Language: UR
تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد چهارم سورة المآئدة تا سورة الرعد
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلى رَسُولِهِ الكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے.‘“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مدمقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.وو و میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے.“ ( اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام 66 سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک
کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہوگئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳.اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.66 حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں." (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین !!
iii بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) الْحَمْدُ لِلہ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ ,, قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوئی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.
iv جون ۱۹۶۹ ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم ۴ 3 Y ۶ نمبر شمار م ۹ مختصر فہرست مضامین جلد چهارم مضمون اپنی قوم کی ہمدردی اور اعانت فقط نیکی کے کاموں میں کرنی چاہیے خدا نے خنزیر کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قرآن ناقص ہے اور حدیث کا محتاج ہے بلکہ وہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ كا تاج لا زوال اپنے سر پر رکھتا ہے.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ میں کمال تعلیم کا دعوی اکمال کی تشریح اللہ تعالیٰ نے آیات اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّبَةً...الخ میں کلام پاک کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیا ہے اعتراض کا جواب کہ جب دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہو چکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ابن مریم آکر قرآن کے بعض احکام کو منسوخ اور کچھ زیادہ کرے گا تو قرآن کے ساتھ اکمال دین ہونا فاسد ہو جاتا ہے تحمیل بدایت قرآنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت کو ایک امتی کے ہاتھ سے پورا کیا.حضرت ابوبکر" کا فہم قرآن ۱۳ ۱۵ ۱۷
صفحہ ۲۴ ۲۶ ۲۷ ۲۷ ۲۸ 소소 ۲۸ ۲۹ ۲۹ vi نمبر شمار مضمون الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کی آیت دو پہلو رکھتی ہے ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا، دوئم کتاب مکمل کر چکا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.اس تکمیل میں دو خو بیاں تھیں ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی ہندؤوں اور عیسائیوں کے کھانے کی نسبت خیال ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن وہ حرام نہ ہو طَعَامُ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ حِلٌّ لکھ میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ - مسافت کی بد رسم کو قرآن نے حرام کر دیا ہے.مُحْصِنِینَ کے لفظ میں اشارہ کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے قرآن سے شادی کے فائدے ثابت ہیں.ایک عفت ، دوسری حفظ صحت، تیسری اولاد نماز کا پڑھنا اور وضو کر نا فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے تیم کے مسائل 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹
۳۵ ۳۶ ۳۹ ? ? ? ۴۳ 1 7 ۳۲ صفحہ vii مضمون لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى میں خدائے محبت کا ذکر نہیں کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا ہے تنعم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام ہی تقویٰ ہے يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے حضرت مسیح کے نزول کی علامت کہ تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں گے صریح نص قرآن اور حدیث کے مخالف ہے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور رکھا ہے یہود اور نصاری کے دعویٰ نَحْنُ ابْنُوا اللهِ وَاحِباؤُه کی تردید حضرت موسیٰ کو بہت محنت کرنے کی ضرورت نہ پڑی قوم غلامی میں گرفتار تھی اور طیار تھی کہ کوئی آئے تو اسے قبول کر لیں حضرت موسیٰ کی قوم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا معیار اطاعت میں موازنہ دعا کی راہ میں دو بڑے مشکل امر ریاضتیں جو طریقہ نبوی سے باہر ہیں اللہ کے نزدیک مقبول نہیں اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی نمبر شمار ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۲۱
viii نمبر شمار ۳۲ ۳۳ ۳۵ مضمون مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ کے ساتھ اَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ کے اضافہ کی حقیقت اگر توحید کافی ہوتی تو یہود محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے کیوں قابل سز ا ٹھہرے ۳۴ خدا کی راہیں نہایت دقیق ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں وَلَيَحْكُمُ اَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا انْزَلَ اللهُ فِيْهِ کے اصل معنی.نیز فیهِ نُور وھدی کے الفاظ اس بات کی دلیل نہیں کہ انجیل کوئی مستقل شریعت ہے عیسائی دھو کہ کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین ۳۷ فرقوں سے محبت نہ کریں.اس کی حقیقت ارتداد سے اسلام کوکسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ اسلام ترقی کر رہا ہے یا تنزل ۳۸ علماء کا بدی کو دیکھ کر خاموش رہنا بدی میں آپ شریک ہونا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا ۳۹ ۴۱ بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں قرآن شریف کی آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرَی الخ کی غلط نہی ہے جو باعث کمی علم و تدبر کے ظہور میں آئی یہ آیت كَانَا يَا كُلن الطعام صریح نص حضرت مسیح کی موت پر ہے صفحہ ۴۳ ۴۴ ۴۵ { ۴۶ ۵۱ ۵۳ ۵۴ ۵۸ ۶۴
ix نمبر شمار ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ مضمون مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ میں ابطال الوہیت مسیح کے لیے دلیل استقرائی آیت مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ الخ میں ابطال الوہیت مسیح کے تین دلائل حضرت مسیح کی ماں مریم کی نسبت جو ( صدیقہ ) کا لفظ آیا ہے یہ رفع الزام کے لیے ہے ہماری شریعت میں شراب کو قطعا منع کیا گیا ہے اور اس کو رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشیطن کہا گیا ہے قمار بازی میں اتلاف حقوق ہوتا ہے شراب نوشی کے ساتھ دوسرے گناہ لازمی پڑے ہوئے ہیں ۴۷ ذرا ذراسی بات پر سوال کرنا بھی مناسب نہیں لیکن اگر کوئی امرا ہم دل میں ۴۸ ۴۹ کھٹکے تو اسے ضرور پیش کر کے پوچھ لینا چاہیے جو محض زبان سے کام لیتا ہے اور پہلے خود اصلاح نہیں کرتا ایسے مصلحوں سے سخت نقصان پہنچ رہا ہے اپنی تبدیلی کے لیے تین باتیں اتفس امارہ کے بالمقابل تدبیر ۲.دعاؤں سے کام لو ۳.سست اور کاہل نہ بنو قالو الا علم لنا یہ لاعلمی انبیاء کی ان کی اس امت کے بارے میں ہوتی ہے جو ان کی وفات کے بعد ہوتی ہے صفحہ 13 ۶۷ ۶۹ 44 ۷۲ ۷۲ ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵
صفحہ 22 ZA ZA ۷۹ ΔΙ ΔΙ ۸۴ ۸۴ ✓ نمبر شمار مضمون ۵۱ عصمت سے مراد ۵۲ ۵۳ صحابہ رسول اور حواریوں کے مابین قوی الایمان اطمینان قلوب کے لحاظ سے موازنہ قرآن شریف میں توفی کے معنے یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا ۵۴ قرآن شریف کے تئیس مقام میں برابر توفی کے معنے امانت اور قبض روح ہے ۵۵ ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنى میں جس توفی کا ذکر ہے وہ حضرت عیسی کے نزول کے بعد واضح ہوگی کا جواب بخاری اور مسلم میں توفی کے معنے وفات دینے کے ہیں تو فیتنی کے لفظ کی صحیح تفسیر وہی ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دے دی امام بخاری به تقریب تفسیر فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي حضرت عیسی کی وفات خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت کر چکا ہے آیت فلما توفیتَنِی میں اس وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے جو آیت يُعِیسَی اِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں کیا گیا تھا اگر مسیح کا دوبارہ اس دنیا میں آنا مقدر ہوتا تو وہ اپنے مذکورہ بالا قول میں دو شہادتوں کا ذکر کرتے اور یہ بھی کہتے کہ آتُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَزَةً أُخْرَى ۸۵
صفحہ ۸۷ ۹۲ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ 1+1 xi مضمون یہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى دلالت کرتی ہے کہ نصاریٰ کا گمراہ ہونا اور ایک بندہ کو خدا بنانا مسیح کی صفات سے مشروط ہے صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ مُتَوَفِّيكَ مميتك آیت فلما توفيتنى میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسی وقوع میں آگیا ہے یہ کہنا بے جا ہے کہ لفظ تو فیتنی جو ماضی کے صیغہ میں آیا ہے دراصل اس جگہ مضارع کے معنے دیتا ہے وفات حیات کے جھگڑے میں بھی میں حکم ہوں میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں.یہ حماقت ہے کہ آیت فَلَمَّا تو فیتنی کو آنحضرت کی طرف نسبت کر کے آنجناب کی وفات مراد لی جائے اور اسی آیت کو حضرت عیسی کی طرف نسبت کر کے ان کی حیات مراد لی جائے علم لغت میں یہ مسلم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں خدا فائل اور انسان مفعول یہ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنے توفی کے نہیں آئے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى سے صریح طور پر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اعتراض کا جواب کہ مسیح کا قول کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑ گئے صحیح نہیں ہو گا بلکہ یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرے کشمیر کے سفر کے بعد لوگ بگڑ گئے ہیں کیونکہ وفات تو صلیب کے واقعہ سے ستاسی برس بعد ہوئی نمبر شمار ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹
صفحہ ۱۱۵ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۷ { xii نمبر شمار ۷۰ اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵ 24 22 مضمون یہی لفظ تو فی اور مقامات میں دوسرے انبیاء کے حق میں وارد ہے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں لیے جاتے خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بایتِہ میں ظالم سے سے مراد اس جگہ کا فر ہے منہاج نبوت کے لیے جو معیار ہے اس پر میرے دعوی کو دیکھو آنحضرت بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور علم سے کام کرتا ہے ہر چند میرا مذ ہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں قرآن کریم کے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں مولوی غلام دستگیر قصوری نے میرے صدق و کذب کا فیصلہ آیت فَقطع دست دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا پر چھوڑ ا تھا چونکہ وہ خدا کی نظر میں ظالم تھا اس لیے اس کو مہلت نہ ملی ۷۸ میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۵ ۱۳۷
صفحہ ۱۳۴ ۱۴۰ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۴ ۱۴۶ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۹ xiii مضمون غدیر خم پر رسول اللہ کی نصیحت میں تم میں دونہایت گراں قدر چیز میں چھوڑ رہا ہوں (۱) کتاب اللہ (۲) میرے اہل بیت جیسے ایک داعی شر انسان کے لیے مقرر ہے ایسا ہی ایک داعی خیر بھی ہر یک بشر کے لیے موکل ہے جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا مسئلہ وجود ملائک اور شیاطین ان مسائل میں سے ہے جن کے لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے قرآن شریف میں عذاب کے کئی اقسام بیان کیے ہیں جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں میرے الہام میں ہے کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے جو لَمْ يَلْبِسُوا إيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ کے مصداق ہیں اجتَبَيْنَهُم وہ باعتبارا اپنی فطرتی قوتوں کے دوسروں میں سے چیدہ اور برگزیدہ تھے اس لیے قابل رسالت و نبوت ٹھہرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبارا اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی آيت لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَولھا اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عربی ام الالسنہ ہے سوال کا جواب کہ کیا خدا آسمان پر ہے نمبر شمار Ꭺ ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ۸۸
صفحہ ۱۵۹ ۱۶۱ F ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۳ ۱۷۵ xiv مضمون خَلَقَ كُلّ شَيْءٍ.لفظ کل کے ساتھ جو احاطہ تامہ کے لیے آتا ہے ہر ایک چیز کو جو اس کے سوا ہے مخلوق میں داخل کر دیا ہے خدا کی کنہ میں ہم دخل نہیں دے سکتے.اسلم طریق یہی ہے کہ انسان لا تدركه الابصار پر ایمان رکھے نبی کبھی یہ نہیں کہے گا کہ جو نشان مجھ سے مانگو دکھانے کو طیارہوں اس کے منہ سے نہیں نکلے گا إِنَّمَا الأيْتُ عِندَ اللهِ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُسْتَرِيْنَ کے مخاطب آنحضرت نہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان سے کم حصہ رکھتے ہیں اس سوال کا جواب کہ کیا کسی غریب سید کوز کو ۃ دی جاسکتی ہے صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے یہ بات نہیں کہ ہر کس و ناکس خدائے تعالیٰ کا پیغمبر بن جائے جھوٹے مذہب اور سچے مذہب میں امتیاز کرنے کا طریق عیسائی نامہ نگاروں کا بیان کہ اگر انبیاء کی نسبت جرم کا لفظ نہیں آیا تو یہود کی نسبت بھی نہیں آیا کا جواب قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي الخ میں ان کا رڈ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع کی رہائی کے لیے جان کو وقف کر دیا نسك كے معنے نمبر شمار ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹
صفحہ IZA ۱۷۹ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۵ ۱۸۷ ۱۸۸ ١٨٩ 190 XV مضمون نمبر شمار 1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا نسک میں قربانی سے مراد روح کی قربانی ہے قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي الخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب تام کی ایک بڑی دلیل ہے آیت اور حدیث میں باہم تعارض واقع ہونے کی حالت میں مفسرین و محدیث کا اصول ۱۰۴ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخری میں یسوع کے کفارہ کی تردید ۱۰۵ 1+4 1+2 ۱۰۸ 1+9 +11 گناہ کا علاج تین طور سے ۱.محبت ۲.استغفار ۳.توبہ قرآن شریف پر حدیث کو قاضی بنانا سخت غلطی ہے اِتَّبِعُوا مَا اُنْزِلَ اليكم اول تو جہ قرآن کی طرف ہونی چاہیے پھر اگر اس توجہ کے بعد کسی حدیث یا قول من دونہ میں داخل دیکھے تو اس سے منہ پھیر لیوے تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے اجيج آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں اور شیطان کے وجود کی بناوٹ بھی آگ سے ہے.اس لیے قوم یا جوج ماجوج سے اس کو ایک فطرتی مناسبت ہے قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے
صفحہ 191 ۱۹۱ ۱۹۱ ۱۹۴ ۱۹۶ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰۳ ۲۰۳ xvi مضمون انسان ہر ایک قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے آج کل آدم کی دعا پڑھنی چاہیے رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرُ لَنَا الحَ خدا اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گانہ تلوار سے تمہارے قرار کی جگہ زمین ہی رہے گی پھر کیوں کر ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی قرارگا و صد ہا برس سے آسمان ہو حضرت مسیح برطبق آیت فِيْهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُون زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں لفظ فيها جو تحيون پر مقدم ہے زمین پر ہی حیات کی تخصیص کرتا اور انسانی زندگی کو زمین پر مقدم کرتا ہے فتویٰ کی دو قسم ہیں ایک علم کے متعلق اور دوسرا عمل کے متعلق اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرما یا مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ سوال کا جواب کہ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہیے كُلُوا وَاشْرَبُوا وَ لَا تُسْرِفُوا کے حکم کی حکمت حالوا ایک امر ہے جب مومن اس کو امر سمجھ کر بجالا وے تو اس کا ثواب ہوگا.خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دئیے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ عمدہ تعلیم بھی انجیل میں موجود نہیں نمبر شمار 111 ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۷ ۱۱۸ ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۱
صفحہ ۲۰۴ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۳ ۲۱۶ xvii نمبر شمار مضمون ۱۲۲ اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں جب تک بحیثیت ۱۲۳ مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں خدا پر افترا کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے ۱۲۴ یہودیوں کا ہرگز یہ اعتقاد نہیں کہ جوشخص مع جسم عنصری آسمان پر نہ جاوے وہ مومن نہیں ۱۲۵ لا تُفتَحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ - مُفَتَعَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ - اب ان آیات میں لھم کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب اس جسم عصری کے ساتھ جاتے ہیں شیعوں کے مذہب کہ صحابہ کے درمیان آپس میں سخت دشمنی تھی کی نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ عَل میں تردید ۱۲۷ میرا مذ ہب فرقه ضالہ نیچریہ کی طرح یہ نہیں ہے کہ میں عقل کو مقدم رکھ کر قال اللہ وقال الرسول پر کچھ نکتہ چینی کروں.۱۲۸ قرآن کریم ہر یک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے اور احادیث کی صحت و عدم صحت پر کھنے کے لیے وہ محک ہے ۱۲۹ ۱۳۱ عرش سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت ہے اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اعتراض کہ خدا عرش پر کرسی نشین ہے کا جواب قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے پر اعتراض کہ خدا تعالیٰ اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اس کے عرش کو اٹھاوے کا جواب
صفحہ ۲۲۱ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۳ ۲۳۵ ۲۳۷ ۲۴۰ xviii نمبر شمار ۱۳۲ ۱۳۳ مضمون عرش کوئی ایسی چیز نہیں جس کو مخلوق کہہ سکیں وہ تو تقدس اور تنزہ کا ایک وراء الوراء مقام ہے ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ میں قدامت کے لحاظ سے لفظ تم پر اعتراض کا جواب ۱۳۴ - اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ بسيط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے ۱۳۵ قرآن شریف نے انبیاء ورسل کی بعث کی مثال مینہ سے دی ہے ۱۳۶ جب باخدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں تو بلا کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے ۱۳۷ حکم خواتیم پر ہے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ۱۳۸ موسی کے تین بڑے کھلے کھلے کام جس نبی سے ظہور میں آئے ہوں وہی نبی مثیل موسیٰ ہوگا.نیز حضرت عیسیٰ اور آنحضرت کا ان کاموں میں موسیٰ سے مماثلت اور موازنہ یہود اور مسلمان بادشاہوں کے واقعات میں مشابہت ۱۳۹ ۱۴۰ وعدہ اور وعید کی تاریخ کاٹلنا ۱۴۱ لیکھرام کے متعلق پیشگوئی عِجْلًا جَسَدٌ إِلَّهُ خُوار اور لفظ خُوَارٌ کی تفسیر ۱۴۲ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے
صفحہ ۲۴۶ ۲۵۰ ۲۵۲ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۹ ۲۶۱ Xix نمبر شمار مضمون ۱۴ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا.میں جَمِيعًا کے دو معنے ہیں ۱۴۴ یہود کے مغضوب علیہم اور دائمی وعید محکومیت کی وجہ ۱۴۵ ہستی باری تعالی پر دلیل.اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى ۱۴۶ سوال کہ جب ایک شخص نے ایک بات تحصیل کی ہے تو دوبارہ اسی کے تحصیل کرنے سے کیا حاصل ہے، کا جواب ۱۴۷ جہنم کیا چیز ہے؟ ۱۴۸ نص جو اول درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں ۱۴۹ قیامت کی نشانیوں کی دو قسمیں ہیں.امارات صغری ۲.امارات کبری ۱۵۱ ܙ ۱۵۲ خدا تعالیٰ متقی اور مومن کی زندگی کا ذمہ دار ہوتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نبوت و ولایت کا جلال ۲۶۴ ۲۶۷ خدا کے مقربوں کو مخالفین کے مقابل پر وَ اعْرِضْ عَنِ الْجهلِينَ کا خطاب ۲۶۷ ۱۵۳ جنگ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خارق عادت معجزہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى وو ۱۵۴ لِمَا يُحِيكُم سے مراد روحانی مردوں کا زندہ ہونا ہے ۱۵۵ اَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ - اَمْوَالُكُمْ میں عورتیں داخل ہیں ۱۵۶ کامل مومنوں کو ہمیشہ کے لیے روح القدس دیا جاتا ہے ۲۷۰ ۲۷۲ ۲۷۳ ۲۷۴
صفحہ ۲۷۷ ۲۷۷ ۲۷۸ ۲۸۰ ۲۸۲ ۲۸۴ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۹۱ ۲۹۳ ۲۹۴ XX نمبر شمار ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ 17.۱۶۱ F ۱۶۲ اسلام کی لڑائیوں کا صحیح نقشہ مضمون استغفار عذاب الہی اور مصائب شدیدہ کے لیے سیر کا کام دیتا ہے تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ و استغفار سے رو ہلا ہوتا ہے قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ سے یہاں جبر نکلتا ہے؟ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا کے معنے ہیں اس قدر ذکر کرو کہ گو یا اللہ تعالیٰ کا نام.....ہو جائے کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لیے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ۱۶۳ وَاعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُم مِنْ قُوَّةٍ وَ مِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ ۱۶۴ میں رباط کے معنی اور تفسیر مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہیے آنحضرت کے صحابہ کا مقام ۱۶۶ اگر قرآن جبر کی تعلیم کرتا تو یہ حکم دیتا کہ جب کا فر قابو میں آجاوے تو وہیں اس کو مسلمان کرلو ۱۷ اسلام کے کل جنگ اور مقابلے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر دفاعی رنگ میں حفاظت جان و مال کی غرض سے تھے ۱۶۸ حضرت موسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون جہاد کا موازنہ
صفحہ ۲۹۶ ۲۹۸ ٣٠١ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۶ ۳۰۷ ۳۰۸ ٣٠٩ ٣١١ ۳۱۳ ۳۱۴ xxi مضمون اس حکم کی وجہ کہ اہلِ کتاب سے تم لڑو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں تثلیث کا عقیدہ ہندؤوں کے عقیدہ کے عقیدہ ترے مورتی کی نقل ہے يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ میں پھونکوں سے مراد نمبر شمار ۱۶۹ 121 ۱۷۲ حضرت ابوبکر کی خاص فضیلت کہ آپ کو سفر ہجرت کی مرافقت کے لیے خاص کیا گیا ۱۷۳ حضرت ابوبکر اور حضرت مسیح کے شاگرد کی آزمائش کا موازنہ ۱۷۴ رسول اللہ کے قول اِنَّ اللهَ مَعَنا اور حضرت موسیٰ اِنَّ مَعِيَ رَبِّي کے قول.میں ایک سر ۱۷۵ مصر کے اخبار اللواء کا کشتی نوح پر ایک اعتراض کا جواب خیرات اور صدقات وغیرہ کے مال میں یہ لحوظ رہنا چاہیے کہ پہلے جس قدر 124 محتاج ہیں ان کو دیا جاوے ۱۷۷ اصل جنت خدا ہے.اس لیے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رضوان مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ہی رکھا ہے ۱۷۸ مخالفین کے اعتراض کہ غلام دستگیر قصوری نے کب مباہلہ کیا ؟ کا جواب دست ۱۷۹ منافق کی نماز جنازہ کا جواز رکھنے کی وجہ ۱۸۰ ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر نص صریح ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمُ إِنَّ صَلوتَكَ سَكن لَّهُمْ و بوو
xxii نمبر شمار ۱۸۱ ۱۸۲ مضمون حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے رسم و عادت سے نجات اور سچا اخلاص اور ایمان حاصل کرنے کی راہ کو نوا مَعَ الصُّدِقِينَ ۱۸۳ اعتراض کہ ۲۷ ؍دسمبر کو ایک تاریخ پر جلسلہ کے لیے آنے میں بدعت ہے کا جواب ۱۸۴ صادق سے مرادوہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات و سکنات وقول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں ۱۸۵ یہ کہنا کہ ہمارے لیے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے ۱۸۶ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ - اَنفُس کے لفظ میں ایک قراءت زبر کے ساتھ ہے ۱۸۷ آیت لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ الخ میں عزیز اور صفحہ ۳۱۵ ۳۳۱۵ ۳۱۷ ۳۲۷ ۳۳۰ ۳۳۰ ٣٣١ ۳۳۴ ۳۴۲ حریص کے الفاظ میں اشارہ رب العرش سے مراد ۱۸۸ ۱۸۹ آریہ کا اعتراض کہ یہ چھ دن کی کیوں تخصیص ہے، کا جواب ۱۹۰ فاسق ہیبت الہی کو مشاہدہ کر کے اپنی فاسقانہ چال چلن کو بدلا لیتا ہے اور بلا سے خلاصی کے بعد اپنی پہلی عادات کی طرف رجوع کر لیتا ہے
صفحہ ۳۴۲ ۱۹۱ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۲ xxiii مضمون نمبر شمار 191 ۱۹۲ ۱۹۳ سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے انبیاء نے اپنی کامل راستبازی کی قومی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لیے ہے وہ نیک چال چلن ہے ۱۹۴ جسمانی نظام کی کل بھی صدق ہی ہے.فی الحقیقت کذب اختیار کرنے سے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے ۱۹۵ و عید کی پیشگوئیوں میں تعین نہیں ہوتا ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ یہ امر بالکل غلط ہے کہ اسلام میں قسم کھانا منع ہے خیر کثیر سے مراد اسلام ہے یہ صفات تو اولیاء کے ہوتے ہیں ان کی آنکھ، ہاتھ ، پاؤں غرض کوئی عضو ہو منشاء الہی کے خلاف حرکت نہیں کرتے مسلمانوں کا خاصہ ہے کہ بدنسبت منکرین اسلام و کفار کے ان کو بکثرت کینوا میں آتی ہیں ۲۰۰ قرآن شریف مکالمہ مخاطبہ الہیہ کے سلسلہ کو بند نہیں کرتا جیسا کہ خود فرماتا ب لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۲۰۱ جو امن کی حالت میں ڈرتا ہے وہ خوف کی حالت میں بچایا جاتا ہے ۲۰۲ آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلهَ اللح سے فرعون کو صرف اتنا فائدہ ہوا کہ خدا نے فرمایا تیرا بدن تو ہم بچائیں گے مگر تیری جان کو اب نہیں بچائیں گے
صفحہ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۵ ۳۶۸ ۳۷۰ ۳۷۲ XXIV نمبر شمار ٢٠٣ مضمون یونس کا قصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی عذاب شرط کے بغیر بھی تاخیر میں ڈال جاتا ہے ۲۰۴ اتر - الف سے مراد اللہ ہال سے مراد جبرائیل اور راء سے مراد رسل ہیں ۲۰۵ قرآن کریم کی تعلیم کا استحکام ( وجوہات احکام آیات قرآن) ۲۰۶ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے ۲۰۷ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لیے ۲۰۸ توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے ۲۰۹ كَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ - خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے کیا معنے ہیں.اس کی کنہ خدا کو معلوم ہے قرآن شریف کامل اور بے مثل ہے جس کے مقابلہ کرنے سے کفار عاجز رہے ۳۷۳ قالَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہ میں برہان انی کی ۳۷۷ ۳۷۸ طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے آیت اسْتَوَتُ عَلَى الْجُودِي میں جو دی کے معنے سید صاحب کے قول کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دعا ئیں قبول نہیں ہوتیں کا جواب علیم وہ ہے جو يَبْلُغُوا العلم کا مصداق ہو اور علم کے زمانہ تک پہنچے فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ خدا نے مخلوقات کو سعادت اور شقاوت کے دوحصوں پر تقسیم کیا حسن اور فتح کو دو حصوں پر تقسیم نہ کیا اس کی حکمت ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۵
XXV نمبر شمار ۲۱۶ مضمون کیا جہنمی نجات پائیں گے یا انہیں ہمیشہ عذاب میں چھوڑ دیا جائے گا ۲۱۷ دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نہ وہ پیشگی جو خدا کو ہے بلکہ دور دراز مدت کے لحاظ سے ۲۱۸ بہشت کے متعلق فرمایا کہ عطاء غیر محدود ایک ایسی نعمت جس کا انقطاع نہیں.کے محدود ایسی ۲۱۹ لیکن برخلاف اس کے دوزخ کے متعلق ایسا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعل کتاب ہے جو گو یا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے ۲۲۱ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں اس کا جواب ۲۲۲ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الأَمرُ كُلُّه سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس سے انسان کی مجبوری لازم آتی ہے غلط نہیں ہے ۲۲۳ خدا تعالیٰ کسی کے منشا کے ماتحت نہیں چلتا ہے بلکہ وہ خدا ہے اور غالب علی آمرہ ہے ۲۲۴ وَلَمَّا بَلَغَ اشده میں اسد سے مراد نبوت نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ جب ہوش میں آیا ۲۲۵ فطرة انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق بہت پیارا ہوتا ہے ۲۲۶ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَى مِمَّا يَدُعُونِی الیہ سے حضرت یوسف کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا پتہ لگتا ہے صفحہ ۳۸۰ ۳۸۲ ۳۸۶ ۲۱۸ ۳۸۶ ۳۸۹ ۳۹۰ ۳۹۳ ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۶
xxvi نمبر شمار مضمون ۲۲۷ مصر کے بادشاہ نے حضرت یوسف کی پاک باطنی کو دیکھ کر کہ باراں برس جیل خانہ منظور کیا مگر بدکاری کی درخواست کو نہ مانا ان کو صدیق کو خطاب دیا ۲۲۸ نفس کی تین قسمیں ہیں امارہ - لوامہ مطمئنہ -.۲۲۹ امارہ مبالغہ کا صیغہ ہے امارہ کہتے ہیں بہت بدی کا حکم کرنے والا وو ۲۳۰ حضرت خاتم الانبیاء نے مکہ والوں پر بکلی فتح پاک سب کو لا تثريب عَلَيْدُ اليوم کہہ کر معاف کر دیا صفحہ ۳۹۷ ۳۹۸ ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۱۰ ۲۱ حضرت یعقوب حضرت یوسف کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے ۴۰۸ ۲۲ تمام تر تلاش کے ایک ایسی حدیث مجھے نہ ملی جس میں توفی کے فعل کا خدا فاعل ہو اور مفعول بہ علم ہو اور اس جگہ بجز مارنے کے کوئی اور معنی ہوں ۲۳۳ قرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بنا سکے بلکہ اس کے آثار صدق ظاہر ہیں ایسی اس بنا ۲۳۴ خدا سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے ۲۳۵ جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لیے تبدیلی ہو اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.۲۳۶ خدا تعالیٰ کی خالقیت اور وحدانیت کی دلیل ۲۳۷ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازی عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں ۲۳۸ کے لیے مفید ہیں جو شخص دنیا کے لیے نفع رساں ہو اس کی عمر دراز کی جاتی ہے.اس پر جو یہ 을 ۴۱۱ ۴۱۳ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۲۱ ۴۲۱ اعتراض کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ کی عمر چھوٹی تھی.اس کا جواب
صفحہ ۴۲۲ ۴۲۲ ۴۲۶ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۱ Xxvii مضمون نمبر شمار ۲۳۹ اعتراض کہ بعض مخالف اسلام بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ۲۴۰ احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمر میں لمبی ہو جائیں گی زمانہ عمریں اس سے مراد ۲۴۱ الا بذکر الله تطمينُ الْقُلُوبُ کے عام معنی ، اور اس کی حقیقت اور فلسفہ ۲۴۲ بہشت کی لذات کی حقیقت ۲۴۳ اللہ تعالیٰ کی ہستی بڑی بھاری شہادت ہے کہ محوداثبات اس کے ہاتھ میں ہے ۲۴۴ سنت اللہ یہی ہے کہ ائمۃ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں ۲۴۵ پہلی کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے
جلد چهارم XXIX فہرست آیات أعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّجِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے آیت سورة المائدة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالَا تُحِلُّوا شَعَابِرَ.صفحہ نمبر ۵۲ ۵۵ ۶۱ آیت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٌ مِّنْ ذلِكَ..صفحہ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۶۳ ۶۴ وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي...۵۴ وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ.۵۴ ياَيُّهَا الرَّسُولُ بَلغ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ..۵۷ اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا.۵۸ مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ.۶۴ لَتَجِدَنَ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةٌ.۷۰ وَإِذَا سَمِعُوا مَا اُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ..وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَاءَنَا.21 لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغوي.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ اے اے ۷۲ ۷۳ ۷۵ 24 24 22 ZA ۱۲۰...يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْتَلُوا عَنْ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمُ انْفُسَكُمُ 121 يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ.۲۷ ۶۸ ۲۷ ۶۹ ۲۹ 4.۷۶ ۳۱ ۸۳ ۸۴ ۳۵ ۸۵ ۳۶ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ.يَسْتَلُونَكَ مَا ذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ الْيَوْمَ يُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبتُ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمتُم إِلَى..يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ.فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَلَّهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصْرَى أَخَذْنَا...٣٢ ياهلَ الْكِتَبِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا...وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصْرِى نَحْنُ.۳۸ يَا هُلَ الْكِتَبِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا...قَالُوا يَمُوسَى إِنَّا لَنْ تَدْخُلَهَا أَبَدًا...۳۸ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَى أَدَمَ بِالْحَقِّ.مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى.إِنَّمَا جَزْوا الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا.۴۴ وَقَفَّيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ...وَلْيَحْكُمُ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ.۹۱ ۱۰۲ ۴۰ 1+4 ۴۲ +11 ۴۴ 111 ۱۱۴ ۴۵ ١١٦ ۴۵ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ.۱۲۰ ۵۱ اذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَالُوا نُرِيدُ اَنْ تَأكُلَ مِنْهَا.قالَ اللهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ ۱۱۷ ۱۱۸ وَاذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ.قَالَ اللهُ هذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصُّدِقِينَ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۹ ۲۵ ۲۸ ۳۳ ۳۴ ۳۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹
فہرست آیات نمبر 11 ۱۲ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۶ ۲۸ ۳۱ ۳۵ ۳۶ ۳۸ ۳۹ ۴۲ ۴۵ ۴۶ ۵۱ ۵۸ ۶۰ ۶۱ ۶۲ XXX آیت صفحہ نمبر سورة الانعام فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمُ وَ لَقَدِ اسْتُهُزِئَ بِرُسُلِ مِنْ قَبْلِكَ.قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا.وَإِن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ.قُلْ أَن شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً.الَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ.وَمِنْهُم مَّنْ يَسْتَمِعُ اِلَيْكَ.وَ لَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا.وَلَوْ تَرَى إِذْ وَقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ.وَ لَقَدْ كَذِبَتْ رُسُلُ مِنْ قَبْلِكَ.وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ.وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَيرٍ.بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا.فلمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا.قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ.وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ.وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْأَنْتِ.قُلْ إِنِّي عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي.۶۴ ۶۶ ۷۲ ۱۲۳ ۸۰ ۱۲۳ ۸۳ ۱۲۳ ۸۸ ۱۲۴ ۹۱ ۱۲۴ ۹۲ ۱۲۴ ۹۳ ۱۲۴ 1+1 ۱۰۲ ۱۲۵ ۱۲۹ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+9 +11 ۱۳۱ ۱۳۱ ۱۱۵ ۱۳۲ ۱۱۷ ۱۳۴ ۱۲۰ ۱۳۵ ۱۲۳ ۱۳۵ ۱۲۵ ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۶ ۱۴۶ ۱۳۷........۱۴۷ ۱۳۷ ۱۴۸ ۱۳۷ ۱۵۲ ۱۳۹ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفكُم بِالَّيْلِ.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِه..آیت قُلْ مَنْ يُنَجِّيَكُم مِّنْ ظُلمتِ.جلد چهارم صفحہ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ.قُلْ اَنَدعُوا مِن دُونِ اللهِ مَا.إِنِّي وَجَهتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ.الذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ ۱۴۳ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۴ ۱۴۶ وَمِنْ آبابِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاخْوَانِهِمْ...۱۴۸ أولَبِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُل لهم.وو وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةِ إِذْ.وَهُذَا كِتَبُ اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُصَدِّقُ.وَجَعَلُوا لِلهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُم بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ انى.لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ.وو مز ۱۴۹ ۱۵۱ ۱۵۳ ۱۵۸ ۱۵۹ ۱۵۹ قَدْ جَاءَكُمْ بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمُ.۱۶۱ وَلَا تَسبُوا الذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ...۱۶۲ وَاقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِم.وَنُقَلِبُ أَفْدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُم ۱۶۲ اَفَغَيْرَ اللَّهِ ابْتَغِي حَكَمَا وَ هُوَ..۱۶۳ ۱۶۳ وَ اِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ ܬܪܙ وَمَا لَكُمْ اَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ.وَإِذَا جَاءَ تُهُمُ ايَةٌ قَالُوا لَن.اِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَاتِ وَ مَا.قُلْ يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ ۱۶۵ ۱۶۵ ۱۶۸ ۱۶۹ قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَى.۱۶۹ وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ مُنَا كُل..فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ.۱۷۰ 121 قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ.
آیت جلد چهارم صفحہ وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُه.۲۲۵....وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِة الا ان.....۲۲۶ وَ إلى مَدينَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا.۲۲۶ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا.۲۲۶ وَمَا اَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِي.۲۲۷ تلْكَ الْقُرى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ...۲۲۷ وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِأَيْتِ..۲۲۷ وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ..قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا.قالُوا أَو ذِينَا مِن قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا.فَإِذَا جَاءَتُهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا.وَاعَدْنَا مُوسى ثَلْثِينَ لَيْلَةً.وَلَمَّا جَاءَ مُوسى لِمِيقَاتِنَا.وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ.إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ...وَاكْتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً.۲۲۸ ۲۲۸ ۲۳۰ ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۵ ۲۳۶....۲۳۸ ۲۳۹....الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيِّ.۲۴۰ قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ اِنّى رَسُولُ اللهِ..وَاذْتَاذَنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ ۲۴۲ ۲۵۰ وَالَّذِينَ يُمَسكُونَ بِالْكِتُبِ وَأَقَامُوا...۲۵۱ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي أَدَمَ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةً.وَلَقَد ذَرَ أَنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا.۲۵۱ ۲۵۵ ۲۵۶ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ.أو لَمْ يَنْظُرُوا فِى مَلَكُوتِ السموت.۲۵۸ ۲۵۹ يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ.۲۶۱ الَهُمْ أَرْجُلُ يَمْشُونَ بِهَا.۲۶۲ نمبر فہرست آیات آیت XXXI صفحہ نمبر ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۹ ۱۶۳ ۱۶۴ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي..وَ أَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ..هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ....۱۷۲ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ.قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِى رَبَّا وَ هُوَ رَبُّ.اِتَّبِعُوا مَا اُنْزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم.۹ وَالْوَزْنُ يَوْمَينِ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ.۵۹ ۱۷۲ ۸۳ ۱۷۲ ۸۶ ۱۷۲ ۹۰ ۹۵ ۱۸۰ ۱۰۲ ۱۸۰ ۱۲۷ ۱۸۷ ۱۲۸ ۱۸۷ ۱۲۹ ۱۳۰ سورة الاعراف ۱۳۲ ۱۸۷ قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلا تَسْجُدَ إِذْ.۱۴۳ 19+ ۱۴۴ 19+ قَالَ انْظُرُ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.فد ليهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ.۱۴۹ 191 ۱۵۳ ۱۹۲ قالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُو.قَالَ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ.۱۵۷ ۱۹۸....يبَنِي آدَمَ قَد اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا.۱۵۸ ۲۰۰ ۱۵۹ ۲۰۱ ۱۶۸ ۲۰۳ 121 ۲۰۳ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ " وَأَقِيمُوا...يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ.قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا..يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ.وو ۱۷۳ ۲۰۴ 122 فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى.اِنَّ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا...۲۰۵ ۱۸۰ ۲۰۷ ۱۸۱ ۲۰۹ ۱۸۶ ۲۰۹ ۱۸۸ ۲۲۴ ۱۹۶ ۲۲۴ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِل..وَلَقَدْ جِئْتُهُمْ بِكِتَبٍ فَضَّلْنَهُ عَلَى..إنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ.وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِيحَ بُشْراً.۱۳ ۱۶،۱۵ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۳۰ ۳۲ ۳۴ ۳۶ ۳۸ ۴۱ ۴۴ ۵۳ ۵۵ ۵۷ ۵۸
آیت جلد چهارم صفحہ كد اب الِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِن.....۲۸۱ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةٌ.وَاعِدُ والهُم مَّا اسْتَطَعْتُم ۲۸۱ ۲۸۱ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ.۲۸۷ وَاِنْ يُرِيدُوا أَنْ تَخْدَعُوكَ.وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ.فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَ اِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدُ لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ الَّا وَلَا.وَاِنْ تَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ..۲۸۸ ۲۸۸ ۲۹۱ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۲ ۲۹۲ ۲۹۶ ۲۹۸ ۳۰۰ سورة التوبة قُلْ إِنْ كَانَ أَبَا وَكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ.وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ بِابْنُ اللهِ.اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُم يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى...۳۰۱ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ.الا تَنْصُرُوهُ فَقَد نَصَرَهُ اللهُ إِذْ.انْفِرُو احْفَا فَا وَ ثِقَالًا وَ جَاهِدُوا.قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلا مَا كَتَبَ اللهُ...وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُم إِنَّمَا الصَّدَقَتُ لِلْفُقَرَاءِ الَم يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ الله.وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ۳۰۴ ۳۰۷ ۳۰۷ ۳۰۸ ۳۰۸ ۳۰۹ ۳۰۹...XXXII صفحہ نمبر ۵۳ ۲۶۳ ۵۹ ۲۶۶ ۶۱ ۲۶۶ ۶۲ ۲۶۷ ۶۳ ۲۶۸ ۶۴ ۲۶۹ ۲۶۹ ۶ ۲۷۰ ۲۷۰ 1.۱۳ ،۱۲ ۲۷۰ ۲۷۱ ۲۴ ۲۷۱ ۲۹ ۲۷۲ ۲۷۲ Σ ۳۱ ۲۷۳ ۳۲ ۲۷۵ ۳۳ ۲۷۶ ۳۴ ۲۷۷ ۴۰ ۲۷۷ 3 ۴۱ ۲۷۸ ۵۱ ۲۷۸ ۵۴ ۲۷۹ ۶۰ ۲۷۹ ۶۳ ۲۸۰ ۷۲ ۲۸۰ فہرست آیات نمبر ۱۹۷ آیت اِنَّ وَلِي اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ.وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ.وَاِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى.خُذِ الْعَفْوَ وَامْرُ بِالْعُرُنِ.وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ.وَاذْ يَعِدُكُمُ اللهُ إِحدَى.لِيُحِقِّ الْحَقِّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ..دوو اِذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَليكة.سورة الانفال فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ.ذَلِكُمْ وَ اَنَّ اللهَ مُوهِن كَيْدِ.وَلَوْ عَلِمَ اللهُ فِيهِمْ خَيْرًا." يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا.وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَموالكم.أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا.وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَيْتُنَا قَالُوا.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّ بَهُم وَاَنْتَ.وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللهُ.اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ.وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ.إذْ اَنْتُم بِالْعُدُوةِ الدُّنْيَا وَهُم.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ وَاطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا..وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن.۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۴ ۱۳ ۱۸ ۱۹ ۲۴ ۲۵ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۴ ۳۵ ۳۷ ۴۰ ۴۳ ۴۶ ۴۷ ۴۸
آیت جلد چهارم صفحہ Xxxiii صفحہ نمبر ۲۵ ۳۰۹ ۲۷ ۳۱۰ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا كَمَاء ۳۵۲ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةُ.۲۸ ۳۷ ۳۱۱ ۳۱۳ وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيَّاتِ جَزَاءُ.وَمَا يَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنَّا.۵۰،۴۹ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِن.۳۵۲ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۳ ۵۴ ۳۱۳ ۵۸ ۳۱۴ ۳۱۴ ۵۹ ۳۱۵ ۶۳ ۳۲۸ ۳۲۹ ۶۹ ۳۲۹ ۹۱ ۳۳۱ ۹۹ ۳۳۳ وَيَسْتَنبِئُونَكَ اَحَقُّ هُوَ قُلْ اِى.....۳۵۴ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ.قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِه.الَّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ.۶۴ ۶۵ الَّذِينَ آمَنُوا وَ كَانُوا يَتَّقُونَ.۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۶ ۳۵۸ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدَ اسْبُحْنَة.۳۶۲ وَجُوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَاءِيلَ الْبَحْرَ.۳۶۲ فلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ أَمَنَتْ فَنَفَعَهَا ۳۶۲ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَا مَنَ مَنْ فِي.۳۳۳ الر كتب أحكِمَتْ اينه ثم.۳۳۴ ۳۴۲ اَلَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۶۸ وانِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُم ثُمَّ تُوبُوا.۳۷۰ ۳۴۳ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى.وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ.۳۷۲ ۱۵ فَالَّم يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا ۳۷۲ ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۷۵ ۳۷۵ سورة هود وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحينَا.وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ..قَالَ سَاوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي.وَقِيلَ يَا رَضُ ابْلَعِي مَاءَكِ.۳۴۵ ۳۴۵ ۳۸ ۳۵۰ ۴۲ ۳۵۱ ۴۴ ۳۵۱ ۴۵ ۳۵۱ فہرست آیات آیت ياَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ.فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِم.فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَ ليَبكُوا كَثِيرًا.وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا.وَ السَّبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ.ووو خُذُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهَّرُهُم التَّابِبُونَ الْعَبدُونَ الْحَمدُونَ..إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ.مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ.وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا.لَقَد جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ.الر تِلْكَ أَيْتُ الكِتبِ الْحَكِيمِ ا كَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا......ان رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ.وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا.ثُمَّ جَعَلْنَكُم خَليفَ فِي الْأَرْضِ.سورة يونس وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَينت قُلْ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا تَكوتُهُ عَلَيْكُمْ.فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ.وَ يَقُولُونَ لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ.هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ.فَلَمَّا أَنْجُهُمْ إِذَاهُمُ يَبْغُونَ.۷۳ ΔΙ ۸۲ ۹۸ ۱۰۳ ١١٢ 117 ۱۱۹ ۱۲۰ ۱۲۲ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۲۱ ۲۳ ۲۴
آیت جلد چهارم صفحہ قَالُوا ءَ اِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ ۴۰۵ قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُم.قالُوا تَاللهِ اِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ..رَبِّ قَد أَتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ.قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي ادْعُوا إِلَى اللهِ.حَتَّى إِذَا اسْتَيْسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا.۴۰۵ ۴۰۷ ۴۰۹ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۰ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ.۴۱۱ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَوتِ بِغَيْرِ لَهُ مُعَقِّبْتَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ.لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ منْ رَّبُّ السّموتِ وَالْأَرْضِ.اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتُ وَالَّذِيْنَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِه.۴۱۳ ۴۱۴ ۴۱۶ ۴۱۷ ۴۱۹ ۴۲۵.....سورة الرعد وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ.الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ وَلَوْ آنَ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ.۴۲۵ ۴۲۵ ۴۲۶ وَ لَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ.۴۲۸ أَفَمَنْ هُوَ قَابِمْ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ.مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ.يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَانْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِى.اَوَلَمْ يَرَوا أَنا نَاتِي الْأَرْضَ.وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ.۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۰ ۴۳۱ XXXIV صفحہ نمبر ۹۱ ۳۷۶ ۹۳ ۳۷۷ ۹۵ ۳۷۷ ۹۶ ۳۷۷ ۱۰۲ ۳۷۸ 1+9 ۳۸۰ ||| ۳۸۵ ۱۱۲ ۳۸۶ ۳۸۷ ۱۲ ۳۸۹ ۱۵ ۳۹۰ ۱۷ ۳۹۰ ۱۸ ۳۹۳ ۲۲ ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۴ ۲۳ ۳۹۵ ۲۹ ۳۹۵ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۹۶ ۳۶ ۳۹۷ ۴۰ ۳۹۷ ۴۱ ۴۰۴ ۴۲ ۴۰۴ ۴۴ ۴۰۵ نمبر فہرست آیات آیت ۴۷ قالَ يَنُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ..مِنْ دُونِهِ فَكَيْدُ ونِي جَمِيعًا ثُمَّ.قَالُوا يَشْعَيْبُ اَصَلوتُكَ تَأمُرُكَ.وَيُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا.خلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوتُ.وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُ وَافَفِي الْجَنَّةِ.فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ.وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ.الا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ، وَلِذلِكَ.وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ.وَقَالَ الَّذِي اشْتَرِيهُ مِنْ مِصْرَ.وَلَمَّا بَلَغَ اشده اتينهُ حُكْماً.وَلَقَد هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْ.قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَّفْسِي فَلَمَّا رَا قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ.فَلَمَّا سَعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتُ سورة يوسف قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَى.يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِيقُ أَفْتِنَا فِي.وَمَا أُبَرِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ.وَقَالَ الْمَلِكُ اثْتُونِي بِه.فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُوا.يبَنِى اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ ۸۸ ۹۴ 1+4 ۷۰۱ 1+9 ۱۱۳ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۲۰ ۱۲۴ ۲۲ ۲۳ ۲۵ ۲۷ ۲۹ ۳۲ ۳۴ ۴۷ ۵۴ ۵۵ ۶۴ ۸۸
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا سورة المائدة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المآئدة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَابِرَ اللهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَابِدَ وَلاَ آمِينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّ وَكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ص ص مجملہ انسان کے طبعی امور کے جو اس کی طبیعت کے لازم حال ہیں.ہمدردی خلق کا ایک جوش ہے.قومی حمایت کا جوش بالطبع ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور اکثر لوگ طبعی جوش سے اپنی قوم کی ہمدردی کے لئے دوسروں پر ظلم کر دیتے ہیں.گویا انہیں انسان نہیں سمجھتے.سواس حالت کو خلق نہیں کہہ سکتے.یہ فقط ایک طبعی جوش ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالت طبعی کو وں وغیرہ پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ ایک کوے کے مرنے پر ہزار ہا کوے جمع ہو جاتے ہیں.لیکن یہ عادت انسانی اخلاق میں اُس وقت داخل ہوگی جب کہ یہ ہمدردی انصاف اور عدل کی رعایت سے محل اور موقع پر ہو.اُس وقت یہ ایک عظیم الشان خلق ہوگا جس کا نام عربی میں مواسات اور فارسی میں ہمدردی ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن شریف میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة اشارہ فرماتا ہے : تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ......یعنی اپنی قوم کی ہمدردی اور اعانت فقط نیکی کے کاموں میں کرنی چاہئے اور ظلم اور زیادتی کے کاموں میں ان کی اعانت ہرگز نہیں کرنی چاہئے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳) انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ ، دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی راہ نما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقوی کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ / اپریل ۱۸۹۹ صفحه ۶) ۱/۱۲) یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے یہ کس قدر نا مناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے؟ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے : تَعاوَنُوا عَلَى الْبِر وَ التَّقْوى - کمزور بھائیوں کا بار اٹھاؤ.عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاؤ.بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو، کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ ان کی پردہ پوشی کی جاوے.صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے.اسی طرح یہ کہ اور ضرور ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے.دیکھو!وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں ایسا ہر گز نہیں چاہیے بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں....کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی ، پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے.ذرا ذراسی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہیے جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں.....جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے، پردہ پوشی کی جاوے.جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں....خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة ہے.اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی.اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا.احکم جلد ۶ نمبر ۰ ۳ مورخه ۲۴ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۲، ۳) انسان کی کمزوریاں جو ہمیشہ اس کی فطرت کے ساتھ لگی ہوئی ہیں ہمیشہ اس کو تمدن اور تعاون کا محتاج رکھتی ہیں اور یہ حاجت تمدن اور تعاون کی ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ جس میں کسی عاقل کو کلام نہیں خود ہمارے وجود کی ہی ترکیب ایسی ہے کہ جو تعاون کی ضرورت پر اول ثبوت ہے.ہمارے ہاتھ اور پاؤں اور کان اور ناک اور آنکھ وغیرہ اعضاء اور ہماری سب اندرونی اور بیرونی طاقتیں ایسی طرز پر واقع ہیں کہ جب تک وہ ہا ہم مل کر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تب تک افعال ہمارے وجود کے علی مجری الصحت ہر گز جاری نہیں ہو سکتے اور انسانیت کی کل ہی معطل پڑی رہتی ہے.جو کام دو ہاتھ کے ملنے سے ہونا چاہیے وہ محض ایک ہی ہاتھ سے انجام نہیں ہوسکتا اور جس راہ کو دو پاؤں مل کر طے کرتے ہیں وہ فقط ایک ہی پاؤں سے طے نہیں ہوسکتا.اسی طرح تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے.کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں! کوئی کام دینی ہو یا د نیوی بغیر معاونت با ہمی کے چل ہی نہیں سکتا.ہر یک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضائے یک دیگر ہے اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت با ہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہو سکے.بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا مستعمل ہر گز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا.انبیاء علیہم السلام جو تو کل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی یہ رعایت اسباب ظاہری مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ ( ال عمران : ۵۳) اور الصف : ۱۵) کہنا پڑا.خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں یہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِ وَالتَّقْوَی کا حکم فرمایا.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۵۱) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَ قف الْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبْعُ إِلَّا مَا ذَكَيْتُم من
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴ سورة المائدة b وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصْبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا فَمَنِ اضْطَرَ فِي مَخْصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِاثْمِ فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) مردار مت کھاؤ.خنزیر کا گوشت مت کھاؤ.بتوں کے چڑھاوے مت کھاؤ.لاٹھی سے مارا ہوا مت کھاؤ.گیر کے مرا ہوا مت کھاؤ.سینگ لگنے سے مرا ہو ا مت کھاؤ.درندہ کا پھاڑا ہوا مت کھاؤ.بت پر چڑھایا ہوا ا مت کھاؤ کیونکہ یہ سب مردار کا حکم رکھتے ہیں.( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) ایک نکتہ اس جگہ یا درکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے.خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور آر سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں.خنز کے معنے بہت فاسد اور ار کے معنے دیکھتا ہوں.پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں.یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں.اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سو کا لفظ عربی کیوں کر ہو سکتا ہے.کیونکہ ہم نے اپنی کتاب من الرحمن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں.سوسوءعربی لفظ ہے.اسی لئے ہندی میں سوء کا ترجمہ "بہ" ہے.پس اس جانور کو بد بھی کہتے ہیں.اس میں کچھ بھی شک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تمام دنیا کی زبان عربی تھی.اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یاد گار باقی رہ گیا.ہاں! یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو.مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے.جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی بہت فاسد.اس کی تشریح کی حاجت نہیں.اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے.اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو 6699
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا.جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوٹی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا.یہ تمام جانور در حقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں.کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں! بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں مرکز ایک زہرناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۹٬۳۳۸) الْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا آج کا فر کی نا امید ہوگئی گویا آپ کو کامیابی کے اس اعلیٰ نقطہ تک پہنچا دیا کہ کا فرنا مراد ہو گئے کیا انجیل میں اس کے مقابل کوئی آیت ہے؟ ہر گز نہیں! الحکم جلد نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۰) اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ( الجزو نمبر 1 ) یعنی آج میں نے اس کتاب کے نازل کرنے سے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچادیا اور اپنی تمام نعمتیں ایمانداروں پر پوری کر دیں.براتین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۷ حاشیہ نمبر ۱۱) آج میں نے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچایا اور اپنی نعمت کو امت محمدیہ پر پورا کیا.برائن احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۶،۴۳۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قرآن ناقص ہے اور حدیث کا محتاج ہے بلکہ وہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا تاج لازوال اپنے سر پر رکھتا ہے اور تبیا نا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل : ٩٠) کے وسیع اور مرصع تخت پر جلوہ افروز ہے قرآن میں نقصان ہر گز نہیں اور وہ داغ نا تمام اور ناقص ہونے سے پاک ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۶) آج میں نے تمہارے لیے دین تمہارا کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو پسندیدہ کر لیا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ میں کامل کتاب ہوں جیسا کہ فرماتا ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶ سورة المائدة وَ اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي....آج میں نے دین تمہارا تمہارے لئے کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹۸) اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعوئی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتى الخ کہ آج میں نے تمہارے لئے دین تمہارا کامل کیا اور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کو تم پر پورا کیا اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لئے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں فرماتا ہے : أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةٌ طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُونِ أَكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بإِذْنِ رَبِّهَا وَ يَضْرِبُ اللهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ، وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةِ اجْتُثَتُ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ يُثَيْتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللهُ الظَّلِمِينَ ) (ابراهیم : ۲۵ تا ۲۸ ) ( س ۱۳ - (۱۶) کیا تو نے نہیں دیکھا کیوں کر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تالوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں اور نا پاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پر سے اُکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار وثبات نہیں.سو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مدد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو....کسی آیت کے وہ معنے کرنے چاہئے کہ الہامی کتاب آپ کرے اور الہامی کتاب کی شرح دوسری شرحوں پر مقدم ہے.اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے ؛ اول یہ کہ اصلها ثابت یعنی اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور فی حد ذاتہ یقین کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرت انسانی مراد ہے جیسا کہ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے.....خلاصہ یہ کہ اصول ایمانیہا ایسے چاہئیں کہ ثابت شدہ اور انسانی فطرت کے موافق ہوں.پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فَرْعُهَا فِي السَّمَاء یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفہ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو اس کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷ سورة المائدة صداقت ان پر کھل جائے اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان، احکام کا بیان، اخلاق کا بیان، یہ کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہو جیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہو کر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادہ متصور نہیں.پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ توتي احلهَا كُل حِینِ ہر ایک وقت اور ہمیشہ کے لئے وہ اپنا پھل دیتا رہے ایسا نہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے.اب صاحبو! 19121 دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ الیوم اکملت کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے.سو جیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح پر اس نے ان کو ثابت کر کے بھی دکھلا دیا ہے اور اصول ایمان یہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا إلهَ إِلَّا الله ہے اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے، سورۃ البقر میں فرماتا ہے: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا اَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَ تصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَايْتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة : ۱۶۵) یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا.یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدتم بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لاشریک اور مدبر بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے.یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدیر بالا رادہ بھی ہو اور تجمع جمیع صفات کا ملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.دوسری نشانی یعنی فرعها في السماء جس کے معنے یہ ہیں کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچی ہوئی ہیں اور فَرْعُهَا آسمان پر نظر ڈالنے والے یعنی قانون قدرت کے مشاہدہ کرنے والے اس کو دیکھ سکیں اور نیز وہ انتہائی درجہ کی تعلیم ثابت ہو.اس کے ثبوت کا ایک حصہ تو اسی آیت موصوفہ بالا سے پیدا ہوتا ہے، کس لئے کہ جیسا کہ اللہ جل شانہ نے مثلاً قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( الفاتحه : ۲ تا ۴) جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ جل بھائہ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علیہ العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے.دوسری یہ کہ وہ رحمان بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور ان کے مقاصد کو کمال تک پہنچا تا ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اس کے ہاتھ میں ہے جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے.چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزاد یوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میٹر کرے اور یہ تمام امور اللہ جل شانہ کے اس نظام کو دیکھ کر صاف ثابت ہوتے ہیں.پھر تیسری نشانی جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی : توتي أَخلَهَا كُل جین یعنی کامل کتاب کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جس پھل کا وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ وہ پھل ہمیشہ اور ہر وقت میں دیتی رہے اور پھل سے مراد اللہ جل شانہ نے اپنا لقامعہ اس کے تمام لوازم کے جو برکات سماوی اور مکالمات الہیہ اور ہر ایک قسم کی قبولیتیں اور خوارق ہیں رکھی ہیں جیسا کہ خود فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ) نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( حم السجدة : ۳۱ تا ۳۳) (س ۲۴ / ۱۸) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل ان پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا.ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ کچھ حزن اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة المائدة زندگی اب شروع ہوگئی.کس طرح شروع ہوگئی ؟ نَحْنُ اولی کم الے اس طرح کہ ہم تمہارے متولی اور متکفل ہو گئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے.مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت: توتی أكُلَهَا كُل حِينٍ میں فرمایا گیا تھا اور آیت فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے متعلق ایک بات ذکر کرنے سے رہ گئی کہ کمال اس تعلیم کا باعتبار اس کے انتہائی درجہ ترقی کے کیوں کر ہے؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن شریف سے پہلے جس قد تعلیمیں آئیں در حقیقت وہ ایک قانون مختص القوم یا مختلف الزمان کی طرح تھیں اور عام افادہ کی قوت ان میں نہیں پائی جاتی تھی لیکن قرآن کریم تمام قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کے لئے آیا ہے مثلاً نظیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسی کی تعلیم میں بڑا ز ورسز ادہی اور انتقام میں پایا جاتا ہے جیسا کہ دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ کے فقروں سے معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح کی تعلیم میں بڑا زور عضو اور درگزر پر پایا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعلیمیں ناقص ہیں نہ ہمیشہ انتقام سے کام چلتا ہے اور نہ ہمیشہ عفو سے بلکہ اپنے اپنے موقعہ پر نرمی اور درشتی کی ضرورت ہوا کرتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: جَزْوُا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلَهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( الشوری: ۴۱) (س ۵٫۲۵) یعنی اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اسی قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہونہ کہ کوئی فساد.یعنی عفو اپنے محل پر ہو نہ غیر حل پر.پس اجر اس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن طریق ہے.اب دیکھئے اس سے بہتر اور کون سی تعلیم ہوگی کہ عفو کو فو کی جگہ اور انتقام کو انتظام کی جگہ رکھا اور پھر فرمایا: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَانِى ذِي الْقُرْبى ( النحل : ۹۱ ) ( س ۱۴.(۱۹) یعنی اللہ تعالی حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوی القربی ریہ ہیں.اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں ؛ اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے.پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۷)
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس قدر انسان کو قو تیں دی گئی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے اپنے محل پر خرچ کرنا اور ہر یک قوت کا خدا تعالیٰ کی مرضی اور رضا کے راہ میں جنبش اور سکون کرنا بھی وہ حالت ہے جس کا قرآن شریف کی رو سے اسلام نام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اسلام کی یہ تعریف فرماتا ہے : بلی نام مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنُ ( البقرة : ۱۱۳) یعنی انسان کا اپنی ذات کو اپنے تمام قومی کے ساتھ : خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دینا اور پھر اپنی معرفت کو احسان کی حد تک پہنچا دینا یعنی ایسا پردہ غفلت در میان سے اٹھانا کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یہی اسلام ہے.پس ایک شخص کو مسلمان اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ تمام قوتیں اس کی خدا تعالیٰ کے راہ میں لگ جائیں اور اس کے زیر حکم واجب طور پر اپنے اپنے محل پر مستعمل ہوں اور کوئی قوت بھی اپنی خود روی سے نہ چلے.یہ تو ظاہر ہے کہ نئی زندگی کامل تبدیلی سے ملتی ہے اور کامل تبدیلی ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان کی تمام قوتیں جو اس کی انسانیت کا نچوڑ اور لب لباب ہیں اطاعت الہی کے نیچے نہ آجائیں اور جب تمام قو تیں اطاعت الہی کے نیچے آگئیں اور اپنے نیچرل خواص کے ساتھ خط استقامت پر چلنے لگیں تو ایسے شخص کا نام مسلمان ہو گا لیکن ان تمام قوتوں کا اپنے اپنے مطالب میں پورے پورے طور پر کامیاب ہو جانا اور رضائے الہی کے نیچے گم ہو کر اعتدال مطلوب کو حاصل کرنا بجر تعلیم الہی اور تائید الہی غیر ممکن اور محال ہے اور ضرور تھا کہ کوئی کتاب دنیا میں خدا تعالی کی طرف سے ایسی نازل ہوتی کہ جو اسلام کا طریق خدا کے بندوں کو سکھاتی کیونکہ جس طرح ہم اپنے ماتحت جانوروں، گھوڑوں، گدھوں ، بیلوں وغیر ہ کو تربیت کرتے ہیں تا ان کی مخفی استعداد میں ظاہر کریں اور اپنی مرضی کے موافق ان کو چلاویں.اسی طرح خدا تعالیٰ پاک فطرت انسانوں کی فطرتی قوتیں ظاہر کرنے کیلئے ان کی طرف توجہ فرماتا ہے اور کسی کامل الفطرت پر وحی نازل کر کے دوسروں کی اس کے ذریعہ سے اصلاح کرتا ہے تا وہ اس کی اطاعت میں محو ہو جائیں.یہی قدیم سے سنت اللہ ہے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ ہر یک زمانہ کی استعداد کے موافق اسلام کا طریق اس زمانہ کو سکھلاتا رہا ہے.وجہ کے اصل معنی لغت کی رو سے منہ کے ہیں چونکہ انسان منہ سے شناخت کیا جاتا ہے اور کروڑہا انسانوں میں مابہ الامتیاز منہ سے قائم ہوتا ہے اس لئے اس آیت میں منہ سے مراد استعارہ کے طور پر انسان کی ذات اور اس کی قوتیں ہیں جن کی رو سے وہ دوسرے جانوروں سے امتیاز رکھتا ہے گویا وہ قوتیں اس کی انسانیت کا منہ ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11 سورة المائدة اور چونکہ پہلے نبی ایک خاص قوم اور خاص ملک کیلئے آیا کرتے تھے اس لئے ان کی تعلیم جو ابھی ابتدائی تھی مجمل اور ناقص رہتی تھی کیونکہ بوجہ کی قوم اصلاح کی حاجت کم پڑتی تھی اور چونکہ انسانیت کے پودہ نے ابھی پورا نشو نما بھی نہیں کیا تھا اسلئے استعداد میں بھی کم درجہ پر تھیں اور اعلی تعلیم کی برداشت نہیں کر سکتی تھیں پھر ایسا زمانہ آیا کہ استعداد یں تو بڑھ گئیں مگر زمین گناہ اور بدکاری اور مخلوق پرستی سے بھر گئی اور کچی تو حید اور سچی راستبازی نہ ہندوستان میں باقی رہی اور نہ مجوسیوں میں اور نہ یہودیوں میں اور نہ عیسائیوں میں اور تمام قوتیں ضلالت اور نفسانی جذبات کے نیچے دب گئیں اس وقت خدا نے قرآن شریف کو اپنے پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کر کے دنیا کو کامل اسلام سکھایا اور پہلے نبی ایک ایک قوم کیلئے آیا کرتے اور اس قدر سکھلاتے تھے جو اس قوم کی استعداد کے اندازہ کے موافق ہو اور جن تعلیموں کی وہ لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ علیمیں اسلام کی ان کو نہیں بتلاتے تھے اسلئے ان لوگوں کا اسلام ناقص رہتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان دینوں میں سے کسی دین کا نام اسلام نہیں رکھا گیا.مگر یہ دین جو ہمارے پاک نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت دنیا میں آیا اس میں تمام دنیا کی اصلاح منظور تھی اور تمام استعدادوں کے موافق تعلیم دینا مد نظر تھا اس لئے یہ دین تمام دنیا کے دینوں کی نسبت اکمل اور اتم ہوا اور اسی کا نام بالخصوصیت اسلام رکھا گیا اور اسی دین کو خدا نے کامل کہا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے : اَليَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسلام دینا یعنی آج میں نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو پورا کیا اور میں راضی ہوا جو تمہارا دین اسلام ہو.چونکہ پہلے دین کامل نہیں تھے اور ان قوانین کی طرح تھے جو مختص القوم یا مختص الزمان ہوتے ہیں اس لئے خدا نے ان دینوں کا نام اسلام نہ رکھا اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ وہ انبیاء تمام قوموں کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ اپنی اپنی قوم کیلئے آتے تھے اور اسی خرابی کی طرف ان کی توجہ ہوتی تھی جو ان کی قوم میں پھیلی ہوئی ہوتی تھی اور انسانیت کی تمام شاخوں کی اصلاح کرنا ان کا کام نہیں تھا کیونکہ ان کے زیر علاج ایک خاص قوم تھی جو خاص آفتوں اور بیماریوں میں مبتلا تھی اور ان کی استعداد میں بھی ناقص تھیں اسی لئے وہ کتابیں ناقص رہیں کیونکہ تعلیم کی اغراض خاص خاص قوم تک محدود تھے مگر اسلام تمام دنیا اور تمام استعدادوں کیلئے آیا اور قرآن کو تمام دنیا کی کامل اصلاح مد نظر تھی جن میں عوام بھی تھے اور خواص بھی تھے اور حکماء اور فلاسفر بھی ، اس لئے انسانیت کے تمام قومی پر قرآن نے بحث کی اور یہ چاہا کہ انسان کی ساری قوتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا ہوں اور یہ اس لئے ہوا کہ قرآن کا مد نظر انسان کی تمام استعداد میں تھیں اور.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة المائدة ہر یک استعداد کی اصلاح منظور تھی اور اسی وجہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ٹھہرے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ تمام کام پورا ہو گیا جو پہلے اس سے کسی نبی کے ہاتھ پر پورا نہیں ہوا تھا.چونکہ قرآن کو نوع انسان کی تمام استعدادوں سے کام پڑتا تھا اور وہ دنیا کی عام اصلاح کیلئے نازل کیا گیا تھا اس لئے تمام اصلاح اس میں رکھی گئی اور اسی لئے قرآنی تعلیم کا دین اسلام کہلایا اور اسلام کا لقب کسی دوسرے دین کو نہ مل سکا کیونکہ وہ تمام ادیان ناقص اور محدود تھے غرض جبکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے تو کوئی منظمند مسلمان کہلانے سے عار نہیں کر سکتا.ہاں! اسلام کا دعوی اسی قرآنی دین نے کیا ہے اور اس نے اس عظیم الشان دعوی کے دلائل بھی پیش کئے ہیں اور یہ بات کہنا کہ میں مسلمان نہیں ہوں یہ اس قول کے مساوی ہے کہ میرا دین ناقص ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۷۱ تا ۲۷۴) ایسی کامل کتاب کے بعد کس کتاب کا انتظار کریں جس نے سارا کام انسانی اصلاح کا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پہلی کتابوں کی طرح صرف ایک قوم سے واسطہ نہیں رکھا بلکہ تمام قوموں کی اصلاح چاہی اور انسانی تربیت کے تمام مراتب بیان فرمائے.وحشیوں کو انسانیت کے آداب سکھائے پھر انسانی صورت بنانے کے بعد اخلاق فاضلہ کا سبق دیا.یہ قرآن نے ہی دنیا پر احسان کیا کہ طبعی حالتوں اور اخلاق فاضلہ میں فرق کر کے دکھلایا اور جب طبعی حالتوں سے نکال کر اخلاق فاضلہ کے محل عالی تک پہنچایا تو فقط اسی پر کفایت نہ کی بلکہ اور مرحلہ جو باقی تھا یعنی روحانی حالتوں کا مقام.اس تک پہنچنے کے لئے پاک معرفت کے دروازے کھول دیئے اور نہ صرف کھول دیئے بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس تک پہنچا بھی دیا اور اس طرح پر تینوں قسم کی تعلیم جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کمال خوبی سے بیان فرمائی.پس چونکہ وہ تمام تعلیموں کا جن پر دینی تربیت کی ضرورتوں کا مدار ہے کامل طور پر جامع ہے.اس لئے یہ دعوی اس نے کیا کہ میں نے دائرہ دینی تعلیم کو کمال تک پہنچایا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإسلام دینا یعنی آج میں نے دین تمہارا کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور میں تمہارا دین اسلام ٹھہرا کر خوش ہوا.یعنی دین کا انتہائی مرتبہ وہ امر ہے جو اسلام کے مفہوم میں پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ محض خدا کے لئے ہو جانا اور اپنی نجات اپنے وجود کی قربانی سے چاہنا، نہ اور طریق سے ، اور اس نیت اور اس ارادہ کو عملی طور پر دکھلا دینا.یہ وہ نکتہ ہے جس پر تمام کمالات ختم ہوتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۷، ۳۶۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة المائدة معترض صاحب نے......اعتراض کیا ہے کہ جب کہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہو چکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی مگر افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کر کے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کاروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہو چکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت : اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کو پیش کر دیا.ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں؟ بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیلے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیوں کر اور کن راہوں سے ہو سکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے؟ یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخو دا اکثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مسجد دوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام تو ریت ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صد ہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة المائدة مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہوگئی ہوان کو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جل شانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَ لَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة : ۸۸) یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے: ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تترا ( المؤمنون : ۴۵) یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۹ تا ۳۴۱) وَأَمَّا ذِكْرُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَمَا اور جو عیسی بن مریم کے نزول کا ذکر ہے پس کسی كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ تَحْمِلَ هَذَا الْإِسْمَ الْمَذْكُورَ في مؤمن کے لیے جائز نہیں کہ احادیث میں اس نام کو ظاہر الْأَحَادِيثِ عَلى ظَاهِرِ مَعْنَاهُ لِأَنَّهُ پر محمول کرے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے اس قول کے يُخَالِفُ قَوْلَ اللهِ عَزَوَجَلَّ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاً خلاف ہے کہ ہم نے محمد کو کسی مرد کا باپ نہیں بنایا.اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَم ہاں! وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں.کیا تو البِينَ أَلاَ تَعْلَمُ أَنَّ الرَّبِّ الرَّحِيْمِ نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی کا نام الْمُتَفَضِّلَ سَمَّى نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خاتم الانبياء رکھا ہے اور کسی کومستثنی نہیں کیا اور آنحضرت خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ بِغَيْرِ اسْتِثْنَاءِ، وَفَشَرَة نے طالبوں کے لیے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی نَبِيُّنَا فِي قَوْلِهِ لا نَبِيَّ بَعْدِی بیان ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے.اور اگر ہم واضح للظَّالِبِينَ وَلَوْ جَوَّزْنَا ظُهُورَ نَبِي آنحضرت کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو لازم بَعْدَ نَبِيَّنَا لَجَوَّزْنَا انْفِتَاحَ بَابِ وَحي آتا ہے کہ وحی نبوۃ کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے النُّبُوَّةِ بَعْدَ تَغْلِيْقِها، وهذا الحلف کے بعد جائز خیال کریں اور یہ باطل ہے جیسا کہ الاحزاب : ۴۱
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة المائدة كَمَا لا يخفى عَلَى الْمُسْلِمِينَ.وَكَيْفَ تجيني مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت کے بعد کوئی نَبِي بَعْدَ رَسُولنا صلعم وَقَدِ انْقَطعَ الْوَخئ نبی کیوں کر آوے حالانکہ آپ کی وفات کے بعد وحی بَعْدَ وَفَاتِهِ وَخَتَمَ اللهُ بِهِ النَّبِيِّينَ أَنعَتَقِدُ نبوت منقطع ہو گئی ہے اور آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم بِأَنَّ عِيسَى الَّذِى أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْإِنجِيْلُ هُوَ کر دیا ہے.کیا ہم اعتقاد کر لیں کہ ہمارے نبی خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ ، لَا رَسُوْلُنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ خاتم الانبیاء نہیں بلکہ عیسی جو صاحب انجیل ہے وہ وَسَلَّمَ أَنعْتَقِدُ أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ يَأْتِي وَيَنْسَحُ خاتم الانبیاء ہے یا ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ ابن مریم آکر قرآن کے بعض احکام کو منسوخ اور کچھ زیادہ کرے بَعْضَ أَحْكامِ الْقُرْآنِ وَيَزِيدُ بَعْضًا فَلَا گا اور نہ جزیہ لے گا اور نہ جنگ چھوڑے گا حالانکہ يَقْبَلُ الْجِزْيَةَ وَلَا يَضَعُ الْحَرْبَ، وَقَدْ أَمَرَ اللهُ اللہ کا ارشاد ہے کہ جزیہ لے لو اور جزیہ لینے کے بعد بِأَخْذِهَا وَأَمَرَ بِوَضْعِ الْحَرْبِ بَعْدَ أَخْنِ الْجِزْيَةِ؟ أَلَا تَقْرَأُ ايَةَ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَهُمْ ؟ لے جنگ چھوڑ دو.کیا تو یہ آیت نہیں پڑھتا کہ ذلت کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیوئیں.پس قرآن کے وهم صغرُونَ فَكَيْفَ يَنْسَحُ الْمَسِيحُ محلمات کو کیوں کر مسیح منسوخ کرے گا اور کتاب مُحْكَمَاتِ الْفُرْقَانِ: وَكَيْفَ يَتَصَرِّفُ في عزیز میں کیوں کر تصرف کر کے کچھ احکام کو تکمیل الْكِتَابِ الْعَزِيزِ وَيَطْمِسُ بَعْضَ أَحْكامِهِ بَعْد کے بعد مٹادے گا؟ میں تعجب کرتا ہوں کہ وہ فرقان تكميلها فَأَنجَبَنِي أَنَّهُمْ يَجْعَلُوْنَ کے بعض احکام کا مسیح کو ناسخ بناتے ہیں اور اس آیت الْمَسِيحَ تَاسِعَ بَعْضِ أَحْكَامِ الْفُرْقَانِ وَلَا کو نہیں دیکھتے کہ آج میں نے تمہارے دین کو يَنْظُرُونَ إِلَى أَيَةِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ تمہارے لیے کامل کر دیا ہے اور وہ فکر نہیں کرتے اگر وَلَا يَتَفَكَّرُوْنَ أَنَّهُ لَوْ كَانَتْ لِتَكْمِيْلِ دِينِ دین اسلام کی تکمیل کے لیے کوئی حالت منتظرہ ہوتی الْإِسْلَامِ حَالَةٌ مُنْتَظَرَةٌ يُرجى ظُهُورُهَا بَعْدَ جو کئی ہزار سال گزرنے کے بعد اس کے ظہور کی الْقِضَاءِ أُلُوْفِ مِنَ السَّنَوَاتِ لَفَسَدَ مَعْلی امید ہو سکتی تو قرآن کے ساتھ اکمال دین ہونا فاسد ہو- إِكْمَالِ الدِّينِ وَالْفَرَاغِ مِنْ كَمَالِهِ بِانْزَالِ ہو جاتا اور خدا کا یہ کہنا کہ آج میں نے تمہارے الْقُرْآنِ، وَلَكَانَ قَوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ الْيَوْمَ دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا ہے جھوٹ اور أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ مِنْ نَوعِ الْكَذِبِ وَخِلافِ خلاف واقع ہو جا تا بلکہ اس صورت میں تو واجب تھا التوبة : ٢٩
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة المائدة الْوَاقِعَةِ، بَلْ كَانَ الْوَاجِبُ في هذهِ الصُّورَةِ أَن يَقُول کہ یوں کہتا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِنِّي مَا أَنْزَلْتُ هَذَا الْقُرْآنَ پر قرآن کو کامل نہیں اتارا بلکہ آخر زمانہ میں كَامِلًا عَلى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ سَأُنْزِلُ عیسی بن مریم پر اس کی کچھ آیات اتاروں بَعْضَ ايَاتِهِ عَلَى عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ گالپس اس دن قرآن کامل ہوگا اور ابھی فَيَوْمَئِذٍ يَكْمُلُ الْقُرْآنُ وَمَا كَمَلَ إلى هَذَا الْحين.کامل نہیں.( ترجمہ از مرتب) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۰۰ تا ۲۰۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت میں دنیا سے اپنے مولیٰ کی طرف بلائے گئے جبکہ وہ اپنے کام کو پورے طور پر انجام دے چکے اور یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا یعنی آج میں نے قرآن شریف کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا.حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید جس قدر نازل ہونا تھا نازل ہو چکا اور مستعد دلوں میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کر چکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کر دیا اور یہی دور کن ضروری ہیں جو ایک نبی کے آنے کی علت غائی ہوتے ہیں.اب دیکھو! یہ آیت کس زور شور سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کو تنزیل قرآن اور تکمیل نفوس سے کامل نہ کیا گیا * اور یہی ایک خاص علامت منجانب اللہ ہونے کی ہے جو کا ذب کو ہر گز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھلایا کہ ایک طرف کتاب اللہ بھی آرام اور امن کے ساتھ پوری ہو جائے اور دوسری طرف تکمیل نفوس بھی ہو اور بایں ہمہ کفر کو ہریک پہلو سے شکست اور اسلام کو ہر یک پہلو سے فتح ہو.( نور القرآن نمبر ا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۴۲ تا ۳۵۴) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کی اور آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ اے نبی ! آج میں نے قرآن کو کامل کر دیا ، اس میں حکمت یہ ہے کہ تا ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی تکمیل بھی ہوگئی کہ جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی.منہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷ سورة المائدة خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جیسا کہ اُس نے حضور نبوی کی مشابہت حضرت آدم سے مکمل کرنے کیلئے تکمیل ہدایت قرآنی کا چھٹا دن مقرر کیا یعنی روز جمعہ.اور اسی دن یہ آیت نازل ہوئی کہ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعمتی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے الف سادس یعنی چھٹا ہزار مقرر فرمایا جو حسب تصریح آیات قرآنی بمنزلہ روز ششم ہے.اب میں دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ تکمیل ہدایت کے دن میں تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اور وہ روز یعنی جمعہ کا دن جو دنوں میں سے چھٹا دن تھا مسلمانوں کے لئے بڑی خوشی کا دن تھا جب آیت : اليوم المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعمتی نازل ہوئی اور قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم اور جميع معارف صحف سابقہ کا جامع تھا اور مظہر جمیع صفات الہیہ تھا اُس نے آدم کی طرح چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن اپنے وجود باجود کو اتم اور اکمل طور پر ظاہر فرمایا.یہ تو تکمیل ہدایت کا دن تھا مگر تکمیل اشاعت کا دن اس دن کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ابھی وہ وسائل پیدا نہیں ہوئے تھے جو تمام دنیا کے تعلقات کو باہم ملا دیتے اور بڑی اور بحری سفروں کو مسافروں کے لئے سہل کر دیتے اور دینی کتابوں کی ایک کثیر مقدار قلمبند کرنے کے لئے جو تمام دنیا کے حصہ میں آسکے آلات زود نویسی کے مہیا کر دیتے اور نہ مختلف زبانوں کا علم نوع انسان کو حاصل ہوا تھا اور نہ تمام مذاہب ایک دوسرے کے مقابل پر آشکار طور پر ایک جگہ موجود تھے.اس لئے وہ حقیقی اشاعت جو اتمام حجت کے ساتھ ہر ایک قوم پر ہو سکتی ہے اور ہر ایک ملک تک پہنچ سکتی ہے نہ اس کا وجود تھا اور نہ معمولی اشاعت کے وسائل موجود تھے.لہذا تکمیل اشاعت کے لئے ایک اور زمانہ علم الہی نے مقرر فرمایا.جس میں کامل تبلیغ کے لئے کامل وسائل موجود تھے اور ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خلود آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اُس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی خواور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۹،۲۵۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸ سورة المائدة قرآن شریف نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کرے گا بلکہ ان کتابوں کو محرف مبدل اور ناقص اور نا تمام قرار دیا ہے اور تاج خاص المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا اپنے لئے رکھا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب کتابیں انجیل ، توریت قرآن شریف کے مقابل پر کچھ بھی نہیں اور ناقص اور محرف اور مبدل ہیں اور تمام بھلائی قرآن میں ہے.دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۹) یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کر دیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے : الْيَوْمَ الْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کر کے خوش ہوا.سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کر چکا اب صرف مکالمات الہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ بچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآن شریف اور اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۰) یہ بات ہر ایک عقلِ سلیم قبول کرلے گی کہ کمال اصلاح کی نوبت کمال فساد کے بعد آتی ہے.طبیب کا یہ کام نہیں کہ وہ چنگے بھلے لوگوں کو وہ دوائیں دے جو عین بیماری کے غلبہ کے وقت دینی چاہئیں.اسی لئے قرآن شریف نے پہلے یہ بیان کر دیا کہ: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۱۲) یعنی تمام دنیا میں فساد پھیل گیا اور ہر ایک قسم کے گناہ اور معاصی کا طوفان برپا ہو گیا اور پھر ہر ایک بد عقیدگی اور بدعملی کے بارے میں مکمل ہدایتیں پیش کر کے فرمایا کہ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ یعنی آج میں نے تمہارا دین کامل مکمل کر دیا مگر کسی پہلے زمانہ میں جس میں ابھی طوفان ضلالت بھی جوش میں نہیں آیا تھا مکمل کتاب کیوں کر انسانوں کو مل سکتی ہے؟ چشمه ، معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷ ۱۴۸،۱۴) یادر ہے کہ کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے؟ اول یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رُو سے ایسا جامع اور اکمل اور اتم اور نقص
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹ سورة المائدة سے دُور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کر سکے اور کوئی نقص اور کمی اُس میں دکھلائی نہ دے اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اُس کے برابر نہ ہو.جیسا کہ یہ دعویٰ لَكُم قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ الإسلام دینا یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کیا اور میں نے پسند کیا کہ اسلام تمہارا مذہب ہو.یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ.اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اُس کا حق تھا اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعوی نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا.پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رُو سے توریت کا سننا کافی ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اور نبی آتا اور مواخذہ الہیہ سے مخلصی پانا اُس کلام کے سننے پر موقوف ہوتا جو اس پر نازل ہوتا.ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعوی نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا.اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کر کے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ایسا ہی حضرت عیسی نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کر کے یہ عذر پیش کر دیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کر دے گا مگر قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کردیا اور فرمایا وو کہ: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینا.اس سے ظاہر ہے کہ کامل تعلیم کا دعویٰ کرنے والا صرف قرآن شریف ہی ہے اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے کہ جیسا کہ قرآن شریف نے دعوی کیا ہے ویسا ہی اُس نے اس دعوی کو پورا کر کے دکھلا بھی دیا ہے اور اُس نے ایک ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کو نہ توریت پیش کر سکی اور نہ انجیل بیان کر سکی.پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رُو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.(برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳ تا ۵) ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النبین کے بڑے معنے یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا.یہ تو موٹے اور ظاہر معنی ہیں دوسرے یہ معنے ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہو گئی اس لیے الیوم اکملتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا مصداق اسلام ہو گیا.ย احکام جلد ۳ نمبر ا مورخه ۰ار جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۹۸) 12/21 حضرت ابوبکر جن کو قرآن شریف کا یہ فہم ملا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت : اليوم أكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی پڑھی تو حضرت ابو بکر رو پڑے کسی نے پوچھا کہ یہ بڑھا کیوں روتا ہے تو آپ نے کہا کہ مجھے اس آیت سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.انبیا علیہم السلام بطور حکام کے ہوتے ہیں جیسے بندوبست کا ملازم جب اپنا کام کر چکتا ہے تو وہاں سے چل دیتا ہے اسی طرح پر انبیاء علیہم السلام جس کام کے واسطے دنیا میں آتے ہیں جب اس کو کر لیتے ہیں تو پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں.بس جب : أكمَلْتُ لَكُمْ دِینگم کی صدا پہنچی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا کہ یہ آخری صدا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر" کا فہم بہت بڑھا ہوا تھا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ صفحه ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپ ایک کام کے لیے آئے اور اسے پورا کر کے اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جس طرح بند و بست والے پورے کا غذات پانچ برس میں مرتب کر کے آخری رپورٹ کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے اس دن سے لے کر جب قُم فَانْذِرُ (المدثر : ۳) کی آواز آئی پھر اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله (النصر : ٢) اور اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینگھ کے دن تک نظر کریں تو آپ کی لانظیر کامیابی کا پتہ ملتا ہے ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر مامور تھے...ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا پکا کام ہے اس وقت سے جب سے کہا کہ میں ایک کام کرنے کے لیے آیا ہوں جب تک یہ نہ سن لیا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آپ دنیا سے نہ اُٹھے.(احکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۸،۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة المائدة آپ کی صدق نبوت پر آپ کی زندگی سب سے بڑا نشان ہے، کوئی ہے جو اس پر نظر کرے! آپ کو دنیا میں ایسے وقت پر بھیجا کہ دنیا میں تاریکی چھائی ہوئی تھی اور اس وقت تک زندہ رکھا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعمتی کی آواز آپ کو نہ آگئی اور فوجوں کی فوجیں اسلام میں داخل ہوتی ہوئیں آپ نے نہ دیکھ لیں.غرض اسی قسم کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے آپ کا نام محمد رکھا گیا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۳، ۴) میں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدی نشین اور صاحب سلسلہ ہیں پوچھتا ہوں کہ کیا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ورد و وظائف اور چلہ کشیاں، اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے اگر معرفت اور حقیقت شناسی کا یہی ذریعہ اصل تھے.مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شریف میں یہ پڑھتے ہیں: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی اور دوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو توڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں.انتقام جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۲ ، صفحه ۵) جس شخص کو خدا تعالیٰ سے تعلقات قومی اور شدید ہوتے ہیں اور فنافی اللہ کے درجہ پر ہوتا ہے تو اس سے بسا اوقات خارق عادت معجزات صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک قسم کی اقتداری قوت کا نمونہ رکھتے ہیں لوگ اپنی غلط فہمی اور کمزوری سے یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہ خدا ہو.شہودی حالت میں اکثر اموران کی مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ اور إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ ( النصر : ۲) کی صدا آپ کو آگئی.الکام جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ صفحه (۸) مباحثہ میں بھی اصول رکھا جاوے کہ قرآن شریف مقدم ہے یہ منوا کر ان سے کہا جاوے کہ تقدم قرآن تو اب مقبولہ فریقین ہے باقی امور اسی سے فیصلہ کر لو.اگر حدیثوں پر سارا مدار ہے تو قرآن کی کیا ضرورت ہے جو کہتا ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ - ( البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ / نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۸) اسلام وہ مذہب ہے جس نے اپنے اقبال کے ساتھ تمام مذاہب کو اپنے پیروں میں لے لیا ہوا ہے.اسلام ایسے ملک سے شروع ہوا جہاں لوگ درندوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور طرح طرح کی بداعمالیوں میں مبتلا تھے ان کو حیوانیت سے انسانیت میں اسلام ہی لایا.ہر طرف اس کی مخالفت ہوئی لوگوں نے دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا پھر بھی وہ تمام کام پورے ہو کر رہے جو کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة المائدة فرمائے تھے اور کوئی فرد بشر بھی اس کا بال نہ بگاڑ سکا حتی کہ ندا آ گئی : اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ( وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعمتى ( وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا - البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۲) ہم اعجازی احیاء کے قائل ہیں مگر یہ بات بالکل ٹھیک نہیں ہے کہ ایک مردہ اس طرح زندہ ہوا ہو کہ وہ پھر اپنے گھر میں آیا اور رہا اور ایک اور عمر اس نے بسر کی اگر ایسا ہوتا تو قرآن ناقص ٹھہرتا ہے کہ اس نے ایسے شخص کی وراثت کے بارے میں کوئی ذکر نہ کیا اور الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کیا ہوا؟ البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخه یکم مئی ۱۹۰۳ ، صفحه ۱۱۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے، کیا ان کی نسبت اہل الرائے کی یہ رائے تھی.کون تھا جو یقین کرتا کہ ایک غریب ( آنحضرت صلعم) کے پاس نہ قوت، نہ شوکت، نہ فوج ، نہ مال ہے اور ہر طرف مخالفت ہے وہ کامیاب ہو کر رہے گا اور جو وعدے فتح اور نصرت اور اقبال مندی کے وہ دیتا ہے پورے ہو کر رہیں گے؟ مگر باوجود اس نا امیدی کے پھر کیسی امید بندھ گئی اور تمام وعدے پورے ہو گئے اليوم أكملتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کی گواہی مل گئی.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۴) صحابہ کرام سارے ہی باخدا اور عاقل تھے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان سے بڑھ کر ایسے وفادار تھے کہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا تھا.اسی لیے آپ کو سانپوں اور درندوں اور خاردار کانٹوں والا جنگل، اس کے درندے، حیوانات انسانی شکل میں دکھلائے گئے پھر ملک بھی ایسا اس کے سپرد کیا کہ جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شریر النفس نہ تھا.پھر آئے ایسے وقت پر کہ تمام مردہ اور فساد کی جڑ تھے جیسے فرمایا: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَيِّ وَ الْبَحْرِ ( الزوم : ۴۲) اور گئے ایسے وقت پر کہ فرمایا : اليومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَى الآية - إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ الآية (النصر : ۲).اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی محبت الہی اور قوت جاز بہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اندر تھی.احکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ تا۷ ارنومبر ۱۹۰۴ صفحه ۸) اسلام کے ثمرات اب بھی ایسے ہی ہیں اگر کوئی ان پھلوں کو نہیں کھا تا تو اسلام کا کیا قصور؟ طبیب اگر ایک نسخہ بتاوے اور کوئی اسے استعمال نہ کرے تو اس میں طبیب کا تو کوئی قصور نہیں ہے.اسلام میں یہ ایسی نعمت ہے جو کسی اور دین میں نہیں مل سکتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعمتی لیکن یہ نعمت نہیں مل سکتی جب تک اس طرف قدم نہ اٹھا وے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة المائدة افسوس کہ ہمارے مخالف اس نعمت کی طرف متوجہ نہیں.(الحاکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۵ صفحه ۶) اگر دن تھوڑے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں بسر ہوں تو غنیمت ہیں.حضرت عیسی علیہ السلام جس ملک میں رہے تھے وہاں کی زندگی صرف ساڑھے تین سال کی ہی رسالت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانه رسالت ۲۳ سال تھا مگر میں جانتا ہوں کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش قسمتی ثابت ہوتی ہے اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں.امور رسالت میں یہ کامیابی اور سعادت کسی اور کو نہیں ملی.آپ کی آمد کا وہ وقت تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے خود ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ( الروم :۴۲) سے بیان کیا ہے یعنی نہ خشکی میں امن تھا نہ تری میں.مراد اس سے یہ ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں گویا زمانہ کی حالت بالطبع تقاضا کرتی تھی کہ اس وقت ایک زبر دست بادی اور مصلح پیدا ہو، ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا اور پھر آپ ایسے وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب آپ کو یہ آواز آئی: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.یہ آواز کسی اور نبی اور رسول کو نہیں آئی.کہتے ہیں جب یہ آیت اتری اور پڑھی گئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس آیت کو سن کر رو پڑے.ایک صحابی نے کہا کہ اے بڈھے آدمی! تجھے کیا ہو گیا آج تو خوشی کا دن ہے تو کیوں رو پڑا؟ حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ تو نہیں جانتا.مجھے اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی بو آتی ہے.حضرت ابوبکر کی فراست بہت تیز تھی انہوں نے سمجھ لیا کہ جب کام ہو چکا تو پھر یہاں کیا کام؟ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی بندو بست کا افسر کسی ضلع کا بندوبست کرنے کو بھیجا جاتا ہے وہ اس وقت تک وہاں رہتا ہے جب تک وہ کام ختم نہ ہو لے جب کام ختم ہو جاتا ہے تو پھر کسی اور جگہ بھیجا جاتا ہے اسی طرح پر مرسلین کے متعلق بھی یہی سنت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ امر دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ابوبکر سچ کہتا ہے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اگر میں کسی کو دنیا میں دوست رکھتا تو ابوبکر کو.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ایسی واضح اور روشن ہے کہ کسی دوسرے نبی کا زمانہ ایسی نظیر نہیں رکھتا.اب دوسرا حصہ دیکھو کہ آپ فوت نہیں ہوئے جب تک الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کی آواز نہیں سن لی اور إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا ( النصر : ٢) کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة المائدة نظارہ آپ نے نہیں دیکھ لیا.یہ آیت نہ توریت میں ہے نہ انجیل میں.توریت کا تو یہ حال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام راستہ ہی میں فوت ہو گئے اور قوم کو وعدہ کی سرزمین میں داخل نہ کر سکے.حضرت عیسی علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ بہت ہی باتیں بیان کرنے کی تھیں.کیا قرآن شریف میں بھی ایسا لکھا ہے؟ وہاں تو اکملتُ لکھ ہے.رہی ان کی تکمیل ! صحابہ کی جو کمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی نسبت فرماتا ہے: مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (الآية ) ( الاحزاب : ۲۴ ) اور پھر ان کی نسبت رضی اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (التوبة : ١٠٠) فرمایا لیکن انجیل میں مسیح کے حواریوں کی جو تعریف کی گئی ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ جابجا ان کو لا اچھی اور کم ایمان کہا گیا ہے اور عملی رنگ ان کا یہ ہے کہ ان میں سے ایک نے تمیں روپیہ لے کر پکڑوا دیا اور پھر اس نے سامنے لعنت کی.انصاف کر کے کہو کہ یہ کیسی تکمیل ہے.اس کے بالمقابل قرآن شریف صحابہ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم ان کی نظیر نہیں رکھتی پھر ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی یہاں تک کہ اگر با ہم کوئی رنجش بھی ہو گئی تو اس کے لیے فرمایا: وَنَزَعْنَا مَا في صُدُورِهِمْ مِنْ غِل الآية (الاعراف: ۴۴).حضرت عیسی نے بھی حواریوں کو تختوں کا وعدہ دیا تھا مگر وہ ٹوٹ گیا کیونکہ بارہ تختوں کا وعدہ تھا مگر یہودا اسکر یوٹی کا ٹوٹ گیا جب وہ قائم نہ رہا تو اوروں کا کیا بھروسہ کریں.مگر صحابہ کے تخت قائم رہے دنیا میں بھی رہے اور آخرت میں بھی.غرض یہ آیت : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینگم مسلمانوں کے لیے کیسے فخر کی بات ہے.....اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی ، وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقل مند اور با اخلاق انسان اور پھر با خدا انسان بنادیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرا دیئے اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا یہاں تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو.میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا.ایسا ہی ایک زمانہ مجھ پر گزرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طور پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اس کی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں.غرض الْيَوْمَ أَكمَلْتُ لَكُمْ کی آیت دو پہلو رکھتی ہے؛ ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا، دوئم کتاب مکمل کر چکا،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة المائدة کہتے ہیں جب یہ آیت اتری وہ جمعہ کا دن تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کر لیتے حضرت عمر نے کہا کہ جمعہ عید ہی ہے مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس عید کی پروا نہیں کرتے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں، میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے اسی عید کے لیے سورۃ جمعہ ہے اور اسی کے لیے قصر نماز ہے اور جمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے اور یہ عید اس زمانہ پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا.قرآن شریف کا خاتمہ اس پر ہوا.الخام جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۵،۴) شریعت وہی ہے جو آنحضرت لائے اور جو قرآن شریف نے دنیا کو سکھلائی.ایک نقطہ نہ گھٹایا گیا نہ بڑھایا گیا ہے.خدا جس طرح پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے، اس طرح جس طرح پہلے کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی صفت تکلم اس میں موجود ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب خدا کلام نہیں کرتا.کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو خدا سنتا تھا مگر اب نہیں سنتا ؟ پس اللہ تعالیٰ کے تمام صفات جو پہلے موجود تھے اب بھی اس میں پائے جاتے ہیں.خدا میں تغیر نہیں.شریعت چونکہ تکمیل پاچکی ہے.لہذا اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم پس اکمال دین کے بعد اور کسی نئی شریعت کی حاجت نہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۲) مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں کسوف و خسوف کا اجتماع ہوا.یہ بھی میرا ہی نشان تھا اور وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ ( التكوير : ۸) بھی میرے ہی لیے ہیں اور وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة : ٣) بھی ایک جمع ہی ہے کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے ہیں چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاک خانوں ، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجاد میں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة المائدة تھی جس کے فرمایا گیا تھا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی اب اس تکمیل میں دوخو بیاں تھیں ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپ کا دوسرا زمانہ ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲،۱) میں جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے ان ارکان کو چھوڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ ان کی اپنی شامت اعمال ہے ورنہ قرآن شریف تو کہہ چکا تھا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ - اکمال دین ہو چکا تھا اور اتمام نعمت بھی.خدا کے حضور پسندیدہ دین اسلام ٹھہر چکا تھا.اب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کے بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لیے نہیں ہے بلکہ لذت نفس کی خاطر ہے.لوگوں نے لذت نفس اور لذت روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں اگر لذت نفس اور لذت روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ ایک بدکار عورت کے گانے سے بد معاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے، کیا وہ اس لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گے؟ ہر گز نہیں ! جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم راہیں نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگا ہے کہ وہ نفس اور روح کی لذت میں کوئی فرق نہیں کر سکتے ورنہ وہ ان بیہودگیوں میں روح کی لذت اور اطمینان نہ پاتے.ان میں نفسِ مطمونہ نہیں ہے جو بلہے شاہ کی کافیوں میں لذت کے جو یاں ہیں، روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے.اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا ان اعمال خیر کو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے، ترک کر دیا اور ان کی بجائے خود تراشیدہ در و د وظائف داخل کر لیے اور چند کا فیوں کا حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.بلہے شاہ کی کافیوں پر وجد میں آجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں اس قسم کے مجمع ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخه ۳۱/ جولائی ۱۹۰۲ ء صفحہ ۸۰)
