Language: UR
تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے.“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مد مقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فر ما یا.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمعہ ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں ، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک
کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہو گئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.- اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل.66 تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی اور سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین !!
iii بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فر ما یا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث، مرزا ناصر احمد، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پر ور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوٹی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.
iv جون ۱۹۶۹ ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کوتحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.
V بسم الله الرحمن الرحيم نمبر شمار 1 ۹ 1."1 ۱۲ نحمده و نصلی علی رسوله الكريم مختصر فہرست مضامین جلد سوم مضمون هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ میں قیوم کے معنے پیشگوئیوں کے دو حصے ہوا کرتے ہیں ایک حصہ متشابہات کا اور ایک حصہ بینات اور محکمات کا اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ المعاد میں المیعاد پر جو الف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے وعدہ اور وعید کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت الْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ میں بغیر گناہوں کے ارتکاب کے بھی استغفار کا حکم ہے اسلام کے لغوی اور اصطلاحی معنے قرآن کریم کی تعلیم کی دوسری تعلیموں پر کمال درجہ فوقیت کی دو وجہ حقیقت اسلامیہ کی تحصیل کے وسائل اسلام پر قائم ہو جانے کے ثمرات فَإِنَّمَا عَلَيْكَ البَلغ سے ثبوت کہ پیغمبر کی جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھی نہ بحیثیت رسالت یہود کے ارتکاب جرائم پر دلیری کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی ضرورت، اہمیت اور برکات صفحہ 1 ۹ ۱۲ ۱۳ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۹ ۱۹ ۲۱
صفحہ ۲۲ ۲۴ ۲۷ ۳۷ ۴۲ ۴۷ ۴۷ ۴۹ ۵۲ F vi نمبر شمار ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ مضمون مسیح کے کلمات کہ میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں الخ کیا بانی اسلام نے ایسے کلمات اپنی طرف منسوب کیے کا جواب قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى الح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ذکر ترقیات کی دور ہیں.ایک سلوک.دوسرا جذب حضرت عیسیٰ اور اس کی ماں مریم کے سوائے میں شیطان سے دنیا میں میں کسی کی پیدائش پاک نہیں کی تشریح وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ سے حیات مسیح کے استدلال کی تردید وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَھلا میں کھل کے معنے حضرت عیسی کے مھد اور کھل میں کلام کرنے کی تشریح حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش میں یہود کے واسطے نشان مسیح علیہ السلام کے معجز و خلق طیور کی حقیقت سیح کے معجزہ اکمه یعنی شب کور اور البرص یعنی مبروص کو شفا بخشنے کی حقیقت سیح علیہ السلام کے پرندے بنانے کے قصہ میں اللہ تعالی نے فَيَصِيرُ حَيّا باذن الله نہیں فرمایا بلکہ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ فرمایا ہے ۲۴ اکمہ سے مراد شب کو رہے جو کلیجی سے بھی اچھا ہو سکتا ہے علاج کی پانچ صورتیں حضرت مسیح کا طریقہ علاج حضرت عیسی کے معجزہ احیاء موٹی کی حقیقت ۲۵ ۲۶ ۲۷ انبياءعليہم السلام كا مَنْ أَنْصَارِى إِلَی اللہ کہنا دنیا کو رعایت اسباب سکھانا ہے ۲۸ | لیکھرام نے نشان مانگنے کے وقت خدا تعالیٰ کا نام خیر الماکرین رکھا ۶۶ ۶۷ ۷۳ ۷۴
صفحہ 2Y ZA ۷۹ ۸۰ ۸۰ ۸۲ ۸۵ ۸۶ ٨٨ ۸۸ ۹۳ ۹۶ ۹۶ ۱۰۲ vii نمبر شمار ۲۹ ۳۱ ۳۲ مضمون وَاللهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ میں مکر کے معنے از روئے لغت إذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ الح میں خدائے تعالیٰ نے اپنے تیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں إذْ قَالَ اللهُ يُعِيسى إلى مُتَوَفِّيكَ الخ میں تقدیم اور تاخیر کا دعویٰ کرنے والوں کی تردید ٣٢ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ كے معنى إِنِّي مُمِيتُكَ کے ہیں * t t t 2 IN اگر حضرت عیسی موت کے بعد پھر جسم کے ساتھ اٹھائے گئے تھے تو آیت کی عبارت یوں ہوتی ۳۴ قرآن کریم میں علاوہ محل متنازعہ فیہ کے توفی کا لفظ تیئیس جگہ لکھا ہے.اور ہر یک جگہ موت اور قبض روح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۳۵ موت کے محل پر توفی کا لفظ کیوں استعمال کیا.اماتت کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا إلى مُتَوَفِّيكَ كے معنی الی مُنیم کے ہیں کی تردید ۳۷ جس قدر مبسوط تفاسیر ہیں سب میں زیر تفسیر انِّي مُتَوَفِّيكَ یہی لکھا ہے کہ إِنِّي مُمِيْتُكَ حَتْفَ أَنْفِكَ ۳۸ رَافِعُكَ اِلی میں رفع کے معنے ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ اگر توفی کے معنے الفاظ مروجہ قرآن میں عام طور پر قبض روح ہی ہے تو پھر مفسروں نے اس کے برخلاف اقوال کیوں لکھے کا جواب توفی کے لفظ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیقات توفی کے لفظ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ آیت میں رَافِعُكَ اِلَی ہے رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ نہیں
viii نمبر شمار مضمون ۴۳ توفی میں امانت مع الابقاء کا مفہوم ملحوظ ہوتا ہے.اس لیے یہ لفظ انسان کے سوا کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۴۴ آيت يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ اِلَى الخ یہود و نصاریٰ کے اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے ہے کہ یہود خیال کرتے تھے کہ مسیح لعنتی ہوا اور اس کا رفع نہیں ہوا ۴۵ شیخ محی الدین ابن عربی کے نزدیک رفع کے معنی ۴۶ ائمہ لغت کے نزدیک توفی کے معنے وفات دینا ہے تَعالوا إلى كلمة میں اہل کتاب پر ایک حجت ۴۸ وفات مسیح کا اقرار کرنے والے ائمہ صفحہ III ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۲۷ 179 ۱۴۹ ۱۸۱ ۱۸۱ 171 ۱۶۱ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۶۸ ۱۷۵ 124 12A حج کے موانع حج کے فلاسفی ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ اِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدم حضرت عیسی کی خدائی پر پیش کی جانے والی دلیل کی تردید مسیح کی بغیر باپ پیدائش امور نادرہ میں سے ہے خلاف قانون قدرت نہیں مباہلہ کے معنے لغت عرب اور شرعی اصطلاح کے رو سے ۵۴ صلحا کی سنت قدیمہ سے مباہلہ کی غایت میعاد ایک سال ہے ۵۵ اصل مسنون طریق مباہلہ تو بہ کے معنی ۵۷ تو بہ کے لئے تین شرائط ۵۸ | علم تعبیر الرؤیا میں جگر نکال کر دینے سے مراد مال ہے
ix نمبر شمار ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ ۷۰ 21 مضمون بیت اللہ کے هُدى للعلمین ہونے میں عربی کے ام الالسنہ ہونے کی طرف اشارہ ہے اعتراض کا جواب کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیا وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ میں حبل سے مراد قرآن کریم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں ایک پیشگوئی جس پر کسی نے توجہ نہیں کی یہ الزام کہ صحابہ کرام سے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس سے مسیح موعود کے اس امت میں سے ہونے کی دلیل جب پادری وغیرہ مخالف بدزبانی کی باتیں ہمارے دین اور ہمارے صفحہ ΙΔΙ ۱۸۵ ۸۷ ۸۷ ١٨٩ 19+ نبی علیہ السلام اور قرآن شریف کے حق میں کہیں تو قرآن کا ہمیں کیا حکم ہے ۱۹۶ و ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللله میں ذلت سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے متعلق اصول اور ہدایات مؤمنوں کو کافرون سے محبت کی ممانعت ، مومن کافر سے شفقت کرے گا وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِلَّةٌ میں آئندہ زمانہ میں مسلمانوں کو ذلت پہنچنے کی طرف اشارہ ایصال خیر کے لحاظ سے پہلا خلق عفو ہے عفوع وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے وفات مسیح کی دلیل استقرائی ۷۲ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گزشتہ پر محیط ہے ۹۸ ۱۹۸ ١٩٩ ۲۰۰ ۲۰۴ ۲۱۰ ۲۱۱
صفحہ ۲۱۳ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۲۵ 11+2 ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵ ۲۵۳ ۲۵۴ ۲۵۹ ۲۶۱ ۲۶۵ ۲۶۶ ☑ مضمون نمبر شمار ۷۳ ۷۴ حضرت ابو بکر نے آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر استدلال پر فرمایا خلا کے معنی ۷۵ وفات مسیح پر صحابہ کا اجماع ZY خدا تعالیٰ نے حکت کے لفظ کو موت اور قتل میں محصور کر دیا ہے ۷۷ اعتراض کا جواب کہ تمام نبیوں کی موت پر اجماع ہو جانا سفید جھوٹ ہے اصحاب کرام تو لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے سب سے ثبوت دینا تو مشکل ہے ZA ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ مَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ مِیں تَمُوتُ روحانی اور جسمانی اعتراض کا جواب کہ يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ سے جبر ثابت ہوتا ہے توکل کے معنی عیسائیوں کے بیان کہ انبیاء بھی دوسرے لوگوں کی طرح گناہ کر سکتے ہیں کی تردید يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ الخ میں قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا ۸۳ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی کہ تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے دانشمند اور اہل عقل کے لیے نظام عالم میں خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل ΔΙ ۸۵ ۸۶ رباط کے معنی رباط میں دنیاوی اور روحانی جنگ اور مجاہدہ کی فلاسفی ۸۷ | اسلام نے تعدد ازواج کو کم کیا ہے
xi مضمون عرب میں تعدد ازواج انبیاء بنی اسرائیل میں کثرت ازدواج ہندوؤں میں کثرت ازدواج اعتراض کا جواب کہ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا چار بیویاں رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کثرت ازدواج کو ضرورت کے واسطے جائز رکھا ہے مَا مَلَكَتْ أَيْمَا نُكُمْ کا حکم کفار سے بدلہ لینے کے لئے دیا وراثت کے مسائل سوال کا جواب کہ بیٹوں کی موجودگی میں یتیم پوتا محروم الارث کیوں ہے اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک سے معاشرت کرو احصان سے مراد خاص وہ پاک دامن ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے صفحہ ۲۷۰ ۲۷۲ ۲۷۴ ۲۷۵ ۲۸۴ ۲۹۰ ۲۹۰ ۲۹۳ ۲۹۶ ۲۹۸ ۳۰۳ ۳۰۴ ۳۰۴ ٣٠٦ ٣٠٩ ٣١٣ ۳۱۵ ۳۱۶ ۴۸ شادی کے تین فائدے مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ میں مُحْصِنِینَ کے لفظ میں ایک نکتہ مہر کی مقدار کس قدر ہو الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ کی تفسیر نمبر شمار ΑΛ ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1.1+1 ۱۰۲ ۱۰۳ یہود کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی ۱۰۴ حضرت موسیٰ کے تین بڑے کام اور حضرت عیسی کا ان سے موازنہ ۱۰۵ اَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا میں امانت سے مراد 1+4 اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ میں أُولِي الْأَمْرِ سے مراد
xii نمبر شمار ۱۰۷ نبوت کی حقیقت ۱۰۸ صدیق کی حقیقت 1+9 11.شہید کی حقیقت صالح کی حقیقت مضمون صفحہ ۳۲۳ ۳۲۵ ۳۲۷ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۷ ۳۳۷ ۳۴۲ ۳۴۷ ۳۴۷ ۳۵۲ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۲ ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵ قصر نماز کے مسائل پانچ وقت کی نماز روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت عزیز رکھتا ہوں نمازوں میں تعد ا درکعات رکھنے کی وجہ ڈسچارج کا عربی میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ بڑی ہے اور ایکسٹ کا ترجمہ متبرء ہے الصُّلْحُ خَيْرُ ۱۱۷ عیسائیوں کا اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ ۱۱۸ ١١٩ ۱۲۱ بولنے کی اجازت دی ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبَهَ لَهُمْ سے ہرگز ثابت نہیں کہ مسیح فوت نہیں ہوا دلیل کا جواب کہ رفع سے رفع مع الجسد مراد ہے کیونکہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کے ضمیر کا مرجع بھی روح مع الجسد ہے علماء کا خیال کہ فی قتل اور نفی صلیب اور لفظ رفع دلالت کرتے ہیں کہ مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ الح کی شان نزول
صفحہ ۳۷۷ ۳۸۷ ۳۹۰ ۳۹۹ ۴۰۱ ۴۲۸ ۴۳۴ ۴۳۶ ۴۳۷ ۴۴۵ ۴۴۷ ۴۵۱ Xiii نمبر شمار مضمون ۱۲۲ مسیح کے صلیبی موت سے محفوظ رہنے کے متعلق انجیلی شہادتیں ۱۲۳ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ الخ یہود کے عقیدہ کہ مسیح مصلوب ہو کر ملعون ہوا مرفوع نہیں ہوا کے فیصلہ کے لیے ہے ۱۲۴ قَتَلُوا کے لفظ کو صَلَّبُوا کے لفظ پر مقدم بیان کرنے کی وجہ ۱۲۵ سوال کا جواب مسیح کو صلیب پر چڑھانا قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے ۱۲۶ مسیح کے صلیب سے زندہ اترنے کے متعلق اناجیل اور دیگر کتب کی شہادتیں ۱۲۷ اگر بَلْ نَفَعَهُ اللهُ الله کے یہی معنی ہیں کہ عیسی آسمان کی طرف اٹھائے گئے تو پھر اصل متنازعہ فیہ امر کہ عیسی ملعون ہونے کا فیصلہ کس آیت میں ہے ۱۲۸ سوال - آیت وَ اِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ مسیح ابن مریم کی زندگی پر دلالت کرتی ہے.کا جواب ۱۲۹ اِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتب الأليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ کے دو معنے ۱۳۰ آیت موصوفہ میں لیو مِنَنَّ کے استقبالی طور پر معنے ابن عباس وغیرہ صحابہ کے بیان کردہ معنے سے لفظ لَيُؤْمِنَنَّ کا خالص استقبال کے لیے مخصوص نہیں رہتا، کا جواب ۱۳۱ ۱۳۲ لیو مِنَن به کے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب کے معنے قطعیۃ الدلالت نہیں ٹھہر سکتے.اس کی وجوہ ۱۳۳ مفسرین نے ليُؤْمِنَنَّ بہ میں یہ کی ضمیر کے مرجع کے بارہ میں اختلاف کیا ہے
xiv مضمون آيت اِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ کے بارہ میں مفسرین کے مختلف معنے سیح کے كَلِمَةُ اللهِ اور رُوح مِنْہ ہونے سے ان کا ابن اللہ ہونا ثابت نہیں ہوتا صفح ۴۳۹ ۴۵۹ نمبر شمار ۱۳۴ ۱۳۵
XV اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے آیت صفحہ نمبر ۴۸ آیت قَالَتْ رَبِّ الى يَكُونُ لِي وَلَدٌ.وَ رَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَاءِيلَ أَنِّي قَدْ صفحہ ۴۷ ۵۲ ۷۲ ۷۳ LL 17.۱۶۱ ۱۶۷ ۱۶۹ ۱۷۰ 121 121 ۱۷۲ ۱۷۳ ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۷۴ 122 ۱۸۱ ۱۸۱ سورة ال عمران درودو الله لا إله إلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ مِن قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ أَنْزَلَ الْفُرْقَانَ.هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ.ربنا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا..۵۳ فلَمَّا اَحَسٌ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ.وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَاللهُ.اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ.ووو ۵۸،۵۷ فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَاعَةِ بُهُمُ ۶۰ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ..فَمَنْ حَاجَكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إلى.وذات طايقةٌ مِنْ أَهْلِ الكتب..ياهلَ الْكِتَبِ لِمَ تَلْبِسُونَ.وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ...وَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ مَنْ اِنْ تَأْمَنُهُ.وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ.قُلْ أَمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا.وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا.كَيْفَ يَهْدِى اللهُ قَوْمًا كَفَرُوا..اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِم.....لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوامِنَا.إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ.فِيهِ أَيْتَ بَيْنَتُ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ...۶۲ ۱۲ ۱۲ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ..الصبِرِينَ وَالصُّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ.إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ فَإِن حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ.4.۱۳ ۷۲ ۱۸ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا.قلِ اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ.تُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ..۷۳ ۱۹ 2Y ۱۹ ۸۲ قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي...قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ.۸۵ ۲۱ ۸۶ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي.۸۷ ۳۶ فَنَادَتْهُ الْمَليكة وَهُوَ قايم.قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لَى آيَةً قَالَ ايَتُكَ...۴۲ اذْ قَالَتِ الْمَلَبِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ....۹۱ ۴۱ ۹۳ ۹۷ ۴۲ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ.۹۸ ۴۷ ۴،۳ ۹ ۱۳ ۱۸ ۲۰ ۲۱ ۲۵ ۲۷ ۲۸ ۳۲ ۳۳ ۳۷ ۴۲ ۴۶ ۴۷
xvi صفحہ نمبر آیت مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ.صفحہ ۲۵۷ ۲۵۸ ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۴ ۲۶۴ ۲۶۴ ۲۶۹ ۲۷۰ ۲۷۰ ۲۹۲ ۲۹۲ ۲۹۳ ۲۹۴ ۲۹۴ ۲۹۷ ۲۹۷ ۳۰۲ ۱۸۰ ۱۸۶ ۱۸۷ ۱۸۶ ۱۸۹ ۱۸۶ ۱۸۸ لتُبُلُونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا.۱۹۱ ، ۱۹۲ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ.ربَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى.فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبَّهما ود يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا..سورة النساء آیت قُلْ يَا هُلَ الْكِتَبِ لِمَ تَصُدُّونَ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا.وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ.يوم تبیض وجوه وتسود وجوه..كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ...۱۸۹ ۱۹۴ ۱۸۸...۱۹۶ ۲۰۱ ۱۹۸ ۱۹۸ يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى.وَأتُوا الْيَتَى اَمْوَالَهُمْ وَلَا.وَإِنْ خِفْتُمُ الاَ تُقْسِطُوا فِي.وَاتُوا النِّسَاءَ صَدُ قُتِهِنَّ نِحْلَةً.وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاء اَمْوَالَكُم.۸ تا ۱۰ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ.اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتى.يُوصِيكُمُ اللهُ في أَولادكم وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ حُرمَتْ عَلَيْكُمْ أمَّهُتُكُمْ وَبَنْتُكُم.وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا.وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا.يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا.۳۰۳ ۳۰۶ ۳۰۶ ۳۰۷ ۳۰۸.....۱۹۹ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۴ ۲۰۸ ، ۲۰۸ ۲۰۹ 11 ۲۱۰ ۱۳ ،۱۲ ۲۴۸ ۱۵ ۲۴۹ ۲۰ ۲۴۹ ۲۴۹ ۲۳ ۲۵۰ ۲۴ ۲۵۳ ۲۵ ۲۶ ۲۵۳ ۲۹ ۲۵۵ ۳۰ ۲۵۶ ۳۵ ۲۵۶ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا.يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا.اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَلَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُم رووو الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ اِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَد مَشَ.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ.....وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوتَ.وَمَا كَانَ قَوْلَهُمُ اِلَّا اَنْ قَالُوا.سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا.اذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلُونَ.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُم ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۷ ۱۱۳ ۱۱۵ ۱۱۹ ۱۲۱ ۱۲۴ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۸ ۱۵۲ 17.۱۶۲ ܬܪܙ وَمَا كَانَ لِنَبِي أن يغل.لَقَدْ مَنَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ.۱۷۰، وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا..۱۷۴ 122 الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ.وَلَا يَحْزُنُكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ.
