Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 5

Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 5

تفسیر حضرت مسیح موعودؑ (جلد ۵)

Chapters: 14-22
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام


Book Content

Page 1

تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی سیح موعود و مہدی معہود علیه السلام جلد پنجم سورۃ ابراهيم تا سورة الحج

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے.“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه (۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مدمقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." (اعجاز امسح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمعه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں ، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک

Page 3

ii کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہو گئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو -۱ تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳ اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں." (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے.آمین

Page 4

iii بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) اَلْحَمْدُ لِلهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ " قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ ہے.معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچه مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوئی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.

Page 5

iv جون ۱۹۶۹ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.

Page 6

بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم صفحہ 1 11 ۱۷ ۱۸ مختصر فہرست مضامین جلد پنجم مضمون قرآن شریف ہر ایک طور کے وساوس اور خیالات فاسدہ کو دور کرتا ہے اعتراض کا جواب کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان میں الہام ہونا چاہیے مگر آپ کو عربی میں ہی کیوں ہوتے ہیں انبیاء جب مخالفوں کی مخالفت انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو توجہ نام سے اقبال علی اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةِ الحَ میں خدائے تعالیٰ نے ایمانی کلمہ کو پھل دار درخت سے مشابہت دے کر اس کی تین علامتیں بیان فرمائیں اللہ تعالیٰ نے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طيبة الخ میں کلام پاک کا کمال تین باتوں میں موقوف قرار دیا ہے خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں قرآن مجید میں واحد کے صیغہ اور جمع کے صیغہ دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں ہزار ششم میں پہلی طرز تمدن میں جدت آگئی خدا تعالیٰ حفاظت قرآن کے لیے نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہے گا إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ میں مجدد کی بعثت کی طرف اشارہ نمبر شمار ۹

Page 7

صفحہ ۱۹ ۲۱ ۲۲ 7 1 7 1 ۳۲ ٣٣ ۳۵ 3 ۴۱ ۴۲ ۴۲ ۴۵ vi مضمون خدا تعالیٰ کے بموجب وعدہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ تحفظون مسیح موعود کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے حديث إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَيِّدُ لَهَا دِينَهَا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کی شرح ہے قرآن کریم لا تبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لئے ہے ایک قوم جان بھی آدم سے پہلے موجود تھی انسان کامل کی تین نشانیاں قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے شیطان کو ہلاک کرنے کے لیے آخری زمانہ مثیل آدم کی پیدائش حديث مَا مِنْ مَّوْلُودٌ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَنُ فِيْهِ حِيْنَ يُوْلَدُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا کی تاویل ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے فرمان کا جواب کہ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حضرت عیسی کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ اس کا کیا بستر ہے ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۱۵ ۱۶ لا ۱۸ S ۱۹ نمبر شمار 11 = ۱۲ ۱۳ ۱۴

Page 8

vii مضمون شیعوں کے مذہب کہ صحابہ کے درمیان آپس میں سخت دشمنی تھی کی تردید بمطابق آیت وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ مسیح بہشت سے نکل کر دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتے صفحہ { ۴۶ ۴۷ ۴۹ ۵۳ ۵۷ ۵۹ ۶۰ F ۶۲ آیت وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ میں یقین سے مراد رحم بلا مبادله نمبر شمار ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ N وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ اَمْوَاتُ غَيْرُ احیا و الخ سے وفات مسیح کی دلیل دو دوبارہ آسمان سے اترنے کے امر متنازعہ فیہ مقدمہ کا حضرت عیسی آپ ہی فیصلہ کر چکے ہیں کتب سابقہ بنی اسرائیل کا بیان کہ یا جوج ماجوج سے مراد یورپ کی عیسائی قومیں ہیں صحابہ کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی عابد کامل کی عبادتیں ساقط ہو جانے کی شرح وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ میں اشارہ ہے کہ جو فساد بنی آدم کے مختلف کاموں سے پھیلا ہے اس کی اصلاح بھی کلام الہی ہی پر موقوف ہے وَ اللهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا الخَ سے حضرت خاتم الانبیاء کے نبی صادق ہونے کی دلیل ۶۳ ۶۶ ۶۷ ۲۸ وحی غیر شریعت کے نزول کے قائلین شہد شفاء للناس ہے ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ رکعات اشراق نماز

Page 9

۹۵ 21 ۷۳ صفح ۶۷ ۶۷ ۶۸ viii ۴۲ ۴۳ روح کا جسم سے تعلق مضمون خدا کی ذات کو تشبیہ اور تنزیہ کے بین بین رکھنا یہی وسط ہے سلسلہ تعامل کی حدیثوں یعنی سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے تعلیم قرآن پر زیادت آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَايْ ذِي الْقُرْبَى کے دو معنے.پہلے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت اور دوسرے ہمدردی بنی نوع سے متعلق ایصال خیر کے تین درجے عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِي ذِي الْقُرْبَى الخَ میں کمال بلاغت یہ ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے یہود و نصاریٰ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول قرآن کے حوالہ سے تین آراء ایمان کی حالت میں بغیر عمد کے اکراہ کے ساتھ فوق الطاقت عذاب کے وقت منہ سے کفر کے کلمات نکل جانے پر تو بہ کی شرائط سود بحالت اضطرار بھی جائز نہیں دین میں صرف قیاس کرنا سخت منع ہے قیاس وہ جائز ہے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہو.مجادلہ حسنہ کے معنے متقی ترک شر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضہ خیر کو چاہتا ہے سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا ۸۵ ۸۷ ۸۸ ۸۸ ۸۹ ۹۲ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ R ° ? } نمبر شمار ۳۸ ۳۹ ? ۴۱

Page 10

صفحہ ۹۶ ۹۹ 1++ : 1++ ۱۰۵ ۱۰۸ 1+9 11.111 ۱۱۳ ۱۱۴ ix مضمون آیت سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِى بُرَكْنَا حَولَة معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے 1199 سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِ؟ لیلا الخ میں دو زمانوں کی طرف اشارہ - ا.تائیدات اور آفات کے دور کرنے کا زمانہ.۲.برکات اور پاکیزہ تعلیمات کے پھیلانے کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج تین قسم پر منقسم ہے سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لا مکانی ولا زمانی مسجد حرام کے لفظ میں اور مسجد اقصیٰ کے لفظ میں جس کے وصف میں بركنا حوله مذکور ہوا ہے لطیف اشارہ ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد بھی ہے ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں.یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہ ہے وَكُلَّ اِنْسَانِ الزَمْنَهُ طَبَرَةُ فِي عُنقہ میں جو طائر کا لفظ ہے استعارہ کے طور پر اس سے مراد عمل بھی ہے نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لیے نبی کو لاتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَدِ بِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً میں مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی مُعَذِّبِينَ دنیوی عذاب کا موجب کفر نہیں ہے بلکہ شرارت اور تکبر میں حد سے زیادہ بڑھ جانا موجب ہے فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ وَلَا تَنْهَرُهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طرف ہے نمبر شمار ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱

Page 11

صفحہ ۱۱۷ 119 ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۳۰ ۱۳۰ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۳ X مضمون تمام اعضا اور قو تیں جو انسان میں موجود ہیں ان سب کے غیر محل استعمال کرنے سے باز پرس ہوگی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ میں تسبیح کے معنے ایسی بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے طاعون آگ جو مشرق سے نکلی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی طاعون کی خبر قرآن شریف میں صریح لفظوں میں موجود ہے طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.ا.نشان تخویف و تعذیب ۲.نشان تبشیر وتسکین وَ مَا مَنَعَنَا أَنْ تُرسِلَ بِالْايَتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ کے نمبر شمار ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ صحیح معنے آیت وَ مَا مَنَعَنَا أَنْ تُرسِلَ بِالْأَیتِ الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات ولادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک جن میں نفخ روح القدس کا اثر ہوتا ہے دوسری وہ جن میں شیطانی حصہ ہوتا ہے وَشَارِكَهُمْ فِي الأَمْوَالِ وَالْأَولاد یہ شیطان کو خطاب ہے حدیث کہ بجو حضرت عیسیٰ اور ان کی ماں کے کوئی مس شیطان سے محفوظ نہیں کے معنے

Page 12

صفحہ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۵ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۸ ۱۵۸ ۱۶۰ ۱۶۲ ۱۶۶ ۱۶۷ xi مضمون مَنْ كَانَ فِي هذة أعلى فَهُوَ فِي الْآخِرَق اعلی کا مفہوم یہی ہے کہ بہشتی زندگی اور جہنمی نابینائی کی جڑ اسی جہان سے پڑتی ہے اس زمانے میں یقین کامل کا ذریعہ کون سا ہے کیوں کر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اولیاء میں داخل ہو پھر خدا اسے ایسا اندھار کھے کہ اس کے نبی کو شناخت نہ کر سکے مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے پنجگانہ نماز کے اوقات انسانی زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ میں حق اور باطل سے مراد آریہ کا اعتقاد کہ کل ارواح انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں اگر ارواح اور اجسام خود بخو د قدیم اور انادی ہیں تو خدا کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی عیسائیوں کے قول کہ حضرت مسیح کلمۃ اللہ ہیں کا قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ ربی میں جواب ارواح کے حادث اور مخلوق ہونے کے قرآن شریف میں قوی اور قطعی دلائل وَمَا أُوتِيتُم مِنَ الْعِلْمِ الاَ قَلِیلا کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ کفار ہیں روح کے رحم میں پیدا ہونے سے مراد قرآن روح کو مخلوق بھی مانتا ہے اور فانی بھی قبور کے ساتھ تعلق ارواح نمبر شمار ۷۵ ۷۶ ۷۸ ۷۹ ۰۷ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ۸۸ ۸۹

Page 13

صفح 121 ۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۵ ۱۷۹ ۱۸۷ ۱۸۹ 190 ۱۹۳ ۱۹۳ ۱۹۵ ۱۹۵ ۱۹۷ ۲۰۲ xii مضمون روح تین قسم کی ہوتی ہے روح نباتی ، روح حیوانی ، روح انسانی منکر معجزات قرآنیہ کو مقابلہ کی دعوت قرآن کا دعوی اعجاز بلاغت کفار کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگنے پر خدا تعالیٰ کا جواب جن لوگوں نے مسیح کو مع جسم آسمان پر اٹھانے کے خیالات پھیلائے ہیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً صحیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے متصوفین کے مذاق کے مطابق صعود اور نزول کے معنے خدا کی ولایت کے معنے حدیث میں آیا ہے کہ جب تم دجال کو دیکھو تو سورۃ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو دجال سے مراد کون سا گروہ ہے؟ أمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ میں رقیم سے مراد اوی کا لفظ عربی زبان میں اس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب اول کوئی شخص مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن آجاتا ہے كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ أَتَتْ أكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا میں لَمْ تَظْلِمُ کے معنی ہیں لم تنقض كَانَ مِنَ الْجِن کے یہ معنے ہوئے کہ فقط ابلیس ہی قوم جن میں سے تھا ملائکہ میں سے نہیں تھا جو امر بذریعہ الہام الہی کسی پر نازل ہو واجب التعمیل ہوتا ہے نمبر شمار ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ ச 1++ 1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴

Page 14

xiii مضمون منکرین الہام کی مجبت کا جواب کہ اگر الہام حق اور صحیح ہے تو صحابہ جناب پیغمبر خدا اس کے پانے کے لیے احق اور اولی تھے حالانکہ ان کا پانا متفق نہیں صفحہ ۲۰۳ سی الزام کہ صحابہ کرام سے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے ۲۰۴ پلیدوں کے عذاب پر خدا پروا نہیں کرتا کہ ان کے بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا اور راستبازوں کے لئے كَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا کی رعایت کرتا ہے ۲۰۷ اس وحی الہی کی رو سے کہ جبری اللہ فی حلل الانبیاء اس امت کے لیے ذوالقرنین میں ہوں اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ذوالقرنین نے تین قو میں پائیں اول وہ جو غروب آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے اس سے مراد عیسائی قوم ہے دوسری قوم وہ ہے جو آ فتاب کے پاس ہے اور جھلسنے والی دھوپ ہے یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یا جوج ماجوج سے بچا یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی ذوالقرنین کا مطلب ہے دوصدیاں پانے والا مفتی صاحب نے ۱۶ یا کا صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں وہ ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے اور ہے اور سکندر رومی اور اور شخص ہے اس سوال کا جواب قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ذوالقرنین نے آفتاب کو دلدل میں غروب ہوتے پایا ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۳ ۲۱۶ ۲۱۸ ۲۲۲ نمبر شمار ۱۰۵ 1+7 ۱۰۷ ۱۰۸ 1+9 11.= " ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵

Page 15

xiv مضمون یا جوج ماجوج یورپین عیسائی اور روس ہیں یا جوج ماجوج کے لمبے کانوں سے مراد جاسوسی کی مشق ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَن يَمُوجُ فِي بَعْضٍ سے مراد احادیث صحیحہ صاف بتلا رہی ہیں کہ یا جوج ماجوج کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے کتب سابقہ بنی اسرائیل کے بیان تین قسم کے ہیں نُفِخَ فِى الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا سے مراد ایک مامور کو بھیجا جائے گا دو فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَزْنا میں گناہ کا ذکر نہیں ہے مخلوقات اپنے مجازی معنوں کی رو سے تمام کلمات اللہ ہی ہیں اس دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے دورود قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کی تہ میں ایک راز اللہ تعالیٰ کے بندوں اور برگزیدوں میں بشریت ہوتی ہے قرآن شریف انبیاء بنی اسرائیل کے مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے آیت سَلَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ صاف دلالت کر رہی ہے کہ مس شیطان سے محفوظ ہونا ابن مریم سے مخصوص نہیں مریم کے لفظ کی وجہ تسمیہ صفحہ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۳۱ ۲۳۶ ۲۳۸ ۲۴۳ ۲۴۷ ۲۴۹ ۲۵۱ ۲۵۳ ۲۵۴ ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۵۹ ولتجعله آيَةً لِلنَّاسِ اس جگہ الناس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے ۲۶۰ قرآن شریف میں تو یہ بھی لفظ نہیں کہ ہارون نبی کی مریم ہمشیر تھی و اوصيني بالصلوة والزكوة مَا دُمْتُ حَيًّا آیت سے مسیح کی موت ثابت ہوتی ہے ۲۶۱ ۲۶۲ نمبر شمار ١١٦ ۱۱۷ ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ الله.۱۳۱ ۱۳۲

Page 16

صفحہ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۷ ۲۷۳ ۲۷۷ ۲۷۸ ۲۷۹ ۲۸۰ ۲۸۱ ۲۸۲ ۲۸۲ ۲۸۴ ۲۸۵ XV مضمون آیت وَسَلَامٌ عَلَى يَوْمَ وُلِدتُ وَيَوْمَ أُمُوتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيًّا میں اگر رفع اور نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا ادریس نبی کے حق میں ہے وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا تاہم علماء اور میں کی وفات کے قائل ہیں آيات وَ اِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَى رَبَّكَ حَتْمًا مَقْضِيَّا الخ کے تین معنے تَكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هدا کے معنے الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ استوی پر ایک اعتراض کا جواب سوال کا جواب کہ کیا خدا آسمان پر ہے نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے محبت کے لغوی معنے حفظ مراتب کا لحاظ آیت رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدی سے ہستی باری کی دلیل جن کو خدا تعالیٰ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرى سے وفات مسیح کا ثبوت سوال کا جواب کہ آدم کی جنت کہاں تھی نمبر شمار ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۵

Page 17

صفحہ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۹۲ ۲۹۳ xvi مضمون خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوگا وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف ونحو کے ماتحت نہیں چلتا علق دو قسم کا ہوتا ہے.ا.شیطانی علو.۲.خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کے لئے علو اس سوال کے جواب میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں نے جو جادو کیا تھا اس کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے جیسا کہ جسمی ترکیب میں انحلال ہو کہ جسم پر موت آتی ہے ایسا ہی روحانی صفات میں تغیرات پیدا ہو کر روح پر موت آجاتی ہے قوت بسطت فی العلم امامت کے لیے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے حوا کے چار گناہ دل کے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوتا جب تک کہ انسان عزم نہ کر لے ۲۹۴ مَعِيشَةً ضَنكًا اس کا نام ہے جو قیامت کے دن زقوم کی صورت پر متمثل ہو جائے گی نبیوں اور ماموروں سے اقتراحی نشان مانگنے پر نفی میں جواب نشان دو قسم کے ہوتے ہیں سابقہ کتب انبیاء بنی اسرائیل سے استفادہ کرنا جائز ہے آیت وَمَا جَعَلْنَهُمْ جَسَدًا إِلَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ سے وفات مسیح پر استدلال اگر ہم بیٹا بناتے تو اپنے پاس سے بیٹا بناتے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَةُ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا سے خدا تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے پر عقلی دلیل ۲۹۵ ۲۹۸ ۲۹۹ ۳۰۵ ۳۰۵ نمبر شمار ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹

Page 18

xvii مضمون خدا تعالی کے رب العرش ہونے کا مطلب وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنّى الهُ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذلِكَ نَجْزِي الظَّلِمِينَ میں مِن دُونِہ کی شرط لگانے کی وجہ حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر اپنے کمال خلقت کے وقت ایک گٹھڑی کی طرح تھا علم ہیئت کے یورپین محققین جس طرز سے آسمانوں کے وجود کی نسبت خیال رکھتے ہیں در حقیقت وہ خیال قرآن کریم کے مخالف نہیں یونانیوں نے آسمان کو اجسام کثیفہ تسلیم کیا ہے كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ کے معنے وَالسَّمَوتُ مَطوِينَ بِيَمِينِهِ کے معنے طاعون کے متعلق اعتراض کا جواب کہ اکثر غریب مرتے ہیں تکفیر تو مولویوں نے کی تھی نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں وَهذَا ذكر مبرك انْزَلْنَهُ الخ میں ذکر سے مراد اس بات کے ماننے سے کہ خدا تعالیٰ کی غیر متناہی حکمت استحالات غیر متناہیہ پر قادر ہے حقائق الاشیاء سے امن اٹھ جاتا ہے کا جواب ہر وقت ہر یک جسم میں استحالہ اپنا کام کر رہا ہے اور دوطور کے استحالے ان پر حکومت کر رہے ہیں صفحہ ۳۰۵ ۳۰۸ ۳۰۹ ۳۱۲ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۱۵ ۳۲۱ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۳ ينار كوني برد او سَلْمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ کا معجزہ بھی خارج از اسباب نہیں ۳۲۶ ۳۲۷ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شرعی دوسرے کونی نمبر شمار ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۴ ܬܪܙ ۱۶۶ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ 121 ۱۷۲ ۱۷۳

Page 19

xviii مضمون آریہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے پر اعتراض کرتے ہیں کا جواب الہام حضرت مسیح موعود آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے یونس کی قوم کی معافی سے عیسائیوں کے کفارہ کی بھی بیخ کنی ہو گئی اگر تو به استغفار قبل نزول عذاب ہو تو وقتِ نزول عذاب ٹل جاتا ہے وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا میں نون اور مغاضبت سے مراد انسانوں کی پیدائش میں دو قسم کی شراکت.۱.ایک روح القدس کی شراکت.۲.اور ایک شیطان کی شراکت مریم علیہا السلام نے ساری عمر نکاح نہیں کیا کی دلیل و التى اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا كا جواب صفحہ ۳۲۷ ۳۲۸ ۳۳۴ ۳۳۷ ۳۳۸ ۳۴ ۳۴۱ مخالفین کے اعتراض کہ اَحْصَنَتْ فَرجها خلاف تہذیب ہے کا جواب ۳۴۱ قرآن شریف میں مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک مثال فرعون کی عورت سے ، دوسری مثال حضرت مریم سے جب دنیا نے اتحاد اور اجتماع کے لیے پلٹا کھایا تب خدا نے سب دنیا کے لیے ہی نبی بھیجا تا کہ کامل وحدت پیدا کرے حضرت یونس قطعی طور پر عذاب کو سمجھے تھے اگر کوئی شرط منجانب اللہ ہوتی تو ابتلا کیوں آتا وعدہ اور وعید کی تاریخوں کا ٹلنا مردوں کے واپس نہ آنے کے دو وعدے ہیں جہنمیوں کے لیے وَحَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ بہشتیوں کے لیے لا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلا ۳۴۱ ۳۴۲ ۳۳۰ ۳۳۰ ۳۴۴ نمبر شمار ۱۷۴ ۱۷۵ 124 122 ۱۷۸ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ ۱۸۳ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۶

Page 20

xix مضمون شہید صحابی کی عرض کہ مجھے دنیا میں پھر بھیجو پر خدا تعالیٰ کا جواب یا جوج ماجوج نصاری سے ہیں وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سے مراد یا جوج ماجوج کی دو نشانیاں یا جوج ماجوج کی وجہ تسمیہ نحاش اور مسیح ابن مریم کی رجعت بروزی نحاش مسیح ابن مریم ، یہود اور صحابہ کی رجعت بروزی دجال، عیسائیت اور یا جوج ماجوج ایک ہی قوم کو باعتبار مختلف حالتوں کے تین ناموں سے پکارا گیا ہے صفح ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۴ ۳۵۷ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۰ ۳۶۰ ۳۶۱ ۳۶۱ یہ خیال کہ یاجوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کے دو معنے إنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسنى الح سے مراد حضرت عزیر اور حضرت مسیح ہیں اس عالم کے عدم ہو جانے کی پیشگوئی وَلَقَد كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ آنَ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الظَّلِحُونَ صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے آنَ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِى الظَّلِحُونَ سے مراد سرزمین شام ہے اَنَّ الْأَرْضَ يَرِيُّهَا عِبَادِى الصّلِحُونَ میں خدا تعالیٰ نے يَرِيُّهَا فرما یا يَملكها نہیں فرمایا يَرِثُهَا عِبَادِى الظَّلِحُونَ فرمایا صالحین کے معنے یہ ہیں کہ کم از کم صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو نمبر شمار ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۰ ۱۹۱ ۱۹۲ ١٩٣ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۲

Page 21

XX نمبر شمار ۲۰۳ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے رحمت مجسم ہیں اِنْ اَدْرِى اَقَرِيبٌ اَم بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ صاف بتاتا ہے کہ ہر ایک عذاب کی مقررہ تاریخ نہیں بتائی جاتی اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٍ عَظِیم میں ساعۃ سے مراد سکرات الموت ہی ہے تَرَى النَّاسَ سُكرى وَمَا هُمْ بِسُكْرَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ میں لوگوں کے سکلامی ہونے کا صحیح مطلب ۲۰۷ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَقُى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۰ وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو توحید باری تعالیٰ کی دلیل کہ سب چیزیں خدا کو سجدہ کرتی ہیں یعنی اپنی ہستی اور بقاء اور وجود میں اس کی محتاج پڑی ہوئی ہیں إِذْ بَوَّانَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ یہ قول صاف بتلا رہا ہے کہ مکہ دنیا میں پہلی عمارت ہے صفحہ ۳۶۲ ۳۶۵ ۳۶۸ ۳۶۹ ۳۷۰ ۳۷۱ ۳۷۲ پس تم اپنی زبانوں پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے ۳۷۳ ۳۷۳ قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونا نا جائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے ۳۷۴ سوال کا جواب کہ اگر گوشت اور خون خدا تک نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۴

Page 22

xxi مضمون مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت قرآن شریف میں ہرگز جبر کی تعلیم نہیں ہے اسلام نے تلوار اٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اٹھائی ہے صفحہ ۳۷۷ ۳۷۸ ۳۷۹ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک اس وجہ سے لڑائی نہیں کی کہ اس وقت تک پوری جمعیت حاصل نہیں ہوئی تھی کا جواب ۳۸۲ اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں.۱.دفاعی طور پر.۲.بطور سزا.۳.بطور آزادی قائم کرنے کے میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بنانے کے لئے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ تلوار کھینچی کفار کی ظالمانہ کارروائیاں اور مسلمانوں کو جہاد کا حکم اعتراض کہ اسلام میں اگر ہمدردی کی تعلیم ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائیاں کیوں کرتے کا جواب بطور سزا ، بطور مدافعت ، بطور حفاظت خود اختیاری بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی اعتراض کا جواب کہ تم جہاد کو موقوف کرتے ہو اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات اور معجزات سے پھیلا ہے اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۸۸ ۳۸۹ نمبر شمار ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۵

Page 23

Xxii نمبر شمار ۲۲۶ مضمون کفارا اپنے جرائم کی وجہ سے قتل کے لائق تھے یہ رعایت قرآن شریف نے ان کو دی کہ اسلام لانے کی حالت میں وہ قصاص دور ہوسکتا ہے ۲۲۷ مہدی کے لئے کہتے ہیں کہ آکر تلوار سے کام لے گا یہ میچ نہیں ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۳۷ ۲۳۸ اب تلوار سے کام لینا ہے تو اسلام پر تلوار مارنی ہے اسلام کا فرض ہے کہ تمام عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کریں خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو مثیل مسیح اور نیز آدم الف ششم کر کے بھیجا ہے دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے یہ عمر اس آدم کے زمانہ سے ہے جس کی ہم اولا د ہیں قرآن شریف ، احادیث صحیحہ اور کتب سابقہ سے یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَلَّى الْقَى الشَّيْطَنُ في أَمْنِيَّتِهِ کی تفسیر سوال کہ قرآن کا جو نزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں کا جواب اس خیال کا جواب کہ اگر کسی الہام کے سمجھنے میں غلطی ہو جائے تو امان اٹھ جاتا ہے اور شک پڑ جاتا ہے کہ شاید اپنے دعوئی میں بھی دھوکا کھایا ہو ضَعْفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ کی تشریح کہ طالب ضعیف العقل اور مطلوب ضعیف القدرت ہیں سوال کا جواب کہ خدا نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے آپ نے اپنے فرقہ کا نام وو صفحہ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۴ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۵ ۴۰۶ ۴۰۹ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۰ ۴۱۲ احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات سمكُمُ المُسلمین کے برخلاف ہے ۴۱۴

Page 24

جلد پنجم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ صفحہ ۳۱ ۳۳ ۴۱ ۴۱ ۴۵ ۴۶ ۴۶ ۴۸ ۴۸ ۴۹ ۴۹ ۵۳ ۵۳ ۵۴ ۵۶ xxiii فہرست آیات اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے نمبر آیت صفحہ نمبر سورة ابراهيم الرُ كِتَبُ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ.ومَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ..۲۸ ۳۰ آیت وَالْجَانَّ خَلَقْنَهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ..فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ......۳۷ ۳۸ قَالَ رَبِّ فَانْظُرُ نَى إِلَى يَوْمِ.إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَاب لِكُلِ بَابٍ.وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ.لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَاهُمْ.وَلَقَد أَتَيْنَكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي..فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاعْرِضْ.إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِينَ وَاعْبُدُ رَبِّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ سورة النحل انّى اَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۴۱ ۴۳ ۴۵ ۴۸ ۴۹ ۸۸ ۹۵ ۹۶ 1++ ۱۲ ۱۳ ۱۳ ۲ ۱۳ وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا.۲۱ ۲۲ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا.الَّذِينَ تَتَوَقهُمُ الْمَلَبِكَةُ.ومَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالًا.۵۷ ور الووو يخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ.۶۰ وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنْتِ سُبْحْنَة.6.1199 F ۶۱ ۲۹ ۱۵ ۴۴ ۱۵ ۵۱ ۲۹ ۵۸ ۳۰ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُهُ ۱۶ قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِي اللهِ شَاءُ.وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارِ ۲۵ ۲۶ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا.وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ.يُنَيّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَولِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ.وَالْكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ.۲۷ ۲۸ ۳۴ ۳۵ ۴۲ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَى.۴۷ ۴۸ وَقَد مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ.يَوْمَ تُبَدِّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ....سورة الحجر وَقَالُوا يَا يُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ.إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهُ.وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلا عِنْدَنَا.وَلَقَدْ عَلِيْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ.۴۹ ۲۲ ۲۵

Page 25

XXIV صفحہ نمبر ۹ ۶۱ ۶۲ ا.آیت عسى رَتْكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ ، وَإِنْ.....جلد پنجم صفحہ ۱۰۷ 1+2 ۱۰۸ 1+9 1+9 ۱۱۲ اِنَّ هُذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِىَ.وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارِ أَيَتَيْنِ.وَكُل اِنْسَانِ الْزَمْنَهُ طَبِرَهُ.مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى.وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ تُهْلِكَ قَرْيَةً..لَا تَجْعَلُ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ.وقضى رَبُّكَ اَلا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ..۱۱۳ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ.....۱۱۵ رَبِّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ وَاتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ.۱۱۵ ۱۱۶ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً.وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُم وَزِنُوا.وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ.تُسَبِّحُ لَهُ السَّموتُ السَّبْعُ.۱۱۶ ۱۱۷ 112 ۱۱۹ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِه.۱۲۲.قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ ۱۲۲ وَإِنْ مِنْ قَرْيَةِ الأَنَحْنُ.۱۲۳ وَمَا مَنَعَنَا أَنْ تُرسِلَ بِالْايَتِ الا.۱۲۷ وَاذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ.۱۳۲ وَاسْتَفْزِزُ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمُ ۱۳۲ إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ ۱۳۳ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم ۱۳۴ يَوْمَ نَدْعُوا كُل أَنَاسِ بِاِمَامِهِمْ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ.۱۳۵ ۱۳۵ ۱۳ ۶۲ ۱۴ ۶۳ ۱۶ ۶۴ لا ۲۳ ۶۷ ۲۴ ۶۷ ۲۵ ۶۷ ۲۶ ۶۸ ۲۷ ۶۹ ۳۲ ۸۴ ۳۳ ۸۵ ۳۶ ۸۷ ۳۷ ۸۷ ۴۵ ۸۸ ۴۸ ۸۸ ۵۷ ۸۹ ۵۹ ۸۹ ۶۰ ۹۱ ۶۱ ۹۱ ۶۶ ง اے ۹۵ ۷۲ 1+7 ۷۳ 1+7 فہرست آیات آیت يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ.تاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أَمَمٍ مِّنْ.1119 وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الكتب إِلا لِتُبَيّنَ.وَاللهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاحْيَا.وَ أَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ.ثُمَّ كُلِى مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِى.۶۰ ۶۴ ۶۶ ۶۹ اے وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفيكُمُ ۷۵ فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ.۸۹ الذِينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبِيلِ.وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا.۹۱ ۹۸ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى...۱۰۴ 1+2 وَلَقَد نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ.مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِة..ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا.اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ.وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ الْسِنَتُكُمُ اِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتَا.أدعُ إِلى سَبِيلِ رَبّكَ بِالْحِكْمَةِ.وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ.إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ.سورة بنی اسراءیل سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً.وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَاعِيلَ فِي.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَهُمَا بَعَثْنَا.۱۱۶ ۱۱۷ ۱۲۱ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۹

Page 26

فہرست آیات آیت إِذَا لَّا ذَقْنَكَ ضِعُفَ الْحَيوة.اقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمسِ إلى.....۱۴۹ XXV صفحہ نمبر آیت وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتْهُ لَا أَبْرَحُ.جلد پنجم ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۵۱ ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۹ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۱ ۲۶۱ ۲۶۳ ۲۶۴ ۲۶۴ ۲۶۷ ۲۷۳ ۵۱ ۱۴۹ ۶۱ ۶۶ ۱۵۲ ۸۳ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۰۳ ۱۵۴ 1+7 ۱۵۴ ۱۰۹ ۱۷۲ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا.وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَمَيْنِ.۸۴ تا ۱۰۲ وَيَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ.أُولَبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ.خُلِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا..+11 قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ ورود و د آ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى.سورة مريم زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِخُلمِ إِسمه.لِيَحْلِى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَأَتَيْنَهُ.وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ وَاذْكُرُ فِي الْكِتَب مَرْيَمَ اِذِ.۱۷۵ ۱۷۵ ۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۰ ۱۳ ۱۹۰ 17 ۱۹۰ لا ۱۹۰ ۲۲ قالَ كَذلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَى.۲۴ فَاجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلى جِذْعِ.۲۹ ۱۹۳ ۳۱ ۱۹۴ ۱۹۵ ۳۴ ۱۹۵ ۳۶ ۱۹۶ ۵۸ ۱۹۷ ۱۹۷ ۱۹۷ يأختَ هَرُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَاَ..قالَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ النِيَ الْكِتَبَ.۳۲، ۳۳ وَجَعَلَنِي مُبرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ.وَالسّلامُ عَلَى يَومَ وُلِدتُ.مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ.وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ۷۲ ۷۳ وَإِنْ مِنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ.۷۹ تا ۹۲ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا..وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدُ بِهِ نَافِلَةً لَكَ.وَقُل رَّبِّ ادْخِلْنِي مُدخَلَ.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ.قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِه.وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ.قُلْ لَبِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنْس.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا.أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ قُلْ كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي.وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ.قُلْ أَمِنُوا بِه اَوْ لَا تُؤْمِنُوا.ويَقُولُونَ سُبُحْنَ رَبَّنَا إِنْ كَانَ.....وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ.۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۵ ۸۶ ۸۹ ۹۰ ۹۴ ۹۷ 1+4 1+A ۱۰۹ +11 ۱۱۲ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِى لَمْ يَتَّخِذُ.سورة الكهف ۲ تا ۶ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى.۱۷ إنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا.اَم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحبَ الْكَهْفِ واذاعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ....وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزُورُ.وَلَا تَقُولَنَّ لِشَاءُ إِنِّي فَاعِل.وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ.كلتا الجَنَّتَيْنِ أنت أكلها.۱۸ ۲۴ ۲۸ ۳۴

Page 27

۴۵ ۵۱ ۵۳ ۶۲ ۶۴ ۶۹ ۷۵ ۹۰ ۹۸ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۲۲ ۱۲۵ آنِ اقْذِ فِيهِ في التَّابُوتِ فَاقْذِ فِيهِ في...۲۸۰ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيْنَا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ قالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ.قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتب.مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُم قَالَ لَهُمْ مُوسى وَيُلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا...۲۸۵ قالوا ان هذين تسحرانِ يُريدان....۲۸۵ قُلُنَا لا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الأعلى.......۲۸۶ وَالْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفُ.إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ..أفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً.قالَ فَاذْهَبُ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَوةِ.فَتَعلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا.......۲۹۱ وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ.فَا كَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَواتُهُمَا.قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْلَى وَقَد...۲۹۵ فہرست آیات ۹۴ ۹۸ ۱۵ ۲۱ ۴۰ آیت xxvi صفحہ نمبر ان كُل مَنْ فِي السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ....۲۷۵ فَإِنَّمَا يَسَّرْنَهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ.سورة طه الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاء.إنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُنِي..فَالْقُهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى.۶ ۹ ۱۸ ۲۷۷ ۲۳ ۲۷۸ ۲۴ ۲۷۹ ۲۷ ۲۸۰ ۲۹ آیت جلد پنجم صفحہ قُل رَبِّي يَعْلَمُ الْقَولَ فِي السَّمَاءِ.بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلامٍ بَلِ.۲۹۷ ۲۹۷ وَمَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلا رِجَالًا.وَمَا جَعَلْنَهُمْ جَسَدً الَا يَأْكُلُونَ.لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهُدًا.لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَةُ إِلَّا اللهُ.۳۰۲ ۳۰۴ ۳۰۵ لا يُسْتَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ.وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدَ اسْبُحْنَةَ.۳۰۷ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا.۳۰۷ ۳۰ ۲۸۰ ۳۱ ۲۸۱ ۳۴ ۲۸۳ ۳۵ ۲۸۳ ۳۶ وَمَنْ يَقُلُ مِنْهُم اِنّى اِله مِّنْ.او لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا اَنَّ السَّمَوتِ.۳۰۷ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ.وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ..كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ.۳۷ وَاِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا اِن.۳۸ ۳۹ ۲۸۶ ۴۳ ۲۸۷ ۴۵ ۲۹۰ ۵۱ ۲۹۱ خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ.وَيَقُولُونَ مَتَى هُذَا الْوَعْدُ.۳۱۲ ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۱۹ ۳۲۰ ۳۲۰ قُلْ مَنْ يَكُلَوكُمْ بِاليْلِ وَالنَّهَارِ.بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاءِ وَابَاءَهُم حَتَّى..۳۲۰ ۳۲۰ وَهُذَا ذِكرُ مُبْرَكَ اَنْزَلْنَهُ.۷۰ قُلْنَا يَنَارُ كُونِي بَرْدَا وَ سَلمًا.۸۰ ۲۹۳ ۸۸ ۲۹۴ ۹۰ فَفَهَيْنَهَا سُلَيْمَنَ وَكُلا اتينا.۳۲۱ ۳۲۱ ۳۳۰ وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا ۳۳۰ وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا.۹۲ تا ۹۵ وَالَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا.سورة الانبياء ط لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ، وَاَسَرُّوا النّجوى..۹۹ ۲۹۷ ۹۷،۹۶ وَحَرِّمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا.اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ...۳۵۸ ۳۳۹ ۳۳۹ ۳۴۴

Page 28

فہرست آیات آیت ١٠٢، ١٠٣ اِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنا.۱۰۵ 1+4 1+2 ۷۰۱ 11.۱۲ ۱۹،۱۸ Xxvii صفحہ نمبر يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَى السّجل.۲۷ ۳۵۹ ۳۱ ۳۵۹ وَلَقَد كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ.....٣٦٠ ۳۳ اِنَّ فِي هُذَا البَلغَالِقَوْمٍ عَبدِينَ.۳۸ ۳۶۱ جلد پنجم آیت صفحہ وَاِذْ بوأنا لابراهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ...۳۷۲ ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِمُ حُرمتِ اللهِ.۳۷۲ ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَابِرَ اللهِ..لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا.۳۷۴ ۳۷۵ وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ...٣٦٢ ۳۹ تا ۴۱ إِنَّ اللَّهَ يُنفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا.فَإِنْ تَوَلَّوا فَقُلْ أَذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ.سورة الحج يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُم.۴۸ ۳۶۵ ۵۳ ۵۶ ۶۴ ۳۶۷ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَنْهَلْ كُلُّ مُرْضِعَةٍ...۵۶۷ ياَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ الله.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا...۷۲ ۷۴ ۳۶۸ ۷۵ ۷۹ ۳۷۱ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ..وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ.۳۷۷ ۴۰۳ ۴۰۹ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ.۴۱۱ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ۴۱۲ وَ يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَمْ.۴۱۲ ياَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوا...۴۱۲ ما قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرِهِ إِنَّ اللهَ....۴۱۳ وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِه..۴۱۴

Page 29

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ سورة ابراهيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ابراهيم بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الر كتب اَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِم إلى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ.یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تاکہ تو لوگوں کو ہر ایک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گزرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان سب کو قرآن شریف دور کرتا ہے اور ہر یک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنی جو کچھ خدا کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقائق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے.( براہین احمد یہ جہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۲۵ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ ہماری کتاب ہے جس کو ہم نے تیرے پر اس غرض سے نازل کیا ہے کہ تا تو لوگوں کو کہ جو ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں نور کی طرف نکالے.سوخدا نے اس زمانہ کا نام ظلمانی زمانہ رکھا.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴۸) ا

Page 30

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ابراهيم وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَ ط يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) بعض لوگ جہالت سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان میں الہام ہونا چاہیے جیسے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِہ مگر تم کو عربی میں ہی کیوں ہوتے ہیں.تو ایک تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے پوچھو کہ کیوں ہوتے ہیں اور اس کا اصل سر یہ ہے کہ صرف تعلق جتلانے کی غرض سے عربی میں الہامات ہوتے ہیں کیونکہ ہم تابع ہیں نبی کریم صلعم کے جو کہ عربی تھے.ہمارا کارو بارسب ظلی ہے اور خدا کے لئے ہے.پھر اگر اسی زبان میں الہام نہ ہو تو تعلق نہیں رہتا اس لئے خدا تعالیٰ عظمت دینے کے لئے عربی میں الہام کرتا ہے اور اپنے دین کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے.جس بات کو ہم ذوق کہتے ہیں اسی پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں.خدا تعالیٰ اصل متبوع کی زبان کو نہیں چھوڑتا اور جس حال میں یہ سب کچھ اسی ( آنحضرت صلعم) کی خاطر ہے اور اس کی تائید ہے تو پھر اس سے قطع تعلق کیوں کر ہو اور بعض وقت انگریزی، اردو اور فارسی میں بھی الہام ہوئے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ جتلا دیوے کہ وہ ہر ایک زبان سے واقف ہے.اسی طرح ایک دفعہ رسول صلم پر اعتراض ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہوتا تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے فارسی میں الہام کیا.این مشت خاک را گر نه بخشم چه کنم البدر جلد اول نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۷،۷۶) آخر کار خدا تعالیٰ کی رحمت ہی کاروبار کرے گی.وَاِذْ تَاذَنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَ لَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں اپنی دی ہوئی نعمت کو زیادہ کروں گا اور بصورت کفر عذاب میر اسخت ہے.یاد رکھو کہ جب امت کو امتِ مرحومہ قرار دیا ہے اور علوم لدنیہ سے اسے سرفرازی بخشی ہے تو عملی طور پر شکر رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۸) واجب ہے.

Page 31

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ابراهيم لين شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمُ اگر تم میری نعمت کا شکر کرو گے تو میں اسے بڑھاؤں گا اور پھر فرمایا : ولپن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ اور اگر انکار اور کفر کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے.اب بتاؤ کہ ان آیات الہی کی تکذیب اور ان کو چھوڑ کر جدید کی طلب اور اقتراح یہ عذاب الہی کو مانگنا ہے یا کیا؟ الخام جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۲) اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں اور اگر تم کفر کرو تو پھر میرا عذاب بھی بھی بڑا سخت ہے.یعنی انسان پر جب خدا تعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور الٹا ظلم شروع کر دے تو پھر خدا تعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور عذاب کرتا ہے.( بدر جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۲۳ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۶) قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكُ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ اَنْ تَصُدُّ وَنَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ابَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطن مُّبِينٍ.افِي اللَّهِ شَكٍّ فَاطِرِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ یعنی کیا خدا کے وجود میں شک ہو سکتا ہے جس نے ایسے آسمان اور ایسی زمین بنائی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۰) کیا اللہ کے وجود میں بھی شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.دیکھو یہ تو بڑی سیدھی اور صاف بات ہے کہ ایک مصنوع کو دیکھ کر صانع کو ماننا پڑتا ہے.ایک عمدہ جوتے یا صندوق کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کی ضرورت کا معاً اعتراف کرنا پڑتا ہے پھر تعجب پر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں کیوں کر انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے.ایسے صانع کے وجود کا انکار کیوں کر ہو سکتا ہے جس کے ہزار ہا عجائبات سے زمین اور آسمان پر ہیں..رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۶۲) وَاسْتَفْتَحُوا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنيده نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی.پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سرکش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے.

Page 32

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴ تا دل مرد خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدا رسوا نکرد سورة ابراهيم (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۴) یہ سنت اللہ ہے کہ مامور من اللہ ستائے جاتے ہیں، دیکھ دیئے جاتے ہیں.مشکل پر مشکل ان کے سامنے آتی ہے نہ اس لئے کہ وہ ہلاک ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ نصرت الہی کو جذب کریں.یہی وجہ تھی کہ آپ کی مکی زندگی کا زمانہ مدنی زندگی کے بالمقابل دراز ہے چنانچہ مکہ میں ۱۳ برس گزرے اور مدینہ میں دس برس جیسا کہ اس آیت سے پایا جاتا ہے.ہر نبی اور مامور من اللہ کے ساتھ یہی حال ہوا ہے کہ اوائل میں دکھ دیا گیا ہے.مکار، فریبی ، دکاندار اور کیا کیا کہا گیا ہے.کوئی برا نام نہیں ہوتا جو ان کا نہیں رکھا جاتا.وہ نبی اور مامور ہر ایک بات کی برداشت کرتے اور ہر دکھ کو سبہ لیتے ہیں لیکن جب انتہا ہو جاتی ہے تو پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے دوسری قوت ظہور پکڑتی ہے.اسی طرح پر رسول اللہ صلعم کو ہر قسم کا دکھ دیا گیا ہے اور ہر قسم کا برا نام آپ کا رکھا گیا ہے.آخر آپ کی توجہ نے زور مارا اور وہ انتہا تک پہنچی جیسا اسْتَفْتَحُوا سے پایا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِید تمام شریروں اور شرارتوں کے منصوبے کرنے والوں کا خاتمہ ہو گیا یہ تو جہ مخالفوں کی شرارتوں کے انتہا پر ہوتی ہے کیونکہ اگر اول ہی ہو تو پھر خاتمہ ہو جاتا !! مکہ کی زندگی میں حضرت احدیت کے حضور گرنا اور چلانا تھا اور وہ اس حالت تک پہنچ چکا تھا کہ دیکھنے والوں اور سننے والوں کے بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے مگر آخر مدنی زندگی کے جلال کو دیکھو کہ وہ جو شرارتوں میں سرگرم اور قتل اور اخراج کے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے سب کے سب ہلاک ہوئے اور باقیوں کو اس کے حضور عاجزی اور منت کے ساتھ اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے معافی مانگنی پڑی.احکام جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ صفحه ۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء اور رسل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت توجہ نام سے اقبال علی اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے وَخَابَ كُل جَبَّارٍ عَنِيْهِ اسْتَفْتَحُوا سنت اللہ کو بیان کرتا ہے کہ وہ اس وقت فیصلہ چاہتے ہیں اور اس فیصلہ چاہنے کی خواہش ان میں پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب گو یا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۷،۶) جب ایسا وقت آجاتا ہے کہ انبیاء ورسل کی بات لوگ نہیں مانتے تو پھر دعا کی طرف توجہ کرتے ہیں اور

Page 33

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ابراهيم اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے مخالف متکبر و سرکش آخر نا مراد اور ناکام ہو جاتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۵) ہر نبی پہلے صبر کی حالت میں ہوتا ہے پھر جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے وہ دعا کرتا ہے پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں.دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے پھر ارادہ الہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا لا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا ( نوح : ۲۷) جب تک خدا کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعے مخالفین پر عذاب نازل ہوا.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۹ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۴) جب رسولوں نے دیکھا کہ وعظ اور پند سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے ہر ایک بات سے کنارہ کش ہو کر خدا کی طرف توجہ کی اور اس سے فیصلہ چاہا تو پھر فیصلہ ہو گیا.البدر جلد ۳ نمبر۷ مورخه ۱۶ / فروری ۱۹۰۴ ء صفحه ۵) w اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُولّى أكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ پاک کلمات پاک درختوں سے مشابہت رکھتے ہیں جن کی جڑھ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں اور ہمیشہ اور ہر وقت تر و تازہ پھل دیتے ہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۸) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کیوں کر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے.اصلها ثابت سے مراد یہ ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو.الحاکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵)

Page 34

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶ سورة ابراهيم وہ ایمانی کلمہ جو ہر ایک افراط تفریط اور نقص اور خلل اور کذب اور ہنرل سے پاک اور من کل الوجوہ کامل ہو.اس درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو ہر ایک عیب سے پاک ہو.جس کی جڑھ زمین میں قائم اور شاخیں آسمان میں ہوں اور اپنے پھل کو ہمیشہ دیتا ہو.اور کوئی وقت اس پر نہیں آتا کہ اس کی شاخوں میں پھل نہ ہوں.اس بیان میں خدا تعالیٰ نے ایمانی کلمہ کو ہمیشہ پھل دار درخت سے مشابہت دے کر تین علامتیں اس کی بیان فرمائیں.(۱) اول یہ کہ جڑھ اس کی جو اصل مفہوم سے مراد ہے انسان کے دل کی زمین میں ثابت ہو یعنی انسانی فطرت اور انسانی کانشنس نے اس کی حقانیت اور اصلیت کو قبول کر لیا ہو.(۲) دوسری علامت یہ کہ اس کلمہ کی شاخیں آسمان میں ہوں یعنی معقولیت اپنے ساتھ رکھتا ہو اور آسمانی قانون قدرت جو خدا کا فعل ہے اس فعل کے مطابق ہو.مطلب یہ کہ اس کی صحت اور اصلیت کے دلائل قانون قدرت سے مستنبط ہو سکتے ہوں اور نیز یہ کہ وہ دلائل ایسے اعلیٰ ہوں کہ گویا آسمان میں ہیں جن تک اعتراض کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا.(۳) تیسری علامت یہ ہے کہ وہ پھل جو کھانے کے لائق ہے دائمی اور غیر منقطع ہو.یعنی عملی مزاولت کے بعد اس کی برکات و تاثیرات ہمیشہ اور ہر زمانہ میں مشہود اور محسوس ہوتی ہوں.یہ نہیں کہ کسی خاص زمانہ تک ظاہر ہوکر پھر آگے بند ہو جا ئیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۱) کیا تو نے نہیں دیکھا کیوں کر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنی پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تا لوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں......اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے.اول یہ کہ اصلها ثابت یعنی اصول ایما نیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور فی حد ذاتہ یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرت انسانی مراد ہے جیسا کہ مِن فَوقِ الْأَرْضِ (ابراهیم (۲۷) کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے.....خلاصہ یہ کہ اصول ایمانیہ ایسے چاہئیں کہ ثابت شدہ اور انسانی فطرت کے موافق ہوں.پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آسمان کی طرف نظر

Page 35

سورة ابراهيم تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفہ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو اس کی صداقت ان پر کھل جائے.اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان، احکام کا بیان ، اخلاق کا بیان یہ کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہو.جیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہو کر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادہ متصور نہیں.پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ توتع اكلَهَا كُل حِینِ ہر ایک وقت اور ہمیشہ کے لئے وہ اپنا پھل دیتا رہے ایسا نہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے.اب صاحبود دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرموده اليوم أكملت (المائدة : ۴) کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے.سو جیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح پر اس نے ان کو ثابت کر کے بھی دکھلا دیا ہے اور اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا إلهَ إلا الله ہے اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورۃ البقر میں فرماتا ہے اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا انْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الريح وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَايْتٍ لِقَوْمٍ يعْقِلُونَ (البقرة : ۱۲۵) یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا.اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا.یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدبر بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لاشریک اور مد بر بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے.یہ

Page 36

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام Λ سورة ابراهيم صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدبر بالا رادہ بھی ہوا اور ستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.دوسری نشانی یعنی فَرْعُهَا فِي السَّمَاء جس کے معنے یہ ہیں کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچی ہوئی ہیں اور آسمان پر نظر ڈالنے والے یعنی قانون قدرت کے مشاہدہ کرنے والے اس کو دیکھ سکیں اور نیز وہ انتہائی درجہ کی تعلیم ثابت ہو.اس کے ثبوت کا ایک حصہ تو اسی آیت موصوفہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کس لئے کہ جیسا کہ اللہ جل شانہ نے مثلاً قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ : الرَّحِيمِ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : ۲ تا ۴) جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ جل شانہ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علتہ العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے.دوسری یہ کہ وہ رحمان بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور ان کے مقاصد کو کمال تک پہنچاتا ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اس کے ہاتھ میں ہے جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے.چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزاد یوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میسر کرے اور یہ تمام امور اللہ جل شانہ کے اس نظام کو دیکھ کر صاف ثابت ہوتے ہیں.پھر تیسری نشانی جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی توت أكُلَهَا كُلّ حِين یعنی کامل کتاب کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جس پھل کا وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ وہ پھل ہمیشہ اور ہر وقت میں دیتی رہے.اور پھل سے مراد اللہ جل شانہ نے اپنا لقامعہ اس کے تمام لوازم کے جو برکات سماوی اور مکالمات الہیہ اور ہر ایک قسم کی قبولیتیں اور خوارق ہیں رکھی ہیں جیسا کہ خود فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُرًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (لحم السجدة : ۳۱ تا ۳۳) (س ۲۴ / ۱۸) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل ان پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا.ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ

Page 37

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة ابراهيم کچھ حزن اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی زندگی اب شروع ہوگئی.کس طرح شروع ہوگئی نَحْنُ اولیو كُفر الخ اس طرح کہ ہم تمہارے متولی ور متکفل ہو گئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے.مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت تُؤْتي احلهَا كُل حین میں فرمایا گیا تھا.اور آیت فَرْعُهَا فِي السَّمَاء کے متعلق ایک بات ذکر کرنے سے رہ گئی کہ کمال اس تعلیم کا باعتبار اس کے انتہائی درجہ ترقی کے کیوں کر ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن شریف سے پہلے جس قدر تعلیمیں آئیں در حقیقت وہ ایک قانون مختص القوم یا مختص الزمان کی طرح تھیں اور عام افادہ کی قوت ان میں نہیں پائی جاتی تھی.لیکن قرآن کریم تمام قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تحمیل کے لئے آیا ہے مثلاً نظیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسی کی تعلیم میں بڑا زور سزا دہی اور انتقام میں پایا جاتا ہے جیسا کہ دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ کے فقروں سے معلوم ہوتا ہے.اور حضرت مسیح کی تعلیم میں بڑا زور عفو اور درگزر پر پایا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعلیمیں ناقص ہیں نہ ہمیشہ انتقام سے کام چلتا ہے اور نہ ہمیشہ عفو سے بلکہ اپنے اپنے موقعہ پر نرمی اور درشتی کی ضرورت ہوا کرتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے جَزُوا سَيْئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلَهَا ، فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری : ۴۱ ) ( س ۵/۲۵) یعنی اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اسی قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کہ کوئی فساد.یعنی عفو اپنے محل پر ہو نہ غیر محل پر.پس اجر اس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن 9971 طریق ہے.اب دیکھئے اس سے بہتر اور کون سی تعلیم ہوگی کہ عفو کو عفو کی جگہ اور انتقام کو انتقام کی جگہ رکھا.اور پھر فرما يا إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَانِى ذِي الْقُرْبى (النحل : ۹۱ ) ( س ۱۴ (۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوالقربی ہیں.اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں.اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے.پھر اگر اس سے بڑھے تو مر تبہ احسان ہے.اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ما اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ

Page 38

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ احسان کے ارادہ سے.سورة ابراهيم جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۷) کلمہ طیبہ درخت کی مثال ہے.اب اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ طبور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کی بجائے ہیں.قرآن شریف میں کسان کی مثال ہے کہ جیسا وہ زمین میں تخم ریزی کرتا ہے ویسا ہی یہ ایمان کی تخم ریزی ہے.وہاں آبپاشی ہے یہاں اعمال.یا درکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا اسی طرح ایمان کا حال ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (العنکبوت : ۷۰) یعنی تم ہلکے ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے.البدر جلد نمبر ۲۵ مورخه ۲۵/جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۵) کلمات قرآن کے اس درخت کی مانند ہیں جس کی جڑھ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہمیشہ اپنے وقت پر اپنا پھل دیتا ہے یعنی انسان کی سلیم فطرت اس کو قبول کرتی ہے اور آسمان میں شاخوں کے ہونے سے یہ مراد ہے کہ بڑے بڑے معارف پر مشتمل ہے جو قانون قدرت کے موافق ہیں اور ہمیشہ پھل دینے سے یہ مراد ہے کہ دائمی طور پر روحانی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۳) پاک کلمہ پاک درخت کی مانند ہے پس جیسا کہ کوئی عمدہ اور شریف درخت بغیر پانی کے نشو و نما نہیں کر سکتا.اسی طرح راستباز انسان کے کلمات طیبہ جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں اپنی پوری سرسبزی دکھلا نہیں سکتے اور نہ نشوونما کر سکتے ہیں جب تک وہ پاک چشمہ ان کی جڑھوں کو استغفار کے نالے میں بہہ کر تر نہ کرے.سو انسان کی روحانی زندگی استغفار سے ہے جس کے نالے میں ہو کر حقیقی چشمہ انسانیت کی جڑھوں تک پہنچتا ہے اور خشک ہونے اور مرنے سے بچالیتا ہے.نور القرآن نمبر ا روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۸،۳۵۷) وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةِ إِجْتُنَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قراره ا نا پاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پر سے اکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار وثبات نہیں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۳)

Page 39

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ابراهيم پلید کلمہ اس درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو زمین میں سے اکھڑا ہوا ہو یعنی فطرت انسانی اس کو قبول نہیں کرتی اور کسی طور سے وہ قرار نہیں پکڑتا.نہ دلائل عقلیہ کی رو سے نہ قانون قدرت کی رو سے اور نہ کانشنس کی رو سے.صرف قصہ اور کہانی کے رنگ میں ہوتا ہے اور جیسا کہ قرآن شریف نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں منتمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے.ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلاً أَمْ شَجَرَةُ الأَقُومِ (الشفت : ٢٣) - اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۱، ۳۹۲) يُثَيْتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَ يُضِلُّ اللهُ الظَّلِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ اللہ تعالی مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۳) وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَابِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارِه یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اسلامی شریعت کی رو سے خواص ملائک کا درجہ خواص بشر سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں اور نظام جسمانی یا نظام روحانی میں ان کا وسائط قرار پانا اُن کی افضلیت پر دلائل سے نہیں کرتا بلکہ قرآن شریف کی ہدایت کے رو سے وہ خدام کی طرح اس کام میں لگائے گئے ہیں.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یعنی وہ خدا جس نے سورج اور چاند کو تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے.مثلاً دیکھنا چاہئے کہ ایک چٹھی رساں ایک شاہ وقت کی طرف سے اس کے کسی ملک کے صوبہ یا گورنر کی خدمت میں چٹھیاں پہنچا دیتا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ چٹھی رساں جو اس بادشاہ اور گورنر جنرل میں واسطہ ہے گورنر جنرل سے افضل ہے سو خوب سمجھ لو یہی مثال ان وسائط کی ہے جو نظام جسمانی اور روحانی میں قادر مطلق کے ارادوں کو زمین پر پہنچاتے اور اُن کی انجام دہی ا شاید سہو کتابت سے صحیح غالباً دلالت ہے.واللہ اعلم بالصواب.ناشر

Page 40

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة ابراهيم میں مصروف ہیں.اللہ جل شانہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں بتصریح ظاہر فرماتا ہے کہ جو کچھ زمین و آسمان میں پیدا کیا گیا ہے وہ تمام چیزیں اپنے وجود میں انسان کی طفیلی ہیں یعنی محض انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور انسان اپنے مرتبہ میں سب سے اعلیٰ وارفع اور سب کا مخدوم ہے جس کی خدمت میں یہ چیزیں لگا دی گئی ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَابِبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ........اور مسخر کیا تمہارے لئے سورج اور چاند کو جو ہمیشہ پھرنے والے ہیں یعنی جو باعتبارا اپنی کیفیات اور خاصیات کے ایک حالت پر نہیں رہتے مثلاً جور بیج کے مہینوں میں آفتاب کی خاصیت ہوتی ہے وہ خزاں کے مہینوں میں ہرگز نہیں ہوتی پس اس طور سے سورج اور چاند ہمیشہ پھرتے رہتے ہیں بھی ان کی گردش سے بہار کا موسم آجاتا ہے اور کبھی خزاں کا اور کبھی ایک خاص قسم کی خاصیتیں ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں اور کبھی اس کے مخالف خواص ظاہر ہوتے ہیں.پھر آگے فرمایا کہ مسخر کیا تمہارے لئے رات اور دن کو.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۵،۷۴) وَ الكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَ إِنْ تَعدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارُ اور دیا تم کو ہر یک چیز میں سے وہ تمام سامان جس کو تمہاری فطرتوں نے مانگا یعنی ان سب چیزوں کو دیا جن کے تم محتاج تھے اور اگر تم خدائے تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہر گز گن نہیں سکو گے.ہے.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۵) وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُخصوصا.....اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن برائین احمدیہ حصہ چہار روحانی خزائن جلد اصلحه ۶۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہر گز گن نہیں سکتے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۰۹) زمین و آسمان پر نظر ڈالنے سے صریح ہمیں نظر آتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ نہایت ہی کریم ہے اور سچ سچ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے وَ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوصا اس کی نعمتیں شمار سے خارج ہیں.(شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۵)

Page 41

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ اس کی نعمت اور بخشش اس قدر ہے کہ اگر تم اس کو گنا چا ہوتو یہ تمہاری طاقت سے باہر ہے.اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہوتو ہر گز گن نہ سکو گے.سورة ابراهيم ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۱) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۸) رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ.قرآن مجید میں دونوں طرح دعا ئیں سکھائی گئی ہیں.واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَی الخ اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : ٣٠٣) اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے.(البدر جلد اول نمبر ۹ مورخه ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۶۹) وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللهِ مَكْرُهُمْ ، وَ إِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ ۴۸ جہاں تک ان کا بس چل سکا انہوں نے مکر کیا اور ان کے سارے مکر خدا کے قبضہ میں ہیں اور اگر چہ ان کے مکر ایسے ہوں کہ جن سے پہاڑٹل جائیں.تب بھی یہ گمان مت کر کہ ان سے خدا کے وہ وعدے مل جائیں گے کہ جو اس نے اپنے رسول کو دیئے ہیں.خدا غالب اور بدلہ لینے والا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۸،۲۵۷ حاشیہ نمبر۱۱) يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) صورت عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ششم میں زمین پر ایک انقلاب عظیم آیا ہے.بالخصوص اس ساٹھ برس کی مدت میں کہ جو تخمیناً میری عمر کا اندازہ ہے اس قدر صریح تغیر صفیر ہستی پر ظہور پذیر ہے کہ گویا وہ دنیا ہی نہیں رہی نہ وہ سواریاں رہیں اور نہ وہ طریق تمدن رہا اور نہ بادشاہوں میں وہ وسعت اقتدار حکومت رہی نہ وہ راہ رہی اور نہ وہ مرکب.اور یہاں تک ہر ایک بات میں جدت ہوئی کہ انسان کی پہلی طرزیں تمدن کی گویا تمام منسوخ ہو گئیں اور زمین اور اہل زمین نے ہر ایک پہلو میں گویا پیرایۂ جدید پہن

Page 42

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة ابراهيم لیا اور بُيْلَتِ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۸۶)

Page 43

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۵ سورة الحجر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحجر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ دودو وَقَالُوا يَايُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونَ ) اور انہوں نے رسول کو مخاطب کر کے کہا کہ اے وہ شخص جس پر ذکر نازل ہوا تو تو دیوانہ ہے.( براہینِ احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبر ۱۱) إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.سو تیرہ سو برس سے اس پیشین گوئی کی صداقت ثابت ہورہی ہے.اب تک قرآن شریف میں پہلی کتابوں کی طرح کوئی مشر کا نہ تعلیم ملنے نہیں پائی اور آئندہ بھی عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ اس میں کسی نوع کی مشرکانہ تعلیم مخلوط ہو سکے کیونکہ لاکھوں مسلمان اس کے حافظ ہیں.ہزار ہا اس کی تفسیریں ہیں.پانچ وقت اس کی آیات نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں.ہر روز اس کی تلاوت کی جاتی ہے.اسی طرح تمام ملکوں میں اس کا پھیل جانا کروڑ ہانسے اس کے دنیا میں موجود ہونا ہر یک قوم کا اس کی تعلیم سے مطلع ہو جانا یہ سب امور ایسے ہیں کہ جن کے لحاظ سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آیندہ بھی کسی نوع کا تغیر اور تبدل قرآنِ شریف میں واقع ہونا ممتنع اور محال ہے.براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۰۲ حاشیہ نمبر ۹)

Page 44

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة الحجر ہم نے یہ کلام آپ اتارا ہے اور ہم آپ ہی اس کے نگہبان رہیں گے.برائین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۷ حاشیہ نمبر ۱۱) خداوند نے کہا تھا کہ میں اپنے کلام کی آپ حفاظت کروں گا.اب دیکھو کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ وہی تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ اس کی کلام کے پہنچائی تھی وہ برابر اس کی کلام میں محفوظ چلی آتی ہے اور لاکھوں قرآن شریف کے حافظ ہیں کہ جو قدیم سے چلے آتے ہیں.( براتان احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۷۰،۲۶۹ حاشیہ نمبر ۱۱) ہم نے ہی قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی حالت اصلی پر رہے گا اور الہی حفاظت کا اس پر سایہ ہوگا.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰) ہم نے ہی اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کو بچاتے رہیں گے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۰ حاشیه ) ہم ہی نے اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کی عزت اور اس کی عظمت اور اس کی تعلیم کو دشمنوں کے حملوں سے بچائیں گے.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۵ حاشیه ) وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کر رہے ہیں کہ اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ وَهِ انہی دنوں کے لئے وعدہ ہے جو بتلا رہا کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہوگا اور سخت طوفان پیدا ہو گا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کے لئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اسی عاجز کی دعوت ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۴ حاشیه ) فَنَظَرَ الرَّبُّ الْكَرِيمُ إِلَى الْأَرْضِ و رب کریم نے زمین پر نظر کی اور دیکھا کہ وہ مہلکات رَاهَا مَمْلُوةً مِنَ الْمُهْلِكَاتِ وَ مُتَرِعَةٌ مِن سے بھری ہوئی ہے اور مفسدات سے پر ہے اور مخلوق کو الْمُفْسِدَاتِ وَ رَأَى الْخَلْق مَفْتُونَا دیکھا کہ وہ زمینی نوادر پر لٹو ہو رہی ہے.اور اس نے يتوَادِرِهَا وَ رَأَى الْمُتَنَخِرِينَ آلَهُمْ ضَلُّوا نصاری کو دیکھا کہ وہ گمراہ ہو گئے ہیں اور دوسروں کو گمراہ وَ يَضِلُّونَ وَرَاى فَلَاسِفَتَهُمُ اخْتَلَبُوا کر رہے ہیں.اور ان کے فلاسفروں کو دیکھا کہ انہوں النَّاسَ بِعُلُومِهِمْ وَ نَوَادِرِ فُنُونِهِمُ نے لوگوں کو عجیب وغریب علوم وفنون کے ذریعہ دھوکہ دیا

Page 45

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷ سورة الحجر فَوَقَعَتْ تِلْكَ الْعُلُومُ في قُلُوبِ ہے اور نوجوانوں کے دلوں میں ان علوم نے بڑی وقعت الْأَحْدَاثِ مَوْقِع عَظِيمٍ كَأَنَّهُمْ سُجرُوا حاصل کرلی ہے گویا کہ وہ مسحور ہو گئے ہیں اور اپنی شہوتوں فَجْذِبُوا إِلَى الشَّهَوَاتِ وَاسْتيْفاء اور لذتوں کے پورا کرنے کے لئے کھینچے گئے ہیں اور وہ اللّذَّاتِ وَالْتَحَقُوا بِالْبَهَائِمِ وَالْحَشَرَاتِ بہائم اور حشرات کی مانند ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے وَعَصَوْا رَبَّهُمْ وَأَبَوَيْهِمْ وَأَكَابِرَهُمْ وَ رب اپنے والدین اور اپنے بزرگوں کی نافرمانی کی اور أُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْخَريَّةَ وَ غَلَبَتْ آزادی ان کے دلوں میں گھر کر گئی اور بے باکی اور عَلَيْهِمُ الْخَلاعَةُ وَالْمُجُونُ فَأَرَادَ اللهُ لا ابالی پن ان پر غالب آگیا.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا أن يَحْفَظَ عِزَّةَ كِتَابِهِ وَ دِینِ طلابه من کہ وہ اپنی کتاب اور اپنے طالبوں کے دین کی عزت کو ان فِتَنِ تِلْكَ التَّوَادِرِ كَمَا وَعَدَ في قَوْلِهِ : إِنا نو اور کے فتنہ سے محفوظ رکھے جیسا کہ اس نے اپنے قول : انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ فَانّي نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ میں وعدہ کیا تھا پس وَعْدَهُ وَ أَيَّدَ عَبْدَهُ فَضْلًا مِّنْهُ وَ رَحْمَةً وَ اس نے اپنے وعدہ کو پورا فرمایا اور اپنے فضل اور رحمت سے أوْحَى إِلَى أَنْ أَقومَ بِالانْدَارِ وَ اَنْزَلَ مَعنی اپنے بندہ کی تائید فرمائی اور میری طرف وحی کی کہ میں مندر نَوَادِرَ النّعَاتِ وَالْعُلُومِ وَ التَّائِيدَاتِ بن کر کھڑا ہو جاؤں.اور میرے ساتھ نادر نکات وعلوم اور مِنَ السَّمَاءِ لِيَكْسِتر بها تواید آسمانی تائیدات اتاریں تا اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے عیسائیوں کے نو اور اور ان کی صلیب کو پاش پاش کر دے.الْمُتَنَظِرِينَ وَصَلِيبَهُم ( ترجمه از مرتب) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۸۰،۴۷۹) حفاظت قرآن کیوں کر اور کس طرح سے ہوگی سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتا بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہو گا یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہو گا پھر ان کے آنے کے بعد جو ان سے سرکش رہے گا وہی لوگ بدکار اور فاسق ہیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۹) ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا اور ہم ہی اس تنزیل کی محافظت کریں گے.اس میں اس بات کی تصریح

Page 46

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۸ سورة الحجر ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی تعلیم کو تازہ رکھنے والے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۸) یہ آیت کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ توریت اور انجیل یہود اور نصاریٰ کے سینوں سے محو کی گئی اور گو توریت اور انجیل ان کے ہاتھوں اور ان کے صندوقوں میں تھی لیکن ان کے دلوں سے محو ہوگئی یعنی ان کے دل اس پر قائم نہ رہے اور انہوں نے توریت اور انجیل کو اپنے دلوں میں قائم اور بحال نہ کیا.غرض یہ آیت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا برباد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روز اول سے اس کا پودا دلوں میں جمایا گیا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۱) ہم نے ہی قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۰) فَإِنَّ الْقُرْآنَ كِتَابٌ قَدْ كَفَّلَ الله قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کی صحت لفظی و معنوی کا صحتَهُ، وَقَالَ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وإنا له اللہ تعالی نے خود ذمہ لیا ہے اور اس نے فرمایا ہے اِنا نَحْنُ لَحفِظُونَ، وَإِنَّهُ لَا يَتَغَيَّرُ بِتَغيُّرَاتِ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.زمانہ کے تغیرات اور الْأَزْمِنَةِ وَمُرُورِ الْقُرُونِ الْكَثِيرَةِ، وَلا زیادہ صدیاں گزرجانے کے باوجود اس کتاب میں کوئی تغیر يَنقُصُ مِنْهُ حَرْفٌ وَلَا تَزِیدُ عَلَيْهِ نُقطہ نہیں ہوگا اس سے نہ کوئی حرف کم ہوگا اور نہ اس میں کوئی وَلَا تَمَسُّهُ أَيْدِى الْمَخْلُوقِ، وَلَا يُخالطة نقطہ زیادہ ہو گا.نہ اس میں مخلوق دست برد کر سکے گی اور نہ قَوْلُ الْأدميين.اس میں انسانوں کا کلام شامل ہو سکے گا.(ترجمہ از مرتب) (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۶) وَكَذَلِكَ قَالَ فِي آيَةٍ أُخْرى لِقَوْمٍ اور اسی طرح طالبان ہدایت کے لئے دوسری آیت يَسْتَرْشِدُونَ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ اِنّا لَه میں فرمایا اِنّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ - تَحْفِظُونَ فَأَمْعِنُوا فِيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَفَكَّرُونَ.پس اس میں غور کرو اگر تم صاحب فکر ہو.فَهَذِهِ إِشَارَةٌ إلى بَعْثِ مُجَدِدٍ فِي زَمَانٍ اس آیت میں ایسے زمانہ میں جو فساد سے پر ہوا ایک مُفَسَدٍ كَمَا يَعْلَمُهُ الْعَاقِلُونَ وَلَا مَعْلى مجدد کی بعثت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ ہر عقل مند جانتا

Page 47

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 19 سورة الحجر لِحِفَاظَةِ الْقُرْآنِ مِنْ غَيْرِ حِفاظت ہے کیونکہ حفاظت قرآن کے اور کوئی معنے ہی نہیں سوائے اس کے عِرِهِ عِنْدَ شُيُوعِ فِتَنِ الطَّغْيَانِ کہ اس کی روح اور اس کے خلاصہ کو محفوظ رکھا جائے بالخصوص اس وَإثْبَاتِهِ فى الْقُلُوبِ عِنْدَ هَبْ وقت جبکہ سرکشی کے فتنے بکثرت موجود ہوں اور قرآن مجید کو دلوں صَرَامِي الطُغْيَانِ كَمَا لا یخفی علی میں قائم رکھا جائے جب کہ سرکشی کی تند ہوائیں چل رہی ہوں ذَوِى الْعِرْفَانِ وَالْمُتَدَيرِينَ.جیسا کہ صاحب علم و عرفان اور غور کرنے والے لوگوں پر مخفی نہیں.(سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۶۲،۳۶۱) (ترجمه از مرتب) قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ وخدا تعالیٰ نے ہمو جب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنی کلام کی کی.اول حافظوں کے ذریعہ سے اُس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا.اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں.اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچا یا.دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے رُوحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں منجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.سو یہ پیشگوئی کسی نہ کسی پہلو کی وجہ سے ہر ایک زمانہ میں پوری ہوتی رہی ہے اور جس زمانہ میں کسی پہلو پر مخالفوں کی طرف سے زیادہ زور دیا گیا تھا اُسی کے مطابق خدا تعالیٰ کی غیرت اور حمایت نے مدافعت کرنے والا پیدا کیا ہے.لیکن یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں مخالفوں نے ہر چہار پہلو کے رُو سے حملہ کیا تھا.اور یہ ایک سخت طوفان کے دن تھے کہ جب سے قرآن شریف کی دنیا میں اشاعت ہوئی ایسے خطر ناک دن اسلام نے کبھی نہیں دیکھے بدبخت اندھوں نے قرآن شریف کی لفظی صحت پر بھی حملہ کیا اور غلط ترجمے اور تفسیریں شائع کیں.بہتیرے عیسائیوں اور بعض نیچریوں اور کم فہم مسلمانوں نے تفسیروں اور

Page 48

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰ سورة الحجر - ترجموں کے بہانہ سے تحریف معنوی کا ارادہ کیا ہے اور بہتوں نے اس بات پر زوردیا کہ قرآن اکثر جگہ میں علوم عقلیہ اور مسائل مسلّمہ مثبتہ طبعی اور ہیئت کے مخالف ہے اور نیز یہ کہ بہت سے دعاوی اس کے عقلی تحقیقاتوں کے برعکس ہیں اور نیز یہ کہ اس کی تعلیم جبر اور ظلم اور بے اعتدالی اور نا انصافی کے طریقوں کو سکھاتی ہے.اور نیز یہ کہ بہت سی باتیں اس کی صفات الہیہ کے مخالف اور قانون قدرت اور صحیفہ فطرت کے منافی ہیں.اور بہتوں نے پادریوں اور آریوں میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور قرآن کریم کے نشانوں اور پیشگوئیوں سے نہایت درجہ کے اصرار سے انکار کیا اور خدا تعالیٰ کی پاک کلام اور دین اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی صورت بھینچ کر دکھلائی اور اس قدر افتر ا سے کام لیا جس سے ہر ایک حق کا طالب خواہ نخواہ نفرت کرے.لہذا اب یہ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ جو طبعا چاہتا تھا کہ جیسا کہ مخالفوں کے فتنہ کا سیلاب بڑے زور سے چاروں پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اُٹھا ہے ایسا ہی مدافعت بھی چاروں پہلوؤں کے لحاظ سے ہو.اور اس عرصہ میں چودھویں صدی کا آغاز بھی ہو گیا.اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے موافق جو اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وإنا له لحفِظُونَ ہے اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجدد بھیجا.مگر چونکہ ہر ایک مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسب حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے ایسا ہی خدا تعالی نے اس مجدد کا نام خدمات مفوضہ کے مناسب حال مسیح رکھا.کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخر الزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا.پس جس شخص کو یہ اصلاح سپر دہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام سیح موعود رکھا جائے.پس سوچو کہ تکسیر الصليب کی خدمت کس کو سپرد ہے؟ اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور ہے؟ سوچو خدا تمہیں تھام لے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۸۸ تا ۲۹۰) ( یہ آیت ) صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہوگی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۲۶۷ حاشیہ ) ہم نے ہی قرآن شریف کو اُتارا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.اسی وجہ سے قرآن شریف تحریف سے محفوظ رہا.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۴) لے بہتوں نے اپنی تفسیروں میں اسرائیلی بے اصل روایتیں لکھ کر ایک دنیا کو دھوکہ دیا ہے.منہ

Page 49

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة الحجر إنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وإنا له لحفظون یہ بھی مسیح موعود کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے.اور قرآن شریف کی رو سے مسیح موعود کے زمانہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے مشابہت ہے.عقلمندوں کے لئے جو تدبر کرتے ہیں یہ ثبوت قرآنی تسلی بخش ہے.اور اگر کسی نادان کی نظر میں یہ کافی نہیں ہیں تو پھر اس کو اقرار کرنا چاہئے کہ تو رات میں نہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت کوئی پیشگوئی ہے نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی پیش خبری ہے کیونکہ وہ الفاظ بھی محض مجمل ہیں.اور اسی وجہ سے یہودیوں کو ٹھوکر لگی اور قبول نہ کیا.....انبیاء کی نسبت جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ باریک ہوتی ہیں تاشقی اور سعید میں فرق ظاہر لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۷، ۱۸۸) ہو جاوے.اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ عادت ہے کہ جب ایک قوم کو کسی فعل سے منع کرتا ہے تو ضرور اس کی تقدیر میں یہ ہوتا ہے کہ بعض ان میں سے اس فعل کے ضرور مرتکب ہوں گے جیسا کہ اُس نے توریت میں یہودیوں کو منع کیا تھا کہ تم نے توریت اور دوسری خدا کی کتابوں کی تحریف نہ کرنا.سو آخر اُن میں سے بعض نے تحریف کی مگر قرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم نے قرآن کی تحریف نہ کرنا بلکہ یہ کہا گیا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ ( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۹) لحفِظُونَ - اگر خدا کو یہ منظور ہوتا کہ اسلام ہلاک ہو جاوے اور اندرونی اور بیرونی بلائیں اسے کھا جاویں تو وہ کسی کو پیدا نہ کرتا اس کا وعدہ اِنا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کا کہاں گیا.اول تو تاڑ تاڑ مجد دآئے مگر جب مسلمانوں کی حالت تنزل میں ہوئی بد اطواری ترقی کرتی جاتی ہے.سعادت کا مادہ ان میں نہ رہا اور اسلام غرق ہونے لگا تو خدا نے ہاتھ اٹھا لیا.جب کہو تو یہی جواب ہے کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ تیس دجال آویں گے یہ بھی ایک دجال ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۰) احادیث کے اوپر نہ تو خدا کی مہر ہے نہ رسول اللہ صلعم کی اور قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ اس لئے ہمارا یہ مذہب ہے کہ قرآن شریف سے معارض نہ ہونے کی حالت میں ضعیف سے ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاوے لیکن اگر کوئی قصہ جو کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور حدیث میں اس کے خلاف پایا جاوے مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ اسحاق ابراہیم کے بیٹے تھے اور حدیث میں لکھا ہوا ہو کہ وہ نہیں تھے تو ایسی صورت میں حدیث پر کیسے اعتماد ہوسکتا ہے.( البدر جلد ۲ نمبر ۳۹ مورخه ۱۶/اکتوبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۰۶)

Page 50

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲ سورة الحجر قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے.جب اسم فاعل کو مصدر کی صورت میں لاتے ہیں تو وہ مبالغہ کا کام دیتا ہے جیسا زید عدل.کیا معنے.زید بہت عادل ہے.قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے، علم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا جیسے في كتب مكنون ( الواقعة : ۷۹) یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا دے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۴) قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ انا له لحفظون اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة : ٢) كا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے.(رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۹۵) اللہ تعالیٰ نے جو نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کا وعدہ دے کر قرآن اور اسلام کی حفاظت کا خود ذمہ وار ہوتا ہے مسلمانوں کو اس مصیبت سے بچالیا اور فتنہ میں پڑنے نہ دیا.پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۳) ایک بارش تخم ریزی کے لئے ہوتی ہے اور پھر ایک بارش اس تخم کے نشو ونما اور سرسبزی کے لئے ہوتی ہے.اسی طرح پر نبوت کی بارش تخم ریزی کے لئے ہوتی ہے اور محدثین اور مجددین کی بارش جو نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وإنا له لحفظون کے ضمن میں داخل ہیں اس قسم کے بارور کرنے اور نشو و نما دینے کے لئے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۰ ارجون ۱۹۰۱ صفحه ۴) اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی حتی و قیوم خدا نے انا له لحفظون کہہ کر اٹھایا ہوا ہے پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے.یا درکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ اِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ قرآن شریف کی

Page 51

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة الحجر عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۵) خدا تعالی کی تائید میں اور نصرتیں جو ہمارے شامل حال ہیں یہ آج کسی مذہب کے پیرو کو نصیب نہیں اور ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ کیا کوئی اہل مذہب ہے جو اسلام کے سوا اپنے مذہب کی حقانیت پر تائیدی اور سمادی نشان پیش کر سکے.خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ جو قائم کیا ہے یہ اس حفاظت کے وعدہ کے موافق ہے جو اس نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ میں کیا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰ ر جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۲) بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور وہ اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا وے چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا....چونکہ اس نے وعدہ کیا ہوا تھا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذكر وإنا له لحفظون.یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقع ہو تو وہ خبر لے.چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں.اسی طرح پر آج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو طیار ہو گئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاج نبوت قائم کرے یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخراب پھوٹ نکلے جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کر نکلتا ہے اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اور قوت میں ہے اس لئے اس کو تباہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا دور کرنے کے لئے اور پھر ا خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعوئی اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے.اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لئے اس نے ظاہر کی

Page 52

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۴ سورة الحجر الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ /اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۶) ہیں دکھا دیا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مسجد کو بھیجتا ہے جو دین کے اس حصہ کو تازہ کرتا ہے جس پر کوئی آفت آئی ہوئی ہوتی ہے.یہ سلسلہ مجددوں کے بھیجنے کا اللہ تعالی کے اس وعدہ کے موافق ہے جو اس نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ میں فرمایا ہے.پس اس وعدہ کے موافق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے موافق جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے وحی یا کر فرمائی تھی یہ ضروری ہوا کہ اس صدی کے سر پر جس میں سے انیس برس گزر گئے کوئی مجدد اصلاح دین اور تجدید ملت کے لئے مبعوث ہوتا.اس سے پہلے کہ کوئی خدا تعالیٰ کا مامور اس کے الہام ووحی سے مطلع ہو کر اپنے آپ کو ظاہر کرتا.مستعد اور سعید فطرتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ صدی کا سر آ جانے پر نہایت اضطراب اور بے قراری کے ساتھ اس مرد آسمانی کی تلاش کرتے اور اس آواز کے سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتے جو انہیں یہ مژدہ سناتی کہ میں خدا تعالی کی طرف سے وعدہ کے موافق آیا ہوں.الحکم جلد نمبر ۱ مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۳) اس وقت میرے مامور ہونے پر بہت سی شہادتیں ہیں ؛ اول اندرونی شہادت ، دوم بیرونی شہادت، سوم صدی کے سر پر آنے والے مجدد کی نسبت حدیث صحیح، چہارم إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ کا الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۲) وعدہ حفاظت.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے لئے غیور ہے.اس نے سچ فرمایا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لحفظون.اس نے اس وعدہ کے موافق اپنے ذکر کی محافظت فرمائی اور مجھے مبعوث کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے موافق کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آتا ہے اس نے مجھے صدی چہار دہم کا مجدد کیا جس کا نام کا سر الصلیب بھی رکھا ہے.اگر ہم اس دعوی میں غلطی پر ہیں تو پھر سارا کاروبار نبوت کا ہی باطل ہوگا اور سب وعدے جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی جھوٹوں کی حمایت کرنے والا ثابت ہوگا ( معاذ اللہ ) کیونکہ ہم اس سے تائیدیں پاتے ہیں اور اس کی نصرتیں ہمارے ساتھ الحکم جلد نمبر ۴ مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۳) ہیں.نم اسلام پر ایسا خطرناک صدمہ پہنچا ہے کہ ایک ہزار سال قبل تک اس کا نمونہ اور نظیر موجود نہیں ہے.یہ شیطان کا آخری حملہ ہے اور وہ اس وقت ساری طاقت اور زور کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے

Page 53

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة الحجر مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے اور مجھے بھیجا ہے تا میں ہمیشہ کے لئے اس کا سر کچل دوں.الحکم جلدے نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ /جون ۱۹۰۳ء صفحه ۳) خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور افضل الرسل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں....خدا تعالیٰ کی غیرت کب روار کھ سکتی ہے کہ یہ گالیاں اسی طر دی جائیں اور اسلام کی دستگیری اور نصرت نہ ہو حالانکہ اس نے آپ وعدہ فرمایا تھا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ زمانہ کی یہ حالت ہو اور اللہ تعالیٰ باوجود اس وعدہ کے پھر خاموش رہے.بے باک اور شوخ عیسائی قرآن شریف کی یہاں تک بے ادبی کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ استنجے کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قسم قسم کے افترا باندھتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور وہ لوگ ان میں زیادہ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں میں جنم لیا اور مسلمانوں کے گھروں میں پرورش پائی اور پھر مرتد ہو کر اسلام کی پاک تعلیم پر ٹھٹھا کرنا اپنا شیوہ بنالیا ہے یہ حالت بیرونی طور پر اسلام کی ہو رہی ہے اور ہر طرف سے اس پر تیر اندازی ہو رہی ہے تو کیا یہ وقت خدا تعالی کی غیرت کو جو وہ اپنے پاک رسول کے لئے (صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھتا ہے جوش میں لانے والا نہ تھا.اس کی غیرت نے جوش مارا اور مجھے مامور کیا اس وعدہ کے موافق جو اس نے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ میں کیا تھا.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) ہم نے اس قرآن مجید کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.پھر دیکھ لو کہ اس نے کیسی حفاظت فرمائی ایک لفظ اور نقطہ تک پس و پیش نہ ہوا اور کوئی ایسا نہ کر سکا کہ اس میں تحریف تبدیل کرتا.الحکم جلد ۸ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۴) ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے یعنی جب اس کے معانی میں غلطیاں وارد ہوں گی تو اصلاح کے لئے ہمارے مامور آیا کریں گے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخہ ۱۰ تا۱۷ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) بیشک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن شریف ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لئے نہیں اسی لئے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا.قرآن شریف کی حفاظت کا یہ بڑا از بردست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہود نے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور ان میں کوئی اثر اور قوت

Page 54

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶ سورة الحجر باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.(احکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۸۷) اسلام کی حالت جو اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں بالا تفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں.ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہو گیا ہے.ایسی حالت میں خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سر پرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے کیونکہ اس نے فرمایا تھا إِنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ.اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کون سا وقت آئے گا.اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۶ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحه ۵) یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا رہا ہے اور کرے گا جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.انا له لحفظون کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گم شدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۶ صفحه ۳) خدا کا یہی ارادہ تھا.اس نے اپنے وعدہ کے موافق وقت پر اپنے دین کی خبر گیری اور دستگیری فرمائی ہے إنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ.اسلام کو اس نے دنیا میں قائم کیا قرآن کی تعلیم پھیلائی اور اس کی حفاظت کا بھی وہی خود ذمہ دار ہے.الحام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۳) یہ حدیث (إنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَيْدُ لَهَا دِينَهَا - ناقل) إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ کی شرح ہے.صدی ایک عام آدمی کی عمر ہوتی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ سو سال بعد کوئی نہ رہے گا.جیسے صدی جسم کو مارتی ہے اسی طرح ایک روحانی موت بھی واقع ہوتی ہے اس لئے صدی کے بعد ایک نئی ذریت پیدا ہو جاتی ہے جیسے اناج کے کھیت.اب دیکھتے ہیں کہ ہرے بھرے ہیں ایک وقت میں بالکل خشک ہوں گے پھر نئے سر سے پیدا ہو جائیں گے اس طرح پر ایک سلسلہ جاری رہتا ہے.پہلے اکا بر سوسال کے اندر فوت ہو جاتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ ہر صدی پر نیا انتظام کر دیتا ہے جیسا رزق کا سامان کرتا ہے.پس قرآن کی حمایت کے ساتھ یہ حدیث تواتر کا حکم رکھتی ہے.

Page 55

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة الحجر کپڑا پہنتے ہیں تو اس کی بھی تجدید کی ضرورت پیدا ہوتی ہے اسی طریق پرنی ذریت کو تازہ کرنے کے لئے سنت اللہ اسی طرح جاری ہے کہ ہر صدی پر مجدد آتا ہے.(الحکم جلدے نمبر۷ مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحہ ۷ ) پھر جبکہ اس حد تک اسلام کی حالت ہوگئی ہے تو کیا خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لحفظون بالکل غلط ہو گیا ؟ کیا حق نہ تھا کہ اس وقت اس کی حفاظت کی جاتی؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ قوم پورا پورا صدمہ خریف کا اٹھا چکی ہے اب ضروری ہے کہ اسے ربیع کا حصہ ملے اور اسلام کے پاک درخت کے پھل پھول نکلیں سکھوں کے عہد میں اسلام کو جو صدمہ پہنچا ہے وہ بہت ہی ناگوار ہے.مساجد گرادی گئیں.وحشیانہ حالت ایسی تھی کہ بانگ اور نماز تک سے روکا جاتا اور شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جسے قرآن آتا ہو.اپنی حالت بھی انہوں نے سکھوں کی سی بنالی.کچھ پہن لئے اور مونچھیں بڑھالیں اور السلام علیکم کی جگہ واہ گوروجی کی فتح رہ گئی یہ تو وہ حالت تھی جو سکھوں کے عہد میں ہوئی.اب جب امن ہوا تو فسق و فجور میں ترقی کی اور ادھر عیسائیوں نے ہر قسم کے لالچ دے کر ان کو عیسائی بنانا چاہا اوران کا وار خالی نہیں گیا.ہر گر جہ میں ہر شریف قوم کی لڑکیاں اور لڑ کے پاؤ گے جو مرتد ہو کر ان میں مل گئے ہیں وہ کیا دردناک واقعہ ہوتا ہے جب کسی شریف خاندان کی لڑکی کو پھسلا کر لے جاتے ہیں.اور پھر وہ بے پردہ ہو کر پھرتی ہے اور ہر قسم کے معاصی سے حصہ لیتی ہے.ان حالات کو دیکھ کر ایک معمولی عقل کا آدمی بھی کہہ اُٹھے گا کہ یہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد آوے.ان لوگوں کا تو ہم منہ بند نہیں کر سکتے جو کہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑا.ایسے لوگوں کے نزدیک تو اگر سب کے سب دہر یہ ہو جائیں تب بھی کچھ نہیں بگڑے گا لیکن سچی بات یہی ہے کہ اس وقت اسلام خدا کی مدد کا سخت محتاج ہے.اور یہ کیسی خوشی کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے وقت میں اسلام کو بے مدد نہیں چھوڑا.اس نے اپنے قانون کے موافق مجھے بھیجا ہے تا میں اسے زندہ کروں.الحاکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ / جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۸) عقل کے نزدیک بھی زمانہ مسیح کا یہی معلوم ہوتا ہے.اسلام اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ ایک وقت ایک شخص کے مرتد ہو جانے پر اس میں شور پڑ جاتا تھا لیکن اب لاکھوں مرتد ہو گئے.رات دن مخالفت اسلام میں کتب تصنیف ہو رہی ہیں.اسلام کی بیخ کنی کے واسطے طرح طرح کی تجاویز ہورہی ہیں.عقل پسند نہیں کرتی کہ جس خدا نے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ اِنّا لَهُ لَحفِظُونَ کا وعدہ دیا ہے وہ اس وقت اسلام کی حفاظت نہ کرے اور خاموش رہے.یہ زمانہ کس قسم کی مصیبت کا اسلام پر ہے کہ شرفا کی اولا د شمن اسلام ہو کر

Page 56

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة الحجر گر جاؤں میں چلے گئے اور کھلے طور پر رسول اکرم کی توہین ہو رہی ہے.ہر ایک قسم کی گالی اور سب وشتم میں ان کو یاد کیا جاتا ہے.ان تمام امور کو بہ بیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو عقل کہتی ہے کہ یہی وقت خدا کی تائید کا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخه ۱۶/اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۵) ایک اعتراض یہ پیش کرتے ہو کہ اس امت میں ۳۰ دجال آنے والے ہیں.اے بدقسمتو کیا تمہارے لئے دجال ہی رہ گئے کہ اگر ایک کے آنے سے ایمان کے تباہ ہونے میں کوئی کسر رہ جاوے تو پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا حتی کہ تیس دجال آویں تا کہ ایمان کا نام و نشان نہ رہے.اس طرح تو موسیٰ علیہ السلام کی امت ہی اچھی رہی کہ جس میں پے در پے چار سو نبی آیا.پھر موسیٰ علیہ السلام کے وقت تو عورتوں سے بھی خدا نے کلام کیا.امت محمدیہ کے مرد بھی اس قابل نہ ہوئے کہ خدا ان سے ہم کلام ہوتا پھر یہ بتلاؤ کہ یہ امت مرحومہ کس طرح ہوئی اس کا نام تو بد نصیب ہونا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۳ سو برس گزر گئے اور جس قدر فیوض و برکات تھے وہ سب سماع کے حکم میں آگئے اب اگر خدا ان کو تازہ کر کے نہ دکھائے تو صرف قصہ کہانی کے رنگ میں ان کو کون مان سکتا ہے جبکہ تازہ طور پر خدا کی مدد نہیں.نصرت نہیں تو خدا کی حفاظت کیا ہوئی حالانکہ اس کا وعدہ ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ - البد رجلد ۳ نمبر ۳۶،۳۵،۳۴ مورخه ۸ تا ۱۶ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۸) سی اس قرآن کی آیت ہے جس کا حرف حرف محفوظ ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ وار خود اللہ تعالیٰ ہے جب کہ اس نے فرمایا ہے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ - الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ارستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۵) علماء کی اگر میرے دعوی سے پہلے کی کتابیں دیکھی جاتی ہیں تو ان سے کس قدرا نتظار اور شوق کا پتہ لگتا ہے گویا وہ تیرھویں صدی کے علامات سے مضطرب اور بے قرار ہور ہے ہیں مگر جب وقت آیا تو اول الکافرین ٹھیرتے ہیں وہ جانتے تھے کہ ہمیشہ کہتے آتے تھے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجد داصلاح فساد کے لئے آتا ہے اور ایک روحانی طبیب مفاسد موجودہ کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ صدی کا سرپا کر وہ انتظار کرتے.ضرورت کے لحاظ سے ان کو مناسب تھا کہ ایسے مجدد کا انتظار کرتے جو کسر صلیب کے لئے آتا کیونکہ اس وقت سب سے بڑا فتنہ یہی ہے....بتاؤ ایسی حالت اور صورت میں انا له لحفظون کا وعدہ کہاں گیا ؟ الحکم جلدے نمبر ۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳، ۴) الغرض ایسے فتنے کے وقت میں قریب تھا کہ دشمن اکٹھے ہو کر ایک دفعہ ہی مسلمانوں کو برگشتہ کر دیتے ،

Page 57

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة الحجر لیکن اللہ تعالی کے زبر دست ہاتھ نے اسلام کو سنبھالے رکھا.یہ بھی ایک دلیل ہے اسلام کی صداقت کی.آج کل کی ترقی بھی اسلام کا ایک معجزہ ہے پس دیکھو کہ مخالفوں نے اپنی ساری طاقتیں اور قو تیں حتی کہ جان اور مال تک بھی اسلام کے نابود کرنے میں صرف کر دیا.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ یعنی خدا آپ ہی ان نقوش فطرت کو یاد دلانے والا ہے اور خطرہ کے وقت اس کو بچا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۹۷) لے گا.اس زمانہ میں خدا نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھا کر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف ان کو بلائے.اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے واسطے جس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں نہ ہوتیں، تو چنداں حرج نہ تھا.مگر اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں قو میں لگی ہوئی ہیں.مجھے یاد ہے اور براھین احمدیہ میں بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہوکر شائع کی گئی ہیں.عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر.اگر اس زیادہ تعداد کو جواب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے ، تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت نہ ہوتا.اور إنا له لحفظون اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقیناً سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اُٹھ جاتا اور اس کا نام ونشان ستک مٹ جاتا، مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا.خدا کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۸،۷۷) وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ) دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و مقتضائے مصلحت و حکمت ہم ان کو اُتارتے ہیں.اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اُتری ہے.اس طرح پر کہ ان چیزوں کے عمل موجبہ اسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اور نیز اس طرح پر کہ اُسی کے الہام اور القاء اور سمجھانے اور عقل اور فہیم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہور میں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتی اور ہر یک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق دی جاتی ہے.علی ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق

Page 58

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحجر (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۱،۴۵۰) ہی کھلتے ہیں.ہر ایک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر ہم قدر ضرورت سے زیادہ اُن کو نازل نہیں کیا کرتے.پس یہ حکمت الہیہ کے برخلاف ہے کہ ایک نبی کو امت کی اصلاح کے لئے وہ علوم دئے جائیں جن علوم سے وہ انت مناسبت ہی نہیں رکھتی بلکہ حیوانات میں بھی خدا تعالی کا یہی قانون قدرت پایا جاتا ہے.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶،۱۵۵) انجیل ایک قانون ہے مختص المقام والزمان اور مختص القوم جیسا کہ انگریز بھی قوانین مختص المقام اور مختص الوقت نافذ کر دیتے ہیں بعد از وقت ان کا اثر نہیں رہتا.اسی طرح انجیل بھی ایک مختص قانون ہے عام نہیں.مگر قرآن کریم کا دامن بہت وسیع ہے وہ قیامت تک ایک ہی لا تبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لئے ہے چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا عِنْدَنَا خَزَايِنُهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ یعنی ہم اپنے خزانوں میں سے بقدر معلوم نازل کرتے ہیں انجیل کی ضرورت اسی قدر تھی اس لئے انجیل کا خلاصہ ایک صفحہ میں آسکتا ہے لیکن قرآن کریم کی ضرورتیں تھیں سارے زمانہ کی اصلاح.قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا.انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا.یہ لفظ مختصر ہیں مگر اس کے ہزار ہا شعبہ ہیں.چونکہ یہودیوں، طبیعیوں ، آتش پرستوں اور مختلف اقوام میں بد روشنی کی روح کام کر رہی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے با علام الہی سب کو مخاطب کر کے کہا يَايُّهَا النَّاسُ إِلى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹ ) - اس لئے ضروری تھا کہ قرآن شریف ان تمام تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاً فوقتاً جاری رہ چکی تھیں اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعے زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئیں تھیں.قرآن کریم کے مدنظر تمام نوع انسان تھا نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ اور انجیل کا مد نظر ایک خاص قوم تھی اس لئے مسیح علیہ السلام نے بار بار کہا کہ میں اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش 66 میں آیا ہوں.“ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۶) وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ.(۲۵ یعنی ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں جو تم میں سے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو پیچھے رہنے والے ہیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲)

Page 59

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١ سورة الحجر وَالْجَانَ خَلَقْنَهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ.۲۸ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة : ۳۱) سے استنباط ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے سے اس وقت کوئی قوم موجود ہو اور دوسری جگہ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے وَالْجَانَ خَلَقْنَهُ مِن قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ایک قوم جان بھی آدم سے پہلے موجود تھی.البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳/ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۷) فَإِذَا سَوَيْتُه وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ.(انسان ) باعتبار روح عالم صغیر ہے اور بلحاظ شیون وصفات کا ملہ وظلتیت تام روح البی کا مظہر تام ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۹،۱۷۸ حاشیه در حاشیه ) جب میں نے اس کا قالب بنالیا اور تجلیات کے تمام مظاہر درست کر لئے اور اپنی روح اس میں پھونک دی تو تم سب لوگ اس کے لئے زمین پر سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ.سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ جب اعمال کا پورا قالب تیار ہو جاتا ہے تو اس قالب میں وہ روح چمک اٹھتی ہے.جس کو خدا تعالیٰ اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے.کیونکہ دنیوی زندگی کے فنا کے بعد وہ قالب تیار ہوتا ہے اس لئے الہی روشنی جو پہلے دھیمی تھی یکدفعہ بھڑک اٹھتی ہے.اور واجب ہوتا ہے کہ خدا کی ایسی شان کو دیکھ کر ہر ایک سجدہ کرے اور اس کی طرف کھینچا جائے.سو ہر ایک اس نور کو دیکھ کر سجدہ کرتا ہے.اور طبعاً اس طرف آتا ہے بجز ابلیس کے جو تاریکی سے دوستی رکھتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۲) حکمت الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتدا سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دئیے.یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ روحي فَقَعُوا لَه سجدِينَ یعنی جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک بنالوں اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو اس وقت تم سجدہ میں گر جاؤ.مذکوہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائیش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطر نا خدا سے تعلق پیدا ہو جاوے.ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں

Page 60

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۲ سورة الحجر گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہوگا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۷۷ ۱۷۸ مئی ۱۹۰۲ء) اس آیت میں ایک عمیق راز کی طرف اشارہ ہے جو انتہائی درجہ کے کمال کا ایک نشان ہے اور وہ یہ کہ انسان ابتدا میں صرف صورت انسان کی ہوتی ہے مگر اندر سے وہ بے جان ہوتا ہے اور کوئی روحانیت اس میں اندر ہوتا اورکوئی نہیں ہوتی اور اس صورت میں فرشتے اس کی خدمت نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک پوست بے مغز ہے لیکن بعد اس کے رفتہ رفتہ سعید انسان پر یہ زمانہ آ جاتا ہے کہ وہ خدا سے بہت ہی قریب جا رہتا ہے.تب جب ٹھیک ٹھیک ذوالجلال کی روشنی کے مقابل پر اس کا نفس جا پڑتا ہے اور کوئی حجاب درمیان نہیں ہوتا کہ اس روشنی کو روک دے تو بلا توقف الوہیت کی روشنی جس کو دوسرے لفظوں میں خدا کی روح کہہ سکتے ہیں اس انسان کے اندر داخل ہو جاتی ہے اور وہی ایک خاص حالت ہے جس کی نسبت کلام الہی میں کہا گیا کہ خدا نے آدم میں اپنی روح پھونک دی.اس حالت پر نہ کسی تکلف سے اور نہ ایسے امر سے جو شریعت کے احکام کے رنگ میں ہوتا ہے.فرشتوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ اس کے آگے سجدہ میں گریں یعنی کامل طور پر اس کی اطاعت کریں گویا وہ اس کو سجدہ کر رہے ہیں.یہ حکم فرشتوں کی فطرت کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے.کوئی مستحدث امر نہیں ہوتا.یعنی ایسے شخص کے مقابل پر جس کا وجود خدا کی صورت پر آجاتا ہے خود فرشتے طبعاً محسوس کر لیتے ہیں کہ اب اس کی خدمت کے لئے ہمیں گرنا چاہیے اور ایسے قصے در حقیقت قصے نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم میں عادات الہی اسی طرح واقع ہے کہ ان قصوں کے نیچے کوئی علمی حقیقت ہوتی ہے.پس اس جگہ یہی علمی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قصے کے پیرا یہ میں ظاہر کرنا چاہا ہے کہ کامل انسان کی نشانی کیا ہے.پس فرمایا کہ انسان کامل کی پہلی نشانی یہ ہے کہ انسانی خلقت کے کسی حصہ میں وہ کم نصیب نہ ہو اور اس کے روحانی جسمانی اعضا نے بشری بناوٹ سے پورا حصہ لیا ہو اور کمال اعتدال پر اس کی فطرت واقع ہو.(۲) اور دوسری یہ نشانی ہے کہ الہی روح نے اس کے اندر دخول کیا ہو.(۳) اور تیسری یہ نشانی ہے کہ فرشتے اس کو سجدہ کریں یعنی تمام فرشتے جو زمین اور آسمان کے کام میں لگے ہوئے ہیں اس کے خادم ہوں اور اس کی منشاء کے مطابق کام کریں.اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی بندہ کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کا تمام لشکر ملائکہ کا بھی اس شخص کے ساتھ ہو جاتا ہے اور اس کی طرف جھک جاتا ہے.تب ہر ایک میدان میں اور ہر ایک مشکل کے وقت میں فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کے لئے ہر دم کمر بستہ رہتے ہیں.گویا وہ ہر وقت اس کے سامنے سجدہ میں ہیں

Page 61

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة الحجر کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ ہے لیکن ان باتوں کو زمینی خیال کے لوگ سمجھ نہیں سکتے کیونکہ آسمانی روح سے ان کو حصہ ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۷۸،۱۷۷ مئی ۱۹۰۲ ء حاشیه ) نہیں دیا گیا.ایک اور جگہ فرمایا : وَ اذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلبِكَةُ كُلُّهُمُ اجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ - (ص: ۷۲ تا ۷۵ ) یعنی یاد کر وہ وقت کہ جب تیرے خدا نے (جس کا تو مظہر اتم ہے ) فرشتوں کو کہا کہ میں مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اس کو کمال اعتدال پر پیدا کرلوں اور اپنی روح میں سے اس میں پھونک دوں تو تم اُس کے لئے سجدہ میں گرو یعنی کمال انکسار سے اُس کی خدمت میں مشغول ہو جاؤ اور ایسی خدمت گزاری میں جھک جاؤ کہ گویا تم اسے سجدہ کر رہے ہو پس سارے کے سارے فرشتے انسان مکمل کے آگے سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان، جو اس سعادت سے محروم رہ گیا.جاننا چاہیئے کہ یہ سجدہ کا حکم اُس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم پیدا کئے گئے بلکہ یہ علیحدہ ملائک کو حکم کیا گیا کہ جب کوئی انسان اپنی حقیقی انسانیت کے مرتبہ تک پہنچے اور اعتدال انسانی اس کو حاصل ہو جائے اور خدائے تعالیٰ کی روح اس میں سکونت اختیار کرے تو تم اس کامل کے آگے سجدہ میں گرا کرو یعنی آسمانی انوار کے ساتھ اُس پر اتر و اور اُس پر صلوٰۃ بھیجو سو یہ اس قدیم قانون کی طرف اشارہ ہے جو خدائے تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھتا ہے جب کوئی شخص کسی زمانہ میں اعتدال روحانی حاصل کر لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی روح اُس کے اندر آباد ہوتی ہے یعنی اپنے نفس سے فانی ہو کر بقا باللہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو ایک خاص طور پر نزول ملائکہ کا اُس پر شروع ہو جاتا ہے اگر چہ سلوک کی ابتدائی حالات میں بھی ملائک اس کی نصرت اور خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ نزول ایسا اتم اور اکمل ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم رکھتا ہے اور سجدہ کے لفظ سے خدائے تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ ملائکہ انسان کامل سے افضل نہیں ہیں بلکہ وہ شاہی خادموں کی طرح سجدات تعظیم انسان کامل کے آگے بجالا رہے ہیں.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۶ ۷۷ ) قَالَ رَبِّ فَانْظُرْ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ.قرآن شریف اُس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ

Page 62

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة الحجر یعنی شیطان نے جناب الہی میں عرض کی کہ میں اُس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مردے جن کے دل مرگئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں.خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اُس وقت تک مہلت دی.سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں.اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے اس لئے سورۃ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاری کے شر سے خدا تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دجال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا و لا الظَّالِينَ یہ فرمانا چاہئے تھا کہ وَلَا الدجالِ.اور آیت إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ سے مراد جسمانی بحث نہیں کیونکہ شیطان صرف اُس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں.ہاں شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اس لئے اُس کا نام دجال رکھا گیا ہے.کیونکہ عربی زبان میں دجال گروہ کو بھی کہتے ہیں.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۱) وَإِنَّ أدَمَ هَوَى مِنْ قَبْلُ فِي مَصَاف اور یقیناً آدم اس سے قبل میدان مقابلہ میں گر گئے | وَهَزَمَهُ الشَّيْطَانُ فَمَا رَأَى الْغَلَبَةَ إلى تھے اور شیطان نے انہیں شکست دے دی تھی پس چھ ہزار سِتَّةِ أَلَافٍ، وَمُرِّقَتْ ذُرِّيَّتُهُ وَفُرّقَتْ في سال تک وہ غلبہ کو نہ دیکھ سکے.ان کی اولاد پراگندہ ہوگئی أَطْرَافِ فَإِلى كَمْ يَكُونُ الشَّيْطَانُ مِن اور اطراف عالم میں منتشر کر دی گئی.پس کب تک شیطان الْمُنَظَرِينَ المْ يُغْوِ النَّاسُ مہات پائے گا.کیا اس نے سب لوگوں کو گمراہ نہیں کیا أَجْمَعِينَ إِلَّا قَلِيلًا مِّن عِبَادِ الله بجز اس تھوڑی تعداد کے جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی الصَّالِحِينَ فَقَد أَتَمَّ أَمْرَهُ وَكَمَّلَ فِعْلَه تھی.سو اس نے اپنا کام پورا کر لیا اور اپنا عمل مکمل کر لیا اور وَحَانَ أَنْ يُعَانَ ادَهُ مِن رَّبِّ اب وقت آگیا ہے کہ خدائے رب العالمین کی طرف سے الْعَالَمِيْن وَلَا شَكَ وَلَا شُبْهَةَ أَنَّ إنظار حضرت آدم کی مدد کی جائے.اور یہ بات بلا شک و شبہ الشَّيْطَانِ كَانَ إِلى أَخِرِ الزَّمَانِ، كَمَا درست ہے کہ شیطان کا مہلت پانا جیسا کہ قرآن مجید سے يُفْهَمُ مِنَ الْقُرْآنِ أغنى لفظ سمجھا جاتا ہے آخر الزمان تک تھا.میری مراد لفظ " انظار الإنظار الَّذِي جَاءَ فِي الْفُرْقَانِ فَإِنَّ سے ہے جو قرآن مجید میں وارد ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے الله خَاطَبَهُ وَقَالَ: إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ مخاطب ہوکر فرمایا تھا: إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إلى يَوْمِ

Page 63

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے ۳۵ سورة الحجر إلى يَوْمِ الْوَقْتِ المَعلُومِ : يَعْنِي يَوْمَ الْوَقْتِ المَعْلُوم یعنی تجھے اس وقت تک مہلت دی جاتی ہے الْبَعْدِ الَّذِي يُبْعَثُ النَّاسُ فِيْهِ بَعْدَ جب لوگ گمراہی کی موت کے بعد خدائے حی و قیوم کے مَوْتِ الضَّلَالَةِ بِإِذْنِ الْحَى الْقَوْمِ وَلَا اذن سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے.حقیقت میں یہ دن شَكَ أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ تُشَابِهُ يَوْمَ حضرت آدم کی پیدائش کے دن سے مشابہت رکھتا ہے اس خَلْقَةِ آدَمَ مَا أَرَادَ اللهُ فِيهِ أَن تخلق وجہ سے کہ اللہ نے آج ارادہ فرمایا ہے کہ مثیل آدم کو پیدا مَهِيلٌ آدَمَ ثُمَّ يَبُثُّ فِي الْأَرْضِ ذُرِّيَّةَ کرے اور روئے زمین پر اس کی روحانی اولا د کو پھیلا دے الرُّوحَانِيَّةِ وَيَجْعَلَهُمْ فَوْقَ كُلِّ مَنْ اور ان تمام لوگوں پر ان کو غالب کرے جو اللہ تعالیٰ سے کٹ قُطِعَ مِنَ اللهِ وَتَجَنَّمَ وَاشْتَدَّتِ الْحَاجَةُ گئے اور اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخری زمانہ میں آدم ثانی إلى أدَمِ الثَّانِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ کی اشد ضرورت پیدا ہوگئی تا کہ پہلے زمانہ میں جو کوتا ہی ليَتَدَارَكَ مَا فَاتَ في أَوَّلِ الْأَوَانِ ہوئی ہے اس کی تلافی کرے اور شیطان کے بارہ میں وَلِيَتِمَّ وَعِيْدُ اللهِ فِي الشَّيْطَانِ فَإِنَّ اللہ تعالیٰ کی وعید پوری ہو اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخر الله جَعَلَهُ مِنَ الْمُنظَرِينَ إلى آخر تک شیطان کو مہلت پانے والوں میں قرار دیا اور اشارہ کیا الدُّنْيَا وَأَشَارَ فِيهِ إلى اهلا یہ کہ وہ اس وقت ہلاک کیا جائے گا اور اپنی قوتوں سے محروم وَإِخْرَاجِه مِنْ أَمْلاكِهِ، وَمَا مَعْنَی کیا جائے گا اور مہلت دینے کے معنے سوائے اس کے کچھ الْإِنْطَارِ مِنْ غَيْرِ وَعِيْدِ الْقَتْلِ بَعْدَ نہیں کہ عرصہ مہات اور ملکوں میں اس کے فساد پھیلانے کے أَيَّامِ الْإِمْهَالِ وَعَيْنِهِ فِي الرِّيَارِ : وَكَانَ بعد اس کے قتل کی وعید سے سنائی جائے.اور اس کا یہ ہلاک الإهلاك جَزَاءة بما أَهْلَكَ النَّاسُ کیا جانا اس کا لوگوں کو بڑے فتنوں سے ہلاک کرنے کا بدلہ بِالْفِتَنِ الْكُبَارِ.وَكَانَ الْأَلْفُ السَّابِعُ ہے پس ساتواں ہزار اس کے قتل کی معین مدت ہے اس نے لِقَبْلِهِ أَجَلًا مُّسَمًّى فَإِنَّهُ أَدْخَلَ النَّاسَ بھی لوگوں کو جہنم میں اس کے سات دروازوں سے داخل کیا في جَهَنَّمَ مِنْ سَبْعَةِ أَبْوَابِهَا وَوَفَّى حَتَّی اور اندھا بنانے کا حق پورا کر دیا.پس ساتویں ہزار کو ان الْعَمَى، فَالسَّابِحُ لِهَذِهِ السَّبْعَةِ أَنْسَبُ سات دروازوں کے ساتھ زیادہ مناسبت اور موافقت ہے وَأَوْفَى.وَكَتَبَ اللهُ أَنَّهُ يُقْتَلُ فِي اخر اور اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر فرما دیا تھا کہ شیطان کو دنیا کے آخری حِصّةِ الدُّنْيَا، وَيُحْيِي هُنَاكَ أَبْنَاءُ ادم ایام میں قتل کیا جائے اور بارگاہ رب العزت کی طرف سے الحجر : ٣٩،٣٨

Page 64

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة الحجر.رَحْمَةٌ مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاء ، وَيُجْعَلُ آدم کی اولاد کو روحانی زندگی بخشی جائے اور اس (شیطان) کو عَلَيْهِ هَزِيمَةٌ عُظمى كَمَا جُعِلَ عَلی بہت بڑی شکست دی جائے جیسے اس نے حضرت آدم کے ادَمَ فِي الْإِبْتِدَاءِ.فَهُنَاكَ تُجزَى خلاف ابتداء میں کیا تھا تب اس وقت جان کا بدلہ جان اور النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالْعِرْضُ بِالْعِرْضِ عزت کا بدلہ عزت ہوگا اور زمین اپنے رب کے نور سے منور ہو وَتُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُورِ رَيْهَا.و ظہوتی جائے گی اور صفی اللہ ( آدم ) کا دشمن ہلاکت کے گڑھے میں گر وَ تَهْوِى عَدُوٌّ صَفِي اللهِ وَكَذَالِكَ جَزَاء عَدَاوَةِ جائے گا اور اصفیاء سے دشمنی کا نتیجہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے.یہ الْأَصْفِيَّاءِ وَكَانَ هَذَا الْفَتْحُ حَقًّا فتح حضرت آدم کے لئے بطور حق کے واجب ہوگی کیونکہ واجبًا لأدَمَ مَا أَذَلَّهُ الشَّيْطانُ فی شیطان نے اژدھے کی شکل میں ان کو پھسلایا تھا اور ذلت حِلْيَةِ القُعْبَانِ، وَأَلْقَاهُ في مَغَارَةِ کے گڑھے میں گرا دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت الْهَوَانِ وَهَدَّمَ بَعْدَ مَا أَعَزّهُ اللهُ آدم کو عزت و اکرام ملنے کے بعد شیطان نے انہیں ذلیل وَأَكْرَمَ.وَمَا قَصَدَ إِبْلِيسُ إِلَّا قَتْلَهُ کرنے کی کوشش کی تھی اور ابلیس کا مقصد تو حضرت آدم کوقتل، وَإِهْلَاكَهُ وَاسْتيْصَالَهُ وَأَرَادَ أَن بلاک اور برباد کرنا تھا اور اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ اسے اور اس کی يَعْدِمَهُ وَذُرِّيَّتَهُ وَالَهُ، فَكُتِبَ عَلَيْهِ اولاد اور جماعت کو نیست و نابود کر دے.پس شیطان کے حُكْمُ الْقَتْلِ مِنْ دِيوَانِ قَضَاءِ بارہ میں اس کے ایام مہلت کے بعد اللہ تعالیٰ کے دفتر سے الْحَضْرَةِ بَعْدَ أَيَّامِ الْمُهْلَةِ، وَإِلَيْهِ أَشَارَ اس کے قتل کا فرمان جاری ہوا اور اللہ تعالیٰ کے قول : إلى يَوْمِ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ يُبْعَثُونَ میں اس طرف اشارہ ہے جیسا کہ تدبر کرنے والے كَمَا يَعْلَمُهُ الْمُتَدَبَّرُونَ وَمَا عُنِى جانتے ہیں.پس اللہ تعالی کے قول: إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ سے هذَا الْقَوْلِ بَعْثُ الْأَمْوَاتِ بَلْ أُرِيْد مراد جسمانی مردوں کا اٹھایا جانا نہیں بلکہ اس سے گمراہ فِيهِ بَعْتُ الضَّالِّينَ بَعْد الضَّلالات لوگوں کا اپنی گمراہیوں کے بعد اُٹھایا جانا ( یعنی ہدایت پانا ) وَيُؤَيَّدُهُ قَوْلُهُ تَعَالَى فِي الْقُرانِ مراد ہے اس کی تائید قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اپنے قول : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ ، كَمَا لَا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ محلہ سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم يَخْفَى عَلَى أَهْلِ الْعَقْلِ وَالْعِرْفَانِ.فَإِنَّ دانشمندوں پر یہ بات مخفی نہیں کیونکہ دینِ اسلام کا باقی ادیان لے ،، إِظْهَارَ الدِّينَ عَلَى أَدْيَانِ أُخْرى، لا پر غالب آنا پخته دلائل اور براہین قاطعہ نیز صلاحیت رکھنے الاعراف : ۱۵ الصف : ١٠

Page 65

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة الحجر يَتَحَقِّقُ إِلَّا بِالْبَيِّنَةِ الكُبرى، والحجج والے اور تقویٰ پر گامزن وجودوں کی کثرت سے متفق الْقَاطِعَةِ الْعُظمى وَكَثْرَةِ أَهْلِ الصَّلاحِ ہو سکتا ہے.بلاشبہ وہ دین جو یقین کی معراج تک پہنچا وَالتَّقْوَى وَلا شَكَ أَنَّ الدِّينَ الَّذِى يُعْطى دینے والے دلائل پیش کرتا ہے اور لوگوں کا کماحقہ الثَّلَائِلَ الْمُوْصِلَةَ إِلَى الْيَقِينِ وَيُزى تزکیہ کرتا اور شیطان لعین کی گرفت سے ان کو آزاد کرتا التُفُوسَ حَقَّ التّركِيَةِ وَيُنَجِنِهِمْ مِنْ أَيْدِی ہے.وہی دین فوقیت رکھنے والا اور سب دینوں پر الشَّيْطَانِ اللعِيْنِ هُوَ الدّين الظَّاهِرُ الْغَالِبُ غالب ہے.اور وہی ہے جو مردوں کو شک اور نافرمانی عَلَى الْأَدْيَان وَهُوَ الَّذِي يَبْعَثُ الْأَمْوَات مِن کی قبروں سے اٹھاتا ہے اور انہیں خدائے منان کے قُبُورِ الشَّكِ وَالْعِصْيَانِ، وَيُحْيِنِهِم عِلْمًا فضل کے ذریعہ سے علم و عمل کے لحاظ سے زندگی بخشا وَعَمَلًا بِفَضْلِ اللهِ الْمَنَانِ وَكَانَ اللهُ قَدْ قَدَّرَ ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ امر مقدر فرمایا تھا کہ اس کا دین أَنَّ دِينَهُ لا يَظْهَرُ بِظُهُورٍ تَامّ عَلَى الْأَدْيَانِ دینِ اسلام) تمام ادیان پر غالب نہیں آئے گا اور كُلِّهَا وَلَا يُرْزَقُ أَكْثَرُ الْقُلُوبِ دَلَائِلَ الْحَقِّ، نہ ہی بہت سے دلوں کو دلائلِ حقہ عطا کرے گا اور نہ وَلَا يُعْطَى تَقْوَى الْبَاطِنِ لأَكْثَرِهَا إِلَّا في ہی اکثر قلوب میں باطنی تقویٰ پیدا کرے گا مگر مسیح زَمَانِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَالْمَهْدِي الْمَعْهُودِ موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں.باقی وہ صدیاں وَأَمَّا الْأَزْمِنَةُ الَّتِي هِيَ قَبْلَهُ فَلَا تَعُمُّ فِيهَا جو اس سے پہلے ہیں ان میں تقومی اور علم و عرفان عام التَّقْوَى وَلَا الدّرَايَةُ، بَلْ يَكْثُرُ الْفِسْقُ نہیں ہوگا بلکہ فسق و فجور اور گمراہی بڑھتی رہے گی.وَالْغَوَايَةُ فَالْحَاصِل أَنَّ الْهِدَايَةَ الْوَسِيعَةَ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ عام اور وسیع ہدایت اور دلائل الْعَامَّةَ وَالْحُجَجَ الْقَاطِعَةَ التَّامَّةَ تَختَصُّ تامه قاطعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کے زمانہ بِزَمَانِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ مِنَ الْحَضْرَةِ، وَعِنْدَ سے مختص ہیں اور اس زمانہ میں مخفی حقیقتیں منکشف ہو ذَالِكَ الزَّمَانِ تَنْكَشِفُ الْحَقَائِقُ الْمُسْتَتِرَةُ جائیں گی اور حقیقت حال واضح ہو جائے گی اور وَتُكْشَفُ عَنْ سَاقِ الْحَقِيقَةِ، وَمُهْلك الملل جھوٹے دین اور باطل مذاہب ہلاک ہو جائیں گے.الْبَاطِلَةُ وَالْمَذَاهِبُ الْكَاذِبَةُ، وتملك نیز یه که اسلام مشرق و مغرب میں غالب آجائے گا اور الإسْلامُ الشّرْق وَالغَرْب وَيَدْخُلُ الْحَقُّى حق ہر گھر میں داخل ہو جائے گا بجز تھوڑے سے كُل دَارٍ إِلَّا قَلِيلٌ مِنَ الْمُجْرِمِينَ، وَيَتِمُّ مجرموں کے گھروں کے.اس وقت دین کا معاملہ

Page 66

۳۸ سورة الحجر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الأَمْرُ، وَيَضَعُ الله الحرب.وَتَقَعُ الأَمَنَةُ کامل ہوگا اور اللہ تعالی لڑائی کو بند کرا دے گا اور زمین پر عَلَى الْأَرْضِ وَتَنْزِلُ السَّكِينَةُ وَالصُّلْحُ امن قائم ہو جائے گا اور سیکنت اور صلح دلوں کی گہرائیوں فى جُذُورِ الْقُلُوبِ وَنَتْرُكُ السَّبَاعُ میں قائم ہو جائے گی درندے اپنی درندگی کی عادتوں کو اور سَبْعِيعَهَا وَالْأَفَاعِي سُميعها، وتَتَبَيِّنُ اژدھے اپنی زہرنا کی کو چھوڑ دیں گے.رُشد اور ہدایت الرُّشْدُ وَعَهْلِكَ الْغَى وَلا تبقى من الكفر واضح ہو جائے گی اور گمراہی مٹ جائے گی.کفر اور شرک وَالشَّرُكِ إِلَّا رَسُمْ قَلِيلٌ، وَلَا يَلْتَزِمُ کے صرف تھوڑے سے نشان باقی رہ جائیں گے.فسق و الْفِسْقَ وَالْفَاحِشَةَ إِلَّا قَلبْ عَلِيْلٌ فجور اور بے حیائی کو صرف بیمار دل اختیار کریں گے اور وَيُهْدَى الضَّالُونَ، وَيُبْعَثُ الْمَقْبُورُونَ گمراہوں کو ہدایت دے دی جائے گی.قبروں میں پڑے لے فَهَذَا هُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ہوئے اٹھائے جائیں گے.یہی معنے اللہ تعالیٰ کے ارشاد وو فَإنَّ هذا الْبَعْتَ بَعْثُ مَّا رَاهُ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ “ کے ہیں.یقیناً یہی وہ اٹھایا جانا الْأَوَّلُونَ وَلَا الْمُرْسَلُونَ السَّابِقُونَ وَلَا ہے جو پہلے لوگوں نے نہیں دیکھے اور نہ ہی پہلے رسولوں اور النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ.وَإِنَّ دِینَ الله وَإن نبیوں کو یہ نظارہ نظر آیا اگر چہ اللہ کا دین شروع سے ہی اپنی كَانَ غَالِبًا مِنْ بُدُو أَمْرِهِ عَلى كُلِّ دِيْنِ روحانی قوت اور استعداد کے لحاظ سے دوسرے ہر دین پر منْ حَيْثُ الْقُوَّةِ وَالْإِسْتِعْدَادِ، وَلكِن غالب ہے لیکن اسے بھی یہ موقع پہلے میسر نہیں آیا کہ اس لَّمْ يَنْفِقُ لَهُ مِنْ قَبْلُ أَن يُبَارِی نے دلیل، برہان اور سند کے لحاظ سے باقی دینوں سے مقابلہ الأَدْيَات كُلِّهَا بِالْحُجَّةِ وَالْإِسْنَادِ کیا ہو اور انہیں پورے طور پر شکست دی ہو اور یہ ثابت کر وَيَنْزَمَهَا كُلَّ الْهَزْمِ وَيُفيت آنها مخلوق دیا ہو کہ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب خرابیوں سے پر مِنَ الْفَسَادِ، وَتَخْرُجَ كَالأَبطال بأسْلِحَةِ ہیں اور نہ ہی ایسا موقع آیا کہ استدلال کے ہتھیاروں سے الإستدلال، حَتَّى يَعُمَّ في جميع الدِّيَارِ مسلح ہو کر دین اسلام بہادروں کی طرح میدان میں آیا ہو جَمِيعِ وَالْبِلادِ.وَكَانَ ذَالِك تَقْدِيرًا من الله یہاں تک کہ تمام شہروں اور ملکوں میں پھیل گیا ہو.یقینا یہ الْوَدُودِ مَا سَبَقَ مِنْهُ أَنَّ الْغَلَبَةَ العامة خدائے مہربان کی ایک آسمانی تقدیر تھی کیونکہ اس نے پہلے وَالصَّلَاحَ الْأَكْبَرَ الْأَعَةَ يَخْتَصُّ سے یہ فرما دیا تھا کہ کامل غلبہ اور بہت بڑی عمومی اصلاح بِزَمَانِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَلِذَالِكَ مسیح موعود کے زمانہ سے مختص ہے اسی لئے شیطان نے اس الاعراف : ۱۵

Page 67

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة الحجر اسْتَمْهَلَ الشَّيْطَانُ إِلى هَذَا الزَّمَانِ مبارک زمانہ تک اپنے لئے مہلت طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے الْمَسْعُودٍ، فَمَهَلَهُ اللهُ لِيُتِمَّ كُلَّ مَا أَرَادَ اسے مہلت دے دی تا شیطان انسانوں کے بارے میں جو لِلْعَالَمِينَ فَأَعْوَى الشَّيْطَانُ مَنْ تَبِعَة ارادے رکھتا ہے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائے سو شیطان أَجْمَعِينَ فَتَفَقَعُوا بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ نے اپنے سب متبعین کو گمراہ کیا اور انہوں نے باہم اپنے وَكَانَ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحِينَ معاملات میں تفرقہ پیدا کیا اور ہر گروہ اپنے خیالات اور وَمَا بَغِى عَلَى القِرَاطِ إِلَّا عِبَادُ الله عقائد پر شاداں و فرحاں ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے صراط مستقیم پر الصَّالِحِينَ وَالسّرُ فِيهِ أَنَّ الزَّمَانَ سوائے اس کے صالح بندوں کے کوئی قائم نہ رہا.اس قُسَمَ عَلَى سِتَّةِ أَقْسَامٍ من الله الذين سارے واقعہ میں یہ راز ہے کہ زمانہ چھ قسموں پر تقسیم ہے.خَلَقَ الْعَالَمَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ فَهُوَ زَمَانُ اللہ کی طرف سے جس نے اس جہان کو چھ اوقات میں پیدا الإبتداء ، وَزَمَانُ القَزايُدِ وَالثَّمَاء فرمایا: ۱- زمانہ ابتداء.۲.نشو ونما اور زیادتی کا زمانہ.۳.وَزَمَانُ الْكَمَالِ وَالْإِنْعِهَاءِ، وَزَمَانُ کمال اور انتہاء کا زمانہ.۴.انحطاط اور اللہ تعالیٰ سے تعلق الانحطاط وَقِلَّةِ التَّعَلي بِالله وَقِلَّةِ میں کمی کا زمانہ.۵.مختلف گمراہیوں کے نتیجہ میں روحانی الْإِرْتِبَاطِ، وَزَمَانُ الْمَوْتِ بِأَنْوَاعِ موت کے واقع ہونے کا زمانہ.۶.موت کے بعد اٹھائے الضَّلَالَاتِ وَ زَمَانُ الْبَعْثِ بَعْد جانے کا زمانہ.پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں کی مثال آدم الْمَمَاتِ.فَإِنَّ مَثَلَ النّاسِ عِندَ اللہ کے وقت سے لے کر آخری زمانہ تک اس کھیتی کی مثال ہے مِنْ وَقْتِ أَدَمَ إلى آخِرِ الزَّمَانِ گزَرع جس نے اپنی روئیدگی نکالی پھر اس کو قوت پہنچائی اور وہ أَخْرَجَ شَطاه فاررَة فَاسْتَغْلَظ مضبوط ہو گئی اور پھر اپنے تنے پر قائم ہو گئی.اس کے بعد وہ فَاسْتَوَى عَلى سُوقِهِ، ثُمَّ اصْفَرَ فَطَفِقَ زرد ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اس کے پتے تتساقط بِإِذْنِ اللهِ ثُمَّ حُصِد فَبَقِيَت جھڑنے لگے پھر اسے کاٹ لیا گیا تب زمین بالکل خالی الْأَرْضُ خَاوِيَةً، ثُمَّ أَحْيَاهَا اللهُ بَعْدَ ہوگی.پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا مَوْتِهَا فَإِذَا هِيَ رَاوِيَةٌ، وَأَنْبَتَ فِيهَا جس پر وہ سیراب ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس میں سرسبز اور تبانًا مُتَرَغرِعًا مخصرًا، وَعُيُونُ الزُزّاع لہرانے والی کھیتی پیدا کی اور کسانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا اس أَقَر كَذَالِكَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا طرح اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کی یہ مثال بیان فرمائی.پس

Page 68

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة الحجر لِلْعَالَمِينَ.فَقَبَتَ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ أَنَّ اس مقام سے یہ امر ثابت ہے کہ روحانی موت کا زمانہ زَمَانَ الْمَوْتِ الرُّوْحَانِي كَانَ مُقَدَّدًا من خدائے رب العالمین کی طرف سے مقدر تھا اور یوں فیصلہ کیا رَّبِّ الْعَالَمِينَ.وَكَانَ قُيّد أَنَّ النَّاسَ گیا تھا کہ چھٹے ہزار میں سوائے تھوڑے سے نیکو کارلوگوں يَضِلُّونَ كُلُهُمْ في الأَلْفِ السَّادِس إِلَّا کے سب لوگ گمراہ ہو جائیں گے اسی وجہ سے شیطان نے قَلِيلٌ مِنَ الصَّالِحِينَ، فَلِأَجْلِ ذَالِكَ کہا تھا لأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ، میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا.دو ↓ 191 قَالَ الشَّيْطَانُ لأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ وَلَوْ اور اگر یہ اللہ کی تقدیر نہ ہوتی تو شیطان لعین ایسی بات کہنے لَمْ يَكُن هَذَا التَّقْدِيرُ لَمَا اجْتَرَأَ عَلی کی جرات نہ کرتا.چونکہ اسے یہ بات معلوم تھی کہ اللہ تعالیٰ هذَا الْقَوْلِ ذَالِكَ اللَّعِيْنُ.وَلَمَّا كَانَ نے ان زمانوں کے پیچھے بعث اور ہدایت اور فہم و درایت کا يَعْلَمُ أَنَّ اللهَ قَفى هَذِهِ الْأَزْمِنَةَ بِزَمَانِ زمانہ مقدر فرمایا ہے اس لئے اس نے کہا الى يَوْمِ الْبَعْثِ وَالْهِدَايَةِ وَالْفَهْمِ وَالرِّدَايَةِ يُبْعَثُونَ ، کہ میرا یہ گمراہ کرنا اس وقت تک ہوگا جب تک قَالَ إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ...فَالْحَاصَلُ أَنَّ که دور بعث و ہدایت نہ آجائے.مختصر یہ ہے کہ آخری زمانہ اخِرَ الْأَزْمِنَةِ زَمَانُ الْبَعْثِ كَمَا يَعْلَمُهُ لوگوں کو اُٹھائے جانے اور ہدایت پانے کا ہے جیسا کہ الْعَالِمُونَ.فَكَأَنَّ اللهَ قَسَمَ الْأُلُوفَ اہلِ علم جانتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے چھ ہزار سال کو چھ السنَّةَ عَلَى الْأَرْمِنَةِ السّتَّةِ، وَأَوْدَعَ زمانوں پر تقسیم فرمایا اور ساتویں ہزار کے بعض حصوں کو بَعْضَ حِصَصِ السَّابِعِ لِلْقِيَامَةِ وَلَمَّا قیامت کے لئے مقرر کر دیا.اور جب چھٹا ہزار آیا جو کہ اللہ جَاءَ الْأَلْفُ السَّادِسُ الَّذِي هُوَ زَمَانُ کریم کی طرف سے بعثت کا زمانہ ہے تو گمراہی کا معاملہ مکمل الْبَعْثِ مِنَ اللهِ الْكَرِيمِ، تَمَّ أَمْرُ ہو گیا اور لوگ شیطانِ لئیم کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہت.الإضْلالِ وَصَارَ النَّاسُ فِرَقًا كَثِيرَةٌ سے فرقوں میں بٹ گئے.سرکشی و طغیان بڑھ گیا اور یہ فرقے مِنَ الشَّيْطَانِ اللَّهِيمِ، وَزَادَ الطغيانُ سمندر کی بھاری موجوں جیسے جوش و خروش سے ایک وَتَمَوَّجَ الْفِرَقُ كَتَمَوجِ الْأَمْوَاجِ دوسرے پر ٹوٹ پڑے اور ضلالت اور گمراہی پہاڑوں کی الثِّقَالِ، وَشَمَعَ الضَّلَالَةُ الجِبَالِ طرح اونچی ہوگئی اور لوگ بے علمی ،فسق و فجور، بے حیائی وَمَاتَ النَّاسُ يَمَوتِ الْجَهْلِ وَالْفِسْقِي اور لاپرواہی کی موت مر گئے اور یہ روحانی موت ساری وَالْفَوَاحِشِ وَعَدُمِ الْمُبَالَاةِ وَعَمَّ قوموں ، سارے ملکوں اور سارے اطراف میں پھیل گئی الحجر :۴۰

Page 69

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة الحجر الْمَوْتُ فِي جَمِيعِ الْأَقْوَامِ وَالرِّيَارِ تب اس وقت اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ بعث ( یعنی اٹھائے وَالْجِهَاتِ، فَهُنَاكَ رَأَى اللهُ أَن وَقت جانے کا وقت ) آچکا ہے اور موت کا وقت اپنی انتہا کو پہنچ الْبَعْدِ قَد أَتى، وَوَقتَ الْمَوْتِ بَلَغَ إِلَى گیا ہے تب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث فرمایا جس الْمُتَعَنِى فَأَرْسَلَ رَسُولَهُ كَمَا جَرَتْ طرح کہ پہلی صدیوں میں اس کی سنت جاری تھی تاکہ وہ سُنّته في قُرُونٍ أَولى، لِيُحْيِي الْمَولى مردوں کو زندہ کرے اور یہ رب الکائنات کا وعدہ پورا ہوکر وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا مِّنْ رَّبِّ الْوَرى رہنے والا تھا.( ترجمہ از مرتب ) خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۲۰ تا ۳۲۳) الَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ) محققوں نے بخاری کی اس حدیث کو.....ما مِن مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطن يَمَسه حِينَ يُولد إِلَّا مَرْيَمَ وَابْتَها - قرآن کریم کی ان آیات سے مخالف پا کر کہ الا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ وَإِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن ( الحجر : ۴۳) - وَسَلَمُ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِد (مریم :۱۲).اس حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ ابن مریم اور مریم سے تمام ایسے اشخاص مراد ہیں جو ان دونوں کی صفت پر ہوں جیسا کہ شارح بخاری نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے.قَدْ طَعَنَ الزَّمَخْشَرِى في مَعْلى هَذَا الْحَدِيثِ وَ تَوَقَفَ فِي صِحَتِهِ وَقَالَ إِنْ مَعَ فَمَعْنَاهُ كُلُّ مَنْ كَانَ فِي صِفَيهِمَا لِقَوْلِهِ تَعَالَى إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِین یعنی علامہ زمخشری نے بخاری کی اس حدیث میں طعن کیا ہے اور اس کی صحت میں اس کو شک ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث معارض قرآن ہے اور فقط اس صورت میں صحیح متصور ہوسکتی ہے کہ اس کے یہ معنے کئے جائیں کہ مریم اور ابن مریم سے مراد تمام ایسے لوگ ہیں جو ان کی صفت پر ہوں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۹، ۶۱۰) اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَوِينَ.آيت إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن.....صاف دلالت کر رہی ہے کہ مس شیطان سے محفوظ ہونا ابن مریم سے مخصوص نہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۹۳)

Page 70

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة الحجر اے شیطان ! میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے ان پر تیرا تسلط نہیں ہو سکتا.سو جب تک انسان تمام کجیوں اور نالائق خیالات اور بے ہودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الہی پر گرا ہوا نہ ہو جائے تب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۴) اور یہ سوال کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں جبر کے طور پر بعضوں کو جہنمی ٹھہرا دیا ہے اور خواہ نخواہ شیطان کا تسلط ان پر لازمی طور پر رکھا گیا ہے یہ ایک شرمناک غلطی ہے اللہ جل شانہ قرآن شریف میں ، فرماتا ہے : إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن کہ اے شیطان میرے بندوں پر تیرا کچھ بھی تسلط نہیں دیکھئے کس طرح پر اللہ تعالیٰ انسان کی آزادی ظاہر کرتا ہے.منصف کے لئے اگر کچھ دل میں انصاف رکھتا ہو تو یہی آیت کافی ہے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۲) پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.افسوس کہ ڈپٹی صاحب کیسے صحیح معنے سے پھر گئے.واضح ہو کہ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ شرکو بحیثیت شر پیدا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن یعنی اے شیطان، شر پہنچانے والے! میرے بندوں پر تیرا تسلط نہیں بلکہ اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک چیز کے اسباب خواہ وہ چیز خیر میں داخل ہے یا شر میں خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.مثلاً اگر شراب کے اجزاء جن سے شراب بنتی ہے موجود نہ ہوں تو پھر شرابی کہاں سے شراب بنا سکیں اور پی سکیں لیکن اگر اعتراض کرنا ہے تو پہلے اس آیت پر اعتراض کیجئے کہ." سلامتی کو بناتا اور بلا کو پیدا کرتا ہے.“ یسعیا ۷٫۴۵.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۴۱) افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا.اس قدر جرات کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی خارجی بات ی تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا تھا جس کو انہوں نے قبول نہ کیا مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کا نپتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام.ہاں اگر اس شیطانی گفتگو کو شیطانی الہام نہ مانیں اور یہ خیال کریں کہ در حقیقت شیطان نے مجسم ہو کر

Page 71

۴۳ سورة الحجر تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی تھی تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان نے جو پرانا سانپ ہے فی الحقیقت اپنے تئیں جسمانی صورت میں ظاہر کیا تھا اور وجود خارجی کے ساتھ آدمی بن کر یہودیوں کے ایسے ا متبرک معبد کے پاس آکر کھڑا ہو گیا تھا جس کے اردگرد صد ہا آدمی رہتے تھے تو ضرور تھا کہ اس کے دیکھنے کے لئے ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے بلکہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح آواز مارکر یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتے جس کے وجود کے کئی فرقے منکر تھے.اور شیطان کا دکھلا دینا حضرت مسیح کا ایک نشان ٹھہرتا جس سے بہت آدمی ہدایت پاتے اور رومی سلطنت کے معزز عہدہ دار شیطان کو دیکھ کر اور پھر اس کو پرواز کرتے ہوئے مشاہدہ کر کے ضرور حضرت مسیح کے پیرو ہو جاتے مگر ایسا نہ ہوا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ کوئی روحانی مکالمہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں شیطانی الہام کہہ سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بھی آتا ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے.چنانچہ اسی محاورہ کے لحاظ سے مسیح نے بھی ایک اپنے بزرگ حواری کو جس کو انجیل میں اس واقعہ کی تحریر سے چند سطر ہی پہلے بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں شیطان کہا ہے.پس یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ کوئی یہودی شیطان ٹھٹھے اور جنسی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس آیا ہوگا اور آپ نے جیسا کہ پطرس کا نام شیطان رکھا اس کو بھی شیطان کہہ دیا ہوگا اور یہودیوں میں اس قسم کی شرارتیں بھی تھیں.اور ایسے سوال کرنا یہودیوں کا خاصہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سب قصہ ہی جھوٹ ہو جو عمداً یا دھوکہ کھانے سے لکھ دیا ہو.کیونکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال اور عقل کے موافق لکھا ہے.اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہے.لہذا کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات میں لکھنے والوں سے غلطی ہوگئی.جیسا کہ یہ غلطی ہوئی کہ انجیل نویسوں میں سے بعض نے گمان کیا کہ گویا حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ہیں.ایسی غلطیاں حواریوں کی سرشت میں تھیں کیونکہ انجیل ہمیں خبر دیتی ہے کہ ان کی عقل باریک نہ تھی.ان کے حالات ناقصہ کی خود حضرت مسیح گواہی دیتے ہیں کہ وہ فہم اور درایت اور عملی قوت میں بھی کمزور تھے.بہر حال یہ سچ ہے کہ پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا.اور اگر کوئی تیرتا ہواسرسری وسوسہ ان کے دل کے نزدیک آ بھی جائے تو جلد تر وہ شیطانی خیال دور اور دفع کیا جاتا ہے اور ان کے پاک دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور نا پختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے اور لغت عرب میں اس کا نام ظائف اور خوف اور طیف اور طیف بھی ہے.اور.