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ يَسْتَدُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أَحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبتُ وَ مَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعْلَمُونَهُنَّ مِنَا عَلَمَكُمُ اللهُ فَكُلُوا مِنَا امْسَكُنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ.ص اگر یہ لوگ پوچھیں کہ پھر کھائیں کیا تو جواب یہ دے کہ دنیا کی تمام پاک چیزیں کھاؤ صرف مردار اور مردار کے مشابہ اور پلید چیزیں مت کھاؤ.( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۳۶) اصل اشیاء میں حلت ہے، حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی.البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۹) ص الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُم حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الْمُؤْمِنَتِ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا أَتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِينَ وَلَا مُتَخِذِى اَخْدَانٍ وَمَنْ يَكْفُرُ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ & ( طَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ حِلٌّ لَكُمْ ) تمدن کے طور پر ہندوؤں کی چیز بھی کھا لیتے ہیں اسی طرح عیسائیوں کا کھانا بھی درست ہے مگر با ایں ہمہ یہ خیال ضروری ہے کہ برتن پاک ہوں کوئی ناپاک چیز نہ ہو.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخه ۱۷/جون ۱۹۰۱ء صفحه ۴) چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سور کا گوشت ان میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیسا کہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیے جاتے ہیں.اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو ان کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں ان میں سور کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو اس لیے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شور بے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقوی اور نا جائز ہیں.جس حالت میں کہ سور کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة المائدة لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ طیار کر کے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نہ ہوتا ہو.....ہمارے نزدیک نصاری کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور از روئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو ورنہ اس کے یہی معنے ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاری کے ہاتھ سے کھا لیا اور نصاری پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے مثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام وحلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا طیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟ اسی لیے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ نہیں استعمال کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں.عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہیں کی دوکانیں ہوتی ہیں اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں اور سب شے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں.علاوہ ازیں میرے نزدیک اہل کتاب سے غالباً مراد یہودی ہی ہیں کیونکہ وہ کثرت سے اس وقت عرب میں آباد تھے اور قرآن شریف میں بار بار خطاب بھی انہیں کو ہے اور صرف تو ریت ہی کتاب اس وقت تھی جو کہ حلت اور حرمت کے مسئلے بیان کر سکتی تھی اور یہود کا اس پر اس امر میں جیسے عمل درآمد اس وقت تھا ویسے ہی اب بھی ہے انجیل کوئی کتاب نہیں ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳) وَ الْمُحْصَنَتُ مِنَ الْمُؤْمِنَتِ.....وَلَا مُتَّخِذِى اَخْدَانٍ ) پاک دامن عورتیں تم میں سے یا پہلے اہل کتاب میں سے تمہارے لیے حلال ہیں کہ ان سے شادی کرو لیکن جب مہر قرار پا کر نکاح ہو جائے ، بد کاری جائز نہیں اور نہ چھپا ہوا یا رانہ.عرب کے جاہلوں میں جس شخص کے اولاد نہ ہوتی تھی بعض میں یہ رسم تھی کہ ان کی بیوی اولاد کے لیے دوسرے سے آشنائی کرتی.قرآن شریف نے اس صورت کو حرام کر دیا.مسافت اسی بد رسم کا نام ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پرہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کے لیے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے : مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ الجز و نمبر ۵ یعنی چاہیے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پر ہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو اور تحصنین کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة المائدة صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے سو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں ؟ ایک عفت اور پرہیز گاری، دوسری حفظ صحت، تیسری اولاد.آریه دهرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲) واضح ہو کہ احسان کا لفظ حصن سے مشتق ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں اور نکاح کرنے کا نام احسان اس واسطے رکھا گیا کہ اس کے ذریعہ سے انسان عفت کے قلعہ میں داخل ہو جاتا ہے اور بدکاری اور بدنظری سے بچ سکتا ہے اور نیز اولا د ہو کر خاندان بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور جسم بھی بے اعتدالی سے بچا رہتا ہے پس گویا نکاح ہر ایک پہلو سے قلعہ کا حکم رکھتا ہے.آرمید دهرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲ حاشیه ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُتُمُ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعبينِ وَإِنْ كُنْتُم جُنْبًا فَا ظَهَرُوا وَإِن كُنتُم مَّرْضَى اَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَابِطِ أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيْبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ مَا يُرِيدُ اللهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَ لكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) نماز کا پڑھنا اور وضو کا کرنا طبی فوائد بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.اطبا کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہر روز منہ نہ دھوئے تو آنکھ آجاتی ہے اور یہ نزول الماء کا مقدمہ ہے اور بہت سی بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں پھر بتلاؤ کہ وضو کرتے ہوئے کیوں موت آتی ہے؟ بظاہر کیسی عمدہ بات ہے منہ میں پانی ڈال کر کلی کرنا ہوتا ہے، مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دور ہوتی ہے، دانت مضبوط ہو جاتے ہیں اور دانتوں کی مضبوطی غذا کے عمدہ طور پر چہانے اور جلد ہضم ہو جانے کا باعث ہوتی ہے پھر ناک صاف کرنا ہوتا ہے ناک میں کوئی بد بوداخل ہو تو دماغ کو پراگندہ کر دیتی ہے.اب بتلاؤ! اس میں برائی کیا ہے؟ اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی حاجات لے جاتا ہے اور اس کو اپنے مطالب عرض کرنے کا موقع ملتا ہے.دعا کرنے کے لیے فرصت ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۲) الله وَإِن كُنتُم مَّرْضَى......فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طيبا یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر پر یا پاخانہ سے آؤیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں سے مباشرت کرو اور پانی نہ ملے تو ان سب صورتوں میں پاک مٹی سے تیمم کر لو.سورة المائدة شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲،۳۳۱) (وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنْبًا فَا طَهَّرُوا ) جنابت کی حالت میں غسل کر لیا کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ قف قف حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئیے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو.......اور چاہئیے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی.فرمایا ہے : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقوی یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قو میں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی........میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے، اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں.ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردہ میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ میعار محبت کا ذکر کیا کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱ سورة المائدة کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) نیکی کی جڑیہ بھی ہے کہ دنیا کی لذات اور شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حد اعتدال سے زیادہ نہ لیوے جیسا کہ کھانا پینا اللہ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنالیا ہے اس کا نام دین پر بڑھانا ہے ورنہ یہ لذات دنیا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے کمزور نہ ہو.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے یکہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو ے یا ۸ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کر کے اسے دم دیتے ہیں اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں تا کہ اس کا پچھلا تکان رفع ہو جاوے تو انبیاء نے جو حظ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپر د تھا.اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے.اس واسطے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت (حضرت عائشہ کے زانو پر ہاتھ مار کر فرماتے کہ اے عائشہ ! راحت پہنچا.مگر انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے.انہماک بیشک ایک زہر ہے.ایک بدمعاش آدمی جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتی ، جو خدا کے لیے قدم اٹھاتا ہے خدا کو اس کا ضرور پاس ہوتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے : اخدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى تنعم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام ہی تقویٰ ہے صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنانہ کرے، چوری نہ کرے بلکہ جائز امور میں بھی حد اعتدال سے نہ بڑھے.البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۸) فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنْهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ ، عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَقًّا مِمَّا ذُكِرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَابِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ.ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ ) سوال :.براہینِ احمدیہ میں آپ نے کلام الہی کی ایک نشانی یہ بھی لکھی ہے کہ وہ ہر ایک پہلو میں دوسری کلاموں سے افضل ہوتا ہے.توریت انجیل بھی تو خدا تعالیٰ کا کلام ہیں کیا ان میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة المائدة (حضرت اقدس نے فرمایا کہ ) ان کتابوں کی نسبت قرآن مجید میں يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہ (المآئدۃ : ۱۴) لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے.اس لیے جو کتابیں محترف مبدل ہو چکی ہیں ان میں یہ نشانی کب مل سکتی ہے؟ (اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ حضور توریت میں لکھا ہے ” پھر موسیٰ خدا کا بندہ مر گیا اور موسیٰ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہوگا اور اس کی قبر بھی آج تک کوئی نہیں جانتا تو یہ کلام حضرت موسی کی ہو ہی کس طرح سکتی ہے؟ اور انجیل کی نسبت تو عیسائی خود قائل ہیں کہ وہ اصلی جو عیسی کی انجیل تھی نہیں ملتی.یہ سب تراجم در تراجم ہیں اور ترجمے مترجم کے اپنے خیالات کے مطابق ہوا کرتے ہیں.اور ان میں بہت سا حصہ اس قسم کا پایا جاتا ہے جو دوسروں کا بیان ہے جیسے صلیب کا واقعہ وغیرہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ) یہ ٹھیک بات ہے اگر تمام دنیا میں تلاش کریں تو قرآن مجید کی طرح خالص اور محفوظ کلام الہی کبھی نہیں مل سکتا ، بالکل محفوظ اور دوسروں کی دست برد سے پاک کلام تو صرف قرآن مجید ہی ہے.احکام جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) ص وَ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّا نَصْرَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ.۱۵ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ یعنی ہم نے یہود اور نصاریٰ میں قیامت کے دن تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے.اس آیت سے بھی صاف طور پر ثابت ہے کہ یہودی قیامت کے دن تک رہیں گے کیونکہ اگر وہ پہلے ہی حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے تو پھر سلسلہ عداوت اور بغض کا قیامت تک کیوں کر ممتد ہوگا؟ لہذا ماننا پڑا کہ ایسا خیال کہ حضرت مسیح کے نزول کی یہ علامت ہے کہ تمام اہل کتاب اُس پر ایمان لے آویں گے صریح نص قرآن اور حدیث سے مخالف ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة المائدة وَيَقُولُونَ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَخْرُجُونَ اور جو کہتے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں یاجوج و فِي زَمَنِ الْمَسِيحِ، وَيَنْسِلُونَ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ ماجوج نکلیں گے اور ہر ایک بلندی سے اتریں گے اور وَيَمْلِكُونَ الْأَرْضَ كُلَّهَا كَمَا وَرَدَ فِي الْقُرْآنِ تمام زمین کے مالک ہو جائیں گے جیسا کہ قرآن کریم الْعَظِيمِ، فَهَذَا حَقٌّ لَّا تُجَادِلُهُمْ فِيهِ میں آیا ہے پس یہ حق ہے ہم اس میں ان کی مخالفت وَيَقُولُونَ إِنَّ الْمَسِيحَ لَا يُجَارِبُهُمْ بَلْ يَدْعُو نہیں کرتے.اور وہ کہتے ہیں کہ مسیح ان سے لڑے گا، عَلَيْهِمْ، فَيَمُوتُونَ كُلُّهُمْ بِدُعَائِهِ بِدُودِ نہیں ! بلکہ ان پر بددعا کرے گا اور اس سے ان کے تَتَوَلَّهُ في رِقَاعِهِمْ، وَهَذَا أَيْضًا حَقٌّ وَلَيْسَ گلے میں کیڑا پیدا ہو گا جس سے وہ سب مر جائیں عِنْدَنَا إِلَّا التَّسْلِيمُ وَلَكِنَّهُمْ أَخْطَأوا فيما گے یہ بھی حق ہے ہم اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن قَالُوا إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَمُوتُونَ في زَمَن انہوں نے اس میں غلطی کی ہے کہ یاجوج و ماجوج عِيسَى كُلُهُمْ، فَإِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ هُمُ سب کے سب مر جائیں گے.کیونکہ یا جوج و ماجوج النَّصَارَى مِنَ الرُّوسِ وَالْأَقْوَامِ الْبَرْطَانِيَّةِ سے مراد وہ نصاریٰ ہیں جو روس اور برطانیہ قوموں وَقَدْ أَخْبَرَ اللهُ تَعَالَى عَنْ وُجُودِ النّصاری سے ہیں اور خدا تعالیٰ نے خبر دے دی ہے کہ یہود اور وَالْيَهُودِ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَالَ: فَأَغْرَيْنَا نصاری قیامت تک رہیں گے چنانچہ فرمایا کہ ہم نے بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ قيامت تک ان میں مخالفت ڈال دی ہے پس فَكَيْفَ يَموتُونَ كُلُّهُمْ قَبْلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ قیامت سے پہلے سب کے سب کس طرح مر سکتے فَلَوْ أَرَدْنَا مِنَ الْإِمَانَةِ الْإِمَانَةَ الْإِسْمَانِيَّةَ ہیں؟ پس اگر موت سے جسمانی موت مراد ہو تو لخَالَفَ الْحَدِيثُ الْقُرْآنَ وَعَارَضَهُ فَإِنَّ حدیث قرآن کے معارض ہو جاتی ہے کیونکہ قرآن تو الْقُرْآنَ يُخْبِرُنَا عَنْ بَقَائِهِمْ وَبَقَاءِ نَسْلِهِمْ إِلى بتاتا ہے کہ وہ قیامت تک باقی رہیں گے بلکہ قرآن تو يَوْمِ الْقِيَامَةِ، بَلْ يُشيرُ إلى أَنَّ السَّمَاوَاتِ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ آسمان انہیں پر ٹوٹیں گے يَنفَظَرْنَ عَلَيْهِمْ وَتَقُوْمُ الْقِيَامَةُ عَلَى اور قیامت انہیں شریروں پر قائم ہوگی.أَمرَارِهِمُ الْبَاقِينَ.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۰،۲۰۹ حاشیه ) (ترجمه از مرتب) فإِنَّ الْقُرْآنَ يُعَلِّمُ بِتَعْلِيْمٍ واضح قرآن کریم واضح طور پر یہ بتا رہا ہے اور بلند
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة المائدة وَيَشْهَدُ بِصَوْتٍ عَالٍ عَلى أَنَّ الْيَهُودَ آواز سے یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہود اور نصاریٰ قیامت وَالنَّصَارَى يَبْقُونَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَمَا تک موجود رہیں گے جیسا کہ اللہ عرب وجل فرماتا ہے: قَالَ عَزّ وَجَلَّ: فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ اور وَ الْبَغْضَاءَ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ ظاہر ہے کہ دشمنی اور بغض کا وجود دشمنوں اور بغض رکھنے وُجُوْدَ الْعَدَاوَةِ وَالْبَغْضَاء فَرْعُ لِوُجُودِ والوں کے وجود ہی کی فرع ہے جو ان کے موجود ہونے الْمُعَادِدِيْنَ وَالْمُبَاغِضِينَ، وَلَا يَتَحَقِّقُ إِلَّا کے بغیر محقق نہیں ہو سکتی اور ہم یہ بات متواتر اور بار بار بَعْدَ وُجُودِهِمْ.وَلَقَد وَضَلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ بیان کر آئے ہیں تا کہ لوگ نصیحت پکڑیں اور اپنے انجام وَقُلْنَا غَيْرَ مَرَّةٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ أَو سے ڈریں.پس اس بات پر ہم کس طرح ایمان لا سکتے يَكُونُونَ مِنَ الْخَائِفِينَ فَكَيْفَ نُؤْمِنُ بِأَنَّ ہیں کہ جملہ مذاہب کے پیرو کارکسی وقت تمام کے تمام أَهْلَ الْمِلَلِ كُلَّهَا تَهْلِكُ في وَقتٍ مِّن ہلاک ہو جائیں گے؟ کیا ہم قرآن مبین کی آیات کا انکار الْأَوْقَاتِ أَتَكْفُرُ بِايَاتِ كِتَابٍ مُبین کر دیں؟ ( ترجمه از مرتب) مُّبِيْنٍ (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۳۹) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: فَاغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے : وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ (المائدة : ۲۵ ).ان آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قیامت تک یہود اور نصاریٰ میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے پس اگر آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ قیامت سے پہلے تمام یہودی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت یہودونصاریٰ کا بغض با ہمی دور بھی ہو جائے گا اور یہودی مذہب کا تخم زمین پر نہیں رہے گا حالانکہ قرآن شریف کی ان آیات سے اور کئی اور آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی مذہب قیامت تک رہے گا.ہاں ! ذلت اور مسکنت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۹) قرآن کریم اس بات کا گواہ ہے کہ سلسلہ کفر کا بلا فصل قیامت کے دن تک قائم رہے گا اور یہ بھی نہیں ہوگا کہ سب لوگ ایک ہی مذہب پر ہو جائیں اور اختلاف کفر اور ایمان اور بدعت اور توحید کا درمیان سے اُٹھ جائے چنانچہ اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ضروری الوجود انسانوں کی فطرت کیلئے قرار دیتا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة المائدة کفر کا تخم قیامت تک قائم رہنے کیلئے یہ آیات صریحۃ الدلالت ہیں جو پہلے پرچہ میں لکھ چکا ہوں یعنی وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ ( ال عمران : ۵۶ ) اور آیت : أَغْرَینَا بَيْنَهُمُ العَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ - الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۹۳) وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ ( المائدة : ۲۵ ).جس کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاری میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے.جب یہودی نہ رہے اور سب ایمان لے آئے تو پھر بغض اور دشمنی کے لئے کون موقعہ اور محل رہا اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَاغْرَبینا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِیمَةِ.اس کے بھی یہی معنے ہیں جو او پر گزر چکے اور وہی اعتراض ہے جو اوپر بیان ہو چکا.تحله گوار و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۹) یعنی قیامت تک عیسائیوں کا وجود پایا جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) يَاهْلَ الْكِتَب قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الكتب وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ ، قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَ كِتَبٌ مُّبِينٌ.وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.......انبیاء منجمله سلسله متفاوته فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہو گئے ہیں.اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے : قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَ كِتب تبين - الجز نمبر 1 - وَدَاعِيًا إلى الله بِاِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا ( الاحزاب : ۴۷).الجز و نمبر ۲۲.یہی حکمت ہے کہ نو روحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا.و و برائین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۹۵ ۱۹۶ حاشیہ نمبر ۱۱) ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اس کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة المائدة کتاب ہے خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں سو ان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۴۹،۶۴۸) اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنادیتا ہے.اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.اسی لئے اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے : قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُور - یعنی تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷۲) قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ ظلمت سے نور کی طرف نکالے جاتے ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰ حاشیه ) ہیں.وَ قَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصْرِى نَحْنُ ابْنَوا اللَّهِ وَاحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ b بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ، يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَ لِلهِ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا ایک قول بطور حکایت عن الیہود قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے اور وہ قول یہ ہے کہ: نَحْنُ ابْنُوا اللهِ وَاحِباؤُه یعنی ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں.اس جگہ ابناء کے لفظ کا خدا تعالیٰ نے کچھ رد نہیں کیا کہ تم کفر بکتے ہو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے پیارے ہو تو پھر وہ تمہیں کیوں عذاب دیتا ہے؟ اور ابناء کا دوبارہ ذکر بھی نہیں کیا.اس سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کی کتابوں میں خدا کے پیاروں کو بیٹا کر کے بھی پکارتے تھے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۷) جب انسان خدا کی طرف بکلی آجاتا ہے اور نفس کی طرف کو بکلی چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا دوست ہو جاتا ہے تو کیا وہ پھر دوست کو دوزخ میں ڈال دے گا ؟ نَحْنُ اَوْلِيَاء اللہ سے ظاہر ہے کہ احباء کو دوزخ میں نہیں ڈالتے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۲۹ / اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۲) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اپنے اولیاء کو بھی عذاب نہیں کرتے بلکہ اس دلیل سے یہود و نصاری کے دعوے کی تردید کرتا ہے ان دونوں نے دعوی کیا تھا کہ : قَالَتِ الْيَهُودُ وَ النَّصْرِى نَحْنُ ابْنُوا اللَّهِ وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة المائدة احِباوُہ.کہ ہم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہیں تو اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا: قُلُ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ کہ اگر تم خدا کے پیارے اور بمنزلہ اس کی اولاد کے ہو تو پھر تمہاری شامت اعمال پر تم کو وہ دکھ اور تکالیف کیوں دیتا ہے پس اس سے ثابت ہے کہ جو خدا کے پیارے ہوتے ہیں ان کو دنیا میں دکھ نہیں ہوتا اور وہ ہر ایک قسم کے عذاب سے محفوظ ہوتے ہیں.پس اگر اس کے پیاروں کو عذاب ہوتا رہے تو پھر کافروں میں اور ان میں کیا فرق ہوا ؟ (البدر جلد ۲ نمبر ۴۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۵) خوب یا درکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی.یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تی: نَحْنُ ابْنُوا اللهِ وَاحِباؤُه ہم اللہ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی دنیا کو مقدم کر لیا، کیا نتیجہ ہوا ؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بند رکہا اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.اکام جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۶) اللہ تعالیٰ نے جو ہم کو مخاطب کیا ہے کہ انت منی بمنزلة اولا دینی.اس جگہ یہ تو نہیں کہا کہ تو میری اولاد ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی اولاد کی طرح ہے اور دراصل یہ عیسائیوں کی اس بات کا جواب ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کو حقیقی طور پر ابن اللہ مانتے ہیں حالانکہ خدا کی کوئی اولاد نہیں اور خدا نے یہودیوں کے اس قول کا عام طور پر کوئی رد نہیں کیا جو کہتے تھے کہ نَحْنُ ابنوا اللهِ وَاحِباؤُهُ.بلکہ یہ ظاہر کیا ہے کہ تم ان ناموں کے مستحق نہیں ہو.دراصل یہ ایک محاورہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں کے حق میں اکرام کے طور پر ایسے الفاظ بولتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں اور جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ اے بندے ! میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہ دیا اور میں بھوکا تھا تو نے مجھے روٹی نہ دی.ایسا ہی تو ریت میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب خدا کا فرزند بلکہ نخست زادہ ہے.سو یہ سب استعارے ہیں.جو عام طور پر خدا تعالیٰ کی عام کتابوں میں پائے جاتے ہیں اور احادیث میں ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ میرے حق میں اسی واسطے استعمال کیے ہیں کہ تا عیسائیوں کا رد ہو کیونکہ باوجود ان لفظوں کے میں کبھی ایسا دعوی نہیں کرتا کہ نعوذ باللہ ! میں خدا کا بیٹا ہوں بلکہ ایسا دعویٰ کرنا کفر سمجھتے ہیں اور ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں ان میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا عزت کا خطاب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸ سورة المائدة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: قُلْ يُعِبَادِی ) الزمر : ۵۴).جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو! اب ظاہر ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے تھے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.البدر جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) ياهل الكتب قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنَ لَكُمْ عَلى فَتُرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُولُوا b مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرُ ۖ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قديرن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اس جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۷ ۶۴) نذیر کا لفظ اسی مرسل کے لیے خدا تعالیٰ استعمال کرتا ہے جس کی تائید میں یہ مقدر ہوتا ہے کہ اس کے منکروں پر کوئی عذاب نازل ہوگا کیونکہ نذیر ڈرانے والے کو کہتے ہیں اور وہی نبی ڈرانے والا کہلاتا ہے جس کے وقت میں کوئی عذاب نازل ہونا مقدر ہوتا ہے.پس آج سے چھپیں ۲۶ برس پہلے جو براہین احمدیہ میں میرا نام نذیر رکھا گیا اس میں صاف اشارہ تھا کہ میرے وقت میں عذاب نازل ہوگا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۶) قَالُوا يَمُوسَى إِنَّا لَنْ نَدخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا انا ههنا قَعِدُونَ توریت میں جابجا حضرت موسیٰ کے صحابہ کا نام ایک سرکش اور سخت دل اور مرتکب معاصی اور مفسد قوم لکھا ہے جن کی نافرمانیوں کی نسبت قرآن شریف میں بھی یہ بیان ہے کہ ایک لڑائی کے موقع کے وقت میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة المائدة انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ جواب دیا تھا: فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ یعنی تُو اور تیرا رت دونوں جا کر دشمنوں سے لڑائی کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھیں گے ، یہ حال تھا اُن کی فرمانبرداری کا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشق الہی پیدا ہوا اور تو جہ قدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُن کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے.کیا کوئی پہلی اُمت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا ؟ (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۱، ۱۰۲ حاشیه ) بنی اسرائیل کے حالات اور واقعات کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کی اصل غرض موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی کیا تھی ؟ بڑی بھاری غرض یہی تھی کہ وہ فرعون کی غلامی سے نکلیں چنانچہ روحانی امور اور خدا پرستی کے متعلق وہ ہمیشہ ٹھوکر کھاتے رہے اور بے جا گستاخیوں اور شوخیوں سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةٌ ( البقرة :۵۲) اور اِذْهَبُ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَا هُهُنَا قُعِدُونَ جیسے کلمات کہنے اور ذراسی غیر حاضری میں گوسالہ پرستی کرنے سے باز نہ آئے اور بات بات میں ضد اور اعتراض سے کام لیتے ان کے حالات پر پوری نظر کے بعد صاف معلوم دیتا ہے کہ وہ صرف ( اور ) صرف فرعون کی غلامی سے ہی آزاد ہونا چاہتے تھے خود اپنے آپ میں رہبری اور سرداری کی قوت نہ رکھتے تھے.اس لیے موسیٰ علیہ السلام کی بات سنتے ہی طیار ہو گئے.چونکہ بہت تنگ آچکے تھے اور مرتا کیا نہ کرتا اپنی سرخروئی انہوں نے اس میں سمجھی ، حضرت موسیٰ کے ساتھ نکل پڑے لیکن آخر موسیٰ کی کامیابیوں کی راہ میں ٹھوکر کا پتھر بنے.غرض حضرت موسیٰ کو بہت محنت و مشقت کرنے کی ضرورت نہ پڑی قوم زندان غلامی میں گرفتار تھی اور طیار تھی کہ کوئی آئے تو اسے قبول کر لیں.ایسی حالت میں کئی لاکھ آدمیوں نے ایک دن میں قبول کر لیا اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ وہ کیسی قوم ہے اور موسیٰ کی تعلیم سے انہوں نے کیا فائدہ اٹھایا ہے پس یہاں تک کہ ان کو مصر سے نکال لیا کوئی بڑا کام نہ تھا.اصلاح کا زمانہ جب آیا اور موسیٰ نے جب چاہا کہ ان کو خدا پرست قوم بنا کر وعدہ کی سرزمین میں داخل کریں وہ ان کی شوخیوں اور گستاخیوں اور اندرونی بد اعمالیوں میں گزرا یہاں تک کہ خود حضرت موسیٰ بھی اس سرزمین میں داخل نہ ہو سکے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۲)
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو کہا کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کرو تو انہوں نے کیا شرمناک جواب دیا: فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا انا ههنا قعدون تو اور تیرا رب جاؤ اور لڑ و ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.صحابہ کی لائف میں ایسا کوئی موقع نہیں آیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں جنہوں نے یہ کہا : فَاذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ - ایسی قوت اور شجاعت اور وفاداری کا جوش کیوں کر پیدا ہو گیا تھا؟ یہ سب ایمان اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کی قوت قدسی اور تاثیر کا اثر تھا آپ نے ان کو ایمان سے بھر دیا تھا.احکام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱۰۱۰) حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو لے کر نکلتے ہیں مگر وہ اس قوم کو کبھرو کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بات بات پر اعتراض کرنے والے اور انکار کرنے والی قوم تھی.یہاں تک کہ کہہ دیا: فَاذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَائِلاً إنا ههنا قعدون مگر اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو دیکھو کہ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنا خون بہا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہو گئے تھے کہ وہ اس کے لیے ہر ایک تکلیف اور مصیبت کو اٹھانے کو ہر وقت طیار تھے انہوں نے یہاں تک ترقی کی کہ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ( المائدة : ۱۲۰ ) کا سرٹیفکیٹ ان کو دیا گیا.الحکم جلد ۸ نمبرے مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۴، صفحه ۲،۱) وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَى أَدَمَ بِالْحَقِّ ، إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُتِلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَ لَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَكَ ، قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ دعا کی راہ میں دو بڑے مشکل امر ہیں جن کی وجہ سے اکثر دلوں سے عظمت دعا کی پوشیدہ رہتی ہے؟ (۱) اول تو شرط تقویٰ اور راست بازی اور خدا ترسی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے : إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ یعنی اللہ تعالیٰ پر ہیز گار لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے.(ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۶۰) تقوے کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ المُتقین گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا جیسے کہ فرمایا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( ال عمران : ١٠) - (رپورٹ جلسہ سالانہ صفحہ ۱۳۳ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة المائدة اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعائیں قبول کرتا ہے جو لوگ متقی نہیں ہیں ان کی دعائیں قبولیت کے لباس سے منگی ہیں.ہاں! اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمانیت ان لوگوں کی پرورش میں اپنا کام کر رہی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴/ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۲) جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کر کے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالی نے قائم کیا ہے رد کر دیا ہے اور اس قدر نشانوں کو ( دیکھ کر ) پروانہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پروا پڑے ہیں ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے کہ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتا ہے اس واسطے کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۷ ار مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۸).۱۷ خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑا دیا ہے یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لیے قبائل ہیں.مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے.جو متقی ہے وہ جنت میں جائے گا خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز متقی ہی ہے پھر یہ جو فرمایا ہے : إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں یہ نہیں کہا کہ من الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) السيدين.جب تک انسان اپنا ایمان اس حد تک نہیں پہنچا تا کہ سنت سے فائدہ اٹھا وے تو خدا ( تعالی ) کیسے اس کے لیے سنت بدل دیوے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸۳) اللہ تعالیٰ کی اجابت بھی متقین کے لیے ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ من المتقين در حقیقت جب تک انسان تقوی اختیار نہ کرے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی طرف رجوع نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کی ذات میں بے نظیر صفات ہیں جو لوگ اس کی راہ پر چلتے ہیں انہیں کو اس سے اطلاع ملتی ہے اور وہی اس سے مزہ پاتے ہیں.خدا سے رشتہ میں اس قدر شیرینی اور لذت ہوتی ہے کہ کوئی پھل ایسا شیریں نہیں ہوتا.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۵) بار بار قرآن شریف کو پڑھو اور تمہیں چاہیے کہ برے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو.یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا جب تم ایسی سعی کرو گے تو اللہ پھر تمہیں توفیق دے گا اور وہ کا فوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة المائدة ہو جائیں گے اس کے بعد نیکیاں ہی سرزد ہوں گی.جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اسے نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ یعنی بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز ، روزہ بھی متقیوں ہی کا قبول ہوتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مؤرخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۲) پہلے ایمان کو درست کرو، یہ ریاضتیں جو طریقہ نبوی سے باہر ہیں یہ تو کسی کام نہ آئیں گی اور نہ منزل مقصود کو پہنچائیں گی دیکھو بعض جوگی اس قدر ریاضتیں کرتے ہیں کہ اپنے باز وسکھا دیتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک مقبول نہیں کیونکہ ایک تو ارشاد نبوی کے خلاف، دوم ایمان ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ یعنی اللہ ان کی عبادت قبول کرتا ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں اور ڈرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے منشاء کے مطابق کام کرتے ہیں اور سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اس کے مامور کو مانیں.دیکھو! یہودی خدا کو مانتے ہیں اور مشرک بھی نہیں.قبلہ بھی ان کا وہ ہے جو پہلے مسلمانوں کا رہ چکا ہے مگر پھر بھی خدا کے حضور مقبول نہیں صرف اس لیے کہ اللہ کے رسول کو نہ مانا.رسولوں کو نہ ماننے سے وہی جنہیں عالمین پر فضیلت دی گئی تھی ملعون ہوئے کیونکہ گناہ تو اور بھی ہیں مگر سب سے بڑا گناہ مامور من اللہ کا انکار ہے.(البدر جلد نمبر ۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) انسان کو چاہیے کہ نیکی میں کوشش کرے اور ہر وقت دعا میں لگا رہے.یقیناً جانو کہ جماعت کے لوگوں میں اور ان کے غیر میں اگر کوئی ما بہ الامتیاز ہی نہیں ہے تو پھر خدا کوئی کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے.کیا وجہ ہے کہ ان کو عزت دے اور ہر طرح حفاظت میں رکھے اور ان کو ذلت دے اور عذاب میں گرفتار کرے؟ انما يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ - متقی وہی ہیں کہ خدا سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الہی کے خلاف ہیں نفس اور خواہشات نفسانی کو اور دنیا و مافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بیج سمجھیں.ایمان کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۵) مِنْ أَجلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَاءِ يُلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَانَمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَ مَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتُهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ۴۳ سورة المائدة ( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا......قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ) جس نے ایک انسان کو ناحق بے موجب قتل کر دیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا.( براہین احمدیہ چهار تص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۶،۴۲۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یہ بالکل خطا ہے کہ اسی ایک امر کو پلے باندھ لو کہ طاعون والے سے پر ہیز کریں تو طاعون نہ ہوگا.پر ہیز کرو جہاں تک مناسب ہے لیکن اس پر ہیز سے باہمی اخوت اور ہمدردی نہ اٹھ جاوے اور اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ سا تعلق پیدا کرو.یا درکھو کہ مردہ کی تجہیز و تکفین میں مدد دینا اور اپنے بھائی کی ہمدردی کرنا صدقات خیرات کی طرح ہی ہے یہ بھی ایک قسم کی خیرات ہے اور یہ حق حق العباد کا ہے جو فرض ہے....جو شخص ہمدردی کو چھوڑتا ہے وہ دین کو چھوڑتا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے : مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَاد الآية یعنی جو شخص کسی نفس کو بلا وجہ قتل کر دیتا ہے وہ گویا ساری دنیا کو قتل کرتا ہے ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی نہیں کی تو اس نے ساری دنیا کے ساتھ ہمدردی نہیں کی.انتقام جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) جس شخص نے ایسے شخص کو قتل کیا کہ اس نے کوئی ناحق کا خون نہیں کیا تھا یا کسی ایسے شخص کو قتل کیا جو نہ بغاوت کے طور پر امن عامہ میں خلل ڈالتا تھا اور نہ زمین میں فساد پھیلاتا تھا تو اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا یعنی بے وجہ ایک انسان کو قتل کر دینا خدا کے نزدیک ایسا ہے کہ گویا تمام بنی آدم کو ہلاک کر دیا.ان آیات سے ظاہر ہے کہ بے وجہ کسی انسان کا خون کرنا کس قدر اسلام میں جرم کبیر ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۴) مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْس کے ساتھ آگے او فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ بھی لکھا ہے.فساد کا لفظ وسیع ہے جو شے کسی زمانہ میں فساد کا موجب ہو سکتی ہے وہ آئندہ زمانہ میں قتل نفس کا...موجب بھی ہو سکتی ہے.حشرات الارض کو ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں روز مارے جاتے ہیں اس لیے کہ وہ کسی کی ایڈا کا موجب نہ ہوں چنا نچہ لکھا ہے کہ قتل الموذی قبل الاین تو ہر ایک موذی شے کا قتل اس کے ایذا دینے سے قبل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة المائدة جائز ہوتا ہے حالانکہ اس موذی نے ابھی کوئی قتل و غیر ہ کیا نہیں ہوتا لے البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخه ۱۹/جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۷۰) اِنَّمَا جَزْوا الَّذِيْنَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقتَلُوا اَوْ يُصَلَّبُوا اَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.یعنی سوا اس کے نہیں کہ بدلہ ان لوگوں کا کہ جو خدا اور رسول سے لڑتے اور زمین پر فساد کے لیے دوڑتے ہیں یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف طرف سے کاٹے جائیں یا جلا وطن کر کے قید رکھے جائیں یہ رسوائی ان کی دنیا میں ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے.پس اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے رسول کریم کی عدول حکمی اور اس کا مقابلہ کچھ چیز نہیں تھا تو ایسے منکروں کو جو موحد تھے (جیسا کہ یہودی ) انکار اور مقابلہ کی وجہ سے اس قدر سخت سزا یعنی طرح طرح کے عذابوں سے موت کی سزا دینے کے لیے خدا تعالیٰ کی کتاب میں کیوں حکم لکھا گیا اور کیوں ایسی سخت سزائیں دی گئیں کیونکہ دونوں طرف موحد تھے اس طرف بھی اور اُس طرف بھی اور کسی گروہ میں کوئی مشرک نہ تھا اور باوجود اس کے یہودیوں پر کچھ بھی رحم نہ آیا اور ان موحد لوگوں کو محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے بری طرح قتل کیا گیا یہاں تک کہ ایک دفعہ دس ہزار یہودی ایک ہی دن میں قتل کیے گئے حالانکہ انہوں نے صرف اپنے دین کی حفاظت کے لیے انکار اور مقابلہ کیا تھا اور اپنے خیال میں پکے موحد تھے اور خدا کو ایک جانتے تھے.ہاں! یہ بات ضرور یاد رکھو کہ بیشک ہزاروں یہودی قتل کیے گئے مگر اس غرض سے نہیں کہ تا وہ مسلمان ہو جائیں بلکہ محض اس غرض سے کہ خدا کے رسول کا مقابلہ کیا اس لیے وہ خدا کے نزدیک مستوجب سزا ہو گئے اور پانی کی طرح ان کا خون زمین پر بہایا گیا.پس ظاہر ہے کہ اگر توحید کافی ہوتی تو یہودیوں کا کوئی جرم نہ تھا وہ بھی تو موحد تھے وہ محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے کیوں خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سز ا ٹھیرے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۱، ۱۶۲) لے قانون قدرت ہمیں اس قانون کے رواج کا نشان دیتا ہے قرآن کریم اور دیگر کسی شریعت آسمانی نے بھی یہی جائز رکھا اور عقل انسانی بھی اسی قتل حفظ ماتقدم کے لیے سبق دیتی ہے.(احکم جلدے نمبر ۲۳ مورخہ ۲۴ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة المائدة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے : وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هَذَا بِمَا صَلَّيْتَ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۱ حاشیه ) على محمد وَ قَقَيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوَريةِ ، وَأتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَ نُوراً وَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرِيةِ وَ هُدًى وَ مَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ وَ لَيَحْكُمُ اَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا اَنْزَلَ الله ) فِيهِ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.إِنَّ الْقُرْآنَ لا يَأْمُرُ الْيَهُودَ وَلا قرآن کریم یہود ونصاری کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ اپنی النَّصَارَى أَن يَتَّبِعُوا كُتُهُمْ وَيَقْبُتُوا اپنی کتابوں کی پیروی کریں اور نہ یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی عَلَى شَرَائِعِهِمْ بَلْ يَدُعُوهُمْ اِلَی شریعتوں پر ہی قائم رہیں بلکہ وہ انہیں اسلام اور اس کے الْإِسْلَامِ وَأَوَامِرِه وَقَدْ قَالَ الله في كتابه احکام کی طرف بلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز الْعَزِيزِ إِنَّ الذِينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ 1 ( قرآن شریف ) میں فرمایا ہے : إِنَّ الدِّينَ عِندَ الله وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ الْإِسْلَامُ - وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ مِنْهُ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ - پس فَكَيْفَ يُظَنُّ فِي اللهِ الْفُتُوسِ انَّهُ يَدْعُوا خدائے قدوس کی ذات کے بارہ میں یہ خیال کیوں کر کیا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى في هذِهِ الْآيَةِ إلى جا سکتا ہے کہ وہ ایک طرف تو ان آیات میں یہود و نصاری ال عمران :۲۰ ۲ ال عمران : ۸۶ E
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة المائدة الْإِسْلَامِ وَيَقُولُ إِنَّكُمْ لا تُفْلِحُونَ اَبَدا کو اسلام کی طرف بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہر گز کامیابی وَلَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا بَعْدَ اَنْ تَكُونُوا نہیں پاسکتے ہو اور نہ ہی جنت میں داخل ہو سکتے ہو.مُسْلِمِينَ وَلَا يَنْفَعُكُمْ تَوْرَاتُكُمْ سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہو جاؤ اور تمہیں قرآن مجید وَلَا الْجِيْلُكُمْ إِلَّا الْقُرْآنُ ثُمَّ يَنسی کے سوا تمہاری تو رات اور تمہاری انجیل فائدہ نہیں دے قَوْلَهُ الْأَوَّلَ وَيَأْمُرُكُلَّ فِرْقَةٍ فِن سکتیں پھر دوسری طرف اپنے پہلے قول کو بھول جائے اور الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَنْ يَعْبُتُوا عَلی یہود و نصاری کے ہر فرقہ کو حکم دے کہ وہ اپنی شریعتوں پر شَرَائِعِهِمْ وَيَتَمَسكُوابكُتُم ہی قائم رہیں اور اپنی اپنی کتابوں کو مضبوطی سے پکڑے وَيَكْفِيْهِمْ هَذَا لِنَجَاعِهِمْ وَإِن هَذَا رکھیں اور یہ بات ان کی نجات کے لیے کافی ہوگی.یہ تو الاعمعُ الضَّدَّيْنِ وَالخَتِلافُ فِي الْقُرْآنِ اجتماع ضدین ہے اور قرآن مجید میں اختلاف کو تسلیم وَاللهُ نَزَّة كتابة عن الاختلافِ بِقَوْلِهِ کرنے کے مترادف ہے حالانکہ اللہ نے اپنی کتاب کو ہر عَنِ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِیهِ قسم کے اختلاف سے پاک قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، بَلِ الْايَةُ الَّتِي حَرَّفَ :که: لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا الْمُعْتَرِضُ مَعْنَاهَا كَمِثْلِ الْيَهُودِ تُشِيرُ كَثِيرًا.اگر یہ کتاب منجانب اللہ نہ ہوتی تو لوگ اس میں إلى أن بَشَارَت نَبِيْنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بہت سے اختلاف پاتے.بلکہ وہ آیت جس کے معنی وَسَلَّمَ كَانَتْ مَوْجُوْدَةٌ في التَّوْرَاتِ کرنے میں معترض نے یہودیوں کی طرح تحریف کی ہے وَالْإِنجِيلِ فَكَأَنَّ اللهَ يَقُولُ مَالَهُمْ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تو رات اور انجیل لَا يَعْمَلُون عَلى وَصَايَا التَّوْرَاةِ وَالْانجیل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آمد کی بشارت وَلَا يُسْلِمُونَ وَأَمَّا بَقِيَّةُ الْفَاظِ هذه موجود تھی.تو گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے هَذِهِ الآيات أغنى لفظ فِيهِ نُورٌ وَ هُدی کہ وہ تو رات اور انجیل کے تاکیدی حکموں پر عمل نہیں فَلَيْسَ هَذَا دَلِيْلًا عَلى كَوْنِ الانجیل کرتے اور اسلام نہیں لاتے ان آیات کے بقایا الفاظ یعنی شَرِيعَةٌ مُسْتَقِلَةٌ أَلَيْسَ الزَّبُورُ وَغَيْرُةُ فِيهِ نُورٌ وَهُدًى اس بات کی دلیل نہیں کہ انجیل کوئی مِن كُتُبِ أنْبِيَاء بني إسرائيل هُدى مستقل شریعت ہے کیا زبور وغیرہ انبیاء بنی اسرائیل کے لِلنَّاسِ ايُوجَدُ فِيْهَا ظُلْمَةٌ وَلَا يُوجَدُ صحیفے لوگوں کے لیے ہدایت نہیں تھے.کیا ان میں ظلمت ل النساء : ۸۳
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة المائدة نُورٌ فَتَفَكَّرُ وَلَا تَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ پائی جاتی تھی اور ان میں نو ر نہیں پایا جاتا تھا.پس غور سے (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۹۱۸ حاشیہ کام لو اور جاہلوں میں سے نہ بنو.(ترجمہ اصل کتاب سے ) ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت نہایت گندے الفاظ استعمال کئے اور لکھا....حقیقت یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو ذاتی طور پر ایک مستقل شریعت عطا کی گئی تھی اور جولوگ آپ پر ایمان لائے انہیں آپ نے شریعت کیمیہ سے مستغنی قرار دیا اور اس نے اپنے دعوئی میں یہ آیات پیش کیں: وَأَتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ فِيْهِ هُدًى وَ نُورٌ وَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَةِ وَهُدًى وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ - وَلْيَحْكُمُ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فِيهِ یعنی خیر الکائنات محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی بشارت کے متعلق.) اس کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: اس شخص نے اس آیت کے مفہوم کو نہ سمجھا اور اس نے مجھے پر ایسی آواز سے حملہ کیا ہے جو سب آوازوں میں سے مکروہ تر ہے اور گمان کیا کہ اس نے ایک مضبوط رکن کی پناہ لی ہے اور اس نے مجھے تہمت لگانے والی بدکار عورتوں کی طرح گالیاں دیں اور کہا کہ ایک واضح دلیل ہے اس بات پر کہ انجیل ایک مستقل شریعت ہے.ہائے افسوس! اس پر اور اس کے غصہ پر جو اس نے اس طرح نکالا جیسے زمین سے کیڑے نکل آتے ہیں اور لوگوں میں سے بدبخت ترین وہ شخص ہے جو بے عقل ہو اور پھر وہ اپنے آپ کو عقلمندوں سے شمار کرے اور بالغ مردوں اور عورتوں کو جانے دو ہر مسلمان بچہ اور ہر مسلمان بچی یہ جانتی ہے کہ قرآن کریم یہود اور نصاری کو اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ وہ اپنی کتابوں کی پیروی کریں اور اپنی شریعتوں پر ثابت قدم رہیں بلکہ وہ تو انہیں اسلام اور اس کے احکام کی طرف بلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی معزز کتاب میں فرمایا ہے : ان الدنين عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ ( ال عمران : ٢٠) - وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ ( ال عمران : ۸۶).پس خدائے قدوس کے متعلق یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ یہود و نصاری کو اس آیت میں اسلام کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور جنت میں داخل نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ تم مسلمان ہو جاؤ اور قرآن کریم کے علاوہ تورات اور انجیل تمہیں نفع نہیں دیں گی.یہ کہہ کر پھر وہ اپنی پہلی بات کو بھول جائے اور یہود اور نصاریٰ کے ہر فرقہ کو اس بات کا حکم دے کہ وہ اپنی شرائع میں ثابت قدم رہیں اور اپنی کتابوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة المائدة اور یہ ان کی نجات کے لیے کافی ہے.یہ اجتماع ضدین ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اپنی کتاب کو اختلاف سے پاک ٹھیرایا ہے کہ: وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كثيرا ( النساء : ۸۳) بلکہ وہ آیت جس کے معنی کو معترض نے یہود کی طرح محرف و مبدل کر دیا ہے وہ تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس بشارت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو تورات اور انجیل میں موجود تھی.گو یا خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ تو رات اور انجیل کی وصایا پر عمل نہیں کرتے اور اسلام قبول نہیں کرتے ؟ ہاں ! اگر قرآن کریم کی عبارت میں صیغہ ماضی کا ہوتا اور وہ یہ نہ کہتا کہ وَليَحْكُمُ بلکہ یہ کہتا : وَكَانَ النَّصَارَى يَحْكُمُونَ بِالإِنجِيلِ فَقط یعنی عیسائی لوگ صرف انجیل کے مطابق فیصلے کرتے تھے تو یہ اس کے دعوئی پر ایک دلیل ہوتی.پھر آیت کے بقیہ الفاظ یعنی فِيهِ هُدًى وَ نُور بھی انجیل کے مستقل شریعت ہونے پر کوئی دلیل نہیں.کیا زبور اور اس کے علاوہ انبیاء بنی اسرائیل کی دوسری کتابیں لوگوں کے لیے ہدایت نہ تھیں؟ کیا ان میں ظلمت اور تاریکی پائی جاتی تھی اور کوئی نوران میں نہیں تھا؟ پس تو فکر کر اور جاہلوں سے نہ بن اور عیسائی خود اس بات پر متفق ہیں کہ عیسی علیہ السلام ان کے پاس کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے.چنانچہ ہم یہاں جی.اے بغیر ائے بشپ لا ہور ( یعنی اس علاقہ کے عیسائیوں کے امام ) کی شہادت نقل کرتے ہیں.اگر تو روسیاہی اور ذلت سے ڈرتا ہے تو یہ شہادت تیرے لیے کافی ہے اور ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ ہم اس شہادت کو علیحدہ حاشیہ میں نقل کریں.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۱۲ تا ۵۱۵) حاشیہ نمبر ا بمع ترجمہ ذیل میں درج ہے ترجمہ از مقام بشپس بورن واقعہ لاہور مورخه ۱۵ را گست ۱۹۰۱ء جناب Bishops Bournes Lahore.Aug, 15,01 خداوند یسوع مسیح ہر گز شارع نہ تھا جن was Dear Sir, The Christ Jesus lord معنوں میں حضرت موسیٰ صاحب شریعت تھا certainly not a law-giver, in the جس نے ایک کامل مفصل شریعت ایسے امور was نے ایک senses Moses in which
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة المائدة gradually and Holiness of کے متعلق دی کہ مثلاً کھانے کے لیے giving a complete descriptive law حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے وغیرہ.کوئی about such things as clean and انجیل کو بغیر غور کے سرسری نگاہ unclean food.That He did not do this سے بھی دیکھے تو اس پر ضرور ظاہر ہو must be evident to anyone who reads جائے گا کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھا.the New Testament with any care or موسیٰ کی شریعت کھانے وغیرہ thought whatever.The Mosaic law of امور کے متعلق اس واسطے نازل ہوئی moots was given in order to develope تھی کہ انسان کا دل تربیت پاکر in the minds of men who were in a شریعت کے مفہوم کو پالے اور رفتہ رفته very elementary stage of education مقدس اور غیر مقدس کو سمجھنے لگے کیونکہ and religion, the sense of law, and انسان اس وقت تعلیم و مذہب کی the ابتدائی منزل میں تھا اس لیے انجیل میں reverse.It is, therefor, called in the کہا گیا ہے کہ موسیٰ کی شریعت ایک New-testament a Schoolmaster to استاد تھی جو ہمیں مسیح تک لائی.کیونکہ bring us the Christ Gal Mini-24) for it اس شریعت نے انسان کے دل میں developed a conscience in man which ایک ایسی فطرت پیدا کر دی جو کہ ترقی پا whem awakened, could not find rest کر صرف بیرونی اور رسمی اعمال پر قانع in any external or purely ceremonial نہ ہوئی بلکہ دل اور روح کی اندرونی inner راستی کی تلاش کرنے والی ہوئی اس righteourmess of heart and life.And راستی کے لانے کے واسطے مسیح آیا - it was to bring this that Christ came اپنی زندگی اور موت کے ذریعہ سے by his life and death.He both اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ سمجھ deepened in man's minds the sense ڈال دی کہ گناہ کیا ہے اور وہ کیسا of what sin really is and how terrible acts an needed but
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة خوفناک ہے اور گناہوں کی معافی | it is and also showed men how they حاصل کر کے اور روح القدس کے could be reconciled to God, obtaining عطیہ سے ہم تقدس کی نئی زندگی پاکر forgiveness of sins and also Power by اور خدا اور انسان کے درمیان محبت the gift of the Holy Spirit to live a new قائم کر کے خدا کو پھر راضی کر سکتے life in real holiness, and in love to God ہیں.متی باب ۵ تاے میں پہاڑی تعلیم and man.What the characteristics of کے پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ that new life are you can see by اس نئی زندگی کا طر ز طریق کیا تھا دستخط جے اے لغیر ائے بشپ لاہور reading the sermon on the mount St.Mathew chapter V to VII.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۱۹ تا۵۲۱) مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ) مصدق کے معنے قرآنی طور پر یہ ہیں کہ جو کچھ صحیح تھا اس کی تو نقل کر دی اور جو نہیں لیا وہ غلط تھا پھر انجیلوں کا آپس میں اختلاف ہے اگر قرآن نے تصدیق کی ہے تو بتلاؤ کون سی انجیل کی کی ہے؟ قرآن نے یوحنا متی وغیرہ کی انجیل کی کہیں تصدیق نہیں کی.ہاں ! پطرس کی دعا کی تصدیق کی ہے اسی طرح کون سی توریت کہیں جس کی تصدیق قرآن نے کی؟ پہلے توریت تو ایک بتاؤ! قرآن تو تمہاری توریت کو محرف بتلاتا ہے اور تم میں خود اختلاف ہے کہ توریت مختلف ہیں.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰) قرآن شریف انجیل کی تصدیق قول سے نہیں کرتا بلکہ فعل سے کرتا ہے کیونکہ جو حصہ انجیل کی تعلیم کا قرآن کے اندر شامل ہے اس پر قرآن نے عمل درآمد کروا کے دکھلا دیا ہے اور اسی لیے ہم اسی حصہ انجیل کی تصدیق کر سکتے ہیں جس کی قرآن کریم نے تصدیق کی ہمیں کیا معلوم کہ باقی کا رطب و یابس کہاں سے آیا ؟ ہاں ! اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر آیت : وَلَيَحْكُمُ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ میں جو لفظ انجیل عام ہے اس سے کیا مراد ہے، وہاں یہ بیان نہیں ہے کہ انجیل کا وہ حصہ جس کا مصدق قرآن ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں الانجیل سے مراد اصل انجیل اور توریت ہے جو قرآن کریم میں درج ہو چکیں.اگر یہ نہ مانا جاوے تو پھر بتلایا جاوے کہ اصلی انجیل کون سی ہے کیونکہ آج کل کی مروجہ اناجیل تو اصل ہو نہیں سکتیں ان کی اصلیت کس کو معلوم ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة المائدة اور یہ بھی خود عیسائی مانتے ہیں کہ اس کا فلاں حصہ الحاقی ہے.پھر ایک اور بات دیکھنے والی ہے کہ انجیل میں سے عیسی کی موت اور بعد کے حالات اور توریت میں موسیٰ کی موت کا حال درج ہے تو کیا اب ان کتابوں کا نزول دونوں نبیوں کی وفات کے بعد تک ہوتا رہا ؟ اس سے ثابت ہے کہ موجودہ کتب اصل کتب نہیں ہیں اور نہ اب ان کا میسر آنا ممکن ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخه ۲۸ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۵۰) وَاَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَمُهَيْمِنَّا عَلَيْهِ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا أَنْزَلَ اللهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُل جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِن * لِيَبُدُوكُم فِى مَا الكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُم فِيهِ تَخْتَلِفُونَ پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے تو خدا نے ان کی سہولت تعارف کے لیے ان کو قوموں پر منقسم کر دیا اور ہر ایک قوم کے لیے اس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے......لحلٍ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا....فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ......ہر ایک قوم کے لیے ہم نے ایک مشرب اور مذہب مقرر کیا تاہم مختلف فطرتوں کے جو ہر بذریعہ اپنی مختلف ہدایتوں کے ظاہر کر دیں.پس تم اے مسلمانو! تمام بھلائیوں کو دوڑ کر لو کیونکہ تم تمام قوموں کا مجموعہ ہو اور تمام فطرتیں تمہارے اندر ہیں.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۴۶) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءَ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھو کہ کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ ہر یک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجا لانا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے.نہایت سخت جاہل وہ شخص ہو گا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو.ہم بارہا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲ سورة المائدة لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اس کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہرگز ممکن نہیں.ہاں ! مومن کا فر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجالائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو، بھوکوں کو کھلا ؤ، غلاموں کو آزاد کرو، قرضداروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۴) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لايم - ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ۵۵ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اے ایمان لانے والو! اگر کوئی تم میں سے دینِ اسلام کو چھوڑ دے گا تو خدا اس کے عوض میں ایک ایسی قوم لائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے وہ مومنین کے آگے تذلیل کریں گے اور کافروں پر غالب اور بھاری ہوں گے یعنی خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ ہمیشہ یہ حال ہوتا رہے گا کہ اگر کوئی ناقص الفہم دین اسلام سے مرتد ہو جائے گا تو اس کے مرتد ہونے سے دین میں کچھ کی نہیں ہوگی بلکہ اس ایک شخص کے عوض میں خدا کئی وفادار بندوں کو دین اسلام میں داخل کرے گا کہ جو اخلاص سے اس پر ایمان لائیں گے اور خدا کے محب اور محبوب ٹھہریں گے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۳ حاشیه ۱۱) میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ( الحجر :۴۰) اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ مجدی کا استثنا بھی ان کے کلام میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگر چہ وہ بعض روگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہو سکتا.جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے.بٹالوی صاحب یا درکھیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳ سورة المائدة کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ ہیں لائے گا اور اس آیت پر غور کریں: فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ - آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۶، ۳۴۷) عبد الغفور نامی ایک شخص کے آریہ مذہب اختیار کرنے پر فرمایا کہ ) اس طرح کے ارتداد سے اسلام کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا.یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے کہ آیا اسلام ترقی کر رہا ہے یا تنزل.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بعض لوگ مرتد ہو جاتے تھے تو کیا ان سے اسلام کو نقصان پہنچتا تھا؟ ہر گز نہیں! بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ پہلو انجام کار اسلام کو ہی مفید پڑتا ہے اور اس طرح سے اہل اسلام کے ساتھ اختلاط کی ایک راہ کھلتی ہے اور جب خدا تعالیٰ نے ایک جماعت کی جماعت اسلام میں داخل کرنی ہوتی ہے تو ایسا ہوا کرتا ہے کہ اہل اسلام میں (سے) کچھ ادھر چلے جاویں خدا کے کام بڑے دقیق اور اسرار سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰۹) خدا تعالیٰ نے مومنوں کی صفت فرمائی ہے: لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لا پچھ کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی علامت سے نہیں خوف کھاتے اور صرف اپنے مولا کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیں.مومن ایک لا پروا انسان ہوتا ہے اسے صرف خدا کی رضا مندی کی حاجت ہوتی ہے اور اسی کی اطاعت کو وہ ہر دم مد نظر رکھتا ہے کیونکہ جب اس کا معاملہ خدا سے ہے تو پھر اسے کسی کی ضرر اور نفع کا کیا خوف ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۳) دیکھو جو امور سماوی ہوتے ہیں ان کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہیے اور کسی قسم کا خوف کرنا اہل حق کا قاعدہ نہیں صحابہ کرام کے طرز عمل پر نظر کرو وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ ان کا عقیدہ تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجھکے.جبھی تو لا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِ کے مصداق ہوئے.البدر جلدے نمبر ۹ مورخہ ۵ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۲) قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٌ مِنْ ذَلِكَ مَثْوَبَةً عِنْدَ اللهِ مَنْ لَعَنَهُ اللهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَا زِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَبِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَ أَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ.یہ ضرور نہیں کہ آنے والے کا نام در حقیقت عیسی ابن مریم ہی ہو بلکہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خدائے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة المائدة تعالیٰ کے نزدیک قطعی طور پر اس کا نام عیسی بن مریم ہے جیسے یہودیوں کے نام خدائے تعالیٰ نے بندر اور سور رکھے اور فرما دیا: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیر ایسا ہی اس نے اس امت کے مفسد طبع لوگوں کو یہودی ٹھہرا کر اس عاجزہ کا نام سیح ابن مریم رکھ دیا اور اپنے الہام میں فرما دیا : جَعَلْنَكَ الْسَبيحَ ابْنَ مَرْيَمَ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۹) خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کا رشتہ نہیں اور وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا.وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے.لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اس نے راہ مستقیم کو چھوڑ دیا سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا، نتیجہ کیا ہوا؟ وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ( البقرۃ : ۶۲) کی مصداق ہوئی خدا تعالی کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا یہاں تک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی ان کو خارج کیا گیا یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَ تَرى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ أَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِثْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ لَوْ لَا يَنْصُهُمُ الرَّنِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَ اللهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ) اور اکثر اہل کتاب کو تو دیکھے گا کہ گناہ کے کاموں کی طرف دوڑتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں، کیا ہی برے یہ کام اور بداعمالیاں ہیں کہ یہ لوگ کر رہے ہیں ان کے مشائخ اور علماء کیوں ان برے کاموں سے ان کو منع نہیں کرتے اور دیکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے اور جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں پھر بھی چپ رہتے ہیں پس یہ ان کے علماء بھی برے کام کر رہے ہیں کہ خاموش رہ کر ان کی بدی میں آپ بھی شریک ہیں.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۹) وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللهِ مَغْلُولَةٌ غُلَتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَهُ مَبْسُوطَتَنِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَ كَثِيرًا مِنْهُم مَّا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۵ سورة المائدة طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ كُلَّمَا أوقَدُوا نَارًا للحرب أطْفَاهَا اللهُ وَيَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ.(۶۵) یہود نے کہا کہ خدا کا ہاتھ باندھا ہوا ہے یعنی جو کچھ ہے انسان کی تدبیروں سے ہوتا ہے اور خدا اپنے قادرانہ تصرفات سے عاجز ہے سو خدا نے ہمیشہ کے لیے یہودیوں کے ہاتھ کو باندھ دیا ہے تا اگر ان کے فکر اور ان کی تدبیریں کچھ چیز ہیں تو ان کے زور سے دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں حاصل کر لیں.(براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۹ حاشیه ۱۱) ہمارے مخالف مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ آخری زمانہ میں ایک خونی مہدی ظاہر ہوگا اور وہ تمام عیسائیوں کو ہلاک کر دے گا اور زمین کو خون سے بھر دے گا اور جہاد ختم نہیں ہوگا جب تک وہ ظاہر نہ ہو اور اپنی تلوار سے ایک دنیا کو ہلاک نہ کرے یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو قرآن کے نص صريح : وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ سے مخالف اور منافی ہیں ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ ان باتوں پر ہرگز اعتقاد نہ رکھے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۲، ۲۲۳) یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے.جب یہودی نہ رہے اور سب ایمان لے آئے تو پھر بغض اور دشمنی کے لیے کون موقعہ اور محل رہا اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ ( المائدة : ۱۵) اس کے بھی یہی معنی ہیں جو او پر گزر چکے اور وہی اعتراض ہے جو اوپر بیان ہو چکا اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ (ال عمران :۵۶) اس جگہ کفروا سے مراد بھی یہود ہیں کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام محض یہودیوں کے لیے آئے تھے اور اس آیت میں وعدہ ہے کہ حضرت مسیح کو ماننے والے یہود پر قیامت تک غالب رہیں گے اب بتلاؤ کہ جب ان معنوں کے رو سے جو ہمارے مخالف آیت : إِنْ مِّنْ أَهْلِ الكتب ( النساء : ١٦٠) کے کرتے ہیں تمام یہودی حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے تو پھر یہ آیتیں کیوں کر صحیح ٹھہر سکتی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کی قیامت تک باہم دشمنی رہے گی اور نیز یہ کہ قیامت تک یہود ایسے فرقوں کے مغلوب رہیں گے جو حضرت مسیح کو صادق سمجھتے ہوں گے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة 99191 آيت : أَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (المائدة : ۱۵) اور آیت : الْقَيْنَا بَيْنَهُم الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ اور آیت وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ ( ال عمران : ۵۶) اور آیت : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ (الفاتحة: ۷۲).یہ تمام آیتیں بتلا رہی ہیں کہ قیامت تک اختلاف رہے گا.منعم علیہم بھی رہیں گے مغضوب علیہم بھی رہیں گے.ہاں ! ملل باطلہ دلیل کے رو سے ہلاک ہو جائیں گی.تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۲۰ حاشیه ) یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک عداوت رہے گی پس ظاہر ہے کہ اگر تمام یہود قیامت سے پہلے ہی حضرت عیسی پر ایمان لے آویں گے تو قیامت تک عداوت رکھنے والا کون رہے گا ؟ (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۶) ياَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ.میں ہیں.(۶۸) وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیرے قتل کرنے کی گھات برائین احمد یہ چہار خصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عصمت کے فکر میں خود لگتے تو وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کی آیت نہ نازل ہوتی.حفاظت الہی کا یہی البدر جلد نمبرے مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۳) ا سر ہے.خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے، آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ( البقرة : ۱۹۶) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخه ۱۶/دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۳)
۵۷ سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے اور قرآن شریف کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی ہے کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر زمان کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا.البدر جلد ۴ نمبر ۳۱ مورخه ۱۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے : وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دیئے، وطن سے نکالا ، دانت شہید کیا، انگلی کو زخمی کیا اور کئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے سو در حقیقت اس پیشگوئی میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خدا نے محفوظ رکھا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۱ حاشیه ) لکھا ہے کہ اول مرتبہ میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابی کو برعایت ظاہرا اپنی جان کی حفاظت کے لیے ہمراہ رکھا کرتے تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی : وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ یعنی خدا تجھ کولوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو رخصت کرد یا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں.الحکم جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۸۹۹ صفحه ۲) قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْرِيةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ اِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَيَزِيدَنَ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَ ، كفْرًاً فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (٢٩) اے پیغمبر! تو یہود اور نصاریٰ کو کہہ دے کہ جب تک تم توریت اور انجیل کے احکام پر نہ چلو اور ایسا ہی ان دوسری تمام کتابوں پر قائم نہ ہو جاؤ جو خدا کی طرف تمہیں دی گئی ہیں تب تک تمہارا کچھ بھی مذہب نہیں محض لا مذہب ہو کر اپنے نفسوں کی پیروی کر رہے ہو.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عرب کے یہود اور عیسائی ایسے بگڑ گئے تھے اور اس درجہ پر وہ بد چلن ہو گئے تھے کہ جو کچھ خدا نے ان کی کتابوں میں حرام کیا تھا یعنی یہ کہ چوری نہ کریں، لوگوں کا ناحق مال نہ کھاویں، ناحق کا خون نہ کریں، جھوٹی گواہی نہ دیں، خدا کے ساتھ کسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸ سورة المائدة کو شریک نہ کریں یہ تمام نا جائز کام ایسی دلی رغبت سے کرتے تھے کہ گویا ان برے کاموں کو انہوں نے اپنا مذہب قرار دے دیا تھا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۹) اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصُّبِحُونَ وَالنَّصْرِى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امر جو عبد الحکیم خان کی ضلالت کا باعث ہوا ہے جس کی وجہ سے اُس کو یہ خیال گزرا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں وہ قرآن شریف کی ایک آیت کی غلط فہمی ہے جو باعث کمی علم اور کمی تدبیر کے اُس سے ظہور میں آئی اور وہ آیت یہ ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَالبِيْنَ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ ربهم " وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : (۶۳) ( ترجمہ ) یعنی جو لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور جولوگ یہود و نصاری اور ستارہ پرست ہیں جو شخص اُن میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور اعمال صالحہ بجالائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور ایسے لوگوں کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کو کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ نظم.یہ آیت ہے جس سے بباعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں.نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے نفس اتارہ کے پیرو ہو کر محکمات اور بینات قرآنی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام سے خارج ہونے کے لئے متشابہات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں.اُن کو یادر ہے کہ اس آیت سے وہ کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا اس بات کو مستلزم پڑا ہوا ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا جائے.وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اللہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھے دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے اور یوم آخر قرآن شریف کی رُو سے یہ ہے جس میں مردے جی اُٹھیں گے اور پھر ایک فریق بہشت میں داخل کیا جائے گا جو جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے اور ایک فریق دوزخ میں داخل کیا جاوے گا جو روحانی اور جسمانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ سورة المائدة عذاب کی جگہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس یوم آخر پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں.پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود لفظ اللہ اور یوم آخر کے تصریح ایسے معنی کر دیئے جو اسلام سے مخصوص ہیں تو جو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور یوم آخر پر ایمان لائے گا.اُس کے لئے یہ لازمی امر ہوگا کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ ان معنوں کو بدل ڈالے اور ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنی ایجاد کریں کہ جو قرآن شریف کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں.ہم نے اول سے آخر تک قرآن شریف کو غور سے دیکھا ہے اور توجہ سے دیکھا اور بار بار دیکھا اور اس کے معانی میں خوب تدبر کیا ہے ہمیں بدیہی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ہے مثلاً کہا گیا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ) ( الفاتحة :۲، ۳).ایسا ہی اس قسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن اتارا.اللہ وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.پس جبکہ قرآنی اصطلاح میں اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاوے تبھی اُس کا ایمان معتبر اور صحیح سمجھا جائے گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ من أمن بالرحمن يامن أمن بالرحيم يا من أمن بالكريم بلکہ یہ فرما یا کہ من آمن باللہ اور اللہ سے مراد وہ ذات ہے جو مجمع جمیع صفات کا ملہ ہے اور ایک عظیم الشان صفت اُس کی یہ ہے کہ اُس نے قرآن شریف کو اُتارا.اس صورت میں ہم صرف ایسے شخص کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لا یا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا ہو اور قرآن شریف پر بھی ایمان لایا ہو.اگر کوئی کہے کہ پھر ان الذین امنوا کے کیا معنی ہوئے تو یا در ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُن کا ایمان معتبر نہیں ہے.جب تک خدا کے رسول پر ایمان نہ لاویں یا جب تک اُس ایمان کو کامل نہ کریں.اس بات کو یا درکھنا چاہئیے کہ قرآن شریف میں اختلاف نہیں ہے.پس یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ صد ہا آیتوں میں تو خدا تعالیٰ یہ فرما دے کہ صرف توحید کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے نبی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے بجز اس صورت کے کہ کوئی اس نبی سے بیخبر رہا ہو اور پھر کسی ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰ سورة المائدة آیت میں بر خلاف اس کے یہ بتلاوے کہ صرف توحید سے ہی نجات ہو سکتی ہے.قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں اور طرفہ یہ کہ اس آیت میں توحید کا ذکر بھی نہیں.اگر تو حید مراد ہوتی تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ مَنْ آمَنَ بِالتَّوْحِيدِ.مگر آیت کا تو یہ لفظ ہے کہ مَنْ آمَنَ باللہ.پس امن باللہ کا فقرہ ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قرآن شریف میں اللہ کا لفظ کن معنوں پر آتا ہے.ہماری دیانت کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ جب ہمیں خود قرآن سے ہی یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن بھیجا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہم اُسی معنی کو قبول کر لیں جو قرآن شریف نے بیان کئے اور خودروی اختیار نہ کریں.ماسوا اس کے ہم بیان کر چکے ہیں کہ نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالی کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لئے بھی کمر بستہ ہو جائے اور اس کی رضا مندی کی راہوں کو شناخت کرے.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے یہ دونوں باتیں محض خدا تعالی کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں پھر کس قدر یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص تو حید تو رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا.اے عقل کے اندھے اور نادان! توحید بجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہو سکتی ہے.اس کی تو ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص روز روشن سے تو نفرت کرے اور اُس سے بھاگے اور پھر کہے کہ میرے لئے آفتاب ہی کافی ہے دن کی کیا حاجت ہے.وہ نادان نہیں جانتا کہ کیا آفتاب کبھی دن سے علیحدہ بھی ہوتا ہے.ہائے افسوس! یہ نادان نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام : ۱۰۴ ) - یعنی بصارتیں اور بصیر تیں اس کو پانہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے.پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی جوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے.ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور اُن کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہوسکتی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱ سورة المائدة اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیوں کر موحد کہلا سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے جابجا توحید کامل کو پیروی رسول سے وابستہ کیا ہے.کیونکہ کامل توحید ایک نئی زندگی ہے اور بجز اُس کے نجات حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا کے رسول کا پیرو ہو کر اپنی سفلی زندگی پر موت وارد نہ کرے.علاوہ اس کے قرآن شریف میں بموجب قول ان نادانوں کے تناقض لازم آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو جابجاوہ یہ فرماتا ہے کہ بجز ذریعۂ رسول توحید حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ نجات حاصل ہو سکتی ہے.پھر دوسری طرف گویا وہ یہ کہتا ہے کہ حاصل ہو سکتی ہے حالانکہ توحید اور نجات کا آفتاب اور اُس کو ظاہر کرنے والا صرف رسول ہی ہوتا ہے اُسی کی روشنی سے توحید ظاہر ہوتی ہے پس ایسا تناقض خدا کی کلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.بڑی غلطی اس نادان کی یہ ہے کہ اُس نے توحید کی حقیقت کو بالکل نہیں سمجھا تو حید ایک نور ہے جو آفاقی وانفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے؟ انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اور اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اُس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا.اخیر پر ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہم فرض محال کے طور پر یہ مان لیں کہ اللہ کا لفظ ایک عام معنوں پر مشتمل ہے جس کا ترجمہ خدا ہے اور ان معنوں کو نظر انداز کر دیں جو قرآن شریف پر نظر تد بر ڈال کر معلوم ہوتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ وہ وہ ذات ہے جس نے قرآن شریف بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.تب بھی یہ آیت مخالف کو مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو مانا نجات کے لئے کافی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر جو خدا تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اور متجمع جمیع صفات کاملہ حضرت عزت ہے ایمان لائے گا تو خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور کشاں کشاں اس کو اسلام کی طرف لے آئے گا کیونکہ ایک سچائی دوسری سچائی میں داخل ہونے کے لئے مدد دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لانے والے آخر حق کو پالیتے ہیں.پر قرآن شریف میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص بچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور حق اُس پر کھول دے گا اور راہ راست اُس کو دکھائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۶۲ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت :۷۰) پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالٰی پر ایمان لانے والا ضائع نہیں کیا جاتا آخر اللہ تعالیٰ پوری ہدایت اُس کو کر دیتا ہے چنانچہ صوفیوں نے صدہا مثالیں اس کی لکھی ہیں کہ بعض غیر قوم کے لوگ جب کمال اخلاص سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ میں مشغول ہوئے تو خدا تعالیٰ نے اُن کو اُن کے اخلاص کا یہ بدلہ دیا کہ اُن کی آنکھیں کھول دیں اور خاص اپنی دستگیری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اُن پر ظاہر کر دی.یہی معنی اس آیت کے آخری فقرہ کے ہیں فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ خدا تعالیٰ کا اجر جب تک دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا آخرت میں بھی ظاہر نہیں ہوتا.پس دنیا میں خدا پر ایمان لانے کا یہ اجر ملتا ہے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ پوری ہدایت بخشتا ہے اور ضائع نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے.وَ اِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَلَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ( النساء :۱۲۰) یعنی وہ لوگ جو در حقیقت اہل کتاب ہیں اور سچے دل سے خدا پر اور اُس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار اس نبی پر ایمان لے آئیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہاں خبیث آدمی جن کو اہل کتاب نہیں کہنا چاہئیے وہ ایمان نہیں لاتے.ایسا ہی سوانح اسلام میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کریم ورحیم ہے اگر کوئی ایک ذرہ بھی نیکی کرے تب بھی اُس کی جزا میں اسلام میں اُس کو داخل کر دیتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے کفر کی حالت میں محض خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے بہت کچھ مال مساکین کو دیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھ کو ہو گا.تو آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات ہیں جو تجھ کو اسلام کی طرف کھینچ لائے.پس اسی طرح جو شخص کسی غیر مذہب میں خدا تعالی کو واحد لاشریک جانتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے تو خدا تعالى بموجب آیت : فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِند ربهم آخر اس کو اسلام میں داخل کر دیتا ہے.یہی معاملہ باوانا تک کو پیش آیا.جب اُس نے بڑے اخلاص سے بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ سے محبت کی تو وہی خدا جس نے آیت ممدوحہ بالا میں فرمایا ہے : فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ا اُس پر ظاہر ہوا اور اپنے الہام سے اسلام کی طرف اُس کو رہبری کی تب وہ مسلمان ہو گیا اور حج بھی کیا.اور کتاب بحر الجواہر میں لکھا ہے کہ ابوالخیر نام ایک یہودی تھا جو پار ساطبع اور راستباز آدمی تھا اور خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک جانتا تھا.ایک دفعہ وہ بازار میں چلا جاتا تھا تو ایک مسجد سے اُس کو آواز آئی کہ ایک لڑکا قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہا تھا:
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة المائدة الم ٥ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُترَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ( العنكبوت : ٢ ، ٣) یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ یونہی وہ نجات پا جاویں گے صرف اس کلمہ سے کہ ہم ایمان لائے اور ابھی خدا کی راہ میں اُن کا امتحان نہیں کیا گیا کہ کیا ان میں ایمان لانے والوں کی سی استقامت اور صدق اور وفا بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس آیت نے ابوالخیر کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس کے دل کو گداز کر دیا.تب وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوکر زار زار رو یا.رات کو حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی خواب میں آئے اور فرما باتيا أبا الخير انجبَنِي أَنَّ مِثْلِكَ مَعَ كَمَالٍ فَضْلِكَ يُنْكِرُ بِنَبوّتی.یعنی اے ابوالخیر ا مجھے تعجب آیا کہ تیرے جیسا انسان با وجود اپنے کمال فضل اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے.پس صبح ہوتے ہی ابوالخیر مسلمان ہو گیا اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا.خلاصہ یہ کہ میں اس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لاشریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نا بینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا (بنی اسرائیل: ۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اس سے بھی بدتر.یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا.خدا کے چہرے کا آئینہ اس کے رسول ہیں.ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے.پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا.یہ عجیب نجات ہے! اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے پہلے اُس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اُس کو علم عطا کرتا ہے.صدہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمت ہے اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے اور جو شخص اُس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اُس کی طرف دوڑتا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے.پھر کیوں کر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اُس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہ لاشریک سمجھا اور اُس سے محبت کی اور اس کے اولیاء میں داخل ہوا.پھر خدا نے اُس کو نا بینار کھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا.اسی کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ سورة المائدة مؤید یہ حدیث ہے کہ مَنْ مَّاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ إِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةُ الْجَاهِلِيَّةِ يعنى جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراط مستقیم سے بے نصیب رہا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۴ تا ۱۵۱) مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولُ : قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَ أمه صِدِيقَةٌ كَانَا يَأْكُلِنِ الطَّعَامَ انْظُرُ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَتِ ثُمَّ انْظُرُ الى ، يُؤْفَكُونَ یعنی مسیح صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے نبی فوت ہو چکے ہیں اور ماں اس کی صدیقہ ہے جب وہ دونوں زندہ تھے تو طعام کھایا کرتے تھے.یہ آیت بھی صریح نص حضرت مسیح کی موت پر ہے کیونکہ اس آیت میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب حضرت عیسیٰ اور اُن کی والدہ مریم طعام نہیں کھاتے.ہاں ! کسی زمانہ میں کھایا کرتے تھے جیسا کہ گانا کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے جو حال کو چھوڑ کر گذشتہ زمانہ کی خبر دیتا ہے.اب ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مریم طعام کھانے سے اس وجہ سے روکی گئی کہ وہ فوت ہوگئی اور چونکہ گانا کے لفظ میں جو تثنیہ کا صیغہ ہے حضرت عیسی بھی حضرت مریم کے ساتھ شامل ہیں اور دونوں ایک ہی حکم کے نیچے داخل ہیں لہذا حضرت مریم کی موت کے ساتھ اُن کی موت بھی ماننی پڑی کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں ہرگز یہ بیان نہیں کیا گیا کہ حضرت مریم تو بوجہ موت طعام کھانے سے روکے گئے لیکن حضرت ابن مریم کسی اور وجہ سے، اور جب ہم اس آیت مذکورہ بالا کو اس دوسری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھیں کہ مَا جَعَلْتُهُم جَسَدًا الا يَأْكُلُونَ الطَّعَام (الانبیاء :۹۰) جس کے یہ معنے ہیں کہ کوئی ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا کہ زندہ تو ہومگر کھانا نہ کھا تا ہو.تو اس یقینی اور قطعی نتیجہ تک ہم پہنچ جائیں گے کہ فی الواقعہ حضرت مسیح فوت ہو گئے کیونکہ پہلی آیت سے ثابت ہو گیا کہ اب وہ کھانا نہیں کھاتے اور دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ جب تک یہ جسم خاکی زندہ ہے طعام کھانا اس کے لئے ضروری ہے.اس سے قطعی طور پر یہی نتیجہ لکھتا ہے کہ اب وہ زندہ نہیں ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۶،۴۲۵) مخلوق کی شناخت کی بڑی علامت یہی ہے کہ بعض بعض سے مشارکت و مشابہت رکھتے ہیں اور کوئی فرد کوئی ایسی ذاتی خاصیت اور خصوصیت نہیں رکھتا جو دوسرے کسی فرد کو اس سے حصہ نہ ہو خواہ اصلا یا ظلاً تو
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پھر اگر اس صورت میں ہم کوئی ایسا فرد افراد بشریہ سے تسلیم کرلیں جو اپنی بعض صفات یا افعال میں دوسروں سے بکلی ممتاز اور لوازم بشریت سے بڑھ کر ہے اور خدا تعالیٰ کی طرح اپنے اس فعل یا صفت میں یگانگت رکھتا ہے تو گویا ہم نے خدا تعالیٰ کی صفت وحدانیت میں ایک شریک قرار دیا.یہ ایک دقیق راز ہے اس کو خوب سوچو.خدا تعالیٰ نے جو اپنی کلام میں کئی دفعہ حضرت مسیح کی وفات کا ذکر کیا ہے یہاں تک کہ ان کی والدہ مریم صدیقہ کے ساتھ جو باتفاق فوت شدہ ہے ان کے ذکر کو ملا کر بیان کیا کہ گانا یا كُنِ الطَّعَام کہ وہ دونوں جب زندہ تھے طعام کھایا کرتے تھے اس تاکید کی یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے علم قدیم سے خوب جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں لوگ بباعث خیال حیات مسیح سخت فتنہ میں پڑیں گے اور وہ فتنہ اسلام کیلئے سخت مضر ہو گا اس لئے اس نے پہلے ہی سے فیصلہ کر دیا اور بخوبی ظاہر کر دیا کہ میں فوت ہو گیا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۵) حضرت مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں اور یہ کلمہ کہ اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں.یہ قیاس استقرائی کے طور پر ایک استدلال لطیف ہے کیونکہ قیاسات کے جمیع اقسام میں سے استقراء کا مرتبہ وہ اعلیٰ شان کا مرتبہ ہے کہ اگر یقینی اور قطعی مرتبہ سے اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو دین و دنیا کا تمام سلسلہ بگڑ جاتا ہے.اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حصہ کثیرہ دنیا کا اور ازمنہ گذشتہ کے واقعات کا ثبوت اسی استقراء کے ذریعہ سے ہوا ہے مثلاً ہم جو اس وقت کہتے ہیں کہ انسان منہ سے کھاتا اور آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا اور ناک سے سونگھتا اور زبان سے بولتا ہے اگر کوئی شخص کوئی مقدس کتاب پیش کرے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ واقعات زمانہ گذشتہ کے متعلق نہیں ہیں بلکہ پہلے زمانہ میں انسان آنکھوں کے ساتھ کھایا کرتا تھا اور کانوں کے ذریعہ سے بولتا تھا اور ناک کے ذریعہ سے دیکھتا تھا ایسا ہی اور باتوں کو بھی بدل دے یا مثلا یہ کہے کہ کسی زمانہ میں انسان کی آنکھیں دو نہیں ہوتی تھیں بلکہ میں ہوتی تھیں.دس تو سامنے چہرہ میں اور دس پشت پر لگی ہوئی تھیں تو اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ گو فرض کے طور پر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ ان عجیب تحریروں کا لکھنے والا کوئی مقدس اور راستباز آدمی تھا.مگر ہم اس یقینی نتیجہ سے کہاں اور کدھر گریز کر سکتے ہیں جو قیاس استقرائی سے پیدا ہوا ہے.میری رائے میں ایسا بزرگ اگر نہ صرف ایک بلکہ کروڑ سے بھی زیادہ اور قیاس استقرائی سے نتائج قطعیہ یقینیہ کو توڑنا چاہیں تو ہر گز ٹوٹ نہیں سکیں گے بلکہ اگر ہم منصف ہوں اور حق پسندی ہمارا شیوہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۶ سورة المائدة ہو تو اس حالت میں کہ اس بزرگ کو ہم در حقیقت ایک بزرگ سمجھتے ہیں اور اس کے الفاظ میں ایسے ایسے کلمات خلاف حقائق مشهوده محسوسہ کے پاتے ہیں تو ہم اُس کی بزرگی کی خاطر سے صرف عن النظاھر کریں گے اور ایسی تاویل کریں گے جس سے اس بزرگ کی عزت قائم رہ جاوے.ورنہ یہ تو ہر گز نہ ہو گا کہ جو حقائق استقراء کے یقینی اور قطعی ذریعہ سے ثابت ہو چکے ہیں وہ ایک روایت دیکھ کر ٹال دیئے جاویں.اگر ایسا کسی کا خیال ہو تو یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ استقراء مثبتہ موجودہ قطعیہ یقینیہ کے برخلاف اس روایت کی تائید اور تصدیق میں کوئی امر پیش کر دیوے مثلاً جو شخص اس بات پر بحث کرتا اور لڑتا جھگڑتا ہے کہ صاحب ضرور پہلے زمانہ میں لوگ زبان کے ساتھ دیکھتے اور ناک کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے تو اس کا ثبوت پیش کرے اور جب تک ایسا ثبوت پیش نہ کرے تب تک ایک مہذب معظمند کی شان سے بہت بعید ہے کہ ان تحریرات پر بھروسہ کر کے کہ جن کے بصورت صحت بھی نہیں ہیں معنے ہو سکتے ہیں وہ معنی اختیار کرے جو حقائق ثابت شدہ سے بالکل مغائر اور منافی پڑے ہوئے ہیں مثلاً اگر ایک ڈاکٹر ہی سے اس بات کا تذکرہ ہو کہ سم الفار اور وہ زہر جو تلخ بادام سے تیار کیا جاتا ہے اور بیش یہ تمام زہریں نہیں ہیں.اور اگر ان کو دو دوسیر کے قدر بھی انسان کے بچوں کو کھلایا جاوے تو کچھ ہرج نہیں.اور اس کا ثبوت یہ دیوے کہ فلاں مقدس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے اور راوی معتبر ہے تو کیا وہ ڈاکٹر صاحب اس مقدس کتاب کا لحاظ کر کے ایک ایسے امر کو چھوڑ دیں گے جو قیاس استقرائی سے ثابت ہو چکا ہے.غرض جب کہ قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے تو اسی جہت سے اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو ہی پیش کیا.اور فرمایا : قد خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام بیشک نبی تھے اور اللہ جل شانہ کے پیارے رسول تھے مگر وہ انسان تھے.تم نظر اٹھا کر دیکھو کہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام الہی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پا کر دنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی اللہ تعالی کا بیٹا بھی آیا ہے؟ اور خلت کا لفظ اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کے لئے وفا کر سکتی ہے اور گذشتہ لوگوں کا حال معلوم کر سکتے ہو خوب سوچو اور سمجھوکہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے.کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہو جس سے ثابت ہو سکے کہ یہ امر ممکنات میں سے ہے، پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا ہی آیا ہے؟ سوشمند آدمی اس جگہ ذرہ ٹھہر کر اور اللہ جل شانہ کا خوف کر کے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کی نظیر بھی بھی کسی زمانہ میں پائی جاوے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۷ سورة المائدة ہاں ! اگر بائبل کے وہ تمام انبیاء اور صلحاء جن کی نسبت بائبل میں بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ خدا تعالی کے بیٹے تھے یا خدا تھے حقیقی معنوں پر حمل کر لئے جاویں تو بیشک اس صورت میں ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے بلکہ بیٹے کیا بھی بھی بیٹیاں بھی.اور بظاہر یہ دلیل تو عمدہ معلوم ہوتی ہے اگر حضرات عیسائی صاحبان اس کو پسند فرماویں اور کوئی اس کو تو ڑ بھی نہیں سکتا کیونکہ حقیقی غیر حقیقی کا تو وہاں کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ بعض کو تو پہلوٹا ہی لکھ دیا.ہاں! اس صورت میں بیٹوں کی میزان بہت بڑھ جائے گی.غرض کہ اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے ابطال الوہیت کے لئے بھی دلیل استقرائی پیش کی ہے.پھر بعد اس کے ایک اور دلیل پیش کرتا ہے : وَاُمه صدیقه یعنی والدہ حضرت مسیح کی راستباز تھی.یہ تو ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اللہ جل شانہ کا حقیقی بیٹا فرض کر لیا جاوے تو پھر یہ ضروری امر ہے کہ وہ دوسروں کی طرح ایسی والدہ کے اپنے تولد میں محتاج نہ ہوں جو باتفاق فریقین انسان تھی کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر اور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جل شانہ کا اسی طرح پر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نوع کے موافق ہوا کرتی ہے مثلاً دیکھو کہ جس قدر جانور ہیں مثلاً انسان اور گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرندہ وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو جاوے یا پرند کسی انسان کے پیٹ سے نکلے.پھر ایک تیسری دلیل یہ پیش کی ہے: كَانَا يَا كُلن الطَّعَامَ یعنی وہ دونوں حضرت مسیح اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے.اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانے کا محتاج ہے.اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سالسام تحلیل کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقات قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پا کر معدوم ہو جاتا ہے اور دوسرا بدن بدل ما يتحلل ہو جاتا ہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کا بھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پر اپنا اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے جیسے اگر روح کو یکدفعہ کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آثار یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے اور کبھی جسم کے آثار بننے رونے کے روح پر پڑتے ہیں اب جب کہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے یہ بعید ہو گا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اڑ تار ہے اور تین چار برس کے بعد اور جسم آوے ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہونا بالکل اس مفہوم کے مخالف ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں مسلم ہے.اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ان حاجتمندیوں سے بری نہیں تھے جو تمام انسان کو لگی ہوئی ہیں.پھر یہ ایک عمدہ دلیل اس بات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة المائدة کی ہے کہ وہ با وجودان در دوں اور دکھوں کے خدا ہی تھے یا ابن اللہ تھے اور درد ہم نے اس لئے کہا کہ بھوک بھی ایک قسم درد کی ہے اور اگر زیادہ ہو جائے تو موت تک نوبت پہنچاتی ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۹ تا ۹۳) عیسی مسیح ایک رسول ہے.پہلے اُس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں اور ماں اس کی ایک عورت راستباز تھی اور دونوں جب زندہ تھے روٹی کھایا کرتے تھے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی کا ابطال کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ پہلے اس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں اور پھر باوجود اس کے یہ خیال کہ مسیح زندہ آسمان پر بیٹھا ہے باطل ہے.پس کس طرح اس دلیل سے اس کی خدائی ثابت کی جاتی ہے کیونکہ یہ دلیل ہی فاسد ہے بلکہ حق یہ ہے کہ موت نے کسی کو نہیں چھوڑ ا سب مر گئے.دوسری دلیل اس کی عبودیت پر یہ ہے کہ اس کی ماں تھی جس سے وہ پیدا ہوا اور خدا کی کوئی ماں نہیں.تیسری دلیل اس کی عبودیت پر یہ ہے کہ جب وہ اور اس کی ماں زندہ تھے دونوں روٹی کھایا کرتے تھے اور خدا روٹی کھانے سے پاک ہے.یعنی روٹی بدل ما يتخلل ہوتی ہے اور خدا اس سے بلند تر ہے کہ اس میں تحلیل پانے کی صفت ہو.مگر مسیح روٹی کھاتا رہتا تھا.پس اگر وہ خدا ہے تو کیا خدا کا وجود بھی تحلیل پاتارہتا ہے؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طبعی تحقیقات کی رو سے انسان کا بدن تین برس تک بالکل بدل جاتا ہے اور پہلے اجزاء تحلیل ہو کر دوسرے اجزاء ان کے قائم مقام پیدا ہو جاتے ہیں مگر خدا میں یہ نقص ہر گز نہیں.یہ دلیل ہے جس کو خدا تعالیٰ حضرت عیسی کے انسان ہونے پر لایا ہے.مگر افسوس ان لوگوں پر کہ جو حضرت عیسی کو آسمان پر پہنچا کر پھر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اُن کے وجود میں انسانوں کی طرح یہ خاصیت نہیں کہ سلسلہ تحلیل کا ان میں جاری رہے اور بغیر اس کے جو بذریعہ غذا بدل ما تقلل اُن کو ملتا ہو اُن کا وجو دفتا سے بچا ہوا ہو گا اس طرح پر وہ خدا کی اس برہان اور دلیل کو توڑنا چاہتے ہیں جو آیت ممدوحہ بالا میں اس نے قائم کی ہے.یعنی خدا تو حضرت عیسی علیہ السلام کے انسان ہونے کی یہ دلیل دیتا ہے کہ اور انسانوں کی طرح وہ بھی محتاج غذا تھا اور بغیر غذا کے اس کا بدن قائم نہیں رہ سکتا تھا بلکہ بدل ما تقلل کی ضرورت تھی.لیکن یہ لوگ جو حضرت عیسی کو مع جسم عنصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا وجود بغیر غذا کے قائم رہ سکتا ہے تو گو یاوہ بر خلاف منشاء اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسی کی خدائی کی ایک دلیل پیش کرتے ہیں.شرم کی جگہ ہے کہ جس دلیل کو خدا نے اس غرض سے پیش کیا ہے کہ تا حضرت عیسی کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة المائدة انسانیت ثابت ہو یہ لوگ اُس دلیل کی بے عزتی کرتے ہیں.کیونکہ جس بات سے خدا تعالی انکار کرتا ہے کہ وہ بات میسیج میں موجود نہیں تا اس کو خد ا ٹھہرایا جائے یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بات اُس میں موجود ہے.پس یہ خدا کی اس حجت کاملہ کی بے عزتی ہے جو حضرت عیسی کے انسان ہونے کے لئے وہ پیش کرتا ہے.اگر یہ بات سچ ہے کہ حضرت عیسی با وجود جسم عنصری کے روٹی کھانے کے محتاج نہیں اور ان کا بدن خدا کے وجود کی طرح خود بخود قائم رہ سکتا ہے تو یہ تو اُن کی خدائی کی ایک دلیل ہے جو قدیم سے عیسائی پیش کیا کرتے ہیں اور اس کے جواب میں یہ کہنا کافی نہیں کہ زمین پر تو وہ روٹی کھایا کرتے تھے گو وہ آسمان پر نہیں کھاتے کیونکہ مخالف کہہ سکتا ہے کہ زمین پر وہ محض اپنے اختیار سے کھاتے تھے انسانوں کی طرح روٹی کے محتاج نہ تھے اور اگر محتاج ہوتے تو آسمان پر بھی ضرور محتاج ہوتے.مجھے بار بار اس قوم پر افسوس آتا ہے کہ خدا تو حضرت مسیح کا روٹی کھانا ان کی انسانیت پر دلیل لاوے اور یہ لوگ اعتقاد رکھیں کہ گو حضرت مسیح نے زمین پر تیس ۳۰ برس تک روٹی کھائی مگر آسمان پر اُنیس ۱۹۰۰ سو برس سے بغیر روٹی کھانے کے جیتے ہیں.(برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۲، ۳۹۳) مریم علیہا السلام کو صدیقہ کہا گیا اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اور عور تیں صدیقہ نہ تھیں یہ بھی اسی لیے کہا کہ یہودی ان پر تہمت لگاتے تھے تو قرآن نے اس تہمت کو دور کیا.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۵۷) حضرت مسیح کی ماں کی نسبت جو صدیقہ کا لفظ آیا ہے یہ بھی دراصل رفع الزام ہی کے لیے آیا ہے یہودی جو معاذ اللہ ! ان کو فاسقہ فاجر پھہراتے تھے قرآن شریف نے صدیقہ کہہ کر ان کے الزاموں کو دور کیا ہے کہ وہ صدیقہ تھیں.اس سے کوئی خصوصیت اور فخر ثابت نہیں ہوتا اور نہ عیسائی کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ ان کو تو یہ امور پیش بھی نہیں کرنے چاہئیں.القام جلدے نمبر ۱۶ مورخہ ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) حضرت مسیح اور ان کی ماں مریم پر یہود کا اعتراض تھا.مسیح کو وہ لوگ ناجائز ولادت کا الزام لگاتے اور مریم کو زانیہ کہتے تھے.قرآن شریف کا کام ہے کہ انبیاء پر سے اعتراضات کو رفع کرے اس لیے اس نے مریم کے حق میں زانیہ کی بجائے صدیقہ کا لفظ رکھا اور مسیح کو من شیطان سے پاک کہا اگر ایک محلہ میں صرف ایک عورت کا تبر یہ کیا جاوے اور اس کی نسبت کہا جاوے کہ وہ بد کار نہیں ہے تو اس سے یہ التزام لازم نہیں آتا کہ باقی کی سب ضرور بدکار ہیں صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس پر جو الزام ہے وہ غلط ہے یا اگر ایک آدمی کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة کہا جاوے کہ وہ بھلا مانس ہے تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہوتے کہ باقی کے سب لوگ بھلے مانس نہیں بلکہ بدکار ہیں اسی طرح یہ ایک مقدمہ تھا کہ مسیح اور اس کی ماں پر الزام لگائے گئے تھے خدا نے شہادت دی کہ وہ الزاموں سے بری اور پاک ہیں کیا عدالت اگر ایک ملزم کو قتل کے مقدمہ میں بری کر دے تو اس سے یہ لازم آوے گا کہ باقی کے سب لوگ اس شہر کے ضرور قاتل اور خونخوار ہیں.غرضیکہ اس قسم کی بدعات اور فساد پھیلے ہوئے تھے جن کے دور کرنے کے لیے خدا نے ہمیں مبعوث کیا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۴) پھر اور ایک آیت حضرت عیسی کی موت پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ گانا یا ممن الطعام یعنی حضرت مسیح اور حضرت مریم جب زندہ تھے تو روٹی کھایا کرتے تھے.اب ظاہر ہے کہ اگر ترک طعام کی دو وجہیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر علیحدہ علیحدہ کر دیتا کہ مریم تو بوجہ فوت ہونے کے طعام سے مہجور ہوگئی اور عیسی کسی اور وجہ سے کھانا چھوڑ بیٹھا بلکہ دونوں کو ایک ہی آیت میں شامل کرنا اتحاد امر واقعہ پر دلیل ہے تا معلوم ہو کہ دونوں مر گئے.تحقه گوار و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱) لَتَجِدَنَ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ اشْرَكُوا وَ لَتَجِدَنَ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصْرى - ذلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمُ قِسيْسِينَ وَرُهْبَانًا وَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۸۳ سب فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ تر رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض بعض اہل علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے.(براہین احمدیہ چہار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۷) وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُوْلِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّفْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ اور جب خدا کے کلام کو جو اس کے رسول پر نازل ہو ا سنتے ہیں تب تو دیکھتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقانیت کلام الہی کو پہچان جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو ان لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں.(براہین احمدیہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۷۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے سورة المائدة پانی کا لحاظ تو ہر ایک نے رکھا ہے، ان لوگوں نے تالاب وغیرہ رکھا ہے اور قرآن نے گریہ و بکا کا پانی رکھا ہے.وہ ظاہر پر گئے ہیں اور قرآن شریف حقیقت پر گیا ہے جیسے تَرَأَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّفْع - البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳) وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ أَنْ يُدخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّلِحِينَ (۸۵) اور کیوں ہم خدا اور خدا کے بچے کلام پر ایمان نہ لاویں حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکو کار ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۷۷) و لا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِى اَيْمَانِكُمْ وَلكِنْ يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَد تُم الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتْهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسْكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةٌ اَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ b وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ یعنی جب تم قسم کھاؤ تو جھوٹ اور بدعہدی اور بد نیتی سے اپنی قسم کو بچاؤ.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۲۵ حاشیه ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) شراب اور قمار بازی اور بت پرستی اور شگون لینا یہ سب پلید اور شیطانی کام ہیں ان سے بچو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) جب انسان تعصب اور فاسقانہ زندگی سے اندھا ہو جاتا ہے تو اسے حق اور باطل میں فرق نظر نہیں آتا ہر ایک حلال کو حرام اور ہر ایک حرام کو حلال سمجھتا ہے اور نیکی کے ترک کرنے میں ذرا دریغ نہیں کرتا شراب جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۲ سورة المائدة ام الخبائث ہے عیسائیوں میں حلال سمجھی جاتی ہے مگر ہماری شریعت میں اس کو قطعاً منع کیا گیا ہے اور اس کو رِجْسٌ مِنْ عَمَل الشیطن کہا گیا ہے.کیا کوئی پادری ہے جو یہ دکھا دے کہ انجیل میں حرمت شراب کی لکھی ہے بلکہ شراب ایسی متبرک خیال کی گئی ہے کہ پہلا معجزہ مسیح کا شراب کا ہی تھا تو پھر دلیری کیوں نہ ہو.جو بڑا پر ہیز گاران میں ہو گا وہ کم از کم ایک بوتل برانڈی کی ضرور استعمال کرتا ہو گا چنانچہ کثرت شراب نے ولایت میں آئے دن نئے نئے جرائم کو ایجاد کر دیا ہے.....قمار بازی میں اتلاف حقوق ہوتا ہے شراب نوشی کے ساتھ دوسرے گناہ مثل زنا قتل وغیرہ لازمی پڑے ہوئے ہیں.جہاں تک ہمیں مجرموں کے حالات سے شہادت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ شراب سے زنا ترقی کرتا ہے چنانچہ شراب نوشی میں اس وقت یورپ اول درجہ پر ہے اور زنا میں بھی اول نمبر پر.الحام جلدے نمبر ۲۲ مورخه ۷ ارجون ۱۹۰۳ صفحه ۱۷) 9991 يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُوكُمْ ۚ وَإِن تَسْتَلُوا وو عَنْهَا حِيْنَ يُنَزِّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللهُ عَنْهَا ۖ وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ جو امر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر سوچا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے.میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں.جس سے وہ اندر ہی اندر نشو ونما پاتارہتا ہے اور پھر اپنے شکوک اور شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہے اور روح کو تباہ کر دیتا ہے.ایسی کمزوری نفاق تک پہنچا دیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے.میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کر لے.ہاں ! یہ سچ ہے کہ ذراذراسی بات پر سوال کرنا بھی مناسب نہیں.اس سے منع فرمایا گیا ہے: لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ اور ایسا ہی اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ آدمی جاسوسی کر کے دوسروں کی برائیوں کو نکالتا رہے یہ دونوں طریق برے ہیں لیکن اگر کوئی امرا ہم دل میں کھٹکے تو اسے ضرور پیش کر کے پوچھ لینا چاہیے.اللہ تعالیٰ نے لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ بھی فرمایا ہے بہت کھودنا اچھا نہیں ہوتا.الحام جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱) الحکم جلدے نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۳ سورة المائدة b يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمُ انْفُسَكُمْ لَا يَضُرُكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُم إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَتِتكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ.یعنی اسے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! پہلے اپنے نفسوں کی اصلاح کرو پھر تم دوسروں کی اصلاح کے قابل بنو گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کیا جاوے.جب تک ہم خود اپنے اعمال سے خدا کو راضی نہیں کرتے دوسروں کو خدا کی رضا کی طرف بلا نا عبث ہے.جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں وہ دوسروں کو کیا روشنی دے سکتا ہے اور جو آپ ٹھوکریں کھا رہا ہے وہ دوسروں کو کیا سہارا دے سکتا ہے.جو خود پاک نہیں وہ دوسروں کو کیا پاک کر سکتا ہے.جو شخص محض زبان سے کام لیتا ہے وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بناتا ہے......مصلحوں سے بجائے اس کے کہ کوئی فائدہ پہنچے ملک کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے میں کہوں گا کہ جو شخص مصلح بننا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے خود اپنی اصلاح کرے.پہلے اپنے اندر روشنی پیدا کرے تو پھر دوسروں کو بھی اس سے روشنی پہنچ سکتی ہے.سورج کو دیکھ لو کہ پہلے خود روشنی حاصل کر کے روشن ہوا تو پھر دوسروں کو روشنی پہنچانے کے قابل ہوا.ایسا ہی چاند پہلے خود سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو روشنی پہنچاتا ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱۰صفحه ۳۵۱،۳۵۰) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو.جس شخص کے اندر خود روشنی اور نور نہیں ہے وہ اگر زبان سے کام لے گا تو وہ مذہب کو بچوں کا کھیل بنادے گا اور حقیقت میں ایسے ہی مصلحوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے.ان کی زبان پر تو منطق اور فلسفہ جاری رہتا ہے مگر اندر خالی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نہایت خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں خواہ کوئی میری باتوں کو نیک ظنی سے سنے یا بدظنی سے مگر میں کہوں گا کہ جو شخص مصلح بنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے خود روشن ہو اور اپنی اصلاح کرے.دیکھو! یہ سورج جو روشن ہے پہلے اس نے خود روشنی حاصل کی ہے.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہر ایک قوم کے معلم نے یہی تعلیم دی ہے لیکن اب دوسرے پر لاٹھی مارنا آسان ہے لیکن اپنی قربانی دینا مشکل ہو گیا ہے.پس جو چاہتا ہے کہ قوم کی اصلاح کرے اور خیر خواہی کرے وہ اس کو اپنی اصلاح سے شروع کرے.قدیم کے زمانہ کے رشی اور اوتار جنگلوں اور بنوں میں جا کر اپنی اصلاح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة المائدة کیوں کرتے تھے وہ آجکل کے لیکچر (ار) وں کی طرح زبان نہ کھولتے تھے جب تک خود عمل نہ کر لیتے تھے یہی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت کی راہ ہے.جو شخص دل میں کچھ نہیں رکھتا اس کا بیان کرنا پر نالہ کے پانی کی طرح ہے جو جھگڑے پیدا کرتا ہے اور جونور معرفت اور عمل سے بھر کر بولتا ہے وہ بارش کی طرح ہے جو رحمت سمجھی جاتی ہے.اس وقت میری نصیحت یادرکھیں ! آج کے بعد آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں گے اور میں نہیں جانتا کہ پھر موقعہ ہو یا نہ ہولیکن ان تفرقوں کو مٹانے کی کوشش کرو میری نسبت خواہ آپ کا کچھ ہی خیال ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ: ن مرد بائید که گیرد اندر گوش در نوشت است پند بر دیوار میری نصیحت پر عمل کرو جو شخص خود زہر کھا چکا ہے وہ دوسرں کی زہر کا کیا علاج کرے گا ؟ اگر علاج کرتا ہے تو خود بھی مرے گا اور دوسروں کو بھی ہلاک کرے گا کیونکہ زہر اس میں اثر کر چکا ہے اور اس کے حواس چونکہ قائم نہیں رہے اس لیے اس کا علاج بجائے مفید ہونے کے مضر ہوگا.غرض جس قدر تفرقہ بڑھتا جاتا ہے اس کا باعث وہی لوگ ہیں جنہوں نے زبانوں کو تیز کرنا ہی سیکھا ہے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخہ ۷ار تمبر ۱۹۰۴ صفحہ ۷ ) تم اپنی تبدیلی کے واسطے تین باتیں یاد رکھو ؟ (۱) نفس اتارہ کے مقابل پر تدابیر اور جد و جہد سے کام لو.(۲) دعاؤں سے کام لو.(۳) ست اور کاہل نہ بنو اور تھکو نہیں.ہماری جماعت بھی اگر بیچ کا بیج ہی رہے گی تو کچھ فائدہ نہ ہوگا.جوردی رہتے ہیں خدا ان کو بڑھاتا نہیں.پس تقومی ، عبادت اور ایمانی حالت میں ترقی کرو.اگر کوئی شخص مجھے دجال اور کا فروغیرہ ناموں سے پکارتا ہے تو تم اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کرو کیونکہ جب خدا میرے ساتھ ہے تو مجھے ان کے ایسے بد کلمات اور گالیوں کا کیا ڈر ہے؟ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کافر کہا تھا، ایک زمانہ ایسا آگیا کہ پکار اٹھا کہ میں اس خدا پر ایمان لایا جس پر موسیٰ اور اس کے متبع ایمان لائے ہیں.ایسے لوگ یا درکھو کہ مخنث اور نامرد ہوتے ہیں یہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے ایک بچہ بعض اوقات اپنی ماں اور باپ کو بھی نا سمجھی کی وجہ سے گالی دے دیتا ہے مگر اس کے اس فعل کو کوئی برا نہیں سمجھتا.پس یاد رکھو کہ نری بیعت اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا کچھ بھی سودمند نہیں.جب کوئی شخص شدت پیاس سے مرنے کے قریب ہو جاوے یا شدت بھوک سے مرنے تک پہنچ جاوے تو کیا اس وقت ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ کھانے کا اس کو موت سے بچالے گا ؟ ہر گز نہیں ! جس طرح اس بدن کو بچانے کے واسطے کافی خوراک اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة المائدة کافی پانی بہم پہنچانے کے سوائے مفر نہیں.اسی طرح پورے جہنم سے تھوڑی سی نیکی سے تم بھی بچ نہیں سکتے.پس اس دھو کہ میں نہ رہو کہ ہم نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اب ہمیں کیا غم ہے.ہدایت بھی ایک موت ہے جو شخص یہ موت اپنے اوپر وارد کرتا ہے اس کو پھر نئی زندگی دی جاتی ہے اور یہی اصفیاء کا اعتقاد ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اسی ابتدائی حالت کے واسطے فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ یعنی پہلے اپنے آپ کو درست کرو اپنے امراض کو دور کرو دوسروں کا فکر مت کرو.ہاں ! رات کو اپنے آپ کو درست کرو اور دن کو دوسروں کو بھی کچھ ہدایت کر دیا کرو.خدا تعالیٰ تمہیں بخشے اور تمہارے گناہوں سے تمہیں مخلصی دے اور تمہاری کمزوریوں کو تم سے دور کرے اور اعمال صالح اور نیکی میں ترقی کرنے کی توفیق دیوے.(آمین) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ تا ۱۷ نومبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۸) بیان میں جب تک روحانیت اور تقویٰ و طہارت اور سچا جوش نہ ہو اس کا کچھ نیک نتیجہ مرتب نہیں ہوتا ہے.وہ بیان جو کہ بغیر روحانیت و خلوص کے ہے وہ اس پر نالہ کے پانی کی مانند ہے جو موقعہ بے موقعہ جوش سے پڑا جاتا ہے اور جس پر پڑتا ہے اسے بجائے پاک وصاف کرنے کے پلید کر دیتا ہے انسان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ یعنی اے مومنو! پہلے اپنی جان کا فکر کرو.اگر تم اپنے وجود کو مفید ثابت کرنا چاہو تو پہلے خود پاکیزہ وجود بن جاؤ.ایسا نہ ہو کہ باتیں ہی باتیں ہوں اور عملی زندگی میں ان کا کچھ اثر دکھائی نہ دے.ایسے شخص کی مثال اس طرح سے ہے کہ کوئی شخص ہے جو سخت تاریکی میں بیٹھا ہے اب اگر یہ بھی تاریکی ہی لے گیا تو سوائے اس کے کہ کسی پر گر پڑے اور کیا ہو گا اسے چراغ بن کر جانا چاہیے تا کہ اس کے ذریعہ سے دوسرے روشنی پائیں.البدر جلدے نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَا ذَا أَجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلَامُ الغيوب یہ لاعلمی انبیاء کی اُن کی اُس امت کے بارے میں ہوتی ہے جو ان کی وفات کے بعد ہوتی ہے، میسیج بھی کہتا ہے : كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمُ ( المائدة : ۱۱۸ ) تو پھر اگر ان کو علم نہیں تو وہ شہید کس طرح ہوئے اور کس بات کے ہوئے ؟ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حالات سے تو لاعلمی ظاہر کر سکتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۶ سورة المائدة ہیں مگر صحابہ کرام کی نسبت نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کو ان کے حالات معلوم تھے اور آپ ان میں رہتے تھے.اس قسم کی لاعلمی سے وہی لاعلمی مراد ہے یعنی اس امت کا ذکر جو کہ نبی کے بعد آیا کرتی ہے یا بہت آخری وقت پر آتی ہے کہ اسے نبی کی صحبت سے کچھ حصہ نہیں ملتا.(البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ نورمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲۱) م اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرُ نِعْمَتِى عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدُ تُكَ قف برُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا ۚ وَ إِذْ عَلَمْتُكَ الْكِتب و الْحِكْمَةَ وَالتَّوْريةَ وَالْإِنْجِيلَ وَ إِذْ تَخْلُقُ مِنَ القِيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الموتى بِإِذْنِى وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَنْكَ إِذْ جِلْتَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ.عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے.دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھا اور یہ حادثہ وعدہ عصمت کے بعد ظہور میں آیا تھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو فرمایا تھا: إِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِيلَ عَنكَ یعنی یاد کر وہ زمانہ کہ جب بنی اسرائیل کو جو قتل کا ارادہ رکھتے تھے میں نے تجھ سے روک دیا حالانکہ تو اتر قومی سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو یہودیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور صلیب پر کھینچ دیا تھا لیکن خدا نے آخر جان بچادی پس یہی معنے اِذْ كَفَفْتُ کے ہیں جیسا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدة : ۶۸ ) کے ہیں.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۲۹) قَالُوا نُرِيدُ اَنْ تَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْبِنَ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَتَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئی جس کے مقابل میں حضرت مسیح بہت ہی کمزور ثابت ہوتے ہیں.سورہ مائدہ میں ہے کہ نزول مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے: قَالُوا نُرِيدُ اَنْ تَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَينَ قُلُوبُنَا وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام LL سورة المائدة نَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کیے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے ان سب کے بعد ان کا یہ درخواست کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے قلوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے ورنہ یہ الفاظ کہنے کی ان کو کیا ضرورت تھی ؟ وَ تَطْمَينَ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنا سیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی سا تھا اور وہ اس جھاڑ پھونک کو معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے.ان کے مقابلہ میں صحابہ کرام ایسے مطمئن اور قوی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ( المائدة : ۱۲۰) فرمایا اور یہ بھی بیان کیا کہ ان پر سکینت نازل فرمائی یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرتی ہے صحابہ کا کہیں ذکر نہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم اطمینان قلب چاہتے ہیں بلکہ صحابہ کا یہ حال کہ ان پر سکینت نازل ہوئی اور یہود کا یہ حال يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُم (البقرة : ۱۴۷) ان کی حالت بتائی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یہاں تک کھل گئی تھی وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاریٰ کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہو جاتے تھے یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب ! الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) صحابہ کرام کے نمونے ایسے ہیں کہ کل انبیاء کی نظیر ہیں خدا کو تو عمل ہی پسند ہیں انہوں نے بکریوں کی طرح اپنی جان دی اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے نبوت کی ایک ہیکل آدم سے لے کر چلی آتی تھی اور سمجھ نہ آتی تھی مگر صحابہ کرام نے چمکا کر دکھلا دی اور بتلا دیا کہ صدق اور وفا اسے کہتے ہیں.حضرت عیسی کا تو حال ہی نہ پوچھو.موسیٰ کو کسی نے فروخت نہ کیا مگر عیسی کو ان کے حواریوں نے ( تمیں ) روپے لے کر فروخت کر دیا.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ حواریوں کو عیسی علیہ السلام کی صداقت پر شک تھا جبھی تو مائدہ مانگا اور کہا: وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنا تا کہ تیرا سچا اور جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول مائدہ سے پیشتر ان کی حالت نعلم کی نہ تھی پھر جیسی بے آرامی کی زندگی انہوں نے بسر کی اس کی نظیر کہیں نہیں پائی جاتی صحابہ کرام کا گروہ عجیب گروہ قابل قدر اور قابل پیروی گروہ تھا ان کے دل یقین سے بھر گئے ہوئے تھے جب یقین ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ اوّل مال وغیرہ دینے کو جی چاہتا ہے پھر جب بڑھ جاتا ہے تو صاحب یقین خدا کی خاطر جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۵) قَالَ اللهُ اِنّى مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ، فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أَعَذِّبُهُ عَذَابًا لا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ZA سورة المائدة أَعَدَّ بُةٌ أَحَدًا مِنَ الْعَلَمِينَ معترض صاحب کا اس آیت کو پیش کرنا کہ قَالَ اللهُ إِلَى مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي إِنِّي W أعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أَعَذِّبُهُ اَحَدًا مِنَ الْعَلَمِيْنَ اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ منکھ کا لفظ اس جگہ خصوصیت کے ساتھ حاضرین کے حق میں آیا ہے ایک بے فائدہ بات ہے کیونکہ......قرآن کریم کا عام محاورہ جس سے تمام قرآن بھرا پڑا ہے یہی ہے کہ خطاب عام ہوتا ہے اور احکام خطا بیہ تمام امت کے لئے ہوتے ہیں نہ صرف صحابہ کے لئے.ہاں ! جس جگہ کوئی صریح اور صاف قرینہ تحدید خطاب کا ہو وہ جگہ مستی ہے چنانچہ آیت موصوفہ بالا میں خاص حواریوں کے ایک طائفہ نے نزول مائدہ کی درخواست کی اسی طائفہ کو مخاطب کر کے جواب ملا.سو یہ قرینہ کافی ہے کہ سوال بھی اسی طائفہ کا تھا اور جواب بھی اسی کو ملا.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۴) وَ اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ الْهَيْنِ مِن دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ ، إِنْ كُنْتُ قُلْتُه فَقَد عَلِمْتَه تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا اَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَامُ الغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِه اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ b جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی اُن پر نگہبان تھا......تمام قرآن شریف میں توفی کے معنے یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ قُلْ يَتَوَفكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ 9991 الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ( السجدة : ۱۲) اور پھر فرماتا ہے: وَلكِن اَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَقُكُم (یونس : ۱۰۵) اور پھر فرماتا ہے : حَتَّى يَتَوَفهُنَّ الْمَوْتُ ( النساء : ۱۲ ) اور پھر فرماتا ہے: حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمُ (الاعراف : ٣٨) (الجزو نمبر ۸ سورۃ الاعراف) اور پھر فرماتا ہے : تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ( الانعام : ٢٣) - ایسا ہی قرآن شریف کے تیس مقام میں برابر توئی کے معنے امانت اور قبض روح ہے.لیکن افسوس کہ بعض