xvii 99191 ام يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايْتِنَا سَوفَ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله..فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَهُ.آیت صفحہ نمبر وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ.الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ.فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ.......يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ...۳۱۲ 1+1 ۳۱۰ ۱۰۲ ۳۱۰ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِه.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ أَنْفُسَهُمْ اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ...۳۱۴ أُولَبِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَمَنْ.۳۱۳ ۳۱۴ ۱۱۳ ۳۱۴ ۱۱۴ ۱۲۳ ۳۱۵ ۱۲۷ ۳۱۵ ۱۲۹ آیت صفحہ وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللهِ يَجِدُ....٣٣٣ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ....٣٣٣ ۳۳۳ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا اللهَ.۳۳۴ وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ اِنْ.....۳۳۸ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ.وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ.وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ وَمَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ اِثْمًا.ولولا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُه ۳۳۸ ۳۳۸ ۳۳۸ ۳۴۰ ۳۴۴ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ.۳۴۵ وَلِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.....٣٤٦ وَ اِنِ امْرَاةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا.۳۴۷ ۱۳۶ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ.ومَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى ۱۳۷ ۳۱۶ ۱۴۲ ۳۱۹ ۱۴۶ ۳۱۹ ۱۴۸ ۳۲۰ ياَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا مِنُوا بِاللهِ.۳۴۷ ۳۴۸ الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ...۳۴۸ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِى الدَّارُكِ الْاَسْفَلِ.مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَا بِكُم اِن.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَبِكَ.وو اَيْنَ مَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ.وَيَقُولُونَ طَاعَةُ فَإِذَا بَرَزُوا..أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَو.مَنْ يَشْفَع شَفَاعَةٌ حَسَنَةً يَكُنُ.وَإِذَا حُتِيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ.وَمَنْ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ لَا يَسْتَوِي الْقَعِدُونَ مِنَ.۳۲۰ ۱۵۱ تا ۱۵۳ إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ.۳۳۰ فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ.۳۳۰ ۱۵۷ تا ۱۵۹ وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۲ ۳۵۲ 17.وَاِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتب الا.۴۳۴ ۳۳۲ ۱۶۵ ۱۶۶ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ.۳۳۲ ۱۶۹، ۱۷۰ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ ظَلَبُوا لَم يَكُن..۳۳۲ يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ.۱۷۲ ۳۳۲ يَاهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ ۱۷۵ ۳۳۳ يايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرُهَانٌ....۴۵۷ ۴۵۸ ۴۵۸ ۴۵۹ ۴۶۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۴۲ ۴۴ ۴۷ ۴۹ ۵۰ ۵۲ ۵۳ ۵۷ ۵۹ ۶۳ ۶۶ 4.۷۹ ۸۲ ۸۳ ۸۶ ۸۷ ۹۴ ۹۵ ۹۶ 19
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ سورة ال عمران بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورة آل عمران بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الم الله إِلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَدِقَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَ اَنْزَلَ التَّورِيةَ وَالْإِنْجِيلَ وہی اللہ ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، اسی سے ہر ایک کی زندگی اور بقا ہے، اس نے حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تیرے پر کتاب اتاری.(نور القرآن نمبر اروحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) قرآنی عقیدہ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کا خالق اور پیدا کنندہ ہے اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا واقعی اور حقیقی طور پر قیوم بھی ہے یعنی ہر ایک چیز کا اسی کے وجود کے ساتھ بتا ہے اور اس کا وجود ہر یک چیز کے لیے بمنزلہ جان ہے اور اگر اس کا عدم فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہر یک چیز کا عدم ہوگا.غرض ہر یک وجود کے بقا اور قیام کے لیے اس کی معیت لازم ہے.(ست بیکن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۹۹) بقا مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۚ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ ٥ جولوگ خدا تعالیٰ کی آیتوں سے منکر ہو گئے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور خدا غالب، بدلہ لینے والا ہے.اب صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی منکروں کے لیے عذاب کا وعدہ ہے لہذا ضرور تھا کہ ان پر عذاب نازل ہوتا.پس خدا تعالیٰ نے تلوار کا عذاب ان پر وارد کیا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۱) b
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام b سورة ال عمران هُوَ الَّذِى اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ مِنْهُ أَيتَ مُحْكَمْتَ هُنَّ أُمُّ الْكِتَب وَ أَخَرُ مُتَشْبِهنَّ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَنَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَ مَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَةَ إِلَّا اللهُ وَ الرسخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ أَمَنَا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَرُ إلا أولوا الألباب.پیشگوئیوں کے ہمیشہ دو حصہ ہوا کرتے ہیں اور آدم سے اس وقت تک یہی تقسیم چلی آرہی ہے کہ ایک حصہ متشابہات کا ہوا کرتا ہے اور ایک حصہ بینات کا.اب حدیبیہ کے واقعات کو دیکھا جاوے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو سب سے بڑھ کر ہے مگر علم کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ آپ کا سفر کرنا دلالت کرتا تھا کہ آپ کی رائے اسی طرف تھی کہ فتح ہوگی.نبی کی اجتہادی غلطی جائے عار نہیں ہوا کرتی اصل صورت جو معاملہ کی ہوتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے انسان اور خدا میں یہی تو فرق ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخه ۲۹ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۷ ۱۴) ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک اور شبہات سے ہنوز لڑائی سے پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے، اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستبا ز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے اس لیے ایک مرد متقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کو سن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ کے ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آجاتا ہے اسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہر الیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ میں نہیں آتا اس میں سنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم کر کے اور اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اس کی دعاؤں کو سن کر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعے سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچاتا ہے لیکن متعصب آدمی جو عناد سے پر ہوتا ہے ایسا نہیں کرتا اور وہ ان امور کو جو حق کے پہچاننے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں تحقیر اور توہین کی
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظر سے دیکھتا اور ٹھٹھے اور ہنسی میں ان کو اڑا دیتا ہے اور وہ امور جو ہنوز اس پر مشتبہ ہیں ان کو اعتراض کرنے کی دستاویز بناتا ہے اور ظالم طبع لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے ہیں.چنانچہ ظاہر ہے کہ ہر ایک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں ان کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں؛ ایک بینات اور محکمات جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں اور ایک متشابہات جو محتاج تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پردے میں محجوب تھیں پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو ان پیشگوئیوں کے مصداق تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں.ایک فریق سعیدوں کا جنہوں نے بینات کو دیکھ کر ایمان لانے میں تاخیر نہ کی اور جو حصہ متشابہات کا تھا اُس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا ، آئندہ کے منتظر رہے اور اس طرح پر حق کو پالیا اور ٹھو کر نہ کھائی.حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا پہلی کتابوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو طور کی پیشگوئیاں تھیں؛ ایک یہ کہ وہ مسکینوں اور عاجزوں کے پیرا یہ میں ظاہر ہوگا اور غیر سلطنت کے زمانہ میں آئے گا اور داؤد کی نسل سے ہوگا اور حلم اور نرمی سے کام لے گا اور نشان دکھلائے گا اور دوسری قسم کی یہ پیشگوئیاں تھیں کہ وہ بادشاہ ہوگا اور بادشاہوں کی طرح لڑے گا اور یہودیوں کو غیر سلطنت کی ماتحتی سے چھڑا دے گا اور اس سے پہلے ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور جب تک ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ نہیں آئے گا.پھر جب حضرت عیسی نے ظہور فرمایا تو یہود دو فریق ہو گئے ؛ ایک فریق جو بہت ہی کم اور قلیل التعداد تھا اُس نے حضرت مسیح کو داؤد کی نسل سے پا کر اور پھر ان کی مسکینی اور عاجزی اور راست بازی دیکھ کر اور پھر آسمانی نشانوں کو ملاحظہ کر کے اور نیز زمانہ موجودہ کو دیکھ کر کہ وہ ایک نبی مصلح کو چاہتی ہے اور پہلی پیشگوئیوں کے قرار داد وقتوں کا مقابلہ کر کے یقین کر لیا کہ یہ وہی نبی ہے جس کا اسرائیل کی قوم کو وعدہ دیا گیا تھا سو وہ حضرت مسیح پر ایمان لائے اور اُن کے ساتھ ہو کر طرح طرح کے دُکھ اُٹھائے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اپنا صدق ظاہر کیا.لیکن جو بدبختوں کا گر وہ تھا اس نے کھلی کھلی علامتوں اور نشانوں کی طرف ذرہ التفات نہ کیا یہاں تک کہ زمانہ کی حالت پر بھی ایک نظر نہ ڈالی اور شریرا نہ حجت بازی کے ارادے سے دوسرے حصے کو جو متشابہات کا حصہ تھا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور نہایت گستاخی سے اُس مقدس کو گالیاں دینی شروع کیں اور اس کا نام ملحد اور بے دین اور کا فر رکھا اور یہ کہا کہ یہ شخص پاک نوشتوں کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور اس نے ناحق ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کی تاویل کی ہے اور نص صریح کو اُس کے ظاہر سے پھیرا ہے اور ہمارے علماء کو مکار اور ریا کا رکہتا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران کتب مقدسہ کے اُلٹے معنے کرتا ہے اور نہایت شرارت سے اس بات پر زور دیا کہ نبیوں کی پیشنگوئیوں کا ایک حرف بھی صادق نہیں آتا، وہ نہ بادشاہ ہو کر آیا اور نہ غیر قوموں سے لڑا اور نہ ہم کو اُن کے ہاتھ سے چھڑا یا اور نہ اس سے پہلے ایلیا نبی نازل ہوا پھر وہ مسیح موعود کیوں کر ہو گیا ؟ غرض ان بد قسمت شریروں نے سچائی کے انوار اور علامات پر نظر ڈالنا نہ چاہا اور جو حصہ متشابہات کا پیشگوئیوں میں تھا اُس کو ظاہر پر حمل کر کے بار بار پیش کیا.یہی ابتلا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اکثر یہودیوں کو پیش آیا.انہوں نے بھی اپنے اسلاف کی عادت کے موافق نبیوں کی پیشگوئیوں کے اُس حصہ سے فائدہ اُٹھانا نہ چاہا جو بینات کا حصہ تھا اور متشابہات جو استعارات تھے اپنی آنکھ کے سامنے رکھ کر یا تحریف شدہ پیشگوئیوں پر زور دے کر اُس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دولت اطاعت سے جو سید الکونین ہے محروم رہ گئے اور اکثر عیسائیوں نے بھی ایسا ہی کیا انجیل کی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہمارے (نبی) صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھیں ان کو تو ہاتھ تک نہ لگایا اور جو سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں کا دوسرا حصہ یعنی استعارات اور مجازات تھے اُن پر گر پڑے اس لئے حقیقت کی طرف راہ نہ پاسکے.لیکن ان میں سے وہ لوگ جو حق کے طالب تھے اور جو پیشگوئیوں کی تحریر میں طرز و عادت الہی سے اُس سے واقف تھے انہوں نے انجیل کی اُن پیشگوئیوں سے جو آنے والے بزرگ نبی کے بارے میں تھیں فائدہ اُٹھایا اور مشرف بااسلام ہوئے.اور جس طرح یہود میں سے اُس گروہ نے جو حضرت عیسی پر ایمان لائے تھے پیشگوئیوں کے بینات سے دلیل پکڑی تھی اور متشابہات کو چھوڑ دیا تھا ایسا ہی ان بزرگ عیسائیوں نے بھی کیا اور ہزار ہانیک بخت انسان اُن میں سے اسلام میں داخل ہوئے.غرض ان دونوں قوموں؛ یہود و نصاریٰ میں سے جس گروہ نے متشابہات پر جم کر انکار پر زور دیا اور مہینات پیشگوئیوں سے جو ظہور میں آئیں فائدہ نہ اُٹھایا، ان دونوں گروہ کا قرآن شریف میں جابجاذکر ہے اور یہ ذکر اس لئے کیا گیا کہ تا ان کی بد بختی کے ملاحظہ سے مسلمانوں کو سبق حاصل ہو اور اس بات سے متنبہ رہیں کہ یہود، نصاری کی مانند بینات کو چھوڑ کر اور متشابہات میں پڑ کر ہلاک نہ ہو جائیں.اور ایسی پیشگوئیوں کے بارے میں جو مامور من اللہ کے لئے پہلے سے بیان کی جاتی ہیں امید نہ رکھیں کہ وہ اپنے تمام پہلوؤں کے رو سے ظاہری طور پر ہی پوری ہوں گی بلکہ اس بات کے ماننے کے لئے تیار رہیں کہ قدیم سنت اللہ کے موافق بعض حصے ایسی پیشگوئیوں کے استعارات اور مجازات کے رنگ میں بھی ہوتے ہیں اور اسی رنگ میں وہ پوری بھی ہو جاتی ہیں مگر غافل اور سطحی خیال کے انسان ہنوز انتظار میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران لگے رہتے ہیں کہ گویا ابھی وہ باتیں پوری نہیں ہوئیں بلکہ آئندہ ہوں گی جیسا کہ یہود ابھی تک اس بات کو روتے ہیں کہ ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور پھر اُن کا مسیح موعود بڑے بادشاہ کی طرح ظاہر ہوگا اور یہودیوں کو امارت اور حکومت بخشے گا حالانکہ یہ سب باتیں پوری ہو چکیں اور اُس پر انیس سو برس کے قریب عرصہ گزر گیا اور آنے والا آ بھی گیا اور اس دنیا سے اُٹھایا بھی گیا.( البدر جلد ۲ نمبر ۴۷، مورخه ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۲) یہ بات نہایت کارآمد اور یا درکھنے کے لائق تھی کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ہو کر آتے ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی یا محدث اور مجدد، ان کی نسبت جو پہلی کتابوں میں یارسولوں کی معرفت پیشگوئیاں کی جاتی ہیں ان کے دو حصے ہوتے ہیں؛ ایک وہ علامات جو ظاہری طور پر وقوع میں آتی ہیں اور ایک متشابہات جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں ہوتی ہیں.پس جن کے دلوں میں زیغ اور کبھی ہوتی ہے وہ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور طالب صادق بینات اور محکمات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.یہود اور عیسائیوں کو یہ ابتلا پیش آچکے ہیں.پس مسلمانوں کے اولوالا بھار کو چاہئے کہ اُن سے عبرت پکڑیں اور صرف متشابہات پر نظر رکھ کر تکذیب میں جلدی نہ کریں اور جو باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کھل جائیں اُن سے اپنی ہدایات کے لئے فائدہ اٹھا دیں.یہ تو ظاہر ہے کہ شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا پس پیشگوئیوں کا وہ دوسرا حصہ جو ظاہری طور پر ابھی پورا نہیں ہوا وہ ایک امر شکی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کی طرح وہ حصہ استعارات یا مجاز کے رنگ میں پورا ہو گیا ہو مگر انتظار کرنے والا اس غلطی میں پڑا ہو کہ وہ ظاہری طور پر کسی دن پورا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض احادیث کے الفاظ محفوظ نہ رہے ہوں کیونکہ احادیث کے الفاظ وحی متلو کی طرح نہیں اور اکثر احادیث احاد کا مجموعہ ہیں اعتقادی امر تو الگ بات ہے جو چاہو اعتقاد کرو مگر واقعی اور حقیقی فیصلہ یہی ہے کہ احاد میں عند العقل امکان تغیر الفاظ ہے چنانچہ ایک ہی حدیث جو مختلف طریقوں اور مختلف راویوں سے پہنچتی ہے اکثر ان کے الفاظ اور ترتیب میں بہت سا فرق ہوتا ہے حالانکہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی منہ سے نکلی ہے.پس صاف سمجھ آتا ہے کہ چونکہ اکثر راویوں کے الفاظ اور طرز بیان جُدا جُدا ہوتے ہیں اس لئے اختلاف پڑ جاتا ہے اور نیز پیشگوئیوں کے متشابہات کے حصہ میں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہونا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اور شخص کے واسطے سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران کہ قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے اور آنجناب نے نہ قیصر اور کسری کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود خلی طور پر گویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لئے عالم وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا.خلاصہ کلام یہ کہ دھوکا کھانے والے اسی مقام پر دھوکا کھاتے ہیں ، وہ اپنی بدقسمتی سے پیشگوئی کے ہر ایک حصہ کی نسبت یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ظاہری طور پر ضرور پورا ہوگا اور پھر جب وقت آتا ہے اور کوئی مامور من اللہ آتا ہے، تو جو جو علامتیں اُس کے صدق کی نسبت ظاہر ہو جائیں ان کی کچھ پرواہ نہیں رکھتے اور جو علامتیں ظاہری صورت میں پوری نہ ہوں یا ابھی اُن کا وقت نہ آیا ہو ان کو بار بار پیش کرتے ہیں.ہلاک شدہ امتیں جنہوں نے سچے نبیوں کو نہیں مانا ان کی ہلاکت کا اصل موجب یہی تھا، اپنے زعم میں تو وہ لوگ اپنے تئیں بڑے ہوشیار جانتے رہے ہیں مگر ان کے اس طریق نے قبول حق سے اُن کو بے نصیب رکھا.یہ عجیب ہے کہ پیشگوئیوں کی نانہی کے بارے میں جو کچھ پہلے زمانہ میں یہود اور نصاری سے وقوع میں آیا اور انہوں نے بچوں کو قبول نہ کیا.ایسا ہی میری قوم مسلمانوں نے میرے ساتھ معاملہ کیا یہ تو ضروری تھا کہ قدیم سنت اللہ کے موافق وہ پیشگوئیاں جو مسیح موعود کے بارے میں کی گئیں وہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہوتیں؛ ایک حصہ بینات کا جو اپنی ظاہر صورت پر واقع ہونے والا تھا اور ایک حصہ متشابہات کا جو استعارات اور مجازات کے رنگ میں تھا.لیکن افسوس کہ اس قوم نے بھی پہلے خطا کا رلوگوں کے قدم پر قدم مارا اور متشابہات پر اڑ کر ان بینات کو رد کر دیا جو نہایت صفائی سے پوری ہوگئی تھیں.حالانکہ شرط تقویٰ یہ تھی کہ پہلی قوموں کے ابتلاؤں کو یاد کرتے ، متشابہات پر زور نہ مارتے اور مبینات سے یعنی ان باتوں اور ان علامتوں سے جو روزِ روشن کی طرح کھل گئی تھیں فائدہ اٹھاتے.مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں پیش کی جاتی ہیں جن کے اکثر حصے نہایت صفائی سے پورے ہو چکے ہیں تو نہایت لا پرواہی سے اُن سے منہ پھیر لیتے ہیں اور پیشگوئیوں کی بعض باتیں جو استعارات کے رنگ میں تھیں پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حصہ پیشگوئیوں کا کیوں ظاہری طور پر پورا نہیں ہوا.اور با ایں ہمہ جب پہلے مذبوں کا ذکر آوے جنہوں نے بعینہ اُن لوگوں کی طرح واقع شدہ
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام علامتوں پر نظر نہ کی اور متشابہات کا حصہ جو پیشگوئیوں میں تھا اور استعارات کے رنگ میں تھا اس کو دیکھ کر کہ وہ ظاہری طور پر پورا نہیں ہو ا حق کو قبول نہ کیا.تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ان کے زمانہ میں ہوتے تو ایسا نہ کرتے حالانکہ اب یہ لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں جیسا کہ ان پہلے مکذبوں نے کیا.جن ثابت شدہ علامتوں اور نشانوں سے قبول کرنے کی روشنی پیدا ہو سکتی ہے اُن کو قبول نہیں کرتے اور جو استعارات اور مجازات اور متشابہات ہیں ان کو ہاتھ میں لئے ہوئے پھرتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں پوری نہیں ہوئیں حالانکہ سنت اللہ کی تعلیم طریق کے موافق ضرور تھا کہ وہ باتیں اس طرح پوری نہ ہوتیں جس طرح ان کا خیال ہے یعنی ظاہری اور جسمانی صورت پر.بے شک ایک حصہ ظاہری طور پر اور ایک حصہ مخفی طور پر پورا ہو گیا لیکن اس زمانہ کے متعصب لوگوں کے دلوں نے نہیں چاہا کہ قبول کریں وہ تو ہر ایک ثبوت کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں وہ خدا کے نشانوں کو انسان کی مکاری خیال کرتے ہیں.جب خدائے قدوس کے پاک الہاموں کو سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان کا افترا ہے مگر اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ کیا کبھی خدا پر افترا کرنے والے کو مفتریات کے پھیلانے کے لئے وہ مہلت ملی جو سچے ملہموں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ؟ کیا خدا نے نہیں کہا کہ الہام کا افترا کے طور پر دعوی کرنے والے ہلاک کئے جائیں گے اور خدا پر جھوٹ بولنے والے پکڑے جائیں گے؟ یہ تو توریت میں بھی ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا اور انجیل میں بھی ہے کہ جھوٹا جلدفتا ہوگا اور اس کی جماعت متفرق ہو جائے گی.کیا کوئی ایک نظیر بھی ہے کہ جھوٹے ملہم نے جو خدا پر افترا کرنے والا تھا ایام افترا میں وہ عمر پائی جو اس عاجز کو ایام دعوت الہام میں ملی ؟ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو پیش تو کرو! میں نہایت پر زور دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا کی ابتدا سے آج تک ایک نظیر بھی نہیں ملے گی.پس کیا کوئی ایسا ہے کہ اس محکم اور قطعی دلیل سے فائدہ اٹھاوے اور خدا تعالیٰ سے ڈرے؟ میں نہیں کہتا کہ بت پرست عمر نہیں پاتے یاد ہر یہ یا انا الحق کہنے والے جلد پکڑے جاتے ہیں کیونکہ ان غلطیوں اور ضلالتوں کی سزا دینے کے لئے دوسرا عالم ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر الہام کا افتر ا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ الہام مجھ کو ہوا حالانکہ جانتا ہے کہ وہ الہام اس کو نہیں ہوا وہ جلد پکڑا جاتا ہے اور اُس کی عمر کے دن بہت تھوڑے ہوتے ہیں.قرآن اور انجیل اور توریت نے یہی گواہی دی ہے، عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے اور اس کے مخالف کوئی منکر کسی تاریخ کے حوالہ سے ایک نظیر بھی پیش نہیں کر سکتا اور نہیں دکھلا سکتا کہ کوئی جھوٹا الہام کا دعویٰ کرنے والا پچیس برس تک یا اٹھارہ برس تک جھوٹے
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الہام دنیا میں پھیلاتا رہا اور جھوٹے طور پر خدا کا مقرب اور خدا کا ماموراور خدا کافرستادہ اپنا نام رکھا اور اس کی تائید میں سالہائے دراز تک اپنی طرف سے الہامات تراش کر مشہور کرتا رہا اور پھر وہ با وجود ان مجرمانہ حرکات کے پکڑا نہ گیا.کیا امید کی جاتی ہے کہ کوئی ہمارا مخالف اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ! ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ ان سوالات کے جواب دینے سے عاجز ہیں مگر پھر بھی انکار سے باز نہیں آتے بلکہ بہت سے دلائل سے اُن پر حجت وارد ہو گئی مگر وہ خواب غفلت میں سورہے ہیں.البدر جلد ۲، نمبر ۴۸ ، مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۸۳،۳۸۲) پیشگوئی میں کسی قدر اخفاء اور متشابہات کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہی ہمیشہ سے سنت الہی ہے.ملا کی نبی اگر اپنی پیشگوئی میں صاف لکھ دیتا کہ الیاس خود نہ آئے گا بلکہ اس کا مثیل ، تو حضرت عیسی کے ماننے میں اس قدر وقتیں اس زمانہ کے علماء کو پیش نہ آتیں.ایسا ہی اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو پیشگوئیاں تو ریت اور انجیل میں ہیں وہ نہایت ظاہر الفاظ میں ہوتیں کہ آنے والا نبی آخر زمان، اسماعیل کی توریت اولاد میں سے ہوگا اور شہر مکہ میں ہوگا تو پھر یہودیوں کو آپ کے ماننے سے کوئی انکار نہ ہو سکتا تھا لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ ان میں متقی کون ہے جو صداقت کو اس کے نشانات سے دیکھ کر پہچانتا اور اُس پر ایمان لاتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۱۶ رمئی ۱۹۰۷ صفحه ۳) رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ انتَ الْوَهَّابُ اے ہمارے خدا! ہمارے دل کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت کو تو ہی بخشتا ہے.( تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲۷) ربَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَة خدا تخلف وعدہ نہیں کرے گا.(براہین احمدیہ ہر چہار حص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۵ حاشیہ نمبر ۱۱) وعدہ سے مراد وہ امر ہے جو علم الہی میں بطور وعدہ قرار پاچکا ہے نہ وہ امر جو انسان اپنے خیال کے مطابق اس