Page 72

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة الحجر اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا.یا یوں کہو کہ جیسا کہ دور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دل میں اسی قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو.اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو.اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے.چنانچہ لکھا ہے.....طاؤس نے ابی ہریرہ سے کہا شیطان عیسی کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے.اس نے کہا کہ کیوں نہیں شیطان نے کہا کہ اگر یہ بیچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرا دے.حضرت عیسی نے کہا کہ تجھ پر واویلا ہوگیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.اب ظاہر ہے کہ شیطان ایسی طرز سے آیا ہوگا جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے.کیونکہ جبرائیل ایسا تو نہیں آتا جیسا کہ انسان کسی گاڑی میں بیٹھ کر یا کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اور پگڑی باندھ کر اور چادر اوڑھ کر آتا ہے بلکہ اس کا آنا عالم ثانی کے رنگ میں ہوتا ہے.پھر شیطان جو کمتر اور ذلیل تر ہے کیوں کر انسانی طور پر کھلے کھلے آسکتا ہے.اس تحقیق سے بہر حال اس بات کو ماننا پڑتا ہے جو ڈر بیپر نے بیان کی ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قوت نبوت اور نور حقیت کے ساتھ شیطانی القا کو ہرگز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا اور اس کے ذب اور دفع میں فوراً مشغول ہو گئے.اور جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت ٹھہر نہیں سکتی اسی طرح شیطان ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکا اور بھاگ گیا.یہی اِن عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن کے صحیح معنے ہیں.کیونکہ شیطان کا سلطان یعنی تسلط در حقیقت ان پر ہے جو شیطانی وسوسہ اور الہام کو قبول کر لیتے ہیں.لیکن جو لوگ دور سے نور کے تیر سے شیطان کو مجروح کرتے ہیں اور اس کے منہ پر زجر اور توبیخ کا جوتہ مارتے ہیں اور اپنے منہ سے وہ کچھ بکے جائے اس کی پیروی نہیں کرتے وہ شیطانی تسلط سے مستقلی ہیں مگر چونکہ ان کو خدا تعالیٰ مَلَكُوتِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (الاعراف : ۱۸۲) دکھانا چاہتا ہے اور شیطان مَلَكُوتِ الْأَرْضِ میں سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کے مشاہدہ کا دائرہ پورا کرنے کے لئے اس عجیب الخلقت وجود کا چہرہ دیکھ لیں اور کلام سن لیں جس کا نام شیطان ہے اس سے ان کے دامن تنزہ اور عصمت کو کوئی داغ ( ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸۴ تا۴۸۷) وہ لوگ جو اپنے صدق اور وفا اور عشق الہی میں کمال کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں اُن پر شیطان تسلط نہیں پا نہیں لگتا.

Page 73

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن - سورة الحجر (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳، ۴) جس میں شیطان کا حصہ نہیں رہا اور وہ سفلی زندگی سے ایسا دور ہوا کہ گویا مر گیا اور راستباز اور وفادار بندہ بن گیا اور خدا کی طرف آ گیا اُس پر شیطان حملہ نہیں کر سکتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ عِبَادِی لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن.جو شیطان کے ہیں اور شیطان کی عادتیں اپنے اندر رکھتے ہیں انہیں کی طرف شیطان دوڑتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے شکار ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۲) روح القدس کے فرزند تمام وہ سعادتمند اور راستباز ہیں جن کی نسبت إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سلطن وارد ہے.قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے اول وہ جو روح القدس کے فرزند ہیں دوسرے وہ جو شیطان کے فرزند ہیں.پس اس میں سیخ کی کوئی خصوصیت نہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۳) لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَاب لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُوم.ایک روز یہ ذکر آ گیا ہے کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ.اس کا کیا سر ہے.تو ایک دفعہ ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ اصول جرائم بھی سات ہی ہیں اور نیکیوں کے اصول بھی سات.بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا دروازہ ہے.دوزخ کے سات دروازوں کے جو اصول جرائم سات ہیں ان میں سے ایک بدظنی ہے.بدظنی کے ذریعہ بھی انسان ہلاک ہوتا ہے اور تمام باطل پرست بدظنی سے گمراہ ہوئے ہیں.دوسر اصول تکبر ہے.تکبر کرنے والا اہل حق سے الگ رہتا ہے اور اسے سعادت مندوں کی طرح اقرار کی توفیق نہیں ملتی.تیسرا اصول جہالت ہے یہ بھی ہلاک کرتی ہے.چوتھا اصول اتباع ھوئی ہے.پانچواں کورانہ تقلید ہے.غرض اس طرح پر جرائم کے سات اصول ہیں اور یہ سب کے سب قرآن شریف سے مستنبط ہوتے ہیں خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے.جو گناہ کوئی بتائے وہ ان کے نیچے آجاتا

Page 74

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة الحجر ہے.کورانہ تقلید اور اتباع ھوئی کے ذیل میں بہت سے گناہ آتے ہیں.الحکام جلدے نمبر ۰ ۳ مورخه ۷ اراگست ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلَّ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِينَ یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آپس میں رنجشیں ہوں گی لیکن غلق ان کے سینوں میں سے کھینچ لیویں گے.وہ بھائی ہوں گے تختوں پر بیٹھنے والے.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحہ ۱۵) قرآن شریف صحابہ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم ان کی نظیر نہیں رکھتی.پھر ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی یہاں تک کہ اگر با ہم کوئی رنجش بھی ہوگئی تو اس کے لئے فرمایا وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِل الآيه (الحلم جلد ۱۰ مورخه ۳۱ / جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۴) یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی.یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ آپ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِل.برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں مگر شادی ، مرگ کے وقت وہ سب ایک ہو جاتے ہیں.اخیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۸) ہوتی.لا يَمَسُّهُم فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ.جو لوگ بہشت میں داخل کئے جائیں گے پھر اس سے نکالے نہیں جائیں گے اور قرآن شریف میں اگر چہ حضرت مسیح کے بہشت میں داخل ہونے کا بہ تصریح کہیں ذکر نہیں لیکن ان کی وفات پا جانے کا تین جگہ ذکر ہے اور مقدس بندوں کے لئے وفات پانا اور بہشت میں داخل ہونا ایک ہی حکم میں ہے کیونکہ برطبق آیت قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ( يس : ٢٧ ) وَادْخُلِي جَنَّتِى (الفجر : ۳۱) وہ بلا توقف بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں.اب مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں گروہ پر واجب ہے کہ اس امر کو غور سے جانچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مسیح جیسا مقرب بندہ بہشت میں داخل کر کے پھر اُس سے باہر نکال دیا جائے ؟ کیا اس میں خدائے تعالیٰ کے اس وعدہ کا تختلف نہیں جو اس کی تمام پاک کتابوں میں جتواتر و تصریح موجود ہے کہ بہشت میں داخل ہونے والے پھر اس سے نکالے نہیں جائیں گے.کیا ایسے بزرگ اور حتمی وعدہ کا ٹوٹ جانا خدائے تعالیٰ کے

Page 75

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة الحجر تمام وعدوں پر ایک سخت زلزلہ نہیں لاتا ؟ پس یقینا سمجھو کہ ایسا اعتقاد رکھنے میں نہ صرف مسیح پر نا جائز مصیبت وارد کرو گے بلکہ ان لغو باتوں سے خدائے تعالیٰ کی کسر شان اور کمال درجہ کی بے ادبی بھی ہوگی اس امر کو ایک بڑے غور اور دیدہ تعمیق سے دیکھنا چاہیئے کہ ایک ادنی اعتقاد سے جس سے نجات پانے کے لئے استعارہ کی راہ موجود ہے بڑی بڑی دینی صداقتیں آپ کے ہاتھ سے فوت ہوتی ہیں اور درحقیقت یہ ایک ایسا فاسد اعتقاد ہے جس میں ہزاروں خرابیاں سخت اُلجھن کے ساتھ گرہ در گرہ لگی ہوئی ہیں اور مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے کے لئے موقعہ ہاتھ آتا ہے.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵،۵۴) ہمارے عقیدہ کے موافق خدائے تعالیٰ کا بہشتیوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے پھر تعجب کہ ہمارے علماء کیوں حضرت مسیح کو اس فردوس بریں سے نکالنا چاہتے ہیں آپ ہی یہ قصے سناتے ہیں کہ حضرت ادریس جب فرشتہ ملک الموت سے اجازت لے کر بہشت میں داخل ہوئے تو ملک الموت نے چاہا کہ پھر باہر آویں لیکن حضرت ادریس نے باہر آنے سے انکار کیا اور یہ آیت سنادی وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت مسیح اس آیت سے فائدہ حاصل کرنے کے مستحق نہیں ہیں کیا یہ آیت اُن کے حق میں منسوخ کا حکم رکھتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس لئے اس تنزل کی حالت میں بھیجے جائیں گے کہ بعض لوگوں نے انہیں ناحق خدا بنایا تھا تو یہ اُن کا قصور نہیں ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وزْرَ أُخْرى (الانعام : ۱۲۵ ) ما سوائے اس کے یہ بات بھی نہایت غور کے قابل ہے کہ یہ خیال کہ بیچ بیچ سیح بن مریم ہی بہشت سے نکل کر دنیا میں آجائیں گے تصریحات قرآنیہ سے بکلی مخالف ہے.قرآن شریف تین جگہ حضرت مسیح کا فوت ہو جانا کھلے کھلے طور پر بیان کرتا ہے اور حضرت مسیح کی طرف سے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ عیسائیوں نے جو انہیں اپنے زعم میں خدا بنادیا تو اس سے مسیح پر کوئی الزام نہیں کیونکہ وہ اس ضلالت کے زمانہ سے پہلے فوت ہو چکا تھا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۹،۱۴۸) بہشت میں داخل ہونے والے ہر یک رنج اور تکلیف سے رہائی پاگئے اور وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۰) اس جگہ بظاہر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ جب کہ ہر ایک مومن طیب اور طاہر جن کی گردن پر کوئی بوجھ گناہ اور معاصی کا نہیں بلا توقف بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں حشر اجساد اور اس کے تمام لوازم متعلقہ سے انکار لازم آتا ہے.کیونکہ جب کہ بہشت میں داخل ہو چکے تو پھر بموجب آیت وَمَا هُمْ مِنْهَا

Page 76

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۸ سورة الحجر بمخرجين اُن کا بہشت سے نکلنا ممتنع ہے.پس اس سے تمام کا رخا نہ حشر اجساد و واقعات معاد کا باطل ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقیدہ جو مومنین مطہر مین بلا توقف بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں یہ میری طرف سے نہیں بلکہ یہی عقیدہ ہے جس کی قرآن شریف نے تعلیم دی ہے.اور دوسری تعلیم جو قرآن شریف میں ہے جو حشر اجساد ہوگا اور مردے زندہ ہوں گے وہ بھی حق ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ یہ بہشت میں داخل ہونا صرف اجمالی رنگ میں ہے اور اس صورت میں جو مومنوں کو مرنے کے بعد بلا توقف اجسام دیئے جاتے ہیں وہ اجسام ابھی ناقص ہیں مگر حشر اجساد کا دن تجلی اعظم کا دن ہے اور اُس دن کامل اجسام ملیں گے اور بہشتیوں کا تعلق کسی حالت میں بہشت سے الگ نہیں ہوگا.من وجه وہ بہشت میں ہوں گے اور من وجه خدا تعالیٰ کے سامنے آئیں گے.کیا وہ شہداء جو سبز چڑیوں کی طرح بہشت میں پھل کھاتے ہیں کیا وہ چڑیاں بہشت سے باہر نکل کر خدا کے سامنے پیش نہیں ہوں گی ؟ فتدبر.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۷ حاشیه ) وَلَقَد اتيتكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۸۸ ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت م اور سے اس سورۃ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے.ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اس سے مستخرج ہوتے ہیں.اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا.( براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۸۱،۵۸۰ حاشیہ نمبر۱۱) فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ.(۹۵) رسول وہی کام کرتا ہے جس کا حکم دیا جاتا ہے جیسے خدا فرماتا ہے فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ جس کا حکم نہ دیا جائے اس کے برخلاف کچھ کہنا یا کرنا گستاخی ہے.(الہدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱۴ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۳۴) جب کسی امر کے متعلق وحی الہی آجاتی ہے تو پھر مامور اس کے پہنچانے میں کسی کی پروا نہیں کرتے اور اس

Page 77

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة الحجر کا چھپانا اسی طرح شرک سمجھتے ہیں جس طرح وحی الہی سے اطلاع پانے کے بغیر کسی امر کی اشاعت شرک سمجھتے ہیں اگر وہ اس بات کو جس کی اطلاع وحی الہی کے ذریعہ سے نہیں ملی.بیان کرتا ہے تو گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے وہ سوجھتا ہے جو خدا کو بھی نہیں سوجھتا اور اس گستاخی سے وہ مشرک ہو جاتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲) إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِعِيْنَ وہ جو تجھ سے اور تیرے الہام سے ہنسی کرتے ہیں ہم ان کے لئے کافی ہیں یعنی تجھے صبر چاہیے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۹ حاشیه ) وَاعْبُدُ رَبِّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.مفسر کہتے ہیں کہ یقین سے مراد موت ہے مگر موت روحانی مراد ہے اور یہ ظاہری بات ہے کہ اس کا مقصود بالذات کیا ہو جس کی تلاش کرنے کے لئے یہاں ایما اور اشارہ ہے مگر میں کہتا ہوں کہ وہ روحانی موت ہو یا تمہاری زندگی خدا ہی کی راہ میں وقف ہو.مومن کو لازم ہے کہ اس وقت تک عبادت سے نہ تھکے اورست نہ ہو جب تک یہ جھوٹی زندگی بھسم نہ ہو جاوے اور اس کی جگہ نئی زندگی جو ابدی اور راحت بخش زندگی ہے اس کا سلسلہ شروع نہ ہو جاوے اور جب تک اس عارضی حیات دنیا کی سوزش اور جلن دور ہو کر ایمان میں ایک لذت اور روح میں ایک سکینت اور استراحت پیدا نہ ہو.یقیناً سمجھو کہ جب تک انسان اس حالت تک نہ پہنچے ایمان کامل اور ٹھیک نہیں ہوتا.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ تو عبادت کرتا رہ جب تک کہ مجھے یقین کامل کا مرتبہ حاصل نہ ہو اور تمام حجاب اور ظلماتی پر دے دور ہو کر یہ سمجھ میں آجاوے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا بلکہ اب تو نیا ملک نئی زمین ، نیا آسمان ہے اور میں بھی کوئی نئی مخلوق ہوں یہ حیات ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.جب انسان اس درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ اس میں ہوتا ہے.ملائکہ کا اس پر نزول ہوتا ہے.یہی وہ راز تھا جس پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابو بکر کو دیکھے.اور ابوبکر کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات

Page 78

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحجر سے ہے جو اس کے دل میں ہے.الحاکم جلد ۴ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ / اگست ۱۹۰۰ صفحه ۳) صوفیوں نے لکھا ہے کہ ہر ایک انسان کے لئے باب الموت کا طے کرنا ضروری ہے اس پر ایک قصہ بھی ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا جب وہ شخص سفر کو چلا تو اس نے طوطہ سے پو چھا کہ تو بھی کچھ کہہ.طوطہ نے کہا کہ اگر تو فلاں مقام پر گزرے تو ایک بڑا درخت ملے گا اس پر بہت سے طوطے ہوں گے ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ تم بڑے خوش نصیب ہو کہ کھلی ہوا میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہو اور ایک میں بے نصیب ہوں کہ قید میں ہوں.وہ شخص جب اس درخت کے پاس پہنچا تو اس نے طوطوں کو وہ پیغام پہنچایا.ان میں سے ایک طوطہ درخت سے گرا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی.اس کو یہ واقعہ دیکھ کر کمال افسوس ہوا کہ اس کے ذریعہ سے ایک جان ہلاک ہوئی.مگر سوائے صبر کے کیا چارہ تھا.جب سفر سے وہ واپس آیا تو اس نے اپنے طوطہ کو سارا واقعہ سنایا اور اظہار غم کیا.یہ سنتے ہی وہ طوطہ جو پنجرہ میں تھا پھڑ کا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی.یہ واقعہ دیکھ کر اس شخص کو اور بھی افسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ سے دوخون ہوئے.آخر اس نے طوطہ کو پنجرہ سے نکال کر باہر پھینک دیا تو وہ طوطہ جو پنجرہ سے مردہ سمجھ کر پھینک دیا تھا اُڑ کر دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا کہ دراصل نہ وہ طوطہ مرا تھا اور نہ میں.میں نے تو اس سے راہ پوچھی تھی کہ اس قید سے آزادی کیسے حاصل ہو سواس نے مجھے بتایا کہ آزادی تو مر کر حاصل ہوتی ہے پس میں نے بھی موت اختیار کی تو آزاد ہو گیا.البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱۴ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۳۵،۲۳۴) یہ سچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو یہ جکڑا ہوا ہے اس سے رہائی بغیر موت سے ممکن ہی نہیں.اسی موت کی طرف اشارہ کر کے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.اس جگہ یقین سے مراد موت بھی ہے یعنی انسان کی اپنی ہوا و ہوس پر پولی فنا طاری ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت رہ جاوے اور وہ یہاں تک ترقی کرے کہ کوئی جنبش اور حرکت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نہ ہو.سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے تو سب عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں اور پھر خود ہی سوال کرتے ہیں کہ کیا انسان باحتی ہو جاتا ہے اور سب کچھ اس کے لئے جائز ہو جاتا ہے؟ پھر آپ ہی جواب دیا ہے کہ یہ بات نہیں کہ وہ اباحتی ہو جاتا ہے بلکہ بات اصل یہ ہے کہ عبادت کے انتقال اس سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر تکلف اور تصنع سے کوئی عبادت وہ نہیں کرتا بلکہ عبادت ایک شیر میں اور لذیذ غذا کی طرح ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت اس سے ہو سکتی ہی نہیں اور خدا تعالیٰ

Page 79

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة الحجر کا ذکر اس کے لئے لذت بخش اور آرام دہ ہوتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں کہا جاتا ہے اِعْمَلُوا مَا شتم (حم السجدة : ۴۱).اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ نواہی کی اجازت ہو جاتی ہے.نہیں بلکہ وہ خود ہی نہیں کر سکتا.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی خصی ہو اور اس کو کہا جاوے کہ تو جو مرضی ہے کر.وہ کیا کر سکتا ہے اس سے فسق و فجور مراد لینا کمال درجہ کی بے حیائی اور حماقت ہے یہ تو اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جہاں کشف حقائق ہوتا ہے.صوفی کہتے ہیں اس کے کمال پر الہام ہوتا ہے اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو جاتی ہے اس وقت اسے یہ حکم ملتا ہے.پس اثقال عبادت اس سے دور ہو کر عبادت اس کے لئے غذا شیریں کا کام دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قبل (البقرة :۲۶) فرمایا گیا ہے.(احکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴/اگست ۱۹۰۳ صفحه ۳، ۴) اس کی راہ پر چلا جاوے یہاں تک کہ مرجاوے.وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ کے یہی معنے ہیں وہ موت جب آتی ہے تو ساتھ ہی یقین بھی آجاتا ہے موت اور یقین ایک ہی بات ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۸) اگر یقین کی لذت پیدا ہو جائے تو شاید انسان دنیا طلبی کے ارادوں کو خود ترک کر دے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ اس بات کو آزما لیا جائے کہ در حقیقت خدا موجود ہے اور درحقیقت وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.وہ کریم ورحیم ہے.ان لوگوں کو ضائع نہیں کرتا جو اس کے آستانہ پر گرتے ہیں.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۴۱۴)

Page 80

Page 81

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۵۳ سورة النحل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النحل بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ انّى اَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ) انّى اَمرُ اللهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ....خدا کا امر آیا ہے سوتم جلدی مت کرو.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ) (عیسائیوں کے مناظر ڈپٹی عبد اللہ انتھم کو مخاطب کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں ) آپ کے رحم بلا مبادلہ کا بجز اس کے میں کوئی اور خلاصہ نہیں سمجھتا کہ عدل سزا کو چاہتا ہے اور رحم عفو اور درگز رکو چاہتا ہے لیکن جب کہ رحم اور عدل اپنے مظہروں میں مساوی اور ایک درجہ کے نہ ٹھہرے اور یہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالٰے کے رحم نے کسی کی راستبازی کی ضرورت نہیں سمجھی اور ہر ایک نیکو کار اور بدکار پر اس کی رحمانیت قدیم سے اثر ڈالتی چلی آئی ہے تو پھر یہ کیوں کر ثابت ہوا کہ خدا تعالی بدکاروں کو ایک ذرہ رحم کا مزہ چکھانا نہیں چاہتا.کیا قانون قدرت جو ہماری نظر کے سامنے پکار پکار کر شہادت نہیں دے رہا کہ اس رحم کے لئے گناہ اور غفلت اور تقصیر داری بطور روک کے نہیں ہو سکتی اور اگر ہو تو ایک دم بھی انسان کی زندگی مشکل ہے

Page 82

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة النحل پھر جب کہ یہ سلسلہ رقم کا بغیر شرط راستبازی اور معصومیت اور نیکوکاری انسانوں کی دنیا میں پایا جاتا ہے اور صریح قانون قدرت اس کی گواہی دے رہا ہے تو پھر کیوں کر اس سے انکار کر دیا جاوے اور اس نئی اور خلاف صحیفہ فطرت کے عقیدہ پر کیوں کر ایمان لایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم انسانوں کی راستبازی سے وابستہ ہے اللہ جل شانہ نے قرآن شریف کے کئی مقامات میں نظیر کے طور پر وہ آیات پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کیوں کر سلسلہ رحم کا نہایت وسیع دائرہ کے ساتھ تمام مخلوقات کو مستفیض کر رہا ہے چنانچہ اللہ جل شانہ b ج فرماتا ہے اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ وَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَرَ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دابِبَيْنِ ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ وَالْكُم مِّنْ كُلِ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۖ وَ إِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (ابراهیم : ۳۳ تا ۳۵) پس ۱۳ ، ۱۷.پھر فرماتا ہے وَالْأَنْعَام خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا دِفْ وَمَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَأْكُلُونَ اور پھر فرماتا ہے وَهُوَ الَّذِى سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا (النحل : ۱۸) اور پھر فرماتا ہے وَاللهُ انْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (النحل : ۶۶ ) ان تمام آیات سے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کریم میں صاف قانون قدرت کا ثبوت دے دیا ہے کہ اس کا رحم بلا شرط ہے کسی کی راستبازی کی شرط نہیں ہاں جرائم کا سلسلہ قانون الہی کے نکلنے سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ آپ خود مانتے ہیں اور اسی وقت عدل کی صفت کے ظہور کا زمانہ آتا ہے گو عدل ایک ازلی صفت ہے مگر آپ اگر ذرہ زیادہ غور کریں گے تو سمجھ جائیں گے کہ صفات کے ظہور میں حادثات کی رعایت سے ضرور تقدیم تاخیر ہوتی ہے پھر جب کہ گناہ اس وقت سے شروع ہوا کہ جب کتاب الہی نے دنیا میں نزول فرمایا اور پھر اس نے خوارق و نشانوں کے ساتھ اپنی سچائی بھی ثابت کی تو پھر رحم بلا مبادلہ کہاں رہا.کیونکہ رحم کا سلسلہ تو پہلے ہی سے بغیر شرط کسی کی راستبازی کے جاری ہے اور جو گناہ خدا تعالیٰ کی کتاب نے پیش کئے وہ مشروط بشرائط ہیں یعنی یہ کہ جس کو وہ احکام پہنچائے گئے ہیں اس پر وہ بطور حجت کے وارد ہوں اور وہ دیوانہ اور مجنون بھی نہ ہو.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱) وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ، اَمْوَاتٌ

Page 83

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النحل ج غَيْرُ احْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ کلام ہے.جولوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے اور پکارے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں.مرچکے ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے.دیکھو یہ آیتیں کس قدر صراحت سے مسیح اور اُن سب انسانوں کی وفات پر دلالت کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاری اور بعض فرقے عرب کے اپنا معبود ٹھہراتے تھے اور اُن سے دعائیں مانگتے تھے.اگر اب بھی آپ لوگ مسیح ابن مریم کی وفات کے قائل نہیں ہوتے تو سیدھے یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں قرآن کریم کے ماننے میں (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۱) جولوگ بغیر اللہ کے معبود بنائے جاتے ہیں اور پکارے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ آپ ہی پیدا شدہ ہیں اور وہ تمام لوگ مر چکے ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے.اب بتلاؤ کہ اگر کوئی عیسائی اس جگہ تم پر اعتراض کرے کہ یہ بیان قرآن کا بموجب معتقدات تمہارے خلاف واقعہ ہے کیونکہ قرآن مسیح ابن مریم کو مِن دُونِ اللہ سمجھتا ہے اور کل مِن دُونِ اللَّهِ معبود کو بغیر کسی استثناء کے مردہ قرار دیتا ہے اور تم مسیح ابن مریم کو زندہ قرار دیتے ہو حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ کوئی مِنْ دُونِ اللهِ معبود زندہ نہیں ہے.پس اگر تم سچے ہو تو قرآن حق پر نہیں ہے اور اگر قرآن حق پر ہے تو تم دعوی حیات مسیح میں بچے نہیں تو اس اعتراض کا کیا جواب ہے؟ اور ظاہر ہے کہ قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ تمام معبود غیر اللہ اَمْوَاتٌ غَيْرُ احیاء ہیں اس کا اوّل مصداق حضرت عیسی ہی ہیں کیونکہ زمین پر سب انسانوں سے زیادہ وہی پوجے گئے ہیں اور تمام انسانی پر ستاروں کی نسبت ان کا گروہ کثرت میں ، قوت میں ، شوکت میں سرگرمی میں، دعوت شرک میں آگے بڑھا ہوا ہے.دیکھو کہ عیسی پرست دنیا میں چالیس کروڑ ہیں اور اس قدر جماعت انسان پرستوں کی کوئی اور نہیں ہے سوا گر قرآن نے اُن کو اس آیت سے مستثنیٰ رکھا ہے تو نعوذ باللہ اس سے پایا جاتا ہے کہ مُنزِلِ قرآن کے نزدیک وہ غیر اللہ نہیں ہے اور اگر مستثنیٰ نہیں ہے تو یہ تمہارے عقیدے کے مخالف ہے کیونکہ تمہارے نزدیک عیسی ابن مریم اموات میں داخل نہیں بلکہ آسمان پر بحیات جسمانی زندہ موجود ہیں.اب بتلاؤ کہ اگر عیسائیوں کی طرف سے یہ سوال پیش ہو تو تمہارے پاس کیا جواب ہے؟.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۸،۳۸۷) جو لوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں اور وہ

Page 84

سورة النحل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب لوگ مر چکے ہیں زندہ نہیں ہیں.اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے.پس اس مقام پر غور سے دیکھنا چاہئے کہ یہ آیتیں کس قدر صراحت سے حضرت مسیح اور ان تمام انسانوں کی وفات کو ظاہر کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنے معبود ٹھہراتے تھے.اور ان سے دعائیں مانگتے تھے.یاد رکھو یہ خدا کا بیان ہے اور خدا تعالیٰ اس بات سے پاک اور بلند تر ہے کہ خلاف واقعہ باتیں کہے.پس جس حالت میں وہ صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ جس قدر انسان مختلف فرقوں میں پوجاکئے جاتے ہیں اور خدا بنائے گئے ہیں وہ سب مر چکے ہیں ایک بھی ان میں سے زندہ نہیں ہے.تو پھر کس قدر سرکشی اور نافرمانی اور خدا کے حکم کی مخالفت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ سمجھا جائے.کیا حضرت عیسی علیہ السلام اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو خدا بنایا گیا ہے یا جن کو اپنی مشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے بلکہ وہ ان سب لوگوں سے اول نمبر پر ہیں.کیونکہ جس اصرار اور غلو کے ساتھ حضرت عیسی کے خدا بنانے کے لئے چالیس کروڑ انسان کوشش کر رہا ہے اس کی نظیر کسی اور فرقہ میں ہرگز نہیں پائی جاتی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۹،۳۹۸) ایک اور آیت ہے جو بڑی صراحت سے حضرت عیسی کی موت پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء یعنی جس قدر باطل معبودوں کی لوگ زمانہ حال میں پرستش کر رہے ہیں وہ سب مر چکے ہیں اُن میں (سے) کوئی زندہ باقی نہیں.اب بتلاؤ کیا اب بھی کچھ خدا کا خوف پیدا ہوا یا نہیں؟ یا نعوذ باللہ خدا نے غلطی کی جو سب باطل معبودوں کو مردہ قرار دیا.تحفہ گولڑویه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱) خدا تعالیٰ ان آیات مندرجہ عنوان میں حضرت مسیح ابن مریم اور ان تمام انسانوں کو جو محض باطل اور ناحق کے طور پر معبود قرار دیئے گئے تھے مار چکا.در حقیقت یہ ایک ہی دلیل مخلوق پرستوں کی ابطال کے لئے کروڑ دلیل سے بڑھ کر ہے کہ جن بزرگوں یا اور لوگوں کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ فوت شدہ ہیں زندہ نہیں ہیں.اگر وہ خدا ہوتے تو ان پر موت وارد نہ ہوتی.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۸۸) ص الَّذِيْنَ تَتَوَقَّهُمُ الْمَلَبِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ فَالْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَى إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.تفسیر معالم کے صفحہ ۱۶۲ میں زیر تفسير آيت يعيسى إلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى ( ال عمران : ۵۶) لکھا ہے کہ علی بن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ رانی ممنحك یعنی

Page 85

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة النحل میں تجھ کو مارنے والا ہوں اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرتے ہیں قُلْ يَتَوَفكُم مَّلَكُ ۱۲: الْمَوْتِ (السجدة : ١٢) الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلَيكَةُ طَيْبِينَ (النحل : ۳۳) - الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلَيكَةُ ظَالِي أَنفُسِهِم - غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں اور ناظرین پر واضح ہو گا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں اُن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے.9191 (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۵،۲۲۴) وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالًا نُّوحَى إِلَيْهِمُ فَسَلُوا أهل الذكر إن كُنتُم لا تَعْلَمُونَ (۴۴) اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور اُن کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہو جاوے.سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ کیا اگر کسی نبی گذشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہو تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارتوں کے کچھ اور معنے ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم آپ ہی فیصل کر چکے ہیں اور اُن کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے.دیکھو کتاب سلاطین و کتاب ملا کی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اتر ناکس طور سے حضرت مسیح نے بیان فرمایا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۳) مسلمانوں کو حضرت عیسیٰ کے نزول کے بارے میں اسی خطر ناک انجام سے ڈرنا چاہیے کہ جو یہودیوں کو ایلیا کے بارے میں ظاہر نص پر زور دینے سے پیش آیا.جس بات کی پہلے زمانوں میں کوئی بھی نظیر نہ ہو بلکہ اس کے باطل ہونے پر نظیریں موجود ہوں اس بات کے پیچھے پڑ جانا نہایت درجہ کے بے وقوف کا کام ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - یعنی خدا کی سنتوں اور عادات کا نمونہ یہود اور نصاریٰ سے پوچھ لو اگر تمہیں معلوم نہیں.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۳) أَيَنْتَظِرُونَ عِيسَى وَ قَدا کیا یہ لوگ عیسی کے منتظر ہیں حالانکہ ان کی وجہ سے بہت ثَارَتْ بِسَبَبِهِ فِتَن وَهُوَ فِي السَّمَاءِ سے فتنے پیدا ہو چکے ہیں جبکہ وہ ان کے زعم میں آسمان پر ہیں.

Page 86

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸ سورة النحل لا فَمَا بَالُ يَوْمٍ إِذَا نَزَل فِي الْغَبْرَاءِ وَكَانَتِ پس اس دن حال کیا ہوگا جب وہ زمین پر اتر آئیں گے.الْيَهُودُ قَبْلَ ذَالِكَ يَنْتِظِرُونَ، كَمَثَلِ اس سے پہلے یہود ہماری قوم کی طرح حضرت الیاس کے قَوْمِنَا إِلْيَاسَ فَمَا كَانَ مَالُ أَمْرِهَمْ إِلا منتظر تھے لیکن ان کے معاملہ کا انجام بجز مایوسی کے کچھ نہ يَأْسٌ.فمن عَقْلِ الْمَرْءِ أَنْ يَعْتَبِرَ بِالْغَيْرِ ہوا.انسان کے لئے عقل کا طریق یہ ہے کہ وہ دوسروں وَيَجْتَنِبَ سُبُلَ الضَّيْرِ، وَقَد قَالَ الله سے عبرت حاصل کرے اور ضرر اور نقصان کے راستوں تعالى: فَسْتَلُوا أَهْلَ الذكْرِ إِن كُنتُم لا سے بچے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر تَعْلَمُونَ * فَلْيَسْأَلُوا النَّصَارَى هَلْ نَزَلَ سے پوچھ لو.پس مسلمان عیسائیوں سے دریافت کریں کہ إِلْيَاسُ قَبْلَ عِيسَى مِنَ السَّمَاءِ كَمَا کیا ان کے خیال کے مطابق عیسی علیہ السلام سے پہلے كَانُوا يَزْعُمُونَ وَلْيَسْأَلُوا الْيَهُودَ هَلْ الیاس آسمان سے اترے.اور یہودیوں سے بھی سوال وَجَدتُّمْ مَّا فَقَدْتُّمْ أَيُّهَا الْمُنْتَظِرُونَ کریں کہ اے انتظار کرنے والو! کیا تم نے اپنی گمشدہ چیز فَتَبَتَ مِنْ هَذَا أَنَّ هَذِهِ الْعَقَائِدَ نیست کو پا لیا.پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ عقائد محض خواہشات إِلَّا الْأَهْوَاء وَلَا يجي، أحد فمن السَّمَاءِ اور خیالات ہیں.نہ کوئی آسمان سے آئے گا اور نہ کوئی وَمَا جَاءَ.فَمَنْ كَانَ يَبْنِي أَمْرَهُ عَلَى الْعَادَةِ آسمان سے آیا.پس جو شخص اپنے عقیدہ اور عمل کی بنیاد الْمُسْتَمِرةِ وَالسُّنَّةِ الْجَارِيَةِ هُوَ أَحَقُ عادت مستمرہ اور سنت جاریہ پر رکھتا ہے وہ اس شخص سے بالأمن مِن رَّجُلٍ يَأْخُذُ طَرِيقًا غَيْرَ زیادہ امن کا حقدار ہے جو ایسے راستہ کو اختیار کرتا ہے جو سَبِيلٍ مُتَوَارِبٍ مِنَ السَّابِقِينَ وَلَا پہلے لوگوں سے ورثہ میں نہیں ملا اور نہ اس کی کوئی نظیر سابقین میں پائی جاتی ہے.( ترجمہ از مرتب ) يُوجَدُ نَظِيرُهُ فِي الْأَوَّلِين.(مواهب الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۱، ۳۱۲) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ہمیں حث اور ترغیب دیتا ہے کہ تم ہر ایک واقعہ اور ہر ایک امر کی جو تمہیں بتلایا گیا ہے پہلی اُمتوں میں نظیر تلاش کرو کہ وہاں سے تمہیں نظیر ملے گی.اب ہم اس عقیدے کی نظیر کہ انسان دنیا سے جا کر پھر آسمان سے دوبارہ دنیا میں آسکتا ہے کہاں تلاش کریں اور کس کے پاس جا کر روویں کہ خدا کی گذشتہ عادات میں اس کا کوئی نمونہ بتلاؤ ؟ ہمارے مخالف مہربانی کر کے آپ ہی بتلاویں کہ اس قسم کا واقعہ کبھی پہلے بھی ہوا ہے اور کبھی پہلے بھی کوئی انسان ہزار دو ہزار برس تک آسمان پر رہا؟ اور پھر فرشتوں

Page 87

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ سورة النحل کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے اُترا.اگر یہ عادت اللہ ہوتی تو کوئی نظیر اس کی گزشتہ قرون میں ضرور ملتی.کیونکہ دنیا تھوڑی رہ گئی ہے اور بہت گزرگئی اور آئندہ کوئی واقعہ دنیا میں نہیں جس کی پہلے نظیر نہ ہو.حالانکہ جو امر سنت اللہ میں داخل ہے اُس کی کوئی نظیر ہونی چاہئیں.اللہ تعالی ہمیں صاف فرماتا ہے فَسَتَلُوا أَهْلَ الذِكْرِ اِن كُنتُم لا تعلمون یعنی ہر ایک نئی بات جو تمہیں بتلائی جائے تم اہلِ کتاب سے پوچھ لو وہ تمہیں اس کی نظیریں بتلائیں گے لیکن اس واقعہ کی یہود اور نصاریٰ کے ہاتھ میں بجز ایلیا کے قصے کے کوئی اور نظیر نہیں اور ایلیا کا قصہ اس عقیدہ کے برخلاف شہادت دیتا ہے اور دوبارہ آنے کو بروزی رنگ میں بتلاتا ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۹) کتب سابقہ میں جو بنی اسرائیلی نبیوں پر نازل ہوئی تھیں صاف اور صریح طور پر معلوم ہوتا ہے بلکہ نام لے کر بیان کیا ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد یورپ کی عیسائی قومیں ہیں اور یہ بیان ایسی صراحت سے ان کتابوں میں موجود ہے کہ کسی طرح اس سے انکار نہیں ہو سکتا.اور یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہیں.ان کا بیان قابل اعتبار نہیں ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن شریف سے بے خبر ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ مومنوں کو قرآن شریف میں فرماتا ہے فستَلُوا أَهْلَ الذِكرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ یعنی فلاں فلاں باتیں اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم بے خبر ہو.پس ظاہر ہے کہ اگر ہر ایک بات میں پہلی کتابوں کی گواہی ناجائز ہوتی تو خدا تعالیٰ کیوں مومنوں کو فر ما تا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہل کتاب سے پوچھ لو بلکہ اگر نبیوں کی کتابوں سے کچھ فائدہ اٹھانا حرام ہے تو اس صورت میں یہ بھی ناجائز ہوگا کہ ان کتابوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بطور استدلال پیشگوئیاں پیش کریں.حالانکہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد ان کے تابعین بھی ان پیشگوئیوں کو بطور حجت پیش کرتے رہے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۳ حاشیه ) اگر چہ ہم ان کتابوں کی بابت تو یہی کہتے کہ فَلَا تُصَدِّقُوا فَلَا تُكَذِبُوا لیکن یہ بھی ساتھ ہی ضروری بات ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیا ہے فَسَتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۷ رفروری ۱۹۰۳ صفحه ۱) ہر ایک امر میں نظائر ضروری ہیں.جس چیز میں نظیر نہیں وہ چیز خطر ناک ہے.آج کل جس طرح کا ہمارا جھگڑا ہے اسی قسم کا ایک جھگڑا پہلے بھی اہل کتاب میں گزر چکا ہے اور وہ الیاس کا معاملہ تھا.ان کی کتابوں میں لکھا تھا کہ مسیح آسمان سے نہیں نازل ہو گا جب تک ایلیا آسمان سے دوبارہ نہ آئے.اسی بنا پر جب حضرت مسیح آئے اور انہوں نے یہود کو ایمان کی دعوت کی تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ ہمارے ہاں مسیح کی علامت یہ

Page 88

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰ سورة النحل ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے دوبارہ نازل ہو گا مگر حضرت مسیح نے اس کی یہی تعبیر کی تھی کہ یہی شخص یعنی یوحنا ( یحیی ) ہی الیاس ہے اور یہ اس (الیاس) کی خوبو لے کر آیا ہے اسی کو ایلیا مان لو.وہ آسمان سے دوبارہ نہیں آوے گا جس نے آنا تھا وہ آچکا.چاہو ما نو چاہو نہ مانو.غرض حضرت عیسی پر بھی یہ ایک مصیبت پڑ چکی تھی اور ان کا فیصلہ ہمارے اس مقدمہ کے لئے ایک دلیل ہو سکتا ہے.اگر حضرت عیسی یہود کے مقابل میں حق پر تھے تو ہمارا معاملہ بھی صاف ہے ورنہ پہلے حضرت عیسی کی نبوت کا انکار کریں.بعد میں ہمارا معاملہ الحکم جلدے نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳، صفحہ ۱۶) آئے گا.يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی.انسانی قومی بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ای طرح پر انسانی قومی کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں.ایسا ہی تمام قومی اور جوارح حکم انسانی کے نیچے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ راگست ۱۹۰۱ء صفحه ۲) کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله - اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگین ہو جاوے.جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جائے نہ تھکے نہ ہارے.اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت الہی کی طرف اُسے لئے جاتا ہے اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کی ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۴) ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہیے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ.مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِلٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالخَيِّرات - (الفاطر : ۳۳) پہلے دونوں صفات ادنی ہیں سابق بالخیرات بننا چاہیے ایک ہی مقام پر ٹھیر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۶) ج

Page 89

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام บ سورة النحل خدا تعالیٰ نے جو ملائکہ کی تعریف کی ہے وہ ہر ایک ذرہ ذرہ پر صادق آسکتی ہے جیسے فرمایا : إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إلا يسبح بحمده (بنی اسرائیل : ۴۵) ویسے ملائکہ کی نسبت فرمایا يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ اس کی تشریح نسیم دعوت میں خوب کر دی ہے.ہر ایک ذرہ ملائکہ میں داخل ہے اگر ان اعلی کی سمجھ نہیں آتی تو پہلے ان چھوٹے چھوٹے ملائک پر نظر ڈال کر دیکھو ملائکہ کا انکار انسان کو دہر یہ بنادیتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹) اہل اللہ کہتے ہیں کہ جب انسان عابد کامل ہو جاتا ہے اس وقت اس کی ساری عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں پھر خود ہی اس جملہ کی شرح کرتے ہیں کہ اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز روزہ معاف ہو جاتا ہے.نہیں بلکہ اس سے یہ مطلب ہے کہ تکالیف ساقط ہو جاتی ہیں یعنی عبادات کو وہ ایسے طور پر ادا کرتا ہے جیسے دونوں وقت روٹی کھاتا ہے.وہ تکالیف مدرک احلاوت اور محسوس الملذات ہو جاتی ہیں.پس ایسی حالت پیدا کرو کہ تمہاری تکالیف ساقط ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور نہی سے بچنا فطرتی ہو جاوے.جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو گو یا ملائکہ میں داخل ہو جاتا ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کے مصداق ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۵ ) وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنْتِ سُبُحْنَةٌ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹیاں رکھتا ہے حالانکہ وہ ان سب نقصانوں سے پاک ہے.برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ اَيْمُسِكُهُ عَلَى هُونِ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التراب - اَلا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ) يَد سه فی التراب یعنی مشرک اپنالٹر کی کو زندہ درگور کرتا ہے اور فرماتا ہے وَإِذَا الْمَوْادَةُ سُبلت پاتی 9: ذنب قتلت ( التكوير : ٩ ۱۰) یعنی قیامت کو زندہ در گورلڑکیوں سے سوال ہوگا کہ وہ کس گناہ سے قتل کی گئیں.یہ اشارہ ملک کی موجودہ حالت کی طرف کیا کہ ایسے ایسے برے کام ہورہے ہیں.( نور القرآن نمبرا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۷، ۳۳۸ حاشیه )

Page 90

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ سورة النحل W تَاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطنُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم.ہم کو اپنی ذات الوہیت کی قسم ہے جو مہدہ فیضان ہدایت و پرورش اور جامع تمام صفات کا ملہ ہے جو ہم نے تجھ سے پہلے دنیا کے کئی فرقوں اور قوموں میں پیغمبر بھیجے.پس وہ لوگ شیطان کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے اور برے کام ان کو اچھے دکھائی دینے لگے.سو وہی شیطان آج ان سب کا رفیق ہے جو ان کو جادہ استقامت سے منحرف کر رہا ہے.بر اتلان احمد یه چهار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۶،۶۲۵ حاشیہ نمبر ۱۰) (براہین وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَ هُدًى وَ رَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور جو مرحق ہے وہ کھول کر سنایا جائے.(برائین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۱۵ حاشیہ نمبر ۱۰) ہم نے اس لئے کتاب کو نازل کیا ہے تا جو اختلافات عقول ناقصہ کے باعث سے پیدا ہو گئے ہیں یا کسی عمداً افراط و تفریط کرنے سے ظہور میں آئے ہیں ان سب کو دور کیا جائے.اور ایمانداروں کے لئے سیدھا راستہ بتلا یا جاوے.اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو فساد بنی آدم کے مختلف کلاموں سے پھیلا ہے اُس کی اصلاح بھی کلام ہی پر موقوف ہے یعنے اس بگاڑ کے درست کرنے کے لئے جو بیہودہ اور غلط کلاموں سے پیدا ہوا ہے ایسے کلام کی ضرورت ہے کہ جو تمام عیوب سے پاک ہو کیونکہ یہ نہایت بدیہی بات ہے کہ کلام کا ر ہنزدہ کلام ہی کے ذریعہ سے راہ پر آ سکتا ہے.صرف اشارات قانونِ قدرت تنازعات کلامیہ کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور نہ گمراہ کو اس کی گمراہی پر بصفائی تمام ملزم کر سکتے ہیں.جیسے اگر جج نہ مدعی کی وجوہات بہ تصریح قلمبند کرے.نہ مدعا علیہ کے عذرات کو بدلائل قاطعہ توڑے تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ صرف اس کے اشارات سے فریقین اپنے اپنے سوالات و اعتراضات ووجو ہات کا جواب پالیس اور کیوں کر ایسے مبہم اشارات پر جن سے کسی فریق کا باطمینان کامل رفع عذر نہیں ہوا حکم اخیر مترتب ہو سکتا ہے.اسی طرح خدا کی حجت بھی بندوں پر تب ہی پوری ہوتی ہے کہ جب اس کی طرف سے یہ التزام ہو کہ جو لوگ غلط تقریروں کے اثر سے

Page 91

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة النحل طرح طرح کی بد عقیدگی میں پڑگئے ہیں ان کو بذریعہ اپنی کامل و صحیح تقریر کے غلطی پر مطلع کرے اور مدلل اور واضح بیان سے ان کا گمراہ ہونا ان کو جتلا دے تا اگر اطلاع پا کر پھر بھی وہ باز نہ آویں اور غلطی کو نہ چھوڑیں تو سزا کے لائق ہوں.خدائے تعالیٰ ایک کو مجرم ٹھہرا کر پکڑ لے اور سزا دینے کو طیار ہو جائے.مگر بیان واضح سے اس کے دلائل بریت کا غلط ہونا ثابت نہ کرے اور اس کے دلی شبہات کو اپنی کھلی کلام سے نہ مٹاوے.کیا یہ اُس کا منصفانہ حکم ہوگا؟ ( براہینِ احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۵،۲۲۴ حاشیہ نمبر ۱۱) اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور تا مومنوں کے لئے وہ تان کا اور تا ہدایتیں جو پہلے کتابوں میں ناقص رہ گئی تھیں کامل طور پر بیان کی جائیں تا وہ کامل رحمت کا موجب ہو.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۷،۶۲۶) وَاللهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً للورود لقوم يسمعون.اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مرگئی تھی.خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اس مردہ زمین کو زندہ کیا.یہ ایک نشان صداقت اس کتاب کا ہے.پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنے طالب حق ہیں.اب غور سے دیکھنا چاہیئے کہ وہ تینوں مقدمات متذکرہ بالا کہ جن سے ابھی ہم نے آنحضرت کے کچے بادی ہونے کا نتیجہ نکالا تھا.کس خوبی اور لطافت سے آیات ممدوحہ میں درج ہیں.اول گمراہوں کے دلوں کو جو صد ہا سال کی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.زمین خشک اور مردہ سے تشبیہہ دے کر اور کلام الہی کو مینہ کا پانی جو آسمان کی طرف سے آتا ہے ٹھہرا کر اس قانون قدیم کی طرف اشارہ فرمایا جو امساک باران کی شدت کے وقت میں ہمیشہ رحمت الہی بنی آدم کو برباد ہونے سے بچا لیتی ہے اور یہ بات جتلا دی کہ یہ قانون قدرت صرف جسمانی پانی میں محدود نہیں بلکہ روحانی پانی بھی شدت اور صعوبت کے وقت میں جو پھیل جانا عام گمراہی کا ہے ضرور نازل ہوتا ہے اور اس جگہ بھی رحمت الہی آفت قلوب کا غلبہ توڑنے کے لئے ضرور ظہور کرتی ہے.اور پھر انہیں آیات میں یہ دوسری بات بھی بتلا دی کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے تمام زمین گمراہ ہو چکی تھی اور اسی طرح اخیر پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ان روحانی مردوں کو اس کلام پاک نے زندہ کیا اور آخر یہ

Page 92

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ سورة النحل بات کہہ کر کہ اس میں اس کتاب کی صداقت کا نشان ہے.طالبین حق کو اس نتیجہ نکالنے کی طرف توجہ دلائی کہ فرقان مجید خدا کی کتاب ہے.اور جیسا کہ اس دلیل سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی صادق ہونا ثابت ہوتا ہے.ایسا ہی اس سے آنحضرت کا دوسرے نبیوں سے افضل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ آنحضرت کو تمام عالم کا مقابلہ کرنا پڑا اور جو کام حضرت ممدوح کو سپرد ہوا وہ حقیقت میں ہزار دو ہزار نبی کا کام تھا.لیکن چونکہ خدا کو منظور تھا جو بنی آدم ایک ہی قوم اور ایک ہی قبیلہ کی طرح ہو جائیں اور غیریت اور بیگانگی جاتی رہے اور جیسے یہ سلسلہ وحدت سے شروع ہوا ہے وحدت پر ہی ختم ہو.اس لئے اس نے آخری ہدایت کو تمام دنیا کے لئے مشترک بھیجا.اور اس وقت زمانہ بھی وہ آ پہنچا تھا کہ باعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے اتحاد سلسلہ نوعی کی کارروائی شروع ہو گئی تھی اور بوجہ میل ملاپ دائی کے خیالات بعض ملکوں کے بعض ملکوں میں اثر کرنے لگے تھے.چنانچہ یہ کارروائی اب تک ترقی پر ہے اور سارے سامان جیسے ریل تار اور جہاز وغیرہ ایسے ہی دن بدن نکلتے آتے ہیں کہ جن سے یقینا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قادر مطلق کا یہی ارادہ ہے کہ کسی دن تمام دنیا کو ایک قوم کی طرح بنا دے.بہر حال پہلے نبیوں کی محدودکوشش تھی کیونکہ ان کی رسالت بھی ایک قوم میں محدود ہوتی تھی اور آنحضرت کی غیر محدود اور وسیع کوشش تھی کیونکہ ان کی رسالت عام تھی.یہی وجہ ہے جو فرقان مجید میں دنیا کے تمام مذاہب باطلہ کا ردموجود ہے اور انجیل میں صرف یہودیوں کی بد چلنی کا ذکر ہے.پس آنحضرت کا دوسرے نبیوں سے افضل ہونا ایسی غیر محدود کوشش سے ثابت ہے.ماسوا اس کے یہ بات اجلی بدیہات ہے کہ شرک اور مخلوق پرستی کو دور کرنا اور وحدانیت اور جلال الہی کو دلوں پر جمانا سب نیکیوں سے افضل اور اعلیٰ نیکی ہے.پس کیا کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ یہ نیکی جیسی آنحضرت سے ظہور میں آئی ہے.کسی اور نبی سے ظہور میں نہیں آئی.آج دنیا میں بجز فرقان مجید کے اور کون سی کتاب ہے کہ جس نے کروڑ ہا مخلوقات کو تو حید پر قائم کر رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کے ہاتھ سے بڑی اصلاح ہوئی وہی سب سے بڑا ہے.( براہینِ احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۵ تا ۱۱۸ حاشیہ نمبر ۱۰) و أوحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا

Page 93

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام يَعرِشُونَ سورة النحل یہ امر ضروری ہے کہ وحی شریعت اور وحی غیر شریعت میں فرق کیا جاوے بلکہ اس امتیاز میں تو جانوروں کو جو وحی ہوتی ہے اس کو بھی مد نظر رکھا جاوے.بھلا آپ بتلاویں کہ قرآن شریف میں جو یہ لکھا ہے و اولی رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ تو اب آپ کے نزدیک شہد کی مکھی کی وجی ختم ہو چکی ہے یا جاری ہے...جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہو سکتی ہے.ہاں یہ فرق ہے کہ ال کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کو الگ کیا جاوے ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہو.حضرت مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں اور اگر اس سے یہ مانا جاوے کہ ہر ایک قسم کی وحی منقطع ہو گئی ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ امور مشہودہ اور محسوسہ سے انکار کیا جاوے.اب جیسے کہ ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ خدا کی وحی نازل ہوتی ہے پس اگر ایسے شہود اور احساس کے بعد کوئی حدیث اس کے مخالف ہو تو کہا جاوے گا کہ اس میں غلو ہے خود غزنوی والوں نے ایک کتاب حال میں لکھی ہے جس میں عبد اللہ غزنوی کے الہامات درج کئے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ ستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۵۸) ثُمَّ كُلى مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) ( شہید ) یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے.عبادت شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لئے طیار ہو جاتے ہیں.وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اور جیسے شہد فيه شفاء للنا کیس کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں.ان کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پا جاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱) فيه شفاء للناس سے معلوم ہوتا ہے کہ دواؤں میں خدا تعالیٰ نے خواص شفاء مرض بھی رکھے ہوئے ہیں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ دواؤں میں تاثیرات ہوتی ہیں اور امراض کے معالجات

Page 94

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوا کرتے ہیں.( شہد کے تذکرے پر آپ نے فرمایا کہ ) ۶۶ سورة النحل الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ ) دوسری تمام شیر بینیوں کو تو اطباء نے عفونت پیدا کرنے والی لکھا ہے مگر یہ ان میں سے نہیں ہے.آنب وغیرہ اور دیگر پھل اس میں رکھ کر تجربے کئے گئے ہیں کہ وہ بالکل خراب نہیں ہوتے سالہا سال ویسے ہی پڑے رہتے ہیں.فرمایا کہ) ایک دفعہ میں نے انڈے پر تجربہ کیا تو تجب ہوا کہ اس کی زردی تو ویسی ہی رہی مگر سفیدی انجماد پاکر مثل پتھر کے سخت ہوگئی جیسے پتھر نہیں ٹوٹتا ویسے ہی وہ بھی نہیں ٹوٹتی تھی.خدا تعالی نے اسے شفاء للناس کہا ہے واقعی میں عجیب اور مفید شے ہے تو کہا گیا ہے یہی تعریف قرآن شریف کی فرمائی ہے.ریاضت کش اور مجاہدہ کرنے والے لوگ اکثر اسے استعمال کرتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ ہڈیوں...وغیرہ کو محفوظ رکھتا ہے.اس میں ال جو ناس کے اوپر لگایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اس کے اپنے (یعنی خدا تعالیٰ کے ) ناس (بندے ) ہیں اور اس کے قرب کے لئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں ان کے لئے شفا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ تو ہمیشہ خواص کو پسند کرتا ہے عوام سے اسے کیا کام.البدر جلد ۳ نمبر۷ مورخہ ۱۶ / فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۳) ذیا بیطس کی مرض کا ذکر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ) اس سے مجھے سخت تکلیف تھی.ڈاکٹروں نے اس میں شیرینی کو سخت مصر بتلایا ہے.آج میں اس پر غور کر رہا تھا تو خیال آیا کہ بازار میں جو شکر وغیرہ ہوتی ہے اسے تو اکثر فاسق فاجر لوگ بناتے ہیں اگر اس سے ضرر ہوتا ہو تو تعجب کی بات نہیں مگر عسل ( شہد ) تو خدا کی وحی سے طیار ہوا ہے اس لئے اس کی خاصیت دوسری شیر بینیوں کی سی ہرگز نہ ہوگی اگر یہ ان کی طرح ہوتا تو پھر سب شیرینی کی نسبت شفاء للناس فرمایا جاتا مگر اس میں صرف عسل ہی کو خاص کیا ہے.پس یہ خصوصیت اس کے نفع پر دلیل ہے اور چونکہ اس کی طیاری بذریعہ وحی کے ہے اس لئے لکھی جو پھولوں سے رس چوستی ہوگی تو ضرور مفید اجزاء کو ہی لیتی ہوگی.اس خیال سے میں نے تھوڑے سے شہر میں کیوڑا ملا کر اسے پیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا حتی کہ

Page 95

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۷ سورة النحل میں نے چلنے پھرنے کے قابل اپنے آپ کو پایا اور پھر گھر کے آدمیوں کو لے کر باغ تک چلا گیا اور وہاں دس رکعت اشراق نماز کی ادا کیں.(البدر جلد ۳ نمبر ۴۴، ۴۵ مورخه ۲۴ نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) وَاللهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَقِّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَم بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ قَدِيرُ ہم بالکل سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ہماری روح جسم کے ادنی ادنی خلل کے وقت بریکار ہو کر بیٹھ جاتی ہے وہ اس روز کیوں کر کامل حالت پر رہے گی جبکہ بالکل جسم کے تعلقات سے محروم کی جائے گی.کیا ہر روز ہمیں تجربہ نہیں سمجھا تا کہ روح کی صحت کے لئے جسم کی صحت ضروری ہے.جب ایک شخص ہم میں سے پیر فرتوت ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی روح بھی بوڑھی ہو جاتی ہے.اس کا تمام علمی سرمایہ بڑھاپے کا چور چرا کر لے جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لكن لا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا یعنی انسان بڑھا ہو کر ایسی حالت تک پہنچ جاتا ہے کہ پڑھ پڑھا کر پھر جاہل بن جاتا ہے.پس ہمارا یہ مشاہدہ اس بات پر کافی دلیل ہے کہ روح بغیر جسم کے کچھ چیز نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۴) فَلَا تَضْرِبُوا اللَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.قرآن شریف....فرماتا ہے کہ خدا دیکھتا، سنتا، جانتا، بولتا، کلام کرتا ہے.اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کیلئے یہ بھی فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری : ۱۲).فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ - یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس کے لئے مخلوق سے مثالیں مت دو.سوخدا کی ذات کو تشبیہ اور تنزیہ کے بین بین رکھنا یہی وسط ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۶، ۳۷۷) الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْ نَهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے اور خدا کی راہ سے روکتے ہیں ان پر ہم آخرت کے علاوہ اسی دنیا میں

Page 96

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ عذاب نازل کریں گے اور ان کے فساد کا انہیں بدلہ ملے گا.سورة النحل (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۳ حاشیہ نمبر ۱۱) وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هؤلاء وَ نَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَ هُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ.یہ کتاب ہم نے اس لئے تجھ پر نازل کی کہ تاہر یک دینی صداقت کو کھول کر بیان کر دے اور تا یہ بیان کامل ہمارا ان کے لئے جو اطاعت الہی اختیار کرتے ہیں موجب ہدایت ورحمت ہو.( براہین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۵ حاشیہ نمبر ۱۱) ہم نے یہ کتاب (قرآن شریف ) تمام علوم ضرور یہ پر مشتمل نازل فرمائی ہے.سرمه چشم آریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۱ ) اب مکرر آواز بلند کے ساتھ آپ پر کھولتا ہوں کہ سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سفن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیر نظر چلی آئی ہیں اور علی قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرنا بعد قرن وعصر ابعد عصر داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہو تو اس سے مجھے انکار نہیں.ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِنْيَا نَا لِكُلّ شَی یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ (الانعام : ۳۹) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمی مدد دیئے گئے ہوں.سو ایسے لوگوں کیلئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بعلت غیر ملہم ہونے کے قادر نہیں ہو سکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی

Page 97

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة النحل ہیں بلا تامل و توقف قبول کر لیں.اور جو لوگ وحی ولایت عظمی کی روشنی سے منور ہیں اور إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعۃ :۸۰) کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتا فوقتا دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے اور یہ بات ان پر ثابت کر دیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز نہیں دی.بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے اور نیز ان آیات بینات کی سچائی ان پر روشن ہو جاتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں.اگر چہ علماء ظاہر بھی ایک قبض کی حالت کے ساتھ ان آیات پر ایمان لاتے ہیں تا ان کی تکذیب لازم نہ آوے.لیکن وہ کامل یقین اور سکینت اور اطمینان جو ملہم کامل کو بعد معائنہ مطابقت و موافقت احادیث صحیحہ اور قرآن کریم اور بعد معلوم کرنے اس احاطہ نام کے جو در حقیقت قرآن کو تمام احادیث پر ہے ملتی ہے وہ علماء ظاہر کو کسی طرح نہیں مل سکتی.بلکہ بعض تو قرآن کریم کو ناقص و نا تمام خیال کر بیٹھتے ہیں اور جن غیر محدود صداقتوں اور حقائق اور معارف پر قرآن کریم کے دائگی اور تمام تر اعجاز کی بنیاد ہے اس سے وہ منکر ہیں اور نہ صرف منکر بلکہ اپنے انکار کی وجہ سے ان تمام آیات بینات کو جھٹلاتے ہیں جن میں صاف صاف اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے کہ قرآن جمیع تعلیمات دینیہ کا الحق مباحثہ لد صیانه، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۸۱٬۸۰) جامع ہے!!! اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَايُّ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَرُونَ.خدا حکم فرماتا ہے کہ تم عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ اپنے اپنے محل پر کرو.سو جاننا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبہ سے جس سے نظام عالم مربوط و مضبوط ہے منزل و فروتر ہے.اور اس تعلیم کو کامل خیال کرنا بھی بھاری غلطی ہے ایسی تعلیم ہر گز کامل نہیں ہو سکتی.برائین احمدیہ، چہار، صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۲۶، ۴۲۷ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو یعنی حق اللہ اور حق العباد بجالاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت وسلوک کرو اور اگر اس سے

Page 98

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النحل بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت و بے غرض خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجالاؤ کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے.شحنه حق، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۶۱، ۳۶۲) پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو.پس جیسا کہ در حقیقت بجز اُس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں.کوئی بھی محبت کے لائق نہیں کوئی بھی تو گل کے لائق نہیں.کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت در بوبیت خاصہ کے ہر یک حق اُسی کا ہے.اسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اُس کی پرستش میں اور اُس کی محبت میں اور اُس کی ربوبیت میں شریک مت ت میں شریک مہ کرو.اگر تم نے اس قدر کر لیا تو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی.پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متاذب بن جاؤ اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اور اُس کے حسن لا زوال کو دیکھ لیا ہے.بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دُور ہو جائے اور تم اُس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلاً تم اپنے بالوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہو جائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے.اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعترض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو.اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تو اس کو راحت پہنچاوے اور مروت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے.پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجالا وے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو جیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے.سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدعا یا غرض درمیان نہ

Page 99

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے سورة النحل ہو بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشو نما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلف کے اور بغیر پیش نہا در کھنے کسی قسم کی شکر گزاری یا دعا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۰ تا ۵۵۲) اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا کہ وہ تمہارے پیارے اور ذوی القربیٰ ہیں.اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں.اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے.پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے.اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ما اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۷) إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَاتِي ذِي الْقُرْبى یعنی خدا کا حکم یہ ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو.اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم احسان کرو.اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم بنی نوع سے ایسی ہمدردی بجالاؤ جیسا کہ ایک قریبی کو اپنے قریبی کے ساتھ ہوتی ہے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۷۰،۳۶۹) اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو.اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقعہ اور محل ہو تو وہاں احسان کرو اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبوں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو.اور اس سے خدا تعالٰی منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ یا احسان کے بارے میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا بر محل احسان کرنے سے دریغ کرو.یا یہ کہ تم محل پر ایتاء ذی القربی کے خلق میں کچھ کی اختیار کرو یا حد سے زیادہ رحم کی بارش کرو.اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیان ہے.اول یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے.یہ تو کم درجہ ہے اور ادنی درجہ کا بھلا مانس آدمی بھی یہ خلق حاصل کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتار ہے.دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداء آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر

Page 100

۷۲ سورة النحل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کو فائدہ پہنچانا اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے.اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکر یہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی منون منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے.بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے لَا تُبْطِلُوا صَدَ قُتِكُمْ بِالْمَن وَ الأذى (البقرة : ۲۶۵ ) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے.احسان 10: یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو.یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے.پس اگر دل میں صدق اور اخلاص ندر ہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا.بلکہ ایک ریا کاری کی حرکت ہو جاتی ہے.غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا.تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گزاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے.یہ وہ آخری درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے ان تمام ایصال خیر کی قسموں کو محل اور موقعہ سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی.بجائے عدل فحشاء بن جائے گا.یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ نا پاک صورت ہو جائے.اور ایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے اور بجائے ایسائی ذی القربی کے بغی بن جائے گا.یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بری صورت پیدا کرے گا.اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے اور حق واجب میں کمی رکھنے کو بغی کہتے ہیں.اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی بغی ہے.غرض ان تینوں میں سے جو حل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی.اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگا دی ہے.اس جگہ یادر ہے که مجرد عدل یا احسان یا ہمدردی ، ذی القربی کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قوتیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں.مگر خلق کے لئے معقل شرط ہے اور نیز یہ شرط

Page 101

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقعہ پر استعمال ہو.۷۳ سورة النحل اور پھر احسان کے بارے میں اور بھی ضروری ہدایتیں قرآن شریف میں ہیں اور سب کو الف لام کے ساتھ جو خاص کرنے کے لئے آتا ہے استعمال فرما کر موقع اور محل کی رعایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۳ تا ۳۵۵) خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے.یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۴) یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالی نے اس کو قائم کیا ہے.حق العباد کا پہل تو ہم ذکر کر چکے ہیں اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہو تو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر کیونکہ وہ حسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اوّل وہ لوگ جو باعث مجو بیت اور رویت اسباب کے احسان الہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو حسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کر لیتے ہیں اور احسان الہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک بار یک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے کیونکہ اسباب پرستی کا گرد و غبار مُسبب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کر سکتے سوان

Page 102

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة النحل کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حق خالقیت اور رزاقیت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے.مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہو کر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آ جاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں بیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گرد و غبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقینا اس کو حاضر خیال کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں احسان ہے.اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں.اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ایتاء ذی القربی ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب اور انسان ایک مدت تک احسانات الہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا ر ہے اور اس کو حاضر اور بلا واسطہ حسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظه بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہو گئے پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں

Page 103

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة النحل بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر بیچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہو کر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ این آئی ذی القربی سے تعبیر کیا ہے اور اس کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے فَاذْكُرُوا اللهَ گنا کر کم اباءَ كُم أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة : ٢٠١).غرض آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَانِى ذِی القربی کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اس مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللَّهُ رَسُونُ بِالْعِبَادِ (البقرة : ۲۰۸) یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے.اور پھر فرمایا بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة :١١٣ ) یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت : کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہو جاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرما یا يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ آسِيْرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمُ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (الدهر : ۱۰۰۹) یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الہی اور رضاء الہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۶ تا ۴۴۱) مرتبه ايتاى ذي القربى متواتر احسانات کے ملاحظہ سے پیدا ہوتا ہے.اور اس مرتبہ میں کامل طور پر

Page 104

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۶ سورة النحل عابد کے دل میں محبت ذات باری تعالیٰ کی پیدا ہو جاتی ہے اور اغراض نفسانیہ کا رائحہ اور بقیہ بالکل دور ہو جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبت ذاتی کا اصل اور منبع دو ہی چیزیں ہیں (۱) اوّل کثرت سے مطالعہ کسی کے حسن کا اور اس کے نقوش اور خال و خط اور شمائل کو ہر وقت ذہن میں رکھنا اور بار بار اس کا تصور کرنا (۲) دوسرے کثرت سے تصور کسی کے متواتر احسانات کا کرنا اور اس کے انواع و اقسام کے مروتوں اور احسانوں کو ذہن میں لاتے رہنا اور ان احسانوں کی عظمت اپنے دل میں بٹھانا.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۹ حاشیه ) خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم اُن کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا.پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے ایتائی ذی القربی یہ ہے کہ اُس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے.بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۱،۳۰) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ انصاف کرو اور عدل پر قائم ہو جاؤ.اور اگر اس سے زیادہ کامل بنا چاہو تو پھر احسان کرو.یعنی ایسے لوگوں سے سلوک اور نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی اور اگر اس سے بھی زیادہ کامل بننا چاہو تو محض ذاتی ہمدردی سے اور محض طبعی جوش سے بغیر نیت کسی شکر یا ممنون منت کرنے کے بنی نوع سے نیکی کرو.جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے فقط اپنے طبعی جوش سے نیکی کرتی ہے اور فرمایا کہ خدا تمہیں اس سے منع کرتا ہے کہ کوئی زیادتی کرو یا احسان جتلا و یا سچی ہمدردی کرنے والے کے کا فرنعمت بنو.لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۵) اس آیت میں ان تین مدارج کا ذکر کیا ہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں.پہلا مرتبہ عدل کا ہے اور

Page 105

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام LL سورة النحل عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرط معاوضہ اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کرو اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بلا عوض سلوک کرو لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے.یہ میچ نہیں یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عمل درآمد میں نہیں آسکتی.چنانچہ سعدی کہتا ہے..نکوئی بابدان کردن چنان است که بد کردن برائے نیک مردان اس لئے اسلام نے انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کوئی دوسرا مذ ہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے جَزْوُا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلَهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ (الشوری : ۴۱) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو کوئی معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو.اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شتر بڑھے.غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کا ہے یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوےلیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے.کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے اس لئے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلیم دی اور وہ این آئی ذی القربی کا درجہ ہے.ماں جو اپنے بچہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اس سے کسی معاوضہ اور انعام واکرام کی خواہشمند نہیں ہوتی.وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہے محض طبیعی محبت سے کرتی ہے اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تو اس کو دودھ مت دے اور اگر یہ تیری غفلت سے مر بھی جاوے تو تجھے کوئی سزا نہیں دی جاوے گی بلکہ انعام دیا جاوے گا اس صورت میں وہ بادشاہ کا حکم ماننے کو طیار نہ ہوگی بلکہ اس کو گالیاں دے گی کہ یہ میری اولاد کا دشمن ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کر رہی ہے اس کی کوئی غرض درمیان نہیں.یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور یہ آیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے.حقوق اللہ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور جو اطاعت الہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کرے کیونکہ وہ حسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کر سکتا اور چونکہ حسن کے شمائل اور خصائل کو مد نظر رکھنے سے اس کے احسان تازہ رہتے ہیں اس لئے احسان کا مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے.اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا

Page 106

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۸ سورة النحل ہے لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے ایتاء ذی القربیٰ کا یعنی اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کے پہلو سے میں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں اور یہ بھی میں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی اور ایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۷ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) سچا مذہب وہی ہے جو انسانی قومی کا مربی ہو نہ کہ ان کا استیصال کرے.رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرتِ انسانی میں رکھے گئے ہیں ان کو چھوڑ نا خدا کا مقابلہ کرنا ہے جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا.یہ تمام حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں.اگر یہ امر ایسا ہی ہوتا تو گویا اس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قولی ہم میں پیدا کئے.سوایسی تعلیمیں جو انجیل میں ہیں اور جن سے قویٰ کا استیصال لازم آتا ہے ضلالت تک پہنچاتی ہیں اللہ تعالیٰ تو اس کی تعدیل کا حکم دیتا ہے ضائع کرنا پسند نہیں کرتا جیسے فرمایا إنّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ عدل ایک ایسی چیز ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۴۸،۴۷) نیکی یہ ہے کہ خدا سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں اور اس کی محبت ذاتی رگ وریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ ايْتَائِي ذِي الْقُرْ بی خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرماں برداری کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھیرا ؤ اور اسے پہچانو اور اس پر ترقی کرنا چا ہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبیعی محبت سے کرو نہ بہشت کی طمع نہ دوزخ کا خوف ہو.بلکہ اگر فرض کیا جاوے کہ نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے.ایسی محبت جب خدا سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا.اور مخلوق خدا سے ایسے پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو حسن حجٹ کہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کئے لیکن طبعی محبت جو کہ ماں کو بچے کے ساتھ ہوتی ہے اس میں کوئی خود نمائی نہیں ہوتی بلکہ اگر ایک بادشاہ ماں کو یہ حکم دیوے کہ تو اس بچہ کو اگر مار بھی ڈالے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہ ہو گی تو وہ

Page 107

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة النحل کبھی یہ بات سننی گوارا نہ کرے گی اور اس بادشاہ کو گالی دے گی حالانکہ اسے علم بھی ہو کہ اس کے جوان ہونے تک میں نے مرجانا ہے مگر پھر بھی محبت ذاتی کی وجہ سے وہ بچہ کی پرورش کو ترک نہ کرے گی.اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے.جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشارہ ایتائی ذی القربی میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا کے ساتھ ہونی چاہیے نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۵) اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں.دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے.دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إيتَائِي ذِي الْقُرْبى...تو یه کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پاسکتے.اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا.زندگی کا اعتبار نہیں ہے نماز ، صدق وصفا میں ترقی کرو.(البدر جلد ۲۴۶ مورخه ۸ دسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۶۳) میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہرگز ہرگز اپنی ہمدردی کے دائرہ کو محدود نہ کرو اور ہمدردی کے لئے اس تعلیم کی پیروی کرو جو اللہ تعالی نے دی ہے یعنی إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَانِى ذِى القربی یعنی اول نیکی کرنے میں تم عدل کو لوظ رکھو جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو.اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر اس سے سلوک کرو یہ احسان ہے.احسان کا درجہ اگر چہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان والا اپنا احسان جتلا دے مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہوجس میں احسان نمائی کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے وہ اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی بلکہ ایک طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر.دیتی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ کسی ماں کو حکم دے دے کہ تو اپنے بچہ کو دودھ مت پلا اور اگر ایسا کرنے

Page 108

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة النحل سے بچہ ضائع بھی ہو جاوے تو اس کو کوئی سزا نہیں ہوگی تو کیا ماں ایسا حکم سن کر خوش ہوگی.اور اس کی تعمیل کرے گی ؟ ہرگز نہیں.بلکہ وہ تو اپنے دل میں ایسے بادشاہ کو کو سے گی کہ کیوں اس نے ایسا حکم دیا.پس اس طریق پر نیکی ہو کہ اسے طبعی مرتبہ تک پہنچایا جاوے کیونکہ جب کوئی شے ترقی کرتے کرتے اپنے طبعی کمال تک پہنچ جاتی ہے اس وقت وہ کامل ہوتی ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۴) باہمی ہمدردی کے اللہ تعالیٰ نے تین مراتب رکھے ہیں جن کا ذکر آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسَانِ وَابْتَائِی ذی القربی میں ہے.سب سے چھوٹی نیکی اس میں عدل کو قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی تم سے نیکی کا معاملہ کرے تو تم بھی اس سے ویسا ہی کرو.اس کے بعد پھر احسان کا درجہ ہے اور اگر چہ یہ عدل سے اعلیٰ ہے لیکن اس میں بھی ایک نقص ہے کہ احسان کرنے والے کے دل میں ریا اور خودی آسکتی ہے اور کسی موقعہ پر جتلا سکتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں نیکی (احسان ) کیا ہے مگر ایتانِی ذِي الْقُرْبی میں ریاء اور خودی کا نام ونشان نہیں ہوتا جیسے ماں اپنے بچے کو طبعی طور سے پرورش کرتی ہے اور اس کو کوئی علم اس کی موت اور زندگی کا نہیں ہوتا اور نہ اس سے فائدے اور ضرر کی امید ہو سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے جوش اس کے دل میں ڈالا ہوا ہوتا ہے اور وہ بے اختیار اپنے ہر ایک قسم کے سکھ اور آرام کو اس بچے کے لئے قربان کر دیتی ہے اسی طرح طبعی جوش سے نوع انسان کی ہمدردی کا نام ایتانِی ذِي الْقُربى ہے اور اس ترتیب سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر تم پورا نیک بننا چاہتے ہو تو اپنی نیکی کو ایتَانِی ذی القربی یعنی طبیعی درجہ تک پہنچا ؤ جب تک کوئی شے ترقی کرتی کرتی اپنے اس طبعی مرکز تک نہیں پہنچتی تب تک وہ کمال کا درجہ حاصل نہیں کرتی.البدر جلد ۴ نمبر ۲ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) ہماری لڑکی کو ایک دفعہ ہیضہ ہو گیا تھا ہمارے گھر سے اس کی تمام قے وغیرہ اپنے ہاتھ پر لیتی تھیں.ما سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے.ی طبیعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کیا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ ابْتَاتِي ذِي الْقُرْبى - ادنی درجہ عدل کا ہوتا ہے جتنا لے اتنا دے.اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنالے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے.پھر اس سے بڑھ کر ایس آئی ذی القربی کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچہ کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے.

Page 109

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ سورة النحل قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کر کے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں.انسان کا ظرف چھوٹا نہیں.خدا کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے.میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں.( بدر جلد نمبر ۹ مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ صفحه ۲) بیشک اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتَانِی ذِي الْقُرْبی کا حکم ہے.عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے.اس حالت کی اصلاح کے لئے عدل کا حکم ہے.اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے.مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبالوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوے اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہوگا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا مگر یہ ٹھیک نہیں.عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور غذر سے اس کو دبایا نہ جاوے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے.پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور کسی قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امرالہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے.اس کے بعد احسان کا درجہ ہے جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں تو ڑتا اللہ تعالیٰ اسے تو فیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ عدل ہی نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے.دراصل احسان کرنے والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ این آئی ذی القربی کا درجہ ہے.

Page 110

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة النحل ايتاى ذى القربى کا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیوں کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا اور اس کی خدمت کرے گا یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچے کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مرجاوے تو بھی تجھ سے مؤاخذہ نہ ہو گا.اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دو چار گالیاں ہی سنا دے گی اس لئے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے.وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہیں.اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا ہے تو یہی وہ حالت ہے جو مطمعنہ کہلاتی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) پہلے فرمایا کہ عدل کرو.پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا احسان کا بھی خدا نے تم کو حکم کیا ہے یعنی صرف اسی سے نیکی نہ کرو جس نے تم سے نیکی کی ہے بلکہ احسان کے طور پر بھی جو کہ کوئی حق نہ رکھتا ہو کہ اس سے نیکی کی جاوے اس سے بھی نیکی کرومگر احسان میں بھی ایک قسم کا باریک نقص اور مخفی تعلق اس شخص سے رہ جاتا ہے ہے جس سے احسان کیا گیا ہے کیونکہ کبھی کسی موقع پر اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو جائے جو اس محسن کے خلاف طبیعت ہو یا نا فرمانی کر بیٹھے تو محسن ناراض ہو کر اس کو احسان فراموش یا نمک حرام وغیرہ کہہ دے گا اور اگر چہ وہ شخص اس بات کو دبانے کی کوشش بھی کرے گا مگر پھر اس میں ایک مخفی اور بار یک رنگ میں نقص باقی رہ جاتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو ہی جاتا ہے اسی واسطے اس نقص اور کمی کی تلافی کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسان سے بھی آگے بڑھو اور ترقی کر کے ایسی نیکی کرو کہ وہ ایتا آنی ذی القربی کے رنگ میں رنگین ہو یعنی جس طرح سے ایک ماں اپنے بچے سے نیکی کرتی ہے.ماں کی اپنے بچے سے محبت ایک طبعی اور فطرتی تقاضا پر مبنی ہے نہ کسی طمع پر.دیکھو بعض اوقات ایک ماں ۶۰ برس کی بڑھیا ہوتی ہے اس کو کوئی تو قع خدمت کی اپنے بچے سے نہیں ہوتی کیونکہ اس کو کہاں یہ خیال ہوتا ہے کہ میں اس کے جوان اور لائق ہونے تک زندہ بھی رہوں گی.غرض ایک ماں کا اپنے بچے سے محبت کرنا بلا کسی خدمت یا طمع کے خیال کے فطرت انسانی میں رکھا گیا ہے.ماں خود اپنی جان پر دکھ برداشت کرتی ہے مگر بچے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی ہے.خود کیلی جگہ لیتی ہے اور اسے خشک حصہ بستر پر جگہ دیتی ہے.بچہ بیمار ہو جائے تو راتوں جاگتی اور.

Page 111

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة النحل طرح طرح کی تکالیف برداشت کرتی ہے.اب بتاؤ کہ ماں جو کچھ اپنے بچے کے واسطے کرتی ہے اس میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی بھی شعبہ پایا جاتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کے درجہ سے بھی آگے بڑھو اور ایتَائِی ذِی القربی کے مرتبہ تک ترقی کرو اور خلق اللہ سے بغیر کسی اجر یا نفع و خدمت کے خیال کے طبعی اور فطری جوش سے نیکی کر وتمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہرگز نہ ہو.ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا ہے: لَا نُرِيدُ مِنْكُم جَزَاء وَ لَا شُكُورًا (الدهر : ١٠) یعنی خدا رسیدہ اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ اس کی نیکی خالصائلہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں بھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے پاس کا شکریہ ادا کیا جاوے نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے.ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں.ورق ورق کر کے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان نہیں.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۱۱۰) احسان ایک نہایت عمدہ چیز ہے.اس سے انسان اپنے بڑے بڑے مخالفوں کو زیر کر لیتا ہے چنانچہ سیالکوٹ میں ایک شخص تھا جو کہ تمام لوگوں سے لڑائی رکھتا تھا اور کوئی ایسا آدمی نہ ملتا تھا جس سے اس کی صلح ہو یہاں تک کہ اس کے بھائی اور عزیز اقارب بھی اس سے تنگ آچکے تھے.اس سے میں نے بعض دفعہ معمولی سا سلوک کیا اور وہ اس کے بدلہ میں کبھی ہم سے برائی سے پیش نہ آتا بلکہ جب ملتا تو بڑے ادب سے گفتگو کرتا.اسی طرح ایک عرب ہمارے ہاں آیا اور وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اتر آتا.اس نے یہاں آکر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں اور وہابیوں کو برا بھلا کہنے لگا.ہم نے اس کی کچھ پرواہ نہ کر کے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ وہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اس کو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے.اس پر وہ خاموش ہو گیا اور اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں.خیر وہ شخص چند دن کے بعد چلا گیا.اس کے بعد ایک دفعہ لاہور میں مجھ کو پھر ملا.اگر چہ وہ وہابیوں کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا مگر چونکہ اس کی تواضع اچھی طرح سے کی تھی اس لئے اس کا وہ تمام جوش و خروش دب گیا اور وہ بڑی مہربانی اور پیار سے مجھ کو ملا.چنانچہ بڑے اصرار کے ساتھ مجھ کو ساتھ لے گیا اور ایک چھوٹی سی مسجد میں جس کا کہ وہ امام

Page 112

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة النحل مقرر ہوا تھا مجھ کو بٹھلایا اور اور خود نوکروں کی طرح پنکھا کرنے لگا، بہت خوشامد کرنے لگا کہ کچھ چاء وغیرہ پی کر جاویں.پس دیکھو کہ احسان کس قدر دلوں کو مسخر کر لیتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۴؍ جولائی ۱۹۰۷ صفحہ ۷) خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو جیسے بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۲۳ رستمبر ۱۸۹۹ صفحه ۴) خدا حکم فرماتا ہے کہ تمام دُنیا کے ساتھ تم عدل کرو یعنی جس قدر حق ہے اُس قدر لو اور انصاف سے بنی نوع کے ساتھ پیش آؤ.اور اس سے بڑھ کر یہ حکم ہے کہ تم بنی نوع سے احسان کرو یعنی وہ سلوک کرو جس سلوک کا کرنا تم پر فرض نہیں محض مروّت ہے.مگر چونکہ احسان میں بھی ایک عیب مخفی ہے کہ صاحب احسان کبھی ناراض ہو کر اپنے احسان کو یاد بھی دلا دیتا ہے.اس لئے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ کامل نیکی یہ ہے کہ تم اپنے بنی نوع سے اس طور سے نیکی کرو کہ جیسے ماں اپنے بچہ سے نیکی کرتی ہے کیونکہ وہ نیکی محض طبیعی جوش سے ہوتی ہے نہ کسی پاداش کی غرض سے یہ دل میں ارادہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ بچہ اس نیکی کے مقابل مجھے بھی کچھ عنایت کرے.پس وہ نیکی جو بنی نوع سے کی جاتی ہے کامل درجہ اُس کا یہ تیسرا درجہ ہے جس کو ایتائی ذی الْقُرْنی کے لفظ سے بیان فرمایا گیا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۸) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.ہماری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ جو شخص عمل صالح بجا لاوے.مرد ہو یا عورت ہو اور وہ مومن ہو ہم اس کو ایک پاک زندگی کے ساتھ زندہ رکھا کرتے ہیں اور اس سے بہتر جزا دیا کرتے ہیں جو وہ عمل کرتے ہیں.اب اگر اس آیت کو صرف زمانہ مستقبلہ سے وابستہ کر دیا جائے تو گویا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گذشتہ اور حال میں تو نہیں مگر آئندہ اگر کوئی نیک عمل کرے تو اس کو یہ جزا دی جائے گی.اس طور کے معنوں سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت کے نزول کے وقت تک کسی کو حیا و طیبہ عنایت نہیں کی تھی فقط یہ آئندہ کے لئے وعدہ تھا لیکن جس قدر ان معنوں میں فساد ہے وہ کسی عظمند پر مخفی نہیں.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۴)

Page 113

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة النحل b وَ لَقَد نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌّ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ (۱۰۴ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانُ عَرَبيٌّ مُّبِينٌ.یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض آتی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذب قوم میں بود و باش رہی اور نہ مجالس علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا.اور دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا بار یک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے اور نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت کی ان کو اظہر من الشمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اُقی اور مؤید من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کوعز یز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہو کر ایسے مذہب کو قبول کر لیتے جو باعث تعلیم تو حید کے تمام مشرکین کو بُرا معلوم ہوتا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اور بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر اوہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرت کو محض اُتنی اور سرا پا مؤید من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالا تر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا.اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جولوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور بد باطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی یہ یقین کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور امتحان نبوت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیں.آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ

Page 114

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة النحل شاید در پردہ کسی عیسائی یا یہودی عالم بائیل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے.پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا امی ہونا ان کے دلوں میں یہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے.واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا.کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی در پردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا.اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہلِ کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محترف اور مبدل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشرطیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے.اور اُن کے اصول مصنوعہ کو دلائل قویہ سے تو ڑتا ہے تو پھر کس طرح ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمت کرواتے.اور اپنی کتابوں کا آپ ہی رو لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ ست اور نا درست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پر زور روشنی سے اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہرگز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصب اور شدت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنا رکھا تھا.پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہوگا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میں درج ہے.اِنَّمَا يُعَلِمُه بشر سورة النحل الجزو نمبر ۱۴.اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی وَ أَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أخَرُونَ (الفرقان :۵ ) سورة الفرقان الحجز ونمبر ۱۸.یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہو کر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں.پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعرا نے اکٹھے ہو کر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لا جواب ہو کر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جنات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہو گئے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۴،۵۷۸)

Page 115

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة النحل و فصاحت بلاغت کے بارہ میں فرما یا هذَا لِسَانُ عَرَب مُبِین ۱۵/ ۱۹ اور پھر اس کی نظیر مانگی اور کہا کہ اگر تم کچھ کر سکتے ہو تو اس کی نظیر دو.پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اور کیا معنے ہو سکتے ہیں؟ خاص کر جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اس کی نظیر پیش کرو تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مبین کا لفظ بھی اسی کو چاہتا ہے.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۵۴) مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِةِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَهِنَّ بِالْإِيمَانِ وَ لكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمُ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عظيم 1.2) کا فر عذاب میں ڈالے جائیں گے مگر ایسا شخص جس پر زبردستی کی جائے یعنی ایمانی شعار کے ادا کرنے سے کسی فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے روکا جائے اور دل اس کا ایمان سے تسکین یافتہ ہے وہ عند اللہ معذور ہے مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو سخت درد ناک اور فوق الطاقت زخموں سے مجروح کرے اور وہ اس عذاب شدید میں کوئی ایسے کلمات کہہ دے کہ اس کا فر کی نظر میں کفر کے کلمات ہوں مگر وہ خود کفر کے کلمات کی نیت نہ کرے بلکہ دل اس کا ایمان سے لبالب ہو اور صرف یہ نیت ہو کہ وہ اس نا قابل برداشت سختی کی وجہ سے اپنے دین کو چھپاتا ہے مگر نہ عمداً بلکہ اس وقت جبکہ فوق الطاقت عذاب پہنچنے سے بے حواس اور دیوانہ سا ہو جائے تو خدا اس کی تو بہ کے وقت اس کے گناہ کو اس کی شرائط کی پابندی سے جو نیچے کی آیت میں مذکور ہیں معاف کر دے گا کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے اور وہ شرائط یہ ہیں.(دیکھئے تفسیر طذا آیت ۱۱۱) نور القرآن نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۲) ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فَتِنُوا ثُمَّ جَهَدُوا وَ صَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ و، مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيم ایسے لوگ جو فوق الطاقت دکھ کی حالت میں اپنے اسلام کا اختفاء کریں ان کا اس شرط سے گناہ بخشا جائے گا کہ دکھ اٹھانے کے بعد پھر ہجرت کریں یعنی ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے نکل جائیں جہاں دین پر

Page 116

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۸ سورة النحل زبردستی ہوتی ہے.پھر خدا کی راہ میں بہت ہی کوشش کریں اور تکلیفوں پر صبر کریں.ان سب باتوں کے بعد خدا ان کا گناہ بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے.نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۲) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطَرَ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.117 دیکھو سود کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں سور کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطَرَ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة : ۱۷۴ ) یعنی جو شخص بافی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الربوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِهِ (البقرة : ۲۸۰،۲۷۹) اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی.مسلمان اگر اس ابتلاء میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةَ (الحج : ۱۲) کے مصداق.پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں.( بدر جلدے نمبر ۵ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۸ ء صفحه ۶) وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ الْسِنَتَكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَكَ وَهُذَا حَرَامُ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ اِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ یا درکھو کہ دین میں صرف قیاس کرنا سخت منع ہے.قیاس وہ جائز ہے جو قرآن وحدیث سے مستنبط ہو.ہمارا دین منقولی طور سے ہمارے پاس پہنچا ہے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث ثابت ہو جائے تو خیر ورنہ کیا ضرورت ہے دو چار آنے کے لئے ایمان میں خلل ڈالنے کی.لَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ السِنَتُكُمُ الكَذِبَ هَذَا حَلكَ وَهذَا حَرَام - ( بدر جلد نمبر ۲۰۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۴)

Page 117

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ اِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتَا لِلهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) سورة النحل وَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا انْسَلَعَ عَنْ بندہ جب اپنے ارادہ سے علیحدہ ہو جائے اور اپنے إِرَادَاتِهِ وَتَجَرَّدَ عَنْ جَذَبَاتِهِ.وَفَنِي في جذبات سے خالی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے الله وَفي طُرُقِهِ وَعِبَادَاتِهِ وَعَرَفَ رَبَّهُ طریقوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو جائے اور اپنے اس الَّذِي رَبَّاهُ بِعِنَايَاتِهِ.حَمِدَة في سائر رب کو پہچان لے جس نے اپنی عنایات کے ساتھ اس کی أَوْقَاتِهِ، وَأَحَبَّهُ بِجَميع قَلْبِهِ بَلْ بِجَمیع پرورش کی اور وہ اس کی تمام اوقات حمد کرتا رہے اور اس ذَراتِهِ.فَعِنْدَ ذَالِكَ هُوَ عَالَم تین سے پورے دل بلکہ اپنے تمام ذرات سے محبت کرے تو الْعَالَمِينَ وَلِذَالِكَ سُمّى إِبْرَاهِيمُ اس وقت وہ عالموں میں سے ایک عالم ہو جائے گا.اسی أُمَّةٌ في كِتَابٍ أَعْلَمِ الْعَالَمِينَ.لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام العلم العالمین کی کتاب (اعجاز امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۳۸) میں اُمت رکھا گیا ہے.( ترجمہ از مرتب ) أدعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ.آیت : جَادِلُهُم بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کر لیں.کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذاب قرار دے اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکور کھے راست باز کہہ سکتے ہیں.کیا ایسا کرنا مجادلہ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۰۵ حاشیه ) اس کے معنے یہی ہیں کہ نیک طور پر اور ایسے طور پر جو مفید ہو عیسائیوں سے مجادلہ کرنا چاہیے اور حکیمانہ طریق اور ایسے ناصحانہ طور کا پابند ہونا چاہیے کہ ان کو فائدہ بخشے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۱۷) خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیر تحریریں پاکر

Page 118

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النحل کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ احسن پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی تو ہین اور تحقیر اور بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولی سرور کائنات فخر موجودات کی نسبت ایسے گندے اور پرشر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقص امن پیدا ہو تو اس وقت ہم نے اس حکمت عملی کو برتا.البلاغ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۸۵) جب تو عیسائیوں سے مذہبی بحث کرے تو حکیمانہ طور پر معقول دلائل کے ساتھ کر اور چاہئے کہ تیرا وعظ پسندیدہ پیرایہ میں ہو.البلاغ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۹۱) ( اس آیت سے ) یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جب تک اسلام پر حملے کرنے والے حملے کرتے رہیں اس طرف سے بھی سلسلہ مدافعت جاری رہنا چاہئے.البلاغ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۱۲) جب تو کسی عیسائی معلم کے ساتھ بحث کرے تو حکمت اور نیک نصیحتوں کے ساتھ بحث کر جو نرمی اور تہذیب سے ہو.ہاں یہ سچ ہے کہ بہتیرے اس زمانہ کے جاہل اور نادان مولوی اپنی حماقت سے یہی خیال رکھتے ہیں کہ جہاد اور تلوار سے دین کو پھیلانا نہایت ثواب کی بات ہے اور وہ پر دہ اور نفاق سے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن وہ ایسے خیال میں سخت غلطی پر ہی اور ان کی غلط فہمی سے الہی کتاب پر الزام نہیں آسکتا.واقعی سچائیاں اور حقیقی صداقتیں کسی جبر کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ جبر اس بات پر دلیل ٹھہرتا ہے کہ روحانی دلائل کمزور ہیں.کیا وہ خدا جس نے اپنے پاک رسول پر یہ وحی نازل کی کہ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزمِ (الاحقاف:۳۶) یعنی تو ایسا صبر کر کہ جو تمام اولو العزم رسولوں کے صبر کے برابر ہو یعنی اگر تمام نبیوں کا صبرا اکٹھا کر دیا جائے تو وہ تیرے صبر سے زیادہ نہ ہو.اور پھر فرمایا کہ لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ (البقرة : ۲۵۷) یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے.اور پھر فرمایا کہ اُدعُ إلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی عیسائیوں کے ساتھ حکمت اور نیک وعظوں کے ساتھ مباحثہ کر نہ تختی سے.اور پھر فرمایا وَ الْعَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ( ال عمران : ۱۳۵) یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.کیا ایسا خدا یہ تعلیم دے سکتا تھا کہ تم اپنے دین کے منکروں کو قتل کر دو اور ان کے مال لوٹ لو اور ان کے

Page 119

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة النحل گھروں کو ویران کر دو بلکہ اسلام کی ابتدائی کاروائی جو حکم الہی کے موافق تھی صرف اتنی تھی کہ جنہوں نے ظالمانہ طور سے تلوار اٹھائی.وہ تلوار ہی سے مارے گئے.اور جیسا کیا ویسا اپنا یا داش پا لیا.یہ کہاں لکھا ہے کہ تلوار کے ساتھ منکروں کو قتل کرتے پھرو.یہ تو جاہل مولویوں اور نادان پادریوں کا خیال ہے جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۴۶۰،۴۵۹ حاشیه ) جسے نصیحت کرنی ہوا سے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرا یہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے پس جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ الحکم جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) يشاء (البقرة : ٢٧٠).ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (خم السجدة : ۳۵) یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سن لے.الحکم جلد ۱۰ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۴) وَ اِنْ عَاقَبتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَ لَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ للصيرين.اگر تم ان کا تعاقب کرو تو اسی قدر کرو جو انہوں نے کیا ہو و لین صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّبِرِينَ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے اچھا ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۶،۲۵۵) اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.انسان جب فرط تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے تو صادق کی ہر ایک بات اس کو کذب ہی معلوم ہوتی ہے لیکن خدائے تعالی صادق کا انجام بخیر کرتا ہے.اور کاذب کے نقش ہستی کو منادیتا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰۷) خدا ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرنا ان کا اصول ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۴)

Page 120

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة النحل خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرنے والے ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۳۳۷) تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب ، خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ادْفَعْ بِالَّتِی هِيَ أَحْسَنُ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۸۳) اللہ تعالیٰ لاف گذاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ تو حقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند کرتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْاوَ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۶۹).متقی کے معنی ہیں ڈرنے والا.ایک ترک شر ہوتا ہے اور ایک افاضہ خیر.متقی ترک شرک کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضہء خیر کو چاہتا ہے..منتقلی کا کام یہ ہے کہ برائیوں سے باز آوے.اس سے آگے دوسرا درجہ افاضہ خیر کا ہے جس کو یہاں مُخسِنُون کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے کہ نیکیاں بھی کرے.پورا راست با ز انسان تب ہوتا ہے جب بدیوں سے پر ہیز کر کے یہ مطالعہ کرے کہ نیکی کون سی کی ہے.الخام جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۳) إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقُوا خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو تقی ہوتے ہیں.یا درکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں تقویٰ کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے.اس کے معنے پہلے لفظ سے کئے جاتے ہیں.یہاں مع کا لفظ آیا ہے یعنی جو خدا کو مقدم سمجھتا ہے خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ذلتوں سے بچالیتا ہے.میرا ایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ متقی بن جائے پھر اس کو کسی چیز کی کمی نہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۱ صفحه ۲) یاد رکھو کہ حقائق اور معارف کے دروازوں کے کھلنے کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی.اس لئے تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخه ۱۷/جون ۱۹۰۱ صفحه ۲) خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی اقام جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) نصرت ہی سے ملتا ہے.بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام

Page 121

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة النحل کرتے ہیں یعنی محسنین ہوتے ہیں.تقویٰ کے معنے ہیں بدی کی باریک راہوں سے پر ہیز کرنا مگر یا درکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ میں نیک ہوں اس لئے کہ میں نے کسی کا مال نہیں لیا نقب زنی نہیں کی چوری نہیں کرتا.بد نظری اور زنا نہیں کرتا.ایسی نیکی عارف کے نزدیک جنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو طیار ہو.اسی لئے یہاں فرمایا ہے إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ.یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پر ہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۳) اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پر ہیز کرنے کو اور مُحْسِنُونَ وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پر ہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں.اور پھر یہ بھی فرما یا لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی (یونس : ۲۷۰).یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کرتے ہیں.مجھے یہ وحی بار بار ہوئی اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا.خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچی تقوی ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو.احکام جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۶ صفحه ۳،۲) تقویٰ ، طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں ولرزں رہتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۸ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۲) خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روز نامچہ بناتا ہے پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک رونا مچہ تیار کرنا چاہیے اور اس میں غور کرنا چاہیے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں.جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے.انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو بھی ضائع نہیں کیا جاتا.بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں

Page 122

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة النحل جانیں بچائی جاتی ہیں.ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے سمندر میں طوفان آگیا قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا اس کی دعا سے بچا لیا گیا اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا مگر یہ باتیں نر از بانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں.دیکھو ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ دیا ب إِنِّي أَحَافِظ كُلَّ مَن في الدار مگر دیکھو ان میں غافل عورتیں بھی ہیں.مختلف طبائع اور حالات کے انسان ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۶،۵) میں پھر جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو.تقومی طہارت میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا.وہ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ البدر جلد ۳ نمبر ۳۵ مورخه ۱۶ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۱) تقومی کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لئے پہلا انعام شربت کا فوری ہے.اس شربت کے پینے سے دل برے کاموں سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور بدیوں کے لئے تحریک اور جوش پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آجاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہاں تک کہ چور کے دل میں بھی یہ خیال آہی جاتا ہے مگر جذ بہ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیتا ہے لیکن جن لوگوں کو شربت کا فوری پلا دیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دل برے کاموں سے بیزار اور منتظر ہو جاتا ہے.گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد د با دیئے جاتے ہیں.یہ بات خدا کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی.جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کو جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ نے یہ سب باتیں فضل الہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اسے کا فوری جام پلایا جاتا ہے..اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة : ۲۸) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے....پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لئے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ برے کاموں سے پر ہیز کرے.اسی کا نام تقویٰ ہے.القام جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۲)

Page 123

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۹۵ سورة بنی اسراءیل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ بنی اسراءیل بیا سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِى بُرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ أَيْتِنَا ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جورات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لڈ ٹی طور سے پہنچایا.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۰ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں تمام سیر کرا دیا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۲) سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو در حقیقت بیداری کہنا چاہیئے.ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے سو در حقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی

Page 124

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة بنی اسراءیل بیداری ہی ہے.میں اس کا نام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنی درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو در حقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفی اور اجلی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۶ حاشیه ) وَأَمَّا مِعْرَاجُ رَسُوْلِنَا فَكَانَ أَمْرًا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج الجازيا مِنْ عَالَمِ الْيَقظَةِ الرُّوْحَانِيَّةِ لطیف اور کامل روحانی بیداری کے عالم کا ایک اعجازی اللَّطِيفَةِ الْكَامِلَةِ، فَقَدْ عُرِجَ رَسُولُ الله واقعہ ہے.آپ جسم سمیت آسمان کی طرف اُٹھائے گئے صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِسْمِهِ إِلَى السَّمَاءِ درانحالیکہ آپ بیدار تھے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں وَهُوَ يَفْطَانُ لا شَكٍّ فِيْهِ وَلا رَيْبَ، ولكن لیکن بایں ہمہ حضور کا جسم مبارک چار پائی پر موجود رہا جیسا مع ذلِك مَا فُقِدَ جِسْمُه مِن الشرير گما کہ آپ کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور شَهِدَ عَلَيْهِ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللهُ عَلَهُنَّ ایسا ہی بہت سے صحابہ نے شہادت دی ہے.پس تو وَكَذَلِكَ كَثِيرٌ مِن الصَّحَابَةِ فَأَنْتَ خوب جانتا اور سمجھتا ہے کہ معراج کا واقعہ اور چیز ہے.تَعْلَمُ وَتَفَهَمُ أَنَّ قِصَّةَ الْمِعْرَاج شيئ الخَرُ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمانوں پر چڑھنے کے لَا يُضَاهِيْهِ قِصَّةُ صُعُودِ عِیسَی عَلَيْهِ واقعہ کی اس سے کوئی مشابہت نہیں.اور اگر تمہیں اس السَّلَامُ إِلَى السَّمَاءِ ، وَإِنْ كُنْتَ نَشْكُ فِيهِ بارے میں کوئی شک ہو تو صحیح بخاری کی طرف رجوع کرو فَارْجِعْ إِلَى الْبُخَارِى وَمَا أَظُنُّ أَنْ تَبْقَى اور میں خیال کرتا ہوں کہ اس کے بعد تم شک کرنے بَعْدَهُ مِنَ الْمُرْتَابِينَ والوں میں نہیں رہو گے.(ترجمہ از مرتب ) حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۲۰،۲۱۹) قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُبُحْنَ الَّذِى أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچادیا.پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام

Page 125

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة بنی اسراءیل کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصٰی سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیاں میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے.مُبَارِكَ وَ مُبَارَكَ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ تُجْعَلُ فِيهِ.اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَكْنَا حَوْلَهُ کے 1129 مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیاں کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سُبحن الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِی بُرَكْنَا حَوْلَهُ.اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے.مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تا آپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہو اور نیز ثابت ہو کہ سیبھی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جو آپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں.اسی وجہ سے صحیح ایک طور سے آپ ہی کا روپ ہے.اور وہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک سیر فرما ہوئے وہ مسجد اقصٰی یہی ہے جو قادیاں میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے.یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اور روحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اور کمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بطور موہبت ہیں اور جیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اور حضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے.پس اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج میں زمانہ گذشتہ کی طرف صعود ہے اور زمانہ آئندہ کی طرف نزول ہے اور ماحصل اس معراج کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین والا خرین ہیں.معراج جو مسجد الحرام سے شروع ہوا اس میں یہ اشارہ ہے کہ صفی اللہ آدم کے تمام کمالات اور ابراہیم خلیل اللہ کے تمام کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے اور پھر اس جگہ سے قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکانی سیر کے طور پر بیت المقدس کی طرف گیا اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام اسرائیلی نبیوں کے کمالات بھی موجود ہیں.اور پھر اس جگہ سے قدم آنجناب علیہ السلام زمانی سیر کے طور پر اس مسجد اقصٰی تک گیا جو مسیح موعود کی مسجد ہے یعنی کشفی نظر اس آخری زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے پہنچ

Page 126

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة بنی اسراءیل گئی.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو کچھ مسیح موعود کو دیا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود ہے.اور پھر قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی سیر کے طور پر اوپر کی طرف گیا اور مرتبہ قَابَ قَوْسَيْن کا پایا.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر صفات الہیہ اتم اور اکمل طور پر تھے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قسم کا معراج یعنی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جوز مانی مکانی دونوں رنگ کی سی تھی اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف ایک سیر تھا جو مکان اور زمان دونوں سے پاک تھا.اس جدید طرز کی معراج سے غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین والآخرین ہیں اور نیز خدا تعالیٰ کی طرف سیران کا اس نقطہ ارتفاع پر ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی انسان کو گنجائش نہیں.مگر اس حاشیہ میں ہماری صرف یہ غرض ہے کہ جیسا کہ آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں کشفی طور پر لکھا گیا تھا کہ قرآن شریف میں قادیاں کا ذکر ہے.یہ کشف نہایت صحیح اور درست تھا کیونکہ زمانی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج اور مسجد اقصیٰ کی طرف سیر مسجد الحرام سے شروع ہو کر یہ کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا جب تک ایسی مسجد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر تسلیم نہ کیا جائے جو باعتبار بعد زمانہ کے مسجد اقصٰی ہو.اور ظاہر ہے کہ مسیح موعود کا وہ زمانہ ہے جو اسلامی سمندر کا بمقابلہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرا کنارہ ہے ابتدا سیر کا جو مسجد الحرام سے بیان کیا گیا اور انتہا سیر کا جو اس بہت دُور مسجد تک مقرر کیا گیا جس کے ارد گرد کو برکت دی گئی.یہ برکت دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شوکتِ اسلام ظاہر کی گئی اور حرام کیا گیا کہ کفار کا دست تعدی اسلام کو مٹادے جیسا کہ آیت وَ مَنْ دَخَلَه كَانَ آمِنًا (ال عمران : ۹۸) سے ظاہر ہے.لیکن زمانہ مسیح موعود میں جس کا دوسرا نام مہدی بھی ہے تمام قوموں پر اسلام کی برکتیں ثابت کی جائیں گی اور دکھلایا جائے گا کہ ایک اسلام ہی بابرکت مذہب ہے جیسا کہ بیان کیا گیا کہ وہ ایسا برکات کا زمانہ ہوگا کہ دنیا میں صلح کاری کی برکت پھیلے گی اور آسمان اپنے نشانوں کے ساتھ برکتیں دکھلائے گا اور زمین میں طرح طرح کے پھلوں کے دستیاب ہونے اور طرح طرح کے آراموں سے اس قدر برکتیں پھیل جائیں گی جو اس سے پہلے کبھی نہیں پھیلی ہوں گی.اسی وجہ سے مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کا نام احادیث میں زمان البرکات ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہزار ہانی ایجادوں نے کیسی زمین پر برکتیں اور آرام پھیلا دیئے ہیں کیونکہ ریل کے ذریعہ سے مشرق اور مغرب کے میوے ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں اور تار کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں کی خبریں پہنچ جاتی ہیں.سفر کی وہ تمام مصیبتیں یکدفعہ دور ہوگئیں جو پہلے زمانوں میں تھیں.

