ پنجم میں تو ابھی وہ رُوح انسان میں داخل نہیں ہوئی تھی جو محبت ذاتیہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے جلوۂ حسن بھی ابھی کمال پر نہیں تھا مگر رُوح کے داخل ہونے کے بعد وہ حسن کمال کو پہنچ جاتا ہے.ظاہر ہے کہ مردہ خوبصورت اور زندہ خوبصورت یکساں آب و تاب نہیں رکھتے.جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں.ایک حسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالی کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع اُن کے متعلق فوت نہ ہو.جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں راعُون کا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے.ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق عباد میں تقویٰ سے کام لے.یہ حسن معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے جو درجہ پنجم وجود روحانی میں نمایاں ہوتی ہے مگر ہنوز پورے طور پر چمکتی نہیں اور وجود روحانی کے درجہ ششم میں بوجہ کامل ہونے پیدائش اور روح کے داخل ہو جانے کے یہ خوبصورتی اپنی تمام آب و تاب دکھلا دیتی ہے.اور یادر ہے کہ مرتبہ ششم و جو دروحانی میں رُوح سے مراد وہ محبت ذاتیہ الہیہ ہے جو انسان کی محبت ذاتیہ پر ایک شعلہ کی طرح پڑتی اور تمام اندرونی تاریکی دُور کرتی اور روحانی زندگی بخشتی ہے اور اس کے لوازم میں سے رُوح القدس کی تائید بھی کامل طور پر ہے.

Page 60

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸ سورة المؤمنون دوسر احسن انسان کی پیدائش میں حسن بشرہ ہے.اور یہ دونوں حسن اگر چہ رُوحانی اور جسمانی پیدائش درجہ پنجم میں نمودار ہو جاتے ہیں لیکن آب و تاب اُن کی فیضانِ رُوح کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ جسمانی وجود کی روح جسمانی قالب طیار ہونے کے بعد جسم میں داخل ہوتی ہے ایسا ہی روحانی وجود کی رُوح روحانی قالب طیار ہونے کے بعد انسان کے روحانی وجود میں داخل ہوتی ہے.یعنی اُس وقت جب کہ انسان شریعت کا تمام بجوا اپنی گردن پر لے لیتا ہے اور مشقت اور مجاہدہ کے ساتھ تمام حدود الہیہ کے قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اور ورزش شریعت اور بجا آوری احکام کتاب اللہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خُدا کی روحانیت اس کی طرف توجہ فرمادے اور سب سے زیادہ یہ کہ اپنی محبت ذاتیہ سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ کا مستحق ٹھہرالیتا ہے جو برف کی طرح سفید اور شہد کی طرح شیر میں ہے.اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وجود روحانی خشوع کی حالت سے شروع ہوتا ہے اور روحانی نشو نما کے چھٹے مرتبہ پر یعنی اس مرتبہ پر کہ جب کہ روحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبت ذاتیہ الہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے.لیکن یہ حسن جو روحانی حسن ہے جس کو حسن معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حسن بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے.کیونکہ حسن بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہوگا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہوگی.لیکن وہ روحانی محسن جس کو حسن معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی حسن والا انسان جس میں محبت البیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حسن روحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھینچا جاتا اور ہے.پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں.تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن ربالو ہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں.اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے.

Page 61

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹ سورة المؤمنون جب سے کہ صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرہ رُوحانی حسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی.کیونکہ وہ حسن جلی گاه حق ہے.وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ ( البقرة : ۳۵) اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اس حسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے.نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الانبیاء وخیر الوریٰ مولانا وسید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی محسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے دَنَا فَتَدَی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْن أو أدنى (النجم : ۱۰٠٠٩) یعنی وہ نبی جناب الہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا.اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا.یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور خالق مخلوق اس طرح اس کا وجود واقع ہوا جیسے یہ.اس حُسن کو نا پاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا درمیانی خلط آنحضرت کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف: ۱۹۹ ) یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا.آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے.اس جگہ بعض جاہل کہتے ہیں کہ کیوں کامل لوگوں کی بعض دُعائیں منظور نہیں ہوتیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کی تجلی حسن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے.پس جس جگہ یہ تجلی عظیم ظاہر ہو جاتی ہے اور کسی معاملہ میں اُن کا حسن جوش میں آتا ہے اور اپنی چمک دکھلاتا ہے تب اس چمک کی طرف ذرات عالم کھنچے جاتے ہیں اور غیر ممکن باتیں وقوع میں آتی ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں معجزہ کہتے ہیں.مگر یہ جوش روحانی ہمیشہ اور ہر جگہ ظہور میں نہیں آتا اور تحریکات خارجیہ کا محتاج ہوتا ہے.یہ اس لئے کہ جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے.سودہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ اُن کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تریہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں.مگر اُس کی تحریک اُن کے اختیار میں نہیں ہوتی گو وہ بارہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں

Page 62

سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام آوے مگر بجز ارادہ الہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی.بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور نشست اعتقادلوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اُن کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی ان کی ایک ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقع میں اپنا چہرہ چھپائے رکھے.اور اسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان اُن پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اُس بدظنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں.کیونکہ تخلق باخلاق اللہ رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا ( البقرة :۱۱) جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ اُن سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے منہ پر سے اُتار لیتے ہیں اور وہ حسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اور ذرہ ذرہ پر نمودار ہو جاتا ہے.اور اُن کا منہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اس رُوحانی حسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی اُن میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرہ ذرہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے.اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے اور اُن کی درد میں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملاء اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمت الہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں.اُن کی روحانیت جب اپنے پورے سوز و گداز کے ساتھ کسی عقدہ کشائی کے لئے توجہ کرتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے.کیونکہ وہ لوگ باعث اس کے جو خدا سے ذاتی محبت رکھتے ہیں محبوبانِ الہی میں داخل ہوتے ہیں.تب ہر ایک چیز جو خدا تعالیٰ کے زیر حکم ہے.اُن کی مدد کے لئے جوش مارتی ہے لے اور رحمت الہی محض اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے ایک خلق جدید کے لئے تیار ہو جاتی ہے.اور وہ امور ظاہر ہوتے ہیں جو اہل دنیا کی نظر میں غیر ممکن معلوم ہوتے ہیں اور جن سے سفلی علوم محض نا آشنا ہیں.ایسے لوگوں کو خدا تو نہیں کہہ سکتے مگر قرب اور علاقہ محبت اُن کا کچھ ایسا صدق اور صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے لے کا فر اور دشمن بھی ایک قسم کی ان کی مدد کرتے ہیں کہ ایذاء اور ظلم کے ساتھ ان کے دل کو دکھ دیتے اور ان کی روحانیت کو جوش میں لاتے ہیں.تا دل مرد خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدار سوانه کرد هنه ا

Page 63

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١ سورة المؤمنون گویا خدا اُن میں اُتر آتا ہے.اور آدم کی طرح خدائی رُوح اُن میں پھونکی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ وہ خدا ہیں لیکن درمیان میں کچھ ایسا تعلق ہے جیسا کہ لوہے کو جب کہ سخت طور پر آگ سے افروختہ ہو جائے اور آگ کا رنگ اُس میں پیدا ہو جائے آگ سے تعلق ہوتا ہے.اس صورت میں تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ کے زیر حکم ہیں اُن کے زیر حکم ہو جاتی ہیں.اور آسمان کے ستارے اور سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں اور ہوا اور آگ تک اُن کی آواز کو سُنتے اور ان کو شناخت کرتے اور اُن کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ہر ایک چیز طبعاً اُن سے پیار کرتی ہے اور عاشق صادق کی طرح اُن کی طرف کھینچی جاتی ہے.بجز شریر انسانوں کے جو شیطان کا اوتار ہیں.عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے کہ ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مرجاتا ہے.اور نیز اس کی بنا اُس حسن پر ہے جو قابل زوال ہے.اور نیز اُس حسن کے اثر کے نیچے آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں.مگر یہ کیا حیرت انگیز نظارہ ہے کہ وہ حسن روحانی جوحسن معاملہ اور صدق وصفا اور محبت الہیہ کی تجلی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اس میں ایک عالمگیر کشش پائی جاتی ہے وہ مستعد دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ جیسے شہد چیونٹیوں کو.اور نہ صرف انسان بلکہ عالم کا ذرہ ذرہ اس کی کشش سے متاثر ہوتا ہے.صادق المحبت انسان جو سچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرہ ذرہ اس عالم کا زلیخا صفت ہے.اور ابھی حسن اُس کا اس عالم میں ظاہر نہیں کیونکہ یہ عالم اس کی برداشت نہیں کرتا.خدا تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں جو فرقان مجید ہے فرماتا ہے کہ مومنوں کا نور اُن کے چہروں پر دوڑتا ہے.اور مومن اس حسن سے شناخت کیا جاتا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں نور ہے.اور مجھے ایک دفعہ عالم کشف میں پنجابی زبان میں اسی علامت کے بارہ میں یہ موزوں فقرہ سنایا گیا.عشق الہی وے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی مومن کا نور جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے وہ وہی روحانی حسن و جمال ہے جو مومن کو وجود روحانی کے مرتبہ ششم پر کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے.جسمانی حسن کا ایک شخص یا دو شخص خریدار ہوتے ہیں مگر یہ عجیب حسن ہے جس کے خریدار کروڑ ہار وھیں ہو جاتی ہیں.اسی روحانی حسن کی بنا پر بعض نے سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی نعت میں یہ شعر کہے ہیں اور اُن کو ایک نہایت درجہ حسین اور خوبصورت قرار دیا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں د لے فطرتنا بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے.اس طرح میری روح اور سید عبدالقادر کی روح کو میر فطرت سے با ہم ایک مناسبت ہے جس پر کشوف صیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے.اس بات پر تئیس برس کے قریب زمانہ گزر گیا ہے کہ جب

Page 64

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون آن ترک عجم چون نہ مئی عشق طرب کرد غارت گریے کوفہ و بغداد و جلب کرد صد لالہ رُخ بود بصد حسن شگفته نازان همه را زیر قدم کرد عجب کرد اور شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے بھی اس بارہ میں ایک شعر کہا ہے جو حسن روحانی پر بہت منطبق ہوتا ہے اور وہ یہ ہے صورت گر دیبائے چیں روصورت زیباش بین یا صورتے برکش چنیں یا تو بہ کن صورت گری اب یہ بھی یادر ہے کہ بندہ تو حسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اُس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا.اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درودیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اُس کی پوشاک میں اور اُس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا.اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہو اُس کا آپ جواب دیتا ہے.وہ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.وہ اُس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کر لیا ہے.تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جس کی عمر قریباً اسی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آ کر کہا کہ میں نے رات سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ ان کے ایک اور بزرگ تھے اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا.دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا.پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر کے صحن میں نکل آئے اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی اتنے میں مشرق کی طرف سے ایک چمکتا ہو استارہ نکلا تب اس ستارہ کو دیکھ کر سید عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا السلام علیکم اور ایسا ہی ان کے رفیق نے السلام علیکم کہا.اور وہ ستارہ میں تھا.المؤمن يرى ويرى له منه

Page 65

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة المؤمنون شریروں پر جو اُس کو دُکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے.ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء وقدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے.غرض پہلا خریدار اس کے رُوحانی محسن و جمال کا جو حسن معاملہ اور محبت ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے.پس کیا ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج اُن پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں.بعض نادان یہ اعتراض بار بار پیش کرتے ہیں کہ محبوبان الہی کی یہ علامت ہے کہ ہر ایک دُعا اُن کی سُنی جاتی ہے.اور جس میں یہ علامت نہیں پائی جاتی وہ محبو بانِ الہی میں سے نہیں ہے لی.مگر افسوس کہ یہ لوگ منہ سے تو ایک بات نکال لیتے ہیں مگر اعتراض کرنے کے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسے جاہلانہ اعتراض خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر وارد ہوتے ہیں.مثلاً ہر ایک نبی کی یہ مرا تھی کہ تمام کفار ان کے زمانہ کے جوان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں.مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ٦) یعنی ” کیا تو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.“ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوز وگداز سے دُعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لا پروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام ) ! جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوز و گداز اور اپنی رُوح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دُعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پڑ تا ثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دُعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لا پروا اور 66 لہ یادر ہے کہ مومن کے ساتھ خدا تعالیٰ دوستانہ معاملہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کبھی تو وہ مومن کے ارادہ کو پورا کرے اور کبھی مومن اس کے ارادہ پر راضی ہو جائے.پس ایک جگہ تو مومن کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ٢١) یعنی دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا.اس جگہ تو مومن کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے.اور دوسری جگہ اپنی خواہش مومن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وبشر الصبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ ( البقرة ۱۵۶ ، ۱۵۷) افسوس کہ نادان آدمی صرف ایک پہلوکو دیکھتا ہے اور دونوں پہلوؤں پر نظر نہیں ڈالتا.منہ

Page 66

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة المؤمنون گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دُعا قبول نہیں ہوگی اور جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے بارے میں علم دیا ہے وہ یہ ہے کہ دُعا کے قبول ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں ؟ اول.دُعا کرنے والا کامل درجہ پر متقی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقبول وہی بندہ ہوتا ہے جس کا شعار تقویٰ ہو اور جس نے تقویٰ کی باریک راہوں کو مضبوط پکڑا ہو اور جو امین اور متقی اور صادق العہد ہونے کی وجہ سے ا منظور نظر الہی ہو اور محبت ذاتیہ البہیہ سے معمور اور پر ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عقد ہمت اور توجہ اس قدر ہو کہ گویا ایک شخص کے زندہ کرنے کے لئے ہلاک ہو جائے اور ایک شخص کو قبر سے باہر نکالنے کے لئے آپ گور میں داخل ہو.اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے مقبول بندے اس سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک خوبصورت بچہ جو ایک ہی ہو اس کی ماں کو پیارا ہوتا ہے.پس جب کہ خدائے کریم و رحیم دیکھتا ہے کہ ایک مقبول و محبوب اُس کا ایک شخص کی جان بچانے کے لئے روحانی مشقتوں اور تضرعات اور مجاہدات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ قریب ہے کہ اُس کی جان نکل جائے تو اُس کو علاقہ محبت کی وجہ سے ناگوار گزرتا ہے کہ اسی حال میں اُس کو ہلاک کر دے.تب اس کے لئے اس دوسرے شخص کا گناہ بخش دیتا ہے جس کے لئے وہ پکڑا گیا تھا پس اگر وہ کسی مہلک بیماری میں گرفتار ہے یا اور کسی بلا میں اسیر ولا چار ہے تو اپنی قدرت سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے رہائی ہو جائے اور بسا اوقات اُس کا ارادہ ایک شخص کے قطعی طور پر ہلاک کرنے یا بر باد کرنے پر قرار یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک مصیبت زدہ کی خوش قسمتی سے ایسا شخص پر درد تضرعات کے ساتھ درمیان میں آپڑتا ہے جس کو حضرت عزت میں وجاہت ہے تو وہ مثل مقدمہ جو سزا دینے کے لئے مکمل اور مرتب ہو چکی ہے چاک کرنی پڑتی ہے کیونکہ اب بات اغیار سے یار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور یہ کیوں کر ہو سکے کہ خدا اپنے کچے دوستوں کو عذاب دے.۳.تیسری شرط استجابت دعا کے لئے ایک ایسی شرط ہے جو تمام شرطوں سے مشکل تر ہے کیونکہ اس کا پورا کرنا خدا کے مقبول بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس شخص کے ہاتھ میں ہے جو دعا کرانا چاہتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ نہایت صدق اور کامل اعتقاد اور کامل یقین اور کامل ارادت اور کامل غلامی کے ساتھ دُعا کا خواہاں ہو اور یہ دل میں فیصلہ کر لے کہ اگر دُعا قبول بھی نہ ہوتا ہم اس کے اعتقاد اور ارادت میں فرق نہیں آئے گا.اور دعا کرانا آزمائش کے طور پر نہ ہو بلکہ بچے اعتقاد کے طور پر ہو اور نہایت نیازمندی سے اس کے دروازے پر

Page 67

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة المؤمنون گرے اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے مال سے ، خدمت سے، ہر ایک طور کی اطاعت سے ایسا قرب پیدا کرے کہ اس کے دل کے اندر داخل ہو جائے اور با ایں ہمہ نہایت درجہ پر نیک ظن ہو اور اس کو نہایت درجہ کا متقی سمجھے اور اس کی مقدس شان کے برخلاف ایک خیال بھی دل میں لانا کفر خیال کرے اور اس قسم کی طرح طرح کی جاں شاری دکھلا کر بچے اعتقاد کو اس پر ثابت اور روشن کر دے اور اس کی مثل دنیا میں کسی کو بھی نہ سمجھے اور جان سے ، مال سے ، آبرو سے اُس پر فدا ہو جائے.اور کوئی کلمہ کسر شان کا کسی پہلو سے اس کی نسبت زبان پر نہ لائے اور نہ دل میں.اور اس بات کو اس کی نظر میں بپایہ ثبوت پہنچا دے کہ در حقیقت وہ ایسا ہی معتقد اور مرید ہے اور با ایں ہمہ صبر سے انتظار کرے اور اگر پچاس دفعہ بھی اپنے کام میں نامرادر ہے پھر بھی اعتقاد اور یقین میں سُست نہ ہو.کیونکہ یہ قوم سخت نازک دل ہوتی ہے اور اُن کی فراست چہرہ کو دیکھ کر پہچان سکتی ہے کہ یہ شخص کس درجہ کا اخلاص رکھتا ہے اور یہ قوم با وجود نرم دل ہونے کے نہایت بے نیاز ہوتی ہے.اُن کے دل خدا نے ایسے بے نیاز پیدا کئے ہیں کہ متکبر اور خود غرض اور منافق طبع انسان کی کچھ پروا نہیں کرتے.اس قوم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس قدر غلامانہ اطاعت اُن کی اختیار کرتے ہیں کہ گویا مر ہی جاتے ہیں.مگر وہ شخص جو قدم قدم پر بدظنی کرتا ہے اور دل میں کوئی اعتراض رکھتا ہے اور پوری محبت اور ارادت نہیں رکھتا وہ بجائے فائدہ کے ہلاک ہوتا ہے.اب ہم اس تقریر کے بعد کہتے ہیں کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے مومن کے وجود روحانی کے مراتب ستہ بیان کر کے ان کے مقابل پر وجود جسمانی کے مراتب رستہ دکھلائے ہیں یہ ایک علمی معجزہ ہے اور جس قدر کتا بیں دنیا میں کتب سماوی کہلاتی ہیں یا جن حکیموں نے نفس اور الہیات کے بارے میں تحریریں کی ہیں اور یا جن لوگوں نے صوفیوں کی طرز پر معارف کی باتیں لکھی ہیں کسی کا ذہن ان میں سے اس بات کی طرف سبقت نہیں لے گیا کہ یہ مقابلہ جسمانی اور روحانی وجود کا دکھلاتا.اگر کوئی شخص میرے اس دعوے سے منکر ہو اور اس کا گمان ہو کہ یہ مقابلہ روحانی اور جسمانی کسی اور نے بھی دکھلایا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس علمی معجزہ کی نظیر کسی اور کتاب میں سے پیش کر کے دکھلاوے.اور میں نے تو توریت اور انجیل اور ہندوؤں کے وید کو بھی دیکھا ہے.مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قسم کا علمی معجزہ میں نے بجز قرآن شریف کے کسی کتاب میں نہ پایا.اور صرف اس معجزہ پر حصر نہیں بلکہ تمام قرآن شریف ایسے ہی علمی معجزات سے پر ہے جن پر ایک معقل مند نظر ڈال کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ اُسی خدائے قادر مطلق کا کلام ہے جس کی قدرتیں زمین و آسمان کی مصنوعات میں

Page 68

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة المؤمنون ظاہر ہیں.وہی خدا جو اپنی باتوں اور کاموں میں بے مثل و مانند ہے پھر جب ہم ایک طرف ایسے ایسے معجزات قرآن شریف میں پاتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمیت کو دیکھتے ہیں اور اس بات کو اپنے تصور میں لاتے ہیں کہ آپ نے ایک حرف بھی کسی اُستاد سے نہیں پڑھا تھا اور نہ آپ نے طبعی اور فلسفہ سے کچھ حاصل کیا تھا بلکہ آپ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے کہ جوسب کی سب اُمی اور ناخواندہ تھی اور ایک وحشیانہ زندگی رکھتی تھی اور با ایں ہمہ آپ نے والدین کی تربیت کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا.تو ان سب باتوں کو مجموعی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر ایک ایسی چمکتی ہوئی بصیرت ہمیں ملتی ہے اور اس کا علمی معجزہ ہونا ایسے یقین کے ساتھ ہمارے دل میں بھر جاتا ہے کہ گویا ہم اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے ہیں.غرض جب کہ بدیہی طور پر ثابت ہے کہ سورۃ المؤمنون کی یہ تمام آیات جو ابتدائے سورۃ سے لے کر آیت فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ تک ہیں علمی معجزہ ہیں.پس اس میں کیا شک ہے کہ آیت فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الخلقین علمی معجزہ کی ایک جزو ہے اور بباعث معجزہ کے جزو ہونے کے معجزہ میں داخل ہے اور یہی ثابت کرنا تھا.اور یادر ہے کہ یہ علمی معجزہ مذکورہ بالا ایک ایسی صاف اور کھلی کھلی اور روشن اور بدیہی سچائی ہے کہ اب خدا تعالیٰ کی کلام کی رہبری اور یاد دہانی کے بعد عقل بھی اپنے معقولی علوم میں بہت فخر کے ساتھ اس کو داخل کرنے کے لئے طیار ہے.کیونکہ عند العقل یہ بات ظاہر ہے کہ سب سے پہلے جو ایک سعید الفطرت آدمی کے نفس کو خدا تعالیٰ کی طرف اس کی طلب میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے.وہ خشوع اور انکسار ہے اور خشوع سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے فروتنی اور تواضع اور تضرع کی حالت اختیار کی جائے اور جو اس کے مقابل پر اخلاق رویہ ہیں جیسے تکبر اور تعجب اور ریا اور لا پروائی اور بے نیازی ان سب کو خدا تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دیا جائے اور یہ بات بدیہی ہے کہ جب تک انسان اپنے اخلاق رقیہ کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک اُن اخلاق کے مقابل پر جو اخلاق فاضلہ ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں اُن کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ دوضر ہیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ سورہ بقر کی ابتدا میں اس نے فرما یا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی قرآن شریف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں.یعنی وہ لوگ جو تکبر نہیں کرتے اور خشوع اور انکسار سے خدا تعالیٰ کے کلام میں غور کرتے ہیں وہی ہیں جو آخر کو ہدایت پاتے

Page 69

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۷ سورة المؤمنون ہیں.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ان آیات میں چھ جگہ افتح کا لفظ ہے.پہلی آیت میں صریح طور پر جیسا کہ فرمایا ہے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ اور بعد کی آیتوں میں عطف کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے.اور آفاح کے لغت میں یہ معنے ہیں اصير إلى الفلاح یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا.پس ان معنوں کی رُو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے جس کے ساتھ تکبر اور تحجب وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے.اور اس میں فوز مرام یہ ہے کہ انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدائے تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعد اور طیار ہو جاتا ہے.دوسرا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوت ایمانی پہنچتی ہے اور پہلے کی نسبت ایمان کچھ قومی ہو جاتا ہے عقلِ سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے کیونکہ جب تک مومن یہ ادنی قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذت ہے اُس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دست بردار ہو سکے جن سے دست بردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذت ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ پہلے درجہ کے بعد کہ ترک تکبیر ہے دوسرا درجہ ترک لغویات ہے.اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ افلح سے کیا گیا ہے یعنی فوز مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغو شغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے.پھر تیسرا کام مومن کا جس سے تیسرے درجے تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف لغو کاموں اور لغو باتوں کو ہی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا عزیز مال بھی خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے.اور ظاہر ہے کہ لغو کاموں کے چھوڑنے کی نسبت مال کا چھوڑ نانفس پر زیادہ بھاری ہے کیونکہ وہ محنت سے کمایا ہوا اور ایک کارآمد چیز ہوتی ہے.جس پر خوش زندگی اور آرام کا مدار ہے اس لئے مال کا خدا کے لئے چھوڑ نا بہ نسبت لغو کاموں کے چھوڑنے کے قوت ایمانی کو زیادہ چاہتا ہے اور لفظ افتح کا جو آیات میں وعدہ ہے اس کے اس جگہ یہ معنی ہوں گے کہ دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوت ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے اور نفس کی پاکیزگی اس سے پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے ہاتھ سے اپنا محنت

Page 70

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸ سورة المؤمنون سے کمایا ہوا مال محض خدا کے خوف سے نکالنا بجر نفس کی پاکیزگی کے ممکن نہیں.پھر چوتھا کام مومن کا جس سے چوتھے درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے معقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ترک نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جس سے وہ مال سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے یعنی شہوات نفسانیہ اُن کا وہ حصہ جو حرام کے طور پر ہے چھوڑ دیتا ہے ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنی شہوات نفسانیہ کو طبعاً مال سے عزیز تر سمجھتا ہے اور مال کو ان کی راہ میں فدا کرتا ہے.پس بلا شبہ مال کے چھوڑنے سے خدا کے لئے شہوات کو چھوڑنا بہت بھاری ہے اور لفظ افلح جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اُس کے اس جگہ یہ معنی ہیں کہ جیسے شہوات نفسانیہ سے انسان کو طبعاً شدید تعلق ہوتا ہے ایسا ہی ان کے چھوڑنے کے بعد وہی شدید تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے.کیونکہ جو شخص کوئی چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں کھوتا ہے اُس سے بہتر پالیتا ہے.لطف او ترک طالبان نه کند کس به کار رهش زیان نه کند ہر که آن راه جست یافته است تافت آن رو که سرنتافته است پھر پانچواں کام مومن کا جس سے پانچویں درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عند العقل یہ ہے کہ صرف ترک شہوات نفس ہی نہ کرے بلکہ خدا کی راہ میں خود نفس کو ہی ترک کر دے اور اس کے فدا کرنے پر طیار رہے.یعنی نفس جو خدا کی امانت ہے اسی مالک کو واپس دے دے اور نفس سے صرف اس قدر تعلق رکھے جیسا کہ ایک امانت سے تعلق ہوتا ہے اور دقائق تقویٰ ایسے طور پر پوری کرے کہ گویا اپنے نفس اور مال اور تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں وقف کر چکا ہے.اسی طرف یہ آیت اشارہ فرماتی ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رعُونَ پس جبکہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہذا ترک نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے یہ قربانی ادا کر دے اور دوسرے یہ کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں اُن سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجالا وے کہ 159 ے جیسا کہ نفس خدا تعالی کی امانت ہے ایسا ہی مال بھی خدا تعالی کی امانت ہے.پس جو شخص صرف اپنے مال میں سے زکوۃ دیتا ہے وہ مال کو اپنا مال سمجھتا ہے مگر جو شخص مال کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے وہ اپنے تمام مال کو خدا تعالیٰ کا مال جانتا ہے اور ہر ایک وقت خدا کی راہ میں دیتا ہے گوگوئی زکوۃ اس پر واجب نہ ہو.منہ

Page 71

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة المؤمنون وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائق تقوی کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے.اور لفظ أفلح کا جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے اس جگہ یہ معنے ہیں کہ جب اس درجہ کا مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں بذل نفس کرتا ہے اور تمام دقائق تقومی بجالاتا ہے.تب حضرت احدیت سے انوار الہیہ اُس کے وجود پر محیط ہو کر روحانی خوبصورتی اُس کو بخشتے ہیں جیسے کہ گوشت ہڈیوں پر چڑھ کر ان کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ان دونوں حالتوں کا نام خدا تعالیٰ نے لباس ہی رکھا ہے.تقویٰ کا نام بھی لباس ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لباس التقوی اور جو گوشت ہڈیوں پر چڑھتا ہے وہ بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَكَسَوْنَا العِظم لَحْماً کیونکہ گسوت جس سے گسونا کا لفظ نکلا ہے لباس کو ہی کہتے ہیں.اب یادر ہے کہ منتہا سلوک کا پنجم درجہ ہے.اور جب پنجم درجہ کی حالت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد چھٹا درجہ ہے جو محض ایک موہبت کے طور پر ہے اور جو بغیر کسب اور کوشش کے مومن کو عطا ہوتا ہے اور کسب کا اس میں ذرہ دخل نہیں.اور وہ یہ ہے کہ جیسے مومن خدا کی راہ میں اپنی رُوح کھوتا ہے ایک رُوح اس کو عطا کی جاتی ہے.کیونکہ ابتدا سے یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ کھوئے گاوہ اُسے پائے گا.اس لئے رُوح کو کھونے والے رُوح کو پاتے ہیں.پس چونکہ مومن اپنی محبت ذاتیہ سے خدا کی راہ میں اپنی جان وقف کرتا ہے اس لئے خدا کی محبت ذاتیہ کی روح کو پاتا ہے جس کے ساتھ رُوح القدس شامل ہوتا ہے.خدا کی محبت ذاتیہ ایک رُوح ہے اور روح کا کام مومن کے اندر کرتی ہے اس لئے وہ خود رُوح ہے اور رُوح القدس اس سے جدا نہیں.کیونکہ اس محبت اور رُوح القدس میں کبھی انفکاک ہو ہی نہیں سکتا.اسی وجہ سے ہم نے اکثر جگہ صرف محبت ذاتیہ الہیہ کا ذکر کیا ہے اور رُوح القدس کا نام نہیں لیا کیونکہ ان کا باہم تلازم ہے اور جب رُوح کسی مومن پر نازل ہوتی ہے تو تمام بوجھ عبادات کا اس کے سر پر سے ساقط ہو جاتا ہے اور اُس میں ایک ایسی قوت اور لذت آجاتی ہے جو وہ قوت تکلف سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے یاد الہی اُس سے کراتی ہے اور عاشقانہ جوش اُس کو بخشتی ہے.پس ایسا مومن جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہر وقت آستانہ الہی کے آگے حاضر رہتا ہے اور حضرت عزت کی دائی ہمسائیگی اس کے نصیب ہو جاتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس درجہ کے بارے میں فرماتا ہے وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ یعنی مومن کامل وہ لوگ ہیں کہ ایسا دائگی حضور اُن کو میسر آتا ہے کہ ہمیشہ وہ اپنی نماز کے آپ نگہبان رہتے ہیں.یہ اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ اس درجہ کا مومن اپنی روحانی بقا کے لئے نماز کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہے اور اس کو اپنی غذا قرار دیتا

Page 72

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰ سورة المؤمنون ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتا.یہ درجہ بغیر اس رُوح کے حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن پر نازل ہوتی ہے کیونکہ جب کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو ترک کر دیتا ہے تو ایک دوسری جان پانے کا مستحق ہوتا ہے.اس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ یہ مراتب ستہ عقلِ سلیم کے نزدیک اُس مومن کی راہ میں پڑے ہیں جو اپنے وجو د روحانی کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہر ایک انسان تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ضرور مومن پر اس کے سلوک کے وقت چھ حالتیں آتی ہیں.وجہ یہ کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ سے کامل تعلق نہیں پکڑتا تب تک اُس کا نفس ناقص پانچ خراب حالتوں سے پیار کرتا ہے اور ہر ایک حالت کا پیار دُور کرنے کے لئے ایک ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس پیار پر غالب آ جائے.اور نیا پیار پہلے پیار کا علاقہ توڑ دے.چنانچہ پہلی حالت جس سے وہ پیار کرتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک غفلت میں پڑا ہوتا ہے اور اس کو بالکل خدا تعالیٰ سے بعد اور ڈوری ہوتی ہے اور نفس ایک کفر کے رنگ میں ہوتا ہے اور غفلت کے پردے تکبر اور لا پروائی اور سنگدلی کی طرف اس کو کھینچتے ہیں اور خشوع اور خضوع اور تواضع اور فروتنی اور انکسار کا نام ونشان اس میں نہیں ہوتا اور اسی اپنی حالت سے وہ محبت کرتا ہے اور اس کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اور پھر جب عنایت الہیہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہے تو کسی واقعہ کے پیدا ہونے سے یا کسی آفت کے نازل ہونے سے خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا اس کے دل پر اثر پڑتا ہے اور اس اثر سے اُس پر ایک حالت خشوع پیدا ہو جاتی ہے جو اُس کے تکبر اور گردن کشی اور غفلت کی عادت کو کالعدم کر دیتی ہے اور اس سے علاقہ محبت توڑ دیتی ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر وقت دنیا میں مشاہدہ میں آتی رہتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ جب ہیبت الہی کا تازیانہ کسی خوفناک لباس میں نازل ہوتا ہے تو بڑے بڑے شریروں کی گردن جھکا دیتا ہے اور خواب غفلت سے جگا کر خشوع اور خضوع کی حالت بنا دیتا ہے یہ وہ پہلا مرتبہ رجوع الی اللہ کا ہے جو عظمت اور ہیبت الہی کے مشاہدہ کے بعد یا کسی اور طور سے ایک سعید الفطرت کو حاصل ہو جاتا ہے اور گو وہ پہلے اپنی غافلانہ اور بے قید زندگی سے محبت ہی رکھتا تھا.مگر جب مخالف اثر اُس پہلے اثر سے قومی تر پیدا ہوتا ہے تو اس حالت کو بہر حال چھوڑنا پڑتا ہے.پھر اس کے بعد دوسری حالت یہ ہے کہ ایسے مومن کو خدا تعالی کی طرف کچھ رجوع تو ہوجاتا ہے مگر اس

Page 73

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة المؤمنون رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ اُنس اور محبت رکھتا ہے.ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں.لیکن دوسری طرف لغوحرکات بھی اس کے لازم حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو جلسیں اور لغو منی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار رہتا ہے.گویا وہ دو رنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چوں بخلوت می روند آن کار دیگر می کنند پھر جب عنایت الہیہ اس کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تو پھر ایک اور جلوہ عظمت اور ہیبت اور جبروت الہی کا اُس کے دل پر نازل ہوتا ہے جو پہلے جلوہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور قوت ایمانی اُس سے تیز ہو جاتی ہے اور ایک آگ کی طرح مومن کے دل پر پڑ کر تمام خیالات لغو اس کے ایک دم میں بھسم کر دیتی ہے.اور یہ جلوہ عظمت اور جبروت الہی کا اس قدر حضرت عزت کی محبت اُس کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ لغو کاموں اور لغو شغلوں کی محبت پر غالب آجاتا ہے اور ان کو دفع اور دُور کر کے اُن کی جگہ لے لیتا ہے.اور تمام بیہودہ شغلوں سے دل کوسر د کر دیتا ہے تب لغو کاموں سے دل کو ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے.پھر لغوشغلوں اور لغو کاموں کے دُور ہونے کے بعد ایک تیسری خراب حالت مومن میں باقی رہ جاتی ہے جس سے وہ دوسری حالت کی نسبت بہت محبت رکھتا ہے یعنی طبعاً مال کی محبت اس کے دل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اور آرام کا مدار مال کو ہی سمجھتا ہے اور نیز اس کے حاصل ہونے کا ذریعہ صرف اپنی محنت اور مشقت خیال کرتا ہے.پس اس وجہ سے اس پر خدا تعالیٰ کی راہ میں مال کا چھوڑ نا بہت بھاری اور تلخ ہوتا ہے.پھر جب عنایت الہیہ اس ورطۂ عظیمہ سے اُس کو نکالنا چاہتی ہے تو رازقیت الہیہ کا علم اُس کو عطا کیا جاتا ہے اور تو گل کا بیچ اُس میں بویا جاتا ہے اور ساتھ اس کے بیت الہیہ بھی کام کرتی ہے اور دونوں تجلیات جمالی اور جلالی اُس کے دل کو اپنے قابو میں لے آتی ہیں.تب مال کی محبت بھی دل میں سے بھاگ جاتی ہے اور مال دینے والے کی محبت کا تخم دل میں بویا جاتا ہے اور ایمان قوی کیا جاتا ہے.اور یہ قوت ایمانی درجہ سوم کی قوت سے بڑھ کر ہوتی ہے.کیونکہ اس جگہ مومن صرف لغو باتوں کو ہی ترک نہیں کرتا بلکہ اس مال کو ترک کرتا ہے جس پر اپنی خوش زندگی کا سارا مدار سمجھتا ہے.اور اگر اس کے ایمان کو قوت تو گل عطانہ کی جاتی اور رازق حقیقی کی طرف آنکھ کا دروازہ نہ کھولا جاتا تو ہر گز ممکن نہ تھا کہ بخل کی بیماری دور ہوسکتی.پس یہ قوت ایمانی نہ صرف

Page 74

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۲ سورة المؤمنون لغو کاموں سے چھڑاتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے رازق ہونے پر ایک قومی ایمان پیدا کر دیتی ہے.اور نور توکل دل میں ڈال دیتی ہے.تب مال جو ایک پارہ جگر سمجھا جاتا ہے بہت آسانی اور شرح صدر سے مومن اس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اور وہ ضعف جو بخل کی حالت میں نومیدی سے پیدا ہوتا ہے.اب خدا تعالیٰ پر بہت سی امید میں ہو کر وہ تمام ضعف جاتا رہتا ہے.اور مال دینے والے کی محبت مال کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے.پھر بعد اس کے چوتھی حالت ہے جس سے نفس امارہ بہت ہی پیار کرتا ہے اور جو تیسری حالت سے بدتر ہے کیونکہ تیسری حالت میں تو صرف مال کا اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے.مگر چوتھی حالت میں نفس انارہ کی شہوات محرمہ کو چھوڑنا ہے.اور ظاہر ہے کہ مال کا چھوڑنا بہ نسبت شہوات کے چھوڑنے کے انسان پر طبعا سہل ہوتا ہے.اس لئے یہ حالت بہ نسبت حالات گذشتہ کے بہت شدید اور خطرناک ہے اور فطرتا انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جواُس کے نزدیک مدارِ آسائش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے.اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْ لَا اَنْ رَّابُرُهَانَ رَبِّهِ (یوسف :۲۵) یعنی یہ ایسا منہ زور جوش ہے جو اس کا فرو ہونا کسی بر بانِ قومی کا محتاج ہے.پس ظاہر ہے کہ درجہ چہارم پر قوت ایمانی : بہ نسبت درجہ سوم کے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا مشاہدہ بھی پہلے کی نسبت اُس میں زیادہ ہوتا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ یہ بھی اس میں نہایت ضروری ہے کہ جس لذت ممنوعہ کو دور کیا گیا ہے اس کے عوض میں روحانی طور پر کوئی لذت بھی حاصل ہو.اور جیسا کہ بخل کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالی کی رازقیت پر قومی ایمان درکار ہے.اور خالی جیب ہونے کی حالت میں ایک قومی تو گل کی ضرورت ہے تا بخل بھی دُور ہو اور غیبی فتوح پر اُمید بھی پیدا ہو جائے.ایسا ہی شہوات نا پاک نفسانیہ کے دُور کرنے کے لئے اور آتش شہوت سے مخلصی پانے کے لئے اس آگ کے وجود پر قومی ایمان ضروری ہے جو جسم اور روح دونوں کو عذاب شدید میں ڈالتی ہے اور نیز ساتھ اس کے اُس رُوحانی لذت کی ضرورت ہے جو ان کثیف لذتوں سے بے نیاز اور مستغنی کر دیتی ہے.جو شخص شہوات نفسانی محترمہ کے پنجہ میں اسیر ہے وہ ایک اثر دہا کے منہ میں ہے جو نہایت خطرناک زہر رکھتا ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ جیسا کہ لغو حرکات کی بیماری سے بخل کی بیماری بڑھ کر ہے اسی طرح بخل کی بیماری کے مقابل پر شہوات نفسانیہ محترمہ کے پنجہ میں

Page 75

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة المؤمنون اسیر ہونا سب بلاؤں سے زیادہ بلا ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک خاص رحم کی محتاج ہے اور جب خدا تعالیٰ کسی کو اس بلا سے نجات دینا چاہتا ہے تو اپنی عظمت اور ہیبت اور جبروت کی ایسی تجلی اس پر کرتا ہے جس سے شہوات نفسانیہ محترمہ پارہ پارہ ہو جاتی ہیں اور پھر جمالی رنگ میں اپنی لطیف محبت کا ذوق اس کے دل میں ڈالتا ہے اور جس طرح شیر خوار بچہ دودھ چھوڑنے کے بعد صرف ایک رات تلخی میں گزارتا ہے بعد اس کے اس دودھ کو ایسا فراموش کر دیتا ہے کہ چھاتیوں کے سامنے بھی اگر اس کے منہ کو رکھا جائے تب بھی دودھ پینے سے نفرت کرتا ہے.یہی نفرت شہوات محترمہ نفسانیہ سے اُس راستباز کو ہو جاتی ہے جس کو نفسانی دودھ چھڑا کر ایک روحانی غذا اس کے عوض میں دی جاتی ہے.پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفس اتارہ کو ہے.کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ حضرت عربات جل شانہ کے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کر لیں اور اُس پر اپنا پورا تصرف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سلسلہ کو درہم برہم کر دیں.اور نفسانی قومی کے قریہ کو ویران کر دیں.اور اس کے نمبر داروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں.اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے.اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَةً وَ كَذلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل : ۳۵) اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اُس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے.اور انسانی کوششیں اپنے آخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں.پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے.اور یہ پانچویں حالت چوتھی حالت سے مشکل تر ہے کیونکہ چوتھی حالت میں تو صرف مومن کا کام یہ ہے کہ شہوات محترمہ نفسانیہ کو ترک کرے مگر پانچویں حالت میں مومن کا کام یہ ہے کہ نفس کو بھی ترک کر دے اور اس کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر خدا تعالیٰ کی طرف واپس کرے اور خدا کے کاموں میں اپنے نفس کو وقف کر کے اس سے خدمت لے اور خدا کی راہ میں بذل نفس کرنے کا ارادہ رکھے اور اپنے نفس کی نفی وجود کے لئے کوشش کرے.کیونکہ جب تک نفس کا وجود باقی ہے گناہ کرنے کے لئے جذبات بھی باقی ہیں جو تقویٰ کے برخلاف ہیں.اور نیز جب تک وجود نفس باقی ہے ممکن نہیں کہ انسان تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مار سکے یا پورے طور پر خدا کی امانتوں اور عہدوں یا مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کو ادا کر سکے.لیکن جیسا کہ بخل

Page 76

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۴ سورة المؤمنون بغیر توکل اور خدا کی رازقیت پر ایمان لانے کے ترک نہیں ہوسکتا اور شہوات نفسانی محرمہ بغیر استیلاء ہیبت اور عظمت الہی اور لذات روحانیہ کے چھوٹ نہیں سکتیں ایسا ہی یہ مرتبہ عظمی کہ ترک نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالی کی اس کو واپس دی جائیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک تیز آندھی عشق الہی کی چل کر کسی کو اس کی راہ میں دیوانہ نہ بنا دے.یہ تو درحقیقت عشق الہی کے مستوں اور دیوانوں کے کام ہیں دنیا کے عقلمندوں کے کام نہیں آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعه فال بنام من دیوانه زدند اسی کی طرف اللہ تعالی اشارہ فرماتا ہے إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : ۷۳ ) ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیئے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا.پس سب نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھالیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا.یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا.اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے.اور اس پانچویں مرتبہ کے لئے یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمْلَتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے.یہ اس امانت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قومی اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں پیروں کی قوت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اُس نے دی ہیں اور جس وقت وہ چاہے اپنی امانتوں کو واپس لے سکتا ہے.پس ان تمام امانتوں کا رعایت رکھنا یہ ہے کہ بار یک دربار یک تقویٰ کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اُس کے تمام قومی اور جسم اور اس کے تمام قومی اور جوارح کو لگایا جائے اِس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اُس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں اور اُس کی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قومی اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اُن میں کام کرے اور خدا تعالیٰ

Page 77

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة المؤمنون کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مُردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اور یہ خود رائی سے بے دخل ہو اور خدا تعالیٰ کا پورا تصرف اس کے وجود پر ہو جائے یہاں تک کہ اُسی سے دیکھے اور اُسی سے سنے اور اُسی سے بولے اور اُسی سے حرکت یا سکون کرے اور نفس کی دقیق در دقیق آلائشیں جو کسی خوردبین سے بھی نظر نہیں آسکتیں دُور ہو کر فقط روح رہ جائے.غرض مہیمنت خدا کی اس پر احاطہ کر لے اور اپنے وجود سے اس کو کھو دے اور اُس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے اور نفسانی جوش سب مفقود ہو جا ئیں اور الوہیت کے ارادے اُس کے وجود میں جوش زن ہو جائیں.پہلی حکومت بالکل اُٹھ جائے اور دوسری حکومت دل میں قائم ہو اور نفسانیت کا گھر ویران ہو اور اُس جگہ پر حضرت عزت کے خیمے لگائے جائیں اور ہیبت اور جبروت الہی تمام ان پودوں کو جن کی آب پاشی گندے چشمہ نفس سے ہوتی تھی اس پلید جگہ سے اکھیڑ کر رضا جوئی حضرت علات کی پاک زمین میں لگا دئے جائیں اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں اور نفس امارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہیر کا دل میں طیار کیا جاوے جس میں حضرت عزبات نازل ہو سکے اور اس کی روح اس میں آباد ہو سکے اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں.تب ایسے شخص پر یہ آیت صادق آئے گی وَ الَّذِينَ هُمْ لِأَمْنَتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ اس درجہ پر صرف ایک قالب تیار ہوتا ہے اور تجلی الہی کی رُوح جس سے مراد محبت ذاتیہ حضرت عزت ہے بعد اس کے مع روح القدس ایسے مومن کے اندر داخل ہوتی اور نئی حیات اُس کو بخشتی ہے اور ایک نئی قوت اس کو عطا کی جاتی ہے اور اگر چہ یہ سب کچھ رُوح کے اثر سے ہی ہوتا ہے لیکن ہنوز روح مومن سے صرف ایک تعلق رکھتی ہے اور ابھی مومن کے دل کے اندر آباد نہیں ہوتی.پھر بعد اس کے وجود روحانی کا مرتبہ ششم ہے یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومن کی محبت ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جل شانہ کی محبت ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالب بے جان میں رُوح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہو کر در حقیقت ایک رُوح کا کام کرتی ہے.تمام قومی میں اس سے ایک نور پیدا ہوتا ہے.اور رُوح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے 1991

Page 78

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة المؤمنون مومن پر کھولے جاتے ہیں اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظلی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اُس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفتہ اللہ کا لقب پاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش اس کے منہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں.ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفلی و وجود اور ترک نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے.تب ذات الہی کے تمام نقوش اور تمام اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے منہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس منہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلمی طور پر اخلاق اور صفات الہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے اور نکلی طور پر الہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا غیب الغیب ہے اور اپنی ذات میں وراء الوراء ہے ایسا ہی یہ مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے.دنیا اس کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی.کیونکہ وہ دنیا کے دائرہ سے بہت ہی دُور چلا جاتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ خدا جو غیر متبدل اور جی و قیوم ہے وہ مومن کامل کی اُس پاک تبدیلی کے بعد جب کہ مومن خدا کے لئے اپنا وجود بالکل کھو دیتا ہے اور ایک نیا چولا پاک تبدیلی کا پہن کر اُس میں سے اپنا سر نکالتا ہے.تب خدا بھی اس کے لئے اپنی ذات میں ایک تبدیلی کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا کی ازلی ابدی صفات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے.نہیں بلکہ وہ قدیم سے اور ازل سے غیر متبدل ہے.لیکن یہ صرف مومن کامل کے لئے جلوہ قدرت ہوتا ہے اور ایک تبدیلی جس کی ہم گنہ نہیں سمجھ سکتے مومن کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں بھی ظہور میں آجاتی ہے مگر اس طرح پر کہ اُس کی غیر متبدل ذات پر کوئی گرد و غبار حدوث کا نہیں بیٹھتا.وہ اسی طرح غیر متبدل ہوتا ہے جس طرح وہ قدیم سے ہے لیکن یہ تبدیلی جو مومن کی تبدیلی کے وقت ہوتی ہے یہ اس قسم کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مومن خدائے تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو خدا اس کی نسبت تیز حرکت کے ساتھ اُس کی طرف آتا ہے اور ظاہر ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ تبدیلیوں سے پاک ہے ایسا ہی وہ حرکتوں سے بھی پاک ہے.لیکن یہ تمام الفاظ استعارہ کے رنگ میں بولے جاتے ہیں اور بولنے کی اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ تجربہ شہادت دیتا ہے کہ جیسے ایک مومن خدائے تعالیٰ کی راہ میں نیستی اور فنا اور استہلاک کر کے اپنے تئیں ایک نیا وجود بناتا ہے اس کی ان تبدیلیوں کے مقابل پر خدا بھی اس کے لئے ایک نیا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملات

Page 79

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة المؤمنون کرتا ہے جو دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں کرتا.اور اس کو اپنے ملکوت اور اسرار کا وہ سیر کراتا ہے جو دوسرے کو ہر گز نہیں دکھلاتا.اور اس کے لئے وہ کام اپنے ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لئے ایسے کام بھی ظاہر نہیں کرتا.اور اس قدر اس کی نصرت اور مدد کرتا ہے کہ لوگوں کو تعجب میں ڈالتا ہے.اس کے لئے خوارق دکھلاتا ہے اور معجزات ظاہر کرتا اور ہر ایک پہلو سے اس کو غالب کر دیتا ہے اور اس کی ذات میں ایک قوت کشش رکھ دیتا ہے جس سے ایک جہان اُس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور وہی باقی رہ جاتے ہیں جن پر شقاوت از لی غالب ہے.پس ان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ مومن کامل کی پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ بھی ایک نئی صورت کی تجلی سے اُس پر ظاہر ہوتا ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے انسان کو اپنے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کرے تو اُسی دن سے بلکہ اُسی گھڑی سے بلکہ اُسی دم سے خدا تعالیٰ کا رجوع اُس کی طرف شروع ہو جاتا ہے.اور وہ اُس کا متولی اور متکلفل اور حامی اور ناصر بن جاتا ہے.اور اگر ایک طرف تمام دنیا ہو اور ایک طرف مومن کامل تو آخر غلبہ اُسی کو ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنی محبت میں صادق ہے اور اپنے وعدوں میں پورا.وہ اس کو جو در حقیقت اُس کا ہو جاتا ہے ہر گز ضائع نہیں کرتا.ایسا مومن آگ میں ڈالا جاتا ہے اور گلزار میں سے نکلتا ہے.وہ ایک گرداب میں دھکیل دیا جاتا ہے اور ایک خوشنما باغ میں سے نمودار ہو جاتا ہے.دشمن اس کے لئے بہت منصو بے کرتے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.لیکن خدا ان کے تمام مکروں اور منصوبوں کو پاش پاش کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر قدم کے ساتھ ہوتا ہے.اس لئے آخر اس کی ذلت چاہنے والے ذلت کی مار سے مرتے ہیں اور نا مرادی اُن کا انجام ہوتا ہے.لیکن وہ جو اپنے تمام دل اور تمام جان اور تمام ہمت کے ساتھ خدا کا ہو گیا ہے وہ نامراد ہرگز نہیں مرتا اور اُس کی عمر میں برکت دی جاتی ہے اور ضرور ہے کہ وہ جیتا ر ہے جب تک اپنے کاموں کو پورا کر لے.تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضا جوئی میں اور تمام خدا کی رضا جوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں.یہیں موت ہے جس کے بعد زندگی ہے مبارک وہ جو اس زندگی میں سے حصہ لے.اب واضح ہو کہ جہاں تک ہم نے سورۃ المؤمنون کی آیات مروحہ بالا کے معجزہ ہونے کی نسبت لکھنا تھا وہ سب ہم لکھ چکے اور بخوبی ثابت کر چکے کہ سورۃ موصوفہ کی ابتدا میں مومن کے وجود روحانی کے چھ مراتب قرار دیتے ہیں اور مرتبہ ششم خلق آخر کا رکھا ہے.یہی مراتب ستیہ سورۃ موصوفہ بالا میں جسمانی پیدائش کے بارہ.

Page 80

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة المؤمنون میں بعد ذکر پیدائش روحانی بیان فرمائے گئے ہیں.اور یہ ایک علمی اعجاز ہے.اور یہ علمی نکتہ قرآن شریف سے پہلے کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے.پس ان آیات کا آخری حصہ یعنی فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ بلا شبہ ایک علمی معجزہ کی جڑ ہے کیونکہ وہ ایک اعجازی موقعہ پر چسپاں کیا گیا ہے.اور انسان کے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ اپنے بیان میں ایسی اعجازی صورت پیدا کرے اور پھر اس پر آیت فَتَبَرَكَ اللَّهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ چسپاں کرے.اور اگر کوئی کہے کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ آیات مذکورہ بالا میں جو مقابلہ انسان کے مراتب پیدائش روحانی اور پیدائش جسمانی میں دکھلایا گیا ہے وہ علمی معجزہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی انسان اس کے مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے یا گذشتہ زمانہ میں قادر نہ ہو سکا ہو اور نہ بعد میں قادر ہونے کا ثبوت ہو.پس ہم دعوئی سے کہتے ہیں کہ یہ بیان انسانی پیدائش کی دقیق فلاسفی کا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یہ ایک ایسا بے مثل و مانند بیان ہے کہ اس کی نظیر پہلے اس سے کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی.نہ اس زمانہ میں ہم نے سنا کہ کسی ایسے شخص کو جو قرآن شریف کا علم نہیں رکھتا اس فلاسفی کے بیان کرنے میں قرآن شریف سے تو ارد ہوا ہو.اور جب کہ قرآن شریف اپنے جمیع معارف اور نشانوں اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہونے کا دعوی کرتا ہے اور یہ آیات قرآن شریف کا ایک حصہ ہیں جو دعویٰ اعجاز میں داخل ہے پس اس کا بے مثل و مانند ثابت ہونا با وجود دعوی اعجاز اور طلب مقابلہ کے بلاشبہ معجزہ ہے.(برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۸۵ تا ۲۴۴) جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اس کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا.تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے.قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ في صلاتهم لخشِعُونَ یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانہ الوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں جیسے لکھا ہے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں اسی لئے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یہاں لغو سے مراد دنیا ہے یعنی

Page 81

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة المؤمنون جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حاصل ہونے لگ جاتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ پھر وہ کاشتکاری ،تجارت، نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعرض کرنے لگ جاتا ہے اور ایسے لوگوں کی گریہ وزاری اور تضرع اور ابتہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت، حرص، لالچ اور عیش و عشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک نیک فعل دوسرے نیک فعل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ایک بدفعل دوسرے بد فعل کو ترغیب دیتا ہے جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبعاً وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں اور اس گندی دنیا سے نجات پا جاتے ہیں اور اس دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو کر خدا کی محبت ان میں پیدا ہو جاتی ہے جس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ هُم لِلزَّكوة فعِلُونَ یعنی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ ایک نتیجہ ہے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کا.کیونکہ جب دنیا سے محبت ٹھنڈی ہو جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کریں گے اور خواہ قاروں کے خزانے بھی ایسے لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ پرواہ نہیں کریں گے اور خدا کی راہ میں دینے سے نہیں جھجکیں گے.ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ زکوۃ نہیں دیتے یہاں تک کہ ان کی قوم کے بہت سے غریب اور مفلس آدمی تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں مگر وہ ان کی پرواہ بھی نہیں کرتے حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک چیز پر زکوۃ دینے کا حکم ہے یہاں تک کہ زیور پر بھی.ہاں جواہرات وغیرہ چیزوں پر نہیں.اور جو امیر ، نواب اور دولت مند لوگ ہوتے ہیں ان کو حکم ہے کہ وہ شرعی احکام کے بموجب اپنے خزانوں کا حساب کر کے زکوۃ دیں لیکن وہ نہیں دیتے اس لئے خدا فرماتا ہے کہ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کی حالت تو ان میں جب پیدا ہوگی جب وہ زکوۃ بھی دیں گے گویا ز کوۃ کا دینا لغو سے اعراض کرنے کا ایک نتیجہ ہے..پھر اس کے بعد وَ الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حفظون فرما یا یعنی جب وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کریں گے.لغو سے اعراض کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں گے کیونکہ جب ایک شخص دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ کسی اور کے مال کو ناجائز طریقہ سے کب حاصل کرنا چاہتا ہے اور کب چاہتا ہے کہ میں کسی دوسرے کے حقوق کو دبالوں اور جب وہ مال جیسی عزیز چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا

Page 82

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون تو پھر آنکھ، ناک، کان زبان وغیرہ کو غیر محل پر کب استعمال کرنے لگا کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب ایک شخص اول درجہ کی نیکیوں کی نسبت اس قدر محتاط ہوتا ہے تو ادنی درجہ کی نیکیاں خود بخود عمل میں آتی جاتی ہیں.مثلاً جب خشوع خضوع سے دعا مانگنے لگا تو پھر اس کے ساتھ ہی لغو سے بھی اعراض کرنا پڑا اور جب لغو سے اعراض کیا تو پھر زکوۃ کے ادا کرنے میں دلیر ہونے لگا اور جب اپنے مال کی نسبت وہ اس قدر محتاط ہو گیا تو پھر غیروں کے حقوق چھیننے سے بدرجہ اولی بچنے لگا اس لئے اس کے آگے فرمایا وَ الَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رعُونَ کیونکہ جو شخص دوسرے کے حق میں دست اندازی نہیں کرتا اور جو حقوق اس کے ذمہ ہیں ان کو ادا کرتا ہے اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے عہدوں کا پکا ہو اور دوسرے کی امانتوں میں خیانت کرنے سے بچنے والا ہو اس لئے بطور نتیجہ کے فرمایا کہ جب ان لوگوں میں یہ وصف پائے جاتے ہوں تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ اپنے عہدوں کے بھی پکے ہوں گے.پھر ان سب باتوں کے بعد فرمایا وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ یعنی ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کبھی ناغہ نہیں کرتے اور انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے جیسے فرمایا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ الا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۴) وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی ایماندار وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں سے پر ہیز کرتے ہیں اور اپنا وقت بیہودہ کاموں میں نہیں کھوتے.برائین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۶۱،۴۶۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے.مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۶ ) (احکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷ارنومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۹) ایک اور اعتراض ہے جو بعض نا واقف آریہ پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (یونس : ۴) یعنی خدا نے جو تمہارا رب ہے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں بنایا اور پھر عرش پر ٹھہرا یہ چھ دن کی کیوں تخصیص ہے یہ تو تسلیم کیا کہ خدا تعالیٰ کے کام اکثر تدریجی ہیں جیسا کہ اب بھی اس کی خالقیت جو جمادات اور نباتات اور حیوانات میں اپنا کام کر رہی ہے تدریجی طور پر ہی ہر ایک چیز کو اس کی خلقت کاملہ تک پہنچاتی ہے لیکن چھ

Page 83

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة المؤمنون دن کی تخصیص کچھ سمجھ میں نہیں آتی.اما الجواب پس واضح ہو کہ یہ چھ دن کا ذکر در حقیقت مراتب تکوینی کی طرف اشارہ ہے یعنی ہر یک چیز جو بطور خلق صادر ہوئی ہے اور جسم اور جسمانی ہے خواہ وہ مجموعہ عالم ہے اور خواہ ایک فرد از افراد عالم اور خواہ وہ عالم کبیر ہے جو زمین و آسمان و مافیہا سے مراد ہے اور خواہ وہ عالم صغیر جو انسان سے مراد ہے وہ بحکمت و قدرت باری تعالیٰ پیدائش کے چھ مرتبے طے کر کے اپنے کمال خلقت کو پہنچتی ہے اور یہ عام قانون قدرت ہے کچھ ابتدائی زمانہ سے خاص نہیں چنانچہ اللہ جل شانہ ہر ایک انسان کی پیدائش کی نسبت بھی انہیں مراتب ستہ کا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ قران کریم کے اٹھارویں سیپارے سورۃ المؤمنون میں یہ آیت ہے وَ لَقَد خَلَقْنَا الإِنْسَانَ مِن سُللَةٍ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِين ، ثم خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظمَ لَحْمًا ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ ، یعنی پہلے تو ہم نے انسان کو اس مٹی سے پیدا کیا جوز مین کے تمام انواع اور اقسام کا لب لباب تھا اور اس کی تمام قو تیں اپنے اندر رکھتا تھا تاوہ باعتبار جسم بھی عالم صغیر ٹھہرے اور زمین کی تمام چیزوں کی اس میں قوت اور خاصیت ہو جیسا کہ وہ بر طبق آیت فَإِذَا سَوَيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي ( الحجر :٣٠) باعتبار روح عالم صغیر ہے اور بلحاظ شیون وصفات کا ملہ وظلیت تام روح الہی کا مظہر نام ہے.پھر بعد اس کے انسان کو ہم نے دوسرے طور پر پیدا کرنے کے لئے یہ طریق جاری کیا جو انسان کے اندر نطفہ پیدا کیا اور اس نطفہ کو ہم نے ایک مضبوط تھیلی میں جو ساتھ ہی رحم میں بنتے جاتے ہی جگہ دی.( قرار مکین کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ تاریم اور تھیلی دونوں پر اطلاق پاسکے ) اور پھر ہم نے نطفہ سے علقہ بنایا اور علاقہ سے مضغہ اور مضغہ کے بعض حصوں میں سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر پوست پیدا کیا پھر اس کو ایک اور پیدائش دی یعنی روح اس میں ڈال دی.پس کیا ہی مبارک ہے وہ خدا جو اپنی صنعت کاری میں تمام صناعوں سے بلحاظ حسن صنعت و کمال عجائبات خلقت بڑا ہوا ہے.اب دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ بھی اپنا قانون قدرت یہی بیان فرمایا کہ انسان چھ طور کے خلقت کے مدارج طے کر کے اپنے کمال انسانیت کو پہنچتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ عالم صغیر اور عالم کبیر میں نہایت شدید تشابہ ہے اور قرآن سے انسان کا عالم صغیر ہونا ثابت ہے اور آیت لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تقویم (التین : ۵) اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ تقویم عالم کی متفرق خوبیوں اور حسنوں کا ایک ایک حصہ.

Page 84

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۲ سورة المؤمنون انسان کو دے کر بوجہ جا معیت جمیع شمائل و شیون عالم اس کو احسن ٹھہرایا گیا ہے پس اب بوجہ تشابہ عالمین اور نیز بوجہ ضرورت تناسب افعال صانع واحد ماننا پڑتا ہے کہ جو عالم صغیر میں مراتب تکوین موجود ہیں وہی مراتب تکوین عالم کبیر میں بھی ملحوظ ہوں اور ہم صریح اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ یہ عالم صغیر جو انسان کے اسم سے موسوم ہے اپنی پیدائش میں چھ طریق رکھتا ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ عالم عالم کبیر کے کوائف مخفیہ کی شناخت کے لئے ایک آئینہ کا حکم رکھتا ہے پس جب کہ اس کی پیدائش کے چھ مرتبے ثابت ہوئے تو قطعی طور پر یہ حکم دے سکتے ہیں کہ عالم کبیر کے بھی مراتب تکوین چھ ہی ہیں جو بلحاظ موثرات سند یعنی تجلیات ستہ جن کے آثار باقیہ نجوم ستہ میں محفوظ رہ گئے ہیں معقولی طور پر متحقق ہوتے ہیں.اور نجوم ستہ کا اب بھی علوم حکمیہ میں جنین کی تکمیل کے لئے تعلق مانا جاتا ہے چنانچہ سدیدی میں اس کے متعلق ایک مبسوط بحث لکھی ہے.بعض نادان اس جگہ اس آیت کی نسبت یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ حال کی طبعی تحقیقاتوں کی رو سے یہ طرز بچہ کے بننے کی جو تم عورت میں بنتا ہے ثابت نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے ثابت ہوتا ہے لیکن یہ اعتراض سخت درجہ کی کم نہی یا صریح تعصب پر مبنی ہے اس بات کے تجربہ کے لئے کسی ڈاکٹر یا طبیب کی حاجت نہیں خود ہر یک انسان اس آزمائش کے لئے وقت خرچ کر کے اور ان بچوں کو دیکھ کر جو تام خلقت یا نا تمام خلقت کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں یا سقوط حمل کے طور پر گرتے ہیں.حقیقت واقعیہ تک پہنچ سکتا ہے اور جیسا کہ ہم اپنے ذاتی مشاہدہ سے جانتے ہیں بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ جب خدا تعالیٰ انسانی نطفہ سے کسی بچہ کو رحم میں بنانے کے لئے ارادہ فرماتا ہے تو پہلے مرد اور عورت کا نطفہ رحم میں ٹھہرتا ہے اور صرف چند روز تک ان دونوں منیوں کے امتزاج سے کچھ تغیر طاری ہو کر جمے ہوئے خون کی طرح ایک چیز ہو جاتی ہے جس پر ایک نرم سی جھلی ہوتی ہے یہ جھلی جیسے جیسے بچہ بڑھتا ہے بڑھتی جاتی ہے یاں تک کہ خاکی رنگ کی ایک تھیلی سی ہو جاتی ہے جو گٹھڑی کی طرح نظر آتی ہے اور اپنی تکمیل خلقت کے دنوں تک بچہ اسی میں ہوتا ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے اَو لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ ( الانبياء : ۳۱) الجز نمبر ے یعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.سو کافروں نے تو آسمان اور زمین بنتا نہیں دیکھا اور نہ ان کی گٹھڑی دیکھی لیکن اس جگہ روحانی

Page 85

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۳ سورة المؤمنون آسمان اور روحانی زمین کی طرف اشارہ ہے جس کی گٹھڑی کفار عرب کے روبرو کھل گئی اور فیضان سماوی زمین پر جاری ہو گئے اب پھر ہم اپنے پہلے کلام کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ ھشتین مرد اور عورت کے جو آپس میں مل جاتے ہیں وہ اول مرتبہ تکوین کا ہے.اور پھر ان میں ایک جوش آ کر وہ مجموعه طفتین جو قوت عاقدہ اور نطقتين منعقدہ اپنے اندر رکھتا ہے سرخی کی طرف مائل ہو جاتا ہے گویا وہ منی جو پہلے خون سے بنی تھی پھر اپنے اصلی رنگ کی طرف جو خونی ہے عود کر آتی ہے یہ دوسرا درجہ ہے پھر وہ خون جما ہواجس کا نام علقہ ہے ایک گوشت کا مضغہ ہو جاتا ہے جو انسانی شکل کا کچھ خاکہ نہایت دقیق طور پر اپنے اندر رکھتا ہے یہ تیسرا درجہ ہے اور اس درجہ پر اگر بچہ ساقط ہو جائے تو اس کے دیکھنے سے غور کی نظر سے کچھ خطوط انسان بننے کے اس میں دکھائی دیتے ہیں چنانچہ اکثر بچے اس حالت میں بھی ساقط ہو جاتے ہیں جن عورتوں کو بھی یہ اتفاق پیش آیا ہے یا دہ داریہ کا کام کرتی ہیں وہ اس حال سے خوب واقف ہیں پھر چوتھا درجہ وہ ہے جب مضغہ سے ہڈیاں بنائی جاتی ہیں جیسا کہ آیت فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا بیان فرما رہی ہے.مگر المضغہ پر جو الف لام ہے وہ تخصیص کے لئے ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تمام مضغہ ہڈی نہیں بن جاتا بلکہ جہاں جہاں ہڈیاں درکار ہیں باز نہ تعالیٰ وہی نرم گوشت کسی قدر صلب ہو کر ہڈی کی صورت بن جاتا ہے اور کسی قدر بدستور نرم گوشت رہتا ہے.اور اس درجہ پر انسانی شکل کا کھلا کھلا خاکہ طیار ہو جاتا ہے جس کے دیکھنے کے لئے کسی خورد بین کی ضرورت نہیں اس خاکہ میں انسان کا اصل وجود جو کچھ بننا چاہئے تھا بن چکتا ہے لیکن وہ ابھی اس لحم سے خالی ہوتا ہے جو انسان کے لئے بطور ایک موٹے اور شاندار اور چمکیلے لباس کے لئے ہے.جس سے انسان کے تمام خط و خال ظاہر ہوتے ہیں اور بدن پر تازگی آتی ہے اور خوبصورتی نمایاں ہو جاتی ہے اور تناسب اعضا پیدا ہوتا ہے پھر بعد اس کے پانچواں درجہ وہ ہے کہ جب اس خاکہ پر تم یعنی موٹا گوشت بر عایت مواضع مناسبہ چڑھایا جاتا ہے یہ وہی گوشت ہے کہ جب انسان تپ وغیرہ سے بیمار رہتا ہے تو فاقہ اور بیماری کی تکالیف شاقہ سے وہ گوشت تحلیل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات انسان ایسی لاغری کی حالت پر پہنچ جاتا ہے جو وہی پانچویں درجہ کا خاکہ یعنی مشت استخوان رہ جاتا ہے جیسے مدقوقوں اور مسلولوں اور اصحاب ذیا بیطس میں مرض کے انتہائی درجہ میں یہ صورت ظاہر ہو جاتی ہے.اور اگر کسی کی حیات مقدر ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے بدن پر گوشت چڑھاتا ہے غرض یہ وہی گوشت ہے جس سے خوبصورتی اور تناسب اعضا اور رونق بدن پیدا ہوتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ گوشت خاکہ طیار ہونے کے بعد آہستہ آہستہ جنین پر چڑھتارہتا ہے.اور

Page 86

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة المؤمنون جب جنین ایک کافی حصہ اس کا لے لیتا ہے.تب باذنہ تعالیٰ اس میں جان پڑ جاتی ہے تب وہ نباتی حالت سے جو صرف نشونما ہے منتقل ہو کر حیوانی حالت کی خاصیت پیدا کر لیتا ہے اور پیٹ میں حرکت کرنے لگتا ہے غرض یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بچہ اپنی نباتی صورت سے حیوانی صورت کو کامل طور پر اس وقت قبول کرتا ہے کہ جب کہ عام طور پر موٹا گوشت اس کے بدن پر مناسب کمی بیشی کے ساتھ چڑھ جاتا ہے یہی بات ہے جس کو آج تک انسان کے مسلسل تجارب اور مشاہدات نے ثابت کیا ہے یہ وہی تمام صورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اور مشاہدات کے ذریعہ سے بتو اثر ثابت ہے پھر اس پر اعتراض کرنا اگر نادانوں کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ اب پھر ہم اپنے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ چونکہ عالم صغیر میں جو انسان ہے سنت اللہ یہی ثابت ہوئی ہے کہ اس کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے تو اسی قانون قدرت کی رہبری سے ہمیں معقولی طور پر یہ راہ ملتی ہے کہ دنیا کی ابتدا میں جو اللہ جل شانہ نے عالم کبیر کو پیدا کیا تو اس کی طرز پیدائش میں بھی یہی مراتب ستہ ملحوظ رکھے ہوں گے اور ہر ایک مرتبہ کو تفریق اور تقسیم کی غرض سے ایک دن یا ایک وقت سے مخصوص کیا ہو گا جیسا کہ انسان کی پیدائش کے مراتب ستہ چھ وقتوں سے خاص ہیں اور دنیا کی تمام قوموں کا سات دنوں پر اتفاق ہونا اور ایک دن تعطیل کا نکال کر چھ دنوں کو کاموں کے لئے خاص کرنا اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چھ دن ان چھ دنوں کی یادگار چلے آتے ہیں کہ جن میں زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں سے بنایا گیا تھا.اور اگر کوئی اب بھی تسلیم نہ کرے اور انکار سے باز نہ آوے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تو عالم کبیر کے لئے عالم صغیر کی پیدائش کے مراتب ستہ کا ثبوت دے دیا اور جو کام کرنے کے دن بالا تفاق ہر ایک قوم میں مسلم ہیں ان کا چھ ہونا بھی ظاہر کر دیا اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کے تمام پیدائشی کام اس دنیا میں تدریجی ہیں تو پھر اگر منکر کی نظر میں یہ دلیل کافی نہیں تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ بھی تو اپنے اس دعوے پر کوئی دلیل پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے یہ عالم جسمانی صرف ایک دم میں پیدا کر دیا تھا تدریجی طور پر پیدا نہیں کیا تھا.ہر یک شخص جانتا ہے کہ وہی خدا اب بھی ہے جو پہلے تھا اور وہی خالقیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جو پہلے جاری تھا.اور صاف بدیہی طور پر نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر یک مخلوق کو تدریجی طور پر اپنے کمال وجود تک پہنچاتا ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پہلے وہ قوی تھا اور جلد کام کر لیتا تھا اور اب ضعیف ہے اور دیر سے کرتا ہے بلکہ یہی کہیں گے کہ اس کا قانون قدرت ہی ابتدا سے یہی ہے کہ وہ ہر یک

Page 87

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون مخلوق کو بتدریج پیدا کرتا ہے سو حال کے افعال الہی ہمیں بتلارہے ہیں کہ گزشتہ اور ابتدائی زمانہ میں بھی یہی تدریج ملحوظ تھی جواب ہے ہم سخت نادان ہوں گے اگر ہم حال کے آئینہ میں گزشتہ کی صورت نہ دیکھ لیں اور حال کی طرز خالقیت پر نظر ڈال کر صرف اتنا ہی ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اپنی پیدائش کے سلسلہ کو تدریج سے کمال وجود تک پہنچاتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر یک مخلوق کی پیدائش میں چھ ہی مرتبے رکھے ہیں اور حکمت الہی نے ہر یک مخلوق کی پیدائش میں یہی تقاضا کیا کہ اس کے پیدا ہونے کے چھ مرتبے ہوں جو چھ وقتوں میں انجام پذیر ہوں کسی مخلوق پر نظر ڈال کر دیکھ لو یہی چھ مراتب اس میں متحقق ہوں گے یعنی بنظر تحقیق یہ ثابت ہوگا کہ ہر ایک جسمانی مخلوق کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے اور انسان پر کچھ موقوف نہیں زمین پر جو ہزار ہا حیوانات ہیں ان کے وجود کی تکمیل بھی انہیں مراتب ستہ پر موقوف پاؤ گے.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ مراتب ستہ تکوین کا صرف جسمانی مخلوق میں ہی محدود نہیں بلکہ روحانی امور میں بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے مثلاً تھوڑے سے غور سے معلوم ہوگا کہ انسان کی روحانی پیدائش کے مراتب بھی چھ ہی ہیں پہلے وہ نطفہ کی صورت پر صرف حق کے قبول کرنے کی ایک استعداد بعیدہ اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر جب اس استعداد کے ساتھ ایک قطرہ رحمت الہی مل جاتا ہے اسی طرز کے موافق کہ جب عورت کے نطفہ میں مرد کا نطفہ پڑتا ہے تو تب انسان کی باطنی حالت نطفہ کی صورت سے علقہ کی صورت میں آ جاتی ہے اور کچھ رشتہ باری تعالیٰ سے پیدا ہونے لگتا ہے جیسا کہ علقہ کے لفظ سے تعلق کا لفظ مفہوم ہوتا ہے اور پھر وہ علقہ اعمال صالحہ کے خون کی مدد سے مضفہ بنتا ہے اسی طرز سے کہ جیسے خون حیض کی مدد سے علقہ مضغہ بن جاتا ہے اور مضغہ کی طرح ابھی اس کے اعضا نا تمام ہوتے ہیں جیسا کہ مضغہ میں ہڈی والے عضو ابھی نا پدید ہوتے ہیں ایسا ہی اس میں بھی شدت للہ اور ثبات للہ اور استقامت للہ کے عضوا بھی کما حقہ پیدا نہیں ہوتے گو تواضع اور نرمی موجود ہوتی ہے اور اگر چہ پوری شدت اور صلابت اس مرتبہ میں پیدا نہیں ہوتی مگر مضغہ کی طرح کسی قدر قضا و قدر کی مضغ کے لائق ہو جاتا ہے یعنی کسی قدر اس لائق ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا دانت اس پر چلے اور وہ اس کے نیچے ٹھہر سکے کیونکہ علقہ جو ایک سیال رطوبت کے قریب قریب ہے وہ تو اس لائق ہی نہیں کہ دانتوں کے نیچے پیسا جاوے اور ٹھہرا ر ہے لیکن مضغہ مضغ کے لائق ہے اسی لئے اس کا نام مضغہ ہے سومضغہ ہونے کی وہ حالت ہے کہ جب کچھ چاشنی محبت الہی کی دل میں پڑ جاتی

Page 88

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون ہے اور جعلی جلالی تو جہ فرماتی ہے کہ بلاؤں کے ساتھ اس کی آزمائش کرے تب وہ مضغہ کی طرح قضا و قدر کے دانتوں میں پیسا جاتا ہے اور خوب قیمہ کیا جاتا ہے غرض تیسرا درجہ سالک کے وجود کا مضغہ ہونے کی حالت ہے اور پھر چوتھا درجہ وہ ہے کہ جب انسان استقامت اور بلاؤں کی برداشت کی برکت سے آزمائے جانے کے بعد نقوش انسانی کا پورے طور پر انعام پاتا ہے یعنی روحانی طور پر اس کے لئے ایک صورت انسانی عطا ہوتی ہے اور انسان کی طرح اس کو دو آنکھیں دوکان اور دل اور دماغ اور تمام ضروری قومی اور اعضا عطا کئے جاتے ہیں اور بمقتضائے آیت اشدّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ (الفتح :۳۰) سختی اور نرمی مواضع مناسبہ میں ظاہر ہو جاتی ہے یعنی ہر ایک خلق اس کا اپنے اپنے محل پر صادر ہوتا ہے اور آداب طریقت تمام محفوظ ہوتے ہیں اور ہر ایک کام اور کلام حفظ حدود کے لحاظ سے بجالاتا ہے یعنی نرمی کی جگہ پر نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اور تواضع کی جگہ پر تواضع اور ترفع کی جگہ پر ترفع ایسا ہی تمام قومی سے اپنے اپنے محل پر کام لیتا ہے یہ درجہ جنین کے اس درجہ سے مشابہت رکھتا ہے کہ جب وہ مضغہ کی حالت سے ترقی کر کے انسان کی صورت کا ایک پورا خا کہ حاصل کر لیتا ہے اور بڑی کی جگہ پر ہڈی نمودار ہو جاتی ہے اور گوشت کی جگہ پر گوشت باقی رہتا ہے بڑی نہیں بنتی اور تمام اعضا میں با ہم تمیز کی پیدا ہو جاتی ہے لیکن ابھی خوبصورتی اور تازگی اور تناسب اعضا نہیں ہوتا صرف خا کہ ہوتا ہے جو نظر دقیق سے دکھائی دیتا ہے پھر بعد اس کے عنایت الہی توفیقات متواترہ سے موفق کر کے اور تزکیہ نفس کے کمال تک پہنچا کر اور فنافی اللہ کے انتہائی نقطہ تک کھینچ کر اس کے خا کہ کے بدن پر انواع اقسام کی برکات کا گوشت بھر دیتی ہے اور اس گوشت سے اس کی شکل کو چمکیلی اور اس کی تمام ہیکل کو آبدار کر دیتی ہے تب اس کے چہرہ پر کاملیت کا نور برستا ہے اور اس کے بدن پر کمال تام کی آب و تاب نظر آتی ہے اور یہ درجہ پیدائش کا جسمانی پیدائش کے اس درجہ سے مشابہ ہوتا ہے کہ جب جنین کے خاکہ کی ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے اور خوبصورتی اور تناسب اعضا ظاہر کیا جاتا ہے.پھر بعد اس کے روحانی پیدائش کا چھٹا درجہ ہے جو مصداق ثُمَّ انْسَانَهُ خَلْقًا اخر کا ہے.وہ مرتبہ بقا ہے جو فنا کے بعد ملتا ہے جس میں روح القدس کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی کی روح انسان کے اندر پھونک دی جاتی ہے.ایسا ہی یہ چھ مراتب خدا تعالیٰ کی پاک کلام میں بھی جمع ہیں.اول حروف کا مرتبہ جو حامل کلام الہی اور کلمات کتاب اللہ کے لئے بطور تخم کے ہیں جن کو معانی مقصود سے کچھ بھی حصہ نہیں ہاں ان کے حصول کے لئے ایک استعداد بعیدہ رکھتے ہیں دوم کلمات کا مرتبہ جو اس تخم کے ذریعہ سے ظہور خارجی کے رنگ میں

Page 89

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة المؤمنون آئے جن کو معانی مقصودہ سے کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں سوم ان فقرات نا تمام کا مرتبہ جو ابھی کلام مقصودہ کے پورے درجہ تک نہیں پہنچے تھے کیونکہ ہنوز تنزیل کا سلسلہ نا تمام تھا اور خدا تعالیٰ کے کلام نے ابھی اپنا کامل چہرہ نہیں دکھلایا تھا مگر ان فقرات کو معانی مقصودہ سے ایک وافر حصہ تھا اس لئے وہ کلام تام الہی کے لئے بطور بعض اعضا کے ٹھہرے جن کا نام بلحاظ قلت و کثرت آیتیں اور سورتیں رکھا گیا چہارم اس کا کلام جامع تام مفصل ممیز کا مرتبہ جوسب نازل ہو چکا اور جمیع مضامین مقصودہ اور علوم حکمیہ وقصص و اخبار و احکام و قوانین و ضوابط و حدود و مواعید و انذارات و تبشیرات اور درشتی اور نرمی اور شدت اور رحم اور حقائق و نکات پر بالاستیفا مشتمل ہے.پنجم بلاغت و فصاحت کا مرتبہ جو زینت اور آرائش کے لئے اس کلام پر ازل سے چڑھائی گئی ششم برکت اور تاثیر اور کشش کی روح کا مرتبہ جو اس پاک کلام میں موجود ہے جس نے تمام کلام پر اپنی روشنی ڈالی اور اس کو زندہ اور منور کلام ثابت کیا.اسی طرح ہر یک عاقل اور فصیح منشی کے کلام میں یہی چھے مراتب جمع ہو سکتے ہیں گو وہ کلام اعجازی حد تک نہیں پہنچتا کیونکہ جن حروف میں کوئی کلام لکھا جائے گا خواہ وہ عربی ہوں یا انگریزی یا ہندی پہلے ان کا وجود ضروری ہے سو یہ تو پہلا مرتبہ ہوا جو مضامین مقصودہ کے اظہار کے لئے ایک ذریعہ بعیدہ ہے مگر ان سے کچھ حصہ نہیں رکھتا پھر بعد اس کے دوسرا مرتبہ کلمات کا ہے جو حروف قرار دادہ سے پیدا ہوں گے جن کو معانی و مضامین مقصودہ سے ابھی کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں.پھر اس کے بعد تیسرا مرتبہ فقرات کا ہے جو ابھی معانی مقصودہ کے پورے جامع تو نہیں مگر ان میں سے کچھ حصہ رکھتے ہیں اور اس مضمون کے لئے جو غشی کے ذہن میں ہے بطور بعض اعضا کے ہیں.پھر چوتھا مرتبہ کلام جامع تام کا ہے جو نشی کے دل میں سے نکل کر بہ تمام و کمال کا غذ پر اندراج پا گیا ہے اور تمام معافی اور مضامین مقصودہ کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے پھر پانچواں مرتبہ یہ ہے کہ ان سادہ فقرات اور عبارتوں پر بلاغت اور فصاحت کا رنگ چڑھایا جائے اور خوش بیانی کے نمک سے بیع کیا جائے پھر چھٹا مرتبہ جو بلا توقف اس مرتبہ کے تابع ہے یہ ہے کہ کلام میں اثر اندازی کی ایک جان پیدا ہو جائے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیوے اور طبیعتوں میں گھر کر لیوے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مراتب ستہ بکلی ان مراتب ستہ کی مانند اور ان کی مثیل ہیں جن کا قرآن کریم میں نطفہ علقہ مضغہ اور کچھ مضغہ اور کچھ عظام یعنی انسان کی شکل کا خاکہ اور انسان کی پوری شکل اور جاندار انسان ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۲ تا ۲۱۱ حاشیه در حاشیه ) نام رکھا ہے.

Page 90

۵۸ سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر یک قسم کی بجی اور بے راہی سے باز آ کر اور بالکل رو بخدا ہو کر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھائی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یک لخت چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہو چکی ہے ایک دفعہ ترک کرنا اور ہر ایک ننگ اور ناموس اور عجب اور ریا سے منہ پھیر کر اور تمام ماسوا اللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کر لینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑ تا تب تک نیا دانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے.اسی طرح روحانی پیدائش کا جسم اس فنا سے تیار ہوتا ہے.جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو بخلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فناء اتم حاصل ہو جاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے اور ثُمَّ انْسَانَهُ خَلْقًا اخر کا وقت آ جاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجه خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جس کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم کو ر اور است پر قائم کر اور ہر یک طور کی کجی اور بے راہی سے نجات بخش.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۵ تا ۶۰۹ حاشیہ نمبر ۱۱).اگر یہ وسواس دل میں گزرے کہ پھر اللہ جل شانہ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے تعلق کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے جس کے بظاہر یہ معنی ہیں کہ تو پیدا کرتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسی کو خالق قرار دینا بطور استعارہ ہے جیسا کہ اس دوسری آیت میں فرمایا ہے فتبوك اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ بلاشبہ حقیقی اور سچا خالق خدا تعالیٰ ہے اور جو لوگ مٹی یا لکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۰ حاشیه ) ابتدائی تقومی جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صادق آسکتا ہے وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولی اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کا پہلا تولد ہے مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ر بوبیت کاملہ متجمعہ کے پورے جوڑ واتصال سے بطرز ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا اخر کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے متقی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم

Page 91

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ ہے جس سے متقی لا ہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتا ہے.فتَدَبَّرُ.سورة المؤمنون (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۹، ۵۶۰ ، حاشیه ) خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ روح اس قالب میں سے ہی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جو نطفہ سے رحم میں تیار ہوتا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الخلقین یعنی پھر ہم اس جسم کو جو رحم میں تیار ہوا تھا ایک اور پیدائش کے رنگ میں لاتے ہیں اور ایک اور خلقت اس کی ظاہر کرتے ہیں جو روح کے نام سے موسوم ہے اور خدا بہت برکتوں والا ہے اور ایسا خالق ہے کہ کوئی اس کے برابر نہیں.اور یہ جو فرمایا کہ ہم اسی جسم میں سے ایک اور پیدائش ظاہر کرتے ہیں یہ ایک گہرا راز ہے جو روح کی حقیقت دکھا رہا ہے اور ان نہایت مستحکم تعلقات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو روح اور جسم کے درمیان واقعہ ہیں اور یہ اشارہ ہمیں اس بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کے جسمانی اعمال اور اقوال اور تمام طبعی افعال جب خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں ظاہر ہونے شروع ہوں تو ان سے بھی یہی الہی فلاسفی متعلق ہے یعنی ان مخلصانہ اعمال میں بھی ابتداء ہی سے ایک روح مخفی ہوتی ہے جیسا کہ نطفہ میں مخفی تھی اور جیسے جیسے ان اعمال کا قالب تیار ہوتا جائے وہ روح چمکتی جاتی ہے اور جب وہ قالب پورا تیار ہو چکتا ہے تو ایک دفعہ وہ روح اپنی کامل تجلی کے ساتھ چمک اٹھتی ہے اور اپنی روحی حیثیت سے اپنے وجود کو دکھا دیتی ہے اور زندگی کی صریح حرکت شروع ہو جاتی ہے جبھی کہ اعمال کا پورا قالب تیار ہو جاتا ہے.معا بجلی کی طرح ایک چیز اندر سے اپنی کھلی کھلی چمک دکھلا نا شروع کر دیتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۲۲،۳۲۱) فَانظُرُ أَنَّ الْإِنْسَانَ إِذَا قُلبَ فِي پس تو دیکھ کہ جب انسان پیدائش کے مراتب میں مَرَاتِبِ الْخِلْقَةِ.وَاخْرِجَ إِلى حَيْزِ الْفِعْلِ پھیرا گیا اور چیز فعل سے قوت کی طرف لایا گیا اور طبیعی جلوہ مِنَ الْقُوَّةِ وَأَعْطِيَ صُوَرًا فِي الْمَجَالِي گاہوں میں قسم قسم کی صورتیں دیا گیا اور بعض قسم پیدائش الطَّبْعِيَّةِ وَقَفَا بَعْضُهَا بَعْضًا بِالتمايز بعض کے پیچھے آئیں اور ان میں با ہم تفرقہ اور تمیز ہوا پس وَالتَّفْرِقَةِ.فَجَيعَتْ هُهُنَا مَدَارِجُ تَفْتَعِنی اس جگہ کئی مدارج پیدا ہوئے جو اپنے لئے ناموں کو چاہتے لأَنْفُسِهَا الْأَسْمَاء فَأَعْطَقهَا الْعَرَبِيَّةُ تھے پس عربی نے ان کو ان کے نام عطا کئے اور اپنے عطیہ وَالْمَلَتِ الْعَطاء كَالأَسْخِيَاءِ الْمُتَمَوِلِین کو کامل کیا جیسے کئی اور مالدار لوگوں کا کام ہوتا ہے اور اس

Page 92

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اُنْسُ الْأَمِ وَالْآبِ فِي الصَّبْيَانِ فَدَعَاهُ بِاسْمِ الْإِنْسَانِ وَهَذَا مَبْنُ عَلَى التَّثْنِيَّةِ مِنَ الْمَنَانِ لِيَدُلُّ لَفْظُ الْأَنْسَيْنِ عَلَى كِلْتَى الصَّفَتَيْنِ إِلَى انْقِطَاعِ الزَّمَانِ وَيَكُونُ مِنَ الْمُتَدَّ كَرِيْنَ.ثُمَّ بَدَّلَ قَانُونَ الْقُدْرَةِ بِإِذْنِ الله سورة المؤمنون وَتَفْصِيلُهُ أَنَّ اللهَ إِذَا أَرَادَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ فَبَدَة کی تفصیل یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا خَلْقَهُ مِنْ سُلَالَةِ طِيْنٍ مُطَهَّرٍ مِنَ الْأَدْرَانِ کرنا چاہا تو اس کو اس مٹی سے پیدا کیا جو زمین کے فلذلك سماه ادم عِندَ الخطاب و في الكتاب تمام قولیٰ کا عطر تھا اور میلوں سے پاک تھا اس کا نام لِمَا خَلَقَهُ مِنَ التُّرَابِ وَ لِمَا جَمَعَ فِيهِ فَضَائِلَ خطاب اور کتاب میں آدم رکھا اس لئے کہ اسے مٹی سے پیدا کیا اور سارے جہان کی خوبیاں اس میں الْعَالَمِينَ.وَكَذَلِكَ خَمَّرَ فِي طِيْنِهِ أَنْسَانِ أَنْسٌ مَا خُلِقَ مِنْهُ وَأَنْسُ الْخَالِقِ الرَّحْمَانِ كَمَا يُوجَدُ بھر دیں اور نیز اس کی طینت میں دو انس رکھ دیئے ایک تو اُسی شے کا اُنس جس سے وہ مخلوق ہوا دوسرا خالق رحمان کا اُنس جیسے بچوں میں ماں باپ کا انس پایا جاتا ہے اس لئے اس کا نام انسان رکھا.یہ اسم تثنیہ ہے تا کہ ہمیشہ کے لئے ان دو انسوں کا لفظ ان دو صفتوں کو بتاتا رہے پھر خدا تعالیٰ کے ارادہ سے قانون قدرت میں یوں تبدیلی واقع ہوئی کہ کئی تغیرات کے بعد ماؤں کے رحموں کے معرفت اس کی تَغَتُرَاتٍ فِي أَرْحَامِ أُمَّهَاتٍ فَسَمَّى التَّغَير الا آفرینش ہونے لگی سو پہلے غیر کا نام ماء دافق اور نطفہ ولى مَاءً دَافِقَا وَ نُطْفَةٌ وَالثَّانِي الَّذِي يَزْدَادُ فِيهِ رکھا.اور دوسرے کا نام جس میں زندگی کا نشان ترقی رکھا.اثرُ الْحَيَاتِ عَلَقَةً وَالثَّالِثُ الَّذِى زَادَ إِلى قَبْرِ کرتا ہے علقہ رکھا اور تیسرے کا نام جو درشتی میں الْمَضْحُ شِدَّةً وَضَاهَا في قَدْرِهِ نُعْمَةً فَسَمَّى لِهَذَا ایک لقمہ کے اندازہ کی مانند ہوا مضغہ رکھا اور چوتھا مُضْغَةً وَالرَّابِعُ الَّذِى زَادَ مِنْ قَدْرِ اللَّقَمَةِ وَمَعَ تغير جو صلابت اور قدر میں لقمہ سے ترقی کر گیا اور ذلِك بَلغَ إلى مُنْتَهَى الصَّلابَةِ وَ اَوْدَعَهَا اللهُ بڑی بڑی حکمتوں پر اس کا نظام خلقت مشتمل ہوا وہ حِكْمًا عَظِيْمَةً خِلْقَةً وَنِظَامًا فَسَمَّاهَا عِظَامًا عظام کے نام سے موسوم ہوا اس لئے وہ عظمت اور يمَا بَلَغَتِ الْعَظْمَةَ وَزَادَتْ شَرَفًا وَكَنَا وَمَقَامًا شرف اور قدر و مقام میں انتہا کو پہنچ گیا اور اس لئے بھی وَمَا رُكِبَ بَعْضُهَا بِالْعِظَامِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِین کہ ہڈیوں سے اس کے بعض حصے ترکیب پذیر وَالْخَامِسُ اللَّحْمُ الَّذِى زَادَ عَلَيْهَا كَالْحَلَةِ وَصَارَ ہوئے اور پانچویں کا نام کم ہوا اس لئے کہ تم عربی میں ذِي الْعِزَّةِ وَالْحِكْمَةِ وَخَلَقَ الْإِنْسَانَ بَعْدَ

Page 93

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام บ سورة المؤمنون سَبَبُ كَمَالِ الْحُسْنِ وَالزِّيِّنَةِ فَسُمِّيَ لَحْماً ہما ایک چیز کے پیوند اور لحوق کو کہتے ہیں جب وہ چیز دوسرے لوحم بِالْعِظَامِ الصُّلْبَةِ وَصَارَبهَا كَذَوِی سے ملتی اور پیوند کرتی ہے سو گوشت کپڑا کی طرح باقی جسم اللَّحْمَةِ وَالسَّادِسُ خَلْقَ اخَرَ وَ سُمی نَفْسًا پر ملتا ہے اور نیز اس لئے بھی کہ گوشت سخت ہڈیوں سے ملتا لِنَفَاسَعِها وَلَطَافَتِها و سرايعها في ہے اور ان کو باہم ملاتا ہے اور خویشی قرابت ان میں بخشتا الْأَعْضَاء وَعِزَيهَا وَسُمتی جَميعُها باشیم ہے اور چھٹے کو خلق آخر کہا اور اسے کمال نفاست اور اعضاء الجدينِ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ - میں سرایت کرنے کے سبب سے نفس بھی کہا اور پھر اس (منن الرحمن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۲۳۲۲۲۲۲) سارے مجموعہ کا نام جنین ہوا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) ، ۹ تا قرآن شریف کی سورہ عصر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا یہ زمانہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہزار ششم پر واقع ہے یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے یہ چھٹا ہزار جاتا ہے اور ایسا ہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے لہذا آخر ہزار ششم وہ آخری حصہ اس دنیا کا ہوا جس سے ہر ایک جسمانی اور روحانی تکمیل وابستہ ہے کیونکہ خدائی کا رخانہ ، قدرت میں چھٹے دن اور چھٹے ہزار کو الہی فعل کی تکمیل کے لئے قدیم سے مقرر فرمایا گیا ہے.مثلا حضرت آدم علیہ السلام چھٹے دن میں یعنی بروز جمعہ دن کے اخیر حصے میں پیدا ہوئے یعنی آپ کے وجود کا تمام و کمال پیرا یہ چھٹے دن ظاہر ہوا گو خمیر آدم کا آہستہ آہستہ تیار ہو رہا تھا اور تمام جمادی، نباتی ، حیوانی پیدائشوں کے ساتھ بھی شریک تھا لیکن کمال خلقت کا دن چھٹا دن تھا اور قرآن شریف بھی گو آہستہ آہستہ پہلے سے نازل ہور ہا تھا مگر اس کا کامل وجود بھی چھٹے دن ہی بروز جمعہ اپنے کمال کو پہنچا اور آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم نازل ہوئی اور انسانی نطفہ بھی اپنے تغیرات کے چھٹے مرتبہ ہی خلقت بشری سے پورا حصہ پاتا ہے جس کی طرف آیت ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ میں اشارہ ہے اور مراتب ستہ یہ ہیں ۱.نطفہ ۲.علقہ ۳.مضغہ ۴.عظام ۵ لحم محیط العظام ۶ خلق آخر.اس قانونِ قدرت سے جو روز ششم اور مرتبہ ششم کی نسبت معلوم ہو چکا ہے مانا پڑتا ہے کہ دنیا کی عمر کا ہزار ششم بھی یعنی اس کا آخری حصہ بھی جس میں ہم ہیں کسی آدم کے پیدا ہونے کا وقت اور کسی دینی تکمیل کے ظہور کا (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۵ تا ۲۵۱) وحى الى عَفَتِ الرِّيَارُ مَحَلُّهَا وَ مَقَامُهَا یعنی یہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے زمانہ ہے.

Page 94

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ سورة المؤمنون لبید بن ربیعہ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اس کے اس قصیدہ کا اول مصرع ہے جو سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف با سلام ہو گیا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا وہ اسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی.پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الہی میں داخل ہوا کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں وہ کلام جو عبداللہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی سرح مرتد ہو کر مکہ کی طرف بھاگ گیا.پس جبکہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے تو ارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرنا چاہیے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کلام کا توارد ہو جائے.خدا تعالیٰ جیسے ہر ایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے ہر ایک پاک کلام اسی کی توفیق سے منہ سے نکلتا ہے.پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۶۲) خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض ایسے فقرے وحی الہی کے نازل ہو چکے ہیں جو پہلے وہ کسی آدمی کے منہ سے نکلے تھے.جیسا کہ یہ فقرہ وحی فرقانی یعنی فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ.یہ فقرہ پہلے عبد اللہ بن ابی سرح کی زبان سے نکلا تھا.اور وہی فقرہ وحی قرآنی میں نازل ہوا.دیکھو تفسیر کبیر الجزء السادس صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ مصر.اصل عبارت یہ ہے روَى الْكَلْبِى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرَجِ كَانَ يَكْتُبُ هَذِهِ الْآيَاتِ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى خَلْقًا أَخَرَ عَجِبَ مِنْ ذَالِكَ فَقَالَ فَتَبَارَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ.فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اكْتُبْ فَهُكَذَا نَزَلَتْ، فَشَكَ عَبْدُ اللهِ وَقَالَ إِنْ كَانَ مُحَمد صَادِقًا قِيمَا يَقُولُ فَإِنَّهُ يُوحَى إِلَى كَمَا يُوحَى إِلَيْهِ وَإِنْ كَانَ كَاذِبًا فَلَا خَيْرَ فِي دِينِهِ فَهَرَبَ إِلَى مَكَّةَ فَقِيلَ إِنَّهُ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ وَقِيلَ إِنَّهُ أَسْلَمَ يَوْمَ الْفَتْحِ.ترجمہ یہ ہے کہ کلبی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ عبد اللہ ابن ابی سرح قرآن شریف کی آیات لکھا کرتا تھا.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رو برو جیسی آیت نازل ہوتی تھی اُس سے لکھواتے تھے.پس جب وہ آیت لکھوائی گئی جو خَلْقًا أَخَرَ

Page 95

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة المؤمنون تک ختم ہوتی ہے تو عبد اللہ اس آیت سے تعجب میں پڑ گیا.اور عبد اللہ نے کہا فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لکھ لے کیونکہ خدا نے بھی یہی فقرہ جو تیرے منہ سے نکلا ہے یعنی فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ نازل کر دیا ہے.پس عبد اللہ شک میں پڑ گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو میری زبان کا کلمہ ہے وہی خدا کا کلمہ ہو گیا.اور اُس نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعوے میں صادق ہے تو مجھے بھی وہی وحی ہوتی ہے جو اُ سے ہوتی ہے اور اگر کا ذب ہے تو اس کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے.پھر وہ مکہ کی طرف بھاگ گیا.پس ایک روایت یہ ہے کہ وہ کفر پر مر گیا اور ایک یہ بھی روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا.اب دیکھو عبد اللہ ابن ابی سرح کے کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا تو ارد ہوا یعنی عبد اللہ کے منہ سے بھی یہ فقر و نکالا تھا فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقین اور خدا تعالیٰ کی وحی میں بھی یہی آیا.اور اگر کہو کہ پھر خدا تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں مابہ الامتیاز کیا ہوا؟ تو اول تو ہم اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ قرآن شریف میں فرمایا ہے مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلام جو غیر کا کلام کہلاتا ہے قرآنی سورتوں میں سے کسی سورت کے برابر ہو.کیونکہ اعجاز کے لئے اسی قدر معتبر سمجھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِن كُنتُم فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرة : ۲۳) یہ نہیں فرمایا که فَأْتُوا بِآيَةٍ مِنْ مِثْلِهِ يا فَأْتُوا بِكَلِمَةٍ مِنْ مِثْلِهِ.اور در حقیقت یہ سچ ہے کہ خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر بھی جاری تھے.پھر رنگینی عبارت اور نظم کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیت مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہو گئے اور جو معجزہ خدا تعالی کے افعال میں پایا جاتا ہے اس کی بھی یہی شان ہے یعنی وہ بھی اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے جیسا کہ کلام اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے.ہاں خدا تعالیٰ کے منہ سے جو چھوٹے چھوٹے فقرے نکلتے ہیں وہ اپنے مطالب عالیہ کے لحاظ سے جوان کے اندر ہوتے ہیں انسانی فقرات سے امتیاز کلی رکھتے ہیں.یہ امر دیگر ہے کہ انسان ان کے پوشیدہ حقائق معارف تک نہ پہنچےمگر ضرور ان کے اندر انوار مخفیہ ہوتے ہیں جو ان کلمات کی رُوح ہوتے ہیں.جیسا کہ یہی کلمہ فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِینَ اپنی گذشتہ آیات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ایک امتیازی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.یعنی اس قسم کی روحانی فلاسفی اس کے اندر بھری ہوئی ہے کہ وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے جس کی نظیر انسانی کلام میں نہیں ملتی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۸۳ تا ۱۸۵)

Page 96

۶۴ سورة المؤمنون تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف رُوحوں کو ازلی ابدی نہیں ٹھہراتا ہے اُن کو مخلوق بھی مانتا ہے اور فانی بھی.جیسا کہ وہ روحوں کے مخلوق ہونے کے بارے میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ تم انشانَهُ خَلْقًا أَخَرَ یعنی جب قالب تیار ہو جاتا ہے تو اس کی تیاری کے بعد اُسی قالب میں سے ہم ایک نئی پیدائش کر دیتے ہیں یعنی روح.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۴) ثابت شدہ واقعات یقینی اور قطعی طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ خود نطفہ مرد اور عورت کا بغیر اس کے کہ اُس پر شبنم کی طرح آسمان کی فضا سے روح گرے رُوح پیدا ہونے کی اپنے اندر استعداد رکھتا ہے.پھر جب مرد اور عورت کا نطفہ باہم مل جاتا ہے تو وہ استعداد بہت قوی ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ استعداد بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ جب بچہ کا پورا قالب طیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت اور امر سے اُسی قالب میں سے رُوح پیدا ہو جاتی ہے یہ وہ واقعات ہیں جو مشہود اور محسوس ہیں.اسی کو ہم کہتے ہیں کہ نیستی سے ہستی ہوئی کیونکہ ہم روح کو جسم اور جسمانی نہیں کہہ سکتے اور یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ رُوح اُسی مادہ میں سے پیدا ہوتی ہے جو بعد اجتماع دونوں نطفوں کے رحم مادر میں آہستہ آہستہ قالب کی صورت پیدا کرتا ہے اور اس مادہ کے لئے ضروری نہیں کہ ساگ پات کی کسی قسم پر روح شبنم کی طرح گرے اور اس سے رُوح کا نطفہ پیدا ہو بلکہ وہ مادہ گوشت سے بھی پیدا ہوسکتا ہے خواہ وہ گوشت بکرہ کا ہو یا مچھلی کا یا ایسی مٹی ہو جوزمین کی نہایت عمیق نہ کے نیچے ہوتی ہے جس سے مینڈ کیں وغیرہ کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں.ہاں بلاشبہ یہ خدا کی قدرت کا ایک راز ہے کہ وہ جسم میں سے ایک ایسی چیز پیدا کرتا ہے کہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمانی.پس واقعات موجودہ مشہودہ محسوسہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آسمان سے رُوح نہیں گرتی بلکہ یہ ایک نئی روح ہوتی ہے جو ایک مرکب نطفہ میں سے بقدرت قادر پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْعَلِقِينَ یعنی جب رحم میں قالب انسانی تیار ہو جاتا ہے تو پھر ہم ایک نئی پیدائش سے اُس کو مکمل کرتے ہیں یعنی ہم اس مادہ کے اندر سے جس سے قالب تیار ہوا ہے رُوح پیدا کر دیتے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۳، ۱۲۴) ( روح کے ذکر پر فرمایا ) جس شے نے پیدا ہونا ہوتا ہے تو روح کی استعداد اس شے میں ساتھ ساتھ چلی آتی ہے.جیسے جیسے وہ طیار ہوتی جاتی ہے اور جب وہ معین لائق ہوتا ہے تو خدا اس پر فیضان کرتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے ثم

Page 97

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون انْشَأنَهُ خَلْقًا أَخَرَ.میں نے ایک انڈے کو ایک دفعہ پیالی میں ڈالا.دیکھا تو اس کی زردی اور سفیدی پانی کی طرح ہوئی ہوئی تھی اور اس کے درمیان میں ایک نقطہ خون کا خشخاس کے دانہ کی طرح تھا اور اس کی کئی تاریں کوئی کسی طرف کو اور کوئی کسی طرف کو نکلی ہوئی تھیں اور سوائے اس نقطہ کے اور کوئی حرکت اس میں نہ تھی تو میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ خلق اشیاء کا سلسلہ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ اقول سر بنا یا پھر ہاتھ پھر پاؤں وغیرہ بلکہ اس کی کارروائی یکساں ہوتی ہے اور سب کچھ پہلے ہی سے ہوتا ہے صرف نشو ونما پاتا جاتا ہے.میں نے بعض دائیوں کو کہا ہوا تھا کہ جو بچے اسقاط ہوا کریں تو دکھایا کرو تو میں نے بعض بچے دیکھے ان کے بھی سب اعضاء وغیرہ بنے بنائے تھے.خدا کا یہ خلق معمار کی طرح نہیں ہوتا کہ اول دیوار میں بنائیں پھر چوبارہ بنایا پھر اوپر کچھ اور بنایا بلکہ چار ماہ کے بعد جب روح کی تکمیل ہوتی ہے تو اس وقت انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَاس پر صادق آتا ہے تو بچہ حرکت کرنے لگتا ہے.جیسے دنیا کے سات دن ہیں.یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ دنیا کی عمر بھی سات ہزار برس ہے اور یہ کہ خدا نے دنیا کو چھ دن میں بنا کر ساتویں دن آرام کیا.اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ہر ایک شے چھ مراتب ہی طے کر کے مرتبہ تکمیل کا حاصل کرتی ہے.نطفہ میں بھی اسی طرح چھ مراتب ہیں کہ انسان اول سلسلہ میں طنین ہوتا.پھر نطقه - پھر عَلَقَه - پھر مُضْغَه - پھر عظامًا - پھر لغم - پھر سب کے بعد انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَر اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باہر سے کچھ نہیں آتا بلکہ اندر ہی سے ہر ایک شے نشوونما ہوتی رہتی ہے.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۹ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۵،۸۴) روح ایک مخلوق چیز ہے.اس عصری مادے سے خدا تعالیٰ اسے بھی پیدا کرتا ہے...روح انسانی باریک اور مخفی طور سے نطفہ انسانی میں ہی موجود ہوتی ہے اور وہ بھی نطفہ کے ساتھ ساتھ ہی آہستگی سے نشو ونما کرتی اور ترقی پاتی پاتی چوتھے مہینے کے انجام اور پانچویں مہینے کی ابتداء میں ایک بین تغیر اور نشو ونما پا کر ظہور پذیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کلام پاک میں فرماتا ہے کہ ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۶،۵) وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ربوبیت کاملہ مستجمعہ کے پورے جوڑ و اتصال سے بطرز ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے متقی ا تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم

Page 98

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۶ سورة المؤمنون ہے جس سے متقی لا ہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۶۳ حاشیہ ) اللہ تعالیٰ نے جس قدر قومی عطا فرمائے وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیئے گئے.ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے اس واسطے اسلام نے قومی رجولیت یا آنکھ نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا جیسے فرما یا قَدُ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَميِّتُونَ.رپورٹ جلسہ سالانہ ، ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۹،۴۸) یعنی اول رفتہ رفتہ خدائے تعالیٰ تم کو کمال تک پہنچاتا ہے اور پھر تم اپنا کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہو یہاں تک کہ مر جاتے ہو یعنی تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی قانون قدرت ہے.کوئی بشر اس سے باہر نہیں.اے خداوند قدیر اپنے اس قانونِ قدرت کے سمجھنے کے لئے ان لوگوں کو بھی آنکھ بخش جو مسیح ابن مریم کو اس سے باہر سمجھتے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۰) موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے.کا فر کا نام بھی مردہ رکھا ہے اور ہوا و ہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور قریب الموت کا نام بھی میت ہے اور یہی تینوں وجوہ استعمال حیات میں بھی پائی جاتی یعنی حیات بھی تین قسم کی ہیں.ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ از الما و بام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۵) یعنی تم مرنے کے بعد قیامت کے دن اُٹھائے جاؤ گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۵) وہ آیات جن میں لکھا ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر دنیا میں نہیں آتے ازاں جملہ یہ آیت ہے...ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ تُبْعَثُونَ..کوئی انسان راحت یا رنج عالم معاد کے چکھ کر پھر دنیا میں ہرگز نہیں آتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۰،۶۱۹ حاشیه در حاشیه ) وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاسْكَتْهُ فِي الْأَرْضِ وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لقدرون یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سنِ ہجری میں شروع ہوگا جو

Page 99

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۷ سورة المؤمنون آیت إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی ۱۲۷۴.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۵) مسیح موعود کے ظہور کی خصوصیت کے ساتھ یہ علامت ہے کہ دجال معہود کے خروج کے بعد نازل ہو کیونکہ یہ ایک واقعہ مسلمہ ہے کہ دجال معہود کے خروج کے بعد آنے والا وہی سچا مسیح ہے جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے جس کا مسلم کی حدیث میں وجہ تسمیہ صحیح ہونے کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مومنوں کی شدت اور محنت اور ابتلاء کا غبار جود جال کی وجہ سے ان کے طاری حال ہو گا ان کے چہروں سے یو نچھ دے گا یعنی دلیل اور حجت سے ان کو غالب کر دکھائے گا سو اس لئے وہ صحیح کہلائے گا کیونکہ مسح پونچھنے کو کہتے ہیں جس سے صحیح مشتق ہے اور ضرور ہے کہ وہ دجال معہود کے بعد نازل ہو.سو یہ عاجز دجال معہود کے خروج کے بعد آیا ہے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ دجال معہود یہی پادریوں اور عیسائی متکلموں کا گروہ ہے جس نے زمین کو اپنے ساحرانہ کاموں سے تہ و بالا کر دیا ہے اور جو ٹھیک ٹھیک اس وقت سے زور کے ساتھ خروج کر رہا ہے اور جو اعداد آیت إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ سے سمجھا جاتا ہے یعنی ۱۸۵۷ کا زمانہ تو ساتھ ہی اس عاجز کا مسیح موعود ہونا بھی ثابت ہو جائے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۸۹،۴۸۸) آیت إِنا عَلى ذَهَابِ بِه لَقَدِرُونَ میں ۱۸۵۷ء کی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہو گئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل ۱۲۷۴ ہیں اور ۱۲۷۴ کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو ۱۸۵۷ ء ہوتا ہے.سو در حقیقت ضعف اسلام کا زمانہ ابتدائی یہیں ۱۸۵۷ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالی آیت موصوفہ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئے گا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائے گا.سو ایسا ہی ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی حالت ہو گئی تھی.....پس اس حکیم و علیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ ۱۸۵۷ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایا جائے گا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیسا کہ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا.......کتاب الہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور ان کے دلی اور دماغی قومی پر بہت برا اثر ان سے پڑا ہے.اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الہی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیر کی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کر سکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثر ڈالتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشنی کی مزاحم ہو رہی ہیں.کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی

Page 100

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة المؤمنون وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پر اٹھایا گیا ہے.وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایا تھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشا تھا اس سے لوگ غافل ہو گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اترتا.انہیں معنوں سے کہا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا.پھر انہیں حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے والا ایک مرد فارسی الاصل ہوگا جیسا کہ فرمایا ہے لو کان الايمان معلقاً عند الثريا لناله رجل من فارس.یہ حدیث در حقیقت اسی زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آیت اِنا عَلی ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ میں اشارہ بیان کیا گیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۸۹ تا ۴۹۳ حاشیه ) مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے.قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت وَ إِنَّا عَلى ذَهَابِ بِه لَقَدِرُونَ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴ عدد ہیں.اسلامی چاند کی سطح کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۴) فَقَالَ الْمَلوا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ ان يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَاَنْزَلَ مَلَيْكَةٌ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي ابابنا الأولين.(۲۵) b مَا سَمِعْنَا بِهذا في ابابنا الأَوَّلِينَ....ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۷۰،۶۶۹ حاشیه در حاشیه ) فَاَوْحَيْنَا إِلَيْهِ اَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحِينَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّورُ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَ أَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ

Page 101

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة المؤمنون تُهُم وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ) ۲۸ إصْبَعِ الْفُلْكَ بِاعْيُنِنَا وَ وَحينَا - ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ ٹائٹل پیج ) اسی طرح براہین احمدیہ کے قصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ہے وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَبُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ یعنی میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کروں گا.خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے.اس حساب سے اب یہ زمانہ اس وقت پر آپہنچتا ہے جبکہ نوح کی قوم عذاب سے ملاک کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا اِصْنَعِ الْفُلْكَ بِاعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ ايديهم یعنی میری آنکھوں کے رو برو اور میرے حکم سے کشتی بنا وہ لوگ جو تجھے بناوہ سے بیعت کرتے ہیں وہ نہ تجھ سے بلکہ خدا سے بیعت کرتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۳) اِن هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَ مَا نَحْنُ بمبعوثين او ® آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کا کیا حال تھا.کوئی بدی ایسی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو جیسے کوئی ہر صیغہ اور امتحان کو پاس کر کے کامل استاد ہر فن کا ہوجاتا ہے اسی طرح پر وہ بدیوں اور بدکاریوں میں ماہر اور پورے تھے.شرابی ، زانی، یتیموں کا مال کھانے والے، قمار باز غرض ہر برائی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے بلکہ اپنی بدکاریوں پر فخر کرنے والے تھے.ان کا قول تھا اِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَ نَحْیا - ہماری زندگی اسی قدر ہے کہ یہاں ہی مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں.حشر نشر کوئی چیز نہیں.قیامت کچھ نہیں.جنت کیا اور جہنم کیا.اصل میں بہت سے عرب دہریہ تھے جیسا کہ قرآن شریف کی آیت ذیل سے معلوم ہوتا ہے اِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا - الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۹ مورخه ۱۸ارجون ۱۹۰۸ صفحہ ۷ )

Page 102

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۷۰ سورة المؤمنون ثمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتَرَا كُلَّمَا جَاءَ أَمَةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْتُهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدَ لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات ( زیر تفسیر اور بعض اور آیات جن کا اس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ) سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سونبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک با میل شہادت دے رہی ہے.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۱) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ ® ہم نے عیسی اور اس کی والدہ کو ایک ایسے ٹیلہ پر جگہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور پانی صاف یعنی چشموں کا پانی وہاں تھا.سو اس میں خدا تعالیٰ نے کشمیر کا نقشہ کھینچ دیا ہے اور اوی کا لفظ لغت عرب میں کسی مصیبت یا تکلیف سے پناہ دینے کے لئے آتا ہے اور صلیب سے پہلے عیسی اور اس کی والدہ پر کوئی زمانہ مصیبت کا نہیں گزرا جس سے پناہ دی جاتی.پس متعین ہوا کہ خدا تعالیٰ نے عیسیٰ اور اس کی والدہ کو واقعہ صلیب کے بعد اس کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۷ حاشیہ) ٹیلے پر پہنچایا تھا.وَأَوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ میں اللہ تعالی یہ بات ہمیں سمجھاتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد ہم نے عیسی مسیح کو صلیبی بلا سے رہائی دے کر اس کو اور اس کی ماں کو ایک ایسے اونچے ٹیلے پر جگہ دی تھی کہ وہ آرام کی جگہ تھی اور اس میں چشمے جاری تھے یعنی سری نگر کشمیر.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۵ حاشیہ ) وَمِنَ الْمَعْلُومِ أَنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ في یہ بات سبھی جاتنے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت عَهْدِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانُوا مُتَفَرِقِيْنَ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہندوستان، فارس اور کشمیر مُنتَثِرِينَ فِي بِلَادِ الْهِنْدِ وَفَارِسَ وَ کشمیر کے ممالک میں پھیلے ہوئے تھے ، اس لئے حضرت عیسیٰ فَكَانَ فَرْضُهُ أَن يُدْرِكْهُمْ وَيُلاقِيهِمُ علیہ السلام کا فرض تھا کہ وہ ان کے پاس پہنچیں اور ان وَيَهْدِيَهِم إِلى صِرَاطِ الرَّبِّ الْقَدِيرِ سے ملیں اور انہیں رب قدیر کی راہ دکھا ئیں.اور فرض کا

Page 103

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 21 سورة المؤمنون وَتَرْكُ الْفَرْضِ مَعْصِيَّةٌ وَالْإِعْرَاضُ عَنْ ترک کرنا اور ایسے گمراہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا قَوْمٍ مُّنْتَظِرِينَ ضَالِينَ جَرِيمَةٌ كَبِيرَةٌ تَعالى جو کسی بادی کے منتظر ہوں بہت بڑا گناہ ہے، ایسے شَأْنُ الأَنْبِيَاءِ الْمَعْصُومِينَ مِنْ هَذِهِ سنگین جرائم سے انبیاء معصومین کی شان بالا تر ہوتی الْجَرَائِمِ الَّتِي هِيَ أَشْنَعُ الثَّمَائِمِ..ہے....لا شَكَ وَلَا شُبْهَةً وَلَا رَيْبَ أَنَّ عِيسَى اس میں کچھ شک وشبہ نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے لَمَّا مَنَ اللهُ عَلَيْهِ بِتَخْلِيصه من بَليّة حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب کی مصیبت سے الصَّلِيْب هَاجَرَ مَعَ أُمّه وبَعْضِ صَحَابَتِهِ إلى نجات بخش تو آپ نے اپنی والدہ نیز اپنے چند كَشمِيرَ وَرَبوَتِهِ الَّتِي كَانَتْ ذَاتَ قَرَارٍ ساتھیوں سمیت کشمیر کے بلند و بالا علاقہ کی طرف ومَعِينٍ وَتَجمَعِ الْأَعَاجِيْبِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ رَبُّنَا ہجرت کی جو چشموں سے شاداب اور مجمع عجائبات تھا ناصِرُ النَّبِيِّينَ وَمُعِينُ الْمُسْتَضْعَفِين في اور ہمارے رب نے جو انبیاء کا مددگار اور کمزوروں کا قَوْلِهِ وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّةَ ايَةٌ وَأَوَيْنَهُما دستگیر ہے اس کی طرف اپنے قول میں وَ جَعَلْنَا ابْنَ إلى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ وَلَا شَكَ أَنَّ مَرْيَمَ وَأُمَّةٌ آيَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ الْإِبْوَاء لَا يَكُونُ إِلَّا بَعْدَ مُصِيبَةٍ وَتَعْب وَ مَعِينٍ میں اشارہ فرمایا ہے.اس میں کوئی ٹھنک وَكُرْبَةٍ.وَلَا يُسْتَعْمَلُ هذا اللفظ إِلَّا جهدا نہیں کہ ایواء کا لفظ مصیبت اور پریشان کن حالت الْمَعْنى وَهُذَا هُوَ الْحَقُّ مِنْ غَيْرِ شَكٍ سے نجات کے بعد ہی بولا جاتا ہے.اور یہ لفظ وَشُبْهَةٍ وَلَا يَتَحَقَّقُ هَذِهِ الْحَالَةُ الْمُقَلْقِلَه في عربی زبان میں ہمیشہ انہیں معنوں میں استعمال ہوتا سوانح الْمَسِيحَ إِلَّا عِنْدَ وَاقِعَةِ الضَّلِيبِ ہے.اور پریشان اور بے چین کرنے والی حالت وَلَيْسَتْ رَبِّوَةٌ فِي الْإِرْتِفَاعِ في جَميعِ الدُّنْيَا حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں صرف صلیب مِنَ الْبَعِيدِ وَالْقَرِيبِ كَمِثْلِ ارتفاع کے واقعہ کے وقت ہی پیش آئی تھی اور ہر ذی علم جانتا جِبَالِ كَشْمِيرَ وَكَمِثْلِ مَا يَتَعَلَّقُ بِشُعُبِهَا ہے کہ تمام دنیا میں کشمیر کے بلند و بالا اور سرسبز وشاداب عِنْدَ الْعَلِيمِ الْأَرِيبِ وَلَا يَسَعُ لَكَ تَخطِئَةُ پہاڑوں جیسا اور کوئی پہاڑ نہیں.اور اہل تحقیق کے هذَا الْكَلَامِ مِنْ غَيْرِ التَّصْويب لئے اس کلام کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ نہیں.وَأَمَّا لفظ "القرار" في الْآيَةِ فَيَدُلُّ عَلَى آيت مذکورہ میں قرار کا لفظ مسیح علیہ السلام کے