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدم کو قطعی وعدہ خیال کرتا ہو.اسی وجہ سے المیعاد پر جو الف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے یعنی وہ امر جو ارادہ قدیمہ میں وعدہ کے نام سے موسوم ہے گو انسان کو اُس کی تفاصیل پر علم ہو یا نہ ہو وہ غیر متبدل ہے ور نہ ممکن ہے جو انسان جس بشارت کو وعدہ کی صورت میں سمجھتا ہے اُس کے ساتھ کوئی ایسی شرط مخفی ہو جس کا عدم تحقق ، اس بشارت کے عدم تحقق کے لئے ضرور ہو کیونکہ شرائط کا ظاہر کرنا اللہ جل شانہ پر حق واجب نہیں ہے.چنانچہ اسی بحث کو شاہ ولی اللہ صاحب نے بسط سے لکھا ہے اور مولوی عبدالحق صاحب دہلوی نے بھی فتوح الغیب کی شرح میں اس میں بہت عمدہ بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بدر کی لڑائی میں تضرع اور دعا کرنا اسی خیال سے تھا کہ الہی مواعید اور بشارات میں احتمال شرط مخفی ہے اور یہ اس لئے سنت اللہ ہے کہ تا اس کے خاص بندوں پر ہیبت اور عظمت الہی مستولی رہیں.ماحصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں بے شک مختلف نہیں وہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں پورے ہو جاتے ہیں لیکن انسان ناقص العقل کبھی ان کو تخلف کی صورت میں سمجھ لیتا ہے کیونکہ بعض ایسی مخفی شرائط پر اطلاع نہیں پاتا جو پیشگوئی کو دوسرے رنگ میں لے آتے ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ الہامی پیشگوئیوں میں یہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ وہ ہمیشہ ان شرائط کے لحاظ سے پوری ہوتی ہیں جو سنت اللہ میں اور الہی کتاب میں مندرج ہو چکی ہیں گو وہ شرائکہ کسی ولی کے الہام میں ہوں یا نہ ہو.مجموعہ اشتہارات ، جلد صفحه ۴۴۸،۴۴۷ حاشیه ) وقتوں اور میعادوں کا ٹلنا تو ایک ایسی سنت اللہ ہے جس سے بجز ایک سخت جاہل کے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا.دیکھو! حضرت موسیٰ کو نزول توریت کے لئے تھیں رات کا وعدہ دیا تھا اور کوئی ساتھ شرط نہ تھی مگر وہ وعدہ قائم نہ رہا اور اُس پر دس دن اور بڑھائے گئے جس سے بنی اسرائیل گوسالہ پرستی کے فتنہ میں پڑے.پس جبکہ اس نص قطعی سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے وعدہ کی تاریخ کو بھی ٹال دیتا ہے جس کے ساتھ کسی شرط کی تصریح نہیں کی گئی تھی تو وعید کی تاریخ میں عند الرجوع تاخیر ڈالنا خود گرم میں داخل ہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ اگر تاریخ عذاب کسی کے تو بہ استغفار سے مل جائے تو اُس کا نام تختلف وعدہ نہیں کیونکہ بڑا وعدہ سنت اللہ ہے پس جبکہ سنت اللہ پوری ہوئی تو وہ ایفا ء وعدہ ہوا نہ تخلف وعدہ.( مجموعہ اشتہارات جلدا صفحه ۴۴۶، ۴۴۷) خدا کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا اور بڑا رحیم کریم ہے جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اُسے ہر ذلت سے نجات دیتا ہے اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے مگر وہ جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1.سورة ال عمران ایک طرف دعوی اتقا کرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے.ان دونو میں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا ؟ خدا تعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے : إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ المعاد (ال عمران:۹) خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا خلاف نہیں کرتا.ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے.اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا اُن کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا کی نظر میں قابل وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے ، لوگوں کے متقی اور ریا کا رانسان ہوتے ہیں.سو اُن پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں.خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مؤرخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۵) کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا یہ مذہب ہے کہ خدا اپنے ارادوں کو بدلا نہیں سکتا اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی کو ٹال نہیں سکتا.مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہے گا اور ہم ایسے خدا پر ایمان ہی نہیں لاتے کہ جو بلا کو تو بہ اور استغفار سے رڈ نہ کر سکے اور تضرع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے ، وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا.یہاں تک کہ پہلی آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی صرف پندرہ دن کی عمر رہ گئی تھی خدا نے اُس کی تضرع اور گریہ وزاری سے بجائے پندرھا دن کے پندرہ سال کر دیئے یہی ہمارا ذاتی تجربہ ہے ایک خوفناک پیشگوئی ہوتی ہے اور دُعا سے ٹل جاتی ہے.پس اگر ان لوگوں کا فرضی خدا ان باتوں پر قادر نہیں تو ہم اُس کو نہیں مانتے.ہم اُس خدا کو مانتے ہیں جس کی صفت قرآن شریف میں یہ کھی ہے کہ : آلَم تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ١٠٧) اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی ملنے کے بارہ میں تمام نبی متفق ہیں.رہی وعدہ کی پیشگوئی جس کی نسبت یہ حکم ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ المعاد، اس کی نسبت بھی ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا اس وعدہ کا تخلف نہیں کرتا جو اُس کے علم کے موافق ہے لیکن اگر انسان اپنی غلطی سے ایک بات کو خدا کا وعدہ سمجھ لے جیسا کہ حضرت نوح نے سمجھ لیا تھا ایسا متخلف وعدہ جائز ہے کیونکہ دراصل وہ خدا کا وعدہ نہیں بلکہ انسانی غلطی نے خواہ مخواہ اُس کو وعدہ قرار دیا ہے اسی کے متعلق سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں: قَدْ يُوعَدُ وَ لَا يُوفی یعنی بھی خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے اور اُس کو پورا نہیں کرتا.اس قول کے بھی یہی معنی ہیں کہ اس وعدہ کے ساتھ مخفی طور پر کئی شرائط ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر واجب نہیں کہ تمام شرائط ظاہر کرے.پس اس جگہ ایک کچا آدمی ٹھوکر کھا کر منکر ہو جاتا ہے اور کامل انسان اپنے جہل کا اقرار کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام بدر کی لڑائی کے وقت باوجود یکہ فتح کا وعدہ تھا بہت رو رو کر دعا کرتے رہے اور جناب الہی میں عاجزانہ یہ مناجات کی کہ : اللَّهُمَّ إِنْ أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا کیونکہ آپ اس سے ڈرتے تھے کہ شاید اس وعدہ کے اندر کوئی مخفی شرائط ہوں جو پوری نہ ہو سکیں.ہر کہ عارف تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۷۲،۵۷۱) ترست ترساں تر.خدا تعالیٰ نے ابتدا سے وعید کے ساتھ یہ شرط لگا رکھی ہے کہ اگر چاہوں تو وعید کو موقوف کروں اس لئے قرآن میں یہ تو آیا ہے کہ : اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ اور یہ نہیں آیا کہ: إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْوَعِيْد (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳، صفحه ۴۱) لوگ اس نعمت سے بے خبر ہیں کہ صدقات، دعا اور خیرات سے رو بلا ہوتا ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو انسان زندہ ہی مر جاتا.مصائب اور مشکلات کے وقت کوئی امید اس کے لئے تسلی بخش نہ ہوتی مگر نہیں! اس نے لا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ فرمایا ہے ، لَا يُخْلِفُ الْوَعِيدَ نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ کے وعید معلّق ہوتے ہیں جو دعا اور صدقات سے بدل جاتے ہیں اس کی بے انتہا نظیریں موجود ہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی فطرت میں مصیبت اور بلا کے وقت دعا اور صدقات کی طرف رجوع کرنے کا جوش ہی نہ ہوتا.جس قدر راست باز اور نبی دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ کسی ملک اور قوم میں آئے ہوں مگر یہ بات ان سب کی تعلیم میں یکساں ملتی ہے کہ انہوں نے صدقات اور خیرات کی تعلیم دی.اگر خدا تعالیٰ تقدیر کے محود اثبات پر قادر نہیں تو پھر یہ ساری تعلیم فضول ٹھہر جاتی ہے اور پھر ماننا پڑے گا کہ دعا کچھ نہیں اور ایسا کہنا ایک عظیم الشان صداقت کا خون کرنا ہے.اسلام کی صداقت اور حقیقت دعا ہی کے نکتہ کے نیچے مخفی ہے کیونکہ اگر دعا نہیں تو نماز بے فائدہ، زکوۃ بے سود اور اسی طرح سب اعمال معاذ اللہ! الغو ٹھہرتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۳،مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۳) مجھے افسوس آتا ہے کہ ہمارے مخالف مسلمان تو کہلاتے ہیں لیکن اسلام کے اصول سے بے خبر ہیں.اسلام میں یہ مسلم امر ہے کہ جو پیشگوئی وعید کے متعلق ہو اس کی نسبت ضروری نہیں کہ خدا اس کو پورا کرے یعنی جس پیشگوئی کا یہ مضمون ہو کہ کسی شخص یا گروہ پر کوئی بلا پڑے گی.اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس بلا کو ٹال دے جیسا کہ یونس کی پیشگوئی کو جو چالیس دن تک محدود تھی ٹال دیا لیکن جس یعنی اے میرے خدا! اگر تو نے اس گروہ کو ہلاک کردیا تو پھر زمین پر کوئی تیری پرستش نہیں کرے گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة ال عمران پیشگوئی میں وعدہ ہو یعنی کسی انعام اکرام کی نسبت پیشگوئی ہو وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ : إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الميعاد مگر کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ: إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْوَعِيْد.پس اس میں راز یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئی خوف اور دُعا اور صدقہ خیرات سے مل سکتی ہے.تمام پیغمبروں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ اور دُعا اور خوف اور خشوع سے وہ بلا جو خدا کے علم میں ہے، جو کسی شخص پر آئے گی وہ رق (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۴) ہو سکتی ہے.قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ۱۳ کافروں کو کہہ دے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور پھر آخر جہنم میں پڑو گے.کہ b ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۹ حاشیہ نمبر ۱۱) انسان جس لذت کا خو گرفتہ اور عادی ہو جب وہ اس سے چھڑائی جاوے تو وہ ایک دکھ اور درد محسوس کرتا ہے اور یہی جہنم ہے پس جبکہ ساری لذتیں دنیا کی چیزوں میں محسوس کرنے والا ہو تو ایک دن یہ ساری لذتیں تو چھوڑنی پڑیں گی پھر وہ سیدھا جہنم میں جاوے گا لیکن جس شخص کی ساری خوشیاں اور لذتیں خدا میں ہیں اس کو کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہو سکتی.وہ اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو سیدھا بہشت الحکم جلدے نمبر ا ، مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه (۱۱) میں ہوتا ہے.الصبِرِينَ وَ الصُّدِقِينَ وَ الْقَنِتِينَ وَ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بالأسْحَارِ خدا تعالیٰ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم ہر روز صبح کے وقت استغفار کیا کرو.وہ فرماتا ہے: الصبرين وَالصَّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ پھر فرماتا ہے: إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذلِكَ مُحْسِنِينَ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ وَ بِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الذاريات: ۱۷ تا ۱۹) ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں یہی حکم نہیں کرتا کہ جس وقت تم سے کوئی گناہ سرزد ہو اُس وقت استغفار کیا کرو بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بغیر گناہوں کے ارتکاب کے بھی ہم استغفار کیا کریں.لے استغفار کے لئے دیکھیں تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۰۰ ریویو جلد ۲ نمبر ۶ بابت جون ۱۹۰۳ء صفحه ۲۴۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة ال عمران قف اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا b مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرُ بِأَيْتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ.اسلام کے لفظ میں نظر کیجئے کہ اس کے لغوی معنے تو صرف یہی ہیں کہ جو کسی کو کام سونپا یا ترک مقابلہ اور (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، جلد ۱ صفحه ۲۴۵ حاشیه در حاشیه ۱) فروگذاشت اور اطاعت.واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو ص اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ: بلی " مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ١١٣) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالی کی شناخت اور اس کی طاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالص اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر ایک خدا داد تو فیق سے وابستہ ہیں بجالا وے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸،۵۷) حقیقت اسلامیہ جس کی تعلیم قرآن کریم فرماتا ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اسی حقیقت کے ظاہر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے اور تمام الہی کتابوں کا یہی مدعا رہا ہے کہ تا بنی آدم کو اس صراط مستقیم پر قائم کریں لیکن قرآن کریم کی تعلیم کو جو دوسری تعلیموں پر کمال درجہ کی فوقیت ہے تو اس کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام دو وجہ ہیں ؛ ۱۴ سورة ال عمران اول یہ کہ پہلے نبی اپنے زمانہ کے جمیع بنی آدم کیلئے مبعوث نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ صرف اپنی ایک خاص قوم کیلئے بھیجے جاتے تھے جو خاص استعداد میں محدود اور خاص طور کے عادات اور عقائد اور اخلاق اور روش میں قابل اصلاح ہوتے تھے پس اس وجہ سے وہ کتابیں، قانون مختص القوم کی طرح ہو کر صرف اسی حد تک اپنے ساتھ ہدایت لاتی تھیں جو اس خاص قوم کے مناسب حال اور ان کے پیمانہ استعداد کے موافق ہوتی تھی.دوسری وجہ یہ کہ ان انبیاء علیہم السلام کو ایسی شریعت ملتی تھی جو ایک خاص زمانہ تک محدود ہوتی تھی اور خدا تعالیٰ نے ان کتابوں میں یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ دنیا کے اخیر تک وہ ہدایتیں جاری رہیں اس لئے وہ کتابیں، قانون مختص الزمان کی طرح ہو کر صرف اسی زمانہ کی حد تک ہدایت لاتی تھیں جو ان کتابوں کی پابندی کا زمانہ حکمت الہی نے اندازہ کر رکھا تھا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۶ تا ۱۲۸) قرآن کریم نے حقیقت اسلامیہ کی تحصیل کے لئے بہت سے وسائل بیان فرمائے ہیں مگر در حقیقت ان سب کا مال دو قسم پر ہی جا ٹھہرتا ہے ؛ اول یہ کہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی مالکیت تامہ اور اس کی قدرت تامہ اور اس کی حکومت تامہ اور اس کے علم تام اور اس کے حساب تام اور نیز اس کے واحد لا شریک اور حی قیوم اور حاضر ناظر ذ والاقتدار اور ازلی ابدی ہونے میں اور اس کی تمام قوتوں اور طاقتوں اور جمیع جلال و کمال کے ساتھ یگانہ ہونے میں پورا پورا یقین آجائے یاں تک کہ ہر ایک ذرہ اپنے وجود اور اس تمام عالم کے وجود کا اس کے تصرف اور حکم میں دکھائی دے اور هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ (الانعام :۱۹) کی تصویر سامنے نظر آ جاوے اور نقش راسخ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کا جلی قلم کے ساتھ دل میں لکھا جائے یاں تک کہ اس کی عظمت اور ہیبت اور کبریائی تمام نفسانی جذبات کو اپنی قہری شعاعوں سے مضمحل اور خیرہ کر کے ان کی جگہ لے لے اور ایک دائمی رُعب اپنا دل پر جما دیوے اور اپنے قہری حملہ سے نفسانی سلطنت کے تخت کو خاک مذلت میں پھینک دیوے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیوے اور اپنے خوفناک کرشموں سے غفلت کی دیواروں کو گرا دے اور تکبر کے میناروں کو توڑ دے اور ظلمت بشری کی حکومتیں وجود انسانی کی دارالسلطنت سے بکلی اٹھا دیوے اور جو جذبات نفس امارہ کی طبیعت انسانی پر حکومت کرتے تھے اور باعزت سمجھے گئے تھے ان کو ذلیل اور خوار اور بیچ اور بے مقدار کر کے دکھلا دیوے.دوم یہ کہ اللہ جل شانہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة ال عمران کے حسن و احسان پر اطلاع وافر پیدا کرے کیونکہ کامل درجہ کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۲) جب کوئی اپنے مولی کا سچا طالب کامل طور پر اسلام پر قائم ہو جائے اور نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر خدا تعالیٰ کی راہوں میں ہر ایک قوت اس کے کام میں لگ جائے تو آخری نتیجہ اُس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی اعلیٰ تجلیات تمام تُحجب سے مبرا ہو کر اس کی طرف رُخ کرتی ہیں اور طرح طرح کی برکات اس پر نازل ہوتی ہیں اور وہ احکام اور وہ عقائد جو محض ایمان اور سماع کے طور پر قبول کئے گئے تھے اب بذریعہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات یقینیہ قطعیہ، مشہود اور محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں اور مغلقات شرع اور دین کے اور اسرار سربستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور ملکوت الہی کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے تا وہ یقین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور ہمت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور بشریت کے حجابوں کی تنگدلی اور خست اور بخل اور بار بار کی لغزش اور تنگ چشمی اور غلامی شہوات اور ر داعت اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بنگلی اس سے دور کر کے اس کی جگہ زبانی اخلاق کا نور بھر دیا جاتا ہے.تب وہ بنگلی مبدل ہو کر ایک نئی پیدائش کا پیرا یہ پہن لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے سنتا اور خدائے تعالیٰ سے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے اور اس کا غضب خدائے تعالیٰ کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہو جاتا ہے اور اس درجہ میں اس کی دعائیں بطور اصطفاء کے منظور ہوتی ہیں نہ بطور ابتلا کے اور وہ زمین پر حجت اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالماتِ الہیہ اور مخاطبات حضرت یزدانی ہیں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی غبار کے چاند کے نور کی طرح اس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں اور ایک شدیدالاثر لذت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور طمانیت اور تسلی اور سکینت بخشتے ہیں.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۷ تا ۲۳۱) قرآن کریم نے اسلام کی نسبت جس کو وہ پیش کرتا ہے یہ فرمایا ہے: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ ، وَ ج مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِينَ (آل عمران: ٨٢)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة ال عمران ترجمہ یعنی دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جاوے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۵) وہ دین جس میں خدا کی معرفت صحیح اور اس کی پرستش احسن طور پر ہے ، وہ اسلام ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۵) إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ - یعنی سب دین جھوٹے ہیں مگر اسلام.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۳۱۴ حاشیه ) اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رُو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جا ئیں.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۳) اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہوجانا اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بنا پر اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو، یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قوی اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالی کی رحمت اپنے زندہ کلام اور حمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اُس کی گنہ تک نہیں پہنچتیں ، وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے.لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۰) سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.چنانچہ خود اللہ تعالی اس بیہی وقف کی طرف ایما کر کے فرماتا ہے : بلی من أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ١١٣)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام 12 سورة ال عمران اس جگہ اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّهِ.رَ وَجْهَهُ لِلہ کے معنے یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلیل کا لباس پہن کر آستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبر و غرض جو کچھ اس کے پاس ہے خدا ہی کے لیے وقف کرے اور دنیا اور اس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۳) اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز ، میری قربانیاں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنی گردن رکھتا ہوں.س الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) اِنّ الدّينَ عِندَ اللهِ الإِسْلَامُ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے اسلام ہے اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں.ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا (البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۳) ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو ( خدا ) آگ سے بچاتا ہے اور جو خود آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں یہ سلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرے.(البدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۳) اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر ادھر بالکل نہ جاوے.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳/ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۵۹) اپنے آپ کو ہر آن واحد میں خدا کا محتاج جاننا اور اس کے آستانہ پر سر رکھنا یہی اسلام ہے.....اسلام نام ہے، خدا کے آگے گردن جھکا دینے کا.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۶ مورخه ۸ روسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۶۲) اسلام اس بات کا نام ہے کہ قرآن شریف کی اتباع سے خدا کو راضی کیا جاوے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۵، مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ ، صفحه ۳) اسلام کے سوا اور کوئی دین قبول نہیں ہوسکتا اور یہ نرا دعوی نہیں تاثیرات ظاہر کر رہی ہیں اگر کوئی اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ، ہمارے ساتھ مقابلہ کر لے اور ہم نے ہمیشہ ایسی دعوت کی ہے، کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰، مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ ءصفحہ ۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸ سورة ال عمران اسلام کے معنے تو یہ تھے کہ انسان خدا کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاوے اور جس طرح پر ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اس طرح پر مسلمان کی گردن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے لئے رکھ دی جاوے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہی کو وحدہ لاشریک سمجھے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۶،مورخه ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۵) اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی سب کی سب اللہ ہی کے آستانہ پرگری ہوئی ہوں.( حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت وجود پر ایک خط صفحه ۱۰ مرتبه شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) یا درکھو! اسلام ایک موت ہے، جب تک کوئی شخص نفسانی جذبات پر موت وارد کر کے نئی زندگی نہیں پاتا اور خدا ہی کے ساتھ بولتا، چلتا پھرتا سنتا دیکھتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہوتا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۸) سچا رجوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی رضاء سے رضاء انسانی مل جاوے.یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیا اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوتا ہے، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوتا ہے.اس لئے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے.اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴) فَإِن حَاجُوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ، وَقُلْ لِلَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمِينَ وَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوا وَإِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ وَاللهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تیں رب العالمین کے لئے خالص کرلوں یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ ربّ العالمین ہے میں خادم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹ سورة ال عمران العالمین بنوں اور ہمہ تن اسی کا اور اسی کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کر دیا ہے اب کچھ بھی میر انہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۵) اور اے پیغمبر ! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچا دو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم اُن سے جنگ کرو.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت.(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۳) ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا ايَّامًا مَّعْدُودَةٍ وَغَرَّهُم في دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ عرب کے مشرکوں کی طرح اس ملک کے اہل کتاب بھی جرائم پیشہ ہو گئے تھے عیسائیوں نے تو کفارہ کے مسئلہ پر زور دے کر اور اس پر بھروسہ کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم پر سب جرائم حلال ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ ہم ارتکاب جرائم کی وجہ سے صرف چند روز دوزخ میں پڑیں گے اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا ايَّامًا معْدُودَتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ( ترجمه ) یہ دلیری اور جرات اِس سے اُن کو پیدا ہوئی کہ اُن کا یہ قول ہے کہ دوزخ کی آگ اگر ہمیں چھوٹے گی بھی تو صرف چند روز تک رہے گی اور جو افترا پردازیاں وہ کرتے ہیں انہیں پر مغرور ہوکر اُن کے یہ خیالات ہیں.ص (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحه ۲۴۲) قُلِ اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ۲۷ b کہہ اے بار خدایا ! اے مالک الملک ! تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة ال عمران لیتا ہے تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے.ہر یک خیر کہ جس کا انسان طالب ہے تیرے ہی ہاتھ میں ہے.تو ہر یک چیز پر قادر ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار صص ، روحانی خزائن جلدا صفحه ۲۶۱ حاشیه (۱) وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ یعنی خدا جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلّت ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰، صفحه ۲۳۲) دیتا ہے.تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِي الَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.۲۸ جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس بات کو بڑے پر زور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مڈ و جز ر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے: تُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِي الَّيْلِ یعنی اے خدا! کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے.اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامر اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور مجو بیت کی پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہو جاتی ہیں.یہ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آپہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے.غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہے اور پاک فطرتیں خود بخو د رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بر وقت ظہور کسی صاحب نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو.ان آیات میں جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة ال عمران خدائے تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی ( براہین احمدیہ ہر چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۴۵ تا ۷ ۶۴) قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُم b ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہو لو اور میری راہ پر چلو تا خدا بھی تم سے پیار کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو بخشندہ اور غفور، رحیم ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۵) ان کو کہہ دو کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدائے تعالیٰ بھی تم سے محبت رکھے اور تمہیں اپنا محبوب بنا لیوے.اب سوچنا چاہئے کہ جس وقت انسان ایک محبوب کی پیروی سے خود بھی محبوب بن گیا تو کیا اس محبوب کا مثیل ہی ہو گیا یا ابھی غیر مثیل رہا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۳۰) ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کر و یعنی میرے طریق پر، جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم ما رو تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۵) دے گا.