Page 127

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة بنی اسراءیل غرض اس زمانہ کا نام جس میں ہم ہیں زمان البرکات ہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ زمان التائیدات اور دفع الآفات تھا اور اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا بھاری مقصد دفع شر تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُس زمانہ میں اسلام کو اپنے قومی ہاتھ سے دشمنوں سے بچایا اور دشمنوں کو یوں ہا تک دیا جیسا کہ ایک مرد مضبوط اپنی لاٹھی سے کتوں کو ہانک دیتا ہے.پس چونکہ مسیح اور مہدی موعود کا زمانہ زمان البرکات تھا اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس کے حق میں فرما یا بركنا حوله یعنی مسیح موعود کی فرودگاہ کے ارد گرد جہاں نظر ڈالو گے ہر طرف سے برکتیں نظر آئیں گی چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ زمین کیسی آباد ہوگئی باغ کیسے بکثرت ہو گئے نہریں کیسی بکثرت جاری ہوگئیں تمدنی آرام کی چیز میں کیسی کثرت سے موجود ہو گئیں.پس یہ زمینی برکات ہیں.اور جیسے اس زمانہ میں زمینی اور آسمانی برکتیں بکثرت ، ظاہر ہوگئی ہیں ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تائیدات کا بھی ایک دریا چل رہا تھا.فَحَاصِلُ الْبَيَانِ أَنَّ الزَّمَانَ زَمَانَانِ خلاصہ بیان یہ ہے کہ زمانہ کے دوحصے ہیں (۱) زَمَانُ التَّائِيْدَاتِ وَدَفْعُ الْأَفَاتِ وَ زَمَانُ تائیدات اور آفات کے دور کرنے کا زمانہ (۲) برکات اور الْبَرَكَاتِ وَالطَّيِّبَاتِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ عَزّ پاکیزہ تعلیمات کے پھیلانے کا زمانہ.اس کی طرف اسْمُهُ بِقَوْلِهِ سُبُحْنَ الَّذِى اسرى بِعَبْدِ؟ خداوند تعالیٰ نے اپنے قول سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِى الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ فَاعْلَمُ أَنَّ لَفَظَ الْمَسْجِدِ بُرَكْنَا حَوْلَہ میں اشارہ فرمایا ہے سو جاننا چاہیے کہ المسجد الْحَرَامِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى يَدُلُّ عَلَى زَمَانٍ فِيْهِ الحرام کا لفظ اس آیت میں اس زمانہ پر دلالت کرتا ہے جس ظَهَرَتْ عِزَّةُ حُرُمَاتِ اللهِ بِتائید من الله میں اللہ تعالیٰ کی محرمات کی عزت و احترام اللہ کی تائید وَظَهَرَتْ عِزَّةُ حُدُودِهِ وَاحْكامِه و سے ظاہر ہوئی اور اس کے مقرر کردہ حدود، احکام اور فرائض فَرَائِضِهِ وَتَرَاءَتْ شَوْكَةُ دِيْبِهِ وَرُغبُ کا جلال ظاہر ہوا اور اس کے دین کی شوکت اور اس کی ملت مِلَّتِهِ وَهُوَ زَمَانُ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ کا رعب صاف نظر آ گیا اور یہ زمانہ ہمارے نبی صلی اللہ وَسَلَّمَ.وَالْمَسْجِدُ الحَرامُ الْبَيْتُ الَّذِی علیہ وسلم کا زمانہ ہے.اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وہ گھر ہے جس کو بَنَاهُ إبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي مَكَّةَ وَهُوَ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ شریف میں تعمیر کیا اور وہ مَوْجُودُ إِلى هَذَا الْوَقْتِ حَرَسَهُ اللهُ مِنْ اس وقت تک موجود ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر آفت سے محفوظ

Page 128

سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كُلِ أَفَةٍ وَأَمَّا قَوْلُهُ عَزَّ اسْمُهُ بَعْد هذا رکھے.آیت میں الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کے بعد کا حصہ یعنی الْقَوْلِ اَغْنِى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ اس زمانہ پر دلالت فَيَدُلُّ عَلى زَمَانٍ فِيْهِ يَظْهَرُ بَرَكَاتُ في کرتا ہے جس میں زمین پر ہر جہت سے برکات کا ظہور الْأَرْضِ مِنْ كُلِّ جِهَةٍ كَمَا ذَكَرْنَاهُ انِفًا ہوگا جیسا کہ ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں اور یہ مسیح موعود وَهُوَ زَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَالْمَهْدِي اور مہدی معہود کا زمانہ ہے.اور مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے الْمَعْهُودِ وَالْمَسْجِدُ الْأَقْضى هُوَ الْمَسْجِدُ جس کو مسیح موعود نے قادیان میں بنایا.اسے اقصیٰ (یعنی الَّذِي بَنَاهُ الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ فِي الْقَادِيَانِ دور والی ) مسجد اس لئے قرار دیا گیا کہ وہ زمانہ نبوت سُمِّيَ أَقْصَى لِبُعْدِهِ مِنْ زَمَانِ النُّبُوَّةِ وَلِمَا سے دور ہے اور ابتدائے اسلام کے زمانہ سے ایک وَقَعَ فِي أَقْضَى طَرَفٍ مِنْ زَمَنِ ابْتِدَاء طرف واقع ہے.پس تو اس مقام پر غور کر کیونکہ اس الْإِسْلَامِ فَتَدَبَّرُ هَذَا الْمَقَامَ فَإِنَّهُ أُوْدِعَ میں خدائے علام الغیوب کی طرف سے بہت سے راز إسْرَارًا مِّنَ اللهِ الْعَلَامِ ودیعت کئے گئے ہیں.(ترجمہ از مرتب) خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج تین قسم پر منقسم ہے.سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لا مکانی ولا زمانی.سیر مکانی میں اشارہ ہے طرف غلبہ اور فتوحات پر یعنی یہ اشارہ کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا.اور سیر زمانی میں اشارہ ہے طرف تعلیمات اور تاثیرات کے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہوگا جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة : ۴) اور سیر لامکانی ولا زمانی میں اشارہ ہے طرف اعلیٰ درجہ کے تقرب اللہ اور مدانات کی جس پر دائرہ امکان قرب کا ختم ہے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۵ تا ۲۶ حاشیه ) وَ إِنَّ في لفظ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَلَفظ مسجد حرام کے لفظ میں اور مسجد اقصیٰ کے لفظ میں الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِى جُعِلَ مِنْ وَصْفِهِ جس کے وصف میں بَارَكْنَا حَوْلَهُ مذکور ہوا ہے جُمْلَةُ بَارَكْنَا حَوْلَهُ إِشَارَةً لَّطِيفَةً لطیف اشارہ ہے ان کے لئے جو فکر کرتے ہیں اور وہ لِلْمُتَفَكِّرِيْنَ وَهُوَ أَنَّ لَفَظَ الْحَرَامِ يَدلُّ یہ ہے کہ لفظ حرام ظاہر کرتا ہے کہ کافروں پر یہ بات

Page 129

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+1 سورة بنی اسراءیل عَلى أَنَّ الْكَافِرِينَ قَدْ حُرِّمَ عَلَيْهِمْ فِي زَمَن حرام کی گئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَامُ أَنْ يَضُرُّوا الدِّينَ میں دین کو فریب اور حیلوں سے ضرر پہنچائیں یا بِالْمَكَائِدِ أَوْ يَأْتُوهُ كَالصَّائِدِ، وَعَصَمَ اللهُ نَبِيَّه شکاریوں کی طرح اس پر برس پڑیں اور خدا نے اپنے وَدِينَهُ وَبَيْتَهُ مِنْ صَوْلِ الضَّائِلِينَ وَجَوْرِ نبی کو اور اپنے دین اور اپنے گھر کو حملہ آوروں کے حملہ الْجَائِرِينَ.وَمَا اسْتَأَصَلَ اللهُ فِي ذَالِكَ الزَّمَنِ سے اور بیداد گروں کے بیداد سے بچائے رکھا اور اس أَعْدَاء الدين على الاستيْصَالِ، وَلكِن حَفِظ زمانہ میں دین کے دشمنوں کو جیسا کہ چاہئے تھا جڑ سے الدين من صَوْلِهِمْ وَحَرَّمَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَغْلِبُوا نہیں اکھاڑا لیکن دین کو ان کے حملہ سے محفوظ رکھا اور عِندَ الْقِتَالِ قبلة أَمْرُ تَأْبِيْدِ الدِّينِ من حرام کر دیا کہ لڑائی میں غالب رہیں.پس دین کی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَعْنِى مِن ذَبْ الْعَامِ، ثُمَّ تائید کا امر مسجد حرام سے یعنی لیموں کے دفع کرنے يَيم هذَا الْأَمْرُ عَلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِى سے شروع ہوا پھر یہ امر مسجد اقصیٰ پر تمام ہو گا.یہ وہ يَبْلُغُ فِيهِ نُورُ الدِّينِ إِلى أَقْصَى الْمَقَامِ مسجد ہے جس میں دین کا نور اقصیٰ کے مقام تک كَالْبَدْرِ الثَّامِ، وَيَلْزَمُهُ كُلُّ بَرَكَةٍ يُتَوَقِّعُ پورے چاند کی طرح پہنچے گا اور ہر ایک برکت جو ایسے وَيُتَصَوَّرُ عِنْدَ كَمَالٍ لَّيْسَ فَوْقَهُ كَمَال کمال کے وقت میں جس کے اوپر کوئی کمال نہ ہو تصور وَهَذَا وَعْد من الله الْعَلامِ.فَكَانَ الْمَسْجِدُ میں آوے اس کے لازم حال ہوتی ہے اور یہ خدائے علیم الحَرَامُ يُبَيِّرُ بِدَفْعِ القير والحفظ من کا وعدہ ہے پس مسجد حرام شر کے دور ہونے اور الشَّرِ وَالْحِفْظُ الْمَكْرُوهَاتِ، وَأَمَّا الْمَسْجِدُ الْأَقْضَى فَيُشيرُ مکروہات سے محفوظ رہنے کا مردہ دیتی ہے لیکن مسجد مَفْهُومُهُ إِلى تَحْصِيلِ الْخَيْرَاتِ وَأَنْوَاعِ اقصیٰ کا مفہوم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ الْبَرَكَاتِ وَالْوُصُولِ إِلى أَعلَى التَّرَقِيَّاتِ رنگ برنگ کے برکات اور خیرات اور ترقیات عالیہ فَبُدِ أَمْرُ دِينِنَا مِنْ دَفْعِ الضَّيْرِ، وَيَتِمُّ عَلَى حاصل ہوں.پس ہمارے دین کا امر دفع ضرر سے استكمال الخير وَإِنَّ فِيهِ آيَاتٍ شروع ہوا اور خیر کی تکمیل پر تمام ہوگا اور اس بیان میں لِلْمُتَدَرِينَ ثُمَّ إِنَّ ايَةَ الإِسْتَرَاء تَدُلُّ عَلى غور کرنے والوں کے لئے نشان ہیں.پھر اسرٹی کی نُكْتَةٍ وَجَبَ ذِكْرُهَا لِلأَصْدِقَاءِ لِيَزْدَادُوا آیت ایک عجیب نکتہ رکھتی ہے کہ اس کا ذکر عِلْمًا وَيَقِيْنَا، فَإِنَّ خَيْرَ الْأَمْوَالِ الْعِلْمُ دوستوں کے لئے ضروری ہے تا علم اور یقین زیادہ ہو

Page 130

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ سورة بنی اسراءیل وَالْيَقِينُ، وَهُوَ أَنَّ الْإِسْرَاءَ مِنْ حَيْثُ الزَّمَانِ اور خوب ظاہر ہے کہ سب سے بہترین مال اور دولت كَانَ وَاجِبًا كَوُجُوبِ الْإِسْرَاء مِنْ حَيْثُ علم اور یقین ہے اور وہ یہ کہ اسری زمان اور مکان کی الْمَكَانِ، لِيَتِمَّ سَيْرُ نَبَيْنَا زَمَانًا وَمَكَانًا حیثیت سے دونوں طرح واجب اور لازم تھا اس وَلِيَكُمُل أَمْرُ مِعْرَاجِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَلَا جہت سے کہ ہمارے نبی کا سیر زمان اور مکان کے شَكَ أَنَّ أَقْصَى الزَّمَانِ لِلْمِعْرَاجِ الزَّمَانِي هُوَ رو سے تمام ہو اور معراج کا امر کامل ہو اور اس میں زَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَهُوَ زَمَانُ كَمَالِ شک نہیں کہ نبی کریم کے زمانی معراج کے لئے البَرَكَاتِ وَيَقْبَلُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ مِنْ غَيْرِ الْجُعُوْدِ انتہائی زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور وہ برکات کے وَلَا شَكَ أَنَّ مَسْجِد الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ هُوَ کمال کا زمانہ ہے اور اس کو ہر ایک مومن بغیر انکار أَقْصَى الْمَسَاجِدِ مِنْ حَيْثُ الزَّمَانِ مِنَ کے قبول کر سکتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ مسیح الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَقَدْ مُلأُ مِنْ كُلِّ جَنْبِ بَرَكَةً موعود کی مسجد مسجد حرام کی نسبت سے زمانہ کی حیثیت وَنُورًا كَالْبَدْرِ الثَّاقِ، لِيَكُمُلَ بِهِ دَائِرَةُ الدِّينِ سے اقصیٰ مسجد ہے اور یقینا اس مسجد کا ہر ایک پہلو فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بُدِءَ كَالْهَلَالِ مِنَ الْمَسْجِدِ برکت اور نور سے پورے چاند کی طرح بھر گیا ہے الْحَرَامِ، ثُمَّ صَارَ فَمَرًا تَأَمَّا عِنْدَ بُلُوغِهِ إِلَى تاکہ اس کے وسیلہ سے دین کا دائرہ کامل ہو جائے الْمَسْجِدِ الْأَقْضى وَلِذَالِكَ ظَهَرَ الْمَسِيحُ فی کیونکہ اسلام بلال کی مانند مسجد حرام سے ظاہر ہوا عِدَّةِ البَدْرِ إِشَارَةٌ إلى هَذَا الْمَقَامِ ثُمَّ هُنَا پھر جب مسجد اقصیٰ تک پہنچا بدر کامل ہو گیا اسی لئے دَلِيلٌ آخَرُ عَلى وُجُوبِ الإِسْترَاءِ الزَّمَانِي مِن مسیح موعود بدر کے شمار میں ظاہر ہوا.پھر دوسری دلیل الْأَمْرِ الرَّيَّانِي وَهُوَ أَنَّ اللهَ تَعَالَى قَدْ أَشَارَ في اسراء زمانی کے وجوب پر یہ ہے کہ حق تعالی اخرین قَوْلِهِ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ إِلى مِنْهُمْ کے قول میں اشارہ فرماتا ہے کہ مسیح موعود کی لے ،، أَنَّ جَمَاعَةَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ عِنْدَ اللهِ مِنَ جماعت خدا کے نزدیک صحابہ کی ایک جماعت ہے الصَّحَابَةِ مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ فِي التَّسْمِيَةِ، وَلَا اور اس نام رکھنے میں کچھ فرق نہیں اور یہ مرتبہ مسیح کی يَتَحَقَّقُ هَذِهِ الْمَرْتَبَةُ لَهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ جماعت کو ہرگز حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ نبی کریم النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ بِقُوَّتِهِ صلى اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان قدسی قوت اور الجمعة : ۴

Page 131

سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْقُدْسِيَّةِ وَالْإِفَاضَةِ الرُّوحَانِيَّةِ كَمَا كَانَ فِي اپنے روحانی افاضہ کے ساتھ موجود نہ ہوں جیسا کہ الصَّحَابَةِ أَغْنِى بِوَاسِطَةِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ صحابہ کے اندر موجود تھے یعنی مسیح موعود کے واسطہ الَّذِى هُوَ مَظْهَرُ لَّهُ أَوْ كَالْحُلَّةِ فَقَد ثَبَتَ مِنْ سے کیونکہ وہ نبی کریم کا مظہر یا آنجناب کے لئے حلہ هذَا النَّضِ الطَّرِيح مِنَ الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ أَنَّ کی مانند ہے پس اس نص صریح سے ظاہر ہوا کہ مِعْرَاجَ نَبِيَّنَا كَمَا كَانَ مَكَانِيًّا كَذَالِكَ كَانَ ہمارے نبی کا معراج مکانی اور زمانی دونوں طرح زَمَانِيًّا، وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا الَّذِي فَقَدَ بَصَرَهُ وَصَارَ سے تھا اور اس نکتہ کا سوائے اندھے کے اور کوئی مِنَ الْعَبِينَ وَلَا شَكَ وَلَا رَيْبَ أَنَّ الْمِعْرَاجَ انکار نہیں کرتا اور شک نہیں کہ اس آیت کا مفہوم الزَّمَانِي كَانَ وَاجِبًا تَحْقِيقًا لِمَفهُوْمِ هَذِهِ الْآيَةِ واجباً معراج زمانی کو چاہتا تھا اور اگر وہ متفق نہ ہوتا وَلَوْ لَمْ يَكُن لَّبَطَلَ مَفَهُوَمُهَا كَمَا لا يخفى على تو اس آیت کا مفہوم باطل ہو جا تا چنانچہ اس نکتہ کو أَهْلِ الْفِكْرِ وَالدِّرَايَةِ، فَثَبَتَ مِنْ هَذَا أَنَ اہل فکر اور غور سمجھتے ہیں.پس یہاں سے ثابت ہوا الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ مَظْهَرُ لِلْحَقِيقَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ - مسیح موعود محمدی حقیقت کا مظہر ہے اور جلالی حلوں وَنَازِلٌ فِي الْحُلَلِ الْجَلالِيَّةِ، فَلِذَالِكَ عُدَّ ظُهُورُة میں نازل ہوا ہے اسی لئے خدا کے نزدیک اس کا ظہور عِنْدَ اللهِ ظُهُورَ نَبِيَّهِ الْمُصْطَفى، وَعُدَّ زَمَانُه نبی مصطفی کا ظہور مانا گیا ہے اور اس کا زمانہ رسول کریم مُنْتَهَى الْمِعْرَاجِ الزَّمَانِي لِلرَّسُوْلِ الْمُجْتَنِي کے زمانی معراج کا منتہا اور خیر الورٹی کی روحانی وَكَانَ هَذَا وَعْدًا مُؤكدًا مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ.وَمُنْتَهى تَجَلَّى رُوحَانِيَّةِ سَيِّدِنَا خَيْرِ الْوَرى تجلی کا آخری سرا شمار کیا گیا ہے اور جہان کے (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۸۹ تا ۲۹۷ حاشیه پروردگار کا یہ پختہ وعدہ تھا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) معراج کے لئے رات اس لئے مقرر کی گئی کہ معراج کشف کی قسم تھا.اور کشف اور خواب کے لئے رات موزوں ہے.اگر یہ بیداری کا معاملہ ہوتا تو دن موزوں ہوتا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۰ حاشیہ ) فَإِنَّ الْمِعْرَاجَ عَلَى الْمَذْهَبِ الصَّحِيحِ كَانَ | معراج کے بارے میں صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ كَشَفًا لَّطِيْفًا مَعَ الْيَقْظَةِ الرُّوحَانِيَّةِ كَمَا لاَ ایک لطیف کشف تھا جو روحانی بیداری کی حالت میں يخفى عَلَى الْعَقْلِ الْوَهَّاجِ وَمَاصَعِدَ إِلَى ہوا جیسا کہ روشن عقل کے لئے واضح ہے.اور آسمان السَّمَاءِ الْارُوْحُ سَيّدِنَا وَلَبِيْنَا مَعَ جِسم کی طرف صرف ہمارے آقا اور نبی صلعم کی روح

Page 132

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة بنی اسراءیل تُورَانِي الَّذِي هُوَ غَيْرُ الْجِسْمِ الْعُنصري نورانی جسم کے ساتھ صعود فرما ہوئی تھی.نورانی جسم وہ ہے جو الَّذِي مَا خُلِقَ مِنَ القُرْبَةِ وَمَا كَانَ مادی جسم کے علاوہ ہے جو مٹی سے پیدا نہیں ہوا اور مادی اور لِحِسْمٍ أَرْضِي أَنْ تُرْفَعَ إِلَى السَّمَاءِ وَعُد جسمانی جسم کے لئے روانہیں کہ اسے آسمان کی طرف اٹھایا مِنَّا لِلهِ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْعِزَّةِ وَإِنْ كُنْتَ جائے.یہ خدائے قادر وعزیز کا وعدہ ہے اور اگر تمہیں اس في رَيْبٍ فَاقْرَأْ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانا بارے میں شک ہو تو آیت کریمہ اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ احيَاء وَ امْوَانال يفانا احيَاء وَ اَمْوَاتًا کو پڑھو.( ترجمہ از مرتب ) الهدى ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۴) معراج انقطاع تام تھا اور سر اس میں یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقط نفسی کو ظاہر کیا جاوے آسمان پر ہر ایک روح کے لئے ایک نقطہ ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہ نفسی عرش تھا اور رفیق اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معزز و مکزم نہیں ہے.احکام جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۷ار فروری ۱۹۰۱ ، صفحہ ۷ ) معراج ہوئی تھی مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی بلکہ وہ اور رنگ تھا.جبرائیل بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا جس رنگ میں اس کا اتر نا تھا اسی رنگ میں آنحضرت کا چڑھنا ہوا تھا.نہ اترنے والا کسی کو اتر تا نظر آتا تھا اور نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا.حدیث شریف میں جو بخاری ہے میں آیا ہے کہ ثُمَّ اسْتَيْقَظ یعنی پھر جاگ اُٹھے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِہ سے یہی پایا جاتا ہے کہ جب کامل معرفت ہوتی ہے تو پھر اس کو عجیب و غریب مقامات کی سیر کرائی جاتی ہے اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ادب سے اپنی خواہشوں کو مخفی رکھتے ہیں.تمام منہاج نبوت اسی پر دلالت کرتا ہے.پہلے نشان بھی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ابتلا ہوتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹) ہماری اس مسجد کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے کیونکہ اقصیٰ یا با عتبار بعد زمانہ کے ہوتا ہے اور یا بُعد مکان کے لحاظ سے اور اس الہام میں الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِى بُرَكْنَا حَوْلَہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات زمانی کو لیا ہے اور اس کی تائید و آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم ( الجمعة : ۴) سے بھی ہوتی ہے اور المرسلات : ۲۷،۲۶

Page 133

۱۰۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ بنی اسراءیل بركنا حوله کا اس زمانہ کی برکات سے ثبوت ملتا ہے جیسے ریل اور جہازوں کے ذریعہ سفروں کی آسانی اور تار اور ڈاک خانہ کے ذریعہ سلسلہ رسل در سائل کی سہولت اور ہر قسم کے آرام و آسائش قسم قسم کی کلوں کے اجرا سے ہوتے جاتے ہیں اور سلطنت بھی ایک امن کی سلطنت ہے.(احکام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد بھی ہے اور اس لئے خدا نے عہد نام رکھا کہ اصل عبودیت کا خضوع اور ذلت ہے اور عبودیت کی حالت کا ملہ وہ ہے جس میں کسی قسم کا غلو اور بلندی اور تعجب ندر ہے اور صاحب اس حالت کا اپنی عملی تکمیل محض خدا کی طرف سے دیکھے اور کوئی ہاتھ درمیان نہ دیکھے.عرب کا محاورہ ہے کہ وہ کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّد وَ طَرِيقٌ مُعبد جہاں راہ نہایت درست اور نرم اور سیدھا کیا جاتا ہے اس راہ کو طریق معبد کہتے ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے عبد کہلاتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے تصرف اور تعلیم سے اُن میں عملی کمال پیدا کیا اور ان کے نفس کو راہ کی طرح اپنی تجلیات کے گزر کے لئے نرم اور سیدھا اور صاف کیا اور اپنے تصرف سے وہ استقامت جو عبودیت کی شرط ہے ان میں پیدا کی.پس وہ علمی حالت کے لحاظ سے مہدی ہیں اور عملی کیفیت کے لحاظ سے جو خدا کے عمل سے ان میں پیدا ہوئی عبد ہیں.کیونکہ خدا نے ان کی رُوح پر اپنے ہاتھ سے وہ کام کیا ہے جو کوٹنے اور ہموار کرنے کے آلات سے اس سڑک پر کیا جاتا ہے جس کو صاف اور ہموار بنانا چاہتے ہیں.اور چونکہ مہدی موعود کو بھی عبودیت کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے حاصل ہوا.اس لئے مہدی موعود میں عبد کے لفظ کی کیفیت غلام کے لفظ سے ظاہر کی گئی یعنی اُس کے نام کو غلام احمد کر کے پکارا گیا.یہ غلام کا لفظ اس عبودیت کو ظاہر کرتا ہے جو ظنی طور پر مہدی موعود میں بھی ہونی چاہیے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۹۵،۳۹۴ حاشیه ) یہ مرتبہ عبودیت کاملہ جو انسان اپنی عملی تکمیل محض خدا تعالیٰ کی طرف سے دیکھے بجز اس مہدی کامل کی جس کی عملی تکمیل تمام و کمال محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہوئی ہو دوسرے کو میسر نہیں آ سکتا کیونکہ اپنی جہد اور کوشش کا اثر ضرور ایک ایسا خیال پیدا کرتا ہے کہ جو عبودیت تامہ کے منافی ہے.اس لئے مرتبہ عبودیت کاملہ بھی بوجہ اس کے جو مرتبہ مہدویت کاملہ کے تابع ہے بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دوسرے کو بوجہ کمال حاصل نہیں.ذلِكَ فَضْلُ الله يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ (المائدة : ۵۵) فَاشْهَدُوا أَنَّا نَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عبد الله وَرَسُوله - ایام صلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۹۴نوٹ ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات اسی جسم کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن شریف اس کو رد کرتا ہے اور حضرت عائشہ بھی رویا کہتی ہیں.

Page 134

1+7 سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا اور اتم اور اکمل تھا.کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور آپ کو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا ہے معراج الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۵) ہوا.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا سو یہ عقید ہ غلط ہے اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا.وہ ایک وجود تھا.مگر نورانی.اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو اور نہ ظاہری جسم اور ظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا (بنی اسرائیل : ۹۴) کہہ دے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں انسان اس طرح اُٹڑ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنت اللہ قدیم سے الحاکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۷ ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۴) جاری ہے.وَقَضَيْنَا إلى بَنِي إِسْرَاوِيْلَ فِي الكِتب لَتُفْسِدُنَ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَ علوا كبيران وَقَالَ اللهُ وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَاءِيلَ خدا تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل في الكتب لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَ سے کہا کہ تم دو دفعہ زمین میں فساد کرو گے اور حد سے نکل لَتَعْلُنَ عُلُوا كَبِيرًا فَهَلْ أَنْتُمْ تَتَذَكَّرُونَ جاؤ گے کیا تمہیں یہ یاد ہے اور وہ دوسروں کا فساد جو خدا وَكَانَ الْمَفْسَدَةُ الْآخِرَةُ الْمُوْجِيَّةُ لِغَضَب کے غضب کا باعث ہوا صحیح کو کافر کہنا اور اس کو سولی الرَّبِ تَكْفِيرَ الْمَسِيحَ وَإِرَادَةَ صَلْبِهِ.دینے کا ارادہ تھا.(ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۰۲) فَإِذَا جَاءَ وَعُد أولهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا

Page 135

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۷ سورة بنی اسراءیل خِلكَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا ) بخت نصر یہودیوں پر مسلط ہوا تھا مگر خدا نے اسے کہیں ملعون نہیں کہا ہے بلکہ عباد نا ہی کہا ہے.یہ خدا کا دستور ہے کہ جب ایک قوم فاسق فاجر ہوتی ہے تو اس پر ایک اور قوم مسلط کر دیتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۲۳ و ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۳) عسى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ ۚ وَ إِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيران خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۱ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ہے.إن هذا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا یہ قرآن اس راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے جو نہایت سیدھی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۴) یہ قرآن اس تعلیم کی ہدایت کرتا ہے جو بہت سیدھی اور بہت کامل ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) یہ قرآن ایک سیدھے اور کامل راہ کی طرف رہبری کرتا ہے یعنی رہبری میں کامل ہے اور رہبری میں جو لوازم ہونے چاہئیں دلائل عقلیہ اور برکات سماویہ میں سے وہ سب اس میں موجود ہیں.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹۸) الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰) وہ سب سے زیادہ سیدھی راہ بتلاتا ہے.یہ قرآن اُس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا بھی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور در حقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم

Page 136

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۸ سورة بنی اسراءیل کی تمام قومی پر محیط ہو رہا ہے اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اُن تمام کمالات کی راہ اُس کو دکھلا دینا اور وہ راہیں اُس کے لئے میسر اور آسان کر دینا جن کے حصول کے لئے اُس کی فطرت میں استعدا در رکھی گئی ہے اور لفظ اقوم سے آیت يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ میں یہی راستی مراد ہے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۴،۵۳) وَجَعَلْنَا اليلَ وَالنَّهَارِ أَيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا ايَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تفصيلات ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہ ہے.رات جو اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دن کے چڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور دن جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو رات کے آنے کی خبر دیتا ہے سو ہم نے رات کا نشان محو کر کے دن کا نشان رہنما بنایا یعنی جب دن چڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اندھیرا تھا.سو دن کا نشان ایسا روشن ہے کہ رات کی حقیقت بھی اسی سے کھلتی ہے اور رات کا نشان یعنی ضلالت کا زمانہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ دن کے نشان یعنی انتشار ہدایت کی خوبی اور زیبائی اس سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت کا قدر ومنزلت بدصورت سے ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے حکمت الہیہ نے یہی چاہا کہ ظلمت اور نور علی سبیل التبادل دنیا میں دور کرتے رہیں.جب نو ر اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ظلمت قدم بڑھاوے.اور جب ظلمت اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے تو پھر نور اپنا پیارا چہرہ دکھاوے سو استیلا ظلمت کا نور کے ظہور پر ایک دلیل ہے اور استیلا نور کا ظلمت کے آنے کا ایک سبیل ہے.ہر کمال را ز والے مثل مشہور ہے سو اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور بر و بحر ظلمت سے بھر گئے تو ہم نے مطابق اپنے قانون قدیم کے نور کے نشان کو ظاہر کیا تا دانشمند لوگ قادر مطلق کی قدرت نمایاں کو ملاحظہ کر کے اپنے یقین اور معرفت کو زیادہ کریں.برائین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۳۵ تا ۷ ۶۳) وَكُلَّ شَيْءٍ فَضَلْنَهُ تَفصيلا - الجز نمبر ۱۵.یعنی اس کتاب میں ہر یک علم دین کو بہ تفصیل تمام کھول دیا

Page 137

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة بنی اسراءیل ہے.اور اس کے ذریعہ سے انسان کی جزئی ترقی نہیں بلکہ یہ وہ وسائل بتلاتا ہے اور ایسے علوم کاملہ تعلیم فرماتا ہے جن سے کلی طور پر ترقی ہو.برائین احمد یه چهار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۵ حاشیہ نمبر ۱۱) اور ہر ایک شے کی تفصیل اس میں موجود ہے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۵۹) وَكُلّ إِنْسَانِ الْزَمَنَهُ طَبِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ كِتبًا يَلْقَهُ منشورات قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے كُلّ اِنْسَانِ الْزَمُنْهُ طَبِرَهُ فِي عُنْقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ كِتبًا يَلْقُهُ مَنْشُورا یعنی ہم نے اسی دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہیں پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے.اور ایک کھلے کھلے اعمال نامہ کی شکل پر دکھلاویں گے.اس آیت میں جو طائر کا لفظ ہے تو واضح ہو کہ طائر اصل میں پرندہ کو کہتے ہیں پھر استعارہ کے طور پر اس سے مراد عمل بھی لیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک عمل نیک ہو یا بد ہو وہ وقوع کے بعد پرندہ کی طرح پرواز کر جاتا ہے اور مشقت یا لذت اس کی کالعدم ہو جاتی ہے اور دل پر اس کی کثافت یا لطافت باقی رہ جاتی ہے.یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتا رہتا ہے جس طور کا انسان کا فعل ہوتا ہے اس کے مناسب حال ایک خدا تعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر، منہ پر ، آنکھوں پر، کانوں پر، ہاتھوں پر، پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمالنامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے طور پر ظاہر ہو جائے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ، قرآن کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا.بلکہ ہرگز جائز نہیں رکھتا کہ ایک کا گناہ یا ایک کی لعنت کسی دوسرے پر ڈالی جائے چہ جائیکہ کروڑہا لوگوں کی لعنتیں اکٹھی کر کے ایک کے گلے میں ڈال دی جائیں.قرآن شریف

Page 138

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11 + صاف فرماتا ہے کہ لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اُخری یعنی ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا.سورة بنی اسراءیل سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۸،۳۲۷) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے کسی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے ماتم کرنے سے مردہ کو تکلیف ہوتی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ قرآن میں تو آیا ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵) کسی کے گناہ سے خدائے تعالیٰ کا کوئی ہرجہ نہیں ہوتا اور گناہ پہلے قانون نازل ہونے کے کچھ وجود نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً یعنی ہم گناہوں پر عذاب نہیں کیا کرتے جب تک رسول نہیں بھیجتے.اور جب رسول آیا اور خیر و شر کا راہ بتلایا تو اس قانون کے وعدوں اور وعیدوں کے موافق عملدرآمد ہو گا کفارہ کی تلاش میں لگنا فنسی کی بات ہے کیا کفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے بلکہ وعدہ وعدہ سے بدلتا ہے اور نہ کسی اور تد بیر سے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۱) ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۳) اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے.اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے.اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - (تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۰) ہم کسی بستی پر غیر معمولی عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم اُن پر اتمام حجت کے لئے ایک رسول نہ بھیج دیں.(تجلیات الهیه، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۱) عادت اللہ ہمیشہ سے اس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں تب اس زمانہ میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے اور کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اُس کا مبعوث ہونا دوسرے شریر لوگوں کی سزادینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے گزشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اُس کے لئے اس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا كُنا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۵،۱۶۴)

Page 139

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ||| سورة بنی اسراءیل خدا تعالی دنیا میں عذاب نازل نہیں کرتا جب تک پہلے اس سے کوئی رسول نہیں بھیجتا یہی سنت اللہ ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۷) اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً.اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۸) اس سے مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں ثابت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص غور اور ایمانداری سے قرآن شریف کو پڑھے گا اُس پر ظاہر ہوگا کہ آخری زمانہ کے سخت عذابوں کے وقت جبکہ اکثر حصے زمین کے زیر وزبر کئے جائیں گے اور سخت طاعون پڑے گی اور ہر ایک پہلو سے موت کا بازار گرم ہوگا اُس وقت ایک رسول کا آنا ضروری ہے جیسا کہ خُدا تعالیٰ نے فرمایا وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک عذاب سے پہلے رسول نہ بھیج دیں پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت میں رسول آئے ہیں جیسا کہ زمانہ کے گزشتہ واقعات سے ثابت ہے تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت میں جو آخری زمانہ کا عذاب ہے اور تمام عالم پر محیط ہونے والا ہے جس کی نسبت تمام نبیوں نے پیشگوئی کی تھی خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ کی لازم آتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹۹) آیت قرآنی وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا سے صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کے قہری عذاب کے نازل ہونے سے پہلے خدا کی طرف سے کوئی رسول ضرور مبعوث ہوتا ہے جو خلقت کو آنے والے عذاب سے ڈراتا ہے اور یہ عذاب اس کی تصدیق کے واسطے قہری نشانات ہوتے ہیں.اس وقت بھی خدا کا ایک رسول تمہارے درمیان ہے جو مدت سے تم کو ان عذابوں کے آنے کی خبر دے رہا ہے.پس سوچو اور ایمان لاؤ تا کہ نجات پاؤ.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۴۱ حاشیه) ہم عذاب نازل نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ جب پہلے رسول آجاوے یعنی دنیا پر عذاب شدید نازل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول آگیا ہے.ہم عذاب نہیں کیا کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھیج دی ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۱۹) (البدرجلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱/ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۱۸)

Page 140

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۲ سورة بنی اسراءیل صاف ایک رسول کی نسبت پیشگوئی معلوم ہوتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا آنا اس زمانہ میں ضروری ہے.یہ کہنا کہ فلاں فلاں رسول کے زمانہ میں یہ یہ عذاب آئے.ان لوگوں کے خیال کے بموجب تو جب کل دنیا میں عذاب شروع ہو گیا اس وقت کوئی رسول نہ آیا تو اس بات کا کیا اعتبار رہا کہ پہلے زمانہ میں جو عذاب آئے تھے ان رسولوں کے انکار سے ہی آئے تھے.کیسی صاف بات تھی کہ آخری زمانہ میں سخت عذاب آئیں گے اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ جب تک رسول مبعوث نہ کر لیں عذاب نہیں بھیجتے ہیں.اس سے بڑھ کر صاف پیشگوئی اور کیا ہوسکتی ہے.الحام جلد نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) قرآن شریف سے تو ثابت ہے کہ کسی ایک گاؤں پر بھی عذاب نہیں آتا جب تک کہ اس سے پہلے خدا کا کوئی رسول نہ آوے.تعجب ہے کہ ایسا عالمگیر عذاب زمین پر پڑ رہا ہے اور ہنوز ان لوگوں کے نزدیک خدا تعالی کی طرف سے کوئی نذیر نہیں آیا اور نہ ان کے نزدیک کسی نذیر کی ضرورت ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱٫۳ کتوبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۶) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اس کو کسی کی پرواہ نہیں.پس جب نبی پیدا ہوتا ہے اور وہ دعائیں کرتا ہے تب ان دعاؤں کے اثر سے عذاب نازل ہوتا ہے اور وہ عذاب اگر چہ گزشتہ گناہوں کی شامت سے ہو مگر نبی کی دعاؤں سے ہوتا ہے اسی طرح اگر چہ کوئی مجھ سے ناواقف اور بے خبر ہو یورپ میں یا امریکہ میں مگر میری دعا ئیں اس کے عذاب کا موجب ہو جاتی ہیں اور وہ عذاب نہیں آتا ہے جب تک میری دعا ئیں اس کو ظاہر نہ کریں یہی معنے ہیں اس آیت کے وَمَا كُنا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا - الفضل جلد نمبر ۲۹ مورخه ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۹) وإذا أَرَدْنَا اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرُنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَ مَرْنَهَا تَد ميران قدیم سے الہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بے باک اور شوخ ہوکر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے.تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکم ہلاکت لکھا جاتا ہے عذاب الہی کے لئے یہی قانون قدیم ہے اور یہی سنت مستمرہ اور

Page 141

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہی غیر تبدل قاعدہ کتاب الہی نے بیان کیا ہے.١١٣ سورة بنی اسراءیل انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۳) دنیوی عذاب کا موجب کفر نہیں ہے بلکہ شرارت ہے اور تکبر میں حد سے زیادہ بڑھ جانا موجب ہے اور ایسا آدمی خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو جب ظلم اور ایذاء اور تکبر میں حد سے بڑھے گا اور عظمت الہی کو بھلا دے گا تو عذاب الہی ضرور اس کی طرف متوجہ ہوگا.اور جب ایک کا فرمسکین صورت رہے گا اور اس کو خوف دامن گیر ہوگا تو گو وہ اپنی مذہبی ضلالت کی وجہ سے جہنم کے لائق ہے مگر عذاب دنیوی اس پر نازل نہیں ہوگا.پس دنیوی عذاب کے لئے یہی ایک قدیم اور مستحکم فلاسفی ہے اور یہی وہ سنت اللہ ہے جس کا ثبوت خدا کی تمام کتابوں سے ملتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ إِذَا أَرَدْنَا أَنْ تُهْلِكَ قَرْيَةٌ آمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَ مَرْنَهَا تَدْمِيرًا - یعنی جب ہمارا ارادہ اس بات کی طرف متعلق ہوتا ہے کہ کسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کریں تو ہم بستی کے منعم اور عیاش لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بدکاریوں میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں.پس ان پر سنت اللہ کا قول ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ظلموں میں انتہا تک پہنچ جاتے ہیں.تب ہم ان کو ایک سخت ہلاکت کے ساتھ ہلاک کر دیتے ہیں.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵) ۱ عذاب الہی جو دنیا میں نازل ہوتا ہے وہ تبھی کسی پر نازل ہوتا ہے کہ جب وہ شرارت اور ظلم اور تکبر اور علو اور غلو میں نہایت کو پہنچ جاتا ہے یہ نہیں کہ ایک کا فرخوف سے مرا جاتا ہے اور پھر بھی عذاب الہی کے لئے اس پر صاعقہ پڑے اور ایک مشرک اندیشہ عذاب سے جان بلب ہو اور پھر بھی اس پر پتھر برسیں.خداوند تعالیٰ نہایت درجہ کا رحیم اور حلیم ہے عذاب کے طور پر صرف اس کو اس دنیا میں پکڑتا ہے جو اپنے ہاتھ سے عذاب کا سامان تیار کرے.انوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۱۶) لَا تَجْعَلْ مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ فَتَقْعُدَ مَنْ مُوْمًا مَخْذُولات خدائے تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدامت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۴) وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ

Page 142

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورۃ بنی اسراءیل الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا اَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أنْ وَ لَا تَنْهَرُهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً گریمان تیرے خدا نے یہ چاہا ہے کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور اپنے ماں باپ سے احسان کرتارہ.(برائین احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونو یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تو اُن کو اُف نہ کر اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۲۴) خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو.حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا.اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا کیسا متکفل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبر گیری کے لئے دو محل پیدا کر دیئے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پر تو محبت کا اُن میں ڈال دیا ہے.مگر یا درکھنا چاہیئے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے اور جب تک قلوب میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کا القا نہ ہو کوئی فرد بشر خواہ دوست ہو یا کوئی برابر درجہ کا ہو یا کوئی حاکم ہو کسی سے محبت نہیں کر سکتا اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفل میں ہر قسم کے دُکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لئے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.روئیداد جلسه دعا، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۶۰۳) فَلَا تَقُل لَّهُما أَي وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام اُمت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہوچکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک منظمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگا نہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے

Page 143

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ سورۃ بنی اسراءیل اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے وَقَضَى رَبُّكَ اَلَا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا یعنی تیرے رب نے چاہا ہے کہ تو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر.اس آیت میں بہت پرستوں کو جو بت کی پوجا کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ بت کچھ چیز نہیں ہیں اور جنوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے.انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی رب ہیں اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۳، ۲۱۴) طرف سے ہے.تیرے رب نے یہ حکم کیا ہے کہ تم فقط میری ہی پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں پس تو اُن کی نسبت کوئی بیزاری کا لفظ منہ پر مت لا اور اُن کو مت جھڑک اور سخت لفظ مت بول اور جب تو اُن سے بات کرے تو تعظیم اور ادب سے کر.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱۰) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمُهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيران اور تذلل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دعا کر کہ اے میرے رب تو ان پر رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۴) اور مہربانی کی راہ سے ان دونوں کے آگے اپنے بازو جھکا دے اور دعا کرتا رہ کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے بچپن کے زمانہ میں رحم کر کے میری پرورش کی.ط (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱۰) رَبِّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُوا صُلِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ

Page 144

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام غَفُوران ١١٦ سورة بنی اسراءیل اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے.اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بعض ایسے مشکلات آگئے تھے کہ دینی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ان کے والدین سے نزاع ہو گئی تھی.بہر حال تم اپنی طرف سے ان کی خیریت اور خبر گیری کے واسطے ہر وقت تیار رہو جب کوئی موقع ملے اسے ہاتھ سے نہ دو.تمہاری نیت کا ثواب تم کو مل رہے گا.اگر محض دین کی وجہ سے اور اللہ کی رضا کو مقدم کرنے کے واسطے والدین سے الگ ہونا پڑا ہے تو یہ ایک مجبوری ہے.اصلاح کو مدنظر رکھو اور نیت کی صحت کا لحاظ رکھو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو.یہ معاملہ کوئی آج نیا نہیں پیش آیا حضرت ابراہیم کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا بہر حال خدا کا حق مقدم ہے پس خدا کو مقدم کرو اور اپنی طرف سے والدین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں لگے رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو اور صحت نیت کا خیال رکھو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) وَاتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّةُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا غریبوں کا حق ادا کرو.مسکینوں کو دو.مسافروں کی خدمت کرو اور فضولیوں سے اپنے تئیں بچاؤ یعنی بیا ہوں شادیوں میں اور طرح طرح کی عیاشی کی جگہوں میں اور لڑکا پیدا ہونے کی رسوم میں جو اسراف سے مال خرچ کیا جاتا ہے اس سے اپنے تئیں بچاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۸) وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خطا كبيران اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہوسکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو.جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا

Page 145

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 112 سورة بنی اسراءیل ہے.زنا کی راہ بہت بری راہ ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لئے سخت اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۲) خطر ناک ہے.b و اوفُوا الكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَ اَحْسَنُ تأويلات جب تم ما پو تو پورا ماہو.جب تم وزن کرو تو پوری اور بے خلل ترازو سے وزن کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا طریق تقویٰ یہ ہے کہ جب تک فراست کا ملہ اور بصیرت صحیحہ حاصل نہ ہو تب تک کسی چیز کے ثبوت یا عدم الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۹) ثبوت کی نسبت حکم نافذ نہ کیا جاوے.بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسا نہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۴) خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أوليكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی.اب دیکھو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے.صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں.ہاں اس وقت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے.(نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۸،۴۲۷) اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جو کسی قوم کے پیشوا کو گالی دینا اس کا اصول نہیں کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہم ان پیغمبروں پر ایمان لائے ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے اور یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر یک قوم میں کوئی نہ

Page 146

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة بنی اسراءیل b کوئی مصلح گزرا ہے اور ہمیں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم پورے علم کے بغیر کسی کی نسبت کوئی رائے ظاہر نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلٌّ أولبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا سو یہ پاک عقائد ہمیں بے جابد زبانیوں اور متعصبانہ نکتہ چینیوں سے محفوظ رکھتے ہیں مگر ہمارے مخالف چونکہ تقویٰ کی راہوں سے بالکل دور اور بے قید اور خلیج الرسن ہیں اور قرآن کریم جو سب سے پیچھے آیا ان کو طبعاً برا معلوم ہوتا ہے لہذا وہ جلد مخش گوئی اور بدزبانی اور توہین کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور سچی باتوں کے مقابل پر افتراؤں سے کام لیتے ہیں.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۹۹٬۹۸) جس بات کا تجھ کو طی علم نہیں دیا گیا.اس بات کا پیروکارمت بن اور یا درکھ کہ کان اور آنکھ اور دل جس قدر اعضاء ہیں ان سب اعضاء سے باز پرس ہوگی.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۹۹) جمیع اعضا کی وضع استقامت پر چلانے کے لئے ایک ایسا کلمہ جامعہ اور پر تہدید بطور تنبیہ و انذار فرمایا جو غافلوں کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہے اور کہا اِنَّ السَّبْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا - یعنی کان اور آنکھ اور دل ایسا ہی تمام اعضا اور قوتیں جو انسان میں موجود ہیں.ان سب کے غیر محل استعمال کرنے سے باز پرس ہوگی اور ہر یک کمی بیشی اور افراط اور تفریط کے بارہ میں سوال کیا جائے گا.اب دیکھو اعضا اور تمام قوتوں کو مجری خیر اور صلاحیت پر چلانے کے لئے کس قدر تصریحات و تاکیدات خدا کے کلام میں موجود ہیں اور کیسے ہر یک عضو کو مرکز اعتدال اور خط استوا پر قائم رکھنے کے لئے بکمال وضاحت بیان فرمایا گیا ہے جس میں کسی نوع کا ابہام و اجمال باقی نہیں رہا.کیا یہ تصریح و تفصیل صحیفہ قدرت کے کسی صفحہ کو پڑھ کر معلوم ہوسکتی ہے.ہرگز نہیں.جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ.برائین احمدیہ چهار خصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۰ حاشیہ نمبر ۱۱) برائین احمدیہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں اور یا درکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۰) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِیہ علم یہاں علم سے مراد یقین ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۶)

Page 147

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 119 سورة بنی اسراءیل.لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلم مراد از علم یقین علم سے مراد یقین ہے فنون کو علم نہیں کہتے.است ظنون را علم نے گویند.ایناں اتباع ظن میکنند.یہ لوگ فن کی اتباع کرتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۵ مورخہ ۷ رفروری ۱۹۰۳ صفحه (۱۴) جس بات کا تجھے علم نہیں اس کے متعلق اپنی زبان نہ کھول.(ترجمه از مرتب) ( بدر جلد نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ ء صفحہ ۷) مخالفوں کا تو یہ فرض تھا کہ وہ حسن ظنی سے کام لیتے اور لا تقفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پر عمل کرتے مگر انہوں نے جلد بازی سے کام لیا.یادرکھو پہلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں.عقلمند وہ ہے جو مخالفت کر کے بھی جب اسے معلوم ہو کہ وہ غلطی پر تھا اسے چھوڑ دے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) جس بات کا علم نہیں خواہ نخواہ اس کی پیروی مت کرو کیونکہ کان، آنکھ، دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاوے گا.بہت سی بدیاں صرف بدلنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں.ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کر لیا یہ بہت بری بات ہے جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو.یہ اصل بدظنی کو دور کرنے کے لئے ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۶ ء صفحه ۳) تم قال اللہ اور قال الرسول پر عمل کرو اور ایسی باتیں زبان پر نہ لاؤ جن کا تمہیں علم نہیں.و الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۳) اگران میں خوف خدا ہوتا اور یہ تقویٰ سے کام لیتے اور لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پر عمل کرتے اور میری باتوں کو غور سے سنتے اور پھر ان پر فکر کرتے اس کے بعد حق تھا جو چاہتے کہتے مگر انہوں نے اس کی پروانہ کی اور خدا کے خوف سے نہ ڈرے جو منہ میں آیا کہہ گزرے.(احکم جلد 9 نمبر ۴۰ مورخه ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَ إِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے خدا کی تقدیس کرتے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی تقدیس نہیں کرتی پر تم ان کی تقدیسوں کو سمجھتے نہیں یعنی زمین آسمان پر نظر غور کرنے سے خدا کا کامل اور مقدس ہونا اور بیٹیوں اور شریکوں سے پاک ہونا ثابت ہو رہا ہے مگر ان کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں.بر این احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)

Page 148

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۰ سورة بنی اسراءیل اور کوئی چیز نہیں جو خدا کی حمدو ثنا میں مشغول نہیں ہر ایک چیز اس کے ذکر میں لگی ہوئی ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۱) ہر یک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے ایک غور کرنے والا انسان ضرور اس بات کو قبول کر لے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۹۶، ۲۹۷) وہ خدا جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قہری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیت ريمه اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (الاعراف :۱۷۳) کے ہر یک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے اس کی طرف جھکنے کے لئے ہر یک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہر یک چیز کا خالق ہے کیونکہ نو ر قلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف نے اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اِن مِّنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بحمدہ یعنی ہر یک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے.اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے.ایک غور کرنے والا انسان ضرور اس بات کو قبول کر لے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے.(رسالہ معیار المذاہب، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۸۶، ۴۸۷) ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ ان میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے پہاڑ اُس کے ذکر میں مشغول ہیں دریا اُس کے ذکر میں مشغول ہیں درخت اُس کے ذکر میں مشغول ہیں اور بہت سے راستباز اُس کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر رہے ہیں یہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اُس کی اطاعت کر رہی ہے ایک پتہ بھی بجز اُس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کی تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اُس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور

Page 149

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۱ سورۃ بنی اسراءیل دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۲، ۳۳) مشغول ہیں.خدا تعالیٰ نے جو ملائکہ کی تعریف کی ہے وہ ہر ایک ذرہ ذرہ پر صادق آسکتی ہے جیسے فرمایا: ان من شَيْءٍ الا يُسَبِّحْ بِحَمدِ...ہر ایک ذرہ ملائکہ میں داخل ہے.الحکم جلد نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹) یہ ہوا ، پانی ، آگ وغیرہ بھی ایک طرح کے ملائکہ ہی ہیں.ہاں بڑے بڑے ملائکہ وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا.مگر اس کے سوا باقی اشیاء مفید بھی ملائکہ ہی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جہاں فرماتا ہے کہ وَ اِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ الخ یعنی کل اشیاء خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں.تسبیح کے معنے یہی ہیں کہ جو خدا ان کو حکم کرتا ہے اور جس طرح اس کا منشا ہوتا ہے وہ اسی طرح کرتے ہیں اور ہر ایک امر اس کے ارادے اور منشا سے واقع ہوتا ہے.اتفاقی طور سے دنیا میں کوئی چیز نہیں اگر خدا تعالیٰ کا ذرہ ذرہ پر تصرف تام اور اقتدار نہ ہو تو وہ خدا ہی کیا ہوا اور دعا کی قبولیت کی اس سے کیا امید ہو سکتی ہے درحقیقت یہی ہے کہ وہ ہوا کو جدھر چاہے اور جب چاہے چلا سکتا ہے اور جب ارادہ کرے بند کر سکتا ہے.اس کے ہاتھ میں پانی اور پانیوں کے سمندر ہیں جب چاہے جوش زن کر دے اور جب چاہے ساکن کر دے.وہ ذرہ ذرہ پر قادر اور مقتدر خدا ہے اس کے تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں.وہ جنہوں نے دعا سے انکار ہی کر دیا ہے ان کو بھی یہی مشکلات پیش آئے ہیں کہ انہوں نے خدا کو ہر ذرہ پر قادر مطلق نہ جانا اور اکثر واقعات کو اتفاقی مانا.اتفاق کچھ بھی نہیں بلکہ جو ہوتا ہے اور اگر پتہ بھی درخت سے گرتا ہے تو وہ بھی خدا کے ارادے اور حکمت سے گرتا ہے اور یہ سب ملائکہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے اشارے سے کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں جو خدا کے بچے فرماں بردار اور اس کی رضا کے خواہاں ہوتے ہیں.جو خدا کا بن جاتا ہے اسے خدا سب کچھ عطا کرتا ہے.جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو مَنْ كَانَ لِلَّهِ كَانَ اللهُ لَهُ پھر ایسے مرتبے کے بعد انسان کو وہ رعیت ملتی ہے کہ باغی نہیں ہوتی.دنیوی

Page 150

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۲ سورة بنی اسراءیل بادشاہوں کی رعیت تو باغی بھی ہو جاتی ہے مگر ملائکہ کی رعیت ایک ایسی رعیت ہے کہ وہ باغی نہیں ہوتی.القام جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۷،۶) جو لوگ ملائک سے انکار کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ان کو اتنا معلوم نہیں کہ در اصل جس قدر اشیا دنیا میں موجود ہیں ذرہ ذرہ پر ملائکہ کا اطلاق ہوتا ہے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ بغیر اس کے اذان کے کوئی چیز اپنا اثر نہیں کر سکتی یہاں تک کہ پانی کا ایک قطرہ بھی اندر نہیں جاسکتا اور نہ وہ مؤثر ہو سکتا ہے : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يسبح بحمدہ کے یہی معنے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) ورسو نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَ إِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ایسی بات کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اُٹھ جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا.ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ کہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صلعم پر ( معاذ اللہ ) سحر اور جادو کا اثر ہو گیا تھا.اتنا نہیں سوچتے کہ جب (معاذ اللہ ) آنحضرت کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانا وہ تو پھر غرق ہو گئی.معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی صلعم کو تمام انبیاء میں شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں یہ ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں.الحکم جلد ا انمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ نَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِ عَنْكُمْ وَلَا تحويلا مشرکین اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائل حقیت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہورہے ہو ان اپنے شرکاء کو مدد کے لئے بلا ؤ اور یا درکھو کہ وہ ہر گز تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہارے سر پر سے ٹال سکیں گے.اے رسول ان مشرکین کو کہہ کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کرتے ہو

Page 151

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ سورة بنی اسراءیل میرے مقابلہ پر بلا ؤ اور جوتد بیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کر سکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو اور مجھے ذرہ مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے سچے اور صالح رسولوں کی آپ کا رسازی کرتا ہے مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کر سکیں اور نہ کچھا اپنی مدد کر سکتے ہیں.برائن احمد یه چهار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۹ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَ اِنْ مِنْ قَرْيَةِ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَب مَسْطُورًا فَالْحَاصِلُ أَنَّ الطَّاعُونَ قَد لَازَمَ حاصل کلام یہ ہے کہ طاعون اس ملک کو اس طرح چمٹ هذِهِ الرِّيَارَ مُلَازَ مَةَ الْغَرِيْمِ، أَوِ الْكَلْبِ گئی ہے جس طرح ایک قرض خواہ قرض دار کو چمٹ جاتا ہے لأَصْحَابِ الرَّقِيمِ.وَمَا أَظنُ أَنْ يُعْدَم یا جس طرح اصحاب کہف کا کتا ان کے ساتھ چمٹ گیا تھا.اور قَبْلَ سِنِينَ، وَقَدْ قِيْلَ عُمَرُ هَذِهِ الْآفَةِ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ وبا چند سال تک چلتی چلی جائے گی.إلى سَبْعِينَ.وَإِنَّهَا هِيَ النَّارُ الَّتِي جَاءَ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وبا کا زمانہ ستر سال تک لمبا ہو سکتا ذِكْرُهَا في قَوْلِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَفی ہے اور یہ وہ آگ ہے جس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الْقُرْآنِ الْمَجِيدِ مِنْ رَّبّ الْعَالَمِينَ) کے اقوال میں اور اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن مجید میں آیا ہے.وَإِنَّهَا خَرَجَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ كَمَا رُوی اور یہ آگ مشرق سے نکلی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ عَنْ خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ، وَسَتُحيط بحلِ وسلم سے مروی ہے اور عنقریب یہ ساری معمورہ زمین پر محیط ہو مَعْمُورَةٍ مِنَ الْأَرْضِينَ، وَكَذَالِكَ جَاءَ جائے گی اور ایسا ہی پہلی کتابوں میں بھی آیا ہے پس انتظار کر فِي كُتُبِ الْأَوَّلِينَ، فَانْتَظِرُ حَتَّى يَأْتِيك یہاں تک کہ تجھے یقین پیدا ہو جائے اور اس کے متعلق بحث نہ الْيَقِينُ.فَلَا تَسْأَلْ عَنْ أَمْرِهَا فَإِنَّهُ کر کیونکہ بحث باعث مشکلات ہے اور اللہ کا غضب بہت عَسِيرُ، وَغَضَبُ الرَّبِ كَبِيرُ، وَفي كُل سخت ہے اور ہر طرف نالہ و فریاد ہورہی ہے.درحقیقت طَرْفٍ ضَرَاخُ وَزَفِيرٌ، وَلَيْسَ هُوَ مَرَضٌ طاعون بیماری نہیں بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے.اور یہی وہ

Page 152

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ سورة بنی اسراءیل بَلْ سَعِيرٌ.وَتِلْكَ هِيَ دَابَّةُ الْأَرْضِ دابۃ الارض ہے جو لوگوں کو زخمی کر رہا ہے اور لوگ مجروح ہو الَّتِي تُكَلِّمُ النَّاسَ فَهُمْ يَجْرَحُونَ رہے ہیں اور دابۃ الارض کا کاٹنا سخت ہو گیا ہے اور لوگ وَاشتَدَّ تَكلِيمُهَا فَيُغْتَالُ النَّاسُ ناگہاں ہلاک اور تباہ ہور ہے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے نشانات پر وَيُقْعَصُونَ بمَا كَانُوا بِآيَاتِ الله لا ایمان نہیں لاتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ إِنْ مِنْ يُؤْمِنُونَ، كَمَا قَالَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ وَ قَرْيَةٍ إِلا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ القِيمة أو مُعَذِّبُوها اَوْ إِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ عَذَابًا شَدِيدًا یعنی روئے زمین پر کوئی ایسی بستی نہیں ہوگی يَوْمِ الْقِيمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذابا جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا اسے بہت شَدِيدًا فَكَذَالِكَ تُقَاهِدُون سخت عذاب نہ دیں.پس تم اس آیت کے مطابق تباہی کو دیکھ وَذَالِكَ بِأَنَّ النَّاسَ كَانُوا لا يَتَّقُونَ رہے ہو اور یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ تقویٰ اختیار نہیں کرتے وَكَانُوا يُشِيعُونَ الْفِسْقِ في أَرْضِ اور اللہ تعالی کی زمین میں فسق و فجور پھیلا رہے ہیں اور خدا سے الله وَلا يَخَافُونَ، وَيَزْدَادُونَ إِنما نہیں ڈرتے اور گنا ہوں اور بے حیائی میں بڑھتے جارہے ہیں وَفَخَشَاء وَلَا يَنْتَهُونَ وَإِذَا قِيلَ اور باز نہیں آرہے.اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اسْمَعُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ لَكُمْ فَكَانُوا نے تمہارے لئے اتارا ہے اسے سنو تو وہ ایڑیوں کے بل پھر عَلى أَعْقَابِهِمْ يَنْكُصُونَ.فَأَخَذَهُمُ جاتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے عذاب کے ساتھ اللهُ بِعِقَابِهِ هَذَا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ، پکڑ لیا تا کہ وہ باز آجائیں.( ترجمہ از مرتب) (مواهب الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۴۶،۲۴۵) طاعون کی خبر قرآن شریف میں صریح لفظوں میں موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ قَرْيَةِ إِلا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدً ا یعنی قیامت سے کچھ دن پہلے بہت سخت مری پڑے گی اور اس سے بعض دیہات تو بالکل نابود ہو جاویں گے اور بعض ایک حد تک عذاب اُٹھا کر بیچ رہیں گے.لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۰) کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے.سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے

Page 153

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة بنی اسراءیل ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۷،۲۰۶) قرآن شریف میں یہ بھی پیشگوئی ہے وَ اِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أو مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں گے یا اس پر شدید عذاب نازل نہ کریں گے یعنی آخری زمانہ میں ایک سخت عذاب نازل ہوگا اور دوسری طرف یہ فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل : ۱۹) پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۰) کوئی بستی ایسی نہیں ہوگی جس کو ہم کچھ مدت پہلے قیامت سے یعنی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ہلاک نہ کر دیں یا عذاب میں مبتلا نہ کریں.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۹۶) کوئی بستی اور کوئی گاؤں ایسانہ ہو گا کہ جسے ہم قیامت سے پہلے خطرناک عذاب میں مبتلا نہ کر دیں گے یا ہلاک نہ کر دیں گے.غرض کہ یہ منذر نشان ہے.کسوف و خسوف کا نشان لوگوں نے ہنستے ہوئے دیکھا اور طاعون کا نشان روتے ہوئے.بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے آدمی کیوں مرتے ہیں.ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی جب لوگ عذاب کا معجزہ مانگتے تھے تو ان کو تلوار کا معجزہ ملا اور یہ بھی ایک قسم کا عذاب تھا چنانچہ کئی صحابہ بھی تلوار سے شہید ہوئے مگر کیا ابو بکر و عمر جیسے بھی ہلاک ہوئے.اللہ تعالیٰ نے جس جس انسان کے دماغ یا ہاتھ سے کوئی اپنا کام لینا ہے وہ تو بیچ ہی رہے اور بالمقابل جتنے رئیس کفار تھے ان سب کا ٹھکانا جہنم ہوا اور ان کے صغیر و کبیر سب کے سب ہلاک ہو گئے.اگر ایک شخص کا ایک پیسہ چوری ہو گیا ہے اور دوسرے کا تمام گھر بارلوٹا گیا ہے تو کیا وہ آدمی جس کا تمام گھر بار لوٹا گیا پیسے والے کو کہہ سکتا ہے کہ تم اور میں برابر ہیں.بھلا سوچو تو سہی کہ اگر ستر برس تک ہمارا کوئی آدمی ہلاک نہ ہو تو ایسا کوئی آدمی ہے جو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے رُکار ہے.مگر اللہ تعالیٰ کو یہ امر منظور نہیں ہے اور نہ کبھی ایسا ہوا ایمان کی حالت ہی کا پوشیدہ ہونا ضروری ہے جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پاسکتی.خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا.یہی سبب ہے کہ بعض ان صحابہ میں سے جن جن سے بڑے بڑے کام لینے تھے وہ سب سخت سے سخت خطروں میں بھی بچائے گئے دوسروں کو خدا نے جلد اٹھا کر بہشت میں داخل کیا.جاہل کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی جو بات

Page 154

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ منہ میں آئی کہہ دی.ہر ایک نبی کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے.سورة بنی اسراءیل الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخه ۱۷/جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۸) یہ اسی زمانہ کے لئے ہے کیونکہ اس میں ہلاکت اور عذاب مختلف پیرایوں میں ہے کہیں طوفان ہے کہیں زلزلوں سے کہیں آگ کے لگنے سے.اگر چہ اس سے پیشتر بھی یہ سب باتیں دنیا میں ہوتی رہی ہیں مگر آج کل ان کی کثرت خارق عادت کے طور پر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک نشان ہے.اس آیت میں طاعون کا نام نہیں ہے صرف ہلاکت کا ذکر ہے خواہ کسی قسم کی ہو.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس قوت اور پوری توجہ سے لوگوں نے دنیا اور اس کے ناجائز وسائل کو مقدم رکھا ہوا ہے اور عظمت الہی کو دلوں سے اٹھا دیا ہے.اب صرف وعظوں کا کام نہیں ہے کہ اس کا علاج کر سکیں عذاب الہی کی ضرورت ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) پھر مسیح موعود کے وقت کا ایک نشان طاعون کا تھا.انجیل توریت میں بھی یہ نشان موجود تھا اور قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشان مسیح موعود کا خدا تعالی نے ٹھیرایا تھا چنانچہ فرمایا وَ انْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوھا یہ باتیں معمولی نہیں ہیں بلکہ غور سے سمجھنے کے لائق ہیں اور اب دیکھ لو کہ کیا طاعون ملک میں پھیلی ہوئی ہے یا نہیں؟ اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.الحکم جلدے نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۲) پھر قرآن شریف میں ایک اور نشان بتایا گیا تھا کہ اس زمانہ میں طاعون کثرت سے پھیلے گا.احادیث میں بھی یہ پیشگوئی تھی.قرآن مجید میں لکھا تھا وَ اِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا اور دوسری جگہ صاف طور پر بتایا گیا تھا کہ وہ ایک زمینی کیڑا ہوگا ( دابتہ الارض) آخری زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے مریں گے.اب کوئی بتائے کے کیا اس نشان کے پورا ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی رہ گیا ہے؟ الحکم جلد ۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۸) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت قریب آجائے گی تو عام طور پر موت کا دروازہ کھولا جاوے گا.احکام جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۳) اس کے یہی معنے ہیں کہ طاعون آخری زمانہ میں تمام جہان میں دورہ کرے گی.(احکام جلد نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۷ صفحه ۱۲) طاعون کے ذکر پر فرمایا کہ اس عذاب کی اللہ کریم نے پہلے ہی سے قرآن مجید میں خبر دے رکھی ہے جیسے

Page 155

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة بنی اسراءیل فرمایا وَ إِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيِّمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا اور پھر ساتھ ہی قرآن مجید میں یہ بھی لکھا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذْ بِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا ( بنی اسرائیل :١٦) - اگر ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھا جاوے تو صاف ایک رسول کی نسبت پیشگوئی معلوم ہوتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا آنا اس زمانہ میں ضروری ہے.یہ کہنا کہ فلاں فلاں رسول کے زمانہ میں یہ یہ عذاب آئے.ان لوگوں کے خیال کے بموجب تو جب کل دنیا میں عذاب شروع ہو گیا اس وقت کوئی رسول نہ آیا تو اس بات کا کیا اعتبار رہا کہ پہلے زمانہ میں جو عذاب آئے تھے ان رسولوں کے انکار سے ہی آئے تھے.کیسی صاف بات تھی کہ آخری زمانہ میں سخت عذاب آئیں گے اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ جب تک رسول مبعوث نہ کرلیں عذاب نہیں بھیجتے ہیں اس سے بڑھ کر صاف پیشگوئی اور کیا ہو سکتی ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) طاعون کا عذاب دو طرح پر ہوگا کوئی بستی اس سے خالی نہیں رہے گی.بعض تو ایسی ہوں گی کہ جن کو ہم بالکل ہلاک کر دیں گے یعنی وہ اُجڑ کر بالکل غیر آباد ہو جائیں گی اور ویرانہ اور تھہ (اجڑے ہوئے کھنڈرات) ہو جائیں گی.ان کا کوئی نشان بھی نہ رہے گا لوگ تلاش کرتے پھریں گے کہ اس جگہ فلاں بستی آباد تھی لیکن پھر بھی پتہ نہ ملے گا گویا طاعون وہاں جاروب دے کر اس کو دنیا سے صاف کر دے گی اور کوئی آثار اس کے نہ چھوڑے گی.بعض قریے ایسے ہوں گے کہ جن کو کم و بیش عذاب کر کے چھوڑ دیا جائے گا اور صفحہ ، دنیا سے ان کا نام نہ منایا جائے گا صرف سرزنش کے طور پر کچھ عذاب ان میں نازل کیا جائے گا اور تازیانہ کر کے عذاب ہٹا لیا جائے گا.دوسرے بہت سے شہر فنا ہوں گے مگر وہ فنانہ ہوں گے.اسی طرح اللہ تعالی نے قادیان کو اسی قسم میں شامل کیا ہے اور اس الہام اِنَّهُ آوَى الْقَرْيَةَ سے مراد یہی ہے کہ اور بستیوں کی طرح ہمارے گاؤں کو طاعون جارف بالکل تباہ نہ کرے گی کہ لوگ تلاش کرتے پھریں کہ کہاں قادیان واقع تھی.اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی طرح خدا اس کو تباہ نہ کرے گا بلکہ یہ بچی رہے گی الا بطور تازیانہ کچھ سزا دے کر اس کو بچا لیا جائے گا.البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۳) یوں تو قیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ہی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے.یہی کتاب میں مندرج ہو چکا ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۳۶) وَمَا مَنَعَنَا أَنْ تُرسِلَ بِالْايْتِ إِلَّا أَنْ كَذَبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ

Page 156

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة بنی اسراءیل مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ، وَمَا نُرسِلُ بِالأيْتِ اِلَّا تَخْوِيفا) ہم بعض ان گذشته قهری نشانوں کو ( جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں ) اس لئے نہیں بھیجتے جو پہلی اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں.چنانچہ ہم نے شمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا.جس پر انہوں نے ظلم کیا.یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں سے تھے.پانی تالاب وغیرہ کا پینے کے لئے باقی رہا تھا اور نہ اُن کے مویشی کے لئے کوئی چراگاہ رہی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی اور قہری نشانوں کے نازل کرنے سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کے لئے دکھلائے جاتے ہیں پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی خائف و ہراساں نہ ہوئے.اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں.(۲) نشان تبشیر تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اور نافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدائے تعالیٰ کی قبری اور جلالی بیت ان کے دلوں پر طاری ہو.اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلب گار ہیں اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے.سومومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے.تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتاً انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے.مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے

Page 157

۱۲۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة بنی اسراءیل اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن ان کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء و نعماء الہی و احسانات ظاہره و باطنه وجلسیه وخفیہ حضرت باری عزاسمہ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت و عشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے.سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود بشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفتِ کاملہ اور محبت ذاتیہ کے اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے بچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (یونس : ۶۵) یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے.جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں نا پیدا کنار ترقیاں کرتے جائیں گے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں نکلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتا ہے.......اگر خدائے تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی غرض سے ہی بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی.تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں.جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے.انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائیل بھی جابجا ظاہر کر رہی ہے.پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوحہ بالا میں جو لفظ الآیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات ) بہر حال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الہی داخل ہیں.تخویف کی قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے.اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کی دو قسموں میں سے صرف تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا امر تنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مَا مَنَعَنَا الخ ہے )

Page 158

١٣٠ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة بنی اسراءیل یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی امتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہے ہیں.بجز اُن خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کو پہلی امتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجز نہیں سمجھا تھا.سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے تمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں.کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ سمجھ لینا کہ تمام انواع و اقسام کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محد و دطور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی امتیں اُس کی تکذیب کر چکی ہیں.یہ معنے سراسر باطل ہیں.کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کے لئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے.اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے.جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تحت قدرت باری تعالی ہیں جس کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں اُن کی طرف جھک جائیں.کیونکہ خدائے تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری تعالی غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیوں کر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہو گئی.وقت محدود میں تو وہی چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی.بہر حال اس آیت کے یہی معنی سیج ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے.ان کا دوبارہ بھیجنا عبث سمجھا گیا.جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ شمود کا خدائے تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گزشتہ اور رڈ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں.پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت وَ مَا مَنَعَنَا آن ترسل بالأيتِ الخ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ فی معجزات کیونکہ الأیت کے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دوصورتوں سے خالی نہیں.یا کل کے معنے دے گا یا خاص کے اگر کل کے

Page 159

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورة بنی اسراءیل معنے دے گا تو یہ معنے کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص کے معنی دے گا تو یہ معنی ہوں گے کہ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں ) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا.بہر حال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب اہم گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنے لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر ضرور دی ہیں.بہر حال جو شخص اول اس آیت کے سیاق وسباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف سے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی بیج اور قرین قیاس ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے تمام صحیح نشانوں اور عجائب کا موں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کر چکے ہوں.اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ آلآیات کے ال پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کی ایک قسم خاص کی نفی کے لئے آیا ہے جس کا دوسری اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جل شانہ بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی امتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں.سو جونشان پہلے رڈ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید.پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرور نازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں.یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ کے یا وہی نشان حضرت نوع اور قوم لوط اور عاد اور ثمود کے ظاہر کئے جائیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۱۲۴۳۶)

Page 160

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲ سورۃ بنی اسراءیل وَ اذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّويَا التى اريتكَ إِلَّا فِتْنَةً لا لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَنُخَوفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا گبیران بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ الباری ہے تمام معراج کا ذکر کر کے اخیر میں فَاسْتَيْقَظ لکھا ہے اب تم خود سمجھ لو کہ وہ کیا تھا.قرآن مجید میں بھی اس کے لئے دُنیا کا لفظ ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا التِي ارينك - ( اخبار بدر جلدے نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۵) وَ اسْتَفْزِزُ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اجْلِبُ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدُهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطنُ الأَغْرُوران دنیا میں بچے دو قسم کے پیدا ہوتے ہیں (۱) ایک جن میں نفخ روح القدس کا اثر ہوتا ہے اور ایسے بچے وہ ہوتے ہیں جب عورتیں پاک دامن اور پاک خیال ہوں اور اسی حالت میں استقرار نطفہ ہو وہ بچے پاک ہوتے ہیں اور شیطان کا ان میں حصہ نہیں ہوتا (۲) دوسری وہ عورتیں ہیں جن کے حالات اکثر گندے اور نا پاک رہتے ہیں.پس ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے جیسا کہ آیت وَ شَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَ الأولاد اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں شیطان کو خطاب ہے کہ ان کے مالوں اور بچوں میں حصہ دار بن جا.یعنی وہ حرام کے مال اکٹھا کریں گی اور نا پاک اولاد جنیں گی.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹۸،۲۹۷) یاد رکھو ولادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ولادت تو وہ ہوتی ہے کہ اس میں روح الہی کا جلوہ ہوتا ہے اور ایک وہ ہوتی ہے کہ اس میں شیطانی حصہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ وَشَارِكَهُمْ فِي الأموال والأولاد یہ شیطان کو خطاب ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۳۰/اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) فاسقوں فاجروں کی ارواح کو بسبب ان کے فسق و فجور اور شرک کی گندگی کے رُوحَ مِنْہ نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ رُوحُ الشَّيْطَانِ ہوتے ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَ شَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَولادِ اور اس طرح سے ہم مانتے ہیں کہ بعض رُوحُ الشَّیطان ہوتے ہیں اور بعض روح منہ ہوتے ہیں.

Page 161

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورۃ بنی اسراءیل بعض آدمی ایسے خراب ہوتے ہیں کہ وہ نہایت ہی خبیث الفطرت اور شیطان خصلت ہوتے ہیں ان سے توقع ہی نہیں ہو سکتی کہ وہ کبھی رجوع الی اللہ کر سکیں.ایسے لوگوں پر رُوح منہ کا لفظ نہیں بولا جاتا بلکہ وہ رُوحُ الشَّيْطَانِ ہوتے ہیں.احکام جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ وَكَفَى بِرَيْكَ وَكِيلًا لے حدیثوں میں آیا ہے کہ میسی اور اس کی ماں مست شیطان سے پاک ہیں.جاہل مولویوں نے اس کے یہ معنے کر لئے کہ بجز حضرت عیسی اور ان کی ماں کے اور کوئی نبی ہو یا رسول ہو مسن شیطان سے پاک نہیں یعنی معصوم نہیں اور آیت إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن کو بھول گئے.....بات صرف اتنی تھی کہ اس حدیث میں بھی یہودیوں کا ذب اور دفع اعتراض منظور تھا.چونکہ وہ لوگ طرح طرح کے نا گفتنی بہتان حضرت مریم اور حضرت عیسی پر لگاتے تھے اس لئے خدا کے پاک رسول نے گواہی دی کہ یہودیوں میں سے من شیطان سے کوئی پاک نہ تھا اگر پاک تھے تو صرف حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ تھی.نعوذ باللہ! اس حدیث کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک حضرت عیسی اور ان کی والدہ ہی معصوم ہیں اور ان کے سوا کوئی نبی ہو یا رسول ہومسن شیطان سے معصوم نہیں ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۵،۳۵۴) قرآن....نے تومسن شیطان کی نسبت بھی تمام نبیوں اور رسولوں کو عصمت کے بارے میں مساوی حصہ دیا ہے جبکہ کہا اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن - ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه (۳۹۱) صحیح بخاری میں جو یہ حدیث ہے کہ بغیر عیسی بن مریم کے کوئی مسن شیطان سے محفوظ نہیں رہا اس جگہ فتح الباری میں اور نیز علامہ زمخشری نے یہ لکھا ہے کہ اس جگہ تمام نبیوں میں سے صرف عیسی کو ہی معصوم ٹھیرانا قرآن شریف کے نصوص صریحہ کے مخالف ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ کہہ کر کہ اِنَّ عِبَادِی لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن تمام نبیوں کو معصوم ٹھہرایا ہے پھر عیسی بن مریم کی کیا خصوصیت ہے اس لئے اس حدیث کے یہ معنے ہیں کہ تمام وہ لوگ جو بروزی طور پر عیسی بن مریم کے رنگ میں ہیں یعنی روح القدس سے حصہ لینے والے اور خدا سے پاک تعلق رکھنے والے وہ سب معصوم ہیں اور سب عیسی بن مریم ہی ہیں اور حضرت عیسی کی معصومیت کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہودیوں کا یہ بھی اعتراض تھا کہ حضرت عیسی ے مزید تفصیل کے لئے دیکھیں سورۃ الحجر آیت ۴۳

Page 162

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة بنی اسراءیل کی ولادت مسن شیطان کے ساتھ ہے یعنی مریم کا حمل نعوذ باللہ حلال طور پر نہیں ہوا تھا جس سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے.سوضرور تھا کہ اس گندے الزام کو دفع کیا جاتا.تحفہ گولر و سید روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۰۸ حاشیه ) روح القدس کے فرزند وہ تمام سعادت مند اور راست باز ہیں جن کی نسبت إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن وارد ہے اور قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے.اول وہ جو روح القدس کے فرزند ہیں اور بن باپ پیدا ہونا تو کوئی خصوصیت نہیں.دوئم شیطان کے فرزند.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۳) قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان کو کہا کہ اِن عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنُ میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں.بدر جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخہ ۱٫۲۴ کتوبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۷) وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَهُمْ مِنَ الطَّيْبَتِ وَ فَضَّلْنَهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلات وَحَمَلْتَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی اٹھا یا ہم نے ان کو جنگلوں میں اور دریاؤں میں.اب کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہئے کہ حقیقت میں خدائے تعالیٰ اپنی گود میں لے کر اٹھائے پھرا.سو اسی طرح ملا یک کے پیروں پر ہاتھ رکھنا حقیقت پر محمول نہیں.از الداو بام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۶) فرشتے تو ہر ایک انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور بموجب حدیث صحیح کے طالب العلموں پر اپنے پروں کا سایہ ڈالتے ہیں.اگر مسیح کو فرشتے اٹھا ئیں تو کیوں نرالے طور پر اس بات کو مانا جائے.قرآن شریف سے تو یہ بھی ثابت ہے کہ ہر ایک شخص کو خدا تعالیٰ اٹھائے پھرتا ہے حَمَلْنَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ مَگر کیا خدا کسی کو نظر آتا ہے؟ یہ سب استعارات ہیں.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۶ حاشیه ) ہم نے انسانوں کو زمین پر اور دریاؤں پر خود اٹھایا.ایسا ہی زمین بھی ہر ایک چیز کو اٹھاتی ہے اور ہر ایک خا کی چیز کی سکونت مستقل زمین میں ہے وہ جس کو چاہے عزت کے مقام پر بٹھا دے اور جس کو چاہے ذلت کے مقام میں پھینک دے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۶، ۴۱۷) یہ خیال مت کرو کہ زمین تمہیں اُٹھاتی ہے یا کشتیاں دریا میں تمہیں اٹھاتی ہیں بلکہ ہم خود تمہیں اٹھا (نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۶) رہے ہیں.

Page 163

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورۃ بنی اسراءیل يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أَنَاسِ بِاِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَبِكَ يَقْرَءُونَ كتبهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا اور ایک تاگے کے برابر کسی پر زیادتی نہیں ہوگی.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر.( براہین احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۸۹ حاشیہ نمبر ۵) جو شخص اس جہان میں اندھار ہا اور علم الہی میں بصیرت پیدا نہ کی وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۰۲،۵۰۱) ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر ہوگا.جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی گیا گزرا.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۷) کیا اس جگہ نابینائی سے مراد جسمانی نابینائی ہے بلکہ روحانی نا بینائی مراد ہے.جو اس جہان میں اندھا ہو گا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہوگا.باوا صاحب کا ایک شعر یہ ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶۹) تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۳ حاشیه ) جنہاں درشن ات ہے اُنہاں درشن اُت جنہاں درشن ات نااُنہاں ات نہ اُت ترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ اس جہاں میں خدا کا درشن پالیتے ہیں وہ اس جہاں میں بھی پالیتے ہیں اور جو یہاں نہیں پاتے وہ دونوں جہانوں میں اس کے درشن سے بے نصیب رہتے ہیں اور یہ شعر بھی اس آیت قرآن کا ترجمہ ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى - ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۲۷) جو یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا ہی ہوگا یعنی جس کو اس دنیا میں خدا کا درشن حاصل ہے اس کو اس جہان میں بھی درشن ہوگا اور جو شخص اس کو اس جگہ نہیں دیکھتا آخرت میں بھی اس عزت اور مرتبہ سے محروم ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۴) ہوگا.

Page 164

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة بنی اسراءیل جو شخص اس جہان میں اندھار ہاوہ آنے والے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر.سیہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیک بندوں کو خدا کا دیدار اسی جہان میں ہو جاتا ہے اور وہ اسی جنگ میں اپنے اس پیارے کا درشن پالیتے ہیں جس کے لئے وہ سب کچھ کھوتے ہیں.غرض مفہوم اس آیت کا یہی ہے کہ بہشتی زندگی کی بنیاد اسی جہان سے پڑتی ہے اور جہنمی نابینائی کی جڑ بھی اس جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۰،۳۸۹) جو شخص اس جہان میں اندھا ہوگا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہوگا.اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان کی روحانی نابینائی اس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہوگی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۹) جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت میں بھی تاریکی میں گرے گا.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۶۵) جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر.یعنی خدا کے دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے ملتے ہیں جس کو اس جہان میں نہیں ملے اس کو دوسرے جہان میں بھی نہیں ملیں گے.راستباز جو قیامت کے دن خدا کو دیکھیں گے وہ اسی جگہ سے دیکھنے والے حواس ساتھ لے جائیں گے.اور جو شخص اس جگہ خدا کی آواز نہیں سنے گا وہ اس جگہ بھی نہیں سنے گا.خدا کو جیسا کہ خدا ہے بغیر کسی غلطی کے پہچانا اور اس عالم میں بچے اور صیح طور پر اس کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرنا یہی تمام روشنی کا میدہ ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۰) تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑ کی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں ایسا ہی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اُس کو منور کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھو دیتا ہے.تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے.تب کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی.اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى وَأَضَنُّ سَبِيلاً یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور خدا کے دیکھنے کا اس کونو ر نہ ملاوہ اس جہان میں

Page 165

۱۳۷ سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اندھا ہی ہوگا.غرض خدا کے دیکھنے کے لئے انسان اس دنیا سے حواس لے جاتا ہے.جس کو اس دنیا میں یہ حواس حاصل نہیں ہوئے اور اس کا ایمان محض قصوں اور کہانیوں تک محدود رہا وہ ہمیشہ کی تاریکی میں پڑے (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۵) گا.طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ نجات بجر حق الیقین کے ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى وَ أَضَلُّ سَبِيلًا یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اس سے بھی بدتر تو بغیر یقین کامل کے کیوں کر نجات ہو.اور اگر ایک مذہب کی پابندی سے نجات نہیں تو اس مذہب سے حاصل کیا.صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہیں نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہوگئی تھی.لیکن بعد میں جب وہ زمانہ جاتا رہا اور اس زمانہ پر صد ہا سال گزر گئے تو پھر ذریعہ یقین کا کون سا تھا.سچ ہے کہ قرآن شریف ان کے پاس تھا اور قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب ( الجمعة : (٣) - پس قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے بھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جوہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.غرض جب خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا تو ہر ایک طالب حق کے لئے ضروری ہوا کہ اسی جہاں میں آنکھوں کا نور تلاش کرے اور اس زندہ مذہب کا طالب ہو جس میں زندہ خدا کے انوار نمایاں ہوں.وہ مذہب مردار ہے جس میں ہمیشہ کے لئے یقینی وحی کا سلسلہ جاری نہیں کیونکہ وہ انسانوں پر یقین کی راہ بند کرتا ہے اور ان کو قصوں کہانیوں پر چھوڑتا ہے اور ان کو خدا سے نومید کرتا اور تاریکی میں ڈالتا

Page 166

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة بنی اسراءیل ہے اور کیوں کر کوئی مذہب خدا نما ہوسکتا اور کیوں کر گناہوں سے چھڑا سکتا ہے جب تک کوئی یقین کا ذریعہ اپنے پاس نہیں رکھتا اور جب تک سورج نہ چڑھے کیوں کر دن چڑھ سکتا ہے.پس دنیا میں سچا مذہب وہی ہے جو بذریعہ زندہ نشانوں کے یقین کی راہ دکھلاتا ہے باقی لوگ اسی زندگی میں دوزخ میں گرے ہوئے ہیں بھلا بتاؤ کہ ظن بھی کچھ چیز ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ شاید یہ بات صحیح ہے یا غلط.یادرکھو کہ گناہ سے پاک ہونا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.فرشتوں کی سی زندگی بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.دنیا کی بے جا عیاشیوں کو ترک کرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لینا اور خدا کی طرف ایک خارق عادت کشش سے کھینچے جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.زمین کو چھوڑنا اور آسمان پر چڑھ جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجر یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پرواہ ہوجانا اور صرف خدا کوا پنا ایک خزانہ سمجھنا بجر یقین کے ہر گز ممکن نہیں.اب بتلاؤ اے مسلمان کہلانے والو کہ ظلمات شک سے نوریقین کی طرف تم کیوں کر پہنچ سکتے ہو.یقین کا ذریعہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (البقرة : ۲۵۸) کا مصداق ہے.سو چونکہ عہد نبوت پر تیرہ سو برس گزر گئے اور تم نے وہ زمانہ نہیں پایا جب کہ صد ہا نشانوں اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ قرآن اترتا تھا اور وہ زمانہ پایا جس میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول اور اس کے دین پر ہزار ہا اعتراض عیسائی اور دہریہ اور آریہ وغیرہ کر رہے ہیں اور تمہارے پاس بجز لکھے ہوئے چند ورقوں کے جن کی اعجازی طاقت سے تمہیں خبر نہیں اور کوئی ثبوت نہیں اور جو معجزات پیش کرتے ہو وہ محض قصوں کے رنگ میں ہیں تو اب بتلاؤ کہ تم کس راہ سے اپنے تئیں یقین کے بلند مینار تک پہنچا سکتے ہو اور کس طریق سے دشمن کو بتلا سکتے ہو کہ تمہارے پاس خدا پر یقین لانے کے لئے اور گناہ سے بچنے کے لئے ایک ایسی چیز ہے جو دشمن کے پاس نہیں تا وہ انصاف کر کے تمہارے مذہب کا طالب ہو جائے اس حرکت سے ایک عقلمند کو کیا فائدہ کہ ایک گو بر کو چھوڑ دے اور دوسرے گو بر کو کھا لے.سچائی کو ہر یک سعید دل لینے کو طیار ہے بشرطیکہ سچائی اپنے نور کو ثابت کر کے دکھلا دے جس اسلام کو آج یہ مخالف مولوی اور ان کا گروہ غیر مذہب کے لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ صرف پوست ہے نہ مغز اور محض افسانہ ہے نہ حقیقت.پھر کوئی کیوں کر اس کو قبول کرے اور جس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک شخص مذہب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اگر

Page 167

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ سورة بنی اسراءیل وہی بیماری اس دوسرے مذہب میں بھی ہے تو اس تبدیلی سے بھی کیا فائدہ.یوں تو برہمو بھی دعوی کرتے ہیں کہ ہم ایک خدا کے قائل ہیں مگر خدا کا قائل وہی ہے جس کی یقین کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہی گناہ سے بیچ سکتا ہے کہ جو یقین کی آنکھ سے خدا کو دیکھتا ہے باقی سب قصے جھوٹ ہیں اور سب کفارے باطل ہیں سو وہی زندہ خدا اس آخری زمانہ میں اپنے تئیں پیش کرتا ہے تا لوگ ایمان لاویں اور ہلاک نہ ہوں.قرآن شریف خدا کا کلام تو ہے بلکہ سب سے بڑا کلام مگر وہ تم سے بہت دور ہے تمہاری آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں اب وہ تمہارے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسا کہ توریت یہودیوں کے ہاتھ میں.اسی وجہ سے اگر تم انصاف کرو تو گواہی دے سکتے ہو کہ باعث اس کے کہ اس پاک کلام کے یقینی انوار تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں تم اس سے باطنی تقدس کا کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے اور اگر واقعات خارجیہ کی شہادت کچھ چیز ہے تو تم انصافاً آپ ہی شہادت دے سکتے ہو کہ اس موجودہ زمانہ میں تمہاری کیا حالتیں ہیں سچ کہو کہ کیا تم گناہوں سے اور تمام ان حرکات سے جو تقویٰ کے برخلاف ہیں ایسے ڈرتے ہو جیسا کہ ایک زہر ہلاہل کے استعمال سے انسان ڈرتا ہے.سچ کہو کہ کیا تم اس تقویٰ پر قائم ہو جس تقویٰ کے لئے قرآن شریف میں ہدایت کی گئی تھی.سچ کہو کہ وہ آثار جو سچے یقین کے بعد ظاہر ہوتے ہیں وہ تم میں ظاہر ہیں.تم اس وقت جھوٹ نہ بولو اور بالکل سچ کہو کہ کیا وہ محبت جو خدا سے کرنی چاہئے اور وہ صدق و ثبات جو اس کی راہ میں دکھلانا چاہئے وہ تم میں موجود ہے.تم خدائے علا وجان کی قسم کھا کر کہو کہ اس مردار دنیا کو جس صفائی سے ترک کرنا چاہئے کیا تم اسی صفائی سے ترک کر چکے ہو.اور جس اخلاص اور توحید اور تفرید سے خدائے واحد لاشریک کی طرف دوڑ نا چاہئے کیا تم اُسی اخلاص سے اُس کی راہ میں دوڑ رہے ہو.ریا کاری سے بات مت کرو اور لاف زنی سے لوگوں کو خوش کرنا مت چاہو کہ وہ خدا در حقیقت موجود ہے جو تمہارے ہر ایک قول اور فعل کو دیکھ رہا ہے.تم بات کرتے وقت اس قادر کا خیال کر لوجس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے وہ جھوٹی شیخیوں کو ایک دم جہنم کا ہیزم کر سکتا ہے.سو تم سچ سچ کہو کہ تمہارے قدم دنیا کی خواہشوں یا دنیا کی آبروؤں یا دنیا کے مال و متاع میں پھنسے ہوئے ہیں یا نہیں.پس اگر تمہیں خدا پر یقین حاصل ہوتا تو تم اس زہر کو ہر گز نہ کھاتے اور قریب تھا کہ دنیا اس زہر سے مر جاتی اگر خدا یہ آسمانی سلسلہ اپنے ہاتھ سے قائم نہ کرتا اور اگر تم چالا کی سے کہو کہ ہم ایسے ہی ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا اور ہم میں گناہ کی کوئی تاریکی نہیں اور پورے یقین کے انجن سے ہم کھنچے جارہے ہیں تو تم نے جھوٹ بولا ہے اور آسمان اور زمین کے بنانے والے پر تہمت لگائی ہے اس لئے قبل اس کے جو تم مرو خدا کی لعنت

Page 168

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۰ سورة بنی اسراءیل تمہاری پردہ دری کرے گی.یقین اپنے نوروں کے سمیت آتا ہے.کوئی آسمان تک نہیں پہنچا سکتا ہے مگر وہی جو آسمان سے آتا ہے.اگر تم جانتے کہ خدا کا تازہ بتازہ اور یقینی اور قطعی کلام تمہاری بیماریوں کا علاج ہے تو تم اس سے انکار نہ کرتے جو عین صدی کے سر پر تمہارے لئے آیا.اے غافلو یقین کے بغیر کوئی عمل آسمان پر جا نہیں سکتا اور اندرونی کدورتیں اور دل کی مہلک بیماریاں بغیر یقین کے دور نہیں ہو سکتیں.جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام.حقیقی اسلام سے شکل بدل جاتی ہے اور دل میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے اور سفلی زندگی مرجاتی ہے اور ایک اور زندگی پیدا ہوتی ہے جس کو تم نہیں جانتے یہ سب کچھ یقین کے بعد آتا ہے اور یقین اس یقینی کلام کے بعد جو آسمان سے نازل ہوتا ہے.خدا، خدا کے ذریعہ سے ہی پہچانا جاتا ہے نہ کسی اور ذریعہ سے تم میں سے کون ہے جو اپنے ہم کلام کو شناخت نہیں کر سکتا.پس اسی طرح مکالمات کی حالت میں معرفت میں ترقی ہوتی جاتی ہے.بندہ کا دعا کرنا اور خدا تعالیٰ کا لطف اور رحم سے اس دعا کا جواب دینا نہ ایک دفعہ نہ دو دفعہ بلکہ بعض موقعہ پر نہیں میں دفعہ یا تھیں تھیں دفعہ یا پچاس پچاس دفعہ یا قریباً تمام رات یا قریباً تمام دن اسی طرح ہر یک دعا کا جواب پانا اور جواب بھی فصیح تقریر میں.اور بعض دفعہ مختلف زبانوں میں اور بعض دفعہ ایسی زبانوں میں جن کا علم بھی نہیں اور پھر اس کے ساتھ نشانوں کی بارش اور معجزات اور تائیدوں کا سلسلہ.کیا یہ ایسا عمل ہے کہ اس قدر مسلسل مکالمات اور مخاطبات اور آیات بینات کے بعد پھر خدا کے کلام میں شک رہے.نہیں نہیں بلکہ یہ ایسا امر ہے کہ اس کے ذریعہ سے بندہ اسی عالم میں اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کے لئے بلا تفاوت یکساں ہو جاتے ہیں اور جس طرح نورہ کے استعمال سے یکدفعہ بال گر جاتے ہیں ایسا ہی اس نور کے نزول جلال سے وحشیانہ زندگی کے بال جو جرائم اور معاصی سے مراد ہے کالعدم ہو جاتے ہیں اور انسان مردوں سے بیزار ہو کر اس دلآرام زندہ کا عاشق ہو جاتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی اور جیسا کہ تم دنیا کی چیزوں سے بے صبر ہو ویسا ہی وہ خدا کی دوری پر صبر نہیں کر سکتا غرض تمام برکات اور یقین کی کنجی وہ کلام قطعی اور یقینی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ پر نازل ہوتا ہے.جب خدائے ذوالجلال کسی اپنے بندہ کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے تو اپنا کلام اس پر نازل کرتا ہے اور اپنے مکالمات کا اس کو شرف بخشتا ہے اور اپنے خارق عادت نشانوں سے اُس کو تسلی دیتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اس پر ثابت کر دیتا ہے کہ وہ اس کا کلام ہے تب وہ کلام قائمقام دیدار کا ہو جاتا ہے اس روز انسان سمجھتا ہے کہ خدا ہے کیونکہ انا الموجود کی آواز سنتا ہے.خدا تعالیٰ کی کلام سے پہلے اگر انسان کا خدا تعالیٰ کے وجود

Page 169

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة بنی اسراءیل پر ایمان ہوتا ہے تو بس اسی قدر کہ وہ مصنوعات پر نظر کر کے یہ خیال کر لیتا ہے کہ اس ترکیب محکم املغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے لیکن یہ کہ در حقیقت وہ صانع موجود بھی ہے یہ مرتبہ ہرگز بجز مکالمات الہیہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اور گندی زندگی جو تحت الثریٰ کی طرف ہر لمحہ کھینچ رہی ہے وہ ہرگز دور نہیں ہوتی.اسی جگہ سے عیسائیوں کے خیالات کا بھی باطل ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ ابن مریم کی خودکشی نے ان کو نجات دے دی ہے اور حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تنگ و تاریک دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں جو مجو بیت اور شکوک اور شبہات اور گناہ کا دوزخ ہے.پھر نجات کہاں ہے.نجات کا سرچشمہ یقین سے شروع ہو جاتا ہے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا یقین دیا جائے کہ اس کا خدا در حقیقت موجود ہے جو مجرم اور سرکش کو بے گناہ نہیں چھوڑتا اور رجوع کرنے والے کی طرف رجوع کرتا ہے.یہی یقین تمام گناہوں کا علاج ہے بجز اس کے دنیا میں نہ کوئی کفارہ ہے نہ کوئی خون ہے جو گناہ سے بچاوے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہر ایک جگہ تمہیں یقین ہی ناکردنی باتوں سے روک دیتا ہے تم آگ میں ہاتھ نہیں ڈال سکتے کہ وہ مجھے جلا دے گی.تم شیر کے آگے اپنے تیئں کھڑا نہیں کرتے کیونکہ تم یقین رکھتے ہو کہ وہ مجھے کھا لے گا.تم کوئی زہر نہیں کھاتے کیونکہ تم یقین رکھتے ہو کہ وہ مجھے ہلاک کر دے گی.پس اس میں کیا شک ہے کہ بے شمار تجارب سے تم پر ثابت ہو چکا ہے کہ جس جگہ تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ فعل یا یہ حرکت بلاشبہ مجھے ہلاکت تک پہنچائے گی تم فی الفور اس سے رک جاتے ہو اور پھر وہ گناہ تم سے سرزد نہیں ہوتا.پھر خدا تعالیٰ کے مقابل پر تم کیوں اس ثابت شدہ فلسفہ سے کام نہیں لیتے کیا تجربہ نے اب تک گواہی نہیں دی کہ بجز یقین کے انسان گناہ سے رک نہیں سکتا.ایک بکری یقین کی حالت میں اس مرغزار میں چور نہیں سکتی جس میں شیر سامنے کھڑا ہے پس جب کہ یقین لا یعقل حیوانات پر بھی اثر ڈالتا ہے اور تم تو انسان ہو.اگر کسی دل میں خدا کی ہستی اور اس کی ہیبت اور عظمت اور جبروت کا یقین ہے تو وہ یقین ضرور اسے گناہ سے بچالے گا اور اگر وہ نہیں بچ سکا تو اسے یقین نہیں کیا خدا پر یقین لا نا اس یقین سے کم تر ہے کہ جو شیر اور سانپ اور زہر کے وجود کا یقین ہوتا ہے.سو وہ گناہ جوخدا سے دور ڈالتا ہے اور جہنمی زندگی پیدا کرتا ہے اس کا اصل سبب عدم یقین ہے.کاش میں کس دف کے ساتھ اس کی منادی کروں کہ گناہ سے چھڑانا یقین کا کام ہے.جھوٹی فقیری اور مشیخیت سے تو بہ کرانا یقین کا کام ہے.خدا کو دکھلانا یقین کا کام ہے.وہ مذہب کچھ بھی نہیں اور گندہ ہے اور مردار ہے اور نا پاک ہے اور جہنمی ہے اور خود جہنم ہے جو یقین کے چشمہ تک نہیں پہنچا سکتا.زندگی کا چشمہ یقین سے ہی نکلتا ہے اور وہ پر جو آسمان کی

Page 170

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورة بنی اسراءیل طرف اڑاتے ہیں وہ یقین ہی ہے.کوشش کرو کہ اس خدا کو تم دیکھ لو جس کی طرف تم نے جانا ہے.اور وہ مرکب یقین ہے جو تمہیں خدا تک پہنچائے گا.کس قدر اس کی تیز رفتار ہے کہ وہ روشنی جو سورج سے آتی ہے اور زمین پر پھیلتی ہے وہ بھی اس کی سرعت رفتار کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی اسے پاکیزگی کے ڈھونڈ نے والو اگر تم چاہتے ہو کہ پاک دل بن کر زمین پر چلو اور فرشتے تم سے مصافحہ کریں تو تم یقین کی راہوں کو ڈھونڈو.اور اگر تمہیں اس منزل تک ابھی رسائی نہیں تو اس شخص کا دامن پکڑ وجس نے یقین کی آنکھ سے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے اور یہ کہ کیوں کر یقین کی آنکھ سے خدا کو دیکھا جاوے اس کا جواب کوئی مجھ سے سنے یا نہ سنے مگر میں یہی کہوں گا کہ اس یقین کے حاصل کرنے کا ذریعہ خدا کا زندہ کلام ہے جو زندہ نشان اپنے اندر اور ساتھ رکھتا ہے جب وہ آسمان پر سے اترتا ہے تو نئے سرے مردوں کو قبروں میں سے نکالتا ہے.تم دیکھتے ہو کہ با وجود آنکھوں کے بینا ہونے کے تم آسمانی آفتاب کے محتاج ہو اسی طرح خدا شناسی کی بینائی محض اپنی انکلوں سے حاصل نہیں ہو سکتی وہ بھی ایک آفتاب کی محتاج ہے.اور وہ آفتاب بھی آسمان پر سے اپنی روشنی زمین پر نازل کرتا ہے یعنی خدا کا کلام.کوئی معرفت خدا کے کلام کے بغیر کامل نہیں ہو سکتی.خدا کا کلام بندہ اور خدا میں ایک دلالہ ہے وہ اترتا ہے اور خدا کا نور اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جس پر وہ اپنے پورے کرشمہ اور پوری تجلی اور پوری خدائی عظمت اور قدرت اور برہنہ کرشمہ کے ساتھ اترتا ہے اس کو وہ آسمان پر لے جاتا ہے.غرض خدا تک پہنچنے کے لئے بجز خدا تعالیٰ کے کلام کے اور کوئی سبیل نہیں.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۸ تا۴۷۵) جو اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.اب ایک ایسا معترض جس کو خدا کے کلام کا منشاء معلوم نہیں یہ اعتراض کرے گا کہ دیکھو مسلمانوں کے مذہب میں لکھا ہے کہ اندھوں کو نجات نہیں.غریب اندھے کا کیا قصور ہے.مگر جو تعصب دور کر کے غور سے قرآن شریف کو پڑھے گا وہ سمجھ لے گا کہ اس جگہ پر آنکھوں سے اندھے مراد نہیں ہیں بلکہ دل کے اندھے مراد ہیں.غرض یہ ہے کہ جن کو اسی دنیا میں خدا کا درشن نہیں ہوتا اُنہیں دوسرے جہاں میں بھی درشن نہیں ہوگا اسی طرح صد با خدا کے کلام میں مجاز اور استعارے ہوتے ہیں.ایک نفسانی جوش والا آدمی جلدی سے سب کو جائے اعتراض بنادے گا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہی سچ بات ہے کہ خدا کا کلام سمجھنے کے لئے اول دل کو ایک نفسانی جوش سے پاک بنانا چاہئے تب خدا کی طرف سے دل پر روشنی اُترے گی.بغیر اندرونی روشنی کے اصل حقیقت نظر نہیں آتی.سناتن دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۷۳)

Page 171

۱۴۳ سورۃ بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس کو اس جہان میں اس کا درشن نہیں ہوا اُس کو اُس جہان میں بھی اس کا درشن نہیں ہوگا اور وہ دونوں جہانوں میں اندھا رہے گا.خدا کے دیکھنے کے لئے اس جہان میں آنکھیں طیار ہوتی ہیں اور بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہوتی ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۰) جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے گا اور اُس ذات بیچوں کا اس کو دیدار نہیں ہوگا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اس سے جدا نہیں ہوگی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی دنیا میں حواس ملتے ہیں اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵۳، ۱۵۴) میں اس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لاشریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نا بینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أغلى وَ أَضَلُّ سَبِيلًا.یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اس سے بھی بدتر.یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا.خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں.ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے.پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا.یہ عجیب نجات ہے! اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے پہلے اُس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اُس کو علم عطا کرتا ہے.صدہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمت ہے اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے.اور جو شخص اُس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اُس کی طرف دوڑ تا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے.پھر کیوں کر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اُس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہ لاشریک سمجھا اور اس سے محبت کی اور اس کے اولیاء میں داخل ہوا.پھر خدا نے اُس کو نا بینا رکھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا.اس کی مؤید یہ حدیث ہے کہ

Page 172

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة بنی اسراءیل مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراط مستقیم سے بے نصیب رہا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۱) اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا یعنی جس کو خدا کا دیدار اس جگہ نہیں اُس جگہ بھی نہیں.اس آیت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو بیچارے جسمانی طور پر اس جہان میں اندھے ہیں وہ دوسرے جہان میں بھی اندھے ہی ہوں گے.پس یہ استعارہ ہے کہ جاہل کا نام اندھا رکھا گیا.برائن احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۶۱ حاشیه ) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یہ بھی ایک پیشگوئی ہے مگر اس کے وہ معنے نہیں ہیں جو ظاہر الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۵۵) انسان..تمنار کھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں.ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے چنانچہ فرمایا مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أغلى الأيہ کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۹) جب تک انسان پوری روشنی اسی جہان میں نہ حاصل کرلے وہ کبھی خدا کا منہ نہ دیکھے گا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۴) مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور وہ حق الیقین کا مقام اسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے لیکن جو شخص علوم حقہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلائیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے ان میں پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں.یہ اپنی آخرت دُخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں.انہیں کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى جو اس دنیا میں اندھا ہوتا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جاوے گا جس کو یہاں علم و بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی اسے وہاں کیا علم ملے گا.اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے جو یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کو دیکھے گا.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵)

Page 173

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورۃ بنی اسراءیل وہ جو اس دنیا میں کچھ نہیں پاتا اور آئندہ جنت کی امید کرتا ہے وہ طمع خام کرتا ہے اصل میں وہ مَنْ كَانَ في هذة أعلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنی کا مصداق ہے.احکام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴/ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۹) جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی بدتر.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے انسان اپنے ساتھ لے جاتا ہے جو یہاں ان جو اس کو نہیں پاتا وہاں وہ ان حواس سے بہرہ ور نہیں ہو گا.یہ ایک دقیق راز ہے جس کو عام لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے.اگر اس کے یہ معنی نہیں تو یہ تو پھر بالکل غلط ہے کہ اندھے اس جہان میں بھی اندھے ہوں گے.اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو بغیر کسی غلطی کے پہنچاننا اور اسی دنیا میں صحیح طور پر اس کی صفات و اسماء کی معرفت حاصل کرنا آئندہ کی تمام راحتوں اور روشنیوں کی کلید ہے اور یہ آیت اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اسی دنیا سے ہم عذاب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس دنیا کی کورانہ زیست اور ناپاک افعال ہی اس دوسرے عالم میں عذاب جہنم کی صورت میں نمودار ہو جائیں گے اور وہ کوئی نئی بات نہ ہوں گے.الحکم جلد ۶ نمبر ا مورخه ۱۰رجنوری ۱۹۰۲ صفحه ۴) جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے جس کی منشاء یہ ہے کہ اس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں.آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی تیاری اسی جہان میں ہوگی پس کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے.اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے.ایک شخص کورانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گیا مسلمان کہلاتا ہے دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے ہاں پیدا ہو کر عیسائی ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا، رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی اس کی دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے خدا اور رسول کی ہتک کرنے والوں میں سے اس کا گزر ہوتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں اس میں محبت دین نہیں.والا محبت والا اپنے محبوب کے برخلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے؟ الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷رجون ۱۹۰۳ء صفحه ۶) جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت کو بھی محروم ہی ہو گا جیسے خدا نے خود فرمایا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اعلیٰ اس سے یہ مراد تو نہیں ہو سکتی کہ جو اس دنیا میں اندھے

Page 174

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سکے گا.۱۴۶ سورۃ بنی اسراءیل ہیں وہ قیامت کو بھی اندھے ہی ہوں گے بلکہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا کو ڈھونڈنے والوں کے دل نشانات سے ایسے منور کئے جاتے ہیں کہ وہ خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی عظمت و جبروت کا مشاہدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ دنیا کی ساری عظمتیں اور بزرگیاں ان کی نگاہ میں بیچ ہو جاتی ہیں.اور اگر خدا کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس سے اس دنیا میں اس کو حصہ نہیں ملا تو اس دوسرے عالم میں بھی نہیں دیکھ الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۱۳۰ نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۲و الحکم جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱) گناہ کے آثار تاریکی اور ظلمت تو اس دنیا ہی میں شروع ہو جاتی ہے جیسے فرما یا مَنْ كَانَ فِي هذة أغلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنى الحاکم جلد ۲ نمبر ۲۴، ۲۵ مورخه ۲۰ و ۲۷ اگست ۱۸۹۸ صفحه ۱۱) اگر انسان اندریں عالم تکمیل معرفت نکند اگر انسان اس عالم میں معرفت کی تکمیل نہیں کرتا تو اس چه دلیل دارد که در روز آخرت خواہد کرد بجز کے پاس کیا دلیل ہے کہ آخرت میں (اپنی معرفت کی تکمیل ) این صورت که ما پیش می کنیم دیگر صورت کرلے گا سوائے اس صورت کے جو ہم پیش کرتے ہیں اور نيست مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَغْنى فَهُوَ فِي کوئی صورت نہیں.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي فی.الأخرة أغلى - ( ترجمه از مرتب) الْآخِرَةِ أعلى (البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ /نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۶) عالم آخرت در حقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هذة أغلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۳ صفحہ۱) جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا کیا مطلب کہ خدا تعالیٰ اور دوسرے عالم کے لذات کے دیکھنے کے لئے اسی جہان میں حواس اور آنکھیں ملتی ہیں جس کو اس جہان میں نہیں ملیں اس کو وہاں بھی نہیں ملیں گی.اب یہ امر انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ ان حواس اور آنکھوں کے حاصل کرنے کے واسطے اسی عالم میں کوشش اور سعی کرے تاکہ دوسرے عالم میں بینا اُٹھے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) خدا پر یقین بڑی دولت ہے پس اندھا وہی ہے جس کو اس دنیا میں خدا پر پورا یقین حاصل نہیں ہوا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۱/۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۶)

Page 175

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة بنی اسراءیل اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہر اندھا اور نابینا قیامت کو بھی اندھا اور نابینا اُٹھے بلکہ اس سے مراد معرفت الحکم جلدے نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۳) اور بصیرت کی نا بینائی ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أغلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اعْلٰی سے ظاہر ہے کہ دیدار کا وعدہ یہاں بھی ہے مگر ہم اسے جسمانیات پر نہیں حمل کر سکتے.(البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۸) خدا تعالیٰ نے انسان کے نفس میں معرفت کی پیاس رکھ دی ہے اور خود ہی فرمایا ہے مَنْ كَانَ فِي هذا؟ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنى - ادھر یہ کہا ادھر مکالمہ کا دروازہ بند ہوا تو پھر تو خدا نے دیدہ دانستہ اغلی رکھنا چاہا اور پھر وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : ۷۰) کے کیا معنی ہوئے.وو (البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹۹) نجات کا اثر یہ ہے کہ اسی دنیا میں اس شخص کو بہشتی زندگی نصیب ہو.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي (البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۲۷) الْآخِرَةِ أعلى - کوئی بات سوائے خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتی اور جسے اس دنیا میں فضل ہوگا اسے ہی آخرت میں بھی ہوگا جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هذة أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْلی.اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان حواس کے حصول کی کوشش اس جہان میں کرنی چاہیے کہ جس سے انسان کو بہشتی زندگی حاصل ہوتی ہے اور وہ حواس بلا تقومی کے نہیں مل سکتے.ان آنکھوں سے انسان خدا کو نہیں دیکھ سکتا لیکن تقومی کی آنکھوں سے انسان خدا کو......دیکھ سکتا ہے.اگر وہ تقویٰ اختیار کرے گا تو وہ محسوس کرے گا کہ خدا مجھے نظر آرہا ہے اور ایک دن آوے گا کہ خود کہہ اُٹھے گا کہ میں نے خدا کو دیکھ لیا.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۴) جو تعلق عبودیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی.جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن اگر جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى - جو یہاں خدانہیں دیکھتا وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۷) (البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۶) سچ ہے جس اندھے کے پاس روشنی موجود نہیں وہ کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں روشنی رکھتا ہوں اور تقسیم کر

Page 176

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۸ سورۃ بنی اسراءیل سکتا ہوں.دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا انبياء تو علی وجہ البصیرہ ہوتے ہیں پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ بصیرت کسی کو نہیں ملے گی تو گویا یہ خود اس دنیا سے اندھے ہی جاویں گے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۸ ۳۹ مورخه ۰ او۱۷ نومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۷) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جہان کے لئے انسان اسی عالم سے حواس لے جاتا ہے.اس جگہ سے وہ بصارت لے جاتا ہے جو وہاں کی اشیاء اور عجائبات کو دیکھے اور یہاں ہی سے وہ شنوائی لے جاتا ہے جو سُنے.گویا جو اس جہان میں وہاں کی باتیں دیکھتا اور سنتا نہیں وہ وہاں بھی نہیں دیکھ سکے گا.القام جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۵ صفحه ۵) قرآن شریف کی تعلیم کا خلاصہ مغز کے طور پر یہی بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اس قدر استیلا کرے کہ ما سوی اللہ جل جاوے.یہی وہ عمل ہے جس سے گناہ جلتے ہیں اور یہی وہ نسخہ ہے جو اسی عالم میں انسان کو وہ حواس اور بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ اس عالم کی برکات اور فیوض کو اس عالم میں پاتا ہے اور معرفت اور بصیرت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوتا ہے.ایسے ہی لوگ ہیں جو اس زمرہ سے الگ ہیں.مَنْ كَانَ فِي هذِةٍ أَغْلِى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْلِى - الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ یہاں نابینا اور اندھے ہیں وہ وہاں بھی اندھے ہوں گے.نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیدار الہی کے لئے یہاں سے حواس اور آنکھیں لے جاوے اور ان آنکھوں کے لئے ضرورت ہے قتل کی.تزکیہ نفس کی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کو سب پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ دیکھو، سُنو اور بولو! اس کا نام فنافی اللہ ہے اور جب تک یہ مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا نجات نہیں.احکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ ۷ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) جب یہ یقین کر لیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملنے کا ہی نہیں اور خوارق اب دیئے ہی نہیں جاسکتے تو پھر مجاہدہ اور دعا جو اس کے لئے ضروری ہیں محض بیکار ہوں گے اور اس کے لئے کوئی جرات نہ کرے گا اور اس امت کے لئے نعوذ بالله مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اَعْلی صادق آئے گا اور اس سے خاتمہ کا بھی پتہ لگ جائے گا کہ وہ کیسا ہوگا کیونکہ اس میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ جہنمی زندگی ہے پھر آخرت میں بھی جہنم ہی ہوگا اور اسلام ایک جھوٹا مذہب ٹھیرے گا اور نعوذ باللہ خدا نے بھی اس امت کو دھوکا دیا که خیر الامت بنا کر پھر کچھ بھی اسے نہ دیا.اقام جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۶)

Page 177

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة بنی اسراءیل اس نابینائی سے یہی مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تجلی اور ان امور کو جو حالت غیب میں ہیں اسی عالم میں سدو مشاہدہ نہ کرے اور یہ نا بینائی کا کچھ حصہ غیب والے میں پایا جاتا ہے لیکن هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے موافق جو شخص ہدایت پالیتا ہے اس کی وہ نابینائی دور ہو جاتی ہے اور وہ اس حالت سے ترقی کر جاتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵) ظاہراً تو اس کے معنے یہی ہیں کہ جو اس جگہ اندھے ہیں وہ آخرت کو بھی اندھے ہی رہیں گے مگر یہ معنے کون قبول کرے گا جبکہ دوسری جگہ پر صاف طور پر لکھا ہے کہ خواہ کوئی سوجا کھا ہو خواہ اندھا جو ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ جاوے گا وہ تو ہینا ہو گا لیکن جو اس جگہ ایمانی روشنی سے بے نصیب رہے گا اور خدا کی معرفت حاصل نہیں کر لے گا وہ آخر کو بھی اندھا ہی رہے گا کیونکہ یہ دنیا مزرعہ آخرت ہے جو کچھ کوئی یہاں بوئے گا وہی کاٹے گا اور جو اس جگہ سے بینائی لے جائے گا وہی بینا ہو گا.الحاکم جلد ۱۲ نمبر ا مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا.یعنی خدا کے دیکھنے کے حواس اور نجات ابدی کا سامان اسی دنیا سے انسان ساتھ لے جاتا ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۶) إِذَا لَّا ذَقْنَكَ ضِعُفَ الْحَيوةِ وَضِعُفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پر کچھ جھوٹ باندھتا تو ہم اس کو زندگی اور موت سے دو چند عذاب چکھاتے اس سے مراد یہ ہے کہ نہایت سخت عذاب سے ہلاک کرتے.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۰ حاشیه ) اقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَ قُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًان نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجر قرآن کے جو

Page 178

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورة بنی اسراءیل خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضر عانہ ادا کر لیا کروتا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جب کہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسکی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی مختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سز ا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولیس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رتم تم پر جوش

Page 179

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة بنی اسراءیل مارتا ہے اور تمہیں اُس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کاظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء وقدرتمہارے لئے لائے گا پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۸ تا ۷۰) یا درکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لئے مقرر ہیں یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اقمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ یعنی قائم کرو نماز کو دُلُوكِ الشَّمس سے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوۃ کو دُلُوكِ الشَّمْسِ سے لیا ہے دُلُوك کے معنوں میں گو اختلاف ہے لیکن دو پہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام دُلُوك ہے.اب دُلُوك سے لے کر پانچ نمازیں رکھ دیں اس میں حکمت اور ستر کیا ہے قانون قدرت رکھتا ہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی دلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں.پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب خون اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں.اس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے.اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر نالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوئی ہے.اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا.کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو؟ اس قسم کے تر ڈدات اور تفکرات سے جوز وال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دُلُوك ہے اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہو.فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہورہے ہیں اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے.یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا

Page 180

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة بنی اسراءیل نمونہ ہے کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرارداد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور نا امیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزا مل جاوے گی یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے.پھر جب حکم سنایا گیا اور تنشمیل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے.یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح :) کی حالت کا وقت آگیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۶۶، ۱۶۷) وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدُ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا...خدا تجھے اس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا جائے.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۵۵) عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گواول میں احمق اور نادان لوگ بد باطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدائے تعالی کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۳۷) وہ وقت قریب ہے کہ میں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثنا کرے گی.دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۸) وَقُل رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلُ لِي مِنْ تَدُنكَ سُلْطَنَا نَصِيرًا قُل رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدق.....خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ.اور کہہ کہ خدا یا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۹) دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۱) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم

Page 181

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة بنی اسراءیل الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - که حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھا گنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں کر شامل کر لیا اور آنحضرت کا ظہور فرما ناخدا تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان معہ اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہوگئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی.اسی جامعیت تامہ کی وجہ سے سورة ال عمران جزو تیسری میں مفصل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان خاتم الرسل پر جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو.اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمتہ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۷ ۲۷ تا ۲۸۰ حاشیه ) حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی ہے.(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ ائیل پیج ) اور حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کب حق کے مقابل ٹھہر سکتا تھا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۹) حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے ایک دن بھا گنا ہی تھا.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۶ حاشیه ) (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۷۳) کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا.آیا حق اور بھاگ گیا باطل تحقیق باطل ہے بھاگنے والا.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۲) هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف :١٠) پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ھڈی اور حق کے رکھے ہیں.ھذہی تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے معمہ نہ رہے یہ گویا اندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ

Page 182

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ سورة بنی اسراءیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ محله (الصف:۱۰) یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا یہ غلبہ تلوار اور تفنگ سے نہیں ہوگا بلکہ وجوہ عقلیہ سے ہوگا.انتقام جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۲ صفحه ۶) جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ....قرآن شریف میں بھی یہ آیت بتوں کے ٹوٹنے اور اسلام کے غلبہ کے ( بدر جلد نمبر ۳ مورخه ۲۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) واسطے آتی ہے.قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ ، فَرَتْكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلًا محن يَعْمَلُ عَلى شاكلته یعنی هر یک شخص اپنی فطرت کے موافق عمل کرتا ہے.) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۹ حاشیه ) ہر ایک اپنے قومی اور اشکال کے موافق عمل کرنے کی توفیق دیا جاتا ہے.ہر شخص اپنے مادہ اور فطرت کے مطابق عمل کر رہا ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۸) ( مکتوبات جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۲۰۱) یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے كُل يَعْمَلُ عَلَى شاكلته بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسرے قسم میں کمزور.اگر ایک خُلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا بُرا.لیکن تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) ہر شخص اپنے قومی کے موافق کام کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳) وَ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّي وَ مَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قليلا ہر یک جسم میں جتنے ذرات ہیں اسی قدر روحوں کا اس سے تعلق ہے اگر ایک قطرہ پانی کو خورد بین سے دیکھا جائے تو ہزاروں کیڑے اس میں نظر آتے ہیں ویسا ہی پھلوں میں اور بوٹیوں میں اور ہوا میں بھی کیڑے مشہود و محسوس ہیں.بہر حال ہر یک جسم دار چیز کیڑوں سے بھری ہوئی ہے مگر کبھی وہ کیڑے مخفی

Page 183

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة بنی اسراءیل ہوتے ہیں یا یوں کہو کہ بالقوہ پائے جاتے ہیں اور کبھی مکمن قوت سے جیز فعل میں آجاتے ہیں مثلاً جس اناج کو دیکھو تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا کہ اس میں کوئی کیٹر انہیں اور پھر خود بخود اس کے اندر میں ہی سے کچھ تغیر پیدا ہو کر اس قدر کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں کہ گویا وہ سب جسم کیڑے ہی کیڑے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ ارواح کو اجسام سے ایک لازمی اور دائمی تعلق پڑا ہوا ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۳۵،۱۳۴ حاشیه ) روحوں اور اجزاء صغار عالم کا غیر مخلوق اور قدیم اور انادی ہونا اصول آریہ سماج کا ہے.اور یہ اصول صریح خلاف عقل ہے اگر ایسا ہو تو پر میشر کی طرح ہر ایک چیز واجب الوجود ٹھہر جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں رہتی بلکہ کاروباردین کا سب کا سب ابتر اور خلل پذیر ہوجاتا ہے کیونکہ اگر ہم سب کے سب خدائے تعالیٰ کی طرح غیر مخلوق اور انادی ہی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا ہم پر کون ساحق ہے اور کیوں وہ ہم سے اپنی عبادت اور پرستش اور شکر گزاری چاہتا ہے اور کیوں گناہ کرنے سے ہم کو سزا دینے کو طیار ہوتا ہے اور جس حالت میں ہماری روحانی بینائی اور روحانی تمام قوتیں خود بخود قدیم سے ہیں تو پھر ہم کو فانی قوتوں کے پیدا ہونے کے لئے کیوں پر میٹر کی حاجت ٹھہری.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۱۰) آریہ صاحبوں کا اعتقاد ہے کہ پر میشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی بلکہ کل ارواح انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں ایسا ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکتی یعنی نجات ہمیشہ کے لئے انسان کو نہیں مل سکتی بلکہ ایک مدت مقررہ تک سکتی خانہ میں رکھ کر پھر اس سے باہر نکالا جاتا ہے.اب ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہ دونوں اعتقاد ایسے ہیں کہ ایک کے قائم ہونے سے تو خدائے تعالیٰ کی توحید بلکہ اس کی خدائی ہی دور ہوتی ہے اور دوسرا اعتقاد ایسا ہے کہ بندہ وفادار پر ناحق کی سختی ہوتی ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر تمام ارواح کو اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام کو قدیم اور انادی مانا جائے تو اس میں کئی قباحتیں ہیں منجملہ ان کے ایک تو یہ کہ اس صورت میں خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ جس حالت میں بقول آریہ صاحبان ارواح یعنی جیو خود بخود موجود ہیں اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام بھی خود بخود ہیں تو پھر صرف جوڑنے جاڑنے کے لئے ضرورت صانع کی ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک دہر یہ جو خدائے تعالیٰ کا منکر ہے عذر پیش کر سکتا ہے کہ جس حالت میں تم نے کل چیزوں کا وجود خود بخو د بغیر ایجاد پر میشر کے آپ ہی مان لیا ہے تو پھر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ ان چیزوں کے باہم جوڑنے جاڑنے کے لئے پر میشر کی حاجت ہے؟ دوسری یہ قباحت کہ ایسا اعتقاد خود خدائے

Page 184

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة بنی اسراءیل تعالیٰ کو اس کی خدائی سے جواب دے رہا ہے کیونکہ جو لوگ علم نفس اور خواص ارواح سے واقف ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جس قدر ارواح میں عجائب و غرائب خواص بھرے ہوئے ہیں وہ صرف جوڑنے جاڑنے سے پیدا نہیں ہو سکتے مثلاً روحوں میں ایک قوت کشفی ہے جس سے وہ پوشیدہ باتوں کو بعد مجاہدات دریافت کر سکتے ہیں اور ایک قوت ان میں عقلی ہے جس سے وہ امور عقلیہ کو معلوم کر سکتے ہیں.ایسا ہی ایک قوت محبت بھی ان میں پائی جاتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اگر ان تمام قوتوں کو خود بخود بغیر ایجاد کسی موجد کی مان لیا جائے تو پر میشر کی اس میں بڑی ہتک عزت ہے گویا یہ کہنا پڑے گا کہ جو عمدہ اور اعلیٰ کام تھا وہ تو خود بخود ہے اور جو ادنی اور ناقص کام تھا وہ پر میشر کے ہاتھ سے ہوا ہے اور اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ جو خود بخود عجائب حکمتیں پائی جاتی ہیں وہ پر میشر کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں ایسا کہ پر میشر بھی ان سے حیران ہے غرض اس اعتقاد سے آریہ صاحبوں کے خدا کی خدائی پر بڑا صدمہ پہنچے گا یاں تک کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوگا اور اس کے وجود پر کوئی عقلی دلیل قائم نہ ہو سکے گی اور نیز وہ مہدہ کل فیوض کا نہیں ہو سکے گا بلکہ اس کا صرف ایک ناقص کام ہوگا اور جو اعلیٰ درجہ کے عجائب کام ہیں ان کی نسبت یہی کہنا پڑے گا کہ وہ سب خود بخود ہیں لیکن ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر فی الحقیقت ایسا ہی ہے تو اس سے اگر فرضی طور پر پر میشر کا وجود مان بھی لیا جائے تب بھی وہ نہایت ضعیف اور نکما سا وجود ہو گا جس کا عدم وجود مساوی ہوگا یاں تک کہ اگر اس کا مرنا بھی فرض کیا جائے تو روحوں کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا اور وہ اس لائق ہر گز نہیں ہوگا کہ کوئی روح اس کی بندگی کرنے کے لئے مجبور کی جائے کیونکہ ہر یک روح اس کو جواب دے سکتی ہے کہ جس حالت میں تم نے مجھے پیدا ہی نہیں کیا اور نہ میری طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں کو تم نے بنایا تو پھر آپ کس استحقاق سے مجھے سے اپنی پرستش چاہتے ہیں اور نیز جبکہ پر میشر روحوں کا خالق ہی نہیں تو ان پر محیط بھی نہیں ہو سکتا.اور جب احاطہ نہ ہو سکا تو پر میشر اور روحوں میں حجاب ہو گیا اور جب حجاب ہوا تو پر میشر سرب گیانی نہ ہو سکا یعنی علم غیب پر قادر نہ ہوا.اور جب قادر نہ رہا تو اس کی سب خدائی درہم برہم ہو گئی تو گویا پر میشر ہی ہاتھ سے گیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ علم کامل کسی شے کا اس کے بنانے پر قادر کر دیتا ہے اس لئے حکماء کا مقولہ ہے کہ جب علم اپنے کمال تک پہنچ جائے تو وہ عین عمل ہو جاتا ہے اس حالت میں بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پر میشر کو روحوں کی کیفیت اور گنہ کا پورا پورا علم بھی ہے یا نہیں اگر اس کو پورا پورا علم ہے تو پھر کیا وجہ کہ باوجود پورا پورا علم ہونے کے پھر ایسی ہی روح بنا نہیں سکتا سو اس سوال پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ پر میشر

Page 185

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۷ سورة بنی اسراءیل روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں بلکہ ان کی نسبت پورا پورا علم بھی نہیں رکھتا.دوسرا ٹکڑہ ہمارے سوال کا حق العباد سے متعلق ہے یعنی یہ کہ آریہ صاحبان کے اعتقاد مذکورہ بالا کے رو سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پر میشر اپنے بندوں سے بھی ناحق کا ایک بخل رکھتا ہے کیونکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مکتی اور نجات کی اصل حقیقت یہی ہے کہ انسان ماسوائے اللہ کے محبت سے مونہہ پھیر کر پر میشر کی محبت میں ایسا محو ہو جائے کہ جس طرح عاشق اپنے محبوب کے دیکھنے سے لذت اٹھاتا ہے ایسا ہی اپنے محبوب حقیقی کے تصور سے لذت اٹھائے اور محبت بجز معرفت حاصل نہیں ہو سکتی اور قاعدہ کی بات ہے کہ موجب محبت کے دو ہی امر ہیں یا محسن یا احسان پس جب انسان به باعث اپنی کامل معرفت کے خدائے تعالیٰ کے حسن و احسان پر اطلاع کامل طور پر پاتا ہے تو لامحالہ اس سے کامل محبت پیدا ہو جاتی ہے اور کامل محبت سے لذت ملتی ہے پس اسی جہان سے بہشتی زندگی عارف کی شروع ہو جاتی ہے اور وہی معرفت اور محبت عالم آخرت میں سرور دائگی کا موجب ہو جاتی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں نجات سے تعبیر کرتے ہیں.اب میں پوچھتا ہوں کہ جب ایک شخص کو پورا پورا سامان نجات کا میسر آ گیا اور پرمیشر کی کرپا اور فضل سے مکتی پا گیا تو پھر کیوں پر میشر اس کو نا کردہ گناہ مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے کیا وہ اس بات سے چڑتا ہے کہ کوئی عاجز بندہ ہمیشہ کے لئے آرام پاسکے جس حالت میں ابدی بقا کے روحوں میں قوت رکھی گئی ہے تو کیا پرمیشر اپنے بندوں کو ابدی سرور نہیں دے سکتا.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۲) اگر سب ارواح اور اجسام خود بخود پر میشر کی طرح قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں.تو پر میشر اس دعوی کا ہر گز مجاز نہیں رہا کہ میں ان چیزوں کا رب اور پیدا کنندہ ہوں کیونکہ جب کہ ان چیزوں نے پر میشر کے ہاتھ سے وجود ہی نہیں لیا تو پھر ایسا پر میشر ان کا رب اور مالک کیوں کر ہو سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی بچہ بنا بنایا آسمان سے گرے یا زمین کے خمیر سے خود پیدا ہو جائے تو کسی عورت کو یہ دعویٰ ہرگز نہیں پہنچتا کہ یہ میرا بچہ ہے بلکہ اس کا بچہ وہی ہو گا جو اس کے پیٹ سے نکلا ہے سو جو خدا کے ہاتھ سے نکلا ہے وہی خدا کا ہے اور جو اس کے ہاتھ سے نہیں نکلا وہ اس کا کسی طور سے نہیں ہوسکتا.کوئی صالح اور بھلا مانس ایسی چیزوں پر ہر گز قبضہ نہیں کرتا جو اس کی نہ ہوں تو پھر کیوں کر آریوں کے پرمیشر نے ایسی چیزوں پر قبضہ کر لیا جن پر قبضہ کرنے کا اس کو کوئی استحقاق نہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۶) عیسائیوں نے جب اپنی نادانی سے یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کلمتہ اللہ ہیں یعنی ان کی روح

Page 186

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة بنی اسراءیل کلمہ الہی ہے جو متشکل بروح ہوگئی ہے تو خدائے تعالیٰ نے اس کا یہ حقانی جواب دیا کہ کوئی بھی ایسی روح نہیں جو کلمتہ اللہ نہ ہو اور مجرد الہی حکم سے نہ نکلی ہو قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمرِ رَبّى اسی کی طرف اشارہ ہے اور یہ بات جو کلمات اللہ بصورت ارواح و دیگر مخلوق جلوہ گر ہو جاتی ہیں یہ خالقیت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے اور اسرار الہیہ میں سے ایک بار یک نکتہ ہے جس کی طرف کسی انسانی عقل کو خیال نہیں آیا اور خدائے تعالی کے پاک اور کامل کلام نے اس کو اپنے الہی نور سے منکشف کیا ہے اور اگر ایسا نہ مانا جائے تو خدائے تعالیٰ اپنے ہی کلمہ اور امر سے ارواح اور اجسام کو وجود پذیر کر لیتا ہے.تو پھر آخر یہ ماننا پڑے گا کہ جب تک باہر سے اجسام اور روحیں نہ آویں پر میٹر کچھ بھی نہیں کر سکتا.سرمه چشم آریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۶۵) ارواح کا حادث اور مخلوق ہونا قرآن شریف میں بڑے بڑے قومی اور قطعی دلائل سے بیان کیا گیا ہے چنانچه برعایت ایجاز و اجمال چند دلائل ان میں سے نمونہ کے طور پر اس جگہ لکھے جاتے ہیں.اول یہ بات بہ ہداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں ہمیشہ اور ہر حال میں خدائے تعالی کی ماتحت اور زیر حکم ہیں اور بجر مخلوق ہونے کے اور کوئی وجہ موجود نہیں جس نے روحوں کو ایسے کامل طور پر خدائے تعالیٰ کی ماتحت اور زیر حکم کر دیا ہو سو یہ روحوں کے حادث اور مخلوق ہونے پر اول دلیل ہے.دوم یہ بات بھی بہ ہداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں خاص خاص استعدادوں اور طاقتوں میں محدود اور محصور ہیں جیسا کہ بنی آدم کے اختلاف روحانی حالات و استعدادات پر نظر کر کے ثابت ہوتا ہے اور یہ تحدید ایک محدود کو چاہتی ہے جس سے ضرورت محدث کی ثابت ہو کر ( جو محدد ہے ) حدوث روحوں کا بہ پایہ ثبوت پہنچتا ہے.سوم یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ تمام روحیں عجز و احتیاج کے داغ سے آلودہ ہیں اور اپنی تکمیل اور بقا کے لئے ایک ایسی ذات کی محتاج ہیں جو کامل اور قادر اور عالم اور فیاض مطلق ہو اور یہ امران کی مخلوقیت کو ثابت کر نے والا ہے.چہارم یہ بات بھی ایک ادنیٰ غور کرنے سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری روحیں اجمالی طور پر ان سب متفرق الہی حکمتوں اور صنعتوں پر مشتمل ہیں جو اجرام علوی و سفلی میں پائے جاتے ہیں.اسی وجہ سے دنیا باعتبار اپنے جزئیات مختلفہ کے عالم تفصیلی ہے اور انسان عالم اجمالی کہلاتا ہے یا یوں کہو کہ یہ عالم صغیر اور وہ عالم کبیر ہے پس جبکہ ایک جزئی عالم کے بوجہ پائے جانے پر حکمت کاموں کے ایک صانع حکیم کی صنعت کہلاتی ہے تو خیال