Page 104

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تِلْكَ ۷۲ سورة المؤمنون الإستقرار في تلك الخطة بالامن خطہ کشمیر میں امن و عافیت کے ساتھ بغیر کسی مخالف کی وَالْعَافِيَةِ مِنْ غَيْرِ مُزَاحَمَةِ الكَفَرَةِ مزاحمت کے اندیشے کے رہائش اختیار کرنے پر دلالت الْفَجَرَةِ وَلَا شَكَ أَنَّ عِیسَی عَلَيْهِ کرتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السَّلَامُ مَا كَانَ لَهُ قَرَارُ في أَرْضِ الشَّامِ السلام کے لئے ملک شام میں کوئی آرام کی جگہ نہ تھی اور وَكَانَ يُخْرِجُهُ مِنْ أَرْضِ إِلى أَرْضِ الْيَهُودُ بد بخت کمینے یہودی آپ کو ایک علاقے سے دوسرے الَّذِينَ كَانُوا مِنَ الْأَشْقِيَاءِ وَاللّقامِ فَمَا علاقے کی طرف نکلنے پر مجبور کر دیتے تھے.پس خطہ کشمیر رَأَى قَرَارًا إِلَّا فِي خِطَةِ كَشْبِیرٌ وَإِلَيْهِ کے سوا انہیں کہیں امن و عافیت کی جگہ نہ ملی اور اسی کی طرف أَشَارَ في هَذِهِ الْآيَةِ رَبُّنَا الْخَبِيرُ وَأَمَّا ہمارے رب خبیر نے مذکورہ آیت میں اشارہ فرمایا ہے.الْمَاءُ الْمُعِيْنُ فَهِيَ إِشَارَةٌ إِلى عُيُونٍ ماء معين کے الفاظ سے ان صاف و شفاف اور بہنے صَافِيَةٍ وَيَنَابِيعَ مُنْفَجَرَةٍ تُوجد في هذهِ والے چشموں کی طرف اشارہ ہے جو اس علاقے میں الْخِطَةِ وَلِذَالِكَ شَبَّةَ النَّاسُ تِلْكَ پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں نے کشمیر کو جنت الْأَرْضِ بِالْجَنَّةِ نظیر قرار دیا ہے.( ترجمہ از مرتب) الهدى و التبصرة لمن يرى ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۶ تا ۳۶۹) اعْلَمُ أن لفظ الإيواء بِأَحَدٍ من جاننا چاہیے کہ لفظ ایواء اپنے اشتقاق کے لحاط مُشْتَقَاتِهِ قَدْجَاءَ فِي كَثِيرِ مِن مَّوَاضِح سے قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور سب الْقُرْآنِ وَكُلُّهَا ذَكَرَ فِي فَحَلِ الْعَصْمِ مِنَ جگہ بطریق احسان بلاء سے نجات دینے کے معنے الْبَلَاءِ بِطَرِيقِ الْاِمْتِنَانِ كَمَا قَالَ اللهُ میں آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ يَجِدُكَ تَعَالى اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيماً فَأَوَى وَمَا أَرَادَ يَتنما فاوى - اس آیت میں اوی کے لفظ میں تکلیف مِنْهُ إِلَّا الْإِراحَةَ بَعْد الأذى وَقَالَ فی کے بعد آرام پہنچانے کے معنے ہی مراد ہیں.ایک اور مَقَامٍ أَخَرَ اِذْ اَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَفَكُمُ النَّاسُ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَفَكُمُ النَّاسُ فَأُوسَكُمْ فَانْظُرُوا كَيْفَ صَرَّحَ حَقِيقَةَ فَأُوبِكُمْ.دیکھو.اس آیت میں کس طرح ایواء کے الْإِيوَاءِ وَ بِهَا دَاوَاكُمْ.وَقَالَ حِكَايَةٌ عَن لفظ کی حقیقت کھول کر بتا دی گئی ہے اور تمہارے شک الضحى الانفال ۲۷

Page 105

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۳ سورة المؤمنون ابْنِ ابْنِ نُوحٍ سَاوِى إِلى جَبَلٍ يَعْصِنِی کا علاج کر دیا گیا ہے.پھر نوح علیہ السلام کے بیٹے کے قول کا مِنَ الْمَاءِ فَمَا كَانَ قَصْدُهُ جَبَلاً ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے کہا سَاوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِنِى مِنَ رَفِيعًا إِلَّا بَعْدَ رُؤْيَةِ الْبَلاء الْمَاءِ.اور اس کا بلند و بالا پہاڑ کی طرف جانے کا ارادہ مصیبت فَبَيَّنُوا لَنَا الى بَلَاء نَزَلَ عَلَى انن کو دیکھ لینے کے بعد ہی ہوا تھا.اب خود ہی بتائیں کہ مسیح علیہ السلام مَرْيَمَ وَمَعَهُ عَلَى أُمِّهِ أَشَدُّ مِن بَلاء اور ان کی والدہ پر صلیب کے ابتلاء سے بڑھ کر اور کون سی بڑی الصَّلِيبِ ثُمَّ آئی مَكَانٍ أَوَاهُمَا مصیبت نازل ہوئی تھی اور کشمیر کے ٹیلے کے سوا اور کون سی جگہ الله إلَيْهِ مِن دُونِ ربوہ گھمبیر ہے جس میں اس کٹھن وقت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بَعْدَ ذَالِكَ الْيَوْمِ الْعَصِيب.پناہ دی.( ترجمه از مرتب ) ( الهدى و التبصرة لمن يرى ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۸ حاشیه ) خدا تو کہتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد عیسی اور اُس کی ماں کو ہم نے ایک ٹیلہ پر جگہ دی جس میں صاف پانی بہتا تھا یعنی چشمے جاری تھے بہت آرام کی جگہ تھی اور جنت نظیر تھی جیسا کہ فرماتا ہے وَأَوَيْنَهُما إلى ربوة ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ یعنی ہم نے واقعہ صلیب کے بعد جو ایک بڑی مصیبت تھی عیسی اور اس کی ماں کو ایک بڑے ٹیلہ پر جگہ دی جو بڑے آرام کی جگہ اور پانی خوشگوار تھا یعنی خطہ کشمیر.اب اگر آپ لوگوں کو عربی سے کچھ بھی مس ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اوی کا لفظ اسی موقعہ پر آتا ہے کہ جب کسی مصیبت پیش آمدہ سے بچا کر پناہ دی جاتی ہے یہی محاورہ تمام قرآن شریف میں اور تمام اقوال عرب میں اور احادیث میں موجود ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی تمام عمر میں صرف صلیب کی ہی مصیبت پیش آئی تھی.اور حدیث سے ثابت ہے کہ مریم کو تمام عمر میں اسی واقعہ سے سخت غم پہنچا تھا.پس یہ آیت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ اس واقعہ صلیب کے بعد خدا تعالیٰ نے اس آفت سے حضرت عیسی کو نجات دے کر اس موڈی ملک سے کسی دوسرے ملک میں پہنچا دیا تھا جہاں پانی صاف کے چشمے بہتے تھے اور اونچائیلہ تھا.اب سوال یہ ہے کہ کیا آسمان پر بھی کوئی چشمہ دار ٹیلہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح کو جا بیٹھایا اور ماں کو بھی.اور حضرت مسیح کے سوانح میں غور کر کے کوئی نظیر تو پیش کرو کہ کسی مصیبت کے بعد انہیں ایسے ملک میں جگہ دی گئی ہو جو آرام گاہ اور جنت نظیر ہو اور بڑائیلہ ہو تمام دنیا سے بلند.اور چشمے جاری ہوں.پس آپ کے خیال کے رُو سے خدا تعالیٰ نعوذ باللہ صریح جھوٹا ٹھہرتا ہے کہ وہ تو صلیب کے بعد هود ۴۴

Page 106

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۷۴ سورة المؤمنون ٹیلہ کا ذکر کرتا ہے جس میں میسٹی اور اُس کی ماں کو جگہ دی گئی اور آپ لوگ خواہ مخواہ اس کو آسمان پر بٹھاتے ہیں اور محض بیکار.بھلا بتلاؤ تو سہی کہ نبی ہو کر اتنی مدت کیوں بریکار بیٹھ رہا ہے.( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۸،۱۲۷) أوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِین یعنی اس مصیبت کے بعد جو صلیب کی مصیبت تھی ہم نے مسیح اور اس کی ماں کو ایسے ملک میں پہنچادیا جس کی زمین بہت اونچی تھی اور صاف پانی تھا اور بڑے آرام کی جگہ تھی.اور احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی ابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جاملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحی" کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور بیٹی نبی کے واقعہ کو با ہم مشابہت تھی.تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۹) اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر کی طرف سفر کرنا ایسا امر نہیں ہے کہ جو بے دلیل ہو، بلکہ بڑے بڑے دلائل سے یہ امر ثابت کیا گیا ہے.یہاں تک کہ خود لفظ کشمیر بھی اس پر دلیل ہے کیونکہ لفظ کشمیر وہ لفظ ہے جس کو کشمیری زبان میں کشیر کہتے ہیں.ہر ایک کشمیری اس کو کشیر بولتا ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ لفظ عبرانی ہے کہ جو کاف اور اشیر کے لفظ سے مرکب ہے اور اشیر عبرانی زبان میں شام کے ملک کو کہتے ہیں اور کاف مماثلت کے لئے آتا ہے.پس صورت اس لفظ کی تلشیر تھی یعنی کاف الگ اور آئیشیر الگ.جس کے معنے تھے مانند ملک شام یعنی شام کے ملک کی طرح اور چونکہ یہ ملک حضرت عیسی علیہ السلام کی ہجرت گاہ تھا اور وہ سرد ملک کے رہنے والے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو تسلی دینے کے لئے اس ملک کا نام تحلیشیر رکھ دیا.جس کے معنے ہیں اشیر کے ملک کی طرح.پھر کثرت استعمال سے الف ساقط ہو گیا.اور کشیر رہ گیا.پھر بعد اس کے غیر قوموں نے جو کشیر کے باشندے نہ تھے اور نہ اس ملک کی زبان رکھتے تھے ایک میم اس میں زیادہ کر کے کشمیر بنا دیا.مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ کشمیری زبان میں اب تک کثیر ہی بولا جاتا اور لکھا جاتا ہے.ما سوا اس کے کشمیر کے ملک میں اور بہت سی چیزوں کے اب تک عبرانی نام پائے جاتے ہیں بلکہ بعض پہاڑوں پر نبیوں کے نام استعمال پاگئے ہیں جن سے سمجھا جاتا ہے کہ عبرانی قوم کسی زمانہ میں ضرور اس جگہ آبادرہ چکی ہے جیسا کہ سلیمان نبی کے نام سے ایک پہاڑ کشمیر میں موجود ہے اور ہم اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست اپنی بعض کتابوں میں شائع کر چکے ہیں جو عبرانی الفاظ اور اسرائیلی نبیوں کے نام پر

Page 107

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة المؤمنون مشتمل ہے جو کشمیر میں اب تک پائے جاتے ہیں.اور کشمیر کی تاریخی کتابیں جو ہم نے بڑی محنت سے جمع کی ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں ان سے بھی مفصلاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں جو اس وقت شمار کی رو سے دو ہزار برس کے قریب گزر گیا ہے ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور شاہزادہ نبی کہلاتا تھا.اس کی قبر محلہ خان یار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کر کے مشہور ہے.اب ظاہر ہے کہ یہ کتا بیں تو میری پیدائش سے بہت پہلے کشمیر میں شائع ہو چکی ہیں.پس کیوں کر کوئی خیال کر سکتا ہے کہ کشمیریوں نے افترا کے طور پر یہ کتا بیں لکھی تھیں.ان لوگوں کو اس افترا کی کیا ضرورت تھی اور کس غرض کے لئے انہوں نے ایسا افترا کیا ؟ اور عجیب تریہ کہ وہ لوگ اب تک اپنی کمال سادہ لوحی سے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہی اعتقادر کھتے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر مع جسم عصری چلے گئے تھے اور پھر باوجود اس اعتقاد کے پورے یقین سے اس بات کو جانتے ہیں کہ ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا کہ جو اپنے تئیں شہزادہ نبی کر کے مشہور کرتا تھا.اور ان کی کتابیں بتلاتی ہیں کہ شمار کی رو سے اس زمانہ کو اب انیس سو برس سے کچھ زیادہ برس گزر گئے ہیں.اس جگہ کشمیریوں کی سادہ لوحی سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ اگر وہ اس بات کا علم رکھتے کہ شاہزادہ نبی بنی اسرائیل میں کون تھا اور وہ نبی کون ہے جس کو اب انہیں سو برس گزر گئے تو وہ کبھی ہمیں یہ کتابیں نہ دکھلاتے.اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہم نے ان کی سادہ لوحی سے بڑا فائدہ اٹھایا.ماسوا اس کے وہ لوگ شہزادہ نبی کا نام یوز آسف بیان کرتے ہیں یہ لفظ صریح معلوم ہوتا ہے کہ یسوع آسف کا بگڑا ہوا ہے.آسف عبرانی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو قوم کو تلاش کرنے والا ہو چونکہ حضرت عیسی اپنی اس قوم کو تلاش کرتے کرتے جو بعض فرقے یہودیوں میں سے گم تھے کشمیر میں پہنچے تھے اس لئے انہوں نے اپنا نام یسوع آسف رکھا تھا اور یوز آسف کی کتاب میں صریح لکھا ہے کہ یوز آسف پر خدا تعالیٰ کی طرف سے انجیل اتری تھی.پس باوجود اس قدر دلائل واضحہ کے کیوں کر اس بات سے انکار کیا جائے کہ یوز آسف در اصل حضرت عیسی علیہ السلام ہے ورنہ یہ بار ثبوت ہمارے مخالفوں کی گردن پر ہے کہ وہ کون شخص ہے جو اپنے تئیں شاہزادہ نبی ظاہر کرتا تھا جس کا زمانہ حضرت عیسی کے زمانہ سے بالکل مطابق ہے اور یہ پتہ بھی ملا ہے کہ جب حضرت عیسی کشمیر میں آئے تو اس زمانہ کے بدھ مذہب والوں نے اپنی پستکوں میں ان کا کچھ ذکر کیا ہے.ایک اور قومی دلیل اس بات پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اوینهُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ

Page 108

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمنون یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو ایک ایسے ٹیلے پر پناہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور ہر ایک دشمن کی دست درازی سے دور تھی اور پانی اُس کا بہت خوشگوار تھا.یادر ہے کہ اوی کا لفظ عربی زبان میں اس جگہ بولا جاتا ہے جب ایک مصیبت کے بعد کسی شخص کو پناہ دیتے ہیں ایسی جگہ میں جو دار الامان ہوتا ہے پس وہ دار الامان ملک شام نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک شام قیصر روم کی عملداری میں تھا.اور حضرت عیسی قیصر کے باغی قرار پاچکے تھے.پس وہ کشمیر ہی تھا جو شام کے ملک سے مشابہ تھا اور قرار کی جگہ تھی.یعنی امن کی جگہ تھی یعنی قیصر روم کو اس سے کچھ تعلق نہ تھا.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۲ تا ۴۰۵) اوی کا لفظ عرب کی زبان میں اس موقع پر استعمال پاتا ہے جبکہ کسی قدر تکلیف کے بعد کسی شخص کو اپنی پناہ میں لیا جائے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيماً فاوى ( الضُّحى : 4 ) اور جیسا کہ فرماتا ہے اوينهما إِلَى رَبِّوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۷ حاشیه ) خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ (حضرت عیسی علیہ السلام.ناقل ) مرگیا اور اس کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھوں سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصفا پانی کے چشمے اس میں جاری تھے سو وہی کشمیر ہے.اسی وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی حضرت عیسی کی طرح مفقود ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۴ حاشیه ) ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو بعد اس کے جو یہودیوں نے ان پر ظلم کیا اور حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو پناہ دی اور دونوں کو ایک ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا جو سب پہاڑوں سے اونچا تھا یعنی کشمیر کا پہاڑ جس میں خوشگوار پانی تھا اور بڑی آسائش اور آرام کی جگہ تھی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۳) أوَيْنَهُمَا إِلى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ وہ شام ہی میں تھا میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط ہے.قرآن شریف خود اس کے مخالف ہے اس لئے کہ اوی کا لفظ تو اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں ایک مصیبت کے بعد نجات ملے اور پناہ دی جاوے.یہ بات اس رومی سلطنت میں رہ کر انہیں کب حاصل

Page 109

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام LL ہو سکتی تھی.وہ تو وہاں رہ سکتے ہی نہ تھے.اس لئے لازمی طور پر انہوں نے ہجرت کی.سورة المؤمنون (احکام جلد ۹ نمبر ۵ ۳مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۵) ياَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ۵۲ پاک چیزیں کھاؤ اور پاک عمل کرو.اس آیت میں حکم جسمانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے محموا من الطیبت کا ارشاد ہے اور دوسرا حکم روحانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے وَاعْمَلُوا صَالِحًا کا ارشاد ہے اور ان دونوں کے مقابلہ سے ہمیں یہ دلیل ملتی ہے کہ بدکاروں کے لئے عالم آخرت کی سزا ضروری ہے کیونکہ جبکہ ہم دنیا میں جسمانی پاکیزگی کے قواعد کو ترک کر کے فی الفور کسی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں اس لئے یہ امر بھی یقینی ہے کہ اگر ہم روحانی پاکیزگی کے اصول کو ترک کریں گے تو اسی طرح موت کے بعد بھی کوئی عذاب مولم ضرور ہم پر وارد ہو گا.جو وباء کی طرح ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہوگا.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۸) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کچھ چیز نہیں بلکہ جیسا کہ ہم اپنے جسمانی بدطریقوں سے وباء کو اپنے پر لے آتے ہیں اور پھر حفظ صحت کے قواعد کی پابندی سے اس سے نجات پاتے ہیں.یہی قانونِ قدرت ہمارے روحانی عذاب اور نجات سے وابستہ ہے.ایام صلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۸ حاشیه ) قرآن شریف تو خلوا من الطيبت کی تعلیم دے اور یہ لوگ طیب عمدہ چیز میں خاک ڈال کر غیر طیب بنا دیں.اس قسم کے مذاہب اسلام کے بہت عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں.یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافہ کرتے ہیں.ان کو اسلام سے اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.یہ خود اپنی شریعت الگ قائم کرتے ہیں.میں اس کو سخت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں.ہماری بھلائی اور خوبی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو آپ کے نقش قدم پر چلیں اور اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا ئیں.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۲) فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ۵۴ فطرت ایسی چیز نہیں جو مستقل طور پر ہادی ہو سکے کیونکہ وہ شیطان کے قائم مقام مضل بھی تو ہو جاتی ہے.

Page 110

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ZA سورة المؤمنون فطرت میں تو ہمات کے داخل ہو جانے سے جو بعض نقص پیدا ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ کہا گیا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۹) ام يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَ اكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَرِهُونَ وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ بَلْ آتَيْنَهُم بذكرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ.) کیا یہ کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہے؟ نہیں.بلکہ بات تو یہ ہے کہ خدا نے ان کی طرف حق بھیجا اور وہ حق کے قبول کرنے سے کراہت کر رہے ہیں اور اگر خدا ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو زمین اور آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب بگڑ جاتا بلکہ ہم ان کے لئے وہ ہدایت لائے ہیں جس کے وہ محتاج ہیں.سو جس ہدایت کے وہ محتاج ہیں اسی سے کنارہ کش ہیں.برائین احمد یہ چہار قصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۶٬۲۴۵ حاشیہ نمبر ۱۱) ، نمبر۱۱) مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَ مَا كَانَ مَعَهُ مِنْ الهِ إِذَا لَذَهَبَ كُلُّ الهِم بِمَا خَلَقَ وَ ވ މ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ سُبُحْنَ اللهِ عَمَّا يَصِفُونَ.® اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کاملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے.کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے خلاف کام کرتے.پس اس پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پاتا اور نیز الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا برباد کر نا روا رکھتا.پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.برائن احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۱۹،۵۱۸ حاشیه در حاشیه نمبر (۳) وَ إِنَّا عَلَى أَنْ تُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَدِرُونَ.97 اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کی نسبت وعدہ کرتے ہیں وہ تجھے دکھلا دیں.( براتین احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۴ حاشیہ نمبر ۱۱)

Page 111

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة المؤمنون اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ) خدا تعالیٰ قرآن شریف میں پیش دستی کر کے لڑائی کرنا ایک سخت مجرمانہ فعل قرار دیتا ہے بلکہ مومنوں کو جا بجا صبر کا حکم دیا ہے جیسا کہ وہ اس آیت میں فرماتا ہے ادفع بالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَكَ وَلِيٌّ حَيه (حم السجدة : ۳۵) یعنی تیرا دشمن جو تجھ سے بدی کرتا ہے اس کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کر.اگر تو نے ایسا کیا تو وہ تیرا ایسا دوست ہو جائے گا کہ گو یا رشتہ دار بھی ہے.دو چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۳ برس تک جو رو ستم سہنے پڑے اور پھر مدافعت کا حکم دیا گیا.اذن لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الج :۴۰) سے ظاہر ہے کہ پہلے جواب تک دینے کا بھی حکم نہیں تھا اس لئے دو اصل فرمائے ایک تو و آغرِضُ عَنِ الْجهلِين جن لوگوں میں جہالت کا مادہ ہو.جو تکبر سے بھرے ہوئے جھگڑالو ہوں.ان سے اعراض کرنا چاہیے.ان کی باتوں کا جواب ہی نہ دیا جاوے دوم ادفع بِالَّتِی هيَ أَحْسَن یعنی بدی کے مقابلہ میں نیکی کرنا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوست بن جاتا ہے اور وہ دوست بھی ایسا کہ كَانَهُ وَلِيٌّ حَمِيم - ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱۱ارا پریل ۱۹۰۷ صفحه ۶) حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لى لَعَلى أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَابِلُهَا وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ یعنی جب کافروں میں سے ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھ کو پھر دنیا میں بھیج تا ہو کہ میں نیک عمل کروں اور تدارک مافات مجھے سے ہو سکے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ ہرگز نہیں ہوگا.یہ صرف اس کا قول ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتداء سے کوئی بھی وعدہ نہیں کہ مردہ کو پھر دنیا میں بھیجے اور پھر آگے فرمایا کہ جو لوگ مر چکے ہیں ان میں اور دنیا میں ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت تک دنیا کی طرف رجوع نہیں کر سکتے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۹ حاشیه در حاشیه ) فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَبِةٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ.خدا تعالی کی آواز تو ہمیشہ آتی ہے مگر مردوں کی نہیں آتی.اگر کبھی کسی مردے کی آواز آتی ہے تو خدا تعالیٰ

Page 112

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة المؤمنون کی معرفت یعنی خدا تعالیٰ کوئی خبر ان کے متعلق دے دیتا ہے.اصل یہ ہے کہ کوئی ہو خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے کہ آن را خبر شد خبرش باز نیامد.اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل وعیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے.وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں.اسی لئے فرمایا ہے فَلا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ.99191 الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۹)

Page 113

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ΔΙ سورة النُّور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النُّور بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُل وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذُكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدُ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بعض وقت انسان مارکھانے سے درست ہوتا ہے اور بعض وقت ماردیکھنے سے.زنا کی سزا کے لئے بھی خدا نے کہا ہے کہ لوگوں کو دکھا کر دی جائے.اسی طرح دوسروں کو تازیانہ پڑ رہا ہے اور ہماری جماعت دیکھ رہی ہے.بہت سے آدمی تھے جنہوں نے ہمارے منشاء اور ارادہ کو آج تک نہیں سمجھا تھا مگر اب خدا ان کو دوسروں کو تازیانہ لگا کر سمجھا رہا ہے طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنین سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طائفہ میں کوئی کسر ہوگی.اس کی اصلاح اس طرح سے ہو جائے گی کہ وہ دوسرے کو اصلاح ملتی دیکھ کر اپنی اصلاح کریں گے اور اس میں کل مومنوں کو بھی نہیں کہا بلکہ ایک طائفہ کو کہا ہے.(البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ نومبر - ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۵) وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمِنِينَ

Page 114

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة النُّور جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.) جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور اس تہمت کے ثابت کرنے کے لئے چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی درے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ آپ ہی بدکار ہیں.اس جگہ مُخصنت کے لفظ کے وہی معنے ہیں جو آیت گذشتہ میں بری کے لفظ کے معنے ہیں.اب اگر بموجب قول مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کے بری کے لفظ کا مصداق صرف وہ شخص ہو سکتا ہے کہ جس پر اول فرد قرار داد جرم لگائی جاوے اور پھر گواہوں کی شہادت سے اس کی صفائی ثابت ہو جائے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صورت میں یعنی اگر تبری کے لفظ میں جو آیت ثُمَّ يَوْمِ بِهِ بَريَّا (النساء : ۱۳) میں ہے یہی منشاء قرآن کا ہے.تو کسی عورت پر مثلا زنا کی تہمت لگانا کوئی جرم نہ ہوگا بجز اس صورت کے کہ اس نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت کر دیا ہو کہ وہ زانیہ نہیں اور اس سے یہ لازم آئے گا کہ ہزار ہا مستور الحال عورتیں جن کی بد چلنی ثابت نہیں حتی کہ نبیوں کی عورتیں اور صحابہ کی عورتیں اور اہل بیت میں سے عورتیں تہمت لگانے والوں سے بجز اس صورت کے مخلصی نہ پاسکیں اور نہ بری کہلانے کی مستحق ٹھہر سکیں جب تک کہ عدالتوں میں حاضر ہو کر اپنی عفت کا ثبوت نہ دیں حالانکہ ایسی تمام عورتوں کی نسبت جن کی بد چلنی ثابت نہ ہو خدا تعالیٰ نے بار ثبوت الزام لگانے والوں پر رکھا ہے اور ان کو بری اور مخصنت کے نام سے پکارا ہے جیسا کہ اسی آیت ثُمَّ لَم يَأْتُوا بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ سے سمجھا جاتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۱۹،۳۱۸) جو لوگ ایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کار ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں تو ان کو اسی درے مارنے چاہئیں.اب دیکھو کہ ان عورتوں کا نام خدا نے بری رکھا ہے جن کا زانیہ ہونا ثابت نہیں.پس بری کے لفظ کی یہ تشریح بعینہ ڈسچارج کے مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بری کا لفظ جو قرآن نے آیت یزم په بریا میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا ہے کہ جبکہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرار داد جرم لگائی جائے.اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صورت میں ہر ایک شریر کو آزادی ہوگی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگاوے جنہوں نے معتمد گواہوں کے ذریعہ

Page 115

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة النُّور سے عدالت میں ثابت نہیں کر دیا کہ وہ زانیہ نہیں ہیں خواہ وہ رسولوں اور نبیوں کی عورتیں ہوں اور خواہ صحابہ کی اور خواہ اولیاء اللہ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیں ہوں اور ظاہر ہے کہ آیت پڑھ یہ بریا میں بری کے لفظ کے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہرگز خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۴۲، ۴۴۳) وَ الَّذِينَ يَرْمُونَ ازْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاهُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهدَتِ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصُّدِقِيْنَ.وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكَذِبِينَ شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ (مجموعه اشتہارات،جلد دوم صفحه ۶۲۵) جھوٹا ہے.وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسْكِينَ وَ الْمُهْجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلِيَعْفُوا وَ لْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَ دو اللهُ غَفُورٌ رَّحِيم جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل کر رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے.حضرت ابو بکر نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بیجا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی بھی وَلِيَعْفُوا وَ لْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ تب حضرت ابوبکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی.اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر ط

Page 116

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة النُّور کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑ نا حسنِ اخلاق میں داخل ہے.مثلاً اگر کوئی اپنے خدمتگار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی تو بہ اور تضرع پر معاف کرنا سنتِ اسلام ہے تا باخلاق ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں.ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک وعید پر نہیں.اتخلق (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۸۱) لوگوں کے گناہ بخشو اور ان کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو غفور الرحیم ہے.اور انجیل نے بھی صبر اور عفو کی تعلیم دی ہے مگر اکثر لوگوں کو شاید یہ بات یاد نہیں ہوگی کہ حضرت عیسی انجیل میں فرماتے ہیں کہ مجھے دوسری قوموں سے سروکار نہیں میں صرف بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ہوں.یعنی میری ہمدردی صرف یہودیوں تک محدود ہے مگر قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ دوسری قوموں سے بھی ہمدردی کرو جیسا کہ اپنی قوم کے لئے اور دوسری قوموں کو بھی معاف کرو جیسا کہ اپنی قوم کو.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۷) الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَتِ ۚ وَالطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ ط لِلطَّيِّبَتِ أُولَبِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ.انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں مثلاً جیسے آتشک ہو جذام ہو یا اور کوئی ایسی ہی ذلیل مرض، یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کو ہوتی ہیں الْخَبیثت لِلْخَبِيثِينَ.اس میں عام لفظ رکھا ہے اور نکات بھی عام ہیں اس لئے ہر خبیث مرض سے اپنے ماموروں اور برگزیدوں کو بچا لیتا ہے یہ بھی نہیں ہوتا کہ مومن پر جھوٹا الزام لگایا جاوے اور وہ بری نہ کیا جاوے خصوصاً مصلح اور مامور، یہی وجہ ہے کہ مصلح یا مامور حسب نسب کے لحاظ سے بھی ایک اعلیٰ درجہ رکھتا ہے.احکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷ رفروری ۱۹۰۱ صفحه (۸) مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالح ہو سکتی ہے ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالح بن سکتی ہے.قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہیے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے.عورت تو در کنار اور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے اگر مرد کوئی بھی یا خامی اپنے اندر.در کھے گا تو عورت ہر

Page 117

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة النُّور وقت کی اس پر گواہ ہے.اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں.غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اسے خبیث اور طیب بناتا ہے.اس لئے لکھا ہے الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ....و الطيبتُ لِلطَّيِّبين اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزاروں ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے.نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا.ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے.بھلا جب خاوند رات کو اُٹھ کر دعا کرتا ہے، روتا ہے تو عورت ایک دن دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور مؤثر ہوگی.عورت میں مؤثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں ان کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں.ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کر سکتا جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے.خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی اثر کچھ اس پر نہیں ہوتا.خدا نے مرد عورت دونوں کا ایک ہی وجود فرمایا ہے.یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان میں نقص پکڑیں ورنہ ان کو چاہیے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقع نہ دیں کہ وہ یہ کہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکر مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے.(البدرجلد ۲ نمبر ۹ مورخه ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۸) مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو پھر کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے.مرد کو چاہیے کہ اپنے قومی کو برحل اور حلال موقع پر استعمال کرے.مثلاً ایک قوت عصبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے.مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے اس طرح وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں جیسے سخاوت، حلم، صبر اور جیسے اسے پر کھنے کا موقع ملتا ہے وہ دوسرے کومل ، نہیں سکتا اسی لئے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتی کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہوگئی.شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پردہ بھی چھوڑ دیا.غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی.خاوند نے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا تو اس

Page 118

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة النُّور نے بیوی کو کہا کہ تو بھی میرے ساتھ مسلمان ہو.اس نے کہا کہ اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے.یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑ گئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۳) ایک عائشہ رضی اللہ عنہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اول کوئی اطلاع نہ ہوئی.یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر ارتکاب کیا ہے تو تو بہ کر لے.ان واقعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کس قدر اضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا الخَبيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ....و الطيبتُ لِلطَّيِّبِينَ تو آپ کو ا فک کی حقیقت معلوم ہوئی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۸) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ متقی کو ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا.الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ والطيبتُ لِلطَّيِّبِينَ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ متقیوں کو اللہ تعالی خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لوگوں کے لئے ہیں.اگر انسان تقویٰ اختیار کرے اور باطنی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پاکیزگی ہے تو وہ ایسی ابتلاؤں سے بچالیا جاوے گا.ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی.اور جب کھانا رکھا گیا تو عمداً سور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے اور اپنے دوستوں کے آگے.جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذریعہ کشف اصل حال کھول دیا.انہوں نے کہا ٹھہرویہ تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ کر اپنے آگے کی رکابیاں ان کے آگے اور ان کے آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے کہ الخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ الآيه غرض جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بری اور مکر وہ باتوں سے اس کو بچالیتا ہے الا مَا رَحِمَ رَبِّي (يوسف : ۵۴) کے یہ معنے ہیں.الحکم جلد نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) انسان اگر اپنے نفس کی پاکیزگی اور طہارت کی فکر کرے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر گنا ہوں سے بچتا رہے تو اللہ تعالیٰ یہی نہیں کہ اس کو پاک کر دے گا بلکہ وہ اس کا متکفل اور متولی بھی ہو جائے گا اور ایسے خبیثات سے بچائے گا.الخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ کے یہی معنے ہیں.اندرونی معصیت، ریا کاری انجب ، تکبر،

Page 119

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة النُّور خوشامد، خود پسندی، بدظنی اور بدکاری وغیرہ وغیرہ خباثتوں سے بچنا چاہیے.اگر اپنے آپ کو ان خباثتوں سے بچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پاک و مطہر کر دے گا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۷) متقی کو تو کسی قسم کی تکلیف پیش نہیں آتی اور اسے حلال روزی پہنچانے کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے اور اس نے یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ الْخَبِيثُتُ لِلْخَبِيثِينَ....وَ الطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ اس سے معلوم ہوا کہ خبیث اشیاء خبیث لوگوں کو بہم پہنچائی جاتی ہیں اور پاکیزہ چیزیں پاکیزہ لوگوں کو دی جاتی ہیں.اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کی دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور سور کا بھی.جس کی دعوت کی وہ ایک پاکیزہ آدمی تھاس کے آگے اس نے دیدہ و دانستہ سور کا گوشت رکھا اور اپنے آگے بکری کا.خدا تعالیٰ نے اس پر کشف سے یہ امر کھول دیا.جب بسم اللہ کا حکم ہوا تو اس نے کہا ٹھہرو یہ تقسیم ٹھیک نہیں ہے چنانچہ وہ اپنے آگے کی رکابیاں اُٹھا کر صاحب خانہ کے آگے اور اس کے آگے کی اُٹھا کر اپنے آگے رکھتا جاتا تھا اور یہی آیت پڑھتا تھا کہ الْخَبِيثُتُ الخ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۲۶) قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ بجز زنا کے اپنی بیوی کی ہر یک ناپاکی پر صبر کرو اور طلاق مت دو بلکہ وہ کہتا ہے الطَّيِّبتُ لِلطَّيِّبين قرآن کا یہ منشاء ہے کہ نا پاک پاک کے ساتھ رہ نہیں سکتا.پس اگر تیری بیوی زنا تو نہیں کرتی مگر شہوت کی نظر سے غیر لوگوں کو دیکھتی ہے اور ان سے بغل گیر ہوتی ہے اور زنا کے مقدمات اس سے صادر ہوتے ہیں گو ابھی تکمیل نہیں ہوئی اور غیر کو اپنی برہنگی دکھلا دیتی ہے اور مشرکہ اور مفسدہ ہے اور جس پاک خدا پر تو ایمان رکھتا ہے اس سے وہ بیزار ہے تو اگر وہ باز نہ آوے تو تو اسے طلاق دے سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے اعمال میں تجھ سے علیحدہ ہوگئی.اب تیرے جسم کا ٹکٹ نہیں رہی.پس تیرے لئے اب جائز نہیں ہے کہ تو دیوٹی سے اس کے ساتھ بسر کرے کیونکہ اب وہ تیرے جسم کا ٹکڑہ نہیں ایک گندہ اور متعفن عضو ہے جو کاٹنے کے لائق ہے ایسا نہ ہو کہ وہ باقی عضو کو بھی گندہ کر دے اور تو مر جاوے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹) أوليكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ.یہ اس مقام کی آیت ہے کہ جہاں بے لوث اور بے گناہ ہونا ایک کا ایک وقت تک مشتبہ رہا پھر خدا نے اس کی طرف سے ڈیفنس پیش کر کے اس کی بریت کی.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۴۱) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلَى

Page 120

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۸ سورة النُّور أهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا ۲۸ تَدخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ.۲۹ دوسرے گھروں میں وحشیوں کی طرح خود بخود بے اجازت نہ چلے جاؤ ا جازت لینا شرط ہے.اور جب تم دوسروں کے گھروں میں جاؤ تو داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہو اور اگر ان گھروں میں کوئی نہ ہو تو جب تک کوئی مالک خانہ تمہیں اجازت نہ دے ان گھروں میں مت جاؤ اور اگر مالک خانہ یہ کہے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ.یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر یک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معینہ مشخصہ پر قائم کیا اور ادب انسانیت اور پاک روشنی کا طریقہ سکھلایا.وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضا کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرما یا قُلْ لِلْمُؤْمِنينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمُ الجزء نمبر ۱۸.یعنی مومنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو نامحرموں سے بچاویں.اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور نا کر دنی سے پر ہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہوگا یعنی ان کے دل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قوی بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضا ہیں.اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایماندار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۰۹ حاشیه ) مومنین کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں اور اپنی ستر گاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں.یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر یک

Page 121

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام b ۸۹ سورة النُّور مومن کے لئے منہیات سے پر ہیز کرنا اور اپنے اعضا کو نا جائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے.برائن احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ نہ تو شہوت سے اور نہ بغیر شہوت کے بیگانہ عورت کے منہ پر ہر گز نظر نہ ڈال اور ان کی باتیں مت سن اور ان کی آواز مت سن اور ان کے حسن کے قصے مت سن کہ ان امور سے پر ہیز کرنا تجھے ٹھوکر کھانے سے بچائے گا.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ اَزْکی لَهُمْ یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم کو دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں اور اپنے کانوں اور ستر گاہوں کی حفاظت کریں یعنی کان کو بھی ان کی نرم باتوں اور ان کی خوبصورتی کے قصوں سے بچاویں کہ یہ سب طریق ٹھو کر کھانے کے ہیں.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۶) جو شخص آزادی سے نامحرم عورتوں کو دیکھتا رہے گا آخر ایک دن بد نیتی سے بھی دیکھے گا کیونکہ نفس کے جذبات ہر یک طبیعت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور تجربہ بلند آواز سے بلکہ چھینیں مار کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ بیگانہ عورتوں کو دیکھنے میں ہرگز انجام بخیر نہیں ہوتا.یورپ جو زنا کاری سے بھر گیا اس کا کیا سبب ہے یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھنا عادت ہو گیا.اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں اور پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہو گیا پھر اس سے ترقی ہو کر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جا کر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا.شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں.تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے.عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسی اور آنکھ ایسی ہے اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں نہ آنکھوں کو نہ ہاتھوں کو نہ منہ کو.یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے.نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۶، ۴۱۷) ایمان داروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں اور ایسے موقع پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بریگا نہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے.ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۱)

Page 122

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۰ سورة النُّور مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محل شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پر کشادہ اور بے روک نظر پڑ سکے اور اس بات کے پابندر ہیں کہ ہرگز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے کیونکہ ایسا کرنا آخر ٹھوکر کا باعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلاء پیش آتا ہے اور دل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو.اور وہ مقام از کی جس پر طالب حق کے لئے قدم مارنا مناسب ہے حاصل نہیں ہوسکتا اور اس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کو محفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہو سکتی ہے.سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے آلات شہوت اور کان اور ناک اور منہ سب داخل ہیں.اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نا معقول طور پر افراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کر لے گا کہ اس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں اور دونوں طرف مرد اور عورت میں سے کوئی فریق ٹھو کر نہ کھاوے لیکن انجیل میں جو بیقیدی اور کھلی آزادی دی گئی اور صرف انسان کی مخفی نیت پر مدار رکھا گیا ہے اس تعلیم کا نقص اور خامی ایسا امر نہیں ہے کہ اس کی تصریح کی کچھ ضرورت ہو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۵،۱۶۴) مومنوں کو کہہ دے مرد ہوں یا عورتیں ہوں کہ اپنی آنکھوں کو غیر عورتوں اور مردوں کی طرف دیکھنے سے رو کو اور کانوں کو غیر مردوں کی ناجائز آواز اور غیر کی آواز سننے سے روکو اور اپنے ستر گاہوں کی حفاظت کرو کہ اس طریق سے تم پاک ہو جاؤ گے.اب اے آریہ صاحبان انصاف سے سوچو کہ قرآن شریف تو اس بات سے بھی منع کرتا ہے کہ کوئی مرد غیر عورت پر نظر ڈالے اور یا عورت غیر مرد پر نظر ڈالے یا اس کی آواز ناجائز طور پر سنے مگر آپ لوگ خوشی سے اپنی بیویوں کو غیر مردوں سے ہم بستر کراتے ہیں اس کا نام نیوگ رکھتے ہیں.کس قدر ان دونوں تعلیموں میں فرق ہے.خود سوچ لیں.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴۶،۴۴۵) قرآن نے چونکہ کل ملل اور فرقوں کو زیر نظر رکھ لیا تھا اور تمام ضرورتیں اس تک پہنچ کر ختم ہو گئی تھیں اس لئے قرآن نے عقائد کو بھی اور احکام عملی کو بھی مدلل کیا چنانچہ قرآن فرماتا ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَخْضُوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ یعنی مومنوں سے کہہ دے کہ اپنے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام

Page 123

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة النُّور فروج کی بھی حفاظت کریں.لازم ہے کہ انسان چشم خوابیدہ ہو تا کہ غیر محرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے.کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص سن کر فتنہ میں پڑ جاتے ہیں اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تمام موریوں کو محفوظ رکھو اور کہا کہ بالکل بند رکھو ذلک ان کی لَهُمُ یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریق اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی رکھتا ہے جس کے ہوتے ہوئے بدر کاروں میں نہ ہوگے.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۸) مسیح کا یہ کہنا کہ زنا کی نظر سے نہ دیکھ کوئی کامل تعلیم نہیں ہے.اس کے مقابلہ میں کامل تعلیم یہ ہے جو مبادی گناہ سے بچاتی ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ یعنی کسی نظر سے بھی نہ دیکھیں کیونکہ دل اپنے اختیار میں نہیں ہے.یہ کیسی کامل تعلیم ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۴) مومن کو نہیں چاہیے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اُٹھائے پھرے.بلکہ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِهِمْ پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہیے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چاہیے.الحام جلد ۵ نمبر ۱ ۳ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۴،۳) یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی یہ لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو.اگر اس آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں.نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنارکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے

Page 124

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة النُّور کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے ( جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے ) کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُم که تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.فروج سے مراد شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے که غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے.پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے ( تعدد ازدواج اور طلاق کے مسئلہ پر غور کرو) لیک بعد از خرابی بسیار هر چه دانا کند کند نادان ہمیں افسوس ہے کہ آریہ صاحبان بھی بے پردگی پر زور دیتے ہیں اور قرآن شریف کے احکام کی مخالفت چاہتے ہیں حالانکہ اسلام کا یہ بڑا احسان ہندوؤں پر ہے کہ اس نے ان کو تہذیب سکھلائی اور اس کی تعلیم ایسی ہے جس سے مفاسد کا دروازہ بند ہو جاتا ہے مثل مشہور ہے ؎.خر بسته به گرچه درد آشنا است یہی حالت مرد اور عورت کے تعلقات کی ہے کہ اگر چہ کچھ ہی کیوں نہ ہولیکن تاہم فطری جوش اور تقاضے بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ذراسی تحریک ہوئی تو جھٹ حد اعتدال سے ادھر ادھر ہو گئے اس لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں حد درجہ کی آزادی وغیرہ کو ہرگز نہ دخل دیا جاوے ذرا اپنے دلوں میں غور کرو کہ کیا تمہارے دل راجہ رامچندر اور کرشن وغیرہ کی طرح پاک ہو گئے ہیں ؟ پھر جب وہ پاک دلی تم کو نصیب نہیں ہوئی تو بے پردگی کو رواج دے کر بکریوں کو شیروں کے آگے کیوں رکھتے ہو.ہٹ اور ضد اور تعصب اور چڑ وغیرہ سے تم لوگ دیدہ و دانستہ اسلام کے ان پاکیزہ اصولوں کی مخالفت کیوں کرتے ہو جن سے تمہاری عفت برقرار رہتی ہے عقل تو اس بات کا نام ہے کہ انسان کو نیک بات جہاں سے ملے وہ لے لیوے کیونکہ نیک بات کی مثال سونے اور ہیرے اور جواہر کی ہے اور یہ اشیاء خواہ کہیں ہوں آخر وہ سونا وغیرہ ہی ہوں گی اس لئے تم کو لازم ہے کہ اسلام کے نام سے چڑ کر تم نیکی کو ترک نہ کرو ورنہ یا درکھو کہ اسلام کا تو کچھ حرج نہیں ہے اگر اس کا ضرر ہے تو تم ہی کو ہے ہاں اگر تم لوگوں کو یہ اطمینان ہے کہ سب کے سب بھگت بن

Page 125

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة النُّور گئے ہو اور نفسانی جذبات پر تم کو پوری قدرت حاصل ہے اور قومی پرمیشر کی رضا اور احکام کے برخلاف بالکل حرکت نہیں کرتے تو پھر ہم تم کو منع نہیں کرتے بے شک بے پردگی کو رواج دو لیکن جہاں تک میرا خیال ہے ابھی تک تم کو وہ حالت نصیب نہیں اور تم میں سے جس قدر لوگ لیڈر بن کر قوم کی اصلاح کے درپے ہیں ان کی مثال سفید قبر کی ہے جس کے اندر بجز ہڈیوں کے اور کچھ نہیں کیونکہ ان کی صرف باتیں ہی ہیں عمل وغیرہ کچھ نہیں.اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسانی پھسلنے اور ٹھو کر کھانے کی حد سے بچا رہے کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذراسی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے....یہ ہے سر اسلامی پردہ کا.اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۷،۶) ص وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبَا بِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَا بِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَا بِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوَاتِ النِّسَاءِ وَ لا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ ص زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچا ئیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پر شہوت آواز میں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضا کوکسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر

Page 126

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة النُّور پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں.یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۱، ۳۴۲) خوابیدہ نگاہ سے غیر حل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۴) آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ جانتے نہیں کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہوگا ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابامل سکیں.سیریں کریں کیوں کر جذبات نفس سے اضطرار ا ٹھو کر نہ کھائیں گے.بسا اوقات سننے دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مردعورت کو ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتے.یہ گویا تہذیب ہے ان ہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے ہی کی اجازت نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع میں یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح دو غیر محرم مرد و عورت جمع ہوں تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے.ان نا پاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہی تعلیموں کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کر ولیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یا درکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیا پاک تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی.جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۸).

Page 127

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة النُّور قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں.جب ایک دوسرے کو دیکھیں ہی گئے نہیں تو محفوظ رہیں گے.یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ.افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے.اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے جو اخبارات پڑھتے ہیں.ان کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کئے جاتے ہیں.اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے.وہ بیشک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں.اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو اسلام شہوات کی بناء کو کاتا ہے.یورپ کو دیکھو کیا ہورہا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں.یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری کا یا پردہ دری کا ؟ ا احکام جلد ۵ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۱ صفحه ۳) پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے.یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے.غرض ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں.جو افراط اور تفریط کر رہے الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۵) ہیں.شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں.مثلاً منہ پر ارد گرد اس طرح پر چادر ہو ( اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے ان کو کھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے دکھایا گیا ہے ) اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے

Page 128

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة النُّور میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں.ریویو آف ریلیجر، جلد ۴ نمبر صفحہ ۱۷ ماه جنوری ۱۹۰۵ء) وَاَنْكِحُوا الْأَيَا فى مِنْكُمْ وَالصَّلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَا بِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٣٣ اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیسا کوئی بڑا بھارا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے.عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے.ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے.ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے.جس عورت کو اللہ ، رسول پیارا ہے اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یا در کھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے.الخام جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے.چونکہ بعض قو میں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بد رسم بہت پھیلی ہوئی ہے اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جاوے نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے.بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں.بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہو تیں مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے.ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جاوے.ہاں اس بد رسم کو مٹادینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبر رکھا جاتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۱ مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱)

Page 129

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة النُّور وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُونَ الكِتب مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُم إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا وَ أتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِى الكُمْ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيْتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنَّا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَنْ يُكْرِهَهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ ۳۴ غفور رحيم ® جو لوگ نکاح کی طاقت نہ رکھیں جو پرہیز گار رہنے کا اصل ذریعہ ہے تو ان کو چاہئے کہ اور تدبیروں سے طلب عفت کریں چنانچہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو نکاح کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لئے پر ہیز گار رہنے کے لئے یہ تدبیر ہے کہ وہ روزے رکھا کرے اور حدیث یہ ب يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَ لَ فَلْيَتَزَوَّجُ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءَ صحیح مسلم و بخاری یعنی اے جوانوں کے گروہ جو کوئی تم میں سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو چاہئے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ نکاح آنکھوں کو خوب نیچا کر دیتا ہے اور شرم کے اعضاء کو زنا وغیرہ سے بچاتا ہے ورنہ روزہ رکھو کہ وہ خصی کر دیتا ہے.اب ان آیات اور حدیث اور بہت سی اور آیات سے ثابت ہے کہ نکاح سے شہوت رانی غرض نہیں بلکہ بد خیالات اور بدنظری اور بدکاری سے اپنے تئیں بچانا اور نیز حفظ صحت بھی غرض ہے.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲، ۲۳) جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے.مثلا روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے اور اور لوگوں نے یہ بھی طریق نکالے ہیں کہ وہ ہمیشہ عمداً نکاح سے دست بردار ر ہیں یا خو جے بنیں اور کسی طریق سے رہبانیت اختیار کریں.مگر ہم نے انسان پر یہ حکم فرض نہیں کئے اس لئے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے.خدا کا یہ فرمانا کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوجے بنیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو سب لوگ اس حکم پر عمل کرنے کے مجاز بنتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا.اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنی ہو کہ عضو مردمی کو کاٹ دیں تو یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنایا اور نیز جبکہ

Page 130

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة النُّور ثواب کا تمام مدار اس بات پر ہے کہ ایک قوت موجود ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کا خوف کر کے اس قوت کے خراب جذبات کا مقابلہ کرتا رہے.اور اس کے منافع سے فائدہ اٹھا کر دو طور کا ثواب حاصل کرے.پس ظاہر ہے کہ ایسے عضو کے ضائع کر دینے میں دونوں ثوابوں سے محروم رہا.ثواب تو جذ بہ مخالفانہ کے وجود اور پھر اس کے مقابلہ سے ملتا ہے.مگر جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی اس کو کیا ثواب ملے گا.کیا بچہ کو اپنی عفت کا ثواب مل سکتا ہے؟ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۲، ۳۴۳) اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُورٌ عَلَى نُورٍ - يَهْدِى اللَّهُ ط و لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے.خواہ وہ ارواح میں ہے.خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی.اس کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروزبر کی پناہ ہی وہی ہے جس نے ہر یک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو.یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.میں ظاہر فرمایا گیا.یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائض ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں.لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے.یعنی نفوس کا ملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات

Page 131

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة النُّور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا.اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے.اس لئے خداوند تعالیٰ نے اول فیضان عام کو ( جو بدیہی الظہو ر ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضان خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے.مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الخ اور بطور مثال اس لئے بیان کیا کہ تا اس دقیقہ نازک کے سمجھنے میں ابہام اور دقت باقی نہ رہے.کیونکہ معانی معقولہ کو صور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہر یک نجمی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے.بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ یہ ہے.اس نور کی مثال ( فرد کامل میں جو پیغمبر ہے ) یہ ہے جیسے ایک طاق ( یعنی سینه مشروح حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) اور طاق میں ایک چراغ ( یعنی وحی اللہ ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفی ہے.(یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہر یک طور کی کثافت اور کدورت سے منزہ اور مطہر ہے.اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے ) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النورستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کو کو کب دری کہتے ہیں ( یعنی حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے ) وہ چراغ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے ( یعنی زیتون کے روغن سے ) روشن کیا گیا ہے ( فجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجو د مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع واقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں.بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام على سبيل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا ) اور شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنی طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط.بلکہ نہایت توسط واعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے.اور یہ جو فرمایا کہ اس شجرہ مبارکہ کے روغن سے چراغ وحی روشن کیا گیا ہے.سور وفن سے مراد معقل لطیف نورانی محمدی معہ جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے جو اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں.اور وحی کا چراغ لطائف محمد یہ سے روشن ہونا ان معنوں کر کے ہے کہ ان لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرے.اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضانِ وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا.اور انہیں اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی.اس کی تفصیل یہ ہے

Page 132

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النُّور کہ ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.تو ریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی.سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نری پر مشتمل ہے.مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھانہ ہر جگہ علم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا.بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.سوقرآن شریف بھی اسی طر ز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و هیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی.یعنی طینت معتدلہ محمدیہ کے موافق نازل ہوا ہے جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح درشتی ہے.نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی.بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لطف کا جامع ہے.اور مظہر کمال اعتدال اور جامع بین الجلال والجمال ہے اور اخلاق معتدلہ فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جو جمعیت عقل لطیف روغن ظہور روشنی وحی قرار پائی.ان کی نسبت ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے إِنَّكَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : ۵) الجز نمبر ۲۹ یعنی تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق ومفطور ہے یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا ستم و یکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت ستم میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.مثلاً جب کہیں کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس قدر طول و عرض درخت میں ہو سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہے.اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطہ اور اک سے باہر ہو.اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اور حسنِ اختلاط یا نرمی و تلطف و ملائمت جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں ) مراد نہیں ہے بلکہ خلق بفتح خا اور ملق بضم خاد ولفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل واقعہ ہیں.خلق بفتح خا سے مراد وہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت واہب الصور کی طرف سے عطا ہوئی.جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے.اور خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنی خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانیہ حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کلی رکھتی ہے.پس جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن ما بہ الامتیاز ہیں.اُن سب کا نام خلق ہے.اور چونکہ شجر کہ فطرت انسانی

Page 133

1+1 سورة النُّور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اصل میں توسط اور اعتدال پر واقعہ ہے.اور ہر یک افراط و تفریط سے جو قومی حیوانیہ میں پایا جاتا ہے منزہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين :۵ ) الجز نمبر ۳۰.اس لئے خُلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں.اور وہ اخلاق فاضلہ جو حقیقت انسانیہ ہے.تمام وہ خواص اندرونی ہیں جو نفس ناطقہ انسان میں پائے جاتے ہیں جیسے عقل ذ کا.سرعت فہم.صفائی ذہن.حسنِ تحفظ - حسن تذکر عفت.حیا.صبر.قناعت.زہد.تو رع.جوانمردی.استقلال.عدل.امانت صدق لہجہ - سخاوت فی محلہ.ایثار فی محلہ - کرم فی محلہ مروت فی محلہ.شجاعت فی محلہ.علو ہمت فی محلہ علم فی محلہ محتمل فی محلہ - حمیت فی محلہ.تواضع فی محلہ.ادب فی محلہ.شفقت فی محلہ.رافت فی محلہ رحمت فی محلہ.خوف الہی.محبت الہیہ.انس باللہ.انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ ) اور تیل ایسا صاف اور لطیف کہ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ (یعنی عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخو د روشن ہونے پر مستعد تھے ) نور على نور نور فائض ہوا نور پر (یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے.تاریکی پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے.اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں.بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور نور بھی دیا جاتا ہے.اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.اور انبیاء منجملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں.اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَ كِتب تمهين (المائدة : ١٢) - الجز نمبر 4 - وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا (الاحزاب : ۴۷) نمبر ۲۲.یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے

Page 134

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٠٢ سورة النُّور نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.پس اب اس حجت موجہ سے کہ جو مثال مقدم الذکر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی.بطلان ان لوگوں کے قول کا ظاہر ہے جنہوں نے باوصف اس کے کہ فطرتی تفاوت مراتب کے قائل ہیں.پھر محض حمق و جہالت کی راہ سے یہ خیال کر لیا ہے کہ جونور افراد کامل الفطرت کو ملتا ہے وہی نور افراد نا قصہ کو بھی مل سکتا ہے.ان کو دیانت اور انصاف سے سوچنا چاہیئے کہ فیضان وحی کے بارہ میں کس قدر غلطی میں وہ مبتلا ہورہے ہیں.صریح دیکھتے ہیں کہ خدا کا قانون قدرت ان کے خیال باطل کی تصدیق نہیں کرتا.پھر شدت تعصب و عناد سے اسی خیال فاسد پر جھے بیٹھے ہیں.ایسا ہی عیسائی لوگ بھی نور کے فیضان کے لئے فطرتی نور کا شرط ہونا نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جس دل پر نو روحی نازل ہو.اس کے لئے اپنے کسی خاصہ اندرونی میں نورانیت کی حالت ضروری نہیں بلکہ اگر کوئی بجائے عقل سلیم کے کمال درجہ کا نادان اور سفیہ ہو اور بجائے صفت شجاعت کے کمال درجہ کا بزدل اور بجائے صفت سخاوت کے کمال درجہ کا بخیل اور بجائے صفت حمیت کے کمال درجہ کا بے غیرت اور بجائے صفت محبت الہیہ کے کمال درجہ کا محب دنیا اور بجائے صفت زہد و ورع و امانت کے بڑا بھارا چور اور ڈاکو اور بجائے صفت عفت و حیا کے کمال درجہ کا بے شرم اور شہوت پرست اور بجائے صفت قناعت کے کمال درجہ کا حریص اور لالچی.تو ایسا شخص بھی بقول حضرات عیسائیاں با وصف ایسی حالت خراب کے خدا کا نبی اور مقرب ہوسکتا ہے.بلکہ ایک مسیح کو باہر نکال کر دوسرے تمام انبیاء جن کی نبوت کو بھی وہ مانتے ہیں اور ان کی الہامی کتابوں کو بھی مقدس مقدس کر کے پکارتے ہیں وہ نعوذ باللہ بقول ان کے ایسے ہی تھے اور کمالات قدسیہ سے جو مستلزم عصمت و پاک دلی ہیں محروم تھے.عیسائیوں کی عقل اور خداشناسی پر بھی ہزار آفرین.کیا اچھا نو روحی کے نازل ہونے کا فلسفہ بیان کیا مگر ایسے فلسفہ کے تابع ہونے والے اور اس کو پسند کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سخت ظلمت اور کور باطنی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں.ورنہ نور کے فیض کے لئے نور کا ضروری ہونا ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی ضعیف العقل بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا.مگر ان کا کیا علاج جن کو عقل سے کچھ بھی سروکار نہیں اور جو کہ روشنی سے بغض اور اندھیرے سے پیار کرتے ہیں اور چمگادڑ کی طرح رات میں ان کی آنکھیں خوب کھلتی ہیں لیکن روز روشن میں وہ اندھے ہو جاتے ہیں ) خدا اپنے نور کی طرف ( یعنی قرآن شریف کی طرف) جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہر یک چیز کو بخوبی جانتا ہے (یعنی ہدایت ایک امر منجانب اللہ ہے.اس کو ہوتی ہے جس کو عنایت از لی سے توفیق حاصل ہو.

Page 135

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۳ سورة النُّور دوسرے کو نہیں ہوتی.اور خدا مسائل دقیقہ کو مثالوں کے پیرایہ میں بیان فرماتا ہے تا حقائق عمیقہ قریب با افہام ہو جائیں.مگر وہ اپنے علم قدیم سے خوب جانتا ہے کہ کون ان مثالوں کو سمجھے گا اور حق کو اختیار کرے گا اور کون محروم اور مخذول رہے گا ) پس اس مثال میں جس کا یہاں تک جلی قلم سے ترجمہ کیا گیا.خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے دل کو شیشہ مصفی سے تشبیہ دی جس میں کسی نوع کی کدورت نہیں.یہ نور قلب ہے.پھر آنحضرت کے فہم و ادراک و عقل سلیم اور جمیع اخلاق فاضلہ جبلی و فطرتی کو ایک لطیف تیل سے تشبیہ دی جس میں بہت سی چمک ہے اور جو ذریعہ روشنی چراغ ہے یہ نور عقل ہے کیونکہ منبع و منشاء جمیع لطائف اندرونی کا قوت عقلیہ ہے.پھر ان تمام نوروں پر ایک نور آسمانی کا جو وحی ہے نازل ہونا بیان فرمایا.یہ نور وحی ہے.اور انوار ثلاث مل کر لوگوں کی ہدایت کا موجب ٹھہرے.یہی حقانی اصول ہے جو وحی کے بارہ میں قدوس قدیم کی طرف سے قانون قدیم ہے اور اس کی ذات پاک کے مناسب.پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب ونور عقل کسی انسان میں کامل درجہ پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نو روحی ہرگز نہیں پاتا اور پہلے اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کمال عقل و کمال نورانیت قلب صرف بعض افراد بشریہ میں ہوتا ہے کل میں نہیں ہوتا.اب ان دونوں ثبوتوں کے ملانے سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ وحی اور رسالت فقط بعض افراد کا ملہ کو ملتی ہے نہ ہر یک فرد بشر کو.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۹۱، ۱۹۸ حاشیه ) يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ عنقریب ہے کہ اس کا تیل خود بخو د روشن ہو جائے اگر چہ آگ اس کو چھو بھی نہ جائے.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۹۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ یعنی خدا آسمان وزمین کا نور ہے.اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقاء کی روشنی ہے.اس کا نور قدرت ساری زمین و آسمان اور ذرہ ذرہ کے اندر چمک رہا ہے.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۹) (شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۸) باوا صاحب ( نانک.ناقل ) کے گرنتھ پر غور کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ویدوں کے ان اصولوں سے باوا صاحب نے صاف انکار کر دیا ہے جن کو سچائی کے مطابق نہیں پایا.مثلاً ویدوں کے رو سے تمام ارواح اور ذرات غیر مخلوق اور انادی ہیں لیکن باو اصاحب کے نزدیک تمام ذرات اور ارواح مخلوق ہیں جیسا کہ وہ فرماتے ہیں.

Page 136

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة النُّور اول اللہ نور اپا یا قدرت کے سب بندے اک نور سے سب جنگ الجھا کون بھلے کون مندے یعنی خدا تعالیٰ نے ایک نور پیدا کر کے اس نور سے تمام کائنات کو پیدا کیا.پس پیدائش کی رو سے تمام ارواح نوری ہیں یعنی نیک و بد کا اعمال سے فرق پیدا ہوتا ہے ورنہ باعتبار خلقت ظلمت محض کوئی بھی پیدا نہیں کیا گیا.ہر ایک میں نور کا ذرہ مخفی ہے اس میں باوا صاحب نے آیت اللهُ نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ سے اقتباس کیا ہے اس لئے اللہ اور نور کا لفظ شعر میں قائم رہنے دیا تا اقتباس پر دلالت کرے اور نیز حدیث أوّلُ ما خَلَقَ اللهُ نُوری کی طرف بھی اس شعر میں اشارہ کیا ہے.(ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۲۷،۱۲۶) خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کا نور ہے اس سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے آفتاب کا وہی آفتاب ہے زمین کے تمام جانداروں کی وہی جان ہے.سچا زندہ خدا وہی ہے.مبارک وہ جو اس کو قبول اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۴) کرے.اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے.ہر ایک نور اسی کے نور کا پر تو ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۷) فَلَها ثَبَتَ أَنَّ رَبَّنَا هُوَ نُورُ كُلِّ شَيْءٍ مِن اور جبکہ ثابت ہوا کہ ہمارا خدا ہر یک چیز کا نور اور الْأَشْيَاء وَمُنِيرٌ مَّا فِي الْأَرْضِ وَالسَّمَاء زمین اور آسمان کا روشن کرنے والا ہے تو ثابت ہو گیا ثَبَتَ أَنَّهُ الْمُفِيْضُ مِنْ جَميع الأنحاء و کہ وہی ہر یک طرح سے مبدء جمیع فیوض ہے اور وہی خَالِقُ الرَّقِيعِ وَالْغَبَرَاء وَ هُوَ أَحْسَنُ زمین و آسمان کا خالق اور احسن الخالقین ہے اس نے دو الْخَالِقِينَ.وَإِنَّهُ اَعْطَى الْعَيْنَيْنِ وَ خَلَقَ آنکھیں دیں اور زبان اور ہونٹ دیئے اور بچہ کو اللسان والشَّفَتَيْنِ.وَهَدَى الرَّضِيعَ إلَى پستانوں کی طرف ہدایت دی اور کوئی ایسا کمال انسانی التَّجْدَيْنِ.وَمَا غَادَرَ مِنْ كَمَالِ مَطلُوبِ اٹھانہ رکھا جس کی طرف انسان کو حاجت ہے اور ہر یک مطلوب احسن طور سے ادا کیا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) إِلَّا أَعْطَاهَا بِأَحْسَنِ أَسْلُوْبٍ (منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۹۹،۱۹۸) خدا اصل نور ہے.ہر ایک نور زمین و آسمان کا اسی سے نکلا ہے پس خدا کا نام استعارہ پت رکھنا اور ہر ایک نور کی جڑ اس کو قرار دینا اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانی روح کا خدا سے کوئی بھاری علاقہ ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۷،۳۸۶)

Page 137

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں.۱۰۵ سورة النُّور خداوہ ہے جو زمین اور آسمان میں اسی کے چہرہ کی چمک ہے اور اس کے بغیر سب تاریکی ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ خدا ہر ایک چیز کا نور ہے اس کی چمک ہر ایک چیز میں ہے خواہ وہ چیز آسمان میں ہے اور خواہ وہ زمین چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰) رِجَالُ ، لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكوة يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ من وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یاد الہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیچ مانع ہوتی ہے یعنی محبت الہیہ میں ایسہ کمال تام رکھتے ہیں.کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز برائین احمد به چهار قصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۷ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یہ مارحصص ا نہیں ہوسکتیں.یہ ایک ہی آیت صحابہ کے حق میں کافی ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی تبدیلیاں کی تھیں اور انگریز بھی اس کے معترف ہیں.ان کی کہیں نظیر ملنا مشکل ہے.بادیہ نشیں لوگ اور اتنی بہادری اور جرات.تعجب آتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۶) یا درکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْع عَنْ ذِكرِ الله جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں.اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو توخواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا.اسی طرح جو لوگ خدا کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا کو فراموش نہیں کرتے.الحکام جلد ۸ نمبر ۲۱ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۴ صفحه ۱) دین اور دنیا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے سوائے اس حالت کے جب خدا چاہے تو کسی شخص کی فطرت کو ایسا سعید بنائے کہ وہ دنیا کے کاروبار میں پڑ کر بھی اپنے دین کو مقدم رکھے اور ایسے شخص بھی دنیا میں ہوتے ہیں چنانچہ ایک شخص کا ذکر تذکرہ اولیاء میں ہے کہ ایک شخص ہزار باروپیہ کے لین دین کرنے میں مصروف تھا ایک ولی اللہ نے اس کو دیکھا اور کشفی نگاہ اس پر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دل باوجود اس قدر لین دین روپیہ کے خدا تعالیٰ سے ایک دم غافل نہ تھا.ایسے ہی آدمیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لا تُلهيهم 20

Page 138

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+7 سورة النُّور تِجَارَةٌ وَلَا بَيْع کوئی تجارت اور خرید و فروخت ان کو غافل نہیں کرتی اور انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کاروبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے.وہ ٹوکس کام کا ہے جو بر وقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے وہ قابل تعریف نہیں.وہ فقیر جود نیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے.اسلام میں رہبانیت نہیں.ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو نہیں.بلکہ ملازم کو چاہیے کہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجرا اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے.اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں.ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴/ مارچ ۱۹۰۷ ء صفحہ ۶) ہمارے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانہ تجارت میں ایک دم کے لئے بھی ہمیں نہیں بھولتے خدا سے تعلق رکھنے والا دنیا دار نہیں کہلاتا.( بدر جلدے نمبر ا مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۱۰) ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو.ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لا تُلهيهم تجَارَةٌ وَلَا بَيْعَ عَنْ ذِكْرِ اللهِ والا معاملہ ہو.دست با کار دل با یار والی بات ہو.تاجر اپنے کاروبار تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر.غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامر و نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر.اسلام کہاں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ تم کا روبار چھوڑ کر لنگڑے اولوں کی طرح لکھے بیٹھ ر ہو اور بجائے اس کے کہ اوروں کی خدمت کرو خود دوسروں پر بوجھ بنو نہیں بلکہ سست ہونا گناہ ہے بھلا ایسا آدمی پھر خدا اور اس کے دین کی کیا خدمت کر سکے گا.عیال واطفال جو خدا نے اس کے ذمے لگائے ہیں ان کو کہاں سے کھلائے گا.پس یا درکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قد أَفْلَحَ مَنْ زَكتها تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو.جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی

Page 139

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة النُّور سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں پھر جو تمہاری دنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی.انسان دنیا کے واسطے پیدا نہیں کیا گیا.دل پاک ہو اور ہر وقت یہ کو اور تڑپ لگی ہوئی ہو کہ کسی طرح خدا خوش ہو جائے تو پھر دنیا بھی اس کے واسطے حلال ہے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۵۰،۴۹ مورخه ۲۶ تا ۳۰ اگست ۱۹۰۸ صفحه ۴،۳) وَ اللهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَنْشِئُ عَلَى بَطْنِهِ ۚ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى رِجْلَيْنِ ، وَ مِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى اَرْبَعَ - يَخْلُقُ اللهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ خدا نے ہر ایک جاندار کو پانی سے پیدا کیا سو بعض جاندار پیٹ پر چلتے ہیں اور بعض دو پاؤں پر بعض چار پاؤں پر.خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.خدا ہر چیز پر قادر ہے.یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے یہ مختلف چیز میں اس لئے بنائیں کہ تا مختلف قدرتیں اس کی ظاہر ہوں.غرض اختلاف طبائع جو فطرتِ مخلوقات میں واقع ہے.اس میں حکمت الہیہ انہیں امور ثلاثہ میں منحصر ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے آیات ممدوحہ میں بیان کر دیا.برائین احمد یہ جہار تحصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۰۷ حاشیہ نمبر ۱۱) قُلْ اَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَا دو دو حلتُم وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلا الْبَلغُ الْمُبِينُ.(۵۵) کہہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور یہ مسلم اور بدیہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلف کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے ایسا ہی رسول کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے.سو جو شخص اس کے حکم سے منہ پھیرتا ہے وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا جہنم ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۸) وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا

Page 140

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۸ سورة النُّور اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ فِي شَيْئًا ۖ وَمَنْ كَفَرَ بَعد ذلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الفَسِقُونَ.(۵۶) خدا نے تم میں سے بعض نیکو کارایمانداروں کے لئے یہ وعدہ ٹھہر رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اپنے رسول مقبول کے خلیفے کرے گا انہیں کی مانند جو پہلے کرتا رہا ہے اور ان کے دین کو کہ جو ان کے لئے اس نے پسند کر لیا ہے یعنی دین اسلام کو زمین پر جما دے گا اور مستحکم اور قائم کر دے گا اور بعد اس کے کہ ایماندار خوف کی حالت میں ہوں گے یعنی بعد اس وقت کے کہ جب باعث وفات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ خوف دامنگیر ہوگا کہ شاید اب دین تباہ نہ ہو جائے.تو اس خوف اور اندیشہ کی حالت میں خدائے تعالی خلافت حقہ کو قائم کر کے مسلمانوں کو اندیشہ ابتری دین سے بے غم اور امن کی حالت میں کر دے گا وہ خالصاً میری پرستش کریں گے اور مجھ سے کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.یہ تو ظاہری طور پر بشارت ہے مگر جیسا کہ آیات قرآنیہ میں عادت الہیہ جاری ہے اس کے نیچے ایک باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ باطنی طور پر ان آیات میں خلافت روحانی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک خوف کی حالت میں کہ جب محبت الہیہ دلوں سے اٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ رو بہ دنیا ہو جائیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہو تو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا روحانی خلیفوں کو پیدا کرتا رہے گا کہ جن کے ہاتھ پر روحانی طور پر نصرت اور فتح دین کی ظاہر ہو.اور حق کی عزت اور باطل کی ذلت ہو.تا ہمیشہ دین اپنی اصلی تازگی پر عود کر تار ہے اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کے مفقود ہو جانے کے اندیشہ سے امن کی حالت میں آجائیں.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۰،۲۵۹ حاشیہ نمبر ۱۱) خدائے تعالیٰ نے اس اُمت کے مومنوں اور نیکو کاروں کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے پہلوں کو بنایا تھا یعنی اُسی طرز اور طریق کے موافق اور نیز اسی مدت اور زمانہ کے مشابہ اور اُسی صورت جلالی اور جمالی کی مانند جو بنی اسرائیل میں سنت اللہ گزر چکی ہے اس اُمت میں بھی خلیفے بنائے جائیں گے اور اُن کا سلسلہ خلافت اس سلسلے سے کم نہیں ہو گا.جو بنی اسرائیل کے خلفاء کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور نہ ان کی طرز خلافت اس طرز سے مبائن و مخالف ہوگی جو بنی اسرائیل کے خلیفوں کے لئے مقرر

Page 141

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة النُّور کی گئی تھی.پھر آگے فرمایا ہے کہ ان خلیفوں کے ذریعے سے زمین پر دین جمادیا جائے گا اور خدا خوف کے دنوں کے بعد امن کے دن لائے گا.خالصا اُسی کی بندگی کریں گے اور کوئی اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے.لیکن اس زمانہ کے بعد پھر کفر پھیل جائے گا.مماثلت تامہ کا اشارہ جو گمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے سمجھا جاتا ہے.صاف دلالت کر رہا ہے کہ یہ مماثلت مدت ایام خلافت اور خلیفوں کی طرز اصلاح اور طرنہ ظہور سے متعلق ہے.سو چونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل میں خلیفتہ اللہ ہونے کا منصب حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت به نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ (سو) برس کے پورے ہونے تک حضرت عیسی ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہوا حضرت عیسیٰ ابن مریم ایسے خلیفہ اللہ تھے کہ ظاہری عنان حکومت اُن کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی اور سیاست ملکی اور اس دنیوی بادشاہی سے ان کو کچھ علاقہ نہیں تھا اور دنیا کے ہتھیاروں سے وہ کچھ کام نہیں لیتے تھے بلکہ اس ہتھیار سے کام لیتے تھے جو اُن کے انفاس طیبہ میں تھا.یعنی اس موعہ بیان سے جو اُن کی زبان پر جاری کیا گیا تھا جس کے ساتھ بہت سی برکتیں تھیں اور جس کے ذریعہ سے وہ مرے ہوئے دلوں کو زندہ کرتے تھے اور بہرے کانوں کو کھولتے تھے اور مادر زاد اندھوں کو سچائی کی روشنی دکھا دیتے تھے اُن کا وہ دم از لی کا فر کو مارتا تھا اور اُس پر پوری حجت کرتا تھا لیکن مومن کو زندگی بخشتا تھا.وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گئے تھے اور ظاہری اسباب اُن کے پاس نہیں تھے اور ہر بات میں خدائے تعالیٰ اُن کا متولی تھا.وہ اُس وقت آئے تھے کہ جبکہ یہودیوں نے نہ صرف دین کو بلکہ انسانیت کی خصلتیں بھی چھوڑ دی تھیں اور بے رحمی اور خود غرضی اور کینہ اور بغض اور ظلم اور حسد اور بے جا جوش نفس اتارہ کے اُن میں ترقی کر گئے تھے.اور نہ صرف بنی نوع کے حقوق کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا بلکہ غلبہ شقاوت کی وجہ سے حضرت محسن حقیقی سے عبودیت اور اطاعت اور بچے اخلاص کا رشتہ بھی توڑ بیٹھے تھے.صرف بے مغز استخوان کی طرح توریت کے چند الفاظ اُن کے پاس تھے جو قہر الہی کی وجہ سے ان کی حقیقت تک وہ نہیں پہنچ سکتے تھے کیونکہ ایمانی فراست اور زیر کی بالکل اُن میں سے اُٹھ گئی تھی اور اُن کے نفوس مظلمہ پر جہل غالب آگیا تھا اور سفلی مکاریاں اور کراہت کے کام اُن سے سرزد ہوتے تھے اور جھوٹ اور ریا کاری اور غداری اُن میں انتہا تک پہنچ گئی تھی.ایسے وقت میں اُن کی طرف مسیح ابن مریم بھیجا گیا تھا جو بنی اسرائیل کے مسیحوں اور خلیفوں میں سے آخری مسیح اور آخری خلیفتہ اللہ تھا جو بر خلاف سنت اکثر نبیوں کے بغیر تلوار اور نیزہ کے آیا تھا.یا درکھنا چاہئے کہ شریعت موسوی میں خلیفتہ اللہ کو سیح کہتے تھے اور حضرت داؤد کے وقت اور یا اُن سے

Page 142

+11 سورة النُّور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کچھ عرصہ پہلے یہ لفظ بنی اسرائیل میں شائع ہو گیا تھا.بہر حال اگر چہ بنی اسرائیل میں کئی مسیح آئے لیکن سب سے پیچھے آنے والا مسیح وہی ہے جس کا نام قرآن کریم میں مسیح عیسی بن مریم بیان کیا گیا ہے.بنی اسرائیل میں مریمیں بھی کئی تھیں اور ان کے بیٹے بھی کئی تھے لیکن مسیح عیسی بن مریم یعنی ان تینوں ناموں سے ایک مرکب نام بنی اسرائیل میں اُس وقت اور کوئی نہیں پایا گیا.سوسیح عیسی بن مریم یہودیوں کی اس خراب حالت میں آیا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.آیات موصوفہ بالا میں ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کا اس اُمت کے لئے وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل کی طرز پر ان میں بھی خلیفے پیدا ہوں گے.اب ہم جب اس طرز کو نظر کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ضرور تھا کہ آخری خلیفہ اس اُمت کا مسیح ابن مریم کی صورت مثالی پر آوے اور اس زمانہ میں آوے کہ جو اُس وقت سے مشابہ ہو جس وقت میں بعد حضرت موسیٰ کے مسیح ابن مریم آئے تھے یعنی چودھویں صدی میں یا اس کے قریب اُس کا ظہور ہو اور ایسا ہی بغیر سیف وستان کے اور بغیر آلات حرب کے آوے جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم آئے تھے اور نیز ایسے ہی لوگوں کی اصلاح کے لئے آوے جیسا کہ مسیح ابن مریم اُس وقت کے خراب اندرون یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.اور جب آیات ممدوحہ بالا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے اندر سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ضرور آخری خلیفہ اس اُمت کا جو چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا حضرت مسیح کی صورت مثالی پر آئے گا اور بغیر آلات حرب ظہور کرے گا دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اول اور آخر میں اشد درجہ کی مشابہت اُن میں ہوتی ہے.کیونکہ ایک لنبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے.پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزل اور اپنی جلالی اور جمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق و مشابہ ومماثل ہوگا اور یہ بھی بتلادیا کہ نبی عربی اقی مثیل موسیٰ ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر بتلایا گیا کہ جیسے اسلام میں سردفتر الہی خلیفوں کا مثیل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تخت عزت کے اول درجہ پر بیٹھنے والا اور تمام برکات کا مصدر اور اپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ وہ مسیح عیسی بن مریم ہے جو اس امت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہو گیا ہے اور فرمان جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابن مریم نے اُس کو در حقیقت وہی بنادیا ہے.وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قديرا.اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد

Page 143

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام III سورة النُّور جلالی نام ہے اور احمد جمالی.اور احمد اور عیسی اپنے جمالی معنوں کی رُو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ب وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسمه احمد - مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں.لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجر داحمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۰ تا ۴۶۳) خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلعم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا.یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتارہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا.آب قرآن شریف موجود ہے حافظ بھی بیٹھے ہیں دیکھ لیجئے کہ کفار نے کس دعوے کے ساتھ اپنی را ئمیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر گز تباہ نہیں ہوگا.یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہوں گے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۱،۲۹۰) خدا نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ البتہ انہیں زمین.میں اسی طرح خلیفہ کرے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو کیا جو اُن سے پہلے گزر گئے اور اُن کے دین کو جو اُن کے لئے پسند کیا ہے ثابت کر دے گا اور اُن کے لئے خوف کے بعد امن کو بدل دے گا میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.الجز و نمبر ۱۸ سورۃ نور.اب غور سے دیکھو کہ اس آیت میں بھی مماثلت کی طرف صریح اشارہ ہے اور اگر اس مماثلت سے مماثلت تامہ مُراد نہیں تو کلام عبث ہوا جاتا ہے کیونکہ شریعت موسوی میں چودہ سو برس تک خلافت کا سلسلہ ممتد رہا نہ صرف تیس برس تک اور صد با خلیفے روحانی اور ظاہری طور پر ہوئے نہ صرف چار اور پھر ہمیشہ کے لئے خاتمہ.اور اگر یہ کہا جائے کہ منکم کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ وہ خلیفے صرف صحابہ میں سے ہوں کیونکہ منکم کے لفظ میں مخاطب صرف صحابہ ہیں تو یہ خیال ایک بدیہی غلطی ہے اور ایسی بات صرف اُس شخص کے منہ سے نکلے گی جس نے بھی قرآن کریم کو غور سے نہیں پڑھا اور نہ اُس کی اسالیب کلام کو پہچانا کیونکہ اگر یہی بات سچ ہے کہ مخاطبت کے وقت وہی لوگ مراد ہوتے ہیں جو موجودہ زمانہ میں بحیثیت ایمانداری زندہ موجود ہوں تو ایسا تجویز کرنے سے سارا قرآن زیروز بر ہو جائے گا.مثلاً اسی آیت موصوفہ بالا کے مشابہ قرآن کریم میں ایک اور آیت

Page 144

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۲ ج سورة النُّور بھی ہے جس میں اسی طرح بظاہر الفاظ وہ لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے اور اس وقت زندہ موجود تھے بلکہ ان آیات میں تو اس بات پر نہایت قوی قرائن موجود ہیں کہ در حقیقت وہی مخاطب کئے گئے ہیں اور وہ آیات یہ ہیں قَالَ سَنقَتِلُ ابْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِ نِسَاءَهُمْ وَ إِنَّا فَوْقَهُمْ فَهِرُونَ - قَالَ مُوسى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ ، يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ قالُوا أَوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَلى رَبِّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (الاعراف : ۱۳۰۳۱۲۸ ) الجز و نمبر ۹ سورۃ الاعراف.یعنی فرعون نے کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور اُن کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور تحقیقا ہم ان پر غالب ہیں.تب موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد چاہو اور صبر کروز مین خدا کی ہے جس کو اپنے بندوں سے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام بخیر پرہیز گاروں کا ہی ہوتا ہے.تب موسیٰ کی قوم نے اس کو جواب دیا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے جاتے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ستائے گئے تو موسیٰ نے اُن کے جواب میں کہا کہ قریب ہے کہ خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور زمین پر تمہیں خلیفے مقرر کر دے اور پھر دیکھے کہ تم کس طور کے کام کرتے ہو.اب ان آیات میں صریح اور صاف طور پر وہی لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ کی قوم میں سے اُن کے سامنے زندہ موجود تھے اور انہوں نے فرعون کے ظلموں کا شکوہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے گئے اور تیرے آنے کے بعد بھی اور انہیں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ تم ان تکلیفات پر صبر کر و خدا تمہاری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہوگا اور تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تم کو زمین پر خلیفے بنادے گالیکن تاریخ دانوں پر ظاہر ہے اور یہودیوں اور نصاری کی کتابوں کو دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گو اس قوم کا دشمن یعنی فرعون اُن کے سامنے ہلاک ہوا مگر وہ خود تو زمین پر نہ ظاہری خلافت پر پہنچے نہ باطنی خلافت پر.بلکہ اکثر ان کی نافرمانیوں سے ہلاک کئے گئے اور چالیس برس تک بیابان لق و دق میں آوارہ رہ کر جان بحق تسلیم ہوئے پھر بعد ان کی ہلاکت کے ان کی اولاد میں ایسا سلسلہ خلافت کا شروع ہوا کہ بہت سے بادشاہ اس قوم میں ہوئے اور داؤد اور سلیمان جیسے خلیفہ اللہ اسی قوم میں سے پیدا ہوئے یہاں تک کہ آخر یہ سلسلہ خلافت کا چودھویں صدی میں حضرت مسیح پر ختم ہوا پس اس سے ظاہر ہے کہ کسی قوم موجودہ کو مخاطب کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خطاب قوم موجودہ تک ہی محدودر ہے بلکہ قرآن کریم کا تو یہ بھی محاورہ پایا جاتا

Page 145

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٣ سورة النُّور ہے کہ بسا اوقات ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے مگر اصل مخاطب کوئی اور لوگ ہوتے ہیں جو گزر گئے یا آئندہ آنے والے ہیں مثلاً اللہ جل شانہ، سورۃ البقر میں یہود موجودہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے لِبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَبْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِى أَوْفِ بِعَهْدِكُمْ وَ اِيَايَ فَارْهَبُونِ (البقرة : ۴۱) یعنی اے بنی اسرائیل اُس نعمت کو یاد کرو جو ہم نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو تا میں بھی تمہارے عہد کو پورا کروں اور مجھ سے پس ڈرو.اب ظاہر ہے کہ یہود موجودہ زمانہ آنحضرت تو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ کا مصداق تھے ان پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ان سے یہ عہد ہوا تھا کہ تم نے خاتم الانبیاء پر ایمان لانا.پھر بعد اس کے فرمایا وَ إِذْ نَجَيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَ ط يَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَا مِن رَّبِّكُمْ عَظِيمُ - وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُمْ وَأَغْرَقْنَا ألَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُونَ - (البقرة : ۵۱۵۰) یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی وہ تم کو طرح طرح کے دُکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا اور وہ وقت یاد کرو جبکہ ہم نے تمہارے پہنچنے کے ساتھ ہی دریا کو پھاڑ دیا.پھر ہم نے تم کو نجات دے دی اور فرعون کے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور تم دیکھتے تھے.اب سوچنا چاہیئے کہ ان واقعات میں سے کوئی واقعہ بھی ان یہودیوں کو پیش نہیں آیا تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے نہ وہ فرعون کے ہاتھ سے دُکھ دیئے گئے نہ اُن کے بیٹوں کو کسی نے قتل کیا نہ وہ کسی دریا سے پار کئے گئے.پھر آگے فرماتا ہے وَاذْ قُلْتُم يَمُوسى لَن تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَ تَكُمُ الضُّعِقَةُ وَانْتُمْ تَنْظُرُونَ - ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَن والسلوى (البقرة : ۲۵۶ ۵۸) یعنی وہ وقت یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا کہ ہم تیرے کہے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو چشم خود نہ دیکھ لیں تب تم پر صاعقہ پڑی اور پھر تم کو زندہ کیا گیا تا کہ تم شکر کرو اور ہم نے بادلوں کو تم پر سائبان کیا اور ہم نے تم پر من وسلویٰ اُتارا.اب ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ تو ان یہودیوں سے جو قرآن میں مخاطب کئے گئے دو ہزار برس پہلے فوت ہو چکے تھے اور ان کا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں نام ونشان بھی نہ تھا پھر وہ حضرت موسیٰ سے ایسا سوال کیوں کر کر سکتے تھے کہاں اُن پر بجلی گرمی کہاں انہوں نے من وسلویٰ کھایا.کیا وہ پہلے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اور اور قالبوں میں موجود تھے اور پھر آنحضرت کے زمانہ میں بھی بطور تناسخ آموجود ہوئے اور اگر یہ نہیں تو بجز

Page 146

マ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النُّور اس تاویل کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ مخاطبت کے وقت ضروری نہیں کہ وہی لوگ حقیقی طور پر واقعات منسوبہ کے مصداق ہوں جو مخاطب ہوں.کلام الہی اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک قاعدہ پھہر گیا ہے کہ بسا اوقات کوئی واقعہ ایک شخص یا ایک قوم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور دراصل وہ واقعہ کسی دوسری قوم یا دوسرے شخص سے تعلق رکھتا ہے اور اسی باب میں سے عیسی بن مریم کے آنے کی خبر ہے کیونکہ بعض احادیث میں آخری زمانہ میں آنے کا ایک واقعہ حضرت عیسی کی طرف منسوب کیا گیا حالانکہ وہ فوت ہو چکے تھے پس یہ واقعہ بھی حضرت مسیح کی طرف ایسا ہی منسوب ہے جیسا کہ واقعہ فرعون کے ہاتھ سے نجات پانے کا اور من و سلوی کھانے کا اور صاعقہ گرنے کا اور دریا سے پار ہونے کا اور قصہ کن نضيرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ (البقرة : ٦٣) کا اُن یہودیوں کی طرف منسوب کیا گیا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے.حالانکہ وہ واقعات اُن کی پہلی قوم کے تھے جو اُن سے صدہا برس پہلے مر چکے تھے.پس اگر کسی کو آیات کے معنے کرنے میں معقولی شق کی طرف خیال نہ ہو اور ظاہر الفاظ پر اڑ جانا واجب سمجھے تو کم سے کم ان آیات سے یہ ثابت ہو گا کہ مسئلہ تناسخ حق ہے ورنہ کیوں کر ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ ایک فاعل کے فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کرے جس کو اس فعل کے ارتکاب سے کچھ بھی تعلق نہیں حالانکہ وہ آپ ہی فرماتا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخرى (بنی اسرائیل (۱۲) پھر اگر موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کی نافرمانی کی تھی اور اُن پر بجلی گری تھی یا انہوں نے گوسالہ پرستی کی تھی اور ان پر عذاب نازل ہوا تھا تو اس دُوسری قوم کو ان واقعات سے کیا تعلق تھا جو دو ہزار برس بعد پیدا ہوئے.یوں تو حضرت آدم سے تا ایں دم متقدمین متاخرین کے لئے بطور آباء واجداد ہیں لیکن کسی کا گنہ کسی پر عائد نہیں ہوسکتا.پھر خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ فرمانا کہ تم نے موسیٰ کی نافرمانی کی اور تم نے کہا کہ ہم خدا کو نہیں مانیں گے جب تک اس کو دیکھ نہ لیں اور اس گنہ کے سبب سے تم پر بجلی گری کیوں کر ان تمام الفاظ کے بنظر ظاہر کوئی اور معنے ہو سکتے ہیں بجز اس کے کہ کہا جائے کہ دراصل وہ تمام یہودی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھے اور انہیں پر من و سلوی نازل ہوا تھا اور انہیں پر بجلی پڑی تھی اور انہیں کی خاطر فرعون کو ہلاک کیا گیا تھا اور پھر وہی یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بطور تناسخ پیدا ہو گئے اور اس طرح پر خطاب صحیح ٹھہر گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسے سیدھے سیدھے معنے نہیں کئے جاتے.کیا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے دُور ہیں اور کیوں ایسے معنے قبول کئے جاتے ہیں جو تاویلات بعیدہ کے حکم میں ہیں کیا خدا تعالیٰ قادر نہیں کہ جس طرح

Page 147

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ سورة النُّور بقول ہمارے مخالفوں کے وہ حضرت عیسی کو بعینہ بجسد و العصر کی کسی وقت صد ہا برسوں کے بعد پھر زمین پر لے آئے گا.اسی طرح اُس نے حضرت موسیٰ کے زمانہ کے یہودیوں کو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ کر دیا ہو یا اُن کی رُوحوں کو بطور تناسخ پھر دُنیا میں لے آیا ہو جس حالت میں صرف بے بنیاد اقوال کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ کی روح کا پھر دنیا میں آنا تسلیم کیا گیا ہے تو کیوں اور کیا وجہ کہ ان تمام یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ بطور تناسخ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آجانا قبول نہ کیا جائے جن کے موجود ہو جانے پر نصوص صریحیہ مہینہ قرآن کریم شاہد ہیں.دیکھو خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے وَإِذْ قُلْتُم يمُوسى لَن تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةٌ فَأَخَذَتْكُمُ العِقَةُ وَانْتُمْ تَنْظُرُونَ (البقرة : ۵۲ ) یعنی تم وہ وقت یاد کرو جبکہ تم نے نہ کسی اور نے یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم آپ ظاہر ظاہر خدا کو نہ دیکھ لیں اور پھر تم کو بجلی نے پکڑا اور تم دیکھتے تھے.اور اس آیت میں ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت کے مضمون میں موجودہ یہودیوں کو گذشتہ لوگوں کے قائم مقام نہیں ٹھہرایا بلکہ اُن کو فی الحقیقت گذشتہ لوگ ہی ٹھہرا دیا تو اس صورت میں قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے یہودیوں کے وہی نام رکھ دیئے جو اُن گذشتہ بنی اسرائیل کے نام تھے کیونکہ جبکہ یہ لوگ حقیقتا وہی لوگ قرار دیئے گئے تو یہ لازمی ہوا کہ نام بھی وہی ہوں وجہ یہ کہ نام حقائق کے لئے مثل عوارض غیر منفک کے ہیں اور عوارض لازمیہ اپنے حقائق سے الگ نہیں ہو سکتے.اب خوب متوجہ ہو کر سوچو کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے صریح اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے ہی ایسے ایسے برے کام حضرت موسیٰ کے عہد میں کیے تھے تو پھر ایسی صریح اور کھلی کھلی نص کی تاویل کرنا اور احادیث کی بنیاد پر حضرت عیسی علیہ السلام کو جو قرآن کریم کی رُو سے وفات یافتہ ہے پھر زمین پر اُتارنا کیسی بے اعتدالی اور نا انصافی ہے.عزیز و! اگر خدا تعالیٰ کی یہی عادت اور سنت ہے کہ گزشتہ لوگوں کو پھر دُنیا میں لے آتا ہے تو نص قرآنی جو بہ تکرار در تکرار گزشتہ لوگوں کو مخاطب کر کے اُن کے زندہ ہونے کی شہادت دے رہی ہے اس سے در گزر کرنا ہرگز جائز نہیں اور اگر وہاں یہ دھڑ کہ دل کو پکڑتا ہے کہ ایسے معنے گو خدا تعالیٰ کی قدرت سے تو بعید نہیں لیکن معقول کے برخلاف ہیں.اس لئے تاویل کی طرف رُخ کیا جاتا ہے اور وہ معنے کئے جاتے ہیں جو عند العقل کچھ بعید نہیں ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت عیسی کے آنے کی پیشگوئی کے معنے کرنے چاہئیں کیونکہ اگر گذشتہ یہودیوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زندہ ہو جانا یا اگر بطریق

Page 148

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٦ سورة النُّور تناسخ کے اُن کی رُوحیں پھر آجانا طریق معقول کے برخلاف ہے تو حضرت مسیح کی نسبت کیوں کر دوبارہ دنیا میں آنا تجویز کیا جاتا ہے جن کی وفات پر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدة : ۱۱۸) بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کیا یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ دنیا میں آنا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید اور نیز طریق معقول کے برخلاف لیکن حضرت عیسی کا بجسده العصری پھر زمین پر آجانا بہت معقول ہے.پھر اگر نصوص پینه صریحہ قرآنیہ کو باعث استبعاد ظاہری معنوں کے مؤوّل کر کے طریق صرف عن النظا ہر اختیار کیا جاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ نصوص احادیثیہ کا صرف عن الظاہر جائز نہیں کیا احادیث کی قرآن کریم سے کوئی اعلیٰ شان ہے کہ تا ہمیشہ احادیث کے بیان کو کو کیسا ہی بعید از عقل ہو ظاہر الفاظ پر قبول کیا جائے اور قرآن میں تاویلات بھی کی جائیں.پھر ہم اصل کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ بعض صاحب آیت وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کی عمومیت سے انکار کر کے کہتے ہیں کہ منکر سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافتِ راشدہ حقہ انہیں کے زمانہ تک ختم ہو گئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام ونشان نہیں ہوگا.گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تین برس ہی دور تھا اور پھر ہمیشہ کے لئے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑ گیا مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقادر کھے کہ بلا شبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک ممند ہے اس کی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدودر ہیں اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ کچھ بہت مدت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے رُوحانی خلیفوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوں ایسی باتوں کوشن کر تو ہمارا بدن کانپ جاتا ہے مگر افسوس کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالا کی اور پیا کی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مدت ہوئی کہ اُن کا خاتمہ ہو چکا ہے.ما سوٹی اس کے منکھ کے لفظ سے یہ استدلال پیدا کرنا کہ چونکہ خطاب صحابہ سے ہے اس لئے یہ خلافت صحابہ تک ہی محدود ہے عجیب عقلمندی ہے اگر اسی طرح قرآن کی تفسیر ہو تو پھر یہودیوں سے بھی آگے بڑھ کر قدم رکھنا ہے.اب واضح ہو کہ منکھ کا لفظ قرآن کریم میں قریباً بیا کئی جگہ آیا ہے اور بجز دو یا تین جگہ کے جہاں کوئی خاص قرینہ قائم کیا گیا ہے باقی تمام مواضع میں منکم کے خطاب سے وہ تمام مسلمان مراد ہیں جو

Page 149

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قیامت تک پید اہوتے رہیں گے.112 اب نمونہ کے طور پر چند وہ آیتیں ہم لکھتے ہیں جن میں محکم کا لفظ پایا جاتا ہے.سورة النُّور (۱) فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَمَرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (البقرة: ۱۸۵) یعنی جو تم میں سے مریض یا سفر پر ہو تو اتنے ہی روزے اور رکھ لے.اب سوچو کہ کیا یہ حکم صحابہ سے ہی خاص تھا یا اس میں اور بھی مسلمان جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے شامل ہیں ایسا ہی نیچے کی آیتوں پر بھی غور کرو.(۲) ذلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر (البقرة : ۲۳۳) یعنی یہ اُس کو وعظ کیا جاتا ہے جو تم میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.(۳) وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا ( البقرة : ۲۳۵) یعنی تم میں سے جو جو روئیں چھوڑ کر فوت ہو جا ئیں.(۴) وَ لَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (ال عمران: ۱۰۵) یعنی تم میں سے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو نیکی کی دعوت کریں اور امر معروف اور نہی منکر اپنا طریق رکھیں.( ۵ ) أَنِّي لَا أَضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أَنْثَى (ال عمران : ۱۹۵) میں تم میں سے کسی عامل کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو خواہ عورت ہو.(1) لَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ اِلَّا اَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضِ مِنْكُمْ (النساء :٣٠) ناجائز طور پر ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ مگر باہم رضامندی کی تجارت سے.(۷) وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى اَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَابِطِ أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدً ا طيبا ( المائدة : - ) یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر پر یا پاخانہ سے آؤ یا عورتوں سے مباشرت کرو اور پانی نہ ملے تو ان سب صورتوں میں پاک مٹی سے تیمم کرلو.(۸) اَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ (النساء : ۶۰) یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری کرو.(۹) مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَصْلَحَ فَالَهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (الانعام : ۵۵) یعنی جو شخص تم میں سے بوجہ اپنی جہالت کے کوئی بدی کرے اور پھر تو بہ کرے اور نیک کاموں میں

Page 150

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة النُّور مشغول ہو جائے پس اللہ غفور رحیم ہے.AY: (١٠) فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمُ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى اشد العذابِ (البقرة : ۸۶ ) یعنی جو شخص تم میں سے ایسا کام کرے دُنیا کی زندگی میں اُس کو رسوائی ہوگی اور قیامت کو اُس کے لئے سخت عذاب ہے.(۱۱) وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ( مریم : ۱۶) یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دوزخ میں وارد نہ ہو.(١٢) وَ لَقَدْ عَلِيْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ ( الحجر : ۲۵ ) یعنی ہم اُن لوگوں کو جانتے ہیں جو تم میں سے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو پیچھے رہنے والے ہیں.اب ان تمام مقامات کو دیکھو کہ منگم کا لفظ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے خواہ اس وقت موجود تھے خواہ بعد میں قیامت تک آتے جائیں ایسا ہی تمام دوسرے مقامات میں بجز دو تین موضعوں کے عام طور پر استعمال ہوا ہے اور تمام احکام میں بظاہر صورت مخاطب صحابہ ہی ہیں لیکن تخصیص صحابہ بجز قیام قرینہ کے جائز نہیں.ورنہ ہر یک فاسق عذر کر سکتا ہے کہ صوم اور صلوۃ اور حج اور تقویٰ اور طہارت اور اجتناب عن المعاصی کے متعلق جس قدر احکام ہیں ان احکام کے مخاطب صرف صحابہ ہی تھے اس لئے ہمیں نماز روزہ وغیرہ کی پابندی لازم نہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے کلمات بجز ایک زندیق کے اور کوئی خدا ترس آدمی زبان پر نہیں لاسکتا.اگر کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ اگر آیت وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا فائدہ عموم کا دیتی ہے یعنی مقصود اصلی تعمیم تھی یہ تخصیص تو پھر منگھ کا لفظ اس جگہ کیوں زیادہ کیا گیا.اور اس کی زیادت کی ضرورت ہی کیا تھی صرف اس قدر فرمایا ہوتا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وعدہ ان ایمانداروں اور نیکوکاروں کے مقابل پر تھا جو اس اُمت سے پہلے گزر چکے ہیں پس گویا تفصیل اس آیت کی یوں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے پہلے ان لوگوں کو روئے زمین پر خلیفے مقرر کیا تھا جو ایماندار اور صالح تھے اور اپنے ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ تم میں سے بھی اے مسلمانو ایسے لوگوں کو جو انہیں صفات حسنہ سے موصوف ہوں اور ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے ہوں خلیفے کرے گا پس منکھ کا لفظ زائد نہیں بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ تا اسلام کے ایمانداروں اور نیکو کاروں کی طرف اشارہ کرے کیونکہ جبکہ نیکو کار اور ایماندار کا لفظ اس آیت میں پہلی امتوں اور اس اُمت کے ایمانداروں اور نیکوکاروں پر برابر حاوی تھا پھر اگر

Page 151

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٩ سورة النُّور وو کوئی تخصیص کا لفظ نہ ہوتا تو عبارت رکیک اور مہم اور دُور از فصاحت ہوتی اور منکھ کے لفظ سے یہ جتانا بھی منظور ہے کہ پہلے بھی وہی لوگ خلیفے مقرر کئے گئے تھے کہ جو ایماندار اور نیکو کار تھے اور تم میں سے بھی ایماندار اور نیکو کار ہی مقرر کئے جائیں گے.اب اگر آنکھیں دیکھنے کی ہوں تو عام معنی کی رُو سے منگھ کے لفظ کا زائد ہونا کہاں لازم آتا ہے اور تکرار کلام کیوں کر ہے جبکہ ایمان اور عمل صالح اسی اُمت سے شروع نہیں ہوا پہلے بھی مومن اور نکو کار گزرے ہیں تو اس صورت میں تمیز کامل بجز منکھ کے لفظ کے کیوں کر ہوسکتی تھی.اگر صرف اس قدر ہوتا کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحت تو کچھ معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ یہ کن ایمانداروں کا ذکر ہے آیا اس اُمت کے ایماندار یا گذشتہ امتوں کے اور اگر صرف منکم ہوتا اور الَّذِینَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحت نہ ہوتا تو یہ سمجھا جاتا کہ فاسق اور بد کار لوگ بھی خدا تعالیٰ کے خلیفے ہو سکتے ہیں حالانکہ فاسقوں کی بادشاہت اور حکومت بطور ابتلا کے ہے نہ بطور اصطفا کے اور خدا تعالیٰ کے حقانی خلیفے خواہ وہ رُوحانی خلیفے ہوں یا ظاہری وہی لوگ ہیں جو متقی اور ایماندار اور نیکو کار ہیں.اور یہ وہم کہ عام معنوں کی رُو سے ان آیات کی اخیر کی آیت یعنی وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الفيسقُونَ بالکل بے معنی ٹھہر جاتی ہے ایسا بیہودہ خیال ہے جو اس پر جنسی آتی ہے کیونکہ آیت کے صاف اور سید ھے یہ معنی ہیں کہ اللہ جل شانہ خلیفوں کے پیدا ہونے کی خوشخبری دے کر پھر باغیوں اور نافرمانوں کو دھمکی دیتا ہے کہ بعد خلیفوں کے پیدا ہونے کے جب وہ وقتاً فوقتاً پیدا ہوں اگر کوئی بغاوت اختیار کرے اور ان کی اطاعت اور بیعت سے منہ پھیرے تو وہ فاسق ہے.اب نا درستی معنوں کی کہاں ہے اور واضح ہو کہ اس آیت کریمہ سے وہ حدیث مطابق ہے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مَنْ لَّمْ يَعْرِفُ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِنتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ - جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا یعنی جیسے جیسے ہر یک زمانہ میں امام پیدا ہوں گے اور جو لوگ اُن کو شناخت نہیں کریں گے تو ان کی موت کفار کی موت کے مشابہ ہوگی اور معترض صاحب کا اس آیت کو پیش کرنا کہ قَالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنّى أَعَذِبُهُ عَذَابًا لَا أَعَذِّبُةَ أَحَدًا مِنَ الْعَلَمِينَ ( المائدة : ١١٦ ) اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ منکر کا لفظ اس جگہ خصوصیت کے ساتھ حاضرین کے حق میں آیا ہے ایک بے فائدہ بات ہے کیونکہ ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن کریم کا عام محاورہ جس سے تمام قرآن بھرا پڑا ہے یہی ہے کہ خطاب عام ہوتا ہے اور احکام خطا ہیہ تمام امت کے لئے ہوتے ہیں نہ صرف صحابہ کے لئے.ہاں جس جگہ کوئی صریح اور صاف

Page 152

سورة النُّور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرینہ تحدید خطاب کا ہو وہ جگہ مستی ہے چنانچہ آیات موصوفہ بالا میں خاص حواریوں کے ایک طائفہ نے نزول مائدہ کی درخواست کی اُسی طائفہ کو مخاطب کر کے جواب ملا.سو یہ قرینہ کافی ہے کہ سوال بھی اسی طائفہ کا تھا اور جواب بھی اسی کو ملا اور یہ کہنا کہ اس کی مثالیں کثرت سے قرآن میں ہیں بالکل جھوٹ اور دھوکا دینا ہے.قرآن میں بیاسی کے قریب لفظ منکھ ہے اور چھ سو کے قریب اور اور صورتوں میں خطاب ہے لیکن تمام خطابات احکامیہ وغیرہ میں تقسیم ہے اگر قرآن کے خطابات صحابہ تک ہی محدود ہوتے توصحابہ کے فوت ہو جانے کے ساتھ قرآن باطل ہو جاتا اور آیت متنازعہ فیہا جو خلافت کے متعلق ہے در حقیقت اس آیت سے مشابہ ہے لَهُمُ الْبُشْرى في الحيوةِ الدُّنْيَا ( يونس : ۶۵) کیا یہ بشر کی صحابہ سے ہی خاص تھا یا کسی اور کو بھی اس سے حصہ ہے.اور معترض کا یہ کہنا کہ جو شخص اصلی معنوں سے جو خصوصیت مخاطبین ہے عدول کر کے اس کے معنے عموم لیوے اس کا ذمہ ہے کہ وہ دلیل یقینی سے اپنے عدول کو ثابت کرے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف معترض کو قرآن کریم سے بلکہ تمام الہی کتابوں کے اسلوب کلام سے کچھ بھی خبر نہیں مشکل یہ ہے کہ اکثر شتاب کارلوگ قبل اس کے جو پورے طور پر خوض کریں اعتراض کرنے کو طیار ہو جاتے ہیں.اگر معترض صاحب کو صحیح نیت سے تحقیق کا شوق تھا تو وہ تمام ایسے موقعہ جہاں بظاہر نظر صحابہ مخاطب ہیں جمع کر کے دیکھتے کہ اکثر اغلب اور بلا قیام قرینہ قرآن شریف میں کیا محاورہ ہے کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ جو اکثر اغلب محاورہ ثابت ہوگا اسی کے موافق اصلی معنی ٹھہریں گے اور ان سے عدول کرنا بغیر قیام قرینہ جائز نہیں ہوگا.اب ظاہر ہو کہ اصل محاورہ قرآن کریم کا خطاب حاضرین میں عموم ہے اور قرآن کا چھ سو حکم اسی بناء پر عام سمجھا جاتا ہے نہ یہ کہ صحابہ تک محدود سمجھا جائے پھر جو شخص عام محاورہ سے عدول کر کے کسی حکم کو صحابہ تک ہی محدودر کھے اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہوگا کہ قرائن قویہ سے یہ ثابت کرے کہ یہ خطاب صحابہ سے ہی خاص ہے اور دوسرے لوگ اس سے باہر ہی مثلاً اللہ جل شانہ قرآن کریم میں بظاہر صحابہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تم صرف خدا کی بندگی کرو اور صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد چاہو اور پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور کسی قسم کا فساد مت کرو.اور تم زکوتا اور نماز کو قائم کرو اور مقام ابراہیم سے جائے نماز ٹھہراؤ.اور خیرات میں ایک دوسرے سے سبقت کر و اور مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا.اور میرا شکر کرو.اور مجھ سے دعا مانگو اور جولوگ خدا کی راہ میں شہید ہوں ان کو مردے مت کہو اور جوتم کو سلام علیکم کرے اس کا نام کا فر اور بے ایمان نہ رکھو.پاک چیزیں زمین کی پیداوار میں سے کھاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو.تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار یا سفر پر ہووہ اور

Page 153

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۱ سورة النُّور ۱۹ اتنے روز کے پھر رکھے.تم ایک دوسرے کے مال کو ناحق کے طور پر مت کھاؤ اور تم تقوی اختیار کر و ا فلاح ۲۶ ۲۴ پاؤ اور تم خدا کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑیں لڑ ولیکن حد سے مت بڑھو اور کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور تم خدا کی راہ میں خرچ کرو اور دانستہ اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو.اور لوگوں سے احسان کرو کہ خدا محسنین کو دوست رکھتا ہے اور حج اور عمرہ کو اللہ کے واسطے پورا کرو اور اپنے پاس تو شہ رکھو کہ تو شہ میں یہ فائدہ ہے کہ تم کسی دوسرے سے سوال نہیں کرو گے یعنی سوال ایک ذلت ہے اس سے بچنے کے لئے تدبیر کرنی چاہئے اور تم صلح اور اسلام میں داخل ہو.اور مشرکا سے نکاح مت کرو جب تک ایمان نہلا دیں اور مشرکین سے اسے عور تو تم نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لاویں اور اپنے ۱ نفسوں کے لئے کچھ آگے بھیجو اور خدا تعالیٰ کو اپنی قسموں کا عرضہ مت بناؤ اور عورتوں کو دکھ دینے کی غرض سے بند مت رکھو اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جو روئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن نکاح ۳۲ ۳۵ ۲۹ کرنے سے رکی رہیں.اگر تم طلاق دو تو عورتوں کو احسان کے ساتھ رخصت کرو.اگر تمہیں خوف ہو تو نماز پیروں سے چلتے چلتے یا سوار ہونے کی حالت میں پڑھ لو.اگر اپنے صدقات لوگوں کو دکھلا کے دو تو یہ عموماً اچھی بات ہے کہ تالوگ تمہارے نیک کاموں کی پیروی کریں اور اگر چھپا کر محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے نفسوں کے لئے بہتر ہے جب تم کسی کو قرضہ دو تو ایک نوشت لکھ لو اور قرض ادا کرنے میں خدا سے ڈرو اور کچھ باقی مت رکھو اور جب تم کوئی خرید و فروخت کرو تو اس پر گواہ رکھ لو.اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کا تب نہ ملے تو کوئی جائیداد قبضہ میں کر لو تم سب مل کر خدا کی رسی سے پنجہ مارو اور با ہم پھوٹ مت ڈالو.تم میں سے ایسے ۴۳ بھی ہونے چاہئیں کہ جو امر معروف اور نہبی منکر کریں.تم خدا کی مغفرت کی طرف دوڑو اور اگر تم میں سے کسی کی بیوی فوت ہو جاوے تو وہ اس کی جائیداد میں سے نصف کا مالک ہے بشرطیکہ اس کی کچھ اولا د نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو پھر اس کو چہارم حصہ جائیداد بعد عمل بر وصیت پہنچے گا.یہ چند احکام بطور نمونہ ہم نے لکھے ہیں اس میں ایک تھوڑی سی عقل کا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ بظاہر یہ تمام خطاب صحابہ کی طرف ہے لیکن در حقیقت تمام مسلمان ان احکام پر عمل کرنے کے لئے مامور ہیں نہ یہ کہ صرف صحابہ مامور ہیں وبس.غرض قرآن کا اصلی اور حقیقی اسلوب جس سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے یہ ہے کہ اس کے خطاب کے مورد حقیقی اور واقعی طور پر تمام وہ مسلمان ہیں جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے گو بظاہر صورت خطاب صحابہ کی طرف راجمع معلوم ہوتا ہے پس جو شخص یہ دعوی کرے کہ یہ وعدہ یا وعید صحابہ تک ہی

Page 154

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۲ سورة النُّور محدود ہے وہ قرآن کے عام محاورہ سے عدول کرتا ہے اور جب تک پورا ثبوت اس دعوی کا پیش نہ کرے تب تک وہ ایسے طریق کے اختیار کرنے میں ایک ملحد ہے کیا قرآن صرف صحابہ کے واسطے ہی نازل ہوا تھا.اگر قرآن کے وعد اور وعید اور تمام احکام صحابہ تک ہی محدود ہیں تو گویا جو بعد میں پیدا ہوئے وہ قرآن سے بکی بے تعلق ہیں.نعوذ بالله من هذه الخرافات.اور یہ کہنا کہ حدیث میں آیا ہے کہ خلافت تیس سال تک ہوگی عجیب فہم ہے جس حالت میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ تلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (الواقعة :۴۱،۴۰) تو پھر اس کے مقابل پر کوئی حدیث پیش کرنا اور اس کے معنی مخالف قرآن قرار دینا معلوم نہیں کہ کس قسم کی سمجھ ہے اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی هَذَا خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِی اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے لیکن وہ حدیث جو معترض صاحب نے پیش کی علماء کو اس میں کئی طرح کا جرح ہے اور اس کی صحت میں کلام ہے کیا معترض نے غور نہیں کی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت بعض خلیفوں کے ظہور کی خبریں دی گئی ہیں کہ حارث آئے گا.مہدی آئے گا.آسمانی خلیفہ آئے گا.یہ خبریں حدیثوں میں ہیں یا کسی اور کتاب میں.احادیث سے یہ ثابت ہے کہ زمانے تین ہیں.اول خلافت راشدہ کا زمانہ پھر نہج اعوج جس میں ملک عضوض ہوں گے اور بعد اس کے آخری زمانہ جو زمانہ نبوت کے نہج پر ہوگا.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا اول زمانہ اور پھر آخری زمانہ با ہم بہت ہی متشابہ ہیں اور یہ دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں جو ایسی خیر اور برکت سے بھری ہوئی ہو کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت اس کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لحفِظُونَ (الحجر :١٠) یعنی ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا اور ہم ہی اس تنزیل کی محافظت کریں گے.اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی تعلیم کو تازہ رکھنے والے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور اگر یہ سوال ہو کہ قرآن کے وجود کا فائدہ کیا ہے جس فائدہ کے وجود پر اس کی حقیقی حفاظت موقوف ہے تو اس دوسری آیت سے ظاہر ہے هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ

Page 155

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ سورة النُّور رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلِيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة : ۳) اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تا ثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتوبہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد و تا ثیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہوسکتی ہے کہ جب وقتاً فوقتاً نائب رسول آویں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہیں جیسا کہ ان آیات میں اسی امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكنَنَّ لَهُمُ دِينَهُمُ الَّذِى ارتضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۖ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ - پس یہ آیت در حقیقت اس دوسری آیت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر :١٠) کے لئے بطور تفسیر کے واقعہ ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیوں کر اور کس طور سے ہوگی سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا.اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہو گا یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہوگا پھر ان کے آنے کے بعد جو اُن سے سرکش رہے گا وہی لوگ بدکار اور فاسق ہیں.یہ اس بات کا جواب ہے کہ بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں اگر مخالفت پر ہی مریں.اس جگہ معترض صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المائدۃ : ۴) اور پھر اعتراض کیا ہے کہ جب کہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہو چکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی مگر افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کر کے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ابھی گزر

Page 156

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ سورة النُّور چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا.اور خوف کے بعد امن پیدا ہو گا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہو چکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں.لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کو پیش کر دیا.ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مسجد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیوں کر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخو داکثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لکھ ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام تو ریت ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی تو ریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم تو ریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہو گئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جل شانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَقَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة : ۸۸) يعنى موسى

Page 157

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة النُّور کو ہم نے تو رات دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَثوا (المؤمنون: ۴۵) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے.ج اس کثرت ارسال رسل میں اصل بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد مؤکد ہو چکا ہے کہ جو اس کی سچی کتاب کا انکار کرے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أوليكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ( البقرة :۴۰) یعنی جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے.اب جب کہ سزائے انکار کتاب الہی میں ایسی سخت تھی اور دوسری طرف یہ مسئلہ نبوت اور وحی الہی کا نہایت دقیق تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کا وجود بھی ایسا دقیق در دقیق تھا کہ جب تک انسان کی آنکھ خدا دادنور سے منور نہ ہو ہرگز ممکن نہ تھا کہ سچی اور پاک معرفت اس کی حاصل ہو سکے چہ جائیکہ اس کے رسولوں کی معرفت اور اس کے کتاب کی معرفت حاصل ہو.اس لئے رحمانیت الہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نا بینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر با وجود امتداد از منه طویله کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے اور در حقیقت سوچنے والے کے لئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمن اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کے لئے کیوں کر یہ قانون اختیار کر سکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن اور رسول کا نام سنا اور پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے.قرآن کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائمی جہنم میں ڈال دے اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجاب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یوں ہی اس پر چھری پھیر دی جائے پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائگی خلیفوں کا وعدہ دیا تاوہ کلی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں.یہ بھی یادر ہے کہ ہر یک زمانہ کے لئے اتمام حجت بھی مختلف رنگوں سے ہوا کرتا ہے اور مجد دوقت