ان كَمَالَاتِ النَّبِيِّينَ لَيْسَتْ نبیوں کے کمالات پروردگار عالم کے کمالات كَكَمَالَاتِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَإِنَّ اللهَ أَحَدٌ کی طرح نہیں ہوتے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات صَمَدٌ وَحِيْدٌ لَّا شَرِيكَ لَه في ذاته ولا فی میں اکیلا، بے نیاز اور یگانہ ہے اُس کی ذات اور صفات صِفَاتِهِ وَأَمَّا الْأَنْبِيَاءُ فَلَيْسُوا كَذلِك میں اس کا کوئی شریک نہیں لیکن نبی ایسے نہیں ہوتے بلکہ بَلْ جَعَلَ اللهُ لَهُمْ وَارِثِينَ مِنَ اللہ تعالیٰ ان کے سچے متبعین میں سے اُن کے وارث الْمُتّبِعِيْنَ الصَّادِقِينَ فَأُمَّتُهُمْ بناتا ہے.پس اُن کی اُمت اُن کی وارث ہوتی ہے.وہ ورَثَاؤُهُمْ يَجِدُونَ مَا وَجَدَ أَنْبِيَاؤُهُمْ سب کچھ پاتے ہیں جو اُن کے نبیوں کو ملا ہو بشرطیکہ وہ اُن کے إِنْ كَانُوا لَهُمْ مُتَّبِعِينَ وَ إِلى هَذَا أَشَارَ پورے پورے متبع بنیں.اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة ال عمران ،، روو فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ آيت : قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ فَانظُرْ كَيْفَ الله میں اشارہ فرمایا پس دیکھو! کس طرح اللہ تعالیٰ نے افراد امت کو اپنے محبوب قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ محبوبوں کے جَعَلَ الْأُمَّةَ أَحِبَّاءَ اللَّهِ بِشَرْطِ اتَّبَاعِهِمْ وَاقْتِدَ آئِهِمْ بِسَيْدِ الْمَحْبُوبِينَ.سردار ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کریں اور آپ کے (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد کے صفحہ (۱۳) نمونہ پر چلیں.( ترجمہ از مرتب) چلیں.(ترجمہ وو خدا نے انبیاء علیہم السلام کو اسی لئے اس دنیا میں بھیجا ہے کہ تا دنیا میں اُن کے مثیل قائم کرے اگر یہ بات نہیں تو پھر نبوت لغو ٹھہرتی ہے.نبی اس لئے نہیں آتے کہ اُن کی پرستش کی جائے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ لوگ اُن کے نمونے پر چلیں اور اُن سے تشبہ حاصل کریں اور اُن میں فنا ہو کر گویا وہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پس خدا جس سے محبت کرے گا کون سی نعمت ہے جو اُس سے اٹھارکھے گا اور اتباع سے مراد بھی مرتبہ فنا ہے جو مثیل کے درجے تک پہنچاتا ہے.اور یہ مسئلہ سب کا مانا ہوا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرے گا مگروہی جو جاہل، سفیہ یا ملحد بے دین ایام الضلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۲۰۴۱۱) ہوگا.سوال مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے: ” میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں 6 991 آرام دوں گا.اور یہ کہ ”میں روشنی ہوں اور میں راہ ہوں، میں زندگی اور راستی ہوں.کیا بانی اسلام نے یہ کلمات یا ایسے کلمات کسی جگہ اپنی طرف منسوب کئے ہیں؟ الجواب.قرآن شریف میں صاف فرمایا گیا ہے: قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله الخ.یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.یہ وعدہ کہ میری پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے صحیح کے گذشتہ اقوال پر غالب ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں کہ انسان خدا کا پیارا ہو جائے.پس جس کی راہ پر چلنا انسان کو محبوب الہی بنا دیتا ہے، اس سے زیادہ کس کا حق ہے کہ اپنے تئیں روشنی کے نام سے موسوم کرے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۷۲) میرے نزدیک مومن وہی ہوتا ہے جو آپ کی اتباع کرتا ہے اور وہی کسی مقام پر پہنچتا ہے.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.یعنی کہہ دو کہ اگر تم اللہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة ال عمران تعالیٰ کو محبت کرتے ہو تو میری اتباع کروتا کہ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے.اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو اور مرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے.آپ نے مرکز دکھا دیا.پھر کون ہے جو زندہ رہے یا زندہ رہنے کی آرزو کرے یا کسی اور کے لئے تجویز کرے کہ وہ زندہ رہے؟ محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ کی اتباع میں ایسا گم ہو کہ اپنے جذبات نفس کو تھام لے اور یہ سوچ لے کہ میں کس کی اُمت ہوں؟ ایسی صورت میں جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں وہ کیوں کر آپ کی محبت اور اتباع کا دعوی کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ آپ کی نسبت وہ گوارا کرتا ہے کہ مسیح کو افضل قرار دیا جاوے اور آپ کو مردہ کہا جاوے مگر اُس کے لئے وہ پسند کرتا ہے کہ زندہ یقین کیا جاوے.(لیکچرلدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۶۳، ۲۶۴) میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے ستید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پاسکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سو یا در ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے.پھر بعد اس کے ایک مصلی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یک طرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے.جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے.تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوت جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے اور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے.جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة ال عمران محبت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اُس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے.تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تعلی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے.ایسا ہی خدا ایسے دل پر اترتا ہے اور اُس کے دل کو اپنا عرش بنالیتا ہے.یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۵،۶۴) ان کو کہہ کہ اگر خدا سے تم محبت کرتے ہو.پس آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گنہ بخش دے اور خدا غفور و رحیم ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۰ ) قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بارے میں مختلف مقامات میں ذکر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے : قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُم ترجمہ.کہہ ! اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے.اب دیکھو کہ یہ آیت کس قدر صراحت سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں یعنی اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دواء مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کا اثر زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے.دیکھو! آگ کیوں کر ایک دم میں جلا دیتی ہے.پس اسی طرح پر جوش نیکی جو محض خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کی جاتی ہے وہ گناہوں کے خس و خاشاک کو بھسم کرنے کے لئے آگ کا حکم رکھتی ہے.جب ایک انسان سچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق اور صفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ سے فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة ال عمران جاتا ہے وہ الہی نور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا ہے اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے تب چونکہ ظلمت اور نور کی باہم منافات ہے وہ ظلمت جو اس کے اندر ہے دور ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کوئی حصہ ظلمت کا اس کے اندر باقی نہیں رہتا اور پھر اس نور سے قوت پا کر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں اس سے ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے ہر یک عضو میں سے محبت الہی کا نور چمک اٹھتا ہے تب اندرونی ظلمت بکلی دور ہو جاتی ہے اور علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہو جاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہو جاتا ہے، آخر ان نوروں کے اجتماع سے گناہ کی تاریکی اس کے دل سے کوچ کرتی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ نور اور تاریکی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے لہذا ایمانی نور اور گناہ کی تاریکی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اور اگر ایسے شخص سے اتفاقا کوئی گناہ ظہور میں نہیں آیا تو اس کو اس اتباع سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ گناہ کی طاقت اس سے مسلوب ہو جاتی ہے اور نیکی کرنے کی طرف اس کو رغبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ آپ قرآن شریف میں فرماتا ہے : حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَةُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكَفْرَ وَ الفُسُوقَ وَالْعِصْيَان (الحجرات : ۸) کہ خدا نے تم پر پاک روح نازل کر کے ہر یک نیکی کی تم کو رغبت دی اور کفر اور فسق اور عصیان تمہاری نظر میں مکر وہ کر دیا.لیکن اگر اس جگہ یہ سوال ہو کہ وہ نور جو بذریعہ نبی علیہ السلام کے پیروی کرنے والے کو ملتا ہے جس سے گناہ کے جذبات دور ہو جاتے ہیں وہ کیا چیز ہے؟ سو اس سوال کا یہ جواب ہے کہ وہ ایک پاک معرفت ہے جس کے ساتھ کوئی تاریکی شک وشبہ کی نہیں اور وہ ایک پاک محبت ہے جس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض نہیں اور وہ ایک پاک لذت ہے جو تمام لذتوں سے بڑھ کر ہے جس کے ساتھ کوئی کثافت نہیں.اور وہ ایک زبر دست کشش ہے جس پر کوئی کشش غالب نہیں اور ایک قوی الاثر تریاک ہے جس سے تمام اندرونی زہریں دور ہوتی ہیں.یہ پانچ چیزیں ہیں جو نور کے طور پر روح القدس کے ساتھ سچی پیروی کرنے والے کے دل پر نازل ہوتی ہیں پس ایسا دل نہ صرف گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے بلکہ طبعاً اس سے متنفر بھی ہو جاتا ہے.ان پانچ چیزوں کی طاقت کا جدا جدا بیان تو بہت طول چاہتا ہے مگر صرف پاک معرفت کی خاصیتوں کو کسی قدر تفصیل سے بیان کرنا اس حقیقت کے سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ کیوں کر پاک معرفت گناہ سے روکتی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان بلکہ حیوان بھی ہر ایک نقصان رساں چیز کی نسبت علم صحیح اور یقینی پاکر پھر اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة ال عمران نزدیک نہیں جا سکتا.چور کو اگر یہ اطلاع ہو کہ جس جگہ میں نقب لگانا چاہتا ہوں اس جگہ مخفی طور پر ایک جماعت کھڑی ہے جو عین نقب زنی کی حالت میں مجھے پکڑلے گی تو وہ ہر گز اس بات پر جرات نہیں کر سکتا کہ نقب لگاوے بلکہ اگر ایک پرند بھی اس بات کو تاڑ جائے کہ یہ چند دانہ جو میرے لئے زمین پر پھیلائے گئے ہیں ان کے نیچے دام ہے تو وہ ان دانوں کے نزدیک نہیں آتا ایسا ہی اگر مثلاً ایک نہایت عمدہ لطیف کھانا پکایا گیا ہومگرکسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ اس کھانے میں زہر ہے تو وہ کبھی اس کھانے کے نزدیک نہیں آتا پس ان تمام مشاہدات سے صاف ظاہر ہے کہ انسان جب ایک موذی اور نقصان رساں چیز کی نسبت پورا علم حاصل کر لے تو کبھی اس چیز کی طرف رغبت نہیں کرتا بلکہ اس کی شکل سے بھاگتا ہے.لہذا یہ امر قابل تسلیم ہے کہ اگر انسان کو کسی ذریعہ سے اس بات کا علم ہو جائے کہ گناہ ایسی مہلک زہر ہے.جوفی الفور ہلاک کرتی ہے تو بلاشبہ بعد اس علم کے انسان گناہ کا مرتکب ہر گز نہیں ہو گا لیکن اس جگہ طبعاً یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ وہ ذریعہ کون سا ہے.کیا عقل یہ ذریعہ ہو سکتی ہے؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ عقل ہر گز کامل ذریعہ نہیں ہو سکتی جب تک کوئی آسمانی مددگار نہ ہو کیونکہ دل میں یہ یقین ہونا کہ گناہ کے لئے واقعی ایک سزا ہے جس سے انسان بھاگ نہیں سکتا.یہ یقین کامل طور پر اس وقت ہو سکتا ہے کہ جب کامل طور پر معلوم ہو کہ خدا بھی ہے جو گناہ پر سزا دے سکتا ہے لیکن مجرد عقلمند جس کو آسمان سے کوئی روشنی نہیں ملی خدا تعالیٰ پر کامل طور پر یقین نہیں کر سکتا کیونکہ اس نے خدا کے کلام کو نہیں سنا اور نہ اس کے چہرہ کو دیکھا اس لئے اس کو خدا تعالی کی نسبت بشر طیکہ وہ زمین و آسمان کی مخلوقات پر غور کر کے صحیح نتیجہ تک پہنچ سکے صرف اس قدر علم ہو سکتا ہے کہ ان تمام مصنوعات کا کوئی صانع ہونا چاہئے لیکن اس یقینی قطعی علم تک نہیں پہنچ سکتا کہ وہ صانع موجود بھی ہے اور ظاہر ہے کہ ہونا چاہئے اور ہے میں بڑا فرق ہے یعنی جو شخص صرف اسی قدر علم رکھتا ہے کہ فقط ہونا چاہئے کے مرتبہ پر آ کر ٹھہر گیا ہے پھر ماوراء اس کے اس کی نظر کے سامنے تاریکی ہی تاریکی ہے وہ اس شخص کی مانند اپنے علم کی رو سے ہر گز نہیں کہ جو اس صانع حقیقی کی نسبت صرف یہ نہیں کہتا کہ ہونا چاہئے بلکہ اس نور کی شہادت سے جو اس کو دیا گیا ہے محسوس بھی کر لیتا ہے کہ وہ ہے بھی اور یہ نہیں کہ صرف وہ آسمانی نور سے خدا کی ہستی کا مشاہدہ کرتا ہے بلکہ اس آسمانی نور کی ہدایت سے اس کے عقلی اور ذہنی قومی بھی ایسے تیز کئے جاتے ہیں کہ اس کا قیاسی استدلال بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتا ہے پس وہ دوہری قوت سے خدا تعالیٰ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة ال عمران وجود پر یقین رکھتا ہے.اس جگہ آسمانی نور سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا یقینی مکالمہ اسے نصیب ہوتا ہے یا صاحب مکالمہ سے نہایت شدید اور گہراتعلق اس کو ہوتا ہے اور مکالمہ الہیہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ عام لوگوں کی طرح ظنی طور پر وہ الہام کا دعوی کرتا ہے کیونکہ ظنی الہام کچھ چیز نہیں ہے بلکہ وہ عقل سے بھی نیچے گرا ہوا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ در حقیقت وہ یقینی اور قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی ایسی پاک اور کامل وحی ہوتی ہے جس کے ساتھ آسمانی نشان ایک لازمی امر کی طرح ہوتے ہیں اور وہ وحی اپنی ذات میں نہایت شوکت اور عظمت رکھتی ہے اور اپنے پر رعب اور لذیذ الفاظ کے ساتھ ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر گھس جاتی ہے اور اس پر خدا کے نشانوں اور فوق العادت علامات کی ایک چمکتی ہوئی مہر ہوتی ہے اور انسان کو خدا پر پورا یقین حاصل کرنے کے لئے یہ ایک پہلی ضرورت ہے کہ ایسی وحی سے بذات خود فیضیاب ہو یا ایک فیضیاب سے تعلق شدید رکھتا ہو جو روحانی تاثیر سے دلوں کو اپنی طرف کھینچنے والا ہو ( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۸۰ تا ۶۸۴) صوفیوں نے ترقیات کی دور ہیں لکھی ہیں ؛ ایک سلوک ، دوسرا جذب سلوک وہ ہے.جولوگ آپ عظمندی سے سوچ کر اللہ و رسول کا راہ اختیار کرتے ہیں.جیسے فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننے چاہتے ہو تو رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرو.وہ ہادی کامل ، وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اُٹھائی کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام نہ پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے جو اپنے متبوع کے ہر قول و فعل کی پیروی پورے جدو جہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ پسند نہیں کرتا.بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا.یہاں جو اللہ تعالی نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہوگا کہ اول رسول اکرم کی کل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے، اسی کا نام سلوک ہے.اس راہ میں بہت مصائب و شدائد ہوتے ہیں.ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوتا ہے.اہل جذبہ کا درجہ سالکوں سے بڑھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ انہیں سلوک پر ہی نہیں رکھتا بلکہ خود ان کو مصائب میں ڈالتا اور جاذبہ ازلی سے اپنی طرف کھینچتا ہے، گل انبیاء مجذوب ہی تھے.جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے، ان سے فرسودہ کار
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة ال عمران اور تجربہ کار ہو کر روح چمک اُٹھتی ہے جیسے لوہا یا شیشہ اگر چہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے لیکن صیقلوں کے بعد ہی محبلاً ہوتا ہے حتی کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا نظر آ جاتا ہے.مجاہدات بھی صیقل کا ہی کام کرتے ہیں.دل کا صیقل یہاں تک ہونا چاہئے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آ جاوے، منہ کا نظر آنا کیا ہے؟تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کا مصداق ہونا.سالک کا دل آئینہ ہے جس کو مصائب ، شدائد اس قدر صیقل کر دیتے ہیں کہ اخلاق النبی اس میں منعکس ہو جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی کدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے.ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہے.کوئی مومن بلا آئینہ ہونے کے نجات نہ پائے گا.سلوک والا خود یہ صیقل کرتا ہے، اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے لیکن جذبہ والا مصائب میں ڈالا جا تا ہے.خداخوداس کا مصقل ہوتا ہے.اور طرح طرح کے مصائب شدائد سے صیقل کر کے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کر دیتا ہے.دراصل سالک و مجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے.(رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۴۳، ۴۴) اس خانہ خدا کو بتوں سے پاک وصاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتاتا بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں بتاؤں، اور وہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ، یہ آواز نئی آواز نہیں ہے مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا تھا : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ای طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے.اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہو جاؤ گے.تزکیہ نفس کے لئے چلہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں.ازہ اور نفی و اثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے.بلکہ ان کے پاس ایک اور ہی چیز تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھے جو نور آپ میں تھا وہ اس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گرتا تھا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا تاریکی کے بجائے ان سینوں میں نور بھرا جاتا تھا.ود الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۳،۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة ال عمران میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اور خدا تعالیٰ کے اس دعوی کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں.(الحکم جلد ۵ نمبر ۳۴ مورخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲۰۱) ان کو کہہ دو کہ تم اگر چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دیئے جاویں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو.کیا مطلب کہ میری پیروی ایک ایسی شی ہے جو رحمت الہی سے نا امید ہونے نہیں دیتی گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے.اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہوگا کہ تم میری پیروی کرو.اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت و مشقت اور جب آپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الہی کا حقدار نہیں بن سکتا، انوار و برکات الہیہ کسی پر نازل نہیں ہوسکتیں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے.اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے.اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے.اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتا ہے، اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے: آنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اُٹھائے جاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۲) سعادت عظمی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله یعنی آؤ میری پیروی کرو تا کہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو.اگر حقیقت مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے؟ اور روزہ کیا چیز ہے؟ خود ہی ایک بات سے
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رُکے اور خود ہی کر لے.اسلام محض اس کا نام نہیں ہے.اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز ، میری قربانیاں اللہ ہی کے لئے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنی گردن رکھتا ہوں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ آنحضرت کے نمونے پر چلیں اور آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کریں چنانچہ فرماتا ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۲) پھر فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال عیب سے خالی نہ تھے تو کیوں ہم پر واجب کیا کہ ہم آپ کے نمونے پر چلیں؟ جب خدا نے ابراہیم علیہ لے السلام کے نمونے پر چلنے کی تاکید فرمائی تو ساتھ ایک استثناء لگا دیا مگر آنحضرت کی صورت میں کوئی استثنا نہیں کیا.اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال غلطی سے پاک تھے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۲ نمبر ۶ بابت جون ۱۹۰۳ء صفحه ۲۴۶،۲۴۵) اگر خدا کے محبوب بنا چاہتے ہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۹،مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) روحانیت کے نشوونما اور زندگی کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور وہ اتباع رسول ہے....قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو : أَشَدُّ حُنَّا لِلَّهِ (البقرة : ۱۲۲) کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله پر عمل کرو اور ایسی فناء ات تم پر آ جاوے کہ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا المزمل:9) کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ.اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کرلو.ود الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) جس طرح پر آفتاب سے ساری دنیا فائدہ اُٹھاتی ہے اور اُس کا فائدہ کسی خاص حد تک جا کر بند نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات کا آفتاب ہمیشہ چمکتا ہے اور سعادت مندوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ تو میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.آپ کی سچی اطاعت اور اتباع انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور لے دیکھو آیت قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ.....إِلَّا قَولَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَاسْتَغْفِرَنَّ (الممتحنة: ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱ سورة ال عمران گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتی ہے.پس جبکہ آپ کی اتباع کامل اللہ تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ایک محبوب اپنے محب سے کلام نہ کرے.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱) اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرزعمل کو اپنار ہبر اور بادی نہ بنالے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے: قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی محبوب الہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے.کچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۷ ۲ مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۸) نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہوا کرتی ہے اُس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جوا اپنا قانون ٹھہرایا ہوا ہے وہ (اسے) بھی باطل نہیں کرتا وہ قانون یہ ہے کہ : اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ وو فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله اور مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ( ال عمران : ٨٢) - البدر جلد نمبر ۴، مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۱) خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے....میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحہ ۸) ہر ایک شخص کو خود بخود خدا سے ملاقات کرنے کی طاقت نہیں ہے اس کے واسطے واسطہ ضرور ہے اور وہ واسطه قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس واسطے جو آپ کو چھوڑتا ہے وہ کبھی بامراد نہ ہوگا.انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے، غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اسے قبول کرے اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو.قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے : قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى انْفُيهم (الزمر: ۵۴) اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو.سب حکموں پر کار بندر ہو جیسے کہ حکم ہے : قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی اگر تم خدا سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے فرماں بردار بن جاؤ اور رسول کریم کی راہ میں فنا ہو جاؤ تب خدا تم سے محبت کرے گا.ود (البدر جلد ۲ نمبر ۱۴، مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة ال عمران جو جس سے پیار کرتا ہے تو اُس سے کلام بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح خدا جس سے پیار کرتا ہے تو اس سے بلا مکالمہ نہیں رہتا آنحضرت کی اتباع سے جب انسان کو خدا پیار کرنے لگتا ہے تو اس سے کلام کرتا ہے غیب کی خبریں اُس پر ظاہر کرتا ہے اس کا نام نبوت ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۵، مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۳) اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.کوئی مرجاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہئے کہ مُردہ کے حق میں دعا کریں.رسومات کی بجا آوری میں آنحضرت صلعم کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت صلعم کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھٹڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی ؟ البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخه ۲۹ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۴۵) یا درکھنا چاہئے کہ انبیاء ورسل اور آئمہ کے آنے سے کیا غرض ہوتی ہے؟ وہ دنیا میں اس لئے نہیں آتے کہ ان کو اپنی پوجا کرانی ہوتی ہے وہ تو ایک خدا کی عبادت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطلب کے لئے آتے ہیں اور اس واسطے کہ لوگ اُن کے کامل نمونہ پر عمل کریں اور اُن جیسے بننے کی کوشش کریں اور ایسی اتباع کریں کہ گویا وہی ہو جائیں.مگر افسوس ہے کہ بعض لوگ ان کے آنے کے اصل مقصد کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کو خدا سمجھ لیتے ہیں اس سے وہ آئمہ اور رسل خوش نہیں ہو سکتے کہ لوگ ان کی اس قدر عزت کرتے ہیں کبھی نہیں ! وہ اس کو کوئی خوشی کا باعث قرار نہیں دیتے ، ان کی اصل خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ لوگ اُن کی اتباع کریں اور جو تعلیم وہ پیش کرتے ہیں کہ بچے خدا کی عبادت کرو اور توحید پر قائم ہو جاؤ اس پر قائم ہوں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكُمُ الله یعنی اے رسول! ان کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اس اتباع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے پیار کرے گا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا طریق یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کی جاوے.پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اور جو خدا تعالیٰ کے راست باز اور صادق بندے ہوتے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن اُن کو سجدہ کرنے اور حاجت روامانے کو تیار ہو جاتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ ود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳ سورة ال عمران کے نزدیک قابل قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اُس سے بیزار ہوگا.الحکام جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۲) ود چاہئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الہی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیسا کہ فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الہی بن جاؤ تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا.اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع محبوب الہی تو بنادیتی ہے پھر اور کیا الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵، مورخه ۱۷۱۰اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اس اتباع کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا.پس اب اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک انسان کامل متبع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ سے فیوض و برکات پا نہیں سکتا اور وہ معرفت اور بصیرت جو اس کی گناہ آلو د زندگی اور نفسانی جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کر دے عطا نہیں ہوتی.ایسے لوگ ہیں جو علماء امتی کے مفہوم کے اندر داخل ہیں.(الکام جلد 4 نمبر ۳۹، مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) اے رسول! تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو.اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع انسان کو محبوب الہی کے مقام تک پہنچا دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کامل موحد کا نمونہ تھے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰،مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ ء صفحہ ۷ ) یہ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہر زمانہ میں گویا امت آپ کا ہی فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے : قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پس خدا تعالیٰ کا پیار، ظاہر ہے ود وو کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر روشن دلیل ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ ، مورخہ ۷ ارفروری ۱۹۰۶ ، صفحہ ۳) مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی محب دنیا ہی ہوئی ہے کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة ال عمران مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کر کے ایک ہو جاتے.اب جبکہ محب دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جا سکتا ہے جبکہ ان یہ جاسکتا کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی کہو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا.اب اس محب اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حب الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے، کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا دار تھے ؟ کیا وہ سود لیا کرتے تھے یا فرائض اور احکام الہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے کیا آپ میں (معاذ اللہ! ) نفاق تھا.مداہنہ تھا، دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو! اتباع تو یہ ہے کہ آپ کے نقش قدم پہ چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے.(الکام جلد ۱۰ نمبر ۱۷ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۶ صفحه ۴) جو شخص یہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر نجات ہو سکتی ہے، وہ جھوٹا ہے.خدا تعالی نے جو بات ہم کو سمبھائی ہے وہ بالکل اس کے برخلاف ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اے رسول ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! ان لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.بغیر متابعت آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کوئی شخص نجات نہیں پاسکتا.جو لوگ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض رکھتے ہیں ان کی کبھی خیر نہیں.( بدر جلد ۲ نمبر ۲۳، مورخه ۷ جون ۱۹۰۶ ء صفحه ۳) یہاں ایک اور بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پا جانا تھا اس لئے ظاہری طور پر ایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دنیا سے اٹھنا تھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوني کیونکہ محبوب اللہ مستقیم ہی ہوتا ہے.زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا.تا کہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت وجود پر ایک خط صفحہ ۲۱ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں؛ اول: إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي ، دوم : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة ال عمران امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: ۵۷) تیسرا: موہبت الہی.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحہ ۲۲ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو خدا تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے بغیر اس کے یہ مقام مل ہی نہیں سکتا.الحکم جلد نمبر ۳ ،مورخہ ۲۴ /جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۵) إن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونی کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک طبقہ کے انسان کو مخاطب کیا ہے کہ ہر ایک قسم کا سبق مجھ سے لو اور ظاہر ہے کہ جب تک ایک اسوہ سامنے نہ ہو، انسان عمل درآمد سے قاصر رہتا ہے.ہر ایک قسم کے کمال کے حصول کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے.انسانی طبائع اسی قسم کی واقع ہوئی ہیں کہ وہ صرف قول سے مؤثر نہیں ہوتیں جب تک اس کے ساتھ فعل نہ ہو.اگر صرف قول ہو تو صد با اعتراض لوگ کرتے ہیں.دین کی باتوں کو سن کر کہا کرتے ہیں کہ یہ سب باتیں کہنے کی ہیں ، کون ان کو بجالا سکتا ہے؟ یونہی بنا چھوڑی ہیں، اور ان اعتراضوں کا رد نہیں ہوسکتا.جب تک ایک انسان عمل کر کے دکھانے والا نہ ہو.البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخه ۱۶ /اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۴) خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ ان کی پوجا کی جاوے بلکہ اس لئے ا کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے جیسے فرمایا: ان ود كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ یعنی میری پیروی میں تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اس کو کچھ بھی نہیں ملے گا ، اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے.مگر ہرگز اسلام ایسامذہب نہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اس کو حاصل کرے، وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بن کر آئے تھے ، وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے پس اگر وہ مال دینا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹۹۳۸، مورخہ ۱۰ تا ۱۷ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) کل انبیاء، اولیاء، اتقیا اور صالحین کا ایک یہ مجموعی مسئلہ ہے کہ پاک کرنا خدا کا کام ہے اور خدا کے اس فضل کے جذب کے واسطے اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از بس ضروری اور لازمی ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - سورج دنیا میں موجود ہے مگر چشم بینا بھی تو چاہیے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة ال عمران خدا تعالیٰ کا قانون قدرت لغو اور بے فائدہ نہیں ہے جو ذرائع کسی امر کے حصول کے خدا نے بنائے ہیں آخر انہیں کی پابندی سے وہ نتائج حاصل ہوتے ہیں.کان سننے کے واسطے خدا نے بنائے ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے.آنکھ جو دیکھنے کے واسطے بنائی گئی ہے وہ سننے کا کام نہیں کر سکتی.بس اسی طرح خدا کے فضل کے فیضان کے حصول کی جو راہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے اس سے باہر رہ کر کیسے کوئی کامیاب ہوسکتا ہے.حقیقی پاکیزگی اور طہارت ملتی ہے اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ خود خدا نے فرما دیا کہ اگر خدا کے محبوب بننا چاہتے ہو تو رسول کی پیروی کرو.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کسی بنی یا رسول کی کیا ضرورت ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کو باطل کرنا چاہتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۴) جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے وابستہ ہے اور آنجناب کے عملی نمونوں کے دریافت کے لئے جن پر اتباع موقوف ہے حدیث بھی ایک ذریعہ ہے پس جو شخص حدیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۸) قُلْ أَطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ) اُن کو کہہ کہ خدا اور رسول کی اطاعت کرو پس اگر وہ اطاعت سے منہ پھیر لیں تو خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا.ان آیات سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ گناہوں کی مغفرت اور خدا تعالیٰ کا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وابستہ ہے اور جولوگ ایمان نہیں لاتے وہ کافر ہیں.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ ، صفحه ۱۳۰) ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے.تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا.ہاں ! باجازت اس کے دوسرے وقت میں جاسکتا ہے.( تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۹) b فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أنْثَى وَاللهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثى وَ إِنِّي سَبَيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيدُهَا بِكَ وَ وَإِنِّي ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ( ٣٧ ۳۷ سورة ال عمران میں نے ایک مولوی صاحب کی ایک تازہ تصنیف پڑھی ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی اور اس کی ماں مریم کے سوائے میں شیطان سے دنیا میں کسی کی پیدائش پاک نہیں.صرف یہی دو نفس مریم اور ابن مریم میں شیطان سے پاک ہیں اور بس.اس عبارت کو پڑھ کر مجھے بہت ہی افسوس ہوا کہ ہمیں تو یہ لوگ کافر کہتے ہیں اور اپنا یہ حال ہے کہ تمام انبیاء اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پاکوں کے سردار ہیں، نعوذ باللہ میں شیطان سے محفوظ نہیں سمجھتے.گویا ان کے نزدیک نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش میں شیطان کا حصہ تھا مگر حضرت عیسی اور ان کی ماں کی پیدائش میں شیطان کا حصہ نہ تھا.بار بار افسوس آتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت کہاں تک پہنچ گئی ہے؟ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.یہ لوگ اپنے اس دعوئی کی دلیل میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں جو صیح بخاری میں ہے اور نہیں سوچتے کہ سب سے مقدم تو قرآن شریف ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شیطان کو کہا کہ: إِنَّ عِبَادِی لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن (الحجر : ۴۳).میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں ، کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک عباد میں شامل نہ تھے؟ اول تو جو حدیث قرآن شریف کے مخالف ہو وہ حدیث ہی نہیں.خواہ بخاری میں ہوا اور خواہ مسلم میں ہو.دوسرا جس حدیث سے حضرت نبی کریم محمد مصطفی حبیب خدا محبوب الہی کی تمام نبیوں کے سردار کی اس قدر ہتک اور تو ہین لازم آتی ہو کیوں کر ایک مسلمان کی غیرت مان سکتی ہے کہ اسے صحیح حدیث تسلیم کرلے ان لوگوں میں کچھ شرم اور حیا باقی نہیں رہی.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناجائز حملے کرتے ہیں.اگر ان لوگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ محبت ہوتی تو یہ لوگ اس حدیث کے یہ معنے نہ کرتے.ہر ایک کلام کے واسطے ایک شان نزول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت عیسی اور ان کی والدہ مریم کے واسطے ضرورتا اس قسم کے لفظ بولے گئے ہیں کہ مریم صدیقہ تھی اور حضرت عیسی کا روح خدا کی طرف سے تھا.ایسا ہی حدیث میں ضرورتا یہ کلمات بولے گئے ہیں کہ حضرت عیسی کی پیدائش میں شیطان سے پاک تھی اور یہ ضرورت اس طرح سے واقعہ ہوئی تھی کہ یہودی لوگ کہا کرتے تھے بلکہ اب تک کہتے ہیں کہ حضرت مریم، نعوذ باللہ ! زانیہ تھیں اور یسوع کی پیدائش ناجائز تھی اور میں شیطان سے تھی.اس الزام کے جواب میں خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸ سورة ال عمران حدیث شریف میں یہ بات فرمائی کہ یہ الزام جھوٹے ہیں بلکہ مریم صدیقہ تھی اور حضرت عیسی کی پیدائش میں شیطان سے پاک تھی.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اور آپ کی والدہ ماجدہ کے متعلق کبھی کسی کا فر کو ایسا وہم و گمان بھی نہ ہوا تھا بلکہ سب کے نزدیک آپ اپنی ولادت کی رو سے طیب اور طاہر تھے اور آپ کی والدہ عفیفہ اور پاکدامن تھی، اس لئے آپ کی نسبت یا آپ کی والدہ ماجدہ کی نسبت ایسے الفاظ بیان کرنے ضروری نہ تھے کہ وہ میں شیطان سے پاک ہے.مگر حضرت عیسی اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت یہودیوں کے بہتان کی وجہ سے ایسے بری کرنے والے الفاظ کی ضرورت پڑی.یہی حال دیگر انبیاء علیہم السلام کا ہے ان کے متعلق بھی نہ کبھی ایسا اعتراض ہوا اور نہ اس کے دفعیہ کی ضرورت کبھی محسوس ہوئی.افسوس ہے کہ ان علماء کو یہ خبر بھی نہیں کہ یہ (باتیں) کیوں قرآن وحدیث میں ذکر کی گئی ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ایسی باتیں کسی بہتان کے دفع کرنے کے لئے آتی ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مریم صدیقہ پر ایک بڑا بہتان باندھا گیا تھا، اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس کا نام صدیقہ رکھ دیا.افسوس ہے ! نہ تو ان لوگوں کے اکابر سمجھتے ہیں اور نہ ان کا اقتداء کرنے والوں کو کچھ خیال آتا ہے کہ ایسے عقیدہ سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر داغ لگایا جاتا ہے.اگر قرآن شریف میں خدا کے بندوں کا مس شیطان سے پاک ہونے کا ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت اور آپ پر ایمان کا یہ تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ ایسا نا پاک عقیدہ آپ کے متعلق نہ رکھا جاتا.حضرت مریم کے متعلق یه عاتی که : إلى أعِيدُهَا بِكَ وَذُرِّيَتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ مگر یہ دعا بھی اسی اعتراض کے رفع کرنے کے واسطے ذکر کی گی ہے ورنہ خدا کے انبیاء اور اولیا کے متعلق تو پہلے سے اللہ تعالیٰ کا خاص ارادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو مقدس رسول بنایا جاوے گا، وہی ارادہ ء الہی ابتداء سے ان کی پیدائش اور تمام امور کو مقدس رکھتا ہے.انبیاء علیہم السلام تو مادر زاد پاک ہوتے ہیں اور شیطان سے دور رکھے جاتے ہیں.دنیا میں پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے؛ ایک رحمانی اور دوسری شیطانی.خدا تعالی کے تمام نیک بندوں کی پیدائش رحمانی ہوتی ہے شیطان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا اور انہیں کے متعلق کہا جاتا (ہے) کہ : رُوح مِنْهُ ان کا روح خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس میں حضرت عیسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ، خدا تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کی روح خدا کی طرف سے آتی ہے.زمخشری نے بخاری کے حاشیہ میں اس حدیث کے یہی معنے کئے ہیں جو ہم کرتے ہیں، یہ علماء زمخشری کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة ال عمران اچھا نہیں سمجھتے مگر ہمارے خیال میں وہ ان علماء سے بہتر اور افضل تھا گومعتز لی تھا مگر اس کے ایمان نے گوارا نہ کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عظمت پر داغ لگا وے بلکہ اس کے دل میں اسلامی غیرت اور محبت نے جوش مارا.اصل میں ان لوگوں میں تزکیہ نفس نہیں ہے جب انسان تزکیہ نفس اختیار کرتا ہے تو قرآن شریف کے معانی اور معارف اس پر کھولے جاتے ہیں.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۷) حضرت مسیح اور ان کی ماں مریم پر یہود کا اعتراض تھا.مسیح کو وہ لوگ ناجائز ولادت کا الزام لگاتے اور مریم کو زانیہ کہتے تھے.قرآن شریف کا کام ہے کہ انبیاء پر سے اعتراضات کو رفع کرے اس لئے اس نے مریم کے حق میں زانیہ کی بجائے صدیقہ کا لفظ رکھا اور مسیح کو میش شیطان سے پاک کہا.اگر ایک محلہ میں صرف ایک عورت کا تبریہ کیا جاوے اور اس کی نسبت کہا جاوے کہ وہ بدکار نہیں ہے تو اس سے یہ التزام لازم نہیں آتا کہ باقی کی سب ضرور بدکار ہیں صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس پر جو الزام ہے وہ غلط ہے یا اگر ایک آدمی کو کہا جاوے کہ وہ بھلا مانس ہے تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہوتے کہ باقی کے سب لوگ بھلے مانس نہیں بلکہ بدکار ہیں، اسی طرح یہ ایک مقدمہ تھا کہ مسیح اور اس کی ماں پر الزام لگائے گئے تھے ، خدا نے شہادت دی کہ وہ الزاموں سے بری اور پاک ہیں.کیا عدالت اگر ایک ملزم کو قتل کے مقدمہ میں بری کر دے تو اس سے یہ لازم آوے گا کہ باقی کے سب لوگ اس شہر کے ضرور قاتل اور خونخوار ہیں.غرضیکہ اس قسم کی بدعات اور فساد پھیلے ہوئے تھے جن کے دور کرنے کے لیے خدا نے ہمیں مبعوث کیا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۴) تمام انبیاء اور صلحا میں شیطان سے پاک ہوتے ہیں، حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.ان کی صراحت اس واسطے کی ہے کہ ان پر ایسے ایسے اعتراض ہوئے اور کسی نبی پر چونکہ اعتراض نہیں ہوئے.اس لئے ان کے لئے صراحت کی ضرورت بھی نہ پڑی.دوسرے نبیوں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ ہوتے تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہے کیونکہ اگر ایک مسلم و مقبول نیک آدمی کی نسبت کہا جاوے کہ وہ تو زانی نہیں یہ اس کی ایک رنگ میں ہتک ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو خود اہل مکہ تسلیم کر چکے ہوئے تھے کہ وہ میں شیطان سے پاک ہے تب ہی تو آپ کا نام انہوں نے امین رکھا ہوا تھا اور آپ نے ان پر تحدی کیا کہ قَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران عُبُرا (یونس : ۱۷ ).پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ کی نسبت بھی کہا جاتا.یہ الفاظ حضرت مسیح کی عزت کو بڑھانے والے نہیں ہیں، ان کی برات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک کلنک کا بھی پتہ دے دیتے ہیں کہ ان پر الزام تھا.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخہ ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) اصل میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے ایک مش روح القدس سے اور ایک میں شیطان سے ، تمام نیک اور راست بازلوگوں کی اولا دمش روح القدس سے ہوتی ہے اور جو اولاد بدی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ میں شیطان سے ہوتی ہے.تمام انبیاء میں روح القدس سے پیدا ہوئے تھے مگر چونکہ حضرت عیسی کے متعلق یہودیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ نعوذ باللہ! ولد الزنا ہیں اور مریم کا ایک اور سپاہی پنڈارا نام کے ساتھ تعلق ناجائز کا ذریعہ ہیں اور مش شیطان کا نتیجہ ہیں.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمہ سے یہ الزام دور کرنے کے واسطے ان کے متعلق یہ شہادت دی تھی کہ ان کی پیدائش بھی تمیش روح القدس سے تھی چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیا کے متعلق کوئی اس قسم کا اعتراض نہ تھا اس واسطے ان کے متعلق ایسی بات بیان کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین؛ عبد اللہ اور آمنہ کو تو پہلے ہی سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے ؛ دیکھا جاتا تھا اور ان کے متعلق ایسا خیال و گمان بھی کبھی کسی کو نہ ہوا تھا.ایک شخص جو مقدمہ میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص مقدمہ میں گرفتار ہی نہیں ہوا.اس کے واسطے صفائی شہادت کی کچھ ضرورت ہی نہیں.(احکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۴) ہمارا ایمان یہ ہے کہ کسی نبی کو بھی میں شیطان نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندوں میں سے بھی کسی کو میش شیطان نہیں ہوتا.مطلب اس سے اور تھا اور انہوں نے کچھ اور سمجھ لیا.اگر صرف یہ اعتقاد رکھا جاوے کہ میچ ہی میں شیطان سے پاک تھے اور کوئی پاک نہ تھے تو یہ تو کلمہ کفر ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہودی مریم علیہا السلام کو معاذ اللہ !ا زانیہ اور حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ! ولد الزنا کہتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کے اس الزام سے بریت کی اور مریم کا نام صدیقہ رکھا اور حضرت مسیح کے لئے کہا کہ وہ میں شیطان سے پاک ہے.اولا د دو قسم کی ہوتی ہے؛ ایک وہ جو میں شیطان سے ہو، وہ ولد الحرام کہلاتی ہے، دوسری وہ جو روح القدس کے مس سے ہو وہ ولد الحلال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة ال عمران ہوتی ہے.یہودیوں کا اس پر زور تھا کہ وہ مسیح پر نا جائز پیدائش کا الزام لگاتے تھے اور ان کے ہاں یہ لکھا تھا کہ والد الحرام سات پشت تک بھی خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا.چونکہ ان کے اس شبہ اور الزام کا جواب ضروری تھا اس لئے ان کے متعلق یہ کہا گیا.اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معاذ اللہ ! معاذ اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شیطان سے پاک نہ تھے ایسا اعتقاد کفر صریح ہے کیا کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آمنہ کی نسبت ایسا الزام لگایا ؟ کبھی نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ مخالفوں نے امین اور صادق تسلیم کیا.برخلاف اس کے مسیح اور ان کی والدہ کی نسبت یہودیوں کے بیہودہ الزام تھے ہی، خود عیسائیوں نے انسائیکلو پیڈیا میں مان لیا ہے کہ نعوذ باللہ ! وہ ولد الحرام تھے.پھر ایسی صورت میں کس قدر ضروری تھا کہ اس کا ازالہ ہوتا.اب یہ ہمارے مخالف اندھے ہو کر ان کی خصوصیت بتاتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کر بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ تو حضرت مسیح کا ایک داغ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دھویا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ مثلاً اگر ایک شخص کے چہرہ پر سیاہی کا داغ ہو اور اسے صاف کردیا جاوے تو یہ کیسی حماقت ہو کہ ایک شخص جس کے چہرہ پر وہ داغ ہی نہیں بلکہ خوبصورت اور روشن چہرہ رکھتا ہو اس سے اس سیاہی کے داغ والے کو افضل کہا جاوے صرف اس لئے کہ اس کا داغ صاف ہوا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) فَنَادَتْهُ الْمَلبِكَةُ وَهُوَ قَابِمُ يُصَلَّى فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ و بِيَحْيى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللهِ وَسَيّدًا وَ حَصُورًا وَ نَبِيَّا مِنَ الصَّلِحِينَ مسیح کی راستبازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ بیٹی نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اُس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی.اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں بیچی کا نام حضور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے.دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء، روحانی خزائن جلد ۱۸، صفحه ۲۲۰ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۲ سورة ال عمران قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِى ايَةً قَالَ ايَتُكَ أَلَّا تُكَلِمَ النَّاسَ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ إلا رَمَنَّا وَاذْكُرُ رَبَّكَ كَثِيرًا وَ سَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ (سوال پیش ہوا کہ حضرت ذکریا علیہ السلام کی بابت جو آیا ہے کہ : أَلا تُكَلِمَ النَّاسَ ثَلَثَةَ أَيَّامٍ الا رمزا ، کیا اس سے یہ مراد ہے کہ وہ کلام نہ کریں گے؟ فرما یا : اس سے یہی معلوم ہوتا ہے،لا تستطيع نہیں کہا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۶) إذْ قَالَتِ الْمَلبِكَةُ يُمَرْيَمُ اِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَحِيهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ).۴۶ ( اسْمُهُ الْمَسِيحُ ) یہ لفظ شیح ہے جس کے معنے خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی میں، حدیثوں میں مسیح لکھا ہے اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۶) قولہ میسج کے دوبارہ آنے پر ایک یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اور حضرت مسیح نے اس زمانہ میں جب کہ وہ یہودیوں کے لئے معبوث ہوئے عزت نہیں پائی اس لئے ماننا پڑا کہ پھر وہ آویں گے تب دنیا کی وجاہت اُن کو نصیب ہوگی.اقول : یہ خیال بالکل بیہودہ ہے.قرآن شریف میں یہ لفظ نہیں کہ: وَجِيْهَا عِنْدَ أَهْلِ الدُّنْيَا - دنیا داروں اور دنیا کی نظر میں تو کوئی نبی بھی اپنے زمانے میں وجیہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے کسی نبی کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قبول کرنے والے اکثر ضعفاء اور غربا ء ہوئے ہیں جو دنیا سے بہت کم حصہ رکھتے تھے :سوآیت کے یہ معنے نہیں کہ پہلے زمانے میں عیسی کو دنیا کے رئیسوں اور امیروں اور کرسی نشینوں نے قبول نہ کیا لیکن دوسری مرتبہ قبول کریں گے بلکہ قرآن کے عام محاورہ کے رُو سے آیت کے یہ معنے ہیں کہ دُنیا میں بھی راستبازوں میں مسیح کی عزت ہوئی اور وجاہت مانی گئی جیسا کہ بیٹی نبی نے اُن کو مع اپنی تمام جماعت کے قبول کیا اور ان کی تصدیق کی اور بہتوں نے تصدیق کی اور قیامت میں بھی وجاہت ظاہر ہوگی.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا اب تک حضرت عیسی کو دنیا کی وجاہت نصیب نہ ہوئی حالانکہ چالیس کروڑ انسان اُن کو خدا کر کے مانتا ہے، کیا وجاہت کے لئے زندہ موجود ہونا بھی ضروری ہے اور مرنے کے بعد وجاہت جاتی رہتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة ال عمران ہے؟ ماسوا اس کے مسیح علیہ السلام کا دنیا میں دوبارہ آنا کسی طرح موجب وجاہت نہیں بلکہ آپ لوگوں کے عقیدے کے موافق اپنی حالت اور مرتبہ سے متنوّل ہو کر آئیں گے، امتی بن کے امام مہدی کی بیعت کریں گے، مقتدی بن کر اُن کے پیچھے نماز پڑھیں گے.پس یہ کیا وجاہت ہوئی؟ بلکہ یہ تو قضیہ، معکوسہ اور نبی اولو العزم کی ایک ہتک ہے اور یہ کہنا کہ ان سب باتوں کو وہ اپنا فخر سمجھیں گے بالکل بے ہودہ خیال ہے لیکن اگر آسمان سے نازل نہ ہوں تو یہ اُن کی وجاہت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : في مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (العمر (۵۶) غرض واپس آنے میں کوئی وجاہت نہیں بلکہ بقول شیخ سعدی سخت است پس از جاہ تحکم بردن.