Page 187

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورة بنی اسراءیل کرنا چاہئے کہ وہ چیز کیوں کر صنعت الہی نہ ہوگی جس کا وجود اپنے عجائبات ذاتی کے رو سے گویا تمام جزئیات عالم کی عکسی تصویر ہے اور ہر یک جزئی کے خواص عجیبہ اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت بالغہ ایزدی پر بوجہ اتم مشتمل ہے.ایسی چیز جو مظہر جمیع عجائبات صنعت الہی ہے مصنوع اور مخلوق ہونے سے باہر نہیں رہ سکتی بلکہ وہ سب چیزوں سے اول درجہ پر مصنوعیت کی مہر اپنے وجود پر رکھتی ہے اور سب سے زیادہ تر اور کامل تر صانع قدیم کے وجود پر دلالت کرتی ہے سو اس دلیل سے روحوں کی مخلوقیت صرف نظری طور پر ثابت نہیں بلکہ درحقیقت اجلی بدیہات ہے.ماسوا اس کے دوسری چیزوں کو اپنی مخلوقیت کا علم نہیں مگر روحیں فطرتی طور پر اپنی مخلوقیت کا علم رکھتی ہیں ایک جنگلی آدمی کی روح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتی کہ وہ خود بخود ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی فرماتا بے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ - قَالُوا بَلى (الاعراف : ۱۷۳) یعنی روحوں سے میں نے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب ( پیدا کنندہ) نہیں ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں یہ سوال وجواب حقیقت میں اس پیوند کی طرف اشارہ ہے جو مخلوق کو اپنے خالق سے قدرتی طور پر متحقق ہے جس کی شہادت روحوں کی فطرت میں نقش کی گئی ہے.پنجم جس طرح بیٹے میں باپ اور ماں کا کچھ کچھ حلیہ اور خو بو پائی جاتی ہے اسی طرح روحیں جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اپنے صانع کی سیرت وخصلت سے اجمالی طور پر کچھ حصہ رکھتی ہیں اگر چہ مخلوقیت کی ظلمت و غفلت غالب ہو جانے کی وجہ سے بعض نفوس میں وہ رنگ الہی کچھ پھیکا سا ہو جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر یک روح کسی قدر وہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اور پھر بعض نفوس میں وہ رنگ بد استعمالی کی وجہ سے بدنما معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس رنگ کا قصور نہیں بلکہ طریقہ استعمال کا قصور ہے.انسان کی اصلی قوتوں اور طاقتوں میں سے کوئی بھی بری قوت نہیں صرف بد استعمالی سے ایک نیک قوت بری معلوم ہونے لگتی ہے.اگر وہی قوت اپنے موقع پر استعمال کی جائے تو وہ سراسر نفع رسان اور خیر محض ہے اور حقیقت میں انسان کو جس قدر قو تیں دی گئی ہیں.وہ سب الہی قوتوں کے اظلال و آثار ہیں.جیسے بیٹے کی صورت میں کچھ کچھ باپ کے نقوش آ جاتے ہیں ایسا ہی ہماری روحوں میں اپنے رب کے نقوش اور اس کی صفات کے آثار آ گئے ہیں جن کو عارف لوگ خوب شناخت کرتے ہیں اور جیسے بیٹا جو باپ سے نکلا ہے اس سے ایک طبعی محبت رکھتا ہے نہ بناوٹی.اسی طرح ہم بھی جو اپنے رب سے نکلے ہیں اس سے فی الحقیقت طبعی محبت رکھتے ہیں نہ بناوٹی اور اگر ہماری روحوں کو اپنے رب سے یہ طبعی و فطرتی تعلق نہ ہوتا تو پھر سالکین کو اس تک پہنچنے کے لئے کوئی

Page 188

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورۃ بنی اسراءیل صورت اور سبیل نہ تھی سو اگر چہ دلائل مخلوقیت ارواح جن کو اللہ جل شانہ نے آپ قرآن شریف میں معقولی طور پر بیان کیا ہے اس کثرت سے ہیں کہ اگر وہ سب اس جگہ لکھے جائیں تو خود انہیں دلائل کی ایک بڑی کتاب ہو جائے گی مگر ہم بالفعل اسی قدر پر کفایت کرتے ہیں.ردو سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۶۷ تا ۱۶۹) وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح الخ....اور کفار تجھ سے (اے محمد) پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے اور کس چیز سے اور کیوں کر پیدا ہوئی ہے.ان کو کہہ دے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تم کو اے کا فرو علم روح اور علم اسرار الہی نہیں دیا گیا مگر کچھ تھوڑا سا.سو اس جگہ اے ماسٹر صاحب آپ کو اپنے نقصان فہم سے یہ غلطی لگی کہ آپ نے اس عبارت کا مخاطب ( کہ تم کو علم روح نہیں دیا گیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا حالانکہ لفظ ما أوتيتم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم کو نہیں دیا گیا جمع کا صیغہ ہے جو صاف دلالت کر رہا ہے جو اس آیت کے مخاطب کفار ہیں کیونکہ ان آیات میں جمع کے صیغہ سے کسی جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب نہیں کیا گیا بلکہ جابجا واحد کے صیغہ سے خطاب کیا گیا ہے اور جمع کے صیغہ سے کفار کی جماعت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسا سوال کرتے ہیں سوا اگر کوئی نرا اندھا نہ ہو تو سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں دو جمع کے صیغے وارد ہیں.اول یعلون یعنی سوال کرتے ہیں.دوم ما اوتیتم یعنی تم نہیں دیئے گئے اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ يسلون کے صیغہ جمع سے مراد کا فر ہیں جنہوں نے روح کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا تھا.ایسا ہی ظاہر ہے کہ ما اوتیتہ کے صیغہ جمع سے بھی مراد کا فر ہی ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کسی جگہ جمع کے صیغہ سے خطاب نہیں کیا گیا بلکہ اول مجرد کاف سے جو واحد پر دلالت کرتا ہے خطاب کیا گیا یعنی یہ کہا گیا کہ تجھ سے کفار پوچھتے ہیں یہ نہیں کہا گیا کہ تم سے کفار پوچھتے ہیں.پھر بعد اس کے ایسا ہی لفظ واحد سے فرمایا کہ ان کو کہہ دے یہ نہیں فرمایا کہ ان کو کہہ دو بر خلاف بیان حال کفار کے کہ ان کو دونوں موقعوں پر جمع کے صیغے سے بیان کیا ہے سو آیت کے سیدھے سیدھے معنے جو سیاق سباق کلام سے سمجھے جاتے ہیں اور صاف صاف عبارت سے نکلتے ہیں یہی ہیں کہ اے محمد کفار تجھ سے روح کی کیفیت پوچھتے ہیں کہ روح کیا چیز ہے اور کس چیز سے پیدا ہوئی ہے سو ان کو کہہ دے کہ روح امر ربی ہے یعنی عالم امر میں سے ہے اور تم اے کا فرو کیا جانو کہ روح کیا چیز ہے کیونکہ علم روح حاصل کرنے کے لئے ایماندار اور عارف باللہ ہونا ضروری ہے مگران باتوں میں سے تم میں کوئی بھی بات نہیں.....غور کرنا چاہئے کہ ان آیات شریفہ متذکرہ بالا کا کیسا مطلب

Page 189

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۱ سورة بنی اسراءیل صاف صاف تھا کہ کفار کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ روح کیا چیز ہے تب ایسی جماعت کو جیسا کہ صورت موجود تھی بصیغہ جمع مخاطب کر کے جواب دیا گیا کہ روح عالم امر میں سے ہے یعنی کلمتہ اللہ یا طل کلمہ ہے جو بحکمت و قدرت الہی روح کی شکل پر وجود پذیر ہو گیا ہے اور اس کو خدائی سے کچھ حصہ نہیں بلکہ وہ در حقیقت حادث اور بندہ خدا ہے اور یہ قدرت ربانی کا ایک بھید دقیق ہے.جس کو تم اے کا فرد سمجھ نہیں سکتے.مگر کچھ تھوڑا سا جس کی وجہ سے تم مکلف بایمان ہو.تمہاری عقلیں بھی دریافت کر سکتی ہیں.....یہ ایک بڑی بھاری صداقت کا بیان ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربوبیت الہی دوطور سے نا پیدا چیزوں کو پیدا کرتی ہے اور دونوں طور کے پیدا کرنے میں پیدا شدہ چیزوں کے الگ الگ نام رکھے جاتے ہیں.جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے.خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے اَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ (الاعراف : ۵۵ ) یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۲ تا ۱۷۶) ستیارتھ پر کاش میں پنڈت دیانند صاحب نے لکھا ہے کہ روح انسانی اوس کی طرح کسی گھاس پات وغیرہ پر گرتی ہے پھر اس کو کوئی عورت کھا لیتی ہے اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے یہ کس قدر عقل کے برخلاف اور تمام اطباء اور فلاسفہ کی تحقیق کے مخالف ہے.کیونکہ ظاہر ہے کہ بچہ صرف عورت ہی کی منی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ عورت اور مرد دونوں کی منی سے پیدا ہوتا ہے اور اس کے اخلاق روحانی بھی صرف ماں سے مشابہت نہیں رکھتے بلکہ ماں اور باپ دونوں سے مشابہت رکھتے ہیں تو پھر یہ اعتقاد کس قدر نا معقول اور خلاف عقل ہے کہ گویا ایک عورت کی غذا میں ہی وہ روح مخلوط ہو کر کھائی جاتی ہے اور مرد اس سے محروم رہ جاتا ہے.پھر سوچنا چاہیے کہ کیا روح کوئی جسم کی قسم ہے کہ جسم سے مخلوط ہو جاتی ہے دیکھو کس قدر یہ اصول بعید از عقل ہے.ماسوا اس کے زمین کے نیچے سے ہزاروں جانور زندہ نکلتے ہیں اور بہت سی چیزوں میں سینکڑوں برسوں کے بعد

Page 190

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ کیڑے پڑ جاتے ہیں ان چیزوں میں کہاں سے اور کس راہ سے روح آ جاتی ہے.سورة بنی اسراءیل سرمه چشم آریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۱۲، ۱۱۳) روح ہرگز جسم نہیں ہے جسم قسمت کو قبول کرتا ہے اور روح قابل انقسام نہیں اور اگر یہ کہو کہ وہ جز لا یتجزی ہے یعنی پر مانو ( پر کرتی ) ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کئی روحوں کو باہم جوڑ کر ایک بڑا جسم طیار ہو جائے جس کو دیکھ سکیں اور ٹول سکیں کیونکہ جز لا تجزی جس کو آریہ لوگ پر کرتی یا پر مانو کہتے ہیں یہی خاصیت رکھتی ہے.سرمه چشم آرید ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۲۴ حاشیه ) بجز انسان کے اور کسی حیوان اور کیڑے مکوڑے کی روح کو بقاء نہیں ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۰) روح ایک لطیف نور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے.پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اول مخفی اور غیر محسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتا ہے اور ابتداء اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے.بے شک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اس کی مشیت سے ایک مجہول الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نورانی جو ہر ہے.نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے.مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے.خدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے.بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہر سکتا.اگر ہم ایسا خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل پر ٹھہراتا ہے.ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ گندے اور باسی کھانوں میں اور گندے زخموں میں ہزار ہا کیڑے پڑ جاتے ہیں.میلے کپڑوں میں صدہا جوئیں پڑ جاتی ہیں.انسان کے پیٹ کے اندر بھی کدو دانے وغیرہ پیدا ہو جاتے ہیں.اب کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ باہر سے آتے ہیں یا آسمان سے اترتے کسی کو دکھائی دیتے ہیں.سو صیح بات یہ ہے کہ روح جسم میں سے ہی نکلتی ہے اور اسی دلیل سے اس کا مخلوق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.اب اس وقت ہمارا مطلب اس بیان سے یہ ہے کہ جس قادر مطلق نے روح کو قدرت کاملہ کے ساتھ جسم میں سے ہی نکالا ہے اس کا یہی ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ روح کی دوسری پیدائش کو بھی جسم کے ذریعہ سے ہی ظہور میں لاوے.روح کی حرکتیں ہمارے جسم کی حرکتوں پر موقوف ہیں.جس طرف ہم جسم کو کھینچتے ہیں روح

Page 191

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ سورة بنی اسراءیل بھی بالضرور پیچھے پیچھے کھینچی چلی آتی ہے اس لئے انسان کی طبعی حالتوں کی طرف متوجہ ہونا خدا تعالی کی سچی کتاب کا کام ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے انسان کی طبعی حالتوں کی اصلاح کے لئے بہت توجہ فرمائی ہے.اور انسان کا ہنسنا، رونا، کھانا، پینا، پہنا، سونا، بولنا، چپ ہونا، بیوی کرنا، مجر در ہنا، چلنا ٹھہرنا اور ظاہری پاکیزگی غسل وغیرہ کی شرائط بجالانا اور بیماری کی حالت اور صحت کی حالت میں خاص خاص امور کا پابند ہونا ان سب باتوں پر ہدایتیں لکھی ہیں اور انسان کی جسمانی حالتوں کو روحانی حالتوں پر بہت ہی مؤثر قرار دیا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۶) خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا.کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۲۹) قرآن شریف یہ نہیں سکھلاتا کہ انسانی ارواح اپنی ذات کے تقاضا سے ابدی ہیں بلکہ وہ یہ سکھلاتا ہے کہ یہ ابدیت انسانی روح کے لئے محض عطیہ الہی ہے ورنہ انسانی روح بھی دوسرے حیوانات کی روحوں کی (نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۲ حاشیه ) طرح قابل فنا ہے.جس حالت میں روحیں قدیم سے خود بخود اور اپنے وجود کی آپ خدا ہیں تو اس صورت میں گویا وہ تمام روحیں کسی علیحدہ محلہ میں مستقل قبضہ کے ساتھ رہتی ہیں اور پر میٹر علیحدہ رہتا ہے کوئی تعلق درمیان نہیں اور اس امر کی وجہ کچھ نہیں بتلا سکتے کہ تمام روحیں اور تمام ذرات با وجود انادی اور قدیم اور خود بخود ہونے کے پرمیشر کے ماتحت کیوں کر ہو گئیں.کیا کسی لڑائی اور جنگ کے بعد یہ صورت ظہور میں آئی یا خود بخو در وجوں نے کچھ مصلحت سوچ کر اطاعت قبول کر لی.(چشمہ مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۷) قرآن شریف کہتا ہے کہ روحیں انادی اور غیر مخلوق نہیں اور دو نطفوں کی ایک خاص ترکیب سے وہ پیدا ہوتی ہیں اور یا دوسرے کیڑوں مکوڑوں میں ایک ہی مادہ سے پیدا ہو جاتی ہیں اور یہی سچ ہے کیونکہ مشاہدہ اس پر گواہی دیتا ہے جس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں اور امور محسوسہ مشہودہ سے انکار کرنا سراسر جہالت ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ روح نیست سے ہست ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اول وہ کچھ بھی نہیں تھا بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے لئے کوئی ایسا مادہ نہیں تھا کہ انسان اپنی قوت سے اس میں سے رُوح نکال سکتا اور اس کی پیدائش صرف اس طور سے ہے کہ محض الہی قوت اور حکمت اور قدرت کسی مادہ میں سے اس کو

Page 192

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة بنی اسراءیل پیدا کر دیتی ہے اسی واسطے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ روح کیا چیز ہے تو خدا نے فرمایا کہ تو ان کو جواب دے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اس بارے میں آیت قرآنی یہ ہے کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا یعنی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ رُوح کیا چیز ہے اور کیوں کر پیدا ہوتی ہے.اُن کو جواب دے کہ رُوح میرے رب کے امر سے پیدا ہوتی ہے یعنی وہ ایک راز قدرت ہے اور تم لوگ رُوح کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے مگر تھوڑا سا یعنی صرف اس قدر کہ تم رُوح کو پیدا ہوتے دیکھ سکتے ہو اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ ہم بچشم خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری آنکھ کے سامنے کسی مادہ میں سے کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں.اور انسانی روح کے پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ دو نطفوں کے ملنے کے بعد جب آہستہ آہستہ قالب تیار ہو جاتا ہے تو جیسے چندا دویہ کے ملنے سے اُس مجموعہ میں ایک خاص مزاج پیدا ہو جاتی ہے کہ جو ان دواؤں میں فرد فرد کے طور پر پیدا نہیں ہوتی اسی طرح اُس قالب میں جو خون اور دو نطفوں کا مجموعہ ہے ایک خاص جو ہر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک فاسفرس کے رنگ میں ہوتا ہے اور جب تجلی الہی کی ہوا کشن کے امر کے ساتھ اس پر چلتی ہے تو یکدفعہ وہ افروختہ ہوکر اپنی تا ثیر اس قالب کے تمام حصوں میں پھیلا دیتا ہے تب وہ جنین زندہ ہو جاتا ہے پس یہی افروختہ چیز جو جنین کے اندر تجلی ربی سے پیدا ہو جاتی ہے اس کا نام رُوح ہے اور وہی کلمتہ اللہ ہے اور اس کو آمر رتی سے اس لئے کہا جاتا ہے کہ جیسے ایک حاملہ عورت کی طبیعت مد بر و بحکم قادر مطلق تمام اعضاء کو پیدا کرتی ہے اور عنکبوت کے جالے کی طرح قالب کو بناتی ہے اس روح میں اس طبیعت مد ترہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ رُوح محض خاص تجلی الہی سے پیدا ہوتی ہے اور گوروح کا فاسفرس اُس مادہ سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر وہ روحانی آگ جس کا نام رُوح ہے وہ بجر مس نسیم آسمانی کے پیدا نہیں ہو سکتی.یہ سچا علم ہے جو قرآن شریف نے ہمیں بتلایا ہے تمام فلاسفروں کی عقلیں اس علم تک پہنچنے سے بیکار ہیں اور وید بھی بید بے شمر کی طرح اس علم سے محروم رہا وہ قرآن شریف ہی ہے جو اس علم کو زمین پر لایا سو اس طور سے ہم کہتے ہیں کہ روح نیست سے ہست ہوتی ہے یا عدم سے وجود کا پیرا یہ پہنتی ہے.یہ نہیں ہم کہتے کہ عدم محض سے رُوح کی پیدائش ہوتی ہے کیونکہ تمام کارخانہ پیدائش سلسلہ حکمت اور علمل معلولات سے وابستہ ہے.اور یہ کہنا کہ اگر روح مخلوق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ فنا بھی ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رُوح بیشک فنا پذیر ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ جو چیز اپنی صفات کو چھوڑتی ہے اس حالت میں اس کو فانی کہا جاتا ہے

Page 193

سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کسی دوا کی تاثیر بالکل باطل ہو جائے تو اس حالت میں ہم کہیں گے کہ وہ دوا مرگئی ایسا ہی روح میں یہ امر ثابت ہے کہ بعض حالات میں وہ اپنی صفات کو چھوڑ دیتی ہے بلکہ اس پر جسم سے بھی زیادہ تغیرات وارد ہوتے ہیں انہیں تغیرات کے وقت کہ جب وہ روح کو اُس کی صفات سے ڈور ڈال دیتی ہیں کہا جاتا ہے کہ روح مرگئی کیونکہ موت اسی بات کا نام ہے کہ ایک چیز اپنی لازمی صفات کو چھوڑ دیتی ہے تب کہا جاتا ہے کہ وہ چیز مرگئی اور یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فقط اُنہیں انسانی روحوں کو بعد مفارقت دنیا زندہ قرار دیا ہے جن میں وہ صفات موجود تھے جو اصل غرض اور علت غائی ان کی پیدائش کی تھی یعنی خدائے تعالیٰ کی کامل محبت اور اس کی کامل اطاعت جو انسانی روح کی جان ہے اور جب کوئی روح خدا تعالیٰ کی محبت سے پر ہو کر اور اس کی راہ میں قربان ہو کر دنیا سے جاتی ہے تو اُسی کو زندہ روح کہا جاتا ہے باقی سب مردہ روحیں ہوتی ہیں.غرض رُوح کا اپنی صفات سے الگ ہونا یہی اس کی موت ہے چنانچہ حالت خواب میں بھی جب جسم انسانی مرتا ہے تو روح بھی ساتھ ہی مرجاتی ہے یعنی اپنی صفات موجودہ کو جو بیداری کی حالت میں تھیں چھوڑ دیتی ہے اور ایک قسم کی موت اُس پر وارد ہو جاتی ہے کیونکہ خواب میں وہ صفات اس میں باقی نہیں رہتیں جو بیداری میں اُس کو حاصل ہوتی ہیں سو یہ بھی ایک قسم موت کی ہے کیونکہ جو چیز اپنی صفات سے الگ ہو جائے اس کو زندہ نہیں کہہ سکتے.اکثر لوگ موت کے لفظ پر بہت دھو کہ کھاتے ہیں موت صرف معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنی صفات سے معطل ہونے کا نام بھی موت ہے ورنہ جسم جو مر جاتا ہے بہر حال مٹی اس کی تو موجود رہتی ہے اسی طرح روح کی موت سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ اپنی صفات سے معطل کی جاتی ہے جیسا کہ عالم خواب میں دیکھا جاتا ہے کہ جیسے جسم اپنے کاموں سے بیکار ہو جاتا ہے ایسا ہی روح بھی اپنی ان صفات سے جو بیداری میں رکھتے تھے بکلی معطل ہو جاتی ہے مثلا ایک زندہ کی روح کسی میت سے خواب میں ملاقات کرتی ہے اور نہیں جانتی کہ وہ میت ہے اور سونے کے ساتھ ہی بکلی اس دُنیا کو بھول جاتی ہے اور پہلا چولہ اُتار کر نیا چولہ پہن لیتی ہے اور تمام علوم جو رکھتی تھی سب کے سب بیکبارگی فراموش کر دیتی ہے اور کچھ بھی اس دنیا کا یاد نہیں رکھتی بجز اس صورت کے کہ خدا یاد دلاوے اور اپنے تصرفات سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور سچ مچ خدا کے گھر میں جا پہنچتی ہے اور اس وقت تمام حرکات اور کلمات اور جذبات اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات کے نیچے ہوتے ہیں اور اس طور سے خدا تعالیٰ کے تصرفات کے نیچے وہ مغلوب ہوتی ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ عالم خواب میں کرتی یا کہتی یا سنتی یا حرکت کرتی ہے وہ اپنے اختیار سے کرتی ہے بلکہ تمام

Page 194

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورۃ بنی اسراءیل اختیاری قوت اس کی مسلوب ہو جاتی ہے اور کامل طور پر موت کے آثار اس پر ظاہر ہو جاتے ہیں سوجس قدر جسم پر موت آتی ہے اس سے بڑھ کر رُوح پر موت وارد ہو جاتی ہے مجھے ایسے لوگوں سے سخت تعجب آتا ہے کہ وہ اپنی حالت خواب پر بھی غور نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ اگر رُوح موت سے مستثنیٰ رکھی جاتی تو وہ ضرور عالم خواب میں بھی مستقلی رہتی ہمارے لئے خواب کا عالم موت کے عالم کی کیفیت سمجھنے کے لئے ایک آئینہ کے حکم میں ہے جو شخص روح کے بارے میں سچی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ خواب کے عالم پر بہت غور کرے کہ ہر ایک پوشیدہ راز موت کا خواب کے ذریعہ سے کھل سکتا ہے اگر تم عالم خواب کے اسرار پر جیسا کہ چاہئے توجہ کرو گے اور جس طور سے عالم خواب میں روح پر ایک موت وارد ہوتی ہے اور اپنے علوم اور صفات سے وہ الگ ہو جاتی ہے اس طور پر نظر تدبر ڈالو گے تو تمہیں یقین ہو جائے گا کہ موت کا معاملہ خواب کے معاملہ سے ملتا جلتا ہے پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ روح مفارقت بدن کے بعد اُسی حالت پر قائم رہتی ہے جو حالت دنیا میں وہ رکھتی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ایسی ہی موت اس پر وارد ہو جاتی ہے جیسا کہ خواب کی حالت میں وارد ہوئی تھی بلکہ وہ حالت اِس سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہر ایک صفت اس کی نیستی کی چکی کے اندر پیسی جاتی ہے اور وہی رُوح کی موت ہوتی ہے اور پھر جو لوگ زندہ ہونے کے کام کرتے تھے وہی زندہ کئے جاتے ہیں کسی روح کی مجال نہیں کہ آپ زندہ رہ سکے.کیا تم اختیار رکھتے ہو کہ نیند کی حالت میں تم اپنے ان صفات اور حالات اور علوم کو اپنے قبضہ میں رکھ سکو جو بیداری میں تم کو حاصل ہیں؟ نہیں بلکہ آنکھ بند کرنے کے ساتھ ہی روح کی حالت بدل جاتی ہے اور ایک ایسی نیستی اُس پر وارد ہوتی ہے کہ تمام کارخانہ اُس کی ہستی کا الٹ پلٹ ہو جاتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۵۸ تا ۱۶۲) قرآن شریف رُوحوں کو ازلی ابدی نہیں ٹھہراتا ہے اُن کو تخلوق بھی مانتا ہے اور فانی بھی.جیسا کہ وہ روحوں کے مخلوق ہونے کے بارے میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ ثُمَّ انْشَأنَهُ خَلْقًا أَخَرَ (المؤمنون : ۱۵) یعنی جب قالب تیار ہو جاتا ہے تو اس کی تیاری کے بعد اُسی قالب میں سے ہم ایک نئی پیدائش کر دیتے ہیں یعنی روح اور ایسا ہی قرآن شریف میں ایک اور جگہ فرمایا ہے قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إلا قليلا یعنی روح میرے رب کے امر سے پیدا ہوتی ہے اور تم کو اس کا بہت تھوڑ اعلم ہے اور کئی محل میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی اشارہ فرمایا ہے کہ جس مادہ سے رُوح پیدا ہوتی ہے اسی مادہ کے موافق روحانی اخلاق ہوتے ہیں جیسا کہ تمام درندوں، چرندوں، پرندوں اور حشرات الارض پر غور کر کے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جیسا کہ

Page 195

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 192 سورة بنی اسراءیل نطفہ کا مادہ ہوتا ہے اس کے مناسب حال روحانی اخلاق اس جانور کے ہوتے ہیں.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۵،۱۶۴) قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس آنکھ کا کام نہیں یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر محض عقل سے اس کا پتہ لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پتلا اتنا ہی بتلائے کہ روح کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار فلاسفر د ہر یہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر نری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کو دیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کر سکے.فلاسفر تو روح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور روح فی الخارج ان کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں.یہ تفاسیر روح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمہ نبوت سے ملی ہیں.اور نرے عقل والے تو دعوی ہی نہیں کر سکتے.اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے تو یا درکھو کہ انہوں نے منقولی طور پر چشمہ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے پس جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ روح کے متعلق علوم چشمہ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس چشم سے دیکھنا چاہیے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تو دہ خاک سے روح کا ایک تعلق ہوتا ہے اور السّلامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ کہنے سے جواب ملتا ہے.پس جو آدمی ان قومی سے کام لے جن سے کشف قبور ہوسکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۲، ۳) یا درکھو ہر انسان کلمتہ اللہ ہے کیونکہ اس کے اندر روح ہے جس کا نام قرآن شریف میں آمرِ رَبّی رکھا گیا ہے لیکن انسان نادانی اور نا واقعی سے روح کی کچھ قدر نہ کرنے کے باعث اس کو انواع و اقسام کی سلاسل اور زنجیروں میں مقید کر دیتا ہے اور اس کی روشنی اور صفائی کو خطرناک تاریکیوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے اندھا اور سیاہ کر دیتا ہے اور اسے ایسا دھندلا بناتا ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا.لیکن جب تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی ناپاک اور تاریک زندگی کی چادر اتار دیتا ہے تو قلب منور ہونے لگتا ہے اور پھر اصل میدہ کی طرف رجوع شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ تقویٰ کے انتہائی درجہ پر پہنچ کر سارا میل کچیل اتر کر پھر وہ کلمۃ اللہ ہی رہ جاتا ہے.یہ ایک بار یک علم اور معرفت کا نکتہ ہے ہر شخص اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱)

Page 196

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة بنی اسراءیل دہر یہ روح کا ہی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی چیز ہے ہی نہیں.اور پھر کہتے ہیں کہ حشر اجساد کوئی چیز نہیں یہاں روح تعلیم پا کر آئندہ کیا کرے گا.یہ خیالی باتیں ہیں ان میں معقولیت نہیں ہے.اگر روح کوئی چیز نہیں ہے تو پھر یہ کیا بات ہے کہ جسم پر جو فعل واقع ہوتے ہیں ان کا اثر اندرونی قوتوں پر بھی پڑتا ہے.مثلاً اگر مقدم الراس پر چوٹ لگ جائے تو اس فساد کے ساتھ انسان مجنون ہوجاتا ہے یا حافظہ جاتا رہتا ہے.مجنونوں کی روح تو وہی ہیں نقص تو جسم میں ہے جسم کا اگر اچھا انتظام نہ رہے تو روح بیکار ہو جاتا ہے وہ بدوں جسم کسی کام نہیں ہے اس لئے ہمیشہ جسم کا محتاج ہے جس کا انتظام عمدہ ہو روحانی حالت بھی اچھی ہوگی.چھوٹے بچہ میں کیوں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ عواقب الامور کو سمجھ سکے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں ابھی قومی کا نشو ونما کامل نہیں ہوا ہوتا.اسی طرح پیٹ میں جو نطفہ جاتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ روح اس کے ساتھ کہاں سے چلی جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی دراصل ایک مخفی قوت چلی جاتی ہے جو انبساط اور نشاط کا باعث ہوتی ہے اسی طرح اناج میں بھی وہی کیفیت چلی آتی ہے.اسی کی طرف مولوی رومی نے اشارہ کر کے کہا ہے.ہفت صد هفتا و قالب دیده ام ہمچو سبزہ با رہا روئیده ام نافہم اور کوڑ مغز لوگوں نے اس شعر کو تناسخ پر حمل کر لیا ہے اور کہتے ہیں اس سے تناسخ ثابت ہوتا ہے مگران کو معلوم نہیں کہ یہ دراصل تغیرات نطفہ کی طرف ایما ہے یعنی جن جن تغیرات سے نطفہ تیار ہوتا ہے.اس کو اس ہے.اس شعر میں ظاہر کیا گیا ہے.شاید بہت تھوڑے آدمی ایسے ہوں گے جن کو یہ معلوم ہو کہ نطفہ بہت سے تغیرات سے بنتا ہے جس اناج سے نطفہ بنا ہے نطفہ کی حالت میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت سے تغیرات میں ڈالا ہے اور پھر اس کو محفوظ رکھا ہے.کیونکہ وہ در حقیقت نطفہ ہے اپنے وقت پر وہ پیسا بھی جاتا ہے اور اس سے روٹی بھی تیار کی جاتی ہے لیکن وہ محفوظ کا محفوظ چلا آتا ہے.آج کل نطفہ کے متعلق جو تحقیقات ہوئی ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس میں کیڑے ہوتے ہیں.یہ ایک الگ امر ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل میں وہ ایک قوت ہے جو برابر محفوظ چلی آتی ہے ممکن ہے کہ جو کچھ ڈاکٹروں نے سمجھا ہو وہ اس قوت کو سمجھا ہو.ہر اناج کے ساتھ انسانیت کا خاصہ نہیں بلکہ وہ جو ہر قابل الگ ہی ہے اور اس کو وہی کھاتا ہے جس کے لئے وہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اسی دن کے لئے مقدر ہوتا ہے.وہ نطفہ جس میں روحانیت کی جز ہے بڑھتا جاتا ہے

Page 197

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة بنی اسراءیل یہاں تک کہ مضغہ علقہ وغیرہ چھ حالتوں میں سے گزرتا ہے اور ان چھ تغیرات کے بعد ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا آخر (المؤمنون: ۱۵ ) کا وقت آتا ہے.اب اس آخری تبدیلی کو نشاء اخری کہا ہے یہ نہیں کہ ثُمَّ انْزَلْنَاهُ رُوحًا اخر اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہر سے کوئی چیز نہیں آتی.اب اس کو خوب غور سے سوچو تو معلوم ہوگا کہ روح کا جسم کے ساتھ کیسا ابدی تعلق ہے پھر یہ کیسی بیہودگی ہے جو کہا جاوے کہ جسم کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے یہ کس قدر ز بر دست ثبوت روح کی ہستی کا ہے اس کو کوئی معمولی نگاہ سے دیکھے تو اور بات ہے لیکن معقولیت اور فلسفہ سے سوچے تو اس سے انکار نہیں کر سکتا.اسی طرح ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی شخص کامیاب نہیں ہوا جو جسم اور روح دونوں سے کام نہ لے.اگر روح کوئی چیز نہیں تو ایک مردہ جسم سے کوئی کام کیوں نہیں ہوسکتا.کیا اس کے سارے اعضاء اور قومی موجود نہیں ہوتے اب یہ بات کیسی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ روح اور جسم کا تعلق جبکہ ابدی ہے پھر کیوں کسی ایک کو بر کار قراردیا جاوے.دعا کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ جسم تکالیف اٹھائے اور روح گداز ہو اور پھر صبر اور استقلال سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر حسن ظن سے کام لیا جاوے.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) یا درکھو کہ عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے جس جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اسی اسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے.مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے مگر اس کے تمام صفات دیکھنا چاہیے وہ بھی ہے اور ممیت بھی ہے.اثبات بھی کرتا ہے تو محو بھی کرتا ہے پیدا بھی کرتا ہے فنا بھی کرتا ہے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ روح کو فنا نہیں اور کہ یہی روح ہمیشہ سے چلے آتے ہیں وہ جب تک کسی کو چاہے رکھے.ہر ایک چیز فنا ہو جانے والی ہے باقی رہنے والی ذات صرف خدا کی ہی ہے روح میں جبکہ ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ہوتا ہے تو پھر اس کو ہمیشہ کے واسطے قیام کس طرح ہو سکتا ہے.جب تک روح کا قیام ہے وہ امر الہی کے قیام کے نیچے ہے خدا کے امر کے ماتحت ہی کسی کا قیام ہو سکتا ہے اور وہی فنا بھی کرتا ہے وہ ہمیشہ خالق بھی ہے اور ہمیشہ خلق کو مٹاتا بھی ہے.مسلمان قدامت کا قائل ہے مگر قدامت نوعی کا نہ کہ قدامت شخصی کا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ پہلے کیا چیزیں تھیں اور کیا نہ تھیں.اگر اس کے برخلاف قدامت شخصی کا

Page 198

12 • سورۃ بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عقیدہ رکھا جاوے تو وہ دہریت میں داخل ہونا ہوتا ہے.( بدر جلد ۲ نمبر ۵۲ مورخه ۲۷ دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) خدا جب سے خالق ہے تب سے اس کی مخلوق ہے گو ہمیں یہ علم نہ ہو کہ وہ مخلوق کسی قسم کی تھی.غرض نوع قدم کے ہم قائل ہیں.ایک نوع فنا کر کے دوسری بنادی مگر یہ نہیں کہ جیسے آریہ مانتے ہیں.روح مادہ ویسا ہی ازلی ابدی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ.ہمارا ایمان ہے کہ روح ہو یا مادہ غرض خواہ کچھ ہی ہو اللہ کی مخلوق ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ ء صفحه ۸) یہ بات ممکن تو ہے کہ کشفی طور سے روحوں سے انسان مل سکتا ہے مگر اس امر کے حصول کے واسطے ریاضات شاقہ اور مجاہدات سخت کی اشد ضرورت ہے.ہم نے خود آزمایا ہے اور تجربہ کیا ہے اور بعض اوقات روحوں سے ملاقات کر کے باتیں کی ہیں.انسان ان سے بعض مفید مطلب امور اور دوائیں وغیرہ بھی دریافت کر سکتا ہے.ہم نے خود حضرت عیسی کی روح اور آنحضرت اور بعض صحابہ سے بھی ملاقات کی ہے اور اس معاملہ میں صاحب تجر بہ ہیں لیکن انسان کے واسطے مشکل یہ ہے کہ جب تک اس راہ میں مشق اور قاعدہ کی پابندی سے مجاہدات نہیں کرتا یہ امر حاصل نہیں ہوسکتا اور چونکہ ہر ایک کو یہ امر میسر بھی نہیں آسکتا اس واسطے اس کے نزدیک یہ ایک قصہ کہانی ہی ہوتی ہے اور اس میں حقیقت نہیں ہوتی.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲ ؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۸) روح ایک مخلوق چیز ہے اسی عنصری مادے سے خدا اسے بھی پیدا کرتا ہے....روح انسانی باریک اور مخفی طور سے نطفہ انسانی میں ہی موجود ہوتی ہے اور وہ بھی نطفہ کے ساتھ ساتھ ہی آہستگی سے نشو نما کرتی اور ترقی پاتی پاتی چوتھے مہینے کے انجام اور پانچویں مہینے کے ابتداء میں ایک بین تغیر اور نشو و نما پا کر ظہور پذیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے کہ ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ (المؤمنون : ۱۵) - یہ درست نہیں جیسا کہ جو آریہ بتاتے ہیں کہ روح بھی خدا کی طرح ازلی ابدی ہے.اس اعتقاد پر اتنے شبہات پڑتے ہیں کہ پھر خدا خدا ہی نہیں رہتا.روح ایک لطیف جو ہر ہوتا ہے جو مخفی طور سے انسان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتا اور نشو نما پاتا ہے.مثال کے طور ایک گولر کے پھل کولو جب وہ کچا ہو گا تو اس میں ایک قسم کے نامکمل حالت میں زندہ جانور پائے جاویں گے مگر جو نبی کہ وہ پک کر تیار ہو گا اس میں سے جانور چلتے پھرتے نظر آویں گے اور یہاں تک کہ پر لگ کر اُڑ نے بھی لگ جاویں گے.اس کے سوا اور بھی کئی درختوں کے پھل ہیں جن میں اس قسم کے مشاہدات پائے جاتے ہیں.

Page 199

121 سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام غرض ہمارے پاس تو ہمارے دعوے کا ثبوت ہے.ثابتہ سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا.اصل میں ان پھلوں میں ایک قسم کا مادہ اندر ہی اندر موجود ہوتا ہے ) جو پھل کے نشوونما کے ساتھ ساتھ نشو ونما کرتا اور ترقی ا حکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۶٫۵) پاتا ہے.روح تین قسم کی ہوتی ہے روح نباتی ، روح حیوانی ، روح انسانی.ان تینوں کو ہم برابر نہیں مانتے.ان میں سے حقیقی زندگی کی وارث اور جامع کمالات صرف انسانی روح ہے باقی حیوانی اور نباتی روح میں بھی ایک قسم کی زندگی ہے مگر وہ انسانی روح کی برابری نہیں کر سکتی.نہ ویسے مدارج حاصل کر سکتی ہے نہ کمالات میں انسانی روح کی برابری کر سکتی ہے کچھ تشابہ ہو تو اس بار یک بحث میں ہم پڑنا مناسب نہیں سمجھتے.ہوسکتا ہے کہ بعض خاص خاص صفات میں یہ روحیں انسانی روح سے مشابہت رکھتی ہوں مگر جس طرح انسان میں اور ان میں ظاہری اختلاف اور فرق ہے اسی طرح اختلاف روحانی بھی پایا جاتا ہے.الحام جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۶) نظر کشفی میں کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام ارواح اور اجسام کلمات اللہ ہی ہیں جو بحکمت کا ملہ الہی پیرا یہ حدوث و مخلوقیت سے متلبس ہو گئے ہیں مگر اصل محکم جس پر قدم مارنا اور قائم رہنا ضروری ہے یہ ہے کہ ان کشفیات و معقولات سے قدر مشترک لیا جائے یعنی یہ کہ خدائے تعالیٰ ہر ایک چیز کا خالق اور محدث ہے اور کوئی چیز کیا ارواح اور کیا اجسام بغیر اس کے ظہور پذیر نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے کیونکہ کلام الہی کی عبارت اس جگہ در حقیقت زوالوجوہ ہے اور جس قدر قطع اور یقین کے طور پر قرآن شریف ہدایت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک چیز خدا تعالی سے ظہور پذیر و وجود پذیر ہوئی ہے اور کوئی چیز بغیر اس کے پیدا نہیں ہوئی اور نہ خود بخود سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۵،۱۷۴ حاشیه ) ہے.روحوں کی پیدائش پر انسان کیوں تعجب کرے.اسی دنیا میں صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کنہ کو سمجھنے میں بکلی معقل عاجز رہ جاتی ہے.بعض اوقات صاحب کشف صد ہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بے شمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہ تعالیٰ اس کی آواز بھی سن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوئی ہے بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گذشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ملاقات ہر

Page 200

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة بنی اسراءیل ایک نیک بخت روح یا بد بخت روح کے کشف قبور کے طور پر ہو سکتی ہے چنانچہ خود اس میں مؤلف رسالہ ہذا صاحب تجربہ ہے.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۸،۱۷۷ حاشیه ) قُل لبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيران ان کو کہہ کہ اگر تمام جن اور آدمی اس بات پر اتفاق کریں کہ قرآن جیسی کوئی اور کتاب بنالا وہیں تو وہ کبھی بنا نہیں سکیں گے اگر چہ بعض بعض کے مددگار بھی ہوں.( براہینِ احمدیہ چہار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴ حاشیہ نمبر ۱۱) ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن اور آدمی اس بات پر اتفاق کر لیں کہ قرآن کی مثل کوئی کلام لاویں تو یہ بات ان کے لئے ممکن نہیں.اگر چہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاویں.( براہینِ احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۷۳ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہو جائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کر لیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بناویں تو ان کے لئے ہر گز ممکن نہیں ہوگا.اگر چہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۵) ان منکرین کو کہہ دے کہ اگر تمام جن و انس یعنی تمام مخلوقات اس بات پر متفق ہو جائے کہ اس قرآن کی کوئی مثل بنانی چاہیے تو وہ ہرگز اس بات پر قادر نہیں ہوں گے کہ ایسی ہی کتاب انہیں ظاہری باطنی خوبیوں کی جامع بنا سکیں.اگر چہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۱ حاشیه ) ان کو کہہ دے کہ اگر سب جن و انس اس بات پر متفق ہو جائیں کہ قرآن کی کوئی نظیر پیش کرنی چاہیے تو ممکن نہیں کہ کر سکیں اگر چہ بعض بعضوں کی مدد بھی کریں.اور جو کچھ قرآن شریف کے ذاتی معجزات اس جگہ ہم نے تحریر کئے ہیں اگر کسی آریہ وغیرہ کو اپنے دل میں کچھ گھمنڈ یا سر میں کچھ غرور ہو اور خیال ہو کہ یہ معجزہ نہیں ہے بلکہ وید یا اس کی کوئی اور کتاب جس کو وہ الہامی سمجھتا ہے اس کا مقابلہ کر سکتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ آزما کر دیکھ لے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی مخالف ممتاز اور ذی علم لوگوں میں سے ان معجزات قرآنیہ

Page 201

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۳ سورة بنی اسراءیل میں سے کسی معجزہ کا انکاری ہو اور اپنی کتاب الہامی میں زور مقابلہ خیال کرتا ہو تو ہم حسب فرمائش اس کے کوئی قسم اقسام معجزات ذاتیہ قرآن شریف میں سے تحریر کر کے کوئی مستقل رسالہ شائع کر دیں گے پھر اگر اس کی الہامی کتاب قرآن شریف کا مقابلہ کر سکے تو اسے حق پہنچتا ہے کہ تمام معجزات قرآنی سے منکر ہو جائے اور جو شرط قرار دی جائے ہم سے پوری کر لے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۴، ۲۷۵) علاوہ اس کمال خاص قرآن کے کہ وہ وحی متلو ہے محفوظیت کی رو سے بھی حدیثوں کو قرآن کریم سے کیا نسبت ہے.قرآن کریم کی جیسا کہ اس کی بلاغت و فصاحت وحقائق و معارف کی رو سے کوئی چیز مثل نہیں ٹھہر سکتی ایسا ہی اس کی صحت کا ملہ اور محفوظیت اور لاریب فیہ ہونے میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں کیونکہ اس کے الفاظ و ترتیب الفاظ اور محفوظیت تامہ کا اہتمام خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور ماسوا اس کے حدیث ہو یا قول کسی صحابی کا ہو ان سب کا اہتمام انسانوں نے کیا ہے جو سہو اور نسیان سے بری نہیں رہ سکتے اور ہرگز وہ لوگ محفوظیت تامہ اور صحت کا ملہ میں احادیث اور اقوال کو مثل قرآن نہیں بنا سکتے تھے اور یہ عجزان کا اس آیت کریمہ کے اعجازات پیش کردہ میں داخل ہے قُلْ لَينِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيرا جب ہر ایک بات میں مثل قرآن ممتنع ہے تو کیوں کر وہ لوگ احادیث کو صحت اور محفوظیت میں مثل قرآن بنا سکتے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۶،۶۱۵) أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْقُرْآنَ مَا ادَّعى انجاز کیا تجھے معلوم نہیں کہ قرآن نے اعجاز بلاغت کا الْبَلاغَةِ إِلَّا فِي الرِّيَاغَةِ، فَإِنَّ الْعَرَبَ في دعوی کشتی گاہ کے میدان میں کیا ہے کیونکہ عرب اس کے زَمَانِهِ كَانُوْا فُصَحَاءِ الْعَصْرِ وَبُلَغَاءَ الدَّهْرِ زمانہ میں فصحاء عصر اور بلغاء دہر تھے اور ان کے باہم فخر وَكَانَ مَدَارُ تَفَاخُرِهِمْ عَلَى غُرَرِ الْبَيَانِ کرنے کا مدار فصیح اور با آب و تاب تقریروں پر تھا اور آب وَدُرَرِهِ وَثَمَارِ الْكَلَامِ وَزَهْرِهِ، وَكَانُوا نیز کلام کے پھلوں اور پھولوں پر ناز کرتے تھے.اور يُنَاضِلُونَ بِالْقَصَائِدِ الْمُبْتَكَرَةِ وَالْخُطب ان کی لڑائیاں نو ایجاد قصیدوں اور پاکیزہ خطبوں کے الْمُحَيَّرَةِ، وَلكِن مَّا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَتَكَلَّمُوا في ساتھ ہوتی تھیں مگر ان کو لطائف حکمیہ میں بات کرنے کا اللطائفِ الحِكْميَّةِ، وَمَا مَسَّتْ بَيَانَهُمْ سلیقہ نہ تھا اور ان کے بیان کو معارف الہیہ کی بو بھی نہیں رَائِحَةُ الْمَعَارِفِ الْإِلَهِيَّةِ، بَلْ كَانَ مَسْرَحُ پہنچتی تھی بلکہ ان کے فکروں کا چراگاہ صرف عشقیہ

Page 202

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة بنی اسراءیل أَفَكَارِهِمْ إِلَى الْأَبْيَاتِ الْعِشْقِيَّة، شعروں اور ہنسانے والے اور غافل کرنے والے بیتوں وَالْأَضَاحِيكِ الْمُلْهِيَةِ، وَمَا كَانُوا عَلَى تک تھا اور مضامین حکمیہ کی مرصع نگاری پر وہ قادر نہ تھے تَرْصِيْعِ مَضَامِينِ الْحِكْمِ قَادِرِيْنَ وَكَانُوا حالانکہ وہ ایک زمانہ سے نظم اور نثر اور لطائف بیان کے قَد مَرَنُوا مِنْ سِنِينَ عَلَى أَنْوَاعِ النَّظْمِ مشتاق تھے اور اپنے ہم جنسوں میں مسلم اور مقبول تھے وَالنَّارِ وَلَطَائِفِ الْبَيَانِ، وَسُلّمُوا وَقُبِلُوا اور اہل زبان اور میدانوں میں سبقت کرنے والے تھے في الْأَقْرَانِ، وَكَانُوا أَهْلَ اللَّسَانِ وَسَوابق پس خدا تعالیٰ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تمہیں الْمَيَادِيْنِ فَخَاطَبَهُمُ اللهُ وَقَالَ إِن كُنتُم اس کلام میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا ہے تو تم فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورت بھی کوئی سورت اس کی مانند بنا کر لاؤ اور اگر بنا نہ سکو اور مِنْ مِثْلِهِ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہیں سکو گے سو اس آگ سے ڈرو جس النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ کے بیزم افروختنی آدمی اور پتھر ہیں اور وہ آگ کافروں أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ وَقَالَ قُلْ لين اجتمعت کے لئے طیار کی گئی ہے اور فرمایا کہ اگر تمام جن و انس اس الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذا بات کے لئے اکٹھے ہو جائیں کہ اس قرآن کی کوئی مثل بنا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمُ لاویں تو ہر گز نہیں لاسکیں گے اگر چہ ایک دوسرے کی مدد لِبَعْضٍ ظَهِيرًا فَعَجِزَ الْكُفَّارُ عَنِ الْمُقَابَلَةِ بھی کریں.پس کفار مقابلہ سے عاجز آگئے اور مغلوب لے وولّوا النير كالمَغْلُوبين.ہو کر پیٹھیں پھیر لیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۷) اگر جن اور انس سب اس بات پر اتفاق کریں کہ اگر اور کتاب جو کمالات قرآنی کا مقابلہ کر سکے پیش کریں تو نہیں پیش کر سکیں گے اگر چہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) اگر جن وانس اس بات پر اتفاق کر لیں کہ اس قرآن کی نظیر بناویں تو ہرگز بنا نہیں سکیں گے اگر چہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.بعض نادان مُلّا اخْزَاهُمُ الله کہا کرتے ہیں کہ یہ بے نظیری صرف بلاغت کے متعلق ہے لیکن ایسے لوگ سخت جاہل اور دلوں کے اندھے ہیں اس میں کیا کلام ہے کہ قرآن کریم اپنی بلاغت البقرة : ۲۵،۲۴

Page 203

۱۷۵ سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور فصاحت کے رو سے بھی بے نظیر ہے لیکن قرآن کریم کا یہ منشاء نہیں ہے کہ اس کی بے نظیری صرف اسی وجہ سے ہے بلکہ اس پاک کلام کا یہ منشاء ہے کہ جن جن صفات سے وہ متصف کیا گیا ہے ان تمام صفات کے رو سے وہ بے نظیر ہے مگر یہ حاجت نہیں کہ وہ تمام صفات جمع ہو کر بےنظیری پیدا ہو بلکہ ہر یک صفت جدا گانہ بے نظیری کی حد تک پہنچی ہوئی ہے.(کرامات الصادقين ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۱،۵۰) ان کو کہہ دے کہ اگر جن وانس اس کی نظیر بنانا چاہیں یعنی وہ صفات کاملہ جو اس کی بیان کی گئی ہیں اگر کوئی ان کی مثل بنی آدم اور جنات میں سے بنانا چاہیں تو یہ ان کے لئے ممکن نہ ہوگا اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.(کرامات الصادقين ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۹) وَلَقَد صَرَفنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلِ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا اور البتہ طرح طرح بیان کیا ہم نے واسطے لوگوں کے قرآن میں ہر ایک مثال سے.پس انکار کیا اکثر لوگوں نے مگر کفر کرنا.یعنی ہم نے ہر ایک طور سے دلیل اور حجت کے ساتھ قرآن کو پورا کیا مگر پھر بھی لوگ انکار سے باز نہ آئے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) أو يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرَقَى فِي السَّمَاءِ وَ لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِنِكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتُبَا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا.۹۴ یہی معجزہ کفار مکہ نے ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تھا کہ آسمان پر ہمارے رو برو چڑھیں اور روبروہی اتریں اور انہیں جواب ملا تھا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی یعنی خدائے تعالی کی حکیمانہ شان اس سے پاک ہے کہ ایسے کھلے کھلے خوارق اس دار الابتلا میں دکھاوے اور ایمان بالغیب کی حکمت کو تلف کرے.اب میں کہتا ہوں کہ جو امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو افضل الانبیاء تھے جائز نہیں اور سنت اللہ سے باہر سمجھا گیا وہ حضرت مسیح کے لئے کیوں کر جائز ہو سکتا ہے.یہ کمال بے ادبی ہوگی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک کمال کو مستبعد خیال کریں اور پھر وہی کمال حضرت مسیح کی نسبت قریب قیاس مان لیں.کیا

Page 204

سورة بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سچے مسلمان سے ایسی گستاخی ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں.( توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۶،۵۵) اگر حضرت مسیح بن مریم نے در حقیقت ایسے طور سے ہی اُترنا ہے جس طور سے ہمارے علماء یقین کئے بیٹھے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے کوئی فرد بشر انکار نہیں کرسکتا لیکن ہمارے علماء کو یادرکھنا چاہیئے کہ ایسا بھی نہیں ہو گا.کیونکہ خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے کہ اگر میں فرشتوں کو بھی زمین پر نبی مقرر کر کے بھیجتا تو انہیں بھی التباس اور اشتباہ سے خالی نہ رکھتا.یعنی اُن میں بھی شبہ اور شک کرنے کی جگہ باقی رہتی ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہی معجزہ آسمان سے اترنے کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مانگا گیا تھا اور اُس وقت اس معجزہ کے دکھلانے کی بھی ضرورت بہت تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار رسالت کرنے سے جہنم ابدی کی سزا تھی مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ نے یہ معجزہ نہ دکھایا اور سائلوں کو صاف جواب ملا کہ اس دار الابتلاء میں ایسے کھلے کھلے معجزات خدائے تعالیٰ ہر گز نہیں دکھاتا تا ایمان بالغیب کی صورت میں فرق نہ آوے.کیونکہ جب خدائے تعالی کی طرف سے ایک بندہ اترتا ہوا دیکھ لیا اور فرشتے بھی آسمان سے اُترتے ہوئے نظر آئے تو پھر تو بات ہی بکلی فیصلہ ہو گئی تو پھر کون بد بخت ہے جو اس سے منکر رہے گا ؟ قرآن شریف اس قسم کی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں لکھا ہے کہ ایسے معجزات دکھانا خدائے تعالیٰ کی عادت نہیں ہے اور کفار مکہ ہمیشہ ایسے ہی مجزات مانگا کرتے تھے.اور خدائے تعالی برابر انہیں یہ کہتا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو کوئی نشان آسمان سے ایسا نازل کریں جس کی طرف تمام منکروں اور کافروں کی گردنیں جھک جائیں.لیکن اس دار الابتلاء میں ایسا نشان ظاہر کرنا ہماری عادت نہیں کیونکہ اس سے ایمان بالغیب جس پر تمام ثواب مترتب ہوتا ہے ضائع اور دُور ہو جاتا ہے.سواے بھائیو! میں محض نصینا اللہ آپ لوگوں کو سمجھا تا ہوں کہ اس خیال محال سے باز آ جاؤ.ان دو قرینوں پر متوجہ ہو کر نظر ڈالو کہ کس قدر قوی اور کھلے کھلے ہیں.اول ایلیا نبی کا آسمان سے اتر نا کہ آخر وہ اترے تو کس طرح اُترے.دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال ہونا اور قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي اس کا جواب ملنا.اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا یہ اس بات کے سمجھنے کے لئے قرائن قویہ اور دلائل کا فیہ نہیں کہ آسمان سے اترنے سے مراد حقیقی اور واقعی طور پر اتر نانہیں بلکہ مثالی اور ظلی طور پر اُتر نا (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴) کفار کہتے ہیں کہ تو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آویں گے.ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دار الابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھاوے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ مراد ہے.

Page 205

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 122 سورة بنی اسراءیل ایک آدمی.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھا اور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جاوے.اب اگر جسم خاکی کے ساتھ ابن مریم کا آسمان پر جانا صحیح مان لیا جائے تو یہ جواب مذکورہ بالاسخت اعتراض کے لائق ٹھہر جائے گا اور کلام الہی میں تناقض اور اختلاف لازم آئے گا لہذا قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسده العصری آسمان پر نہیں گئے.بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں.بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت سیمی اور حضرت آدم اور حضرت اور یں اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں.اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیوں کر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر نا حق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اور طور پر معنے کئے جاتے ہیں.تعجب کہ توئی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا اُن کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جاملے جو ان سے پہلے اٹھائے گئے تھے.اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیوں کر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے.کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَ رَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا (مریم : ۵۸).کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں فانی تُصرَفُونَ (یونس : ۳۳).(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۸،۴۳۷) قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ کسی انسان کا آسمان پر چڑھ جانا عادۃ اللہ کے مخالف ہے جیسا کہ فرماتا بے قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُورٌ لیکن ہمارے مخالف حضرت عیسی کو ان کے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھاتے ہیں.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۴ حاشیه ) مسیح ابن مریم کا برخلاف نصوص صریحہ کتاب اللہ کے صدہا برس آسمان پر زندگی بسر کر کے اور پھر ملائک کے گروہ میں ایک مجمع عظیم میں نازل ہونا اور سانس سے تمام کا فروں کو مارنا اور یہ نظارہ دنیا کے لوگوں کو دکھائی دینا جو ایمان بالغیب کے بھی منافی ہے در حقیقت ایسا ہی امر تھا جو نیچر اور قانون قدرت کے ماننے والے اس سے انکار کرتے.کیونکہ اس قسم کے معجزات کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں اور قرآن اس کا مکذب ہے جیسا کہ آیت قُلْ سُبْحَانَ رَبّی سے ظاہر ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۰۷ حاشیه )

Page 206

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 12A سورة بنی اسراءیل عادت اللہ میں یہ امر داخل نہیں کہ کوئی انسان اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلا جائے اور پھر آسمان ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۸) سے نازل ہو.غرض آسمان سے نازل ہونے کا بطلان نہ صرف آیت قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي سے ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ تمام آیتیں جہاں لکھا ہے کہ جب فرشتے نازل ہوں گے تو ایمان بے فائدہ ہوگا اور وہ فیصلے کا وقت ہوگا نہ بشارت اور ایمان کا وقت بلند آواز سے پکار رہی ہیں کہ حضرت عیسی کا آسمان سے فرشتوں کے ساتھ انتر ناسراسر باطل ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۲،۳۸۱) ہے.قرآن شریف میں اقتراحی نشانوں کے مانگنے والوں کو یہ جواب دیا گیا تھا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كنتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً يعنى خدا تعالیٰ کی شان اس تہمت سے پاک ہے کہ کسی اس کے رسول یا نبی یا مہم کو یہ قدرت حاصل ہو کہ جو الوہیت کے متعلق خارق عادت کام ہیں ان کو وہ اپنی قدرت سے دکھلائے اور فرمایا کہ ان کو کہہ دے کہ میں تو صرف آدمیوں میں سے ایک رسول ہوں جو اپنی طرف سے کسی کام کے کرنے کا مجاز نہیں ہوں محض امر الہی کی پیروی کرتا ہوں.پھر مجھ سے یہ درخواست کرنا کہ یہ نشان دکھلا اور یہ نہ دکھلا سراسر حماقت ہے جو کچھ خدا نے کہا وہی دکھلا سکتا ہوں نہ اور کچھ.(تحفہ غز نوسیه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۴۰) جب کفار بدبخت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اقتراحی معجزہ مانگا کہ ہم تب مجھے قبول کریں گے کہ جب ہمارے دیکھتے دیکھتے آسمان پر چڑھ جائے اور دیکھتے دیکھتے اتر آوے تو آپ کو حکم آیا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولاً یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس بات سے پاک ہے کہ اپنی سنت قدیمہ اور دائمی قانون قدرت کے برخلاف کوئی بات کرے.میں تو صرف رسول اور انسان ہوں اور جس قدر رسول دنیا میں آئے ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہوئی کہ اس کو بجسم عنصری آسمان پر لے گیا ہو اور پھر آسمان سے اتارا ہو اور اگر عادت ہے تو تم خود ہی اس کا ثبوت دو کہ فلاں نبی بجسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا تھا اور پھر اتارا گیا تب میں بھی آسمان پر جاؤں گا اور تمہارے رُوبرو اتروں گا اور اگر کوئی نظیر تمہارے پاس نہیں تو پھر کیوں ایسے امر کی نسبت مجھ سے تقاضا کرتے ہو جو رسولوں کے ساتھ سنت اللہ نہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ سکھلایا ہوا ہوتا کہ حضرت مسیح زندہ بجسمہ العصری آسمان پر چلے گئے ہیں تو ضرور وہ اس وقت اعتراض کرتے اور کہتے کہ یا حضرت آپ کیوں آسمان پر کسی رسول کا بجسم عنصری جانا سنت اللہ کے برخلاف بیان فرماتے ہیں حالانکہ آپ ہی نے تو ہمیں بتلایا تھا کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ بجسمہ العصر می چلے گئے ہیں.(تحفہ گول و سیه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۲، ۹۳)

Page 207

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة بنی اسراءیل وَقَدْ سَأَلَ الْمُشْرِكُونَ سَيِّدَنا مشرکین نے ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن ترفى في یہ معجزہ مانگا تھا کہ اگر آپ بچے اور مقبول بارگاہ ہیں تو آپ آسمان السَّمَاء إِن كَانَ صَادِقًا مَقْبُولا پر چڑھ جائیں اس کے جواب میں فرمایا گیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي فَقِيلَ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَّسُولاً یعنی اے رسول تو انہیں کہہ دے کہ بَشَرًا رَّسُولاً فَمَا ظَنُّكَ أَلَيْسَ این میرا رب ایسی بیہودہ باتوں کے اختیار کرنے سے پاک ہے میں تو مَرْيَمَ بَشَرًا كَمَثَلِ خَيْرٍ الْمُرْسَلِينَ: صرف بشر رسول ہوں آسمان پر نہیں جاسکتا.پس تمہارا اس أَو تَفْتَرى عَلَى اللهِ وَتُقَدِّمُهُ عَلی بارے میں کیا خیال ہے کیا ابن مریم خیر المرسلین کی مانند بشر نہیں أَفَضَلِ النَّبِيِّينَ: أَلا إِنَّهُ مَا صَعِد تھے یا تو اللہ پر افتراء کر کے حضرت عیسی علیہ السلام کو افضل إلَى السَّمَاء أَلَا إِنَّ لَعْتَةَ اللهِ عَلَى الانبیاء پر مقدم قرار دیتا ہے.خبر دار مسیح آسمان پر نہیں چڑھے.الْكَاذِبِينَ وَشَهِدَ اللهُ أَنَّه قد اور یہ بھی یاد رکھو کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ مَاتَ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللهِ رَبِّ نے یہ گواہی دے دی ہے کہ مسیح علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کون ہوسکتا ہے.( ترجمہ از مرتب ) العالمين؟ (الهدى والتبصرة لمن يرى ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی گئی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷) وہ رَّسُ مگر وہ یہ کہہ کرنا منظور کی گئی کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا سُولاً تو کیا عیسی بشر نہ تھا کہ اس کو بغیر درخواست کے آسمان پر چڑھایا گیا.یہ خیالات نہایت قابل شرم ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو مع جسم آسمان پر اُٹھا لے گیا تھا.گویا یہودیوں سے ڈرتا تھا کہ کہیں پکڑ نہ لیں.جن لوگوں کو اصل تنازعہ کی خبر نہ تھی انہوں نے ایسے خیالات پھیلائے ہیں اور ایسے خیالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے.کیونکہ آپ سے کفار قریش نے یہ تمام تر اصرار یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ آپ ہمارے رو برو آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے کر آسمان سے اتریں تو ہم سب ایمان لے آویں گے اور ان کو یہ جواب ملا تھا قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً یعنی میں ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وعدہ کے برخلاف کسی بشر کو آسمان پر چڑھا دے.حالانکہ وہ وعدہ کر چکا ہے کہ تمام بشر زمین پر ہی اپنی زندگی بسر کریں گے.لیکن حضرت مسیح کو خدا نے آسمان پر مع جسم چڑھا

Page 208

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة بنی اسراءیل لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۰) دیا اور اس وعدہ کا کچھ پاس نہ کیا.یہ پکی بات ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح کامل اور افضل تھے.ان کو چاہیے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے کیا جواب دیا قُلُ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہہ دو اللہ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اس نے بشر کے لئے آسمان پر مع جسم کے جانا حرام کر دیا ہے.اگر میں جاؤں تو جھوٹا ٹھیروں گا.اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے اور کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو؟ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰ رنومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) فَانْظُرِ اقْتِدَاء لِهَذَا الْقَانُونِ تو اس محفوظ قانون کی پیروی کرتے ہوئے جو ہمیں الْعَاصِمِ الَّذِي بَلَغَنَا مِنْ رَّسُولِ الله رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچا ہے غور کر کیا تو مسیح کے صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ تَجِدُ جسم عصری کے ساتھ اوپر چڑھنے اور ان کے آسمان سے دو لِقِصَّةِ صُعُودِ الْمَسِيحِ مَعَ جِسْمه فرشتوں کے پروں پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے اُترنے کے قصہ الْعُنْصُرِي وَلِفِضَّةِ نُزولِهِ مِنَ السَّمَاء کی کوئی بنیاد یا ثبوت قرآن مجید میں پاتا ہے؟ یا اس قصہ سے وَاضِعًا كَفَيْهِ عَلى جَمَاعَيِ الْمَلكَيْنِ مشابہ کوئی اور قصہ پاتا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید اس أَصْلًا أَوْ أَثَرًا فِي الْقُرْآنِ أَوْ قِصَّةٌ فما دنیا میں اس قسم کے افعال سے اللہ تعالیٰ کی شان کو منزہ قرار دیتا يُقابِهُ هَذِهِ الْقِصَّةَ بَلِ الْقُرْآنُ يُنزِهُ ہے اور فرماتا ہے: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا شَأْنَ اللهِ عَن مِثْلِ تِلْكَ الْأَفْعَالِ فِي رَسُولاً اے رسول تو انہیں کہہ کہ میرا رب ایسی بیہودہ باتوں هذِهِ الدُّنْيَا وَيَقُولُ قُلْ سُبحَانَ رَبِّي کے اختیار کرنے سے پاک ہے میں تو صرف بشر رسول ہوں هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً.آسمان پر نہیں جاسکتا.( ترجمہ از مرتب) حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۱۹،۲۱۸) ایک طرف حضرت عیسی کو خدا تعالی کی طرح وحدہ لا شریک سمجھتے ہیں.وہی ہے جو مع جسم عنصری آسمان پر گیا اور وہی ہے جو کسی دن مع جسم عصری زمین پر آئے گا اور اسی نے پرندے پیدا کئے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں نے قسمیں کھا کر بار بار سوال کیا کہ آپ مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ کر دکھلائیے ہم

Page 209

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة بنی اسراءیل ابھی ایمان لائیں گے.ان کو جواب دیا گیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عہد شکنی سے پاک ہے اور ہمو جب اس کے قول کے مع جسم عصری آسمان پر نہیں جاسکتا کیونکہ یہ امر خدا کے وعدہ کے برخلاف ہے وجہ یہ کہ وہ فرماتا ہے کہ فِيهَا تَحيَونَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ (الاعراف : ٢٢) وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ ( البقرة : ۳۷)...اگر عیسی مع جسم عصری آسمان پر گیا ہے تو قرآن کے بیان کے رو سے لازم آتا ہے عیسی بشر نہیں تھا.چشمه سیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۶ حاشیه ) جو لوگ مسلمان کہلا کر حضرت عیسی کو مع جسم عصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ قرآن شریف کے برخلاف ایک لغو بات منہ پر لاتے ہیں.قرآن شریف تو آیت فَلَنَا تَوَقيْتَنِي ( المائدة : ۱۱۸) میں حضرت عیسی کی موت ظاہر کرتا ہے اور آیت قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَّسُولاً میں انسان کا مع جسم عصری آسمان پر جانا منع قرار دیتا ہے پھر یہ کیسی جہالت ہے کہ کلام الہی کے مخالف عقید رکھتے ہیں.(چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۵ حاشیه ) ہمارے مخالف باوجود بہت سے اختلافات کے جو مسیح موعود کے بارے میں ہر ایک فرقہ کی حدیثوں میں پائے جاتے ہیں اور بالا تفاق اس کو امتی بھی قرار دیا گیا ہے اس بات پر مطمئن ہیں کہ ضرور مسیح آسمان سے ہی نازل ہو گا.حالانکہ آسمان سے نازل ہونا خود غیر معقول اور خلاف نص قرآن ہے.خدا تعالیٰ فرماتا بے قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً.پس اگر بشر کے جسم عنصری کا آسمان پر چڑھانا عادت اللہ میں داخل تھا تو اس جگہ کفار قریش کو کیوں انکار کے ساتھ جواب دیا گیا.کیا عیسی بشر نہیں تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور کیا خدا تعالیٰ کو حضرت عیسی کو آسمان پر چڑھانے کے وقت وہ وعدہ یاد نہ رہا کہ الَم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانَا احْيَاء وَ اَمْوَانا (المرسلت : ۲۷،۲۶) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان پر چڑھنے کا جب سوال کیا گیا تو وہ وعدہ یاد آ گیا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۷) خدا کی کتابوں میں لکھا گیا کہ مومن مرنے سے چند روز بعد یا نہایت چالیس دن تک زندہ کیا جاتا اور آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے.یہ وہی جھگڑا ہے جو اب تک ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کی نسبت چلا آتا ہے.ہم موافق کتاب اللہ کے ان کی رفع روحانی ہونے کے قائل ہیں اور وہ کتاب اللہ کی مخالفت کر کے اور خدا کے حکم قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا کو پیروں کے نیچے رکھ کر رفع جسمانی ہونے کے قائل ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ یہ دجال ہے کیونکہ لکھا ہے کہ میں دجال آئیں

Page 210

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة بنی اسراءیل گے وہ نہیں سوچتے کہ اگر تمیں دجال آنے والے تھے تو اس حساب کی رو سے ہر ایک دجال کے مقابل پر تھیں مسیح بھی تو چاہیے تھے.یہ کیا غضب ہے کہ دجال تو تیں آگئے مگر مسیح ایک بھی نہ آیا.یہ امت کیسی بد قسمت ہے کہ اس کے حصہ میں دجال ہی رہ گئے اور سچے مسیح کا منہ دیکھنا اب تک نصیب نہ ہوا حالانکہ اسرائیلی سلسلہ میں تو صد ہانبی آئے تھے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۱، ۲۱۲) يَرْفَعُونَ عِيسَى مَعَ جِسْمِهِ إِلَى السَّمَاءِ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو جسم سمیت آسمان پر وَلَا يَتَدَبَّرُونَ قَوْلَهُ تَعَالَى: قُلْ سُبْحَانَ چڑھاتے ہیں اور اللہ تعالی کے قول قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی پر رَبِّي بَلْ يَزِيدُونَ فِي الْبُغْضِ وَ الشَّحْنَاءِ غور نہیں کرتے بلکہ وہ بغض اور کینہ میں بڑھ رہے ہیں.يَا فِتْيَانُ أَيْنَ أَنْتُمْ مِنْ تِلْكَ الْآيَاتِ وَلِمَ اے نوجوانو! تم ان آیات پر غور کرو تم کیوں متشابہات کی تَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهُ مِنَ الْقَوْلِ وَتَترُكُونَ پیروی کرتے ہو اور واضح محکمات کو چھوڑتے ہو.کیا تم نہیں ہو.الْبَيِّنَاتِ الْمُحْكَمَاتِ أَلَا تَعْلَمُونَ أَن جانتے کہ اس آیت میں مذکور ہے کہ کفار نے ہمارے رسول الْكُفَّارَ طَلَبُوا في هذِهِ الْآيَةِ مُعْجِزَةَ کریم سے جو سب نبیوں سے بہتر اور تمام برگزیدہ لوگوں کے الصُّعُودِ إِلَى السَّمَاءِ ، مِنْ نَبِيْنَا خَيْرِ سردار میں آسمان پر چڑھنے کا معجزہ طلب کیا تھا.تب اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ بشر کو جسم سمیت آسمان پر اٹھانا اس کی عادت نہیں ہے بلکہ یہ اس کی سنت اور وعدوں کے خلاف طریق ہے اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ حضرت عیسی جسم سمیت دوسرے آسمان پر اٹھائے گئے تھے فُرِضَ أَنَّ عِيسَى رُفِعَ مَعَ جِسْمِهِ إِلَى تو اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمانوں پر الْأَنْبِيَاءِ وَزُبُدَةِ الْأَصْفِيَاءِ ، فَأَجَابَهُمُ اللهُ أَنَّ رَفَعَ بَشَرٍ مَّعَ جِسْمِهِ لَيْسَ مِنْ عَادَتِهِ بَلْ هُوَ خِلافُ مَوَاعِيدِهِ وَسُنّتِه، وَلَوْ السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَمَا مَعْلَى هَذَا الْمَنْعِ فِي جانے میں روک کے کیا معنے ہیں کیا عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ هذِهِ الْآيَةِ أَلَمْ يَكُنْ عِيسَى بَشَرًا عِنْدَ کے نزدیک بشر نہیں تھے.علاوہ ازیں کون سی سخت حَضْرَةِ الْعِزَّةِ ثُمَّ أَلَى حَاجَةٍ اشْتَدَّتْ ضرورت پیش آئی تھی کہ انہیں بلند آسمانوں پر اٹھایا جاتا کیا لِرفعِهِ إِلَى السَّمَاوَاتِ الْعُلَى أَأَرْهَقَتُهُ زمین ان کے لئے جنگ ہو گئی تھی یا یہود کے ہاتھوں سے بیچ الْأَرْضُ بِضَيْفِهَا.أَوْ مَا بَقِيَ مَفَةٌ مِنْ أَيْدِی کر زمین میں ان کے لئے کوئی مفر نہ رہا تھا.پس آپ کو الْيَهُودِ فِيهَا، فَرُفِعَ إِلَى السَّمَاء لِيُخْفى آسمانوں پر اٹھایا گیا تا کہ انہیں چھپایا جائے.(الاستفتاء ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۷۰،۶۶۹) (ترجمه از مرتب)

Page 211

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ سورة بنی اسراءیل فَلَا شَكَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ دَلِيْلٌ وَاضِحُ بلا شبہ یہ آیت کسی بشر کے جسم عصری کے ساتھ آسمان عَلَى امْتِنَاعِ صُعُوْدِ بَشَرِ إِلَى السَّمَاءِ مَعَ پر جانے میں روک ہونے کے لئے واضح دلیل ہے اور اس جِسْمِهِ الْعُنْصُرِي، وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا کا انکار سوائے جاہلوں کے کوئی نہیں کر سکتا نیز آیت الْجَاهِلُونَ.وَفِي قَوْلِهِ تَعَالَى سُبْحَانَ رَبِّي سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولاً میں اشارہ إشَارَةٌ إلى أيَةِ فِيهَا تَحْيَونَ وَ فِيهَا آيت فِيهَا تَحْيَونَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ کی طرف ہے کیونکہ تَمُوتُونَ فَإِنَّ رَفَعَ بَشَرِ إِلَى السَّمَاء أَمْرُ کسی انسان کا آسمان پر اٹھایا جانا ایسا امر ہے جو اس عہد يَنقُضُ هَذَا الْعَهْدَ، فَسُبْحَانَهُ وَتَعَالیٰ کو توڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات پاک اور بلند ہے کہ وہ عما يَنقُضُ عَهْدَهُ فَفَكِّرُوا أَيُّهَا اپنے عہد کو توڑے.اے عقلمند و اس پر پوری طرح غور الْعَاقِلُونَ.کرو.(ترجمه از مرتب) (الاستفتاء ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۶۹ حاشیه ) آسمان پر چڑھنے اور اترنے کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ مانگا گیا تھا جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے آخر ان کو صاف جواب دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے فرمایا قل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۸۹) رَّسُولاً - بَشَرًا رَسُولاً - وہ عقیدہ جس پر خدا تعالیٰ نے علی وجہ البصیرت مجھ کو قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مثل دیگر انسانوں کے انسانی عمر پا کر فوت ہو گئے ہیں اور آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ جانا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر نازل ہونا یہ سب ان پر تہمتیں ہیں.قَالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۲) جب کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی کہ یہ معجزہ دکھلاویں کہ مع جسم عصری آسمان پر چڑھ جائیں تو ان کو یہ جواب ملا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي الخ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس بات سے پاک ہے کہ عہد اور وعدہ کے برخلاف کرے.وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ کوئی جسم عنصری آسمان پر نہیں جائے گا جیسا کہ فرمایا الم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا أَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا (المرسلت :۲۷،۲۶) اور جیسا کہ فرما يا فِيهَا تَحْيَونَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ (الاعراف : ۲۶) اور جیسا کہ فرمایا وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعُ الاعراف : ٢٦

Page 212

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة بنی اسراءیل إلى حين (الاعراف : ۲۵ ).پس یہ عرب کے کفار کی شرارت تھی کہ وہ لوگ برخلاف وعدہ دعہد الہی معجزہ مانگتے تھے اور خوب جانتے تھے کہ ایسا معجزہ دکھایا نہیں جائے گا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے اس قول کے برخلاف ہے جو گزر چکا ہے اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اپنے عہد کو توڑے اور پھر فرما یا کہ ان کو کہہ دے کہ میں تو ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ فرما چکا ہے کہ بشر کے لئے ممتنع ہے کہ اس کا جسم خا کی آسمان پر جائے ہاں پاک لوگ دوسرے جسم کے ساتھ آسمان پر جاسکتے ہیں جیسا کہ تمام نبیوں اور رسولوں اور مومنوں کی روحیں وفات کے بعد آسمان پر جاتی ہیں اور انہیں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مُفَتَعَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ (ص:۵۱) یعنی مومنوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے.یادر ہے کہ اگر صرف روحیں ہوتیں تو ان کے لئے کھر کی ضمیر نہ آتی پس یہ قرینہ قویہ اس بات پر ہے کہ بعد موت جومومنوں کا رفع ہوتا ہے وہ مع جسم ہوتا ہے مگر یہ جسم خاکی نہیں ہے بلکہ مومن کی روح کو ایک اور جسم ملتا ہے جو پاک اور نورانی ہوتا ہے اور اس دکھ اور عیب سے محفوظ ہوتا ہے جو عصری جسم کے لوازم میں سے ہے یعنی وہ ارضی غذاؤں کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ زمینی پانی کا حاجتمند ہوتا ہے اور وہ تمام لوگ جن کو خدا تعالیٰ کی ہمسائیگی میں جگہ دی جاتی ہے ایسا ہی جسم پاتے ہیں اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی نے بھی وفات کے بعد ایسا ہی جسم پایا تھا اور اسی جسم کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے تھے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) کفار قریش نے ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معجزہ طلب کیا کہ ان کے رو برو آسمان پر چڑھ جائیں تو آپ کو خدا تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إلا بَشَرًا رَّسُولاً (المؤمن :۶۱) یعنی ان لوگوں کو یہ جواب دے کہ خدا تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ اپنے وعدہ میں تخلف کرے....اور میں تو صرف ایک انسان ہوں جو تمہاری طرف بھیجا گیا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۸) ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہ وہی کر دے.یہ سوء ادب ہے اور ایسا خدا خدا ہی نہیں ہو سکتا.ہاں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امید اور حوصلہ دلایا کہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :(٦) یہ نہیں کہا کہ تم جو مانگو گے وہی دیا جاوے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے گئے تو آپ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا خدا کے رسول کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آداب الہی کو مد نظر رکھتے ہیں.احکام جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳)

Page 213

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة بنی اسراءیل ہم نہیں مان سکتے کہ کوئی اس جسم کے ساتھ آسمان پر بھی چڑھ سکتا ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے کہا کہ تو آسمان پر چڑھ جا آپ نے یہی فرما یا سُبحانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) خدا تعالیٰ کبھی قیامت کا نظارہ یہاں قائم نہیں کرتا اور وہ غلطی کرتے ہیں جو ایسے نشان دیکھنے چاہتے ہیں یہ محرومی کے لچھن ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے آئیں تو آپ نے یہی جواب دیا هَلُ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا.پورے انکشاف کے بعد ایمان لا کر کسی ثواب کی امید رکھنا غلطی ہے.اگر کوئی مٹھی کھول دی جاوے اور پھر کوئی بتادے کہ اس میں فلاں چیز ہے تو اس کی کوئی قدر نہ ہوگی.الحکم جلد نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحه ۲) ایسے فرضی اوصاف ان (حضرت مسیح علیہ السلام - ناقل) کے لئے وضع کرتے ہیں جن سے آنحضرت صلعم کی ہتک اور ہجو ہو کیونکہ آنحضرت صلعم سے کفار نے سوال کیا کہ آپ آسمان پر چڑھ کر بتلا دیں تو آپ نے یہ معجزہ ان کو نہ دکھلایا اور سُبحان ربی کا جواب دیا گیا.اور یہاں بلا درخواست کسی کافر کے خود خدا تعالیٰ مسیح کو آسمان پر لے گیا تو گویا خدا تعالیٰ نے خود آنحضرت صلعم کو کفار کی نظروں میں بیٹا کرانا چاہا.کیا وہ خدا اور تھا اور یہ اور تھا.البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۶۷) ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نبی مانتے ہیں اور سب سے اشرف جانتے ہیں اور ہرگز گوارا نہیں کرتے کہ کوئی عمدہ بات کسی اور کی طرف منسوب کی جاوے جب کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی معجزہ طلب کیا کہ آسمان پر چڑھ کر دکھاویں تو آپ نے فرما یا سُبحان ربی اور انکار کر دیا.دوسری طرف حضرت مسیح کو خدا آسمان پر لے جاوے یہ کیسے ہو سکتا ہے.ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکتے ہیں کہ جس قدر اخلاق اور خوبیاں کل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھیں.كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء : ۱۱۳).اس کی طرف اشارہ ہے پس اگر آسمان پر جانا کوئی فضیلت ہو سکتی تھی.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کب باہر رہ سکتے تھے.آخر یہ لوگ پچھتاویں گے کہ ان باتوں کو ہم نے کیوں نہ مانا.یہ لوگ ایک وار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کرتے ہیں کہ ایک معجزہ آسمان پر جانے کا لوگوں نے مانگا مگر خدا نے آپ کی پرواہ نہ کی اور عیسی کو یہ عزت دی کہ اسے آسمان پر اٹھا لیا اور دوسرا حملہ خود خدا پر کرتے ہیں.کہ اس نے اپنی قوت خلق سے مسیح کو بھی کچھ دے دی جس سے تشابہ الخلق

Page 214

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶ سورة بنی اسراءیل ہو گیا جواب دیتے ہیں کہ خدا نے خود مسیح کو یہ قدرت دی تھی.اے نادانو اگر خدائی نے تقسیم ہونا تھا تو کیا اس کے حصہ گیر عیسی ہی رہ گئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ حصہ ملا.(البدرجلد ۳ نمبر ۳۵ مورخه ۱۶ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲) خود خدا تعالیٰ کے کلام میں اس امر کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کوئی آسمان پر نہیں جاتا.جہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کفار نے آسمان پر چڑھنے کا معجز و طلب کیا تو فرما یا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رسُولاً یعنی بشر رسول کبھی کوئی آسمان پر نہیں چڑھا...کتب سماوی اور تاریخ زمانہ بھی یہی شہادت دیتے ہیں کوئی نظیر ایسی نہیں کہ پہلے کوئی دو چار نبی آسمان پر گئے ہوں.خود مسیح نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ یوحنا ہی الیاس ہے ہاں جس طرح آدم، موسیٰ ، نوح اور دوسرے نبی آسمان پر گئے اس طرح بیشک حضرت عیسی بھی گئے تھے.چنانچہ شب معراج میں آنحضرت صلعم نے سب کو آسمان پر دیکھا حضرت عیسی کی کوئی خصوصیت نہ تھی.افسوس ہے کہ ان لوگوں کی قوت شامہ ہی ماری گئی ہے.خود زمانہ کی حالت سے بو آتی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا عیسائیت کی پہلی اینٹ ہے ( بدر جلد نمبر ۱۹ مورخه ۱۰ /اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲) سچی اور بالکل سچی اور صاف بات یہی ہے کہ اجسام ضرور ملتے ہیں لیکن یہ عنصری اجسام یہاں ہی رہ جاتے ہیں یہ او پر نہیں جاسکتے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے جواب میں فرما یا قُلُ سُبحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَسُولاً یعنی ان کو کہہ دے میرا رب اس سے پاک ہے جو اپنے وعدوں کے خلاف کرے جو وہ پہلے کر چکا ہے میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.سُبحان کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ سابق جو وعدے ہو چکے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ نہیں کرتا.وہ وعدہ کیا ہے؟ وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعٌ إلى حِينِ (البقرة : ۳۷) اور ایسا ہی فرمایا الم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا (المرسلت : ۲۲) اور پھر فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ (الاعراف : ۲۶) ان سب آیتوں پر اگر یکجائی نظر کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جسم جو کھانے پینے کا محتاج ہے آسمان پر نہیں جاتا پھر ہم دوسرے نبیوں سے بڑھ کر مسیح میں یہ خصوصیت کیوں کر تسلیم کر لیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے شرارت سے یہی سوال کیا تھا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے وہ آیات سن چکے تھے جس میں اس امر کی نفی کی گئی تھی انہوں نے سوچا کہ اگر اب اقرار کریں تو اعتراض کا موقع ملے لیکن وہ تو اللہ کا کلام تھا اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا تھا اس لئے ان کو یہی

Page 215

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ سورة بنی اسراءیل جواب ملا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً یعنی ان کو کہہ دو کہ ایسا معجزہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اپنے پہلے قول کے خلاف کرے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو جب آسمان پر جانے کا معجزہ مانگا جاوے تو انہیں قُلْ سُبْحَانَ رَبّی کا جواب ملے اور مسیح کے لئے تجویز کر لیا جاوے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے.ایسی خصوصیتوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اسے خدا بنا یا جاوے پھر تو حید کہاں رہی.انتقام جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ راکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۲) آیت قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَسُولاً صبح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے کیونکہ جب کفار نے آپ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہی جواب دیا کہ قل سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً یعنی میرا رب اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ 199991 انسان کے لئے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین میں پیدا ہوا اور یہاں ہی مرے گا فِيهَا تَحْيَونَ وَ تمُوتُونَ (الاعراف : ۲۲ ).میں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جا سکتی اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اسی دنیا میں جیتا اور مرتا ہے اس لئے انہوں نے موقع پا کر یہ سوال کیا جس کا جواب ان کو ایسادیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا.پس یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح وفات پاچکے.(احکام جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۱۷ رفروری ۱۹۰۶ صفحه ۳) کہہ دے میرا رب پاک ہے.میں تو ایک انسان رسول ہوں انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۷ ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۴) ہمارے نبی کریم صلعم پر جب کفار نے سوال کیا تھا کہ آؤ توفى في السَّمَال یعنی آسمان پر چڑھ جاؤ تو خدا نے یہی جواب دیا تھا کہ بشر آسمان پر نہیں جا سکتا جیسے فرما یا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً اگر بشر آسمان پر جا سکتا تھا تو چاہیے تھا کہ کفار نظیر پیش کر دیتے.افسوس ان لوگوں نے بے وجہ پادریوں کی مدد پر کمر باندھ لی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے بشر تو آسمان پر جا نہیں سکتا مگر عیسی علیہ السلام آسمان پر چلے گئے اس لئے وہ خدا ہیں تو پھر منہ تکتے رہ جاتے ہیں.اتنا نہیں سمجھتے کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو ایک کمزور اور عاجز انسان تھے اور خدا کے رسول تھے ایک ذرہ بھی اس سے زیادہ نہ تھے.الحکم جلد نمبر ۳۹ مورخه ۱٫۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶)

Page 216

الَّا بَشَرًا رَسُولاً - ۱۸۸ سورۃ بنی اسراءیل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالی نے اقتراح کو منع کیا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اقتراح کرنے والے لوگ ہمیشہ ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں کیونکہ خدا نہ ان کی مرضی اور خواہشات کا تابع ہوتا ہے اور نہ وہ ہدایت پاتے ہیں.دیکھ لو! جب نشانات اور معجزات اقتراحی رنگ میں طلب کئے گئے جب ہی یہی جواب ملا قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ الحام جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱٫۲اپریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) وہ ( حضرت عیسی علیہ السلام.ناقل ) بے شک خدا کے مقربین میں سے تھے.ان پر خدا کا فضل تھا.وہ اللہ تعالیٰ کی نبوت سے ممتاز تھے.مگر ان کے لئے کوئی ایسی خصوصیت مقرر کرنا جو دوسرے انبیاء میں نہ ہو ٹھیک نہیں.کہتے ہیں کہ آسمان پر کئی صدیوں سے بجسده العصری متمکن ہے حالانکہ آنحضرت سے کفار نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم ضرور مان لیں گے اگر آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جاویں.اس کا جواب جو دیا گیا وہ یہ تھا کہ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا.جب اللہ تعالیٰ نے ابتداء سے ایک قانون مقرر کر دیا کہ فِيهَا تَحيَونَ (الاعراف : ۲۶) تو پھر اللہ اپنی سنت کے خلاف کیوں کرتا.اگر یہ عقیدہ ( عیسی کے مع جسم آسمان پر چڑھ جانے کا ) اس وقت کے مسلمانوں میں ہوتا تو کافروں کا حق تھا کہ انہیں یہ کہہ کر ملزم کریں کیا وجہ ہے ایک نبی کے لئے یہ امر جائز قرار دیتے ہیں اور دوسرے کے لئے نہیں.حالانکہ تم اس بات کے بھی قائل ہو کہ آنحضرت صلعم تمام نبیوں سے اور بالخصوص حضرت عیسی سے افضل اور جامع کمالات نبوت ہیں.غرض یہ زندہ آسمان پر چڑھ جانے کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے بلکہ قرآن تو اس عقیدہ کی تردید کرتا ہے.یہ آیت ہے جو میں نے پڑھی ہے حدیث نہیں کہ اس پر ضعیف یا وضعی ہونے کا اعتراض ہو سکتا ہو سارا قرآن مجید اول سے آخر تک دیکھ لو عیسی کے اب تک زندہ رہنے کا ثبوت نہ پاؤ گے.( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴) قُلْ كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًان یا درکھو محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں.دیکھو جب کفار کی طرف سے اعتراض ہوا کستَ مُرسَلاً تو جواب دیا گیا گفی بِاللهِ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ یعنی عنقریب خدا کی فعلی شہادت میری صداقت کو ثابت کر دے گی.پس الہام کے ساتھ فعلی شہادت بھی چاہیے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۹)

Page 217

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا قرآن کو ہم نے ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور حقانیت کے ساتھ اترا ہے.سورة بنی اسراءیل برائین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۶ حاشیہ نمبر ۱۱) اور ہم نے اس کلام کو ضرورت حقہ کے ساتھ اُتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے.یعنی یہ کلام فی حد ذاتہ حق اور راست ہے اور اس کا آنا بھی حقاً اور ضرورتا ہے یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے.یہ ضرورت حقہ کے وقت نازل کیا گیا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا ہے.براتین احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۵۰،۶۴۹) (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۵۹) متصوفین کے مذاق کے موافق صعود اور نزول کے ایک خاص معنے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب انسان خلق اللہ سے بکلی انقطاع کر کے خدائے تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو اس حالت کا نام متصوفین کے نزدیک صعود ہے اور جب مامور ہو کر نیچے کو اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے تو اس حالت کا نام نزول ہے.اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے نزول کا لفظ اختیار کیا گیا ہے اس کی طرف اشارہ ہے جو اس آیت میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ بِالْحَقِّ انْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۰) ہم نے اس کو...بیچائی کے ساتھ اتارا اور سچائی کے ساتھ اترا اور ایک دن وعدہ اللہ کا پورا ہونا تھا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۹،۱۳۸ حاشیه ) ضرورت حقہ کے ساتھ ہم نے اس کلام کو اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا ہے.(نور القرآن نمبر ا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) وہ ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا گیا اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۰۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے لئے پہلی دلیل یہی ہے کہ آپ جس وقت تشریف لائے وہ وقت چاہتا تھا کہ مردے از غیب برون آدکارے بکند.اسی کی طرف قرآن کریم نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے بِالْحَقِّ انْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ - الحکم جلد ۶ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ اس مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۴)

Page 218

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 190 سورة بنی اسراءیل قُلْ امِنُوا بِهِ اَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًان جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۷۸) ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں.مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کر لیں گے جیسا کہ فرماتا ہے يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا - ترجمہ :.ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے گریں گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۰۳ حاشیه ) وَيَقُولُونَ سُبُحْنَ رَيْنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبَّنَا لَمَفْعُولاً اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلف وعدہ سے پاک ہے.ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۸) وَيَخِرُونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًان اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام ان میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۸) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى لَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيُّ مِنَ الذُّلِ وَكَبْرُهُ تَكْبِيرًا اس کا کوئی بیٹا نہیں اور اس کے ملک میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ایسا کوئی اس کا دوست نہیں جو درماندہ ہو کر اس نے اس کی طرف التجا کی.اس کو نہایت بلند سمجھ اور اس کی نہایت بڑائی کر.یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تحرک کر کسی کو ولی نہیں بناتا.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۸) الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ر مار چ ۱۹۰۴ صفحه ۵)

Page 219

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۱ سورۃ بنی اسراءیل خدا کی ولایت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کو کوئی ایسی احتیاج ہے جیسے ایک انسان کو دوست کی ہوتی ہے یا گھڑ کر خدا کسی کو اپنا دوست بنا لیتا ہے بلکہ اس کے معنے ( ہیں ) فضل اور عنایت سے خدا تعالیٰ کسی کو اپنا بنا لیتا ہے اور اس سے اس شخص کو فائدہ پہنچتا ہے نہ کہ خدا کو.(البدرجلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳)

Page 220

Page 221

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۹۳ سورة الكهف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الكهف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَ لَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجَاةٌ فَيمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّلِحْتِ أَنَّ لَهُمُ اجْرًا حَسَنانُ مَاكِثِينَ فِيهِ اَبَدًا وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًان ما لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِأَبَابِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا b حدیث میں آیا ہے کہ جب تم دجال کو دیکھو تو سورۃ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو اور وہ یہ ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى و و انْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَب وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا - قَيْمَا لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ...وَ يُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا - مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَ لَا لِأَبَابِهِمْ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا.ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال سے کس

Page 222

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورةالكهف.گروہ کو مرا درکھا ہے اور عوج کے لفظ سے اس جگہ مخلوق کو شریک الباری ٹھہرانے سے مراد ہے.جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے اور اسی لفظ سے نہج اعوج مشتق ہے اور نہج اعوج سے وہ درمیانی زمانہ مراد ہے جس میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کو بعض صفات میں شریک الباری ٹھہرا دیا.اس جگہ ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر دجال کا بھی کوئی علیحدہ وجود ہوتا تو سورہ فاتحہ میں اس کے فتنہ کا بھی ذکر ضرور ہوتا اور اس کے فتنہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی علیحدہ دعا ہوتی مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ یعنی سورہ فاتحہ میں صرف مسیح موعود کو ایذا دینے سے بچنے کے لئے اور نصاریٰ کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کی گئی ہے حالانکہ بموجب خیالات حال کے مسلمانوں کا دجال ایک اور شخص ہے اور اس کا فتنہ تمام فتنوں سے بڑھ کر ہے تو گویا نعوذ باللہ خدا بھول گیا کہ ایک بڑے فتنہ کا ذکر بھی نہ کیا اور صرف دوفتنوں کا ذکر کیا ایک اندرونی یعنی مسیح موعود کو یہودیوں کی طرح ایذا دینا دوسرے عیسائی مذہب اختیار کرنا.یا درکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دوفتوں سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی ہے (۱) اول یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فرقرار دینا، اس کی توہین کرنا ، اس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا، اس کے قتل کا فتویٰ دینا جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہیں باتوں کی طرف اشارہ ہے.(۲) دوسرے نصاری کے فتنے سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ نصاری ایک سیل عظیم کی طرح ہوگا.اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۲،۲۱۰) إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً تَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ہم نے ہر یک چیز کو جو زمین پر ہے زمین کی زینت بنا دیا ہے تا جولوگ صالح آدمی ہیں بمقابلہ برے آدمیوں کے ان کی صلاحیت آشکارا ہو جائے اور کثیف کے دیکھنے سے لطیف کی لطافت کھل جائے کیونکہ ضد لے نسائی نے ابی ہریرہ سے دجال کی صفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث لکھی ہے يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَالٌ يَقْتُلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ الْسِنُهُمْ أَحْلَى عَنِ الْعَدْلِ وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَابِ يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَبِي يَفْتَرُونَ أَمر عَلَى يَجْتَرفون ان یعنی آخری زمانہ میں ایک گروہ دجال نکلے گا.وہ دنیا کے طالبوں کو دین کے ساتھ فریب دیں گے یعنی اپنے مذہب کی اشاعت میں بہت سا مال خرچ کریں گے.بھیڑوں کا لباس پہن کر آئیں گے.ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور دل بھیڑیوں کے ہوں گے.خدا کہے گا کہ کیا تم میرے علم کے ساتھ مغرور ہو گئے اور کیا تم میرے کلمات میں تحریف کرنے لگے.( کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۷۴) منہ

Page 223

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورةالكهف کی حقیقت ضد ہی سے شناخت کی جاتی ہے اور نیکوں کا قدرومنزلت بدوں ہی سے معلوم ہوتا ہے.برائین احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۶ حاشیہ نمبر ۱۱) اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ابْتِنَا عَجَبان کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں.نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے اور اس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے.( براہینِ احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۷۰ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) میں دیکھتا ہوں براہین میں میرا نام اصحاب الکہف بھی رکھا ہے.اس میں یہ ستر ہے کہ جیسے وہ مخفی تھے اسی طرح پر تیرہ سو برس سے یہ راز مخفی رہا اور کسی پر نہ کھلا اور ساتھ اس کے جور قیمہ کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود مخفی ہونے کے اس کے ساتھ ایک کتبہ بھی ہے اور وہ کتبہ یہی ہے کہ تمام نبی اس کے متعلق پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۵ صفحه ۲) میں یہ نہیں کہتا کہ حیات مسیح سے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے.نہیں بعض پہلوں نے غلطی کھائی ہے مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر رہے کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے قَدْ يُخْطِئُ وَ يُصِیب کبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب مگر دونوں طرح پر اسے ثواب ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے یہ معاملہ مخفی رہے.پس وہ غفلت میں رہے اور اصحاب کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی جیسا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا آم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحَبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ أَيْتِنَا عَجَبًا - اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب سر ہے.باوجود یکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے اور احادیث سے بھی یہی ثابت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خدا تعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لئے اس کو خفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا.لا الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخہ ۱۷ار فروری ۱۹۰۶ صفحه ۳) وَإذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأوا إلَى الْكَهْفِ يَنْشُرُ لَكُم رَبُّكُم مِنْ رَّحْمَتِهِ وَيُهَى لَكُم مِّنْ أَمْرِكُمْ مِرْفَقًا قرآنی آیات سے پتہ لگتا ہے کہ اوی کا لفظ یہ چاہتا ہے کہ اول کوئی مصیبت واقع ہو.اسی طرح إِنَّهُ اوّى

Page 224

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٦ سورة الكهف الْقَرْيَةَ چاہتا ہے کہ ابتداء میں خوفناک صورتیں ہوں.اصحاب کہف کی نسبت یہی ہے فاوا إِلَى الْكَهْفِ اور اور جگہ وَأوَيْنَهُما إلى ربوة - (المؤمنون : ۵۱ ) ان تمام مقامات سے یہی مطلب ہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالی آرام دیوے مصیبت اور خوف کا نظارہ پیدا ہو جاوے.(البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸، نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۶) اوی کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيما فاولى (الضحی :) یعنی خدا نے تجھے یتیم پایا اور یتیمی کے مصائب میں تجھے مبتلا دیکھا پھر پناہ دی اور جیسا کہ فرماتا ہے: أَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ و مَعِينٍ (المؤمنون : ۵۱) یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو بعد اس کے جو یہودیوں نے ان پر ظلم کیا اور حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا.ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو پناہ دی اور دونوں کو ایک ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا جوسب پہاڑوں سے اونچا تھا یعنی کشمیر کا پہاڑ جس میں خوشگوار پانی تھا اور بڑی آسائش اور آرام کی جگہ تھی اور جیسا کہ سورۃ الکہف میں یہ آیت ہے فاوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرُ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِه (الجز ونمبر ۱۵ سوره کهف) یعنی غار کی پناہ میں آ جاؤ.اس طرح پر خدا اپنی رحمت تم پر پھیلائے گا یعنی تم ظالم بادشاہ کی ایڈا سے نجات پاؤ گے.غرض اوی کا لفظ ہمیشہ اس موقعہ پر آتا ہے کہ جب ایک شخص کسی حد تک کوئی مصیبت اُٹھا کر پھر امن میں داخل کیا جاتا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۳، ۲۴۴) وَ تَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَزَوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ ذَلِكَ مِنْ أَيْتِ اللهِ مَنْ يَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرشِدان جیسے جسمانی پیدائش کی ابتدا خدا ہی کی طرف سے ہے روحانی پیدائش کی ابتدا بھی خدا کی ہی طرف سے ہے - يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِى مَنْ يَشَاءُ (النحل : ۹۴) جس کو وہ بلاتا ہے وہ دوسرے کی بھی سن لیتا ہے مگر جس کو وہ نہیں بلاتا وہ کسی کی نہیں سنتا جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے مَنْ يَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مرشدا یعنی ہدایت وہی پاتا ہے جس کو خدا ہدایت دے اور جس کو خدا گمراہ رکھنا چاہتا ہے اس کو کوئی مرشد ہدایت نہیں دے سکتا.( مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۷۰)

Page 225

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورةالكهف وَلَا تَقُولَنَ لِشَايْ ءٍ إِنِّي فَاعِلُ ذَلِكَ غَدًا مجھے ان لوگوں کی حالتوں پر رحم آتا ہے کہ بخل کی وجہ سے کہاں تک ان لوگوں کی نوبت پہنچ گئی ہے.اگر کوئی نشان بھی طلب کریں تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کرو کہ ہم سات دن میں مر جائیں نہیں جانتے کہ خود تراشیدہ میعادوں کی خدا پیروی نہیں کرتا اس نے فرما دیا ہے کہ لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل: ۳۷) اور اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایا کہ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَاني إنِّي فَاعِل ذَلِكَ غَدًا سو جبکہ سید نا محمد مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کی میعاد اپنی طرف سے پیش نہیں کر سکتے تو میں سات دن کا کیوں کر دعویٰ کروں...اگر کسی کو اس فیصلہ کے ماننے میں تردد ہو تو اس کو اختیار ہے کہ آپ خدا کے فیصلہ کو آزمائے لیکن ایسی شرارتیں چھوڑ دے جو آیت وَلَا تَقُولَنَ لِشَانى إِنّى فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا سے مخالف پڑتی ہیں.شرارت کی ءٍ حجت بازی سے صریح بے ایمانی کی بو آتی ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۸،۴۷ واربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۹۷) قف وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِهِ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدَّان لا مبدل لكلمته...کوئی نہیں کہ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے.(براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن خزائن جلد ا صفحه ۶۶۹ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) كِلْنَا الْجَنَّتَيْنِ أَتَتْ أُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِللَهُمَا نَهَران لغت کی رُو سے بھی ثابت ہے کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی اور لحاظ کے فقط کم کرنے کے لئے بھی آیا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں.....فرماتا ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا أَى وَلَمْ تَنْقُصْ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلا شبہ ان معنوں کی رو سے ایک ظلم ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۶، ۱۳۷) جس حالت میں خدا تعالیٰ نے بعض متقیوں کا نام بھی ظالم رکھا ہے اور مراتب ثلاثہ تقویٰ سے پہلا مرتبہ تقوی کا ظلم کو ہی ٹھہرایا ہے تو اس سے ہم نے قطعی اور یقینی طور پر سمجھ لیا کہ اس ظلم کے لفظ سے وہ ظلم مراد نہیں ہے

Page 226

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۸ سورة الكهف جو تقویٰ سے دور اور کفار اور مشرکین اور نافرمانوں کا شعار ہے بلکہ وہ ظلم مراد ہے جو سلوک کے ابتدائی حالات میں متقیوں کے لئے شرط ختم ہے یعنی جذبات نفسانی پر حملہ کرنا اور بشریت کی ظلمت کو اپنے نفس سے کم کرنے کے لئے کوشش کرنا جیسا کہ اس دوسری آیت میں بھی کم کرنے کے ہی معنی ہیں اور وہ یہ ہے وَلَمْ تَظْلِمُ مِنْهُ شَيْئًا أَى وَلَمْ تَنفُض دیکھو قاموس اور صحاح اور صراح جو ظلم کے معنے کم کرنے کے بھی لکھے ہیں اور اس آیت کے یہی معنے گئے ہیں یعنی وَ لَمْ تَنْقُصُ.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۶) وَأُلْقِي في رُوعي أَنَّ الْمَسِيحَ سَلَمی اور میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے الْأَخَرِيْنَ مِنَ النَّصَارَى الشَّجَالِينَ لا آخری زمانہ کے نصاریٰ کا نام دجال رکھا اور ایسا نام الْأَوَّلِينَ، وَإِنْ كَانَ الْأَوَّلُونَ أَيْضًا دَاخِلِينَ پہلوں کا نہیں رکھا اگر چہ پہلے بھی گمراہوں میں داخل في الضَّالِّينَ الْمُحَرَّفِينَ.وَالشعر في ذلِك أَنَّ تھے اور کتابوں کی تحریف کرنے والے تھے.سواس الْأَوَّلِينَ مَا كَانُوا مُجْعَدِينَ سَاعِین میں بھید یہ ہے کہ پہلے نصاری خلق اللہ کے گمراہ کرنے لإِضْلالِ الْخَلْقِ كَمَثَلِ الْآخِرِينَ بَلْ مَا کی ایسی سخت کوششیں نہیں کرتے تھے جیسی پچھلوں كَانُوا عَلَيْهَا قَادِرِيْنَ وَكَانُوا كَرَجُلٍ مُصْفَدٍ نے کیں بلکہ وہ ان کوششوں پر قادر نہیں تھے اور ایسے فِي السَّلَاسِلِ وَمُقَرَّنِ فِي الْحِبَالِ تھے جیسے کوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا اور قیدی ہو.مگر وہ وَكَالْمَسْجُونِينَ وَأَمَّا الَّذِينَ جَاءُوا لوگ جو ان کے بعد ہمارے اس زمانہ میں آئے وہ بَعْدَهُمْ فِي زَمَانِنَا هَذَا فَفَاقُوْا أَسْلَافَهُمْ وجالیت میں اپنے پہلے بزرگوں سے بڑھ گئے اور خدا في الرَّجْلِ وَالْكِنْبِ، وَوَضَعَ اللهُ عَنْهُمْ تعالٰی نے اپنے بندوں کا امتحان کرنے کے لئے ان کی أَيَا صِرَهُمْ وَأَغْلَالَهُمْ، وَنَجَاهُمُ عَن ہتھ کڑیوں اور ان کے طوق گردنوں کو ان سے الگ کر السَّلَاسِلِ الَّتِي كَانَتْ في أَرْجُلِهِمُ ابْتِلا دیا اور ان زنجیروں سے ان کو نجات دے دی جو ان مِنْ عِنْدِهِ، وَكَانَ قَدْرًا مَّقْضِيَّا من رب کے پیروں میں تھے اور یہی ابتداء سے مقدر تھا اور ایک الْعَالَمِينَ.وَكَانَ قَدْرُ الله أَن يَبْرُزُوا بَعْدَ ہزار ہجری گزرنے کے بعد ان کا خروج شروع ہوا أَلْفِ سَنَةٍ مِّنَ الْهِجْرَةِ حَتَّى ظَهَرُوا فِي هَذِهِ یہاں تک کہ ان دنوں میں وہ ایک ایسے دیو کی طرح الْأَيَّامِ كَغُوْلٍ خُلِصَ وَأُخْرِجُ مِن السّجْنِ ظاہر ہوئے جو زندان سے نکلا اور اپنی سواری پر سوار ہوا

Page 227

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٩ سورةالكهف ثُمَّ اسْتَوَى عَلى رَاحِلَتِه لاويا إلى زافِرَتِهِ اور اپنے ان عزیزوں اور اس گروہ کی طرف رخ کر لیا وَحِزْبٍ خُلِقُوْا عَلَى شَاكِلَتِهِ، وَكَانُوا لِقُبُولِ؟ جو اس کے مادہ کے موافق اور اس کے قبول کرنے کے مُسْتَعِدِينَ ثُمَّ أَشَاعُوْا كَيْفَ شَآءُوا مِن لئے مستعد تھے.پھر انہوں نے جس طرح چاہا کفروں أَنْوَاعِ الْكُفْرِ وَأَصْنَافِ الْوَسْوَاسِ وَتَكَانُوا کو شائع کیا اور طرح طرح کے وساوس پھیلائے قَوْمًا مُّتَمَوّلِينَ وَهَذَا هُوَ الَّذِى كُتِبَ في کیونکہ وہ ایک مالدار قوم ہے.اور یہ وہی پیشگوئی ہے الصُّحُفِ الْأَوْلى أَنَّ الثَّعْبَانَ الَّذِي هُوَ جو پہلی کتابوں میں لکھی گئی ہے کہ وہ اثر رہا جو دجال ہے الدَّجَّالُ يَلْبَتُ في السجن إلى أَلْفِ سَنَةٍ ثُمَّ ہزار برس تک قید رہے گا اور پھر ہزار برس کے بعد يَخْرُجُ بِقَوْج من الشَّيَاطِينِ فَلْيَتَذَكُرُ مَن شیاطین کی ایک فوج کے ساتھ نکلے گا سو اسی طرح وہ كَانَ مِنَ الْمُتَذَكَرِيْنَ كَذلِكَ خَلَصُوا بَعْدَ ہزار برس کے بعد نکلے.اور خدا کی حرمت اور اس کے الْأَلْفِ وَتَنَاسَوُا دِمَامَ اللهِ وَنَكَعُوا عُهُودَة عہد کو بھلا دیا اور کل عہدوں کو توڑ دیا اور شوخیاں کر کے وَأَحْفَظُوا رَبَّهُمْ مُجْتَرِثِينَ وَجَمَعُوا كُلَّ اپنے رب کو غصہ دلایا اور اپنی تمام کوششوں کو لوگوں جُهْدِهِمْ لِإِضْلالِ النَّاسِ وَاسْتَجَدُّوا کے گمراہ کرنے میں اکٹھا کردیا اور تمام تدابیر و کام میں الْمَكَائِدَ كَالْخَنَّاسِ، وَجَاءُوا بِسِحْرٍ مُّبِيْنٍ لائے اور تقویٰ اور نیک عمل کو ضائع کیا اور ایسے کفارہ وَأَضَاعُوا التَّقْوَى وَالْعَمَلَ الصَّالِحَ وَاتَّعَاوُا پر تکیہ کر بیٹھے جس کی کچھ بھی اصل نہیں اور ہر ایک گناہ عَلى كَفَّارَةٍ لَا أَصْلَ لَهَا، وَاتَّبَعُوا كُلَّ إِثْمِ کی انہوں نے پیروی کی اور ہر یک عذاب کو شیر میں وَاسْتَعْذَبُوا كُلَّ عَذَابٍ وَكَذَّبُوا سمجھ لیا اور پاک لوگوں کی تکذیب کی اور کوشش کی جو الْمُقَدَّسِينَ وَتَجَنَّوا وَقَالُوا نَحْنُ عِبَادُ ان کے عیب ڈھونڈھیں اور کہا کہ ہم مسیح کے بندے الْمَسِيحَ وَأَحِباؤُهُ وَهَيْبَات أَنْ تُرَاجِعَ اور اس کے پیارے ہیں مگر یہ کہاں ہوسکتا ہے کہ ایسے الْفَاسِقِينَ مِقَةُ الصَّالِحِينَ وَقَدْ سَمِعْتَ فاسقوں کے ساتھ نیک بختوں کا میل جول ہو.اور تو انفًا أَنَّ الْمَسِيحَ سَماهُمْ فَاعِلِي الظُّلم، ابھی سن چکا ہے کہ مسیح نے ان کا نام ظلم کے مرتکب اور وَسَمِعْتَ أَنَّ الظُّلْمَ وَالرَّجُلَ شَيْءٍ وَاحِدٌ، بدکار رکھا ہے اور تو نے یہ بھی سن لیا ہے کہ ظلم اور وَقَدْ قَالَ اللهُ تَعَالَى أَتَتْ أكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمُ وجالیت ایک ہی چیز ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا مِنْهُ شَيْئًا أَى لَمْ تَنقُض وإطلاق الظُّلْمِ ہے کہ اس باغ نے اپنا پورا پھل دیا اور اس میں سے وَإِطْلَاقُ

Page 228

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الكهف عَلَى النَّفْسِ الَّذِي كَانَ في غَيْرِ حَلِهِ أَوِ کچھ کم نہ کیا اور لفظ ظلم کا ایسی کمی پر اطلاق کرنا جو غیر محل الرِّيَادَةِ الَّتِي لَيْسَتْ فِي مَوْضِعِهَا أَمْرُ شَائِع ہو یا ایسی زیادتی پر جو بے موقع ہے ایک ایسا امر ہے جو مُتَعَارِفُ فِي الْقَوْمِ، وَهُذَا هُوَ الدَّجْلُ كَمَا لَا قوم میں شائع متعارف ہے اور اسی کا نام دجالیت ہے يخفى عَلَى الْمُتَبَفِرِينَ جیسا کہ سمجھ دار لوگوں پر پوشیدہ نہیں.(نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۷۹ تا ۸۲) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ اَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَةً اَوْلِيَاء مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ الظلمين بدلا اہلِ عرب اس قسم کے استثنا کرتے ہیں.صرف ونحو میں بھی اگر دیکھا جاوے تو ایسے استثناء بکثرت ہوا کرتے ہیں اور ایسی نظیریں موجود ہیں جیسے کہا جاوے کہ میرے پاس ساری قوم آئی مگر گدھا.اس سے یہ سمجھنا کہ ساری کی ساری قوم جنس حمار میں سے تھی غلط ہے.كَانَ مِنَ الْجِن کے بھی یہ معنے ہوئے کہ وہ فقط ابلیس ہی قوم جن میں سے تھا ملائکہ میں سے نہیں تھا ملائک ایک الگ پاک جنس ہے اور شیطان الگ.ملائکہ اور ابلیس کا راز ایسا مخفی در مخفی ہے کہ بجز آمَنَا وَصَدَّقنا کے انسان کو چارہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اقتدار و توفیق نہیں دی مگر وسوسہ اندازی میں وہ محرک ہے جیسے ملائکہ پاک تحریکات کے محرک ہیں ویسے ہی شیطان ناپاک جذبات کا محرک ہے.ملائکہ کی منشاء ہے کہ انسان پاکیزہ ہو مطہر ہو اور اس کے اخلاق عمدہ ہوں اور اس کے بالمقابل شیطان چاہتا ہے کہ انسان گندہ اور ناپاک ہو.اصل بات یہ ہے کہ قانونِ الہی ملائکہ و ابلیس کی تحریکات کا دوش بدوش چلتا ہے لیکن آخر کا ر ارادہ الہی غالب آجاتا ہے گویا پس پردہ ایک جنگ ہے جو خود بخود جاری رہ کر آخر قادر مقتدر حق کا غلبہ ہو جاتا ہے اور باطل کی شکست.چار چیزیں ہیں جن کی کنہ ور از کو معلوم کرنا انسان کی طاقت سے بالا تر ہے اول.اللہ جل شانہ، دویم.روح ، سویم.ملائکہ، چہارم.ابلیس.جو شخص ان چہاروں میں سے خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل ہے اور اس کے صفات الوہیت پر ایمان رکھتا ہے.ضرور ہے کہ وہ ہر سہ اشیاء روح و ملائکہ وا بیس پر ایمان لائے....انسان کو ہر حال میں رضائے الہی پر چلنا چاہیے اور کارخانہ الہی میں دخل در معقولات نہیں دینا چاہیے.

Page 229

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورةالكهف تقویٰ اور طہارت اطاعت و وفا میں ترقی کرنی چاہیے اور یہ سب باتیں تب ممکن ہیں جب انسان کامل ایمان اور یقین سے ثابت قدم رہے اور صدق و اخلاص اپنے مولیٰ کریم سے دکھلائے اور وہ باتیں جو علم الہی میں مخفی ہیں اس کے کنہ معلوم کرنے میں بے سود کوشش نہ کرے.....جو شخص ہر ایک چیز کی خواص و ماهیت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاتا ہے وہ نادانی سے کارخانہ ء ربی اور اس کی منشاء سے بالکل ناواقف و نابلد ہے اگر کوئی کہے کہ شیطان وملائکہ دکھلاؤ تو کہنا چاہیے کہ تمہارے اندر یہ خواص کہ بیٹھے بٹھائے آنا فانا بدی کی طرف متوجہ ہو جانا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ذات سے بھی منکر ہو جانا اور کبھی نیکی میں ترقی کرنا اور انتہا درجہ کی انکسار و فروتنی و عجز و نیاز میں گر جانا یہ اندرونی کششیں جو تمہارے اندر موجود ہیں ان سب کے محرک جو قومی ہیں وہ ان دو الفاظ ملک و شیطان کے وجود میں مجسم ہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳) وَ إِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتْهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّى ابْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ وعظ فرمارہے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ سے کوئی اور بھی علم میں زیادہ ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں.اللہ تعالیٰ کو یہ بات ان کی پسند نہ آئی (یعنی یوں کہتے کہ خدا کے بندے بہت سے ہیں جو ایک سے ایک علم میں زیادہ ہیں) اور حکم ہوا کہ تم فلاں طرف چلے جاؤ جہاں تمہاری مچھلی زندہ ہو جاوے گی وہاں تم کو ایک علم والا شخص ملے گا.پس جب وہ ادھر گئے تو ایک جگہ مچھلی بھول گئے جب دوبارہ تلاش کرنے آئے تو معلوم ہوا کہ مچھلی وہاں نہیں ہے وہاں ٹھیر گئے تو ایک ہمارے بندہ سے ملاقات ہوئی اس کو موسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کے ساتھ رہ کر علم اور معرفت سیکھوں اس بزرگ نے کہا کہ اجازت دیتا ہوں مگر آپ بد گمانی سے بچ نہیں سکیں گے کیونکہ جس بات کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور سمجھ نہیں دی جاتی تو اس پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک موقعہ پر بے محل کام کرتا ہے تو اکثر بدظنی ہو جاتی ہے.پس موسیٰ نے کہا کہ میں کوئی بدظنی نہ کروں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا.اس نے کہا کہ اگر تو میرے ساتھ چلے گا تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کرنا پس جب چلے تو ایک کشتی پر جا کر سوار ہوئے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۲۵)

Page 230

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٢ سورة الكهف علمًا فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنَهُ مِنْ لَدُنَا اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو امر بذریعہ الہام الہی کسی پر نازل ہو.وہ اس کے لئے اور ہر ایک کے لئے کہ کوئی وجہ یقین کرنے کی رکھتا ہے یا خدا نے کوئی نشان یقین کرنے کا اس پر ظاہر کر دیا ہے.واجب التعمیل ہے اور جو شخص جس کو اس الہام کی نسبت باور دلایا گیا ہے.اس پر عمل کرنے سے عمداً دست کش ہو وہ مورد غضب الہی ہوگا.بلکہ اس کے خاتمہ ہد ہونے کا سخت اندیشہ ہے.بلعم بن بعور کو خدا نے الہام میں لا تدع علیہم کہا.اتنے یہ کہ موسیٰ اور اس کے لشکر پر بددعامت کر.اس نے برخلاف امر الہی کے حضرت موسیٰ کے لئے کر.لشکر پر بددعا کرنے کا ارادہ کیا آخر اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ خدا نے اس کو اپنی جناب سے رد کر دیا اور اس کو کتے سے تشبیہ دی وہ الہام ہی تھا جس کی تعمیل سے حضرت موسیٰ کی ماں نے حضرت موسیٰ کو شیر خوارگی حالت میں ایک صندوق میں ڈال کر دریا میں پھینک دیا.الہام ہی تھا جس کے دیکھنے کے لئے موسیٰ جیسے اولوالعزم پیغمبر کو خدا نے اپنے ایک بندہ خضر کے پاس جس کا نام بلیا بن مالکان تھا بھیجا تھا.جس کے علم قطعی اور یقینی کی نسبت اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةٌ مِنْ عِنْدِنَا وَ عَلَيْنَهُ مِنْ لَدُنَا علمنا.سواسی علم قطعی اور یقینی کا یہ نتیجہ تھا کہ خضر نے حضرت موسیٰ کے روبرو ایسے کام کئے کہ جو ظاہر أخلاف شرع معلوم ہوتے تھے.کشتی کو توڑا ایک معصوم بچہ کوقتل کیا ایک غیر ضروری کام کوکسی اجرت کے بغیر اپنے گلے ڈال لیا اور ظاہر ہے کہ خضر رسول نہیں تھا ورنہ وہ اپنی امت میں ہوتا.نہ جنگلوں اور دریاؤں کے کنارہ پر اور خدا نے بھی اس کو رسول یا نبی کر کے نہیں پکارا.مگر جو اس کو اطلاع دی جاتی تھی اس کا نام یقینی اور قطعی رکھا ہے.کیونکہ قرآن کے عرف میں علم اسی چیز کا نام ہے کہ جو قطعی اور یقینی ہو.اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر کے پاس صرف ظنیات کا ذخیرہ ہوتا تو اس کے لئے کب جائز تھا کہ امر مظنون پر بھروسا کر کے ان امور کو کرتا کہ جو صریح خلاف شرع اور منکر بلکہ با تفاق تمام پیغمبروں کے کبائر میں داخل تھے.اور پھر اس صورت میں حضرت موسیٰ کا اس کے پاس آنا بھی محض بے فائدہ تھا.پس جبکہ بہر صورت ثابت ہے کہ خضر کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم یقینی اور قطعی دیا گیا تھا.تو پھر کیوں کوئی شخص مسلمان کہلا کر اور قرآن شریف پر ایمان لا کر اس بات سے منکر رہے کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ میں سے باطنی کمالات میں خضر کی مانند نہیں ہو سکتا.بلاشبہ

Page 231

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۳ سورة الكهف ہو سکتا ہے.بلکہ خدائے کی قیوم اس بات پر قادر ہے کہ امت مرحومہ محمدیہ کے افراد خاصہ کو اس سے بھی بہتر و زیادہ تر باطنی نعمتیں عطا فرما دے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ١٠٧) - براہینِ احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۹۳ تا ۲۹۵ حاشیه در حاشیه نمبرا) مولوی غلام علی صاحب اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری اور مولوی عبدالعزیز صاحب اور بعض دوسرے مولوی صاحبان اس قسم کے الہام سے کہ جو رسولوں کے وحی سے مشابہ ہے باصرار تمام انکار کر رہے ہیں بلکہ ان میں سے بعض مولوی صاحبان مجانین کے خیالات سے اُس کو منسوب کرتے ہیں.اور اُن کی اس بارہ میں حجت یہ ہے کہ اگر یہ الہام حق اور صحیح ہے تو صحابہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پانے کے لئے احق اور اولی تھے حالانکہ اُن کا پانا متفق نہیں.اب یہ احقر عباد عرض کرتا ہے کہ اگر یہ اعتراض جو شہاب الدین موحد نے مولوی صاحبوں کی طرف سے بیان کیا ہے حقیقت میں انہیں کے مونہہ سے نکلا ہے تو بجواب اس کے ہر یک طالب صادق کو اور نیز حضرات محدوحہ کو یا درکھنا چاہیئے کہ عدم علم سے عدم ھے لازم نہیں آتا.کیا ممکن نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قسم کے الہامات پائے ہوں مگر مصلحت وقت سے عام طور پر ان کو شائع نہیں کیا اور خدائے تعالیٰ کو ہر یک نئے زمانہ میں نئے نئے مصالحہ ہیں پس نبوت کے عہد میں مصلحت ربانی کا یہی تقاضا تھا کہ جو غیر نبی ہے اُس کے الہامات نبی کی وحی کی طرح قلمبند نہ ہوں تا غیر نبی کا نبی کے کلام سے تداخل واقعہ نہ ہو جائے لیکن اُس زمانہ کے بعد جس قدر اولیاء اور صاحب کمالات باطنیہ گزرے ہیں اُن سب کے الہامات مشہور و متعارف ہیں کہ جو ہر یک عصر میں قلمبند ہوتے چلے آئے ہیں اس کی تصدیق کے لئے شیخ عبد القادر جیلانی اور مجددالف ثانی کے مکتوبات اور دوسرے اولیاء اللہ کی کتابیں دیکھنی چاہئیں کہ کس کثرت سے ان کے الہامات پائے جاتے ہیں بلکہ امام ربانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاه و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اُس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے ایسا ہی شیخ عبد القادر جیلانی صاحب نے فتوح الغیب کے کئی مقامات میں اس کی تصریح کی ہے.اور اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محمد حمیت کا منصب اس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے.اس امت میں آج تک ہزار ہا اولیاء اللہ صاحب

Page 232

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورةالكهف کمال گزرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہو چکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرت احدیت نے جیسا کہ اس امت کا خیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بھی بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے.اور نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے با علام الہی مطلع ہو جانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر اُن کی یہ آواز کہ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ الْجَبَل مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرت نیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارق عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی.اسی طرح جناب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات و کشوف مشہور و معروف ہیں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : ۱۱۱).پھر جس حالت میں خدائے تعالیٰ اپنے نبی کریم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر و بزرگ تر ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف بطور مشتے نمونہ از خروارے پہلی اُمتوں کے کاملین کا حال بیان کر کے کہتا ہے کہ مریم صدیقہ والدہ عیسی اور ایسا ہی والدہ حضرت موسیٰ اور نیز حضرت مسیح کے حواری اور نیز خضر جن میں سے کوئی بھی نبی نہ تھا یہ جب ملہم من اللہ تھے اور بذریعہ وحی اعلام اسرار غیبیہ سے مطلع کئے جاتے تھے.تو اب سوچنا چاہیے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُمت محمدیہ کے کامل متبعین اُن لوگوں کی نسبت بوجہ اولی ملہم ومحدث ہونے چاہئیں کیونکہ وہ حسب تصریح قرآن شریف خیر الامم ہیں.براہینِ احمدیہ چہار قصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۱ تا ۶۵۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) محدث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے جس میں دخل شیطان کا قائم نہیں رہ سکتا اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر اور موسیٰ کی والدہ کا الہام صرف شکوک اور شبہات کا ذخیرہ تھا اور قطعی اور یقینی نہ تھا تو ان کو کب جائز تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان کو خطرہ میں ڈالتے یا ہلاکت تک پہنچاتے یا کوئی دوسرا ایسا کام کرتے جو شرعاً وعقلاً جائز نہیں ہے.آخر یقینی علم ہی تھا جس کے باعث سے وہ کام کرنا ان پر فرض ہو گیا تھا اور وہ امور اُن کے لئے روا

Page 233

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الكهف ہو گئے کہ جو دوسروں کے لئے ہرگز روا نہیں.پھر ماسوا اس کے ذرا انصافاً سوچنا چاہیے کہ کوئی امر مشہود وموجود کہ جو بپایہ صداقت پہنچ چکا ہو اور تجارب صحیحہ کے رو سے راست راست ثابت ہوتا ہو صرف ظنی خیالات سے متزلزل نہیں ہو سکتا وَ الظَّنُ لَا يُغْنِى عَنِ الْحَقِّ شَيْئًا.سو اس عاجز کے الہامات میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زیر پردہ اور مخفی ہو بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ جو صد ہا امتحانوں کی بوتہ میں داخل ہوکر سلامت نکلی ہے اور خداوند کریم نے بڑے بڑے تنازعات میں فتح نمایاں بخشی ہے.بر اثمان احمد یه چهار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۵ ،۶۵۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) تم سوچو کہ اگر علم لدنی کا سارا مدار خلیات پر ہے تو پھر اس کا نام علم کیوں کر ہوگا.کیا خلنیات بھی کچھ چیز ہیں جن کا نام علم رکھا جائے.پس اس صورت میں وَ عَلَيْنَهُ مِن لَّدُنَا عِلما کے کیا معنے ہوں گے.پس جاننا چاہئے کہ خدا کے کلام پر غور صیح کرنے سے اور صد با تجارب مشہودہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ افراد خاصہ امت محمدیہ کو جب وہ متابعت اپنے رسول مقبول میں فنا ہوجائیں اور ظاہر و باطنا اس کی پیروی اختیار کریں بہ تبعیت اسی رسول کے اس کی برکتوں میں سے عنایت کرتا ہے.یہ نہیں کہ صرف زہد خشک تک رکھنا چاہتا ہے.اور جب کسی دل پر نبوی برکتوں کا پر توہ پڑے گا تو ضرور ہے کہ اس کو اپنے متبوع کی طرح علم یقینی قطعی حاصل ہو.کیونکہ جس چشمہ کا اس کو وارث بنایا گیا ہے وہ شکوک اور شبہات کی کدورت سے بکلی پاک ہے اور منصب وارث الرسول ہونے کا بھی اس بات کو چاہتا ہے کہ علم باطنی اس کا یقینی اور قطعی ہو.کو کیونکہ اگر اس کے پاس صرف مجموعہ خلیات کا ہے تو پھر وہ کیوں کر اس ناقص مجموعہ سے کوئی فائدہ خلق اللہ کو پہنچا سکتا ہے.تو اس صورت میں وہ آدھا وارث ہوا نہ پورا.اور یک چشم ہوا نہ دونوں آنکھوں والا.اور جن ضلالتوں کی مدافعت کے لئے خدا نے اس کو قائم کیا ہے.ان ضلالتوں کا نہایت پرزور ہونا اور زمانہ کا نہایت فاسد ہونا اور منکروں کا نہایت مکار ہونا اور غافلوں کا نہایت خوابیدہ ہونا اور مخالفوں کا اشدّ فی الکفر ہونا اس بات کے لئے بہت ہی تقاضا کرتا ہے کہ ایسے شخص کا علم لدنی مشابہ بالرسل ہو.اور یہی لوگ ہیں جن کا نام احادیث میں آمثل اور قرآن شریف میں صدیق آیا ہے.اور ان لوگوں کا زمانہ ظہور پیغمبروں کے زمانہ بعث سے بہت ہی مشابہ ہوتا ہے.یعنے جیسے پیغمبر اس وقت آتے رہے ہیں کہ جب دنیا میں سخت درجہ پر گمراہی اور غفلت پھیلتی رہی ہے.ایسا ہی یہ لوگ بھی اس وقت آتے ہیں کہ جب ہر طرف گمراہی کا سخت غلبہ ہوتا ہے.اور حق سے ہنسی کی جاتی ہے.اور باطل کی تعریف ہوتی ہے.اور کاذبوں کو راستباز قرار دیا جاتا

Page 234

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ سورةالكهف ہے.اور دجالوں کو مہدی سمجھا جاتا ہے.اور دنیا مخلوق اللہ کی نظر میں بہت پیاری معلوم ہوتی ہے جس کی تحصیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں.اور دین ان کی نظر میں ذلیل اور خوار ہو جاتا ہے.ایسے وقتوں میں وہی لوگ حجت اسلام ظہر تے ہیں جن کا الہام یقینی اور قطعی ہوتا ہے اور جو ان کامل افراد کے قائم مقام ہوتے ہیں جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ الہام یقینی اور قطعی ایک واقعی صداقت ہے جس کا وجود افراد کا ملہ امت محمدیہ میں ثابت ہے اور انہیں سے خاص ہے.ہاں یہ سچ بات ہے کہ رسولوں کا الہام بہت ہی درخشاں اور روشن اور اجیلی اور اقوی اور اصلی اور اعلیٰ اور مراتب یقین کے انتہائی درجہ پر ہوتا ہے اور آفتاب کی طرح چمک کر ہر ایک ظلمت کو اٹھا دیتا ہے.مگر اولیاء کے الہاموں میں سے جب تک معافی کسی الہامی عبارت کے مشتبہ ہوں یا وہ الہام ہی مشتبہ اور مخفی ہو تب تک وہ ایک امرظنی ہوگا اور ولی کا الہام اسی وقت حد قطع اور یقین تک پہنچے گا کہ جب ضعیف الہاموں کی قسم میں سے نہ ہو بلکہ اپنی کامل روشنی کے ساتھ نازل ہو اور بارش کی طرح متواتر برس کر اور اپنے نوروں کو قومی طور پر دکھلا کر مہم کے دل کو کامل یقین سے پر کر دے اور مختلف تقریروں اور مختلف لفظوں میں اتر کر معنے اور مطلب کو بکلی کھول دے اور عبارت کو متشابہات میں سے بکل الوجوہ باہر کر دے اور متواتر دعاؤں اور سوالوں کے وقت خود خداوند تعالیٰ ان معانی کا قطعی اور یقینی ہونا متواتر اجابتوں اور جوابوں کے ذریعہ سے بوضاحت تمام بیان فرمادے.جب کوئی الہام اس حد تک پہنچ جائے تو وہ کامل النور اور قطعی اور یقینی ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اصلاً الہام اولیاء کو قطع اور یقین کی طرف راہ نہیں.وہ معرفت کامل سے سخت بے نصیب ہیں.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قديم (الانعام :٩٣) - اللهُم أَصْلِحْ أُمَّةً مُحَمَّدٍ - بر اثمان احمد یہ چہار، حصص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۲۵۶ تا ۲۶۰ حاشیه در حاشیه نمبر۱) خدائے تعالیٰ کے کاموں کا کوئی انتہا نہیں پاسکتا.بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام عظیم الشان نبی گزرے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے توریت دی اور جن کی عظمت اور وجاہت کی وجہ سے بلعم باعور بھی اُن کا مقابلہ کر کے تحت الثریٰ میں ڈالا گیا اور کتے کے ساتھ خدا نے اس کی مشابہت دی وہی موسیٰ ہے جس کو ایک بادیہ نشین شخص کے علوم روحانیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور اُن غیبی اسرار کا کچھ پتہ نہ لگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا أَتَيْنَهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَ عَلَيْنَهُ مِنْ لَّدُنَا عِلْمًا - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۷ حاشیه )

Page 235

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۷ سورةالكهف وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِعُلَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْد لَهُمَا وَ كَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ ج رَبَّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِى ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرَات حضرت ابراہیم کا قصہ ہے کہ جب لوط کی قوم تباہ ہونے لگی تو انہوں نے کہا کہ اگر سو میں سے ایک ہی نیک ہو تو کیا تباہ کر دے گا ؟ کہا نہیں! آخر ایک تک بھی نہیں کروں گا ( فرمایا ) لیکن جب بالکل حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر لَا يَخَافُ عُقبها (الشمس : ۱۶) خدا کی شان ہوتی ہے.پلیدوں کے عذاب پر وہ پروانہیں کرتا کہ ان کی بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لئے كَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا کی رعایت کرتا ہے.حضرت موسیٰ اور خضر کو حکم ہوا تھا کہ ان بچوں کی دیوار بنا دو اس لئے کہ ان کا باپ نیک بخت تھا اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے.غرض ایسا تو رحیم کریم ہے.لیکن اگر کوئی شرارت کرے اور زیادتی کرے تو پھر بری طرح پکڑتا ہے.وہ ایسا غیور ہے کہ اس کے غضب کو دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے.دیکھولوں کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا.الحکام جلد ۶ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۲ صفحه ۴) جو لوگ لا ابالی زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پروا ہوجاتا ہے.دیکھو دنیا میں جو اپنے آقا کو چند روز سلام نہ کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پروا کیوں کرے گا.اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو ہلاک کر کے ان کی اولاد کی بھی پروا نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مرجاوے اس کی اولاد کی پروا کرتا ہے جیسا کہ اس آیت سے بھی پتہ لگتا ہے وَ كَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا.اس باپ کی نیکی اور صلاحیت کے لئے خضر اور موسیٰ جیسے اولوالعزم پیغمبر کومز دور بنادیا کہ وہ ان کی دیوار درست کر دیں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا.خدا تعالیٰ نے لڑکوں کا ذکر نہیں کیا چونکہ سار ہے اس لئے پردہ پوشی کے لحاظ سے اور باپ کے محل مدح میں ذکر ہونے کی وجہ سے کوئی ذکر نہیں کیا.پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کا مضمون آیا ہے کہ سات پشت تک رعایت رکھتا ہوں.حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی متقی کی اولاد کو ٹکڑے ما نگتے نہیں دیکھا.احکام جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ / اگست ۱۹۰۲ صفحه ۷) كَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا یعنی ان کا باپ صالح تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کا خزانہ محفوظ رکھا.اس سے

Page 236

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة الكهف معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کچھ ایسے نیک نہ تھے باپ کی نیکی کی وجہ سے بچائے گئے.القام جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۱۸ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۷) اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دولڑکوں کے لئے حضرت خضر نے تکلیف اٹھائی اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علم الہی میں تھے.لہذا خدا تعالیٰ نے باعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کر دی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا اور ایک خویش کی وجہ سے دو بیگانوں پر رحم کر دیا.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۱۲۷) وَ يَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَاَتْلُوا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرَاتٌ إِنَّا مَكَنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَ أَتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَاتَّبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ.أن تُعَذِّبَ وَإِمَّا اَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسُنَّا قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلى رَبّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا تُكَرًا وَ أَمَّا مَنْ أَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءَ الْحُسْنَى وَ سَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْراتُ ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَيّان حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتَرال كَذلِكَ ، وَقَد احطنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُمْ سَدًّان قَالَ مَا مَكَنّى فِيْهِ رَبِّي خَيْرٌ فَاعِيُنُونِي بِقُوَةٍ أَجْعَلُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدُمَالُ اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ ، حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ اتُونِي أفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراقُ فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ

Page 237

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الكهف نَقيَّان قَالَ هَذَا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَعَاءَ ۚ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقَّاتُ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَبِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعَنَهُمُ جمعان وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَينِ لِلْكَفِرِينَ عَرَضَانَ الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنَهُمْ فِي غِطَاء عَن ذكرى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَبْعان خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس که جری اللہ فی محلل الانبیاء.جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں، یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں کیونکہ سورہ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا.خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے قُلْنَا ذَا الْقَرْنَيْنِ.پس اس وحی الہی کی رُو سے کہ جری اللہ فی حُلّل الانبیاء اس اُمت کے لئے ذوالقرنین میں ہوں.اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر اُن کے لئے جو فراست رکھتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو دوصدیوں کو پانے والا ہو.اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہر ہو گا کہ میں نے ہر ایک قوم کی دوصدیوں کو پالیا ہے.میری عمر اس وقت تخمینا ۶۷ سال ہے پس ظاہر ہے کہ اس حساب سے جیسا کہ میں نے دو ہجری صدیوں کو پالیا ہے.ایسا ہی دو عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے اور ایسا ہی دو ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانہ کے تمام ممالک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کا ملاحظہ کیا ہے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے دوصد میں میں نے نہ پائی ہوں.اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا.غرض بموجب نص وحی الہی کے میں ذوالقرنین ہوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورہ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنی کھولے ہیں.میں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں مگر یادر ہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گذشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق.اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے.اور ذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا

Page 238

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة الكهف ہے.جیسا کہ قرآن شریف کی عبارت یہ ہے وَ يَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَاتْلُوا عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا یعنی یہ لوگ تجھ سے ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں.ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا اور پھر بعد اس کے فرما یا انا مكنَا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا یعنی ہم اس کو یعنی سیح موعود کو جوذ والقر نین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا.اور ہم ہر طرح سے ساز و سامان اس کو دے دیں گے.اور اُس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کر دیں گے.یادر ہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَكَ سَهُولَةٌ فِي كُلِّ أَمْرٍ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لئے آسانی نہیں کر دی.یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے.جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اور اشاعت حق کے میسر کر دئیے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے.تمام قوموں کی آمدورفت کی راہیں کھولی گئیں.طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں.ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں.اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا.کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہو گئیں یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا اور پھر ان کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائع ہوسکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشر طیکہ اس کی عمر بھی لمبی ہو سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہوسکتا تھا.پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَاتَّبَعَ سَبَبان حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا تُكَرًا وَأَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَ سَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا یعنی جب ذوالقرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک طرح کے سامان دیئے جائیں گے.پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا.یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور

Page 239

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۱ سورة الكهف حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہو گیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا.نہ اُن کے مقابل پر آفتاب ہو گا جس سے وہ روشنی پاسکیں اور نہ اُن کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ بیویں یعنی ان کی علمی و عملی حالت نہایت خراب ہوگی اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے.تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو ان کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددعا کرے (جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے ) یا اُن کے ساتھ حسن سلوک کا شیوہ اختیار کرے تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جواب دے گا کہ ہم اُسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو.وہ دنیا میں بھی ہماری بد دعا سے سزا یاب ہوگا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا.لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو انہیں کاموں کی بجا آوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہو سکتے ہیں.غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا جبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتاب صداقت اُن کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بد بودار چشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بدبودار عقائد اور اعمال اُن میں پھیلے ہوئے ہوں گے.اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے.اور روشنی کا نام ونشان نہیں ہوگا تاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آج کل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اتَّبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتَرَانِ كَذلِكَ وَقَدْ أَحَطَنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًان یعنی پھر ذوالقرنین جو مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کا آفتاب نکلتا ہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پر آفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہو گا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے.نہ گھر، نہ سایہ دار درخت ، نہ کپڑے جو گرمی سے بچا

Page 240

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة الكهف سکیں اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا اُن کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا.یہ اُن لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو اُن کے سامنے موجود ہے اور اُس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا اُن کا جل جائے اور رنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی رہے لیے اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہوگا.اوّل اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں.دوسرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہوگا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں.یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے نے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں.یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اور حسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم رہ گئے بعد اس کے اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے ثُمَّ اتَّبَعَ سَبَبان حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا قَالُوا يَذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَ ماجوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُمْ سَنَّا قَالَ مَا مَكَنِي ورود فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَاعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ رَدُ مَا لا أَتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ أَتُونِي أَفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرانُ فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَ مَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبَاتِ قَالَ هَذَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقَّالُ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَبِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعَاهُ وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَيذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرَضَانَ الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنَهُمْ فِي غِطَاءٍ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَبْعًان أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِى اَوْلِيَاء إِنَّا اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لے اس جگہ خدا تعالی کو یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے وقت تین گروہ ہوں گے ایک گروہ تفریط کی راہ لے گا جو روشنی کو بالکل کھو بیٹھے گا اور دوسرا گروہ افراط کی راہ اختیار کرے گا جو تواضع اور انکسار اور فروتنی سے روشنی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا بلکہ خیرہ طبع ہو کر مقابلہ کرنے والے کی طرح روحانی دھوپ کے سامنے محض برہنہ ہونے کی حالت میں کھڑا ہوگا مگر تیسرا گروہ میانہ حالت میں ہوگا وہ مسیح موعود سے چاہیں گے کہ کسی طرح یا جوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور یا جوج ماجوج اچیچ کے لفظ سے نکلا ہے یعنی وہ قوم جو آگے کے استعمال کرنے میں ماہر ہیں.