Page 158

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ سورة النُّور ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کمالات پر موقوف ہوتا ہے سو ہمیشہ خدا تعالیٰ اسی طرح کرتا رہے گا جب تک کہ اس کو منظور ہے کہ آثار رشد اور صلاح کے دنیا میں باقی رہیں اور یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ نظائر متواترہ اس کے شاہد ہیں اور مختلف بلاد کے نبیوں اور مرسلوں بات اور محدثوں کو چھوڑ کر اگر صرف بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح تک ہزار ہانبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے کہ جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہو کر تو ریت کی خدمت میں مصروف رہے.چنانچہ ان تمام بیانات پر قرآن شاہد ہے اور بائیمیل شہادت دے رہی ہے اور وہ نبی کوئی نئی کتاب نہیں لاتے تھے کوئی نیا دین نہیں سکھاتے تھے صرف توریت کے خادم تھے اور جب بنی اسرائیل میں دہریت اور بے ایمانی اور بد چلنی اور سنگدلی پھیل جاتی تھی تو ایسے وقتوں میں وہ ظہور کرتے تھے.اب کوئی سوچنے والا سوچے کہ جس حالت میں موسی کی ایک محدو د شریعت کے لئے جو زمین کی تمام قوموں کے لئے نہیں تھی اور نہ قیامت تک اس کا دامن پھیلا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے یہ احتیاطیں کیں کہ ہزار ہانبی اس شریعت کی تجدید کے لئے بھیجے اور بار ہا آنے والے نبیوں نے ایسے نشان دکھلائے کہ گویا بنی اسرائیل نے نئے سرے خدا کو دیکھ لیا تو پھر یہ امت جو خیر الام کہلاتی ہے اور خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے لٹک رہی ہے کیوں کر ایسی بد قسمت سمجھی جائے کہ خدا تعالیٰ نے صرف تیس برس اس کی طرف نظر رحمت کر کے اور آسمانی انوار دکھلا کر پھر اس سے منہ پھیر لیا اور پھر اس امت پر اپنے نبی کریم کی مفارقت میں صدہا برس گزرے اور ہزارہا طور کے فتنے پڑے اور بڑے بڑے زلزلے آئے اور انواع اقسام کی دجالیت پھیلی اور ایک جہان نے دین متین پر حملے کئے اور تمام برکات اور معجزات سے انکار کیا گیا اور مقبول کو نا مقبول ٹھہرایا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے پھر کبھی نظر اٹھا کر اس امت کی طرف نہ دیکھا اور اس کو کبھی اس امت پر رحم نہ آیا اور کبھی اس کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ لوگ بھی تو بنی اسرائیل کی طرح انسان ضعیف البنیان ہیں اور یہودیوں کی طرح ان کے پودے بھی آسمانی آبپاشی کے ہمیشہ محتاج ہیں کیا اس کریم خدا سے ایسا ہو سکتا ہے جس نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے مفاسد کے دور کرنے کے لئے بھیجا تھا کیا ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی امتوں پر تو خدا تعالی کا رحم تھا اس لئے اس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزار ہا رسول اور محدث توریت کی تائید کے لئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کے لئے بھیجے لیکن یہ امت مورد غضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کر کے ان سب

Page 159

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة النُّور باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کے لئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا اور حضرت موسیٰ کی نسبت تو صاف فرمایا وَ كَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا - رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حَجَةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ، وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : ۱۲۶،۱۶۵) یعنی خدا موسیٰ سے ہمکلام ہوا اور اس کی تائید اور اور تصدیق کے لئے رسول بھیجے جو مبشر اور مندر تھے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہے اور نبیوں کا مسلسل گروہ دیکھ کر توریت پر دلی صدق سے ایمان لاویں.اور فرمایا رُسُلاً قَد قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ....وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ (النساء : ۱۲۵) یعنی ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور بعض کا تو ہم نے ذکر کیا اور بعض کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسیٰ کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہمیشہ امتداد زمانہ کے بعد پہلے معجزات اور کرامات قصہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور پھر آنے والی نسلیں اپنے گروہ کو ہر ایک امر خارق عادت سے بے بہرہ دیکھ کر آخر گذشته معجزات کی نسبت شک پیدا کرتی ہیں پھر جس حالت میں بنی اسرائیل کے ہزار ہا انبیاء کا نمونہ آنکھوں کے سامنے ہے تو اس سے اور بھی بے دلی اس امت کو پیدا ہوگی اور اپنے تئیں بدقسمت پا کر بنی اسرائیل کو رشک کی نگہہ سے دیکھیں گے یا بد خیالات میں گرفتار ہوکر ان کے قصوں کو بھی صرف افسانجات خیال کریں گے اور یہ قول کہ پہلے اس سے ہزار ہا انبیاء ہو چکے اور معجزات بھی بکثرت ہوئے اس لئے اس امت کو خوارق اور کرامات اور برکات کی کچھ ضرورت نہیں تھی لہذا خدا تعالیٰ نے ان کو سب باتوں سے محروم رکھا.یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں جنہیں وہ لوگ منہ پر لاتے ہیں جن کو ایمان کی کچھ بھی پرواہ نہیں ورنہ انسان نہایت ضعیف اور ہمیشہ تقویت ایمان کا محتاج ہے اور اس راہ میں اپنے خود ساختہ دلائل بھی کام نہیں آسکتے جب تک تازہ طور پر معلوم نہ ہو کہ خدا موجود ہے ہاں جھوٹا ایمان جو بدکاریوں کو روک نہیں سکتا نقلی اور عقلی طور پر قائم رہ سکتا ہے اور اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ دین کی تکمیل اس بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بکلی دستبردار ہو جائے مثلاً اگر کوئی گھر بناوے اور اس کے تمام کمرے سلیقہ سے طیار کرے اور اس کی تمام ضرورتیں جو عمارت کے متعلق ہیں باحسن وجہ پوری کر دیوے اور پھر مدت کے بعد اندھیریاں چلیں اور بارشیں ہوں اور اس گھر کے نقش ونگار پر گردو غبار بیٹھ جاوے اور اس کی خوبصورتی ٹھپ جاوے اور پھر اس کا کوئی وارث اس گھر کو صاف اور سفید کرنا چاہے مگر اس کو منع کر دیا جاوے کہ گھر تو مکمل ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ منع کرنا سراسر حماقت ہے افسوس کہ ایسے اعتراضات کرنے والے نہیں سوچتے کہ تکمیل شے دیگر ہے اور وقتا فوقتاً

Page 160

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة النُّور ایک مکمل عمارت کی صفائی کرنا یہ اور بات ہے.یہ یادر ہے کہ مسجد دلوگ دین میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.اب خلاصہ اس تمام تقریر کا کسی قدر اختصار کے ساتھ ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دلائل مندرجہ ذیل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہو کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں اور ہر یک بدعت جو دین سے مل گئی ہو اس کو دور کریں اور آسمانی روشنی پا کر دہو دین کی صداقت ہر ایک پہلو سے لوگوں کو دکھلاویں اور اپنے پاک نمونہ سے لوگوں کو سچائی اور محبت اور پاکیزگی کی طرف کھینچیں.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۴ تا ۳۴۵) خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمدیہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا....ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیوں کر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائگی کا صاف وعدہ فرماتا ہے اگر خلافت دائی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دور ختم ہو گیا تھا تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا ۱۳ مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ تو ارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق

Page 161

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹ سورة النُّور ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا بھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہر گز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے کچھ پرواہ نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انوار رسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزار ہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہو چکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کو ہی بڑھا دیتا اس حساب سے تیس برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل ۹۳ برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقررہ عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے.پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تین برس کا ہی فکر تھا اور پھر ان کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہا اس امت کے لیے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا.کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہر گز نہیں اور پھر یہ آیت خلافت ائمہ پر گواہ ناطق ہے وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ آنَ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِى الصّلِحُونَ (الانبياء : ١٠٦) کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ يَرتها کا لفظ دوام کو چاہتا ہے وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جوسب کے بعد ہو.پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا.کیا اس نے صرف تین برس تک خلیلیے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس

Page 162

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة النُّور سلسلہ کو لمبا کیا.پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا وَ كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء: (۱۱۴) اور ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( ال عمران : ۱۱۱ ) تو پھر کیوں کر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جاوے اور نیز جب کہ یہ امت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اخْرِجَتْ للنا میں کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے.مثل مشہور ہے کہ او خویشتن گم است کرار ہبری کند.جب کہ اس امت کو ہمیشہ کے لئے اندھا رکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھنا ہی مدنظر ہے تو پھر یہ کہنا کہ تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیا معنی رکھتا ہے.کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے سواے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں پھر کیوں کر کہتے ہو کہ خلافت صرف تیس برس تک ہو کر پھر زاویہ عدم میں مخفی ہوگئی.اتقو الله - اتقو الله - اتقو الله (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۲ تا ۳۵۵) مماثلت تامه کامله استخلاف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے جیسا کہ آیت مندرجہ ذیل سے مفہوم ہوتا ہے یعنی آیت وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ صاف بتلا رہی ہے کہ ایک مجد د حضرت مسیح کے نام پر چودھویں صدی میں آنا ضروری ہے کیوں کہ امر استخلاف محمدی امر استخلاف موسوی سے اسی حالت میں اکمل اور اتم مشابہت پیدا کر سکتا ہے کہ جب کہ اول زمانہ اور آخری زمانہ با ہم نہایت درجہ کی مشابہت رکھتے ہوں اور آخری زمانہ کی مشابہت دو باتوں میں تھی ایک امت کا حال ابتر ہونا اور دنیا کے اقبال میں ضعف آجانا اور دینی دیانت اور ایمانداری اور تقویٰ میں فرق آجانا دوسرے ایسے زمانہ میں ایک مجدد کا پیدا ہونا جو مسیح موعود کے نام پر آوے اور ایمانی حالت کو پھر بحال کرے سو پہلی علامت کو ہمارے بھائی مسلمان صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کا ادبار اور ایک ایسی غیر قوم کا اقبال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جوان

Page 163

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورة النُّور کے مذہب کو ایسا ہی حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے جیسا کہ مجوسی یہودیوں پر غالب آ کر حضرت مسیح کے زمانہ میں یہود کو حقیر اور ذلیل سمجھتے تھے اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی حالت اسلام کے علماء اور اسلام کے دنیا داروں کی یہودیوں کے حالات سے کچھ کم نہیں ہے بلکہ خیر سے وہ چند معلوم ہوتی ہے.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۳ تا ۳۶۴) إِنَّ دِينَنَا هَذَا الَّذِي اسْمُهُ الْإِسْلَامُ خدا نے نہیں چاہا کہ ہمارے دین اسلام کو مہمل مَا أَرَادَ اللهُ أَن يَخْرُكَهُ سُدًى وَمَا أَرَادَ أَنْ چھوڑے اور دشمنوں کے ہاتھوں سے اس کو باطل اور يُبْطِلَهُ وَيُخْرِبَهُ مِنْ أَيْدِى الْأَعْدَاءِ ، بَلْ خراب کر اوے بلکہ اس نے فرمایا اور وہ بات کہنے میں قَالَ وَهُوَ أَصْدَقُ الصَّادِقِينَ وَعَدَ اللهُ سب سے بڑھ کر سچا ہے.کہ اللہ نے تم میں سے ان پکے الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے جو اچھے اعمال بجا لاویں لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ گے کہ ضرور ان کو اسی طرز پر زمین میں خلیفہ بناوے گا مِن قَبْلِهِمْ...فَهَذِهِ كُلُهَا مَوَاعِيْدُ صَادِقَةٌ کہ جس طرح پہلوں کو بنایا ہے...پس اسلام کی تائید لِتَأْبِيْدِ الْإِسْلَامِ عِندَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَغَلَبَةِ کے لئے یہ سب کچھ وعدے ہیں فتنوں کے ظہور اور الْمَعَاصِي وَالْأَنامِ ، وَأَى فِتَنِ أَكْبَرُ مِنْ هَذِهِ گناہوں کے غلبہ کے وقت اور جو فتنے کہ اس وقت الْفِتَنِ الَّتِي ظَهَرَتْ عَلى وَجْهِ الْأَرْضِ وَإِنّ روئے زمین پر ظاہر ہورہے ہیں ان سے کون سا بڑا فتنہ النَّصَارَى قَدْ دَخَلُوا عَلَى النَّاسِ مِنْ بَابِ ہے اور نصاریٰ لطیف دروازہ سے لوگوں پر داخل ہوئے لَّطِيفٍ، وَسَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَقُلُوبَهُمْ ہیں اور اپنے بار یک در بار یک فریبوں سے لوگوں کی وَاذَا تَهُمْ بِالْمَكَائِدِ الَّتِي هِيَ دَقِيقَةُ الْمَاخِذِ آنکھوں اور کانوں اور دلوں کو سحر زدہ کر دیا ہے اور بہت وَأَضَلُّوا خَلْقًا كَثِيرًا وَ جَاءُ وَا بِسِحْرٍ مُّبِينِ سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے او کھلے سحر کا کام کیا ہے.(حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۰۸،۲۰۷) (ترجمه از مرتب) میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی مسلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۷) مسیح موعود کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں نہیں ہے بلکہ قرآن شریف نے نہایت لطیف اشارات میں

Page 164

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲ سورة النُّور آنے والے مسیح کی خوشخبری دی ہے جیسا کہ اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ جس طرز اور طریق سے اسرائیلی نبوتوں میں سلسلۂ خلافت قائم کیا گیا ہے وہی طرز اسلام میں ہوگی.یہ وعدہ مسیح موعود کے آنے کی خوشخبری اپنے اندر رکھتا ہے.کیونکہ جب سلسلۂ خلافت انبیاء بنی اسرائیل میں غور کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ سلسلہ حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور پھر چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہو گیا.اور اس نظام خلافت پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا مسیح موعود جس کے آنے کی یہود کو خوشخبری دی گئی تھی چودہ سو برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آیا اور غریبوں اور مسکینوں کی شکل میں ظاہر ہوا اور اس مماثلت کے پورا کرنے م کے لئے جو قرآن شریف میں دونوں سلسلہ خلافت اسرائیکی اور خلافت محمدی میں قائم کی گئی ہے ضروری ہے کہ ہر ایک منصف اس بات کو مان لے کہ سلسلۂ خلافت محمدیہ کے آخر میں بھی ایک مسیح موعود کا وعدہ ہو جیسا کہ سلسلۂ خلافت موسویہ کے آخر میں ایک مسیح موعود کا وعدہ تھا اور نیز تکمیل مشابہت دونوں سلسلوں کے لئے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جیسا کہ خلافت موسویہ کے چودہ سو برس کی مدت پر مسیح موعود بنی اسرائیل کے لئے ظاہر ہوا تھا ایسا ہی اور اسی مدت کے مشابہ زمانہ میں خلافتِ محمدیہ کا مسیح موعود ظاہر ہو.اور نیز تکمیل مشابہت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ یہودیوں کے علماء نے خلافت موسویہ کے مسیح موعود کو نعوذ باللہ کا فر اور ملحد اور دقبال قرار دیا تھا ایسا ہی خلافتِ محمدیہ کے مسیح موعود کو اسلامی قوم کے علماء کا فر اور ملحد اور دقبال قرار دیں.اور نیز تکمیل مشابہت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ خلافت موسویہ کا مسیح موعود ایسے وقت میں آیا تھا کہ جبکہ یہودیوں کی اخلاقی حالت نہایت ہی خراب ہو گئی تھی اور دیانت اور امانت اور تقویٰ اور طہارت اور باہمی محبت اور صلح کاری میں بہت فتور پڑ گیا تھا اور اُن کی اس ملک کی بھی سلطنت جاتی رہی تھی جس ملک میں مسیح موعود اُن کی دعوت کے لئے ظاہر ہوا تھا.ایسا ہی خلافت محمدیہ کا مسیح موعود قوم کی ایسی حالت اور ایسے ادبار کے وقت ظاہر ہو.ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۸۳، ۲۸۴) ثُمَّ بَعدَ ذَالِكَ اعْلَمُوا يَا أولى التهى.پھر بعد اس کے تمہیں معلوم ہو اے دانشمند و! کہ أنّ الله ذَكَرَ فِي الْقُرْآنِ انَّه بَعَثَ مُوسى خدا نے قرآن شریف میں یہ ذکر کیا کہ اس نے پہلی بَعْدَمَا أَهْلَكَ الْقُرُونَ الأولى - وَآتَاهُ الله امتوں کے ہلاک کر دینے کے بعد موسیٰ کو پیدا کیا.اور الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ - وَوَهَبَ لِقَوْمِهِ اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی اور اس کی قوم کو الْخِلافَةَ وَأَقَامَ فِيْهِم سِلْسِلَةَ الْهُدى - خلافت بخشی اور ان میں سلسلہ ہدایت کا قائم کیا اور اس

Page 165

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورة النُّور وَجَعَلَ خَاتَمَ خُلَفَائِهِ رَسُولَهُ ابن سلسلہ کا خاتم الخلفاء حضرت عیسی کو بنایا پس حضرت عیسی اس مَرْيَمَ عِيسَى فَكَانَ عيسى اخر لِبَن عمارت کی آخری اینٹ تھے اور ایک دلیل تھے اس عمارت هذِهِ الْعِمَارَةِ وَعِلْمًا لِسَاعَةِ زَوَالِهَا کے زوال کی گھڑی پر اور ایک عبرت تھے اس شخص کے لئے وَعِبْرَةً لِمَن تَخْشَى - ثُمَّ بَعَتَ الله جو ڈرتا ہو.پھر خدا نے ہمارے پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ نَبِيَّنَا الْأُمِّي فِي أَرْضِ اُمّ القُری کی زمین میں مبعوث فرمایا اور ان کو مثیل موسیٰ علیہ السلام وَجَعَلَهُ مَدِيْلٌ مُوْسٰى وَجَعَلَ سِلْسِلَة بنایا اور ان کے خلیفوں کا سلسلہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کے خُلَفَاءِ - كَمَقَلِ سِلسلة مخلفاء سلسلہ کی طرح اور ان کے مشابہ کر دیا تا کہ یہ سلسلہ اس سلسلہ الْعَلِيمِ لِتَكُونَ رِدْءًا لَهَا وَانَ في هذا کا مددگار ہو اور اس میں دیکھنے والوں کے لئے ایک نشان ہے لايَةٌ لِمَنْ تَرَى - وَإِنْ شِئت فاقرة آیة اور اگر تو چاہے تو اس آیت کو پڑھ لے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَلَا تَتَّبِعَ آمَنُوا مِنْكُمْ اور اپنے ہوا و ہوس کا پیرومت بن کیونکہ اس الْهَوَى فَإِنَّ فِيْهَا وَعْدَ الْإِسْتِخْلافِ آیت میں صاف و عدہ اس امت کے لئے ایسے خلیفوں کا لِهَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَثَلِ الَّذِينَ اسْتَخْلِفُوا ہے جو ان خلیفوں کی طرح ہوں جو بنی اسرائیل میں گزر چکے مِن قَبْلُ وَ الْكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا - والا ہیں اور کریم جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے اور ہم ان لا نَعْلَمُ اسْمَاء خُلَفَاءِ سَبَقُونَا مِن تمام خلیفوں کے نام نہیں جانتے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں هذِهِ الْأُمَّةِ وَ مِن قَبْلُ إِلَّا قَلِيلا فین مگر اس امت کے اور انگلی امتوں کے چند گزرے ہوئے مطى.وَمَا قَصَّ عَلَيْنَا رَبُّنَا قِصَصَ آدمی.اور خدا نے ان سب کے نام سے بھی ہم کو اطلاع نہیں كُلِّهِمْ وَمَا الْبَأْنَا بِأَسْمَاعِهِمْ فَلَا نُؤْمِنُ دی پس ہم ان پر اجمالی طور پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے همْ إِلَّا إِجْمَالًا وَنُفَوِّضُ تَفْصِيلَهُمْ ناموں کی تفصیل کو اپنے خدا کوسونپتے ہیں مگر ہم قرآن کی نص إلى رَبَّنَا الْأَعْلَى وَلكِنَّا الجفنَا بِنَشِ کے رو سے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اس بات پر ایمان الْقُرْآنِ إلى أن تُؤْمِنَ بِخَلِيفَةٍ مِنَّا هُوَ لائیں کہ آخری خلیفه ای امت میں سے ہوگا اور وہ عیسی کے اخِرُ الْخُلَفَاءِ عَلى قَدّم عِیسَی وَمَا كَانَ قدم پر آئے گا اور کسی مومن کی مجال نہیں کہ اس کا انکار کرے لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَكْفُرَ بِهِ فَإِنَّهُ كُفْرُ بِکتاب کیونکہ یہ قرآن کا انکار ہے اور جو کوئی قرآن کا منکر ہے وہ الله وَلَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ حَيْثُ آئی وَفَكِّر جہاں جاوے خدا کے عذاب کے نیچے ہے اور تو قرآن میں

Page 166

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة النُّور فِي الْقُرْآنِ حَتَّى الْفِكْرِ وَلَا تَكُن ایسا فکر کر جیسا کہ فکر کرنے کا حق ہے اور اس شخص کی طرح نہ ہو كَالَّذِي اسْتَكْبَرَ وَ آبى - وَإِنَّهُ الْحَقُّ مِن جو تکبر کر کے سر پھیر لیتا ہے اور یہی بات خدا کی طرف سے حق رَّبَّنَا فَاقْرَ سُورَةَ النُّورِ مُتَدَبَّرا ہے.پس سورہ نور کو غور سے پڑھ تاکہ تجھ پر یہ نور دن کی طرح ليَتَجَلَّى عَلَيْكَ هَذَا النُّورُ كَالضُّحى ظاہر ہو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۷۴ تا۷۷) وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَا وَعَدَ اللهُ اگر ان سے پو چھا جائے کہ تمہارے خدا نے کیا وعدہ رَبُّكُمُ الْأَعْلى لَيَقُولُنَّ إِنَّهُ وَعْدُ فرمایا ہے تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہاں خدا نے یہ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يَسْتَخْلِفَ مِنْهُمْ كَما وعدہ مومنوں سے ضرور کیا ہے کہ ان میں خلیفے پیدا کئے جاویں اسْتَخْلَفَ مِن قَوْمٍ مُوْسی - فَقَدْ گے ان خلیفوں کی مانند جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں خلیفے پیدا أَقَرُّوا بِتَشَابهِ السّلْسِلَتَيْنِ ثُمَّ کئے تھے.پس دونوں سلسلوں کی مشابہت کا اقرار کرتے ہیں يُنْكِرُونَ كَبَصِيرٍ تَعَالَى وَلَمَّا كَانَ پھر ایسے شخص کی طرح انکار کر بیٹھے ہیں کہ وہ سو جا کھا ہو اور نَبِيُّنَا مَثِيْلَ مُوسَى وَكَانَ سِلْسِلَهُ اپنے آپ کو اندھا بنالے اور جس حالت میں ہمارے نبی صلی خُلَفَاءِ مَدِيْلَ السّلْسِلَةِ الْمُؤسَوِيَّةِ الله علیہ وسلم مثیل موسیٰ ٹھہرے اور نیز سلسلہ خلفاء آنحضرت ينَضٍ أجلى وجب أن تختيم صلی اللہ علیہ وسلم مثیل سلسلہ موسیٰ علیہ السلام قرار پایا جیسا کہ السّلْسِلَةُ المُحَمَّدِيَّةُ عَلى خَلِيفَةٍ هُو نص صریح اس پر دلالت کرتی ہے پس واجب ہوا کہ سلسلہ محمد یہ مَثِيْلُ عِيسَى كَمَا اخْتُتِم عَلَى ابْنِ ایک ایسے خلیفہ پر ختم ہو کہ وہ مثیل عیسی علیہ السلام ہو وے جیسا مَرْيَمَ سِلْسِلَةُ صَاحِب العَصا - کہ سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم لِيُطَابِقَ هَذِهِ السّلْسِلَةُ بِسِلْسِلَةٍ أولى ہوا تا کہ یہ دونوں سلسلے با ہم مطابق ہو جائیں اور تا کہ وعدہ وَلِيَتِم وَعْدُ مُماثَلَةِ الاستخلاف مماثلت اس سلسلہ کے خلیفوں کا اور اس سلسلہ کے خلیفوں کا كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ مِّنْ لَفْظِ كَمَا - پورا ہو جائے جیسا کہ امر مماثلت کما کے لفظ سے ظاہر خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۹۲،۹۱) ہے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) أمَا قَالَ رَبُّكُمْ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي کیا تمہارے خدا نے نہیں فرمایا ہے کہ لَيَسْتَخْلِفَهُمْ في الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اس میں ایک حجت ہے

Page 167

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورة النُّور وَ اِنَّ فِي ذَالِكَ حُجَةٌ عَلَى مَنْ طَغَى فَاِنَّ لفظ اس کے لئے کہ جو حد سے تجاوز کرتا ہے کیونکہ لفظ کہا جو كَمَا يُوجَبُ أَن يَكُونَ سِلْسِلَة الخلفاء في هذه اس آیت میں موجود ہے اس امت کے سلسلہ کے خلفاء کو الْأُمَّةِ كَمَثَلِ سِلْسِلَةِ نَبِيَّ الله مُوسَى الَّتِى موسیٰ علیہ السلام کے خلفاء سے مانند ہونے کو واجب کرتا حتِمَتَ عَلَى ابْنِ مَرْيَمَ عِیسَی فَأَيْنَ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ سلسلہ خلفاء موسیٰ علیہ السلام عیسیٰ علیہ تَذْهَبُونَ مِن هَذِهِ الْآيَةِ وَتُبْعِدُونَ مَا دَنی - اسلام پر ختم ہو گیا ہے.پس اس آیت سے کہاں روگردانی دَلَى وَوَ اللهِ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ الَّذِى هُوَ أَهْلُ کرتے ہو اور نزدیک راہ کو دور ڈالتے ہو اور خدا کی قسم الْفَصْلِ وَالْقَضَاء إِلَّا خَيْرَ ظُهُورٍ خَاتَمِ قرآن شریف میں جو تمام اختلافوں کا فیصلہ کرنے والا الْخُلَفَاءِ مِنْ أُمَّةِ خَيْرِ الْوَرى فَلَا تَقْفُوا مَا ہے کہیں ذکر نہیں ہے کہ خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا موسوی لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَ قَدْ أَعْطِيتُمُ فِيْهِ مِن سلسلہ سے آئے گا اس کی پیروی مت کرو کہ کوئی دلیل الْهُدى وَلَا تُخْرِجُوا مِنْ أَفْوَاهِكُمْ كَلِمَاتٍ تمہارے پاس نہیں ہے بلکہ برخلاف اس کے تم کو دلیل دی شقى الَّتِي لَيْسَتْ هِيَ إِلَّا كَسَهُم في گئی.اور کلمات متفرقہ اپنے منہ سے نہ نکالو کہ وہ کلمات الظُّلُمَاتِ يُوْفى - وَإِنَّ هَذَا الْوَعْدَ وَعَد حَقٌّ اس تیر کی طرح ہیں جو اندھیرے میں چلایا جائے اور یہ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۰۹،۱۰۸) وعدہ جو مذکور ہوا سچا وعدہ ہے ( ترجمہ اصل کتاب سے) وَحَدَّ اللهُ الْمُؤْمِنين على هذا الدُّعَاءِ ثُمَّ اور اس دعا پر خدا نے مومنوں کو رغبت دلائی ہے وَعَدَ في سُوْرَةِ التَّوْرِ وَعْدًا إِنَّهُ لَيَسْتَخْلِفَنَّ اور اس کے بعد سورہ نور میں وعدہ دیا ہے کہ مسلمانوں قَوْمًا مِّنْهُمْ كَمَثَلِ الَّذِينَ اسْتُخْلِفُوا مِنْ میں سے خلط مقرر کرے گا.ان خلیفوں کی طرح جو قَبْلُ لَيُبَيِّرَ الْمُؤْمِنِينَ أنَّ الدُّعَاء أجيب لِبَعْضِهِمْ مِنَ الْحَضْرَةِ الْعُلْيَا - (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۱۹،۱۱۸) ان سے پہلے ہوئے ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) قد وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ خدا نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ كَمِثْلِ خُلَفَاءِ شِرْعَةِ مُوسی موسیٰ کی شریعت کے خلیفوں کی مانند خلیفہ بنائے گا.فَوَجَبْ أَن يَأْتي اخرُ الْخُلَفَاء عَلى قَدَم عیسی یہاں سے واجب ہوا کہ آخری خلیفہ عیسی علیہ السلام وَمِنْ هذِهِ الْأُمَّةِ خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۶ ۱ صفحه ۱۳۹) کے قدم پر آئے گا اور اسی امت میں سے ہوگا ( ترجمہ اصل کتاب سے )

Page 168

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة النُّور اعْلَمُ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ فِي جان لو کتاب اللہ میں جس مسیح موعود کے آنے کا وعدہ كِتَابِ اللهِ لَيْسَ هُوَ عِیسَی ابْنَ مَرْيَمَ دیا گیا ہے وہ صاحب انجیل اور خادم شریعت موسوی عیسی صَاحِبَ الْإِنْجِيلِ وَخَادِمَ الشَّرِيعَةِ ابن مریم نہیں جیسا کہ فیج اعوج کے بعض جاہل لوگوں اور الْمُوْسَوِيَّةِ، كَمَا ظَنَّ بَعْضُ الْجُهَلَاءِ مِن غلط کار فرقہ میں سے بعض نے خیال کیا ہے بلکہ وہ خاتم الخلفاء الْفَيْحِ الْأَعْوَجِ وَالْفِئَةِ الخَاطِئَةِ، بَلْ هُوَ اس امت میں سے ہوگا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام خَاتَمُ الْخُلَفَاء مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، كَمَا كَان خلفاء سلسلہ موسویہ کے خاتم تھے اور اس عمارت کی وہ عِيسَى خَاتَمَ خُلَفَاء السلسلة آخری اینٹ اور اس سلسلہ کے آخری مرسل تھے اور یقیناً الْعَلِيمِيَّةِ وَكَانَ لَهَا كَاخر اللبنة یہی بات کچی ہے.ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جو وَخَاتَمَ الْمُرْسَلِينَ.وَإِنَّ هَذَا لَهُوَ الْحَقُ قرآن تو پڑھتے ہیں پھر اس سے منکروں کی طرح اعراض فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَفْرَ ونَ الْقُرْآنَ ثُمَّ يَمُرُونَ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس مسئلہ مُنْكَرِيْنَ.وَإِنَّ الْفُرْقَانَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ کے بارے میں جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کر الْمُتَتَازِعِينَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَإِنَّهُ دیا ہے اور منکم کے لفظ سے سورۃ نور میں صراحت کر صرح في سُوْرَةِ النُّورِ بِقَوْلِهِ مِنكُم بان دی ہے کہ خاتم الائمہ امت محمدیہ میں سے ہی ہوگا.خَاتَمَ الْأَعْمَةِ مِنْ هَذِهِ الْمِلَّةِ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۰۹) ( ترجمه از مرتب) منجملہ دلائل قویہ قطعیہ کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو مسیح موعود اسی اُمت محمدیہ میں سے ہوگا قرآن شریف کی یہ آیت ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ الخ یعنی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو ایماندار ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وعدہ فرمایا ہے جو ان کو زمین پر انہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں خلیفے مقرر فرمائے گا اس آیت میں پہلے خلیفوں سے مُراد حضرت موسیٰ کی امت میں سے خلیفے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی شریعت کو قائم کرنے کے لئے پے در پے بھیجا تھا اور خاص کر کسی صدی کو ایسے خلیفوں سے جو دین موسوی کے مجدد تھے خالی نہیں جانے دیا تھا اور قرآن شریف نے ایسے خلیفوں کا شمار کر کے ظاہر فرمایا ہے کہ وہ باراں ہیں اور تیرھواں حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو موسوی شریعت کا مسیح موعود ہے.اور اس

Page 169

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۷ سورة النُّور مماثلت کے لحاظ سے جو آیت ممدوحہ میں گیا کے لفظ سے مستنبط ہوتی ہے ضروری تھا کہ محمدی خلیفوں کو موسوی خلیفوں سے مشابہت و مماثلت ہو.سو اسی مشابہت کے ثابت اور تحقیق کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ہر ایک حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور تیرھواں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تھا مگر در حقیقت موسیٰ کی قوم میں سے نہیں تھا اور پھر خدا نے محمدی سلسلہ کے خلیفوں کو موسوی سلسلہ کے خلیفوں سے مشابہت دے کر صاف طور پر سمجھا دیا کہ اس سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح ہے اور درمیان میں باراں خلیفے ہیں تا موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس جگہ بھی چوداں کا عدد پورا ہو ایسا ہی سلسلہ محمد کی خلافت کے مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کیا کیونکہ موسوی سلسلہ کا مسیح موعود بھی ظاہر نہیں ہوا تھا جب تک کہ سن موسوی کے حساب سے چودھویں صدی نے ظہور نہیں کیا تھا ایسا کیا گیا تا دونوں مسیحوں کا مبدء سلسلہ سے فاصلہ باہم مشابہ ہو اور سلسلہ کے آخری خلیفہ مجدد کو چودھویں صدی کے سر پر ظاہر کرنا تکمیل نور کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مسیح موعود اسلام کے قمر کا منظم نور ہے اس لئے اس کی تجدید چاند کی چودھویں رات سے مشابہت رکھتی ہے اس کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ ليُظهرة على الدين محلہ کیونکہ اظہار تام اور اتمام نور ایک ہی چیز ہے.اور یہ قول کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الْأَدْيَانِ كُلَّ الْإِظْهَارِ مساوی اس قول سے ہے کہ لِيُتِمَّ نُورَهُ كُلَّ الإِثْمَامِ اور پھر دوسری آیت میں اس کی اور بھی تصریح ہے اور وہ یہ ہے - يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرَة الكَفِرُونَ (الصف:۹) اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہوگا.کیونکہ اتمام نور کے لئے چودھویں رات مقرر ہے.غرض جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی بن مریم کے درمیان باراں خلیفوں کا ذکر فرمایا گیا اور اُن کا عدد بارہ ظاہر کیا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ تمام بارہ کے بارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھے مگر تیرھواں خلیفہ جو اخیری خلیفہ ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اپنے باپ کے رُو سے اس قوم میں سے نہیں تھا کیونکہ اس کا کوئی باپ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ سے اپنی شاخ ملا سکتا.یہی تمام باتیں سلسلہ خلافت محمدیہ میں پائی جاتی ہیں یعنی حدیث متفق علیہ سے ثابت ہے کہ اس سلسلہ میں بھی درمیانی خلیفے باراں ہیں اور تیرھواں جو خاتم ولایت محمدیہ ہے وہ محمدی قوم میں سے نہیں ہے یعنی قریش میں سے نہیں اور یہی چاہئے تھا کہ باراں خلیفے تو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے ہوتے اور آخری خلیفہ اپنے آباء واجداد کے رُو سے اس قوم میں سے نہ ہوتا تا تحقق مشابہت اکمل اور اتم طور پر ہو جاتا.سو

Page 170

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة النُّور الحمد لله والمئة کہ ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بخاری اور مسلم میں یہ حدیث متفق علیہ ہے جو جابر بن سمرہ سے ہے اور وہ یہ ہے لَا يَزالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشِ یعنی بارہ خلیفوں کے ہوتے تک اسلام خوب قوت اور زور میں رہے گا مگر تیرھواں خلیفہ جو مسیح موعود ہے اُس وقت آئے گا جبکہ اسلام غلبۂ صلیب اور غلبہ دجالیت سے کمزور ہو جائے گا اور وہ بارہ خلیفے جو غلبہ اسلام کے وقت آتے رہیں گے وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے ہوں گے.* مگر مسیح موعود جو اسلام کے ضعف کے وقت آئے گا وہ قریش کی قوم میں سے نہیں ہوگا کیونکہ ضرور تھا کہ جیسا کہ موسوی سلسلہ کا خاتم الانبیاء اپنے باپ کے رو سے حضرت موسیٰ کی قوم میں سے نہیں ہے ایسا ہی محمد ی سلسلہ کا خاتم الاولیاء قریش میں سے نہ ہو اور اسی جگہ سے قطعی طور پر اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ اسلام کا مسیح موعود اسی امت میں سے آنا چاہئے کیونکہ جبکہ نص قطعی قرآنی یعنی گھا کے لفظ سے ثابت ہو گیا کہ سلسلہ استخلاف محمدی کا سلسلہ استخلاف موسوی سے مماثلت رکھتا ہے جیسا کہ اُسی گما کے لفظ سے ان دونبیوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت ثابت ہے جو آیت كما اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل (١٢) سے سمجھی جاتی ہے تو یہ مماثلت اسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے جبکہ محمدی سلسلہ کے آنے والے خلیفے گزشتہ الفاظ حدیث یہ ہیں.عن جابر بن سمرة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَى عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ متفق عليه مشکوۃ شریف باب مناقب قریش.یعنی اسلام باراں خلیفوں کے ظہور تک غالب رہے گا اور وہ تمام خلیفے قریش میں سے ہوں گے.اس جگہ یہ دعوی نہیں ہوسکتا کہ مسیح موعود بھی انہی باراں میں داخل ہے کیونکہ متفق علیہ یہ امر ہے کہ مسیح موعود اسلام کی قوت کے وقت نہیں آئے گا بلکہ اس وقت آئے گا جبکہ زمین پر نصرانیت کا غلبہ ہوگا جیسا کہ يَكْسِرُ الصَّلیب کے فقرہ سے مستنبط ہوتا ہے.پس ضرور ہے کہ مسیح کے ظہور سے پہلے اسلام کی قوت جاتی رہے اور مسلمانوں کی حالت پر ضعف طاری ہو جائے اور اکثر ان کے دوسری طاقتوں کے نیچے اسی طرح محکوم ہوں جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کے وقت یہودیوں کی حالت ہو رہی تھی.چونکہ حدیثوں میں مسیح موعود کا خاص طور پر تذکرہ تھا اس لئے باراں خلیفوں سے اس کو الگ رکھا گیا کیونکہ مقدر ہے کہ وہ نزول شدائد ومصائب کے بعد آوے اور اس وقت آوے جبکہ اسلام کی حالت میں ایک صریح انقلاب پیدا ہو جائے اور اسی طرز سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تھے یعنی ایسے وقت میں جبکہ یہودیوں میں ایک صریح زوال کی علامت پیدا ہو گئی تھی پس اس طریق سے حضرت موسیٰ کے خلیفے بھی تیرہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفے بھی تیرہ اور جیسا کہ حضرت موسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چودھویں جگہ تھے ایسا ہی ضرور تھا کہ اسلام کا مسیح موعود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چودھویں جگہ پر ہو اسی مشابہت سے مسیح موعود کا چودھویں صدی میں ظاہر ہونا ضروری تھا.منہ.

Page 171

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ سورة النُّور خلیفوں کا مین نہ ہوں بلکہ غیر ہوں.* وجہ یہ کہ مشابہت اور مماثلت میں من وجہ مغائرت ضروری ہے اور کوئی چیز اپنے نفس کے مشابہہ نہیں کہلا سکتی.پس اگر فرض کر لیں کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدیہ کا جو تقابل کے لحاظ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے مقابل پر واقع ہوا ہے جس کی نسبت یہ ماناضروری ہے کہ وہ اس اُمت کا خاتم الاولیاء ہے.** جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسی خاتم الانبیاء ہے.اگر در حقیقت وہی عیسیٰ علیہ السلام ہے جو دوبارہ آنے والا ہے تو اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ قرآن جیسا کہ گما کے لفظ سے مستنبط ہوتا ہے دونوں سلسلوں کے تمام خلیفوں کو من وجہ مغائر قرار دیتا ہے اور یہ ایک نص قطعی ہے کہ اگر ایک دنیا اس کے مخالف اکٹھی ہو جائے تب بھی وہ اس نص واضح کو ر ڈ نہیں کر سکتی کیونکہ جب پہلے سلسلہ کا تعین ہی نازل ہو گیا تو وہ مغائرت فوت ہو گئی اور لفظ گما کا مفہوم باطل ہو گیا.پس اس صورت میں تکذیب قرآن شریف لازم ہوئی.وَهَذَا بَاطِلٌ وَكُلُّمَا يَسْتَلْزِمُ الْبَاطِلَ فَهُوَ بَاطِلٌ یادر ہے کہ قرآن شریف نے آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں وہی گیا استعمال کیا ہے جو آیت كما اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل : ۱۶) میں ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے جو جبکہ بوجہ گما کے لفظ کے جو آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں موجود ہے محمدی سلسلہ کے خلیفوں کی نسبت وجوباً وقطعاًمان لیا گیا ہے کہ وہ وہی خلیفے نہیں ہیں جو موسوی سلسلہ کے خلیفے تھے ہاں ان خلیفوں سے مشابہ ہیں اور نیز ساتھ اس کے واقعات نے بھی ظاہر کر دیا ہے کہ وہ لوگ پہلے خلیفوں کے عین نہیں ہیں بلکہ غیر ہیں.تو پھر آخری خلیفہ اس سلسلہ محمدیہ کی نسبت جو مسیح موعود ہے کیوں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے مسیح کا عین ہے؟ کیا وہ گما کے لفظ کے نیچے نہیں ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ حسب منشاء گھا کے لفظ کے محمدی سلسلہ کا صحیح اسرائیلی مسیح کا غیر ہونا چاہئے نہ معین.عین سمجھنا تو قرآن کے منطوق نص پر صریح حملہ ہے بلکہ قرآن شریف کی صریح تکذیب ہے اور نیز ایک بے جا تحکم کہ باراں خلیفوں کو تو حسب منشاء گہا کے لفظ کے اسرائیلی خلیفوں کا غیر سمجھنا اور پھر مسیح موعود کو جو سلسلہ موسویہ کے مقابل پر سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ ہے پہلے میچ کا معین قرار دے دینا.وهَذِهِ نُكْتَةٌ مُبْتَكِرَةٌ وَحُجَّةٌ بَاهِرَةٌ وَحَدَّةٌ مِن دُرَرٍ تَفَرَّدْتُ بِهَا فَخُذُوْهَا بِقُوَّةٍ وَاشْكُرُوا اللَّهَ بِاتَابَةٍ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمَحْرُومِينَ.منہ شیخ محی الدین ابن عربی اپنی کتاب فصوص میں مہدی خاتم الاولیاء کی ایک علامت لکھتے ہیں کہ اس کا خاندان چینی حدود میں سے ہوگا اور اس کی پیدائش میں یہ ندرت ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک لڑکی بطور تو ام پیدا ہوگی.یعنی اس طرح پر خدا اناث کا مادہ اس سے الگ کر دے گا.سو اسی کشف کے مطابق اس عاجز کی ولادت ہوئی ہے اور اسی کشف کے مطابق میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں.منہ -

Page 172

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة النُّور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہو کر نہیں آئے بلکہ یہ خود موسیٰ بطور تناسخ آگیا ہے یا یہ دعوی کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعوی صحیح نہیں ہے کہ توریت کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں بلکہ اس پیشگوئی کے معنے یہ ہیں کہ خود موسیٰ ہی آجائے گا جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہے تو کیا اس فضول دعوے کا یہ جواب نہیں دیا جائے گا کہ قرآن شریف میں ہرگز بیان نہیں فرمایا گیا کہ خود موسی آئے گا بلکہ گما کے لفظ سے مثیل موسیٰ کی طرف اشارہ فرمایا ہے.پس یہی جواب ہماری طرف سے ہے کہ اس جگہ بھی سلسلہ خلفاء محمدی کے لئے گھا کا لفظ موجود ہے.اور یہ نص قطعی کلام الہی کی آفتاب کی طرح چمک کر ہمیں بتلا رہی ہے کہ سلسلہ خلافت محمدی کے تمام خلیفے خلفاء موسوی کے مثیل ہیں.اسی طرح آخری خلیفہ جو خاتم ولایت محمد یہ ہے جو سیح موعود کے نام سے موسوم ہے وہ حضرت عیسی سے جو خاتم سلسلہ نبوت موسویہ ہے مماثلت اور مشابہت رکھتا ہے.مثلاً دیکھو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یوشع بن نون سے کیسی مشابہت ہے کہ انہوں نے ایسا ایک نا تمام کام لشکر اسامہ اور انبیاء کا ذبین کے مقابلہ کا پورا کیا جیسا کہ حضرت یوشع بن نون نے پورا کیا.اور آخری خلیفہ سلسلہ موسوی کا یعنی حضرت عیسی جیسا کہ اُس وقت آیا جبکہ تکمیل اور پیلاطوس کے علاقہ سے سلطنت یہود کی جاتی رہی تھی ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کا مسیح ایسے وقت میں آیا کہ جب ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکی.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۸) جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلہ خلافت موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلہ نبوت محمدیہ کے خلیفے سلسلہ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ یہ آیت ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم الخ یعنی خدا نے اُن ایمانداروں سے جو نیک کام بجالاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو اُن میں سے زمین پر خلیفے مقرر کرے گا انہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے کئے تھے.اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو ان دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلث ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خاتم خلفاء محمد یہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے.سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور اُن کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت

Page 173

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة النُّور کے لئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی رُوح اُس میں پھونکی یہاں تک کہ وہ مشکلات جو عقیدہ باطلہ حیات مسیح کے مقابلہ میں خاتم الخلفاء کو پیش آنی چاہئے تھی ان تمام شبہات کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کمال صفائی سے حل کر دیا اور تمام صحابہ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہا جس کا گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی موت پر اعتقاد نہ ہو گیا ہو بلکہ تمام امور میں تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایسی ہی اطاعت اختیار کر لی جیسا کہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یشوع بن نون کی اطاعت کی تھی اور خدا بھی موسیٰ اور یشوع بن نون کے نمونہ پر جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ کا حامی اور مؤید تھا.ایسا ہی ابوبکر صدیق کا حامی اور مؤید ہو گیا.در حقیقت خدا نے یشوع بن نون کی طرح اس کو ایسا مبارک کیا جو کوئی دشمن اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسامہ کے لشکر کا نا تمام کام جو حضرت موسیٰ کے نا تمام کام سے مشابہت رکھتا تھا حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر پورا کیا.اور حضرت ابو بکر کی حضرت یشوع بن نون کے ساتھ ایک اور عجیب مناسبت یہ ہے جو حضرت موسیٰ کی موت کی اطلاع سب سے پہلے حضرت یوشع کو ہوئی اور خدا نے بلا توقف اُن کے دل میں وحی نازل کی جو موسیٰ مر گیا تا یہود حضرت موسیٰ کی موت کے بارے میں کسی غلطی یا اختلاف میں نہ پڑ جائیں جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اوّل سے ظاہر ہے اسی طرح سب سے پہلے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی موت پر حضرت ابوبکر نے یقین کامل ظاہر کیا اور آپ کے جسدِ مبارک پر بوسہ دے کر کہا کہ تو زندہ بھی پاک تھا اور موت کے بعد بھی پاک ہے اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر اُن تمام خیالات کو دُور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا اور جس طرح حضرت یشوع بن نون نے دین کے سخت دشمنوں اور مفتریوں اور مفسدوں کو ہلاک کیا تھا اسی طرح بہت سے مفسد اور جھوٹے پیغمبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارے گئے اور جس طرح حضرت موسی راہ میں ایسے نازک وقت میں فوت ہو گئے تھے کہ جب ابھی بنی اسرائیل نے کنعانی دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی تھی اور بہت سے مقاصد باقی تھے اور اردگرد دشمنوں کا شور تھا جو حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد اور بھی خطر ناک ہو گیا تھا ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خطر ناک زمانہ پیدا ہو گیا تھا.کئی فرقے عرب کے مرتد ہو گئے تھے بعض نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر

Page 174

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورة النُّور کھڑے ہو گئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قومی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر کئے گئے اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ باعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جا تا اور زمین سے ہموار ہو جاتا.مگر چونکہ خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی رُوح اس میں پھونکی جاتی ہے جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت ۶ میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اب تو مضبوط ہو جا.یہی حکم قضا و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا تناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابوبکر بن قحافہ اور یشوع بن نون ایک ہی شخص ہے.استخلافی مماثلت نے اس جگہ کس کر اپنی مشابہت دکھلائی ہے یہ اس لئے کہ کسی دو لمبے سلسلوں میں باہم مشابہت کو دیکھنے والے طبعا یہ عادت رکھتے ہیں کہ یا اول کو دیکھا کرتے ہیں اور یا آخر کو مگر دوسلسلوں کی درمیانی مماثلت کو جس کی تحقیق و تفتیش زیادہ وقت چاہتی ہے دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اول اور آخر پر قیاس کر لیا کرتے ہیں اس لئے خُدا نے اس مشابہت کو جو یشوع بن نون اور حضرت ابو بکر میں ہے جو دونوں خلافتوں کے اوّل سلسلہ میں ہیں اور نیز اس مشابہت کو جو حضرت عیسی بن مریم اور اس اُمت کے مسیح موعود میں ہے جو دونوں خلافتوں کے آخر سلسلہ میں ہیں اجلی بدیہیات کر کے دکھلا دیا.مثلاً یشوع اور ابوبکر میں وہ مشابہت درمیان رکھ دی کہ گویا وہ دونوں ایک ہی وجود ہے یا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو خدا تعالیٰ کے حکم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شرعی جیسا یہ کہ تو خون نہ کر چوری نہ کر جھوٹی گواہی مت دے دوسری قسم حکم کی قضا و قدر کے حکم ہیں جیسا کہ یہ حکم کہ قُلْنَا يُنَارُ كُوني بردًا وَ سَلمًا عَلَى ابراھیم شرعی حکم میں محکوم کا تخاف حکم سے جائز ہے جیسا کہ بہتیرے باوجود حکم شرعی پانے کے خون بھی کرتے ہیں چوری بھی کرتے ہیں جھوٹی گواہی بھی دیتے ہیں مگر قضا و قدر کے حکم میں ہرگز تخلف جائز نہیں.انسان تو انسان قدری حکم سے جمادات بھی تخلف نہیں کر سکتے کیونکہ جبروتی کشش اس کے ساتھ ہوتی ہے.سوحضرت بیشوع کو خدا کا یہ حکم کہ مضبوط دل ہو جا قدری حکم تھا یعنی قضاء وقدر کاحکم وہی حکم حضرت ابوبکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا.منہ *

Page 175

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ سورة النُّور گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابوبکر کی خلافت کو قبول کیا.غرض ہر ایک پہلو سے حضرت ابوبکر صدیق کی مشابہت حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ثابت ہوئی.خدا نے جس طرح حضرت یشوع بن نون کو اپنی وہ تائیدیں دکھلائیں کہ جو حضرت موسیٰ کو دکھلایا کرتا تھا ایسا ہی خدا نے تمام صحابہ کے سامنے حضرت ابوبکر کے کاموں میں برکت دی اور نبیوں کی طرح اس کا اقبال چکا.اُس نے مفسدوں اور جھوٹے نبیوں کو خدا سے قدرت اور جلال پا کر قتل کیا تا کہ اصحاب رضی اللہ عنہم جانیں کہ جس طرح خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس کے بھی ساتھ ہے.ایک اور عجیب مناسبت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت یشوع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک ہولناک دریا سے جس کا نام پر دن ہے عبور مع لشکر کرنا پیش آیا تھا اور پر دن میں ایک طوفان تھا اور عبور غیر ممکن تھا اور اگر اس طوفان سے عبور نہ ہوتا تو بنی اسرائیل کی دشمنوں کے ہاتھ سے تباہی متصور تھی اور یہ وہ پہلا امر ہولناک تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو اپنے خلافت کے زمانہ میں پیش آیا اس وقت خدا تعالیٰ نے اس طوفان سے اعجازی طور پر یوشع بن نون اور اس کے لشکر کو بچا لیا اور یردن میں خشکی پیدا کر دی جس سے وہ بآسانی گزر گیا وہ خشکی بطور جوار بھاٹا تھی یا محض ایک فوق العادۃ اعجاز تھا.بہر حال اس طرح خدا نے ان کو طوفان اور دشمن کے صدمہ سے بچایا اسی طوفان کی مانند بلکہ اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ الحق کو مع تمام جماعت صحابہ کے جو ایک لاکھ سے زیادہ تھے پیش آیا یعنی ملک میں سخت بغاوت پھیل گئی.اور وہ عرب کے بادیہ نشین جن کو خدا نے فرمایا تھا قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا اسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمُ (سورة الحجرات: ۱۵) ضرور تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ بگڑتے تا یہ پیشگوئی پوری ہوتی.پس ایسا ہی ہوا اور وہ سب لوگ مرتد ہو گئے اور بعض نے زکوۃ سے انکار کیا اور چند شر پر لوگوں نے پیغمبری کا دعوی کر دیا جن کے ساتھ کئی لاکھ بد بخت انسانوں کی جمعیت ہو گئی اور دشمنوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ صحابہ کی جماعت اُن کے آگے کچھ بھی چیز نہ تھی اور ایک سخت طوفان ملک میں بر پا ہوا یہ طوفان اُس خوفناک پانی سے بہت بڑھ کر تھا جس کا سامنا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو پیش آیا تھا اور جیسا کہ یوشع بن نون حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد نا گہانی طور پر اس سخت ابتلا میں مبتلا ہو گئے تھے

Page 176

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة النُّور کہ دریا سخت طوفان میں تھا اور کوئی جہاز نہ تھا اور ہر ایک طرف سے دشمن کا خوف تھا.یہی ابتلا حضرت ابو بکر کو پیش آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ارتداد عرب کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور جھوٹے پیغمبروں کا ایک دوسرا طوفان اس کو قوت دینے والا ہو گیا.یہ طوفان یوشع کے طوفان سے کچھ کم نہ تھا بلکہ بہت زیادہ تھا اور پھر جیسا کہ خدا کی کلام نے حضرت یوشع کو قوت دی اور فرمایا کہ جہاں جہاں تو جاتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں تو مضبوط ہو اور دلاور بن جا اور بے دل مت ہو.تب یشوع میں بڑی قوت اور استقلال اور وہ ایمان پیدا ہو گیا جو خدا کی تسلی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی حضرت ابوبکر کو بغاوت کے طوفان کے وقت خدا تعالیٰ سے قوت ملی.جس شخص کو اس زمانہ کی اسلامی تاریخ پر اطلاع ہے وہ گواہی دے سکتا ہے کہ وہ طوفان ایسا سخت طوفان تھا کہ اگر خدا کا ہاتھ ابوبکر کے ساتھ نہ ہوتا اور اگر در حقیقت اسلام خدا کی طرف سے نہ ہوتا اور اگر در حقیقت ابوبکر خلیفہ حق نہ ہوتا تو اس دن اسلام کا خاتمہ ہو گیا تھا.مگر یشوع نبی کی طرح خدا کے پاک کلام سے ابوبکر صدیق کو قوت ملی کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس ابتلا کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی.چنانچہ جو شخص اس آیت مندرجہ ذیل کو غور سے پڑھے گا وہ یقین کرلے گا کہ بلاشبہ اس ابتلا کی خبر قرآن شریف میں پہلے سے دی گئی تھی اور وہ خبر یہ ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۖ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی خدا نے مومنوں کو جو نیکو کار ہیں وعدہ دے رکھا ہے جو ان کو خلیفے بنائے گا انہی خلیفوں کی مانند جو پہلے بنائے تھے اور اُسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا اور اُن کے دین کو یعنی اسلام کو جس پر وہ راضی ہواز مین پر جمادے گا اور اُس کی جڑ لگا دے گا اور خوف کی حالت کو امن کی حالت کے ساتھ بدل دے گا.وہ میری پرستش کریں گے کوئی دوسرا میرے ساتھ نہیں ملائیں گے.دیکھو اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا.سو یہی خوف یشوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کے کلام سے تسلی دی گئی ایسا ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خدا کے کلام سے تسلی دی گئی اور چونکہ ہر ایک سلسلہ میں خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ اس کا کمال تب ظاہر ہوتا ہے کہ جب آخر حصہ سلسلہ کا پہلے حصہ سے مشابہ ہو جائے اس لئے ضروری ہوا کہ موسوی اور محمدی سلسلہ کا پہلا خلیفہ موسوی اور محمدی سلسلہ

Page 177

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة النُّور کے آخری خلیفہ سے مشابہ ہو کیونکہ کمال ہر ایک چیز کا استدارت " کو چاہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ تمام بسائط استدارت کے لفظ سے میری مراد یہ ہے کہ جب ایک دائرہ پورے طور پر کامل ہو جاتا ہے تو جس نقطہ سے شروع ہوا تھا اسی نقطہ سے جاملتا ہے اور جب تک اس نقطہ کو نہ ملے تب تک اُس کو دائرہ کا ملہ نہیں کہہ سکتے.پس آخری نقطہ کا پہلے نقطہ سے جاملنا وہی امر ہے جس کو دوسرے لفظوں میں مشابہت تامہ کہا کرتے ہیں.پس جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یشوع بن نون سے مشابہت تھی یہاں تک کہ نام میں بھی تشابہ تھا ایسا ہی حضرت ابو بکر اور مسیح موعود کو بعض واقعات کے رُو سے بشدّت مشابہت ہے اور وہ یہ کہ ابو بکر کو خدا نے سخت فتنہ اور بغاوت اور مشتریوں اور مفسدوں کے عہد میں خلافت کے لئے مقرر کیا تھا ایسای مسیح موعود اس وقت ظاہر ہوا کہ جبکہ تمام علامات صغریٰ کا طوفان ظہور میں آچکا تھا اور کچھ کبری میں سے بھی.اور دوسری مشابہت یہ ہے کہ جیسا کہ خدا نے حضرت ابوبکر کے وقت میں خوف کے بعد امن پیدا کر دیا اور برخلاف دشمنوں کی خواہشوں کے دین کو جماد یا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں بھی ہوگا کہ اس طوفانِ تکذیب اور تکفیر اور تفسیق کے بعد یکد فعہ لوگوں کو محبت اور ارادت کی طرف میلان دیا جائے گا اور جب بہت سے نور نازل ہوں گے اور ان کی آنکھیں کھلیں گی تو وہ معلوم کریں گے کہ ہمارے اعتراض کچھ چیز نہ تھے اور ہم نے اپنے اعتراضوں میں بجز اس کے اور کچھ نہ دکھلایا جو اپنے سطحی خیال اور موٹی عقل اور حمد اور تعصب کے زہر کو لوگوں پر ظاہر کر دیا.اور پھر اس کے بعد ابو بکر اور مسیح موعود میں یہ مشابہت ظاہر کر دی جائے گی کہ اس دین کو جس کی مخالف بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں زمین پر خوب جما دیا جائے گا اور ایس مستحکم کیا جائے گا کہ پھر قیامت تک اس میں تزلزل نہیں ہوگا.اور پھر تیسری مشابہت یہ ہوگی کہ جو شرک کی ملونی مسلمانوں کے عقیدوں میں مل گئی تھی وہ بکلی اُن کے دلوں میں سے نکال دی جائے گی.اس سے مراد یہ ہے کہ شرک کا ایک بڑا حصہ جو مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہو گیا تھا یہاں تک کہ دجال کو بھی خدا کی صفتیں دی گئی تھیں اور حضرت مسیح کو ایک حصہ مخلوق کا خالق سمجھا گیا تھا یہ ہر ایک قسم کا شرک دُور کیا جائے گا جیسا کہ آیت يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا سے مستنبط ہوتا ہے.ایسا ہی اس پیشگوئی سے جو مسیح موعود اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں مشترک ہے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح شیعہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے ہیں اور اُن کے مرتبہ اور بزرگی سے منکر ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی تکفیر بھی کی جائے گی اور ان کے مخالف ان کے مرتبہ ولایت سے انکار کریں گے کیونکہ اس پیشگوئی کے اخیر میں یہ آیت ہے وَ مَنْ كَفَرَ بَعد ذلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ.اور اس آیت کے معنے جیسا کہ روافض کی عملی حالت سے کھلے ہیں یہی ہیں کہ بعض گمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقام بلند سے منکر ہو جائیں گے اور ان کی تکفیر کریں گے پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے جو خلافت کے پہلے نقطہ سے ملا ہوا ہے.یہ بات بہت ضروری اور یادر کھنے کے لائق ہے کہ ہر ایک دائرہ کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اُس کا آخری نقطہ پہلے نقطہ سے اتصال رکھتا ہے لہذا اس عام قاعدہ کے موافق خلافت محمد یہ کے دائرہ میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے یعنے یہ لازمی امر ہے کہ آخری نقطہ اُس دائرہ کا جس سے مراد مسیح موعود ہے جو سلسلۂ خلافت محمدیہ کا خاتم ہے وہ اس دائرہ کے پہلے نقطہ سے جو خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نقطہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کے دائرہ کا پہلا نقطہ جو ابوبکر ہے وہ اس دائرہ کے انتہائی نقطہ سے جو مسیح موعود ہے اتصال تام رکھتا ہے جیسا کہ مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ آخر نقطہ ہر ایک دائرہ کا اس کے پہلے نقطہ سے جاملتا ہے.اب جبکہ اوّل اور آخر کے دونوں نقطوں کا اتصال ماننا پڑا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو قرآنی پیشگوئیاں خلافت کے پہلے نقطہ کے حق میں ہیں یعنی حضرت ابوبکر کے حق میں وہی خلافت کے آخری نقطہ کے حق میں بھی ہیں یعنی مسیح موعود کے حق میں اور یہی ثابت کرنا تھا.منہ

Page 178

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ سورة النُّور گول شکل پر پیدا کئے گئے ہیں تا خدا کے ہاتھ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ناقص نہ ہوں.اسی بنا پر ماننا پڑتا ہے کہ زمین کی شکل بھی گول ہے.کیونکہ دوسری تمام شکلیں کمال تام کے مخالف ہیں اور جو چیز خدا کے ہاتھ سے بلا واسطہ نکلی ہے اس میں مناسب حال مخلوقیت کے کمال تام ضرور چاہئے تا اس کا نقص خالق کے نقص کی طرف عائد نہ ہو.اور نیز اس لئے بسائط کا گول رکھنا خدا تعالیٰ نے پسند کیا کہ گول میں کوئی جہت نہیں ہوتی.اور یہ امر توحید کے بہت مناسب حال ہے.غرض صنعت کا کمال مدوّر شکل سے ہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس میں انتہائی نقطہ اس قدر اپنے کمال کو دکھلاتا ہے کہ پھر اپنے میدہ کو جاملتا ہے.اب ہم پھر اپنے اصل مدعا کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو حضرت سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے پہلے خلیفہ تھے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ ہیں اشد مشابہت ہے تو پھر اس سے لازم آیا کہ جیسا کہ سلسلہ محمدیہ کی خلافت کا پہلا خلیفہ سلسلہ موسویہ کی خلافت کے پہلے خلیفہ سے مشابہت رکھتا ہے ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کی خلافت کا آخری خلیفہ جو مسیح موعود سے موسوم ہے سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے جو حضرت عیسی بن مریم ہے مشابہت رکھے تا دونوں سلسلوں کی مشابہت تامہ میں جو نص قرآنی سے ثابت ہوتی ہے کچھ نقص نہ رہے کیونکہ جب تک دونوں سلسلے یعنی سلسلہ موسویہ وسلسلہ محمد یہ اوّل سے آخر تک باہم مشابہت نہ دکھلائیں تب تک وہ مماثلت جو آیت گیا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ میں گما کے لفظ سے مستنبط ہوتی ہے ثابت نہیں ہو سکتی.اور پھر چونکہ ہم ابھی حاشیہ میں اکمل اور اتم طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسیح موعود سے مشابہت رکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت ابو بکر حضرت یوشع بن نون سے مشابہت رکھتے ہیں.اور حضرت یشوع بن نون اس قاعدہ کے رو سے جو دائرہ کا اول نقطہ دائرہ کے آخر نقطہ سے اتحاد کھتا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے حاشیہ میں لکھا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم سے مشابہت رکھتے ہیں تو اس سلسلہ مساوات سے لازم آیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسلام کے مسیح موعود سے جو شریعت اسلامیہ کا آخری خلیفہ ہے مشابہت رکھتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ حضرت یشوع بن نون سے مشابہ ہیں اور حضرت یشوع بن نون حضرت ابو بکر سے مشابہ.اور پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت ابو بکر اسلام کے آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود سے مشابہ ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسی اسلام کے آخری خلیفہ سے جو مسیح موعود ہے مشابہ ہیں.کیونکہ مشابہ کا مشابہ مشابہ ہوتا

Page 179

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة النُّور ہے.مثلاً اگر خط اخط آسے مساوی ہے اور خط خط ا سے مساوی تو ماننا پڑے گا کہ خط اخطا سے مساوی تو ہے اور یہی مدعا ہے.اور ظاہر ہے کہ مشابہت من وجہ مغائرت کو چاہتی ہے اس لئے قبول کرنا پڑا کہ اسلام کا مسیح موعود حضرت عیسی علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اس کا غیر ہے.اور عوام جو بار یک باتوں کو سمجھ نہیں سکتے اُن کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے دورسول ظاہر کر کے اُن کو دو مستقل شریعتیں عطا فرمائی ہیں.ایک شریعت موسویہ.دوسرکی شریعت محمدیہ اور ان دونوں سلسلوں میں تیرہ تیرہ خلیفے مقرر کئے ہیں اور درمیانی باران خلیے جو ان دونوں شریعتوں میں پائے جاتے ہیں وہ ہر دو نبی صاحب الشریعت کی قوم میں سے ہیں.یعنی موسوی خلیفے اسرائیلی ہیں اور محمدی خلیفے قریشی ہیں مگر آخری دو خلیفے ان دونوں سلسلوں کے وہ ان ہر دو نبی صاحب الشریعت کی قوم میں سے نہیں ہیں.حضرت عیسی اس لئے کہ ان کا کوئی باپ نہیں اور اسلام کے مسیح موعود کی نسبت جو آخری خلیفہ ہے خود علماء اسلام مان چکے ہیں کہ وہ قریش میں سے نہیں ہے اور نیز قرآن شریف فرماتا ہے کہ یہ دونوں مسیح ایک دوسرے کا عین نہیں ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اسلام کے مسیح موعود کو موسوی مسیح موعود کا مثیل ٹھہراتا ہے نہ عین.پس محمدی مسیح موعود کو موسوی مسیح کا عین قرار دینا قرآن شریف کی تکذیب ہے.اور تفصیل اس استدلال کی یہ ہے کہ گما کا لفظ جو آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قبلھم میں ہے جس سے تمام محمدی سلسلہ کے خلیفوں کی موسوی سلسلہ کے خلیفوں کے ساتھ مشابہت ثابت ہوتی ہے ہمیشہ مماثلت کے لئے آتا ہے اور مماثلت ہمیشہ من وجہ مغایرت کو چاہتی ہے یہ ممکن نہیں کہ ایک چیز اپنے نفس کی مثیل کہلائے بلکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے اور عین کسی وجہ سے اپنے نفس کا مغایر نہیں ہو سکتا.پس جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ کے مثیل ہو کر اُن کے عین نہیں ہو سکتے ایسا ہی تمام محمد ہی خلیفے جن میں سے آخری خلیفہ مسیح موعود ہے وہ موسوی خلیفوں کے جن میں سے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں کسی طرح عین نہیں ہو سکتے اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ گما کا لفظ جیسا کہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت کی مشابہت کے لئے قرآن نے استعمال کیا ہے وہی گما کا لفظ آیت كما اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ میں وارد ہے جو اسی قسم کی مغائرت چاہتا ہے جو حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے.یادر ہے کہ اسلام کا بارھواں خلیفہ جو تیرھویں صدی کے سر پر ہونا چاہئے وہ بیچی نبی کے مقابل پر ہے جس کا ایک پلید قوم کے لئے سر کاٹا گیا ( سمجھنے والا سمجھ لے ) اس لئے ضروری ہے کہ بارھواں خلیفہ قریشی ہو جیسا کہ حضرت یحیی اسرائیلی ہیں.

Page 180

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۸ سورة النُّور لیکن اسلام کا تیرھواں خلیفہ جو چودھویں صدی کے سر پر ہونا چاہئے جس کا نام مسیح موعود ہے اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ قریش میں سے نہ ہو جیسا کہ حضرت عیسی اسرائیلی نہیں ہیں.سید احمد صاحب بریلوی سلسلہ خلافت محمدیہ کے بارھویں خلیفہ ہیں جو حضرت یحیی کے مثیل ہیں اور سید ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۸۳ تا ۱۹۴) جبکہ مماثلت کی ضرورت کی وجہ سے واجب تھا کہ اس اُمت کے خلیفوں کا سلسلہ ایک ایسے خلیفہ پر ختم ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہو تو منجملہ وجوہ مماثلت کے ایک یہ وجہ بھی ضروری الوقوع تھی کہ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت کے فقیہ اور مولوی اُن کے دشمن ہو گئے تھے اور اُن پر کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور ان کو سخت سخت گالیاں دیتے اور اُن کی اور اُن کی پردہ نشین عورتوں کی توہین کرتے اور اُن کے ذاتی نقص نکالتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اُن کو لعنتی ثابت کریں ایسا ہی اسلام کے مسیح موعود پر اس زمانہ کے مولوی کفر کا فتویٰ لکھیں اور اس کی توہین کریں اور اس کو بے ایمان اور لعنتی قرار دیں اور گالیاں دیں اور اس کے پرائیویٹ امور میں دخل دیں اور طرح طرح کے اس پر افترا کریں اور قتل کا فتویٰ دیں پس چونکہ یہ امت مرحومہ ہے اور خدا نہیں چاہتا کہ ہلاک ہوں.اس لئے اُس نے یہ دُعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی سکھلا دی اور اس کو قرآن میں نازل کیا اور قرآن اسی سے شروع ہوا اور یہ دعا مسلمانوں کی نمازوں میں داخل کر دی تا وہ کسی وقت سوچیں اور سمجھیں کہ کیوں ان کو یہود کی اس سیرت سے ڈرایا گیا جس سیرت کو یہود نے نہایت برے طور سے حضرت عیسی علیہ السلام پر ظاہر کیا تھا.(تحفہ گولڑز و یه روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۲۰۱) چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حسب وعدہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم آخری خلیفہ اس امت کا حضرت عیسی علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا.اور ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح قوم کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے اور اس پر کفر کا فتویٰ لکھا جاوے اور اس کے قتل کے ارادے کئے جائیں اس لئے ترحم کے طور پر تمام مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی کہ تم خدا سے پناہ چاہو کہ تم ان یہودیوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسوی سلسلہ کے مسیح موعود کو کا فر ٹھہرایا تھا اور اس کی توہین کرتے تھے اور اُن کو گالیاں دیتے تھے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۰۲ تا ۲۰۴) أَنتَ تَقْرَأُ قَوْلَهُ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا | اور تو خدا کا قول وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ بھی مِنْكُم وَتَقْرَأُ قَوْله لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ پڑھتا ہے اور اس کا قول " لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ " بھی پڑھتا ہے.،،

Page 181

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة النُّور فَفَكِّر فى قَوْلِهِ مِنْكُمُ في سُورَةِ النُّور پس تو سورہ نور میں خدا تعالی کے لفظ منگھ میں غور کر وَاتْرُكِ الظَّالِمِينَ وَظَلَهُمْ أَلَمْ يَأْنِ لَكَ أَن اور ظالموں اور ان کے اوہام کو چھوڑ دے.کیا تیرے تَعْلَمَ عِنْدَ قِرَاءَةِ هَذِهِ الْآيَاتِ إِنَّ اللهَ قَد لئے ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ تو ان آیات کو پڑھ کر یہ سمجھ جَعَلَ الْخُلَفَاءَ كُلَّهُمْ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام کے تمام خلفاء کو اسی بِالْعِنَايَاتِ.فَكَيْفَ يَأْتِي الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ امت میں سے بنانا مقدر کیا ہے تو پھر مسیح موعود کس طرح مِنَ السَّمَاوَاتِ أَلَيْسَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ آسمانوں سے اترے گا.کیا تمہارے نزدیک مسیح موعود عِندَكَ مِنَ الْخُلَفَاء فَكَيْفَ تَحْسَبُهُ مِن خلفاء میں شامل نہیں پھر تم مسیح موعود کو بنی اسرائیل اور بَنِي إِسْرَائِيلَ وَمِن تِلْكَ الْأَنْبِيَاءِ أَنترك بنى اسرائیل کے نبیوں میں سے کیوں گمان کرتے الْقُرْآنَ وَفِي الْقُرْآنِ كُلُّ الشَّفَاء أَوْ تَغَلَّبَتْ ہو.کیا تم قرآن کو چھوڑتے ہو.حالانکہ ہر قسم کی شفاء عَلَيْكَ شِقْوَتُكَ.فَتَتْرُكُ مُتَعَمِّدًا طَرِيق قرآن کریم میں ہے.کیا تم پر تمہاری بد بختی غالب آگئی الاهْتِدَاءِ.أَلا ترى قَوْله تَعَالى - كما ہے اور تم عمد اہدایت کا رستہ ترک کر رہے ہو.کیا تم اس اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم في هذه سورة میں اللہ تعالیٰ کے الفاظ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ السُّورَةِ فَوَجَبٌ أَنْ يَكُونَ الْمَسِيحُ الأتى قَبْلِهِمْ کو نہیں دیکھتے.پس ضروری ہوا کہ آنے والا مسیح مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ.لَا مِنْ غَيْرِهِمْ بِالضُّرُورَةِ اس امت میں سے ہو نہ کہ امت کے باہر سے.کیونکہ فَإِنَّ لفظ كَمَا يَأْتِي لِلْمُسَابَقَةِ وَالْمُمَاثَلَةِ.كما كا لفظ مشابہت اور مماثلت کے لئے آتا ہے اور وَالْمُقابَهَةُ تَفْتَعِى قَلِيلًا مِنَ الْمُغَايَرَةِ مشابہت کسی قدر مغائرت کو چاہتی ہے اور یہ ایک بدیہی وَلَا يَكُونُ شَيْئ مُشَابِحَ نَفْسِهِ كَمَا هُوَ مِن امر ہے کہ کوئی چیز اپنے آپ کے مشابہ نہیں ہوا کرتی.الْبَدِيهِيَّاتِ فَثَبَتَ بِنَضٍ قَطْعِي آن پس قطعی نص سے ثابت ہو گیا کہ جس عیسی کا انتظار کیا عِيسَى الْمُنتَظَرَ مِنْ هذِهِ الْأُمَّةِ وَهذَا جارہا ہے وہ اسی امت میں سے ہے.اور یہ بات یقینی يَقِينِي وَمُنَزِّهُ عَنِ الشُّبُهَاتِ هَذَا مَا قَالَ اور شبہات سے پاک ہے یہ قرآن کریم کا فرمودہ ہے اور عالم لوگ اسے خوب جانتے ہیں.الْقُرْآنُ وَيَعْلَمُهُ الْعَالِمُونَ.اعجاز امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۷۹،۱۷۸) (ترجمه از مرتب) وَقَدْ سَمِعْتَ مِنْ قَبْلُ أَنَّ سُوْرَةَ النُّورِ تم پہلے سن چکے ہو کہ سورۃ نور ہمیں ایسے سلسلہ

Page 182

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورة النُّور قَدْ بَقَرَتْنَا بِسِلْسِلَةِ خُلَفَاءِ تُشَابِه سلسلة خلفاء کی بشارت دے رہی ہے جو سلسلہ موسویہ کے مشابہ خُلَفَاءِ الْكَلِيْمِ.وَكَيْفَ تَتِمُّ الْمُشَابَهَةُ مِن ہوں گے اور یہ مشابہت سوائے اس کے کس طرح پوری دُوْنِ أَنْ يَظْهَرَ مَسِيحُ كَمَسِيحَ سِلسِلةِ ہوسکتی ہے کہ موسوی سلسلہ کے مسیح کی طرح نبی کریم الكَلِيمِ فِي آخِرِ سِلْسِلَةِ النَّبِي الكَرِيمِ.وَإِلا صلى الله علیہ وسلم کے سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح امَنَّا بِهَذَا الْوَعْدِ فَإِنَّهُ مِن رَّبِّ الْعِبَادِ وَإِنَّ ظاہر ہو اور ہم اس وعدہ پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ الله لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ وَالْعَجَبُ مِن الْقَوْمِ وعده رب العباد کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی سنت أَنَّهُمْ مَا نَظَرُوا إِلى وَعْدِ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ ہے کہ وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور ان لوگوں وَهَل يُوَفَّى وَيُنْجَرُ إِلَّا الْوَعْدُ فَلْيَنظُرُوا پر تعجب ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی طرف بِالتَّقْوَى وَالْحَيَاء وَهَلْ فِي فِرْعَةِ الْإِنْصَافِ توجہ نہیں کی حالانکہ وعدہ کا ایفاء لازمی ہوتا ہے.پس أَنْ يُنَالَ الْمَسِيحُ مِنَ السَّمَاءِ وَيُخْلَفُ وَعْدُ تقویٰ اور حیا کے ساتھ دیکھو کیا یہ طریق انصاف ہے مُماثَلَةِ سِلْسِلَةِ الْإِسْتِخْلافِ وَإِنَّ تَشَابَهَ که مسیح آسمان سے اتارا جائے اور سلسلہ استخلاف کے السّلْسِلَتَيْنِ قَد وَجَبَ بِحُكْمِ اللهِ الْغَيُورِ وعدہ کی خلاف ورزی کرائی جائے اور ہر دوسلسلہ کا كَمَا هُوَ مَفْهُوْمُ مِن لَفْظ كما في سُورَةٍ تشابہ خدائے غیور کے حکم سے ضروری ہے.چنانچہ سورۃ نور کے لفظ گہا سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے.الثور.دو ( ترجمه از مرتب) اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۸۹،۱۸۸) أَيُّهَا الْعُلَمَاءُ: فَكِّرُوا فِي وَعْدِ اللهِ وَاتَّقُوا اے علماء ! اللہ تعالی کے وعدہ کے بارے میں الْمُقْتَدِدَ الَّذِي إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ إِنَّهُ جَعَلَ غور کرو اور اس خدائے مقتدر سے ڈرو جس کی طرف تم النُّبُوَّةَ وَالْخِلافَةَ في تبنى إسْرَائِيلَ ثُمَّ لوٹائے جاؤ گے.اللہ نے بنی اسرائیل میں نبوت أَهْلَكَهُمْ بمَا كَانُوا يَعْتَدُونَ.وَبَعَثَ نَبِيِّنَا اور خلافت کا سلسلہ چلا یا پھر ان کو ان کی زیادتیوں بَعْدَهُمْ وَجَعَلَهُ مَثِيلٌ مُوْسٰی فَاقْرَءُوا کے باعث ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہمارے نبی سُوْرَةَ الْمُؤْمِلِ إِن كُنتُمْ تَرْتَابُونَ ثُمَّ وَعَدَ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو مثیل موسیٰ الَّذِينَ آمَنُوا وَعْدَ الْإِسْتِخْلَافِ فَفَكِّرُوا في قرار دیا.اگر تمہیں اس کے متعلق شک وشبہ ہو تو سُورَةِ التَّوْرِ إِنْ كُنْتُمْ تَشُكُونَ هَذَانِ سورة مزمل پڑھو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دو

Page 183

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة النُّور وَعْدَانِ مِنَ اللهِ فَلَا تُحَرِّفُوا كَلمَ الله إن وعدے ہیں اگر تم متقی ہو تو اللہ کے کلام میں تحریف کے كُنتُمْ تَتَّقُونَ وَلِذَالِكَ بُية سلسلة مرتکب نہ بنو اور اسی لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نَبِيِّنَا مِن مَثِيْلِ مُوسَى وَخُتِمَ عَلى سلسلہ کو مثیل موسیٰ سے شروع کیا گیا اور اسے مثیل عیسی پر مَثِيْلٍ عِيسَى لِيَتِم وَعْدُ اللهِ صِدْقًا ختم کیا گیا تا اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورے طور پر سچا ثابت ہو.وَحَقًّا إِنَّ فِي ذَالِكَ لَآيَةٌ لِقَوْمٍ اس میں سوچنے والوں کے لئے ایک بڑا نشان ہے اور یہ يَتَفَكَّرُونَ وَ كَانَ مِنَ الْوَاجِبِ أَن ضروری تھا کہ دونوں سلسلے برابر ہوں.پہلے کی ابتدا يَتَسَاوَى السّلْسِلَتَانِ الْاَوَّلُ كَالأَولِ دوسرے کی ابتدا کی طرح اور پہلے کی انتہا دوسرے کی انتہا وَالْآخِرُ كَالْآخِرِ.أَلا تَفْرَءُونَ الْقُرْآنَ أَو کی مانند.کیا تم قرآن مجید نہیں پڑھتے یا تم اس کا انکار بِهِ تَكْفُرُونَ فَإِن تمنيْتُم أَن يَنزِلَ کرتے ہو.اگر تم یہ چاہتے کہ بعینہ عیسی نازل ہوں تو تم نے تَمَنَّيْتُهُ عِيسَى بِنَفْسِهِ فَقَدْ كَذَّبْتُمُ الْقُرْآنَ وَمَا قرآن کریم کو جھٹلا دیا اور تم نے سورہ نور سے کوئی نور حاصل اقْتَبَسْتُم مِن سُورَةِ النُّورِ نُورًا نہیں کیا اور نور کی موجودگی میں بھی تم ایسے لوگوں کی مانند ہی وَبَقِيتُمُ مَعَ النُّورِ كَقَوْمٍ لَّا يُبْصِرُونَ رہے جو نہیں دیکھتے.کیا تم سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی کے أَتَبْغُونَ عِوَجًا بَعْدَ أَنْ تُسَاوِی برابر ہونے کے بعد کج روی اختیار کرنا چاہتے ہو، اللہ کا السّلْسِلَتَانِ اتَّقُوا اللهَ وَعَيْلُوا الْميزان تقویٰ اختیار کرو اور میزان کو برابر رکھو.تمہیں کیا ہو گیا مَا لَكُمْ لا تَتَفَقَّهُونَ وَكَانَ وَعْدُ اللهِ أَنه ہے کہ تم بات سمجھتے نہیں.اللہ کا وعدہ تھا کہ وہ تم میں أَنَّهُ يَسْتَخْلِفُ مِنكُمْ وَمَا كَانَ وَعْدُۂ اُن سے خلیفہ بنائے گا اور اس کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ بنی يَسْتَخْلِفَ مِن بينى إسْرَائِيلَ فَلَا تَتَّبِعُوا اسرائیل میں سے خلیفہ بنائے گا.پس تم نجح اعوج کی فَيْبًا أَعْوَجَ وَتَعَالَوْا إِلى حَكَمِ رَبِّكُمْ إِن پیروی نہ کرو اور اپنے رب کے فیصلے کو قبول کرو.اگر تم كُنتُمْ تَسْتَرْشِدُونَ أَتُريدُونَ أَن بدایت کے طالب ہو کیا تم چاہتے ہو کہ تم موسوی سلسلہ کو تُفَضِّلُوا عَلى سِلْسِلَة نَبِيِّكُمْ سِلْسِلَة اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ پر فضیلت دو.مُوسَى؟ تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيُرى فَلِمَ لا یہ تو سرا سر غلط تقسیم ہے پس کیوں تم اس بات سے نہیں تَنْتَهُونَ؟ أَلَا تَقْرَءُونَ سُورَةَ النُّورِ أَوْ عَلَى رکتے کیا تم سورہ نور کو نہیں پڑھتے یا دلوں پر قفل لگے الْقُلُوبِ أَقْفَالُهَا أَو إلى الله لا تُركُونَ ہوئے ہیں یا تم اللہ کی طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے.

Page 184

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة النُّور وَإِنَّ الْقُرْآنَ عَمَّلَ الْمِيزَانَ وَأَعْطى قرآن کریم نے میزان کو برابر رکھا ہے اور ہمارے نبی کریم نَبِيَّنَا كُلّ ما أَعْلى مُهْلِكَ فِرْعَوْنَ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سب کچھ دیا جو فرعون اور ہامان کو ہلاک وَهَامَانَ فَمَا لَكُمْ لَا تَعْدِلُونَ وَقَد کرنے والا موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا پھر تم کیوں انصاف نہیں بَلَّغَ الْقُرْآنُ أَمْرَهُ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ کرتے.قرآن کریم نے اپنا فیصلہ تمہیں پہنچادیا ہے.پس جس فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ أَتَخَتَارُونَ نے اس فیصلے کے بعد انکار کیا تو ایسے لوگ فاسق ہیں کیا تم اللہ أَهْوَاءَ كُمْ عَلى كِتَابِ الله أَو بَلَغَكُم تعالی کی کتاب کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہو عِلْمٌ يُسَاوِى الْقُرْآنَ فَأَخْرِجُودُ لَنَا یا پھر تمہیں کوئی ایسا علم مل گیا ہے جو قرآن کریم کے مساوی ہے.إن كُنْتُمْ تُصَدِّقُونَ كَلَّا بَلْ وَجَدُوا سوا گر تم سچے ہو تو اس علم کو نکال کر ہمارے سامنے پیش کرو لیکن تم كُبَرَاءَهُمْ عَلَيْهِ فَهُمْ عَلی آثار ہم ہرگز ایسا نہیں کر سکو گے.اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے يُهْرَعُوْنَ.وَقَد سَوَّى الله السّلْسِلَتَيْنِ بڑوں کو اس راستے پر چلتے پایا تھا اور یہ انہی کے نقش قدم پر وَهُمْ يَزِيدُونَ وَيَنْقُصُونَ فَمَن بھاگے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے دونوں سلسلوں کو برابر أَظْلَمُ مَنِ اتَّخَذَ سَبِيلًا غَيْرَ سَبِیلِ قرار دیا ہے.اور یہ لوگ ان میں کمی بیشی کر رہے ہیں.پس اس الْقُرْآنِ أَلا لَعْتَةُ الله عَلَى الَّذِينَ شخص سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو قرآن کریم کے رستہ کو چھوڑ يَظْلِمُونَ يَا حَسْرَةً عَلَيْهِم أَلا کر اپنا الگ رستہ بناتا ہے.سنوان لوگوں پر خدا کی لعنت ہے جو يَتَدَبُّرُونَ الْقُرْآنَ أَوْ هُمْ قَوْمٌ ظلم کرتے ہیں.ہائے افسوس کیا یہ لوگ قرآن کریم پر تدبر نہیں عمونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَتَترُكُونَ کرتے یا پھر وہ اندھے ہیں.جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم تو اللہ كِتَابَ اللهِ قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اباءنا کی کتاب کو چھوڑ رہے ہو تو وہ کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو وَلَوْ كَانَ آبَاءَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا اس طریق پر پایا ہے اگر چہ ان کے باپ دادا کچھ بھی علم و عقل نہ وَلَا يَعْقِلُونَ.أَتَترُكُونَ كَلامَ رَبِّكُمْ رکھتے ہوں.کیا تم اللہ کے کلام کو اپنے آباء واجداد کی خاطر چھوڑتے لآبَاءِ كُمْ ؟ أَفٍ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْمَلُونَ ہو.افسوس ہے تم پر اور اس کام پر جو تم کر رہے ہو وہ کہتے ہیں ہم وَقَالُوا إِنَّا رَأَيْنَا فِي الْأَحَادِيثِ نے احادیث میں ایسا دیکھا ہے حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ وَمَا فَهِمُوْا قَوْلَ رَسُوْلِ اللهِ وَإِن هُمْ علیہ وسلم کے قول کو نہیں سمجھے اور صرف اندھیرے میں بھٹک إِلَّا يَعْمَهُونَ يُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کتاب اللہ اور قول رسول میں

Page 185

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة النُّور بَيْنَ كِتَابِ اللهِ وَبَيْنَ قَوْلِ رَسُولِهِ تفریق پیدا کریں.یہ لوگ تو افتراء کرنے والے ہیں اور قَوْمٌ مُّفْتَرُونَ وَقَد صَرَّحَ اللهُ حَقَّ اللہ تعالیٰ نے فرقان مجید میں خوب کھول کر بیان کر دیا ہے.التَّصْرِيحِ فِي الْفُرْقَانِ فَبِأَي حَدِیث پس وہ قرآن کو چھوڑ کر اور کس بات پر ایمان لائیں گے یہ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ يُؤْثِرُونَ الشَّكَ عَلَى لوگ شک کو یقین پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ ہلاک ہونے الْيَقِينِ وَهُذَا هُوَ مِنْ سِيرِ قَوْمٍ والوں کا راستہ ہے.اے لوگو! سنو! یہ اللہ تعالیٰ کی طرف تَهْلِكُون أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا كَانَ سے ایک وعدہ تھا اور اس نے دونوں سلسلوں کو اپنے وعدہ وَعْدًا مِنَ اللهِ فَسَوَّى السّلْسِلَتَيْنِ كَمَا کے مطابق برابر کر دیا.پس کیوں تم اللہ تعالیٰ کے متعلق وَعَدَ فَمَا لَكُمْ تُجَوزُونَ الْخُلْفَ عَلَى الله خلاف ورزی جائز قرار دیتے ہو اور اس سے ڈرتے نہیں.وَلَا تَخَافُونَ أَتُعِزُونَ إِلَى الله نَكْف کیا تم اللہ تعالی کی طرف عہد شکنی منسوب کرتے ہو.وہ الْعَهْدِ وَالْوَعْدِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالى عما ذات اس سے جو تم خیال کرتے ہو پاک اور بلند ہے.کیا تَزْعُمُونَ أَظَنَنْتُمْ أَنَّ سِلْسِلَةَ الْمُصْطَفى تم نے خیال کر لیا کہ سلسلہ محمدی سلسلہ موسوی کے مشابہ نہیں لا تُشَابِه سِلْسِلَةَ مُوسى وَإِنْ هَذَا إِلَّا اور یہ تو قرآن کریم کی تکذیب ہے اگر تم سمجھو.کیا اس کی تَكْذِيبُ الْقُرْآنِ إِنْ كُنْتُمْ تَفْهَمُونَ ابتداء اس کی ابتداء سے اور اس کی انتہاء اس کی انتہاء سے أَلا يُقابِهُ أَوَّلُهَا بِأَولِهَا وَاخِرُهَا بِاخِرِهَا ؟ مشابہ نہیں.تم بہت برا فیصلہ کر رہے ہو.کیا تم موسیٰ علیہ السلام سَاءَمَا تَحْكُمُونَ أَرَفَعْتُمُ مُوسی کی شان کو بلند کرو گے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وَوَضَعْتُمُ الْمُصْطَفَى أُتِي لَكُمْ وَلِمّا شان کو کم کرو گے.افسوس تم پر اور اس کارروائی پر جو تم تَصْنَعُونَ أَتُخسِرُونَ الْقِسْطَاسَ بَعْدَ کرتے ہو.کیا تم میزان کو اس کے برابر ہونے کے بعد کم کر تَعْدِيلِهِ وَلَا تَعْدِلُونَ لِفْتَيْهِ وَلا رہے ہو اور تم اس کے دونوں پلڑوں کو برا بر نہیں کرتے اور تم تُقْسِطُونَ وَإِنَّ اللهَ أَرى فَضْلَ هَذِهِ انصاف سے کام نہیں لیتے.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے پر شریعت السلسلة يقدم الأمْرِ عَلَيْهَا ثُمَّ تَأْتُونَ کو ختم کر کے اس کی فضیلت ظاہر کر دی ہے.پھر باوجود اس بِعِيسَى وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ لا کے جانتے بوجھتے ہوئے تم عیسی کو لاتے ہو.تمہیں کیا ہو گیا تُؤْتُونَ ذَا فَضْلٍ فَضْلَهُ وَتَظْلِمُونَ ہے کہ تم صاحب فضیلت کو اس کی فضیلت نہیں دیتے اور أَتَقْطَعُوْنَ رِجْلَ هَذِهِ السّلْسِلَةِ وَتُبْقُونَ اس کا حق مارتے ہو.کیا تم اس سلسلہ کے پاؤں کاٹنا چاہتے

Page 186

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ سورة النُّور رأْسَهَا وَمَا هَذَا إِلَّا فِعْلُ الْمَجْنُونِ ہو اور اس کے سر کو باقی رکھنا چاہتے ہو.اور یہ تو صرف ایک الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۲۹ تا ۳۳۱) مجنون کا ہی کام ہو سکتا ہے.( ترجمہ از مرتب ) وَأَمَّا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ فَهُوَ مِنْكُمْ مسیح موعودتم ہی میں سے ہوگا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ كَمَا وَعَدَ اللهُ فِي سُورَةِ النُّورِ وَهُوَ أَمْرُ نے سورہ نور میں وعدہ کیا ہے اور یہ ایک واضح امر ہے اور واضح وَلَيْسَ كَاليرِ الْمَسْتُورِ.وانہ کیا ہوا راز ہیں.اور تم میں سے تمہارا امام ہوگا جیسا چھپا وَإِنَّهُ إمَامُكُمْ مِنْكُمْ كَمَا جَاءَ في حَدِيثِ | الْبُخَارِقِ وَالْمُسْلِمِ وَمَنْ كَفَرَ بِشَهَادَةِ کہ حدیث بخاری اور مسلم میں آیا ہے اور جو قرآن کریم الْقُرْآنِ وَشَهَادَةِ الْحَدِيثِ فَهُوَ لَيْسَ اور حدیث کی گواہی کا انکار کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں.مسلم الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۵) قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ (ترجمه از مرتب) اللہ عز وجل نے اپنی کتاب مبین میں فرمایا ہے وَعَدَ اللهُ الْمُبِينِ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ الَّذِينَ آمَنُوا الى الله تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور وَعَمِلُوا الصلحتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فى مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا ص 9919 الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ تھا.اور جو دین ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا.وہ میری عبادت الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ کریں گے ار کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جولوگ فَأُولبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ وَ آقِیمُوا الصَّلوةَ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ اَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُم جائیں گے اور تم سب نمازوں کو قائم کر داورزکوۃ دو اور اس رسول کی تُرْحَمُونَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے اور کبھی خیال نہ کرو کہ کفار زمین مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَ مَاؤُهُمُ میں ہمیں اپنی تدبیروں سے عاجز کر دیں گے اور ان کا ٹھکانا تو النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ.هَذَا مَا بَشَرَ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے.یہ وہ بشارت ہے جو ہمارے ط ج

Page 187

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة النُّور رَبُّنَا لِلْمُؤْمِنِينَ، وَأَخْبَرَ عَنْ عَلَامَاتِ رب نے مومنوں کو دی ہے اور اللہ نے مومنوں میں سے خلیفہ الْمُسْتَخْلَفِينَ فَمَنْ أَتى الله لِلإستماعة بنے والوں کی علامتیں بتادی ہیں.پس جو شخص اللہ تعالی کی درگاہ وَمَا سَلَكَ مَسْلَكَ الْوَقَاحَةِ، وَمَا شَدَّ میں مانگنے کے لئے آئے گا اور بے حیائی کے راستے پر گامزن جَبَائِرَ القَلْبِيسِ عَلى سَاعِدِ الصّراحَةِ نہیں ہوگا اور مکرو فریب کی پٹیاں صراحت کی کلائی پر نہیں فَلَا بُدَّ لَهُ مِنْ أَنْ تَقْبِلَ هَذَا التَّلِيْلَ باندھے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دلیل کو قبول کر لے وَيَتْرُكَ الْمَعَاذِيرَ وَالْأَقَاوِيْلَ، وَيَأْخُذَ طُرُق اور حیلے بہانے اور جھوٹی باتیں چھوڑ دے اور صالحین کا طریق الصَّالِحِينَ.اختیار کرے.وَأَمَّا تَفْصِيلُه لِيَبْدُو عَلَيْكَ دَلِيلُه لیکن اس کی تفصیل کے متعلق اے عقلمندو اور اعلیٰ فَاعْلَمُوا يَا أُولى الْأَلْبَابِ وَالْفَضْلِ فضیلت والو جان لو تا کہ تم پر اس کی دلیل واضح ہو جائے.اللُّبَابِ، أَنَّ اللهَ قَدْ وَعَدَ فِي هَذِهِ الْآيَاتِ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمان مردوں اور عورتوں لِلْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ أَنه سَيَسْتَخْلِفَن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور ان میں سے بعض مومنوں کو بَعْضَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُمْ فَضْلًا وَرَحَما اپنے فضل اور رحمت سے خلیفہ بنائے گا اور ان کے خوف کو وَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا فَهُذَا امن میں بدل دے گا.پس یہ ایک ایسی بات ہے جس کا أَمْرُ لَا تَجِدُ مِصْدَاقَهُ عَلَى وَجْهِ أَتَم وَأَكْمَل پورا اور عمل مصداق ہم حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت إِلَّا خِلَافَةَ الصَّدِيقِ فَإِنَّ وَقتَ خِلَافَتِ کو پاتے ہیں جیسا کہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ امر واضح كَانَ وَقتَ الْخَوْفِ وَالْمَصَائِبِ كَمَا لا یخفی ہے کہ ان کی خلافت کا زمانہ ایک خوف و مصائب کا زمانہ عَلَى أَهْلِ التَّحْقِيقِ فَإِنَّ رَسُولَ الله صَلَّى تھا کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا تُوُفِّيَ نَزَلَتِ الْمَصَائِبُ تو اسلام اور مسلمانوں پر طرح طرح کی مصیبتیں نازل عَلَى الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ، وَارْتَدَّ كَثِيرُ ہوئیں اور بہت سارے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدین کی مِنَ الْمُنَافِقِينَ وَتَطَاوَلَتْ أَلْسِنَةُ زبانیں دراز ہوگئیں اور جھوٹے دعویداروں سے ایک الْمُرْتَنِينَ وَادَّعَى النُّبُوَّةَ نَفَرٌ مِن گروہ نے نبوت کا دعوی کر دیا اور ان کے گرد بہت ا الْمُفْتَرِينَ، وَاجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ كَثِيرٌ مِنْ أَهْل سارے بادیہ نشین جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسلمہ کے الْبَادِيَةِ، حَلى لحق مُسَيْلِمَةَ قَرِيبٌ من ساتھ قریباً ایک لاکھ جاہل اور فاجر لوگ آشامل ہوئے اور

Page 188

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة النُّور مِائَةِ أَلْفٍ مِنَ الْجَهَلَةِ الْفَجَرَةِ، وَهَاجَتِ فتنوں نے جوش مارا اور مصائب بڑھ گئے اور قسم قسم کی الْفِتَنُ وَكَثْرَتِ الْمَحْنُ وَأَحاطت بلاؤں نے دور و نزدیک سے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا اور الْبَلايَا قَرِيبًا وَبَعِيدًا، وَزُلْزِلَ الْمُؤْمِنُونَ مومن ایک سخت زلزلہ میں مبتلا کئے گئے اور مسلمانوں میں زِلْزَالًا شَدِيدًا.هُنالِكَ ابْتُلِيَتْ كُل سے ہر فرد آزمائش میں ڈالا گیا اور خوفناک اور حواس کو نَفْسٍ مِنَ النَّاسِ وَظَهَرَتْ حَالات دہشت ناک کرنے والے حالات پیدا ہو گئے اور مومن فَخَوَفَةٌ مُدْهِشَةُ الْعَوَاتِ وَتَكَان بے چارگی کی حالت کو پہنچ گئے.گویا ایک انگارا تھا جو ان الْمُؤْمِنُونَ مُضْطَرِينَ تَكَانَ عِمْرًا أُخرِمَتْ کے دلوں میں بھڑکا یا گیا یا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چھری في قُلُوبِهِمْ أَوْ ذُيَحُوا بِالسّكِينَ، وَكَانُوا کے ساتھ ذبح کر دیئے گئے ہیں کبھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ يَبْكُونَ تَارَةً مِنْ فِرَاقِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَسلم کے فراق کی وجہ سے اور کبھی آگ کی مانند جلا دینے وَأُخْرَى مِنْ فِتَنٍ ظَهَرَتْ كَالپیرانِ والے فتنوں کی وجہ سے روتے تھے اور امن و امان کا کوئی الْمُحْرِقَةِ، وَلَمْ يَكُن أَثَرًا مِنْ أَمَن نشان باقی نہ رہا اور فتنوں میں پڑے ہوئے مسلمان ایسے وغُلِبَتِ الْمُفْتَتِنُونَ كَغَضْرَاءِ دِمَن مغلوب ہو گئے جیسے روڑی کے او پر اُگی ہوئی گھاس اس کو فَزَادَ الْمُؤْمِنُونَ خَوْفًا وَفَزَعًا، وَمُلِئَتِ ڈھانپ لیتی ہے.پس مومنوں کا خوف اور گھبراہٹ بڑھ الْقُلُوبُ دَهْشًا وَجَزَعًا.ففي ذلك گیا اور ان کے دل ودہشت اور کرب سے بھر گئے تو ایسے الْأَوَانِ جُعِلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وقت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو زمانے کا حاکم اور خاتم حَاكِمُ الزَّمَانِ وَخَلِيفَةً نَخَاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنایا گیا.اسلام پر حالاتِ النَّبِيِّينَ.فَغَلَبْ عَلَيْهِ هُمْ وَغَم تین واردہ کی وجہ سے اور ان باتوں کی وجہ سے جو آپ نے أَطوَارٍ رَّاهَا، وَمِنْ آثَارِ شَاهَدَهَا في منافقوں ، کافروں اور مرتدین کی طرف سے دیکھیں آپ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ وَالْمُرْتَنِينَ پر سخت غم طاری ہو گیا اور آپ موسم ربیع کی بارش کی طرح وَكَانَ يَبْكِي كَمَرَابِيع الربيع.وَتَجْرِى روتے تھے اور آپ کے آنسو چشموں کی طرح بہتے تھے اور عَبْرَاتُه كَالْيَتَابِيْعِ، وَيَسْأَلُ اللهَ خَيْرَ آپ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ چاہتے تھے.وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب

Page 189

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النُّور لَمَّا جُعِلَ أَبِي خَلِيفَةً وَفَوَّضَ اللهُ إِلَيْهِ میرے باپ خلیفہ بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے امر خلافت الْإِمَارَةَ فَرَأَى بِمُجَرَّدِ الْإِسْتِخْلافِ آپ کو تفویض کیا تو آپ نے خلیفہ بنتے ہی فتنوں کو ہر تَمَوُّجَ الْفِتَنِ مِنْ كُلِ الأَطرافِ طرف سے موجزن پایا اور یہ کہ جھوٹے نبوت کے مدعی وَمَوْرَ الْمُتَنَبِيِّينَ الْكَاذِبِينَ وَبَغَاوَةً جوش میں ہیں اور منافق مرتد لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں سو الْمُرْتَدِينَ الْمُنَافِقِينَ فَصَبَّتْ عَلَيْهِ آپ پر اس قدر مصائب آ پڑے کہ اگر پہاڑوں پر اتنی مَصَائِبٌ لَوْ صُبَّتْ عَلَى الْجِبَالِ لا مهلت مصیبتیں نازل ہوتیں تو وہ ٹوٹ کر گر جاتے اور ریز و ریزہ وَسَقَطَتْ وَالْكَسَرَت فِي الْحَالِ، وَلكِنَّهُ ہو جاتے.لیکن آپ کو رسولوں کی طرح ایک صبر عطا کیا گیا أُعْطِيَ صَبْرًا كَالْمُرْسَلِينَ، حَتَّی جَاءَ نَصْرُ یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آئی اور جھوٹے مدعیان نبوت الله وَقُتِلَ الْمُتَنَتِنُونَ وَأُهْلِك قتل کئے گئے اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے اور فتوں اور الْمُرْتَدُّوْنَ، وَأَزِيلَ الْفِتَنُ وَدُفعَ الْمِحْنُ مصائب کا قلع قمع کر دیا گیا اور معاملے کا فیصلہ کر دیا گیا اور وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَقَامَ أَمْرُ الخلافة امر خلافت مضبوط ہو گیا اور اللہ نے مومنوں کو مصیبت سے وَلّى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْأُفَةِ، وَبَدِّل نجات بخشی اور ان پر خوف طاری ہونے کے بعد اسے مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا، وَمَكَّنَ لَهُمْ امن میں بدل دیا اور ان کے دین کو مضبوط کر دیا.اور دِينَهُمْ وَأَقَامَ عَلَى الْحَق زَمَنًا وَسَوَّدَ مفسدین کے منہ کالے کر دیئے اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا وُجُوْةَ الْمُفْسِدِينَ، وَأَلْجَزَ وَعُدَهُ وَنَصَر اور اپنے بندے ابو بکر صدیق کی مدد فرمائی اور سرکشوں اور عبْدَهُ الصَّدِيقَ وَأَبَادَ الطَّوَاغِيْتَ بڑے بڑے بتوں کو تباہ کر دیا اور کفار کے دلوں میں رعب وَالْغَرَانِيقَ وَأَلْقَى الرُّعْبَ فِي قُلُوب ڈال دیا پس وہ شکست کھا گئے اور انہوں نے حق کی طرف الكُفَّارِ، فَانْهَزَمُوا وَرَجَعُوا وَتَابُوا وَكَانَ رجوع کیا اور سرکشی سے توبہ کی اور یہ غالب خدا کا وعدہ هذا وعد من الله الْقَهَّارِ، وَهُوَ أَصْدَقُ تھا جو تمام بچوں سے زیادہ سچا ہے.پس دیکھو کس طرح الصَّادِقِينَ فَانْظُرُ كَيْفَ تَمَّ وَعُدُ خلافت کا وعدہ اپنے تمام لوازم اور نشانات کے ساتھ الْخِلَافَةِ مَعَ جَمِيعِ لَوَازِمِهِ وَإِمَارَاتِهِ في حضرت ابوبکر کی ذات میں پورا ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ الصَّدِيقِ، وَادْعُ اللهَ أَنْ يَشْرَحَ صَدْرَكَ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ تمہارا سینہ اس تحقیق کے لئے لِهَذَا التَّحْقِيقِ، وَتَدَبَّرُ كَيْفَ كَانَت کھول دے.اور غور کرو کہ حضرت ابوبکر کے خلیفہ منتخب

Page 190

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة النُّور حَالَةُ الْمُسْلِمِينَ في وَقْتِ اسْتِخْلافِهِ وَقَدْ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیسی کمزور حالت تھی اور كَانَ الْإِسْلَامُ مِنَ الْمَصَائِبِ كَالْحَرِيقِ اسلام مصائب کی وجہ سے ایک جلے ہوئے شخص کی طرح ثُمَّ رَدَّ اللهُ الكَرةَ عَلَى الْإِسْلَامِ وَأَخْرَجَهُ تھا پھر اللہ نے دوبارہ اسلام کو طاقت بخشی اور اس کو مِنَ الْبِيْرِ الْعَمِيقِ، وَقُتِلَ الْمُتَنَبِّئُونَ بہرے کنوئیں سے نکالا اور جھوٹے مدعیان نبوت سخت بِأَشَرِ الأَلامِ، وَأُهْلِكَ الْمُرْتَدُّونَ عذاب کے ساتھ قتل کئے گئے اور مرتدین چوپایوں کی كَالْأَنْعَامِ، وَآمَنَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ مِن طرح ہلاک کر دیئے گئے.اور اللہ نے مومنوں کو اس خَوْفٍ كَانُوا فِيهِ كَالْمَتِينَ وَكَانَ خوف سے امن دیا جس میں وہ مردوں کی طرح پڑے الْمُؤْمِنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بَعْدَ رَفع هذا ہوئے تھے اور مومن اس مصیبت کے دور ہوتے ہی الْعَذَابِ وَيُبَيِّتُونَ الصَّدِيقَ وَيَتَلفونه خوشیاں منانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق کو مبارک باد بِالتَّرْحَابِ، وَيَحْمَدُونَهُ وَيَدْعُونَ لَهُ مِن دینے لگے اور آپ کو مرحبا اور خوش آمدید کہتے اور آپ کی حَضْرَةِ رَبِّ الْأَرْبَابِ، وَبَادَرُوا إِلى تَعْظِیمِهِ تعریف کرتے تھے اور آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے وَادَابِ تَكْرِيمِهِ، وَأَدْخَلُوا حُبَّهُ في دعائیں مانگتے تھے اور آپ کی تعظیم و تکریم میں جلدی تَامُوْرِهِمْ، وَاقْتَدَوْا بِهِ في تجميع أمورهم کرتے تھے اور آپ کی محبت اپنے دلوں میں بٹھاتے وَكَانُوا لَهُ شَاكِرِينَ وَصَقَلُوْا خَوَاطِرَهُمْ تھے اور تمام امور میں آپ کی اطاعت کرتے اور آپ وَسَقَوْا تَوَاضِرَهُمْ، وَزَادُوا حُبًّا، وَوَذُوا کے شکر گزار تھے اور انہوں نے اپنے دلوں کو جلا دی اور وَطَاوَعُوْهُ جُهْدًا وَجِدًّا وَكَانُوا يَحْسَبُونَهُ دل کے کھیتوں کو سیراب کیا اور آپ سے محبت میں بڑھ مُبَارَكًا وَمُؤَيَّدًا كَالنَّبِيْنَ وَكَانَ هَذَا گئے اور پوری کوشش سے آپ کی اطاعت کی.اور وہ آپ من صني الصَّدِيقِ وَالْيَقِينِ کو مبارک اور انبیاء کی طرح مؤید سمجھا کرتے تھے اور یہ الْعَمِيقِ وَوَاللهِ إِنَّهُ كَانَ أدَمَ الثَّاني سب کچھ حضرت ابو بکر صدیق کی سچائی اور گہرے یقین لِلْإِسْلامِ، وَالْمَظْهَرَ الْأَوَّلَ لِأَنْوَارِ خَيْرِ پر قائم ہونے کے سبب سے تھا.بخدا وہ اسلام کے آدم الْأَنامِ، وَمَا كَانَ نَبِيًّا وَلكِن كَانَتْ فِيهِ ثانی اور آنحضرت کے انوار کے لئے مظہر اول تھے.گو قوَى الْمُرْسَلِینَ فَبِصِدْقِهِ عَادَتْ وہ نبی نہیں تھے لیکن ان میں انبیاء کے قومی پائے جاتے حَدِيقَةُ الْإِسْلَامِ إِلى زُخْرُفِةِ الثَّاقِ تھے اور آپ کے صدق کی بدولت اسلام کا باغ اپنی کامل كلة

Page 191

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورة النُّور وَأَخَذَ زِينَتَهُ وَقُرَّتَهُ بَعْدَ صَدَمَاتِ ترو تازگی کو پہنچا اور اس نے اپنی زینت اور سیکنت تیروں کے السَّهَامِ، وَتَنَوَّعَتْ أَزَاهِيرة وظهرت صدمات سہنے کے بعد حاصل کی اور اس کے اندر رنگارنگ کے أَغْصَانُهُ مِنَ الْقَتَامِ، وَكَانَ قَبْلَ پھول پیدا ہوئے اور اس کی شاخیں غبار سے صاف ہو گئیں اور ذلِك كَمَيت تيب.وَشَرِيْدٍ جُلِب اس سے پہلے اسلام ایک ایسے مردہ کی طرح تھا جس پر ماتم کیا نُدِبَ، وَجَرِيح نُوبَ وَذَبِيح جُوبَ وَأَلِيْمٍ جاچکا ہو اور قحط سے بھگائے ہوئے اور مصائب سے زخمی اور أَنْوَاعِ تُعِبَ، وَحَرِيقِ هَاجِرَةٍ ذَاتِ سفروں سے درماندہ اور قسم قسم کی تھکان سے دکھ دیئے ہوئے لَهَبٍ، ثُمَّ نَجَاهُ اللهُ مِنْ جَميع تلك اور شعلوں والی دو پہر کے جلے بھنے ہوئے شخص کی مانند تھا.الْبَلِيَّاتِ، وَاسْتَخْلصه من سائر پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام مصائب سے نجات دی اور تمام الْآفَاتِ، وَأَيَّدَهُ بِعَجَائِبِ الثَّانِيَدَاتِ آفات سے چھڑا یا اور عجیب تائیدات سے اس کی مدد کی یہاں حَتَّى أَمَ الْمُلُوكَ وَمَلِكَ الرِّقَابَ تک کہ اس نے بادشاہوں کی قیادت کی اور لوگوں کی گردنیں بَعْدَمَا تَكَتَرَ وَافْتَرَشَ الغُراب اس کے ہاتھ میں آگئیں بعد اس کے کہ وہ درماندہ اور شکستہ ہو فَرُمِتَ أَلْسِنَةُ الْمُنَافِقِينَ وَتَهَلَّل چکا تھا اور خاک میں مل چکا تھا.پس منافقوں کی زبانیں بند وَجْهُ الْمُؤْمِنِينَ.وَكُلُّ نَفْسٍ حَمِدَتْ ہوگئیں اور مومنوں کے چہرے چمک اُٹھے اور ہر ایک شخص رَبَّهُ وَشَكَرَتِ الصِّدِّيقَ وَجَاءَتْهُ نے اپنے رب کی حمد کی اور حضرت ابو بکر صدیق" کا شکر بجالا یا مُطَاوِعًا إِلَّا الزِنْدِيقُ، وَالَّذِي كَانَ اور سوائے زندیق اور فاسق کے سب ان کے پاس مطیع بن کر مِنَ الْفَاسِقِينَ.وَكَانَ كُلُّ ذلِك أَجْرَ آگئے.یہ سارا اجر اس بندے کا تھا جسے اللہ نے چن لیا تھا اور عَبْدٍ تَخَيَّرَهُ اللهُ وَصَافَاهُ وَرَضِي عَنْهُ اسے اپنی دوستی کے لئے مخصوص کر لیا تھا اور اس سے راضی وَعَافَاهُ وَاللهُ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ہو گیا تھا اور اس کو عافیت بخشی تھی اور اللہ تعالی محسنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا.الْمُحْسِنِينَ.فَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ كُلّها حاصل کلام یہ کہ یہ تمام آیات حضرت ابوبکر صدیق کی مُخَيرَةٌ عَنْ خِلَافَةِ الصَّدِّيقِ، وَلَيْسَ خلافت کی خبر دے رہی ہیں اور ان کا کوئی اور مصداق نہیں لَهَا مَحْمَل أَخَرُ فَانْظُرْ عَلی وجہ ہے.پس آپ تحقیق کی نظر سے اسے دیکھیں اور اللہ سے التَّحْقِيقِ وَاخْشَ الله وَلَا تَكُن تین ڈریں اور متعصب مت بنیں پھر دیکھیں کہ یہ تمام آیات آئندہ مِّنَ

Page 192

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة النُّور الْمُتَعَضِينَ.ثُمَّ انْظُرْ أَنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ کے لئے پیشگوئیاں تھیں تاکہ ان کے ظہور کے وقت كَانَتْ مِنَ الْأَنْبَاءِ الْمُسْتَقْبِلَةِ لِتَزِيْد مومنوں کا ایمان بڑھ جائے اور وہ اللہ کے وعدوں کو إِيْمَانُ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَ ظُهُورِهَا.پہچان لیں.کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت وَلِيَعْرِفُوا مَوَاعِيْد حَطرَةِ الْعِزَّةِ فَإِنَّ الله صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام میں فتنے پیدا ہونے أَخْبَرَ فِيهَا عَنْ زَمَانٍ حُلُولِ الْفِتَنِ اور اس پر مصائب نازل ہونے کی خبر دی تھی اور ان میں وَنُزُولِ الْمَصَائِبِ عَلَى الْإِسْلَامِ بَعْدَ یہ وعدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بعض مومنوں کو خلیفہ بنائے وَفَاةِ خَيْرِ الْأَنَامِ، وَوَعَدَ أَنَّهُ سَيَسْتَخْلِفُ گا اور خوف کے بعد ان کو امن دے گا اور ان کے متزلزل في ذلِك الزَّمَنِ بَعْضًا من الْمُؤْمِنِينَ دین کو تقویت بخشے گا اور مفسدین کو ہلاک کرے گا.اور وَيُؤْمِنُهُمْ مِنْ بَعْدِ خِوْفِهِمْ وَيُمَكِّن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پیشگوئی کا مصداق سوائے دِينَهُ الْمُتَزَلْزِلَ وَيُهْلِكُ الْمُفْسِدِينَ وَلَا حضرت ابوبکر صدیق کے اور ان کے زمانے کے کوئی نہیں.شَكَ أَنَّ مِصْدَاقَ هَذَا النَّبَأُ لَيْسَ إِلَّا أَبو پس انکار نہ کریں کیونکہ اس کی دلیل تو ظاہر ہوگئی ہے.بَكْرٍ وَزَمَانُهُ، فَلَا تُنْكِرُ وَقَدْ حَصْحَصَ حضرت ابوبکر نے اسلام کو ایسی دیوار کی طرح پایا جو مفسدین بُرْهَانُهُ إِنَّهُ وَجَدَ الإِسْلَام تَجِدَارٍ يُريدُ کی شرارت کی وجہ سے گرنے کو تھی.خدا تعالیٰ نے اس کو أَن يُنقَضٌ مِن شَرِ أَشْرَارٍ فَجَعَلَهُ اللهُ بِيَدِهِ ان کے ہاتھوں ایک چو نہ بیچ ، مضبوط اونچے قلعہ کی طرح كَحِصْنٍ مُّشَيَّدٍ لَهُ جُدْرَانٌ مِنْ حَدِيدٍ بنا دیا جس کی دیوار میں فولادی تھیں اور اس میں ایسی فوج وَفِيْهِ فَوْجٌ مُّطِيْعُونَ كَعَبِيْدٍ فَانْظُرْ هَل تھی جو غلاموں کی طرح فرمانبردار تھی.پس غور کریں کیا تَجِدُ مِن زَيْبٍ في هذا، أَوْ يَسُوعُ عِندَكَ اس میں آپ کے لئے کوئی شک کی گنجائش ہے یا اس کی إِتْيَانُ نَظِيْرِهِ مِنْ زُمَرٍ أَخَرِيْنَ؟ نظیر آپ کے نزدیک اور جماعتوں سے لاناممکن ہے.(سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۳ تا ۳۳۶) (ترجمه از مرتب) کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی قرارد یا بلکہ آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں تمام سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل قرار دے دیا ہے.پس اس صورت میں قطعا و وجو ہا لازم آتا ہے کہ سلسلۂ خلافتِ اسلامیہ کے آخر میں ایک مثیل عیسی پیدا ہو اور چونکہ اول اور

Page 193

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۱ سورة النُّور آخر کی مشابہت ثابت ہونے سے تمام سلسلہ کی مشابہت ثابت ہو جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کی کتابوں میں جابجا انہیں دونوں مشابہتوں پر زور دیا گیا ہے بلکہ اول اور آخر کے دشمنوں میں بھی مشابہت ثابت کی گئی ہے جیسا کہ ابو جہل کو فرعون سے مشابہت دی گئی ہے اور آخری مسیح کے مخالفین کو یہود مغضوب علیہم سے اور آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ اس امت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے زمانہ میں آئے گا.جو وہ زمانہ اپنی مدت میں اس زمانہ کی مانند ہوگا.جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے.یعنی چودہویں صدی کیونکہ گما کا لفظ جس مشابہت کو چاہتا ہے اس میں زمانہ کی مشابہت بھی داخل ہے تمام فرقے یہودیوں کے اس بات پر متفق ہیں کہ عیسی بن مریم نے جس زمانہ میں دعویٰ نبوت کیا وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی تھی.اور عیسائیوں میں سے پروٹسٹنٹ مذہب والے خیال کرتے ہیں.کہ پندرھویں صدی موسوی سے کچھ سال گزر چکے تھے جب حضرت عیسی نے دعویٰ نبوت کیا.اور پروٹسٹنٹ کا قول یہودیوں کے متفق علیہ قول کے مقابل پر کچھ چیز نہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لیں تو اس قدر قلیل فرق سے مشابہت میں کچھ فرق نہیں آتا بلکہ مشابہت ایک قلیل فرق کو چاہتی ہے.ایسا ہی قرآن شریف کی رُو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲، ۱۳) یہ فیصلہ بھی قرآن شریف نے ہی سورۃ نور میں لفظ منکھ کے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ اس دین کے تمام خلیفے اسی اُمت میں سے پیدا ہوں گے اور وہ خلفاء سلسلہ موسوی کے مثیل ہوں گے اور صرف ایک اُن میں سے سلسلہ کے آخر میں موعود ہوگا جو عیسی بن مریم کے مشابہ ہو گا باقی موعود نہیں ہوں گے یعنی نام لے کر اُن کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں ہوگی اور یہ منکم کا لفظ بخاری میں بھی موجود ہے اور مسلم میں بھی ہے جس کے یہی معنے ہیں کہ وہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے پیدا ہو گا.پس اگر ایک غور کرنے والا اس جگہ پورا غور کرے اور طریق خیانت اختیار نہ کرے تو اس کو ان تین منکم کے لفظوں پر نظر ڈالنے سے یقین ہو جائے گا کہ یہ امر قطعی فیصلہ تک پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے پیدا ہو گا.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰،۳۹) سورہ نور میں بیان کیا گیا ہے کہ تمام خلیفے اسی اُمت میں سے پیدا ہوں گے.اور قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس اُمت پر دوزمانے بہت خوفناک آئیں گے.ایک وہ زمانہ جوا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت

Page 194

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ سورة النُّور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آیا.اور دوسرا وہ زمانہ جو دجالی فتنہ کا زمانہ ہے جو مسیح کے عہد میں آنے والا تھا جس سے پناہ مانگنے کے لئے اس آیت میں اشارہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ ( الفاتحة : - ) اور اسی زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی سورہ نور میں موجود ہے.وَلَيُبَدِ لَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خوفهم آمنا.اس آیت کے معنے پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دین پر آخری زمانہ میں ایک زلزلہ آئے گا اور خوف پیدا ہو جائے گا کہ یہ دین ساری زمین پر سے گم نہ ہو جائے.تب خدا تعالی دوبارہ اس دین کو روئے زمین پر متمکن کر دے گا اور خوف کے بعد امن بخش دے گا.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۷) سورہ نور میں صریح اشارہ فرماتا ہے کہ ہر ایک رنگ میں جیسے بنی اسرائیل میں خلیفے گزرے ہیں وہ تمام رنگ اس اُمت کے خلیفوں میں بھی ہوں گے.چنانچہ اسرائیلی خلیفوں میں سے حضرت عیسی ایسے خلیفے تھے جنہوں نے نہ تلوار اُٹھائی اور نہ جہاد کیا.سو اس امت کو بھی اسی رنگ کا مسیح موعود دیا گیا.دیکھو آیت وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ ليُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ في شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعد ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.اس آیت میں فقره كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قبلهم قابل غور ہے.کیونکہ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ محمدی خلافت کا سلسلہ موسوی خلافت کے سلسلہ سے مشابہ ہے اور چونکہ موسوی خلافت کا انجام ایسے نبی پر ہو ا یعنی حضرت عیسی پر جو حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نیز کوئی جنگ اور جہاد نہیں کیا اس لئے ضروری تھا کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدی کا بھی اسی شان کا ہو.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۱۳، ۲۱۴) خدا تعالی......دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بد قسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ

Page 195

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ سورة النُّور حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَيْسَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنا.یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسی مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسی کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵،۳۰۴) قرآن شریف کی یہ آیت بھی کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم یہی چاہتی ہے کہ اس اُمت کے لئے چودھویں صدی میں مثیل عیسی ظاہر ہو جیسا کہ حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی میں ظاہر ہوئے تھے تا دونوں مثیلوں کے اول و آخر میں مشابہت ہو.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۰) سورہ نور میں منکھ کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر ایک خلیفہ اسی اُمت میں سے ہوگا اور آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِہ بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ کوئی امر غیر معمولی نہیں ہوگا بلکہ جس طرح صدر زمانہ اسلام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں جیسا کہ آیت گیا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل: ۱۶) سے ظاہر ہے ایسا ہی آخر زمانہ اسلام میں دونوں سلسلوں موسوی اور محمدی کا اول اور آخر میں تطابق پورا کرنے کے لئے مثیل عیسی کی ضرورت تھی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۰،۱۰۹) ہمارا رسول مثیل موسیٰ ہے....فرمایا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ الخس ۱۸ اس مثیل موسیٰ کے خلفاء بھی اسی سلسلہ سے ہوں گے جیسے کہ موسیٰ کے خلفاء سلسلہ وار آئے.اس سلسلہ کی میعاد چودہ سو برس تک رہی.برابر خلفاء آتے رہے.یہ ایک اللہ تعالی کی طرف سے پیشگوئی تھی کہ جس طرح سے پہلے سلسلہ کا آغاز ہوا ویسے ہی اس سلسلہ کا آغاز

Page 196

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة النُّور ہوگا یعنی جس طرح موسیٰ نے ابتداء میں جلالی نشان دکھلائے اور فرعون سے چھڑا یا اسی طرح آنے والا نبی بھی رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۳) موسیٰ کی طرح ہوگا.قرآن شریف نے اسرائیکی اور اسماعیلی سلسلوں میں خلافت کی مماثلت کا کھلا کھلا اشارہ کیا ہے جیسے اس آیت سے ظاہر ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ الأمہ اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودھویں صدی پر بعد از موسی علیہ السلام آیا وہ مسیح ناصری تھا.مقابل میں ضروری تھا کہ اس اُمت کا مسیح بھی چودھویں صدی کے سر پر آوے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۸) اس آیت میں استخلاف کے موافق جو خلیفے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ہوں گے وہ پہلے خلیفوں کی طرح ہوں گے اس قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی فرمایا گیا ہے جیسے فرمایا ہے إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل : ۱۶) اور آپ مثیل موسیٰ استثنا کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں.پس اس مماثلت میں جیسے گما کا لفظ فرمایا گیا ہے ویسے ہی سورہ نور میں گما کا لفظ ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مشابہت اور مماثلت تامہ ہے.موسوی سلسلہ کے خلفاء کا سلسلہ حضرت عیسی علیہ السلام پر آکر ختم ہو گیا تھا اور وہ حضرت ہے.موسوی موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے.اس مماثلت کے لحاظ سے کم از کم اتنا تو ضروری ہے کہ چوھویں صدی میں ایک خلیفہ اسی رنگ قوت کا پیدا ہو جو سیح سے مماثلت رکھتا ہو اور اسی کے قلب اور قدم پر ہو.پس اگر اللہ تعالیٰ اس امر کی اور دوسری شہادتیں اور تائید میں نہ بھی پیش کرتا تو یہ سلسلہ مماثلت بالطبع چاہتا تھا کہ چودھویں صدی میں عیسوی بروز آپ کی امت میں ہو ورنہ آپ کی مماثلت میں معاذ اللہ ایک نقص اور ضعف ثابت ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس مماثلت کی تصدیق اور تائید فرمائی بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ مثیل موسیٰ ، موسیٰ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تر ہے.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۲، ۳) آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور ایک سلسلہ خلافت قائم کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس سلسلہ کو پہلے سلسلہ خلافت کے ہم رنگ قرار دیا جیسا فرمایا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ اب اس وعدہ استخلاف کے موافق اور اس کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ جیسے موسوی سلسلہ خلافت کا خاتم الخلفاء مسیح تھا ضرور

Page 197

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النُّور ہے کہ سلسلہ محمدیہ کے خلفاء کا خاتم بھی ایک مسیح ہی ہو.(الحکم جلدے نمبر ۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۲) كمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ میں جو استخلاف کا وعدہ ہے یہ بھی اس امر پر صاف دلیل ہے کہ کوئی پرانا نبی اخیر تک نہ آوے ورنہ گیا باطل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے گما کے نیچے تو مثیل کو رکھا ہے عین کو نہیں رکھا پھر یہ کس قدر غلطی اور جرات ہے کہ خدا تعالیٰ کے منشا کے خلاف ایک بات اپنی طرف سے پیدا کر لی جاوے اور ایک نیا اعتقاد بنالیا جاوے.اور پھر گیا میں مدت کی بھی تعیین ہے کیونکہ مسیح موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں آیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ آنے والا محمدی مسیح بھی چودھویں صدی میں آئے.غرض یہ آیت ان تمام امور کو حل کرتی ہے اگر کوئی سوچنے والا ہو.احکام جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) کیا مِنكُم ثلاثه ہمارے مخالفوں کے لئے کافی نہیں.ایک بخاری کا مِنْكُمْ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ) مسلم کا مِنْكُمْ آمَكُمْ مِنْكُمْ ) اور سب سے بڑھ کر قرآن کا مِنكُمْ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ ) - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۶) قرآن پر تدبر سے نظر کرنے والے کو معلوم ہوگا کہ دو سلسلوں کا مساوی ذکر ہے اول سلسلہ جو موسیٰ سے شروع ہو کر مسیح علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے یہ اس شخص پر ختم ہونا چاہیے جو مثیل مسیح ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیلِ موسیٰ ہیں اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ - الاية (المزمل : ۱۶) اور پھر سورہ نور میں وعدہ استخلاف فرمایا کہ جس طرح پر موسوی سلسله ہو گزرا ہے اسی طرح پر محمدی سلسلہ بھی ہوگا تا کہ دونوں سلسلوں میں بموجب آیات قرآنی با ہم مطابقت اور موافقت تامہ ہو چنانچہ جب کہ موسوی سلسلہ آخر عیسی علیہ السلام پر ختم ہوا ضروری تھا کہ محمدی سلسلہ کا خاتم بھی عیسی موعود ہوتا.ان دونوں سلسلوں کا بہم تقابل مرا یا متقابلہ کی طرح ہے یعنی جب دو شیشے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھے جاتے ہیں تو ایک شیشہ کا دوسرے میں انعکاس ہوتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸) ( اس سوال کے جواب میں کہ قرآن میں مسیح موعود کا کہاں کہاں ذکر ہے.فرمایا.) سورۃ فاتحہ، سوره نور سوره تحریم وغیرہ میں.سورہ فاتحہ میں تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سورة نور میں وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ الآیۃ اور سورہ تحریم میں جہاں مومنوں کی مثالیں بیان کی ہیں ان میں فرمایا وَ مَرْيَمَ

Page 198

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة النُّور ابْنَتَ عِمْرنَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرجَهَا (التحريم : ۱۳) - (الحکم جلدے نمبر ۳ مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) حضرت عیسی علیہ السلام براہ راست خدا کے نبی تھے اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے اور فیوض سے ہے پھر وہی عیسی کیوں کر آ سکتا ہے جبکہ سورۃ نور میں جو آیت استخلاف ہے اس میں وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُم لکھا ہے اور صحیح بخاری میں بھی اِمَامُكُم مِنكُمْ ہے پھر عیسی علیہ السلام تو فوت ہو چکے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معراج کی رات مردوں میں دیکھ چکے جو بہشت میں ہوں انہیں زندوں سے کیا تعلق.جس بات پر خدا نے اپنے قول سے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے شہادت دے دی اس سے انکار کرنا دراصل میری تکذیب کرنا نہیں.میں کیا ہوں اور میری تکذیب کیا در اصل یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے.( بدر جلد نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ جون ۱۹۰۸ صفحه ۹) موعود وہ ہے جس کا ذکر منکم میں ہے جیسے کہ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلحت الخ ورنہ اس طرح خواہ صد با مسیح آویں اور کسی امت کے ہوں مگر وہ موعود نہ ہو دیں گے کیونکہ وہ منگھ سے باہر ہوں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ منگم کا ہے پھر باہر سے آنے والا کیسے موعود ہو سکتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۲) مسیح موعود کی نسبت ان کا یہ خیال کہ وہ اسرائیلی مسیح ہو گا بالکل غلط ہے قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ وہ تم میں سے ہوگا جیسے سورہ نور میں ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ پھر بخاری میں بھی مِنكُمْ ہی ہے پھر مسلم میں بھی منکھ ہی صاف لکھا ہے.ان کمبختوں کو اس قدر خیال نہیں آتا اگر اسی مسیح نے پھر آنا تھا تو منگم کی بجائے من بنی اسرائیل لکھا ہوتا.اب قرآن شریف اور احادیث تو پکار پکار کر منگھ کہہ رہے ہیں مگر ان لوگوں کا دعویٰ من بنی اسرائیل کا ہے.سوچ کر دیکھو کہ قرآن کو چھوڑیں یا ان کو.البدر جلد ۲ نمبر ۳۹ مورخه ۱۶ /اکتوبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۰۶) قرآن شریف نے بڑی وضاحت کے ساتھ دو سلسلوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ سلسلہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت مسیح علیہ السلام پر آکر ختم ہوا اور دوسرا سلسلہ جو اسی سلسلہ کے مقابل پر واقع ہوا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ ہے چنانچہ توریت میں بھی آپ کو مثیل موسیٰ کہا گیا اور قرآن شریف میں بھی آپ کو مثیل موسیٰ ٹھہرایا گیا ہے جیسے فرمایا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل: ۱۲).پھر جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ حضرت مسیح پر

Page 199

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۷ سورة النُّور آکر ختم ہو گیا اسی سلسلہ کی مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس وقت اور اسی زمانہ پر جب حضرت مسیح حضرت موسیٰ کے بعد آئے تھے مسیح محمدی ابھی آتا اور یہ بالکل ظاہر اور صاف بات ہے کہ مسیح موسوی چودھویں صدی میں آیا تھا.اس لئے ضروری تھا کہ مسیح محمدی بھی چودھویں صدی میں آتا.اگر کوئی اور نشان اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی اس سلسلہ کی تکمیل چاہتی تھی کہ اس وقت مسیح محمدی آوے مگر یہاں تو صد ہا اور نشان اور دلائل ہیں پھر آنے والے کو اسی امت میں سے ٹھہرایا گیا ہے جیسے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ میں فرمایا گیا ہے اور اسی طرح پر احادیث میں بھی آنے والا اسی امت سے ٹھہرایا گیا ہے جبکہ فرمایا ہے وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.اب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ بوضاحت شہادت دیتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا اور ضرورت بجائے خود داعی ہے کیونکہ اسلام پر سخت حملے ہورہے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں تک ان مخالفوں کا بس چلے اسلام کو نا بود کردیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۵،۴) اسی امت کے اب مومنین اور اعمال صالحہ بجالانے والوں سے خلافت کا وعدہ کیا گیا اسی طرح پر جس طرح بنی اسرائیل میں خلفاء کئے گئے تھے یہاں بھی وہی گما کا لفظ موجود ہے ایک طرف تو اس سلسلہ کو سلسلہ موسوی کا مثیل ٹھہرایا.دوسری جگہ سلسلہ موسوی کی طرح خلفاء بنانے کا وعدہ کیا پھر کیا دونوں سلسلوں کا طبعی تو افق ظاہر نہیں کرتا کہ اس امت میں خلفاء اسی رنگ کے قائم ہوں؟ ضرور کرتا ہے میں انتقام جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک وعدہ کی جیسے فرمایا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ.اہل سنت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں تخلف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کریم ہے لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کر بخش بھی دیتا ہے اس لئے کہ وہ رحیم ہے.بڑا نا دان اور اسلام سے دور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.وہ قرآن کریم کو چھوڑتا ہے اس لئے کہ قرآن شریف تو کہتا ہے يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمُ (المؤمن : ٢٩) - الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۶ مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۴) وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (۵۷) انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دیئے ہیں جیسے آقِیمُوا الصَّلوةَ نماز کو قائم رکھو.یا فرمایا

Page 200

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة النور وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : ۴۶) ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کونئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.الحکم جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۱۰ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۱۵) لَيْسَ عَلَى الْأَعْلَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ بايكُم اَوْ بُيُوتِ أُمَّهَتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ وود إخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوتِ اَخَوَتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ اَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَشْتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ b اخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوتِ خَلتِكُمْ أوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَة أَوْ صَدِيقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جناح آن تأكُلُوا جَمِيعًا اَوْ اَشْتَاتًا فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبْرَكَةً طَيِّبَةً كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ الأيتِ لَعَلَّكُم تَعْقِلُونَ چھوت وغیرہ در اصل اس بات کا نشان ہے کہ ہندوؤں کا مذہب کمزور ہے جو ہاتھ لگانے سے بھی جاتا رہتا ہے.اسلام کی بنیاد چونکہ قوی تھی اس لئے اس نے ایسی باتوں کو اپنے مذہب میں نہیں رکھا چنانچہ کھانے کے متعلق فرما دیا لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا - ( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) اگر کھانا کھانے کو کسی کے ساتھ جی نہیں کرتا تو کسی اور بہانہ سے الگ ہو جاوے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا اَوْ اَشْتَاتا.مگر اظہار نہ کرے یہ اچھا نہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۲۱۰)

Page 201

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ۱۶۹ سورة الفرقان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفرقان بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلا بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تَبْرَكَ الَّذِى نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرَان وہ بہت ہی برکت والا ہے جس نے قرآن شریف کو اپنے بندہ پر اس غرض سے اتارا کہ تمام جہان کو ڈرانے والا ہو یعنی تا ان کی بدرا ہی اور بد عقیدگی پر ان کو متنبہ کرے.پس یہ آیت بصراحت اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن کا یہی دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں تشریف لائے تھے جبکہ تمام دنیا اور تمام قو میں بگڑ چکی تھیں اور مخالف قوموں نے اس دعوی کو نہ صرف اپنی خاموشی سے بلکہ اپنے اقراروں سے مان لیا ہے.پس اس سے بہ بداہت نتیجہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت میں ایک سچے اور کامل نبی کو آنا چاہیے.پھر جب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ آنجناب صلعم کس وقت واپس بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح طور پر ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں بلانے کا حکم ہوا کہ جب اپنا کام پورا کر چکے تھے یعنی اس وقت کے بعد بلائے گئے جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم کا مجموعہ کامل ہو گیا اور جو کچھ ضروریات دین میں نازل ہونا تھا وہ سب نازل ہو چکا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ کی تائید میں بھی کمال کو پہنچ گئیں اور جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے اور یہ آیتیں بھی نازل ہو گئیں کہ خدا تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کو ان کے دلوں میں لکھ دیا اور

Page 202

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۰ سورة الفرقان فسق اور فجور سے انہیں بیزار کر دیا اور پاک اور نیک اخلاق سے وہ متصف ہو گئے اور ایک بھاری تبدیلی ان کے اخلاق اور چلین اور روح میں واقع ہو گئی.نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۱ تا ۳۶۵) ہم نے تجھے بھیجا تا کہ تو دنیا کی تمام قوموں کو ڈراوے یعنی ان کو متنبہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی بدکاریوں اور عقیدوں کی وجہ سے سخت گنہ گار ٹھہری ہیں.یادر ہے کہ جو اس آیت میں نذیر کا لفظ دنیا کے تمام فرقوں کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی پراستہ گنہگاروں اور بدکاروں کو ڈرانا ہے اسی لفظ سے یقینی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کا یہ دعویٰ تھا کہ تمام دنیا بگڑ گئی اور ہر ایک نے سچائی اور نیک بختی کا طریق چھوڑ دیا کیونکہ انذار کا محل فاسق اور مشرک اور بد کا رہی ہیں اور انذار اور ڈرانا مجرموں کی ہی تنبیہ کے لئے ہوتا ہے نہ نیک بختوں کے لئے.اس بات کو ہر یک جانتا ہے کہ ہمیشہ سرکشوں اور بے ایمانوں کو ہی ڈرایا جاتا ہے اور سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر.پھر جبکہ ایک نبی تمام دنیا کے لئے نذیر ہوا تو ماننا پڑا کہ تمام دنیا کو نبی کی وحی نے بداعمالیوں میں مبتلا قرار دیا ہے اور یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ نہ توریت نے موسیٰ کی نسبت کیا اور نہ انجیل نے عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی نسبت بلکہ صرف قرآن شریف نے کیا.( نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۶، ۳۳۷) ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کوڈراوے.لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اُس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ ” میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعویٰ تبلیغ عام کا عین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ الله اليكم جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خطا نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں اور اُس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۷،۷۶)

Page 203

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 121 سورة الفرقان الَّذِئ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا وَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ الِهَةً لا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتَا وَ لَا حَيوةً ولا نُشُوران خداوہ خدا ہے جو تمام زمین و آسمان کا اکیلا مالک ہے.کوئی اس کا حصہ دار نہیں.اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک.اور اسی نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر ایک حد تک اس کے جسم اور اس کی طاقتوں اور اس کی عمر کو محدود کر دیا اور مشرکوں نے بجز اس خدائے حقیقی کے اور اور ایسے ایسے خدا مقرر کر رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ اور مخلوق ہیں اپنے ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ موت اور زندگی اور جی اُٹھنے کے مالک ہیں اب دیکھو خدائے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرمارہا ہے کہ بجز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا اور صاف فرماتا ہے کہ کوئی شخص موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں ہوسکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنادینا اور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ توحید کی ہمیں ہر گز تعلیم نہ دیتا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۰،۲۵۹ حاشیه ) وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَةُ تَقْدِیرا یعنی اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے اور اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی بلکہ اسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے اس کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محد دضرور ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاصر اور محدد ہے.اب اثبات قضیہ اولیٰ کا یعنی محدود القدر ہونے اشیاء کا اس طرح پر ہے کہ جمیع اجسام اور ارواح میں جو جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ ان خواص سے زیادہ خواص ان میں پائے جاتے.مثلاً انسان کی دو آنکھیں ہیں اور عند العقل ممکن تھا کہ اس کی چار آنکھیں ہوتیں دومنہ کی طرف اور دو

Page 204

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة الفرقان پیچھے کی طرف تا کہ جیسا آگے کی چیزوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتا اور کچھ شک نہیں کہ چار آنکھ کا ہونا بہ نسبت دو آنکھ کے کمال میں زیادہ اور فائدہ میں دو چند ہے.اور انسان کے پر نہیں اور ممکن تھا کہ مثل اور پرندوں کے اس کے پر بھی ہوتے اور علی ہذا القیاس نفس ناطقہ انسان بھی ایک خاص درجہ میں محدود ہے جیسا کہ وہ بغیر تعلیم کسی معلم کے خود بخود مجہولات کو دریافت نہیں کر سکتا.قاسر خارجی سے کہ جیسے جنون یا مخموری ہے سالم الحال نہیں رہ سکتا بلکہ فی الفور اس کی قوتوں اور طاقتوں میں تنزل واقع ہو جاتا ہے اسی طرح بذاتہ اور اک جزئیات کا نہیں کر سکتا جیسا کہ اس کو شیخ محقق بو علی سینا نے ممط سابع اشارات میں بتصریح لکھا ہے حالانکہ عند العقل ممکن تھا کہ ان سب آفات اور عیوب سے بچا ہوا ہوتا.پس جن جن مراتب اور فضائل کو انسان اور اس کی روح کے لئے عقل تجویز کر سکتی ہے وہ کس بات سے ان مراتب سے محروم ہے آیا تجویز کسی اور مجوز سے یا خود اپنی رضامندی سے.اگر کہو کہ اپنی رضامندی سے تو یہ صریح خلاف ہے کیونکہ کوئی شخص اپنے حق میں نقص روا نہیں رکھتا اور اگر کہو کہ تجویز کسی اور مجوز سے تو مبارک ہو کہ وجود خالق ارواح اور اجسام کا ثابت ہو گیا اور یہی مدعا تھا.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹۰۸) اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر ایک چیز کو ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود پیدا کیا ہے جس سے وجود اس ایک حاصر اور محمد د کا ثابت ہوتا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیہ نمبر ۳) واضح رہے کہ تقدیر کے معنے صرف اندازہ کرنا ہے جیسے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدرَة تَقْدِيرًا یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کیا تو پھر اس کے لئے ایک مقرر انداز ٹھہرا دیا اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے بلکہ وہ اختیارات بھی اسی اندازہ میں آگئے.جب خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت اور انسانی خوٹے کا اندازہ کیا تو اس کا نام تقدیر رکھا او اسی میں یہ مقرر کیا کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیارات برت سکتا ہے یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تقدیر کے لفظ کو ایسے طور پر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خد دا د قومی سے محروم رہنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے.اس جگہ تو ایک گھڑی کی مثال ٹھیک آتی ہے کہ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل نہیں سکتی.یہی انسان کی مثال ہے کہ جو قومی اس کو دیئے گئے ہیں ان سے زیادہ وہ کچھ کر نہیں سکتا اور جو عمر دی گئی ہے اس سے زیادہ (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۲) جی نہیں سکتا.

Page 205

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ خدا نے ہر یک چیز کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ بھی آپ اپنے اختیار سے مقرر کر دیا.سورة الفرقان ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) قرآن شریف نے وید کی طرح بے وجہ اور محض زبردستی کے طور پر اللہ جل شانہ کو تمام ارواح اور ہر ایک ذرہ ذرہ اجسام کا مالک نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کی ایک وجہ بیان کی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ....خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا - ( ترجمہ ) یعنی زمین اور آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے سب خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اُسی نے پیدا کی ہیں اور پھر ہر ایک مخلوق کی طاقت اور کام کی ایک حد مقرر کر دی ہے تا محدود چیزیں ایک محدد پر دلالت کریں جو خدا تعالیٰ ہے سو ہم دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ اجسام اپنے اپنے حدود میں مقید ہیں اور اس حد سے باہر نہیں ہو سکتے اسی طرح ارواح بھی مقید ہیں اور اپنی مقررہ طاقتوں سے زیادہ کوئی طاقت پیدا نہیں کر سکتے.اب پہلے ہم اجسام کے محدود ہونے کے بارہ میں ۳۰۰ بعض مثالیں پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مثلاً چاند ایک مہینہ میں اپنا دورہ ختم کر لیتا ہے یعنی انتیس یا تیں دن تک مگر سورج تین سو چونسٹھ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے اور سورج کو یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنے دورہ کو اس قدر کم کر دے جیسا کہ چاند کے دورہ کا مقدار ہے اور نہ چاند کی یہ طاقت ہے کہ اس قدر اپنے دورہ کے دن بڑھا دے کہ جس قدر سورج کے لئے دن مقرر ہیں اور اگر تمام دنیا اس بات کے لئے اتفاق بھی کر لے کہ ان دونوں نیتروں کے دوروں میں کچھ کمی بیشی کر دیں تو یہ ہر گز اُن کے لئے ممکن نہیں ہوگا اور نہ خود سورج اور چاند میں یہ طاقت ہے کہ اپنے اپنے دوروں میں کچھ تغیر تبدل کر ڈالیں.پس وہ ذات جس نے ان ستاروں کو اپنی اپنی حد پر ٹھہرا رکھا ہے یعنی جو اُن کا محمد داور حد باندھنے والا ہے وہی خدا ہے.ایسا ہی انسان کے جسم اور ہاتھی کے جسم میں بڑا فرق ہے اگر تمام ڈاکٹر اس بات کے لئے اکٹھے ہوں کہ انسان اپنی جسمانی طاقتوں اور جسم کی ضخامت میں ہاتھی کے برابر ہو جاوے تو یہ اُن کے لئے غیر ممکن ہے.اور اگر یہ چاہیں کہ ہاتھی محض انسان کے قد تک محدود ہے تو یہ بھی اُن کے لئے غیر ممکن ہے پس اس جگہ بھی ایک تحدید ہے یعنی حد باندھنا جیسا کہ سورج اور چاند میں ایک تحدید ہے اور وہی تحدید ایک محمد د یعنی حد باندھنے والے پر دلالت کرتی ہے یعنی اس ذات پر دلالت کرتی ہے جس نے ہاتھی کو وہ مقدار بخشا اور انسان کے لئے وہ مقدار مقرر کیا.اور اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ان تمام جسمانی چیزوں میں عجیب طور سے خدا تعالیٰ کا ایک پوشیدہ تصرف نظر آتا ہے اور عجیب طور پر اس کی حد بندی مشاہدہ ہوتی ہے.اُن کیڑوں کی

Page 206

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة الفرقان مقدار سے لے کر جو بغیر ڈور بین کے دکھائی نہیں دے سکتے اُن بڑی بڑی مچھلیوں کی مقدار تک جو ایک بڑے جہاز کو بھی چھوٹے سے لقمہ کی طرح نگل سکتی ہیں.حیوانی اجسام میں ایک عجیب نظارہ حد بندی کا نظر آتا ہے کوئی جانور اپنے جسم کی رُو سے اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتا.ایسا ہی وہ تمام ستارے جو آسمان پر نظر آتے ہیں اپنی اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتے.پس یہ حد بندی دلالت کر رہی ہے کہ در پردہ کوئی حد باندھنے والا ہے.یہی معنی اس مذکورہ بالا آیت کے ہیں کہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا.اب واضح ہو کہ جیسا کہ یہ حد بندی اجسام میں پائی جاتی ہے ایسا ہی یہ حد بندی ارواح میں بھی ثابت ہے.تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدر انسانی روح اپنے کمالات ظاہر کر سکتا ہے یا یوں کہو کہ جس قدر کمالات کی طرف ترقی کر سکتا ہے وہ کمالات ایک ہاتھی کی روح کو با وجود تعلیم اور جسیم ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے.اسی طرح ہر ایک حیوان کی رُوح بلحاظ اپنی قوتوں اور طاقتوں کے اپنے نوع کے دائرہ کے اندر محدود ہے اور وہی کمالات حاصل کر سکتے ہیں کہ جو اس کے نوع کے لئے مقرر اور مقدر ہیں.پس جس طرح اجسام کی حد بندی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اُن کا کوئی حد باندھنے والا اور خالق ہے.اسی طرح ارواح کی طاقتوں کی حد بندی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اُن کا بھی کوئی خالق اور حد باندھنے والا ہے.اور اس جگہ تناسخ کا لغو اور بیہودہ جھگڑا پیش کرنا خدا تعالیٰ کے کاموں میں اختلاف ڈالنا ہے کیونکہ عقل صریح شہادت دیتی ہے کہ یہ دونوں حد بندیاں ایک ہی انتظام کے ماتحت ہیں اور ان دونوں حد بندیوں سے ایک ہی مقصود ہے اور وہ یہ کہ تا حد بندی سے حد باندھنے والے کا پتہ لگ جائے اور تا معلوم ہو جائے کہ جیسا کہ وہ اجسام کا خالق اور حد باندھنے والا ہے ایسا ہی وہ ارواح کا خالق اور حد باندھنے والا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۷ تا ۱۹) خداوہ ہے جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور کوئی چیز اس کی پیدائش سے باہر نہیں اور اُس نے پیدا کر کے ہر ایک کے جسم اور طاقتوں اور قوتوں اور خواص اور صورت اور شکل کو ایک حد کے اندر محدود کر دیا تا اس کا محدود ہونا محدد پر دلالت کرے جو ذات باری عزاسمہ ہے مگر آپ وہ غیر محدود ہے اس لئے اس کی نسبت سوال نہیں ہوسکتا کہ اس کا محددکون ہے.غرض آیت ممدوحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ ہر ایک چیز جو ظہور پذیر ہوئی ہے مع اپنی تمام قوتوں اور طاقتوں کے خدا کی پیدا کردہ ہے پس یہی کامل تو حید ہے جو خدا تعالیٰ کو تمام فیوض کا سر چشمہ قرار دیتی ہے اور کوئی ایسی چیز قرار نہیں دیتی جو اس کی پیدا کردہ نہیں یا اسی کے

Page 207

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سہارے سے جیتی نہیں.۱۷۵ سورة الفرقان (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۵) بعض ایسی تقدیریں جو تقدیر مبرم کے مشابہ ہوں بدلائی بھی جاتی ہیں مگر جو تقدیر حقیقی اور واقعی طور پر مبرم ہے وہ مومن کامل کی دعاؤں سے ہر گز بدلائی نہیں جاتی اگر چہ وہ مومن کامل نبی یا رسول کا ہی درجہ رکھتا ہو.آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۴) یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہورہی ہے مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں.مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور پر میسر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے تب دوا نشانہ کی طرح جاکر اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اس کے قبول کرنے کا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے.بركات الدعا،روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲،۱۱) تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک کا نام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں.اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.وہ اس دعا اور صدقات کا اثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرائے میں اس کو پہنچا دیتا ہے.بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقف اور تاخیر ڈال دیتا ہے.قضائے معلق اور مبرم کا ماخذ اور پتہ قرآن کریم سے ملتا ہے.یہ الفاظ کو نہیں.مثلاً قرآن کریم میں فرمایا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) دعا مانگو میں قبول کروں گا.اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہوسکتی ہے اور دعا سے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا کل کام دعا سے نکلتے ہیں.یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالی کا کل چیزوں پر قادرانہ تصرف ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس کے پوشیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبر ہو یا نہ ہومگر صد ہا تجربہ کاروں کے وسیع تجربے اور ہزار ہا دردمندوں کی دعا کے صریح نتیجے بتلا رہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اور مخفی تصرف ہے وہ جو چاہتا ہے محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے اثبات کرتا ہے.ہمارے لئے یہ امر ضروری نہیں کہ ہم اس کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی کنہ اور کیفیت معلوم

Page 208

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۶ سورة الفرقان کرنے کی کوشش کریں جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شے ہونے والی ہے.اس لئے ہم کو اس جھگڑے اور مباحثے میں پڑنے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ نے انسان کے قضا و قدر کو مشروط بھی رکھا ہے جو تو بہ خشوع خضوع سے مل سکتی ہیں.جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت انسان کو پہنچتی ہے تو وہ فطرتا اور طبعاً اعمال حسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے.اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتا ہے جو اسے بیدار کرتا اور نیکیوں کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے اور گناہ سے ہٹاتا ہے.جس طرح پر ہم ادویات کے اثر کو تجربے کے ذریعہ سے پالیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطرب الحال انسان جب خدا تعالیٰ کے آستانہ پر نہایت تذلل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور ربع رفع کہہ کر اس کو پکارتا اور دعائیں مانگتا ہے تو وہ رویائے صالحہ یا الہام صحیحہ کے ذریعہ سے ایک بشارت اور تسلی پالیتا ہے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق سے دعا انتہاء کو پہنچے گی تو وہ قبول ہو جاتی ہے.دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کا ٹلنا ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اور کروڑ ہا صلحاء اور اتقیاء اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجر بے اس امر پر گواہ ہیں.اقام جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ را پریل ۱۸۹۹ صفحه ۳) تقدیر یعنی دنیا کے اندر تمام اشیاء کا ایک اندازہ اور قانون کے ساتھ چلنا اور ٹھہر نا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا کوئی مقدر یعنی اندازہ باندھنے والا ضرور ہے.گھڑی کو اگر کسی نے بالا رادہ نہیں بنایا تو وہ کیوں اس قدر ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ اپنی حرکت کو قائم رکھ کر ہمارے واسطے فائدہ مند ہوتی ہے ایسا ہی آسمان کی گھڑی کہ اس کی ترتیب اور باقاعدہ اور باضابطہ انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالا رادہ خاص مقصد اور مطلب اور فائدہ کے واسطے بنائی گئی ہے.اس طرح انسان مصنوع سے صانع کو اور تقدیر سے مقدر کو پہچان سکتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۸۹۹ صفحه ۶) اہل علم خوب جانتے ہیں کہ فضائل جایا کرتی ہے اس لئے انسان پوری تضرع، خشوع خضوع اور حضور قلب سے اور کچی عاجزی ، فروتنی اور در بر دل سے اس سے دعا کرے..ہمیں بار بار خیال آتا ہے کہ حضرت عیسی کو بھی کوئی ایک وحشت ناک ہی معاملہ معلوم ہوا ہوگا کہ انہوں نے ساری رات دعا میں صرف کی اور نہایت درجے کے درد انگیز اور بلبلانے والے الفاظ سے خدا کے حضور دعا کرتے رہے.ممکن ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر معلق کو مبرم ہی خیال کر بیٹھے ہوں اور اسی وجہ سے ان کا یہ سارا اضطراب اور گھبراہٹ بڑھ گئی ہو اور اس درجے کا گداز اور رقت ان میں اپنا آخری دم جان کر ہی پیدا ہوئی ہو کیونکہ اکثر ایک تقدیر جو

Page 209

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 122 سورة الفرقان معلق ہوا کرتی ہے ایسی باریک رنگ میں ہوتی ہے کہ اس کو سرسری نظر سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مبرم ہے چنانچہ شیخ عبد القادر صاحب جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنی کتاب فتوح الغیب میں لکھتے ہیں کہ میری دعا سے اکثر وہ قضا جو قضا مبرم کے رنگ میں ہوتی ہے مل جاتی ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں مگر ان کے اس امر کا جواب ایک اور بزرگ نے دیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تقدیر معلق ایسے طور سے واقع ہوتی ہے کہ اس کا پہچاننا کہ آیا معلق ہے یا مبرم محال ہو جاتا ہے.اسے سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ مبرم ہے مگر در حقیقت ہوتی وہ تقدیر معلق ہے اور وہ ایسی ہی تقدیریں ہوں گی جو شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے مل گئی ہوں کیونکہ تقدیر معلق مل جایا کرتی ہے.غرض اہل اللہ نے اس امر کو خوب واضح طور سے لکھا ہے کہ قضا معلق مل جایا کرتی ہے.....وَ إِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلى رَبِّكَ حَتْماً مَقْضِيّا ( مريم :٧٢ ) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ضرور انبیاء اور صلحاء کو بھی دنیا میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ نہایت درجہ کی مصیبت کا وقت اور سخت جانکاہ مشکل ہوتی ہے اور اہل حق بھی ایک دفعہ اسی صعوبت میں وارد ہوتے ہیں مگر خدا جلد تر ان کی خبر گیری کرتا اور ان کو اس سے نکال لیتا ہے اور چونکہ وہ ایک تقدیر معلق ہوتی ہے اسی واسطے ان کی دعاؤں اور ابتہال سے مل جایا کرتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۶) لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تقدیر کے دو حصے کیوں ہیں تو جواب یہ ہے کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض وقت سخت خطر ناک صورتیں پیش آتی ہیں اور انسان بالکل مایوس ہو جاتا ہے لیکن دعا وصدقات و خیرات سے آخر کار وہ صورت ٹل جاتی ہے.پس آخر یہ ماننا پڑتا ہے کہ اگر معلق تقدیر کوئی شے نہیں ہے اور جو کچھ ہے مبرم ہی ہے تو پھر دفع بلا کیوں ہو جاتا ہے؟ اور دعا وصدقہ و خیرات وغیرہ کوئی شے نہیں ہے بعض ارادے الہی صرف اس لئے ہوتے ہیں کہ انسان کو ایک حد تک خوف دلایا جاوے اور پھر صدقہ و خیرات جب وہ کرے تو وہ خوف دور کر دیا جاوے.دعا کا اثر مثل نرومادہ کے ہوتا ہے کہ جب وہ شرط پوری ہو اور وقت مناسب مل جاوے اور کوئی نقص نہ ہو تو ایک امرٹل جاتا ہے اور جب تقدیر مبرم ہو تو پھر ایسے اسباب دعا کی قبولیت کے بہم نہیں پہنچتے.طبیعت تو دعا کو چاہتی ہے مگر توجہ کامل میسر نہیں آتی اور دل میں گداز پیدا نہیں ہوتا.نماز ،سجدہ وغیرہ جو کچھ کرتا ہے اس میں بدمزگی پاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجام بخیر نہیں اور تقدیر مبرم ہے...کرتا سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ بھی لکھتے ہیں کہ بعض وقت میری دعا سے تقدیر مبرم مل گئی ہے.اس پر شارح شیخ عبدالحق محدث دہلی نے اعتراض کیا ہے کہ تقدیر مبرم تو ٹل نہیں سکتی پھر اس کے کیا معنی ہوئے.آخر خود ہی

Page 210

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام KLA سورة الفرقان جواب دیا ہے کہ تقدیر مبرم کی دو اقسام ہیں؛ ایک مبرم حقیقی اور ایک مبرم غیر حقیقی.جو مبرم حقیقی ہے وہ تو کسی صورت سے ٹل نہیں سکتی ہے جیسے کہ انسان پر موت تو آنی ہے اب اگر کوئی چاہے کہ اس پر موت نہ آوے اور یہ قیامت تک زندہ رہے تو یہ نہیں مل سکتی دوسری غیر حقیقی وہ ہے جس میں مشکلات اور مصائب انتہائی درجہ تک پہنچ چکے ہوں اور قریب قریب نہ ٹلنے کے نظر آویں.اس کا نام مجازی طور پر مبرم رکھا گیا ہے ورنہ حقیقی مبرم تو ایسی ہے کہ اگر کل انبیاء بھی مل کر دعا کریں کہ وہ ٹل جاوے تو وہ ہر گز نہیں مل سکتی.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶ / جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۳، ۴) تقدیر دو طرح کی ہوتی ہے ایک کو تقدیر معلق کہتے ہیں اور دوسری کو تقدیر مبرم کہتے ہیں ارادہ الہی جب ہو چکتا ہے تو پھر اس کا تو کچھ علاج نہیں ہوتا اگر اس کا بھی کچھ علاج ہوتا تو سب دنیا بیچ جاتی.مبرم کے علامات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ دن بدن بیماری ترقی کرتی جاتی ہے اور حالت بگڑتی چلی جاتی ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ رستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۶) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا افَكُ إِفْتَريهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاء وَظُلْمًا وَزُوران اگر آنحضرت اُمی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرآئیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا.وہ کیوں کر ایک صریح امر خلاف واقعہ پا کر خاموش رہتے بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہو چکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے منہ سے نکلتا ہے وہ کسی امی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس بیس آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے آعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُونَ کہتے تھے اور جو ان میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کر چکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور ان پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمُ (البقرة : ١٣٧) - ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۸ تا ۵۹۰) أَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہو کر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۸۴) آدمی کا کام نہیں.

Page 211

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة الفرقان وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْ لَا أُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكَ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًان پھرے.عرب کے کفار کا ایک یہ اعتراض خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الاسواق یعنی یہ تو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے.ان کے نزدیک روٹی کھانا یا عمدہ کھانا استعمال کرنا شان نبوت کے برخلاف تھا اور نیز یہ اعتراض تھا کہ نبی گوشہ گزین ہونا چاہیے نہ یہ کہ بازاروں میں بھی چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۹۷ حاشیه ) انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک تصرف تو اسی مخلوق کی نوعیت اور اعتبار سے ہوتا ہے جو يَأكُلُ الطعام وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ وغیرہ کے رنگ میں ہوتا ہے.صحت بیماری وغیرہ اس کے ہی اختیار میں ہوتا ہے اور ایک جدید تصرف قرب کے مراتب میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسے طور پر ان کے قریب ہوتا ہے کہ ان سے مخاطبات اور مطالعات شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی دعاؤں کا جواب ملتا ہے مگر بعض لوگ نہیں سمجھ سکتے اور یہاں تک ہی نہیں بلکہ نرے مطالعہ اور مخاطبہ سے بڑھ کر ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ الوہیت کی چادران پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور خدائے تعالیٰ اپنی ہستی کے طرح طرح کے نمونے ان کو دکھاتا ہے اور یہ ایک ٹھیک مثال اس قرب اور تعلق کی ہے کہ جیسے لوہے کو کسی آگ میں رکھ دیں تو وہ اثر پذیر ہو کر سرخ آگ کا ایک ٹکڑا ہی نظر آتا ہے اس وقت اس میں آگ کی سی روشنی بھی ہوتی ہے اور احراق جو ایک صفت آگ کی ہے وہ بھی اس میں آجاتی ہے مگر بایں ہمہ یہ ایک بین بات ہے کہ وہ لو با آگ یا آگ کا ٹکڑا نہیں ہوتا.اسی طرح سے ہمارے تجربہ میں آیا ہے کہ اہل اللہ قرب الہی میں ایسے مقام تک جا پہنچتے ہیں جبکہ ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بوکو تمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متواری کر لیتا ہے اور جس طرح آگ لوہے کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور ظلی طور پر وہ صفات الہیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۱،۱۴۰) کفار نے جو یہ کہا تھا کہ مَالِ هَذَا الرَّسُوْلِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ تو انہوں نے بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حالت دیکھ کر ہی یہ کلمہ منہ سے نکالا تھا کہ کیا ہے جی.یہ تو ہمارے جیسا آدمی ہی ہے.کھا تا پیتا بازاروں میں پھرتا ہے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 212

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام IA+ سورة الفرقان صحبت کا فیض نہ تھا کہ ان کو کوئی رسالت کا امر نظر آتا.وہ معذور تھے انہوں نے جو دیکھا تھا اسی کے مطابق رائے زنی کر دی.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ار مارچ ۱۹۰۳، صفحہ ۴) انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.ان کو آخر یہی جواب دیا گیا کہ یہ بھی ایک بشر ہے اور بشری حوائج اس کے ساتھ ہیں.اس سے پہلے جس قدر نبی اور رسول آئے وہ بھی بشر ہی تھے.یہ بات انہوں نے بنظر استخفاف کہی تھی.وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بازاروں میں عموماً سودا سلف خریدا کرتے تھے.ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نقشہ تھا وہ تو نری بشریت تھی جس میں کھانا پینا سونا چلنا پھرنا وغیرہ تمام امور اور لوازم بشریت کے موجود تھے اس واسطے ان لوگوں نے رد کر دیا.یہ مشکل اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دل سے ہی ایک خیالی تصویر بنا لیتے ہیں کہ نبی ایسا ہونا چاہیے اور چونکہ اس تصویر کے موافق وہ اسے نہیں پاتے اس لحاظ سے ٹھو کر کھاتے الحکم جلد 4 نمبر ۷ ۳ مورخه ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) ہیں.۹ طعام سے مراد اچھا مکلف کھانا ہے.جب انکار حد سے گزر جاتا ہے تو ایسے ہی اعتراض سوجھتے ہیں.( بدر جلدے نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) وَ مَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ في ج الْأَسْوَاقِ ، وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًان ہم نے تجھ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے ہیں وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں پھرتے تھے اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب وہ تمام نبی نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ بازاروں میں پھرتے ہیں اور پہلے ہم بہ نص قرآنی ثابت کر چکے ہیں کہ دنیوی حیات کے لوازم میں سے طعام کا کھانا ہے سو چونکہ وہ اب تمام نبی طعام نہیں کھاتے لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب فوت ہو چکے ہیں جن میں بوجہ کلمہ حصر مسیح بھی داخل ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۱) وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ.یعنی ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۴۴)

Page 213

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة الفرقان وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هُذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا یا درکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے عمر آدمی جو خدا تعالی کی کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفا اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے اسے تو چاہیے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف و شفا بخش پانی سے حظ اُٹھا تا مگر وہ بوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہورہی ہے وہ جانتے ہیں کہ سای ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے مگر نہیں اس کی پر واہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَهُ تَرْتِيلًا کا فر کہتے ہیں کہ کیوں قرآن ایک مرتبہ ہی نازل نہ ہوا.ایسا ہی چاہیے تھا تا وقتا فوقتا ہم تیرے دل کو تسلی دیتے رہیں اور تادہ معارف اور علوم جو وقت سے وابستہ ہیں اپنے وقت پر ہی ظاہر ہوں کیونکہ قبل از وقت کسی

Page 214

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة الفرقان بات کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے سو اس مصلحت سے خدا نے قرآن شریف کو تئیس برس تک نازل کیا تا اس مدت سواس (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۷) تک موعود نشان بھی ظاہر ہو جائیں.انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذ الرحمن کہلاتے ہیں ان کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن شریف میں آیا ہے كذلك لِنتَيَّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَهُ ترتیلا.پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیا علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے جس دن نبی مامور ہوتا ہے اس دن اور اس کی نبوت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰) ہو جاتا ہے.وَإِذَا رَاَوكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اَهُذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا ) اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے.اور ٹھٹھا مار کر کہیں گے کیا یہی ہے جس کو خدا نے اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا یعنی جن کا مادہ ہی خبث ہے ان سے صلاحیت کی امید مت رکھ.برامین احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۱، ۶۱۲ حاشیہ نمبر ۳) ان لوگوں نے تجھے ایک ہنسی کی جگہ سمجھ رکھا ہے.وہ طنزاً کہتے ہیں کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کو خدا نے ہم میں دعوت کے لئے کھڑا کیا.تجھے لوگ ہنسی کی جگہ بنالیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہی شخص خدا نے مبعوث فرمایا ہے.براتین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۸۷) برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۲) ام تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا کیا تو یہ خیال کرتا ہے کہ اکثر لوگ ان میں سے سنتے اور سمجھتے ہیں.نہیں یہ تو چار پائیوں کی طرح ہیں.بلکہ ان سے بھی بدتر.(براہین احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه (۶۵۱) انسان جو اخلاق فاضلہ کو حاصل کر کے نفع رساں ہستی نہیں بنتا.ایسا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی بھی کام نہیں آسکتا.مردار حیوان سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی تو کھال اور ہڈیاں بھی کام آجاتی ہیں اس کی تو کھال

Page 215

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ بھی کام نہیں آتی اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں انسان بلْ هُمْ أَضَلُّ کا مصداق ہو جاتا ہے.سورة الفرقان الحکم جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخه ۹ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۳) تیسرے درجہ کے وہ لوگ ہیں جو عمدہ اخلاق اور عمدہ اعمال میں سبقت لے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ جو صدر اسلام کا وقت تھا اس زمانہ پر ایک وسیع نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم نے کیوں کر ایمان لانے والوں کو مذکورہ بالا ادنی درجہ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچادیا کیونکہ ایمان لانے والے اپنی ابتدائی حالت میں اکثر ایسے تھے کہ جس حالت کو وہ ساتھ لے کر آئے تھے وہ حالت جنگلی وحشیوں سے بدتر تھی اور درندوں کی طرح ان کی زندگی تھی اور اس قدر بد اعمال اور بد اخلاق میں وہ مبتلا تھے کہ انسانیت سے باہر ہو چکے تھے اور ایسے بے شعور ہو چکے تھے کہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہم بداعمال ہیں یعنی نیکی اور بدی کی شناخت کی حس بھی جاتی رہی تھی.پس قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے جو پہلا اثر ان پر کیا تو یہ تھا کہ ان کو محسوس ہو گیا کہ ہم پاکیزگی کے جامہ سے بالکل برہنہ اور بداعمالی کے گند میں گرفتار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کی پہلی حالت کی نسبت فرماتا ہے أُولَبِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ اضل یعنی ” یہ لوگ چار پائیوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر “.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت اور فرقان کی دلکش تاثیر سے ان کو محسوس ہو گیا کہ جس حالت میں ہم نے زندگی بسر کی ہے وہ ایک وحشیانہ زندگی ہے اور سراسر بد اعمالیوں سے ملوث ہے تو انہوں نے روح القدس سے قوت پا کر نیک اعمال کی طرف حرکت کی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۴) الم تر إلى رَبَّكَ كَيْفَ مَدَّ الظَّلَّ وَ لَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنَّا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا ثُمَّ قَبَضْنُهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا والنَّوْمَ سُبَانًا وَ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوران کیا تو خدا کی طرف دیکھتا نہیں کہ وہ کیوں کر سایہ کو لنبا کھینچتا ہے یہاں تک کہ تمام زمین پر تاریکی ہی دکھائی دیتی ہے اور اگر وہ چاہتا تو ہمیشہ تاریکی رکھتا اور کبھی روشنی نہ ہوتی لیکن ہم آفتاب کو اس لئے نکالتے ہیں کہ تا اس بات پر دلیل قائم ہو کہ اس سے پہلے تاریکی تھی یعنی تا بذریعہ روشنی کے تاریکی کا وجود شناخت

Page 216

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة الفرقان کیا جائے کیونکہ ضد کے ذریعہ سے ضد کا پہچاننا بہت آسان ہو جاتا ہے اور روشنی کا قدر و منزلت اس پر کھلتا ہے کہ جو تاریکی کے وجود پر علم رکھتا ہو اور پھر فرمایا کہ ہم تاریکی کو روشنی کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا دور کرتے جاتے ہیں تا اندھیرے میں بیٹھنے والے اس روشنی سے آہستہ آہستہ منتفع ہو جائیں اور جو یک دفعی انتقال میں حیرت و وحشت متصور ہے وہ بھی نہ ہو سو اسی طرح جب دنیا پر روحانی تاریکی طاری ہوتی ہے تو خلقت کو روشنی سے منتفع کرنے کے لئے اور نیز روشنی اور تاریکی میں جو فرق ہے وہ فرق ظاہر کرنے کے لئے خدائے تعالی کی طرف سے آفتاب صداقت نکلتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا پر طلوع کرتا جاتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۷،۶۵۶) ج وَهُوَ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَى رَحْمَتِهِ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا لِنُحْيِ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَ نُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا انْعَامًا وَ أَنَا سِقَ كَثِيران خدا وہ ذات کریم ورحیم ہے کہ جو بارش سے پہلے ہواؤں کو چھوڑتا ہے پھر ہم ایک پاک پانی آسمان سے اتارتے ہیں تا اس سے مری ہوئی بستی کو زندہ کریں اور پھر بہت سے آدمیوں اور ان کے چار پایوں کو پانی ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۲) پلاویں.ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا یعنی قرآن تا ہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۲) وَلَقَدْ صَرَّفْنَهُ بَيْنَهُمْ لِيَذْكَرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كَفُورًا * اور ہم پھیر پھیر کر مثالیں بتلاتے ہیں تا لوگ یاد کر لیں کہ نبیوں کے بھیجنے کا یہی اصول ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۲) وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا كَ فَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَجَاهِدُهُم بِهِ جِهَادًا كبيران اور اگر ہم چاہتے تو ہر یک بستی کے لئے جدا جدا رسول بھیجتے مگر یہ اس لئے کیا گیا کہ تا تجھ سے بھاری کوششیں

Page 217

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة الفرقان ظہور میں آویں یعنی جب ایک مرد ہزاروں کا کام کرے گا تو بلا شبہ وہ بڑا اجر پائے گا اور یہ امر اس کی افضلیت کا موجب ہوگا سو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگ تر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی جوہر کی رو سے فی الواقع سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کی رو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہو جائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں.موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہر یک طرف سے اور ہر ایک گروہ اور قوم سے تکالیف شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہر جائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۲ تا ۶۵۴) وَهُوَ الَّذِى خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَ صِهْدًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيدًان خدا وہ ذات قادر مطلق ہے جس نے بشر کو اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا پھر اس کے لئے نسل اور رشتہ مقرر کر دیا.اسی طرح وہ انسان کی روحانی پیدائش پر بھی قادر تھا یعنی اس کا قانونِ قدرت روحانی پیدائش میں بعینہ جسمانی پیدائش کی طرح ہے کہ اول وہ ضلالت کے وقت میں کہ جو عدم کا حکم رکھتا ہے کسی انسان کو روحانی طور پر اپنے ہاتھ سے پیدا کرتا ہے اور پھر اس کے متبعین کو کہ جو اس کی ذریت کا حکم رکھتے ہیں برکت متابعت اس کی کے روحانی زندگی عطا فرماتا ہے سو تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور ان کی امت کے نیک لوگ ان کی روحانی نسلیں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلہ بالکل آپس میں تطابق رکھتا ہے اور خدا کے ظاہری اور باطنی قوانین میں کسی نوع کا اختلاف نہیں.( بر این احمد یہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۴ تا۶۵۶) قُلْ مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا دوسری صفت رحمان کی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ.پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں.آپ نے اور آپ کے صحابہ نے جو منتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اُٹھا ئیں وہ ضائع نہیں

Page 218

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶ سورة الفرقان ہوئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیا ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَسْتَلْ بِهِ خَبِيرًان ثمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کی تفسیر کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ اعراف آیت نمبر ۵۵ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمِن قَالُوا وَ مَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوران تَبْرَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَ جَعَلَ فِيهَا سِرجًا وَ قَمَرًا مُنِيرًا وَهُوَ الَّذِى جَعَلَ الَّيْلَ وَ النَّهَارِ خِلْفَةً لِمَنْ اَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا وَ عِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الجهِدُونَ قَالُو ا سلمان جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمان کو سجدہ کرو تو وہ رحمان کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمان کیا چیز ہے (پھر بطور جواب فرمایا ) رحمان وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں برج بنائے برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرومومن کے روشنی پہنچاتے ہیں اسی رحمان نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اُٹھاوے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے.رحمان کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہی اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں اور تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.

Page 219

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ سورة الفرقان پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک برے بھلے پر محیط ہورہی ہے.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۴۴۹٬۴۴۸ حاشیه ) خدا وہ ہے کہ جو رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے تا جس نے یاد کرنا ہو وہ یاد کرے یا شکر کرنا ہو تو شکر کرے یعنی دن کے بعد رات کا آنا اور رات کے بعد دن کا آنا اس بات پر ایک نشان ہے کہ جیسے ہدایت کے بعد ضلالت اور غفلت کا زمانہ آجاتا ہے.ایسا ہی خدا کی طرف سے یہ بھی مقرر ہے کہ ضلالت اور غفلت کے بعد ہدایت کا زمانہ آتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۴) هون.....دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا.خدا کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۸) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۹) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا (۶۵) سچے مسلمان ہمیشہ غلبہ اسلام کے لئے دعائیں مانگتے ہیں اور تہجد بھی پڑھتے ہیں اور نماز میں بھی ان کو رقت طاری ہوتی ہے اور آیت يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کا مصداق ہوتے ہیں.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۸۴) عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وحشی لوگ تھے کھانے پینے کے سوا کچھ جانتے نہ تھے.نہ حقوق العباد سے آشنا اور نہ حقوق اللہ سے آگاہ.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ يَأْكُلُونَ كَمَا تَأكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد : ۱۲) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کی حالت ہوگئی یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے تھے اللہ اللہ کس قدر فضیلت ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ایک بینظیر انقلاب اور عظیم الشان تبدیلی واقع ہوگئی.حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو میزان اعتدال پر قائم کردیا اور مردار خوار اور مردہ قوم کو ایک اعلی درجہ کی زندہ اور پاکیزہ قوم بنادیا دوہی خوبیاں ہوتی ہیں علمی یا

Page 220

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ سورة الفرقان عملی عملی حالت کا تو یہ حال ہے کہ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا اور علمی کا یہ حال کہ اس قدر کثرت سے تصنیفات کا سلسلہ اور توسیع زبان کی خدمت کا سلسلہ جاری ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۵،۲۴ مورخه ۲۰ تا ۲۷ /اگست ۱۸۹۸ء صفحه ۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہرگز پائی نہیں جاتی.احادیث میں ان کی بڑی بڑی تعریفیں آئی ہیں یہاں تک فرمایا کہ الله الله في انتصابی اور قرآن شریف میں بھی ان کی تعریف ہوئی يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ / جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۷ ) قِيَامًا - روحانیت اور پاکیزگی کے بغیر کوئی مذہب چل نہیں سکتا.قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی یا كُنُونَ كَما تأكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد (۱۲) پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا.جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا.انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے.قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہو تو وہ مذہب چل سکتا ہے اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا اور اگر کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا.( البدر جلد ۲ نمبر ۳۷ مورخه ۲/اکتوبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۹۰) خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.( البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸؍ جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۲) میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آر یہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی.موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد : ۱۲ ) یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی 1999 حالت یہ ہوگئی يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں.جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار

Page 221

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة الفرقان ہوکر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے.الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۵) دوسرا معجزہ تبدیل اخلاق ہے کہ یا تو وہ اُولبِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الاعراف : ۱۸۰) چارپایوں سے بھی بدتر تھے یا يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا رات نمازوں میں گزارنے والے ہو گئے.بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۹ مئی ۱۹۰۷ صفحه ۴) قبل اسلام میں آنے کے ان لوگوں کی حالت وہ تھی کہ یا مُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ ( محمد : ١٢ ) چار پائیوں کی طرح کھانے پینے کے سوائے ان کا کوئی شغل ہی نہ تھا.یہ تو حالت کفر تھی.اس کے بعد ان کی حالت اسلامی کی یہ تعریف ہے کہ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا اپنے رب کی عبادت میں سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزار دیتے ہیں.وہ کھانا پینا سب بھول گئے اور پہلا نقشہ بھی بالکل بدل گیا.( بدر جلد ۶ نمبر ۳ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَ لَمْ يَقْتُرُوا وَ كَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا اپنے خرچوں میں نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ تنگ دلی کی عادت رکھتے ہیں اور میانہ روش چلتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا لا يَشْهَدُونَ النُّور.....جھوٹوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.....اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہوتو بزرگا نہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں اور ادنی ادنی بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے.یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنی ادنی باتوں کو خیال میں نہ لاویں اور معاف فرماویں اور لغو کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا

Page 222

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 19+ سورة الفرقان بہ نیت ایڈا ایسا فعل اس سے صادر ہو کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا.سو صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایڈا سے چشم پوشی فرماویں اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں لیکن اگر....ایذا صرف لغو کی مد میں داخل نہ ہو بلکہ اس سے واقعی طور پر جان یا مال یا عزت کو ضرر پہنچے تو صلح کاری کے خلق کو اس سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اگر ایسے گناہ کو بخشا جائے تو اس خلق کا نام عفو ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۹) کبھی انسان کا غصہ کتاب اللہ کے برخلاف ہوتا ہے.گالی سن کر اس کا نفس جوش مارتا ہے تقویٰ تو اس کو سکھلاتا ہے کہ وہ غصہ ہونے سے باز رہے جیسے قرآن کہتا ہے وَ إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۱) یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے.اس لئے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو.سد باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑ ا مت کرو.زبان بند رکھو.گالیاں دینے والے کے پاس چپکے گزر جاؤ گو یا سنا ہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لئے قرآن شریف نے فرمایا ہے وَ اِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا.اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً یقیناً اللہ تعالی کے بچے مخلص بن جاؤ گے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۰) وَ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامان نکاح سے ایک اور غرض بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُريَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا عني مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رو ہوں.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳) یہ میچ نہیں ہے کہ ہر ایک شخص جس کو کوئی خواب سچی آوے یا الہام کا دروازہ اس پر کھلا ہو وہ اس نام سے

Page 223

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۱ سورة الفرقان موسوم ہو سکتا ہے بلکہ امام کی حقیقت کوئی اور امر جامع اور حالت کا ملہ تامہ ہے جس کی وجہ سے آسمان پر اس کا نام امام ہے؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ صرف تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے کوئی شخص امام نہیں کہلا سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا پس اگر ہر ایک متقی امام ہے تو پھر تمام مومن منتقی امام ہی ہوئے اور یہ امر منشاء آیت کے برخلاف ہے.ضرورت الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۲، ۴۷۳) انسان کو سوچنا چاہیے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہیے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷).اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشا کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے خود کون سی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیئات رکھنا جائز ہوگا.لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعوی ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ خود وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوئی میں کذاب ہے.صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیا نہ زندگی بنادے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑا نامور اور مشہور آدمی ہو اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے.یا درکھو کسی نیکی کو بھی اس لئے نہیں کرنا چاہیے کہ اس نیکی کے کرنے پر ثواب یا اجر ملے گا کیونکہ اگر محض اس خیال پر نیکی کی جاوے تو وہ ابتغاء مرضات اللہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس ثواب کی خاطر ہوگی اور اس سے اندیشہ

Page 224

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة الفرقان ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ اسے چھوڑ بیٹھے.مثلاً اگر کوئی شخص ہر روز ہم سے ملنے کو آوے اور ہم اس کو ایک روپیہ دے دیا کریں تو وہ بجائے خود یہی سمجھے گا کہ میرا جانا صرف روپے کے لئے ہے جس دن سے روپیہ نہ ملے اسی دن سے آنا چھوڑ دے گا.غرض یہ ایک قسم کا بار یک شرک ہے اس سے بچنا چاہیے نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو.قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو.ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اُٹھ جاوے اگر چہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (التوبة :۱۲۰) مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا چاہیئے.دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا.ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلف کے کھانے ملیں گے تو وہ گویا ان اشیاء کے لئے آتا ہے حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچا وے اور وہ پہنچاتا ہے لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب ہے.تو غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہیے.اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی.یہ سلطان احمد اور فضل احمد اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ا کر مامور ہوں.غرض جو اولا و معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت تو سعدی کا یہ فتوی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پیش از پدر مرده به ناخلف پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں.نہ کبھی ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مد نظر رکھتے ہیں.میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا.بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں.ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں...

Page 225

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۳ سورة الفرقان لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لئے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا.نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے.یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا.جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبِّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُريَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا یعنی خدا تعالی ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر ایک شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اولا د اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا.اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.انتقام جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۰ تا ۱۲) میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں محبت دنیا ان سے کراتی ہے خدا کے واسطے نہیں کرتے.اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا پر نظر کر کے کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمہ اسلام کا ذریعہ ہو جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ذکریا کی طرح اولاد دے دے مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے یا اور ملک ہے وہ اس کا وارث ہو اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کمبخت جب تو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن اپنے بیگانے سب برابر ہیں.میں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جو اس جائیداد کی وارث ہو.ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے.اولا د ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو.یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) ان ( اولاد.ناقل ) کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما کا لحاظ ہو کہ یہ اولا د دین کی خادم ہو لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں کہ اولا ددین کی پہلوان ہو.بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں.اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لئے یہ کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے اور کوئی غرض

Page 226

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورة الفرقان ہوتی ہی نہیں صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر ان کی جائیداد کا مالک نہ بن جاوے.مگر یا درکھو کہ اس طرح پر دین بالکل برباد ہو جاتا ہے غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۴) أوليكَ يُجْزَوْنَ الْغُرُفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ يُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَ سَلَمَال خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا با واصاحب کا ایک شعر یہ ہے او چوتھان سوہاوناں اوپر محمل مرار سچ کرنی دے پائے در گھر محل پیار یعنی وہ بہشت اونچا مکان ہے اس میں عمارتیں خوبصورت ہیں اور راست بازی سے وہ مکان ملتا ہے اور پیار اس محل کا دروازہ ہے جس سے لوگ گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں اور یہ شعر اس آیت سے اقتباس کیا گیا ہے جو قرآن شریف میں ہے.أوليكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ......حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقَامًا یعنی جو لوگ راست باز ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں انہیں بہشت کے بالا خانوں میں جگہ دی جائے گی جو نہایت خوبصورت مکان اور آرام کی جگہ ہے.دیکھو اس جگہ صریح باوا صاحب نے اس آیت کا ترجمہ کر دیا ہے.کیا اب بھی کچھ شک باقی ہے کہ باوا صاحب قرآن شریف کے ہی تابعدار تھے.اس قسم کا بیان بہشت کے بارہ میں وید میں کہاں ہے بلکہ انجیل میں بھی نہیں تبھی تو بعض نابینا عیسائی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں جسمانی بہشت کا ذکر ہے مگر نہیں جانتے کہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ جسم اور روح جو دونوں خدا تعالیٰ کی راہ میں دنیا میں کام کرتے رہے ان دونوں کو جزا ملے گی یہی تو پورا بدلہ ہے کہ روح کو روح کی خواہش کے مطابق اور جسم کو جسم کی خواہش کے مطابق بدلہ ملے لیکن دنیوی کدورتوں اور کثافتوں سے وہ جگہ بالکل پاک ہوگی اور لوگ اپنی پاکیزگی میں فرشتوں کے مشابہ ہوں گے اور بائیں ہمہ جسم اور روح دونوں کے لحاظ سے لذت اور سرور میں ہوں گے اور روح کی چمک جسم پر پڑے گی اور جسم کی لذت میں روح شریک ہوگا اور یہ بات دنیا میں حاصل نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں جسمانی لذت روحانی لذت سے روکتی ہے اور روحانی لذت جسمانی لذت سے مانع آتی ہے مگر بہشت میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ اس روز دونوں لذتوں کا ایک دوسری پر عکس پڑے گا اور اسی

Page 227

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة الفرقان حالت کا نام سعادت عظمی ہے.غرض باوا صاحب نے یہ نکتہ معرفت قرآن شریف سے لیا ہے کیونکہ دوسری تمام قو میں اس سے غافل ہیں اور ان کے عقیدے اس کے برخلاف ہیں.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۲، ۲۲۳) قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لزامات کافروں کو کہہ کہ اگر تم خدا کی بندگی نہ کرو تو وہ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے.سو تم نے بجائے طاعت اور بندگی کے جھٹلانا اختیار کیا سو عنقریب اس کی سزا تم پر وارد ہونے والی ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۲ حاشیه ) چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار ہو جاتے ہیں.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ - إِنَّ اللَّهَ لَغَنِى عَنِ الْعَلَمِينَ (ال عمران : ۹۸ ) یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پر واہ کیا رکھتا ہے اگر تم دعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو.خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں.وہ تو بے نیاز مطلق ہے.برائین احمد یہ چہار شخص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۴،۵۶۳ حاشیه ۱۱) ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پر واہ کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۴) ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیار کھتا ہے اگر تم بندگی نہ کرو اور دعاؤں میں مشغول نہ رہو.مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۲۸) ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جاؤ اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پروا کیا رکھتا ہے اور سچ ہے کہ جب انسان غافلانہ زندگی بسر کرے اور اس کے دل پر خدا کی عظمت کا کوئی رعب نہ ہو اور بے قیدی اور دلیری کے ساتھ اس کے تمام اعمال ہوں تو ایسے انسان سے ایک بکری بہتر ہے جس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتا ہے اور کھال بھی بہت سے کاموں

Page 228

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آجاتی ہے.۱۹۶ سورة الفرقان ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۵۱) ان لوگوں کی نسبت ( جو خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی یا پروانہیں کرتے اور اپنی زندگی فسق و فجور میں گزارتے ہیں ) فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُم یعنی میرا رب تمہاری کیا پروا کرتا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۱) انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بریکار کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ.میں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں.شرقا غربا اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیٹر پر مسلط ہے ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے.میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.غرض خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پروا کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے.جیسے کلور ا فارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے.اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۱ صفحه ۱) (رسالہ انذار ۶۳) ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم میری بندگی نہ کرو تو پرواہ کیا ہے.جانوروں کی زندگی دیکھ لو کہ منتیں ان سے لی جاتی ہیں اور ان کو ذبح کیا جاتا ہے پس جو انسان خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرتا ہے اس کی زندگی کی ضمانت نہیں رہتی چنانچہ فرمایا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی اگر تم اللہ کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پر واہ ہی کیا رکھتا ہے.رکھتا.یا درکھو جو دنیا کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں یا اس سے تعلق نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ ان کی کچھ پرواہ نہیں الحکم جلد ۴ نمبر ۳۶ مورخه ۱/۱۰اکتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۳)

Page 229

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة الفرقان کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پروا کرتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۴) انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں اور نوع انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور خدا کے بچے فرماں بردار ہیں.چنانچہ قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ اس کے مفہوم مخالف سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسروں کی پروا کرتا ہے اور وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سعادت مند ہوتے ہیں.وہ تمام کسریں ان کے اندر سے نکل جاتی ہیں جو خدا سے دور ڈال دیتی ہیں اور جب انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے اور خدا سے صلح کر لیتا ہے تو خدا اس کے عذاب کو بھی ٹلا دیتا ہے خدا کو کوئی ضد تو نہیں چنانچہ اس کے متعلق بھی صاف طور پر فرمایا ہے مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُهُ (النساء : ۱۴۸) یعنی خدا نے تم کو عذاب دے کر کیا کرنا ہے اگر تم الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۶) دین دار ہو جاؤ.مومن 99991 شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمُ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُفر.خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو.یہ آیت بھی....مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ (الذاریات : ۵۷) ہی کی شرح ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶) جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از ببر خوردن است اس وقت اس کی نظر (ذکر.ناقل ) پر نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خیال بھی نہیں رہتا اس وقت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی میرا رب تمہاری پر واہ کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی بندگی نہ کرو.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ارستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۴) خدا تعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھویا نہ.وہ فرماتا ہے قُلْ مَا

Page 230

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۸ سورة الفرقان يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَولا دُعاؤ گھر اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہوگا.(البدر جلد ۴ نمبر ۳ مورخه ۲۰ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) خدا دین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پروا نہیں کرتا.پس ثابت ہوا کہ جو دین سے غافل نہ ہوں ان کی ہلاکت اور موت میں خدا جلدی نہیں کرتا.(الحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۵ صفحه ۵) بڑے بڑے صریح ظلم مظلوموں پر ڈھائے جاتے ہیں اور ہمارے سامنے ظالموں سے کوئی چنداں باز پرس نہیں ہوتی.اس کا باعث بھی خدا تعالیٰ نے اسی آیت میں فرمایا ہے مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی خدا کو تمہاری پر وا کیا ہے اگر تم دعاؤں اور عبادت الہی میں تغافل اختیار کرو.القام جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۰۵ صفحه ۵) اگر خدا تعالیٰ کی طرف انسان جھکے تو وہ رحم کرتا ہے لیکن جب انسان لا پرواہی کرے تو وہ فنی بے نیاز ہے.اس کو کسی کی کیا پرواہ ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ لوگوں کو کہہ دے اگر تم دعا نہ کرو تو میرے رب کو تمہاری کیا پرواہ ہے بے شک وہ کریم ، رحیم اور حلیم ہے مگر ساتھ ہی وہ معنی بے نیاز بھی ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۳) مورکھ ہے وہ انسان جو اس ضروری سفر کا کچھ بھی فکر نہیں رکھتا.خدا تعالیٰ اس شخص کی عمر کو بڑھا دیتا ہے جو سچ مچ اپنی زندگی کا طریق بدل کر خدا تعالی کا ہی ہو جاتا ہے ورنہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان کو کہہ دو کہ خدا تعالیٰ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی بندگی اور عبادت نہ کرو.سو جاگنا چاہیے اور ہوشیار ہونا چاہیے اور غلطی نہیں کھانا چاہیے کہ یہ گھر سخت بے بنیاد ہے.الحکم جلد نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۱۳) یہ امر بھی بھی یا در رکھنا چاہیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو اور رجوع نہ کرو تو اس سے اس کی ذات میں کوئی نقص پیدا نہیں ہو سکتا اور وہ تمہاری کچھ بھی پروا نہیں رکھتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان کو کہہ دو کہ میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم سچے دل سے اس کی عبادت نہ کرو جیسا کہ وہ رحیم وکریم ہے ویسا ہی وہ فنی بے نیاز بھی ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۶) دعا میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي لَو لَا دُعَاؤُكُمْ.ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں اور چار پائے میں کچھ فرق نہیں.احکام جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ر تمبر ۱۹۰۷ صفحه ۶)

Page 231

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيُطنِ الرَّحِيمِ ١٩٩ سورة الشعراء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الشعراء بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ) کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۸ حاشیه ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہایت درجہ کا یہ جوش تھا کہ میں اپنی زندگی میں اسلام کا زمین پر پھیلنا دیکھ لوں اور یہ بات بہت ہی نا گوار تھی کہ حق کو زمین پر قائم کرنے سے پہلے سفر آخرت پیش آوے.سو خدا تعالیٰ اس آیت میں (یعنی اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ.....الخ.ناقل ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دیتا ہے کہ دیکھ میں نے تیری مراد پوری کر دی اور کم و بیش اس مراد کا ہر یک نبی کو خیال تھا مگر چونکہ اس درجہ کا جوش نہیں تھا اس لئے نہ مسیح کو اور نہ موسیٰ کو یہ خوشخبری ملی بلکہ اسی کو ملی جس کے حق میں قرآن میں فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جاوے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.( نور القرآن نمبر ا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۵،۳۵۴ حاشیه ) کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۳)

Page 232

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشعراء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جور و جفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ....کیا تو اس غم اور اس سخت محنت میں جولوگوں کے لئے اٹھارہا ہے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا......سو قوم کی راہ میں جان دینے کا حکیمانہ طریق یہی ہے کہ قوم کی بھلائی کے لئے قانونِ قدرت کی مفید راہوں کے موافق اپنی جان پر سختی اٹھا دیں اور مناسب تدبیروں کے بجالانے سے اپنی جان ان پر فدا کر دیں نہ یہ کہ قوم کوسخت بلا یا گمراہی میں دیکھ کر اور خطر ناک حالت میں پا کر اپنے سر پر پتھر مارلیس یا دوتین رتی اسٹر کنیا کھا کر اس جہان سے رخصت ہو جا ئیں اور پھر گمان کریں کہ ہم نے اپنی اس حرکت بیجا سے قوم کو نجات دے دی ہے.یہ مردوں کا کام نہیں زنانہ خصلتیں ہیں اور بے حوصلہ لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے کہ مصیبت کو قابل برداشت نہ پا کر جھٹ پٹ خود کشی کی طرف دوڑتے ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۹،۴۴۸) ہر ایک نبی کی یہ مرا تھی کہ تمام کفار ان کے زمانہ کے جو ان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے فرما یا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اللَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانگا ہی اور سوز وگداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لا پروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی ( علیہ السلام ) جس قدر تو عقدِ ہمت اور کامل توجہ اور سوز و گداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے.تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لا پروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دعا قبول نہیں ہوگی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۲۲۶)

Page 233

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورة الشعراء یہ نور ہدایت جو خارقِ عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی سوزش کی تاثیر تھی.ہر ایک قوم توحید سے دور اور مہجور ہو گئی مگر اسلام میں چشمہ توحید جاری رہا.یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے.پس پہلے نبیوں کی امت میں جو اس درجہ کی صلاح و تقویٰ پیدا نہ ہوئی اس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دل سوزی امت کے لئے ان نبیوں میں نہیں تھی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد صفحه ۱۰۳ حاشیه ) نبی بوجہ اس کے کہ ہمدردی بنی نوع کا اس کے دل میں کمال درجہ پر جوش ہوتا ہے اپنی روحانی تو جہات اور تضرع اور انکسار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا جو اس پر ظاہر ہوا ہے دوسرے لوگ بھی اس کو شناخت کریں اور نجات پاویں اور وہ دلی خواہش سے اپنے وجود کی قربانی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس تمنا سے کہ لوگ زندہ ہو جائیں کئی موتیں اپنے لئے قبول کر لیتا ہے اور بڑے مجاہدات میں اپنے تئیں ڈالتا ہے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنینَ یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ کا فرلوگ کیوں ایمان نہیں لاتے تب اگر چہ خدا مخلوق سے بے نیاز اور مستغنی ہے مگر اس کے دائمی غم اور حزن اور کرب و قلق اور تذلل اور نیستی اور نہایت درجہ کے صدق اور صفا پر نظر کر کے مخلوق کے مستعد دلوں پر اپنے نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دیتا ہے اور اس کی پر جوش دعاؤں کی تحریک سے جو آسمان پر ایک صعبناک شور ڈالتی ہیں خدا تعالیٰ کے نشان زمین پر بارش کی طرح برستے ہیں اور عظیم الشان خوارق دنیا کے لوگوں کو دکھلائے جاتے ہیں جن سے دنیا دیکھ لیتی ہے کہ خدا ہے اور خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے لیکن اگر وہ پاک نبی اس قدر دعا اور تضرع اور ابتہال سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرتا اور خدا کے چہرہ کی چمک دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے اپنی قربانی نہ دیتا اور ہر ایک قدم میں صدہا موتیں قبول نہ کرتا تو خدا کا چہرہ دنیا پر ہرگز ظاہر نہ ہوتا کیونکہ خدا تعالی بوجہ استغناء ذاتی کے بے نیاز ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۷) چونکہ (حقانی ریفارمر.ناقل ) بنی نوع کی ہمدردی میں محو ہوتے ہیں اس لئے رات دن سوچتے رہتے ہیں اور اس فکر میں گڑھتے رہتے ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اس راہ پر آجائیں اور ایک بار اس چشمہ سے ایک

Page 234

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشعراء گھونٹ پی لیں یہ ہمدردی یہ جوش ہمارے سید و مولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں غایت درجہ کا تھا اس سے بڑھ کر کسی دوسرے میں ہو سکتا ہی نہیں.چنانچہ آپ کی ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم تھا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نقشہ کھینچ کر دکھایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنینَ یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس غم میں کہ یہ کیوں مومن نہیں ہوتے.اس آیت کی حقیقت آپ پورے طور پر نہ سمجھ سکیں تو جدا امر ہے غم مگر میرے دل میں اس کی حقیقت یوں پھرتی ہے جیسے بدن میں خون سے بدل درد یکه دارم از برائے طالبان حق نمی گردد بیان آن درد از تقریر کوتاهم میں خوب سمجھتا ہوں کہ ان حقانی واعظوں کو کس قسم کا جانگز اور داصلاح خلق کا لگا ہوا ہوتا ہے.الخام جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) نبی کا آنا ضروری ہوتا ہے.اس کے ساتھ قوت قدی ہوتی ہے اور ان کے دل میں لوگوں کی ہمدردی نفع رسانی اور عام خیر خواہی کا بیتاب کر دینے والا جوش ہوتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس خیال سے کہ وہ مومن نہیں ہوتے اس کے دو پہلو ہیں.ایک کافروں کی نسبت کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے ، دوسرا مسلمانوں کی نسبت کہ ان میں وہ اعلیٰ درجہ کی روحانی قوت کیوں نہیں پیدا ہوتی جو آپ پاتے ہیں.چونکہ ترقی تدریجا ہوتی ہے اس لئے صحابہ کی ترقیاں بھی تدریجی طور پر ہوئی تھیں مگر انبیاء کے دل کی بناوٹ بالکل ہمدردی ہی ہوتی ہے اور پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جامع جمیع کمالات نبوت تھے آپ میں یہ ہمدردی کمال درجہ پر تھی آپ صحابہ کو دیکھ کر چاہتے تھے کہ پوری ترقیات پر پہنچیں لیکن یہ عروج ایک وقت پر مقدر تھا آخر صحابہ نے وہ پایا جو دنیا نے بھی نہ پایا تھا اور وہ دیکھا جو کسی نے نہ دیکھا تھا.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۶ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۰ ء صفحه ۶) یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسالت میں ایک امر ظاہر ہوتا ہے اور ایک مخفی ہوتا ہے.مثلاً لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ایک کلمہ ہے جسے رسالت مآب نے بایں الفاظ لوگوں کو پہنچادیا ہے لوگ مانیں یا نہ مانیں یعنی رسالت کا کام صرف پہنچا دینا تھا مگر رسالت کے یہ ظاہری معنے ہیں.ہم جب اور زیادہ غور کر کے بطون کی طرف جاتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت جو لا إله إلا الله کے ساتھ بطور ایک جز و غیر منفک کے شامل ہوئی ہے.یہ صورت ابلاغ تک ہی محدود نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 235

سورة الشعراء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی قوت قدسیہ کے زور سے اس تبلیغ کو بااثر بنانے میں لانظیر نمونہ دکھلایا ہے اور قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ کو کس قدر سوزش اور گدازش لگی ہوئی تھی چنانچہ فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اس فکر میں کہ یہ مومن کیوں نہیں بنتے.یہ پکی بات ہے کہ ہر نبی صرف لفظ لے کر نہیں آتا بلکہ اپنے اندر وہ ایک درد اور سوز و گداز بھی رکھتا ہے جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے اور یہ درد اور اضطراب کسی بناوٹ سے نہیں ہوتا بلکہ فطرتا اضطراری طور پر اس سے صادر ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں مصروف ہوتی ہے.اگر بادشاہ کی طرف سے اس کو حکم بھی دیا جاوے کہ اگر وہ اپنے بچے کو دودھ نہ بھی دے اور اس طرح پر اس کے ایک دو بچے مر بھی جاویں تو اس کو معاف ہیں اور اسے کوئی باز پرس نہ ہوگی تو کیا بادشاہ کے ایسے حکم پر کوئی ماں خوش ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ! بلکہ بادشاہ کو گالیاں دے گی.وہ دودھ دینے سے رک سکتی ہی نہیں.یہ بات اس کی طبیعت میں طبعاً موجود ہے اور دودھ دینے میں اس کو کبھی بھی بہشت میں جانا یا اس کا معاوضہ پانامرکوز اور ملحوظ نہیں ہوتا اور یہ جوش طبعی ہے جو اس کو فطرت نے دیا ہے ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو چاہیے تھا کہ جانوروں کی مائیں بکری، بھینس یا گائے یا پرندوں کی مائیں اپنے بچوں کی پرورش سے علیحدہ ہو جاتیں.ایک فطرت ہوتی ہے، ایک عقل ہوتی ہے اور ایک جوش ہوتا ہے.ماؤں کا اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف ہونا یہ فطرت ہے.اسی طرح پر مامورین جو آتے ہیں ان کی فطرت میں بھی ایک بات ہوتی ہے.وہ کیا ؟ مخلوق کے لئے دلسوزی اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے لئے ایک گدازش.وہ طبعی طور پر چاہتے ہیں کہ لوگ ہدایت پا جاویں اور خدا تعالیٰ میں زندگی حاصل کریں.پس یہ وہ سر ہے جو لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کے دوسرے حصہ میں یعنی اظہار رسالت میں رکھا ہوا ہے جیسے پیغام پہنچانے والے عام طور پر پیغام پہنچا دیتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو.گویا وہ تبلیغ صرف کان ہی تک محدود ہوتی ہے.برخلاف اس کے مامورانِ الہی کان تک بھی پہنچاتے ہیں اور اپنی قوت قدسی کے زور اور ذریعہ سے دل تک بھی پہنچاتے ہیں اور یہ بات کہ جذب اور عقید ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالی کی چادر کے نیچے آجاتا ہے اور فضل اللہ بنتا ہے پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورمحه ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵)

Page 236

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة الشعراء آپ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی ایک تو مکی زندگی جو ۱۳ برس کے زمانہ کی ہے اور دوسری وہ زندگی ہے جو مدنی زندگی ہے اور وہ ۱۰ برس کی ہے.مکہ کی زندگی میں اسم احمد کی بجلی تھی اس وقت آپ کی دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و بکا اور طلب استعانت اور دعا میں گزرتی تھی اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرع اور زاری آپ نے اس کی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا.پھر آپ کی تضرع اپنے لئے نہ تھی بلکہ یہ تضرع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی.خدا پرستی کا نام ونشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپ کی روح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور سرور آ چکا تھا اور فطرتاً دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے ادھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعداد میں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقع ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا.غرض دنیا کی اس حالت پر آپ گریہ وزاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ کہ جان نکل جاتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنینَ.یہ آپ کی منتضر عانہ زندگی تھی اور اسم احمد کا ظہور تھا.اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے.اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمد کی تعلی کے وقت ہوا جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ (ابراهيم : ۱۶) الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۴) مامور من اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوتی ہے اور جماعت سے بھی.اس ہمدردی میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے کہ آپ کل دنیا کے لئے مامور ہو کر آئے تھے اور آپ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الزمان کے طور پر تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا اور ہمیشہ کے لئے نبی تھے اس لئے آپ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ اس کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی فکر میں اپنی جان دے دے گا.اس آیت سے اس درد اور فکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپ کو دنیا کی تبہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے.یہ تو آپ کی عام ہمدردی کے لئے ہے اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی فکر میں تو اپنی جان دے دے گا یعنی ایمان کو کامل بنانے میں.

Page 237

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الشعراء اسی لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ (النساء : ١٣٧) بظاہر تو یتحصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب حقیقت حال پر غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالی تکمیل چاہتا ہے.غرض ما مور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اس سے متاثر ہوتا ہے.الحاکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحہ ۷) میں تو زبان ہی سے کہتا ہوں دل میں ڈالنا یہ خدا کا کام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانے میں کیا کسر باقی رکھی تھی ؟ مگر ابو جہل اور اس کے امثال نہ سمجھے.آپ کو اس قدر فکر اور غم تھا کہ خدا نے خود فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اللَّا يَكُونُوا مُؤْمِنین اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہمدردی تھی.آپ چاہتے تھے کہ وہ ہلاک ہونے سے بچ جاویں مگر وہ بیچ نہ سکے حقیقت میں معلم اور واعظ کا تو اتنا ہی فرض ہے کہ وہ بتا دے.دل کی کھٹڑ کی تو خدا کے فضل سے کھلتی ہے نجات اسی کو ملتی ہے جو دل کا صاف ہو.جو صاف دل نہیں وہ اچکا اور ڈاکو ہے خدا تعالیٰ اسے بری طرح مارتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۶ مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶) کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا یعنی ان کی فطرت میں حضرت احدیت نے بندگانِ خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے.پس وہی عشق کی آگ ان سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر ان کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غم خواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں.تب بھی وہ اپنے اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتے اور ان کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو اس جانکنی سے کیا اجر ملے گا کیونکہ ان کے جوشوں کی بناء کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اٹھاتا ہے اس سے تیری جان جاتی رہے گی.سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی.پس حقیقی پیری مریدی کا یہی احوال ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی احوال ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غم خوار بننے کے لئے لائق ٹھہریں جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتے ہیں تو ان کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی

Page 238

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ سورة الشعراء استعداد زیادہ رکھتی ہے اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکیم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خدا وند کریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگ جو لوگوں کی ضرورت ہے سو بعض فطرتیں جنگ جوئی کی استعداد رکھتی ہیں.اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے.سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے پرخی کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں فالحَمدُ لِلهِ عَلَى الْآلَاءِ ظَاهِرِهَا وَبَاطِيها - (احکم جلد ۲ نمبر ۲۵،۲۴ مورخه ۲۰-۲۷ /اگست ۱۸۹۸ صفحه ۱۲) انبیاء خلقت کی ہدایت کے واسطے بہت توجہ کرتے ہیں.اس کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے كه لعلك باخع نفسك آنحضرت کو مخلوق کی ہدایت کا اس قدر غم تھا کہ قریب تھا کہ اسی میں اپنے آپ کو ( بدر جلد نمبر ۱۷ مورخہ ۲۷ / جولائی ۱۹۰۵ء صفحه ۲) ہلاک کر دیں.یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ ایک طرف انبیاء ورسل اور خدا تعالیٰ کے مامورین اہلِ دنیا سے نفور ہوتے ہیں اور دوسری طرف مخلوق کے لئے ان کے دل میں اس قدر ہمدردی ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے لئے بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اور خود ان کی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے لعلك بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ياس قدر ہمدردی اور خیر خواہی ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں فرمایا ہے کہ تو ان لوگوں کے مومن نہ ہونے کے متعلق اس قدر ہم و غم نہ کر.اس غم میں شاید تو اپنی جان ہی دے دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمدردی مخلوق میں کہاں تک بڑھ جاتے ہیں.اس قسم کی ہمدردی کا نمونہ کسی اور میں نہیں پایا جاتا یہاں تک کہ ماں باپ اور دوسرے اقارب میں بھی ایسی ہمدردی نہیں ہو سکتی.(الحکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳) وَلَهُمْ عَلَى ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ.خدا کے نبی شہرت پسند نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے تئیں چھپانا چاہتے ہیں مگر الہی حکم انہیں باہر نکالتا ہے.دیکھو حضرت موسی کو جب مامور کیا جانے لگا تو انہوں نے پہلے عرض کیا کہ ہارون مجھ سے زیادہ اصح ہے پھر کہا وَلَهُمْ عَلَى ذنب مگر الہی منشاء یہی تھا کہ وہی نبی بنیں اور وہی اس لائق تھے اس لئے حکم ہوا کہ ہم تمہارے

Page 239

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساتھ ہیں تم جاؤ اور تبلیغ کرو.۲۰۷ سورة الشعراء ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۹ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۵) وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكَفِرِينَ.چونکہ خدا کی غیرت عام طور پر اپنے بندوں کو انگشت نما نہیں کرنا چاہتی اس لئے جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا اپنے خاص اور پیارے بندوں کو بیگانہ آدمیوں کی نظر سے کسی نہ کسی ظاہری اعتراض کے نیچے لا کر محجوب اور مستور کر دیتا ہے تا اجنبی لوگوں کی ان پر نظر نہ پڑ سکے اور تا وہ خدا کی غیرت کی چادر کے نیچے پوشیدہ رہیں یہی وجہ ہے کہ سیدنا ومولنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کامل انسان پر جو سراسر نور مجسم ہیں اندھے پادریوں اور نادان فلسفیوں اور جاہل آریوں نے اس قدر اعتراض کئے ہیں کہ اگر وہ سب اکٹھے کئے جائیں تو تین ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہیں پھر کسی دوسرے کو کب امید ہے کہ مخالفوں کے اعتراض سے بچ سکے.اگر خدا چاہتا تو ایسا ظہور میں نہ آتا مگر خدا نے یہی چاہا کہ اس کے خاص بندے دنیا کے فرزندوں کے ہاتھ سے دکھ دیئے جائیں اور ستائے جائیں اور ان کے حق میں طرح طرح کی باتیں کہی جائیں اسی طرح انجیل سے ثابت ہے کہ بد قسمت یہودیوں نے حضرت عیسی کو بھی کافر اور مکار اور گمراہ اور گمراہ کرنے والا اور فریبی ٹھہرایا یہاں تک کہ ایک چور کو ان پر ترجیح دی.ایسا ہی فرعون نے بھی حضرت موسی کو کا فرکر کے پکارا جیسا کہ قرآن شریف میں فرعون کا یہ کلمہ درج ہے وَ فَعَلْتَ فَعَلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَ انْتَ مِنَ الْكَفِرِينَ يعنى اے موسیٰ جو کام تو نے کیا وہ کیا اور تو تو کافروں میں سے ہے.پس یہ کفر عجیب کفر ہے کہ ابتداء سے تمام رسول اور نبی وراثت کے طور پر نادانوں کی زبان سے اس کو لیتے آئے یہاں تک کہ آخری حصہ اس کا ہمیں بھی مل گیا پس ہمارے لئے یہ فخر کی جگہ ہے کہ ہم اس حصہ سے کہ جو نبیوں اور رسولوں اور صدیقوں کو قدیم سے ملتا آیا ہے محروم نہ رہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ کئی گذشتہ نبیوں کی نسبت یہ حصہ ہمیں زیادہ ملا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۶، ۳۴۷) فَلَمَّا تَرَاءَ الْجَمْعِنِ قَالَ أَصْحَبُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ قَالَ كَلَّا ۚ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِين جس طرح کھا نگر بھینس کا دودھ نکالنا بہت مشکل ہے اسی طرح سے خدا کے نشان بھی سخت تکلیف کی

Page 240

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة الشعراء وو حالت میں اترا کرتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل نے کہا تھا اِنَّا لَبُدُركُونَ.وہ ایسا سخت مشکل کا وقت تھا کہ آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ان کو موت ہی موت نظر آتی تھی.سامنے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر.اس وقت موسی نے جواب دیا " كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِین “.پس ایسی ضرورتوں اور ابتلاء کے اوقات میں نشان ظاہر ہوا کرتے ہیں جب کہ ایک قسم کی جان کندنی پیش آجاتی ہے.چونکہ خدا کا نام غیب ہے اس لئے جب نہایت ہی اشد ضرورت آبنتی ہے تو امور غیبیہ ظاہر ہوا کرتے ہیں.البدر جلد نمبر ۲ مورخه ۷ /نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئے تو ان کو پہلے مصر میں فرعون نے یہ کام دیا ہوا تھا کہ وہ آدھے دن اینٹیں پا تھا کریں اور آدھے دن اپنا کام کیا کریں.لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو نجات دلانے کی کوشش کی تو پھر شریروں کی شرارت سے بنی اسرائیل کا کام بڑھا دیا گیا اور انہیں حکم ملا کہ آدھے دن تو تم اینٹیں پا تھا کرو اور آدھے دن گھاس لایا کرو.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب یہ حکم ملا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سنایا تو وہ بڑے ناراض ہوئے اور کہا اے موسیٰ خدا تم کو وہ دیکھ دے.جو ہم کو ملا ہے.اور بھی انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بد دعائیں دیں مگر موسیٰ علیہ السلام نے ان کو یہی کہا کہ تم صبر کرو.تورات میں یہ سارا قصہ لکھا ہے کہ جوں جوں موسی انہیں تسلی دیتے تھے وہ اور بھی افروختہ ہوتے تھے.آخر یہ ہوا کہ مصر سے بھاگ نکلنے کی تجویز کی گئی اور مصر والوں کے کپڑے اور برتن وغیرہ جو لئے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے.جب حضرت موسیٰ قوم کو لے کر نکل آئے تو فرعون نے اپنے لشکر کو لے کر ان کا تعاقب کیا.بنی اسرائیل نے جب دیکھا کہ فرعونیوں کا لشکر ان کے قریب ہے تو وہ بڑے ہی مضطرب ہوئے.چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اس وقت وہ چلائے اور کہا انا لمدركون اے موسیٰ ہم تو پکڑے گئے مگر موسیٰ نے جو نبوت کی آنکھ سے انجام کو دیکھتے تھے انہیں یہی جواب دیا لا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ ہر گز نہیں.میرا رب میرے ساتھ ہے.تورات میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا مصر میں ہمارے لئے قبریں نہ تھیں.اور یہ اضطراب اس وجہ سے پیدا ہوا کہ پیچھے فرعون کا لشکر اور آگے دریائے نیل تھا.وہ دیکھتے تھے کہ نہ پیچھے جا کر بچ سکتے ہیں اور نہ آگے جا کر.مگر اللہ تعالیٰ قادر مقتدر خدا ہے.دریائے نیل میں سے انہیں راستہ مل گیا اور سارے بنی اسرائیل آرام کے ساتھ پار ہو گئے مگر فرعونیوں کا لشکر غرق ہو گیا.سید احمد خاں صاحب اس موقع پر لکھتے ہیں کہ یہ جوار بھاٹا تھا مگر ہم کہتے ہیں کہ کچھ ہو اس میں کوئی

Page 241

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الشعراء شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو ایسے وقت پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راہ پیدا کر دی اور یہی متقی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر ضیق سے اسے نجات اور راہ ملتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۱) ان معيَ رَبِّي سَيَهْدِین میرے ساتھ میرا رب ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا.اِنَّ (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۲، ۶۱۳ حاشیه ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنَّ اللهَ مَعَنا.اس معیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اور گو یا کل جماعت آپ کی آگئی.موسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا ان معى رتی.اس میں کیا سر تھا کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ معیت کا اظہار کیا؟ اس میں یہ راز ہے کہ اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی قوم شریر اور فاسق فاجر تھی.آئے دن لڑنے اور پتھر مارنے کو تیار ہو جاتی تھی اس لئے ان کی طرف معیت کو منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی ذات تک اسے رکھا.اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور علو مدارج کا اظہار مقصود ہے.تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷) (برائین احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) یہ میرے ساتھ میرا خدا ہے وہ مخلصی کی کوئی راہ دکھا دے گا.یہ قرآن شریف میں حضرت موسی کے قصہ میں ہے جبکہ فرعون نے ان کا تعاقب کیا تھا اور بنی اسرائیل نے سمجھا تھا کہ اب ہم پکڑے گئے.وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ) براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹۸) اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اللہ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا خود اس کا علاج کرتا ہے.بھلا کوئی دعوے سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں دوا سے فلاں مریض ضرور ہی شفا پا جاوے گا ہرگز نہیں بلکہ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ دوا الٹا ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے.اور ان

Page 242

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة الشعراء علاجوں میں سود ہندے ہوتے ہیں بعض وقت تشخیص میں غلطی ہوتی ہے بعض وقت دواؤں کے اجزاء میں غلطی ہو جاتی ہے.غرض حتمی علاج نہیں ہو سکتا.ہاں خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی علاج ہوتا ہے اس سے نقصان نہیں ہوتا مگر ذرا یہ بات مشکل ہے کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے.ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ خود معالج ہوتا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دانت میں سخت دردتھا میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے.اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے علاج دنداں اخراج دنداں.اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گزرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمت الہی ہے اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے.اس فکر میں تھا کہ غنودگی آئی تو زبان پر جاری ہواو اذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ اس کے ساتھ ہی معاً (البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ /نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۸) در دھہر گیا اور پھر نہیں ہوا.وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ و (۸۲) وہ خدا جو مجھے مارتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے.اس موت اور حیات سے مراد صرف جسمانی موت اور حیات نہیں بلکہ اس موت اور حیات کی طرف اشارہ ہے جو سالک کو اپنے مقامات و منازل سلوک میں پیش آتی ہے چنانچہ وہ خلق کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور خالق حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر اپنے رفقاء کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور رفیق اعلیٰ کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر اپنے نفس کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور محبوب حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے.اسی طرح کئی موتیں اس پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور کئی حیاتیں.یہاں تک کہ کامل حیات کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے سودہ کامل حیات جو اس سفلی دنیا کے چھوڑنے کے بعد ملتی ہے وہ جسم خاکی کی حیات نہیں بلکہ اور رنگ اور شان کی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۲) حیات ہے.لا وَاخْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ وَبُرِزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَوِينَ اس درجہ سے او پر جو ابھی ہم نے بہشتیوں اور دوزخیوں کے لئے بیان کیا ہے ایک اور درجہ دخول جنت دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہیے اور وہ حشر اجساد کے بعد اور جنت عظمی یا جہنم کبری میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہوتا ہے اور بوجہ تعلق جسد کامل قوئی میں ایک اعلیٰ درجہ کی تیزی پیدا ہو کر اور خدائے تعالیٰ کی

Page 243

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢١١ سورة الشعراء تجلی رحم یا تجلی قہر کا حسب حالت اپنے کامل طور پر مشاہد ہو کر اور جنت عظمی کو بہت قریب پاکر یا جہنم کبری کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیر ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے وَازْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ وَ بُرْزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَرِينَ وُجُوهٌ يَوْمَةٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ وَ وُجُوهُ - يَوْمَةٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ أُولَبِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ( عبس : ۳۹ تا ۴۳).اس دوسرے درجہ میں بھی لوگ مساوی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں جو بہشتی ہونے کی حالت میں بہشتی انوار اپنے ساتھ رکھتے ہیں....ایسا ہی دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں ان کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے.وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُم جَبَّارِينَ ) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۴) راقم اس رسالہ نے ایک درویش کو دیکھا کہ وہ سخت گرمی کے موسم میں یہ آیت قرآنی پڑھ کر وَاذَا بطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِین زنبور کو پکڑ لیتا تھا اور اس کی نیش زنی سے نکلی محفوظ رہتا تھا اور خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جل شانہ معلوم سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه (۱۰۰) ہوتے ہیں.وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو.یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈا کہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) بِلِسَانٍ عَرَبِيَّ مُّبِينٍ (١٩٦ فصاحت اور بلاغت کے بارہ میں فرمایا بلسان عربي مبين اور پھر اس کی نظیر مانگی اور کہا کہ اگر تم کچھ کر سکتے ہو اس کی نظیر دو.پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اور کیا معنے ہو سکتے ہیں.خاص کر

Page 244

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة الشعراء جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اس کی نظیر پیش کرو تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مبین کا لفظ بھی اسی کو چاہتا ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۹۱) اور یہ کتاب عربی فصیح بلیغ میں ہے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۹) وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۱۵) ہر وقت انسان کو فکر کرنی چاہیے کہ جس طرح ممکن ہو عورتوں اور مردوں کو اس امیر الہی سے اطلاع کر دیوے.حدیث میں آیا ہے کہ اپنے قبیلہ کا شیخ اسی طرح سوال کیا جائے گا جیسے کسی قوم کا نہیں.غرض جو موقع مل سکے اسے کھونا نہیں چاہیے.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کا حکم ہوا تو آپ نے نام بنام سب کو خدا کا پیغام پہنچادیا.ایسا ہی میں نے بھی کئی مرتبہ عورتوں اور مردوں کو مختلف موقعوں پر تبلیغ کی ہے اور اب بھی کبھی گھر میں وعظ سنایا کرتا ہوں.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ) الَّذِى يَرْبكَ حِينَ تَقُومُ وَ تَقَلُّبَكَ فِي لا السجدين (٢٢٠) خدا پر توکل کر جو غالب اور رحم کرنے والا ہے.وہی خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو دعا اور دعوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے.وہی خدا جو تجھے اس وقت دیکھتا تھا کہ جب تو تخم کے طور پر راست بازوں کی پشتوں میں چلا آتا تھا.یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ معصومہ کے پیٹ میں پڑا.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۸۱) هَلْ أَنَنتُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكٍ أَثِيمٍ واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض نا تمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ قرآن شریف کی مخالفت کرتا

Page 245

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۳ سورة الشعراء ہے کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہو سکتا ہے اور وہ آیت عَلى كُلِّ آفَاكِ اشیم کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلا توقف مطلع کیا جاتا ہے.ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸۳، ۴۸۴) کیا میں بتلاؤں کہ کن پر شیطان اترا کرتے ہیں.ہر ایک جھوٹے مفتری پر اترتے ہیں.انجام آنتم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۵۲) کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اترا کرتے ہیں.ہر ایک جھوٹے مفتری پر اترتے ہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۶) یادر ہے کہ رحمانی الہام اور وحی کے لئے اول شرط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اس میں نہ رہے کیونکہ جہاں مردار ہے ضرور ہے کہ وہاں کتے بھی جمع ہو جائیں اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ب هَلْ أَتَيْتُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيطِيْنُ - تَنَزَلُ عَلى كُلِّ أَفَاكِ أثِيم.مگر جس میں شیطان کا حصہ نہیں رہا اور وہ سفلی زندگی سے ایسا دور ہوا کہ گویا مر گیا اور راست باز اور وفادار بندہ بن گیا اور خدا کی طرف آگیا اس پر شیطان حملہ نہیں کر سکتا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۲) کیا میں تم کو یہ خبر دوں کہ جنات کن لوگوں پر اترا کرتے ہیں.جنات انہیں پر اترا کرتے ہیں کہ جو دروغ گو اور معصیت کا رہیں.يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَذِبُونَ (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۶ حاشیه ) اورا اور اکثر ان کی پیشینگوئیاں جھوٹی ہوتی ہیں.(برائین احمد یہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۶ حاشیه ) لا وَالشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوْنَ اَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ وَ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَذَكَرُوا اللهَ كَثِيرًا و انْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَلَى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.اور شاعروں کی پیروی تو وہی لوگ کرتے ہیں کہ جو گمراہ ہیں کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شاعر لوگ قافیہ اور

Page 246

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة الشعراء ردیف کے پیچھے ہر یک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی کسی حقانی صداقت کے پابند نہیں رہتے اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ ان کا مرجع اور مآب کون سی جگہ ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۶ حاشیہ نمبر۱۱) شاعر تو اگر مر بھی جاویں تو صداقت اور راستی و ضرورت حقہ کا اپنے کلام میں التزام نہ کر سکیں وہ تو بغیر فضول گوئی کے بول ہی نہیں سکتے اور ان کی ساری کل فضول اور جھوٹ پر ہی چلتی ہے.اگر جھوٹ نہیں یا فضول گوئی نہیں تو پھر شعر بھی نہیں.اگر تم ان کا فقرہ فقرہ تلاش کرو کہ کس قدر حقائق دقائق ان میں جمع ہیں کس قدر راستی اور صداقت کا التزام ہے.کس قدر حق اور حکمت پر قیام ہے.کس ضرورت حقہ سے وہ باتیں ان کے منہ سے نکلی ہیں اور کیا کیا اسرار بیشل و مانند ان میں لیٹے ہوئے ہیں تو تمہیں معلوم ہو کہ ان تمام خوبیوں میں سے کوئی بھی خوبی ان کی مردہ عبارات میں پائی نہیں جاتی.ان کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ جس طرف قافیہ ردیف ملتا نظر آیا اسی طرف جھک گئے اور جو مضمون دل کو اچھا لگا وہی جھک ماری.نہ حق اور حکمت کی پابندی ہے اور نہ فضول گئی سے پر ہیز ہے اور نہ یہ خیال ہے کہ اس کلام کے بولنے کے لئے کون سی سخت.ضرورت درپیش ہے اور اس کے ترک کرنے میں کون سا سخت نقصان عائد حال ہے ناحق بے فائدہ فقرہ سے فقرہ ملاتے ہیں.سر کی جگہ پاؤں، پاؤں کی جگہ سر لگاتے ہیں.سراب کی طرح چمک تو بہت ہے پر حقیقت دیکھو تو خاک بھی نہیں.شعبدہ باز کی طرح صرف کھیل ہی کھیل اصلیت دیکھو تو کچھ بھی نہیں.نادار ناطاقت اور نا تو اں اور گئے گزرے ہیں.آنکھیں اندھی اور اس پر عشوہ گری.ان کی نسبت نہایت ہی نرمی کیجئے تو یہ کیسے کہ وہ سب ضعیف اور بیچ ہونے کی وجہ سے عنکبوت کی طرح ہیں اور ان کے اشعار بیت معنکبوت ہیں ان کی نسبت خداوند کریم نے خوب فرمایا ہے وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوَنَ - اَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ.....وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَتَى مُنْقَلبِ يَنْقَلِبُونَ یعنی شاعروں کے پیچھے وہی لوگ چلتے ہیں جنہوں نے حق اور حکمت کا راستہ چھوڑ دیا ہے.کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر تو وہ لوگ ہیں جو قافیہ اور ردیف اور مضمون کی تلاش میں ہر یک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں.حقانی باتوں پر ان کا قدم نہیں جمتا اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں.سو ظالم لوگ جو خدا کے حقانی کلام کو شاعروں کے کلام اسے تشبیہ دیتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہوگا کہ کس طرف پھریں گے.( براہین احمدیہ چہارحص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۶۷ تا ۴۷۰ حاشیه ) -

Page 247

۲۱۵ سورة الشعراء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں فصاحت بلاغت کا زور تھا اس لئے آپ کو قرآن کریم بھی ایک معجزہ اسی رنگ کا ملا.یہ رنگ اس لئے اختیار کیا کہ شعراء جادو بیان سمجھے جاتے تھے اور ان کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ وہ جو چاہتے تھے چند شعر پڑھ کر کر ا لیتے تھے........ان کے پاس زبان تھی جو دلیری الله دوور اور حوصلہ پیدا کر دیتی تھی.ہر حربہ میں وہ شعر سے کام لیتے تھے اور فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ کے مصداق تھے اس لئے اس وقت ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام بھیجتا.پس خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور اسی کلام احکام جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷) کے رنگ میں اپنا معجزہ پیش کر دیا.