دوسرے کے حکم کے نیچے اسلام کی خدمت کریں گے اور مسجد دصاحب اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ : ”علماء اسلام ان کے منکر ہو جائیں گے اور قریب ہے کہ اُن پر حملہ کریں.دیکھو یہ خوب وجاہت ہے کہ ادنی ادنی ملا مقابلہ کے لئے اُٹھیں گے اور آثار سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ بیج الکرامہ میں ہے کہ اُن کی تکفیر بھی ہوگی کیونکہ مہدی اور اُس کی جماعت پر کفر کا فتویٰ لکھا جائے گا اور علماء امت اس کو کافر اور کذاب اور دجال کہیں گے.پس جب کہ مہدی موعود مع اپنی جماعت کے کافر اور دجال ٹھہرائے جائیں گے تو اس سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ مسیح موعود پر بھی کفر کا فتویٰ لگے گا کیونکہ وہ مہدی اور اس کی جماعت سے الگ نہیں ہوں گے.اب دیکھو! کہ آثار صحیحہ سے ثابت ہو گیا کہ مسیح موعود کو نالائق ، بدبخت، پلید طبع مولوی کا فرٹھہرائیں گے اور دجال کہیں گے اور کفر کا فتویٰ اُن کی نسبت لکھا جائے گا.اب انصافا سوچو کہ کیا یہی وجاہت ہے جس کے لئے مسیح کو دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے؟ کیا نا چیز اور ذلیل ملاؤں سے گالیاں کھانا اور کافر اور دجال کہلانا یہی وجاہت ہے؟ آثار صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسیح موعود کی جس قدر پلید ملاؤں کے ہاتھ سے بے عزتی ہوگی اور جس قدر وہ نا پاک طبع مولویوں کے منہ سے کافر اور فاسق اور دجال کے الفاظ سنیں گے وہ نہایت درجہ کی ہنگ ہوگی جو پلید طبع مولوی فتویٰ لکھنے والے کریں گے اور خدا کا اُن مولویوں پر غضب ہوگا.آثار صحیحہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت کے مولوی تمام روئے زمین کے انسانوں سے بدتر اور پلید تر ہوں گے کیونکہ وہ مسیح جیسے راستباز کو کافر اور دجال ٹھہرائیں گے.غرض مسیح موعود کو جو مولویوں سے عزت اور وجاہت ملے گی وہ یہ ہے.لیکن جو شخص خدا کے نزدیک، خدا کے فرشتوں کے نزدیک، خدا کے نیک بندوں کے نزدیک عزت اور وجاہت رکھتا ہے اگر پلید جاہلوں کے نزدیک وہ کا فر اور دجال ہو تو اس سے اس کا کیا نقصان ہوا؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة ال عمران مه نور می فشاند و سگ بانگ می زند سگ را پرس خشم تو باماہتاب چیست اور یہ بھی سوچو کہ اگر وجاہت کے لئے دُنیا داروں کی اطاعت اور تعظیم شرط ہے تو کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے کفار کے ہاتھ سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے تو کیا اُس وقت آپ وجیہ نہ تھے؟ اور مکہ کی فتح کے بعد وجیہ ہوئے ؟ غرض آپ کا یہ اعتراض دینی اور روحانی دور اندیشی کی بنا پر نہیں بلکہ دنیا داری اور رسم اور عادت کے گندے تصورات سے پیدا ہوا ہے.بہتیرے نبی دنیا میں ایسے آئے کہ دو آدمیوں نے بھی اُن کو قبول نہیں کیا تو کیا وہ وجیہ نہیں تھے؟ اور حضرت مسیح علیہ السلام کب قبولیت سے بکلی خالی رہے تھے ؟ صد با لوگوں نے اُن کو قبول کر لیا، سیمی علیہ السلام نے مع اپنی تمام جماعت کے قبول کیا، حواریوں نے قبول کیا، تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک بادشاہ نے بھی قبول کیا تھا.اس بات کے عیسائی بھی قائل ہیں.اب اس سے زیادہ اور کیا وجاہت ہوگی.یہ وجاہت تو ان کو اپنے زمانے میں حاصل ہوئی یہاں تک کہ انجیل میں لکھا ہے کہ صد با آدمی اہلِ حاجت، نیاز مندی کے ساتھ اُن کے گرد رہتے تھے اور ہجوم کی وجہ سے بعض دفعہ ان کو ملنا مشکل ہو جاتا تھا اور اگر چہ بعض مولوی یہودیوں نے ان کو کافر کہا مگر جس زور شور سے مسیح موعود کی تکفیر ہوئی ایسی تکفیر حضرت عیسی کی نہیں ہوئی بلکہ انجیل سے ثابت ہے کہ اکثر کفار کے دلوں میں بھی حضرت عیسی کی وجاہت تھی اور پھر موت کے بعد تو وہ وجاہت ہوئی کہ خدا بنائے گئے اور ہمارے مخالف مولویوں کو تو یہ اقرار کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی خدا بننے کی وجاہت بھی دیکھ لی اور دیکھ رہے ہیں کیونکہ اُن کے عقیدہ کے رُو سے وہ اب تک زندہ موجود ہیں اور یورپ کے تمام طاقتور بادشاہ مع اپنے ارکان دولت کے اُن کو خدائے ذوالجلال مانتے ہیں کیا ایسی وجاہت کسی دوسرے انسان کی ہوئی ؟.ایام اصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه، ۴۱۲ تا ۴۱۴) ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السّلام کے وقت میں خدا تعالیٰ کی زمین پر بعض راستباز اپنی راستبازی اور تعلق باللہ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی افضل اور اعلیٰ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی نسبت فرمایا ہے : وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ جس کے یہ معنی ہیں کہ اُس زمانہ کے مقربوں میں سے یہ بھی ایک تھے.اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سب مقربوں سے بڑھ کر تھے بلکہ اس بات کا امکان نکلتا ہے کہ بعض مقرب اُن کے زمانہ کے اُن سے بہتر تھے.ظاہر ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آئے تھے اور دوسرے ملکوں اور قوموں سے اُن کو کچھ تعلق نہ تھا.پس ممکن ، بلکہ قریب قیاس ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۵ سورة ال عمران کہ بعض انبیاء جو : لم نقصص (المؤمن : ۷۹) میں داخل ہیں وہ اُن سے بہتر اور افضل ہوں گے.اور جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابل پر آخر ایک انسان نکل آیا جس کی نسبت خدا نے : عَلَيْنَهُ مِنْ لَدُنَا عِلمًا ( الكهف : ٢٢) فرمایا تو پھر حضرت عیسی کی نسبت جو موسیٰ سے کم تر اور اُس کی شریعت کے پیرو تھے اور خود کوئی کامل شریعت نہ لائے تھے اور ختنہ اور مسائل فقہ اور وراثت اور حرمت خنزیر وغیرہ میں حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع تھے کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ بالا طلاق اپنے وقت کے تمام راستبازوں سے بڑھ کر تھے.جن لوگوں نے اُن کو خدا بنایا ہے جیسے عیسائی یا وہ جنہوں نے خواہ نخواہ خدائی صفات انہیں دی ہیں جیسا کہ ہمارے مخالف اور خدا کے مخالف، نام کے مسلمان وہ اگر اُن کو اُوپر اُٹھاتے اُٹھاتے آسمان پر چڑھا دیں یا عرش پر بٹھا دیں یا خدا کی طرح پرندوں کا پیدا کرنے والا قرار دیں تو اُن کو اختیار ہے.انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے......حضرت عیسی علیہ السلام نے بیٹی کے ہاتھ پر جس کو عیسائی یوجنا کہتے ہیں جو پیچھے ایلیا بنایا گیا اپنے گناہوں سے تو بہ کی تھی اور اُن کے خاص مریدوں میں داخل ہوئے تھے.اور یہ بات حضرت یحی کی فضیلت کو بداہت ثابت کرتی ہے کیونکہ بمقابل اس کے یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ بیٹی نے بھی کسی کے ہاتھ پر تو بہ کی تھی.پس اُس کا معصوم ہونا بدیہی امر ہے اور مسلمانوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عیسی اور اُس کی ماں میں شیطان سے پاک ہیں اس کے معنے نادان لوگ نہیں سمجھتے.اصل بات یہ ہے کہ پلید یہودیوں نے حضرت عیسی اور اُن کی ماں پر سخت نا پاک الزام لگائے تھے اور دونوں کی نسبت نعوذ باللہ ! شیطانی کاموں کی تہمت لگاتے تھے.سو اس افترا کارڈ ضروری تھا.پس اس حدیث کے اس سے زیادہ کوئی معنے نہیں کہ یہ پلید الزام جو حضرت عیسی اور اُن کی ماں پر لگائے گئے ہیں یہ میچ نہیں ہے بلکہ ان معنوں کر کے وہ میش شیطان سے پاک ہیں اور اس قسم کے پاک ہونے کا واقعہ کسی اور نبی کو بھی پیش نہیں آیا.دافع البلاء و معیار اصل الاصطفاء ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۹، ۲۲۰ حاشیه ) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت اور مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی.اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرو دوس اور پلاطوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی اور یہ خیال کہ دنیا میں پھر آ کر عزت اور بزرگی پائیں گے، یہ ایک بے اصل وہم ہے جو نہ صرف خدائے تعالی کی کتابوں کے منشاء کے مخالف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة ال عمران بلکہ اس کے قدیم قانون قدرت سے بھی مغائر اور مبائن اور پھر ایک بے ثبوت امر ہے مگر واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس بدبخت قوم کے ہاتھ سے نجات پا کر جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے فخر بخشا تو اس ملک میں خدائے تعالیٰ نے ان کو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی وہ دس قو میں جو گم تھیں اس جگہ آکر ان کو مل گئیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آ کر اکثر ان میں سے بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے اور بعض ذلیل قسم کی بت پرستی میں پھنس گئے تھے.سواکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے سے راہ راست پر آگئے.اور چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کے لئے وصیت تھی اس لئے وہ دس فرقے جو اس ملک میں آ کر افغان اور کشمیری کہلائے ، آخر کار سب کے سب مسلمان ہو گئے.غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی اور حال میں ایک سکہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے برآمد ہوا ہے، اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اُسی زمانہ کا سکہ ہے جو حضرت مسیح کا زمانہ تھا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی اور غالباً یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا.ایک اور سکہ برآمد ہوا ہے اس پر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے، قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے.قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے کہ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا.سو ان سکوں سے ثابت ہے کہ اُس نے خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی.مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۳، ۵۴) جس طرح جناب مسیح علیہ السلام کی نسبت سنگدل یہود نے نہایت حقارت سے ذکر کرنا اور ان پر نا گفتہ بہ الزامات لگانے کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا اور کوئی بھی صاحب بصیرت اور غیرت کا حامی ایسا نہ تھا جو جناب روح اللہ کی عزت و آبرو کو ان بے ایمانوں کے ہاتھ سے بچانے کی کوشش کرتا اور آخر کار بنی آدم کا ایک حقیقی خیر خواہ اور تمام راستبازوں کا زبردست حامی (اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَاجْعَلْنِي فِدَاهُ وَوَفِّقْنِي لا سَاعَةِ مَا جَاءَ بِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) دنیا میں آیا جس نے وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَ الأخرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ کی بشارت سنا کر ان کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر بحال کیا.مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۰ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۷ سورة ال عمران وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلاً وَ مِنَ الصَّلِحِينَ.گھل کے لفظ سے درمیانی عمر کا آدمی مراد لیتے ہیں مگر یہ مسیح نہیں ہے.صحیح بخاری میں دیکھئے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے، اس میں گھل کے معنے جو ان مضبوط کے لکھے ہیں اور یہی معنے قاموس اور تفسیر کشاف وغیرہ میں موجود ہیں اور سیاق سباق آیات کا بھی انہیں معنوں کو چاہتا ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ کا اس کلام سے مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم نے خورد سالی کے زمانہ میں کلام کر کے اپنے نبی ہونے کا اظہار کیا پھر ایسا ہی جوانی میں بھر کر اور مبعوث ہو کر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا.سو کلام سے مراد وہ خاص کلام ہے جو حضرت مسیح نے ان یہودیوں سے کیا تھا جو یہ الزام ان کی والدہ پر لگاتے تھے اور جمع ہو کر آئے تھے کہ اے مریم! تو نے یہ کیا کام کیا ؟ پس یہی معنے منشا ء کلام الہی کے مطابق ہیں اگر ادھیڑ عمر کے زمانہ کا کلام مراد ہوتا تو اس صورت میں یہ آیت نعوذ باللہ الغوظہر تی گویا اس کے یہ معنے ہوتے کہ مسیح نے خوردسالی میں کلام کی اور پھر پیرانہ سالی کے قریب پہنچ کر کلام کرے گا اور درمیان کی عمر میں بے زبان رہے گا ، مطلب تو صرف اتنا تھا کہ دو مرتبہ اپنی نبوت پر گواہی دے گا، منصف کے لئے ایک بخاری کا دیکھنا ہی کافی ہے.مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۷) حضرت عیسی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے بلکہ اس سے مطلب ہے کہ جب وہ دو چار برس کے ہوئے کیونکہ یہی وقت تو بچوں کا پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لئے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر ہیں ہماری لڑکی امتہ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) b قَالَتْ رَبِّ الى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَ لَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٍ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ إِنْ قِيْلَ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خُلِقَ مِنْ غَيْرِ آبِ اگر کہا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بے باپ من يَد الْقُدْرَةِ - وَهَذَا آمَرٌ فَوْقَ الْعَادَةِ پیدا ہوئے تھے اور یہ اک امر فوق العادت ہے.فَلَايَتِمُّ هُنَاكَ شَأْنُ الْمُمَاثَلَةِ وَقَدْ وَجَبَ پس شان مماثلت پوری نہیں ہوتی ہے اور باہم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۸ سورة ال عمران.الْمُضَاهَاةُ كَمَا لا يخفى عَلَى الْقَرِيحَةِ الْوَقَادَةِ مشابہت کا ہونا ضروری ہے جو سلیم الطبع لوگوں پر قُلْنَا إِنَّ خَلْقَ إِنْسَانٍ مِنْ غَيْرِ آبِ دَاخِل فِی پوشیدہ نہیں ہے.ہم کہتے ہیں کہ انسان کا بے باپ عَادَةِ اللهِ الْقَدِيرِ الْحَكِيمِ وَلَا نُسَلِّمُ أَنَّهُ پیدا کر نا عادت اللہ میں داخل ہے اور ہم اس کو قبول خَارِجٌ مِّنَ الْعَادَةِ وَلَا هُوَ حَرِيٌّ بِالتَّسْلِيمِ نہیں کرتے کہ یہ خارج از عادت ہے اور نہ لائق فَإِنَّ الْإِنْسَانَ قَد يَتَوَلَّدُ مِنْ نُطْفَةِ الْاِمْرَأَةِ ہے کہ اس بات کو قبول کیا جائے کس لئے کہ انسان وَحْدِهَا وَلَوْ عَلى سَبِيْلِ النُّدْرَةِ وَلَيْسَ بھی عورت کے نطفہ سے بھی پیدا ہو جاتا ہے هُوَ بِخَارِجِ مِنْ قَانُونِ الْقُدْرَةِ بَلْ لَّه نَظَائِرُ اگر چہ بات نادر ہو اور یہ امر قانون قدرت سے بھی وَقِصَصْ فِي كُلِّ قَوْمٍ وَقَدْ ذَكَرَهَا الْأَطِباءُ مِنْ خارج نہیں ہے بلکہ ہر قوم میں اس کی نظیریں پائی أَهْلِ التَّجْرِبَةِ.نَعَمُ نَقْبَلُ أَنَّ هَذِهِ الْوَاقِعَةَ جاتی ہیں اور اہل تجر بہ طبیبوں نے ایسی نظیروں کا قَلِيْلَهُ يُسْبَةٌ إلى مَا خَالَفَهَا مِنْ قَانُونِ ذکر کیا ہے.ہاں ! ہم یہ بات قبول کر سکتے ہیں کہ التَّوْلِيدِ.وَكَذَالِكَ كَانَ خَلْقِي مِنَ اللهِ الْوَحِيدِ بغیر باپ کے پیدا ہونا قلیل الوقوع امر ہے، بہ نسبت وَكَانَ كَمِثْلِهِ في النُّسْرَةِ وَكَفَى هَذَا الْقَدْرُ اس امر کے کہ اس کا مخالف ہے اور اس امر عجیب لِلسَّعِيدِ.فَإِنِّي وُلِدتُ تَوْءَمَا وَ كَانَتْ صَبِيَّةٌ کے مشابہ میری پیدائش ہے.کس لئے کہ میں تو ام تَوَلَّدَتْ مَعِي فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ فَمَاتَتْ وَبَقِيتُ پیدا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی حَيًّا مِنْ أَمْرِ الله ذى الْعِزَّةِ.وَلَاشَكَ أَنَّ هَذِهِ تھی جو وہ مرگئی اور میں زندہ رہ گیا اور اس میں کوئی الْوَاقِعَةَ نَادِرَةٌ نِسْبَةً إِلَى الطَّرِيقِ الْمُتَعَارِفِ شک نہیں ہے کہ یہ واقعہ بھی نسبتاً عام پیدائش کے الْمَشْهُودِ وَيَكْفِى لِلْمُضَاهَاةِ الإشتراك في قاعدہ سے عجیب ہے اور مشابہت کے لئے اسی قدر النُّدارَةِ بِهَذَا الْقَدْرِ عِنْدَ اهْلِ الْعَقْلِ وَالشُّعُورِ | اشتراک کافی ہے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ ، صفحه ۸۵ تا ۸۸ حاشیه ) ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ تَوَلُّدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنْ پھر جان لو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بے باپ آبِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِهدَ الطَّرِيقِ پیدا ہونا بنی اسرائیل میں سے یہود کے لئے ایک تَنْبِيَّة لِلْيَهُودِ وَعِلْمٌ لِسَاعَتِهِمْ وَإِشَارَةٌ إِلى تنبیہ ہے اور ان کے زوال کی گھڑی پر ایک دلیل ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرور نبوت ان النبوة مُنتَرَع مِنهُم بِالتَّحْقِيقِ.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۸۹ حاشیہ) ان سے منتقل ہو جائے گی.( ترجمہ اصل کتاب سے ) دو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة ال عمران وَمِنَ الْمَعْلُومِ أَنَّ مَرْيَمَ وُجِدَتْ اور یہ بات معلوم ہے کہ حضرت مریم نکاح سے قبل حَامِلًا قَبْلَ النِّكَاحِ، وَمَا كَانَ لَهَا أَن حاملہ پائی گئیں اور اس عہد کی وجہ سے جو ان کی والدہ نے تَتَزَوَّجَ لِعَهْدِ سَبَقَ مِنْ أُمَّهَا بَعْدَ اپنے حاملہ ہونے کے بعد کیا تھا حضرت مریم کی مجال نہیں تھی الْإِجْحَاحِ فَالْأَمْرُ مَخصُورٌ في کہ نکاح کرتیں.پس اہل بصیرت کے نزدیک اس معاملہ کی دو الإخة اليْنِ عِنْدَ ذَوِى الْعَيْنَيْنِ إِمَّا صورتیں ممکن ہیں اول یا تو یہ کہا جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام أَن يُقَالَ إِنَّ عِيسَى خُلِقَ مِنْ كَلِمَةِ خدائے علّام کے کلمہ سے پیدا ہوئے تھے یا نعوذ باللہ! یہ کہا الله الْعَلامِ، أَوْ يُقَالَ وَنَعُوذُ بالله مِنْهُ جائے کہ وہ ولد الحرام تھے اور ہمیں اس کی کوئی وجہ نظر نہیں إِنَّهُ مِنَ الْحَرَامِ وَلَا تَجِدُ سَبِيلاً إلى آتی کہ حضرت مریم کا حمل نکاح کے نتیجہ میں قرار دیا جائے.حَمْلِ مَرْيَمَ مِنَ النِّكَاحِ فَإِنَّ أُمَّهَا کیونکہ ان کی والدہ نے خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اس کو كَانَتْ عَاهَدَتِ الله انها يتركها نکاح سے آزاد رکھیں گی اور بیت المقدس کی خادمہ بنائیں مُحَرَّرَةٌ سَادِنَةٌ، وَكَانَتْ عَهْدُهَا هَذَا فی گی.انہوں نے یہ عہد اپنے حمل کے ایام میں کیا تھا اور ہم أَيَّامِ اللقاح وَهَذَا أَمْرُ تَكْتُبُه مِن یہ بات قرآن کریم اور انجیل کی شہادت کی بنا پر لکھتے ہیں شَهَادَةِ الْقُرْآنِ وَالْإِنْجِيلِ فَلَا تَترُكُوا پس تم حق اور فلاح کا رستہ ترک نہ کرو.یہ تفصیل اس شخص سَبِيلَ الْحَقِّ وَالْفَلَاحِ هَذَا لِمَن کے لئے ہے جس کی فطرت وضاحت کا تقاضا کرتی ہے اور اسْتَوْضَعَتْهُ فِطَرَتُهُ وَلَا تَقْبَلُ خَارِقَ اس کی طبیعت کسی خارق عادت امر کو قبول نہیں کرتی.مگر ہم الْعَادَةِ عَــادَتُهُ وَأَمَّا نَحْنُ فَنُؤْمِنُ تو خدائے بزرگ و برتر کی کامل قدرت پر ایمان رکھتے ہیں بِكَمَالِ قُدْرَةِ اللهِ الْأَعْلى، وَنُؤْمِنُ بِأَنَّهُ اور اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو إِنْ يَشَاءَ يَخْلُقُ مِنْ وَرَقِ الْأَشْجَارِ درختوں کے پتوں سے بھی عیسی کی مانند پیدا کرسکتا ہے.كَمِثْلِ عِيسَى وَكَمْ مِن دُودٍ في دیکھو زمین میں کتنے ہی ایسے کیڑے ہیں جو بغیر ماں باپ کے الْأَرْضِ لَيْسَ لَهَا أَبَوَانٍ، فَالی عجب پیدا ہو جاتے ہیں.پس اے لوگو تمہیں حضرت عیسی علیہ السلام يَأْخُذُ كُمْ مِنْ خَلْقٍ عِيسَى يَا فِتْيَانُ کی بن باپ پیدائش میں کیا تعجب ہوتا ہے.(مواهب الرحمن، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹۶،۲۹۵) (ترجمه از مرتب) میں ہمیشہ سے اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسی بے باپ پیدا ہوئے تھے اور ان کا بے باپ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة ال عمران پیدا ہونا ایک نشان تھا اس بات پر کہ اب بنی اسرائیل کے خاندان میں نبوت کا خاتمہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ بشرط تقویٰ نبوت بنی اسرائیل کے گھرانے سے ہوگی لیکن جب تقویٰ نہ رہا تو یہ نشان دیا گیا تا کہ دانشمند سمجھ لیں کہ اب آئندہ اس سلسلہ کا انقطاع ہو گا.الخام جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۷ اراپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۶۵) ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ تھے اور اللہ تعالیٰ کوسب طاقتیں ہیں، نیچری جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اُن کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر ہیں.ایسے لوگوں کا خدا مردہ خدا ہے اور ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا، ہم ایسے آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی بنی اسرائیل کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تمہاری حالتیں ایسی ردی ہوگئی ہیں کہ اب تم میں کوئی اس قابل نہیں جو نبی ہو سکے یا اُس کی اولاد میں سے کوئی نبی ہو سکے اسی واسطے آخری خلیفہ موسوی کو اللہ تعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا اور ان کو سمجھایا کہ اب شریعت تمہارے خاندان سے گئی.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۳ ،مورخه ۲۴ /جون ۱۹۰۱ء، صفحه ۱۱) سیحی اور عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کو ایک جا جمع کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے یحیی علیہ السلام کی پیدائش خوارق طریق سے ہے ویسے ہی مسیح کی بھی ہے پھر یمی علیہ السلام کی پیدائش کا حال بیان کر کے مسیح کی پیدائش کا حال بیان کیا ہے.یہ ترتیب قرآنی بھی بتلاتی ہے کہ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کی ہے یعنی جس قدر معجز نمائی کی قوت بیٹی کی پیدائش میں ہے اس سے بڑھ کر مسیح کی پیدائش میں ہے.اگر اس میں کوئی معجزانہ بات نہ تھی تو یحی کی پیدائش کا ذکر کر کے کیوں ساتھ ہی مریم کا ذکر چھیڑ دیا اس سے کیا فائدہ تھا؟ یہ اسی لئے کیا کہ تاویل کی گنجائش نہ رہے ان دونوں بیانوں کا ایک جاذکر ہونا اعجازی امر کو ثابت کرتے ہیں.اگر یہ نہیں ہے تو گویا قرآن تنزل پر آتا ہے جو کہ اس کی شان کے البدر جلد ۲ صفحه ۱۶ مورخه ۸ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۲۲) برخلاف ہے.وہ ( صحیح علیہ السلام ) بن باپ ہوئے اس کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ بیٹی اور عیسی کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے.پہلے بیچی کا ذکر کیا جو بانجھ سے پیدا ہوئے ، دوسرا قصہ مسیح کا اس کے بعد بیان فرمایا.جو اس سے ترقی پر ہونا چاہئے تھا اور وہ یہی ہے کہ وہ بن باپ ہوئے اور یہی امر خارق عادت ہے.اگر بانجھ سے پیدا ہونے (والے) بیٹی کے بعد باپ سے پیدا ہونے والے کا ذکر ہوتا تو اس میں خارق عادت کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة ال عمران الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲،مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) کیا بات ہوئی؟ قرآن شریف سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے اور قرآن شریف پر ہم ایمان لاتے ہیں پھر قانون قدرت میں ہم اس کے برخلاف کوئی دلیل نہیں پاتے.کیونکہ سینکڑوں کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو نہ باپ رکھتے ہیں اور نہ ماں.قرآن شریف میں جہاں اس کا ذکر ہے وہاں خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دو عجائب نمونوں کا ذکر کیا ہے ؛ اول حضرت زکریا کا ذکر ہے کہ ایسی پیرانہ سالی میں، جہاں کہ بیوی بھی بانجھ تھی خدا نے بیٹا پیدا کیا اور اس کے ساتھ ہی یہ دوسرا واقعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ایک اور قدرت عجیبہ کا نمونہ ہے اس کے ماننے میں کونسا ہرج پیدا ہوتا ہے؟ قرآن مجید کے پڑھنے سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بن باپ ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ نے كَمَثَلِ آدم جو فرمایا اس سے بھی ظاہر ہے کہ اس میں ایک عجوبہ قدرت ہے جس کے واسطے آدم کی مثال کا ذکر کرنا پڑا.( بدر جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۱۶ رمئی ۱۹۰۷ء صفحه ۳) إذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے اور قرآن شریف سے یہی ثابت ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام ) یہود کے واسطے ایک نشان تھے جو ان کی شامت اعمال سے اس رنگ میں پورا ہوا، زبور اور دوسری کتابوں میں لکھا گیا تھا کہ اگر تم نے اپنی عادت کو نہ بگاڑا تو نبوت تم میں رہے گی مگر خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ اپنی حالت کو بدل لیں گے اور شرک و بدعت میں گرفتار ہو جائیں گے جب انہوں نے اپنی حالت کو بگاڑا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق یہ تنبیبی نشان ان کو دیا اور مسیح کو بن باپ پیدا کیا.اور بن باپ پیدا ہونے کا سر یہ تھا کہ چونکہ سلسلہ نسب کا باپ کی طرف (سے) ہوتا ہے تو اس طرح گو یا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اسرائیلی خاندان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی کیونکہ وہ پورے طور سے اسرائیل کے خاندان سے نہ رہے : مُبَشِّرًا بِرَسُولِ ورو يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ (الصف:۷) میں بشارت ہے.اس کے دو ہی پہلو ہیں یعنی ایک تو آپ کا وجود ہی بشارت تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے خاندان نبوت کا خاتمہ ہو گیا، دوسرے زبان سے بھی بشارت دی یعنی آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور زبانی بھی ، انجیل میں بھی مسیح نے باغ کی تمثیل میں اس امر کو بیان کر دیا ہے اور اپنے آپ کو مالک، باغ کے بیٹے کی جگہ ٹھہرایا ہے.بیٹے کا محاورہ انجیل اور بائیل میں عام ہے اسرائیل کی نسبت آیا ہے کہ اسرائیل فرزند من بلکہ نخست زاده من است، آخر اس تمثیل میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲ سورة ال عمران بتایا گیا ہے کہ بیٹے کے بعد وہ مالک خود آ کر باغبانوں کو ہلاک کر دے گا اور باغ دوسروں کے سپر د کر دے گا یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ نبوت ان کے خاندان سے جاتی رہی پس مسیح کا بن باپ ہونا اس امر کا ( البدر جلد اوّل نمبر ۱۰، مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۵) نشان تھا.ولا وَ رَسُولًا إِلى بَنِي إِسْرَاءِيلَ ، أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِايَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ إِنِّي اَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَانْفُخُ فِيْهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ وَ أَبْرِى الْأَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَأحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللهِ وَ انتُكُم بِمَا تَأكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً تَكُم إِن كُنتُم ج مُّؤْمِنِين ط ج بعض لوگ موحدین کے فرقہ میں سے بحوالہ آیات قرآنی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم انواع و اقسام کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر زندہ کر دیا کرتے تھے....ان تمام اوہام باطلہ کا جواب یہ ہے کہ وہ آیات جن میں ایسا لکھا ہے متشابہات میں سے ہیں اور ان کے یہ معنے کرنا کہ گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور اذن سے حضرت عیسی کو صفات خالقیت میں شریک کر رکھا تھا صریح الحاد اور سخت بے ایمانی ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ اپنی صفات خاصہ الوہیت بھی دوسروں کو دے سکتا ہے تو اس سے اس کی خدائی باطل ہوتی ہے اور موحد صاحب کا یہ عذر کہ ہم ایسا اعتقاد نہیں رکھتے کہ اپنی ذاتی طاقت سے حضرت عیسی خالق طیور تھے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ طاقت خدائے تعالیٰ نے اپنے اذان اور ارادہ سے اُن کو دے رکھی تھی اور اپنی مرضی سے ان کو اپنی خالقیت کا حصہ دار بنا دیا تھا اور یہ اس کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے اپنا مثیل بنا دیوے قادر مطلق جو ہوا.