Page 241

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۳ سورة الكهف للكفِرِينَ نُزُلا ں پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا.اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسا نازک زمانہ پائے گا جس کو بین الستین کہنا چاہیئے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جب کہ دوطرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اُس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے اور باعث غلط عقائد مشکل سے اُس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کا رسمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیض یاب ہوں گے تب وہ اس کو کہیں گے کہ اسے ذوالقرنین ! یا جوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچارکھا ہے پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں.وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو تائیں تم میں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں.یعنی ایسے طور پر اُن پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پر حملہ نہ کر سکیں.لوہے کی سلیں مجھے لا دو تا آمد ورفت کی راہوں کو بند کیا جائے یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں.یعنی محبت الہی اس قدر اپنے اندر بھر کاؤ کہ خود الہی رنگ اختیار کرو.یا د رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محب میں ظلی طور پر الہی صفات پیدا ہو جا ئیں.اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوئی محبت جھوٹ ہے.محبت کاملہ کی مثال بعینہ لوہے کی وہ حالت ہے جب کہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اُس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے.پس اگر چہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کر گئی ہے اس لئے آگ کے صفات اُس سے ظاہر ہوتے ہیں.وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے.آگ کی طرح اس میں روشنی ہے.پس محبت الہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے اور اگر اسلام اس حقیقت تک پہنچا نہ سکتا تو وہ کچھ چیز نہ تھا لیکن اسلام اس حقیقت تک پہنچاتا ہے.اوّل انسان کو چاہئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے کیونکہ اگر ایمانی حالت خس و خاشاک کی طرح ہے تو آگ اُس کو چھوتے ہی بھسم کر دے گی.پھر کیوں کر وہ آگ کا مظہر بن سکتا

Page 242

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورةالكهف ہے.افسوس بعض نادانوں نے عبودیت کے اُس تعلق کو جور بوبیت کے ساتھ ہے جس سے ظلی طور پر صفاتِ الہیہ بندہ میں پیدا ہوتے ہیں نہ سمجھ کر میری اس وحی من اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ إِنَّمَا أَمْرُكَ إِذَا أَرَدْتَ شَيْئًا أَن تَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونَ.یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو ایک بات کو کہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے اور اس کی تصدیق اکا بر صوفیہ اسلام کر چکے ہیں جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی نے بھی فتوح الغیب میں یہی لکھا ہے اور عجیب تریہ کہ سید عبد القادر جیلانی نے بھی یہی آیت پیش کی ہے.افسوس لوگوں نے صرف رسمی ایمان پر کفایت کر لی ہے اور پوری معرفت کی طلب ان کے نزدیک کفر ہے اور خیال کرتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے کافی ہے حالانکہ وہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے منکر ہیں کہ کسی سے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ یقینی اور واقعی طور پر ہوسکتا ہے.ہاں اس قدر اُن کا خیال ہے کہ دلوں میں القا تو ہوتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ القا شیطانی ہے یا رحمانی ہے اور نہیں سمجھتے کہ ایسے القا سے ایمانی حالت کو فائدہ کیا ہوا اور کون سی ترقی ہوئی بلکہ ایسا القاتو ایک سخت ابتلا ہے جس میں معصیت کا اندیشہ یا ایمان جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر ایسی مشتبہ وحی میں جو نہیں معلوم شیطان سے ہے یا رحمان سے ہے کسی کو تاکیدی حکم ہو کہ یہ کام کر تو اگر اس نے وہ کام نہ کیا اس خیال سے کہ شاید یہ شیطان نے حکم دیا ہے اور دراصل وہ خدا کا حکم تھا تو یہ انحراف موجب معصیت ہوا.اور اگر اُس حکم کو بجالایا اور اصل میں شیطان کی طرف سے وہ حکم تھا تو اس سے ایمان گیا.پس ایسے الہام پانے والوں سے وہ لوگ اچھے رہے جو ایسے خطر ناک الہامات سے جن میں شیطان بھی حصہ دار ہو سکتا ہے ، محروم ہیں.ایسے عقیدہ کی حالت میں عقل بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ممکن ہے کہ کوئی الہام الہی ایسا ہو جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا تھا جس کی تعمیل میں اس کے بچہ کی جان خطرہ میں پڑتی تھی یا جیسا کہ خضر علیہ السلام کا الہام تھا جس نے بظاہر حال ایک نفس زکیہ کا ناحق خون کیا اور چونکہ ایسے امور بظاہر شریعت کے برخلاف ہیں اس لئے شیطانی دل کے احتمال سے کون ان پر عمل کرے گا اور بوجہ عدم تعمیل معصیت میں گرے گا.اور ممکن ہے کہ شیطان لعین کوئی ایسا حکم دے کہ بظاہر شریعت کے مخالف معلوم نہ ہو اور دراصل بہت فتنہ اور تباہی کا موجب ہو یا پوشیدہ طور پر ایسے امور ہوں جو موجب سلب ایمان ہوں.پیس ایسے مکالمہ مخاطبہ سے فائدہ کیا ہوا.پھر آیات متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یا جوج ماجوج سے ڈرتی ہے، کہے گا کہ مجھے تانبا لا دو کہ میں اس کو پکھلا کر اُس دیوار پر انڈیل دوں گا.پھر بعد اس کے

Page 243

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورةالكهف یا جوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کر سکیں.یادر ہے کہ لوہا اگر چہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے مگر مشکل سے پگھلتا ہے مگر تانبا جلد پگھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے.پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو اور پھر وہ لو باخدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے اور پھر دل پگھل کر اس لو ہے پر پڑے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے.سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے سد سکندری ہیں اور شیطانی رُوح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اور نہ اس میں سوراخ کرسکتی ہے.اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کا ہاتھ یہ سب کچھ کرے گا.انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا.اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا یہ خدا کا وعدہ ہے اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مدد کے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کر دے گا.اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اور وہ دن بڑے سخت ہوں گے.اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دے گا.اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں وہ اسی دنیا میں بباعث طرح طرح کی بلاؤں کے دوزخ کا منہ دیکھ لیں گے.خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کوسن نہیں سکتے تھے کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امر سہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اس دنیا میں جہنم کو نمودار کر دیں گے.یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان اس کے مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے.اُس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اس مُشت خاک پر ہیں جس کو مخالف کا فر اور دقبال کہتے ہیں.(برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۸ تا۱۲۶)

Page 244

۲۱۶ سورةالكهف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( قُلْ سَاتْلُوا عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا ) یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذوالقرنین کا ذکر صرف گذشتہ زمانہ سے وابستہ نہیں بلکہ آئندہ زمانہ میں بھی ایک ذوالقرنین آنے والا ہے اور گزشتہ کا ذکر تو ایک تھوڑی سی برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۹ حاشیه ) بات ہے.ذوالقرنین کا قصہ ہے اس میں اسی کی پیشگوئی ہے.چنانچہ قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف گیا تو اسے آفتاب غروب ہوتا نظر آیا یعنی تاریکی پائی اور ایک گدلا چشمہ اس نے دیکھا وہاں پر ایک قوم تھی پھر مشرق کی طرف چلتا ہے تو دیکھا کہ ایک ایسی قوم ہے جو کسی اوٹ میں نہیں ہے اور وہ دھوپ سے جلتی ہے.تیسری قوم ملی جس نے یا جوج ماجوج سے بچاؤ کی درخواست کی.اب یہ بظاہر تو قصہ ہے لیکن حقیقت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس زمانہ سے متعلق ہے.خدا تعالیٰ نے بعض حقائق تو کھول دیئے ہیں اور بعض مخفی رکھے ہیں اس لئے کہ انسان اپنے قومی سے کام لے اگر انسان نرے منقولات سے کام لے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا.ذوالقرنین اس لئے نام رکھا کہ وہ دوصدیوں کو پائے گا.اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو بھی جمع کر دیا.کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دوصدیوں کا صاحب ہو جاوے.ہندوؤں کی صدی بھی پائی اور عیسائیوں کی بھی.مفتی صاحب نے تو کوئی ۶ یا ۷ اصدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں.غرض ذوالقرنین کے معنے ہیں دو صدیاں پانے والا.اب خدا تعالیٰ نے اس کے لئے تین قوموں کا ذکر کیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی قوم جو مغرب میں ہے اور آفتاب وہاں غروب ہوتا ہے اور وہ تاریکی کا چشمہ ہے یہ عیسائیوں کی قوم ہے جس کا آفتاب صداقت غروب ہو گیا اور آسمانی حق اور نور ان کے پاس نہیں رہا.دوسری قوم اس کے مقابل میں وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے مگر آفتاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی.یہ مسلمانوں کی قوم ہے جن کے پاس آفتاب صداقت قرآن شریف اس وقت موجود ہے مگر دابتہ الارض نے ان کو بے خبر بنا دیا ہے اور وہ اس سے اُن فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے.بجز جلنے اور دُکھ اُٹھانے کے جو ظاہر پرستی کی وجہ سے ان پر آیا.پس یہ قوم اس طرح پر بے نصیب ہو گئی.اب ایک تیسری قوم ہے جس نے ذوالقرنین سے التماس کی کہ یاجوج ماجوج کے درے بند کر دے تا کہ وہ ان کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں.وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا.خدا تعالیٰ کی تائیدات سے

Page 245

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ سورة الكهف میں ان حملوں سے اپنی قوم کو محفوظ کر رہا ہوں جو یا جوج ماجوج کر رہے ہیں.پس اس وقت خدا تعالیٰ تم کو تیار کر رہا ہے تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو اور اپنی سچائی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرو تا کہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو اور تاریکی کے چشمہ کے پاس جانے والے نہ ٹھہرو اور نہ تم ان لوگوں سے بنو جنہوں نے آفتاب سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا.پس تم پورا فائدہ حاصل کرو اور پاک چشمہ سے پانی پیوتا خدا تم پر رحم کرے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۷،۶) یہ زمانہ چونکہ کشف حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق اور معارف مجھے پر کھول رہا ہے ذوالقرنین کے قصے کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجھے یہ سمجھایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے پیرا یہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لئے رکھا ہے کہ قرن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا اس لئے ذوالقرنین کہلائے گا.چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائیں ہیں اس طرح پر دوسری صدیاں ہندوؤں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے اور پھر اسی قصہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ذوالقرنین نے تین قومیں پائیں.اوّل وہ جو غروب آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے اس سے مراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے یعنی شریعتِ حقہ ان کے پاس نہیں رہی.روحانیت مرگئی اور ایمان کی گرمی جاتی رہی یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں.دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جھلنے والی دھوپ ہے.یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے.آفتاب یعنی شریعت حقہ ان کے پاس موجود ہے مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے کیونکہ فائدہ تو حکمت عملی سے اُٹھایا جاتا ہے جیسے مثلا روٹی پکانا وہ گو آگ سے پکائی جاتی ہے لیکن جب تک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے وہ روٹی تیار نہیں ہو سکتی اسی طرح پر شریعت حقہ سے کام لینا بھی ایک حکمت عملی کو چاہتا ہے.پس مسلمانوں نے اس وقت باوجود یکہ ان کے پاس آفتاب اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا.اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یا جوج ماجوج سے بچا یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا ہے.غرض آج ان قصوں کا علمی رنگ ہے.ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصہ پہلے بھی کسی رنگ میں گزرا ہے لیکن یہ بچی بات ہے کہ اس قصہ میں واقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور

Page 246

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ سورة الكهف الحکم جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ ۱۷ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۶) پیشگوئی تھا جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا.ایک دفعہ سورہ کہف جس کو ذوالقرنین بھی کہتے ہیں میں دیکھ رہا تھا تو جب میں نے اس قصہ کو غور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں بعینہ اس زمانہ کا حال درج ہے جیسے لکھا ہے کہ جب اس نے سفر کیا تو ایسی جگہ پہنچا جہاں کہ اسے معلوم ہوا کہ سورج کیچڑ میں ڈوب گیا ہے اور یہ اس کا مغربی سفر تھا اور اس کے بعد پھر وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتا ہے جو دھوپ میں ہیں اور جن پر کوئی سایہ نہیں.پھر ایک تیسری قوم اسے ملتی ہے جو یا جوج ماجوج کے حالات بیان کر کے اس سے حمایت طلب کرتی ہے.اب مثالی طور پر تو خدا نے یہ بیان کیا ہے لیکن ذوالقرنین تو اس کو کہتے ہیں جس نے دو صدیاں پائی ہوں اور ہم نے دوصدیوں کو اس قدر لیا ہے کہ اعتراض کا موقع ہی نہیں رہتا.میں نے ہر صدی پر دوصدیوں سے حصہ لیا ہے تم حساب کر کے دیکھ لو اور یہ جو قرآن میں قصص پائے جاتے ہیں تو یہ صرف قصہ کہانیاں نہیں بلکہ یہ عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں جو شخص ان کو صرف قصے کہانیاں سمجھتا ہے وہ مسلمان نہیں.غرض اس حساب سے تو مجھے بھی ذوالقرنین ماننا پڑے گا اور آئمہ دین میں سے بھی ایک نے ذوالقرنین سے صحیح مراد لیا ہے اب خدا تعالیٰ نے اس قصہ میں مغربی اور مشرقی دوقوموں کا ذکر کیا ہے.مغربی قوم سے مراد تو وہ لوگ ہیں جن کو انجیل اور دیگر صحیفہ جات کا صاف شفاف پانی دیا گیا تھا مگر وہ روشن تعلیم انہوں نے ضائع کر دی اور اپنے پاس کیچڑ اور گند باقی رہنے دیا اور مشرقی قوم سے وہ مسلمان لوگ مراد ہیں جو امام کے سایہ کے نیچے نہیں آتے اور دھوپ کی شعاعوں سے جھلسے جا رہے ہیں لیکن ہماری جماعت بہت خوش نصیب ہے اس کو اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے فضل سے ہدایت عطا فرمائی لیکن یہ ابھی ابتدائی حالت ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۵) وہ ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے اور ہے اور سکندر رومی اور شخص ہے بعض لوگ ہر دوکو ایک سمجھتے ہیں.دوصدیوں میں سے حصہ لینے والا ہے.( بدر جلد ۸ نمبر ۷ ۸ ۹ مورخه ۲۴ تا ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۳) مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ قَعَدَ فِي ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک تاریک مَقْنُوْنَةٍ فَطَلَعَتِ الشَّمْسُ حَتَّى جَاءَتْ کمرے میں ہے.پھر اس پر سورج نے بھی طلوع کیا یہاں عَلَى رَأْسِهِ وَهُوَ مِنَ الَّذِينَ يَخْتَهِبُونَ وَ تک کہ اس کے عین سر پر آ گیا مگر وہ تاریکیوں میں ہی پڑا قَوْمُ أَخَرُوْنَ رَضُوا بِالْحُمَاذِي وَقَعَ رہا.اور ایک اور قوم ہے جو شدت گرمی پر راضی ہو گئے ہیں

Page 247

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة الكهف بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ كَالْمُحَاذِي وَ انّي انا اور اس کے افراد ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھے ہوئے الْأَحْوَذِى كَذِي الْقَرْنَيْنِ وَجَدتُ ہیں.میں وہ تیز رفتار سیاح ہوں جو ذوالقرنین کی مانند قَوْمًا فِي أَوَارٍ وَ قَوْمًا أَخَرِيْنَ فِي زَمْهَرِيرِ ہے.میں نے ایک قوم کو سخت گرمی میں پایا اور دوسروں کو وَعَيْنٍ كَذرَةٍ لِفَقَدِ الْعَيْنِ وَ الي انا سخت سردی میں اور نا بینائی کی وجہ سے ایسے چشمہ پر پایا جو الْغَيْذَانُ وَ مِنَ اللهِ آری وَ أَعْلَمُ آن گدلا ہے اور میں ہی صحیح نتیجہ پر پہنچنے والا ہوں اور اللہ کی القدر اخرج سَهْمَهُ وَقُنًا فَاذْكُرُوا طرف سے صحیح راہ کو دیکھ رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ قضاء الله يعينٍ ثَرَّةٍ يَا أولى النهى لَعَلَّكُمْ قدر نے صحیح نشانہ پر بیٹھے والا تیر لگایا ہے.پس اے عقلمندو تَجِدُوا حِتْرًا وَ كَثِيرًا من الندى.اشکبار آنکھوں کے ساتھ اللہ کو یاد کرو تا تم خدائی بخشش سے ( تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۰۰) خیر کثیر پاسکو.( ترجمه از مرتب) وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ مسیح موعود کی مثال ذو القرنین کی ہے اور اسے آنکھ كَمَقَلِ ذِي الْقَرْنَيْنِ، وَإِلَيْهِ أَشَارَ رکھنے والو دیکھو کہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ کیا الْقُرْآنُ يَا أُولِى الْعَيْنَيْنِ فَكَفَاكُمْ هَذَا ہے.اور یہ تمثیل تمہارے لئے اگر تم سوچو کافی ہے اور میں الْمَقَلُ إِن كُنتُمْ تَتَأَمَّلُونَ، وَإِنِّي أنا ذوالقرنین کی مانند تیز رفتار ہوں.اور انسانوں کو ملانے کے الْأَحْوَذِقُ كَذِي الْقَرْنَيْنِ، وَمُجمعَتْ لِی سامان پیدا کر کے میرے لئے تمام زمینیں اکٹھی کر دی گئی الْأَرْضُونَ كُلُهَا يونج النُّفُوسِ ہیں.پس میں نے اپنی سیاحت کے کام کو مکمل کر لیا ہے فَكَتَلْتُ أَمْرَ سِيَاحَتى وَمَا بَرِخت حالانکہ میں اپنے دونوں پاؤں کے مقام پر قائم رہا ہوں.مَوْضِعَ هَاتَيْنِ الْقَدَمَيْنِ.وَلَا سِيَاحَةً في اور اسلام میں سیاحت اور سفر حرمین کے سوا کسی اور جگہ کے الْإِسْلَامِ وَلا شَدَّ الحَالِ مِنْ غَيْرِ لئے نہیں ہے سو مجھے دونوں جہانوں کے رب کی طرف سے الْحَرَمَيْنِ فَرُزِقَ لِى الشَّيْعَانُ بهذا اس طریق (روحانی یا معنوی طور پر سیاحت عطا کی گئی ہے الطَّرِيقِ مِن رَّبِّ الْكَوْنَيْنِ.وَوَجَدْتُ فِي اور میں نے اپنی سیاحت کے دوران دو متضاد قوموں کو پایا سِيَاحَتِى قَوْمَيْنِ مُتَضَادَّيْنِ قَوْم ہے جن میں سے ایک وہ قوم ہے جس پر سورج کی دھوپ پڑ صَمَعَتْ عَلَيْهِمُ الشَّمْسُ وَلَفَحَتْ رہی ہے اور اس کی تپش کی آگ نے ان کے چہروں کو جھلس وُجُوْهَهُمْ نَارُ أُوَارٍ فَرَجَعُوا يُخفَّى حُنَيْنٍ.دیا ہے اور وہ سراسر نا کام ہو گئے اور دوسرے لوگ اپنی

Page 248

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ سورة الكهف قَوْم أَخَرُوْنَ في زَمْهَرِیرٍ وَعَيْنٍ حَمِنَةٍ نابینائی کی وجہ سے سخت سردی میں اور بودار کیچڑ والے چشمہ لفَقْرِ الْعَيْنِ.ذَالِكَ مَثَلُ الَّذِينَ پر ہیں.پہلی مثال ان لوگوں کی ہے جو اپنے آپ کو مسلمان يَقُولُونَ إِنَّا نَحْنُ مُسْلِمُونَ وَلَيْسَ لَهُمْ کہتے ہیں ان کو اسلام کے سورج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا وہ بغیر حَظِّ مِن شَمس الإسلام، يُخرِقُونَ نفع کے اپنے بدنوں کو جلا رہے ہیں اور چہروں کو جھلسا رہے أَبْدَانَهُمْ مِنْ غَيْرِ نَفْعِ وَيُلْفَحُونَ ہیں.دوسری ان لوگوں کی مثال ہے جن کے پاس توحید کے وَمَثَلُ الَّذِينَ مَا بَقِيَ عِنْدَهُمْ مِنْ سورج کی روشنی میں سے کچھ باقی نہیں.انہوں نے عیسیٰ علیہ ضَوْءِ شَمْسِ التَّوْحِيدِ وَاتَّخَذُوا عِيسى السلام کو معبود بنا لیا اور زندہ خدا کے بدلے ایک مردہ کو اختیار إلها واسْتَبْدَلُوا الْمَيْتَ بِالَّذِي هُوَ کر لیا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس کے محتاج ہیں.حَقٌّ، وَيَظُنُّونَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ يَتَحَوَّجُوْنَ.یہ دونوں مثالیں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے اپنے آپ هَذَانِ مَثَلَانِ لِقَوْمٍ جَعَلُوا کو ان حقیر لوگوں کی طرح بنا لیا جن کو سورج کی روشنی نے کچھ أَنْفُسَهُمْ كَعَبَادِيْدَ مَا نَفَعَهُمْ ضَوْءُ نفع نہ پہنچایا سوائے اس کے کہ اس کی گرمی نے ان کے الشَّمْسِ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَلْقَحَ وُجُوهَهُمْ چہروں کو مجلس دیا پس وہ ہلاک ہو رہے ہیں.پھر یہ مثال ان حَرُهَا فَهُمْ يَهْلِكُونَ.وَمَتَل تقوم لوگوں کی ہے جو سورج کی روشنی سے بھاگے اور ان کا سارا فَرُوا مِن ضَوْعِهَا فَنُهِبُوا وَهُمْ سامان چھینا گیا اور وہ ظلمت میں بھٹک رہے ہیں میں نے يَغْتَهِبُونَ وَإِنِّي أَدْرَكْتُ الْقَرْنَيْنِ مِن ہجری تقویم کی دوصدیوں کو پایا ہے ایسا ہی عیسوی سن کے لحاظ السَّنَوَاتِ الْهِجْرِيَّةِ وَكَذَالِك من سے بلکہ ہر تقویم کے لحاظ سے جس سے لوگ اپنا حساب کرتے سَنَى عِيسَى وَمِنْ كُلِّ سَنَةٍ بتا ہیں دو صدیوں کو پایا ہے اسی لئے اللہ کی کتاب نے مجھے يُحَاسِبُونَ.فَلِذَالِك سميت ذا القرنين ذوالقرنین کا نام دیا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے في كِتَابِ اللهِ إِنَّ فِي ذَالِكَ لَآيَةٌ لِقَوْمٍ ایک زبر دست نشان ہے.يتدبرون.اور میں اس وقت مبعوث ہوا جبکہ یاجوج و ماجوج کھول وَمَا جِئْتُ إِلَّا فِي وَقتٍ فُتِحَتْ دیئے گئے اور وہ ہر بلندی سے پھلانگتے ہوئے دنیا میں پھیل يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ فِيْهِ وَهُمْ مِنْ كُلِّ گئے.پس میں اس غرض کے لئے مبعوث کیا گیا کہ مسلمانوں حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَبُعِثْتُ لِأُصُونَ کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے آیات بینات اور ایسی

Page 249

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة الكهف الْمُسْلِمِينَ مِنْ صَوْلِهِمْ بایات دعاؤں کے ذریعہ سے جو فرشتوں کو آسمان سے زمین پر کھینچ بَيِّنَاتٍ وَأَدْعِيَةٍ تَجْذِبُ الْمَلَائِكَةَ إِلَى لاتی ہیں محفوظ کروں اور تا میں ان لوگوں کے لئے ایک دیوار الْأَرْضِ مِنَ السَّمَاوَاتِ، وَلِأَجْعَلَ بنادوں جو اطاعت گزار ہیں.( ترجمہ از مرتب) سَنَّا لِقَوْمٍ يُسْلِمُونَ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۵،۱۲۴) وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنِ حَملة.پس واضح ہو کہ آیت قرآنی بہت سے اسرار اپنے اندر رکھتی ہے جس کا احاطہ نہیں ہوسکتا اور جس کے ظاہر کے نیچے ایک باطن بھی ہے.لیکن وہ معنے جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ آیت مع اپنے سابق اور لاحق کے مسیح موعود کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس کے وقت ظہور کو مشخص کرتی ہے.اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسیح موعود بھی ذوالقرنین ہے کیونکہ قرن عربی زبان میں صدی کو کہتے ہیں.اور آیت قرآنی میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وعدہ کا مسیح جو کسی وقت ظاہر ہوگا اُس کی پیدائش اور اس کا ظاہر ہونا دوصدیوں پر مشتمل ہوگا چنانچہ میرا وجود اسی طرح پر ہے.میرے وجود نے مشہور و معروف صدیوں میں خواہ ہجری ہیں خواہ مسیحی خواہ بکرماجیتی اس طور پر اپنا ظہور کیا ہے کہ ہر جگہ دو صدیوں پر مشتمل ہے صرف کسی ایک صدی تک میری پیدائش اور ظہور ختم نہیں ہوئے.غرض جہاں تک مجھے علم ہے میری پیدائش اور میرا ظہور ہر ایک مذہب کی صدی میں صرف ایک صدی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دو صدیوں میں اپنا قدم رکھتا ہے.پس ان معنوں سے میں ذوالقرنین ہوں.چنانچہ بعض احادیث میں بھی صحیح موعود کا نام ذوالقرنین آیا ہے.اُن حدیثوں میں بھی ذوالقرنین کے یہی معنے ہیں.جو میں نے بیان کئے ہیں.اب باقی آیت کے معنے پیشگوئی کے لحاظ سے یہ ہیں کہ دنیا میں دو قو میں بڑی ہیں جن کو مسیح موعود کی بشارت دی گئی ہے.اور مسیحی دعوت کے لئے پہلے انہیں کا حق ٹھہرایا گیا ہے.سو خدا تعالیٰ ایک استعارے کے رنگ میں اس جگہ فرماتا ہے کہ مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے اپنی سیر میں دو قوموں کو پائے گا.ایک قوم کو دیکھے گا کہ وہ تاریکی میں ایک ایسے بدبودار چشمے پر بیٹھی ہے کہ جس کا پانی پینے کے لائق نہیں اور اس میں سخت بد بودار کیچڑ ہے اور اس قدر ہے کہ اب اس کو پانی نہیں کہہ سکتے.یہ عیسائی قوم ہے جو تاریکی میں ہے جنہوں نے مسیحی چشمہ کو اپنی غلطیوں سے بد بودار کیچڑ میں ملا دیا ہے.دوسری سیر میں مسیح موعود نے جو ذوالقرنین ہے ان لوگوں کو دیکھا جو آفتاب کی جلتی ہوئی دھوپ میں بیٹھے ہیں اور آفتاب کی دھوپ اور اُن میں کوئی اوٹ

Page 250

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورةالكهف نہیں.اور آفتاب سے انہوں نے کوئی روشنی تو حاصل نہیں کی اور صرف یہ حصہ ملا ہے کہ اس سے بدن اُن کے جل رہے ہیں اور اوپر کی جلد سیاہ ہو گئی ہے.اس قوم سے مراد مسلمان ہیں جو آفتاب کے سامنے تو ہیں مگر بجر جلنے کے اور کچھ ان کو فائدہ نہیں ہوا.یعنی اُن کو توحید کا آفتاب دیا گیا مگر بجز جلنے کے آفتاب سے انہوں نے کوئی حقیقی روشنی حاصل نہیں کی.یعنی دینداری کی سچی خوبصورتی اور سچے اخلاق وہ کھو بیٹھے اور تعصب اور کینہ اور اشتعال طبع اور درندگی کے چلن ان کے حصہ میں آگئے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیرا یہ میں فرماتا ہے کہ ایسے وقت میں مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے آئے گا جبکہ عیسائی تاریکی میں ہوں گے اور اُن کے حصہ میں صرف ایک بد بودار کیچڑ ہوگا.جس کو عربی میں کیا کہتے ہیں.اور مسلمانوں کے ہاتھ صرف خشک توحید ہوگی جو تعصب اور درندگی کی دھوپ سے جلے ہوں گے.اور کوئی روحانیت صاف نہیں ہوگی.اور پھر مسیح جو ذوالقرنین ہے ایک تیسری قوم کو پائیں گے جو یا جوج ماجوج کے ہاتھ سے بہت تنگ ہوگی اور وہ لوگ بہت دیندار ہوں گے اور اُن کی طبیعتیں سعادتمند ہوں گی.اور وہ ذوالقرنین سے جو مسیح موعود ہے مدد طلب کریں گے تا یا جوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور تا وہ اُن کے لئے سد روشن بنادے گا.یعنی ایسے پختہ دلائل اسلام کی تائید میں ان کو تعلیم دے گا.یا جوج ماجوج کے حملوں کو قطعی طور پر روک دے گا.اور اُن کے آنسو پونچھے گا.اور ہر ایک طور سے ان کی مدد کرے گا.اور اُن کے ساتھ ہوگا.یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قبول کرتے ہیں.یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے.اور اس میں صریح طور پر میرے ظہور اور میرے وقت اور میری جماعت کی خبر دی گئی ہے.لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) اس سوال کے جواب میں کہ قرآن میں لکھا ہے کہ ذوالقرنین نے آفتاب کو دلدل میں غروب ہوتے پایا.فرمایا:) یہ صرف ذوالقرنین کے وجدان کا بیان ہے آپ بھی اگر جہاز میں سوار ہوں تو آپ کو بھی معلوم ہو کہ سمندر سے ہی آفتاب نکلا اور سمندر میں ہی غروب ہوتا ہے.قرآن نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ علم ہیئت کے موافق بیان کیا جاتا ہے ہر روز صد با استعارہ بولے جاتے ہیں مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ آج میں ایک رکابی پلاؤ کی کھا کر آیا ہوں تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آپ رکابی کو کھا گئے، اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص شیر ہے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس کے پنجے شیر کی طرح اور ایک دم بھی ضرور ہوگی.انجیل میں لکھا ہے کہ وہ زمین کے کنارہ سے سلیمان کی حکمت سننے آئے حالانکہ زمین گول ہے کنارہ کے کیا معنے.پھر یسعیاہ باب ۱۴/۷ میں یہ

Page 251

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ آیت ہے ساری زمین آرام سے اور ساکن ہے مگر زمین کی تو جنبش ثابت ہو چکی.سورةالكهف (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۷،۲۷۶) (پادری عبد اللہ آتھم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:) آپ لکھتے ہیں کہ دلدل میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں مگر عَيْنٍ حَمِئَةٍ سے تو کالا پانی مراد ہے اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مجازات کی بنا مشاہدات عینیہ پر ہے جیسے ہم ستاروں کو کبھی نقطہ کے موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبو در رنگ کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہہ دیتے ہیں پس جب کہ انہیں اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے کیوں انکار کیا جائے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۸،۲۸۷) غلط نہی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیرو سیاحت کا ذکر قرآن شریف میں ہے ) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا.اب عیسائی صاحب مجاز سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے دلدل میں کیوں کر چھپ گیا.یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا بڑہ لکھا ہے یہ کیوں کر ہو سکتا ہے.بڑہ تو وہ ہوتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو اور چار پاؤں کی طرح سرنگوں چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو بڑے کھایا کرتے ہیں؟ اے صاحب! آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف نے واقعی طور پر سورج کے دلدل میں چھپنے کا دعوی کیا ہے.قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں سورج دلدل میں چھپتا ہوا معلوم ہوا.سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑیا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظر نہیں آتا تھا جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا.مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا.ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے فقط ایک شخص کی دُور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا.سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل

Page 252

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة الكهف وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے تو اس سے یہ جھگڑالے بیٹھیں کہ کیا ستارے نقطوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کھول کر پیش کریں تو بلا شبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکلم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے.اے وہ لوگو! جو عشائے ربانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کی خبر نہیں ؟ سب جانتے ہیں کہ ہر ایک ملک کی عام بول چال میں مجازات اور استعارات کے استعمال کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے عوام الناس نے اپنی روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہیں.فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوام الناس کی طرف ہے.پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے.حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑ نا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہر گز روانہیں جو عوام الناس سے مذاق پر بات کرنا اس کا فرضِ منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو.لہذا یہ مسلم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو.کیا کوئی کلام الہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود اپنی ہر روزہ بول چال میں ا صد ہا مجازات و استعارات بول جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا.مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال ساباریک ہے اور ستارے نقطے سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی تک جو پہر دن چڑھا ہے نیزہ بھر او پر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھائی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا.تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑ کا شروع نہیں ہوتا کہ ہلال کیوں کر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیوں کر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزار ہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے ایک پہر میں فقط بقدر نیزہ کے اتنی مسافت طے کرے ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے یہ کوئی خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہو گا.بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہو گا.نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی دانا مخالف بھی پسند نہیں کرتا.انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود

Page 253

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورةالكهف سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصب ہیں....جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں ، بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور وہ غروب ہوا.اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظام شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل! کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے.ہمیں معلوم نہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۵۸ تا ۴۶۱) آپ نے آنے والے مسیح کا وقت یا جوج ماجوج کے ظہور کا زمانہ ٹھہرایا اور یا جوج ماجوج یوروپین عیسائی ہیں.کیونکہ یہ نام اجیج کے لفظ سے نکالا گیا ہے جو شعلہ ، آگ کو کہتے ہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ لوگ آگ سے بہت کام لیں گے اور اُن کی لڑائیاں آتشی ہتھیاروں سے ہوں گی اور اُن کے جہاز اور اُن کی ہزاروں کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۰۰) مسیح موعود کا یا جوج ماجوج کے وقت میں آنا ضروری ہے.اور چونکہ آجیج آگ کو کہتے ہیں جس سے یا جوج ماجوج کا لفظ مشتق ہے اس لئے جیسا کہ خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے.اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ اُن کے جہاز ، اُن کی ریلیں، اُن کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی اور اُن کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گے اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے.سو وہ یوروپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنون میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کیا جائے.پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یوروپ کے لوگوں کو ہی یا جوج ماجوج ٹھہرایا ہے بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے جو قدیم پایۂ تخت روس تھا.سو مقرر ہو چکا تھا کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہوگا.اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹوں کی سواری اور بار برداری ترک کی جائے گی.اس قول میں یہ اشارہ تھا کہ کوئی ایسی سواری ظاہر ہوگی جس سے اونٹوں کی حاجت نہیں رہے گی.میں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ خدا تعالی کی مصلحت اور حکمت کے رُو سے ایک ایسے انسان کا آخری زمانہ میں آنا ضروری تھا.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۲۵،۴۲۴)

Page 254

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة الكهف سب سے بڑا فتنہ ہی نصاری کا فتنہ ہے اور الدجال کا بروز ہے ایسا ہی یا جوج.یہ لفظ اجیج سے مشتق ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آتشی کاموں کے ساتھ ان کا بہت بڑا تعلق ہوگا اور وہ آگ سے کام لینے میں بہت مہارت رکھیں گے گویا آگ ان کے قابو میں ہوگی اور دوسرے لوگ اس آتشی مقابلہ میں ان سے عاجز رہ جائیں گے اب یہ کیسی صاف بات ہے.دیکھ لو کہ آگ کے ساتھ اس قوم کو کس قدر تعلق ہے.کلیں کس قدر جاری ہیں اور دن بدن آگ سے کام لینے میں ترقی کر رہے ہیں.یہ دونوں بروز ہیں اور یہ دونوں کیفیتیں جو متفرق طور پر تھیں ایک میں آئی ہیں ایسا ہی ماجوج میں..الحکم جلد ۵ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۱ء صفحه ۲) ان ( یا جوج ماجوج کے لمبے کانوں سے مراد جاسوسی کی مشق ہے جیسے اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں تار خبر کا سلسلہ اور اخبار وغیرہ سب اسی میں ہیں.البدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۷۷) اور یا جوج ماجوج کی نسبت تو فیصلہ ہو چکا ہے جو یہ دنیا کی دو بلند اقبال قو میں ہیں جن میں سے ایک انگریز اور دوسرے روس ہیں.یہ دونوں قو میں بلندی سے نیچے کی طرف حملہ کر رہی ہیں یعنی اپنی خدا دا د طاقتوں کے ساتھ فتیاب ہوتی جاتی ہیں.مسلمانوں کی بدچلنیوں نے مسلمانوں کو نیچے گراد یا اور ان کی تہذیب اور متانت شعاری اور ہمت اور اولوالعزمی اور معاشرت کے اعلیٰ اصولوں نے بحکم و مصلحت قادر مطلق ان کو اقبال دے دیا.ان دونوں قوموں کا بائیل میں بھی ذکر ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶۹) ایسا ہی یا جوج ماجوج کا حال بھی سمجھ لیجیے.یہ دونوں پرانی قومیں ہیں جو پہلے زمانوں میں دوسروں پر کھلے طور غالب نہیں ہوسکیں اور ان کی حالت میں ضعف رہا لیکن خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں قومیں خروج کریں گی یعنی اپنی جلالی قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گی جیسا کہ سورہ کہف میں فرماتا ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ في بعض یعنی یہ دونوں تو میں دوسروں کو مغلوب کر کے پھر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی اور جس کو خدائے تعالیٰ چاہے گا فتح دے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۳) هذَانِ لَإِسْمَانِ لِقَوْمٍ تَفَرَّقَ شُعَبُهُمْ فِي ( ياجوج و ماجوج ) ایک ایسی قوم کے دو نام ہیں جس زَمَانِنَا هَذَا أَخِرِ الزَّمَانِ وَهُمْ فِي وَصْفٍ کی شاخیں ہمارے اس آخری زمانہ میں دنیا میں پھیلی ہوئی مُتَشَارِكُونَ.وَهُمْ قَوْمُ الرُّوسِ وَقَوْمُ ہیں اور وہ اپنی صفات میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی الْبَرَاطِنَةِ وَ إِخْوَانُهُم وَ الرِّجَالُ فِيهِمُ ہیں اور یہ قوم روس اور انگریز ہیں اور ان کے بھائی بند

Page 255

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورةالكهف فَيْجُ قِسِيسِينَ وَ دُعَاةُ الْإِنْجِيلِ الَّذِينَ ہیں اور دجال ان میں پادریوں کی فوج ہے جو انجیل کی يخلطونَ الْبَاطِلَ بِالْحَقِّقِ وَ يَدْجُلُونَ طرف دعوت دیتی ہے اور باطل اور حق کو ملا کر دجل سے وَاعْتَدَى لَهُمُ الْهِنْدُ مُتَكَا وَ حَقَّتْ كَلِمَةُ کام لیتے ہیں.ہندوستان ان کے لئے ٹھکانا بن گیا ہے نَبِيْنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ يَخْرُجُونَ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوگئی مِنْ بِلَادِ الْمَشْرِقِ فَهُمْ مِنْ مَّشْرِقِ الْهِنْدِ ہے کہ یہ لوگ بلاد مشرق سے خروج کریں گے سو وہ خَارِجُونَ وَلَوْ كَانَ الرّجالُ غَيْرَ مَا قُلْنَا وَ ہندوستان کے شرق سے نکل رہے ہیں اور اگر دجال ہمارے كَذَالِكَ كَانَ قَوْمُ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ غَيْرَ بیان کے خلاف کوئی اور ہوتا اور اسی طرح یا جوج و هذَا الْقَوْمِ لَلزِمَ الإخْتِلافُ وَ التَّناقُضُ ماجوج مذکورہ بالا قوموں کے علاوہ ہوتے تو نبی پاک صلی في كَلامِ نبي الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ اللہ علیہ وسلم کے کلام میں اختلاف اور تناقض لازم آتا اَيْمُ اللهِ انَّ كَلَامَ نَبِيِّنَا مُنَزَةٌ عَنْ ذَالِكَ اور مجھے خدا کی قسم ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۶۰،۴۵۹ کلام اس سے پاک اور منزہ ہے.( ترجمہ از مرتب ) وَلَكِنَّهُمْ أَخْطَأُوْا فِيمَا قَالُوا إِنَّ يَأْجُوجَ لیکن انہوں نے اس میں غلطی کی ہے کہ یاجوج ماجوج وَمَأْجُوجَ يَمُوتُونَ فِي زَمَنِ عِيسَى كُلُّهُمْ، سب کے سب مر جاویں گے کیونکہ یاجوج ماجوج فَإِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ هُمُ النَّصَارَى مِنَ سے مراد وہ نصاریٰ ہیں جو روس اور برطانیہ قوموں الرُّوسِ وَالْأَقْوَامِ الْبَرْطَانِيَّةِ وَقَد أَخْبَرَ سے ہیں اور خدا نے خبر دے دی ہے کہ یہود و نصاری الله تَعَالَى عَن وَجُوْدِ النَّصَارَى وَالْيَهُودِ إلى قیامت تک رہیں گے.چنانچہ فرمایا ہے: فَاغْرينا يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَالَ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ کہ ہم نے و الْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ فَكَيْفَ يَمُوتُونَ قیامت تک ان میں مخالفت ڈال دی ہے پس قیامت كُلُهُمْ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ سے پہلے سب کے سب کس طرح مر سکتے ہیں.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۰،۲۰۹ حاشیه ) (ترجمه از مرتب) لا يُقَالُ إِنَّ هَذَا التَّفْسِيرَ خِلاف یہ نہ کہا جاوے کہ یہ تفسیر اجماع کے خلاف ہے.الْإِجْمَاعِ وَأَنَّ الْقَوْمَ قَدِ اتَّقُوا عَلَى أَنَّهُمْ قوم نے اس پر اتفاق کیا ہوا کہ یاجوج ماجوج قَوْمُ لَا يُقابِبُوْنَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ وَلَهُمْ انسانوں کے مشابہ نہیں ہیں اور ان کے لیے لمبے کان

Page 256

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ سورةالكهف اذَانْ طَوِيْلَةٌ لِأَنَّهُمْ قَدِ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّ يَأْجُوجَ ہیں اس لیے کہ قوم نے اس پر اتفاق کیا ہوا ہے وَمَأْجُوجَ قَوْمٌ تَحْصُورُونَ فِي الْإِقْلِيمِ الرَّابِحِ کہ وہ چوتھی اقلیم میں محصور ہیں اور ہر ایک قوم وَهُمْ أَزْيَدُ نَسُلًا وَعَدَدًا مِنْ كُلِّ قَوْمٍ، وَهُدًا سے وہ تعداد اورنسل میں زیادہ ہیں اور یہ بَاطِلُ بِالْبَدَاهَةِ.لأنا لا نرى في الإقليم الرابع بالبداہت باطل ہے کیونکہ ہم چوتھی اقلیم میں ان لِأَنَّا أَثَرًا مِّنْهُمْ وَلَا مِنْ بِلَادِهِمْ وَمُدُنهم كا اور ان کے شہروں اور لشکروں کا کچھ نام ونشان وَعَسَاكِرِهِمْ مَعَ أَنَّ عِمَارَاتِ الْأَرْضِ قَدْ ظَهَرَتْ نہیں پاتے حالانکہ زمین کی گل آبادیاں ظاہر ہو كُلُهَا.فَالرَّوَايَاتُ في هَذَا الْبَابِ بَاطِلَةٌ كُهَا.چکی ہیں.پس اس باب میں سب روایتیں باطل (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۰ حاشیه در حاشیہ) ہیں.(ترجمہ از مرتب) فَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ يَعْنِي وَجَاعِلُ خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت یعنی وَ جَاعِلُ الَّذِينَ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ دَلِيلٌ صَرِيحٌ وَبُرْهَانٌ وَاضِحُ عَلَى أَنَّ الْقُوَّةَ صریح دلیل ہے کہ روئے زمین پر غلبہ اور قوت وَالْغَلَبَةَ وَالشَّوْكَةَ وَالتَّسَلُّط الْكَامِلَ الْفَائِقَ شوکت اور کامل اور اعلیٰ درجہ کا تسلط قوم نصاریٰ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ لَا يُجَاوِزُ هَذَيْنِ الْقَوْمَيْنِ اور مسلمانوں سے باہر نہ جاوے گا اور حکومت النَّصَارَى وَالْمُسْلِمِينَ، وَتُدَاوِلُ الْحُكُومَةُ تامه قیامت تک انہیں کے ہاتھوں میں پھرے التَّامَّةُ بَيْنَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَكُونُ گی اور کسی اور کو اس سے حصہ نہ ملے گا بلکہ ان کے لِغَيْرِهِمْ حَظًّا مِنهَا، بَلْ تُضَرَبُ عَلى أَعْدَانِهِمُ دشمنوں پر ذلت اور مسکنت مسلط کی جاوے گی اللله وَالْمَسْكَتَةُ، وَيَذُوبُونَ يَوْمًا فَيَوْمًا حَتَّی اور وہ دن بدن پگھلتے جاویں گے یہاں تک کہ يَكُونُوا كَالْفَانِينَ فَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ كَذلِك فنا شده قوم کی مانند ہو جاویں گے.پس جب فَوَجَبْ أَن تَكُونَ الْحُكُومَةُ وَالْقُوَّةُ مُتَدَاوِلَةٌ بَيْنَ آیت کا یہ مطلب ہے تو واجب ہے کہ حکومت اور هذَيْنِ الْقَوْمَيْنِ إِلَى الدَّوَامِ وَمَخصُوصَةٌ بها قوت انہیں دو قوموں میں پھرے اور انہیں سے فَلَزِمَ بِنَاءً عَلَى هَذَا أَنْ يَكُونَ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ مختص رہے اور اس بنا پر ضروری ہے کہ یاجوج إِمَّا مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَّا مِنَ الْمُتَنفِرِينَ ماجوج يا تو مسلمانوں سے ہوں یا نصاری سے آل عمران : ۵۶

Page 257

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوو ۲۲۹ سورةالكهف وَلَكِنَّهُمْ قَوْم مُفْسِدُونَ بَطَالُونَ، لیکن یا جوج ماجوج ایک مفسد باطل پرست قوم ہے لہذا وہ فَكَيْفَ يَجورُ أَنْ يَكُونُوا مِنْ أَهْلِ اہلِ اسلام سے نہیں ہو سکتی.پس یقیناً ثابت ہوا کہ وہ قوم الإسلام : فَتَقَرَّرَ بِالْقَطْعِ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ نصاری سے ہیں اور دین نصاری پر ہیں.مِن النِّصَارَى وَعَلَى دِينِ النَّصَارَى (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۱۳، ۲۱۴ حاشیہ) ( ترجمه از مرتب) وَأَمَّا الْآفَاتُ الَّتِي قُدّر ظُهُورُهَا فِي اور وہ آفات جن کا ظہور مسیح موعود کے وقت کے لئے مقدر تھا وَقْتِ الْمَسِيحِ فَمِنْ أَعْظَمِهَا خُرُوجُ ان میں سے سب سے بڑی آفت یا جوج و ماجوج اور بے شرم يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَخُرُوجُ الرِّجَالِ دجال کا خروج ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے فتنہ ہیں جبکہ الْوَقِيح، وَهُمْ فِتْنَةٌ لِلْمُسْلِمِينَ عِنْدَ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور خدائے ورود سے عِصْيَانِهِمْ وَفِرَارِهِمْ مِنَ اللہ الوَدُودِ انحراف کیا.اور یہ ایک بڑی بلا ہے جو مسلمانوں پر اس طرح وَبَلاء عَظِيمٌ سُلْطَ عَلَيْهِمْ كَمَا سُلّط مسلط کی گئی ہے جس طرح یہود پر مسلط کی گئی تھی اور جان لو کہ عَلَى الْيَهُودِ وَاعْلَمْ أَن يَأْجُوجَ یا جوج اور ماجوج دو ایسی قومیں ہیں جو اپنی لڑائیوں میں نیز وَمَأْجُوجَ قَوْمَانِ يَسْتَعْمَلُونَ النَّارَ مصنوعات میں آگ اور اس کے شعلوں کا استعمال کرتی ہیں وَأَجِيْجَةَ فِي الْمُحَارَبَاتِ وَغَيْرِهَا مِنَ اور اسی بنا پر ان دونوں کے یہ نام رکھے گئے ہیں کیونکہ اجیج الْمَصْنُوعَاتِ، وَلِذَالِكَ سُموا بِذَيْنِ آگ کی صفت ہے اور اسی طرح ان کی جنگ آتشیں اسلحہ کے الإِسْمَيْنِ فَإِنَّ الْأَجِيْجَ صِفَةُ النَّارِ ذریعہ ہوتی ہے اور اسی طریق سے وہ تمام زمین والوں پر جنگ وَكَذَالِكَ يَكُونُ حَرْبُهُمْ بِالْمَوَادِ میں غالب آرہے ہیں اور وہ ہر بلندی سے پھلانگتے پھرتے النَّارِيَاتِ، وَيَفُوقُونَ كُلَّ مَنْ في ہیں انہیں نہ کوئی سمند ر روک رہا ہے اور نہ کوئی پہاڑ.بادشاہ ان الْأَرْضِ بِهَذَا الطَّرِيقِ مِنَ الْقِتَالِ، وَ کے سامنے خوف کے مارے سر بسجود ہو جاتے ہیں اور کسی کو ان هُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ، وَلا سے مقابلہ کی طاقت نہیں اور وہ بادشاہ موعود وقت تک ان کے يَمْنَعُهُمْ بَحْرُ وَلَا جَبَل من الْجِبَالِ پاؤں تلے روندے جائیں گے اور جو شخص ان دونوں پتھروں وَيَخِرُ الْمُلُوكُ أَمَامَهُمْ خَائِفِينَ، وَلا کے درمیان آجائے گا خواہ وہ کتنا بڑا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو وہ اس الانبياء: ۹۷ دور اے

Page 258

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة الكهف تبقى لأَحَدٍ يّدُ الْمُقَاوَمَةِ، وَيُدَاسُونَ طرح پیسا جائے گا جس طرح دانے چکی میں پیسے جاتے تَحْتَهُمْ إِلَى السَّاعَةِ الْمَوْعُوْدَةِ.وَمَن دَخَلَ ہیں اور ان کی وجہ سے زمین میں زلزلے آتے رہیں گے.فِي هَاتَيْنِ الْحِجَارَتَيْنِ وَلَوْ كَانَ لَهُ مَملكة اس کے پہاڑ حرکت کریں گے.اور اس کی گمراہی پھیل عُظمى، فَطَحِنَ كَمَا يُطْحَنُ الْحَبُّ فِي الرّخی جائے گی اور اس وقت کوئی دعا قبول نہ ہوگی اور نہ عرش تک وتُزَلْزَلُ بِهِمَا الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا، وَتُحَرِّكُ کوئی آہ وفغاں پہنچے گی اور مسلمانوں پر ایسی مصیبت آئے جِبَالُهَا، وَيُشَاعُ ضَلَالُهَا، وَلَا يُسْمَعُ دُعَاءُ گی جو ان کے اموال، اقبال اور عزتوں کو کھا جائے گی اور وَلَا يَصِلُ إِلَى الْعَرْشِ بُكَا وَيُصِيبُ اسلامی بادشاہوں کے پردے پھاڑ دے گی اور لوگوں پر الْمُسْلِمِينَ مُصِيبَةٌ تَأْكُلُ أَمْوَالَهُمْ ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور جرم کرنے کی وَإِقْبَالَهُمْ وَأَعْرَاضَهُمْ، وَتَنْتِكُ أَسْرَارَ وجہ سے اس کے غضب کے مورد ہیں اور ان کا رعب ، مُلُوكِ الْإِسْلَامِ، وَيَظْهَرُ عَلَى النَّاسِ شوکت اور جلال ان سے چھن جائے گا کیونکہ وہ تقویٰ اختیار أَنَّهُمْ كَانُوا مَوْرِدَ غَضَبِ اللهِ مِن نہیں کرتے.اگر وہ دشمنوں کا ایک طریق سے مقابلہ کریں الْعِصْيَانِ وَالْإِجْرَامِ وَيُنْزَعُ مِنْهُمْ کے تو سات طریقوں سے ان کے مقابلہ میں شکست رُعْيُهُمْ وَإقْبَالُهُمْ وَشَوكَتُهُمْ وَجَلالُهُمْ بمَا كَانُوا لا يَتَّقُونَ.وَيُبَارُونَ الْأَعْدَاءَ کھائیں گے کیونکہ وہ نیکو کار نہ تھے وہ صرف لوگوں کے دکھاوے کی خاطر کام کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ مِنْ طَرِيقٍ وَيَنْهَزِمُوْنَ مِنْ سَبْعَةِ طُرُق وسلم اور آپ کی سنت کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ بمَا كَانُوا لَا يُحْسِنُونَ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَتَّبِعُونَ رَسُولَ اللهِ وَسُنْتَهُ وَلَا يَتَدَيَّنُونَ.وَإِنْ هُمْ إِلَّا كَالصُّوَرِ لَيْسَ الرُّوحُ فِيهِمْ، فَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمُ الله دینداری اختیار کرتے تھے.اور وہ محض ڈھانچے ہیں جن میں کوئی روح نہیں.پس اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہ دیکھے گا اور نہ وہ مدد دیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ بِالرّحمَةِ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ.وَكَانَ اللهُ يُرِيدُ تو ان پر رجوع برحمت ہونا چاہے گا بشرطیکہ وہ تضرع اختیار أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنْ كَانُوا يَتَضَرَّعُونَ فَمَا کریں مگر نہ انہوں نے تو بہ کی اور نہ تضرع اختیار کیا.پس تَابُوْا وَمَا تَضَرَّعُوا فَنَزَلَ عَلَى الْمُجْرِمِينَ ان مجرموں پر وبال وارد ہوا سوائے ان لوگوں کے جنہوں وَبَالُهُمْ إِلَّا الَّذِينَ يَخْشَعُونَ.وَيَرَوْنَ أَيَّام نے خشوع و خضوع اختیار کیا اور وہ مجرمین ملعونوں کی طرح الْمَصَائِبِ وَلَيَالِيَهَا كَمَا رَأَى الْمَلْعُونُونَ شب و روز مصائب کو دیکھیں گے تب اس وقت مسیح موعود

Page 259

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۱ سورةالكهف فَعِنْدَ ذَالِكَ يَقُومُ الْمَسِيحُ أَمَامَ رَبِّهِ اپنے رب جلیل کے حضور کھڑا ہوگا اور رات بھر آہ و بکا کے الْجَلِيلِ، وَيَدْعُوهُ في اللَّيْلِ الطَّوِيلِ، ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا اور اسی طرح پگھل جائے بِالفُرَاجُ وَالْعَوِيلِ، وَيَذُوبُ ذَوَبَانَ گا جس طرح آگ پر برف پگھل جاتی ہے اور اس مصیبت الثَّلْجِ عَلَى النَّارِ، وَيَبْتَبِلُ لِمُصِيبَةٍ کی وجہ سے جو ملک پر نازل ہو چکی ہوگی گریہ وزاری کرے نَزَلَتْ عَلَى الرِّيَارِ، وَيَذْكُرُ اللهَ بِدُمُوعِ گا اور اللہ تعالیٰ کو بہتے ہوئے اشکوں سے یاد کرتے گا تب جَارَيَةٍ وَعَبَرَاتٍ مُتَحَيّدَةٍ فَيُسْمَعُ اس کی دعاسنی جائے گی اس کے بلند مقام کی وجہ سے جو دُعَاؤُهُ لِمَقَامٍ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ، وَتَنْزِلُ اسے اپنے رب کے حضور حاصل ہے اور پناہ دینے والے مَلَائِكَةُ الإيواء، فَيَفْعَلُ اللهُ مَا يَفْعَلُ.فرشتے نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی تجلی وَيُنَنِي النَّاسُ مِنَ الْوَبَاء.فَهُناكَ يُعْرَفُ کرے گا اور لوگوں کو مصیبت سے نجات دے گا تب اس الْمَسِيحُ فِي الْأَرْضِ كَمَا عُرِفَ فِي السَّمَاءِ وقت مسیح موعود کو زمین پر بھی اسی طرح پہچانا جائے گا جس ، وَيُوضَحُ لَهُ الْقُبُولُ فِي قُلُوبِ الْعَامَّةِ طرح وہ آسمان پر پہنچانا گیا اور اس وقت اسے عوام اور والأمراء ، حتى يتبرك الْمُلُوكُ پیتا ہے.امراء کے دلوں میں قبولیت حاصل ہوگی یہاں تک کہ وَهُذَا كُلُّهُ مِنَ اللهِ وَمِنْ جَنَابِهِ وَفِي أَعْيُنِ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کی جناب سے ہوگا اور لوگوں کی النَّاسِ عجيب (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۸،۳۱۷ حاشیه نگاہ میں عجیب.( ترجمہ از مرتب) بَعْضٍ.....وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَبِذٍ يَمُوجُ في بَعْضَهُمْ يَوْمَ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ سے یہ مراد وَالْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ ہے کہ اس زمانہ میں تمام فرقوں میں جنگ کی آگ بھڑک بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ أَن نَارَ اُٹھے گی اور پہاڑوں برابر سونا چاندی اسلام کے نابود الْخُصُومَاتِ تَسْتَوْقِدُ فِي ذَالِكَ الزَّمَانِ في کرنے کے لئے اور مسلمانوں کو اسلام کے دائرہ سے كُلِ فِرْقَةٍ مِنْ فِرَقِ أَهْلِ الْأَدْيَانِ، نکالنے کے لئے خرچ کریں گے اور اسلام کی توہین سے وَيُنفِقُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ كَالْجِبَالِ بھری ہوئی کتابیں تالیف کی جائیں گی اور بہت سے لِتَكْذِيبِ الْإِسْلامِ وَالْإِبطالِ وَارْيَدَادِ مقاموں میں خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ دن الْمُسْلِمِينَ، وَيُؤْلِفُوْنَ كُتُبا مَمْلُوةٌ فمن اسلام کی غربت کے ہوں گے اور مسلمان اس زمانہ میں دو :

Page 260

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۲ سورةالكهف دو التَّوْهِينِ وَقَدْ أَشَارَ اللهُ فِي كَثِيرٍ مِّن قیدیوں کی طرح زندگی بسر کریں گے اور تفرقہ اور الْمَقَامِ أَنَّ تِلْكَ الأَيَّامِ أَيَّامُ الْغُرْبَةِ پراگندگی کی ہوائیں اُن کے سر پر چلیں گی.پس وہ لِلْإِسْلامِ، وَهُنَاكَ يَكُونُ الْمُسْلِمُونَ بکھر جائیں گے اور پراگندہ ہو جائیں گے اور كَالْمَحْصُورِينَ وَعَهُبُ عَلَيْهِمْ عَوَاصِفُ بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ سے مراد یہ ہے کہ التَّفْرِقَةِ فَيَكُونُونَ كَعِضِيْنَ فَأَمَّا قَوْله ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو کھا جائے گا اور یا جوج و ماجوج بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ فَيُرِيدُ سربلندی پائیں گے اور تمام سطح زمین پر اُن کے نکلنے مِنْهُ أَنَّ فِرْقَةً تَأْكُلُ فِرْقَةٌ أُخرى، وَتَعْلُو کی خبریں سننے میں آئیں گی اور اُن دنوں میں اسلام يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَتَسْمَعُونَ أَخْبَارَ بوڑھی عورت کی طرح ہوگا اور اُس میں کسی طرح کی خُرُوجِهِمْ فِي الْأَرْضِينَ.وَفِي تِلْكَ الأَيَّامِ لا قوت اور عزت نہیں رہے گی اور ذلت پر ذلت اُس کو يَكُونُ الْإِسْلَامُ إِلَّا كَعَجُوزَةٍ، وَلَا يَبْقَى لَه پہنچے گی اور قریب ہوگا کہ بغیر تجہیز وتکفین کے زمین میں مِنْ قُوَّةٍ وَلَا مِنْ عِزَّةٍ، وَتُصِيبُهُ ذِلَّةٌ عَلَى ذِلَّةٍ گاڑ دیا جائے اور ایسی مصیبتیں اس کے سر پر پڑیں گی وَكَادَ أَنْ يُقْبَرَ مِنْ غَيْرِ التَّجْهِيزِ وَالتَّكْفِينِ کہ پہلے زمانہ میں کسی کان نے اس جیسا نہ سنا ہوگا اور وَتُصَبُّ عَلَيْهِ مَصَائِبُ مَا سَمِعَتْ أُذُنٌ دین میں سے گروہ در گروہ جاہل لوگ لعنت کرتے مِثْلَهَا مِن قَبْلُ وَيَخْرُجُ مِنَ الدِّينِ أَفَوَاجُ ہوئے اور تکذیب کرتے ہوئے نکل جائیں گے اور منَ الْجَاهِلِينَ، لَاعِنِينَ وَمُحَقِّرِينَ وَمُكَذِّبِينَ تمام امور زیر و زبر کیے جائیں گے اور شریعت اور وتقلب الأمورُ كُلُهَا، وَتَنْزِلُ الْمَصَائِبُ عَلَى شریعت والوں پر رنج اور مصیبتیں اُتریں گی اور اُس الشَّرِيعَةِ وَأَهْلِهَا، وَيُرَدُّ فَتَرُهَا كَعُرْجُونٍ کا چاند دیکھنے والوں کی نظر میں پرانی ٹہنی کی طرح قَدِيمٍ فِي أَعْيُنِ النَّاظِرِينَ، وَهَذِهِ ذِلَّةٌ ما نظر آئے گا اور یہ وہ ذلت ہے کہ اس سے پہلے ملت کو أَصَابَتِ الْمِلَّةَ مِن قَبْلُ وَلَن تُصِيبَ إلى نہیں پہنچی اور قیامت تک نہیں پہنچے گی.جب اس حد يَوْمِ الدِّينِ.فَعِنْدَ ذَالِكَ تَنْزِلُ التَّرَةُ مِن تک معاملہ پہنچ جاوے گا تب آسمان سے نصرت اور السَّمَاءِ وَمَعَالِمُ الْعِزَّةِ مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاء خدا تعالی کی طرف سے بغیر تلوار اور بغیر نیزے اور ، مِنْ غَيْرِ سَيْفٍ وَسِنَانٍ وَمُحَارِبِيْنَ وَإِلَيْهِ لڑنے والوں کے عزت کے نشان اُتریں گے.اور إشَارَةٌ في قَوْلِهِ تَعَالَى وَنُفِخَ فِي الصُّورِ اس کی طرف خدا تعالیٰ کے اس قول میں اشارہ ہے:

Page 261

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۳ سورةالكهف عقلمندوں فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا وَهُوَ مُرَادٌ مِنْ بَعْثِ الْمَسِيحِ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ آخر آیت تک.اے عقا کے گروہ یہ مسیح موعود کی بعثت سے مراد ہے.الْمَوْعُوْدِ يَا مَعْشَرَ الْعَاقِلِينَ (ترجمه از مرتب) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۳) قَد وَعَدَ اللهُ عِنْدَ الْفِتْنَةِ الْعُظمى فِي آخِرِ خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ جب کہ آخر زمانہ میں الزَّمَانِ، وَالْبَلِيَّةِ الكُبرى قَبْلَ يَوْمِ الرِّيَانِ، بڑا بھاری فتنہ اور بلا قیامت سے پہلے ظاہر ہوگی.اُن أَنَّهُ يَنْصُرُ دِينَهُ مِنْ عِنْدِهِ فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ ، دنوں میں اپنی طرف سے اپنے دین کی مدد اور تائید وَهُنَاكَ يَكُونُ الْإِسْلَامُ كَالْبَدِ الثَّاقِ فرمائے گا اور اُس زمانہ میں اسلام بدر کامل کی طرح وَإِلَيْهِ أَشَارَ اللهُ سُبْحَانَهُ في قَوْلِهِ وَ نُفِخَ فی ہو جائے گا اور اسی کی طرف اشارہ ہے اس قول میں الصُّورِ فَجَعَلَهُمْ جَمْعًا..وَقَدْ أَخْبَرَ فِي آيَةٍ هِيَ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا اور اس آیت سے قَبْلَ هَذِهِ الْآيَةِ مِنْ تَفْرِقَةٍ عَظِيمَةٍ بِقَوْلِهِ وَ ایک بڑے تفرقہ کی خبر دی جہاں کہ فرمایا ہے : وتركنا تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ ثُمَّ بَقَرَ بَعْضَهُمُ الخ پھر وَنُفِخَ فِي الصُّور الخ کے قول سے بِقَوْلِهِ وَنُفِخَ في الصُّورِ بِجَمْع بَعْدَ التَّفْرِقَةِ بشارت دی.کہ اس پراگندگی کے بعد جمعیت حاصل فَلَا يَكُونُ هَذَا الْجَمْعُ إِلَّا فِي مِائَةِ الْبَدْرِ لِيَدُل ہوگی.پس یہ جمعیت حاصل نہ ہوگی مگر بدر کی صدی الصُّوْرَةُ عَلى مَعْنَاهَا كَمَا كَانَتِ النُّفْرَةُ میں تاکہ صورت اپنے معنے پر دلالت کرے جیسا کہ الأولى بِبَدْرٍ فَهَاتَانِ بَشَارَتَانِ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ پہلی نصرت بدر میں وقوع میں آئی.پس یہ دو تبرقَانِ كَدُرَّةٍ فِي الْكِتَابِ الْمُبِينِ.خوشخبریاں مومنوں کے لئے ہیں.اور موتی کی طرح (مخطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۸۶تا۳۸۸) کتاب مبین میں چمکتی ہیں.( ترجمہ از مرتب ) قَد أَشَارَ اللهُ فِي آيَاتٍ بَعْدَهُذِهِ الْآيَةِ مِنْ اس آیت کے معاً بعد جو آیات ہیں ان میں غَيْرِ فَصْلٍ إلى أَن يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ هُمُ الله تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یاجوج النَّصَارَى أَلَا تَرَى قَوْلَهُ أَفَحَسِبَ الَّذِينَ اور ماجوج نصاری ہی ہیں جیسے اَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِى اَوْلِيَاء كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ اور وَ كَذلِكَ قَوْلَهُ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِينَ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالَا الَّذِينَ الكهف : ١٠٣

Page 262

۲۳۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورةالكهف اَعْمَالاً اَلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيوةِ ضَلَّ سَعْيُهُمُ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعال أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنعا اور قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا وَكَذَالِكَ قَوْلَهُ قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ لِكَلِمَتِ رَبِّى اس میں شک نہیں کہ نصاریٰ کی قوم رَبِّي وَلاشك أنَّ النَّصَارَى قَوْمُ الْخَذُوا نے ہی مسیح علیہ السلام کو خدا کے سوا معبود بنایا ہے الْمَسِيحَ مَعْبُودًا مِن دُونِ اللهِ وَتَمَا يَلُوا عَلَی اور وہ دنیا کی طرف مائل ہیں اور نت نئی ایجادیں الدُّنْيَا وَسَبَقُوا غَيْرَهُمْ فى الْجادِ صَنَابِعِهَا وَ کرنے میں دوسروں پر سبقت لے گئے ہیں اور قَالُوانَ الْمَسِيحَ هُوَ كَلِمَةُ الله وَالْمَعْلُوقُ كُلہ کہتے ہیں کہ مسیح ہی کلمتہ اللہ ہے اور باقی سب مخلوق مِنْ هَذِهِ الْكَلِمَةِ فَهُذِهِ الْآيَاتُ رَدُّ عَلَيْهِمُ اس کلمہ سے ہے.یہ آیات ان کے ان خیالات کا (خطبہ الہامی روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۷۸ حاشیہ ) رد کرتی ہیں.(ترجمہ از مرتب) از ایک قوم بنانے کا ذکر قرآن شریف کی سورہ کہف میں موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعَنَهُمْ جَمْعًا یعنی ہم آخری زمانہ میں ہر ایک قوم کو آزادی دیں گے تا اپنے مذہب کی خوبی دوسری قوم کے سامنے پیش کرے اور دوسری قوم کے مذہبی عقائد اور تعلیم پر حملہ کرے اور ایک مدت تک ایسا ہوتا رہے گا.پھر قرنا میں ایک آواز پھونک دی جائے گی تب ہم تمام قوموں کو ایک قوم بنادیں گے اور ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۵ حاشیه ) وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا یعنی ان آخری دنوں میں جو یا جوج ماجوج کا زمانہ ہوگا دُنیا کے لوگ مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں میں مشغول ہو جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم پر مذہبی رنگ میں ایسے حملے کرے گی جیسے ایک موج دریا دوسری موج پر پڑتی ہے اور دوسری لڑائیاں بھی ہوں گی اور اس طرح پر دنیا میں بڑا تفرقہ پھیل جائے گا اور بڑی پھوٹ اور بغض اور کینہ لوگوں میں پیدا ہو جائے گا.اور جب یہ باتیں کمال کو پہنچ جائیں گی تب خدا آسمان سے اپنی قرنا میں آواز پھونک دے گا یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے جو اُس کی قرنا ہے ایک ایسی آواز دنیا کو پہنچائے گا جو اس آواز کے سننے سے سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دُور ہو جائے گا اور مختلف قو میں دُنیا کی ل الكهف : ۱۰۵،۱۰۴ الكهف : ١١٠

Page 263

۲۳۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورةالكهف ایک ہی قوم بن جائیں گی.اور پھر دوسری آیت میں فرمایا وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَيذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرْضًا.اور اُس دن جو لوگ مسیح موعود کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے اُن کے سامنے ہم جہنم کو پیش کریں گے یعنی طرح طرح کے عذاب نازل کریں گے جو جہنم کا نمونہ ہوں گے اور پھر فرمایا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاء عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَبْعًا یعنی وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ سے اُن کی آنکھیں پردہ میں رہیں گی اور وہ اُس کی باتوں کو سن بھی نہیں سکیں گے اور سخت بیزار ہوں گے اس لئے عذاب نازل ہو گا.اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے کیونکہ خدا کے نبی اس کی صو ر ہوتے ہیں یعنی قرنا.جن کے دلوں میں وہ اپنی آواز پھونکتا ہے یہی محاورہ پہلی کتابوں میں بھی آیا ہے کہ خدا کے نبیوں کو خدا کی قرنا قرار دیا گیا ہے.یعنی جس طرح قرنا بجانے والا قرنا میں اپنی آواز پھونکتا ہے اسی طرح خدا اُن کے دلوں میں آواز پھونکتا ہے اور یا جوج ماجوج کے قرینہ سے قطعی طور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرنا مسیح موعود ہے.کیونکہ احادیث صحیحہ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ یا جوج ماجوج کے زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح موعود ہی ہوگا.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کہ ایک طرف بائبل سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ یورپ کے عیسائی فرقے ہی یا جوج ماجوج ہیں اور دوسری طرف قرآن شریف نے یا جوج ماجوج کی وہ علامتیں مقرر کی ہیں جو صرف یورپ کی سلطنتوں پر ہی صادق آتی ہیں جیسا کہ یہ لکھا ہے کہ وہ ہر ایک بلندی پر سے دوڑیں گے یعنی سب طاقتوں پر غالب ہو جائیں گے اور ہر ایک پہلو سے دنیا کا عروج اُن کول جائے گا.اور حدیثوں میں بھی یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کسی سلطنت کو اُن کے ساتھ تاب مقابلہ نہیں ہوگی.پس یہ تو قطعی فیصلہ ہو چکا ہے کہ یہی قومیں یا جوج ماجوج ہیں اور اس سے انکار کرنا سراسر تحکم اور خدا تعالیٰ کے فرمودہ کی مخالفت ہے.اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے موافق یہی قومیں ہیں جو اپنی دنیوی طاقت میں تمام قوموں پر فوقیت لے گئی ہیں.جنگ اور لڑائی کے داؤ پیچ اور ملکی تدابیر کے امور میں دُنیا میں اُن کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا اور انہیں کی کلوں اور ایجادوں نے کیا لڑائیوں میں اور کیا کسی قسم کے دُنیا کے آرام کے سامانوں میں ایک نیا نقشہ دُنیا کا ظاہر کر دیا ہے اور انسان کی تمدنی حالت کو ایک حیرت انگیز انقلاب میں ڈال دیا ہے اور تدبیر امور سیاست اور درستی سامان رزم بزم میں وہ ید طولی دکھلایا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی پس خدا کے بزرگ نبی کی پیشگوئی سے صد ہا سال بعد جو واقعہ اُس پیشگوئی کی مقرر کردہ علامتوں کے موافق ظہور میں آیا ہے وہ یہی واقعہ یورپین

Page 264

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۶ سورةالكهف طاقتوں کا ہے.سوجس طور سے خدا نے یا جوج ماجوج کے معنی ظاہر کر دیئے اور جس قوم کو موجودہ واقعہ نے اُن علامات کا مصداق ٹھہرادیا اُس کو قبول نہ کرنا ایک کھلے کھلے حق سے انکار کرنا ہے.یوں تو انسان جب انکار پر اصرار کرے تو اُس کا منہ کون بند کر سکتا ہے لیکن ایک منصف مزاج آدمی جو طالب حق ہے وہ ان تمام امور پر اطلاع پا کر پورے اطمینان اور شلج صدر سے گواہی دے گا کہ بلاشبہ یہی قو میں یا جوج ماجوج ہیں.اور جب یہ ثابت ہوا کہ یہی تو میں یا جوج ماجوج ہیں تو خود یہ ثابت شدہ امر ہے کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہو گا جیسا کہ قرآن شریف نے بھی یا جوج ماجوج کے غلبہ اور طاقت کے ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْنَهُم جمعا یعنی یا جوج ماجوج کے زمانہ میں بڑا تفرقہ اور پھوٹ لوگوں میں پڑ جائے گی اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی.تب اُن دنوں میں خدا تعالیٰ اس پھوٹ کے دُور کرنے کے لئے آسمان سے بغیر انسانی ہاتھوں کے اور محض آسمانی نشانوں سے اپنے کسی مرسل کے ذریعہ جو صور یعنی قرنا کا حکم رکھتا ہوگا اپنی پر ہیبت آواز لوگوں تک پہنچائے گا جس میں ایک بڑی کشش ہوگی اور اس طرح پر خدا تعالی تمام متفرق لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا.اور احادیث صحیحہ صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ یا جوج ماجوج کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب قوم یا جوج ماجوج اپنی قوت اور طاقت کے ساتھ تمام قوموں پر غالب آجائے گی اور ان کے ساتھ کسی کو تاب مقابلہ نہیں رہے گی.تب مسیح موعود کو حکم ہو گا کہ اپنی جماعت کو کوہ طور کی پناہ میں لے آوے یعنی آسمانی نشانوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرے اور خدا کی زبردست اور ہیبت ناک عجائبات سے مدد لے اُن نشانوں کی مانند جو بنی اسرائیل کی سرکش قوم کے ڈرانے کے لئے کوہ طور میں دکھلائے گئے تھے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وَ رَفَعْنَا فَوقَكُمُ الطُّور (البقرة : ۶۴ ) یعنی کوہ طور میں نشان کے طریق پر بڑے بڑے زلزلے آئے اور خدا نے طور کے پہاڑ کو یہود کے سروں پر اس طرح پر لرزاں کر کے دکھلایا کہ گویا اب وہ ان کے سروں پر پڑتا ہے تب وہ اس ہیبت ناک نشان کو دیکھ کر بہت ڈر گئے.اسی طرح مسیح موعود کے زمانہ میں بھی ہوگا.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۳ تا ۸۹) کون شخص اس سے انکار کر سکتا ہے کہ ابتدائے زمانہ کے بعد دنیا پر بڑے بڑے انقلاب آئے.پہلے زمانہ کے لوگ تھوڑے تھے اور زمین کے چھوٹے سے قطعہ پر آباد تھے اور پھر وہ زمین کے دُور دُور کناروں تک پھیل گئے اور زبانیں بھی مختلف ہوگئیں اور اس قدر آبادی بڑھی کہ ایک ملک دوسرے ملک سے ایک

Page 265

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة الكهف علیحدہ دنیا کی طرح ہو گیا تو ایسی صورت میں کیا ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک ملک کے لئے الگ الگ نبی اور رسول بھیجتا اور کسی ایک کتاب پر کفایت نہ رکھتا.ہاں جب دنیا نے پھر اتحاد اور اجتماع کے لئے پلٹا کھایا اور ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملاقات کرنے کے لئے سامان پیدا ہو گئے اور باہمی تعارف کے لئے انواع و اقسام کے ذرائع اور وسائل نکل آئے.تب وہ وقت آگیا کہ قومی تفرقہ درمیان سے اٹھا دیا جائے اور ایک کتاب کے ماتحت سب کو کیا جائے تب خدا نے سب دُنیا کے لئے ایک ہی نبی بھیجا تا وہ سب قوموں کو ایک ہی مذہب پر جمع کرے اور تا وہ جیسا کہ ابتداء میں ایک قوم تھی آخر میں بھی ایک ہی قوم بنا دے.اور یہ ہمارا بیان جیسا کہ واقعات کے موافق ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کے موافق ہے جو زمین و آسمان میں پایا جاتا ہے کیونکہ اگر چہ اُس نے زمین کو الگ تاثیرات بخشی ہیں اور چاند کو الگ اور ہر ایک ستارہ میں جدا جدا قو تیں رکھی ہیں مگر پھر بھی باوجود اس تفرقہ کے سب کو ایک ہی نظام میں داخل کر دیا ہے اور تمام نظام کا پیشر و آفتاب کو بنایا ہے جس نے ان تمام سیاروں کو انجن کی طرح اپنے پیچھے لگالیا ہے پس اس سے غور کرنے والی طبیعت سمجھ سکتی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں بھی جو ہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو باعث کثرت نسل انسان نوع انسان میں پیدا ہوا وہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ خدا نے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کر کے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندر سب کو لے آوے سو خدا نے قوموں کے جُدا جُدا گروہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہو گیا تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بناوے جیسے مثلاً ایک شخص باغ لگا تا ہے اور باغ کے مختلف بوٹوں کو مختلف تختوں پر تقسیم کرتا ہے.اور پھر اس کے بعد تمام باغ کے ارد گرد دیوار کھینچ کر سب درختوں کو ایک ہی دائرہ کے اندر کر لیتا ہے اسی کی طرف قرآن شریف نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ آیت ہے ان هذة امَتْكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (الانبياء : ۹۳) یعنی اسے دنیا کے مختلف حصوں کے نبیو! یہ مسلمان جو مختلف قوموں میں سے اس دنیا میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ تم سب کی ایک امت ہے جو سب پر ایمان لاتے ہیں اور میں تمہارا خدا ہوں سو تم سب مل کر میری ہی عبادت کرو.( دیکھو الجز نمبر ۱۷ سورۃ الانبیاء )

Page 266

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورةالكهف اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہو سکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عید گاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردو نواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکہ معظمہ میں.سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا.اوّل چھوٹے چھوٹے موقع اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے.اوّل تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر دیوے جیسا کہ اس کا وعدہ قرآن شریف میں ہے کہ و نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعَنَهُمْ جَمْعًا یعنی آخری زمانہ میں خدا اپنی آواز سے تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر جمع کر دے گا جیسا کہ وہ ابتداء میں ایک مذہب پر جمع تھے تا کہ اول اور آخر میں مناسبت پیدا ہو جائے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۶) یہ آیت سورۃ کہف میں یا جوج ماجوج کے ذکر میں ہے.کتب سابقہ میں جو بنی اسرائیلی نبیوں پر نازل ہوئی تھیں صاف اور صریح طور پر معلوم ہوتا ہے بلکہ نام لے کر بیان کیا ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد یورپ کی عیسائی قومیں ہیں اور یہ بیان ایسی صراحت سے ان کتابوں میں موجود ہے کہ کسی طرح اس سے انکار نہیں ہو سکتا.اور یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہیں.ان کا بیان قابل اعتبار نہیں ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن شریف سے بے خبر ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ مومنوں کو قرآن شریف میں فرماتا ہے فَسُتَلُوا أَهْلَ الذِكرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (الانبیاء : ۸) یعنی فلاں فلاں باتیں اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم بے خبر ہو.پس ظاہر ہے کہ اگر ہر ایک بات میں پہلی کتابوں کی گواہی نا جائز ہوتی تو خدا تعالیٰ کیوں مومنوں کو فرماتا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہل کتاب سے پوچھ لو بلکہ اگر نبیوں کی کتابوں سے کچھ فائدہ اٹھانا حرام ہے تو اس صورت میں یہ بھی ناجائز ہوگا کہ ان کتابوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بطور استدلال پیشگوئیاں پیش کریں.حالانکہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد ان کے تابعین بھی ان پیشگوئیوں کو بطور حجت پیش کرتے رہے ہیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کتب سابقہ کے بیان تین قسم کے ہیں.

Page 267

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ سورةالكهف (۱) ایک تو وہ باتیں ہیں جو واجب التصدیق ہیں.جیسا کہ خدا کی توحید اور ملائک کا ذکر اور بہشت و دوزخ کے وجود کی نسبت بیان.اگر ان کا انکار کریں تو ایمان جائے.(۲) دوسری وہ باتیں ہیں جو رد کرنے کے لائق ہیں جیسا کہ وہ تمام امور جو قرآن شریف کے مخالف ہیں.(۳) تیسری قسم کی وہ باتیں ہیں جو قرآن شریف میں اگر چہ ان کا ذکر مفصل نہیں مگر وہ باتیں قرآن شریف کے مخالف نہیں بلکہ اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو بالکل مطابق ہیں جیسے مثلاً یا جوج ماجوج کی قوم کہ اجمالی طور پر ان کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے بلکہ یہ ذکر بھی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں تمام زمین پر ان کا غلبہ ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبیاء : ۹۷) اور یہ خیال کہ یا جوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مور د ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دو ہی قسم کے بیان فرمائے ہیں (۱) ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں (۲) دوسرے وہ جو جنات ہیں.انسانوں کے گروہ کا نام مَعْشَرَ الْإِنْسِ رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام مَعْشَرَ الْجِن رکھا ہے.پس اگر یا جوج ماجوج جس کے لئے مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے مَعْشَرَ الْإِنْسِ میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ نخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں میں ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دور دور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے بڑی اور بحری لڑائیوں میں اُن کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور توالد تناسل بھی ان کا ایشیائی قوموں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے.پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنے ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خواہ نخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے اور اگر کہو کہ یا جوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سد سکندری اُن کو کیوں کر روک سکتی تھی جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ

Page 268

۲۴۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورةالكهف جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِب (الضفت : ۱۱) سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سد سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم ہیں جو عقل و فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہو جانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذوالعقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر.حدیثوں میں بظاہر یہ تناقض پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کے وقت ایک طرف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ یا جوج ماجوج تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور دوسری طرف یہ بیان ہے کہ تمام دنیا میں عیسائی قوم کا غلبہ ہو گا جیسا کہ حدیث تكسر الصليب سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ صلیبی قوم کا اس زمانہ میں بڑا عروج اور اقبال ہوگا.ایسا ہی ایک دوسری حدیث سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ اس زمانہ میں رومیوں کی کثرت اور قوت ہوگی یعنی عیسائیوں کی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رومی سلطنت عیسائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (الروم :۳، ۴) اس جگہ بھی روم سے مراد عیسائی سلطنت ہے اور پھر بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت دجال کا تمام زمین پر غلبہ ہوگا اور تمام زمین پر بغیر مکہ معظمہ کے دخال محیط ہو جائے گا.اب کوئی مولوی صاحب بتلاویں کہ یہ تناقض کیوں کر دور ہو سکتا ہے اگر دجال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا تو عیسائی سلطنت کہاں ہوگی.ایسا ہی یا جوج ماجوج جن کی عام سلطنت کی قرآن شریف خبر دیتا ہے وہ کہاں جائیں گے.سو یہ غلطیاں ہیں جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں جو ہمارے مکفّر اور مکتب ہیں.واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دونوں صفات یا جوج ماجوج اور دجال ہونے کی یورپین قوموں میں موجود ہیں کیونکہ یاجوج ماجوج کی تعریف حدیثوں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کسی کو طاقت مقابلہ نہیں ہوگی اور مسیح موعود بھی صرف دعا سے کام لے گا اور یہ صفت کھلے کھلے طور پر یورپ کی سلطنتوں میں پائی جاتی ہے اور قرآن شریف بھی اس کا مصدق ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبياء : ٩٧) اور دجال کی نسبت حدیثوں میں یہ بیان ہے کہ وہ دجل سے کام لے گا اور مذہبی رنگ میں دنیا میں فتنہ ڈالے گا.سو قرآن شریف میں یہ صفت عیسائی پادریوں کی بیان کی گئی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ

Page 269

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة الكهف عَنْ مَوَاضِعِهِ (النساء : ۴۷) اس تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ہیں.اسی وجہ ہے سورۃ الفاتحہ میں دائمی طور پر یہ دعا سکھلائی گئی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو یہ نہیں کہا کہ تم دجال سے پناہ مانگو پس اگر کوئی اور دقبال ہوتا جس کا فتنہ پادریوں سے زیادہ ہوتا تو خدا کی کلام میں بڑا فتنہ چھوڑ کر قیامت تک یہ دعانہ سکھلائی جاتی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو اور یہ نہ فرمایا جاتا کہ عیسائی فتنہ ایسا ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں.پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.بلکہ یہ کہا جاتا کہ دجالی فتنہ ایسا ہے جس سے قریب ہے کہ زمین و آسمان پھٹ جائیں.بڑے فتنے کو چھوڑ کر چھوٹے فتنہ سے ڈرانا بالکل غیر معقول ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۳ تا ۸۷ حاشیه ) سورۃ تکویر میں سب نشانات آخری زمانہ کے ہیں انہی میں سے ایک نشان ہے وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتُ (التکویر :۵) یعنی جب اونٹیاں بر کار چھوڑی جائیں گی.اس کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلا يُسْغى عَلَيْهَا (صحيح مسلم كتاب الايمان باب وجوب الانبياء برسالة الانبیاء) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود بھی اسی زمانہ میں ہوگا بلکہ اس کے ابتدائی زمانے کے یہ نشان ہیں پھر فرمایا وَ اِذَا النُّفُوسُ زُوجَتُ (التکویر (۸) یعنی ایسے اسباب سفر مہیا ہو جا ئیں گے کہ قومیں باوجود اتنی دور ہونے کے آپس میں مل جائیں گی حتی کہ نئی دنیا پرانی دنیا سے تعلقات پیدا کر لے گی.یا جوج ماجوج کا آنا ، دجال کا نکلنا اور صلیب کا غلبہ یہ بھی اسی زمانے کے نشان ہیں ان کے متعلق لوگوں نے غلط فہمی سے تناقض پیدا کر لیا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب الگ الگ ہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ تمام روئے زمین پر محیط ہو جائیں گے پس اگر یا جوج ماجوج محیط ہو گئے تو پھر دجال کہاں احاطہ کرے گا اور صلیب کا غلبہ کس جگہ ہو گا ؟ سو یہ کہنے کے کچھ چارہ نہیں کہ یہ سب ایک ہی قوم کے مختلف افراد ہیں اور اگر ان کو ایک بنا دیں تو پھر کوئی مشکل نہ رہے گی.خدا تعالیٰ نے ان کی نسبت فرمایا ہے وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَعَلَهُمْ جَمْعًا جس سے ظاہر ہے کہ نہایت درجہ کا اختلاف پیدا ہو جائے گا اور سب مذاہب ایک دنگل میں ہو کر نکلیں گے ”تركنا “ کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آزادی کا زمانہ ہوگا اور یہ آزادی کمال تک پہنچ جائے گی تو اس وقت اللہ تعالی اپنے مامور کی معرفت ان کو جمع کرنے کا ارادہ کرے گا.پہلے دیکھو جمعنُهُم فرمایا اور ابتدائے عالم کے لئے خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء (النساء :۲) فرمایا.

Page 270

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة الكهف لفظ بَثَّ اور جمع آپس میں پورا تناقض رکھتے ہیں گویا دائرہ پورا ہو کر پھر وہی زمانہ ہو جائے گا پہلے تو وحدت شخصی تھی اب اخیر میں وحدت نوعی ہو جائے گی.اس سے آگے فرماتا ہے وَعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَينِ تلكفِرِينَ عَرَضًا - یہ مسیح موعود کے زمانے کا ایک اور نشان بتلایا کہ اس دن جہنم پیش کیا جاوے گا ان کافروں پر.یہ قیامت کا ذکر نہیں کیونکہ اس دن جہنم کا پیش کیا کرنا ہے اس روز تو اس میں کفار داخل ہوں گے.جہنم سے مراد طاعون ہے چنانچہ ہمارے الہامات میں کئی بار طاعون کو جہنم فرمایا گیا ہے.تأتي على جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ بھی ایک الہام ہے اللہ تعالیٰ نے دو فرقوں کا ذکر فرما دیا ایک تو وہ سعید جنہوں نے مسیح کو قبول کیا دوسرے وہ شقی جو مسیح کا کفر کرنے والے ہوں گے.ان کے لئے فرمایا کہ ہم طاعون بطور جہنم بھیجیں گے اور نُفِخَ فِی الصُّورِ سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وحی کے ذریعہ ان میں آواز دی جاتی ہے اور پھر آواز ان کی معرفت تمام جہان میں پہنچتی ہے پھر ان میں ایک ایسی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ باجود اختلاف خیالات وطبائع و حالات کے اس کی آواز پر جمع ہونے لگتے ہیں اور آخر کا ر وہ زمانہ آ جاتا ہے کہ ایک ہی گلہ اور ایک ہی گلہ بان ہو.خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے خود ہی ایسے اسباب مہیا کر دیئے ہیں کہ جس سے تمام سعید روحیں ایک دین پر جمع ہوسکیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا تھا : ( قُلْ ) يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) ایک طرف یہ جَمِيعًا اور دوسری طرف جَمَعنُهُمْ جَمْعًا ایک خاص علاقہ رکھتا ہے.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاء عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَبْعًا ذکر سے مراد یہ ہے کہ جو میں نے ان کو اپنے مامور کی معرفت یاد کیا.خدا کا یاد کرنا یہی ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے ایک مصلح کو بھی بھیج دیا سواس مامور سے وہ غفلت میں رہے.ان کی آنکھوں کے آگے طرح طرح کے شبہات کے حجاب چھائے رہے اور حق کا نور نظر نہ آیا.یہ کیوں کہ جوش تعصب سے ان کی ایسی حالت ہو گئی جو وہ اس مامور کی بات کوسن ہی نہیں سکتے ( وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَبعا ) اب ان لوگوں کی حالت یہی ہورہی ہے اور اس کی سزا بھی وہی مل رہی ہے جو قرآن مجید میں ہے کہ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَيذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرْضًا - ( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ زمانہ آ گیا ہے کہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے کہ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ

Page 271

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورةالكهف يَوْمَيذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعَنَهُمْ جَمعا - موجودہ آزادی کی وجہ سے انسانی فطرت نے ہر طرح کے رنگ ظاہر کر دیئے ہیں اور تفرقہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے.گو یا ایسا زمانہ ہے کہ ہر شخص کا ایک الگ مذہب ہے.یہی امور دلالت کرتے ہیں کہ اب نفخ صور کا وقت بھی یہی ہے اور فَجَعَنْهُمْ جَمعا کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہی زمانہ.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱/۲۶ پریل ۱۹۰۸ ء صفحه ۲) انبیاء جو آتے ہیں وہ کرنا ء کا حکم رکھتے ہیں.نفخ صور سے یہی مرا تھی کہ اس وقت ایک مامور کو بھیجا جائے گا وہ سنادے گا کہ اب تمہارا وقت آگیا ہے.کون کسی کو درست کر سکتا ہے جب تک کہ خدا درست نہ کرے.اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ایک قوت جاز بہ عطا کرتا ہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں.خدا کے کام بھی حبطہ نہیں جاتے.ایک قدرتی کشش کام کر دکھائے گی.اب وہ وقت آگیا ہے جس کی خبر تمام انبیاء ابتداء سے دیتے چلے آئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا وقت قریب ہے اس سے ڈرو اور تو بہ کرو.( بدر جلد نمبر ۲ مورخه ۱۶/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۹،۸) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَاءَ وَ كَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَبِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا ( الكهف : ٩٩ ١٠٠٠ ) الجز نمبر ۱۶ یعنی جب وعدہ خدا تعالیٰ کا 6 نزدیک آجائے گا تو خدا تعالیٰ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر دے گا جو یا جوج ماجوج کی روک ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور ہم اس دن یعنی یا جوج ماجوج کی سلطنت کے زمانہ میں متفرق فرقوں کو مہلت دیں گے کہ تا ایک دوسرے میں موجزنی کریں یعنی ہر ایک فرقہ اپنے مذہب اور دین کو دوسرے پر غالب کرنا چاہے گا اور جس طرح ایک موج اس چیز کو اپنے نیچے دبانا چاہتی ہے جس کے اوپر پڑتی ہے اسی طرح موج کی مانند بعض بعض پر پڑیں گی تا ان کو دبا لیں اور کسی کی طرف سے کمی نہیں ہوگی ہر ایک فرقہ اپنے مذہب کو عروج دینے کے لئے کوشش کرے گا اور وہ انہیں لڑائیوں میں ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا.تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے.صور پھونکنے سے اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مصلح پیدا ہوگا اور اس کے دل میں زندگی کی روح پھونکی جائے گی اور وہ زندگی دوسروں میں سرایت کرے گی.یادر ہے کہ صور کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ایک صورت سے منتقل کر کے دوسری صورت میں لاتا ہے تو اس تغیر صور کے وقت کو نفخ صور سے تعبیر کرتے ہیں اور اہل کشف پر مکاشفات کی رو

Page 272

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة الكهف سے اس صور کا ایک وجود جسمانی بھی محسوس ہوتا ہے اور یہ عجائبات اس عالم میں سے ہیں جن کے سر اس دنیا میں بجر منقطعین کے اور کسی پر کھل نہیں سکتے.بہر حال آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہو گا ور ایک آسمانی مصلح آئے گا در حقیقت اس مصلح کا نام سیح موعود ہے.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۱، ۳۱۲) قرآن میں اسلامی طاقت کے کم ہونے اور امواج فتن کے اٹھنے کے وقت جو عیسائی واعظوں کی دجالیت سے مراد ہے نفخ صور کی خوشخبری دی گئی ہے اور نفخ صور سے مراد قیامت نہیں ہے کیونکہ عیسائیوں کے امواج فتن کے پیدا ہونے پر تو سو برس سے زیادہ گزر گیا ہے مگر کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی مہدی اور مجدد کو بھیج کر ہدایت کی صور پھونکی جائے اور ضلالت کے مردوں میں پھر زندگی کی روح پھونک دی جاوے کیونکہ نفخ صور صرف جسمانی احیاء اور اماتت تک محدود نہیں ہے بلکہ روحانی احیاء اور امانت بھی ہمیشہ نفخ صور کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۰) ان آیات میں کسی کم تجربہ آدمی کو یہ خیال نہ گزرے کہ ان دونوں مقامات کے بعد میں جہنم کا ذکر ہے اور بظاہر سیاق کلام چاہتا ہے کہ یہ قصہ آخرت سے متعلق ہو مگر یادر ہے کہ یہ عام محاورہ قرآن کریم کا ہے اور صد ہا نظیریں اس کی اس پاک کلام میں موجود ہیں کہ ایک دنیا کے قصہ کے ساتھ آخرت کا قصہ پیوند کیا جاتا ہے.اور ہر یک حصہ کلام کا اپنے قرائن سے دوسرے حصہ سے تمیز رکھتا ہے.اس طرز سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے.مثلاً قرآن کریم میں شق القمر کے معجزہ کو ہی دیکھو کہ وہ ایک نشان تھا لیکن ساتھ اس کے قیامت کا قصہ چھیڑ دیا گیا.جس کی وجہ سے بعض نادان قرینوں کو نظر انداز کر کے کہتے ہیں کہ شق القمر وقوع میں نہیں آیا بلکہ قیامت کو ہو گا.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۱ حاشیه ) یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مختلف فرقوں کو ایک قوم بناوے اور ان مذہبی جھگڑوں کو ختم کر کے آخر ایک ہی مذہب میں سب کو جمع کر دے.اور اسی زمانہ کی نسبت جو تلاطم امواج کا زمانہ ہے خدا تعالی نے قرآن شریف میں فرمایا ہے وَ نُفِخَ في الصُّورِ فَجَمَعَنَهُمْ جَمْعًا.اس آیت کو پہلی آیتوں کے ساتھ ملا کر یہ معنے ہیں کہ جس زمانہ میں دنیا کے مذاہب کا بہت شور اُٹھے گا اور ایک مذہب

Page 273

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورةالكهف دوسرے مذہب پر ایسا پڑے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنا چاہیں گے تب آسمان و زمین کا خدا اس تلاطم امواج کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے بغیر دنیوی اسباب کے ایک نیا سلسلہ پیدا کرے گا اور اس میں ان سب کو جمع کرے گا جو استعداد اور مناسبت رکھتے ہیں.تب وہ سمجھیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے اور ان میں زندگی اور حقیقی راستبازی کی رُوح پھونکی جائے گی اور خدا کی معرفت کا ان کو جام پلایا جائے گا اور ضرور ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ یہ پیشگوئی کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے قرآن شریف نے دنیا میں شائع کی ہے پوری نہ ہو جائے.اور خدا نے اس آخری زمانہ کے بارہ میں جس میں تمام قو میں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھے ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ کہ اُس زمانہ میں دریاؤں میں سے بہت سی نہریں نکلیں گی اور ایک یہ کہ زمین کی پوشیدہ کا نیں یعنی معد نیں بہت سی نکل آویں گی.اور زمینی علوم بہت سے ظاہر ہو جائیں گے.اور ایک یہ کہ ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے کتابیں بکثرت ہو جائیں گی یہ چھاپنے کے آلات کی طرف اشارہ ہے ) اور ایک یہ کہ اُن دنوں میں ایک ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ اونٹوں کو بیکار کر دے گی اور اس کے ذریعہ سے ملاقاتوں کے طریق سہل ہو جائیں گے.اور ایک یہ کہ دنیا کے باہمی تعلقات آسان ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کو بآسانی خبریں پہنچا سکیں گے..لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۲، ۱۸۳) اسی زمانہ کے بارہ میں جو میرا زمانہ ہے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں خبر دیتا ہے جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ آخری دنوں میں طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو جائیں گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے یعنی تعصب بہت بڑھ جائے گا اور لوگ طلب حق کو چھوڑ کر خواہ نخواہ اپنے مذاہب کی حمایت کریں گے.اور کینے اور تعصب ایسے حد اعتدال سے گزرجائیں گے کہ ایک قوم دوسری قوم کو نگل لینا چاہے گی تب انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لئے ایک کرنا، بجائے گا اور اس کرنا ء کی آواز سے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھیا آئے گا بجز اُن لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں وَ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَمْعًا.اور یہ بات کہ وہ نفخ کیا ہوگا.اور اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کی تفصیل وقتا فوقتا خود ظاہر ہوتی جائے گی.مجملا صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ

Page 274

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۶ سورةالكهف استعدادوں کو جنبش دینے کے لئے کچھ آسمانی کا رروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے.اور کیا یہ وہی انسان نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس امت میں سے وہ مسیح ہو کر آئے گا جو عیسی بن مریم کہلائے گا تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گا اور طاقت بالا اُس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی اور اُس کے تمام تعصب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر بھسم ہو جاتا ہے غرض اُس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا.اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں نہ وہ زمین ہے اور نہ وہ آسمان.جیسا کہ مجھے پہلے اس سے ایک کشفی رنگ میں دکھلایا گیا تھا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے اور کشفی رنگ میں یہ بنانا میری طرف منسوب کیا گیا کیونکہ خدا نے اس زمانہ کے لئے مجھے بھیجا ہے.لہذا اس نئے آسمان اور نئی زمین کا میں ہی موجب ہوا اور ایسے استعارات خدا کی کلام میں بہت ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۰۹،۱۰۸) ولفح في الصُّورِ فَجَمَعْلهُمْ جَمْعًا اس سے بھی مسیح موعود کی دعاؤں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.نزول از آسمان کے یہی معنی ہیں کہ جب کوئی امر آسمان سے پیدا ہوتا ہے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اسے رد نہیں کر سکتا آخری زمانہ میں شیطان کی ذریت بہت جمع ہو جائے گی کیونکہ وہ شیطان کا آخری جنگ ہے مگر مسیح موعود کی دعا ئیں اس کو ہلاک کر دیں گی.الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۷ ار فروری ۱۹۰۴ صفحه ۵) أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِي أَوْلِيَاء إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ نُزُلات کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امرسہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اسی دنیا میں جہنم کو نمودار کر دیں گے یعنی بڑے بڑے ہولناک (برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۶) نشان ظاہر ہوں گے.

Page 275

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة الكهف أولَبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ رَبِّهِمْ وَلِقَابِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَزْنان فَلَا نُقِيمُ لَهُمُ يَوْمَ الْقِیمَةِ وَزْنا میں گناہ کا ذکر نہیں ہے.اس کا باعث صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے دنیا کی خواہشوں کو مقدم رکھا ہوا تھا.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ دنیا کا حظ پا چکے.وہاں بھی گناہ کا ذکر نہیں بلکہ دنیا کی لذات جن کو خدا تعالیٰ نے جائز کیا ہے ان میں منہمک ہو جانے کا ذکر ہے.اس قسم کے لوگوں کا مرتبہ عند اللہ کچھ نہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی عزت کا مقام دیا جائے.شیریں زندگی اصل میں ایک شیطان ہے جو کہ انسان کو دھوکہ دیتی ہے.مومن تو خود مصیبت خریدتا ہے ورنہ اگر وہ مداہنہ برتے تو ہر طرح آرام سے رہ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس طرح کرتے تو اس قدر جنگیں کیوں ہوتیں لیکن آپ نے دین کو مقدم رکھا اس لئے سب دشمن ہو گئے.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ صفحه ۳) مومن آدمی کا سب ہم و غم خدا کے واسطے ہوتا ہے دنیا کے لئے نہیں ہوتا اور وہ دنیاوی کاموں کو کچھ خوشی سے نہیں کرتا بلکہ اداس سا رہتا ہے اور یہی نجات حیات کا طریق ہے اور وہ جو دنیا کے پھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہم و غم سب دنیا کے ہی لئے ہوتے ہیں.ان کی نسبت تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے فلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ وَزْنا ہم قیامت کو ان کا ذرہ بھر بھی قدر نہیں کریں گے.خلِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا احکام جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۹) وہ آیات جن میں لکھا ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر دنیا میں نہیں آتے ازا الجملہ یہ آیت ہے وَ حَرام علی قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبیاء : ٩٢ )....پھر چھٹی آیت یہ ہے لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا.(ازالہ اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۹ حاشیه در حاشیه ) قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَ لَو جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا یعنی اگر خدا کی کلام کے لکھنے کے لئے سمندر کو سیاہی بنایا جائے تو لکھتے لکھتے سمند رختم ہو جائے اور کلام

Page 276

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورةالكهف میں کچھ کمی نہ ہو.گو ویسے ہی اور سمندر بطور مدد کے کام میں لائے جائیں.رہی یہ بات کہ ہم لوگ ختم ہو نا وجی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کن معنوں سے مانتے ہیں.سو اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ گو کلام الہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے.لیکن چونکہ وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے کلام الہی نازل ہوتی رہی یا وہ ضرورتیں کہ جن کو الہام ربانی پورا کرتا رہا ہے.وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں ہیں.اس لئے کلام الہی بھی اسی قدر نازل ہوئی ہے کہ جس قدر بنی آدم کو اس کی ضرورت تھی.اور قرآن شریف ایسے زمانہ میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں کہ جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آگئی تھیں یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہاء کو پہنچ گیا تھا.اس لئے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی.پس انہیں معنوں سے شریعت فرقانی مختم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآن شریف کے وقت میں وہ سب اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے.بس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتا ہیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں.پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا.مگر قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی آوے.کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں.ہاں اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی وقت اصول حقہ قرآن شریف کے وید اور انجیل کی طرح مشرکانہ اصول بنائے جائیں گے اور تعلیم توحید میں تبدیل اور تحریف عمل میں آوے گی.یا اگر ساتھ اس کے یہ بھی فرض کیا جائے.جو کسی زمانہ میں وہ کروڑہا مسلمان جو تو حید پر قائم ہیں وہ بھی پھر طریق شرک اور مخلوق پرستی کا اختیار کر لیں گے.تو بے شک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہوگا.مگر دونوں قسم کے فرض محال ہیں قرآن شریف کی تعلیم کا محرف مبدل ہونا اس لئے محال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ ( الحجر :١٠ ) ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۰۲،۱۰۱ حاشیہ نمبر ۹) باوانا تک صاحب فرماتے ہیں.تیرا حکم نہ جاپے کیتیر ا لکھ نہ جانے کو جے سو شاعر میلئے تل نہ ہوجاوے ہو یعنی تیرے حکم کی تعداد کسی کو معلوم نہیں اگر سوشا عر جمع کریں تو ایک تل بھر بھی پورا نہ کر سکیں.