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة المائدة علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رُو سے اس جگہ تو فیتنی سے مرادر معتینی لیا ہے اور اس طرف ذرہ خیال نہیں کیا کہ یہ معنے نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں.پس یہی تو الحاد ہے کہ جن خاص معنوں کا قرآن کریم نے اوّل سے آخر تک التزام کیا ہے ان کو بغیر کسی قرینہ قویہ کے ترک کر دیا گیا ہے.توفی کا لفظ نہ صرف قرآن کریم میں بلکہ جابجا احادیث نبویہ میں بھی وفات دینے اور قبض روح کے معنوں پر ہی آتا ہے.چنانچہ جب میں نے غور سے صحاح ستہ کو دیکھا تو ہر ایک جگہ جو توفی کا لفظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے یا کسی صحابی کے منہ سے تو انہیں معنوں میں محدود پا یا گیا.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی کوئی ایسا توٹی کا لفظ نہیں ملے گا جس کے کوئی اور معنے ہوں.میں نے معلوم کیا ہے کہ اسلام میں بطور اصطلاح کے قبض روح کے لئے یہ لفظ مقرر کیا گیا ہے تا روح کی بقاء پر دلالت کرے.افسوس کہ بعض علماء جب دیکھتے ہیں کہ توفی کے معنے حقیقت میں وفات دینے کے ہیں تو پھر یہ دوسری تاویل پیش کرتے ہیں کہ آیت فلما توفيتنى میں جس توفی کا ذکر ہے وہ حضرت عیسی کے نزول کے بعد واقع ہوگی.لیکن تعجب کہ وہ اس قدر تاویلات رکیکہ کرنے سے ذرہ بھی شرم نہیں کرتے.وہ نہیں سوچتے کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى سے پہلے یہ آیت ہے: وَ اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ الخ اور ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اول اڈ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھانہ زمانہ استقبال کا اور پھر ایسا ہی جو جواب حضرت عیسی کی طرف سے ہے یعنی فلتا تو فیتنی وہ بھی بصیغہ ماضی ہے اور اس قصہ سے پہلے جو بعض دوسرے قصے قرآن کریم میں اسی طرز سے بیان کئے گئے ہیں وہ بھی انہیں معنوں کے مؤید ہیں مثلا یہ قصہ: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ (البقرة : ۳۱) کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ کسی استقبال کے زمانہ میں ملائکہ سے ایسا سوال کرے گا ؟ ما سوا اس کے قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے اور حدیثیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ موت کے بعد قبل از قیامت بھی بطور باز پرس سوالات ہوا کرتے ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۵،۴۲۴) خدا تو بپابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے لیکن ایسے شخص کو کسی طرح دوبارہ دنیا میں نہیں لاسکتا جس کے پہلے فتنے نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے.یہ مولوی اسلام کے نادان دوست! کیا جانتے ہیں کہ ایسے عقیدوں سے کس قدر عیسائیوں کو مدد پہنچ چکی ہے.اب خدا تعالیٰ کوئی نئی عظمت ابن مریم کو دینا نہیں چاہتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة المائدة بلکہ یہاں تک کہ جس قدر پہلے اس سے حضرت مسیح کی نسبت اطراء کیا گیا ہے وہ بھی خدا کو سخت ناگوار گزرا ہے اور اسی وجہ سے اس کو کہنا پڑا: انت قلت للناس اب آسمان کی طرف دیکھنا کہ کب آسمان سے ابن مریم اترتا ہے سخت جہالت ہے.دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۳۶،۲۳۵) ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے....وَ إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَانْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُقِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ - برا امین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۹) قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہو جانے کا اقرار موجود ہے اور وہ یہ ہے : كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا -.ج تَوَفِّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.اب جب کہ فوت ہو جانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مر جاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ جو.قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم.تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خا کی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہر گز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں.اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۶،۱۲۵) قرآن شریف پر نظر غور ڈالو اور ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ کیوں کر وہ صاف اور بین طور پر عیسی بن مریم کے مرجانے کی خبر دے رہا ہے جس کی ہم کوئی بھی تاویل نہیں کر سکتے مثلاً یہ جو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت عیسی کی طرف سے فرماتا ہے: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ کیا ہم اس جگہ توفی سے نیند مراد لے سکتے ہیں؟ کیا یہ معنے اس جگہ موزوں ہوں گے کہ جب تو نے مجھے سلا دیا اور میرے پر نیند غالب کر دی تو میرے سونے کے بعد تو اُن کا نگہبان تھا ہر گز نہیں بلکہ توفی کے سید ھے اور صاف معنے جو موت ہے وہی اس جگہ چسپاں ہیں لیکن موت سے مراد وہ موت نہیں جو آسمان سے اترنے کے بعد پھر وارد ہو کیونکہ جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام Al سورة المائدة سوال اُن سے کیا گیا ہے یعنی اُن کی اُمت کا بگڑ جانا اُس وقت کی موت سے اس سوال کا کچھ علاقہ نہیں.کیا نصار کی اب صراط مستقیم پر ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ جس امر کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے عیسی بن مریم سے سوال کیا ہے وہ امر تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ہی کمال کو پہنچ چکا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۴) قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے ان تمام مقامات میں تو فی کے معنی موت ہی لیے گئے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۴ حاشیه ) توفی کے معنے وفات دینے کے صرف اجتہادی طور پر ہم نے معلوم نہیں کئے بلکہ مشکوۃ کے باب الحشر میں بخاری اور مسلم کی حدیث جو ابن عباس سے ہے صریح اور صاف طور پر اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَما توفيتَنِی کی یہی تفسیر فرماتے ہیں کہ در حقیقت اس سے وفات ہی مراد ہے.بلکہ اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوال حضرت مسیح سے عالم برزخ میں اُن کی وفات کے بعد کیا گیا تھا نہ یہ کہ قیامت میں کیا جائے گا.پس جس آیت کی تفسیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی کھول دیا پھر اگر کوئی تفسیر نبوی کو بھی سُن کر شک میں رہے تو اس کے ایمان اور اسلام پر اگر افسوس اور تعجب نہ کریں تو اور کیا کریں.دیکھواس حدیث کو امام بخاری انہیں معنوں کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے اپنی صحیح کی کتاب التفسیر میں لایا ہے.دیکھو صفحہ ۶۶۵ بخاری.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۳) امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اسی غرض سے آیت کریمہ: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ كو كتاب التفسير میں لایا ہے اور اس ایراد سے اُس کا منشاء یہ ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ تو فیتنی کے لفظ کی صحیح تفسیر وہی ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دے دی اور حدیث یہ ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ أَنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أَصَيْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيْب عَلَيْهِمْ - ( صلحه ۶۶۵ بخاری ۶۹۳ بخاری ) یعنی قیامت کے دن میں بعض لوگ میری اُمت میں سے آگ کی طرف لائے جائیں گے تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ تو میرے اصحاب ہیں تب کہا جائے گا کہ تجھے اُن کاموں کی خبر نہیں جو تیرے پیچھے ان لوگوں نے کئے.سو اُس وقت میں وہی بات کہوں گا جو ایک نیک بندہ نے کہی تھی یعنی مسیح ابن مریم نے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة المائدة جب کہ اُس کو پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ تو نے تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور وہ بات ( جو میں ابن مریم کی طرح کہوں گا ) یہ ہے کہ میں جب تک اُن میں تھا اُن پر گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو اُس وقت تو ہی اُن کا نگہبان اور محافظ اور نگران تھا.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قصہ اور مسیح ابن مریم کے قصہ کو ایک ہی رنگ کا قصہ قرار دے کر وہی لفظ فلما توفیتَنِی کا اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے وفات ہی مراد لی ہے کیونکہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلعم فوت ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آنحضرت کی مزار شریف موجود ہے پس جبکہ فلما توقیتی کی شرح اور تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وفات پانا ہے ثابت ہوا اور وہی لفظ حضرت مسیح کے منہ سے نکلا تھا اور کھلے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ جن الفاظ کو مسیح ابن مریم نے استعمال کیا تھا وہی الفاظ میں استعمال کروں گا پس اس سے بکلی منکشف ہو گیا کہ مسیح ابن مریم بھی وفات پا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاگئے اور دونوں برابر طور پر اثر آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی سے متاثر ہیں.اسی وجہ سے امام بخاری اس آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي کو قصدا کتاب التفسیر میں لایا تا وہ مسیح ابن مریم کی نسبت اپنے مذہب کو ظاہر کرے کہ حقیقت میں وہ اس کے نزدیک فوت ہو گیا ہے.یہ مقام سوچنے اور غور کرنے کا ہے کہ امام بخاری آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کو کتاب التفسیر میں کیوں لایا ؟ پس اونی سوچ سے صاف ظاہر ہوگا کہ جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے اس کا منشاء یہ تھا کہ آیت فلما توفیتَنِی کے حقیقی اور واقعی معنی وہی ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے.سو اس کا مدعا اس بات کا ظاہر کرنا ہے کہ اس آیت کی یہی تفسیر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پر وارد کر کے آپ فرمائی ہے.یہ بھی واضح رہے کہ اس طرز کو امام بخاری نے اختیار کر کے صرف اپنا ہی مذہب ظاہر نہیں کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي کے یہی معنی سمجھتے تھے تب ہی تو انہیں الفاظ فلما توفیت کو بغیر کسی تبدیل و تغییر کے اپنی نسبت استعمال کر لیا.پھر امام صاحب نے اسی مقام میں ایک اور کمال کیا ہے کہ اس معنی کے زیادہ پختہ کرنے کے لئے اسی صفحہ ۶۶۵ میں آیت يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کے بحوالہ ابن عباس کے اسی کے مطابق تفسیر کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں: وقال ابن عباس متوفيك : مُميتك ( دیکھو وہی صفحه ۲۶۵ بخاری).(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۸۵ تا ۵۸۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة المائدة حضرت مسیح علیہ السلام نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں صاف صاف اپنا اظہار دے دیا ہے کہ میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے اٹھایا گیا کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ جب مجھے وفات دی گئی تو پھر اے میرے رب ! میرے بعد تو میری امت کا نگہبان تھا صاف شہادت دے رہا ہے کہ وہ دنیا سے ہمیشہ کے لیے وفات پاگئے کیونکہ اگر ان کا دنیا میں پھر آنا مقدر ہوتا تو وہ ضرور ان دونوں واقعات کا ذکر کرتے اور نزول کے بعد کی تبلیغ کا بھی بیان فرماتے نہ یہ کہ صرف اپنی وفات کا ذکر کر کے پھر بعد اپنے خدا تعالیٰ کو قیامت تک نگہبان ٹھہراتے.فتدبر ! (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۵ حاشه) دوسری دلیل مسیح ابن مریم کی وفات پر خود جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جس کو امام بخاری اپنی کتاب التفسیر میں اسی غرض سے لایا ہے کہ تا یہ ظاہر کرے کہ لمّا تَوَفَّيْتَنِي کے معنے لَمَّا آمَتَنِى ہے اور نیز اسی غرض سے اس موقعہ پر ابن عباس کی روایت سے متوفيك : مُميتك كى بھی روایت لایا ہے تا ظاہر کرے کہ لیا تو فیتنی کے وہی معنے ہیں جوانی متوفيك کے معنے ابن عباس نے ظاہر فرمائے ہیں.اس مقام پر بخاری کو غور سے دیکھ کر ادنی درجہ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ توفیتَنِی کے معنے امثنی ہیں یعنی تو نے مجھے ماردیا.اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کا مزار موجود ہے.پھر جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی لفظ فلما توفیتَنِی کا حدیث بخاری میں اپنے لئے اختیار کیا ہے اور اپنے حق میں ویسا ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ حضرت عیسی کے حق میں مستعمل تھا تو کیا اس بات کو سمجھنے میں کچھ کسر رہ گئی کہ جیسا کہ آنحضرت صلعم وفات پاگئے ویسا ہی حضرت مسیح ابن مریم بھی وفات پاگئے.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور مفہوم آیات میں کسی طور سے تحریف جائز نہیں اور جو کچھ اصل منشاء اور اصل مفہوم اور اصل مراد ہر یک لفظ کی ہے اس سے عمداً اس کو اور معنوں کی طرف پھیر دینا ایک الحاد ہے جس کے ارتکاب کا کوئی نبی یا غیر نبی مجاز نہیں ہے.اس لئے کیوں کر ہو سکتا ہے کہ نبی معصوم بجز حالت تطابق کلی کے جو فی الواقع مسیح کی وفات سے اس کی وفات کو تھی لفظ فلما توفیتَنی کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا اور نعوذ باللہ ! تحریف کا مرتکب ہوتا بلکہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم امام المعصومین وسید المحفوظین نے (روحی فداء سبیله ) لفظ فلما توفيتَنِي کا نہایت دیانت وامانت کے ساتھ انہیں مقررہ معینہ معنوں کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے کہ جیسا کہ وہ بعینہ حضرت عیسی کے حق میں وارد ہے.اب بھائیو! اگر حضرت سید و مولانا بجسده العصر ی آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة المائدة فوت نہیں ہوئے اور مدینہ میں ان کا مزار مطہر نہیں تو گواہ رہو کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ ایسا ہی حضرت عیسی بھی آسمان کی طرف بجسده العصر کی اٹھائے گئے ہوں گے اور اگر ہمارے سید و مولی و سید الکل ختم المرسلین افضل الاولين و الأخرين اول المحبوبين والمقربین در حقیقت فوت ہو چکے ہیں تو آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور فلما توفيتنى کے پیارے لفظوں پر غور کرو جو ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میں اور اس عبد صالح میں مشترک بیان کئے.جس کا نام مسیح ابن مریم ہے.بخاری اس مقام میں سورہ آل عمران کی یہ آیت اني متوفيك کیوں لایا اور کیوں ابن عباس سے روایت کی کہ مُتَوَفِّيكَ: مُميتك ؟ اس کی وجہ بخاری کے صفحہ ۶۶۵ میں شارح بخاری نے لکھی ہے.هَذِهِ الْآيَةُ مُتَوَفِّيكَ مِنْ سُورَةِ الِ عِمْرَانَ ذَكَرَهُهُنَا لِمُنَاسَبَةِ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِى يعنى يہ آيت إنِّي مُتَوَفِّيكَ سورت آل عمران میں ہے اور بخاری نے جو اس جگہ اس آیت کے ابن عباس سے یہ معنے کئے کہ متوفيك: مُميتك تو اس کا یہ سبب ہے کہ بخاری نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِنی کے معنی کھولنے کے لئے بوجہ مناسبت یہ فقرہ لکھ دیا ورنہ آل عمران کی آیت کو اس جگہ ذکر کرنے کا کوئی محل نہ تھا.اب دیکھئے شارح نے بھی اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ امام بخاری إنِّي مُتَوَفِّيكَ : مُميتك كے لفظ کو شہادت کے طور پر بہ تقریب تفسیر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی لایا ہے اور کتاب التفسیر میں جو بخاری نے ان دونوں متفرق آیتوں کو جمع کر کے لکھا ہے تو بجز اس کے اس کا اور کیا مدعا تھا کہ وہ حضرت عیسی کی وفات خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت کر چکا ہے.اب جب کہ اصح الکتاب کی حدیث مرفوع متصل سے جس کے آپ طالب تھے حضرت عیسی کی وفات ثابت ہوئی اور قرآن کی قطعیۃ الدلالت شہادت اس کے ساتھ متفق ہو گئی اور ابن عباس جیسے صحابی نے بھی موت مسیح کا اظہار کر دیا.تو اس دوہرے ثبوت کے بعد اور کس ثبوت کی حاجت رہی ؟ الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱۶ تا ۲۱۸) یا در ہے کہ آیت : فلما توفيتنى میں اسی وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے جو آیت : یعیسی رانی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى ( ال عمران : ۵۶ ) میں کیا گیا تھا اور توفی کے ان معنوں کے سمجھنے کیلئے جو مراد اور منشاء اللہ جل شانہ کا ہے ضرور ہے کہ ان دونوں آیتوں وعدہ اور تحقق وعدہ کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے مگر افسوس کہ ہمارے علماء کو ان تحقیقوں سے کچھ سروکار نہیں.یہی توفی کا لفظ جو قرآن کریم کے دو مقام میں حضرت مسیح کے بارے میں درج ہے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہی لفظ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة المائدة قرآن کریم میں موجود ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے : وَ اِمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نتوقيتك (الرعد: ۴۱ ) اگر ہمارے علماء اس جگہ بھی توفی کے معنے یہی لیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں تو ہمیں ان پر کچھ بھی افسوس نہ ہوتا مگر ان کی بے باکی اور گستاخی تو دیکھو کہ توفی کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے تو اس کے معنے وفات کے لیتے ہیں اور پھر جب وہی لفظ حضرت مسیح کے حق میں آتا ہے تو اس کے معنے زندہ اٹھائے جانے کے بیان کرتے ہیں اور کوئی ان میں سے نہیں دیکھتا کہ لفظ تو ایک ہی ہے، اندھے کی طرح ایک دوسرے کی بات کو مانتے جاتے ہیں.جس لفظ کو خدا تعالیٰ نے پچھیں " مرتبہ اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کر کے صاف طور پر کھول دیا کہ اس کے معنی روح کا قبض کرنا ہے نہ اور کچھ.اب تک یہ لوگ اس لفظ کے معنی مسیح کے حق میں کچھ اور کے اور کر جاتے ہیں گویا تمام جہان کیلئے توفی کے معنے تو قبض روح ہی ہیں مگر حضرت ابن مریم کے لئے زندہ اٹھا لینا اس کے معنی ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳) اَلَا يَرَوْنَ أَنَّ اللهَ أَخْبَرَ مِنْ وَفَاةِ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف الْمَسِيحِ فِي مَقَامَاتٍ شَتَّى وَ الْقُرْآنُ مقامات پر حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کی خبر دی ہے اور كله مملو مِن ذَالِك وَ لا تَجِدُ فِيْه سارا قرآن کریم اس خبر سے بھرا پڑا ہے.اے مخاطب ! تو مسیح لإِثْبَاتِ حَيَاتِهِ حَرْفًا أَوْ لَفْظًا وَنَهَاكَ کی حیات ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید میں ایک حرف یا قَوْلُ الْمَسِيح في الْقُرْآنِ وَكُنْتُ ایک لفظ بھی نہیں پائے گا اور تیرے لیے قرآن مجید میں عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمُ فَلَنَا حضرت مسیح کا یہ قول کافی ہے: وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ - دُمُتُ فِيهِمُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ - فَانْظُرْ كَيْفَ يَعْبُتُ مِنْ هُنَا آن پس دیکھو کہ اس جگہ سے کیسے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ الْمَسِيحَ تُوُفِّيَ وَخَلَا وَ لَوْ كَانَ نُزُول مسیح وفات پاچکے ہیں اور گزر چکے ہیں کیونکہ اگر حضرت مسیح الْمَسِيحِ وَ فَجِيْنُهُ مُقَدَّدًا ثَانِيَا لَّذَكَرَ کا نزول اور آپ کا دوبارہ اس دنیا میں آنا مقدر ہوتا تو الْمَسِيحُ فِي قَوْلِهِ شَهَادَتَيْنِ وَ لَقَالَ مَعَ صحیح اپنے مذکورہ بالا قول میں دو شہادتوں کا ذکر کرتے اور قَوْلِهِ : كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا وَأَكُوْنُ اپنے قول كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّرَّةً أُخْرَى وَمَا حَصَرَ اكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّرَّةً أُخْرى یعنی میں دوبارہ ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام في الشَّهَادَةِ الأولى ۸۶ سورة المائدة آکر بھی ان پر گواہ ہوں گا اور صرف پہلی گواہی پر ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۲، ۴۳۳) حصر نہ کرتے.(ترجمہ از مرتب) یادر ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ رسل کے لفظ کے ساتھ بھی مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ سوال کہ ان ہی الفاظ کے ساتھ جو احادیث میں آئے ہیں کیوں قرآن میں ذکر نہیں کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تا پڑھنے والوں کو دھوکا نہ لگ جاوے کہ مسیح موعود سے مراد در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہیں جن پر انجیل نازل ہوئی تھی اور ایسا ہی دجال سے کوئی خاص مفسد مراد ہے،سوخدا تعالیٰ نے فرقان حمید میں ان تمام شبہات کو دور کر دیا.اس طرح پر کہ اول نہایت تصریح اور توضیح سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جیسا کہ آیت : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ سے ظاہر ہے اور پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی ظاہر کر دیا جیسا کہ فرمایا: وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ اللَّبِينَ (الاحزاب : ۴۱) اور پھر یہودیوں کی بہت سی نا فرمانیاں جابجاذ کر کر کے متواتر طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ آخری حالت عام مسلمانوں اور مسلمانوں کے علماء کی یہی ہو جائے گی اور پھر ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں غلبہ نصاریٰ کا ہوگا اور ان کے ہاتھ سے طرح طرح کے فساد پھیلیں گے اور ہر طرف سے امواج فتن اٹھیں گی اور وہ ہر یک بلندی سے دوڑیں گی.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۱) إِنَّ اللهَ صَرَّحَ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ بِأَنَّ خدائے تعالیٰ نے قرآن میں تصریح کر دی ہے الْمُتَنفِرِينَ مَا أَشْرَكُوا وَمَا ضَلُّوا إِلَّا بَعْدَ وَفَاةٍ که نصاری مسیح کی وفات کے بعد ہی مشرک بنے الْمَسِيحِ كَمَا يُفْهَمُ مِنْ آيَةٍ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى ہیں جیسا کہ اس آیت سے سمجھا جاتا ہے پس جبکہ تو كُنتَ أنتَ الرَّقِيْب عَلَيْهِمْ فَلَوْ لَمْ يُتَوَفَّ نے مجھے مار دیا تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا پس اگر الْمَسِيحُ إِلى هَذَا الزَّمَانِ لَلَزِمَ مِنْ هَذَا أَن مسیح نے اب تک وفات نہیں پائی تو لازم آئے گا يَكُونَ الْمُتَنَظِرُونَ عَلَى الْحَقِّ إِلى هَذَا الْوَقْتِ که نصاری اب تک حق پر ہیں اور مومن اور موحد وَيَكُونُوا مُؤْمِنِينَ مُوَحِدِينَ بھی ہیں.يَا حَسْرَةً عَلَيْهِمُ : لِمَ لَا يَتَفَكَّرُونَ فِي هَذِهِ ان پر افسوس! یہ کیوں ان آیتوں میں فکر نہیں الْآيَاتِ أَلَيْسَ فِيهِمُ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ وَفَهِيْمُ کرتے کیا ان میں کوئی بھی رشید اور فہیم اور امین وَأَمِينٌ : وَأَنْتَ تَعْلَمُ إِنَّ ايَةً فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي قَدْ نہیں ہے اور تم بخوبی جانتے ہو کہ بڑی وضاحت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة المائدة دَلَّتْ بِدَلَالَةٍ صَرِيحَةٍ واضحةٍ بَيْنَةٍ عَلى أَنَّ سے یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ نصاریٰ کا گمراہ ہونا ضَلالَةَ النَّصَارَى وَالْخَاذَهُمُ الْعَبْدَ إلها اور ایک بندہ کو خدا بنا نا سیح کی وفات سے مشروط ہے مشْرُوطَةٌ بِوَفَاةِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، وَلا اور اس سے وہی انکار کر سکتا ہے جو اپنی بے تمیزی يُنكِرُهُ إِلَّا مَنْ عَادَ الْحَقِّ بِسُوءٍ عمیرہ سے حق کا دشمن اور مکابرہ کو استعمال میں لائے اور وَاسْتَعْمَلَ الْمُكَابَرَةَ وَالتَّعَكُم بِجَهْلِهِ وَمُمقِه دیده و دانستہ ہدایت یاب ہونے سے انکار کرے وَأَبي مُتَعَمِّدًا مِنْ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُهْتَدِينَ اور جب ان کو کہا جاتا ہے جس طرح کہ خدا نے اپنی وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا صَرَّحَ الله في كتابه کتاب میں کھلے طور پر بیان کیا ہے کہ مسیح فوت مِن وَفَاةِ الْمَسِيحَ وَضَلالَةِ النَّصَارَى بَعْدَ ہو گیا اور ان کی وفات کے بعد نصاری گمراہ ہوئے تم وَفَاتِهِ لَا فِي زَمَنِ حَيَاتِهِ، قَالُوا أَنُؤْمِنُ بمعانی نہ ان کی حسین حیات میں تم بھی مان لو تو کہتے ہیں کیا بِمَعَانِي | تُخَالِفُ الْأَحَادِيكَ وَقَدْ كَانُوا يُعَلِّمُونَ ہم ایسے معنی مان لیں جو احادیث کے مخالف ہیں النَّاسَ أَنَّ الْخَيْرَ الْوَاحِد يُرَدُّ بِمُعَارَضَةِ كِتَاب اور حال یہ ہے کہ پہلے خود لوگوں کو پڑھایا کرتے الله فَنَسُوا مَا ذَكَرُوا النَّاسَ وَالْقَلَبُوا إلى تھے کہ خبر واحد جب کتاب اللہ کے معارض ہو تو وہ الْجَهْلِ بَعْدَمَا كَانُوا عَالِمِينَ وَمَا نَجِدُ في خبر واحدرد کی جاتی ہے.جولوگوں کو سناتے تھے اب حَدِيثٍ ذِكْرَ رَفْعِ الْمَسِيحِ حَيًّا بِجِسْمِهِ خود بھول گئے اور عالم ہونے کے بعد جاہل ہو گئے الْعُنْصُرِي بَلْ تَجِدُ ذِكْرَ وَفَاةِ الْمَسِيحِ في اور ہم کسی حدیث میں نہیں پاتے کہ مسیح زندہ بجسم الْبُخَارِي وَالطَّبْرَانِي وَغَيْرِهِمَا مِن كُتب عصری آسمان پر اُٹھایا گیا بلکہ بخاری اور طبرانی الْحَدِيثِ، فَلْيَرْجِعْ إِلى تِلْكَ الْكُتُبِ مَنْ كَانَ وغير ہما ( میں ) مسیح کی موت ہی کا ذکر پاتے ہیں اور جس کو شک ہے ان کتابوں کا مطالعہ کر لے.مِنَ الْمُرْتَابِينَ (ترجمه از مرتب) حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۱۹۸ تا ۲۰۰) وَكَذَلِكَ أَخْبَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت نے مسیح وَسَلَّمَ عَنْ مَوْتِ عِيسَى فِي حَدِيثٍ أَخَرَ کی وفات کی خبر دی ہے چنانچہ فرمایا کہ جب میرا خدا وَقَالَ إِذَا سَأَلَنِي رَبِّي عَنْ فَسَادِ أُمَّتِي فَأَقُولُ فِي میری امت کے فساد کی بابت مجھ سے دریافت فرمائے جَوَابِهِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيب گا تو میں عرض کروں گا کہ جب تو نے مجھے ماردیا تو پھر تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٨٨ سورة المائدة عَلَيْهِم كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ مِنْ قَبْلِي ہی ان پر نگہبان تھا جیسا کہ عبد صالح یعنی عیسی نے مجھے يَعْنِى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ فَانظُرْ كَيْفَ سے پہلے عرض کی تھی.دیکھو! آنحضرت نے مسیح کی أَشَارَ إِلى وَفَاةِ الْمَسِيحِ بِحَيْثُ اسْتَعْمَلَ وفات کی طرف کیا ہی عجیب اشارہ کیا ہے کہ اپنی ذات لِنَفْسِهِ جُمْلَةً فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كَمَا اسْتَعْمَلَهُ مبارکہ کے واسطے فَلَمَّا تَوَفِّيتَنِی کا جملہ ایسا ہی استعمال الْمَسِيحُ لِنَفْسِهِ.وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ الله فرمایا ہے جیسا کہ مسیح نے اپنے لیے استعمال کیا تھا اور تم صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تُوُفِّى وَقَبْرُهُ جانتے ہو کہ آنحضرت تو وفات پاگئے ہیں اور آپ کی قبر الْمُبَارَكُ مَوْجُودٌ في الْمَدِينَةِ فَانكَشف مبارک مدینہ طیبہ میں موجود ہے پس جبکہ آنحضرت نے مَعْنَى التَّوَقِّي يُجَعَل رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ مسیح کے واقعہ کو اپنے واقعہ سے مشابہ اور متحد کر دیا ہے تو وَسَلَّمَ وَاقِعَةَ الْمَسِيحَ وَوَاقِعَةً نَفْسِهِ وَاقِعَةُ اس سے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں توفی کے معنے بخوبی وَاحِدَةً وَظَهَرَ أَنَّ مَعْلَى النّوى في ايَةِ فَلَمَّا کھل گئے کہ بجز موت کے اور معنے نہیں اور جو معنی تَوَفَّيْتَنِي الْإِمَاتَةُ لَا غَيْرُهَا مِنَ الْمَعَانِي من گھڑت بنائے جاتے ہیں لغت عرب میں ان کی کوئی الْمَنْحُوْتَةِ الَّتِي لَا أَصْلَ لَهَا فِي لُغَةِ الْعَرَبِ اصل نہیں ہے ( پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ چکے ہیں) اور اگر جسم (سمیت) زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مَاتَ، وَلَوْ كَانَ مَعْنَاهُ الرَّفْعَ إلَى السَّمَاء حَیا اس کے معنی ہوتے تو اس سے لازم آتا ہے کہ آنحضرت مَّعَ الْجِسْمِ الْعُنْصُرِي كَمَا هُوَ زَعْمُ الْقَوْمِ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مع جسم عنصری زندہ آسمان پر اٹھائے لرُفِعَ إِذًا نَبِيُّنَا إِلَى السَّمَاءِ حَيًّا مَعَ الْجِسْمِ جاتے کیونکہ آپ نے اپنی ذات مبارکہ کو عیسی کے ساتھ الْعُنْصُرِي فَإِنَّهُ جَعَلَ نَفْسَهُ شَرِيكَ عِيْسى لفظ توفی میں شریک کیا ہے جو آیت فَلَما تولیتَنِی میں عَلَيْهِ السَّلَامُ في لفظ التَّوَفِّى الَّذِي يُوجَدُ في ہے جیسا کہ بخاری کی حدیث میں آیا ہے اور اگر ہم اپنی آيَةِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كَمَا جَاءَ فِي حَدِيثِ طرف سے مسیح کے لیے آیت میں کوئی خاص معنی لے الْبُخَارِي وَلَوْ جَعَلْنَا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِنَا لیویں اور کہیں کہ آنحضرت کے حق میں توفی کے معنے لِلْمَسِيحِ مَعْنًى خَاصَّا في هذِهِ الْآيَةِ وَقُلْنَا وفات ہیں اور عیسی کے حق میں اس کے معنے جسم عنصری إنَّ التَّوَقِّى في حَق رَسُولِنَا هُوَ الْوَفَاةُ، وَلكِن کے ساتھ آسمان پر اُٹھایا جانا اس کے معنی ہوتے تو في حَقِ عِيسَى أُريد مِنْهُ الرَّفَعُ مَعَ الْجِسْمِ اس سے لازم آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٨٩ سورة المائدة الْعُنْصُرِي لَا شَرِيكَ لَهُ في هَذَا الْمَعْنى بھی مع جسم عنصری زندہ آسمان پر اُٹھائے جانے کے ہیں فَهَذَا ظُلْمُ وَزُورٌ وَخِيَانَةٌ شَنِيْعَةٌ، اور یہ معنی عیسی سے مختص ہیں اور دوسرا کوئی ان میں شریک وَتَرْجِيْحُ بِلا مُرَجِ وَاسْتِخْفَافُ فِي شَأْنٍ نہیں تو یہ سخت ظلم اور جھوٹ اور خیانت اور ترجیح بلا مرجی ہے رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَادَعَا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی کا استخفاف ہے بِلا دَلِيْلٍ وَاضِح وحُجَةٍ سَاطِعَةٍ وَبُرْهَانٍ اور یہ ایک دعوئی ہے جس پر نہ کوئی روشن دلیل ہے اور نہ کوئی چمکتی ہوئی حجت اور نہ کوئی بین شہادت ہے.مُّبِينٍ (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۰۹،۲۰۸ حاشیه ) ( ترجمه از مرتب) نَعَمْ، يُوجَدُ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ لفظ ہاں ! بعض احادیث میں عیسی بن مریم کے نزول نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَلَكِن لَّن تَجِدَ فن کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں پاؤ حَدِيثٍ ذِكْرَ نُزولِهِ مِنَ السَّمَاءِ ، بَل ذکر گے کہ اس کا نزول آسمان سے ہوگا بلکہ قرآن میں وَفَاتِهِ مَوْجُودُ فِي الْقُرْآنِ وَمَا جَازَ أَن اس کی وفات کا ذکر موجود ہے اور جائز نہیں کہ یہ يَكُونَ هذَا التَّوَقِّ بَعْدَ النُّزُولِ لِأَنَّ الْفِتَنَ وفات نزول کے بعد ہو کیونکہ جن فتنوں کی طرف الَّتِي أُشِيْرَ إِلَيْهَا فِي ايَةِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي إِنَّمَا آيت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں اشارہ ہے ان کا روئے هَاجَتْ وَظَهَرَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مِن زمین پر ظہور اور غلبہ تو ایک لمبے زمانہ سے ہو چکا ہے مُدَّةٍ طويلةٍ، وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ كَمَا قَالَ اور جیسا خدا نے فرمایا ایسا ہی پورا ہو چکا ہے اور تو وَتَرَى النَّصَارَى يَنْحِتُونَ لَهُمُ الھا دیکھ رہا ہے کہ نصاری نے اپنے لیے ایک خدا اور ابن اللہ گھڑ لیا ہے.( ترجمہ از مرتب) وابن اله (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۰۲) وَقَالَ بَعْضُهُمْ أَنَّ ايَةً : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت فَلَنَا تَوَفَيْتَنِی برحق حَقٌّ وَلَا شَكَ أَنَّهَا يَدُلُّ عَلَى وَفَاةِ عِیسَی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ قطعی طور پر حضرت بِدَلَالَةٍ قَطْعِيَّةٍ، وَانَّهُ مَاتَ وَإِنَّا نُؤْمِنُ بِه عیسی علیہ السلام کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ وَكُتُبُ التَّفْسِيرِ مَملُوةٌ مِنْ هَذَا الْبَيَانِ آپ وفات پاگئے ہیں اور ہم اس پر ایمان بھی لاتے وَلَكِنَّهُ مَا بَقِيَ مَيْتًا بَلْ بُعِثَ حَيًّا بَعْدَ ہیں اور تفاسیر کی کتب اس بیان سے بھری پڑی ہیں لیکن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۰ سورة المائدة ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ أَوْ سَبْع سَاعَاتٍ ثُمَّ رُفِعَ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مرنے کے بعد موت إِلَى السَّمَاءِ بِجَسَدِهِ الْعُنَصْرِي، ثُمَّ يَنْزِلُ کی حالت میں باقی نہیں رہے تھے بلکہ تین دن یا سات في آخِرِ الزَّمَانِ عَلَى الْأَرْضِ وَيَمْكُتُ گھنٹوں کے بعد دوبارہ زندہ کر دیئے گئے تھے پھر آسمان أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يَمُوتُ مَرَّةً ثَانِيَةً کی طرف بجسد عنصری اٹھا لیے گئے.پھر آپ آخری وَيُدْفَنَ فِي أَرْضِ الْمَدِينَةِ فِي قَبْرِ رَسُولِ زمانہ میں زمین پر اتریں گے اور چالیس سال گزاریں اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَاصِل گے.پھر دوبارہ وفات پائیں گے اور مدینہ کی زمین كَلَامِهِمْ أَنَّ لِلْخَلْيِ كُلِهِمْ مَوْتُ میں نبی کریم صلعم کی قبر میں دفن کیے جائیں گے.گویا ان وَاحِدٌ وَلِلْمَسِيحِ مَوْتَيْنِ وَلَكِنَّنَا إِذَا کا حاصل کلام یہ ہے کہ تمام مخلوق کے لیے تو ایک ہی نظرنا في كِتَابِ الله سُبْحَانَهُ فَوَجَدْنَا موت ہے لیکن مسیح علیہ السلام کے لیے دو موتیں ہیں.هذَا الْقَوْلَ مُخَالِفًا لِنُصُوصِهِ الْبَيِّنَةِ.لیکن جب ہم اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید پر غور کرتے أَلا ترى أَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي ہیں تو اس قول کو اس کی نصوص بینہ کے خلاف پاتے ہیں.كِتَابِهِ الْمُحْكَمِ حِكَايَةٌ عَنْ مُؤْمِنٍ مُغْبطًا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں نَفْسَهُ بمَا أَعْطَاهُ اللهُ مِنَ الْخُلدِ فِي الْجَنَّةِ ایک ایسے مومن کی طرف سے حکایتاً بیان فرمایا ہے جو وَالْإِقَامَةِ فِي دَارِ الْكَرَامَةِ بِلَا مَوْتِ افتا ان نعماء پر اپنے نفس کو قابل رشک قرار دیتا تھا.جو اسے نَحْنُ مَيْتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى وَ مَا نَحْنُ ہمیشہ رہنے والی جنت اور عزت والے گھر میں موت کے مُعَذِّبِينَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ بغیر ہمیشہ کے لیے دی گئیں.یقینا یہ بہت بڑی کامیابی فَانظُرْ أَيُّهَا الْعَزِيزُ كَيْفَ أَشَارَ الله تعالی ہے.پس اے عزیز! دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات إلَى امْتِنَاعِ الْمَوْتِ التّالي بَعْد الْمَوْتَةِ میں کس طرح پہلی موت کے بعد دوسری موت کے ناممکن الأولى، وَبَشَرَنَا بِالْخُلُودِ فِي الْعَالم ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمیں موت کے بعد عالم الثَّانِي بَعْدَ الْمَوْتِ فَلَا تَكُن تین ثانی میں ہمیشہ رہنے کی بشارت دی ہے پس تو انکار کرنے الْمُنكِرِينَ والوں میں سے نہ بن.( ترجمہ از مرتب ) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۴۲) له الصفت : ۵۹ تا ۶۱
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة المائدة بخاری کھول کر دیکھو اور پاک دل کے ساتھ اس آیت میں غور کرو کہ میں قیامت کے دن اسی طرح فَلَنَا تَوَفِّيَتَنِي کہوں گا جیسا کہ ایک عبد صالح یعنی حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا اور سوچو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلمہ لفظ تو قی کے لئے کیسی ایک تفسیر لطیف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تغییر اور تبدیل کے لفظ متنازعہ فیہ کا مصداق اپنے تئیں ایسا ٹھہرا لیا جیسا کہ آیت موصوفہ میں حضرت عیسی علیہ السلام اس کے مصداق تھے.اب کیا ہمیں جائز ہے کہ ہم یہ بات زبان پر لاویں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَمَّا توفيتَنى کے حقیقی مصداق نہیں تھے اور حقیقی مصداق عیسی علیہ السلام ہی تھے اور جو کچھ اس آیت سے در حقیقت خدا تعالی کا منشاء تھا اور جو معنے توفی کے واقعی طور پر اس جگہ مراد الہی تھی اور قدیم سے وہ مراد علم الہی میں قرار پا چکی تھی یعنی زندہ آسمان پر اٹھائے جانا، نعوذ باللہ ! اس خاص معنی میں آنحضرت صلعم شریک نہیں تھے بلکہ آنحضرت نے اس آیت کو اپنی طرف منسوب کرنے کے وقت اس کے معنوں میں تغییر و تبدیل کر دی ہے اور دراصل جب اس لفظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کریں تو اس کے اور معنے ہیں اور جب حضرت مسیح کی طرف یہ لفظ منسوب کریں تو پھر اس کے وہی حقیقی معنے لئے جاویں گے جو خدائے تعالیٰ کے قدیم ارادہ میں تھے.پس اگر یہی بات سچ ہے تو علاوہ اس فساد صریح کے کہ ایک نبی کی شان سے بہت بعید ہے کہ وہ ایک قرار دادہ معنوں کو توڑ کر اُن میں ایک ایسا تصرف کرے کہ بجز تحریف معنوی کے اور کوئی دوسرا نام اس کا ہو ہی نہیں سکتا.دوسرا فساد یہ ہے کہ جس اتحاد مقولہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا یعنی فَلَمَّا توقیتَنِی کا وہ اتحاد بھی تو قائم نہ رہا کیونکہ اتحاد تو تب قائم رہتا کہ توفی کے معنوں میں آنحضرت اور حضرت عیسی شریک ہو جاتے مگر وہ شراکت تو میسر نہ آئی پھر اتحاد کس بات میں ہوا.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور لفظ نہیں ملتا تھا جو آپ نے ناحق ایک ایسے اشتراک کی طرف ہاتھ پھیلا یا جس کا آپ کو کسی طرح سے حق نہیں پہنچتا تھا.بھلا زمین میں دفن ہونے والے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے والے میں ایک ایسے لفظ میں کہ یا مرنے کے اور یا زندہ اٹھائے جانے کے معنے رکھتا ہے کیوں کر اشتراک ہو؟ کیا ضدین ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں؟ اور اگر آیت فلما توفيتَنى میں توفی کے معنے مارنا نہیں تھا تو پھر کیا امام بخاری کی عقل ماری گئی کہ وہ اپنی صحیح میں اسی معنے کی تائید کے لئے ایک اور آیت دوسرے مقام سے اٹھا کر اس مقام میں لے آیا یعنی آیت اني متوفيك اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ جڑ دیا کہ مُتَوَفِّيكَ : حميتك يعنى متوفيك کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں.اگر بخاری کا یہ مطلب نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة المائدة تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تمثیلی معنوں کو ابن عباس کے صریح معنوں کے ساتھ زیادہ کھول دے تو ان دونوں آیتوں کو جمع کرنے اور ابن عباس کے معنوں کے ذکر سے کیا مطلب تھا اور کون سا محل تھا کہ توفی کے معنے کی بحث شروع کر دیتا.پس در حقیقت امام بخاری نے اس کارروائی سے توفی کے معنوں میں جو کچھ اپنامذہب تھا ظاہر کر دیا.سو اس جگہ ہمارے تائید دعویٰ کے لئے تین چیزیں ہو گئیں ؛ اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک کہ جیسے عبد صالح یعنی عیسی نے فلما توفیتَنِی کہا.میں بھی فلمّا تَوَفَّيْتَنِی کہوں گا، دوسرے ابن عباس سے توئی کے لفظ کے معنے مارنا ہے، تیسرے امام بخاری کی شہادت جو اس کی عملی کا رروائی سے ظاہر ہو سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۰۶ تا ۴۰۸) اگر مسیح کی وفات کے عقیدہ کی وجہ سے ہمیں کافر کہا جاتا ہے تو امام مالک کو بھی کافر بناؤ کہ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا جس سے رجوع ثابت نہیں اور امام بخاری کا بھی یہی عقیدہ تھا اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا تو کیوں وہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی شرح کے وقت تائید حدیث کے لیے ابن عباس کا یہ قول لا تا مُتَوَفِّيكَ : مُمِيتُكَ پس اس حساب سے امام بخاری بھی کافر ہوئے اور یہی عقیدہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں ظاہر کیا ہے.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۴) رہی ہے.صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ مُتَوَقِيكَ : مُبینگن اور اس کی تائید میں صاحب بخاری اسی محل میں ایک حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لایا ہے.پس جو معنی توئی کے ابن عباس اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام متنازعہ فیہ میں ثابت ہو چکے اس کے برخلاف کوئی اور معنی کرنا یہی ملحدانہ طریق ہے مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام متنازعہ فیہ میں یہی معنی کئے.پس بڑی بے ایمانی ہے جو نبی کریم کے معنوں کو ترک کر دیا جائے اور جبکہ اس جگہ توفی کے معنی قطعی طور پر وفات دینا ہی ہوا تو پھر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وفات آئندہ کے زمانہ میں ہوگی کیونکہ آیت فلما تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيب عَلَيْهِمْ صاف صاف بتلا رہی ہے کہ وفات ہو چکی.وجہ یہ کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ جناب الہی میں عرض کرتے ہیں کہ عیسائی میری وفات کے بعد بگڑے ہیں.پھر اگر فرض کر لیں کہ اب تک حضرت عیسی فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ اب تک عیسائی بھی نہیں بگڑے حالانکہ ان کم بختوں نے عاجز انسان کو خدا بنا دیا اور نہ صرف شرک کی نجاست کھائی بلکہ سور کھانا، شراب پینا، زنا کر نا سب انہی لوگوں کے حصہ میں آگیا.کیا کوئی دنیا میں بدی ہے جو ان میں پائی نہیں جاتی ؟ کیا کوئی ایسا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة المائدة بدکاری کا کام ہے جس میں یہ لوگ نمبر اول پر نہیں؟ پس صاف ظاہر ہے کچھ یہ لوگ بگڑ گئے اور شرک اور نا پاکیوں کا جذام ان کو کھا گیا اور اسلام کی عداوت نے ان کو تحت الثریٰ میں پہنچا دیا اور نہ صرف آپ ہی ہلاک ہوئے بلکہ ان کی ناپاک زندگی نے ہزاروں کو ہلاک کیا.(ست بیچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۸) وَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ أَنَّهُمْ اور سب سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ وہ یہ کہتے يَقُولُونَ إِنَّا أَمَنَّا بِآيَاتِ اللهِ ثُمَّ لَا ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں لیکن يُؤْمِنُونَ وَيَقُولُونَ إِنَّا نَتَّبِعُ در حقیقت وہ ایمان نہیں لاتے.وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ صُحُفَ اللهِ ثُمَّ لَا يَتَّبِعُونَ أَلا تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں کی پیروی کرتے ہیں لیکن حقیقتاً يَقْرَأُونَ فِي الْكِتَابِ الْأَعْلى مَا قَالَ پیروی نہیں کرتے کیا وہ برتر کتاب قرآن کریم میں اس کو نہیں الله في عِيسَى إِذْ قَالَ: يُعيسى انى پڑھتے جو عیسی علیہ السلام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان مُتَوَفِّيكَ ، وَقَالَ: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي، وَمَا فرمایا ہے : اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اسی طرح قَالَ: إِنِّي مُحْيِيك.فمن أَيْنَ عُلِمَ فرمایا فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اور یہ نہیں فرمایا کہ میں تمہیں دوبارہ زندہ حَيَاةُ الْمَسِيحَ بَعْدَ مَوْتِهِ الصريح کرنے والا ہوں.پس آپ کی صریح موت کے بعد حیات مسیح کا يُؤْمِنُونَ بِأَنَّهُ لَقِيَ الْأَمْوَاتَ ثُمَّ علم ان لوگوں کو کہاں سے ہوا.یہ لوگ اس بات پر ایمان رکھتے يَقُولُونَ مَا مَاتَ تِلْكَ كَلِم ہیں کہ مسیح وفات یافتوں میں جا شامل ہوئے پھر بائیں ہمہ یہ بھی مُتَهَافِتَةٌ مُتَنَاقِضِةٌ لَّا يَنطِقُ بِهَا إِلَّا کہتے ہیں کہ آپ فوت نہیں ہوئے.یہ ساری باتیں متناقض اور الَّذِي ضَلَّتْ حَوَاتُه وَغَرَبَ عَقَلُه پایا اعتبار سے گری ہوئی ہیں ایسی باتیں صرف حواس باختہ اور عقل وَقِيَاسُهُ، وَتَرَكَ طَرِيقَ الْمُهْتَدِينَ و قیاس سے محروم اور ہدایت یافتہ لوگوں کے طریق کو ترک کرنے ( انجام آنتظم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۱ صفحه ۸۳) والا ہی کہہ سکتا ہے.(ترجمہ از مرتب) ۱۱ ہے.(ترجمہ أَمَا تَدَبَّرَ آيَةً فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي بِالْفِكْرِ کیا اُس نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی پر گہرے غور وفکر وَالْإِمْعَانِ فَإِنَّهُ نَضٌ صريح عَلى أَنَّ سے تدبر نہیں کیا ؟ کیونکہ یہ تو اس پر نص صریح ہے کہ عِيسَى مَاتَ في سَابِقِ الزَّمَانِ، لَا أَنَّه حضرت عیسی علیہ السلام گذشتہ زمانہ میں فوت ہو چکے نہ يَمُوتُ فِي حِينٍ مِنَ الْأَحْيَانِ فَإِنَّ کہ وہ آئندہ کسی وقت فوت ہوں گے.درحقیقت یہ صیغہ الصَّبْغَةَ تَدُلُّ عَلَى الزَّمَانِ الْمَاضِى زمانہ ماضی پر دلالت کرتا ہے اور علم الصرف یہاں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة المائدة وَالطَّرْفُ فَهُنَا كَالْقَاضِي ثُمَّ إِن كُنتَ لا قاضی کی طرح ہے.پھر اگر تم حکم صرف پر راضی ترضى يحكم الطَّرْفِ وَتَجْعَلُ الْمَاضِي نہیں اور ماضی کو حرف تبدیل کر کے مستقبل بناتے اسْتِقْبَالًا بِتَبْدِيلِ الْحَرفِ فَهَذَا ظلم ہو تو یہ تم سے اور تم جیسے دوسروں سے ظلم کا ارتکاب مِنكَ وَمِنْ أَمْثَالِكَ، وَمَعَ ذَالِك لا يُفينك ہے مزید برآں تمہاری بحث کا غلو تجھے کچھ فائدہ نہ خُلُو جِدَالِكَ، وَتَكُونُ فِي هَذَا أَيْضًا مِّن دے گا اور تو اس پہلو سے بھی کا ذبوں میں سے ہوگا.الْكَاذِبِينَ فَإِنَّ الْمَسِيحَ يَقُولُ فِي هَذِهِ بلا شبہ حضرت عیسی علیہ السلام ان آیات میں فرمار ہے الْآيَاتِ: إِنَّ قَوْمِي قَد ضَلُّوا بَعْدَ مَولى لافی ہیں کہ میری قوم زندگی میں نہیں بلکہ میری موت کے بعد الْحَيَاةِ، فَإِن كُنتَ تَحْسَبُ عِیسَی حَيًّا إلى گمراہ ہوئی پس اگر تو عیسی علیہ السلام کو اب تک آسمان هذَا الزَّمَانِ في السَّمَاءِ ، فَلَزِمَكَ أَنْ تُفِر میں زندہ خیال کرتا ہے تو تیرے لئے یہ تسلیم کرنا بَأَنَّ النَّصَارَى قَامُونَ عَلَى الْحَق إلى هذا لازم ہوگا کہ نصاری اس وقت تک حق پر قائم ہیں، الْعَصْرِ لَا مِنْ أَهْلِ الضَّلالَةِ وَالْهَوَاء فَأَيْنَ گمراہ اور ہوس پرست نہیں ہیں.پس اے مسکین! تَذْهَبُ يَا مِسْكِينُ، وَقَدْ أَحَاطَتْ عَلَيْكَ کہاں پھر رہے ہو؟ تم پر براہین نے احاطہ کر رکھا ہے الْبَرَاهِينُ وَظَهَرَ الْحَق وَأَنتَ تَكْتُمُه اور حق ظاہر ہو چکا جبکہ تو اسے تجاہل عارفانہ برتنے كَالْمُتَجَاهِلِينَ والوں کی طرح چھپا رہا ہے.(ترجمہ از مرتب ) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۱۳۶،۱۳۵) قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ مسیح وفات پا کر آسمان پر اٹھایا گیا ہے.لہذا اس کا نزول بر وزی ہے نہ کہ حقیقی اور آیت فَلَنَا تَو فیتنی میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسی علیہ السلام وقوع میں آگیا کیونکہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد بگڑیں گے نہ کہ ان کی زندگی میں.پس اگر فرض کر لیں کہ اب تک حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے اور یہ صریح باطل ہے بلکہ آیت تو بتلاتی ہے کہ عیسائی صرف مسیح کی زندگی تک حق پر قائم رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کے عہد میں ہی خرابی شروع ہو گئی تھی.اگر حواریوں کا زمانہ بھی ایسا ہوتا کہ اس زمانہ میں بھی عیسائی حق پر قائم ہوتے تو خدا تعالیٰ اس آیت میں صرف مسیح کی زندگی کی قید نہ لگاتا بلکہ حواریوں کی زندگی کی بھی قید لگا دیتا.پس اس جگہ سے ایک نہایت عمدہ نکتہ عیسائیت کے زمانہ فساد کا معلوم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة المائدة ہوتا ہے اور وہ یہ کہ در حقیقت حواریوں کے زمانہ میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہوگئی تھی.انجام آنتظم، روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۳۲۱) آیت فَلَمَّا توفيتنى صاف ظاہر کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور نیز حدیث نبوی سے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ اس جگہ توفی کے معنے مار دینے کے ہیں اور یہ کہنا بیجا ہے کہ یہ لفظ تو فیتنی جو ماضی کے صیغہ میں آیا ہے دراصل اس جگہ مضارع کے معنے دیتا ہے یعنی ابھی نہیں مرے بلکہ آخری زمانہ میں جا کر مریں گئے.کیونکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جناب الہی میں عرض کرتے ہیں کہ میری امت کے لوگ میری زندگی میں نہیں بگڑے بلکہ میری موت کے بعد بگڑے ہیں.پس اگر فرض کیا جائے کہ اب تک حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اب تک نصاری بھی نہیں بگڑے.کیونکہ آیت میں صاف طور پر بتلایا گیا کہ نصاریٰ کا بگڑنا حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے بعد ہے اور اس سے زیادہ اور کوئی سخت بے ایمانی نہیں ہوگی کہ ایسی نص صریح سے انکار کیا جائے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۱۹ حاشیه ) صحابه.....بلاشبه بموجب آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اس بات پر ایمان لاتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.تبھی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اس بات کا احساس کر کے کہ بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک رکھتے ہیں زور سے یہ بیان کیا کہ کوئی بھی نبی زندہ نہیں ہے سب فوت ہو گئے اور یہ آیت پڑھی کہ : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران : ۱۴۵) اور کسی نے ان کے اس بیان پر انکار نہ کیا.ވ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۰ ۲۲۱ حاشیه ) خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے بچے نبی کے دامن کو اس تہمت سے پاک کرے اس لئے اس نے قرآن میں یہ ذکر کیا : وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ ( النساء : ۱۵۸) اور یہ فرمایا : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى (ال عمران : ۵۶ ) تا معلوم ہو کہ یہودی جھوٹے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اور سچے نبیوں کی طرح رفع الی اللہ ہو گیا اور یہی وجہ ہے جو اس آیت میں یہ لفظ نہیں فرمائے گئے کہ رافعك الى الشماء بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رافعک الی تا صریح طور پر ہر ایک کو معلوم ہو کہ یہ رفع روحانی ہے نہ جسمانی کیونکہ خدا کی جناب جس کی طرف راستبازوں کا رفع ہوتا ہے روحانی ہے نہ جسمانی اور خدا کی طرف روح چڑھتے ہیں نہ کہ جسم.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة المائدة اور خدا تعالیٰ نے جو اس آیت میں تو ئی کو پہلے رکھا اور رفع کو بعد تو اسی واسطے یہ ترتیب اختیار کی کہ تا ہر ایک کو معلوم ہو کہ یہ وہ رفع ہے کہ جو راستبازوں کے لئے موت کے بعد ہوا کرتا ہے.ہمیں نہیں چاہیے کہ یہودیوں کی طرح تحریف کر کے یہ کہیں کہ دراصل توفّی کا لفظ بعد میں ہے اور رفع کا لفظ پہلے کیونکہ بغیر کسی محکم اور قطعی دلیل کے محض ظنون اور اوہام کی بنا پر قرآن کو الٹ پلٹ دینا ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحیں یہودیوں کی روحوں سے مشابہت رکھتی ہیں.پھر جس حالت میں آیت فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی میں صاف طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں کا تمام بگاڑ اور گمراہی حضرت عیسی کی وفات کے بعد ہوئی ہے تو اب سوچنا چاہیے کہ حضرت عیسی کو اب تک زندہ ماننے میں یہ اقرار بھی کرنا پڑتا ہے کہ اب تک عیسائی بھی گمراہ نہیں ہوئے اور یہ ایک ایسا خیال ہے جس سے ایمان جانے کا نہایت خطرہ ہے.(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۵،۲۴) میں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حکم ہوں ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی میں حکم ہوں اور میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں.سو میں بحیثیت حکم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا.ہاں ! نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے.نزول صفت بروزی تھانہ کہ حقیقی اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہم کلام ان کے بچے ہیں کیونکہ بموجب نص صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَنَا تَوَفیتَنِی کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا.یہ میری طرف سے بطور حکم کے فیصلہ ہے.اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حکم مقرر فرمایا ہے.(ضرورت الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶،۴۹۵) آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى نے صاف اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ عیسائی عقیدہ میں جس قدر بگاڑ اور فساد ہوا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوا.اب اگر حضرت عیسی کو زندہ مان لیں اور کہیں کہ اب تک وہ فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ نصاری نے بھی اب تک اپنے عقائد کو نہیں بگاڑا کیونکہ آیت موصوفہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نصاریٰ کے عقیدوں کا بگڑنا حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوگا.رہی یہ بات کہ توفی کے اس جگہ کیا معنے ہیں؟ اس کا فیصلہ نہایت صفائی سے صحیح بخاری میں ہو گیا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة المائدة کہ توفی مارنے کو کہتے ہیں.یہ قول ابن عباس ہے جس کو حدیث كما قَالَ الْعَبْدُ الصَّالح کے ساتھ بخاری میں اور بھی تقویت دی گئی ہے اور شارح عینی نے اس قول کا اسناد بیان کیا ہے.اب ایک تسلی ڈھونڈنے والا سمجھ سکتا ہے کہ قرآن شریف اور اس کتاب میں جو اصح الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللہ ہے صاف گواہی دی گئی ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے اور اس شہادت میں صرف امام بخاری رضی اللہ عنہ متفرد نہیں بلکہ امام ابن حزم اور امام مالک رضی اللہ عنہما بھی موت عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور ان کا قائل ہونا گویا اُمت کے تمام اکابر کا قائل ہونا ہے کیونکہ اس زمانہ کے اکابر علماء سے مخالفت منقول نہیں اور اگر مخالفت کرتے تو البتہ کسی کتاب میں اُس کا ذکر ہوتا.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۶۹) یہ جو کہا جاتا ہے کہ اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى ابْرَاهِيمَ تو اس سے ہر گز نہیں سمجھا جاتا کہ مفہوم صلوٰۃ کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ غیر اس مفہوم کا ہے جو حضرت ابراہیم کی نسبت استعمال کیا گیا ہے.ایسا خیال کرنا تو سراسر حماقت ہے.پس اسی طرح یہ بھی حماقت ہے کہ آیت فلما توفيتَنِي کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے آنجناب کی وفات مراد لی جائے اور پھر جب حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف اسی آیت کو منسوب کریں تو اُن کی حیات مُراد لی جائے تو یہ تشبیہ کیوں کر ٹھہری ؟ یہ دونوں امرتو ایک دوسرے کے ضد واقع ہیں.اس سے زیادہ اور کوئی حماقت نہیں ہوگی کہ تشبیہ میں مخالفت اور منافات تلاش کی جائے ؟ ہاں ! جس فرق کا مشبہ، مشبہ بہ میں باوجود اشتراک امر مشابہت کے ہونا ضروری ہے.اس جگہ وہ فرق اس طرح پر ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس بات کا جواب دینا تھا کہ اُن کے مرنے کے بعد اُن کی پرستش ہوئی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا جواب دینا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بعض لوگ اسلام کی سنتوں اور راہوں پر قائم نہ رہے اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی.اس اختلاف سے جو دو امتوں کی ضلالت میں پایا جاتا ہے مشبّہ اور مشبہ بہ کا فرق ظاہر ہو گیا اور یہی ہونا چاہیئے تھا نہ یہ کہ مشبہ اور مشبہ بہ ایک دوسرے کے نقیض ہوں جیسے مردہ اور زندہ اور بُزدل اور شجاع.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۱۸،۳۱۷) خدا نے صریح لفظوں میں حضرت عیسی کی وفات کو قرآن کریم میں ظاہر فرما دیا ہے.دیکھو کیسی یہ آیت یعنی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي حضرت عیسی کی وفات پر نص صریح ہے اور اب اس آیت کے سننے کے بعد اگر کوئی حضرت عیسی کی وفات سے انکار کرتا ہے تو اُسے ماننا پڑتا ہے کہ عیسائی اپنے عقائد میں حق پر ہیں کیونکہ اس آیت کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة المائدة مطلب یہ ہے کہ عیسائی لوگ حضرت عیسی کی وفات کے بعد بگڑیں گے پھر جب کہ اس آیت سے موت ثابت ہوئی تو آسمان سے نازل کیوں کر ہوں گے؟ آسمان پر مُردے تو نہیں رہ سکتے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۲۵،۳۲۴) یقیناً اُس وقت عیسائیوں نے مسیح کی الوہیت کے لئے یہ جنت بھی پیش کی ہوگی کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے لہذا اس کے رد میں خدا تعالیٰ کو خود مسیح کے اقرار کے حوالہ سے یہ کہنا پڑا: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۲ حاشیه ) اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام صاف اقرار کرتے ہیں کہ عیسائی میرے مرنے کے بعد بگڑے ہیں میری زندگی میں ہر گز نہیں بگڑے.پس اگر حضرت عیسی علیہ السلام اب تک بجسم عنصری زندہ ہیں تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک اپنے سچے دین پر قائم ہیں اور یہ صریح باطل ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۱ حاشیه ) افسوس کہ قرآن شریف میں فلما توفیتنی کی آیت پڑھتے ہو اور خوب جانتے ہو کہ سارے قرآن شریف میں ہر جگہ تو ٹی بمعنی قبض روح ہے اور ایسا ہی یقین رکھتے ہو کہ تمام حدیثوں میں بھی توفی بمعنی قبض روح ہے اور پھر افترا کے طور پر کہتے ہو کہ اس جگہ پر توفی بمعنی زندہ اُٹھا لینے کے ہیں.پس اگر تم اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا نہیں کرتے تو بتلاؤ اور پیش کرو کہ کس حدیث میں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ مع جسم عصری آسمان پر چلے گئے تھے.ہائے افسوس! اس قدر جھوٹ اور افترا.( تحفه غزنویه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۶۲) میں تو اب بھی ماننے کو طیار ہوں اگر آیت فَلَما توفیتَنی کے معنے بجز مارنے اور ہلاک کرنے کے کسی حدیث سے کچھ اور ثابت کر سکو یا کسی آیت یا حدیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مع جسم عصری آسمان پر چڑھنا یا مع جسم عصری آسمان سے اترنا ثابت کر سکو یا اگر اخبار غیبیہ میں جو خدا تعالیٰ سے مجھ پر ظاہر ہوتی ہیں میرا مقابلہ کر سکو یا استجابت دعا میں میرا مقابلہ کر سکو یا تحریر زبان عربی میں میرا مقابلہ کر سکو یا اور آسمانی نشانوں میں جو مجھے عطا ہوئے ہیں میرا مقابلہ کر سکو تو میں جھوٹا ہوں.( تحفه غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۴۳) خود بخاری نے اسی مقام میں اس آیت یعنی فَلَمَّا تو فیتنی کو بغرض تظا ہر آیتین ذکر کر کے جنتلا دیا ہے کہ یہی تفسیر فلما توفیتنی کی ہے اور وہی استدلال قول ابن عباس کا اس جگہ صحیح ہے جیسا کہ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں صحیح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة المآئدة ہے اور نیز اس جگہ یہ یادر ہے کہ خدا تعالیٰ جو اصدق الصادقین ہے اُس نے اپنی کلام میں صدق کو دو قسم قرار دیا ہے؛ ایک صدق باعتبار ظاہر الاقوال، دوسرے صدق باعتبار التاويل والمال.پہلی قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میسٹی مریم کا بیٹا تھا اور ابراہیم کے دو بیٹے تھے اسمعیل و اسحاق کیونکہ ظاہر واقعات بغیر تاویل کے یہی ہیں.دوسری قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے قرآن شریف میں کفار یا گذشتہ مومنوں کے کلمات کچھ تصرف کر کے بیان فرمائے گئے ہیں اور پھر کہا گیا کہ یہ انہی کے کلمات ہیں اور یا جو قصے توریت کے ذکر کئے گئے ہیں اور اُن میں بہت سا تصرف ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ جس اعجازی طرز اور طریق اور فصیح فقروں اور دلچسپ استعارات میں قرآنی عبارات ہیں اس قسم کے فصیح فقرے کافروں کے منہ سے ہر گز نہیں نکلے تھے اور نہ یہ ترتیب تھی بلکہ یہ ترتیب قصوں کی جو قرآن میں ہے تو ریت میں بھی بالالتزام ہرگز نہیں ہے.حالانکہ فرمایا ہے إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسى ( الاعلى : (۲۰،۱۹) اور اگر یہ کلمات اپنی صورت اور ترتیب اور صیغوں کے رُو سے وہی ہیں جو مثلاً کافروں کے منہ سے نکلے تھے تو اس سے اعجاز قرآنی باطل ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ فصاحت کفار کی ہوئی نہ قرآن کی اور اگر وہی نہیں تو بقول تمہارے کذب لازم آتا ہے کیونکہ اُن لوگوں نے تو اور اور لفظ اور اور ترتیب اور اور صیغے اختیار کئے تھے اور جس طرح مُتَوَفِّيكَ اور توفیتنی دو مختلف صیغے ہیں.اسی طرح صدہا جگہ ان کے صیغے اور قرآنی صیغے باہم اختلاف رکھتے تھے مثلاً توریت میں ایک قصہ یوسف ہے نکال کر دیکھ لو اور پھر قرآن شریف کی سورہ یوسف سے اس کا مقابلہ کرو تو دیکھو کہ کس قدر صیغوں میں اختلاف اور بیان میں کمی بیشی ہے بلکہ بعض جگہ بظاہر معنوں میں بھی اختلاف ہے.ایسا ہی قرآن نے بیان کیا ہے کہ ابراہیم کا باپ آذر تھا لیکن اکثر مفسر لکھتے ہیں کہ اس کا باپ کوئی اور تھانہ آزر.اب اے نادان ! جلد تو بہ کر کہ تو نے پادریوں کی طرح قرآن پر بھی حملہ کر دیا.صحیح بخاری کی پہلی حدیث ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ ، اسی طرح جب ہم نے دیکھا کہ اس محل میں تمام احادیث کا مقصود مشترک یہ ہے کہ توفینی کے معنے ہیں امتنی تو بصحت نیت اس کا ذکر کر دیا.اس طرز کے بیان کو جھوٹ سے کیا مناسبت اور جھوٹ کو اس سے کیا نسبت؟ کیا یہ سچ نہیں کہ امام بخاری کا مدعا اس فقرہ متوفيك: حميتك سے یہ ثابت کرنا ہے کہ لما توفیتنی کے معنے ہیں آمینی اور اسی لئے وہ دو مختلف محل کی دو آیتیں ایک جگہ ذکر کر کے اور ایک دوسرے کو بطور نظا ہر قوت دے کر دکھلاتا ہے کہ ابن عباس کا یہ منشاء تھا کہ لما توفيتنى کے معنی ہیں آمَتَنی.اس لئے ہم نے بھی بطور تاویل اور مال کے یہ کہہ دیا کہ حدیثوں کے
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام روس لما توقيتني کے معنے آمنینی ہے.بھلا اگر یہ صیح نہیں ہے تو تو ہی بتلا کہ جبکہ متوفيك کے معنے هميتك ہوئے تو اس قول ابن عباس کے رُو سے لما توقیف کے کیا معنے ہوئے ؟ کیا ہمیں ضرور نہیں کہ ہم لما توفيتَنِي کے معنے ایسی حدیث کی رُو سے کریں جیسی کہ حدیث کے رُو سے متوفيك کے معنے کئے گئے ہیں.اگر ہم اس بات کے مجاز ہیں کہ ایک ہی محل کی دو آیتوں کی تفسیر میں ایک آیت کی تفسیر کو بطور حجت پیش کر دیں تو اس میں کیا جھوٹ ہوا کہ ہم نے لکھ دیا کہ حدیث کے رُو سے لَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے معنے لما امتنی ہیں.جبکہ توفی کے ایک صیغہ میں حدیث کی رُو سے یہ مستفاد ہو چکا کہ اس کے معنے وفات دینا ہے تو وہی استدلال دوسرے صیغہ میں بھی جاری کرنا کیوں حدیثی استدلال سے باہر سمجھا جاتا ہے اور یہ کہنا کہ ہم اُسی قول کو حدیث کہیں گے جس کا اسناد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو یعنی وہ مرفوع متصل ہو، یہ اور جہالت ہے کیا جو منقطع حدیث ہو اور مرفوع متصل نہ ہو وہ حدیث نہیں کہلاتی ؟ شیعہ مذہب کے امام اور محدث کسی حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچاتے تو کیا اُن اخبار کا نام احادیث نہیں رکھتے اور خود سنیوں کے محدثوں نے بعض اخبار کو موضوع کہہ کر پھر بھی اُن کا نام حدیث رکھا ہے اور حدیث کو کئی قسموں پر منقسم کر کے سب کا نام حدیث ہی رکھ دیا ہے.افسوس کہ تم لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اُن باتوں کا نام بھی جھوٹ رکھتے ہو جس طرز کو قرآن شریف نے اختیار کیا ہے اور محض شرارت سے خدا کی پاک کلام پر حملہ کرتے ہو.ظاہر ہے کہ اگر مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں نے پلاؤ کی ساری رکابی کھالی تو اُس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے اور جھوٹ یہ کہ اُس نے چاول کھائے ہیں رکا بی کو توڑ کر تو نہیں کھایا اور جبکہ نصوص حدیثیہ کا استدلال کلیت کا فائدہ بخشتا ہے تو یہ کہنا کہ حدیث کے رُو سے لما توفيتَنِي کے معنے لما امتی ہیں یعنی اس بنا پر کہ متوفيك : ميميتك آچکا ہے اس میں کون سا کذب اور دروغ ہے لیکن ایسے جاہل کو کون سمجھائے جو اپنی جہالت کے ساتھ تعصب کی زہر بھی مخلوط رکھتا ہے مگر غنیمت ہے کہ جیسا کہ یہ لوگ تین جھوٹ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ایسا ہی تین جھوٹ میری طرف بھی منسوب کئے.ہم اس ابراہیمی مشابہت پر فخر کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے جھوٹ اور افتر کو ان کے منہ پر مارتے ہیں.تحفه نغز نوسیه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۶۸ تا ۵۷۱) ایماندار کے لئے صرف ایک آیت فَلَنا تو فیتنی اس بات پر دلیل کافی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے تیس مقامات میں لفظ توفی کو قبض روح کے موقعہ پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+1 سورة المائدة استعمال کیا.اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توئی کا ایسا نہیں جس کے ہجر قبض روح اور مارنے کے اور معنے ہوں اور پھر ثبوت پر ثبوت یہ کہ صحیح بخاری میں ابن عباس سے متوفيك كے معنے حميتك لکھے ہیں.ایسا ہی تفسیر فوز الکبیر میں بھی یہی معنے مندرج ہیں اور کتاب عینی تفسیر بخاری میں اس قول کا اسناد بیان کیا ہے.اب اس نص قطعی سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے ضرور مرچکے ہیں اور احادیث میں جہاں کہیں توٹی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنے مارنا ہی آیا ہے جیسا کہ ا محدثین پر پوشیدہ نہیں اور علم لغت میں یہ مسلم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنے توفی کے نہیں آتے.تمام دواوین عرب اس پر گواہ ہیں.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۰) ہمارے علماء کا یہ خیال ہے کہ وہی مسیح عیسی ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی تھی آخری زمانہ میں آسمان پر سے نازل ہو گا لیکن ظاہر ہے کہ قرآن شریف اس خیال کے مخالف ہے اور آیت : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ انْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ....اور دوسری تمام آیتیں جن کا ہم اپنی کتابوں میں ذکر کر چکے ہیں اس امر پر قطعیۃ الدلالت ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی موت کا انکار قرآن سے انکار ہے.(تحفہ گولر و سیه، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۲۹۵) قرآن شریف جو خدا کا کلام ہے اس کے نصوص صریحہ سے تو حضرت مسیح کی موت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ خدا نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ وہ وفات پاچکا جیسا کہ آیت فلما توفيتَنِی اس پر شاہد ہے.آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ توفی کے معنے بجر قبض روح کے اور کچھ نہیں.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۷۳، ۳۷۴) جیسا کہ لغت میں توفی کے معنے جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول یہ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں ایسا ہی قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک تو ٹی کا لفظ صرف مارنے اور قبض روح پر ہی استعمال ہوا ہے.بجز اس کے سارے قرآن میں اور کوئی معنے نہیں.اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۷۴ حاشیہ) یہ آیت تو صاف دلالت کرتی ہے کہ وہ عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے مر چکے ہیں غرض اگر آیت فَلمَّا تو فیتنی کے یہ معنی ہیں کہ مع جسم زندہ عیسی کو آسمان پر اُٹھا لیا تو کیوں خدا نے ایسے شخص کی موت کا سارے قرآن میں ذکر نہیں کیا جس کی زندگی کے خیال نے لاکھوں کو ہلاک کر دیا گویا خدا نے اس کو ہمیشہ کے لئے اس لئے زندہ رہنے دیا کہ تا لوگ مشرک اور بے دین ہو جائیں اور گویا یہ لوگوں کی غلطی نہیں بلکہ خدا نے یہ سب کچھ خود کیا تا لوگوں کو گمراہ کرے.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۷،۱۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ سورة المائدة اسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ اگر وہ دنیا میں آنے والے ہوتے تو اس صورت میں یہ جواب حضرت عیسی کا محض جھوٹ ٹھہرتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں جو شخص دوبارہ دنیا میں آیا اور چالیس برس رہا اور کروڑہا عیسائیوں کو دیکھا جو اس کو خدا جانتے تھے اور صلیب تو ڑا اور تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا وہ کیوں کر قیامت کو جناب الہی میں یہ عذر کر سکتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۶ حاشیه ) یا درکھو کہ اب عیسی تو ہر گز نازل نہیں ہوگا کیونکہ جو اقرار اُس نے آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے رو سے قیامت کے دن کرنا ہے اس میں صفائی سے اُس کا اعتراف پایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور قیامت کو اس کا یہی عذر ہے کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھے خبر نہیں اور اگر وہ قیامت کے پہلے دنیا میں آتا تو کیا وہ یہی جواب دیتا کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں.لہذا اس آیت میں اُس نے صاف اقرار کیا ہے کہ میں دوبارہ دنیا میں نہیں گیا اور اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آنے والا تھا اور برابر چالیس برس رہنے والا جب تو اُس نے خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولا کہ مجھے عیسائیوں کے حالات کی کچھ خبر نہیں اس کو تو کہنا چاہئے تھا کہ آمدثانی کے وقت میں نے چالیس کروڑ کے قریب دنیا میں عیسائی پایا اور اُن سب کو دیکھا اور مجھے ان کے بگڑنے کی خوب خبر ہے اور میں تو انعام کے لائق ہوں کہ تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا اور صلیبیوں کو توڑا، یہ کیسا جھوٹ ہے کہ عیسی کہے گا کہ مجھے خبر نہیں.غرض اس آیت میں نہایت صفائی سے میچ کا اقرار ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور یہی بیچ ہے کہ مسیح فوت ہو چکا اور سرینگر محلہ خانیار میں اُس کی قبر ہے.اب خدا خود نازل ہوگا اور ان لوگوں سے آپ لڑے گا جو سچائی سے لڑتے ہیں.خدا کا لڑ نا قابل اعتراض نہیں کیونکہ وہ نشانوں کے رنگ میں ہے لیکن انسان کا لڑنا قابل اعتراض ہے کیونکہ وہ جبر کے رنگ میں ہے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۶) الكَذِبُونَنِي وَلَا تَجِيعُونَنی کیا تم مجھ کو جھٹلاتے ہو حالانکہ نہ تم میرے پاس آتے ہو اور نہ وَلَا تَسْتَلُوْنَ إِنَّ عِيسَى مَاتَ وَلَا مجھ سے پوچھتے ہو کہ عیسی علیہ السلام کس طرح فوت ہو گئے ہیں يحيى بِاحْيَاءِ كُمْ فَلَا تُكَذِّبُوا حالانکہ وہ تمہارے زندہ قرار دینے سے زندہ نہیں ہو سکتے پس الْقُرْآن أَيُّهَا الْمُجْتَرِءُونَ وان اے جرات کرنے والو! تم قرآن مجید کی تکذیب نہ کرو.اگر مسیح كَانَ نَازِلاً قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ قیامت سے قبل آسمان سے نازل ہونے والے ہوتے جیسا کہ تم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٠٣ سورة المائدة كَمَا تَزْعَمُونَ فَلِمَ انْكَرَ لَمَّا سُئِل خیال کرتے ہو تو پھر جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے عَنْ ضَلَالَةِ النَّصَارَى وَاعْتَذَرَ بِعَدَمِ متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے انکار کیوں کیا اور کیوں عدم الْعِلْمِ كَمَا انْتُمْ تَنْدُسُونَ وَلَمْ علم کا عذر کیا جیسا کہ تم قرآن مجید میں پڑھتے ہو اور یہ نہ کہا يَقُلْ إِنِّي أَعْلَمُ مَا أَحْدَثُوا بَعْدِی کہ میں جانتا ہوں کہ انہوں نے میرے بعد کیا کیا بدعتیں يمَارُ دِدْتُ إِلَى الدُّنْيَا وَرَنَيْتُ ما اختیار کیں کیونکہ میں دنیا میں واپس گیا تھا اور میں نے كَانُوا يَعْمَلُونَ.وَكَانَ الْحَقُّ أَنْ يَقُولَ دیکھا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں پس حق یہ تھا کہ آپ کہتے کہ رَبِّ إِنِّي رَجَعْتُ إِلَى الدُّنْيَا باذنك اے میرے پروردگار! تیرے اذن سے دوبارہ دنیا میں گیا وَلَبِثْتُ فِيهِمْ إِلَى أَرْبَعِينَ سَنَةً تھا اور ان میں چالیس سال رہا تھا.میں نے انہیں اپنی اور فَوَجَدْتُهُمْ يَعْبُدُونَني وَأنْيَ وَعَلَيْهِ اپنی والدہ کی عبادت کرتے پایا اور وہ اس طریق پر مصر يُصِرُّونَ فَكَسَرْتُ صُلْبَاءَهُم رہے.پس میں نے ان کی صلیبوں کو توڑا اور میں نے ان کے وَاَصْلَحْتُ زَمَانَهُمْ وَقَتَلْتُ كَثِيرًا زمانہ کی اصلاح کی اور ان میں سے بہتوں کو قتل کیا پس وہ مِّنْهُمْ فَدَخَلُوا فِي دِينِ اللهِ وَهُمُ تضرع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہو گئے.يَتَضَرَّعُوْنَ.فَاسْتَلُوا عِیسی کم پس اپنے میسی سے دریافت کرو کہ وہ قیامت کے دن کیوں لِمَ يَكْذِبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيُخفى جھوٹ بولیں گے اور اس طرح اس شہادت کو جو ان کے پاس شَهَادَةٌ كَانَتْ عِندَهُ كَأَنَّهُ مِنَ الَّذِينَ تھی چھپائیں گے.گویا کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے.(ترجمہ از مرتب) لا يَعْلَمُونَ (تحفة الندوة ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۹) اللہ تعالی قیامت کو حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا تو حضرت عیسی جواب دیں گے کہ یا الہی ! اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تیرے علم سے کوئی چیز باہر نہیں.میں نے تو صرف وہی کہا تھا جو تو نے فرمایا تھا پھر جبکہ تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر صرف تو ہی ان کا نگہبان تھا مجھے اُن کے حال کا کیا علم تھا.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور چالیس برس دنیا میں ٹھہریں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور عیسائیوں کے ساتھ لڑائیاں کریں گے تو وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة المائدة قیامت کو خدائے تعالیٰ کے حضور میں کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ جب تو نے مجھے وفات دی تو اس کے بعد مجھے کیا علم ہے کہ عیسائیوں نے کون سی راہ اختیار کی.اگر وہ یہی جواب دیں گے کہ مجھے خبر نہیں تو ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی جھوٹا نہیں ہوگا کیونکہ جس شخص کو یہ علم ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آیا تھا اور عیسائیوں کو دیکھا تھا کہ اس کو خدا سمجھ رہے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں اور ان سے لڑائیاں کیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے روبرو انکار کرتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا اس سے زیادہ کا ذب کون ٹھہر سکتا ہے.جواب صحیح تو یہ تھا کہ ہاں! میرے خداوند مجھے عیسائیوں کی گمراہی کی خوب خبر ہے کیونکہ میں دوبارہ دنیا میں جا کر چالیس برس تک وہاں رہا اور صلیب کو توڑا پس میرا کچھ گناہ نہیں ہے.جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو میں اُسی وقت ان کا دشمن ہو گیا بلکہ ایسی صورت میں کہ جبکہ قیامت سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام چالیس برس تک دنیا میں رہ چکے ہوں گے اور اُن سب کو سزائیں دی ہوں گی جو اُن کو خدا سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کا ایسا سوال اُن سے ایک لغوسوال ہوگا کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے کہ اُس شخص نے اپنے معبود ٹھہرائے جانے کی اطلاع پا کر ایسے لوگوں کو خوب سزا دی تو پھر ایسا سوال کرنا اس کی شان سے بعید ہے.غرض جس قدر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے یہ کھول کر سنا دیا ہے کہ عیسی فوت ہو گیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا.ہاں اس کا مثیل آنا ضروری ہے.اگر اس قسم کی تصریح ملا کی نبی کے صحیفہ میں ہوتی تو یہود ہلاک نہ ہوتے پس بلا شبہ وہ لوگ یہود سے بدتر ہیں کہ جو اس قدر تصریحات خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں پا کر پھر حضرت عیسی کے دوبارہ آنے کے منتظر ہیں.( تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱،۲۰) خدا تعالیٰ قیامت کو حضرت عیسی سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور ہماری پرستش کرنا اور وہ جواب دیں گے کہ اے میرے خدا! اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تو عالم الغیب ہے.میں نے تو وہی باتیں اُن کو کہیں جو تو نے مجھے فرما ئیں یعنی یہ کہ خدا کو وحدہ لاشریک اور مجھے اس کا رسول مانو.میں اُس وقت تک اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا جب تک کہ میں اُن میں تھا.پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو اُن پر گواہ تھا.مجھے کیا خبر ہے کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا.اب ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہ جواب دیں گے کہ جب تک میں زندہ تھا عیسائی لوگ بگڑے نہیں تھے اور جب میں مر گیا تو مجھے خبر نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا.پس اگر مان لیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور کچے مذہب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۵ سورة المائدة پر قائم ہیں.پھر ماسوا اس کے اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام اپنی وفات کے بعد اپنی بے خبری ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی اُس وقت سے مجھے اپنی امت کا کچھ حال معلوم نہیں.پس اگر یہ بات صحیح مانی جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور مہدی کے ساتھ مل کر کافروں سے لڑائیاں کریں گے تو نعوذ باللہ ! قرآن شریف کی یہ آیت غلط ٹھہرتی ہے.اور یا یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے اور اس بات کو چھپائیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہے تھے اور مہدی کے ساتھ مل کر عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں.پس اگر کوئی قرآن شریف پر ایمان لانے والا ہو تو فقط اس ایک ہی آیت سے تمام وہ منصو بہ باطل ثابت ہوتا ہے جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مہدی خونی پیدا ہوگا اور عیسی اس کی مدد کے لئے آسمان سے آئے گا.بلا شبہ وہ شخص قرآن شریف کو چھوڑتا ہے جو ایسا اعتقا درکھتا ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۹۶، ۱۹۷) عیسی علیہ السلام کو خدا نے وفات دے دی جیسا کہ خدا تعالیٰ کی صاف اور صریح آیت : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كنت أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِمُ اس پر شاہد ہے جس کے معنے آیات متعلقہ کے ساتھ یہ ہیں کہ خدا قیامت کو عیسی سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی اپنی اُمت کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانو تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا تو اُن پر شاہد تھا اور اُن کا نگہبان تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا علم تھا کہ میرے بعد وہ کسی ضلالت میں مبتلا ہوئے.اب اگر کوئی چاہے تو آیت فلما توفیتَنِی کے یہ معنے کرے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اور چاہے تو اپنی ناحق کی ضد سے باز نہ آکر یہ معنے کرے کہ جب تو نے مع جسم عنصری مجھے آسمان پر اُٹھا لیا.بہر حال اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دُنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ اگر وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئے ہوتے اور صلیب توڑی ہوتی تو اس صورت میں ممکن نہیں کہ عیسیٰ جو خدا کا نبی تھا ایسا صریح جھوٹ خدا تعالیٰ کے روبرو قیامت کے دن بولے گا کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد میری اُمت نے یہ فاسد عقیدہ اختیار کیا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دے دیا.کیا وہ شخص جو دوبارہ دنیا میں آوے اور چالیس برس دنیا میں رہے اور عیسائیوں سے لڑائیاں کرے، وہ نبی کہلا کر ایسا مکروہ جھوٹ بول سکتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں؟ پس جب کہ یہ آیت حضرت عیسی کو دوبارہ آنے سے روکتی ہے ورنہ وہ دروغ گو ٹھہرتے ہیں.تو اگر وہ مع جسم عصری آسمان پر ہیں
1+7 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة اور بموجب تصریح اس آیت کے قیامت کے دن تک زمین پر نہیں اُتریں گے تو کیا وہ آسمان پر ہی مریں گے اور آسمان میں ہی اُن کی قبر ہوگی لیکن آسمان پر مرنا آیت فِيهَا تَمُوتُونَ (الاعراف : ۲۶) کے برخلاف ہے.پس اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ وہ آسمان پر مع جسم عنصری نہیں گئے بلکہ مرکر گئے اور جس حالت میں کتاب اللہ نے کمال تصریح سے یہ فیصلہ کر دیا تو پھر کتاب اللہ کی مخالفت کرنا اگر معصیت نہیں تو اور کیا ہے؟ (رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۳، ۳۱۴) جولوگ مسلمان کہلا کر حضرت عیسی کو مع جسم عنصری آسمان پر پہنچاتے ہیں وہ قرآن شریف کے برخلاف ایک لغو بات منہ پر لاتے ہیں.قرآن شریف تو آیت فلما توفيتنى میں حضرت عیسی کی موت ظاہر کرتا ہے اور آیت : قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً ( بني اسرائیل : ۹۴) میں انسان کا مع جسم عصری آسمان پر جانا ممتنع قرار دیتا ہے.پھر یہ کیسی جہالت ہے کہ کلام الہی کے مخالف عقیدہ رکھتے ہیں.توفی کے یہ معنی کرنا کہ مع جسم عصری آسمان پر اُٹھائے جانا اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہوگی.اوّل تو کسی کتاب لغت میں تو فی کے یہ معنی نہیں لکھے کہ مع جسم عصری آسمان پر اُٹھایا جانا پھر ماسوا اس کے جبکہ آیت فلتا توقیفی قیامت کے متعلق ہے یعنی قیامت کو حضرت عیسی خدا تعالی کو یہ جواب دیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ قیامت تو آجائے گی مگر حضرت عیسی نہیں مریں گے اور مرنے سے پہلے ہی مع جسم عصری خدا کے سامنے پیش ہو جائیں گے قرآن شریف کی یہ تحریف کرنا یہودیوں سے بڑھ کر قدم ہے.چشمه سیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۵ حاشیه ) دوسرا گناہ ان لوگوں کا یہ ہے کہ قرآن شریف کی نص صریح کے برخلاف حضرت عیسی کو زندہ تصور کرتے ہیں.قرآنِ شریف میں صریح یہ آیت موجود ہے: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ اور اس آیت کے معنے یہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب کہ تو نے مع جسم عنصری مجھ کو آسمان پر اُٹھا لیا.یہ عجیب لغت ہے جو حضرت عیسی سے ہی خاص ہے.افسوس! اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جیسا کہ قرآن شریف میں تصریح ہے یہ سوال حضرت عیسی سے قیامت کے دن ہو گا.پس ان معنوں سے جو لفظ متوفیک کے کئے جاتے ہیں لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی تو فوت ہونے سے پہلے ہی قیامت کے دن اللہ جل شانہ کے سامنے حاضر ہو جائیں گے اور اگر کہو کہ آیت فلما توفيتنى کے یہ معنی ہیں کہ جبکہ تو نے مجھ کو وفات دے دی تو پھر مجھ کو کیا خبر تھی کہ میرے مرنے کے بعد میری اُمت نے کیا طریق اختیار کیا تو یہ معنے بھی اُن کے عقیدہ کی رُو سے غلط ٹھہرتے ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة المآئدة دونوں معنوں کے رو سے خدا تعالیٰ عیسی کو ایسے عذر باطل کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ تو میرے سامنے جھوٹ کیوں بولتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کیونکہ تو تو دوبارہ دنیا میں گیا تھا اور دنیا میں چالیس برس تک رہا تھا اور نصاری سے لڑائیاں کی تھیں اور صلیب کو توڑا تھا.ماسوا اس کے ان معنوں کے رُو سے یہ لازم آتا ہے کہ جب تک حضرت عیسی زندہ رہے عیسائی نہیں بگڑے بلکہ اُن کی موت کے بعد بگڑے پس اس سے تو ان لوگوں کو ماننا پڑتا ہے کہ عیسائی اب تک حق پر ہیں کیونکہ اب تک حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں.چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۲، ۳۸۳ حاشیه ) مولوی ثناء اللہ صاحب....حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی کذاب قرار دیتے ہیں تو اگر مجھے بھی کذاب کہیں تو ان پر کیا افسوس کرنا چاہئے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے اس سوال پر کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو، عیسی نے جھوٹھ بولا یعنی ایسا جواب دیا کہ سراسر جھوٹ تھا کیونکہ اُنہوں نے کہا کہ جب تک میں اپنی اُمت میں تھا تو اُن پر گواہ تھا اور جب تو نے وفات دے دی تو پھر تو اُن کا رقیب تھا، مجھے کیا معلوم کہ میرے پیچھے کیا ہوا؟ اور ظاہر ہے کہ اُس شخص سے زیادہ کون کذاب ہوسکتا ہے جو قیامت کے دن جب عدالت کے تخت پر خدا بیٹھے گا اُس کے سامنے جھوٹ بولے گا.کیا اس سے بدتر کوئی اور جھوٹھ ہوگا کہ وہ شخص جو قیامت سے دوبارہ پہلے دنیا میں آئے گا اور چالیس برس دنیا میں رہے گا اور نصاری کے ساتھ لڑائیاں کرے گا اور صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا اور تمام نصاری کو مسلمان کر دے گا، وہی قیامت کو ان تمام واقعات سے انکار کر کے کہے گا کہ مجھے خبر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوا اور اس طرح پر خدا کے سامنے جھوٹھ بولے گا اور ظاہر کرے گا کہ مجھے اس وقت سے نصاری کی حالت اور اُن کے مذہب کی کچھ بھی خبر نہیں جب سے تو نے مجھے وفات دے دی.دیکھو یہ کیسا گندہ جھوٹھ ہے اور پھر خدا کے سامنے ، اس طور سے حضرت مسیح کذاب ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟ قرآن شریف کھولو اور آیت فَلَمَّا توقیتَنِی کو آخر تک پڑھ جاؤ اور پھر کہو کہ کیا تم نے عیسی علیہ السلام کو کذاب قرار دیا یا نہیں.مگر اس پر کیا افسوس کریں کیونکہ آپ لوگوں کے نزدیک تو خدا بھی کاذب ہے، خدا تعالی نے عیسی علیہ السلام کی وفات آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِنی میں صاف طور پر بیان کر دی اور تصریح حضرت عیسی کا یہ عذر پیش کر دیا کہ میری وفات کے بعد یہ لوگ بگڑے ہیں.پس خدا سمجھا رہا ہے کہ اگر حضرت عیسی فوت نہیں ہوئے تو عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے کیونکہ عیسائیوں کا راہ راست پر رہنا صرف اُن کی حیات تک ہی وابستہ رکھا گیا تھا اور عیسائیوں کی ضلالت کی علامت حضرت عیسی کی وفات پر ٹھہرائی گئی تھی.اب کہو اس صورت میں آپ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۸ نزد یک خدا کیوں کر سچا ٹھہر سکتا ہے جس کا بیان باور نہیں کیا گیا.؟ سورة المائدة اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۶،۱۲۵) فَفَكِّرُ في قَوْلِهِ تَعَالَى إِذْ قَالَ اللهُ اللہ تعالیٰ کے فرمان يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَأَنْتَ قُلْتَ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ انْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ لِلنَّاسِ میں غور کرو اور پھر غور کرو کہ آیا حضرت عیسی نے ثُمَّ فَكِرْ فِي جَوَابِهِ أَصَدَقَ أَمْ كَذَبَ اپنے جواب میں سچ بولا تھا یا معاذ اللہ ! ان لوگوں کے زعم بِنَاءٌ عَلى زَعْمِ قَوْمٍ يُرْجِعُونَهُ مِن کے مطابق جو وسوسہ شیطانی کی وجہ سے انہیں دنیا میں واپس وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ حَقًّا لاتے ہیں آپ نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اگر یہ بات صحیح أَنْ يَرْجِعَ عِيسَى قَبْلَ يَوْمِ الْحَشر ہوتی کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت اور حشر ونشر سے پہلے دنیا وَالْقِيَامِ، وَيَكْسِرَ الصَّلِيْب وَيُدْخِلَ میں واپس آنے والے ہیں اور صلیب کو توڑیں گے اور النَّصَارَى فِي الْإِسْلامِ فَكَيْفَ يَقُولُ نصاری کو اسلام میں داخل کریں گے تو وہ یہ کس طرح کہہ إنِّي مَا أَعْلَمُ مَا صَنَعَتْ أُمَّتِي بَعْدَ رَفعى سکتے تھے کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میرے آسمان کی طرف إِلَى السَّمَاءِ : وَكَيْفَ يَصِحُ مِنْهُ هذَا اُٹھائے جانے کے بعد میری امت نے کیا کیا.اور آپ کا الْقَوْلُ مَعَ أَنَّهُ اطَّلَعَ عَلى شِرْكِ یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے حالانکہ وہ زمین پر لوٹنے کے النَّصَارَى بَعْدَ رُجُوعِهِ إِلَى الْغَيْرَاء بعد نصاری کے شرک پر مطلع ہو چکے تھے اور آپ کو یہ بھی وَاطَّلَعَ عَلَى الْخَادِهِمْ إِيَّاهُ وَأُمَّهُ إِلَهَيْنِ معلوم ہو چکا تھا کہ عیسائیوں نے آپ کو اور آپ کی والدہ کو مِنَ الْأَهْوَاء ؟ فَمَا هَذَا الْإِنْكَارُ عِنْدَ اپنی خواہشات کی بناء پر معبود قرار دے رکھا ہے.پس سُؤَالِ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاء إِلَّا كَذِبًا فَاحِشًا خدائے بزرگ و برتر کے سوال پر ان کا یہ انکار بجز واضح وَتَرَكَ الْحَيَاء.وَالْعَجَبُ أَنَّهُ كَيْفَ لا جھوٹ اور ترک حیا کے اور کچھ نہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ يَسْتَحْيِ مِنَ الْكَذِبِ العَظِيمِ، وَيَكْذِبُ حضرت مسیح علیہ السلام اتنے بڑے جھوٹ پر شرم محسوس نہیں بَيْنَ يَدَيِ الْخَبِيرِ الْعَلِيمِ ! مَعَ أَنَّهُ قَدْ کریں گے اور خدائے علیم وخبیر کے سامنے دروغ بیانی رجع إلى الدُّنْيَا وَقَتَلَ النَّصَارَی کریں گے حالانکہ آپ دنیا کی طرف لوٹے ہوں گے.وَكَسَرَ الضَّلِيبَ وَقَتَلَ الْخِنزير نصاری کو قتل کیا ہوگا.صلیب کو تو ڑا ہوگا اور سؤروں کو تیز تلوار بِالْحُسَامِ الْحَسِيْمِ.وَمَا كَانَ مُكْٹ سے قتل کیا ہو گا پھر دنیا میں کسی ایسے مسافر کی طرح آپ کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة المائدة سَاعَةٍ كَغَرِيبٍ يَمُرُّ مِنْ أَرْضِ بِأَرْضِ قیام صرف گھڑی بھر کا نہیں تھا جو بغیر کسی جگہ قیام کرنے غَيْرَ مُقِيمٍ وَلَا يُفَی بِالْعَزمِ کے ایک ملک سے دوسرے ملک کو چلا جاتا ہے اور عزم صمیم الصَّمِيمِ، بَلْ لَبِكَ فِيْهِمْ إِلى أَرْبَعِينَ سے کسی امر کی تحقیق و تفتیش نہیں کر سکتا بلکہ آپ ان لوگوں سَنَةً، وَقَتَلَهُمْ وَأَسَرَهُمْ وَأَدْخَلَهُمْ میں چالیس برس تک رہے اور انہیں قتل کیا ، قید کیا اور انہیں جَبْرًا في القِرَاطِ الْمُسْتَقِيمٍ.ثُمَّ يَقُولُ: جبرا اسلام میں داخل کیا.پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے کچھ علم لَا أَعْلَمُ مَا صَنَعُوا بَعْدِی فَالْعَجَبُ كُلُّ نہیں کہ میری قوم نے میرے بعد کیا کیا.پس ایسے مسیح اور الْعَجَبِ مِنْ هَذَا الْمَسِيحِ وَكَذِبِهِ اس کے ایسے جھوٹ سے تعجب پر تعجب ہے! کیا ہم یہ بھی الطَّرِيحِ أَنُؤْمِنُ بِأَنَّهُ لَا يَخانى ایمان رکھیں کہ وہ یوم حساب اور سزا کے کوڑے سے نہیں الْحِسَابِ وَلَا سَوْطَ الْعِقَابِ، وَيَكْذِبُ ڈرتے اور ایسا واضح طور پر جھوٹ بولتے ہیں جس سے كَذِبًا فَاحِمًا تَعَافُهُ زَمَعُ النَّاسِ اونی لوگ بھی نفرت کریں اور وہ ایسے جھوٹ پر راضی ہیں وَيَرْضَى بِزُورٍ يَأْنَفُ مِنْهُ الْأَرَاذِلُ جس سے ایسے رذیل لوگ بھی ناک چڑھالیں جو گندگیوں الْمُلوّلُونَ بِالأَدْنَاس أَيجوزُ الْعَقْلُ في میں ملوث ہوتے ہیں؟ کیا عقل کسی نبی کی شان میں جائز شَأْنٍ نَبِي أَنَّهُ رَجَعَ إِلَى الدُّنْيَا بَعْدَ قرار دیتی ہے کہ وہ آسمان پر چڑھ جانے کے بعد دنیا میں يوم الصُّعُودِ إِلَى السَّمَاءِ ، وَرَأَى قَوْمَهُ النَّصَارَى وَثِرُكَهُمْ وَتَثْلِيقَهُمْ بِعَيْنَيْهِ مِن غَيْرِ الْخِفَاء ، ثُمَّ أَنْكَرَ أَمَامَ رَبِّهِ هَذِهِ الْقِصَّةَ، وَقَالَ: مَا رَجَعْتُ إِلَى الدُّنْيَا الدّنيَّةِ، وَلَا أَعْلَمُ مَا بَالُ قَوْمِي مُنْ واپس لوٹے اور اپنی قوم نصاری کے شرک اور تثلیث کے عقیدہ کو اپنی آنکھوں سے کھلم کھلا مشاہدہ کرے پھر بھی اپنے رب کے حضور اس تمام واقعہ سے انکار کر دے اور کہہ دے کہ میں تو حقیر دنیا میں واپس نہیں گیا اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ جب سے میں دوسرے آسمان کی طرف اُٹھایا گیا میری قوم کا کیا حال ہوا؟ پس دیکھو کہ کون سا جھوٹ اس جھوٹ سے بڑا ہو سکتا ہے جس کے مرتکب مسیح علیہ السلام ہوں گے اور وہ بھی قیامت کے دن اور خدا الَّذِي يَرْتَكِبُهُ الْمَسِيحُ أَمَامَ عَيْنِ اللَّهِ فِي تعالیٰ کے روبرو اور ایسا کرتے ہوئے وہ خدا تعالیٰ سے بھی رُفعتُ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَانْظُرُوا أَى كَذِبِ أَكْبَرُ مِنْ هَذَا الْكَذِبِ يَوْمِ الْحِسَابِ وَالْمَسْأَلَةِ، وَلَا يَخَافُ خطرَةً رَبّ الْعِزَّةِ فَالْحَاصِل أَنَّهُ لَمَّا مَنَعَ نہیں ڈریں گے.حاصل کلام یہ ہے کہ جب قرآن نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة الْقُرْآنُ نُزُولَ الْمَسِيحِ مِنَ السَّمَاء في اس آیت میں جو قطعیۃ الدلالت ہے عیسیٰ علیہ السلام کے الْآيَةِ الَّتِي هِيَ قَطْعِيَّةُ الثَّلَالَةِ، تَعَيَّنَ إِذا آسمان سے اترنے کو رد کر دیا ہے تو یہ بات بغیر کسی شک مِنْ غَيْرِ شَدٍ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لَيْسَ کے معین طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ آنے والا مسیح یہود مِنَ الْيَهُودِ بَلْ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ.وَكَيْفَ میں سے نہیں ہوگا بلکہ اسی امت میں سے ہوگا اور یہ ہو ہی وَإِنَّ الْيَهُودَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّهُ فَهُمْ کیسے سکتا ہے جبکہ یہود پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ذلت لَا يَسْتَحِقُوْنَ الْعِزَّةَ بَعْدَ الْعُقُوبَةِ وارد کی گئی اور اس ابدی سزا کے بعد وہ عزت کے مستحق نہیں ہو سکتے.( ترجمہ از مرتب ) الأبدية.مواهب الرحمن، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹۲ تا ۲۹۴) اگر توئی کے معنی مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھانا تجویز کیا جائے تو یہ معنی تو بدیہی البطلان ہیں کیونکہ قرآن شریف کی انہی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسی سے قیامت کے دن ہوگا.پس اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ موت سے پہلے اس رفع جسمانی کی حالت میں ہی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو جائیں گے اور پھر کبھی نہیں مریں گے کیونکہ قیامت کے بعد موت نہیں اور ایسا خیال بہداہت باطل ہے.علاوہ اس کے قیامت کے دن یہ جواب اُن کا کہ اُس روز سے کہ میں مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا مجھے معلوم نہیں کہ میرے بعد میری اُمت کا کیا حال ہوا.یہ اس عقیدہ کی رُو سے صریح دروغ بے فروغ ٹھہرتا ہے جبکہ یہ تجویز کیا جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور اپنی امت کی مشر کا نہ حالت کو دیکھ لے بلکہ اُن سے لڑائیاں کرے اور اُن کی صلیب توڑے اور اُن کے خنزیر کو قتل کرے وہ کیوں کر قیامت کے روز کہہ سکتا ہے کہ مجھے اپنی امت کی کچھ بھی خبر نہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۳) قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت صاف فرما دیا ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ سے بطور حکایت ذکر کر کے فرماتا ہے : فلما توفيتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ یعنی قیامت کو خدا تعالیٰ عیسی سے پوچھے گا کہ کیا تو نے اپنی قوم کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا میں اُن کو یہی تعلیم دیتا رہا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں اور پھر جب تو نے مجھے کو وفات دے دی تو بعد اُس کے مجھے اُن کے عقائد کا کچھ علم نہیں.اس
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آیت میں حضرت عیسی اپنی وفات کا صاف اقرار کرتے ہیں اور اس میں یہ بھی اقرار ہے کہ میں دنیا میں واپس نہیں گیا کیونکہ اگر وہ دنیا میں واپس آئے ہوتے تو پھر اس صورت میں قیامت کے دن یہ کہنا جھوٹ تھا کہ مجھے اپنی امت کی کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کون سا طریق اختیار کیا کیونکہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں واپس آئیں گے اور عیسائیوں سے لڑائیاں کریں گے تو پھر قیامت کے دن انکار کر کے یہ کہنا کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھ کو کچھ بھی خبر نہیں سراسر جھوٹ ہوگا.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْهُ ! چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۰،۲۲۹) اس تمام آیت کے اول آخر کی آیتوں کے ساتھ یہ معنے ہیں کہ خدا قیامت کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کو کہے گا کہ کیا تو نے ہی لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود ٹھہرانا تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا تو میں اُن کے حالات سے مطلع تھا اور گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کے حالات سے واقف تھا یعنی بعد وفات مجھے اُن کے حالات کی کچھ بھی خبر نہیں.اب اس آیت سے صریح طور پر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ؟ (۱) اول یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس آیت میں اقرار کرتے ہیں کہ جب تک میں اُن میں تھا میں ان کا محافظ تھا اور وہ میرے روبرو بگڑے نہیں بلکہ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں.پس اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ ہیں تو ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا کہ اب تک عیسائی بھی بگڑے نہیں کیونکہ اس آیت میں عیسائیوں کا بگڑنا آیت فَلَنا توقيتفی کا ایک نتیجہ ٹھہرایا گیا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر موقوف رکھا گیا ہے.لیکن جبکہ ظاہر ہے کہ عیسائی بگڑ چکے ہیں تو ساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی فوت ہو چکے ہیں ورنہ تکذیب آیت قرآنی لازم آتی ہے، (۲) دوسرے یہ کہ آیت میں صریح طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے کی نسبت اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے اور کہیں گے کہ مجھے تو اُس وقت تک ان کے حالات کی نسبت علم تھا جبکہ میں اُن میں تھا اور پھر جب مجھے وفات دی گئی تب سے میں اُن کے حالات سے محض بے خبر ہوں مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا؟ اب ظاہر ہے کہ یہ عذر اُن کا اس حالت میں کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں کسی وقت آئے ہوتے اور عیسائیوں کی ضلالت پر اطلاع پاتے محض دروغ گوئی ٹھہرتا ہے اور اس کا جواب تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ہونا چاہیے کہ اے گستاخ شخص ! میرے روبرو اور میری عدالت میں کیوں جھوٹ بولتا ہے اور کیوں محض دروغ کے طور پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المائدة یہ کہتا ہے کہ مجھے اُن کے بگڑنے کی کچھ بھی خبر نہیں حالانکہ تجھے معلوم ہے کہ میں نے قیامت سے پہلے دوبارہ تجھے دنیا میں بھیجا تھا اور تو نے عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں اور اُن کی صلیب توڑی تھی اور اُن کے خنزیر قتل گئے تھے اور پھر میرے رو برواتنا جھوٹ کہ گویا تجھے کچھ بھی خبر نہیں.اب ظاہر ہے کہ ایسے عقیدے میں کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے کس قدر ان کی ہتک ہے اور نعوذ باللہ ! اس سے وہ دروغ گو ٹھہرتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۲،۵۱) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمُ کیا اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مجھے وفات دینے کے بعد تو ہی اَنْتَ اُن پر رقیب تھا اور کیا ان تمام آیات پر نظر ڈالنے سے صریح طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ میں جب تک اپنی امت میں تھا ئیں اُن کے اعمال کا گواہ تھا اور اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو بعد اس کے تو ہی اُن کا رقیب اور محافظ تھا.پس کیا ان آیات کا بدیہی طور پر یہ خاص مطلب نہیں ہے کہ میری اُمت میری زندگی میں نہیں بگڑی بلکہ میری وفات کے بعد بگڑی اور بعد وفات مجھے معلوم نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا اور کیا مذہب اختیار کیا.پس خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ظاہر ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ حضرت عیسی اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور بچے مذہب پر قائم ہیں کیونکہ حضرت عیسی اپنی امت کا صراط مستقیم پر ہونا اپنی زندگی تک وابستہ کرتے ہیں اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ میں نے یہ تعلیم دی ہے کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو اور جناب الہی میں عرض کرتے ہیں کہ جب تک میں اپنی امت میں تھا میں نے وہی تعلیم اُن کو دی جس کی تو نے مجھے ہدایت دی تھی اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں اور ان آیات سے صاف طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے ورنہ لازم آتا ہے کہ قیامت کے دن وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے کیونکہ اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ آئے ہوتے تو اس صورت میں اُن کا یہ کہنا کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میری اُمت نے میرے بعد کیا عقیدہ اختیار کیا صریح جھوٹ ٹھہرتا ہے کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور چشم خود دیکھ جاوے کہ اس کی اُمت بگڑ چکی ہے اور نہ صرف ایک دن بلکہ برابر چالیس برس تک اُن کے کفر کی حالت دیکھتا ر ہے وہ کیوں کر قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ اپنی امت کی حالت سے محض بے (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۸۲) خبر ہوں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٣ سورة المائدة حضرت عیسی کا خود اپنا ایک اقرار ہے جو ان کی وفات پر شاہد ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسی ! کیا تو نے ہی لوگوں کو تعلیم دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کر کے مانو ؟ یہ جواب ج دیتے ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہے یعنی یہ آیت: وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا توفيتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ یعنی میں تو اس زمانہ تک ان پر گواہ تھا جب میں ان کے درمیان تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر ان کا محافظ تو ہی تھا.اس جواب میں حضرت عیسی عیسائیوں کی ہدایت کو اپنی زندگی سے وابستہ کرتے ہیں.پس اگر حضرت عیسی اب تک زندہ ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی بھی حق پر ہیں اور اس آیت فلما توفيتنى سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی قبل از قیامت دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے ورنہ نعوذ باللہ ! یہ لازم آتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے کہ مجھے اپنی امت کے بگڑنے کی کچھ بھی اطلاع نہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۴ حاشیه ) بعض نادان اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جس حالت میں قرآن شریف کی یہ آیت کہ: وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمُ اور آیت: فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور میں یہ عذر پیش کریں گے کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑے ہیں نہ میری زندگی میں تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ صحیح ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب سے بیچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور کشمیر میں ستاکئی برس عمر سر کی تھی تو پھر یہ کہنا کہ میری وفات کے بعد لوگ بگڑ گئے صحیح نہیں ہوگا بلکہ یہ کہنا چاہیئے تھا کہ میرے کشمیر کے سفر کے بعد لوگ بگڑے ہیں کیونکہ وفات تو صلیب کے واقعہ سے ستائی برس بعد ہوئی.پس یادر ہے کہ ایسا وسوسہ صرف قلت تدبر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ورنہ کشمیر کا سفر اس فقرہ کی ضد نہیں کیونکہ مَا دُمْتُ فِيهِمْ کے یہ معنے ہیں کہ جب تک میں اپنی امت میں تھا جو میرے پر ایمان لائے تھے یہ معنے نہیں کہ جب تک میں اُن کی زمین میں تھا کیونکہ ہم قبول کرتے ہیں کہ حضرت عیسی زمین شام میں سے ہجرت کر کے کشمیر کی طرف چلے گئے تھے مگر ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ حضرت عیسی کی والدہ اور آپ کے حواری پیچھے رہ گئے تھے بلکہ تاریخ کی رو سے ثابت ہے کہ حواری بھی کچھ تو حضرت عیسی کے ساتھ اور کچھ بعد میں آپ کو آملے تھے جیسا کہ دھو ما حواری حضرت عیسی کے ساتھ آیا تھا باقی حواری بعد میں آگئے تھے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورة المآئدة حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی رفاقت کے لئے صرف ایک ہی شخص اختیار کیا تھا یعنی دھوما کو جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے وقت صرف حضرت ابو بکر کو اختیار کیا تھا.کیونکہ سلطنت رومی حضرت عیسی کو باغی قرار دے چکی تھی اور اسی جرم سے پیلاطوس بھی قیصر کے حکم سے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ در پردہ حضرت عیسی کا حامی تھا اور اس کی عورت بھی حضرت عیسیٰ کی مرید تھی.پس ضرور تھا کہ حضرت عیسیٰ اس ملک سے پوشیدہ طور پر نکلتے کوئی قافلہ ساتھ نہ لیتے اس لئے انہوں نے اس سفر میں صرف دھو ما حواری کو ساتھ لیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے سفر میں صرف ابوبکر کو ساتھ لیا تھا اور جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی اصحاب مختلف راہوں سے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا پہنچے تھے ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری مختلف راہوں سے مختلف وقتوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جا پہنچے تھے اور جب تک حضرت عیسیٰ ان میں رہے جیسا کہ آیت : مَا دُمْتُ فِيهِمْ کا منشاء ہے وہ سب لوگ تو حید پر قائم رہے بعد وفات حضرت عیسی علیہ السلام کے ان لوگوں کی اولاد دیگر گئی.یہ معلوم نہیں کہ کسی پشت میں یہ خرابی پیدا ہوئی.مؤرخ لکھتے ہیں کہ تیسری صدی تک دین عیسائی اپنی اصلیت پر تھا بہر حال معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات کے بعد وہ تمام لوگ پھر اپنے وطن و کی طرف چلے آئے کیونکہ ایسا اتفاق ہو گیا کہ قیصر روم عیسائی ہو گیا پھر بے وطنی میں رہنا لا حاصل تھا.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۲،۴۰۱) فلما توقيتني سورة مائدہ کی آیت پر آج پھر غور کرتے ہوئے ایک نئی بات معلوم ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح سے یہ سوال ہوا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھے کو اور میری ماں کو اله بنا لو؟ تو وہ اپنی بریت کے لیے جواب دیتے ہیں کہ میں نے تو وہی تعلیم دی تھی جو تو نے مجھے دی تھی اور جب تک میں ان میں رہا میں ان کا نگران تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو ان پر نگران تھا اب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح دوبارہ دنیا میں آئے تھے اور یہ سوال ہوا تھا قیامت میں تو اس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ ان کو تو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ ہاں! بیشک میرے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ان میں شرک پھیل گیا تھا لیکن پھر دوبارہ جا کر تو میں نے صلیوں کو توڑا، فلاں کا فر کو مارا اسے ہلاک کیا، اسے تباہ کیا نہ یہ کہ وہ یہ جواب دیتے : وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمُ اس جواب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو ہرگز ہرگز خود دنیا میں نہیں آنا ہے اور یہ نص ہے ان کے عدم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نزول پر.۱۱۵ سورة المائدة الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۱) حضرت عیسی کی حیات ثابت نہیں، ان کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اور نبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت عیسی سے مطالبہ کرنا پڑا کہ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَاقِيَ الهَيْنِ یعنی کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو.جو جماعت حضرت عیسی نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور نا قابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں.انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو ان کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے ان میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکر یوٹی تھا اس نے تیس روپے پر اپنے آقا و مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگر در شید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں تھیں یعنی پطرس اس نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ لعنت کی جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا اور اب انہیں سو سال گزرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہو گا.اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت طیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپ کے لیے جانیں دے دیں ، وطن چھوڑ دیئے ، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا.غرض آپ کے لیے کسی چیز کی پرواہ نہ کی.یہ کیسی زبر دست تاثیر تھی اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں.الخام جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۱۷ار فروری ۱۹۰۶ صفحه ۳) ہم علی وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ توفی کے معنی لغت عرب میں ، نہ کلام خدا اور رسول میں ہرگز مع جسم عصری اٹھائے جانے کے نہیں ہیں.تمام قرآن شریف کو یکجائی نظر سے دیکھنا چاہیے، قرآن خدائے علیم وخبیر کی طرف سے کامل علم اور حکمت سے نازل کیا گیا ہے اس میں اختلاف ہر گز نہیں.بعض آیات بعض کی تفسیر واقع ہوئی ہیں اگر ایک متشابہات ہیں تو دوسری محکمات ہیں.جب یہی لفظ اور مقامات میں دوسرے انبیاء کے حق میں بھی وارد ہے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہیں لیے جاتے تو پھر نہ معلوم کہ کیوں حضرت مسیح کو ایسی خصوصیت دی جاتی ہے؟ کیا ابھی تک میسیج کو خصوصیت دینے کا انہوں نے مزہ نہیں چکھا ؟ دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صاف یہ لفظ ہیں : إِنَّمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 117 سورة المائدة نَتَوَفَّيَنَّكَ ( يونس : ۴۷) پھر حضرت یوسف کے متعلق بھی قرآن شریف میں یہی توفی کا لفظ وارد ہے اور اس کے معنی بجز موت اور ہر گز نہیں ہیں، دیکھوا تَوَفَّنِي مُسلِماً وَ الْحِقْنِي بِالظَّلِحِينَ ( يوسف : ١٠٢) - یہ حضرت یوسف کی دعا ہے تو کیا اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ اے خدا! مجھے زندہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھالے اور پہلے صلحاء کے ساتھ شامل کر دے جو کہ زندہ آسمان پر موجود ہیں.سُبُحْنَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل میں جو ساحر فرعون نے بلائے تھے ان کے ذکر میں توفی کا لفظ مذکور ہے جہاں فرمایا: ربَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف :۱۲۷).اب ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ خدا اور اس کے کلام کے مقابلہ میں دم مارے.قرآن حضرت عیسی کو سراسر مارتا ہے اور ان کے وفات پا جانے کو دلائل اور براہین قطعیہ سے ثابت کرتا ہے اور رسول اکرم نے اس کو معراج کی رات میں وفات یافتہ انبیاء میں دیکھا.جائے غور ہے کہ اگر حضرت عیسی زندہ مع جسم عصری آسمان ( پر) اُٹھائے جاچکے تھے تو پھر ان کو وفات شدہ انبیاء سے کیا مناسبت، زندہ کو مردہ سے کیا تعلق اور کیسی نسبت ؟ ان کے لیے تو کوئی الگ کوٹھڑی چاہیے تھی.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۴ /اگست ۱۹۰۸ صفحه ۳) پہلا جھگڑ وفات مسیح کا ہی ہے.کھلی کھلی آیات اس کی حمایت میں ہیں : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إلى ( ال عمران : ۵۲ ) پھر: فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ.یہ عذر بالکل جھوٹا ہے کہ توفی کے معنی کچھ اور ہیں.ابن عباس رضی اللہ عنہ اور خود بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنی امانت کے کر دیئے ہیں.یہ لوگ بھی جہاں کہیں لفظ تو فی استعمال کرتے ہیں.تو معنی امانت اور قبض روح سے مراد لیے ہیں قرآن نے بھی ہر ایک جگہ اس لفظ کے یہی معنے بیان کیے ہیں.(رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۵۸) خود حضرت مسیح کا اپنا اقرار موجود ہے: فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ اور یہ قیامت کا واقعہ ہے حضرت عیسی علیہ السلام سے سوال ہوگا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بناؤ ؟ تو حضرت عیسی علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک میں ان میں زندہ تھا میں نے تو نہیں کہا اور میں وہی تعلیم دیتا رہا جو تو نے مجھے دی تھی لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو ہی ان کا نگہبان تھا.اب یہ کیسی صاف بات ہے.اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت مسیح کو دنیا میں قیامت سے پہلے آنا تھا تو پھر یہ جواب ان کا کس طرح صحیح ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 112 سورة المائدة سکتا ہے؟ ان کو تو کہنا چاہیے تھا کہ میں دنیا میں جب دوبارہ گیا تو اس وقت صلیب پرستی کا زور تھا اور میری الوہیت اور اجنبیت پر بھی شور مچا ہوا تھا مگر میں نے جا کر صلیبوں کو توڑا اور خنزیروں کو قتل کیا اور تیری توحید کو پھیلایا.نہ یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو خود نگران تھا.کیا قیامت کے دن حضرت مسیح جھوٹ بولیں گے؟ الحکم جلدے نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۳) ہر عاقلے میداند که حیات عیسی علیہ السلام را ہر عقلمند جانتا ہے کہ حیات عیسی علیہ السلام کو ثابت کرنا ثابت کردن امریست محال و خیالیست باطل.ایک محال اور باطل خیال ہے.اس لئے کہ قرآن شریف چرا که قرآن شریف بکمال وضاحت ایں فیصلہ نے بڑی وضاحت سے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ میسی وفات کرده است که عیسی وفات یافت و مومنے را پاچکے ہیں اور ایسا مؤمن جو اپنے دل میں رب جلیل کے - که عظمت کلام رب جلیل در دل خود می دارد کلام کی عظمت رکھتا ہے اس کے لئے یہ آیت کافی ہے.ایس آیت کافی است کہ اللہ جلشانہ می فرماید : اللہ جلشانہ فرماتا ہے: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ عَلَيْهِمُ اب اسے اس آیت کے سننے والے غور سے دیکھ اکنوں اے شنوندہ ایس آیت بغور بنگر آیا می کہ کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ اس آیت سے وفات کے علاوہ توانی که بجز وفات معنی دیگر ازیں آیت بر کوئی دیگر معنی نکال سکے.یہ ہرگز ممکن نہیں بلکہ ہر منصف آری.ہرگز ممکن نیست.بلکہ ہر منصلے و محققے کہ اور محقق کہ جو آیت کریمہ پر غور کرے گا وہ (قرآن کے ) ہرمز بریں آیت کریمه خور خواهد کرد و در منطوق و منطوق و مفہوم میں غور کرے گا.وہ ہدایت نظر کے ساتھ مفهوم آن تاملی خواهد نمود او از پنجابید است نظر عیسی علیہ السلام کی وفات ہی سمجھے گا اور قطعی ویقینی طور پر وفات عیسی علیہ السلام خوابد فهمید و اقطع و یقین پر ان کی وفات پر ہی ایمان لائے گا اور حضرت عیسی کی موت شاں ایمان خواهد آورد و بعد زمیں بصیرت وفات پر بصیرت حاصل ہو جانے کے بعد موت عیسی سے انکار موت را نه صرف ضلالت بلکہ الحاد و زندقہ انکار کو نہ صرف ضلالت بلکہ الحاد اور زند قیت شمار کرے گا.خواہد شمرد.ہاں ممکن است کہ کسے را بوجہ نادانی ممکن ہے کسی کو اپنی نادانی کے سبب لفظ توفی کے معنی میں خود در معنی لفظ تونی ترددے پیدا شود.لیکن تر در پیدا ہو جائے لیکن جب حدیث کی طرف اور صحابہ کی.تر اور چوں سوئے حدیث و آثار صحابہ رجوع خواہد روایات کی طرف رجوع کرے گا تو اس کا یہ سب تردد کرد آن همه تردد کا لعدم خواہد شد - چرا که او کالعدم ہو جائے گا.اس لئے کہ وہ وہاں اس آیت کی تفسیر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة المائدة آنجا در تفسیر این آیت بجز امانت یعنی میرانیدن میں بجز امانت یعنی مارنے کے دوسرے معنے نہیں معنی دیگر نخواهد یافت - آیا نمی بینی که در صحیح پائے گا.کیا تو نہیں دیکھتا صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس بخاری از عبد الله بن عباس است مُتَوَفِّيكَ ، سے مروی ہے ”متوفيك : همتيك “ يعنى متوفيك هميتك يعنی معنی مُتَوَفِّيكَ این است که من ترا کے یہ معنے ہیں: میں تجھے مارنے والا ہوں اور ہم نے ہر میراننده ام.و ماہر چند سیر کتب حدیث کردیم و چند که کتب حدیث کا سیر حاصل مطالعہ کیا ہے اور تمام تمام آثار و اقوال صحابه را دیدیم و خواندیم و روایات و اقوال صحابہ کو دیکھا اور خود ہم نے پڑھا ہے شنیدیم اما پیچ جانیا فیتم کہ در شرح ایس آیت بجز اور (لوگوں سے ) سنا بھی ہے لیکن کسی جگہ نہیں پایا کہ اس معنے امانت چیزے دیگر در حدیثے یا اثرے یا کی شرح میں سوائے امانت کے معنی کے کوئی دوسری چیز قولے آمده باشد و ما بدعوی میگوئیم که هر چه از کسی حدیث یا کسی روایت یا کسی قول میں آئی ہو اور ہم صحابہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم در معنی توئی در دعوی سے کہتے ہیں کہ جو کچھ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی آیت موصوفه ثابت شده است آں ہمیں معنی اللہ علیہ وسلم سے توفی کے معنی میں آیت مذکورہ میں میرانیدن است نه غیر آں.نتواں گفت کہ ثابت ہے وہی مارنے کے معنے ہیں کوئی اور نہیں ، اور نہیں میرانیدن مسلم است لیکن آں موت ہنوز واقع کہا جا سکتا کہ مارنا مسلم ہے لیکن وہ موت ابھی واقع نہیں نشدہ.بلکہ آئندہ واقع خواهد شد زیر آنکہ ہوئی بلکہ آئندہ واقع ہوگی اس لئے کہ حضرت عیسی علیہ - حضرت عیسی علیہ السلام در آیه فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي السلام فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی والی آیت میں فرماتے ہیں کہ میر ماید که فتنه ضلالت نصاری بعد از موت من ضلالت نصاری کا فتنہ میری موت کے بعد وقوع میں آیا بوقوع آمده است نه قبل از موت من.پس اگر ہے نہ کہ میری موت سے پہلے.پس اگر چہ یہ فرض کریں فرض کنیم کہ وعدہ موت هنوز بظهور نیامده است که وعده موت ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے اور عیسی علیہ و حضرت عیسی علیہ السلام تا این وقت زندہ السلام ابھی تک زندہ ہیں پس ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم یہ است.پس بر ما واجب مے شود کہ ایں ہم قبول بھی قبول کر لیں کہ نصاری ابھی تک صراط مستقیم پر ہیں اور کنیم که نصاری ہم تا هنوز بر صراط مستقیم بستند و ابھی تک گمراہ نہیں ہوئے ہیں کیونکہ مذکورہ آیت میں گمراه نشده اند زیرا نکه در آیت موصوفہ عیسائیوں کی گمراہی موت عیسی سے وابستہ ہے.پس گمراہی عیسائیاں راہموت صحیح وابستہ کردہ جب تک عیسی علیہ السلام مردہ نہیں ہوں گے عیسائیوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٩ سورة المآئدة اند پس تا وقتیکه عیسی نمرده باشد عیسائیاں را چگو کس طرح گمراہ کہا جا سکتا ہے.علماء اور قوم کی عقل پر نه گمراه توان گفت عجب است از عقل علماء قوم ما تعجب ہے کہ ہماری قوم اس آیت کی طرف توجہ کہ بسوئے ایس آیت تو جہنمی کنند و نصوص صریحہ نہیں کرتے اور نصوص صریحہ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اوہام کو را می گذارند و اوہام را مذ ہب خود می گیرند اپنے مذہب کے طور پر اختیار کرتے ہیں.غرض مردن عیسی علیہ السلام از نصوص قرآنیه الغرض عیسی علیہ السلام کی وفات نصوص قرآنیہ اور وحدیه شه ثابت است و هیچ کس را مجال انکار نیست حدیثوں سے ثابت ہے اور کسی شخص کو انکار کی جرأت بجز آن صورت که از قرآن وحدیث رو بگرداند یا نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ قرآن و حدیث سے معنی آیت بطور تفسیر بالرائے کند.و ہر چند در روگردانی کرے اور اس آیت کے معنے تفسیر بالرائے کے باره لفظ تو فی اتفاق اہل لغت بر ہمیں قاعدہ مستمرہ ساتھ کرلے اور اگر چہ لفظ توٹی کے معنوں پر اہل لغت کا است کہ چوں در عبارتے فاعل ایں لفظ خدا اتفاق ہے اور اس قاعدہ مستمرہ کے مطابق ہیں کہ جب باشد و مفعول به انسانے از انسان با در آن کسی عبارت میں اس لفظ کا فاعل خدا ہو اور مفعول کوئی صورت معنی توفی در میرانیدن محصور خواهد بود و بجز انسان انسانوں میں سے ہو تو اس صورت میں توفی کے معنے مارنے میں محصور ہوں گے اور سوائے مارنے اور میرانیدن و قبض روح معنی دیگر در آنجا هرگز نخواهد بود لیکن مادر اینجا ضرور تے وحاجتے نمی داریم کہ قبض روح کے کوئی دیگر معنی اس جگہ نہیں ہوں گے.لیکن سوئے کتب لغت عرب رجوع کنیم.ما را در میں اس جگہ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم عرب کی لغت کی کتب کی طرف رجوع کریں ہم اس جگہ حدیث آنحضرت صلی اللہ مقام حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقول ابن عباس که آن بهر دو در صیح بخاری موجود اند علیہ وسلم اور ابن عباس کے قول کو صحیح بخاری میں پاتے کافی است و ما خوب می دانیم که هر که از گفته ہیں.اور یہ دونوں کافی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں جو کوئی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض کند او منافقے باشد منافق ہوگا نہ کہ مومن.پس چونکہ رسول اللہ علیہ وسلم نے لفظ نہ مومنے پس چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لفظ توفيتنى را که در آیت موصوفه است برخود اطلاق کرده معنی وفات را تصریح کرده است و ابن عباس بصراحت معنی آں میرانیدن نموده تولینی کو جو مذکورہ آیت میں ہے اس کا اپنے اوپر اطلاق فرمایا ہے اور معنے وفات کے صریح طور بیان فرمائے ہیں اور ابن عباس نے ان معنوں کی وضاحت کو مارنے
سورة المائدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام و شارح عینی سلسله قول ابن عباس را تمام کے معنوں میں ظاہر کیا ہے اور شارح عینی نے ابن عباس کے و کمال بیان فرمودہ.پس مارا بعد زین قول کو بہ تمام و کمال بیان فرمایا ہے.پس اتنی وضاحت کے وضاحت ہا حاجت ثبوتے دیگر نیست گو بعد ہمیں کسی ثبوت دیگر کی ضرورت نہیں ہے.اگر چہ ہم ثبوت ہائے دیگر ہم داریم.لغت عرب دوسرے ثبوت بھی رکھتے ہیں.لغت عرب ہمارے ساتھ با ماست - عقل انسانی با ماست اقرار دیگر ہے، انسانی عقل ہمارے ساتھ ہے، دیگر قوموں کا اقرار قوم با باماست- اقرار اکثر آئمہ اسلام ہمارے ساتھ ہے، اسلام کے اکثر ائمہ کا تصور واقرار ہمارے با ماست و تا هنوز قبر عیسی علیہ السلام در بلاد ساتھ ہے اور بلاد شام میں ابھی تک حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر موجود ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) شام موجود است.اں کس کہ بقرآن و خبر زو نرہی تو جس شخص سے قرآن وحدیث ( بیان کرنے ) سے رہائی این است جوابش که جوابش ندہی نہ پاسکے ، اس کا ( صحیح ) جواب یہ ہے کہ اسے جواب نہ مجموعہ اشتہارات ،جلد دوم صفحه ۲۷ تا ۲۹) دے.(ترجمہ از مرتب) قَالَ اللهُ هذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصُّدِقِيْنَ صِدْقُهُمُ - لَهُمْ جَنْتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) طاعون کے بارے میں خواہ کوئی حیلہ حوالہ کریں ہرگز کام نہ آوے گا آخر مستقر خدا تعالیٰ ہی ہوگا.لوگ جب اس کو مانیں گے تب وہ اس سے رہائی دے گا.آئین الْمَقَر بھی اسی پر چسپاں ہے کیونکہ دوسرے آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفر ہوتا ہے مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے صرف خدا کی پناہ ہی کام آوے گی.خدا کی طرف ظلم کبھی منسوب نہیں ہوسکتا.جو صادق ہو گا وہ ضرور اپنے صدق سے نفع پاوے گا.یہ وہی دن ہیں جن کی نسبت کہا گیا ہے: هذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصُّدِقِيْنَ صِدقُهُم.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۶) اب اس جگہ سوچنے کے قابل یہ بات ہے کہ قیامت کا دن ہوگا اور سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوں گے اور وہ گھڑی ہوگی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ ھذا يَوْمُ يَنْفَعُ الصُّدِقِينَ صِدْقُهُمْ - وه دن ہوگا جبکہ سچ بولنے والوں کو ان کا سچ نفع دے گا.اچھا تو ایسے وقت میں حضرت عیسی خدا تعالیٰ کو یہ کہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۱ سورة المائدة گے کہ میں جب تک دنیا میں تھا تب تو ان کو وحدانیت کا وعظ کرتا تھا بعد کی خبر نہیں انہیں کیا ہو گیا.قطع نظر اس بات کے کہ وہ اس وقت زمین میں مدفون ہیں یا کہیں آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں اس جگہ یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور چالیس سال تک رہیں گے اور عیسائیوں کو انہیں اور ان کی ماں کو خدا بنانے کے سبب خوب سزا بھی دیں گے اور پھر ان کی اصلاح بھی کریں گے اور ماننے والوں کو مسلمان بنا ئیں گے تو پھر قیامت کے دن ان کا جواب یہ کیوں ہونا چاہیے کہ مجھے تو کچھ خبر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوا اور کیا نہ ہوا بلکہ انہیں تو یہ جواب دینا چاہیے کہ اے باری تعالیٰ ! میں نے تو ان کے ایسے عقیدے کے سبب ان کو خوب سزائیں دی ہیں اور ان کی صلیب کو توڑا ہے اور چالیس سال تک ان کی خوب خبر لی ہے.سود یکھنا چاہیے کہ اگر مسیح دوبارہ دنیا میں آوے گا تو کیا اس کا یہ جواب جو قرآن شریف میں درج ہے سچا ہوگا اور اگر ان ملانوں کی بات درست مان لی جاوے تو روز قیامت حضرت عیسی کو ایسا جواب دینے سے کیا انعام ملے گا؟ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ ایسی باتیں بنا کر وہ ایک خدا کے نبی کو نعوذ باللہ جھوٹ بولنے والا قرار دے رہے ہیں اور پھر جھوٹ بھی قیامت کے دن اور پھر وہ بھی خدا تعالیٰ کے دربار میں.نعوذ باللہ من البدر جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۴) ذالک!