Page 248

Page 249

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوذُ وذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۲۱۷ سورة النّمل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النَّمل بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِى اَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحْنَ اللهِ رَبِّ العلمين جب موسیٰ آیا تو پکارا گیا کہ برکت دیا گیا ہے جو آگ میں ہے اور جو آگ کے گرد ہے اور اللہ تعالیٰ پاک ہے تجسم اور تحیز سے اور وہ رب ہے تمام عالموں کا.اب دیکھئے اس آیت میں صاف فرما دیا کہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد میں ہے اس کو برکت دی گئی اور خدا تعالیٰ نے پکار کر اس کو برکت دی.اس سے معلوم ہوا کہ آگ میں وہ چیز تھی جس نے برکت پائی نہ کہ برکت دینے والا.وہ تو نودی کے لفظ میں آپ اشارہ فرما رہا ہے کہ اس نے آگ کے اندر اور گرد کو برکت دی.اس سے ثابت ہوا کہ آگ میں خدا نہیں تھا اور نہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے بلکہ اللہ جلشانہ اس وہم کا خود دوسری آیت میں ازالہ فرماتا ہے.وَسُبحن اللهِ رَبِّ العلمین یعنی خدا تعالی اس حلول اور نزول سے پاک ہے وہ ہر ایک چیز کا رب ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰۷) وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَ عُلُوا فَانْظُرُ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ® اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا حالانکہ ان کے دل یقین کر گئے.(برائین احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۷۰ حاشیه در حاشیه نمبر (۴)

Page 250

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ انہوں نے موسیٰ کے نشانوں کا انکار کیا لیکن ان کے دل یقین کر گئے.سورة النّمل الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۶) وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ...ان کے دل ان نشانوں پر یقین کر گئے ہیں اور دلوں میں انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں.( براتان احمد یه چهار تحصص ، روحانی خزائن جلد اصلحه ۵۹۲ حاشیه در حاشیه نمبر (۳) قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةٌ أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ وَ كَذلِكَ يَفْعَلُونَ.پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفس امارہ کو ہے کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ حضرت عزت جل شانہ کے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کرلیں اور اس پر اپنا پورا تصرف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سلسلہ کو درہم برہم کر دیں اور نفسانی قومی کے قریہ کو ویران کر دیں اور اس کے نمبر داروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ.اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور انسانی کوششیں اپنے اخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں پھر بعد اس کے صرف موہت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۲۳۸) جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا بانا سب تباہ کر دیتے ہیں.بڑے بڑے نمبر دار رئیس، نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کئے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک تغیر عظیم واقع ہوتا ہے یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے.اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے.شیطان کے غلاموں کو قابو کیا جاتا ہے وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں ان کو چل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اور روحانی طور پر ایک نیا سکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن وامان کی حالت پیدا ہو جاتی ہے.پر الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴)

Page 251

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة النّمل قِيلَ لَهَا ادْخُلِى الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَةً وَ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا قَالَ و اِنَّه صرح مُمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ ، قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَ أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْنَ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں ایک برتر ہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر ہی اندر انسان کے دل میں ایک کشش موجود ہے اور اس تلاش کا اثر اسی وقت سے محسوس ہونے لگتا ہے جبکہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی پہلے روحانی خاصیت اپنی جو دکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ماں کی طرف جھکا جاتا ہے اور طبعا اپنی ماں کی محبت رکھتا ہے اور پھر جیسے جیسے حواس اس کے کھلتے جاتے ہیں اور شگوفہ فطرت اس کا کھلتا جاتا ہے یہ کشش محبت جو اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اپنا رنگ و روپ نمایاں طور پر دکھاتی چلی جاتی ہے پھر تو یہ ہوتا ہے کہ بجز اپنی ما کی گود کے کسی جگہ آرام نہیں پاتا اور پورا آرام اس کا اسی کے کنار عاطفت میں ہوتا ہے اور اگر ماں سے علیحدہ کر دیا جائے اور دور ڈال دیا جاوے تو تمام عیش اس کا تلخ ہو جاتا ہے اور اگر چہ اس کے آگے نعمتوں کا ایک ڈھیر ڈال دیا جاوے تب بھی وہ اپنی سچی خوشحالی ما کی گود میں ہی دیکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی طرح آرام نہیں پاتا.سو وہ کشش محبت جو اس کو اپنی ما کی طرف پیدا ہوتی ہے وہ کیا چیز ہے؟ در حقیقت یہ وہی کشش ہے جو معبود حقیقی کے لئے بچہ کی فطرت میں رکھی گئی ہے بلکہ ہر ایک جگہ جو انسان تعلق محبت پیدا کرتا ہے درحقیقت وہی کشش کام کر رہی ہے اور ہر ایک جگہ جو یہ عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے در حقیقت اسی محبت کا وہ ایک عکس ہے گویا دوسری چیزوں کو اُٹھا اُٹھا کر ایک گم شدہ چیز کی تلاش کر رہا ہے جس کا اب نام بھول گیا ہے.سو انسان کا مال یا اولا دیا بیوی سے محبت کرنا یا کسی خوش آواز کے گیت کی طرف اس کی روح کا کھینچے جانا در حقیقت اسی گم شدہ محبوب کی تلاش ہے اور چونکہ انسان اس دقیق در دقیق ہستی کو جو آگ کی طرح ہر ایک میں مخفی اور سب پر پوشیدہ ہے اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اپنی نا تمام عقل سے اس کو پاسکتا ہے.اس لئے اس کی معرفت کے بارے میں انسان کو بڑی بڑی غلطیاں لگی ہیں اور سہو کاریوں سے اس کا حق دوسرے کو دیا گیا ہے.خدا نے قرآن شریف میں یہ خوب مثال دی ہے کہ دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفا شیشوں سے کیا گیا ہے اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی

Page 252

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ سورة النّمل چھوڑا گیا ہے جو نہایت تیزی سے چل رہا ہے اب ہر ایک نظر جوشیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسا کہ پانی سے ڈرنا چاہیے حالانکہ وہ در حقیقت شیشے ہیں مگر صاف اور شفاف.سو یہ بڑے بڑے اجرام جو نظر آتے ہیں جیسے آفتاب و ماہتاب وغیرہ.یہ وہی صاف شیشے ہیں جن کی غلطی سے پرستش کی گئی اور ان کے نیچے ایک اعلیٰ طاقت کام کر رہی ہے جوان شیشوں کے پردہ میں پانی کی طرح بڑی تیزی سے چل رہی ہے اور مخلوق پرستوں کی نظر کی یہ غلطی ہے کہ انہیں شیشوں کی طرف اس کام کو منسوب کر رہے ہیں جو ان کے نیچے کی طاقت دکھلا رہی ہے.یہی تفسیر اس آیت کریمہ کی ہے انه صرح مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِير غرض چونکہ خدا تعالی کی ذات باوجود نہایت روشن ہونے کے پھر بھی نہایت مخفی ہوتی ہے اس لئے اس کی شناخت کے لئے صرف یہ نظام جسمانی جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کافی نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایسے نظام پر مدار رکھنے والے باوجود یکہ اس ترتیب ابلغ اور محکم کو جو صد با عجائبات پر مشتمل ہے نہایت غور کی نظر سے دیکھتے رہے بلکہ ہیئت اور طبعی اور فلسفہ میں وہ مہارتیں پیدا کہیں کہ گویا زمین و آسمان کے اندر دھنس گئے مگر پھر بھی شکوک وشبات کی تاریکی سے نجات نہ پاسکے اور اکثر ان کے طرح طرح کی خطاؤں میں مبتلا ہو گئے اور بیہودہ اوہام میں پڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳ تا ۳۶۵) اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ تمام کام جو یہ جسمانی آفتاب کر رہا ہے وہ سب کام اس حقیقی آفتاب کے ظل ہیں اور یہ نہیں کہ وہ صرف روحانی کام کرتا ہے بلکہ جس قدر اس جسمانی سورج کے کام ہیں وہ اس کے اپنے کام نہیں ہیں بلکہ در حقیقت اس معبود حقیقی کی پوشیدہ طاقت اس کے اندر وہ تمام کام کر رہی ہے جیسا کہ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف میں ایک ملکہ کا قصہ لکھا ہے جو آفتاب پرست تھی اور اس کا نام بلقیس تھا اور وہ اپنے ملک کی باشاہ تھی اور ایسا ہوا کہ اس وقت کے نبی نے اس کو دھمکی دے بھیجی کہ تجھے ہمارے پاس حاضر ہونا چاہیے ورنہ ہمارا شکر تیرے پر چڑھائی کرے گا اور پھر تیری خیر نہیں ہوگی.پس وہ ڈر گئی اور اس نبی کے پاس حاضر ہونے کے لئے اپنے شہر سے روانہ ہوئی اور قبل اس کے کہ وہ حاضر ہواس کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ایسا محل طیار کیا گیا جس پر نہایت مصفا شیشہ کا فرش تھا اور اس فرش کے نیچے نہر کی طرح ایک وسیع خندق طیار کی گئی تھی جس میں پانی بہتا تھا اور پانی میں مچھلیاں چلتی تھیں.جب وہ ملکہ اس جگہ پہنچی تو اس کو حکم دیا گیا کہ محل کے اندر آ جانب اس نے نزدیک جا کر دیکھا کہ پانی زور سے بہہ رہا ہے اور اس میں

Page 253

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة النّمل مچھلیاں ہیں.اس نظارہ سے اس پر یہ اثر ہوا کہ اس نے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھا لیا کہ ایسا نہ ہو کہ پانی میں تر ہو جائے تب اس نبی نے اس ملکہ کو جس کا نام بلقیس تھا آواز دی کہ اے بلقیس تو کس غلطی میں گرفتار ہوگئی یہ تو پانی نہیں ہے جس سے ڈر کر تو نے پاجامہ اوپر اٹھا لیا یہ تو شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے.اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے قَالَ إِنَّهُ صَرح مُمَرِّدُ مِنْ قَوَارِیر یعنی اس نبی نے کہا کہ اے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو اوپر کی سطح پر بطور فرش کے لگائے گئے ہیں اور پانی جوز ور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان شیشوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی ہیں تب وہ سمجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیا ہے اور میں نے فی الحقیقت جہالت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی تب وہ خدائے واحد لاشریک پر ایمان لائی اور اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے یقین کر لیا کہ وہ طاقت عظمیٰ جس کی پرستش کرنی چاہیے وہ تو اور ہے اور میں دھو کہ میں رہی اور سطحی چیز کو معبود ٹھہرایا اور اس نبی کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ دنیا ایک شیش محل ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور عناصر وغیرہ جو کچھ کام کر رہے ہیں یہ دراصل ان کے کام نہیں یہ تو بطور شیشوں کے ہیں بلکہ ان کے نیچے ایک طاقت مخفی ہے جو خدا ہے یہ سب اس کے کام ہیں اس نظارہ کو دیکھ کر بلقیس نے سچے دل سے سورج کی پوجا سے تو بہ کی اور سمجھ لیا کہ وہ طاقت ہی اور ہے کہ سورج وغیرہ سے کام کراتی ہے اور یہ تو صرف شیشے ہیں.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۱٬۴۱۰) مختلف رنگوں اور پیرایوں اور عالموں میں جو دنیا کا نظام قائم رکھنے کے لئے زمین آسمان کی چیزیں کام کر ہی ہیں.یہ وہ نہیں کام کرتیں بلکہ خدائی طاقت ان کے نیچے کام کر رہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں بھی فرما یا صرح مُمَرِّدُ مِنْ قَوَارِیر یعنی دنیا ایک شیش محل ہے جس کے شیشوں کے نیچے زور سے پانی چل رہا ہے اور نادان سمجھتا ہے کہ یہی شیشے پانی ہیں حالانکہ پانی ان کے نیچے ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۵) قرآن شریف میں ایک شاہزادی بلقیس نام کا ایک عجیب قصہ لکھا ہے جو سورج کی پوجا کرتی تھی شائد وید کی پیرو تھی حضرت سلیمان نے اس کو بلایا اور اس کے آنے سے پہلے ایسا محل طیار کیا جس کا فرش شیشہ کا تھا اور شیشہ کے نیچے پانی بہہ رہا تھا.جب بلقیس نے حضرت سلیمان کے پاس جانے کا قصد کیا تو اس نے اس شیشہ کو پانی سمجھا اور اپنا پا جامہ پنڈلی سے اوپر اٹھا لیا.حضرت سلیمان نے کہا کہ دھوکہ مت کھا یہ پانی نہیں ہے بلکہ یہ شیشہ ہے پانی اس کے نیچے ہے تب وہ عقلمند عورت سمجھ گئی کہ اس پیرایہ میں میرے مذہب کی غلطی انہوں

Page 254

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورة النّمل نے ظاہر کی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ سورج اور چاند اور دوسرے روشن اجرام شیشہ کی مانند ہیں اور ایک پوشیدہ طاقت ہے جو ان کے پردہ کے نیچے کام کر رہی ہے اور وہی خدا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس جگہ فرمایا صرح مُمَرِّدُ مِنْ قَوَارِیر یعنی یہ ایک محل ہے شیشوں سے بنایا گیا.سود نیا کو خدا نے شیش محل سے مثال دی ہے جاہل ان شیشوں کی پرستش کرتے ہیں اور دانا اس پوشیدہ طاقت کے پرستار ہیں مگر وید نے اس شیش محل کی طرف کچھ اشارہ نہیں کیا اور ان ظاہر شیشوں کو پر میشور سمجھ لیا ور پوشیدہ طاقت سے بے خبر رہا.پ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۰) ہمارا تو یہ ایمان اور مذہب ہے کہ ایک فوق الفوق قادر ہستی ہے جو ہم پر کام کرتی ہے جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں.وہ جی قیوم ہے اور ہم ایک عاجز مخلوق.قرآن شریف میں جو حضرت سلیمان اور بلقیس کا ذکر ہے کہ اس نے پانی کو دیکھ کر اپنی پنڈلی سے کپڑا اٹھایا.اس میں بھی یہی تعلیم ہے جو حضرت سلیمانؑ نے اس عورت کو دی تھی وہ در اصل آفتاب پرستی کرتی تھی.اس کو اس طریق سے انہوں نے سمجھایا کہ جیسے یہ پانی شیشہ کے اندر چل رہا ہے دراصل او پر شیشہ ہی ہے.اسی طرح پر آفتاب کو روشنی اور ضیاء بخشنے والی ایک اور زبردست طاقت ہے.انتقام جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۸) اس جگہ ایک قرآنی نکتہ کو جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو اس کی آفتاب پرستی کی غلطی پر آگاہ کرنے کے لئے صرح مرد کی شکل میں دکھایا یا درکھنے کے قابل ہے چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ إِنَّكَ صَرْحُ مُمَرِّدٌ مِنْ قَوَاریر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اجرام علوی و اجسام سفلی میں نظر آتا ہے جن میں سے بعض کی جاہل لوگ پرستش بھی کرتے ہیں تمام یہ چیزیں پیچ اور معدوم محض ہیں پرستش کے لائق نہیں.اور جو کچھ بظاہر ان میں طاقتیں نظر آتی ہیں ان کی طرف منسوب کرنا ایک دھوکہ ہے بلکہ ایک ہی طاقتِ عظمی ان سب کے نیچے پوشیدہ ہے کہ جو در حقیقت ان سے الگ ہے اور وہی یہ سب کرشمے دکھلا رہی ہے جیسا اس صرح مرد کے نیچے پانی تھا اور اس صرح کا عین نہیں تھا بلکہ اس سے الگ تھا مگر بلقیس کی نظر ستقیم میں عین دکھائی دیا تھا تب ہی اس نے ان شیشوں کو بہتے پانی کے دریا کی طرح سمجھا اور اپنی پنڈلیوں پر سے پاجامہ اُٹھا لیا.یہ اس کو ایسا ہی دھوکا لگا تھا جیسا اس کو آفتاب پرستی میں لگا تھا کہ وہ طاقت عظمیٰ اس کو نظر نہ آئی کہ جو کو در پردہ آفتاب سے عجائب کام ظہور میں لاتی اور اس سے الگ تھی.اسی طرح دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرض نہایت مصفا شیشوں سے کیا گیا اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا ہے جو

Page 255

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ سورة النّمل نہایت تیزی سے چل رہا ہے.اب ہر ایک نظر جو شیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسے پانی سے.حالانکہ وہ در حقیقت شیشے ہیں.سو یہ نکتہ کہ جو تمام عالم کے انکشاف حقیقت کے لئے عمدہ ترین اصول ہے اہل اللہ سے بہت مناسبت رکھتا ہے اور جس طرح اللہ جل شانہ نے بلقیس کی نسبت فرمایا ہے فَلَمَّا رَاتُهُ حَسِبَتْهُ لُجَةً وَ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا قَالَ إِنَّهُ صَرْحُ مُمَرِّدُ مِنْ قَوَارِیر یعنی بلقیس نے اس شیش محل کو جس کا فرش مصفا اور شفاف شیشے تھے اور نیچے ان کے پانی بہتا تھا اپنی غلط فہمی سے بہتا پانی خیال کیا.ایسا ہی اہل اللہ کی نسبت لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں یعنی وہ پانی جو ان کی شیشوں کے فرش کے نیچے یعنی ان کی فانی حالت کے تحت منجانب اللہ بہتا ہے اور کبھی اپنی سختی اور کبھی اپنی نرمی دکھاتا ہے اور کبھی تلخ اور شور اور بے مزہ کی صورت میں اور کبھی شیر ہیں اور خوشگوار پانی کی شکل میں نظر آتا ہے اور کبھی طوفان کی طرح قوت غضبی کے زور سے بہتا ہے اور کبھی نہایت آہستگی اختیار کرتا ہے.اس پانی کو جاہل خیال کرتا ہے کہ یہ نفسانی جذبات کا پانی ہے اور اہل اللہ کی شانِ عظیم سے منکر ہو جاتا ہے یا شک میں پڑ جاتا ہے حالانکہ ان کا نفس بہت سے صیقلوں کے شیشہ کی صفت پر آ گیا ہے اور جو کچھ ایک جاہل کو پانی اور پانی کا زور نظر آتا ہے وہ الہی چشمہ ہے جو اس شیشہ کے نیچے بہتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۵) وَ كَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللهِ لَنُبَيْتَنَهُ وَ أَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيهِ مَا شَهِدُنَا مَهْلِكَ اَهْلِهِ وَ إِنَّا لَصُدِقُونَ وَ مَكَرُوا مَكَرًا وَ مَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ.فَانْظُرُ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَا دَقَرْنَهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ فَتِلْكَ بُيُوتُهُم لا خَاوِيَةٌ بِمَا ظَلَبُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَ انْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَ كَانُوا يَتَّقُونَ اور شہر میں نو شخص ایسے تھے جن کا پیشہ ہی فساد تھا اور اصلاح کے روادار نہ تھے انہوں نے باہم قسمیں کھائیں کہ رات کو پوشیدہ طور پر شبخون مار کر اس شخص کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کر دو اور پھر ہم اس کے وارث

Page 256

۲۲۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النّمل کو جو خون کا دعویدار ہوگا یہ کہیں گے کہ ہم تو ان لوگوں کو قتل کرنے کے وقت اس موقع پر حاضر نہ تھے اور ہم سچ سچ کہتے ہیں یعنی یہ بہانہ بنا ئیں گے کہ ہم تو قتل کرنے کے وقت فلاں فلاں جگہ گئے ہوئے تھے جیسا کہ اب بھی مجرم لوگ ایسے ہی بہانے بنایا کرتے ہیں تا مقدمہ نہ چلے.پھر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تو دیکھے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا.ہم نے ان کو اور ان کے تمام قوم کو ہلاک کر دیا اور یہ گھر جو ویران پڑے ہوئے ہیں یہ انہیں کے گھر ہیں ہم نے اس لئے ان کو یہ سزا دی کہ یہ ہمارے برگزیدہ بندوں پر ظلم کرتے تھے اور بازنہیں آتے تھے.پس ہمارا یہ عذاب ان لوگوں کے لئے ایک نشان ہے جو جانتے ہیں اور ہم نے ان ظالم لوگوں کے ہاتھ سے ان ایمانداروں کو نجات دے دی جو متقی اور پر ہیز گار تھے.سوخدا کا مکر یہ تھا کہ جب شریر آدمی شرارت میں بڑھتے گئے تو ایک مدت تک خدا نے اپنے ارادہ عذاب کو مخفی رکھا اور جب ان کی شرارت نہایت درجہ تک پہنچ گئی بلکہ انہوں نے ایک بڑا مکر کر کے خدا کے برگزیدوں کو قتل کرنا چاہا تب وہ پوشیدہ عذاب خدا نے ان پر ڈال دیا جس کی ان کو کچھ بھی خبر نہ تھی اور ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس طرح ہم نیست و نابود کئے جائیں گے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندوں کو ستانا اچھا نہیں آخر خدا پکڑتا ہے کچھ مدت تک تو خدا اپنے ارادہ کو خفی رکھتا ہے اور وہی اس کا ایک مکر ہے مگر جب شریر آدمی اپنی شرارت کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے تب خدا اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیتا ہے پس نہایت بد قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے برگزیدہ بندوں کے مقابل پر محض شرارت کے جوش سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں آخر خدا ان کو ہی ہلاک کرتا ہے اس کے بارہ میں رومی صاحب کا یہ شعر نہایت عمدہ ہے.تا دل مردِ خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدا رسوا نه کرد چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۲،۲۰۱) وَمَكَرُوا مَكْرًا وَ مَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ یعنی کافروں نے اسلام کے مٹانے کے لئے ایک مکر کیا اور ہم نے بھی ایک مکر کیا یعنی یہ کہ ان کو اپنی مکاریوں میں بڑھنے دیا تا وہ ایسے درجہ شرارت پر پہنچ جائیں کہ ا جو سنت اللہ کے موافق عذاب نازل ہونے کا درجہ ہے.اس مقام میں شاہ عبد القادر صاحب کی طرف سے موضح القرآن میں سے ایک نوٹ ہے جس کی عبارت ہم بلفظہ درج کرتے ہیں اور وہ یہ ہے یعنی ان کے ہلاک ہونے کے اسباب پورے ہوتے تھے.جب تک شرارت حد کو نہ پہنچی تب تک ہلاک نہیں ہوئے.تم عبارت دیکھو صفحہ ۵۲۸ قرآن مطبع فتح الکریم.ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ عذاب الہی جو دنیا میں نازل

Page 257

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورة النّمل ہوتا ہے وہ تبھی کسی پر نازل ہوتا ہے کہ جب وہ شرارت اور ظلم اور تکبر اور علو اور غلو میں نہایت کو پہنچ جاتا ہے یہ نہیں کہ ایک کا فرخوف سے مرا جاتا ہے اور پھر بھی عذاب الہی کے لئے اس پر صاعقہ پڑے اور ایک مشرک اندیشہ ء عذاب سے جاں بلب ہو اور پھر بھی اس پر پتھر برسیں.خداوند تعالیٰ نہایت درجہ کا رحیم اور حلیم ہے.عذاب کے طور پر صرف اس کو اس دنیا میں پکڑتا ہے جو اپنے ہاتھ سے عذاب کا سامان تیار کرے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۶،۱۵) آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَالَهُ فَعَ اللهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَرُونَ.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خداوہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ پھر جب کہ خدا تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیا والا گمان کر سکتا ہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں.میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی بے ایمان والا ہر گز نہیں کرے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کی صفت پر غور کرنے سے سچا خدا پہنچانا جاتا ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خدا تعالی پر یقین آتا ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۶۰،۲۵۹) کلام الہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلاء کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے ان قوموں کو ہلاک کر دیا.( دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۱) دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو اس کے لئے دل میں درد ہو.اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ - الحام جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۱ صفحه ۱۳) یا درکھو کہ خدا بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا.دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب

Page 258

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة النّمل ہوتا.پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے.قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ الحاکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۵) السوء وَيَقُولُونَ مَتى هذا الوَعْدُ إِن كُنتُم صُدِقِينَ خدا چاہتا ہے کہ نیکوں کو بچائے اور بدوں کو ہلاک کرے.اگر وقت اور تاریخ بتلائی جائے تو ہر ایک شریر سے شریر اپنے واسطے بچاؤ کا سامان کر سکتا ہے.اگر وقت کے نہ بتلانے سے پیشگوئی قابل اعتراض ہو جاتی ہے تو پھر تو قرآن شریف کی پیشگوئیوں کا بھی یہی حال ہے.وہاں بھی اس قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ متى هذا الوعد یہ وعدہ کب پورا ہوگا ہمیں وقت اور تاریخ بتلاؤ.مگر بات یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں تعین نہیں ہوتا اور نہ کا فر بھی بھاگ کر بچ جائے.( بدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۸ / جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲) إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلُّوا مُدُ بِرِينَ ) بخاری کے صفحہ ۱۸۳ میں یہ حدیث جو لکھی ہے قَالَ هَلْ وَجَدتُم مَّا وَعَدَ رَبِّكُمْ حَقًّا اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کے سیدھے اور حقیقی معنے کے رو سے قبول نہیں کیا اس عذر سے کہ یہ قرآن کے معارض ہے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّكَ لا تسمع الموٹی اور ابن عمر کی حدیث کو صرف اسی وجہ سے رد کر دیا ہے کہ ایسے معنے معارض قرآن ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۹) وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةَ مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُونَ وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُكَذِّبُ بِأَيْتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذَا جَاهُ و قَالَ أَكَذَّبْتُم بِأَيْتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ.دابتہ الارض سے مراد کوئی لا یعقل جانور نہیں بلکہ بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ آدمی کا نام ہی دابتہ الارض

Page 259

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورة النّمل ہے اور اس جگہ لفظ دابتہ الارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے لیکن زمینی علوم وفنون کے ذریعہ سے منکرین اسلام کو لاجواب کرتے ہیں اور اپنا علم کلام اور طریق مناظرہ تائید دین کی راہ میں خرچ کر کے بیجان و دل خدمت شریعت غز ا بجالاتے ہیں.سو وہ چونکہ در حقیقت زمینی ہیں آسمانی نہیں اور آسمانی روح کامل طور پر اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے دابتہ الارض کہلاتے ہیں اور چونکہ کامل تزکیہ نہیں رکھتے اور نہ کامل وفاداری، اس لئے چہرہ ان کا تو انسانوں کا ہے مگر بعض اعضاء ان کے بعض دوسرے حیوانات سے مشابہہ ہیں.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے وَ إِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةٌ مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِأَيْتِنَا لَا يُوقِنُونَ یعنی جب ایسے دن آئیں گے جو کفار پر عذاب نازل ہو اور ان کا وقت مقدر قریب آجائے گا تو ہم ایک گروہ دابتہ الارض کا زمین میں سے نکالیں گے وہ گروہ منتظمین کا ہو گا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا یعنی وہ علماء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اور فلسفہ میں ید طولی ہوگا.وہ جابجا اسلام کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور اسلام کی سچائیوں کو استدلالی طور پر مشارق مغارب میں پھیلائیں گے اور اس جگہ اَخْرَجْنَا کا لفظ اس وجہ سے اختیار کیا کہ آخری زمانہ میں ان کا خروج ہوگا نہ حدوث یعنی تمی طور پر یا کم مقدار کے طور پر تو پہلے ہی سے تھوڑے بہت ہر یک زمانہ میں وہ پائے جائیں گے لیکن آخری زمانہ میں بکثرت اور نیز اپنے کمال لائق کے ساتھ پیدا ہوں گے اور حمایت اسلام میں جابجا واعظین کے منصب پر کھڑے ہو جائیں گے اور شمار میں بہت بڑھ جائیں گے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۰،۳۶۹) آثار القیامہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دابتہ الارض آپ ہی ہیں تب آپ نے جواب دیا کہ دابتہ الارض میں تو کچھ چار پائیوں اور کچھ پرندوں کی بھی مشابہت ہوگی مجھ میں وہ کہاں ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ دابتہ الارض اسم جنس ہے جس سے ایک طائفہ مراد ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶۹ حاشیه ) دابتہ الارض یعنی وہ علماء و واعظین جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتے ابتداء سے چلے آتے ہیں لیکن قرآن کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ان کی حد سے زیادہ کثرت ہوگی اور ان کے خروج سے مراد وہی ان کی کثرت ہے.اور یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ جیسی ان چیزوں کے بارے میں جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں

Page 260

۲۲۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النّمل رکھتیں اور آخری زمانہ میں پورے جوش اور طاقت کے ساتھ ظہور کریں گی خروج کا لفظ استعمال ہوا ہے ایسا ہی اس شخص کے بارے میں جو حدیثوں میں لکھا ہے کہ آسمانی وجی اور قوت کے ساتھ ظہور کرے گا نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.سو ان دونوں لفظوں خروج اور نزول میں در حقیقت ایک ہی امر مد نظر رکھا گیا ہے.یعنی اس بات کا سمجھانا منظور ہے کہ یہ ساری چیزیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والی ہیں باعتبارا اپنی قوت ظہور کے خروج اور نزول کی صفت سے متصف کی گئی ہیں جو آسمانی قوت کے ساتھ آنے والا تھا اس کو نزول کے لفظ سے یاد کیا گیا اور جوز مینی قوت کے ساتھ نکلنے والا تھا اس کو خروج کے لفظ کے ساتھ پکارا گیا تا نزول کے لفظ کے ساتھ آنے والے کی ایک عظمت سمجھی جائے اور خروج کے لفظ سے ایک خفت اور حقارت ثابت ہو اور نیز سی بھی معلوم ہو کہ نازل خارج پر غالب ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۳، ۳۷۴) زمینی لوگ دابتہ الارض ہیں مسیح السماء نہیں ہیں.مسیح السماء آسمان سے اترتا ہے اور اس کا خیال آسمان کو مسح کر کے آتا ہے اور روح القدس اس پر نازل ہوتا ہے اس لئے وہ آسمانی روشنی ساتھ رکھتا ہے لیکن دابتہ الارض کے ساتھ زمین کی غلاظتیں ہوتیں ہیں اور نیز وہ انسان کی پوری شکل نہیں رکھتا بلکہ اس کے بعض اجزاء مسخ شدہ بھی ہوتے ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۷۴،۵۷۳) احادیث میں دابتہ الارض کو بھی ایک خاص نام رکھ کر بیان کیا ہے لیکن احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی استعمال کی رو سے عام ہے اور دابتہ الارض کو صحیح مسلم میں ایسے پیرایہ سے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو اس کو دجال کی جساسہ ٹھہرا دیا گیا ہے اور اس کی رفیق اور اسی جزیرہ میں رہنے والی جہاں وہ ہے اور ایک طرف حرم مکہ معظمہ میں صفا کے نیچے اس کو جگہ دے رکھی ہے گویا وہ اس ارض مقدس کے نیچے ہے نہ دجال کے پاس اور بیان کیا گیا ہے کہ اس میں سے اس کا خروج ہوگا.اس استعارہ سے یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ دابتہ الارض در حقیقت اہم جسم سے ایسے علماء کے لئے ہے جو ذ و چین واقع ہیں.ایک تعلق ان کا دین اور حق سے ہے اور ایک تعلق ان کا دنیا اور دجالیت سے.اور آخری زمانہ میں ایسے مولویوں اور ملاؤں کا پیدا ہونا کئی جگہ بخاری میں لکھا ہے.چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ حدیث خیر البریہ پڑھیں گے اور قرآن کی بھی تلاوت کرتے ہوں گے لیکن قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا.سو یہ وہی زمانہ ہے.انہیں لوگوں کی ملاقات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور فرمایا ہے فَاعْتَزِلُ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ اَنْ تَعُضّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۹۳، ۵۹۴) أنتَ عَلى ذلِك - صفحہ ۵۰۹ بخاری.لے 1 نقل مطابق اصل اسم جنس“ پڑھا جائے.ناشر

Page 261

۲۲۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النّمل رو یا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل، گدھے، گھوڑے، کتے ،سور، بھیڑیے، اونٹ وغیرہ ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قطب کی طرف اُس کا منہ ہے خاموش صورت ہے آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بن میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اُٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چاہنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے.آنکھیں اُس کی بہت لمبی ہیں اور میں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے میں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پرہیز گار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ، ہے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابتہ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةٌ مِنَ الْأَرْضِ تُعلَمُهُم ، اَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لا يُوقِنُونَ.اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.دیکھو سورۃ النمل الجز نمبر ۲۰.ووو لا اور پھر آگے فرمایا ہے وَ يَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِبُ بِأَيْتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ - حَتَّى إِذَا جَاء وَ قَالَ أَكَذِّبُتُم بِأَيْتِي وَلَمْ تُحِيطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ - وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ.ترجمہ.اُس دن ہم ہر ایک اُمت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے

Page 262

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة النّمل نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور اُن کو ہم جدا جدا جماعتیں بناویں گے.یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے علا وجلت اُن کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی یتیم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ اُن کے ظالم ہونے کے حجت پوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے.سورۃ النمل الجز نمبر ۲۰.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دابتہ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتدا سے مقرر ہے.یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دابتہ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہو سکتی ہے اس لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں.اور اس بیان پر کہ دابتہ الارض در حقیقت مادہ طاعون کا نام ہے جس سے طاعون پیدا ہوتی ہے مفصلہ ذیل قرائن اور دلائل ہیں.(۱) اوّل یہ کہ دابتہ الارض کے ساتھ عذاب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِذَا وَقَعَ الْقَولُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةٌ مِنَ الْأَرْضِ یعنی جب اُن پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہو جائے گی تب دابتہ الارض زمین میں سے نکالا جائے گا.اب ظاہر ہے کہ دائبتہ الارض عذاب کے موقعہ پر زمین سے نکالا جائے گا نہ یہ کہ یوں ہی بیہودہ طور پر ظاہر ہو گا جس کا نہ کچھ نفع نہ نقصان.اور اگر کہو کہ طاعون تو ایک مرض ہے مگر دابتہ الارض لغوی معنوں کے رُو سے ایک کیڑا ہونا چاہیے جو زمین میں سے نکلے.اس کا جواب یہ ہے کہ حال کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ طاعون کو پیدا کرنے والا وہی ایک کیڑا ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے بلکہ ٹیکا لگانے کے لئے وہی کیڑے جمع کئے جاتے ہیں اور اُن کا عرق نکالا جاتا ہے اور خوردبین سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کی شکل یوں ہے (۰۰) یعنی به شکل دو نقطہ.گویا آسمان پر بھی نشان کسوف خسوف دو کے رنگ میں ظاہر ہوا اور ایسا ہی زمین میں.(۲) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض کی تفسیر ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں یہ مرکب لفظ آیا ہے.اس سے مراد کیٹر الیا گیا ہے مثلاً یہ آیت فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهَ إِلا دَابَةُ الْأَرْضِ تَأكُلُ مِنْسَأَتَهُ (سبا : ۱۵) یعنی ہم نے سلیمان پر جب موت کا حکم جاری کیا تو جنات کو کسی نے اُن کے مرنے کا پتہ نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے کہ جو سلیمان کے عصا

Page 263

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۱ سورة النّمل کو کھاتا تھا.سورۃ السبا الجز و نمبر ۲۲.اب دیکھو اس جگہ بھی ایک کیڑے کا نام دابتہ الارض رکھا گیا بس اس سے زیادہ دابتہ الارض کے اصلی معنوں کی دریافت کے لئے اور کیا شہادت ہوگی کہ خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقام میں دابتہ الارض کے معنے کیڑا کیا ہے.سو قرآن کے برخلاف اس کے اور معنی کرنا یہی تحریف اور الحاد اور دجل ہے.(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نشانوں کی تکذیب کے وقت میں کوئی امام الوقت موجود ہونا چاہیے کیونکہ وقعَ الْقَولُ عَلَيْهِمْ کا فقرہ یہی چاہتا ہے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ہو اور یہ تو متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خروج دابتہ الارض آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ مسیح موعود ظاہر ہوگا تا کہ خدا کی حجت دنیا پر پوری کرے.پس ایک منصف کو یہ بات جلد تر سمجھ آ سکتی ہے کہ جبکہ ایک شخص موجود ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے اور آسمان اور زمین میں بہت سے نشان اس کے ظاہر ہو چکے ہیں تو اب بلا شبہ دابتہ الارض یہی طاعون ہے جس کا مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور چونکہ یا جوج ماجوج موجود ہے اور مِنْ كُلِ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کی پیشگوئی تمام دنیا میں پوری ہو رہی ہے اور دجالی فتنے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں اور پیشگوئی ی تركَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا بھی بخوبی ظاہر ہو چکی ہے اور شراب اور زنا اور جھوٹ کی بھی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت بھی جوش مار رہی ہے تو صرف ایک بات باقی تھی جو دابتہ الارض زمین میں سے نکلے سودہ بھی نکل آیا.اس بات پر جھگڑ نا جہالت ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پھٹے گی اور دابتہ الارض وہاں سے سر نکالے گا پھر تمام دنیا میں چکر مارے گا کیونکہ اکثر پیشگوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتا ہے جب ایک بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہام باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑ نا کمال جہالت ہے اسی عادت سے بد بخت یہودی قبول حق سے محروم رہ گئے.(۴) قرینہ چہارم دابتہ الارض کے طاعون ہونے پر یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایک رنگ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ کسی وقت بعض مسلمان بھی وہ یہودی بن جائیں گے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں تھے جو آخر کار طاعون وغیرہ بلاؤں سے ہلاک کئے گئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اس کی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہوں گے....چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اسی اُمت میں سے مسیح موعود آئے گا اور بعض یہودی صفت مسلمانوں میں سے اس کو کا فر قرار دیں گے اور قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت

Page 264

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۲ سورة النمل توہین و تحقیر کریں گے اور نیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہوگا اور بہت سے بدقسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اُس نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اور اس دُعا میں مغضوب علیہم کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مغضوب علیہم ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی مسیح کے مخالف مغضوب علیہم تھے اور حضرت مسیح خود انجیل میں اشارہ کرتے ہیں کہ میرے منکروں پر مریمی یعنی طاعون پڑے گی اور بعد اس کے دوسرے عذاب بھی نازل ہوں گے.اس لئے ضروری تھا کہ مسیح اسلامی کی تائید میں بھی یہ باتیں ظہور میں آتیں.اور بھی دلائل اس بات پر بہت ہیں کہ یہی دابتہ الارض جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے طاعون ہے اور بلا شبہ یہ زمینی بیماری ہے اور زمین میں سے ہی نکلتی ہے.( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۵تا۴۲۰) یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ وہ دابتہ الارض یعنی طاعون کا کیڑا ز مین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اُس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابتہ الارض بن جائیں گے.ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابتہ الارض ہیں اور اب ہم نے اس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابتہ الارض طاعون کا کیڑا ہے.ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے.قرآن شریف ذو المعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں اور جس طرح قرآن شریف یک دفعہ نہیں اُتر ا اسی طرح اس کے معارف بھی دلوں پر یکدفعہ نہیں اُترتے.اسی بنا پر متفقین کا یہی مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معارف بھی یکدفعہ آپ کو نہیں ملے بلکہ تدریجی طور پر آپ نے علمی ترقیات کا دائرہ پورا کیا ہے.ایسا ہی میں ہوں جو بروزی طور پر آپ کی ذات کا مظہر ہوں.آنحضرت کی تدریجی ترقی میں بہتر یہ تھا کہ آپ کی ترقی کا ذریعہ محض قرآن تھا پس جبکہ قرآن شریف کا نزول تدریجی تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل معارف بھی تدریجی تھی اور اسی قدم پر مسیح موعود ہے جو اس وقت تم میں ظاہر ہوا.علم غیب خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے جس قدر وہ دیتا ہے اُسی قدر ہم لیتے ہیں.پہلے اُسی نے غیب سے مجھے یہ فہم عطا کیا کہ ایسے ست زندگی والے جو خدا اور اُس کے رسول پر ایمان تو لاتے ہیں مگر عملی حالت میں بہت کمزور ہیں یہ لوگ دابتہ الارض ہیں یعنی زمین کے کیڑے ہیں آسمان سے ان کو کچھ حصہ نہیں.اور مقدر تھا کہ آخری زمانہ میں یہ لوگ بہت ہو جائیں گے اور اپنے ہونٹوں سے

Page 265

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۳ سورة النّمل اسلام کی شہادت دیں گے مگر ان کے دل تاریکی میں ہوں گے.یہ تو وہ معنی ہیں جو پہلے ہم نے شائع کئے اور یہ معنے بجائے خود صیح اور درست ہیں.اب ایک اور معنے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کے متعلق کھلے جن کو ابھی ہم نے بیان کر دیا ہے یعنی یہ کہ دابتہ الارض سے مراد وہ کیڑا بھی ہے جو مقدر تھا جو مسیح موعود کے وقت میں زمین میں سے نکلے اور دنیا کو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ کرے.یہ خوب یادر کھنے کے لائق ہے کہ جیسے یہ آیت دو معنوں پر مشتمل ہے ایسے ہی صدہا نمونے اسی قسم کے کلام الہی میں پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اُس کو معجزانہ کلام کہا جاتا ہے جو ایک ایک آیت دس دس پہلو پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ تمام پہلو صحیح ہوتے ہیں بلکہ قرآن شریف کے حروف اور اُن کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۱ تا۴۲۲) خدا تعالیٰ فرماتا ہے....کہ جب قرب قیامت ہوگا ہم زمین میں سے ایک کیڑا نکالیں گے جولوگوں کو کاٹے گا اس لئے کہ انہوں نے ہمارے نشانوں کو قبول نہیں کیا....اور یہ صریح طور پر طاعون کی نسبت پیشگوئی ہے کیونکہ طاعون بھی ایک کیڑا ہے.اگر چہ پہلے طبیبوں نے اس کیڑے پر اطلاع نہیں پائی لیکن خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ طاعون کی جڑھ اصل میں کیڑا ہی ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے اس لئے اس کا نام دابتہ الارض رکھا یعنی زمین کا کیڑا.لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۰) دابتہ الارض کے معنے طاعون کے بھی ہیں جیسا کہ قرآن شریف کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے و اذا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمُ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِأَيْتِنَا لَا يُوقِنُونَ یعنی جب لوگوں پر حجت پوری ہو جائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جولوگوں کو اس واسطے کاٹے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.تکلم کے معنی اقرب الموارد میں صاف کاٹنے کے کئے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۷ ۱ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ ء صفحہ ۵ حاشیه ) دابتہ الارض کے دو معنے ہیں.ایک تو وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا وہ زمین کے کیڑے ہیں.دوسرے دابتہ الارض سے مراد طاعون ہے.دَابَةُ الْأَرْضِ تَأكُلُ مِنْسَآتَه (سبا : ۱۵) قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک انسان میں روحانیت پیدا نہ ہو یہ زمین کا کیڑا ہے اور طاعون کی نسبت بھی سب نبیوں نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح کے وقت پھیلے گی.تکلم الناس تعلیم کاٹنے کو بھی کہتے ہیں اور خود قرآن شریف نے ہی فیصلہ کر دیا ہے.اس سے آگے لکھ دیا ہے کہ وہ اس لئے لوگوں کو کھائے گی کہ ہمارے مامور پر

Page 266

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایمان نہیں لائے.۲۳۴ سورة النّمل الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) دابۃ الارض طاعون کو کہتے ہیں اس لئے کہ اس کے کیڑے تو زمینی ہی ہوتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۸) جب گمراہی اور ضلالت کا زمانہ ہوگا ایسے وقت میں لوگوں کا ایمان خدا پر صرف ایک بچوں کی کھیل کی طرح ہوگا تب ہم ان میں ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا.غرض یہ ( طاعون.ناقل ) خدا کا ایک قہر ہے جس سے بچنے کے واسطے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنی نجات کا آپ سامان کرے.( البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ /نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود جس کے وقت کے متعلق یہ پیشگوئی ہے.اس کے دعاوی کا بہت بڑا انحصار اور دار و مدار نشانات پر ہوگا اور خدا نے اسے بھی بہت سے نشانات عطا فر مار کھے ہوں گے کیونکہ یہ جو فرمایا کہ اَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِایتِنَا لا يُوقِنُونَ یعنی اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے نشانات کی کچھ بھی پروا نہ کی اور ان کو نہ مانا اس واسطے ان کو یہ سزا ملی.ان نشانات سے مراد صرف مسیح موعود کے نشانات ہیں ورنہ یہ امر تو ٹھیک نہیں کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا عمرو کو ملے جو اس سے تیرہ سو سال بعد آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر لوگوں نے نشانات دیکھے اور ان سے انکار کیا تو اس انکار کی سزا تو ان کو اسی وقت مل گئی اور وہ تباہ اور برباد ہو گئے اور اگر آیت سے وہی نشانات مراد ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوئے تھے تو اب ہزاروں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا بھی جاوے کہ بتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کون کون سے نشانات ظاہر ہوئے تو ہزاروں میں سے شاید کوئی ہی ایسا نکلے جس کو اس طرح پر آپ کے نشانات کا علم ہو ورنہ عام طور سے اب مسلمانوں کو خبر تک بھی نہیں کہ وہ نشانات کیا تھے اور کس طرح خدا نے آپ کی تائید میں ان کو ظاہر فر ما یا مگر کیا اس لاعلمی سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ سارے کے سارے ان نشانات سے منکر ہیں اور ان کو وہ نہیں مانتے حالانکہ وہ مومن بھی ہیں اگر ان کو علم ہو تو وہ مانے بیٹھے ہیں ان کو کوئی انکار نہیں ان لوگوں کے متعلق تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات نہ ماننے کا لفظ لا سکتے ہی نہیں کیونکہ انہوں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی نبوت کی تفاصیل سمیت مان لیا ہوا ہے وہ انکار کیسے کر سکتے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر وہ نشانات اب حجت نہیں کیونکہ انہوں نے وہ دیکھے نہیں ہیں جنہوں نے دیکھ کر انکار کیا تھا وہ ہلاک ہو چکے.موجودہ زمانہ کے لوگوں نے آپ

Page 267

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ سورة النّمل کے نشانات دیکھے ہی نہیں تو وہ اس انکار کی وجہ سے ہلاک کیسے ہو سکتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ ان نشانات سے مراد مسیح موعود ہی کے نشانات ہیں جن کے انکار کی وجہ سے عذاب کی تنبیہ ہے اور خدا کا غضب ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے مسیح موعود کے نشانات سے انکار کیا ہے اور یہ خدائی فیصلہ ہے جس کو رد نہیں کر سکتا.یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ طاعون مسیح موعود کے انکار کی وجہ سے القام جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۳) آئی ہے.مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعِ يَوْمَبِذٍ أُمِنُونَ ) نیکی کرنے والوں کو قیامت کے دن اس نیکی سے زیادہ بدلہ ملے گا اور وہ ہر ایک ڈر سے اس دن امن میں ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷ ۱۴، ۱۴۸) رہیں گے.b وَ مَنْ جَاءَ بِالسَّيْئَةِ فَكَبَتْ وُجُوهُهُمْ فِى النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُم 19919.تعملون.) بدی کرنے والے اس دن جہنم میں گرائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ جزا در حقیقت وہی تمہارے اعمال ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے یعنی خدا تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ نیکی کے اعمال جنت کی صورت میں اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۸) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيْكُمْ أَيْتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ.اور کہہ خدا سب کامل صفتوں کا مالک ہے عنقریب وہ تمہیں اپنے نشان دکھلائے گا ایسے نشان کہ تم ان کو شناخت کرلو گے اور خدا تمہارے عملوں سے غافل نہیں ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۴ حاشیه ) اور یہ کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں وہ تمہیں ایسے نشان دکھائے گا جنہیں تم شناخت کرلو گے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳)

Page 268

Page 269

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۳۷ سورة القصص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القصص بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَ اَوْحَيْنَا إِلَى أَمَ مُوسَى اَنْ اَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَالْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَايَاتِهِ فَقَدْ جو شخص اللہ تعالی اور اس کی آیات پر ایمان لاتا ہے اس پر وَجَبَ عَلَيْهِ أَنْ يُؤْمِنَ بِأَنَّ اللهَ يُوحَى واجب ہے کہ وہ اس بات پر بھی ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے إلى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ رَسُولًا كَانَ بندوں میں سے جس کی طرف چاہے وحی کرتا ہے خواہ وہ رسول ہو أَوْ غَيْرَ رَسُوْلٍ وَيُكَلِّمُ مَنْ يَشَاءُ نَبِيًّا یا غیر رسول اور وہ جس سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے خواہ وہ نبی ہو یا كَانَ أَوْ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ أَلا ترى أن محدثوں میں سے کوئی ہو.کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب اللهَ تَعَالَى قَدْ أَخْبَرَ فِي كِتَابِه أَنَّهُ كَلَّمَ ( قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ اس نے ( موسیٰ علیہ السلام ) أمر موسى وَقَالَ لَا تَعافى وَلَا تَحْزَنی کی والدہ سے کلام کیا اور اس سے کہا لَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا وكذلك إنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ.رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ پھر اس طرح اس نے سیح ناصری علیہ السلام کے حواریوں کی طرف بھی وحی کی اور ذوالقرنین سے بھی اس نے کلام کیا اور اس نے ہمیں اس بات کے متعلق اپنی کتاب میں خبر دی ہے.( ترجمہ از مرتب )

Page 270

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورة القصص وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ إِنَّ بَابَ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس امت میں الہام کا الْإِلْهَامِ مَسْدُودٌ عَلى هَذِهِ الْأُمَّةِ، وَمَا دروازہ بند ہے ایسے لوگوں نے قرآن کریم پر پوری طرح تدبر في الْقُرْآنِ عَى الشَّدَبُرِ، وَمَا لَفِى تدبر نہیں کیا اور نہ ہی وہ ملہمین سے ملے ہیں.پس اے تَدَبَّرَ الْمُلْهَبِيْنَ.فَاعْلَمْ أَيُّهَا الرَّشِيدُ أَنَّ هَذَا صاحب رشد! جان لے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کتاب الْقَوْلَ بَاطِلٌ بالبَدَاهَةِ، وَيُخَالِفُ الله ، سنت نبوی اور صالحین کی شہادت کے خلاف ہے.الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَشَهَادَاتِ کتاب اللہ ہی کو دیکھو تم اس میں بہت سی ایسی آیات پڑھو الصَّالِحِينَ أَمَّا كِتَابُ الله فَأَنْتَ نَفْراً گے جو ہماری بات کی تائید کرتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے في الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ آيَاتٍ تُوَيْدُ قَوْلَنَا اپنی محکم کتاب میں بعض مردوں اور عورتوں سے متعلق خبر هذَا، وَقَد أَخْبَرَ الله تعالى في كتابه دی ہے کہ ان کے رب نے ان سے کلام کیا اور انہیں الْمُحْكَمِ عَنْ بَعْضِ رِجَالٍ وَنِسَاءٍ مخاطب کیا.انہیں بعض باتوں کے کرنے کا حکم دیا اور بعض كَلَّمَهُمْ رَبُّهُمْ وَخَاطَبَهُمْ وَأَمَرَهُمْ امور سے منع کیا اور وہ رب العالمین کی طرف سے نہ تو نبی وَنَهَاهُمْ، وَمَا كَانُوا مِن الْأَنْبِيَاءِ وَلاَ تھے اور نہ ہی رسول.کیا تو قرآن کریم میں یہ آیت نہیں رُسُلِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.أَلَا تَفْراً في الْقُرانِ پڑھتا جس میں حضرت موسیٰ کی ماں کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ولا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ جَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ.فَتَدبر أَيُّهَا الْمُنْصِفُ الْعَاقِلُ كَيْفَ پس اے منصف اور عقل مند تم اس بات پر غور کرو در لا يَجُوزُ مُكَالَمَاتُ اللهِ بِبَعْضِ رِجالِ کہ اس امت میں جو خیر الامم ہے کیوں بعض مردوں سے هذِهِ الْأُمَّةِ الَّتِي هِيَ خَيْرُ الْأُمَمِ وَقَد خدا تعالیٰ کا کلام کرنا جائز نہیں حالانکہ اس نے تم سے پہلی كَلَّمَ اللهُ نِسَاءَ قَوْمٍ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ.امتوں کی عورتوں سے بھی کلام کیا ہے اور پہلوں کی وَقَدْ أَتَاكُمْ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ مثالیں تمہارے پاس موجود ہیں.(ترجمہ از مرتب) حمامة البشرى صفحه، روحانی خزائن جلدے ،صفحہ ۲۹۷) الْمُرْسَلِينَ -

Page 271

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ سورة القصص وَ دَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلن هذا سلا مِنْ شِيعَتِهِ وَهُذَا مِنْ عَدُوّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَة مُوسى فَقَضَى عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطن - إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌ مُّبِينٌ.موسیٰ پر الزام مکا مارنے کا جو عیسائی لگاتے ہیں اس کی نسبت فرمایا کہ وہ گناہ نہیں تھا ان کا ایک اسرائیلی بھائی نیچے دبا ہوا تھا طبعی جوش سے انہوں نے ایک مکا مارا.وہ مر گیا.جیسے اپنی جان بچانے کے لئے اگر کوئی خون بھی کر دے تو وہ جرم نہیں ہوتا.موسیٰ کا قول قرآن شریف میں ہے هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطن یعنی قبلی نے اس اسرائیلی کو عمل شیطان (فاسدا رادہ) سے دبایا ہوا تھا.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۵) قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ انبیاء کو خدا ذلیل نہیں کیا کرتا.انبیاء کی قوت ایمانی یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جان دے دینا وہ اپنی سعادت جائیں.اگر کوئی موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر نظر ڈال کر اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ وہ ڈرتے تھے تو یہ بالکل فضول امر ہے ( اور اس ڈر سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ ان کو جان کی فکر تھی بلکہ ان کو یہ خیال تھا کہ منصب رسالت کی بجا آوری میں کہیں اس کا اثر ا چھا نہ پڑے ).البد رجلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ رستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۵۸) فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسَى بِأَيْتِنَا بَيِّنَةٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُفْتَرَى وَمَا سَمِعْنَا بهذا في ابا بِنَا الأَوَّلِينَ مَا سَعْنَا بِهذا في ابابنا الأولِينَ....ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء وسلف میں یہ نہیں سنا.برائن احمد یہ چہار نص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۷۰) ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب ان کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ساتھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟

Page 272

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ سورة القصص نہیں بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت ان پر پوری ہوتی ہے جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آتا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سن کر یہی کہا ہے مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي أَبَا بِنَا الْأَوَّلِينَ - القام جلد ۶ نمبر ۲۲ مورخه ۱۷ارجون ۱۹۰۲ صفحه ۵،۴) وَ قَالَ فِرْعَوْنُ يَاَيُّهَا الْمَلَا مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ الهِ غَيْرِي فَأَوْقِدُ فِي يها من عَلَى القِيْنِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَعَلَى أَطَلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ أوْ قِدْ لِي يُهَا مَنُ....لَعَلَى اطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ.....اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑ کا تا میں موسیٰ کے خدا پر...مطلع ہو جاؤں کہ کیوں کر وہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۹ حاشیه ) وَ لَوْ لَا أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَو لَا لَوْلَا اَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ ايْتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ) تا عذاب کے نازل ہونے پر گمراہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اے خدا تو نے قبل از عذاب اپنا رسول کیوں نہ بھیجا تا ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور مومن بن جاتے.( برائین احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۰) وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثُ فِي أُمَّهَا رَسُولًا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكى القُرى الا واهلها ظلِمُونَ ) یعنی ہم نے کبھی کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر صرف ایسی حالت میں کہ جب اس کے رہنے والے ظلم پر کمر بستہ ہوں.یادر ہے کہ اگر چہ شرک بھی ایک ظلم بلکہ ظلم عظیم ہے مگر اس جگہ ظلم سے مراد وہ سرکشی ہے جو حد سے گزر

Page 273

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة القصص جائے اور مفسدانہ حرکات انتہا تک پہنچ جائیں ورنہ اگر مجرد شرک ہو جس کے ساتھ ایڈا اور تکبر اور فساد منضم نہ ہو اور ایسا تجاوز از حد نہ ہو جو واعظوں پر حملہ کریں اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوں یا معصیت پر پورے طور پر سر نگوں ہو کر بالکل خوف خدا دل سے اُٹھا دیں تو ایسے شرک یا کسی اور گنہ کے لئے وعدہ عذاب آخرت ہے اور دینوی عذاب صرف اعتداء اور سرکشی اور حد سے زیادہ بڑھنے کے وقت نازل ہوتا ہے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵) کوئی بستی نہیں ہلاک ہوتی مگر اس حالت میں کہ جب اس کے اہل ظلم پر کمر بستہ ہوں.البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱ارستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۶۶) ہم کسی بستی کو بھی ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان کے درمیان کوئی رسول نہ بھیجیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۲، ۴۲۳) ز وَ هُوَ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَالْآخِرَةِ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ وورودر ترجعون اس کے لئے تمام محامد ثابت ہیں اور دنیا و آخرت میں وہی منعم حقیقی ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہر یک حکم ہے اور وہی تمام چیزوں کا مرجع و مآب ہے.( براتب احمد یہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۱ حاشیه ) فَأَوْلَى فِيْهِ إِلى أَحْمَدَيْنِ وَجَعَلَهُمَا مِنْ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمد وں کا ذکر نُعَمَائِهِ الْكَاثِرَةِ فَالْأَوَّلُ مِنْهُمَا أَحْمَدُ فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.الْمُصْطَفَى وَرَسُوْلُنَا الْمُجْتَبى وَالثَّانِي أَحْمَدُ ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفیٰ اور رسول آخِرِ الزَّمَانِ الَّذِي سُمِّيَ مَسِيحَا وَمَهْدِيَّا من مجتبى صلى اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا احمد احمد آخر الزمان اللهِ الْمَنَانِ.وَقَدِ اسْتُنْبِطَتُ هَذِهِ النُّكْتَةُ ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی مِن قَوْلِهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ فَلْيَتَدَبَّرُ رکھا گیا ہے.یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبْرِينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمين سے اخذ کیا ہے پس ہر غور و اعجاز مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۳۹) فکر کرنے والے کو غور کرنا چاہیے.(ترجمہ از مرتب) دو أَنَّهُ تَعَالَى مَا اخْتَارَ لِنَفْسِهِ هُهُنَا اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی ذات کی چار صفات کو

Page 274

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة القصص أَرْبَعَةُ مِنَ الصَّفَاتِ إِلَّا لِبُری محض اس لئے اختیار کیا ہے کہ تا وہ اس دنیا میں ہی انسان کو لمؤذَجَهَا في هَذِهِ الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَمَاتِ (یعنی دنیا کی ) موت سے پہلے ان صفات کا نمونہ دکھائے فَأَشَارَ فِي قَوْلِهِ لَهُ الْحَمدُ فِي الأولى پس اس نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ میں وَالْآخِرَةِ إِلى أَنَّ هَذَا النَّمُوذَجَ يُعطى اشارہ فرمایا کہ یہ نمونہ آغاز اسلام میں بھی عطا کیا جائے گا اور لِصَدرِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ لِلْآخِرِيْنَ مِن پھر امت کی خواری کے بعد اس کے آخری لوگوں کو بھی ( عطا کیا الْأُمَّةِ الدَّاخِرَةِ وَ كَذَالِكَ قَالَ في جائے گا ) اسی طرح اللہ تعالی نے ایک اور جگہ ( قرآن مجید مَقَامٍ اُخَرَ وَهُوَ أَصْدَقُ الْقَائِلِينَ خُلةُ میں ) فرمایا ہے اور وہ بات کرنے والوں میں سے سب سے مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْأخرين.زیادہ سچا ہے.ثُمَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ - دو ،، فَقَسَّمَ زَمَانَ الْهِدَايَةِ وَالْعَوْنِ وَالنُّصْرَةِ.پس اللہ تعالیٰ نے ہدایت، مدد اور نصرت کے زمانہ کو إلى زَمَانِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر اور اس آخری وَإِلَى الزَّمَانِ الْآخِرِ الَّذِي هُوَ زَمَانُ زمانہ پر جو اس امت کے مسیح کا زمانہ ہے تقسیم کر دیا اور اس مَسِيحِ هَذِهِ الْمِلَّةِ.وَكَذَالِكَ قَالَ وَ طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا اخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم بِهِمْ.اس میں مسیح موعود، اس کی جماعت اور ان کے تابعین فَأَشَارَ إِلَى الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَجَمَاعَتِهِ کی طرف اشارہ فرمایا ہے پس قرآن کریم کی نصوص بعینہ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ فَتَبَتَ بِنُصُوص سے ثابت ہوا کہ یہ صفات ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَةٍ مِن الْقُرْآنِ إِنَّ هَذِهِ الصَّفَاتِ قَد کے زمانہ میں بھی ظاہر ہوئیں پھر آخری زمانہ میں بھی ظاہر ظَهَرَتْ في رَمَن نَبِيْنَا ثُمَّ تَظْهَرُ في اخر ہوں گی.اور آخری زمانہ ایسا زمانہ ہے جس میں بدکاری اور الزَّمَانِ.وَهُوَ زَمَانٌ يَكْثَرُ فِيْهِ الْفِسْقُ ہر قسم کی خرابیاں بکثرت پھیل جائیں گی اور راستی بہت ہی کم وَالْفَسَادُ.وَيَقِلُّ الصَّلاحُ وَالسَّدَادُ ہو جائے گی.( ترجمہ از مرتب ) اعجاز مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۳، ۱۵۵) وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَوْلى وَالْآخِرَةِ وَمِن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بعثت اور پچھلی الْأَزْلِ إِلى أَبَدِ الْأَبِدِينَ وَلِذَالِكَ سَمى بعثت میں بلکہ ازل سے ابد الاباد تک سب تعریف اسی کے اللهُ نَبِيَّةَ أَحْمَدَ وَكَذَالِك سلمی به لئے ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا نام احمد رکھا اور الواقعة : ۴۰ ۴۱ ۲ الجمعة : ۴

Page 275

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورة القصص الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ لِيُشير إلى مَا تَعمَّد اسی طرح مسیح موعود کا بھی یہی نام رکھا تا اس نے جو قصد کیا تھا وَإِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَمْدَ عَلی رائیں اس کی طرف اشارہ فرمائے.اور اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ کے الْفَاتِحَةِ ثُمَّ أَشَارَ إِلى الحَمدِ في اخر ابتداء میں الحمد لکھا ہے پھر اس سورت کے آخر میں بھی الحمد کی هذِهِ السُّورَةِ فَإِنَّ اخِرَهَا لفظ طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ اس کے آخر میں الضالین کا لفظ الضَّالِّينَ وَهُمُ النَّصَارَى الَّذِينَ ہے اور وہ نصاری ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی حمد کرنے سے حَقَّهُ أَعْرَضُوا عَنْ حَمدِ اللهِ وَأَعْطُوا حقہ منہ موڑ لیا اور اس کا حق مخلوق کے ایک فرد کو دے دیا کیونکہ لأَحَدٍ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ.فَإِنَّ حَقِيقَةٌ گمراہی کی حقیقت یہ ہے کہ اس قابل تعریف ہستی کو جو حمد الضَّلَالَةِ هِيَ تَرْك الْمَحْمُودِ الَّذِى وثناء کی مستحق ہے چھوڑ دیا جائے جیسا کہ نصاری نے کیا ہے.يَسْتَحِقُ الْحَمْدَ وَالقَتَاءَ كَمَا فَعَلَ انہوں نے اپنے پاس سے ایک اور قابل تعریف معبود بنا لیا النَّصَارَى وَنَحتُوا مِنْ عِنْدِهِمْ مَحْمُودًا ہے اور انہوں نے اس کی تعریف میں بڑا مبالغہ کیا ہے.أَخَرَ وَبَالَغُوا فِي الْإِطْرَاءِ وَاتَّبَعُوا انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور زندگی کے چشمہ الْأَهْوَاء وَبَعَدُوا مِنْ عَيْنِ الْحَيَاةِ سے دور نکل گئے اور اس طرح ہلاک ہو گئے جس طرح ایک وَهَلَكُوا كَمَا يَهْلَكَ الضَّالُ في راه هم کرده شخص بیابان میں ہلاک ہو جاتا ہے اور یہود تو اپنی الْمَوْمَاةِ، وَإِنَّ الْيَهُودَ هَلَكُوا فِي أَوَّلِ ابتدا میں ہی ہلاک ہو گئے تھے اور خدائے قہار کے غضب أَمْرِهِمْ وَبَا وَا بِغَضَبٍ من اللہ القَهَّارِ کے مورد بن گئے تھے.نصاری چند قدم چلے پھر گمراہ ہو گئے وَالنَّصَارَى سَلَكُوْا قَلِيلًا ثُمَّ ضَلُّوا اور روحانی پانی کھود یا اور آخر کار لاچار ہو کر بیابانوں میں ہی وَفَقَدُوا الْمَاء فَمَاتُوا في فَلَاةٍ من مر گئے.پس خلاصہ بیان یہ ہے اللہ تعالی نے دو احمد پیدا الْاِضْطِرَارِ.فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ أَنَّ کئے ایک اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اور ایک آخری زمانہ اللهَ خَلَقَ أَحْمَدَيْنِ فِي صَدْرِ الْإِسْلَامِ میں.اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے ولى آخِرِ الزَّمَانِ وَأَشَارَ إِلَيْهما شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظا ومعنا تکرار کر کے يتَكْرَارٍ لفظ الْحَمْدِ فِي أَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وَفي ان دونوں (احمدوں) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور خدا نے اخِرِهَا لِأَهْلِ الْعِرْفَانِ وَفَعَلَ كَذَالِک ایسا عیسائیوں کی تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ وَأَنْزَلَ أَحْمَدَيْنِ احمد آسمان سے اتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی

Page 276

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة القصص مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَارَينِ لِحِمَايَةِ حمایت کے لئے دو دیواروں کی طرح ہو جائیں.الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۹۸،۱۹۷) (ترجمه از مرتب) اِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُّكَ إِلى مَعَادٍ قُلْ رَّبِّي أَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بِالهُدى وَمَنْ هُوَ فِي ضَللٍ مُّبِينٍ.لرادكَ إلى مَعَادٍ تجھے اس جگہ پھیر لائے گا جہاں سے تو نکالا گیا ہے یعنی مکہ میں جس سے کفار نے برائن احمد یہ چہار حصص، روحانی جلد ا صفحه ۲۵۸ حاشیه ) آنحضرت کو نکال دیا تھا.قف وَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ وروور الحلمُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ) تو بجز خدا کے کسی اور سے مرادیں مت مانگ.سب ہلاک ہو جائیں گے.ایک اسی کی ذات باقی رہ جاوے گی.اسی کے ہاتھ میں حکم ہے اور وہی تمہارا مرجع ہے.( بر اثمان احمد یه چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه ) دوسرا حصہ اس توحید کا یہ ہے کہ جیسا کہ کوئی چیز بجز خدا کے خود بخود موجود نہیں ایسا ہی ہر ایک چیز بجز خدا کے اپنی ذات میں فانی اور بالک ہونے سے بری نہیں جیسا کہ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے گل شَيْءٍ هَالِكُ إِلا وَجْهَهُ یعنی ہر ایک چیز معرض ہلاکت میں ہے اور مرنے والی ہے بجز خدا کی ذات کے کہ وہ موت سے پاک ہے اور اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان (الرحمن : ۲۷) یعنی ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا پس جیسا کہ خدا نے اس آیت میں کہ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ہے لفظ كُلّ کے ساتھ جو احاطہ تامہ کے لئے آتا ہے ہر ایک چیز کو جو اس کے سوا ہے مخلوق میں داخل کر دیا.ایسا ہی اس لفظ گل کے ساتھ اس آیت میں جو كُلُّ شَيْءٍ هَالِكُ إِلَّا وَجْهَهُ ہے اور نیز اس آیت میں کہ كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ہے ہر ایک چیز کے لئے بجزا اپنی ذات کے موت ضروری ٹھہرا دی.پس جیسا کہ جسمی ترکیب میں انحلال ہو کر جسم پر موت آتی ہے ایسا ہی روحانی صفات میں تغیرات پیدا ہو کر رُوح پر موت آجاتی ہے مگر جو لوگ وجہ اللہ میں

Page 277

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة القصص محو ہو کر مرتے ہیں وہ بباعث اس اتصال کے جو اُن کو حضرت عزت سے ہو جاتا ہے دوبارہ زندہ کئے جاتے ہیں اور اُن کی زندگی خدا کی زندگی کا ایک ظل ہوتا ہے اور پلید روحوں میں بھی عذاب دینے کے لئے ایک حس پیدا کی جاتی ہے مگر وہ نہ مردوں میں داخل ہوتے ہیں نہ زندوں میں جیسا کہ ایک شخص جب سخت درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بدحواسی کی زندگی اس کے لئے موت کے برابر ہوتی ہے اور زمین و آسمان اُس کی نظر میں تاریک چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۶،۱۶۵) دکھائی دیتے ہیں.

Page 278

Page 279

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۲۴۷ سورة العنكبوت بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة العنكبوت بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ المنْ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتَرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ) کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعوئی سے چھوٹ جاویں گے.(برائین احمد یہ چہار شخص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جو شخص ایمان لاتا ہے اُسی کو عرفان دیا جاتا ہے.ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اُس حالت میں مان لینا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک وشبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی باوجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.اسی لئے ایک مردہ متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آ جاتا ہے اُسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرالیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ نہیں آتا اُس میں سنتِ صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے.اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اُٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اُس کی حالت پر رحم کر کے اور اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اُس کی دعاؤں کون کر معرفتِ تامہ کا

Page 280

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورة العنكبوت دروازہ اُس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۶۱) کامل تک اُس کو پہنچاتا ہے.کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں اسی قدر پر راضی ہو جاؤں کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور ابھی ان کا امتحان نہ کیا جائے.(الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۷) کتاب بحر الجواہر میں لکھا ہے کہ ابوالخیر نام ایک یہودی تھا جو پار ساطبع اور راستباز آدمی تھا.اور خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک جانتا تھا.ایک دفعہ وہ بازار میں چلا جاتا تھا تو ایک مسجد سے اُس کو آواز آئی کہ ایک لڑکا قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہا تھا ال - أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ یونہی وہ نجات پا جاویں گے صرف اس کلمہ سے کہ ہم ایمان لائے.اور ابھی خدا کی راہ میں اُن کا امتحان نہیں کیا گیا کہ کیا ان میں ایمان لانے والوں کی سی استقامت اور صدق اور وفا بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس آیت نے ابوالخیر کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس کے دل کو گداز کر دیا.تب وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر زار زار رویا.رات کو حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی خواب میں آئے اور فرمایا یا آبَا الْخَيْرِ اعْجَبَنِي أَنَّ مِثْلَكَ مَعَ كَمَالٍ فَضْلِكَ يُنْكِرُ بِنُبُوتی - یعنی اے ابوالخیر مجھے تعجب آیا کہ تیرے جیسا انسان با وجود اپنے کمال فضل اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے.پس صبح ہوتے ہی ابوالخیر مسلمان ہو گیا اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا.خلاصہ یہ کہ میں اس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لاشریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نا بینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۱،۱۵۰) مومن کو چاہئے کہ دوسرے کے حالات سے عبرت پکڑے کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جس امتحان میں خدا تعالیٰ نے یہودیوں کو ڈالا تھا وہی امتحان تمہارا بھی کیا گیا ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰۱) ی غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صد باولی فی الفور بن گئے.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ جب تک انسان آزمایا نہ جاوے فتن میں نہ ڈالا جاوے وہ کب ولی بن سکتا ہے....اہل اللہ مصائب شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں لوگوں کا یہ خیالِ

Page 281

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة العنكبوت خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلا مجاہدہ و تزکیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا.قرآن کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو جب تک نبیوں کی طرح مصائب و زلازل نہ آویں جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ (البقرة : ۲۱۵) اللہ کے بندے ہمیشہ بلاؤں میں ڈالے گئے پھر خدا نے ان کو قبول کیا.الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷ رجون ۱۹۰۳ ء صفحہ ۷) رضوان و قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں.ایک تو تشریعی احکام سے ترقی ہوتی ہے.اسی لئے تشریعی تکالیف فرما ئیں مگر یہ وہ تکالیف ہیں جن سے انسان بیچ سکتا ہے دوسرے وہ تکالیف ہیں جو خدا انسان کے سر پر ڈالتا ہے.کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اسے کہا جائے کہ تو اپنے بدن پر آپ مار تو وہ حتی الامکان ایسا نہ کرے گا کیونکہ انسان اپنے تئیں دکھ نہیں دینا چاہتا ہپس جو تکالیف اختیار میں ہیں ان سے بیچ کر وہ منزل مقصود تک نہیں پہنچتا مگر جو تکالیف خدا کی طرف سے ہوں وہ جب انسان پر پڑتی ہیں اور وہ ان پر صبر کرتا ہے تو اس کی ترقی کا موجب ہو جاتی ہیں....غرض کہ تکالیف دو قسم کی ہیں.ایک وہ حصہ ہے جو احکام پر مشتمل ہے مگر اس میں بہانوں کی گنجائش ہے صوم و زکوۃ وصلوۃ و حج جب تک پورا اخلاق نہ ہو.انسان ان سے پہلو تہی کر سکتا ہے پس اس کسر کو نکالنے کے لئے تکالیف سماویہ کا ورود ہوتا ہے تا کہ جو کچھ انسانی ہاتھ سے پورا نہیں ہواوہ خدا کی مدد سے پورا ہو جائے.آریہ کہتے ہیں تکالیف کسی پچھلے کرم کی سزا میں ہیں ہم کہتے ہیں یہ آئندہ ترقیات کے لئے ہیں ورنہ جپ تپ کرنا بھی ایک سزا ہو گا.( بدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ جون ۱۹۰۸ صفحہ ۷) ابتلا ضروری ہے جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۳۶) يُفْتَنُونَ - بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھوک مار کر عرش پر پہنچائے اور واصلین سے ہو جاویں ایسے لوگ ٹھٹھہ کرتے ہیں وہ انبیاء کے حالات کو دیکھیں یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ کسی ولی کے پاس جا کر صد باولی فی الفور بن گئے.اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يفتنون - جب تک انسان آزمایا نہ جاوے.فتن میں نہ ڈالا جاوے وہ کب ولی بن سکتا ہے.ایک مجلس میں بایزید وعظ فرما رہے تھے وہاں ایک مشائخ زادہ بھی جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا اس کو آپ سے اندرونی بغض

Page 282

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۰ سورة العنكبوت تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل کو لے لیا کیونکہ وہ لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوئے ہیں.وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (ال عمران : ۱۴۱) سو اس شیخ زادے کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے کہاں سے ایسا صاحب خوارق آگیا لوگ اس طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے.یہ باتیں خدا تعالیٰ نے بایزید پر ظاہر کیں.انہوں نے ایک قصہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لمپ....جل رہا تھا.تیل اور پانی میں بحث ہوئی.پانی نے تیل کو کہا کہ تو کثیف اور گندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے.میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لئے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں.اس کا باعث کیا ہے.تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں تو نے کہاں وہ جھیلی ہیں جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی.ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا.زمین میں مخفی رہا.خاکسار ہوا پھر خدا کے ارادہ سے بڑھا.بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا.پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا.کولہوؤں میں پیسا گیا.پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی.کیا ان مصائب کے بعد بھی میں بلندی حاصل نہ کرتا یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں.لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلامجاہدہ و تزکیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا.قرآن کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب و زلازل نہ آویں جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا حَتى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ الَّا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرة : ۲۱۵) اللہ کے بندے ہمیشہ بلاؤں میں ڈالے گئے.پھر خدا نے ان کو قبول کیا.(رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۴۳،۴۲) غرض اس سلسلہ میں جو ابتلاؤں کا سلسلہ ہوتا ہے بہت سی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت سی موتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے ہم قبول کرتے ہیں کہ ان انسانوں میں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں ان میں بعض بزدل بھی ہوتے ہیں.شجاع بھی ہوتے ہیں.بعض ایسے بزدل ہوتے ہیں کہ صرف قوم کی کثرت کو دیکھ کر ہی الگ ہو جاتے ہیں.انسان بات کو تو پورا کر لیتا ہے مگر ابتلا کے سامنے ٹھہر نامشکل ہے.خداوند تعالیٰ فرماتا ہے آحسِبَ النَّاسُ اَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایمان لائیں اور امتحان نہ ہو.غرض امتحان ضروری شے ہے اس سلسلہ میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلا سے خالی نہیں رہ سکتا.ہمارے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ.(الکام جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۹) ط

Page 283

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة العنكبوت قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ابتلاء آویں جیسے فرمایا أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف امنا کہنے سے چھوڑے جائیں اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں.انبیاء علیہم السلام کو دیکھو اوائل میں کس قدر دکھ ملتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دیکھو کہ آپ کو مکی زندگی میں کس قدر دکھ اٹھانے پڑے.طائف میں جب آپ گئے تو اس قدر آپ کے پتھر مارے کہ خون جاری ہو گیا تب آپ نے فرمایا کہ کیسا وقت ہے میں کلام کرتا ہوں اور لوگ منہ پھیر لیتے ہیں اور پھر کہا کہ اے میرے رب میں اس دکھ پر صبر کروں گا جب تک کہ تو راضی ہو جاوے.اولیاء اور اہل اللہ کا یہی مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے سید عبد القادر جیلانی لکھتے ہیں کہ عشق کا خاصہ ہے کہ مصائب آتے ہیں.انہوں نے لکھا ہے.عشقا ! ببر آ! تو مغز گرداں خوردی باشیر دلاں چه رستمی با کردی اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی ہر حیله که داری نکنی نامردی مصائب اور تکالیف پر اگر صبر کیا جاوے اور خدا تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضا ظاہر کی جاوے تو وہ مشکل کشائی کا مقدمہ ہوتی ہیں..ہر بلا کیں قوم را او داده است زیر آن یک گنج با بنهاده است آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا.دعا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے.جن مقدس لوگوں نے خدا کے فضل اور فیوض کو حاصل کیا.انہوں نے اس طرح حاصل کیا کہ خدا کی راہ میں مر مر کر فنا ہو گئے.خدا تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دس دن کے بعد گمراہ ہو جانے والے ہوتے ہیں.وہ اپنے نفس پر خود گواہی دیتے ہیں جبکہ لوگوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۴) مصیبت اور مشکلات بھی انسان کے ایمان کے پر کھنے کا ایک ذریعہ ہیں چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - (احکام جلد ۶ نمبر ۷ ۳ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷) جب سے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ہے یہی قانون چلا آیا ہے قبل از وقت ابتلاء ضرور آتے ہیں تا کچوں

Page 284

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة العنكبوت اور پکوں میں امتیاز ہو اور مومنوں اور منافقوں میں بین فرق نمودار ہو اسی لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یہ لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر نجات پا جائیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کا کوئی امتحان نہ ہو یہ بھی نہیں ہوتا.دنیا میں بھی امتحان اور آزمائش کا سلسلہ موجود ہے جب دنیوی نظام میں یہ نظیر موجود ہے تو روحانی عالم میں یہ کیوں نہ ہو؟ بغیر امتحان اور آزمائش کے حقیقت نہیں کھلتی.آزمائش کے لفظ سے یہ بھی دھوکا نہ کھانا چاہےکہ اللہ تعالیٰ کو جو عالم الغیب اور يَعْلَمُ السّر وَالْخَفی ہے.امتحان یا آزمائش کی ضرورت ہے اور بدوں امتحان اور آزمائش کے اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا.ایسا خیال کرنا نہ صرف غلطی ہے بلکہ کفر کی حد تک پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات کا انکار ہے.امتحان یا آزمائش سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے اور شخص زیر امتحان پر اس کی حقیقت ایمان منکشف ہو کر اسے معلوم ہو جاوے کہ وہ کہاں تک اللہ کے ساتھ صدق ، اخلاص اور وفا رکھتا ہے اور ایسا ہی دوسرے لوگوں کو اس کی خوبیوں پر اطلاع ملے.پس یہ خیال باطل ہے اگر کوئی کرے کہ اللہ تعالیٰ جو امتحان کرتا ہے تو اس سے پایا جاتا ہے کہ اس کو علم نہیں اس کو تو ذرہ ذرہ کا علم ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلاء آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے.کسی نے کیا اچھا کہا ہے.ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است ابتلاؤں اور امتحانوں کا آنا ضروری ہے بغیر اس کے کشف حقائق نہیں ہوتا.الحکم جلد۷ نمبر ۶ مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۱) تھوڑے ابتلا کا ہونا ضروری ہے جیسے لکھا ہے احسب النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا اَحَسِبَ يُفْتَنُونَ.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف تو مکہ میں فتح کی خبریں دی جاتی تھیں اور ایک طرف ان کو جان کی بھی خیر نظر نہ آتی تھی.اگر نبوت کا دل نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا.یہ اسی دل کا حوصلہ تھا.بعض ابتلا صرف تبدیلی کے واسطے ہوتے ہیں.عملی نمونے ایسے اعلیٰ درجہ کے ہوں کہ ان سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو کہ میں پہلے تھا بلکہ اب میں ایک اور انسان ہوں.اس وقت خدا کو راضی کر وحتی کہ تم کو بشارتیں ہوں.(البدر جلد اول نمبر ۹ مورخه ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۶۸) بیعت کرنا صرف زبانی اقرار ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے آپ کو فروخت کر دینا ہے خواہ ذلت ہو نقصان ہو.

Page 285

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة العنكبوت کچھ ہی کیوں نہ ہو کسی کی پرواہ نہ کی جاوے.مگر دیکھو اب کس قدر ایسے لوگ ہیں جو اپنے اقرار کو پورا کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کو آزمانا چاہتے ہیں.پس یہی سمجھ رکھا ہے کہ اب ہمیں مطلقاً کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور ایک پر امن زندگی بسر ہو حالانکہ انبیاؤوں اور قطبوں پر مصائب آئے اور وہ ثابت قدم رہے مگر یہ ہیں کہ ہر ایک تکلیف سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں.بیعت کیا ہوئی گویا خدا تعالیٰ کو رشوت دینی ہوئی حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ فقط کلمہ پڑھ لینے پر ہی چھوڑ دیئے جاویں گے اور ان کو ابتلاؤں میں نہیں ڈالا جاوے گا.پھر یہ لوگ بلاؤں سے کیسے بیچ سکتے ہیں.ہر ایک شخص کو جو ہمارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے جان لینا چاہیے کہ جب تک آخرت کے سرمایہ کا فکر نہ کیا جاوے کچھ نہ بنے گا اور یہ ٹھیکہ کرنا کہ ملک الموت میرے پاس نہ پھٹکے.میرے کنبے کا نقصان نہ ہو میرے مال کا بال بیکا نہ ہو.ٹھیک نہیں ہے.خود شرط وفا دکھلاوے اور ثابت قدمی وصدق سے مستقل رہے.اللہ تعالیٰ مخفی راہوں سے اس کی رعایت کرے گا.اور ہر ایک قدم پر ان کا مددگار بن جاوے گا.احکام جلدے نمبر ۲۴ مورخه ۳۰ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) جب اللہ تعالیٰ کسی آسمانی سلسلہ کو قائم کرتا ہے تو ابتلاء اس کی جزو ہوتے ہیں.جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے ضروری ہوتا ہے کہ اس پر کوئی نہ کوئی ابتلاء آوے تا کہ اللہ تعالیٰ سچے اور مستقل مزاجوں میں امتیاز کر دے اور صبر کرنے والوں کے مدارج میں ترقی ہو.ابتلاء کا آنا بہت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احب النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دیئے جاویں کہ ہم ایمان لائے اور ان پر کوئی ابتلاء نہ آوے ایسا کبھی نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ وہ غداروں اور کچوں کو الگ کر دے.پس ایمان کے بعد ضروری ہے کہ انسان دکھ اُٹھا دے بغیر اس کے ایمان کا کچھ مزا ہی نہیں ملتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے کیا کیا دکھ اُٹھائے.آخر ان کے صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے مدارج اور مراتب عالیہ عطا کئے.انسان جلد بازی کرتا ہے اور ابتلاء آتا ہے تو اس کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دنیا ہی رہتی ہے اور نہ دین ہی رہتا ہے مگر جو صبر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان پر انعام واکرم کرتا ہے اس لئے کسی ابتلاء پر گھبرانا نہیں چاہیے.ابتلاء مومن کو اللہ تعالیٰ کے اور بھی قریب کر دیتا ہے اور اس کی وفاداری کو مستحکم بناتا ہے لیکن کچھے اور غدار کو الگ کر دیتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۴)

Page 286

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورة العنكبوت انعام و برکات امتحان و ابتلاء کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں.یہ یادرکھو کہ ہمیشہ عظیم الشان نعمت ابتلاء سے آتی ہے اور ابتلاء مومن کے لئے شرط ہے جیسے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ اتنا ہی کہہ دینے پر چھوڑ دیئے جاویں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ایمان کے امتحان کے لئے مومن کو ایک خطرناک آگ میں پڑنا پڑتا ہے مگر اس کا ایمان اس آگ سے اس کو صحیح سلامت نکال لاتا ہے اور وہ آگ اس پر گلزار ہو جاتی ہے.مومن ہوکر ابتلاء سے کبھی بے فکر نہیں ہونا چاہیے اور ابتلاء پر زیادہ ثبات قدم دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے.اور حقیقت میں جو سچا مومن فکر ہے ابتلاء میں اس کے ایمان کی حلاوت اور لذت اور بھی بڑھ جاتی ہے.اللہ تعالی کی قدرتوں اور اس کے عجائبات پر اس کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ پہلے سے بہت زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا اور دعاؤں سے فتحیاب اجابت چاہتا ہے.یہ افسوس کی بات ہے کہ انسان خواہش تو اعلیٰ مدارج اور مراتب کی کرے اور ان تکالیف سے بچنا چاہے جو ان کے حصول کے لئے ضروری ہیں یقیناً یا د رکھو کہ ابتلاء اور امتحان ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر ایمان ایمان کامل ہوتا ہی نہیں اور کوئی عظیم الشان نعمت بغیر ابتلاء ملتی ہی نہیں.دنیا میں بھی عام قاعدہ یہی ہے کہ دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کے حاصل کرنے کے لئے قسم قسم کی مشکات اور رنج وتعب اُٹھانے پڑتے ہیں طرح طرح کے امتحانوں میں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کامیابی کی شکل نظر آتی ہے اور پھر بھی وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.پھر خدا تعالیٰ جیسی نعمت عظمی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں یہ بدوں امتحان کیسے میسر آسکے.الحاکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱) خدا تعالیٰ کی راہ میں جب تک انسان بہت سی مشکلات اور امتحانات میں پورا نہ اترے وہ کامیابی کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر سکتا.اسی لئے فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں....کامل ایمان دار بننے کے لئے مجاہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلاؤں اور امتحانوں سے ہوکر نکلنا پڑتا ہے.گوئیند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود و لیکن بخون جگر شود الحکم جلد ۸ نمبر۱۷ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) کیا انسانوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم صرف امنا ہی کہ کر چھٹکارا پالیں گے اور کیا وہ آزمائش میں نہ

Page 287

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة العنكبوت ڈالے جاویں گے.سواصل مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اسی لئے ہے کہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا ایمان لانے والے نے دین کو ابھی دنیا پر مقدم کیا ہے یا نہیں.آج کل اس زمانہ میں جب لوگ خدا کی راہ کو اپنے مصالح کے برخلاف پاتے ہیں یا بعض جگہ حکام سے ان کو کچھ خطرہ ہوتا ہے تو وہ خدا کی راہ سے انکار کر بیٹھتے ہیں ایسے لوگ بے ایمان ہیں.وہ نہیں جانتے کہ فی الواقعہ خدا ہی احکم الحاکمین ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا کی راہ بہت دشوار گزار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اتار لے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہوتا.ہمارے نزدیک بھی ایک بے وفا نوکر کسی قدر و منزلت کے قابل نہیں.جو نو کر صدق اور وفانہیں دکھلاتا وہ بھی قبولیت نہیں پاتا.اسی طرح جناب الہی میں وہ شخص پرلے درجہ کا بے ادب ہے جو چند روزہ دنیوی منافع پر نگاہ رکھ کر خدا کو چھوڑتا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخه ۸ /اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۳) لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہے اور کوئی امتحانی مشکل پیش نہ آئے گی یہ بالکل غلط خیال ہے.اللہ تعالی مومن پر ابتلا بھیج کر امتحان کرتا ہے.تمام راست بازوں سے خدا کی یہی سنت ہے.وہ مصائب اور شدائد میں ضرور ڈالے جاتے ہیں.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۵) ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ ابھی امتحان میں نہیں ڈالے گئے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمادی جاوے.وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے.اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لئے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لئے تو برسوں انتظار کرتے ہیں.کسان بیج بو کر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلاء کے نیچے آیا.خوب یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے یہاں ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ

Page 288

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة العنكبوت ہم کہہ دیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں چنانچہ اس نے فرمایا ہے احب النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنے ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو.یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی بنا دیا جاوے.اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے اور اپنے جاں نثار صحابہ کو پھونک مار کر ہی ولی بنا دیتے ان کو امتحان میں ڈلوا کر ان کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالیٰ ان کی نسبت یہ نہ فرما تا مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (الاحزاب : ۳۴) یہ نہ : پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بیوقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دود سمجھتا ہے.یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۳) لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور مسلمان ہیں لیکن وہ اصل میں نہیں ہوتے.زبانی اقرار تو ایک آسان بات ہے لیکن کر کے دکھانا اور بات ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آحسِبَ النَّاسُ الآية یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ مومن اور پکے ایمان دار ہیں اور ابھی وہ آزمائے نہیں گئے.پس جب تک آزمائش نہ ہو ایمان کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بہت لوگ ہیں جو آزمائش کے وقت پھسل جاتے ہیں اور تکلیف کے وقت ان کا ایمان ڈگمگا جاتا ہے.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۱۰) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف اتنا کہہ دینے سے ہی کہ ہم ایمان لائے چھوٹ جائیں گے اور ان کا امتحان نہ لیا جاوے گا.امتحان کا ہونا تو ضروری ہے اور امتحان بڑی چیز ہے.سب پیغمبروں نے امتحان سے ہی در جے پائے ہیں.یہ زندگی دنیا کی بھروسہ والی زندگی نہیں ہے.کچھ ہی کیوں نہ ہو آخر چھوڑنی پڑتی ہے.مصائب کا آنا ضروری ہے.دیکھو ایوب کی کہانی میں لکھا ہے کہ طرح طرح کی تکالیف اسے پہنچیں اور بڑے بڑے مصائب نازل ہوئے اور اس نے صبر کئے رکھا.(الحکم جلد نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) ۱۱ اصل میں ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.اگر انسان عمدہ عمدہ کھانے گوشت پلاؤ اور طرح طرح کے آرام و راحت میں زندگی بسر کر کے خدا کو ملنے کی خواہش کرے تو یہ محال ہے.بڑے بڑے زخموں اور سخت سے سخت ابتلاؤں کے بغیر انسان خدا کومل ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے آحَسِيبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا امَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ غرض بغیر امتحان کے تو بات بنتی ہی نہیں اور پھر امتحان بھی ایسا جو کہ کمر توڑنے والا ہو.

Page 289

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة العنكبوت ہمارے نبی کریم صلعم کا سب سے بڑھ کر مشکل امتحان ہوا تھا جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي انْقَضَ ظَهرَكَ (الم نشرح : ۳، ۴).الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ ۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف زبانی قیل وقال پر ہی ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور صرف اتنا کہنے سے ہی کہ ہم ایمان لے آئے دیندار سمجھے جاویں گے اور ان کا امتحان نہ ہوگا بلکہ امتحان اور آزمائش کا ہونا نہایت ضروری ہے.سب انبیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ترقی مدارج کے لئے آزمائش ضروری ہے اور جب تک کوئی شخص آزمائش اور امتحان کی منازل طے نہیں کرتا دیندار نہیں بن سکتا.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۸) خدا کے مامور پر ایمان لانے کے ساتھ ابتلا ء ضروری ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.کیا لوگوں نے سمجھا کہ چھوڑے جائیں گے یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے اور آزمائے نہ جائیں گے.گویا ایمان کی شرط ہے آزمایا جانا.صحابہ کرام کیسے آزمائے گئے.ان کی قوم نے طرح طرح کے عذاب دیئے.ان کے اموال پر بھی ابتلاء آئے.جانوں پر بھی، خویش واقارب پر بھی.اگر ایمان لانے کے بعد آسائش کی زندگی آجاوے تو اندیشہ کرنا چاہیے کہ میرا ایمان صحیح نہیں کیونکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے کہ مومن پر ابتلاء نہ آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا.وہ جب اپنی رسالت پر ایمان لائے تو اسی وقت سے مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا.عزیزوں سے جدا ہوئے.میل ملاپ بند کیا گیا.ملک سے نکالے گئے.دشمنوں نے زہر تک دے دیا.تلواروں کے سامنے زخم کھائے.اخیر عمر تک یہی حال رہا.پس جب ہمارے مقتداء و پیشوا کے ساتھ ایسا ہوا تو پھر اس پر ایمان لانے والے کون ہیں جو بچے رہیں.ایسے ابتلاء جب آویں تو مردانہ طریق سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے.ابتلاء اسی واسطے آتے ہیں کہ صادق جدا ہو جائے اور کاذب جدا.خدا رحیم ہے مگر وہ فنی اور بے نیاز بھی ہے.جب انسان اپنے ایمان کو استقامت کے ساتھ مدد نہ دے تو خدا کی مدد بھی منقطع ہو جاتی ہے.بعض آدمی صرف اتنی سی بات سے دہر یہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا لڑکا مر گیا یا بیوی مرگئی یا رزق کی تنگی ہوگئی حالانکہ یہ ایک ابتلاء تھا جس میں پورا نکلتے تو انہیں اس سے بڑھ کر دیا جاتا اور رزق کی تنگی سے پراگندہ دل ہونا مومن کا کام متقی کا شیوہ نہیں.یہ جو پراگنده روزی پراگندہ دل

Page 290

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سورة العنكبوت کہتے ہیں اس کے یہ معنے ہیں کہ جو پراگندہ دل ہو وہ پراگندہ روزی رہتا ہے اور اول تو صادقوں کے سوانح دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خود اپنے تئیں پراگندہ روزی بنالیا.دیکھو حضرت ابوبکر تاجر تھے بڑے معزز.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر سب کو دشمن بنا لیا.کاروبار میں بھی فرق آگیا.یہاں تک کہ اپنے شہر سے بھی نکلے.یہ بات خوب یا درکھو کہ سچی تقویٰ ایسی چیز ہے جس سے تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں اور کل پراگندگیوں سے نجات ملتی ہے.اخبار بدرجلدے نمبر ۷ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۳) جو لوگ خدائی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں پھر ان کے واسطے ہر طرح کے آرام و آسائش، رحمت اور فضل کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.دیکھو قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ آن يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ صرف زبان سے کہہ لینا تو آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا اور خدائی امتحان میں پاس ہونا بڑی بات ہے.القام جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخه ۱۶ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۸) خدا بڑا بے نیاز ہے.اس کو اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ کوئی جہنم میں جاوے یا کہ بہشت میں جاوے کسی کے دوزخ میں جانے سے خدا کا کچھ بگڑتا نہیں اور کسی کے بہشت میں جانے سے سنورتا نہیں.خدا کا اس میں ذاتی نفع یا نقصان کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ یعنی کیا بس اتنی بات سے کہ لوگ زبان سے اتنا کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے خدا راضی ہو جاتا ہے اور حال یہ کہ ابھی ان کے اس قول کا امتحان نہیں کیا گیا کہ آیا وہ حقیقتاً مومن ہیں بھی یا کہ نہیں اور ان کے اس قول کا صدق و کذب ظاہر نہیں ہوا.پس سچی اور پکی بات یہی ہے کہ انسان اول صدق ، اخلاص اور گدازش اختیار کر کے اپنے اوپر ہزاروں موتیں بسر کرے جب جا کر اللہ رحم کرتا ہے اور اس کی طرف جھانکتا ہے.جنتر منتر سے ولی بن جانے والے خیالات کے لوگ اور صرف ایک چھوہ سے آسمانی خزانوں کے مالک بن جانے کے خیالات رکھنے والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں.الحکام جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱٫۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۲) انسان دنیوی امتحان کے واسطے کیا کیا تیاریاں کرتا ہے اور کس قدر فکر اور غم اس کو ہوتا ہے اور کیسی کیسی شاقہ محنت برداشت کرتا ہے.بے فکری ہے تو کس سے؟ دینی امتحان سے نہیں محنت کی جاتی تو کس کے واسطے ؟ دین کے امتحان کے واسطے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفتنون.اللہ تعالیٰ بھی ایک امتحان کی طرف متوجہ کرتا ہے اس کا بھی کچھ فکر کرنا چاہیے اس امتحان کے واسطے

Page 291

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کچھ تیاری کرنی از بس لازمی ہے.۲۵۹ سورة العنكبوت الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۲) خطرناک مشکلات میں ثابت قدم رہنا اور قدم آگے ہی آگے اُٹھانا اور خدائی امتحان میں پاس ہو جانا کچے اور حقیقی ایمان کی دلیل ہے.مشکلات کا آنا اور ابتلاؤں کا آنا مومن پر ضروری ہے تا ظاہر ہو کہ کون سچا مومن اور کون صرف زبانی ایمان کا مدعی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۸) هُمْ لَا يُفْتَنُونَ - یہ ضرور ہے کہ مخالف بھی ہوں کیونکہ سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر شخص جو خدا کی طرف قدم اُٹھاتا ہے اس کے لئے امتحان ضروری رکھا ہوا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے احسبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - امتحان خدا کی عادت ہے.یہ خیال نہ کرو کہ عالم الغیب خدا کو امتحان کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اپنی سمجھ کی غلطی ہے اللہ تعالیٰ امتحان کا محتاج نہیں ہے انسان خود محتاج ہے تاکہ اس کو اپنے حالات کی اطلاع ہو اور اپنے ایمان کی حقیقت کھلے.مخالفانہ رائے سن کر اگر مغلوب ہو جاوے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قوت نہیں ہے.جس قدر علوم و فنون دنیا میں ہیں بدوں امتحان ان کو سمجھ نہیں سکتا.خدا کا امتحان یہی ہے کہ انسان سمجھ جاوے کہ میری حالت کیسی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مامور من اللہ کے دشمن ضرور ہوتے ہیں جو ان کو تکلیفیں اور اذیتیں دیتے ہیں.توہین کرتے ہیں.ایسے وقت میں سعید الفطرت اپنی روشن ضمیری سے ان کی صداقت کو پالیتے ہیں.پس ماموروں کے مخالفوں کا وجود بھی اس لئے ضروری ہے جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹے کا وجود ہے.تریاق بھی ہے تو زہریں بھی ہیں.کوئی ہم کو کسی نبی کے زمانہ کا پتہ دے جس کے مخالف نہ ہوئے ہوں اور جنہوں نے اس کو دکاندار ، ٹھنگ، جھوٹا، مفتری ، نہ کہا ہو.موسیٰ علیہ السلام پر بھی افتر ا کر دیا یہاں تک کہ ایک پلید نے تو زنا کا انتہام لگا دیا اور ایک عورت کو پیش کر دیا.غرض ان پر ہر قسم کے افترا کئے جاتے ہیں تا لوگ آزمائے جائیں اور یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ خدا کے لگائے ہوئے پودے ان نابکاروں کی پھونکوں سے معدوم کئے جاویں.یہی ایک نشان اور تمیز ہوتی ہے ان کے خدا کی طرف سے ہونے کی کہ مخالف کوشش کرتے ہیں کہ وہ نابود ہو جائیں اور وہ بڑھتے اور پھولتے ہیں.ہاں جو خدا کی طرف سے نہ ہو وہ آخر معدوم اور نیست و نابود ہو جاتا ہے لیکن جس کو خدا نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ کسی کی کوشش سے نابود نہیں ہوسکتا.وہ کاٹنا چاہتے ہیں اور یہ بڑھتا ہے.اس سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ خدا کا ہاتھ ہے جو اس کو تھامے ہوئے ہے.

Page 292

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة العنكبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قدر عظیم الشان معجزہ ہے کہ ہر طرف سے مخالفت ہوتی تھی مگر آپ ہر میدان میں کامیاب ہی ہوتے تھے.صحابہ کے لئے یہ کیسی دل خوش کرنے والی دلیل تھی جب وہ اس نظارے کو دیکھتے تھے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۵) ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے.خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۹۹) ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے مومن کو چاہیے کہ ایک بہادر کی طرح ان کو قبول کرے.خدا تعالیٰ مومن کو تباہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ابتلاؤں کو اس لئے نازل کرتا ہے کہ اس کے گناہ بخشے اور اس کا مرتبہ زیادہ کرے.مکتوبات احمد یہ جلد ۵ حصہ اول صفحه ۱۲ ( مکتوب نمبر ۲۸ بنام حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی ) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنْدُ خِلَنَّهُمْ فِي الصَّلِحِينَ یعنی ہماری یہی سنت مستمرہ قدیمہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاویں اور عمل صالح کریں ہم ان کو صالحین میں داخل کر لیا کرتے ہیں.اب حضرت مولوی صاحب دیکھئے کہ لند خلَنَّهُمْ میں نون ثقیلہ ہے لیکن اگر اس جگہ آپ کی طرز پر معنے کئے جائیں تو اس قدر فساد لازم آتا ہے جو کسی پر پوشیدہ نہیں کیونکہ اس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ یہ قاعدہ آئندہ کے لئے باندھا گیا ہے اور اب تک کوئی نیک اعمال بجالا کر صلحاء میں داخل نہیں کیا گیا.گویا آئندہ کے لئے گنہ گار لوگوں کی تو بہ منظور ہے اور پہلے اس سے دروازہ بند ہو رہا ہے.سو آپ سوچیں کہ ایسے معنے کرنا کس قدر مفاسد کو مستلزم ہے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۴) جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ہم ان کو ضرور ضرور صالحین میں داخل کر دیتے ہیں.اس پر بعض اعتراض کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ کرنے والے صالحین ہوتے ہیں پھر ان کو صالحین میں داخل کرنے سے کیا مراد ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ صلاحیت کی دو قسم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ انسان تکالیف شاقہ اٹھا کر نیکیوں کا بوجھ اٹھاتا ہے.نیکیاں کرتا ہے لیکن ان کے کرنے میں اسے تکلیف اور بوجھ معلوم ہوتا ہے اور اندر نفس کے کشاکش موجود ہوتی ہے اور جب وہ نفس کی مخالفت کرتا ہے تو سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ اعمالِ صالحہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر

Page 293

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۱ سورة العنكبوت ایمان لاتا ہے جیسا کہ اس آیت کا منشاء ہے.اس وقت وہ تکالیف شاقہ اور محنتیں جو خود نیکیوں کے لئے برداشت کرتا ہے اُٹھ جاتی ہیں اور طبعی طور پر وہ صلاحیت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ تکالیف تکالیف نہیں رہتی ہیں اور نیکیوں کو ایک ذوق اور لذت سے کرتا ہے اور ان دونوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ پہلا نیکی کرتا ہے مگر تکلیف اور تکلف سے اور دوسرا ذوق اور لذت سے.وہ نیکی اس کی غذا ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا اور وہ تکلف اور تکلیف جو پہلے ہوتی تھی.اب ذوق و شوق اور لذت سے بدل جاتی ہے یہ مقام ہوتا ہے صالحین کا جن کے لئے فرما یا لَنُدُ خِلَنَّهُمْ فِي الصَّلِحِينَ اس مقام پر پہنچ کر کوئی فتنہ اور فساد مومن کے اندر نہیں رہتا.نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات پر فتح پا کر مطمئن ہو کر دار الامان میں داخل ہو جاتا ہے.( الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۲ و الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللهِ وَلَبِنْ جَاءَ نَصْرُ مِنْ رَّبِّكَ لَيَقُولُنَ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ اَو لَيْسَ اللهُ باَعْلَمُ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَلَمِينَ.اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زبانی تو ایمان کے دعوے کرتے ہیں اور مومن ہونے کی لاف وگزاف مارتے رہتے ہیں.لیکن جب معرض امتحان و ابتلا میں آتے ہیں تو ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اس فتنہ وابتلا کے وقت ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر ویسا نہیں رہتا بلکہ شکایت کرنے لگتے ہیں.اسے عذاب الہی قرار دیتے ہیں حقیقت میں وہ لوگ بڑے ہی محروم ہیں جن کو صالحین کا مقام حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہی تو وہ مقام ہے جہاں انسان ایمانی مدارج کے ثمرات کو مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی ذات پر ان کا اثر پاتا ہے اور نئی زندگی اسے ملتی ہے لیکن یہ زندگی پہلے ایک موت کو چاہتی ہے اور یہ انعام و برکات امتحان و ابتلا کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں....یقیناً یا درکھو کہ ابتلا اور امتحان ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر ایمان ، ایمان کامل ہوتا ہی نہیں اور کوئی عظیم الشان نعمت بغیر ابتلا ملتی ہی نہیں ہے.دنیا میں بھی عام قاعدہ یہی ہے کہ دنیوی آسائشوں اور نعمتوں کے حاصل کرنے کے لئے قسم قسم کی مشکلات اور رنج و تعب اُٹھانے پڑتے ہیں طرح طرح کے امتحانوں میں

Page 294

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۲ سورة العنكبوت سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کامیابی کی شکل نظر آتی ہے اور پھر بھی وہ محض خدا تعالیٰ کے فضل پر ہوکر موقوف ہے پھر خدا تعالیٰ جیسی نعمت عظمیٰ جس کی کوئی نظیر ہی نہیں یہ بدوں امتحان کیسے میسر آ سکے.پس جو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو پاوے اسے چاہیے کہ وہ ہر ایک ابتلا کے لئے طیار ہو جاوے.جب اللہ تعالی کوئی سلسلہ قائم کرتا ہے جیسا کہ اس وقت اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے تو جو لوگ اس میں اولاً داخل ہوتے ہیں ان کو قسم قسم کی تکالیف اُٹھانی پڑتی ہیں ہر طرف سے گالیاں اور دھمکیاں سننی پڑتی ہیں.کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ یہاں تک کہ ان کو کہا جاتا ہے کہ ہم تم کو یہاں سے نکال دیں گے یا اگر ملازم ہے تو اس کے موقوف کرانے کے منصوبے ہوتے ہیں.جس طرح ممکن ہوتا ہے تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو جان لینے سے دریغ نہیں کیا جاتا.ایسے وقت میں جولوگ ان دھمکیوں کی پروا کرتے ہیں اور امتحان کے ڈر سے کمزوری ظاہر کرتے ہیں.یاد رکھو خدا تعالیٰ کے نزدیک ان کے ایمان کی ایک پیسہ بھی قیمت نہیں ہے کیونکہ وہ ابتلا کے وقت خدا سے نہیں انسان سے ڈرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کی پروا نہیں کرتا وہ بالکل ایمان نہیں لایا کیونکہ دھمکی کو اس کے مقابلہ میں وقعت دیتا اور ایمان با چھوڑنے کو طیار ہو جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صالحین میں داخل ہونے سے محروم ہو جاتا ہے.یہ خلاصہ اور مفہوم ہے اس آیت کا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللهِ - الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۲،۱) إنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانَا وَ تَخْلُقُونَ اِفْعًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُواله الَيْهِ تُرْجَعُونَ تم اے مشرکو بجز خدا کے صرف بے جان بتوں کی پرستش کرتے ہو اور سراسر جھوٹ پر تم رہے ہو.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) و إلى مَدينَ أَخَاهُمُ شُعَيْبًا فَقَالَ يُقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ وَارجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثُوا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو.یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی

Page 295

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة العنكبوت جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں اور پھر فرمایا کہ تم اچھی چیزوں کے عوض میں خبیث اور ر دی چیزیں نہ دیا کرو...ان تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے تمام طریقے بد دیانتی کے بیان فرما دیئے اور ایسا کلام کلی کے طور پر فرمایا جس میں کسی بددیانتی کا ذکر باہر نہ رہ جائے.صرف یہ نہیں کہا کہ تو چوری نہ کرتا ایک نادان یہ نہ سمجھ لے کہ چوری میرے لئے حرام ہے مگر دوسرے ناجائز طریقے سب حلال ہیں.اس کلمہ جامع کے ساتھ تمام ناجائز طریقوں کو حرام ٹھہرانا یہی حکمت بیانی ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۸،۳۴۷) ج وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ.جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روز روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے وَ تِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں کہ جو صاحب علم اور دانشمند ہیں.( براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۳۰۱،۳۰۰ حاشیه ۱۱) أتلُ مَا أَوْحَى إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَب وَاَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ) ۴۶ نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے.جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہہ بالعدم قرار دے کر جور بوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پر تو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حق نہیں ہے.اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اسے انقطاع ہو جاتا ہے اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے.اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے ایک خاص

Page 296

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة العنكبوت کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کا نام صلوۃ ہے.پس یہی وہ صلوات ہے جو سیئات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خاروخس سے جو اس کی راہ میں ہوتے ہیں آگاہ کر کے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے جبکہ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ کا اطلاق اس پر ہوتا ہے....کیونکہ اس کے شمع دانِ دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلل کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے پھر گناہ کا خیال اسے آ کیوں کر سکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا.فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی.غرض اسے ایسی لذت، ایسا سرود حاصل ہوتا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسے کیوں کر بیان کروں.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۲اپریل ۱۸۹۹ء صفحه ۶،۵) نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجالانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے.شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا وہ اسی ذریعہ سے کرے گا.پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے...جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۷) اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے کیونکہ روزہ تو ایک سال کے بعد آتے ہیں اور زکوۃ صاحب مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو ) پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں.اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں.کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے.جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے کہ اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے لہر آجاوے تو ابھی دے دیوے.بڑی تضرع سے دعا کرے نا امید اور بدظن ہرگز نہ ہو وے اور اگر اس طرح کرے تو (اس راحت کو ) جلدی دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا.تو یہ طریق ہے جس پر کار بند ہونا چاہیے مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لا پرواہ

Page 297

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة العنكبوت ہے اور خدا تعالیٰ بھی اس سے لا پرواہ ہے.ایک بیٹا اگر باپ کی پرواہ نہ کرے اور نا خلف ہو تو باپ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ / فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۸) نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ یہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سوتم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نماز نعمتوں کی جان ہے اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں سو اس کو سنوار کر ادا کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو.انتقام جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں.مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا ؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.بھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتار ہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو کیونکہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جاسکتا ہے.اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر مجھے راضی کر لیں.خدا کی محبت ، اسی کا خوف ، اسی کی یاد میں دل لگا ر ہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا ؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سور بنا.یہ تو دین ہر گز نہیں.یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کا فروالی بات بالکل راست اور صحیح ہے.چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ اذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا نِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة : ۱۵۸) یعنی اے میرے بندو تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا.اور میرا شکر کیا کرو، میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.

Page 298

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة العنكبوت اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اس سے غفلت کا نام کفر ہے.پس جو دم غافل وہ دم کا فروالی بات صاف ہے.پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا ا ہے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہیے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اسی کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے اس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے.جتنی لہی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی، کوشش اور محنت اور دیر تک اسے چلنا ہوگا.سوخدا تک پہنچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اس کا بعد اور دوری بھی لبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اسے دل کی تسکین ، آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے ، التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے.خدا کے آگے سر بسجو د رہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے.پھر آخر سچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بجر حقیقی نماز کے ممکن ہے.ہر گز نہیں اور پھر جن کا خدا ہی ایسا نہیں وہ بھی گئے گزرے ہیں.ان کا کیا دین اور کیا ایمان ہے.وہ کس امید پر اپنے اوقات ضائع کرتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸،۷) نم

Page 299

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة العنكبوت نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الہیہ کا مورد بنادیتی ہے.کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے.اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے اب ذرا غور کرو نماز کی ابتداء اذاں سے شروع ہوتی ہے اذاں اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لا اله الا اللہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اول اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے.پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.( منقول از ٹریکٹ نمبر ” حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدۃ الوجود پر ایک خط مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب صفحہ ۱۸) نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی....نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک انسان دعاؤں میں نہ لگار ہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہو سکتا اس لئے چاہیے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاؤں سے خالی نہ ہو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰/جنوری۱۹۰۸ صفحه ۴) وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَبُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا امَنَّا بِالَّذِى أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ انْزِلَ إِلَيْكُمْ وَالْهُنَا وَ الْهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.اس مسئلہ میں کسی سمجھدار مسلمان کو اختلاف نہیں کہ دینی حمایت کے لئے ہمیں کسی جوش یا اشتعال کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ ہمارے لئے قرآن میں یہ حکم ہے وَ لَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور دوسری جگہ یہ حکم ہے کہ اُدعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ احْسَنُ (النحل : ۱۲۶) اس کے معنے یہی ہیں کہ نیک طور پر اور ایسے طور پر جو مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور کا پابند ہونا چاہیے کہ ان کو فائدہ بخشے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۱۷)

Page 300

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة العنكبوت وَ كَذلِكَ اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ فَالَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمِنْ هؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الْكَفِرُونَ وَمَا كُنتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَب وَلَا تَخْطُهُ بِيَمِينِكَ إِذَ الأَرْتَابَ الْمُبْطِلُونَ بَلْ هُوَ ايتَ بَيِّن فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ ۲۳ ج ط - مضمون پڑھنے والے نے بیان کیا کہ قرآن بائبل کی نقل ہے اس سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی بیبا کی اور دروغ گوئی میں کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے دنیا میں کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن شریف تیس برس برابر یہود اور نصاریٰ کے رو برواتر تا رہا مگر کسی نے یہ اعتراض نہ کیا کہ قرآن شریف بائبل کی نقل ہے اور خود ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُمّی تھے اور نہ لکھ سکتے تھے اور نہ پڑھ سکتے تھے اور نصاریٰ اور یہود کے علماء سخت دشمن تھے اس صورت میں کیوں کر ممکن تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نصاری اور یہود کی کتابوں میں سے کچھ نقل کر سکتے تھے چنانچہ اس بارے میں قرآن شریف میں یہ آیات ہیں وَ كَذلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الكتب، فَالَّذِينَ أتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَ مِنْ هَؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الْكَفِرُونَ - وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَبِ وَلَا تَخْطُهُ بِيَمِينِكَ إِذَا لَأَرْتَابَ الْمُبْطِلُونَ - بَلْ هُوَ اين بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ وَ مَا يَجْحَدُ بِأَيْتِنَا إِلَّا الظَّلِمُونَ الجز ونمبر ۲۱ سورۃ العنکبوت ( ترجمہ ) اور اے پیغمبر ! جس طرح اگلے پیغمبروں پر ہم نے کتا میں اتاری تھیں اسی طرح تجھ پر یہ کتاب اُتاری ہے.پس جن کو تجھ سے پہلے ہم نے کتاب دی ہے اُن کے سمجھدار اور سعید لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان مشرکین اہل مکہ سے بھی سوچنے والے لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان دونوں فرقوں میں سے وہ لوگ ایمان نہیں لاتے جنہوں نے دیدہ و دانستہ کفر کو اپنے لئے اختیار کر لیا ہے.اور اے پیغمبر ! قرآن سے پہلے نہ تو تم کوئی کتاب ہی پڑھتے تھے اور نہ تم اپنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتے تھے اگر ایسا ہوتا تو ان بے دین لوگوں کو شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہوتی مگر اب تو اُن کا شبہ سراسر ہٹ دھرمی ہے یعنی جبکہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محض ناخواندہ اور اُقی تھے اور کوئی نہیں ثابت کر سکا کہ آپ لکھ سکتے یا پڑھ سکتے تھے تو پھر ایسے شبہات ایمانداری کے برخلاف ہیں اور پھر فرمایا کہ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو قرآن شریف کے حقائق اور معارف کا علم دیا گیا ہے اُن کے نزدیک تو قرآن شریف خدا کے کھلے

Page 301

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۲۶۹ سورة العنكبوت کھلے نشان ہیں یعنی اعتراض وہی لوگ کرتے ہیں جو قرآن شریف میں کچھ تد برنہیں کرتے اور اس کے معجزانہ مرتبہ سے بے خبر ہیں اور تدبر کرنے والے تو ایک ہی نظر سے شناخت کر جاتے ہیں کہ یہ کلام انسانی طاقتوں سے برتر ہے کیونکہ وہ اعجازی صفت اپنے اندر رکھتا ہے.علاوہ اس کے یہ کہ وہ عین ضرورت کے وقت آیا ہے اور اس وقت آیا ہے جبکہ دنیا خدا کے راہ کو بھول چکی تھی اور جن بیماروں کے لئے آیا اُن کو اس نے چنگا کر کے دکھلا دیا اور نہ توریت اور نہ انجیل وہ اصلاح کر سکی جو قرآن شریف نے کی.کیونکہ توریت کی تعلیم پر چلنے والے یعنی یہودی ہمیشہ بار بار بت پرستی میں پڑتے رہے چنانچہ تاریخ جاننے والے اس پر گواہ ہیں اور وہ کتا ہیں کیا با عتبار علمی تعلیم کے اور کیا باعتبار عملی تعلیم کے سراسر ناقص تھیں اس لئے اُن پر چلنے والے بہت جلد گمراہی میں پھنس گئے.انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسی خدا بنائے گئے اور تمام نیک اعمال کو چھوڑ کر ذریعہ معافی گناہ یہ ٹھہرا دیا کہ اُن کے مصلوب ہونے اور خدا کا بیٹا ہونے پر ایمان لایا جائے پس کیا یہی کتابیں تھیں جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کی بلکہ سچ تو یہ بات ہے کہ وہ کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک رڈی کی طرح ہو چکی تھیں اور بہت جھوٹ اُن میں ملائے گئے تھے جیسا کہ کئی جگہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہیں اور اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہیں چنانچہ اس واقعہ پر اس زمانہ میں بڑے بڑے محقق انگریزوں نے بھی شہادت دی ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶۴ تا ۲۶۶) اور اس سے پہلے تو کسی کتاب کو نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا تا باطل پرستوں کو شک کرنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی بلکہ وہ آیات بینات ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں ہیں اور ان سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں.ان تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت امی اور ناخواندہ نہ ہوتے تو بہت سے لوگ اس دعویٰ امیت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہو جاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات اور واقعات سے بے خبر اور نا واقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتدا عمر سے نشو و نما پایا تھا اور ایک حصہ کلاں عمر اپنی کا اُن کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا.پس اگر فی الواقع جناب ممدوح امی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے اُمّی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے

Page 302

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة العنكبوت نام بھی لے سکتے جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا اور جو ہر وقت اس گھات میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی خلاف کوئی ثابت کریں اور اس کو مشتہر کر دیں.جن کا عناد اس درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ اگر بس چل سکتا تو کچھ جھوٹ موٹ سے ہی ثبوت بنا کر پیش کر دیتے اور اسی جہت سے ان کو ان کی ہر یک بدظنی پر ایسا مسکت جواب دیا جاتا تھا کہ وہ ساکت اور لا جواب رہ جاتے تھے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۶۹ تا ۵۷۲) بَلْ هُوَ ايت بينت فِي صُدُورِ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں پس ظاہر ہے کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے اور جبکہ قرآن کی جگہ مومنوں کے سینے ٹھہرے تو پھر یہ آیت که إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لحفظون ( الحجر :١٠) بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ توریت اور انجیل یہود اور نصاری کے سینوں سے محو کی گئی اور گوتوریت اور انجیل ان کے ہاتھوں اور ان کے صندوقوں میں تھی لیکن ان کے دلوں سے محو ہو گئی یعنی ان کے دل اس پر قائم نہ رہے اور انہوں نے توریت اور انجیل کے اپنے دلوں میں قائم اور بحال نہ کیا.غرض یہ آیت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا بر باد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روز اول سے اس کا پودہ دلوں میں جمایا گیا یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۱،۳۵۰) و، b وَقَالُوا لَو لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أَيْتَ مِنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِين اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ قُلْ كَفَى بِاللهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۚ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوا بِاللهِ أُولَبِكَ هُمُ الخسِرُونَ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَوْ لَا اَجَل مُّسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَوْ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (۵۴) کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں (جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں ) وہ تو

Page 303

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة العنكبوت خدائے تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں.یعنی میرا کام فقط یہ ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ کیا ان لوگوں کے لئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں ) یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمی ) وہ کتاب ( جو جامع کمالات ہے ) نازل کی جو اُن پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے.جس سے در حقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کفار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تاوہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچا دے.صرف دیکھنے کی چیز نہ رہے کیونکہ مجرد رویت کے نشانوں میں ان کو دھو کے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال سو اس وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جائے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے؟ کیا اس مدعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں ؟ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنی پر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنے فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ ومعارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.مدت ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے.آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور الحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جذامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں.اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دُور ہوتی ہے اور وصل الہی میسر آتا ہے اور اس کی علامات پیدا ہوتی ہیں.سو تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نشان مانگتے ہو؟ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے.رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی.اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب کی نازل ہوگئی ہوتیں اور عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی.اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے یہ آیتیں تو بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ کفار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا.سو اول انہیں کہا گیا کہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان

Page 304

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ سورة العنكبوت تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا.پس کیوں تم ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یا درکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا.پس اللہ جل شانہ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی.پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے.جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے.محض صرف و نحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.یادرکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے.خواہ وہ ارادہ تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃ.مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا، تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعوی ہے کہ کل کو ہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کالا ہے.جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے، درست نہیں.مکہ کے مغلوب بت پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آنجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گوبے جا پیرایوں میں ہی سہی، مگر نشانوں کا اقرار کر لیا کرتے تھے.جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں.وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطعہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگے.اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا مشرف بالاسلام کیوں ہو جاتے ؟ اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کو تہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ دو، علیہ وسلم کے نام ساحر رکھتے تھے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرُ مُسْتَر ( القمر : ۳) یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پکا جادو ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُمْ وَ قَالَ الكَفِرُونَ هذا سحرُ كَذَّابٌ ( ص : ٥) یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجا گیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذاب ہے.اب ظاہر ہے کہ جبکہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر

Page 305

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة العنكبوت کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کے لئے کچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیوں کر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور انکار معجزات میں ایسالا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمر رائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جس جگہ پر قرآن شریف میں کفار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُتری ؟ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں.اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی.اب قصہ کو تاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کوقرائن کی حد سے زیادہ کھینچ دیا ہے ایسالا نافیہ عربوں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا.ان کے دل تو اسلام کی حقیت سے بھرے ہوئے تھے.تب ہی تو سب کے سب بجر معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے جس کا اُن کو وعدہ دیا گیا تھا بالآخر مشرف بالا سلام ہو گئے تھے اور یادر ہے کہ ایسالا نافیہ حضرت مسیح کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.فریسیوں نے مسیح کے نشانات طلب کئے اُس نے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتا ہوں اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.دیکھو مرقس ۸ باب ۱۱.اب دیکھو کیسا حضرت مسیح نے صفائی سے انکار کر دیا ہے اگر غور فرمائیں تو آپ کا اعتراض اس اعتراض کے آگے کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ آپ نے فقط کفار کا انکار پیش کیا اور وہ بھی نہ عام انکار بلکہ خاص نشانات کے بارے میں اور ظاہر ہے کہ دشمن کا انکار بھی قابل اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ دشمن خلاف واقعہ بھی کہہ جاتا ہے مگر حضرت مسیح تو آپ اپنے منہ سے معجزات کے دکھلانے سے انکار کر رہے ہیں اور نفی صدور معجزات کو زمانہ کے ساتھ متعلق کر دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا پس اس سے بڑھ کر انکار معجزات کے بارے میں اور کون سا بیان واضح ہو سکتا ہے اور اس لا نافیہ سے بڑھ کر پھر اور کون سالا نافیہ (ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۸ تا ۴۳۵) واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفار کی طرف سے صرف ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور ان سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے.ہوگا.

Page 306

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۷۴ سورة العنكبوت (۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے اقتراح سے کفار مکہ نے طلب کئے تھے.(۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے.(۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بکلی اُٹھ جائے ، جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بکلی برخلاف ہے.سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں یہی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو ، عذاب نازل ہوگا.ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہو چکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا.لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بکی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب.انکار ہی تھا نہ اور کچھ.کیونکہ کفار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لائیں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نردبان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نردبان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب نہ لاوے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر.یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے.شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جائیں اور جس قدر ابتدا دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں، سب زندہ ہو کر آجائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڑھا ہمیشہ سچ بولتا تھا.اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعوی حق ہے یا باطل؟ یہ سخت سخت خود تراشید و نشان تھے جو وہ مانگتے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جن کا ذکر قرآن شریف میں جابجا آیا ہے.پس سوچنے والے کے لئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاهره و آیات ببینه ور سولانہ ہیئت پر صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے.خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولی و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز وتنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیئت سے منہ پھیر کر سراسر ٹالنے اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے.ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے.یوں تو اللہ جلشانہ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زینہ رکھ دیوے.جس کو سب لوگ دیکھ لیو میں اور دو چار ہزار کیا دو چار کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے

Page 307

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة العنكبوت اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے.یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے.پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا ایمان کام نہیں آتا.اسی طرح اس انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ اخفا بھی باقی رہے جب سارے پر دے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نردبان رکھ کر اور سب کے رو برو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ ۴۳۳ تا ۴۳۴ حاشیہ ) دیکھو! کسی خاص شخص کی پرواہ نہ خدا کو منظور ہوا کرتی ہے اور نہ ہی اس کے رسول کسی خاص شخص کی ہدایت کے لئے زور دیا کرتے ہیں بلکہ ان کی دعائیں اور اضطراب عام خلق خدا کے واسطے ہوتے ہیں دیکھو رسول اکرم سے بھی معجزات مانگے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کیا جواب دیا وَقَالُوا لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أَيْتُ مِّنْ رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللہ اللہ تعالیٰ نے اقتراح کو منع کیا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اقتراح کرنے والے لوگ ہمیشہ ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں کیونکہ خدا نہ ان کی مرضی اور خواہشات کا تابع ہوتا ہے اور نہ وہ ہدایت پاتے ہیں.دیکھ لو جب نشانات اور منجزات اقتراحی رنگ میں طلب کئے گئے جب ہی یہی جواب ملا قُلْ سُبْحَانَ رَبّى هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَسُولًا (بنی اسرائیل : ۹۴) - ط الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱/۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) قُلْ إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللہ یعنی ان کو کہ دو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ جی قیوم، قادر مطلق ، عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویں تا نشانی ایمان داری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت کے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب بچے عیسائی کے

Page 308

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة العنكبوت نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اس وقت زندہ مذہب نہیں ہے لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے بچے ایمان دار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں.اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چھری چاہیں ہماری گلے میں پھیر دیں اور وہ طریق نشان نمائی کا جس کے لئے ہم مامور ہیں وہ یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے جو ہمارا سچا اور قادر خدا ہے اس مقابلہ کے وقت جو ایک بچے اور کامل نبی کا انکار کیا جاتا ہے تضرع سے کوئی نشان مانگیں تو وہ اپنی مرضی سے نہ ہمارا محکوم اور تابع ہو کر جس طرح چاہے گا نشان دکھلائے گا.آپ خوب سوچیں کہ حضرت مسیح بھی باوجود آپ کے اس قدر غلو کے اقتداری نشانات کے دکھلانے سے عاجز رہے.دیکھئے مرقس ۸-۱۲،۱۱.یہ لکھا ہے ” تب فریسی نکلے اور اس سے حجت کر کے یعنی جس طرح اب اس وقت مجھ سے حجت کی گئی اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کے کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا.اب دیکھئے کہ یہودیوں نے اسی طرز سے نشان مانگا تھا.حضرت مسیح نے آہ کھینچ کر نشان دکھلانے سے انکار کر دیا.پھر اس سے بھی عجب طرح کا ایک اور مقام دیکھئے کہ جب میخ صلیب پر کھینچے گئے تو تب یہودیوں نے کہا کہ اس نے اوروں کو بچایا پر آپ کو نہیں بچا سکتا اگر اسرائیل کا بادشا ہے تو اب صلیب سے اتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.اب ذرا نظر غور سے اس آیت کو سوچیں کہ یہودیوں نے صاف عہد اور اقرار کر لیا تھا کہ اب صلیب سے اتر آوے تو وہ ایمان لاویں گے لیکن حضرت مسیح اتر نہیں سکے.ان تمام مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ نشان دکھلانا اقتداری طور پر انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ایک اور مقام میں حضرت مسیح فرماتے ہیں یعنی متی ۱۲ - ۳۸ کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان دکھلایا نہ جائے گا.اب دیکھئے کہ اس جگہ حضرت مسیح نے ان کی درخواست کو منظور نہیں کیا بلکہ وہ بات پیش کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو معلوم تھی.اسی طرح میں بھی وہ بات پیش کرتا ہوں جو خدا تعالی کی طرف سے مجھ کو معلوم ہے.میرا دعویٰ نہ خدائی کا ہے اور نہ اقتدار کا اور میں ایک مسلمان آدمی ہوں جو قرآن شریف کی پیروی کرتا ہوں اور قرآن شریف کی تعلیم کی رو سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۶،۱۵۵)

Page 309

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۷۷ سورة العنكبوت قف كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ) بغیر مرنے کے کوئی اس جہان سے ہمیشہ کے لئے رخصت نہیں ہوسکتا.وجہ یہ کہ اس دنیا سے نکلنے اور بہشت میں داخل ہونے کا موت ہی درواز ہے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۶) ہر نفس موت کا مزا چکھے گا اور پھر ہماری طرف واپس کئے جاؤ گے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۵ حاشیه ) وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُوَ وَ لَعِب وَ اِنَّ الدّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ.(۶۵) وہ کامل حیات جو اس سفلی دنیا کے چھوڑنے کے بعد ملتی ہے وہ جسم خاکی کی حیات نہیں بلکہ اور رنگ اور شان کی حیات ہے.قال الله تعالى وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۲) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَفِرِينَ افترا کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے قَدْ خَابَ مَنِ افْتَری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا کہ اگر تو افتر اکرے تو تیری رگ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمايا مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا (الانعام :۲۲) ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افترا کی جرات کیوں کر کر سکتا ہے.ظاہری گورنمنٹ میں ایک شخص اگر فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خدا کی ہی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی جھوٹا دعوی مامور من اللہ ہونے کا کرے اور پکڑا نہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے.اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۴، صفحہ ۷ )

Page 310

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ سورة العنكبوت وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ.بھلا یہ کیوں کر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لا پروائی سے ستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے اس کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرورا اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں.(برائین احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد اصلحه ۵۶۷،۵۶۶ حاشیہ نمبر ۱۱) جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے ہم ان کو وہ اپنی خاص را ہیں آپ دکھلا دیں گے جو مجرد عقل اور قیاس سے سمجھ میں نہیں آسکتیں.سرمه چشم آریده، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۵ حاشیه ) جولوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور کریں گے ہم ان کو اپنی راہیں دکھلا رہے ہیں اور کھلائیں گے.صاف ظاہر ہے کہ اگر اس جگہ مجرد استقبال مراد لیا جائے تو اس سے معنے فاسد ہو جائیں گے اور یہ کہنا پڑے گا کہ یہ وعدہ صرف آئندہ کے لئے ہے اور حال میں جو لوگ مجاہدہ میں مشغول ہیں یا پہلے مجاہدات بجالا چکے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی راہوں سے بے نصیب ہیں بلکہ اس آیت میں عادت مستمرہ جاریہ دائرہ میں الا ز منہ الثلث کا بیان ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہماری یہی عادت ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں.کسی زمانہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سنت مستمرہ دائرہ سائرہ کا بیان ہے جس کے اثر سے کوئی زمانہ الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۳) اس آیت کو نازل ہوئے تیرہ سو برس گزر گیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ برطبق مضمون اس آیت کے ہر یک جو اس عرصہ میں مجاہدہ کرتا رہا ہے وہ وعدہ لنَهْدِيَنَّهُمْ سے حصہ مقومہ لیتا رہا ہے اور اب بھی لیتا ہے اور آئندہ بھی لے گا.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۹۲) جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے.ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قلُوبَهُمْ یعنی جو لوگ اس فعل کو بجالائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل باہر نہیں.