Page 277

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة الكهف اب آپ لوگ ذرا غور کر کے دیکھیں کہ یہ مضمون باو اصاحب نے قرآن شریف کی اس آیت سے لیا ہے قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مددا یعنی کہہ کہ اگر خدا کے کلموں کے لئے سمندر کو سیاہی بنایا جاوے تو سمندر ختم ہو جائے گا قبل اس کے جو خدا کے کلمے ختم ہوں اگر چہ کئی ایک سمند ر اسی کام میں اور بھی خرچ ہو جاویں.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۶، ۲۲۷) خدا تعالی کی پاک اور سچی کلام کو شناخت کرنے کی یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بے مثل ہو کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز خدا تعالیٰ سے صادر ہوئی ہے اگر مثلاً ایک جو کا دانہ ہے وہ بھی بینظیر ہے اور انسانی طاقتیں اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور بے مثل ہونا غیر محدود ہونے کو مستلزم ہے یعنی ہر یک چیز اُسی حالت میں بے نظیر بھہر سکتی ہے جبکہ اُس کی عجائبات اور خواص کی کوئی حد اور کنارہ نظر نہ آوے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہی خاصیت خدا تعالی کی ہر یک مخلوق میں پائی جاتی ہے مثلاً اگر ایک درخت کے پتے کی عجائبات کی ہزار برس تک بھی تحقیقات کی جائے تو وہ ہزار برس ختم ہو جائے گا مگر اس پتے کے عجائبات ختم نہیں ہوں گے اور اس میں ستر یہ ہے کہ جو چیز غیر محدود قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس میں غیر محدود عجائبات اور خواص کا پیدا ہونا ایک لازمی اور ضروری امر ہے اور یہ آیت کہ قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا.اپنے ایک معنے کی رو سے اس امر کی مؤید ہے کیونکہ مخلوقات اپنے مجازی معنوں کی رُو سے تمام کلمات اللہ ہی ہیں اور اسی کی بناء پر یہ آیت ہے کہ كَلِمَتُهُ الْقُهَا إلى مَرْيَمَ (النساء : ۱۷۲ ).کیونکہ ابن مریم میں دوسری مخلوقات میں سے کوئی امر زیادہ نہیں اگر وہ کلمتہ اللہ ہے تو آدم بھی کلمتہ اللہ ہے اور اس کی اولاد بھی کیونکہ ہر یک چیز کشن فَيَكُونَ کے کلمہ سے پیدا ہوئی ہے اسی طرح مخلوقات کی صفات اور خواص بھی کلمات ربی ہیں یعنی مجازی معنوں کی رو سے کیونکہ وہ تمام کلمہ کُن فیکون سے نکلے ہیں.سو ان معنوں کے رو سے اس آیت کا یہی مطلب ہوا کہ خواص مخلوقات بیحد اور بے نہایت ہیں اور جبکہ ہر یک چیز اور ہر یک مخلوق کے خواص بیحد اور بے نہایت ہیں اور ہر یک چیز غیر محدود عجائبات پر مشتمل ہے تو پھر کیوں کر قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے صرف ان چند معانی میں محدود ہو گا کہ جو چالیس پچاس یا مثلاً ہزار جزو کی کسی تفسیر میں لکھے ہوں یا جس قدر ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمانہ محدود میں بیان کئے ہوں.نہیں بلکہ

Page 278

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۰ سورة الكهف ایسا کلمہ منہ پر لانا میرے نزدیک قریب قریب کفر کے ہے.اگر عمداً اُس پر اصرار کیا جائے تو اندیشہ کفر ہے.یہ بیچ ہے کہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے معنے بیان فرمائے ہیں وہی صحیح اور حق ہیں مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ جو کچھ قرآن کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اُن سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں.یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی غیر محدودہ عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لئے اُترا ہے جو آتی تھے اور بھی اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بکلی بے بہرہ ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض امتیوں کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر ایک رتبہ اور طبقہ کے انسان اُن کی اُمت میں داخل ہیں.اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) پس اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر یک استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے اور در حقیقت آیت : وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ اللَّيْنَ (الاحزاب : ۴۱) میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.پس یہ خیال کہ گویا جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے بارہ میں بیان فرمایا اُس سے بڑھ کر ممکن نہیں بدیہی البطلان ہے.ہم نہایت قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کلام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے عجائبات غیر محدود اور نیز بے مثل ہوں.اور اگر یہ اعتراض ہو کہ اگر قرآن کریم میں ایسے عجائبات اور خواص مخفیہ تھے تو پہلوں کا کیا گناہ تھا کہ اُن کو ان اسرار سے محروم رکھا گیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بکلی اسرار قرآنی سے محروم تو نہیں رہے بلکہ جس قدر معلومات عرفانیہ خدا تعالیٰ کے ارادہ میں ان کے لئے بہتر تھے وہ اُن کو عطا کئے گئے اور جس قدر اس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق اس زمانہ میں اسرار ظاہر ہونے ضروری تھے وہ اس زمانہ میں ظاہر کئے گئے.مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے وہ ہر زمانہ میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں.میں متعجب ہوں کہ ان ناقص الفہم مولویوں نے کہاں سے اور کس سے من لیا کہ خدا تعالیٰ پر یہ حق واجب ہے کہ جو کچھ آئندہ زمانہ میں بعض آلاء و نعماء حضرت باری عزاسمہ ظاہر ہوں پہلے زمانہ میں بھی ان کا ظہور ثابت ہو بلکہ اس بات کے ماننے کے بغیر کسی صحیح الحواس کو کچھ بن نہیں پڑتا کہ بعض نعماء الہی پچھلے زمانہ میں ایسے ظاہر ہوتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں ان کا اثر اور وجود پایا نہیں جاتا.دیکھو جس قدر صد با نباتات جدیدہ کے خواص اب دریافت ہوئے ہیں یا جس قدر انسانوں کے آرام کے لئے طرح طرح کے صناعات اور سواریاں اور سہولت معیشت کی باتیں

Page 279

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة الكهف اب نکلی ہیں پہلے اُن کا کہاں وجود تھا.اور اگر یہ کہا جائے کہ ایسے حقائق دقائق قرآنی کا نمونہ کہاں ہے جو پہلے دریافت نہیں کئے گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس رسالہ کے آخر میں جو سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے اس کے پڑھنے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ اس قسم کے حقائق اور معارف مخفیہ قرآن کریم میں موجود ہیں جو ہر یک زمانہ میں اُس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ہیں.(کرامات الصادقين ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۶۰ تا ۶۲) قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى اَنَّمَا الهُكُمْ اللَّهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ کہہ میں ایک آدمی ہوں تم جیسا مجھے خدا سے الہام ہوتا ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷) ان کو کہہ دے کہ میں تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ پر یہ وحی ہوتی ہے کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی ثانی دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۹) نہیں.فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاء رتبه الخ جو شخص خدا کی ملاقات کا طالب ہے اسے لازم ہے کہ ایسا عمل اختیار کرے جس میں کسی نوع کا فسادنہ ہو اور کسی چیز کو خدا کی بندگی میں شریک نہ کرے.برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۳۹ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جو شخص خدا تعالیٰ کا دیدار چاہتا ہے چاہیے کہ وہ ایسے کام کرے جن میں فساد نہ ہو یعنی ایک ذرہ متابعت نفس اور ہوا کی نہ ہو اور چاہیے کہ خدا کے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ کرے نہ نفس کو نہ ہوا کو اور نہ دوسرے باطل معبودوں کو.ست بیکن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰) وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں تعہ دیدار الہی میسر آ سکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا.یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ اُن کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بد بو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری

Page 280

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة الكهف سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گرمی رہے اور دُعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اُس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں.پس اُس نے افتاں و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچادیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا.لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۴) نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے.اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا عمل صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو صلاحیت ہی صلاحیت ہو.نہ عجب ہو، نہ کبر ہو، نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو، نہ نفسانی اغرض کا کوئی حصہ ہو، نہ رو بخلق ہو.حتی کہ دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو صرف خدا کی محبت سے وہ عمل صادر ہو.جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیا د صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے.ایسا انسان جس دن اس میں فرق آتا دیکھے گا اسی دن قطع تعلق کر دے گا.جو لوگ خدا سے اس لئے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں ان کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرہ میں ہے جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا اسی دن ایمان میں بھی فرق آجاوے گا.اس لئے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا کی عبادت نہیں کرتا.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۶،۵) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ

Page 281

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورةالكهف قیامت تک ہو سکتا ہے.پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضور کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی دورود رہی اور بار بار اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم ہی فرماتے رہے یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا جس کے بدوں مسلمان مسلمان ہی نہیں ہو سکتا.سوچو! اور پھر سوچو! پس جس حال میں بادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۰) مومن جب خدا سے محبت کرتا ہے تو الہی نور کا اس پر احاطہ ہو جاتا ہے اگر چہ وہ نور اس کو اپنے اندر چھپا لیتا اور اس کی بشریت کو ایک حد تک بھسم کر جاتا ہے جیسے آگ میں پڑا ہوا لوہا ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ عبودیت اور بشریت معدوم نہیں ہو جاتی.یہی وہ راز ہے جو قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم " کی تہ میں مرکوز ہے.رود ،، الله بشریت تو ہوتی ہے مگر وہ الوہیت کے رنگ کے نیچے متواری ہو جاتی ہے اور اس کے تمام قومی اور اعضا للہی راہوں میں خدا تعالیٰ کے ارادوں سے پر ہو کر اس کی خواہشوں کی تصویر ہو جاتے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جو اس کو کروڑ ہا مخلوق کی روحانی تریبت کا کفیل بنادیتا ہے اور ربوبیت تامہ کا ایک مظہر قراردیتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو کبھی بھی ایک نبی اس قدر مخلوقات کے لئے ہادی اور راہبر نہ ہو سکے.چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے انسانوں کی روحانی تربیت کے لئے آئے تھے اس لئے یہ رنگ حضور علیہ الصلوۃ والسلام میں بدرجہ کمال موجود تھا اور یہی وہ مرتبہ ہے جس پر قرآن کریم نے متعدد مقامات پر حضور کی نسبت شہادت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابل اور اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر فرمایا ہے مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) اور ایسا ہی فرمایا قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اليكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹).رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۳) یکبھی نہ گمان کرنا چاہیے کہ حضرت مسیح یا دوسرے انبیاء ایک معمولی آدمی تھے وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب تھے.قرآن شریف نے مصلحت اور موقعہ کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک لفظ اس قسم کا بیان فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے بہت سے انوار و برکات اور فضائل بیان کئے ہیں وہاں بشر مثلكم بھی کہ دیا ہے مگر یہ اس کے ہر گز معنے نہیں ہیں کہ آنحضرت فی الواقع ہی عام آدمیوں جیسے تھے.اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ آپ کی شان میں اس لئے استعمال فرمایا کہ دوسرے انبیاؤں کی طرح آپ کی پرستش نہ دورود

Page 282

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورةالكهف ہو اور آپ کو خدا نہ بنا یا جاوے اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ کے فضائل و مراتب ہی سلب کر دیئے القام جلد ۸ نمبر ۴۰ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) جاویں.دورود اللہ تعالیٰ کے بندوں اور برگزیدوں کے پاس ارادت سے جانا سہل ہے لیکن ارادت سے واپس آنا مشکل ہے کیونکہ ان میں بشریت ہوتی ہے اور ان کے پاس جانے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے دل میں اس کی ایک فرضی اور خیالی تصویر بنا لیتے ہیں لیکن جب اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ اس کے برخلاف پاتے ہیں جس سے بعض اوقات وہ ٹھو کر کھاتے ہیں اور ان کے اخلاص اور ارادت میں فرق آجاتا ہے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کر دیا کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشر مثلکم یعنی کہہ دو کہ بیشک میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں یہ اس لئے کہ وہ لوگ اعتراض کرتے تھے.وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ (الفرقان : ۸) اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.ان کو آخر یہی جواب دیا گیا کہ یہ بھی ایک بشر ہے اور بشری حوائج اس کے ساتھ ہیں.اس سے پہلے جس قدر نبی اور رسول آئے وہ بھی بشر ہی تھے.یہ بات انہوں نے بنظر استخفاف کہی تھی.وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بازاروں میں عموماً سودا سلف خریدا کرتے تھے.ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نقشہ تھا وہ تو نری بشریت تھی جس میں کھانا پینا سونا چلنا پھرنا وغیرہ تمام امور اور لوازم بشریت کے موجود تھے اس واسطے ان لوگوں نے رد کر دیا.یہ مشکل اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دل سے ہی ایک خیالی تصویر بنا لیتے ہیں کہ نبی ایسا ہونا چاہیے.اور چونکہ اس تصویر کے موافق وہ اسے نہیں پاتے اس لحاظ سے ٹھوکر کھاتے ہیں.یہ مرض یہاں تک ترقی کر گیا ہے کہ بعض شیعوں کا بعض ائمہ کی نسبت خیال ہے کہ وہ منہ کے راستے پیدا ہوئے تھے لیکن یہ باتیں ایسی ہیں کہ ایک عقلمند ان کو کبھی قبول نہیں کر سکتا بلکہ ہنسی کرتا ہے.اصل یہ ہے کہ جو شخص گزر جاوے اس کی نسبت جو چاہو تجویز کرلو کہ وہ آسمان سے اترا تھا یا منہ کے راستہ پیدا ہوا تھا لیکن جوموجود ہیں ان میں بشری کمزوریاں موجود ہیں وہ روتا بھی ہے، کھاتا بھی ہے اور پیتا بھی ہے.غرض ہر قسم کی بشری ضرورتوں اور کمزوریوں کو اپنے اندر رکھتا ہے اس کو دیکھ کر ان لوگوں کو جو انبیاء ورسل کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے یہی وجہ تھی جو اللہ تعالی کو ان کے اس قسم کے اعتراضوں کا رد کرنا پڑا اور قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى اِلی کہنا پڑا یعنی مجھے میں بشریت کے سوا جو امر تمہارے اور میرے

Page 283

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة الكهف درمیان خارق اور مابہ الامتیاز ہے وہ یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی وحی آتی ہے.دوسری جگہ قرآن شریف میں یہ اعتراض بھی منقول ہوا ہے کہ یہ تو بیویاں کرتا ہے.اس کے جواب میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں جو بیوی نہ رکھتا ہو.غرض ایسی باتوں سے دھو کہ نہیں کھانا چاہیے.(احکام جلد ۹ نمبر ۷ ۳ مورخه ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۴)

Page 284

Page 285

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة مريم اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة مريم بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ لا يزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَمِ إِسْبُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَبِيًّا قرآن شریف اپنے زبر دست ثبوتوں کے ساتھ ہمارے دعوے کا مصدق اور ہمارے مخالفین کے اوہام باطلہ کی بیخ کنی کر رہا ہے اور وہ گذشتہ نبیوں کے واپس دنیا میں آنے کا دروازہ بند کرتا ہے اور بنی اسرائیل کے مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے.اس نے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے: اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة : ۶، ۷ ) اس دعا کا ماحصل کیا ہے؟ یہی تو ہے کہ ہمیں اے ہمارے خدا نبیوں اور رسولوں کا مثیل بنا.اور پھر حضرت یحیی کے حق میں فرماتا ہے : لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَبِيًّا يعنى حي سے پہلے ہم نے کوئی اس کا مثیل دنیا میں نہیں بھیجا جس کو باعتبار ان صفات کے سخی کہا جائے.یہ آیت ہماری تصدیق بیان کے لئے اشارۃ النص ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ آیت موصوفہ میں قبل کی شرط لگائی بعد کی نہیں لگائی تا معلوم ہو کہ بعد میں اسرائیلی نبیوں کے ہم ناموں کے آنے کا دروازہ کھلا ہے جن کا نام خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی ہو گا جو ان نبیوں کا نام ہو گا جن کے وہ مثیل ہیں یعنی جو مثیل موسی ہے اس کا نام موسیٰ ہوگا اور جو مثیل عیسی ہے اس کا نام عیسی یا ابن مریم ہوگا اور خدا تعالیٰ نے اس آیت میں سکھٹی کہا مثیل نہیں کہا تا معلوم کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جو شخص کسی اسرائیلی نبی کا مثیل بن کر آئے گا وہ مثیل کے نام

Page 286

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سورة مريم سے نہیں پکارا جائے گا بوجہ انطباق کلی اسی نام سے پکارا جائے گا جس نبی کا وہ مثیل بن کر آئے گا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۰،۳۸۹) ييَحْيى خُذِ الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَهُ الْحُكْمَ صَبيَّات ( حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا: بیخيى خُلِ الْكِتب بقوة - وَالْخَيْرُ كُله في الْقُرْآنِ.اور فرمایا ) اس میں ہم کو حضرت یحیی کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحیی کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہور ہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہلِ حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۲ء صفحه ۸) وَسَلامُ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيَّا.آیت سلمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِد صاف دلالت کر رہی ہے کہ میں شیطان سے محفوظ ہونا ابن مریم سے مخصوص نہیں اور زمخشری کا یہ طعن که حدیث خصوصیت این مریم درباره محفوظیت از مس شیطان جو امام بخاری اپنی صحیح میں لایا ہے نقص سے خالی نہیں اور اس کی صحت میں کلام ہے جیسا کہ خود اس نے بیان کیا ہے فضول ہے کیونکہ عمیق نظر سے علوم ہوتا ہے کہ امام بزرگ بخاری نے خود اشارہ کر دیا ہے کہ ابن مریم اور اس کی والدہ سے مراد ہر یک ایسا شخص ہے جو ان دونوں کی صفتیں اپنے اندر جمع رکھتا ہو.فَلَا تَنَاقُضَ وَلَا تَعَارُضَ.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۹۳) محققوں نے بخاری کی اس حدیث کو جو صفحہ ۶۵۲ میں لکھی ہے یعنی یہ کہ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطنُ يَمَسُّهُ حِيْنَ يُولَدُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْعَها قرآن کریم کی ان آیات سے مخالف پاکر کہ الا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (الحجر : ٤١) وَ إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن ( الحجر : ۴۳) وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ.اس حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ ابن مریم اور مریم سے تمام ایسے اشخاص مراد ہیں جو ان دونوں کی صفت پر ہوں.جیسا کہ شارح بخاری نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: قَدْ طَعَنَ الزَّمَخْشَرِی في مَعْلى هَذَا الْحَدِيثِ وَتَوَقَفَ فِي صِحَتِهِ وَقَالَ إِنْ صَحَ فَمَعْنَاهُ كُلُّ مَنْ كَانَ فِي صِفَيهِمَا لِقَوْلِهِ

Page 287

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة مريم تَعَالَى إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ یعنی علامہ زمخشری نے بخاری کی اس حدیث میں طعن کیا ہے اور اس کی صحت میں اس کو شک ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث معارض قرآن ہے اور فقط اس صورت میں صحیح متصور ہوسکتی ہے کہ اس کے یہ معنے کئے جائیں کہ مریم اور ابنِ مریم سے مراد تمام ایسے لوگ ہیں جو ان کی صفت پر ہوں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۰،۶۰۹) حدیثوں میں آیا ہے کہ عیسی اور اس کی ماں مسن شیطان سے پاک ہیں جاہل مولویوں نے اس کے یہ معنی کر لئے کہ بجو حضرت عیسی اور ان کی ماں کے اور کوئی نبی ہو یا رسول ہو مس شیطان سے پاک نہیں یعنی معصوم نہیں اور آیت اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطنَّ ( الحجر : ۴۳) کو بھول گئے اور نیز آیت : وَسَلَهُ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِد کو پس پشت ڈال دیا اور بات صرف اتنی تھی کہ اس حدیث میں بھی یہودیوں کا ذب اور دفع اعتراض منظور تھا چونکہ وہ لوگ طرح طرح کے نا گفتنی بہتان حضرت مریم اور حضرت عیسی پر لگاتے تھے اس لئے خدا کے پاک رسول نے گواہی دی کہ یہودیوں میں سے مس شیطان سے کوئی پاک نہ تھا اگر پاک تھے تو صرف حضرت عیسی اور ان کی والدہ تھی.نعوذ باللہ اس حدیث کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک حضرت عیسی اور ان کی والدہ ہی معصوم ہیں اور ان کے سوا کوئی نبی ہو یا رسول ہو مس شیطان سے معصوم نہیں ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۵،۳۵۴) وَاذْكُرُ فِي الْكِتَبِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيَّان مریم کا نام بھی ایک واقعہ پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ کہ جب مریم کا لڑکا عیسی پیدا ہوا تو وہ اپنے اہل و عیال سے دور تھی اور مریم وطن سے دور ہونے کو کہتے ہیں.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرما کر کہتا ہے وَاذْكُرْ فِي الْكِتَب مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرقِيًّا يعنی مریم کو کتاب میں یاد کر جب کہ وہ اپنے اہل سے ایک شرقی مکان میں دور پڑی ہوئی تھی.سوخدا نے مریم کے لفظ کی وجہ تسمیہ یہ قرار دی کہ مریم حضرت عیسی کے پیدا ہونے کے وقت اپنے لوگوں سے دور و مہجور تھی یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس کا لڑکا عیسی قوم سے قطع کیا جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح اپنے ملک سے نکل گئے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کشمیر میں جا کر وفات پائی اور اب تک کشمیر میں ان کی قبر موجود ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۷ حاشیه در حاشیه )

Page 288

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۰ و، ج سورة مريم قَالَ كَذلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَى هَيْنٌ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيَّان وَلِنَجْعَلَةَ ايَةً لِلنَّاسِ....اور ہم اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنا ئیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں ایک فرقہ صدوقی نام تھا جو قیامت سے منکر تھے.پہلی کتابوں میں بطور پیشین گوئی کے لکھا گیا تھا کہ ان کو سمجھانے کے لئے مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوگی اور یہ ان کے لئے ایک نشان قرار دیا گیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ دوسری آیت میں فرماتا ہے : وَلِنَجْعَلَةُ آيَةً لِلنَّاسِ.اس جگہ الناس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے جو اس زمانہ میں بکثرت موجود تھا.چونکہ توریت میں قیامت کا ذکر بظاہر کسی جگہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے یہ فرقہ مردوں کے جی اٹھنے سے بکلی منکر ہو گیا تھا.اب تک بائیبل کے بعض صحیفوں میں موجود ہے کہ مسیح اپنی ولادت کے رو سے بطور عِلْمُ السَّاعَةِ کے ان کے لئے آیا تھا.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۹،۱۶۸) فَاجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلى جِذْعِ النَّخْلَةِ ، قَالَتْ لَيْتَنِي مِنْ قَبْلَ هَذَا وَ كُنْتُ نسيا منسيات میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الہی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی تھا اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا.فَأَجَاءَهُ الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ - قَالَ يَا لَيْتَنِي مِن قَبْلَ هُدًا وَ كُنْتُ نَسْيًا مَنْیا.مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذْعِ النَّخْلَةِ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولا د مگر صرف نام کے مسلمان ہیں.با محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ دردانگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں.تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۶۸، ۲۹ حاشیه ) اور بھولا بسرا ہو جاتا.

Page 289

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۱ يَأخُتَ هَرُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَا سَوءٍ وَ مَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيَّان سورة مريم اگر استعارہ کے رنگ میں یا اور بنا پر خدا تعالیٰ نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرایا تو آپ کو اس سے کیوں تعجب ہوا جبکہ قرآن شریف بجائے خود بار بار بیان کر چکا ہے کہ ہارون نبی حضرت موسیٰ کے وقت میں تھا اور یہ مریم حضرت عیسی کی والدہ تھی جو چودہ سو برس بعد ہارون کے پیدا ہوئی تو کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان واقعات سے بے خبر ہے اور نعوذ باللہ اس نے مریم کو ہارون کی ہمشیرہ ٹھہرانے میں غلطی کی ہے....اور ممکن ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہو جس کا نام ہارون ہو.عدم علم سے عدم شے تو لازم نہیں آتا....قرآن شریف میں تو یہ بھی لفظ نہیں کہ ہارون نبی کی مریم ہمشیرہ تھی صرف ہارون کا نام ہے نبی کا لفظ وہاں موجود نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ نبیوں کے نام بہتر کا رکھے جاتے تھے.سوقرین قیاس ہے کہ مریم کا کوئی بھائی ہو گا جس کا نام ہارون ہو گا.اور اس بیان کو محل اعتراض سمجھنا سراسر حماقت ہے.چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۵ تا ۳۵۸) قَالَ اِنّى عَبْدُ اللهِ النِي الْكِتَبَ وَجَعَلَنِي نَبِيَّان الديني الكتب سے مراد فہم کتاب ہے.ص الحکم جلد ۵ نمبر ۴۱ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۴) وَجَعَلَنِي مُبرَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَ أَوصينِى بِالصَّلوةِ وَالزَّكوة مَا دُمْتُ حَيَان و برا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيَّان (وَجَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا.....اس نے خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی.(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۴) حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے نماز پڑھتارہ اور زکوۃ دیتا رہ اور اپنی والدہ پر احسان کرتارہ جب تک تو زندہ ہے.اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ کا آسمان پر بجالا نا محال ہے اور جو شخص مسیح کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع جسدہ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا اس کو اس آیت موصوفہ بالا کے منشاء کے موافق یہ بھی مانا پڑے گا کہ تمام احکام شرعی جو انجیل اور توریت کی رو سے انسان پر واجب العمل

Page 290

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۲ سورة مريم ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح پر اب بھی واجب ہیں حالانکہ یہ تکلیف مالا يطاق ہے.عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ یہ حکم دیوے کہ اے عیسی جب تک تو زندہ ہے تیرے پر واجب ہے کہ تو اپنی والدہ کی خدمت کرتا رہے اور پھر آپ ہی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کو والدہ سے جدا کر دیوے اور تا بحیات زکوۃ کا حکم دیوے اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایسی جگہ پہنچا دے جس جگہ نہ وہ آپ زکوۃ دے سکتے ہیں اور نہ زکوۃ کے لئے کسی دوسرے کو نصیحت کر سکتے ہیں اور صلوۃ کے لئے تاکید کرے اور جماعت مومنین سے دور پھینک دیوے جن کی رفاقت صلوٰۃ کی تکمیل کے لئے ضروری تھی کیا ایسے اُٹھائے جانے سے بجز بہت سے نقصان عمل اور ضائع ہونے حقوق عباد اور فوت ہونے خدمت امر معروف اور نہیں منکر کے کچھ اور بھی فائدہ ہوا اگر یہی اٹھارہ سوا کا نوے برس زمین پر زندہ رہتے تو ان کی ذات جامع البرکات سے کیا کیا نفع خلق اللہ کو پہنچتا لیکن ان کے اوپر تشریف لے جانے سے بجز اس کے اور کون سا نتیجہ نکلا کہ ان کی امت بگڑ گئی اور وہ خدمات نبوت کے بجالانے سے بکلی محروم رہ گئے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۱، ۳۳۲) اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انجیلی طریق پر نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسی کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت سخی ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے اور جب دنیا میں حضرت عیسی آئیں گے تو برخلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھیں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۸) آیت وَ أَوصينِي بِالصَّلوةِ وَالزَّكوة مَا دُمْتُ حَيًّا سے موت ثابت ہوئی کیونکہ کچھ شک نہیں کہ جیسا کہ کھانے پینے سے اب حضرت عیسی علیہ السلام بروئے نص قرآنی معطل ہیں ایسا ہی دوسرے افعال جسمانی زکوۃ اور صلوٰۃ سے بھی معطل ہیں بلکہ زکوۃ تو علاوہ جسمانیت کے مال کو بھی چاہتی ہے اور آسمان پر روپیہ پیسہ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۴۰) ہونا معلوم.خدا نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں نماز پڑھتار ہوں اور زکوۃ دوں اب جتلاؤ کہ آسمان پر وہ زکوۃ کس کو دیتے ہیں.(تحفہ گولر و یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱) پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی ہے کہ والدہ کی عزت کرے.اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمن کی طرف کو منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی

Page 291

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة مريم ہے.آپ کیہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اولیس کو یا مسیح کو.یہ ایک عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ان سے ملنے کو گئے تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے مقدمات کرتے ہیں اور والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قو میں چوڑھے چمار بھی کم لیتے ہوں گے.ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ہدایت کا بتلا دیتا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونوں سے دوسرں کو ٹھو کر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں که مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا مونہ نہ دیکھیں گے پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور فرمانبرداری کے رنگ میں خدا، رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ بہتری اسی میں ہے ورنہ اختیار ہے ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے.الخام جلد ۳ نمبر۱۷ مورخه ۱۲ مئی ۱۸۹۹ صفحه ۴) وَالسَّلَامُ عَلَى يَوْمَ وُلِداتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أَبْعَثُ حَيَّان ۳۴ اس آیت میں واقعات عظیمہ جو حضرت مسیح کے وجود کے متعلق تھے صرف تین بیان کئے گئے ہیں حالانکہ اگر رفع اور نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا.کیا نعوذ باللہ رفع اور نزول حضرت مسیح کا مورد اور محل سلام الہی نہیں ہونا چاہیے تھا.سو اس جگہ پر خدا تعالیٰ کا اس رفع اور نزول کو ترک کرنا جو مسیح ابن مریم کی نسبت مسلمانوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے صاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ خیال پیچ اور خلاف واقعہ ہے بلکہ وہ رفع يَوْمَ أَمُوتُ میں داخل ہے اور نزول سراسر باطل ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۸)

Page 292

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۴ سورة مريم مَا كَانَ لِلَّهِ أَنْ يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٍ سُبُحْنَه إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فيكون خدا اپنی ذات میں کامل ہے اس کو کچھ حاجت نہیں کہ بیٹا بنا دے.کون سی کسر اس کی ذات میں رہ گئی تھی جو بیٹے کے وجود سے پوری ہو گئی اور اگر کوئی کسر نہیں تھی تو پھر کیا بیٹا بنانے میں خدا ایک فضول حرکت کرتا جس کی اس کو کچھ ضرورت نہ تھی وہ تو ہر ایک عبث کام اور ہر یک حالت نا تمام سے پاک ہے.جب کسی بات کو کہتا ہے: ہو.تو ہوجاتی ہے.(برائین احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۵۲۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّان قرآن شریف میں ادریس نبی کے حق میں ہے وَرَفَعْنَهُ مَكَانَ عَلِيًّا اور اس کے ساتھ تو فی کا کہیں لفظ نہیں تا ہم علماء اور یس کی وفات کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس جہان سے ایسا اٹھایا گیا کہ پھر نہیں آئے گا یعنی مرگیا کیونکہ بغیر مرنے کے کوئی اس جہان سے ہمیشہ کے لئے رخصت نہیں ہو سکتا وجہ یہ کہ اس دنیا سے نکلنے اور بہشت میں داخل ہونے کا موت ہی دروازہ ہے گُل نفیس ذائِقَةُ الْمَوْتِ (ال عمران : ۱۸۲).اور اگر انہیں کہا جائے کہ کیا اور میں آسمان پر مر گیا یا پھر آ کر مرے گا یا آسمان پر ہی اس کی روح قبض کی جائے گی تو ادریس کے دوبارہ دنیا میں آنے سے صاف انکار کرتے ہیں.اور چونکہ دخول جنت سے پہلے موت ایک لازمی امر ہے لہذا ادریس کا فوت ہو جانا مان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رفع کے اس جگہ معنے موت ہی ہیں.پھر جبکہ مسیح کے رفع کے ساتھ تو فی کا لفظ بھی موجود ہے تو کیوں اور کس دلیل سے اس کی حیات کے لئے ایک شور قیامت برپا کر دیا ہے.ازاله او پام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۶) یہ آیت حضرت ادریس کے حق میں ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہم نے ادریس کو موت دے کر مکان بلند میں پہنچا دیا کیونکہ اگر وہ بغیر موت کے آسمان پر چڑھ گئے تو پھر بوجہ ضرورت موت جو ایک انسان کے لئے ایک لازمی امر ہے یہ تجویز کرنا پڑے گا کہ یا تو وہ کسی وقت او پر ہی فوت ہو جائیں اور یا زمین پر آکر فوت ہوں مگر یہ دونوں شیق ممتنع ہیں کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جسم خا کی موت کے بعد پھر خاک ہی میں داخل کیا جاتا ہے اور خاک ہی کی طرف عود کرتا ہے اور خاک ہی

Page 293

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة مريم سے اس کا حشر ہوگا اور ادریس کا پھر زمین پر آنا اور دوبارہ آسمان سے نازل ہونا قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں لہذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں.فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكِ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۳، ۴۲۴) مقْتَدِرٍ ( القمر : ۵۶).وَأَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى فِي قِصَّةِ إِدْرِيسَ اور حضرت ادریس کے قصہ میں خدا کا یہ قول کہ وَ رَفَعَهُ وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا فَاتَّفَقَ الْمُحَقِّقُونَ مَكَانًا عَلِيًّا " ہم نے اس کو ایک بلند مقام کی طرف اٹھایا مِنَ الْعُلَمَاء اَنَّ الْمُرَاد مِنَ الرَّفْعِ هُنا اس بارہ میں محقق علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں رفع سے هُوَ الْإِمَاتَهُ بِالْإِكْرَامِ وَرَفْعُ الدَّرَجَاتِ، مراد عزت کے ساتھ موت دینا اور درجات کا بلند کرنا ہے اور وَالدَّلِيلُ عَلَى ذلِكَ أَنَّ لِكُلِّ إِنْسَانٍ مَوْتُ اس پر دلیل یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے کیونکہ مُقَدِّرُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا الله تعالیٰ نے فرمایا ہے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ( ہر ایک جو زمین فان وَلَا يَجُوزُ الْمَوْتُ في السَّمَاوَاتِ پر ہے فنا ہونے والا ہے ) اور آسمانوں میں موت کا جواز نہیں ووروو ،، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ ، وَلَا پایا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَفِيهَا نُعِيدُكُم تَجِدُ فِي الْقُرْآنِ ذِكْرَ نُزُولِ إِدْرِيسَ (اور ہم اسی زمین میں تم کو لوٹائیں گے ) اور ہم قرآن میں اور یس وَمَوْتِهِ وَدَفَيهِ فِي الْأَرْضِ فَقبَت کے نزول اور اس کی موت اور زمین میں دفن ہونے کا ذکر بِالضُّرُورَةِ أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الرَّفْعِ الْمَوْتُ نہیں پاتے.پس بالضرور ثابت ہوا کہ رفع سے مراد موت ہے.فَحَاصِلُ الكَلَامِ أَنَّ كُلَّ مَا يُخَالِفُ الغرض حاصل کلام یہ ہے کہ ہر بات جو قرآن کے مخالف ہو الْقُرْآنَ وَيُعَارِضُ قِصَصَهُ فَهِيَ أَبَاطِیلُ اور اس کے قصوں کے مخالف ہو تو وہ باطل ، جھوٹ اور افتراء وَأَكَاذِيبُ، وَإِنَّمَا هُوَ تَقَولُ الْمُفْتَرِينَ کرنے والوں کی من گھڑت باتیں ہیں.( ترجمہ از مرتب) (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۲۰) قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسده العصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں.بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحیی اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف و غیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیوں الرحمن: ۲۷ وظه : ۵۶

Page 294

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة مريم کر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر نا حق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اور طور پر معنے کئے جاتے ہیں.تعجب کہ توفی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے.جابجا ان کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جاملے جو ان سے پہلے اُٹھائے گئے تھے اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیوں کر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے.کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَ رَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اُٹھائے جانے کے معنی نہیں ہیں فائی تُصرَفُونَ (یونس : ۳۳).(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۸) قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مرا در فع روحانی ہے.بعض نادان کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ رَفَعَهُ مَكَانًا عَلِيًّا اور اس پر خود تراشیدہ قصہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص اور میں تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے معہ جسم آسمان پر اٹھا لیا تھا.لیکن یادر ہے کہ یہ قصہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے قصے کی طرح ہمارے کم فہم علماء کی غلطی ہے اور اصل حال یہ ہے کہ اس جگہ بھی رفع روحانی ہی مراد ہے.تمام مومنوں اور رسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتا ہے اور کافر کا رفع روحانی نہیں ہوتا.چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : ۴۱) کا اسی کی طرف اشارہ ہے.اور اگر حضرت ادریس معہ جسم عصری آسمان پر گئے ہوتے تو بموجب نص صریح آیت فيها تحيون (الاعراف :۲۶) جیسا کہ حضرت مسیح کا آسمانوں پر سکونت اختیار کر لینا ممتنع تھا ایسا ہی ان کا بھی آسمان پر ٹھہر ناممتنع ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اس آیت میں قطعی فیصلہ دے چکا ہے کہ کوئی شخص آسمان پر زندگی بسر نہیں کر سکتا بلکہ تمام انسانوں کے لئے زندہ رہنے کی جگہ زمین ہے.علاوہ اس کے اس آیت کے دوسرے فقرہ میں جو فيها تموتُونَ (الاعراف : ۲۶) ہے یعنی زمین پر ہی مرو گے صاف فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کی موت زمین پر ہوگی.پس اس سے ہمارے مخالفوں کو یہ عقیدہ رکھنا بھی لازم آیا کہ کسی وقت حضرت ادریس بھی آسمان پر سے نازل ہوں گے.حالانکہ دنیا میں یہ کسی کا عقیدہ نہیں اور طرفہ یہ کہ زمین پر حضرت ادریس کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسی کی قبر موجود ہے.(کتاب البریہ، وحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۳۷، ۲۳۸ حاشیه )

Page 295

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة مريم ہم نے اس کو یعنی اس نبی کو عالی مرتبہ کی جگہ پر اٹھا لیا.اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ بعد موت خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ان کے لئے کئی مراتب ہوتے ہیں.سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس نبی کو بعد اٹھانے کے یعنی وفات دینے کے اس جگہ عالی مرتبہ دیا.نواب صدیق حسن خان اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ رفع سے مرا در فع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے ورنہ یہ محذور لازم آتا ہے کہ وہ نبی مرنے کے لئے زمین پر آوے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۵ حاشیه) رَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا میں ان کو ماننا پڑا ہے کہ اور میں مر گیا.صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ اگر حضرت اور میں کو ایسا ما نہیں تو پھر ان کے بھی واپس آنے کا عقیدہ رکھنا پڑتا ہے جو صحیح نہیں تعجب ہے کہ حضرت عیسی کے لئے تو فی موجود ہے پھر بھی اس کی موت سے انکار کرتے ہیں.(الکام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) وَ اِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيَّانَ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا ، وَنَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا جِثِيًّان صفت ظلومیت انسان کے مراتب سلوک کا ایک مرکب اور اس کے مقامات قرب کیلئے ایک عظیم الشان ذریعہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو بوجہ مجاہدات شاقہ کے اوائل حال میں نار جہنم کی شکل پر تجلی کرتا ہے لیکن آخر نعماء جنت تک پہنچا دیتا ہے اور در حقیقت قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے وَ اِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْماً مَقْضِيًّا ثُمَّ نُنَخِي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ نَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا.یہ بھی درحقیقت صفت محمود و ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الادا ٹھہرا رکھا ہے پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دے دیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں.اس جگہ الظالمین پر جو الف لام آیا ہے.وہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اور اس سے غرض یہ ہے کہ ظالم دو قسم کے ہیں ؛ (۱) ایک متقی ظالم جن کی نجات کا وعدہ ہے اور جو خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں.اور جو آیت فَمِنْهُم ظَالِمُ (فاطر :۳۳) میں ناجیوں میں شمار کئے گئے ہیں.(۲) دوسرے مشرک اور کافر اور سرکش ظالم جو جہنم میں گرائے جائیں گے اور اس آیت میں بیان فرمایا

Page 296

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة مريم کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں.اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دار الا بتلا ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء وقد ربھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معا اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے.اسی طرح اور بھی احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مومن اسی دنیا میں نار جہنم کا حصہ لے لیتا ہے اور کافر جہنم میں بجبر و اکراہ گرایا جاتا ہے لیکن مومن خدا تعالیٰ کے لئے آپ آگ میں گرتا ہے.ایک اور حدیث اسی مضمون کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک حصہ نار کا ہر یک بشر کے لئے مقدر ہے چاہے تو وہ اس دنیا میں اس آگ کو اپنے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قبول کر لیوے اور چاہے تو نعم اور غفلت میں عمر گزارے اور آخرت میں اپنے تنعم کا حساب دیوے اور آیت وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا.کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہے کہ عالم آخرت میں ہر یک سعید اور شقی کو متمثل کر کے دکھلا دیا جائے گا کہ وہ دنیا میں سلامتی کی راہوں میں چلایا اس نے ہلاکت اور موت اور جہنم کی راہیں اختیار کیں سو اس دن وہ سلامتی کی راہ جو صراط مستقیم اور نہایت باریک راہ ہے جس پر چلنے والے بہت تھوڑے ہیں اور جس سے تجاوز کرنا اور ادھر اُدھر ہونا در حقیقت جہنم میں گرنا ہے تمثل کے طور پر نظر آ جائے گی اور جولوگ دنیا میں صراط مستقیم پر چل نہیں سکے وہ اس روز اس صراط پر بھی چل نہیں سکیں گے کیونکہ وہ صراط در حقیقت دنیا کی روحانی صراط کا ہی ایک نمونہ ہے اور جیسا کہ ابھی روحانی آنکھوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری صراط کے دائیں بائیں در حقیقت جہنم ہے اگر ہم صراط کو چھوڑ کر دائیں طرف ہوئے تب بھی جہنم میں گرے اور اگر بائیں طرف ہوئے تب بھی گرے اور اگر سید ھے صراط مستقیم پر چلے تب جہنم سے بچ گئے.یہی صورت جسمانی طور پر عالم آخرت میں ہمیں نظر آ جائے گی اور ہم آنکھوں سے دیکھیں گے کہ در حقیقت ایک صراط ہے جو پل کی شکل پر دوزخ پر بچھایا گیا ہے جس کے دائیں بائیں دوزخ ہے تب ہم مامور کئے

Page 297

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۹ سورة مريم 91: جائیں گے کہ اس پر چلیں.سو اگر ہم دنیا میں صراط مستقیم پر چلتے رہے ہیں اور دائیں بائیں نہیں چلے تو ہم کو اس صراط سے کچھ بھی خوف نہیں ہوگا اور نہ جہنم کی بھاپ ہم تک پہنچے گی اور نہ کوئی فزع اور خوف ہمارے دل پر طاری ہوگا بلکہ نور ایمان کی قوت سے چمکتی ہوئی برق کی طرح ہم اس سے گزر جائیں گے کیونکہ ہم پہلے اس سے گزرچکے ہیں اسی کی طرف اللہ جلشانہ اشارہ فرماتا ہے مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَيْرٌ مِنْهَا ۚ وَهُمْ مِنْ فَزَع يَوْمَينِ أمِنُونَ ( النمل : ٩٠ ) الجزو نمبر ۲۰ سورۃ العمل.یعنی نیکی کرنے والوں کو قیامت کے دن اس نیکی سے زیادہ بدلا ملے گا اور وہ ہر ایک ڈر سے اس دن امن میں رہیں گے ایسا ہی فرمایا ہے يُعِبادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ ( الزخرف : ۶۹) الجزو نمبر ۲۵ سورة الزخرف.یعنی اے میرے بندو آج کے دن کچھ تم کو خوف نہیں اور نہ کوئی غم تمہیں ہو سکتا ہے.لیکن جو شخص دنیا میں صراط مستقیم پر نہیں چلا وہ اس وقت بھی چل نہیں سکے گا اور دوزخ میں گرے گا اور جہنم کی آگ کا ہیمہ بن جائے گا.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكَبَتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (النمل: ٩١) الجزو نمبر ۲۰.یعنی بدی کرنے والے اس دن جہنم میں گرائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ جزا در حقیقت وہی تمہارے اعمال ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے یعنی خدا تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ نیکی کے اعمال جنت کی صورت میں اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے.جاننا چاہیے کہ عالم آخرت در حقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے اللہ جل شانہ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى (بنی اسرائیل : ۷۳) یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.ہمیں اس مثلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے اور ذرا سوچنا چاہیے کہ کیوں کر روحانی امور عالم رؤیا میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ باوجود عدم غیبت حس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گذر چکی ہیں اور وہ اسی دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصلی جسم میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں سے مقدس لوگ بازعہ تعالی آئندہ کی خبریں دیتے ہیں اور وہ خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں بسا اوقات عین بیداری میں

Page 298

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة مريم ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ میں آتا ہے اور وہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے کشف کی اعلیٰ قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری میں واقع ہوتی ہے اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیر میں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آ گیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑتا جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اٹھاتی جاتی ہے اور دوسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواس ظاہری بخوبی اپنا اپنا کام دے رہے ہیں اور یہ شربت یا میوہ بھی کھایا جارہا ہے اور اس کی لذت اور حلاوت بھی ایسی ہی کھلی کھلی طور پر معلوم ہوتی ہے بلکہ وہ لذت اس لذت سے نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان ہیں خَلْقٍ عَلِيمٌ (یس :۸۰) ہے ایک قسم کے خلق کا تماشا دکھا دیتا ہے پس جب کہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر یک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ مثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہوگی اور میزان اعمال نظر آئے گی اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے اور امور روحانی جسمانی تشکل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقل مند تعجب کرے.کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی عارفوں کو دکھا دیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھاوے بلکہ ان تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے، کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں ہے تم مثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں جو اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے.یہ بات بخوبی یا د رکھنی چاہیئے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں وہ تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک مجوب آدمی قصہ کے طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں سوجس کی نظر حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تلنا اور لوگوں کا پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایسا ہی اعمال کا خوش شکل یا بد شکل انسانوں کی طرح لوگوں پر ظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ تمام شکوک اس اتم

Page 299

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة مريم ایک ہی نکتہ کے حل ہونے سے رفع ہو جاتے ہیں کہ عالم آخرت ایک تمثلی خلق کا عالم ہے یہ خدا تعالی کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے کہ وہ بعض اشیاء کو ملی طور پر ایسا ہی پیدا کر دیتا ہے جیسا دوسرے طور پر ہوا کرتا ہے جیسے تم دیکھتے ہو کہ آئینہ میں تمہاری ساری شکل منعکس ہو جاتی ہے اور تم خیال کر سکتے ہو کہ کس طرح عکسی طور پر تمہاری تصویر کھینچی جاتی ہے کیسے تمہارے تمام خال و خط ان میں آ جاتے ہیں.پھر اگر خدا تعالیٰ روحانی امور کی سچ مچ تصویر کھینچ کر اور ان میں صداقت کی جان ڈال کر تمہاری آنکھوں کے سامنے رکھ دیوے تو کیوں اس سے تعجب کیا جاوے.اللہ جل شانہ ڈھونڈنے والوں پر اسی دنیا میں یہ تمام صداقتیں ظاہر کر دیتا ہے اور آخرت میں کوئی بھی ایسا امر نہیں جس کی کیفیت اس عالم میں کھل نہ سکے.اور اگر یہ اعتراض کسی کے دل میں خلجان کرے کہ آیت وَ اِن مِنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا کے بعد میں یہ آیت ہے کہ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ نَذَرُ الظَّلِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا.یعنی پھر ہم ورود دوزخ کے بعد متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو دوزخ میں گرے ہوئے چھوڑ دیں گے.اور نجات دینے کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ اول انسان کسی عذاب یا بلا میں مبتلا ہو پھر اس سے اس کو رہائی بخشی جاوے لیکن ان معنوں کی رو سے نعوذ باللہ لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب بندے کسی حد تک عذاب دوزخ میں مبتلا ہو جائیں گے اور پھر اس سے ان کو نجات دی جائے گی تو اس وہم کا یہ جواب ہے کہ نجات کا لفظ اس جگہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں بلکہ اس سے صرف اس قدر مراد ہے کہ مومنوں کا نجات یافتہ ہونا اس وقت ہم ظاہر کر دیں گے اور لوگوں کو دکھا ئیں گے کہ وہ اس سخت قلق اور کرب کی جگہ سے نجات پا کر اپنی مرادات کو پہنچ گئے اور قرآن کریم میں یہ سنت اللہ ہے کہ بعض الفاظ اپنی اصلی حقیقت سے پھر کر مستعمل ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے وَ اَقْرَضُوا الله قَرْضًا حَسَنًا (المزمل : ۲۱) یعنی قرض دو اللہ کو قرض اچھا.اب ظاہر ہے کہ قرض کی اصل تعریف کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ انسان حاجت اور لاچاری کے وقت دوسرے سے بوقت دیگر ادا کرنے کے عہد پر کچھ مانگتا ہے لیکن اللہ جل شانہ حاجت سے پاک ہے پس اس جگہ قرض کے مفہوم میں سے صرف ایک چیز مراد لی گئی یعنی اس طور سے لینا کہ پھر دوسرے وقت اس کو واپس دے دینا اپنے ذمہ واجب ٹھہرا لیا ہو.ایسا ہی یہ آیت وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة : ۵۲).اصل مفہوم سے پھیری گئی کیونکہ عرف عام میں آزمائش کرنے والا اس نتیجہ سے غافل اور بے خبر ہوتا ہے جو امتحان کے بعد پیدا ہوتا ہے مگر اس سے اس جگہ یہ مطلب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں ڈالنے سے یہ مطلب ہے کہ تا شخص زیر امتحان پر اس کے اندرونی عیب یا

Page 300

۲۷۲ سورة مريم تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرونی خوبیاں کھول دے.غرض اسی طرح یہ لفظ نجات بھی اپنے حقیقی معنوں سے پھیرا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کی تصریح ثابت ہے اور وہ یہ ہے وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وو وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَةُ اليْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوَى لِلْمُتَكَبِرِينَ - وَيُنَحَى اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الزمر : ۶۱ ۶۲ ) الجز و نمبر ۲۴ سورۃ الزمر یعنی قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ جنہوں نے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولا ان کے منہ کالے ہیں.(اور کیوں کالے نہ ہوں ) کیا یہ لائق نہیں کہ متکبر لوگ جہنم میں ہی گرائے جائیں اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو نجات دے گا اس طور سے کہ ان کو ان کی مرادات تک پہنچائے گا ان کو برائی نہیں لگے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے.اب یہ آیت اُس پہلی آیت کی گویا تفسیر کرتی ہے کیونکہ اس میں نجات دینے کی حقیقت یہ کھولی ہے کہ وہ اپنی مرادات کو پہنچ جائیں گے اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ اس دن برائی کی مس سے بالکل محفوظ ہوں گے ایک ذرا تکلیف ان کو چھوئے گی بھی نہیں اور غم ان کے نزدیک نہیں آئے گا.اور اس آیت وَ إِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُعا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ در اصل مخاطب وہی لوگ ہوں کہ جو عذاب دوزخ میں گرفتار ہوں.پھر بعض ان میں سے کچھ حصہ تقویٰ کا رکھتے ہیں اس عذاب سے نجات یادیں اور دوسرے دوزخ میں ہی گرے رہیں اور یہ معنے اس حالت میں ہوں گے کہ جب اس خطاب سے ابرار اور اخیار اور تمام مقدس اور مقرب لوگ باہر رکھے جائیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی کلام کا منشاء وہی معنی معلوم ہوتے ہیں جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں واللہ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَإِلَيْهِ الْمَرْجَعُ وَالْمَابُ - ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۲ تا ۱۵۷) و إن مِنكُمْ إِلا وَارِدُهَا یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دوزخ میں وارد نہ ہو.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲) اے بُرو اور اے نیکو تم میں سے کوئی بھی نہیں جو جہنم کی آگ پر گزر نہ کرے مگر وہ جو خدا کے لئے اس آگ میں پڑتے ہیں وہ نجات دیئے جائیں گے لیکن وہ جو اپنے نفس امارہ کے لئے آگ پر چلتا ہے وہ آگ اسے کھا جائے گی پس مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بد بخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اس کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے وقت تھوڑا ہے اور

Page 301

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة مريم کار عمر نا پیدا.تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۶،۲۵) وَإِن مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيّا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ضرور انبیاء اور صلحا کو بھی دنیا میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ نہایت درجے کی مصیبت کا وقت اور سخت جانکاہ مشکل ہوتی ہے اور اہل حق بھی ایک دفعہ اس صعوبت میں وارد ہوتے ہیں مگر خدا جلد تر ان کی خبر گیری کرتا اور ان کو اس سے نکال لیتا ہے.اور چونکہ وہ ایک تقدیر معلق ہوتی ہے اسی واسطے ان کی دعاؤں اور ابتہال سے مل جایا کرتی ہیں.(احکام جلدے نمبر ۱۴ مورفحہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۶) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدَا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِذَانْ تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَنَّا أَنْ دَعَوُا لِلرَّحْمَن وَلَدًان اور کہتے ہیں کہ رحمان نے حضرت مسیح کو بیٹا بنا لیا ہے یہ تم نے اے عیسائیو ایک چیز بھاری کا دعوی کیا.نزدیک ہے جو اس سے آسمان و زمین پھٹ جاویں اور پہاڑ کا نپنے لگیں کہ تم انسان کو خدا بناتے ہو.پھر بعد اس کے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس خدا بنانے میں یہودی لوگ جو اول وارث توریت کے تھے جن کے عبد عقیق کی پیشگوئیاں سراسر غلط فہمی کی وجہ سے پیش کی جاتی ہیں کیا کبھی انہوں نے جو اپنی کتابوں کو روز تلاوت کرنے والے تھے اور ان پر غور کرنے والے تھے اور حضرت مسیح بھی ان کی تصدیق کرتے تھے کہ یہ کتابوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں ان کی باتوں کو مانو.کیا کبھی انہوں نے ان بہت سی پیش کردہ پیشگوئیوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کر کے اقرار کیا ہو کہ ہاں یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود کو خدا بتاتی ہے اور آنے والا مسیح انسان نہیں بلکہ خدا ہو گا تو اس بات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا ہر ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے ان کو کچھ بھل اور بغض پیدا ہوتا تو اس وقت پیدا ہوتا جب حضرت مسیح تشریف لائے پہلے تو وہ لوگ بڑی محبت سے اور بڑی غور سے انصاف و آزادی سے ان پیشگوئیوں کو دیکھا کرتے تھے اور ہر روز ان کتابوں کی تلاوت کرتے تھے اور تفسیریں لکھتے تھے پھر کیا غضب کی بات ہے کہ یہ مطلب ان سے بالکل پوشیدہ رہا.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۹)

Page 302

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة مريم سیح کو جو انسان ہے خدا کر کے ماننا یہ امر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا گراں اور اس کے غضب کا موجب ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں.پس یہ بھی مخفی طور پر اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب دنیا خاتمہ کے قریب آجائے گی تو یہی مذہب ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس آیت سے بھی یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ گو کیسا ہی اسلام غالب ہو اور گو تمام ملتیں ایک ہلاک شدہ جانور کی طرح ہو جائیں لیکن یہ مقدر ہے کہ قیامت تک عیسایت کی نسل منقطع نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی اور ایسے لوگ بکثرت پائے جائیں گے کہ جو بہائم کی طرح بغیر سوچنے سمجھنے کے حضرت مسیح کو خدا جانتے رہیں گے یہاں تک کہ ان پر قیامت برپا ہو جائے گی.محله گوار و بیه، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه (۲۲۲) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں پیشگوئی کے طور پر فرمایا تھا کہ ایک وہ نازک وقت آنے والا ہے کہ قریب ہے کہ تثلیث کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں اور اس قدر حد سے زیادہ عیسائیت کی دعوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں غلو کیا گیا کہ قریب ہے کہ وہ راست باز جو اخلاص کی وجہ سے آسمانی کہلاتے ہیں گمراہ ہو جا ئیں اور زمین پھٹ جائے یعنی تمام زمینی آدمی بگڑ جائیں اور وہ ثابت قدم لوگ جو جبال راسخہ کے مشابہ ہیں گر جائیں اور قرآن شریف کی وہ ہیئت جس میں یہ پیشگوئی ہے یہ ہے تَكَادُ السَّموتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا اور آیت چونکہ ذوالو جہین ہے اس لئے دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ قیامت کبری کے قریب عیسائیت کا زمین پر بہت غلبہ ہو جائے گا جیسا کہ آج کل ظاہر ہورہا ہے اور اس آیت کریمہ کا منشا یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے وقت خدا تعالیٰ اپنے مسیح کو بھیج کر اصلاح اس فتنہ کی نہ کرے تو فی الفور قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ جائیں گے مگر چونکہ باوجود اس قدر عیسائیت کے غلو کے اور اس قدر تکذیب کے جواب تک کروڑہا کتا بیں اور رسالے اور دو ورقہ کا غذات ملک میں شائع ہو چکے ہیں قیامت نہیں آئی تو یہ دلیل اس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم کر کے اپنے مسیح کو بھیج دیا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا نکلے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۷،۲۸۶) فرمایا کہ قریب ہے کہ آسمان وزمین پھٹ جائیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں کہ زمین پر یہ ایک بڑا گناہ کیا گیا کہ انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بنایا اور قرآن کے اول میں بھی عیسائیوں کا رد اور ان کا ذکر ہے جیسا کہ آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ اور وَلَا الضالین سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے آخر میں بھی عیسائیوں کا رد ہے جیسا کہ

Page 303

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة مريم سورة قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولد سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے درمیان بھی عیسائی مذہب کے فتنہ کا ذکر ہے جیسا کہ آیت تَكَادُ السَّمواتُ يَتَعَطَرْنَ مِنْهُ سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن سے ظاہر ہے کہ جب سے کہ دنیا ہوئی مخلوق پرستی اور دجل کے طریقوں پر ایساز ور کبھی نہیں دیا گیا اسی وجہ سے مباہلہ کے لئے بھی عیسائی ہی بلائے گئے تھے نہ کوئی اور مشرک اور یہ جو روح القدس پہلے اس سے پرندوں یا حیوانوں کی شکل پر ظاہر ہوتا رہا اس میں کیا نکتہ تھا سمجھنے والا خود سمجھ لے اور اس قدر ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ہمارے نبی صلعم کی انسانیت اس قدر زبردست ہے کہ روح القدس کو بھی انسانیت کی طرف کھینچ لائی.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۵،۸۴) یہودیوں کی شرارتیں اور شوخیاں اسی حد تک ہیں کہ ان کی سزا اسی دنیا میں دی جا سکتی تھی لیکن ضالین کی سزا یہ دنیا برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ ان کا عقیدہ ایسا نفرتی عقیدہ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے تَكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَذَا انْ دعوا للرّخين ولدا یعنی یہ ایک ایسا برا کام ہے جس سے قریب ہے کہ زمین آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جا ئیں.غرض یہودیوں کی چونکہ سزا تھوڑی تھی اس لئے ان کو اسی جہان میں دی گئی اور عیسائیوں کی سزا اس قدر سخت ہے کہ یہ جہان اس کی برداشت نہیں کر سکتا اس لئے ان کی سزا کے واسطے دوسرا جہان مقرر ہے.چالیس کروڑ انسان ایک ضعیف اور ناتوان انسان کو انہی دلائل سے خدا مان رہا ہے کہ وہ ازلی ابدی ہے زندہ آسمان پر موجود ہے اور اس نے خلق طیر کیا اور مردوں کو زندہ کیا اور یہ مسلمان ہیں کہ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتے اور اپنی گردن کاٹنے کا واسطے خود ان کے ہاتھ میں چھری دیتے اور ان کی اس خطرناک بت پرستی میں مدد کرتے ہیں جس کے واسطے خدا نے ایسا غضب ظاہر کیا تَكَادُ السَّموتُ يَتَفَظَرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُ الْجِبَالُ هَنَّا - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۴ /اگست ۱۹۰۸ صفحه ۳) انتقام جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخه ۶ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۴) اِنْ كُلٌّ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا أَتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا زمین ، آسمان میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو مخلوق اور بندہ خدا ہونے سے باہر ہو.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)

Page 304

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فَإِنَّمَا يَشَرْنُهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُنَّان قَوْماندان سورة مريم اور سخت جھگڑالو اس سے ملزم ہوتے ہیں.(کرامات الصادقين، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۹)

Page 305

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة طه عُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة طه بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى.خدار جمن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر چہ اس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اُس کود یا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام تشبیہی تجلیات اُس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرار گاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اُس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرار گاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے.اس جگہ ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا ئیں گے جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اُس کے عرش کو اٹھاوے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سن چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنز ہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے

Page 306

۲۷۸ سورة طه تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں.ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیوں کر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اسی سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اُس کی صفت تنزہ اُس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اُس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے.جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اُس کو دریافت کر سکے تب اُس کی چار صفتیں جن کو ر چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دُنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے نقاضا سے ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اُس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوئیت کے تقاضا سے ہے (۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اُس نے بغیر پاداش اعمال بیشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر اُن کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۴) چوتھی صفت ملِكِ يَوْمِ الدین ہے یہ بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اُس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷ ۲۷ تا ۲۷۹) جائیں گے.الله لا إله إلا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى.(اس سوال کے جواب میں کہ کیا خدا آسمان پر ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے مگر کہ الأَسْمَاءُ الْحُسنی.اس نے اپنے آپ کو علو ہی سے منسوب کیا ہے پستی کی طرف اس کو منسوب نہیں کر سکتے سبحانه و تعالی_علو کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور کشفی صورتوں میں آسمان سے نور نازل ہوتا ہوا دیکھا ہے گوہم

Page 307

۲۷۹ سورة طه تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اس کی کنہ اور کیفیت بیان نہ کر سکیں مگر یہ سچی بات ہے کہ اس کو علو ہی سے تعلق ہے بعض امور آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور بعض نہیں ہر صورت میں فلسفہ کام نہیں آتا.پس اصل بات یہی ہے کہ ایک وقت ایسی حالت انسان پر آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آسمان سے اس کے دل پر کچھ گرا ہے جو اسے رقیق کر دیتا ہے اس وقت نیکی کا بیج اس میں بویا جاوے گا.الحکم جلدے نمبر امورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) اِنّى أَنَا اللهُ لا إلهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذكرى واقم الصلوة الذكرى.....اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر.( براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ہمت دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اسی لئے فرمایا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد : ۲۹) اطمینان ، سیکنتِ قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں لوگوں نے قسم قسم کے ورد اور وظیفے اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے اور ایک نئی شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مقابلہ میں بنادی ہوئی ہے مجھے پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر میں دیکھتا ہوں اور حیرت سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے خود شریعت بنائی ہے اور نبی بنے ہوئے ہیں اور دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں.ان وظائف اور اور اد میں دنیا کو ایسا ڈالا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی شریعت اور احکام کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں.بعض لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ اپنے معمول اور اور اد میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ نمازوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے.میں نے مولوی صاحب سے سنا ہے کہ بعض گدی نشین شاکت مت والوں کے منتر اپنے وظیفوں میں پڑھتے ہیں.میرے نزدیک سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی سے نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہوگا اور سب مشکلات خدا چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی.نماز یاد الہی کا ذریعہ ہے اس لئے فرمایا ہے آقِمِ الصَّلوةَ لِذِکری.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۹)

Page 308

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۰ سورة طه فَالْقَهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى.سانپ انسان کی نسل کا پہلا اور ابتدائی ابتدائی دشمن ہے اور بزبانِ حال کہتا ہے: حَيَّ عَلَى الْمَوْتِ یعنی موت کی طرف آجا.اس لئے اس کا نام حبیہ ہوا.(ضیاء الحق ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۶۳) آنِ اقْذِ فِيهِ في التَّابُوتِ فَاقْذِ فِيهِ فِى الْيَمْ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذُهُ عَدُ b وج لِي وَعَدُو لَهُ وَ الْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِنِى وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي.محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پر ہو جانا ہے چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ محبب الحِمارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تحبب الحِمارُ اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پر ہو گیا تو کہتے ہیں شیرِبتِ الإِبِلُ حَتَّى تَحَبَّبَتْ اور حَبّ جو دانہ کو کہتے ہیں وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بناء پر احباب سونے کو بھی کہتے ہیں کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ جس اس کو باقی نہیں رہے گی.نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۱، ۴۳۲) اور اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہوگا وہ تجھ سے محبت کرے گا اور تیری طرف کھنچا جائے گا میں نے ایسا کیا تا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پاوے اور میرے روبرو تیرا نشونما ہو.برائن احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۸۸) اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے تا کہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے.براتین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) محبت کا لفظ جہاں کہیں با ہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے در حقیقت حقیقی محبت مراد نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ؟) فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيْنَا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ۴۵ مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہیے.جہاں نرمی کا موقع ہو وہاں سختی اور درشتی نہ

Page 309

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة طه کرے اور جہاں بجز بسختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی دیکھو فرعون بظاہر کیسا سخت کا فرانسان تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو یہی ہدایت ہوئی کہ قُولَا لَهُ قَوْلاً لينا رسول اکرم کے واسطے بھی قرآن شریف میں اسی قسم کا حکم ہے: وَ اِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (الانفال :۶۲) مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم ہے.رسول اللہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی ایسی ہی حالت بیان کی گئی جہاں فرمایا ہے کہ محمد رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ (الفتح :۳۰) چنانچہ ایک دوسرے مقام پر آنحضرت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ منافق اور کفار کا سختی سے مقابلہ کرو چنانچہ فرماتا ہے کہ یااَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكَفَارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظ عَلَيْهِمْ (التوبة : ۷۳) غرض ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود خدا تعالیٰ نے بھی حفظ مراتب کا لحاظ رکھا ہے مومنوں اور ایمانداروں کے واسطے کیسی نرمی کا حکم ہے اور کفار میں سے بعض میں مادہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کو سختی کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح سے بعض بیماریوں یا زخموں میں ایک حکیم حاذق کو چیرا پھاڑی اور عمل جراحی سے کام لینا پڑتا ہے.الحام جلد ۱۴ نمبر ۲۷ مورخه ۱۴ را پریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) قَالَ رَبُّنَا الَّذِى أعطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى حکمت کاملہ البہیہ سے ہر یک چیز میں تحصیل غذا کے لئے پہلے ہی سے ایک قوت رکھی جاتی ہے خواہ وہ چیز پتھر ہو یا درخت یا انسان یا حیوان.در حقیقت یہ سب ایک ہی قوت کی تحریکوں سے حصول غذا کے لئے متوجہ کی جاتی ہیں اور اس بات کے جواب میں کہ کیوں یہ چاروں قسم کی چیز میں غذا کی طالب ہیں کوئی جدا جدا بیان نہیں تا کسی جگہ پہلے جنم کی یادداشت اور اس کا خیال بنا رہنا سمجھا جائے اور کسی جگہ کوئی اور وجہ بتلائی جائے بلکہ در حقیقت ان چاروں چیزوں کا تحصیل غذا کے لئے میل کرنا ایک ہی باعث سے ہے یعنی فطرتی قوت جو وجود پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اسی کی طرف اس پاک اور مقدس کلام میں اشارہ ہے جو فلسفی صداقتوں سے بھرا ہوا ہے جیسا کہ وہ جلتا نہ فرماتا ہے اَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ثُمَّ هدی یعنی تمہارا وہ خدا ہے جس نے ہر یک چیز کو مناسب حال اس کے وجود بخشا پھر غذ اوغیرہ کی طلب کے

Page 310

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة طه لئے جس پر اس کی بقا موقوف ہے اس کے دل میں آپ خواہش ڈالی.سو یہی صداقتِ حقہ ہے جس کو ایک قاعدہ کلی کے طور پر اللہ جل شانہ نے اپنی کتاب عزیز میں بیان فرما دیا ہے.نادانوں اور جاہلوں کی نظر محیط نہیں ہوتی اس لئے وہ فقط ایک جزئی کو دیکھ کر اپنی غرض فاسد کے مطابق اس کے لئے ایک جھوٹھ منصو بہ گھٹڑ لیتے ہیں اور دوسرے جزئیات کو جو اسی کے شریک ہیں چھوڑ دیتے ہیں.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۵۷) وہ خدا جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال قومی اور جوارح بخشے اور پھر ان کو استعمال میں لانے کی (جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۸) توفیق دی.وہ خدا جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال کمال خلقت بخشا اور پھر اس کو دوسرے کمالاتِ مطلوبہ کے لئے رہنمائی کی.پس یہ انعام ہے کہ ہر یک چیز کو اول اس کے وجود کی رو سے وہ تمام قومی وغیرہ عنایت ہوں جن کی وہ چیز محتاج ہے.پھر اس کے حالات مترقبہ کے حصول کے لئے اس کو راہیں دکھائی جائیں.(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۴، ۱۵۵ حاشیه ) قرآن نے خدا کی معرفت عطا کرنے کے لئے دو طریق رکھے ہیں اول وہ طریق جس کی رو سے انسانی عقل عقلی دلائل پیدا کرنے میں بہت قوی اور روشن ہو جاتی ہے اور انسان غلطی کرنے سے بچ جاتا ہے اور دوسرا روحانی طریق....اب دیکھو کہ عقلی طور پر قرآن نے خدا کی ہستی پر کیا کیا عمدہ اور بے مثل دلائل دیئے ہیں جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے رَبُّنَا الَّذِى اَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ ھدی یعنی خداوہ خدا ہے کہ جس نے ہر ایک شے کے مناسب حال اس کو پیدائش بخشی پھر اس شے کو اپنے کمالات مطلوبہ حاصل کرنے کے لئے راہ دکھلا دی.اب اگر اس آیت کے مفہوم پر نظر رکھ کر انسان سے لے کر تمام بحری اور بری جانوروں اور پرندوں کی بناوٹ تک دیکھا جائے تو خدا کی قدرت یاد آتی ہے کہ ہر ایک چیز کی بناوٹ اس کے مناسب حال معلوم ہوتی ہے پڑھنے والے خود سوچ لیں کیونکہ یہ مضمون بہت وسیع ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۹،۳۶۸) یہ بات بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے اور جس طرح الہی فطرت نے بموجب آیت کریمہ اغطى كل شى و خَلْقَه ہر ایک چرند اور پرند میں پہلے سے وہ قوت رکھ دی ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کے علم میں یہ تھا کہ اس قوت سے اس

Page 311

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۳ سورة طه کو کام لینا پڑے گا اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خدا تعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتے ہیں اور جن لیا قتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی ان تمام لیا قتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے.( ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۸) اس عطا میں زیادہ تر دو قسم کے آدمی ہیں ایک بادشاہ، دوسرے مامور من اللہ یعنی پہلے خدا نے ان کو مامور بنا یا ثُمَّ هَدی یعنی پھر تبلیغ کے تمام سامان ان کے لئے مہیا کر دئیے.جیسا کہ خدا نے ریل ، تار، ڈاک، مطبع وغیرہ تمام اسباب ہمارے واسطے مہیا کر دیئے.انتقام جلد ۵ نمبر ۸ مورخه ۳ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۲) قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَب لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى وفات مسیح یا ایسے مسائل کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ کہ آئے ان کے متعلق ہم حضرت موسیٰ کی طرح یہی کہتے ہیں کہ عِلْمُهَا عِندَ رَبّی یعنی گذشتہ لوگوں کے حالات سے اللہ تعالیٰ بہتر واقف ہے ہاں حال کے لوگوں کو ہم نے کافی طور پر سمجھا دیا ہے اور حجت قائم کر دی ہے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۱٫۳۰ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أَخْرى بعض نہایت سادگی سے کہتے ہیں کہ سلاطین کی کتاب میں جو لکھا ہے کہ ایلیا جسم کے سمیت آسمان پر اُٹھایا گیا تو پھر کیا مسیح ابن مریم کے اُٹھائے جانے میں کچھ جائے اشکال ہے تو اُن کو واضح ہو کہ در حقیقت ایلیا بھی خا کی جسم کے ساتھ نہیں اُٹھایا گیا تھا.چنانچہ مسیح نے اس کی وفات کی طرف اشارہ کر دیا جبکہ اس نے یہودیوں کی وہ امید توڑ دی جو وہ اپنی خام خیالی سے باندھے ہوئے تھے اور کہہ دیا کہ وہ ہر گز نہیں آئے گا.اور ظاہر ہے کہ اگر وہ جسم خاکی کے ساتھ اُٹھایا جاتا تو پھر خاک کی طرف اس کا رجوع کرنا ضروری تھا کیونکہ لکھا ہے کہ خا کی جسم خاک کی طرف ہی عود کرتا ہے مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُم کیا ایلیا آسمان پر ہی فوت ہوگا یا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان (الرحمن : ۲۷) سے باہر رہے گا.اگر سوچ کر دیکھو تو ایلیا کی چادر گرنے والی وہی اس کا وجود تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور نیا چولہ پہن لیا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۳،۵۱۲)

Page 312

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة طه وَلَا يَجُوزُ الْمَوْتُ في السَّمَاوَاتِ آسمان میں موت کا جواز ثابت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَفِيهَا نُعِيْدُ كُمْ وَلَا تَجِدُ ہے وَ فِيهَا نُعِيدُكُم اور قرآن کریم میں اور لیس علیہ السلام في الْقُرْآنِ ذِكْرَ نُزُولِ إدْرِيسَ وَمَوْتِهِ کے آسمان سے اترنے ، ان کے وفات پانے اور ان کے وَدَفَيهِ فِي الْأَرْضِ فَقَبَتَ بِالضُّرُورَةِ أَنَّ زمین میں دفن ہونے کا ذکر موجود نہیں پس بالضرورت ثابت ہوا کہ رفع سے مرادموت ہے.( ترجمه از مرتب) الْمُرَاد مِن الرَّفْعِ الْمَوْتُ.(حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۲۰) وہ عقیدہ جس پر خدا تعالیٰ نے علی وجہ البصیرہ مجھ کو قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مثل دیگر انسانوں کے انسانی عمر پا کر فوت ہو گئے ہیں اور آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ جانا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر نازل ہونا یہ سب اُن پر تہمتیں ہیں.قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَل قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل : ۹۴) - پس اصل مسئلہ جو طے ہونے اور فیصلہ ہونے کے لائق ہے وہ یہی ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ برخلاف عادت اللہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ گئے تھے اور اگر یہ نصوص صریحہ ہینہ قرآن شریف سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام در حقیقت آسمان پر مع جسم عنصری اٹھائے گئے تھے تو پھر اُن کے نازل ہونے کے بارے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ جو شخص مع جسم عصری آسمان پر جائے گا اُس کا واپس آنا بموجب نص قرآنی ضروری ہے پس اگر حضرت عیسی مع جسم آسمان پر چلے گئے ہیں تو واپس آنے میں کیا شک ہے وجہ یہ کہ اگر دوبارہ زمین پر آنے کے لئے کسی اور کام کی غرض سے ان کی کچھ ضرورت نہ ہو مگر پھر بھی مرنے کے لئے اُن کا آنا ضرور ہوگا کیونکہ آسمان پر کوئی قبروں کی جگہ نہیں.اور نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک انسان زمین پر ہی مرے گا اور زمین میں ہی دفن کیا جائے گا اور زمین سے ہی نکالا جائے گا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُم تَارَةً أخرى - البته ي ممکن ہے کہ آسمان سے بیمار ہو کر آویں یا راہ میں بیمار ہو جائیں اور پھر زمین پر آکر مر جائیں.اور یہ ہم نے اس لئے کہا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنے والا عیسی زعفرانی رنگ کی دو چادروں میں نازل ہوگا.اور تمام معتبرین کے اتفاق سے تعبیر کی رو سے زرد رنگ چادر سے بیماری مراد ہوتی (برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۲، ۳۷۳) ہے.

Page 313

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۵ سورة طه سوال ہوا کہ آدم کی جنت کہاں تھی؟ فرمایا :) ہمارا مذہب یہی ہے کہ زمین میں ہی تھی.خدا فرماتا ہے مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ - آدم کی.بود و باش آسمان پر یہ بات بالکل غلط ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۲) قَالَ لَهُمْ مُوسى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرى قرآن شریف میں صدہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ ایک موقع میں فرماتا ہے کہ قَدْ خَابَ مَن افترای یعنی مفتری نامراد مرے گا.افترا کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۳) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰اپریل ۱۹۰۴ صفحه ۷ ) یاد رکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اگر ادنی چپراسی کی ہتک کی جائے اور اس کی بات نہ مانی جاوے تو گورنمنٹ سے ہتک کرنے والے یا نہ ماننے والے کو سز املتی ہے اور باز پرس ہوتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے آنے والے کی بے عزتی کرنا اس کی بات کی پرواہ نہ کرنا کیوں کر خالی جا سکتا ہے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرا سلسلہ خدا کی طرف سے نہیں تو یونہی بگڑ جائے گا خواہ کوئی اس کی مخالفت کرے یا نہ کرے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قَدْ خَابَ مَن الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۳) افتراى - قَالُوا إِنْ هَذَينِ لَسْحِرْنِ يُرِيدَنِ اَنْ يُخْرِجُكُمْ مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَ يَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَى.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا اس کی نظیر میں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں.مثلاً یہ آیت ان هذين لسحران انسانی نحو کی رو سے

Page 314

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اِنَّ هَذَيْنِ چاہیے.قلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى ۲۸۶ سورة طه (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۷ حاشیه ) یعنی کچھ خوف مت کر کہ تو غالب ہے اور فتح تیرے نام ہے.مت ڈرغلبہ تجھی کو ہے.کچھ خوف مت کر تو ہی غالب ہے.مت خوف کر کہ غلبہ تجھ کو ہے.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۹۵) انجام آنتظم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹) (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۴) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۶) خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلی کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے جیسے اِنَّكَ أَنتَ الأعلى مگر یہ تو انکسار البدر جلد نمبر ۱ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۴) سے ہوتا ہے.یا درکھو علو دو قسم کا ہوتا ہے ایک تو وہ علو ہے جو شیطانی علو آبی و استکبر میں آیا ہے اور شیطان کے حق میں اعلی بھی آیا ہے جیسے فرمایا: آمر كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ یعنی تیرا یہ استعلا تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی تو اعلیٰ ہے ورنہ حقیقی علوتو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کے لئے ہے جو أَما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيَّات کے موافق اس کو ظاہر کر سکتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فر ما یا لا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الأغلى يه علق جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے اور شیطان کا علو استکبار سے ملا ہوا تھا.دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح پر ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا.جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا.احکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) وَ الْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سُحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيثُ أتى.(اس سوال کے جواب میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں نے جو جادو کیا تھا اس کی نسبت آپ کا

Page 315

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۷ سورة طه کیا خیال ہے.فرمایا ) جادو بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے رسولوں اور نبیوں کی یہ شان نہیں ہوتی کہ ان پر جادو کا کچھ اثر ہو سکے بلکہ ان کو دیکھ کر جادو بھاگ جاتا ہے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ آتی دیکھو حضرت موسی کے مقابل پر جادو تھا آخر موسیٰ غالب ہوا کہ نہیں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ آنحضرت صلعم کے مقابلہ پر جادو غالب آ گیا ہم اس کو کبھی نہیں مان سکتے.آنکھ بند کر کے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے.یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو.ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو کی تاثیر سے (معاذ اللہ ) آنحضرت صلعم کا حافظہ جاتا رہا یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا کسی صورت میں صحیح نہیں ہو سکتیں.معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملا دی ہیں.گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں.اس وقت احادیث کے جمع کرنے کا وقت تھا گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے.اب ہر ایک کا اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے ایسی بات کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) جادو کا اثر ہو گیا تھا اس سے تو ایمان اٹھ جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (بنی اسرائیل : ۴۸) ایسی ایسی باتیں کہنے والے تو ظالم ہیں نہ کہ مسلمان.یہ تو بے ایمانوں اور ظالموں کا قول ہے کہ آنحضرت صلعم پر (معاذ اللہ ) سحر اور جادو کا اثر ہو گیا تھا اتنا نہیں سوچتے کہ جب (معاذ اللہ ) آنحضرت کا یہ حال ہے تو پھر امت کا کیا ٹھکانا وہ تو پھر غرق ہوگئی معلوم نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس معصوم نبی صلعم کو تمام انبیاء من شیطان سے پاک سمجھتے آئے ہیں یہ ان کی شان میں ایسے ایسے الفاظ بولتے ہیں.الحکم جلدا انمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى ) جو شخص مجرم بن کر خدا کے پاس آئے گا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے وہ اس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا مگر

Page 316

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة طه جولوگ خدا کے محب ہیں وہ موت سے نہیں مرتے کیونکہ ان کا پانی اور ان کی روٹی ان کے ساتھ ہوتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۶) جو شخص مجرم ہونے کی حالت میں مرے گا اس کے لئے جہنم ہے کہ وہ اس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا.اب دیکھو کہ جہنمی کے واسطے زندگی بھی نہیں گو ابدی عذاب کے پورا کرنے کے لئے موت بھی نہیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۸۵) کسی چیز کی بجز خدا کے کوئی ہستی نہیں.محض خدا ہے جس کا نام ہست ہے.پھر اس کے زیر سایہ ہوکر اور اس کی محبت میں محو ہو کر واصلوں کی روحیں حقیقی زندگی پاتی ہیں.اور اس کے وصال کے بغیر زندگی حاصل نہیں ہو سکتی.اسی وجہ سے اللہ تعالی قرآن شریف میں کافروں کا نام مردے رکھتا ہے اور دوزخیوں کی نسبت فرماتا ہے إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبِّكَ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ ، لَا يَمُوتُ فِيهَا وَ لَا يَخيلی یعنی جو شخص مجرم ہونے کی حالت میں اپنے رب کو ملے گا.اُس کے لئے جہنم ہے نہ اس میں مرے گا اور نہ زندہ رہے گا.یعنی اس لئے نہیں مرے گا کہ دراصل وہ تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.لہذا اس کا وجود ضروری ہے اور اس کو زندہ بھی کا نہیں کہہ سکتے کیونکہ حقیقی زندگی وصالِ الہی سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی زندگی میں نجات ہے اور وہ بجر بعشق الہی اور وصال حضرت عزت کے حاصل نہیں ہو سکتی اگر غیر قوموں کو حقیقی زندگی کی فلاسفی معلوم ہوتی تو وہ کبھی دعوی نہ کرتے کہ تمام ارواح خود بخود قدیم سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور حقیقی زندگی سے بہرہ ور ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ علوم آسمانی ہیں اور آسمان سے ہی نازل ہوتے ہیں اور آسمانی لوگ ہی ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اور دنیا اُن سے بے خبر ہے.چشمه سیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۶) جیسا کہ جسمی ترکیب میں انحلال ہو کر جسم پر موت آتی ہے ایسا ہی رُوحانی صفات میں تغیرات پیدا ہوکر رُوح پر موت آجاتی ہے مگر جو لوگ وجہ اللہ میں محو ہو کر مرتے ہیں وہ بباعث اس اتصال کے جو اُن کو حضرت عزت سے ہو جاتا ہے دوبارہ زندہ کئے جاتے ہیں اور اُن کی زندگی خدا کی زندگی کا ایک ظل ہوتا ہے اور پلید روحوں میں بھی عذاب دینے کے لئے ایک حس پیدا کی جاتی ہے مگر وہ نہ مردوں میں داخل ہوتے ہیں نہ زندوں میں جیسا کہ ایک شخص جب سخت درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بدحواسی کی زندگی اس کے لئے موت کے برابر ہوتی ہے اور زمین و آسمان اُس کی نظر میں تاریک دکھائی دیتے ہیں انہیں کے بارہ میں خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے إِنه مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَ لَا يَحْلى یعنی جو

Page 317

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ سورة طه شخص اپنے ربّ کے پاس مجرم ہو کر آئے گا اس کے لئے جہنم ہے وہ اس جہنم میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا اور خود انسان جب کہ اپنے نفس میں غور کرے کہ کیوں کر اس کی رُوح پر بیداری اور خواب میں تغیرات آتے : رہتے ہیں تو بالضرور اس کو ماننا پڑتا ہے کہ جسم کی طرح رُوح بھی تغیر پذیر ہے اور موت صرف تغییر اور سلب صفات کا نام ہے ورنہ جسم کے تغیر کے بعد بھی جسم کی مٹی تو بدستور رہتی ہے لیکن اس تغیر کی وجہ سے جسم پر موت کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۶،۱۶۵) جو شخص خدا کے پاس مجرم ہو کر آئے گا اس کی سزا جہنم ہے نہ اس میں وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا سواس جگہ خدا نے مُجرما کہا مُذنبا نہیں کہا کیونکہ بعض صورتوں میں معصوم کو بھی مذنب کہہ سکتے ہیں مگر مجرم نہیں کہہ سکتے.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۹۰) جو شخص مجرم بن کر آوے گا اس کے لئے ایک جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا.یہ کیسی صاف بات ہے.اصل لذت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میں ہے بلکہ اسی حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن اور آرام میں ہو.اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مردوں سے بدتر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ زندہ ہی کہلا سکتا ہے.پس اسی پر قیاس کرلو کہ جہنم کے درد ناک عذاب میں کیسی بری حالت ہوگی.مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدائے تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لیوے.اس کو تو حکم تھا کہ وہ خدائے تعالیٰ کے لئے ہو جاتا.اور صادقوں کے ساتھ ہو جاتا مگر وہ ہوا و ہوس کا بندہ بن کر رہا اور شریروں اور دشمنانِ خدا و رسول سے موافقت کرتا رہا.گویا اس نے اپنے طرز عمل سے دکھا دیا کہ خدائے تعالیٰ سے قطع کرلی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۶۱،۱۶۰) خدا تعالیٰ سے جب انسان جدائی لے کر جاتا ہے تو اس کے تمثلات دوزخ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں کذب نہیں ہے مَنْ يَأْتِ رَبِّهِ مُجْرِمًا - سچ فرمایا ہے جب انسان عذاب اور درد میں مبتلا ہے اگر چہ وہ زندہ ہے لیکن مردوں سے بھی بدتر ہے وہ زندگی جو مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ صلاح اور تقویٰ کے بدوں نہیں مل سکتی.جس کو تپ چڑھی ہوئی ہے اسے کیوں کر زندہ کہہ سکتے ہیں.سخت تپ میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ رات ہے یا دن ہے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۱) دیکھو انسان پر جب کوئی جرم ثابت ہو جائے تو وہ قابل سز ا ٹھہر جاتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَاتِ رَبِّهِ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ الایة یعنی جو اپنے رب کے حضور مجرم ہو کر آتا ہے اس کی سزا جہنم ہے.

Page 318

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة طه وہاں نہ وہ جیتا ہے نہ مرتا ہے.یہ ایک جرم کی سزا ہے اور جو ہزاروں لاکھوں جرموں کا مرتکب ہو اس کا کیا حال ہو گا لیکن اگر کوئی شخص عدالت میں پیش ہو اور بعد ثبوت اس پر فرد قرار داد جرم بھی لگ جاوے اور اس کے بعد عدالت اس کو چھوڑ دے تو کس قدر احسان عظیم اس حاکم کا ہو گا.اب غور کرو کہ یہ تو بہ وہی بریت ہے جو فر و قرارداد جرم کے بعد حاصل ہوتی ہے تو بہ کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ کس قدر گناہوں میں وہ مبتلا تھا اور ان کی سزا کس قدر اس کو ملنے والی تھی جو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معاف کر دی.الحکم جلدے نمبر ۳۸ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ صفحه ۲) صرف زبان سے کہنا آسان ہے کہ جہنم میں پڑنا منظور.اگر انہیں اس دکھ درد کی کیفیت معلوم ہو تو پتہ لگے.ایک آنکھ میں ذرا درد ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس قدر تکلیف ہے.پھر جہنم تو وہ جہنم ہے جس کی بابت قرآن شریف میں آیا ہے لَا يَمُوتُ فِيهَا وَ لا یعنی.ایسے لوگ سخت غلطی پر ہیں اس کا تو فیصلہ آسان ہے دنیا میں دیکھ لے کہ کیا وہ دنیا کی بلاؤں پر صبر کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.تو پھر یہ کیوں کر سمجھ لیا کہ عذاب جہنم کو برداشت کر لیں گے.بعض لوگ تو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر یہ لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ جہنم کا عذاب بہت ہی خطرناک ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ صفحه ۲) أَفَلَا يَرَوْنَ أَلا يرجعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَ لَا نَفْعًان قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لئے جو گوسالہ پرستی کرتے ہیں اور گوسالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے اَلا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَولاً کہ وہ ان کی بات کا کوئی جواب ان کو نہیں دیتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں.ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پو چھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو بتاؤ وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو پھر اس کو بلا کر دکھاؤ.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں وہ یقیناً کوئی جواب نہ دے گا کیونکہ وہ مر گیا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) مجیب اور ناطق خدا ہمارا ہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتا اور ان کے جواب دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ جو خدا پیش کرتے ہیں وہ لَا يَرْجِعُ اليهم قولا کا مصداق ہورہا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بوجہ ان

Page 319

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹۱ سورة طه کے کفر اور بے دینی کے ان کی دعائیں مَا دُعَوُا الكَفِرِينَ إلا في ضَلل (المؤمن : ۵۱) کی مصداق ہو گئی ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ تو سب کا ایک ہی ہے مگر ان لوگوں نے اس کی صفات کو سمجھا ہی نہیں ہے پس یا درکھو کہ ہمارا خدا ناطق خدا ہے وہ ہماری دعائیں سنتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۲) ص قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيوةِ اَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَانْظُرُ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِى ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنْحَرِقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِ نَسْفات اگر چہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم کے مضارعات پر جب نونِ ثقیلہ ملا ہے تو وہ استقبال کے معنوں پر مستعمل ہوئے ہیں لیکن بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یا حال اور استقبال بلکہ ماضی بھی اشترا کی طور پر ایک سلسلہ متصاممتند و کی طرح مراد لئے گئے ہیں یعنی ایسا سلسلہ جو حال یا ماضی سے شروع ہوا اور استقبال کی انتہا تک بلا انقطاع برابر چلا گیا.پہلی آیات کی نظیر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے...وانظر إلى الهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفا الخ یعنی اپنے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو معتکف تھا کہ اب ہم اس کو جلاتے ہیں.اس جگہ بھی استقبال مراد نہیں کیونکہ استقبال اور حال میں کسی قدر بعد زمان کا ہونا شرط ہے مثلاً اگر کوئی کسی کو یہ کہے کہ میں تجھے دس روپیہ دیتا ہوں سولے مجھ سے دس روپیہ.تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ اس نے استقبال کا وعدہ کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یہ سب کارروائی حال میں ہی ہوئی.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۳،۱۶۲)..ج فَتَعلَى اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ ردومان وحيه وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (۱۱۵) دعا کر کہ خدایا مجھے مراتب علمیہ میں ترقی بخش.(براہین احمدیہ چهار حص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۰۱) اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم کامل بخش اور پھر دوسری جگہ فرمایا وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۶۴ ) - ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت

Page 320

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة طه الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے.اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَ كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ١١٣) - الجز ۵ یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کئے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۶، ۱۸۷) تیسری قوت بسطت فی العلم ہے جو امامت کیلئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے.چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے.اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قومی کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے اور رب زدني علما کی دعا میں ہر دم مشغول رہتا ہے اور پہلے سے اس کے مدارک اور حواس ان امور کے لئے جو ہر قابل ہوتے ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے علوم الہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو اس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے.اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے.اور وہ نوران چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جا تا وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.پس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جو ہر ان کے اندر پہنچا دیتی ہے اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یا بوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے مگر دوسرے ملموں اور زاہدوں کے لئے اس قسم کی بسطت علمی ضروری نہیں کیونکہ نوع انسان کی تربیت علمی ان کے سپردنہیں کی جاتی.اور ایسے زاہدوں اور خواب بینوں میں اگر کچھ نقصان علم اور جہالت باقی ہے تو چنداں جائے اعتراض نہیں کیونکہ وہ کسی کشتی کے ملاح نہیں ہیں بلکہ خود ملاح کے محتاج ہیں.( ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸۰،۴۷۹)

Page 321

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ سورة طه انبیاء کے علم میں بھی تدریجاً ترقی ہوتی ہے اس لئے قرآن شریف میں آیا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ ار مارچ ۱۹۰۱ صفحه (۸) مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں جیسے شاگر داستاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن شاگرد اگر استاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا یہی حال مرید کا ہے.پس اس سلسلہ میں تعلق پیدا کر کے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہیے.طالب حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہر گز ٹھہرنا نہیں چاہیے ورنہ شیطان لعین اور طرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لئے سعی نہ کرے تو وہ گر جاتا ہے.پس سعادت مند کا فرض ہے کہ وہ طلب دین میں لگار ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انسان کامل دنیا میں نہیں گزرا لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِي عِلما کی دعا تعلیم ہوئی تھی پھر اور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے.جوں جوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اسے معلوم ہوتا جاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیں حل طلب باقی ہیں.بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں ( اس بچے کی طرح جو اقلیدس کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتا ہے ) بالکل بیہودہ سمجھتے تھے لیکن آخر وہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لئے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لئے ہر بات کی تکمیل کی جاوے.( الکام جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۵) وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا یادر ہے کہ یہ حوا کا گناہ تھا کہ براہ راست شیطان کی بات کو مانا اور خدا کے حکم کو توڑا اور سچ تو یہ ہے کہ حوا کا نہ ایک گناہ بلکہ چار گناہ تھے (۱) ایک یہ کہ خدا کے حکم کی بے عزتی کی اور اس کو جھوٹا سمجھا (۲) دوسرا یہ کہ خدا کے دشمن اور ابدی لعنت کے مستحق اور جھوٹ کے پتلے شیطان کو سچا سمجھ لیا (۳) تیسرا یہ کہ اس نافرمانی کوصرف عقیدہ تک محدود نہ رکھا بلکہ خدا کے حکم کو توڑ کر عملی طور پر ارتکاب معصیت کیا.(۴) چوتھا یہ کہ حوا نے نہ صرف آپ ہی خدا کا حکم تو ڑا بلکہ شیطان کا قائم مقام بن کر آدم کو بھی دھوکا دیا تب آدم نے محض حوا کی دھوکا دہی سے وہ پھل کھایا جس کی ممانعت تھی اسی وجہ سے حوا خدا کے نزدیک سخت گناہ گار ٹھہبری مگر آدم معذور سمجھا گیا محض

Page 322

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ سورة طه ایک خفیف خطا جیسا کہ آیت کریمہ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما سے ظاہر ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آدم نے عمداً میرے حکم کو نہیں تو ڑا بلکہ اس کو یہ خیال گزرا کہ حوا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شاید اس کو خدا کی اجازت ہوگی جو اس نے ایسا کیا.یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوا کی بریت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی بریت ظاہر کی یعنی اس کی نسبت لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً فرمایا اور حوا کو سز اسخت دی مرد کا محکوم بنایا اور اس کا دست نگر کردیا اور مل کی مصیبت اور بچے جنے کا دکھ اسکو لگا دیا اور آدم چونکہ خدا کی صورت پر بنایا گیا تھاس لئے شیطان اس کے سامنے نہ آسکا.اسی جگہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس شخص کی پیدائش میں نر کا حصہ نہیں وہ کمزور ہے اور توریت کے رو سے اس کی نسبت کہنا مشکل ہے کہ وہ خدا کی صورت پر یا خدا کی مانند پیدا کیا گیا.ہاں آدم بھی ضرور مرگیا لیکن یہ موت گناہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ مرنا ابتدا سے انسانی بناوٹ کا خاصہ تھا اگر گناہ نہ کرتا تب بھی مرتا.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۳ حاشیه در حاشیه ) فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَواتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفْنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَلَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى عطی سے عمد تو نہیں پایا جاتا کیونکہ دوسری جگہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے: فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (طه : ۱۱۲).عضی سے یاد آیا میرا ایک فقرہ ہے: الْعَصَا عِلاجُ مَنْ عَلٰی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالی تجلیات ہی سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے.احکام جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) دل کے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوتا جب تک کہ انسان عزم نہ کر لے.ایک چوراگر بازار میں جاتا ہوا ایک صرف کی دوکان پر روپوں کا ڈھیر دیکھے اور اسے خیال آوے کاش کہ میرے پاس بھی اس قدر روپیہ ہو اور پھر اسے چرانے کا ارادہ کرے مگر قلب اسے لعنت کرے اور باز رہے تو گنہ گار نہ ہوگا اور اگر وہ پختہ ارادہ کرے کہ اگر موقع ملا تو ضرور چرالوں گا تو گنہ گار ہوگا.آدم کے قصہ میں بھی خدا فرماتا ہے وَلَمْ نَجِدْ لَهُ گنہگار عدما یعنی ہم نے اس کی عزیمت نہیں پائی.عطی آدم کے معنے ہیں کہ صورت عصیان کی ہے مثلاً آقا ایک غلام کو کہے کہ فلاں رستہ جا کر فلاں کام کر آؤ تو وہ اگر اجتہاد کرے اور دوسرے راہ سے جاوے تو عصیان تو ضرور ہے لیکن وہ نا فرمان نہ ہو گا صرف اجتہادی غلطی ہوگی جس پر مؤاخذہ نہیں.(البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۹،۱۸)

Page 323

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة طه وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ أعلى ۱۲۵ جو شخص میرے فرمودہ سے اعراض کرے اور اس کے مخالف کی طرف مائل ہو تو اس کے لئے تنگ معیشت ہے یعنی وہ حقائق اور معارف سے بے نصیب ہے اور قیامت کو اندھا اٹھایا جائے گا.اب ہم اگر ایک حدیث کو صریح قرآن کریم کے مخالف یا ئیں اور پھر مخالفت کی حالت میں بھی اس کو مان لیں اور اس تخالف کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں تو گویا اس بات پر راضی ہو گئے کہ معارف حقہ سے بے نصیب رہیں اور قیامت کو اندھے اٹھائے جائیں.الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۷) بہشتی زندگی والا انسان خدا کی یاد سے ہر وقت لذت پاتا ہے اور جو بد بخت دوزخی زندگی والا ہے تو وہ ہر وقت اس دنیا میں زقوم ہی کھا رہا ہے.اس کی زندگی تلخ ہوتی ہے.مَعِيشَةً ضَنگا بھی اس کا نام ہے جو قیامت کے دن زقوم کی صورت پر متمثل ہو جائے گی.غرض دونوں صورتوں میں باہم رشتے قائم ہیں.الحکم جلدے نمبر ۳۰ مورخه ۷ اراگست ۱۹۰۳ صفحه ۱۰)

Page 324

Page 325

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۹۷ سورة الانبياء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانبياء بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ افَتَا تُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ.ج اور کافر با ہم پوشیدہ طور پر یہ باتیں کرتے ہیں کہ یہ جو پیغمبری کا دعوی کرتا ہے اس میں کیا زیادتی ہے.ایک تم سا آدمی ہے.سو کیا تم دیدہ و دانستہ جادو کے بیچ میں آتے ہو.برائین احمد یہ چہار خصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۵،۲۴۴ حاشیہ نمبر ۱۱) اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دیدہ دانستہ پھنستے ہو.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۴ ) قُل رَبّى يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.پیغمبر نے کہا کہ میرا خدا ہر بات کو جانتا ہے خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں.وہ اپنی ذات میں سمیع اور علیم ہے جس سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی.برائن احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۵ حاشیہ نمبر ۱۱) بَلْ قَالُوا أَضْغَاتُ أَحْلَامِ بَلِ افْتَرَهُ بَلْ هُوَ شَاعِرُ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ

Page 326

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الاولون ۲۹۸ سورة الانبياء غور سے سنو کہ عقلمندوں اور سوچنے والوں کے لئے میرے دعوی کے ساتھ اس قدر نشان موجود ہیں کہ اگر وہ انصاف سے کام لیں تو ان کے تسلی پانے کے لئے نہایت کافی وشافی ذخیرہ خوارق موجود ہے ہاں اگر کوئی اس شخص کی طرح جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مینہ کے بارے میں معجزہ استجابت دعا دیکھ کر یعنی کئی برسوں کے امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہوا مشاہدہ کر کے پھر کہہ دیا تھا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں.اتفاقاً بادل آیا اور مینہ برس گیا.انکار سے باز نہ آوے تو ایسے شخص کا علاج ہمارے پاس نہیں.ایسے لوگ ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ آسمانی نشان دیکھتے رہے پھر یہ کہتے رہے فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كما أرسل الأولون - جو شخص سچے دل سے خدا کا نشان دیکھنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ سب سے پہلے اس نشان پر نظر کرے کہ اس عاجز کا ظاہر ہونا عین اس وقت میں ہے جس وقت کا ذکر ہمارے سید خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے آپ فرمایا ہے یعنی صدی کا سر.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صلیب کے غلبہ کے وقت ایک شخص پیدا ہو گا جو صلیب کو توڑے گا.ایسے شخص کا نام آنحضرت نے مسیح ابن مریم رکھا انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۸۵) ہے.یاد رکھو کہ تمام نبیوں نے اُن لوگوں کو ملعون ٹھہرایا ہے جو نبیوں اور ماموروں سے اقتراحی نشان مانگتے ہیں.دیکھو حضرت عیسی علیہ السلام نے کیا فرمایا کہ اس زمانہ کے حرامکار مجھ سے نشان مانگتے ہیں انہیں کوئی نشان دکھلایا نہیں جائے گا.ایسا ہی قرآن نے ان لوگوں کا نام ملعون رکھا جو لوگ حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تجویز سے نشان مانگا کرتے تھے جن کا بار بار لعنت کے ساتھ قرآن شریف میں ذکر ہے ا جیسا کہ وہ لوگ کہتے تھے فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الاَوَّلُونَ یعنی ہمیں حضرت موسیٰ کے نشان دکھلائے جائیں یا حضرت مسیح کے اور کبھی آسمان پر چڑھ جانے کی درخواست کرتے تھے اور کبھی یہ نشان ما نگتے تھے کہ سونے کا گھر آپ کے لئے بن جائے اور ہمیشہ انہیں نفی میں جواب ملتا تھا.تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک دیکھو کہیں اس بات کا نام و نشان نہ پاؤ گے کہ کسی کافر نے اپنی طرف سے یہ نشان مانگا ہو کہ کسی کی ٹانگ درست کرد و یا آنکھ درست کرد و یا مردہ زندہ کر دو.تو آنحضرت نے وہی کام کر دیا ہو اور نہ انجیل میں اس کی کوئی نظیر ملے گی کہ کفار نشان مانگنے آئے اور انہیں دکھایا گیا بلکہ ایک دفعہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم نے

Page 327

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة الانبياء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ فلاں شخص جس کی نئی شادی ہوئی تھی اور سانپ کے کاٹنے سے مر گیا تھا اُس کو زندہ کر دو تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اپنے بھائی کو دفن کر و.غرض قرآن شریف اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ مکہ کے پلید اور حرامکار کا فر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے نشان مانگا کرتے تھے اور ہمیشہ اس سوال کی منظوری سے محروم رہتے اور خدا تعالیٰ سے لعنتیں سنتے تھے ایسا ہی تمام انجیل پڑھ کر دیکھ لو کہ اقتراحی نشان مانگنے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے گالیاں سنا کرتے تھے.سواے عزیز! کچھ خدا کا خوف کرو عمر کا اعتبار نہیں.خدا تعالیٰ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر کرتا ہے مگر اس سنت کے موافق جو قدیم سے اپنے مامورین سے رکھتا ہے.اور بلاشبہ اس سنت کے التزام سے ایک شخص اگر شیطان بن کر بھی آوے تب بھی اُس کو الہی نشانوں سے قائل کر دیا جائے گا لیکن اگر خدا کی سنت قدیمہ کے مخالف دیکھنا چاہے تو اس کا اُس نعمت سے کچھ حصہ نہیں اور بالیقین وہ ایسا ہی محروم مرے گا جیسا کہ بوجہل وغیر ہ محروم مر گئے.تحفه نفره نوسیه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۵۹،۵۵۸) کفار نے یہی سوال کیا تھا فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ یعنی اگر یہ نبی سچا ہے تو موسیٰ وغیرہ انبیاء بنی اسرائیل کے نشانوں کی مانند نشان دکھاوے اور مشرکین نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مردے ہمارے لئے زندہ کر دیوے یا آسمان پر ہمارے رو برو چڑھ جاوے اور کتاب لا وے جس کو ہم ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں وغیرہ وغیرہ مگر خدائے تعالیٰ نے محکوموں کی طرح ان کی پیروی نہیں کی اور وہی نشان دکھلائے جو اس کی مرضی تھی یہاں تک کہ بعض دفعہ نشان طلب کرنے والوں کو یہ بھی کہا گیا کہ کیا تمہارے لئے قرآن کا نشان کافی نہیں.اور یہ جواب نہایت پر حکمت تھا کیونکہ ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ کہ ان میں اور سحر و مکر و دست بازی وغیرہ میں تفرقہ و تمیز کرنا نہایت مشکل بلکہ محال ہوتا ہے اور دوسرے وہ نشان ہیں جو ان مغشوش کاموں سے بلکلی تمیز رکھتے ہیں اور کوئی شائبہ یا شبہ سحر یا مکر یا دست بازی اور حیلہ گری کا ان میں نہیں پایا جاتا.سو اسی دوسری قسم میں سے قرآن کریم کا معجزہ ہے جو بکلی روشن اور ہر ایک پہلو اور ہر ایک طور سے لعل تاباں کی طرح چمک رہا ہے.لکڑی کا سانپ بنانا کوئی ممیز نشان نہیں ہے.حضرت موسیٰ نے بھی سانپ بنایا اور ساحروں نے بھی اور اب بھی بنائے جاتے ہیں مگر اب تک معلوم نہیں ہوا کہ سحر کے سانپ اور معجزہ کے سانپ میں مابہ الامتیاز کیا ہے.اسی طرح سب امراض میں عمل الترب میں مشق کرنے والے خواہ وہ عیسائی ہیں یا ہندو یا یہودی یا مسلمان یا د ہر یہ اکثر کمال رکھتے ہیں اور البتہ بعض

Page 328

سورة الانبياء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوقات جذام وغیرہ امراض مزمنہ کو بمشیت الہی اسی عمل کی تاثیر سے دور کر دیتے ہیں سوصرف شفا امراض پر حصر رکھنا ایک دھوکہ ہے جب تک اس کے ساتھ پیشگوئی شامل نہ ہو اسی طرح آج کل بعض تماشا کرنے والے آگ میں بھی کو دتے ہیں اور اس کے اثر سے بچ جاتے ہیں سو کیا اس قسم کے تماشوں سے کوئی حقیقت ثابت ہوسکتی ہے.من سلویٰ کا تماشا شاید آپ نے کبھی دیکھا نہیں ایک ایک پیسہ لے کر کشمش وغیرہ برسا دیتے ہیں اگر آپ آج کل کے یورپ کے تماشائیوں کو دیکھیں جو ایک مخفی فریب کی راہ سے سرکاٹ کر بھی پیوند کر دیتے ہیں تو شاید آپ ان کے دست بیچ ہو جا ئیں.مجھے یاد ہے کہ جالندھر کے مقام میں ایک شعبدہ باز تھار جب علی نام نے جو آ خر تو بہ کر کے اس عاجز کے سلسلہ بیعت میں داخل ہو گیا میرے مکان پر ایک مجلس میں شعبدہ دکھلایا تب آپ جیسے ایک بزرگ بول اٹھے کہ یہ تو صریح کرامت ہے.حضرت ایسے کاموں سے ہرگز حقیقت نہیں کھلتی بلکہ اس زمانہ میں تو اور بھی شک پڑتا ہے.بہتیرے ایسے تماشا کرنے والے اور طلسم دکھلانے والے پھرتے ہیں کہ اگر آپ ان کو دیکھیں تو کراماتی نام رکھیں لیکن کوئی عقل مند جس کی آج کل کے شعبدوں پر نظر محیط ہو.ایسے کاموں کا نام نشان بین نہیں رکھ سکتا.مثلاً اگر کوئی شخص ایک کاغذ کے پرچہ کو اپنی بغل میں پوشیدہ کر کے پھر بجائے کاغذ کے اس میں سے کبوتر نکال کر دکھلا دے تو پھر آپ جیسا کوئی آدمی اگر اس کو صاحب کرامات کہے تو کہے مگر ایک عقل مند جو ایسے لوگوں کے فریبوں سے بخوبی واقف ہے ہرگز اس کا نام کرامت نہیں رکھے گا بلکہ اس کو فریب اور دست بازی قرار دے گا اسی وجہ سے قرآن کریم اور توریت میں سچے نبی کی شناخت کے لئے یہ علامتیں قرار نہیں دیں کہ وہ آگ سے بازی کرے یا لکڑی کے سانپ بناوے یا اسی قسم کے اور کرتب دکھلاوے بلکہ یہ علامت قرار دی کہ اس کی پیشگوئیاں وقوع میں آجائیں یا اس کی تصدیق کے لئے پیشگوئی ہو.کیونکہ استجابت دعا کے ساتھ اگر حسب مراد کوئی امر غیب خدا تعالیٰ کسی پر ظاہر کرے اور وہ پورا ہو جائے تو بلاشبہ اس کی قبولیت پر ایک دلیل ہوگی اور یہ کہنا کہ نجومی یارتال اس میں شریک ہیں یہ سراسر خیانت اور مخالف تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ ( الجن : ۲۷، ۲۸) پس جب کہ خدا تعالیٰ نے امور غیبیہ کو اپنے مرسلین کی ایک علامت خاصہ قرار دی ہے.چنانچہ دوسری جگہ بھی فرمایا ہے وَ اِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ (المؤمن : ٢٩ ) تو پھر پیشگوئی کو استخفاف کی نظر سے دیکھنا اور لکڑی کا سانپ بنانے کے لئے درخواست کرنا انہیں مولویوں کا کام ہے جنہوں نے قرآن کریم میں خوض کرنا چھوڑ دیا اور نیز زمانہ کی ہوا سے

Page 329

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠١ سورة الانبياء نشانی آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۳۹۲ تا ۳۹۵) بے خبر ہیں.اولون کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ اب زمانہ ترقی کر گیا ہے پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونٹے کا سانپ بنا کر دکھاتے تو وہ بھلا کب مؤثر ہو سکتا تھا.اس قسم کے نشانات تو ابتدائے زمانہ میں کام آنے والے تھے.جیسے ایک چھوٹے بچہ کے لئے جو پاجامہ سیا گیا ہے وہ اس کے بالغ ہونے پر کب کام آسکتا ہے.اسی طرح پر وہ زمانہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اس قسم کے نشانات کا محتاج نہ تھا بلکہ اس میں بہت ہی اعلیٰ درجے کے خوارق کی ضرورت تھی.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اپنے اندر ایک علمی سلسلہ رکھتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۱ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مشیل موسیٰ تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے عصا کا سانپ بنایا ہو.کافر یہ اعتراض کرتے رہے فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كما أرسل الأولون معجزہ ہمیشہ حالتِ موجوده کے موافق ہوتا ہے پہلے نشانات کافی نہیں ہو سکتے اور نہ ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے نشان کافی ہو سکتے ہیں.الحاکم جلد ۷ نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴) وَمَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا تُوحَى إِلَيْهِمْ فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ) یعنی خدا کی سنتوں اور عادات کا نمونہ یہود اور نصاری سے پوچھ لو اگر تمہیں معلوم نہیں.کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۳) کتب سابقہ میں جو بنی اسرائیلی نبیوں پر نازل ہوئی تھیں صاف اور صریح طور پر معلوم ہوتا ہے بلکہ نام لے کر بیان کیا ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد یورپ کی عیسائی قومیں ہیں اور یہ بیان ایسی صراحت سے ان کتابوں میں موجود ہے کہ کسی طرح اس سے انکار نہیں ہو سکتا.اور یہ کہنا کہ وہ کہتا ہیں محرف مبدل ہیں.ان کا بیان قابل اعتبار نہیں ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن شریف سے بے خبر ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ مومنوں کو قرآن شریف میں فرماتا ہے فستَلُوا أَهْلَ الذِكرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ یعنی فلاں فلاں باتیں اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم بے خبر ہو.پس ظاہر ہے کہ اگر ہر ایک بات میں پہلی کتابوں کی گواہی ناجائز ہوتی تو خدا تعالیٰ کیوں مومنوں کو فرما تا کہ اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہل کتاب سے پوچھ لو بلکہ اگر نبیوں کی کتابوں سے کچھ فائدہ

Page 330

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٢ سورة الانبياء اٹھانا حرام ہے تو اس صورت میں یہ بھی ناجائز ہوگا کہ ان کتابوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بطور استدلال پیشگوئیاں پیش کریں.حالانکہ خود صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد ان کے تابعین بھی ان پیشگوئیوں کو بطور حجت پیش کرتے رہے ہیں.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۳ حاشیه ) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ہمیں حث اور ترغیب دیتا ہے کہ تم ہر ایک واقعہ اور ہر ایک امر کی جو تمہیں بتلایا گیا ہے پہلی اُمتوں میں نظیر تلاش کرو کہ وہاں سے تمہیں نظیر ملے گی.اب ہم اس عقیدے کی نظیر کہ انسان دنیا سے جا کر پھر آسمان سے دوبارہ دنیا میں آسکتا ہے کہاں تلاش کریں اور کس کے پاس جا کر روویں کہ خدا کی گذشتہ عادات میں اس کا کوئی نمونہ بتلاؤ ؟ ہمارے مخالف مہربانی کر کے آپ ہی بتلا دیں کہ اس قسم کا واقعہ بھی پہلے بھی ہوا ہے اور کبھی پہلے بھی کوئی انسان ہزار دو ہزار برس تک آسمان پر رہا؟ اور پھر فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے اُترا.اگر یہ عادت اللہ ہوتی تو کوئی نظیر اس کی گزشتہ قرون میں ضرور ملتی.کیونکہ دُنیا تھوڑی رہ گئی ہے اور بہت گزرگئی اور آئندہ کوئی واقعہ دنیا میں نہیں جس کی پہلے نظیر نہ ہو.حالانکہ جوامر سنت اللہ میں داخل ہے اُس کی کوئی نظیر ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ ہمیں صاف فرماتا ہے فَسَتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ یعنی ہر ایک نئی بات جو تمہیں بتلائی جائے تم اہلِ کتاب سے پوچھ لو وہ تمہیں اس کی نظیر میں بتلائیں گے لیکن اس واقعہ کی یہود اور نصاری کے ہاتھ میں بجز ایلیا کے قصے کے کوئی اور نظیر نہیں اور ایلیا کا قصہ اس عقیدے کے برخلاف شہادت دیتا ہے اور دوبارہ آنے کو بروزی رنگ میں بتلاتا ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۹) وَمَا جَعَلْنَهُمْ جَسَدَّ الاَ يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ دوسری آیت جو عام استدلال کے طریق سے مسیح ابن مریم کے فوت ہو جانے پر دلالت کرتی ہے یہ آیت ب وَمَا جَعَلْتَهُمْ جَسَدٌ إِلا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ یعنی کسی نبی کا ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا جو کھانے کا محتاج نہ ہو اور وہ سب مر گئے کوئی اُن میں سے باقی نہیں.ایسا ہی عام طور پر یہ بھی فرما یاد مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَايِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ - كُلُّ نَفْسٍ ذَابِقَةُ الْمَوْتِ (الانبیاء : ۳۶،۳۵) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۵) مسیح کو زندہ خیال کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ برخلاف مفہوم آیت وَمَا جَعَلْنَهُمْ جَسَدً الَا يَأْكُلُونَ

Page 331

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۳ سورة الانبياء الطعام مسیح جسم خاکی کے ساتھ دوسرے آسمان میں بغیر حاجت طعام کے یونہی فرشتوں کی طرح زندہ ہے در حقیقت خدائے تعالی کے پاک کلام سے روگردانی ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۷۸،۲۷۷) جب ہم اس آیت پر بھی نظر ڈالیں کہ جو اللہ جلشائہ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ کوئی جسم کسی بشر کا ہم نے ایسا نہیں بنایا کہ بغیر روٹی کے زندہ رہ سکے تو ہمارے مخالفوں کے عقیدہ کے موافق یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ آسمان پر روٹی بھی کھاتے ہوں پاخانہ بھی پھرتے ہوں اور ضروریات بشریت جیسے کپڑے اور برتن اور کھانے کی چیزیں سب موجود ہوں.مگر کیا یہ سب کچھ قرآن اور حدیث سے ثابت ہو جائے گا ؟ ہر گز نہیں.آخر ہمارے مخالف یہی جواب دیں گے کہ جس طرز سے وہ آسمان پر زندگی بسر کرتے ہیں وہ انسان کی معمولی زندگی سے نرالی ہے اور وہ انسانی حاجتیں جو زمین پر زندہ انسانوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب اُن سے دور کر دی گئی ہیں اور اُن کا جسم اب ایک ایسا جسم ہے کہ نہ خوراک کا محتاج ہے اور نہ پوشاک کا اور نہ پاخانہ کی حاجت انہیں ہوتی ہے اور نہ پیشاب کی.اور نہ زمین کے جسموں کی طرح اُن کے جسم پر زمانہ اثر کرتا ہے اور نہ وہ اب مکلف احکام شرعیہ ہیں.تو اس کا یہ جواب ہے کہ خدائے تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے کہ ان تمام خاکی جسموں کے لئے جب تک زندہ ہیں.یہ تمام لوازم غیر منفک ہیں جیسا کہ اس نے فرمایا وَ مَا جَعَلْتَهُم جَسَدٌ الاَ يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ - ظاہر ہے کہ اس آیت میں مجو کے ذکر سے کل مراد ہے یعنی گو اتنا ہی ذکر فرمایا کہ کسی نبی کا جسم ایسا نہیں بنایا گیا جو بغیر طعام کے رہ سکے.مگر اس کے ضمن میں گل و لوازم ونتائج جو طعام کو لگے ہوئے ہیں سب اشارة النص کے طور پر فرما دیئے.سو اگر مسیح ابن مریم اسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گیا ہے تو ضرور ہے کہ طعام کھا تا ہو اور پاخانہ اور پیشاب کی ضروری حاجتیں سب اس کی دامنگیر ہوں کیونکہ کلام الہی میں کذب جائز نہیں.اور اگر یہ کہو کہ در اصل بات یہ ہے کہ مسیح اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گیا بلکہ یہ جسم تو زمین میں دفن کیا گیا اور ایک اور نورانی جسم مسیح کو ملا جو کھانے پینے سے پاک تھا اس جسم کے ساتھ اُٹھایا گیا تو حضرت یہی تو موت ہے جس کا آخر آپ نے اقرار کر لیا.ہمارا بھی تو یہی مذہب ہے کہ مقدس لوگوں کوموت کے بعد ایک نورانی جسم ملتا ہے اور وہی نور جو وہ ساتھ رکھتے ہیں جسم کی طرح اُن کے لئے ہو جاتا ہے سو وہ اس کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل انہ فرماتا ہے.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: 11) یعنی پاک روحیں جو نورانی

Page 332

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة الانبياء الوجود ہیں خدائے تعالیٰ کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح اُن کا رفع کرتا ہے یعنی جس قدر عمل صالح ہو اُسی قدر روح کا رفع ہوتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۲، ۳۳۳) جب ہم اس آیت مذکورہ بالا کو اس دوسری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھیں کہ مَا جَعَلْتُهُمْ جَسَد الا يَا كُنُونَ الطَّعَام جس کے یہ معنے ہیں کہ کوئی ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا کہ زندہ تو ہومگر کھانا نہ کھاتا ہو.تو اس یقینی اور قطعی نتیجہ تک ہم پہنچ جائیں گے کہ فی الواقعہ حضرت مسیح فوت ہو گئے کیونکہ پہلی آیت سے ثابت ہو گیا کہ اب وہ کھانا نہیں کھاتے اور دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ جب تک یہ جسم خا کی زندہ ہے طعام کھانا اس کے لئے ضروری ہے.اس سے قطعی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اب وہ زندہ نہیں ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۶) در حقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح کی موت پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ جبکہ کوئی جسم خا کی بغیر طعام کے زندہ نہیں رہ سکتا یہی سنت اللہ ہے تو پھر حضرت مسیح کیوں کر اب تک بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب : (۱۳).اور اگر کوئی کہے کہ اصحاب کہف بھی تو بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں.تو میں کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی بھی اس جہان کی زندگی نہیں.مسلم کی حدیث سو برس والی اُن کو بھی مار چکی ہے.بیشک ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اصحاب کہف بھی شہداء کی طرح زندہ ہیں.اُن کی بھی کامل زندگی ہے.مگر وہ دنیا کی ایک ناقصہ کثیفہ زندگی سے نجات پاگئے ہیں.دنیا کی زندگی کیا چیز ہے اور کیا حقیقت.ایک جاہل اسی کو بڑی چیز سمجھتا ہے اور ہر ایک قسم کی زندگی کو جو قرآن شریف میں مذکور و مندرج ہے اسی کی طرف گھسیٹتا چلا جاتا ہے.وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ دنیوی زندگی تو ایک ادنی درجہ کی زندگی ہے جس کے ارذل حصہ سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے اور جس کے ساتھ نہایت غلیظ اور مکر وہ لوازم لگے ہوئے ہیں.اگر ایک انسان کو اس سفلی زندگی سے ایک بہتر زندگی حاصل ہو جائے اور سنت اللہ میں فرق نہ آوے تو اس سے زیادہ اور کون سی خوبی ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۶، ۴۲۷) کو اَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهُوَ الَّا تَخَذْ نَهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَعِلِينَ.(۱۸) وَأَى فَائِدَةٍ لَكُمْ فِي حَيَاتِ الْمَسِيحِ اور سیح علیہ السلام کی زندگی میں تم کو بجز اس کے کیا

Page 333

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة الانبياء به أيها التولى مِن غَير أَنَّكُمْ تَنْصُرُونَ پہ فائدہ ہے کہ پادریوں کو مدددیتے ہو اور زمانہ کی طرف النَّصَارَى أَفَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى الزَّمَانِ وَقَد نہیں نظر کرتے ہو اور نہیں دیکھتے ہو کہ کس قدر مسلمان نَزَلَتْ عَلَيْكُمْ بَلِيَّةٌ عُظمى وَتَنَظَرَ فَوْج ممن نصرانی ہو گئے اور کس قدر خدا کے بندے ہلاک قَوْمِكُمْ وَاحِبَّاءِ كُمْ وَهَلَكَتِ الْبِلادُ ہو گئے.خدا کے بندوں پر بڑی بلا اتری.اگر خدا کا وَالْعِبَادُ وَاهْتَزَعَرْشُ الرَّحْمٰنِ لِمَا نَزَلَ فَقَصٰی یہی ارادہ ہوتا کہ کسی کو آسمان سے اتارتا جیسا کہ تمہارا ما قطى وَلَوْ أَرَادَ الله أن يُنزِلَ اَحَدا تین گمان ہے تو بہتر یہ تھا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو السَّمَاءِ كَمَا زَعَمْتُمْ لَكَانَ خَيْرًا لَكُمْ آن آسمان سے اتارتا.خدا نے جو فر ما یا تم نے اب تک يُنَيْلَ نَبِيَّكُمُ الْمُصْطَفَى آمَا قَرَدْتُمْ قَوْلَهُ نہیں پڑھا کہ اگر ہم بیٹا بناتے تو اپنے پاس سے بیٹا تَعَالَى لَوْ أَرَدْنَا اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّا أَخَذْنَاهُ مِن بناتے.یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو.اس آیت لَّدُنَا يَعْنِي مُحَمَّدًا فَانْظُرُوا نَظَرًا.میں تدبر کو.(ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۲۷،۱۲۶) لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَهُ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَنَا فَسُبْحْنَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ اس ( یعنی خدا تعالیٰ.ناقل ) کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا کو گان فِيهِمَا الهَةُ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَنَا ( الانبياء : ٢٣) - وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ الهِ الخ (المؤمن : ۹۲ ) یعنی اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کا ملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پا تا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد ان میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور ان کے آرام کے لئے دوسروں کا بر باد کر ناروار کھتا.پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۹،۵۱۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ہم لوگ جو خدا تعالیٰ کو رب العرش کہتے ہیں تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اور جسم ہے اور عرش کا

Page 334

سورة الانبياء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام محتاج ہے بلکہ عرش سے مراد وہ مقدس بلندی کی جگہ ہے جو اس جہان اور آنے والے جہان سے برابر نسبت رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو عرش پر کہنا درحقیقت ان معنوں سے مترادف ہے کہ وہ مالک الکونین ہے اور جیسا کہ ایک شخص اونچی جگہ بیٹھ کر یا کسی نہایت اونچے محل پر چڑھ کر یمین و یسار نظر رکھتا ہے.ایسا ہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ بلند سے بلند تخت پر تسلیم کیا گیا ہے جس کی نظر سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں نہ اس عالم کی اور نہ اس دوسرے عالم کی.ہاں اس مقام کو عام سمجھوں کے لئے اوپر کی طرف بیان کیا جاتا ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ حقیقت میں سب سے اوپر ہے اور ہر یک چیز اس کے پیروں پر گری ہوئی ہے تو اوپر کی طرف سے اس کی ذات کو مناسبت ہے مگر اوپر کی طرف وہی ہے جس کے نیچے دونوں عالم واقع ہیں اور وہ ایک انتہائی نقطہ کی طرح ہے جس کے نیچے سے دو عظیم الشان عالم کی دو شاخیں نکلتی ہیں اور ہر ایک شاخ ہزار ہا عالم پر مشتمل ہے جن کا علم بجز اس ذات کے کسی کو نہیں جو اس نقطہ انتہائی پر مستوی ہے جس کا نام عرش ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ بلندی جو اوپر کی سمت میں اس انتہائی نقطہ میں متصور ہو.جو دونوں عالم کے اوپر ہے وہی عرش کے نام سے عند الشرع موسوم ہے اور یہ بلندی باعتبار جامعیت ذاتی باری کی ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ مبدء ہے ہر یک فیض کا اور مرجع ہے ہر یک چیز کا اور مسجود ہے ہر یک مخلوق کا اور سب سے اونچا ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور کمالات میں ورنہ قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہر یک جگہ ہے جیسا کہ فرمایا أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ الله (البقرۃ:۱۱۲) جدھر منہ پھیر وادھر ہی خدا کا منہ ہے اور فرماتا ہے هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمُ (الحديد : ۵) یعنی جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: ۱۷) یعنی ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں یہ تینوں تعلیموں کا ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰) نمونہ ہے.لا يُسْلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ.خدا اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ کیوں ایسا کیا لیکن بندے پوچھے جائیں گے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۰ حاشیه ) وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں.(براہین احمدیہ چہار ص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)

Page 335

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اس کے کاموں کی اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا کہ ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہیں کیا اور وہ اپنے بندوں کے افعال اقوال کی باز پرس کرتا ہے.ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۴) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَد اسبحْنَة بَلْ عِبَادَ مَكْرَمُونَ ) وَقَالَ فِي مَقَامٍ وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ اور ایک مقام میں فرماتا ہے کہ عیسائی کہتے ہیں کہ عیسیٰ ولد اسبُحْنَةٌ بَلْ عِبَادُ مَّكْرَمُونَ - خدا کا بیٹا ہے.خدا بیٹوں سے پاک ہے بلکہ یہ عزت دار نورالحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۰۰) بندے ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا پکڑا.پاک ہے وہ بیٹوں سے بلکہ یہ بندے عزت دار ہیں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۸) 19913 عِبَادُ مُكْرَمُونَ.....وہ عزت پانے والے بندے ہیں.(ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۴) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمُ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ وَهُم مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ.......وہ خدائے تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمُ اِنّى إِلهُ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِى الظلمين اور اگر کوئی کہے کہ میں بھی بمقابلہ خدائے تعالیٰ ایک خدا ہوں تو ایسے شخص کو ہم واصل جہنم کریں اور ظالموں کو ہم یہی سزاد یا کرتے ہیں.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جو شخص یہ بات کہے کہ میں خدا ہوں بجز اس سچے خدا کے تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۸)

Page 336

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۸ سورة الانبياء وَمَنْ يَقُل مِنْهُم إلى الهُ مِن دُونِه اور جو ان میں سے یہ کہے کہ بدوں خدا کے میں بھی خدا فَذلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذلِكَ نَجْزِی ہوں سو ایسے شخص کی سزا جہنم ہوگی اور اسی طرح ہم ظالموں کو الظَّلِمِينَ وَاشْتَرَطَ قَوْلَ الظَّالِمِین سزاد یا کرتے ہیں اور قرآن نے جو ظالمین کے لفظ کے ساتھ يلفظ مِن دُونِهِ لِيُخْرِجُ بِهِ قَوْمًا أَصْبَى من دونه کی شرط لگادی ہے اور کہا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ الحِبُّ قُلُوبَهُمْ وَهَيَّجَ كُرُوبَهُمْ حَتَّی میں خدا کے سوا خدا ہوں سو یہ شرط من دونه کی یعنی سوا کی غَلَبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَحْوِيَّةُ وَالشَّكْرُ اس واسطے لگائی ہے تا ان لوگوں کو ظالم ہونے سے مستقلی رکھے وَجُنُونُ الْعَاشِقِينَ فَخرجت من جن کے دلوں کو ان کے دوست حقیقی نے اپنی طرف کھینچ لیا أَفْوَاهِهِمْ كَلِمَاتٌ فِي مَقَامِ الْفَتَاء اور ان کے دلوں میں بے قراریاں پیدا کر دیں یہاں تک کہ النَّظرِي وَالْجَنَّبَاتِ السَّمَاوِي وَ وَرَدَ ان کے دلوں پر محویت اور سکر اور عاشقوں ساجنون آگیا عَلَيْهِمْ وَارِدُ فَكَانُوا مِن الْوَالِهِينَ، سوفا نظری کی حالت اور جذب سماوی کے وقت میں ان کے فَقَالَ بَعْضُهُمْ مَا فى جنتى إِلَّا الله منہ سے کچھ ایسی باتیں نکل گئیں اور بعض واردات ان پر وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ يَدِيَ هَذِهِ يَدُ اللہ ایسے وارد ہوئے کہ وہ عشق کی مستی سے بے ہوشوں کی طرح وَقَالَ بَعْضُهُمْ أَنا وَجْهُ الله الذى ہو گئے سو بعض نے اس مستی کی حالت میں کہا کہ میرے جبہ وَجَهْتُمْ إِلَيْهِ، وَأَنَا جَنبُ اللهِ الَّذِی میں خدا ہی ہے اور کوئی نہیں اور بعض نے کہا کہ میرا یہ ہاتھ خدا کا فَرَّطْتُمْ فِيْهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ أَنَا أَقُولُ ہاتھ ہے اور بعض نے کہا کہ میں ہی وجہ اللہ ہوں جس کی طرف وَأَنا أَسْمَعُ، فَهَلْ فِي النَّارِ غَیرتی، وَقَالَ تم نے منہ کیا اور میں ہی جنب اللہ ہوں جس کے حق میں تم بَعْضُهُمْ أَنَا الْحَق فَهُؤُلاءِ كُلُّهُمْ نے تقصیر کی اور بعض نے کہا کہ میں ہی کہتا ہوں اور میں ہی مُعَقِّرُونَ فَإِنَّهُمْ نَطْقُوا مِنْ غَلَبَةٍ سنتا ہوں اور میرے سوا اور گھر میں کون ہے اور بعض نے کہا كَمَالِ الْمَحْوِيَّةِ وَالْإِنْكِسار، لا من کہ میں ہی حق ہوں سو یہ تمام لوگ مرفوع القلم ہیں کیونکہ وہ الرُّعُونَةِ وَالْإِسْتِكْبَارٍ، وَحَفَّتْ بهم کمال محویت سے بولے ہیں نہ رعونت اور تکبر سے اور عالم سُكْرُ صَهْبَاءِ الْعِشقِ وَجَدَبَاتُ الْحِبْ شراب عشق کے نشہ اور دوست برگزیدہ کے جذبات نے ان الْمُخْتَارِ، فَخَرَجَتْ هَذِهِ الْأَصْوَاتُ مِن کو گھیر لیا سو یہ آواز میں فنا کی کھڑکی سے نکلیں نہ تکبر کے بالا خُوْجَةِ الْفَتَاءِ لَا مِنْ غُرْفَةِ الخيلاء وما خانہ سے اور دون اللہ کی طرف انہوں نے قدم نہیں اٹھایا

Page 337

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة الانبياء نَقَلُوا الْأَقْدَامَ إِلى دُوْنِ اللهِ بَلْ فَنَوْا في بلکہ حضرت کبریا میں فنا ہو گئے سو کچھ شک نہیں کہ ان پر ان خطرَةِ الْكِبْرِيَاءِ ، فَلا شَكَ أَنَّهُمْ غَيْرُ كلمات سے کوئی ملامت نہیں.اور ان کے ان کلمات کی مَلُومِينَ، وَلَا يَجورُ ايْبَاعُ كَلِمَاعُهُمْ پیروی جائز نہیں اور نہ یہ روا ہے کہ ان کی مشابہت کی وَحِرْصُ مُضَاهَا عِهِمْ ، بل هِيَ كَلِم يَجِبُ خواہش کی جائے بلکہ یہ ایسے کھلے ہیں کہ لیٹنے کے لائق ہیں أَنْ تُطوَى لَا أَن تُرْوَى، وَلَا يُؤَاخِذُ اللهُ إِلَّا نہ اظہار کے لائق اور خدا تعالیٰ انہیں سے مواخذہ کرتا ہے الَّذِينَ كَانُوا مِن الْمُتَعَدِينَ الْمُجْتَرِثِينَ جو عدا چالاکی سے ایسے کلمے منہ پر لاویں.(نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۰۱،۱۰۰) دیا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) أو لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ المَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ) آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا.برائین احمد یه چهار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۱ حاشیه در حاشیه نمبر (۳) زمین و آسمان بند تھے اور حقائق و معارف پوشیدہ ہو گئے تھے سو ہم نے ان کو اس شخص کے بھیجنے سے کھول از الداو بام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۴) قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے اَو لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ المَاءِ كُلَّ شَيْ : حَى - الجزو نمبر ۷ الیعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بند تھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.سو کافروں نے تو آسمان اور زمین بنتا نہیں دیکھا اور نہ ان کی گٹھڑی دیکھی.لیکن اس جگہ روحانی آسمانی اور روحانی زمین کی طرف اشارہ ہے جس کی گٹھڑی کفار عرب کے رو برو کھل گئی اور فیضانِ سماوی زمین پر جاری ہو گئے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۰ تا ۱۹۲ حاشیه در حاشیه ) آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھول دیا یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۰)

Page 338

۳۱۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اعْلَمُوا أَيُّهَا الأَعِزَّةُ أَنَّ السَّمَاء وَ الْأَرْضَ عزیزو! جان لو کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے اللہ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقَهُمَا الله فَكُشِطَتِ تعالیٰ نے انہیں کھول دیا.سو اس کے حکم سے آسمان سے السَّمَاءُ بِأَمْرِه وَ صُدِعَتْ وَ نُزِّلَتْ نَوَادِرُ و پردہ بنا یا گیا اور نو دار و عجائبات کو ظاہر کر دیا گیا تا اللہ خرِجَتْ لِيَبْتَلِيَ اللهُ عِبَادَهُ إِلى أَتِي جِهَةٍ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لے کہ وہ کس طرف مائل يَمِيلُونَ.وَ تَقَدَّمَتْ نَوَادِرُ الْأَرْضِ عَلی ہوتے ہیں اور زمین کے عجائبات آسمان کے عجائبات سے تَوَادِرِ السَّمَاءِ فَاغْتَرَ النَّاسُ بِصَنَائِعِهَا وَ پہلے لوگوں کے سامنے نمودار ہو گئے اس لئے لوگ اس عَجَائِبِ عُلُومِهَا وَغَرَائِبٍ فُنُونِهَا وَكَادُوا کے صنائع اور عجیب علوم و فنون پر فریفتہ ہو گئے اور قریب يَهْلَكُونَ.فَنَظَرَ الرَّبُّ الْكَرِيمُ إِلَى تھا کہ وہ ہلاک ہو جائیں تب رب کریم نے زمین کی الْأَرْضِ وَ رَاهَا حَمَلُوةٌ مِنَ الْمُهْلِكَاتِ وَ طرف دیکھا کہ وہ مہلکات اور مفسدات سے بھر گئی ہے مُتَرعَةٌ مِن الْمُفْسِدَاتِ وَ رَأَى الخلق اور یہ کہ مخلوق اس کے عجائبات پر فریفتہ ہو گئی ہے اور مَفْتُونَا بِنَوَادِرِهَا وَ رَأَى الْمُتَنَظِرِينَ عیسائیوں کو دیکھا کہ وہ گمراہ ہو چکے ہیں اور دوسروں کو گمراہ أَنَّهُمْ ضَلُّوا وَيُضِلُّونَ وَرَأَى فَلا سفَعَهُمُ کر رہے ہیں اور ان کے فلاسفروں کو دیکھا کہ انہوں نے اخْتَلَبُوا النَّاسَ بِعُلُومِهِمْ وَ نَوَادِرِ اپنے علوم اور نادر فنون کے ذریعہ لوگوں کے دل گرویدہ بنا فُنُونِهِمْ فَوَقَعَتْ تِلْكَ الْعُلُومُ فِي قُلُوبِ لئے ہیں.سو یہ علوم نو جوانوں کے دلوں میں اس طور پر الأحداث يموقع عَظِيمٍ كَانَهُمْ گھر کر گئے کہ گویا ان پر جادو کر دیا گیا ہے.پس وہ سُحِرُ والجَنبُوا إِلَى الشَّهَوَاتِ وَاسْتِيفاء خواہشات اور لذات کے اسیر ہوکر چوپائیوں اور حشرات اللّذَّاتِ وَالتَّحَقُوا بِالْبَهَائِمِ وَالْحَشَرات و الارض کے ساتھ جا شامل ہوئے.انہوں نے اپنے رب، عَصَوْا رَبَّهُمْ وَأَبَوَيْهِمْ وَ آكَابِرَهُمْ و والدین اور بزرگوں کی نافرمانی کی اور آزادی ان کے أشربُوا في قُلُوبِهِمُ الْحُريَّةُ وَ غَلَبَتْ دلوں میں رچ گئی اور ان پر بے حیائی اور فسق و فجور غالب عَلَيْهِمُ الْخَلَاعَةُ وَالْمُجُوْنُ فَأَرَادَ اللهُ آن آگیا تب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ اپنی کتاب کی عزت يَحْفَظَ عِزَّةَ كِتَابِهِ وَ دِيْن طلابه مِن فِتَنِ اور اپنے عشاق کے دین کو ان نوادرات کے فتنہ سے محفوظ تِلْكَ التَّوَادِرٍ كَمَا وَعَدَ في قَوْلِهِ إِنا نَحْنُ کرے جیسا کہ اس نے اپنے کلام میں وعدہ فرمایا تھا اپنا نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ اِنّا لَهُ لَحفِظُونَ - فَأَنجَزَ نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ سو اس نے اپنا الحجر :١٠

Page 339

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة الانبياء مَعِيَ w.وَعْدَهُ وَ أَيَّدَ عَبْدَهُ فَضْلًا مِّنْهُ وَ رَحْمَةً و وعدہ پورا کیا اور اپنے خاص فضل اور رحمت سے اپنے بندہ أوْحَى إِلَى أَنْ أَقومَ بِالإِنْذَارِ وَ الزَل معنی کی مدد فرمائی اور مجھ پر وحی نازل کی کہ میں انذار کا فریضہ نَوَادِرُ النّاتِ وَ الْعُلُومِ وَ القَائِيْدَاتِ ادا کروں.اس نے میرے ساتھ نادر نکات اور علم اور مِنَ السَّمَاء لِيَكْسِرِيهَا نَوَادِرَ الْمُنتَظِرِينَ تائیدات آسمانی اتاریں تا اُن کے ذریعہ نصاریٰ کے وَ صَلِيْبَهُمْ وَ يَحْتَقِرَأَدَبَهُمْ وَأَدِيبَهُمُ نو اور اور ان کی صلیب کو توڑ دے اور ان کے ادب اور وَيُدحِضَ مُجَتَهُمْ وَ يُفْحِمَ بَعِيْدَهُمْ وَ ادیبوں کو ذلیل کر دے اور ان کے دلائل کو غلط ثابت قَرِيْبَهُمْ فَمَظْهَرُ نَوَادِرِ الْأَرْضِ وَ فِتَيها کرے اور ان کے دور و نزدیک کا منہ بند کر دے پس هُوَ الَّذِي سُمّى بِالرّجالِ الْمَعْهُودِ.وَمَظْهَرُ زمینی نوا در عجائبات اور اس کے فتنوں کا مظہر وہ ہے جس کا نَوَادِرِ السَّمَاءِ وَ انْوَارِهَا هُوَ الَّذِى سُمتی نام دجال معہود ہے اور آسمان کے نوادر وانوار کا مظہر وہ ہے بِالْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خَصْمَانِ تَقَابَلاً في جس کا نام سیح موعود ہے اور یہ دونوں فریق ایک ہی وقت زَمَنِ وَاحِدٍ فَلْيَسْتَمِعِ الْمُسْتَمِعُونَ میں ایک دوسرے کے مقابل پر آگئے.پس سننے والے (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۹ تا ۴۸۱) اس بات کو خوب اچھی طرح سن لیں.( ترجمہ از مرتب ) اِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا زمین و آسمان دونوں بند تھے اس زمانہ میں دونوں فَقيقتا في هَذَا الزَّمَانِ لِيُبْعَلى الصَّالِحُونَ کھل گئے تاکہ نیکوں اور بدوں کا امتحان ہو جائے اور ہر وَالظَّالِحُونَ وَكُلٌّ بِمَا عَمِلَ يُنجزی- فَأَخرج ایک گروہ اپنے اعمال کی جزا سزا پاوے پس خدا تعالیٰ اللهُ مِنَ الْأَرْضِ مَا كَانَ مِنَ الْأَرْضِ نے کچھ چیزیں زمین کی زمین سے نکالیں اور جو کچھ وَانْزَلَ مِنَ السَّمَاء مَا كَانَ مِن السَّمَوَاتِ آسمان سے اتارنا تھا اتارا.ایک گروہ نے زمینی فریبوں الْعُلى فَفَرِيقٌ عُلِّمُوا مَكَائِدَ الْأَرْضِ سے تعلیم پائی اور دوسرے گروہ کو وہ چیزیں دیں جو انبیاء وَفَرِيقٌ أَعْطُوا مَا أُعْطِيَ الرُّسُلُ مِنَ الْهُدی کو دی تھیں اس جنگ میں آسمان والوں کو فتح حاصل وَقُدِرَ الْفَتْحُ لِلسَّمَاوِيِّينَ فِي هَذَا الْوَثْی ہوئی تم چاہو ایمان لاؤ یا نہ لاؤ خدا تعالیٰ اپنے بندہ کو وَإِن تُؤْمِنُوا اَوْ لَا تُؤْمِنُوا لَن يَتْرُكَ اللهُ جسے اصلاح خلق کے لئے بھیجا ہے ہرگز نہ چھوڑے گا اور الْعَبْدِ الَّذى اَرْسَلَه لِلْوَرى وَلَا تُضَاعُ خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اندھے کے انکار سے آفتاب کو الشَّمْسُ لإنكار الأعلى فَرِيْقَانِ يَختَصِمَانِ ضائع کرے.دو فریق ہیں جو آپس میں جھگڑتے ہیں.