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ 9/9/ ۱۲۳ سورۃ الانعام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانعام بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ، فَسَوْفَ يَأْتِيهِمُ اثْبُوا مَا كَانُوا بِهِ يستهزءون سچ جب ان کے پاس آیا تو انہوں نے جھٹلایا.سواب عنقریب اس صداقت کی ان کو خبریں ملیں گی جس آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ ٹائٹل پیج ) پر وہ ٹھٹھا کرتے تھے.وَ لَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهزءون اور تجھ سے پہلے بھی پیغمبروں سے ہنسی اور ٹھٹھا ہوتا رہا ہے مگر ہمیشہ ٹھٹھا کرنے والے اپنے ٹھیٹھے کا بدلہ پاتے رہے ہیں.برائن احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۱ حاشیہ نمبر ۱۱) قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ.ان کو کہہ کہ زمین کا سیر کر کے دیکھو کہ جو لوگ خدا کے نبیوں کو جھٹلاتے رہے ہیں ان کا کیا انجام ہوا ہے.( براہین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۱ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ سورة الانعام کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کے لیے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ: قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ اشارہ فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ: یاتھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة : ١١٩) ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کے لیے بلکہ اتباع خیار کے لیے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیمار دار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کے لیے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رو سے جائز ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۷ ) وَإِن يَمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍ فَلَا كَاشِفَ لَةَ إِلَّا هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو بجز خدا اور کوئی تیرا یار نہیں کہ اس تکلیف کو دور کرے اور اگر تجھے کچھ بھلائی پہنچے تو ہر یک بھلائی کے پہنچانے پر خدا قادر ہے.کوئی دوسرا نہیں.ہے.بران احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۱، ۵۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ اس کا تمام بندوں پر تسلط اور تصرف ہے اور وہی صاحب حکمت کا ملہ اور ہر یک چیز کی حقیقت سے آگاہ ( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳).قف قُلْ أَى شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةٌ قُلِ اللهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَ أُوحِيَ إِلَى هذَا الْقُرْآنُ لِأَنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ - اَبِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ اَنَّ مَعَ اللَّهِ الهَةً أُخْرَى قُل لاَ اَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلهُ وَاحِدٌ وَ اِنَّنِي بَرِى مِمَّا تُشْرِكُونَ ) لانْذِرَكُم بِهِ وَ مَنْ بَلَغ یعنی لازمی ہوگا کہ جس کو قرآنی تعلیم پہنچے وہ خواہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ہو.اس تعلیم کی پیروی کو اپنی گردن پر اُٹھائے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۷ ) م الَّذِينَ اتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمُ الَّذِينَ خَسِرُوا ا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ووروووو اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ۱۲۵ سورۃ الانعام کا فرلوگ جو اہل کتاب ہیں ایسے ایسے یقینی طور پر اس کو شناخت کرتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۶) وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأَيْتِهِ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ اس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.بیشک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افتر ا کرنے والا جلد مرا جاتا ہے.انجام آنتقم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۰ ) افتر ا سے مراد ہمارے کلام میں وہ افترا ہے کہ کوئی شخص عمداً اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بنا کر پھر یہ دعوی کرے کہ یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں میرے پر اس کی وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.سو ہم نہایت کامل تحقیقات سے کہتے ہیں کہ ایسا افتر اکبھی کسی زمانہ میں چل نہیں سکا اور خدا کی پاک کتاب صاف گواہی دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والے جلد ہلاک کیے گئے ہیں.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۶۳ حاشیہ ) قرآن شریف میں صدہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ ایک موقع میں فرماتا ہے کہ قَدْ خَابَ مَنِ افتری یعنی مفتری نامراد مرے گا اور دوسری جگہ فرماتا ہے : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَبَ پایته (طه : ۶۲ ) یعنی اس شخص سے ظالم ترکون ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے یا خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتا ہے اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے نبیوں کے ظاہر ہونے کے وقت خدا کے کلام کی تکذیب کی خدا نے ان کو زندہ نہیں چھوڑا اور برے برے عذابوں سے ہلاک کر دیا.دیکھو نوح کی قوم اور عاد و ثمود اور لوط کی قوم اور فرعون اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مکہ والے ان کا کیا انجام ہوا.پس جبکہ تکذیب کرنے والے اسی دنیا میں سزا پا چکے تو پھر جو شخص خدا پر افترا کرتا ہے جس کا نام اس آیت میں پہلے نمبر پر ذکر کیا
سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام گیا ہے وہ کیوں کر بچ سکتا ہے کیا خدا کا صادقوں اور کا ذبوں سے معاملہ ایک ہو سکتا ہے اور کیا افترا کرنے والوں کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں.مالکمْ كَيْفَ تَحْلُمُونَ (الصفت : ۱۵۵) (اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۳، ۴۳۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے: فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ پایته - یعنی بڑے کا فرد وہی ہیں ایک خدا پر افترا کرنے والا دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افترا کیا ہے اس صورت میں نہ میں صرف کا فر بلکہ بڑا کافر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلا شبہ وہ کفر اس پر پڑے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمایا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۳) ظالم سے مراد اس جگہ کا فر ہے اس پر قرینہ یہ ہے کہ مفتری کے مقابل پر مکذب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایا ہے اور بلاشبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کا فرٹھہراتا ہے اس لیے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کا فر بنتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۷ حاشیه ) اس سے ظالم ترکون ہے کہ خدا پر افتر ا کرے یا خدا کے کلام کی تکذیب کرے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۷۹) جو شخص دلائل اور نشانات کو دیکھتا ہے اور پھر دیانت، امانت اور انصاف کو ہاتھ سے چھوڑتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِأَيْتِهِ - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۹ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) وہ شخص جو رات کو ایک بات بنا تا اور دن کو لوگوں کو بتاتا اور کہتا ہے کہ مجھے خدا نے ایسا کہا ہے وہ کیوں کر احکام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۳) با مراد اور با برگ و بار ہو سکتا ہے.اس شخص سے ظالم ترکون ہے جو خدا پر افتر اکرے یا خدا کی آیتوں اور نشانوں کا مکذب ہو.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۶۷۷) کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہو جاتا ہے اور اندر ہی اندر اسے ایک دیمک لگ جاتی ہے.ایک جھوٹ کے لیے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں کیونکہ اس جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے.پس اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور روحانی قوی زائل ہو جاتے ہیں اور پھر اسے
۱۲۷ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں تک جرأت اور دلیری ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھی افترا کر لیتا اور خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور ماموروں کی تکذیب بھی کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اظلم ٹھہرتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے : من أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاتِه یعنی اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ اور افتر ابا ند ھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے.یقیناً یاد رکھو کہ یہ جھوٹ بہت ہی بری بلا ہے.انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطر ناک نتیجہ کیا ہو گا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) دیکھو افتراء کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور مفتری ہمیشہ خائب و خاسر رہتا ہے.وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى (طه : ۶۲ ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اگر تو افتر ا کرے تو تیری رگ جان ہم کاٹ ڈالیں گے اور ایسا ہی فرمایا : مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا (الانعام : ۲۲) ایک شخص ان باتوں پر ایمان رکھ کر افتراء کی جرات کیوں کر کر سکتا ہے.ظاہری گورنمنٹ میں ایک شخص اگر فرضی چپڑاسی بن جائے تو اس کو سزا دی جاتی ہے اور وہ جیل میں بھیجا جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ ہی کی مقتدر حکومت میں یہ اندھیر ہے کہ کوئی شخص جھوٹا دعوی مامور من اللہ ہونے کا کرے اور پکڑا نہ جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے ؟ اس طرح تو دہریت پھیلتی ہے.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں میں لکھا ہے کہ مفتری ہلاک کیا جاتا ہے.پھر کون نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ ۲۵ سال سے قائم ہے اور لاکھوں آدمی اس میں داخل ہور ہے ہیں.یہ باتیں معمولی نہیں بلکہ غور کرنے کے قابل ہیں محض ذاتی خیالات بطور دلیل مانے نہیں جاسکتے.ایک ہند و جو گنگا میں غوطہ مار کر نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ میں پاک ہو گیا بلا دلیل اس کو کون مانے گا ؟ بلکہ اس سے دلیل مانگے گا.پس میں نہیں کہتا کہ بلا دلیل میرا دعویٰ مان لو نہیں ! منہاج نبوت کے لئے جو معیار ہے اس پر میرے دعوی کو دیکھو.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں خدا سے وحی پاتا ہوں اور منہاج نبوت کے تینوں معیار میرے ساتھ ہیں اور میرے انکار کے لیے کوئی دلیل نہیں.البدرجلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخه ۲۴ مئی و یکم جون ۱۹۰۴ صفحه ۵) پس خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں دوسرا پہلو اختیار کروں جو اصل بنیاد میرے دعوی کی ہے یعنی اپنے سچے ملہم ہونے کا ثبوت کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر وہ لوگ مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے
۱۲۸ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچا ملہم سمجھتے اور میرے الہامات کو میرا ہی افتراء یا شیطانی وساوس خیال نہ کرتے تو اس قدرسب و شتم اور ہنسی اور ٹھٹھا اور تکفیر اور بد تہذیب کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اپنے بہت سے ظنون فاسدہ کا حسن ظن کے غلبہ سے آپ فیصلہ کر لیتے کیونکہ کسی کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے یقین کے بعد وہ مشکلات ہرگز پیش نہیں آتیں کہ جو اس حالت میں پیش آتی ہیں کہ انسان کے دل پر اس کے کا ذب ہونے کا خیال غالب ہوتا ہے.یہ بیچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے میری سچائی کے سمجھنے کے لیے بہت سے قرائن واضح ان کو عطا کئے تھے ، میرا دعویٰ صدی کے سر پر تھا، میرے دعوئی کے وقت میں خسوف کسوف ماہ رمضان میں ہوا تھا، میرے دعوئی الہام پر پورے ہیں برس گزر گئے اور مفتری کو اس قدر مہلت نہیں دی جاتی ، میری پیشگوئی کے مطابق خدا نے آتھم کو کچھ مہلت بھی دی اور پھر مار بھی دیا، مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میری کلام کو معرفت کے پاک اسرار سے بھر دیا کہ جب تک انسان خدائے تعالیٰ کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہو اس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی لیکن مخالف مولویوں نے ان باتوں میں سے کسی بات پر غور نہیں کی.سواب چونکہ تکذیب اور تکفیر ان کی انتہاء تک پہنچ گئی اس لیے وقت آگیا کہ خدائے قادر اور علیم اور خبیر اور اور کے ہاتھ سے جھوٹے اور سچے میں فرق کیا جائے.ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدائے تعالیٰ پر افتراء باند ھے.یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ اگر بعض قول میرے پر افتراء کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگِ جان کاٹ دیتا.غرض خدا تعالیٰ پر افتراء کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا، ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر و غیور کبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے.اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر در از عرصہ تک افتراء میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افتراء پر اس کو نہ پکڑ نا بلکہ لوگوں میں اس کو عزت دینا دلوں میں اس کی قبولیت ڈالنا اور اس کی زبان کو چشمہ حقائق و معارف بنانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدا تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی.افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام
۱۲۹ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے؟ کیا ان کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایک ایسے خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اس پر افتراء پر افتراء باندھے اور جھوٹے الہام بنا کر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی با تیں تراش کر اس کو عمد أخدا کی وحی قرار د یوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لیے بھیجتا ہوں حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا اور نہ اس کا نام عیسی رکھا اور کہے کہ خدائے تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے جیسا کہ میری توحید.تیرا مقام قرب مجھے سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے اس پر لعنت بھیجتا ہے اور مردودوں اور مخذولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے.پھر کیا یہی خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے یہاں تک کہ اس افتراء پر بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے.کون اس کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے، اس لمبے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی.اللہ جلتا نہ فرماتا ہے: وَمَنْ أَظْلَمُ مِنَنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا یعنی اس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.بیشک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے والا جلد مارا جاتا ہے.سو ایک تقوی شعار آدمی کے لیے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور میرے باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتداء دعویٰ پر بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر گیا، بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور مجھے اس نے عمر دراز بخشی اور ہر یک مشکل میں میر امتکفل اور متولی رہا پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہیں؟ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۵۸۳ تا ۵۸۵) وَمِنْهُمْ فَمَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ رَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانعام أَذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِنْ يَرَوْا كُلَ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءُ وُكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ) ہیں.(٢٦) یعنی یہ لوگ تمام نشانوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے.پھر جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے لڑتے ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۲) وَ لَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا لِلَيْتَنَا نُرَةٌ وَلَا نُكَذِبَ بِأَيْتِ رَبَّنَا وَتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَوْ تَرَى إِذْ وَقِفُوا عَلَى رَبِّهِمْ قَالَ الَّيْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبَّنَا قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ) جس شخص نے کا فیہ یا ہدایت النو بھی پڑھی ہوگی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا کہ اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ لَوْ تَرَى اِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ (الانعام : ۲۸) اور جیسا کہ فرماتا ہے: وَ لَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلى رَبِّهِمْ قَالَ اليْسَ هَذَا بِالْحَقِّ قَالُوا بَلَى وَرَبِّنَا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۹) وَ لَقَد كُذِبَتْ رُسُلُ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كَذِبُوا وَ أَوذُوا حَتَّى اَنتهُم نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللهِ وَ لَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَاى الْمُرْسَلِينَ (۳۵) اور تجھ سے پہلے جو نبی آئے ان کی بھی تکذیب کی گئی تھی پس انہوں نے تکذیب پر صبر کیاور ایک مذت تک دکھ دیئے گئے یہاں تک کہ ہماری مدد ان کو پہنچ گئی چنانچہ گذشتہ رسولوں کی خبریں بھی تجھ کو آ چکی ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۶) لا مُبَدِّلَ لِحلبت الله......خدا کی باتیں کبھی نہیں ملیں گی اور کوئی نہیں جو ان کو روک سکے.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۹،۵۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورۃ الانعام لا مُبَدِّلَ لِكَلمت اللہ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو بدل دے.لا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللهِ......خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.(تحفہ گولر و سیہ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۶۴) اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۶۱) وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِي نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سلما فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِأَيَةٍ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَى فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَهِلِينَ یعنی اگر تیرے پر (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زمینہ لگا کر چلا جا اور ان کے لیے کوئی نشان لے اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جو نشان مانگتے ہیں ہدایت دے دیتا پس تو جاہلوں میں سے مت ہو.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے.لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کا نام ونشان مٹا دیا.اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیاں ، افترا پردازیاں اور بد زبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سن کر اضطراب اور استعمال میں پڑیں مگر انہیں خدا تعالی کی اس سنت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے.اس لیے میں پھر اور بار بار بتا کید حکم کرتا ہوں کہ جنگ و جدال کے مجمعوں ،تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو.اس لیے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجت پوری کرنا وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.الحکم جلد 4 نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَّبِّهِ قُلْ اِنَّ اللهَ قَادِرُ عَلَى أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَ لكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی اپنے رب کی طرف سے کیوں نازل نہ ہوئی کہہ خدا نشانوں کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نازل کرنے پر قادر ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے.۱۳۲ سورۃ الانعام ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۲،۲۵۱ حاشیہ نمبر ۱۱) قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو.اول خدا کو قا در کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی.حقیقت میں اپنی بات کو آپ رد کرنا ہے.پرانی تحریریں ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶) وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَبِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا في الكتب مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ.کوئی صداقت علم الہی کے متعلق جو انسان کے لیے ضروری ہے اس کتاب سے باہر نہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۲۳ حاشیہ نمبر ۱۱) اس کتاب (قرآن شریف) سے کوئی دینی حقیقت باہر نہیں رہی بلکہ یہ جمیع حقائق و معارف دینیہ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۱ حاشیه ) مشتمل ہے.ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے....مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمی مدد دیئے گئے ہوں.سوایسے لوگوں کے لیے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بعلت غیر ملہم ہونے کے قادر نہیں ہو سکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں.بلا تامل و توقف قبول کر لیں اور جولوگ وحی ولایت عظمی کی روشنی سے منور ہیں اور إِلا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلا شبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے اور یہ بات ان پر ثابت کر دیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے ہرگز نہیں دی بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے.سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا
۱۳۳ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے اور نیز ان آیات بینات کی سچائی ان پر روشن ہو جاتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں.اگر چہ علاء ظاہر بھی ایک قبض کی حالت کے ساتھ ان آیات پر ایمان لاتے ہیں تا ان کی تکذیب لازم نہ آوے لیکن وہ کامل یقین اور سکینت اور اطمینان جو اہم کامل کو بعد معائنہ مطابقت و موافقت احادیث صحیحہ اور قرآن کریم اور بعد معلوم کرنے اس احاطہ نام کے جو در حقیقت قرآن کو تمام احادیث پر ہے ملتی ہے وہ علماء ظاہر کو کسی طرح مل نہیں سکتی بلکہ بعض تو قرآن کریم کو ناقص و نا تمام خیال کر بیٹھتے ہیں اور جن غیر محدود صداقتوں اور حقائق اور معارف پر قرآن کریم کے دائمی اور تمام تر اعجاز کی بنیاد ہے اس سے وہ منکر ہیں اور نہ صرف منکر بلکہ اپنے انکار کی وجہ سے ان تمام آیات بینات کو جھٹلاتے ہیں.جن میں صاف صاف اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے کہ قرآن جمیع تعلیمات دینیہ کا جامع ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۸۱٬۸۰) تعلیمات ضرور یہ میں سے کوئی چیز قرآن سے باہر نہیں رہی اور قرآن ایک مکمل کتاب ہے جو کسی دوسرے مکمل کا منتظر نہیں بناتا.کوئی صداقت اس سے باہر نہیں.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۰) میں قرآن شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ کے جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے.چنانچہ فرمایا : فِيهَا كُتُبُ قَيَّمَةُ (البينة : ٤) اور ما فرطنا في الكتب ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کا اقتدا کر.فَرَّطْنَا الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳) وَيَكْفِى لَكَ في شَأْنِ كِتَابِ الله ما اور کتاب اللہ کی شان کی نسبت جو اللہ نے اُس کی أنتى اللهُ عَلَيْهِ وَقَالَ: مَا فَرَّطْنَا في تعریف و توصیف فرمائی وہی تیرے لئے کافی ہے.اُس الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ فِيْهِ تَفْصِيلُ كُلَّ نے فرمایا کہ: مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ.اور یہ کہ شَنِي ، وَمَا جَاءَ في حَدِيثِ مُسْلِمٍ عَنْ زَيْدِ اس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے.اور جو مسلم کی حدیث بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ میں زید بن ارقم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيبًا بِمَاءِ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان غدیر خم پر ہمارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة الانعام يُدعى ما بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَحَمد درمیان خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے.آپ نے اللہ کی الله وَأَنلى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَرَ ثُمَّ حمد و ثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کی اور پھر فرمایا: اما بعد، اے :قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَلَا يَا أَيُّهَا النَّاسُ! لوگو! غور سے سنو، میں ایک بشر ہوں قریب ہے کہ میرے إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رب کا پیامبر ) ملک الموت ) میرے پاس آئے اور میں اُسے رَبِّي فَأُجِيْب وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمُ لبيك کہوں اور میں تم میں دو نہایت گراں قدر چیزیں چھوڑ الثَّقَلَيْنِ، أَولُهَا كِتَابُ الله فيه رہا ہوں.ان میں سے پہلی کتاب اللہ ( قرآن ) ہے جس میں الْهُدى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتاب اللہ ہدایت اور نور ہے.پس تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو اور وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ.فَحَقِّ عَلی کتاب اس کی تعلیمات پر عمل کرو.چنانچہ آپ نے کتاب اللہ کے لئے الله وَرَغَبَ فِيْهِ ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ تحریص و ترغیب دلائی پھر فرمایا: اور (دوسرے ) میرے اہل بيتى أُذَكِّرُكُمُ الله في أَهْلِ بَنی بیت ہیں.میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد وَكِتَابُ اللهِ هُوَ حَبْلُ اللهِ مَنِ اتَّبَعَه ولاتا ہوں اور (یاد رکھو) کہ اللہ کی کتاب ہی حبل اللہ ہے.كَانَ عَلَى الْهُدَى وَمَنْ تَرَگه کان علی جس نے اس کی پیروی کی تو وہ ہدایت پر ہے اور جس نے اُسے الضَّلالَةِ.فَانْظُرْ كَيْفَ رَغَبَ فِيْهِ چھوڑا تو وہ گمراہی پر ہے.پس غور کر کہ کس طرح آنحضور نے وَخَوَّفَ مَنْ تَرَكَهُ مُعْرِضًا عَنْهُ اس (قرآن) کی ترغیب دلائی ہے اور اُس نے اُسے ڈرایا ہے بِحَيْثُ أَخَذَ غَيْرَهُ الَّذِى يُعَارِضُه جس نے قرآن کو اس طور پر اعراض کرتے ہوئے چھوڑا کہ اُس فَاعْلَمْ أَنَّ الْقُرْآنَ إمَامُ وَنُور نے وہ لیا جو اس کے معارض ہے.پس تو جان لے کہ قرآن وَيَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَأَنَّهُ تَنزِيلُ رَبِّ امام اور نور ہے اور وہ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور یقیناوہ رب العالمین کی طرف سے اُتارا گیا ہے.(ترجمہ از مرتب) الْعَالَمِينَ.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۵۲،۲۵۱) بل إيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ اِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ ) اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ فرما دیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو رد کروں جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے.( برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورۃ الانعام فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا اَخَذْ نَهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ.(۴۵) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ ایسے وقت آئے گا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوگی بلکہ لوگ ہماری تکذیب کر چکے ہوں گے کہ وہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے: فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِرَوا ہے.یہ عادت اللہ ہے کہ ایسے وقت عذاب آتا ہے جب لوگ اسے بالکل بھول جاتے ہیں.ایسا ہی ان الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا چھپ کر آؤں گا گویا ہر شخص کا دل یقین کر لے گا کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے.بَغْتَةً کا یہی منشاء ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (۴۶) مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت : فَقُطعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا پر چھوڑا تھا جس کے اس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہو گا اس کی جڑھ کاٹ دی جائے گی اور یہ امرکی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظالم ہے پس ضرور تھا کہ ظالم اس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا لہذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اس لیے اس قدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا اس سے پہلے ہی مر گیا اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۴) قُلْ لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَايِنُ اللهِ وَلاَ اَعلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكَ : اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الْأَعْلَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تتفكرون هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْلَى وَالْبَصِيرُ کیا اندھا اور بینا مساوی ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں! پس جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں تو پھر کس قدر غلطی ہے کہ ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.غرض یہ ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرنا چاہیے اور مقابلہ ، مومن کے لیے تیار ہو جانا دانشمند انسان کا کام نہیں ہے اور مومن کی شناخت انہیں آثار
سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور نشانات سے ہو سکتی ہے جو ہم نے ابھی بیان کیے ہیں اسی فراست البیہ کا رعب تھا جو صحابہ کرام پر تھا اور ایسا ہی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ یہ رعب بطور نشان الہی آتا ہے.وہ پوچھ لیتے تھے کہ اگر یہ وحی الہی ہے تو ہم مخالفت نہیں کرتے اور وہ ایک ہیبت میں آجاتے تھے....جو لوگ یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ مومن کے ساتھ خدا ہے وہ اس کی مخالفت چھوڑ دیتے ہیں اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو تنہا بیٹھ کر اس پر غور کرتے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانه، ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۳،۱۴۲) وَ إِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلامُ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَانَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم (۵۵) کفارہ کی تلاش میں لگنا ہنسی کی بات ہے کیا کفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے بلکہ وعدہ وعدہ سے بدلتا ہے اور نہ کسی اور تدبیر سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : سلمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبِّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ - (جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۱) جو شخص غم میں سے بوجہ اپنی جہالت کے کوئی بدی کرے اور پھر تو بہ کرے اور نیک کاموں میں مشغول ہو جائے پس اللہ مغفورحیم ہے.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲) وَ كَذلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ.(۵۶) وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ.....تا مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی سعید لوگ الگ ہو جائیں اور شرارت پیشہ اور سرکش آدمی الگ ہو جائیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۹ حاشیه ) دوو وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجرمين : اور تا مجرموں کی راہ صاف طور پر کھل جاوے یعنی تا معلوم ہو جاوے کہ کون لوگ تیرا ساتھ اختیار کرتے ہیں اوکون لوگ بغیر بصیرت کامل کے مخالفت پر کھڑے ہو جاتے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۳) وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِین : تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون تجھ سے برگشتہ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۳) ہوتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوو ۱۳۷ سورۃ الانعام وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ : اور تا خدا کی حجت پوری ہو جائے اور مجرموں کی راہ کھل جائے.دوو (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۸) وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ : اور تا کہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون مجرم اور کون طالب حق ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۶) قُلْ اِنّى عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي وَ كَذَبْتُم بِهِ مَا عِنْدِى مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلَّهِ - يَقُصُّ الْحَقِّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِينَ (۵۸) مجھے اپنی رسالت پر کھلی کھلی دلیل اپنے رب کی طرف سے ملی ہے ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۵) کہہ میں کامل ثبوت لے کر اپنے رب کی طرف سے آیا ہوں اور تم اس ثبوت کو دیکھتے ہو اور پھر تکذیب کر رہے ہو.جس چیز کو تم جلدی سے مانگتے ہو ( یعنی عذاب ) وہ تو میرے اختیار میں نہیں.حکم اخیر صادر کرنا تو خدا ہی کا منصب ہے.وہی حق کو کھول دے گا اور وہی خیر الفاصلین ہے جو ایک دن میرا اور تمہارا فیصلہ کر ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۲) دے گا.وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلمتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ الا في كتب مُّبِينٍ میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں ، لا رطب و لا يابس إلا في كتب تبين.یہ ایک نا پیدا کنار سمندر ہے اپنے حقائق اور معارف کے لحاظ سے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے رنگ میں.اگر بشر کا کلام ہو تا توسطحی خیالات کا نمونہ دکھایا جاتا مگر یہ طرز ہی اور ہے جو بشری طرزوں سے الگ اور ممتاز ہے.اس میں باوجود اعلیٰ درجہ کی بلند پردازی کے نمود و نمائش بالکل نہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۹)
۱۳۸ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کسی کا یہ ارادہ ہو کہ بلا استصواب کتاب اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا تو یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے فرمایا : لا رطب وَلَا يَا بس الا في كتب مبين سوا اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۵) وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفيكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) قَالَ بَعْضُ الْمُسْتَعْجِلين إن لفظ " التَّوَلّي" بعض جلد باز کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ قرآن کریم إِنَّ قَدْ جَاءَ فِي الْقُرْآنِ مَعْنَى الْإِنامَةِ أَيْضًا كَمَا میں نیند کے معنے میں بھی آیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے قَالَ اللهُ تَعَالَى اللهُ يَتَوَلَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ فرمایا ہے: اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِي مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا، وَكَمَا قَالَ لَمْ تَمُتُ في منامها اور جیسے کہ فرمایا: وَ هُوَ الَّذِى ثُمَّ الله تعالى وَهُوَ الَّذِى يَتَوَقْكُم بِاليْلِ وَيَعْلَمُ يَتَوَقُكُمْ بِاليْلِ وَ يَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثم فیلم مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْطَى أَجَلٌ مُّسَمًّى پس واضح مستر أَجَلٌ مُّسَمًّى فَاعْلَمْ أَنَّ اللهَ تَعَالَى مَا أَرَادَ في رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں توفّی کے لفظ هذِهِ الْآيَاتِ مِنْ لَفْظِ التَّوَفِّي إِلَّا الْإِمَانَةَ سے موت اور قبض روح کے علاوہ اور کوئی مفہوم وَقَبْضَ الرُّوحِ، فَلِأَجْلِ ذَلِكَ أَقَامَ الْقَرَآئِن مراد نہیں لیا اور اسی مفہوم کی تعیین کے لیے اللہ تعالیٰ وَقَالَ وَالَّتِي لَمْ تَمَّتْ فِي مَنَامِهَا ، يَعْنِي وَالَّتِى نے قرائن قائم کیے ہیں چنانچہ فرمایا : وَالَّتِی لَم لَمْ ثَمَتُ مَوْتٍ حَقِيقِي يَتَوَفَّاهُ اللهُ في مَنَامِهَا تَمُتُ في منامها یعنی وہ جان جو حقیقی موت نہیں يمَوْتٍ فَجَازِي فَانْظُرْ كَيْفَ أَشَارَ فِي هَذِهِ مرتی اسے اللہ تعالی نیند میں موت مجازی دے کر الْآيَةِ إِلى أَنّ قَبْضَ الرُّوحِ فِي النَّوْمِ مَوْتُ اس کی توفی کرتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے توقی کا مَجَازِيُّ فَذَكَرَ لَفَظَ التَّوَفِّي هُهُنَا بِإِقَامَةِ ذكر منام کے قرینے سے کیا تا یہ بتایا جائے کہ قَرِينَةِ الْمَنَامِ تَنْبِيْبًا عَلى أَنَّ لَفَظَ التَّوَفِّي یہاں توفی کے معنی حقیقی معنوں سے مجازی معنی کی هُهُنَا قَدْ نُقِلَ مِنَ الْمَعْنَى الْحَقِيقِي إِلَى الْمَعْنَى طرف منتقل کیے گئے ہیں اور یہ اشارہ ہے کہ توفی : ( الزمر : ۴۳)
۱۳۹ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْمَجَازِي، وَإِشَارَةً إِلى أَنَّ مَعْلى لفظ التَّوَقِّی کے حقیقی معنے موت ہیں نہ کچھ اور.اسی لیے اللہ تعالیٰ حَقِيقَةٌ هُوَ الْمَوْتُ لَا غَيْرُهُ.وَكَذَلِكَ أَقَامَ نے اس آیت میں ثُمَّ يَبْعَكُم اور ائیل کا قرینہ قَرِيْنَةً قَوْلِهِ ثُمَّ يَبْعَدُكُمْ وَقَرِيْنَةَ اللَّيْلِ فِی بھی ساتھ لگایا ہے یعنی هُوَ الَّذِي يَتَوَفكُمْ بِاليْلِ ايَةٍ أُخْرى.أَعْنِي ايَةً وَ هُوَ الَّذِى يَتَوَفكُمْ الخ کی آیت میں اور یہ قرائن اس لیے قائم کیے تا یہ بِاليْلِ..الخ، تَنْبِيْها عَلَى أَنَّ لَفَظَ التَّوَفِّي هُهُنَا بتایا جائے کہ اس جگہ توفی کے لفظ کے معنے سلانے لَيْسَ عَلَى الْإِنامَةِ بَلِ الْمَقْصُودُ الْإِمَاتَةُ کے نہیں.بلکہ اس سے مراد امانت اور امانت کے وَالْبَعْثُ بَعْدَ الْإِمَاتَةِ لِيَكُونَ دَلِيْلًا عَلَى بَعْيِكِ بعد بحث ہے تا کہ یہ بات بعث یوم الدین کے لیے w دلیل ہو.يَوْمِ الدِّينِ فَلِأُجْلِ ذَلِكَ ذَكَرَ بَعْكَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ بَعْدَ اسی لیے اس آیت کے بعد بعث یوم القیامۃ کا هذِهِ الْآيَةِ وَقَالَ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ لِيَجْعَل خدا تعالیٰ نے ذکر کیا ہے اور فرما یا ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ هذَا الْمَوْتَ الْمَجَازِى وَالْبَعْتَ الْمَجَازِ (پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر آؤ گے ) تا یہ مجازی دَلِيْلًا عَلَى الْمَوْتِ الْحَقِيقِي وَالْبَعْثِ الْحَقِيقِي موت اور مجازی بعث حقیقی موت اور حقیقی بعث (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۶۱، ۳۶۲) | پر دلیل ہو.( ترجمہ از مرتب ) وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ.تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھیجتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کی ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں.اس مقام میں صاحب معالم نے یہ حدیث لکھی ہے کہ ہر ایک بندہ کیلئے ایک فرشتہ موکل ہے جو اس کے ساتھ ہی رہتا ہے.اور اس کی نیند اور بیداری میں شیاطین اور دوسری بلاؤں سے اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور اسی مضمون کی ایک اور حدیث کعب الاحبار سے بیان کی ہے اور ابن جریر اس آیت کی تائید میں یہ حدیث لکھتا ہے نان مَعَكُمْ مَّنْ لَّا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِندَ الْخَلَاءِ وَعِنْدَ الْجِمَاعِ فَاسْتَحْيُوهُمْ وَ اكْرِمُوْهُمْ - یعنی تمہارے ساتھ وہ فرشتے ہیں کہ بجز جماع اور پاخانہ کی حاجت کے تم سے جدا نہیں ہوتے.سو تم ان سے شرم
۱۴۰ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرو اور ان کی تعظیم کرو اور اسی جگہ مکرمہ سے یہ حدیث لکھی ہے کہ ملائکہ ہر یک شر سے بچانے کیلئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور جب تقدیر مبرم نازل ہو تو الگ ہو جاتے ہیں اور پھر مجاہد سے نقل کیا ہے کہ کوئی ایسا انسان نہیں جس کی حفاظت کیلئے دائمی طور پر ایک فرشتہ مقرر نہ ہو.پھر ایک اور حدیث عثمان بن عفان سے لکھی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ میں فرشتے مختلف خدمات کے بجالانے کیلئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور دن کو ابلیس اور رات کو ابلیس کے بچے ضرر رسانی کی غرض سے ہر دم گھات میں لگے رہتے ہیں اور پھر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل لکھی ہے: حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْن عَامِرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُجُلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِ وَ قَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ قَالُوا وَ إِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ وَ إِيَّايَ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرِ انفرد باخراجه مسلم صفحه ۲۴۴ یعنی بتوسط اسود وغیرہ عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے ایسا نہیں کہ جس کے ساتھ ایک قرین جن کی نوع میں سے اور ایک قرین فرشتوں میں سے موگل نہ ہو.صحابی نے عرض کی کہ کیا آپ بھی یا رسول اللہ صلعم ؟ فرمایا کہ ہاں! میں بھی.پر خدا نے میرے جن کو میرے تابع کر دیا.سو وہ بجز خیر اور نیکی کے اور کچھ بھی مجھے نہیں کہتا.اس کے اخراج میں مسلم منفرد ہے اس حدیث سے صاف اور کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جیسے ایک داعی شر انسان کیلئے مقرر ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے ایسا ہی ایک داعی خیر بھی ہر ایک بشر کے لئے موکل ہے جو بھی اس سے جدا نہیں ہوتا اور ہمیشہ اس کا قرین اور رفیق ہے اگر خدا تعالیٰ فقط ایک داعی الی الشر ہی انسان کے لئے مقرر کرتا اور داعی الی الخیر مقرر نہ کرتا تو خدا تعالی کے عدل اور رحم پر دھبہ لگتا کہ اس نے شر انگیزی اور وسوسہ اندازی کی غرض سے ایسے ضعیف اور کمزور انسان کو فتنہ میں ڈالنے کیلئے کہ جو پہلے ہی نفس امارہ ساتھ رکھتا ہے شیطان کو ہمیشہ کا قرین اور رفیق اس کا ٹھہرا دیا جو اس کے خون میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور دل میں داخل ہو کر ظلمت کی نجاست اس میں چھوڑ دیتا ہے مگر نیکی کی طرف بلانے والا کوئی ایسار فیق مقرر نہ کیا تا وہ بھی دل میں داخل ہوتا اور خون میں سرایت کرتا اور تا میزان کے دونوں پلے برابر رہتے مگر اب جب کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہو گیا کہ جیسے بدی کی دعوت کیلئے خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کا قرین شیطان کو مقرر کر رکھا ہے ایسا ہی دوسری طرف نیکی کی دعوت
۱۴۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانعام کرنے کیلئے رُوح القدس کو اس رحیم و کریم نے دائمی قرین انسان کا مقرر کر دیا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ بقا اور لقا کی حالت میں اثر شیطان کا کالعدم ہو جاتا ہے گویا وہ اسلام قبول کر لیتا ہے اور وہ روح القدس کا نور انتہائی درجہ پر چمک اٹھتا ہے تو اُس وقت اس پاک اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم پر کون اعتراض کر سکتا ہے بجز اس نادان اور اندھے کے کہ جو صرف حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتا ہے اور پاک تعلیم کے نور سے کچھ بھی حصہ نہیں رکھتا بلکہ سچ اور واقعی امر تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم بھی منجملہ معجزات کے ایک معجزہ ہے کیونکہ جس خوبی اور اعتدال اور حکیمانہ شان سے اس تعلیم نے اس عقدہ کو حل کر دیا کہ کیوں انسان میں نہایت قوی جذبات خیر یا شر کے پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ عالم رویا میں بھی ان کے انوار یا ظلمتیں صاف اور صریح طور پر محسوس ہوتی ہیں.اس طرز محکم اور حقانی سے کسی اور کتاب نے بیان نہیں کیا اور زیادہ تر اعجاز کی صورت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ بجز اس طریق کے ماننے کے اور کوئی بھی طریق بن نہیں پڑتا اور اس قدر اعتراض وارد ہوتے ہیں کہ ہر گز ممکن نہیں کہ ان سے مخلصی حاصل ہو کیونکہ خدا تعالی کا عام قانون قدرت ہم پر ثابت کر رہا ہے کہ جس قدر ہمارے نفوس و قوی و اجسام کو اس ذات مبد فیض سے فائدہ پہنچتا ہے وہ بعض اور چیزوں کے توسط سے پہنچتا ہے مثلاً اگر چہ ہماری آنکھوں کو وہی روشنی بخشتا ہے مگر وہ روشنی آفتاب کے توسط سے ہم کوملتی ہے اور ایسا ہی رات کی ظلمت جو ہمارے نفوس کو آرام پہنچاتی ہے اور ہم نفس کے حقوق اس میں ادا کر لیتے ہیں وہ بھی درحقیقت اسی کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ در حقیقت ہر یک پیدا شوندہ کی علت العلل وہی ہے.پھر جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک بندھا ہوا قانون قدیم سے ہمارے افاضہ کے لئے چلا آتا ہے کہ ہم کسی دوسرے کے توسط سے ہر یک فیض خدا تعالیٰ کا پاتے ہیں.ہاں! اس فیض کے قبول کرنے کیلئے اپنے اندر قومی بھی رکھتے ہیں جیسے ہماری آنکھ روشنی کے قبول کرنے کیلئے ایک قسم کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور ہمارے کان بھی ان اصوات کے قبول کرنے کیلئے جو ہوا پہنچاتی ہے ایک قسم کی جس اپنے اعصاب میں موجود رکھتے ہیں لیکن یہ تو نہیں کہ ہمارے قومی ایسے مستقل اور کامل طور پر اپنی بناوٹ رکھتے ہیں کہ ان کو خارجی معینات اور معاونات کی کچھ بھی ضرورت اور حاجت نہیں ہم کبھی نہیں دیکھتے کہ کوئی ہماری جسمانی قوت صرف اپنے ملکہ موجودہ سے کام چلا سکے اور خارجی ممد و معاون کی محتاج نہ ہو.مثلاً اگر چہ ہماری آنکھیں کیسی ہی تیز بین ہوں مگر پھر بھی ہم آفتاب کی روشنی کے محتاج ہیں اور ہمارے کان کیسے ہی شنوا ہوں مگر پھر بھی ہم اس ہوا کے حاجت مند ہیں جو آواز کو اپنے اندر لپیٹ کر ہمارے کانوں تک پہنچا دیتی ہے اس سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورۃ الانعام ثابت ہے کہ صرف ہمارے قومی ہماری انسانیت کی گل چلانے کیلئے کافی نہیں ہیں.ضرور ہمیں خارجی مہدوں اور معاونوں کی حاجت ہے مگر قانون قدرت ہمیں بتلا رہا ہے کہ وہ خارجی مد و معاون اگر چہ بلحاظ علت العلل ہونے کے خدائے تعالیٰ ہی ہے مگر اُس کا یہ انتظام ہر گز نہیں ہے کہ وہ بلا توسط ہمارے قومی اور اجسام پر اثر ڈالتا ہے بلکہ جہاں تک ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں اور جس قدر ہم اپنے فکر اور ذہن اور سوچ سے کام لیتے ہیں صریح اور صاف اور بدیہی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر یک فیضان کیلئے ہم میں اور ہمارے خدا وند کریم میں علل متوسطہ ہیں جن کے توسط سے ہر یک قوت اپنی حاجت کے موافق فیضان پاتی ہے پس اسی دلیل سے ملائک اور جنات کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خیر اور شر کے اکتساب میں صرف ہمارے ہی قومی کافی نہیں بلکہ خارجی ممدات اور معاونات کی ضرورت ہے جو خارق عادت اثر رکھتے ہوں مگر وہ میڈ اور معاون خدا تعالی براہ راست اور بلا توسط انہیں بلکہ بتوسط بعض اسباب ہے سوقانون قدرت کے ملاحظہ نے قطعی اور یقینی طور پر ہم پر کھول دیا کہ وہ مُمدات اور معاونات خارج میں اور موجود ہیں گو ان کی کنہ اور کیفیت ہم کو معلوم ہو یانہ مگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ نہ براہ راست خدا تعالیٰ ہے اور نہ ہماری ہی قو تیں اور ہمارے ہی ملکے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قسموں سے الگ ایسی مخلوق چیزیں ہیں جو ایک مستقل وجود اپنا رکھتی ہیں اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الخیر رکھیں گے تو اسی کو ہم روح القدس یا جبرائیل کہیں گے اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الشر رکھیں گے تو اسی کو ہم شیطان اور ابلیس کے نام سے بھی موسوم کریں گے.یہ تو ضرور نہیں کہ ہم روح القدس یا شیطان ہر یک تاریک دل کو دکھلا دیں اگر چہ عارف ان کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور کشفی مشاہدات سے وہ دونوں نظر بھی آجاتی ہیں مگر محجوب کیلئے جو ابھی نہ شیطان کو دیکھ سکتا ہے نہ روح القدس کو یہ ثبوت کافی ہے کیونکہ متاثر کے وجود سے موثر کا وجود ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی کیوں کر پتہ لگ سکتا ہے؟ کیا کوئی دکھلا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ صرف متأثرات کی طرف دیکھ کر جو اس کی قدرت کے نمونے ہیں اس موثر حقیقی کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے.ہاں ! عارف اپنے انتہائی مقام پر روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی باتوں کو بھی سنتے ہیں مگر مجوب کیلئے بجز اس کے اور استدلال کا طریق کیا ہے کہ متاثرات کو دیکھ کر اس موثر حقیقی کے وجود پر ایمان لاوے سواسی طریق سے روح القدس اور شیاطین کا وجود ثابت ہوتا ہے اور نہ صرف ثابت ہوتا ہے بلکہ نہایت صفائی سے نظر آ جاتا ہے افسوس ان لوگوں کی حالت پر جو فلسفہ باطلہ کی
۱۴۳ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظلمت سے متاثر ہو کر ملا یک اور شیاطین کے وجود سے انکار کر بیٹھے ہیں اور بینات اور نصوص صریحہ قرآن کریم سے انکار کر دیا اور نادانی سے بھرے ہوئے الحاد کے گڑھے میں گر پڑے.اور اس جگہ واضح رہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے اثبات کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۹ تا ۸۹) قُلْ مَنْ يُنَجِّيْكُمْ مِنْ ظُلُمَتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَبِنْ انجنا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ اب ظاہر ہے کہ ان آیات کا حاصل مطلب یہی ہے کہ جب بعض گناہ گاروں کو ہلاک کرنے کے لیے خدا تعالیٰ اپنے قہری ارادہ سے اس دریا میں صورت طوفان پیدا کرتا ہے جس میں ان لوگوں کی کشتی ہو تو پھر ان کی تضرع اور رجوع پر ان کو بچالیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ پھر وہ مفسدانہ حرکات میں مشغول ہوں گے.کیا اس طوفان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ کشتی والوں کو صرف خفیف خفیف چوٹیں لگیں مگر ہلاک نہ ہوں.وو مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۴۴۸) قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأسَ بَعْضٍ أَنْظُرُ كَيْفَ نُصَرِفُ الأيتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ ) کہہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم کو نشان دکھلانے کے لیے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب نمودار ہو یا ایمان داروں کی لڑائی سے تم کو عذاب کا مزہ چکھاوے.دیکھو ہم کیوں کر آیات کو پھیرتے ہیں تا وہ سمجھ لیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۲ حاشیہ نمبر ۱۱) کہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کر ایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزہ چکھا دے.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳) یہ ضرور نہیں ہے کہ خدا ہر وقت ایک ہی رنگ میں عذاب دیوے.قرآن شریف میں عذاب کے کئی
۱۴۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانعام اقسام بیان کئے ہیں جیسے: قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَ يُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأسَ بَعْضٍ - جنگ لڑائی وغیرہ کو بھی عذاب قرار دیا ہے.عذاب بہت اقسام کے ہوتے ہیں.کیا خدا کے پاس عذاب کی ایک ہی قسم ہے اور خدا کی عادت ہے کہ ہر نشان میں ایک پہلو اخفا کا رکھتا ہے ورنہ وہ چاہے تو چن چن کر بڑے بڑے بدمعاش ہلاک کر دے.سب لوگ ایک ہی دن میں سیدھے ہو جاویں.(الہدر، جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۲، ۳) قُلْ اَند عُوا مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعْنَا وَلَا يَضُرُنَا وَ نُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ ص هَدْنَا اللهُ كَالَّذِي اسْتَهُوَتْهُ الشَّيطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَةَ أَصْحَبُ يَدْعُونَةٌ إلَى الْهُدَى انْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدى وَأُمِرْنَا لِمُسْلِمَ لِرَبِّ العلمين قُلْ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی.....ان کو کہہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیز ہیں؟ ہدایت وہی ہے جو خدا تعالی براہ راست آپ دیتا ہے ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنی بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتا لہذا ہدایت اسی کی ہدایت ہے.انسانوں کے اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۸۸٬۸۷) اِنّى وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں.جس طرح ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون تک کو اسی انجمن کی طاقت عظمی کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیوں کر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہو سکتا ہے؟ اور کیوں کر اپنے آپ کو اِنِّي وَجَهتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا.کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے
۱۴۵ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام منہ سے کہہ سکتا ہے دل سے بھی ادھر کی طرف متوجہ ہو تو لا ریب وہ مسلم ہے وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے اور روح اور دل کی طاقتیں (اس درخت کی طرح جس کی شاخیں ابتداء ایک طرف کر دی جائیں اور پرورش پالیس) ادھر ہی جھکتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیدا ہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے.جیسے وہ شاخیں پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتیں.اسی طرح پر وہ دل اور روح دن بدن خدا تعالی سے دور ہوتی جاتی ہے پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے.اس لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تا کہ اولاً وہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو.پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آ جاتا ہے کہ انقطاع علی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہو جاتا ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ا صفحہ ۶، ۷ جنوری ۱۹۰۴ء) جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ تعالی ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں جس طرح پر ایک بڑا انجمن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت وسکون کو اسی انجن کی طاقت عظمی کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیوں کر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو انی وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے منہ سے کہتا ہے ویسے ہی ادھر کی (طرف) متوجہ ہوتو لاریب وہ مسلم ہے وہ مومن اور حنیف ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یادر کھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کہ اس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے.احکام جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷۱۲ پریل ۱۸۹۹ صفحه ۶) برکات اور فیوض الہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں.چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو جب یہ حالت ہو تو پھر الہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے.اس کے لیے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہیے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر
۱۴۶ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ دکھایا.جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ با برکت آدمی ہو جاتا ہے پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلت نہیں اُٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی ساری مراد یں پوری کر دیتا ہے اسے نامراد نہیں رکھتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلم أوليك لَهُمُ الْآمَنُ وَهُمْ مهتَدُونَ جب اس (انسان ) کی سرشت میں محبت الہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہوگئی.یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہو گیا جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو گیا جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہو گیا جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو گیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہر ایک خطرہ سے امن میں آگیا.اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَبِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ - ( برامین احمد یہ چہار حص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۲،۶۰۱ حاشیہ نمبر ۱۱) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ظلم کو نہیں ملایا وہ امن کی حالت میں ہیں اور وہی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۴) ہدایت یافتہ ہیں.اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کو ہر ایک بلا سے امن ہے اور وہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۱۶) جولوگ ان برکات وانوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کیے ہیں اور ایمان ان کا خالص اور وفاداری سے ہو گا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں.برائن احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۷ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) خدا تعالیٰ نے اگر چہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا ( طاعون ) سے محفوظ رکھے گا مگر اس میں
۱۴۷ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ایک شرط لگی ہوئی ہے کہ لَم يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلم کہ جو لوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملاویں گے وہ امن میں رہیں گے.....لَم اَشْرَكُوا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ میں شرک سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہندوؤں کی طرح پتھروں کے بتوں یا اور مخلوقات کو سجدہ کیا بلکہ جو شخص ماسوا اللہ کی طرف مائل ہے اور اس پر بھروسہ کرتا ہے حتی کہ دل میں جو منصوبے اور چالاکیاں رکھتا ہے ان پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ بھی شرک ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۳) بعض وقت انسان موجودہ حالت امن پر بھی بے خطر ہو جاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ امن میں زندگی گذارتا ہوں مگر یہ غلطی ہے کیونکہ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ سابقہ زندگی میں کیا ہوا ہے اور کیا کیا بے اعتدالیاں اور کمزوریاں ہو چکی ہیں اس واسطے مومن کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کبھی بے خوف نہ ہو اور ہر وقت تو بہ اور استغفار کرتا رہے کیونکہ استغفار سے انسان گذشتہ بدیوں کے برے نتائج سے بھی خدا کے فضل سے بچ رہتا ہے یہ سچی بات ہے کہ تو بہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵ ) اگر ہمارا کوئی مرید طاعون سے مرجاتا ہے تو اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ خدا کے کلام میں یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ صرف بیعت کرنے والا ہی اس سے محفوظ رہے گا بلکہ اس نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کر کے فرمایا: الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ يظلم یعنی بقدر دعوی کے ایمان میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو.خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری وفا، پورا صدق اور اخلاص کا معاملہ ہو اور اس کی شناخت کامل ہو تو وہ شخص اس آیت کا مصداق ہو سکتا ہے لیکن یہ ایسی بات ہے کہ جس کو سوائے خدا تعالیٰ) کے اور کوئی نہیں جان سکتا کہ آیا فلاں شخص میں پورا صدق و اخلاص ہے کہ نہیں.بعض وقت ایک انسان کے حق میں موت ہی اچھی ہوتی ہے کہ خدا اسے اس ذریعہ سے آئندہ لغزش سے بچا لیتا ہے (جیسے بعض کافروں کے حق میں زندگی اس لیے بہتر ہوتی ہے که....ان کو آئندہ ایمان نصیب ہو جاتا ہے.ایسے ہی بعض مومن کے حق میں موت اس لیے بہتر ہوتی ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کافر ہو جاتا ) کہ اس کا خاتمہ کفر پر نہ ہو.البد رجلد ۳ نمبر ۲۲ ، ۲۳ مورخه ۸ تا ۶ ۱ جون ۱۹۰۴ ء صفحه ۳) میرے کسی کلام میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ہر ایک شخص جو بیعت کرے وہ طاعون سے محفوظ رہے گا بلکہ یہ ذکر ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَبِكَ لَهُمُ الْآمِّنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ.پس کامل
۱۴۸ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیروی کرنے والے اور ہر ایک ظلم سے بچنے والے جس کا علم محض خدا کو ہے بچائے جائیں گے اور کمزور لوگ طاعون سے شہید ہو کر شہادت کا اجر پاویں گے اور طاعون ان کے لیے تخصیص اور تطہیر کا موجب ٹھیرے گی.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۷۱۱، ۷۱۲) جن لوگوں نے مجھے قبول کیا اور مجھ پر ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم اور قصور اور کسی نوع کی ایمانی یا عملی تاریکی یا نقص کے ساتھ مختلط نہیں کیا وہ طاعون کے حملہ سے امن میں رہیں گے.پس وحی الہی سے کہاں سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ اپنے اندر کچھ نقص اور ظلم رکھتے ہیں یا کوئی ایمانی کمزوری ہے وہ بھی اس وعدہ الہی کے نیچے داخل ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۵) ماننا پڑتا ہے کہ بعض مومنوں کو بھی طاعون ہو سکتا ہے مگر یا در ہے وہی مومن جو کامل نہیں.اسی لیے میرے الہام میں ہے کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے جو لَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ یظلمہ کے مصداق ہیں یعنی اپنے ایمان کے نور میں کسی قسم کی تاریکی شامل نہیں کرتے اور یہ مقام سوائے کاملین کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا سنہ ۶ ہجری میں جب طاعون پڑا ہے تو کوئی مسلمان نہیں مرا لیکن جب حضرت عمر کے عہد میں طاعون پڑا تو کئی صحابی بھی شہید ہوئے.وجہ یہ کہ کامل مومن ہی ایسی باتوں سے محفوظ رہتے ہیں.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۹) جن لوگوں نے مان لیا ہے اور اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کو نہ ملایا.ایسے لوگوں کے واسطے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں.اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جماعت کے وہ لوگ بچائے جائیں گے جو پورے طور سے ہماری ہدایتوں پر عمل کریں اور اپنے اندرونی عیوب اور اپنی غلطیوں کی میل کو دور کر دیں گے اور نفس کی بدی کی طرف جھکیں گے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۴ مورخہ ۱/۴ پریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۷) وَ مِنْ بابِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ ، وَ اجْتَبَيْنَهُمْ وَ هَدَيْنَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.9919119 اجتبينهم اور ہم نے ان کو چن لیا یعنی وہ باعتبار اپنی فطرتی قوتوں کے دوسروں میں سے چیدہ اور برگزیدہ تھے اس لیے قابل رسالت و نبوت ٹھہرے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۵ حاشیه در حاشیہ نمبر۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة الانعام وو أوليكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدهُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ الا ذكرى للعلمين.وو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسی بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے : فَبِهُدهُمُ اقْتَدِہ اپنے اے رسول اللہ ! تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محمد کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر یک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پا کر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہوا ہے.پس اس حدیث میں حضرت مسیح کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.سو ایسا ہی ہوا کہ ہمارا صحیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے نا تمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کیلئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں اور مسیح کی روح کو خوشی پہنچائی.یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید، ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا.فالحمد للہ ! آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۳) یہ کمالات متفرقہ اس امت میں جمع کرنے کا کیوں وعدہ دیا گیا ؟ اس میں بھید یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات متفرقہ ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَبِهُل هُمُ اقْتَدِه یعنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورۃ الانعام تمام نبیوں کو جو ہدایتیں ملی تھیں اُن سب کا اقتدا کر.پس ظاہر ہے کہ جو شخص ان تمام متفرق ہدایتوں کو اپنے اندر جمع کرے گا اس کا وجود ایک جامع وجود ہو جائے گا اور تمام نبیوں سے وہ افضل ہوگا پھر جو شخص اس نبی جامع الکمالات کی پیروی کرے گا ضرور ہے کہ خلقی طور پر وہ بھی جامع الکمالات ہو.چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۱) 10 وو یہ جو قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ : فَبِها هُمُ اقتده پس ان کی یعنی گذشتہ نبیوں کی جن کا اوپر ذکر آیا ہے اقتدا کر.اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی فضیلت ظاہر ہوتی ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ جس قدر گذشتہ انبیاء ہوئے انہوں نے مخلوق کی ہدایت مختلف پہلوؤں سے کی اور مختلف قسم کی ان میں خوبیاں تھیں.کسی میں کوئی خوبی اور کمال تھا اور کسی میں کوئی اور ان تمام نبیوں کی اقتدا کرنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ان تمام متفرق خوبیوں کو اپنے اندر جمع کر لینا چاہیے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص جامع ان تمام خوبیوں کا ہے جو متفرق طور پر تمام انبیاء سے افضل ہیں کیونکہ ہر ایک کی خوبی اس میں موجود ہے اور وہ تمام متفرق خوبیوں کا جامع ہے مگر پہلے اس سے کوئی نبی ان تمام خوبیوں کا جامع نہ تھا.( بدر جلد ۴ نمبر ۳۲ مورخه ۲۱ رستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) وو اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ فَبِهُدهُم اقتدی ان کی ہدایت کی پیروی کر یعنی تمام گذشتہ انبیا کے کمالات متفرقہ کو اپنے اندر جمع کر لے.یہ آیت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی فضیلت کا اظہار کرتی ہے.تمام گذشتہ نبیوں اور ولیوں میں جس قدر خوبیاں اور صفات اور کمال تھے وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے تھے.سب کی ہدائیتوں کا اقتدا کر کے آپ جامع تمام کمالات کے ہو گئے مگر جامع بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان متکبر نہ ہو.جو سمجھتا ہے کہ میں نے سب کچھ سمجھ لیا ہے وہ ٹھوکر کھاتا ہے.خاکساری سے زندگی بسر کرنی چاہیے.جہاں انسان کوئی فائدہ کی بات دیکھے چاہیے کہ اسی جگہ سے فائدہ حاصل کرے.( بدر جلد نمبر ۳۳ مورخه ۶ / نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) یہ امر جو ہے کہ تو سب کی اقتدا کر یہ امر بھی خلقی اور کوئی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کمالات جو جمیع انبیاء علیہم السلام میں متفرق طور پر موجود تھے اس میں یکجائی طور پر موجود ہوں اور گویا اس کے ساتھ ہی وہ کمالات اور خو بیاں آپ کی ذات میں جمع ہو گئیں.(احکام جلد ۷ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورۃ الانعام وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرِةِ إِذْ قَالُوا مَا انْزَلَ اللهُ عَلَى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ قُلْ مَنْ انْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِى جَاءَ بِه مُوسى نُورًا وَ هُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَه قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا ۚ وَعَلِمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا اَنْتُمْ وَلَا ابَاؤُكُمْ قُلِ الله ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ.الہام کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کا کچھ قدر شناخت نہیں کیا اور اس کی رحمت کو جو بندوں کی ہر یک حاجت کے وقت جوش مارتی ہے نہیں پہنچا نا تب ہی انہوں نے کہا کہ خدا نے کوئی کتاب کسی بشر پر نازل نہیں کی.ترا عقل تو ہر دم پائے بند کبر می دارد برو عقلی طلب کن کت زخود بینی بروں آرد ہماں بہتر کہ ما آن علم حق از حق بیاموزیم که این علمی که ما داریم صد سہو وخطا دارد که گوید بهتر از قولش گر او خاموش نبشیند که گیرد دست اے ناداں گر او دست تو بگذارد بر و قدرش به بیس و از حجت بے اصل دم در کش که این حجت که می آری بلا با بر سرت آرد (براہین احمدیہ چہار حص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۶۹ حاشیہ نمبر ۱۱) میں چھوڑ دے.قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْفِهِمْ يَلْعَبُونَ: کہ خدا نے یہ کلام اتارا ہے پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۸۲) قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوضِهِمْ يَلْعَبُونَ : ان کو جواب دے کہ خدا اس کاروبار کا بانی ہے.پھر ان کو ان کی لہو ولعب میں چھوڑ دے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه (۱۹) قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ: کہہ نہیں ! یہ وعدے خدا کی طرف سے ہیں اور پھر ان کو ان کے لہو ولعب میں چھوڑ دے یعنی جو بد گمانی کر رہے ہیں کرتے رہیں.آخر دیکھ لیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں یا انسان کی.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۸۳) جو لوگ اللہ تعالیٰ کو محدود القویٰ ہستی سمجھتے ہیں وہ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ میں داخل ہیں ، جو ایک حد تک ہی خدا کو مانتے ہیں یہ نیچریت کا شعبہ ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۲) جولوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل ہے کہ مصنوعی خدا پر موت آوے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو مان نہیں وہ ما
۱۵۲ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ کے پورے مصداق ہیں.دنیا میں اگر کوئی ابتلا پیدا ہوتا ہے تو اس کے مصالحہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اس وقت دنیا بہت تاریکی میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کو مردہ پرستی نے ہلاک کر ڈالا ہے لیکن اب خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ دنیا کو اس ہلاکت سے نجات دے اور اس تاریکی سے اس کو روشنی میں لاوے.یہ کام بہتوں کی نظر میں عجیب ہے مگر جو یقین رکھتے ہیں کہ خدا قادر ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں وہ خدا جس نے ایک گن کے کہنے سے سب کچھ کر دیا کیا قادر نہیں کہ اپنے قدیم ارادہ کے موافق ایسے اسباب پیدا کرے جو لا إِلهَ إِلَّا الله کو دنیا تسلیم کر لے.احکام جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) بعض آدمی اپنی بیوقوفی اور شتاب کاری سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم نے ولی بنا ہے؟ میرے نزدیک ایسے لوگ کفر کے مقام پر ہیں.اللہ تعالیٰ تو سب کو ولی کہتا ہے اور سب کو ولی بنانا چاہتا ہے اسی لئے وہ اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ہدایت کرتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ تم منعم علیہ گروہ کی مانند ہو جاؤ.جو کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہوسکتا وہ اللہ تعالیٰ پر بخل کی تہمت لگاتا ہے اور اس لئے یہ کلمہ کفر ہے.....مگر اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالی ہی کو شنا محت نہیں کیا مَا قَدَرُوا اللهَ حَتَّى قَدرِه - الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱۱) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اگر ہمارے پاس کبھی کچھ ہو تو دوسرے دن سب خرچ ہو جاتا ہے جو کچھ ہوتا ہے جماعت کا ہوتا ہے اور وہ بھی لنگر خانہ میں خرچ ہو جاتا ہے.بعض اوقات کچھ بھی نہیں رہتا اور ہمیں غم پیدا ہوتا ہے.تب خدا تعالیٰ کہیں سے بھیج دیتا ہے اکثر لوگ خدا تعالیٰ کی پوری پوری قدر نہیں سمجھتے.وَمَا قَدَرُوا اللهَ حق قدره خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے.وَفي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ النَّارِيَات : ٢٣) - الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹) یا درکھو کہ ہر یک چیز خدا تعالی کی آواز سنتی ہے ہر یک چیز پر خدا تعالی کا تصرف ہے اور ہر یک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو ما قدرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ کے مصداق ہیں اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لیے تمام عالم اس کی طرف وقتا فوقتا کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی ستر ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورۃ الانعام بر کاروبار ہستی اثری صد عارفان را زجہاں چہ دید آن کس که ندید ایں جہاں را بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱٬۳۰ حاشیه ) وَهُذَا كِتَب اَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ مُصَدِّقُ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ.فَكُنْتُ يَوْمًا آتَذَكَّرُ قِلَّةَ الْبَعَاعِ وَ میں ایک دن اپنے کمی سرمایہ کو یاد کر رہا تھا اور نرم اور ارْتَعِدُ اللعَاعِ وَاقْلَقى في هذه نو خیز سبزہ کی طرح کا نپتا تھا اور انہیں غموں میں بیقرار ہو رہا الْأَحْزَانِ وَاقْرَءُ آيَاتِ الْقُرْآنِ وَ أَفَكِّرُ تھا اور قرآن شریف کی آیتیں پڑھتا تھا اور دلی کوشش سے فِيهَا بِجُهْدِ الْجَنَانِ وَارْجِئ نِضْوَ الشَّدَبُرِ فکر کر رہا تھا اور تدبر اور سوچ کی ذیلی اوٹنی کو چلا رہا تھا اور وَالْإِمْعَانِ وَادْعُوا اللَّهَ آن تقدِینی خدا تعالیٰ سے مانگ رہا تھا کہ مجھے معرفت کی راہ دکھاوے طرُقَ الْعِرْفَانِ وَيُتِمَّ مُميى عَلى أَهْلِ اور اہل ظلم پر میری حجت کو پوری کرے اور اس ظلم کا الْعُدْوَانِ وَيَتَلَافى مَا سَلَفَ مِنْ جَوْرِ تدارک کرے جو زیادتی کرنے والوں سے صادر ہو چکا الْمُعْتَدِينَ فَبَيْنَمَا أَنَا أُفَتِشُ ہے.پس اس عرصہ میں جو میں ایک سریع الحرکت انسان كَالْكَمِيشِ وَقَد حَمِيَ وَطِيسُ التَّفتيش کی طرح فکر کر رہا تھا اور تفتیش کا تنور گرم تھا اور میں بعض وَانْظُرُ بَعْضَ الْآيَاتِ وَاتَوَسَّمُ فَحَوَاءَ آیتوں کو دیکھتا اور ان کے بینات میں غور کرتا تھا کہ ناگاہ الْبَيِّنَاتِ إِذَا تَلالات آمَام عَنِينِي آيَةٌ میری آنکھوں کے سامنے ایک آیت قرآن شریف کی چمکی مِنْ آيَاتِ الْفُرْقَانِ وَ لَا كَتَلَالُو دُرّر اور وہ ایسی چمک نہ تھی جیسا کہ عمان کے موتیوں کی بلکہ اس الْعُمَانِ فَإِذَا فَكَرْتُ في فَخَوَاعِهَا.سے بڑھ کر تھی پس جبکہ میں نے ان آیتوں کے مضمون وَاتَّبَعْتُ انْوَاعَ ضِيَاء هَا وَاَجَزْتُ حِمی میں غور کیا اور روشنی کی پیروی کی اور ان کے میدان تک اَرْجَاءَهَا وَأَفْضَيْتُ إلى فَضَاعِهَا وَجَدُهُهَا پہنچا تو میں نے ان آیتوں کو مخزن علوم پا یا اور چھپے ہوئے خَزِينَةً مِنْ خَزَائِنِ الْعُلُومِ وَدَفِيْنَةً مِّنَ بھیدوں کا دفینہ دیکھا.سواس کے دیکھنے نے میرے باز وکو اليرِ الْمَكْتُومِ.فَهَزَّتْ عِطفى رُؤْيَتُهَا وَ ہلا دیا اور اس کی قوت میرے پر ہزار سوار کی طرح ظاہر تَجَلَّتْ في كَجَمْرَةٍ قوتها.وَاصْلِی قَلْبِنی ہوئی اور اس کی سبزی اور تازگی نے میرے دل کو کھینچ لیا اور
۱۵۴ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نُضَارُهَا وَنَضْرَتُهَا وَاغْتَالَتِ الْعِدَا اس کی لڑائی نے یک دفعہ دشمنوں کو ہلاک کر دیا اور اس کی كَرِيتُهَا وَسَرَّتْ مُهْجَتِى صَرَّتُها جماعت نے میرے دل کو خوش کیا سو میں نے الحمد للہ کہا اور فَحَمْدَلْتُ وَشَكَرْتُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اور میں نے ان آیات میں وہ عجائبات وَرَأَيْتُ بِهَا مَا يَمْلَأُ الْعَيْنَ قُرَةٌ وَيُعْطِی دیکھے جو آنکھوں کو خشکی سے بھر دیتے ہیں اور معارف کی مِنَ الْمَعَارِفِ دَوْلَةٌ.وَيُسر قُلُوب دولت بخشتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں کو خوش کر دیتے ہیں الْمُسْلِمِينَ.وَعُلِّمْتُ من سير اللغات اور مجھ کو فتوں کا سر اور ان کی اصل جگہ جتلائی گئی اور کلمات کے مِنْ وَمَثْوَاهَا وَزُوّدْتُ مِن فَضِ الْكَلِمَاتِ پیوند اور ان کے راز سے میں تو شہ دیا گیا اور اسی طرح بلند وَنَجْوَاهَا وَكَذَلِكَ أعْطِيتُ مِن اشترارٍ بعید مجھ کو عطا کیے گئے اور بڑے بڑے نکتے مجھ کو دیئے گئے عُلْيَا وَنِكَاتٍ عُظمى لِيَزِيدَ يَقِينِي رَبِّي تا خدا تعالیٰ میرا یقین زیادہ کرے اور تا تجاوز کرنے والوں کا الأغلى.وَلِيَقْطَعَ دَابِرَ الْمُعْتَدِينَ وان پیچھا کاٹ ڈالے اور اگر تو چاہتا ہے کہ آیت موصوفہ اور اس كُنتَ تُحِبُّ أَنْ تَعْرِفَ الْآيَةَ وَصَوْلَهَا کے حملہ سے نجات ہو تو قرآن کے اس مقام کو پڑھ جہاں یہ فَاقْرَ لِتُنية أم القرى وَ مَنْ لکھا ہے: لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَها جس کے یہ معنے حَوْلَهَا.وَ إِنَّ فِيْهَا مَدْحَ الْقُران ہیں ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بھیجا تا تو اس شہر کو وَعَرَب مُّبِينٍ فَتَدَبَّرْهَا كَالْعَاقِلِينَ وَ ڈراوے جو تمام آبادیوں کی ماں ہے اور ان آبادیوں کو جو اس لا تمر بها مُرُورَ الْغَافِلِينَ وَاعْلَمْ آن کے گرد ہیں یعنی تمام دنیا کو اور اس میں قرآن کی مدح اور عربی هذِهِ الْآيَةَ تُعَظمُ الْقُرْآنَ وَالْعَرَبِيَّةَ کی مدح ہے پس منظمندوں کی طرح تدبر کر! اور غافلوں کی وَمَكَّةَ وَ فِيهَا نُورٌ زَقَ الْاَعْدَاءَ طرح ان پر سے مت گذر اور جان کہ یہ آیت قرآن اور عربی وَبَكَّتَ فَاقْرَ هَا بِتمَامِهَا وَانْظُرُ إلى اور مکہ کی عظمت ظاہر کرتی ہے اور اس میں ایک نور ہے جس نِظَامِهَا وَفَيْضُ كَالْمُسْتَبْصِرِينَ وَالی نے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور لاجواب کر دیا.پس تمام تدبرتها فَوَجَدْتُ فِيهَا اسْترَارًا ثُمَّ آیت کو پڑھا اور اس کے نظام کی طرف دیکھ اور دانشمندوں کی اَمْعَدْتُ فَرَأَيْتُ الْوَارًا.ثُمَّ عَمَفت طرح تحقیق کر اور میں نے ان آیتوں میں تدبر کیا پس کئی بھید فَشَاهَدتُ مُنَزِّلًا فَهَارًا رَبِّ ان میں پائے.پھر ایک گہری غور کی تو کئی نوران میں پائے الْعَالَمِينَ وَكُشِفَ عَلَى آنَ الآيَةَ پھر ایک بہت ہی عمیق نظر سے دیکھا تو اتارنے والے قہار کا
۱۵۵ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْمَوْصُوفَةَ وَالْإِشَارَاتِ الْمَلْفُوفَةٌ مجھے مشاہدہ ہوا جو رب العالمین ہے اور میرے پر کھولا گیا عَهْدِى إِلى فَضَائِلِ الْعَرَبِيَّةِ وَتُشير إلى کہ آیت موصوفہ اور اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی آنها أُمُّ الْأَلْسِنَةِ وَانَّ الْقُرآن قدر طرف ہدایت کرتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی الْكُتُبِ السَّابِقَةِ وَأَنَّ مَكَّةَ اُم ہیں کہ وہ ام الالسنہ ہے اور قرآن پہلی کتابوں کا اُتم یعنی الْأَرْضِينَ.فَاقْتَادَلي بُرُوقُ هَذِهِ الْآيَةِ اصل ہے اور مکہ تمام زمین کا اُم ہے.سو مجھے اس آیت کی إلى أنواع التنظيسِ وَالرِّدَايَةِ.وَفَهِمْتُ روشنی نے طرح طرح کے فہم اور درایت کی طرف کھینچا اور ير نُزُولِ الْقُرْآنِ في هَذَا اللَّسَانِ وَسر مجھے یہ بھید سمجھ آگیا کہ قرآن کیوں عربی زبان میں نازل خَمِ النُّبُوَّةِ عَلى خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَ خَشم ہوا اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نبوت ختم ہوئی الْمُرْسَلِينَ.ثُمَّ ظَهَرَتْ عَلَی آیات اس میں بھید کیا ہے پھر میرے پر اور آیتیں ظاہر ہوئیں اور أخْرَى وَأَيَّدَ بَعْضُهَا بَعْضًا تثرًا حَتَّى بعض نے بعض کی متواتر مدد کی یہاں تک کہ میرے خدا جَرى رَبِّي إِلى حَقَّ الْيَقِينِ.وَادْخَلَنِي في نے حق الیقین تک مجھے کھینچ لیا اور یقین کرنے والوں میں الْمُسْتَيْقِنِينَ.وَظَهَرَ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ هُوَ مجھے داخل کیا اور میرے پر ظاہر ہو گیا کہ قرآن ہی پہلی تمام أم الكتب الأولى وَالْعَرَبِيَّةَ اُم کتابوں کی ماں ہے اور ایسا ہی عربی تمام زبانوں کی ماں الْأَلْسِنَةِ مِنَ الله الأعلى وَآمَا الْبَاقِيَّةَ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور باقی زبانیں اس کی بیٹے مِنَ اللُّغَاتِ فَهِيَ لَهَا كَالْبَنِينَ بیٹیوں کی طرح ہیں اور کچھ شک نہیں کہ وہ تمام زبا نہیں اس أَوِ الْبَنَاتِ وَلَا شَكَ أَنَّهَا كَمِثْلِ وَلَدِهَا کے فرزندوں یا خانہ زاد کنیز کوں کی طرح ہیں اور ہر یک أوْ وَلَابِدِهَا وَكُلٌّ يَأْكُلُ مِنْ أَعْشَارِهَا اسی کی دیگوں اور اسی کے خوان میں سے کھا رہا ہے اور وَمَوَابِدِهَا وَكُلٌّ يَجْتَدُونَ فَاكِهَةَ هَذِهِ بر یک اس کے پھل چکھ رہا ہے اور اسی خوان سے اپنے اللُّهجَةِ وَيَمْلَكُونَ الْبُطُونَ بِتِلْكَ پیٹ بھر رہے ہیں اور اسی دریا سے پانی پی رہے ہیں اور الْمَائِدَةِ وَ يَشْرَبُونَ مِنْ تِلْكَ اللجةِ وَ اس حلہ سے انہوں نے اپنا لباس بنایا ہے اور وہ ان کی يَتَّخِذُونَ لِبَاسًا مِن هَذِهِ الْحَلَّةِ.فَهى مربی ہے جس نے بعار بیت ان کو لباس دیا اور اپنی ذات مُرَبِّيَةٌ آعَارَهَا اللَّسْتَ وَاخْتَارَ کے لیے مسند اختیار کیا اور یہ بات کہ اگر عربی ام الالسنہ ہی لِنَفْسِهَا النَّسْتَ.وَآقا اختلافی ہے تو زبانوں کی ترکیبوں میں کیوں اختلاف ہے تو یہ کچھ
۱۵۶ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْأَلْسِنَةِ فِي صُوَرِ التَّرْكِيبِ فَلَيْسَ مِن عجیب بات نہیں اور اسی طرح جو اختلاف تصریف اور الْعَجِيْبِ وَكَذلِك الاختلاف في اطراد مواد میں ہے وہ بھی عدم اتحاد کی دلیل نہیں ٹھہر سکتا التّصْرِيفِ وَأَطْرَادِ الْمَوَادِ لَيْسَ مِن اور اگر یہ تھوڑا سا اختلاف بھی جو ترکیبات کا اختلاف ہے دلايل عدمِ الْإِنْحَادِ وَلَوْلا الختلاف لغات میں باقی نہ رہے تو وہ تغایر درمیان سے اٹھ جائے گا هذَا الْقَدْرِ فِي التَّرْكِيبَاتِ لَا مُتَنَعَ تَغَائِرُ جو کثرت لغات کا موجب ہے کیونکہ مختلف ترکیبوں کا يُوجِبُ كَثْرَةَ اللُّغَاتِ فَإِنَّ وُجُودَ زبانوں میں پایا جانا ہی تو وہ امر ہے جس نے زبانوں کی التَّرَاكِيْبِ الْمُخْتَلِفَةِ هُوَ الَّذِي غَيْرَ صُوَرَ صورت کو متغایر کر رکھا ہے اور وہی تو زبانوں کے تفرقہ کا الْأَلْسِنَةِ.وَهُوَ السَّبَبُ الْأَوَّلُ لِلتَّفْرِقَةِ پہلا سبب ہے پس کسی معترض کے لیے جائز نہیں جو ایسے فَلَا يَسوعُ لِمُعْتَرِض أن يَتَكَلَّمَ يمثل کھلے منہ پر لاوے اور ایسے اعتراضات کی گنجائش کہاں بِمِثْلِ هذِهِ الْكَلِمَاتِ وَ اَيْنَ مُنتَدِحَةُ هذه ہے کیونکہ یہ مصادرہ علی المطلوب ہے جو مناظرات الاعْتِرَاضَاتِ فَإنّها مُصَادَرَةٌ وَ مِن میں ممنوع ہے اور تجھے یہ بات کفایت کرتی ہے کہ تمام الْمَمْنُوعَاتِ وَكَفَاكَ اَنَّ الْأَلْسِنَةَ كُلَّهَا زبانیں بہت سے مفردات میں شریک ہیں اور میں نے یہ مُشْتَرِكَةٌ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْمُفْرَدَاتِ وَ مَا مبالغہ سے نہیں کہا.بلکہ میں عنقریب تجھے بدیہات کی اَوْغَلْتُ بَلْ سَارِيكَ كَأَجْلَى الْبَدِيهِيَّاتِ طرح دکھلاؤں گا.پس تو قائم اور ثابت قدم ہو جا جیسا کہ تو فَاسْتَقِمْ كَمَا سَمِعْتَ وَ لَا تَكُن مِّن نے سن لیا اور خطا کاروں میں سے مت ہو اور میں نے الْمُعْطِينَ وَإِنِّي لَمَّا وَجَدتُ الصَّلاَئِلَ مِن جب قرآن کریم سے دلائل پائے اور کتاب اللہ کی گواہی الْفُرْقَانِ وَاطْمن قلبى بكتاب اللہ سے میرا دل مطمئن ہو گیا تو میں نے ارادہ کیا کہ احادیث الرَّحْمَانِ اَرَدتُ أن أطلب الشَّهَادَةَ مِن سے بھی کچھ دلائل لوں پس جبکہ میں نے حدیث کو دیکھا تو الْآثَارِ.فَإِذَا فِيْهَا كَثِيرٌ من الأسرار اس میں بہت بھید پائے پس میں ایسا خوش ہوا جیسا کہ فَفَرِحْتُ بِهَا فَرْحَةَ النَّشْوَانِ بِالقِلَاء وَ نشاء پینے والا شراب سے خوش ہوتا ہے اور جیسا کہ مست وَجَدتُ وَجدَ الثَّمِلِ بِالصَّهْبَاءِ وَشَكَرْتُ کو شراب سے خوشی پہنچتی ہے اور خدا تعالیٰ کا میں نے شکر کیا جو سچوں کا حامی ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) الله نَصِيرَ الصَّادِقِينَ (منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹، صفحه ۱۸۱ تا ۱۸۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۷ سورة الانعام وَ إِنَّ اللهَ أَوْلَى فِي مَقَامَاتٍ مِنَ الْفُرْقَانِ اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے کئی مقامات إلى أَنَّ الْعَرَبِيَّةَ هِيَ أُمُّ الْأَلْسِنَةِ وَ وَحْی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زبانوں کی الرَّحْمَانِ وَ لأَجْلِ ذلِك سمى مَكَةُ مَكَّةَ وَاُمّ ماں اور خدا کی وحی صرف عربی ہے اور اسی واسطے اس ، الْقُرى فَإِنَّ النَّاسَ أَرْضِعُوا مِنْهَا لِبَان نے مکہ کا نام مکہ اور ام القری رکھا کیوں کہ لوگوں نے اللَّسَانِ وَالْهُدَى فَهَذِهِ إِشَارَةٌ إِلى آنها هی اس سے ہدایت اور زبان کا دودھ پیا پس یہ اس بات مَنبَعُ النُّطْقِ وَالنُّهى.فَفَكِّرُ في قَوْلِ رَبِّ کی طرف اشارہ ہے کہ صرف عربی زبان ہی نطلق اور الْوَرى.قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرى وفى عقل کا منبع ہے پس خدا تعالیٰ کے اس قول میں فکر کر کہ ذلِكَ آيَةٌ لِلَّذِي يَتَّقِ الله ويخشى وَيَطْلُبُ یہ قرآن عربی ہے تا تو مکہ کو جو تمام آبادیوں کی ماں ہے الْحَقِّ وَلَا يَأبى وَلا يَتَّبِعُ سُبُلَ الْمُعْرِضِينَ ثُمَّ ڈراوے اور اس میں اس شخص کے لیے نشان ہے جو أَنتَ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُوْلَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ كَانَ خدا سے ڈرے اور حق کو ڈھونڈے اور انکار نہ کرے نَذِيرًا لِلْعَالَمِينَ.وَكَذَلِكَ سَماهُ رَبُّهُ وَهُوَ اور کنارہ کش لوگوں کا پیرو نہ ہو.پھر تو جانتا ہے کہ ہمارا أَصْدَقُ الصَّادِقِينَ فَشَبَتَ أَنَّ مَكَّةَ أم رسول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے الدُّنْيَا كُلِّهَا وَمَوْلِد كَثْرِهَا وَقِلّهَا وَمَبْدَأُ نذیر ہے اور یہی خدا تعالیٰ نے اس کا نام رکھا ہے اور اَصْلِ اللُّغَاتِ وَمَرْكَزُ الْكَائِنَاتِ أَجْمَعِينَ وه اصدق الصادقین خدا ہے پس اس سے ثابت ہوا وَثَبَتَ مَعَهُ أَنَّ الْعَرَبِيَّةَ أُمُّ الْأَلْسِنَةِ بِمَا که مکه تمام دنیا کی ماں ہے اور تمام قلیل وکثیر کا مولد كَانَتْ مَكَّةُ أمَّ الْأَمْكِنَةِ مِن بَدء الفطرة ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ عربی تمام وَثَبَتَ آنَ الْقُرْآن أم الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ.زبانوں کی ماں ہے کیونکہ مکہ تمام مکانوں کی ماں ہے وَلِذلِك نَزَلَ في اللُّغَةِ العَامِلَةِ الْمُحيطة اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن تمام الہی کتابوں کی ماں وَاقْتَضَتْ حِكَمُ إِرَادَاتِ الْإِلَهِيَّةِ أَنْ يَنْزِلَ ہے اور اسی لیے کامل زبان میں اترا ہے جو محیط کل ہے كِتَابُهُ الْعَامِلُ الْخَاتَمُ فِي اللَّهْجَةِ الَّتى هى اور الہی ارادوں کی حکمتوں نے تقاضا کیا کہ اس کی اَصْلُ الْأَلْسِنَةِ وَ أُمُّ كُلِ لُغَتِ مِنْ لُغَاتِ کامل کتاب جو خاتم الکتب ہے اس زبان میں نازل الْبَرِيَّةِ وَهِيَ عربي مبين ہو جو جڑ زبانوں کی ہے اور تمام مخلوقات کی زبانوں کی ( من الرحمن ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۲۰۸،۲۰۷) ماں ہے اور وہ عربی ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) الشورى : ۸
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورۃ الانعام و إن كُنتَ تَفْتَرِحُ أَنْ تَسْمَعَ مِثنى في | اگر اشتراک الالسنہ کی مثال پوچھنا اشْتِرَاكِ الْأَلْسِنَةِ فَكَفَاكَ لَفْظُ الْأَمِ وَالْأُمَّةِ.فَإِنَّ هَذَا چاہو تو لفظ ام اور امتہ کافی ہے یہ لفظ لفظ تَشَارَكَ فِيْهِ اللَّسَانُ الْهِنْدِيَّةُ وَالْعَرَبِيَّةُ.وَكَذَلِكَ ہندی، عربی ، فارسی اور انگریزی بلکہ سب اللَّسَانُ الْفَارِسِيَّةُ وَالْإِنْكِلِيرِيَّةُ بَلْ كُلُّهَا كَمَا تَشْهَدُ زبانوں میں مشترک ہے اور تجربہ اس التَّجْرِبَةُ الصَّحِيحَةُ فَانْظُرْ كَالْمُنْقِدِيْنَ وَ قَدْ ظَهَرَ مِن پر گواہ ہے اور وجہ تسمیہ بتاتی ہے کہ یہ وَجْهِ التَّسْمِيَّةِ إِنَّ هَذَا اللَّفْظَ دَخَلَ فِي الْأَلْسُ الا لفظ عربی زبان سے عجمی بولیوں میں عُجَمِيَّةِ مِنَ الْعَرَبِيَّةِ فَإِنَّ التَّسْمِيَّةَ بِحَقِيقَةِ لَا تُوجَدُ إِلَّا گیا.کیونکہ حقیقی وجہ تسمیہ اسی زبان في هذا اللّسَانِ وَأَمَّا غَيْرَة فَلَا يَحْلُوا مِنَ التَّصَنُّع في میں ہے اور اوروں میں بناوٹ اور الْبَيَانِ فَإِنَّ مِنْ شَأْنِ التَّسْمِيَّةِ الْحَقِيقِيَّةِ الَّتِي هِيَ مِن تکلف ہے کیونکہ حقیقی وجہ تسمیہ کی شان حَضْرَةِ الْعِزَّةِ.أَن لَّا تَنْفَكَ بِزَمَنٍ مِنَ الْأَرْمِنَةِ الظُّلقَةِ یہ ہے کہ کسی زمانہ میں بھی وہ سٹی سے وَتَكُونَ لِلْمُسَمَّى كَالْعَرْضِ اللَّازِمِ وَ اَنْ تُجَايِؤُهُ فِي هَذِهِ الگ نہ ہو اور کبھی بھی کوئی اس سے النَّشْأَةِ وَلَا يَفْرِضُ فَرْضٌ فَارِضِ كَوْنَهَا في وَقتٍ مِن اس کو الگ نہ کر سکے اور انسانی تصنع الْأُمُورِ الْمُنْفَكَةِ وَ لا تَكُونُ كَالْأُمُورِ الْمُسْتَحْدَثَةِ کی بو بھی اس میں نہ پائی جائے اور الْمَصْنُوعَةِ وَلَا تُوْجَدُ فِيْهَا رِيحُ التَّصَنُّعَاتِ الْإِنْسِيَّةِ وَ دیکھنے سننے والا اس کی نسبت پکارا تھے کہ يُقِرُّ مَنِ اسْتَشَقَّ جَوْهَرَهَا بِأَنَّهَا مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ لا ریب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.من الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۷ ۲۴۸،۲۴) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَ بَنْتِ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبُحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَصِفُونَ وَ خَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَ بَنتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ.....فرمایا کہ ان لوگوں نے ناحق اپنے دل سے خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں اور نہیں جانتے کہ ابن مریم ایک عاجز انسان تھا.اگر خدا چاہے تو عیسی ابن مریم کی مانند کوئی اور آدمی پیدا کر دے یا اس سے بھی بہتر جیسا کہ اس نے کیا.( دافع البلاء و معیار اصل الاصطفاء، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورۃ الانعام سُبْحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَصِفُونَ.....خدا تعالیٰ ان عیبوں سے پاک و برتر ہے جو وہ لوگ اس کی ذات پر (برائن احمد یہ چہار خصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) لگاتے ہیں.اور مشرک لوگ ایسے نادان ہیں کہ جنات کو خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اس کے لیے بغیر کسی علم اور اطلاع حقیقتِ حال کے بیٹے اور بیٹیاں تراش رکھی ہیں.برائن احمد یه چهار تحصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ( عرب صاحب نے عرض کیا کہ خدا آسمان پر ہے فرمایا:) اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰى (ظه : ۹) اس نے اپنے آپ کو غلو ہی سے منسوب کیا ہے پستی کی طرف اس کو منسوب نہیں کر سکتے سبحانہ وتعالی.غلو کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور کشفی صورتوں میں آسمان سے نور نازل ہوتا ہوا دیکھا ہے گو ہم اس کی کنہ اور کیفیت بیان نہ کر سکیں مگر یہ سچی بات ہے کہ اس کو غلو ہی سے تعلق ہے بعض امور آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور بعض نہیں ہر صورت میں فلسفہ کام نہیں آتا پس اصل بات یہی ہے کہ ایک وقت ایسی حالت انسان پر آتی ہے کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ آسمان سے اس کے دل پر کچھ گرا ہے جو اسے رقیق کر دیتا ہے اس وقت نیکی کا بیج اس میں بویا جائے گا.الحکم جلدے نمبر ا مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ اَتَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ١٠٢ لفظ کل کے ساتھ جو احاطہ تامہ کے لیے آتا ہے ہر ایک چیز کو جو اس کے سوا ہے مخلوق میں داخل کر دیا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۵) لا تُدرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ۱۰۴ آنکھیں اس کی کنہ دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور اس کو آنکھوں کی کنہ معلوم ہے.برائین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اس کی مانند کوئی بھی چیز نہیں بصارتیں اور بصیر تھیں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتیں اور اس کو ہر یک نظر اور فکر کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة الانعام ( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۸) حدود معلوم ہیں.خدا کی اصل حقیقت کا اندازہ کسی کو معلوم نہیں صرف سماعی باتوں پر مدار ر ہا مطلب یہ کہ ایمان کے طور پر خدا کو مانا گیا مگر اصل کنہ اس کی کسی کو معلوم نہ ہوئی.......لا تدركهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ يعنى خدا کو آنکھیں نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی کنہ کوئی عقل دریافت نہیں کر سکتی.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۷) خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَد یعنی بصارتیں اور بصیرتیں اس کو پانہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے.پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بھوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے.ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور اُن کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی.اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلاسکتا ہے.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۸،۱۴۷) وہ غیر محدود ہے جیسا کہ اس آیت میں لکھا ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ یعنی آنکھیں اس کے انتہا کو نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کے انتہا تک پہنچتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لا تُدرِكَهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ اس جگہ بظاہر ا نکار دیدار ہے اور اس کے مخالف یہ آیت ہے إلى ربّهَا نَاظِرَةٌ (القيامة : ۲۴) اس سے دیدار ثابت ہوتا ہے سو مسیح اور بیٹی کے کلمات میں اسی قسم کا تناقض ہے جو دراصل تناقض نہیں ایک نے مجاز کو ذہن میں رکھا اور دوسرے نے حقیقت کو اس لیے کچھ تناقض نہ ہوا.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۳ حاشیه ) خدا کے کلام میں دقیق نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ہے اور مخلوقات کی ترتیب اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانعام ازلی ہونے کی مخالف نہیں ہے اور استعارات کو ظاہر پر حمل کر کے مشہورات پر لانا بھی ایک نادانی ہے.اس وو کی صفت ہے : لا تدركهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ - البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸) خدا کی کنہ میں ہم دخل نہیں دے سکتے.اسلم طریق یہی ہے کہ انسان لا تدركه الابصار پر ایمان رکھے کہ میرا منصب نہیں کہ خدا کی کل صفات کو میں دیکھ لوں اور ان کی تحقیقات کرلوں.طبیب بیان کرتے ہیں کہ پانی سرد اور آگ گرم ہے مگر یہ نہیں بتلا سکتے کہ پانی سرد کیوں ہے اور آگ گرم کیوں ہے؟ فلاسفر بھی یہاں گنہ اشیا میں آکر عاجز رہ گئے ہیں.یہاں اُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَى اللهِ پر چلے کہ احکام جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۸) ہم خدا پر چھوڑ دیں.حقیقت میں محبت کے ثمرات میں سے نفی وجود ضروری ہے.اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن شریف سے یہ صحیح معلوم ہوتا ہے.یہ وہ مقام ہے جو فنافی اللہ کہلاتا ہے لیکن وجود یوں کا یہ حال نہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ گویا انہوں نے ڈاکٹروں کی طرح تشریح کر کے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے.تب ہی تو یہ خود بھی خدا بنتے ہیں حالانکہ یہ صریح غلط اور بے ہودہ امر ہے.اللہ تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے : لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ - الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) بجز اس طریق کے کہ خدا خود ہی بجلی کرے اور کوئی دوسرا طریق نہیں ہے جس سے اس کی ذات پر یقین کامل حاصل ہو لَا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ سے بھی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ابصار پر وہ آپ ہی روشنی ڈالے تو ڈالے.ابصار کی مجال نہیں ہے کہ خود اپنی قوت سے اسے شناخت کرلیں.البدر جلد ۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۶ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۳) لا تدركه الابصار کے یہی معنے ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شنا محت نہیں کیا جا سکتا بلکہ خود جو ذریعہ (اس) نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لیے اهْدِنَا الضراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ! جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۷) قَدْ جَاءَكُم بَصَابِرُ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَى فَعَلَيْهَا وَمَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام أنا عَلَيْكُم بِحَفِيظ.۱۶۲ سورۃ الانعام خدا نے میری رسالت پر روشن نشان تمہیں دیئے ہیں.سو جو ان کو شناخت کرے اس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے میں تو تم پر نگہبان نہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۲، ۴۴۳) b وَلا تَسْقُوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيْنَيْتُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.1.9) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے که لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلم (سورۃ الانعام الجزوے) یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں.اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بہت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھا ؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ.(پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۱،۴۶۰) وَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَبِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ ليُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الأيتُ عِنْدَ اللهِ وَمَا يُشْعِرُ كُمُ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ ) یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے ان کو کہہ دے کہ نشان تو خدا تعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیں گے تو کبھی ایمان نہیں لائیں گے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۳) قُلْ إِنَّمَا الأيتُ عِنْدَ اللہ یعنی ان کو کہہ دو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اسی نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اُس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اس سے ایک نشان لیوے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۵) اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالی نے منع کیا ہے.نبی کبھی جرات کر کے یہ نہیں کہے گا کہ تم جو نشان مجھ سے
۱۶۳ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مانگو میں وہی دکھانے کو طیار ہوں اس کے منہ سے جب نکلے گا یہی نکلے گا: إِنَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ اللهِ اور یہی اس کی صداقت کا نشان ہوتا ہے.کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا ہے مگر وہ آنکھوں کے اندھے ہیں ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہوتی اس لیے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں اور نہ ذات باری کی عزت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہوتا ہے ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیں وہ وہی کر دے.یہ سوء ادب ہے اور ایسا خدا خدا ہی نہیں ہوسکتا......پس اقتراحی نشانات سے اس لیے منع کیا جاتا ہے اور روکا جاتا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوء ادبی کی پیدا ہو جاتی ہے جو ایمان کی جڑ کاٹ ڈالتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) وَ نُقَلِبُ أَفَدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ نَذَرُهُمْ فِي 1991919 طغيانهم يعمهون.نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جابجا آیا ہے بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ - ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۴) اَفَغَيْرَ اللهِ ابْتَغِى حَكَمًا وَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَبَ مُفَصَّلًا وَالَّذِينَ اتَيْتُهُمُ الْكِتَبَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزِّلُ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُسْتَرِينَ.جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمایا ہے وہی کچھ حدیث میں.ہاں ! بعض باتوں کا استنباط ایسا اعلیٰ حدیثوں نے کیا ہے کہ دوسرے گو اس کو سمجھ نہیں سکتے ورنہ حدیث قرآن سے باہر نہیں.خدا نے قرآن کا نام رکھا ہے مفصلاً اس پر ایمان ہونا چاہیے.بعض تفاسیر سوائے انبیاء کے اور کی سمجھ نہیں آتیں پھر اس طرح حدیث میں قرآن سے زائد کچھ نہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲) کیا بجز خدا کے میں کوئی اور حکم طلب کروں اور وہ وہی ہے جس نے مفصل کتاب تم پر اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب یعنی قرآن دیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو ہم نے علم قرآن سمجھایا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ منجانب اللہ ہے سوائے پڑھنے والے تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورۃ الانعام اب ان آیات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اس آیت کے جو فَلا تَكُونَنَّ مِنَ المُنتَرِيْنَ ہے ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان اور علم سے کم حصہ رکھتے ہیں بلکہ اوپر کی آیتوں سے یہ بھی کھلتا ہے کہ اس جگہ یہ حکم ففَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شروع کی آیت میں جس سے یہ آیت تعلق رکھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی قول ہے یعنی یہ کہ اَفَغَيْرَ اللهِ ابْتَغِی حَكَما سو ان تمام آیات کا با محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ میں بجز خدائے تعالیٰ کے کوئی اور حکم جو مجھ میں اور تم میں فیصلہ کرے مقرر نہیں کر سکتا وہ وہی ہے جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی سوجن کو اس کتاب کا علم دیا گیا ہے وہ اس کا منجانب اللہ ہونا خوب جانتے ہیں سوتو (اے بے خبر آدمی ) شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب تحقیق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شک نہیں کرتے بلکہ شک کرنے والوں کو بحوالہ شواہد و دلائل منع فرماتے ہیں پس با وجود ایسے کھلے کھلے بیان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شک فی الرسالت کو منسوب کرنا بے خبری و بے علمی یا محض تعصب نہیں تو کیا ہے.پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نو مسلم یا متر و منع کئے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو اُن کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم شک مت کرو نہ یہ کہ تو شک مت کر کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے......تمام قرآن شریف میں ایک نقطہ یا ایک شعتہ اس بات پر دلالت کرنے والا نہیں پاؤ گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت یا قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت کچھ شک تھا بلکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جس قدر یقین کامل و بصیرت کامل و معرفت اکمل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات بابرکات کی نسبت دعوی کیا ہے اور پھر اُس کا ثبوت دیا ہے ایسا کامل ثبوت کسی دوسری موجودہ کتاب میں ہرگز نہیں پایا جاتا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۲ تا ۴۲۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۵ سورة الانعام وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۖ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمُ اللَّا يَخْرُصُونَ.قرآن کریم کی محکمات اور بینات علم ہے اور مخالف قرآن کے جو کچھ ہے وہ ظن ہے اور جو شخص علم ہوتے ظن کا اتباع کرے وہ اس آیت کے نیچے داخل ہے.(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۴) وَمَا لَكُم اَلَا تَأْكُلُوا مِنَا ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ b b الا مَا اضْرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَ إِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهوَ بِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ (اس سوال کے جواب میں کہ کیا کسی غریب سید کو ز کوۃ دی جا سکتی ہے فرمایا :) اصل میں منع ہے.اگر اضطراری حالت ہو ، فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إلَّا مَا اضْطُرِ رُ تُم اِلَيْهِ - حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہیے اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہاں ! اگر اضطراری حالت ہو تو اور بات ہے.الحکم جلدا انمبر ۳۰ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۷ صفحه ۵) اَوَ مَنْ كَانَ مَيْنَا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلمتِ لَيْسَ بِخَارِجِ مِنْهَا كَذلِكَ زُيِّنَ لِلْكَفِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ کیا وہ شخص جو مردہ تھا اور ہم نے اس کو زندہ کیا اور ہم نے اس کو ایک نور عطا کیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے یعنی اس نور کی برکات لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں کیا ایسا آدمی اس آدمی کی مانند ہو سکتا ہے جو سراسر تاریکی میں اسیر ہے اور اس سے نکل نہیں سکتا نور اور حیات سے مراد روح القدس ہے کیونکہ اس سے ظلمت دور ہوتی ہے اور وہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اس لیے اس کا نام روح القدس ہے یعنی پاکی کی روح جس کے داخل ہونے سے ایک پاک زندگی حاصل ہوتی ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۹) وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْ مِن حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام و ۱۶۶ سورة الانعام اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدُ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ) (۱۲۵) صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدائے تعالیٰ کا پیغمبر بن جائے اور ہر یک پر حقانی وحی نازل ہو جایا کرے، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ ہی اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے : وَ إِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةً قَالُوا لَن تُؤْمِن حَتى تولى مِثْلَ ما أوتي رُسُلُ اللهِ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالته، یعنی جس وقت قرآن کی حقیت ظاہر کرنے کے لئے کوئی نشانی کفار کو دکھلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب الہی نازل نہ ہو تب تک ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے.خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیئے.یعنی قابل اور نا قابل اسے معلوم ہے اور اسی پر فیضان الہام کرتا ہے کہ جو جو ہر قابل ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکیم مطلق نے افراد بشریہ کو بوجہ مصالحہ مختلفہ مختلف طوروں پر پیدا کیا ہے اور تمام بنی آدم کا سلسلہ فطرت ایک ایسے خط سے مشابہ رکھا ہے جس کی ایک طرف نہایت ارتفاع پر واقعہ ہو اور دوسری طرف نہایت انحضاض پر.طرف ارتفاع میں وہ نفوس صافیہ ہیں جن کی استعداد میں حسب مراتب متفاوتہ کامل درجہ پر ہیں اور طرف انحصاض میں وہ نفوس ہیں جن کو اس سلسلہ میں ایسی پست جگہ ملی ہے کہ حیوانات لا یعقل کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں اور درمیان میں وہ نفوس ہیں جو عقل وغیرہ میں درمیان کے درجہ میں ہیں اور اس کے اثبات کے لئے مشاہدہ افراد مختلفة الاستعداد کافی دلیل ہے.کیونکہ کوئی عاقل اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ افراد بشری عقل کے رو سے تقویٰ اور خدا ترسی کے لحاظ سے محبت الہیہ کی وجہ سے مختلف مدارج پر پڑی ہوئی ہیں اور جس طرح قدرتی واقعات سے کوئی خوبصورت پیدا ہوتا ہے، کوئی بدصورت کوئی سوجا کھا، کوئی اندھا، کوئی ضعیف البصر ، کوئی قومی البصر ، کوئی نام الخلقت، کوئی ناقص الخلقت.اسی طرح قومی دماغیہ اور انوار قلبیہ کا تفاوت مراتب بھی مشہود اور محسوس ہے.ہاں ! یہ سچی بات ہے کہ ہر یک فرد بشر بشرطیکہ نرا مخبوط الحواس اور مسلوب العقل نہ ہو عقل میں تقویٰ میں محبت الہیہ میں ترقی کر سکتا ہے.مگر اس بات کو بخوبی یا درکھنا چاہیئے کہ کوئی نفس اپنے دائرہ قابلیت سے زیادہ ہر گز ترقی نہیں کر سکتا.ایک شخص جو اپنے قوی دماغیہ میں من حیث الفطرت نہایت کمزور ہے.مثلاً فرض کرو کہ ایک ایسا ادھورا آدمی ہے جس کو ہمارے ملک کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۷ سورۃ الانعام عوام الناس دولے شاہ کا چوہا کہا کرتے ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر چہ اس کی تعلیم و تربیت میں کیسی ہی کوشش و محنت کی جائے اور خواہ کیسا ہی کوئی بڑا فلاسفر اس کا اتالیق بنایا جاوے لیکن تب بھی وہ اس فطرتی حد سے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کر دی ہے زیادہ ترقی کرنے پر قادر نہیں ہوگا.کیونکہ وہ باعث تنگی دائرہ قابلیت ان مراتبه عالیہ تک ہر گز پہنچ نہیں سکتا جن تک ایک وسیع القویٰ آدمی پہنچ سکتا ہے.یہ ایسا بد یہی مسئلہ ہے کہ میں باور نہیں کر سکتا کہ کوئی عاقل اس میں غور کر کے پھر اس سے منکر رہے.ہاں جو شخص ربقہ عقل سے قطعا مخلع ہوا گر وہ جو منکر ہو تو کچھ تعجب نہیں.ظاہر ہے کہ اگر تفاوت فی العقول نہ ہو تو فہم علوم میں کیوں اختلاف پایا جاوے.کیوں بعض اذہان بعضوں پر سبقت لے جائیں.حالانکہ جو لوگ تعلیم وتربیت کا پیشہ رکھتے ہیں وہ اس امر کو خوب سمجھتے ہوں گے کہ بعض طالب العلم ایسے ذکی الطبع ہوتے ہیں کہ ادنیٰ رمز اور اشارت سے مطلب کو پا جاتے ہیں.بعض ایسے بیدار مغز کہ خود اپنی طبع سے عمدہ عمدہ باتیں نکالتے ہیں اور بعضوں کی طبیعتیں اصل فطرت سے کچھ ایسی نجمی و بلید واقع ہوتی ہیں کہ ہزار تم اُن سے مغز زنی کرو کیسا ہی کھول کر سمجھاؤ بات کو نہیں سمجھتے اور اگر تعب شدید کے بعد کچھ سمجھے بھی تو پھر حافظہ ندارد.ایسے جلد بھولتے ہیں جیسے پانی کا نقش مٹ جاتا ہے.اسی طرح قومی اخلاقیہ اور انوار قلبیہ میں بغایت درجہ تفاوت پایا جاتا ہے.ایک ہی باپ کے دو بیٹے ہوتے ہیں اور ایک ہی استاد سے تربیت پاتے ہیں پر کوئی ان میں سے سلیم الطبع اور نیک ذات نکلتا ہے اور کوئی خبیث اور شریر النفس اور کوئی بزدل اور کوئی شجاع اور کوئی غیور اور کوئی بے غیرت کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شریر النفس بھی وعظ ونصیحت سے کسی قدر صلاحیت پر آجاتا ہے کبھی بزدل بھی بوجہ کسی نفسانی طمع کے کچھ دلیری ظاہر کرتا ہے جس سے کم تجربہ آدمی اس غلطی میں پڑ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی اصلیت کو چھوڑ دیا ہے لیکن ہم بار بار یاد دلاتے ہیں کہ کوئی نفس اپنی قابلیت کی حد سے آگے قدم نہیں رکھتا.اگر کچھ ترقی کرتا ہے تو اسی دائرے کے اندر اندر کرتا ہے جو اس کی فطرتی طاقتوں کا دائرہ ہے.بہت سے کم فہم لوگوں نے یہ دھوکا کھایا ہے کہ قومی فطرتیہ بذریعہ ریاضات مناسبہ اپنے پیدائشی اندازے سے آگے بڑھ جاتے ہیں.اس سے بھی زیادہ تر مہمل اور دور از عقل عیسائیوں کا قول ہے کہ صرف مسیح کو خدا ماننے سے انسان کی فطرت منقلب ہو جاتی ہے اور گو کیسا ہی کوئی من حیث الخلقت قوی سبعیہ یا قوی شہویہ کا مغلوب ہو.یا قوت عقلیہ میں ضعیف ہو.وہ فقط حضرت عیسیٰ کو خدائے تعالیٰ کا اکلوتا بیٹا کہنے سے اپنی جبلی حالت چھوڑ دیتا ہے.لیکن یا درکھنا چاہیئے کہ ایسے خیالات انہیں لوگوں کے دل میں اٹھتے ہیں جنہوں نے علوم طبعی اور طبابت میں کبھی غور نہیں کی یا جن کی
۱۶۸ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنکھیں فرط تعصب اور مخلوق پرستی سے اندھی ہوگئی ہیں ورنہ طبائع مختلفہ کا مسئلہ یہاں تک ثابت ہے کہ حکماء نے جب اس بارہ میں تحقیق کی تو متواتر تجربوں سے ان پر یہ امر کھل گیا کہ بزدل یا شجاع ہونا اور طبعاً ممسک ہونا یا سنی ہونا اور ضعیف العقل یا قوی العقل ہونا اور دنی الہمت یا رفیع الہمت ہونا اور بردبار یا مغلوب الغضب ہونا اور فاسد الخیال یا صالح الخیال ہونا یہ اس قسم کے عوارض نہیں ہیں کہ سرسری اور اتفاقی ہوں بلکہ صانع قدیم نے بنی آدم کی کیفیت مواد اور کمیت اخلاط اور سینہ اور دل اور کھوپڑی کی وضع خلقت میں مختلف طور پر طرح طرح کے فرق رکھے ہیں.انہیں فرقوں کے باعث سے افراد انسانی کی قومی اخلاقیہ اور عقلیہ میں فرق بین نظر آتا ہے.اس قدیم رائے کو ڈاکٹروں نے بھی تسلیم کر لیا ہے.ان کا بھی یہ قول ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی کھو پر یوں کو جب غور سے دیکھا گیا تو ان کی وضع ترکیب ایسی پائی گئی جو اسی فرقہ فاسد الخیال سے مخصوص ہے.بعض یونانیوں نے اس سے بھی کچھ بڑھ کر لکھا ہے.بعض گردن اور آنکھ اور پیشانی اور ناک اور دوسرے کئی اعضاء سے بھی اندرونی حالات کا استنباط کرتے ہیں.بہر حال یہ ثابت ہو چکا ہے اور اس کے ماننے سے کچھ چارہ نہیں کہ بنی آدم کا خلقی اور عقلی استعدادوں میں فطرتی تفاوت واقع ہے اور ہر یک نفس کسی قدر صلاحیت کی طرف تو قدم رکھتا ہے.مگر اپنی قابلیت کے دائرہ سے زیادہ نہیں.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۱ تا ۱۸۴ حاشیہ نمبر ۱۱) جب کوئی نشان پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مانیں گے جب تک ہمیں خود ہی وہ باتیں حاصل نہ ہوں جو رسولوں کو ملتی ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۲) ذرا غور کرنے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جسے خدا تعالیٰ مامور کرتا ہے ضرور ہے کہ اس کے لیے اجتبا اور اصطفا ہو اور کچھ نہ کچھ اس میں ضرور خصوصیت چاہیے کہ خدا تعالیٰ کل مخلوق میں سے اسے برگزیدہ کرے.خدا کی نظر خطا جانے والی نہیں ہوتی پس جب وہ کسی کو منتخب کرتا ہے وہ معمولی آدمی نہیں ہوتا قرآن شریف میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے: اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ - اِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَاتِ وَ مَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ.الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۷ ارفروری ۱۹۰۴ صفحه ۱) جو کچھ تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یعنی دین اسلام کا عزت کے ساتھ دنیا میں پھیل جانا اور اس کے روکنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة الانعام والوں کا ذلیل اور رسوا ہو جانا یہ وعدہ عنقریب پورا ہونے والا ہے اور تم ہرگز اس کو روک نہیں سکو گے.برائن احمد یہ چہار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۹ حاشیہ نمبر ۱۱) قُل يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلُ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ اگر تم بھی کچھ چیز ہو تو اپنے مکان پر فیصلہ کے لیے کوشش کرو اور میں بھی کروں گا پھر تم دیکھو گے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۹ حاشیه ) اس وقت خود اسلام میں کئی فرقے موجود ہیں جو کہ ایک دوسرے کی تردید کر رہے ہیں پھر دوسرے مذاہب کے حملے الگ ہیں......اور ہر ایک کا دعوی یہی ہے کہ ہم حق پر ہیں پس ایسی حالت میں فیصلہ کرنا ایک آسان امر نہیں ہے یا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی کو فہم دے اور رشد عطا کرے اور یا خودانسان جلدی نہ کرے اور صبر اور دعا سے کام لے تا کہ وقت پر حقیقت کھل جاوے کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے کیونکہ جھوٹے مذہب کے ساتھ اس کی نصرت اور تائید بھی شامل نہیں ہو سکتی.اگر جھوٹے مذہب کی بھی وہی خاطر خدا کو ہو جو کہ بچے مذہب کی ہوتی ہے تو پھر سچ اور جھوٹ کا امتیاز کرنا محال ہو جائے گا.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے کہ قرآن شریف میں درج ہے یہ جواب دیا کہ : اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ اني عَامِل کہ اگر تم لوگوں پر میرا سچا ہونا مشتبہ ہے تو تم بھی اپنی اپنی جگہ عمل کرو میں بھی کرتا ہوں انجام پر دیکھ لینا کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے.(البدر جلد ۴ نمبر ۶ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) اِعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِل فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ تم اپنی جگہ کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں عنقریب ج ( بدر جلد نمبر ۳۶ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۵) تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے.ان کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لیے عمل میں مشغول رہو اور میں بھی مشغول ہوں پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۵) قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أَوْحَى إِلَى مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُةَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۰ سورۃ الانعام او دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيم (۱۴۶) دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں.سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا b دو ہے.چنانچہ فرماتا ہے : فَمَنِ اضْطَرَ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيم یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور و رحیم ہے مگر سود کے لیے نہیں فرمایا کہ بحالتِ اضطرار جائز ہے.بدر جلدے نمبر ۵ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۶) وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظم - ذلِكَ جَزَيْنَهُم ہے بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصْدِقُونَ * عیسائی نامہ نگاروں نے بیان کیا ہے کہ اگر انبیاء کی نسبت جرم کا لفظ نہیں آیا تو یہودیوں کی نسبت بھی نہیں آیا.یہ ان کی جہالت کا دوسرا ثبوت ہے یہودیوں کی نسبت کئی جگہ جرم کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہے.نمونہ کے لیے صرف تین آیتیں لکھنی کافی ہوں گی.ایک آیت یہ ہے: وَ عَلَی الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَ مِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذلِكَ جَزَيْنَهُمْ بِبَغْيِهِمْ * وَ إِنَّا لَصْدِقُونَ ، فَإِن كَذَبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةً ۚ وَلَا يُرَدُّ باسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ ) اس آیت میں یہودیوں کا ذکر ہے جن کی نسبت لفظ مجرمین آیا ہے.دوسری آیت یہ ہے: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إلى قَوْمِهِمْ فَجَاهُ وهُم بِالْبَيِّنَتِ فَانْتَقَمُنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا وَ كَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصُرُ الْمُؤْمِنِينَ (الرُّومِ : ۴۸) اس آیت میں گذشتہ انبیاء کے دشمنوں کو مجرم بیان کیا ہے حضرت مسیح بھی انہیں نبیوں میں شامل ہیں اس لیے ان کے دشمن قرآن شریف کی رو سے مجرم ٹھہرتے ہیں.اب ہم عیسائی صاحبان سے پوچھتے ہیں کہ آیا یہودی حضرت مسیح کے دشمن تھے یا دوست؟ اگر وہ آپ کے دوست تھے تو بیشک وہ مجرم نہیں ہیں لیکن اگر وہ آپ کے دشمن تھے تو پھر قرآن شریف کی روسے وہ مجرم ٹھہرتے ہیں.تیسری آیت یہ ہے : وَ كَذلِكَ جَعَلْنَا لِحْلِ نَبِي عَدُوا مِنَ الْمُجْرِمِينَ (الفرقان : ۳۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانعام اس آیت سے بھی انبیاء کے دشمن مجرمین کے لفظ سے پکارے گئے ہیں اور اس لیے یہودی بھی مجرم ٹھہرتے ہیں کیونکہ وہ بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے جانی دشمن تھے اور آنحضرت کے بھی دشمن تھے.عیسائی نامہ نگاروں کو اپنے اس بیہودہ قول سے شرم کرنی چاہیے کہ قرآن شریف میں جرم کا لفظ یہودیوں کی طرف منسوب نہیں کیا گیا.ان کا یہ قول بھی ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ ان کا پہلا قول کہ جرم کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہی نہیں.اس سے عیسائی نامہ نگاروں نے صرف اپنی کم علمی کا ہی ثبوت نہیں دیا بلکہ اپنی کم نہی کا بھی ثبوت دیا ہے اگر قرآن شریف میں یہودیوں کی نسبت جرم لفظ نہ بھی آتا تو کیا پھر وہ انبیاء سے مساوی ٹھہر سکتے تھے ؟ خدا ان کی نسبت ان کی بد عملی اور بدی بیان کرتے ہوئے ہر ایک لفظ سے کام لیتا ہے جو خیال میں آسکتا ہے ان کو فاسق ، ملعون ، کافر ، معتدین، شیاطین ، ظالم، بندر، مغضوب علیہم وغیرہ بیان کرتا ہے.ان الفاظ کے مقابل اگر قرآن شریف یہودیوں کی نسبت جرم کا لفظ نہ بھی بیان کرتا تو کیا وہ انبیاء کی طرح بے گناہ ثابت ہو سکتے تھے جن کے متعلق ان الفاظ میں سے کوئی بھی استعمال نہیں ہوا.ریویو آف ریلیجنز جلد ۲ نمبر ۶ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۴۹،۲۴۸) فَإِن كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَّبِّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةِ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُه عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ اگر یہ لوگ تکذیب پر کمر بستہ ہوں تو ان کو کہہ دے کہ اگر تم ایمان لاؤ تو خدا کی وسیع رحمت سے تمہیں حصہ ملے گا اور اگر تکذیب سے باز نہ آؤ تو اس کا عذاب ایسا نہیں کہ کسی حیلہ اور تدبیر سے مل سکے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۳، ۲۳۴ حاشیه ) قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إحْسَانًا ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ، ذلِكُمْ وَضَكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ.لا تَقْتُلُوا اولادكم........اپنی اولاد کو قتل نہ کرو.(۱۵۲) (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶،۳۳۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورۃ الانعام وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيهِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ اَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا الكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَو كَانَ ذَا قُرْنِي وَ بِعَهْدِ اللَّهِ اَوْفُوا ذَلِكُمْ وَضَكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرني........اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر یچ اور عدالت کی بات ہے اگر چہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱،۳۶۰) وَ اَنَّ هُذَا صِرَاطِئُ مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَضَكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.ربه ان کو کہہ دے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اسی کی پیروی کرو اور اور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال دیں گی.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۵،۱۶۴) یہ میری راہ ہے سو آؤ میری راہ اختیار کرو اور اس کے مخالف کوئی راہ اختیار نہ کرو کہ خدا سے دور جا پڑو اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۵) گے.هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَيكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِي بَعْضُ أَيْتِ رَبَّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ أَيْتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ أَمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِي إِيْمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ ® (۱۵۹ جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہوگا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لایا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۳) قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) مخالفین کو کہہ دے کہ میں جان کو دوست نہیں رکھتا.میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا خدا کے لیے
۱۷۳ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے وہی حقدار خدا جس نے ہر یک چیز کو پیدا کیا ہے.(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۳۱،۳۳۰ حاشیه ) ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جد و جہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اول المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنافی اللہ ہو جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو.اس آیت میں ان نادان موحدوں کا رڈ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احتقر عباداللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بی شخص در حقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباداللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے.غور سے دیکھنا چاہیئے کہ جس حالت میں اللہ جل شانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطبیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت صلعم کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کر سکے.خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا.سُبْحَانَ اللهِ مَا أَعْظَمَ شَأْنُكَ يَا رَسُولَ اللهِ موسیٰ و عیسی ہمہ خیل تواند جمله درین راه طفیل تواند ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۲ تا ۱۶۴) نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجود اللہ کی راہ میں سونپ دیا.یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا اور وہ بعد وقف کرنے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجالانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گا
۱۷۴ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے.اس مقام میں اللہ جل شانہ نے عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت فرما دیا کہ جو وہ اپنی اپنی نجات یابی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں اور ان آرزوؤں کی حقیقت جو زندگی کی روح ہے ان میں ہرگز پائی نہیں جاتی بلکہ اصلی اور حقیقی نجات وہ ہے جو اسی دنیا میں اس کی حقیقت نجات یا بندہ کو محسوس ہو جائے اور وہ اس طرح پر ہے کہ نجات یابندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق عطا ہو جائے کہ وہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے.اس طرح پر کہ اس کا مرنا اور جینا اور اس کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کے لئے ہو جا ئیں اور اپنے نفس سے وہ بالکل کھویا جائے اور اس کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو جائے اور پھر نہ صرف دل کے عزم تک یہ بات محد ودر ہے بلکہ اس کی تمام جوارح اور اس کے تمام قومی اور اس کی عقل اور اس کا فکر اور اس کی تمام طاقتیں اسی راہ میں لگ جائیں تب اس کو کہا جائے گا کہ وہ محسن ہے یعنی خدمت گاری کا اور فرمانبرداری کا حق بجالا یا جہاں تک اس کی بشریت سے ہوسکتا تھا سوایسا شخص نجات یاب ہے.جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے : قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (س ۸ سوره انعام رکوع ۷ ) کہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری تمام اس اللہ واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اول مسلمانوں کا ہوں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۳، ۱۴۴) کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے.سب بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹) میری نماز اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے ہے اور جب انسان کی محبت خدا کے ساتھ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کا مرنا اور جینا اپنے لئے نہیں بلکہ خدا ہی کے لئے ہو جائے.تب وہ خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لئے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا.وہ اسی لئے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۴)
۱۷۵ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا اس خدا کیلئے ہے جس کی ربوبیت تمام چیزوں پر محیط ہے کوئی چیز اور کوئی شخص اس کا شریک نہیں اور مخلوق کو کسی قسم کی شراکت اس کے ساتھ نہیں.مجھے یہی حکم ہے کہ میں ایسا کروں اور اسلام کے مفہوم پر قائم ہونے والا یعنی خدا کی راہ میں اپنے وجود کی قربانی دینے والا سب سے اول میں ہوں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۵) ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو.اس جگہ جو خدا کی راہ میں اور بندوں کی بھلائی کے لئے مرنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ آپ نے نعوذ باللہ ! جاہلوں یا دیوانوں کی طرح در حقیقت خود کشی کا ارادہ کر لیا تھا.اس وہم سے کہ اپنے تئیں کسی آلہ سے قتل کے ذریعہ سے ہلاک کر دینا اوروں کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ آپ ان بیہودہ باتوں کے سخت مخالف تھے اور قرآن ایسی خود کشی کے مرتکب کو سخت مجرم اور قابل سز ا ٹھہراتا ہے.....غرض اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دُعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جور و جفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۹٬۴۴۸) فَلأَجْلِ ذَالِكَ سُلمى الضَّحَاتِا اور اسی وجہ سے ان ذبح ہونے والے جانوروں کا نام قربانی قُرْبَانًا - بِمَا وَرَدَ إِنَّهَا تَزِيدُ قُرباً رکھا گیا کیونکہ حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے ولفَيَانًا - كُلّ مَنْ قَرَّبَ الخلاصًا قرب اور ملاقات کا موجب ہیں اس شخص کے لئے کہ جو قربانی کو وَتَعَبدًا وَإِيْمَانًا - وَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ اخلاص اور خدا پرستی اور ایمان داری سے ادا کرتا ہے اور یہ نُسُكِ الشَّرِيعَةِ - وَلِذَالِكَ سُمیت قربانیاں شریعت کی بزرگ تر عبادتوں میں سے ہیں اور اسی لئے بِالنَّسِيكَةِ وَالنُّسُك : الطاعَةُ قربانی کا نام عربی میں نسيكة ہے اور نسك کا لفظ عربی زبان وَالْعِبَادَةُ فِي اللّسَانِ الْعَرَبِيَّةِ - میں فرمانبرداری اور بندگی کے معنوں میں آتا ہے اور ایسا ہی یہ وَكَذَالِكَ جَاءَ لَفظ النُّسُكِ يمغنى لفظ يعنى نُسُك ان جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی زبان مذکور ذج النَّبِيْعَةِ- فَهَلَ الإشتراك میں استعمال پاتا ہے جن کا ذبح کرنا مشروع ہے.پس یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانعام يَدُلُّ قطعًا عَلى أَنَّ الْعَابِدَ فِي اشتراک کہ جو نُسُك کے معنوں میں پایا جاتا ہے قطعی طور پر اس بات الْحَقِيقَةِ هُوَ الَّذِي ذَبَحَ نَفْسَه پر دلالت کرتا ہے کہ حقیقی پرستار اور سچا عابد وہی شخص ہے جس نے اپنے وَقُوَاهُ وَكُلّ مَنْ أَصْبَاهُ لِرِ طی نفس کو مع اس کی تمام قوتوں اور مع اس کے اُن محبوبوں کے جن کی رَبِّ الْخَلِيقَةِ وَ ذَبَّ الْهَوَى طرف اُس کا دل کھینچا گیا ہے اپنے رب کی رضا جوئی کیلئے ذبح کر ڈالا حتى تهافت والمخی وَذَابَ ہے اور خواہش نفسانی کو دفع کیا یہاں تک کہ تمام خواہشیں پارہ پارہ ہو وَغَابَ وَاخْتَفى وَهَبَّتْ عَلَيْهِ کر گر پڑیں اور نابود ہو گئیں اور وہ خود بھی گداز ہو گیا اور اس کے وجود کا عَوَاصِفُ الفَنَاءِ وَسَفَتْ کچھ نمود نہ رہا اور چھپ گیا اور فنا کی تند ہوائیں اس پر چلیں اور اس کے ذَرَّاتِهِ شَدَائِدُ هَذِهِ الْهَوْجَاءِ - وجود کے ذرات کو اس ہوا کے سخت دھکے اُڑا کر لے گئے.اور جس وَمَنْ فَكَرَ في هذين شخص نے ان دونوں مفہوموں میں کہ جو باہم نسٹ کے لفظ میں هَذَيْنِ الْمَفْهُو مَيْنِ الْمُشْتر گئیں.مشارکت رکھتے ہیں غور کی ہوگی اور اس مقام کو تدبر کی نگاہ سے دیکھا وَتَدَبَّرَ الْمَقَامَ بِتَيَقُطِ الْقَلْب ہوگا اور اپنے دل کی بیداری اور دونوں آنکھوں کے کھولنے سے پیش و پس وَفَتْحِ الْعَيْنَيْنِ - فَلا ینی له کو زیر نظر رکھا ہوگا پس اُس پر پوشیدہ نہیں رہے گا اور اس امر میں کسی خِفَاءُ وَلَا مِرَاءُ - في آن هذا قسم کی نزاع اس کے دامن کو نہیں پکڑے گی کہ یہ دو معنوں کا اشتراک کہ إِيمَا - إلى أَنَّ الْعِبَادَةَ جو نُسُك كے لفظ میں پایا جاتا ہے اس بھید کی طرف اشارہ ہے کہ عبادت الْمُنْجِيَّةَ مِنَ الْخَسَارة هي جو آخرت کے خسارہ سے نجات دیتی ہے وہ اس نفس امارہ کا ذبح کرنا ذَبِّحُ النَّفْسِ الْأَمَارَةِ - وَنَحْرُهَا ہے کہ جو بُرے کاموں کیلئے زیادہ سے زیادہ جوش رکھتا ہے اور ایسا حاکم يمدَى الْإِنْقِطَاعِ إلى الله ذی ہے کہ ہر وقت بدی کا حکم دیتارہتا ہے پس نجات اس میں ہے کہ اس برا حکم الا لاءِ وَالْأَمْرِ وَالْإِمَارَةِ مَعَ دینے والے کو انقطاع الی اللہ کے کاردوں سے ذبح کر دیا جائے اور تَحَملِ انْوَاعِ الْمَرَارَةِ - لِتَدْجُو خلقت سے قطع تعلق کر کے خدا تعالیٰ کو اپنا مونس اور آرام جاں قرار دیا النَّفْسُ مِنْ مَوْتِ الْغَرَارَةِ جائے اور اس کے ساتھ انواع اقسام کی تلخیوں کی برداشت بھی کی جائے وَهَذَا هُوَ مَعْنَى الْإِسْلَام - تانفس غفلت کی موت سے نجات پاوے اور یہی اسلام کے معنے ہیں وَحَقِيقَةُ الْإِنْقِيَادِ الشام - اور یہی کامل اطاعت کی حقیقت ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۳ تا ۳۵)
122 سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فَانْظُرْ كَيْفَ فَشَرَ النُّسُك يلفظ پس دیکھ کہ کیوں کر نسک کے لفظ کی حیات اور ممات الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَأَشَارَ بِه إِلى حَقِيقَةِ کے لفظ سے تفسیر کی ہے اور اس تفسیر سے قربانی کی حقیقت الْأَطْهَاةِ فَفَكَّرُوا فِيْهِ يَاذَوى الحصاة - کی طرف اشارہ کیا ہے پس اے عقلمندو! اس میں غور کرو وَمَنْ طَحَى مَعَ عِلْمٍ حَقِيقَةِ طَمِيَّتِهِ - اور جس نے اپنی قربانی کی حقیقت کو معلوم کر کے قربانی ادا وَصِدْقِ طَوِيَّتِهِ - وَخُلُوصِ نِيَّتِهِ فَقَدْ کی اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ ادا کی پس بہ تحقیق ضَحَى بِنَفْسِهِ وَمُهْجَتِهِ - وَأَبْنَاءهُ وَحَفَدَتِهِ- اس نے اپنی جان اور اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں کی قربانی وَلَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ - كَأَجْرِ إِبْرَاهِيمَ عِنْدَ کر دی اور اس کے لئے اجر بزرگ ہے جیسا کہ ابراہیم رَبِّهِ الْكَرِيمِ - وَإِلَيْهِ أَشَارَ سَيْدُعا کے لئے اس کے رب کے نزدیک اجر تھا اور اسی کی طرف الْمُصْطَفَى وَ رَسُولُنَا الْمُجْتَبى وَ اِمَامُ ہمارے سید برگزیدہ اور رسول برگزیدہ نے جو پرہیز گاروں الْمُتَّقِينَ وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَقَالَ وَهُوَ کا امام اور انبیاء کا خاتم ہے اشارہ کیا اور فرمایا اور وہ خدا بَعْدَ اللهِ أَصْدَقُ الصَّادِقِينَ اِنَّ الضَّحَايَا کے بعد سب بچوں سے زیادہ تر سچا ہے یہ تحقیق قربانیاں وہی هِيَ الْمَطَايَا - تُوْصِل إلى رَبِّ الْبَرایا- سواریاں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو مجو وَتَمْحُو الْخَطَايَا - وَتَدْفَعُ الْبَلَايَا - کرتی ہیں اور بلا ؤں کو دور کرتی ہیں.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۴۳ تا ۴۵) ان کو جو تیری پیروی کرنا چاہتے ہیں یہ کہہ دے کہ (میری نماز اور ) میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا زندہ ( ترجمہ اصل کتاب سے ) رہنا سب اللہ تعالیٰ کے لیے ہے یعنی جو میری پیروی کرنا چاہتا ہے وہ بھی اس قربانی کو ادا کرے.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۸) اے نبی ! لوگوں کو کہہ دے کہ میں صرف خدا کا پرستار ہوں دوسری کسی چیز سے میرا تعلق نہیں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا صرف اس خدا کے لیے ہے جو تمام عالموں کا پروردگار ہے.دیکھو اس آیت میں کیسی ماسوا اللہ سے بے تعلقی ظاہر کی گئی ہے.چناں زندگی کن که با صد عیال نداری بدل غیر آن ذوالجلال چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۱) صحابہ کرام کے تعلقات بھی تو آخر دنیا سے تھے ہی، جائیدادیں تھیں، مال تھا، زرتھا مگران کی زندگی پر کس قدر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۸ سورۃ الانعام انقلاب آیا کہ سب کے سب ایک ہی دفعہ دستبردار ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ہمارا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے.اگر اس قسم کے لوگ ہم میں ہو جاویں تو کون سی آسمانی برکت اس سے بزرگ تر ہے.احکام جلد نمبر ۲۴ مورخه ۳۰ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) اللہ تعالی پر ایمان لاؤ اور اسی کو یگانہ و یکتا معبود سمجھو.جب تک انسان ایمان نہیں لاتا کچھ نہیں اور ایسا ہی نماز وروزہ میں اگر دنیا کو کوئی حصہ دیتا ہے تو وہ نماز وروزہ اسے منزل مقصود تک نہیں لے جاسکتا بلکہ محض خدا کے لیے ہو جاوے.اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا سچا مصداق ہو تب مسلمان کہلائے گا.ابراہیم کی طرح صادق اور وفادار ہونا چاہیے جس طرح پر وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہو گیا.اسی طرح انسان ساری دنیا کی خواہشوں اور آرزوؤں کو جب تک قربان نہیں کر دیتا کچھ نہیں بنتا.میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو ایک جذبہ پیدا ہو جاوے اس وقت اللہ تعالیٰ خود اس کا متکفل اور کارساز ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بدلنی نہیں کرنی چاہیے اگر نقص اور خرابی ہوگی تو ہم میں ہوگی.پس یا در رکھو کہ جب تک انسان خدا کا نہ ہو جاوے بات نہیں بنتی اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جاتا ہے اس میں شتاب کاری نہیں رہتی.مشکل یہی ہے کہ لوگ جلد گھبرا جاتے ہیں اور پھر شکوہ کرنے لگتے ہیں.الحام جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) الہی قرب کی نسبت یوں فرمایا : قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ يعنى لوگوں کو اطلاع دے دے کہ میری یہ حالت ہے کہ میں اپنے وجود سے بالکل کھویا گیا ہوں میری تمام عبادتیں خدا کے لئے ہوگئی ہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر یک انسان جب تک وہ کامل نہیں خدا کے لئے خالص طور پر عبادت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ عبادت اس کی خدا کے لئے ہوتی ہے اور کچھ اپنے نفس کے لئے کیونکہ وہ اپنے نفس کی عظمت اور بزرگی چاہتا ہے جیسا کہ خدا کی عظمت اور بزرگی کرنی چاہئے اور یہی عبادت کی حقیقت ہے اور ایسا ہی ایک حصہ اس کی عبادت کا مخلوق کے لئے ہوتا ہے کیونکہ جس عظمت اور بزرگی اور قدرت اور تصرف کو خدا سے مخصوص کرنا چاہئے اس عظمت اور قدرت کا حصہ مخلوق کو بھی دیتا ہے.اس لئے جیسا کہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہے نفس اور مخلوق کی بھی پرستش کرتا ہے بلکہ عام طور پر جمیع اسباب سفلیہ کو اپنی پرستش سے حصہ دیتا ہے کیونکہ خدا کے ارادہ اور تقدیر کے مقابل پر ان اسباب کو بھی کارخانه محو اور اثبات میں دخیل سمجھتا ہے.پس ایسا انسان خدا تعالیٰ کا سچا پرستار نہیں ٹھہر سکتا جو کبھی خدا کی
۱۷۹ سورۃ الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عظمت کا اپنے نفس کو شریک ٹھہراتا ہے اور کبھی مخلوق اور کبھی اسباب کو بلکہ سچا پرستار وہ ہے جو خدا کی تمام عظمتیں اور تمام بزرگیاں اور تمام تصرف خدا کو ہی دیتا ہے نہ کسی اور کو.اور جب اس مرتبہ توحید پر انسان کی پرستش پہنچ جائے تب اس وقت وہ حقیقی طور پر خدا کا پرستار کہلاسکتا ہے اور ایسا انسان جیسا کہ زبان سے کہتا ہے کہ خدا واحد لاشریک ہے ایسا ہی وہ اپنے فعل سے یعنی اپنی عبادت سے بھی خدا کی توحید پر گواہی دیتا ہے پس اسی مرتبہ کاملہ کی طرف اشارہ ہے جو آیت مذکورہ بالا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا کہ تو لوگوں کو کہہ دے کہ میری تمام عبادتیں خدا کے لئے ہیں یعنی نفس کو اور مخلوق کو اور اسباب کو میری عبادت میں سے کوئی حصہ نہیں.اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ میری قربانی بھی خاص خدا کے لئے ہے اور میرا جینا بھی خدا کے لئے اور میرا مرنا بھی خدا کے لئے.یاد رہے کہ نیسیگه لغت عرب میں قربانی کو کہتے ہیں اور لفظ نُسُك جو آیت میں موجود ہے اُس کی جمع ہے اور نیز دوسرے معنی اس کے عبادت کے بھی ہیں پس اس جگہ ایسا لفظ استعمال کیا گیا.جس کے معنے عبادت اور قربانی دونوں پر اطلاق پاتے ہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل عبادت جس میں نفس اور مخلوق اور اسباب شریک نہیں ہیں در حقیقت ایک قربانی ہے اور کامل قربانی در حقیقت کامل عبادت ہے اور پھر بعد اس کے جو فرمایا کہ میرا جینا بھی خدا کے لئے ہے اور میرا مرنا بھی خدا کے لئے یہ آخری فقرہ قربانی کے لفظ کی تشریح ہے تا کوئی اس وہم میں نہ پڑے کہ قربانی سے مراد بکرے کی قربانی یا گائے کی قربانی یا اونٹ کی قربانی ہے اور تا اس لفظ سے کہ میرا جینا اور میرا مرنا خاص خدا کے لئے ہے صاف طور پر سمجھا جائے کہ اس قربانی سے مراد روح کی قربانی ہے اور قربانی کا لفظ قرب سے لیا گیا ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا قرب تب حاصل ہوتا ہے کہ جب تمام نفسانی قومی اور نفسانی جنبشوں پر موت آجائے غرض یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب تام پر ایک بڑی دلیل ہے اور یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا کے لئے ہوگئی تھی اور آپ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا.اور آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی پس اس طرح پر آپ نے اس شرط کے ایک حصہ کو پورا کیا جو شفیع کے لئے ایک لازمی شرط ہے اور آخری فقرہ آیت مذکورہ بالا کا یہ ہے کہ میرا جینا اور مرنا اس خدا کے لئے ہے جو تمام جہان کی پرورش میں لگا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة الانعام ہوا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ میری قربانی بھی تمام جہان کی بھلائی کے لئے ہے.(عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۶۴ تا ۶۶۶) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (۱۲۴) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لیے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۶، ۱۸۷) قُلْ اَغَيْرَ اللهِ أَبْغِى رَبَّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُم فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (۱۲۵) آیت اور حدیث میں باہم تعارض واقع ہونے کی حالت میں اصول مفسرین ومحد ثین یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حدیث کے معنوں میں تاویل کر کے اس کو قرآن کریم کے مطابق کیا جائے جیسا کہ صحیح بخاری کے کتاب الجنائز صفحہ ۱۷۲ میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حدیث : إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذِّبُ ببغض ببكاء أهْلِه کو قرآن کریم کی اس آیت سے کہ : لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى معارض و مخالف پا کر حدیث کی یہ تاویل کر دی کہ یہ مومنوں کے متعلق نہیں بلکہ کفار کے متعلق ہے جو متعلقین کے جزع فزع پر راضی تھے بلکہ وصیت کر جاتے تھے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۰۹) قرآن کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا بلکہ ہرگز جائز نہیں رکھتا کہ ایک کا گناہ یا ایک کی لعنت کسی دوسرے پر ڈالی جائے چہ جائیکہ کروڑہا لوگوں کی لعنتیں اکٹھی کر کے ایک کے گلے میں ڈال دی جائیں.قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ آخرای یعنی ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا.لیکن قبل اس کے جو میں مسئلہ نجات کے متعلق قرآنی ہدایت بیان کروں مناسب دیکھتا ہوں کہ عیسائیوں کے اس اصول کی غلطی لوگوں پر ظاہر کر دوں تا وہ شخص جو اس مسئلہ میں قرآن اور انجیل کی تعلیم کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے وہ آسانی سے مقابلہ کر سکے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة الانعام پس واضح ہو کہ عیسائیوں کا یہ اصول کہ خدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کے لئے یا انتظام کیا کہ نافرمانوں اور کافروں اور بدکاروں کا گناہ اپنے پیارے بیٹے یسوع پر ڈال دیا اور دنیا کو گناہ سے چھڑانے کیلئے اس کو لعنتی بنایا اور لعنت کی لکڑی سے لڑکا یا.یہ اصول ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابل شرم ہے.اگر میزان عدل کے لحاظ سے اس کو جانچا جائے تو صریح یہ بات ظلم کی صورت میں ہے کہ زید کا گناہ بکر پر ڈال دیا جائے.انسانی کانشنس اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک مجرم کو چھوڑ کر اس مجرم کی سز ا غیر مجرم کو دی جائے.اور اگر روحانی فلاسفی کے رو سے گنہ کی حقیقت پر غور کی جائے تو اس تحقیق کے رو سے بھی یہ عقیدہ فاسد ٹھہرتا ہے کیونکہ گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پر جوش محبت اور محبانہ یا دالہی سے محروم اور بے نصیب ہو اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھر جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اس پر غلبہ کرتا ہے.سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانون قدرت میں تین طور سے ہے ؟ (۱) ایک محبت (۲) استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جمی رہے تب تک وہ سرسبزی کا امیدوار ہوتا ہے.(۳) تیسر ا علاج تو بہ ہے.یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا اور تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ تو بہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے.تمام نیکیاں تو بہ کی تکمیل کے لئے ہیں کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے نزدیک ہو جائیں.دعا بھی تو بہ ہے کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں.اسی لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام روح رکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے.اور اس کا نام نفس رکھا ہیں کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کر نیوالا ہے.خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے.یہی انسان کا جنت ہے اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہر یلے بخارات باہر نکالتا ہے اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے نوٹ بنفس لغت میں معین شے کے معنے رکھتا ہے.منہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة الانعام اور بڑی آسانی سے ان مواد کو دفع کرتا ہے اور خدا میں ہو کر پاک نشو ونما پاتا جاتا ہے اور بہت پھیلتا اور خوشنما سرسبزی دکھلاتا اور اچھے پھل لاتا ہے.مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشو و نما دینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا اس لئے دم بدم خشک ہوتا چلا جاتا ہے.آخر پتے بھی گر جاتے ہیں اور خشک اور بد شکل ٹہنیاں رہ جاتی ہیں.پس چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی کے دور کرنے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے.جس پر قانون قدرت گواہی دیتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ کر کے فرماتا ہے : يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ ارْجِعِى إلى ربّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلَى فِي عِبْدِى وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر : ۲۸ تا ۳۱).یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندرآ.غرض گناہ کے دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے.لہذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کیلئے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے.خدا کو اس طرح پر مان لینا کہ اس کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھنا یہاں تک کہ اپنی جان پر بھی.یہ وہ پہلا مرتبہ محبت ہے جو درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زمین میں لگایا جاتا ہے.اور پھر دوسرا مرتبہ استغفار جس سے یہ مطلب ہے کہ خدا سے الگ ہو کر انسانی وجود کا پردہ نہ کھل جائے.اور یہ مرتبہ درخت کی اس حالت سے مشابہ ہے جبکہ وہ زور کر کے پورے طور پر اپنی جڑ زمین میں قائم کر لیتا ہے.اور پھر تیسرا مرتبہ تو بہ جو اس حالت کے مشابہ ہے کہ جب درخت اپنی جڑیں پانی سے قریب کر کے بچہ کی طرح اس کو چوستا ہے.غرض گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ خدا سے جدا ہو کر پیدا ہوتا ہے لہذا اس کا دور کرنا خدا کے تعلق سے وابستہ ہے.پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خود کشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں.یہ ہنسی کی بات ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے سردرد پر رحم کر کے اپنے سر پر پتھر مار لے.یا دوسرے کے کہ بچانے کے خیال سے خود کشی کر لے.میرے خیال میں ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا دا نا نہیں ہو گا کہ ایسی خود کشی کو انسانی ہمدردی میں خیال کر سکے.بیشک انسانی ہمدردی عمدہ چیز ہے اور دوسروں کے بچانے کیلئے تکالیف اٹھانا بڑے بہادروں کا کام ہے.مگر کیا ان تکلیفوں کے اٹھانے کی یہی راہ ہے جو یسوع کی نسبت بیان کیا ا جاتا ہے.کاش اگر یسوع خود کشی سے اپنے تئیں بچاتا اور دوسروں کے آرام کیلئے معقول طور پر عقلمندوں کی طرح تکلیفیں اٹھاتا تو اس کی ذات سے دنیا کو فائدہ پہنچ سکتا تھا.مثلاً اگر ایک غریب آدمی گھر کا محتاج ہے اور
۱۸۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانعام معمار لگانے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس صورت میں اگر ایک معمار اس پر رحم کر کے اس کا گھر بنانے میں مشغول ہو جائے اور بغیر لینے اُجرت کے چند روز سخت مشقت اٹھا کر اس کا گھر بنا دیوے تو بیشک یہ معمار تعریف کے قابل ہوگا.اور بیشک اس نے ایک مسکین پر احسان بھی کیا ہے جس کا گھر بنا دیا.لیکن اگر وہ اس شخص پر رحم کر کے اپنے سر پر پتھر مارلے تو اس غریب کو اس سے کیا فائدہ پہنچے گا.افسوس! دنیا میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو نیکی اور رحم کرنے کے معقول طریقوں پر چلتے ہیں.اگر یہ سچ ہے کہ یسوع نے اس خیال سے کہ میرے مرنے سے لوگ نجات پا جائیں گے در حقیقت خود کشی کی ہے تو یسوع کی حالت نہایت ہی لائق رحم ہے اور یہ واقعہ پیش کرنے کے لائق نہیں بلکہ چھپانے کے لائق ہے.اور اگر ہم عیسائیوں کے اس اصول کو لعنت کے مفہوم کے رو سے جانچیں جو سیح کی نسبت تجویز کی گئی ہے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اصول کو قائم کر کے عیسائیوں نے یسوع مسیح کی وہ بے ادبی کی ہے جود نیا میں کسی قوم نے اپنے رسول یا نبی کی نہیں کی ہوگی کیونکہ یسوع کا لعنتی ہو جانا گو وہ تین دن کے لئے ہی سہی عیسائیوں کے عقیدہ میں داخل ہے.اور اگر یسوع کو لعنتی نہ بنایا جائے تو مسیحی عقیدہ کے رو سے کفارہ اور قربانی وغیرہ سب باطل ہو جاتے ہیں.گویا اس تمام عقیدہ کا شہتیر لعنت ہی ہے.اور یہ باتیں جو یسوع نوع انسان کی محبت کیلئے دنیا میں بھیجا گیا اور نوع انسان کی خاطر اس نے اپنے تئیں قربان کیا.یہ تمام کارروائی عیسائیوں کے خیال میں اس شرط سے مفید ہے کہ جب یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یسوع اول دنیا کے گناہوں کے باعث ملعون ہوا اور لعنت کی لکڑی پر لٹکایا گیا.اسی لئے ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں کہ یسوع مسیح کی قربانی لعنتی قربانی ہے.گناہ سے لعنت آئی اور لعنت سے صلیب ہوئی.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ کیا لعنت کا مفہوم کسی راستباز کی طرف منسوب کر سکتے ہیں؟ سو واضح ہو کہ عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی ہے کہ یسوع کی نسبت لعنت کا اطلاق جائز رکھا.گو وہ تین دن تک ہی ہو یا اس سے بھی کم.کیونکہ لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام سے رڈ کرنے کو کہتے ہیں.اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور اطاعت سے دور جا پڑے اور در حقیقت وہ خدا کا دشمن ہو جائے.لفظ لعنت کے یہی معنے ہیں جس پر تمام اہل لغت نے اتفاق کیا ہے.اب ہم پوچھتے ہیں کہ اگر در حقیقت یسوع مسیح پر لعنت
۱۸۴ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑ گئی تھی تو اس سے لازم آتا ہے کہ در حقیقت وہ مورد غضب الہی ہو گیا تھا اور خدا کی معرفت اور اطاعت اور محبت اس کے دل سے جاتی رہی تھی اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو گیا تھا اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو گیا تھا جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ لعنت کے دنوں میں در حقیقت کافر اور خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور شیطان کا حصہ اپنے اندر رکھتا تھا.پس یسوع کی نسبت ایسا اعتقاد کرنا گویا نعوذ باللہ ! اس کو شیطان کا بھائی بنانا ہے اور میرے خیال میں ایک راستباز نبی کی نسبت ایسی بے با کی کوئی خدا ترس نہیں کرے گا بجز اس شخص کے جو خبیث طبع اور نا پاک طبع ہو.پس جبکہ یہ بات باطل ہوئی کہ حقیقی طور پر یسوع مسیح کا دل مورد لعنت ہو گیا تھا.پس ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسی لعنتی قربانی بھی باطل اور نادان لوگوں کا اپنا منصوبہ ہے.اگر نجات اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ اول یسوع کو شیطان اور خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ٹھہرایا جائے تو لعنت ہے ایسی نجات پر !!! اس سے بہتر تھا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کر لیتے لیکن خدا کے ایک مقرب کو شیطان کا لقب نہ دیتے.افسوس کہ ان لوگوں نے کیسی بیہودہ اور ناپاک باتوں پر بھروسہ کر رکھا ہے.ایک طرف تو خدا کا بیٹا اور خدا سے نکلا ہوا اور خدا سے ملا ہوا فرض کرتے ہیں اور دوسری طرف شیطان کا لقب اس کو دیتے ہیں.کیونکہ لعنت شیطان سے مخصوص ہے اور عین شیطان کا نام ہے اور لعنتی وہ ہوتا ہے جو شیطان سے نکلا اور شیطان سے ملا ہوا اورخودشیطان ہے.پس عیسائیوں کے عقیدہ کے رو سے یسوع میں دو قسم کی تثلیث پائی گئی.ایک رحمانی اور ایک شیطانی.اور نعوذ باللہ ! یسوع نے شیطان میں ہو کر شیطان کے ساتھ اپنا وجود ملایا اور لعنت کے ذریعہ سے شیطانی خواص اپنے اندر لئے.یعنی یہ کہ خدا کا نافرمان ہوا.خدا سے بیزار ہوا.خدا کا دشمن ہوا.اب میاں سراج الدین آپ انصاف ا فرما دیں کہ کیا یہ مشن جو مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کوئی روحانی یا معقولی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے؟ کیا دنیا میں اس سے بدتر کوئی اور عقیدہ بھی ہو گا کہ ایک راستبازکو اپنی نجات کے لئے خدا کا دشمن اور خدا کا نافرمان اور شیطان قرار دیا جائے؟ خدا کو جو قادر مطلق اور رحیم و کریم تھا اس لعنتی قربانی کی کیا ضرورت پڑی؟ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۷ تا ۳۳۳) خدا ایک کے گناہ کے لیے دوسرے کو ہلاک نہیں کرتا.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۱۶) اور یہ خیال کہ تناسخ کے طور پر حضرت مسیح بن مریم دنیا میں آئیں گے سب سے زیادہ روی اور شرم کے