Page 311

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۹ سورة العنكبوت کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہوگا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیں گے اور جن لوگوں نے بجی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا افعل اس کی نسبت یہ ہوگا کہ ہم ان کے دلوں کو سکھ کر دیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۹) جولوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجالاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۹) جولوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئی تھیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۲) جولوگ ہماری راہ میں اور ہماری طلب کے لئے طرح طرح کی کوششیں اور محنتیں کرتے ہیں ہم ان کو اپنی لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۹) راہ دکھلا دیتے ہیں.جولوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور ہماری طلب میں کوشش کو انتہاء تک پہنچادیتے ہیں انہیں کے لئے ہمارا یہ قانونِ قدرت ہے کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھلا دیا کرتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۷) جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ اختیار کرتے ہیں اور جو کچھ ان سے اور ان کی قوتوں سے ہوسکتا ہے بجالاتے ہیں تب عنایت حضرت احدیت ان کا ہاتھ پکڑتی ہے اور جو کام ان سے نہیں ہوسکتا تھا وہ آپ کر دکھلاتی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۴ حاشیه ) قرآن شریف میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالی پر ایمان لائے گا خداس کو ضائع نہیں کرے گا اور حق اس پر کھول دے گا اور راہِ راست اس کو دکھائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا ہیں اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے والا ضائع نہیں کیا جاتا آخر اللہ تعالیٰ پوری ہدایت اس کو کر دیتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۹) انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں.آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے.پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں.اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں.تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں اور ایسی تقوی دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں اور رب کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا

Page 312

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة العنكبوت نہیں.مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے.اول اول انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقت بالا بیچ لیتی ہے.اس کی طرف اشارہ ہے جو وو اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا عن نُثَبِّتُهُمْ عَلَى التَّقْوى وَ الْإِيْمَانِ وَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّةِ وَ الْعِرْفَانِ وَسَنُيَسِرُهُمْ لِفِعْلِ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكِ الْعِصْيَانِ ( مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۵۱،۵۰) وو روح القدس کی تائید جو مومن کے شامل ہوتی ہے وہ محض خدا تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے جو ان کو ملتا ہے جو سچے دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں.وہ کسی مجاہدہ سے نہیں ملتا محض ایمان سے ملتا ہے اور مفت ملتا ہے صرف یہ شرط ہے کہ ایسا شخص ایمان میں صادق ہو اور قدم میں استوار اور امتحان کے وقت صابر ہولیکن خدائے عزوجل کی لائی ہدایت جو اس آیت میں مذکور ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا وہ بجز مجاہدہ کے نہیں ملتی.مجاہدہ کرنے والا ابھی مثل اندھے کے ہوتا ہے اور اس میں اور بینا ہونے میں ابھی بہت فاصلہ ہوتا ہے مگر روح القدس کی تائید اس کو نیک فن کر دیتی ہے اور اس کو قوت دیتی ہے جو وہ مجاہدہ کی طرف راغب ہوا اور مجاہدہ کے بعد انسان کو ایک اور روح ملتی ہے جو پہلی روح سے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ دو روحیں ہیں.روح القدس ایک ہی ہے صرف فرق مراتب قوت کا ہے جیسا کہ دو خدا نہیں ہیں صرف ایک خدا ہے مگر وہی خدا جن خاص تجلیات کے ساتھ ان لوگوں کا ناصر اور مربی ہوتا اور ان کے لئے خارق عادت عجائبات دکھاتا ہے وہ دوسروں کو ایسے عجائبات قدرت ہرگز نہیں دکھلاتا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۶،۴۲۵) پھر وہ لوگ روح القدس کی طاقت سے بہرہ ور ہو کر ان مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آجائیں تب انہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے ان مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں.انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کا خس و خاشاک کی طرح بھی قدرنہ کیا.آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے ان کے دلوں کو گناہ سے بکلی بیزار کر دیا اور نیکی کی محبت ڈال دی جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیا کرتے ہیں.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۵) جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے.یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ

Page 313

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة العنكبوت.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة :۶) سوانسان کو چاہیے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں.ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۹) سارا مدار مجاہدہ پر ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے اپنی تمام راہیں کھول دیتے ہیں.مجاہدہ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جو لوگ کہتے کہ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک نظر میں چور کو قطب بنا دیا.دھو کے میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسی ہی باتوں نے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی کی جھاڑ پھونک سے کوئی بزرگ بن جاتا ہے.جو لوگ خدا کے ساتھ جلدی کرتے ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے.روحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بدوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا.اور مجاہدہ بھی وہ جو خدا تعالیٰ میں ہو کر.یہ نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جو گیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے.یہی کام ہے جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تاکہ میں دنیا کو دکھلا دوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالی تک پہنچ سکتا ہے.یہ قانون قدرت ہے.نہ سب محروم رہتے ہیں اور نہ سب ہدایت پاتے ہیں.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۶ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۰ صفحه ۶) جو لوگ ہم میں ہو کر سعی اور مجاہدہ کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنی راہوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان پر دروازے کھولے جاتے ہیں یہ سچی بات ہے کہ جو ڈھونڈتے ہیں پاتے ہیں.کسی نے خوب کہا اے خواجہ درد نیست ورنه طبیب ہست الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۸) مجاہدہ ایک ایسی شے ہے کہ اس کے بدوں انسان کسی ترقی کے بلند مقام کو پانہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.غرض مجاہدہ کرو اور خدا میں ہو کر کرو تا کہ خدا کی راہیں تم پر کھلیں اور ان راہوں پر چل کر تم اس لذت کو حاصل کر سکو جو خدا میں ملتی ہے.اس مقام پر مصائب اور مشکلات کی کچھ حقیقت نہیں رہتی یہ وہ مقام ہے جس کو قرآن شریف کی اصطلاح میں شہید کہتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۲،۱)

Page 314

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۲ سورة العنكبوت خدا تعالیٰ تو ہر ایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ سے رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اور اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - الحکم جلد ۶ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۳) صدق بڑی چیز ہے اس کے بغیر عمل صالحہ کی تکمیل نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ اپنی سنت نہیں چھوڑتا اور انسان اپنا طریق نہیں چھوڑ نا چاہتا اس لئے فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا خدا تعالیٰ میں ہو کر جو مجاہدہ کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ اپنی راہیں کھول دیتا ہے.الحام جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) اس دین کی جڑ تقویٰ اور نیک بختی ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک خدا پر یقین نہ ہو اور یقین سوائے خدا کے اور سے ملتا نہیں اسی لئے فرمایا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) مجاہدات پر اللہ تعالیٰ کی راہیں کھلتی ہیں اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے جیسے فرمایا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا الشمس:١٠) وو اور وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۱۰) تقومی کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا کی مرضی پر چلے.جو وہ چاہے وہ کرے اپنی مرضی نہ کرے.بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہرگز نہ ہوگا اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے.اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا میں کوشش کی.جب تک تقویٰ نہ ہوگی اولیاء الرحمن میں ہر گز داخل نہ ہوگا اور جب تک یہ نہ ہو گا حقائق اور معارف ہرگز نہ کھلیں گے.البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورمحه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۳) اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اُٹھا تا ہے لیکن تدبیر پر کلی بھروسہ کر ناسخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تدبیر نہ ہوتو کچھ فائدہ نہیں.جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑ کی کو بند کیا جاوے.پھر نفس کی کشاکش کے لئے دعا کرتا رہے.اس کے واسطے کہا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.اس میں کس وو

Page 315

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ قدر ہدایت تدابیر کو عمل میں لانے کے واسطے کی گئی ہے.تدابیر میں بھی خدا کو نہ چھوڑے.سورة العنكبوت الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا میں مجاہدہ سے مراد یہی مشق ہے کہ ایک طرف دعا کرتا رہے دوسری طرف کامل تدبیر کرے.آخر اللہ تعالیٰ کا فضل آجاتا ہے اور نفس کا جوش و خروش دب جاتا اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور ایسی حالت ہو جاتی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جاوے بہت سے انسان ہیں جو نفس امارہ ہی میں مبتلا ہیں.الکام جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ر مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۸) گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فضل درکار ہے.جب اللہ تعالیٰ اس کے رجوع اور تو بہ کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں غیب سے ایک بات پڑ جاتی ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اس حالت کے پیدا ہونے کے لئے حقیقی مجاہدہ کی ضرورت ہے.وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سبلنا جو مانگتا ہے اسی کو ضرور دیا جاتا ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں.الحکام جلد ۸ نمبر ۸ مورخہ ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت ومعرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بناء پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر.لیکن اگر کوئی استہزاء اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے وہ بد نصیب محروم رہ جاتا ہے.پس اسی پاک اصول کی بناء پر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفور الرحیم ہے لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں کرتا وہ احکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۲) جس قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے.جب وہ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے.اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں اس لئے فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ تا ۱۷ رنومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) جولوگ کوشش کرتے ہیں ہماری راہ میں انجام کا راہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں.جس طرح وہ دانہ تخم ریزی بے نیاز ہے.

Page 316

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة العنكبوت کا بدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے.اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یاد نہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدا یا ہماری مدد کر تو فضل الہی وارد نہیں ہوگا اور بغیر امداد الہی کے تبدیلی القام جلد ۸ نمبر ۳۹٬۳۸ مورخه ۱۰ تا ۷ انومبر ۱۹۰۴ صفحه ۶) ناممکن ہے.مثل مشہور ہے جو بندہ یا بندہ.جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا گیا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لئے مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کے واسطے اپنی راہ کھول دیتے ہیں اور صراط مستقیم پر چلا دیتے ہیں.لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پا سکتا ہے.خدا یا بی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا یہی گر اور اصول ہے.انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں.نہ در ماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے.(احکم جلد ۸ نمبر ۴۲،۴۱ مورخه ۱۳۰ نومبر تا۰ اردسمبر ۱۹۰۴ صفحه ۶- احکم جلد ۸ نمبر ۴۳، ۴۴ مورخه ۱۷ تا۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) جو شخص خدا کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا.ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتا ہی نہ کرے.پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نکتہ پر پہنچے گی تو وہ خدا کے نور کو دیکھ لے گا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش کا اس کے ذمہ ہے اسے بجالائے یہ نہ کرے کہ اگر پانی ۲۰ ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو وہ صرف ۲ ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے.ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے.پھر اس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا وتزکیہ نفس سے کام لے گا سب وعدے قرآن شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے.ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے.لوگ دنیا کی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسند نہیں کرتے.جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو ادھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں.البدر جلد ۴ نمبر ۳ مورخه ۲۰/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں.اللہ تعالی نے

Page 317

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ سورة العنكبوت قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے.اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اسوہ حسنہ ہے.بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں.اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ وہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں یہ بیہودہ بات ہے.ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطرناک گناہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشت خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰/ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۹) اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلودہ زندگی پر موت آجاتی ہے اور پھر اسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جو بہشتی زندگی ہوتی ہے....اب سوال ہوتا ہے کہ جبکہ یہ مابہ الامتیاز ہے تو کیوں ہر شخص نہیں دیکھ لیتا.اس کا جواب یہ ہے کہ سنت اللہ اسی پر واقع ہوئی ہے کہ یہ بات بجز مجاہدہ ، تو بہ اور تبتل تام کے نہیں ملتی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے انہی کو یہ راہ ملے گی.پس جو لوگ خدا کی وصایا اور احکام پر عمل نہ کریں بلکہ ان سے اعراض کریں ان پر یہ دروازہ کس طرح کھل جائے یہ نہیں ہو سکتا.احکام جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۵ صفحه ۵) ہمت مرداں مدہ خدا.صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۵ ، صفحہ سے حاشیہ ) وو لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - یا درکھنا چاہیے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے.جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا اسی طرح ایمان کا حال ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا یعنی تم ملکے ملکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے نفس کو بیل سے مشابہت دی گئی ہے.( اخبار بدرجلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ رجون ۱۹۰۸ء صفحه ۵) ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جد و جہد

Page 318

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ سورة العنكبوت کرنا ہوگا ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں بلکہ جان دینے کے لئے تیار رہنا اس کا کام ہے.سو متقی کی نشانی استقامت ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷/جون ۱۹۰۳ صفحہ ۷) خدا تعالیٰ مغز اور حقیقت کو چاہتا ہے رسم اور نام کو پسند نہیں کرتا.جب انسان سچے دل سے بچے اسلام کی تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو اپنی راہیں دکھا دیتا ہے جیسے فرما یاوَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا - خدا تعالی بخیل نہیں.اگر انسان مجاہدہ کرے گا تو وہ یقیناً اپنی راہ کو ظاہر کر دے گا.الحکم جلدے نمبر۷ مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۹) جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی وو کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالی اپنے قانون کے موافق ( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں ) خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینان قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک و بدعت سے ملوث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائج حسنہ مترتب ہوں.الحکم جلدے نمبر ۱۷ مورخه ۰ ارمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳، ۱۴) جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے وہ وسروں سے ممتاز اور خدا کا منظور نظر ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فرمایا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں جتنے اولیاء ، انبیاء اور بزرگ لوگ گزرے ہیں انہوں نے خدا کی راہ میں جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدا نے اپنے دروازے ان پر کھول دیئے.الحکم جلد ۱۲ نمبر امورخه ۲/جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) تو به استغفار وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا پوری کوشش سے اس کی راہ میں لگے رہو منزلِ مقصود تک پہنچ جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کو کسی سے بخل نہیں.( بدر جلد نمبر ۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم ، لطف اور مہر بانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور حمن ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرما تا وو ہے کہ اَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم :۴۰) اور وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا فرما

Page 319

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ سورة العنكبوت کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے نیز اس میں صحابہ رضی اللہ کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے.صحابہ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لئے تھے ؟ نہیں.بلکہ انہوں نے تو خدا کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا کی راہ میں قربان ہو گئے جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا.اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دیئے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے.ہمارے رسول اکرم سے بڑھ کر کون ہو گا.وہ افضل البشر ، افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے.دیکھو آپ نے غار حراء میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ وزاری کیا گئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے جب جا کر کہیں خدا کی طرف سے فیضان نازل ہوا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱٫۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۱) جولوگ خدا میں ہو کر خدا پانے کے واسطے تڑپ اور گدازش سے کوشش کرتے ہیں ان کی محنت اور کوشش ضائع نہیں جاتی اور ضرور ان کی راہبری اور ہدایت کی جاتی ہے.جو کوئی صدق اور خلوص نیت سے خدا کی طرف قدم اٹھاتا ہے خدا اس کی طرف راہ نمائی کے واسطے بڑھتا ہے.انسان کا فرض ہے کہ تدبر کرے اور حق طلبی کی سچی تڑپ اور پیاس اپنے اندر پیدا کرے.معلومات کے وسیع کرنے کی جو سبیل اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں ان پر کار بند ہو.خدا بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اس شخص سے جو خدا سے لا پروائی کرتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۲۰۱) اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو.نماز میں دعائیں مانگو.صدقہ خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا میں شامل ہو جاؤ.جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا ، دوائی کھاتا، مسہل لیتا ، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے.اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو.صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ.بدر جلد نمبر ۳۴ مورخه ۸ /نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) یہ جو فرمایا کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا یعنی ہمارے راہ کے مجاہد راستہ پاویں گے اس

Page 320

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة العنكبوت کے معنے یہ ہیں کہ اس راہ میں پیمبر کے ساتھ مل کر جد و جہد کرنا ہوگا.ایک دو گھنٹہ کے بعد بھاگ جانا مجاہد کا کام نہیں بلکہ جان دینے کے لئے طیار رہنا اس کا کام ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۲) جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۹) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بنتا ہے؟ افسوس انہوں نے کچھ قدر نہ کی.بے شک انسان نے ولی بننا ہے.اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہوگی.اس کی اس طرف سے حرکت خواہ آہستہ ہوگی لیکن اس کے مقابل خدا تعالیٰ کی حرکت بہت جلد ہوگی چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا الحَ وو رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۷) خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی نا کام نہیں رہتا.اس کا سچا وعدہ ہے کہ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جو یا ہو اوہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا.ہرگز نہیں ! ہر گز نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۶۲،۱۶۱) سہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو جذب کی قوت لے کر نکلتی ہے وہ دوسرے کو جذب کرتی ہے.اس جذب میں اس قدر قوت ہوتی ہے کہ دنیا اور مافیہا کی ساری باتیں اس میں بھسم ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیض کو اپنی طرف کھینچنے لگتی ہے اور اسی سلسلہ کو باقی تمام سلسلوں پر تقدم اور فوق ہو جاتا ہے لیکن اس کے لئے مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس کے بغیر یہ راہ نہیں کھلتی.جیسا کہ فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۵) جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض برکات کے ثمرات حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں چنانچہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - سُبُلَنا - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخه ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۵)

Page 321

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۸۹ سورة الروم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الرُّوم بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فى فى أدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ) في بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَبِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ جبکہ خدائے تعالیٰ کے قانون قدرت نے مکاشفات اور رویائے صالحہ کے لئے یہی اصل مقرر کر دیا ہے کہ وہ اکثر استعارات سے پُر ہوتے ہیں تو اس اصل سے معنے کو پھیرنا اور یہ دعوی کرنا کہ ہمیشہ پیشگوئیاں ظاہر پر ہی محمول ہوتی ہیں اگر الحاد نہیں تو اور کیا ہے ؟ صوم اور صلوٰۃ کی طرح پیشگوئی کو بھی ایک حقیقت منکشفہ سمجھنا بڑی غلطی اور بڑا بھارا دھوکہ ہے.یہ احکام تو وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھلا دیئے اور بھی اُن کا پردہ اُٹھا دیا.مگر کیا ان پیشگوئیوں کے حق میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ یہ من کل الوجوہ مکشوف ہیں اور ان میں کوئی ایسی حقیقت اور کیفیت مخفی نہیں جو ظہور کے وقت سمجھ آسکے اگر کوئی ایسی حدیث صحیح موجود ہے تو کیوں پیش نہیں کی جاتی.....آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ الم - غُلِبَتِ الرُّوم - في أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعَ سِنِينَ.اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا تو آپ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے

Page 322

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة الروم ابو بکر صدیق کوحکم فرمایا اور فرمایا کہ بضع سنین کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے.(ازالہ اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۱۱،۳۱۰) ان بادشاہوں کے مثیلوں کا قرآن شریف میں ذکر ہے جنہوں نے یہودیوں کے سلاطین کی بدچلنی کے وقت اُن کے ممالک پر قبضہ کیا جیسا کہ آیت غُلِبَتِ الرُّومُ فِي اَدنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ سے ظاہر ہوتا ہے.حدیثوں سے ثابت ہے کہ روم سے مراد نصاری ہیں.اور وہ آخری زمانہ میں پھر اسلامی ممالک کے کچھ حصے دبا لیں گے.اور اسلامی بادشاہوں کے ممالک اُن کی بدچلنیوں کے وقت میں اُسی طرح نصاری کے قبضے میں آجائیں گے جیسا کہ اسرائیلی بادشاہوں کی بدچلنیوں کے وقت رومی سلطنت نے ان کا ملک دبا لیا تھا پس واضح ہو کہ یہ پیشگوئی ہمارے اس زمانہ میں پوری ہوگئی.مثلاً روس نے جو کچھ رومی سلطنت کو خدا کی ازلی مشیت سے نقصان پہنچایا وہ پوشیدہ نہیں.اور اس آیت میں جبکہ دوسرے طور پر معنے کئے جائیں غالب ہونے کے وقت میں روم سے مراد قیصر روم کا خاندان نہیں کیونکہ وہ خاندان اسلام کے ہاتھ سے تباہ ہو چکا بلکہ اس جگہ بروزی طور پر روم سے روس اور دوسری عیسائی سلطنتیں مراد ہیں جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں.یہ آیت اوّل اس موقعہ پر نازل ہوئی تھی جبکہ کسری شاہ ایران نے بعض حدود پر لڑائی کر کے قیصر شاہ روم کو مغلوب کر دیا تھا.پھر جب اس پیشگوئی کے مطاق بضع سنین میں قیصر روم شاہ ایران پر غالب آ گیا تو پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ غُلِبَتِ الرُّومُ في ادنی الْأَرْضِ الخ جس کا مطلب یہ تھا کہ رومی سلطنت اب تو غالب آگئی مگر پھر بضع سنین میں اسلام کے ہاتھ سے مغلوب ہوں گے.مگر باوجود اس کے کہ دوسری قراءت میں غَلَبَتْ کا صیغہ ماضی معلوم تھا اور سَيُغْلَبُونَ کا صیغہ مضارع مجہول تھا مگر پھر بھی پہلی قراءت جس میں خُلِبَت کا صیغہ ماضی مجہول تھا اور سَيَغْلِبُونَ مضارع معلوم تھا منسوخ التلاوت نہیں ہوئی.بلکہ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف سناتے رہے جس سے اس سنت اللہ کے موافق جو قرآن شریف کے نزول میں ہے یہ ثابت ہوا کہ ایک مرتبہ پھر مقدر ہے کہ عیسائی سلطنت روم کے بعض حدود کو پھر اپنے قبضہ میں کرلے گی.اسی بنا پر احادیث میں آیا ہے کہ مسیح کے وقت میں سب سے زیادہ دنیا میں روم ہوں گے یعنی نصاری.اس تحریر سے ہماری غرض یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں روم کا لفظ بھی بروزی طور پر آیا ہے یعنی روم سے اصل روم مراد نہیں ہیں بلکہ نصاریٰ مراد ہیں.(تحفہ گولار و سید، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۸،۳۰۷)

Page 323

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة الروم حدیثوں میں بظاہر یہ تناقض پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کے وقت ایک طرف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ یا جوج ماجوج تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور دوسری طرف یہ بیان ہے کہ تمام دنیا میں عیسائی قوم کا غلبہ ہوگا جیسا کہ حدیث يَكْسِرُ الصَّليب سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ صلیبی قوم کا اس زمانہ میں بڑا عروج اور اقبال ہوگا.ایسا ہی ایک دوسری حدیث سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ اس زمانہ میں رومیوں کی کثرت اور قوت ہوگی یعنی عیسائیوں کی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رومی سلطنت عیسائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ اس جگہ بھی روم سے مراد عیسائی سلطنت ہے اور پھر بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت دجال کا تمام زمین پر غلبہ ہوگا اور تمام زمین پر بغیر مکہ معظمہ کے دجال محیط ہو جائے گا.اب...بتلادیں کہ یہ تناقض کیوں کر دور ہو سکتا ہے اگر دجال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا تو عیسائی سلطنت کہاں ہوگی.ایسا ہی یا جوج ماجوج جن کی عام سلطنت کی قرآن شریف خبر دیتا ہے وہ کہاں جائیں گے.سو یہ غلطیاں ہیں جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں....واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دونوں صفات یا جوج ماجوج اور دجال ہونے کی یورپین قوموں میں موجود ہیں کیونکہ یا جوج ماجوج کی تعریف حدیثوں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کسی کو طاقت مقابلہ نہیں ہوگی اور مسیح موعود بھی صرف دعا سے کام لے گا اور یہ صفت کھلے کھلے طور پر یورپ کی سلطنتوں میں پائی جاتی ہے اور قرآن شریف بھی اس کا مصدق ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.اور دجال کی نسبت حدیثوں میں یہ بیان ہے کہ وہ دجل سے کام لے گا اور مذہبی رنگ میں دنیا میں فتنہ ڈالے گا.سو قرآن شریف میں یہ صفت عیسائی پادریوں کی بیان کی گئی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ہیں.اسی وجہ ہے سورۃ الفاتحہ میں دائمی طور پر یہ دعا سکھلائی گئی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو یہ نہیں کہا کہ تم دجال سے پناہ مانگو.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۶٬۸۵) قرآن شریف بہت سی پیشگوئیوں سے بھرا پڑا ہے جیسا کہ روم اور ایران کی سلطنت کی نسبت ایک زبردست پیشگوئی قرآن شریف میں موجود ہے اور یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جب کہ مجوسی سلطنت نے ایک لڑائی میں رومی سلطنت پر فتح پائی تھی اور کچھ زمین اُن کے ملک کی اپنے قبضہ میں کر لی تھی تب مشرکین مکہ نے

Page 324

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة الروم فارسیوں کی فتح اپنے لئے ایک نیک فال سبھی تھی اور اس سے یہ سمجھا تھا کہ چونکہ فارسی سلطنت مخلوق پرستی میں ہمارے شریک ہے ایسا ہی ہم بھی اس نبی کا استیصال کریں گے جس کی شریعت اہل کتاب سے مشابہت رکھتی ہے تب خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ پیشگوئی نازل فرمائی کہ آخر کار رومی سلطنت کی فتح ہوگی اور چونکہ روم کی فتح کی نسبت یہ پیشگوئی ہے اس لئے اس سورت کا نام سورۃ الروم رکھا گیا ہے اور چونکہ عرب کے مشرکوں نے مجوسیوں کی سلطنت کی فتح کو اپنی فتح کے لئے ایک نشان سمجھ لیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں یہ بھی فرما دیا کہ جس روز پھر روم کی فتح ہوگی اس روز مسلمان بھی مشرکوں پر فتحیاب ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.اس بارہ میں قرآن شریف کی آیت یہ ہے الم - غُلِبَتِ الرُّوْمُ - فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعَ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَيذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ.( ترجمہ ) میں خدا ہوں جو سب سے بہتر جانتا ہوں.رومی سلطنت بہت قریب، زمین میں مغلوب ہوگئی ہے اور وہ لوگ پھر نو سال تک تین سال کے بعد مجوسی سلطنت پر غالب ہو جائیں گے اُس دن مومنوں کے لئے بھی ایک خوشی کا دن ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور تین سال کے بعد نو ۹ سال کے اندر پھر رُومی سلطنت ایرانی سلطنت پر غالب آگئی اور اسی دن مسلمانوں نے بھی مشرکوں پر فتح پائی کیونکہ وہ دن بدر کی لڑائی کا دن تھا جس میں اہل اسلام کو فتح ہوئی تھی.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۰) لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِن بَعْدُ.....پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے.(براہین احمد یه چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۶ حاشیه در حاشیه نمبر (۳) یہ میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں یقیناً غالب ہونے والے ہیں.پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہو گا جب مومن بھی خوشی کریں گے.اب غور کر کے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے.ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزور اور ضعیف حالت خود خطرہ میں تھی.نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی.ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا.مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر یومین يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ کہہ کر کر دو ہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اس دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے چنانچہ جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز پوری ہوگئی.

Page 325

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ سورة الروم ادھر رومی غالب ہوئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی.(الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخہ ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۲) آنحضرت کے زمانہ میں ایرانی لوگ مشرک تھے اور قیصر روم جو کہ عیسائی تھا دراصل موحد تھا اور مسیح کو ابن اللہ نہیں مانتا تھا اور جب اس کے سامنے مسیح کا وہ ذکر جو قرآن میں درج ہے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرے نزدیک مسیح کا درجہ اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں جو قرآن نے بتلایا ہے.حدیث میں بھی اس کی گواہی بخاری میں موجود ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ وہی کلام ہے جو کہ توریت میں ہے اور اس کی حیثیت نبوت سے بڑھ کر نہیں ہے.ا اللہ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ الخ - غُلِبَتِ الرُّومُ - فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ.فى اضْعَ سِنِينَ * لِلهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَيَوْمَيذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ.یعنی روم اب مغلوب.ہو گیا ہے مگر تھوڑے عرصہ میں 4 سال میں ) پھر غالب ہوگا.عیسائی لوگ نہایت شرارت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت نے دونوں طاقتوں کا اندازہ کر لیا تھا اور پھر فراست سے یہ پیشگوئی کر دی تھی.ہم کہتے ہیں کہ اسی طرح مسیح بھی بیماروں کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کرتا تھا جو اچھے ہونے کے قابل نظر آتے تھے ان کا سلب امراض کر دیتا.اس طرح تو سارے معجزات ان کے ہاتھ سے جاتے ہیں.يَوْمَبِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ.اس دن مومنوں کو دو خوشیاں ہوں گی ایک تو جنگ بدر کی فتح، دوسری روم والی پیشگوئی کے پورا ہونے کی.(البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحہ ۱۴) یہ بات ہر ایک وسیع المعلومات شخص پر ظاہر ہے کہ اپنے مکاشفات کے متعلق اکثر نبیوں سے بھی اجتہادی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان کے شاگردوں سے بھی.جیسا کہ حضرت ابوبکر نے بِضْع کے لفظ کو جو آیت سَيَغْلِبُونَ في بضع سنين میں داخل ہے تین برس میں محدود سمجھ لیا تھا اور یہ غلطی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو متنبہ کیا.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۷۷) قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے تذکرہ پر فرمایا کہ الله - غُلِبَتِ الرُّومُ.میں کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے.ایرانی مشرک تھے اور رومن عیسائی تھے مگر قیصر روم نے جس کا نام ہر قل ہے جیسا کہ بخاری میں درج ہے اسلام کی عظمت کا اعتراف کیا تھا اور وہ اس طرح پر موحد ہی تھا.غرض جب ایرانیوں نے رومیوں پر فتح پائی تو کفار مکہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہم بھی غالب ہوں گے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں ان کو بتادیا کہ ایرانی پھر مغلوب ہو جائیں گے بعض نے اس پیشگوئی کو انکل کہا مگر انہیں یہ معلوم

Page 326

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ سورة الروم نہیں کہ اس میں دو ہری پیشگوئی ہے کہ اسی دن اسلام کی بھی فتح ہوگی چنانچہ بدر کی لڑائی میں جب فتح ہوئی اسی دن ایرانی مغلوب ہوئے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۴) ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِيْنَ اَسَاءُوا السُّوَاى اَنْ كَذَبُوا بِأَيْتِ اللَّهِ وَ كَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِءُونَ انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کر رہے تھے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۳۷) b وَ مِنْ أَيْتِهِ خَلْقُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمْ وَالْوَانِكُمْ ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت تِلْعلِمينَ بولیوں کی تحقیق کی طرف توجہ دلانے والا بجز قرآن کریم کے اور کوئی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا.اسی پاک کلام نے یہ فرمایا وَ مِنْ التِهِ خَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمْ وَالْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٍ للعلمین یعنی خدا تعالیٰ کی ہستی اور توحید کے نشانوں میں سے زمین آسمان کا پیدا کرنا بولیوں اور رنگوں کا اختلاف ہے.در حقیقت خداشناسی کے لئے یہ بڑا نشان ہیں مگر ان کے لئے جو اہل علم ہیں اب دیکھو کہ کس قدر تحقیق السنہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس کو خدا شناسی کا مدار ٹھہرا دیا ہے.من الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۶۳، ۱۶۴ حاشیه ) فَاقِمُ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيْمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ شاید کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ خدا نے اعتقاد تو حید کو سب انسانوں میں فطرتی بیان کیا ہے اور فرمایا ہے فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا، لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ الله الجز نمبر ۲۱.یعنی توحید پر قائم ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے جس پر انسانی پیدائش کی بنیاد ہے.اور نیز فرمایا الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى - الجز ونمبر ۹ (الاعراف : ۱۷۳) یعنی ہر یک روح نے ربوبیت الہیہ کا اقرار کیا.کسی نے انکار نہ کیا.یہ بھی فطرتی

Page 327

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة الروم اقرار کی طرف اشارہ ہے اور نیز فرمایا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ الجزو نمبر ۲۷.(الذاریات : ۵۷ ) یعنی میں نے جن وانس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری پرستش کریں.یہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ پرستش الہی ایک فطرتی امر ہے.پس جب توحید الہی اور پرستش الہی سب بنی آدم کے لئے فطرتی امر ہوا اور کوئی آدمی سرکشی اور بے ایمانی کے لئے پیدا نہ کیا گیا تو پھر جوامور بر خلاف خدا دانی و خداترسی ہیں کیوں کر فطرتی امر ہو سکتے ہیں.یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط نہی ہے کیونکہ وہ امر جو آیات مندرجہ بالا سے ثابت ہوتا ہے وہ تو صرف اسی قدر ہے کہ انسان کی فطرت میں رجوع الی اللہ اور اقرار وحدانیت کا تختم بویا گیا.یہ کہاں آیات موصوفہ میں لکھا ہے کہ وہ ختم ہر ایک فطرت میں مساوی ہے بلکہ جابجا قرآن شریف میں اسی بات کی تصریح ہے کہ وہ تخم بنی آدم میں متفاوت المراتب ہے.کسی میں نہایت کم.کسی میں متوسط کسی میں نہایت زیادہ.جیسا ایک جگہ فرمایا ہے ج فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ ۚ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِل وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ الجز و نمبر ۲۲.(فاطر : ۳۳) یعنی بنی آدم کی فطرتیں مختلف ہیں.بعض لوگ ظالم ہیں جن کے نور فطرتی کو قوی بہیمیہ یا غضمیہ نے دبایا ہوا ہے.بعض درمیانی حالت میں ہیں.بعض نیکی اور رجوع الی اللہ میں سبقت لے گئے ہیں.اسی طرح بعض کی نسبت فرمایا.وَاجتَبينهم - الجزو نمبرے.(الانعام : ۸۸) اور ہم نے ان کو چن لیا یعنی وہ باعتبار اپنی فطرتی قوتوں کے دوسروں میں سے چیدہ اور برگزیدہ تھے.اس لئے قابل رسالت و نبوت ٹھہرے.اور بعض کی نسبت فرما يا أوتيك كالأنعام - الجزو نمبر ۹ (الاعراف : ۱۸۰ ) یعنی ایسے ہیں جیسے چار پائے اور نور فطرتی ان کا اس قدر کم ہے کہ ان میں اور مویشی میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے.پس دیکھنا چاہیئے کہ اگر چہ خدائے تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم تو حید ہر یک نفس میں موجود ہے.لیکن ساتھ ہی اُس کے یہ بھی کئی مقامات میں کھول کر بتلا دیا ہے کہ وہ تم سب میں مساوی نہیں.بلکہ بعض کی فطرتوں پر جذبات نفسانی ان کے ایسے غالب آگئے ہیں کہ وہ نور کا مفقود ہو گیا ہے.پس ظاہر ہے کہ قوی بہیمیہ یا غضبیہ کا فطرتی ہونا وحدانیت الہی کے فطرتی ہونے کو منافی نہیں ہے خواہ کوئی کیسا ہی ہوا پرست اور نفس انارہ کا مغلوب ہو پھر بھی کسی نہ کسی قدر نور فطرتی اس میں پایا جاتا ہے.مثلاً جو شخص بوجہ غلبہ قوائے شہو یہ یا غضبیہ چوری کرتا ہے یا خون کرتا ہے یا حرام کاری میں مبتلا ہوتا ہے تو اگر چہ یہ فعل اس کی فطرت کا مقتضا ہے لیکن ہمقابلہ اُس کے نور صلاحیت جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اس کو اسی وقت جب اس سے کوئی حرکت بے جا صادر ہو جائے ملزم کرتا ہے جس

Page 328

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سورة الروم کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُوبِهَا - الجزو نمبر ۳۰.(الشمس : ۹) یعنی ہر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نور قلب کہتے ہیں.اور وہ یہ کہ نیک اور بدکام میں فرق کر لینا.جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام برا کیا اچھا نہیں کیا.لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب.سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کا وجود روز مرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے.ان کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہو سکتا.کیونکہ جو خدا نے لگادیا اس کو کون دور کرے.ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے.وہ کیا ہے؟ توبہ و استغفار اور ندامت یعنی جب کہ برافعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو یا حسب خاصہ فطرتی کوئی برا خیال دل میں آوے تو اگر وہ تو بہ اور استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے.جب وہ بار بار ٹھو کر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور تو بہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے.یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا - الجزو نمبر ۵ - (النساء : ۱۱۱) یعنی جس سے کوئی بد عملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس نا قصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلہ پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے یعنی اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے.یعنی جب کبھی کوئی بشر بروقت صدور لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے.اور یہ رجوع الہی بندہ نادم اور تائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائی ہے اور جب تک کوئی گنہ گار تو بہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھو کر نہ کھاویں یا جو لوگ قوی بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے بلکہ اُس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے

Page 329

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ سورة الروم اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشے جائیں.لیکن جو شخص بعض قوتوں میں فطرتا ضعیف ہے وہ قومی نہیں ہو سکتا.اس میں تبدیل پیدائش لازم آتی ہے اور وہ ہداہتا محال ہے اور خود مشہود و محسوس ہے کہ مثلاً جس کی فطرت میں سریع الغضب ہونے کی خصلت پائی جاتی ہے وہ بھی الغضب ہر گز نہیں بن سکتا بلکہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسا آدمی غضب کے موقع پر آثار غضب بلا اختیار ظاہر کرتا ہے اور ضبط سے باہر آ جاتا ہے یا کوئی نا گفتنی بات زبان پر لے آتا ہے.اور اگر کسی لحاظ سے کچھ صبر بھی کرے تو دل میں تو ضرور پیچ و تاب کھاتا ہے.پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ کوئی منتر جنتر یا کوئی خاص مذہب اختیار کرنا اس کی طبیعت کو بدلا دے گا.اسی جہت سے اُس نبی معصوم نے جس کی لبوں پر حکمت جاری تھی فرمایا خيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ یعنی جو لوگ جاہلیت میں نیک ذات ہیں وہی اسلام میں بھی داخل ہو کر نیک ذات ہوتے ہیں.غرض طبائع انسانی جواہر کافی کی طرح مختلف الاقسام ہیں.بعض طبیعتیں چاندی کی طرح روشن اور صاف.بعض گندھک کی طرح بد بودار اور جلد بھڑ کنے والی.بعض زیبق کی طرح بے ثبات اور بے قرار.بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف.اور جیسا یہ اختلاف طبائع بدیہی الثبوت ہے ایسا ہی انتظام ربانی کے بھی موافق ہے.کچھ بے قاعدہ بات نہیں.کوئی ایسا امر نہیں کہ قانون نظام عالم کے بر خلاف ہو بلکہ آسائش و آبادی عالم اسی پر موقوف ہے.ظاہر ہے کہ اگر تمام طبیعتیں ایک ہی مرتبہ استعداد پر ہوتیں تو پھر مختلف طور کے کام ( جو مختلف طور کی استعدادوں پر موقوف تھے ) جن پر دنیا کی آبادی کا مدار تھا حيز التوا میں رہ جاتے.کیونکہ کثیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسب حال ہیں جو کثیف ہیں اور لطیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسبت رکھتی ہیں جو لطیف ہیں.یونانی حکیموں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے کہ جیسے بعض انسان حیوانات کے قریب قریب ہوتے ہیں.اسی طرح عقل تقاضا کرتی ہے کہ بعض انسان ایسے بھی ہوں جن کا جوہر نفس کمال صفوت اور لطافت پر واقعہ ہو.تا جس طرح طبائع انسانی کا سلسلہ نیچے کی طرف اس قدر متنزل نظر آتا ہے کہ حیوانات سے جا کر اتصال پکڑ لیا ہے اسی طرح اوپر کی طرف بھی ایسا متصاعد ہو کہ عالم اعلیٰ سے اتصال پکڑ لے.اب جبکہ ثابت ہو گیا کہ افراد بشریہ عقل میں.قومی اخلاقیہ میں.نور قلب میں متفاوت المراتب ہیں تو اسی سے وحی ربانی کا بعض افراد بشریہ سے خاص ہونا یعنی ان سے جو من کل الوجوہ کامل ہیں یہ پایہ ثبوت پہنچ گیا.کیونکہ یہ بات تو خود ہر ایک عاقل پر روشن ہے کہ ہر یک نفس اپنی استعداد و قابلیت کے موافق انوار الہیہ

Page 330

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة الروم کو قبول کرتا ہے.اس سے زیادہ نہیں.اس کے سمجھنے کے لئے آفتاب نہایت روشن مثال ہے.کیونکہ ہر چند آفتاب اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا ہے.لیکن اس کی روشنی قبول کرنے میں ہر یک مکان برابر نہیں.جس مکان کے دروازے بند ہیں اس میں کچھ روشنی نہیں پڑ سکتی اور جس میں بمقابل آفتاب ایک چھوٹا سا روز نہ ہے اس میں روشنی تو پڑتی ہے مگر تھوڑی جو بکلی ظلمت کو نہیں اٹھا سکتی.لیکن وہ مکان جس کے دروازے بمقابل آفتاب سب کے سب کھلے ہیں اور دیوار میں بھی کسی کثیف شے سے نہیں بلکہ نہایت مصفی اور روشن شیشہ سے ہیں.اس میں صرف یہی خوبی نہیں ہوگی کہ کامل طور پر روشنی قبول کرے گا.بلکہ اپنی روشنی چاروں طرف پھیلا دے گا اور دوسروں تک پہنچا دے گا.یہی مثال موخر الذکر نفوس صافیہ انبیاء کے مطابق حال ہے.یعنی جن نفوس مقدسہ کو خدا اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے وہ بھی رفع حجب اور مکمل صفوت میں اس شیش محل کی طرح ہوتے ہیں جس میں نہ کوئی کثافت ہے اور نہ کوئی حجاب باقی ہے.پس ظاہر ہے کہ جن افراد بشریہ میں وہ کمال تام موجود نہیں.ایسے لوگ کسی حالت میں مرتبہ رسالت الہی نہیں پاسکتے.بلکہ یہ مرتبہ قسام ازل سے انہیں کو ملا ہوا ہے جن کے نفوس مقدسہ حجب ظلمانی سے بکلی پاک ہیں.جن کو اغشیہ جسمانی سے بغایت درجہ آزادگی ہے.جن کا تقدس و تنزہ اس درجہ پر ہے جس کے آگے خیال کرنے کی گنجائش ہی نہیں.و ہی نفوس تامہ کاملہ وسیلہ ہدایت جمیع مخلوقات ہیں اور جیسے حیات کا فیضان تمام اعضاء کو قلب کے ذریعہ سے ہوتا ہے.ایسا ہی حکیم مطلق نے ہدایت کا فیضان انہیں کے ذریعہ سے مقرر کیا ہے.کیونکہ وہ کامل مناسبت جو مفیض اور مستفیض میں چاہیئے وہ صرف انہیں کو عنایت کی گئی ہے.اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ خداوند تعالی جو نہایت تجرد و تنزہ میں ہے ایسے لوگوں پر افاضہ انوار وحی مقدس اپنے کا کرے جن کی فطرت کے دائرہ کا اکثر حصہ ظلمانی اور دود آمیز ہے اور نیز نہایت تنگ اور منقبض اور جن کی طبائع خسیسہ کدورات سفلیہ میں منغمس اور آلودہ ہیں.اگر ہم اپنے تئیں آپ ہی دھوکا نہ دیں تو بے شک ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ مبدء قدیم سے اتصال تام پانے کے لئے اور اس قدوس اعظم کا ہمکلام بننے کے لئے ایک ایسی خاص قابلیت اور نورانیت شرط ہے کہ جو اس مرتبہ عظیم کی قدر اور شان کے لائق ہے.یہ بات ہرگز نہیں کہ ہر یک شخص جو عین نقصان اور فروما ئیگی اور آلودگی کی حالت میں ہے اور صد با حجب ظلمانیہ میں مجوب ہے وہ با وصف اپنی پست فطرتی اور دون ہمتی کے اس مرتبہ کو پاسکتا ہے.( براتان احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۴ تا ۱۹۰ حاشیه ) وہ قرآن کریم ہے کتاب مکنون میں ہے جس کے ایک معنے یہ ہیں کہ صحیفہ ، فطرت میں اس کی نقلیں منقوش

Page 331

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة الروم ہیں یعنی اس کا یقین فطری ہے جیسا کہ فرمایا ہے فطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا - الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰) اسلام انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور خدا نے انسان کو اسلام پر پیدا کیا اور اسلام کے لئے پیدا کیا ہے.یعنی یہ چاہا ہے کہ انسان اپنے تمام قومی کے ساتھ اس کی پرستش اور اطاعت اور محبت میں لگ جائے.اسی وجہ سے اس قادر کریم نے انسان کو تمام قومی اسلام کے مناسب حال عطا کئے ہیں.....انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں یا جو کچھ قوتیں عنایت ہوئی ہیں، اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے.اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا.بڑا دولتمند ہو کر، بڑا عہدہ پا کر، بڑا تاجر بن کر، بڑی بادشاہی تک پہنچ کر، بڑا فلاسفر کہلا کر آخران دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے مکروں اور فریبوں اور ناجائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا.ایک دانا انسان اس مسئلہ کو اس طرح بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کے قومی ایک اعلیٰ سے اعلیٰ کام کر سکتے ہیں اور پھر آگے جا کر ٹھہر جاتے ہیں.وہی اعلیٰ کام اس کی پیدائش کی علت غائی سبھی جاتی ہے.مثلاً بیل کا کام اعلیٰ سے اعلیٰ قلبه رانی یا آبپاشی یا بار برداری ہے.اس سے زیادہ اس کی قوتوں میں کچھ ثابت نہیں ہوا.سو بیل کی زندگی کا مدعا یہی تین چیزیں ہیں.اس سے زیادہ کوئی قوت اس میں پائی نہیں جاتی.مگر جب ہم انسان کی قوتوں کو ٹولتے ہیں کہ ان میں اعلیٰ سے اعلیٰ کون سی قوت ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدائے اعلیٰ برتر کی اس میں تلاش پائی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی محبت میں ایسا گداز اور محو ہو کہ اس کا اپنا کچھ بھی نہ رہے سب خدا کا ہو جائے.وہ کھانے اور سونے وغیرہ طبعی امور میں دوسرے حیوانات کو اپنا شریک غالب رکھتا ہے.صنعت کاری میں بعض حیوانات اس سے بہت بڑھے ہوئے ہیں.بلکہ شہد کی مکھیاں بھی ہر ایک پھول کا عطر نکال کر ایسا شہر نفیس پیدا کرتی ہیں کہ اب تک اس صنعت میں انسان کو کامیابی نہیں ہوئی.پس ظاہر ہے کہ انسان کا اعلیٰ کمال خدا تعالیٰ کا وصال ہے.لہذا اس کی زندگی کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا کی طرف اس کے دل کی کھڑ کی کھلے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۶،۴۱۵) وَأَنَا الرَّجُلُ الْمُحَمَّدِقُ فَقَدْ أُمِرَ لَمْ ایک ایک مسلمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جیسے وہ شریعت قانونیہ

Page 332

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الروم أَن يَتَّبِعَ الشَّرِيعَةَ الْفِطْرِيَّةَ كَمَا يَتَّبِعُ کی پیروی کرتا ہے ویسے ہی شریعتِ فطریہ کی بھی پیروی الشَّرِيعَةَ الْقَانُونِيَّةَ، وَلَا يَقْطَعُ أَمْرًا إِلَّا کرے اور کسی امر کا قطعی فیصلہ شریعت فطریہ کی شہادت بَعْدَ شَهَادَةِ الشَّرِيعَةِ الْفِطرِيَّةِ، وَلِذَالِك کے بغیر نہ کرے.اور چونکہ اس ملت کے ساتھ فطرت سمى الْإِسْلَامُ دِيْنَ الْفِطْرَةِ لِلزُومِ لازم ہے اس لئے اسلام کو دینِ فطرت کہا جاتا ہے اور اسی الْفِطْرَةِ لِهذِهِ الْمِلَّةِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَفْتِ میں اشارہ فرمایا ہے کہ تو اپنے دل سے فتویٰ طلب کر خواہ قَلْبَكَ وَلَوْ أَفَتَاكَ الْمُفْتُونَ".فانظر تجھے مفتی بھی فتوی دیں پس غور کرو کہ کس طرح آنحضرت كَيْفَ رَغَبَ فِي الشَّرِيعَةِ الْفِطرِيَّةِ وَلَمْ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت فطریہ کہ طرف رغبت دلائی يَقْنَعُ عَلى مَا قَالَ الْعَالِمُونَ.فَالْمُسْلِمُ ہے اور اس بات کو کافی سمجھنے کا ارشاد نہیں فرمایا جو عالم لوگ الْعَامِلُ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّرِيعَتَيْنِ، وَيَنْظُرُ بیان کرتے ہیں.پس کامل مسلم وہ ہے جو دو شریعتوں کی بِالْعَيْنَيْنِ، فَيُهْدَى إِلَى الخيراطِ وَلَا پیروی کرے اور دو آنکھوں کے ساتھ دیکھے.سوایسے شخص يَخْدَعُهُ الْخَادِعُونَ.وَلِذَالِكَ ذَكَر الله في کی ہی سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کی جائے گی اور محامِدِ الإِسْلامِ أَنَّهُ شَرِيعَةٌ فِطرِيَّةٌ اس کو دھوکہ دینے والے دھو کہ نہیں دے سکیں گے اس لئے حَيْثُ قَالَ فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ اللہ تعالی نے اسلام کی خوبیوں میں سے اس خوبی کا ذکر کیا النَّاسَ عَلَيْهَا " وَهُذَا مِنْ أَعْظم ہے کہ وہ ایک فطری قانون ہے جیسا کہ فرما یا فطرت الله فَضَائِلِ هَذِهِ الْمِلَّةِ وَمَنَاقِبِ تِلْكَ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا اور یہ اس ملت کے فضائل الشَّرِيعَةِ.فَإِنَّهُ يُوجِدُ فِي هَذَا التَّعْلِيمِ میں سے سب سے بڑی فضیلت ہے اور اس شریعت کی مَدَارُ الْأَمْرِ عَلَى الْقُوَّةِ الْقُدْسِيَّةِ خوبیوں میں سے سب سے بڑی خوبی ہے کیونکہ اس تعلیم الْقَاضِيَّةِ الْمَوْجُوْدَةِ في النَّشْأَةِ میں حکم کا دارو مدار اس قوت قدسیہ پر ہے جو فیصلہ کرنے والی الْإِنْسَانِيَّةِ الْمُوصِلَةِ إِلى كَمَالٍ تَافٍ في اور انسانی سرشت میں موجود ہے اور فنا کے مراتب میں مَرَاتِبِ الْمَحْوِيَّةِ، فَلَا يَبْقَى مَعَهَا مَنْفَذ کمال تک پہنچانے والی ہے اور اس کی موجودگی میں لِلتَّصَرُّفَاتِ النَّفْسَانِيَّةِ، لِمَا فِيهِ عَمَل تصرفات نفسانیہ کے لئے کوئی راہ باقی نہیں رہتی کیونکہ اس عَلَى الشَّهَادَةِ الْفِطْرِيَّةِ.وَأَمَّا التَّوْرَاةُ میں فطرت کی شہادت پر عمل کیا جاتا ہے لیکن تو رات اور 66

Page 333

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠١ سورة الروم وَالْإِنجِيلُ فَيَتُرُكَانِ الْإِنْسَانَ إِلى حَدٍ هُوَ الجيل انسان کو اس مقام پر چھوڑ دیتی ہیں جو انسان کی أَبْعَدُ مِنَ الشَّهَادَةِ الْفِطْرِيَّةِ الْقُدْسِيَّةِ پاکیزہ فطرت کی شہادت سے بہت دور ہے اور قوتِ وَأَقْرَبُ إِلى دَخْلِ إِفْرَاطِ الْقُوَّةِ الْغَضَبِيَّةِ، أَوْ غضبیہ اور قوت واہمہ کی افراط و تفریط کے دخل کے تَفْرِيطِ الْقُوَّةِ الْوَاهِمَةِ، حَتَّى يُمكِن أَنْ يُسَمَّى زیادہ قریب ہے یہاں تک کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ الْمُنتَقِمُ في بَعْضِ الْمَوَاضِع ذِلْبًا مُؤْذِيَّا عِنْدَ بھی ممکن ہے کہ بعض مواقع پر انتقام لینے والے کو الْعُقَلَاءِ ، أَوْ يُسَمَّى الَّذِي عَفَا فِي غَيْرِ فَحَلِهِ موذی بھیڑیے کا نام دیا جائے یا جو شخص بے موقع عفو وَأَغْضَى مَثَلًا عِندَ رُؤْيَةِ فِسْقٍ أَهْلِهِ دَيُوناً سے کام لیتا ہے یا اپنے اہل کے فسق کو دیکھ کر چشم پوشی وَقِيعًا عِندَ أَهْلِ الْغَيْرَةِ وَالْحَيَاء وَلِذَالِكَ کرتا ہے ممکن ہے اسے ارباب غیرت اور اہل حیا تَرى في بَعْضِ الْمَوَاضِع رَجُلًا سَرَّهُ تَعْلِيمُ دیوث قرار دیں اس لئے تم بعض مواقع پر دیکھو گے الْعَفْوِ يَتْرُكُ حَقِيقَةَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَةِ، وَيُجَاوِزُ کہ ایک شخص جو عفو کی تعلیم کو اچھا سمجھتا ہے وہ رحم اور عفو حُدُودَ الْغَيْرَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ فَإِنَّ الْعَفْوَ فِي كُلّ کی حقیقت کو چھوڑ دیتا ہے اور غیرت انسانی کی حدود فَحَلٍ لَّيْسَ مَحْمَوْدٍ عِنْدَ الْعَاقِلِينَ، وَكَذَالِكَ سے تجاوز کر جاتا ہے کیونکہ عظمندوں کے نزدیک الانْتِقَامُ في كُلِّ مَقَامٍ لَّيْسَ بِغَيْرِ عِندَ بے موقع عفو قابل تعریف نہیں اور نہ ہی تدبر کرنے الْمُتَدَيرِينَ فَلَا شَكَ أَنَّهُ مَنْ أَوْجَبْ الْعَفْوَ والوں کے نزدیک انتقام ہر جگہ لائق تحسین ہے پس عَلَى نَفْسِهِ فِي كُلِّ مَقَامٍ بِمُتَابَعَةِ الْإِنْجِيلِ اس میں شک نہیں کہ جو شخص انجیل کی پیروی میں ہر جگہ فَقَدْ وَضَعَ الْإِحْسَانَ فِي غَيْرِ فَجَلِهِ في بَعْضِ اپنے نفس پر عفو کو لازم کر لیتا ہے تو گویا بعض حالات الْحَالاتِ، وَمَنْ أَوْجَبَ الْاِنْتِقَامَ عَلى نَفْسِه میں وہ احسان کو بے محل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور جو في كُلّ مَقَامٍ بمتابعةِ التَّوْرَاةِ فَقَدْ وَضَعَ شخص تورات کی پیروی میں ہر جگہ انتقام کو ضروری قرار الْقِصَاصَ فَى غَيْرِ فَحَلِهِ وَالْحَط مِن مَّدَارِج دیتا ہے تو وہ بعض اوقات بے موقع قصاص لینے کا الْحَسَنَاتِ.وَأَمَّا الْقُرْآنُ فَقَدْ رَغَبَ فِي مِثْلِ فیصلہ کر دیتا ہے اور حسنات کی بلندیوں سے گر جاتا ہے هذِهِ الْمَوَاضِع إِلى شَهَادَةِ الشَّرِيعَةِ الْفِطْرِيَّةِ لیکن قرآن کریم نے ان جگہوں میں اس شریعت فطریہ الَّتى تَنْبَعُ مِن عَيْنِ الْقُوَّةِ الْقُدْسِيَّةِ وَتَنْزِلُ کی شہادت کی طرف رغبت دلائی ہے جو قوت قدسیہ مِنْ رُوحِ الْأَمِينِ في جَلْدِ الْقُلُوبِ الصَّافِيَّةِ کے چشمہ سے پھوٹتی ہے اور جبریل کی طرف سے

Page 334

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الروم وَقَال جَزْؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا پاک دل کی گہرائیوں میں اترتی ہے اللہ تعالیٰ نے وَأَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ فَانظر إلى هذه فرمایا ہے جَزْوُا سَيْئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا الرَّقِيقَةِ الرُّوحَانِيَّةِ، فَإِنَّهُ أَمْرُ بِالْعَفْوِ عَنِ وَأَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ.پس روحانی نکتہ پر غور الْجَرِيمَةِ بِشَرْطٍ أَنْ يَتَحَقِّقَ فِيْهِ إِصْلاح کریں کیونکہ اس میں جرم کو معاف کرنے کا حکم ہے لنَفْسٍ وَإِلَّا أَجزاء السَّيِّئَةِ بِالسَّيِّئَةِ، وَلَمَّا كَانَ بشرطیکہ اس سے نفس کی اصلاح ہوتی ہو ورنہ برائی کا فَجَزَاءُ الْقُرْآن خَاتَمَ الكُتُبِ وَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَ بدلہ برائی ہی ہے.اور چونکہ قرآن کریم خاتم الکتب الصُّحُفِ وَأَجْمَلَهَا، وَضَعَ أَسَاسَ التَّعْلِيمِ عَلَی اور کامل کتاب اور خوبصورت اور بہترین صحیفہ ہے مُنْتَهى مِعْرَاجِ الْكَمَالِ وَجَعَلَ الشَّرِيعَةَ اس لئے اس نے اپنی تعلیم کی بنیاد انتہائی کمال پر الْفِطْرِيَّةَ زَوْجًا لِلطَّرِيعَةِ الْقَانُونِيَّةِ فِي كُلّ رکھی ہے اور تمام حالات میں شریعتِ فطریہ کو الْأَحْوَالِ لِيَعْصِمَ النَّاسَ مِنَ الضَّلَالِ شریعت قانونیہ کا جوڑا قرار دیا ہے تا لوگوں کو گمراہی وَأَرَادَ أَنْ تَجْعَلَ الْإِنْسَانَ كَالْمَيَّتِ لَا يَتَحَرِّكُ سے بچائے اور اس نے چاہا کہ انسانی نفس کو ایک إلَى الْيَمِينِ وَلَا إلَى الِ، وَلَا يَقْدِرُ عَلی ایسے مردہ کی طرح کر دے جو دائیں بائیں حرکت عَفْوِ وَلَا عَلَى انْتِقَامٍ إِلَّا حُكْمِ الْمَصْلِحَةِ مِن نہیں کر سکتا اور نہ وہ خدائے ذوالجلال کے مصلحت الله ذي الجلال.آمیز حکم کے بغیر عضو یا انتقام پر قادر ہو سکتا ہے.یا (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۶،۳۱۵).(ترجمه از مرتب) ایک علم کا ذریعہ انسانی کانشنس بھی ہے جس کا نام خدا کی کتاب میں انسانی فطرت رکھا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فطرت الله الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا یعنی خدا کی فطرت جس پر لوگ پیدا کئے گئے ہیں.اور وہ نقش فطرت کیا ہے؟ یہی ہے کہ خدا کو واحد لاشریک، خالق الکل، مرنے اور پیدا ہونے سے پاک سمجھنا.اور ہم کانشنس کو علم الیقین کے مرتبہ پر اس لئے کہتے ہیں کہ گو بظاہر اس میں ایک علم سے دوسرے علم کی طرف انتقال نہیں پایا جاتا جیسا کہ دھوئیں کے علم سے آگ کے علم کی طرف انتقال پایا جاتا ہے.لیکن ایک قسم کے باریک انتقال سے یہ مرتبہ خالی نہیں ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک چیز میں خدا نے ایک نامعلوم خاصیت رکھی ہے جو بیان اور تقریر میں نہیں آسکتی.لیکن اس چیز پر نظر ڈالنے اور اس کا تصور کرنے سے الشوری: ۴۱

Page 335

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۳ سورة الروم بلا توقف اس خاصیت کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے.غرض وہ خاصیت اس وجود کو ایسی لازم پڑی ہوتی ہے جیسا کہ آگ کو دھواں لازم ہے.مثلاً جب ہم خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ کیسی ہونی چاہئے آیا خدا ایسا ہونا چاہئے کہ ہماری طرح پیدا ہو اور ہماری طرح دکھ اٹھا وے اور ہماری طرح مرے تو معاً اس تصور سے ہمارا دل دکھتا اور کانشنس کا نپتا ہے اور اس قدر جوش دکھلاتا ہے کہ گو یا اس خیال کو دھکے دیتا ہے اور بول اٹھتا ہے کہ وہ خدا جس کی طاقتوں پر تمام امیدوں کا مدار ہے.وہ تمام نقصانوں سے پاک اور کامل اور قومی چاہئے اور جب ہی کہ خدا کا خیال ہمارے دل میں آتا ہے معا توحید اور خدا میں دھوئیں اور آگ کی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ ملازمت تامہ کا احساس ہوتا ہے.لہذا جو علم ہمیں ہمارے کانشنس کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے وہ علم الیقین کے مرتبہ میں داخل ہے.لیکن اس پر ایک اور مرتبہ ہے جو عین الیقین کہلاتا ہے اور اس مرتبہ سے اس طور کا علم مراد ہے کہ جب ہمارے یقین اور اس چیز میں جس پر کسی نوع کا یقین کیا گیا ہے کوئی درمیانی واسطہ نہ ہو.مثلاً جب ہم قوت شامہ کے ذریعہ سے ایک خوشبو یا بد بو کو معلوم کرتے ہیں اور یا ہم قوت ذائقہ کے ذریعہ سے شیریں یا نمکین پر اطلاع پاتے ہیں یا قوت حامہ کے ذریعہ سے گرم یا سرد کو معلوم کرتے ہیں تو یہ تمام معلومات ہمارے عین الیقین کی قسم میں داخل ہیں.مگر عالم ثانی کے بارے میں ہمارا علم الہیات تب عین الیقین کی حد تک پہنچتا ہے کہ جب خود بلا واسطہ ہم الہام پاویں خدا کی آواز کو اپنے کانوں سے سنیں اور خدا کے صاف اور صحیح کشفوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں.ہم بے شک کامل معرفت کے حاصل کرنے کے لئے بلا واسطہ الہام کے محتاج ہیں اور اس کامل معرفت کی ہم اپنے دل میں بھوک اور پیاس بھی پاتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے پہلے سے اس معرفت کا سامان میسر نہیں کیا تو یہ پیاس اور بھوک ہمیں کیوں لگادی ہے.کیا ہم اس زندگی میں جو ہماری آخرت کے ذخیرہ کے لئے یہی ایک پیمانہ ہے اس بات پر راضی ہو سکتے ہیں کہ ہم اس بچے اور کامل اور قادر اور زندہ خدا پر صرف قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ایمان لاویں یا محض عقلی معرفت پر کفایت کریں.جواب تک ناقص اور نا تمام معرفت ہے.کیا خدا کے سچے عاشقوں اور حقیقی دلدادوں کا دل نہیں چاہتا کہ اس محبوب کے کلام سے لذت حاصل کریں؟ کیا جنہوں نے خدا کے لئے تمام دنیا کو برباد کیا ، دل کو دیا، جان کو دیا، وہ اس بات پر راضی ہو سکتے ہیں کہ صرف ایک دھندلی سی روشنی میں کھڑے رہ کر مرتے رہیں اور اس آفتاب صداقت کا منہ نہ دیکھیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اُس زندہ خدا کا انا الموجود کہنا وہ معرفت کا مرتبہ عطا کرتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام فلاسفروں کی خود تراشیدہ

Page 336

۳۰۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الروم کتابیں ایک طرف رکھیں اور ایک طرف انا الموجود خدا کا کہنا تو اس کے مقابل وہ تمام دفتر بیچ ہیں جو فلاسفر کہلا کر اندھے رہے.وہ ہمیں کیا سکھائیں گے.غرض اگر خدا تعالیٰ نے حق کے طالبوں کو کامل معرفت دینے کا ارادہ فرمایا ہے تو ضرور اس نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ کا طریق کھلا رکھا ہے.اس بارے میں اللہ جل شانہ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة :٢)- (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۴ تا ۴۳۷) روح کا خدائے واحد لاشریک کا طلبگار ہونا اور بغیر خدا کے وصال کے کسی چیز میں کچی خوشحالی نہ پانا یہ انسانی فطرت میں داخل ہے یعنی خدا نے اس خواہش کو انسانی روح میں پیدا کر رکھا ہے جو انسانی روح کسی چیز سے تسلی اور سیکنت بجز وصال الہی کے نہیں پا سکتی.پس اگر انسانی روح میں یہ خواہش موجود ہے تو ضرور ماننا پڑتا کہ روح خدا کی پیدا کردہ ہے جس نے اس میں یہ خواہش ڈال دی مگر یہ خواہش تو در حقیقت انسانی روح میں موجود ہے.اس سے ثابت ہوا کہ انسانی روح در حقیقت خدا کی پیدا کردہ ہے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر دو چیزوں میں کوئی ذاتی تعلق درمیان ہو اسی قدر ان میں اس تعلق کی وجہ سے محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ ماں کو اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے اور بچہ کو اپنی ماں سے کیونکہ وہ اس کے خون سے پیدا ہوا ہے اور اس کے رحم میں پرورش پائی ہے پس اگر روحوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی تعلق پیدائش کا درمیان نہیں اور وہ قدیم سے خود بخود ہیں تو عقل قبول نہیں کر سکتی کہ ان کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو اور جب ان کی فطرت میں پر میشر کی محبت نہیں تو وہ کسی طرح نجات پاہی نہیں سکتیں.(چشم مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۶۴) آیت فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا کے معنی یہی ہیں کہ اسلام فطرتی مذہب ہے.انسان کی بناوٹ جس مذہب کو چاہتی ہے وہ اسلام ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ اسلام میں بناوٹ نہیں ہے.اس کے تمام اصول فطرت انسانی کے موافق ہیں تثلیث اور کفارہ کی طرح نہیں ہیں جو سمجھ میں نہیں آسکتے.عیسائیوں نے خود مانا ہے کہ جہاں تثلیث نہیں گئی وہاں توحید کا مطالبہ ہوگا کیونکہ فطرت کے موافق توحید ہی ہے.اگر قرآن شریف نہ بھی ہوتا تب بھی انسانی فطرت توحید ہی کو مانتی کیونکہ وہ باطنی شریعت کے موافق ہے.ایسا ہی اسلام کی کل تعلیم باطنی شریعت کے موافق ہے برخلاف عیسائیوں کی تعلیم کے جو مخالف ہے.دیکھو حال ہی میں امریکہ میں طلاق کا قانون خلاف انجیل پاس کرنا پڑا.یہ وقت کیوں پیش آئی اس لئے کہ انجیل کی تعلیم فطرت کے موافق یہ تھی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶)

Page 337

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة الروم فطر کے معنے پھاڑنے کے ہیں اور فطرت سے یہ مراد ہے کہ انسان خاص طور پر پھاڑا گیا ہے.جب آسمان سے قوت آتی ہے تو نیک قو تیں پھٹنی شروع کر دیتی ہیں.الحام جلد ۸ نمبر ۶ مورخہ ۱۷ارفروری ۱۹۰۴ صفحه ۵) مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ " تفسیر حسینی میں زیر تفسیر آیت وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكيْنَ لکھا ہے کہ کتاب تیسیر میں شیخ محمد ابن اسلم طوسی سے نقل کیا ہے کہ ایک حدیث مجھے پہنچی ہے کہ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ جو کچھ مجھ سے روایت کرو پہلے کتاب اللہ پر عرض کر لو اگر وہ حدیث کتاب اللہ کے موافق ہو تو وہ حدیث میری طرف سے ہوگی ورنہ نہیں.سو میں نے اس حدیث کو کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ قرآن سے مطابق کرنا چاہا اور تیس سال اس بارہ میں فکر کرتا رہا مجھے یہ آیت ملی و أَقِيمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ - الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰) قرآن مجید نے خود حدیث کو اپنا خادم و مفسر قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض احکام ایسے طور پر بیان کئے ہیں کہ وہ بلا تفصیل صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی مسلمان مخاطب قرآن کی سمجھ میں نہ آتے اور نہ وہ دستور العمل ٹھہرائے جاسکتے.ایک حکم نماز ہی کو دیکھ لو قرآن میں اس کی نسبت صرف یہ ارشاد ہے آقِیمُوا الصلوة اور کہیں اس کی تفسیر نہیں ہے کہ نماز کیوں کر قائم کی جائے.صاحب الحدیث آنحضرت صلعم (پانچ هُوَ وَ امّی) نے قولی و علی حدیثوں سے بتایا کہ نماز یوں پڑھی جاتی ہے تو وہ حکم قرآن سمجھ عمل میں آیا.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۵۵) اللهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُبيتُكُم ثُمَّ يُحْيِيكُم هَلْ مِنْ شُرَكَا بِكُم مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ سُبُحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ.اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنا قانونِ قدرت یہ بتلاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں صرف چار واقعات ہیں.پہلے وہ پیدا کیا جاتا ہے پھر تکمیل اور تربیت کے لئے روحانی اور جسمانی طور پر رزق مقسوم اسے ملتا ہے.پھر اس پر موت وارد ہوتی ہے پھر وہ زندہ کیا جاتا ہے.اب ظاہر ہے کہ ان آیات میں کوئی ایسا کلمہ استثنائی نہیں

Page 338

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۶ سورة الروم جس کی رو سے مسیح کے واقعات خاصہ باہر رکھے گئے ہوں حالانکہ قرآن کریم اول سے آخر تک یہ التزام رکھتا ہے کہ اگر کسی واقعہ کے ذکر کرنے کے وقت کوئی فرد بشر باہر نکالنے کے لائق ہو تو فی الفور اس قاعدہ کلیہ سے اس کو باہر نکال لیتا ہے یا اس کے واقعات خاصہ بیان کر دیتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۴) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں مارے گا پھر زندہ کرے گا.کیا تمہارے معبودوں میں سے جو انسانوں میں سے ہیں کوئی ایسا کر سکتا ہے.پاک ہے خدا ان بہتانوں سے جو مشرک جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۸) لوگ اس پر لگا رہے ہیں.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ.وہ رسول اس وقت آیا کہ جب جنگل اور دریا میں فساد ظاہر ہو گیا یعنی تمام روئے زمین پر ظلمت اور ضلالت پھیل گئی اور کیا اُمّی لوگ اور کیا اہل کتاب اور اہل علم سب کے سب بگڑ گئے اور کوئی حق پر قائم نہ رہا اور یہ سب فساد اس لئے ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے خلوص اور صدق اُٹھ گیا اور ان کے اعمال خدا کے لئے نہ رہے بلکہ ان میں بہت سا خلل واقع ہو گیا اور وہ سب رو بدنیا ہو گئے اور روبحق نہ رہے اس لئے امداد الہی ان سے منقطع ہو گئی سوخدا نے اپنی حجت پوری کرنے کے لئے ان کے لئے اپنا رسول بھیجا تا ان کو ان کے بعض عملوں کا مزہ چکھا دے اور تا ایسا ہو کہ وہ رجوع کریں.( بر این احمد یہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۳۳، ۶۳۴) ۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعوی تھا کہ میں تمام قوموں کے لئے آیا ہوں سو قرآن شریف نے تمام قوموں کو ملزم کیا ہے کہ وہ طرح طرح کے شرک اور فسق اور نجور میں مبتلا ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ في الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے.( نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۶) ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے.یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے.پس قرآن شریف کا کام در اصل

Page 339

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مردوں کو زندہ کرنا تھا.۳۰۷ سورة الروم اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۸) یہ بات ہر ایک عقل سلیم قبول کرلے گی کہ کمال اصلاح کی نوبت کمال فساد کے بعد آتی ہے.طبیب کا یہ کام نہیں کہ وہ چنگے بھلے لوگوں کو وہ دوائیں دے جو عین بیماری کے غلبہ کے وقت دینی چاہئیں اسی لئے قرآن شریف نے پہلے یہ بیان کر دیا کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی تمام دنیا میں فساد پھیل گیا اور ہر ایک قسم کے گناہ اور معاصی کا طوفان برپا ہو گیا اور پھر ہر ایک بد عقیدگی اور بدعملی کے بارے میں مکمل ہدایتیں پیش کر کے فرمایا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة : ٤ ) یعنی آج میں نے تمہارا دین کامل عمل کر دیا.مگر کسی پہلے زمانہ میں جس میں ابھی طوفانِ ضلالت بھی جوش میں نہیں آیا تھا مکمل کتاب کیوں کر انسانوں کو مل سکتی ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷ ۱۴۸،۱۴) پادری فنڈل صاحب مصنف میزان الحق جو عیسائی مذہب کا سخت حامی ایک یورپین انگریز ہے وہ اپنی کتاب میزان الحق میں لکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سب قوموں سے زیادہ بگڑی ہوئی عیسائی قوم تھی اور ان کی بد چلنیاں عیسائی مذہب کی عار اور جنگ کا موجب تھیں اور خود قرآن شریف بھی اپنے نزول کی ضرورت کے لئے یہ آیت پیش کرتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی قوم خواہ وحشیانہ حالت رکھتی ہیں اور خواہ نظمندی کا دعویٰ کرتی ہیں فساد سے خالی نہیں ہیں.(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۲) یہ امت مرحومہ ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئی ہے کہ جس کے لئے آفات پیدا ہونے لگی ہیں.انسان کی حرکت گناہوں اور معاصی کی طرف ایسی ہے جیسے کہ ایک پتھر نیچے کو چلا جاتا ہے.امت مرحومہ اس لئے کہلاتی ہے کہ معاصی کا زور ہو گیا جیسے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ اور دوسری جگہ فرمایا یخی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الروم :۲۰).ان سب آیات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دو نقشے دکھائے ہیں.اول الذکر میں تو اس زمانہ کا جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے.اس وقت بھی چونکہ دنیا کی حالت بہت ہی قابلِ رحم ہو گئی تھی.اخلاق ، اعمال،عقائد سب کا نام ونشان اُٹھ گیا تھا.اس لئے اس امت کو مرحومہ کہا گیا کیونکہ اس وقت بڑے ہی رحم کی ضرورت تھی اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۷،۱۴۶)

Page 340

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الروم قرآن شریف جس وقت نازل ہوا ہے کیا اس وقت نظام روحانی یہ نہیں چاہتا تھا کہ خدا کا کلام نازل ہو اور کوئی مرد آسمانی آوے جو اس گم شدہ متاع کو واپس دلائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت کی تاریخ پڑھو تو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کہ کیا حالت تھی.خدا تعالیٰ کی پرستش دنیا سے اُٹھ گئی تھی اور توحید کا نقش پا مٹ چکا تھا.باطل پرستی اور معبودانِ باطلہ کی پرستش نے اللہ جلشانہ کی جگہ لے رکھی تھی.دنیا پر جہالت اور ظلمت کا ایک خوفناک پردہ چھایا ہوا تھا.دنیا کے تختہ پر کوئی ملک کوئی قطعہ کوئی سرزمین ایسی نہ رہ گئی تھی جہاں خدائے واحد ہاں جی و قیوم خدا کی پرستش ہوتی ہو.عیسائیوں کی مردہ پرست قوم تثلیث کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی اور ویدوں میں توحید کا بیجا دعوی کرنے والے ہندوستان کے رہنے والے ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کے پجاری تھے.غرض خود خدا تعالیٰ نے جو نقشہ اس قت کی حالت کا ان الفاظ میں کھینچا ہے ظهر الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِيه بالکل سچا ہے اور اس سے بہتر انسانی زبان اور قلم اس حالت کو بیان نہیں کر سکتی.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۱ صفحه ۳) ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں....اعتقادی اور عملی حالت بالکل خراب ہو گئی تھی اور نہ صرف عرب کی بلکہ کل دنیا کی حالت بگڑ چکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ.اس فساد عظیم کے وقت خدا تعالیٰ نے اپنے کامل اور پاک بندہ کو مامور کر کے بھیجا جس کے سبب سے تھوڑی ہی مدت میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہو گئی.مخلوق پرستی کی بجائے خدا تعالی پوجا گیا بد اعمالیوں کی بجائے اعمال صالحہ نظر آنے لگے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ / اپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۵) دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے.دریاؤں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو پانی دیا گیا یعنی شریعت اور کتاب اللہ ملی اور جنگل سے مراد وہ ہیں جن کو اس سے حصہ نہیں ملا تھا.مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب بھی بگڑ گئے اور مشرک بھی.الغرض آپ کا زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی تھی.الحکام جلد ۶ نمبر ۱۰ مور محه ۱۷ار مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے خواہ اس نے ہماری دعوت سنی ہو یا نہ سنی ہو کیونکہ یہی غرض ہے ہماری بعثت کی.اس وقت تقومی عنقا یا کبریت کی طرح ہو گیا ہے.کسی کام میں خلوص نہیں رہا بلکہ ملونی ملی ہوئی ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس ملونی کو جلا کر خلوص پیدا کرو.اس وقت ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا نمونہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یورپ اور دیگر ممالک کی بگڑی ہوئی حالتوں کا علم نہ تھا

Page 341

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة الروم خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان تھا اور اب عرفان کی حالت پیدا ہوگئی ہے جو چاہے ان ممالک میں جا کر دیکھ لے.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۱،۱۰) اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں.زمین بالکل مرچکی ہے.یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا ہو گیا ہے.جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں.جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہلِ کتاب ہیں.جاہل و عالم بھی مراد ہو سکتے ہیں.غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے.روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیر میں نظر آتی ہیں اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا امتلا ہے.خدا پرستی اور خداشناسی کا نام ونشان مٹا ہوا نظر آتا ہے اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے.خدا تعالیٰ کا شکر کرو.اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں آنا اور پھر وہاں سے رخصت ہونا قطعی دلیل آپ کی نبوت پر ہے.آئے آپ اس وقت جبکہ زمانہ ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا مصداق تھا اور ضرورت ایک نبی کی تھی.ضرورت پر آنا بھی ایک دلیل ہے اور آپ اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله (النصر : ۲ ) کا آوازه دیا گیا اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کس قدر عظیم الشان کامیابی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے.الحکم جلد نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۰) آنحضرت کی آمد اس وقت ہوئی کہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا مصداق تھا اور گئے اس وقت جبکہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ (النصر :۲) کی سند آپ کول گئی.البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ رستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۵۷) صحابہ کرام سارے ہی باخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت ان سے بڑھ کر ایسے وفادار تھے کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا اس لئے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خاردار کانٹوں والا جنگل اس کے درندے، حیوانات ، انسانی شکل میں دکھلائے گئے.پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شریر النفس نہ تھا.پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑھ تھے جیسے فرما یا ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى (المائدة : ٢) إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ

Page 342

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَالْفَتْحُ ( النصر :٢) - ۳۱۰ سورة الروم الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ تا ۱۷ رنومبر ۱۹۰۴ صفحه ۸) میں جانتا ہوں کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش قسمتی ثابت ہوتی ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں.امور رسالت میں یہ کامیابی اور سعادت کسی اور کو نہیں ملی.آپ کی آمد کا وہ وقت تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ سے بیان کیا ہے یعنی نہ خشکی میں امن تھانہ تری میں.مراد اس سے یہ ہے کہ اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں.گویا زمانہ کی حالت بالطبع تقاضا کرتی تھی کہ اس وقت ایک زبردست بادی اور مصلح پیدا ہوا ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا اور پھر آپ ایسے وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپ کو یہ آواز آ گئی اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ۴ ) یہ آواز کسی اور نبی اور رسول کو نہیں آئی.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) آپ کے متعلق ایک ایسا نکتہ ہے جو آپ کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ایسے وقت تشریف لائے جبکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا وقت تھا یعنی اہل کتاب بھی بگڑ چکے تھے اور غیر اہل کتاب بھی بگڑے ہوئے تھے اور یہ بات مخالفوں کی تصدیق سے بھی ثابت ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۴) آنحضرت اس وقت مبعوث ہوئے تھے جب فسق و فجور، شرک اور بت پرستی اپنے انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ والا معاملہ ہو رہا تھا اور گئے اس وقت تھے جب وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا ( النصر : ۳) والا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا تھا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کی نظیر تمام دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہی تو کاملیت ہے کہ جس مقصود کے لئے آئے تھے اس کو پورا کر کے دکھا دیا.حضرت عیسی علیہ السلام تو صلیب کا ہی منہ دیکھتے پھرے اور یہودیوں سے رہائی نہ پاسکے مگر ہمارے نبی کریم صلعم نے غالب ہو کر وہ اخلاق دکھائے جن کی نظیر نہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) قرآن ( مجید ) ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جب کہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہوگئی تھیں اور تقریباً سب کے سب لوگ بد اعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے اس کی طرف اللہ جل شانہ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَر

Page 343

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة الروم وَ الْبَحْرِ یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بد عقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم بر پا تھا.غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کل مذاہب باطلہ کا رد موجود ہے.احکام جلد ۱۲ نمبر امورخه ٫۲جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۵) ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور خشک زمین بھی بگڑ گئی مطلب یہ کہ جس قوم کے ہاتھ میں کتاب آسمانی تھی وہ بھی بگڑ گئی اور جن کے ہاتھ میں کتاب آسمانی نہیں تھی اور خشک جنگل کی طرح تھے وہ بھی بگڑ گئے اور یہ امر ایک ایسا سچا واقعہ ہے کہ ہر ایک ملک کی تاریخ اس پر گواہ ناطق ہے.کیا آریہ ورت کے دانا مورخ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ آنجناب کے ظہور کا زمانہ در حقیقت ایسا ہی تھا اور بت خانوں کو اس قدر عزت دی گئی تھی کہ گویا وید کا اصل مذہب یہی ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۰،۳۷۹) قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ كَانَ اكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَ.کہہ زمین پر سیر کرو پھر دیکھو کہ جو تم سے پہلے کافر اور سرکش گزر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا اور اکثران (برائین احمد یہ چہار خصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۳۴) میں سے مشرک ہی تھے.وَ لَقَد أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إلى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ.اور ہم نے تجھ سے پہلے کئی پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے اور وہ بھی روشن نشان لائے.پس آخر ہم نے ان مجرم لوگوں سے بدلہ لیا جنہوں نے ان نبیوں کو قبول نہیں کیا تھا اور ابتدا سے یہی مقرر ہے کہ مومنوں کی مدد کرنا ہم پر ایک حق لازم ہے یعنی قدیم سے عادت الہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ سچے نبی ضائع نہیں چھوڑے جاتے اور ان کی جماعت متفرق اور پراگندہ نہیں ہوتی بلکہ ان کو مددملتی ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۱ حاشیہ نمبر ۱۱)

Page 344

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۲ سورة الروم یعنی ہم جو ابتدا سے مومنوں کے لئے نصرت اور مدد کا وعدہ دے چکے ہیں اس لئے ہم اپنے پر یہ حق ٹھہراتے ہیں کہ ان کی مدد کریں ورنہ دوسرا شخص اس پر کوئی حق نہیں ٹھہر اسکتا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۵،۳۴) اللهُ الَّذِى يُرْسِلُ الرِّيحَ فَتَشيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُه في السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَ يَجْعَلهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلْلِهِ ۚ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِة إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ مِّنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِيْنَ.فَانْظُرُ إِلَى اثْرِ رَحْمَتِ اللهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذلِكَ لَمُحْيِ المَوْلى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُه خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے کہ جو بر وقت ضرورت ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو بدلی کو اُبھارتی ہیں پھر خدائے تعالی اس بدلی کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے پھر جن بندوں کو اپنے بندوں میں سے اس مینہ کا پانی پہنچاتا ہے تو وہ خوش وقت ہو جاتے ہیں اور نا گہانی طور پر خدا ان کے غم کو خوشی کے ساتھ مبدل کر دیتا ہے اور مینہ کے اترنے سے پہلے ان کو باعث نہایت سختی کے کچھ امید باقی نہیں رہتی پھر ایک دفعہ خدائے تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا ہے یعنی ایسے وقت میں باران رحمت نازل ہوتا ہے جب لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور مینہ برسنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی اور پھر فرمایا کہ تو خدا کی رحمت کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھے اور اس کی رحمت کی نشانیوں پر غور کر کہ وہ کیوں کر زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے زندہ کرتا ہے بیشک وہی خدا ہے جس کی یہ بھی عادت ہے کہ جب لوگ روحانی طور پر مر جاتے ہیں اور سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے تو اسی طرح وہ ان کو بھی زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر اور توانا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۷ ۵۲ تا۵۲۹) اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَشَيْبَةٌ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (۵۵) خدا وہ خدا ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا پھر ضعف کے بعد قوت دے دی پھر قوت کے بعد

Page 345

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ سورة الروم ضعف اور پیرانہ سالی دی.یہ آیت بھی صریح طور پر اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ کوئی انسان اس قانونِ قدرت سے باہر نہیں اور ہر ایک مخلوق اس محیط قانون میں داخل ہے کہ زمانہ اس کی عمر پر اثر کر رہا ہے یہاں تک کہ تاثیر زمانہ.....سے وہ پیر فرتوت بن جاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۰،۴۲۹) یہ آیت تمام انسانوں کے لئے ہے یہاں تک کہ تمام انبیاء علیہم السلام اس میں داخل ہیں اور خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو نبیوں کے سردار ہیں وہ بھی اس سے باہر نہیں آپ پر بھی پیرانہ سالی کے علامات ظاہر ہو گئے تھے اور چند بال سفید ریش مبارک میں آگئے تھے اور آپ خود اپنی آخری عمر میں آثار پیرانہ سالی کے ضعف کے اپنے اندر محسوس کرتے تھے لیکن بقول ہمارے مخالفین کے حضرت عیسی اس سے بھی باہر ہیں وہ کہتے کہ یہ ایک خصوصیت ان کی ہے جو فوق العادت ہے اور یہی حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی پر ایک دلیل ہے.برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۵)

Page 346

Page 347

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۱۵ سورة لقمان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة لقمان بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَ اِذْ قَالَ لُقْمَنُ لِابْنِهِ وَ هُوَ يَعِظُهُ يُبْنَى لَا تُشْرِكْ بِاللهِ إِنَّ الشَّرُكَ لَظُلُم ۱۴ خدا کے ساتھ کسی دوسری چیز کو ہرگز شریک مت ٹھہراؤ.خدا کا شریک ٹھہرانا سخت ظلم ہے.برائن احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیه ) شرک تین قسم کا ہے اول یہ کہ عام طور پر بت پرستی، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے.یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا یہ بھی شرک ہے تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شے سمجھا جاوے.موٹے شرک میں تو آج کل اس روشنی اور عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۸) اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود و کارساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے.إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ - لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ.یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک

Page 348

سورة لقمان تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبوداتِ دنیا پر زور دیا جاوے اسی کا نام ہی شرک ہے.اور معاصی کی مثال تو حقہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑ دینے سے کوئی دقت ومشکل کی بات نظر نہیں آتی مگر شرک کی مثال افیم کی سی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑ نا محال ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۴ مورخه ۳۰/جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) یاد رکھو شرک کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک شرک جلی کہلاتا ہے دوسرا شرک خفی.شرک جلی کی مثال تو عام طور پر یہی ہے جیسے یہ بت پرست لوگ بتوں، درختوں یا اور اشیاء کو معبود سمجھتے ہیں اور شرک خفی یہ ہے کہ انسان کسی نشے کی تعظیم اسی طرح کرے جس طرح اللہ تعالی کی کرتا ہے یا کرنی چاہیے یا کسی شے سے اللہ تعالیٰ کی طرح محبت کرے یا اس سے خوف کرے یا اس پر توکل کرے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) لا وَ اِن جَاهَدُكَ عَلَى اَنْ تُشْرِكَ فى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ آنَابَ إِلَى ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فانيتُكُم بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.اگر تجھے اس بات کی طرف بہکا دیں کہ تو میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہر اوے تو ان کا کہا مت مان.برائن احمد یه چهار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَلَا تُصَعِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ اسلام ایک وسیع مذہب ہے اس میں اسلام کا مدار نیات پر رکھتا ہے.بدر کی لڑائی میں ایک شخص میدانِ جنگ میں نکلا جو اترا کر چلتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو یہ چال بہت بری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا مگر اس وقت یہ چال خدا تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہے کیونکہ یہ اس کی راہ میں اپنی جان تک شار کرتا ہے اور اس کی نیت اعلیٰ درجہ کی ہے.غرض اگر نیت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو بہت مشکل پڑتی ہے.اسی طرح پر ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و

Page 349

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ سورة لقمان نے فرمایا کہ جن کا نہ بند نیچے ڈھلکتا ہے وہ دوزخ میں جاویں گے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رو پڑے کیونکہ ان کا تہ بند بھی ویسا تھا.آپ نے فرمایا کہ تو ان میں سے نہیں ہے.غرض نیت کو بہت بڑا دخل ہے اور حفظ مراتب ضروری شے ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَاقْصِدُ فِي مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الحمير ہمارا مطلب و مدعا یہ ہے کہ ایسے امور کی موشگافی اور نہ بینی کی امید سے اپنی عقلوں اور فکروں کو آوارہ مت کرو جو تمہاری بساط سے باہر ہیں.کیا یہ سچ نہیں کہ بہتیرے ایسے لوگ ہیں کہ ناجائز فکروں میں پڑ کر اپنی اس معین اور مقرر وسعت سے جو قدرت نے ان کو دے رکھی ہے باہر چلے جاتے ہیں اور اپنی محدود عقل سے کل کائنات کے عمیق در عمیق رازوں کو حل کرنا چاہتے ہیں.سو یہ افراط ہے جیسے بلکلی تحقیق و تفتیش سے منہ پھیر لینا تفریط ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَاقْصِد فِي مَشْيِكَ یعنی اپنی چال میں توسط اختیار کر.نہ ایسا فکر کو منجمد کر لینا چاہیے کہ جو ہزار ہا نکات و لطائف الہیات قابل دریافت ہیں ان کی تحصیل سے محروم رہ جائیں اور نہ اس قدر تیزی کرنی چاہیے کہ ان فکروں میں پڑ جائیں کہ خدائے تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے اور یا اس نے اس قدر ارواح اور اجسام کس طرح بنالئے ہیں اور یا اُس نے کیوں کر اکیلا ہونے کی حالت میں اس قدر وسیع عالم بنا ڈالا ہے.سرمه چشم آری، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۶۶ ۱۶۷) خود نبی صلعم نے بوحی الہی استنباط احکام قرآن کر کے قرآن ہی سے یہ مسائل زائدہ لئے ہیں جس حالت میں قرآن کریم صاف ظاہر کرتا ہے کہ کل خبائث حرام کئے گئے تو کیا آپ کے نزدیک درندے اور گدھے طیبات میں سے ہیں؟ جن کے حرام کرنے کے لئے کسی حدیث کی واقعی طور پر ضرورت تھی.گدھے کی مذمت خود اللہ جل شانہ فرماتا ہے إِنَّ انْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیر.پھر جو اس کی نظر میں کسی وجہ سے منکر اور مکروہ اور خبائث میں داخل ہے وہ کس طرح حلال ہو جاتا ؟ اور تمام درندے بد بو سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.چڑیا گھر میں جا کر دیکھو کہ شیر اور بھیڑیا اور چیتا وغیرہ اس قدر بد بور کھتے ہیں کہ پاس کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے.پھر اگر یہ خبائث میں داخل نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟ الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۶)

Page 350

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة لقمان نہ بہت اونچا بولا کرونہ بہت نیچا درمیان کو نگاہ رکھو یعنی باستثناء وقت ضرورت کے چلنے میں بھی نہ بہت تیز چلو اور نہ بہت آہستہ.درمیان کو نگاہ رکھو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) إن الله عِندَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَا ذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَي أَرْضِ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ایک آریہ صاحب نے....بصورت اعتراض پیش کیا تھا کہ لڑکا لڑکی کے پیدا ہونے کی شناخت دائیوں کو بھی ہوتی ہے یعنی دائیاں بھی معلوم کر سکتی ہیں کہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑ کی.واضح رہے کہ ایسا اعتراض کرنا یا معترض صاحب کی سراسر حیلہ سازی وحق پوشی ہے کیونکہ اول تو کوئی وائی ایسا دعوی نہیں کر سکتی بلکہ ایک حاذق طبیب بھی ایسا دعویٰ ہر گز نہیں کر سکتا کہ اس امر میں میری رائے قطعی اور یقینی ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں صرف ایک اٹکل ہوتی ہے کہ جو بار ہا خطا جاتی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۹۹) عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ پر حضرت اقدس نے فرمایا.) یہ بات واقعی ہے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ ساعت سے اس جگہ مراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے.وہ وہی زمانہ تھا اور جس ساعت کے یہ لوگ منتظر ہیں اس کا تو ابھی تک کہیں پتہ بھی نہیں ہے.ایک پہلو سے اول مسیح کے وقت یہودیوں نے بد بختی لے لی اور دوسرے وقت میں نصاری نے بد بختی کا حصہ لے لیا.مسلمانوں نے بھی پوری مشابہت یہود سے کر لی.اگر ان کی سلطنت یا اختیار ہوتا تو ہمارے ساتھ بھی مسیج والا البدر جلد ا نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۱) معاملہ کرتے.

Page 351

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۱۹ سورة السجدة بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة السجدة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يدير الأمرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُنَ الْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.وَإِنَّ زَمَانَ خَلْقِي أَلْفَ سَادِسُ لَا لاریب میری پیدائش کا زمانہ چھٹا ہزار ہے پس تو اہل علم رَيْبَ فِيْهِ، فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَعْلَمُونَ.لوگوں سے دریافت کر لے اور تورات نے بھی جس پر مسلمان وَنَطَقَ بهِ التَّوْرَاةُ الَّتِى يُؤْمِنُ با ایمان رکھتے ہیں یہی بیان کیا ہے اور نصوص صریحہ سے اس گفتی الْمُسْلِمُونَ، وَلَمْ يَكْبُت بنصوص کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں اور اہل علم اسے خوب جانتے صريحةٍ مَا يُخَالِفُ هَذِهِ الْعِدَّةَ وَيَعْلَمُهُ ہیں.پس ان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ تو رات کی گنتی اور الْعَالِمُونَ.فَمَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا انبیاء کے بیان کا انکار کریں اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ خود بِعِدَّةِ التَّوْرَاةِ وَمَا قَالَ النَّبِيُّونَ.قرآن کریم نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سورۃ العصر نے اس وَكَيْفَ وَمَا خَالَفَهُ الْقُرْآنُ بَلْ صَدَّقَة کی تصدیق کر دی ہے پس وہ اس حقیقت سے بھاگ کر کہاں سُوْرَةُ الْعَصْرِ فَأَيْنَ يَفِرُّونَ؟ بَلْ إِلَيْهِ جاسکتے ہیں بلکہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ قول اشارہ کرتا يُشيرُ قَوْله تَعَالَى يُدير الأمرَ مِنَ ہے کہ يُدير الأمرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ

Page 352

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ ٣٢٠ سورة السجدة ،، السَّمَاءِ إِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِي يَوْمٍ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ اور كَانَ مِقْدَارُةٌ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ اس کے ساتھ آیت قرآنیہ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ بھی پڑھو.وَاقْرَؤُوا مَعَهَا آيَةً إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ یہ آیت ہم نے سورہ سجدہ سے لی ہے اور یہ سنت نبوی ہے هذِهِ ايَةٌ كَتَبْنَاهَا مِن سُورَةِ السَّجْدَةِ کہ یہ سورۃ ہر جمعہ کو صبح کی نماز میں پڑھی جاتی ہے اور اللہ وَمِن السُّنَّةِ أَنَّهَا تُقرأ في صَلوةِ الْفَجْرِ مِن تعالیٰ نے اس سورۃ میں بیان فرمایا ہے کہ اس نے قرآن الْجُمُعَةِ، وَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ في کریم نازل کر کے اپنی شریعت کے حکم کو اپنی تدبیر کے هذِهِ السُّورَةِ إِنَّهُ دَبَّرَ أَمَرَ الشَّرِيعَةِ بِالزَالِ مطابق قائم کر دیا اور کلام مجید کے ساتھ لوگوں کے لئے الْفُرْقَانِ الْحَبِيْدِ، وَأَكْمَلَ لِلنَّاسِ دِینَهُمْ ان کے دین کو مکمل کر دیا.اس کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا بِالْكَلَامِ الْمَجِيْدِ ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَالِكَ آئے گا جس کی ضلالت ایک ہزار سال تک ممتد رہے گی زَمَانٌ تَمْتَدُّ ضَلَالَتُه إِلى أَلْفِ سَنَةٍ اور كتاب اللہ اٹھالی جائے گی اور قرآن کریم کے احکام وَيُرْفَعُ كِتَابُ اللهِ إِلَيْهِ وَيَعْرُجُ إِلَى الله اپنے دونوں حصوں سمیت اللہ کی طرف عروج کر جائیں أَمْرُهُ بِشِقِّيْهِ، يَعْنِى يُضَاعُ فِيْهِ حَقُ اللہ کے یعنی اس زمانہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد وَحَقُ الْعِبَادِ، وَتَبْتُ رَاهِرُ الْفَسَادِ علی دونوں ضائع کر دیئے جائیں گے اور اس کی دونوں قسموں قِسْمَيْهِ، وَيَفْذُو الْكَذِبُ وَالْفِرْيَةُ يَعْنِی پر فساد کی تند ہوائیں چلیں گی اور جھوٹ اور افتر یعنی دجالی الْفِتَنَ الرَّجَالِيَّةُ، وَيَظْهَرُ الْفِسْقُ وَالْكُفْرُ فتنے پھیل جائیں گے اور نافرمانی ، کفر اور شرک عام وَالشَّرُكُ، وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُعْرِضِينَ ہو جائے گا تو مجرم لوگوں کو اپنے رب سے سرتابی کرتے عَنْ رَّبِّهِمْ وَظَهِيرِينَ عَلَيْهِ ثُمَّ يَأْتي بَعْدَ ہوئے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت میں سرگرم دیکھے گا.پھر اس ذَالِكَ أَلْفُ أَخَرُ يُغَاثُ فِيهِ النَّاسُ مِن کے بعد دوسرا ہزار سال آئے گا جس میں رب العالمین کی ربِّ الْعَالَمِينَ، وَيُرْسَلُ آدَمُ آخِرِ الزَّمَانِ طرف سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور آدم آخر لِيُجَدِّدَ الذِينَ، وَإِلَيْهِ أَشَارَ فِي آيَةٍ هِيَ بَعْدَ زمان کو تجدید دین کے لئے مبعوث کیا جائے گا.چنانچہ اس هذِهِ الْآيَةِ أَعْنِى قَوْله وَبَدَا خَلْقَ الإِنسَان کی طرف اس کے بعد کی آیت یعنی وَ بَدَا خَلْقَ الْإِنْسَانِ لے مِن طِينِ وَإِنَّ هَذَا الْإِنْسَانَ هُوَ مِنْ طِينٍ میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہ موعود انسان مسیح موعود السجدة : ٨

Page 353

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة السجدة الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ وَقُدِّدَ بَعْتُهُ بَعْدَ انْقِضَاءِ ہی ہے اور اس کی بعثت کا زمانہ خیر القرون سے ایک ہزار أَلْفِ سَنَةٍ مِنَ الْقُرُونِ الَّتِي هِيَ خَيْرُ سال ختم ہونے کے بعد ہی مقدر تھا اور اسی پر انبیاء کی الْقُرُونِ، وَاتَّفَقَ عَلَيْهِ مَعْشَرُ النَّبِيِّينَ وَقَد جماعت نے اتفاق کیا ہے اور بخاری اور مسلم میں عمران جَاءَ فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ بن حصین سے یہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ نے فرمایا کہ میری امت کا بہترین زمانہ میری صدی وَسَلَّمَ خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ہے، اس کے بعد بہتر لوگ وہ ہیں جو ان کے بعد آئیں ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ إِنَّ بَعْدَهُمْ قَوْمٌ گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے.پھر ان کے يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَكُونُونَ وَلَا بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بغیر گواہی مانگے کے يُؤْتَمَنُونَ، وَيُنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ وَيَظْهَرُ گواہی دیں گے اور وہ خائن ہوں گے اور ان کو امانت فِيهِمُ السَّمَنُ.وَفِي رِوَايَةٍ وَيَحْلِفُونَ وَلا دار نہیں سمجھا جائے گا.وہ نذریں مانیں گے لیکن انہیں يُسْتَعْلَفُوْنَ.فَظَهَرَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ الَّذِی پورا نہیں کریں گے.وہ خوب موٹے تازے نظر آئیں هُوَ الْمُتَّفَقُ عَلَيْهِ أَنَّ الزَّمَانَ الْمَحْفُوظ گے.اور ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ حلف مِن غَلَبَةِ الْكَذِبِ الَّذِى هُوَ مِن الصَّفَاتِ طلب کئے بغیر حلف اُٹھا ئیں گے.اس متفق علیہ حدیث الدجالِيَّةِ وَزَمَانَ الصَّدْقِ وَالصَّلاحِ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹ کی کثرت جو دجالی صفات وَالْعِفَّةِ لَا يُجَاوِرُ ثَلَاثَ مِائَةٍ مِن قَرْنٍ میں سے ایک صفت ہے اس سے محفوظ زمانہ اور صدق سَيِّدِنَا خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، ثُمَّ بُعْدَ ذَالِك يَأْتي اور صلاح اور عفت کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زَمَانٌ كَلَيْلٍ سَى عِنْدَ غَيْبَةِ بَندِ اخْتَفی کے بعد تین سو سال کی مدت سے تجاوز نہیں کرے گا پھر وَفِيْهِ يَفْشُو الْكَذِبُ وَيَنْوِى مِنَ الْأَهْوَاء اس کے بعد ایک ایسی تاریک رات آئے گی جس میں ماہ مَنْ هَوَى، وَيَزِيدُ كُلَّ يَوْمٍ زُورٌ وَأَحَادِیث کامل چھپ گیا ہو اس زمانہ میں جھوٹ عام ہو جائے گا تُفْتَرَى فَإِذَا بَلَغَ الْكَذِبُ إِلى حَدِ الكَمَالِ اور نفسانی خواہشات کی طرف وہ راغب ہوں گے فَيَنْعَنِى يَوْمًا إلى ظُهُورِ الدَّجَالِ، وَهُوَ آخِرُ جو انہیں پسند کرتے ہیں اور جھوٹ ہر روز پھیلتا جائے گا أَيَّامِ هَذَا الْأَلْفِ كَمَا يَقْتَضِيهِ سِلْسِلَةُ اور جھوٹی احادیث وضع کی جائیں گی.پس جب جھوٹ الترقي في النُّورِ وَالْإِفْتِعَالِ، وَكَمَا هُوَ اپنے کمال کو پہنچ جائے گا تو وہ ایک دن دجال کے ظہور

Page 354

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مفهوم سورة السجدة هُوْمُ حَدِيثِ رَسُولِ الله ذی الجلال کے زمانہ تک جا پہنچے گا اور وہ اس ہزار سال کے آخری دن وَذَالِكَ الزَّمَانُ هُوَ الزَّمَانُ الَّذِي يَعْرُجُ ہوں گے.جیسا کہ فریب اور افترا میں ترقی کا سلسلہ اس کا أَمْرُ اللَّهِ إِلَيْهِ وَالْهُدَى، وَيُرْفَعُ الْقُرْآنُ إِلَى تقاضا کرتا ہے اور جیسا کہ خدائے ذوالجلال کے رسول کی السَّمَاوَاتِ الْعُلى وَقَد شَهِدَتِ حدیث کا مفہوم ہے یہ وہ زمانہ ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ کا امر الْوَاقِعَاتُ الْخَارِجِيَّةُ أَنَّ هَذَا الزَّمَانَ اور ہدایت اس کی طرف صعود کر جائیں گے اور قرآن مجید الْفَاسِدَ امْتَدَّ إلى أَلْفِ سَنَةٍ.أَغنى إلى آسمان کی طرف اُٹھا لیا جائے گا اور خارجی واقعات نے هذا الزَّمَانِ، حَتَّى صَارَ الصّل بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ یہ خرابیوں سے پر زمانہ كَالأَفْعُوَانِ، فَفَهِمْنَا مِنْ هَذَا بِالْيَقِينِ ہزار سال تک یعنی اس زمانہ تک پھیلا ہوا ہے جس وقت الشَّامِ وَالْعِرْفَانِ، أَنَّ قَوْلَهُ تَعَالى يَعْرُجُ زہریلا سانپ اژدھا کی شکل اختیار کر جائے گا.اس سے إلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ الفَ سَنَةٍ ہم نے یقین تام اور عرفان کے ساتھ سمجھ لیا ہے کہ اللہ مِمَّا تَعُدُّونَ يَتَعَلَّقُ بِهذِهِ الْمُدَّةِ الَّتِى تعالیٰ کے قول يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ أَلْفَ مَرَّتْ فِي الضَّلَالَةِ وَالْفِسْقِ وَالطُغْيَانِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ کا تعلق اس مدت سے ہے جو گمراہی وَكَثُرَ فِيهِ الْمُشْرِكُونَ إِلَّا قَلِيل فمن فسق اور سرکشی میں گزرے گی اور اس میں مشرکوں کی تعداد الَّذِينَ كَانُوا يَتَّقُونَ.وَإِنَّهُ أَلْفُ سَنَةٍ ما بڑھ جائے گی اور متقی لوگ بہت تھوڑے رہ جائیں گے اور زَادَ عَلَيْهِ وَمَا نَقَصَ فَأَى دَلِيْلِ أَكْبَرُ یہ ایک ہزار سال کا عرصہ ہو گا نہ زیادہ اور نہ کم.پس اگر تم فکر مِنْ هَذَا لَوْ كُنتُمْ تَفَكَّرُونَ.وَإِن لَّمْ کرو تو اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے.اور اگر تم ان تَقْبَلُوا فَبَيَّنُوا لَنَا مَا مَعْلى هذِهِ الْآيَةِ معنی کو قبول نہ کرو تو تم ہی بتاؤ کہ اس آیت کے ان معنی کے مِنْ دُونِ هَذَا الْمَعْنَى إِن كُنتُم سوا اور کیا معنی ہوں گے کیا تم خیال کرتے ہو کہ قیامت ہزار تَعْلَمُونَ، أَتَظُنُّونَ أَنَّ الْقِيَامَةَ هِى ألف سال تک رہے گی جو عمر دنیا کے سالوں کی مانند ہوں گے یا سَنَةٍ كَسَنَوَاتِ مُدَّةِ الدُّنْيَا أَوْ تَصْعَدُ قیامت کے دن اتنی ہی مدت میں اعمال کا صعود اللہ تعالیٰ الْأَعْمَالُ إِلَى الله في يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي مُدَّةٍ کی طرف ہوگا اور ان اعمال کا علم اللہ تعالیٰ کو اس سے قبل كَمِثْلِهَا، وَلَا يَعْلَمُهَا اللهُ قَبْلَهَا، اِتَّقُوا نہیں ہوگا.اے حد سے تجاوز کرنے والو اللہ کا تقویٰ اختیار الله أَيُّهَا الْمُسْرِفُونَ وَأَى شَهَادَةٍ أَكْبَر کرو اور جو کچھ خارج میں ظاہر ہوا ہے یعنی اس مدت کی

Page 355

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ سورة السجدة مما ظهر في الخارج أغنى مِقدار مُدَّةٍ مقدار جس میں گمراہی غالب آگئی اس سے بڑھ کر اور ظَهَرَ غَلَبَتِ الضَّلَالَةُ فِيْهَا، فَإِنَّكُمْ رَأَيْتُم کون سی دلیل ہو گی.تم نے اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ بِأَعْيُنِكُمْ أَنَّ مُدَّةَ زَمَانِ الضَّلَالَةِ وَشِدَّتها لیا ہے کہ گرا ہی اور اس کی شدت اور ترقی کا زمانہ خیر وَتَزَايُدِهَا بَعْدَ قُرُوْنِ الْخَيْرِ قَدِ امْتَدَّتْ إِلى القرون سے ایک ہزار سال تک یقینی اور حتمی طور پر پھیلا أَلْفِ سَنَةٍ حَقًّا وَصِدقًا أَتَنكِرُونَ وَأَنْتُمْ ہوا ہے کیا تم اس کو دیکھتے ہوئے اس کا انکار کر سکتے تُشَاهِدُوْنَ وَبَدَأَ الْكَذِبُ كَزَرْعٍ لُمَّ صَارٌ ہو جھوٹ ایک چھوٹے سے پودہ کی طرح پھوٹا اور پھر كَشَجَرَةٍ حَتَّى ظَهَرَتْ هَيْكَلُ الدَّجالِ بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت بن گیا حتی کہ تمہاری وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ، وَإِنَّ الضَّلَالَةَ وَإِن كَانَتْ نگاہوں کے سامنے دجال کا وجود بھی ظاہر ہو گیا گوگمراہی مِن قَبْلُ وَلكِن مَّا حَدَّتْ قُرُونَهَا إِلَّا بَعْدَ پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی صدیاں تین صدیوں کے هذِهِ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ.أَلَا تَقْرَءُونَ حَدِيثَ بعد مقدر تھیں کیا تم ان تین صدیوں سے تعلق رکھنے والی الْقُرُونِ وَقَدْ جَمَعَ هَذَا الأَلف كُلّ ضَلَالَةٍ.حدیث نہیں پڑھتے اور یہ ہزار سال ہر قسم کی گمراہی ، ہر و أَنْوَاعَ شِرْكٍ وَبِدْعَةٍ، وَأَقْسَامَ فِسْقِي نوع كا شرک و بدعت اور ہر قسم کا فسق اور معصیت کا وَمَعْصِيَةٍ وَأُضِيْعَ فِيْهِ حُقُوقُ اللهِ وَحُقُوقُ اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے اور ان ہزار سال میں الْعِبَادِ وَحُقُوقُ الْمَخْلُوقِ، وَانْفَتَحَتْ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ضائع کیا گیا اور ارتداد کے أَبْوَابُ الْإِرْتِدَادِ، فَبِأَتِي دَلِيْلٍ بَعْدَ ذَالِك دروازے کھل گئے.پھر تم اس کے سوا کس دلیل پر تُؤْمِنُونَ وَفُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ ایمان لاؤ گے.اور یا جوج و ماجوج آزاد کر دیئے گئے وَتَرَوْنَ أَنَّهُمْ مِن كُلّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.وَمَا اور تم دیکھتے ہو کہ وہ ہر اونچی جگہ سے پھلانگتے ہوئے خَرَجَا إِلَّا بَعْدَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، وَمَا كَبُلَ دوڑے چلے آرہے ہیں.اور یہ دونوں ان تین صدیوں إقْبَالُهُمَا إِلَّا عِنْدَ أَخِرٍ حِصّةِ هَذَا الْأَلْفِ کے بعد ہی نکلے ہیں اور ان دونوں کا آنا اس ہزار سال وَكُيْلَ الْأَلْفُ مَعَ تَكْمِيْلِ سَطْوَعِهِمَا، وَإِنَّ کے آخر میں ہی مکمل ہوا ہے اور یہ ہزار سال ان کے غلبہ فِيهَا لَايَةً لِقَوْمٍ يَتَدَبَّرُونَ، وَإِنَّ الْقُرْآن کی تعمیل کے ساتھ ہی پورا ہوا ہے اور اس میں تدبر يندى لهذا السير الْمَكْتُومِ.وَيَقُولُ إِنَّ کرنے والوں کے لئے ایک نشان ہے اور قرآن کریم يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ قَدْ حُبِسًا وَصُفْدًا إلى اس سربستہ راز کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ

Page 356

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ سورة السجدة يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ، ثُمَّ يُفْتَحَانِ فِي أَيَّامِ یاجوج اور ماجوج ایک مقررہ وقت تک مقید اور پابہ غُرُوبِ شمس الصَّلاحِ وَزَمَانِ زنجیر کر دیئے گئے ہیں اور پھر ان کو نیکی کے سورج کے الضَّلَالَاتِ، كَمَا أَنْتُمْ تَرَوْنَ في هذه غروب ہونے اور گمراہی کے زمانہ میں آزاد کر دیا جائے الْأَيَّامِ وَتُشَاهِدُوْنَ.وَكَفَى الظَّالِبِينَ هذا گا جیسا کہ تم ان دنوں دیکھ رہے ہو اور طالبوں کے لئے الْقَدْرُ مِنَ الْبَيَانِ، وَأَرى أَنِّي أَكْمَلْتُ مَا اس قدر بیان ہی کافی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میں نے أَرَدْتُ وَأَثْمَمْتُ الْحُجَّةَ عَلَى أَهْلِ الْعُدْوَانِ اپنے ارادہ کو پورا کر دیا ہے اور زیادتی کرنے والوں پر (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱ ۳ تا ۳۳۴) حجت پوری کر دی ہے.( ترجمہ از مرتب ) قد رَحَ اللهُ تَعَالَى فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَبَيْنَ ترجمه از مرتب.اس آیت میں اللہ تعالی نے اس بات حَقَّ التَّبيين أنّ أَيَّامَ الضَّلالَةِ بَعْد ایام کو صراحت سے اور وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ دَعْوَةِ الْقُرْآنِ هِيَ أَلْفُ سَنَةٍ وَبَعْدَهَا گمراہی کا زمانہ دعوتِ قرآن کے زمانہ کے بعد ایک يُبْعَثُ مَسِيحُ الرَّحْمٰنِ فَانْقَطَعَتِ ہزار سال کا زمانہ ہے اور اس کے بعد مسیح موعود مبعوث الخصومَةُ بهذا التّعْيِينِ الْمُبِينِ لاسيّما ہوگا اور اس بین تعیین کے بعد خصوصاً جب اس کے إِذَا الْحِقَ بِهِ مَا جَاءَ ذِكْرُ أَلْفِ سَنَةٍ في ساتھ گذشتہ انبیاء کی کتب میں ایک ہزار سال کے ذکر کو كُتُبِ النَّبِيِّينَ السَّابِقِيْنَ فَفَكَّرْثُمَّ ملا لیا جائے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے پس تو فکر کر اور پھر فکر کر فَكَّرْ حَتى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.یہاں تک کہ تجھے یقین حاصل ہو جائے.( ترجمہ از مرتب ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۳۱ حاشیه ) اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئی ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاری کی وہ پیشگوئی جو بائبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی موید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو گا چنانچہ قمری حساب کے رو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادہ الہی میں مقرر تھا کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اول سے مناسبت چاہیے اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی

Page 357

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة السجدة چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو.وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۹،۲۰۸) ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حساب جمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گزر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسانی کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۵۸،۴۵۷) قُلْ يَتَوَقُكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وَحِلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلى رَبَّكُمْ تُرْجَعُونَ ) تفسیر معالم کے صفحہ ۱۶۲ میں زیر تفسیر آیت لعيسى إني مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى لکھا ہے کہ علی بن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ رائی مُميتك یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں.اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالی کے دلالت کرتے ہیں قُلْ يَتَوَ قُكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ (السجدة : ١٢) - الَّذِينَ تَتَوَقهُمُ الْمَلَيكَةُ طَيْبِينَ (النحل : ٣٣) - الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلبِكَةُ ظَالِيقَ انْفُسِهِمُ (النحل : ٢٩) - غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۵،۲۲۴) توفی کے لفظ سے موت اور قبض روح ہی مراد ہے.ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۹) تمام قرآن شریف میں توفی کے معنی یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ قُلْ يَتَوَقُكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وُكِّلَ بِكُمْ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۴)

Page 358

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة السجدة بہت کی اور آیتیں قرآن شریف کی ہیں جن سے بہداہت یہی معلوم ہوتا ہے کہ رفع الی اللہ اور رجوع الی اللہ کے الفاظ ہمیشہ فوت ہی کے لئے آیا کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قُلْ يَتَوَ قُكُم مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وَكَلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ یعنی وہ فرشتہ تمہیں وفات دے گا جوتم پر مؤکل ہے اور پھر تم اپنے رب کی طرف واپس کئے جاؤ گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۵ حاشیه ) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قَرَةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سوخدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں.اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں سواس سے معلوم ہوا کہ وہ چیز میں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا.اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گزریں.حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں.پس جبکہ خدا اور رسول اس کا ان چیزوں کو ایک نرالی چیز میں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہیں.اگر یہ گمان کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہو گا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوہا جاتا ہے.گویا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت سے چھپتے لگائے ہوئے ہوں گے اور فرشتے تلاش کر کے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں.گوان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۸،۳۹۷)

Page 359

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۷ سورة السجدة خدا کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہوتی ہے اور خدا کا چھپانا ایسا ہے جیسے کہ جنت کی نسبت فرمایا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ ( کوئی جی نہیں جانتا کہ کیسی کیسی قرةِ اعین ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے ) دراصل چھپانے میں بھی ایک قسم کی عزت ہوتی ہے جیسے کھا نالا یا جاتا ہے تو اس پر دستر خوان وغیرہ ہوتا ہے تو یہ ایک عزت کی علامت ہوتی ہے.البدر جلد اول نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه (۸۶) وَلَنْذِ يُقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ.ایسے وقت میں جبکہ شرارت انتہاء کو پہنچتی ہے اور قطعی فیصلہ کا وقت آجا تا ہے تو مخالفوں کے حق میں انبیاء علیہم السلام کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی.دیکھو حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے کنعان کے لئے جو کافروں اور منکروں سے تھا دعا کی اور قبول نہ ہوئی ( دیکھو سورہ ہود رکوع (۴) اور ایسا ہی جب فرعون ڈوبنے لگا تو خدا پر ایمان لایا مگر قبول نہ ہوا.ہاں اس خاص وقت سے پہلے اگر رجوع کیا جاوے تو البتہ قبول ہوتا ہے.وَ لَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأدنى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ یعنی جب خفیف سے آثار عذاب کے ظاہر ہوں تو اس وقت کی تو بہ قبول ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۷) وَلَقَد أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِهِ وَجَعَلْنَهُ هُدًى لِبَنِي اسراءيل (۲۴) أَعِيسَى حَقٌّ وَمَاتَ الْمُصْطَفى تِلْكَ کیا عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم إِذًا قِسْمَةٌ ضِيّزى؛ اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ وفات پاگئے؟ یہ تقسیم ناقص ہے انصاف کرو جو تقویٰ کے لِلتَّقْوَى وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ زیادہ قریب ہے.اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ تمام کے تمام كُلّهُمْ أَحْيَاء في السَّمَاوَاتِ فَأَنى انبیاء آسمانوں میں زندہ ہیں تو حیات مسیح علیہ السلام کے لئے حُصُوصِيَّةٍ ثَابِتَةٌ لِحَيَاةِ الْمَسِيحِ أَهُوَ كون کی خصوصیت ثابت ہے؟ کیا آپ کھاتے اور پیتے ہیں يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ وَهُمْ لَا يَأْكُلُونَ وَلَا اور باقی انبیاء نہیں کھاتے اور نہیں پیتے بلکہ کلیم اللہ علیہ السلام

Page 360

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ سورة السجدة يَشْرَبُونَ بَلْ حَيَاةُ كَلِیمِ الله ثابت بنض کی زندگی قرآن کریم سے ثابت ہے.کیا تو قرآن کریم الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ.أَلَا تَقْرَأُ فِي الْقُرْآنِ مَا میں خدا تعالیٰ کا یہ قول نہیں پڑھتا کہ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ قَالَ اللهُ تَعَالَى عَزَّوَجَلَّ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِہ اور تو جانتا ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰ مِنْ لِقَابِهِ، وَأَنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ علیہ السلام کے بارہ میں نازل ہوئی ہے اور یہ حیات موسیٰ نَزَلَتْ في مُوسى فَهِيَ دَلِيل صريح عَلى حَيَاةِ علیہ السلام پر صریح دلیل ہے کیونکہ آپ نے رسول کریم صَرِيحٌ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لِأَنَّهُ لَفِي رَسُولَ اللهِ صلى الله علیه وسلم سے ملاقات کی اور مردے ان صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْأَمْوَاتُ لا لوگوں سے ملاقات نہیں کرتے جو زندہ ہوں اور تجھے يُلاقون الأحياء.وَلَا تَجِدُ مِقل هذہ اس قسم کی آیات عیسی علیہ السلام کی شان میں نہیں ملیں الآيَاتِ في شَأْنٍ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام کی ہاں ان کی وفات کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے پس نَعَمُ جَاءَ ذِكْرُ وَفَاتِهِ فِي مَقَامَاتٍ شَتَّى تو تدبر کر.اللہ تعالیٰ تدبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.فَتَدَبَّرَ فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَدبرين.حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۲۰،۲۱۹) ( ترجمه از مرتب) یہ تمام شہادتیں (جن کا ذکر حضور پہلے فرما چکے ہیں.ناقل ) اگر ان ( مسیح علیہ السلام.ناقل ) کے مرنے کو ثابت نہیں کرتیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا سب بجسم عصری آسمان پر جابیٹھے ہیں کیونکہ اس قدر شہادتیں ان کی موت پر ہمارے پاس موجود نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کی موت خود مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ ان کی زندگی پر یہ آیت قرآنی گواہ ہے یعنی یہ کہ فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَابِهِ اور ایک حدیث بھی گواہ ہے کہ موسیٰ ہر سال دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے حج کرنے کو آتا ہے.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۰۱) اَو لَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ انْعَامُهُمْ وَ اَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ ) کیا انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارا یہی دستور اور طریق ہے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی روانہ کر دیا کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی نکالتے ہیں تا ان کے چار پائے اور خود وہ کھیتی کو کھاویں اور مرنے سے بیچ

Page 361

۳۲۹ سورة السجدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جائیں.سوتم کیوں نظر غور سے ملاحظہ نہیں کرتے تا تم اس بات کو سمجھ جاؤ کہ وہ کریم و رحیم خدا کہ جو تم کو جسمانی موت سے بچانے کے لئے شدت قحط اور امساک باراں کے وقت بارانِ رحمت نازل کرتا ہے وہ کیوں کر شدت ضلالت کے وقت جو روحانی قحط ہے زندگی کا پانی نازل کرنے سے جو اس کا کلام ہے تم سے دریغ ( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۳۴) کرے.