یہ سراسر مشرکانہ باتیں ہیں اور کفر سے بدتر.اس موحد کو یہ بھی کہا گیا کہ کیا تم اب شناخت کر سکتے ہو کہ ان پرندوں میں سے کون سے ایسے پرندے ہیں جو خدائے تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور کون سے ایسے پرندے ہیں جو ان پرندوں کی نسل ہیں جن کے حضرت عیسی خالق ہیں؟ تو اس نے اپنے ساکت رہنے سے یہی جواب دیا کہ میں شناخت نہیں کر سکتا.اب واضح رہے کہ اس زمانہ کے بعض موحدین کا یہ اعتقاد کہ پرندوں کے نوع میں سے کچھ تو خدائے تعالیٰ کی مخلوق اور کچھ حضرت عیسی کی مخلوق ہے سراسر فاسد اور مشرکانہ خیال ہے اور ایسا خیال رکھنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۳ سورة ال عمران والا بلا شبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور یہ عذر کہ ہم حضرت عیسی کو خدا تو نہیں مانتے بلکہ یہ مانتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے بعض اپنی خدائی کی صفتیں ان کو عطا کر دی تھیں نہایت مکروہ اور باطل عذر ہے.کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے اپنی خدائی کی صفتیں بندوں کو دے سکتا ہے تو بلاشبہ وہ اپنی ساری صفتیں خدائی کی ایک بندے کو دے کر پور اخدا بنا سکتا ہے.پس اس صورت میں مخلوق پرستوں کے کل مذاہب سے ٹھہر جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ کسی بشر کو اپنے اذن اور ارادہ سے خالقیت کی صفت عطا کر سکتا ہے تو پھر وہ اس طرح کسی کو اذن اور ارادہ سے اپنی طرح عالم الغیب بھی بنا سکتا ہے اور اس کو ایسی قوت بخش سکتا ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرح ہر جگہ حاضر ناظر ہو اور ظاہر ہے کہ اگر خدائی کی صفتیں بھی بندوں میں تقسیم ہوسکتی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا وحدہ لاشریک ہونا باطل ہے.جس قدر دنیا میں مخلوق پرست ہیں وہ بھی یہ تو نہیں کہتے کہ ہمارے معبود خدا ہیں بلکہ ان موحدوں کی طرح ان کا بھی درحقیقت یہی قول ہے کہ ہمارے معبودوں کو خدائے تعالیٰ نے خدائی کی طاقتیں دے رکھی ہیں.رب اعلیٰ و بر تر تو وہی ہے اور یہ صرف چھوٹے چھوٹے خدا ہیں.تعجب کہ یہ لوگ یا رسول اللہ کہنا شرک کا کلمہ سمجھ کر منع کرتے ہیں لیکن مریم کے ایک عاجز بیٹے کو خدائی کا حصہ دار بنارہے ہیں.بھائیو! آپ لوگوں کا اگر در اصل یہی مذہب ہے کہ خدائی بھی مخلوق میں تقسیم ہو سکتی ہے اور خدائے تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی صفت خالقیت ور از قیت و عالمیت و قادر بیت وغیره میں ہمیشہ کے لئے شریک کر دیتا ہے تو پھر آپ لوگوں نے اپنے بدعتی بھائیوں سے اس قدر جنگ و جدل کیوں شروع کر رکھی ہے وہ بیچارے بھی تو اپنے اولیاء کو خدا کر کے نہیں مانتے صرف یہی کہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے کچھ کچھ خدائی طاقتیں انہیں دے رکھی ہیں اور انہیں طاقتوں کی وجہ سے جو باذن الہی ان کو حاصل ہیں وہ کسی کو بیٹا دیتے ہیں اور کسی کو بیٹی اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں، نذریں نیازیں لیتے ہیں اور مرادیں دیتے ہیں.اب اگر کوئی طالب حق یہ سوال کرے کہ اگر ایسے عقائد سراسر باطل اور مشر کا نہ خیالات ہیں تو ان آیات فرقانیہ کے صحیح معنے کیا ہیں جن میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم مٹی کے پرندے بنا کر پھونک اُن میں مارتا تھا تو وہ باذن الہی پرندے ہو جاتے تھے؟ سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں ؟ (۱) ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا جیسے شق القمر جو ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة ال عمران دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو : صرح ممردٌ مِنْ قَوَارِير (العمل : ۴۵) ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہیئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا.تاریخ سے ثابت ہے کہ اُن دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے.وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے اور کئی قسم کے جانور طیار کر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلا دیتے تھے.وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے اور یہودیوں نے اُن کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے جیسا کہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے.سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دہانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھتی کا کام در حقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے اور جیسے انسان میں قومی موجود ہوں انہیں کے موافق اعجاز کے طور پر بھی مددملتی ہے.جیسے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی قومی جو دقائق اور معارف تک پہنچنے میں نہایت تیز وقوی تھے سو انہیں کے موافق قرآن شریف کا معجزہ دیا گیا جو جامع جميع دقائق و معارف الہیہ ہے.پس اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے کہ حضرت مسیح نے اپنے دادا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ منقلی معجزہ دکھلایا ہو اور ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید بھی نہیں کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں، ہمبئی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یوروپ اور امریکہ کے ملکوں میں بکثرت ہیں اور ہر سال نئے نئے نکلتے آتے ہیں.اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۵ سورة ال عمران چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر یہ معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمّی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسی نے اپنا رفیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح اُن میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الو قرب یعنی مسمریز می طریق سے بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عملی القرب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں.انسان کی روح میں کچھ ایسی خاصیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی گرمی ایک جماد پر جو بالکل بے جان ہے ڈال سکتی ہے.تب جماد سے وہ بعض حرکات صادر ہوتی ہیں جو زندوں سے صادر ہوا کرتی ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس علم کے بعض مشق کرنے والوں کو دیکھا ہے جو انہوں نے ایک لکڑی کی تپائی پر ہاتھ رکھ کر ایسا اپنی حیوانی روح سے اُسے گرم کیا کہ اس نے چار پایوں کی طرح حرکت کرنا شروع کر دیا اور کتنے آدمی گھوڑے کی طرح اس پر سوار ہوئے اور اسکی تیزی اور حرکت میں کچھ کمی نہ ہوئی.سو یقینی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص اس فن میں کامل مشق رکھنے والا مٹی کا ایک پرند بنا کر اس کو پرواز کرتا ہوا بھی دکھا دے تو کچھ بعید نہیں کیونکہ کچھ اندازہ نہیں کیا گیا کہ اس فن کے کمال کی کہاں تک انتہاء ہے.اور جبکہ ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ اس فن کے ذریعہ سے ایک جہاد میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ جانداروں کی طرح چلنے لگتا ہے تو پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا جانور جو مٹی یا لکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل القرب سے اپنی روح کی گرمی اس کو پہنچائی جائے وہ در حقیقت زندہ نہیں ہوتا بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے روح کی گرمی بازوت سے کسی طرح اُس کو جنبش میں لاتی ہے.اور یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا اور نہ رحقیقت ان کا زندہ ہو جانا ثابت ہوتا ہے.( أبْرِى الْأَكْمَة وَالْاَبْرَصَ ( اس جگہ یہ بھی جاننا چاہیئے کہ سلب امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جماد لے اسے آج کل’با روڈ“ لکھا جاتا ہے.( ناشر )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب عمل التشرب کی شاخیں ہیں.ہر یک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلپ امراض کرتے رہے ہیں اور مفلوج، مبروص، مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں.جن لوگوں کی معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی و شہر وردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشاق گذرے ہیں کہ صد با بیماروں کو اپنے بیمین و یسار میں بٹھا کر صرف نظر سے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین ابن عربی صاحب کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی.اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پر ہیز کرتے رہے ہیں مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہو گئے تھے اور اب یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہی الیسع نبی کی طرح اس عمل العرب میں کمال رکھتے تھے گو الیسع کے درجہ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے.کیونکہ البیع کی لاش نے بھی وہ معجزہ دکھلایا کہ اس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مردہ زندہ ہو گیا مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہرگز زندہ نہ ہوسکیں.یعنی وہ دو چور جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.بہر حال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں ،مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں.اگر یہ عاجز اس عمل کو مکر وہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان امجو بہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مارا ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن و حکم الہی اختیار کیا تھا ور نہ در اصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.واضح ہو کہ اس عمل جسمانی کا ایک نہایت برا خاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے اور جسمانی مرضوں کے رفع دفع کرنے کے لئے اپنی دلی و دماغی طاقتوں کو خرچ کرتار ہے وہ اپنی اُن روحانی تا شیروں میں جو روح پر اثر ڈال کر روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں بہت ضعیف اور نکھا ہو جاتا ہے اور امرتنویر باطن اور تزکیہ نفوس کا جو اصل مقصد ہے اس کے ہاتھ بہت کم انجام پذیر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح جسمانی بیماروں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة ال عمران کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب نا کام کے رہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زورا اپنی روح کا دلوں میں ہدایت پیدا ہونے کے لئے ڈالا اسی وجہ سے تکمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر رہے اور ہزار ہا بندگان خدا کو کمال کے درجہ تک پہنچادیا اور اصلاح خلق اور اندرونی تبدیلیوں میں وہ ید بینا دکھلایا کہ جس کی ابتدائے دنیا سے آج تک نظیر نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح کے عمل الشرب سے وہ مردے جو زندہ ہوتے تھے یعنی وہ قریب المرگ آدمی جو گویا نئے سرے زندہ ہو جاتے تھے وہ بلا توقف چند منٹ میں مرجاتے تھے کیونکہ بذریعہ عمل الشرب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر ان میں پیدا ہو جاتی تھی مگر جن کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یہ جو میں نے مسمریز می طریق کا عمل الیوب نام رکھا، جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھے پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الشرب ہے اور اس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا: هَذَا هُوَ اليَرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُونَ یعنی یہ وہ عملی الثوب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں ، ورنہ خدائے تعالیٰ اپنی ہر یک صفت میں واحد لا شریک ہے، اپنی صفات الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا.فرقان کریم کی آیات بینات میں اس قدر اس مضمون کی تاکید پائی جاتی ہے جو کسی پر مخفی نہیں جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا ہے: الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَةَ تَقْدِيرًا وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ الِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَ لَا نَفْعًا وَ لَا يَمْلِكُونَ مَوْتَا وَ لا حيوةً وَلَا نُشُوران ( الفرقان : ۳، ۴ ) سورة الفرقان الجزو ۱۸ یعنی خدا، وہ خدا ہے جو تمام زمین و آسمان کا اکیلا مالک ہے کوئی اس کا حصہ دار نہیں، اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کے ملک میں کوئی اُس کا شریک اور اسی نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر ایک حد تک اس کے جسم اور اس کی طاقتوں اور اس کی عمر کو محدود کر دیا اور مشرکوں نے بجز اس خدائے حقیقی کے اور اور ایسے ایسے خدا مقرر کر رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ اور مخلوق ہیں، اپنے ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں اور نہ موت اور زندگی اور جی اُٹھنے کے مالک ہیں.اب دیکھو! خدائے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرما رہا ہے کہ بجز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا اور صاف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۸ سورة ال عمران فرماتا ہے کہ کوئی شخص موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں ہوسکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنادینا اور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ توحید کی ہمیں ہرگز تعلیم نہ دیتا.اگر یہ وسواس دل میں گزرے کہ پھر اللہ جل شانہ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے متخلق کا لفظ کیوں استعمال کیا جس کے بظاہر یہ معنے ہیں کہ تو پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کو خالق قرار دینا بطور استعارہ ہے جیسا کہ اس دوسری آیت میں فرمایا ہے: فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ (المؤمنون : ۱۵) بلاشبہ حقیقی اور سیا خالق خدائے تعالیٰ ہے اور جو لوگ مٹی یالکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق ، جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ کیوں بطور معجزہ جائز نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اذن اور ارادہ الہی سے حقیقت میں پرندے بنا لیتے ہوں اور وہ پرندے ان کی اعجازی پھونک سے پرواز کر جاتے ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا.نبی لوگ دعا اور تضرع سے معجزہ مانگتے ہیں، معجزہ نمائی کی ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ انسان کو ہاتھ پیر ہلانے کی قدرت ہوتی ہے.غرض معجزہ کی حقیقت اور مرتبہ سے یہ امر بالاتر اور ان صفات خاصہ خدائے تعالی میں سے ہے جو کسی حالت میں بشر کومل نہیں سکتیں.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کر ایک اپنے رسول کی عزت وصداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کے عجز اور مغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اور درخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت و تقدس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یا کارسازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو.اب ہر یک دانشمند سوچ سکتا ہے کہ یہ صورت ہرگز معجزہ کی صورت نہیں کہ خدائے تعالی دائمی طور پر ایک شخص کو اجازت اور اذن دے دے کہ تو مٹی کے پرندے بنا کر پھونک مارا کر وہ حقیقت میں جانور بن جایا کریں گے اور ان میں گوشت اور بڑی اور خون اور تمام اعضا جانوروں کے بن جائیں گے.ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ پرندوں کے بنانے میں اپنی خالقیت کا کسی کو وکیل ٹھہر اسکتا ہے تو تمام امور خالقیت میں وکالت تامہ کا عہدہ بھی کسی کو دے سکتا ہے.اس صورت میں خدائے تعالیٰ کی صفات میں شریک ہونا جائز ہوگا
۵۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة ال عمران گو اس کے حکم اور اذن سے ہی سہی اور نیز ایسے خالقوں کے سامنے اور فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمُ (الرعد : ۱۷) کی مجبوری سے خالق حقیقی کی معرفت مشتبہ ہو جائے گی.غرض یہ اعجاز کی صورت نہیں یہ تو خدائی کا حصہ دار بنانا ہے.بعض دانشمند شرک سے بچنے کے لئے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جو پرندے بناتے تھے وہ بہت دیر تک جیتے نہیں تھے ان کی عمر چھوٹی ہوتی تھی تھوڑی مسافت تک پرواز کر کے پھر گر کر مر جاتے تھے.لیکن یہ عذر بالکل فضول ہے اور صرف اس حالت میں ماننے کے لائق ہے کہ جب یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ان پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف ظلی اور مجازی اور جھوٹی حیات جو عمل الشّرب کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے ایک جھوٹی جھلک کی طرح ان میں نمودار ہو جاتی تھی.پس اگر اتنی ہی بات ہے تو ہم اس کو پہلے سے تسلیم کر چکے ہیں ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ عمل الشرب کے ذریعہ سے پھونک کی ہوا میں وہ قوت پیدا ہو جائے جو اس دُخان میں پیدا ہوتی ہے جس کی تحریک سے غبارہ اوپر کو چڑھتا ہے.صانع فطرت نے اس مخلوقات میں بہت کچھ خواص مخفی رکھے ہوئے ہیں.ایک شریک صفات باری ہونا ممکن نہیں اور کونسی صنعت ہے جو غیر ممکن ہے؟ اور اگر یہ اعتقا در کھا جاوے کہ اُن پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا ہو جاتی تھی اور سچ سچ اُن میں ہڈیاں گوشت پوست خون وغیرہ اعضا بن کر جان پڑ جاتی تھی تو اس صورت میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اُن میں جاندار ہونے کے تمام لوازم پیدا ہو جاتے ہوں گے اور وہ کھانے کے بھی لائق ہوتے ہوں گے اور اُن کی نسل بھی آج تک کروڑ ہا پرندے زمین پر موجود ہوں گے اور کسی بیماری سے یا شکاری کے ہاتھ سے مرتے ہوں گے تو ایسا اعتقاد بلاشبہ شرک ہے.بہت لوگ اس وسوسہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر کسی نبی کے دعا کرنے سے کوئی مردہ زندہ ہو جائے یا کوئی جماد جاندار بن جائے تو اس میں کون سا شرک ہے؟ ایسے لوگوں کو جانا چاہیئے کہ اس جگہ دعا کا کچھ ذکر نہیں اور دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا الہ جل شانہ کے اختیار میں ہوتا ہے اور دعا پر جو فعل مترتب ہوتا ہے وہ فعل الہی ہوتا ہے نبی کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا اور نبی خواہ دعا کرنے کے بعد فوت ہو جائے نبی کے موجود ہونے یا نہ ہونے کی اس میں کچھ حاجت نہیں ہوتی.غرض نبی کی طرف سے صرف دعا ہوتی ہے جو کبھی قبول اور کبھی رو بھی ہو جاتی ہے لیکن اس جگہ وہ صورت نہیں.انا جیل اربعہ کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح جو جو کام اپنی قوم کو دکھلاتا تھا وہ دعا کے ذریعہ سے ہرگز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰ سورة ال عمران نہیں تھے اور قرآن شریف میں بھی کسی جگہ یہ ذکر نہیں کہ مسیح بیماروں کے چنگا کرنے یا پرندوں کے بنانے کے وقت دعا کرتا تھا بلکہ وہ اپنی روح کے ذریعہ سے جس کو روح القدس کے فیضان سے برکت بخشی گئی تھی ایسے ایسے کام اقتداری طور پر دکھاتا تھا چنانچہ جس نے کبھی اپنی عمر میں غور سے انجیل پڑھی ہوگی وہ ہمارے اس بیان کی یہ یقین تمام تصدیق کرے گا اور قرآن شریف کی آیات بھی بآواز بلند یہی پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی اور خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ ایک فطرتی طاقت تھی جو ہر یک فرد بشر کی فطرت میں موقع ہے، مسیج سے اس کی کچھ خصوصیت نہیں.چنانچہ اس بات کا تجزیہ اسی زمانہ میں ہو رہا ہے.مسیح کے منجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہر عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم ، مفلوج، مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہو جاتے تھے لیکن بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اُس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہیں تھا.غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ میسج مٹی کے پرندے بنا کر اور اُن میں پھونک مار کر انہیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا.نہیں ! بلکہ صرف عمل القرب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی بہر حال یہ معجزہ صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا اور وہ مٹی در حقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی.جیسے سامری کا گوسالہ.فَتَدَبَّر ! فَإِنَّهُ نُكْتَةً جَلِيْلَةٌ مَّا يُلَقَهَا إِلَّا ذُوْحَةٍ عَظِيمٍ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۱ تا ۶۳ ۲ حاشیه ) وَقَالُوا إِنَّهُ كَانَ خَالِقَ الطُّيُورِ كَخَلْقِ اللهِ (لوگ کہتے ہیں کہ مسیح) خدا تعالی کی طرح وہ تَعَالَى، وَجَعَلَهُ اللهُ شَرِيكَهُ بِاذْنِهِ وَالطُّيُورُ پرندوں کا بھی خالق تھا اور خدا تعالیٰ نے اپنے اذن التى تُوجَدُ في هَذَا الْعَالَمِ تَنْحَصِرُ فی سے اس کو اپنا شریک بنایا.سو وہ سب پرندے جو دنیا الْقِسْمَيْنِ خَلْقُ اللهِ وَخَلْقُ الْمَسِيحِ فَانْظُرْ میں پائے جاتے ہیں دو قسم کے ہیں؛ کچھ خدا کی كَيْفَ جَعَلُوا ابْنَ مَرْيَمَ مِنَ الْخَالِقِينَ.پیدائش اور کچھ مسیح کی.سود دیکھو کیوں کر ابن مریم کو خالق وَيُشِيعُونَ فِي النَّاسِ هَذِهِ الْعَقَائِدَ وَلَا بنا دیا.اور لوگوں میں یہ عقائد شائع کرتے ہیں اور نہیں يَدُرُونَ مَا فِيهَا مِنَ الْبَلايَا وَالْمَنَايَا، جانتے کہ ان عقیدوں میں کیا کیا بلائیں اور موتیں ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱ سورة ال عمران وَيُؤَيَّدُوْنَ الْمُتَنَظِرِينَ وَهَلَكَ بِهَا إِلَى اور نصاری کو مدد پہنچا رہے ہیں.اور ان عقائد کی شامت الأن أُلُوفٌ مِنَ النَّاسِ وَدَخَلُوا فِي الْمِلَّةِ سے اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے اور نصرانی مذہب النَّصْرَانِيَّةِ بَعْدَ مَا كَانُوا مُسْلِمِينَ.وَمَا میں داخل ہو گئے بعد اس کے جو وہ مسلمان تھے.اور قرآن كَانَ فِي الْقُرآنِ ذِكْرُ خَلْقِهِ عَلَى الْوَجْهِ میں مسیح کے پرندے بنانے کا ذکر حقیقی طور پر کہیں بھی نہیں الْحَقِيقي، وَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى عِنْدَ ذِكْرِ اور خدا نے اس قصہ کے ذکر کرنے کے وقت یہ نہیں فرمایا کہ هذِهِ الْقِصَّةِ فَيَصِيرُ حَيًّا بِإِذْنِ اللهِ ، بَلْ فَيَصِيرُ حَيَا بِإِذْنِ اللهِ بلکہ یہ فرمایا کہ : فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ قالَ، فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ فَانْظُرُ وا لفظ الله سولفظ فَيَكُونُ اور لفظ طیرا میں غور کرو کہ کیوں اس فَيَكُونُ وَلَفْظَ طَيْرًا ، لِمَ اخْتَارَ هُمَا الْعَلِيمُ علیم حکیم نے انہیں دونوں لفظوں کو اختیار کیا اور لفظ فَيَصيرُ الْحَكِيمُ وَتَرَكَ لَفْظَ يَصِيرُ وَ حَيًّا، فَقَبَتَ حَيًّا کو چھوڑ دیا؟ سو اس جگہ ثابت ہوا کہ اس جگہ خدا تعالیٰ مِنْ هُهُنَا أَنَّ اللَّهَ مَا أَرَادَ هُهُنَا خَلْقًا کی مراد حقیقی خلق نہیں ہے اور وہ خالقیت مراد نہیں ہے جو اس حَقِيقِيًّا كَخَلْقِهِ عَزَّوَجَلَّ وَ يُؤَيِّدُهُ ما کی ذات سے مخصوص ہے اور اس کی تائید وہ بیانات کرتے جَاءَ في كتب التَّفْسِيرِ مِن بَعْضِ ہیں جو بعض صحابہ سے تفسیروں میں بیان ہوئے ہیں اور وہ یہ الصَّحَابَةِ أَنَّ طَيْرَ عِيسَى مَا كَانَ يَطِيرُ إِلَّا کہ عیسی کا پرندہ اسی وقت تک پرواز کرتا تھا جب تک کہ وہ أَمَامَ أَعْيُنِ النَّاسِ، فَإِذَا غَابَ سَقَط عَلَی لوگوں کی نظروں کے سامنے رہتا تھا اور جب غائب ہوتا تھا الْأَرْضِ وَ رَجَعَ إِلى أَصْلِهِ كَعَصَا مُوسٰی وَ تو گر جاتا تھا اور اپنی اصل کی طرف رجوع کرتا تھا جیسے عصا كَذلِكَ كَانَ إِحْيَاءُ عِيسَى، فَأَيْنَ الْحَيَاةُ موسیٰ کا اور عیسی کا مردوں کو زندہ کرنا بھی ایسا ہی تھا.سواس الحقيقي، فَلِأَجل ذلك اختار الله تعالی جگہ حیات حقیقی کہاں ثابت ہوئی ؟ سو اسی لئے خدا تعالیٰ نے فى هَذَا الْمَقَامِ أَلْفَاظًا تَنَاسَب اس مقام میں وہ لفظ اختیار کئے جو استعارات کے مناسب الْإِسْتِعَارَاتِ لِيُشير إلى الاعجاز الذين حال تھے تا کہ اس اعجاز کی طرف اشارہ کرے جو مجاز کی حد بَلَغَ إلى حَدِ الْمَجَازِ، وَذَكَرَ مَجَازًا ليُبَيِّنَ تک پہنچا تھا اور مجاز کو اس لئے ذکر کیا کہ تا ان کے معجزہ کو جو الْجَازًا، فَحَمَلَهُ الْجَاهِلُونَ الْمُسْتَعْجِلُونَ خارق عادت تھا بیان فرمادے پس اس مجاز کو جاہلوں نے عَلَى الْحَقِيقَةِ، وَسَلَكُوهُ مَسْلَكَ خَلْقِ اللهِ حقیقت پر عمل کر دیا اور ایسے مرتبہ میں داخل کیا جو الہی مِنْ غَيْرِ تَفَاوُتٍ، مَّعَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ نَفْحِ پیدائش کا مرتبہ ہے حالانکہ وہ صرف نفخ مسیح اور اس کی روح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ سورة ال عمران الْمَسِيحِ وَتَأْثِيرِ رُوْحِهِ مِنْ غَيْرِ مُقَارَنَتِهِ کی تاثیر سے تھا اور اس کے ساتھ کوئی دعا نہیں تھی سو ایسے سمجھنے دُعَاءُ، فَهَلَكُوا وَأَهْلَكُوا كَثِيرًا تین والے ہلاک ہوئے اور بہتوں کو جاہلوں میں سے ہلاک کیا.الْجَاهِلِينَ وَالْقُرْآن لا تجعل شريكا في اور قرآن تو کسی کو خدا کی خالقیت میں شریک نہیں کرتا اگر چہ خَلْقِ اللهِ أَحَدًا وَ لَوْ فِي ذُبَابِ أَوْ بَعُوضَةٍ ایک بھی بنانے یا ایک مچھر بنانے میں شراکت ہو بلکہ وہ کہتا بَلْ يَقُولُ إِنَّهُ وَاحِدٌ ذَانَا وصِفاتا ہے کہ خدا ذاتاً وصفاتاً واحد لاشریک ہے سو تم قرآن کو ایسا فَاقْرَءُوا الْقُرْآنَ كَالْمُتَدَبِرِينَ پڑھو جیسا کہ تدبر کرنے والے پڑھتے ہیں.فَالْأَمْرُ الَّذِي ثَبَتَ عَقَلًا وَنَقَلًا سوجو امر عقلاً ونقل واستدلالا ثابت ہو گیا.اس کا کوئی واستدلالا لا يُنْكِرُهُ أَحَدٌ إِلَّا الَّذي ما انکار نہیں کر سکتا بجز ایسے شخص کے جس کے سر میں انسانی يقى في رأسه مِرَّةٌ إِنْسَانِيَةٌ وَلَحَق دانشمندی کا مادہ نہیں رہا اور زیاں کاروں اور تحت الثریٰ بِالْأَخْسَرِينَ السَّافِلِينَ.وَلَا يَقُولُ أَحَدٌ جانے والوں کے ساتھ جا ملا.اور ایسی باتیں کوئی منہ پر كَيفل هذِهِ الْكَلِمَاتِ إِلَّا الَّذِي نَسِتی نہیں لائے گا مگر وہی جو توحید کی راہ کو بھول گیا اور پہلی طَرِيقَ التَّوْحِيدِ وَمَالَ إِلَى الْجَاهِلِيَّةِ جاہلیت کی طرف مائل ہو گیا اور اس کی نظر ان عقیدوں الْأَوْلى، وَمَا بَلَغَ نَظَرُهُ إلى نتائجها کے لازمی نتیجوں اور چھپے ہوئے فسادوں تک نہیں پہنچ سکی الطُّرُورِيَّةِ وَمَفَاسِيهَا الْمَغْفِيَّةِ أَو یا وہ شخص ایسے کلمات کہے گا جو جہالت کی باتوں پر اڑ الَّذِي رَسَا عَلَى جَهْلِهِ عَمَدًا وَغَرِقَ في بیٹھا اور تقلید کے دریا میں غرق ہو گیا.