۱۸۵ سورة الانعام تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لائق ہے.تناسخ کے ماننے والے تو ایسے شخص کا دنیا میں دوبارہ آنا تجویز کرتے ہیں جس کے تزکیہ نفس میں کچھ کسر رہ گئی ہو لیکن جو لوگ بکلی مراحل کمالات طے کر کے اس دنیا سے سفر کرتے ہیں وہ بزعم ان کے ایک مدت دراز کے لئے مکتی خانہ میں داخل کئے جاتے ہیں.ماسوائے اس کے ہمارے عقیدہ کے موافق خدائے تعالی کا بہشتیوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے پھر تعجب کہ ہمارے علماء کیوں حضرت مسیح کو اس فردوسِ بریں سے نکالنا چاہتے ہیں آپ ہی یہ قصے سناتے ہیں کہ حضرت اور میں جب فرشتہ ملک الموت سے اجازت لے کر بہشت میں داخل ہوئے تو ملک الموت نے چاہا کہ پھر باہر آویں لیکن حضرت اور کیس نے باہر آنے سے انکار کیا اور یہ آیت سنادی: وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ ( الحجر : ۴۹ ) اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت مسیح اس آیت سے فائدہ حاصل کرنے کے مستحق نہیں ہیں کیا یہ آیت اُن کے حق میں منسوخ کا حکم رکھتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس لئے اس تنزل کی حالت میں بھیجے جائیں گے کہ بعض لوگوں نے انہیں ناحق خدا بنایا تھا تو یہ اُن کا قصور نہیں ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أَخْرى (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷ ۱۴ تا ۱۴۹) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخم کاری سے مجروح ہوئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے ان کے پاس گئے کہ ہائے میرے بھائی ! ہائے میرے دوست ! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے صہیب ! مجھ پر تو روتا ہے کیا تجھے یاد نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت پر اس کے اہل کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے پھر جب حضرت عمر وفات پاگئے تو حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے یہ سب حال حدیث پیش کرنے کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ خدا عمر پر رحم کرے بخد اکبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا بیان نہیں فرمایا کہ مومن پر اس کے اہل کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے اور فرمایا کہ تمہارے لئے قرآن کافی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے: لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى یعنی حضرت عائشہ صدیقہ نے باوجود محدود علم کے فقط اس لئے قسم کھائی کہ اگر اس حدیث کے ایسے معنے کئے جائیں کہ خواہ نخواہ ہر ایک میت اس کے اہل کے رونے سے معذ ب ہوتی ہے تو یہ حدیث قرآن کے مخالف اور معارض ٹھہرے گی اور جو حدیث قرآن کے مخالف ہو وہ قبول کے لائق نہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۹ حاشیه ) قرآن شریف پر حدیث کو قاضی بنانا سخت غلطی ہے اور قرآن شریف کی بے ادبی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک بڑھیا نے حدیث پیش کی تو انہوں نے یہی کہا کہ میں ایک بڑھیا کے لیے قرآن نہیں چھوڑ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶ سورة الانعام سکتا.ایسا ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے کسی نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے ماتم کرنے سے مردہ کو تکلیف ہوتی ہے تو انہوں نے یہی کہا کہ قرآن میں تو آیا ہے: لا تزرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى - پس قرآن پر حدیث کو قاضی....بنانے میں اہل حدیث نے سخت غلطی کھائی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۵) میں یہ تعلیم کبھی دینا نہیں چاہتا اور نہ اسلام نے دی کہ تم اپنے گناہوں کی گٹھڑی کسی دوسرے کی گردن پر لاد دو اور خود اباحت کی زندگی بسر کرنے لگو.قرآن شریف نے صاف فیصلہ کر دیا ہے : لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اخری.ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور نہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر خدا تعالیٰ کے عام قانون قدرت میں ملتی ہے کبھی نہیں دیکھا جاتا کہ زید مثلاً سنکھیا کھا لیوے اور اسی سنکھیا کا اثر بکر پر ہو جاوے اور وہ مر جاوے یا ایک مریض ہو اور وہ دوسرے آدمی کے دوا کھا لینے سے اچھا ہو جاوے بلکہ ہر ایک بجائے خود متاثر ہو گا پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک شخص ساری عمر گناہ کرتا رہے اور دلیری کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتار ہے اور لکھ دے کہ میرے گناہوں کا بوجھ دوسرے شخص کی گردن پر ہے، جو شخص ایسی امید کرتا ہے وہ دماغ بیده پخت و خیال باطل بست کا مصداق ہے.پس اسلام کسی سہارے پر رکھنا نہیں چاہتا کیونکہ سہارے پر رکھنے سے ابطال اعمال لازم آ جاتا ہے لیکن جب انسان سہارے کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس وقت اس کو اعمال کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ کرنا پڑتا ہے اس لیے قرآن شریف نے فرمایا ہے : قد افلح من ذكرها فلاح وہی پاتا ہے جو اپنا تزکیہ کرتا ہے.خود اگر انسان ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو بات نہیں بنتی.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) یہ کہنا کہ انسانی رنج ومن حوا کے سیب کھانے کی وجہ سے ہیں اسلام کا یہ عقیدہ نہیں.ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ: لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.زید کے بدلے بکر کو سزا نہیں مل سکتی اور نہ ہی اس سے کچھ فائدہ متصور ہے.حوا کی سیب خوری ان مشکلات اور رنج و سزا کا باعث نہیں ہے بلکہ ان کے وجوہات قرآن نے کچھ اور ہی بیان فرمائے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲/جون ۱۹۰۸ صفحه ۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ۱۸۷ سورة الاعراف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاعراف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ اتَّبِعُوا مَا اُنْزِلَ إِلَيْكُمْ کیسے فیصلہ کرنے والی آیت ہے جس سے صریح اور صاف طور پر صاف ثابت ہوتا ہے کہ اول تو جہ مومن کی قرآن کریم کی طرف ہونی چاہیے پھر اگر اس توجہ کے بعد کسی حدیث یا قول من دونہ میں داخل دیکھے تو اس سے منہ پھیر لیوے.(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲،۴۱) 191 وَالْوَزْنُ يَوْمَينِ الْحَقِّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) 191 وَالْوَزْنُ يَوْمَينِ الْحَقِّ....اس دن اعمال تو لے جائیں گے.(ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) قَالَ مَا مَنَعَكَ إِلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ ۚ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ شیطان نے جو تکبر کیا تو اس کی یہ بنا تھی جو وہ اپنے تئیں نجیب الخلقت سمجھتا تھا اور خَلَقْتَنِي مِنْ نَارِ کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ دم مار کر حضرت صفی اللہ پر خَلَقْتَهُ مِنْ طِینِ کی نکتہ چینی کرتا تھا.سورة الاعراف آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۹) یا درکھوتکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے نہ علم کے لحاظ سے ، نہ دولت کے لحاظ سے، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے، کیونکہ زیادہ تر انہیں باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواور ڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا: آنا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی ) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اس سكتة لیے دعا کی : رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف: ۲۴) یہی وہ سر ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک استاد.تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے.اس پر آج کل کے نادان عیسائی تو یہ کہتے ہیں کہ ان کا مطلب اس فقرہ سے یہ تھا کہ تو مجھے خدا کیوں نہیں کہتا حالانکہ حضرت مسیح نے بہت ہی لطیف بات کہی تھی جو انبیاء علیہم السلام کی فطرت کا خاصہ ہے.وہ جانتے تھے کہ حقیقی نیکی تو خدا تعالیٰ ہی سے آتی ہے وہی اس کا چشمہ ہے اور وہیں سے وہ اترتی ہے.وہ جس کو چاہے عطا کرے اور جب چاہے سلب کر لے مگر ان نادانوں نے ایک عمدہ اور قابل قدر بات کو معیوب بنادیا اور حضرت عیسی کو متکبر ثابت کیا !!! حالانکہ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) توریت میں ممالک مغربیہ کی بعض قوموں کو یا جوج ماجوج قرار دیا ہے اور ان کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ٹھہرایا ہے.قرآن شریف نے اس قوم کے لیے ایک نشانی یہ کھی ہے کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبياء : ٩٧) یعنی ہرا یک فوقیت ارضی ان کو حاصل ہو جائے گی اور ہر ایک قوم پر وہ فتحیاب ہو جائیں گے.دوسرے اس نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ آگ کے کاموں میں ماہر ہوں گے یعنی آگ کے ذریعہ سے ان کی لڑائیاں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة الاعراف ہوں گی اور آگ کے ذریعہ سے ان کے انجن چلیں گے اور آگ سے کام لینے میں وہ بڑی مہارت رکھیں گے.اسی وجہ سے ان کا نام یا جوج ماجوج ہے کیونکہ ایچ آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں اور شیطان کے وجود کی بناوٹ بھی آگ سے ہے جیسا کہ آیت خَلَقْتَنِی مِن نار سے ظاہر ہے اس لیے قوم یا جوج ماجوج سے اس کو ایک فطرتی مناسبت ہے.اسی وجہ سے یہی قوم اس کے اسم اعظم کی تجلی کے لیے اور اس کا مظہر اتم بننے کے لیے موزوں ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۶، ۲۷۷) تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی.یاد رکھو تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبول حق و فیضان الوہیت ہرگز پا نہیں سکتا کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے.علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک وصاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ اللہ جلشانہ کے نزدیک پسندیدہ و برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت الہی جو جذبات نفسانی کے مواد دیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا شیطان نے بھی یہی گھمنڈ کیا اور اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے بڑا سمجھا اور کہہ دیا: آنا خَیرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينِ ۲۳ پ ۱۴ ) میں اس سے اچھا ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اس کو مٹی سے ) نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بارگاہ الہی سے مردود ہو گیا اس لیے ہر ایک کو اس سے بچنا چاہیے جب تک انسان کو کامل معرفت الہی حاصل نہ ہو وہ لغزش کھاتا ہے اور اس سے متنبہ نہیں ہوتا مگر معرفتِ الہی جس کو حاصل ہو جائے اگر چہ اس سے کوئی لغزش ہو بھی جاوے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی محافظت کرتا ہے.چنانچہ آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش پر اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور سمجھ لیا کہ سوائے فضل الہی کے کچھ نہیں ہوسکتا.اس لیے دعا کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا: ربنا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ سكتة تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف : ۲۴) (اے رب ہمارے! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تیری حفاظت ہمیں نہ بچاوے اور تیر ارحم ہماری دستگیری نہ کرے تو ہم ضر ور ٹوٹے والوں میں سے ہو جاویں.) تقریر جلسه سالانه ۲۹/ دسمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۲۰،۱۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٠ سورة الاعراف قَالَ انْظُرُ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ قرآن شریف اُس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے: قَالَ انْظُرُ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ، یعنی شیطان نے جناب الہی میں عرض کی کہ میں اُس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مردے جن کے دل مر گئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں.خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اُس وقت تک مہلت دی.سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے اس لئے سورۃ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاری کے شر سے خدا تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دجال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا: وَلَا الضَّالین یہ فرمانا چاہئے تھا کہ : وَلَا الدَّجال - اور آیت : إلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ سے مراد جسمانی بحث نہیں کیونکہ شیطان صرف اُس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں.ہاں ! شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اس لئے اُس کا نام دقبال رکھا گیا ہے.کیونکہ عربی زبان میں دجال گروہ کو بھی کہتے ہیں.اور اگر دجال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دقبال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا انہیں حدیثوں سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آجائے گی.پس یہ تناقض بجز اس کے کیوں کر دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.سكتة (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۱) قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الخسِرِينَ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے.انسان کے اپنے نفس کے ہی ظلم ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم اور کریم ہے.بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۱ سورة الاعراف گناہ کے لیے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہیے: ربنا سكتة ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِیرین.یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے.( البدر جلد نمبر ۹ مورخه ۲۶ دسمبر / ۱۹۰۲ء صفحه ۶۶) دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا کے پائی: رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَ من الخرين ( بدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۷) ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے.....آدم اول کو شیطان پر فتح دعا ہی سے ہوئی تھی : ربَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا......الخ اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتا ہے.اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہوگی.الحکم جلد نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) اگر خدا پر تمہارا کامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چاہیے کہ هر چه از دوست میرسد نیکوست.اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا وہ بھی تو وہاں ہی آجاتا ہے جہاں اس کو تھوڑی سی بھی گنجائش مل جاتی ہے جب خدا کو مقدم رکھا جائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے....یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے تو بہ استغفار ہے.اس کی کثرت کرو اور ربنا ظلمنا انْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لتكونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو.(البدر جلد ۳ نمر ۲۵،۲۴ مورخه ۲۴ تا یکم نومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعُ إِلَى حِينٍ ۲۵ تمہارے قرار کی جگہ زمین ہی رہے گی پھر کیوں کر ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسی کی قرارگاہ صد ہا برس سے آسمان ہو.“ برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۰ حاشیه ) یعنی تمہارا قرار گاہ زمین ہی رہے گی.(تحفہ گولر و سیہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة الاعراف قَالَ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ ) قرآن شریف صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کوئی انسان بجز زمین کے کسی اور جگہ زندہ نہیں رہ رہے ہیں..سکتا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے : فيها تَحْيونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ یعنی تم زمین میں ہی زندہ رہو فِيْهَا گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جاؤ گے.مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں اس زمین اور کرہ ہوا سے باہر بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے.جیسا کہ اب تک جو قریباً انیسویں صدی گزرتی ہے حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں.حالانکہ زمین پر جو قرآن کے رو سے انسانوں کے زندہ رہنے کی جگہ ہے باوجود زندگی کے قائم رکھنے کے سامانوں کے کوئی شخص انیس سو برس تک ابتدا سے آج تک کبھی زندہ نہیں رہا تو پھر آسمان پر انیس سو برس تک زندگی بسر کرنا باوجود اس امر کے کہ قرآن کے رو سے ایک قدر قلیل بھی بغیر زمین کے انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا.کس قدر خلاف نصوص صریح قرآن ہے جس پر ہمارے مخالف ناحق اصرار کر (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۳، ۲۲۴ حاشیه ) اگر حضرت اور میس معہ جسم عنصری آسمان پر گئے ہوتے تو بموجب نص صریح آیت : فِيهَا تَحْيَوْن جیسا کہ حضرت مسیح کا آسمانوں پر سکونت اختیار کر لینا ممتنع تھا ایسا ہی ان کا بھی آسمان پر ٹھہر ناممتنع ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اس آیت میں قطعی فیصلہ دے چکا ہے کہ کوئی شخص آسمان پر زندگی بسر نہیں کر سکتا بلکہ تمام انسانوں کے لئے زندہ رہنے کی جگہ زمین ہے.علاوہ اس کے اس آیت کے دوسرے فقرہ میں جو فيها تحیون ہے یعنی زمین پر ہی مرو گے صاف فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کی موت زمین پر ہوگی.پس اس سے ہمارے مخالفوں کو یہ عقیدہ رکھنا بھی لازم آیا کہ کسی وقت حضرت اور میں بھی آسمان پر سے نازل ہوں گے.حالانکہ دنیا میں یہ کسی کا عقیدہ نہیں اور طرفہ یہ کہ زمین پر حضرت ادریس کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسی کی قبر موجود ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۳۸ حاشیه ) أَتَكْفُرُ بِالْقُرْآنِ أَوْ نَسِيتَ يَوْمَ کیا تم قرآن کریم کا انکار کرتے ہو یا جزا سزا کے دن کو بھول الْمَجَازَاتِ ؟ وَقَد قَالَ اللهُ فِيهَا گئے ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ فَكَيْفَ عَاشَ تَمُوتُونَ ) کہ تم زمین پر ہی زندگی بسر کرو گے اور زمین پر ہی عِيسَى إِلَى الْأَلْفَيْنِ في السَّمَاء مرو گے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر دو ہزار سال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام مَا لَكُمْ لَا تُفَكَّرُونَ الهدى والتبصرة لمن یزی، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۵) ۱۹۳ سورة الاعراف سے کیسے زندہ ہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم سوچتے نہیں؟ (ترجمه از مرتب) اگر وہ (حضرت عیسی علیہ السلام - ناقل) مع جسم عنصری آسمان پر ہیں اور بموجب تصریح اس آیت کے قیامت کے دن تک زمین پر نہیں اتریں گے تو کیا وہ آسمان پر ہی مریں گے اور آسمان میں ہی ان کی قبر ہوگی ؟ لیکن آسمان پر مرنا آیت : فيها تموتون کے برخلاف ہے.پس اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ وہ آسمان پر مع جسم عصری نہیں گئے بلکہ مرکز گئے اور جس حالت میں کتاب اللہ نے کمال تصریح سے یہ فیصلہ کر دیا تو پھر کتاب اللہ کی مخالفت کرنا اگر معصیت نہیں تو اور کیا ہے.(الومیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۳، ۳۱۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِيهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُونَ یعنی تم زمین پر ہی زندگی بسر کرو گے اور زمین پر ہی مرو گے اور زمین سے ہی نکالے جاؤ گے پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ ایک شخص صد ہا برس تک آسمان پر زندگی بسر کرے.براتین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۰ حاشیه ) خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وعدہ کے برخلاف کسی بشر کو آسمان پر چڑھاوے حالانکہ وہ وعدہ کر چکا ہے کہ تمام بشر زمین پر ہی اپنی زندگی بسر کریں گے لیکن حضرت مسیح کو خدا نے آسمان پر مع جسم چڑھا دیا اور اس وعدہ کا کچھ پاس نہ کیا جیسا کہ فرمایا تھا: فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۰) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں نے قسمیں کھا کر بار بار سوال کیا کہ آپ مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ کر دکھلائیے ، ہم ابھی ایمان لائیں گے.ان کو جواب دیا گیا : قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولاً (بنی اسرائیل : (۹۴) یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عہد شکنی سے پاک ہے اور بموجب اس قول کے مع جسم عصری آسمان پر نہیں جاسکتا.کیونکہ یہ امر خدا کے وعدہ کے برخلاف ہے وجہ یہ کہ وہ فرماتا ہے کہ : فیفا چشمه سیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۷ حاشیه ) ایک اور دلیل حضرت عیسی کی وفات پر قرآن شریف کی یہ آیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ ( ترجمہ ) تم (اے بنی آدم ) زمین میں ہی زندگی بسر کرو گے اور زمین میں ہی مرو گے اور زمین میں سے ہی نکالے جاؤ گے.پس با وجود اس قدر نص صریح کے کیوں کر ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بجائے زمین پر رہنے کے قریباً دو ہزار برس اس سے بھی زیادہ کسی نا معلوم مدت تک تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورة الاعراف آسمان پر رہیں ایسی صورت میں تو قرآن شریف کا ابطلال لازم آتا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۳، ۳۹۴) قرآن شریف میں کئی جگہ صاف فرما دیا ہے کہ کوئی شخص مع جسم عصری آسمان پر نہیں جائے گا بلکہ تمام زندگی زمین پر بسر کریں گے یہ خدا کا وعدہ ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ یعنی زمین پر ہی تم زندہ رہو گے اور زمین پر ہی تم مرو گے اور زمین میں سے ہی تم نکالے جاؤ گے.پس اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کا مع جسم عنصری آسمان پر جانا اس وعدہ کے برخلاف ہے اور خدا پر تخلف وعدہ جائز نہیں اور اس وعدہ میں کوئی استثنا نہیں.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۸) اللہ جل شانہ کا قرآن شریف میں فرمانا: فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُون جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کرہ زمین کے سوا دوسری جگہ نہ زندگی بسر کر سکتا ہے اور نہ مرسکتا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نام مسیح یعنی نبی سیاح ہونا بھی ان کی موت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ سیاحت زمین کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ صلیب سے نجات پا کر زمین پر ہی رہے ہوں اور نہ بجز اس زمانہ کے جو صلیب سے نجات پاکر ملکوں کا سیر کیا ہو اور کوئی زمانہ سیاحت ثابت نہیں ہوسکتا.صلیب کے زمانہ تک نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھے یہ زمانہ تبلیغ کے لیے بھی تھوڑا تھا چہ جائیکہ اس میں تمام ملک کی سیاحت کرتے.ایسا ہی مرہم عیسی جو قریباً طب کی ہزار کتاب میں لکھی ہے ثابت کرتی ہے کہ صلیب کے واقعہ کے وقت حضرت عیسی آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے بلکہ اپنے زخموں کا اس مرہم کے ساتھ علاج کراتے رہے اس کا نتیجہ بھی یہی نکلا کہ زمین پر ہی رہے اور زمین پر ہی فوت ہوئے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۳) در حقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیه السلام بر طبق آیت : فِيهَا تَحْيَونَ وَ فِيهَا تَمُوتُونَ زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی سولہ آئینوں اور بہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لیے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اور نہ حقیقی اور واقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اور نہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لیے کوئی قانون وراثت موجود ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۲) وو ،، وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: " فِيهَا تَحيون“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فِيهَا تَحْيَونَ ( کہ تم اسی زمین میں فَخَصَّصَ حَيَاةَ النَّاسِ بِالْاَرْضِ زندہ رہو گے ) پس اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی زندگی کو زمین سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة الاعراف كَمَا خَصَّصَ مَوْتَهُمْ بِالثّرى اتترُكُونَ مخصوص فرمایا ہے جس طرح ان کی موت کو مٹی سے خاص كَلَامَ اللهِ وَ شَهَادَةَ نَبِيْهِ وَ تَتَّبِعُونَ کر دیا.اے لوگو کیا تم اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے نبی أَقْوَالًا آخَرَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا - آیها کی شہادت کو چھوڑ کر دوسری باتوں کی اتباع کرتے ہو.النَّاسِ قَدْ اَعْتَرَنِي اللهُ عَلى هذا الشر و ظالموں کا بدلہ نہایت ہی برا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عَلَّمَنِى مَا لَمْ تَعْلَمُوا وَ اَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ راز سے آگاہ فرمایا ہے اور مجھے وہ کچھ سکھایا ہے جس کا تم حَكَمًا عَدَلًا.لا كُشِفَ عَلَيْكُمْ مَا كَانَ کو علم نہیں اور مجھے تمہاری طرف حکم و عدل بنا کر بھیجا ہے عَلَيْكُمْ مُسْتَبْرًا فَلا تُمَارُوا وَلَا تاکہ تم پر وہ باتیں کھولوں جو پہلے تم پر پوشیدہ تھیں.پس شک نہ کرو اور نہ جھگڑا کرو.(ترجمه از مرتب) تُجَادِلُوا - آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۳، ۴۳۴) زمین پر ہی تم زندگی بسر کرو گے.اب دیکھوا اگر کوئی آسمان پر جا کر بھی کچھ حصہ زندگی کا بسر کر سکتا ہے تو اس سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱٬۹۰) اگر مان لیا جاوے کہ حضرت مسیح زندہ جسم عصری آسمان پر تشریف لے گئے.تو پھر آیت : فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸) کیوں کر صحیح ٹھہر سکتی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد عیسائی بگڑ گئے.جب تک کہ وہ زندہ تھے عیسائی نہیں بگڑے اور پھر اس آیت کے کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا توتون کہ زمین پر ہی تم زندگی بسر کرو گے اور زمین پر ہی مرو گے کیا وہ شخص جو اٹھارہ سو برس سے آسمان پر بقول مخالفین زندگی بسر کر رہا ہے وہ انسانوں کی قسم میں سے نہیں ہے اگر مسیح انسان ہے تو نعوذ باللہ مسیح کے اس مدت دراز تک آسمان پر ٹھہرنے سے یہ آیت جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اگر ہمارے مخالفوں کے نزدیک انسان نہیں ہے بلکہ خدا ہے تو ایسے عقیدہ سے وہ خود مسلمان نہیں ٹھہر سکتے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۰،۳۰۹) بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ بھی تو عقیدہ اہل اسلام کا ہے کہ الیاس اور خضر زمین پر زندہ موجود ہیں اور ادریس آسمان پر مگر ان کو معلوم نہیں کہ علماء متقین ان کو زندہ نہیں سمجھتے کیونکہ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ آج سے ایک سو برس کے گزرنے پر زمین پر کوئی زندہ نہیں رہے گا.پس جو شخص خضر اور الیاس کو زندہ جانتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ہے اور اور بیس کو اگر آسمان پر زندہ مانیں تو پھر ماننا پڑے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٦ سورة الاعراف کہ وہ آسمان پر ہی مریں گے کیونکہ ان کا دوبارہ زمین پر آنا نصوص سے ثابت نہیں اور آسمان پر مرنا آیت فِيهَا تَمُوتُونَ کے منافی ہے.تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۹۹٬۹۸ حاشیہ) قرآن شریف کی آیت : فِيهَا تَحْیون سے موت ثابت ہوئی اور پھر قرآن شریف کی آیت : وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ (البقرة : ۳۷) سے موت ثابت ہوئی کیونکہ ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ آسمان پر جسمانی زندگی اور قرار گاہ کسی انسان کا نہیں ہو سکتا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۵) اِعْلَمُ أَنَّ وَفَاةً عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام واضح رہے کہ عیسی علیہ السلام کی وفات نصوص قطعیہ ثَابِتُ بِالنُّصُوصِ الْقَطَعِيَّةِ الْيَقِينِيَّةِ یقینیہ سے ثابت ہے اور اگر تم اس بات کا ثبوت قرآن وَإِن تَطلب القُبُوتَ مِنَ الْقُرْآنِ فَتَجِدُ سے طلب کرو تو تم اس میں یہ آیات پاؤ گے : یعنی فِيهِ ايَةً يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَايَةً فَلَمَّا إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور آیت : فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِی اور آیت : كَانَا تَوَفِّيْتَنِي ، وأيَةً كَانَا يَأكلن الطَّعَامَ يَأكلن العام اور آیت: مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور آیت : فِيهَا تَحْيَونَ وَ الرُّسُلُ، وَايَةً فِيهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيهَا فِيهَا تَمُوتُونَ.اس آخری آیت کا مضمون اس بات پر تَمُوتُونَ وَهَذِهِ الْآيَةُ الْأَخِيرَةُ تَدُلُّ صریح دلالت کرتا ہے کہ بنی آدم خاص طور پر زمین میں منطوقِهَا عَلَى أَنَّ بَنِی آدَمَ يَحْيَونَ فی ہی زندگی گزاریں گے اور (یہ کہ ) وہ آسمان پر اپنے الْأَرْضِ خَاصَّةً وَلَا يَصْعَدُونَ إِلَى السَّمَاء جسم عنصری کے ساتھ صعود نہیں کریں گے.یہ اس لیے جسْيِهِمُ الْعُنْصُرِي لِأَنَّ لَفَظَ فِيهَا الَّذِى كه لفظ فيها جو تحیون پر مقدم ہے زمین پر ہی حیات هُوَ مُقَدَّمُ عَلى لفظ تَخيَونَ يُوجِبُ کی تخصیص کرتا اور انسانی زندگی کوزمین سے مقید کر دیتا تَخْصِيْصَ الْحَيَاةِ بِالْأَرْضِ وَيُقَيَّدُ بِهَا، ہے.اور اس آیت میں ان لوگوں کے خیال کی تردید وَفِيْهِ رَةٌ عَلَى الَّذِينَ يَقُولُونَ لِمَ لَا يَجُوزُ ہے جو کہتے ہیں کہ کیوں کسی انسان کا جسم عنصری کے أَنْ يُرْفَعَ أَحَدٌ بِسْمِهِ الْعُنْصُرِي إِلَى ساتھ آسمان پر جانا جائز نہیں اور ( یہ کہ ) وہ وہاں اس السَّمَاء وَيَخى فيها إلى مُدَّةٍ أَرَادَهَا الله؟ عرصہ تک زندہ رہے جب تک کہ منشاء الہی ہے.اور وَالْعَجَبُ مِنْهُمْ أَنَّهُمْ يَفْتَرُونَ عَلَيْنَا ان لوگوں پر تعجب ہے جو ہم پر افترا کرتے اور ہمارے آل عمران: ۵۶ المائدة : ١١٨ المائدة : ۷۶ ه آل عمران : ۱۴۵
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۹۷ سورة الاعراف وَيَحْسَبُونَ كَأَنَا تَرَكْنَا النُّصوص متعلق گمان کرتے ہیں کہ ہم نے مسیح کے جسم عنصری کے ساتھ الْقُرْانِيَّةَ فِي رَفْعِ الْمَسِيحِ بِچشمه آسمان پر جانے سے متعلق نصوص قرآنیہ کو ترک کر دیا ہے.پس الْعُنْصُرِي، فَلْيَتَدَبَّرِ الْعَاقِلُ هُهُنَا عقلمندوں کو اس مقام پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے اس عقیدہ سے أَنَحْنُ تَرَكْنَا الْقُرْآنَ وَنُصُوصَهُ في متعلق قرآن کریم اور اس کی نصوص کو چھوڑ دیا ہے یا ہمارے هذِهِ الْعَقِيدَةِ أَمْ هُمْ كَانُوا تَارِکین؟ مخالفین خود ترک کرنے والے ہیں.وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ عزو وَقَالُوا إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: بَلْ جل نے فرمایا: بَلْ رَفَعَهُ اللهُ اور وہ اس آیت سے مسیح کے جسم رفَعَهُ اللهُ، وَيَحْتَجُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ کے اُٹھائے جانے پر استدلال کرتے ہیں اور وہ اس بات پر غور على رفع جِسْمِ الْمَسِيحِ وَلَا نہیں کرتے کہ اگر بات اسی طرح ہی ہو تو (اس صورت میں ) يَتَدَبَّرُونَ أَنَّ الْأَمْرَ لَوْ كَانَ كَذَالِكَ دونوں آیات میں تعارض پیدا ہو جاتا ہے یعنی آیت: بَلْ زَفَعَهُ لتَعَارَضَ الْآيَتَانِ.أَعْنِي آيَةً بَلْ الله اِلَيْهِ اور آیت : فِيْهَا تَحْیون میں اور تم اس بات سے بخوبی دَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَآيَةَ فِيهَا تَحْيَونَ واقف ہو کہ قرآن تعارض اور تخالف سے پاک ہے کیونکہ التَّعَارُضِ وَالتَخَالُفِ، وَقَالَ اللهُ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْقُرْآنَ مُنَزَّةٌ عَنِ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے: وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ تعالى: وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا.(اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے لوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، فَأَشَارَ ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے ) پس اس آیت میں اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا کہ قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں پایا جاتا اور في هذِهِ الْآيَةِ أَنَّ الْاخْتِلَافَ لَا يُوجَدُ فِي الْقُرْآنِ، وَهُوَ كِتَابُ اللهِ وَشَأْنُه | اس کی شان اس سے بہت ارفع ہے کہ جو اللہ کی کتاب ہے.اس أَرْفَعُ مِنْ هَذَا، وَإِذَا ثَبَتَ أَنْ كِتَابَ میں اختلاف پایا جائے.پس جبکہ یہ امر ثابت ہو گیا کہ کتاب اللہ الله منزّه عن الاختلافاتِ فَوَجَبْ اختلافات سے پاک و منزہ ہے تو ہم پر ضروری ٹھہرا کہ اس کی تفسیر کے سلسلہ میں کوئی ایسا طریق اختیار نہ کریں جو تعارض اور تناقض عَلَيْنَا أَلَّا نَخْتَارَ فِي تَفْسِيرِهِ طَرِيقًا يُوجِبُ التَّعَارُضَ وَالتَّنَا قُضَ.پیدا کرنے کا موجب ہو.(ترجمہ از مرتب) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۵۴ تا ۲۵۶ حاشیه ) سچی اور بالکل سچی اور صاف بات یہی ہے کہ اجسام ضرور ملتے ہیں لیکن یہ عنصری اجسام یہاں ہی رہ جاتے ل النساء : ۵۹
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٨ سورة الاعراف ہیں یہ اوپر نہیں جاسکتے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے جواب میں فرمایا: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلا بَشَرًا رَسُولاً (بنى اسرائیل : ۹۴).یعنی ان کو کہہ دے میرا رب اس سے پاک ہے جو اپنے وعدوں کے خلاف کرے جو وہ پہلے کر چکا ہے.میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں.سبحان کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ سابق جو وعدے ہو چکے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ نہیں کرتا.وہ وعدہ کیا ہے ؟ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ و متاع إلى حِينٍ ( الاعراف : ۲۷) اور ایسا ہی فرمایا: اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كفانا (المرسلات (۲۶) اور پھر فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ.ان سب آیتوں پر اگر دیکھائی نظر کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جسم جو کھانے پینے کا محتاج ہے آسمان پر نہیں جاتا.اقام جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) يبني ادم قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِى سَواتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ أَيْتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذْكُرُونَ.b قَد اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا ہم نے تم پر لباس اُتارا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۵ حاشیه ) ثُمَّ انْظُرُ أَنَّهُ تَعَالَى قَالَ فِي مَقَامٍ | اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے: قَد اَنْزَلْنَا اخَرَ : قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا، وَقَالَ: عَلَيْكُمْ لِبَاسًا اور پھر فرمایا: اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ نیز فرمایا: انزَلْنَا الْحَدِيدَ وَانْزَلَ لَكُمْ مِنَ وَانْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَام اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ ↓ الْأَنْعَامِ ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاء یہ سب چیزیں آسمان سے نہیں اترتیں.ہاں! اللہ تعالیٰ نے لا تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ فَمَا عَزَاهَا الله انہیں آسمان کی طرف یہ اشارہ کرنے کے لیے منسوب کیا إلَيْهَا إِلَّا إِشَارَةٌ إلى أَنَّ الْعِلَّةَ الأولى من ہے کہ ان اسباب میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کی تخلیق الْعِلَلِ الَّتِي قَدَّدَ اللهُ تَعَالَى لِخَلْقِ تِلْكَ اور تکوین اور پیدا کرنے کے لیے مقدر فرمائے ہیں ان میں الأَشْيَاء وَتَوَلُّيهَا وَتَكَونِهَا تَأْثِيرات سے پہلی علت آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کی تاثیرات فَلْكِيَّةٌ وَشَمْسِيَّةٌ وَقَمَرِيَّةٌ وَنُجُومِيَّةٌ ہیں اور ان آیات میں اللہ عز وجل نے اس بات کی طرف وَأَشَارَ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذِهِ الآيَاتِ إِلى أَن اشارہ فرمایا ہے کہ زمین عورت کی مانند ہے اور آسمان اس الْأَرْضَ كَامْرَأَةِ وَالسَّمَاء كَبَعْلِهَا، وَلا کے خاوند کی مانند ہے ان میں سے ایک کا کام دوسرے تَتِمُّ فِعْلُ إِحْدَاهُمَا إِلَّا بِالْأُخرى، کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا.پس ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے الحديد : ٢٦ الزمر :
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۹ سورة الاعراف فَزَوْجَهُمَا حِكْمَةٌ مِنْ عِنْدِهِ وَكَانَ الله اپنی حکمت کے تحت جوڑ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے عَلِيمًا حَكِيمًا.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۸۹) والا اور حکمت والا ہے.( ترجمہ از مرتب ) نزول سے مراد عزت وجلال کا اظہار ہوتا ہے.الحام جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۷ ارفروری ۱۹۰۱ صفحہ ۷ ) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیقی پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۰) تقومی ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے.تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالب صادق ہوکر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ( المائدة : ۲۸ ).....ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہرا یک ان میں سے تقومی کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۳۳) تقوی خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا.قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۲ مورخه ۲۳/ جون ۱۸۹۹ءصفحہ ۷ ) تقویٰ ایک تریاق ہے جو اسے استعمال کرتا ہے تمام زہروں سے نجات پاتا ہے مگر تقوی کامل ہونا چاہیے.تقویٰ کی کسی شاخ پر عمل پیرا ہونا ایسا ہے جیسے کسی کو بھوک لگی ہو اور وہ دانہ کھالے.ظاہر ہے کہ اس کا کھانا اور نہ کھانا برابر ہے ایسا ہی پانی کی پیاس ایک قطرہ سے نہیں بجھ سکتی.یہی حال تقویٰ کا ہے.کسی ایک شاخ پر عمل موجب ناز نہیں ہو سکتا.بس تقومی وہی ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا (النحل : ۱۳۹) خدا تعالیٰ کی معیت بتا دیتی ہے کہ یہ متقی ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاعراف اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو.جب تک خوف الہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا.کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ.جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقویٰ اختیار نہیں کرتے.تب وہ لوگ بچالیے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں.ایسے وقت ان کی نافرمانی انہیں ہلاک کر دیتی ہے اور ان کا تقویٰ انہیں بچا لیتا ہے.انسان اپنی چالا کیوں ، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہر گز بچ نہیں سکتا.الحکم جلد نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) یاد رکھو کہ دعا میں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ کی دو قسم ہیں.ایک علم کے متعلق دوسرا عمل کے متعلق علم کے متعلق تو میں نے بیان کر دیا کہ علوم دین نہیں آتے اور حقائق معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز ، روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۰) قف قُلْ اَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَ ادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ.اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آگیا ہے وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کی نہیں اور دینی طور پر بھی وہ بات جو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا ہے اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہوگئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں ان کے نزدیک مسلمان کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہیں ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلمانوں کو ہلاک کریں.....اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں اور اسی غرض کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۱۷۳۱اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آگیا ہے.تمام اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں ہوا ہے.آسمان پر اُٹھ گیا ہے خدا کے ساتھ صدق وفاداری اخلاص محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورة الاعراف الحاکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) زندہ کرے.اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری ، عجب، خود بینی، تکبر، نخوت ، رعونت ، وغیرہ صفات رذیله تو ترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين وغیرہ صفات حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے.توکل ، تفویض وغیرہ سب باتیں کالعدم ہیں اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو.(البدرجلد ۳ نمبر ۱۰مورخه ۸/مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا : مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں.یہ لوگ ابدال ہو جاتے ہیں اور وہ اس دنیا کے نہیں رہتے ان کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہمیت ہوتی ہے...یہ خوب یا درکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لیے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۷ امورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۶ صفحه ۵ و ۷ ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۳) ایک شخص نے سوال کیا کہ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ جلشانہ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہیے؟ فرمایا: ) موٹی بات ہے قرآن شریف میں لکھا ہے : ادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ، اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہیئے.چاہیئے کہ اخلاص ہو ، احسان ہو اور اس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک رب اور حقیقی کارساز ہے.عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے، ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعا ئیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اس کی محبت میں محو ہو جاوے.احکم جلد نمبر ۳۸ مورخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱) يبَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدِ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ واضح ہو کہ قرآن شریف کے رو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں.یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں.اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایت کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۲ سورة الاعراف نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے.ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں.اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کے اغراض اور خشوع اور خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قوی اثر ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طبعی افعال کو بظا ہر جسمانی ہیں مگر ہماری روحانی حالتوں پر ضرور ان کا اثر ہے مثلاً جب ہماری آنکھیں رونا شروع کریں اور گو تکلف سے ہی روویں مگر فی الفوران آنسوؤں کا ایک شعلہ اٹھ کر دل پر جا پڑتا ہے.تب دل بھی آنکھوں کی پیروی کر کے غمگین ہو جاتا ہے.ایسا ہی جب ہم تکلف سے ہنسنا شروع کریں تو دل میں بھی ایک انبساط پیدا ہو جاتا ہے.یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور عاجزی کی حالت پیدا کرتا ہے.اس کے مقابل پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ہم گردن کو اونچی کھینچ کر اور چھاتی کو ابھار کر چلیں تو یہ وضع رفتار ہم میں ایک قسم کا تکبر اور خود بینی پیدا کرتی ہے.تو ان نمونوں سے پورے انکشاف کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ بے شک جسمانی اوضاع کا روحانی حالتوں پراثر ہے.ایسا ہی تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے.مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتے رفتہ رفتہ ان کی شجاعت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ نہایت بزدل کے ہو جاتے ہیں اور ایک خداداد اور قابل تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں.اس کی شہادت خدا کے قانون قدرت سے اس طرح پر بھی ملتی ہے کہ چارپایوں میں سے جس قدر گھاس خور جانور ہیں کوئی بھی ان میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے.پرندوں میں بھی یہی بات مشاہدہ ہوتی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ اخلاق پر غذاؤں کا اثر ہے.ہاں! جو لوگ دن رات گوشت خوری پر زور دیتے ہیں اور نباتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ رکھتے ہیں وہ بھی علم اور انکسار کے خلق میں کم ہو جاتے ہیں اور میانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خلق کے وارث ہوتے ہیں.اسی حکمت کے لحاظ سے خدائے تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے: كُلُوا وَاشْرَبُوا وَ لَا تُسْرِفُوا یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کروتا اس کا اخلاقی حالت پر بداثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو اور جیسا کہ جسمانی افعال اور اعمال کا روح پر اثر پڑتا ہے ایسا ہی بھی روح کا اثر بھی جسم پر جا ے مطابق مسوده
سورة الاعراف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑتا ہے.جس شخص کو کوئی غم پہنچے آخر وہ چشم پر آب ہو جاتا ہے اور جس کو خوشی ہوآخر وہ تقیسم کرتا ہے.جس قدر ہمارا کھانا، پینا، سونا، جاگنا، حرکت کرنا، آرام کرنا، غسل کرنا وغیر ہ افعال طبعیہ ہیں یہ تمام افعال ضروری ہماری روحانی حالت پر اثر کرتے ہیں.ہماری جسمانی بناوٹ کا ہماری انسانیت سے بڑا تعلق ہے.دماغ کے ایک مقام پر چوٹ لگنے سے یکلخت حافظہ جاتا رہتا ہے اور دوسرے مقام پر چوٹ لگنے سے ہوش و حواس رخصت ہوتے ہیں.وباء کی ایک زہریلی ہوا کس قدر جلدی سے جسم میں اثر کر کے پھر دل میں اثر کرتی ہے.اور دیکھتے دیکھتے وہ اندرونی سلسلہ جس کے ساتھ تمام نظام اخلاق کا ہے درہم برہم ہونے لگتا ہے.یہاں تک کہ انسان دیوانہ سا ہو کر چند منٹ میں گذر جاتا ہے.غرض جسمانی صدمات بھی عجیب نظارہ دکھاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ روح اور جسم کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کو کھولنا انسان کا کام نہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۱۹ تا ۳۲۱) مومنوں کو كُلُوا وَاشْرَبُوا کا حکم دیا....خلوا ایک امر ہے جب مومن اس کو امر سمجھ کر بجالا وے تو اس کا ثواب ہوگا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) گوشت دال وغیرہ سب چیزیں جو پاک ہوں بیشک کھاؤ.مگر ایک طرف کی کثرت مت کرو اور اسراف اور زیادہ خوری سے اپنے تئیں بچاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶، ۳۳۷) یہ خدا تعالیٰ کا ان ( عرب کے لوگوں.ناقل ) پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ: كُلُوا وَاشْرَبُوا وَ لَا تُسْرِفُوا یعنی بے شک کھاؤ پیو مگر کھانے پینے میں بے جا طور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۲) قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَا وَ اَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تعلمون خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دیئے.اب میں دھوئی سے کہتا ہوں کہ یہ عمدہ تعلیم بھی انجیل میں موجود نہیں کہ تمام عضووں کے گناہوں کا ذکر کیا ہو اور عزیمت اور خطرات میں فرق کیا ہو اور ممکن نہ تھا کہ انجیل میں یتعلیم ہوسکتی کیونکہ یتعلیم نہایت لطیف اور حکیمانہ اصولوں پر مبنی ہے اور انجیل تو ایک موٹے خیالات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة الاعراف کا مجموعہ ہے جس سے اب ہر یک محقق نفرت کرتا جاتا ہے.( نور القرآن نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۸) يبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُضُونَ عَلَيْكُمُ ايْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.وَلَاهُمْ متقی بننے کے واسطے یہ ضروی ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق ، ریا، عجب، حقارت ، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے، لوگوں سے مروت ، خوش خلقی ، ہمدردی سے پیش آئے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جولوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں ( یعنی اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں ) اور ایسے ہی شخصوں کے لیے لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ہے اور اس کے بعد ان کو کیا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لیے تیار رہو ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی بچہ اس کا چھینے تو وہ غضب سے (البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۸) جھپٹتی ہے.فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِأَيْتِهِ أُولَبِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُمْ لا مِنَ الكِتب حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَ شَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَفِرِينَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَبَ بايته (الانعام : ۲۲) یعنی بڑے کا فرد وہی ہیں ایک خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الاعراف پر افترا کرنے والا دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا.پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افتر کی کیا ہے اس صورت میں نہ صرف میں کا فر بلکہ بڑا کا فر ہوا اور اگر میں مفتری نہیں تو بلا شبہ وہ کفر اس پر پڑے گا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۷ حاشیه ) ظالم سے مراد اس جگہ کا فر ہے اس پر قرینہ یہ ہے کہ مفتری کے مقابل پر مکذب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایا ہے اور بلاشبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کا فرٹھہراتا ہے اس لیے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کا فر بنتا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۷ حاشیه ) اِنَّ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يدخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَ كَذَلِكَ نَجْزِى المُجْرِمِينَ ایک اور طرح آنا جانا روحوں کا قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بدکاروں کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور پھر وہ زمین کی طرف رد کیے جاتے ہیں.قال اللہ تعالی وَلَا تُفَتَّحُ لَهُمْ ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۰۸ حاشیه ) ابْوَابُ السَّمَاء - تمام مومنوں اور رسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتا ہے اور کافر کا رفع روحانی نہیں ہوتا چنانچہ آیت : لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ کا اسی طرف اشارہ ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۳۷ حاشیه ) کافر کے لیے حکم ہے کہ لا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ یعنی ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے یعنی ان کا رفع نہیں ہو گا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۵) یہودیوں کا ہرگز یہ اعتقاد نہیں کہ جو شخص مع جسم عصری آسمان پر نہ جاوے وہ مومن نہیں بلکہ وہ تو آج تک اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ جس کا رفع روحانی نہ ہو اور اس کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں وہ مومن نہیں ہوتا.جیسا کہ قرآن شریف بھی فرماتا ہے: وَلَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ یعنی کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة الاعراف یہ خوب یادر ہے کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر روح بلا جسم ہر گز نہیں مانتے ، ہم مانتے ہیں کہ وہ وہاں جسم ہی کے ساتھ ہیں.ہاں! فرق اتنا ہے کہ یہ لوگ جسم عنصری کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ جسم وہی جسم ہے جو دوسرے رسولوں کو دیا گیا ہے.دوزخیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ یعنی کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاویں گے اور مومنوں کے لیے فرماتا ہے : مُفتَعَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ ( ص : ۵۱).اب ان آیات میں کھم کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے.تو کیا یہ سب کے سب پھر اس جسم عصری کے ساتھ جاتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں، جسم تو ہوتے ہیں مگر وہ وہ جسم ہیں جو مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۸۹) مسلمانوں اور یہود کا متفقہ اور مسلم اعتقاد اس پر ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا بعد وفات رفع روحانی ہوا کرتا ہے اور یہی قابل بڑائی بات ہے.رفع جسمانی کے یہ نہ قائل ہیں اور نہ کوئی فضیلت اس میں مدنظر ہے.چنانچہ قرآن شریف بھی اسی اصول کو یوں بیان فرماتا ہے کہ مُفَتَحَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ (ص: ۵۱ ) - یعنی جو خدا کے نزدیک متقی اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں خدان کے لیے آسمانی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کا رفع روحانی بعد الموت کیا جاتا ہے اور ان کے مقابل میں جو لوگ بدکار اور خدا سے دور ہوتے ہیں اور ان کو خدا سے کوئی تعلق صدق و اخلاص نہیں ہوتا ان کے واسطے آسمانی دروازے نہیں کھولے جاتے جیسا کہ فرمایا : لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمْ الْخِيَاطِ - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۲) وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ یعنی کفار جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہ گذر جائے.مفسرین اس کا مطلب ظاہری طور پر لیتے ہیں مگر میں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طلب گار کو خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے شتر بے مہار کو مجاہدات سے ایساد بلا کر دینا چاہیے کہ وہ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائے جب تک نفس دنیوی لذائذ وشہوانی حظوظ سے موٹا ہوا ہوا ہے تب تک یہ شریعت کے پاک راہ سے گذر کر بہشت میں داخل نہیں ہوسکتا.دنیوی لذات پر موت وارد کرو اور خوف وخشیت الہی سے دبلے ہو جاؤ تب تم گذر سکو گے اور یہی گذر نا تمہیں جنت میں پہنچا کر نجات اخروی کا موجب ہوگا.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳، صفحه ۱۴) شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہے ایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائے عرش ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۷ سورة الاعراف دوسری شیطان کی اور وہ بہت نیچی ہے اور اس کا انتہاز مین کا پاتال ہے غرض یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکز خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت : ارجعي إلى ربك (الفجر : ۲۹) اس کی شاہد ہے اور کا فرنیچے کی طرف جو شیطان کی طرف ہے جاتا ہے جیسا کہ آیت: وَلَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاو اس کی گواہ ہے خدا کی طرف جانے کا نام رفع ہے اور شیطان کی طرف جانے کا نام لعنت ہے.ان دونوں لفظوں میں تقابل اضداد ہے.نادان لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھے.یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر رفع کے معنی مع جسم اُٹھانا ہے تو اس کے مقابل کا لفظ کیا ہوا جیسا کہ رفع روحانی کے مقابل پر لعنت ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ا صفحہ ۱۰۹،۱۰۸) ج وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلْ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهرُ وَقَالُوا الْحَمْدُ للهِ الَّذِى هَدينَا لِهذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَن هَدينَا اللهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بِالْحَقِّ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ.یہ تو شیعوں کا مذہب ہے کہ صحابہ کے درمیان آپس میں ایسی سخت دشمنی تھی ، یہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ آپ اس کی تردید میں فرماتا ہے کہ : نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِل - برادریوں کے درمیان آپس میں دشمنیاں ہوا کرتی ہیں.مگر شادی ، مرگ کے وقت وہ سب ایک ہو جاتے ہیں.اختیار میں خونی دشمنی کبھی نہیں ہوتی.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۷ ار مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۸) اس طرح آزمائش کرو کہ خدا اور سول کی راہ میں کس نے صدق دکھلایا، آپس کی رنجشیں خانگی امور ہوتے ہیں ان کا اثر ان (صحابہ) پر نہیں پڑسکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَ نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلَ إِخْوَانًا عَلى سُرُرٍ تَقْبِلِينَ ( الحجر : ۴۸).یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آپس میں رنجشیں ہوں گی لیکن غلی ان کے سینوں میں سے بھینچ لیویں گے ، وہ بھائی ہوں گے تختوں پر بیٹھنے والے.اب شیعوں سے پوچھو کہ اس وقت زمانہ نبوی میں تو کوئی رنجش نہ تھی اور اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آپس میں صلح کروا دیتے.آخر یہ بات آئندہ زمانہ میں ہونے والی تھی ورنہ اس طرح پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آتا ہے کہ انہوں نے صلح کی کوشش تو کی مگر کامیاب نہ ہوئے.یہ بات شیعہ پر بڑی دلیل ہے وہ صرف دو آدمیوں کا نام لیتے ہیں جو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد ہوئے ہم کہتے کہ آیت تو پیغمبر خدا پر
۲۰۸ سورة الاعراف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اتری تھی نہ علی پر اور نہ کسی اور پر.اگر کہو کہ اس وقت ہی خالی تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ ! صحابہ ایسے سخت دل تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار کہا اور سمجھایا مگر کسی نے آپ کا کہنا نہ مانا.یہ کیونکر ہوسکتا ہے.یہ تو بڑی بے ادبی ہے.اس کا پتہ لگتا ہے کہ یہ بعد کی خبر ہے مگر خدا کے سامنے یہ کوئی شے نہیں اسی لیے فرماتا ہے کہ تم اس پر خیال نہ کرو یہ بشریت کے اختلاف ہیں ہم ان کو بھائی بھائی بنا دیویں گے.خدا تعالیٰ ہی نے یہ پیشگوئی کی کہ ایسا ہو گا بعض آپس میں لڑیں گے.(البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۵) وَقَدْ جَرَتْ سُنّتُه أَنَّهُ يَقْضِى اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ صالحین کے درمیان ایسے بَيْنَ الصَّالِحِينَ عَلى طَرِيقٍ لَّا يَقْضِی طریق پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ فاسقوں کے معاملات کا اس طریق عَلَيْهِ قَضَايَا الْفَاسِقِينَ فَإِنَّهُمْ پر فیصلہ نہیں فرماتا.کیونکہ وہ (صحابہ.ناقل ) سب کے كُلُّهُمْ أَحِبَّاؤُه وَكُلُّهُمْ مِنَ الْمُجِبْيْنَ سب اس کے دوست.اس کے محب اور اس کے مقبول ہیں اور الْمَقْبُوْلِينَ، وَلِأَجْلِ ذلِكَ أَخْبَرَنَا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے جھگڑوں کے انجام سے رَبُّنَا عَنْ مَآلِ نِزَاعِهِمْ وَقَالَ وَهُوَ اطلاع دی اور اس نے جو اصدق الصادقین ہے فرمایا: وَ نَزَعُنا أَصْدَقُ الْقَائِلِينَ نَزَعْنَا مَا فِي مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلْ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقْبِلِينَ اور صُدُورِهِمْ مِنْ غِلِ اِخْوَانًا عَلى سُرُرٍ ہم ان کے دلوں سے جو بھی کیئے ہیں نکال باہر کریں گے.متَقْبِلِينَ هَذَا هُوَ الْأَصْلُ الصَّحِيحُ بھائی بھائی بنتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے اور یہی صحیح اصل اور حق صریح ہے.(ترجمہ از مرتب ) والحق الطريح وقف ( سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۴۷، ۳۴۸) اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِى لَوْ لا أن هدانا الله سب تعریفیں خدا کو ہیں جس نے جنت کی طرف ہم کو آپ راہبری کی اور ہم کیا چیز تھے کہ خود بخود منزل مقصود تک پہنچ جاتے اگر خدا ر ہبری برائین احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۶۹ حاشیہ نمبر ۱۱) الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدْنَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِى لَوْ لَا أَن هَذينا الله - یعنی سب تعریف اس خدا کو جس نے ہمیں بہشت میں داخل ہونے کے لیے آپ ہی سب توفیق بخشی ، آپ ہی ایمان بخشا، آپ ہی نیک نہ کرتا.عمل کرائے ، آپ بھی ہمارے دلوں کو پاک کیا اگر وہ خود مدد نہ کرتا تو ہم آپ تو کچھ بھی چیز نہ تھے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۱۱، ۲۱۲) الحجر ۴۸:
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الاعراف سب حمدیں اس خدا وند تعالیٰ کے لیے جس نے ہم کو دار السلام کی ہدایت کی اور ہم کیا چیز تھے جو خود بخود یہاں تک پہنچتے اگر وہ ہدایت نہ دیتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۵) وَ لَقَدْ جِثْنَهُمْ بِكِتَب فَضَّلْنَهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وہ ( قرآن کریم ) مفصل کتاب ہے....یہ عظمتیں اور خوبیاں کہ جو قرآن کریم کی نسبت بیان فرمائی گئیں احادیث کی نسبت ایسی تعریفوں کا کہاں ذکر ہے؟ پس میرا مذہب فرقہ ضالہ نیچریہ کی طرح یہ نہیں ہے کہ میں عقل کو مقدم رکھ کر قال اللہ اور قال الرسول پر کچھ نکتہ چینی کروں.ایسے نکتہ چینی کرنے والوں کوملحد اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں.بلکہ میں جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم کو پہنچایا ہے اس سب پر ایمان لاتا ہوں.صرف عاجزی اور انکسار کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ قرآن کریم ہر یک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے اور احادیث کی صحت و عدم صحت پر کھنے کے لیے وہ محک ہے اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت کے لیے مامور کیا ہے تا میں جو ٹھیک ٹھیک منشا قرآن کریم کا ہے لوگوں پر ظاہر کروں.الحق مباحثہ لدھیانه، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰ حاشیه ) اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اليْلَ النَّهَارِ يَطْلُبُهُ حَثِيئًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ قف بِأَمرِه أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَرَكَ اللهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ.(۵۵) قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں جو وید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے ان کا نام فرشتے بھی ہے اور وہ یہ ہیں ؛ اکاش جس کا نام اندر بھی ہے.سورج دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں.چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں.دھرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں.یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں خدا کی چار صفتوں کو جو اس کے جبروت اور عظمت کا اتم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹھارہے ہیں یعنی عالم پر یہ ظاہر کر رہے ہیں تصریح کی حاجت نہیں.اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں ؟ (۱) ذرات اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں.۲۱ (۲) اکاش، سورج، چاند، زمین کی قو تیں جو کام کر رہی ہیں.سورة الاعراف (۳) ان سب پر اعلی طاقتیں جو جبرائیل و میکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جم لکھا ہے مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں.یہ وہی صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا گیا ہے.اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب ویددان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کر رہے ہیں.غرض وید کے یہ چار دیوتے یعنی اکاش، سورج، چاند، دھرتی خدا کے عرش کو جو صفت ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالک یوم الدین ہے اٹھا ر ہے ہیں اور فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے.پس دنیا کا ذرہ ذرہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اس کی آواز سنتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اگر ذرہ ذرہ اُس کی آواز سنتا نہیں تو خدا نے زمین آسمان کے اجرام کو کس طرح پیدا کر لیا اور یہ استعارہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس طرح خدا کے کلام میں بہت سے استعارات ہیں جو نہایت لطیف علم اور حکمت پر مشتمل ہیں.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۵ تا ۴۵۷) واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ ( سورۃ فاتحہ.ناقل ) میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر اتم قرار دیا ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مترتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندر رکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور در حقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام درحق لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانہ کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اور اصولی طور پر کوئی فعل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں.پس یہ چار صفتیں خدا تعالی کی پوری صورت دکھلاتی ہیں.سو در حقیقت استو اعلی العرش کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کر کے ظہور میں آگئیں تو خدا تعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر جلی ہوگئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے.ایک طرف شاہی ضرورتوں کے لئے طرح طرح کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۱ سورة الاعراف سامان طیار ہونے کا حکم ہوتا ہے اور وہ فی الفور ہو جاتے ہیں اور وہی حقیقت ربوبیت عامہ ہیں.دوسری طرف خسروانہ فیض سے بغیر کسی عمل کے حاضرین کو جود و سخاوت سے مالا مال کیا جاتا ہے.تیسری طرف جو لوگ خدمت کر رہے ہیں ان کو مناسب چیزوں سے اپنی خدمات کے انجام کے لئے مدد دی جاتی ہے.چوتھی طرف جزا سزا کا دروازہ کھولا جاتا ہے کسی کی گردن ماری جاتی ہے اور کوئی آزاد کیا جاتا ہے.یہ چار صفتیں تخت نشینی کے ہمیشہ لازم حال ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ کا ان ہر چہار صفتوں کو دنیا پر نافذ کرنا گویا تخت پر بیٹھنا ہے جس کا نام عرش ہے.اب رہی یہ بات کہ اس کے کیا معنے ہیں کہ اس تخت کو چار فرشتے اُٹھا رہے ہیں.پس اس کا یہی جواب ہے کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے موکل ہیں جو دنیا پر یہ صفات خدا تعالی کی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت چار ستارے ہیں جو چار رب النوع کہلاتے ہیں جن کو دید میں دیوتا کے نام سے پکارا گیا ہے.پس وہ ان چاروں صفتوں کی حقیقت کو دنیا میں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھارہے ہیں.بت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہر ہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں کو حاصل ہیں.اسی وجہ سے وید میں جابجا ان کی استت اور مہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں.پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کر رہے ہیں اور عرش سے مراد لوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بیان کر دیا ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۵ تا ۴۵۸ حاشیه ) قرآن شریف میں ایک طرف تو یہ بیان کیا کہ خدا کا اپنی مخلوق سے شدید تعلق ہے اور وہ ہر ایک جان کی جان ہے اور ہر ایک ہستی اُسی کے سہارے سے ہے.پھر دوسری طرف اس غلطی سے محفوظ رکھنے کے لئے کہ تا اس کے تعلق سے جو انسان کے ساتھ ہے کوئی شخص انسان کو اُس کا عین ہی نہ سمجھ بیٹھے جیسا کہ ویدانت والے سمجھتے ہیں.یہ بھی فرما دیا کہ وہ سب سے برتر اور تمام مخلوقات سے وراء الوراء مقام پر ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں عرش کہتے ہیں اور عرش کوئی مخلوق چیز نہیں ہے صرف وراء الوراء مرتبہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایسا تخت ہے جس پر خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح بیٹھا ہوا تصور کیا جائے بلکہ جو مخلوق سے بہت دور اور تنزہ اور تقدس کا مقام ہے اس کو عرش کہتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سب کے ساتھ خالقیت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة الاعراف اور مخلوقیت کا تعلق قائم کر کے پھر عرش پر قائم ہو گیا یعنی تمام تعلقات کے بعد الگ کا الگ رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا.غرض خدا کا انسان کے ساتھ ہونا اور ہر ایک چیز پر محیط ہونا یہ خدا کی تشبیہی صفت ہے.اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا ہے کہ تا وہ انسان پر اپنا قرب ثابت کرے اور خدا کا تمام مخلوقات سے وراء الوراء ہونا اور سب سے برتر اور اعلیٰ اور دُور تر ہونا اور اس تنزہ اور تقدس کے مقام پر ہونا جو مخلوقیت سے دُور ہے جو عرش کے نام سے پکارا جاتا ہے اُس صفت کا نام تنزیہی صفت ہے اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا تاوہ اس سے اپنی توحید اور ا پنا ؤ حدہ لا شریک ہونا اور مخلوق کی صفات سے اپنی ذات کا منزہ ہونا ثابت کرے.دوسری قوموں نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت یا تو تنزیہی صفت اختیار کی ہے یعنی نرگن کے نام سے پکارا ہے اور یا اس کو سرگن مان کر ایسی تشبیہ قرار دی ہے کہ گویا وہ عین مخلوقات ہے اور ان دونوں صفات کو جمع نہیں کیا.مگر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں صفات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دکھلایا ہے اور یہی کمال تو حید ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۹٬۹۸) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر عرش پر قرار پکڑ ا یعنی اوّل اس نے اس دُنیا کے تمام اجرام سماوی اور ارضی کو پیدا کیا اور چھ دن میں سب کو بنایا ( چھ دن سے مراد ایک بڑا زمانہ ہے ) اور پھر عرش پر قرار پکڑ ا یعنی تنزہ کے مقام کو اختیار کیا.یادر ہے کہ استوا کے لفظ کا جب علی صلہ آتا ہے تو اُس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایک چیز کا اس مکان پر قرار پکڑ نا جو اس کے مناسب حال ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے.وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِی یعنی نوح کی کشتی نے طوفان کے بعد ایسی جگہ پر قرار پکڑا جو اُس کے مناسب حال تھا یعنی اُس جگہ زمین پر اترنے کے لئے بہت آسانی تھی سو اسی لحاظ سے خدا تعالی کے لئے استوا کا لفظ اختیار کیا یعنی خدا نے ایسی وراء الوراء جگہ پر قرار پکڑا جو اس کی تنزہ اور تقدس کے مناسب حال تھی چونکہ تلڑہ اور تقدس کا مقام ماسوی اللہ کے فتا کو چاہتا ہے سو یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جیسے خدا بعض اوقات اپنی خالقیت کے اسم کے تقاضا سے مخلوقات کو پیدا کرتا ہے پھر دوسری مرتبہ اپنی تنڑہ اور وحدت ذاتی کے تقاضا سے اُن سب کا نقش ہستی مٹادیتا ہے.غرض عرش پر قرار پکڑ نا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ خدا اور مخلوق کو باہم مخلوط سمجھا جائے.پس کہاں سے معلوم ہوا کہ خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۳ سورة الاعراف عرش پر یعنی اُس وراء الوراء مقام پر مقید کی طرح ہے اور محدود ہے.قرآن شریف میں تو جابجا بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۹) مضمون پڑھنے والے نے قرآن شریف پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ خدا عرش پر کرسی نشین ہے.اس لغو اعتراض کا جواب پہلے ہم مبسوط اور مفصل طور پر لکھ آئے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عاجز انسانوں کو اپنی کامل معرفت کا علم دینے کے لئے اپنی صفات کو قرآن شریف میں دورنگ پر ظاہر کیا ہے.(۱) اول اس طور پر بیان کیا ہے جس سے اُس کی صفات استعارہ کے طریق پر مخلوق کی صفات کی ہم شکل ہیں جیسا کہ وہ کریم رحیم ہے حسن ہے اور وہ غضب بھی رکھتا ہے اور اُس میں محبت بھی ہے اور اُس کے ہاتھ بھی ہیں اور اُس کی آنکھیں بھی ہیں اور اس کی ساقین بھی ہیں اور اُس کے کان بھی ہیں اور نیز یہ کہ قدیم سے سلسلہ مخلوق کا اُس کے ساتھ چلا آیا ہے مگر کسی چیز کو اس کے مقابل پر قدامت شخصی نہیں.ہاں ! قدامت نوعی ہے اور وہ بھی خدا کی صفت خلق کے لئے ایک لازمی امر نہیں کیونکہ جیسا کہ خلق یعنی پیدا کرنا اُس کی صفات میں سے ہے ایسا ہی کبھی اور کسی زمانہ میں تجلی وحدت اور تجرد اس کی صفات میں سے ہے اور کسی صفت کے لئے تعطل دائمی جائز نہیں ہاں تعطل میعادی جائز ہے.غرض چونکہ خدا نے انسان کو پیدا کر کے اپنی اُن تشیبی صفات کو اس پر ظاہر کیا جن صفات کے ساتھ انسان بظاہر شراکت رکھتا ہے جیسے خالق ہونا کیونکہ انسان بھی اپنی حد تک بعض چیزوں کا خالق یعنی موجد ہے.ایسا ہی انسان کو کریم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک کرم کی صفت بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور اسی طرح انسان کو رحیم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک قوت رحم بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور قوت غضب بھی اُس میں ہے اور ایسا ہی آنکھ ، کان وغیرہ سب انسان میں موجود ہیں پس ان تشبیہی صفات سے کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ گویا انسان ان صفات میں خدا سے مشابہ ہے اور خدا انسان سے مشابہ ہے اس لئے خدا نے ان صفات کے مقابل پر قرآن شریف میں اپنی تنزیہی صفات کا بھی ذکر کر دیا یعنی ایسی صفات کا ذکر کیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کو اپنی ذات اور صفات میں کچھ بھی شراکت انسان کے ساتھ نہیں اور نہ انسان کو اس کے ساتھ کچھ مشارکت ہے.نہ اُس کا خلق یعنی پیدا کرنا انسان کے خلق کی طرح ہے نہ اُس کا رحم انسان کے رحم کی طرح ہے نہ اُس کا غضب انسان کے غضب کی طرح ہے نہ اُس کی محبت انسان کی محبت کی طرح ہے نہ وہ انسان کی طرح کسی مکان کا محتاج ہے........
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۴ سورة الاعراف فرماتا ہے: اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ - ( ترجمہ ) تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا یعنی اُس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کر کے اور نشیبی صفات کا ظہور فرما کر پھر تنزیہی صفات کے ثابت کرنے کے لئے مقام تنزہ اور تجرد کی طرف رُخ کیا جو وراء الوراء مقام اور مخلوق کے قرب وجوار سے دور تر ہے وہی بلند تر مقام ہے جس کو عرش کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے تو تمام مخلوق حيّز عدم میں تھی اور خدا تعالی وراء الوراء مقام میں اپنی تجلیات ظاہر کر رہا تھا جس کا نام عرش ہے یعنی وہ مقام جو ہر ایک عالم سے بلند تر اور برتر ہے اور اسی کا ظہور اور پر تو تھا اور اُس کی ذات کے سوا کچھ نہ تھا.پھر اُس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا اور جب مخلوق ظاہر ہوئی تو پھر اُس نے اپنے تئیں مخفی کر لیا اور چاہا کہ وہ ان مصنوعات کے ذریعہ سے شناخت کیا جائے.مگر یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ دائمی طور پر تعطل صفات الہیہ کبھی نہیں ہوتا اور بجز خدا کے کسی چیز کے لئے قدامت شخصی تو نہیں مگر قدامت نوعی ضروری ہے اور خدا کی کسی صفت کے لئے تعطل دائمی تو نہیں مگر تعطل میعادی کا ہونا ضروری ہے اور چونکہ صفت ایجاد اور صفت افتاء باہم متضاد ہیں اس لئے جب افتاء کی صفت کا ایک کامل دور آجاتا ہے تو صفت ایجاد ایک میعاد تک معطل رہتی ہے.غرض ابتدا میں خدا کی صفتِ وحدت کا دور تھا اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس دور نے کتنی دفعہ ظہور کیا بلکہ یہ دور قدیم اور غیر متناہی ہے بہر حال صفت وحدت کے دور کو دوسری صفات پر تقدم زمانی ہے پس اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں خدا اکیلا تھا اور اُس کے ساتھ کوئی نہ تھا اور پھر خدا نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا اور اسی تعلق کی وجہ سے اُس نے اپنے یہ اسماء ظاہر کئے کہ وہ کریم اور رحیم ہے اور غفور اور تو بہ قبول کرنے والا ہے مگر جو شخص گناہ پر اصرار کرے اور باز نہ آوے اُس کو وہ بے سزا نہیں چھوڑتا اور اُس نے اپنا یہ اسم بھی ظاہر کیا کہ وہ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور اُس کا غضب صرف انہیں لوگوں پر بھڑکتا ہے جو ظلم اور شرارت اور معصیت سے باز نہیں آتے اور اُس نے اپنی یہ صفات اپنی کتاب میں بیان فرمائیں کہ وہ دیکھتا ہے اور سنتا ہے اور محبت کرتا ہے اور غضب کرتا ہے اور اپنے ہاتھ اور پیر اور آنکھ اور کان کا بھی ذکر کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اُس کا دیکھنا انسان کے دیکھنے کی طرح نہیں اور اُس کا سننا انسان کے سننے کی طرح نہیں اور اس کا محبت کرنا انسان کے محبت کرنے کی طرح نہیں اور اُس کا غضب انسان کے غضب کی طرح نہیں اور اُس کے ہاتھ ، پیر اور آنکھ ، کان مخلوق کے اعضاء کی طرح نہیں بلکہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورة الاعراف وہ ہر ایک بات میں بے مثل ہے اور بار بارصاف فرما دیا کہ یہ اُس کی تمام صفات اُس کی ذات کے مناسب حال ہیں انسان کی صفات کی مانند نہیں اور اُس کی آنکھ وغیرہ جسم اور جسمانی نہیں اور اُس کی کسی صفت کو انسان کی کسی صفت سے مشابہت نہیں مثلاً انسان اپنے غضب کے وقت پہلے غضب کی تکلیف آپ اُٹھاتا ہے اور جوش و غضب میں فوراً اُس کا سرور دور ہو کر ایک جلن سی اُس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایک مادہ سوداوی اُس کے دماغ میں چڑھ جاتا ہے اور ایک تغیر اس کی حالت میں پیدا ہو جاتا ہے مگر خدا ان تغییرات سے پاک ہے اور اُس کا غضب ان معنوں سے ہے کہ وہ اس شخص سے جو شرارت سے باز نہ آوے اپنا سایہ حمایت اٹھا لیتا ہے اور اپنے قدیم قانون قدرت کے موافق اُس سے ایسا معاملہ کرتا ہے جیسا کہ ایک غضبناک انسان کرتا ہے لہذا استعارہ کے رنگ میں وہ معاملہ اُس کا غضب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ایسا ہی اُس کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں کیونکہ انسان غلبہ محبت میں بھی دکھ اٹھاتا ہے اور محبوب کے علیحدہ اور جدا ہونے سے اُس کی جان کو تکلیف پہنچتی ہے مگر خدا ان تکالیف سے پاک ہے ایسا ہی اُس کا قرب بھی انسان کے قرب کی طرح نہیں کیونکہ انسان جب ایک کے قریب ہوتا ہے تو اپنے پہلے مرکز کو چھوڑ دیتا ہے مگر وہ باوجود قریب ہونے کے دور ہوتا ہے اور باوجود دور ہونے کے قریب ہوتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت انسانی صفات سے الگ ہے اور صرف اشتراک لفظی ہے اس سے زیادہ نہیں اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَى (الشوری:۱۲) یعنی کوئی چیز اپنی ذات یا صفات میں خدا تعالی کے برابر نہیں.اب ناظرین با انصاف پر ظاہر ہو کہ اسی مطلب کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمُوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ یعنی خدا وہ ہے جس نے سب کچھ چھ دن میں پیدا کر کے پھر اپنے مقام وراء الوراء کی طرف توجہ کی اور عرش پر قرار پکڑا.ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ عرش سے مراد قرآن شریف میں وہ مقام ہے جو شیبہی مرتبہ سے بالا تر اور ہر ایک عالم سے برتر اور نہاں در نہاں اور نقدس اور تنزہ کا مقام ہے وہ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ پتھر یا اینٹ یا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو اور خدا اُس پر بیٹھا ہوا ہے اسی لئے عرش کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ جیسا کہ یہ فرماتا ہے کہ بھی وہ مومن کے دل پر اپنی تجلی کرتا ہے.ایسا ہی وہ فرماتا ہے کہ عرش پر اُس کی تجلی ہوتی ہے اور صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز کو میں نے اٹھایا ہوا ہے یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی چیز نے مجھے بھی اُٹھایا ہوا ہے.اور عرش جو ہر ایک عالم سے برتر مقام ہے وہ اُس کی تنزیہی صفت کا مظہر ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۶ سورة الاعراف ہیں ؟ ایک صفت تشیبی ، دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیبی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے تشبیبی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ ، محبت ، غضب و غیر و صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لیس کمثلہ کہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الرعد:۳) کہہ دیا جیسا کہ سورہ رعد جز ونمبر ۱۱ میں بھی یہ آیت ہے اللهُ الَّذِى رَفَعَ السَّبُوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الرعد :٣) ( ترجمہ ) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کے رُو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر یا قرار نہ تھا.اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اُس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور نقلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے اور پھر سورۃ طہر جز ونمبر ۱۶ میں یہ آیت ہے؟ الرحمن عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى (ظه : ٢) ( ترجمہ ) خدا رحمن ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا اس قرار پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر چہ اُس نے انسان کو پیدا کر کے بہت سا قرب اپنا اُس کو د یا مگر یہ تمام تجلیات مختص الزمان ہیں یعنی تمام نشیبی تجلیات اُس کی کسی خاص وقت میں ہیں جو پہلے نہیں تھیں مگر از لی طور پر قرارگاہ خدا تعالیٰ کی عرش ہے جو تنزیہ کا مقام ہے کیونکہ جو فانی چیزوں سے تعلق کر کے تشبیہ کا مقام پیدا ہوتا ہے وہ خدا کی قرارگاہ نہیں کہلا سکتا وجہ یہ کہ وہ معرض زوال میں ہے اور ہر ایک وقت میں زوال اُس کے سر پر ہے بلکہ خدا کی قرار گاہ وہ مقام ہے جو فنا اور زوال سے پاک ہے پس وہ مقام عرش ہے.اس جگہ ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا ئیں گے جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اُس کے عرش کو اٹھا وے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سن چکے ہو کہ عرش کوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۷ سورة الاعراف جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں.ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیوں کر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اس سے ایک منظمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اُس کی صفت تنزہ اُس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اُس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے.جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اُس کو دریافت کر سکے تب اُس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دُنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے نقاضا سے ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اُس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے (۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اُس نے بغیر پاداش اعمال بیشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے(۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر اُن کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۴) چوتھی صفت ملِكِ يَوْمِ الدین ہے یہ بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اُس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو جائیں چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۹) اس آیت سے مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی تشبیہی صفات کا اظہار فرما کر پھر اس مقام کی طرف توجہ کی جو بے مثل و مانند ہونے کا مقام ہے جس کو زبان شرع میں عرش کہتے ہیں جو تمام عالموں سے برتر اور وہم وخیال سے بلند تر ہے اور عرش کوئی مخلوق چیز نہیں ہے بلکہ محض وراء الوراء مقام کا نام عرش ہے جس سے مخلوق کو کوئی چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۶ حاشیه ) گے.اشتراک نہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ سورة الاعراف خدا تعالیٰ نے تمام اجرام سماوی و ارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے اور یہ ایسا نہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی چارصفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ لگتا یعنی ربوبیت ، رحمائیت ، رحیمیت، مالک یوم الجزاء ہونا.سو یہ چاروں صفات استعارہ کے رنگ میں چار فرشتے خدا کی کلام میں قرار دیئے گئے ہیں جو اس کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی اس وراء الوراء مقام میں جو خدا ہے اس مخفی مقام سے اس کو دکھلا رہے ہیں ورنہ خدا کی شناخت کے لئے کوئی ذریعہ نہ تھا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹ حاشیه ) عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے آتا ہے.کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے.خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں.خدا تعالیٰ نے یونانیوں کی محدد کی طرح اپنے عرش کو قرار نہیں دیا اور نہ اس کو محدود قرار دیا.ہاں! اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ ایک طبقہ قرار دیا ہے جس سے باعتبار اس کی کیفیت اور کمیت کے اور کوئی اعلیٰ طبقہ نہیں ہے اور یہ امر ایک مخلوق اور موجود کے لیے ممتنع اور محال نہیں ہو سکتا.بلکہ نہایت قرین قیاس ہے کہ جو طبقہ عرش اللہ کہلاتا ہے وہ اپنی وسعتوں میں خدائے غیر محدود کے مناسب حال اور غیر محدود ہو.(استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۶، ۱۱۷) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۹،۱۴۸ حاشیه در حاشیه ) وَحَقِيقَةُ الْعَرْشِ وَاسْتوَاءُ اللہ اور عرش کی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کا اس پر مستوی ہونا عَلَيْهِ سِر عَظِيمٌ مِنْ أَسْرَارِ اللہ تعالی الہی اسرار میں سے ایک بہت بڑا سر ہے اور ایک بلیغ وَحِكْمَةٌ بَالِغَةٌ وَمَعْلَى رُوْحَانِي وَسُمي حکمت اور روحانی معنی پر مشتمل ہے اور اس کا نام عرش اس عَرْشًا لِتَفْهِيمِ عُقُوْلِ هَذَا الْعَالَمِ لیے رکھا گیا ہے.تا اس جہان کے اہل عقل کو اس کا مفہوم وَلِتَقْرِيبِ الْأَمْرِ إِلَى اسْتِعْدَادَاتِهِم سمجھایا جائے اور اس بات کا سمجھنا ان کی استعدادوں کے وَهُوَ وَاسِطَةٌ فِي وُصُوْلِ الْفَيْضِ الْإِلهِي قریب کر دیا جائے اور وہ (عرش) الہی فیض اور اللہ وَالتَّجَلِي الرَّحْمَانِي مِنْ حَضْرَةِ الْحَقِّ إِلَى تعالیٰ کی رحمانی بجلی کو ملائکہ تک پہنچانے میں واسطہ ہے اور الْمَلَائِكَةِ وَمِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى الرُّسُلِ اسی طرح ملائکہ سے رسولوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے.(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۹) (ترجمه از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة الاعراف ہم لوگ جو خدا تعالیٰ کو رب العرش کہتے ہیں تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اور جسم ہے اور عرش کا محتاج ہے بلکہ عرش سے مراد وہ مقدس بلندی کی جگہ ہے جو اس جہان اور آنے والے جہان سے برابر نسبت رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو عرش پر کہنا درحقیقت ان معنوں سے مترادف ہے کہ وہ مالک الکونین ہے اور جیسا کہ ایک شخص اونچی جگہ بیٹھ کر یا کسی نہایت اونچے محل پر چڑھ کر یمین و یسار نظر رکھتا ہے.ایسا ہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ بلند سے بلند تخت پر تسلیم کیا گیا ہے جس کی نظر سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں نہ اس عالم کی اور نہ اس دوسرے عالم کی.ہاں ! اس مقام کو عام سمجھوں کے لئے اوپر کی طرف بیان کیا جاتا ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ حقیقت میں سب سے اوپر ہے اور ہر یک چیز اس کے پیروں پر گری ہوئی ہے تو اوپر کی طرف سے اس کی ذات کو مناسبت ہے مگر اوپر کی طرف وہی ہے جس کے نیچے دونوں عالم واقع ہیں اور وہ ایک انتہائی نقطہ کی طرح ہے جس کے نیچے سے دو عظیم الشان عالم کی دو شاخیں نکلتی ہیں اور ہر ایک شاخ ہزار ہا عالم پر مشتمل ہے جن کا علم بجز اس ذات کے کسی کو نہیں جو اس نقطہ انتہائی پر مستوی ہے جس کا نام عرش ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ بلندی جو اوپر کی سمت میں اس انتہائی نقطہ میں متصور ہو.جو دونوں عالم کے اوپر ہے وہی عرش کے نام سے عند الشرع موسوم ہے اور یہ بلندی باعتبار جامعیت ذاتی باری کی ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ مبدء ہے ہر یک فیض کا اور مرجع ہے ہر یک چیز کا اور مسجود ہے ہر یک مخلوق کا اور سب سے اونچا ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور کمالات میں ورنہ قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہر ایک جگہ ہے جیسا کہ فرمایا: أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرة :۱۱۲) جدھر منہ پھیرو ادھر ہی خدا کا منہ ہے اور فرماتا ہے : هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمُ (الحديد : ۵ ) یعنی جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور فرماتا ہے: نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : ۱۷) یعنی ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں یہ تینوں تعلیموں کا نمونہ ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰) عرش اللہ تعالیٰ کی جلالی و جمالی صفات کا مظہر اتم ہے.عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق کے متعلق میں کچھ نہیں کہتا.اس کی تفصیل حوالہ بخدا کرنی چاہیے.جنہوں نے مخلوق کہا ہے انہوں نے بھی غلطی کھائی ہے کیونکہ پھر اس سے وہ محدود لازم آتا ہے اور جو غیر مخلوق کہتے ہیں وہ توحید کے خلاف کہتے ہیں کیونکہ الَّذِي خَلَقَ كُل شکنی و اگر یہ غیر مخلوق ہو تو پھر اس سے باہر رہ جاتا ہے.مومن موحد اس کو تسلیم نہیں کر سکتا.ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے.یہ ایک استعارہ ہے جیسے افطر و اصوم یا اخطئ و اصیب فرمایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٢٠ سورة الاعراف ہے.اللہ تعالیٰ استعارات کے ذریعہ کلام کرتا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کو حوالہ بخدا کرتے ہیں.پس ہمارا مذہب عرش کے متعلق یہی ہے کہ اس کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث میں دخل نہ دو.ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کی جلالی و جمالی تجلیات کا مظہر ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ مورخه ۳۰/اپریل و ۰ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) عرش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کا جھگڑا عبث ہے.احادیث سے اس کا جسم کہیں ثابت نہیں ہوتا.ایک قسم کے علو کے مقام کا اظہار عرش کے لفظ سے کیا گیا ہے.اگر اسے جسم کہو تو پھر خدا کو بھی مجسم کہنا چاہیے.یاد رکھنا چاہیے کہ اس کو علو جسمانی نہیں کہ جس کا تعلق جہات سے ہو بلکہ یہ روحانی علو ہے.عرش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہے.جو کہ پیچھے ایجاد کی گی.صحابہ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا.تو اب یہ لوگ چھیٹر کرنا فہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں.لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ کی دوسری تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظر ہو.انکم جلد ۸ نمبر ۲۶،۲۵ مورخه ۳۱ جولائی.۱۰ راگست ۱۹۰۴ صفحه ۱۴) بعض لوگ نا سمجھی سے عرش کو جو ایک مخلوق چیز مانتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں.ان کو سمجھنا چاہیے کہ عرش کوئی ایسی چیز نہیں جس کو مخلوق کہہ سکیں وہ تو تقدس اور تنزہ کا ایک وراء الوراء مقام ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جیسے ایک بادشاہ تخت پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے.ویسے ہی خدا بھی عرش پر جلوہ گر ہے.جس سے لازم آتا ہے کہ محدود ہے لیکن ان کو یا درکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اس بات کا ذکر تک نہیں کہ عرش ایک تخت کی طرح ہے جس پر خدا بیٹھا ہے کیونکہ نعوذ باللہ ! اگر عرش سے مراد ایک تخت لیا جاوے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تو پھر ان آیات کا کیا ترجمہ کیا جاوے گا جہاں لکھا ہے کہ خدا ہر ایک چیز پر محیط ہے اور جہاں تین ہیں وہاں چوتھا ان کا خدا اور جہاں چار ہیں وہاں پانچواں ان کا خدا.اور پھر لکھا ہے : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ٢٦/١٦ اور وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنتُم ۲۷/۱۷ غرض اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ کلام الہی میں استعارات بہت پائے جاتے ہیں چنانچہ ایک جگہ دل کو بھی عرش کہا گیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تجلی بھی دل پر ہوتی ہے اور ایسا ہی عرش اس وراء الوراء مقام کو کہتے ہیں جہاں مخلوق کا نقطہ ختم ہو جاتا ہے.اہل علم اس بات کو جانتے ہیں کہ ایک تو تشبیہ ہوتی ہے اور ایک تنزیہ ہوتی ہے مثلاً یہ بات کہ جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جہاں پانچ ہوں وہاں چھٹا ان کا خدا ہوتا ہے.یہ ایک قسم کی تشبہ ہے جس سے دھوکا لگتا ہے کہ کیا روووو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة الاعراف خدا پھر محدود ہے؟ اس لئے اس دھوکا کے دور کرنے کے لئے بطور جواب کے کہا گیا ہے کہ وہ تو عرش پر ہے.جہاں مخلوقات کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ کوئی اس قسم کا تخت نہیں ہے جو سونے چاندی وغیرہ کا بنا ہوا ہو اور اس پر جواہرات وغیرہ جڑے ہوئے ہوں بلکہ وہ تو ایک اعلیٰ ارفع اور وراء الوراء مقام ہے اور اس قسم کے استعارات قرآن مجید میں بکثرت پائے جاتے ہیں جیسے فرما یا اللہ تعالیٰ نے : مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَ أَضَلُّ سَبِيلًا ( بنی اسرائیل : ۱۸۳۷ / ۱۵ ظاہراً تو اس کے معنی یہی ہیں کہ جو اس جگہ اندھے ہیں وہ آخرت کو بھی اندھے ہی رہیں گے مگر یہ معنی کون قبول کرے گا.جبکہ دوسری جگہ پر صاف طور ا پر لکھا ہے کہ خواہ کوئی سوجا کھا ہو.خواہ اندھا جو ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ جاوے گا وہ تو بینا ہوگا.لیکن جو اس جگہ ایمانی روشنی سے بے نصیب رہے گا اور خدا کی معرفت حاصل نہیں کر لے گا وہ آخر کو بھی اندھا ہی رہے گا.ا حکم جلد ۱۲ نمبر امورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۶) عرش الہی ایک وراء الوراء مخلوق ہے.جو زمین سے اور آسمان سے بلکہ تمام جہات سے برابر ہے.یہ نہیں کہ نعوذ باللہ ! عرش الہی آسمان سے قریب اور زمین سے دور ہے لعنتی ہے وہ شخص جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے.عرش مقام تنزیہ ہے اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر ناظر ہے جب کہ فرماتا ہے: هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ (الحديد :۵) اور مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمُ (المجادلة : ۱۷) اور فرماتا ہے کہ وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( ق : ۱۷ ).الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۲) (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا ) اس (عرش) کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات ہیں.کوئی تو اسے مخلوق کہتا ہے اور کوئی غیر مخلوق لیکن اگر ہم غیر مخلوق نہ کہیں تو پھر استویٰ باطل ہوتا ہے اس میں شک نہیں ہے کہ عرش کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی بحث ہی عبث ہے.یہ ایک استعارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ درجے کی بلندی کو بیان کیا ہے.یعنی ایک ایسا مقام جو کہ ہر ایک جسم اور ہر ایک نقص سے پاک ہے اور اس کے مقابلہ پر یہ دنیا اور تمام عالم ہے کہ جس کی انسان کو پوری پوری خبر بھی نہیں ہے ایسے مقام کو قدیم کہا جا سکتا ہے لوگ اس میں حیران ہیں اور غلطی سے اسے ایک مادی شے خیال کرتے ہیں اور قدامت کے لحاظ سے جو اعتراض لفظ شعر کا آتا ا ہے تو بات یہ ہے کہ قدامت میں شعر آجاتا ہے جیسے قلم ہاتھ میں ہے تو جیسے قلم حرکت کرتا ہے ویسے ہاتھ حرکت کرتا ہے مگر ہاتھ کو تقدم ہوتا ہے آریہ لوگ خدا کی قدامت کے متعلق اہل اسلام پر اعتراض کرتے ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورة الاعراف کہ ان کا خدا چھ سات ہزار برس سے چلا آتا ہے یہ ان کی غلطی ہے اس مخلوق کو دیکھ کر خدا کی عمر کا اندازہ کرنا نادانی ہے ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ آدم سے اول کیا تھا اور کس قسم کی مخلوق تھی.اس وقت کی بات وہی جانے كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن) :۳۰) وہ اور اس کی صفات قدیم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم کو دے دیوے اور نہ اس کے کام اس دنیا میں سما سکتے ہیں خدا کے کلام میں دقیق نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ہے اور مخلوقات کی ترتیب اس کے ازلی ہونے کی مخالف نہیں ہے اور استعارات کو ظاہر پر حمل کر کے مشہورات پر لانا بھی ایک نادانی ہے.اس کی صفت ہے لا تدركهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ (الانعام : ۱۰۴).ہم عرش اور استوئی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حقیقت اور کنہ کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کرتے ہیں.جب دنیا وغیرہ نہ تھی عرش تب بھی تھا جیسے لکھا ہے.گان عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (هود : ۸).اس کے متعلق خوب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک مجہول الکنہ امر ہے اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کی طرف اشارہ ہے وہ خَلْقُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (الروم : ۲۳) چاہتی تھی اس لیے اول وہ ہو کر ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ہوا.اگر چہ توریت میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے مگر وہ اچھے الفاظ میں نہیں ہے اور لکھا ہے کہ خدا....ماندہ ہو کر تھک گیا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک انسان کسی کام میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے چہرہ اور خد و خال وغیرہ اور دیگر اعضاءکا پورا پورا پتہ نہیں لگتا مگر جب وہ فارغ ہو کر ایک تخت یا چار پائی پر آرام کی حالت میں ہو تو اس کے ہر ایک عضو کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں.اسی طرح استعارہ کے طور پر خدا کی صفات کے ظہور کو تھ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ سے بیان کیا ہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد صفات الہیہ کا ظہور ہوا صفات اس کے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہو تو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہوں تو رازق کو پہچانیں.اسی طرح اس کے علم اور قادر مطلق ہونے کا پتہ لگتا ہے : ثم استوى على العرش خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو خَلْقُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (الروم : ۲۳) کے بعد ہوئی.اسی طرح اس تجلی کے بعد ایک اور تجلی ہوگی جب کہ ہر شے فنا ہوگی پھر ایک اور تیسری تجلی ہوگی کہ احیاء اموات ہوگا.غرضیکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس کے اندر داخل ہونا روا نہیں ہے، صرف ایک تجلی سے اسے تعبیر کر سکتے ہیں.قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرش کو اپنی صفات میں داخل کیا ہے جیسے ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيد ( البروج : ۱۲ ).گویا خدا تعالیٰ کے کمال علو کو دوسرے معنوں میں عرش سے بیان کیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۳ سورة الاعراف ہے اور وہ کوئی مادی اور جسمانی شے نہیں ہے ورنہ زمین و آسمان وغیرہ کی طرح عرش کی پیدائش کا ذکر بھی ہوتا.اس لیے شبہ گزرتا ہے کہ ہے تو شے مگر غیر مخلوق اور یہاں سے دھو کہ کھا کر آریوں کی طرف انسان چلا جاتا ہے کہ جیسے وہ خدا کے وجود کے علاوہ اور اشیاء کو غیر مخلوق مانتے ہیں.ویسے ہی یہ عرش کو ایک شے غیر مخلوق جزاز خدا ماننے لگتا ہے یہ گمراہی ہے اصل میں یہ کوئی شے خدا کے وجود سے باہر نہیں ہے.جنہوں نے اسے ایک شے غیر مخلوق قرار دیا وہ اسے اتم اور اکمل نہیں مانتے اور جنہوں نے مادی مانا وہ گمراہی پر ہیں کہ خدا کو ایک مجسم شے کا محتاج مانتے ہیں کہ ایک ڈولہ کی طرح فرشتوں نے اسے اُٹھایا ہوا ہے لا یودُهُ حِفْظُهُمَا ( البقرة : ۲۵۲) - چار ملائک کا عرش کو اُٹھانا یہ بھی ایک استعارہ ہے رب، رحمان رحیم اور مالک یوم الدین یہ صفات الہی کے مظہر ہیں اور اصل میں ملائکہ ہیں اور یہی صفات جب زیادہ جوش سے کام میں ہوں گے تو ان کو ( آٹھ ) ملائک سے تعبیر کیا گیا ہے جو شخص اسے بیان نہ کر سکے وہ یہ کہے کہ یہ ایک مجہول الکنہ حقیقت ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور حقیقت خدا کے سپرد کرے اطاعت کا طریق یہی ہے کہ خدا کی باتیں خدا کے سپرد کرے اور ان پر ایمان رکھے اور اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ خدا کی تجلیات ثلثہ کی طرف اشارہ ہے.كَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (هود : ۸) یہ بھی ایک تجلی تھی اور ماء کے معنے یہاں پانی بھی نہیں کر سکتے.خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے کیا معنی ہیں.اس کی کنہ خدا کو معلوم ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸،۳۷) مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو اس میں ہر گز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین ، آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ میں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا.ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۳، ۴۵۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة الاعراف جب خدائے تعالی کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے : اَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے...یہ کسی اعلیٰ اور عمدہ صداقت ہے جس کو ایک مختصر آیت اور چند معد و دلفظوں میں خدائے تعالیٰ سرمه چشم آرمیه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۷۶،۱۷۵) نے ادا کر دیا.وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ.اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِینَ یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۱ حاشیہ نمبر ۱۱) وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِيحَ بُشْراً بَيْنَ يَدَى رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَفَلَتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنهُ لِبَلَدٍ مَّيّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَاخْرَجْنَا بِهِ مِنْ كُلِ الثَّمَرَاتِ كَذلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(۵۸) خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے جس کا قدیم سے یہ قانونِ قدرت ہے کہ وہ ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے یعنی بارش سے پہلے چلاتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بدلیوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم کسی مردہ شہر کی طرف یعنی جس ضلع میں بباعث امساک باراں زمین مردہ کی طرح خشک ہو گئی ہو، ان ہواؤں کو ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی اتارتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے قسم قسم کے میوے پیدا کر دیتے ہیں.اسی طرح روحانی مردوں کو موت کے گڑھے سے نکالا کرتے ہیں اور یہ مثال اس لیے بیان کی گئی تا کہ تم دھیان کرو اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ جیسا کہ ہم امساک باراں کی شدت کے وقت مردہ زمین کو زندہ کر دیا کرتے ہیں ایسا ہی ہمارا قاعدہ ہے کہ جب سخت درجہ پر گمراہی پھیل جاتی ہے اور دل جو زمین سے مشابہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورة الاعراف ہیں مرجاتے ہیں تو ہم ان میں زندگی کی روح ڈال دیتے ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۸ تا ۶۳۰ ) والبلدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذلِكَ نُصَرِفُ الْأَيْتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ.(۵۹) اور جوز مین پاکیزہ ہے اس کی تو کھیتی اللہ کے اذن سے جیسی کہ چاہیے نکلتی ہے اور جو خراب زمین ہے اس کی صرف تھوڑی سی کھیتی نکلتی ہے اور عمدہ کھیتی نہیں نکلتی.اسی طرح سے ہم پھیر پھیر کر بتاتے ہیں تا جوشکر کرنے سی اور والے ہیں شکر کریں.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۳۱،۶۳۰) یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۱۶۸) ہیں.وَمِنْ عَلَامَاتِهِمُ أَنَّكَ تَرَاهُمْ في اور ان کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ تو انہیں اللہ سُبُلِ اللهِ مُسَارِعِيْنَ كَالنَّعْكَنَةِ تعالٰی کی راہوں پر ایک تیز رفتار اونٹنی کی مانند دوڑتا ہوا دیکھتا وَأَمَّا أُمُورُ الدُّنْيَا فَيَتَزَ خَنُونَ عَنْهَا ہے لیکن جہاں تک دنیاوی امور کا تعلق ہے وہ اس سے وَلَا يُؤْثِرُوْنَهَا إِلَّا بِالْكَرَاهَةِ، وَيُظهِرُ پرہیز کرتے ہیں اور انہیں ترجیح نہیں دیتے مگر حقارت الله بهم مَا صَلَحَ مِنْ أَخْلاقِ النَّاس کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ لوگوں کے عمدہ اخلاق کو وَمَا كَانَ كَالدّاءِ اللَّفِينَ فَيُشَارِبُونَ ظاہر کرتا ہے اور ان کی اندرونی بیماری کو بھی ظاہر کرتا ہے اور مَطَرًا يُظْهِرُ خَوَاصَّ الْأَرْضِينَ وَ وہ ایک ایسی بارش کی مانند ہیں جو زمینوں کے خواص ظاہر البلد الطيب يَخْرُجُ نَبَاتُه بِاِذْنِ کرتی ہے اور پاکیزہ شہر کی نباتات اللہ کے اذن سے نکلتی رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلا نَكِدا ہے اور وہ جو ناپاک ہے (اس کی نباتات ) ردی صورت كَذَلِكَ ضَرَبَ اللهُ مَقَلًا لِلْمُؤْمِنِينَ میں نکلتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور فاسقوں وَالْفَاسِقِين.(سيرة الابدال، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳۱) کے لیے مثال بیان کی ہے.( ترجمہ از مرتب ) قرآن شریف نے انبیاء ورسل کی بعث کی مثال مینہ سے دی ہے : وَ الْبَلدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُه
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة الاعراف بِإِذْنِ رَيْهِ ۚ وَالَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلا نَكِدا - یہ تمثیل اسلام کی ہے جب کوئی رسول آتا ہے تو انسانی فطرتوں کے سارے خواص ظاہر ہو جاتے ہیں.ان کے ظہور کا یہ خاصہ اور علامات ہیں کہ مخلص سعید الفطرت اور مستعد طبیعت کے لوگ اپنے اخلاص اور ارادت میں ترقی کرتے ہیں اور شریر شرارت میں بڑھ جاتے الحکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) ہیں.وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ الا نكدا نہیں نکلتی کھیتی اس کی مگر تھوڑی.برائن احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۹) ج وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا اَنْ قَالُوا اَخْرِجُوهُم مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚ إِنَّهُمْ أَنَاسٌ يتطهرون (۸۳) لوط کی قوم نے فسق و فجور میں جبر تک نوبت پہنچائی اور جب ان کو سمجھایا گیا تو لوط اور اس کے اصحاب کی نسبت انہوں نے اپنے رفیقوں کو وہ کہا جو قرآن شریف میں درج ہے اور وہ یہ ہے.اخْرِجُوهُم مِّن قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُم أَنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ یعنی ان لوگوں کو اپنے گاؤں سے باہر نکالو.یہ تو طہارت اور تقویٰ لیے ج - پھرتے ہیں یعنی ہمارے مخالف اور اور باتیں لوگوں کو کہتے ہیں.پس خدا کا غضب انہیں قوموں پر بھڑ کا اور ان کو صفحہ زمین سے نا پدید کر دیا.انتقام جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۶) و إلى مَدينَ أَخَاهُمُ شُعَيْبًا قَالَ يُقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِنْ الهِ غَيْرُه وَ قد جَاءَ تَكُم بَيْنَةُ مِنْ رَبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۖ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاء هم.....اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُمْ بَعْدَ إِذْ نَجْنَا اللهُ مِنْهَا وَمَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۷ سورة الاعراف يَكُونُ لَنَا اَنْ نَعُودَ فِيهَا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ.ہے.ربنا افتح بيننا الح اے ہمارے خدا! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳) رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَتِحِينَ.اے ہمارے خدا! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا سچا فیصلہ کر اور تو ہی ہے جوسب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰۷) وَ مَا اَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّنْ نَبِيَّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ ۹۵ اور ہم نے کسی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے ان کو انکار کی حالت میں قحط اور وبا کے ساتھ پکڑا.تا اس طرح پر وہ عاجزی کریں.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۹ و پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۷۷) ج تِلْكَ الْقُرى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَابِهَا وَلَقَدْ جَاءَتُهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا كَانُوالِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَبُوا مِنْ قَبْلُ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الْكَفِرِينَ پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کر چکے تھے اسی طرح خدا ان کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے جو اس قسم کے کافر ہیں جو نشان سے پہلے ایمان نہیں لاتے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۴) وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا اَنْ اُمَنَّا بِايْتِ رَبَّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ.(۱۲۷) اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ سورة الاعراف موت اسلام پر ہو.جاننا چاہئے کہ دیکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے.بلکہ سچا محب بلا کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکلی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے.اسی کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرة : ۲۰۸) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت خاص کے مور د ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی.جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۱،۴۲۰) وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوسى وَ قَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ وَيَذَرَكَ وَالهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِلُ ابْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِ نِسَاءَهُم وَ إِنَّا فَوْقَهُمْ فهرون ) ج فرعون نے کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور تحقیقاً ہم (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۵) ان پر غالب ہیں.قف قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو، زمین خدا کی ہے جس کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام بخیر پر ہیز گاروں کا ہی ہوتا ہے.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۹ سورة الاعراف جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتا بھی ہے تو پھر جان لینے ہی کے لیے پکڑتا ہے مگر مومن کے حق میں اس کی یہ عادت نہیں ہے ان کی تکالیف کا انجام اچھا ہوتا ہے اور انجام کار متقی کے لیے ہی ہے.جیسے فرمایا: وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.ان کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتی ہیں تا کہ ان کو تجربہ ہو جاوے.اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے.(احکام جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۲) ہم اپنے مخالفوں کی مخالفت کی کیا پروا کر یں.یہ مخالف نوبت به نوبت اپنے فرض منصبی کو سر انجام دیتے ہیں، ابتداء ان کی ہوتی ہے اور انجام متقیوں کا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.القام جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت، اور کبر اور رعونت اور فسق فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.اس لیے متقی بننے کی فکر کرو.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) یہ بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ حکم خواتیم پر ہے.خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ : الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کیے جاتے ہیں.یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ جس کام کو میں نے اُٹھایا ہے ابھی وہ لوگوں پر بہت مشتبہ ہے اور شاید اس بات میں کچھ مبالغہ نہ ہو کہ ہنوز ایسی حالت ہے کہ بجائے فائدہ کے آثار و علامت نقصان کے نظر آتے ہیں.یعنی بجائے ہدایت کے ضلالت و بدظنی سہل لگتی ہے.مگر میں جب ایک طرف آیات قرآنی پڑھتا ہوں کیونکہ اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کا نسیم نصرت الہی کا چلنا شروع ہوا اور دوسری طرف مواعید صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں پاتا ہوں تو میرا غم دور اور بالکل دور ہو جاتا ہے اور اس بات پر تازہ ایمان آتا ہے كتب الله لاغلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلى (المجادلة :۲۲).وو ( مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۹۲) (مباحثہ کے ذکر پر فرمایا) در حقیقت تو ہم نے فتح پالی ہے.صرف اتنی بات ہے کہ وہ دیہات کے لوگ تھے ان کو ان باریک باتوں کی سمجھ نہیں آئی مجھے خوشبو آتی ہے کہ آخر کا ر فتح ہماری ہے دسمبر کے آخر تک جونشان ظاہر ہونے والے ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۳ سورة الاعراف شاید یہ بھی ان میں سے ایک عظیم الشان نشان ہو جاوے.یہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے جیسے فرمایا : الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (تیره) برس تک مکروہات ہی پہنچتے رہے.(البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۲۰) قَالُوا أوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۖ قَالَ عَلَى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمُ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.موسیٰ کی قوم نے اس کو جواب دیا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے جاتے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ستائے گئے تو موسیٰ نے اُن کے جواب میں کہا کہ قریب ہے کہ خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور زمین پر تمہیں خلیفے مقرر کر دے اور پھر دیکھے کہ تم کس طور کے کام کرتے ہو.آب ان آیات میں صریح اور صاف طور پر وہی لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ کی قوم میں سے اُن کے سامنے زندہ موجود تھے اور انہوں نے فرعون کے ظلموں کا شکوہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے گئے اور تیرے آنے کے بعد بھی اور انہیں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ تم ان تکلیفات پر صبر کرو خدا تمہاری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہوگا اور تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تم کو زمین پر خلیفے بنادے گالیکن تاریخ دانوں پر ظاہر ہے اور یہودیوں اور نصاریٰ کی کتابوں کو دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گو اس قوم کا دشمن یعنی فرعون اُن کے سامنے ہلاک ہوا مگر وہ خود تو زمین پر نہ ظاہری خلافت پر پہنچے نہ باطنی خلافت پر.بلکہ اکثر ان کی نافرمانیوں سے ہلاک کئے گئے اور چالیس برس تک بیابان لق و دق میں آوارہ رہ کر جان بحق تسلیم ہوئے پھر بعد ان کی ہلاکت کے ان کی اولاد میں ایسا سلسلہ خلافت کا شروع ہوا کہ بہت سے بادشاہ اس قوم میں ہوئے اور داؤد اور سلیمان جیسے خلیفہ اللہ اسی قوم میں سے پیدا ہوئے یہاں تک کہ آخر یہ سلسلہ خلافت کا چودھویں صدی میں حضرت مسیح پر ختم ہوا پس اس سے ظاہر ہے کہ کسی قوم موجودہ کو مخاطب کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خطاب قوم موجودہ تک ہی محدودر ہے بلکہ قرآن کریم کا تو یہ بھی محاورہ پایا جاتا ہے کہ بسا اوقات ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے مگر اصل مخاطب کوئی اور لوگ ہوتے ہیں جو گذر گئے یا آئندہ آنے والے ہیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۶،۳۲۵) موسیٰ نے ظاہر ہو کر تین بڑے کھلے کھلے کام کئے جو دنیا پر روشن ہو گئے ایسے ہی کھلے کھلے تین کام جو دنیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۱ سورة الاعراف پر بدیہی طور پر ظاہر ہو گئے ہوں جس نبی سے ظہور میں آئے ہوں وہی نبی مثیل موسیٰ ہوگا اور وہ کام یہ ہیں (۱) اول یہ کہ موسیٰ نے اُس دشمن کو ہلاک کیا جو اُن کی اور اُن کی شریعت کی بیخ کنی کرنا چاہتا تھا (۲) دوسرے یہ کہ موسیٰ نے ایک نادان قوم کو جو خدا اور اس کی کتابوں سے ناواقف تھی اور وحشیوں کی طرح چار سو برس سے زندگی بسر کرتے تھے کتاب اور خدا کی شریعت دی یعنی تو ریت عنایت کی اور ان میں شریعت کی بنیاد ڈالی (۳) تیسرے یہ کہ بعد اس کے کہ وہ لوگ ذلت کی زندگی بسر کرتے تھے ان کو حکومت اور بادشاہت عنایت کی اور اُن میں سے بادشاہ بنائے.ان تینوں انعامات کا قرآن شریف میں ذکر ہے.جیسا کہ فرمایا: قَالَ عَسى رَبِّكُمْ أن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.دیکھو سورۃ الاعراف الجزو نمبر 9.دیکھوسورۃ ۹ اور پھر دوسری جگہ فرمایا: فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْراهِيمَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (النساء : ۵۵) - دیکھو سورۃ النساء الجز و نمبر ۵.اب سوچ کر دیکھ لو کہ ان تینوں کاموں میں حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ذرہ بھی مناسبت نہیں.نہ وہ پیدا ہو کر یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کر سکے اور نہ وہ اُن کے لئے کوئی نئی شریعت لائے اور نہ انہوں نے بنی اسرائیل یا اُن کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی.انجیل کیا تھی وہ صرف توریت کے چند احکام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کار بند نہ تھے.یہود گو حضرت مسیح کے وقت میں اکثر بدکار تھے مگر پھر بھی اُن کے ہاتھ میں توریت تھی.پس انصاف ہمیں اس گواہی کے لئے مجبور کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کچھ مماثلت نہیں رکھتے.اور یہ کہنا کہ جس طرح حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اسی طرح حضرت عیسی نے اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دی یہ ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی شخص گو کیسا ہی اغماض کرنے والا ہو اس خیال پر اطلاع پا کر اپنے تئیں بننے سے روک نہیں سکے گا.مخالف کے سامنے اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عیسی نے ضرور اپنے پیروؤں کو شیطان سے اسی طرح نجات دے دی جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی.موسیٰ کا بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دینا ایک تاریخی امر ہے جس سے نہ کوئی یہودی منکر ہوسکتا ہے نہ عیسائی نہ مسلمان نہ گبر نہ ہند و کیونکہ وہ دنیا کے واقعات میں سے ایک واقعہ مشہورہ ہے مگر عیسی کا اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دنیا صرف اعتقادی امر ہے جو محض نصاریٰ کے خیالات میں ہے خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں جس کو دیکھ کر ہر ایک شخص بدیہی طور پر قائل ہو سکے کہ ہاں یہ لوگ در حقیقت شیطان اور ہر ایک بدکاری سے نجات پاگئے ہیں اور ان کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۲ سورة الاعراف گروہ ہر ایک بدی سے پاک ہے....اس پیشگوئی کا تو یہ مطلب ہے کہ وہ نبی موسیٰ کی طرح بنی اسرائیل کو یا اُن کے بھائیوں کو ایک عذاب سے نجات دے گا اسی طرح جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو عذاب سے نجات دی تھی.اور نہ صرف نجات دے گا بلکہ ان کو ایام ذلت کے بعد سلطنت بھی عطا کرے گا جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو چار سو برس کی ذلت کے بعد نجات دی اور پھر سلطنت عطا کی اور پھر اس وحشی قوم کو موسیٰ کی طرح ایک نئی شریعت سے تہذیب یافتہ کرے گا.اور وہ قوم بنی اسرائیل کے بھائی ہوں گے.اب دیکھو کہ کیسی صفائی اور روشنی سے یہ پیشگوئی سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہو گئی ہے اور ایسی صفائی سے پوری ہو گئی ہے کہ اگر مثلاً ایک ہندو کے سامنے بھی جو عقل سلیم رکھتا ہو یہ دونوں تاریخی واقعات رکھے جائیں یعنی جس طرح موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور پھر سلطنت بخشی اور پھر ان وحشی لوگوں کو جو غلامی میں بسر کر رہے تھے ایک شریعت بخشی.اور جس طرح سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غریبوں اور کمزوروں کو جو آپ پر ایمان لائے تھے عرب کے خونخوار درندوں سے نجات دی اور سلطنت عطا کی اور پھر اس وحشیانہ حالت کے بعد ان کو ایک شریعت عطا کی تو بلا شبہ وہ ہندو دونوں واقعات کو ایک ہی رنگ میں سمجھے گا اور ان کی مماثلت کی گواہی دے گا.اور خود ہم جبکہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو عرب کے خون ریز ظالموں کے ہاتھ سے بچا کر اپنے پروں کے نیچے لے لیا.اور پھر ان لوگوں کو جو صد ہا سال سے وحشیانہ حالت میں بسر کر رہے تھے ایک نئی شریعت عطا فرمائی اور بعد ایام ذلت اور غلامی کے سلطنت عطا فرمائی تو بلا تکلف موسیٰ کے زمانہ کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.اور پھر ذرہ اور غور کر کے جب حضرت موسیٰ کے سلسلہ خلفاء پر نظر ڈالتے ہیں جو چودہ سو برس تک دنیا میں قائم رہا تو اس کے مقابل پر سلسلہ محمد یہ بھی اسی مقدار پر ہمیں نظر آتا ہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کے سلسلہ خلفاء کے آخر میں ایک مسیح ہے جس کا نام عیسی بن مریم ہے ایسا ہی اس سلسلہ کے آخر میں بھی جو مقدار اور مدت میں سلسلہ موسوی کی مانند ہے ایک مسیح دکھائی دیتا ہے اور دونوں سلسلے ایک دوسرے کے مقابل پر ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح ایک انسان کی دو ٹانگیں ایک دوسری کے مقابل پر ہوتی ہیں.پس اس سے بڑھ کر مماثلت کے کیا معنے ہیں اور یہی حقیقت یہ آیت ظاہر فرماتی ہے کہ : إِنَّا اَرْسَلْنَا إلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل : ١٦) (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹۹ تا ۳۰۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۳۳ سورة الاعراف قرآن شریف کی رُو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے : فَيَنْظُر كَيْفَ تَعْمَلُونَ.دوسری جگہ مسلمانوں کے حق میں لکھا ہے.لِنَنْظُر كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس : ۱۵).ان دونوں آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ خدا تمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے.یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے.پس ان آیتوں سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کون سا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دے دیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء اُن کے.اس اُمت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوں گے.اور اسی مفہوم کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ (الفاتحہ (۷) میں بھی اشارہ ہے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳) یہودیوں کے بادشاہوں کے اُن مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دو بالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ باہم ملتے ہیں سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں:.یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت قال على رَبِّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدوكم اسلام کے بادشاہوں کی نسبت ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلِيفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَ يَسْتَخْلِفَكُمُ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.199196 (الاعراف : ۱۳۰) (یونس : ۱۵) تعملون الجز و نمبر ۹ سورۃ الاعراف صفحه ۱۶۵ الجز ونمبر ۱۱ سورۃ یونس صفحه ۳۳۵ یہ دو فقرے یعنی فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے اور اُس کے مقابل پر دوسرا فقرہ یعنی لِنَنْظُر كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل شرم خانہ جنگیاں ظہور میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے یہاں تک کہ بعض اُن میں سے بدکاری، شراب نوشی، خونریزی اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل ہو گئے.یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے.ہاں ! بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۴ سورة الاعراف طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز.(تحفہ گولڑر و سیہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۷،۳۰۶) ایک جگہ مسلمانوں کے آخری زمانہ کے لیے قرآن شریف نے وہ لفظ استعمال کیا ہے جو یہود کے لیے استعمال کیا تھا یعنی فرما یا فینظر كَيْفَ تَعْمَلُونَ.جس کے یہ معنے ہیں کہ تم کو خلافت اور سلطنت دی جائے گی مگر آخری زمانہ میں تمہاری بد اعمالی کی وجہ سے وہ سلطنت تم سے چھین لی جائے گی جیسا کہ یہودیوں سے لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۳) چھین لی گئی تھی.حضرت اقدس نے فرمایا: وَيَسْتَخْلِفَكُمُ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.یہ آیتیں بھی اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں ایک ان میں سے اہل اسلام کی نسبت ہے اور ایک یہود کی نسبت.پس مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر طرح کا انعام کروں گا اور پھر دیکھوں گا کہ کس طرح شکر کرتے ہو.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اہل یہود کو کون سی بڑی مصیبت تھی تو وہ دو بڑی مصیبتیں ہیں ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا گیا اور ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا گیا پس مماثلت کے لحاظ سے مسلمانوں کے لیے بھی وہی دو انکار لکھے تھے.مگر وہاں شمار میں الگ الگ دوو جود تھے اور یہاں نام الگ الگ ہیں مگر وہ وجود جس میں ان دونوں کا بروز ہو ایک ہی ہے ایک بروز عیسوی اور ایک محمدی اور صرف نام کے لحاظ سے اہل اسلام یہود کے بروز اس طرح سے قرار پائے کہ انہوں نے مسیح اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا اور وہ مماثلت پوری ہو گئی اور آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس امت میں بروزی طور پر وہی کرتوت یہودیوں والی پوری ہونی تھی اور یہ اس طرف اشارہ کرتی تھیں کہ آنے والا دو رنگ لے کر آوے گا اسی لیے مہدی اور مسیح کے زمانہ کی علامات ایک ہی ہیں اور ان دونوں کا فعل بھی ایک ہی (ہے).البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۹،۳۵۸) فَإِذَا جَاءَتُهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ ۚ وَ إِن تُصِبُهُمْ سَيِّئَةُ تَطَيَّرُوا بِمُوسى وَمَنْ مَّعَةُ أَلَا إِنَّمَا طَ بِرُهُمْ عِنْدَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ بعض آدمیوں نے کہا کہ یہ طاعون گویا ہماری شامت اعمال کا نتیجہ ہے یہ آواز کوئی نئی آواز نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی کہا گیا تھا تطيرنا بموسی مگر مجھے یہ تعجب ہے کہ یہ لوگ طاعون کو ہماری شامت اعمال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۳۵ سورة الاعراف کا نتیجہ بتاتے ہیں لیکن مبتلا خود ہوتے ہیں حالانکہ اگر ہماری شامت اعمال تھی تو چاہیے تھا کہ طاعون کی خبر تم کو دی جاتی مگر یہ کیا ہوا کہ خبر بھی ہم کو دی گئی اور موتیں تم میں ہوتی ہیں برخلاف اس کے کہ ہماری حفاظت کا وعدہ کیا جاتا اور اسے ایک نشان ٹھہرایا جاتا ہے.کچھ تو خدا سے ڈرو.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخه ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۳) وَ وَعَدْنَا مُوسى ثَلْثِينَ لَيْلَةً وَأَنْسَسُنَهَا بِعَشْرِ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ ليْلَةً وَ قَالَ مُوسَى لِأَخِيهِ هُرُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَ اَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ.پھر ہم کہتے ہیں کہ جس حالت میں وعدہ کی تاریخ ٹلنا نصوص قرآنیہ قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہے جیسا کہ آیت : وَ وَعَدْنَا مُوسى ثَلثينَ لَيْلَةً اس کی شاہد ناطق ہے تو وعید کی تاریخیں جونزول عذاب پر دال ہوتی ہیں جس کا ٹلنا اور رد بلا ہونا تو بہ اور استغفار اور صدقات سے باتفاق جمیع انبیاء علیہم السلام ثابت ہے ا پس ان تاریخوں کا ٹلنا بوجہ اولی ثابت ہوا اور اس سے انکار کرنا صرف سفیہ اور نادان کا کام ہے نہ کسی صاحب بصیرت کا.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۲۰،۱۱۹) وَ لَمَّا جَاءَ مُوسى لِمِيْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي انْظُرُ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرينى ولكن انظُرُ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرينى فَلَمَّا تَجَلّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَعَا وَ خَرَ مُوسى صَعِقَا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَه دا......پس جب کہ خدا نے پہاڑ پر بجلی کی تو اس کو پاش پاش کر دیا یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے.برائین احمد یہ چہار شصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۵ ،۶۱۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.برائین احمد یه چهار تص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۶ سورة الاعراف اور تجلی کی اس کے رب نے پہاڑ پر یعنی مشکلات کے پہاڑ پر اور کر دیا اس کو پاش پاش اور گرا موسیٰ بیہوش ہو کر.یعنی ایسی تجلی ہیبت ناک تھی کہ اس کی جیت کا اثر موسی پر بھی پڑا.البدر جلد نمبر ۲ مورخه ۱۳ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) جب خدا پہاڑ پر تجلی کرے گا تو اس کو پارہ پارہ کر دے گا.(ملی رسالت مجموعه اشتہارات جلد ۱۰ صفحه ۹۲/۹۱) جب طالب کمال وصال کا خدا کے لیے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لیے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ خدا کے لیے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقا کو مسلتزم ہے پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا یہاں تک کہ غلبہ مشہور ہستی الہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے.غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جوعلم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے.صاحب شہو ر تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے.سو اگر چہ وہ بھی جلنے کا ایک علم رکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے.کبھی شہود تام بے خبری تک بھی نوبت پہنچادیتا اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے اس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے : فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَعا وَخَرٌ مُوسى صَعِفا لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (النجم : ۱۸).یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ ۱۷ کتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۸ حاشیه ) موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الہیہ جو بغایت انشراق ظہور میں آئی تھیں.وہی اس کا موجب اور باعث تھیں جن کے انشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الہیہ اس کا تدارک نہ کرتی تو اسی حالت میں گزر ہو کر نابود ہوجاتا.مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے.انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے مَا زَالَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى - الحکم جلد ۲ نمبر ۳۱ مورخه ۱/۱۵ اکتوبر ۱۸۹۸ صفحه ۳) وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيهِم عِجُلًا جَسَدً الَهُ خُوَارُ - أَلَمْ يَرَوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة الاعراف أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا اِتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظُلِمِينَ.۱۴۹ جب لیکھرام نے نہایت اصرار کے ساتھ اپنی موت کے لئے مجھ سے پیشگوئی چاہی تو مجھے دعا کے بعد یہ الهام ہوا : عِجَلْ جَسَلهُ حُوَارُ - لَهُ نَصَبْ وَعَذَاب یعنی یہ ایک بے جان گوسالہ ہے جس میں مارے جانے کے وقت گوسالہ کی طرح ایک آواز نکلے گی اور اس میں جان نہیں اور اس کے لئے نصب اور عذاب ہے.لسان العرب میں جو لغت عرب میں ایک پرانی اور معتبر کتاب ہے لفظ نصب کے معنے علاوہ اور کئی معنوں کے ایک یہ بھی لکھے ہیں کہ جب کہا جائے نصب فلان لِفُلانٍ تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کسی شخص نے اس شخص پر جان لینے کے لئے حملہ کیا اور دشمنی کی راہ سے اس کے فنا کرنے کے لئے پوری پوری کوشش کی.چنانچہ لسان العرب کے اس مقام میں اپنے لفظ یہ ہیں : نصبَ فُلَانٌ لِفُلانٍ نَصَبًا إِذَا قَصَدَلَهُ وَعَادَاهُ وَتَجَرَّدَلۂ.جس کے یہی معنے ہیں جو اوپر کئے گئے.دیکھولسان العرب لفظ نصب صفحہ ۲۵۸ سطر نمبر ۲ اور خوار کا لفظ لغت عرب میں گوسالہ کی آواز کے لئے آتا ہے.لیکن جب انسان پر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں تو اُس موقع پر کرتے ہیں جبکہ کوئی مقتول قتل ہونے کے وقت گوسالہ کی طرح آواز نکالتا ہے جیسا کہ اُسی لسان العرب میں خوار کے لفظ کے بیان میں صفحہ ۳۴۵ میں ان معنوں کی تصدیق کے لئے ایک حدیث لکھی ہے اور وہ یہ ہے: وَفي حَدِيثِ مَقْتَل ابي بْنِ خَلْفٍ فَخَرَّ يَخُوْرُ كَمَا يَغُوْرُ الثَّوْرُ یعنی جب ابی بن خلف قتل کیا گیا تو یوں آواز نکالتا تھا جیسا کہ بیل آواز نکالتا ہے اور کبھی خوار کا لفظ عرب کی زبان میں اُس ہتھیار کی آواز پر بولا جاتا ہے جو چلا یا جاتا ہے.چنانچہ لسان العرب کے اُسی صفحہ ۳۴۵ میں ایک نامی شاعر عرب کا اس محاورہ کے حوالہ میں ایک شعر لکھا ہے اور وہ یہ ہے: يَخْرُنَ إِذَا أَنْفِذُنَ فِي سَاقِطِ النَّدَى وَانْ كَانَ يَوْمًا ذَا أَهَا ضِيْبَ مُحْضِلًا یعنی اُن تیروں میں سے جو چلائے جاتے ہیں اور پھر نکالے جاتے ہیں گوسالہ کی آواز کی طرح ایک آواز آتی ہے.اگر چہ ایسا دن ہو جس میں متواتر بارش ہوئی ہو اور ہر ایک چیز کو تر کر دیتا ہو......غرض اس نہایت معتبر کتاب سے جو لسان العرب ہے ثابت ہوتا ہے کہ خور اور خوار کے لفظ کو انسان پر اُس حالت میں بھی بولتے ہیں کہ جب وہ قتل ہونے کے وقت فریاد کرتا ہے اور قتل کرنے کے وقت جو ہتھیار کی آواز ہوتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے اُس کا نام بھی خوار ہے.۲۳۸ سورة الاعراف تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۷۹ تا ۳۸۱) خروج باب ۳۲ سے ثابت ہوتا ہے کہ گوسالہ سامری کے نیست و نابود کرنے کا ارادہ یہود کی عید کے دن میں کیا گیا تھا مگر آگ میں جلانا اور باریک پینا اور غبار کی مانند بنانا جیسا کہ ۳۲ خروج میں لکھا ہے یہ فرصت طلب کام تھا اس برے کام نے ضرور رات کا کچھ حصہ لیا ہوگا کیونکہ حضرت موسیٰ اس وقت اترے تھے جب گوسالہ پرستی کا میلہ خوب گرم ہو گیا تھا اور یہ وقت غالباً دو پہر کے بعد میں ہوگا اور پھر کچھ عرصہ ناراضگی اور غضب میں گذرا.لہذا یہ قطعی امر ہے کہ سونے کا جلانا اور خاک کی طرح کرنا کچھ حصہ رات تک جو دوسرے دن میں محسوب ہوتے ہی ختم ہوا ہوگا.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۶۸ حاشیه ) یہ گوسالہ بے جان ہے جس میں سے مہمل آواز آ رہی ہے پس اس کے لئے دکھ کی مار اور عذاب ہے.استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۸) اِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۖ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ (۱۵۳) جنہوں نے گوسالہ پرستی کی ان پر غضب کا عذاب پڑے گا اور دنیا کی زندگی میں ان کو ذلت پہنچے گی اور اسی طرح ہم دوسرے مفتریوں کو سزا دیں گے اور یہ ایک لطیف اشارہ ان گوسالہ پرستوں کی طرف بھی ہے جو اس دوسرے گوسالہ یعنی لیکھرام کی پرستش کرنے میں ظلم اور خونریزی کے ارادوں تک پہنچ گئے خدا تعالی کے علم سے کوئی شے باہر نہیں وہ خوب جانتا تھا کہ ہندو بھی لیکھرام کی پرستش کر کے اس کو گوسالہ بنائیں گے اس لیے اس نے کذالک کے لفظ سے لیکھرام کے قصہ کی طرف اشارہ کر دیا.توریت خروج باب ۳۲ آیت ۳۵ سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر گوسالہ پرستی کے سبب سے موت بھیجی تھی یعنی ایک وبا ان میں پڑ گئی تھی جس سے وہ مرگئے تھے اور اس عذاب کی خبر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ ایمان لائیں گے میں ان کو نجات دوں گا جیسا کہ فرماتا ہے : وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّيَّاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِهَا وَ امَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِیمُ یعنی جنہوں نے گوساله پرستی کی دھن میں برے کام کیے پھر بعد اس کے تو بہ کی اور ایمان لائے تو خدا تعالیٰ ایمان کے بعد ان کے گناہ بخش دے گا اور ان پر رحم کرے گا کیونکہ وہ نغفور اور رحیم ہے.(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۷۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ سورة الاعراف جنہوں نے گوسالہ کو عزت دی اور اس کی پرستش کی.ان پر غضب آئے گا اور ذلت کی ماران پر پڑے گی سود نیا میں غضب نازل ہونے سے مراد طاعون ہے.نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۳) جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں.عنقریب خدا تعالیٰ کا غضب ان پر وارد ہوگا.مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۳۶) جولوگ عداوت سے باز نہیں آتے.عنقریب ان پر غضب الہی نازل ہوگا.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۱۹) وَاكْتُبُ لَنَا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدُنَا إِلَيْكَ قَالَ عَذَابِي أصِيبُ بِهِ مَنْ اَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِنَا يُؤْمِنُونَ.عَذَ إِلَى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر ایک چیز کو گھیر رکھا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۴۹ حاشیہ نمبر۱۱) میں جس کو چاہتا ہوں عذاب پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں ان کے لیے جو ہر ایک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پر ہیز کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور نیز ان کے لیے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا.(براہین احمدیہ چهار تخصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۴) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے یعنی یہ صفت قانون الہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اس کے لیے ضرور ہے کہ اوّل قانون الہی ہو اور قانونِ الہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرنا چاہتی ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۰۷) وعید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا.صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخص مجرم کو سزا دے اور بسا اوقات اس تقاضا سے اپنے ملہمین کو اطلاع بھی دے دیتا ہے پھر جب شخص مجرم تو بہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الہی کا تقاضا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ سورة الاعراف غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر مجوب و مستور کر دیتا ہے یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ : عَذَ إِلَى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ یعنی رَحْمَتِي سَبَقَتْ غضبنی.اگر یہ اصول نہ مانا جائے تو تمام شریعتیں باطل ہو جاتی ہیں.تحفه نز نوید، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۳۷) عَذَالَى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ یعنی عذاب تو میرا خاص صورتوں ۚ میں ہے جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر ایک چیز تک پہنچ رہی ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵) آریہ وغیرہ جو اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کو غضب ناک کہا گیا ہے.یہ ان کی صریح غلطی ہے ان کو چاہیے تھا کہ قرآن مجید کی دوسری جگہوں پر نظر کرتے.وہاں تو صاف طور پر لکھا ہے: عَذَ إِلَى أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ - خدا کی رحمت تو کل چیزوں کے شامل حال ہے.مگر ان کو وقت ہے تو یہ ہے کہ خدا کی رحمت کے تو وہ قائل ہی نہیں.ان کے مذہبی اصول کے بموجب اگر کوئی شخص بصد مشکل مکتی حاصل کر بھی لے تو آخر پھر وہاں سے نکلنا ہی پڑے گا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخه ۶ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِى الأمى الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُم فِي التَّوَريةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطيبتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے.دماغی قوت اور ذہنی ترقی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہوسکتا.اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے متقی کا معلم خدا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے امی بھیجا کہ باوجود یہ کہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا.پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة الاعراف حیران کر دیا.قرآن شریف جیسی پاک ، کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی.جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا.وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علوم میں سب سے بڑھ گئے.وہ تقویٰ ہی تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مظہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے.جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا ہے.آپ کا اُمّی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لیے تقویٰ مطلوب ہے نہ دنیوی چالاکیاں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۲، ۳) يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْللَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَذَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَ عزرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ....( یہ نبی ) ان باتوں کے لیے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور نا پاک کو حرام ٹھہراتا ہے.اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں.پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے.اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے.اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے.برائین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۰) وہ وہی لوگ ہیں جو اس رسول نبی پر ایمان لاتے ہیں کہ جس میں ہماری قدرت کاملہ کی دو نشانیاں ہیں ایک تو بیرونی نشانی کہ توریت اور انجیل میں اس کی نسبت پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کو وہ آپ بھی اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں دوسری وہ نشانی کہ خود اس نبی کی ذات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ باوجود امی اور ناخواندہ ہونے کے ایسی ہدایت کامل لایا ہے کہ ہر ایک قسم کی حقیقی صداقتیں جن کی سچائی کو عقل و شرع شناخت کرتی ہے اور جو صفحہ دنیا پر باقی نہیں رہی تھیں لوگوں کی ہدایت کے لیے بیان فرماتا ہے اور ان کو اس کے بجالانے کے لیے حکم کرتا ہے اور ہر ایک نامعقول بات سے کہ جس کی سچائی سے عقل و شرع انکار کرتی ہے منع کرتا ہے اور پاک چیزوں کو پاک اور پلید چیزوں کو پلید ٹھہراتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے سر پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے اور جن طوقوں میں وہ گرفتار تھے ان سے خلاصی بخشتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة الاعراف ہے سو جو لوگ اس پر ایمان لاویں اور اس کو قوت دیں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی بکلی متابعت اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے.وہی لوگ نجات یافتہ ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۶۶،۵۶۴) ص قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا بِالَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَ الْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَأمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِى يُؤْمِنُ بِاللهِ وَ كَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (۱۵۹) یہ وسواس کہ خدا نے اپنی کتاب امیوں اور بدؤوں کے لیے بھیجی ہے ان کی سمجھ کے موافق چاہیے ) ٹھیک نہیں ہے.اول تو اس میں یہ جھوٹ ہے کہ وہ کلام نرا امیوں کی تعلیم کے لیے نازل ہوا ہے خدا نے تو آپ ہی فرما دیا ہے کہ تمام دنیا اور مختلف طبائع کی اصلاح کے لیے یہ کتاب نازل ہوئی ہے جیسے امی اس کتاب میں مخاطب ہیں ایسے ہی عیسائی اور یہودی اور مجوسی اور صائمین اور لا مذہب اور دہریہ وغیرہ تمام فرقے مخاطب ہیں اور سب کے خیالات فاسدہ کا اس میں رد موجود ہے اور سب کو سنایا گیا ہے : قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ اِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا - الجز و نمبر ۹ پھر جبکہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کو تمام دنیا کے طبائع سے کام پڑا تو تم خود ہی سوچو کہ اس صورت میں لازم تھا یا نہیں کہ وہ ہر ایک طور کی طبیعت پر اپنی عظمت اور حقانیت کو ظاہر کرتا اور ہر ایک طور کے شبہات کو مٹاتا.ماسوا اس کے اگر چہ اس کلام میں امی بھی مخاطب ہیں مگر یہ تو نہیں کہ خدا امیوں کو امی ہی رکھنا چاہتا تھا بلکہ وہ یہ چاہتا تھا کہ جو طاقتیں انسانیت اور عقل کی ان کی فطرت میں موجود ہیں وہ مکمن قوت سے چیز فعل میں آجائیں.اگر نادان کو ہمیشہ کے نادان ہی رکھنا ہے تو پھر تعلیم کا کیا فائدہ ہوا خدا نے تو علم اور حکمت کی طرف آپ ہی رغبت دے دی ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۹۳ تا ۴۹۸) لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.وہ خدا جو بلا شرکت الغیری آسمان اور زمین کا مالک ہے جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں.زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہے ایمان لاؤ.وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تا تم ہدایت پاؤ.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۷،۵۶۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۴۳ سورة الاعراف یہ ہرگز بیچ نہیں کہ جو کچھ قرآن کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ان سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں.یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی غیر محدودہ عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لیے اترا ہے جو امی تھے اور بھی اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بلکلی بے بہرہ ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض امیوں کے لیے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر یک رتبہ اور طبقہ کے انسان ان کی امت میں داخل ہیں اللہ جل شانہ فرماتا ہے : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ اِنّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.پس اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر ایک استعداد کی تکمیل کے لیے نازل ہوا ہے اور درحقیقت آیت: ولیکن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب : ۴۱ ) میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۶۱ ) وہ قانون جو عام عدل اور احسان اور ہمدردی کے لیے دنیا میں آیا وہ صرف قرآن ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.یعنی کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول کر کے بھیجا گیا ہوں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۷۱) قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ( الجزو نمبر (۹) - لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف پیغمبر ہو کر آیا ہوں.(نور القرآن نمبر ا روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں کہا کہ میں صرف عرب کے لیے بھیجا گیا ہوں بلکہ قرآن شریف میں یہ ہے : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لیے بھیجا گیا ہوں.پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۹) قرآن شریف میں یہ نہیں لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف قریش کے لیے بھیجے گئے ہیں بلکہ لکھا ہے کہ وہ تمام دنیا کے لیے بھیجے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا یعنی لوگوں کو کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لیے بھیجا گیا ہوں نہ صرف ایک قوم کے لیے ہوں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۸،۳۸۷) اے تمام انسانو! جو زمین پر رہتے ہو.میں سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں نہ کسی خاص قوم کی طرف اور سب کی ہمدردی میرا مقصد ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة الاعراف اس وقت کے تمام مخالف مولویوں کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت تمام دنیا کے لئے عام تھی اور آپ کی نسبت فرمایا گیا تھا: وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَم النَّبِينَ (الاحزاب : ۴۱ ) اور نیز آپ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا سو اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسی تک تھیں قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت: قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ اليكم جَمِيعًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہوسکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اس وقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے.بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دیئے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو ۷ ۱۲۵ ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کا ملہ گویا کالعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا بلکہ دُور دُور ملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اسے زمین کے باشندو! میں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیا کو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں اور یہ دونوں امر اس وقت غیر ممکن تھے لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ : ومن بلغ (الانعام :۲۰۰) یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغ قرآنی اُن وَمَنْ تک نہیں پہنچی.ایسا ہی آیت : وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعۃ : ۴) اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو منھم کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لئے موزوں ہے مبعوث ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے......اس وقت حسب منطوق آيت : وَ آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور نیز حسب منطوق
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة الاعراف آیت: قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطالع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل و جان سرگرم ہیں.آپ تشریف لائے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجیے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کا فہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ اُن تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں مگر میں ملک ہند میں آؤں گا کیونکہ جوش مذاہب و اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل محل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہوا تھا.پس ختم دور زمانہ کے وقت بھی وہ جو آدم کے رنگ میں آتا ہے اسی ملک میں اس کو آنا چاہئے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہو کر دائرہ پورا ہو جائے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۰ تا ۲۶۳) قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا ، انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا ، تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو، اور پھر باخدا انسان بنانا.یہ لفظ مختصر ہیں مگر ان کے ہزار ہا شعبے ہیں.چونکہ یہودیوں طبیعیوں ، آتش پرستوں اور مختلف اقوام میں روشنی کی روح کام کر رہی تھی.اس لیے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت : وأَخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ( الجمعة : ۴) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے.اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہئے تھا اُس وقت باعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا سو اس فرض کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کیلئے وسائل پیدا ہو گئے تھے.