Page 362

Page 363

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۱ سورة الاحزاب عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاحزاب بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ج مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ الَّى تُظهِرُونَ ج مِنْهُنَّ أُمَّهَتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لا بَابِهِم هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللهِ فَإِنْ لم تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا b اَخْطَاتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت زینب کے ساتھ نکاح کرنے کے متعلق آریہ صاحبان نے یہ اعتراض کیا کہ منی اگر اپنی جور و کوطلاق دے دیوے تو متمٹی بنانے والے کا اس عورت سے نکاح جائز نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں.جیسا کہ یہ آیت ہے وَ حَلَابِلُ ابْنَا بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَا بِكُمْ یعنی (النساء : ۲۴) تم پر فقط ان بیٹوں کی جوروان حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں.پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور

Page 364

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ سورة الاحزاب ج ط میں آیا.تو اب ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اس قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ آخری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متمنی کی جور و حرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کود یکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لاؤ.اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا مَا جَعَلَ اللهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الَّى تُظهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللهُ يَقُولُ الْحَقِّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لأَيَّابِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا.یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کا نمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت نا سازش ہوگئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی.پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیوند نکاح کر دیا.اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنے نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبر خلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ سچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں.اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبراً نکاح کر دے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے.اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے.مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آکر یا کسی دھوکہ سے اپنی عورت کو ماں کہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں.تو پھر

Page 365

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۳ سورة الاحزاب جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیوں کر بن سکتا ہے اور کیوں کر قبول کیا جاتا ہے کہ در حقیقت بیٹا ہو گیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہوگئی خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہوسکتا پس بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹا بھی نہیں بن سکتا.( آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۸ تا ۶۰) إذْ جَاءُوكَمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ القُلوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبر دست بادشاہ کمز ور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خدا تعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیر ومخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اُٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی برے برے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کرنے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو ان کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئیں ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے....اِذْ جَاءُوكُم مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ - (جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۴۵،۲۴۴) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَ الَّا شَدِيدًا انبیاء ورسل کے سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں ہمیشہ مکروہات آجایا کرتے ہیں.طرح طرح کی ناکامیاں پیش آتی ہیں.زُلْزِلُوا زِلْزَالاً شَدِيدًا سے معلوم ہوتا ہے کہ حد درجہ کی ناکامی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن یہ شکست اور ہزیمت نہیں ہوا کرتی ابتلاء میں مامور کاصبر واستقلال اور جماعت

Page 366

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة الاحزاب وو کی استقامت اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے.وہ خود فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لاغلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلى (المجادلة : ٢٢) لفظ كتب سنت اللہ پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضرور ہی غلبہ دیا کرتا ہے.درمیانی دشواریاں کچھ شے نہیں ہوتی اگر چہ وہ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ (التوبة :۱۱۸) کا مصداق ہی کیوں نہ ہو.(البدرجلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۴) زلزلہ کا لفظ ظاہر معنوں کے سوا دوسرے معنوں پر بھی بولا گیا ہے جیسا کہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا - ( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرا میں....تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہوسکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے اتباع سے خدا املتا ہے اور آپ کے اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گوہر مقصود اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتا چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بتاتا ہے.بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائی ہر مصطفیٰ بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو تو نہ چھوڑو.میں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں.الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں انبیاء علیہم السلام کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور اژہ کے ذکر کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ فرما یا لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلو ایک ذرہ بھر بھی ادھر یا ادھر ہونے کی ا

Page 367

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوشش نہ کرو.۳۳۵ سورة الاحزاب الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۶) مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا یہ لوگ جو ایمان لائے دو قسم کے ہیں.پہلے تو وہ ہیں جو جاں نثاری کے عہد کو پورا کر چکے اور خدا کی راہ میں شہید ہو گئے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو شہادت کے منتظر ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں جانیں دیں اور انہوں نے اپنی بات میں ذرا بھی رد و بدل نہیں کی اور اپنے عہد پر قائم رہے.دی گئی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۸) شیعہ سب وشتم تو کرتے ہیں مگر ان ( صحابہ.ناقل ) کا کام دیکھو کہ جیسے خدا کی مرضی تھی ویسے ہی اسلام کو پھیلا کر دکھا دیا.خوب جانتے تھے کہ بیویاں مریں گی.بچے ذبح ہوں گے اور ہر ایک قسم کی تکلیف شدید ہو گی مگر پھر بھی خدا کے کام سے منہ نہ پھیرا یہی فقرہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک جماعت وہ ہے کہ اپنا نخب ( ذمہ ) ادا کر چکے ہیں جیسے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِر کیسا سر ٹیفیکیٹ ہے کہ بعض نے میری راہ پر جان دی.ایک جان وہ ہے جس پر عیسائی بھڑک رہے ہیں اور پیچھے سے معلوم ہوا کہ وہ بھی نہیں البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳) دنیا میں جس قدر انبیاء آئے ہیں...ان میں ایک کشش ہوتی ہے جس سے لوگ ان کی طرف کھیچے چلے آتے ہیں اور جب دعا کی جاتی ہے وہ کشش کے ذریعہ سے زہریلے مادہ پر جولوگوں کے اندر ہوتا ہے اثر کرتی ہے اور اس روحانی مریض کو تسلی اور تسکین بخشتی ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو کہ بیان میں ہی نہیں آسکتی.اور اصل مغز شریعت کا یہی ہے کہ وہ کشش طبیعت میں پیدا ہو جاوے.سچی تقویٰ اور استقامت بغیر اس صاحب کشش کی موجودگی کے پیدا نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے سوا قوم بنتی ہے یہی کشش ہے جو کہ دلوں میں قبولیت ڈالتی ہے اس کے بغیر ایک غلام اور نو کر بھی اپنے آقا کی خاطر خواہ فرمانبرداری نہیں کر سکتا اور اسی کے نہ ہونے کی وجہ سے نوکر اور غلام جن پر بڑے انعام و اکرام کئے گئے ہوں آخر کار نمک حرام نکل جاتے ہیں بادشاہوں کی ایک تعداد کثیر ایسے غلاموں کے ہاتھ سے ذبح ہوتی رہی لیکن کیا کوئی ایسی نظیر انبیاء میں دکھلا سکتا ہے کہ کوئی نبی اپنے کسی غلام یا مرید سے قتل ہوا ہے؟ مال اور زر اور کوئی اور ذریعہ دل کو اس.

Page 368

۳۳۶ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام طرح سے قابو نہیں کر سکتا جس طرح سے یہ کشش قابو کرتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہونے سے صحابہ نے اس قدر صدق دکھایا اور انہوں نے نہ صرف بت پرستی اور مخلوق پرستی ہی سے منہ موڑا بلکہ در حقیقت ان کے اندر سے دنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے.وہ نہایت سرگرمی سے خدا کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک ان میں ابراہیم تھا.انہوں نے کامل اخلاص سے خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے وہ کام کئے جس کی نظیر بعد اس کے کبھی پیدا نہیں ہوئی اور خوشی سے دین کی راہ میں ذبح ہونا قبول کیا بلکہ بعض صحابہ نے جو یکلخت شہادت نہ پائی تو ان کو خیال گزرا کہ شاید ہمارے صدق میں کچھ کسر ہے جیسے کہ اس آیت میں اشارہ ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ يعنى بعض تو شہید ہو چکے تھے اور بعض منتظر تھے کہ کب شہادت نصیب ہو.اب دیکھنا چاہیے کہ کیا ان لوگوں کو دوسروں کی طرح حوائج نہ تھے اور اولاد کی محبت اور دوسرے تعلقات نہ تھے ؟ مگر اس کشش نے ان کو ایسا مستانہ بنادیا تھا کہ دین کو ہر ایک شے پر مقدم کیا ہوا تھا.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۲،۳۸۱) اہلِ اسلام میں اب صرف الفاظ پرستی رہ گئی ہے اور وہ انقلاب جسے خدا چاہتا ہے وہ بھول گئے ہیں اس لئے انہوں نے تو بہ کو بھی الفاظ تک محدود کر دیا ہے لیکن قرآن شریف کا منشاء یہ ہے کہ نفس کی قربانی پیش کی جاوے مَنْ قَضى نَحْبَةُ دلالت کرتا ہے کہ وہ تو یہ یہ ہے جو انہوں نے کی اور مَنْ يَنْتَظِرُ بتلاتا ہے کہ وہ یہ تو بہ ہے جو انہوں نے کر کے دکھلائی ہے اور وہ منتظر ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۲۹ /اکتوبر و ۸ /نومبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۲۲) صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تھی جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی الگ نہیں ہوئے اور وہ آپ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے بلکہ دریغ نہیں کیا.ان کی نسبت آیا ہے مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ یعنی بعض اپنا حق ادا کر چکے اور بعض منتظر ہیں کہ ہم بھی اس راہ میں مارے جاویں.اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و عظمت معلوم ہوتی ہے.مگر یہاں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں.اب کوئی شخص ان ثبوتوں کو ضائع کرتا ہے تو وہ گو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ضائع کرنا چاہتا ہے.پس وہی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی قدر کر سکتا ہے جو صحابہ کرام کی قدر کرتا ہے جو صحابہ کرام کی قدر نہیں کرتا وہ

Page 369

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ سورة الاحزاب ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر نہیں کرتا.وہ اس دعوی میں جھوٹا ہے اگر کہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور پھر صحابہ سے دشمنی.الحکم جلد ۸ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) قرآن شریف نے صحابہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَلَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ ينتظر یعنی بعض صحابہ میں سے ایسے ہیں جو اپنی جان دے چکے ہیں اور بعض ابھی منتظر ہیں جب تک اس مقام پر انسان نہیں پہنچتا با مراد نہیں ہوسکتا.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ ۱۹ مورخه ۱۶٫۸ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۱۰) خدا کے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے بلکہ سچے مومن بھی بزدل نہیں ہوتے بزدلی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے.صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبتوں نے بار بار حملے کئے مگر انہوں نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی.خدا تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا یعنی جس ایمان پر انہوں نے کمر ہمت باندھی تھی اس کو بعض نے تو نبھا دیا اور بعض منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور سرخرو ہوں اور انہوں نے بھی کم ہمتی اور بزدلی نہیں دکھائی.ج ( بدر جلد نمبر ۸ مورخه ۲۵ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۶) خدا تعالیٰ نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے خدا کے ساتھ کیا تھا.سو ان میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے اور بعض جانیں دینے کو طیار بیٹھے ہیں.صحابہ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسو ہ حسنہ نہیں.( بدر جلد نمبر ۲۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۳) صحابہ یہ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کو راضی کریں خواہ اس راہ میں کیسی ہی تختیاں اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں.اگر کوئی مصائب اور مشکلات میں نہ پڑتا اور اسے دیر ہوتی تو وہ روتا اور چلاتا تھا.وہ سمجھ چکے تھے کہ ان ابتلاؤں کے نیچے خدا تعالیٰ کی رضا کا پروانہ اور خزانہ مخفی ہے.ہر بلاکیں قوم راحق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است قرآن شریف ان کی تعریف سے بھرا ہوا ہے اسے کھول کر دیکھو.صحابہ کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عملی ثبوت تھا.صحابہ جس مقام پر پہنچے تھے اس کو قرآن شریف میں اس طرح پر بیان فرمایا

Page 370

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة الاحزاب ب مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ یعنی بعض ان میں سے شہادت پاچکے اور انہوں نے گویا اصل مقصود حاصل کر لیا اور بعض اس انتظار میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ شہادت نصیب ہو.صحابہ دنیا کی طرف نہیں جھکے اور عمریں لمبی ہوں اور اس قدر مال و دولت ملے اور یوں بے فکری اور عیش کے سامان ہوں میں جب صحابہ کے اس نمونہ کو دیکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال فیضان کا بے اختیار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں بالکل رو بخدا کر دیا.(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلى مُحَمَّد وَبَارِك وَسَلّمْ ) - الحام جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) صحابہ کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تھے.ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں تھا.کوئی خواہش تھی نہ آرزو بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو اور اس لئے وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے.قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے مِنْهُم من قضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا - یہ حالت انسان کے اندر پیدا ہو جانا آسان بات نہیں کہ وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو آمادہ ہو جاوے مگر صحابہ کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے اس فرض کو ادا کیا.جب انہیں حکم ہوا کہ اس راہ میں جان دے دو پھر وہ دنیا کی طرف نہیں جھکے.الحکم جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ر جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) یہ امر سنت اللہ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی بنادیا جاوے.اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے اور اپنے جاں نثار صحابہ کو پھونک مار کر ہی ولی بنا دیتے.ان کو امتحان میں ڈلوا کر ان کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالیٰ ان کی نسبت یہ نہ فرما تا مِنْهُم من قضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً.پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بیوقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دود سمجھتا ہے.یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۱۷ جون ۱۹۰۶ صفحه ۳) صحابہ کی جو تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی نسبت فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ اور پھر ان کی نسبت رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (التوبة :١٠٠) فرمایا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ موحدہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۶ صفحہ ۴) صحابہ کے زمانہ پر اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابتدا سے فیصلہ کر لیا ہوا تھا کہ اگر

Page 371

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة الاحزاب خدا کی راہ میں جان دینی پڑ جائے تو پھر دے دیں گے.انہوں نے تو خدا کی راہ میں مرنے کو قبول کیا ہوا تھا جتنے صحابہ جنگوں میں جاتے تھے کچھ تو شہید ہو جاتے تھے اور کچھ واپس آجاتے تھے اور جو شہید ہو جاتے تھے ان کے اقرباء پھر ان سے خوش ہوتے تھے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان دی اور جو بچے آتے تھے وہ اس انتظار میں رہتے تھے اور شا کی رہتے کہ شاید ہم میں کوئی کمی رہ گئی جو ہم جنگ میں شہید نہیں ہوئے اور وہ اپنے ارادوں کو مضبوط رکھتے تھے اور خدا کے لئے جان دینے کو تیار رہتے تھے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بدلُوا تَبْدِيلًا - الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۹) آنحضرت صلعم کے صحابہ ایک لاکھ سے متجاوز تھے میرا ایمان ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی ملونی والا ایمان نہ تھا.ایک بھی ان میں سے ایسا نہ تھا جو کچھ دین کے لئے ہو اور کچھ دنیا کے لئے بلکہ وہ سب کے سب خدا کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار تھے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۵ مورخه ۱٫۳۰ ستمبر ۱۹۰۷، صفحہ ۷ ) ينتَظِرُ - وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولى وَأَقِمْنَ الصَّلوةَ وَاتِينَ الزكوة وَ اَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البيت ويطهركم تطهيرات اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیر یعنی اے اہل بیت خدا تمہیں ایک امتحان کے ذریعہ سے پاک کرنا چاہتا ہے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.( مجموعہ اشتہارات جلد ۱۰ صفحہ ۷۱۷) جہاں یہ آیت ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کا ذکر ہے.سارے مفسر اس پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی امہات المؤمنین کی صفت اس جگہ بیان فرماتا ہے.دوسری جگہ فرمایا ہے الطيبتُ لطيبين ( النور : ۲۷) یہ آیت چاہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے طیبات ہوں.ہاں اس میں صرف بیبیاں ہی شامل نہیں بلکہ آپ کے گھر کی رہنے والی ساری عورتیں شامل ہیں اور اس لئے اس

Page 372

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ سورة الاحزاب میں بنت بھی داخل ہو سکتی ہے بلکہ ہے اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہو ئیں تو حسنین بھی داخل ہوئے.پس اس سے زیادہ یہ آیت وسیع نہیں ہو سکتی تھی.جتنی وسیع ہو سکتی تھی ہم نے کر دی کیونکہ قرآن شریف ازواج کو مخاطب کرتا ہے اور بعض احادیث نے حضرت فاطمہ اور حسنین کو مطہرین میں داخل کیا ہے.پس ہم نے دونو کو یکجا جمع کر لیا.شیعہ نے ازواج مطہرات کو سب وشتم سے یاد کیا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ لوگ ایسا کریں گے.اس لئے قبل از وقت ان کی براءت کر دی.(احکم جلد ۷ نمبر ۱۵مورخہ ۱٫۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹) اہل بیت جو ایک پاک گروہ اور بڑا عظیم الشان گھرانا تھا اس کے پاک کرنے کے واسطے بھی اللہ نے خود فرمایا کہ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الإِجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا میں ہی ناپاکی اور نجاست کو دور کروں گا اور خود ہی ان کو پاک کیا تو بھلا اور کون ہے جو خود بخود پاک صاف ہونے کی توفیق رکھتا ہو پس لازمی ہے کہ اس سے دعا کرتے رہو اور اسی کے آستانہ پر گرے رہو ساری توفیقیں اسی کے ہاتھ میں ہیں.الحکم جلد نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹) ۱۷۱۷ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے اے اہلِ بیت ناپاکی دور کر دے اور تم کو بالکل پاک کر دے.الحام جلد نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۷ ) اِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَالْقَنِتِينَ وَالْقَنِتَتِ وَالصَّدِقِينَ وَالدِقتِ وَ الصَّبِرِينَ وَ البِرتِ وَ الْخَشِعِينَ وَالْخَشِعَتِ وَ المُتَصَدِقِينَ وَالْمُتَصَدِقتِ وَالصَّامِينَ وَالصّيتِ وَالْحَفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَفِظَتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَ الكِرَاتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرًا عَظِيمًا وَالصُّدِقِينَ وَالصدقت......بچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُ اَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَلًا مُّبِينًا کسی مومن یا مومنہ کو جائز نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی حکم کرے تو ان کو اس حکم کے رد

Page 373

سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرنے میں اختیار ہو اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ حق سے بہت دور جا پڑا ہے یعنی نجات سے بے نصیب رہا کیونکہ نجات اہل حق کے لئے ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۹) وَاِذْ تَقُولُ لِلَّذِى اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكُ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللهَ وَتُخْفِى فِى نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ وَاللهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشُهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدُ مِنْهَا وَطَرًا زَوَجُنُكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَج في أزواج اَدْعِيَابِهِمْ إِذَا قَضَوا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللهِ مَفْعُولًا جو لوگ منتہی کرتے ہیں ان کا یہ دعوی سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت اس بیہودہ دعوے کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اس کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قومی کے مشابہ اس کے قوی ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفید رنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آتشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے.غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اس کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسے گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے.پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے.ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعوے سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو با شیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا.جس حالت میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنادیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا.اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں.یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دو باپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متمنی بنانے والا حقیقت میں باپ ہو گیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعوی کیا گیا ہے.

Page 374

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة الاحزاب غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں.اب جاننا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹیوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں جیسا کہ یہ آیت ہے وَ حَلَابِلُ ابْنَا بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ (النساء : ۲۴) یعنی تم پہ فقط ان بیٹوں کی جو رواں حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا.تو اب ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ آخری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متمنی کی جو رو حرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا.تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو....اور دوسری جز جس پر اعتراض کی بنیاد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ زینب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا تھا صرف زبردستی خدا تعالیٰ نے حکم دے دیا.اس کے جواب میں ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ ایک نہایت بدذاتی کا افترا ہے جس کا ہماری کتابوں میں نام و نشان نہیں.اگر بچے ہیں تو قرآن یا حدیث میں سے دکھلا دیں.کیسی بے ایمان قوم ہے کہ جھوٹ بولنے سے شرم نہیں کرتی.اگر افتر انہیں تو ہمیں بتلا دیں کہاں لکھا ہے.کیا قرآن شریف میں یا بخاری اور مسلم میں.قرآن شریف کے بعد بالاستقلال وثوق کے لائق ہماری دوہی کہتا میں ہیں ایک بخاری اور ایک مسلم - سوقرآن یا بخاری اور مسلم سے اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ نکاح زینب کے خلاف مرضی پڑھا گیا تھا.ظاہر ہے کہ جس حالت میں زینب زید سے جو آنحضرت کا غلام آزاد تھا راضی نہ تھی اور اسی بناء پرزید نے تنگ آکر طلاق دی تھی اور زینب نے خود آنحضرت کے گھر میں ہی پرورش پائی تھی اور آنحضرت کے اقارب میں سے اور ممنونِ منت تھی تو زینب کے لئے اس سے بہتر اور کون سی مراد اور کون سی فخر کی جگہ تھی کہ غلام کی قید سے نکل کر اس شاہ عالم کے نکاح میں آوے جو خدا کا پیغمبر اور خاتم الانبیاء اور ظاہری بادشاہت اور ملک داری میں بھی دنیا کے تمام بادشاہوں کا سرتاج تھا جس کے رعب سے قیصر اور کسری کانپتے تھے.دیکھو تمہارے ہندوستان کے راجوں نے محض فخر حاصل کرنے کے لئے مغلیہ خاندان کے بادشاہوں کو باوجود ہندو ہونے کے لڑکیاں دیں اور آپ درخواستیں دے کر اور تمنا کر کے اس سعادت کو حاصل کیا اور اپنے مذہبی قوانین کی بھی کچھ رعایت نہ رکھی بلکہ اپنے گھروں میں ان لڑکیوں کو قرآن شریف پڑھایا اور اسلام کا طریق

Page 375

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة الاحزاب سکھایا اور مسلمان بنا کر بھیجا حالانکہ یہ تمام بادشاہ اس عالیشان جناب کے آگے بیچ تھے جس کے آگے دنیا کے بادشاہ جھکے ہوئے تھے.کیا کوئی عقل قبول کر سکتی ہے کہ ایک ایسی عورت جو اس ذلت سے تنگ آگئی تھی جو اس کا خاوند ایک غلام آزادہ کردہ ہے وہ اس غلام سے آزاد ہونے بعد اس شہنشاہ کو قبول نہ کرے جس کے پاؤں پر دنیا کے بادشاہ گرتے تھے بلکہ دیکھ کر رعب کو برداشت نہیں کر سکتے تھے چنانچہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ملک کا بادشاہ گرفتا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا اور وہ ڈر کر بید کی طرح کا نپتا تھا.آپ نے فرمایا کہ اس قدر خوف مت کر.میں کیا ہوں ایک بڑھیا کا بیٹا ہوں جو باسی گوشت کھایا کرتی تھی.سوایسا خاوند جو دنیا کا بھی بادشاہ اور آخرت کا بھی بادشاہ ہو وہ اگر فخر کی جگہ نہیں تو اور کون ہوسکتا ہے اور زینب د تھی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کے ساتھ آپ کی شادی کی تھی اور آپ کی دست پروردہ تھیں اور ایک یتیم لڑکی آپ کے عزیزوں میں سے تھی جس کو آپ نے پالا تھا وہ دیکھتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں عزت کے تخت پر بیٹھی ہیں اور میں ایک غلام کی جورو ہوں اسی وجہ سے دن رات تکرار رہتا تھا اور قرآن شریف بیان فرماتا ہے کہ آنحضرت اس رشتہ سے طبعاً نفرت رکھتے تھے اور روز کی لڑائی دیکھ کر جانتے تھے کہ اس کا انجام ایک دن طلاق ہے.چونکہ یہ آیتیں پہلے سے وارد ہو چکی تھیں کہ منہ بولا بیٹا دراصل بیٹا نہیں ہوسکتا تھا اس لئے آنحضرت کی فراست اس بات کو جانتی تھی کہ اگر زید نے طلاق دے دی تو غالباً خدا تعالیٰ مجھے اس رشتہ کے لئے حکم کرے گا تا لوگوں کے لئے نمونہ قائم کرے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ قصہ قرآن شریف میں بعینہ درج ہے.پھر پلید طبع لوگوں نے جن کی بدذاتی ہمیشہ افترا کرنے کی خواہش رکھتی ہے خلاف واقعہ یہ باتیں بنائیں کہ آنحضرت خود زینب کے خواہشمند ہوئے حالانکہ زینب کچھ دور سے نہیں تھی کوئی ایسی عورت نہیں تھی جس کو آنحضرت نے کبھی نہ دیکھا ہو.یہ زینب وہی تو تھی جو آنحضرت کے گھر میں آپ کی آنکھوں کے آگے جوان ہوئی اور آپ نے خود نہ کسی اور نے اس کا نکاح اپنے غلام آزاد کردہ سے کر دیا اور یہ نکاح اس کو اور اس کے بھائی کو اوائل میں نامنظور تھا اور آپ نے بہت کوشش کی یہاں تک کہ وہ راضی ہوگئی.ناراضگی کی یہی وجہ تھی کہ زید غلام آزاد کردہ تھا.پھر یہ کس قدر بے ایمانی اور بعد ذاتی ہے جو واقعات صحیحہ کو چھوڑ کر افترا کئے جائیں.قرآن موجود بخاری، مسلم ہے نکالو کہاں سے یہ بات نکلتی ہے کہ آنحضرت زینب کے نکاح کو خود اپنے لئے چاہتے تھے.کیا آپ نے زید کو کہا تھا کہ تو طلاق دے دے تا میرے نکاح میں آوے بلکہ آپ تو

Page 376

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة الاحزاب بار بار طلاق دینے سے ہمدردی کے طور پر منع کرتے تھے.یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم نے قرآن اور حدیث میں سے لکھی ہیں لیکن اگر کوئی اس کے برخلاف مدعی ہے تو ہماری کتب موصوف سے اپنے دعوئی کو ثابت کرے ورنہ بے ایمان اور خیانت پیشہ ہے اور یہ بات جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نکاح پڑھ دیا اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ نکاح میری مرضی کے موافق ہے اور میں نے ہی چاہا ہے کہ ایسا ہوتا مومنوں پر حرج باقی نہ رہے.یہ معنے تو نہیں کہ اب زینب کی خلاف مرضی اس پر قبضہ کر لو ظاہر ہے کہ نکاح پڑھنے والے کا یہ منصب تو نہیں ہوتا کہ کسی عورت کو اس کے خلاف مرضی کے مرد کے حوالہ کر دیوے بلکہ وہ تو نکاح پڑھنے میں ان کی مرضی کا تابع ہوتا ہے سو خدا تعالیٰ کا نکاح یہی ہے کہ زینب کے دل کو اس کی طرف جھکا دیا اور آپ کو فر ما دیا کہ ایسا کرنا ہوگا تا امت پر حرج نہ رہے.اب بھی اگر کوئی باز نہ آوے تو ہمیں قرآن اور بخاری اور مسلم سے اپنے دعوے کا ثبوت دکھلاوے کیونکہ ہمارے دین کا تمام مدار قرآن شریف پر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کی مفسر ہے اور جو قول ان دونوں کے مخالف ہو وہ مردود اور شیطانی قول ہے.یوں تو تہمت لگا نا سہل ہے مثلا اگر کسی آریہ کو کوئی کہے کہ تیری والدہ کا تیرے والد سے اصل نکاح نہیں ہوا جبرا اس کو پکڑ لائے تھے اور اس پر کوئی اطمینان بخش ثبوت نہ دے اور مخالفانہ ثبوت کو قبول نہ کرے تو ایسے بدذات کا کیا علاج ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی اس سے کچھ کم بدذات نہیں جو مقدس اور راستبازوں پر بے ثبوت تہمت وہ لگاتا ہے.ایماندار آدمی کا یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ پہلے ان کتابوں کا صحیح صحیح حوالہ دے جو مقبول ہوں اور پھر اعتراض کرے ورنہ ناحق کسی مقدس کی بے عزتی کر کے اپنی ناپا کی فطرت کی ظاہر نہ کرے.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۵ تا ۶۳) منتفی کی مطلقہ سے نکاح کرنا زنا نہیں.صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے مثلاً اگر کوئی عیسائی غصہ میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی بلکہ وہ بدستور اسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا.پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے نہیں ہوسکتی اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے.اب تم پر فرض ہے کہ اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے یا یہ کہ اپنے مسیح کی تعلیم کو ناقص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائبل کی رو سے متمنی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا

Page 377

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے.۳۴۵ سورة الاحزاب نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۸۹،۳۸۸) الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَلَتِ اللهِ وَيَخْشَونَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۖ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًان اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر جو اس کے پیغام پہنچاتے ہیں وہ پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۵) وہ ایمان دار بھی ہیں کہ بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دے دیتے ہیں اور کسی سے نہیں جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۶) ڈرتے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَ كَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا - اگر یہ عذر پیش ہو کہ باب نبوت مسدود ہے اور وحی جو انبیاء پر نازل ہوتی ہے اس پر مہر لگ چکی ہے.میں کہتا ہوں کہ نہ من کل الوجوہ باب نبوت مسدود ہوا ہے اور نہ ہر یک طور سے وحی پر مہر لگائی گئی ہے بلکہ جزئی طور پر وحی اور نبوت کا اس امت مرحومہ کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا ہے مگر اس بات کو بحضور دل یا درکھنا چاہیے کہ یہ نبوت جس کا ہمیشہ کے لئے سلسلہ جاری رہے گا نبوت تامہ نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں وہ صرف ایک جزئی نبوت ہے جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کے اسم سے موسوم ہے جو انسانِ کامل کی اقتداء سے ملتی ہے جو تجمع جمیع کمالات نبوت تامہ ہے یعنی ذات ستودہ صفات حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰) فَاعْلَمْ اَرْشَدَكَ اللهُ تَعَالَى أَنَّ النَّبِيَّ پس جان لے اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے کہ نبی مُحَلَّتْ وَالْمُحَدَّثُ نَى بِاعْتِبارِ حُصُولِ نوع محدث ہوتا ہے اور محدث نبوت کی انواع میں سے من أنواع النُّبُوتِ وَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللہ ایک نوع کے حصول کی وجہ سے نبی ہے اور رسول کریم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّتِ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نبوت میں سے إِلَّا الْمُبَيِّرَاتُ أَى لَمْ يَبْقَ مِنْ أَنْوَاعِ صرف اس کی ایک نوع باقی رہ گئی ہے اور وہ رؤیا

Page 378

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة الاحزاب النُّبُوتِ إِلَّا نَوْعٌ وَاحِدٌ وَهِيَ الْمُبَيِّرَاتُ صادقہ اور مکاشفات صحیحہ کی اقسام میں سے مبشرات ہیں مِنْ أَقْسَامِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةِ وَالْمُكَاشَفَاتِ اور وہ وحی ہے جو خاص خاص اولیاء پر نازل ہوتی ہے اور الصَّحِيحَةِ وَ الْوَحْى الَّذِي يَنْزِلُ عَلى وہ وہ نور ہے جو درد مند قوم کے دلوں پر اپنی تجلی فرماتا خَوَاضِ الْأَوْلِيَاءِ وَالنُّوْرُ الَّذِي يَتَعَلى عَلى ہے.پس اے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والے قُلُوبِ قَوْمٍ مُوجَع فَانظُرُ أَيُّهَا النَّاقِدُ در بصیرت رکھنے والے سن کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے الْبَصِيرُ أَيُفهَمُ من هَذَا سَد بَابِ النُّبُوَّةِ که باب نبوت کلی طور پر بند ہے بلکہ حدیث اس بات پر عَلَى وَجْهِ كُلّى بَلِ الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلى آن دلالت کرتی ہے کہ ایسی نبوت کا ملہ جو وحی شریعت کی النبوة القامةُ الْحَامِلَةَ لِوَحْيِ الشَّرِيعَةِ قَدِ حامل ہو وہ منقطع ہو چکی ہے لیکن ایسی نبوت جس انقطعت ولكن النُّبُوَّةَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا إِلَّا میں صرف مبشرات ہوں وہ قیامت تک باقی ہے وہ کبھی الْمُبَشَّرَاتُ فَهِيَ بَاقِيَةُ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لا منقطع نہیں ہوگی اور تجھے اس بات کا علم ہے اور تو نے انْقِطَاعَ لَهَا أَبَدًا وَ قَدْ عَلِمْتَ وَ قَرَأْتَ في کتب حدیث میں بھی یہ پڑھا ہے کہ رویا صالحہ نبوت كُتُبِ الْحَدِيثِ أَنَّ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةَ جُزء من یعنی نبوت تامہ کا چھیالیسواں حصہ ہے.پس جب رؤیا سِتَّةٍ وَارْبَعِينَ جُزْءً مِنَ النُّبُوةِ آئى من صادقہ کو یہ مرتبہ حاصل ہے تو پھر وہ کلام کتنا عظیم ہو گا جو النُّبُوَّةِ القَامَةِ فَلَمَّا كَانَ لِلرُّؤْيَا نَصِيبًا من خدا تعالیٰ کی طرف سے محدثین کے قلوب پر نازل کیا هذِهِ الْمَرْتَبَةِ فَكَيْفَ الْكَلَامُ الَّذِي يُوخي جاتا ہے.پس جان لے اللہ تعالیٰ تیری مدد فرمائے کہ من الله تعالى إلى قُلُوبِ الْمُحَدِّثِينَ ہمارے کلام کا ماحصل یہ ہے کہ نبوت جزئیہ کے فَاعْلَمْ أَيَّدَكَ اللهُ أَنَّ حَاصِل كَلامِنَا آن دروازے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور اس نوع میں وہ اَبْوَابَ النُّبُوَّةِ الْجُزْئِيَّةِ مَفْتُوحَةٌ اَبَدًا وَلَيْسَ مبشرات اور منذرات آتی ہیں جو امور غیبیہ پر في هذا النوع إلَّا الْمُرَاتُ أَوِ الْمُنْذِرَاتُ مُشتمل ہوتی ہیں یا لطائف قرآنی اور علوم لدنی سے مِنَ الْأُمُورِ الْمُغِيبَةِ أَوِ اللَّطَائِفِ الْقُرانِيَّةِ ان کا تعلق ہوتا ہے لیکن نبوت تامہ کاملہ تامہ جو وحی وَالْعُلُومِ اللَّدُنْيَةِ.وَاَمَّا النُّبُوَةُ الَّتِي تَامَّةٌ کے تمام کمالات کی جامع ہے ہم اس کے منقطع ہونے كَامِلَةٌ جَامِعَةً لِجَميعِ كَمَالَاتِ الْوَحْيِ فَقَدْ پر اس دن سے ایمان لاتے ہیں جب سے یہ آیتِ امَنَّا بِانْقِطَاعِهَا مِنْ يَوْمٍ نَزَلَ فِيهِ مَا كَانَ قرآنی نازل ہوئی مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ

Page 379

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة الاحزاب مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ - اللهِ وَخَاتَمَ النَّمين توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱،۶۰) (ترجمه از مرتب) کیوں کر ممکن تھا کہ خاتم النبین کے بعد کوئی اور نبی اسی مفہوم تام اور کامل کے ساتھ جو نبوت تامہ کی شرائط میں سے ہے آسکتا.کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے نبی کی نبوت تامہ کے لوازم جو وحی اور نزول جبرئیل ہے اس کے وجود کے ساتھ لازم ہونی چاہیے کیونکہ حسب تصریح قرآن کریم رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبرئیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ جائے گی اور اگر کہو کہ مسیح ابن مریم نبوت تامہ سے معزول کر کے بھیجا جائے گا تو اس سزا کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے.بعض کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے استحقاق معبود قرار دیا گیا تھا سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی سزا میں نبوت سے اس کو الگ کر دیا جائے اور وہ زمین پر آکر دوسروں کے پیرو بنیں اوروں کے پیچھے نماز پڑھیں اور امام اعظم کی طرح صرف اجتہاد سے کام لیں اور حنفی الطریق ہو کر حنفی مذہب کی تائید کریں لیکن یہ جواب معقول نہیں ہے خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس الزام سے ان کو بری کر دیا ہے اور ان کی نبوت کو ایک دائمی نبوت قرار دیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۷) خاتم النبین کے بعد مسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے.اس سے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وجی نبوت کا سلسلہ پھر جاری ہو جائے گا اور یا یہ قبول کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ مسیح ابن مریم کو لوازم نبوت سے الگ کر کے اور محض ایک امتی بنا کر بھیجے گا اور یہ دونوں صورتیں ممتنع ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۳) خاتم النبین ہونا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے.ہاں ایسا نبی جو مشکوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتا ہے اور نبوت تامہ نہیں رکھتا جس کو دوسرے لفظوں میں محدث بھی کہتے ہیں وہ اس تحدید سے باہر ہے کیونکہ وہ باعث اتباع اور فنافی الرسول ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہے جیسے جز کل میں داخل ہوتی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۱۱،۴۱۰) اگر چہ ایک ہی دفعہ وحی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرئیل لاویں اور پھر چپ ہو جاویں یہ امر بھی ختم نبوت کا منافی ہے کیونکہ جب ختمیت کی مہر ہی ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہونی

Page 380

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة الاحزاب شروع ہو گئی تو پھر تھوڑا یا بہت نازل ہونا برابر ہے.ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں تصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرئیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لئے وحی نبوت کے لانے سے منع کیا گیا ہے.یہ تمام باتیں سچ اور سیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۱۱، ۴۱۲) یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبین کے بعد پھر جبرئیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اللہ کو مضمون میں قرآن شریف سے توار در کھتی ہو پیدا ہو جائے اور جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۱۴) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا.یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا.پس اس سے بھی بکمال وضاحت ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ دنیا میں آنہیں سکتا کیونکہ مسیح ابن مریم رسول ہے اور رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرئیل حاصل کرے اور ابھی ثابت ہو چکا ہے کہ اب وحی رسالت تا قیامت منقطع ہے.اس سے ضروری طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح ابن مریم ہرگز نہیں آئے گا اور یہ امر خود مستلزم اس بات کو ہے کہ وہ مر گیا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۲،۴۳۱) قرآن کریم بعد خاتم المین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کو النه علم دین بتوسط جبرئیل ملتا ہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرا یہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۱) محدث نبی بالقوہ ہوتا ہے اور اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر یک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہو جانے کی رکھتا تھا اور اسی قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں کہ الْمُحَدِّثُ نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں کہ الْعِنَبُ خَمْرٌ نَظرًا عَلَى الْقُوَّةِ وَالْإِسْتِعْدَادِ وَمَثَلُ هذَا الْحَمْلِ شَائِعٌ مُتَعَارَفُ فِي عِبَارَاتِ الْقَوْمِ وَ قَدْ جَرَتِ الْمُحَاوَرَاتُ عَلَى ذَالِكَ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى كُلِّ ذَكِيْ عَالِمٍ مُطَلِع عَلَى كُتُبِ الْآدَبِ وَالْكَلَامِ وَالتَّصَوُّف اور اسی حمل کی طرف اشارہ ہے جو

Page 381

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة الاحزاب اللہ جل شانہ نے اس قراءت کو جو وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي وَلَا مُحَدَّت ہے مختصر کر کے قراءت ثانی میں صرف یہ الفاظ کا فی قرار دیئے کہ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي - ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۹،۲۳۸) مَا كَانَ اللهُ أَن يُرْسِلَ نَبِيًّا بَعْدَ اللہ تعالیٰ ہمارے نبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے نَبِيِّنَا خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَ مَا كَانَ آن بعد کوئی نبی نہیں بھیجے گا نہ سلسلہ نبوت کے منقطع ہونے تُحدِثَ سِلْسِلَةَ النُّبُوَّةِ ثَانِيَا بَعْد کے بعد اسے دوبارہ جاری کرے گا اور نہ ایسا ہوسکتا ہے انْقِطَاعِهَا وَيَنْسَخَ بَعْضَ احْکامِ الْقُرْآنِ کہ وہ قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا ان و يَزِيدَ عَلَيْهَا وَ يُخْلِفَ وَعْدَهُ وَ يَنْسی میں اضافہ کرے اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی الْمَالَهُ الْفُرْقَانَ وَ يُحْدِكَ الْفِتَنَ في کرے اور بھول جائے کہ وہ قرآن مجید کو کامل کر چکا ہے الدين المتين.أَلا تَفْرَ ونَ في أَحَادِيثِ اور دین متین میں فتنے پیدا ہونے کی راہ کھول دے.کیا الْمُصْطَفى سَلَّمَ اللهُ عَلَيْهِ وَصَلى آن تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں پڑھتے کہ الْمَسِيحَ يَكُونُ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ وَيَتَّبِعُ آنے والا مسیح آپ کی ہی امت کا ایک فرد ہوگا اور آپ جَمِيعَ أَحْكَامِ مِلَّتِهِ وَيُصَلِّي مَعَ الْمُصَلَّيْنَ کے دین کے تمام احکام کی اتباع کرے گا اور مسلمانوں ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۷۷) کے طریق پر نماز ادا کرے گا.(ترجمہ از مرتب) قرآن کریم میں ایک جگہ رسل کے لفظ کے ساتھ بھی مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ سوال کہ ان ہی الفاظ کے ساتھ جو احادیث میں آئے ہیں کیوں قرآن میں ذکر نہیں کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تا پڑھنے والوں کو دھوکا نہ لگ جاوے کہ مسیح موعود سے مراد در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہیں جن پر انجیل نازل ہوئی تھی اور ایسا ہی دجال سے کوئی خاص مفسد مراد ہے سو خدا تعالیٰ نے فرقان حمید میں ان تمام شبہات کو دور کر دیا.اس طرح پر کہ اول نہایت تصریح اور توضیح سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدة : ۱۱۸) سے ظاہر ہے اور پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی ظاہر کر دیا جیسا کہ فرما یا و لکن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ - (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۱) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض اُمیوں کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر یک رتبہ اور طبقہ کے انسان اُن کی اُمت

Page 382

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۰ سورة الاحزاب میں داخل ہیں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِلَى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) پس اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر یک استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے اور درحقیقت آیت وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِین میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۶۱) جیسا کہ یہ عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر چڑھنے کا قرآن شریف کے بیان سے مخالف ہے ایسا ہی اُن کے آسمان سے اترنے کا عقیدہ بھی قرآن کے بیان سے منافات کھلی رکھتا ہے کیونکہ قرآن شریف جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى (المائدة : ۱۱۸) اور آیت قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران : ۱۴۵) میں حضرت عیسی کو مار چکا ہے.ایسا ہی آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة : ۴) اور آیت وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الا بنیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتالیس برس تک اُن پر جبرئیل علیہ السلام وحی نبوت لے کر نازل ہوتا رہے گا.اب بتلاؤ کہ اُن کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختم وحی نبوت کہاں باقی رہا بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسی ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۷۳، ۱۷۴) إِذَا كَانَ نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ فَلَا شَكَ أَنَّهُ مَنْ آمَن تو وہ شخص جو اس مسیح کے نزول کو مانتا ہے جو بنی اسرائیل کا ينزولِ الْمَسِيحِ الَّذِي هُوَ نَبِی فِین اپنی ایک نبی ہے تو بے شک وہ خاتم النبین کی نص کا إِسْرَائِيلَ فَقَدْ كَفَرَ بِهِ النَّبِيِّينَ فَيا منکر ہو گیا.پس افسوس ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے کہ حَسْرَةً عَلى قَوْمٍ يَقُولُونَ إِنَّ الْمَسِيحَ عِيسَى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیح عیسی بْنَ مَرْيَمَ نَازِلُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ بن مریم نازل ہوگا.نیز وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ آکر قرآن وَيَقُولُونَ إِنَّهُ يَجِنِى وَيَنْسَحُ مِنْ بَعْضِ کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرے گا اور بعض پر أَحْكامِ الْفُرْقَانِ وَيَزِيدُ عَلَيْهَا وَيَنْزِلُ عَلَيْهِ اضافے کرے گا اور اس پر چالیس سال تک وحی الْوَحْى أَرْبَعِينَ سَنَةً وَهُوَ خَاتَمُ الْمُرْسَلِينَ نازل ہوتی رہے گی اور وہ خاتم المرسلین ہوگا حالانکہ.

Page 383

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۱ سورة الاحزاب وَقَد قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے بعد وَسَلَّمَ لَا نَبِى بَعْدِى وَسَماهُ الله تعالی کوئی نبی نہیں.اور آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء خَاتَمَ الْأَنْبِيَاء فَمِنْ أَيْنَ يَظْهَرُ نَى بَعْدَدُ رکھا ہے.پھر آپ کے بعد کوئی نبی کیسے آسکتا ہے.w (ترجمه از مرتب) تحفہ بغداد، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۴) وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَا يُنْقَلُونَ مِنْ هَذِهِ انبیاء کا اس وقت دنیا سے دار الآخرت کی طرف الدُّنْيَا إلى دَارِ الْآخِرَةِ إِلَّا بَعْدَ تَكْبِيْل انتقال ہوتا ہے جب وہ اس پیغام کی تبلیغ کو مکمل کر لیتے رِسَالَاتٍ قَد أُرْسِلُوا لِعَبْلِيغِهَا، وَلِكُلّ ہیں جس کے لئے انہیں بھیجا گیا تھا.اور ہر زمانے کو نہیں بُرْهَةٍ مِنَ الزَّمَانِ مُنَاسَبَةٌ بِوُجُودِ نَي وقت سے ایک مناسبت ہوتی ہے پس اللہ تعالیٰ ہر نبی کو فَيُرْسَلُ كُلُّ تين برعَايَةِ الْمُنَاسَبَاتٍ مناسبت کی رعایت کے ساتھ مبعوث کرتا ہے اس کی وَإِلَى هَذَا إِشَارَةٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ لكِن طرف اللہ تعالیٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ولکن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.فَلَوْ لَمْ يَكُن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ.اگر ہمارے رسول لِرَسُولِنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكِتَابِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خدا کی کتاب قرآن کریم کو تمام الْقُرْآنِ مُنَاسَبَةٌ لجميع الْأَزْمِنَةِ الأُتِيَةِ آئندہ زمانوں کے لوگوں سے علاج اور مداوات کے وَأَهْلِهَا عِلَاجًا وَمُدَاوَاةٌ.لَمَا أُرْسِلَ ذلك لحاظ سے مناسبت نہ ہوتی تو ہمارے یہ عظیم نبی کریم النَّبِيُّ الْعَظِيمُ الْكَرِيمُ لِإِصْلَاحِهِمْ لوگوں کی اصلاح اور ان کے علاج کے لئے قیامت تک وَمُدَاوَاتِهِمْ لِلدَّوَامِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ کے لئے نہ بھیجے جاتے.پس ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ فَلَا حَاجَةَ لَنَا إِلى نَبِي بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ أَحاطت بركاته كُلّ کی برکات تمام زمانوں پر محیط ہیں اور آپ کے فیوض أَزْمِنَةٍ، وَفُيُوْضُهُ وَارِدَةً عَلى قُلُوبِ الْأَوْلِيَاء اولیاء ، اقطاب اور محدثین بلکہ تمام مخلوق کے قلوب پر وَالْأَقْطَابِ وَالْمُحَدِّثِينَ بَلْ عَلَى الخلق جاری ہیں.اگر چہ وہ اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ یہ كُلِّهِمْ، وَإِن لَّمْ يَعْلَمُوا أَنَّهَا فَائِضَةٌ مِّنْهُ فیوض آپ ہی کی طرف سے آرہے ہیں پس آپ کا تمام فَلَهُ الْمِنَّةُ الْعُظمى عَلَى النَّاسِ أَجْمَعِينَ لوگوں پر عظیم احسان ہے.( ترجمہ از مرتب) (حمامۃ البشری، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴)

Page 384

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة الاحزاب وَأَمَّا ذِكْرُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَمَا اور جو عیسی بن مریم کے نزول کا ذکر ہے پس كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَحْمِلَ هَذَا الْإِسْمَ الْمَذْكُورَ في کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ احادیث میں اس الْأَحَادِيثِ عَلى ظَاهِرٍ مَعْنَاهُ، لأَنَّهُ يُخَالِفُ نام کو ظاہر پر محمول کرے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے اس قَوْلَ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِن قول کے خلاف ہے کہ ہم نے محمد کو کسی مرد کا باپ رجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ انَ أَلاَ نہیں بنایا ہاں وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم تَعْلَمُ أَنَّ الرَّبَّ الرَّحِيْمِ الْمُتَفَضّل سلمی ہیں.کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ الْأَنْبِيَاء نبی کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اور کسی کو مستقلی نہیں کیا بِغَيْرِ اسْتِفْنَاءٍ ، وَفَتَرَة نَبِيُّنا في قوله لا نبى اور آنحضرت نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے بَعْدِى بِبَيَانٍ واضح لِلطَالِبِينَ وَلَوْ جَوَزْنَا اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ظُهُورَ نَبِي بَعْدَ نَبِيَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور اگر ہم آنحضرت کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں لجوزنَا انْفِتَاحَ بَاب وَحْيِ النُّبُوَّةِ بَعْدَ تو لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی تَخْلِيقِهَا، وَهَذَا خُلْفٌ كَمَا لا يخفى على بند ہونے کے بعد جائز خیال کریں اور یہ باطل ہے الْمُسْلِمِينَ.وَكَيْفَ يَحيى نَبِی بَعْدَ رَسُولِنَا جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت کے صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدِ انْقَطعَ الْوَحْنُ بَعْدَ بعد کوئی نبی کیوں کر آوے حالانکہ آپ کی وفات کے وَفَاتِهِ وَخَتَمَ اللهُ بِهِ النَّبِيِّينَ أَنعْتَقِدُ بِأَنَّ بعد وفی نبوت منقطع ہوگئی ہے اور آپ کے ساتھ عِيسَى الَّذِي أُنزِلَ عَلَيْهِ الإِنجِيلُ هُوَ خَاتَمُ نبیوں کو ختم کر دیا ہے.کیا ہم اعتقاد کرلیں کہ ہمارے الْأَنْبِيَاءِ ، لَا رَسُولُنَا صلعم وَ قَدِ انْقَطعَ في خاتم الانبیاء نہیں بلکہ عیسیٰ جو صاحب انجیل ہے وہ الْوَحْنُ بَعْدَ وَفَاتِهِ وَ خَتَمَ اللهُ بِهِ النَّبِيِّينَ خاتم الانبیاء ہے ، یا ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ابنِ مریم أَنَعْتَقِدُ أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ يَأْتِي وَيَنْسَحُ بَعْضَ آکر قرآن کے بعض احکام کو منسوخ اور کچھ زیادہ أَحْكَامِ الْقُرْآنِ وَيَزِيدُ بَعْضًا فَلَا يَقْبَلُ کرے گا.اور نہ جزیہ لے گا اور نہ جنگ چھوڑے گا الْجِزْيَةَ وَلَا يَضَعُ الْحَرْبَ.وَقَدْ أَمَرَ اللهُ بِأَخْذِهَا حالانکہ اللہ کا ارشاد ہے کہ جزیہ لے لو اور جزیہ لینے وَأَمَرَ بَوَضْعِ الْحَرْبِ بَعْدَ أَخْذِ الْجِزْيَةِ؟ أَلَا تَقْرَأُ کے بعد جنگ چھوڑ دو.کیا تو یہ آیت نہیں پڑھتا کہ ايَةَ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صُغِرُونَ ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیو یں.پس التوبة : ٢٩

Page 385

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۳ سورة الاحزاب فَكَيْفَ يَنسَحُ الْمَسِيحُ مُحْكَمَاتِ الْفُرْقَانِ قرآن کے محکمات کو کیونکر مسیح منسوخ کرے گا.وَكَيْفَ يَتَصَرِّفُ فِي الْكِتَابِ الْعَزِيزِ وَيَطْمِسُ اور کتاب عزیز میں کیوں کر تصرف کر کے کچھ احکام بَعْضَ أَحْكامِهِ بَعْدَ تَكْمِيْلِهَا، فَأَعْجَبَنِي أَنهم تو تکمیل کے بعد مٹادے گا.میں تعجب کرتا ہوں کہ أَنَّهُمْ کو يَجْعَلُونَ الْمَسِيحَ نَاسِخَ بَعْضِ أَحْكَامِ الْفُرْقَانِ وہ کیوں کر فرقان کے بعض احکام کا مسیح کو ناسخ وَلَا يَنْظُرُونَ إِلى أَيَةِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم بتاتے ہیں، اور اس آیت کو نہیں دیکھتے کہ آج میں وَلَا يَتَفَكَّرُوْنَ أَنَّهُ لَوْ كَانَتْ لِتَكْمِيْلِ دِيْنِ نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا ہے، الْإِسْلَامِ حَالَةٌ مُنتَظَرَةٌ يُرجى ظُهُورُهَا بَعْدَ اگر دینِ اسلام کی تکمیل کے لئے کوئی حالت منتظرہ انْقِضَاءِ أُلُوْفٍ مِنَ السَّنَوَاتِ لَفَسَدَ مَعْلى إِكْمَالِ ہوتی جو کئی ہزار سال کے گزرنے کے بعد اس کے الدِّينِ وَالْفَرَاغِ مِن كَمَالِهِ بِالزَالِ الْقُرْآنِ وَلَكَانَ ظہور کی امید ہو سکتی تو قرآن کے ساتھ اکمال دین قَوْلُ اللهِ عَزَّوَجَلَّ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم مِن ہونا فاسد ہو جاتا اور خدا کا یہ کہنا کہ آج میں نے نوع الْكَذِبِ وَخِلافِ الْوَاقِعَةِ، بَلْ كَانَ الْوَاجِبُ تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کر دیا ہے في هذهِ الصُّورَةِ أَنْ يَقُولَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالى جھوٹ اور خلاف واقعہ ہو جاتا بلکہ اس صورت إلى مَا أَنزَلْتُ هَذَا الْقُرْآن كَامِلا عَلى مُحَمَّدٍ صَلَّی میں تو واجب تھا کہ یوں کہتا کہ میں نے محمد صلی اللہ الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ سَأُنْزِلُ بَعْضَ ايَاتِهِ عَلی علیہ وسلم پر قرآن کو کامل نہیں اتارا بلکہ آخر زمانہ میں عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَيَوْمَئِذٍ يَكْمُلُ عیسی ابن مریم پر اس کی کچھ آیات اتاروں گا پس اس دن قرآن کامل ہو گا اور ابھی کامل نہیں.(ترجمه از مرتب) الْقُرْآنُ وَمَا كَمَلَ إِلَى هَذَا الْحِينِ حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۰۰ تا ۲۰۲) کیا ایسا بد بخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعوی کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے.اور آیت ولکن رّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسول اور نبی ہوں.صاحب انصاف طلب کو یا درکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں.مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھو کہ لگ جانے کا احتمال ہے.لیکن وہ المائدة : ۴

Page 386

۳۵۴ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جل شانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو میں بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا.لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مرسن یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے.وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے.اور اصل حقیقت جس کی میں علی رؤس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا.وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُولِنَا وَسَيِّدِنَا إِنِّي نَبِيُّ أَوْ رَسُولٌ عَلَى وَجْهِ الْحَقِيقَةِ وَالْإِفْتِرَاءِ وَتَرَكَ الْقُرْآنَ وَاحْكامَ الشَّرِيعَةِ الْغَرَّاءِ فَهُوَ كَافِرُ كَذَّابٌ غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعوی کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سر چشمہ سے جدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا.اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا.پس بلا شبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۲۷، ۲۸ حاشیه ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مقدسہ ایسے صاف تھے کہ خود اس مطلب کی طرف رہبری کرتے تھے کہ ہر گز اس پیشگوئی میں نبی اسرائیلی کا دوبارہ دنیا میں آنا مراد نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بارفرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَم الن سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو چکی ہے.پھر کیوں کر ممکن تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تشریف لاوے.اس سے تو تمام تار و پود اسلام درہم برہم ہو جاتا تھا.اور یہ کہنا کہ ” حضرت عیسیٰ نبوت سے معطل ہو کر آئے گا.نہایت بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے.کیا خدا تعالیٰ کے مقبول اور مقرب نبی حضرت عیسی علیہ السلام جیسے اپنی نبوت سے معطل ہو سکتے ہیں؟ پھر کون ساراہ اور طریق تھا کہ خود حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آتے.غرض قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین رکھ کر اور حدیث میں خود آنحضرت نے لا نبی بعدی فرما کر اس امر کا فیصلہ کر دیا تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی

Page 387

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۵ سورة الاحزاب معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا اور پھر اس بات کو زیادہ واضح کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ آنے والا سیح موعود اس امت میں سے ہوگا.چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث إمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور صحیح مسلم کی حدیث فَأَمَّكُم مِّنكُمْ جو عین مقام ذکر مسیح موعود میں ہے صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ وہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۱۸،۲۱۷ حاشیه ) مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کو یہ آیت بھی روکتی ہے اور ایسا ہی یہ حدیث بھی کہ لانبی بَعْدِتی.یہ کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ باوجود یکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں پھر کسی وقت دوسرا نبی آجائے اور وحی نبوت شروع ہو جائے ؟ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۷) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ اپنے الہام قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے (ایاما روو متعلق فرماتے ہیں کہ ) یہ مقام ہماری جماعت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خدا وند قدیر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اسی سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پیرو ہو جاؤ اور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا اس پر رسول یا نبی کا لفظ بولنا غیر موزوں نہیں ہے بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبین ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے.اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پرانا نہیں آسکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے.بے شک ایسا عقیدہ تو معصیت ہے اور آیت و لكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ اور حديث لا نبي بعدمی اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے.لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۱۳ حاشیه )

Page 388

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۶ سورة الاحزاب سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَم المتن اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر خلقی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اس کے جلال کے لئے.اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ اس کے معنے یہ ہیں کہ لَيْسَ مُحَمَّد آبا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِ الدُّنْيَا وَلكِن هُوَابٌ لِرِجَالِ الْآخِرَة لأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا سَبِيلَ إِلَى فَيُوضِ اللهِ مِنْ غَيْرِ تَوَشْطه غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملالہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسی " کے اُترنے سے ضرور فرق آئے گا.اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا.اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کومل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ (الجن) : ۲۸).اب اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة (الجن : ۲۷) کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالی کی طرف سے بھیجا جائے گا اس کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے وَمَنِ ادمی

Page 389

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة الاحزاب فَقَدْ كَفَر.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغایرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اُسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر.پس با وجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سید نامحدم خاتم النبیین ہی رہا کیونکہ یہ حمد ثانی اُسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اس کا نام ہے مگر عیسی بغیر مہر توڑنے کے آنہیں سکتا.ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۷ تا ۲۰۹) نبوت کے معنے اظہار امر غیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرت موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا.اور میرا یہ قول کہ ”من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے اور ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلا واسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسٹمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی.اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور خلقی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور

Page 390

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة الاحزاب رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو در حقیقت خاتم النبین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارے جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں.اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم ( الجمعة : ۴) بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے میں برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چونکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم پس اس طور سے خاتم النبیین کی خبر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محمد تک ہی محدودر ہی یعنی بہر حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی رہا نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.ب غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے باپ ہونے کی نفی کی ہے لیکن بروز کی خبر دی ہے.اگر بروز صحیح نہ ہوتا تو پھر آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمُ میں اُس موعود کے رفیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کیوں ٹھہرتے اور نفی بروز سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے جسمانی خیال کے لوگوں نے کبھی اُس موعود کو حسن کی اولاد بنایا اور کبھی حسین کی اور کبھی عباس کی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہ مقصود تھا کہ وہ فرزندوں کی طرح اس کا وارث ہو گا، اس کے نام کا وارث ، اس کے خلق کا وارث ، اس کے علم کا وارث ، اس کی روحانیت کا وارث اور ہر ایک پہلو سے اپنے اندر اس کی تصویر دکھلائے گا اور وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سب کچھ اس سے لے گا اور اس میں فنا ہو کر اس کے چہرہ کو دکھائے گا.پس جیسا کہ ظلی طور پر اُس کا نام لے گا، اُس کا خلق لے گا، اُس کا علم لے گا ایسا ہی اس کا نبی لقب بھی لے گا کیونکہ بروزی تصویر پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ تصویر ہر ایک پہلو سے اپنے اصل کے کمال اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس چونکہ نبوت بھی نبی میں ایک کمال ہے اس لئے ضروری ہے کہ تصویر بروزی میں وہ کمال بھی نمودار ہو.تمام نبی اس بات کو مانتے چلے آئے ہیں کہ وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتی ہے یہاں تک کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جس طرح بروزی طور پر محمد اور احمد نام رکھے جانے سے دو محمد اور

Page 391

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ سورة الاحزاب دو احمد نہیں ہو گئے اسی طرح بروزی طور پر نبی یا رسول کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خاتم النبیین کی مہر ٹوٹ گئی کیونکہ وجود بروزی کوئی الگ وجود نہیں.اس طرح پر تو محمد کے نام کی نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود رہی.تمام انبیاء علیہم السلام کا اس پر اتفاق ہے کہ بروز میں دوئی نہیں ہوتی کیونکہ بروز کا مقام اس مضمون کا مصداق ہوتا ہے کہ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد میں من دیگرم تو دیگری لیکن اگر حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے تو بغیر خاتم النبین کی طہر توڑنے کے کیوں کر دنیا میں آسکتے م ہیں.غرض خاتم النبیین کالفظ ایک الہی مہر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر لگ گئی ہے اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قرار یافتہ عہد تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة :(۴) اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضر ور غیرت ہوتی ہے دیکھو حضرت موسیٰ نے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مقام سے آگے نکل گئے تو کیوں کر رو رو کر اپنی غیرت ظاہر کی.تو پھر جس حالت میں خدا تو فرمائے کہ تیرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور پھر اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسی کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دل آزاری کا موجب ہوگا.غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسی سے ہوا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آیت کریمہ و لكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النّبين نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے.اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مُہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے اور چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پراب تمام دنیا بے دست و پا ہے کیونکہ نبوت پر مہر ہے.ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ

Page 392

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٦٠ ۳۶ سورة الاحزاب آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہو گیا اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑ کی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ بروزی طور کی نبوت اور رسالت سے ختمیت کی مہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسی کے نزول کا خیال جو مستلزم تکذیب آیت وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ہے وہ میت کی مہر کو توڑتا ہے اور اس فضول اور خلاف عقیدہ کا تو قرآن شریف میں نشان نہیں اور کیوں کر ہوسکتا کہ وہ آیت ممدوحہ بالا کے صریح برخلاف ہے لیکن ایک بروزی نبی اور رسول کا آنا قرآن شریف سے ثابت ہو رہا ہے جیسا کہ آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ سے ظاہر ہے.ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۳ تا ۲۱۶) اس نکتہ کو یا درکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں.یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے.اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کا ملہ کے میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.اگر میں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعوی کرنے والا ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد اور احمد اور مصطفی اور مجتبی نہ رکھتا اور نہ خاتم الانبیاء کی طرح خاتم الاولیاء کا مجھ کو خطاب دیا جا تا بلکہ میں کسی علیحدہ نام سے آتا.لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک بات میں وجود محمدی میں مجھے داخل کر دیا یہاں تک کہ یہ بھی نہ چاہا کہ یہ کہا جائے کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو کیونکہ ظل اپنے اصل سے الگ ہو ہی نہیں سکتا اور ایسا کیوں کہا گیا اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس نے خاتم الانبیاء ٹھیرایا ہے اور پھر دونوں سلسلوں کا تقابل پورا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی شانِ نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوت عالیہ کی کسر شان نہ ہو اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے وجود کو ایک کامل ظلیت کے ساتھ پیدا کیا اور ظلی طور پر نبوت محمدی اس میں رکھ دی تا ایک معنے سے مجھ پر نبی اللہ کا لفظ صادق آوے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۱، ۳۸۲ حاشیه ) قرآن نے تو امام حسین کو رتبہ اہنیت کا بھی نہیں دیا بلکہ نام تک مذکور نہیں اُن سے تو زید ہی اچھا رہا جس کا نام قرآن شریف میں موجود ہے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہنا قرآن شریف کے نص صریح کے برخلاف ہے جیسا کہ آیت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سے سمجھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت امام حسین رجال میں سے تھے عورتوں میں سے تو نہیں تھے حق تو یہ ہے کہ اس آیت نے اس تعلق کو جو امام حسین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بوجہ پسر دختر ہونے کے تھا نہایت ہی ناچیز کر دیا ہے تو پھر اس قدر

Page 393

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاحزاب اُن کو آسمان پر چڑھانا کہ وہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل ہیں.یہ قرآن شریف پر بھی تقدم ہے ہر ایک کو فضیلت وہ دینی چاہیئے کہ قرآن سے ثابت ہے قرآن تو ان کی اہنیت کی بھی نفی کرتا ہے مگر یہاں حضرات شیعہ تمام انبیاء کا انہیں کو شفیع ٹھہراتے ہیں یہ کیسی فضولی ہے یہ قول کس قدر حیا سے دُور ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام امام حسین کے ہی طفیلی ہیں اگر وہ نہ ہوتے تو تمام نبیوں کا نجات پانا مشکل بلکہ غیر ممکن تھا.( نزول امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۳، ۴۲۴) قرآن شریف پر شریعت ختم ہوگئی مگر وحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ بچے دین کی جان ہے جس دین میں وحی الہی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مردہ ہے اور خداس کے ساتھ نہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۴ حاشیه ) یادر ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وہی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے وَلَا سَبِيلَ إِلَيْهَا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَمَنْ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِنْ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَادَّعى انه نَبِى صَاحِبُ الشَّرِيعَةِ أَوْ مِنْ دُونِ الشَّرِيعَةِ وَلَيْسَ مِنَ الْأُمَّةِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ غَمَرَهُ الشَّيْلُ الْمُنْهرُ فَالْقَاهُ وَرَاءَ هُ وَلَمْ يُغَادِرُ حَتَّى مَاتَ.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء ہیں اُسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تحمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے.جیسا کہ وہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لیکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے.سو اس آیت کے پہلے حصہ میں جوا مرفوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا.سولکین کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا

Page 394

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة الاحزاب گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے.اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ( الکوثر : ۴ ) میں ہے دُور کیا جائے.ماحصل اس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو.اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقام نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمد یہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ امت کی نفی کی جائے تو اس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلعم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے.اب جبکہ یہ بات طے پا چکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت مستقلہ جو براہ راست ملتی ہے.اس کا دروازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی امتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اور حضرت محمد کی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلعم کے بعد ظاہر نہیں ہوسکتا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۳ تا ۲۱۵) مُسْلِمُونَ نُؤْمِنُ بِکتاب ہم مسلمان ہیں اور ہم خدا تعالی کی کتاب فرقان مجید پر ایمان اللهِ الْفُرْقَانِ.وَنُؤْمِنُ بِأَنَّ سَيِّدَنا لاتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے آقا محمد رسول اللہ مُحَمَّدًا نَبِيُّة وَ رَسُولُهُ وَأَنَّهُ جَاءَ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے نبی اور اس کے رسول ہیں اور یہ کہ بِخَيْرِ الْأَدْيَانِ.وَنُؤْمِنُ بِأَنَّهُ خَاتَمُ آپ بہترین دین لے کر آئے اور اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں الْأَنْبِيَاء لَا نَبِى بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِی کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگر وہی جس رُبِّي مِنْ فَيْضِهِ وَأَظْهَرَهُ وَعْدُهُ.وَلِلہ کی تربیت آپ کے فیضان سے ہوئی ہو اور جس کا ظہور آپ کی مُعَالَمَاتٌ وَ مُخَاطَبَاتٌ مَعَ أَوْلِيَائِهِ پیشگوئی کے مطابق ہوا اور اللہ تعالی اس امت کے اولیاء کو اپنے في هذِهِ الْأُمَّةِ، وَإِنَّهُمْ يُعْطَوْنَ مكالمات اور مخاطبات سے مشرف کرتا ہے اور انہیں انبیاء کے

Page 395

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ سورة الاحزاب صِبْغَةَ الْأَنْبِيَاءِ وَلَيْسُوا نَبِيِّين في رنگ سے رنگین کیا جاتا ہے لیکن وہ حقیقی طور پر نبی نہیں ہوتے الْحَقِيقَةِ، فَإِنَّ الْقُرْآنَ أَكْمَلَ وَطرَ کیونکہ قرآن کریم نے شریعت کی تمام ضروریات کو پورا کر دیا الشَّرِيعَةِ، وَلَا يُعْطُونَ إِلَّا فَهُمَ ہے اور ان کو فہم قرآن عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ نہ تو قرآن کریم الْقُرْآنِ، وَلَا يَزِيدُونَ عَلَيْهِ وَلَا میں کسی قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور نہ اس میں کوئی کمی کرتے ہیں يَنقُصُونَ مِنْهُ، وَمَنْ زَادَ أَوْ نَقص اور جس شخص نے قرآن کریم میں کوئی اضافہ کیا یا کوئی حصہ کم کیا فَأُولَئِكَ مِن الشَّيَاطِينِ الْفَجَرَةِ.تو وہ شیطان فاجر ہے اور ختم نبوت سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ولعين بقلم النُّبُوَّةِ خَتَمَ كَمَالَاتِها ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اللہ تعالیٰ کے سب عَلى نَبِيِّنَا الَّذِي هُوَ أَفْضَلُ رُسُلِ الله رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں تمام کمالات نبوت ختم ہو گئے وَأَنْبِيَائِهِ، وَنَعْتَقِدُ بِأَنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدَهُ ہیں اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ کے بعد نبوت کے مقام إلَّا الَّذِي هُوَ مِنْ أُمَّتِهِ وَمِنْ أَكْمَل پروى شخص فائز ہوسکتا ہے جو آپ کی امت میں سے ہو اور أَتْبَاعِهِ الَّذِي وَجَدَ الْفَيْضَ كُلَّهُ مِن آپ کا کامل پیرو ہو.اور اس نے تمام کا تمام فیضان آپ ہی رُوحَانِيَّتِهِ وَأَضَاءَ بِضِيَائِه.فهناك کی روحانیت سے پایا ہو اور آپ کے نور سے منور ہوا ہو.اس لا غَيْرَ وَلَا مَقَامَ الْغَيْرَةِ، وَلَيْسَتْ مقام میں کوئی غیریت نہیں اور نہ ہی یہ غیرت کی جگہ ہے اور یہ ينُبُوَّةٍ أُخْرَى وَلَا تَحَلَّ لِلْعَيرَةِ بَلْ هُوَ کوئی علیحدہ نبوت نہیں اور نہ ہی یہ مقام حیرت ہے بلکہ سیاحمد مجتبی أَحْمَدُ تَجَلُّى فِي سَجَنْجَلِ أَخَرَ، وَلَا يَغَارُ ہی ہے جو دوسرے آئینہ میں ظاہر ہوا ہے اور کوئی شخص اپنی رَجُلٌ عَلى صُورَتِهِ الَّتِي أَرَادُ الله في تصویر پر جسے اللہ نے آئینہ میں دکھایا ہو غیرت نہیں کھاتا مِرَاةٍ وأَظهَرَ فَإِنَّ الْغَيْرَةَ لا نهنج کیونکہ شاگردوں اور بیٹیوں پر غیرت جوش میں نہیں آتی.پس تَهِيجُ عَلَى الثَّلَامِلَةِ وَالْأَبْنَاءِ ، فَمَن كَانَ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پا کر اور آپ میں فنا مِنَ النَّبِي وَفِي النَّبِي فَإِنَّمَا هُوَ هُوَ، ہو کر آئے وہ در حقیقت وہی ہے کیونکہ وہ کامل فنا کے مقام پر لِأَنَّهُ فِي أَتَمَّ مَقَامِ الْفَنَاءِ ، وَمُصَبَّعٌ ہوتا ہے اور آپ کے رنگ میں ہی رنگین اور آپ کی ہی چادر بِصِبْغَتِهِ وَمُرْتَدٍ بِتِلْكَ الرِّدَاءِ ، وَقَد اوڑھے ہوتا ہے اور آپ سے ہی اس نے اپنا روحانی وجود حاصل وَجَدَ الْوُجُوْدَ مِنْهُ وَبَلَغَ مِنْهُ كَمَالَ کیا ہوتا ہے اور آپ کے فیض سے ہی اس کا وجود کمال کو پہنچا النَّشْرِ وَالنّمَاءِ.وَهَذَا هُوَ الْحَقُق الذى ہوتا ہے اور یہی وہ حق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 396

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ سورة الاحزاب يَشْهَدُ عَلى بَرَكَاتِ نبينا، ویری کی برکات پر گواہ ہے اور لوگ نبی کریم کا حسن ان تابعین کے النَّاسُ حُسْنَه في حُللِ التَّابِعِينَ لباس میں دیکھتے ہیں جو اپنے کمال محبت وصفائی کی وجہ سے الْفَانِينَ فِيْهِ بِكَمَالِ الْمَحَبَّةِ آپ کے وجود میں فنا ہو گئے اور اس کے خلاف بحث کرنا وَالصَّفَاءِ ، وَمِنَ الْجَهْلِ أَنْ يَقُومَ أَحَدٌ جہالت ہے کیونکہ یہ تو آپ کے ابتر نہ ہونے کا اللہ تعالیٰ کی لِلْمَرَاءِ ، بَلْ هَذَا هُوَ ثُبُوتٌ مِّنَ اللہ طرف سے ثبوت ہے اور تدبر کرنے والوں کے لئے اس کی ينفي كَوْنِهِ أَبتَرَ وَلَا حَاجَةَ إلى تفصیل کی ضرورت نہیں اور آپ جسمانی طور پر تو مردوں میں تَفْصِيلٍ لِمَن تَدَبَّرَ وَ إِنَّهُ مَا كَانَ أَبَا سے کسی کے باپ نہیں لیکن اپنی رسالت کے فیضان کی رو أَحَدٍ مِّنَ الرِّجَالِ مِنْ حَيْثُ سے ہر اس شخص کے باپ ہیں جس نے روحانیت میں کمال الجسْمانِيَّةِ، وَلكِنَّه أَبْ مِنْ حَيْثُ حاصل کیا.اور آپ تمام انبیاء کے خاتم اور تمام مقبولوں کے فَيْضِ الرَّسَالَةِ لِمَنْ كُتِل في سردار ہیں اور اب خدا تعالی کی درگاہ میں وہی شخص داخل ہو الرُّوْحَانِيَّةِ.وَإِنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ سکتا ہے جس کے پاس آپ کی مہر کا نقش ہو اور آپ کی سنت پر وَعَلَمُ الْمَقْبُولِينَ، وَلَا يَدْخُلُ الْحَضْرَةَ پوری طرح سے عامل ہو اور اب کوئی عمل اور عبادت آپ کی أَبَدًا إِلَّا الَّذِي مَعَهُ نَقشُ خَاتَمِهِ وَآثَارُ رسالت کے اقرار کے بغیر اور آپ کے دین پر ثابت قدم سُنّتِهِ، وَلَنْ يُقْبَلَ عَمَل وَلَا عِبَادَةٌ إِلَّا رہنے کے بدوں خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوگی اور جو بَعْد الْإقْرَارِ برِسَالَتِهِ، وَالثَّبَاتِ عَلی آپ سے الگ ہو گیا اور اس نے اپنے مقدور اور طاقت کے دِينِهِ وَمِلَّتِهِ.وَقَدْ هَلَكَ مَن تَرَكَهُ وَمَا مطابق آپ کی پیروی نہ کی وہ ہلاک ہو گیا.آپ کے بعد اب تبعة في جميع سُنّيهِ عَلى قَدْدٍ وُسْعِه کوئی شریعت نہیں آسکتی اور نہ کوئی آپ کی کتاب اور آپ وَطاقَتِهِ.وَلَا شَرِيعَةً بَعْدَهُ، وَلَا تاریخ کے احکام کو منسوخ کر سکتا ہے اور نہ کوئی آپ کے پاک کلام کو لِكِتَابِهِ وَوَصِيَّتِهِ، وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمته، بدل سکتا ہے اور کوئی بارش آپ کی موسلا دھار بارش کی مانند وَلَا قَطرَ كَمُزْنَتِهِ، وَمَنْ خَرَجَ مِفْقَالَ نہیں ہو سکتی.اور جو قرآن کریم کی پیروی سے ذرہ بھر بھی دور ذَرَّةٍ مِّنَ الْقُرْآنِ، فَقَدْ خَرَجَ مِن ہوا وہ ایمان کے دائرہ سے خارج ہو گیا اور اس وقت تک کوئی الإِيمَانِ، وَلَنْ يُفْلِحُ أَحَدٌ حَتَّى يَتَّبِعَ شخص ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان تمام باتوں کی كُلَّ مَا نَبَتَ مِن نَبِيْنَا الْمُصْطَفى پیروی نہ کرے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں

Page 397

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاحزاب وَمَنْ تَرَكَ مِقْدَارَ ذَرَّةٍ مِن وَصَايَاهُ فَقَدْ اور جس نے آپ کے وصایا میں سے کوئی چھوٹی سی وصیت هَوَى.وَمَنِ ادَّعَى النُّبُوَّةَ مِنْ هذِهِ الْأُمَّةِ، بھی ترک کر دی تو وہ گمراہ ہو گیا.اور جس نے اس امت وَمَا اعْتَقَدَ بِأَنَّهُ رُبِّي مِنْ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ خَيْرِ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ خیر البشر الْبَرِيَّةِ، وَبِأَنَّهُ لَيْسَ هُوَ شَيْئًا مِن دُونِ محمد مصطفیٰ کا ہی تربیت یافتہ ہے اور آپ کے اسوہ حسنہ هذِهِ الْأُسْوَةِ، وَأَنَّ الْقُرْآنَ خَاتَمُ کے بغیر بیچ محض ہے اور یہ کہ قرآن کریم خاتم الشرائع ہے الشَّرِيعَةِ، فَقَد هَلَكَ وَالْحَق نَفسَه تو وہ ہلاک ہو گیا اور وہ کافروں اور فاجروں میں جاملا اور بِالْكَفَرَةِ الْفَجَرَةِ، وَمَن ادَّعَى النُّبُوَّةَ وَلَمْ جس شخص نے نبوت کا دعوی کیا اور یہ اعتقاد نہ رکھا کہ وہ يَعْتَقِدُ بِأَنَّهُ مِنْ أُمَّتِهِ وَ بِأَنَّهُ إِنَّمَا وَجَدَ كُل آپ ہی کی امت میں سے ہے اور یہ کہ جو کچھ اس نے پایا مَا وَجَدَ مِنْ فَيُضَانِهِ، وَأَنَّه قمرةٌ تمن ہے وہ آپ ہی کے فیضان سے پایا ہے اور یہ کہ وہ آپ ہی بُسْتَانِهِ، وَقَطْرَةٌ مِّنْ تَهْتَانِهِ، وَشَعْشَعُ مِن کے باغ کا ایک پھل اور آپ ہی کی موسلا دھار بارش کا لَمْعَانِهِ، فَهُوَ مَلْعُونَ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَيْهِ | ایک قطرہ اور آپ ہی کی روشنی کی ایک کرن ہے تو وہ ملعون وَعَلَى أَنْصَارِهِ وَأَتْبَاعِهِ وَأَعْوَانِهِ.لا نبی ہے اور اس پر اور اس کے ساتھیوں پر اور اس کے اتباع لَنَا تَحْتَ السَّمَاءِ مِنْ دُونِ نَبِيْنَا اور مددگاروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو.آسمان کے نیچے الْمُجْتَبى، وَلَا كِتَابَ لَنَا مِنْ دُونِ محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہمارا کوئی نبی نہیں اور الْقُرْآنِ وَكُلُّ مَنْ خَالَفَهُ فَقَدْ جَر نفسه قرآن کریم کے سوا ہماری کوئی کتاب نہیں اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی وہ اپنے آپ کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے إِلَى اللَّظى.(مواهب الرحمن،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸۵ تا ۲۸۷) گیا.(ترجمہ از مرتب) خدا تعالی کا یہ دعا سکھلا نا کہ خدا یا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسی کو قتل کرنا چاہا تھا ا صاف بتلا رہا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ایک ٹیسٹی پیدا ہونے والا ہے.ورنہ اس دُعا کی کیا ضرورت تھی.اور نیز جبکہ آیات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں بعض علماء مسلمان بالکل علماء یہود سے مشابہ ہو جائیں گے اور یہود بن جائیں گے.پھر یہ کہنا کہ ان یہودیوں کی اصلاح کے لئے اسرائیلی عیسی آسمان سے نازل ہوگا بالکل غیر معقول بات ہے کیونکہ اول تو باہر سے ایک نبی کے آنے سے مہر ختم نبوت ٹوٹتی ہے اور قرآن شریف صریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاءٹھیرا تا ہے.ماسوا اس کے قرآن شریف

Page 398

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة الاحزاب کے رُو سے یہ اُمت خیر الام کہلاتی ہے.پس اس کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ امت ہو مگر عیسی باہر سے آوے.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳، ۱۴) بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تائمر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے.(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۷) تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیں اُن کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہ اُن سب پر مشتمل اور حاوی ہے.اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اس کے اندر ہیں نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ تامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اُس پر صادق آ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اُس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے اور جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو.اور کھلے طور پر ور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( ال عمران : ۱۱۱ ) اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ (الفاتحة : ۲ ، ۷ ) اُن کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ اُمت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ

Page 399

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاحزاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہرتی تھی.اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اُس کا سکھلا نا بھی عبث ٹھہرتا تھا.مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فرد امت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنافی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنے اتم اور اکمل درجہ پر ان میں پائے گئے ایسے طور پر کہ اُن کا وجود اپنا وجود نہ رہا.بلکہ اُن کے محویت کے آئینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہو گیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر مکالمہ مخاطبہ الہیہ نبیوں کی طرح اُن کو نصیب ہوا.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱، ۳۱۲) یہ خوب یا درکھنا چاہیے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱ حاشیه ) زبان عرب میں لکین کا لفظ استدراک کے لئے آتا ہے یعنی جو امر حاصل نہیں ہو سکا اس کے حصول کی دوسرے پیرایہ میں خبر دیتا ہے جس کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی مگر رُوحانی طور پر آپ کی اولاد بہت ہوگی اور آپ نبیوں کے لئے مہر ٹھہرائے گئے ہیں.یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی عمر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا.غرض اس آیت کے یہ معنے تھے جن کو الٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کر دیا گیا.حالانکہ اس انکار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر مذمت اور منقصت ہے.کیونکہ نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلی طور پر نبوت کے اور کمالات سے متمتع کر دے اور رُوحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلاوے.اسی پرورش کی غرض سے نبی آتے ہیں اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں لے کر خداشناسی کا دودھ پلاتے ہیں.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باللہ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی.مگر خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنادیتا ہے.اور اگر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فیض روحانی نہیں تو پھر دنیا میں

Page 400

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة الاحزاب آپ کا مبعوث ہونا ہی عبث ہوا.اور دوسری طرف خدا تعالیٰ بھی دھوکا دینے والا ٹھہرا جس نے دُعا تو یہ سکھلائی کہ تم تمام نبیوں کے کمالات طلب کرو مگر دل میں ہرگز یہ ارادہ نہیں تھا کہ یہ کمالات دیئے جائیں گے.بلکہ یہ ارادہ تھا کہ ہمیشہ کے لئے اندھا رکھا جائے گا.(چشمه سیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۹٬۳۸۸) اگر تمام کفار رُوئے زمین دعا کرنے کے لئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کی جناب میں کسی امر کے لئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اُس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اُس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اُس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمد ی نبوت ہے یعنی اُس کا ظل ہے اور اُسی کے ذریعہ سے ہے اور اُسی کا مظہر ہے اور اُسی سے فیضیاب ہے.خدا اُس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتا بلکہ آپ کچھ بنا چاہتا ہے.مگر خدا اُس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اُس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور اس کے فیض کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی جناب میں پیارا ہو جاتا ہے اور خدا کا پیار یہ ہے کہ اُس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اُس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اُس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر کرتا ہے اور جب اُس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک ظلی نبوت اُس کو عطا کرتا ہے جو نبوت محمدیہ کا ظل ہے یہ اس لئے کہ تا اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے اور تا اسلام ہمیشہ مخالفوں پر غالب رہے.نادان آدمی جو در اصل دشمن دین ہے اس بات کو نہیں چاہتا کہ اسلام میں سلسلہ مکالمات مخاطبات الہیہ کا جاری رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اور مردہ مذہبوں کی طرح ایک مردہ مذہب ہو جائے مگر خدا نہیں چاہتا.نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صد با مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لخت آن يضطلع سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اُس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے

Page 401

۳۶۹ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں اور لعنت ہے اُس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعوی کرے مگر یہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی دکھلائی جائے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۱،۳۳۹) ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ابتدا سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات متعدیہ کے اظہار اور اثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہیہ بخشے کہ جو اُس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے سو اس طور سے خدا نے میرا نام نبی رکھا یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا تا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۰ حاشیه ) نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت کی پیروی سے پایا ہے نہ براہ راست.نہ تجلیات البیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۱ حاشیه ) اب بجز محمدی نبوت کے سب نبو تھیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.پس اسی بنا پر میں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی.اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمد یہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے.اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور امتی ہوں اس لئے آنجناب کی اِس سے کچھ کسر شان نہیں.اور یہ مکالمہ الہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کا فر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے ہے.اور

Page 402

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاحزاب جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر.یہ تو ممکن ہے کہ کلام الہی کے معنے کرنے میں بعض مواضع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے.مگر یہ ممکن نہیں کہ میں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں.اور چونکہ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے.تجلیات البیه، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲) وَإِنْ قَالَ قَائِلٌ كَيْفَ يَكُونُ نَبِيٌّ مِنْ اگر کوئی یہ کہے کہ اس امت میں نبی کیسے آسکتا ہے هذِهِ الْأُمَّةِ وَقَد خَتَمَ اللهُ عَلَى النُّبُوَّةِ؟ جب کہ اللہ نے نبوت پر مہر لگا دی ہے تو اس کا جواب یہ فَالْجَوَابُ إِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا سَلمى هَذَا ہے کہ الله عز وجل نے آنے والے موعود کا نام نبی الرَّجُل نَبِيًّا إِلَّا لإثْبَاتِ كَمَالِ نُبُوَّةِ ہمارے آقا خیر البشر کی نبوت کے کمال کو ثابت کرنے سَيّدِنَا خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، فَإِنَّ ثُبُوتَ كَمَالِ کے لئے رکھا ہے کیونکہ آپ کا کمال امت کے کمال کے النَّبِي لَا يَتَحَقِّقُ إِلَّا بِذُبُوتِ كَمَالِ الْأُمَّةِ، بغیر ثابت نہیں ہوسکتا.اس کے سوا کمال کا دعویٰ محض وَمِن دُونِ ذَالِكَ ادْعَاء مخض لا دَلِيْلَ دعوی ہی ہے جس پر عقلمندوں کے نزدیک کوئی دلیل نہیں مَحْضُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْفِطْنَةِ، وَلا مَعْلى يختم اور کسی فرد پر نبوت کے ختم ہونے کے معنے اس کے سوا النُّبُوَّةِ عَلى فَرْدٍ مِنْ غَيْرِ أَن تُختتم اور کچھ نہیں ہوتے کہ اس پر کمالات نبوت ختم ہو گئے كَمَالَاتُ النُّبُوَّةِ عَلى ذَالِكَ الْفَرْدِ، وَمِن ہیں اور بڑے بڑے کمالات میں سے نبی کا بڑا کمال الْكَمَالَاتِ الْعُظمى كَمَالُ النَّبِي في اس کی قوت افاضہ ہے جو امت میں پائے جانے والے الإفاضَةِ، وَهُوَ لا يَفْسُتُ مِنْ غَيْرِ نموذج نمونہ کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی.اس کے ساتھ ہی يُوجَدُ فِي الْأُمَّةِ ثُمَّ مَعَ ذَالِكَ ذَكَرْتُ غَيْرَ میں نے کئی دفعہ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مَرَّةٍ أَنَّ اللهَ مَا أَرَادَ مِنْ نُبُوتِي إِلَّا كَفَرَةَ نزدیک میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمه مخاطبہ الْمُكَالَمَةِ وَالْمُخَاطَبَةِ، وَهُوَ مُسَلَّمْ عِنْدَ ہے اور یہ بات اکابر اہل سنت کے نزدیک بھی مسلم ہے أكابر أَهْلِ السُّنَّةِ فَالرِّزَاعُ لَيْسَ إِلَّا پس نزاع صرف لفظی ہی ہے.اے ارباب عقل و خرد!

Page 403

سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نِزَاعًا لَفْظِيًّا فَلَا تَسْتَعْجِلُوا يَا أَهْلِ جلد بازی سے کام نہ لو.اگر کوئی شخص اس کے خلاف الْعَقْلِ وَالْفِطْنَةِ.وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى مَن ادعی کچھ بھی دعوی کرے تو اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے اور خِلَافَ ذَالِك مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَمَعَهَا لَعْنَةُ اس طرح خدا تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ ہی فرشتوں اور سب لوگوں کی بھی لعنت ہے.( ترجمہ از مرتب ) النَّاسِ وَالْمَلَائِكَةِ.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۳۷ حاشیه ) والنُّبُوَّةُ قَدِ انْقَطَعَتْ بَعْدَ نَبِيْنَا صَلَّى ثبوت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَا كِتَابَ بَعْدَ الْفُرْقَانِ ہوگئی اور قرآن کریم کے سوا ہماری کوئی کتاب نہیں.جو الَّذِي هُوَ خَيْرُ الصُّحُفِ السَّابِقَةِ وَلاَ سب سابقہ کتب میں سے بہتر ہے اور شریعت محمدیہ کے شَرِيعَةً بَعْد الشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ، بَيْد أَنِّي سوا ہماری کوئی شریعت نہیں.ہاں بے شک آنحضرت سُقِيتُ نَبِيًّا عَلَى لِسَانٍ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ.صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میرا نام نبی رکھا گیا ہے وَذَالِكَ أَمْرُ ظِلَى مِنْ بَرَكَاتِ الْمَتَابَعَةِ اور یہ آپ کی کامل پیروی کی برکات میں سے ایک ظلی وَمَا أَرَى فِي نَفْسِى خَيْرًا، وَوَجَدتُ كُلَّ مَا امر ہے.میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا اور جو وَجَدْتُ مِنْ هَذِهِ النَّفْسِ الْمُقَدَّسَةِ وَمَا کچھ بھی میں نے پایا ہے وہ اس مقدس ذات سے پایا عَلَى اللهُ مِن ثُبُوتى إِلَّا كَثْرَةَ الْمُعَالَمَةِ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری نبوت سے مراد وَالْمُخَاطَبَةِ، وَلَعْنَةُ اللهِ عَلى مَنْ أَرَادَ فَوْقَ صرف کثرتِ مکالمہ و مخاطبہ ہے اور جو اس سے زیادہ کا ذَالِكَ، أَوْ حَسِبَ نَفْسَهُ شَيْئًا أَوْ أَخْرج دعوی کرے یا اپنے نفس کو کچھ اہمیت دے یا اپنی گردن عُنُقَهُ مِنَ الرِّبقَةِ النَّبَوِيَّةِ وَإِنَّ رَسُولَنَا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوئے سے نکال دے خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَعَلَيْهِ انْقَطَعَتْ سِلْسِلَة اس پر خدا کی لعنت ہے اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ الْمُرْسَلِينَ.فَلَيْسَ حَقٌّ أَحَدٍ أَنْ يُدعى عليه وسلم خاتم النبین ہیں اور ان پر رسولوں کا سلسلہ ختم النُّبُوَّةَ بَعْدَ رَسُولِنَا الْمُصْطَفى عَلَى ہو گیا ہے اور کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ الطَّرِيقَةِ الْمُسْتَقِلَّةِ، وَمَا بَقِيَ بَعْدَهُ إِلَّا علیہ وسلم کے بعد نبوت مستقلہ کا دعویٰ کرے اب صرف كَثْرَةُ الْمُعَالَمَةِ، وَهُوَ بِشَرْطِ الْاِتِّباع لا کثرت مکالمہ باقی ہے اور وہ بھی اتباع نبوی کے ساتھ بِغَيْرِ مُتَابَعَةِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَوَاللهِ مَا مشروط ہے اس کے سوا نہیں.اور اللہ کی قسم! مجھے یہ

Page 404

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة الاحزاب حصل لى هَذَا الْمَقَامُ إِلَّا مِنْ أَنْوَارٍ مقام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کی شعاعوں کی حَصَلَ اتَّبَاعِ الْأَشِعَةِ الْمُصْطَفَوِيَّةِ وَسُمیت پیروی سے ہی ملا ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام مجازی طور نَبِيًّا مِنَ اللهِ عَلَى طَرِيقِ الْمَجَازِ لَا عَلی پر نبی رکھا ہے نہ کہ حقیقی طور پر.پس یہاں اللہ تعالیٰ کی وَجْهِ الْحَقِيقَةِ فَلَا تَهِيجُ هُهُنَا غَيْرَةُ اللهِ غیرت یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کے وَلَا غَيْرَةُ رَسُوْلِهِ، فَإِنِّي أُربي تحت جناح بھڑکنے کا کوئی مقام نہیں کیونکہ میری تربیت نبی کریم النبي وَقَدَين هذه تَحْتَ الأَقْدَامِ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروں کے نیچے ہوئی ہے اور میرا النبوية، ثُمَّ مَا قُلْتُ مِنْ نَفْسِى شَيْئًا.قدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش قدم کی متابعت بَلِ اتَّبَعْتُ مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مِن رَّبِّي وَمَا میں ہے اور میں نے کوئی بات اپنے پاس سے نہیں کہی بلکہ أَخَافُ بَعْدَ ذَالِك تَهْدِيد الْخَلِيقَةِ وَكُلُّ اللہ تعالیٰ نے جو میری طرف وحی کی اور اس کی پیروی کی أَحَدٍ يُسْأَلُ عَنْ عَمَلِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا ہے اور اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا يَخْفَى عَلَى اللهِ خَافِيَةٌ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنے عمل کے متعلق جواب دہ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸۹۶۸۸) ہوگا اور اللہ پر کوئی بات پوشیدہ نہیں.( ترجمہ از مرتب ) نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اس نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک مکالمات الہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے.وہ دین ، دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی ، نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہو سکتا کہ مکالمات الہیہ سے مشرف ہو سکے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶) کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ وہ نبوت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوت کہلاتی ہے.کوئی مستقل نبی امتی نہیں کہلا سکتا مگر میں امتی ہوں.پس یہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزازی نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہوا تا حضرت عیسی سے تکمیل مشابہت ہو.برا بین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۰ حاشیه )

Page 405

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۳ سورة الاحزاب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں ایسا ہی میں ملائکہ اور معجزات اور لیلتہ القدر وغیرہ کا قائل ہوں.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۳۲) یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا ور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں.یہ الزام صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٰ نبوت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے اور جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر اس سے انکار کر سکتا ہوں میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا میں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شوشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے.سو میں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پا کر بکثرت پیشگوئی کرنے والا ، اور بغیر کثرت کے یہ معنی تحقیق نہیں ہو سکتے جیسا کہ صرف ایک پیسہ سے کوئی مالدار نہیں کہلا سکتا.سوخدا نے اپنے کلام کے ذریعہ سے بکثرت مجھے علم غیب عطا کیا ہے اور ہزار ہا نشان میرے ہاتھ پر ظاہر کئے ہیں اور کر رہا ہے.میں خود ستائی سے نہیں مگر خدا کے فضل اور اس کے وعدہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور ایک طرف صرف میں کھڑا کیا جاؤں اور

Page 406

۳۷۴ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی ایسا امر پیش کیا جائے جس سے خدا کے بندے آزمائے جاتے ہیں تو مجھے اس مقابلہ میں خدا اغلبہ دے گا اور ہر ایک پہلو کے مقابلہ میں خدا میرے ساتھ ہوگا اور ہر ایک میدان میں وہ مجھے فتح دے گا بس اسی بناء پر خدا نے میرا نام نبی رکھا ہے کہ اس زمانہ میں کثرت مکالمہ مخاطب اللہ اور کثرت اطلاع بر علوم غیب صرف مجھے ہی عطا کی گئی ہے اور جس حالت میں عام طور پر لوگوں کو خوا میں بھی آتی ہیں اور بعض کو الہام بھی ہوتا ہے اور کسی قدر ملونی کے ساتھ علم غیب سے بھی اطلاع دی جاتی ہے مگر وہ الہام مقدار میں نہایت قلیل ہوتا ہے اور اخبار غیبیہ بھی اس میں نہایت کم ہوتی ہیں اور باوجود کمی کے مشتبہ اور مکدر اور خیالات نفسانی سے آلودہ ہوتے ہیں تو اس صورت میں عقل سلیم خود چاہتی ہے کہ جس کی وحی اور علم غیب اس کدورت اور نقصان سے پاک ہو اس کو دوسرے معمولی انسانوں کے ساتھ نہ ملایا جائے بلکہ اس کو کسی خاص نام کے ساتھ پکارا جائے تا کہ اس میں اور اس کے غیر میں امتیاز ہو.اس لئے محض مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا اور یہ مجھے ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے تا کہ ان میں اور مجھے میں فرق ظاہر ہو جائے.ان معنوں سے میں نبی بھی ہوں اور امتی بھی تا کہ ہمارے سید و آقا کی وہ پیشگوئی پوری ہو کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا ور نہ حضرت عیسی جن کے دوبارہ آنے کے بارے میں ایک جھوٹی امید اور جھوٹی طمع لوگوں کو دامنگیر ہے وہ امتی کیوں کر بن سکتے ہیں.کیا آسمان سے اتر کر نئے سرے وہ مسلمان ہوں گے اور کیا اس وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء نہیں رہیں گے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۷۲۶،۷۲۵) قرآن کے وقت استعداد میں معقولیت کا رنگ پکڑ گئی تھیں اور توریت کے وقت وحشیانہ حالت تھی.آدم سے لے کر زمانہ ترقی کرتا گیا تھا اور قرآن کے وقت دائرہ کی طرح پورا ہو گیا.حدیث میں ہے زمانہ مستدیر ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ ضرورتیں نبوت کا انجن ہیں ظلمانی راتیں اس نور کو سینچتی ہیں جو دنیا کو تاریکی سے نجات دے اس ضرورت کے موافق نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور جب قرآن کے زمانہ تک پہنچا تو مکمل ہو گیا.اب سب ضرورتیں پوری ہو گئیں.اس سے لازم آیا کہ آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۸۷) در اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے انبیاء علیہم السلام کو ایسی ہی نسبت ہے جیسی کہ ہلال کو بدر سے ہوتی ہے.ہلال کا وجود ایک تاریکی میں ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے کمال کو

Page 407

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ سورة الاحزاب پہنچ کر بدر بن جاتا ہے تو وہ بدر اپنی پہلی حالت ہلال کا مثبت اور مصدق ہو جاتا ہے.پس یقیناً سمجھو کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو پہلے نبی اور ان کی نبوتوں کے پہلو مخفی رہتے.ا الحکم جلد ۳ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ صفحہ ۷ ) ۱ ختم نبوت کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک دلائل اور معرفت طبعی طور پر ختم ہو جاتے ہیں وہ وہی حد ہے جس کو ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.اس کے بعد ملحدوں کی طرح نکتہ چینی کرنا بے ایمانوں کا کام ہے.ہر بات میں بینات ہوتے ہیں اور ان کا سمجھنا معرفتِ کاملہ اور نور بھر پر موقوف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ایمان اور عرفان کی تکمیل ہوئی.دوسری قوموں کو روشنی پہنچی.کسی اور قوم کو بین اور روشن شریعت نہیں ملی اگر ملتی تو کیا وہ عرب پر اپنا کچھ بھی اثر نہ ڈال سکتی.عرب سے وہ آفتاب نکلا کہ اس نے ہر قوم کو روشن کیا اور ہر بستی پر اپنا نور ڈالا.یہ قرآن کریم ہی کو فخر حاصل ہے کہ وہ توحید اور نبوت کے مسئلہ میں کل دنیا کے مذاہب پر فتحیاب ہو سکتا ہے.یہ فخر کا مقام ہے کہ ایسی کتاب مسلمانوں کو ملی ہے.جو لوگ حملہ کرتے ہیں اور تعلیم و ہدایت اسلام پر معترض ہوتے ہیں وہ بالکل کور باطنی اور بے ایمانی سے بولتے ہیں.الحکم جلد ۳ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۸) خاتم النبیین کے بڑے معنے یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا.یہ تو موٹے اور ظاہر معنے ہیں.دوسرے یہ معنے ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہوگئی اس لئے الیوم أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ كا مصداق اسلام ہو گیا.غرض یہ نشانات نبوت ہیں ان کی کیفیت اور کنہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.اصول صاف اور روشن ہیں اور وہ ثابت شدہ صداقتیں کہلاتی ہیں.ان باتوں میں پڑنا مومن کو ضروری نہیں ایمان لانا ضروری ہے اگر کوئی مخالف اعتراض کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں.اگر وہ بند نہ ہو تو ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے اپنے جزئی مسائل کا ثبوت دے.الغرض مہر نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانِ نبوت میں سے ایک نشان ہے جس پر ایمان لانا ہر مسلمان مومن کو ضروری ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ا مورخه ۱۰ر جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۹،۸) ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المومنین ، خاتم العارفین اور خاتم النبیین ہے اور اسی طرح وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبین ہیں اور آپ پر

Page 408

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاحزاب نبوت ختم ہو گئی.تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کر دے.ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپ پر کمالات نبوت ختم ہو گئے.یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدم سے لے کر مسیح ابن مریم تک نبیوں کو دیئے گئے تھے.کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی.وہ سب کے سب آنحضرت صلعم میں جمع کر دیئے گئے اور اس طرح پر آپ طبعاً خاتم النبین ٹھیرے اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آکر ختم ہو گئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھیرا.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے ہم جس قوت یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ الن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے.وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے اور اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں وہ نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ؟ مگر ہم بصیرت تام سے ( جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلا یا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.دنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آکر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ اسے بدر کہا جاتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر کمالات نبوت ختم ہو گئے.جو یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبر دستی ختم ہوگئی اور آنحضرت کو یونس بن متی پر بھی ترجیح نہیں دینی چاہیے انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی ان کو نہیں ہے باوجود اس کمزوری فہم اور کمی علم کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں میں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اور ان پر کیا افسوس کروں اگر ان کی یہ حالت نہ ہو گئی ہوتی اور حقیقت اسلام سے بکلی دور نہ جا پڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی ؟ ان لوگوں کی ایمانی حالتیں بہت کمزور ہوگئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں

Page 409

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ ور نہ کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اہل حق سے عداوت کرتے جس کا نتیجہ کا فر بنا دیتا ہے.سورة الاحزاب الحکم جلد ۹ نمبر ۹ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس امت میں بڑی بڑی استعداد میں رکھ دی ہیں یہاں تک کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ بھی حدیث میں آیا ہے.اگر چہ محدثین کو اس پر جرح ہو مگر ہمارا نور قلب اس حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے.اور ہم بغیر چون و چرا اس کو تسلیم کرتے ہیں اور بذریعہ کشف بھی کسی نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا بلکہ اگر کی ہے تو تصدیق ہی کی ہے اس حدیث کے یہ معنے نہیں کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں جیسے ہیں لیکن علماء کے لفظ سے دھو کہ نہیں کھانا چاہیے یہ لوگ الفاظ پر اڑے ہوئے ہیں اور ان کے معنی کی تہ تک نہیں پہنچتے.یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قرآن شریف کی تفسیر میں آگے نہیں چلتے.عالم ربانی سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ صرف ونحو یا منطق میں بے مثل ہو.بلکہ عالم ربانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتار ہے اور اس کی زبان بیہودہ نہ چلے مگر آج یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ مردہ شو تک بھی اپنے آپ کو علماء کہلاتے ہیں اور اس لفظ کو ذات میں داخل کر لیا ہے اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لیا گیا ہے ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی گئی ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِ الْعُلَموا یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں.اب یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف وخشیت اور تقویٰ اللہ کی نہ پائے جاویں وہ ہرگز ہرگز اس طاب سے پکارے جانے کے قابل نہیں ہیں.اصل میں علماء عالم کی جمع ہے اور اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن کریم سے ملتا ہے یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے اور مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور وہ حق الیقین کا مقام اسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے لیکن جو شخص علوم حقہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلا میں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جوحقیقی غم سے ملتا ہے اس میں پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر ا خسارہ اور نقصان میں ہیں یہ اپنی آخرت دخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں انہیں کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى

Page 410

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة الاحزاب جو اس دنیا میں اندھا ہوتا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جاوے گا جس کو یہاں علم و بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی اسے وہاں کیا علم ملے گا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے جو یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا.لیکن جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتا ہے وہ وہ ہیں جن کو اس حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے سچے علوم کا منبع اور سر چشمہ قرآن اس امت کو دیا ہے جو شخص ان حقائق و معارف کو پالیتا ہے جو قرآن شریف میں بیان کئے گئے ہیں اور جو حقیقی تقویٰ اور خشیتہ اللہ سے حاصل ہوتے ہیں اسے وہ علم ملتا ہے جو اس کو انبیاء بنی اسرائیل کا مثیل بنادیتا ہے.(الکام جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵) چونکہ آپ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا تھا اس لئے آپ کے وجود میں حرکات وسکنات میں بھی اعجاز رکھ دیئے تھے آپ کی طرز زندگی کہ الف - ب تک نہیں پڑھا اور قرآن جیسی بے نظیر نعمت لائے اور ایسا عظیم الشان معجزہ امت کو دیا.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۰ صفحه ۴) ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے جو نبوت کے خاتم تھے اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوت کر دیا تھا.پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہر گز نہیں.ہاں جیسے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے اسی طرح آپ کے سلسلہ کا خاتم جو خاتم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا.پس میں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں.جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ شریعتِ موسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے میں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہر گز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۷ امور محد ۱۰ رمئی ۱۹۰۱ صفحہ ۳،۲) کمال نبی کا کمالِ امت کو چاہتا ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین تھے صلی اللہ علیہ وسلم.اس لئے آنحضرت پر کمالات نبوت ختم ہوئے.کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴/ جون ۱۹۰۱ صفحه ۱۱،۱۰)

Page 411

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۹ سورة الاحزاب لاکن اینجا برائے استدراک آمده است اس جگہ لیکن کا لفظ استدراک کے لئے آیا ہے.جب چوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیچ کس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے باپ نہیں تو وہی اعتراض کسی را پدر نیست پس ہماری اعتراض کہ ہر جو آپ کے دشمنوں پر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ تمہارا دشمن دشمناں کرده شده و گفته که انَّ شَانِئَكَ هُوَ ابتر رہے گا.یہ اعتراض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی الابتو بر آنحضرت هم لازم می آید گویا وارد ہوتا ہے گویا کہ اللہ تعالی اعتراض کرنے والے کی که خدا تعالی تصدیق معترض میکند برائے تصدیق کرتا ہے.اس وہم کے ازالہ کے لئے فرمایا ہے ازاله این و هم فرموده است وَلَكِن رَّسُولَ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کہ کوئی ابدال، قطب اور اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ یعنی هیچ ابدال و قطب ولی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بغیر نہیں ہوگا.دنیوی و اولیاء بجز ختم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکام کا یہی دستور ہے کہ اگر کسی کاغذ پر سرکاری مہر نہ ہو تو وہ نخواہد شد.حکام را ہمیں حالت است کہ اسے صحیح نہیں سمجھتے.جس شخص کو الہام اور مکالمہ الہی ہوتا ہے اگر بر کاغذ مهر سرکاری نشود صحیح نمی دانند هر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر سے ہوتا ہے اور ان معنی کی کسے راہ کہ الہام و مکالمہ البہی میشود از مهر رو سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے باپ ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم می شود و ازیں معنی غرض ایک معنی کے لحاظ سے نبوت کی نفی ہو جاتی ہے اور ایک رسول اللہ صلعم ہمہ را پدرست در یک معنی نفی معنی کے لحاظ سے نبوت کا اثبات ہو جاتا ہے اگر ہم کہیں کہ نبوت میشود و در یک معنی اثبات نبوۃ میشود سلسله افادات نبوی منقطع ہو گیا ہے اور اب کسی کو الہام اور اگر بگوئیم که سلسله افادات نبوی منقطع شدہ مکالمہ و مخاطبہ الہی نہیں ہوتا تو اسلام بالکل تباہ ہو جاتا ہے.واکنوں کسے راہ الہام و مکالمہ و مخاطبہ الہی نمی ہمارے سلسلہ کی یہ مثال ہے کہ اگر کوئی آئینہ میں اپنی صورت شود همه اسلام تباه میشود سلسله مارا ایں مثال دیکھتا ہے تو اسے آئینہ میں جو صورت نظر آتی ہے وہ کوئی ست که اگر کسے در آئینہ صورت می بیند آنچہ دوسری صورت نہیں ہوتی بلکہ وہی ہے جو آئینہ کے سامنے در شیشه نظر می آید چیزی دیگر نیست ہماں ہے.یہ لوگ اس آیہ کریمہ میں غور نہیں کرتے اور میں خوب است که پیش شیشه است این مردماں جانتا ہوں کہ یہ سب یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مکالمات الہیہ کا در میں آیت کریمه خور نمی کنند و من خوب می سلسلہ منقطع ہو گیا ہے.کلام کے معنے وحی کے ہیں.قرآن دانم کہ ایں ہمہ عقیدہ میدارند کہ سلسلہ کریم میں الہام کا ذکر نہیں آیا وحی کا ذکر آیا ہے اور الہام اور الكوثر : ۴

Page 412

۳۸۰ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکالمات الهیه منقطع شده است - کلام بمعنی وحی کا انقطاع ایک ہی معنے رکھتا ہے اور وہ یہ نہیں خیال.وحی است در قرآن هم ذکر الهام نیامدہ بلکہ ذکر کرتے کہ اگر یہ سلسلہ منقطع ہو جائے تو اسلام کی برکات وحی آمده و قطعیت الهام ووحی یک معنی دار دو نمی میں سے باقی کیا رہ جاتا ہے.پس اس کے وہی معنے ہیں جو پندارند که اگر این سلسله منقطع شود باقی از میں نے آئینہ اور ظل کی مثال میں بیان کئے ہیں کہ ظل برکات اسلام چه می ماند پس ہمیں معنی است اپنے اندر اصل کے تمام نقوش رکھتا ہے اور ظل نبوت ! که گفتم در مثال آئینہ و ظل کہ ظل ہمہ نقوش بھی اسی طرح ہے.البتہ وہ نبوت منقطع ہے جو بلا توسل اصل در خود دارد وظل نبوت ہمیں طور است رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور ہر شخص جو اس کا انکار البته آل نبوت منقطع است که بلا توسل وسلسلہ کرے وہ کا فر ہو جاتا ہے اور دین سے خارج ہو جاتا ہے رسول اللہ آید و ہر کسے کہ ازیں انکار می کند کافر اگر دین اس طرح مردہ ہو چکا ہے تو اس کے ذریعہ نجات کی میشود و از دین خارج میشود اگر دین بایں طور کس طرح توقع رکھی جاسکتی ہے.اگر انسان اس دنیا میں مرده است کدام توقع نجات باید داشت اگر تکمیل معرفت نہ کرے تو اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ انسان اندریں عالم تکمیل معرفت نکند چه دلیل آخرت کے روز یہ تکمیل کر لے گا بجز اس صورت کے جو ہم دارد که در روز آخر خواهد کرد بجز ایں صورت پیش کرتے ہیں کوئی اور صورت نہیں ہے.مَنْ كَانَ فِي که ما پیش میکنیم دیگر صورت نیست مَنْ كَانَ هَذِةٍ أَغْنى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى - قرآن کریم کے في هذة أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرق اعلی بہت سے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت خیر امت هَذِةٍ از بسیار مقامات قرآن معلوم میشود که این ہے.پس یہ امت خیر امت کیسے ہوئی کہ امت موسوی میں امت خیر امت است پس کدام خیرست که در تو الہام اور مکالمہ کا سلسلہ جاری تھا اور اس امت میں وہ امت موسوی الهام مکالمه وغیره میشدی و در جاری نہیں اور پھر ان کی مشابہت امت موسوی سے کیسے ایس امت نمی شود و کدام مشابہت ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم کے تکمیل کنندہ ایناں را بامت موسوی خواهد بود.آنحضرت ہیں یعنی اس عالم کا کمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہو گیا صلعم تحمیل کننده این عالم اند یعنی کمال این عالم اور ختم نبوت کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اور نبی اس وقت تک بر رسول الله صلعم ختم شده و ایں معنیٰ ختم نبوت نہیں ہو گا حتی کہ اس کی نبوت پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم است که کسے دیگر نبی نمی شود حتی کہ مہر رسول اللہ کی مہر نہ ہو.چنانچہ اس کی مثال ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل : ۷۳

Page 413

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة الاحزاب صلی اللہ علیہ وسلم بر نبوت اونشود چنانکه مثال آں کسی سرکاری پروانہ کی اس وقت تک تصدیق نہیں ہوتی در میں دنیا دیده بود که پیچ پروانہ سرکاری تصدیق جب تک کہ اس پر سر کاری مہر نہ ہو.پس مَا كَانَ مُحَمَّدٌ نمی شود حتی که مهر سر کاری بر او نبود پس از یں آیت کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسمانی ابوت معلوم میشود که الله تعالی بطور جسمانی نفی ابوت می کی نفی فرماتا ہے اور روحانی طور پر وہ آپ کی نبوت کو ر فرماید و بطور روحانی اثبات نبوت میکند بہر حال ثابت کرتا ہے.بہر حال اس بات پر ایمان لانا چاہیے ایمان باید آورد که برکات و افادات رسول اللہ کہ رسول کریم صلی اللہ علی وسلم کے برکات اور افادات صلی الله علیه وسلم جاری است اِن کُنتُم جاری ہیں اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِكُمُ الله دریں اللہ اس آیت میں محبت کے کیا معنی ہیں؟ اس کے یہ معنے کے ود آیت معنے محبت چیست ایں معنی ہر گز نیست کہ ہر گز نہیں ہیں کہ جس شخص سے خدا محبت کرے اس عالم خدا ہر کسے راہ کہ محبت میکند دریں عالم اور اکور میں وہ اسے اندھا رکھتا ہے.اگر ان دون ہمت لوگوں کو میدارد اگر این دوناں را عقل بودے عقل ہوتی تو وہ اس بات کو ضرور جان لیتے کہ انسان وہی میدانندے.انسان ہماں باشد که طالب مغز ہوتا ہے جو مغز کا طالب ہو نہ کہ پوست کا.تمام ابدال مغز شود نه که پوست همه ابدال طالب مغز شده اند کے طالب تھے اور ہمارا ایمان ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ ایمان ہمیں است که ایشان میخوابند کہ چشم آنها ان کی آنکھ بینا ہو نہ کہ اندھی.اہلِ اسلام کا مغضوب علیہم بینا شود نه که کور باعث مغضوب شدن اہل ہو جانا کیا ہے؟ یہی ہے کہ وہ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام چیست ہمیں که از زبان میگویند کہ ایمان ایمان لے آئے اور ان کے دل میں ایمان کا ذرہ بھی آوردیم در دل بیچ سے نیست و ہمیں معنی ایں نہیں اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ مَا قَدَرُوا اللهَ آیت است مَا قَدَرُوا الله حق قدرة ہمیں حق قدرة اور یہی نابینائی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے نابینائی که ذکر کردیم موجب فسق و فجور است و موجب فسق و فجور ہے اور اسی بینائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے برائے ہمیں بینائی خداوند تعالیٰ اس سلسلہ را قائم اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ بینائی کرده است که باز آن بینائی کہ رفته است پیدا جو معدوم ہو گئی تھی اسے دوبارہ پیدا کرے.خدا چاہتا شود خدا می خواهد کهہ ثابت کند کہ آں نبی صلی اللہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم زنده است و افادہ آں ہم زنده است اگر زندہ ہیں اور آپ کی قوتِ افاضہ بھی زندہ ہے.اگر یہ نہ ال عمران : ۳۲ ۲ الحج : ۷۵