Page 340

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٢ سورة الانبياء في الرُّشْدِ وَالْهَوَى وَفُتِحَتْ لِفَرِيقِ أَبْوَابُ ایک گروہ کے لئے دروازے زمین کے کھولے گئے الْأَرْضِ إِلى تَحْتِ الثَّرَى وَلِلقَانِي ابواب اور دوسرے گروہ کے لئے آسمانی دروازے کھولے السَّمَاءِ إِلى سِدرَةِ الْمُنْتَهى أَمَّا الَّذِيْنَ گئے لیکن جس گروہ کے لئے زمینی دروازے کھولے فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ آبْوَابُ الْأَرْضِ فَهُمْ گئے وہ شیطان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ گروہ جس يَتَّبِعُونَ شَيْطَانَهُمُ الَّذِی اغْوَی وَالَّذِيْنَ کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے وہ انبیاء فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فَهُمْ وُرَنَاء کے وارث ہیں اور ہر ایک طرح سے پاک وصاف النَّبِيِّينَ وَقَوْمٌ مُطَهَّرُونَ مِن كُلِ شُح وَهَوَى ہیں.قوم کو پروردگار کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو يَدْعُونَ قَوْمَهُمْ إِلى رَبِّهِمْ وَيَمْنَعُونَهُمْ ما برائیوں سے بچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کے ساتھ يُشْرَكُ بِهِ فِي الْأَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ الْعُلی کسی چیز کوزمین و آسمان میں شریک نہ کرنا چاہئے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۲۷ تا ۱۲۹) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے جن کے جو ہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونوں کے جو ہر ظاہر کر دیئے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۷) کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہانئی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بندر ہے.آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۷ حاشیہ ) وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْ ءٍ حَى یعنی ہر ایک چیز پانی سے ہی زندہ ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۵) وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ.(۳۴) آج کل کے علم ہیئت کے محققین جو یورپ کے فلاسفر ہیں جس طرز سے آسمانوں کے وجود کی نسبت خیال رکھتے ہیں در حقیقت وہ خیال قرآن کریم کے مخالف نہیں کیونکہ قرآن کریم نے اگر چہ آسمانوں کو نر ا پول تو نہیں ٹھہرایا لیکن اس سماوی مادہ کو جو پول کے اندر بھرا ہوا ہے صلب اور کثیف اور متعسر الخرق مادہ بھی قرار نہیں دیا

Page 341

۳۱۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء بلکہ ہوا یا پانی کی طرح نرم اور کثیف مادہ قرار دیا جس میں ستارے تیرتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ہاں یونانیوں نے آسمانوں کو اجسام کثیفہ تسلیم کیا ہوا ہے اور پیاز کے چھلکوں کی طرح نہ بتہ ان کو مانا ہے اور آخری تہ کا آسمان جو تمام تہوں پر محیط ہورہا ہے جمیع مخلوقات کا انتہا قرار دیا ہے جس کو وہ فلک الافلاک اور محدد بھی کہتے ہیں جو ان کے زعم میں معہ تین اور آسمانوں کے جن کا نام مدیر اور جوز ہر اور مائل ہے مشرق سے مغرب کی طرف گردش کرتا ہے اور باقی آسمان مغرب سے مشرق کی طرف گھومتے ہیں اور ان کے گمان میں فلک محدد معمورہ عالم کا منتہا ہے جس کے پیچھے خلا ملا نہیں.گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ممالک مقبوضہ کی ایک دیوار پھینچی ہوئی ہے جس کا ماورا کچھ بھی نہیں نہ خلا نہ ملا.یونانیوں کی اس رائے پر جس قدر اعتراض وارد ہوتے ہیں وہ پوشیدہ نہیں نہ صرف قیاسی طور پر بلکہ تجربہ بھی ان کا مکذب ہے جس حالت میں آج کل کے آلات دور بین نہایت دور کے ستاروں کا بھی پتہ لگاتے جاتے ہیں اور چاند اور سورج کو ایسا دکھا دیتے ہیں کہ گویا وہ پانچ چار کوس پر ہیں تو پھر تعجب کا مقام ہے کہ باوجود یکہ آسمان یونانیوں کے زعم میں ایک کثیف جو ہر ہے اور ایسا کثیف جو قابل خرق و التیام نہیں اور اس قدر بڑا کہ گویا چاند اور سورج کو اس کی ضخامت کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہیں.پھر بھی وہ ان دور بین آلات سے نظر نہیں آسکا.اگر دور کے آسمان نظر نہیں آتے تھے تو سماء الدنیا جو سب سے قریب ہے ضرور نظر آ جانا چاہئے تھا پس کچھ شک نہیں کہ جو یونانیوں نے عالم بالا کی تصویر دکھائی ہے وہ صحیح نہیں اور اس قدر اس پر اعتراض پیدا ہوتے ہیں کہ جن سے مخلصی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں لیکن قرآن کریم نے جو سموات کی حقیقت بیان کی ہے وہ نہایت صحیح اور درست ہے جس کے ماننے کے بغیر انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا اور اس کی مخالفت میں جو کچھ بیان کیا جائے وہ سراسرنا واقعی یا تعصب پر مبنی ہو گا.قرآن کریم نہ آسمانوں کو یونانی حکماء کی طرح طبقات کثیفہ ٹھہراتا ہے اور نہ بعض نادانوں کے خیال کے موافق نرا پول جس میں کچھ بھی نہیں.چنانچہ شق اول کی معقولی طور پر غلطی ظاہر ہے جس کی نسبت ہم ابھی بیان کر چکے ہیں.اور شق دوم یعنی یہ کہ آسمان کچھ بھی وجود مادی نہیں رکھتا نرا پول ہے استنقرا کی رو سے سراسر خلاط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم اس فضا کی نسبت جو چمکتے ہوئے ستاروں تک ہمیں نظر آتا ہے بذریعہ اپنے تجارب استقرائیہ کے تحقیقات کرنا چاہیں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ سنت اللہ یا قانون قدرت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی فضا کو محض خالی نہیں رکھا چنانچہ جو شخص غبارہ میں بیٹھ کر ہوا کے طبقات کو چیرتا چلا جاتا ہے وہ شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر وہ اوپر کو چڑھا

Page 342

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة الانبياء اس نے کسی حصہ فضا کو خالی نہیں پایا پس یہ استقر اہمیں اس بات کے سمجھنے کے لئے بہت مدد دے سکتا ہے کہ اگر چہ یونانیوں کی طرح آسمان کی حد بست نا جائز ہے مگر یہ بھی تو درست نہیں ہے کہ آسمانوں سے مراد صرف ایک خالی فضا اور پول ہے جس میں کوئی مخلوق مادہ نہیں ہم جہاں تک ہمارے تجارب رویت رسائی رکھتے ہیں کوئی مجرد پول مشاہدہ نہیں کرتے پھر کیوں کر خلاف اپنی مستمر استقر ا سکے حکم کر سکتے ہیں کہ ان مملو فضاؤں سے آگے چل کر ایسے فضا بھی ہیں جو بالکل خالی ہیں.کیا بر خلاف ثابت شدہ استقرا کے اس وہم کا کچھ بھی ثبوت ہے ایک ذرا بھی نہیں.پھر کیوں کر ایک بے بنیاد و ہم کو قبول کیا جائے اور مان لیا جائے.ہم کیوں کر ایک قطعی ثبوت کو بغیر کسی مخالفانہ اور غالب ثبوت کے چھوڑ سکتے ہیں اور علاوہ اس کے اللہ جل شانہ کی اس میں کسرشان بھی ہے گویا وہ عام اور کامل خالقیت سے عاجز تھا تبھی تو تھوڑ اسا بنا کر باقی بے انتہا فضا چھوڑ دی اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس استقرائی ثبوت کے انکار میں کہ کوئی فضا کسی جو ہر لطیف سے خالی نہیں کون سی یقینی اور قطعی دلیل ایسے شخصوں کے ہاتھ میں ہے جو مجز دپول کے قائل ہیں یا قائل ہوں.اگر کوئی شخص ایسا ہی اعتقاد اور رائے رکھتا ہے کہ چند مادی کرتوں کے بعد تمام پول ہی پڑا ہے جو بے انتہا ہے تو وہ ہماری اس حجت استقرائی سے صاف اور صریح طور پر ملزم ٹھہر جاتا ہے ظاہر ہے کہ استقر اوہ استدلال اور حجت کی قسم ہے جو اکثر دنیا کے ثبوتوں کو اسی سے مدد لی ہے مثلاً ہمارا یہ قول کہ انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں اور ایک زبان اور دوکان اور وہ عورتوں کی پیشاب گاہ کی راہ سے پیدا ہوتا ہے اور پہلے بچہ پھر جوان اور پھر بڑھا ہوتا ہے اور آخر کسی قدر عمر پا کر مر جاتا ہے اور ایسا ہی ہمارا یہ قول کہ انسان سوتا بھی ہے اور کھاتا بھی اور آنکھوں سے دیکھتا اور ناک سے سونگھتا اور کانوں کے ذریعہ سے سنتا اور پیروں سے چلتا اور ہاتھوں سے کام کرتا اور دوکانوں میں اس کا سر ہے ایسا ہی اور صدہا باتیں اور ہر ایک نوع نباتات اور جمادات اور حیوانات کی نسبت جو ہم نے طرح طرح کے خواص دریافت کئے ہیں ان سب کا ذریعہ بجز استقرا کے اور کیا ہے پھر اگر استقرا میں کسی کو کلام ہو تو یہ تمام علوم درہم برہم ہو جائیں گے اور اگر یہ خلجان ان کے دلوں میں پیدا ہو کہ آسمانوں کا اگر کچھ وجود ہے تو کیوں نظر نہیں آتا.تو اس کا یہ جواب ہے کہ ہر ایک وجود کا مرئی ہونا شرط نہیں جو وجود نہایت لطافت اور بساطت میں پڑا ہے وہ کیوں کر نظر آ جائے اور کیوں کر کوئی دور بین اس کو دریافت کر سکے.غرض سماوی وجود کو خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف قرار دیا ہے چنانچہ اسی کی تصریح میں یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ یعنی ہر یک ستارہ اپنے اپنے آسمان میں جو اس کا مبلغ دور ہے تیر رہا ہے.اور درحقیقت خدا تعالیٰ نے

Page 343

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة الانبياء یونانیوں کے محمدد کی طرح اپنے عرش کو قرار نہیں دیا اور نہ اس کو محدود قرار دیا.ہاں اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ ایک طبقہ قرار دیا ہے جس سے باعتبار اس کی کیفیت اور کمیت کے اور کوئی اعلیٰ طبقہ نہیں ہے اور یہ امر ایک مخلوق اور موجود کے لئے ممتنع اور محال نہیں ہو سکتا.بلکہ نہایت قرین قیاس ہے کہ جو طبقہ عرش اللہ کہلاتا ہے وہ اپنی وسعتوں میں خدائے غیر محدود کے مناسب حال اور غیر محدود ہو.اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے کے کیا معنے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مراد کل ما فی السماء کو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل ہیں.ماسوا اس کے ہر یک جرم لطیف ہو یا کثیف قابل خرق ہے بلکہ لطیف تو بہت زیادہ فرق کو قبول کرتا ہے پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میں بحکم رب قدیر وحکیم ایک قسم کا فرق پیدا ہو جائے.وذلك على الله يسير.بالآخر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہر یک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے اللہ جل شانہ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفجار آسمانوں کا کیوں کر ہو گا در حقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخل بے جا ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے الہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے ہر یک جو بنایا گیا تو ڑا جائے گا اور ہر یک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر یک جسم متفرق اور ذرہ ذرہ ہو جائے گا اور ہر یک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہوگی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفجار کے الفاظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں ان سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ السَّموتُ مَطوِيتُ بِيَمِينِهِ ( الزمر : ۶۸ ) یعنی دنیا کے فتا کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اب دیکھو کہ اگر شق السماوات سے در حقیقت پھاڑ نا مراد لیا جائے تو مطویات کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا کیونکہ اس میں پھاڑنے کا کہیں ذکر نہیں.صرف لیٹے کا ذکر ہے.پھر ایک دوسری آیت ہے جو سورۃ الانبیاء جزو ے ا میں ہے اور وہ یہ ہے يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَى السّجِلِ لِلمكتتب كَمَا بَدَانَا اَوَلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا ۖ إِنَّا كُنَّا فعلين (الانبیاء : ۱۰۵) یعنی ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے

Page 344

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۶ سورة الانبياء اندر لپیٹ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹا یا جائے گا یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے جس میں جائے غور یہ لفظ ہیں.وَتَكُونَ السَّمَوَات پیسییه یعنی لیٹنے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپالے گا اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر یک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہو جائے گی.اور ہر یک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی.اور علل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا اسی کی طرف اشارہ ہے كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن : ۲۷ ۲۸ ) - لِمَن المُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المؤمن : ۱۷) یعنی خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہر یک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت دکھلائے گا اور خدا تعالیٰ کے وعدوں سے مراد یہ بات نہیں کہ اتفاقاً کوئی بات منہ سے نکل گئی اور پھر ہر حال گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا کیونکہ اس قسم کے وعدے خدائے حکیم و علیم کی شان کے لائق نہیں یہ صرف انسان ضعیف البنیان کا خاصہ ہے جس کا کوئی وعدہ تکلف اور ضعف یا مجبوری اور لا چاری کے موانع سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا.اور با ایں ہمہ تقریبات اتفاقیہ پر مبنی ہوتا ہے نہ علم اور یقین اور حکمت قدیمہ پر.مگر خدا تعالیٰ کے وعدے اس کی صفات قدیمہ کے نقاضا کے موافق صادر ہوتے ہیں اور اس کے مواعید اس کی غیر متناہی حکمت کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے.اور اگر اس جگہ کوئی یہ اعتراض پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو سات میں کیوں محدود کیا اس کی کیا وجہ ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ در حقیقت یہ تاثیرات مختلفہ کی طرف اشارہ ہے جو مختلف طبقات سماوی سے مختلف ستارے اپنے اندر جذب کرتے ہیں.اور پھر زمین پر ان تاثیرات کو ڈالتے ہیں.چنانچہ اسی کی تصریح اس آیت میں موجود ہے اللهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ وَ اَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ( الطلاق : ۱۳) - الجز و نمبر ۲۸ یعنی خدائے تعالیٰ نے آسمانوں کو سات پیدا کیا اور ایسا ہی زمینیں بھی سات ہی پیدا کیں اور ان سات آسمانوں کا اثر جو با مرالہی ان میں پیدا ہے سات زمینوں میں ڈالا تا کہ تم لوگ معلوم کر لو کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کے بنانے پر اور ہر ایک انتظام کے کرنے پر اور رنگارنگ کے پیرائیوں میں اپنے کام دکھلانے پر قدرت تامہ رکھتا ہے اور تا تمہارے

Page 345

۳۱۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء علم وسیع ہو جائیں اور علوم وفنون میں تم ترقی کرو اور ہیئت اور طبعی اور طبابت اور جغرافیہ وغیرہ علوم تم میں پیدا ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمتوں کی طرف تم کو متوجہ کریں اور تم سمجھ لو کہ کیسے خدا تعالیٰ کا علم اور اس کی حکمت کا ملہ ہر ایک شے پر محیط ہورہی ہے اور کیسی ترکیب ابلغ اور ترتیب محکم کے ساتھ آسمان اور جو کچھ اس میں ہے اپنا رشتہ زمین سے رکھتا ہے اور کیسے خدا تعالیٰ نے زمین کو قوت قابلہ عطا کر رکھی ہے اور آسمانوں اور ان کے اجرام کو قوت مؤثرہ مرحمت فرمائی ہے اور یادر ہے کہ جس طرح تنزل امر جسمانی اور روحانی دونوں طور پر آسمانوں سے ہوتا ہے اور ملائک کی تو جہات اجرام سماوی کی تاثیرات کے ساتھ مخلوط ہو کر زمین پر گرتی ہیں ایسا ہی زمین اور زمین والوں میں بھی جسمانی اور روحانی دونوں قو تیں قابلیت کی عطا کی گئی ہیں تا قوابل اور مؤثرات میں بکلی مساوات ہو.اور سات زمینوں سے مراوز مین کی آبادی کے سات طبقے ہیں جو نسبتی طور پر بعض بعض کے تحت واقع ہیں اور کچھ بے جانہ ہوگا اگر ہم دوسرے لفظوں میں ان طبقات سبعہ کو ہفت اقلیم کے نام سے موسوم کر دیں لیکن ناظرین اس دھو کہ میں نہ پڑیں کہ جو کچھ ہفت اقلیم کی تقسیم ان یونانی علوم کی رو سے ہو چکی ہے جس کو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حکماء اسلام نے یونانی کتب سے لیا تھا وہ بکلی صحیح اور کامل ہے کیونکہ اس جگہ تقسیم سے مراد ہماری ایک صحیح تقسیم مراد ہے جس سے کوئی معمورہ باہر نہ رہے اور زمین کی ہر ایک جزوکسی حصہ میں داخل ہو جائے ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ اب تک یہ صحیح اور کامل تقسیم معرض ظہور میں بھی آئی یا نہیں بلکہ صرف یہ غرض ہے کہ جو خیال اکثر انسانوں کا اس طرف رجوع کر گیا ہے کہ زمین کو سات حصہ پر تقسیم کیا جائے.یہ خیال بھی گویا ایک الہامی تحریک تھی جو الہی تقسیم کے لئے بطور شاہد ہے.اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں جو خدا تعالیٰ نے کئی بار فرمایا ہے کہ ہم نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا تو یہ امر ضعف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معاً اس کے ارادہ کے ساتھ ہی سب کچھ ہو جانا لازم ہے جیسا کہ وہ آپ ہی فرماتا ہے إِنَّمَا أَمْرَةً إِذا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (يس: ۸۳) یعنی جب خدا تعالیٰ ایک چیز کے ہونے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کا امرایسی قوت اور طاقت اور قدرت اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ اس چیز جو اس کے علم میں ایک علمی وجود رکھتا ہے فقط یہ کہتا ہے کہ ہو تو وہ ہو جاتی ہے.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ قدرت اور طاقت کا مفہوم اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ چیز خوانخواہ بلا توقف ہو جائے اور نہ ارادہ کے مفہوم میں ضروری طور پر یہ بات داخل ہے کہ جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہے وہ اسی وقت ہو جائے بلکہ اسی حالت میں ایک قدرت اور ایک ارادہ کو کامل قدرت اور کامل ارادہ کہا جائے گا جب کہ وہ ایک فاعل کے اصل منشاء کے موافق جلد یا

Page 346

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة الانبياء دیر کے ساتھ جیسا کہ منشا ہو ظہور میں آوے مثلاً چلنے میں کامل قدرت اس شخص کی نہیں کہہ سکتے کہ جلد جلد وہ چل سکتا ہے اور آہستہ آہستہ چلنے سے وہ عاجز ہے بلکہ اس شخص کو کامل القدرت کہیں گے کہ جو دونوں طور جلد اور دیر میں قدرت رکھتا ہو یا مثلاً ایک شخص ہمیشہ اپنے ہاتھ کو مبارکھتا ہے اور اکٹھا کرنے کی طاقت نہیں یا کھڑا رہتا ہے اور بیٹھنے کی طاقت نہیں تو ان سب صورتوں میں ہم اس کو قوی قرار نہیں دیں گے بلکہ بیمار اور معلول کہیں گے غرض قدرت اسی وقت کامل طور پر متحقق ہوسکتی ہے کہ جب کہ دونوں شق سرعت اور بطو پر قدرت ہو اگر ایک شق پر قدرت ہو تو وہ قدرت نہیں بلکہ عجز اور نا توانائی ہے تعجب کہ ہمارے مخالف خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کو بھی نہیں دیکھتے کہ دنیا میں اپنے قضا و قدر کو جلد بھی نازل کرتا ہے اور دیر سے بھی.ہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صفات قہر یہ اکثر جلدی کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور صفات لطیفہ دیر اور توقف کے پیرا یہ میں مثلاً انسان نو مہینے پیٹ میں رہ کر اپنے کمال وجود کو پہنچتا ہے اور مرنے کے لئے کچھ بھی دیر کی ضرورت نہیں مثلاً انسان اپنے مرنے کے وقت صرف ایک ہی ہیضہ کا دست یا تھوڑا سا پانی قے کے طور پر نکال کر راہی ملک بقا ہو جاتا ہے اور وہ بدن جس کی سالہائے دراز میں ظاہری اور باطنی تکمیل ہوئی تھی ایک ہی دم میں اس کو چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے اب جس قدر میں نے اس اعتراض کے جواب میں لکھا ہے میری دانست میں کافی ہے اس لئے میں اسی پر بس کرتا ہوں لیکن یہ بات کھول کر یاد دلانا ضروری ہے کہ ارادہ کاملہ بھی قدرت کا ملہ کی طرح دونوں شقوں سرعت اور بطو کو چاہتا ہے مثلاً ہم جیسا یہ ارادہ کر سکتے ہیں کہ ابھی یہ بات ہو جائے ایسا ہی یہ بھی ارادہ کر سکتے ہیں کہ دس برس کے بعد ہو مثلا ریل اور تار اور صد باکلیس جواب نکل رہی ہیں بے شک ابتدا سے خدا تعالیٰ کے ارادہ اور علم میں تھیں لیکن ہزار ہا برس تک ان کا ظہور نہ ہوا اور وہ ارادہ تو ابتدا ہی سے تھا مگر مخفی چلا آیا اور اپنے وقت پر ظاہر ہوا اور جب وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو ان فکروں اور سوچوں میں لگا دیا اور ان کی مدد کی یہاں تک کہ وہ اپنی تدبیروں میں کامیاب ہو گئے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۸ تا ۱۷۱ حاشیه در حاشیه ) اور پھر اس جگہ ایک اور نکتہ قابل یادداشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفا الہام پاتے ہیں قبول فیوض الہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرہ استعداد فطرت با ہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع ہوتا ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے

Page 347

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ سورة الانبياء رابطہ محبت قومی ہوتا ہے اور کسی کا اقومی.اور کسی کا اس قدر کہ دنیا اس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی معقل اس کے انتہا تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ اپنے محبوب ازلی کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ وریشہ ان کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ ہمو جب آیت كُلِّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ اپنے دائرہ استعدا د فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے اور کوئی ان میں سے اپنے دائرہ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتاب نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعداد فطرت کے موافق اپنا چہرہ اس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہو جاتا ہے اور کہیں بڑا.(حقیقۃ الوحی، رحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸،۲۷) وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَا بِنْ مِتَ فَهُمُ الْخَلِدُونَ.(۳۵) یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ زندہ اور ایک حالت پر رہنے والا نہیں بنایا پس کیا اگر تو مر گیا تو یہ لوگ باقی رہ جائیں گے.اس آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمام لوگ ایک ہی سنت اللہ کے نیچے داخل ہیں اور کوئی موت سے بچا نہیں اور نہ آئندہ بچے گا اور لغت کے رو سے خلود کی مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہے کیونکہ تغیر موت اور زوال کی تمہید ہے.پس نفی خلود سے ثابت ہوا کہ زمانہ کی تاثیر سے ہر ایک شخص کی موت کی طرف حرکت ہے اور پیرانہ سالی کی طرف رجوع اور اس سے مسیح ابن مریم کا بوجہ امتداد زمانہ اور شیخ فانی ہو جانے کے باعث سے فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۸،۴۲۷) كُلُّ نَفْسٍ ذَابِقَةُ الْمَوْتِ وَ نَبْلُوكُم بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا دورود ترجعون ) یعنی ہر نفس موت کا مزہ چکھے گا اور پھر ہماری طرف واپس کئے جاؤ گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۵ حاشیه ) وَ اِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ تَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوا أَهْذَا الَّذِي يَذْكُرُ

Page 348

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ج الهَتَكُم وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَنِ هُمْ كَفَرُونَ إِن تَتَّخِذُونَكَ إِلا هُزُوا اور مجھے انہوں نے ایک جنسی کی جگہ بنا رکھا ہے.انجام آتھم، روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۵۷) کرو.خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُورِيكُمُ ايْتِى فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ سورة الانبياء (ترجمه از مرتب) انسان کی فطرت میں جلدی ہے.عنقریب میں تم کو اپنے نشان دکھلاؤں گا.سو تم مجھ سے جلدی تو مت (برائین احمدیہ چہار شخص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۴۵ حاشیہ نمبر ۱۱) وَيَقُولُونَ مَتَى هُذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ ) یعنی کا فر پوچھتے ہیں کہ یہ دعویٰ پورا کب ہوگا اگر تم سچے ہو تو تاریخ عذاب بتاؤ.براتین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه (۲۵۳) b قُلْ مَنْ يَعْلَؤُكُمْ بِاليْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِم معْرِضُونَ یعنی ان کافروں اور نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے یعنی اس کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور برائین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۴۹ حاشیه ۱۱) جلد تر نہیں پکڑتا.بَلْ مَتَعْنَا هَؤُلَاءِ وَ آبَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (۴۵ طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور امراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ ائمتہ الکفراخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت موسی کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے ان سب میں فرعون بچا رہا.

Page 349

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٢١ سورة الانبياء چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا کہ نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطرافها یعنی ابتداعوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالی کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں تو یہ کرنی ہوتی ہے یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷) خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے آنا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أطرافها یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں اس میرے بیان میں ان بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آگیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۶) وَهُذَا ذِكرٌ مُبْرَكَ اَنْزَلْنَهُ أَفَانْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ) قرآن شریف صرف سماع کی حد تک محدود نہیں ہے کیونکہ اس میں انسانوں کے سمجھانے کے لئے بڑے بڑے معقول دلائل ہیں اور جس قدر عقائد اور اصول اور احکام اس نے پیش کئے ہی ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نہیں جس میں زبردستی اور تحکم ہو جیسا کہ اس نے خود فرما دیا کہ یہ سب عقائد وغیرہ انسان کی فطرت میں پہلے سے منقوش ہیں اور قرآن شریف کا نام ذکر رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے هذا ذكر مبرك یعنی یہ قرآن با برکت کوئی نئی چیز نہیں لا یا بلکہ جو کچھ انسان کی فطرت اور صحیفہ قدرت میں بھرا پڑا ہے اس کو یاد دلاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۳) قلنا ينارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَّما عَلَى إِبْرَاهِيمَ.اگر خدائے تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور ربوبیت تامہ کو قوانین محدوده محصورہ میں ہی منحصر سمجھا جائے تو جس چیز کو غیر محدود تسلیم کیا گیا ہے اس کا محدود ہونالازم آ جائے گا.پس بر ہموسماج والوں کی یہی بھاری غلطی ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں اور ربوبیتوں کو اپنے تنگ اور منقبض تجارب کے دائرہ میں گھسیڑنا چاہتے ہیں

Page 350

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیہ ۳۲۲ سورة الانبياء اور نہیں سمجھتے کہ جو امور ایک قانون مشخص مقرر کے نیچے آجائیں ان کا مفہوم محدود ہونے کو لازم پڑا ہوا ہے اور جو حکمتیں اور قدرتیں ذات غیر محدود میں پائی جاتی ہیں ان کا غیر محدود ہونا واجب ہے.کیا کوئی دانا کہ سکتا ہے کہ اس ذات قادر مطلق کو اس اس طور پر بنانا یاد ہے اور اس سے زیادہ نہیں.کیا اس کی غیر متناہی قدرتیں انسانی قیاس کے پیمانہ سے وزن کی جاسکتی ہیں یا اس کی قادرانہ اور غیر متناہی حکمتیں تصرف فی العالم سے کسی وقت عاجز ہو سکتی ہیں یا بلا شبہ اس کا پر زور ہاتھ ذرہ ذرہ پر قابض ہے اور کسی مخلوق کا قیام اور بقا اپنی مستحکم پیدائش کے موجب سے نہیں بلکہ اسی کے سہارے اور آسرے سے ہے اور اس کی ربانی طاقتوں کے آگے بے شمار میدان قدرتوں کے پڑے ہیں نہ اندرونی طور پر کسی جگہ انتہا ہے اور نہ بیرونی طور پر کوئی کنارہ ہے.جس طرح یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مشتعل آگ کی تیزی فرو کرنے کے لئے خارج میں کوئی ایسے اسباب پیدا کرے جن سے اس آگ کی تیزی جاتی رہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس آگ کی خاصیت احراق دور کرنے کے لئے اُسی کے وجود میں کوئی ایسے اسباب پیدا کر دے جن سے خاصیت احراق دور ہو جائے کیونکہ اس کی غیر متناہی حکمتوں اور قدرتوں کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور جب ہم اس کی حکمتوں اور قدرتوں کو غیر متناہی مان چکے تو ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اس بات کو بھی مان لیں کہ اس کی تمام حکمتوں اور قدرتوں پر ہم کو علم حاصل ہو نا ممتنع اور محال ہے سو ہم اس کی نا پیدا کنار حکمتوں اور قدرتوں کے لئے کوئی قانون نہیں بنا سکتے اور جس چیز کی حدود ہمیں معلوم ہی نہیں اس کی پیمائش کرنے سے ہم عاجز ہیں.ہم بنی آدم کی دنیا کا نہایت ہی تنگ اور چھوٹا سا دائرہ ہیں اور پھر اس دائرہ کا بھی پورا پورا ہمیں علم حاصل نہیں.پس اس صورت میں ہماری نہایت ہی کم ظرفی اور سفاہت ہے کہ ہم اس اقل قلیل پیمانہ سے خدائے تعالیٰ کی غیر محدودحکمتوں اور قدرتوں کو نا اپنے لگیں.(برائین احمد یه چهار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۸۱ تا ۴۸۸ حاشیہ نمبر ۱۱) اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس بات کے ماننے سے کہ خدا تعالی کی غیر متناہی حکمت استحالات غیر متناہیہ پر قادر ہے.حقائق اشیاء سے امان اٹھ جاتا ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ اس بات پر قادر سمجھا جائے کہ پانی کی صورت نوعیہ کو سلب کر کے ہوا کی صورت نوعیہ اس جگہ رکھ دے یا ہوا کی صورت نوعیہ کو سلب کر کے آگ کی صورت نوعیہ اس کی قائم مقام کر دے یا آگ کی صورت نوعیہ کو سلب کر کے ان مخفی اسباب سے جو اس کے علم میں ہیں پانی کی صورت نوعیہ میں لے آوے یا مٹی کو کسی زمین کی تہ میں تصرفات لطیفہ سے سونا بنادے یا

Page 351

۳۲۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء سونے کو مٹی بنا دے تو اس سے امان اٹھ جائے گا اور علوم و فنون ضائع ہو جائیں گے.تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر فاسد ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالٰی اپنی مخفی حکمتوں کے تصرف سے عناصر وغیرہ کو صد با طور کے استحالات میں ڈالتا رہتا ہے ایک زمین کو ہی دیکھو کہ وہ انواع اقسام کے استحالات سے کیا کچھ بنتی رہتی ہے اس سے سم الفار نکل آتا ہے اور اسی سے فاذ زہر اور اسی سے سونا اور اسی سے چاندی اور اسی سے طرح طرح کے جواہرات اور ایسا ہی بخارات کا صعود ہو کر کیا کیا چیزیں ہیں جو جو آسمان میں پیدا ہو جاتی ہیں انہیں بخارات میں سے برف گرتی ہے اور انہیں سے اولے بنتے ہیں اور انہیں میں سے برق اور انہیں میں سے صاعقہ اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کبھی جو آسمان سے راکھ بھی گرتی ہے تو کیا ان حالات سے علم باطل ہو جاتے ہیں یا امان اٹھ جاتا ہے اور اگر یہ کہو کہ ان چیزوں میں تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کی فطرت میں ان تمام استحالات کا مادہ رکھا ہے تو ہمارا یہ جواب ہوگا کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا ہے کہ اشیا متنازعہ فیہا میں ایسا مادہ متشار کہ نہیں رکھا گیا بلکہ صحیح اور سچا مذ ہب تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنی ذات میں واحد ہے تمام اشیاء کو شئے واحد کی طرح پیدا کیا ہے تا وہ موجد واحد کی وحدانیت پر دلالت کریں.سوخدا تعالیٰ نے اسی وحدانیت کے لحاظ سے اور نیز اپنی قدرت غیر محدودہ کے تقاضا سے استحالات کا مادہ اُن میں رکھا ہے اور بجز اُن روحوں کے جو اپنی سعادت اور شقاوت میں خُلِدِينَ فِيهَا ابدا ( الجن : ۲۴) کے مصداق ٹھہرائے گئے ہیں اور وعدہ الہی نے ہمیشہ کے لئے ایک غیر متبدل خلقت ان کے لئے مقرر کر دی ہے باقی کوئی چیز مخلوقات میں سے استحالات سے بچی ہوئی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو ہر وقت ہر یک جسم میں استحالہ اپنا کام کر رہا ہے یہاں تک کہ علم طبعی کی تحقیقاتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تین برس تک انسان کا جسم بدل جاتا ہے اور پہلا جسم ذرات ہو کر اڑ جاتا ہے.مثلاً اگر پانی ہے یا آگ ہے تو وہ بھی استحالہ سے خالی نہیں اور دو طور کے استحالے ان پر حکومت کر رہے ہیں ایک یہ کہ بعض اجزا نکل جاتے ہیں اور بعض اجزا جدیدہ آملتے ہیں.دوسرے یہ کہ جو اجز انکل جاتے ہیں وہ اپنی استعداد کے موافق دوسرا جنم لے لیتے ہیں.غرض اس فانی دنیا کو استحالات کے چرخ پر چڑھائے رکھنا خدا تعالیٰ کی ایک سنت ہے اور ایک بار یک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں بوجہ وحدت مبدء فیض اپنی اصل ماہیت میں ایک ہی ہیں گو ان چیزوں کا کامل کیمیا گر انسان نہیں بن سکتا اور کیوں کر بنے حکیم مطلق نے اپنے اسرار حکمیہ غیر متناہیہ پر کسی دوسرے کو محیط نہیں کیا.اور اگر یہ کہو کہ اجرام علوی میں استحالات کہاں ہیں تو میں کہتا ہوں کہ بیشک ان میں بھی

Page 352

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ سورة الانبياء استحالات اور تحلیلات کا مادہ ہے گو ہمیں معلوم نہ ہو تبھی تو ایک دن زوال پذیر ہو جائیں گے.ماسوا اس کے ہزار ہا چیزوں کے استحالات پر نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ کوئی چیز استحالہ سے خالی نہیں.سوتم پہلے زمین کے استعمالات سے انکار کر لو پھر آسمان کی بات کرنا.تو کار زمین را نکو ساختی که با آسمان نیز پرداختی غرض جب انواع اقسام کے استحالات ہر روز مشاہدہ میں آتے ہیں اور وحدت ذاتی الہی کا یہ تقاضا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا منبع اور مبدء ایک ہو اور خدا تعالیٰ کی الوہیت تامہ بھی تبھی قائم رہ سکتی ہے کہ جب ذرہ ذرہ پر اس کا تصرف تام ہو تو پھر یہ استبعاد اور یہ اعتراض کہ ان استحالات سے امان اٹھ جائے گا اور علوم ضائع ہوں گے اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے اور ہم جو کہتے ہیں کہ اللہ جل شانہ قادر ہے کہ پانی سے آگ کا کام لیوے یا آگ سے پانی کا کام تو اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ اپنی حکمت غیر متناہی کو اس میں دخل نہ دے یونہی تحکم سے کام لے لیوے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل آمیزش حکمت سے خالی نہیں اور نہ ہونا چاہئے بلکہ ہمارا یہ مطلب ہے کہ جس وقت وہ پانی سے آگ کا کام یا آگ سے پانی کا کام لینا چاہے تو اس وقت اپنی اس حکمت کو کام میں لائے گا جو اس عالم کے ذرہ ذرہ پر حکومت رکھتی ہے گو ہم اس سے مطلع ہوں یا نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ جو حکمت کے طور پر کام ہو وہ علوم کو ضائع نہیں کرتا بلکہ علوم کی اس سے ترقی ہوتی ہے.دیکھو مصنوعی طور پر پانی کی برف بنائی جاتی ہے یا برقی روشنی پیدا کی جاتی ہے.تو کیا اس سے امان اٹھ جاتا ہے یا علم ضائع ہو جاتے ہیں.اس جگہ ایک اور ستر یا در رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ اولیاء سے جو خوارق کبھی اس قسم کے ظہور میں آتے ہیں کہ پانی ان کو ڈبو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کی بے انتہا اسرار پر انسان حاوی نہیں ہو سکتا اپنے دوستوں اور مقربوں کی توجہ کے وقت بھی یہ کرشمہ قدرت دکھلاتا ہے کہ وہ تو مجہ عالم میں تصرف کرتی ہے اور جن ایسے مخفی اسباب کے جمع ہونے سے مثلاً آگ کی حرارت اپنے اثر سے رُک سکتی ہے خواہ وہ اسباب اجرام علوی کی تاثیریں ہوں یا خود مثلاً آگ کی کوئی مخفی خاصیت یا اپنے بدن کی ہی کوئی مخفی خاصیت یا ان تمام خاصیتوں کا مجموعہ ہو وہ اسباب اس تو حجہ اور اس دعا سے حرکت میں آتی ہیں.تب ایک امر خارق عادت ظاہر ہوتا ہے مگر اس سے حقائق اشیاء کا اعتبار نہیں اٹھتا اور نہ علوم ضائع ہوتے ہیں بلکہ یہ تو علوم الہیہ میں سے خود ایک علم ہے اور یہ اپنے مقام پر ہے اور مثلاً یہ

Page 353

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة الانبياء آگ کا محرق بالخاصیت ہونا اپنے مقام پر.بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ روحانی مواد ہیں جو آگ پر غالب آ کر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور اپنے وقت اور اپنے محل سے خاص ہیں.اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کامل خدا تعالیٰ کی روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر یک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو، آگ میں ڈال دووہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اور ہر یک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے.یہ معرفت کا اخیری بھید ہے جو بغیر صحبت کا ملین سمجھ میں نہیں آ سکتا.چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھر نہایت درجہ نادر الوقوع ہے اس لئے ہر ایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں مگر یاد رکھو کہ ہر یک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے ہر یک چیز پر خدا تعالیٰ کا تصرف ہے اور ہر یک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالی کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑہ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں.جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ (الانعام : ۹۲) کے مصداق ہیں اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتا فوقتا کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سر ہے.بر کاروبار ہستی اثری ست عارفان را ز جهان چه دید آن کس که ندید این جهان را برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷ تا ۳۱ حاشیه ) قلنا ينار كوني بردا و سلما یعنی ہم نے کہا کہ اے تپ کی آگ سرد اور سلامتی ہو جا.( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۸) قُلْنَا يُنَارُ كُونِي بَرْدَا وَ سَلمًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ تو سر داور سلامتی ہو جا.(براہین احمدیہ چهار تخصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۲ حاشیہ نمبر۱) محقق امر ہے کہ ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواور طبیعت پر آئے تھے مثلاً جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید سے محبت کر کے اپنے تئیں آگ میں ڈال لیا اور پھر قلنا ينار كوني بردا و سلما کی آواز سے صاف بچ گئے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تئیں توحید کے پیار سے اس فتنہ کی آگ میں ڈال لیا جو آنجناب کی بعثت کے بعد تمام قوموں میں گویا تمام دنیا میں بھڑک اٹھی تھی اور پھر آواز وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدة :۶۸) سے جو خدا کی آواز تھی اس آگ سے صاف

Page 354

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۶ سورة الانبياء تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۷۶ حاشیه ) بچائے گئے.یہ سچی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا.اصل بات یہ ہے کہ وہ خلق اسباب کرتا ہے خواہ ہم کو ان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہو.الغرض اسباب ضرور ہوتے ہیں اس لئے شق القمر يا نَارُ كُونِي بَرْداً وَ سَلمًا “ کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں بلکہ وہ بھی بعض مخفی در مخفی اسباب کے نتائج ہیں اور سچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں.کو تاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اسے نہیں سمجھ سکتے.مجھے تو یہ حیرت آتی ہے کہ جس حال میں یہ ایک امر مسلم ہے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا تو نادان فلاسفر کیوں ان اسباب کی بے علمی پر جو ان معجزات کا موجب ہیں اصل معجزات کی نفی کی جرات کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالی اگر چاہے تو اپنے کسی بندے کو ان اسباب مخفیہ پر مطلع کر دے لیکن یہ کوئی لازم بات نہیں ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۳۷) سید عبدالقادر جیلانی بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن مومن بننا چاہتا ہے تو ضرور ہے کہ اس پر دکھ اور ابتلاء آویں اور وہ یہاں تک آتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو قریب موت سمجھتا ہے اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتا ہے تو رحمت الہیہ کا جوش ہوتا ہے تو قُلْنَا يُنَارُ كُوني برد و سلما کا حکم ہوتا ہے اصل اور آخری بات یہی ہے مگر نہ شنیدہ کہ خدا داری چه غم داری.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ جو کچھ ہے دعا ہی ہے.اس پیرانہ سالی میں گونا گوں تجارب سے یہی حاصل ہوا ہے کہ سوائے خدا کے کوئی شے نہیں نہ سفید کو سیاہ کر سکتے ہیں نہ پرانے کو نیا.پس لازم ہے کہ تو کل کو ہاتھ سے نہ دے.اگر چہ انسان کو بشریت کے تقاضا سے اضطراب ہوتا ہے مگر وہ خاصہ بشریت ہے اور سب انبیاء بھی اس میں شریک ہیں جیسے کہ جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اضطراب ہوا تھا مگر عام لوگوں میں اور انبیاؤں میں یہ فرق ہے کہ عام لوگوں کی طرح انبیاؤں کے اضطراب میں یاس کبھی نہیں ہوتی ان کو اس امر پر پورا یقین ہوتا ہے کہ خدا ضائع کبھی نہ کرے گا.میرا یہ حال ہے کہ اگر مجھے جلتی آگ میں بھی ڈالا جاوے تو بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ ضائع نہ ہوں گا اضطراب تو ہو گا کہ آگ ہے اس سے انسان جل جاتا ہے مگر امید ہوتی ہے کہ ابھی آواز آوے گى يُنَارُ كُونِي بَرِّداً وَ سَلَمًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ لیکن دوسرے لوگوں کے اضطراب میں یاس ہوتا ہے خدا پر ان کو توقع نہیں ہوتی اور یہ کفر ہے بشریت سے جو خوف خدا اور اضطراب پیش کرتی ہے ایمان اسے دفع اور ذب کرتا ہے البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۱)

Page 355

۳۲۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اوامر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک امر شرعی ہوتا ہے جس کے بخلاف انسان کر سکتا ہے دوسرے اوامر کونی ہوتے ہیں جس کا خلاف ہو ہی نہیں سکتا جیسا کہ فرما یا قلنا ينارُ كُوني بردا و سَلَما عَلَى إِبْرَاهِيمَ اس میں کوئی خلاف نہیں ہوسکتا.چنانچہ آگ اس حکم کے خلاف ہر گز نہ کر سکتی تھی.انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دیئے ہیں جیسے آقِیمُوا الصَّلوةَ نماز کو قائم رکھو یا فرمایا وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر کوئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.الحکم جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۱۰ ؍ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۱۵) عرض کیا گیا کہ آریہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے پر اعتراض کرتے ہیں تو فرمایا:.) ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعوی کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں.ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطر ناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا.....! ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں سیالکوٹ میں تھا ایک مکان میں میں اور چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے بجلی پڑی اور ہمارا سارا مکان دھوئیں سے بھر گیا اور اس دروازہ کی چوکھٹ جس کے متصل ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ایسی چیری گئی جیسے آرے سے چیری جاتی ہے مگر اس کی جان کو کچھ بھی صدمہ نہ پہنچا لیکن اسی دن بجلی تیجا سنگھ کے شوالہ پر بھی پڑی اور ایک لمبا راستہ اس کے اندر کو چکر کھا کر جاتا تھا جہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ تمام چکر بجلی نے بھی کھائے اور جا کر اس پر پڑی اور ایسا جلایا کہ بالکل ایک کو ملے کی شکل اسے کر دیا پھر یہ خدا کا تصرف نہیں تو کیا ہے کہ ایک شخص کو بچا لیا اور ایک کو مار دیا.خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وه وعده واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے.پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہر گز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں.یہ طریق انبیاء کا نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِايْدِ يْكُمْ إِلَى الشَّهْلَكَةِ ( البقرة : ١٩٦) پس

Page 356

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ سورة الانبياء ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے اس لئے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی.ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لئے خدا نے اول ہی سے الہام کر دیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“ بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی تجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل حاصل ہو.چونکہ اس دنیا میں بھی ایک بہشت ہے جو مومن کو دیا جاتا ہے اس کے موافق ایک تبدیلی بھی یہاں ہوتی ہے.اس کو ایک خاص قسم کا رعب دیا جاتا ہے جو الہی تجلیات کے پرتو سے ملتا ہے نفس امارہ کے جذبات سے اس کو روک دیا جاتا ہے اور نفس مطمعنہ کی سکینت اور اطمینان اس کو ملتا ہے.اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں یہاں تک کہ جیسے ابراہیم علیہ السلام کو کہا گیا قلنا ينارُ كوني برد و سلما عَلَى ابْراهِيمَ اس طرح پر اس کے لئے کہا جاتا ہے ينارُ كُوني برد و سلما اس آواز پر اس کے سارے جوشوں کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ میں ایک راحت اور اطمینان پالیتا ہے اور ایک تبدیلی اس میں پیدا ہو جاتی ہے.جب تک یہ تبدیلی البدر جلد ۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۶/دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۳) نہ ہو نماز روزہ ، کلمہ زکوۃ وغیرہ ارکان محض رسمی اور نمائشی طور پر ہیں ان میں کوئی روح اور قوت نہیں ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نما پڑھو.زکوۃ دو.خون نہ کرو وغیرہ.اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.دوسرا امر کونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا يُنَارُ كُونِی بَردا و سلما اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۲) فتنہ وفساد کی آگ تو ہر نبی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کوئی ایسا رنگ اختیار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک معجزہ نما طاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتا ہے.ظاہری آتش کا حضرت ابراہیم پرفرو

Page 357

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ سورة الانبياء کر دینا خدا تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل امر نہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں حضرت ابراہیم کے متعلق ان واقعات کی اب بہت تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ ہزاروں سالوں کی بات ہے ہم خود اس زمانہ میں ایسے واقعات دیکھ رہے ہیں اور اپنے او پر تجربہ کر رہے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا تو ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح بھر گیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے مطابق طواف کے واسطه پیچ در پیچ اردگردد یوار بنی ہوئی تھی اور وہ اندر بیٹھا ہوا تھا.بجلی ان تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی کی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہیں دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو میں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اور آدمی بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے انہوں نے کہا کوئی چوہا ہوگا کچھ خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر پھر سو گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی آواز سنی تب میں نے ان کو دوبارہ جگا یا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی.پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہاں سے نکلا ابھی میں دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اور دوسری چھت کو بھی ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور چار پائیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں اور ہم سب بچ گئے.یہ خدا تعالیٰ کی معجزہ نما حفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا.ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہوا پایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا مگر ہر دو بار خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلا یا اور اس آگ کو بجھا دیا.خدا تعالیٰ کے پاس کسی کے بچانے کی ایک راہ نہیں بلکہ بہت راہیں ہیں.آگ کی گرمی اور سوزش کے واسطے بھی کئی ایک اسباب ہیں اور بعض اسباب مخفی در مخفی ہیں جن کی لوگوں کو خبر نہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ اسباب اب تک دنیا پر ظاہر نہیں کئے جن سے اس کی سوزش کی تاثیر جاتی رہے.پس اس میں کون سے تعجب کی بات ہے کہ

Page 358

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ابراہیم پر آگ ٹھنڈی ہو گئی.ج ٣٣٠ سورة الانبياء الحکم جلدا انمبر ۲۰ مورخه ۱۰ جون ۱۹۰۷ صفحه ۴،۳) فَفَهَّبْنَهَا سُلَيْمَنَ وَكُلًّا أتَيْنَا حُكْمًا وَ عِلْمًا ۖ وَ سَخَرْنَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرِ وَكُنَّا فَعِدِينَ پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے یعنی اس عاجز کو.برائن احمد یہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۷۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلمتِ اَنْ لا إلهَ إلا أنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ.فتح البیان اور ابن کثیر اور معالم کو دیکھو یعنی سورۃ الانبیاء سورہ یونس اور والصافات کی تفسیر پڑھو اور تفسیر کبیر صفحہ ۱۸۸ سے غور سے پڑھو تا معلوم ہو کہ ابتلا کی وجہ کیاتھی یہی تو تھی کہ حضرت یونس قطعی طور پر عذاب کو سمجھے تھے اگر کوئی شرط منجانب اللہ ہوتی تو یہ ابتلا کیوں آتا.چنانچہ صاحب تفسیر کبیر لکھتا ہے إِنَّهُمْ لَمَّا لَهُ يُؤْمِنُوا أَوْعَدَهُمْ بِالْعَذَابِ فَلَمَّا كُشِفَ الْعَذَابُ مِنْهُمْ بَعْدَ مَا تَوَغَدَهُمْ خَرَجَ مِنْهُمْ مُغَاضِبًا یعنی یونس نے اس وقت عذاب کی خبر سنائی جبکہ اس قوم کے ایمان سے نومید ہو چکا پس جبکہ عذاب ان پر سے اٹھایا گیا تو غضب ناک ہو کر نکل گیا پس ان تفسیروں سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اول یونس نے اس قوم کے ایمان کے لئے بہت کوشش کی اور جبکہ کوشش بے سود معلوم ہوئی اور پاس کلی نظر آئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ کی وحی سے عذاب کا وعدہ دیا جو تین دن کے بعد نازل ہوگا اور صاحب تفسیر کبیر نے جو پہلا قول نقل کیا ہے اس کے سمجھنے میں نادان شیخ نے دھوکا کھایا ہے اور نہیں سوچا کہ اس کے آگے صفحہ ۱۸۸ میں وہ عبارت لکھی ہے جس سے ثابت ہوا ہے کہ عذاب موت کی پیشگوئی بلا شرط تھی اور یہی آخری قول قول مفسرین اور ابن مسعود اور حسن اور شعبی اور سعید بن جبیر اور وہب کا ہے.پھر ہم کہتے ہیں کہ جس حالت میں وعدہ کی تاریخ ٹلنا نصوص قرآنیہ قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہے جیسا کہ آیت و واعَدْنَا مُوسى ثَلاثِينَ لَيْلَةٌ (الاعراف : ۱۴۳) اس کی شاہد ناطق ہے تو وعید کی تاریخیں جو نزول عذاب پر دال ہوتی ہیں جس کا ٹلنا اور رد بلا ہونا تو بہ اور استغفار اور صدقات سے باتفاق جمیع انبیاء علیہم السلام ثابت ہے پس ان تاریخوں کا ملنا بوجہ اولیٰ ثابت ہوا اور

Page 359

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ سورة الانبياء اس سے انکار کرنا صرف سفیہ اور نادان کا کام ہے نہ کسی صاحب بصیرت کا.اور صاحب تفسیر کبیر اپنی تفسیر کے صفحہ ۱۶۴ میں لکھتے ہیں اِنَّ ذَنْبَهُ يَعْنِي ذَنْبَ يُونُسَ كَانَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَعَدَهُ إِنْزَالَ الْإِهْلَاكِ بِقَوْمِهِ الَّذِينَ كَذَّبُوهُ فَظَنَّ أَنَّهُ نَازِلٌ لَّا فَحَالَةَ فَلِأُجْلِ هَذَا الظَّنِ لَمْ يَصْبِرُ عَلَى دُعَائِهِمْ فَكَانَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَسْتَمِرَّ عَلَى الدُّعَاءِ لِجَوَازِ اَنْ لَّا يُهْلِكَهُمُ اللهُ بِالْعَذَابِ یعنی یونس کا یہ گناہ تھا کہ اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ملا تھا کہ اس کی قوم پر ہلاکت نازل ہوگی کیونکہ انہوں نے تکذیب کی پس یونس نے سمجھ لیا کہ یہ عذاب موت قطعی اور اٹل ہے اور ضرور نازل ہوگا اسی نظن سے وہ دعا ہدایت پر صبر نہ کر سکا اور واجب تھا کہ دعا ہدایت کی کئے جاتا کیونکہ جائز تھا کہ خدا دعائے ہدایت قبول کرلے اور ہلاک نہ کرے.اب بولو شیخ جی کیسی صفائی سے ثابت ہو گیا کہ یونس نبی وعدہ اہلاک کو قطعی سمجھتا تھا اور یہی اس کے ابتلا کا موجب ہوا کہ تاریخ موت مل گئی.اور اگر اس پر کفایت نہیں تو دیکھو امام سیوطی کی تفسیر در منثور سورۃ سوره انبياء قَالَ أَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا دَعَا يُونُسُ عَلَى قَوْمِهِ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ الْعَذَابَ يُصْبِحُهُمُ.....فَلَمَّا رَأَوْهُ جَارُوا إِلَى اللهِ وَ بَكَى النِّسَاء وَالْوِلْدَانُ وَرَغَتِ الإبلُ وَفُضلائهَا وَخَارَتِ الْبَقَرُ وَعَجَاجِيْلُهَا وَلَغَتِ الْغَنَم و سحالُهَا فَرَحِمَهُمُ اللهُ وَصَرَفَ ذلِكَ الْعَذَابَ عَنْهُمْ وَغَضِبَ يُونُسُ وَقَالَ كُذِبتُ فَهُوَ قَوْلُهُ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا - یعنی ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جبکہ یونس نے اپنی قوم پر بددعا کی.ما سوخدا تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ صبح ہوتے ہی عذاب نازل ہوگا پس جبکہ قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو خدا تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور عورتیں اور بچے روئے اور اونٹنیوں نے ان کے بچوں کے سمیت اور گائیوں نے ان کے بچھڑوں کے سمیت اور بھیڑ بکری نے ان کے بزغالوں کے سمیت خوف کھا کر شور مچایا.پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور عذاب کو ٹال دیا اور یونس غضب ناک ہوا کہ مجھے تو عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا یہ قطعی وعدہ کیوں خلاف واقعہ نکلا.پس یہی اس آیت کے معنے ہیں کہ یونس غضب ناک ہوا.اب دیکھو کہ یہاں تک یونس پر ابتلا آیا کہ کذبٹ اس کے منہ سے نکل گیا یعنی مجھ پر کیوں ایسی وحی نازل ہوئی جس کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی اگر کوئی شرط اس وعدہ کے ساتھ ہوتی تو یونس باوجود یکہ اس کو خبر پہنچ چکی تھی کہ قوم نے حق کی طرف رجوع کر لیا کیوں یہ بات منہ پر لاتا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی.اور اگر کہو کہ یونس کو ان کے ایمان اور رجوع کی خبر نہیں پہنچی تھی اور اس وہم میں تھا کہ باوجود کفر پر باقی رہنے کے عذاب سے بچ گئے اس

Page 360

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ سورة الانبياء لئے اس نے کہا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی سو اس کا دندان شکن جواب ذیل میں لکھتا ہوں جو سیوطی نے زیر آیت وَإِنَّ يُونس الا لکھا ہے قَالَ وَاخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَعَثَ اللَّهُ يُونُسَ إِلَى أَهْلِ قَرْيَةٍ فَرَدُّوْا عَلَيْهِ فَامْتَنَعُوْا مِنْهُ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي مُرْسِلُ عَلَيْهِمُ الْعَذَابَ فِي يَوْمٍ كَذَا وَكَذَا فَخَرَجَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهِمْ فَأَعْلَمَ قَوْمَهُ الَّذِي وَعَدَهُمُ اللهُ مِنْ عَذَابِهِ إِيَّاهُمْ.....فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي وُعِدَ الْعَذَابُ فِي صَبِيْحَيهَا فَرَاهُ الْقَوْمُ فَحَذَرُوا فَخَرَجُوا مِنَ الْقَرْيَةِ إِلى بَرَازِ مِنْ أَرْضِهِمْ وَفَرَّقُوا كُلَّ دَابَّةٍ وَوَلَدِهَا ثُمَّ عَجُوا إِلَى الله واكابُوا وَاسْتَقَالُوا فَأَقَالَهُمُ اللهُ وَانْتَظَرَ يُونُسُ الْخَبَرَ عَنِ الْقَرْيَةِ وَأَهْلِهَا حَتَّى مَرَّ بِهِ مَارٌ فَقَالَ مَا فَعَلَ أهْلُ الْقَرْيَةِ قَالَ فَعَلُوا أَنْ تَخْرُجُوا إِلى بَرَازِ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ فَرَّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذَاتِ وَلَدٍ وَوَلَدِهَا ثُمَّ عَجُوا إِلَى اللهِ وَانَابُوْا فَقُبِلَ مِنْهُمْ وَأَخَرَ عَنْهُمُ الْعَذَابُ فَقَالَ يُونُسُ عِندَ ذلِكَ لا اَرْجِعُ إِلَيْهِمْ كَذَّابًا وَ مَطى عَلى وَجْه - یعنی ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے یہ حدیث لکھی ہے کہ خدا نے یونس نبی کو ایک بستی کی طرف مبعوث کیا پس انہوں نے اس کی دعوت کو نہ مانا اور رک گئے سو جبکہ انہوں نے ایسا کیا تو خدا تعالیٰ نے یونس کی طرف وحی بھیجی کہ میں فلاں دن میں ان پر عذاب نازل کروں گا سو یونس نے اس قوم کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ فلاں تاریخ کو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ان میں سے نکل گیا پس جبکہ وہ رات آئی جس کی صبح کو عذاب نازل ہونا تھا سو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے سو وہ ڈر گئے اور اپنی بستی سے ایک وسیع میدان میں نکل آئے جو انہیں کی زمین کی حدود میں تھا اور ہر یک جانور کو اس کے بچے سے علیحدہ کر دیا یعنی رحیم خدا کے رجوع دلانے کے لئے یہ حیلہ سازی کی جو شیر خوار بچوں کو خواہ وہ انسانوں کے تھے یا حیوانوں کے ان کی ماؤں سے علیحدہ پھینک دیا اور اس مفارقت سے ایک قیامت کا شور اس میدان میں برپا ہوا ماؤں کو ان کے شیر خوار بچوں کو جنگل میں دور ڈالنے سے سخت رقت طاری ہوئی اور اس طرف بچوں نے بھی اپنی پیاری ماؤں سے علیحدہ ہو کر اور اپنے تئیں اکیلے پا کر درد ناک شور مچایا اور اس کارروائی کے کرتے ہی سب لوگوں کے دل درد سے بھر گئے اور نعرے مار مار کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور اس سے معافی چاہی تب رحیم خدا نے جس کی رحمت سبقت لے گئی ہے یہ حال زاران کا دیکھ کر ان کو معاف کر دیا اور ادھر حضرت یونس عذاب کے منتظر تھے اور دیکھتے تھے کہ آج اس بستی اور اس کے لوگوں کی کیا خبر آتی ہے یہاں تک کہ ایک رہ گزر مسافران کے پاس پہنچ گیا انہوں نے پوچھا کہ اس بستی

Page 361

۳۳۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ انہوں نے یہ کارروائی کی کہ اپنی زمین کے ایک وسیع میدان میں نکل آئے اور ہر یک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کر دیا.پھر اس درد ناک حالت میں ان سب کے نعرے بلند ہوئے اور تضرع کی اور رجوع کیا سو خدا تعالیٰ نے ان کی تضرع کو قبول کر لیا اور عذاب میں تا خیر ڈال دی پس یونس نے ان باتوں کوسن کر کہا کہ جبکہ حال ایسا ہوا یعنی جبکہ ان کی تو بہ منظور ہوگئی اور عذاب ٹل گیا تو میں کذاب کہلا کر ان کی طرف نہیں جاؤں گا.سو وہ تکذیب سے ڈر کر اس ملک سے نکل گیا.اب فرمائیے شیخ جی ابھی تسلی ہوئی یا کچھ کسر ہے ظاہر ہے کہ اگر وحی قطعی عذاب کی نہ ہوتی اور کوئی دوسرا پہلو ایمان لانے کا قوم کو جتلایا ہوتا تو وہ میدان میں ایسی درد ناک صورت اپنی نہ بناتے بلکہ شرط کے ایفاء پر عذاب ٹل جانے کے وعدہ پر مطمئن ہوتے ایسا ہی اگر حضرت یونس کو خدا تعالی کی طرف سے علم ہوتا کہ ایمان لانے سے عذاب ٹل جائے گا تو وہ کیوں کہتے کہ اب میں اس قوم کی طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ میں ان کی نظر میں کذاب ٹھہر چکا جبکہ وہ سن چکے تھے کہ قوم نے توبہ کی اور ایمان لے آئی پس اگر یہ شرط بھی ان کی وحی میں داخل ہوتی تو ان کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ پیشگوئی پوری ہوئی نہ یہ کہ وہ وطن چھوڑ کر ایک بھاری مصیبت میں اپنے تئیں ڈالتے قرآن کا لفظ لفظ اسی پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ سخت ابتلا میں پڑے اور حدیث نے کیفیت ابتلا کی یہ بتلائی پس اب بھی اگر کوئی شیخ و شاب منکر ہو تو یہ صریح اس کی گردن کشی ہے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۴) یونہ یعنی یونس نبی کی کتاب میں جو بائبل میں موجود ہے باب ۳ آیت ۴ میں لکھا ہے اور یونہ شہر میں ( یعنی نینوہ میں ) داخل ہونے لگا.اور ایک دن کی راہ جا کے منادی کی اور کہا چالیس اور دن ہوں گے تب نینوہ برباد کیا جائے گا.تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر اعتقاد کیا اور روزہ کی منادی کی اور سب نے چھوٹے بڑے تک ٹاٹ پہنا.۱۰.اور خدا نے ان کے کاموں کو دیکھا کہ وہ اپنی بری راہ سے باز آئے تب خدا اس بدی سے کہ اس نے کہی تھی کہ میں ان سے کروں گا پچھتا کے باز آیا اور اس نے ان سے وہ بدی نہ کی.باب ۴ ۱۳ پر یونہ اس سے ناخوش ہوا اور نپٹ رنجیدہ ہو گیا.۲ اور اس نے خداوند کے آگے دعا مانگی.۳ اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان کو مجھ سے لے لے کیونکہ میرا مرنا میرے جینے سے بہتر ہے.تم کلامہ.اب....ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ یونس نبی کی کتاب سے بھی قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ موت کا عذاب ٹل گیا اور یہ بھی یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ اس پیشگوئی میں کوئی شرط نہ تھی اسی لئے تو یونس نے

Page 362

۳۳۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء رنجیدہ ہو کر دعا کی کہ اب میرا مرنا بہتر ہے......اس معافی سے عیسائیوں کے کفارہ کی بھی بینچ کنی ہوگئی کیونکہ یونس کی قوم صرف اپنی تو بہ اور استغفار سے بچ گئی اور یونس تو یہی چاہتا تھا کہ ان پر عذاب نازل ہو.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۲۳، ۱۲۴ حاشیه ) أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ يَا أُولى الأَلْبَابِ أَنَّ اے عقلمند و اتم جانتے ہو کہ یونس کی قوم عذاب سے بچالی يَا قَوْمَ يُونُسَ عُصِمُوا مِنَ الْعَذَابِ مَعَ گئی حالانکہ خدا تعالی کی پیشگوئی میں تو بہ کی شرط نہیں تھی اور أَنه لَمْ يَكُن شَرْطُ التَّوْبَةِ في نَبا اللہ اسی وجہ سے یونس خدا تعالیٰ سے ناراض ہو کر چلے گئے اور رَبِّ الْأَرْبَابِ وَلِأَجْلِ ذلِكَ ذَهَبَ ابتلاء کے بیابانوں میں سرگرداں پھرتے رہے اور اس واقعہ يُونُسُ مُغَاضِبًا مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاء ، کی بناء پر اللہ نے آپ کا نام یونس رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وَتَاة في فَلَوَاتِ الإبتلاء ولذلك سلمان انہیں مایوسی کے بعد اطمینان وسکون عطا کیا اور نا امیدی کے اللَّهُ يُونُسَ لِأَنَّهُ أُونِسَ بَعْدَ الإِبلاس.بعد با مراد ہوئے اور ارحم الراحمین خدا نے انہیں ضائع ہونے وَفَازَ بَعْدَ الْيَأْسِ وَمَا أَضَاعَةَ أَرْحَمُ سے بچا لیا.یہ سب مصیبت (یونس علیہ السلام) پر محض اس لئے الرَّاحِمِينَ.فَلَا شَكَ أَنَّ الْبَلَاءَ كُلَّهُ وَرَدَ آئی کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی میں کوئی شرط موجود نہ تھی.اور اگر عَلَيْهِ لِعَلْمِ الشَّرْطِ في نَبَا الرَّحْمنِ انہیں کسی شرط کا علم ہوتا تو وہ ناراض ہو کر فرار اختیار نہ کرتے وَلَوْ كَانَ شَرط يَعْلَمُهُ لَمّا فَرّ اور نہ ہی مد ہوشوں کی طرح سرگرداں پھرتے اور جب حضرت كَالْغَضْبَانِ، وَلَمَا تَاةَ كَالْمَجْهُوتِينَ یونس علیہ السلام نے غلط فہمی کی بناء پر استقامت اور استقلال وَلَمَّا تَرَكَ يُونُسُ بِسُوءٍ فَهْمه کوترک کر دیا اور جلا وطنی اور نقل مکانی کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ الْاِسْتِقَامَةَ وَالْإِستقلال، وَتَحَری نے آپ کو مچھلی کے پیٹ میں داخل کر دیا.پھر اس مچھلی نے الجلاء وَالانْتِقَالَ أَدْخَلَهُ اللهُ في بطن آپ کو ایک خشک اور چٹیل میدان میں پھینک دیا.اور یہ الْحُوتِ، ثُمَّ نَبَلهُ الْحُوتُ في عَرَاء سب مشکلات آپ پر اس لئے آئیں کہ انہوں نے اپنی جگہ السُّبُرُوتِ، وَرَاى كُلّ ذلِك بمَا أَعْلَن کو ترک کر کے بیقراری اور تنگ دلی کا اظہار کیا اور اپنے ضَجَرَ قَلْبِهِ بِالْحَرَكَةِ مِنَ الْمَقَامِ مقام کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر چھوڑ دیا اور شتاب وَفَارَقَ مَقَرَّهُ مِنْ غَيْرِ إِذْنِ اللهِ الْعَلامِ کاروں کا رویہ اختیار کیا.اللہ تعالیٰ کا انہیں مچھلی کے پیٹ وَفَعَلَ فِعْلَ الْمُسْتَعْجِلِينَ.وَإِدْخَالُه في میں داخل کرنا اس ناراضگی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے تھا

Page 363

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۵ سورة الانبياء بَطْنِ الْحُوْتِ كَانَ إِشَارَةٌ إِلى مُحَاوَنَةٍ جو آپ سے پریشان خاطر لوگوں کی طرح صادر ہوئی.اسی صَدَرَ مِنْهُ كَالْمَبْهُوتِ، وَكَذلِكَ سَمادُ لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ذوالنون رکھا.کیونکہ آپ سے الله ذَا النُّونِ، مَا ظَهَرَ مِنْهُ حِدَّةٌ وَنُونَ "نون" یعنی تیزی ظاہر ہوئی تھی اور دل میں بھرے ہوئے بِالْغَضَبِ الْمَكْنُونِ، وَلَا يَلِيقُ لِأَحَدٍ أَنْ غصہ کا اظہار ہوا حالانکہ کسی کو خدائے رب العالمین سے يَغْضَبَ عَلى رَبِّ الْعَالَمِينَ.ناراض ہو نا مناسب نہیں.فَالْحَاصِلُ أَنَّ قِصَّةً يُونُسَ في كَلامِ پس حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ الله القدير، دَلِيْل عَلى أَنه قَد يُؤَخَرُ جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی عَذَابُ اللهِ مِنْ غَيْرِ شَرْطٍ يُوجِبُ حُكْمَ بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب بغیر ایسی شرط کے جو پیشگوئی میں مذکور اللہ کا جو التَّأْخِيرِ، كَمَا أُخِرَ فِي نَبَأَ يُونُسَ بَعْدَ ہوتا خیر میں ڈال دیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام الشَّمْهِيرِ، فَكَيْفَ في تبا يُوجَدُ فِیه کی پیشگوئی کی تشہیر کے بعد عذاب کو پیچھے ڈال دیا گیا.پس نَبَأَ فِيْهِ شَرطُ الرُّجُوعِ فَفَكِّرُ بِالْخُضُوع اس پیشگوئی کے وقوع میں تاخیر کا ہو جانا جس میں رجوع کی وَالْخُشُوعِ، وَلَا تَنْسَ حَظَّكَ مِن شرط بھی پائی جاتی ہو کیوں کر قابلِ اعتراض ہوسکتا ہے.پس التَّقْوَى وَالدِّينِ وَإِنَّ قِصَّةً يُونُسَ خشوع و خضوع کے ساتھ غور کرو اور اپنے تقومی اور دین مَوْجُوْدَةٌ فِي الْقُرْآنِ وَالْكُتُبِ السَّابِقَةِ کو نہ بھولو - حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید ، وَالْأَحَادِيثِ التَّبَوَيةِ، وَلَيْسَ هُناك کتب سابقہ اور احادیث نبویہ میں موجود ہے اور وہاں سزا ذِكْرُ شَرْطٍ مَّعَ ذِكْرِ الْعُقُوبَةِ، وَإِن لَّمْ کے ذکر کے ساتھ کسی شرط کا ذکر نہیں.اور اگر تم اس بات کو تَقْبَلْ فَعَلَيْكَ أَن تُرِيْنَا هَرا في تلك ماننے کے لئے تیار نہ ہو تو تم پر لازم ہے کہ اس قصہ میں کوئی الْقِصَّةِ فَلَا تَكُن كَالأَعْلَى مَعَ وُجُودِ شرط ہمیں دکھاؤ.پس بصارت رکھنے کے باوجود نا بینا نہ بنو الْبَصَارَةِ وَاعْلَمُ أَنَّ الشَّرْطَ لَمْ يَكُن اور جان لو کہ اس قصہ میں ہر گز کوئی شرط موجود نہیں تھی.اور أَصْلًا في الْفِضَّةِ الْمَذْكُورَةِ، وَلِأَجْلِ اس لئے حضرت یونس علیہ السلام ابتلاء میں ڈالے گئے اور ذلِكَ ابْتُلِي يُونُسُ وَصَارَ مِن موردِ ملامت ہوئے.آپ پر ہموم وعموم نازل ہوئے اور الْمَلُومِينَ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِ الْهُمُومُ آپ کو تنگی دل نے پکڑ لیا یہاں تک کہ آپ موت کے قریب وَأَخَذَهُ الشَّجَرُ الْمَذْمُومُ، حَتَّی پہنچ گئے اور تمام سابقہ مصائب کو بھول گئے اور انہوں نے

Page 364

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ سورة الانبياء اسْتَشْرَفَ بِهِ التَّلَفُ وَنَسِي كُلّ بَلاء یقین کر لیا کہ وہ سخت آزمائش میں ڈالے گئے ہیں.آپ کا سَلَفٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ مِنَ الْمُقْتَنِينَ فَمَا فتنہ میں پڑنے کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ آپ كَانَ سَبَبُ افْتِنَانِهِ إِلَّا أَنَّهُ اسْتَيْقَنَ نے یہ سمجھا کہ عذاب قطعی اور اٹل ہے اور یہ کہ وہ عذاب آپ أَنَّ الْعَذَابَ قَطعي لا يُرَةُ، وَأَنَّهُ سَيَقَعُ کی خواہش کے مطابق وقتِ مقررہ پر ضرور آئے گا لیکن مقررہ فِي الْمِيعَادِ كَمَا يُوَذُ فَانْقَضَى وقت گزر گیا اور انہوں نے عذاب کی بوتیک بھی نہ سونگھی اور نہ الْمِيْعَادُ وَمَا اسْتَخْشى من الْعَذَابِ وہ اطمینان و سکون کا لباس زیب تن کر سکے.پس اس واقعہ کی ريعًا، وَمَا اسْتَغْشى لِبَاسًا مريحًا.سرگذشت نے آپ کو بے چین کر دیا اور افکار نے آپ پر غلبہ فَأَضْجَرَهُ هَذَا الإِذِكَارُ وَاسْعَهُوتُهُ پالیا اور چونکہ وہ اپنی قوم کی اس حالت کو دیکھ چکے تھے کہ الْأَفكارُ، وَكَانَ رَأَى الْقَوْمَ عَالِین کی وہ خصومت میں حد سے بڑھ گئے اور انہوں نے انکار میں المراء، ومُنتريين بالإباء ، تحسب انه جلد بازی سے کام لیا ہے اس پر آپ نے سمجھ لیا کہ وہ قوم کے مِنَ الْمَغْلُوبِينَ.فَقَالَ لَن أَرجع مقابلہ میں ہار گئے ہیں پس انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ میں إِلَيْهِمْ كَذَابًا وَلَن أَسْمَعَ لَعْن كذاب بن کر اپنی قوم کے پاس واپس نہ جاؤں گا اور نہ ہی الْأَشْرَارِ، وَمَا رَأَى طَرِيقًا تَختَارَه شریروں کے لعن طعن سنوں گا اور آپ کو کوئی راہ نہ سوجھی جسے فَأَلْقَى نَفْسَه في الْبَحْرِ الزَّغْخَارِ اختیار کرتے لاچار آپ نے اپنے آپ کو بحر ذخار میں ڈال دیا فَتَدَارَكَة رحم ربِّهِ وَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ لیکن رحمت الہی نے آپ کو اس رنگ میں بچا لیا کہ انہیں اللہ بِحُكْمِ اللهِ الْجَبَّارِ، وَرَای ما رای کے حکم سے ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور انہوں نے بڑے بِقَلْبٍ حَزِينٍ فَمِنَ الْمَعْلُومِ أَنَّهُ لَو نمکین دل کے ساتھ بہت بڑی مصیبت اُٹھائی.پس معلوم ہوا كَانَ شَرط في نُزُولِ الْعَذَابِ لَمَا کہ اگر نزول عذاب میں کوئی شرط ہوتی تو یونس علیہ السلام اس اضْطَرَّ يُونُسُ إِلى هَذَا الْاِضْطِرَاب، بے قراری کی حالت کو نہ پہنچتے اور ندامت زدہ لوگوں کی طرح وَمَا فَرَّ كَالْمُتَنَدِمِينَ.أَمَا تَقْرَأُ كُتُبَ اپنی قوم سے راہ فرار اختیار نہ کرتے.کیا تم پہلے لوگوں کی کتب الْأَوَّلِينَ وَقَوْلَ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ؟ أَتَجِدُ اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں فِيهَا أَثَرًا مِنَ الشَّرْطِ فانخرج لنا ان پڑھتے.کیا تم ان میں کوئی شرط پاتے ہو.اگر تم سچے ہو تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو.كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

Page 365

۳۳۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء فَالْآنَ مَا رَأَيْكَ فِي أَنْبَاء قُتِدَتْ پس اب ان پیشگوئیوں کے بارہ میں تمہاری کیا رائے بِشَرْطِ الرُّجُوعِ وَالتَّوْبَةِ؟ أَلَيْسَ ہے جنہیں تو بہ اور رجوع کی شرط سے مقید کیا گیا ہے.کیا یہ يَوَاجِبٍ أَن يُرْعَى اللهُ شُرُوطَة بِالْفَضْلِ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل کے ساتھ مقررہ شرائط کا لحاظ رکھے.( ترجمہ از مرتب) والرحمة ؟ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۵ تا ۲۲۸) خدا کریم ہے اور وعید کی تاریخ کو تو بہ اور رجوع کو دیکھ کر کسی دوسرے وقت پر ڈال دینا کرم ہے اور چونکہ اس از لی وعدہ کے رو سے یہ تاخیر خدائے کریم کی ایک سنت ٹھہر گئی ہے جو اس کی تمام پاک کتابوں میں موجود ہے اس لئے اس کا نام تخلف وعدہ نہیں بلکہ ایفا ء وعدہ ہے کیونکہ سنت اللہ کا وعدہ اس سے پورا ہوتا ہے بلکہ تخلف وعدہ اس صورت میں ہوتا کہ جب سنت اللہ کا عظیم الشان وعدہ ٹال دیا جاتا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں کیوں کہ اس صورت میں خدا تعالی کی تمام کتابوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۳۷ حاشیہ ) تمام قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ اگر توبہ استغفار قبل نزول عذاب ہو تو وقت نزول عذاب ٹل جاتا ہے.بائبل میں ایک بنی اسرائیل کے بادشاہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی نسبت صاف طور پر وحی وارد ہو چکی تھی کہ پندرہ دن تک اس کی زندگی ہے پھر فوت ہو جائے گا لیکن اس کی دعا اور تضرع سے خدا تعالیٰ نے وہ پندرہ دن کا وعدہ پندرہ سال کے ساتھ بدلا دیا اور موت میں تا خیر ڈال دی.یہ قصہ مفسرین نے بھی لکھا ہے بلکہ اور حدیثیں اس قسم کی بہت ہیں جن کا لکھنا موجب طول ہے بلکہ علاوہ وعید کے ٹلنے کے جو کرم مولا میں داخل ہے اکا بر صوفیہ کا مذہب ہے جو کبھی وعدہ بھی ٹل جاتا ہے اور اس کا ٹلنا موجب ترقی درجات اہل کمال ہوتا ہے دیکھو فیوض الحرمین شاہ ولی اللہ صاحب اور فتوح الغیب سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہما اور وقتوں اور میعادوں کا ٹلنا تو ایک ایسی سنت اللہ ہے جس سے بجز ایک سخت جاہل کے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت موسی کو نزول توریت کے لئے تیں رات کا وعدہ دیا تھا اور کوئی ساتھ شرط نہ تھی مگر وہ وعدہ قائم نہ رہا اور اس پر دس دن اور بڑھائے گئے جس سے بنی اسرائیل گوسالہ پرستی کے فتنہ میں پڑے.پس جبکہ اس نصٍ قطعی سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے وعدہ کی تاریخ کو بھی ٹال دیتا ہے جس کے ساتھ کسی شرط کی تصریح نہیں کی گئی تھی تو وعید کی تاریخ میں عند الرجوع تاخیر ڈالنا خود کرم میں داخل ہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ اگر تاریخ

Page 366

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة الانبياء عذاب کسی کے توبہ استغفار سے مل جائے تو اس کا نام تخلف وعدہ نہیں کیونکہ بڑا وعدہ سنت اللہ ہے پس جبکہ سنت اللہ پوری ہوئی تو وہ ایفاء وعدہ ہوا نہ تخلف وعدہ.ا مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۴۶ تا ۷ ۴۴) إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الميعاد.....یا درکھنا چاہیے کہ وعدہ سے مراد وہ امر ہے جو علم الہی میں بطور وعدہ قرار پاچکا ہے نہ وہ امر جو انسان اپنے خیال کے مطابق اس کو قطعی وعدہ خیال کرتا ہو.اسی وجہ سے المیعاد پر جوالف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے یعنی وہ امر جو ارادہ قدیمہ میں وعدہ کے نام سے موسوم ہے گوانسان کو اس کی تفاصیل پر علم ہو یا نہ ہو وہ غیر متبدل ہے ورنہ ممکن ہے جو انسان جس بشارت کو وعدہ کی صورت میں سمجھتا ہے اس کے ساتھ کوئی ایسی شرط مخفی ہو جس کا عدم تحقق اس بشارت کی عدم تحقق کے لئے ضرور ہو کیونکہ شرائط کا ظاہر کرنا اللہ جل شانہ پر حق واجب نہیں ہے چنانچہ اسی بحث کو شاہ ولی اللہ صاحب نے بسط سے لکھا ہے اور مولوی عبدالحق صاحب دہلوی نے بھی فتوح الغیب کی شرح میں اس میں بہت عمدہ بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلعم کا بدر کی لڑائی میں تضرع اور دعا کرنا اسی خیال سے تھا کہ الہی مواعید اور بشارات میں احتمال شرط مخفی ہے اور یہ اس لئے سنت اللہ ہے کہ تا اس کی خاص بندوں پر ہیبت اور عظمت الہی مستولی رہیں.ماحصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں بے شک تخلف نہیں وہ جیسا کہ خد تعالی کے علم میں ہیں پورے ہو جاتے ہیں لیکن انسان ناقص العقل کبھی ان کو تخلف کی صورت میں سمجھ لیتا ہے کیونکہ بعض ایسی مخفی شرائط پر اطلاع نہیں پاتا جو پیشگوئی کو دوسرے رنگ میں لے آتے ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ الہامی پیشگوئیوں میں یہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ وہ ہمیشہ ان شرائط کے لحاظ سے پوری ہوتی ہیں جو سنت اللہ میں اور الہی کتاب میں مندرج ہو چکی ہیں گو وہ شرائط کسی ولی کے الہام میں ہوں یا نہ ہوں.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۴۷، ۴۴۸ حاشیه ) دعا بہت بڑی سپر کامیابی کے لئے ہے یونس کی قوم گریہ وزاری اور دعا کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی.میری سمجھ میں معاتبت مغاضبت کو کہتے ہیں اور حوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی.پس حضرت یونس کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی.اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیشگوئی اور دعا یوں ہی رائگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی پس یہی مغاضبت کی حالت تھی.اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فرد قرار داد جرم کو بھی ردی کر دیتے ہیں.اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے.یہ طریق اللہ

Page 367

۳۳۹ سورة الانبياء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو راضی کرنے کے ہیں.علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے اس لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے.انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے.صدقہ اس کو اسی لئے کہتے کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے.حضرت یونس کے حالات میں دُر منثور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا تجھے رحم آجائے گا.این مشت خاک را گر نہ بخشم چه کنم الحکم جلد ۲ نمبر ۲ مورخه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ صفحه ۲) لا إلهَ إلا انت سبحنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ.....یعنی اے خدا تو پاک ہے تیرے سوا اور کوئی نہیں.میں ظالموں میں سے تھا.ست بیچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۱۶) وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَ اَنْتَ خَيْرُ الوِرِثِينَ ) اے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے.(تحفۃ الندوہ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۷) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۵) مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنا دے.الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۹) وَ الَّتِى اَحْصَنَتُ فَرَجَهَا فَنَفَخَنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَهَا وَابْنَهَا ايَةً للعلمينَ إِنَّ هذة أمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ وَتَقَطَّعُوا امرهُم بَيْنَهُمْ كُلٌّ إِلَيْنَا رَجِعُوْنَ ، فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الظَّلِحَتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا b كفرانَ لِسَعيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَتِبُونَ.(۹۵) ۹۴ مریم نے جب اپنے اندام نہانی کو نامحرم سے محفوظ رکھا.یعنی غایت درجہ کی پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اُس کو یہ انعام دیا کہ وہ بچہ اس کو عنایت کیا کہ جو روح القدس کے نفخ سے پیدا ہوا تھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا میں بچے دو قسم کے پیدا ہوتے ہیں (۱) ایک جن میں نفخ رُوح القدس کا اثر ہوتا ہے.اور

Page 368

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ سورة الانبياء ایسے بچے وہ ہوتے ہیں جب عورتیں پاکدامن اور پاک خیال ہوں اور اسی حالت میں استنقر ار نطفہ ہو وہ بچے پاک ہوتے ہیں اور شیطان کا اُن میں حصہ نہیں ہوتا.(۲) دوسری وہ عورتیں ہیں جن کے حالات اکثر گندے اور نا پاک رہتے ہیں.پس ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے جیسا کہ آیت: وَشَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلادِ (بنی اسرائیل : ۶۵) اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں شیطان کو خطاب ہے کہ ان کا مالوں اور بچوں میں حصہ دار بن جا.یعنی وہ حرام کے مال اکٹھا کریں گی اور نا پاک اولا د جنیں گی.ایسا سمجھنا غلطی ہے کہ حضرت عیسی کو نفخ رُوح سے کچھ خصوصیت تھی جس میں دوسروں کو حصہ نہیں.بلکہ نعوذ باللہ یہ خیال قریب قریب کفر کے جا پہنچتا ہے.اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ قرآن شریف میں انسانوں کی پیدائش میں دو قسم کی شراکت بیان فرمائی گئی ہے (۱) ایک رُوح القدس کی شراکت جب والدین کے خیالات پر نا پا کی اور خباثت غالب نہ ہو (۲) اور ایک شیطان کی شراکت جب اُن کے خیال پر نا پا کی اور پلیدی غالب ہو.اسی کی طرف اشارہ اس آیت میں بھی ہے کہ لَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا (نوح:۲۸).پس بلا شبہ حضرت عیسی علیہ السلام اُن لوگوں میں سے تھے جو مس شیطان اور نفخ ابلیس سے پیدا نہیں ہوئے اور بغیر باپ کے ان کا پیدا ہونا یہ امر دیگر تھا جس کو رُوح القدس سے کچھ تعلق نہیں.....روح القدس کے فرزند وہی ہیں جو عورتوں کی کامل پاکدامنی اور مردوں کے کامل پاک خیال کی حالت میں رحم مادر میں وجود پکڑتے ہیں.اور اُن کی ضد شیطان کے فرزند ہیں.خدا کی ساری کتابیں یہی گواہی دیتی آئی ہیں.اور پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو بنی اسرائیل کے لئے اور اُن سب کے لئے جو سمجھیں ایک نشان بنایا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عیسی کو بغیر باپ کے پیدا کر کے بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ تمہاری بداعمالی کے سبب سے نبوت بنی اسرائیل سے جاتی رہی کیونکہ عیسی باپ کے رُو سے بنی اسرائیل میں سے نہیں ہے..(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹۸،۲۹۷) یعنی خدا تعالیٰ نے اس عورت کو ہدایت دی جس نے اپنی شرم گاہ کو نامحرم سے بچایا.پس خدا نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیا اور اس کو اور اس کے بیٹے کو دنیا کے لئے ایک نشان ٹھہرایا اور خدا نے کہا کہ یہ امت تمہاری ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں سو تم میری ہی بندگی کرو مگر وہ فرقہ فرقہ ہو گئے اور اپنی بات کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور باہم اختلاف ڈال دیا اور آخر ہریک ہماری ہی طرف رجوع کرے گا.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۰)

Page 369

۳۴۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اس سوال کے جواب میں کہ اس امر کی تائید میں کہ مریم علیہا السلام نے ساری عمر نکاح نہیں کیا یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں آیا ہے وَالَّتِي اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا - فرمایا ) محصنات تو قرآن شریف میں خود نکاح والی عورتوں پر بولا گیا ہے وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ اور الَّتِى اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا کے معنے تو یہ ہیں کہ اس نے زنا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا.یہ کہاں سے نکلا کہ اس نے سامی عمر نکاح ہی نہیں کیا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) قرآن شریف نے آکر ان دونوں قوموں (یہود و نصاری) کی غلطیوں کی اصلاح کی.عیسائیوں کو بتایا کہ وہ خدا کا رسول تھا خدا نہ تھا اور وہ ملعون نہ تھا مرفوع تھا اور یہودیوں کو بتایا کہ وہ ولد الزنا نہ تھا بلکہ مریم صدیقہ عورت تھی.اَحْصَنَتْ فَرِّجھا کی وجہ سے اس میں نفخ روح ہوا تھا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۳) احْصَنَتْ فَرْجَهَا پر مخالفین کے اس اعتراض پر کہ یہ خلاف تہذیب ہے فرمایا: ) جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیں تو کیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں جب اس نے ان اعضاء کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی.خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعتراض نہیں کرتے ہیں تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟ دیکھنا یہ ہے کہ کیا زبان عرب میں اس لفظ کا استعمال ان کے....عرف کے نزدیک کوئی خلاف تہذیب امر ہے جب نہیں تو دوسری زبان والوں کا حق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلاف تہذیب ٹھہرائیں.ہر سوسائٹی کے عرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں اور تہذیب اور خلاف تہذیب امور الگ.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گرگر جاتے ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں پھر پچھتاتے ہیں تو بہ کرتے ہیں خدا سے پناہ مانگتے ہیں ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے وہ لوگ نفس لوامہ رکھتے ہیں بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فيهَا مِنْ رُوحِنا.ہر ایک مومن جو تقویٰ اور طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور

Page 370

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة الانبياء خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابن مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنے کئے ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اگر یہ معنی نہ کئے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوا مس شیطان سے کوئی محفوظ نہیں.اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا پس در اصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر ایک مومن جو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے.خدا کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ابنِ مریم بن جاتا ہے اور اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ اس امت میں ابنِ مریم پیدا ہو گا تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسی اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحاق اور اسماعیل اور ابراہیم رکھ لیتے ہیں اور ا اس کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے جائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسی یا ابن مریم رکھ دے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۴) کون شخص اس سے انکار کر سکتا ہے کہ ابتدائے زمانہ کے بعد دنیا پر بڑے بڑے انقلاب آئے.پہلے زمانہ کے لوگ تھوڑے تھے اور زمین کے چھوٹے سے قطعہ پر آباد تھے اور پھر وہ زمین کے دُور دُور کناروں تک پھیل گئے اور زبانیں بھی مختلف ہو گئیں اور اس قدر آبادی بڑھی کہ ایک ملک دوسرے ملک سے ایک علیحدہ دنیا کی طرح ہو گیا تو ایسی صورت میں کیا ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک ملک کے لئے الگ الگ نبی اور رسول بھیجتا اور کسی ایک کتاب پر کفایت نہ رکھتا.ہاں جب دنیا نے پھر اتحاد اور اجتماع کے لئے پلٹا کھایا اور ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملاقات کرنے کے لئے سامان پیدا ہو گئے اور باہمی تعارف کے لئے انواع و اقسام کے ذرائع اور وسائل نکل آئے.تب وہ وقت آگیا کہ قومی تفرقہ درمیان سے اٹھا دیا جائے اور ایک کتاب کے ماتحت سب کو کیا جائے تب خدا نے سب دُنیا کے لئے ایک ہی نبی بھیجا تا وہ سب قوموں کو ایک ہی مذہب پر جمع کرے اور تاوہ جیسا کہ ابتداء میں ایک قوم تھی آخر میں بھی ایک ہی قوم بنادے.اور یہ ہمارا بیان جیسا کہ واقعات کے موافق ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کے موافق ہے جوزمین و آسمان میں پایا جاتا ہے کیونکہ اگر چہ اُس نے زمین کو الگ تاثیرات بخشی ہیں اور چاند کو الگ اور ہر ایک ستارہ میں جدا جدا قو تیں رکھی ہیں مگر پھر بھی باوجود اس تفرقہ کے سب کو ایک ہی نظام میں داخل کر دیا ہے اور تمام نظام کا پیشر و آفتاب کو بنایا ہے جس نے ان تمام سیاروں کو انجن کی طرح اپنے پیچھے لگا لیا ہے پس اس سے غور کرنے والی طبیعت سمجھ سکتی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں وحدت ہے ایسا ہی وہ نوع انسان میں

Page 371

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة الانبياء بھی جو ہمیشہ کی بندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں وحدت کو ہی چاہتا ہے اور درمیانی تفرقہ قوموں کا جو باعث کثرت نسل انسان نوع انسان میں پیدا ہوا وہ بھی دراصل کامل وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک تمہید تھی کیونکہ خدا نے یہی چاہا کہ پہلے نوع انسان میں وحدت کے مختلف حصے قائم کر کے پھر ایک کامل وحدت کے دائرہ کے اندر سب کو لے آوے سوخدا نے قوموں کے جُدا جدا گر وہ مقرر کئے اور ہر ایک قوم میں ایک وحدت پیدا کی اور اس میں یہ حکمت تھی کہ تا قوموں کے تعارف میں سہولت اور آسانی پیدا ہو اور ان کے باہمی تعلقات پیدا ہونے میں کچھ دقت نہ ہو اور پھر جب قوموں کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تعارف پیدا ہو گیا تو پھر خدا نے چاہا کہ سب قوموں کو ایک قوم بنا دے جیسے مثلاً ایک شخص باغ لگاتا ہے اور باغ کے مختلف بوٹوں کو مختلف تختوں پر تقسیم کرتا ہے.اور پھر اس کے بعد تمام باغ کے اردگردد یوار کھینچ کر سب درختوں کو ایک ہی دائرہ کے اندر کر لیتا ہے اسی کی طرف قرآن شریف نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ آیت ہے اِنّ هذة أُمَّتُكُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ یعنی اے دنیا کے مختلف حصوں کے نبیو! یہ مسلمان جو مختلف قوموں میں سے اس دنیا میں اکٹھے ہوئے ہیں یہ تم سب کی ایک اُمت ہے جو سب پر ایمان لاتے ہیں اور میں تمہارا خدا ہوں سو تم سب مل کر میری ہی عبادت کرو.(دیکھو الجز ونمبر ۷ اسورۃ الانبیاء ) اس تدریجی وحدت کی مثال ایسی ہے جیسے خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ہر ایک محلہ کے لوگ اپنی اپنی محلہ کی مسجدوں میں پانچ وقت جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ تمام شہر کے لوگ ساتویں دن شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوں یعنی ایسی وسیع مسجد میں جس میں سب کی گنجائش ہو سکے اور پھر حکم دیا کہ سال کے بعد عید گاہ میں تمام شہر کے لوگ اور نیز گردو نواح دیہات کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں اور پھر حکم دیا کہ عمر بھر میں ایک دفعہ تمام دنیا ایک جگہ جمع ہو یعنی مکہ معظمہ میں.سو جیسے خدا نے آہستہ آہستہ امت کے اجتماع کو حج کے موقع پر کمال تک پہنچایا.اول چھوٹے چھوٹے موقعے اجتماع کے مقرر کئے اور بعد میں تمام دنیا کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع دیا سو یہی سنت اللہ الہامی کتابوں میں ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ نوع انسان کی وحدت کا دائرہ کمال تک پہنچا دے.اوّل تھوڑے تھوڑے ملکوں کے حصوں میں وحدت پیدا کرے اور پھر آخر میں حج کے اجتماع کی طرح سب کو ایک جگہ جمع کر د یوے.۱۷ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۶)

Page 372

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة الانبياء وَحَرِّمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ.حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَ مَاجُوجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.(94) اس میں تو کچھ شک نہیں کہ اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ در حقیقت حضرت مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی فوت ہو گیا ہے ہر ایک مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا کہ فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا کیونکہ قرآن اور حدیث دونوں بالاتفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مر گیا پھر دنیا میں ہر گز نہیں آئے گا اور قرآن کریم اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ کہہ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے ان کو رخصت کرتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۹) ہمارا یہی اصول ہے کہ مردوں کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے حرام عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لا يَرْجِعُونَ یعنی ہم نے یہ واجب کر دیا ہے کہ جو مر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۲) حضرت ابنِ عباس سے حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جن لوگوں پر واقعی طور پر موت وارد ہو جاتی ہے اور در حقیقت فوت ہو جاتے ہیں پھر وہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے.یہی روایت تفسیر معالم میں بھی زیر تفسیر آیت موصوفہ بالا حضرت ابن عباس سے منقول ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۹ حاشیه در حاشیه ) اس نے صریح اور صاف لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جو لوگ مر گئے پھر دنیا میں نہیں آیا کرتے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.....حرام عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ - ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۵) اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو مر جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے اور ترمذی میں حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی شہید ہوئے انہوں نے عرض کی کہ یا الہی مجھے دنیا میں پھر بھیجو تو خدا تعالیٰ نے جواب یہی دیا.قد سبق الْقَوْلُ مِنَى حَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ الحکم جلد ۴ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۲) قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے واپس نہ آنے کے دو وعدے ہیں ایک

Page 373

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة الانبياء جہنمیوں کے لئے جیسے فرمایا وَ حَرَمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ - أَهْلَكْنَهَا عَذاب پر بھی آتا ہے.اس سے پایا جاتا ہے کہ خراب زندگی کے لوگ پھر واپس نہیں آئیں گے اور ایسا ہی بہشتیوں کے لئے بھی آیا ہے لا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلا ( الكهف : ١٠٩ ) - احکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) ان آیات کا یہ منشاء ہے کہ جو لوگ ہلاک کئے گئے اور دنیا سے اُٹھائے گئے ان پر حرام ہے کہ پھر دنیا میں آویں بلکہ جو گئے سو گئے.ہاں یا جوج و ماجوج کے وقت میں ایک طور سے رجعت ہوگی یعنی گذشتہ لوگ جو مر چکے ہیں ان کے ساتھ اس زمانہ کے لوگ ایسی اتم اور اکمل مشابہت پیدا کر لیں گے کہ گویا وہی آگئے اسی بناء پر اس زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا اور محمدی مسیح کا نام ابنِ مریم رکھا گیا اور پھر اسی خاتم الخلفاء کا نام باعتبار ظہور بین صفات محمدیہ کے محمد اور احمد رکھا گیا اور مستعار طور پر رسول اور نبی کہا گیا اور اسی کو آدم سے لے کر اخیر تک تمام انبیاء کے نام دیئے گئے تا وعدہ رجعت پورا ہو جائے.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه حاشیه ۳۸۳) وَأَمَّا قَوْلُنَا إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِن اور ہمارا یہ قول کہ یاجوج ماجوج نصاری سے النَّصَارَى لَا قَوْم أَخَرُونَ فَقَاتُ بِالنُّصوص ہیں اور کوئی اور قوم نہیں.تو یہ نصوص قرآنیہ سے ثابت الْقُرانِيَّةِ لأَنَّ الْقُرْآنَ الْكَرِيمَ قَد ذَكَرَ ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ تمام غَلَبَعَهُمْ عَلى وَجْهِ الْأَرْضِ وَقَالَ مِنْ كُلِ روئے زمین پر غالب ہوں گی اور ہر ایک بلندی سے حَدَبٍ يَنْسِلُونَ يَعْنِى يَمْلِكُونَ كُلّ رِفْعَةٍ فی اتریں گی یعنی زمین میں ہر ایک رفعت کو حاصل کریں الْأَرْضِ وَيَجْعَلُونَ أَعِزَّةً أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ کے اور معززوں کو ذلیل کر دیں گے اور سب حکومتوں وَيَبْتَلِعُوْنَ كُلَّ حُكُومَةٍ وَرِيَاسَةٍ وَسَلْطَنَةٍ اور ریاستوں اور سلطنتوں اور دولتوں کو اس بڑی مچھلی وَدَوْلَةِ ابْتِلَاعَ الْحُوتِ الْعَظِيْمِ الصَّغَارَ.وَإِنَّا کی مانند نگل جاویں گے جو چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو نگل تَرَى بِأَعْيُنِنَا أَنَّهُمْ كَذلِكَ يَفْعَلُونَ جاتی ہے اور ہما را چشمد ید ہے کہ وہ ایسا ہی کر رہے وَاطْمَعَلَّت رِيَاسَاتُ الْمُسْلِمِينَ وَتَطَرَّقَ ہیں اور مسلمانوں کی ریاستیں پژمردہ ہوگئی ہیں اور الضُّعْفُ في دَوْلَعِهِمْ وَقُوِّيهِمْ وَشَوْ كَرِيمُ، دولت و شوکت میں ضعف آگیا ہے اور عیسائی وَيَرَوْنَ سَلاطين النَّصَارَی كَالسّباعِ حَوْلَهُمْ، سلطنتوں کو اپنے ارد گرد درندوں کی مانند دیکھتے ہیں وَلَا يَبِيتُونَ إِلَّا خَائِفِينَ وَقَدْ ثَبَتَ مِن اور ڈرتے ڈرتے رات کاٹتے ہیں اور قرآن کے

Page 374

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كَأْسَ ۳۴۶ سورة الانبياء النُّصُوصِ الْقَوَيةِ الْقَطْعِيَّةِ الْقُرانِيَّةِ أَنَّ قوی اور قطعی نصوص سے ثابت ہو گیا ہے کہ سلطنت اور حَاسَ السَّلْطَنَةِ وَالْغَلَبَةِ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ غلبہ کا پیالہ قیامت تک نصاری اور مسلمانوں ہی کے تَدُورُ بَيْنَ النَّصَارَى وَالْمُسْلِمِينَ وَلا درمیان چلتا رہے گا اور بھی ان سے باہر نہ جاوے گا جیسا تَتَجَاوَزُهُمْ أَبَدًا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، كَمَا که خدا وند کریم نے فرمایا ہے: وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ قَالَ اللهُ تَعَالَى وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ میں تیرے الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ.تابعداروں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۱ ، ۲۱۲) رکھوں گا.(ترجمہ از مرتب ) إنَّ اللهَ قَد وَعَدَ فِي الْكِتَابِ أَنَّ في اخر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے کہ آخری الأَيَّامِ تَنْزِلُ مَصَائِبُ عَلَى الْإِسْلامِ زمانہ میں اسلام پر مصائب نازل ہوں گی اور ایک مفسد وَيَخْرُجُ قَوْمٌ مُفْسِدُونَ وَمِنْ كُلِ حَدَبٍ قوم کا خروج ہوگا جو ہر ایک بلندی سے پھلانگتی ہوئی آئے فَأَشَارَ فِي قَوْلِهِ مِنْ كُلِّ حَدَبِ أَنَّهُمُ گی.آیت کریمہ کے الفاظ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ میں اس يَمْلِكُونَ كُلّ خَصْبٍ وَجَدَبٍ وَيُحِيطُونَ طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر زرخیز اور بنجر جگہ کے مالک عَلى كُلِ الْبُلْدَانِ وَالرِّيَارِ، وَيُفْسِدُونَ ہو جائیں گے اور تمام شہروں اور علاقوں پر قبضہ کر لیں فَسَادًا عَامَّا فِي جَمِيعِ الْأَقْطَارِ، وَفي جَمیع گے اور وہ تمام ممالک میں اور تمام نیکوں اور بدوں کے قَبَائِلِ الْأَخْيَارِ وَالْأَشْرَارِ، وَيُضِلُّونَ گروہوں میں عام فساد برپا کریں گے اور ہلاکت خیز ملمع النَّاسَ بِأنْوَاعِ الْحِيلِ وَغَوَائِلِ الزُّخْرُفَةِ، سازیوں کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور اسلام وَيُلَوثُوْنَ عَرَضَ الْإِسْلَامِ بِأَصْنَافِ کی عزت کو مختلف قسم کے افتراء اور تہمتوں سے ملوث کر الْإِفْتِرَاء وَالثَّيْمَةِ، وَيَظْهَرُ مِنْ كُلِّ طَرف دیں گے اور ہر طرف تاریکی پر تاریکی چھا جائے گی اور ظُلْمَةٌ عَلى ظُلْمَةٍ وَيَكَادُ الْإِسْلَامُ أَن اس کے نتیجہ میں اسلام ملنے کے قریب پہنچ جائے گا.يَزْهَقَ بِتَبَعَةٍ، وَيَزِيدُ الضَّلَالُ وَالرُّورُ گمراہی ، جھوٹ اور فریب کاری بڑھ جائے گی اور ایمان وَالْإِحْتِيَالُ، وَيَرْحَلُ الْإِيْمَانُ وَتَبْقَى دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور صرف اسلام کا دعوئی اور الدَّعَاوِرُ وَالسَّلَالُ، حَتَّى يَخفى عَلَى النَّاسِ اس کے نام پر فخر و ناز باقی رہ جائے گا یہاں تک کہ القِرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، وَيَشْتَبِهُ عَلَيْهِمُ لوگوں پر صراط مستقیم مخفی ہو جائے گا اور اسلام کا فراخ

Page 375

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة الانبياء الْمَهْيَعُ الْقَدِيمُ لا يَنْتَبِجُونَ مَحَجَّةَ قدیمی راستہ ان پر مشتبہ ہو جائے گا وہ ہدایت کے راستے الاهتداء، وَتَزِلُّ أَقْدَامُهُمْ وَتَغْلِبُ کو اختیار نہیں کریں گے اور ان کے قدم پھسل جائیں گے سِلْسِلَةُ الْأَهْوَاءِ ، وَيَكُونُ الْمُسْلِمُونَ اور خواہشات یکے بعد دیگرے ان پر غلبہ پالیں گی اور كَثِيرَ التَّفْرِقَةِ وَالْعِبَادِ وَمُنْتَشِرِيْنَ مسلمانوں میں کثرت سے تفرقہ اور عناد پھیل جائے گا كَانْتِشَرَارِ الْجَرَادِ لَا تَبْقَى مَعَهُمْ أَنْوَارُ اور وہ ٹڈیوں کی مانند منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے ان الْإِيْمَانِ وَأَثَارُ الْعِرْفَانِ، بَلْ أَكْثَرُهُمْ میں نورِ ایمان اور آثار عرفان باقی نہیں رہیں گے بلکہ ان يَنخَرِطُونَ فِي سِلْكِ الْبَهَائِمِ أَوِ الذِّيَابِ أَوِ میں سے اکثر چوپایوں ، بھیڑیوں اور اثر دھاؤں کا الشُّعْبَانِ، وَيَكُونُونَ عَنِ الدِّينِ غَافِلِينَ طريق اختیار کر لیں گے اور دین سے بے بہرہ ہو جائیں وَكُلٌّ ذلِكَ يَكُونُ مِنْ أَثَرِ يَأْجُوجَ گے اور یہ سب یا جوج اور ماجوج کے اثر کی وجہ سے ہوگا وَمَأْجُوجَ وَيُشَابِهُ النَّاسُ الْعُضو اور لوگ فالج زدہ عضو کے مشابہ ہو جائیں گے گویا کہ وہ الْمَفْلُوجَ كَأَنَّهُمْ كَانُوا مَيْتِينَ سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۶۴، ۳۶۵) مرچکے ہیں.( ترجمہ از مرتب ) حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَ مَأْجُوجُ يَعْنِي حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَ مَأْجُوجُ (یعنی ان کو ایسا يَكُونُ لَهُمُ الْغَلَبَةُ وَالْفَتْحُ لَا يَدَانِ بِهِمُ غلبہ اور فتح ملے گی کہ کوئی ان کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے گا) لأَحَدٍ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ وَهُمْ مِنْ كُلِ حَدَبٍ يَنسِلُونَ....اور ہر ایک بلندی...وَالْمُرَادُ مِنْ كُلِ حَدَبٍ ظَفْرُهُمْ سے دوڑنے سے یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مراد اور مقصود وَفَوْرُهُمْ بِكُلّ مُرَادٍ وَعُرُوجُهُم إِلى كُلِ میں کامیابی اور شاد کامی ان کو میسر آئے گی اور ہر ایک مَقَامٍ وَكَوْنُهُمْ فَوْقَ كُلّ رِيَاسَة قَاهِرِينَ، سلطنت اور ریاست ان کے تصرف میں آجائے گی.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) ( ترجمه از مرتب) خدا تعالیٰ نے دجال معہود اور مسیح موعود کے لفظ کو جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے کہیں قرآن میں ذکر نہیں فرمایا بلکہ بجائے دجال کے نصاری کی پرفتن کارروائیوں کا ذکر کیا ہے.چنانچہ مِن كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۰) یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ ہر یک بلندی سے دوڑتے ہوں گے اور جب تم

Page 376

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة الانبياء دیکھو کہ یا جوج ماجوج زمین پر غالب ہو گئے تو سمجھو کہ وعدہ سچا مذہب حق کے پھیلنے کا نزدیک آ گیا اور وہ وعدہ یہ ہے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله اور پھر فرمایا کہ اس وعدہ کے ظہور کے وقت کفار کی آنکھیں چڑھی ہوں گی اور کہیں گے کہ اے وائے ہم کو.ہم اس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم ظالم تھے یعنی ظہور حق بڑے زور سے ہوگا اور کفار سمجھ لیں گے کہ ہم خطا پر ہیں ان تمام آیات کا ماحصل یہ ہے کہ آخری زمانہ میں دُنیا میں بہت سے مذہب پھیل جائیں گے اور بہت سے فرقے ہو جائیں گے پھر دو قو میں خروج کریں گی جن کا عیسائی مذہب ہوگا اور ہر یک طور کی بلندی وہ حاصل کریں گے.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۰) در حقیقت ایسی ہی پیشگوئی مسلمانوں کے اس زمانہ کے لئے جو حضرت مسیح کے زمانہ سے بلحاظ مدت وغیرہ لوازم مشابہ تھا قرآن کریم نے بھی کی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مِن كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ أَى مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ إِلَى الْإِسْلَامِ وَيُفْسِدُونَ فِي أَرْضِهِ وَيَتَمَلَكُونَ بِلادَهُ وَيَجْعَلُوْنَ أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ - اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ قوم نصاری جو فرقہ یا جوج اور ماجوج ہو گا ہر ایک بلندی سے ممالک اسلام کی طرف دوڑیں گے اور ان کو غلبہ ہوگا اور بلاد اسلام کو وہ دباتے جائیں گے یہاں تک کہ سلطنت اسلام صرف بنام رہ جائے گی جیسا کہ آج کل ہے.واقعات کے تطابق کو دیکھو کہ کیوں کر اسلام کے مصائب اور مسلمانوں کی دینی دنیوی تباہی کا زمانہ یہودیوں کے اس زمانہ سے مل گیا ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھا اور پھر دیکھو کہ قرآن کی پیشگوئی اسلامی سلطنت کے ضعف کے بارے میں اور مخالفوں کے غالب ہونے کی نسبت کیسی اس پیشگوئی سے انطباق پاگئی ہے جو اسرائیلی سلطنت کے زوال کے بارہ میں توریت میں کی گئی تھی.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۹) خدا تعالیٰ نے فرقان حمید میں...یہودیوں کی بہت سی نا فرمانیاں جابجاذ کر کر کے متواتر طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ آخری حالت عام مسلمانوں اور مسلمانوں کے علماء کی یہی ہو جائے گی اور پھر ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں غلبہ نصاریٰ کا ہوگا اور ان کے ہاتھ سے طرح طرح کے فساد پھیلیں گے اور ہر طرف سے امواج فتن اٹھیں گی اور وہ ہر یک بلندی سے دوڑیں گی یعنی ہر یک طور سے وہ اپنی قوت اور اپنا عروج اور اپنی بلندی دکھلائیں گی.ظاہری طاقت اور سلطنت میں بھی ان کی بلندی ہوگی کہ اور حکومتیں اور ریاستیں ان کے مقابل پر کمزور ہو جائیں گی اور علوم و فنون میں بھی ان کو بلندی حاصل ہوگی کہ طرح طرح کے علوم وفنون ایجاد کریں گے اور نادر اور

Page 377

۳۴۹ دور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء عجیب صنعتیں نکالیں گے اور مکا ید اور تدابیر اور حسن انتظام میں بھی بلندی ہوگی اور دنیوی مہمات میں اور ان کے حصول کے لئے ان کی ہمتیں بھی بلند ہوگی اور اشاعت مذہب کی جدو جہد اور کوشش میں بھی وہ سب سے فائق اور بلند ہوں گے اور ایسا ہی تدابیر معاشرت اور تجارت اور ترقی کا شیکاری غرض ہر یک بات میں ہر یک قوم پر فائق اور بلند ہو جائیں گی یہی معنے ہیں مِن كُلِ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کے کیوں کہ حدب بالتحريك زمین بلند کو کہتے ہیں اور نسل کے معنے ہیں سبقت لے جانا اور دوڑنا.یعنی ہر ایک قوم سے ہر ایک بات میں جو شرف اور بلندی کی طرف منسوب ہو سکتی ہے سبقت لے جائیں گے اور یہی بھاری علامت اس آخری قوم کی ہے جس کا نام یا جوج ماجوج ہے اور یہی علامت پادریوں کے اس گروہ پرفتن کی ہے جس کا نام دجال معہود ہے اور چونکہ حدب زمین بلند کو کہتے ہیں اس سے یہ اشارہ ہے کہ تمام زمینی بلندیاں ان کو نصیب ہوں گی مگر آسمانی بلندی سے بے نصیب ہوں گے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۱، ۳۶۲) کیا تم نہیں دیکھتے کہ عیسائی سلطنت تمام دُنیا کی ریاستوں کو نگلتی جاتی ہے اور ہر ایک نوع کی بلندی اُن کو دور حاصل ہے اور مِن كُل حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کا مصداق ہیں اور اسلام کی دینی دنیوی حالت ایسی ہی ابتر ہو گئی ہے جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں یہودیوں کی حالت ابتر تھی.ابتر (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۷۳، ۳۷۴) دوسری قسم کی مخلوق جو مسیح موعود کی نشانی ہے یا جوج ماجوج کا ظاہر ہونا ہے.توریت میں ممالک مغربیہ کی بعض قوموں کو یا جوج ماجوج قرار دیا ہے.اور ان کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ٹھہرایا ہے.قرآن شریف نے اس قوم کے لئے ایک نشانی دیکھی ہے کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ یعنی ہر ایک فوقیت ارضی اُن کو حاصل ہو جائے گی اور ہر ایک قوم پر وہ فتحیاب ہو جائیں گے.دوسرے اس نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ آگ کے کاموں میں ماہر ہوں گے یعنی آگ کے ذریعہ سے اُن کی لڑائیاں ہوں گی اور آگ کے ذریعہ سے اُن کے انجن چلیں گے اور آگ سے کام لینے میں وہ بڑی مہارت رکھیں گے اسی وجہ سے اُن کا نام یا جوج ماجوج ہے کیونکہ اجیج آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں اور شیطان کے وجود کی بناوٹ بھی آگ سے ہے جیسا کہ آیت خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ سے ظاہر ہے.اس لئے قوم یا جوج ماجوج سے اس کو ایک فطرتی مناسبت ہے اسی وجہ سے یہی قوم اس کے اسم اعظم کی تجلی کے لئے اور اس کا مظہر اتم بننے کے لئے موزوں ہے.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۶، ۲۷۷)

Page 378

۳۵۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اس جگہ ایک لطیفہ بیان کرنے کے لائق ہے جس سے ظاہر ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ایک زمانہ مقدر تھا جس میں فوت شدہ روحیں بروزی طور پر آنے والی تھیں.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورہ انبیاء جز و نمبر ۱۷ میں ایک پیشگوئی کی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ ہلاک شدہ لوگ یا جوج ماجوج کے زمانہ میں پھر دنیا میں رجوع کریں گے اور وہ یہ آیت ہے وَ حَرَمُ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ - حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَاجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ - (تحفہ گولار و یه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹۷) یعنی جن لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا ہے اُن کے لئے ہم نے حرام کر دیا ہے کہ دوبارہ دنیا میں آویں.یعنی بروزی طور پر بھی وہ دنیا میں نہیں آسکتے جب تک وہ دن نہ آویں کہ قوم یا جوج ماجوج زمین پر غالب آجائے اور ہر ایک طور سے ان کو غلبہ حاصل ہو جائے.کیونکہ انسان کے ارضی قوی کی کامل ترقیات یا جوج ماجوج پر ختم ہوتی ہیں اور اس طرح پر انسان کے ارضی قوی کا نشو نما جو ابتدا سے ہوتا چلا آیا ہے وہ محض یا جوج ماجوج کے وجود سے کمال کو پہنچتا ہے لہذا یا جوج ماجوج کے ظہور کا زمانہ رجعت بروزی کے زمانہ پر دلیل قاطع ہے کیونکہ یا جوج ماجوج کا ظہور استدارت زمانہ پر دلیل ہے اور استدارت زمانہ رجعت بروزی کو چاہتا ہے.سو مسیح عیسی بن مریم کی نسبت رجعت کا جو عقیدہ ہے اُس عقیدہ کے موافق عیسی مسیح کی آمد ثانی کا یہی زمانہ ہے.سو وہ آمدثانی بروزی طور پر ظہور میں آگئی.(تحفہ گولڑو بیه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۵ تا۳۲۱) یا جوج ماجوج سے وہ قوم مراد ہے جن کو پورے طور پر ارضی قومی ملیں گے اور ان پر ارضی قوی کی ترقیات کا دائرہ ختم ہو جائے گا.یا جوج ماجوج کا لفظ امیج سے لیا گیا ہے جو شعلہ نار کو کہتے ہیں.پس یہ وجہ تسمیہ ایک تو بیرونی لوازم کے لحاظ سے ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ یا جوج ماجوج کے لئے آگ مسخر کی جائے گی اور وہ اپنے دنیوی تمدن میں آگ سے بہت کام لیں گے.اُن کے بڑی اور بحری سفر آگ کے ذریعہ سے ہوں گے.ان کی لڑائیاں بھی آگ کے ذریعہ سے ہوں گی.ان کے تمام کاروبار کے انجن آگ کی مدد سے چلیں گے.دوسری وجہ تسمیہ لفظ یا جوج ماجوج کے اندرونی خواص کے لحاظ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ اُن کی سرشت میں آتشی مادہ زیادہ ہوگا.وہ قومیں بہت تکبر کریں گی اور اپنی تیزی اور چستی اور چالا کی میں آتشی خواص دکھلائیں گی اور جس طرح مٹی جب اپنے کمال تام کو پہنچتی ہے تو وہ حصہ مٹی کا کانی جو ہر بن جاتا ہے جس میں آتشی مادہ زیادہ ہو جاتا ہے.جیسے سونا چاندی اور دیگر جواہرات.پس اس جگہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے

Page 379

۳۵۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء کہ یا جوج ماجوج کی سرشت میں ارضی جو ہر کا کمال تام ہے جیسا کہ معدنی جواہرات میں اور فلذات میں کمال تام ہوتا ہے.اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ زمین نے اپنے انتہائی خواص ظاہر کر دیئے اور بموجب آیت وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ اثْقالها اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ جو ہر کو ظاہر کر دیا.اور یہ امر استدارت زمانہ پر ایک دلیل ہے.یعنی جب یا جوج ماجوج کی کثرت ہوگی تو سمجھا جائے گا کہ زمانہ نے اپنا پورا دائرہ دکھلا دیا اور پورے دائرہ کو رجعت بروزی لازم ہے.اور یا جوج ماجوج پر ارضی کمال کا ختم ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ گویا آدم کی خلقت الف سے شروع ہو کر جو آدم کے لفظ کے حرفوں میں سے پہلا حرف ہے اس یا کے حرف پر ختم ہوگئی کہ جو یا جوج کے لفظ کے سر پر آتا ہے جو حروف کے سلسلہ کا آخری حرف ہے.گویا اس طرح پر یہ سلسلہ الف سے شروع ہو کر اور پھر حرف یا پر ختم ہو کر اپنے طبعی کمال کو پہنچ گیا.خلاصہ کلام یہ کہ آیت ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بروزی رجوع جو استدارت دائرہ خلقت بنی آدم کے لئے ضروری ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ یا جوج ماجوج کا ظہور اور خروج اقومی اور اتم طور پر ہو جائے اور ان کے ساتھ کسی غیر کو طاقت مقابلہ نہ رہے کیونکہ دائرہ کے کمال کو یہ لازم ہے کہ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا کا مفہوم کامل طور پر پورا ہو جائے اور تمام ارضی قوتوں کا ظہور اور بروز ہو جائے اور یاجوج ماجوج کا وجود اس بات پر دلیل کامل ہے کہ جو کچھ ارضی قو تیں اور طاقتیں انسان کے وجود میں ودیعت ہیں وہ سب ظہور میں آگئی ہیں کیونکہ اس قوم کی فطرتی اینٹ ارضی کمالات کے پڑاوہ میں ایسے طور سے پختہ ہوئی ہے کہ اس میں کسی کو بھی کلام نہیں.اسی ستر کی وجہ سے خدا نے ان کا نام یا جوج ماجوج رکھا کیونکہ ان کی فطرت کی مٹی ترقی کرتے کرتے کانی جواہرات کی طرح آتشی مادہ کی پوری وارث ہو گئی اور ظاہر ہے کہ مٹی کی ترقیات آخر جواہرات اور فلذات معدنی پر ختم ہو جاتی ہیں.تب معمولی مٹی کی نسبت اُن جواہرات اور فلذات میں بہت سا مادہ آگ کا آجاتا ہے گویا مٹی کا انتہائی کمال نے کمال یافتہ کو آگ کے قریب لے آتا ہے اور پھر جنسیت کی کشش کی وجہ سے دوسرے آتشی لوازم اور کمالات بھی اسی مخلوق کو دیئے جاتے ہیں.غرض بنی آدم کا یہ آخری کمال ہے کہ بہت سا آتشی حصہ اُن میں داخل ہو جائے اور یہ کمال یا جوج ماجوج میں پایا جاتا ہے.اور جو کچھ اس قوم کو دنیا اور دنیا کی تدابیر میں دخل ہے اور جس قدر اس قوم نے دنیوی زندگی کو رونق اور ترقی دی ہے اس سے بڑھ کر کسی کے قیاس میں متصور نہیں.پس اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ انسان کے ارضی قومی کا عطر ہے جو اب وہ یا جوج ماجوج کے ذریعہ سے نکل رہا ہے.لہذا یا جوج ماجوج کا ظہور اور

Page 380

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة الانبياء بروز اور اپنی تمام قوتوں میں کامل ہونا اس بات کا نشان ہے کہ انسانی وجود کی تمام ارضی طاقتیں ظہور میں آگئیں اور انسانی فطرت کا دائرہ اپنے کمال کو پہنچ گیا اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی.پس ایسے وقت کے لئے رجعت بروزی ایک لازمی امر تھا.اس لئے اسلامی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا کہ یاجوج ماجوج کے ظہور اور اقبال اور فتح کے بعد گذشتہ زمانہ کے اکثر اختیار ابرار کی رجعت بروزی ہوگی اور جیسا کہ اس مسئلہ پر مسلمانوں میں سے اہل سنت زور دیتے ہیں ایسا ہی شیعہ کا بھی عقیدہ ہے مگر افسوس کہ یہ دونوں گروہ اس مسئلہ کی فلاسفی سے بے خبر ہیں.اصل بھید ضرورت رجعت کا تو یہ تھا کہ استدارت دائرہ خلقت بنی آدم کے وقت میں جو ہزار ششم کا آخر ہے نقاط خلقت کا اس سمت کی طرف آجانا ایک لازمی امر ہے جس سمت سے ابتدائے خلقت ہے.کیونکہ کوئی دائرہ جب تک اس نقطہ تک نہ پہنچے جس سے شروع ہوا تھا کامل نہیں ہو سکتا اور نقطہ پہنچے ہوا اور بالضرورت دائرہ کے آخری حصہ کو رجعت لازم پڑی ہوئی ہے لیکن اس بھید کو سطحی عقلیں دریافت نہیں کر سکیں اور ناحق کلام اللہ کے برخلاف یہ عقیدہ بنالیا کہ گویا تمام گذشتہ روھیں نیکوں اور بدوں کی واقعی طور پر پھر دوبارہ دنیا میں آجائیں گی.مگر اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ صرف رجعت بروزی ہوگی نہ حقیقی اور وہ اس طرح پر کہ وہی نحاش جس کا دوسرا نام خناس ہے جس کو دنیا کے خزانے دیئے گئے ہیں جو اوّل کوا کے پاس آیا تھا اور اپنی دجالیت سے حیات ابدی کی اُس کو طمع دی تھی پھر بروزی طور پر آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا اور زن مزاج اور ناقص العقل لوگوں کو اس وعدہ پر حیات ابدی کی طمع دے گا کہ وہ تو حید کو چھوڑ دیں.لیکن خدا نے جیسا کہ آدم کو بہشت میں یہ نصیحت کی تھی کہ ہر ایک پھل تمہارے لئے حلال ہے بے شک کھاؤ لیکن اس درخت کے نزدیک مت جاؤ کہ یہ حرمت کا درخت ہے.اسی طرح خدا نے قرآن میں فرمایا وَ يَغْفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ الخ ( النساء : ٢٩) یعنی ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا انہیں بخشے گا.پس شرک کے نزد یک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو.سواب بروزی طور پر وہی نحاش جوکو اکے پاس آیا تھا اس زمانہ میں ظاہر ہوا اور کہا کہ اس حرمت کے درخت کو خوب کھاؤ کہ حیات ابدی اسی میں ہے.پس جس طرح گناہ ابتدا میں عورت سے آیا اسی طرح آخری زمانہ میں زن مزاج لوگوں نے نحاش کے وسوسہ کو قبول کیا سو تمام بروزوں سے پہلے یہی بروز ہے جو بروز نحاش ہے.پھر دوسرا بروز جو یا جوج ماجوج کے بعد ضروری تھا مسیح ابن مریم کا بروز ہے.کیونکہ وہ رُوح القدس کے تعلق کی وجہ سے معاش کا دشمن ہے وجہ یہ کہ سانپ شیطان سے مدد پاتا ہے اور عیسی بن مریم روح القدس سے

Page 381

۳۵۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء اور روح القدس شیطان کی ضد ہے.پس جب شیطان کا ظہور ہوا تو اس کا اثر مٹانے کے لئے رُوح القدس کا ظہور ضروری ہوا.جس طرح شیطان بدی کا باپ ہے رُوح القدس نیکی کا باپ ہے.انسان کی فطرت کو دو مختلف جذبے لگے ہوئے ہیں (۱) ایک جذبہ بدی کی طرف جس سے انسان کے دل میں بُرے خیالات کا اور بدکاری اور ظلم کے تصورات پیدا ہوتے ہیں.یہ جذبہ شیطان کی طرف سے ہے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی فطرت کے لازم حال یہ جذبہ ہے.گو بعض قو میں شیطان کے وجود سے انکار بھی کریں لیکن اس جذبہ کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے.(۲) دوسرا جذ بہ نیکی کی طرف ہے جس سے انسان کے دل میں نیک خیالات اور نیکی کرنے کی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ جذبہ رُوح القدس کی طرف سے ہے.اور اگر چہ قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قسم کے جذبے انسان میں موجود ہیں لیکن آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ پورے زور شور سے یہ دونوں قسم کے جذبے انسان میں ظاہر ہوں.اس لئے اس زمانہ میں بروزی طور پر یہودی بھی پیدا ہوئے اور بروزی طور پر مسیح ابن مریم بھی پیدا ہوا.اور خدا نے ایک گروہ بدی کا محرک پیدا کر دیا جو وہی پہلا نحاش بروزی رنگ میں ہے.اور دوسرا گروہ نیکی کا محرک پیدا کر دیا جو مسیح موعود کا گروہ ہے.غرض پہلا بروز گروہ نحاش ہے اور دوسرا بروز مسیح اور اس کا گروہ اور تیسرا بروز ان یہودیوں کا گروہ ہے جن سے بچنے کے لئے سورہ فاتحہ میں دُعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سکھائی گئی اور چوتھا بروز صحابہ رضی اللہ عنہم کا بروز ہے جو بموجب آیت وَ أَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم ضروری تھا اور اس حساب سے ان بروزوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچتی ہے.اس لئے یہ زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ کہلاتا ہے.تحفہ گولار و سید، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۱ تا ۳۲۵ حاشیه ) یا جوج ماجوج دو قو میں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ امیج سے یعنی آگ سے بہت کام لیں گی اور زمین پر ان کا بہت غلبہ ہو جائے گا اور ہر ایک بلندی کی مالک ہو جائیں گی.تب اُسی زمانہ میں آسمان سے ایک بڑی تبدیلی کا انتظام ہوگا اور صلح اور آشتی کے دن ظاہر ہوں گے.لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۱) جیسا کہ قرآن شریف میں عیسائیت کے فتنہ کا ذکر ہے ایسا ہی یا جوج ماجوج کا ذکر ہے اور اس آیت میں که هُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ان کے غلبہ کی طرف اشارہ ہے کہ تمام زمین پر اُن کا غلبہ ہو جائے گا اب اگر دجال اور عیسائیت اور یا جوج ماجوج تین علیحدہ تو میں سمجھیں جائیں جو مسیح کے وقت ظاہر ہوں گی تو اور بھی

Page 382

۳۵۴ سورة الانبياء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تناقض بڑھ جاتا ہے مگر بائبل سے یقینی طور پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یا جوج ماجوج کا فتنہ بھی درحقیقت عیسائیت کا فتنہ ہے کہ کیونکہ بائل نے اس کو یا جوج کے نام سے پکارا ہے.پس در حقیقت ایک ہی قوم کو باعتبار مختلف حالتوں کے تین ناموں سے پکارا گیا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹۸) یا جوج ماجوج کی قوم کہ اجمالی طور پر ان کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے بلکہ یہ ذکر بھی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں تمام زمین پر ان کا غلبہ ہو جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَهُمْ مِّن كُلِّ حَدَبٍ ينسلون اور یہ خیال کہ یا جوج ماجوج بنی آدم نہیں بلکہ اور قسم کی مخلوق ہے یہ صرف جہالت کا خیال ہے کیونکہ قرآن میں ذوالعقول حیوان جو عقل اور فہم سے کام لیتے ہیں اور مور د ثواب یا عذاب ہو سکتے ہیں وہ دوہی قسم کے بیان فرمائے ہیں (۱) ایک نوع انسان جو حضرت آدم کی اولاد ہیں (۲) دوسرے وہ جو جنات ہیں انسانوں کے گروہ کا نام معشر الانس رکھا ہے اور جنات کے گروہ کا نام معشر الجن رکھا ہے.پس اگر یا جوج ماجوج جس کے لئے مسیح موعود کے زمانہ میں عذاب کا وعدہ ہے معشر الانس میں داخل ہیں یعنی انسان ہیں تو خواہ نخواہ ایک عجیب پیدائش ان کی طرف منسوب کرنا کہ ان کے کان اس قدر لمبے ہوں گے اور ہاتھ اس قدر لمبے ہوں گے اور اس کثرت سے وہ بچے دیں گے ان لوگوں کا کام ہے جن کی عقل محض سطحی اور بچوں کی مانند ہے اگر اس بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت ہو تو وہ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کی قومیں ان معنوں سے ضرور لمبے کان رکھتی ہیں کہ بذریعہ تار کے دور دور کی خبریں ان کے کانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور خدا نے بڑی اور بحری لڑائیوں میں اُن کے ہاتھ بھی نبرد آزمائی کی وجہ سے اس قدر لمبے بنائے ہیں کہ کسی کو ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور توالد تناسل بھی ان کا ایشیائی قوموں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے.پس جبکہ موجودہ واقعات نے دکھلا دیا ہے کہ ان احادیث کے یہ معنے ہیں اور عقل ان معنوں کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ ان سے لذت اٹھاتی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خواہ نخواہ انسانی خلقت سے بڑھ کر ان میں وہ عجیب خلقت فرض کی جائے جو سراسر غیر معقول اور اس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو قدیم سے انسانوں کے لئے چلا آتا ہے اور اگر کہو کہ یا جوج ماجوج جنات میں سے ہیں انسان نہیں ہیں تو یہ اور حماقت ہے کیونکہ اگر وہ جنات میں سے ہیں تو سد سکندری اُن کو کیوں کر روک سکتی تھی جس حالت میں جنات آسمان تک پہنچ جاتے ہیں جیسا کہ آیت فَاتَّبَعَة شِهَابٌ ثَاقِب (الصافات : ۱۱) سے ظاہر ہوتا ہے تو کیا وہ سید سکندری کے اوپر چڑھ نہیں سکتے تھے جو آسمان کے قریب چلے جاتے ہیں اور اگر کہو کہ وہ درندوں کی قسم

Page 383

۳۵۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء ہیں جو عقل اور فہم نہیں رکھتے تو پھر قرآن شریف اور حدیثوں میں ان پر عذاب نازل کرنے کا کیوں وعدہ ہے کیونکہ عذاب گنہ کی پاداش میں ہوتا ہے اور نیز ان کا لڑائیاں کرنا اور سب پر غالب ہوجانا اور آخر کار آسمان کی طرف تیر چلانا صاف دلالت کرتا ہے کہ وہ ذو العقول ہیں بلکہ دنیا کی عقل میں سب سے بڑھ کر.حدیثوں میں بظاہر یہ تناقض پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کے وقت ایک طرف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ یا جوج ماجوج تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور دوسری طرف یہ بیان ہے کہ تمام دنیا میں عیسائی قوم کا غلبہ ہوگا جیسا کہ حدیث یکسر الصلیب سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ صلیبی قوم کا اس زمانہ میں بڑا عروج اور کا اقبال ہو گا.ایسا ہی ایک دوسری حدیث سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ اس زمانہ میں رومیوں کی کثرت اور قوت ہوگی یعنی عیسائیوں کی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رومی سلطنت عیسائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے غُلِبَتِ الرُّومُ في آدنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (الروم : ۴،۳) اس جگہ بھی روم سے مراد عیسائی سلطنت ہے اور پھر بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت دجال کا تمام زمین پر غلبہ ہوگا اور تمام زمین پر بغیر مکہ معظمہ کے دقال محیط ہو جائے گا.اب کوئی مولوی صاحب بتلاویں کہ یہ تناقض کیوں کر دور ہو سکتا ہے اگر دجال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا تو عیسائی سلطنت کہاں ہوگی.ایسا ہی یا جوج ماجوج جن کی عام سلطنت کی قرآن شریف خبر دیتا ہے وہ کہاں جائیں گے.سو یہ غلطیاں ہیں جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں جو ہمارے مکھر اور مکذب ہیں.واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دونوں صفات یا جوج ماجوج اور دجال ہونے کی یورپین قوموں میں موجود ہیں کیونکہ یاجوج ماجوج کی تعریف حدیثوں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کسی کو طاقت مقابلہ نہیں ہوگی اور مسیح موعود بھی صرف دعا سے کام لے گا اور یہ صفت کھلے کھلے طور پر یورپ کی سلطنتوں میں پائی جاتی ہے اور قرآن شریف بھی اس کا مصدق ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَهُم مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.اور دجال کی نسبت حدیثوں میں یہ بیان ہے کہ وہ دجل سے کام لے گا اور مذہبی رنگ میں دنیا میں فتنہ ڈالے گا.سو قرآن شریف میں یہ صفت عیسائی پادریوں کی بیان کی گئی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مواضعه (النساء : ۴۷).اس تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ہیں.اسی وجہ سے سورۃ الفاتحہ میں دائمی طور پر یہ دعا سکھلائی گئی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو یہ نہیں کہا کہ تم دجال سے پناہ مانگو پس اگر

Page 384

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۶ سورة الانبياء کوئی اور دقبال ہوتا جس کا فتنہ پادریوں سے زیادہ ہوتا تو خدا کی کلام میں بڑا فتنہ چھوڑ کر قیامت تک یہ دعانہ سکھلائی جاتی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو اور یہ نہ فرمایا جاتا کہ عیسائی فتنہ ایسا ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں.پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ دجالی فتنہ ایسا ہے جس سے قریب ہے کہ زمین و آسمان پھٹ جائیں.بڑے فتنے کو چھوڑ کر چھوٹے فتنہ سے ڈرانا بالکل غیر معقول ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۴ تا ۷ ۸ حاشیه ) مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کے بعد وہ خدا سے جنگ کریں گے اب گویا یہ خدا سے جنگ ہے.یہ استعارہ ہے کہ جب اقبال یہاں تک پہنچ جاوے کہ کوئی سلطنت ان کے مقابل نہ ٹھہرے تو پھر خدا سے جنگ کرنی چاہیں گے خدا سے جنگ یہی ہے کہ نہ ان میں تضرع اور زاری رہے اور نہ دعا کی حقیقت پر نظر ہو بلکہ اسباب اور تدابیر پر پورا بھروسہ ہو اور قضا و قدر کا مقابلہ کیا جاوے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۲) اس وقت ضروری ہے کہ خوب غور کر کے دیکھا جاوے کہ کیا عیسائی فتنہ نہیں ہے جو مِنْ كُلِّ حَدَبٍ تنسلون کے مصداق ہو کر لاکھوں انسانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور مختلف طریق اس نے اپنی اشاعت کے رکھے ہیں.اب وقت ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جاوے کہ اس فتنہ کی اصلاح والے کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا ہے صلیب کا زور تو دن بدن بڑھ رہا ہے اور ہر جگہ اس کی چھاؤنیاں قائم ہوتی جاتی ہیں.مختلف مشن قائم ہو کر دور دراز ملکوں اور اقطاع عالم میں پھیلتے جاتے ہیں اس لئے اگر اور کوئی بھی ثبوت اور دلیل نہ ہوتی تب بھی طبعی طور پر ہم کو ماننا پڑتا کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے جو اس فساد کی آگ کو بجھائے مگر خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو صرف ضروریات محسوسہ مشہودہ تک ہی نہیں رکھا بلکہ اپنے رسول کی عظمت و عزت کے اظہار کے لئے بہت سی پیش گوئیاں پہلے سے اس وقت کے لئے مقرر رکھی ہوئی ہیں جن سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت ایک آنے والا مرد ہے اور اس کا نام مسیح موعود اور اس کا کام کسر صلیب ہے.اب اس ترتیب کے ساتھ ہر ایک سلیم الفطرت کو اتنا تو ماننا پڑے گا کہ بجز اس تسلیم کے چارہ نہیں کہ کوئی مرد آسمانی آوے اور اس کا کام اس وقت کسر صلیب ہی ہونا چاہیے.الحکم جلدے نمبر ۳مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ مین كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ اس امر کے اظہار کے واسطے کافی ہے کہ یہ کل دنیا کی زمینی طاقتوں کو زیر یا کریں گی ورنہ اس کے سوا اور کیا معنے ہیں.کیا یہ قو میں دیواروں اور ٹیلوں کو گو دتی اور

Page 385

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة الانبياء پھاندتی پھریں گی.نہیں بلکہ اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ دنیا کی کل ریاستوں اور سلطنتوں کو زیر پا کرلیں گی اور کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہ کر سکے گی.واقعات جس امر کی تفسیر کریں وہی تفسیر ٹھیک ہوا کرتی ہے.اس آیت کے معنے خدا تعالیٰ نے واقعات سے بتا دیئے ہیں ان کے مقابلہ میں اگر کسی قسم کی سیفی قوت کی ضرورت ہوتی تو اب جیسے کہ بظاہر اسلامی دنیا کے امیدوں کے آخری دن ہیں چاہیے تھا کہ اہل اسلام کی سیفی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی اور اسلامی سلطنتیں تمام دنیا پر غلبہ پاتیں اور کوئی ان کے مقابل پر ٹھہر نہ سکتا مگر اب تو معاملہ اس کے برخلاف نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور تمہید یا عنوان کے یہ زمانہ ہے کہ ان کی فتح اور ان کا غلبہ دنیوی ہتھیاروں سے نہیں ہو سکے گا بلکہ ان کے واسطے آسمانی طاقت کام کرے گی جس کا ذریعہ دعا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۴) ہمیں کئی بار اس آیت کی طرف توجہ ہوئی ہے اور اس میں سوچتے ہیں کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ ساری سلطنتیں، ریاستیں اور حکومتیں ان سب کو یہ اپنے زیر کر لیں گے اور کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ ہوگی.دوسرے معنے یہ ہیں کہ حلب کے معنے ہیں بلندی.نسل کے معنے ہیں دوڑنا.یعنی بلندی پر سے دوڑ جاویں گے.کل عمومیت کے معنے رکھتا ہے.یعنی ہر قسم کی بلندی کو کود جاویں گے.بلندی پر چڑھنا قوت اور جرات کو چاہتا ہے.نہایت بڑی بھاری اور آخری بلندی مذہب کی بلندی ہوتی ہے.سارے زنجیروں کو انسان تو ڑ سکتا ہے مگر رسم اور مذہب کی ایک ایسی زنجیر ہوتی ہے کہ اس کو کوئی ہمت والا ہی تو ڑ سکتا ہے.سو ہمیں اس ربط سے یہ بھی ایک بشارت معلوم ہوتی ہے کہ وہ آخر کار اس مذہب اور رسم کی بلندی کو اپنی آزادی اور جرات سے پھلانگ جاویں گے اور آخر کا ر اسلام میں داخل ہوتے جاویں گے.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۰اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۴) میں نے اس آیت پر بڑی غور کی ہے.اس کے یہی معنے ہیں کہ ہر ایک بلندی سے دوڑیں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو صورتیں ہیں اول یہ کہ ہر ایک سلطنت پر غالب آجاویں گے دوم یہ کہ بلندی کی طرف انسان قوت اور جرأت کے بغیر دوڑ اور چڑھ نہیں سکتا اور مذہب پر غالب آجانا بھی ایک بلندی ہی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان پر وہ زمانہ بھی آوے گا کہ مذہب کے اوپر سے بھی گزر جاویں گے یعنی اپنے اس تکلیفی مذہب.