۲۴۶ سورة الاعراف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے با علام الہی سب کو مخاطب کر کے کہا : یا یهَا النَّاسُ إِلى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.اس لیے ضروری تھا کہ قرآن شریف ان تمام تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتا فوقتا جاری رہ چکی تھیں اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعہ زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئی تھیں.قرآن کریم کے مد نظر تمام نوع انسان تھا نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۶) قرآن شریف کے دوسرے مقامات پر غور کرنے سے پتہ لگا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اُٹھی فرمایا ہے.اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے آپ کا کوئی استاد نہ تھا مگر بایں ہمہ کہ آپ اُمّی تھے.حضور کے دین میں امیون اوسط درجہ کے آدمیوں کے علاوہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور عالموں کو بھی کر دیا.جس سے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کے معنے نہایت ہی لطیف طور پر سمجھ میں آسکتے ہیں جمیعا کے دو معنے ہیں اول تمام بنی نوع انسان یا تمام مخلوق ، دوم تمام طبقہ کے آدمیوں کے لیے یعنی متوسط ادنی اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور ہر ایک قسم کی عقل رکھنے والوں کے لیے.غرض ہر عقل اور ہر مزاج کا آدمی مجھ سے تعلق کر سکتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۳، ۱۴۴) ایک شخص جو کل دنیا کی اصلاح کے لیے آنے والا تھا کب ہوسکتا تھا کہ وہ ایک معمولی انسان ہوتا ! جس قدر انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے وہ سب ایک ایک خاص قوم کے لیے آئے تھے اس لیے کہ ان کی شریعت مختص القوم اور مختص الزمان تھی مگر ہمارے نبی وہ عظیم الشان نبی ہیں جن کے لیے حکم ہوا کہ : مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمينَ (الانبياء : ۱۰۸) اور قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ الَيْكُم جَمِيعًا.اس لیے جس قدر عظمتیں آپ کی بیان ہوئی ہیں مصلحت الہیہ کا بھی یہی تقاضا تھا کیونکہ جس پر ختم نبوت ہونا تھا اگر وہ اپنے کمالات میں کوئی کمی رکھتا تو پھر وہی کمی آئندہ اُمت میں رہتی کیونکہ جس قدر کمالات اللہ تعالیٰ کسی نبی میں پیدا کرتا ہے اسی قدر اسی کی اُمت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جس قدر کمزور تعلیم وہ لاتا ہے اتنا ہی ضعف اس کی اُمت میں نمودار ہو جاتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لیے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوص قوم کے لیے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لیے فرمایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة الاعراف گیا: قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اور مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) عادت اللہ اسی طرح پر ہے زمانہ ترقی کرتا ہے آخر وہ زمانہ آ گیا جو خاتم النبیین کا زمانہ تھا جو ایک ہی شخص تھا جس نے یہ کہا: يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کہنے کو تو یہ چند لفظ ہیں اور ایک اندھا کہہ سکتا ہے کہ معمولی بات ہے مگر جو دل رکھتا ہے وہ سمجھتا ہے اور جو کان رکھتا ہے وہ سنتا ہے جو آنکھیں رکھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ یہ الفاظ معمولی الفاظ نہیں ہیں میں کہتا ہوں اگر یہ معمولی لفظ تھے تو بتلاؤ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یا مسیح علیہ السلام یا کسی نبی کو بھی یہ طاقت کیوں نہ ہوئی کہ وہ یہ لفظ کہہ دیتا.اصل یہی ہے جس کو یہ قوت یہ منصب نہیں ملا وہ کیوں کر کہہ سکتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ کسی نبی کو یہ شوکت یہ جلال نہ ملا جو ہمارے نبی کریم کو ملا.بکری کو اگر ہر روز گوشت کھلاؤ تو وہ گوشت کھانے سے شیر نہ بن سکے گی شیر کا بچہ ہی شیر ہوگا.پس یا درکھو یہی بات سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور واقعی حقدار ایک تھا جو محمد کہلایا.یہ داد الہی ہے جس کے دل و دماغ میں چاہے یہ قو تیں رکھ دیتی ہے.اور خدا خوب جانتا ہے کہ ان قوتوں کا محل اور موقعہ کون ہے ہر ایک کا کام نہیں کہ اس راز کو سمجھ سکے اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ : انّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا جب تک روح القدس کی خاص تائید نہ ہو یہ کام نہیں نکل سکتا.رسول اللہ میں وہ ساری قو تیں اور طاقتیں رکھی گئی تھیں جو محمد بنا دیتی ہیں تا کہ بالقوہ باتیں بالفعل میں بھی آجادیں اس لیے آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ : انّی رَسُولُ الله اليْكُم جَمِيعًا - ایک قوم کے ساتھ جو مشقت کرنی پڑتی ہے تو کس قدر مشکلات پیش آتی ہیں ایک خدمتگار شریر ہو تو اس کا درست کرنا مشکل ہو جاتا ہے آخر تنگ اور عاجز آکر اس کو بھی نکال دیتا ہے لیکن وہ کس قدر قابل تعریف ہوگا جو اسے درست کر لے اور پھر وہ تو بڑا ہی مرد میدان ہے جو اپنی قوم کو درست کر سکے حالانکہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں مگر وہ جو مختلف قوموں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا سوچو تو سہی کس قدر کامل اور زبردست قومی کا مالک ہوگا.....اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کی طرف غور کرو تو پھر کیسا روشن طور پر معلوم ہوگا کہ آپ ہی اس قابل تھے کہ محمد نام سے موسوم ہوتے اور اس دعوی کو جیسا کہ زبان سے کیا گیا تھا کہ : ائی رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اپنے عمل سے بھی کر کے دکھاتے چنانچہ وہ وقت آگیا کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورة الاعراف وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا ( النصر : ۳۲).اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میں آئے جب دین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کہ جبکہ اس نظارہ کو دیکھ لیا کہ یہ خُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا النصر : ٣).احکام جلد ۵ نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) جب دل میں پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے تو اس میں ترقی کے لیے ایک خاص طاقت اور قوت پیدا ہو جاتی ہے پھر اس کے لیے ہر قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بالکل اکیلے تھے اور اس بیکسی کی حالت میں دعویٰ کرتے ہیں : يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ الَيْكُمْ جَمِيعًا.کون اس وقت خیال کر سکتا تھا کہ یہ دعوی ایسے بے یارو مدد گار شخص کا بار آور ہوگا پھر ساتھ ہی اس قدر مشکلات آپ کو پیش آئے کہ ہمیں تو ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں آئے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ رستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱۰) قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لیے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لیے رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر فرماتا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: ۱۰۸) یعنی میں نے تمام عالموں کے لیے مجھے رحمت کر کے بھیجا ہے اور پھر فرماتا ہے : لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان : ۲) یعنی ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعوی نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا معین موقعہ پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ : قل يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ الَیكُمْ جَمِيعًا.دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لیے مامور نہ تھے.یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سے ہی شروع ہوئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں اس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی.سورة الاعراف چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۶ ۷۷ ) نہ حضرت عیسی نے اور نہ حضرت موسی نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ وہ تمام دنیا کے واسطے رسول ہو کر آئے تھے بلکہ وہ تو صرف اسرائیلی بھیٹروں تک ہی اپنی تعلیم محدود کرتے ہیں ان کا اپنا اقرار موجود ہے لیے پس بلحاظ ضرورت کے ان کو جو کتاب ملی وہ بھی ایک قانون مختص الزمان اور مختص القوم تھا.اب ظاہر ہے کہ ایک چیز جو ایک خاص ضرورت کے لیے ایک خاص زمانے اور مکان کے واسطے آئی تھی، اس کو زبر دستی اور خواہ خواہ تمام دنیا پر محیط ہونے کے واسطے کھینچ تان کی جائے گی تو اس کا لاز ما یہی نتیجہ ہو گا کہ وہ اس کام سے عاری رہے گی.اور اس بوجھ کے اُٹھانے کے واسطے وہ وضع ہی نہیں کی گئی اس کی کیسے متحمل ہو سکے گی ؟ اور یہی وجہ ہے کہ ان تعلیمات میں موجودہ زمانہ کے حالات کے ماتحت نقص ہیں مگر قرآن مجید مختص الزمان نہیں مختص القوم نہیں اور نہ ہی مختص المکان ہے بلکہ اس کامل اور مکمل کتاب کے لانے والے کا دعوی ہے کہ: اِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِیعًا اور ایک دوسری آیت میں یوں بھی آیا ہے : لِأَنْذِرَكُم بِهِ وَمَن بلغ (هود : ۵۲ ) یعنی لازمی ہوگا کہ جس کو قرآنی تعلیم پہنچے وہ خواہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ہو اس تعلیم کی پیروی کو اپنی گردن پر اُٹھائے.اقام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ ، صفحہ ۷ ) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ) " جیسے یہ دعویٰ کیا تھا کہ : إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا اس دعوی کے مناسب حال یہ ضروری تھا کہ کل دنیا کے مکروم کا یہ متفق طور پر آپ کی مخالفت میں کیے جاتے.آپ نے کس حوصلہ اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ فکیدُونِی جَبيعًا (هود : ۵۶) یعنی کوئی دقیقہ مکر 91991 کا باقی نہ رکھو سارے فریب مکر استعمال کر قتل کے منصوبے کرو اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یا درکھو: سَيُهزَهُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ( القمر : ۴۶) آخر فتح میری ہے تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جاویں گے تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی جیسے وہ عظیم الشان دعوی : ابی رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا کسی نے نہیں کیا اور جیسے : فَكَيْدُ ونِي جَمِيعًا کہنے کو کسی کی ہمت نہ ہوئی یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا سيهزم الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُر یہ الفاظ اسی منہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے سائے کے نیچے لے ہور سے : چنانچہ حضرت عیسی نے خود کہا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے : رَسُولًا إلى بَنِي إِسْرَاعِيلَ (ال عمران : ۵۰).66 ( بدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵/جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا.یعنی آپ تمام جہان کے رسول ہیں.۲۵۰ سورة الاعراف الحکام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) ( بدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ /جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶) وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ مَنْ يَسُومُهُم سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَ إِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمُ.(۱۲۸) خدا نے یہود کے لئے ہمیشہ کے لئے یہ وعدہ کیا ہے کہ ایسے بادشاہ اُن پر مقرر کرتا رہے گا جو انواع واقسام کے عذاب ان کو دیتے رہیں گے.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑی وجہ یہود کے مغضوب علیھم ہونے کی یہی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سخت ایزادی، اُن کی تکفیر کی ، ان کی تفسیق کی ، اُن کی توہین کی، اُن کو مصلوب قرار دیا تا وہ نعوذ باللہ ! لعنتی قرار دیئے جائیں اور ان کو اس حد تک دُکھ دیا کہ حسب منطوق آیت: وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظيماً (النساء : ۱۵۷) اُن کی ماں پر بھی سخت بہتان لگایا.غرض جس قدر ایذا کی قسمیں ہو سکتی ہیں کہ تکذیب کرنا، گالیاں دینا اور افترا کے طور پر کئی تہمتیں لگانا اور کفر کا فتویٰ دینا اور ان کی جماعت کو متفرق کرنے کے لئے کوشش کرنا اور حکام کے حضور میں ان کی نسبت جھوٹی مخبریاں کرنا اور کوئی دقیقہ توہین کا نہ چھوڑنا اور بالآخر قتل کیلئے آمادہ ہونا یہ سب کچھ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت یہود بد قسمت سے ظہور میں آیا اور آیت : وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ (آل عمران : ۵۶) کو غور سے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (البقرة : ۶۲ ) کی سزا بھی حضرت مسیح کی ایڈا کی وجہ سے ہی یہود کو دی گئی ہے.کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں یہود کے لئے یہ دائی وعید ہے کہ وہ ہمیشہ محکومیت میں جو ہر ایک عذاب اور ذلت کی جڑ ہے زندگی بسر کریں گے جیسا کہ اب بھی یہود کی ذلت کے حالات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ کا وہ غصہ نہیں اُتر ا جو اُس وقت بھڑکا تھا جبکہ اُس وجیہ نبی کو گرفتار کرا کر مصلوب کرنے کے لئے کھو پری کے مقام پر لے گئے تھے اور جہاں تک بس چلا تھا ہر ایک قسم کی ذلت پہنچائی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ وہ مصلوب ہوکر توریت کی نصوص صریحہ کے رُو سے ملعون سمجھا جائے اور اُس کا نام اُن میں لکھا جائے جو مرنے کے بعد تحت الثریٰ کی طرف جاتے ہیں اور خدا کی طرف اُن کا رفع نہیں ہوتا.(تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۹۷ تا ۲۰۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة الاعراف وَالَّذِينَ يُمَسِكُونَ بِالْكِتُبِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ.KI اور جو لوگ محکم پکڑتے ہی کتاب کو اور نماز کو قائم کرتے ہیں ان کے ہم اجر ضائع نہیں کرتے.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۰ پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۸) وَ إِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلَى انْفُسِهِمُ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدُنَا اَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذَا غُفِلِينَ b الستُ بِرَبِّكُمْ ، قَالُوا بلی.الجزو نمبر 9 ہر ایک روح نے ربوبیت الہیہ کا اقرار کیا.کسی نے انکار نہ کیا.یہ بھی فطرتی اقرار کی طرف اشارہ ہے.( براہینِ احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۵،۱۸۴ حاشیہ نمبر ۱۱) ایسی چیز جو مظہر جمیع عجائبات صنعت الہی ہے مصنوع اور مخلوق ہونے سے باہر نہیں رہ سکتی بلکہ وہ سب چیزوں سے اول درجہ پر مصنوعیت کی مہر اپنے وجود پر رکھتی ہے اور سب سے زیادہ تر اور کامل تر صانع قدیم کے وجود پر دلالت کرتی ہے سو اس دلیل سے روحوں کی مخلوقیت صرف نظری طور پر ثابت نہیں بلکہ در حقیقت اجلی ہدیہات ہے.ماسوا اس کے دوسری چیزوں کو اپنی مخلوقیت کا علم نہیں مگر روحیں فطرتی طور پر اپنی مخلوقیت کا علم رکھتی ہیں.ایک جنگلی آدمی کی روح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتی کہ وہ خود بخود ہے، اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی یعنی روحوں سے میں نے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب ( پیدا کنندہ) نہیں ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں یہ سوال وجواب حقیقت میں اس پیوند کی طرف اشارہ ہے جو مخلوق کو اپنے خالق سے قدرتی طور پر متحقق ہے جس کی شہادت روحوں کی فطرت میں نقش کی گئی ہے.سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۶۸) اس مذہب کی خدا شناسی نہایت صاف صاف اور انسانی فطرت کے مطابق ہے اگر تمام مذہبوں کی کتابیں نابود ہو کر ان کے سارے تعلیمی خیالات اور تصورات بھی محو ہو جائیں تب بھی وہ خدا جس کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے آئینہ قانون قدرت میں صاف صاف نظر آئے گا اور اس کی قدرت اور حکمت سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۲ سورة الاعراف b بھری ہوئی صورت ہر یک ذرہ میں چمکتی ہوئی دکھائی دے گی.غرض وہ خدا جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قبری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیت کریمہ: الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی کے ہر یک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے.اس کی طرف جھکنے کے لئے ہر یک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہر یک چیز کا خالق ہے کیونکہ نور قلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کیلئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف نے اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اِن مِن شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (بنی اسرائیل : ۴۵) یعنی ہر یک چیز اس کی پا کی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے ایک غور کرنے والا انسان ضرور اس بات کو قبول کر لے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے پس اگر وہ تعلق خدا کا خالق ہونا نہیں تو کوئی آریہ وغیرہ اس بات کا جواب دیں کہ اس تعلق کی وید وغیرہ میں کیا ماہیت لکھی ہے؟ اور اس کا کیا نام ہے؟ کیا یہی سچ ہے کہ خدا صرف زبر دستی هر یک چیز پر حکومت کر رہا ہے اور ان چیزوں میں کوئی طبعی قوت اور شوق خدا تعالی کی طرف جھکنے کا نہیں ہے؟ معاذ اللہ ہرگز ایسا نہیں بلکہ ایسا خیال کرنا نہ صرف حماقت بلکہ پرلے درجہ کی خباثت بھی ہے مگر افسوس کہ آریوں کے وید نے خدا تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کر کے اس روحانی تعلق کو قبول نہیں کیا جس پر طبعی اطاعت ہر یک چیز کی موقوف ہے اور چونکہ دقیق معرفت اور دقیق گیان سے وہ ہزاروں کوس دور تھے لہذا یہ سچا فلسفہ ان سے پوشیدہ رہا ہے کہ ضرور تمام اجسام اور ارواح کو ایک فطرتی تعلق اس ذات قدیم سے پڑا ہوا ہے اور خدا کی حکومت صرف بناوٹ اور زبردستی کی حکومت نہیں بلکہ ہر یک چیز اپنی روح سے اس کو سجدہ کر رہی ہے کیونکہ ذرہ ذرہ اس کے بے انتہا احسانوں میں مستغرق اور اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۹۷،۲۹۶) ایک اور دلیل اپنی ہستی پر قرآن شریف میں پیش کرتا ہے: الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی یعنی میں نے روحوں کو کہا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں.اس آیت میں خدا تعالی قصہ کے رنگ میں روحوں کی اس خاصیت کو بیان فرماتا ہے جو ان کی فطرت میں اُس نے رکھی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی روح فطرت کی رو سے خدا تعالیٰ کا انکار نہیں کر سکتی.صرف منکروں کو اپنے خیال میں دلیل نہ ملنے کی وجہ سے انکار
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة الاعراف ہے مگر باوجود اس انکار کے وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہر ایک حادث کے واسطے ضرور ایک محدث ہے.دنیا میں ایسا کوئی نادان نہیں کہ اگر مثلاً بدن میں کوئی بیماری ظاہر ہو تو وہ اس بات پر اصرار کرے کہ در پردہ اس بیماری کے ظہور کی کوئی علت نہیں.اگر یہ سلسلہ دنیا کا عمل اور معلول سے مربوط نہ ہوتا تو قبل از وقت یہ بتادینا کہ فلاں تاریخ طوفان آئے گا یا آندھی آئے گی یا خسوف ہوگا یا کسوف ہوگا یا فلاں وقت بیمار مر جائے گا یا فلاں وقت تک ایک بیماری کے ساتھ فلاں بیماری لاحق ہو جائے گی.یہ تمام باتیں غیر ممکن ہو جائیں.پس ایسا محقق اگر چہ خدا کے وجود کا اقرار نہیں کرتا مگر ایک طور سے تو اس نے اقرار کر ہی دیا کہ وہ بھی ہماری طرح معلولات کے لئے عمل کی تلاش میں ہے.یہ بھی ایک قسم کا اقرار ہے اگر چہ کمال اقرار نہیں.ماسوا اس کے اگر کسی ترکیب سے ایک منکر وجود باری کو ایسے طور سے بے ہوش کیا جائے کہ وہ اس سفلی زندگی کے خیالات سے بالکل الگ ہو کر اور تمام ارادوں سے معطل رہ کر اعلیٰ ہستی کے قبضہ میں ہو جائے تو وہ اس صورت میں خدا کے وجود کا اقرار کرے گا.انکار نہیں کرے گا.جیسا کہ اس پر بڑے بڑے مجرمین کا تجربہ شاہد ہے.سوائیسی حالت کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اور مطلب آیت یہ ہے کہ انکار وجود باری صرف سفلی زندگی تک ہے ورنہ اصل فطرت میں اقرار بھرا ہوا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۱) نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ پر ہے اور محبت ذاتیہ اس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے.پھر جس حالت میں ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر اُن کی فطرتی محبت پر میٹر سے کیوں کر ہو سکتی ہے اور کب اور کس وقت پر میشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی یہ تو غیر ممکن ہے.وجہ یہ کہ فطرتی محبت اُس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو جیسا کہ اسی کی طرف اللہ تعالی قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول ہے: الستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی یعنی میں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے پس رُوح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعاً وفطر نا محبت ہے اس لئے کہ وہ اسی کی پیدائش ہے.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۳، ۳۶۴) انسانی روح میں بڑے بڑے عجیب و غریب خواص اور تغیرات رکھے گئے ہیں کہ وہ اجسام میں نہیں اور b روحوں پر غور کر کے جلد تر انسان اپنے رب کی شناخت کر سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ من
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورة الاعراف عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ ربہ یعنی جس نے اپنے نفس کو شناخت کر لیا اُس نے اپنے رب کو شناخت کرلیا.پھر ایک اور جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الستُ بِرَنِكُمْ قَالُوا بَلی یعنی میں نے رُوحوں کو پوچھا کہ کیا میں تمہارا پیدا کرنے والا نہیں تو تمام روحوں نے یہی جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ روحوں کی فطرت میں یہی منقش اور مرکوز ہے کہ وہ اپنے پیدا کنندہ کی قائل ہیں اور پھر بعض انسان غفلت کی تاریکی میں پڑکر اور پلید تعلیموں سے متاثر ہو کر کوئی دہریہ بن جاتا ہے اور کوئی آریہ اور اپنی فطرت کے مخالف اپنے پیدا کنندہ سے انکار کرنے لگتے ہیں.ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے باپ اور ماں کی محبت رکھتا ہے یہاں تک کہ بعض بچے ماں کے مرنے کے بعد مر جاتے ہیں پھر اگر انسانی روحیں خدا کے ہاتھ سے نہیں نکلیں اور اس کی پیدا کردہ نہیں تو خدا کی محبت کا نمک کس نے اُن کی فطرت پر چھڑک دیا ہے اور کیوں انسان جب اُس کی آنکھ کھلتی ہے اور پردہ غفلت دُور ہوتا ہے تو دل اُس کا خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور محبت الہی کا دریا اس کے صحن سینہ میں بہنے لگتا ہے آخر ان روحوں کا خدا سے کوئی رشتہ تو ہوتا ہے جو اُن کو محبت الہی میں دیوانہ کی طرح بنا دیتا ہے وہ خدا کی محبت میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ تمام چیزیں اس کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ وہ عجیب تعلق ہے ایسا تعلق نہ ماں کا ہوتا ہے نہ باپ کا.پس اگر بقول آریوں کے رُوحیں خود بخود ہیں تو یہ تعلق کیوں پیدا ہو گیا اور کس نے یہ محبت اور عشق کی قوتیں خدا تعالیٰ کے ساتھ روحوں میں رکھ دیں یہ مقام سوچنے کا مقام ہے اور یہی مقام ایک سچی معرفت کی کنجی ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۶، ۱۶۷) انسان تعتبر ابدی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور طبعی طور پر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے پس اس وجہ سے انسان کی روح کو خدا تعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے جیسا کہ آیت : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى (برائین احمدیہ حصہ باشیم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰۰) سے ظاہر ہوتا ہے.روحوں کے قومی جن میں خدا تعالیٰ کا عشق پیدا ہوا ہے بزبانِ حال گواہی دے رہے ہیں جو وہ خدا کے b ہاتھ سے نکلے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۰) انسان کی فطرت ہی میں اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ - قَالُوا بَلی نقش کیا گیا ہے.اور تثلیث سے کوئی مناسبت حیات انسانی اور تمام اشیائے عالم کو نہیں ایک قطرہ پانی کا دیکھو تو گول نکالتا ہے مثلث کی شکل میں نہیں نکلتا اس سے بھی صاف طور پر یہی پایا جاتا ہے کہ توحید کا نقش قدرت کی ہر چیز میں رکھا ہوا ہے خوب غور سے دیکھو کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة الاعراف پانی کا قطرہ گول ہوتا ہے اور کروی شکل میں تو حید ہی ہوتی ہے.اس لیے کہ وہ جہت کو نہیں چاہتی اور مثلث شکل جہت کو چاہتی ہے چنانچہ آگ کو دیکھو شکل بھی مخروطی ہے اور وہ بھی کردیت اپنے اندر رکھتی ہے اس سے بھی توحید کا نور چمکتا ہے.زمین کو لو اور انگریزوں ہی سے پوچھو کہ اس کی شکل کیسی ہے؟ کہیں گے گول! الغرض طبیعی تحقیقا تیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں تو حید ہی تو حید نکلتی چلی جائے گی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۱ ) سوال پیش ہوا کہ جب ایک شخص نے ایک بات تحصیل کی ہے تو دوبارہ اسی کے تحصیل کرنے سے کیا ط حاصل ہے؟ فرمایا ) ہم اس اصول کو لا نُسَلّم کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے.قرآن میں لکھا ہے: قَالَ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بلی یعنی جب روحوں سے خدا نے سوال کیا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو وہ بولیں کہ ہاں ! تو اب سوال ہو سکتا ہے کہ روحوں کوعلم تو تھا پھر انبیاء کو خدا نے کیوں بھیجا گویا تحصیل حاصل کرائی.یہ اصل میں غلط ہے.ایک تحصیل پھیکی ہوتی ہے ایک گاڑھی ہوتی ہے.دونوں میں فرق ہوتا ہے وہ علم جو کہ نبیوں سے ملتا ہے اس کی تین اقسام ہیں ؛ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین.اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص دور سے دھواں دیکھے تو اسے علم ہو گا کہ وہاں آگ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے وہاں دھواں بھی ہوتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں.یہ بھی ایک قسم کا علم ہے جس کا نام علم الیقین ہے.مگر اور نزدیک جا کر وہ اس آگ کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں پھر اگر اپنا ہاتھ اس آگ پر رکھ کر اس کی حرارت وغیرہ کو بھی دیکھ لیوے تو اسے کوئی شبہ اس کے بارے میں نہ رہے گا اور اس طرح سے جو علم اسے حاصل ہوگا اس کا نام حق الیقین ہو گا اب کیا ہم اسے تحصیل حاصل کہہ سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ! البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳۷ ) خدا کے ساتھ تو انسان کا فطرتی تعلق ہے کیونکہ اس کی فطرت خدا تعالی کے حضور میں الستُ بِرَبِّكُمْ کے جواب میں قانو ابلی کا اقرار کر چکی ہوئی ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۰۷ ء صفحه ۶) وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعتُهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَيهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ.سورة الاعراف ابتدائی رؤیا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندہ کو بلانا چاہتا ہے مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشقی نہیں ہوتی چنانچہ بلغم کو الہامات ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ کوشتنا لرفعنه ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا.یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ بن نہیں سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آویں اور ہیضہ و بشریت سے وہ نکل نہ آئے.احکام جلد ۵ نمبر ۱۶ مورخه ۱۷۳۰ پریل ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) نجات کامل خدا ہی کی طرف مرفوع ہو کر ہوتی ہے اور جس کا رفع نہ ہو وہ : اخْلَد إِلَى الْأَرْضِ ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۷ار فروری ۱۹۰۱، صفحہ ۷) ملے وَ لَقَد ذَرَ أنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ لَهُم قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمُ اعْيُنَ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَذَانُ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَبِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَبِكَ هُمُ الْغَفِلُونَ.انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لئے زندگی وقف نہیں کرتا تو وہ یا درکھے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا کیا ہے.اس آیت سے یہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ بعض خام خیال کو تاہ فہم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہر ایک آدمی کو جہنم میں ضرور جانا ہوگا.یہ غلط ہے.ہاں ! اس میں شک نہیں کہ تھوڑے ہیں جو جہنم کی سزا سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ تعجب کی بات نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے : قَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشكور (سبا: ۱۴) - اب سمجھنا چاہیے کہ جہنم کیا چیز ہے؟ ایک جہنم تو وہ ہے جس کا مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے اور دوسرے یہ زندگی بھی اگر خدا تعالی کے لیے نہ ہو تو جہنم ہی ہے.اللہ تعالیٰ ایسے انسان کا تکلیف سے بچانے اور آرام دینے کے لیے متولی نہیں ہوتا.یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہری دولت یا حکومت یا مال و عزت اولاد کی کثرت کسی شخص کے لیے کوئی راحت یا اطمینان اور سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دم نقد بہشت میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة الاعراف ہوتا ہے.ہر گز نہیں ! وہ اطمینان اور وہ تسلی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے.ان باتوں سے نہیں ملتی وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے جس کے لیے انبیاء علیہم السلام خصوصاً ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کی بھی وصیت تھی کہ : لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ انْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة : ۱۳۳) - لذات دنیا تو ایک قسم کی نا پاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں، استقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.پس یہ بے جا آرزوؤں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اسی جہنم کی آگ کے ہے.جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطان پیچان رکھتا ہے اس لیے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہر گز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یازن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشے میں ایسا دیوانہ اور از خود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے مال اور اولاد اسی لیے تو فتنہ کہلاتی ہے، ان سے بھی انسان کے لیے ایک دوزخ تیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ : نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ ( الهمزة : ۸،۷).منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنادیتی ہے یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے.دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کی رگڑ سے الہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہو کر خدا سے دور ہو جاتا اور ہر قسم کی بیقراری کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جبکہ دنیا کی چیزوں سے جو تعلق ہو وہ خدا میں ہو کر ایک تعلق ہو اور ان کی محبت خدا کی محبت میں ہو کر ہو اس وقت باہمی رگڑ سے غیر اللہ کی محبت جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے پھر خدا کی رضا اس کی رضا اور اس کی رضا خدا کی رضا کا منشاء ہو جاتا ہے اس حالت پر پہنچ کر خدا کی محبت اس کے لیے بمنزلہ جان ہوتی ہے اور جس طرح زندگی کے واسطے لوازم زندگی ہیں.اس کی زندگی کے واسطے خداور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے.دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خوشی اور راحت خدا ہی میں ہوتی ہے.پھر دنیاداروں کے نزدیک اگر اسے کوئی رنج اور کرب پہنچے تو پہنچے لیکن اصل یہی بات ہے کہ اس ہم و غم میں بھی وہ اطمینان اور سکینت سے الہی لذت لیتا ہے جو کسی دنیا دار کی نظر کے بڑے سے بڑے فارغ البال کو بھی نصیب نہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۸ سورة الاعراف برخلاف اس کے جو کچھ حالت انسان کی ہے وہ جہنم ہے گویا خدا تعالیٰ کے سوازندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے پھر حدیث شریف سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپ بھی حرارت جہنم ہی ہے، امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو لاحق حال ہوتے ہیں یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہیں اور یہ اس لیے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں اور جزاوسزا کے مسئلے کی حقیقت پر دلیل ہوں اور کفارہ کے لغو مسئلہ کی تردید کریں.مثلاً جذام ہی کو دیکھو کہ اعضاء گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضاء سے جاری ہے.آواز بیٹھ گئی ہے.ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں.عزیز سے عزیز بیوی فرزند ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں.بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پتھریاں ہو جاتی ہیں.اندر پیٹ میں رسولیاں ہوجاتی ہیں.یہ ساری بلائیں اس لیے انسان پر آتی ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پرواہ نہیں کرتا اس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے.اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جہنم کے لیے اکثر انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جہنم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے ان کو جنت کی طرف بلا یا جاتا ہے.پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال انسان اپنی کو انہ عقل پر عمل کر لیتا ہے پس آخرت کا جہنم بھی ہوگا اور دنیا کے جہنم سے بھی مخلصی اور رہائی نہ ہوگی کیونکہ دنیا کا جہنم تو اس جہنم کے لیے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۳ مورخه ۱۶ستمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۷،۶) وہ لوگ جو صرف باپ دادے کی تقلید پر چلنے والے ہیں وہ دل تو رکھتے ہیں پر دلوں سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں پر آنکھوں کو دیکھنے سے معطل چھوڑا ہوا ہے اور کان بھی رکھتے ہیں پر وہ بھی بیکار پڑے ہوئے ہیں یہ لوگ چار پایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۹۱٬۹۰ حاشیہ نمبر ۵) أوليك كالأَنْعَامِ الجزو نمبر و یعنی ایسے ہیں جیسے چار پائے اور نور فطرتی ان کا اس قدر کم ہے کہ ان میں اور مویشی میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے.برائین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۵ حاشیہ نمبر ۱۱) ص لِلهِ الأَسْمَاءِ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة الاعراف ـآبِه سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.خدا کے تمام کامل نام اسی سے مخصوص ہیں اور ان میں شرکت غیر کی جائز نہیں سو خدا کو انہیں ناموں سے پکار و جو بلا شرکت غیرے ہیں یعنی نہ مخلوقات ارضی و سماوی کے نام خدا کے لیے وضع کرو اور نہ خدا کے نام مخلوق چیزوں پر اطلاق کرو اور ان لوگوں سے جدار ہو جو کہ خدا کے ناموں میں شرکت غیر جائز رکھتے ہیں.عنقریب وہ اپنے کاموں کا بدلہ پائیں گے.براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد نمبر ۱ صفحه ۵۲۲، ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اَو لَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ وَ اَنْ عَسَى أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ لَا يُؤْمِنُونَ مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا - قرآن کریم کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے اور ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس وہ نص جو اوّل درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں وَالظَّنُ لَا يُغْنِی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۳) حسب آیت کریمہ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ نَا يُؤْمِنُونَ.اور بحسب آیت کریمہ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَ الته يُؤْمِنُونَ (الجاثية :۷ ) ہر ایک حدیث جو صریح آیت کے معارض پڑے رد کرنے کے لائق ہے اور آخری نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تھی کہ تم نے تمسک بکتاب اللہ کرنا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱۰) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايْتِهِ يُؤْمِنُونَ یعنی خدا اور اس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے.اس جگہ حدیث کے لفظ کی تنگیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلا رہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو.اس کو رد کر دو اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارة النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالی آیت ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس امت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراد اس امت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۰۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۰ سورة الاعراف اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايْتِهِ يُؤْمِنُونَ (الجاثية : ۷) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے؟ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جوصریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے.پھر فرماتا ہے : فَيَايَ حَدِيثٍ بَعْدَ ذَ يُؤْمِنُونَ ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں.سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا یا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شر طی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے.......جوا مر قول یا فعل یا تقریر کے طور پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف احادیث میں بیان کیا گیا ہے.ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے اور دیکھیں گے کہ حسب آیہ شریفہ : قباي حَدِيثٍ بَعْدَ ذَايُؤْمِنُونَ وه حديث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں.اگر مخالف نہیں ہوگی تو ہم بسر و چشم اس کو قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری پوری کوشش کے اس امر تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہوگی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کر دیں گے کیونکہ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے پایہ اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا.قرآن کریم وحی متلو ہے اور اس کے جمع کرنے اور محفوظ رکھنے میں وہ اہتمام بلیغ کیا گیا ہے کہ احادیث کے اہتمام کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں.اکثر احادیث غایت درجہ مفید ظن ہیں اور ظنی نتیجہ کی منتج ہیں اور اگر کوئی حدیث تو اتر کے درجہ پر بھی ہوتا ہم قرآن کریم کے تواتر سے اس کو ہرگز مساوات نہیں.الحق مباحثہ لدھیانه، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲، ۱۳) ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوۃ وحی سے نور حاصل کر نیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲) مخالف ہیں.بعد اللہ جل شانہ کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے؟ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف ترغیب ہے کہ ہر ایک قول اور حدیث کتاب اللہ پر عرض کر لینا چاہئے.اگر کتاب اللہ نے ایک امر کی نسبت ایک فیصلہ ناطق اور مؤید دے دیا ہے جو قابل تغییر اور تبدیل نہیں تو پھر ایسی حدیث دائرہ صحت سے خارج ہوگی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۱ سورة الاعراف جو اس کے مخالف ہے.لیکن اگر کتاب اللہ فیصلہ مؤیدہ اور نا قابل تبدیل نہیں دیتی تو پھر اگر وہ حدیث قانون روایت کے رو سے صحیح ثابت ہو تو ماننے کے لائق ہے.(احق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۸،۱۰۷) يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيَكُم إِلَّا بَغْتَةً يَسْتَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِى عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا 199191 يعلمون ١٨٨ وَالْكَلَامُ الْمُفَضَّلُ فِي ذلِك أَنَّ أَمَارَاتِ تفصیلی کلام اس بارہ میں یوں ہے کہ قیامت الْقِيَامَةِ عَلى قِسْمَيْنِ : الْأَمَارَاتُ الضُّغُریٰ کی نشانیوں کی دو قسمیں ہیں.۱.امارات صغری.وَالْأَمَارَاتُ الْكُبْرَى أَمَّا الْأَمَارَاتُ الصُّغرى -۲- امارات کبرئی.امارات صغری کبھی کبھی اپنی فَقَدْ تَبْدُوْ وَتَظْهَرُ عَلَى صُورَتِهَا الظَّاهِرَةِ، وَقَدْ ظاہری صورت پر بھی ظاہر ہو جاتی ہیں اور کبھی ان کا تَنكَشِفُ وُجُودُهَا فِي حُلّل الْإِسْتِعَارَاتِ ظهور استعارات کے لباس میں ہوتا ہے لیکن وَلَكِنَّ الْأَمَارَاتِ الْكُبْرَى فَلَا تَظْهَرُ عَلى امارات کبری کبھی بھی ظاہری صورت میں ظاہر نہیں صُورَتِهَا الظَّاهِرَةِ أَصْلًا، وَلَا بُلَّ فِيْهَا أَنْ تَظْهَرَ ہوتیں ان کے بارہ میں ضروری ہے کہ وہ في حُلَلِ الْاِسْتِعَارَاتِ وَالْمَجَازَاتِ وَالسّر استعارات اور مجازات کے رنگ میں ظاہر ہوں اور في هَذَا الْأَمْرِ أَنَّ السَّاعَةَ لَا تَأْتِي إِلَّا بَغْتَهُ كَمَا اس میں بھید یہ ہے کہ قیامت کا اچانک آنا مقدر قَالَ اللهُ تَعَالَى يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَسْتَلُونَكَ عَنِ مرسهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِيهَا السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُو : ثَقُلَتْ في السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا عِندَ رَبِّي لَا يُعَلَيْهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلتُ تَأْتِيَكُمُ إِلَّا بَغْتَةً يَسْتَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا فِي السَّبُوتِ وَ الْاَرْضِ لَا تَأْتِيَكُم إِلَّا بَغْتَةً قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَسْتَدُونَكَ كَانَّكَ حَفِى عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ - ( ترجمه از مرتب) يَعلَمُونَ (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۰۲، ۳۰۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۲ سورة الاعراف (سوال پیش ہوا کہ جولوگ لڑائیوں میں جاتے ہیں اور وہاں قتل کرتے ہیں کیا وہ قتل ان کا گناہ ہے یا نہیں؟) ( فرمایا : ( عِلْمُهَا عِندَ رَبّی میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) اَلَهُمْ اَرْجُلُ يَمْشُونَ بِهَا اَمَ لَهُمُ أَي يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنَ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَذَانَ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُون (۱۹۶ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں ، کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ، کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ برائن احمد یه چهار ص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَ كُمُ الحَ ان کو کہ کہ تم میرے مغلوب کرنے کے لیے اپنے معبودوں سے کہ جو تمہارے زعم میں خدا کے شریک ہیں مدد طلب کرو اور میرے نا کام رہنے کے لیے ہر ایک طور کا مکر کرو اور مجھے ذرا مہلت مت دو.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر۱۱) حق کی یہ بھی ایک پہچان ہے اور اس کی شناخت کا یہ ایک عمدہ معیار ہے کہ دنیا اپنے سارے ہتھیاروں سے اس کی مخالفت پر ٹوٹ پڑے، جان سے، مال سے، اعضاء سے عزت سے اور اندرونی اور بیرونی لوگ اور اپنے اور پرائے گویا سب ہی اس کی مخالفت پر کھڑے ہو جاویں اور پھر وہ ( حق ) آگے ہی آگے قدم رکھتا جاوے اور کوئی روک اس کی ترقی کو روک نہ سکے چنانچہ قرآن شریف میں ہے فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تنظرون الخ سواس معیار سے ہمارے سلسلہ کو پر کھا جائے تو ایک طالب حق کے واسطے کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا.دیکھ لونہ ہمارا کوئی واعظ ہے، نہ کوئی لیکچرار اور دشمن بھی کیا اندرونی اور کیا بیرونی سب اکٹھے ہو کر ہمارے تباہ کرنے کی کوشش میں لگے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں ہمیں کامیاب کیا اور دشمن ذلیل ہوئے کفر کے فتویٰ لگائے قتل کا مقدمہ کیا.غرض کہ انہوں نے کوئی دقیقہ ہماری بربادی کا اُٹھا نہ رکھا مگر کیا خدا ( تعالیٰ) سے کوئی جنگ کر سکتا ہے؟ ہماری ترقی کے خود مخالف ہی باعث اور محرک ہیں.بہت لوگوں نے انہیں کے رسائل سے اطلاع پا کر ہماری بیعت کی اگر واعظ وغیرہ ہماری طرف سے ہوتے تو ہمیں ان کا بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة الاعراف مشکور ہونا پڑتا اور یہ بھی ایک شعبہ شرک کا ہو جا تا مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچایا ایک آبپاشی اور تخم ریزی تو کسان کرتا ہے اور ایک خود خدا کرتا ہے ہم اور ہماری جماعت خدا تعالیٰ) کی تخم ریزی اور آبپاشی سے ہیں تو خدا کے لگائے ہوئے پودا کو کون اُکھاڑ سکتا ہے.البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۷) اِنَّ وَلِي اللَّهُ الَّذِى نَزَّلَ الْكِتَبَ * وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ 194 میرا کارساز وہ خدا ہے جس نے اپنی کتاب کو نازل کیا ہے اور اس کا یہی قانونِ قدرت ہے کہ وہ صالحین کے کاموں کو آپ کرتا ہے اور ان کی مہمات کو خود متوتی ہوتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کار ساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے سچے اور صالح رسولوں کی آپ کا رسازی کرتا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۹ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ایک مقام تو کل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے ان کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میسر نہیں آسکتا بلکہ انہیں کے لیے وہ خوشگوار اور موافق کیا جاتا ہے اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہو کر اور اسباب عادیہ سے بکلی اپنے تئیں دور پا کر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا ان کے پاس ہزار ہا خزائن ہیں ان کے چہروں پر تونگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے اور تنگیوں کی حالت میں بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں سیرت ایثار ان کا مشرب ہوتا ہے اور خدمت خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا اگر چہ سارا جہان ان کا عیال ہو جائے اور فی الحقیقت خدا تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ ان کی پردہ پوشی کرتی ہے اور قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو وامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ ان کے تمام کاموں کا خدا متولی ہوتا ہے جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے : وَهُوَ يَتَوَلّى الصّلِحِنین.لیکن دوسروں کو دنیا داری کے دل آزار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی.برائین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۵۳۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة الاعراف خدا تعالیٰ متقی اور مومن کی زندگی کا ذمہ دار ہے هُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحین اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور اور چو پاؤں کے مشابہ ہیں ان کی زندگی کا کفیل نہیں.(احکم جلد ۴ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۳) نیکیوں کا وہ آپ والی بن جاتا ہے پس کون ہے جو مرد صالح کو ضرر دے سکے؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا ہوا ہے کہ وہ متقیوں کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور توکل کرتا ہے تو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرتا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دیتا ہے اور ایک اور خدا اپنے لیے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے.القام جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۶) وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ جیسے ماں اپنی اولاد کی والی ہوتی ہے ویسے ہی وہ نیکوں کا والی ہوتا ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹۲) جس طرح ماں بچے کی متولی ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں صالحین کا متکفل ہوتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہے اور اس کے مال میں طرح طرح کی برکتیں ڈال دیتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۲۱۷) جب تک انسان اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا اور اس کے وعدوں پر سچا یقین نہیں کرتا اور ہر ایک مقصود کا دینے والا اسی کو نہیں سمجھتا اور کامل صلاح اور تقویٰ اختیار نہیں کر لیتا تو اس وقت تک وہ حقیقی راحت دستیاب نہیں ہو سکتی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ یعنی جو صلاحیت اختیار کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کا متولی ہو جاتا ہے.انسان جو متولی رکھتا ہے اس کے بہت بوجھ کم ہو جاتے ہیں بہت ساری ذمہ داریاں گھٹ جاتی ہیں.بچپن میں ماں بچے کی متولی ہوتی ہے تو بچے کو کوئی فکر اپنی ضروریات کا نہیں رہتا.وہ خود ہی اس کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے اس کے کپڑوں اور کھانے پینے کے خود ہی فکر میں لگی رہتی ہے اس کی صحت قائم رکھنے کا دھیان اسی کو رہتا ہے اس کو نہلاتی اور دھلاتی ہے اور کھلاتی اور پلاتی ہے.یہاں تک کہ بعض وقت اس کو مار کر کھانا کھلاتی اور پانی پلاتی اور کپڑا پہناتی ہے.بچہ اپنی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا بلکہ ماں ہی اس کی ضرورتوں کو خوب سمجھتی اور ان کو پورا کرنے کے خیال میں لگی رہتی ہے اسی طرح جب ماں کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطان ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے لیکن جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة الاعراف لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقویٰ اور اصلاح اختیار کرتے ہیں.ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے.انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے.گر نہ ستانی به ستم مے رس والی نوبت ہوتی ہے لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خدا اس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خدا تعالیٰ کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ و النَّاسِ.پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لیے کافی ہو سکتے تھے پھر وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور ثابت قدمی دکھانے سے خدا کو اپنا متولی پاتا ہے اس وقت اس کو بڑی راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے.خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا.یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے.دنیاوی حالتوں میں انسان تلخی سے خالی نہیں ہوسکتا.دشت دنیا کانٹوں سے بھری ہوئی ہے.دشت دنیا جز و دو جز دام نیست جز بخلوت گاه حق آرام نیست جن کا اللہ تعالیٰ متولی ہو جاتا ہے وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک سچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۵،۴) اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے اگر اولاد صالح تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے : هُوَ يَتَوَلَّى الصّالِحِينَ یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لیے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة الاعراف مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لیے لازمی ہیں.جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشاء سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کوشش کرے اور دعائیں کرے.اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا اور اگر بد چلن ہے تو جائے جہنم میں اس کی پر واہ تک نہ کرے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۶) اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ من انصاری الی اللہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکر گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں من انصاری الی اللہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے وہ دنیا کو ایک رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ وو امَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے.میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیوں کر مدد کر سکتا ہے اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نعم المولى ونعم الوکیل و نعم النصیر.دنیا اور دنیا کی مدد میں ان لوگوں کے سامنے حال میت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے کاروبار کا متولی خدا تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر اصفحه ۸) وَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ ووو ينصرون ہیں.ވމ ۱۹۸ جن چیزوں کو تم اپنی مدد کے لیے پکارتے ہو وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مددکر سکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کر سکتے ( براہینِ احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۹ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) وَ اِنْ تَدعُوهُمْ إِلَى الْهُدى لَا يَسْمَعُوا وَ تَراهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يبصرون ١٩٩ اس کا مرنا اور جینا اپنے لئے نہیں بلکہ خدا ہی کے لئے ہو جائے.تب وہ خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الاعراف والوں کے ساتھ پیار کرتا آیا ہے اپنی محبت کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لئے خون ہوا کہ دنیا نے ان کو نہیں پہچانا.وہ اسی لئے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی جیسا کہ فرماتا ہے : ينظرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ یعنی وہ جو منکر ہیں تیری طرف دیکھتے تو ہیں مگر تو انہیں نظر نہیں آتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۴) تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۲۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہر ایک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا.ہاں! جو لوگ بیگا نہ ہیں وہ یگانہ حضرت احدیت کو شناخت نہیں کر سکتے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں.پر تو انہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکا را بیگانہ بعض پر جا پڑتا ہے.جیسے ایک عیسائی نے جبکہ مباہلہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حسنین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم عیسائیوں کے سامنے آئے.دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو.مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا.سوخدا جانے کہ اس وقت نور نبوت و ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کافر، بد باطن، سیاہ دل کو بھی نظر آ گیا.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۸۹۹ ء صفحه ۴) خُذِ الْعَفْوَ وَامُرُ بِالْعُرْفِ وَاعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتے نے کاٹا.گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتے نے کاٹ کھایا ہے.ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی.وہ بولی آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا ؟ اس نے جواب دیا.بیٹی انسان سے کت پن نہیں ہوتا اسی طرح سے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے.نہیں تو وہی کت پین کی مثال صادق آئے گی خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں، بہت بری طرح ستایا گیا مگر ان کو أَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ کا ہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة الاعراف خطاب ہوا.خود اس انسانِ کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لیے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۹۹) وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قَالُوا لَو لَا اجْتَبَيْتَهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا اتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي هَذَا بَصَابِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ اور جس دن تو ان کو کوئی آیت نہیں سناتا اس دن کہتے ہیں کہ آج تو نے کوئی آیت کیوں نہ گھڑی؟ ان کو کہہ کہ میں تو اسی کلام کی پیروی کرتا ہوں کہ جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر نازل ہو رہا ہے اپنے دل سے گھڑ لینا میرا کام نہیں اور نہ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن کو انسان اپنے افتراء سے گھڑ سکے.یہ تو میرے رب کی طرف سے بصائر ہیں یعنی اپنے منجانب اللہ ہونے پر آپ ہی روشن دلیلیں ہیں اور ایمانداروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے.برائین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۷،۲۵۶ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۹ سورة الانفال بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانفال بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَةَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ص أَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ یعنی آپس میں صلح کاری اختیار کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۹) إذْ يَعِدُكُمُ اللهُ إحْدَى الطَّابِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقِّ بِكَلِمَتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الكفرين.وَيُرِيدُ اللهُ أَنْ يُحِقِّ الْحَقِّ بِكَلِمَتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ خدا کا یہ ارادہ ہو رہا ہے کہ اپنے کلام سے حق کو ثابت کرے اور کافروں کے عقائد باطلہ کو جڑ سے کاٹ دے.(براہین احمدیہ چہار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۷ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة الانفال لِيُحِقَ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ® تا سچے مذہب کی سچائی اور جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ ثابت کر کے دکھلا دے اگر چہ مجرم لوگ کراہت ہی (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۷ حاشیہ نمبر ۱۱) کریں.اذ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ إِنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأَلْقَى فِي قُلُوبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ أَى هَاتُوا قُلُوبَهُمْ وَأَلْقُوا فِيهَا یعنی ان کو دلوں پر اثر انداز ہو جاؤ اور ان میں ثابت كَلِمَاتِ التَّثْبِيتِ يَعْنِي قُولُوا لا قدم رہنے کے کلمات ڈالو یعنی ان سے کہو کہ تم خوف نہ کھاؤ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَكَمِثْلِهِ مِن كَلِمَاتٍ اور تم غم نہ کرو اور اسی قسم کے دوسرے کلمات جن کے ساتھ ان تَطْمَئِنُ بِهَا قُلُوبُهُمْ فَهْذِهِ الْآيَاتُ کے قلوب مطمئن ہو جائیں.پس یہ تمام آیات دلالت کرتی كُلُهَا تَدُلُّ عَلى أَنَّ اللهَ قَد يُكَلِّمُ أَوْلَيَاء 6 ہیں اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے کبھی کبھی کلام کرتا وَيُخَاطِبُهُمْ لِيَزْدَادَ يَقِينُهُمْ وَبَصِيرَ عُهُمْ ہے اور ان سے مخاطب ہوتا ہے تا ان کا یقین اور بصیرت زیادہ ہو اور تا وہ اطمینان یافتہ ہو جائیں.( ترجمہ از مرتب) وَلِيَكُونُوا مِنَ الْمُطْمَئِيِّينَ.(حمامة البشری، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۹۹) ص فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى وَلِيُبَلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاء حَسَنًا إِنَّ اللهَ سَمِيع وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَلی تو نے نہیں چلایا.خدا نے ہی چلا یا جب کہ تو نے چلایا.سرمه چشم آرمیده روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۶ حاشیه ) ہمارے سید و مولی سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة الانفال کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ ری یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا یعنی در پردہ الہی طاقت کام کر گئی ، انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵) یادر ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں.اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ کے مظہر اتم ہیں.لہذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے.جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے : وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً للعلمينَ (الانبياء : ۱۰۸) یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کر کے تجھے بھیجا ہے اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے : وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى - (ضمیمہ تحفہ گولڑو یه روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۶۸ حاشیه واربعین نمبر ۳، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۱ حاشیه ) اہل اللہ قرب الہی میں ایسے مقام پر جا پہنچتے ہیں جبکہ ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متواری کر لیتا ہے اور جس طرح آگ لوہے کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور ظلی طور پر وہ صفات الہیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرتا ہے اس وقت اس سے ہدوں دعا و التماس ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر الوہیت کے خواص رکھتے ہیں اور وہ ایسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں جو جس طرح کہتے ہیں اسی طرح ہو جاتی ہیں.قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور زبان سے ایسے امور کے صدور کی بصراحت بحث ہے جیسا کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رفی - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحه ۱۴۱) ذلِكُمْ وَاَنَّ اللهَ مُوْهِن كَيْدِ الْكَفِرِينَ.خدا تعالیٰ کا فروں کے مکر کوست کر دے گا اور ان کو مغلوب اور ذلیل کر کے دکھلائے گا.( براہینِ احمد یہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) وَ لَوْ عَلِمَ اللهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَهُمْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام معْرِضُونَ ۲۷۲ سورة الانفال اس میں بھی خدا تعالی کی حکمت ہے کہ فلاں فلاں مسلمان عالم ہمارے سلسلہ میں داخل نہیں اگر یہ داخل ہوتے تو خدا جانے کیا کیا فتنے برپا کرتے.کو عَلِمَ اللهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ -.(البدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مؤرخہ ۹ مئی ۱۹۰۷ء صفحه ۴) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّةٌ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ) ۲۵ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر مردے زندہ ہوتے ہیں لِمَا يُجيكُم اور سب کو معلوم ہے کہ اس سے مراد روحانی مردوں کا زندہ ہوتا ہے.( بدر جلدے نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۵) اور جانو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان آجاتا ہے یعنی جیسا کہ دور اور نزدیک ہونا اس کی صفت ہے ایسا ہی درمیان آجانا بھی اس کی صفت ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۲) اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہ یعنی خدا وہ ہے جو انسان اور اس کے دل میں حائل ہو جاتا ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ ) وَاعْلَمُوا أَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ اَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۲۹ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ اولا د اور مال انسان کے لیے فتنہ ہوتے ہیں.دیکھو! اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری کل اولاد جو مر چکی ہے زندہ کر دیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہوگا، تو کیا اگر وہ نظمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کا خیال بھی کرے گا ؟ پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر برا مناتا ہے وہ بخیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جو خدا نے اس کے سپرد کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریاؤں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۸ مورخه ۲۲ اگست ۱۹۰۸ صفحه ۲،۱)
۲۷۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانفال أنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ - اَمْوَالُكُمْ میں عورتیں داخل ہیں.عورت چونکہ پردہ میں رہتی ہے اس لیے اس کا نام بھی پردہ ہی میں رکھا ہے اور اس لیے بھی کہ عورتوں کو انسان مال خرچ کر کے لاتا ہے، مال کا لفظ مائل سے لیا گیا ہے یعنی جس کی طرف طبعاً توجہ اور رغبت کرتا ہے عورت کی طرف بھی چونکہ طبعاً توجہ کرتا ہے اس لیے اس کو مال میں داخل فرمایا ہے.مال کا لفظ اس لیے رکھا تا کہ عام محبوبات پر حاوی نہ ہو ور نہ اگر صرف نساء کا لفظ ہوتا ہے تو اولاد اور عورت دو چیزیں قرار دی جاتیں اور اگر محبوبات کی تفصیل کی جاتی تو پھر دس جزو میں بھی ختم نہ ہوتا.غرض مال سے مراد كُلُّ مَا يَميلُ إِلَيْهِ الْقَلْبُ ہے.اولا د کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ انسان اولا د کو جگر کا ٹکڑا اور اپنا وارث سمجھتا ہے.مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انسان کے محبوبات میں ضد ہے دونوں باتیں یکجا جمع نہیں ہوسکتیں.اس سے یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں ! نہیں! ہمارے بادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : خَيرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں، وہ نیک کہاں؟ دوسرے کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدو کوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض وقت ایک غصہ میں بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے، اس لیے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ : عَاشِرُوهُنَّ بالمَعْرُوفِ.ہاں ! اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین اور شریعت کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۲) سکتا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانَا وَ يُكَفِّرُ عَنْكُم سَيَّاتِكُم وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا ایک فرق رکھ دے گا اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة الانفال تمہیں پاک کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہارا خدا صاحب فضل بزرگ ہے.(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۸) روح القدس کے بارہ میں جو قرآن کریم میں آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے کامل مومنوں کو روح القدس دیا جاتا ہے منجملہ ان کے ایک یہ آیت ہے......یعنی اے وے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور اللہ جل شانہ سے ڈرتے رہو تو خدا تعالیٰ تمہیں وہ چیز عطا کرے گا (یعنی روح القدس ) جس کے ساتھ تم غیروں سے امتیاز گلی پیدا کر لو گے اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا (یعنی روح القدس ) جو تمہارے ساتھ ساتھ چلے گا.قرآن کریم میں روح القدس کا نام نور ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۸،۹۷) اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے انتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری را ہیں تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہو سکتی.ہاں ! فہم اور ادراک حسب مراتب تقوی کم و بیش ہو سکتا ہے.اسی مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جو اولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہو جاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ ربانی ان کے رگ وریشہ میں خون کی طرح جاری ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷ تا ۱۷۹) ہو جاتا ہے.
۲۷۵ سورة الانفال تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے مومنو! اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا ، وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہر گز نہیں پایا جائے گا یعنی نور الہام اور نو را جابت دعا اور نور کرامات اصطفاء.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۶) قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات کبری کا وقت ہے مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے جس کی طرف آیت : يَجْعَلُ لَكُمْ فُرقانا اشارہ کرتی ہے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲) اے ایمان والو! اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا ایک فرق رکھ دے گا اور تمہیں پاک کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہارا خدا صاحب فضل بزرگ ہے.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه (۴۲۱) سید نا محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی متابعت و پیروی و تصدیق رسالت اللہ تعالی کا محبوب بنا دیتی ہے اور ان انعامات کا وارث جو اگلے برگزیدہ انبیاء پر ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام فرقان رکھا ہے چنانچہ فرمایا...یعنی وہ تمہیں ایک فرقان دے گا پس دوسرے مذاہب ( اور ) اس میں ایک مابہ الامتیاز اسی جہان میں ہونا ضروری ( بدر جلدے نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۵) ہے.کامل پیروی کرنے والے کی روح القدس سے تائید کی جائے گی یعنی ان کے فہم اور عقل کو غیب سے ایک روشنی ملے گی اور ان کی کشفی حالت نہایت صفا کی جائے گی اور ان کے کلام اور کام میں تاثیر رکھی جائے گی اور ان کے ایمان نہایت مضبوط کیسے جائیں گے اور پھر فرمایا کہ خدا ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق بین رکھ دے گا یعنی بمقابل ان کے بار یک معارف کے جو ان کو دئیے جائیں گے اور بمقابل ان کے کرامات اور خوارق کے جو ان کو عطا ہوں گی دوسری تمام قو میں عاجز رہیں گی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۰) وَ اِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ ، وَيَمْكُرُونَ وَ يمكرُ الله وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ اور تو وہ وقت یاد کر کہ جب کافر لوگ تیرے قید کرنے یا قتل کرنے یا نکال دینے پر مکر کر کے منصوبے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانفال باندھتے تھے اور مکر کر رہے تھے اور خدا بھی مکر کر رہا تھا اور خدا سب مکر کرنے والوں سے بہتر ہے.برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۷ حاشیہ نمبر ۱۱) اور اے پیغمبر اوہ وقت یاد کر جب کافر لوگ تجھ پر داؤ چلانا چاہتے تھے تا کہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا تجھے مار ڈالیں اور یا تجھے جلا وطن کر دیں اور حال یہ تھا کہ کا فر تو قتل کے لیے اپنا داؤ کر رہے تھے اور خدا ان کو مغلوب کرنے کے لیے اپنا داؤ کر رہا تھا اور خدا سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے جس کے داؤ میں سراسر مخلوق کی بھلائی ہے.خَيْرُ المكرین یعنی ایسا مکر کرنے والا جس میں کوئی شر نہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۵،۲۳۴) (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲) واضح رہے کہ اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبردست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خدا تعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیرو مخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی برے برے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کرنے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعم کو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو اُن کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ ، وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۴۴) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمُ ايْتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هذا " إن هذا إلا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هذا کہ اگر ہم چاہیں تو اس کی مانند کہہ دیں.( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۴۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة الانفال درود وَ مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيهِمْ ، وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ اى مَا كَانَ اللهُ لِيُعَلِّ بَهُمْ بِعَذَابٍ كَامِل یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ ان کو کامل عذاب أَى و انتَ سَاكِن فِيهِمْ - میں مبتلا کرے جب کہ تو ان میں سکونت پذیر ہے.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۱۱) اور خدا ایسا نہیں جو ان کو عذاب پہنچا وے جب تک تو ان کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں.( براہینِ احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۴ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) خدا ایسا نہیں کہ مکہ والوں پر عذاب نازل کرے اور تو ان میں ہو کیونکہ وہ آفتاب تھا اور یہ غیر ممکن ہے کہ (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۵) آفتاب کے ہوتے عذاب کی ظلمت نازل ہو.اور خدا ایسا نہیں ہے کہ ان سب کو عذاب سے ہلاک کر دیتا حالانکہ تو انہیں میں رہتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۳) استغفار عذاب الہی اور مصائب شدیدہ کے لیے سپر کا کام دیتا ہے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا كَانَ اللهُ لِيُعَةِ بَهُمُ....وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۰۱ ، صفحہ ۱) یہ تمام اقوام کا مذہب ہے کہ صدقہ سے رد بلا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے: مَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ.استغفار عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے.ہمارے تجربوں کی طرف کوئی جائے تو ایک منذر امر صبح کو ہو تو شام کو منسوخ ہو جاتا ہے.( بدر جلد 4 نمبر ۱۷ مورخه ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ صفحه ۴) تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ و استغفار سے رد بلا ہوتا ہے.بلا کیا چیز ہے یعنی وہ تکلیف دہ امر جو خدا کے ارادہ میں مقدر ہو چکا ہے، اب اس بلا کی اطلاع جب کوئی نبی دے تو وہ پیشگوئی بن جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے.وہ تضرع کرنے والوں پر اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے.اس لیے ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں اٹل ہیں بلکہ وہ ٹل جاتی ہیں.وو البدر جلدے نمبر ۱۹ ، ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) وَمَا لَهُمُ اللَّا يُعَذِّبَهُمُ اللهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ اَولِيَاءَ إِنْ أَوْلِيَاؤُنَ إِلَّا الْمُتَتَّقُونَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ® (۳۵) إن أوْلِيَاؤُهُ إِلا الْمُتَّقُونَ اللہ کے ولی وہ ہیں جو متقی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے دوست.سورة الانفال رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۵) تقویٰ سے زینت اعمال پیدا ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے چنانچہ فرمایا ہے: اِنْ اَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ کامل طور پر جب تقویٰ کا کوئی مرحلہ باقی نہ رہے تو پھر یہ اولیاء اللہ میں داخل ہو جاتا ہے اور تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۷ مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۴ ء صفحہ ۷ ) ولایت کا حصہ تقویٰ ہی پر ہے.خدا تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں ہو کر اگر اسے حاصل کرو گے تو کمال تک البدرجلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۳) پہنچ جاؤ گے.b اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ.اور وہ تمام کا فر کہ جو دین اسلام کے روکنے اور بند کرنے کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کر رہے ہیں وہ جہاں تک ان کا بس چلے گا خرچ کریں گے پر آخر کار وہ تمام خرچ ان کے لیے تاسف اور حسرت کا موجب ہوگا اور پھر مغلوب ہو جائیں گے.برائین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۳ حاشیہ نمبر ۱۱) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ۴۰ یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جائے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدين محمد بله يعنی عرب کے ان مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالی کی ہو جائے.اس سے کہاں جبر نکلتا ہے اس
۲۷۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانفال سے تو صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ اس حد تک لڑو کہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساداُٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام ادا کر سکیں.اگر اللہ جل شانہ کا ایمان بالجبر منشا ہوتا جیسا کہ ڈپٹی صاحب سمجھ رہے ہیں تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کے لیے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کریں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۳) إذ انتُم بِالْعُدُوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدوَةِ القصوى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ لَوْ تَوَاعَدُتُّم لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعْدِ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيْنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيْنَةٍ وَ إِنَّ اللهَ لَسَمِيع يَضَعُ الْحَرْب کا لفظ ہی کسر صلیب کی حقیقت کو بتاتا ہے کہ اس سے مراد....لکڑی یا دوسری چیزوں کی صلیبوں کو توڑنا نہیں بلکہ صلیبی ملت کی شکست ہے اور ملت کی شکست بینہ اور براہین سے ہوگی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ - الحکم جلدے نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۲) لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْلِى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ - جو ہلاک ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر ہلاک ہو اور جو زندہ ہو وہ بھی بین آیات دیکھ کر زندہ ہو.البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ / جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۴) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُم فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُم ود انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں ! وہ یاد نہیں ہوتی.سُبحَانَ رَبّي الأعلى اور سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ بار بار کیوں کہلوایا؟ ایک بار ہی کافی تھا.نہیں! اس میں یہی سر ہے کہ کثرت تکرارا پنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے.اسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة الانفال لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اذكرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ.جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے.بدوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا.احکم جلد 4 نمبر ۴۰ مورخہ سے انومبر ۱۹۰۵ ، صفحہ ۹) وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا کے یہ معنی ہیں یعنی اس قدر ذ کر کرو کہ گویا اللہ تعالیٰ کا نام کنٹھ ہو جاوے.انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تا مخلوق کو نفع پہنچے.الحکم جلد نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) وَاَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ و اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے، پھوٹ اسلام کے لیے سخت مضر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ - جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے.اس لیے خدا نے اس سلسلہ کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بے ہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور اس سیدھے رستے پر چل رہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ اور ( بدر جلدے نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) علیہ وسلم نے بتایا.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَ رِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَنْ ط سَبِيلِ اللهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحيط یعنی بہادر وہ ہیں کہ....جب دیکھتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لیے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں مگر نہ اپنے نفس کا بھروسہ کر کے بلکہ خدا پر بھروسہ کر کے بہادری دکھاتے ہیں اور ان کی شجاعت میں ریا کاری اور خود بینی نہیں ہوتی اور نہ نفس کی پیروی بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة الانفال لا b كداب الِ فِرْعَوْنَ وَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللهِ فَأَخَذَهُمُ اللهُ بِذُنُوبِهِمُ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ جیسے فرعون کے خاندان اور اس سے پہلے کافروں کا حال ہوا کہ جب انہوں نے خدا کے نشانوں سے انکار کرنا اختیار کیا تو خدا نے ان سے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور بہ تحقیق خدا بڑا طاقت والا اور سزا دینے ( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۳) میں سخت ہے.وَإِمَّا تَخَافَنَ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِلْ اِلَيْهِمُ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَابِنين (۵۹) خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) وَاعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُمُ مِنْ قُوَّةٍ وَ مِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِه b عدو اللهِ وَعَدُوَّكُمْ وَأَخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمْ اللهُ يَعْلَمُهُمْ وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ) واعد والَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُم مِن قوة یعنی دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی طیاری جو کر سکتے ہو کرو اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ.اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجا لاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی اپنے احسن انتظام کی اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پاؤ.اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں.اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی که انما الاحتمال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة الانفال ا بالنیات کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کونئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں بیانئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگر حالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ باعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید ومولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہو گئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے.اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا.پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی.ہماری ہدایت پانے کیلئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے پہنے یہ کہ آعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوق اللہ جل شانہ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جوطر تمہیں موثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو.پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ محب الْأَنْصَارِ مِنَ الْإِيْمَانِ ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اور اگر یہ کہو کہ یہ حدیث کہ حُبُّ الْأَنْصَارِ مِنَ الْإِيْمَانِ وَبُغْضُ الْأَنْصَارِ مِنَ النِّفَاقِ یعنی انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے یہ ان انصار کے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار.تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ جو اس زمانہ کے بعد انصار رسول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے، نہیں نہیں! بلکہ یہ حدیث گو ایک خاص گروہ کیلئے فرمائی گئی مگر اپنے اندر عموم کا فائدہ رکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ سورة الانفال کے لئے نازل ہوئیں مگر ان کا مصداق عام قرار دیا گیا ہے.....نادان ایہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مد میں داخل نہیں کر سکتے.ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے.اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں.پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی ، جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی ؟ معاذ اللہ! ہر گز نہیں، بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے.علم صرف بھی بدعت ہوگا اور علم نحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبتوب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے، ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا کلوں کا کپڑا پہناڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور تو پوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم مظہر ے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے.صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہوسکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے.انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے جدید کام کئے کہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے.اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کیلئے کو تو ال مقرر کئے اور بیت المال کیلئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا.جنگی فوج کیلئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کیلئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کیلئے بہت سے قواعدا اپنی طرف سے تجویز کر کے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا لیکن کوئی ایسا نیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا صرف طلب علم اور مشورہ امداد اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۹ تا ۶۱۲ ) اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں.....
۲۸۴ سورة الانفال تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رباط ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ صحابہ کو اعداء کے مقابلہ کے لیے مستعد رہنے کا حکم دیتا ہے اور اس رباط کے لفظ سے انہیں پوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ان کے سپرد دو کام تھے.ایک ظاہری دشمنوں کا مقابلہ اور ایک وہ روحانی مقابلہ کرتے تھے اور رباط الغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں اور یہ ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام آتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں آج کل گھوڑوں کی تعلیم وتربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ان کو سدھایا، سکھایا جاتا ہے جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام سے تعلیم دی جاتی ہے.اگر ان کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل لکھے ہوں اور بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں.یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رباط بھی تعلیم یافتہ چاہئیں اور ان کے قومی اور طاقتیں ایسی ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالی کی حدود کے نیچے نیچے چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتو وہ اس حرب اور جدال کا کام نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طور پر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے جیسا کہ لڑائی اور میدانِ جنگ میں علاوہ قوائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے.اسی طرح اس اندرونی حرب اور جہاد کے لیے نفوس انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم مطلوب ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطان اس پر غالب آجائے گا اور وہ بہت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوگا مثلاً اگر ایک شخص توپ و تفنگ ، اسلحہ حرب بندوق وغیرہ تو رکھتا ہو لیکن اس کے استعمال اور چلانے سے نا واقف محض ہو تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کبھی عہدہ برا نہیں ہو سکتا اور تیر تفنگ اور سامان حرب بھی ایک شخص رکھتا ہو اور ان کا استعمال بھی جانتا ہو لیکن اس کے بازو میں طاقت نہ ہو تو بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتا اس سے معلوم ہوا کہ صرف طریق اور طرز استعمال کا سیکھ لینا بھی کارآمد اور مفید نہیں ہو سکتا جب تک کہ ورزش اور مشق کر کے بازو میں توانائی اور قوت پیدا نہ کی جاوے.اب اگر ایک شخص جو تلوار چلانا تو جانتا ہے لیکن ورزش اور مشق نہیں رکھتا تو میدانِ حرب میں جا کر جو نہی تین چار دفعہ تلوار کو حرکت دے گا اور دو ایک ہاتھ مارے گا.اس کے باز ونکھے ہو جائیں گے اور وہ تھک کر بالکل بیکار ہو جائے گا اور خود ہی آخر دشمن کا شکار ہو جائے گا.پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لو کہ نرا علم و فن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی جب تک کہ عمل اور مجاہد ہ اور ریاضت نہ ہو.دیکھو! سر کار بھی فوجوں کو اسی خیال سے بیکار نہیں رہنے دیتی.عین امن و آرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ بر پا کر کے فوجوں کو بیکار نہیں ہونے دیتی اور معمولی طور پر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوتی رہتی ہے.۲۸۵ سورة الانفال جیسا ابھی میں نے بیان کیا کہ میدانِ کارزار میں کامیاب ہونے کے لیے جہاں ایک طرف طریق استعمال اسلحہ وغیرہ کی تعلیم اور واقفیت کی ضرورت ہے وہاں دوسری طرف ورزش اور محل استعمال کی بھی بڑی بھاری ضرورت ہے اور نیز حرب و ضرب میں تعلیم یافتہ گھوڑے چاہئیں.یعنی ایسے گھوڑے جو تو پوں اور بندوقوں کی آواز سے نہ ڈریں اور گرد و غبار سے پراگندہ ہو کر پیچھے نہ نہیں بلکہ آگے ہی بڑھیں.اسی طرح نفوس انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداء اللہ کے مقابل میدانِ کارزار میں کامیاب نہیں ہو سکتے.لغت عرب بھی عجیب چیز ہے.مقابلہ بھی اسی پر ختم ہے.رباط کا لفظ جو آیة مذکورہ میں آیا ہے جہاں دنیاوی جنگ و جدل اور فنونِ جنگ کی فلاسفی پر مشتمل ہے.وہاں روحانی طور پر اندرونی جنگ اور مجاہدہ نفس کی حقیقت اور خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے یہ ایک عجیب سلسلہ ہے...اب دیکھو کہ یہی رباط کا لفظ جو ان گھوڑوں پر بولا جاتا ہے جو سرحد پر دشمنوں سے حفاظت کے لیے باندھے جاتے ہیں.ایسا ہی یہ لفظ ان نفسوں پر بھی بولا جاتا ہے جو اس جنگ کی تیاری کے لیے تعلیم یافتہ ہوں جو انسان کے اندر ہی اندر شیطان سے ہر وقت جاری ہے.یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ اسلام کو دو قو تیں جنگ کی دی گئی تھیں ایک قوت وہ ہتھی جس کا استعمال صدر اول میں بطور مدافعت و انتقام کے ہوا یعنی مشرکین عرب نے جب ستایا اور تکلیفیں دیں تو ایک ہزار نے سنایا ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کر کے شجاعت کا جو ہر دکھایا اور ہر امتحان میں اس پاک قوت و شوکت کا ثبوت دیا.وہ زمانہ گزر گیا اور رباط کے لفظ میں جو فلاسفی ظاہر ہے قوت جنگ اور فنونِ جنگ کی مخفی تھی وہ ظاہر ہوگئی ہے.اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں جنگ ظاہری کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا کیونکہ اس وقت باطنی ارتداد اور الحاد کی اشاعت کے لیے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے.اس لیے ان کا مقابلہ بھی اسی قسم کے اسلحوں سے ضروری ہے کیونکہ آج کل امن و امان کا زمانہ ہے اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے.آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ اور احکام کی بجا آوری کرسکتا ہے.پھر اسلام جو امن کا سچا حامی ہے بلکہ حقیقہ امن اور مسلم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے کیوں کر اس زمانہ امن و آزادی میں اس پہلے نمونہ کو دکھانا پسند کر سکتا تھا پس آج کل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ مطلوب ہے کیونکہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ع ۲۸۶ که حلوا چو یک بار خوردند و بس سورة الانفال ایک اور بات بھی ہے کہ اس پہلے نمونہ کے دکھانے میں ایک اور امر بھی ملحوظ تھا یعنی اس وقت اظہار شجاعت بھی مقصود تھا جو اس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ محمود اور محبوب وصف سمجھی جاتی تھی اور اس وقت تو حرب ایک فن ہو گیا ہے کہ دور بیٹھے ہوئے بھی ایک آدمی توپ اور بندوق چلا سکتا ہے.ان دنوں میں سچا بہادر وہ تھا جو تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہوتا اور آج کل کا فن حرب تو بزدلوں کا پردہ پوش ہے.اب شجاعت کا کام نہیں بلکہ جو شخص آلات حرب جدید اور نئی تو ہیں وغیرہ رکھتا اور چلا سکتا ہے وہ کامیاب ہو سکتا ہے.اس حرب کا مدعا اور مقصد مومنوں کے مختفی مادہ ، شجاعت کا اظہار تھا اور خدا تعالیٰ نے جیسا چاہا خوب طرح اسے دنیا پر ظاہر کیا.اب اس کی حاجت نہیں رہی اس لیے کہ اب جنگ نے فن اور مکیدۃ اور خدیجہ کی صورت اختیار کر لی ہے اور نئے نئے آلات حرب اور پیچھار نون نے اس قیمتی اور قابل فخر جو ہر کو خاک میں ملا دیا ہے.ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لیے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل و براہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا اس لیے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جا تا بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا کہ سیف ( تلوار ) کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جاوے اسی لیے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا سمجھ لو! سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے.ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے بچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے، اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھاؤں.میں کب اس میدان کے قابل ہوسکتا تھا.یہ توصرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو.میں نے ایک وقت ان اعتراضات اور حملات کو شمار کیا تھا جو اسلام پر ہمارے مخالفین نے کیے ہیں تو ان کی تعداد اس وقت میرے خیال اور اندازہ میں تین ہزار ہوئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب تو اور بھی تعداد بڑھ گئی ہوگی.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام کی بناء ایسی کمزور باتوں پر ہے کہ اس پر تین
۲۸۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الانفال ہزار اعتراض وارد ہو سکتا ہے.نہیں ایسا ہر گز نہیں.یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں مگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تہہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے ان کو دکھائی نہیں دیں اور حقیقت میں یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نا بینا معترض آکر انکا ہے وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا کو دکھاؤں اور نا پاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھو پا گیا ہے اسے پاک صاف کروں.خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی ساحت عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے.الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں کس قدر بیوقوفی ہوگی کہ ہم ان سے لثّهم لٹھا ہونے کو تیار ہو جائیں.میں تمہیں کھول کر بتلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ وجدال کا طریق جواب میں اختیار کرے تو وہ اسلام کا بدنام کرنے والا ہوگا اور اسلام کا کبھی ایسا منشاء نہ تھا کہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اُٹھائی جائے.اب لڑائیوں کی اغراض جیسا کہ میں نے کہا ہے فن کی شکل میں آکر دینی نہیں رہیں بلکہ دنیوی اغراض ان کا موضوع ہو گیا ہے.پس کس قدر ظلم ہوگا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے.اب زمانہ کے ساتھ حرب کا پہلو بدل گیا ہے.اس لیے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں راست بازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں یہ خدا تعالیٰ کا ایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے کہ اگر مسلمان صرف قیل و قال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ لاف گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا.وہ تو حقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند کرتا ہے.جیسا کہ فرمایا : اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ.ا رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۶۵ تا ۶۹) وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّه هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ دو جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ.اسلام اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۴۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ اور اگر مخالف لوگ صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور خدا پر توکل کرو.سورة الانفال (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۹) اصل میں مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھنا چاہیے.جہاں نرمی کا موقعہ ہو وہاں سختی اور درشتی نہ کرے اور جہاں بھر سختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے.گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی.دیکھو! فرعون بظاہر کیسا سخت کا فرانسان تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو یہی ہدایت ہوئی کہ قُولَا لَهُ قَوْلاً لينا (طه : ۴۵) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے بھی قرآن شریف میں اسی قسم کا حکم ہے: وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لها مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم ہے.رسول اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی ایسی ہی حالت بیان کی گئی جہاں فرمایا ہے کہ : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم (الفتح : ۳) - (الحكام جلد ۱۲ نمبر ۲۷ مورخه ۱۴ ۱۷اپریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) اور اگر مخالف لوگ صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور خدا پر توکل کرو.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه (۴۲۱) b وَإِن يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَ بِالْمُؤْمِنِينَ اور اگر صلح کے وقت دل میں دغار کھیں تو اس دعا کے تدارک کے لیے خدا تجھے کافی ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۱) وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَو أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.۶۴ ہمارے ہادی اکمل کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جان نثاریاں کیں.جلاوطن ہوئے ، ظلم اٹھائے ، طرح طرح کے مصائب اُٹھائے، جانیں دے دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارے ہی گئے.پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا وہ سچی الہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی.سو خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے.آپ کی تعلیم ، تزکیہ نفس، پیروؤں کو دنیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ سورة الانفال سے متنفر کر ا دینا ، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا.اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی.سو یہ مقام حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ کا ہے اور ان میں جو آپس میں تالیف و محبت تھی اس کا نقشہ دو فقروں b میں بیان کیا ہے : وَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَو أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا اَلَفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِم.یعنی جو تالیف ان میں ہے.وہ ہر گز پیدا نہ ہوتی.خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا.b ط رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۵۴-۵۵) ہماری کوششیں تو بچوں کا کھیل ہے.نہ لوگوں کے دلوں سے ہم وہ گند نکال سکتے ہیں جو آج کل دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، نہ کمال محبت الہی کا ان کے اندر بھر سکتے ہیں، نہ ان کے درمیان باہمی کمال الفت پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ سب مثل ایک وجود کے ہو جائیں.یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے چنانچہ قرن شریف میں صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے: هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ما الفتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌہ.وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسے الفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرچ کرتا تو بھی ایسی الفت پیدا نہ کر سکتا لیکن خدا نے ان میں یہ الفت پیدا کر دی وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کر سکتا ہے آئندہ بھی اسی پر توکل ہے.جو کام ہونے والا ہوتا ہے.اس میں خدا کے فضل کی روح پھونکی جاتی ہے جیسا کہ باغبان اپنے باغ کی آب پاشی کرتا ہے تو وہ تر و تازہ ہوتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنے مرسلین کے سلسلہ کو ترقی اور تازگی عطا فرماتا ہے.جو فرقے صرف اپنی تدبیر سے بنتے ہیں ان کے درمیان چند روز میں ہی تفرقے پیدا ہو جاتے ہیں جیسا کہ برہمو تھوڑے دن تک ترقی کرتے کرتے آخر رک گئے اور دن بدن نابود ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی بنا صرف انسانی خیال پر ہے.( بدر جلد نمبر ۲۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قوم عرب کے تمدن اور اخلاق اور روحانیت کا کیا حال تھا گھر گھر میں جنگ اور شراب نوشی اور زنا اور لوٹ مار غرض ہر ایک بدی موجود تھی.کوئی نسبت اور تعلق خدا کے ساتھ اور اخلاق فاضلہ کے ساتھ کسی کو حاصل نہ تھا.ہر ایک فرعون بنا پھرتا تھا لیکن آنحضرت کے آنے سے جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایسی محبت الہی اور وحدت کی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ ہر ایک خدا کی راہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة الانفال میں مرنے کے لیے تیار ہو گیا، انہوں نے بیعت کی حقیقت کو ظاہر کر دیا اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ دکھا دیا.( بدر جلد نمبر ۲۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲) کیا کوئی اس قوم کی نسبت خیال کر سکتا تھا کہ یہ قوم باہم متحد ہوگی اور خدا تعالیٰ سے ایسا قوی تعلق پیدا کریں گے کہ باوجود یکہ یہ فرعون سیرت ہیں لیکن اس کی اطاعت میں ایسے محو اور فنا ہوں گے کہ جان عزیز کو بھی اس کی راہ میں دے دیں گے غور کرو کہ کیا یہ آسان امر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظیم الشان کامیابی ہے.ایک ایسی قوم میں ایسی محبت الہی کا پیدا کر دینا کہ وہ مرنے کو تیار ہو جائیں خود آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدسی کو ظاہر کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۵ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۹۱ سورة التوبة بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التوبة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللهِ وَ اَنَّ اللهَ مُخْزِي الْكَفِرِينَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِی اللہ الے اور تم یقینا جانو کہ تم خدا کو اس کے کاموں میں کبھی عاجز نہیں کر سکتے.اور خدا تمہیں رسوا کرے گا.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۲ حاشیہ نمبر۱۱) دو وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَمَ اللَّهِ ثُمَّ ابْلِغْهُ مَامَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَعْلَمُونَ ) اگر تجھ سے اے رسول کوئی شخص مشرکوں میں سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دے دو اور اُس وقت تک اُس کو اپنی پناہ میں رکھو کہ وہ اطمینان سے خدا کے کلام کو سن سمجھ لے اور پھر اُس کو اُس کے امن کی جگہ پر واپس پہنچا دو.یہ رعایت ان لوگوں کے حق میں اس وجہ سے کرنی ضرور ہے کہ یہ لوگ اسلام کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر قرآن شریف جبر کی تعلیم کرتا تو یہ حکم نہ دیتا کہ جو کا فرقرآن شریف کو سننا چاہے تو جب وہ سن چکے اور مسلمان نہ ہو تو اُس کو اُس کے امن کی جگہ پر پہنچادینا چاہئے بلکہ یہ حکم دیتا کہ جب ایسا کا فرقا بو میں آجاوے تو وہیں اُس کو مسلمان کرلو.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۳)
۲۹۲ سورة التوبة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کوئی مشرک قرآن شریف کو سننا چاہے تو اس کو اپنی پناہ میں لے آؤ جب تک وہ کلام الہی کو سنے پھر اس کو اسی کے مامن میں پہنچا دو اور اس آیت کے آگے یہ آیت ہے ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ یعنی یہ رعایت اس لیے ہے کہ یہ قوم بے خبر ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۳، ۲۶۴) اگر لڑائی کے ایام میں کوئی شخص مشرکوں میں سے خدا کے کلام کو سننا چاہے تو اس کو پناہ دے دو جب تک کہ وہ خدا کے کلام کوسن لے اور پھر اس کو اپنے امن کی جگہ میں پہنچا دو کیونکہ وہ ایک جاہل قوم ہے اور نہیں جانتے کہ وہ کس سے لڑائی کر رہے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۳) كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللهِ وَ عِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَهَدتُم عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدُ عِندَ اللهِ وَ عِنْدَ رَسُولِہ جس کا مطلب یہی ہے کہ بعد عہدوں کے توڑنے کے ان کے قول واقرار کا کیا اعتبار رہا.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۴) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ الَّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ ) یہ مشرک نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی قرابت کا اور حد سے نکل جانے والے ہیں.( جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۴) وَإِن تَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا لا ابِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمُ لَا اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ اَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا تَكَثُوا اَيْمَانَهُمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَ هُمْ بَدَءُوكُمْ اَوَلَ مَرَّةٍ اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ یہ نہایت درجہ کا ظلم ہے کہ اسلام کو ظالم کہا جاتا ہے حالانکہ ظالم وہ خود ہیں جو تعصب کی وجہ سے بے سوچے سمجھے اسلام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں اور باوجود بار بار سمجھانے کے نہیں سمجھتے کہ اسلام کے کل.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ سورة التوبة جنگ اور مقابلے کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر دفاعی رنگ میں حفاظت جان و مال کی غرض سے تھے اور کوئی بھی حرکت مسلمانوں کی طرف سے ایسی سرزد نہیں ہوئی جس کا ارتکاب اور ابتداء پہلے کفار کی طرف سے نہ ہوا ہو.بلکہ بعض قابل نفریں حرکات کا مقابلہ بتقاضائے وسعت اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ا عمد ا ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا مثلاً کفار میں ایک سخت قابل نفرت رسم تھی جو کہ وہ مسلمان مردوں سے کیا کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح فعل سے مسلمانوں کو قطعا روک دیا.قرآن شریف میں بڑی بسط اور تفصیل سے اس امر کا ذکر موجود ہے مگر کوئی غور کرنے والا اور بے تعصب دل سچائی اور حق کی پیاس بھی اپنے اندر رکھتا ہو.قرآن شریف میں صاف طور سے اس امر کا ذکر آ گیا ہے.هُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ یعنی ہر ایک شرارت اور فساد کا ابتداء پہلے کفار کی طرف سے ہوا ہے........اب جائے غور ہے کہ قرآن شریف نے جن اضطراری حالتوں میں جنگ کرنے کی اجازت دی ہے ان میں سے آج اس زمانہ میں کوئی بھی حالت موجود ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی جبر و تشدد کسی دینی معاملہ میں ہم پر نہیں کیا جا تا بلکہ ہر ایک کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ہے.اب نہ کوئی جنگ کرتا ہے کسی دینی غرض کے لیے اور نہ ہی لونڈی غلام کوئی بناتا ہے نہ کوئی نماز روزے اذان حج اور ارکان اسلام کی ادائیگی سے روکتا ہے تو پھر جہاد کیسا اور لونڈی غلام کیسے؟ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۸) اگر یہ مشرک توڑیں قسمیں اپنی بعد عہد کرنے کے اور تمہارے دین میں طعن کریں تو تم کفر کے سرداروں سے لڑو کیونکہ وہ اپنی قسموں پر قائم نہیں رہے تا کہ وہ باز آجا ئیں کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول کو نکال دینے کا قصد کیا اور اُنہوں نے ہی اول ایذاء اور قتل کے لئے اقدام کیا.اب تمام ان آیات پر نظر غور ڈال کر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس مقام سے جبر کو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ مشرکین عرب نے اپنے ایذاء اور خونریزیوں کو یہاں تک پہنچا کر اپنے تئیں اس لائق کر دیا تھا کہ جیسا کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے مردوں کو قتل کیا اور اُن کی عورتوں کو سخت بے رحمی سے مارا اور اُن کے بچوں کو قتل کیا.وہ اس لائق ٹھہر گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کے قانون جہاد کے موافق اُن کی عورتیں بھی قتل کی جائیں اُن کے بچے بھی قتل کئے جائیں اور اُن کے جوان و بڈھے سب تہ تیغ کئے جاویں اور ان کو اپنے وطنوں سے جلا وطن کر کے اُن کے شہروں اور دیہات کو چھونکا جائے.لیکن ہمارے نبی صلعم نے ایسانہ کیا بلکہ ہر طرح سے اُن کو رعایت دی یہاں تک کہ باوجود اُن کے واجب القتل ہونے کے جو اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ سورة التوبة خونریزیوں کی وجہ سے وہ اس کے لائق ہو گئے تھے ان کو یہ بھی رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے اپنی مرضی سے دین اسلام اختیار کرے تو امن میں آجائے.اب اس نرم اور پر رحم طریق پر اعتراض کیا جاتا ہے اور حضرت موسی کی لڑائیوں کو مقدس سمجھا جاتا ہے.افسوس ہزار افسوس اگر اس وقت انصاف ہو تو اس فرق کا سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا.تعجب کہ وہ خدا جس نے حضرت موسی کو حکم دے دیا کہ تم مصر سے ناحق بے موجب لوگوں کے برتن اور زیورمستعار طور پر لے کر اور دروغ گوئی کے طور پر ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں کر کے پھر اپنا مال سمجھ لو اور دشمنوں کے مقابل پر ایسی بے رحمی کرو کہ کئی لاکھ بچے اُن کے قتل کر دو اور لوٹ کا مال لے لو اور ایک حصہ خدا کا اُس میں سے نکالو اور حضرت موسیٰ جس عورت کو چاہیں اپنے لئے پسند کریں اور بعض صورتوں میں جزیہ بھی لیا جائے اور مخالفوں کے شہر اور دیہات ٹھونکے جائیں.اور وہی خُدا ہمارے نبی صلعم کے وقت میں باوجود اپنی ایسی نرمیوں کے فرماتا ہے بھیجوں کو قتل نہ کرو، عورتوں کو قتل نہ کرو، راہیوں سے کچھ تعلق نہ رکھو، کھیتوں کومت جلاؤ، گر جاؤں کو مسمار مت کرو اور انہیں کا مقابلہ کرو جنہوں نے اول تمہارے قتل کرنے کے لئے پیش قدمی کی ہے اور پھر اگر وہ جزیہ دے دیں یا اگر عرب کے گروہ میں سے ہیں جو اپنی سابقہ خونریزیوں کی وجہ سے واجب القتل ہیں تو ایمان لانے پر اُن کو چھوڑ دو.اگر کوئی شخص کلام الہی سنا چاہتا ہے تو اُس کو اپنی پناہ میں لے آؤ اور جب وہ سن چکے تو اس کو اُس کی امن کی جگہ میں پہنچادو.افسوس کہ اب وہی خدا مورد اعتراض ٹھہرایا گیا ہے.افسوس کہ ایسی عمدہ اور اعلیٰ تعلیم پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جو توریت کی اُن خونریزیوں کو جن سے بچے بھی باہر نہیں رہے خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۴ تا ۲۶۶) جہاد میں یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتدا نہیں ہوئی جیسا کہ فرماتا ہے : وَهُمْ بَدَءُ وكُمْ أَوَّلَ مَزَةٍ یعنی انہیں مخالفوں نے لڑنے میں ابتدا کی پھر جبکہ انہوں نے آپ ابتدا کی، وطن سے نکالا صد ہا بے گناہوں کو قتل کیا ، تعاقب کیا اور اپنے بتوں کی کامیابی کی شہرت دی تو پھر بجز ان کی سرکوبی کے اور کون سا طریق حق اور حکمت کے مناسب حال تھا.اس کے مقابل حضرت موسی کی لڑائیاں دیکھئے جن لوگوں کے ساتھ ہو ئیں کون سی تکلیفیں اور دکھ ان سے پہنچے تھے اور کیسی بے رحمی ان لڑائیوں میں کی گئی کہ کئی لاکھ بچے بے گناہ قتل کئے جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۶) اُس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے گئے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة التوبة دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظت خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اذن دے دیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے : أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بإخراج الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ - وَ إِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (الانفال : ۶۲) دیکھو سورۃ الانفال الجز ونمبر ۱۰ ( ترجمہ ) کیا تم ایسی قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور چاہا کہ رسول خدا کو جلا وطن کر دیں اور انہوں نے ہی پہلے تمہیں قتل کرنا شروع کیا.اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۴) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَونَ كَسَادَهَا وَ مَسكِنْ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ اليْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَ الله لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ مال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری سوداگری جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری حویلیاں جو تمہارے دل پسند ہیں.خدا سے اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو لڑانے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم اس وقت تک منتظر رہو کہ جب تک خدا اپنا حکم ظاہر کرے اور خدا بد کاروں کو کبھی اپنی راہ نہیں دکھائے گا.ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور اپنے مالوں سے پیار کرتے ہیں وہ خدا کی نظر میں بدکار ہیں وہ ضرور ہلاک ہوں گے کیونکہ انہوں نے غیر کو خدا پر مقدم رکھا.یہی وہ تیسرا مرتبہ ہے جس میں وہ شخص باخدا بنتا ہے جو اس کے لئے ہزاروں بلائیں خریدے اور خدا کی طرف ایسے صدق اور اخلاص سے جھک جائے کہ خدا کے سوا کوئی اس کا نہ رہے گویا سب مر گئے.پس سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم خود نہ مریں زندہ خدا نظر نہیں آ سکتا.خدا کے ظہور کا دن وہی ہوتا ہے کہ جب ہماری جسمانی زندگی پر موت آوے.ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ ہوجائیں.ہم مردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مردہ کی طرح نہ ہو جائیں.جب ہمارا منہ ٹھیک ٹھیک اس کے محاذات میں پڑے گا تب وہ واقعی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سورة التوبة استقامت جو تمام نفسانی جذبات پر غالب آتی ہے ہمیں حاصل ہوگی اس سے پہلے نہیں اور یہی وہ استقامت ہے جس سے نفسانی زندگی پر موت آجاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۳) قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرَّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَغِرُونَ ) ۲۹ ان بے ایمانوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے یعنی عملی طور پر فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور حرام کو حرام نہیں جانتے اور سچائی کی راہیں اختیار نہیں کرتے جو اہل کتاب میں سے ہیں جب تک کہ وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے دیں اور وہ ذلیل ہوں.دیکھو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ جو اپنی بغاوتوں کی وجہ سے حق کے روکنے والے ہیں اور ناجائز طریقوں سے حق پر حملہ کرنے والے ہیں ان سے لڑو اور ان سے دین کے طالبوں کو نجات دو.اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ یہ لڑائی ابتداء بغیر ان کے کسی حملہ کے ہوئی تھی.لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا از بس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمداً یا سہو بڑی غلطیوں میں ڈالو گے.سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلعم کے قتل کا ارادہ کر کے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا.اور پھر تعاقب کیا اور جب تکلیف حد سے بڑھی تو پہلا حکم جو لڑائی کے لئے نازل ہوا وہ یہ تھا: أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِيرُ لا إِلَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا الله (الحج :۴۱،۴۰)...اہل کتاب...دعوت حق کے مزاحم ہوئے اور مشرکوں کو انہوں نے مددیں کیں اور ان کے ساتھ مل کر اسلام کو نابود کرنا چاہا جیسا کہ مفصل ذکر اس کا قرآن شریف میں موجود ہے تو پھر بجر لڑنے اور دفع حملہ کے اور کیا تدبیر تھی مگر پھر بھی ان کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا: حَلَى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ طَفِرُونَ یعنی اس وقت تک ان سے لڑو جب تک یہ جزیہ ذلت کے ساتھ دے دیں اور صاف طور پر فرما دیا یعنی جہاد میں یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتدا نہیں ہوئی.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۴ تا ۲۵۶) وہ اہل کتاب کہ جو نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا اور اُس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دیانت اور سچائی کی راہ کو اختیار کرتے ہیں اُن سے تم لڑو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ سورة التوبة یہ آیات ہیں جن سے نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ کا حکم مسلمان کرنے کے لئے ہے لیکن ان آیات کو اخیر تک پڑھ کر دیکھ لو.ان آیات میں مسلمان کرنے کا کہیں بھی حکم نہیں بلکہ اگر تم ان آیات کو آیت ان عِدَّةَ الشُّهُورِ ( التوبة : ٣٦) تک پڑھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ اُن اہل کتاب کا ذکر ہے کہ جو کھلے کھلے طور پر جرائم پیشہ ہو گئے تھے اور عیسائیت اور یہودیت صرف نام کے لئے تھی اور نہ اُن کو خدا پر بھی ایمان نہیں رہا تھا........ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عرب کے یہود اور عیسائی ایسے بگڑ گئے تھے اور اس درجہ پر وہ بدچلن ہو گئے تھے کہ جو کچھ خدا نے اُن کی کتابوں میں حرام کیا تھا یعنی یہ کہ چوری نہ کریں، لوگوں کا ناحق مال نہ کھاویں، ناحق کا خون نہ کریں، جھوٹی گواہی نہ دیں، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں یہ تمام نا جائز کام ایسی دلی رغبت سے کرتے تھے کہ گویا اُن بُرے کاموں کو انہوں نے اپنا مذہب قرار دے دیا تھا....اور ملک کے لئے اُن کا وجود خطر ناک تھا اور اُن کے مفاسد حد سے بڑھ گئے تھے.....پس ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ امن عامہ قائم کرنے کے لئے ایسے جرائم پیشہ لوگوں کا تدارک ضروری تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف پیغمبری کا عہدہ رکھتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بادشاہ با اختیار کی طرح ملکی مصالح قائم رکھنے کے ذمہ وار ٹھہرائے گئے تھے اس صورت میں آپ کا فرض تھا کہ بحیثیت ایک بادشاہ اور والی ملک کے شریروں اور بدمعاشوں کا قرار واقعی بندو بست کریں اور مظلوموں کو جو اُن کی شرارتوں سے تباہ ہو گئے تھے اُن کے پنجہ سے چھڑاویں پس یوں سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کے دو عہدے تھے ایک عہدہ رسالت کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا تھا وہ لوگوں کو پہنچا دیتے تھے اور دوسرا عہدہ بادشاہت اور خلافت کا.جس عہد کی رُو سے وہ ہر ایک مفسد اور مخل امن کو سزا دے کر امن عامہ کو ملک میں قائم کر دیتے تھے اور ملک عرب کا اُن دنوں میں یہ حال تھا کہ ایک طرف تو خود عرب کے لوگ اکثر لٹیرے اور قزاق اور طرح طرح کے جرائم کرنے والے تھے اور دوسری طرف جو اہل کتاب کہلاتے تھے وہ بھی سخت بد چلن تھے اور نا جائز طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے تھے اگر عرب رات کو لوٹتے تھے تو یہ لوگ دن کو ہی غریب لوگوں کی گردن پر چھری پھیر تے تھے پس جبکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک عرب کی بادشاہی دی تو بلاشبہ آنجناب کا یہ فرض تھا کہ بدمعاشوں اور مجرموں اور چوروں اور ڈاکوؤں اور مفسدوں کا بندوبست کریں اور جو لوگ جرائم سے باز نہیں آتے اُن کو سزا دیں اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ بادشاہ کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے کہ مثلاً اگر کسی بادشاہ کی رعایا پر لوگ ڈاکہ ماریں اور اُن کا مال لوٹ کر لے جاویں یا نقب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة التوبة لگا کر مال لے جاویں یا طمع نفسانی سے لوگوں کو قتل کریں تو کیا اس بادشاہ کا فرض نہیں ہوگا کہ ایسے مفسد لوگوں پر چڑھائی کرے اور ایسے مفسد لوگوں کو قرار واقعی سزا دے کر ملک میں امن قائم کر دے سو یہ لڑائی اہل کتاب سے اس وجہ سے نہیں تھی کہ اُن کو مسلمان کیا جائے بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اُن کی شرارتوں سے ملک کو بچایا چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۸ تا ۲۴۱) جائے.وَ قَالَتِ الْيَهُودُ عَزَيْرُ بِابْنُ اللهِ وَ قَالَتِ النَّصْرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِوْنَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ الَّى يُؤْفَكُونَ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور نصاریٰ مسیح کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں جن کی صداقت پر کوئی حجت قائم نہیں کر سکتے بلکہ صرف پہلے زمانہ کے مشرکوں کی ریس کر رہے ہیں.ملعونوں نے سچائی کا راستہ کیسا چھوڑ دیا.(برائین احمد یہ چہار شخص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۴ حاشیہ نمبر ۳) کہا بعض یہود نے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور کہا نصاری نے مسیح خدا کا بیٹا ہے.یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں جن کا کوئی بھی ثبوت نہیں.ریس کرنے لگے ان لوگوں کی جو پہلے اس سے کافر ہو چکے یعنی جو انسانوں کو خدا اور خدا کے بیٹے قرار دے چکے.یہ ہلاک کیسے جائیں.کیسے یہ تعلیم سے پھر گئے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۷) یہود نے کہا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں یہ لوگ ان لوگوں کی ریس کرتے ہیں جو ان سے پہلے بعض انسانوں کو خدا بنا کر کا فر ہو گئے.خدا کے ماروں نے کہاں سے کہاں پلٹا کھایا.سو یہ آیت صریح ہندوؤں اور یونانیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور بتلا رہی ہے جو پہلے انسانوں کو انہیں لوگوں نے خدا قرار دیا.پھر عیسائیوں کی بدقسمتی سے یہ اصول ان تک پہنچ گئے.تب انہوں نے کہا کہ ہم ان قوموں سے کیوں پیچھے رہیں اور ان کی بد بختی سے توریت میں پہلے سے یہ محاورہ تھا کہ انسانوں کو بعض مقامات میں خدا کے بیٹے قرار دیا تھا بلکہ خدا کی بیٹیاں بھی بلکہ بعض گذشتہ لوگوں کو خدا بھی کہا گیا تھا.اس عام محاورہ کے لحاظ سے مسیح پر بھی انجیل میں ایسا ہی لفظ بولا گیا پس وہی لفظ نادانوں کے لئے زہر قاتل ہو گیا تمام بائبل دُہائی دے رہی ہے کہ یہ لفظ ابن مریم سے کچھ خاص
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة التوبة نہیں ہر یک نبی اور راستباز پر بولا گیا ہے بلکہ یعقوب نخست زادہ کہلایا ہے مگر بد قسمت انسان جب کسی پیچ میں پھنس جاتا ہے تو پھر اس سے نکل نہیں سکتا پھر عجیب تریہ کہ جو کچھ مسیح کی خدائی کے لئے قواعد بیان کئے گئے ہیں کہ وہ خدا بھی ہے انسان بھی.یہ تمام قوعد کرشن اور رام چندر کے لیے ہندوؤں کی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں اور اس نئی تعلیم سے ایسے مطابق پڑے ہیں کہ ہم بجز اس کے اور کوئی بھی رائے ظاہر نہیں کر سکتے کہ یہ تمام ہندوؤں کے عقیدوں کی نقل کی گئی ہے.ہندوؤں میں ترے مورتی کا بھی عقیدہ تھا جس سے برھما.بشن.مہادیو کا مجموعہ مراد ہے.سو تثلیث ایسے عقیدے کا عکس کھینچا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ جو کچھ مسیح کے خدا بنانے کے لئے اور عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے عیسائی لوگ جوڑ توڑ کر رہے ہیں اور مسیح کی انسانیت کو خدائی کے ساتھ ایسے طور سے پیوند دے رہے ہیں جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ کسی طرح عقلی اعتراضوں سے بچ جائیں اور پھر بھی وہ کسی طرح بیچ بھی نہیں سکتے اور آخر اسرار الہی میں داخل کر کے پیچھا چھوڑاتے ہیں بعینہ یہی نقشہ ان ہندوؤں کا ہے جو رام چندر اور کرشن کو ایشر قرار دیتے ہیں یعنی وہ بھی بعینہ وہی باتیں سناتے ہیں جو عیسائی سنایا کرتے ہیں اور جب ہر ایک پہلو سے عاجز آ جاتے ہیں.تب کہتے ہیں کہ یہ ایک ایشر کا بھید ہے اور انہیں پر کھلتا ہے جو جوگ کماتے اور دنیا کو تیا گتے اور تمہیا کرتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ بھید تو اسی وقت کھل گیا جبکہ ان جھوٹے خداؤں نے اپنی خدائی کا کوئی ایسا نمونہ نہ دکھلایا جو انسان نے نہ دکھلایا ہو.سچ ہے کہ گرنتھوں میں یہ قصے بھرے پڑے ہیں کہ ان اوتاروں نے بڑی بڑی شکتی کے کام کئے ہیں مردے جلائے اور پہاڑوں کو سر پر اٹھالیا.لیکن اگر ہم ان کہانیوں کو سچ مان لیں تو یہ لوگ خود قائل ہیں کہ بعض ایسے لوگوں نے بھی کرشمے دکھلائے جنہوں نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا.مثلاً ذرہ سوچ کر دیکھ لو کہ کیا مسیح کے کام موسیٰ کے کاموں سے بڑھ کر تھے بلکہ مسیح کے نشانوں کو تو تالاب کے قصہ نے خاک میں ملا دیا.کیا آپ لوگ معجزہ نما تالاب سے واقف نہیں جو اسی زمانہ میں تھا اور کیا اسرائیل میں ایسے نبی نہیں گزرے جن کے بدن کے چھونے سے مردے زندہ ہوئے پھر خدائی کی شیخی مارنے کے لئے کون سی وجوہات ہیں جائے شرم !!! اور اگر چہ ہندوؤں نے اپنے اوتاروں کی نسبت شکتی کے کام بہت لکھے ہیں اور خواہ نخواہ ان کو پرمیشر ثابت کرنا چاہا ہے مگر وہ قصے بھی عیسائیوں کے بے ہودہ قصوں سے کچھ کم نہیں ہیں اور اگر فرض بھی کریں کہ کچھ ان میں سے صحیح بھی ہے.تب بھی عاجز انسان جو ضعف اور نا توانی کا خمیر رکھتا ہے.پر میشر نہیں ہو سکتا اور احیاء
سورة التوبة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقی تو خود باطل اور الہی کتابوں کے مخالف.ہاں اعجازی احیاء جس میں دنیا کی طرف رجوع کرنا اور دنیا میں پھر آباد ہونا نہیں ہوتا.ممکن تو ہے مگر خدائی کی دلیل نہیں کیونکہ اس کے مدعی عام ہیں مردوں سے باتیں کرا دینے والے بہت گزرے ہیں مگر یہ طریق کشف قبور کے قسم میں سے ہے.ہاں ہندوؤں کو عیسائیوں پر ایک فضیلت بے شک ہے.اس کے بلا شبہ ہم قائل ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کو خدا بنانے میں عیسائیوں کے پیشرو ہیں.انہیں کے ایجاد کی عیسائیوں نے بھی پیروی کی.ہم کسی طرح اس بات کو چھپ نہیں سکتے کہ جو کچھ عیسائیوں نے عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے باتیں بنائی ہیں یہ باتیں انہوں نے اپنے دماغ سے نہیں نکالیں بلکہ شاستروں اور گرنتھوں میں سے چرائی ہیں یہ تمام تو وہ طوقان پہلے ہی سے برہمنوں نے کرشن اور رام چندر کے لئے بنا رکھا تھا جو عیسائیوں کے کام آیا پس یہ خیال بدیہی البطلان ہے کہ شاید ہندوؤں نے عیسائیوں کی کتابوں میں سے چرایا ہے کیونکہ ان کی یہ تحریریں اس وقت کی ہیں کہ جب حضرت عیسی کا وجود بھی دنیا میں نہیں تھا.پس نا چار مانا پڑا کہ چور عیسائی ہی ہیں چنانچہ پوٹ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ” تثلیث افلاطون کے لئے ایک غلط خیال کی پیروی کا نتیجہ ہے.مگر اصل یہ ہے کہ یونان اور ہند اپنے خیالات میں مرا یا متقابلہ کے طرح تھے.قریب قیاس یہ ہے کہ یہ شرک کے انبار پہلے ہند سے وید ودیا کی صورت میں یونان میں گئے.پھر وہاں سے نادان عیسائیوں نے چرا چرا کر انجیل پر حاشیے چڑھائے اور اپنا نامہ اعمال درست کیا.( نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۱ تا ۳۶۴) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ b مَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا الهَا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحْنَةَ عَمَّا يُشْرِكُونَ.یعنی یہودیوں نے اپنے مولویوں اور درویشوں کو کہ جو مخلوق اور غیر خدا ہیں اپنے رب اور قاضی الحاجات ٹھہرار کھے ہیں.بر این احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۶۳ حاشیہ نمبر ۱۱) ملعونوں نے سچائی کا رستہ کیسا چھوڑ دیا.اپنے فقیہوں اور درویشوں اور مریم کے بیٹے کو خدا ٹھہرا لیا ہے حالانکہ حکم یہ تھا کہ فقط خدائے واحد کی پرستش کرو خدا اپنی ذات میں کامل ہے.اس کو کچھ حاجت نہیں کہ بیٹا بناوے.کون سی کسر اس کی ذات میں رہ گئی تھی جو بیٹے کے وجود سے پوری ہو گئی.(براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۵۲۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠١ سورة التوبة انہوں نے اپنے عالموں کو، اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا پروردگار ٹھہرالیا اور ایسا ہی مسیح ابن مریم کو.حالانکہ ہم نے یہ حکم کیا تھا کہ تم کسی کی بندگی نہ کرو مگر ایک کی جو خدا ہے جس کا کوئی شریک نہیں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۷) يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَةُ وَلَوْ كَرِهَ الكفرون چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھائیں پر خدا اپنے کام سے ہر گز نہیں رکے گا جب تک اس نور کو کامل طور پر پورا نہ کرے اگر چہ کا فرلوگ کراہت ہی کریں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۸ حاشیہ نمبر ۱۱) چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے حق کو بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ باز نہیں رہے گا جب تک اپنے نور کو پورا نہ کرے اگر چہ کا فر نا خوش ہوں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۷) یہ لوگ اپنے منہ کی لاف گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو بھی کامیابی نہ ہوگی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گالیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے.....اب قرآن شریف موجود ہے حافظ بھی بیٹھے ہیں.دیکھ لیجیے کہ کفار نے کس دعویٰ کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشینگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر گز تباہ نہیں ہوگا یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہوں گے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۱،۲۹۰) یہ شریر کافر اپنے منہ کی پھونکوں سے نور اللہ کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے.کافر برا مناتے رہیں.منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں.یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا.کسی نے دکاندار اور کافر بیدین کہہ دیا.غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہو جاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۳) هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التوبة كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله.....یعنی خدا وہ ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے....یہ آیات قرآنی الہامی پیرایہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول سے مراد مامور اور فرستادہ ہے جو دین اسلام کی تائید کے لیے ظاہر ہوا.اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ تا اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے اور ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں فتح ہوگی اور یہ دین اس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور دوسری تمام ملتیں بینہ کے ساتھ ہلاک ہو جائیں گی.دیکھو یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے اور یہ وہی پیشگوئی ہے جو ابتدا سے اکثر علماء کہتے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے حق میں ہے اور اس کے وقت میں پوری ہوگی اور براہین احمدیہ میں سترہ برس سے مسیح موعود کے دعوے سے پہلے درج ہے تا خدا ان لوگوں کو شرمندہ کرے کہ جو اس عاجز کے دعوئی کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں.براہین خود گواہی دیتی ہے کہ اس وقت اس عاجز کو اپنی نسبت مسیح موعود ہونے کا خیال بھی نہیں تھا اور پرانے عقیدہ پر نظر تھی لیکن خدا کے الہام نے اسی وقت گواہی دی تھی کہ تو مسیح موعود ہے.کیونکہ جو کچھ آثار نبویہ نے مسیح کے حق میں فرمایا تھا الہام الہی نے اس عاجز پر جمادیا تھا.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۳،۴۲) وہ خدا وہ قادر ذوالجلال ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تا دنیا کے تمام دینوں پر اس کو غالب کرے اگر چہ مشرک لوگ کراہت ہی کریں.( براہینِ احمدیہ چہار قصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۸ حاشیہ نمبر ۱۱) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ یعنی تاوہ دین اسلام کو حج قاطعہ اور براہین لِيُظهرة عَلَى الدِّينِ كُله.....آئی لِيُظهِر دِین ساطعہ کے ساتھ اسلام کے علاوہ تمام ادیان پر الْإِسْلامِ بِالْحُجَجِ الْقَاطِعَةِ وَ الْبَرَاهِينَ الشَّاطِعَةِ غالب کرے یعنی اللہ تعالیٰ مظلوم مومنوں کی ان عَلَى كُلِ دِيْنٍ مَا سِوَاهُ آتَى يَنصُرُ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ کے دین کو غالب کر کے اور ان کی حجت کو تمام کر الْمَظْلُومِيْنَ بِإِشْرَاقِ دِينِهِمْ وَإِثْمَامِ حُجَّتِهِم - کے مدد فرمائے ( ترجمہ از مرتب ) ( براہینِ احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۵ حاشیه در حاشیه نمبرا)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التوبة خداوہ قادر ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی دین دے کر بھیجا تاسب دینوں پر حجت کی رو سے اس کو غالب کرے ( یہ وہ پیشگوئی ہے جو پہلے سے قرآن شریف میں انہیں دنوں کے لیے لکھی گئی ہے.) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۳) وہ وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تا وہ دین سب دینوں پر غالب ہو جائے اگر چہ مشرک ناخوش ہوں.اب دیکھئے کہ ان آیات کریمہ میں اللہ جل شانہ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ عیسائیوں سے پہلے یہودی یعنی بعض یہودی بھی عزیر کو ابن اللہ قرار دے چکے اور نہ صرف وہی بلکہ مقدم زمانہ کے کافر بھی اپنے پیشواؤں اور اماموں کو یہی منصب دے چکے پھر ان کے پاس اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ لوگ اپنے اماموں کو خدا ٹھہرانے میں جھوٹے تھے اور یہ سچے ہیں اور پھر اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ یہی خرابیاں دنیا میں پڑ گئی تھیں جن کی اصلاح کے لیے اس رسول کو بھیجا گیا تا کامل تعلیم کے ساتھ ان خرابیوں کو دور کرے کیونکہ اگر یہودیوں کے ہاتھ میں کوئی کامل تعلیم ہوتی تو وہ بر خلاف توریت کے اپنے عالموں اور درویشوں کو ہرگز خدانہ ٹھہراتے.اس سے معلوم ہوا کہ وہ کامل تعلیم کے محتاج تھے جیسا کہ حضرت مسیح نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ابھی بہت سی باتیں تعلیم کی باقی ہیں کہ تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے یعنی جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اس لیے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن وہ جو کچھ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.حضرات عیسائی صاحبان اس جگہ روح حق سے روح القدس مراد لیتے ہیں اور اس طرف توجہ نہیں فرماتے کہ روح القدس تو ان کے اصول کے موافق خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنے گا حالانکہ لفظ پیشگوئی کے یہ ہیں کہ جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۸،۱۶۷) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابِ اليْم (۳۴) مسلمانو! اہل کتاب کے اکثر عالم اور مشائخ لوگوں کے مال ناحق کھاتے ہیں یعنی ناجائز طور پر ان کا رو پیدا اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں اور خدا کی راہ سے لوگوں کو روکتے رہتے ہیں اور اس طرح پر نا جائز طور پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة التوبة لوگوں کے مال لے کر سونا اور چاندی جمع کر لیتے ہیں اور خدا کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہیں کرتے سو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۱) إلا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَانْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.۴۰ وَمِنْ حَسَنَاتِ الصّديقي حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیکیوں اور آپ کے خاص وَمَزَايَاهُ الْخَاصَّةِ أَنَّهُ حُقِّ لِمُرَافَقَةِ فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَفَرٍ الْهِجْرَةِ وَجُعِلَ شَرِيكَ کے سفر ہجرت کی مرافقت کے لیے خاص کیا گیا اور آپ کو مَضَائِي خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَأَنيسه سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب میں شریک بنایا گیا الخاص في باكورَةِ الْمُصِيبَةِ اور آپ کو آغاز مصیبت میں ہی آپ کا دوست قراردیا گیا تا کہ لِيَعْبُتَ تَخَصُّصُهُ مَحبُوبِ اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا الْحَضْرَةِ وَسِر ذلِكَ أَنَّ اللهَ كَانَ تخصص ثابت ہو اور اس کا راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ يَعْلَمُ بِأَنَّ الصَّدِّيقَ أَشْجَعُ الصَّحَابَةِ حضرت ابو بکر صدیق صحابہ میں سے بہادر ترین اور متقی ہیں اور وَمِن الثَّقَاةِ وَأَحَتُهُم إِلى رَسُولِ الله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب صحابہ سے زیادہ محبوب ہیں اور صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنَ الْكُمَاةِ آپ ( یعنی حضرت ابوبکر) بہادر ترین لوگوں میں سے ہیں اور آپ وَكَانَ فَانِيا في حب سید کی محبت میں فنا ہیں اور وہ قدیم سے اس بات کے عادی تھے کہ الْكَائِنَاتِ، وَكَانَ اعْتَادَ مِنَ الْقَدِيمِ آپ کی ضروریات پوری کریں اور آپ کے کاموں کی نگرانی کریں.أَنْ يَمُونَهُ وَيُرَاعِيَ شُؤُونَهُ، فَأَسْلی به پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کے وجود کے ساتھ تنگی کے اللهُ نَبِيَّةَ فِي وَقْتٍ عَبُوسِ وعَيْشِ وقت اور شدت کی گھڑیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بُؤس، وحُقِّ بِاسْمِ الصّدِيقِ وَقُرِبَ کو تسلی دی.حضرت ابو بکر کو صدیق کے لقب اور رسول کریم صلی نيتى الثَّقَلَيْنِ، وَأَفَاضَ اللهُ عَلَيْهِ اللہ علیہ وسلم کے قرب سے خاص کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خِلْعَةَ ثَانِيَ اثْنَيْنِ (سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۹،۳۳۸) ۳۰۵ ثانی اثنین کا خلعت پہنایا.(ترجمہ ازم مرتب ) سورة التوبة ( حضرت ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدق اس آگ کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا.گو بعض کی رائے اخراج کی بھی تھی لیکن اصل قتل ہی تھا.ایسی حالت میں حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے صدق وصفا کا وہ نمونہ دکھایا جو ابد الآباد کے لیے نمونہ رہے گا.اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت صدیق کی فضیلت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبردست دلیل ہے.دیکھو اگر وائسرائے ہند کسی شخص کو کسی خاص کام کے لیے انتخاب کرے تو وہ رائے بہتر اور صائب ہوگی یا ایک چوکیدار کی.ماننا پڑے گا کہ وائسرائے کا انتخاب بہر حال موزوں اور مناسب ہوگا کیونکہ جس حال میں سلطنت کی طرف سے وہ نائب السلطنت مقر ر کیا گیا ہے تو اس کی وفاداری ، فراست اور پختہ کاری پر سلطنت نے اعتماد کیا ہے تب زمام سلطنت اس کے ہاتھ میں دی ہے پھر اس کی صائب تدبیری اور معاملہ منہمی کو پس پشت ڈال کر ایک چوکیدار کے انتخاب اور رائے کو صحیح سمجھ لیا جاوے یہ نا مناسب امر ہے.کو اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب تھا.اس وقت آپ کے پاس ۷۰ ۸۰ صحابہ موجود تھے.حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس ہی تھے مگر آپ نے ان سب میں سے حضرت ابوبکر ہی کو منتخب کیا.اس میں ستر کیا ہے.بات یہ ہے کہ نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اس کا فہم خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کشف اور الہام سے بتادیا تھا کہ اس کام کے لیے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی ہیں.الحکم جلد 4 نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) حضرت ابو بکر اس ساعت عسر میں آپ کے ساتھ ہوئے یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا.حضرت مسیح پر جب اس قسم کا وقت آیا تو ان کے شاگردان کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور ایک نے سامنے ہی لعنت بھی کی.مگر صحابہ کرام میں سے ہر ایک نے پوری وفاداری کا نمونہ دکھا یا غرض حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کو غار ثور کہتے ہیں.آپ جا چھپے.شریر کفار جو آپ کی ایذارسانی کے لیے منصوبے کر چکے تھے.تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے.حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جاویں گے.اس وقت آپ نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التوبة فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یہ فرمایا: إِنَّ اللهَ مَعَنَا - مَعَنا میں آپ دونوں شریک.یعنی تیرے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک پلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا اور دوسرے پر حضرت صدیق کو.اس وقت دونوں ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے.دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہورہی ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پایہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گز راور دخل کیسے ہوگا.مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے.کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں.اس قسم کی باتوں کی آواز میں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں.ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھے آئے ہیں لیکن آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق کو فرماتے ہیں : لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں اشارہ سے کام نہیں چلتا.باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لیے تو یہ نمونہ کافی ہے.الحام جلد ۹ نمبر ۷ ۱ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ مَعَنا اس معیت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اور گویا کل جماعت آپ کی آگئی.موسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا: إِنَّ مَعَى رَبِّي (الشعراء : ۱۳) اس میں کیا ستر تھا کہ انہوں نے اپنے ہی ساتھ معیت کا اظہار کیا اس میں یہ راز ہے کہ اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی قوم شریر اور فاسق فاجر تھی.آئے دن لڑنے اور پتھر مارنے کو تیار ہو جاتی تھی.اس لیے ان کی طرف معیت کو منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی ذات تک اسے رکھا ہے.اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور علو مدارج کا اظہار مقصود ہے.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی نظیر موجود ہے حالانکہ مکہ میں آپ کے وفادار اور جان نثار خدام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۷ سورة التوبة موجود تھے لیکن جب آپ نے ہجرت کی تو صرف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے لیا مگر اس کے بعد جب آپ مدینے پہنچ گئے تو دوسرے اصحاب بھی یکے بعد دیگرے وہیں جا پہنچے.لکھا ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے نکلے اور غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے تو دشمن بھی تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے ان کی آہٹ پاکر حضرت ابوبکر گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے وحی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا.کہتے ہیں کہ وہ نیچے اتر کر اس کو دیکھنے بھی گئے مگر خدا کی قدرت ہے کہ غار کے منہ پر کڑی نے جالاتن دیا تھا اسے دیکھ کر ایک نے کہا کہ یہ جالا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے اس لیے وہ واپس چلے آئے.یہی وجہ ہے جوا کثرا کا بر عنکبوت سے محبت کرتے آئے ہیں.(احکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۵) b اِنْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) اصل مقصود کے پانے کے لیے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : جَاهِدُوا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنفُسِكُم......یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۸، ۴۱۹) قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا هُوَ مَوْلنَا ۚ وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ہمیں کوئی مصیبت ہر گز نہیں پہنچ سکتی بجز اس مصیبت کے جو خدا نے ہمارے لیے لکھ دی ہے وہی ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ بس اسی پر بھروسہ رکھیں.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱) ( مصر کے اخبار اللواء نے کشتی نوح کی کسی آیت پر اعتراض کیا تھا کہ یہ لوگ قرآن کو نہیں سمجھتے اور ان کو پتہ نہیں ہے کہ مَا مِن دَاءِ إِلَّا وَلَهُ دَوَاءُ حدیث میں ہے یہ اس پر ایمان نہیں لاتے.آپ نے فرمایا :.)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التوبة اس نے ہمارے مطلب کو نہیں سمجھا اور پہلی آیت کو دیکھ کر صرف اپنے اندرونی بغض کی وجہ سے ایک شاعرانہ مذاق پر مضمون لکھنا شروع کر دیا.ہم دواؤں سے کب انکار کرتے ہیں.ہم تو قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شئے میں بعض فوائد ر کھے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس (طاعون ) کے متعلق ہمیں قبل از وقت سوجھا دیا ہے کہ یہ اس کا حقیقی علاج ہے اور یہ امر اس نے ہمیں بطور نشان کے دیا ہے تو اب ہم نشان کو کیسے مشتبہ کریں.جب اللہ تعالیٰ کوئی نشان دیوے تو اس کی بے قدری کر نا صرف معصیت ہی نہیں بلکہ کفر تک نوبت پہنچا دیتا ہے.ہر مرتبہ از وجود اثری دارد گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی ( بدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ / نومبر ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۸) وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ الاَ وَهُمْ كَسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلا وَهُمْ كَرِهُونَ.(۵۴) یعنی اس بات کا سبب جو کفار کے صدقات قبول نہیں کیے جاتے صرف یہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول سے منکر ہیں.اب دیکھو ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ رسول پر ایمان نہیں لاتے ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں.خدا ان کو قبول نہیں کرتا اور پھر جب اعمال ضائع ہوئے تو نجات کیوں کر ہوگی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۲) یہ تمام آیات ان لوگوں کے متعلق ہیں جنہوں نے رسول کے وجود پر اطلاع پائی اور رسول کی دعوت ان کو پہنچ گئی اور جو لوگ رسول کے وجود سے بالکل بے خبر رہے اور نہ ان کو دعوت پہنچی.ان کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ان کے حالات کا علم خدا کو ہے.ان سے وہ وہ معاملہ کرے گا جو اس کے رحم اور انصاف کا (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۲) مقتضاء ہے.اِنَّمَا الصَّدَقْتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسْكِينِ وَ الْعَمِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُم وَ فِي الرِّقَابِ وَالْغَرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ دو، سم حلیم خیرات اور صدقات وغیرہ پر جو مال دیا جائے اس میں یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ پہلے جس قدر محتاج ہیں ان کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة التوبة دیا جائے.ہاں جو خیرات کے مال کا تعہد کریں یا اس کے لیے انتظام و اہتمام کریں ان کو خیرات کے مال سے کچھ مال مل سکتا ہے اور نیز کسی کو بدی سے بچانے کے لیے بھی اس مال میں سے دے سکتے ہیں.ایسا ہی وہ مال غلاموں کے آزاد کرنے کے لیے اور محتاج اور قرضداروں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے بھی اور دوسری راہوں میں جو محض خدا کے لیے ہوں خرچ ہوگا.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۸،۳۵۷) اَلَم يَعلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذلِكَ الْخِزى الْعَظِيمُ.کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور رسول کی مخالفت کرے خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا.یہ ایک بڑی رسوائی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۳) وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَ مَسكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنْتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ذلِكَ هُوَ الْفَوْرُ العظيم اعلیٰ درجہ کی خوشی خدا میں ملتی ہے جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں.اور جنت کو جنت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردد منسوب ہی نہیں ہوتا اس لیے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِنَ الله اکبر ہی رکھا ہے.انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردد میں ہوتا مگر جس قدر قرب الہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّفُوا بِأَخْلَاقِ اللہ سے رنگین ہوتا جاتا ہے اس قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الہی ہوگا، لازمی طور پر اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گا اور رفع کے معنی اسی پر دلالت کرتے ہیں.احکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۷) پتو ط ياَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْولهُمْ جَهَنَّمُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ۳۱۰ سورة التوبة دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کی جائے اور اگر ہر یک سخت اور آزار دو تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کیے گئے ہیں یہ ہر گز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلا شبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہوگی کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ اِنكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (الانبياء : ٩٩) معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شر البریہ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بدتر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے رو سے دشنام وہی میں داخل نہیں ہو گا کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں والغلظ عَلَيْهِمْ نہیں فرمایا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۹) غرض ان آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خود خدا تعالیٰ نے بھی حفظ مراتب کا لحاظ رکھا ہے.مؤمنین اور ایمان داروں کے واسطے کیسی نرمی کا حکم ہے اور کفار میں سے بعض میں مادہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان کو سختی کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح سے بعض بیماریوں یا زخموں میں ایک حکیم حاذق کو چیر پھاڑی اور عمل جراحی سے کام لینا پڑتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۱/۱۴ پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۳) فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلْفَ رَسُولِ اللَّهِ وَ كَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِ ۖ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ.ہماری جماعت کا ایمان تو صحابہ والا چاہیے جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں کٹوا دئیے تھے.اگر آج ہماری جماعت کو یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کے لیے جانے کو کہا جاوے تو اکثر یہی کہہ دیں گے جی ہمارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة التوبة 511999 بال بچوں کو تکلیف ہوگی.ہمارے گھروں کا ایسا حال ہے یہ ہے وہ ہے اِن بُيُوتِنَا عَورَةٌ (الاحزاب : ١٤) اور ہم نے یہ تو نہیں کہنا کہ جا کر سر کٹوا ئیں بلکہ یہی ہے کہ دین کے لیے سفر کی تکالیف اور صدمے اٹھاویں مگر اکثر یہی کہہ دیں گے جی گرمی بہت ہے.زیادہ تکلیف کا اندیشہ ہے.مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جہنم کی گرمی اس سے بھی زیادہ ہوگی.نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَدًّا - صحابہ کا نمونہ مسلمان بننے کے لیے پکا نمونہ ہے.الحکم جلد نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) ہے فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَ ليَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ.دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے تا کہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَ لَيَبْدُوا كَثِيرًا یعنی ہنسو تھوڑا اور روڈ بہت کا مصداق بنو لیکن جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸؍جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۲) صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہو گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا : فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَ ليَبكُوا كَثیرا کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت مگر اس کے برعکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رورہا ہے وہی روتا ہے.انسان کو چاہیے کہ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز و نیاز سے خدا کے آستانہ پر گر پڑے تا کہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے.جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ بنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں ہے.اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گزر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۴) ایمان ہے.وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوابِرَ عَلَيْهِم دابِرَةُ السَّوْءِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(۹۸) غلام دستگیر قصوری کے بارے میں ذکر تھا کہ بعض مخالفین کہتے ہیں اس نے کب مباہلہ کیا.حضور نے فرمایا :.) بطریق تنزل ہم مان لیتے ہیں کہ اس نے صرف ہمارے لیے بددعا کی مگر اب بتاؤ کہ اس کی دعا کا اثر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۲ سورة التوبة کیا ہوا ؟ کیا وہ الفاظ جو میرے حق میں کہے اور وہ دعا جو میرے برخلاف کی اُلٹی اس پر ہی نہیں پڑی ؟ اب بتاؤ کہ کیا مقبولانِ الہی کا یہی نشان ہے کہ جو دعا وہ نہایت تضرع و ابتہال سے کریں اس کا الٹا اثر ہو اور اثر بھی یہ کہ خود ہی ہلاک ہو کر اپنے کا ذب ہونے پر مہر لگا جاویں.خصوصاً ایسے شخص کے مقابل میں جسے وہ مفتری اور کیا کیا سمجھتا ہے دراصل وہ مجمع البحار والے کی مثال دے کر خود اس کا قائمقام بنا چاہتا تھا اور اگر مجھے کوئی نقصان پہنچ جاتا تو بڑے لمبے لمبے اشتہار شائع ہوتے لیکن خدا نے دشمن کو بالکل موقع نہ دیا کہ وہ کسی قسم کی خوشی منائے.اس بات کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے میرے خلاف بددعا کی اور خدا سے میری جڑ کے کٹ جانے کی درخواست کی.لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی جڑ کٹ گئی اور مجھے روز افزوں ترقی حاصل ہوئی.کیا یہ متعصب مخالف کے لیے عبرت کا مقام نہیں افسوس کہ یہ لوگ ذرا بھی غور و فکر سے کام نہیں لیتے.قرآن مجید کی وہ آیت یہاں کیسی صادق آ رہی ہے کہ یتربصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوء يَتَرَبَّصُ ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۸) خوب یا درکھنا چاہیے کہ میری پیشگوئیوں میں کوئی بھی امرایسا نہیں ہے جس کی نظیر پہلے انبیاءعلیہم السلام کی پیشگوئیوں میں نہیں ہے.یہ جاہل اور بے تمیز لوگ چونکہ دین کے بار یک علوم اور معارف سے بے بہرہ ہیں اس لیے قبل اس کے جو عادۃ اللہ سے واقف ہوں بخل کے جوش سے اعتراض کرنے کے لئے دوڑتے ہیں اور ہمیشہ بموجب آیت کریمہ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوابِر میری کسی گردش کے منتظر ہیں اور عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السوء کے مضمون سے بے خبر....یا درکھنا چاہیے کہ زندگی کے درمیانی حصوں میں انبیاء علیہم السلام بھی بلاؤں سے محفوظ نہیں رہے مگر انجام بخیر ہوا.اسی طرح اگر ہمیں بھی اس درمیانی مراحل میں کوئی غم پہنچے یا کوئی مصیبت پیش آوے تو اس کو خدا تعالیٰ کا اخیری حکم سمجھنا غلطی ہے.خدا تعالی کا حتمی وعدہ ہے کہ وہ ہمارے سلسلہ میں برکت ڈالے گا اور اپنے اس بندہ کو بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ اس بندہ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے وہ ہر ایک ابتلا اور پیش آمدہ ابتلا کا بھی انجام بخیر کرے گا اور دشمنوں کے ہر ایک بہتان سے انجام کار بریت ظاہر کر دے گا.(حقیقۃ المہدی ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۴۲، ۴۴۳) یعنی اے نبی ! تیرے پر یہ بد نہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں.انہیں پر گردشیں پڑیں گی.پس اس آیت کریمہ کی رو سے یہ سنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بددعا کرتا ہے وہی بددعا اس پر پڑتی ہے یہ سنت اللہ نصوص قرآنی اور حدیثیہ سے ظاہر ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ سورة التوبة والشبقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى تَحْتَهَا الْاَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۱۰۰ اصل میں صفات کل نیک ہوتے ہیں جب ان کو بے موقع اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاوے تو وہ برے ہو جاتے ہیں اور ان کو گندہ کر دیا جاتا ہے لیکن جب انہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کر محل اور موقعہ پر استعمال کیا جاوے تو ثواب کے موجب ہو جاتے ہیں قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے : مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ ( الفلق : ٢ ) اور دوسری جگہ الشبِقُونَ الْأَوَّلُونَ اب سبقت لے جانا بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے.سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اور کوئی آگے بڑھ جاوے.یہ صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جاتی ہے.اگر بچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنے والے کی استعداد بڑھ جاتی ہے.سابقون گویا حاسد ہی ہوتے ہیں لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفی ہو کر سابق ہو جاتا ہے.اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جاویں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۹/۱) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهَرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَل عَلَيْهِمْ إِنَّ صلوتك سكن لَّهُمْ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(١٠٣ سكن لَّهُم یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے...تیری صلوۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲، ۳) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کر نہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی.ممکن ہے کہ اس نے غرغرہ کے وقت تو بہ کر لی ہو.مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے.اس لیے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہیے.ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر از جماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة التوبة وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنَ لَهُمُ اس میں صلوۃ سے مراد جنازہ کی نماز ہے اور سکن تهُم دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہ گار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشی تھی.(البدرجلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۹) ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَن لَّهُمْ یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے جو ٹھنڈا پڑ جاوے.شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آجاتی ہے جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بے کا رنہیں کیا.بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے.(الحکم جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) صدقہ صدق سے لیا گیا ہے جب کوئی شخص خدا کی راہ میں صدقہ دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ خدا سے صدق رکھتا ہے.دوسرا دعا.دعا کے ساتھ قلب پر سوز گداز اور رقت پیدا ہوتی ہے دعا بھی ایک قربانی ہے.صدق اور دعا اگر یہ دو باتیں میسر آجاویں تو اکسیر ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۱۰ر جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۱۲) التَّابِبُونَ الْعَبدُونَ الْحَمِدُونَ السَّابِحُونَ الرَّكِعُونَ السُّجِدُونَ الأمرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَفِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ وہ لوگ خوش وقت ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں اور خدا کی پرستش میں مشغول ہوتے ہیں اور خدا کی تعریف میں لگے رہتے ہیں اور خدا کی راہ کی منادی کے لیے دنیا میں پھرتے ہیں اور خدا کے آگے جھکے رہتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں وہی مومن ہیں جن کو نجات کی خوش خبری دی گئی ہے.( برا این احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۴۲) اِنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيتُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَليَّ وَلَا نَصِيرٍ مسیح کا باغ میں اپنے بچ جانے کے لئے ساری رات دعا کرنا اور دعا قبول بھی ہو جانا جیسا کہ عبرانیاں ۵.آیت ۷