Page 414

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ سورة الاحزاب این نبود کدام فرق در نصاری و اسلام است آں ہوتا تو نصرانیت اور اسلام میں کیا فرق رہ جاتا.وہ بھی مرده و این ہم مردہ.آں قصہ و حکایت است مردہ اور یہ بھی مردہ.وہ بھی قصہ کہانی اور یہ بھی قصہ ایں ہم قصہ و حکایت است اندر میں صورۃ فیصلہ کہانی.اس صورت میں فیصلہ کس طرح ہو.خدا تعالیٰ چگونه شود خدا تعالی اراده فرماید کہ آں برکات نے ارادہ فرمایا ہے کہ وہ برکات سماوی کو ظاہر کرے.اور تاویه نماید و اگر مردے مثل آں ( نبی صلی اللہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا آدمی نہیں آتا تو ان کے واً علیه وسلم) نمی آید چگونه بنماید ایں ہمہ کا ر خدا برکات کو کیسے دکھائے گا.یہ سب کام خدا کا ہے ہم سب است ما بندگانیم و هیچ امید فتح و شکست نداریم او اس کے بندے ہیں ہمیں فتح و شکست کی کوئی امید نہیں وہ مصلحتی کہ خوب جانتا ہے کہ کون شوریدہ سر ہے وہ اپنی مصلحت کی خوب میدانند که کدام شوریدہ است خواہد کرد.(البدر جلد نمبر ۶،۵ مورخه ۲۸ نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۳۷) خاطر جو چاہے گا کرے گا.(ترجمہ از مرتب) براہین میں ایسے الہامات موجود ہیں جن میں نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے چنانچہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ پالھدی اور جَرِقُ الله في محلل الأَنْبِيَاءِ وغیرہ.ان پر غور نہیں کرتے اور پھر افسوس یہ نہیں سمجھتے کہ ختم نبوت کی مہر مسیح اسرائیلی کے آنے سے ٹوٹتی ہے یا خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے.ختم نبوت کا انکار وہ لوگ کرتے ہیں جو مسیح اسرائیلی کو آسمان سے اتارتے ہیں اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں نہ نیا نبی نہ پرانا نبی بلکہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۲) یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرما یا انا اعطينك الكوثر (الكوثر (۲) اس وقت کی بات ہے کہ ایک کا فر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرما یا اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأبتر ( الكوثر (۴).تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا.روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور وہ آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے.اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِین کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولا د بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے اور

Page 415

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ سورة الاحزاب انا اعطينكَ الْكَوْثَرَ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.الحکم جلدے نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) یقیناً یا د رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین نہ کر لے.جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبین نہیں مانتا کچھ نہیں.سعدی نے کیا اچھا کہا ہے ؎ بزہد و ورع کوش و صدق و صفا ولیکن میفزائی بر مصطفی ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابد الآباد کے لئے خدا نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جو ان لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں.ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ.یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالی کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنالو.بغدادی نماز ، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہے.کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے اور ایسا ہی يَا شَيخ عَبْدَ الْقَادِرِ جَيْلَانيَ شَيْئًا لِلهِ " کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کا وجود بھی نہ تھا پھر یہ کس نے بتایا تھا.شرم کرو کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التزام اسی کا نام ہے؟ اب خود ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو مان کر اور ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہو کہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبیین کی مہر کو توڑا ہے؟ اصل اور سچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سچی نبوت پر ایمان لا کر آپ کے طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا امام بنا کر چلتے تو پھر میرے آنے ہی کی کیا ضرورت ہوتی.تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی خدا تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوتوں کے بت کو توڑ کر نیست و نابود کرے پس اس کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵)

Page 416

۳۸۴ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خاتم النبین کے معنے یہ ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت تصدیق نہیں ہو سکتی.جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہو جاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتا ہے.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ بیچ نہیں ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۷ ۳ مورخہ ۱۷ را کتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۹) یہ کہتے ہیں کہ خدا نے میرا نام نبی رکھا.یہ بالکل سچی بات ہے.ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چشمہ افادات مانتے ہیں.ایک چراغ اگر ایسا ہو جس سے کوئی دوسرا روشن نہ ہو وہ قابل تعریف نہیں ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ایسا نور مانتے ہیں کہ آپ سے دوسرے روشنی پاتے ہیں.یہ جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَم النيتين یہ بالکل درست ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کی جسمانی ابوت کی نفی کی لیکن آپ کی روحانی ابوت کا اس کیا ہے اگر یہ مانا جاوے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی تو پھر اس طرح پر معاذ اللہ یہ لوگ آپ کو ابتر ٹھیراتے ہیں مگر ایسا نہیں.آپ کی شان تو یہ ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلَّ لِرَتِكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ - اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کی آیت میں فرمایا ہے کہ جسمانی طور پر آپ آپ نہیں مگر روحانی سلسلہ آپ کا جاری ہے لیکن جبر مافات کے لئے آتا ہے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ خاتم ہیں آپ کی مہر نبوت کا سلسلہ چلتا ہے.ہم خود بخود نہیں بن گئے خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق جو بنا یا وہ بن گئے یہ اس کا فعل اور فضل ہے يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ خدا نے جو وعدے نبیوں سے کئے تھے ان کا ظہور ہوا ہے.براہین میں یہ الہام اس وقت سے درج ہے وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ - وَ كَان أمْرُ الله مَفْعُولًا.وغیرہ اس قسم کے بیسیوں الہام ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہوا تھا.اس میں ہمارا کچھ تصرف نہیں.کیا جس وقت اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ وعدے فرمائے ہم حاضر تھے.جس طرح خدا تعالیٰ مرسل بھیجتا ہے اسی طرح اس نے یہاں اپنے وعدہ کو پورا کیا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱،۱۰) ختم نبوت بھی ایک عجیب علمی سلسلہ ہے.اللہ تعالی ختم نبوت کو بھی قائم رکھتا ہے اور اسی کے استفاد سے ایک سلسلہ جاری کرتا ہے.یہ تو ایک علمی بات ہے مگر کجا یہ کہ اس سلسلہ کو الٹ پلٹ کر دوسرے نبی کو لایا جاوے حالانکہ خدا تعالیٰ کی حکمت اور ارادہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا نبی آوے قطع نظر اس کے کہ وہ شریعت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو.خواہ شریعت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی

Page 417

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة الاحزاب آپ کے سوا اور آپ کے استفادہ سے الگ ہو کر نہیں آسکتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶) جسمانی طور پر جس قدر ترقیات آج تک ہوئی ہیں کیا وہ پہلے زمانوں میں تھیں؟ اسی طرح روحانی ترقیات کا سلسلہ ہے کہ وہ ہوتے ہوتے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا.خاتم النبین کے یہی معنے ہیں.البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۳۰) ختم نبوت پر محی الدین ابن عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ ان کے نزدیک مکالمہ الہی اور نبوت میں کوئی فرق نہیں ہے.اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے.خود قرآن میں اللبنین جس پر ال پڑا ہے موجود ہے.اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے ہاں اگر کوئی شخص نئی شریعت کا دعوی کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام تو ایک مردہ مذہب ہوگا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا کیونکہ مکالمہ کے بعد اور کوئی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہو تو اسے نبی کہا جاوے نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہلِ اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی امت پر ہے اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة :۷،۶) کی دعا یک بڑا دھوکہ ہوگی.(البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴۲) ختم نبوت کے یہی معنے ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھے پر ختم ہو گئے اور آئندہ کے لئے کمالات نبوت کا باب بند ہو گیا کہ کوئی نبی مستقل طور پر نہ آئے گا.نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنے ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوئی کرنے والا جولوگ براہِ راست خدا سے مکالمہ کرتے اور اس سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہوگئی تھی.مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بند کر دیا ہے اور مہر لگادی ہے کہ کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بغیر نہیں ہو سکتا.جب تک آپ کی امت میں داخل نہ ہو اور آپ کے فیض سے مستفیض نہ ہو وہ خدا سے مکالمہ کا شرف نہیں پاسکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل نہ ہو.اگر کوئی ایسا ہے کہ وہ بدوں اس امت میں داخل ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے کے بغیر کوئی شرف مکالمہ الہی حاصل کر سکتا ہے تو اسے میرے

Page 418

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سامنے پیش کرو.۳۸۶ سورة الاحزاب یہی ایک آیت زبردست دلیل ہے اس امر پر جو ہم کہتے کہ حضرت عیسی دوبارہ نہیں آویں گے بلکہ آنے والا اس امت میں سے ہوگا.کیونکہ وہ نبی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبوت کا فیضان حاصل کر سکتا ہی نہیں جب تک وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ نہ کرے جو صاف لفظوں وہ اللہ نہ میں یہ ہے کہ آپ کی امت میں داخل نہ ہو.اب خاتم النبین والی آیت تو صریح روکتی ہے پھر وہ کس طرح آسکتے ہیں.یا ان کو نبوت سے معزول کرو اور ان کی یہ ہتک اور بے عزتی روا رکھو اور یا یہ کہ پھر ماننا پڑے گا کہ آنے والاسی امت میں سے ہوگا.نبی کی اصطلاح مستقل نبی پر بولی جاتی ہے مگر اب خاتم النبیین کے بعد یہ مستقل نبوت رہی ہی نہیں.اسی لئے کیا ہے.خارقے کز ولی مسموع است معجزه آں نبی متبوع است اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کو کھو دیں.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے البتہ یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی امت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہوسکتا تھا لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جاوے گا کیونکہ آپ پہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہو گئے اور حضرت سیح آپ سے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے.غرض اس عقیدہ کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کفر ہے.احکام جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴،۳) وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن کے معنے ہی ان کے نزدیک یہی ہیں کہ الہام کا دروازہ آپ کے بعد ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا اور آپ کے بعد آپ کی امت سے یہ برکت کہ کسی کو مکالمات اور مخاطبات ہوں بالکل اُٹھ گئی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صدی اس امر کی منتظر ہوتی ہے کہ اس امت میں سے چند افراد یا

Page 419

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ سورة الاحزاب کوئی ایک فردضرور خدا کی ہمکلامی سے مشرف ہوں گے.اسلام پر سے گرد و غبار کو دور کر کے پھر اسلام کے روشن چہرے کو چمکا کر دکھایا کریں.ان لوگوں سے اگر پوچھا جاوے کہ تمہارے پاس سچائی کی دلیل ہی کون سی ہے؟ کوئی معجزات یا خارق عادت تمہارے پاس نہیں تو دوسروں کا حوالہ دیں گے خود خالی اور محروم ہیں.صحابہ آنحضرت کے پاس رہ کر اور آپ کی صحبت کی برکت سے آنحضرت کے ہی رنگ میں رنگین ہو گئے تھے اور ان کے ایمانوں کے واسطے آنحضرت کی پیشگوئیاں اور معجزات کثرت سے دیکھنے اور ہر وقت مشاہدہ کرنے سے ان کے ایمانوں کا تزکیہ اور تربیت ہوتی گئی اور آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ کمال تمام تک پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہو گئے مگر ان لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے واسطے اگر ان سے پوچھا جاوے تو کیا ہے؟ تیرہ سو برس کا حوالہ دیں گے کہ اس وقت یہ معجزات اور خارق عادت ظاہر ہوا کرتے تھے.پیشگوئیاں بھی تھیں مگر اب کچھ بھی نہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۵) نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرت کے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے گی ہی نہیں اور نہ اس کو شرف مکالمات اور مخاطبات ہوگا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت کی مہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی.اس امت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرت جیسے عالیجناب اولو العزم صاحب شریعت کمال آنے والے تھے اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھا گیا مگر آنحضرت کے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرت کی اجازت کے بند ہو چکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا - مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَم اللہن اس آیت میں اللہ تعالی نے جسمانی طور سے آپ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے کہ روحانی طور سے آپ باپ بھی ہیں اور روحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپ میں سے ہو کر جاری ہوگا نہ الگ طور سے.وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مہر ہوگی.ورنہ اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ جو کہا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (ال عمران : 1) یہ جھوٹ تھا نعوذ باللہ.اگر یہ معنے کئے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر

Page 420

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة الاحزاب خیر الامتہ کی بجائے شمر الامم ہوئی یہ امت.جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ تو كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الانعام: ۱۸۰) ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیے نہ یہ کہ خیر الامم.اور پھر سورۃ فاتحہ کی دعا بھی لغو جاتی ہے.اس میں جو لکھا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة : ۷۰٦) تو سمجھنا چاہیے کہ ان پہلوں کے پلاؤ زردے مانگنے کی دعا سکھائی ہے! اور ان کی جسمانی لذات اور انعامات کے مورث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں.اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ بھی کیا گیا جس سے اسلام کا علو ثابت ہووے.اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آنحضرت کی قوت قدی کچھ بھی نہ تھی اور آپ حضرت موسیٰ سے مرتبہ میں گرے ہوئے تھے کہ ان کے بعد تو ان کی امت میں سے سینکڑوں نبی آئے مگر آپ کی امت سے خدا تعالیٰ کو نفرت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ مکالمہ بھی نہ کیا کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے آخر اس سے کلام تو کیا ہی جاتا ہے.نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ میں سے ہو کر اور آپ کی مہر سے.اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے کہ ہزاروں اس امت سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص ان میں موجود ہوتے رہے ہیں.سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے چنانچہ حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب کو ہی دیکھ لو ورنہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةِ أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى ( بني اسرائيل : ۷۳) اگر خدا نے خود ہی اس امت کو ائمی بنایا تھا تو عجب ہے خود ہی اسے اٹلی بنایا اور خود ہی امی کے واسطے زجر اور تو شیخ ہے کہ آخرت میں بھی اعلی ہوگی.اس امت بیچاری کے کیا اختیار.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک شخص کسی کو کہے کہ اگر تو اس مکان سے گر جاوے گا تو تجھے قید کر دیا جاوے گا مگر پھر خود ہی اسے دھکا دے دے.گویا نبوت کا سلسلہ بند کر کے فرمایا کہ تجھے مکالمات اور مخاطبات سے بے بہرہ کیا گیا اور تو بہائم کی طرح زندگی بسر کرنے کے واسطے بنائی گئی اور دوسری طرف کہتا ہے کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ آغلی.اب بتاؤ کہ اس تناقض کا کیا جواب ہے؟ ایک طرف تو کہا کہ خیر امت اور دوسری جگہ کہہ دیا کہ تو ائمی ہے.آخرت میں بھی اٹھی ہوگی نعوذ باللہ.کیسے غلط عقیدے بنائے گئے ہیں.اور اگر کوئی باہر سے اس کی اصلاح کے واسطے آگیا تو بھی مشکل.اس امت کے نبی کی ہتک شان اور قوم کی بھی ناک کٹی ہوئی کہ اس میں گویا کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اصلاح کرنے کے قابل ہو سکے اور کسی کو یہ

Page 421

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة الاحزاب شرف مکالمہ عطا نہیں کیا جاسکتا اور اس پر بس نہیں بلکہ آنحضرت پر اعتراض آتا ہے کہ ایسے بڑے نبی ہو کر ان کی امت ایسی کمزور اور گئی گزری ہے.ایسا نہیں.بلکہ بات یوں ہے کہ آنحضرت کے بعد بھی آپ کی امت میں نبوت ہے اور نبی ہیں مگر لفظ نبی کا بوجہ عظمت نبوت استعمال نہیں کیا جاتا لیکن برکات اور فیوض الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱/۱۷ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸) موجود ہیں.اگر غور سے دیکھا جاوے تو ہمارے نبی کریم کو آپ کے بعد کسی دوسرے کے نبی نہ کہلانے سے شوکت ہے اور حضرت موسیٰ کے بعد اور لوگوں کے بھی نبی کہلانے سے ان کی کسر شان.کیونکہ حضرت موسیٰ بھی ایک نبی تھے اور ان کے بعد ہزاروں اور نبی بھی آئے تو ان کی نبوت کی خصوصیت اور عظمت کوئی نہیں ثابت ہوتی برعکس اس کے آنحضرت کی ایک عظمت اور آپ کی نبوت کے لفظ کا پاس اور ادب کیا گیا ہے کہ آپ کے بعد کسی دوسرے کو اس نام سے کسی طرح بھی شریک نہ کیا گیا.اگر چہ آنحضرت کی امت میں بھی ہزاروں بزرگ نبوت کے نور سے منور تھے اور ہزاروں کو انوار نبوت کا حصہ عطا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے مگر چونکہ آنحضرت کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا تھا اس لئے خدا نے نہ چاہا کہ کسی دوسرے کو بھی یہ نام دے کر آپ کی کسر شان کی جاوے.آنحضرت کی امت میں سے ہزار ہا انسانوں کو نبوت کا درجہ ملا اور نبوت کے آثار اور برکات ان کے اندر موجزن تھے مگر نبی کا نام اُن پر صرف شانِ نبوت آنحضرت اور سدِ باب نبوت کی خاطر ان کو اس نام سے ظاہر ملقب نہ کیا گیا مگر دوسری طرف چونکہ آنحضرت کے فیوض اور روحانی برکات کا دروازہ بند بھی نہ کیا گیا تھا اور نبوت کے انوار جاری بھی تھے جیسا کہ ولکن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ سے نکلتا ہے کہ آنحضرت کی مہر اور اذن سے اور آپ کے نور سے نور نبوت جاری بھی ہے اور یہ سلسلہ بند بھی نہیں ہوا.یہ بھی ضروری تھا کہ اسے ظاہراً بھی شائع کیا جاوے.........اور اس طرح سے دونوں امور کا لحاظ نہایت حکمت اور کمال لطافت سے رکھ لیا گیا.ادھر یہ کہ آنحضرت کی کسر شان بھی نہ ہو اور ادھر موسوی سلسلہ سے مماثلت بھی پوری ہو جاوے.تیرہ سو برس تک نبوت کے لفظ کا اطلاق تو آپ کی نبوت کی عظمت کے پاس سے نہ کیا اور اس کے بعد اب مدت دراز کے گزرنے سے لوگوں کے چونکہ اعتقاد اس امر پر پختہ ہو گئے تھے کہ آنحضرت ہی خاتم الانبیاء ہیں اور اب اگر کسی دوسرے کا نام نبی رکھا جاوے تو اس سے آنحضرت کی شان میں کوئی فرق بھی نہیں آتا اس واسطے اب نبوت کا لفظ مسیح کے لئے ظاہراً بھی بول دیا.یہ ٹھیک اسی طرح سے ہے جیسے آپ نے پہلے فرمایا تھا کہ قبروں کی زیارت نہ کیا کرو اور پھر فرما دیا کہ اچھا اب

Page 422

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة الاحزاب کر لیا کرو.پہلے منع کرنا بھی حکمت رکھتا تھا کہ لوگوں کے خیالات ابھی تازہ تازہ بت پرستی سے ہٹے تھے تاوہ پھر اسی عادت کی طرف عود نہ کریں.پھر جب دیکھا کہ اب ان کے ایمان کمال کو پہنچ گئے ہیں اور کسی قسم کے شرک و بدعت کو ان کے ایمان میں راہ نہیں تو اجازت دے دی.بالکل اسی طرح یہ امر ہے.پہلے تیرہ سو برس اس عظمت کے واسطے نبوت کا لفظ نہ بولا اگر چہ مفتی رنگ میں صفتِ نبوت اور انوار نبوت موجود تھے اور حق تھا کہ ان لوگوں کو نبی کہا جاوے مگر خاتم الانبیاء کی نبوت کی عظمت کے پاس کی وجہ سے وہ نام نہ دیا گیا.مگر اب وہ خوف نہ رہا تو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے نبی اللہ کا لفظ فرمایا.آپ کے جانشینوں اور آپ کی امت کے خادموں پر صاف صاف نبی اللہ بولنے کے واسطے دو امور مدنظر رکھنے ضروری تھے اول عظمت آنحضرت اور دوم عظمت اسلام.سو آنحضرت کی عظمت کے پاس کی وجہ سے ان لوگوں پر ۱۳۰۰ برس تک نبی کا لفظ نہ بولا گیا تا کہ آپ کی ختم نبوت کی ہتک نہ ہو کیونکہ اگر آپ کے بعد ہی آپ کی امت کے خلیفوں اور صلحاء لوگوں پر نبی کا لفظ بولا جانے لگتا جیسے حضرت موسی کے بعد لوگوں پر بولا جاتا رہا تو اس میں آپ کی ختم نبوت کی ہتک تھی اور کوئی عظمت نہ تھی.سوخدا نے ایسا کیا کہ اپنی حکمت اور لطف سے آپ کے بعد ۱۳۰۰ برس تک اس لفظ کو آپ کی امت پر سے اٹھا دیا تا آپ کی نبوت کی عظمت کا حق ادا ہو جاوے اور پھر چونکہ اسلام کی عظمت چاہتی تھی کہ اس میں بھی بعض ایسے افراد ہوں جن پر آنحضرت کے بعد لفظ نبی اللہ بولا جاوے اور تا پہلے سلسلہ سے اس کی مماثلت پوری ہو.آخری زمانہ میں مسیح موعود کے واسطے آپ کی زبان سے نبی اللہ کا لفظ نکلوا دیا اور اس طرح پر نہایت حکمت اور بلاغت سے دو متضاد باتوں کو پورا کیا اور موسوی سلسلہ کی مماثلت بھی قائم رکھی اور عظمت اور نبوت آنحضرت کبھی قائم رکھی.خاتم ا الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۷ امرا پریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۹) ۱۷ النبین کی آیت بتلا رہی ہے کہ جسمانی نسل کا انقطاع ہے نہ کہ روحانی نسل کا.اس لئے جس ذریعہ - وہ نبوت کی نفی کرتے ہیں اسی سے نبوت کا اثبات ثابت ہے.آنحضرت کی چونکہ کمال عظمت خدا تعالیٰ کو منظور تھی اس لئے لکھ دیا کہ آئندہ نبوت آپ کی اتباع کی مہر سے ہوگی اور اگر یہ معنے ہوں کہ نبوت ختم ہے تو اس سے خدا تعالیٰ کے فیضان کے بخل کی بو آتی ہے ہاں یہ معنے ہیں ہر ایک قسم کا کمال آنحضرت پر ختم ہوا اور پھر آئندہ آپ کی مہر سے وہ کمال آپ کی امت کو ملا کریں گے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹۹) اس امت میں سابقہ مجددین اور مامورین کا نبی نہ پکارا جانا آنحضرت کی شان اور عظمت کو ثابت کرتا ہے

Page 423

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة الاحزاب جس کا فخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سے موسی کو ہر گز نہیں ہے کیونکہ جب موسیٰ کے بعد نبی کہلانے والے بار بار آئے اور صد ہا ہزار ہا آئے تو اس سے موسیٰ کی کسر شان ہوئی کہ جو خطاب ان کا تھا وہی اوروں کو کثرت سے ملا.موسی کے بارے میں خاتم النبیین کا لفظ استعمال نہیں ہوا مگر آنحضرت کے حق میں ہوا ہے اس لئے خدا نے اس امت میں یوں کیا کہ بہت سے ایسے پیدا کئے جن کو شرف مکالمہ تو دیا مگر آنحضرت کی شان اور عظمت کے لحاظ سے لفظ نبی کا ان کے حق میں نہ رکھا لیکن اگر اس امت میں کوئی بھی نبی نہ پکارا جاتا تو مماثلت موسوی کا پہلو بہت ناقص ٹھہرتا اور من وجہ امتِ موسوی کو ایک فضیلت ہو جاتی اس لئے یہ خطاب آنحضرت نے خود اپنی زبان مبارک سے ایک شخص کو دے دیا جس نے مسیح ابن مریم ہو کر دنیا میں آنا تھا کیونکہ اس جگہ دو پہلو مد نظر تھے ایک ختم نبوت کا ، اسے اس طرح نبھایا کہ جو نبی کے لفظ کی کثرت موسوی سلسلہ میں تھی اسے اڑا دیا.دوسری مشابہت اسے اس طرح سے پورا کیا کہ ایک کو نبی کا خطاب دے دیا.تکمیل مشابہت کے لئے اس لفظ کا ہونا ضروری تھا سو پورا ہو گیا اور جو مصلحت یہاں مد نظر تھی وہ موسوی سلسلہ میں نہیں تھی کیونکہ موسیٰ خاتم نبوت نہیں تھے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰۲) نبوت کے معنے مکالمہ کے ہیں جو غیب کی خبر دیوے وہ نبی ہے.اگر آئندہ نبوت کو باطل قرار دو گے تو پھر یہ امت خیر امت نہ رہے گی بلکہ کالانعام ہوگی.البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۷ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹۹) خدا جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے بلا مکالمہ نہیں رہتا.آنحضرت کی اتباع سے جب انسان کو خدا پیار کرنے لگتا ہے تو اس سے کلام کرتا ہے، غیب کی خبریں اس پر ظاہر کرتا ہے.اسی کا نام نبوت ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۳) نبوت کا لفظ ہمارے الہامات میں دو شرطیں رکھتا ہے اول یہ اس کے ساتھ شریعت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ بواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) ہم اگر نبی کا لفظ اپنے لئے استعمال کرتے ہیں تو ہم ہمیشہ وہ مفہوم لیتے ہیں جو کہ ختم نبوت کا حل نہیں ہے اور جب اس کی نفی کرتے ہیں تو وہ معنے مراد ہوتے ہیں جو ختم نبوت کے محل ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۷) معرفت تام انبیا ؤں کو سوائے وحی کے حاصل نہیں ہو سکتی.جس غرض کے لئے انسان اسلام قبول کرتا ہے اس کا مغز یہی ہے کہ اس کی اتباع سے وحی ملے.اور پھر اگر وحی منقطع ہوئی مانی بھی جاوے تو

Page 424

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع ہوئی نہ اس کے اظلال و آثار بھی منقطع ہوئے.سورة الاحزاب البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ رستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۵۸) خوب یا درکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت، نئی کتاب نہ آئے گی.نئے احکام نہ آئیں گے.یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے.جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے بلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں.احکام جلد ۸ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے یہاں تک کہ آپ پر سلسلہ نبوت اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۵) کہتے ہیں کہ یہ دروازہ مکالمات و مخاطبات کا اس وجہ سے بند ہو گیا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ اللَّمین یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبین ہیں اس لئے آپ کے بعد یہ فیض اور فضل بند ہو گیا مگران کی عقل اور علم پر افسوس آتا ہے کہ یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر ختم نبوت کے ساتھ ہی اگر معرفت اور بصیرت کے دروازے بھی بند ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( معاذ اللہ ) خاتم النبین تو کجا نبی بھی ثابت نہ ہوں گے کیونکہ نبی کی آمد اور بعثت تو اس غرض کے لئے ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ پر ایک یقین اور بصیرت پیدا ہواور ایسا ایمان ہو جو لذیذ ہو.اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور اس کی قدرتوں اور صفات کی تجلی کو انسان مشاہدہ کرے.اور اس کا ذریعہ بھی مکالمات و مخاطبات اور خوارق عادات ہیں لیکن جب یہ دروازہ ہی بند ہو گیا تو پھر اس بعثت سے فائدہ کیا ہوا ؟ میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرگز ہر گز قدر نہیں کی اور آپ کی شان عالی کو بالکل نہیں سمجھا اور نہ اس قسم کے بیہودہ خیالات یہ نہ تراشتے.اس آیت کے اگر یہ معنے

Page 425

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۳ سورة الاحزاب جو یہ پیش کرتے ہیں تسلیم کر لئے جاویں تو پھر گویا آپ کو نعوذ باللہ ابتر ماننا ہوگا کیونکہ جسمانی اولاد کی نفی تو قرآن شریف کرتا ہے اور روحانی کی ینفی کرتے ہیں تو پھر باقی کیا رہا؟ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کمال اور آپ کی قوت قدسیہ کا زبردست اثر بیان کرتا ہے کہ آپ کی روحانی اولاد اور روحانی تاثیرات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا.آئندہ اگر کوئی فیض اور برکت کسی کو مل سکتی ہے تو اسی وقت اور حالت میں مل سکتی ہے جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع میں کھویا جاوے اور فنافی الرسول کا درجہ حاصل کر لے بدوں اس کے نہیں.اور اگر اس کے سوا کوئی شخص ادعائے نبوت کرے تو وہ کذاب ہوگا.اس لئے نبوت مستقلہ کا دروازہ بند ہو گیا اور کوئی ایسا نبی جو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ورزش شریعت اور فنافی الرسول ہونے کے مستقل نبی صاحب شریعت ہو نہیں آسکتا.ہاں فنافی الرسول اور آپ کے امتی اور کامل متبعین کے لئے یہ دروازہ بند نہیں کیا گیا اس لئے براہین میں یہ الہام درج ہے كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ یعنی یہ مخاطبات اور مکالمات کا شرف جو مجھے دیا گیا ہے یہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا طفیل ہے اور اسی لئے یہ آپ ہی سے ظہور میں آرہے ہیں.جس قدر تا خیرات اور برکات وانوار ہیں وہ آپ ہی کے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۶) کہتے ہیں کہ دعوی نبوت ہے میں کہتا ہوں یہ تو نری لفظی نزاع ہے.نبی تو خبر دینے والے کو کہتے ہیں.اب جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مخاطبات اور مکالمات ہوتے ہوں اس کا کیا نام رکھا جاوے گا اور یہ نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی طفیل اور اتباع کا نتیجہ ہے میں اس کو کفر اور لعنت سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص یہ اور کہے کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ کئے بغیر کوئی شخص نبوت کے چشمہ سے حصہ لیتا ہے اور مستقل نبوت کا مدعی ہے.اقام جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) یہ ایک مسلم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علت غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب کل مطالب بیان ہو جاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختم نبوت کے معنے ہیں کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آکر اس کا خاتمہ ہو گیا.ریکٹ نمبر ا حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدۃ الوجود پر ایک خطا صفحہ ۱۸،۱۷) ( خاتم النبین.ناقل ) کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت نہیں

Page 426

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة الاحزاب آوے گا اور یہ کہ کوئی ایسا نبی آپ کے بعد نہیں آسکتا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو.رئیس المتصوفین حضرت ابن عربی کہتے ہیں کہ نبوت کا بند ہو جانا اور اسلام کا مرجانا ایک ہی بات ہے.دیکھو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تو عورتوں کو بھی الہام ہوتا تھا چنانچہ خود حضرت موسیٰ کی ماں سے بھی خدا نے کلام کیا ہے.وہ دین ہی کیا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اس کے برکات اور فیوض آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں.اگر اب بھی خدا اسی طرح سنتا ہے جس طرح پہلے زمانہ میں سنتا تھا اور اسی طرح سے دیکھتا ہے جس طرح پہلے دیکھتا تھا تو کیا وجہ ہے کہ جب پہلے زمانہ میں سننے اور دیکھنے کی طرح صفت تکلم بھی موجود تھی تو اب کیوں مفقود ہو گئی.اگر ایسا ہی ہے تو کیا اندیشہ نہیں کہ کسی وقت خدا کی صفت سننے اور دیکھنے کی بھی معزول ہو جاوے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا اخفاء نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے اور خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے.اسی کا نام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں.نباء ایک عربی لفظ ہے جس کے معنے ہیں خبر کے.اب جو شخص کوئی خبر خدا سے یا کر خلق پر ظاہر کرے گا اس کو عربی میں نبی کہیں گے.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا یہ تو نزاع لفظی ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے.دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول کہ قُولُوا انَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّنَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِى بعدة اس امر کی صراحت کرتا ہے.نبوت اگر اسلام میں موقوف ہو چکی ہے.تو یقیناً جانو کہ اسلام بھی مر گیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے.انتقام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۲) هُوَ الَّذِى يُصَلَّى عَلَيْكُمْ وَمَلبِكَتُه لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا خدا اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا خدا ان کو ظلمت سے نور کی طرف نکالے.برا تین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۶۹) وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۱ حاشیه ) بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.

Page 427

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة الاحزاب وَهُوَ فَيْضُ صِفَةِ الرَّحِيمِيَّةِ وَلَا يَنْزِلُ فيضِ رحیمیت اسی شخص پر نازل ہوتا ہے جو فیوض هَذَا الْفَيْضُ إِلَّا عَلَى النَّفْسِ الَّتى سَخى مترقبہ کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے اس لئے یہ ان سَعْيَهَا لِكَسْبِ الْفُيُوضِ الْمُتَرَقِّبَةِ لوگوں سے خاص ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے وَلِذَالِكَ يَختَصُّ بِالَّذِينَ آمَنُوا وَ أَطَاعُوا اپنے رب کریم کی اطاعت کی جیسے اللہ تعالیٰ کے اس ربا كَرِيمًا كَمَا صُرِحَ في قَوْلِهِ تَعَالَى كَانَ قول وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيْماً میں تصریح کی گئی بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (اعجاز المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۳۶، ۱۳۷) ہے.(ترجمہ از مرتب) وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيران انبیاء جمله سلسله متفاوته فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویاوہ نور مجسم ہو گئے ہیں اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَ كِتب مُبِينٌ ( المائدة : ١٢) وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۹۶ حاشیه ) وَ كَذَالِكَ لَفظ الْمَنَارِةِ الَّتِي جَاءَ في حدیث میں جو لفظ منارہ آیا ہے اس سے نور کی جگہ مراد الْحَدِيثِ فَإِنَّهُ يَعْنِی بِهِ مَوْضَعَ نُورٍ وَ قَدْ ہے اور کبھی اس کا اطلاق اس نشانِ راہ پر ہوتا ہے جس سے يُطلَقُ عَلى عِلْمٍ تَهْتَدِی به فهذه راہنمائی حاصل کی جاتی ہے.پس یہ اس بات کی طرف اشارہ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ الْمَسِيحَ الْأَتِي يُعْرَفُ ہے کہ آنے والا صحیح اپنے دعوی سے پہلے ظاہر ہونے والے بِأَنْوَارٍ تَسْبِقُ دَعْوَاهُ فَهِيَ تَكُونُ لَه انوار کی وجہ سے پہچانا جائے گا اور وہ اس کے لئے ایسی كَعِلْمٍ بِهِ يَهْتَدُونَ.وَ نَظِيرُهُ فِي الْقُرْآنِ علامات کی مانند ہوں گے جس کے ذریعہ لوگ ہدایت پائیں قَوْله تَعَالَى وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِاِذْنِهِ وَ گے اور اس کی نظیر قرآن مجید میں موجود ہے جیسے فرما یا و داعياً إلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيرا ( ترجمه از مرتب ) سِرَاجًا منيرا ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۵۸،۴۵۷)

Page 428

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة الاحزاب وہ خدا کی طرف بلانے والا ہے اور وہ ایک روشن چراغ ہے جو اپنی ذات میں روشن اور دوسروں کو روشنی تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۲) پہنچاتا ہے.وہ خدا کی طرف بلاتا تھا اور شرک سے دور کرتا تھا اور وہ ایک چراغ تھا زمین پر روشنی پھیلانے والا.( نزول امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۰۲) ایک گاؤں میں نوا گھر تھے اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا تب جب لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے اور سب نے اس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے.اسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہو سکتی ہے.اسی طرف اللہ تعالی اشارہ کر کے فرماتا ہے وَدَاعِيَا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا - (براہین احمدیہ حصہ باشیم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۵) خدا کی طرف سے روحانی اصلاح کے لئے مقرر ہونے والے لوگ چراغ کی طرح ہوتے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں آپ کا نام دَاعِيًا إِلَى اللهِ وَسِرَاجًا منيرا آیا ہے دیکھو کسی اندھیرے مکان میں جہاں سو پچاس آدمی ہوں اگر ان میں سے ایک کے پاس چراغ روشن ہو تو سب کو اس کی طرف رغبت ہوگی اور چراغ ظلمت کو پاش پاش کر کے اجالا اور نور کر دے گا.اس جگہ آپ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اور باریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی نقص بھی نہیں آتا.چاند سورج میں یہ بات نہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہو گا.غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اور معرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تاثیر اور اس کی توجہ میں جذب اور اس کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں مگر وہ انہی کو جذب کرتے ہیں اور انہی پر ان کی تاثیرات اثر کرتی ہیں جو اس انتخاب کے لائق ہوتے ہیں دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سراجا مبرا ہے مگر ابو جہل نے کہاں قبول کیا ؟ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۱) وَ لَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ اَذْهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۖ وَكَفَى بِاللهِ وكيلات گفی الله وكيلا....یعنی خدا اپنے کاموں کا آپ ہی وکیل ہے کسی دوسرے کو پوچھ پوچھ کر احکام

Page 429

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جاری نہیں کرتا.۳۹۷ سورة الاحزاب ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۸) إنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تسليما (۵۷) خدا اور اس کے سارے فرشے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.اے ایماندار و تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو.( براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۷۱ حاشیہ نمبر ۱۱) اللہ اور تمام فرشتے اس کے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.اے وے لوگو جو ایماندار ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۷) دُنیا میں کروڑ یا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - إِنَّ اللهَ وَ مليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيما ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسی علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا

Page 430

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہا ہے.۳۹۸ سورة الاحزاب محمد عربی بادشاہ ہر دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں یہ کہتا ہوں کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۲،۳۰۱) ہمارے سید و مولی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفاد یکھئے آپ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی.یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرما یا إِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النبي ط يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ترجمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو تم درود و سلام بھیجو نبی پر.اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تومل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی روح میں وہ صدق وصفا تھا اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۱،۵۰) اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم آیا اور بت پرستوں سے اس نے نجات دی.یہی وہ راز ہے کہ یہ درجہ صرف صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان احسانوں کے معاوضہ میں ملا کہ ان الله ومليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا تو انسان وجد میں آکر اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ کہہ اُٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لئے مخصوصاً فرمایا گیا إِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيماً کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں

Page 431

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة الاحزاب آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلا یا صلی اللہ علیہ وسلم.الحام جلد ۵ نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں اول إِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي (ال عمران : ۳۲) دوم يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما - تیسرا موهبت الہی.ٹریکٹ نمبر البعنوان حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدۃ الوجود پر ایک خط صفحه ۲۲) لين لم يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا مَّلْعُونِينَ أَيْنَمَا تُقِفُوا أخِذُوا وَ قُتِلُوا تَقتِيلا جیسے روشنی میں سیہ دل چور نہیں ٹھہر سکتا ایسے ہی اس مقام میں جو تجلیات و انوار الہی کا مرکز ہو کوئی سید دل خائن بہت مدت نہیں ٹھہر سکتا اسی لئے فرمایا قرآن مجید میں لا يُجاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ( نہ پڑوس میں رہیں گے تیرے مگر چند دن ) ( بدر جلد 4 نمبر ۱۷ مورخه ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ صفحه ۸) ۶ یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیا ہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اس پر ملعون کا لفظ بولا گیا ہو.وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں یہی اشارہ ہے مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا تُقِفُوا أَخِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلًا یعنی زنا کار اور زنا کاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ لعنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رد کئے گئے اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پا و قتل کر دو.پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ مفتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم ہوتا ہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکاری کا جوش غالب رہتا ہے اور اسی بنا پر قتل کرنے کا حکم ہوا کیونکہ جو قابلِ علاج نہیں اور مرض متعدی رکھتا ہے اس کا مرنا بہتر ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۳۸،۲۳۷) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ اذَا مُوسَى فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ

Page 432

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عِنْدَ اللهِ وَجِيها سورة الاحزاب خدا نے اس کو ان الزامات سے بری کیا جو اس پر لگائے گئے تھے اور خدا کے نزدیک وہ وجیہ ہے.(برائین احمد یه چهار تص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًان زبان کو صدق وصواب پر قائم رکھنے کے لئے تاکید فرمائی اور کہا قُولُوا قَوْلاً سَدِيد ا یعنی وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہوا اور اغوا اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سر مودخل نہ ہو.برائین احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۰،۲۰۹ حاشیه ) اے دے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو کچی اور راست اور حق اور حکمت پر مبنی ہوں.لغو باتیں مت کیا کر محل اور موقع کی بات کیا کرو.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) جب بات کرو تو حکمت اور معقولیت سے کرو اور لغو گوئی سے بچو.لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۷) إنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّبُوتِ وَ الْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَابَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا لِيُعَذِّبَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَ الْمُشْرِكِينَ وَ الْمُشْرِكَتِ وَ يَتُوبَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ، وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا إنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.....إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولا یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس سے مراد عشق و محبت الہی اور مور د ابتلا ہو کر پھر یوری اطاعت کرنا ہے.آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظا ہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو ان سب چیزوں نے اس امانت کے بظاہر سوال اسوان اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھا لیا کیونکہ انسان میں یہ دو

Page 433

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة الاحزاب خوبیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے.توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۶،۷۵) ظلومیت...ایک نہایت قابل تعریف جو ہر انسان میں ہے جو فرشتوں کو بھی نہیں دیا گیا اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولا یعنی انسان میں ظلومیت اور جہولیت کی صفت تھی اس لئے اس نے اس امانت کو اُٹھا لیا جس کو وہی شخص اٹھا سکتا ہے جس میں اپنے نفس کی مخالفت اور اپنے نفس پر سختی کرنے کی صفت ہو.غرض یہ صفت ظلومیت انسان کے مراتب سلوک کا ایک مرکب اور اس کے مقامات قرب کے لئے ایک عظیم الشان ذریعہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو بوجہ مجاہدات شاقہ کے اوائل حال میں نار جہنم کی شکل پر تجلی کرتا ہے لیکن آخر نعماء جنت تک پہنچادیتا ہے اور در حقیقت قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے وَ اِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيَّا ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ نَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا جنيًّا ( مريم : ۷۳ ) یہ بھی در حقیقت صفت محمودہ ظلومیت کی طرف ہی ٧٣ اشارہ کرتی ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۲، ۱۴۳) ظلومیت کی صفت جو مومن میں ہے یہی اس کو خدا تعالی کا پیارا بنا دیتی ہے اور اسی کی برکت سے مومن بڑے بڑے مراحل سلوک کے طے کرتا اور نا قابل برداشت تلخیاں اور طرح طرح کی دوزخوں کی جلن اور حرقت اپنے لئے بخوشی خاطر قبول کر لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ انسان کی اعلیٰ درجہ کی مدح بیان کی ہے اور اس کو فرشتوں پر بھی ترجیح دی ہے اس مقام میں اس کی یہی فضیلت پیش کی ہے کہ وہ ظلوم اور جہول ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.یعنی اُس امانت کو جو ربوبیت کا کامل ابتلا ہے جس کو فقط عبودیت کاملہ اٹھا سکتی ہے انسان نے اٹھالیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر سختی کر سکتا تھا اور غیر اللہ سے اس قدر دور ہو سکتا تھا کہ اس کی صورت علمی سے بھی اس کا ذہن خالی ہو جاتا تھا.واضح ہو کہ ہم سخت غلطی کریں گے اگر اس جگہ ظلوم کے لفظ سے کافر اور سرکش اور مشرک اور عدل کو چھوڑنے والا مراد لیں گے کیونکہ یہ ظلوم جہول کا لفظ اس جگہ اللہ جل شانہ نے انسان کے لئے مقام مدح میں استعمال کیا ہے نہ مقام زم میں اور اگر نعوذ باللہ یہ مقام زم میں ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ سب سے بدتر انسان ہی تھا جس نے خدا تعالیٰ کی پاک امانت کو اپنے سر پر اٹھالیا اور اس کے حکم کو مان

Page 434

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة الاحزاب لیا.بلکہ نعوذ باللہ یوں کہنا پڑے گا کہ سب سے زیادہ ظالم اور جاہل انبیاء اور رسول تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس امانت کو اٹھالیا حالانکہ اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے پھر وہ سب سے بدتر کیوں کر ہوا اور انبیاء کو سید العادلین قرار دیا ہے پھر وہ ظلوم وجہول دوسرے معنوں کی رو سے کیوں کر کہلاویں.ماسوا اس کے ایسا خیال کرنے میں خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض لازم آتا ہے کہ اس کی امانت جو وہ دینی چاہتا تھا وہ کوئی خیر اور صلاحیت اور برکت کی چیز نہیں تھی بلکہ شر اور فساد کی چیز تھی کہ شریر اور ظالم نے اس کو قبول کیا اور نیکوں نے اس کو قبول نہ کیا مگر کیا خدا تعالیٰ کی نسبت یہ بدظنی کرنا جائز ہے کہ جو چیز اس کے چشمہ سے نکلے اور جس کا نام وہ اپنی امانت رکھے جو پھر اسی کی طرف رڈ ہونے کے لائق ہے وہ در حقیقت نعوذ باللہ خراب اور پلید چیز ہو جس کو بجز ایسے ظلوم کے جو در حقیقت سرکش اور نافرمان اور نعمت عدل سے بکلی بے نصیب ہے کوئی دوسرا قبول نہ کر سکے.افسوس کہ ایسے مکروہ خیالوں والے کچھ بھی خدا تعالیٰ کی عظمت نگہ نہیں رکھتے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ امانت اگر سراسر خیر ہے تو اس کا قبول کر لینا ظلم میں کیوں داخل ہے اور اگر امانت خود شر اور فساد کی چیز ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے.کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ فساد کا مبدا ہے اور کیا جو چیز اس کے پاک چشمہ سے نکلتی ہے اس کا نام فساد اور شر رکھنا چاہیئے ؟ ظلمت ظلمت کی طرف جاتی ہے اور نور نور کی طرف سوامانت نور تھی اور انسان ظلوم جہول بھی ان معنوں کر کے جو ہم بیان کر چکے ہیں ایک نور ہے اس لئے نور نے نور کو قبول کر لیا.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آيت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا ( النساء : ۵۹).اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.جیسا کہ ہم مضمون حقیقت اسلام

Page 435

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ سورة الاحزاب ط میں بیان کر چکے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولی ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - لَا شَرِيكَ لَهُ ۚ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۳ ، ۱۶۴) وَ اَنَّ هَذَا صِرَاطِئُ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ (الانعام : ۱۵۴) - قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (ال عمران : ۱۳۲) - فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ (ال عمران : ۲۱ ).وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (المؤمن : ۶۷ ) - یعنی ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اول المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنافی اللہ ہو جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو.اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رڈ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن مٹی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہوتب بھی وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احتقر عباداللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارت.س ہے.غور سے دیکھنا چاہیئے کہ جس حالت میں اللہ جل شانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت صلعم کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کر سکے.خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو

Page 436

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ عنایت فرمایا.سُبْحَانَ اللهِ مَا أَعْظَمَ شَأْنُكَ يَا رَسُوْلَ الله موسی و عیسی همه خیل تواند جمله درین راه طفیل تواند سورة الاحزاب پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور اور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال دیں گی.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کر یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم مارو تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں ربّ العالمین کے لئے خالص کرلوں یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ ربّ العالمین ہے میں خادم العالمین بنوں اور ہمہ تن اس کا اور اس کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کر دیا ہے اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے.اور یہ وسوسہ کہ ایسے معنے آیت ظلوم وجہول کے کس نے متقدمین سے کئے ہیں اور کون اہل زبان میں سے ظلم کے ایسے معنے بھی کرتا ہے اس وہم کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بعد کلام اللہ کے کسی اور سند کی ضرورت نہیں.کلام الہی کے بعض مقامات بعض کی شرح ہیں.پس جس حالت میں خدا تعالیٰ نے بعض متقیوں کا نام بھی ظالم رکھا ہے اور مراتب ثلاثہ تقویٰ سے پہلا مرتبہ تقویٰ کا ظلم کو ہی ٹھہرایا ہے تو اس سے ہم نے قطعی اور یقینی طور پر سمجھ لیا کہ اس ظلم کے لفظ سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تقویٰ سے دور اور کفار اور مشرکین اور نافرمانوں کا شعار ہے بلکہ وہ ظلم مراد ہے جو سلوک کے ابتدائی حالات میں متقیوں کے لئے شرط تختم ہے یعنی جذبات نفسانی پر حملہ کرنا اور بشریت کی ظلمت کو اپنے نفس سے کم کرنے کے لئے کوشش کرنا جیسا کہ اس دوسری آیت میں بھی کم کرنے کے معنی ہیں اور وہ یہ ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا (الكهف : ۳۴).آئی وَلَمْ تَنْقُض دیکھو قاموس اور صحاح اور صراح جو ظلم کے معنے کم کرنے کے بھی لکھے ہیں اور اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں یعنی وَلَمْ تَنقُض.ماسوا اس کے اس معنے کے کرنے میں یہ عاجز متفرد نہیں بڑے بڑے محقق اور فضلاء نے جواہل زبان تھے یہی معنے کئے ہیں چنانچہ منجملہ ان کے صاحب فتوحات مکیہ ہیں جو اہل زبان بھی ہیں وہ اپنی ایک تفسیر میں جو مصر کے چھاپہ میں چھپ کر شائع ہوئی ہے یہی معنے کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے زیر تفسیر آیت وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.یہی معنے لکھے ہیں کہ یہ ظلوم و جہول مقام مدح میں ہے اور اس سے

Page 437

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة الاحزاب مطلب یہی ہے کہ انسان مومن احکام الہی کی بجا آوری میں اپنے نفس پر اس طور سے ظلم کرتا ہے جو نفس کے جذبات اور خواہشوں کا مخالف ہو جاتا ہے اور اس سے اس کے جوشوں کو گھٹاتا ہے اور کم کرتا ہے.اور صاحب تفسیر حسینی خواجہ محمد پارسا کی تفسیر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ انسان نے اس امانت کو اس لئے اٹھالیا کہ وہ ظلوم تھا یعنی اس بات پر قادر تھا کہ اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے باہر آ جائے یعنی جذبات نفسانی کو کم بلکہ معدوم کر دیوے اور ہو یت مطلقہ میں گم ہو جائے اور انسان جہول تھا اس لئے کہ اس میں یہ قوت ہے کہ غیر حق سے بکلی غافل اور نادان ہو جائے اور بقول لا إِلهَ إِلَّا الله نفی ما سوئی کی کر دیوے اور ابن جریر بھی جو رئیس المفسرین ہے اس آیت کی شرح میں لکھتا ہے کہ ظلوم اور جمہول کا لفظ محل مدح میں ہے نہ ذم میں غرض اکابر اور محققین جن کی آنکھوں کو خدا تعالیٰ نے نور معرفت سے منور کیا تھا وہ اکثر اسی طرف گئے ہیں کہ اس آیت کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان نے خدا تعالی کی امانت کو اٹھا کر ظلوم اور جہول کا خطاب مدح کے طور پر حاصل کیا نہ ذم کے طور پر چنانچہ ابن کثیر نے بھی بعض روایات اسی کی تائید میں لکھی ہیں اور اگر ہم اس تمام آیت پر کہ اِنا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَابَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا - ایک نظر غور کی کریں تو یقینی طور پر معلوم ہوگا کہ وہ امانت جو فرشتوں اور زمین اور پہاڑوں اور تمام کو اکب پر عرض کی گئی تھی اور انہوں نے اٹھانے سے انکار کیا تھا وہ جس وقت انسان پر عرض کی گئی تھی تو بلاشبہ سب سے اول انبیاء اور رسولوں کی روحوں پر عرض کی گئی ہوگی کیونکہ وہ انسانوں کے سردار اور انسانیت کے حقیقی مفہوم کے اول المستحقین ہیں پس اگر ظلوم اور جہول کے معنے یہی مراد لئے جائیں جو کافر اور مشرک اور پکے نافرمان کو کہتے ہیں تو پھر نعوذ باللہ سب سے پہلے انبیاء کی نسبت اس نام کا اطلاق ہوگا.لہذا یہ بات نہایت روشن اور بدیہی ہے کہ ظلوم اور جہول کا لفظ اس جگہ محل مدح میں ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو مان لیا جاوے اور اس سے منہ پھیر نا موجب معصیت نہیں ہو سکتا یہ تو عین سعادت ہے تو پھر ظلوم اور جہول کے حقیقی معنی جو ابا اور سرکشی کو مستلزم ہیں کیوں کر اس مقام کے مناسب حال ہو سکتے ہیں جو شخص قرآن کریم کی اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اُس پر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم ورحیم جلشانہ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا وَ وَجَدَكَ ضَالاً فَهَدَى ( الضُّحى : ۸) اب ظاہر ہے کہ ضال کے معنے

Page 438

۴۰۶ سورة الاحزاب تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ ) تجھ کو گمراہ یا یا اور ہدایت دی.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ پایا علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقادر کھے کہ کبھی آنحضرت صلعم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کا فربے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہیے جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا آکھ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأوَى وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَاغْنى (الضُّحى : ۹۰۸۰۷).یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال (یعنی عاشق وجہ اللہ ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پا یا پس غنی کر دیا.ان معنوں کی صحت پر یہ ذیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو ان کے بعد آتی ہیں یعنی یہ که فَلَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ وَ أَمَا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ (الضُّحى : ۱۱،۱۰، ۱۲) کیونکہ یہ تمام آیتیں لف نشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو مدعا مخفی ہے دوسری آیتیں اس کی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلاً پہلے فرما یا الم يَجِدُكَ يَتِيماً فَاوی اس کے مقابل پر یہ فرمایا فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے.پھر بعد اس آیت کے فرمایا وَوَجَدَكَ ضَالاً فَهَدی اس کے مقابل پر یہ فرمایا وَ أَما السَّابِلَ فَلَا تَنْهرُ یعنی یاد کر کہ تو بھی ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سو جیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھول دیئے اور اپنے لقا کا شربت سب سے زیادہ عطا فرمایا اور جو تو نے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سو تو بھی مانگنے والوں کو ردمت کر اور ان کومت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلی منقطع تھے سو خدا خود تیرا متوتی ہوا اور غیروں کی طرف حاجت لے جانے سے تجھے غنی کر دیا.نہ تو والد کا محتاج ہوانہ والدہ کا نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کی طرف حاجت لے جانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیئے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا.سو اس کا شکر بجالا اور حاجت مندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر.اب ان تمام آیات کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ صال کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اس کے مناسب یہ آیت ہے إِنَّكَ لَفِی ضَلِكَ الْقَدِيمِ (يوسف : ۹۶).سو یہ دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص

Page 439

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة الاحزاب جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غضبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے.لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے پھل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانه زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.غرض ان آیتوں کی حقیقت واقعی یہی ہے جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی اور میں ہرگز ایسے معنی نہیں کروں گا جن سے ایک طرف تو یہ لازم آوے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پاک امانت نہیں تھی بلکہ کوئی فساد کی بات تھی جو ایک مفسد ظالم نے قبول کر لی اور نیکوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دوسری طرف تمام مقدس رسولوں اور نبیوں کو جو اول درجہ پر امانت کے عمل ہیں ظالم ٹھہرایا جاوے.اور میں بیان کر چکا ہوں کہ دراصل امانت اور اسلام کی حقیقت ایک ہی ہے اور امانت اور اسلام در اصل محمود چیز ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کا دیا ہوا اسی کو واپس دیا جاوے جیسے امانت واپس دی جاتی ہے پس جس نے ایک محمود اور پسندیدہ چیز کو قبول کر لیا اور خدا تعالیٰ کے حکم سے منہ نہ پھیرا اور اس کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھا وہ لائق مذمت کیوں ٹھہرے اور یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اس آیت کے آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے لِيُعَذِّبَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَتِ وَيَتُوبَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا - یعنی انسان نے جو امانت اللہ کو قبول کر لیا تو اس سے یہ لازم آیا جو منافقین اور منافقات اور مشرکین اور مشرکات جنہوں نے صرف زبان سے قبول کیا اور عملاً اس کے پابند نہیں ہوئے وہ معذب ہوں اور مومنین اور مومنات جنہوں نے امانت کو قبول کر کے عملاً پابندی بھی اختیار کی وہ مور د رحمت الہی ہوں.یہ آیت بھی صاف اور صریح طور پر بول رہی ہے کہ آیت موصوفہ میں ظلوم وجہول سے مراد مومن ہیں جن کی طبیعتوں اور استعدادوں نے امانت کو قبول کر لیا اور پھر اس پر کار بند ہو گئے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ مشرکوں اور منافقوں نے کامل طور پر قبول نہیں کیا اور حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ میں جو انسان کے لفظ پر الف لام ہے وہ بھی درحقیقت تخصیص کے لئے ہے جس سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ثابت ہوتا ہے کہ تمام انسانوں نے اس امانت کو کامل طور پر قبول نہیں کیا صرف مومنوں نے قبول کیا ہے اور منافقوں اور مشرکوں کی فطرتوں میں گو ایک ذرہ استعداد کا موجود تھا مگر بوجہ نقصان استعداد وہ کامل طور پر اس پیارے لفظ ظلوم اور جہول سے حصہ نہ لے سکے اور جن کو بڑی قوت ملی تھی وہ کامل طور پر اس نعمت کو لے

Page 440

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة الاحزاب گئے.انہوں نے اس امانت کے قبول کرنے کا صرف اپنی زبان سے اقرار نہیں کیا بلکہ اپنے اعمال اور افعال میں ثابت کر کے دکھلا دیا اور جو امانت لی تھی کمال دیانت کے ساتھ اس کو واپس دے دیا.بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ جہول کا لفظ بھی ظلوم کے لفظ کی طرح ان معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جو اتقا اور اصطفا کے مناسب حال ہیں کیونکہ اگر جاہلیت کا حقیقی مفہوم مراد ہو جو علوم اور عقائد صحیحہ سے بے خبری اور ناراست اور بے ہودہ باتوں میں مبتلا ہونا ہے تو یہ تو صریح متقیوں کی صفت کے برخلاف ہے کیونکہ حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ تَكُمْ فُرْقَانًا (الانفال :٣٠) - وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحديد: ٢٩)- یعنی اے ایمان لانے والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہو سکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقومی کم و بیش ہو سکتا ہے اس مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جو اولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہو جاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ ربانی ان کے رگ وریشہ میں خون کی طرح جاری ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۷ تا ۱۷۹) آیت وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ بھی دلالت کر رہی ہے کہ خدا کا حقیقی مطیع انسان ہی ہے جو اپنی اطاعت کو محبت اور عشق تک پہنچاتا ہے اور خدا کی بادشاہت کو ہزار ہا بلاؤں کو سر پر لے کر زمین پر ثابت کرتا ہے.پس یہ ہو جاتا ہے.

Page 441

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ سورة الاحزاب طاعت جو در دول سے ملی ہوئی ہے فرشتے اس کو کب بجالا سکتے ہیں.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۰ حاشیه ) ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا پس سب نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا.یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے.اس لئے اس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۳۹)

Page 442

Page 443

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۴۱۱ سورة سبا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة سبا بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَلَقَد أَتَيْنَا دَاوُدَ مِنَا فَضْلًا يُجِبَالُ اَوْبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَ النَّا لَهُ الْحَدِيدَ اے پہاڑ واوراے پرند و میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقت سے میری یاد کرو.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۳) تدا بیر مشہودہ سے الگ ہو کر جو فعل ہوتا ہے اس میں اعجازی رنگ ہوتا ہے.معجزات جن باتوں میں صادر ہوتے ہیں ان میں سے بہت سے افعال ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان میں شریک ہوتے ہیں مگر نبی ان تدابیر اور اسباب سے الگ ہو کر وہی فعل کرتا ہے اس لئے وہ معجزہ ہوتا ہے اور یہی بات یہاں سلیمان کے قصہ میں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کیا لوگ قصائد نہ کہتے تھے ؟ کہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام فصیح و بلیغ پیش کیا تو وہ جوڑ توڑ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وحی سے تھا.اس لئے معجزہ تھا کہ درمیان اسباب عادیہ نہ تھے.آپ نے کوئی تعلیم نہ پائی تھی اور بدوں کوشش کے وہ کلام آپ نے پیش کیا.غرض اسی طرح پر لو با نرم کرنے کا معجزہ ہے کہ اس میں اسباب عادیہ نہ تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اور معنی بھی ہوں مشکلات صعب سے بھی مراد لو ہا ہوتا ہے.وہ حضرت سلیمان پر آسان ہو گئیں مگر اصل اعجاز کا کسی حال میں ہم انکار نہیں کرتے ورنہ اگر خدا تعالیٰ کی ان قدرتوں پر ایمان نہ ہو تو پھر خدا کو کیا مانا ہم اس کو خارق عادت

Page 444

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة سبا نہیں مان سکتے جو قرآن شریف کے بیان کردہ قانون قدرت کے خلاف ہو.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶) يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَ تَمَاثِيلَ وَجِفَانِ كَالْجَوَابِ وَقُدُورِ رسِيتِ اِعْمَلُوا ال داؤد شكرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ بعض خام خیال کو تاہ فہم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہر ایک آدمی کو جہنم میں ضرور جانا ہوگا یہ غلط ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ تھوڑے ہیں جو جہنم کی سزا سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ تعجب کی بات نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِى الشَّكُورُ - انتقام جلد ۴ نمبر ۳۳ مورخه ۱۶ ستمبر ۱۹۰۰ صفحه ۶) خوش قسمت وہی انسان ہے جو ایسے مردانِ خدا کے پاس رہ کر (جن کو اللہ تعالیٰ اپنے وقت پر بھیجتا ہے ) اس غرض اور مقصد کو حاصل کرلے جس کے لئے وہ آتے ہیں.ایسے لوگ اگر چہ تھوڑے ہوتے ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں.وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشكُورُ.اگر تھوڑے نہ ہوتے تو پھر بے قدری ہو جاتی.یہی وجہ ہے کہ سونا چاندی ، لو ہے اور ٹین کی طرح عام نہیں ہے.(احکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۵) خدا تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشکور کہ شاکر اور سمجھدار بندے ہمیشہ کم ہوتے ہیں جو کہ حقیقی طور پر قرآن پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو اپنی محبت اور تقویٰ عطا کیا ہے.وہ خواہ قلیل ہوں مگر اصل میں وہی سواد اعظم ہے.احکام جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ کثرت اور تعداد کے رعب میں نہیں آتا قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ.دیکھو حضرت نوح کے وقت کس قدر مخلوق غرق آب ہوئی اور ان کے بالمقابل جو لوگ بچ گئے ان کی تعداد کس قدر تھی.بدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۶ را پریل ۱۹۰۶ صفحه ۲) فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَر تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (۱۵) سلیمان کی موت پر دلالت کرنے والا کوئی امر نہ تھا.یہ ساری شرارت گو یا دابتہ الارض کی تھی کہ اس نے عصا کھا لیا اور وہ گر پڑا خدا تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچ ہے.یہ قصے اور داستانیں نہیں ہیں بلکہ یہ حقائق

Page 445

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ سورة سبا اور معارف ہیں.اسلام راستی کا عصا تھا جو اپنے سہارے کھڑا تھا اور اس کے سامنے کوئی آریہ، ہندو، عیسائی دم نہ مار سکتا تھا لیکن جب سے یہ دابتہ الارض پیدا ہوئے اور انہوں نے قرآن کو چھوڑ کر موضوع روایتوں پر اپنا انحصار رکھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے شروع ہو گئے.دابتہ الارض کے معنے اصل میں یہ ہیں کہ ایک دیمک ہوتی ہے جس میں کوئی خیر نہیں جو لکڑی اور مٹی وغیرہ کو کھا جاتی ہے.اس میں فنا کا مادہ ہے اور اچھی چیز کو فنا کرنا چاہتی ہے اس میں آتشی مادہ ہے.اب اس کا مطلب یہ ہے کہ دابتہ الارض اس وقت کے علماء ہیں جو جھوٹے معنے کرتے ہیں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں....غرض عصائے اسلام جس کے ساتھ اسلام کی شوکت اور رعب تھا اور جس کے ساتھ امن اور سلامتی تھی اس دابتہ الارض نے گرادیا ہے.پس جیسے وہ دابتہ الارض تھا یہ اس سے بدتر ہیں.اس سے تو صرف ملک میں فتنہ پڑا تھا مگران سے دین میں فساد پیدا ہوا اور ایک لاکھ سے زائد لوگ مرتد ہو گئے.....یہ بات بہت درست ہے کہ اسلام اپنی ذات میں کامل ، بے عیب اور پاک مذہب ہے لیکن نادان دوست اچھا نہیں ہوتا اس دابتہ الارض نے اسلام کو نادان دوست بن کر جو صدمہ اور نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی بہت ہی مشکل ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱۰رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) یہ مسلمان دابتہ الارض ہیں اور اس لئے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتا ہے.جوز مینی بات کرتا ہے وہ دابتہ الارض ہے.خدا تعالیٰ نے ایسا ہی فرمایا تھا.روحانی امور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میں مناسبت ہو چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لئے انہوں نے عصائے دین کو کھا لیا جیسے سلیمان کے عصا کو کھا لیا تھا.اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جب جنوں کو یہ پتہ لگا تو انہوں نے سرکشی اختیار کی.اسی طرح پر عیسائی قوم نے جب اسلام کی یہ حالت دیکھی یعنی اس دابتہ الارض نے اس عصاء راستی کو کمزور کر دیا تو ان قوموں کو اس پر وار کرنے کا موقع دے دیا.جن وہ ہے جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو حوا سے آکر نحاش نے کیا تھا.اس پیار کا انجام وہی ہونا چاہیے جو ابتداء میں ہوا.آدم پر اسی سے مصیبت آئی.اس وقت گویا وہ خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہو گیا.اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں جو شیطان نے کی تھی اس لئے قرآن شریف نے اول اور آخر کو اسی پر ختم کیا.اس میں سر یہ تھا کہ تابتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والا ہے.(الکام جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) دَابَةُ الْأَرْضِ تَأكُلُ مِنْسَأَتَه قرآن شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب تک انسان میں روحانیت پیدا

Page 446

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ ہو یہ زمین کا کیڑا ہے.۴۱۴ سورة سبا احکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ٫۳۱اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا 199191 يعلمون ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْمَةٌ لِلعَلَمينَ اور كَافَةُ لِلنَّاسِ کے لئے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق معارف سب سے بڑھ کر ہیں پھر ان معارف اور حقائق کو پانے والا الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۱) کیوں کم ہے؟ قُلْ لَكُمْ مِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ ) تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے نہ اس سے تم تا خیر کر سکو گے نہ تقدیم.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳) یوم سے مراد اس جگہ برس ہے چنانچہ بائبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا جو پہلی لڑائی تھی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳ حاشیه ) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَيْتُنَا بَيْنَتٍ قَالُوا مَا هُذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا b كَانَ يَعْبُدُ ابَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هُذَا إِلَّا افْكَ مُفْتَرَى ، وَ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمُ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ.الاَسِحُرُ قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی تاثیروں کو بھی دیکھئے کہ کسی قوت سے اس نے وحدانیت الہی کو اپنے سچے متبعین کے دلوں میں بھرا ہے اور کس عجیب طور سے اس کی عالیشان تعلیموں نے صد ہا سالوں کی عادات راسخہ اور ملکات ردیہ کا قلع و قمع کر کے اور ایسی رسوم قدیمہ کو کہ جو طبیعت ثانی کی طرح ہو گئیں تھیں دلوں کے رگ و ریشہ سے اُٹھا کر وحدانیت الہی کا شربت عذب کروڑ ہا لوگوں کو پلا دیا ہے.وہی ہے جس نے اپنا کار نمایاں اور نہایت عمدہ اور دیر پانتائج دکھلا کر اپنی بے نظیر تاثیر کی دو بدو شہادت سے بڑے بڑے معاندوں سے اپنی

Page 447

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة سبا لاثانی فضیلتوں کا اقرار کرایا یہاں تک کہ سخت بے ایمانوں اور سرکشوں کے دلوں پر بھی اس کا اس قدر اثر پڑا کہ جس کو انہوں نے قرآن شریف کی عظمت شان کا ایک ثبوت سمجھا اور بے ایمانی پر اصرار کرتے کرتے آخر دو و و اس قدر انہیں بھی کہنا پڑا کہ اِنْ هَذَا إِلَّا سِحر تبين - برائن احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۳، ۲۱۴ حاشیہ نمبر ۱۱) قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِى الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ ۵۰ عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آئندہ بھی کسی نوع کا تغیر اور تبدل قرآن شریف میں واقع ہونا ممتنع اور محال ہے اور مسلمانوں کا پھر شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات میں سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے و اس بارے میں بھی پیشینگوئی کر کے آپ فرما دیا ہے مَا يُبْدِی الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ یعنی شرک اور مخلوق پرستی جس قدر دور ہو چکی ہے پھر وہ نہ اپنی کوئی نئی شاخ نکالے گی اور نہ اسی پہلی حالت پر عود کرے گی.سو اس پیشین گوئی کی صداقت بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ باجود منقصی ہونے زمانہ دراز کے اب تک ان قوموں اور ان ملکوں میں کہ جن سے مخلوق پرستی معدوم کی گئی تھی پھر شرک اور بت پرستی نے توحید کی جگہ نہیں لی اور آئندہ بھی عقل اس پیشین گوئی کی سچائی پر کامل یقین رکھتی ہے کیونکہ جب اوائل ایام میں کہ مسلمانوں کی تعداد بھی قلیل تھی تعلیم توحید میں کچھ تزلزل واقع نہیں ہوا بلکہ روز بروز ترقی ہوتی گئی تو اب کہ جماعت اس موحد قوم کی ہیں کروڑ سے بھی کچھ زیادہ ہے کیوں کر تزلزل ممکن ہے.علاوہ اس کے زمانہ بھی وہ آگیا ہے کہ مشرکین کی طبیعتیں یہ باعث متواتر استماع تعلیم فرقانی اور دائمی صحبت اہل توحید کے کچھ کچھ تو حید کی طرف میل کرتی جاتی ہیں.جدھر دیکھو دلائل وحدانیت کے بہادر سپاہیوں کی طرح شرک کے خیالی اور وہمی برجوں پر گولہ اندازی کر رہے ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مشرکوں کے دلوں پر ایک ہلچل ڈال رکھی ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودا ہونا عالی خیال لوگوں پر ظاہر ہوتا جاتا ہے اور وحدانیت الہی کی پرزور بندوقیں شرک کے بدنما جھونپڑوں کو اڑاتی جاتی ہیں.پس ان تمام آثار سے ظاہر ہے کہ اب اندھیرا شرک کا ان اگلے دنوں کی طرح پھیلنا کہ جب تمام دنیا نے مصنوع چیزوں کی ٹانگ صانع کی ذات اور صفات میں پھنسا رکھی تھی ممتنع اور محال ہے اور جب کہ فرقان مجید کے اصول حقہ کا محرف اور مبدل ہو جانا یا پھر ساتھ اس کے تمام خلقت پر تاریکی شرک اور مخلوق پرستی کا بھی چھا جانا عند العقل محال اور ممتنع ہوا تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل

Page 448

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة سبا ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا کیونکہ جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہوتا ہے پس ثابت ہوا کہ آنحضرت حقیقت میں خاتم الرسل ہیں.ان کو کہہ کہ حق آگیا اور باطل بعد اس کے نہ اپنی کوئی نئی شاخ نکالے گا جس کا رد قرآن میں موجود نہ ہو اور نہ اپنی پہلی حالت پر عود کرے گا.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۷ حاشیہ نمبر ۱۱) ( براہینِ احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۰۲، ۱۰۳ حاشیه ) وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَانَّى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدِ جو مجھ سے دور ہو اس کی دعا کیوں کرسنوں.یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے.یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا.وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور اُن ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے مگر یہاں انسان کو قرب الہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی.اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق و فجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہوتا جاتا ہے جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۰ اردسمبر ۱۹۰۰، صفحه ۳) b وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِنْ قَبْلُ إِنَّهُمْ كَانُوا (۵۵) في شَءٍ مُّرِيبٍ فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہوا ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے اور ناکامیوں میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا اور ہمیشہ کی ناامیدی طاری ہوگی تو خدا تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر کرے گا جیسا کہ فرماتا ہے.وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ یعنی ان میں اور ان کی خواہشوں کی چیزوں میں جدائی ڈالی جائے گی اور یہی عذاب کی جڑھ ہوگی....اس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے اپنے برے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) جس چیز سے انسان پیار کرتا ہے اس سے اگر جدا کیا جائے تو یہی اس کے لئے ایک عذاب ہو جاتا ہے اور جس چیز سے اگر پیار کرے اگر وہ میسر آجائے تو یہی اس کی راحت کا موجب ہو جاتا ہے.و جیل (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۳) 99191 بينهم وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ -

Page 449

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۱۷ سورة فاطر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة فاطر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ افَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبُ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ) کیا ان لوگوں کے لئے جو حق کو قبول نہیں کرتے تو حسرتیں کھا کھا کر اپنی جان دے گا.سو قوم کی راہ میں جان دینے کا حکیمانہ طریق یہی ہے کہ قوم کی بھلائی کے لئے قانونِ قدرت کی مفید راہوں کے موافق اپنی جان پر سختی اُٹھاویں اور مناسب تدبیروں کے بجالانے سے اپنی جان ان پر فدا کر دیں نہ یہ کہ قوم کو سخت بلا یا گمراہی میں دیکھ کر اور خطرناک حالت میں پا کر اپنے سر پر پتھر مار لیں یا دوتین رتی اسٹرکنیا کھا کر اس جہاں سے رخصت ہو جائیں اور پھر گمان کریں کہ ہم نے اپنی اس حرکت بیجا سے قوم کو نجات دے دی ہے یہ مردوں کا کام نہیں ہے زنانہ خصلتیں ہیں اور بے حوصلہ لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے کہ مصیبت کو قابل برداشت نہ پا کر جھٹ پٹ خود کشی کی طرف دوڑتے ہیں.ایسی خود کشی کی کو بعد میں کتنی ہی تاویلیں کی جائیں مگر یہ حرکت بلاشبہ عقل اور عقلمندوں کا ننگ.اور ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۹) مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ

Page 450

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة فاطر وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَ الَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ، وَ مَكْرُ أوليك هُوَ يَبُورُ.اسی رحمن کی طرف کلمات طیبہ صعود کرتے ہیں.( براہین احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۱ حاشیه در حاشیه ) ہمارا بھی تو یہی مذہب ہے کہ مقدس لوگوں کو موت کے بعد ایک نورانی جسم ملتا ہے اور وہی نور جو وہ ساتھ رکھتے ہیں جسم کی طرح اُن کے لئے ہو جاتا ہے سو وہ اس کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه یعنی پاک روحیں جو نورانی الوجود ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح اُن کا رفع کرتا ہے یعنی جس قدر عمل صالح ہو اُسی قدر روح کا رفع ہوتا ہے.اس جگہ خدائے تعالیٰ نے روح کا نام کلمہ رکھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت تمام ارواح کلمات اللہ ہی ہیں جو ایک لاید رک بھید کے طور پر جس کی تہ تک انسان کی عقل نہیں پہنچ سکتی روحیں بن گئی ہیں.اسی بناء پر اس آیت کا مضمون بھی ہے وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إلى مريم (النساء : ۱۷۲).اور چونکہ یہ سمر ربوبیت ہے اس لئے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے بڑھ کر کچھ بول سکے کہ کلمات اللہ ہی بحکم و باذن ربی لباس روح کا پہن لیتے ہیں اور ان میں وہ تمام طاقتیں اور قو تیں اور خاصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو روحوں میں پائی جاتی ہیں اور پھر چونکہ ارواح طیبہ فنافی اللہ ہونے کی حالت میں اپنے تمام قومی چھوڑ دیتی ہیں اور اطاعت الہی میں فانی ہو جاتی ہیں تو گویا پھر وہ روح کی حالت سے باہر آ کر کلمتہ اللہ ہی بن جاتی ہیں جیسا کہ ابتدا میں وہ کلمتہ اللہ تھے.سو کلمتہ اللہ کے نام سے ان پاک روحوں کو یاد کرنا اُن کے اعلیٰ درجہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے سو انہیں نور کا لباس ملتا ہے اور اعمال صالحہ کی طاقت سے اُن کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے.اور ہمارے ظاہر بین علما اپنے محدود خیالات کی وجہ سے کلمات طیبہ سے مراد محض عقائد یا اذ کارواشغال رکھتے ہیں اور اعمال صالحہ سے مراد بھی اذکار وخیرات وغیرہ ہیں.تو گویا وہ اس تاویل سے علت اور معلول کو ایک کر دیتے ہیں.اگر چہ کلمات طیبہ بھی خدائے تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں لیکن عارفوں کے لئے یہ بطنی معنے ہیں جن پر قرآن کریم کے دقیق اشارات مشتمل ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۳ تا ۳۴۳)

Page 451

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پاک کلمے اس کی طرف چڑھتے ہیں.۴۱۹ سورة فاطر اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۶۸) میں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی.خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ - احکام جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۱ صفحہ ۳،۲) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَ إِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِبْلِهَا لَا يُحْمَلُ مِنْهُ شَيْءٍ وَ لَوْ كَانَ ذَا قُربى - إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِينَ يَخْشَونَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَمَنْ تَزَلَى فَإِنَّمَا يَتَزَى لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ حدیث ہے جو بخاری کے صفحہ ۱۷۲ میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخم کاری سے مجروح ہوئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے ان کے پاس گئے کہ ہائے میرے بھائی.ہائے میرے دوست.عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے صہیب مجھ پر تو روتا ہے کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت پر اس کے اہل کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے.پھر جب حضرت عمر وفات پاگئے تو ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے یہ سب حال حدیث پیش کرنے کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ خدا عمر" پر رحم کرے بخدا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بیان نہیں فرمایا کہ مومن پر اس کے اہل کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے اور فرمایا کہ تمہارے لئے قرآن کافی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى - یعنی حضرت عائشہ صدیقہ نے باوجود محدود علم کے فقط اس لئے قسم کھائی کہ اگر اس حدیث کے ایسے معنے کئے جائیں کہ خواہ نخواہ ہر ایک میت اس کے اہل کے رونے سے معذب ہوتی ہے تو یہ حدیث قرآن کے مخالف اور معارض ٹھہرے گی.اور جو حدیث قرآن کے مخالف ہو وہ قبول کے لائق نہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۹ حاشیه ) صحیح بخاری کی کتاب الجنائز صفحہ ۱۷۲ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حدیث إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذِّبُ بِبَعْضٍ بُكَاءِ أَهْلِهِ کو قرآن کریم کی اس آیت سے کہ لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى معارض و مخالف پا کر حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ یہ مومنوں کے متعلق نہیں بلکہ کفار کے متعلق ہے جو متعلقین کے جزع فزع پر راضی تھے بلکہ وصیت کر جاتے تھے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۹)

Page 452

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ سورة فاطر وَمَا يَسْتَوَى الْأَحْيَاء وَلَا الْاَمْوَاتُ إِنَّ اللهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِع مَنْ فِي الْقُبُورِ نور اور حیات سے مراد روح القدس ہے کیونکہ اس سے ظلمت دور ہوتی ہے اور وہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اسی لئے اس کا نام روح القدس ہے یعنی پاکی کی روح جس کے داخل ہونے سے ایک پاک زندگی حاصل آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۹) ہوتی ہے.انا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا ۖ وَ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ان مِنْ أُمَّة الخَلَا فِيهَا نَذیر یعنی کوئی ملک آباد نہیں جس میں پیغمبر اور مصلح نہیں گزرا.(۲۵) سرمه چشم آریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۹۳) کوئی بستی اور کوئی آباد ملک نہیں جس میں پیغمبر نہیں بھیجا گیا.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۸) میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ اسلام کے سوائے باقی سب مذاہب کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی ہے.میرا یہ ایمان ہے کہ وہ خدا جو تمام مخلوق کا خدا ہے وہ سب پر نظر رکھتا ہے اور جیسا وہ سب کی جسمانی ضروریات کو پورا کر رہا ہے ایسا ہی روحانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے.یہ سچ نہیں کہ دنیا کی ابتداء سے اس نے صرف ایک قوم کو ہی چن لیا ہے اور دوسروں کی کچھ پرواہ نہیں کی.ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی کسی قوم پر وہ وقت آ جاتا ہے اور کبھی کسی پر.میں یہ باتیں کسی کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ راجہ رام چندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راست باز بندے تھے اور اس سے سچا تعلق رکھتے تھے.میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ان کی نند یا یا توہین کرتا ہے.اس کی مثال کنوئیں کے مینڈک کی سی ہے جو سمندر کی وسعت سے ناواقف ہے.جہاں تک ان لوگوں کے صحیح سوانح معلوم ہوتے ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کی راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کئے اور کوشش کی کہ اسی راہ کو پائیں جو خدائے تعالیٰ تک پہنچنے کی حقیقی راہ ہے جو شخص یہ کہتا ہے کہ وہ راست باز نہ تھے وہ قرآن شریف کے خلاف کہتا ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے إِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ یعنی کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو.پس اس میں شک نہیں کہ ابتداء میں ان تمام مذاہب کی بنیاد حق اور راستی پر تھی مگر مرور زمانہ سے ان میں

Page 453

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ سورة فاطر طرح طرح کی غلطیاں داخل ہوگئیں یہاں تک کہ اصل حقیقت انہیں غلطیوں کے نیچے چھپ گئی.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱۰ صفحه ۳۵۲) خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی آباد بستی اور ملک نہیں جس میں اس نے کوئی نبی نہ بھیجا ہوجیسا کہ وہ خود فرماتا ہے وَ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ یعنی کوئی ایسی امت نہیں جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو مگر ہم اس عقیدہ کو مجھ نہیں سکتے کہ باوجود خدا کے وسیع بلاد اور اقالیم کے جو سب اس کی ہدایت کے محتاج ہیں اور سب اس کے بندے ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ کا قدیم سے آریہ ورت سے ہی تعلق رہا اور دوسری قومیں اس کی براہ راست ہدایت سے محروم رہی ہیں.خدا کا موجودہ قانون بھی ہم اس کے برخلاف پاتے ہیں وہ دوسرے ممالک میں اب اپنی وحی اور الہام سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے اپنے بندوں کی نسبت خدا کی طرف سے یہ پکش پات اور طرفداری اس کی ذات کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.جو شخص اس کی طرف دل اور جان سے رجوع کرے وہ بھی اس کی طرف رجوع برحمت کرتا ہے.خواہ ہندی ہو خواہ عربی وہ کسی کو ضائع کرنا نہیں چاہتا.اس کی رحمت عام ہے کسی خاص ملک سے محدود نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ جسمانی طور پر بھی خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہر ایک جگہ پائی جاتی ہیں.ہر ایک ملک میں پانی موجود ہے جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہے ہر ایک ملک میں اناج موجود ہے جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہے.ہر ایک ملک میں وہ نعمتیں موجود ہیں جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہیں تو پھر جبکہ خدا نے جسمانی طور پر اپنے فیضان میں کسی قوم اور ملک سے فرق نہیں کیا تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ روحانی طور پر اس نے فرق کیا ہے.اس کے سب بندے ہیں کیا کالے اور کیا گورے اور کیا ہندی اور کیا عربی.پس یہ غیر محد و وصفات والا خدا کسی تنگ دائرہ میں محدود نہیں ہو سکتا اور اس کو محدود کر نا تنگ ظرفی اور نادانی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰۴،۳۰۳) کوئی قوم نہیں جس میں ڈرانے والا نبی نہیں بھیجا گیا.یہ اس لئے کہ تا ہر ایک قوم میں ایک گواہ ہو کہ خدا موجود ہے اور وہ اپنے نبی دنیا میں بھیجا کرتا ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۰) جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے ان کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضاب کیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وَ اِنْ مِنْ اُمَّةٍ إِلا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا....خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے یہ اس لئے ہوا

Page 454

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة فاطر کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کونہ ملی یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اس نے عام فیضان دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا.پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۲) کوئی قوم اور امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نذیر نہ آیا ہو.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۷رستمبر ۱۹۰۴ ءصفحہ ۷) (اس سوال کے جواب میں کہ زردشت نبی تھا یا نہیں فرمایا ) ہم تو یہی کہیں گے کہ امنْتُ بِاللهِ وَ رُسُلِہ خدا کے کل رسولوں پر ہمارا ایمان ہے.....اتنے کروڑ مخلوقات پیدا ہوتی رہی اور کروڑ ہا لوگ مختلف ممالک میں آبادر ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی چھوڑ دیا ہو اور کسی نبی کے ذریعہ سے ان پر اتمام حجت نہ کی ہو.آخران میں رسول آتے ہی رہے ہیں ممکن ہے کہ یہ بھی انہیں میں سے ایک رسول ہوں مگر ان کی تعلیم کا صیح صحیح پتہ اب نہیں لگ سکتا کیونکہ زمانہ دراز گزر جانے سے تحریف لفظی اور معنوی کے سبب بعض باتیں کچھ کا کچھ بن گئی ہیں.حقیقی طور پر محفوظ رہنے کا وعدہ تو صرف قرآن مجید کے لئے ہی ہے.مومن کو سوء ظن کی نسبت نیک فن کی طرف جانا چاہیے.قرآن مجید میں وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلَا فِيهَا نَذیر لکھا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ایک رسول ہوں.الحکم جلد نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) قرآن شریف سے صاف طور سے ثابت ہے کہ ہندوستان میں بھی نبی گزرے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ اِن مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلَا فِيهَا نَذیر اور حضرت کرشن بھی انہیں انبیاء میں سے ایک تھے جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر خلق اللہ کی ہدایت اور توحید قائم کرنے کو اللہ کی طرف سے آئے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں یہ بات الگ ہے کہ ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہوں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۷) کوئی قوم اور بستی نہیں جس میں کوئی نبی نہیں گزرا.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۶) ہمارے اصول کی رو سے وہ ( اللہ تعالیٰ.ناقل ) رب العالمین ہے اور اس نے اناج ، ہوا، پانی، روشنی

Page 455

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ سورة فاطر وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں.اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتا فوقتا مصلح بھیجتا رہا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وراِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ خدا تمام دنیا کا خدا ہے کسی خاص قوم سے اس کا کوئی رشتہ نہیں.(احکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲ رجون ۱۹۰۸ صفحه ۶) وَ مِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ كَذلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ۲۹ خدا سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۰۰) اللہ جلشانہ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں.خشیت اور اسلام در حقیقت اپنے مفہوم کے رو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے.پس اس آیت کریمہ کے معنوں کا مال اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کاملہ یہی علم عظمت ذات وصفات باری ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۵) ہے.انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طور پر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پالیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۲ حاشیه ) علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے (اور اس سے.ناقل ) خشیت الہی پیدا ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یا درکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے.(احکم جلد سے نمبر ۲۱ مورخہ ۱۰ جون ۱۹۰۳ صفحه ۲) وہ عالم ربانی سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ صرف و نحو یا منطق میں بے مثل ہو بلکہ عالم ربانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی زبان بیہودہ نہ چلے مگر آج یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ مردہ شو تک بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں اور اس لفظ کو ذات میں داخل کر لیا ہے اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لیا گیا ہے ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ

Page 456

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ سورة فاطر صفت بیان کی گئی ہے.اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں.جو علماء ہیں اب یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف وخشیت اور تقوی اللہ کی نہ پائی جاویں وہ ہرگز ہرگز اس خطاب سے پکارے جانے کے قابل نہیں ہیں.اصل میں علماء عالم کی جمع ہے اور ( علم.ناقل ) اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہوا اور سچا علم قرآن کریم سے ملتا ہے یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے.اور مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور وہ حق الیقین کا مقام اسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے لیکن جو شخص علوم حقہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلا ئیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے ان میں پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں.یہ اپنی آخرت دخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں....جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتا ہے وہ وہ ہیں جن کو.....حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے الحکم جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵) یا درکھو لغزش ہمیشہ نادان کو آتی ہے شیطان کو جو لغزش آئی وہ علم کی وجہ سے نہیں بلکہ نادانی سے آئی.اگر وہ علم میں کمال رکھتا تو لغزش نہ آتی.قرآن شریف میں علم کی مذمت نہیں بلکہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ العلموا اور نیم ملاں خطرہ ایمان مشہور مثل ہے.پس میرے مخالفوں کو علم نے ہلاک نہیں کیا بلکہ جہالت اقام جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۲) نے.علماء کے لفظ سے دھو کہ نہیں کھانا چاہیے.عالم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ العُلَموا یعنی بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں.ان میں عبودیت تامہ اور خشیت اللہ اس حد تک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپ سے پوری محبت سے ملتا ہے یہاں تک کہ انسان بالکل آپ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے.احکام جلد 4 نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) تقومی اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ

Page 457

۴۲۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة فاطر العلموا یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خشیت اللہ کو پیدا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور پر عالم ہوگا اس میں ضرور خشیت اللہ پیدا ہوگی.علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے اس سے فلسفہ، سائنس یا اور علوم مروجہ مراد نہیں کیونکہ ان کے حصول کے لئے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر ان کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی.لیکن علم القرآن بحر متقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا.پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) ج ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَتِ بِإِذْنِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہیں جن پر نفسانی جذبات غالب ہیں اور بعض درمیانی حالت کے ہیں اور بعض وہ ہیں کہ انتہاء کمالات ایمانیہ تک پہنچ گئے ہیں پھر اگر اللہ تعالیٰ نے برعایت اس طبقہ مسلمانوں کے جو ضعیف اور بزدل اور ناقص الایمان ہیں یہ فرما دیا کہ کسی جان کے خطرہ کی حالت میں اگر وہ دل میں اپنے ایمان پر قائم رہیں اور زبان سے گو اس ایمان کا اقرار نہ کریں تو ایسے آدمی معذور سمجھے جاویں گے مگر ساتھ اس کے یہ بھی تو فرما دیا کہ وہ ایماندار بھی ہیں کہ بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دیتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۶) بنی آدم کی فطرتیں مختلف ہیں.بعض لوگ ظالم ہیں جن کے نور فطرتی کو قومی بہیمیہ یا غضبیہ نے دبایا ہوا ہے بعض درمیانی حالت میں ہیں بعض نیکی اور رجوع الی اللہ میں سبقت لے گئے ہیں.(برائین احمد یه چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۵ حاشیہ نمبر ۱۱) ایک وہ گروہ ہے جن پر شیطانی ظلمت غالب ہے اور روح القدس کی چمک کم ہے اور دوسری وہ گروہ ہے جو روح القدس کی چمک اور شیطانی ظلمت ان میں مساوی ہیں اور تیسری وہ گروہ ہے جن پر روح القدس کی چمک غالب آگئی ہے اور خیر محض ہو گئی ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۷ ) قرآن کریم کے اتارنے سے اللہ جلشانہ کا یہ مقصد تھا کہ وہ تمام بنی آدم اور تمام زمانوں اور تمام

Page 458

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ سورة فاطر استعدادوں کی اصلاح اور تکمیل اور تربیت کر سکے اور اسلام کی پوری شکل اور پوری عظمت بنی آدم پر ظاہر ہو اور اس کے ظہور کا وقت بھی آپہنچا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے جو قیامت تک آنے والے تھے ایک کامل اور جامع قانون کی طرح نازل فرمایا اور ہر ایک درجہ کی استعداد کے لئے افادہ اور افاضہ کا دروازہ کھول دیا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ ج عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الكَبِيرُ.یعنی پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو وارث کیا جو ہمارے بندوں میں سے برگزیدہ ہیں اور وہ تین گروہ ہیں (۱) ایک اُن میں سے ظالموں کا گروہ جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں یعنی اکراہ اور جبر سے نفس اتارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.(۲) دوسری میانہ حالت آدمیوں کا گروہ جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے باکراہ اور جبر لیتے ہیں اور بعض للہی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجالاتا ہے غرض وہ لوگ کچھ تو تکلف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی فرمانبرداری ان سے صادر ہوتی ہے یعنی ابھی یوری موافقت اللہ جلشانہ کے ارادوں اور خواہشوں سے ان کو حاصل نہیں اور نہ نفس کی جنگ اور مخالفت سے بکی فراغت بلکہ بعض سلوک کی راہوں میں نفس موافق اور بعض راہوں میں مخالف ہے.(۳) تیسری سابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے یعنی وہ گروہ جو نفس اتارہ پر بنگلی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں جن کے نفوس کی سرکشی اور امارگی بگی دور ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام سے اور اس کی شریعت کی تمام راہوں سے اور اس کی تمام قضا و قدر سے اور اس کی تمام مرضی اور مشیت کی باتوں سے وہ طبعاً پیار کرتے ہیں نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے اور کوئی دقیقہ اطاعت اور فرمانبرداری کا اٹھا نہیں رکھتے اور اللہ جل شانہ کی فرمانبرداری ان کی طبیعت کی جزو اور ان کی جان کی راحت ہو جاتی ہے کہ بغیر اس کے وہ جی ہی نہیں سکتے اور ان کا نفس کمال ذوق اور شوق اور لذت اور شدت میلان اور خوشی سے بھرے ہوئے انشراح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اطاعت بجالاتا ہے اور اس بات کی طرف وہ کسی وقت اور کسی محل اور کسی حکم الہی یا مشیت الہی کی نسبت محتاج نہیں ہوتے کہ اپنے نفس سے با کراہ اور جبر کام لیں بلکہ اُن کا نفس نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کا ارادہ وہ ان کا ارادہ اور جو اس کی مرضی وہ ان کی

Page 459

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۷ سورة فاطر مرضی ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکموں اور مشیتیوں سے ایسا پیار کرتے ہیں کہ جیسا خدا تعالٰی ان امور سے پیار کرتا ہے اسی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کے امتحانوں کے وقت پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ چند قدم آگے رکھ دیتے ہیں.پھر بعد اس کے اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ ان تینوں گروہوں پر میرا بڑا فضل ہے یعنی ظالم بھی مورد فضل اور برگزیدہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور ایسا ہی مقتصد بھی اور سابق بالخیرات تو خود ظاہر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے ظالموں کو بھی اپنے برگزیدہ بندے اور مورد فضل قرار دے دیا ہے اور ان کو اپنے ان پیارے اور چنے ہوئے اور قابل تحسین لوگوں میں شمار کر لیا ہے جن سے وہ بہت ہی خوش ہے حالانکہ قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ جل شانہ ظالموں سے پیار نہیں کرتا اور عدل کو چھوڑنے والے کبھی مورد فضل نہیں ہو سکتے.پس اس دلیل سے بہ بداہت معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں ظالموں کے گروہ سے مراد وہ گروہ نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کا سرکش اور نافرمان اور مشرک اور کافر اور طریق عدل اور راستی کو چھوڑنے والا اور خدا تعالیٰ کی مخالفت کو اختیار کرنے والا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو تو قرآن کریم مردود اور مور د غضب ٹھہراتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ظالموں اور معتدین کو جو طریق عدل اور انصاف چھوڑ دیتے ہیں دوست نہیں رکھتا پھر وہ لوگ مورد فضل کیوں کر ٹھہر سکتے ہیں اور کیوں کر ان کا نام مصطفی اور برگزیدہ اور چنا ہوا رکھا جا سکتا ہے.سوان یقینی اور قطعی دلائل سے نہیں ماننا پڑا کہ اس جگہ ظالم کا لفظ کسی مذموم معنی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسے محمود اور قابل تعریف معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو درجہ سابق بالخیرات سے حصہ لینے کے مستحق اور اس درجہ فاضلہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ معنے بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ظالم سے مراد اس قسم کے لوگ رکھے جائیں کہ جو خدا تعالی کے لئے اپنے نفس مخالف پر جبر اور اکراہ کرتے ہیں اور نفس کے جذبات کم کرنے کے لئے دن رات مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں کیونکہ یہ تو لغت کی رو سے بھی ثابت ہے کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی اور لحاظ کے فقط کم کرنے کے لئے بھی آیا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا أَى وَلَمْ تَنْقُصْ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلا شبہ ان معنوں کی رو سے ایک ظلم ہے ماسوا اس کے ہم ان کتب لغت کو جو صد ہا برس قرآن کریم کے بعد اپنے زمانہ کے محاورات کے موافق طیار ہوئی ہیں قرآن مجید کا حکم نہیں ٹھہرا سکتے.قرآن کریم اپنی لغات کے لئے آپ متکفل ہے اور اس کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی شرح کرتی ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ اصطفاء کا عزت بخش لفظ کبھی دوسرے ظالموں کے حق میں خدا تعالیٰ نے

Page 460

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۸ سورة فاطر استعمال نہیں کیا بلکہ ان کو مردود اور مخذول اور مورد غضب ٹھہرایا ہے مگر اس جگہ ظالم کو اپنا برگزیدہ قرار دیا اور مورد فضل ٹھہرایا ہے اور اس آیت سے صاف ثابت ہو رہا ہے کہ جیسے مقتصد اس لئے برگزیدہ ہے کہ مقتصد ہے اور سابق بالخیرات اس لئے برگزیدہ ہے کہ وہ سابق بالخیرات ہے.اسی طرح ظالم بھی اس لئے برگزیدہ ہے کہ وہ ظالم ہے.پس کیا اب اس ثبوت میں کچھ کسر رہ گئی کہ اس جگہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو خدا تعالیٰ کو پیارا معلوم ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر اکراہ اور جبر کرنا اور نفس کے جذبات کو اللہ جلشانہ کے راضی کرنے کی غرض سے کم کر دینا اور گھٹا دینا اور اس قسم کے ظالموں کا قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں تو ابین بھی نام ہے جن سے اللہ جلشانہ پیار کرتا ہے.غرض ایسا خیال کرنا نعوذ باللہ سخت دھوکا ہے کہ ان ظالموں سے جو اس آیت میں درج ہیں وہ ظالم مراد لئے جائیں جو خدا تعالیٰ کے سخت نا فرمان ہیں اور شرک اور کفر اور فسق کو اختیار کرنے والے اور اس پر راضی ہو جانے والے اور ہدایت کی راہوں سے بغض رکھنے والے ہیں بلکہ وہ ظالم مراد ہیں جو باوجود نفس کے سخت جذبات کے پھر افتاں خیزاں خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے ہیں.اس پر ایک اور قرینہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت غائی ھدی لِلْمُتَّقِينَ قرار دی ہے اور قرآن کریم سے رشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے بالتخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳).پس اس علت غائی پر نظر ڈال کر یقینی اور قطعی طور پر یہ بات فیصلہ پا جاتی ہے کہ ظالم کا لفظ اس آیت میں ایسے شخص کی نسبت ہر گز اطلاق نہیں پایا کہ جو عمد ا نا فرمان اور سرکش اور طریق عدل کو چھوڑنے والا اور شرک اور بے ایمانی کو اختیار کرنے والا ہو.کیونکہ ایسا آدمی تو بلاشبہ دائرہ انتقا سے خارج ہے اور اس لائق ہر گز نہیں ہے کہ ادنی سے ادنی قسم متقیوں میں اس کو داخل کیا جائے مگر آیت مدوحہ میں ظالم کو متقیوں اور مومنوں کے گروہ میں نہ صرف داخل ہی کیا ہے بلکہ متقیوں کا سردار اور ان میں سے برگزیدہ ٹھہرا دیا ہے.پس اس سے جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں ثابت ہوا کہ یہ ظالم ان ظالموں میں سے نہیں ہیں جو دائر و انقا سے بکلی خارج ہیں بلکہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو ظلمت معصیت میں مبتلا تو ہیں مگر با ایں ہمہ خدا تعالیٰ سے سرکش نہیں ہیں بلکہ اپنے سرکش نفس سے کشتی کرتے رہتے ہیں اور تکلف اور تصنع سے اور جس طرح بن پڑے حتی الوسع نفس کے جذبات سے رکنا چاہتے ہیں مگر کبھی نفس غالب ہو جاتا ہے اور معصیت میں ڈال دیتا ہے اور کبھی وہ غالب آ جاتے ہیں اور رورو کر اس سیہ دھبے کو دھو ڈالتے ہیں اور یہ صفت جو ان میں موجود ہوتی ہے دراصل مذموم نہیں.

Page 461

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ سورة فاطر ہے بلکہ محمود اور ترقیات غیر متناہیہ کا مرکب اور مجاہدات شاقہ کا ذریعہ ہے اور در حقیقت یہی صفت مخالفت نفس کی جو دوسرے لفظوں میں ظلومیت کے اسم سے بھی موسوم ہے ایک نہایت قابل تعریف جو ہر انسان میں ہے جو فرشتوں کو بھی نہیں دیا گیا اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : ۷۳).یعنی انسان میں ظلومیت اور جہولیت کی صفت تھی اس لئے اس نے اس امانت کو اٹھا لیا.جس کو وہی شخص اٹھا سکتا ہے جس میں اپنے نفس کی مخالفت اور اپنے نفس پر سختی کرنے کی صفت ہو.غرض یہ صفت ظلومیت انسان کے مراتب سلوک کا ایک مرکب اور اس کے مقامات قرب کے لئے ایک عظیم الشان ذریعہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو بوجہ مجاہدات شاقہ کے اوائل حال میں نار جہنم کی شکل پر تجلی کرتا ہے لیکن آخر نعماء جنت تک پہنچا دیتا ہے اور در حقیقت قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے وَ إِنْ مِنكُمْ إلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْماً مَقْضِيّا ثُمَّ نُنَجِي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ نَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا (مريم : ٧٣ ) - یہ بھی در حقیقت صفت محمود کو ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الا دا ٹھہرا رکھا ہے پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دے دیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں.اس جگہ الظالمین پر جو الف لام آیا ہے.وہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اور اس سے غرض یہ ہے کہ ظالم دو قسم کے ہیں.(۱) ایک متقی ظالم جن کی نجات کا وعدہ ہے اور جو خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں.اور جو آیت فینهُمُ ظالِمُ میں ناجیوں میں شمار کئے گئے ہیں.(۲) دوسرے مشرک اور کافر اور سرکش ظالم جو جہنم میں گرائے جائیں گے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں.اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دار الا بتلا ہے انواع اقسام کے پیرا یہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے اور ایک

Page 462

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة فاطر دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معا اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے.اسی طرح اور بھی احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مومن اسی دنیا میں نار جہنم کا حصہ لے لیتا ہے اور کا فرجہنم میں بجبر واکراہ گرایا جاتا ہے لیکن مومن خدا تعالیٰ کے لئے آپ آگ میں گرتا ہے.ایک اور حدیث اسی مضمون کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک حصہ نار کا ہر یک بشر کے لئے مقدر ہے چاہے تو وہ اس دنیا میں اس آگ کو اپنے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قبول کر لیوے اور چاہے تو تنعم اور غفلت میں عمر گزارے اور آخرت میں اپنے تنعم کا حساب دیوے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۸ تا ۱۴۶) چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک از لی کا فر جو بے قیدی اور اباحت کی زندگی کو چاہتے ہیں اور تین قسم کے مومن.ظالم لنفسہ.مقتصد.سابق بالخیرات.پہلی قسم کے مومن وہ ہیں جو ظالم ہیں یعنی ان پر کچھ کچھ جذباتِ نفس غالب آ جاتے ہیں ، دوسرے میانہ رو، اور تیسرے خیر مجسم.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۷ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) جب انبیاء علیہم السلام مامور ہو کر دنیا میں آتے ہیں تو لوگ تین ذریعوں سے ہدایت پاتے ہیں یہ اس لئے کہ تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ؛ ظالم ،مقتصد اور سابق الخیرات.اول درجے کے لوگ تو سابق بالخیرات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.وہ ایسے صاف دل اور سعید ہوتے ہیں کہ مامور کے چہرہ ہی کو دیکھ کر اس کی صداقت کے قائل ہو جاتے ہیں اور اس کے دعوی کو ہی سن کر اس کو برتنگ دلیل سمجھ لیتے ہیں ان کی عقل ایسی لطیف واقع ہوئی ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کی ظاہری صورت اور ان کی باتوں کو سن کر قبول کر لیتے ہیں.دوسرے درجہ کے لوگ مقتصد بن کہلاتے ہیں جو ہوتے تو سعید ہیں مگر ان کو دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شہادت سے مانتے ہیں.تیسرے درجہ کے لوگ جو ظالمین ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کچھ ایسی وضع پر واقع ہوتی ہے کہ وہ بجز مار کھانے اور سختی کے مانتے ہی نہیں.احکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مور محه ۲۴ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶) دنیا میں ہمیشہ انسانوں کے تین طبقے ہوتے ہیں.سابق بالخیرات مقتصد اور ظالم.سابقین کو نشانات اور معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی وہ تو قرائن اور حالات موجودہ سے پہچان لیتے ہیں.مقتصد ین کو کچھ حصہ روشن دماغی

Page 463

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۱ سورة فاطر کا ملا ہوا ہوتا ہے اور کچھ تاریکی کا.اس لئے وہ دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں.مگر تیسرا طبقہ جو ظالمین کا ہوتا ہے وہ چونکہ بہت ہی نبی اور بلید ہوتے ہیں.بجز مار کھانے کے وہ نہیں مانتے.یہ ایک قسم کا جبر ہوتا ہے جو ہر مذہب حق میں پایا جاتا ہے کیونکہ ظالمین بجز اس کے سمجھ نہیں سکتے.حضرت مسیح کے لئے طیطا ؤس رومی کا اتفاق ہو گیا.موسیٰ کی قوم جو پہلے ہی سے مزدور یوں اور فرعون کی سختیوں سے نالاں تھی اس نے حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبول کر لینا اپنی نجات کا موجب سمجھا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے وقتاً فوقتاً ان پر طاعون ہے.عذاب بھیجتارہا.کبھی طاعون کبھی زلزلے.مختلف طریق پر انہیں منوایا اور اسی طرح ہوتارہا ہے.غرض یہ ایک سنت اللہ ہے کہ ظالمین کو اللہ تعالیٰ اس طریق پر سمجھاتا ہے کیوں؟ یہ فرقہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور نبی بھی.اس وقت بھی یہ فرقہ زیادہ ہے.جو نشانات خدا نے ظاہر کئے ان پر بھی بھی جرح کرتے ہیں.کسوف خسوف کی حدیث کو مجروح قرار دے دیا لیکھرام کی پیشگوئی پر اعتراض کر دیا.ہر نشان جو ظاہر ہوتا ہے اعتراض کر دیتے ہیں مگر خدا تو سب کا مرشد ہے اس لئے تیسری صورت اور آخری حجت اختیار کی ہے جو الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶) مومن کی جو تقسیم قرآن شریف میں کی گئی ہے اس کے تین ہی درجے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں ظالم ،مقتصد، سابق بالخیرات.یہ ان کے مدارج ہیں ورنہ اسلام کے اندر یہ داخل ہیں.ظالم وہ ہوتا ہے کہ ابھی اس میں بہت غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور مقتصد وہ ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان سے اس کی جنگ ہوتی ہے مگر کبھی یہ غالب آجاتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے.کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور صلاحیت بھی.اور سابق بالخیرات وہ ہوتا ہے جو ان دونوں درجوں سے نکل کر مستقل طور پر نیکیاں کرنے میں سبقت لے جاوے اور بالکل صلاحیت ہی ہو.نفس اور شیطان کو مغلوب کر چکا ہو.قرآن شریف ان سب کو مسلمان ہی کہتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ارنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) مقتصد سے مراد نفس لوامہ والے ہیں اور یہ تکالیف نفس لوامہ تک ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کے ساتھ کشاکش نفس امارہ کی ہوتی ہے.وہ کہتا ہے کہ راحت اور آرام کی یہ بات اختیار کر اور لوامہ وہ نہیں کرتا اس وقت انسان مجاہدہ کرتا ہے اور نفس امارہ کو زیر کرتا ہے اور اسی طرح جنگ ہوتی رہتی ہے حتی کہ امارہ شکست کھا جاتا ہے اور پھر نفس مطمونہ رہ جاتا ہے......اس آیت میں ظالم سے مراد نفس امارہ والے اور مقتصد سے مراد لوامہ والے اور سابق بالخیرات سے مراد مطمئنہ والے ہیں.پوری تبدیلی زندگی میں جب تک نہ

Page 464

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۲ سورة فاطر آوے تب تک جنگ رہتی ہے اور لوامہ تک یہ جنگ ہے جب یہ ختم ہوئی تو پھر دار النعیم میں آجاتا ہے.(البدر جلد نمبر ۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۱) ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ نفس امارہ کے تابع ہیں کہ جس راہ پر نفس نے ڈالا اسی راہ پر چل پڑے سے ہوتے ہیں.اور وہ صحرا بکھر کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی مثال بہائم کی ہے اس لئے کسی مد میں نہیں آسکتے اور یہ کثرت البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰) مومنوں کے تین طبقے ہیں ایک وہ جو ٹھو کر کھانے کے لائق ہوتے ہیں.دوسرے وہ جو میانہ رو کسی ٹھوکر سے بچتے اور ڈرتے رہتے ہیں.تیسرے وہ جو ہر ایک ٹھوکر سے ایسے بیچ کر نکل جاتے ہیں جیسے کہ سانپ اپنی کیچلی (سے).وہ ہر ایک خیر کے لئے دوڑتے اور ہر ایک شر سے بھاگتے ہیں.....قسم اول ظالم لِنَفْسِه - دوئم مُقْتَصِدٌ - سوم سَابِقٌ بِالْخَيْراتِ - الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخه ۷ ارجون ۱۹۰۳ ، صفحہ ۱۷) سب لوگ ایک طبقہ کے نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ بھی قرآن شریف میں مومنوں کے طبقات بیان کرتا ہے مِنْهُم ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدُ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْراتِ کہ بعض ان میں سے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو اور بعض سبقت کرنے والے.ج البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ / جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں.ظالم لنفسہ.مقتصد.سابق بالخیرات.ظالم لنفسہ تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجے پر ہوتے ہیں.جہاں تک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں.مقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں.ایک درجہ تک وہ نفس امارہ سے نجات پا جاتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی.مگر سابق بالخیرات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعال حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے گویا ان سے نفس امارہ پر بالکل موت آجاتی ہے اور وہ مطمئنہ حالت میں ہوتے ہیں.ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے.اس لئے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد

Page 465

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۳ سورة فاطر تیک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں حَسَناتُ الْأَبْرَارِ سَيْئَاتُ الْمُقَرَّبِينَ - الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۶،۵) تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو ظالم نفسہ کہلاتے ہیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ خواہشِ نفس ان پر غالب ہوتی ہے اور وہ گو یا پنجہ نفس میں گرفتار ہوتے ہیں.دوم وہ لوگ ہیں جو مقتصد یعنی میانہ رو کہلاتے ہیں یعنی کبھی نفس ان پر غالب ہو جاتا ہے اور کبھی وہ نفس پر غالب ہو جاتے ہیں اور پہلی حالت سے نکل چکے ہوتے ہیں.لیکن تیسر اگر وہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو پنج نفس سے بکلی رہائی پالیتے ہیں اور وہ سابق بالخیرات کہلاتے ہیں یعنی نیکی کرنے میں سب سے سبقت لے جاتے ہیں اور وہ محض خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں.ان میں علمی اور عملی قوت آجاتی ہے.ایسے لوگ خدمت دین کے لئے مفید اور کارآمد ہوتے ہیں.القام جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخہ ۷ار جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) فطرتا انسان تین قسم کے ہوتے ہیں ایک فطر نا ظالم لنفسہ دوسرے مقتصد یعنی کچھ نیکی سے بہرہ ور اور کچھ برائی سے آلودہ سوم برے کاموں سے متنفر اور سابق بالخرات.پس یہ آخری سلسلہ ایسا ہوتا ہے کہ اجتبی اور اصطفی اس کے مراتب پر پہنچتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کا گروہ ایسے پاک سلسلہ میں سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے دنیا ایسے لوگوں سے خالی نہیں.( حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحہ ۲۲) پہلی دونوں صفات اونی ہیں سابق بالخیرات بننا چاہیے.ایک ہی مقام پر ٹھیر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.دیکھو ٹھیرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے.کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بد بودار اور بدمزہ ہو جاتا ہے.چلتا ا پانی ہمیشہ عمدہ، ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے اگر چہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہومگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کرسکتا.یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھیر نہیں جانا چاہیے یہ حالت خطرناک ہے ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہیے.نیکی میں ترقی کرنی چاہیے ورنہ خدا انسان کی مدد نہیں کرتا اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے.اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے.خدا کی نصرت انہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ایک جگہ نہیں ٹھیر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے.انتقام جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۶)

Page 466

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۴ سورة فاطر ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا.ہم نے کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جن کو ہم نے چن لیا.یعنی ان لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جیسے ایک مکان کی کل کھڑکیاں کھلی ہیں کہ کوئی گوشہ تاریکی کا اس میں نہیں اور روشنی خوب صاف اور کھلی آرہی ہے.اسی طرح ان کے مکالمہ کا حال ہوتا ہے....کہ اجلی اور بہت کثرت سے ہوتا ہے.(الہدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴۲) دعاوہ ہوتی ہے جو کہ خدا کے پیارے کرتے ہی ورنہ یوں تو خدا تعالیٰ ہندوؤں کی بھی سنتا ہے اور بعض ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں مگر ان کا نام ابتلاء ہے دعا نہیں.مثلاً اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا؟ اس کا وعدہ ہے مَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا - کتے بلی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں.کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے مگر اضطفینا کا لفظ خاص موقعوں کے لئے ہے.ج البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۸) خدا تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں میں امتیاز رکھا ہے جیسے کہ فرمایا ہے فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ ۚ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُم سَابِقُ بِالْخَيْراتِ.....ضروری بات یہ ہے کہ تم لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو اور تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرو تمہارا معاملہ اور حساب خدا سے الگ ہے اور مخالف لوگوں کا حساب الگ ہے جنہوں نے قسم کھائی ہے کہ کیسی ہی سچی بات کیوں نہ ہو مگر وہ قبول نہ کریں گے.اللہ تعالیٰ بھی ان کی نسبت یہی فرماتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو ہی قبول کریں گے.ان کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ عمدہ شے یا بات جو پیش کی جاوے وہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اگر بد بودار بات ہو تو خوش ہوتے ہیں.قرآن شریف، احادیث اور عقلی دلائل اور نشان پیش کئے مگر یہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے.صرف ایک بات کو نشانہ بناتے ہیں.پس جب کہ خدا نے نہ چاہا کہ ایک مذہب ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں مگر جن لوگوں کو خدا نے فہم سلیم عطا کیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ شکر کریں کیونکہ فائدہ اُٹھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا نے خود پاک کیا.احکم جلد ۸ نمبر ۳۵،۳۴ مورخه ۱۰ تا ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۴ صفحه ۱) تین قسم کے مومن ہوتے ہیں.ایک تو ظالم لنفسہ ہوتے ہیں.ان میں گناہ کی آلائش موجود ہوتی ہے بعض میانہ رو اور بعض سراسر نیک ہوتے ہیں.اب ہمیں کیا معلوم ہے کہ کون کس درجہ اور مقام پر ہے.ہر ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ الگ معاملہ ہے جیسا کوئی اس سے تعلق رکھتا ہے ویسا ہی وہ اس سے معاملہ کرتا ہے جو لوگ کامل الایمان ہیں میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے امتیاز دے گا کیونکہ مومن اور کافر کے

Page 467

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۵ سورة فاطر درمیان ایک فرقان رکھا جاتا ہے قرآن شریف میں مومن سے وہ مراد نہیں ہے کہ صرف زبان تک ہی اس کی قیل وقال محدود ہو اور صبح وہ ایمان کا کام کرے تو شام کو کفر کا کرے.ایک لقمہ وہ تریاق کا کھاتا ہے اور دوسرا زہر کا بھی کھا لیتا ہے ایسے شخص کو وہ فرقان اور امتیاز جو مومن کے لئے مقرر کیا گیا ہے نہیں دیا جاتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) ایماندار تین قسم کے ہیں (۱) اول وہ جو ظالم ہیں یعنی انواع و اقسام کے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور گنہ کا پلہ ان کا بھاری ہوتا ہے (۲) دوسرے وہ جو میانہ رو ہیں یعنی کچھ تو گنہ کرتے ہیں اور کچھ نیک اعمال اور دونوں حالتوں میں مساوی ہوتے ہیں (۳) اور تیسرے درجہ کے وہ لوگ ہیں جو عمدہ اخلاق اور عمدہ اعمال میں سبقت لے جاتے ہیں...بغرض ایمان لانے والوں کے تین درجے ہیں ظالم ،مقتصد، سابق بالخیرات.ظالم ہونے کی حالت میں انسان اپنی بداعمالی کی حالت کو محسوس کر لیتا ہے اور مقتصد ہونے کی حالت میں نیکی کے بجالانے کی توفیق پاتا ہے مگر پورے طور پر بجا نہیں لاسکتا اور سابق بالخیرات ہونے کی حالت میں جہاں تک اس کی فطرت کی طاقت ہے پورے طور پر نیکی بجالاتا ہے اور نیک اعمال کے بجالانے میں آگے سے آگے دوڑتا ہے اور اس درجہ پر انسان کو خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور قدرت کا اس قدر علم ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس کو دیکھتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ خود اس کو اپنے خارق عادت تصرفات کے ساتھ راہ دکھا دیتا ہے.روح القدس کی تائید جو مومن کے شامل حال ہوتی ہے وہ محض خدا تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے جو ان کو ملتا ہے جو سچے دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں وہ کسی مجاہدہ سے نہیں ملتا محض ایمان سے ملتا ہے اور مفت ملتا ہے صرف یہ شرط ہے کہ ایسا شخص ایمان میں صادق ہو اور قدم استوار اور امتحان کے وقت صابر ہو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۶) قرآن مجید میں ہے فَمِنهُم ظَالِمُ لِنَفْسِهِ ۚ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِل وَ مِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ - ہم تینوں طبقوں کے لوگوں کو مسلمان کہتے ہیں مگر ان کو کیا کہیں جو مومن کو کافر کہیں.جو ہمیں کافر کہیں گے ہم انہیں بھی اس وقت تک ان کے ساتھ سمجھیں گے جب تک کہ وہ ان سے الگ ہونے کا اعلان بذریعہ اشتہارنہ کریں اور ساتھ ہی نام بنام یہ نہ کھیں کہ ہم ان مکفرین کو بموجب حدیث صحیح کا فرسمجھتے ہیں.دوو ( البدر جلد نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۲۰) اِسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكَرَ السَّبِي وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّبِي إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ

Page 468

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۶ سورة فاطر يَنْظُرُونَ الاَ سُنَتَ الأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تحويلات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے یہودیوں کو یہ جواب ملا ہے کہ ایلیا نبی کے دوبارہ آنے سے یوحنا نبی یعنی سیمی کا آنا مراد تھا تو ایک دیندار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کا دوبارہ آنا بھی اسی طرز سے ہوگا کیونکہ یہ وہی سنت اللہ ہے جو پہلے گزر چکی ہے.فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا - ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۹) اہل اللہ کے دو ہی کام ہوتے ہیں جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضا و قدر اس طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھا جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ دو قسمیں رکھ دی ہیں اور یہ اس کی سنت ٹھہر چکی ہے اور یہ بھی اس نے فرمایا ہے لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تبدیلا پھر کس قدر غلطی ہے جو انسان اس کے خلاف چاہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۳) سارے نشانات عام لوگوں کے خیالات کے موافق کبھی پورے نہیں ہوا کرتے ہیں تو پھر انبیاء کے وقت اختلاف اور انکار کیوں ہو؟ یہودیوں سے پوچھو کہ کیا وہ مانتے ہیں کہ مسیح کے آنے کے وقت سارے نشانات پورے ہو چکے تھے ؟ نہیں.یادرکھو! قانونِ قدرت اور سنت اللہ اس معاملہ میں یہی ہے جو میں پیش کرتا ہوں لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلا - الحکم جلدے نمبر۷ مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۱) خدا تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بدلا کرتا جیسے قرآن شریف میں ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا اور جو انسان ذراسی بھی نیکی کرتا ہے تو خدا اسے ضائع نہیں کرتا.اسی طرح جو ذرہ بھر بدی کرتا ہے اس پر بھی خدا تعالیٰ مؤاخذہ کرتا ہے.پس جب یہ حالت ہے تو گناہ سے بہت بچنا چاہیے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ /اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۸) خدا تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذاب الہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی.یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ الله تبدیل منت اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں

Page 469

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۷ سورة فاطر ہوتی.پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کے لئے تیار کئے ہیں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُوا مَا بِأَنْفُهم (الرعد : ۱۲ ) میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے اور دکھ کو سکھ سے تبدیل کر دیتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) تزکیہ نفس بجر فضل خدا میسر نہیں آسکتا یہ خدا تعالیٰ کا اٹل قانون ہے.لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلا اور اس کا قانون جو جاذب فضل کے واسطے ہمیشہ سے مقرر ہے وہ یہی ہے کہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴) جاوے.وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُوَخِرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا اور اگر خدا ان لوگوں سے ان کے گناہوں کا مؤاخذہ کرتا تو زمین پر ایک بھی زندہ نہ چھوڑتا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۲،۶۵۱) خدا اگر لوگوں کے اعمال پر جو اپنے اختیار سے کرتے ہیں ان کو پکڑتا تو کوئی زمین پر چلنے والا نہ چھوڑتا.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱)

Page 469

← Previous BookNext Book →