Page 386

۳۵۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء سے بھی عبور کر جاویں گے اور اس کو پاؤں کے نیچے مسل دیویں گے اور اسی سے ہمیں ان کے اسلام میں داخل ہو جانے کی بو آتی ہے.اب پہلی بات تو پوری ہو چکی ہے اب انشاء اللہ دوسری بات پوری ہوگی اور یہ باتیں خدا کے ارادہ کے ساتھ ہوا کرتی ہیں جب خدا کی مشیت ہوتی تو ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور دلوں کو حسبِ استعدادصاف کرتے ہیں تب یہ کام ہوا کرتے ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ /اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۵) اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وِرِ دُونَ.) اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کے کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام دہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے اور اگر ہر یک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں.یہ ہر گز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل ہرگز خوش ہوئے ہوں بلکہ بلا شبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہوگی کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۹) تم اور تمہارے معبود باطل جو انسان ہو کر خدا کہلاتے رہے جہنم میں ڈالے جائیں گے (۲) دوسرا ایندھن جہنم کا بت ہیں مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا وجود نہ ہوتا تو جہنم بھی نہ ہوتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۳) انبیاء سے پہلے تمام لوگ نیک و بد بھائی بھائی بنے ہوتے ہیں.نبی کے آنے سے ان کے درمیان ایک تمیز پیدا ہو جاتی ہے.سعید الگ ہو جاتے اور شقی الگ ہو جاتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخالفین کو یہ کلمہ نہ سناتے کہ اِنكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ تم اور تمہارے معبود سب جہنم کے

Page 387

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ سورة الانبياء لائق ہیں تو کفار ایسی مخالفت نہ کرتے مگر اپنے معبودوں کے حق میں ایسے کلمات سن کر وہ جوش میں آگئے.لا ( بدر جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۷) اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَا الْحُسْنَى أُولَبِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ لا لَا يَسْمَعُونَ ج حَسِيْسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَلِدُونَ ١٠٢ جو لوگ جنتی ہیں اور ان کا جنتی ہونا ہماری طرف سے قرار پا چکا ہے وہ دوزخ سے دور کئے گئے ہیں اور وہ بہشت کی دائمی لذت میں ہیں.اس آیت سے مراد حضرت عزیر اور حضرت مسیح ہیں اور ان کا بہشت میں داخل ہو جانا اس سے ثابت ہوتا ہے جس سے ان کی موت بھی بپایہ ثبوت پہنچتی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۶،۴۳۵) جو لوگ ہمارے وعدہ کے موافق بہشت کے لائق ٹھہر چکے ہیں وہ دوزخ سے دور کئے گئے ہیں اور وہ بہشت کی دائمی لذات میں ہیں.تمام مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عیسی علیہ السلام کے حق میں ہے اور اس سے بصراحت و بداہت ثابت ہے کہ وہ بہشت میں ہیں.پس ثابت ہوا کہ وہ وفات پاچکے ہیں ورنہ قبل از وفات بہشت میں کیوں کر پہنچ گئے.ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۸) کتاب اللہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ طاعون رجز ہے ہمیشہ کا فروں پر نازل ہوتی ہے.ہاں جیسا کہ جہنم خاص کافروں کے لئے مخصوص ہے تاہم بعض گنہ گار مومن جو جہنم میں ڈالے جائیں گے وہ محض تمحیص اور تطہیر اور پاک کرنے کے لئے دوزخ میں ڈالے جائیں گے مگر خدا کے وعدہ کے موافق جو اوليكَ عَنْهَا مُبعَدُونَ ہے برگزیدہ لوگ اس دوزخ سے دور رکھے جائیں گے اسی طرح طاعون بھی ایک جہنم ہے کا فراس میں عذاب دینے کے لئے ڈالے جاتے ہیں اور ایسے مومن جن کو معصوم نہیں کہہ سکتے اور معاصی سے پاک نہیں ہیں ان کے لئے یہ طاعون پاک کرنے کا ذریعہ ہے جس کو خدا نے جہنم کے نام سے پکارا ہے.سو طاعون ادنی مومنوں کے لئے تجویز ہو سکتی ہے جو پاک ہونے کے محتاج ہیں مگر وہ لوگ جو خدا کے قرب اور محبت میں بلند مقامات پر ہیں وہ ہر گز اس جہنم میں داخل نہیں ہو سکتے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۴۴) يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَى السّجِلِ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَ أَنَا أَوَّلَ خَلْقِ نُعِيدُهُ

Page 388

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۰ سورة الانبياء وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَعِلِينَ ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا.یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے جس میں جائے غور یہ لفظ ہیں وَ تَكونُ السَّمَوتُ بِيَمِينِهِ یعنی لینے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپالے گا.اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر یک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قمریہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر یک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی اور علل نا قصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۲ تا ۱۵۴ حاشیه در حاشیه ) وَ لَقَد كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذَّاكِرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ کے (زبور۳۷) ۱۰۶ ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھا ہے کہ جو نیک لوگ ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے یعنی ارض شام (براہین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۱ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تیس برس کا ہی فکر تھا اور پھر ان کو ہمیشہ کے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہا اس امت کے لئے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا کیا عقلِ سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی.ہر گز نہیں.اور پھر یہ آیت خلافت آئمہ پر گواہ ناطق ہے وَلَقَد كتبنا في الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِى الصّلِحُونَ.کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ پرتھا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمیں کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب

Page 389

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہو.۳۶۱ سورة الانبياء (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۴) اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الارض سے مراد جو شام کی سرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جواب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے.خدا تعالیٰ نے يَرِثُهَا فرمایا تملِکھا نہیں فرمایا.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے.ارضِ شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو.يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّلِحُونَ فرما یا صالحین کے معنے یہ ہی کہ کم از کم صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو.مومن کی م جو تقسیم قرآن شریف میں کی گئی ہے اس کے تین ہی درجے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں.ظالم ، مقتصد ، سابق بالخیرات.میدان کے مدارج ہیں ورنہ اسلام کے اندر یہ داخل ہیں.ظالم وہ ہوتا ہے کہ ابھی اس میں بہت غلطیاں اور کمزوریاں ہیں اور مقتصد وہ ہوتا ہے کہ نفس اور شیطان سے اس کی جنگ ہوتی ہے مگر کبھی یہ غالب آجا تا اور کبھی مغلوب ہوتا ہے.کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور صلاحیت بھی اور سابق بالخیرات وہ ہوتا ہے جو ان دونوں درجوں سے نکل کر مستقل طور پر نیکیاں کرنے میں سبقت لے جاوے اور بالکل صلاحیت ہی ہو.نفس اور شیطان کو مغلوب کر چکا ہو.قرآن شریف ان سب کو مسلمان ہی کہتا ہے.ہماری جماعت ہی کو دیکھ لو کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ سب کی سب ہمارے مخالفوں ہی سے نکل کر بنی ہے اور ہر روز جو بیعت کرتے ہیں یہ ان میں ہی سے آتے ہیں ان میں صلاحیت اور سعادت نہ ہوتی تو یہ کس طرح نکل کر آتے.بہت سے خطوط اس قسم کی بیعت کرنے والوں کے آئے ہیں کہ پہلے میں گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب تو بہ کرتا ہوں مجھے معاف کیا جاوے.غرض صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو تو وہ صالحین میں داخل سمجھا جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) اِنَّ فِي هَذَا البَلغَا لِقَوْمٍ عَبدِينَ.اس میں ان لوگوں کے لئے جو پرستار ہیں حقیقی پرستش کی تعلیم ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۴) وہ حکمت بالغہ ہے اس میں ہر یک چیز کا بیان ہے.الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰)

Page 390

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة الانبياء وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ.اور تجھ کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام عالم پر نظر رحمت کریں اور نجات کا راستہ ان پر کھول دیں.( براہینِ احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۵۱) اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۳ حاشیہ نمبر ۳) یادر ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ کے مظہر اتم ہیں لہذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ يعنى ہم نے تمام دنیا پر رحمت کر کے تجھے بھیجا ہے.اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے : وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَی اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اپنے وقتوں میں ظہور پذیر ہوں اس خدا تعالیٰ نے صفت جلالی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور صفت جمالی کو مسیح موعود اور اس کے گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ - (تحفہ گولڑو بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۶۸ حاشیہ) تمام دنیا پر رحم کر کے ہم نے تجھے بھیجا ہے اور عالمین میں کافر اور بے ایمان اور فاسق اور فاجر بھی داخل ہیں اور ان کے لئے رحم کا دروازہ اس طرح پر کھولا کہ وہ قرآن شریف کی ہدایتوں پر چل کر نجات پاسکتے ہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۹،۳۶۸) قَالَ اللهُ تَعَالَى وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے.اے نبی ! ہم رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ وَلَا يَسْتَقِيمُ هَذَا ا نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.آپ الْمَعْلى إِلَّا فِي الرَّحْمَانِيَّةِ فَإِنَّ الرَّحِيمِيَّة كارحمة للعالمين ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست يَختَصُّ بِعَالَمٍ وَ احَدٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ہو سکتا ہے کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں کی دنیا کے ساتھ ہی (اعجاز مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه حاشیہ) | مخصوص ہے.( ترجمہ از مرتب ) میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت کر کے بھیجا ہے.(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۶)

Page 391

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے ایک عام رحمت کر کے بھیجا ہے.سورة الانبياء ( تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۸) تمام دنیا کے لئے تجھے ہم نے رحمت کر کے بھیجا ہے اور تو رحمت مجسم ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۹۲) ہم نے کسی خاص قوم پر رحمت کرنے کے لئے تجھے نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ تمام جہان پر رحمت کی جائے پس جیسا کہ خدا تمام جہان کا خدا ہے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لئے رحمت ہیں اور آپ کی ہمدردی تمام دنیا سے ہے نہ کسی خاص قوم سے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۸) جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے.اس وقت بھی چونکہ دنیا کی حالت بہت ہی قابلِ رحم ہو گئی تھی.اخلاق ، اعمال، عقائد سب کا نام و نشان اُٹھ گیا تھا اس لئے اس امت کو مرحومہ کہا گیا.کیونکہ اس وقت بڑے ہی رحم کی ضرورت تھی اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرمایا کہ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلا رَحْمَةً لِلعلمين - قابل رحم اس شخص کو کہتے ہیں جسے سانپوں کی زمین پر چلنے کا حکم ہو یعنی خطرات عظیمہ اور آفات شدیدہ در پیش ہوں.پس امت مرحومہ اس لئے کہا کہ یہ قابل رحم ہے.جب انسان کو مشکل کام دیا جاتا ہے تو وہ مشکل قابل رحم ہوتی ہے.شرارتوں میں تجربہ کار ، بد اندیش، خطا کاروں سے مقابلہ ٹھہرا اور پھر امی جیسے حضرت نے فرمایا کہ ہم امی ہیں اور حساب نہیں جانتے.پس امیوں کو شریر قوموں کا مقابلہ کرنا پڑا جو مکاید اور شرارتوں میں تجربہ کار تھے اس لئے اس کا نام امت مرحومہ رکھا.مسلمانوں کو کس قدر خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ان کو قابل رحم سمجھا.چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا کے انسانوں کی روحانی تربیت کے لئے آئے تھے اس لئے یہ رنگ حضور علیہ الصلوۃ والسلام میں بدرجہ کمال موجود تھا اور یہی وہ مرتبہ ہے جس پر قرآن کریم نے متعدد مقامات پر حضور کی نسبت شہادت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابل اور اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر فرمایا ہے مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۷) رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۳)

Page 392

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ سورة الانبياء یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہوگا اور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھاس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے اور دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا قُلْ...إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَنِيعًا اور مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ.جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.الخام جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) یا درکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے جیسے فرمایا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ - الحاکم جلد ۹ نمبر ۹ مورخه ۷ ار مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) یعنی اے نبی کریم ہم نے تمہیں تمام عالم پر رحمت کے لئے بھیجا ہے.الخام جلد ۶ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلعلمين اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خلق سے ہدایت کو پیش کرتے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ نے اخلاق، صبر، نرمی ، اور نیز مار ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا کی طرف توجہ دلائی.مال دینے میں نرمی برتنے میں عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ نے کوئی فرق نہیں رکھا.اصلاح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک وقت بچہ کو مار سے ڈراتی ہے وہ بھی آپ نے برت لیا تو مار بھی ایک خدا کی رحمت ہے کہ جو آدمی اور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا ان کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں.خدا تعالیٰ نے چارصفات جو مقرر کی ہیں جو کہ سورۃ فاتحہ کے شروع میں ہیں رسول اللہ صلعم نے ان چاروں سے کام لے کر تبلیغ کی ہے مثلاً پہلے رب العالمین یعنی عام ربوبیت ہے تو آیت مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.پھر ایک جلوہ رحمانیت کا بھی ہے کہ آپ کے فیضان کا بدل نہیں ہے.ایسی ہی دوسری صفات.البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ راگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۲۶)

Page 393

۳۶۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانبياء سورۃ فاتحہ میں جواللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھی مظہر ہوئے جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ جیسے رب العالمین عام ربوبیت کو چاہتا تھا اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی.الحکم جلدے نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) یعنی اے رسول ہم نے تجھ کو رحمت للعالمین کر کے بھیجا ہے.احکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۷ ) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ أَذَنْتُكُمْ عَلَى سَوَاءٍ وَ اِنْ اَدْرِى أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَّا توعدون قرآن شریف میں ان آذری اَقَرِيبٌ اَم بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ ) میں نہیں جانتا کہ عذاب کے نزول کا وقت قریب ہے یا بعید ) صاف بتاتا ہے کہ ہر ایک عذاب کی مقررہ تاریخ نہیں بتائی جاتی.بدر جلد نمبر ۸ مورخه ۲۵ مئی ۱۹۰۵ء صفحه ۶)

Page 394

Page 395

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۶۷ سورة الحج بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحج بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ.ساعة سے مراد قیامت بھی ہوگی.ہم کو اس سے انکار نہیں.مگر اس میں سکرات الموت ہی مراد ہے کیونکہ انقطاع تام کا وقت ہوتا ہے.انسان اپنے محبوبات اور مرغوبات سے ایک دفعہ الگ ہوتا ہے اور ایک عجب قسم کا زلزلہ اس پر طاری ہوتا ہے گویا اندر ہی اندر وہ ایک شکنجہ میں ہوتا ہے اس لئے انسان کی تمام تر سعادت یہی ہے کہ وہ موت کا خیال رکھے اور دنیا اور اس کی چیزیں اس کی ایسی محبوبات نہ ہوں جو اس آخری ساعت میں علیحدگی کے وقت اس کی تکالیف کا موجب ہوں.دنیا اور اس کی چیزوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا ہے.ایں ہمہ در کشتنت آهنگ گاه بصلح کشند وگاه بجنگ التحام جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۲) يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلْ كُلُّ مُرْضِعَةِ عَمَّا اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكرى وَمَا هُمْ بِسُكرى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِيدُه طرح طرح کے لباسوں میں موتیں وارد ہورہی ہیں.طاعون ہے.وبائیں ہیں.قحط ہے.زلزلے ہیں.

Page 396

۳۶۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج جب ایسی مصیبتیں وارد ہوتی ہیں تو دنیا داروں کی عقل جاتی رہتی ہے اور وہ ایک سخت غم اور مصیبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی طریق ان کو نہیں سوجھتا.قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ ہے وَ تَرَى النَّاسَ سُكرى وَمَا هُمْ بِشکری تو لوگوں کو دیکھتا ہے کہ نشے میں ہیں حالانکہ وہ کسی نشے میں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ نہایت درجہ کے غم اور خوف سے ان کی عقل ماری گئی ہے اور کچھ حوصلہ باقی نہیں رہا ایسے موقع پر بجر متقی کے کسی کے اندر صبر کی طاقت نہیں رہتی.دینی امور میں بجز تقویٰ کے کسی کو صبر حاصل نہیں ہو سکتا.بلاء کے آنے کے وقت سوائے اس کے کون صبر کر سکتا ہے جو خدا کی رضا کے ساتھ اپنی رضا کو ملائے ہوئے ہو جب تک کہ پہلے ایمان پختہ نہ ہو ادنی نقصان سے انسان ٹھو کر کھا کر دہر یہ بن جاتا ہے جس کو خدا سے تعلق نہیں.اس میں مصیبت کی برداشت نہیں.دنیا دار لوگ تو ایسے مصائب کے وقت وجود باری تعالی کا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں.( بدر جلدے نمبر ۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) ياَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ b نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثم لِتَبْلُغُوا اَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يَتَوَتَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَم مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا وَتَرَى الْأَرْضَ هَا مِدَةٌ فَإِذَا انْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاء اهْتَزَّتُ وَ ربَتْ وَ أَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ.وَمِنكُمْ مَنْ يُتَوَلي وَمِنكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا یعنی اے بنی آدم ! تم دو گروہ ہو؛ ایک وہ جو پیرانہ سالی سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں یعنی پیر فرتوت ہو کر نہیں مرتے بلکہ پہلے ہی مر جاتے ہیں.دوسرا وہ گروہ جو اس قدر بڑھے ہو جاتے ہیں جو ایک ارذل حالت زندگی کی جو قابل نفرت ہے ان میں پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ عالم اور صاحب عقل ہونے کے بعد سراسر نادان بچے کی طرح بن جاتے ہیں اور تمام عمر کا آموختہ بیک دفعہ سب بھول جاتا ہے.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے طرز حیات کے بارے میں بنی آدم کے صرف دو گروہوں میں تقسیم محدود کر دی تو

Page 397

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ سورة الحج بہر حال حضرت مسیح ابن مریم خدا تعالیٰ کے تمام خا کی بندوں کی طرح اس تقسیم سے باہر نہیں رہ سکتے.یہ حکماء کا قانون قدرت نہیں جو کوئی اس کو رد کر دے گا یہ تو سنت اللہ ہے جس کو خود اللہ جل شانہ نے تصریح سے بیان فرما دیا ہے.سواس اس تقسیم الہی کی رو سے لازم آتا ہے کہ یا تو حضرت مسیح مِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفی میں داخل ہوں اور وفات پا کر بہشت بریں میں اس تخت پر بیٹھے ہوں جس کی نسبت انہوں نے آپ ہی انجیل میں بیان فرمایا ہے اور یا اگر اس قدر مدت تک فوت نہیں ہوئے تو زمانہ کی تاثیر سے اس ارذل عمر تک پہنچ گئے ہوں جس میں باعث بیکاری حواس ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۶،۲۶۵) اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنت اللہ دو ہی طرح سے تم پر جاری ہے بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اور بعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں یہاں تک کہ ارذل عمر کی طرف رد کئے جاتے ہیں اور اس حد تک نوبت پہنچتی ہے کہ بعد علم کے نادان محض ہو جاتے ہیں.یہ آیت بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اگر زیادہ عمر پاوے تو دن بدن ارذل عمر کی طرف حرکت کرتا ہے یہاں تک کہ بچے کی طرح نادان محض ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۹،۴۲۸) یہ بات فریقین میں مسلم ہے کہ عام قانون قدرت خدا تعالیٰ کا یہی جاری ہے کہ اس عمر طبیعی کے اندراندر جو انسانوں کے لئے مقرر ہے ہر یک انسان مر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے کئی مواضع میں اس بات کو بتصریح بیان کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ مِنْكُم منْ يُتَوَفَّى وَ مِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا یعنی تم پر دو ہی حالتیں وارد ہوتی ہیں ایک یہ کہ بعض تم میں سے قبل از پیرانہ سالی فوت ہو جاتے ہیں اور بعض ارذل عمر تک پہنچتے ہیں.یہاں تک کہ صاحب علم ہونے کے بعد محض نادان ہو جاتے ہیں.اب اگر خلاف اس نص صریح کے کسی کی نسبت یہ دعویٰ کیا جائے کہ باوجود اس کے کہ عمر طبعی سے صد با حصے زیادہ اس پر زمانہ گزر گیا مگر وہ نہ مرا اور نہ ارذل عمر تک پہنچا اور نہ ایک ذرہ امتداد زمانہ نے اس پر اثر کیا تو ظاہر ہے کہ ان تمام امور کا اس شخص کے ذمہ ثبوت ہوگا جو ایسا دعویٰ کرتا ہے یا ایسا عقیدہ رکھتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے تو کسی جگہ انسانوں کے لئے یہ ظاہر نہیں فرمایا کہ بعض انسان ایسے بھی ہیں جو معمولی انسانی عمر سے صدہا درجہ زیادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور زمانہ ان پر اثر کر کے ان کو ارذل عمر تک

Page 398

٣٧٠ دوو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج نہیں پہنچاتا اور تنگسهُ في الخَلق کا مصداق نہیں ٹھہراتا پس جبکہ یہ عقیدہ ہمارے آقا و مولیٰ کی عام تعلیم سے صریح مخالف ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اس کا مدعی ہو ثبوت اس کے ذمہ ہے.غرض حسب تعلیم قرآنی عمر طبعی کے اندر اندر مر جانا اور زمانہ کے اثر سے عمر کے مختلف حصوں میں گونا گوں تغیرات کا لحاظ ہونا یہاں تک کہ بشرط زندگی ارذل عمر تک پہنچنا یہ ایک فطرتی اور اصلی امر ہے جو انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہے جس کے بیان میں قرآن کریم بھرا ہوا ہے الحق دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۰) آیت وَ مِنْكُمْ مَنْ يُتَوَى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى ارْذَلِ الْعُمُرِ سے حضرت عیسی کی موت ثابت ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف میں باوجود تکرار مضمون اس آیت کے یہ فقرہ کہیں نہیں آیا کہ مِنْكُمْ مَنْ صَعَدَ إِلَى السَّمَاءِ بِسْمِهِ الْعُنْصُرِي ثُمَّ يَرْجِعُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ یعنی تم میں سے ایک وہ بھی ہے جو جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور پھر آخری زمانہ میں دنیا میں واپس آئے گا.پس اگر یہ سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجسم عنصری آسمان پر چلے گئے ) تو قرآن شریف کی یہ حصر نا تمام رہے گی کیونکہ آسمان پر چڑھنے کی نسبت خدا نے اس آیت یا کسی دوسری آیت میں ذکر نہیں کیا اور اگر در حقیقت خدا کی یہ بھی سنت تھی تو تکمیل بیان کے لئے اس کا ذکر کرنا ضروری تھا اور جبکہ کئی دفعہ قرآن شریف میں جوان یا بوڑھا کر کے مارنے کا ذکر آ چکا ہے تو اس کے ساتھ اس عادت اللہ کا بیان نہ کرنا کہ کسی کو آسمان پر آباد بھی کیا جاتا ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کسی کو مع جسم آسمان پر آباد کر دینا خدا تعالیٰ کی سنتوں میں سے نہیں ہے.(ایاما الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۶،۳۸۵) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ ، فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرُ إِطْمَانَ بِهِ ۚ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةُ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ دو المبين قبولیت دعا حق ہے لیکن دعانے کبھی سلسلہ موت فوت کو بند نہیں کر دیا.تمام انبیاء کے زمانہ میں یہی حال ہوتا رہا ہے.وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو اور ہماری خواہش پوری ہو.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَكَ خَيْرُ إِطْمَانَ بِهِ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةُ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ

Page 399

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۱ سورة الحج و دو الْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں.اگر اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو اطمینان ہو جاتا ہے اور اگر کوئی فتنہ پہنچے تو منہ پھیر لیتا ہے.ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کا نقصان ہے اور یہ نقصان ظاہر ہے.بدرجلد نمبر ۱۶ مورخہ ۲۰ جولائی ۱۹۰۵ء صفحه ۳) اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالبِينَ وَالنَّصْرِى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ اَشْرَكُوا إِنَّ اللهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّبُوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَ النُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقٌّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ تُكْرِهِ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ اہل اسلام جو ایمان لائے ہیں جنہوں نے توحید خالص اختیار کی اور یہود جنہوں نے اولیاء اور انبیاء کو اپنا قاضی الحاجات ٹھہرادیا اور مخلوق چیزوں کو کارخانہ خدائی میں شریک مقرر کیا اور صابئین جو ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اور نصاری جنہوں نے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے اور مجوس جو آگ اور سورج کے پرستار ہیں اور باقی تمام مشرک جو طرح طرح کے شرک میں گرفتار ہیں خدا ان سب میں قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا.خدا ہر ایک چیز پر شاہد ہے اور خود مخلوق پرستوں کا باطل پر ہونا کچھ پوشیدہ بات نہیں.یہ امر نہایت بدیہی ہے اور ہر ایک شخص ذاتی توجہ سے دیکھ سکتا ہے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں اجرام فلکی اور اجسام ارضی و نباتات اور جمادات اور حیوانات اور عناصر اور چاند اور سورج اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور طرح طرح کے جاندار اور انسان ہیں جن کی مشرک لوگ پوجا کرتے ہیں یہ سب چیزیں خدا کو سجدہ کرتی ہیں یعنی اپنی ہستی اور بقاء اور وجود میں اس کی محتاج پڑی ہوئی ہیں اور یہ تذلل تمام اس کی طرف جھکی ہوئی ہیں اور ایک دم اس سے بے نیاز نہیں.پس انہی چیزوں سے جو آپ ہی حاجت مند ہیں حاجتیں مانگنا صریح گمراہی ہے اور بعض انسان جو سرکش ہو جاتے ہیں وہ بھی تذلل سے خالی نہیں کیونکہ اسی دنیا میں طرح طرح کے آلام اور استقام اور افکار اور ہموم کا عذاب ان پر نازل ہوتا رہتا ہے اور آخرت کا عذاب بھی ان کے لئے تیار ہے پھر بجز خدا کے

Page 400

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة الحج کون سی چیز ہے جس کے وجود پر نظر کرنے سے مفت غنی اور بے نیاز ہونے کی اس میں پائی جاتی ہے تا کوئی اس کو اپنا معبود ٹھہر اوے اور جبکہ کوئی چیز بجز خدا کے غنی اور بے نیاز نہیں تو تمام مخلوق پرستوں کا باطل پر ہونا (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۵،۵۲۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ثابت ہے.واذ بوانَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَ طَهَّرُ بَيْتِيَ لطايفينَ وَالْقَالِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ قَوْلُهُ تَعَالَى إِذْ بَوَانَا لا بُراهِيمَ مَكَانَ خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ یاد کر جب ہم نے ابراہیم کو دوبارہ الْبَيْتِ دَلِيْلٌ عَلى كَونِ مَكَّةَ اوّل بنانے کے لئے وہ مکان دکھلا یا جہاں ابتداء میں بیت اللہ تھا الْعِمَارَاتِ فَلَا تَسْكُتُ كَالْمَتِت وَ کُن یہ قول صاف بتلا رہا ہے کہ مکہ دنیا میں پہلی عمارت ہے.پس مِنَ الْمُتَيَفِظِينَ.فَحَاصِلُ الْمَقَالَتِ آن مردہ کی طرح چپ مت ہو جا اور جاگنے والوں کی طرح ہو.مَكَّةَ كَانَتْ أَوَّلَ الْعِمَارَاتِ ثُمَّ خَرَبَتْ پس حاصل کلام یہ کہ مکہ دنیا میں پہلی عمارت تھی پھر حادثات مِنَ الْحَادِثَاتِ وَسَيْلِ الْأَفَاتِ اور سیل آفات سے خراب ہو گیا.منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳۳) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) ذلِكَ وَ مَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَتِ اللهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۖ وَ أُحِلَّتْ لَكُمْ الأَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُم فَاجْتَنِبُوا الرّجُسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الدورة فَاجْتَنِبُوا الرّجسَ ۱۰۰۰۰لخ سواس پلیدی سے جو بت ہیں پر ہیز کرو اور دروغ گوئی سے باز آؤ.( براہینِ احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے اجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ يعنى

Page 401

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج بچوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بہت سے کم نہیں.جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بہت ہے.سچی گواہی دو اگر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہیئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.(ازالہ اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۰) قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پر ہیز کرو.نور القرآن نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۰۳) بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کر ولیعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) بتوں سے اور جھوٹ سے پر ہیز کرو کہ یہ دونوں نا پاک ہیں.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۷) حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قول زور.اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے.یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے.میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطرار اسٹور کھالے تو یہ امر دیگر ہے لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دور نکل جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے.غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیاں خطر ناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے.اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو.پس تم اپنی زبانوں پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبا نہیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۴) قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّور دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ

Page 402

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ سورة الحج بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جاوے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت ان کو ہوگی.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱/ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پر ہیز کرو اجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قَولَ النُّورِ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے.جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بت بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے.جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی.کیسی خرابی آکر پڑی ہے.اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو اس نجاست کو چھوڑ دو تو کہتے ہیں کہ کیوں کر چھوڑ دیں.اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے.بھلائی اور فتح اسی کی ہے....یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں مگر میں کیوں کر اس کو باور کروں مجھ پر سات مقد مے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی.کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو.اللہ تعالی تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راست باز کو سزادے؟ اگر ایسا ہو تو پھر دنیا میں کوئی شخص سچ بولنے کی جرات نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اُٹھ جاوے.راستبا ز تو زندہ ہی مرجا دیں.اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا ان کی بعض اور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پالیتے ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۷ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۶ء صفحه ۵،۴) ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَابِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ قبلہ کی طرف پاؤں کر کے سونے کے متعلق فرمایا ) یہ نا جائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے.(سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی.فرمایا کہ ) یہ کوئی دلیل نہیں ہے.اگر کوئی شخص اسی بناء

Page 403

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ سورة الحج پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لئے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا کرے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہر گز نہیں.وَمَنْ يُعْظِمْ شَعَابِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ - ( الحکم جلد ۸ نمبر ۲۶،۲۵ مورخه ۳۱ جولائی و ۱۰ /اگست ۱۹۰۴ صفحه ۱۴) b لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَ لكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ.راستباز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں نہ یہ کہ اُن کا گوشت اور پوست اور اُن کی ہڈیاں خدائے تعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں.خدائے تعالیٰ خود ایک آیت میں فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُم یعنی خدائے تعالیٰ تک گوشت اور خون قربانیوں کا ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ اعمال صالحہ کی رُوح جو تقویٰ اور طہارت ہے وہ تمہاری طرف سے پہنچتی (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۷) ہے.قانونِ قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ معرفت کاملہ کے بعد ملتا ہے.خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کا ملہ ہے پس جس کو معرفت کا ملہ دی گئی اس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اُس کو ہر ایک گناہ سے جو بیا کی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی.پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے.جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے.ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے.اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے.ذبیح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے.پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت.اسی کی طرف خدا تعالی قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ یعنی تمہاری ( قربانیوں) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ

Page 404

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقویٰ اختیار کرو.سورة الحج لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۲،۱۵۱) دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے.گوشت اور خون سچی قربانی نہیں.جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ ان قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے.(برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۴) خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو.پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُم یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ.اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبیح ہو جاؤ.جب کوئی تقوی اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۹ حاشیه ) اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا وہ تو روحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے اس لئے فرما یا لَن يَنَالَ الله لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَ لَكِن يَنَالُهُ التَّقْوى.اور دوسری جگہ فرمایا إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة : ۲۸) الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵ ۲۶ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۱۳) ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا.جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتی اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا.اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما یا لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے.حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو

Page 405

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة الحج پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے.اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں.روح اور جسم کا با ہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے...غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں.روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جب روح میں واقعی عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے.الحام جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۲، ۳) اِنَّ اللهَ يُدْفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَانِ كَفُورٍ أَذِنَ لا لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتُ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ خدا کا ارادہ ہے کہ کفار کی بدی اور ظلم کو مومنوں سے دفع کرے یعنی مومنوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دے تحقیقاً خدا خیانت پیشہ نا شکر لوگوں کو دوست نہیں رکھتا خدا ان مومنوں کو لڑنے کی اجازت دیتا ہے جن پر کا فرقتل کرنے کے لئے چڑھ چڑھ کے آتے ہیں اور خدا حکم دیتا ہے کہ مومن بھی کافروں کا مقابلہ کریں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر قدرت رکھتا ہے یعنی اگر چہ تھوڑے ہیں مگر خدا ان کی مدد پر قادر ہے.یہ قرآن شریف میں وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ کی اجازت دی گئی.آپ خود سوچ لو کہ اس آیت سے کیا نکلتا ہے.کیا لڑنے کے لئے خود سبقت کرنا یا مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بچاؤ کے لئے مجبوری مقابلہ کرنا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۲،۳۹۱)

Page 406

۳۷۸ پر سورة الحج تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وہ لوگ کہ جو تمہارے ناحق کے جنگوں اور قتل کے ارادوں سے ظلم رسیدہ ہیں ان کی نسبت مدد دینے کا حکم ہو چکا ہے اور خدان کی مدد پر قادر ہے.( براتان احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۲ حاشیہ نمبر ۱۱) قرآن شریف میں ہرگز ہرگز جبر کی تعلیم نہیں ہے.پہلے کفار نے ابتداء کر کے صدہا مومنوں کو تکلیفیں دیں.قتل کیا.وطنوں سے نکالا اور پھر تعاقب کیا اور جب اُن کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور اُن کے جرائم خدائے تعالیٰ کی نظر میں سزا دہی کے لائق ٹھہر گئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمُ لقدیر (س ۱۷(۱۳) یعنی جن لوگوں پر یعنی مسلمانوں پر ظلم ہوا اور اُن کے قتل کرنے کے لئے اقدام کیا گیا.اب اللہ تعالیٰ بھی انھیں مقابلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے.پھر چونکہ عرب کے لوگ بباعث ناحق کی خونریزیوں کے جو وہ پہلے کر چکے تھے اور بری بری ابتداؤں سے مسلمانوں کو قتل کر چکے تھے اس لئے ایک شخصی قصاص کے وہ مستحق ہو گئے تھے.اور اس لائق تھے کہ جیسا انہوں نے ناحق بے گناہوں کو بڑے بڑے عذاب پہنچ کر قتل کیا ایسا ہی ان کو بھی قتل کیا جائے.اور جیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے وطنوں سے نکال کر تباہی میں ڈالا اور اُن کے مالوں اور جائدادوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا ایسا ہی اُن کے ساتھ بھی کیا جائے.لیکن خدائے تعالیٰ نے رحم کے طور پر جیسی اور رعائتیں کی ہیں کہ اُن کے بچے نہ مارے جاویں اور اُن کی عورتیں قتل نہ ہوں ایسا ہی یہ بھی رعایت کر دی کہ اگر اُن میں سے کوئی مقتول ہونے سے پہلے خود بخود ایمان لے آوے تو وہ اس سزا سے بچایا جاوے جو بوجہ اس کے پہلے جرائم اور خونریزیوں کے اُس پر واجب ہوتی تھی.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۲، ۲۶۳) اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہو ئیں کہ جیسے ایک زبر دست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خدا تعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیر و مخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی برے برے ے برے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کرنے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو اُن کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں

Page 407

۳۷۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا.یہ ہر گز نہیں کہ ان لڑائیوں میں کسی قسم کا یہ ارادہ تھا کہ قتل کی دھمکی دے کر ان لوگوں کو مسلمان کر دیا جائے بلکہ وہ تو طرح طرح کے جرائم اور خونریزیوں کے سبب سے پہلے سے واجب القتل ہو چکے تھے اور اسلامی رعایتوں میں سے جو ان کے ساتھ رب رحیم نے کیں ایک یہ بھی رعایت تھی کہ اگر کسی کو توفیق اسلام نصیب ہو تو وہ بیچ سکتا ہے.اس میں جبر کہاں تھا عرب پر تو انہیں کے سابقہ جرائم کی وجہ سے فتوی قتل کا ہو گیا تھا.ہاں باوجود اس کے یہ رعایتیں بھی تھیں کہ ان کے بچے نہ مارے جائیں ان کے بڈھے نہ مارے جائیں ان کی عورتیں نہ ماری جائیں اور ساتھ اس کے یہ بھی رعایت کہ بصورت ایمان لانے کے وہ بھی نہ مارے جائیں.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۴۵،۲۴۴) جنہوں نے تلواروں سے قتل کیا وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.جنہوں نے ناحق غریبوں کو لوٹا وہ لوٹے گئے جیسا کیا دیسا یا یا بلکہ ان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ ہوا جس پر آج اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیوں ایسا برتاؤ ہوا سب کو قتل کیا ہوتا.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۶) لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا از بس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمداً یا سہواً بڑی غلطیوں میں ڈالو گے.سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلعم کے قتل کا ارادہ کر کے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا.اور پھر تعاقب کیا اور جب تکلیف حد سے بڑھی تو پہلا حکم جولڑائی کے لئے نازل ہوا وہ یہ تھا اُذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ (سار ۱۳) یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی.اس وجہ سے اجازت دی گئی کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵،۲۵۴) اسلام نے تلوار اُٹھانے میں سبقت نہیں کی اور اسلام نے صرف بوقت ضرورت امن قائم کرنے کی حد تک تلوار اُٹھائی ہے اور اسلام نے عورتوں اور بچوں اور راہبوں سے قتل کرنے کے لئے حکم نہیں دیا بلکہ جنہوں نے سبقت کر کے اسلام پر تلوار کھینچی وہ تلوار سے ہی مارے گئے.اور تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ہے جس کی رو سے بیشمار عورتیں اور بچے بھی قتل کئے گئے جس خدا کی نظر میں وہ بے رحمی اور سختی کی لڑائیاں بری نہیں تھیں بلکہ اس کے حکم سے تھیں تو پھر نہایت بے انصافی ہوگی کہ وہی خدا اسلام کی ان

Page 408

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۰ سورة الحج لڑائیوں سے ناراض ہو جو مظلوم ہونے کی حالت میں یا امن قائم کرنے کی غرض سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم کو کرنی پڑی تھیں.(حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۷٫۴۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں کی ہرگز یہ غرض نہ تھی کہ خواہ مخواہ لوگوں کو قتل کیا جائے.وہ اپنے باپ دادا کے ملک سے نکالے گئے تھے اور بہت سے مسلمان مرد اور عورتیں بے گناہ شہید کئے گئے تھے.اور ابھی ظالم ظلم سے باز نہیں آتے تھے اور اسلام کی تعلیم کو روکتے تھے.لہذا خدا کے قانون حفاظت نے یہ چاہا کہ مظلوموں کو بالکل نابود ہونے سے بچالے.سوجنہوں نے تلوار اٹھائی تھی انہیں کے ساتھ تلوار کا مقابلہ ہوا.غرض قتل کرنے والوں کا فتنہ فرو کرنے کے لئے بطور مدافعت شر کے وہ لڑائیاں تھیں اور اس وقت ہو ئیں جبکہ ظالم طبع لوگ اہل حق کو نابود کرنا چاہتے تھے.اس حالت میں اگر اسلام اس حفاظت خود اختیاری کو عمل میں نہ لاتا تو ہزاروں بچے اور عورتیں بیگناہ قتل ہو کر آخر اسلام نابود ہو جاتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۵۱،۴۵۰) اعْلَمُوا أَنَّ قَتْلَ النَّاسِ مِنْ غَيْرِ جان لو کہ بغیر تفہیم وتبلیغ اور بغیر اتمام حجت کے تَفْهِيْمٍ وَتَبْلِيغِ وَإِثْمَامِ حُجَةٍ أَمْرٌ شَنِيْعُ لا لوگوں کا قتل کرنا ایک ایسی بری بات ہے جسے کوئی عقل يَرْطى بِهِ أَهْلُ فِطْنَةٍ وَلَا نُورُ فِطرة مند اور روشن ضمیر پسند نہیں کرتا.پس کیسے یہ مکروہ عمل فَكَيْفَ يُعزى إِلَى اللهِ الْعَادِلِ الرَّحِيْمِ، عادل و رحیم اور محسن و مہربان اور کریم خدا کی طرف وَالْمَتَانِ الرُّؤُوفِ الْكَرِيمِ؟ وَلَوْ كَانَ هذا منسوب کیا جا سکتا ہے.اگر یہ امر جائز ہوتا تو اس کے جَائِزًا لَكَانَ أَحَقِّ بِهِ سَيِّدُنَا خَيْرُ الْبَرِيَّةِ، سب سے زیادہ مستحق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ وَقَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّهُ صَبَرَ مُدَّةً طَوِيْلَةً عَلى علیہ وسلم ہوتے.اور تمہیں یہ علم ہے کہ آپ نے کافروں تَطَاوُلِ الْكَفَرِةِ الْفَجَرَةِ، وَرَاى مِنْهُمْ اور فاجروں کی سرکشی پر ایک لمبا عرصہ صبر کیا اور ان کی كَثِيرًا مِنَ الظُّلْمِ وَالْأَذِيَّةِ، وَأَنْوَاعِ الشَّدّة طرف سے بہت سے ظلم اور اذیتیں اور طرح طرح کی وَالصُّعُوبَةِ، حَتَّى أَخْرَجُوهُ مِنَ الْبَلْدَةِ ثُمَّ سختیاں اور صعوبتیں دیکھیں یہاں تک کہ کافروں نے أَهْرَعُوا إِلَيْهِ مُتَعَاقِبِينَ مُغَاضِبِيْنَ بِنِيَّةِ آپ کو مکہ معظمہ سے نکال دیا.پھر غضبناک ہو کر آپ الْقَتْلِ وَالْإِبَادَةِ فَصَبَرَ صَبْرًا لَا يُوجَدُ کو قتل کرنے کی نیت سے آپ کا تعاقب کیا لیکن نَظِيرُهُ في أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِ حَطرَةِ الْعِزَّةِ آنحضرت نے ایسا صبر کیا جس کی نظیر گذشتہ پیغمبروں

Page 409

۳۸۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج حَتَّى بَلَغَ الْإِيْذَاءُ مُنْعَهَاهُ، وَطالَ مَدَاهُ فَهُنَاكَ میں نہیں ملتی.تب اس وقت سمیع و خبیر خدا کی نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ مِنَ اللهِ السَّمِيعِ الْخَبِيْرِ أَذِنَ طرف سے یہ آیت نازل ہوئی أَذِنَ لِلَّذِيْنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ - نَصْرِهِم لَقَدِيرُ - فَانْظُرُوا كَيْفَ صَبَرَ رَسُولُ اللهِ وَخَيْرُ پس دیکھو کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرُّسُلِ عَلَى ظُلْمِ الْكَفَرَةِ إِلَى بُرْهَةٍ مِنَ الزَّمَانِ، نے کافروں کے ظلم پر ایک لمبا عرصہ صبر کیا، اور وَدَفَعَ بِالْحَسَنَةِ الشَّيْئَةَ حَتَّى تَمَّتْ مُجَةُ الله برائی کا جواب نیکی سے دیا یہاں تک کہ بدلہ دینے الشَّيَانِ، وَانْقَطعَتْ مَعَاذِيرُ الْكَافِرِينَ.فَاعْلَمُوا والے خدا کی حجت پوری ہوگئی اور کافروں کے سب أَنَّ اللهَ لَيْسَ كَقَضَابِ يَعْبَطُ الشّاةَ بِغَيْرِ عذر ختم ہو گئے.پس جان لو کہ اللہ تعالیٰ اس قصاب جَرِيمَةٍ، بَلْ هُوَ عَلِيْمٌ عَادِلٌ لَّا يَأْخُذُ مِنْ غَيْرِ کی طرح نہیں جو بکری کے جرم کے بغیر اسے ذبح کر دیتا ہے بلکہ وہ حلیم اور عادل ہے اور بغیر اتمام حجت إثْمَامِ حجة انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۳۸ تا ۱۴۰ کے کسی پر گرفت نہیں کرتا.( ترجمہ از مرتب ) قرآن کی تعلیم سے بے شک ثابت ہوتا ہے کہ یہود اور نصاری سے لڑائیاں ہوئیں.مگر ان لڑائیوں کا ابتدا اہل اسلام کی طرف سے ہر گز نہیں ہوا اور یہ لڑائیاں دین میں حیر اداخل کرنے کے لئے ہر گز نہیں تھیں بلکہ اس وقت ہوئیں جبکہ خود اسلام کے مخالفوں نے آپ ایذا دے کر یا موذیوں کو مدد دے کر ان لڑائیوں کے اسباب پیدا کئے.اور جب اسباب انہیں کی طرف سے پیدا ہو گئے تو غیرت الہی نے ان قوموں کو سزا دینا چاہا اور اس سزا میں بھی رحمت الہی نے یہ رعایت رکھی کہ اسلام میں داخل ہونے والا یا جزیہ دینے والا اس عذاب سے بچ جائے.یہ رعایت بھی خدا کے قانون قدرت کے مطابق تھی.کیونکہ ہر ایک مصیبت جو عذاب کے طور پر نازل ہوتی ہے مثلاً و با یا تھا تو انسانوں کا کانشنس خود اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ وہ دعا اور تو بہ اور تضرع اور صدقات اور خیرات سے اس عذاب کو موقوف کرانا چاہیں.چنانچہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے.اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ رحیم خدا عذاب کو دور کرنے کے لئے خود الہام دلوں میں ڈالتا ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کی دعائیں کئی دفعہ منظور ہو کر بنی اسرائیل کے سر سے عذاب ٹل گیا.غرض اسلام کی لڑائیاں سخت طبع مخالفوں پر ایک عذاب تھا جس میں ایک رحمت کا طریق بھی کھلا تھا.سو یہ خیال کرنا دھوکہ ہے کہ اسلام یہ

Page 410

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ سورة الحج نے توحید کے شائع کرنے کے لئے لڑائیاں کیں.یادرکھنا چاہئے کہ لڑائیوں کی بنیاد محض سزا دہی کے طور پر اس وقت سے شروع ہوئی کہ جب دوسری قوموں نے ظلم اور مزاحمت پر کمر باندھی..( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۵۱) اسلام نے یہودیوں کے ساتھ تو حید منوانے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں بلکہ اسلام کے مخالف خود اپنی شرارتوں سے لڑائیوں کے محرک ہوئے.بعض نے مسلمانوں کے قتل کرنے کے لئے خود پہلے پہل تلوار اٹھائی.بعض نے ان کی مدد کی.بعض نے اسلام کی تبلیغ روکنے کے لئے بے جا مزاحمت کی.سوان تمام موجبات کی وجہ سے مفسدین کی سرکوبی اور سزا اور شرکی مدافعت کے لئے خدا تعالیٰ نے ان ہی مفسدوں کے مقابل پر لڑائیوں کا حکم کیا.اور یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک اس وجہ سے مخالفوں سے لڑائی نہیں کی کہ اس وقت تک پوری جمعیت حاصل نہیں ہوئی تھی یہ محض ظالمانہ اور مفسدانہ خیال ہے.اگر صورت حال یہ ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تیرہ برس تک ان ظلموں اور خونریزیوں سے باز رہتے جو مکہ میں ان سے ظہور پذیر ہوئے اور پھر آپ منصو بہ کر کے یہ تجویز نہ کرتے کہ یا تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا چاہئے اور یا وطن سے نکال دینا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی بغیر حملہ مخالفین کے مدینہ کی طرف چلے جاتے تو ایسی بدظنیوں کی کوئی جگہ بھی ہوتی لیکن یہ واقعہ تو ہمارے مخالفوں کو بھی معلوم ہے کہ تیرہ برس کے عرصہ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی ہر ایک سختی پر صبر کرتے رہے اور صحابہ کوسخت تاکید تھی کہ بدی کا مقابلہ نہ کیا جائے چنانچہ مخالفوں نے بہت سے خون بھی کئے اور غریب مسلمانوں کو ز دوکوب کرنے اور خطر ناک زخم پہنچانے کا تو کچھ شمار نہ رہا.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے حملہ کیا.سو ایسے حملہ کے وقت خدا نے اپنے نبی کوشتر اعدا سے محفوظ رکھ کر مدینہ میں پہنچا دیا اور خوشخبری دی کہ جنہوں نے تلوار اٹھائی وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جائیں گے.پس ذرا عقل اور انصاف سے سوچو کہ کیا اس روئداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جمعیت لوگوں کی ہوگئی تو پھرلڑائی کی نیت جو پہلے سے دل میں پوشیدہ تھی ظہور میں آئی ؟ افسوس ہزار افسوس کہ تعصب مذہبی کے رو سے عیسائی دین کے حامیوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے.یہ بھی نہیں سوچتے کہ مدینہ میں جا کر جب مکہ والوں کے تعاقب کے وقت بدر کی لڑائی ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی ہے تو کون کی جمعیت پیدا ہو گئی تھی.اس وقت تو کل تین سو تیرہ آدمی مسلمان تھے اور وہ بھی اکثر نو عمر نا تجربہ کار جو میدان بدر میں

Page 411

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ سورة الحج حاضر ہوئے تھے.بس سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اس قدر آدمیوں پر بھروسہ کر کے عرب کے تمام بہادروں اور یہود اور نصاری اور لاکھوں انسانوں کی سرکوبی کے لئے میدان میں کسی کا نکلنا عقل فتوی دے سکتی ہے؟!!! اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نکلنا ان تدبیروں اور ارادوں کا نتیجہ نہیں تھا جو انسان دشمنوں کے ہلاک کرنے اور اپنی فتح یابی کے لئے سوچتا ہے.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کم سے کم تین چالیس ہزار فوج کی جمعیت حاصل کر لینا ضروری تھا اور پھر اس کے بعد لاکھوں انسانوں کا مقابلہ کرنا.لہذا صاف ظاہر ہے کہ یہ لڑائی مجبوری کے وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوئی تھی نہ ظاہری سامان کے بھروسہ پر.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۵،۳۶۴) فَلَمَّا أَصَابَ الْمُسْلِمِينَ اللله الأولى في پس جس وقت مسلمانوں کو پہلی ذلت مکہ میں مَكّةَ وَعَدَهُمُ اللهُ بِقَوْلِهِ أذِنَ لِلَّذِينَ پہنچی خدا نے اُن سے اپنے اس قول میں وعدہ فرمایا تھا يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ آخر آیت تک اور علی نَصْرِهِمُ لَقَدِيرٌ وَأَشَارَ في قَوْلِهِ عَلى نَصْرِهِمْ کے قول سے اشارہ کیا کہ مومنوں کے ہاتھ نَصْرِهِمْ أَنَّ الْعَذَابَ يُصِيبُ الْكُفَّارَ بِأَيْدِی سے کفار پر عذاب اترے گا.پس خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَنْجَزَ اللهُ هذَا الْوَعْدَ يَوْمَ بَدْرٍ بدر کے دن ظاہر ہوا اور کافر مسلمانوں کی آبدار تلوار وقَتَلَ الْكَافِرِيْنَ بِسُيُوفِ الْمُسْلِمِينَ.سے قتل کیے گئے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۷۷) (ترجمہ اصل کتاب سے ) اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو.مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں اور پھر بعد اس کے بھی کفار کے ہاتھ سے دکھ اٹھایا اور بالخصوص مکہ کے تیرہ برس اس مصیبت اور طرح طرح کے ظلم اٹھانے میں گزرے کہ جس کے تصور سے بھی رونا آتا ہے لیکن آپ نے اس وقت تک دشمنوں کے مقابل پر تلوار نہ اٹھائی اور نہ ان کے سخت کلمات کا سخت جواب دیا جب تک کہ بہت سے صحابہ اور آپ کے عزیز دوست بڑی بے رحمی سے قتل کئے گئے اور طرح

Page 412

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة الحج طرح سے آپ کو بھی جسمانی دکھ دیا گیا اور کئی دفعہ زہر بھی دی گئی.اور کئی قسم کی تجویز میں قتل کرنے کی کی گئیں جن میں مخالفوں کو ناکامی رہی جب خدا کے انتقام کا وقت آیا تو ایسا ہوا کہ مکہ کے تمام رئیسوں اور قوم کے سر بر آوردہ لوگوں نے اتفاق کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہر حال اس شخص کو قتل کر دینا چاہیئے.اس وقت خدا نے جو اپنے پیاروں اور صدیقوں اور راستبازوں کا حامی ہوتا ہے آپ کو خبر دے دی کہ اس شہر میں اب بجز بدی کے کچھ نہیں اور قتل پر کمر بستہ ہیں یہاں سے جلد بھاگ جاؤ تب آپ بحکم الہی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.مگر پھر بھی مخالفوں نے پیچھا نہ چھوڑا بلکہ تعاقب کیا.اور بہر حال اسلام کو پامال کرنا چاہا.جب اس حد تک ان لوگوں کی شورہ پشتی بڑھ گئی اور کئی بے گناہوں کے قتل کرنے کے جرم نے بھی ان کو سزا کے لائق بنا یا تب ان کے ساتھ لڑنے کے لئے بطور مدافعت اور حفاظت خود اختیاری اجازت دی گئی اور نیز وہ لوگ بہت سے بے گناہ مقتولوں کے عوض میں جن کو انہوں نے بغیر کسی معرکہ جنگ کے محض شرارت سے قتل کیا تھا اور ان کے مالوں پر قبضہ کیا تھا اس لائق ہو گئے تھے کہ اسی طرح ان کے ساتھ اور ان کے معاونوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا.مگر مکہ کی فتح کے وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بخش دیا لہذا یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کبھی دین پھیلانے کے لئے لڑائی کی تھی یا کسی کو جبراً اسلام میں داخل کیا تھا سخت غلطی اور ظلم ہے.مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۰،۹) کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لا إكراه في الدِّينِ یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزرگئی اور دین اسلام کے مٹا دینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں.ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر بچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے.لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان سے صدق اور وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس وفادار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفاداری

Page 413

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة الحج اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آسکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو.غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں، (۱) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری.(۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون.(۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرناسراسر لغو اور بیہودہ ہے.کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے.مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۲،۱۱) میں اللہ تعالیٰ کی قسم سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بنانے کے لئے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ تلوار کھینچی اور نہ دین میں داخل کرنے کے لئے کسی کے ایک بال کو بھی نقصان پہنچا یا.بلکہ وہ تمام نبوی لڑائیاں اور آنجناب کے صحابہ کرام کے جنگ جو اس وقت کئے گئے یا تو اس واسطے ان کی ضرورت پڑی کہ تا اپنی حفاظت کی جائے اور یا اس لئے ضرورت پڑی کہ تا ملک میں امن قائم کیا جائے اور جولوگ اسلام کو اس کے پھیلنے سے روکتے ہیں اور اُن لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جو مسلمان ہوں ان کو کمزور کر دیا جائے جب تک کہ وہ اس نالائق طریق سے تو بہ کر کے اسلام کی سلطنت کے مطیع ہو جائیں.پس ایسے جنگ کا اُس زمانہ میں کہاں پتہ ملتا ہے جو جبراً مسلمان بنانے کے لئے کی جاتی ہے.ہاں رحمت الہی نے قابل سزا قوموں کے لئے جو بہت سے خون کر چکی تھیں اور خونیوں کو مدد دے چکی تھیں اور اپنے جرائم کی وجہ سے عدالت کے رُو سے قتل کے لائق تھیں رحیما نہ طور پر یہ رعایت رکھی تھی کہ ایسے مجرم اگر سچے دل سے مسلمان ہو جا ئیں تو ان کا وہ سنگین جرم معاف کر دیا جائے اور ایسے مجرموں کو اختیار ملا تھا کہ اگر چاہیں تو اس رحیمانہ قانون سے فائدہ اُٹھائیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۶) چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے باعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ، مال میں ، کثرت جماعت میں عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں

Page 414

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۶ سورة الحج کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگارہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے درد ناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شتر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پنتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے أَذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریادشن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.الجز و نمبر ۱۷ سورۃ الحج.مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیٹروں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۶،۵)

Page 415

۳۸۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.( گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۸) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دکھ اٹھاؤ اور صبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھا یا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا.اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شتر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنالیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولی اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور باز و تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیٹروں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۰) بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں اگر ہمدردی کی تعلیم ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائیاں کیوں کرتے.وہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطر ناک دکھ اور تکلیف پر تکلیف اٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی صرف مدافعت کے طور پر.تیرہ برس تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکلیف اُٹھاتے رہے.ان کے عزیز دوست اور یاروں کو سخت سخت عذاب دیا جاتا رہا.اور جور و ظلم کا کوئی

Page 416

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة الحج بھی ایسا پہلو نہ رہا جو مخالفوں نے ان کے لئے نہ برتا ہو یہاں تک کہ کئی مسلمان مرد اور کئی مسلمان عورتیں ان کے ہاتھ سے شہید بھی ہو گئے اور ان کے ہر وقت کے ایسے شدید ظلموں سے تنگ آکر بحکم الہی شہر بھی چھوڑنا پڑا جب مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا.جب ان کے ظلموں اور شرارتوں کی بات انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو اس مظلومانہ حالت میں مقابلہ کاحکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریر اپنی شرارت سے باز آجائیں اور ان کی شرارت سے مخلوق خدا کو بچایا جائے اور ایک حق پرست قوم اور دینِ حق کے لئے راہ کھل جاوے ورنہ کوئی بتلاوے کہ مکہ میں تیرہ سال تک رہ کر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا باپ مارا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کے لئے بدی نہیں چاہی.آپ تو رحم مجسم تھے اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے انہی ظالموں پر پورا تسلط حاصل کر لیا تھا اور شوکت اور غلبہ آپ کو مل گیا تھا تو آپ ان تمام ظالم آئمۃ الکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دکھ دیتے رہتے اور بغاوت پر تلے رہتے تھے قتل کروا دیتے تو کون پوچھتا تھا.( تقریریں جلسہ سالانہ ۱۹۰۴ صفحه ۲۸) سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبر شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سز تھیں یعنی اُن لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِیر یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے.اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبرا روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۴) اکثر مسلمان مجھ پر حملہ کرتے ہیں کہ تمہارے سلسلہ میں یہ عیب ہے کہ تم جہاد کو موقوف کرتے ہو.مجھے افسوس ہے کہ وہ نادان اس کی حقیقت سے محض نا واقف ہیں.وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام

Page 417

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة الحج کرتے ہیں.آپ نے کبھی اشاعت مذہب کے لئے تلوار نہیں اُٹھائی.جب آپ پر اور آپ کی جماعت پر مخالفوں کے ظلم انتہا تک پہنچ گئے اور آپ کے مخلص خدام میں سے مردوں اور عورتوں کو شہید کر دیا گیا اور پھر مدینہ تک آپ کا تعاقب کیا گیا اُس وقت مقابلہ کا حکم ملا.آپ نے تلوار نہیں اٹھائی مگر دشمنوں نے تلوار اٹھائی بعض اوقات آپ کو ظالم طبع کفار نے سر سے پاؤں تک خون آلود کر دیا تھا مگر آپ نے مقابلہ نہیں کیا.خوب یا درکھو کہ اگر تلوار اسلام کا فرض ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اُٹھاتے مگر نہیں وہ تلوار جس کا ذکر ہے وہ اُس وقت اٹھی جب موذی کفار نے مدینہ تک تعاقب کیا.اس وقت مخالفین کے ہاتھ میں تلوار تھی مگر اب تلوار نہیں....اور اسلام کے خلاف صرف قلم سے کام لیا جاتا ہے.پھر قلم کا جواب تلوار سے دینے والا احمق اور ظالم ہوگا یا کچھ اور ؟ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے حد سے گزرے ہوئے ظلم و ستم پر تلوار اُٹھائی اور وہ حفاظت خود اختیاری تھی جو ہر مہذب گورنمنٹ کے قانون میں بھی جرم نہیں.تعزیرات ہند میں بھی حفاظت خود اختیاری کو جائز رکھا ہے.اگر ایک چور گھر میں گھس آوے اور وہ حملہ کر کے مارڈالنا چا ہے اس وقت اس چور کو اپنے بچاؤ کے لئے مارڈالنا جرم نہیں ہے.پس جب حالت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار خدام شہید کر دیئے گئے اور مسلمان ضعیف عورتوں تک کو نہایت سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ شہید کیا گیا تو کیا حق نہ تھا کہ ان کو سزادی جاتی.اس وقت اگر اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ اسلام کا نام ونشان نہ رہے تو البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ تلوار کا نام نہ آتا مگر وہ چاہتا تھا کہ اسلام دنیا میں پھیلے اور دنیا کی نجات کا ذریعہ ہو اس لئے اُس وقت محض مدافعت کے لئے تلوار اُٹھائی گئی.میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ اسلام کا اُس وقت تلوار اُٹھا نا کسی قانون، مذہب اور اخلاق کی رُو سے قابل اعتراض نہیں ٹھہرتا.وہ لوگ جو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دیتے ہیں وہ بھی صبر نہیں کر سکتے.اور جن کے ہاں کیڑے کا مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی نہیں کر سکتے.پھر اسلام پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ میں یہ بھی کھول کر کہتا ہوں کہ جو جاہل مسلمان یہ لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے وہ نبیاء معصوم علیہ الصلوۃ والسلام پر افترا کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں.خوب یا درکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان نشانات، آپ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلایا ہے.اور وہ نشانات اور

Page 418

۳۹۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج تاثیرات ختم نہیں ہوگئی ہیں بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو میں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.اس لئے کہ آپ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے شمرات دیتی رہتی ہیں.اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور.پس جب اسلام کی اشاعت کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی تو اس وقت ایسا خیال بھی کرنا گناہ ہے.کیونکہ اب تو سب کے سب امن سے بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے کافی ذریعے اور سامان موجود ہیں.مجھے بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے معترضین نے اسلام پر حملہ کرتے وقت ہرگز ہرگز اصلیت پر غور نہیں کیا.وہ دیکھتے کہ اُس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے در پے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے.ان دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے.قرآن شریف میں یہ آیت موجود ہے اذن لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اُس وقت دیا گیا جبکہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہو گئی تو انہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا.اُس وقت کی یہ اجازت تھی دوسرے وقت کے لئے یہ حکم نہ تھا.لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۴) قرآن شریف نے ظلم اور زیادتی کی تعلیم نہیں دی اور صرف مظلوموں کی نسبت لڑائی کرنا جائز رکھا ہے اور نیز یہ کہ جس طرح دشمن نے اُن کا مال لوٹ لیا ہے وہ بھی لوٹ لیں زیادتی نہ کریں.پس کس قدر بے حیائی، بے شرمی ، بے ایمانی ہے کہ ناحق قرآن شریف پر یہ تہمت تھاپ دی جاتی ہے کہ گویا اُس نے آتے ہی بغیر اس کے کہ فریق ثانی سے مجرمانہ حرکتیں صادر ہوں لوٹ اور قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا.ہمیں ایسی کوئی آیت سارے قرآن شریف میں نہیں ملتی....خدا تو قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ یعنی جن مسلمانوں پر ناحق قتل کرنے کے لئے چڑھائی کی جاتی ہے خدا نے دیکھا کہ وہ مظلوم ہیں اس لئے خدا بھی اُن کو مقابلہ کرنے کے لئے اجازت دیتا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۳، ۲۰۴) ہم ایک اور بات ان جاہلوں کو سناتے ہیں کہ جو خواہ مخواہ جبر کا الزام خدا کے کلام پر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ملے کے رہنے والے کل کفار اور نیز دیہاتی اور گردو نواح کے لوگ ایسے تھے کہ جنہوں نے اس زمانہ میں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تھے اور کوئی جنگ شروع نہ تھا کئی مسلمان نا حق قتل کر دیئے

Page 419

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة الحج ۱۳ تھے اور ان مظلوموں کا خون اُن کی گردن پر تھا اور درحقیقت وہ سب اس گناہ میں شریک تھے کیونکہ بعض قاتل اور بعض ہمراز اور بعض اُن کے معاون تھے اس وجہ سے وہ لوگ خدا کے نزدیک قتل کے لائق تھے کیونکہ اُن کی اس قسم کی شرارتیں حد سے گزر گئی تھیں.علاوہ اس کے سب سے بڑا گناہ اُن کا یہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے مرتکب تھے اور انہوں نے پختہ ارادہ کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کر دیں پس ان گناہوں کی وجہ سے وہ خدا کی نظر میں واجب القتل ٹھہر چکے تھے اور اُن کا قتل کرنا مین انصاف تھا کیونکہ وہ جرم قتل اور اقدام قتل کے مرتکب ہو چکے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو برابر تیر برس اُن میں رہ کر وعظ کرتے رہے اور نیز آسمانی نشان دکھلاتے رہے اس صورت میں خدا کی حجت اُن پر پوری ہو چکی تھی اس وجہ سے خدا نے جو رحیم و کریم ہے اُن کی نسبت یہ حکم دیا تھا کہ وہ اگر چہ اپنے جرائم کی وجہ سے بہر حال قتل کرنے کے لائق ہیں لیکن اگر کوئی اُن میں سے خدا کی کلام کو سن کر اسلام قبول کرے تو یہ قصاص اس کو معاف کیا جاوے ورنہ اپنے گناہوں کی سزا میں جو قتل اور اقدام قتل ہے وہ بھی قتل کئے جائیں گے اب بتلاؤ کہ اس میں کون سا جبر ہے؟ جس حالت میں وہ لوگ جرم قتل اور اقدام قتل کی وجہ سے بہر حال قتل کے لائق تھے اور یہ رعایت قرآن شریف نے اُن کو دی کہ اسلام لانے کی حالت میں وہ قصاص دور ہو سکتا ہے تو اس میں جبر کیا ہوا؟ اور اگر یہ رعایت نہ دی جاتی تو ان کا قتل کرنا بہر حال ضروری تھا کیونکہ وہ قاتل اور اقدام قتل کے مرتکب تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمُ القَدِير يعنى هم اُن لوگوں کو جو نا حق قتل کئے جاتے ہیں اجازت دیتے ہیں کہ اب وہ بھی قاتلوں کا مقابلہ کریں یعنی ایک مدت تک تو مومنوں کو مقابلہ کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور وہ مدت تیر کو برس تھی اور جب بہت سے مومن قتل ہو چکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے بھی کافر لوگ مر تکب ہوئے تب تیرہ برس کے مصائب اٹھانے کے بعد مقابلہ کی اجازت دی گئی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۳، ۲۳۴) اللہ تعالیٰ بعض مصالح کے رو سے ایک فعل کرتا ہے اور آئندہ جب وہ فعل معرض اعتراض ٹھہرتا ہے تو پھر وہ فعل نہیں کرتا.اولاً ہمارے رسول نے کوئی تلوار نہ اٹھائی مگر ان کو سخت سے سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں.تیرہ سال کا عرصہ ایک بچہ کو بالغ کرنے کے لئے کافی ہے اور مسیح کی میعاد تو اگر اس میعاد میں سے دس نکال دیں تو بھی کافی ہوتی ہے.غرض اس لمبے عرصہ میں کوئی یا کسی رنگ کی تکلیف نہ تھی جو اٹھانی نہ پڑے.

Page 420

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة الحج آخر کا ر وطن سے نکلے تو تعاقب ہوا.دوسری جگہ پناہ لی تو دشمن نے وہاں بھی نہ چھوڑا.جب یہ حالت ہوئی تو مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کے لئے حکم ہوا اذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ جن لوگوں کے ساتھ لڑائیاں خواہ مخواہ کی گئیں اور گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.سو یہ ضرورت تھی کہ تلوار اٹھائی گئی.والا حضرت کبھی تلوار نہ اٹھاتے.ہاں ہمارے زمانہ میں ہمارے بر خلاف قلم اٹھائی گئی.قلم سے ہم کو اذیت دی گئی اور سخت ستا یا گیا ان کے مقابل قلم ہی ہمارا حربہ بھی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۶،۵۵) (آنحضرت کے زمانے میں ) اسلام کی لڑائیاں ڈیفنسو ( دفاعی ) تھیں اور وہ صرف دس سال ہی کے اندر ختم ہو گئیں.احکم جلد ۳ نمبر امورخه ۱۰/جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۸) ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل و براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف ( تلوار ) کا کام قلم سے لیا جاوے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جاوے اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۶۸) اسلام کا کبھی ایسا منشاء نہ تھا کہ بے مطلب اور بلاضرورت تلوار اٹھائی جاوے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۶۹) اسلام کی نسبت جو کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا یہ بالکل غلط ہے.اسلام نے تلوار اس وقت تک نہیں اُٹھائی جب تک سامنے تلوار نہیں دیکھی.قرآن شریف میں صاف لکھا ہے کہ جس قسم کے ہتھیاروں سے دشمن اسلام پر حملہ کرے اسی قسم کے ہتھیار استعمال کرو.مہدی کے لئے کہتے ہیں کہ آکر تلوار سے کام لے گا یہ میچ نہیں.اب تلوار کہاں ہے؟ جو تلوار نکالی جاوے.احکام جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۳)

Page 421

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۳ سورة الحج نافہم مخالف یہ کہتے ہیں کہ جہاد کے ذریعہ اسلام پھیلا یا جاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ میچ نہیں ہے.اسلام کی کامل تعلیم خود اس کی اشاعت کا موجب ہے.نفس اسلام کے لئے ہر گز کسی تلوار یا بندوق کی ضرورت نہیں ہے.اسلام کی گزشتہ لڑائیاں وہ دفاعی لڑائیاں تھیں انہوں نے غلطی اور سخت غلطی کھائی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ وہ جبراً مسلمان بنانے کے واسطے تھیں.غرض میرا ایمان ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلایا جاتا بلکہ اس کی تعلیم جو اپنے ساتھ اعجازی نشان رکھتی ہے خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخه ۷ ارمنی ۱۹۰۱ صفحه ۴) ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی تھی اور ان میں وہ شدت اور سخت گیری ہرگز نہ تھی جو موسیٰ اور یشوع کے جنگوں میں پائی جاتی ہے.اگر وہ کہیں کہ موسیٰ اور یشوع کی لڑائیاں عذاب الہی کے رنگ میں تھیں تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذاب الہی کی صورت میں تسلیم نہیں کرتے ؟ موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے؟ بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں اصل بات یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوا میں الہیہ سے ناواقف تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کے مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرما یا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے.پھر اسلامی جنگوں میں موسوی جنگوں کے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خادموں کو مکہ والوں نے برابر تیرہ سال تک خطرناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ ان ظالموں نے دیئے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض برے برے عذابوں سے مارے گئے.چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امرمخفی نہیں ہے کہ بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذاؤں کے ساتھ مار دیا یہاں تک کہ ایک عورت کو دو اونٹوں سے باندھ دیا اور پھر ان کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری کو چیر ڈالا.اس قسم کی ایذاء رسانیوں اور تکلیفوں کو برابر تیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا.اس پر بھی انہوں نے اپنے ظلم کو نہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصو بہ کیا گیا.اور جب آپ نے خدا تعالیٰ سے ان کی شرارت کی اطلاع پا کر مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی پھر بھی انہوں نے تعاقب کیا اور آخر جب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑھائی کر کے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا کیونکہ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ اہل مکہ اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی پاداش میں عذاب الہی کا مزہ چکھیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں گے تو

Page 422

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة الحج عذاب الہی سے ہلاک کئے جائیں گے وہ پورا ہوا.خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی ہے أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق آہ یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لئے اجازت دی گئی ) کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر جس قدر رعایتیں اسلامی جنگوں میں دیکھو گے ممکن نہیں کہ موسوی یا یشوعی لڑائیوں میں اس کی نظیر مل سکے.موسوی لڑائیوں میں لاکھوں بے گناہ بچوں کا مارا جانا ، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ، باغات اور درختوں کا جلا کر خاک سیاہ کر دینا تو رات سے ثابت ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروں سے وہ سختیاں اور تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں پھر ان دفاعی جنگوں میں بھی بچوں کو قتل نہ کرنے ، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے ، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کس کا پلہ بھاری ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۵،۴) اسلامی جنگیں بالکل دفاعی لڑائیاں تھیں.جب کفار کی تکالیف اور شرارتیں حد سے گزرگئیں تو خدا ( تعالیٰ ) نے ان کو سزا دینے کے لئے یہ حکم دیا مگر عیسائیوں نے جو مختلف اوقات میں مذہب کے نام سے لڑائیاں کیں ہیں ان کے پاس خدا تعالیٰ کی کون سی دستاویز اور حکم تھا جس کی رو سے وہ لڑتے تھے ان کو تو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کا حکم تھا.الخام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنی ہے اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہیں ہو سکتی.یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تلوار اٹھائی بالکل غلط ہے.تیرہ برس تک آنحضرت اور صحابہ کرام صبر کرتے رہے پھر باوجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو اور جو مشرک قو میں صلح اور امن کی خواستگار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی.اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے.جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح سے دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ پر لڑیں.(البدر جلد اول نمبر ، امورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۷۴ )

Page 423

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة الحج مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کہ دین میں کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے.لڑائیوں کی اصل جڑ کیا تھی.اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اُٹھائی.صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتداء جنگ کریں.لڑائی کا سبب کیا تھا؟ اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ ظلِمُوا.خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبر دستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو اب مقابلہ کرو.مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۳) خوب سمجھ لو کہ اب مذہبی لڑائیوں کا زمانہ نہیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو لڑائیاں ہوئی تھیں اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ جبر مسلمان بنانا چاہتے تھے بلکہ وہ لڑائیاں بھی دفاع کے طور پر تھیں.جب مسلمانوں کو سخت دکھ دیا گیا اور مکہ سے نکال دیا گیا اور بہت سے مسلمان شہید ہو چکے تب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اسی رنگ میں ان کا مقابلہ کروپس وہ حفاظت خود اختیاری کے رنگ میں لڑائیاں کرنی پڑیں.الحام جلد 4 نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵، صفحه ۹) ۹ “ اسلامی جہاد پر یہ اعتراض تو محض فضول ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب اور اشاعت اسلام کی خاطر تھیں.اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں کفار کے ہاتھوں سے سخت تکلیف اٹھاتے رہے اور آپ کے جاں نثار صحابہ نے دکھ اُٹھائے اور جانیں دیں.بعض غریب اور بیکس ضعیف عورتوں کو شرمناک تکالیف کفار نے پہنچائیں یہاں تک کہ آخر آپ کو ہجرت کرنی پڑی اور ان کفار نے وہاں بھی آپ کا تعاقب کیا ایسی صورت میں جب ان کی شرارتیں اور تکلیفیں حد سے گزر گئیں تو پھر خدا تعالیٰ نے سدِ باب اور دفاع کے طور پر حکم دیا کہ ان سے جنگ کرو.چنانچہ پہلی آیت جس میں جہاد کا حکم ہوا وہ یہ ہے أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا.....الآية یعنی ان لوگوں کو اجازت دی گئی کہ وہ جنگ کریں جن پر ظلم ہوا ہے.مسلمان مظلوم تھے ان کی طرف سے ابتداء نہیں ہوئی تھی بلکہ بانی فساد کفار مکہ تھے ایسی حالت میں بھی جب ان کی شرارتیں انتہائی درجہ تک جا پہنچیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدافعت کے واسطے مقابلہ کرنے کا حکم دیا.

Page 424

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة الحج پس یہ اعتراض محض فضول اور لغو ہے کہ وہ لڑائیاں مذہب کے لئے تھیں اگر محض مذہب کے لئے ہوتیں تو جزیہ دینے کی صورت میں ان کو کیوں چھوڑا جاتا.پھر میں کہتا ہوں کہ عیسائی تو اس قسم کا اعتراض کر ہی نہیں سکتے.وہ اپنے گھر میں دیکھیں کہ اسلامی لڑائیاں موسوی لڑائیوں سے زیادہ ہیں ؟ اور جبکہ وہ حضرت عیسی کو موسیٰ علیہ السلام کا بھی (معاذ اللہ ) خدا مانتے ہیں تو پھر ان لڑائیوں کا الزام عیسائیوں پر بدستور قائم ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ وہ لڑائیاں اسلامی جنگوں سے زیادہ سخت اور خون ریز تھیں.اسلامی لڑائیوں میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا لحاظ کیا جاتا تھا اور ان کو قتل نہیں کیا جاتا تھا مگر موسوی لڑائیوں میں تو ان امور کی پرواہ نہیں کی جاتی تھی.ایسا ہی اسلامی جنگوں میں مذہبی عبادت گاہوں اور پھلدار درختوں کو بھی ضائع نہیں کیا جاتا تھا مگر موسوی لڑائیوں میں پھلدار درخت تباہ کر دیئے جاتے.غرض اسلامی جنگ موسوی لڑائیوں کے مقابلہ میں کچھ چیز ہی نہیں.احکام جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مذہب کے لئے تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ اتمام حجت کے بعد جس طرح پر خدا نے چاہا منکروں کو عذاب دیا.وہ جنگیں دفاعی تھیں.تیرہ برس تک آپ ستائے جاتے رہے.اور صحابہ نے جانیں دیں.انہوں نے نشان پر نشان دیکھے اور انکار کرتے رہے.آخر خدا تعالیٰ نے ان جنگوں کی صورت میں عذاب سے ہلاک کیا.الحکم جلدے نمبر ۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۸) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ظالم لوگ اسلام پر تلوار کے ساتھ حملے کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے نابود کر دیں.سو جنہوں نے تلواریں اُٹھا ئیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے سودہ جنگ صرف دفاعی جنگ تھی.بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۹ رمئی ۱۹۰۷ صفحه ۶) ہمارے نبی کریم صلعم نے لڑائیوں کے لئے سبقت نہیں کی تھی بلکہ ان لوگوں نے خود سبقت کی تھی.خون کئے.ایذائیں دیں.تیرہ برس تک طرح طرح کے دکھ دیئے.آخر جب صحابہ کرام سخت مظلوم ہو گئے.تب اللہ تعالیٰ نے بدلہ لینے کی اجازت دی جیسے فرما یا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا - وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَکم اس زمانہ کے لوگ نہایت وحشی اور درندے تھے خون کرتے تھے جنگ کرتے تھے.طرح طرح کے ظلم اور دکھ دیتے تھے.ڈاکوؤں اور لٹیروں کی طرح مار دھاڑ کرتے پھرتے تھے اور ناحق کی ایذا دہی اور خون ریزی پر کمر باندھے ہوئے تھے.خدا نے فیصلہ کر دیا کہ ایسے ظالموں کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور یہ ظلم نہیں بلکہ عین حق اور انصاف ہے.

Page 425

۳۹۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحج آنحضرت صلعم کو قتل کرنے کے لئے انہوں نے بڑی بڑی کوششیں کیں.طرح طرح کے منصوبے کئے.یہاں تک کہ ہجرت کرنی پڑی.مگر پھر بھی انہوں نے آنحضرت صلعم کا مدینہ تک تعاقب کیا اور خون کرنے کے در پے ہوئے.غرض جب ہمارے نبی کریم صلعم نے مدت تک صبر کیا اور مدت تک تکلیف اٹھائی تب خدا نے فیصلہ دیا کہ جنہوں نے تم لوگوں پر ظلم کئے اور تکلیفیں دیں ان کو سزا دینے کا اذن دیا جاتا ہے اور پھر بھی یہ فرما ہی دیا کہ اگر وہ صلح پر آمادہ ہو دیں تو تم صلح کر لو.ہمارے نبی کریم تو یتیم ، غریب، بیکس پیدا ہوئے تھے وہ لڑائیوں کو کب پسند کر سکتے تھے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۱۰) یہ نہایت درجہ کا ظلم ہے کہ اسلام کو ظالم کہا جاتا ہے حالانکہ ظالم وہ خود ہیں جو تعصب کی وجہ سے بے سوچے سمجھے اسلام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں اور باوجود بار بار سمجھانے کے نہیں سمجھتے کہ اسلام کے کل جنگ اور مقابلے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر دفاعی رنگ میں حفاظت جان و مال کی غرض سے تھے اور کوئی بھی حرکت مسلمانوں کی طرف سے ایسی سرزد نہیں ہوئی جس کا ارتکاب اور ابتداء پہلے کفار کی طرف سے نہ ہوا ہو.بلکہ بعض قابل نفریں حرکات کا مقابلہ بتقاضائے وسعت اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمد اترک کرنے کا حکم دے دیا تھا.مثلاً کفار میں ایک سخت قابل نفرت رسم تھی جو کہ وہ مسلمان مردوں سے کیا کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح فعل سے مسلمانوں کو قطعا روک دیا.الحام جلد ۱۳ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۸) اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زمانہ میں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا تھا.آپ کے بہت سے جاں نثار اور عزیز دوست ظالم کفار کے تیر و تفنگ کا نشانہ بنے اور طرح طرح کے قابل شرم عذاب ان لوگوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو پہنچائے حتی کہ آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کر لیا.چنانچہ آپ کا تعاقب بھی کیا.آپ کے قتل کرنے والے کے واسطے انعام مقرر کئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں پناہ گزین ہوئے.تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی مگر یہ تو خدا تعالیٰ کا تصرف تھا کہ آپ کو ان کی نظروں سے باوجود سامنے ہونے کے بچالیا اور ان کی آنکھوں میں خاک ڈال کر خود اپنے رسول کو ہاتھ دے کر بچا لیا.آخر کار جب ان کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ رہی اور مسلمانوں کو ان کے وطن سے باہر نکال کر بھی وہ سیر نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد نازل ہوا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو تلوار اُٹھانے کی

Page 426

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة الحج اجازت دی اور اس اجازت میں یہ ثابت کر دیا کہ واقع میں یہ لوگ ظالم تھے اور شرارت ان کی حد سے بڑھ چکی تھی اور مسلمانوں کا صبر بھی اپنے انتہائی نقطہ تک پہنچ چکا تھا.اب خدا نے فرمایا کہ جن لوگوں نے تلوار سے مقابلہ کیا وہ تلوار ہی سے ہلاک کئے جاویں اور گو یہ چند اور ضعیف ہیں مگر میں دکھا دوں گا کہ میں بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں ان کی نصرت کروں گا اور تم کو ان کے ہاتھ سے ہلاک کراؤں گا چنانچہ پھر اس حکم کے بعد ان ہی چندلوگوں کی جو ذلیل اور حقیر سمجھے گئے تھے اور جن کا نہ کوئی حامی بنتا تھا اور نہ مددگار اور وہ کفار کے ہاتھ سے سخت درجہ تنگ اور مجبور ہو گئے تھے ان کی مشارق اور مغارب میں دھاک بندھ گئی اور اس طرح سے خدا نے ان کی نصرت کر کے دنیا پر ظاہر کر دیا کہ واقعی وہ مظلوم تھے.غرض ہر طرح سے، ہر رنگ میں اور ہر پہلو پر نظر ڈال کر دیکھ لو کہ واقع میں اس وقت مسلمان مظلوم تھے یا کہ نہیں.اگر خدا ایسے خطر ناک اور نازک وقت میں بھی ان چند کمزور مسلمانوں کو اپنی حفاظت جان کے واسطے تلوار اٹھانے اور دفاعی طور سے لڑائی کرنے کی اجازت نہ دیتا تو کیا ان کو دنیا کے تختہ سے نابود ہی کر دیتا.تو پھر اس حالت میں ان کا تلوار اُٹھانا جبکہ ہر طرح سے ان کا حق تھا کہ وہ تلوار اُٹھاتے کیا شرعاً اور کیا عرفا مگر وہ بھی آج تک نشانہ اعتراض بنا ہوا ہے.- الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۹ مورخه ۱۸؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۷،۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ صرف دفاعی تھے.جب آپ کی اور آپ کے صحابہ کی تکالیف حد سے بڑھ گئیں اور بہت ستائے گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مقابلہ کا حکم دیا چنانچہ پہلی آیت جو جہاد کے متعلق ہے وہ یہ ہے اذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق.الآیۃ یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے مقابلہ قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لئے اجازت دی گئی ) کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ تعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے.یہ وہ مظلوم ہیں جو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے.ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے.غرض آنحضرت صلعم کی لڑائیاں اس وقت تھیں جبکہ کفار کے ظلم انتباء تک پہنچ گئے.القام جلد نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۹) بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے....اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں ہمدردی اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیاں کیوں کی تھیں؟ وہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطرناک دکھ اٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی مدافعت کے طور پر.تیرہ برس

Page 427

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة الحج تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اٹھاتے رہے مسلمان مرد اور عورتیں شہید کی گئیں.آخر جب آپ مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریروں کی شرارت سے مخلوق کو بچایا جائے اور ایک حق پرست قوم کے لئے راہ کھل جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے لئے بدی نہیں چاہی.آپ تو رحم مجسم تھے اگر بدی چاہتے تو جب آپ نے پورا تسلط حاصل کر لیا تھا اور شوکت اور غلبہ آپ کومل گیا تھا تو آپ ان تمام ائمۃ الکفر کو جو ہمیشہ آپ کو دکھ دیتے تھے قتل کروا دیتے اور اس میں انصاف اور عقل کی رو سے آپ کا پلہ بالکل پاک تھا مگر باوجود اس کے کہ عرف عام کے لحاظ سے اور عقل و انصاف کے لحاظ سے آپ کو حق تھا کہ ان لوگوں کو قتل کروا دیتے مگر نہیں.آپ نے سب کو چھوڑ دیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۴) چودھویں پیشگوئی جو براہینِ احمدیہ کے اسی صفحہ ۲۳۹ میں ہے یہ ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِم لقدیر یعنی خدا وہ ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.ان پر ظلم ہوا اور خدا ان کی مدد کرے گا.یہ آیات قرآنی الہامی پیرایہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول سے مراد مامور اور فرستادہ ہے جو دینِ اسلام کی تائید کے لئے ظاہر ہوا اس پیشگوئی کا ما حاصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا تا اس کے ہاتھ سے دینِ اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے اور ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں میں فتح ہو اور یہ دین اس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور دوسری مالتیں بینہ کے ساتھ ہلاک ہو جائیں گی.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۲، ۴۳) معترضین نے اسلام پر حملے کرتے وقت ہرگز ہر گز اصلیت پر غور نہیں کیا.وہ دیکھتے کہ اس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے در پے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے.ان دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے؟ قرآن شریف میں یہ آیت موجود ہے اذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت دیا گیا جبکہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہوگئی تو انہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا.اس وقت کی یہ اجازت تھی دوسرے وقت کے لئے یہ حکم نہ تھا.( بدر جلد ۲ نمبر ۵۱ مورخه ۲۰/ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۱۱)

Page 428

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰ سورة الحج میں یقیناً کہتا ہوں کہ اسلام کا غلبہ ہوکر رہے گا اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں.ہاں یہ سچی بات ہے کہ اس غلبہ کے لئے کسی تلوار اور بندوق کی حاجت نہیں اور نہ خدا نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے.جو شخص اس وقت یہ خیال کرے وہ اسلام کا نادان دوست ہوگا.مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیں ہوتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تلوار اُٹھائی میں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہوں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طور پر تھی.اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گزر گئے اور بیکس مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ ہو چکی.الحاکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰ / نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) وَقَد بَيَّنَّا لَكَ أَنَّ الْحَرْبَ لَيْسَ مِنْ اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ لڑائی اور جہاد اصل مقاصد أَصْلِ مَقَاصِدِ الْقُرْآنِ وَلَا مِنْ جَذْرٍ قرآن میں سے نہیں اور وہ صرف ضرورت کے وقت تجویز تَعْلِيمِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ جَوزَ عِنْدَ اشْتِدَادِ کیا گیا ہے یعنی ایسے وقت میں جبکہ ظالموں کا ظلم انتہا الْحَاجَةِ وَبُلُوغِ ظُلْمِ الظَّالِمِينَ إِلَى انْتِهَائِهِ تک پہنچ جائے اور پیروی کرنے کے لئے طریق عمل وَاشْتِعَالِ جَوْرِ الْجَائِرِينَ وَ لَكُمْ أُسْوَةٌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہتر ہے دیکھو کس طرح حَسَنَةٌ في غَزَوَاتٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ایذا پر اس زمانہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ صَبَرَ عَلى ظُلْمٍ تک صبر کیا جس میں ایک بچہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جاتا الْكُفَّارِ إِلى مُدَّةٍ يَبْلُغُ فِيْهِ صَبِى إِلى سِن ہے اور کافر لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ دیکھ بُلُوغِهِ، فَصَبَرَ وَكَانَ الْكُفَّارُ يُؤْذُونَهُ في دیتے اور رات دن ستاتے اور شریروں کی طرح ان کے اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ يَنْهَبُونَ أَمْوَالَ الْمُؤْمِنِينَ مالوں کو لوٹتے اور مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں کو قتل كَالْأَشْرَارِ، وَيَقْتُلُونَ رِجَالَهُمْ وَنِسَاءَ هُمُ کرتے اور ایسے بڑے بڑے عذابوں سے مارتے کہ ان بِتَعْذِيبَاتٍ تَتَعَلَّمُ بِتَصَوُّرِهَا دُمُوعُ کے یاد کرنے سے آنکھوں کے آنسو جاری ہوتے ہیں الْعُيُونِ وَتَقْشَعِرُ قُلُوبُ الْأَخْيَارِ اور نیک آدمیوں کے دل کا نچتے ہیں اور اسی طرح دکھ وَكَذَلِكَ بَلَغَ الْإِيْنَا إِلَى انْعِبَائِهِ حَتَّى هَموا انتہا کو پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن يقَتُل نَي الله فَأَمَرَهُ رَبُّهُ أَنْ يَتْرُكَ وَطَنَه سے نکالے گئے یہاں تک کہ ان لوگوں نے آنحضرت وَيَبْرُبَ إِلَى الْمَدِينَةِ مُهَاجِرًا مِنْ مَّكَّةَ صلى اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا قصد کیا سو اس کے رب

Page 429

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة الحج فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اس کو حکم دیا تاوہ مدینہ بھاگ جائے سو آنحضرت اپنے مِنْ وَطَنِهِ بِإِخْرَاجِ قَوْمِهِ.وَمَعَ ذَلِكَ مَا وطن سے کفار کے نکالنے سے ہجرت کر گئے اور ابھی کفار نے كَانَ الْكُفَّارُ مُنْتَهِينَ بَلْ لَّمْ يَزَلِ الْفِتَنِ ایذا رسانی میں بس نہیں کی تھی بلکہ وہ فتنے بھڑکاتے اور مِنْهُمْ تَسْتَعِيُّ، وَمَحْجَةُ الدّعْوَةِ تُعِيُّ، حَتَّى دعوت کے کاموں میں مشکلات ڈالتے یہاں تک کہ جَلَبُوْا عَلى رَسُوْلِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر معہ اپنے سواروں اور پیادوں وَسَلَّمَ خَيْلَهُمْ وَرّجِلهُمْ وَضَرَبُوا کے چڑھائی کی اور بدر کے میدان میں جو مدینہ سے قریب خِيَامَهُمْ فِي مَيَادِيْنِ بَدْرٍ بِقَوْج گھیر ہے اپنی فوج کے خیمے کھڑے کر دیئے اور چاہا کہ دین کی قَرِيبًا مِنَ الْمَدِينَةِ، وَأَرَادُوا اسْتيْصَالَ بیخ کنی کر دیں تب خدا کا غضب ان پر بھٹڑ کا اور اس نے الدِّينِ فَاشْتَعَلَ غَضَبُ اللهِ عَلَيْهِمْ ان کے بڑے ظلم اور تختی کے ساتھ حد سے تجاوز کرنا مشاہدہ وَرَاى قُبْحَ جَفَائِهِمْ وَشِدَّةَ اعْتِدَائِهِمْ ، کیا سو اس نے اپنی وحی اپنے رسول پر اتاری اور کہا کہ فَنَزَلَ الْوَحْى عَلَى رَسُولِهِ وَقَالَ أَذِنَ مسلمانوں کو خدا نے دیکھا جو ناحق ان کے قتل کے لئے لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمُ ظلِمُوا وَ اِنَّ اللهَ ارادہ کیا گیا ہے اور وہ مظلوم ہیں اس لئے انہیں مقابلہ کی عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ، فَأَمَرَ اللهُ رَسُولَهُ اجازت ہے اور خدا قادر ہے جو ان کی مدد کرے سو خدا الْمَظْلُوْمَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ لِيُعَارِبَ الَّذِينَ تعالی نے اپنے رسول مظلوم کو اس آیت میں ان لوگوں هُمْ بَدَأَوُا أَوَّلَ مَرَّةٍ بَعْدَ أَنْ رَأى شِدَّةَ کے مقابل پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جن کی طرف اعْتِدَائِهِمْ وَكَمَالَ حِقْدِهِمْ وَضَلَالِهِمْ سے ابتدا تھی مگر اس وقت اجازت دی جبکہ انتہا درجہ کی وَرَأَى أَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يُوجی بِالْمَوَاعِظ زیادتی اور گمراہی ان کی طرف سے دیکھ لی اور یہ دیکھ لیا کہ صَلاحُ أَحْوَالِهِمْ فَانْظُرُ كَيْفَ كَانَ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ میجر د نصیحتوں سے ان کی اصلاح غیر حَرب رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ممکن ہے پس اب سوچو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وَمَا حَارَبَ نَبِيُّ اللهِ أَعْدَاءَ الدِّيْنِ إِلَّا بَعْدَ لڑائیوں کی کیا حقیقت تھی اور نبی اللہ دشمنان دین سے مَا رَاهُمْ سَابِقِين في التَّرَامِ بِالسّهامِ ہرگز نہیں لڑامگر جب تک کہ اس نے یہ نہ دیکھ لیا کہ وہ تیر وَالتَّجَالُ بِالْحُسَامِ، وَمَا كَانَ الْكُفَّارُ چلانے اور تلوار مارنے میں پیش دست اور سبقت کرنے مَفْتُولِيْنِ فَقَط بَلْ كَانَ يَسْقُط من والے ہیں اور نیز یہ تو نہیں تھا کہ صرف کفار ہی مارے

Page 430

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة الحج الْجَانِبَيْنِ قَتْلَى، وَكَانَ الْكُفَّارُ ظَالِمِينَ جاتے تھے بلکہ جانبین سے مرنے والے کام آتے ضالين (نور الحق ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۴ ، ۶۵) تھے اور کفار ظالم اور حملہ آور تھے.( ترجمہ از اصل کتاب سے ) وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا، یعنی اگر خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجد میں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں.اس جگہ خدا تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا میں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو ان کے عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے مامور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدر تعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گر جاؤں اور یہودیوں کے.معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے.ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دے دیا ہے.(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۳، ۳۹۴) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے.....اگر اللہ تعالی بعض کے شر کو بعض کی تائید کے ساتھ دفع نہ کرتا تو زمین فاسد ہو جاتی.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ یعنی وہ جو خدا تعالیٰ کی مدد کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے.اب حضرت دیکھئے آیت کے لفظ لينصرن کے آخر میں نون ثقیلہ ہے لیکن اگر اس آیت کے یہ معنے کریں کہ آئندہ کسی زمانہ میں اگر کوئی ہماری مدد کرے گا تو ہم اس کی مدد کریں گے تو یہ معنے بالکل فاسد اور خلاف سنت مستمر و البہیہ ٹھہریں گے کیونکہ اللہ جل شانہ کے قدیم سے اور اسی زمانہ سے کہ جب بنی آدم

Page 431

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ سورة الحج پیدا ہوئے یہی سنتِ مستمرہ ہے کہ وہ مدد کرنے والوں کی مدد کرتا ہے.یوں کیوں کر کہا جائے کہ پہلے تو نہیں مگر آئندہ کسی نامعلوم زمانہ میں اس قاعدہ کا پابند ہو جائے گا اور اب تک تو صرف وعدہ ہی ہے عمل درآمد نہیں 11 99 و، سُبْحْنَةُ هذَا بُهْتَان عَظِيمٌ - الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۴) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٌّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللہ یعنی وے مظلوم جو اپنے وطنوں سے بے گناہ نکالے گئے صرف اس بات پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۳) ط وَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ يُخْلِفَ اللهُ وَعْدَهُ وَ إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ اس وقت مثیل مسیح کی سخت ضرورت تھی اور نیز اُن ملائک کی جو زندہ کرنے کے لئے اترا کرتے ہیں سخت حاجت تھی کیونکہ روحانی موت اور غفلت ایک عالم پر طاری ہوگئی ہے اور اللہ جل شانہ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی اور سخت دلی اور دنیا پرستی پھیل گئی اور وہ تمام وجوہ پیدا ہو گئے جن کی وجہ سے توریت کی تائید میں مسیح ابن مریم دنیا میں آیا تھا.اور دقبال نے بھی بڑے زور کے ساتھ خروج کیا اور حضرت آدم کی پیدائش کے حساب سے الف ششم کا آخری حصہ آ گیا جو بموجب آيت إِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ چھٹے دن کے قائم مقام ہے.سوضرور تھا کہ اس چھٹے دن میں آدم پیدا ہوتا جو اپنی روحانی پیدائش کی رُو سے مثیل مسیح ہے اس لئے خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو مثیل مسیح اور نیز آدم الف ششم کر کے بھیجا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۲، ۳۴۳) اس عاجز کو جو خدائے تعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا اس کا یہ نشان رکھا کہ الف ششم میں جو قائم مقام روز ششم ہے یعنی آخری حصہ الف میں جو وقت عصر سے مشابہ ہے اس عاجز کو پیدا کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے انّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھا گیا ہے وہ آدم کی طرز پر الف ششم کے آخر میں ظہور کرتا.سو آدم اول کی پیدائش سے الف ششم میں ظاہر ہونے والا یہی عاجز ہے.بہت سی حدیثوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ بنی آدم کی عمر سات ہزار برس ہے اور آخری آدم پہلے آدم کی طرز ظہور پر الف ششم کے آخر میں جو روز ششم کے حکم میں ہے پیدا ہونے والا

Page 432

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ ہے سو وہ یہی ہے جو پیدا ہو گیا.فالحمد لله على ذلك.سورة الحج (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۶،۴۷۵) قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادہ الہی میں مقر رتھا.کیونکہ مسیح موعودخاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے.اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو.وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا.اسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہے.اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اس کی پیدائش بھی تو ام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم تو ام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوا.ایسا ہی مسیح موعود بھی تو ام کے طور پر پیدا ہوگا.سو الحمد لله والمنہ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۹،۲۰۸) ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے.پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں.پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حساب جمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گزر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا.اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا.پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۵۸،۴۵۷)

Page 433

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تمہارا ہزار سال خدا کا ایک دن ہے.سورة الحج (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۲ حاشیه ) ایک دن خدا کا ایسا ہے جیسا تمہارا ہزار برس ہے.پس چونکہ دن سات ہیں اس لئے اس آیت میں دنیا کی عمر سات ہزار برس قرار دی گئی ہے.لیکن یہ عمر اس آدم کے زمانہ سے ہے جس کی ہم اولاد ہیں.خدا کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دنیا تھی.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کہ وہ لوگ کون تھے اور کس قسم کے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ سات ہزار برس میں دنیا کا ایک دور ختم ہوتا ہے.اسی وجہ سے اور اس امر پرنشان قرار دینے کے لئے دنیا میں سات دن مقرر کئے گئے تاہر ایک دن ایک ہزار برس پر دلالت کرے.ہمیں معلوم نہیں کہ دنیا پر اس طرح سے کتنے دور گزر چکے ہیں اور کتنے آدم اپنے اپنے وقت میں آچکے ہیں.چونکہ خدا قدیم سے خالق ہے اس لئے ہم مانتے اور ایمان لاتے ہیں کہ دنیا اپنی نوع کے اعتبار سے قدیم ہے.لیکن اپنے شخص کے اعتبار سے قدیم نہیں ہے.افسوس کے حضرات عیسائیاں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف چھ ہزار برس ہوئے کہ جب خدا نے دنیا کو پیدا کیا اور زمین و آسمان بنائے اور اس سے پہلے خدا ہمیشہ کے لئے معطل اور بے کا رتھا اور از لی طور پر معطل چلا آتا تھا.یہ ایسا عقیدہ ہے کہ کوئی صاحب عقل اس کو قبول نہیں کرے گا.مگر ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنا دے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی امتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے.اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے.یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن.یادر ہے کہ قانون الہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک امت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے.اسی دور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کئے گئے ہیں.غرض بنی آدم کی عمر کا دور سات ہزار برس مقرر ہے.اور اس میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا.یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں

Page 434

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ سورة الحج چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبر کرنے والے کے لئے کافی ہیں.اور ان سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلط کا زمانہ ہے اور پھر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا ( یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سید و مولی ختمی پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیا ہے ) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے.اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے.اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے.کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصل طور پر.(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۴ تا ۱۸۶) قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبَّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تعدون سے بھی یہی نکلتا ہے اور تمام نبی واضح طور پر بھی خبر دیتے آئے ہیں اور جیسا کہ میں بھی بیان کر چکا ہوں سورۃ والعصر کے اعداد سے بھی یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم سے الف پنجم میں ظاہر ہوئے تھے اور اس حساب سے یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ہزار ہفتم ہے.جس بات کو خدا نے اپنی وحی سے ہم پر ظاہر کیا اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہم کوئی وجہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک نبیوں کے متفق علیہ کلمہ سے انکار کریں.پھر جبکہ اس قدر ثبوت موجود ہے اور بلاشبہ احادیث اور قرآن شریف کے رو سے یہ آخری زمانہ ہے.پھر آخری ہزار ہونے میں کیا شک رہا اور آخری ہزار کے سر پر مسیح موعود کا آنا ضروری ہے.لیکھر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) کتب سابقہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس

Page 435

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة الحج تک ہے اسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ ممَّا تَعُدُّونَ.یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے.اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک حضرت آدم سے اسی قدر مدت بحساب قمری گزری تھی جو اس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے.اور اس کے رو سے حضرت آدم سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جوسورۃ والعصر کے حروف کے اعداد کے نکالنے سے معلوم ہوتا ہے.یہود و نصاری کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہیے.اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گزرگیا.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۴۶ ، ۱۴۷ حاشیه ) خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا.توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدا نے انسانوں کے لئے سات دن مقرر کئے ہیں.اور ان دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمر دنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدم ثانی کے ظہور کا دن ہے.یعنی مقدر یوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بے دین ہو جائیں گے.تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا.اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہو گا.چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا اور وہ وہی ہے جو اس وقت اس تحریر کی رو سے تبلیغ حق کر رہا ہے.میرا نام آدم رکھنے سے اس جگہ یہ مقصود ہے کہ نوع انسان کا فرد کامل آدم سے ہی شروع ہوا اور آدم سے ہی ختم ہوا.کیونکہ اس عالم کی وضع دوری ہے اور دائرہ کا کمال اسی میں ہے کہ جس نقطہ سے شروع ہوا ہے اُسی نقطہ پر ختم ہو جائے.پس خاتم الخلفاء کا آدم نام رکھنا ضروری تھا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۲۶۰ حاشیه ) جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اور اس قانونِ قدرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اسی طرح دنیا پر اس قسم کے زمانے آتے رہتے ہیں کہ کبھی روحانی طور پر رات ہوتی ہے اور کبھی طلوع آفتاب ہو کر نیا دن چڑھتا ہے چنانچہ پچھلا ایک ہزار جو گزرا ہے روحانی طور پر

Page 436

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة الحج ایک تاریک رات تھی جس کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے خدا تعالیٰ کا یہ ایک دن ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.اس ہزار سال میں دنیا پر ایک خطرناک ظلمت کی چادر چھائی ہوئی تھی جس میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو ایک نا پاک کیچڑ میں ڈالنے کے لئے پوری تدبیروں اور مکاریوں اور حیلہ جوئیوں سے کام لیا گیا ہے اور خود ان لوگوں میں ہر قسم کے شرک اور بدعات ہو گئے جو مسلمان کہلاتے تھے.مگر اس گروہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَيْسُوا مِينى وَلَسْتُ مِنْهُم یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں.غرض جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ ہزار سالہ رات تھی جو گزرگئی.اب خدا تعالیٰ نے تقاضا فرمایا کہ دنیا کو روشنی سے حصہ دے اس شخص کو جو حصہ لے سکے کیونکہ ہر ایک اس قابل نہیں کہ اس سے حصہ لے.چنانچہ اس نے مجھے اس صدی پر مامور کر کے بھیجا ہے تا کہ میں اسلام کو زندہ کروں.الخام جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۱۰ر مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۴) قرآن سے یہ تصریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ یہی ہے جس کا نام خدا نے رکھا ہے ستہ ایام چھٹے دن کے آخری حصہ میں آدم کا پیدا ہونا ضروری تھا.براہین میں اسی کی طرف اشارہ ہے اردت ان استخلف فخلقت آدم پھر فرمایا اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ آج سے پہلے جو ہزار برس گزرا ہے وہ باعتبار بد اخلاقیوں اور بد اعمالیوں کے تاریکی کا زمانہ تھا کیونکہ وہ فسق و فجور کا زمانہ تھا اسی لئے آنحضرت نے خیر القرون قرنی کہہ کر تین سو برس کو مستی کر دیا باقی ایک ہزار ہی رہ جاتا ہے ورنہ اس کے بغیر احادیث کی مطابقت ہو ہی نہیں سکتی اور اس طرح پر پہلی کتابوں سے بھی مطابقت ہو جاتی اور وہ بات بھی پوری ہوتی ہے کہ ہزار سال تک شیطان کھلا رہے گا.یہ بات بھی کیسی پوری ہوتی ہے اور انگریز بھی اسی واسطے شور مچاتے ہیں کہ یہی زمانہ ہے جس میں ہمارے مسیح کو دوبارہ آنا چاہیے.یہ مسئلہ ایسا مطابق آیا ہے کہ کوئی مذہب اس سے انکار کر ہی نہیں سکتا.یہ ایک علمی نشان ہے جس سے کوئی گریز نہیں ہو سکتا.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۶) دانیال کی کتاب میں صد ہا سال کو ہفتہ کہا گیا ہے اور دنیا کی عمر بھی ایک ہفتہ بتلائی گئی ہے اس جگہ ہفتہ سے مراد سات ہزار سال ہیں.ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ تیرے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے ہزار سال کے ( بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۴) برابر ہے.

Page 437

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ سورة الحج وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ........اور تجھ سے عذاب کے لئے جلدی کرتے ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳) وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطن في ـنِيَّتِهِ ، فَيَنْسَخُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ ايْتِهِ وَ اللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (۵۳ ج الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی.اور جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے استکشاف کے لئے بطور استخارہ و استخبارہ وغیرہ کے توجہ کرتا ہے خاص کر اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی برا یا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اُس وقت اُس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے.یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر وہ بلا توقف نکالا جاتا ہے.اس کی طرف اللہ جل بھائہ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِي إِلَّا إِذَا تَمَلَى الْقَى الشَّيْطنُ في أَمْنِيَّتِهِ - (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۹) یہ بات خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبہ سے معطل کر دیوے.اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيَّ إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ ايَتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ - یعنے ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے یعنے اپنے نفس سے کوئی بات چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے یعنی جب کوئی رسول یا کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے تب وحی متلو جو شوکت اور ہیبت اور روشنی تام رکھتی ہے اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الہی کو مصفا کر کے دکھلا دیتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں در حقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحَى يُوحَى (النجم : ۵،۴) لیکن قرآن کریم کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے

Page 438

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة الحج اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر ایک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے لہذا ہر ایک بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۲، ۳۵۳) پوچھا گیا کہ قرآن کا جو نزول ہوا ہے وہ یہی الفاظ ہیں یا کس طرح ؟ فرمایا:.) یہی الفاظ ہیں اور یہی خدا کی طرف سے نازل ہوا.قراءت کا اختلاف الگ امر ہے مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِي ميں لا محدب قراءت شازہ ہے اور یہ قراءت صحیح حدیث کا حکم رکھتی ہے جس طرح پر نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے جیسا کہ اس آیت سے پایا الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) جاتا ہے.بعض کا یہ خیال ہے کہ اگر کسی الہام کے سمجھنے میں غلطی ہو جائے تو امان اُٹھ جاتا ہے اور شک پڑ جاتا ہے کہ شاید اُس نبی یا رسول یا محدث نے اپنے دعوئی میں بھی دھوکا کھایا ہو.یہ خیال سراسر سفسطہ ہے اور جو لوگ نیم سودائی ہوتے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں اور اگر اُن کا یہی اعتقاد ہے تو تمام نبیوں کی نبوت سے اُن کو ہاتھ دھو بیٹھنا چاہئے کیونکہ کوئی نبی نہیں جس نے کبھی نہ کبھی اپنے اجتہاد میں غلطی نہ کھائی ہو مثلاً حضرت مسیح جو خدا بنائے گئے اُن کی اکثر پیشگوئیاں غلطی سے پر ہیں.مثلاً یہ دعویٰ کہ مجھے داؤد کا تخت ملے گا بجز اس کے ایسے دعوئی کے کیا معنے تھے کہ کسی مجمل الہام پر بھروسہ کر کے اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ میں بادشاہ بن جاؤں گا....نبی کے ساتھ صد با انوار ہوتے ہیں جن سے وہ شناخت کیا جاتا ہے.اور جن سے اُس کے دعویٰ کی سچائی کھلتی ہے.پس اگر کوئی اجتہاد غلط ہو تو اصل دعوی میں کچھ فرق نہیں آتا مثلاً آنکھ اگر دُور کے فاصلہ سے انسان کو بیل تصور کرے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آنکھ کا وجود بے فائدہ ہے یا اُس کی رویت قابل اعتبار نہیں.پس نبی کے لئے اُس کے دعوئی اور تعلیم کی ایسی مثال ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور اُن میں غلطی نہیں کرتی.اور بعض اجتہادی امور میں غلطی کی ایسی مثال ہے جیسے دُور دراز کی چیزوں کو آنکھ دیکھتی ہے تو کبھی ان کی تشخیص میں غلطی کر جاتی ہے.اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی کو جو یہودیوں کی بھلائی کے لئے اپنی بادشاہت کا خیال تھا.اس لئے بموجب آیت کریمہ إِلَّا إِذَا تَمَلَى الْقَى الشَّيْطن في

Page 439

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة الحج أمنيته شیطان نے آپ کو دھوکا دیا اور داؤد کے تخت کا لالچ دل میں ڈال دیا.مگر چونکہ مقرب اور خدا کے پیارے تھے اس لئے وہ شیطانی وسوسے قائم نہ رہ سکے.اور جلد آپ نے سمجھ لیا کہ میری آسمان کی بادشاہت ہے نہ زمین کی.غرض حضرت مسیح کا یہ اجتہاد غلط نکلا.اصل وحی صحیح ہوگی مگر سمجھنے میں غلطی کھائی....اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اُس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اُٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہوتے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے.اور پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہاد کی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی.( اعجاز احمدی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳۲ تا ۱۳۵) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ يَوْمٍ عَقِيمٍ فَقَبْت مِن قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ أَغْلِنِى وَلَا الله عز وجل کے قول وَ لَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ أَنَّ مِرْيَةٍ مِنْهُ ثابت ہوتا ہے کہ شک و شبہ کو دور کر الْعَلَامَاتِ الْقَطْعِيَّةَ الْمُزِيْلَةَ لِلْمِرْيَةِ دینے والی قطعی علامات اور واضح نشانیاں جو بزبان حال وَالْأَمَارَاتِ الظَّاهِرَةُ النَّاطِقَةُ الدَّالَّةَ قرب قیامت کا پتہ دیتی ہوں کبھی بھی ظاہر نہیں عَلى قُرْبِ الْقِيَامَةِ لَا تَظْهَرُ أَبَدًا، وَإِنَّمَا ہوتیں.ہاں صرف ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں جو غور تَظْهَرُ آيَاتٌ نَظَرِيَّةٌ التي تحتاج إلى وفکر اور تاویل کی محتاج ہوتی ہیں اور استعارات کے التَّأْوِيلَاتِ، وَلَا تَظْهَرُ إِلَّا فِي حُلّل پردوں میں ہوتی ہیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آسمان الْإِسْتِعَارَاتِ، وَإِلَّا فَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ کے دروازے ظاہری طور پر کھل جائیں اور ان میں تَنْفَتِحَ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَيَنْزِلُ مِنها سے عیسی علیہ السلام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہاتھ عِيسَى أَمَا مَ أَعْيُنِ النَّاسِ وَفِي يَدِهِ میں نیزہ لئے ہوئے نازل ہوں اور فرشتے ان کے حَرْبةٌ، وَتَنْزِلُ الْمَلَائِكَةُ مَعَهُ (حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۰۳) ہمراہ ہوں.( ترجمہ از مرتب )

Page 440

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة الحج اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۖ إِنَّ اللَّهَ لطيف خَبيره ایسا پانی اتارا جس سے گلی سڑی ہوئی زمین سرسبز ہوگئی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰ حاشیه ) وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَا وَ مَا لَيْسَ لَهُمْ بِهِ عِلْمٌ وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ نَصِيرِه یعنی عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے ایسی چیز کی جس کی خدائی پر اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان نہیں بھیجا یعنی نبوت پر تو نشان ہوتے ہی ہیں مگر وہ خدائی کے کام میں نہیں آسکتے اور پھر فرماتا ہے کہ اس عقیدہ کے لئے ان کے پاس کوئی علم بھی نہیں یعنی کوئی ایسی معقولی دلائل بھی نہیں ہے جن سے کوئی عقیدہ پختہ ہو سکے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۷۹) يَايُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ لووووو يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَ لَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبُهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الظَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ.اے لوگو! ایک مثال ہے تم غور کر کے سنو جن چیزوں سے تم مراد میں مانگتے ہو وہ چیز میں تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو اس سے چھوڑا نہیں سکتیں.طالب بھی ضعیف ہیں اور مطلوب بھی ضعیف یعنی مخلوق چیزوں سے مرادیں مانگنے والے ضعیف العقل ہیں اور مخلوق چیزیں جو معبود ٹھہرائی گئی ہیں وہ ضعیف القدرت ہیں.(براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی

Page 441

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ سورة الحج کہ وہ کبھی سے چیز واپس لے سکیں.ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۵،۳۷۴) مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ مشرک لوگوں نے جیسا چاہیے تھا خدا کو شناخت نہیں کیا.وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا خدا کا کارخانہ بغیر دوسرے شر کاء کے چل نہیں سکتا حالانکہ خدا اپنی ذات میں صاحب قوت تامہ اور غلبہ کا ملہ ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳، ۵۲۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یا درکھو کہ ہر یک چیز خدا تعالی کی آواز سنتی ہے ہر یک چیز پر خدا تعالی کا تصرف ہے اور ہر یک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑھ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَا قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرِہ کے مصداق ہیں اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتا فوقتا کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سر ہے.برکار و بار ہستی اثری ست عارفاں را ز جہاں چہ دید آن کس که ندید ایں جہاں را بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱٬۳۰ حاشیه ) باعث مغضوب شدن اہل اسلام چیست؟ ہمیں که از زبان میگویند که ایمان آوردیم در دل بیچ شے نیست و ہمیں معنی این آیت است مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ - البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ نومبر و دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۶) خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہنچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہیے.اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا مانے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ

Page 442

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ سورة الحج ہوگا کیونکہ اس کے پاس زبر دست دلائل ہوتے ہیں لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تاہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۵) جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل ہے کہ مصنوعی خدا پر موت آوے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا نہیں وہ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرِہ کے پورے مصداق ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۷ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ b وو है مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ - هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَ فِي هَذَا - لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ * فَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكَوةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللهِ هُوَ مَولىكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلى وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ وَنِعْمَ النَّصِيرُ.دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کا لمیت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتیں.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۸ جنوری ۱۹۰۴ء) ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے.9.آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِینَ کے برخلاف ہے.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :-) اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے ۷۳ فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہ کو سب و شتم کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں اولیاء اللہ کو برا کہتے ہیں پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں.خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھتے ہیں.بلا و شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسین پر تہتر ابازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں.اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے

Page 443

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة الحج اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی حنبلی وغیرہ تجویز کئے.آج کل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت دوزخ، ملائک، وحی سب باتوں کا منکر ہے یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں.غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے واسطے اس فرقہ کا نام احمد یہ رکھا گیا.( حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لا تَفَرَّقُوا اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا.) (حضرت نے فرمایا) ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں.اگر احمد می نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی، جنبلی کہلانے میں بھی بنک ہے مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں.جن کو آپ بھی صلحاء مانتے ہیں.وہ شخص بد بخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور ان کو برا کہے صرف امتیاز کے لئے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے......ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے.اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیوں کر ظاہر ہو.خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہوسکتی.امام شافعی اور حنبلی وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہوگئی تھیں اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہو سکتی ہزار ہا گندے آدمی ملے جلے رہتے.یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیر بدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی.اب بھی ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے.ہم کو مسلمان ہونے سے را انکار نہیں مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے.جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتا ہے تو خدا خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے......جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں.میں کوئی بدعت نہیں لایا.جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام اور اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں.

Page 444

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة الحج احمد امحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے.اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے.حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے.احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے.آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا.خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ( بدر جلد نمبر ۳۲ مورخه ۳/نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳، ۴) ہیں.

Page 444

← Previous BookNext Book →