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة التوبة میں لکھا ہے مگر پھر بھی خدا کا اُس کے چھڑانے پر قادر نہ ہونا یہ بزعم عیسائیاں ایک دلیل ہوسکتی ہے کہ اُس زمانہ میں خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی مگر ہم نے اس سے بڑھ کر ابتلا دیکھے ہیں اور اُن سے نجات پائی ہے ہم کیوں کر خدا کی بادشاہت کا انکار کر سکتے ہیں کیا وہ خون کا مقدمہ جو میرے قتل کرنے کے لئے مارٹن کلارک کی طرف سے عدالت کپتان ڈگلس میں پیش ہوا تھا وہ اس مقدمہ سے کچھ خفیف تھا جو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہ کسی خون کے اتہام سے یہودیوں کی طرف سے عدالت پیلاطوس میں دائر کیا گیا تھا مگر چونکہ خدا زمین کا بھی بادشاہ ہے جیسا کہ آسمان کا اس لئے اُس نے اس مقدمہ کی پہلے سے مجھے خبر دے دی کہ یہ ابتلا آنے والا ہے اور پھر خبر دے دی کہ میں تم کو بری کروں گا اور وہ خبر صد با انسانوں کو قبل از وقت سنائی گئی اور آخر مجھے بری کیا گیا پس یہ خدا کی بادشاہت تھی جس نے اس مقدمہ سے مجھے بچا لیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے اتفاق سے مجھ پر کھڑا کیا گیا تھا ایسا ہی نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ میں نے خدا کی بادشاہت کو زمین پر دیکھا اور مجھے خدا کی اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ لئے مُلكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ یعنی زمین پر بھی خدا کی بادشاہت ہے اور آسمان پر بھی.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸،۳۷) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ ) شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور ارتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ ) انبیاء علیہم السلام تھوڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آیا کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو رسم اور عادت سے نجات دینے اور سچا اخلاص اور ایمان حاصل کرنے کی یہ راہ بتائی ہے کہ كُونُوا مَعَ الصدقین یہ سچی بات ہے اس کو بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ جس نے نبی کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر دیا.رسم اور عادت کی غلامی سے انسان اس وقت نکل سکتا ہے جب وہ عرصہ دراز تک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۶ صادقوں کی صحبت اختیار کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے.سورة التوبة الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ء صفحه ۷ ) خان صاحب نواب خاں صاحب جاگیر دار مالیر کوٹلہ نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ وہ ارادت کا اظہار کرتا ہے مگر چاہتا ہے کہ اس کی توجہ نماز کی طرف ہو جاوے.فرمایا کہ ) یہ لوگ خدا تعالیٰ سے ایسی شرطیں کیوں کرتے ہیں پہلے خود کوشش کرنی چاہیے قرآن شریف میں ایاک نَعْبُدُ مقدم ہے.خدا تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں اگر وہ خود کوشش کرنا چاہتے ہیں تو مہینے تک یہاں آکر رہیں خدا نے فرمایا ہے : كُونُوا مَعَ الصّدِقِینَ یہاں وہ نماز پڑھنے والوں کو دیکھیں گے باتیں سنیں گے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۷ ار ا گست ۱۹۰۲ صفحه ۹) انسان کو انوار اور برکات سے حصہ نہیں مل سکتا.جب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خدا فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ.بات یہی ہے کہ ضمیر سے خمیر لگتا ہے اور یہی قاعدہ ابتداء سے چلا آتا ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ کے ساتھ برکات اور انوار تھے جن میں سے صحابہ نے بھی حصہ لیا پھر اسی طرح خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ ایک لاکھ تک ان کی نوبت آئی.البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۱) ملعون لوگ ( یعنی جو خدا سے دور ہیں) جو زندگی بسر کرتے ہیں وہ کیا زندگی ہے.بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں.مثل بہائم کے ہیں جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے....ایمان لانے اور خدا کی عظمت کے دل میں ہونے کی اول نشانی یہ ہے کہ انسان ان تمام کو مثل کیڑوں کے خیال کرے ان کو دیکھ کر دل میں نہ تر سے کہ یہ فاخرہ لباس پہن کر گھوڑوں پر سوار ہیں.در حقیقت ان لوگوں کی قسمت بد اور کتوں کی سی زندگی ہے کہ مردار دنیا پر دانت مار رہے ہیں.انسان کو اگر دیکھنے کی آرزو ہو تو ان کو دیکھیں جو منقطعین ہیں اور خدا کی طرف آگئے ہیں اور خدا ان کو زندہ کرتا ہے.ان کی زیارت سے مصائب دور ہوتے ہیں جو شخص رحمت والے کے پاس آوے گا تو وہ رحمت کے قریب تر ہوگا.اور جو ایک لعنتی کے پاس جاوے گا وہ لعنت کے قریب تر ہو گا دنیا میں یہی بات غور کے قابل ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ یعنی اے بندو تمہارا بچاؤ اسی میں ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.البدر جلد اول نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۶) یہاں کا رہنا تو ایک قسم کا آستانہء ایزدی پر رہنا ہے اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ سورة التوبة پینے سے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابد الآباد تک موت ہر گز نہیں آسکتی اچھی طرح کمر بستہ ہو کر پورے استقلال سے اس صراط مستقیم کے راہ رو بنیں اور ہر قسم کی دنیاوی رکاوٹوں اور نفسانی خواہشات کی ذرہ پروانہ کر کے اللہ تعالی کے صادق مامور کی پوری معیت کریں تا کہ حکم كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ کی فرمانبرداری کا سنہری تمغہ آپ کو حاصل ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۴۵ صفحه ۳۵۲ تا ۳۵۴ مورخه یکم دسمبر ۱۹۰۳ء.نیز الحکم جلدے نمبر ۴۵،۴۴ مورخہ ۳۰ر نومبر تا ۱۰ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۸،۷) سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشوره اعلاء کلمه اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ / دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں....جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا ہے کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہو گا.پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے.رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں انما الاعمال بالنیات.بدظنی کے مادہ فاسدہ کو ذرا دور کر کے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کون سی بدعت ہے جبکہ ۲۷ / دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے تو اس سہل طریق سے فائدہ اُٹھانا کیوں حرام ہے تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کو وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طلب علم کے لیے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کے لیے جانا موجب خوشنودی خدائے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کر کے زیارتِ صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے.....مسلمانوں کو مختلف اغراض کے لیے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کے لیے ہوتا ہے اور کبھی.ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کے لیے.....کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کے لیے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ: قُل سِيرُوا فِي الْأَرْضِ اشارت فرما رہی ہے.کبھی سفر صادقین کی صحبت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة التوبة میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ ہدایت فرماتی ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۵ تا۶۰۷) زیارتِ صالحین کے لیے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے سخت مواخذہ میں ہوگا تو اللہ جلّ شانہ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کے لیے کبھی تو گیا تھا تو وہ کہے گا بالا رادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہو گئی تھی تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰۸) انسان ایسا جاندار ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے تربیت ایمانی کے لیے فیوض و برکات نہ ہوں وہ خود بخود پاک صاف نہیں ہو سکتا اور حقیقت میں پاک صاف ہونا اور تقویٰ پر قدم مارنا آسان امر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے یہ نعمت ملتی ہے اور سچی تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو اس کے حاصل کرنے کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ اور پھر یہ بھی کہا : إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل : ۱۲۹) - انتقام جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴ / جون ۱۹۰۶ صفحه ۲، ۳) صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری بات ہے کُونُوا مَعَ الصدقین صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے.بہت سے لوگ ہیں جو دور بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ بھی آئیں گے اس وقت فرصت نہیں ہے.بھلا تیرہ سو سال کے موعود سلسلہ کو جو لوگ پالیں اور اس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رسول کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں وہ فلاح پا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.پاسکتے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال ہست و محال است و جنوں دین تو چاہتا ہے کہ مصاحبت ہو.پھر مصاحبت سے گریز ہو تو دینداری کے حصول کی امید کیوں رکھتا ہے.ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے کہ وہ بار بار یہاں آکر ر ہیں اور فائدہ اُٹھا ئیں.مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر تو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں.مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے.....وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں سے جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے.وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متقی اور پر ہیز گار ہوں مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہیے انہوں نے قدر نہیں کی.میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ سورة التوبة تحمیل عملی کی ضرورت ہے پس تحمیل عملی بدون تحمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے.بار با خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جو خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا سچا وعدہ کرتے ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ اس پر عمل کیا ہوتا ہے کیا كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کا حکم منسوخ ہو چکا ہے.اگر تم واقعی ایمان لاتے ہو اور سچی خوش قسمتی یہی ہے تو اللہ تعالیٰ کو مقدم کرلو.اگر ان باتوں کو ردی اگر اور فضول سمجھو گے تو یا درکھو خدا تعالیٰ سے ہنسی کرنے والے ٹھہرو گے.اور الحکم جلد ۵ نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) صدق ایسی شے ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل اوقات میں بھی نجات دیتا ہے.سعدی نے سچ کہا ہے کہ کس ندیدم که گم شد از رو راست.پس جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے کلام اور نبیوں کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ تمام راست بازوں کے نمونے اور چشمہ ہوتے ہیں.كُونُوا مَعَ الصُّدِقِین کا ارشاداسی اصول پر ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مردوں کے پاس جانے کی ہدایت نہیں فرمائی بلکہ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ کا حکم دے کر زندوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیا.یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بار بار یہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کر کے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایمان درست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحب ایمان کی صحبت میں نہ رہے اور یہ اس لیے کہ چونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں.ایک ہی وقت میں ہر قسم کی طبیعت کے موافق حال تقریر ناصح کے منہ سے نہیں نکلا کرتی.کوئی وقت ایسا آجاتا ہے کہ اس کی سمجھ اور فہم کے مطابق اس کے مذاق پر گفتگو ہو جاتی ہے جس سے اس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اگر آدمی بار بار نہ آئے اور زیادہ دنوں تک نہ رہے تو ممکن ہے کہ ایک وقت ایسی تقریر جو اس کے مذاق کے موافق نہیں ہے اور اس سے اس کو بددلی پیدا ہو اور وہ حسن ظن کی راہ سے دور جا پڑے اور ہلاک ہو جاوے.ا القام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۰ سورة التوبة اول خدا تعالیٰ مدد دیتا ہے پھر دوسرے درجہ پر مامور من اللہ.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں جوش ڈالا ہے اور وہ اسی جوش اور تقاضائے فطرت کے ساتھ مخلوق کی بہتری میں ہر ایک قسم کی کوشش کرتے ہیں جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس لیے کہ والدہ کا نفس مزر کی نہیں ہے اور یہ مز کی النفس لوگ ہوتے ہیں انہیں کو صادقین اس آیت کونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ میں فرمایا گیا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴/ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) یا درکھو.میں جو اصلاح خلق کے لیے آیا ہوں جو میرے پاس آتا ہے وہ اپنی استعداد کے موافق ایک فضل کا وارث بنتا ہے لیکن میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ جو سرسری طور پر بیعت کر کے چلا جاتا ہے اور پھر اس کا پتہ بھی نہیں ملتا کہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے اس کے لیے کچھ نہیں ہے وہ جیسا تہی دست آیا تھا.تمہیدست جاتا ہے.یہ فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ بیٹھے آخر نتیجہ یہ ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اللہ فی اصحابی گویا صحابہ خدا کا روپ ہو گئے.یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ ان کو ملتا اگر دور ہی بیٹھے رہتے.یہ بہت ضروری مسئلہ ہے.خدا تعالیٰ کا قرب بندگانِ خدا کا قرب ہے اور خدا تعالیٰ کا ارشاد كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ اس پر شاہد ہے یہ ایک سر ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں.مامورمن اللہ ایک ہی وقت میں ساری باتیں کبھی بیان نہیں کر سکتا بلکہ وہ اپنے دوستوں کے امراض کی تشخیص کر کے حسب موقع ان کی اصلاح بذریعہ وعظ ونصیحت کرتا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ ان کے امراض کا ازالہ کرتا رہتا ہے.اب جیسے آج میں ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں جو آج ہی کی تقریر سن کر چلے جاویں اور بعض باتیں ان میں ان کے مذاق اور مرضی کے خلاف ہوں تو وہ محروم گئے لیکن جو متواتر یہاں رہتا ہے وہ ساتھ ساتھ ایک تبدیلی کرتا جاتا ہے اور آخر اپنے مقصد کو پالیتا ہے.احکام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) دل کی پاکیزگی کا حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ حاصل نہیں ہوسکتی جب تک منہاج نبوت پر آئے ہوئے پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے اس کی صحبت کی توفیق نہیں مل سکتی جب تک اولا انسان یہ یقین نہ کر لے کہ وہ ایک مرنے والی ہستی ہے یہی ایک بات ہے جو اس کو صادق کی صحبت کی توفیق عطا فرما دے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے لیے نیکی کا ارادہ کرتا ہے فرماتا ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التوبة کردیتا ہے.سب سے بڑھ کر واعظ یہ ہے کہ وہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ کی حقیقت کو سمجھ لے.صحابہ کرام کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا.جو کچھ انہوں نے کیا اسی طرح پر ہماری جماعت کو لازم ہے کہ وہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں.بدوں اس کے کہ وہ اس اصلی مطلب کو جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں پانہیں سکتے کیا ہماری جماعت کو زیادہ حاجتیں اور ضرورتیں لگی ہوئی ہیں جو صحابہ کو نہ تھیں؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے اور آپ کی باتیں سننے کے واسطے کیسے حریص تھے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۳) صادق سے صرف یہی مراد نہیں کہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے.یہ بات تو بہت سے ہندوؤں اور دہریوں میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات وقول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں.گویا یہ کہو کہ اس کا وجود ہی صدق ہو گیا ہو اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں.چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لیے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات و سکنات، افعال و اقوال میں خدائی نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے.صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کہ وہ اگر دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ صادق کا وجود خدا نما وجود ہوتا ہے.انسان اصل میں انسان ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ ہے.ایک اُنس وہ خدا سے کرتا ہے دوسرا اُس انسان سے چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پاتا اور دیکھتا ہے اور اپنی ہی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لیے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۱، صفحه ۱۱) اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے كُونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ کہ صادقوں کے ساتھ رہو، یہ معیت چاہتی ہے کہ کسی وقت تک صحبت میں رہے کیونکہ جب تک ایک حد تک صحبت میں نہ رہے وہ اسرار اور حقائق کھل نہیں سکتے وہ اجنبی کا اجنبی رہے گا اور بیگا نہ ہی رہتا ہے اور کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا.الحاکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۳) سادھ سنگت بھی ایک ضرب المثل ہے پس یہ ضروری بات ہے کہ انسان باوجود علم کے اور باوجود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ سورة التوبة قوت وشوکت کے امام کے پاس ایک سادہ لوح کی طرح پڑا ہے تا اس پر عمدہ رنگت آوے.سفید کپڑا اچھا رنگا جاتا ہے اور جس میں اپنی خودی اور علم کا پہلے سے کوئی میل کچیل ہوتا ہے اس پر عمدہ رنگ نہیں چڑھتا.صادق کی معیت میں انسان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے اور اسے نشانات دیئے جاتے ہیں جن سے اس کا جسم منور اور روح تازہ ہوتی ہے.الحکام جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۳) اعمال نیک کے واسطے صحبت صادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے.یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن شریف یونہی بھیج دیتا اور کوئی رسول نہ آتا.مگر انسان کو عمل درآمد کے لیے نمونہ کی ضرورت ہے پس اگر وہ نمونہ نہ بھیجتارہتا تو حق مشتبہ ہو جاتا.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۰) كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ یعنی صادق لوگوں کے ساتھ معیت اختیار کرو.ان کی صحبت میں مدت ہائے دراز تک رہو کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص چند روز ان کے پاس رہ جاوے اور ان ایام میں حکمت الہی سے کوئی ایسا امر واقع نہ کیونکہ ان لوگوں کے اپنے اختیار میں تو نہیں کہ جب چاہیں کوئی نشان دکھا دیں.اسی واسطے ضروری ہے کہ ان کی صحبت میں لمبا عرصہ اور دراز مدت گزر جاوے.بلکہ نشان دکھانا تو درکنار یہ لوگ تو اپنے خدا کے ساتھ کے تعلقات کا اظہار بھی گناہ جانتے ہیں.لکھا ہے کہ اگر کوئی ولی خلوت میں اپنے خدا کے ساتھ خاص حالت اور تعلق کے جوش میں ہو اور اس پر وہ حالت طاری ہو تو ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اس کے اس حال سے آگاہ ہو جائے تو وہ ولی شخص ایسا شرمندہ اور پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے جیسے کوئی زانی عین زنا کی حالت میں پکڑا جاوے کیونکہ یہ لوگ اپنے راز کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں.چونکہ طبعاً ایسا معاملہ تھا خدا نے اس واسطے کہا كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ کفار نے جو یہ کہا تھا کہ مالِ هذا الرَّسُولِ يَأكُلُ الفَعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ( الفرقان : ۸) تو انہوں نے بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حالت دیکھ کر ہی یہ کلمہ منہ سے نکالا تھا کہ کیا ہے جی.یہ تو ہمارے جیسا آدمی ہی ہے.کھا تا، پیتا، بازاروں میں پھرتا ہے.اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا فیض نہ تھا کہ ان کو کوئی رسالت کا امر نظر آتا.وہ معذور تھے.انہوں نے جو دیکھا تھا.اسی کے مطابق رائے زنی کر دی.پس اس واسطے ضروری ہے کہ مامور من اللہ کی صحبت میں دیر تک رہا جاوے.ممکن ہے کہ کوئی جس نے نشان کوئی نہ دیکھا ہو کہہ دے کہ اجی ہماری طرح نماز روزہ کرتا ہے اور کیا ہے.دیکھو حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے.مگر واپسی ایسی حالت میں مشکل بہت ہیں.جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ سورة التوبة وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت ان کو نہیں ملتی.قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں.وہاں کے فیوض سے محروم ہوتے ہیں اپنی بدکاریوں کی وجہ سے، اور پھر الزام دوسروں پر دھرتے ہیں اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ رہا جاوے تا کہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو اور صدق پورے طور پر نورانی ہو الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۴) جاوے.دو چیزیں ہیں؛ ایک تو دعا کرنی چاہیے ، دوسرا طریق یہ ہے کہ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ راست بازوں کی صحبت میں رہوتا کہ ان کی صحبت میں رہ کر کے تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہارا خدا قادر ہے، بینا ہے، سننے والا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صد ہا نعمتیں دیتا ہے ( البدرجلد ۲ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۲۱۷) اصلاح نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِینَ یعنی جو لوگ قولی فعلی عملی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں ان کے ساتھ رہو.اس سے پہلے فرمایا: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ یعنی اے ایمان والو! تقویٰ اللہ اختیار کرو، اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے.صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کیا میں زنا کرتا ہوں.اس سے کہنا چاہیے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے اسی طرح پر جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پر ہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پیئے گا.پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح نفس کے لیے کونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ کا حکم دیا ہے.جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہولیکن وہ صحبت اپنا اثر کیے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائے گا.ہم افسوس سے کہتے کہ ہمارے مخالف اسی صحبت کے نہ ہونے کی وجہ سے محروم رہ گئے.اگر وہ ہمارے پاس آکر رہتے.ہماری باتیں سنتے تو ایک وقت آجاتا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کر دیتا اور وہ حق
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ سورة التوبة کو پالیتے لیکن اب چونکہ اس صحبت سے محروم ہیں اور انہوں نے ہماری باتیں سنے کا موقع کھودیا ہے اس لیے کبھی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ یہ دہریے ہیں.شراب پیتے ہیں، زانی ہیں اور کبھی یہ اتہام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں.ایسا کیوں کہتے ہیں؟ صحبت نہیں اور یہ قہر الہی ہے کہ صحبت نہ ہو.لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو صلح حدیبیہ کی مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقع ملا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں تو ان میں سے صدہا مسلمان ہو گئے.جب تک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ سنی تھیں.ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپ کے حسن و جمال پر ان کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی.اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذ اللہ ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض و برکات سے بے نصیب تھے جو آپ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دور تھے لیکن جب حجاب اُٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہو گئے.اسی طرح پر بہتوں کی بدنصیبی کا اب بھی یہی باعث ہے جب ان سے پوچھا جاوے کہ تم نے ان کے دعوئی اور دلائل کو کہاں تک سمجھا ہے تو بجز چند بہتانوں اور افتراؤں کے کچھ نہیں کہتے جو بعض مفتری سنا دیتے ہیں اور وہ ان کو سچ مان لیتے ہیں اور خود کوشش نہیں کرتے کہ یہاں خود تحقیق کریں اور ہماری صحبت میں رہ کر دیکھیں.اس سے ان کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں اور وہ حق کو نہیں پاسکتے لیکن اگر وہ تقویٰ سے کام لیتے تو کوئی گناہ نہ تھا کہ وہ آکر ہم سے ملتے جلتے رہتے اور ہماری باتیں سنتے رہتے حالانکہ عیسائیوں اور ہندوؤں سے بھی ملتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں پھر کون سا امر مانع تھا جو ہمارے پاس آنے سے انہوں نے پر ہیز کیا.غرض یہ بڑی ہی بدنصیبی ہے اور انسان اس کے سبب سے محروم ہو جاتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا: كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْن.اس میں بڑا نکتہ معرفت یہی ہے کہ چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لیے ایک راست باز کی صحبت میں رہ کر انسان راست بازی سیکھتا ہے اور اس کے پاک انفاس کا اندر ہی اندراثر ہونے لگتا ہے جو اس کو خدا تعالیٰ پر ایک سچا یقین اور بصیرت عطا کرتا ہے اس کی صحبت میں صدق دل سے رہ صدق دل - کر وہ خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھتا ہے جو ایمان کے بڑھانے کے ذریعے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة التوبة جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے.اسی لیے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پر ہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اُٹھ جاؤ ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اُٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہوگا.صادقوں اور راست بازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے.اس لیے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان كُونُوا مَعَ الصّدِقِین کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے.وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکر کر رہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ انهم قوم لا يشقى جلیسھم اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں.سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے.وہ غرض نفس مطمئنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور لوامہ والے میں لوامہ کی تاثیریں ہوتی ہیں.اور جو شخص نفس مطمعنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مورخه ۱۷ارجنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱) نفس اور اخلاق کی پاکیزگی حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ صحبت صادقین بھی ہے جس کی طرف اللہ تعالی اشارہ فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصدقین یعنی تم خدا تعالیٰ کے صادق اور راست باز لوگوں کی صحبت اختیار کرو تا کہ ان کے صدق کے انوار سے تم کو بھی حصہ ملے جو مذاہب کہ تفرقہ پسند کرتے ہیں اور الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ یقیناً وحدت جمہوری کی برکات سے محروم رہتے ہیں.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا کہ ایک نبی ہو جو کہ جماعت بناوے اور اخلاق کے ذریعہ آپس میں تعارف اور وحدت پیدا کرے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۵) (حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لیے) تیسرا پہلو جو قرآن سے ثابت ہے وہ صحبت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٢٦ سورة التوبة صادقین ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ یعنی صادقوں کے ساتھ رہو.صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے ان کا نور صدق و استقلال دوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے میں مدددیتا ہے.انتقام جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) تیسرا پہلو حصول نجات اور تقویٰ کا صادقوں کی معیت ہے جس کا حکم قرآن شریف میں ہے: كُونُوا مَعَ الصدِقِينَ یعنی اکیلے نہ رہو کہ اس حالت میں شیطان کا داؤ انسان پر ہوتا ہے بلکہ صادقوں کی معیت اختیار کروان کی جمعیت میں رہوتا کہ ان کے انوار و برکات کا پر تو تم پر پڑتا رہے اور خانہ ، قلب کے ہر ایک خس و خاشاک کو محبت الہی کی آگ سے جلا کر نورالہی سے بھر دے.البدر جلد ۴ نمبر ۲ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) متقی کے ساتھ چونکہ اللہ تعالیٰ کی معیت ہوتی ہے اس لیے دشمن پر بھی متقی کا رعب ہوتا ہے.مگر یہ بات یادرکھنے کا قابل ہے کہ سچا تقویٰ کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسان صادقوں اور مردانِ خدا کی صحبت اختیار نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کے فرستادوں کی اطاعت میں ایک فنا اپنے اوپر طاری نہیں کر لیتا.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِینَ.ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ رہو.ان کی معیت سے قوت پکڑو.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی پوری حقیقت متقی ہونے کے بعد کھلتی ہے اور تقویٰ اللہ کی حقیقت اس وقت تک متحقق نہیں ہو سکتی جب تک ایک فانی مرد کی پاک صحبت میں رہ کر فائدہ نہ اٹھایا جائے اور یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ صرف صحبت میں رہنا ہی چنداں مفید اور کارگر نہیں ہوتا بلکہ صادقوں کی صحبت کے اختیار کرنے میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی اطاعت اختیار کی جائے.اقام جلد ۵ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۱) صادقوں کے ساتھ ہونے سے وہ تاثیرات اور انوار دل پر پڑتے ہیں جو پاکیزگی بخش اور نجات کے چشمہ تک پہچانے والے ہوتے ہیں.دنیا میں یہی قاعدہ ہے کہ صادقوں کی کشش اپنا اثر کرتی ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود کیسا بابرکت تھا کہ صحابہ میں آپ کی تاثیر ہوئی.اسی طرح سے اب بھی خدا نے تاثیر کا ایک سلسلہ رکھا ہے یہ قانون قدرت ہےحصول فضل کا جو نجات کا موجب ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۱ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۲ صفحہ ۷ ) صحبت میں بڑا شرف ہے.اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے.کسی کے پاس اگر خوشبو ہوتو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۷ سورة التوبة پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے.اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں کونوا مع الصدِقِينَ فرمایا ہے اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵) موجود رہتے ہیں.صادق کی صحبت میں رہو تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے امور میں مشکلات آسان ہو جاتے ہیں.( بدر جلد ۲ نمبر ۴۶ مورخه ۱۵ نومبر ۱۹۰۶ء صفحه ۵) اگر چہ یہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و تائیدات خاصہ الہیہ و توجہات جلیلہ صمدیہ غیر فانی کو ذاتی طور پر حاصل نہیں ہو سکتے لیکن بتوسط صحبت شیخ فانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں یعنی اگر چہ براہ راست نہیں لیکن سالک اپنے شیخ کامل میں ان تمام تائیدات سماویہ کو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے.پس یہی مشاہدہ اس کے یقین کی کمالیت کا موجب ہو جاتا ہے.اگر جلدی نہیں تو ایک زمانہ دراز کی صحبت سے ضرور شکوک وشبہات کی تاریکی دل پر سے اُٹھ جاتی ہے.اسی جہت سے فانیوں کی معیت کے لیے قرآن شریف میں سخت تاکید ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ آتَى كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ وَالصَّدِقُونَ هُمُ الْقَانُونَ لَا غَيْرَ هُمُ اور جو شخص نہ فانی ہے اور نہ فانیوں سے اس کا کچھ تعلق اور محبت ہے وہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کے سوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے.(مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۶۰) یہ کہنا کہ ہمارے لیے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے : وَ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے اور یہ اعلی درجہ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں کہ سماوی تائید شامل حال ہو کر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا د یوے.پس ان معنوں کر کے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں.جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حکم کونُوا مَعَ الصدِقِينَ دوام وجود صادقین کو مستلزم ہے علاوہ اس کے مشاہدہ صاف بتلا رہا ہے کہ جو لوگ صادقوں کی صحبت سے لا پروا ہو کر عمر گزارتے ہیں ان کے علوم وفنون جسمانی جذبات سے ان کو ہرگز صاف نہیں کر سکتے اور کم سے کم اتنا ہی مرتبہ اسلام کا کہ دلی یقین اس بات پر ہو کہ خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ سورة التوبة ہے ان کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا اور جس طرح وہ اپنی اس دولت پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے صندوقوں میں بند ہو یا اپنے ان مکانات پر جو ان کے قبضہ میں ہو ہر گز ان کو ایسا یقین خدا تعالیٰ پر نہیں ہوتا.وہ سم الفار کھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ وہ ایک زہر مہلک ہے لیکن گناہوں کی زہر سے نہیں ڈرتے.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد صفحه ۳۴۷) جاننا چاہیے کہ انبیاء کی ضرورتوں میں سے ایک یہ بھی ضرورت ہے کہ انسان طبعاً کامل نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو زیادہ کرتا ہے اور ہمت کو بڑھاتا ہے اور جو نمونہ کا پیرو نہیں وہ ست ہو جاتا ہے اور بہک جاتا ہے اس کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے : كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ...تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کر وجور است باز ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۱ ۴۲۲،۴) اگر خدا سے ملنا چاہتے ہو تو دعا بھی کرو اور کوشش بھی کرو اور صادقوں کی صحبت میں بھی رہو کیونکہ اس راہ میں صحبت بھی شرط ہے.لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۰،۱۵۹) خدا کو خدا کی جگہ، رسول کو رسول کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرا لو.اس سے چونکہ زیادہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ كُونُوا مَعَ الصّدِقِينَ پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہ کہا گیا کہ تم اسے ہی سب کچھ سمجھو.اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے: اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھے خدا سمجھ لو، بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.اتباع کا حکم تو دیا ہے، مگر تصور شیخ کا حکم قرآن میں پایا نہیں جاتا.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۹ مورخه ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَفُوا عَنْ رَسُولِ اللهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَا وَلَا نَصَبٌ وَ لَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَطُونَ مَوطِئًا يَغِيظُ الْكَفَارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُةٍ نيلا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلَ صَالِحُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.اللہ تعالی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.ود رپورٹ جلسہ سالانہ ، ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۶۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ سورة التوبة یا درکھو کہ خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.چنانچہ فرمایا ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.اخیار اور ابرار کا نام ابد الآباد تک زندہ رہتا ہے.گذشتہ زمانے کے بادشاہوں یہاں تک کہ قیصر وکسری کا کوئی نام بھی نہیں لیتا.برخلاف اس کے خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور برگزیدوں کی دنیا مداح الحکم جلد ۵ نمبر ۲۴ مورخه ۳۰ر جون ۱۹۰۱ صفحه ۱) ہے.اگر چہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا: إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ مَگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا چاہیے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۱) دنیا تماشا گاہ ہے.کبھی انسان عروج میں گویا افلاک تک پہنچتا ہے اور کبھی خاک میں مگر جولوگ خدا کی طرف اور خدا کے بندوں کی طرف جھکتے ہیں وہ ضائع نہیں کیے جاتے إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ - ( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۳۷۶) وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَةُ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ یعنی ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو تفقہ فی الدین کریں یعنی جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اس میں تفقہ کر سکیں.یہ نہیں کہ طوطے کی طرح یاد ہو اور اس میں غور و فکر کی مطلق عادت اور مذاق ہی نہ ہو.اس سے وہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے....لیکن چونکہ سب کے سب ایسے نہیں ہو سکتے اس لیے یہ نہیں فرمایا کہ سب کے سب ایسے ہو جا ئیں بلکہ یہ فرمایا کہ ہر جماعت اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ہو اور گویا ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہونی چاہیے جو تبلیغ اور اشاعت کا کام کر سکیں.اس لیے بھی ہر شخص ایسی طبیعت اور مذاق کا نہیں ہوتا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) لَقَد جَاءَكُمْ رَسُولُ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ.جذب اور عقد ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣٠ سورة التوبة اور ظل اللہ بنتا ہے پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لیے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لیے آپ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴/ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَیكُم یعنی اے کا فرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہش مند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ.نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۳) جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے، حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں.اسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ انفسکم یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۸۱) آنفس کے لفظ میں ایک قرآت زبر کے ساتھ ہے یعنی حرف فا کی فتح کے ساتھ اور اسی قرآت کو ہم اس جگہ ذکر کرتے ہیں اور دوسری قرأت بھی یعنی حرف فا کے پیش کے ساتھ بھی اسی کے ہم معنی ہے.کیونکہ خدا قریش کو مخاطب کرتا ہے کہ تم جو ایک بڑے خاندان میں سے ہو.یہ رسول بھی تو تمہیں میں سے ہے یعنی عالی تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه حاشیه (۲۸) خاندان ہے.فَأَشَارَ اللهُ فِي قَوْلِهِ عَزِيزٌ وَفي قَوْلِهِ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عزیز اور حریص کے الفاظ حَرِيصٌ إلى أنَّه عَلَيْهِ السَّلامُ مَظْهَرُ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صِفَتِهِ الرَّحْمَانِ بِفَضْلِهِ الْعَظِيْمِ لأَنه خدا تعالیٰ کے فضل عظیم سے اس کی صفت رحمن کے مظہر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ سورة التوبة رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ كُلِهِمْ وَلِنَوْعِ الْإِنْسَانِ ہیں کیونکہ آپ کا وجو دمبارک سب جہانوں کے لیے رحمت وَالْحَيَوَانِ وَأَهْلِ الْكُفْرِ وَالإِيْمَانِ، ثُمَّ ہے.بنی نوع انسان حیوانات ، کافروں ، مومنوں سبھی کے 6659 دو قَالَ " بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيم“ لیے.پھر فرمایا بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ.اور اس میں فَجَعَلَهُ رَحْمَانًا وَرَحِيمًا اعجاز مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۱۹،۱۱۸) آپ کو رحمان اور رحیم کے نام دیئے.( ترجمہ از مرتب ) فَإِن تَوَلَّوا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ہم لوگ جو خدا تعالیٰ کو رب العرش کہتے ہیں تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اور جسم ہے اور عرش کا محتاج ہے بلکہ عرش سے مراد وہ مقدس بلندی کی جگہ ہے جو اس جہان اور آنے والے جہان سے برابر نسبت رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو عرش پر کہنا درحقیقت ان معنوں سے مترادف ہے کہ وہ مالک الکونین ہے اور جیسا کہ ایک شخص اونچی جگہ بیٹھ کر یا کسی نہایت اونچے محل پر چڑھ کر یمین و یسار نظر رکھتا ہے.ایسا ہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ بلند سے بلند تخت پر تسلیم کیا گیا ہے جس کی نظر سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں نہ اس عالم کی اور نہ اس دوسرے عالم کی ، ہاں ! اس مقام کو عام سمجھوں کے لئے اوپر کی طرف بیان کیا جاتا ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ قف ۳۳۳ سورة يونس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة يونس بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الر تِلْكَ أَيْتُ الكِتبِ الْحَكِيمِ.یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں کہ جو جامع علوم حکمیہ ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبر ۱۱) قرآن حکیم ہے یعنی حکمت سے بھرا ہوا ہے.(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۲ ) ا كَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَا إِلى رَجُلٍ مِنْهُم أَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا اَنَ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَفِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسْحِرُ مبين کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ جو ہم نے ان میں سے ایک کی طرف یہ وحی بھیجی کہ تو لوگوں کو ڈرا اور ان کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری دے کہ ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک قدم صدق ہے.کافروں نے اس رسول کی نسبت کہا کہ یہ تو صریح جادوگر ہے.بر امین احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة يونس جولوگ ارادت سے رجوع کرتے ہیں ان کا عمل مقبول ہے اور ان کے لئے قدم صدق ہے.مکتوبات جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۱۰ مکتوب بنام حضرت منشی احمد جان صاحب) اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدير الأمرَ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلاَ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُم فَاعْبُدُوهُ أَفَلَا تَذَكَرُونَ ) اس جگہ کے متعلق ایک اور اعتراض ہے جو بعض نا واقف آریہ پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِى خَلَقَ السَّبُوتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى العرش یعنی خدا نے جو تمہارا رب ہے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں بنایا اور پھر عرش پر ٹھہرا.یہ چھ دن کی کیوں تخصیص ہے یہ تو تسلیم کیا کہ خدا تعالیٰ کے کام اکثر تدریجی ہیں جیسا کہ اب بھی اس کی خالقیت جو جمادات اور نباتات اور حیوانات میں اپنا کام کر رہی ہے تدریجی طور پر ہی ہر ایک چیز کو اس کی خلقت کاملہ تک پہنچاتی ہے لیکن چھ دن کی تخصیص کچھ سمجھ میں نہیں آتی.اما الجواب پس واضح ہو کہ یہ چھ دن کا ذکر در حقیقت مراتب تکوینی کی طرف اشارہ ہے یعنی ہر یک چیز جو بطور خلق صادر ہوئی ہے اور جسم اور جسمانی ہے خواہ وہ مجموعہ عالم ہے اور خواہ ایک فرد از افراد عالم اور خواہ وہ عالم کبیر ہے جو زمین و آسمان ومافیہا سے مراد ہے اور خواہ وہ عالم صغیر جو انسان سے مراد ہے وہ بحکمت و قدرت باری تعالی پیدائش کے چھ مرتبے طے کر کے اپنے کمال خلقت کو پہنچتی ہے اور یہ عام قانون قدرت ہے کچھ ابتدائی زمانہ سے خاص نہیں چنانچہ اللہ جل شانہ ہر ایک انسان کی پیدائش کی نسبت بھی انہیں مراتب ستہ کا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ قران کریم کے اٹھارویں سیپارے سورۃ المومنون میں یہ آیت ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن سُللَةٍ مِن طِينٍ - ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مكين - ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظَمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ الله اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ - (المؤمنون : ۱۳ تا ۱۵) یعنی پہلے تو ہم نے انسان کو اس مٹی سے پیدا کیا جو زمین کے تمام انواع اور اقسام کا لب لباب تھا اور اس کی تمام قوتیں اپنے اندر رکھتا تھا تا وہ باعتبار جسم بھی عالم صغیر ٹھہرے اور زمین کی تمام چیزوں کی اس میں قوت اور خاصیت ہو جیسا کہ وہ برطبق آیت : فَإِذَا سَوَيْتُه وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۵ سورة يونس نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحى (الحجر : ٣٠) باعتبار روح عالم صغیر ہے اور بلحاظ شیون وصفات کامله وظلیت تام روح الہی کا مظہر نام ہے.پھر بعد اس کے انسان کو ہم نے دوسرے طور پر پیدا کرنے کے لئے یہ طریق جاری کیا جو انسان کے اندر نطفہ پیدا کیا اور اس نطفہ کو ہم نے ایک مضبوط تھیلی میں جو ساتھ ہی رحم میں بنتے جاتے ہی جگہ دی.( قرار مکین کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ تارحم اور تھیلی دونوں پر اطلاق پاسکے ) اور پھر ہم نے نطفہ سے علقہ بنایا اور علقہ سے مضغہ اور مضغہ کے بعض حصوں میں سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر پوست پیدا کیا پھر اس کو ایک اور پیدائش دی یعنی روح اس میں ڈال دی.پس کیا ہی مبارک ہے وہ خدا جو اپنی صنعت کاری میں تمام صناعوں سے بلحاظ حسن صنعت و کمال عجائبات خلقت بڑھا ہوا ہے.اب دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ بھی اپنا قانون قدرت یہی بیان فرمایا کہ انسان چھ طور کے خلقت کے مدارج طے کر کے اپنے کمال انسانیت کو پہنچتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ عالم صغیر اور عالم کبیر میں نہایت شدید تشابہ ہے اور قرآن سے انسان کا عالم صغیر ہونا ثابت ہے اور آیت : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين : ٥) اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ تقویم عالم کی متفرق خوبیوں اور حسنوں کا ایک ایک حصہ انسان کو دے کر بوجہ جامعیت جمیع شمائل و شیون عالم اس کو احسن ٹھہرایا گیا ہے پس اب بوجہ تشابه عالمین اور نیز بوجہ ضرورت تناسب افعال صانع واحد ماننا پڑتا ہے کہ جو عالم صغیر میں مراتب تکوین موجود ہیں وہی مراتب تکوین عالم کبیر میں بھی ملحوظ ہوں اور ہم صریح اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ یہ عالم صغیر جو انسان کے اسم سے موسوم ہے اپنی پیدائش میں چھ طریق رکھتا ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ عالم عالم کبیر کے کوائف مخفیہ کی شناخت کے لئے ایک آئینہ کا حکم رکھتا ہے پس جب کہ اس کی پیدائش کے چھ مرتبے ثابت ہوئے تو قطعی طور پر یہ حکم دے سکتے ہیں کہ عالم کبیر کے بھی مراتب تکوین چھ ہی ہیں جو بلحاظ موثرات سقہ یعنی تجلیات سے جن کے آثار باقیہ نجوم ستہ میں محفوظ رہ گئے ہیں معقولی طور پر متحقق ہوتے ہیں.اور نجوم ستہ کا اب بھی علوم حکمیہ میں جنین کی تکمیل کے لئے تعلق مانا جاتا ہے چنانچہ سدیدی میں اس کے متعلق ایک مبسوط بحث لکھی ہے.بعض نادان اس جگہ اس آیت کی نسبت یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ حال کی طبی تحقیقاتوں کی رو سے یہ طرز بچہ کے بننے کی جو رحم عورت میں بنتا ہے ثابت نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے ثابت ہوتا ہے لیکن یہ اعتراض سخت درجہ کی کم فہمی یا صریح تعصب پر مبنی ہے اس بات کے تجربہ کے لئے کسی ڈاکٹر یا طبیب کی حاجت نہیں خود ہر یک انسان اس آزمائش کے لئے وقت خرچ کر کے اور ان بچوں کو دیکھ کر جو تام خلقت یا نا تمام خلقت کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں یا سقوط
سورة يونس تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ حمل کے طور پر گرتے ہیں.حقیقت واقعیہ تک پہنچ سکتا ہے اور جیسا کہ ہم اپنے ذاتی مشاہدہ سے جانتے ہیں بلا شبہ یہ بات صحیح ہے کہ جب خدا تعالیٰ انسانی نطفہ سے کسی بچہ کو رحم میں بنانے کے لئے ارادہ فرماتا ہے تو پہلے مرد اور عورت کا نطفہ رحم میں ٹھہرتا ہے اور صرف چند روز تک ان دونوں منیوں کے امتزاج سے کچھ تغیر طاری ہوکر جمے ہوئے خون کی طرح ایک چیز ہو جاتی ہے جس پر ایک نرم سی جھلی ہوتی ہے یہ چھلتی جیسے جیسے بچہ بڑھتا ہے بڑھتی جاتی ہے یاں تک کہ خاکی رنگ کی ایک تھیلی سی ہو جاتی ہے جو گٹھڑی کی طرح نظر آتی ہے اور اپنی تحمیل خلقت کے دنوں تک بچہ اسی میں ہوتا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقا تیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ عالم کبیر بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جلت شانہ فرماتا ہے: اَو لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلّ شَيْءٍ حَيّ ( الانبياء : ۳۱) الجزو نمبرے یعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.سو کافروں نے تو آسمان اور زمین بنتا نہیں دیکھا اور نہ ان کی گٹھڑی دیکھی لیکن اس جگہ روحانی آسمان اور روحانی زمین کی طرف اشارہ ہے جس کی گٹھڑی کفار عرب کے روبرو کھل گئی اور فیضان سماوی زمین پر جاری ہو گئے.اب پھر ہم اپنے پہلے کلام کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ نشین مرد اور عورت کے جو آپس میں مل جاتے ہیں وہ اول مرتبہ تکوین کا ہے.اور پھر ان میں ایک جوش آکر وہ مجموعه هشتمین جو قوت عاقدہ اور منعقدہ اپنے اندر رکھتا ہے سرخی کی طرف مائل ہو جاتا ہے گویا وہ منی جو پہلے خون سے بنی تھی پھر اپنے اصلی رنگ کی طرف جو خونی ہے عود کر آتی ہے یہ دوسرا درجہ ہے پھر وہ خون جما ہوا جس کا نام علقہ ہے ایک گوشت کا مضغہ ہو جاتا ہے جو انسانی شکل کا کچھ خاکہ نہایت دقیق طور پر اپنے اندر رکھتا ہے یہ تیسرا درجہ ہے اور اس درجہ پر اگر بچہ ساقط ہو جائے تو اس کے دیکھنے سے غور کی نظر سے کچھ خطوط انسان بننے کے اس میں دکھائی دیتے ہیں چنانچہ اکثر بچے اس حالت میں بھی ساقط ہو جاتے ہیں جن عورتوں کو کبھی یہ اتفاق پیش آیا ہے یا وہ دامیہ کا کام کرتی ہیں وہ اس حال سے خوب واقف ہیں پھر چوتھا درجہ وہ ہے جب مضغہ سے ہڈیاں بنائی جاتی ہیں جیسا کہ آیت : فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عظمًا (المؤمنون : ۱۵) بیان فرما رہی ہے.مگر المضغة پر جو الف لام ہے وہ تخصیص کے لئے ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تمام مضغہ ہڈی نہیں بن جاتا بلکہ جہاں جہاں ہڈیاں درکار ہیں باذنہ تعالیٰ وہی نرم گوشت کسی قدر صاب ہو کر ہڈی کی صورت بن جاتا ہے اور کسی قدر بدستور نرم گوشت رہتا ہے.اور اس درجہ نطقتين
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ سورة يونس پر انسانی شکل کا کھلا کھلا خا کہ طیار ہو جاتا ہے جس کے دیکھنے کے لئے کسی خورد بین کی ضرورت نہیں اس خا کہ میں انسان کا اصل وجود جو کچھ بننا چاہئے تھا بن چکتا ہے لیکن وہ ابھی اس لحسم سے خالی ہوتا ہے جو انسان کے لئے بطور ایک موٹے اور شاندار اور چمکیلے لباس کے لئے ہے.جس سے انسان کے تمام خط و خال ظاہر ہوتے ہیں اور بدن پر تازگی آتی ہے اور خوبصورتی نمایاں ہو جاتی ہے اور تناسب اعضا پیدا ہوتا ہے پھر بعد اس کے پانچواں درجہ وہ ہے کہ جب اس خاکہ پر لم یعنی موٹا گوشت برعایت مواضع مناسبہ چڑھایا جاتا ہے یہ وہی گوشت ہے کہ جب انسان تپ وغیرہ سے بیمار رہتا ہے تو فاقہ اور بیماری کی تکالیف شاقہ سے وہ گوشت تحلیل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات انسان ایسی لاغری کی حالت پر پہنچ جاتا ہے جو وہی پانچویں درجہ کا خا کہ یعنی مشت استخوان رہ جاتا ہے جیسے مدقوقوں اور مسلولوں اور اصحاب ذیا بیطس میں مرض کے انتہائی درجہ میں یہ صورت ظاہر ہو جاتی ہے.اور اگر کسی کی حیات مقدر ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے بدن پر گوشت چڑھاتا ہے غرض یہ وہی گوشت ہے جس سے خوبصورتی اور تناسب اعضا اور رونق بدن پیدا ہوتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ گوشت خا کہ طیار ہونے کے بعد آہستہ آہستہ جنین پر چڑھتارہتا ہے اور جب جنین ایک کافی حصہ اس کا لے لیتا ہے تب باذنہ تعالیٰ اس میں جان پڑ جاتی ہے تب وہ نباتی حالت سے جو صرف نشونما ہے منتقل ہو کر حیوانی حالت کی خاصیت پیدا کر لیتا ہے اور پیٹ میں حرکت کرنے لگتا ہے غرض یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بچہ اپنی نباتی صورت سے حیوانی صورت کو کامل طور پر اس وقت قبول کرتا ہے کہ جب کہ عام طور پر موٹا گوشت اس کے بدن پر مناسب کمی بیشی کے ساتھ چڑھ جاتا ہے یہی بات ہے جس کو آج تک انسان کے مسلسل تجارب اور مشاہدات نے ثابت کیا ہے یہ وہی تمام صورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اور مشاہدات کے ذریعہ سے بتواتر ثابت ہے پھر اس پر اعتراض کرنا اگر نادانوں کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ اب پھر ہم اپنے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ چونکہ عالم صغیر میں جو انسان ہے سنت اللہ یہی ثابت ہوئی ہے کہ اس کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے تو اسی قانون قدرت کی رہبری سے ہمیں معقولی طور پر یہ راہ ملتی ہے کہ دنیا کی ابتدا میں جو اللہ جل شانہ نے عالم کبیر کو پیدا کیا تو اس کی طرز پیدائش میں بھی یہی مراتب ستہ ملحوظ رکھے ہوں گے اور ہر یک مرتبہ کو تفریق اور تقسیم کی غرض سے ایک دن یا ایک وقت سے مخصوص کیا ہو گا جیسا کہ انسان کی پیدائش کے مراتب سنہ چھ وقتوں سے خاص ہیں اور دنیا کی تمام قوموں کا سات دنوں پر اتفاق ہونا اور ایک دن تعطیل کا نکال کر چھ دنوں کو کاموں کے لئے خاص کرنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة يونس اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چھ دن ان چھ دنوں کی یادگار چلے آتے ہیں کہ جن میں زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے بنایا گیا تھا.اور اگر کوئی اب بھی تسلیم نہ کرے اور انکار سے باز نہ آوے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تو عالم کبیر کے لئے عالم صغیر کی پیدائش کے مراتب ستہ کا ثبوت دے دیا اور جو کام کرنے کے دن بالا تفاق ہر ایک قوم میں مسلّم ہیں ان کا چھ ہونا بھی ظاہر کر دیا اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ کے تمام پیدائشی کام اس دنیا میں تدریجی ہیں تو پھر اگر منکر کی نظر میں یہ دلیل کافی نہیں تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ بھی تو اپنے اس دعوائے پر کوئی دلیل پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے یہ عالم جسمانی صرف ایک دم میں پیدا کر دیا تھا تدریجی طور پر پیدا نہیں کیا تھا.ہر یک شخص جانتا ہے کہ وہی خدا اب بھی ہے جو پہلے تھا اور وہی خالقیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جو پہلے جاری تھا.اور صاف بدیہی طور پر نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر یک مخلوق کو تدریجی طور پر اپنے کمال وجود تک پہنچا تا ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پہلے وہ قوی تھا اور جلد کام کر لیتا تھا اور اب ضعیف ہے اور دیر سے کرتا ہے بلکہ یہی کہیں گے کہ اس کا قانون قدرت ہی ابتدا سے یہی ہے کہ وہ ہر یک مخلوق کو بتدریج پیدا کرتا ہے سو حال کے افعال الہی ہمیں بتلا رہے ہیں کہ گزشتہ اور ابتدائی زمانہ میں بھی یہی تدریج ملحوظ تھی جواب ہے.ہم سخت نادان ہوں گے اگر ہم حال کے آئینہ میں گزشتہ کی صورت نہ دیکھ لیں اور حال کی طرز خالقیت پر نظر ڈال کر صرف اتنا ہی ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اپنی پیدائش کے سلسلہ کو تدریج سے کمال وجود تک پہنچاتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر یک مخلوق کی پیدائش میں چھ ہی مرتبے رکھے ہیں اور حکمت الہی نے ہر یک مخلوق کی پیدائش میں یہی تقاضا کیا کہ اس کے پیدا ہونے کے چھ مرتبے ہوں جو چھ وقتوں میں انجام پذیر ہوں کسی مخلوق پر نظر ڈال کر دیکھ لو یہی چھ مراتب اس میں متحقق ہوں گے یعنی بنظر تحقیق یہ ثابت ہوگا کہ ہر یک جسمانی مخلوق کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے اور انسان پر کچھ موقوف نہیں زمین پر جو ہزار ہا حیوانات ہیں ان کے وجود کی تکمیل بھی انہیں مراتب ستہ پر موقوف پاؤ گے.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ مراتب ستہ تکوین کا صرف جسمانی مخلوق میں ہی محدود نہیں بلکہ روحانی امور میں بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے مثلاً تھوڑے سے غور سے معلوم ہوگا کہ انسان کی روحانی پیدائش کے مراتب بھی چھ ہی ہیں پہلے وہ نطفہ کی صورت پر صرف حق کے قبول کرنے کی ایک استعداد بعیدہ اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر جب اس استعداد کے ساتھ ایک قطرہ رحمت الہی مل جاتا ہے اسی طرز کے موافق کہ جب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة يونس عورت کے نطفہ میں مرد کا نطفہ پڑتا ہے تو تب انسان کی باطنی حالت نطفہ کی صورت سے علقہ کی صورت میں آجاتی ہے اور کچھ رشتہ باری تعالیٰ سے پیدا ہونے لگتا ہے جیسا کہ علاقہ کے لفظ سے تعلق کا لفظ مفہوم ہوتا ہے اور پھر وہ علاقہ اعمال صالحہ کے خون کی مدد سے مضغہ بنتا ہے اسی طرز سے کہ جیسے خون حیض کی مدد سے علقہ مضغہ بن جاتا ہے اور مضغہ کی طرح ابھی اس کے اعضا نا تمام ہوتے ہیں جیسا کہ مضغہ میں بڑی والے عضو ابھی ناپدید ہوتے ہیں ایسا ہی اس میں بھی شدت للہ اور ثبات للہ اور استقامت للہ کے عضو ا بھی کما حقہ پیدا نہیں ہوتے گو تواضع اور نرمی موجود ہو جاتی ہے.اور اگرچہ پوری شدت اور صلابت اس مرتبہ میں پیدا نہیں ہوتی مگر مضغہ کی طرح کسی قدر قضا و قدر کی مضغ کے لائق ہو جاتا ہے یعنی کسی قدر اس لائق ہو جاتا ہے کہ قضا و قدر کا دانت اس پر چلے اور وہ اس کے نیچے ٹھہر سکے کیونکہ علقہ جو ایک سیال رطوبت کے قریب قریب ہے وہ تو اس لائق ہی نہیں کہ دانتوں کے نیچے پیسا جاوے اور ٹھہرا رہے لیکن مضغہ مضغ کے لائق ہے اس لیئے اس کا نام مضغہ ہے سو مضغہ ہونے کی وہ حالت ہے کہ جب کچھ چاشنی محبت الہی کی دل میں پڑ جاتی ہے اور تجلی جلالی توجہ فرماتی ہے کہ بلاؤں کے ساتھ اس کی آزمائش کرے تب وہ مضغہ کی طرح قضا و قدر کے دانتوں میں پیسا جاتا ہے اور خوب قیمہ کیا جاتا ہے غرض تیسرا درجہ سالک کے وجود کا مضغہ ہونے کی حالت ہے اور پھر چوتھا درجہ وہ ہے کہ جب انسان استقامت اور بلاؤں کی برداشت کی برکت سے آزمائے جانے کے بعد نقوش انسانی کا پورے طور پر انعام پاتا ہے یعنی روحانی طور پر اس کے لئے ایک صورت انسانی عطا ہوتی ہے اور انسان کی طرح اس کو دو آنکھیں، دوکان اور دل اور دماغ اور تمام ضروری قومی اور اعضا عطا کئے جاتے ہیں اور بمقتضائے آیت : أَشَدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُم (الفتح :۳۰) سختی اور نرمی مواضع مناسبہ میں ظاہر ہو جاتی ہے یعنی ہر یک خلق اس کا اپنے اپنے محل پر صادر ہوتا ہے اور آداب طریقت تمام محفوظ ہوتے ہیں اور ہر یک کام اور کلام حفظ حدود کے لحاظ سے بجالاتا ہے یعنی نرمی کی جگہ پر نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اور تواضع کی جگہ پر تواضع اور ترفع کی جگہ پر ترفع ایسا ہی تمام قومی سے اپنے اپنے محل پر کام لیتا ہے یہ درجہ جنین کے اس درجہ سے مشابہت رکھتا ہے کہ جب وہ مضغہ کی حالت سے ترقی کر کے انسان کی صورت کا ایک پورا خا کہ حاصل کر لیتا ہے اور ہڈی کی جگہ پر بڑی نمودار ہو جاتی ہے اور گوشت کی جگہ پر گوشت باقی رہتا ہے بڑی نہیں بنتی اور تمام اعضا میں با ہم تمیز کلی پیدا ہو جاتی ہے لیکن ابھی خوبصورتی اور تازگی اور تناسب اعضا نہیں ہوتا صرف خاکہ ہوتا ہے جو نظر دقیق سے دکھائی دیتا ہے پھر بعد اس کے w
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ سورة يونس عنایت الہی توفیقات متواترہ سے موفق کر کے اور تزکیہ نفس کے کمال تک پہنچا کر اور فنافی اللہ کے انتہائی نقطہ تک کھینچ کر اس کے خاکہ کے بدن پر انواع اقسام کی برکات کا گوشت بھر دیتی ہے اور اس گوشت سے اس کی شکل کو چمکیلی اور اس کی تمام ہیکل کو آبدار کر دیتی ہے تب اس کے چہرہ پر کاملیت کا نور برستا ہے اور اس کے بدن پر کمال تام کی آب و تاب نظر آتی ہے اور یہ درجہ پیدائش کا جسمانی پیدائش کے اس درجہ سے مشابہ ہوتا ہے کہ جب جنین کے خاکہ کی ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے اور خوبصورتی اور تناسب اعضا ظاہر کیا جاتا ہے.پھر بعد اس کے روحانی پیدائش کا چھٹا درجہ ہے جو مصداق : ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ (المؤمنون : ۱۵) کا ہے.وہ مرتبہ بقا ہے جو فنا کے بعد ملتا ہے جس میں روح القدس کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی کی روح انسان کے اندر پھونک دی جاتی ہے.ایسا ہی یہ چھ مراتب خدا تعالیٰ کی پاک کلام میں بھی جمع ہیں.اول حروف کا مرتبہ جو حامل کلام الہی اور کلمات کتاب اللہ کے لئے بطور تخم کے ہیں جن کو معانی مقصودہ سے کچھ بھی حصہ نہیں ہاں ان کے حصول کے لئے ایک استعداد بعیدہ رکھتے ہیں دوم کلمات کا مرتبہ جو اس تخم کے ذریعہ سے ظہور خارجی کے رنگ میں آئے جن کو معانی مقصودہ سے کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں سوم ان فقرات ناتمام کا مرتبہ جو ابھی کلام مقصودہ کے پورے درجہ تک نہیں پہنچے تھے کیونکہ ہنوز تنزیل کا سلسلہ نا تمام تھا اور خدا تعالیٰ کے کلام نے ابھی اپنا کامل چہرہ نہیں دکھلایا تھا مگر ان فقرات کو معانی مقصودہ سے ایک وافر حصہ تھا اس لئے وہ کلام تام الہی کے لئے بطور بعض اعضا کے ٹھہرے جن کا نام بلحاظ قلت و کثرت آیتیں اور سورتیں رکھا گیا چہارم اس کلام جامع تام مفصل ممیز کا مرتبہ جو سب نازل ہو چکا اور جمیع مضامین مقصودہ اور علوم حکمیه و قصص و اخبار و احکام و قوانین وضوابط و حدود و مواعید و انذارات و تبشیرات اور درشتی اور نرمی اور شدت اور رحم اور حقائق و نکات پر بالاستیفا مشتمل ہے پنجم بلاغت و فصاحت کا مرتبہ جو زینت اور آرائش کے لئے اس کلام پر ازل سے چڑھائی گئی ششم برکت اور تاثیر اور کشش کی روح کا مرتبہ جو اس پاک کلام میں موجود ہے جس نے تمام کلام پر اپنی روشنی ڈالی اور اس کو زندہ اور منور کلام ثابت کیا.اسی طرح ہر یک عاقل اور فصیح منشی کے کلام میں یہی چھ مراتب جمع ہو سکتے ہیں گو وہ کلام اعجازی حد تک نہیں پہنچتا کیونکہ جن حروف میں کوئی کلام لکھا جائے گا خواہ وہ عربی ہوں یا انگریزی یا ہندی پہلے ان کا وجود ضروری ہے سو یہ تو پہلا مرتبہ ہوا جو مضامین مقصودہ کے اظہار کے لئے ایک ذریعہ بعیدہ ہے مگر ان سے کچھ حصہ نہیں رکھتا پھر بعد اس کے دوسرا مرتبہ کلمات کا ہے جو حروف قرار دادہ سے پیدا ہوں گے جن کو معانی و
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۱ سورة يونس مضامین مقصودہ سے ابھی کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں.پھر اس کے بعد تیسرا مرتبہ فقرات کا ہے جو ابھی معانی مقصودہ کے پورے جامع تو نہیں مگر ان میں سے کچھ حصہ رکھتے ہیں اور اس مضمون کے لئے جو نشی کے ذہن میں ہے بطور بعض اعضا کے ہیں.پھر چوتھا مر تبہ کلام جامع تام کا ہے جو نشی کے دل میں سے نکل کر بہ تمام و کمال کا غذ پر اندراج پا گیا ہے اور تمام معانی اور مضامین مقصودہ کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے پھر پانچواں مرتبہ یہ ہے کہ ان سادہ فقرات اور عبارتوں پر بلاغت اور فصاحت کا رنگ چڑھایا جائے اور خوش بیانی کے نمک سے ملیح کیا جائے پھر چھٹا مرتبہ جو بلا توقف اس مرتبہ کے تابع ہے یہ ہے کہ کلام میں اثر اندازی کی ایک جان پیدا ہو جائے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیوے اور طبیعتوں میں گھر کر لیوے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مراتب ستہ بکلی ان مراتب ستہ کی مانند اور ان کی مثیل ہیں جن کا قرآن کریم میں نطفہ، علقہ ،مضغہ اور کچھ مضغہ اور کچھ عظام یعنی انسان کی شکل کا خاکہ اور انسان کی پوری شکل اور جاندار انسان نام ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۲ تا ۲۱۱ حاشیه در حاشیه ) رکھا ہے.تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر عرش پر قرار پکڑ ا یعنی اوّل اس نے اس دُنیا کے تمام اجرام سماوی اور ارضی کو پیدا کیا اور چھ دن میں سب کو بنایا ( چھ دن سے مراد ایک بڑا زمانہ ہے ) اور پھر عرش پر قرار پکڑا یعنی تنزہ کے مقام کو اختیار کیا.یادر ہے کہ استوا کے لفظ کا جب علی صلہ آتا ہے تو اُس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایک چیز کا اس مکان پر قرار پکڑنا جو اس کے مناسب حال ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے : وَاسْتَوَتُ عَلَى الْجُودِيّ (هود: ۴۵) یعنی نوح کی کشتی نے طوفان کے بعد ایسی جگہ پر قرار پکڑا جو اس کے مناسب حال تھا یعنی اُس جگہ زمین پر اترنے کے لئے بہت آسانی تھی سواسی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے لئے استوا کا لفظ اختیار کیا یعنی خدا نے ایسی وراء الوراء جگہ پر قرار پکڑا جو اس کی تنزہ اور تقدس کے مناسب حال تھی.چونکہ تنزہ اور تقدس کا مقام ماسوی اللہ کے فنا کو چاہتا ہے سو یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جیسے خدا بعض اوقات اپنی خالقیت کے اسم کے تقاضا سے مخلوقات کو پیدا کرتا ہے پھر دوسری مرتبہ اپنی تنڑہ اور وحدت ذاتی کے تقاضا سے اُن سب کا نقش ہستی مٹا دیتا ہے.غرض عرش پر قرار پکڑ نا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ خدا اور مخلوق کو باہم مخلوط سمجھا جائے.پس کہاں سے معلوم ہوا کہ خدا عرش پر یعنی اُس وراء الوراء مقام پر مقید کی طرح ہے اور محدود ہے.قرآن شریف میں تو جا بجا بیان فرمایا گیا ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة يونس قرآن شریف اسی وجہ سے ہر ایک دھوکہ دہی کی بات سے محفوظ ہے کہ اُس نے خدا تعالیٰ کے ایسے طور سے صفات بیان کئے ہیں جن سے توحید باری تعالیٰ شرک کی آلائش سے بکی پاک رہتی ہے کیونکہ اول اُس نے خدا تعالیٰ کے وہ صفات بیان کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کیوں کر وہ انسان سے قریب ہے اور کیوں کر اُس کے اخلاق سے انسان حصہ لیتا ہے ان صفات کا نام تو نشیبی صفات ہیں.پھر کیونکہ تشبیہی صفات سے یہ اندیشہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو محدود خیال نہ کیا جائے یا مخلوق چیزوں سے مشابہ خیال نہ کیا جائے اس لئے ان اوہام کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی ایک دوسری صفت بیان کردی یعنی عرش پر قرار پکڑنے کی صفت جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا سب مصنوعات سے برتر و اعلیٰ مقام پر ہے کوئی چیز اُس کی شبیہ اور شریک نہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ کی توحید کامل طور پر ثابت ہو گئی.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۱، ۱۲۲) وَإِذَا مَسَ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبَة اَوْ قَاعِدًا أَوْ قَابِمَا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَانَ لَمْ يَدْعُنَا إِلى ضُرٌ مَّسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا اوروور يعملون (١٣) یہ مسلم اور مشہور امر ہے کہ جب ہیبت الہی اپنا جلوہ دکھاتی ہے تو اس وقت فاسق انسان کی اور صورت ہوتی ہے اور جب ہیبت کا وقت نکل جاتا ہے تو پھر اپنی شقاوت فطرتی سے اصلی صورت کی طرف عود کر آتا ہے.ایسے لوگ بہتیرے تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب ان پر کوئی مقدمہ دائر ہو جس سے سخت قید یا پھانسی یا سزائے موت کا خطرہ ہو گو یہ بھی گمان ہو کہ شاید رہا ہو جائیں تو وہ ایسی ہیبت کو مشاہدہ کر کے اپنی فاسقانہ چال چلن کو بدلا لیتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور تو بہ کرتے اور لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں اور پھر جب ان کی اس تضرع کی حالت پر خدا تعالیٰ رحم کر کے ان کو اس بلا سے خلاصی دیتا ہے تو فی الفور ان کے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ رہائی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اتفاقی امر ہے تب وہ اپنے فسق میں پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں اور چند روز میں ہی اپنی پہلی عادات کی طرف رجوع کر آتے ہیں.اس کی اور بھی مثالیں ہیں مگر اس جگہ کلام الہی کافی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے : وَ إِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِةٍ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَابِمَا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَانْ لَمْ يَدُعُنَا إِلى ضُرَّ مَسَّهُ كَذلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ -
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة يونس سورۃ یونس یعنی جب انسان کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہماری جناب میں دعائیں کرنے لگتا ہے کروٹ کی حالت میں اور بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر اور جب ہم اس دکھ کو اس سے دفع کر دیتے ہیں تو ایسا چلا جاتا ہے کہ گویا نہ بھی اس کو دکھ پہنچا اور نہ کبھی دعا کی.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲، ۴۳) ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلِيفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.قرآن شریف کی رُو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے: فيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (الاعراف: ۱۳۰) دوسری جگہ مسلمانوں کے حق میں لکھا ہے : لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.ان دونوں آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ خدا تمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے.یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے.پس ان آیتوں سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کون سا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دے دیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء اُن کے.اس اُمت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوں گے.اور اسی مفہوم کی طرف آیت: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں باتفاق کل مفسرین مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مُراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا.اور احادیث صحیحہ میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جو مور وغضب الہی دنیا میں ہی ہوئے تھے.اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ٹھہرانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی.پس یقینی اور قطعی ط می طور پر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا.اب خدا تعالیٰ کا یہ دعا سکھلانا کہ خدا یا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسی کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ایک عیسی پیدا ہونے والا ہے.ورنہ اس دُعا کی کیا ضرورت تھی؟ ( تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳، ۱۴) قرآن شریف کے رُو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدر تھا....یہودیوں کے بادشاہوں کے اُن مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دو بالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ با ہم ملتے ہیں سمجھا جاتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے اور وہ یہ ہیں : ۳۴۴ سورة يونس یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت اسلام کے بادشاہوں کی نسبت قَالَ عَسى رَبُّكُمْ اَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ يَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.بَعْدِهِمْ لِنَنْظُر كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس : ۱۵) (الاعراف : ١٣٠) الجز و نمبر ۹ سورۃ الاعراف صفحہ ۱۶۵ الجز و نمبر ۱۱ سورۃ یونس صفحه ۳۳۵ یہ دو فقرے یعنی : فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے اور اُس کے مقابل پر دوسرا افقره یعنی : لننظر كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے.سوایسا ہی ظہور میں آیا.اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل شرم خانہ جنگیاں ظہور میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے یہاں تک کہ بعض اُن میں سے بدکاری، شراب نوشی ، خونریزی اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل ہو گئے.یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے.ہاں بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۷،۳۰۶) ( بروز کے متعلق سائل کے جواب میں فرمایا ) جیسے شیشہ میں انسان کی شکل نظر آتی ہے حالانکہ وہ شکل بذات خود الگ قائم ہوتی ہے اس کا نام بروز ہے....یہ آیتیں بھی اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں.ایک ان میں سے اہل اسلام کی نسبت ہے اور ایک یہود کی نسبت.پس مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر طرح کا انعام کروں گا اور پھر دیکھو گا کہ کس طرح شکر کرتے ہو.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اہل یہود کو کون سی بڑی مصیبت تھی.تو وہ دو بڑی مصیبتیں ہیں ایک یہ کہ عیسی علیہ السلام کا انکار کر کیا گیا اور ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا گیا.پس مماثلت کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے بھی وہی دو انکار لکھے تھے مگر وہاں شمار میں الگ الگ دو وجود تھے اور یہاں نام الگ الگ ہیں مگر وہ وجود جس میں ان دونوں کا بروز ہوا ایک ہی ہے.ایک بروز عیسوی اور ایک محمدی.اور صرف نام کے لحاظ سے اہلِ اسلام یہود کے بروز اسی طرح سے قرار پائے کہ انہوں نے صحیح اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا اور وہ مماثلت پوری ہوگئی اور آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اُمت میں بروزی طور پر وہی کرتوت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة يونس یہودیوں والی پوری ہوئی تھی اور یہ اس طرف اشارہ کرتی تھیں کہ آنے والا دور نگ لے کر آوے گا (اسی لئے مہدی اور مسیح کے زمانہ کی علامات ایک ہی ہیں اور ان دونوں کا فعل بھی ایک ہی ).البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ رستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۹،۳۵۸) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا اثْتِ بِقُرانِ غَيْرِ هذَا اَو بَدِّلُهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِى اَنْ أُبَدِ لَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِى : إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى انّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٌ جب مکہ کے بعض نادانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی توحید ہمیں پسند نہیں آتی کوئی ایسا قرآن لاؤ جس میں بتوں کی تعظیم اور پرستش کا ذکر ہو یا اسی میں کچھ تبدل تغیر کر کے بجائے توحید کے شرک بھر دوتب ہم قبول کر لیں گے اور ایمان لے آئیں گے.تو خدا نے ان کے سوال کا جواب اپنے نبی کو وہ تعلیم کیا جو آ نحضرت کے واقعات عمری پر نظر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے : قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا...الخ وہ لوگ جو ہماری ملاقات سے نا امید ہیں یعنی ہماری طرف سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے برخلاف کوئی اور قرآن لاجس کی تعلیم اس کی تعلیم سے مغایر اور منافی ہو یا اسی میں تبدیل کر.ان کو جواب دے کہ مجھے یہ قدرت نہیں اور نہ روا ہے کہ میں خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں.میں تو صرف اُس وحی کا تابع ہوں جو میرے پر نازل ہوتی ہے اور اپنے خداوند کی نافرمانی سے ڈرتا ہوں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۵،۵۷۲) قُل لَّوْ شَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا ادريكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُراً مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.اگر خدا چاہتا تو میں تم کو یہ کلام نہ سنا تا اور خدا تم کو اس پر مطلع بھی نہ کرتا پہلے اس سے اتنی عمر یعنی چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں پھر کیا تم کو عقل نہیں یعنی کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افتر ا کرنا میرا کام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت میں نہیں.برامین احمد یه چهار خصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۵) (براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۲ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) اور میں ایک عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة يونس انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قومی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے : فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ یونس الجزو11 ) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں.دیکھو میں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افترا ثابت کیا پھر کیا تم کواتنی سمجھ نہیں یعنے یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا.وہ اب خدا پر کیوں جھوٹ بولنے لگا.غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم...قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیوں کر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں.خیال کرنا چاہئے کہ کس استقلال سے آنحضرت اپنے دعوی نبوت پر باوجود پیدا ہو جانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہو جانے لاکھوں معاندوں اور مزاحموں اور ڈرانے والوں کے اول سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دکھ اٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روز بروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہو جانا و ہم بھی نہیں گزرتا تھا بلکہ نبوت کا دعوی کرنے سے از دست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہہ کر لاکھ تفرقہ خرید لیا اور ہزاروں بلاؤں کو اپنے سر پر بلا لیا، وطن سے نکالے گئے قتل کے لئے تعاقب کئے گئے، گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہو گیا، بار ہاز ہر دی گئی اور جو خیر خواہ تھے وہ بدخواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے اور ایک زمانہ دراز تک وہ تلخیاں اٹھانی پڑیں کہ جن پر ثابت قدمی سے ٹھہرے رہنا کسی فریبی اور مکار کا کام نہیں اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا، کوئی عمارت نہ بنائی ، کوئی بارگاہ طیار نہ ہوئی، کوئی سامان شاہانہ عیش و عشرت کا تجویز نہ کیا گیا، کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا بلکہ جو کچھ آیا وہ سب قیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور بھی ایک وقت بھی سیر ہو کر نہ کھایا اور پھر صاف گوئی اس قدر کہ توحید کا وعظ کر کے سب قوموں اور سارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة يونس فرقوں اور تمام جہان کے لوگوں کو جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے مخالف بنالیا.جو اپنے اور خولیش تھے ان کو بت پرستی سے منع کر کے سب سے پہلے دشمن بنایا.یہودیوں سے بھی بات بگاڑ لی کیونکہ ان کو طرح طرح کی مخلوق پرستی اور پیر پرستی اور بداعمالیوں سے روکا.حضرت مسیح کی تکذیب اور تو ہین سے منع کیا جس سے ان کا نہایت دل جل گیا اور سخت عداوت پر آمادہ ہو گئے اور ہر دم قتل کر دینے کی گھات میں رہنے لگے.اسی طرح عیسائیوں کو بھی خفا کر دیا گیا کیونکہ جیسا کہ ان کا اعتقاد تھا.حضرت عیسی کو نہ خدا نہ خدا کا بیٹا قرار دیا اور نہ ان کو پھانسی مل کر دوسروں کو بچانے والا تسلیم کیا.آتش پرست اور ستارہ پرست بھی ناراض ہو گئے کیونکہ ان کو بھی ان کے دیوتوں کی پرستش سے ممانعت کی گئی اور مدار نجات کا صرف تو حید ٹھہرائی گئی.اب جائے انصاف ہے کہ کیا دنیا حاصل کرنے کی یہی تدبیر تھی کہ ہر ایک فرقہ کو ایسی ایسی صاف اور دل آزار باتیں سنائی گئیں کہ جس سے سب نے مخالفت پر کمر باندھ لی اور سب کے دل ٹوٹ گئے اور قبل اس کے کہ اپنی کچھ ذرہ بھی جمعیت بنی ہوتی یا کسی کا حملہ روکنے کے لئے کچھ طاقت بہم پہنچ جاتی سب کی طبیعت کو ایسا اشتعال دے دیا کہ جس سے وہ خون کرنے کے پیاسے ہو گئے.زمانہ سازی کی تدبیر تو یہ تھی کہ جیسا بعضوں کو جھوٹا کہا تھا ویسا ہی بعضوں کو سچا بھی کہا جاتا تا اگر بعض مخالف ہوتے تو بعض موافق بھی رہتے.بلکہ اگر عربوں کو کہا جاتا کہ تمہارے ہی لات و غڑی سچے ہیں تو وہ تو اسی دم قدموں پر گر پڑتے اور جو چاہتے ان سے کراتے کیونکہ وہ سب خویش اور اقارب اور حمیت قومی میں بے مثل تھے اور ساری بات مانی منائی تھی صرف تعلیم بت پرستی سے خوش ہو جاتے اور بدل و جان اطاعت اختیار کرتے.لیکن سوچنا چاہئیے کہ آنحضرت کا یکلخت ہر ایک خویش و بیگانہ سے بگاڑ لینا اور صرف تو حید کو جو ان دنوں میں اس سے زیادہ دنیا کے لئے کوئی نفرتی چیز نہ تھی اور جس کے باعث سے صد با مشکلیں پڑتی جاتی تھیں بلکہ جان سے مارے جانا نظر آتا تھا مضبوط پکڑ لینا یہ کس مصلحت دنیوی کا تقاضا تھا اور جبکہ پہلے اسی کے باعث سے اپنی تمام دنیا اور جمعیت برباد کر چکے تھے تو پھر اسی بلا انگیز اعتقاد پر اصرار کرنے سے کہ جس کو ظاہر کرتے ہی نو مسلمانوں کو قید اور زنجیر اور سخت سخت ماریں نصیب ہوئیں کس مقصد کا حاصل کرنا مراد تھا.کیا دنیا کمانے کے لئے یہی ڈھنگ تھا کہ ہر ایک کو کلمہ تلخ جو اس کی طبع اور عادت اور مرضی اور اعتقاد کے برخلاف تھا.سنا کر سب کو ایک دم کے دم میں جانی دشمن بنادیا اور کسی ایک آدھ قوم سے بھی پیوند نہ رکھا.جو لوگ طامع اور مکار ہوتے ہیں.کیا وہ ایسی ہی تدبیر میں کیا کرتے ہیں کہ جس سے دوست بھی دشمن ہو جا ئیں.جو لوگ کسی مکر سے دنیا کو کمانا چاہتے ہیں کیا ان کا یہی اصول ہوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة يونس کرتا ہے کہ بیکبارگی ساری دنیا کو عداوت کرنے کا جوش دلاویں اور اپنی جان کو ہر وقت کی فکر میں ڈال لیں.وہ تو اپنا مطلب سادھنے کے لئے سب سے صلح کاری اختیار کرتے ہیں اور ہر ایک فرقہ کو سچائی کا ہی سرٹیفکیٹ دیتے ہیں.خدا کے لئے یک رنگ ہو جانا ان کی عادت کہاں ہوا کرتی ہے خدا کی وحدانیت اور عظمت کا کب وہ کچھ دھیان رکھا کرتے ہیں.ان کو اس سے غرض کیا ہوتی ہے کہ ناحق خدا کے لئے دکھ اٹھاتے پھریں.وہ تو صیاد کی طرح وہیں دام بچھاتے ہیں کہ جو شکار مارنے کا بہت آسان راستہ ہوتا ہے اور وہی طریق اختیار کرتے ہیں کہ جس میں محنت کم اور فائدہ دنیا کا بہت زیادہ ہو.نفاق ان کا پیشہ اور خوشامد ان کی سیرت ہوتی ہے.سب سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا اور ہر ایک چور اور سادھ سے برابر رابطہ رکھنا ان کا ایک خاص اصول ہوتا ہے.مسلمانوں سے اللہ اللہ اور ہندوؤں سے رام رام کہنے کو ہر وقت مستعد رہتے ہیں اور ہر ایک مجلس میں ہاں سے ہاں اور نہیں سے نہیں ملاتے رہتے ہیں اور اگر کوئی میر مجلس دن کو رات کہے تو چاند اور کمیٹیاں دکھلانے کو بھی طیار ہو جاتے ہیں.ان کو خدا سے کیا تعلق اور اس کے ساتھ وفاداری کرنے سے کیا واسطہ اور اپنی خوش باش جان کو مفت میں ادھر ادھر کا غم لگا لینا انہیں کیا ضرورت.استاد نے ان کو سبق ہی ایک پڑھایا ہوا ہوتا ہے کہ ہر ایک کو یہی بات کہنا چاہئے کہ جو تیرا راستہ ہے وہی سیدھا ہے اور جو تیری رائے ہے وہی درست ہے اور جو تو نے سمجھا ہے وہی ٹھیک ہے غرض ان کی راست اور نار است اور حق اور باطل اور نیک اور بد پر کچھ نظر ہی نہیں ہوتی بلکہ جس کے ہاتھ سے ان کا کچھ منہ میٹھا ہو جائے وہی ان کے حساب میں بھگت اور سدھ اور جنٹلمین ہوتا ہے اور جس کی تعریف سے کچھ پیٹ کا دوزخ بھر تا نظر آوے اس کو کتی پانے والا اور سرگ کا وارث اور حیات ابدی کا مالک بنا دیتے ہیں.لیکن واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروانہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے.اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعات خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کر کے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة يونس اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں.پس ذرہ ایمانداری سے سوچنا چاہئے کہ یہ سب حالات کیسے آنحضرت کے اندرونی صداقت پر دلالت کر رہے ہیں.( براہینِ احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۰۷ تا ۱۱۲) دوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیونکہ بد چال چلن سے بھی دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے.اور یہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے: فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں.اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مرتبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راستباز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا.قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کمال درجہ پر ثابت کی ہیں اور آپ کی اعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے.اور اس جگہ میں اس شکر کے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فرمایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو.باوجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے.اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کرسکو.پھر تم سوچو کہ جو شخص ایسے اعلیٰ اور اطہر اور انفس خاندان میں سے ہے اور اس کی چالیس برس کی زندگی جو تمہارے رو بروئے گزری گواہی دے رہی ہے جو افترا اور دروغ بافی اس کا کام نہیں ہے تو پھر ان خوبیوں کے ساتھ جبکہ آسمانی نشان وہ دِکھلا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید میں اس کے شامل حال ہورہی ہیں اور تعلیم وہ لایا ہے جس کے مقابل پر تمہارے عقائد سراسر گندے اور ناپاک اور شرک سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر اس کے بعد تمہیں اس نبی کے صادق ہونے میں کون سا شک باقی ہے.اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکند بین کو ملزم کیا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۲ میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گزر گئے اور وہ یہ ہے: وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان مخالفین کو کہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتارہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۰ سورة يونس رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اس قدر مدت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۸۱، ۲۸۳) افتر ا کرنے لگا.دود فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِأَيْتِهِ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ 79 المجرمون.اس شخص سے زیادہ تر اور کون ظالم ہو گا جو خدا پر افترا باندھے یا خدا کے کلام کو کہے کہ یہ انسان کا افترا ہے بلاشبہ مجرم نجات نہیں پائیں گے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۷۵) یقیناً یا د رکھو کہ انسان کمزوریوں کا مجموعہ ہے....اس کے لئے امن اور عافیت کی یہی سبیل ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف ہو اور وہ اس کا سچا اور مخلص بندہ بنے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدق کو اختیار کرے.جسمانی نظام کی کل بھی صدق ہی ہے جو شخص صدق کو چھوڑتے ہیں اور خیانت کر کے جرائم کو پناہ میں لانے والی سپر کذب کو خیال کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں آنی اور عارضی طور پر شاید کوئی فائدہ انسان سمجھ لے لیکن فی الحقیقت کذب اختیار کرنے سے انسان کا دل تاریک ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندرا سے ایک دیمک لگ جاتی ہے.ایک جھوٹ کے لئے پھر اسے بہت سے جھوٹ تراشنے پڑتے ہیں کیونکہ اس جھوٹ کو سچائی کا رنگ دینا ہوتا ہے پس اسی طرح اندر ہی اندر اس کے اخلاقی اور روحانی قومی زائل ہو جاتے ہیں اور پھر اسے یہاں تک جرات اور دلیری ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھی افترا کر لیتا اور خدا کے مرسلوں اور ماموروں کی تکذیب بھی کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اظلم ٹھیرتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے : مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّب پایته یعنی اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور افترا باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے.یقیناً یا درکھو کہ یہ جھوٹ بہت ہی بری بلا ہے انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اس سے بڑھ کر جھوٹ کا خطرناک نتیجہ کیا ہو گا کہ انسان خدا تعالیٰ کے مرسلوں اور اس کی آیات کی تکذیب کر کے سزا کا مستحق ہو جاتا ہے.پس صدق اختیار کرد....جس قدر انسان صدق کو اختیار کرتا ہے اور صدق سے محبت کرتا ہے اسی قدر اس کے دل میں خدا کے کلام اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبیوں کی محبت اور معرفت پیدا ہوتی ہے.۳۵۱ سورة يونس الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) وَ يَقُولُونَ لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ أَيَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان تائید دین کا نازل نہ ہوا.سوان کو کہہ کہ علم غیب خدا کا خاصہ ہے پس تم نشان کے منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۴ حاشیہ نمبر ۱۱) ج هُوَ الَّذِى يُسَيَرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمُ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بهِمْ بِرِيْج طَيْبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِف وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلّ لا مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أَحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَبِنْ أَنْجَيْتَنَا : مِنْ هذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور کشتی کے سواروں کو ایک خوش ہوا کے ساتھ لے کر کشتیاں چلتی ہیں اور وہ ان کشتیوں کے چلنے سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ یک دفعہ ایک تند ہوا چلنی شروع ہوتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موج آتی ہے اور ظن غالب یہ ہو جاتا ہے کہ بس اب ہم گھیرے گئے یعنی مارے گئے تب اس وقت اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر ! اگر اب ہمیں نجات دے تو ہم شکر گزار ہوں گے.انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳) ان آیات کا حاصل مطلب یہی ہے کہ جب بعض گنہ گاروں کو ہلاک کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے قہری ارادہ سے اس دریا میں صورت طوفان پیدا کرتا ہے جس میں ان لوگوں کی کشتی ہو تو پھر ان کی تضرع اور رجوع پر ان کو بچا لیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ پھر وہ مفسدانہ حرکات میں مشغول ہوں گے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۱۹،۱۱۸) فَلَمَّا اَنْجُهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ، يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة يونس لا بغيكُمُ عَلَى اَنْفُسِكُمْ مَتَاعَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا 199196 كنتم تعملون پھر جب خدا تعالیٰ ان کو نجات دے دیتا ہے تو پھر اس ظلم اور فساد کی طرف رجوع کرتے ہیں جس پر پہلے جمے ہوئے تھے.b انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳) إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَاءِ اَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ ، حَتَّى إِذَا اَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَيَّنَتُ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَدِرُونَ عَلَيْهَا أَنهَا أَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَهَا حَصِيدًا كَانْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ كَذلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ اس زندگی دنیا کی مثال یہ ہے کہ جیسے اس پانی کی مثال ہے جس کو ہم آسمان سے اتارتے ہیں پھر زمین کی روئیدگی اس سے مل جاتی ہے پھر وہ روئیدگی بڑھتی اور پھولتی ہے اور آخر کائی جاتی ہے.یعنی کھیتی کی طرح انسان پیدا ہوتا ہے اول کمال کی طرف رخ کرتا ہے پھر اس کا زوال ہوتا جاتا ہے.کیا اس قانون قدرت سے مسیح باہر رکھا گیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۰) لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَر وَلَا ذِلَّةٌ أولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.للَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ ۲ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۶ صفحه ۲) وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَا لَهُمْ مِنَ ج اللهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أَغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعَا مِنَ الَّيْلِ مُظْلِما أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے اور ان کو ذلت پہنچے گی یعنی اسی قسم کی ذلت اور اسی مقدار کی ذلت جس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہنچانے کا انہوں نے ارادہ کیا ان کو پہنچ جائے گی.۳۵۳ سورة يونس ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۳۷) وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنَّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ جو شخص محض ظن کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلند حق سے بہت نیچے گرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ الظَّنّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا یعنی محض ظن حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں ہے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۸) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَ لَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ لِكُلِ أُمَّةٍ أَجَلٌ - إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ اور کافر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا.کہہ مجھے تو اپنے نفس کے نفع و ضرر کا بھی اختیار نہیں مگر جو خدا چاہے وہی ہوتا ہے.ہر یک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت مقررہ ان کا پہنچتا ہے تو پھر نہ اس سے ایک ساعت پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ ایک ساعت آگے ہو سکتے ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۲ حاشیہ نمبر ۱۱) کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اور یہ وعدہ کب پورا ہو گا سوان کو کہہ دے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں.نہ میں اپنے نفس کے لئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا مگر جو خدا چاہے.ہر ایک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے جو ٹل نہیں سکتا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۳) خدا چاہتا ہے کہ نیکوں کو بچائے اور بدوں کو ہلاک کرے.اگر وقت اور تاریخ بتلائی جائے تو ہر ایک شریر سے شریر اپنے واسطے بچاؤ کا سامان کر سکتا ہے اگر وقت کے نہ بتلانے سے پیشگوئی قابل اعتراض ہو جاتی ہے تو پھر تو قرآن شریف کی پیشگوئیوں کا بھی یہی حال ہے.وہاں بھی اس قسم کے لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ متى هذا الوعد یہ وعدہ کب پورا ہوگا.ہمیں وقت اور تاریخ بتلاؤ.مگر بات یہ ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں تعین نہیں ہوتا ورنہ کا فر بھی بھاگ کر بچ جائے.( بدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۸/جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۴ سورة يونس جب اجل بلا آ جاتی ہے تو پھر آگے پیچھے نہیں ہوا کرتی.انسان کو چاہئے کہ پہلے ہی سے خدا کے ساتھ تعلق الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۳) رکھے.۱ موت جب آتی ہے تو نا گہانی طور پر آجاتی ہے.انسان کہیں اور تدبیروں اور دھندوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ یہ کام اس طرح ہو جاوے.یہ ایسے ہو جاوے اور اوپر سے موت آجاتی ہے اور پھر : لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ والا معاملہ ہوتا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹) جب عذاب الہی نازل ہو جاتا ہے تو پھر اس کا ملنا محال ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنا کام کر کے ہی جاتا ہے اور اس آیت سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ قبل از نزول عذاب تو بہ و استغفار سے وہ عذاب مل بھی جایا کرتا الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) ہے.وَيَسْتَنْبِتُونَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِلَى وَرَى إِنَّهُ لَحَقِّ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات ہے؟ کہہ، ہاں ! مجھے قسم ہے اپنے رب کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدائے تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳) اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ کہہ، ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ بیچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے.آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۰) یہ امر بالکل غلط ہے کہ اسلام میں قسم کھانا منع ہے.تمام نیک انسان مسلمانوں میں سے ضرورتوں کے وقت قسم کھاتے آئے ہیں.صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی ضرورتوں کے وقت قسم کھائی.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بارہا قسمیں کھائی.خود خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں قسمیں کھا ئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں مجرموں کو قسمیں دلائی گئیں.قسموں کا قرآن شریف میں صریح ذکر ہے.شریعت اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بند ہو یا پیچیدہ ہو تو قسم پر مدار رکھا جاتا ہے اور صحیح البخاری لے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے قسم کھا کر فرمایا کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے جو تمہارا امام ہوگا وہ تم میں سے ہی ہوگا یعنی اسی امت میں سے ہوگا، آسمان ل صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۵ سورة يونس سے نہیں آئے گا.پھر صحیح بخاری جلد نمبر ۴ صفحہ ۱۰۶ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموں کا ایک باب باندھا ہے.اس باب میں بہت سی قسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہیں جو دس سے کم نہیں.ایسا ہی صحیح نسائی جلد ثانی صفحہ ۱۳۸ کتاب الایمان والنذور میں صفحہ ۱۳۹ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسموں کا ذکر ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَسْتَنبِئُونَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِنْ وَ رَبِّي إِنَّهُ لَحَقُّ یعنی تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ حق ہے کہ مجھے خدا کی قسم ہے کہ یہ حق ہے.ایسا ہی قرن شریف میں یہ آیت ہے : وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ (المائدة : 90) یعنی جب تم قسم کھاؤ تو جھوٹ اور بد عہدی اور بدنیتی سے اپنی قسم کو بچاؤ.ایسا ہی قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے: اربع شهدت بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الدِقِينَ ، وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إنْ كَانَ مِنَ الْكَذِبِينَ ( النور : ۸،۷) یعنی شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۲۵ حاشیه ) اور تجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے.کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ بیج ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے.تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ حق ہے.کہہ مجھے خدا کی قسم ہے کہ یہ حق ہے.(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۶۳۸) الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) ياَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ وَ هُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ.قرآن میں دلوں کو روشن کرنے کے لئے ایک روحانی خاصیت بھی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: شفاء لما في الصدور یعنی قرآن اپنی خاصیت سے تمام بیماریوں کو دور کرتا ہے اس لئے اس کو منقولی کتاب نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے معقول دلائل اپنے ساتھ رکھتا ہے اور ایک چمکتا ہوا نور اس میں پایا جاتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۳) یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے.اور اس میں تمام بیماریوں کی شفاء ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے والے امور اس میں بھرے ہوئے ہیں.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۶ سورة يونس قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ.(۵۹) خیر کثیر سے مراد اسلام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جل شانۂ قرآن کریم میں فرماتا ہے : هُوَ خَيْرٌ مِمَّا (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۶) 99191 يجمعون ان کو کہہ دے کہ خدائے تعالیٰ کے فضل و رحمت سے یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو.میدان مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں.یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آکر اس مال کو اس قدر تقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.یہ نہیں کہ مسیح درم و دینار کو جو مصداق آیت : انما اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (التغابن : ۱۶) ہے جمع کرے گا اور دانستہ ہر ایک کو مال کثیر دے کر فتنہ میں ڈال دے گا.مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں.وہ خود انجیل میں بیان کر چکا ہے کہ مومن کا مال درم و دینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اس کا مال ہیں.یہی مال انبیاء خدائے تعالی سے پاتے ہیں اور اسی کو تقسیم کرتے ہیں.اسی مال کی طرف اشارہ ہے کہ انما اكا قَاسِم وَاللهُ هُوَ الْمُعْطى (ازالہ واوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۵،۴۵۴) اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) خبر دار ہوا تحقیق وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۵) جولوگ خدا کے ہور ہتے ہیں ان کو کسی کا خوف باقی نہیں رہتا اور وہ غم نہیں کرتے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹) خبر دار ہوا بہ تحقیق جولوگ مقربانِ الہی ہوتے ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ تم کرتے ہیں.برائین احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۱) جو اللہ کے ولی ہیں ان کو کوئی غم نہیں.جس کا خدا متکفل ہو اس کو کوئی تکلیف نہیں.کوئی مقابلہ کرنے والا ضرر نہیں دے سکتا اگر خداولی ہو جاوے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۳۶) خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے اس کو کسی کی حاجت نہیں اس لئے استثنا ایک شرط
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة يونس کے ساتھ ہے: وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِي مِنَ الثَّالِ (بنی اسرائیل : ۱۱۲) یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھرک کر کسی کو ولی نہیں بناتا بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنا لیتا ہے اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے....یا درکھو اللہ تعالیٰ کا احتبا اور اصطفا فطرتی جو ہر سے ہوتا ہے.ممکن ہے گذشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہولیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں.یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ در گذر کرتا اور عفوفر ماتا ہے پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے پھر با وجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بد قسمتی اور شامت ہے.برکات اور فیوض الہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو.جب یہ حالت ہو تو پھر الہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے.اس کے لئے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہیے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنا صدق دکھایا یا جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونہ دکھایا.جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تو وہ با برکت آدمی ہو جاتا ہے پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلت نہیں اُٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ اس پر خدا تعالیٰ کے فضل و احسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے.مختصر یہ کہ جو خدا تعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی ساری مراد میں پوری کر دیتا ہے اسے نامراد نہیں رکھتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورمحه ۱۰ ؍ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵) تو بہ کرتے رہو، استغفار کرو، دعا سے ہر وقت کام لو.ولی کیا ہوتے ہیں؟ یہ صفات تو اولیا کے ہوتے ہیں.ان کی آنکھ، ہاتھ ، پاؤں غرض کوئی عضو ہو، منشاء الہی کے خلاف حرکت نہیں کرتے.خدا کی عظمت کا بوجھ ان پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی زیارت کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے.پس تم بھی کوشش کرو.خدا بخیل نہیں ہر کہ عارف تر است ترساں تر احکام جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة يونس خبر دار ہو یعنی یقینا سمجھ کہ جو لوگ اللہ ( جل شانہ ) کے دوست ہیں.یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے کچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھا ئیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیوں کر نجات ہوگی کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گذشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی خلاف ایمان وخلاف فرماں برداری جو باتیں ہیں ان سے بہت دور رہتے ہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۷۹) الَّذِينَ آمَنُوا وَ كَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرى فى الحيوةِ الدُّنْيَا وَ في الْآخِرَةِ لا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.۶۵ فِي وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے یعنی اللہ رسول کے تابع ہو گئے اور پھر پرہیز گاری اختیار کی.ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی زندگی اور نیز آخرت میں بشری ہے یعنی خدا تعالیٰ خواب اور الہام کے ذریعہ سے اور نیز مکاشفات سے ان کو بشارتیں دیتا رہے گا.خدا تعالیٰ کے وعدوں میں مختلف نہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو ان کے لئے مقرر ر ہو گئی یعنی اس کامیابی کے ذریعہ سے ان میں اور غیروں میں فرق ہو جائے گا اور جو بچے نجات یافتہ نہیں ان کے مقابل میں دم نہیں مارسکیں گے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۵) ان کو اسی زندگی میں بشارتیں ملیں گی یعنی وہ خدا سے نور الہام کا پائیں گے اور بشارتیں سنیں گے جن میں ان کی بہتری اور مدح اور تنا ہوگی اور خدا ان کی سچائیوں کو روشن کرے گا.خدا نے جو جو وعدہ کیا ہے وہ سب پورا ہوگا اور کسی نوع کی تبدیل واقع نہیں ہوگی.یہی سعادت عظمیٰ ہے کہ جو ان لوگوں کوملتی ہے کہ جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۵،۲۶۴ حاشیہ نمبر۱۱) مسلمانوں کو سچی خوا ہیں کثرت سے آتی ہیں جیسا ان کی نسبت خدا تعالیٰ نے آپ وعدہ دے رکھا ہے اور فرمایا ہے: لَهُمُ الْبُشْرى في الحيوةِ الدُّنْیا لیکن کفار اور منکرین اسلام کو اس کثرت سے سچی خواہیں ہرگز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ سورة يونس نصیب نہیں ہوتیں بلکہ ان کا ہزارم حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا چنانچہ اس کا ثبوت ہماری ان ہزار ہا کچی خوابوں کے ثبوت سے ہوسکتا ہے جن کو ہم نے قبل از وقوع صدہا مسلمانوں اور ہندوؤں کو بتلا دیا ہے اور جن کے مقابلہ سے غیر قوموں کا عاجز ہونا ہم ابتدا سے دعویٰ کر رہے ہیں.( براہین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۸۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۱) یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے ان کی خواہیں سچی نکلتی ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۳) چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ انسان اس نادیدہ راہ میں بھول جاوے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے.اس لئے خدا تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تسلی دیتی رہے اور اس کی دلد ہی کرتی رہے اور اس کی کمر ہمت باندھتی رہے اور اس کے شوق کو زیادہ کرے.سو اس کی سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے کلام اور الہام سے ان کو تسلی دیتا اور ان پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.تب وہ قوت پا کر بڑے زور سے اس سفر کو طے کرتے ہیں.چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۲) لَهُمُ البُشرى فى الحيوة الدُّنْيَا وَ في الْآخِرَةِ یعنی خدا کے دوستوں کو الہام اور خدا کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس دنیا میں خوشخبری ملتی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی ملے گی.الأخرة - اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۷) یعنی دنیا کی زندگی میں مومنین کو یہ نعمت ملے گی کہ اکثر سچی خوا ہیں انہیں آیا کریں گی یا بچے الہام ان کو ہوا ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۱) کریں گے.اگر بعض جاہل اور نادان جو نام کے مسلمان ہیں یہ عقیدہ رکھیں کہ اسلام میں بھی مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا سلسلہ بند ہے تو یہ ان کی اپنی جہالت ہے کیونکہ قرآن شریف مکالمہ مخاطبہ الہیہ کے سلسلہ کو بند نہیں کرتا جیسا کہ وہ خود تو فرماتا ہے...یعنی مومنوں کے لئے مبشر الہام باقی رہ گئے ہیں گو شریعت ختم ہو گئی ہے کیونکہ عمر دنیا ختم ہونے کو ہے پس خدا کا کلام بشارتوں کے رنگ میں قیامت تک باقی ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۸۸ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۰ سورة يونس ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں نا پیدا کنار ترقیاں کرتے جائیں گے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ملیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتا ہے ).(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۳۸) تیسری ان ( اللہ اور رسول کے تابع لوگوں ) کی یہ نشانی ہے کہ انہیں ( بذریعہ مکالمہ الہیہ ورویائے صالحہ ) بشارتیں ملتی رہتی ہیں اس جہاں میں بھی اور دوسرے جہاں میں بھی خدائے تعالیٰ کا ان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے یعنی مکالمہ الہیہ اور رویائے صالحہ سے خدائے تعالی کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخطبات الہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانون قدرت اللہ جل شانہ کا ہے ).ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۸۰،۴۷۹ حاشیه ) رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۳۶) جو متقی ہوتے ہیں ان کو اسی دنیا میں بشارتیں بچے خوابوں کے ذریعہ ملتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ صاحب مکاشفات والہامات ہو جاتے ہیں.مکالمۃ اللہ کا شرف حاصل کرتے ہی وہ بشریت کے لباس میں ہی ملائکہ کو دیکھ لیتے ہیں.لاہور میں ایک مولوی عبد الحکیم صاحب سے مباحثہ ہوا تھا تو ہم نے اس کو یہی پیش کیا کہ تم خدا تعالی کے مکالمات سے کیوں ناراض ہوتے ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تو محدث تھے تو اس نے صاف طور پر انکار کیا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی طور پر کہا تھا.حضرت عمررؓ بھی محدث نہ تھے.یہ محال ہے کہ آئندہ کسی کو الہام ہو ان کو اس پر بالکل ایمان نہیں ہے ، وہ مکالمات کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہوں نے گونگا خدا مان لیا ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن شریف میں جو یہ آیا ہے: لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنیا اس کا ان کے نزدیک کیا مطلب ہے اور جب ملائکہ ایسے مومنوں پر نازل ہوتے ہیں اور ان کو بشارتیں دیتے ہیں تو وہ بشارتیں کس کی طرف سے دیتے ہیں.اس اعتقاد سے پھر قرآن شریف کا ان کو انکار کرنا پڑے گا کیونکہ سارا قرآن شریف اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا ہوتا ہے اگر یہ شرف ہی کسی کو نہیں ملتا تو پھر قرآن شریف کی تاثیرات کا ثبوت کہاں سے ہوگا؟ اگر آفتاب دھندلا اور تاریک ہے تو اس کی روشنی پر کوئی کیا فرق کر سکے گا اور کیا یہ کہ کر فخر کرے گا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة يونس اس میں روشنی نہیں بلکہ تاریکی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۲) ان کے واسطے اسی دنیوی زندگی میں بشارتیں نازل ہوتی ہیں اور قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہی ہمارا رب ہے اور پھر اس ایمان پر استقامت دکھلاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فرشتے نازل کرتا ہے جو ان کو تشفی دیتے ہیں کہ تم کو کوئی غم اور حزن نہیں پہنچے گا خدا تعالیٰ کی شناخت کے واسطے یہ ایک بڑا طریق ہے کہ نشانات کا مشاہدہ کرایا جاوے.جب ایک سلسلہ نشانات اور کرامات کو مدت دراز گزر جاتی ہے تو لوگ دہریہ مزاج ہو جاتے ہیں اور بیہودہ باتیں بناتے ہیں.( بدر جلد ۶ نمبر ۳ موخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۲) اگر قرآن کے خطابات صحابہ تک ہی محدود ہوتے تو صحابہ کے فوت ہو جانے کے ساتھ قرآن باطل ہو جاتا اور آیت متنازعہ فیہا جو خلافت کے متعلق ہے در حقیقت اس آیت سے مشابہ ہے : لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدنیا.کیا یہ بشری صحابہ سے ہی خاص تھا یا کسی اور کو بھی اس سے حصہ ہے.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۵) ان کے واسطے اسی دنیوی زندگی میں بشارتیں نازل ہوتی ہیں.یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ یہ نسبت دوسروں کے ان کی خواہیں سچی نکلتی ہیں.کلمه طیبه صفحه ۲۸) (مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۳۴۰) جو لوگ قرآن شریف پر ایمان لائیں گے ان کو مبشر خواہیں اور الہام دیئے جائیں گے یعنی بکثرت دیئے جائیں گے ورنہ شاذ و نادر کے طور پر کسی دوسرے کو بھی کوئی سچی خواب آسکتی ہے مگر ایک قطرہ کو ایک دریا کے ساتھ کچھ نسبت نہیں اور ایک پیسہ کو ایک خزانہ سے کچھ مشابہت نہیں.....چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم سے اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا آتا ہے اور اس زمانہ میں ہم خود اس کے شاہد رویت ہیں.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۰) ایمانداروں کو خدا کی طرف سے بشارتیں ملتی رہتی ہیں.ایسا ہی وہ بھی اپنی ذات کے متعلق کئی قسم کی بشارتیں پاتا رہتا ہے اور جیسے جیسے بذریعہ ان بشارتوں کے اس کا ایمان قوی ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ گناہ سے پر ہیز کرتا اور نیکیوں کی طرف حرکت کرتا ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۴) لا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ.....کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۳۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة يونس قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَكَ اسْبُحْنَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَنٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے حالانکہ بیٹے کا محتاج ہونا ایک نقصان ہے اور خدا ہر یک نقصان سے پاک ہے.وہ تو غنی اور بے نیاز ہے جس کو کسی کی حاجت نہیں جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب اسی کا ہے.کیا تم خدا پر ایسا بہتان لگاتے ہو جس کی تائید میں تمہارے پاس کسی نوع کا علم نہیں.برائین احمد یه چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَجوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَ عَدْوًا حَتَّى اِذَا اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ أَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنْوا إِسْرَاءِ يْلَ وَانَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ.یا درکھو جو امن کی حالت میں ڈرتا ہے وہ خوف کی حالت میں بچایا جاتا ہے اور جو خوف کی حالت میں ڈرتا ہے تو وہ کوئی خوبی کی بات نہیں.ایسے موقع پر تو کافر مشرک بے دین بھی ڈرا کرتے ہیں.فرعون نے بھی ایسے موقع پر ڈر کر کہا تھا: امنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاوِيْلَ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ١١/١٢ اس سے صرف اتنا فائدہ اسے ہوا کہ خدا نے فرمایا کہ تیرا بدن تو ہم بچا لیں گے مگر تیری جان کو اب نہیں بچائیں گے آخر خدا نے اس کے بدن کو ایک کنارے پر لگا دیا.ایک چھوٹے سے قد کا وہ آدمی تھا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) دیکھو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں پہلے نرم نرم عذاب آئے کہ حشرات الارض نکل آئے ، خون پھیل گیا، قحط پڑ گیا.بھلا فرعون قحط کو کیا جانتا تھا.وہ تماشا سمجھتا ہوگا کیونکہ قحط کا اثر توغریبوں پر پڑتا ہے مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن بطش شدید کا آنے والا ہے جب اس کے منہ سے بے اختیار نکلے گا : أَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِى أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاءِيلَ ابتدائی منذرات سے ڈرو گے تو نجات پاؤ گے.( بدر جلدے نمبر ا مورخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱) فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ أَمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيْمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُوْسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ سورة يونس عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ مَتَعْلَهُم إِلى حِينٍ.(٩٩ فَالْحَاصِلُ أَنَّ قِصَّةً يُونُسَ في پس خلاصہ یہ ہے کہ خدائے قادر کے کلام میں یونس علیہ السلام علیہ كَلَامِ اللهِ الْقَدِيرِ، دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ قَد کا قصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کا عذاب کسی ایسی يُؤَخِّرُ عَذَابُ اللهِ مِنْ غَيْرِ شَرط شرط کے بغیر بھی جو تاخیر کے حکم کا موجب بن سکے تاخیر میں ڈال يُوجِبُ حُكْمَ التَّأْخِيرِ، كَمَا أُخِرَ في دیا جاتا ہے جیسا کہ یونس علیہ السلام کی پیشگوئی میں عذاب الہی کو نبأ يُونُسَ بَعْدَ الشَّشْهِير باوجود تشہیر کے ڈال دیا گیا.(ترجمہ از مرتب) انجام آنهم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۶) وو وَ لَوْ شَاءَ رَبِّكَ لَامَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنينَ ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں....جیسا کہ فرماتا ہے : أَفَأَنْتَ تَكْرِهُ النَّاسَ - (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۱۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ قف ۳۶۵ سورة هود بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة هود بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ و الر كتب أحكِمَتْ ايْتُه ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ 0 الف سے مراد اللہ اورل سے مراد جبرائیل اور راء سے مرا در سل ہیں چونکہ اس میں یہی قصہ ہے کہ کون سی چیزیں انسانوں کو ضروری ہیں اس لئے فرمایا کتب احکمَت.الآیۃ.یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات کی اور استوار ہیں.قرآن کریم کی تعلیموں کو اللہ تعالیٰ نے کئی طرح پر مستحکم کیا تا کہ کسی قسم کا شک نہ رہے اور اسی لئے شروع میں ہی فرما یا لا ريب فيه (البقرة : ۳) یہ استحکام کئی طور پر کیا گیا ہے.اولاً.قانون قدرت سے استواری اور استحکام قرآنی تعلیموں کا قانون قدرت سے کیا گیا.جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے قانونِ قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے.گویا جو قرآن میں ہے وہی کتاب مکنون میں ہے.اس کا راز انبیاء علیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا.اور یہی وہ سر ہے جو لا يَمَشةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) میں رکھا گیا ہے.غرض پہلے قرآنی تعلیم کو قانون قدرت سے مستحکم کیا ہے مثلاً قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفت وحدہ لاشریک بتلائی.جب ہم قانونِ قدرت میں نظر کرتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ضرور ایک ہی خالق و مالک ہے کوئی اس کا شریک نہیں.دل بھی اسے ہی مانتا ہے اور دلائل قدرت سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے کیونکہ ہر ایک چیز جود نیا میں موجود ہے وہ اپنے اندر گرویت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة هود رکھتی ہے جیسے پانی کا قطرہ اگر ہاتھ سے چھوڑیں تو وہ کروی شکل کا ہوگا اور کروی شکل تو حید کو مستلزم ہے اور یہی وجہ ہے کہ پادریوں کو بھی ماننا پڑا کہ جہاں تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی وہاں کے رہنے والوں سے توحید کی پرسش ہوگی چنانچہ پادری فنڈر نے اپنی تصنیفات میں اس امر کا اعتراف کیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم دنیا میں نہ بھی ہوتا تب بھی ایک ہی خدا کی پرستش ہوتی.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا بیان صحیح ہے کیونکہ اس کا نقش انسانی فطرت اور دل میں موجود ہے اور دلائل قدرت سے اس کی شہادت ملتی ہے برخلاف اس کے انجیلی تثلیث کا نقش نہ دل میں ہے نہ قانون قدرت اس کا مؤید ہے.یعنی معنے ہیں الا یہ کے.یعنی قانونِ قدرت سے اس کی تعلیموں کو ایسا احکام اور استوار کیا گیا ہے کہ مشرک و عیسائی کو بھی مانا پڑا کہ انسان کے مادہ فطرت سے توحید کی باز پرس ہوگی.دوسری وجہ استحکام کی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں کوئی نبی، کوئی ما مورد نیا میں ایسا نہیں آتا جس کے ساتھ تائیدات الہی شامل نہ ہوں اور یہ تائیدات اور نشانات ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت پر شوکت اور پر قوت تھے.آپ کے حرکات سکنات میں کلام میں نشانات تھے.گویا آپ کا وجود از سرتا پا نشانات الہی کا پتلا تھا.تیسرا احکام نبی کا پاک چال چلن اور راست بازی ہے.یہ منجملہ ان باتوں کے ہے جو عقلمندوں کے نزدیک امین ہونا بھی ایک دلیل ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق نے اس سے دلیل پکڑی.چوتھا احکام جو ایک زبر دست و جہ استواری اور استحکام کی ہے نبی کی قوت قدسیہ ہے جس سے فائدہ پہنچتا ہے.جیسے طبیب خواہ کتنا ہی دعویٰ کرے کہ میں ایسا ہوں اور ویسا ہوں اور اس کو سدیدی خواہ نوک زبان ہی کیوں نہ ہو.لیکن اگر لوگوں کو اس سے فائدہ نہ پہنچے تو یہی کہیں گے کہ اس کے ہاتھ میں شفا نہیں ہے.اسی طرح پر نبی کی قوت قدسی جس قدر ز بر دست ہو اسی قدر اس کی شان اعلیٰ اور بلند ہوتی ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے استحکام کے لئے یہ پشتیبان بھی سب سے بڑا پشتیبان ہے....ان وجوہات احکام آیات کے علاوہ میرے نزدیک اور بھی بہت سے وجوہات ہیں منجملہ ان کے ایک اتر کے لفظ سے پتہ لگتا ہے یہ لفظ مجددوں اور مرسلوں کے سلسلہ جاریہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قیامت تک جاری ہے.اب اس سلسلہ میں آنے والے مجددوں کے خوارق.ان کی کامیابیوں، ان کی پاک تاثیروں وغیرہ وجوہات احکام آیات کو گن بھی نہیں سکتے.اور یہ سب خوارق اور کامیابیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے متبعین مجد دوں
۳۶۷ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے ہوئیں اور قیامت تک ہوں گی.در حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کامیابیاں ہیں.غرض ہر صدی کے سر پر مجدد کا آنا صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ مردوں سے استمداد خدا تعالیٰ کی منشاء کے موافق نہیں اگر مردوں سے مدد کی ضرورت ہوتی تو زندوں کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں ہزار جو اولیاء اللہ پیدا ہوتے ہیں اس کا کیا مطلب تھا مجددین کا سلسلہ کیوں جاری کیا جاتا ؟ اگر اسلام مردوں کے حوالے کیا جاتا تو یقیناً سمجھو کہ اس کا نام و نشان مٹ گیا ہوتا.یہودیوں کا مذہب مردوں کے حوالے کیا گیا.نتیجہ کیا ہوا ؟ عیسائیوں نے مردہ پرستی سے بتلاؤ کیا پایا؟ مردوں کو پوجتے پوجتے خود مردہ ہو گئے.نہ مذہب میں زندگی کی روح رہی نہ ماننے والوں میں زندگی کے آثار باقی رہے.اول سے لے کر آخر تک مردوں ہی کا مجمع ہو گیا.اسلام ایک زندہ مذہب ہے.اسلام کا خداحی و قیوم خدا ہے پھر وہ مردوں سے پیار کیوں کرنے لگا وہ حیی قیوم خدا تو بار بار مردوں کو جلاتا ہے يخي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الروم :۲۰) تو کیا مردوں کے ساتھ تعلق پیدا کرا کر جلاتا ہے نہیں.ہرگز نہیں.اسلام کی حفاظت کا ذمہ اسی کی و قیوم خدا نے إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ ( الحجر :١٠ ) کہہ کر اُٹھایا ہوا ہے.پس ہر زمانہ میں یہ دین زندوں سے زندگی پاتا ہے اور مردوں کو جلاتا ہے یاد رکھو اس میں قدم قدم پر زندے آتے ہیں.پھر فرمایا تم فصلتُ.ایک تو وہ تفصیل ہے جو قرآن کریم میں ہے دوسری یہ کہ قرآن کریم کے معارف و حقائق کے اظہار کا سلسلہ قیامت تک دراز کیا گیا ہے.ہر زمانے میں نئے معارف اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں.فلسفی اپنے رنگ میں ، طبیب اپنے مذاق پر ،صوفی اپنے طرز پر بیان کرتے ہیں اور پھر یہ تفصیل بھی حکیم و خبیر خدا نے رکھی ہے.حکیم اس کو کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا علم مطلوب ہو وہ کامل طور پر ہو اور پھر عمل بھی کامل ہوا ایسا کہ ہر ایک چیز کو اپنے اپنے محل و موقع پر رکھ سکے.حکمت کے معنے وضْعُ الشَّيْء في محلّہ اور خبیر مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی ایسا وسیع علم کہ کوئی چیز اس کی خبر سے باہر نہیں چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مجید کو خاتم الکتب ٹھہرایا تھا اور اس کا زمانہ قیامت تک دراز تھا وہ خوب جانتا تھا کہ کس طرح پر تعلیمیں ذہن نشین کرنی چاہئیں.چنانچہ اسی کے مطابق تفاصیل کی ہیں.پھر اس کا سلسلہ جاری رکھا کہ جو مجد دو مصلح احیاء دین کے لئے آتے ہیں وہ خود مفصل آتے ہیں.احکم جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۷ تا ۹ ) اس کتاب میں دو خو بیاں ہیں ایک تو یہ کہ حکیم مطلق نے محکم اور مدلل طور پر یعنی علوم حکمیہ کی طرح اس کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة هود بیان کیا ہے بطور کتھا یا قصہ نہیں.دوسری یہ خوبی کہ اس میں تمام ضروریات علم معاد کی تفصیل کی گئی ہے.برائن احمد یه چهار حص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۳، ۲۲۴ حاشیہ نمبر ۱۱) احمدیہ اَلا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرُ ایک عجیب بات سوال مقدر کے جواب کے طور پر بیان کی گئی ہے.یعنی اس قدر تفاصیل جو بیان کی جاتی ہیں ان کا خلاصہ اور مغز کیا ہے؟ اَلا تَعْبُدُوا إِلَّا الله خدا تعالیٰ کے سوا ہرگز ہرگز کسی کی پرستش نہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات : ۵۷).عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت بچی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی بھی اور نا ہمواری کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہو کر نشو و نما پائیں گے اور وہ اثمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو اُحلها داپھ (الرعد : ۳۲) کے مصداق ہوں گے.یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو جس میں روحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِها ( البقرة : ٢٢) کہنے کا حظ اور لطف اُٹھاتا ہے.غرض حالت تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے.پھر فرمایا : انَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ و بشیر.چونکہ یہ تعد تام کا عظیم الشان کام انسان بدوں کسی اسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ کے اور کسی قوت قدسی کے کامل اثر کے بغیر نہیں کر سکتا تھا اس لئے رسول اللہ صلعم فرماتے ہیں کہ میں اسی خدا کی طرف سے نذیر اور بشیر
۳۶۹ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو کر آیا ہوں اور اگر میری اطاعت کرو گے اور مجھے قبول کرو گے تو تمہارے لئے بڑی بڑی بشارتیں ہیں کیونکہ میں بشیر ہوں اور اگر رو کرتے ہو تو یا درکھو کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں.پھر تم کو بڑی بڑی عقوبتوں اور دکھوں کا سامنا ہوگا.اصل بات یہ ہے کہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر کورانہ زیست جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے بالکل الگ ہو کر بسر کی جاوے جہنمی زندگی کا نمونہ ہے اور وہ بہشت جو مرنے کے بعد ملے گا اسی بہشت کا اصل ہے اور اسی لئے تو بہشتی لوگ نعماء جنت کے حظ اٹھاتے وقت کہیں گے: ھذا الَّذِى رُزِقْنَا مِنْ قَبْل دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے وہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا الشَّمس : ١٠) پر عمل کرنے سے ملتا ہے جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام کا پاک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مردن ظاہری مرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وہ اب روحانی طور پر پاتا ہے.پس یا درکھو کہ جب تک بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع نہ ہو اور اس عالم میں اس کا حظ نہ اٹھاؤ اس وقت تک سیر نہ ہو اور تسلی نہ پکڑو کیونکہ وہ جو اس دنیا میں کچھ نہیں پاتا اور آئندہ جنت کی امید کرتا ہے وہ طمع خام کرتا ہے اصل میں وہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنى (بنی اسرائیل : ۷۳) کا مصداق ہے اس لئے جب تک ماسوائے اللہ کے کنکر اور سنگریزے زمین دل سے دور نہ کر لو اور ا سے آئینہ کی طرح مصفا اور سرمہ کی طرح باریک نہ بنا لو صبر نہ کرو.ہاں یہ بیچ ہے کہ انسان کسی مزکی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طے نہیں کر سکتا اسی لئے اس کے انتظام و انصرام کے لئے اللہ تعالی نے کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لئے آپ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا تا کہ ناعاقبت اندیش برہموؤں کا رد ہو جیسے یہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ جو کسان کا بچہ نہیں ہے ملائی ( گوڈی دینے ) کے وقت اصل درخت کو کاٹ دے گا اسی طرح پر یہ زمینداری جو روحانی زمینداری ہے کامل طور پر کوئی نہیں کر سکتا جب تک کسی کامل انسان کے ماتحت نہ ہو جو تخم ریزی ، آبپاشی ، ملائی کے تمام مرحلے طے کر چکا ہو.اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کامل کی ضرورت انسان کو ہے.مرشد کامل کے بغیر انسان کا عبادت کرنا اسی رنگ کا ہے جیسے ایک نادان و نا واقف بچہ ایک کھیت میں بیٹھا ہوا اصل پودوں کو کاٹ رہا ہے اور اپنے خیال میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ گوڈی کر رہا ہے.یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجاوے گی نہیں.جب تک رسول نہ سکھلائے.انقطاع الی اللہ اور تقتل نام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں.الحکم جلد ۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۱۰،۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٧٠ سورة هود وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعَكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍ فَضْلَهُ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ یو طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشکل کام کیوں کر حل ہو.اس کا علاج خود ہی بتلایا وَ آنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ یا د رکھو کہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.استغفار سے انسان ان جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ سے روکتے ہیں.پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کر کے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ان پر غالب آوے اور خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے.یہ بات بھی یا درکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں ایک سمی مادہ ہے جس کا موکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے.جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالی کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہو کر بہہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنے ہیں یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آجاوے.غرض اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت پر یوں قائم رہو.اول رسول کی اطاعت کرو.دوسرے ہر وقت خدا سے مدد چاہو.ہاں پہلے اپنے رب سے مدد چاہو.جب قوت مل گئی تو تُوبُوا الیه یعنی خدا کی طرف رجوع کرو.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۱ سورة هود استغفارا اور تو بہ دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر تقدم ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوبُوا الیہ ہے اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں خدا سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا يُمَتِّعَكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور تو بہ کرو گے تو اپنے مراتب پالو گے.ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.ہر ایک آدمی نبی ، رسول ، صدیق ، شہید نہیں ہوسکتا.غرض اس میں شک نہیں کہ تفاضل درجات امرحق ہے.اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان امور پر مواطنت کرنے سے ہر ایک سالک اپنی اپنی استعداد کے موافق درجات اور مراتب کو پالے گا.یہی مطلب ہے اس آیت کا وَيُؤْتِ كُلّ ذِى فَضْلٍ فَضْلَہ.لیکن اگر زیادت لے کر آیا ہے تو خدا تعالیٰ اس مجاہدہ میں اس کو زیادت دے دے گا اور اپنے فضل کو پالے گا جو طبعی طور پر اس کا حق ہے.ذی الفضل کی اضافت ملکی ہے.مطلب یہ ہے کہ خدا محروم نہ رکھے گا.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كل في كتب مُّبِينٍ كُلٌّ زمین پر کوئی بھی ایسا چلنے والا نہیں جس کے رزق کا خدا آپ متکفل نہ ہو.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا.اس کا وعدہ ہے : وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا.کتے بلی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة هود وَهُوَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ كَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُم اَحْسَنُ عَمَلًا وَ لَبِنْ قُلْتَ إِنَّكُمْ مَّبْعُوثُونَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ.كَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَاءِ یہ بھی ایک تجلی تھی اور ماء کے معنے یہاں پانی بھی نہیں کر سکتے.خدا معلوم کہ اس کے نزدیک ماء کے کیا معنے ہیں.اس کی کنہ خدا کو معلوم ہے.جنت کے نعماء پر بھی ایسا ہی ایمان ہے.وہاں یہ تو نہ ہو گا کہ....بہت سی گائے بھینسیں ہوں گی اور دُودھ دوھ کر حوض میں ڈالا جاوے گا خدا فرماتا ہے کہ وہ اشیاء ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنی اور نہ زبان نے چکھیں.نہ دل میں ان کے فہم کا مادہ ہے حالانکہ ان کو دودھ اور شہد وغیرہ ہی لکھا ہے جو کہ آنکھوں سے نظر آتا ہے اور ہم اسے پیتے ہیں.اسی طرح کئی باتیں جو کہ ہم خود دیکھتے ہیں مگر نہ تو الفاظ ملتے ہیں کہ ان کو بیان کر سکیں نہ اس کے بیان کرنے پر قادر ہیں.یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر ان کو مادی دنیا پر قیاس کریں تو صد با اعتراضات پیدا ہوتے ہیں.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ ا أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى (بنی اسرائیل: ۷۳) سے ظاہر ہے کہ دیدار کا وعدہ یہاں بھی ہے مگر ہم اسے جسمانیات پر نہیں حمل کر سکتے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۸) فَالَّم يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ) ) منجملہ ان کے ایک وہ وجہ ہے جو ان نتائج متفاوتہ سے ماخوذ ہوتی ہے.جن کا مختلف طور پر بحالت عمل صادر ہونا ضروری ہے.تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر ایک عاقل کی نظر میں یہ بات نہایت بد یہی ہے کہ جب چند متکلمین انشا پرداز اپنی اپنی علمی طاقت کے زور سے ایک ایسا مضمون لکھنا چاہیں کہ جو فضول اور کذب اور حشو اور لغو اور ہنرل اور ہر ایک مہمل بیانی اور ژولیدہ زبانی اور دوسرے تمام امور شل حکمت و بلاغت اور آفات منافی کمالیت و جامعیت سے بکی منزہ اور پاک ہو.اور سراسر حق اور حکمت اور فصاحت اور بلاغت اور حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہو تو ایسے مضمون کے لکھنے میں وہی شخص سب سے اول درجہ پر رہے گا کہ جو علمی طاقتوں ے عرش کے متعلق مفصل بحث تفسیر سورۃ اعراف میں گزر چکی ہے ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ اعراف آیت نمبر ۵۵
۳۷۳ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وسعت معلومات اور عام واقفیت اور ملکہ علوم دقیقہ میں سب سے اعلیٰ اور مشق اور ورزش املاء وانشاء میں سب سے زیادہ تر فرسودہ روزگار ہو اور ہر گز ممکن نہ ہو گا کہ جو شخص اس سے استعداد میں علم میں ، لیاقت میں، ملکہ میں ، ذہن میں عقل میں کہیں فروتر اور متنزل ہے وہ اپنی تحریر میں من حیث الکمالات اُس سے برابر ہو جائے.مثلاً ایک طبیب حاذق جو علم ابدان میں مہارت تامہ رکھتا ہے جس کو زمانہ دراز کی مشق کے باعث سے تشخیص امراض اور تحقیق عوارض کی پوری پوری واقفیت حاصل ہے اور علاوہ اس کے فن سخن میں بھی یکتا ہے اور نظم اور نثر میں سر آمد روزگار ہے.جیسے وہ ایک مرض کے حدوث کی کیفیت اور اُس کی علامات اور اسباب فصیح اور وسیع تقریر میں بکمال صحت و حقانیت اور بہ نہایت متانت و بلاغت بیان کر سکتا ہے.اس کے مقابلے پر کوئی دوسرا شخص جس کو فن طبابت سے ایک ذرہ میں نہیں اور فن سخن کی نزاکتوں سے بھی نا آشنا محض ہے ممکن نہیں کہ مثل اس کے بیان کر سکے.یہ بات بہت ہی ظاہر اور عام فہم ہے کہ جاہل اور عاقل کی تقریر میں ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے اور جس قدر انسان کمالات علمیہ رکھتا ہے.وہ کمالات ضرور اس کی علمی تقریر میں اس طرح پر نظر آتے ہیں.جیسے ایک آئینہ صاف میں چہرہ نظر آتا ہے.اور حق اور حکمت کے بیان کرنے کے وقت وہ الفاظ کہ جو اس کے مونہہ سے نکلتے ہیں.اس کی لیاقت علمی کا اندازہ معلوم کرنے کے لئے ایک پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں اور جو بات وسعت علم اور کمال عقل کے چشمہ سے نکلتی ہے اور جو بات ننگ اور منقبض اور تاریک اور محدود خیال سے پیدا ہوتی ہے.ان دونوں طور کی باتوں میں اس قدر فرق واضح ہوتا ہے کہ جیسے قوت شامہ کے آگے بشرطیکہ کسی فطرتی یا عارضی آفت سے ماؤف نہ ہو خوشبو اور بد بو میں فرق واضح ہے.جہاں تک تم چاہو فکر کر لو اور جس حد تک چاہو سوچ لو کوئی خامی اس صداقت میں نہیں پاؤ گے.اور کسی طرف سے کوئی رخنہ نہیں دیکھو گے.پس جبکہ من کل الوجوہ ثابت ہے کہ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے.وہ ضرور کلام میں ظاہر ہو جاتا ہے اور ہر گز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حیث العقل و العلم افضل اور اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانی میں یکساں ہو جائیں اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے.تو اس صداقت کا ثابت ہونا اس دوسری صداقت کے ثبوت کو مستلزم ہے کہ جو کلام خدا کا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے اپنے ظاہری اور باطنی کمالات میں برتر اور اعلیٰ اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے.کیونکہ خدا کے علم تام سے کسی کا علم برابر نہیں ہو سکتا.اور اسی کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرما کر کہا ہے : فَأَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا انْزِلَ بِعِلْمِ اللهِ الجزو نمبر ۱۲.یعنے اگر کفار اس قرآن کی نظیر پیش نہ کرسکیں اور مقابلہ کرنے سے عاجز رہیں..
۳۷۴ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو تم جان لو کہ یہ کلام علم انسان سے نہیں بلکہ خدا کے علم سے نازل ہوا ہے.جس کے علم وسیع اور تام کے مقابلہ پر علوم انسانیہ بے حقیقت اور پیچ ہیں.اس آیت میں برہانِ انّی کی طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے جس کا دوسرے لفظوں میں خلاصہ مطلب یہ ہے کہ علم الہی بوجہ اپنی کمائیت اور جامعیت کے ہرگز انسان کے ناقص علم سے متشابہ نہیں ہوسکتا.بلکہ ضرور ہے کہ جو کلام اس کامل اور بے مثل علم سے نکلا ہے.وہ بھی کامل اور بے مثل ہی ہو.اور انسانی کلاموں سے بکلی امتیاز رکھتا ہو.سو یہی کمالیت قرآن شریف میں ثابت ہے.غرض خدا کے کلام کا انسان کے کلام سے ایسا فرق بین چاہئے.جیسا خدا اور انسان کے علم اور عقل اور قدرت میں فرق ہے.جس حالت میں افراد انسانی نوع واحد میں داخل ہو کر پھر بھی بوجہ تفاوت علم اور عقل اور تجربہ اور مشق کے متفاوت البیان پائی جاتی ہیں اور وسیع العلیم اور قوی العقل کے فکر رسا تک محدود العلم اور ضعیف اعقل ہر گز نہیں پہنچ سکتا تو پھر خدا جو شرکت نوعی سے بکلی پاک اور بلاشبہ مجمع کمالات تامہ اور اپنی جمیع صفات میں واحد لاشریک ہے اس سے مساوات کسی ذرہ امکان کی کیوں کر جائز ہو اور کیوں کر کوئی مخلوق ہو کر خالق کے علوم غیر متناہیہ سے اپنے بیچ اور ناچیز علم کو برابر کر سکے.کیا اس صداقت کے ثابت ہونے میں ابھی کچھ کسر رہ گئی ہے کہ کلام کی تمام ظاہری باطنی شوکت و عظمت علمی طاقتوں اور عملی قدرتوں کے تابع ہے.کیا کوئی ایسا انسان بھی ہے جس نے اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے کسی جزئی میں اس سچائی کو دیکھ نہیں لیا ؟ پس جبکہ یہ صداقت اس قدر قوی اور مستحکام اور شائع اور متعارف ہے کہ کسی درجہ کی عقل اس کے سمجھنے سے قاصر نہیں تو اس صورت میں نہایت درجہ کا نادان وہ شخص ہے کہ جو افراد نا قصہء انسانی میں تو اس صداقت کو مانتا ہے مگر اس ذات کامل کے کلام مقدس میں جس کا اپنے علوم تامہ میں یکتا اور بے نظیر ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے صداقت مذکورہ کے ماننے سے مونہہ پھیرتا ہے.( براہینِ احمدیہ چہار تخصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۵ تا ۷ ۲۴) وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَبُوا ۚ إِنَّهُمُ مغْرَقُونَ (٣٨) میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کروں گا.خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے.اس حساب سے اب یہ زمانہ اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ وقت پر آپہنچتا ہے جبکہ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی.سورة هود برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۳) اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر وہ غرق کئے جائیں گے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ ٹائٹل پیج ) ایک طرف تو خدا نے کشتی کا حوالہ دیا ہے کہ جو اس میں چڑھے گا وہ نجات پاوے گا اور ایک طرف حکم دیا ہے : وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا یہاں بھی ظلم کی نسبت ہی فرمایا کہ جو لوگ ظالم ہیں تو ان کی نسبت بات ہی نہ کر.خوف الہی اور تقوی بڑی برکت والی شے ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۳) یعنی ہمارے رو برو اور ہمارے حکم سے کشتی تیار کر اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں مجھ سے بات نہ کر کہ میں ان سب کو غرق کروں گا.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۳۹) وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللهِ مَجْرِيهَا وَ مُرْسَهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ.اس کشتی نوح پر سوار ہو جاؤ.خدا کے نام پر ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ٹائٹل پیج ) قَالَ سَاوِى إِلى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللهِ إلا مَنْ رَّحِمَ ، وَ حَالَ بَيْنَهُمَا المَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ.آج خدا کے سوا اس کی تقدیر سے کوئی بچا نہیں سکتا وہی رحم کرے تو کرے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ٹائٹل پیج ) وَقِيلَ يَاَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيُسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءِ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَ اسْتَوَتُ عَلَى الْجُودِي وَقِيلَ بُعدًا لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ.(۴۵) نوح کی کشتی نے طوفان کے بعد ایسی جگہ پر قرار پکڑا جو اس کے مناسب حال تھا یعنی اس جگہ زمین پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٦ سورة هود (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۹) اترنے کے لئے بہت آسانی تھی.بائبل اور سائنس کی آپس میں ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سو کنیں ہوتی ہیں.بائبل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور پچاس ہاتھ چوڑی تھی اور اس میں حضرت نوح نے ہر قسم کے پاک جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کے کشتی میں چڑھائے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اول تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا جب تک پہلے رسول کے ذریعہ سے اس کو تبلیغ نہ کی ہوا اور حضرت نوح کی تبلیغ ساری دنیا کی قوموں پر کہاں پہنچی تھی جو سب غرق ہو جاتے دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف ۳۰۰ ہاتھ لمبی اور ۵۰ ہاتھ چوڑی ہو ساری دنیا کے جانور بہائم چرند پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیوں کر سما سکتے ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہو گئی ہیں.تعجب ہے کہ بعض سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوں سے پاک ہے.اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے.اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی صرف اس کا ذکر ہے.لفظ اراراٹ جس پر نوح کی کشتی ٹھہری اصل آرمی ریت ہے جس کے معنی ہیں میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ جو دی رکھا ہے جس کے معنے ہیں میرا جود و کرم یعنی وہ کشتی میرے جود و کرم پر ٹھہری.الخام جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) قَالَ يَنُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ، إِنَّهُ عَمَلُ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْتَلْنِ مَا b لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ - اِنّى اَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ سید صاحب کا یہ قول ہے کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دُعائیں قبول نہیں ہوتیں بیان کی سخت نماد نہی ہے اور یہ آیت اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :(1) اُن کے مدعا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ یہ دُعا جو آیت اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے.اس سے مراد معمولی دُعائیں نہیں ہیں.بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ گل دُعا ئیں فرض میں داخل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة هود نہیں ہیں بلکہ بعض جگہ اللہ جل شانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو انا اللہ پر ہی کفایت کرتے ہیں.اور اس دُعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اس کو عبادت کے لفظ سے یاد کر کے بحالت نافرمانی عذاب جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میں یہ وعید نہیں بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دُعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ اٹیچ اعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجهلِينَ اس پر شاہد ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دُعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لا تسکین کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا ! اور بعض اوقات اولیا اور انبیا دُعا کرنے کوسوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دُعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی اگر مصیبت کے وقت دل نے دُعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دعا کی طرف متوجہ ہوئے اور اگر صبر کے لئے فتوی دیا تو پھر صبر کیا اور دُعا سے منہ پھیر لیا.ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے دوسری دُعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرما دیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو رڈ کروں.بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲، ۱۳) مِنْ دُونِهِ فَكِيدُ ونِي جَمِيعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُونِ.(۵۶) یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو.سارے فریب مکر استعمال کرو قتل کے منصوبے کرو.اخراج اور قید کی تدبیریں کرو مگر یا درکھو......آخر فتح میری ہے تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جاویں گے.الحاکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) قَالُوا يُشعَيْبُ اَصَلوتُكَ تَأمُرُكَ أَنْ نَتُرُكَ مَا يَعْبُدُ ايَاؤُنَا أَوْ أَنْ تَفْعَلَ فِي اَمْوَالِنَا مَا نَشُوا إِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ حلیم وہ ہے جو يَبْلُغُ الْخُلُم کا مصداق ہو اور جو علم کے زمانہ تک پہنچے.وہ جوان مضبوط ہی ہوتا ہے کیونکہ خورد سال کے کچے اعضا شدت اور صلابت کے ساتھ بدل جاتے ہیں، قاموس بھی ملاحظہ ہو اور کشاف وغیر بھی اور بالغ عاقل کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۹۳) وَيُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلُ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة هود ۲۹۴ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ.اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِلى عَامِل کہ اگر تم لوگوں پر میرا سچا ہونا مشتبہ ہے تو تم بھی اپنی اپنی جگہ عمل کرو میں بھی کرتا ہوں انجام پر دیکھ لینا کہ خدا کی تائید اور نصرت کس کے شامل حال ہے.جو امر خدا کی طرف سے البدر جلد ۴ نمبر ۶ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) ہوگا وہ بہر حال غالب ہوکر رہے گا.تم اپنی جگہ اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سچا کون ہے.(البدر جلد نمبر ۳۶ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۵) : ١٠٦ يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ ایسا شخص جور بانی فیض کے رنگ سے کم حصہ رکھتا ہے اسی کو قرآنی اصطلاح میں شقی کہتے ہیں اور جس نے کافی حصہ لیا اس کا نام سعید ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں مخلوقات کو سعادت اور شقاوت کے دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے مگر ان کو حسن اور فتح کے دو حصوں پر تقسیم نہیں کیا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جو خدا تعالیٰ سے صادر ہوا اس کو برا تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے جو کچھ بنایا وہ سب اچھا ہے.ہاں اچھوں میں مراتب ہیں.پس جو شخص اچھا ہونے کے رنگ میں نہایت ہی کم حصہ رکھتا ہے وہ حکمی طور پر برا ہے اور حقیقی طور پر کوئی بھی برا نہیں.دست بیگن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۳۸ حاشیه ) فَالَّذِي لَمْ يُعْطِهِ الْقَامُ ذَرَّةَ مُنَاسَبَة جس شخص کو قسم ازل نے اولیاء اور اصفیاء کے ساتھ کو بالأَوْلِيَاء وَالْأَصْفِيَاء ، فَهَذَا الْحِرْمَانُ هُوَ تھوڑی سی مناسبت بھی نہ دی ہو تو یہ وہ محرومی ہے جسے الَّذِي يُعْبَرُ بِالشَّقْوَةِ وَالشَّفَاوَةِ عِندَ حَضْرَةِ حضرت کبریا کے نزدیک شقوت اور شقاوت سے تعبیر الْكِبْرِيَاء وَالسَّعِيدُ الْأَتَةُ الأَكْمَلُ هُوَ کیا جاتا ہے اور کامل سعید وہ ہے جس نے محبوب کی - الَّذِي أَحَاطَ عَادَاتِ الْحَبِيبِ حَتَّى ضَاهَاهُ عادات کا احاطہ کر لیا ہو یہاں تک کہ وہ الفاظ، کلمات في الْأَلْقَاءِ وَالْكَلِمَاتِ وَالْأَسَالِيبِ اور اسالیب میں اپنے محبوب کے مشابہ ہو گیا ہو.اور وَالْأَشْقِيَاءُ لَا يَفْهُونَ هَذَا الْكَمَالَ اشقیاء ایسے کمال کو نہیں سمجھ سکتے.جیسے شبکور رنگوں اور كَالأَكْمَهِ الَّذِي لَا يَرَى الْأَلْوَانَ وَالْأَشْعَالَ، شکلوں کو نہیں دیکھ سکتا.اور شقی کو بجز عظمت الہی اور لہ غالباً سہو کتابت سے صحیح لفظ شاید يَفهَمُونَ ہو.واللہ اعلم بالصواب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۹ سورة هود وَلَا حَظّ لِلشَّقِي إِلَّا مِنْ تَجَليَّاتِ العَظمُوتِ ثبت الہی کی تجلیات کے کوئی حصہ نہیں ملتا کیونکہ اس کی وَالْهَيْبَةِ، فَإِنَّ فِطْرَتَهُ لَا ترى آيَاتِ الرَّحْمَةِ.فطرت رحمت کے نشانوں کو نہیں دیکھ سکتی اور جذبات اور وَلَا تَشُمُّ رِيحَ الْجَنَّبَاتِ وَالْمَحَبَّةِ، وَلَا محبت کی خوشبو کو نہیں سونگھ سکتی اور نہیں جانتی کہ صفائی تَدْرِى مَا الْمُصَافَاةُ وَالصَّلاحُ وَالْأُنْسُ قلب، درستی اور صلاحیت اور انس وانشراح کیا ہیں کیونکہ وَالْإِنْشِرَاحُ فَإِنَّهَا مُمْتَلِةٌ بِظُلُمَاتٍ وہ تاریکیوں سے بھر پور ہے.پس اس پر برکات کے فَكَيْفَ تَنَالُ بِهَا أَنْوَارُ بَرَكَاتٍ، بَلْ نَفْسُ انوار کیسے نازل ہو سکتے ہیں بلکہ شقی کے دل میں تند ہوا کی الشَّفِي تَتَمَوجُ تَمَوج الزيج الْعَاصِفَةِ طرح تحریکات پیدا ہوتی ہیں اور اس کے جذبات اسے وَتَشْغَلُه جَلْبَاتُهَا عَن رُؤْيَةِ الْحَق حق اور حقیقت کی رؤیت سے غافل رکھتے ہیں.پس وہ وَالْحَقِيقَةِ، فَلَا يَجِينُ كَأَهْلِ السَّعَادَةِ رَاغِبًا اہلِ سعادت کی طرح مامور کے پاس معرفت کے حصول کی خاطر نہیں آتا.( ترجمہ از مرتب ) فِي الْمَعْرِفَةِ ( سرّ الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۶) ایمان کی حقیقت کچھ نہ کچھ مخفی رہنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے مِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ یہ می دونوں اسی سے بنتے ہیں.سعید جلد بازی نہیں کرتے بلکہ حسن ظن اور صبر سے کام لے کر ایمان لاتے ہیں اور جوشقتی ہوتے ہیں وہ جلد بازی سے کام لے کر اعتراض کرتے ہیں.الحکام جلدے نمبر ا مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ یعنی انسان بلحاظ اپنی استعدادوں کے دو طرح کے ہیں.ایک تو وہ گروہ جس کو ایسے سامانوں کے جمع کرنے میں اور ایسے اعمال بجالانے کی توفیق ہوتی ہے جو فیوض و برکات الہی کے انوار کے جاذب ہوتے ہیں اور وہ سعید کے نام سے پکارے جاتے ہیں.دوسرے وہ جن کے اعمال بد اور خبث باطن ان کی ترقیوں کے آگے روک ہو کر ان کو اعمال صالحات اور خدائی فیوض و برکات سے دور و مہجور کر دیتے ہیں.اب بھی دیکھ لو کہ خوب زور سے تائیدات سماوی اور نشانات کی ایک بارش ہورہی ہے اور ایک سیلاب کی طرح ترقی ہو رہی ہے مگر اس میں بھی وہی داخل ہو سکتے ہیں جن کی روحوں میں سعادت کا حصہ ہے.شقی اور بد بخت لوگ باوجود ہزار ہا نشانات کے دیکھنے کے ان میں بھی وساوس شیطانی کو داخل کر کے سعادت اور قبول حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور خدا کا بھی یہ منشا ہے کہ بعض سعادت کی وجہ سے سعید اور بعض شقاوت کی وجہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۰ سورة هود سے شقی ہو کر یہ اختلاف قیامت تک برابر قائم رہے.(احکام جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱٫۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) خُلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَقَالُ لما يُريده وَإِنْ قُلْتَ: فَمَا بَالُ النَّاقِصِينَ اگر تو یہ کہے کہ ان ناقص انسانوں کا کیا حال ہوگا جو ناقص الَّذِيْنَ مَاتُوا عَلى حَالَةِ النُّقْصَانِ حالت میں مر گئے اور اس دنیا سے گناہوں کے بوجھ لے کر وَانْتَقَلُوا مِنْ هذِهِ الدُّنْيَا مَعَ أَثْقَالِ گزر گئے.کیونکہ وہ اب دوبارہ دنیا میں واپس نہیں بھیجے الْعِصْيَانِ فَإِنَّهُمْ مَا يُرَدُّونَ إِلَى الدُّنْيَا جائیں گے تا تدارک مافات کرسکیں.پس وہ کس طرح کامل لِيَتَدَارَكُوا مَا فَاتَ فَكَيْفَ يُكَتَلُونَ ہو کر نجات پائیں گے.یا انہیں جنت میں غیر مکمل حالت وَيَجِدُونَ النَّجَاةَ، أَوْ يُدْخَلُونَ فِي الْجَنَّةِ میں ہی داخل کیا جائے گا یا انہیں ہمیشہ عذاب میں چھوڑ دیا غَيْرَ مُكَمَّلِيْنَ، أَوْ يُتْرَكُونَ إِلَى الأَبدل جائے گا.اس کے جواب میں سنو! ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں مُعَذِّبِينَ فَاسْمَعْ إِنَّنَا نَعْتَقِدُ بأن کہ جہنم نا قصوں کو کامل کرنے کا ذریعہ ہے اور غافلوں کو جَهَنَّمَ مُكَيْلَةٌ لِلنَّاقِصِينَ وَمُنهَةٌ متنبہ کرتی ہے اور جو سوئے ہوئے ہیں ان کو جگاتی ہے.لِلْعَافِلِينَ، وَمُوْقِظَةٌ لِلنَّائِمِينَ وَسَماها اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کا نام ام الداخلین رکھا ہے الله أُمَّ الدَّاخِلِينَ بما ترسٹھ کیونکہ وہ ان کی اسی طرح تربیت کرے گی جس طرح مائیں كَالأُمَّهَاتِ لِلْبَنِينَ وَنَعْتَقِدُ أَنَّ كُلّ بیٹوں کی کرتی ہیں.اور ہم یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ایک يَكُونُ يَوْمَئِذٍ حَدِيدًا بَعْدَ بُرْهَةٍ عرصہ کے بعد وہ وقت بھی آئے گا جب ہر آنکھ خوب دیکھنے بَصَرٍ مِنَ الزَّمَانِ وَيَكُونُ كُلُّ شَفِي سَعِيدًا والی ہوگی ہر شقی زمانہ کی چند صدیوں کے بعد نیک بخت بَعْدَ حُقُب مِنَ الدَّوَرَانِ، وَلَا يَلْبَعُونَ ہو جائے گا اور وہ لوگ جہنم میں چند صدیاں ہی ٹھہریں گے إلَّا أَحْقابًا في النيران، إلَّا مَا شَاءَ اللہ ہاں جتنا عرصہ خدا چاہے گا.مگر ہمیں اس زمانہ کی حد بندی کی مِنْ طُولِ الزَّمَانِ، فَإِنَّا مَا أُعْطِيْنَا عِلْمَ تصریح کا علم نہیں دیا گیا.پس انسان کی کمزوری کے تَحْدِيدِهِ بِتَصْرِيحِ الْبَيَانِ فَهُوَ زَمَانٌ پیش نظر وہ زمانہ ابدی ہی کہلائے گا اور اگر اللہ تعالی کے أَبَدِي نِسْبَةً إِلى ضُعْفِ الإِنْسَانِ احسانوں پر نظر کی جائے تو وہ زمانہ محدود قرار پائے گا اور وَمَحْدُودُ نَظَرًا عَلَى مِنَنِ الْمَنَانِ وَلَا دوزخیوں کو سچ مچ ہمیشہ کے لئے اندھا نہیں چھوڑا جائے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة هود يُتْرَكُونَ كَالأَعْلَى إِلَى الْأَبَدِ عَلى وَجْه اور ان کے معاملہ کا انجام خدا کے رحم اور ہدایت اور الْحَقِيقَةِ، وَيَكُونُ مَالُ أَمْرِهِمْ رُخم الله خدائے واحد کی معرفت پر ہو گا بعد اس کے کہ وہ اندھے وَالرُّشْدَ وَمَعْرِفَةَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ بَعْدَ لوگ تھے.اور ہم یہ بھی اعتقادر کھتے ہیں کہ عذاب جہنم کا مَا كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ.وَنَعْتَقِدُ أَنَّ خُلُودَ دوام رب الارباب کی ذات کے دوام کی طرح نہیں ہے بلکہ الْعَذَابِ لَيْسَ كَخُلُودِ ذَاتِ الله ربّ ہر عذاب کے لئے ایک حد مقرر ہے اور ہر ایک لعنت کے الْأَرْبَابِ، بَلْ لِكُلّ عَذَابِ انْتِهَا وَبَعْدَ بعد رحمت اور پناہ دینا ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا سب رحم كل لعن رُخم وإيواء ، وَإِنَّ اللهَ أَرحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.بایں ہمہ الرَّاحِمِينَ وَمَعَ ذَالِكَ لَيْسُوا سَوَاءٌ في وہ لوگ نجات کے درجات میں برابر نہیں ہوں گے بلکہ مَدَارِجِ التَّجَاةِ، بَلِ اللهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ خدا تعالیٰ نے (جہنم سے نکلنے والے) بعض لوگوں کو عَلى بَعْضٍ فِي الدَّرَجَاتِ وَالْمَعُوبَاتِ وَمَا بعض پر ثواب اور درجہ میں فضیلت دی ہے.اور اس کے يَرِدُ عَلى فِعْلِهِ شَيْئ مِنَ الْإِيرَادَاتِ إِنَّهُ اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ مالک الملک مَالِكَ الْمُلْكِ فَأَعْلى بَعْضَ عِبَادِهِ أَعْلَى ہے.اس نے اپنے بعض بندوں کو کمالات کے اعلیٰ مراتب الْمَرَاتِبِ فِي الْكَمَالَاتِ، وَبَعْضَهُمْ دُونَ بخشے ہیں اور بعض کو ان سے کم درجہ کے فضل عطا کئے ہیں ذَالِك مِن التَّفَصُّلاتِ، لِيُغبِت أَنَّهُ هُوَ تا وہ ثابت کرے کہ وہ مالک ہے جو چاہے کر سکتا ہے اس الْمَالِكِ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ، لَيْسَ فِيهِ میں مخلوق کے حقوق میں سے کسی قسم کی حق تلفی نہیں جب إتلافُ حَق مِنْ حُقُوقِ الْمَخْلُوقِيْنَ وَلَمَّا که خدا تعالیٰ کا وجود ہر علت کی علت اور ہر حرکت وسکون كَانَ وُجُودُ اللهِ تَعَالَى عِلَّةٌ لِكُنِ عِلَّةٍ کا میدہ ہے اور وہ ہر ایک جان پر قائم اور نگران ہے.تو وَمَبْدَءٌ لِكُلِ سُكُونٍ وَحَرَكَةٍ، وَهُوَ قَائِم یہ بات درست نہ ہوگی کہ اس جناب کی طرف ہمیشہ عَلى كُلِ نَفْسٍ فَلَيْسَ مِنَ الصَّوَابِ أَن عذاب دینا منسوب کیا جائے حالانکہ بندہ ہر ایک لحاظ يُعْزَى إِخْلَادُ الْعَذَابِ إِلى هَذَا الْجَنابِ سے مختار بھی نہیں ہے بلکہ وہ اللہ خالق المخلوقات اور وَمَا كَانَ الْعَبْدُ مُمتَارًا مِنْ جَميعِ الْجِهَاتِ.قیوم الکائنات کی قضا کے نیچے ہے.اور انسان کی ہر ایک بَلْ كَانَ تَحْتَ قَضَاءِ الله خَالِقِ الْمَخْلُوقَاتِ قوت اللہ کے ہاتھ اور اس کے ارادہ سے پیدا ہوتی ہے وَقَيُوْمِ الْكَائِنَاتِ، وَكَانَ كُلُّ قُوتِهِ اور اسے انسان کے شقی اور سعید ہونے میں بڑا دخل ہے.مَفْطَوْرَةٌ من يَدِهِ وَمِنْ إِرَادَتِهِ، فَلَهُ دَخَل پس کس طرح ممکن ہے کہ وہ ضعیف انسان کو دائمی عذاب w
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ سورة هود عَظِيمٌ في شَفَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ فَكَيْفَ میں چھوڑ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ہر شقی وسعید کا پیدا يَتْرُكُ عَبْدًا ضَعِيفًا فِى عَذَابِ الْخُلُودِ مَعَ کرنے والا وہ خود ہے.بے شک انسان بہت کام کرتا ہے فِي أَنَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ خَالِقُ الشَّقِي وَالْمَسْعُودٍ لیکن سب سے پہلا فاعل خود اللہ ہے اور انسان اس کے وَالْعَبْدُ يَفْعَلُ أَفْعَالًا وَلَكِنَّهُ أَوَّلُ ہاتھ کی صنعت ہے وہ سارے جہانوں کا صانع ہے.وہ الْفَاعِلِينَ، وَكُلُّ عَبْدٍ صُنعُ يَدِهِ وَهُوَ رحیم بھی اور کریم ہے.اس کی رحمت اس کے غضب پر صَانِعُ الْعَالَمِينَ وَإِنَّهُ رَحِيْمٌ وَجَوَادُ فائق ہے اور اس کی نرمی اس کی سختی پر سبقت لے گئی ہے و كَرِيمٌ، سَبَقَتْ رَحْمَتُهُ غَضَبَة، وَرِفقة اور کوئی رحم کرنے والا اس کی برابری نہیں کر سکتا.پس وہ شِصْبَهُ، وَلَا يُسَاوِيْهِ أَحَدٌ من الراحمين انسان کو کلی طور پر فنا نہیں کرے گا بلکہ آخر کار اور مصیبت مِّنَ فَلا يُفين كُلَّ الإفتاء ، ويرحم في آخِرِ کے انتہا کو پہنچنے پر وہ ضرور رحم کرے گا.وہ دکھ دے کر وَيَرْحَمُ الْأَمْرِ وَانْعِهَاء البلاء ، وَلَا يَدُوسُ كُلّ متشدد لوگوں کی طرح پورے طور پر پاؤں تلے نہیں روند تا الدوس بالإيذاء كَالْمُتَشَدّدِینَ بَل بلکہ آخری ایام میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ہاتھ کو لمبا يَبْسُطُ في آخِرِ الْأَيَّامِ يَدَهُ رَأْفَةٌ ويَأْخُذُ کرے گا اور جہنمیوں کو مٹھی میں لے گا.پس تم اللہ تعالیٰ حُزْمَةٌ مِنَ النَّارِثِينَ فَانظُرْ إِلى يَدِ اللہ کے ہاتھ اور اس کی مٹھی کا تصور کرو.کیا اس کا ہاتھ عذاب وَحُزْمَتِهِ هَل تُغَادِرُ أَحَدًا مِّن پانے والوں میں سے کسی کو جہنم میں چھوڑے گا.الْمُعَذِّبِينَ؟ ( ترجمه از مرتب) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۷ تا ۱۲۰ حاشیہ) دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نہ وہ ہمیشگی جو خدا کو ہے بلکہ دُور دراز مدت کے لحاظ سے.پھر خدا کی رحمت دستگیر ہوگی کیونکہ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور اس آیت کی تصریح میں ہمارے سید و مولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ہے اور وہ یہ ہے: يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ وَنَسِيمُ الصَّبَا تُحرك ابو اتھا.یعنی جہنم پر ایک وہ زمانہ آئے گا کہ اُس میں کوئی بھی نہ ہوگا.اور نسیم صبا اُس کے کواڑوں کو ہلائے گی.لیکن افسوس کہ یہ قومیں خدا تعالیٰ کو ایک ایسا چڑ چڑا اور کینہ ور قرار دیتی ہیں کہ کبھی بھی اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا اور بیشمار اربوں تک جونوں میں ڈال کر پھر بھی گناہ معاف نہیں کرتا.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۱،۱۷۰) خدا تعالی....ی تعلیم دیتا ہے کہ کفار ایک مدت دراز تک عذاب میں رہ کر آخر وہ خدا تعالیٰ کے رحم سے
۳۸۳ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حصہ لیں گے.جیسا کہ حدیث میں بھی ہے : يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيهَا أَحَدٌ وَنَسِيمُ الصَّبَا تحرك ابوابها یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہیں ہوگا اور نسیم صبا اس کے کواڑ ہلائے گی.اسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے: إِلا مَا شَاءَ رَبِّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَقَالَ لِمَا يُرِيدُ يعنى دوزخی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے لیکن جب خدا چاہے گا تو ان کو دوزخ سے مخلصی دے گا کیونکہ تیرا رب جو چاہتا ہے کر سکتا ہے.یہ تعلیم خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ کے مطابق ہے کیونکہ اس کی صفات جلالی بھی ہیں اور جمالی بھی اور وہی زخمی کرتا ہے اور وہی پھر مرہم لگاتا ہے اور یہ بات نہایت نا معقول اور خدائے عز وجلت کے صفات کا ملہ کے برخلاف ہے کہ دوزخ میں ڈالنے کے بعد ہمیشہ اس کے صفات قہر یہ ہی جلوہ گر ہوتی رہیں اور کبھی صفت رحم اور عفو کی جوش نہ مارے.اور صفات کرم اور رحم کے ہمیشہ کے لئے معطل کی طرح رہیں بلکہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مدت دراز تک جس کو انسانی کمزوری کے مناسب حال استعارہ کے رنگ میں ابد کے نام سے موسوم کیا گیا ہے دوزخی دوزخ میں رہیں گے.اور پھر صفت رقم اور کرم محلی فرمائے گی اور خدا اپنا ہاتھ دوزخ میں ڈالے گا اور جس قدر خدا کی مٹھی میں آجائیں گے سب دوزخ سے نکالے جائیں گے.پس اس حدیث میں بھی آخر کا رسب کی نجات کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا کی مٹھی خدا کی طرح غیر محدود ہے جس سے کوئی بھی باہر نہیں رہ سکتا.یا در ہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں.کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغناء ذاتی کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا پر توہ اس پر پڑتا ہے.اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بحص يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ (الرحمن : ۳۰).پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے پھر صفات کرم اور رحم ہمیشہ کے لئے معطل ہو جا ئیں گی اور کبھی ان کی تحلی نہیں ہوگی.کیونکہ صفات الہیہ کا تعطل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی اُم الصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور غضبیہ کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے تو محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے.خدا ایک چڑ چڑے انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ نخواہ عذاب دینے کا شائق ہو اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں.اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة هود چھوڑنے میں تمام عذاب ہے.چشمه سیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۸ تا ۳۷۰) یہ بات فی نفسہ غیر معقول ہے کہ انسان کو ایسی ابدی سزا دی جائے کہ جیسا خدا ہمیشہ کے لئے ہے ایسا ہی خدا کی ابدیت کے موافق ہمیشہ دوزخی دوزخ میں رہیں.آخر ان کے قصوروں میں خدا کا بھی دخل ہے کیونکہ اسی نے ایسی قو تیں پیدا کیں جو کمزور تھیں.پس دوزخیوں کا حق ہے جو اس کمزوری سے فائدہ اٹھاویں جوان کی فطرت کو خدا کی طرف سے ملی ہے.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۹،۳۶۸ حاشیه ) گناہ کی سزا ہوگی اور عذاب ہوگا مگر یہ ابدیت وہ نہیں جس طرح خدائی ابدیت ہے.ایک خاص وقت تک جہنم میں رکھ کر اصلاح ہو جانے پر رہائی ہو جاوے گی.کوئی مانے یا نہ مانے مگر خدا کے کلام سے یہی ثابت ہوتا ہے.چنانچہ جہاں بہشت کا ذکر ہے وہاں عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ کا لفظ ہے اور جہاں جہنم کا ذکر ہے وہاں یہ فرمایا که إِلا مَا شَاءَ رَبِّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَقَالُ لِمَا يُرِيدُ ان آیات میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بہشتیوں کو خوف نہیں ولا یا گیا مگر دوزخیوں کو مخلصی کی امید ضرور دلائی ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر بہشت کے متعلق عَطاء غَیر مجنون کا لفظ نہ ہوتا تو بہشت والوں کو بھی کھٹکا ہی رہتا مگر خدا نے عطاء غَيْرَ مَجْذُوذ کا لفظ بڑھا کر وہ کھٹکا ہی مٹا دیا کہ یہ خدا کی عطا ہے وہ واپس نہیں لی جاتی اور اس کی نسبت ہم نے ایک اور حدیث بھی دیکھی ہے جس میں لکھا کہ يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيهَا أَحَدٌ وَ نَسِيمُ الصَّبَا تُحَزِكُ أَبْوَابَهَا - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) ہمارا یہ مذہب ہر گز نہیں ہے کہ گند گاروں کو ایسی سزا ابدی ملے گی کہ اس سے پھر کبھی نجات ہی نہ ہوگی بلکہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم گنہ گاروں کو بچالے گا اور اسی لئے قرآن شریف میں جہاں عذاب کا ذکر کیا ہے وہاں فَقَالَ لِما يُرند فرمایا ہے.(الحکم جلد نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲) میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے.اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے.وہ فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ ہے.الحام جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۶ صفحه (۴) کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے.لیکن اگر تیرا رب چاہے کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اس کے کرنے پر وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة هود قادر ہے لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا کیونکہ وہ وعدہ ہے وعید نہیں ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۱۹۶) قرآن شریف میں کفار اور مشرکین کی سزا کے لئے بار بار ابدی جہنم کا ذکر ہے اور بار بار فرمایا ہے: خلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا (النساء : ۵۸) اور پھر باوجود اس کے قرآن شریف میں دوزخیوں کے حق میں : الا ما شَاءَ رَبُّكَ بھی موجود ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ يَأْتِي عَلى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ وَ نَسِيمُ الصَّبَا تُحرك أبوابها یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہوگا ور نسیم صبا اس کے کواڑوں کو ہلائے گی اور بعض کتب میں زبان پاری میں یہ حدیث لکھی ہے: ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چه کنم.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۹۶ حاشیه ) قرآن شریف نے بہشت کے انعامات کا تذکرہ کر کے عطاء غیر مجد وذے کہہ دیا ہے اور ہونا بھی ایسے ہی چاہیے تھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو امید نہ رہتی اور مایوسی پیدا ہوتی.بہشت کے انعامات کی بے انتہا درازی کو دیکھ کر مسرت بڑھتی ہے اور دوزخ کے ایک متعین عرصہ تک ہونے سے خدا تعالیٰ کے فضل پر امید پیدا ہوتی ہے.ایک شاعر نے اس کو یوں بیان کیا ہے.گویند که بحشر جستجو خواهد بود واں یار عزیز تند خو خواهد بود از خیر محض شرے نیاید ہرگز خوش باش که انجام بخیر خواهد بود الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۳) وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاء غَيْرَ مَجْدُودٍ سعید لوگ مرنے کے بعد بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے جب تک کہ آسمان وزمین ہے اور اگر یہ آسمان اور زمین بدلائے بھی جائیں جیسا کہ قیامت کے آنے کے وقت ہو گا تب بھی سعید لوگ بہشت سے باہر نہیں ہو سکتے اور نہ ان چیزوں کے فساد سے بہشت میں کچھ فساد ہوسکتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۶ کیونکہ بہشت ان کے لئے ایک ایسی عطا ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے محروم نہیں رہ سکتے.سورة هود (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱،۲۸۰) عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذ.....بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یہ وہ عطا ہے جو واپس نہیں لی جائے گی.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۸) بہشت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عَطَاء غَيْرَ مَجنون یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا انقطاع نہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو بہشت کے درمیان بھی مومنوں کا کھٹکا رہتا کہ کہیں نکالے نہ جاویں لیکن برخلاف اس کے دوزخ کے متعلق ایسا نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سب دوزخ سے نکل چکے ہوں گے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی یہی ہے.آخر انسان خدا کی مخلوق ہے.خدا تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو دور کر دے گا اور اس کو رفتہ رفتہ دوزخ کے عذاب سے نجات بخشے گا.( بدر جلد نمبر ۱۳ مورخه ۱/۳ پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۴) فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو صرف اس ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساس موت ہے، آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرما یا مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.اللہ تعالیٰ نے فرما یا فاستقم كما أمرت یعنی سیدھا ہو جا.کسی قسم کی بد اعمالی کی کبھی نہ رہے.پھر راضی ہوں گا.آپ بھی سیدھا ہو جا اور دوسروں کو بھی کر.عرب کے لئے سیدھا کرنا کس قدر مشکل تھا.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۱۱) الحکم جلد ۵ مورخه ۳۱ / جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا کیونکہ اس حکم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ سورة هود کے رو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے.اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرماں برداری جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے ممکن ہے کہ وہ اس کو پورا کرے.لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے اس سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندشان اور قوت قدسی کا وووو پتہ لگتا ہے.چنانچہ آپ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ ان کو کنتُم خَیر ااا اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 111 ) کہا گیا اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المائدة :۱۲۰) کی آواز ان کو آگئی.آپ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا.غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات زندگی میں نہیں ملتی.اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل وقال ہی تک بات نہ رکھنی چاہیے کیونکہ اگر نرے قیل وقال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۱) استقامت کے حصول کے لئے اولا ابتدائی مدارج اور مراتب پر کسی قدر تکالیف اور مشکلات بھی پیش آتی ہیں لیکن اس کے حاصل ہو جانے پر ایک دائمی راحت اور خوشی پیدا ہو جاتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ ارشاد ہوا : فاستقم كما أمرت تو لکھا ہے کہ آپ کے کوئی سفید بال نہ تھا پھر سفید بال آنے لگے تو آپ نے فرمایا مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا.غرض یہ ہے کہ جب تک انسان موتِ احساس نہ کرے وہ نیکیوں کی طرف جھک نہیں سکتا.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۱۱،۱۰) وَ أَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ ذلِكَ ذِكْرَى لِله كِرِينَ - نجات کا مفت ملنا اور اعمال کو غیر ضروری ٹھہرانا جو عیسائیوں کا خیال ہے یہ ان کی سراسر غلطی ہے.ان کے فرضی خدا نے بھی چالیس روزے رکھے تھے اور موسیٰ نے کوہ سینا پر روزے رکھے.پس اگر اعمال کچھ چیز نہیں ہیں تو یہ دونوں بزرگ اس بے ہودہ کام میں کیوں پڑے.جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی بدی سے سخت بیزار ہے تو ہمیں اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ نیکی کرنے سے نہایت درجہ خوش ہوتا ہے پس اس صورت میں نیکی بدی کا کفارہ ٹھہرتی ہے.اور جب ایک انسان بدی کرنے کے بعد ایسی نیکی بجالا یا جس سے خدا تعالیٰ خوش ہوا تو ضرور ہے کہ پہلی بات موقوف ہو کر دوسری بات قائم ہو جائے ورنہ خلاف عدل ہو گا.اسی
۳۸۸ سورة هود تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطابق اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے: اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بدی میں ایک زہریلی خاصیت ہے کہ وہ ہلاکت تک پہنچاتی ہے.اسی طرح ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ نیکی میں ایک تریاقی خاصیت ہے کہ وہ موت سے بچاتی ہے.مثلاً گھر کے تمام دروازوں کو بند کر دینا یہ ایک بدی ہے جس کی لازمی تاثیر یہ ہے کہ اندھیرا ہو جائے.پھر اس کے یہ مقابل پر یہ ہے کہ گھر کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھولا جائے اور یہ ایک نیکی ہے جس کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ گھر کے اندر گم شده روشنی واپس آجائے یا ہم بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عذاب ایک سلبی چیز ہے کیونکہ راحت کی نفی کا نام عذاب ہے اور نجات ایک ایجابی چیز ہے یعنی راحت اور خوشحالی کے دوبارہ حاصل ہو جانے کا نام نجات ہے.پس جیسا کہ ظلمت عدم وجود روشنی کا نام ہے ایسا ہی عذاب عدم وجود خوشحالی کا نام ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۱٬۸۰) نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمال باری کی میسر آجائے جو لذات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دنیوی رذایل اور انواع واقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۹) میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سرور نہیں آتا تو وہ پے در پے پیالے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آ جاتا ہے.دانشمند اور بزرگ انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دوام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سرور آجاوے اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اس کا مقصود بالذات ہوتا ہے.اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسے سرور کا حاصل کرنا ہو اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق و کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کہ وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ یقیناً یقنا وہ لذت حاصل ہو جاوے گی.پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اس سے ہوتے ہیں اور احسان پیش نظر رہے.اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ - الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ را پریل ۱۸۹۹ء صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة هود نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے.یہ جو فرمایا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّبَاتِ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ.وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں ان کی روح مردہ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجود یکہ معنی وہی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے.وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کر دیتی ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۵) روحانی نظام میں مرکز اصلی کی طرف بازگشت کرنا ہی راحت کا موجب ہو سکتا ہے اور اس دکھ درد سے بچاتا ہے جو اس مرکز کو چھوڑنے سے پیدا ہوا تھا اسی کا نام تو بہ ہے اور یہی ظلمت جو اس طرح پر پیدا ہوتی ہے ضلالت اور جہنم کہلاتی ہے اور مرکز اصلی کی طرف رجوع کرنا جو راحت پیدا کرتا ہے جنت سے تعبیر ہوتا ہے اور گناہ سے ہٹ کر پھر نیکی کی طرف آنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاوے اس بدی کا کفارہ ہو کر اسے دور کر دیتا ہے اور اس کے نتائج کو بھی سبک کر دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السياتِ یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.چونکہ بدی میں ہلاکت کی زہر ہے اور نیکی میں زندگی کا تریاق.اسی لئے بدی کے زہر کو دور کرنے کا ذریعہ نیکی ہی ہے.نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے حسنات سے مراد نماز ہے.الحکم جلد ۶ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۵،۴) الحکم جلد ۶ نمبر ۸ ۳ مورخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۲) نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹٬۳۸ مورخه ۱۰ تا۱۷ نومبر ۱۹۰۴ صفحه ۶) وَاصْبِرُ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.117 اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳/ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة هود اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۶۱، ۱۶۲) إلا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَامُلَيَّنَ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ١٢٠ یہ تو غیر ممکن ہے کہ تمام لوگ مان لیں کیونکہ بموجب آیت وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ اور بموجب آیت کریمہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ (ال عمران :۵۶ ) سب کا ایمان لانا خلاف نص صریح ہے.پس اس جگہ سعید لوگ مراد ہیں.(تحفہ گولڑ و سیه ، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۷۴ حاشیہ ) وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الأَمْرُ كُلُّه فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ b إلَيْهِ يُرْجَعُ الأَمرُ كُلُّه خدا تعالیٰ کی طرف ہی ہر ایک امر رجوع کرتا ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس سے انسان کی مجبوری لازم آتی ہے نام نہی ہے.یوں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں مینہ برساتا ہوں اور برق و صاعقہ کو پیدا کرتا ہوں اور کھیتیاں اگا تا ہوں مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسباب طبعیہ مینہ برسنے اور رعد و برق کے پیدا ہونے کے جو ہیں اس سے اللہ تعالی انکار کرتا ہے.بالکل فضول ہے.کیونکہ یہ مراتب بجائے خود بیان فرمائے گئے ہیں کہ یہ تمام چیزیں اسباب طبعیہ سے پیدا ہوتے ہیں.پس اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایسے بیانات سے کہ میرے حکم سے بارشیں ہوتی ہیں اور میرے حکم سے کھیتیاں اُگتی ہیں اور برق و صاعقہ پیدا ہوتا ہے اور پھل لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور ہر ایک بات میرے ہی قبضہ اقتدار میں اور میرے ہی امر سے ہوتی ہے.یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ سلسلہ کا ئنات کا مجبور مطلق ہے بلکہ اپنی عظمت اور اپنا علت العلل ہونا اور اپنا مسبب الاسباب ہونا مقصود ہے کیونکہ تعلیم قرآنی کا اصل موضوع توحید خالص کو دُنیا میں پھیلانا اور ہر ایک قسم کے شرک کو جو پھیل رہا تھا مٹانا ہے.اور چونکہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت عرب کے جزیرہ میں ایسے ایسے مشرکانہ عقائد پھیل رہے تھے کہ بعض بارشوں کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے اور بعض دہریوں کی طرح تمام چیزوں کا ہونا اسباب طبعیہ تک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة هود محدود رکھتے تھے.اور بعض دو خدا سمجھ کر اپنے نا ملائم قضا و قدر کو اھرمن کی طرف منسوب کرتے تھے.اس لئے یہ خدا تعالیٰ کی کتاب کا فرض تھا جس کے لئے وہ نازل ہوئی کہ اُن خیالات کو مٹادے اور ظاہر کرے کہ اصل علت العلل اور مسبب الاسباب وہی ہے اور بعض ایسے بھی تھے جو مادہ اور روح کو قدیم سمجھ کر خدا تعالیٰ کاعلت العلل ہونا بطور ضعیف اور ناقص کے خیال کرتے تھے.پس یہ الفاظ قرآن کریم کے کہ میرے ہی امر سے سب کچھ پیدا ہوتا ہے.توحید محض کے قائم کرنے کے لئے تھے.ایسی آیات سے انسان کی مجبوری کا نتیجہ نکالنا تفسیر القول بما لا یرضی به قائلہ ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۴۱٬۲۴۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۹۳ سورة يوسف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ یوسف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَ قَالَ الَّذِى اشْتَريهُ مِنْ مِصْرَ لِاِمَرَاتِه اَكْرِمِي مَثْوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَّا اَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَ كَذلِكَ مَكَنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنْعَلِمَةَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.جانتے.وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۸۴ حاشیه در حاشیه ) خدا اپنے ارادہ پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدا کے قہر اور جبروت سے بے خبر ہیں....زمین پر خدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بریکار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدد دینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸) ہے.خدا تعالیٰ...کسی کے منشا کے ماتحت نہیں ہے بلکہ وہ خدا ہے اور غالِبُ عَلی آمدہ ہے.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۹) ہمارا آخری حصہ عمر کا ہے اور ہمیشہ تجربہ ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ ہی غالب ہوتا ہے.وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۹۳ سورة يوسف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ یوسف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَ قَالَ الَّذِى اشْتَريهُ مِنْ مِصْرَ لِاِمَرَاتِه اَكْرِمِي مَثْوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَّا اَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَ كَذلِكَ مَكَنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنْعَلِمَةَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.جانتے.وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۸۴ حاشیه در حاشیه ) خدا اپنے ارادہ پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدا کے قہر اور جبروت سے بے خبر ہیں....زمین پر خدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بریکار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدد دینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸) ہے.خدا تعالیٰ...کسی کے منشا کے ماتحت نہیں ہے بلکہ وہ خدا ہے اور غالِبُ عَلی آمدہ ہے.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۹) ہمارا آخری حصہ عمر کا ہے اور ہمیشہ تجربہ ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ ہی غالب ہوتا ہے.وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة يوسف لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ - البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ ۱۹ مورخه ۸ تا ۶ ارمئی ۱۹۰۴ء صفحه ۳) وَلمَّا بَلَغَ أَشَدَّةٌ أَتَيْنَهُ حُكْمَا وَ عِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ.اشت سے مراد....نبوت نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ جب ہوش میں آیا.آشا بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وحی کی آشد اور دوسری جسمانی آهی البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۲) وَلَقَد هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن تَابُرُهَانَ رَبِّهِ كَذلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ® (۲۵) فطرة انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جو اس کے نزدیک مدار آسائیش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے: وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْ لَا أَنْ ذَا بُرْهَانَ رَبِّهِ یعنی یہ ایسا منہ زور جوش ہے جو اس کا فرو ہونا کسی بُرہانِ قومی کا محتاج ہے.ج (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۳۷) لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَ الفحشاء........ہم نے یوسف پر احسان کیا تا ہم اس سے بدی اور بخش کو برائن احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۱، ۶۶۲ حاشیه در حاشیه نمبر (۴) روک دیں.قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِى وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَبِيصُهُ قُدَّ مِن قَبْلِ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَذِبِينَ یادر ہے کہ جب یوسف بن یعقوب پر زلیخا نے بے جا الزام لگایا تھا تو اس موقعہ پر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا یعنی زلیخا کے قریبوں میں سے ایک شخص نے یوسف کی بریت کی (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه (۹۸) گواہی دی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة يوسف فَلَمَّا رَا قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَ إِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ.إِنَّ كَيْدَ كُنَّ عَظِيمٌ یعنی اے عورتو! تمہارے قریب بہت بڑے ہیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۹۶) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَكَا وَاتَتْ كُل ج وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِيْنًا وَ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَةَ أَكْبَرْنَهُ وَ قَطَعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هُذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكَ كَرِيمُ محبت اور شہود عظمت تامہ کی کمالیت اسی حالت میں ثابت ہوگی کہ جب عاشق دلدادہ محض استیلا و عشق کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے اپنے معدوم لے کے ماسوا کو معدوم سمجھے اور اپنے معشوق کے غیر کو کالعدم خیال کرے.گو عقل (1) شرع اس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ چیزیں حقیقت میں معدوم نہیں ہیں جیسے ظاہر ہے کہ جب دن چڑھتا ہے اور لوگوں کی آنکھوں پر نور آفتاب کا استیلاء کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ستارے اس وقت معدوم نہیں مگر پھر بھی بوجہ استیلاء اس نور کے کہ ستاروں کو دیکھ نہیں سکتے ایسا ہی استیلاء محبت اور عظمت اللہ کا محب صادق کی نظر میں ایسا ظاہر کرتا ہے کہ گویا تمام عالم بجز اس کے محبوب کے معدوم ہے اور اگر چه عشق حقیقی میں یہ تمام انور کامل اور اتم طور پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی عشق مجازی کا مبتلا بھی اس غایت درجہ عشق پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنے معشوق کے غیر کو یہاں تک کہ خود اپنے نفس کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے چنانچہ منقول ہے کہ مجنوں جس کا نام قیس ہے اپنے عشق کی آخری حالت میں ایسادیوانہ ہو گیا کہ یہ کہنے لگا کہ میں آپ ہی لیلی ہوں.سو یہ بات تو نہیں کہ فی الحقیقت وہ لیلیٰ ہی ہو گیا تھا بلکہ اس کا یہ باعث تھا کہ چونکہ وہ مدت تک تصور لیلی میں غرق رہا اس لئے آہستہ آہستہ اس میں خود فراموشی کا اثر ہونے لگا.ہوتے ہوتے اس کا استغراق بہت ہی کمال کو پہنچ گیا اور محویت کی اس حد تک جا پہنچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنون عشق سے انا الیلی کا دعویٰ کرنے لگا اور یہ خیال دل میں بندھ گیا کہ فی الحقیقت میں ہی لیلی ہوں.غرض غیر کو معدوم سمجھنا لوازم کمال عشق میں سے ہے اور اگر غیر فی الحقیقت معدوم ہی ہے تو پھر وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جس کو استیلاء محبت اور جنون عشق سے کچھ بھی تعلق ہو اور غلبہ عشق کی حالت میں محویت کے آثار پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو انسان مشکل سے سمجھ سکے.شیخ مصلح الدین شیرازی نے خوب کہا ہے: ا نقل بمطابق اصل.اگلی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معدوم کا لفظ ہو کتابت ہے.صحیح لفظ " محبوب" ہے.ناشر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة يوسف و معدوم نه از چینم حکایت کن نه از روم که دارم داستانی اندریس بوم چو روئے خوب او آید بیادم فراموشم شود موجود اور پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں.با تو مشغول و با تو ہم اہم و از از تو بخشایش تو میخواهم تا مرا از تو آگهی دادند بوجودت گر از کود آگاهم اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۹۳، ۵۹۴) قَالَ رَبِّ الرّجنُ اَحَبُّ إِلَى مِمَّا يَدْعُونَنِى إِلَيهِ ۚ وَ إِلَّا تَصْرِفْ عَنِّى كَيْدَهُنَّ اَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَهِلِينَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَى مِمَّا يَدْعُونَنِی إِلَيْهِ یعنی اے میرے رب مجھے تو قید بہتر ہے ان باتوں سے کہ یہ عورتیں مجھ سے خواہش کرتی ہیں.خلاصہ مطلب یہ کہ اگر کوئی عورت ایسی خواہش کرے تو میں اپنے نفس کے لئے اس امر سے قید ہو نا زیادہ پسند کرتا ہوں.یہ یوسف بن یعقوب علیہما السلام کی دعا تھی جس دعا کی وجہ سے وہ قید ہو گئے.برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹۹٬۹۸) نظائر سے مسائل بہت جلد حل ہو جاتے ہیں اگر گذشتہ زمانہ میں اس کی نظیر دیکھی جاوے تو پھر یوسف کا صدق ہے ایسا صدق دکھایا کہ یوسف صدیق کہلایا.ایک خوبصورت معزز اور جوان عورت جو بڑے بڑے دعوے کرتی ہے.عین تنہائی اور تخلیہ میں ارتکاب فعل بد چاہتی ہے لیکن آفرین ہے اس صدیق پر کہ خدا تعالیٰ کے حدود کو توڑنا پسند نہ کیا اور اس کے بالمقابل ہر قسم کی آفت اور دکھ اُٹھانے کو آمادہ ہو گیا یہاں تک کہ قیدی کی زندگی بسر کرنی منظور کر لی.چنانچہ کہا : رَبِّ الجُنُ اَحَبُّ إِلَى مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ يعنى يوسف عليه ) السلام نے دعا کی کہ اے رب مجھ کو قید پسند ہے اس بات سے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہیں.اس سے حضرت یوسف کی پاک فطرت اور غیرت نبوت کا کیسا پتہ لگتا ہے کہ دوسرے امر کا ذکر تک نہیں کیا.کیا مطلب کہ اس کا نام نہیں لیا.یوسف اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے گرویدہ اور عاشق زار تھے.ان کی نظر و میں اپنے محبوب کے سوا دوسری کوئی بات بچ سکتی نہ تھی.وہ ہرگز پسند نہ کرتے تھے کہ حدود اللہ کو توڑیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ سورة يوسف کہتے ہیں کہ ایک لمبا زمانہ جو بارہ برس کے قریب بتایا جاتا ہے وہ جیل میں رہے لیکن اس عرصہ میں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آیا.اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر پر پورے راضی رہے.اس عرصہ میں بادشاہ کو کوئی عرضی بھی نہیں دی کہ ان کے معاملہ کو سوچا جاوے یا انہیں رہائی دی جاوے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس اہل غرض عورت نے تکالیف کا سلسلہ بڑھا دیا کہ کسی طرح پر وہ پھسل جاویں مگر اس صدیق نے اپنا صدق نہ چھوڑا.خدا نے ان کو صدیق ٹھہرایا یہ بھی صدیق کا ایک مقام ہے کہ دنیا کی کوئی آفت کوئی تکلیف اور ذلت اسے حدود اللہ کے توڑنے پر آمادہ نہیں کر سکتی جس قدر اذیتیں اور بلا ئیں بڑھتی جاویں وہ اس کے مقام صدق کو زیادہ مضبوط اور لذیذ بناتی جاتی ہیں.الحکم جلد 9 نمبر ۷ امورخه ۱۷ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) يُوسُفُ اَيُّهَا الصِّدِيقُ افْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَ سبع سنبلت خُضْرٍ وَ أَخَرَ يَبِستِ لَعَلَى اَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ مصر کے بادشاہ فرعون نے حضرت یوسف علیہ السلام کو صدیق کا خطاب دیا کیونکہ بادشاہ نے جب دیکھا کہ اس شخص نے صدق اور پاک باطنی اور پرہیز گاری کے محفوظ رکھنے کے لئے ہاراں برس کا جیل خانہ اپنے لئے منظور کیا مگر بدکاری کی درخواست کو نہ مانا بلکہ ایک لحظہ کے لئے بھی دل پلید نہ ہوا تب بادشاہ نے اس راست باز کو صدیق کا خطاب دیا جیسا کہ قرآن شریف سورۃ یوسف میں ہے يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيق معلوم ہوتا ہے کہ انسانی خطابوں میں سے پہلا خطاب وہی تھا جو حضرت یوسف کو ملا.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۰۳ حاشیه ) وَمَا أبَرِّئُ نَفْسِى : إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي عفور رحيم ۵۴ نفس امارہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جو اس کے کمال کے مخالف اور اس کی اخلاقی حالتوں کے برعکس ہے جھکاتا ہے اور نا پسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے.غرض بے اعتدالیوں اور بدیوں کی طرف جانا انسان کی ایک حالت ہے جو اخلاقی حالت سے پہلے اس پر طبعاً غالب ہوتی ہے اور یہ حالت اس وقت تک طبعی حالت کہلاتی ہے جب تک کہ انسان عقل اور معرفت کے زیر سایہ نہیں چلتا بلکہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة يوسف چار پایوں کی طرح کھانے پینے سونے جاگنے یا غصہ اور جوش دکھلانے وغیرہ امور میں طبعی جذبات کا پیرور بتا ہے.( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۱۷،۳۱۶) فَإِنَّ النَّفْسَ الْأَمَّارَةَ نُعْبَانُ تَبْسُطُ نفس امارہ ایسا اثر دھا ہے جو خواہشات نفسانیہ کے شُرُكَ الْهَوَى، وَيَهْلِكُ النَّاسَ كُلُّهُمْ إِلَّا جال بچھاتا ہے اور تمام کے تمام لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں مَنْ رَّحِمَ رَبُّهُ وَبَسَطَ عَلَيْهِ جَنَاحَةَ سوائے ان کے کہ جن پر ان کا رب رحم کرے اور ان پر بِاللَّطْفِ وَالْهُدَى اپنے باز واطف اور ہدایت کے ساتھ پھیلا لے.(ترجمه از مرتب) (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۸۴) یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے بڑی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے.اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کر کے پامال کر سکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے.کیونکہ شہوات نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پر آشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہو سکتا.اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا: وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رتی یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا.نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرما دے.اس آیت میں جیسا کہ فقره الا مَا رَحِمَ رَبِّی ہے طوفانِ نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللهِ إِلا مَنْ رَّحِمَ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہوات نفسانیہا اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰۶) نفس کی تین قسمیں ہیں امارہ ، لوامہ، مطمئنہ.مطمعنہ کی ایک حالت نفس زکیہ کہلاتی ہے.نفس زکیہ بچوں کا نفس ہوتا ہے جس کو کوئی ہوا نہیں لگی ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کے نشیب و فراز سے ناواقف ایک ہموار سطح پر چلتے ہیں.نفس امارہ وہ ہے جب کہ دنیا کی ہوا لگتی ہے.نفس لوامہ وہ نفس ہے جبکہ ہوش آتی ہے اور لغزشوں کو سوچتا ہے اور کوشش کرتا ہے اور بدیوں سے بچنے کے لئے دعا کرتا ہے.اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتا ہے اور نفس مطمئنہ وہ ہوتا ہے جبکہ ہر قسم کی بدیوں سے بچنے کی بفضل الہی قوت اور طاقت پاتا ہے اور ہر قسم کی آفتوں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۹۹ سورة يوسف مصیبتوں سے اپنے آپ کو امن میں پاتا ہے اور اس طرح پر ایک برودت اور اطمینان قلب کو حاصل ہوتا ہے کسی قسم کی گھبراہٹ اور اضطراب باقی نہ رہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۱ ء صفحه ۳) انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں امارہ ، لوامہ مطمئنہ.امارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوشوں کو سنبھال نہیں سکتا اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے مگر حالت لوامہ میں سنبھال لیتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۹) قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس انسانی کی تین حالتیں ہیں ایک امارہ ، دوسری لوامہ، تیسری مطمئنہ نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کے پنجہ میں گویا گرفتار ہوتا ہے اور اس کی طرف بہت جھکتا ہے لیکن نفس لوامہ کی حالت میں وہ اپنی خطا کاریوں پر نادم ہوتا اور شرمسار ہوکر خدا کی طرف جھکتا ہے مگر اس حالت میں بھی ایک جنگ رہتی ہے.کبھی شیطان کی طرف جھکتا ہے اور کبھی رحمان کی طرف مگر نفس مطمئنہ کی حالت میں وہ عباد الرحمان کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ گویا ارتفاعی نقطہ ہے جس کے بالمقابل نیچے کی طرف اتارہ ہے.اس میزان کے بیچ میں لوامہ ہے جو ترازو کی زبان کی طرح ہے.انخفضاضی نقطہ کی طرف اگر زیادہ جھکتا ہے تو حیوانات سے بھی بدتر اور ارذل ہو جاتا ہے اور ارتفاعی نقطہ کی طرف جس قدر رجوع کرتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کی طرف قریب ہوتا جاتا ہے اور سفلی اور ارضی حالتوں سے نکل کر علوی اور سماوی فیضان سے حصہ لیتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۳۳) نفس تین قسم کے ہوتے ہیں ایک نفس امارہ، ایک لوامہ اور تیسرا مطمئنہ.پہلی حالت میں تو صح بکھ ہوتا ہے کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہوتا کہ کدھر جا رہا ہے.امارہ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے.اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تو معرفت کے ابتدائی حالت میں لوامہ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور نیکی میں فرق کرنے لگتا ہے گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر پوری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا.نیکی اور شیطان سے ایک قسم کا جنگ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی یہ غالب ہوتا ہے اور کبھی مغلوب ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ حالت آجاتی ہے کہ یہ مطمئنہ کے رنگ میں آجاتا ہے اور پھر گناہوں سے نری نفرت ہی نہیں ہوتی بلکہ گناہ کی لڑائی میں یہ فتح پالیتا ہے اور ان سے بچتا ہے اور نیکیاں اس سے بلا تکلف صادر ہونے لگتی ہیں.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۵) جب انسان شرعی امور کو ادا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے اور بری اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکروہ باتوں سے اس کو بچا لیتا ہے الا مَا رَحِم ربي کے ہی معنے ہیں.سورة يوسف الحکم جلد نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) نفس کو تین قسم پر تقسیم کیا ہے.نفس امارہ ، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ ، ایک نفس زکیہ بھی ہوتا ہے مگر وہ بچپن کی حالت ہے جب گناہ ہوتا ہی نہیں.اس لئے اس نفس کو چھوڑ کر بلوغ کے بعد تین نفسوں ہی کی بحث کی ہے.نفس امارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہوتا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیر ہو جاتا ہے.جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح طیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لئے مستعد ہوتا ہے.اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جو وہ کہے یہ کرتا ہے.وہ کہے خون کر تو یہ کرتا ہے.زنا کہے، چوری کہے ، غرض جو کچھ بھی کہے سب کے لئے طیار ہوتا ہے.کوئی بدی کوئی برا کام ہو جو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے.یہ نفس امارہ کی حالت ہے.اور یہ وہ شخص ہے جو نفس امارہ کا تابع ہے.اس کے بعد نفس لوامہ ہے.یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں مگر وہ نفس کو علامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اور کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے گناہ سے نجات مل جائے.جو لوگ نفس لوامہ کے ماتحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آکر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آجاتے اور اس کو دبا لیتے ہیں یہ لوگ نفس امارہ والوں سے ترقی کر جاتے ہیں.نفس امارہ والے انسان اور دوسرے بہائم میں کوئی فرق نہیں ہوتا جیسے کتا یا بلی جب کوئی برتن ننگا دیکھتے ہیں تو فوراً جا پڑتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ وہ چیز ان کا حق ہے یا نہیں.اسی طرح پر نفس امارہ کے غلام انسان کو جب کسی بدی کا موقع ملتا ہے تو فوراً اسے کر بیٹھتا ہے اور طیار رہتا ہے اگر راستہ میں دو چار روپے پڑے ہوں تو فی الفوران کے اٹھانے کو طیار ہو جاوے گا اور نہیں سوچے گا کہ اس کو ان کے لینے کا حق ہے یا نہیں مگر لوامہ والے کی یہ حالت نہیں وہ حالت جنگ میں ہے جس میں کبھی نفس غالب کبھی وہ ، ابھی کامل فتح نہیں ہوئی مگر تیسری حالت جو نفس مطمئنہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لئے اس کا نام نفس مطمئنہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ ، اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے.نفس مطمئنہ کی انتہائی حد خدا پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة يوسف ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو.یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا پر ایمان لانا ہے.جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمال صالحہ میں کمزوری اور سنتی پائی جاتی ہے لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے.خدا پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضا کو کاٹ دیتا ہے.دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ آنکھوں سے بدنظری کیوں کر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیئے جاویں یا شہوانی قومی کاٹ دیئے جاویں.پھر وہ گناہ جو ان اعضا سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفس مطمعنہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفس مطمئنہ اسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی.وہ دیکھتا ہے پھر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا.اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضا کاٹ دیئے جاتے ہیں اس کی ان ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میت کی طرح ہوتا ہے.اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے.وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اٹھا سکتا.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے اور ہماری جماعت کو اسی کی ضرورت ہے اور اطمینان کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمان کامل کی ضرورت ہے پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں.الحاکم جلد ۸ نمبر امورخه ۱۰ر جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۳) اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارہ نے اس کو ردی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے: وَمَا أُبَرِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہر اسکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے.اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعاؤں کی بہت بڑی ضرورت ہے.نراز ہد ظاہری ہی ( جو انسان اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۰۲ سورة يوسف سعی اور کوشش سے کرتا ہے ) کارآمد نہیں ہوتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقوی اسی طرح ملتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک لوامہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پالیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا اور یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل لعنت نفس امارہ لوامہ ہو جاتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے.یہ کوئی چھوٹا شرف نہیں ہے.پس حقیقی تقوی اور طہارت کے حاصل کرنے کے واسطے اول یہ ضروری شرط ہے کہ جہاں تک بس چلے اور ممکن ہوتد بیر کرو اور بدی سے بچنے کی کوشش کرو.بد عادتوں اور بدصحبتوں کو ترک کر دو.ان مقامات کو چھور دو جو اس قسم کی تحریکوں کا موجب ہو سکیں جس قدر دنیا میں تدبیر کی راہ کھلی ہے اس قدر کوشش کرو اور اس سے نہ تھکو نہ ہو.الحکم جلد ۹ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) نفس کے تین درجہ ہیں نفس امارہ ، لوامہ مطمئنہ.نفس امارہ وہ ہے جو فسق و فجور میں مبتلا ہے اور نا فرمانی کا غلام ہے.ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور لکھتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفس لوامہ کہلاتی ہے.اس لئے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا بلکہ اس کے اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجا تا ہے اور کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے.سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پالیتا ہے پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفس مطمئنہ ہے.اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے فسادمٹ جاتے ہیں.نفس مطمئنہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کر کے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے.....جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے.شیطان کے غلاموں کو قابو کیا جاتا ہے.وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۰۳ سورة يوسف روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں ان کو کچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اور روحانی طور پر ایک نیا سکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہو جاتی ہے یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتا ہے اس لئے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہیں جاتا بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا بلکہ دل پر خدا کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرشِ دل پر نزول فرماتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۴) نفس امارہ اس کو کہتے ہیں کہ سوائے بدی کے اور کچھ چاہتا ہی نہیں جیسے فرمایا اللہ تعالی نے : إِنَّ النَّفْسَ لاَمَارَةٌ بالسُّوء یعنی نفس امارہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جھکاتا ہے اور نا پسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے.جتنے بدکار چور ڈاکو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب اسی نفس کے ماتحت کام کرتے ہیں.ایسا شخص جو نفس امارہ کے ماتحت ہو ہر ایک طرح کے بد کام کر لیتا ہے.....فرض جو انسان نفس امارہ کے تابع ہوتا ہے وہ ہر ایک بدی کو شیر مادر کی طرح سمجھتا ہے اور جب تک کہ وہ اسی حالت میں رہتا ہے بدیاں اس سے دور نہیں ہوسکتیں.انتقام جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) انسان نفس امارہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جب تک اللہ کا فضل اور توفیق اس کے شامل حال نہ ہو کچھ بھی نہیں کر سکتا.لہذا انسان کو چاہیے کہ دعائیں کرتا رہے تا کہ خدا کی طرف اسے نیکی پر قدرت دی جاوے اور نفس امارہ کی قیدوں سے رہائی عطا کی جاوے.یہ انسان کا سخت دشمن ہے.اگر نفس امارہ نہ ہوتا تو شیطان بھی نہ ہوتا.یہ انسان کا اندرونی دشمن اور مار آستین ہے اور شیطان بیرونی دشمن ہے.قاعدہ کی بات ہے کہ جب چور کسی کے مکان میں نقب زنی کرتا ہے تو کسی گھر کے بھیدی اور واقف کا رسے پہلے سازش کرنی ضروری ہوتی ہے بیرونی چور بجز اندرونی بھیدی کی سازش کے کچھ کر ہی نہیں سکتا اور کامیاب ہو ہی نہیں سکتا.پس یہی وجہ ہے کہ شیطان بیرونی دشمن نفس امارہ اندرونی ، اور گھر کے بھیدی سے سازش کر کے ہی انسان کے متاع ایمان میں نقب زنی کرتا ہے اور نور ایمان کو غارت کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَا ابَزِى نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَارَةٌ بِالسُّوءِ یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں گھیرا تا اور اس کی طرف سے مطمئن نہیں کہ نفس پاک ہو گیا ہے بلکہ یہ تو شریر الحکومت ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴،۳)
۴۰۴ سورة يوسف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں نفس انسان کے تین مرتبے بیان فرمائے ہیں امارہ ، لوامہ ، مطمئنہ.نفس امارہ تو ہر وقت انسان کو گناہ اور نافرمانی کی طرف کھینچتا رہتا ہے اور بہت خطرناک ہے.لوامہ وہ ہے کہ کبھی کوئی بدی ہو جاوے تو ملامت کرتا ہے مگر یہ بھی قابل اطمینان نہیں ہے قابل اطمینان صرف نفس کی وہ حالت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نفس مطمئنہ کے نام سے پکارا ہے اور وہی اچھا ہے.وہ اس حالت کا نام ہے کہ جب انسان خدا کے ساتھ ٹھیر جاتا ہے.اسی حالت میں آکر انسان گناہ کی آلائیش سے پاک کیا جاتا ہے.یہی ایک گناہ سوز حالت ہے اور اسی درجہ کے انسانوں کے ساتھ برکات کے وعدے ہوئے ہیں.ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا ہے اور حقیقی نیکی اور پاکی صرف انہیں کا حصہ ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۵) امارہ مبالغہ کا صیغہ ہے.امارہ کہتے ہیں بدی کی طرف لے جانے والا ، بہت بدی کا حکم کرنے والا....نفس امارہ انسان کا دشمن ہے اور وہ گھر کا پوشیدہ دشمن ہے.(احکم جلد ۱۲ نمبر ۱ ۴ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۵) امارہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ بدی کی طرف بار بار جانے والا.( بدر جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخه ۲۵/جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵) ج وَ قَالَ الْمَلِكُ اثْتُونِى بِهِ اسْتَخْلِصُهُ لِنَفْسِى فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِين آمين.اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِين آمين....تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار....ہے.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) آج تو میرے نزدیک با مرتبہ اور امین ہے.برا این احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۲۰۰ حاشیه در حاشیه نمبر (۳) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُوا يَا بَانَا مُنِعَ مِنَّا الكَيْلُ فَارْسِلُ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلُ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ إنا له لحفظون...ہم ہی محافظ ہیں.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة يوسف يبنى اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَايْسُوا مِنْ رَّوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايَسُ مِن روح اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے بغیر ایک انگلی کا ہلا نا بھی مشکل ہے ہاں یہ انسان کا فرض ہے کہ سعی اور مجاہدہ کرے جہاں تک اس سے ممکن ہے اور اس کی توفیق بھی خدا تعالیٰ سے ہی چاہے.کبھی اس سے مایوس نہ ہو کیونکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود بھی فرمایا: لا يَا نفس مِن روح الله إلا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کا فرنا امید ہوتے ہیں نا امیدی بہت ہی بری چیز ہے اصل میں نا امید وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) قَالُوا وَ اِنَّكَ لَاَنْتَ يُوسُفُ - قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهذَا أَخِي قَد مَنَ اللهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرُ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.إنه مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرُ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ یعنی جو شخص صبر کرے گا اور ڈرے گا خدا اس کا اجر ضائع نہیں کرے گا.یہ عام پیشگوئی ہے جو تقویٰ اور صبر کے ساتھ مشروط ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۳ حاشیه ) (۹۳) قَالَ لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا اور بجز ان از لی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لا تثریب عَلَيْكُمُ اليَوْمَ کہا اور اسی عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دینِ اسلام قبول کر لیا.برائن احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۸۶، ۲۸۷ حاشیہ نمبر ۱۱)
۴۰۶ سورة يوسف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام..جلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں....اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا تو یہ کیوں کر ثابت ہوتا کہ آپ واجب القتل کفار مکہ کو باوجود مقدرت انتقام بخش سکتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام اور خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں.جب وہ.سامنے آئے تو آپ نے فرمایا: لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ میں نے آج تم کو بخش دیا.اگر ایسا موقع نہ ملتا تو ایسے اخلاق فاضلہ حضور کے کیوں کر ظاہر ہوتے ؟ رپوٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۵۲، ۱۵۳) ابو جہل اور اس کے دوسرے رفیقوں نے کون سی تکلیف تھی جو آپ کو اور آپ کے جاں نثار خادموں کو نہیں دی.غریب مسلمان عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر مخالف جہات میں دوڑایا اور وہ چیری جاتی تھیں محض اس گناہ پر کہ وہ لا الہ الا اللہ پر کیوں قائل ہوئیں مگر آپ نے اس کے مقابل صبر برداشت سے کام لیا اور جبکہ مکہ فتح ہوا تو لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہ کر معاف فرما یا.یہ کس قدر اخلاقی کمال ہے جو کسی دوسرے نبی میں نہیں پایا جاتا.اللهم صل علی محمد و علی ال محمد.غرض بات یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ حاصل کرو کہ نیکیوں کی کلید اخلاق ہی ہیں.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخه ۹/ جولائی ۱۹۰۰ ء صفحه ۵) پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کے دو پہلو دکھلائے ایک مکی زندگی جب کہ آپ کے ساتھ صرف چند آدمی تھے اور کچھ قوت نہ تھی.دوسرا مدنی زندگی میں جبکہ آپ فاتح ہوئے اور وہی کفار جو آپ کو تکلیف دیتے تھے اور آپ ان کی ایذا دہی پر صبر کرتے تھے اب آپ کے قابو میں آگئے ایسا کہ جو چاہتے آپ ان کو سزادے سکتے تھے.مگر آپ نے لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر ان کو چھوڑ دیا اور کچھ سزا نہ دی.القام جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۹) مکہ میں جن لوگوں نے دکھ دیئے تھے جب آپ نے ملکہ کو فتح کیا تو آپ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے مگر آپ نے رحم کیا اور لا تثريب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ دیا.آپ کا بخشا تھا کہ سب مسلمان ہو گئے.اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیا کسی نبی میں پائے جاتے ہیں؟ ہر گز نہیں.وہ لوگ جنہوں نے آپ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دیں تھیں اور نا قابل عفوایذائیں پہنچائی تھیں آپ نے سزا دینے کی قوت اور اقتدار کو پا کر فی الفور ان کو بخش دیا حالانکہ اگر ان کو سزادی جاتی تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا مگر آپ نے اس وقت اپنے عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ جب مکہ والوں نے آپ کو نکالا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة يوسف تکلیفیں آپ کو پہنچاتے رہے.آپ کے صحابہ کو سخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے آپ نے کام لیا وہ ظاہر بات ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے تیرہ سال تک آپ پر اور آپ کی جماعت پر کی تھیں آپ کو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتار ہو چکے تھے.مگر آپ نے کیا کیا؟ آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور کہالَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کی مصائب اور تکالیف کے نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح پر اپنے جانستان دشمنوں کو معاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی..مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اور مجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اور ان کے وجود سے اس ارض مقدس اور اس کے گرد نواح کو صاف کر دیا جاتا مگر یہ رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اور اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنوں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے : لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.اقام جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۲ صفحه ۴) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح سے اقتدار اور اختیار حاصل کر کے اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کو اپنے سامنے بلا کر کہہ دیا: لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْ لَا أَنْ تُفَبِّدُونِ.۹۵ ہر امر کے فیصلہ کے لئے معیار قرآن ہے.دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹا یوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لئے دعائیں کرتے رہے اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا.چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا.آخر چالیس برس کے بعد وہ دعا ئیں کھینچ کر یوسف (علیہ السلام ) کو لے ہی آئیں.
۴۰۸ سورة يوسف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے مگر انہوں نے یہ کہا کہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا: إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ - پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دعاؤں کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کے دعاؤں کے زمانہ کی درازی پر وَابْيَضَّتْ عَيْنَهُ قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں غرض دعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے.اللہ تعالیٰ ہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتا ہے.حضرت یعقوب کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی.احکام جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) بہت سی باتیں پیشگوئیوں کے طور پر نبیوں کی معرفت لوگوں کو پہنچتی ہیں اور جب تک وہ اپنے وقت پر ظاہر نہ ہوں ان کی بابت کوئی یقینی رائے قائم نہیں کی جاسکتی لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مفہوم اور منشا تھا اور جو شخص اس کا مصداق ہو یا جس کے حق میں ہواس کو اس کا علم دیا جاتا ہے...حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں چالیس سال تک روتے رہے آخر جا کر آپ کو خبر ملی تو کہا: إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ورنہ اس سے پہلے آپ کا یہ حال ہوا کہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے : وَابيَضَّتْ عينه تک نوبت پہنچی.اسی کے متعلق کیا اچھا کہا ہے.کے پرسید زاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند ز مصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا در چاه کنعانش نه دیدی الحکم جلدے نمبر ۵ مورخہ ۷ /فروری ۱۹۰۳ صفحه ۲) جب سماع کے ذریعہ سے کوئی خبر دی جاتی ہے تو اسے وحی کہتے ہیں اور جب رویت کے ذریعہ سے کچھ بتلا یا جاوے تو اسے کشف کہتے ہیں.اسی طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا امر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت شامہ سے ہوتا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسف کی نسبت حضرت یقوب کو خوشبو آئی تھی : انِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا أَن تُفْسِدُونِ - (البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۴) کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ سورة يوسف بھی ہو اور حواس خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے.وہ جو اس مختلف طور سے ملتے ہیں کبھی بھر میں کبھی شامہ ( سونگھنے ) میں کبھی سمع میں.شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسف کے والد نے کہا: لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْ لَا آن تقدُونِ ( کہ مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ) اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوب کو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ یوسف زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ ان کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوب کو ملے.قالوا تَاللهِ اِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ البدر جلد ۴ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲) ضال کے معنی گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے إِنَّكَ لَفِي ضَلَلِكَ الْقَدِيمِ.سو یہ دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات نفض یہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے چل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعه فال بنام من دیوانه زدند اسی دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۳) ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سننے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ إِنَّكَ لَفِي ضَلِكَ (تحفہ گولر و سید، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۶۹ حاشیہ ) الْقَدِيمِ - ج رَبِّ قَدْ أَتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ قف السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِيّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالصُّلِحِينَ ۱۰۲ ۴۱۰ سورة يوسف انْتَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِینَ یعنی اے میرے خدا تو دنیا اور آخرت میں میر ا متولی ہے.مجھے اسلام پر وفات دے اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے.( تذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۷) ایسی نظیر میں مجھے تین سو سے بھی زیادہ احادیث میں سے ملیں جن سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور وہ شخص مفعول یہ ہو جس کا نام لیا گیا ہے تو اس جگہ صرف مار دینے کے معنی ہیں نہ اور کچھ.مگر با وجود تمام تر تلاش کے ایک بھی ایسی حدیث مجھے نہ ملی جس میں توفی کے فعل کا خدا فاعل ہو اور مفعول یہ علم ہو یعنی نام لے کر کسی شخص کو مفعول یہ ٹھہرایا گیا ہو اور اس جگہ بجز مارنے کے کوئی اور معنی ہوں.اسی طرح جب قرآن شریف پر اول سے آخر تک نظر ڈالی گئی تو اس سے بھی یہی ثابت ہوا جیسا کہ آیت تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصّلِحِينَ اور آیت وَ اِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ وغیرہ آیات سے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۹) ثابت ہے.قُلْ هَذِهِ سَبِيلَ ادْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِى وَسُبُحْنَ اللَّهِ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.(1.9) کہہ کہ یہ میری راہ ہے.میں اللہ کی طرف بصیرت کاملہ کے ساتھ بلاتا ہوں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۲۶) حَتَّى إِذَا اسْتَيْسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنْيَ مَنْ نَّشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ.بعض پیشگوئیاں باریک اسرار اپنے اندر رکھتی ہیں اور دقیق امور کی وجہ سے ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں جو دور بین آنکھیں نہیں رکھتے اور موٹی موٹی باتوں کو صرف سمجھ سکتے ہیں.ایسی ہی پیشگوئیوں پر عموماً تکذیب ہوتی ہے اور جلد باز اور شتاب کار کہہ اٹھتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں.اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا.ان پیشگوئیوں میں لوگ شبہات پیدا کرتے ہیں مگر فی الحقیقت وہ پیشگوئیاں
سورة يوسف تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی سنن کے ماتحت پوری ہو جاتی ہیں تاہم اگر وہ سمجھ میں نہ بھی آئیں تو مومن اور خدا ترس انسان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان پیشگوئیوں پر نظر کرے جس میں دقائق نہیں یعنی جو موٹی موٹی پیشگوئیاں ہیں.پھر دیکھے کہ وہ کس قدر تعداد میں پوری ہو چکی ہیں.یونہی منہ سے انکار کر دینا تقویٰ کے خلاف ہے.دیانت اور خدا ترسی سے ان پیشگوئیوں کو دیکھنا چاہیے جو پوری ہو چکی ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۲ مورخه ۷ ار تمبر ۱۹۰۶ صفحه ۲) لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِن تَصْدِيقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ قرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بنا سکے بلکہ اس کے آثار صدق ظاہر ہیں کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو سچا کرتا ہے یعنی کتب سابقہ انبیاء میں جو اس کے بارہ میں پیشین گوئیں موجود تھیں وہ اس کے ظہور سے بہ یا یہ ، صداقت پہنچ گئیں اور جن عقائد حقہ کے بارہ میں ان کتابوں میں دلائل واضح موجود نہ تھیں ان کے قرآن نے دلائل بتلائے اور ان کی تعلیم کو مرتبہ ء کمال تک پہنچایا.اس طور پر ان کتابوں کو سچا کیا جس سے خود سچائی اس کی ثابت ہوتی ہے.دوسرے نشانِ صدق یہ کہ ہر یک صداقت دینی کو وہ بیان کرتا ہے اور تمام وہ امور بتلاتا ہے کہ جو ہدایت کامل پانے کے لئے ضروری ہیں اور یہ اس لئے نشان صدق ٹھہرا کہ انسان کی طاقت سے یہ بات باہر ہے کہ اس کا علم ایسا وسیع و محیط ہو جس سے کوئی دینی صداقت وحقائق دقیقہ باہر نہ رہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۶ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۱۳ سورة الرعد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الرعد بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اللهُ الَّذِى رَفَعَ السَّبُوتِ بِغَيْرِ عَبَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِى لِاَجَلٍ مُّسَمًّى - يُدَبِرُ الاَمرَ يُفَصِّلُ الْآيَتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ تمہارا خداوہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کے رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اس کی صفت ہے پس جب کہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور کلی طور پر اپنے نور سے سورج ، چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۷) خدا تعالیٰ نے تمام اجرام سماوی وارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ سورة الرعد عرش ہے اور یہ ایسا نہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی چار صفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ لگتا یعنی ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت ، مالک یوم الجزاء ہونا سو یہ چاروں صفات استعارہ کے رنگ میں چار فرشتے خدا کی کلام میں قرار دیئے گئے ہیں جو اس کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی اس وراء الوراء مقام میں جو خدا ہے اس مخفی مقام سے اس کو دکھلا رہے ہیں ورنہ خدا کی شناخت کے لئے کوئی ذریعہ نہ تھا.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹ حاشیه ) استعارہ کے طور پر خدا کے صفات کے ظہور کو ثم استوى على العرش سے بیان کیا ہے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے بعد صفات الہیہ کا ظہور ہوا.صفات اس کے ازلی ابدی ہیں مگر جب مخلوق ہو تو خالق کو شناخت کرے اور محتاج ہوں تو رازق کو پہنچا نہیں اسی طرح اس کے علم اور قادر مطلق ہونے کا پتہ لگتا ہے.ثمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ خدا کی اس تجلی کی طرف اشارہ ہے جو خَلَقَ السّمواتِ وَالْأَرْضَ کے بعد ہوئی.البدر نمبر ۵ جلد ۲ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸) لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَه وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالِ لَهُ مُعَقِبتَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ اَمرِ اللهِ......خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کی ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۹) إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُيهم...خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی.پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ.کوئی کسی کا ذمہ وار نہیں ہو سکتا.معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کر سکتے پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھ سکتے ہو.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱ ۴ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) خدا تعالیٰ اس نیکی یا بدی کو جو کسی قوم کے شامل حال ہے دور نہیں کرتا جب تک وہ قوم ان باتوں کو اپنے ( ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۱) سے دور نہ کرے جو اس کے دل میں ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہو تب تک ظاہری و با بھی دور نہ ہوگی.سورة الرعد مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۸۵) میری رائے ہے جب تک کہ لوگ کامل طور پر رجوع نہ کریں تقدیر نہ بدلے گی.إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخه ۱۷رجون ۱۹۰۱ صفحه ۴) جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا.دعا سے کام نہ لے گا وہ عمرہ جو دل پر پڑ جاتا ہے دور نہیں ہوسکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ یعنی خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پر آتی ہے دور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے، ہمت نہ کرے، شجاعت سے کام نہ لے تو کیوں کر تبدیلی ہو.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لا تبدیل سنت ہے جیسے فرمایا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (فاطر : ۴۴).پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے.(رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۱۵۶) نیک بختی اور تقویٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور سعادت کی راہیں اختیار کرنی چاہئیں تب ہی کچھ ہوتا ہے - إِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمُ (الآية س ۱۳ ) خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ خود قوم اپنی حالت کو تبدیل نہ کرے.خواہ نخواہ کے ظن کرنا اور بات کو انتہا تک پہنچانا بالکل بیہودہ بات ہے ضروری بات یہ ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، نماز پڑھیں ، زکوۃ دیں، اتلاف حقوق اور بدکاریوں سے باز آئیں.خدا تعالیٰ اپنا قانون کبھی نہیں بدلتا - إِنَّ اللهَ لا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ - خدا تعالى نے میرے الہام میں جو طاعون کے متعلق ہے یہ آیت رکھی ہے جو اس امر کی طرف رہبری کرتی ہے کہ تبدیلی کی بڑی ضرورت ہے.یہ بڑی ہی خوفناک بات ہے کہ انسان سن کر کانوں تک ہی رہنے دے اور دل تک نہ پہنچے.بڑا ہی ظالم وہ شخص ہے جو ظاہری حالت پر خوش ہو جاتا ہے اور سچی اطاعت کی حالت نہیں دکھاتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۹) ( الانذار صفحہ ۱۶) انسان کو عذاب ہمیشہ گناہ کے باعث ہوتا ہے.خدا فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِم اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الرعد خدا نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ باوجود گنہگار ہونے کے اللہ تعالیٰ بغیر عذاب کے چھوڑ دے.ایک طرف تو قرآن میں یہ لکھا ہے کہ طاعون سے کوئی بستی خالی نہیں رہے گی اور طاعون کی وجہ صرف یہی ہے جو اِنَّ اللهَ لَا يُغيّر مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِا نظم کے الہام سے ظاہر ہے یعنی جب لوگوں نے اپنے افعال اور اعمال سے نغضب الہی کے جوش کو بھڑکا یا اور بدعملیوں سے اپنی حالتوں کو ایسا بدل لیا کہ خوف خدا اور تقویٰ وطہارت کی ہر ایک راہ کو چھوڑ دیا اور بجائے اس کے طرح طرح کے فسق و فجور کو اختیار کر لیا اور خدا پر ایمان سے بالکل ہاتھ دھودیا.دہریت اندھیری رات کی طرح دنیا پر محیط ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی چہرے کو ظلمت کے نیچے دباد یا تو خدا نے اس عذاب کو نازل کیا تا لوگ خدا کے چہرے کو دیکھ لیں اور اس کی طرف رجوع کریں.( البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۳) جوشخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کے لئے طیار کئے ہیں.اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما با نظم میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے اور دکھ کو سکھ سے تبدیل کر دیتا ہے جب انسان اپنے اندر تبدیلی کرتا ہے تو اس کے لئے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے.وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ کبھی حالت قوم میں تبدیلی نہ کرے گا جب تک لوگ دلوں کی تبدیلی نہ کریں گے.(الحکم جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۳۰اپریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خودا اپنی حالت کو درست نہ کر لیں.الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۷ ار مارچ ۱۹۰۷ ، صفحہ ۱۱) یا درکھیں کہ اللہ اس حالت کو نہیں بدلائے گا جب تک دلوں کی حالت میں یہ لوگ خود تبدیلی نہ کریں.الحکم جلد ا ا نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۸) خدا نہیں چھوڑے گا اور ہر گز نہیں چھوڑے گا جب تک لوگ اپنے اخلاق ، اعمال اور خیالات میں ایک تبدیلی پیدا نہ کرلیں گے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ سورة الرعد كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۖ وَمَا دُعَاءِ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي لله تمام حاجتوں کو اس سے مانگنا چاہیے اور جولوگ بجز اس کے اور اور چیزوں سے اپنی حاجت مانگتے ہیں وہ چیزیں ان کی دعاؤں کا کچھ جواب نہیں دیتیں.ایسے لوگوں کی یہ مثال ہے جیسے کوئی پانی کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر کہے کہ اے پانی میرے منہ میں آجا.سو ظاہر ہے کہ پانی میں یہ طاقت نہیں کہ کسی کی آواز سنے اور خود بخود اس کے منہ میں پہنچ جائے.اسی طرح مشرک لوگ بھی اپنے معبودوں سے عبث طور پر مدد طلب کرتے ہیں جس پر کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوسکتا.برائن احمد یه چهار تحصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) دعا کرنے کے لائق وہی سچا خدا ہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے اور جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ کچھ بھی ان کو جواب نہیں دے سکتے.ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا دے کہ اے پانی میرے منہ میں آجا.تو کیا وہ اس کے منہ میں آجائے گا.ہر گز نہیں.سو جو لوگ سچے خدا سے بے خبر ہیں ان کی تمام دعائیں باطل ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۷) قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِةٍ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوَى الظُّلمتُ وَالنُّورُ اَم جَعَلُوا لِلهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ الله خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے شریک ایسی صفات کے ٹھہرا رکھے ہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ خالق ہے وہ بھی خالق ہیں تا اس دلیل سے انہوں نے ان کو خدا مان لیا.ان کو کہہ دے کہ ثابت شدہ یہی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہر ایک چیز کا ہے اور وہی اکیلا ہر ایک چیز پر غالب اور قاہر ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۶۸) یعنے خدا ہر ایک چیز کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اور واحد بھی ایسا کہ قہار ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة الرعد یعنے سب چیزوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور ان پر غالب ہے.یہ دلیل بذریعہ شکل اول کے جو بدیہی الانتاج ہے اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ صغریٰ اس کا یہ ہے جو خدا و احد اور قہار ہے اور کبری یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجدات ماسوائے اپنے کا خالق ہے.نتیجہ یہ ہوا جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے.اثبات قضیہ اولی یعنے صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدائے تعالیٰ کا اصول مسئلہ فریق ثانی بلکہ دنیا کا اُصول ہے.اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبری کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہو سکتا.واحد اس باعث سے نہیں ہو سکتا کہ وحدانیت کے معنے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلی پاک ہو.اور جب خدائے تعالی خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرکت لازم آیا.اول یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہو کر مثل اس کے قدیم الوجود ہو گئے.دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے جو مستفاض عن الغیر نہیں.پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے.اور شرک بالغیر ذات باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے.کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے.پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اس باعث سے نہیں ہوسکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنے ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کر لینا اور ان پر قابض اور متصرف ہو جانا.سوغیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کر سکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں اس لئے کہ اپنے تحقیق وجود میں دوسرے کسی علت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنے خود آیندہ کہتے ہیں.پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے.تو ان کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عند العقل محال اور ممتنع ہوا.کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود کے ماتحت نہیں ہوسکتا اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے.لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے یہ ہے کہ سب ارواح خدائے تعالیٰ کے ماتحت ہیں کوئی اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں.پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶ تا ۸ ) هَلْ يَسْتَوى الأعلى وَالْبَصِيرُ کیا اندھا اور بینا مساوی ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۲۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ سورة الرعد اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ ذَبَدًا ذَا بِيَاء وَ مِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدُ مِثْلُهُ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ، فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ في الْأَرْضِ كَذلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ.خدا نے آسمان سے پانی ( اپنا کلام ) اتار اسو اس پانی سے ہر ایک وادی اپنی قدر کے موافق بہ نکلا.یعنی ہر یک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصہ ملا.طبائع عالیہ اسرار حکمیہ سے متمتع ہوئیں.اور جو اُن سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریر سے خارج ہے اور جو کم درجہ پر تھے انہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کر لیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحل نجات تک جا پہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا کے ہی کیڑے تھے.( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۲ حاشیہ نمبر۱۱) اسی نے آسمان سے پانی اتارا.پھر ہر یک وادی اپنے اپنے اندازہ اور قدر کے موافق یہ نکلا یعنی ہر یک شخص نے اپنی استعداد کے موافق فائدہ اٹھایا.(براہین احمدیہ چہارحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۳۳) اے غافلو! اس امت مرحومہ میں وحی کی نالیاں قیامت تک جاری ہیں مگر حسب مراتب.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۱) آسمان سے پانی اتارا.پس ہر ایک وادی اپنے اپنے قدر میں بہ نکلا..جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اتارا پس اپنے اپنے قدر پر ہر یک وادی به نکلی یعنی جس قدر دنیا میں طبائع انسانی ہیں قرآن کریم ان کے ہر یک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کرنے والا ہے.اور یہ امر مستلزم کمال نام ہے کیونکہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اس قدر وسیع دریائے معارف ہے کہ محبت الہی کے تمام پیاسے اور معارف حقہ کے تمام تشنہ لب اسی سے پیتے ہیں.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ سورة الرعد ایسا پانی اتارا جس سے ہر ایک وادی بقدرا اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰) وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْأَرْضِ الجز و نمبر ۱۳ یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے، معجزات سے، پیشگویوں سے، حقائق سے ، معارف سے، اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء من حیث الکل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالی ظلی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہوکر ان کی دائی زندگی کا موجب (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں ان کی عمر دراز ہوتی ہے جیسے کہ فرمایا : أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَنتُ فِي الْأَرْضِ.اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جاسکتی ہے وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے جب کہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دعا کے ساتھ اٹھا سکتے ہیں.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو دنیا میں خیر کا موجب ہوتا ہے اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوتا ہے وہ جلدی اٹھا لیا جاتا ہے.کہتے ہیں شیر سنگھ چڑیوں کو زندہ پکڑ کر آگ پر رکھا کرتا تھا وہ دو برس کے اندر ہی مارا گیا پس انسان کو لازم کہ وہ خیر الناس من ينفع الناس بننے کے واسطے سوچتار ہے اور مطالعہ کرتا رہے.جس طرح طبابت میں حیلہ کام آتا ہے اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے.اس لئے ہوتا ہے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.احکام جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخه ۹ر جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۲) ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو.قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے : وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ سورة الرعد النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْاَرْضِ یعنی جو نفع رسان وجود ہوتے ہیں ان کی عمر دراز ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازی عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لئے مفید ہیں حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں ؛ اول خدا تعالیٰ کی عبادت دوسرے بنی نوع سے ہمدردی.لیکن یہاں یہ پہلو اس لئے اختیار کیا ہے کہ کامل عابد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے.پہلے پہلو میں اول مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے اور اس کی صورت یہ ہے ان کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے.جیسا کہ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ (العصر : ۴) سے پایا جاتا ہے.انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا اس لئے اس کو چاہئیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا وے.ہمدردی خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو.اقام جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۴) حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے لئے نفع رساں ہو اس کی عمر دراز کی جاتی ہے.اس پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھوٹی تھی.یہ اعتراض صحیح نہیں ہے.اول اس لئے کہ انسانی زندگی کا اصل منشا اور مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کر لیا.آپ دنیا میں اس وقت آئے جبکہ دنیا کی حالت بالطبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ اس وقت اُٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی.اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينگم کی صدا کسی دوسرے آدمی کو نہیں آئی اور.....پوری کامیابی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اب جس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے طور پر کامیاب ہو کر اُٹھے پھر یہ کہنا کہ آپ کی عمر تھوڑی تھی سخت غلطی ہے.اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض ابدی ہیں اور ہر زمانہ میں آپ کے فیوض کا دروازہ کھلا ہوا ہے اس لئے آپ کو زندہ نبی کہا جاتا ہے اور حقیقی حیات آپ کو حاصل ہے.طول عمر کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہو گیا اور اس آیت کے موافق آپ ابدالآباد کے لئے زندہ رہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی مگر اس کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے.پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے : وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ.ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے.حزقیاہ نبی کی کتاب میں بھی درج ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة الرعد انسان بہت بڑے کام کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے.خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے.پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیوں کر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا.القام جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۷اراگست ۱۹۰۲ صفحه ۹۰۸) یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض مخالف اسلام بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے.دیکھو ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا.اصل بات یہ ہے کہ اگر مخالف اعتراض نہ کرتے تو قرآن شریف کے ۳۰ سپارے کہاں سے آتے.جس کے وجود کو اللہ تعالی مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے.ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں اور مخالفت کرتے ہیں ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے.اب اگر مہرعلی شاہ اتنا شور نہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھا جاتا.اس طرح پر جو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقا کا بھی یہی باعث ہے تا کہ اسلام کے اصولوں کی خوبی اور حسن ظاہر ہو.الحکام جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) جولوگ دین کے لئے سچا جوش رکھتے ہیں ان کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی.اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادم دین ہوں گے ان کی عمریں بڑھائی جاویں گی.جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڑھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اسے ذبح کر ڈالے اور جو سچے دل سے خادم ہے وہ خدا کا عزیز بھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردد ہوتا ہے اس لئے فرمایا: وَ آمَا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ - الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۸) جو شخص اپنے وجود کو نافع الناس بنا دیں گے ان کی عمریں خدا ز یادہ کرے گا.خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجا آوری پورے طور پر بجالانی چاہیے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخه ۲۲ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳۸) احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہو جائیں گی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور کوئی شخص نہیں مرے گا بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مالی ، جانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۲۳ سورة الرعد نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہوں گے ان کی عمریں دراز کردی جائیں گی اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے : وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْأَرْضِ.یہ امر قانونِ قدرت کے موافق ہے کہ عمریں دراز کر دی جائیں گی.اس زمانہ کو جو دراز کیا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے اور اس میں کوئی خاص مصلحت ہے.الحکم جلدے نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰) جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے.جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے.جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لا پروا اور لا ابالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا.اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوٹی عمر میں بھی اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اور اصل ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے.دراصل ایسا نہیں ہوتا.یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازی عمر کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشا اور درازی عمر کی غایت تو کامیابی اور با مراد ہوتا ہے.پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاوے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مرتے وقت نہایت اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو تو وہ گویا پوری عمر حاصل کر کے مرا ہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پالیا ہے اس کو چھوٹی عمر میں مرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے.صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے ہیں بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اٹھے تھے اس لئے انہوں نے زندگی کا اصل منشا حاصل کر لیا تھا.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲، ۳) چاہیے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے.اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا.اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں مختلف نہیں ہوتا اس نے جو وعدہ فرمایا ہے کہ اماما يَنفَعُ النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْأَرْضِ.یہ بالکل سچ ہے.عام طور پر بھی یہی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ سورة الرعد اس کو کوئی ضائع نہیں کرتا یہاں تک کہ کوئی گھوڑا بیل یا گائے بکری اگر مفید ہو اور اس سے فائدہ پہنچتا ہو، کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخری علاج وہی ذبح ہے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو دو چار روپیہ کو کھال ہی بک جائے گی اور گوشت بھی کام آجائے گا.اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کوئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر الحکم جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵) دیتا ہے.جو چاہتا ہے کہ عمر زیادہ ہو...اس کو لازم ہے کہ وہ کامل الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بنادے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأَمامَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ.یہ خوب یا درکھو کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بیان کی ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۷ ارستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۴) ہر قسم کی راحت صحت عمر و دولت یہ سب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے.جب انسان کا وجود ایسا نافع اور سودمند ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا جیسے باغ میں کوئی درخت عمدہ پھل دینے والا ہو تو اسے باغبان کاٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح نافع اور مفید وجود کو اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے : وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْأَرْضِ جو لوگ دنیا کے لئے نفع رسان لوگ بنتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمریں بڑھا دیتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو بچے ہیں اور کوئی ان کو جھٹلا نہیں سکتا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے اور فرمانبردار بندے ایسی بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۴۳، ۴۴ مورخه ۱۷ تا ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) نافع چیز کو درازی عمر نصیب ہوتی ہے اور خدادین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پرواہ نہیں کرتا.الحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۰۵ صفحه ۵) شریعت میں ہر ایک امرجو : مَا يَنْفَعُ النَّاس کے نیچے آئے اس کو دیر پارکھا جاتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) اللہ تعالی جانتا ہے کہ ان لوگوں کی ہمدردی کے لیے کس قدر میرے دل میں تڑپ اور جوش ہے اور میں حیران ہوں کہ کس طرح ان لوگوں کو سمجھاؤں.یہ لوگ کسی طرح بھی مقابلہ میں نہیں آتے.تین ہی راہیں ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۵ سورة الرعد یا گذشتہ نشانوں سے میرے اپنے نشانوں کا مقابلہ کر لیں یا آئندہ نشانوں میں مقابلہ کر لیں یا اور نہیں تو یہی دعا کریں کہ جس کا وجود نافع الناس ہے وہ بموجب وعدہ الہی : وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ دراز زندگی پائے.پھر عیاں ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کون مقبول ومنظور ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ جولائی ۱۸۹۹ء صفحه ۴،۳) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا اَمَرَ اللهُ بِهَ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ پیوند کرنے کی جگہ پیوند کرتے ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً وَيَدرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَبِكَ لَهُم عُقْبَى الدَّارِ وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر.پوشیدہ اس لئے کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) کہ تا دوسروں کو ترغیب دیں.یعنی بہادر وہ ہیں کہ....ان کا صبر لڑائی اور سختیوں کے وقت میں خدا کی رضا مندی کے لئے ہوتا ہے اور اس کے چہرہ کے طالب ہوتے ہیں نہ کہ بہادری دکھلانے کے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۹) b الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكرِ اللهِ ۖ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَين القلوب یا درکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰ حاشیه ) ایک بڑی لذت چھوٹی لذت سے غنی کر دیتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَين القُلُوبُ...وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ - (برائین احمدیہ حصہ بانهم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۵)
۴۲۶ سورة الرعد تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اس لئے فرمایا ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَينُ الْقُلُوبُ - اطمینان ، سکینت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۹) قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ایسی شے ہے جو قلوب کو اطمینان عطا کرتا ہے جیسا کہ.فرمایا: أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَينُ الْقُلُوبُ.پس جہاں تک ممکن ہو کر الہی کرتار ہے اسی سے اطمینان حاصل ہوگا.ہاں اس کے واسطے صبر اور محنت درکار ہے.اگر گھبرا جاتا اور تھک جاتا ہے تو پھر یہ اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا.الحکام جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۹) اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ اس کے عام معنی تو یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے قلوب اطمینان پاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت اور فلسفہ یہ ہے کہ جب انسان بچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کے سامنے یقین کرتا ہے اس سے اس کے دل پر ایک خوف عظمت الہی کا پیدا ہوتا ہے وہ خوف اس کو مکروہات اور منہیات سے بچاتا ہے اور انسان تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ اس پر نازل ہوتے ہیں اور وہ اس کو بشارتیں دیتے ہیں اور الہام کا دروازہ اس پر کھولا جاتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کو گویا دیکھ لیتا ہے اور اس کی وراء الور اطاقتوں کو مشاہدہ کرتا ہے.پھر اس کے دل پر کوئی ہم و غم نہیں آسکتا اور طبیعت ہمیشہ ایک نشاط اور خوشی میں رہتی ہے.احکام جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) وَ لَو اَن قُرْآنًا سُيّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَلْ لِلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَايُنَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَة اگر چہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے.( براہینِ احمد یہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الخ اور ہمیشہ ان کا فروں کو کوئی نہ کوئی کوفت پہنچتی رہے گی یہاں تک کہ وہ وقت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۷ سورة الرعد موعود آ جائے گا جس کا خدا نے وعدہ کیا ہے.خدا متخلف وعدہ نہیں کرے گا.( براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۵ حاشیہ نمبر۱۱) اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۲، ۳۵۳) وعدہ سے مراد وہ امر ہے جو علم الہی میں بطور وعدہ قرار پاچکا ہے نہ وہ امر جو انسان اپنے خیال کے مطابق اس کو قطعی وعدہ خیال کرتا ہو.اسی وجہ سے المیعاد پر جو الف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے یعنی وہ امر جو ارادہ قدیمہ میں وعدہ کے نام سے موسوم ہے گو انسان کو اس کی تفاصیل پر علم ہو یا نہ ہو وہ غیر متبدل ہے ور نہ ممکن ہے جو انسان جس بشارت کو وعدہ کی صورت میں سمجھتا ہے اس کے ساتھ کوئی ایسی شرط مخفی ہو جس کا عدم تحقق اس بشارت کے عدم تحقق کے لئے ضروری ہو کیونکہ شرائط کا ظاہر کرنا اللہ جل شانہ پر حق واجب نہیں ہے.چنانچہ اسی بحث کو شاہ ولی اللہ صاحب نے بسط سے لکھا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب دہلوی نے بھی فتوح الغیب کی شرح میں اس میں بہت عمدہ بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بدر کی لڑائی میں تضرع اور دعا کرنا اسی خیال سے تھا کہ الہی مواعید اور بشارات میں احتمال شرط مخفی ہے اور یہ اس لیے سنت اللہ ہے کہ تا اس کے خاص بندوں پر ہیبت اور عظمت الہی مستولی رہیں.ماحصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں بیشک تخلف نہیں وہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں پورے ہو جاتے ہیں لیکن انسان ناقص العقل کبھی ان کو تخلف کی صورت میں سمجھ لیتا ہے کیونکہ بعض ایسی مخفی شرائط پر اطلاع نہیں پاتا جو پیشگوئی کو دوسرے رنگ میں لے آتے ہیں.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۴۴۸،۴۴۷ حاشیه ) و عید یعنی عذاب کی پیشگوئی ملنے کے بارہ میں تمام نبی متفق ہیں.رہی وعدہ کی پیشگوئی جس کی نسبت یہ حکم ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِیعاد اس کی نسبت بھی ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا اس وعدہ کا تخلف نہیں کرتا جو اس کے علم کے موافق ہے لیکن اگر انسان اپنی غلطی سے ایک بات کو خدا کا وعدہ سمجھ لے جیسا کہ حضرت نوح نے سمجھ لیا تھا ایسا تخلف وعدہ جائز ہے کیونکہ دراصل وہ خدا کا وعدہ نہیں بلکہ انسانی غلطی نے خواہ مخواہ اس کو وعدہ قرار دیا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۴) اسلام میں یہ مسلم امر ہے کہ جو پیشگوئی وعید کے متعلق ہو اس کی نسبت ضروری نہیں کہ خدا اس کو پورا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۸ سورة الرعد کرے یعنی جس پیشگوئی کا یہ مضمون ہو کہ کسی شخص یا گروہ پر کوئی بلا پڑے گی اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس بلا کو ٹال دے جیسا کہ یونس کی پیشگوئی کو جو چالیس دن تک محدود تھی ٹال دیا.لیکن جس پیشگوئی میں وعدہ ہو یعنی کسی انعام اکرام کی نسبت پیشگوئی ہو وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِیعا دیگر کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْوَعِيْد پس اس میں راز یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئی خوف اور دعا اور صدقہ خیرات سے مل سکتی ہے.(تذکرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۴) إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا خلاف نہیں کرتا.(الکام جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۵) لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ فرمایا ہے لَا يُخْلِفُ الْوَعِيْد نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وعید معلق ہوتے ہیں جو دعا اور صدقات سے بدل جاتے ہیں.اس کی بے انتہا نظیر میں موجود ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی فطرت میں مصیبت اور بلا کے وقت دعا اور صدقات کی طرف رجوع کرنے کا جوش ہی نہ ہوتا.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۳) وَ لَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَاَمَلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا ثُمَّ اَخَذْتُهُم فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ و قف پہلے بھی رسولوں پر ٹھٹھا کیا گیا پس ہم نے ان کافروں کو جو ٹھٹھا کرتے ہیں مہلت دی.پھر جب وہ اپنے ٹھٹھے میں کمال تک پہنچ گئے تب ہم نے ان کو پکڑ لیا اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ کیوں کر ہمارا عقاب ان پر وارد (انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵ حاشیه نمبرا) ہوا.ج b افَمَنْ هُوَ قَابِمُ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَ جَعَلُوا لِلهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَتُوهُم.- ام تنبونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ اَمَ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكَرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَبَالَهُ مِنْ هَادِه ہر یک جان پر وہ کھڑا ہے.اس کے عمل مشاہدہ کر رہا ہے.(ست بیگن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ سورة الرعد مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَتَّقُونَ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ أَكُلُهَا دَابِمُ ظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ عُقْبَى الكَفِرِينَ النَّارُ قرآن شریف کی تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جیسا کہ یہ بات ٹھیک نہیں کہ بہشت کی لذات صرف روحانی ہیں اور دنیوی جسمانی لذات سے بالکل مخالف ہیں ایسا ہی یہ بھی درست نہیں کہ وہ لذات دنیوی جسمانی لذات سے بالکل مطابق ہے بلکہ عالم رویا کی طرح صورت میں مشابہت ہے اور حقیقت میں مغایرت ہے.عالم رویا کے پھل اور عالم رویا کی خوبصورت عورتیں ظاہر صورت میں وہی لذات بخشتی ہیں جو عالم جسمانی میں ہیں مگر عالم رویا کی حقیقت اور اس عالم جسمانی کی حقیقت اور ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۰ حاشیہ ) خدا نے بہشت کی خوبیاں اس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیز میں دل پسند تھیں وہی بیان کر دی ہیں تا اس طرح پر ان کے دل اس طرف مائل ہو جائیں اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں نہیں.مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا تا کہ دل مائل کئے جائیں.مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ - برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۴) یہ ایک مثال ہے نہ کہ حقیقت.قرآن شریف کے ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ وہ جنت کوئی اور ہی چیز ہے اور حدیث میں صاف یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ ان ظاہری جسمانی دنیوی امور پر نعماء جنت کا قیاس نہ کیا جاوے کیوں کہ وہ ایسی چیز ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ کسی کان نے سنی وغیرہ مگر وہ باتیں جن کی مثال دے کر جنت کی نعماء کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ تو ہم دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں.احکام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۵) انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا انظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہو کر نشونما پائیں گے اور وہ اثمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو : اكُلُهَا دَابِھ کے مصداق ہوں گے.یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ء صفحه ۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۰ سورة الرعد يَمْحُوا اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ * وَعِندَةٌ أم الكتب اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کہ محو و اثبات اس کے ہاتھ میں ہے : يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱) ہمارا تو اعتقاد ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہ عمر کو کم بھی کر سکتا ہے اور زیادہ بھی کر سکتا ہے: يَمْحُوا اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ....عیسائیوں کا بھی یہی اعتقاد ہے ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک شخص کی پندرہ دن کی عمر باقی رہ گئی تھی.دعا سے پندرہ سال ہو گئے.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے.جو کامل اختیارات رکھتا ہے.يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ.ہمارا ایمان ہے وہ جوتشی کی طرح نہیں.وہ ایک حکم صبح دیتا ہے اور رات کو اس کے بدلنے کے کامل اختیارات رکھتا ہے.( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴) وَإِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَاغُ.الْحِسَابُ وعلي اگر ہمارے علماء اس جگہ بھی توفی کے معنے یہی لیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.تو ہمیں ان پر کچھ بھی افسوس نہ ہوتا مگر ان کی بیبا کی اور گستاخی تو دیکھو کہ توفی کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے تو اس کے معنے وفات کے لیتے ہیں اور پھر جب وہی لفظ حضرت مسیح کے حق میں آتا ہے تو اس کے معنی زندہ اُٹھائے جانے کے بیان کرتے ہیں اور کوئی ان میں سے نہیں دیکھتا کہ لفظ تو ایک ہی ہے.اندھے کی طرح ایک دوسرے کی بات کو مانتے جاتے ہیں جس لفظ کو خدا تعالیٰ نے پچیس مرتبہ اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کر کے صاف طور پر کھول دیا کہ اس کے معنے روح کا قبض کرنا ہے نہ اور کچھ.اب تک یہ لوگ اس لفظ کے معنی مسیح کے حق میں کچھ اور کے اور کر جاتے ہیں.گویا تمام جہان کے لئے توفی کے معنی تو قبض روح ہی ہیں مگر حضرت ابن مریم کے لئے زندہ اٹھا لینا اس کے معنی ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳) او لَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۱ سورة الرعد لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ.سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں.پھر رفتہ رفتہ ائمتہ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے اس کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے : آنا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا يعنى ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۶) سنت اللہ یہی ہے کہ ائمہ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے ان سب میں فرعون بچار ہا چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا کہ نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطرافها یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں تو بہ کرنی ہوتی ہے یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.الحاکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اَو لَمْ يَرُوا اَنَا نَأْتِي الْأَرْضَ تَنْقُصُهَا مِنْ أطرافها ہم دور دور سے زمین کو گھٹاتے چلے آتے ہیں.یہ عادت اللہ ہے کہ اول عذاب ایسے لوگوں سے شروع ہوتا ہے جو دور دور ہوتے ہیں اور ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں.بیوقوف یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف انہیں کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں مگر عذاب لیک کر ان تک پہنچتا ہے جن کو خبر نہیں ہوتی اور بے پرواہ ہوتے ہیں.خدا کی اس میں حکمتیں ہوتی ہیں.چاہتا ہے کہ یہ اور شوخی کر لیں.( البدر جلد نمبر ۶،۵ مورخه ۲۸ نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۷) وَ يَقُولُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلَا قُلْ كَفَى بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الكِتب.یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ تو خدا کا رسول نہیں ان کو کہہ دے کہ تم میں اور مجھ میں خدا گواہ کافی ہے اور نیز وہ جس کو کتاب کا علم ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۴۹) ان ( پہلی ) کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۳۲ سورة الرعد ہے : شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِى اِسراءیل اور پھر فرمایا: گفی بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمٌ الكتب....جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے لئے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہو گیا ؟ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) دیکھو آنحضرت صلعم نے جو صاحب وحی ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو وہ بے نشان نہیں تھا.کافروں نے جب ثبوت مانگا تھا کہ آپ کی وحی کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو ان کو جواب دیا گیا تھا : فقل كفى بالله شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الكِتب یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ تو خدا کا رسول نہیں.ان کو کہہ دے کہ میرے پاس دو گواہیاں ہیں ایک تو اللہ کی کہ اس کے تازہ تازہ نشانات میری تائید میں ہیں اور دوسرے وہ لوگ جن کو کتاب اللہ کا علم دیا گیا ہے وہ بتا سکتے ہیں کہ میں سچا ہوں.لا احکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۱۲، ۱۳) یا درکھو کہ قول بغیر فعل کے کچھ چیز نہیں اور یہ آیت کہ قُل گلی ہاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَةُ علم الکتب اس میں ایک عجیب نکتہ ہے یعنی اگر خدا میری گواہی دیتا ہے تو مانو ورنہ نہ مانو.الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۳)