یہاں تک کہ لجَةِ التَّقْلِيْهِ غَرْقًا حَتَّی فَقَد أَثَرَ حُرِّيَّةِ انسانی آزادی کے نام و نشان کو کھو بیٹھا اور ایسے جال میں الْإِنْسَانِيَّةِ، وَسَقَط في شَبَكَةٍ لَّا تَخَلَّص پھنس گیا جس میں سے نجات نہیں اور ابلیس لعین کے مِنْهَا، وتابع أثر إبْلِيسَ اللَّعِيْنِ وَالَّذِى نشان قدم کا پیرو ہو گیا اور وہ شخص جو قرآن پر ایمان لایا امَن بِالْقُرْآنِ وَأَلْقَى نَفْسَه تحت هدایا تب اور اس کی ہدایتوں کے نیچے اپنے تئیں ڈال دیا سو وہ ایسے عقائد فَلَن تَرْطى مِثْلِ هَذِهِ الْعَقَايْدِ، بَلْ لا پر بھی راضی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسی باتوں کو جو صریح قرآن کے يَسُوعُ لَه قَوْلٌ تُخالِفُ الْقُرْآنَ بِالْبَدَاهَةِ مخالف اور اس کی محکم آیتوں کے کھلے کھلے معارض ہیں نا جائز وَ يُعَارِضُ بَيِّنَاتِهِ وَمُحْكَمَاتِهِ صَرِيحًا سمجھے گا اور اس سے بڑھ کر اور کون سا گناہ ہوگا کہ ایک شخص وَأَى ذَنْبٍ أَكْبَرُ مِن ذَلِكَ أَنَّ أَحَدًا يُؤْمِن قرآن پر ایمان لا کر پھر رجوع کرے اور اس کی بعض بدایوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة ال عمران بِالْقُرْآنِ ثُمَّ يَرْجِعُ وَيُنْكِرُ بَعْض سے انکاری ہو جائے اور متشابہات کی پیروی کرنے لگے اور هَدَايَاتِهِ، وَيَتَّبِعُ الْمُتَشَابِهَاتِ وَيَترك محکمات کو چھوڑ دے اور قرآن کی تحریف کرے اور اس کے الْمُحْكَمَاتِ، وَيُحَرِّفُ الْقُرْآنَ وَيُغَيْرُ معانی کو ان کے مرکز مستقیم سے پھیر دے اور اپنی باتوں مُعَانِيَهُ مِن مَّرْكَزِهَا الْمُسْتَقِيمٍ، وَيُؤَيِّدُ سے مشرکوں کو مدد دے.مگر وہ شخص جس نے کتاب اللہ سے بِأَقْوَالِهِ قَوْمًا مُشْرِكِينَ وَلكِن الذى پنجہ مارا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب باتوں پر ایمان لایا تَمَسَّكَ بِكِتَابِ اللهِ وَآمَنَ مَا فِيهِ صِدْقًا اور سچ اور حق سمجھ لیا پس اس پر کون ساحرج اور کون سا مضائقہ وَحَقًّا فَأَيُّ حَرَجِ عَلَيْهِ وَأَى ضَيْرِ إِن تَرَكَ ہے اگر وہ ایسی روایتوں کو چھوڑ دے جو قرآن کے کھلے رَوَايَاتٍ أُخْرَى التي تُخَالِفُ بَيْنَاتِ کھلے بیانات کی مخالف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الَّتِي الْقُرْآنِ وَلَيْسَتْ ثَابِتَةٌ من رَسُولِ الله سے ایسے قطعی اور یقینی طور سے ثابت نہیں جو قرآن کے مِّنْ بِقُبُوتٍ قَطيَ يَقِينِي الَّذِى يُسَاوِى ثبوت اور تواتر سے برابری کر سکے یا مثلاً کوئی ایسے معانی تُبُوتَ الْقُرْآنِ وَتَوَاتُرَةُ أَوْ تَرَكَ مَعَلًا ترک کرے جو نصوص قرآنیہ کے مخالف ہیں اور وہ معنے معَانٍ تُخَالِفُ نُصُوصَهُ وَاخْتَارَ الْمُوَافِق اختیار کرے جو اس کے موافق ہیں اگر چہ تاویل سے ہی وَلَوْ بِالتَّأْوِيلِ بَلْ هَذَا مِنْ سِيرِ سہی؟ بلکہ یہ تو نیک بختوں اور متقیوں کا طریق ہے اور الصَّالِحِينَ الْمُتَّقِينَ وَمِنْ سِيرِ الصَّدِيقَة حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مادر مومناں کے طریق رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أُمِ الْمُؤْمِنِينَ فَالْوَاجِبُ اور خصلت میں سے ہے، پس ایسے شخص پر جو مومن مسلمان عَلَى الْمُؤْمِنِ الْمُسْلِمِ الْمُتَوَرِّعِ الَّذِی پرہیز گار ہے اور خدا سے جیسا کہ حق ڈرنے کا ہے ڈرتا ہے يَتَّقِى اللهَ حَقَّ الثَّقَاةِ، أَنْ يَعْتَصِمَ بِحَبْلِ واجب ہے.جو حبل اللہ سے جو قرآن ہے پنجہ مارے اور اللهِ الْقُرْآنِ وَلَا يُبَالِي غَيْرَهُ الَّذي يُخالِفُہ اس کے غیر کی کچھ پرواہ نہ کرے جو اس کا مخالف ہے اور وَ إِذَا رَأَى وَالْكَشَفَ عَلَيْهِ أَنَّ بَعْضَ جب دیکھے اور جب اس پر کھلے کہ بعض علماء سلف میں الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ أَوِ الْخَلفِ غلطوا في سے يا خلف میں سے کسی بات کے سمجھنے میں غلطی میں پڑ فَهُم أَمْرٍ فَلَيْسَ مِن دَيَانَتِهِ أَنْ يَتَّبِعَ گئے ہیں تو اس کی دیانت سے بعید ہو گا کہ ان کی غلطیوں أَغْلاظهُمْ، وَيَقْبَلَهَا بِغَضِ الْبَصَرِ، وَلا کی پیروی کرے اور آنکھ بند کر کے ان کو قبول کر لیوے اور کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے باز نہ آوے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) يُفَارِقَهَا بِتَفْهِيْمِ مُفَهم نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۰ تا ۱۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ سورة ال عمران ہمارے کم توجہ علماء کی یہ غلطی ہے کہ اُن (مسیح علیہ السلام) کی نسبت وہ گمان کرتے ہیں کہ گویا وہ بھی خالق العالمین کی طرح کسی جانور کا قالب تیار کر کے پھر اُس میں پھونک مارتے تھے اور وہ زندہ ہو کر اڑ جاتا اور مُردہ پر ہاتھ رکھتے تھے اور وہ زندہ ہو کر چلنے پھرنے لگتا تھا اور غیب دانی کی بھی اُن میں طاقت تھی اور اب تک مرے بھی نہیں مع جسم آسمان پر موجود ہیں اور اگر یہ باتیں جو ان کی طرف نسبت دی گئی ہیں صحیح ہوں تو پھر اُن کے خالق العالم اور عالم الغیب اور محی اموات ہونے میں کیا شک رہا؟ پس اگر اس صورت میں کوئی عیسائی ان کی الوہیت پر استدلال کرے اس بنا پر کہ لوازم شے کا پایا جانا وجود شے کو مستلزم ہے تو ہمارے بھائی مسلمانوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر کہیں کہ دُعا سے ایسے معجزات ظہور میں آتے تھے تو یہ کلام الہی پر زیادت ہے کیونکہ قرآن کریم سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مثلاً پھونک مارنے سے وہ چیز جو ہیئت طیر کی طرح بنائی جاتی تھی اُڑنے لگتی تھی.دُعا کا تو قرآن کریم میں کہیں بھی ذکر نہیں اور نہ یہ ذکر ہے کہ اُس ہیئت طیر میں در حقیقت جان پڑ جاتی تھی.یہ تو نہیں چاہیئے کہ اپنی طرف سے کلام الہی پر کچھ زیادت کریں یہی تو تحریف ہے جس کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت ہوئی.پھر جس حالت میں جان پڑنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ معالم التنزیل اور بہت سی اور تفسیروں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہیئت طیر تھوڑی دیر اڑ کر پھر مٹی کی طرح زمین پر گر پڑتی تھی تو بجز اس کے اور کیا سمجھا جائے کہ وہ دراصل مٹی کی مٹی ہی تھی.اور جس طرح مٹی کے کھلونے انسانی کلوں سے چلتے پھرتے ہیں وہ ایک نبی کی رُوح کی سرایت سے پرواز کرتے تھے ورنہ حقیقی خالقیت کے ماننے سے عظیم الشان فساد اور شرک لازم آتا ہے.غرض تو معجزہ سے ہے اور بے جان کا باوجود بے جان ہونے کے پرواز یہ بڑا معجزہ ہے.ہاں ! اگر قرآن کریم کی کسی قرآت میں اس موقعہ پر فَيَكُونُ حَيًّا کا لفظ موجود ہے یا تاریخی طور پر ثابت ہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہو جاتے تھے اور انڈے بھی دیتے تھے اور اب تک اُن کی نسل سے بھی بہت سے پرندے موجود ہیں تو پھر ان کا ثبوت دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر تمام دنیا چاہے کہ ایک لکھی بنا سکے تو نہیں بن سکتی کیونکہ اس سے تشابہ فی خلق اللہ لازم آتا ہے.اور یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے آپ ان کو خالق ہونے کا اذان دے رکھا تھا یہ خدا تعالی پر افترا ہے کلام الہی میں تناقص نہیں خدا تعالیٰ کسی کو ایسے اذان نہیں دیا کرتا.اللہ تعالیٰ نے سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکھی بنانے کا بھی اذن نہ دیا.پھر مریم کے بیٹے کو یہ اذان کیوں کر حاصل ہوا ؟ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور مجاز کو حقیقت پر حمل نہ کرو.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۷۴،۳۷۳ حاشیه)
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام پھر ان (حضرت مسیح علیہ السلام) کا جانور بنانا ہے سو اس میں بھی ہم اس بات کے تو قائل ہیں کہ روحانی طور سے معجزہ کے طور پر درخت بھی ناچنے لگ جاوے تو ممکن ہے مگر یہ کہ اُنہوں نے چڑیاں بنادیں اور انڈے بچے دے دیئے اس کے ہم قائل نہیں ہیں اور نہ قرآن شریف سے ایسا ثابت ہے.ہم کیا کریں؟ ہم اس طور پر ان باتوں کو مان ہی نہیں سکتے جس طرح پر ہمارے مخالف کہتے ہیں کیونکہ قرآن شریف صریح اس کے خلاف ہے اور وہ ہماری تائید میں کھڑا ہے.(الحکم جلدے نمبر ۱۶، مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸) چڑیاں کیا شے ہیں؟ ہم تو یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک درخت بھی ٹاپنے لگے مگر پھر بھی وہ خدا کی چڑیوں کی طرح ہر گز نہیں ہو سکتی کہ جس سے تشابہ فی الخلق لازم آ جاوے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۵،مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۶) خلق طیور.....پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے کہ اس سے ایسے پرندے مراد ہیں جن کا ذبح کر کے گوشت بھی کھایا جا سکے.....بلکہ مراد یہ ہے کہ خلق طیور اس قسم کا تھا کہ حد اعجاز تک پہنچا ہوا تھا.البدر جلد ۲ نمبر ۷ ۴، مورخه ۱۶/ دسمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۷۴) حضرت عیسی کا خلق طیور کا مسئلہ بعینہ موسیٰ علیہ السلام کے سوٹے والی بات ہے.دشمنوں کے مقابلہ کے وقت وہ اگر سانپ بن گیا تھا تو دوسرے وقت میں وہی سونے کا سوٹا تھا.نہ یہ کہ وہ کہیں سانیوں کے گروہ میں چلا گیا تھا.پس اسی طرح حضرت عیسی کے وہ طیور بھی آخر مٹی کی مٹی ہی تھے بلکہ حضرت موسیٰ کا سوٹا تو چونکہ مقابلہ میں آگیا تھا اور مقابلہ میں غالب ثابت ہوا تھا اس واسطے حضرت عیسی کے طور سے بہت بڑھا ہوا ہے کیونکہ وہ طیور تو نہ کسی مقابلے میں آئے اور نہ اُن کا غلبہ ثابت ہوا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ ، مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۴) اكمة.....کے معنے شب کور کے ہیں یہ اسمة وہ مرض ہے جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہیں.....ہے اور اس سے بھی یہ اچھے ہو جاتے ہیں.الحکم جلد 4 نمبر۷ ، مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۴) حضرت عیسی کے معجزے تو ایسے ہیں کہ اس زمانے میں وہ بالکل معمولی سمجھے جاسکتے ہیں.انبہ سے مراد شب کو رہے ، اب ایسا بیمار معمولی کلیجی سے بھی اچھا ہو سکتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷ رفروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۶ سورة ال عمران علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں؛ دوا سے ، غذا سے عمل سے، پر ہیز سے علاج کیا جاتا ہے.ایک پانچویں قسم بھی ہے جس سے سلب امراض ہوتا ہے وہ تو جہ ہے حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلپ امراض کیا کرتے تھے اور یہ سلب امراض کی قوت مومن اور کافر کا امتیاز نہیں رکھتی بلکہ اس کے لئے نیک چلن ہونا بھی ضروری نہیں ہے.نبی اور عام لوگوں کی توجہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی توجہ کسی نہیں ہوتی ، وہی ہوتی ہے.آج کل ڈوئی جو بڑے بڑے دعوے کرتا ہے یہ بھی وہی سلب امراض ہے.تو جہ ایک ایسی چیز ہے کہ اُس سے سلب ڈنوب بھی ہو جاتا ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلب امراض ہوتا تھا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہوتا تھا اور اس وجہ سے آپ کی قوت قدمی کمال کے درجہ پر پہنچی ہوئی تھی.دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے.توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں اُن کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے.مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سب امراض کی طرف تھی اس لئے سلب ذنوب میں ان کے کامیاب نہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ جو جماعت انہوں نے تیار کی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی اور یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی با اثر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سو برس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اُس وقت رکھتی تھی.مسیح اس میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۶) فَاعْلَمْ أَنَا نُؤْمِنُ بِإِحْيَاءِ الْجَارِي و أخي المَوْتَى بِإِذْنِ اللهِ ) جان لو کہ ہم احیاء اعجازی وَخَلَقٍ إِعْجَازِي، وَلَا نُؤْمِنُ بِإِحْيَاء اور خلقِ اعجازی پر ایمان لاتے ہیں نہ کہ حقیقی طور پر زندہ حَقِيقِي وَخَلَقٍ حَقِيقِي كَاحْيَاءِ اللهِ کرنے اور پیدا کرنے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے وَخَلْقِ اللهِ، وَلَوْ كَانَ كَذلِك لنقابة اور پیدا کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتو یہ احیاء اور خلق ( خدا تعالیٰ الْخَلْقُ وَالْإِحْيَاءُ، الخلق والاحياء، وَقَالَ اللهُ سُبْحَانَہ کے خلق اور احیاء سے ) متشابہ ہو جاتے.اللہ تعالی نے فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ وَمَا قَالَ فَيَكُونَ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ کہا ہے اور یہ نہیں کہا فَيَكُونُ حَيًّا حَيَّا بِإِذْنِ اللهُ وَمَا قَالَ فَيَصِيرُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ.اور نہ یہ فرمایا کہ فَيَصِيرُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللهِ -
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۷ سورة ال عمران.بِإِذْنِ اللهِ وَ إِنَّ مَثَلَ طَيْرٍ عیسی اور عیسیٰ علیہ السلام کے پرندوں کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام كَمَقَلٍ عَصَا مُوسَى ظَهَرَتْ كَحَيَّةٍ تَسْعی کے عصا کی مثال ہے جو بھاگتے ہوئے سانپ کی شکل میں وَلكِن مَا تَرَكَتْ لِلدَّوَامِ سِيرَتَهُ ظاہر ہوا لیکن اس نے ہمیشہ کے لئے اپنی پہلی سیرت کو الأولى.وَكَذَلِكَ قَالَ الْمُحَقِّقُونَ إِنَّ چھوڑ نہیں دیا تھا اور اسی طرح محققین نے کہا ہے کہ طيرَ عِيسَى كَانَ يَطِيرُ أَمَامَ أَعْيُنٍ حضرت عیسی علیہ السلام کے پرندے جب تک لوگوں کی النَّاسِ وَإِذَا غَابَ فَكَانَ يَسْقُط وَيَرْجِعُ آنکھوں کے سامنے رہتے تھے اڑتے تھے اور جونہی وہ إلى سِيرَتِهِ الْأُولى.فَأَيْنَ حَصَلَ لَهُ نظروں سے غائب ہوتے نیچے گر جاتے اور اپنی پہلی حالت الْحَيَاةُ الْحَقِيقِيُّ وَكَذلِكَ كَانَ حَقِيقَةُ کی طرف لوٹ آتے.پس ان پرندوں کو حقیقی زندگی کہاں الْإِحْيَاء أَغْنِى أَنَّهُ مَا رَةً إِلى مَيْتٍ قَط حاصل ہوئی تھی یہی حقیقت ان کے مردے زندہ کرنے کی لَوَازِمَ الْحَيَاةِ كُلِّهَا، بَلْ كَانَ يُرَى جَلْوَةٌ ہے یعنی انہوں نے کسی مردہ میں کبھی تمام لوازمات زندگی مِنْ حَيَاةِ الْمَيِّتِ بِتَأْثِيرِ رُوحِهِ دوبارہ نہیں لوٹائے.بلکہ ان کی پاکیزہ روح کی تاثیر سے مردہ الطيب، و كان الميتُ حَيًّا مَّا دَامَ میں زندگی کا ایک جلوہ دکھلایا جاتا تھا اور وہ مردہ اسی وقت تک عِيسَى قَائِمًا عَلَيْهِ أَوْ قَاعِدًا، فَإِذَا زندہ رہتا تھا جب تک حضرت عیسی علیہ السلام اس کے پاس ذَهَبَ فَعَادَ الْمَيْتُ إلى حَالِهِ الْأَوَّلِ کھڑے یا بیٹھے رہتے.جب آپ وہاں سے چلے جاتے تو وَمَاتَ فَكَانَ هَذَا إِحْيَاءًا إنجازيًا لا مردہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتا اور مرجاتا پس یہ زندہ کرنا احیاء اعجازی تھا حقیقی نہ تھا.( ترجمہ از مرتب ) حقيقيًّا.(حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۳۱۶،۳۱۵) كَانَ الْإِحْيَاء بِالنَّفْخِ كَالْإِمَا تَةِ بِالنَّظَرِ.پھونک سے زندہ کرنا ایسا تھا جیسے نظر سے مارنا.نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۱ حاشیه ) اگر مسیح واقعی مردوں کو زندہ کرتے تھے تو کیوں پھونک مار کر ایلیا کو زندہ نہ کر دیا تا یہود ابتلا سے بیچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنانہ ہوتا جو ایلیا کی تاویل سے پیش آئیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳ ، مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۳) رہا حضرت عیسی کا احیاء موٹی! اس میں روحانی احیاء موٹی کے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہم مانتے ہیں کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة ال عمران روحانی طور پر مردے زندہ ہوا کرتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ ایک شخص مر گیا اور پھر زندہ ہو گیا یہ قرآن شریف یا احادیث سے ثابت نہیں ہے.اور ایسا ماننے سے پھر قرآن شریف اور احادیث نبوی گویا ساری شریعت اسلام ہی کو ناقص ماننا پڑے گا کیونکہ رد الموٹی کے متعلق مسائل نہ قرآن شریف میں ہیں ، نہ حدیث نے کہیں ان کی صراحت کی ہے اور نہ فقہ میں کوئی بات اس کے متعلق ہے ، غرض کسی نے بھی اس کی تشریح نہیں کی.اس طرح پر یہ مسئلہ بھی صاف ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۶ ، مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) ہم اعجازی احیاء کے قائل ہیں مگر یہ بات بالکل ٹھیک نہیں ہے کہ ایک مردہ اس طرح زندہ ہوا ہو کہ وہ پھر اپنے گھر میں آیا اور رہا اور ایک اور عمر اس نے بسر کی اگر ایسا ہوتا تو قرآن ناقص ٹھہرتا ہے کہ اس نے ایسے شخص کی وراثت کے بارے میں کوئی ذکر نہ کیا.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مور نه کیم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۶) اصل میں خلق طیور اور احیاء موٹی پر ہمارا یہ ایمان نہیں ہے....نہ احیاء موٹی سے یہ مطلب ہے کہ حقیقی مردہ کا احیاء کیا گیا....احیاء موٹی کے یہ معنی ہیں کہ (۱) روحانی زندگی عطا کی جاوے (۲) یہ کہ بذریعہ دعا ایسے انسان کو شفا دی جاوے کہ وہ گویا مردوں میں شمار ہو چکا ہو جیسا کہ عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ فلاں تو مر کر جیا ہے.احیاء موٹی سے مراد بھی خطر ناک مریضوں کا تندرست ہونا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ ، مورخه ۱۶ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۴) 2 ( بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ سے فروری ۱۹۰۷ ، صفحہ ۴) معجزہ عادات الہیہ میں سے ایک ایسی عادت یا یوں کہو کہ اس قادر مطلق کے افعال میں سے ایک ایسا فعل ہے جس کو اضافی طور پر خارق عادت کہنا چاہئے پس امر خارق عادت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ جب پاک نفس لوگ عام طریق و طرز انسانی سے ترقی کر کے اور معمولی عادات کو پھاڑ کر قرب الہی کے میدانوں میں آگے قدم رکھتے ہیں تو خدائے تعالیٰ حسب حالت ان کے ایک ایسا عجیب معاملہ ان سے کرتا ہے کہ وہ عام حالات انسانی پر خیال کرنے کے بعد ایک امر خارق عادت دکھائی دیتا ہے اور جس قدر انسان اپنی بشریت کے وطن کو چھوڑ کر اور اپنے نفس کے حجابوں کو پھاڑ کر عرصات عشق و محبت میں دور تر چلا جاتا ہے اسی قدر یہ خوارق نہایت صاف اور شفاف اور روشن و تابان ظہور میں آتے ہیں.جب تزکیہ نفس انسانی کمال تام کی حالت پر پہنچتا ہے اور اس کا دل غیر اللہ سے بالکل خالی ہو جاتا ہے اور محبت الہی سے بھر جاتا ہے تو اس کے تمام اقوال وافعال و اعمال و حرکات و سکنات و عبادات و معاملات و اخلاق جو انتہائی درجہ پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۹ سورة ال عمران اس سے صادر ہوتے ہیں وہ سب خارق عادت ہی ہو جاتے ہیں سو بمقابل اس کے ایسا ہی معاملہ باری تعالیٰ کا بھی اس مبدل تام سے بطور خارق عادت ہی ہوتا ہے.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۹،۶۸ حاشیه ) یوں تو عادات از لیہ واہد یہ خدائے کریم جل شانہ سے کوئی چیز با ہر نہیں مگر اس کی عادات جو بنی آدم سے تعلق رکھتی ہیں دو طور کی ہیں؛ ایک عادات عامہ جو روپوش اسباب ہو کر سب پر مؤثر ہوتی ہیں، دوسری عادات خاصہ جو بتوسط اسباب اور بلا توسط اسباب خاص ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جو اس کی محبت اور رضا میں کھوئی جاتی ہیں یعنے جب انسان بکلی خدائے تعالیٰ کی طرف انقطاع کر کے اپنی عادات بشریہ کو استرضاء حق کے لئے تبدیل کر دیتا ہے تو خدائے تعالیٰ اس کی اس حالت مبدلہ کے موافق اس کے ساتھ ایک خاص معاملہ کرتا ہے جو دوسروں سے نہیں کرتا یہ خاص معاملہ نسبتی طور پر گویا خارق عادت ہے جس کی حقیقت انہیں پر کھلتی ہے جو عنایت الہی سے اس طرف کھینچے جاتے ہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۰۵) نبی اگر ایک سوٹا پھینک دے اور کہے کہ میرے سوا کوئی اس کو اُٹھا نہ سکے گا تو یہ بھی ایک معجزہ ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱۰) معجزات وہی ہوتے ہیں جس کی نظیر لانے پر دوسرے عاجز ہوں.انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ اُن کی حد بند کرے کہ ایسا ہونا چاہئے یا ویسا ہونا چاہئے.اس میں ضرور ہے کہ بعض پہلو اختفا کے ہوں کیونکہ نشانات کے ظاہر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایمان بڑھے اور اس میں ایک عرفانی رنگ پیدا ہو.جس میں ذوق ملا ہوا ہو.الحکم جلدے نمبر ۱۲،مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۳) معجزہ سے مراد فرقان ہے جو حق اور باطل میں تمیز کر کے دکھا دے اور خدا کی ہستی پر شاہد ناطق ہو.البدر جلد ۴ نمبرے مورخہ ۵ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۲) انبیاء علیہم السلام کو جو معجزات دیئے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی تجارب شناخت نہیں کر سکتے اور جب انسان ان خارق عادت امور کو دیکھتا ہے تو ایک بار تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خدائے تعالی کی طرف سے ہے.صحیح تاریخ ایک عمدہ معلم ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہر نبی کے معجزات اس رنگ کے ہوتے ہیں جس کا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۹۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام چر چا اور زور اس کے وقت میں ہو.سورة ال عمران الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴ را پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷) میر ایمان ہے کہ بغیر معجزات کے زندہ ایمان ہی نصیب نہیں ہوسکتا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱،مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۱) یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ذریعہ ان کے منجزات اور نشانات ہوتے ہیں جیسا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی شخص اگر حاکم مقرر کیا جاوے تو اس کو نشان دیا جاتا ہے اسی طرح پر خدا کے مامورین کی شناخت کے لیے بھی نشانات ہوتے ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱،مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۶ء صفحه ۴) معجزات اور خوارق قرآنی چار قسم پر ہیں ؟ (۱) معجزات عقلیہ (۲) معجزات علمیہ (۳) معجزات برکات روحانیہ (۴) معجزات تصرفات خارجیہ نمبر اول دو و تین کے معجزات خواص ذاتیہ قرآن شریف میں سے ہیں اور نہایت عالی شان اور بدیہی الثبوت ہیں جن کو ہر یک زمانہ میں ہر یک شخص تازہ بتازہ طور پر چشم دید ماجرا کی طرح دریافت کر سکتا ہے لیکن نمبر چار کے معجزات یعنے تصرفات خارجیہ، یہ بیرونی خوارق ہیں جن کو قرآن شریف سے کچھ ذاتی تعلق نہیں انہیں میں سے معجزہ شق القمر بھی ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۰ حاشیه ) معجزات تین قسم کے ہوتے ہیں ؛ دعائیہ، ارہا صیہ اور قوت قدسیہ کے معجزات.ارہا صیہ میں دعا کو دخل نہیں ہوتا.قوت قدسیہ کے معجزات ایسے ہوتے ہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی میں انگلیاں رکھ دی تھیں اور لوگ پانی پیتے چلے گئے یا کنوئیں میں لب گراد یا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا مسیح کے معجزات اس قسم کے بھی تھے.خود ہم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۳) معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں؛ ایک وہ جو کہ موسیٰ کے سوٹے کی طرح فورا دکھا دیئے جاتے ہیں.دوسرے علمی رنگ کے معجزات اور غیب پر مشتمل پیشگوئیاں.اول الذکر معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے دشمنوں کے منہ بند ہو جاتے ہیں مگر دیر پا اور ہمیشہ کے واسطے نہیں ہوتے بلکہ وہ وقتی ضرورت کے مناسب حال ہوتے ہیں پیچھے آنے والی قوموں کے واسطے وہ کوئی حجت اور دلیل نہیں ہوتے.کیونکہ ان میں تدبر و تفکر کا انسان کو موقع نہیں ملتا.مگر موخر الذکر معجزات ایسے علمی رنگ میں ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے سورة ال عمران واسطے اور دیر پا ہوتے ہیں انسان جوں جوں ان میں غور خوض کرتا ہے توں توں ان کی شوکت اور عظمت بھی بڑھتی جاتی ہے.اور جوں جوں بُعد زمانی ہوتا جاتا ہے ان کی ضیاء اور شوکت میں ترقی ہوتی جاتی ہے.ان کی عظمت میں فرق نہیں آتا چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قسم ثانی کے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۵) جس قدر معجزت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر ہوئے ہیں دنیا میں کل نبیوں کے معجزات کو بھی اگر ان کے مقابلہ میں رکھیں تو میں ایمان سے کہتا ہوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات بڑھ کر ثابت ہوں گے.قطع نظر اس بات کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھرا پڑا ہے اور قیامت تک اور اس کے بعد تک کی پیشگوئیاں اس میں موجود ہیں سب سے بڑھ کر ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا یہ ہے کہ ہر زمانہ میں ان پیشگوئیوں کا زندہ ثبوت دینے والا موجود ہوتا ہے چنانچہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بطور نشان کھڑا کیا اور پیشگوئیوں کا ایک عظیم الشان نشان مجھے دیا تا میں ان لوگوں کو جو حقائق سے بے بہرہ اور معرفت الہی سے بے نصیب ہیں روز روشن کی طرح دکھا دوں کہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کیسے مستقل اور دائمی ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷/ مارچ۱۹۰۱ء صفحه ۳) قرآن کریم میں جس قدر معجزات آگئے ہیں ہم ان کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں خواہ قبولیت دعا کے متعلق ہوں خواہ اور رنگ کے معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہے کہ اس کو معجزہ دکھا یا جاوے، اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں ہوسکتا.البدر جلد ۲ نمبر ۷ ۴ مؤرخه ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۴) یہ بات اس جگہ یا در رکھنے کے لائق ہے کہ اس قسم کے اقتداری خوارق گو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ان خاص افعال سے جو بلا توسط ارادہ غیرے ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے اور نہ برابر ہونا ان کا مناسب ہے اسی وجہ سے جب کوئی نبی یا ولی اقتداری طور پر بغیر توسط کسی دعا کے کوئی ایسا امر خارق عادت دکھلاوے جو انسان کو کسی حیلہ اور تدبیر اور علاج سے اس کی قوت نہیں دی گئی تو نبی کا وہ فعل خدا تعالیٰ کے ان افعال سے کم رتبہ پر رہے گا جو خود خدا تعالٰی علانیہ اور بالجبر اپنی قوت کاملہ سے ظہور میں لاتا ہے یعنی ایسا اقتداری معجزہ بہ نسبت دوسرے الہی کاموں کے جو بلا واسطہ اللہ جل شانہ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجود رکھتا ہوگا تا سرسری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۲ سورة ال عمران نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی اخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا باوجود اس کے کئی دفعہ سانپ بنالیکن آخر عصا کا عصا ہی رہا.اور حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کے مٹی ہی تھے اور کہیں خدا تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق میں چونکہ طاقت الہی سب سے زیادہ بھری ہوئی تھی کیونکہ وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجلیات الہیہ کیلئے اتر واعلیٰ وارفع و اکمل نمونہ تھا اس لئے ہماری نظریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق کو کسی درجہ بشریت پر مقرر کرنے سے قاصر ہیں مگر تا ہم ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اس جگہ بھی اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں مخفی طور پر کچھ فرق ضرور ہوگا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۸،۶۷) قرآن شریف میں حضرت مسیح ابن مریم کے معجزات کا ذکر اس غرض سے نہیں ہے کہ اس سے معجزات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعاً منکر تھے اور اس کو فریبی اور مگار کہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۷۹) حضرت عیسی نے خود کہا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا.قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے : وَرَسُولًا إِلى بَنِي إِسْرَاء يُلَ - ( بدر جلدے نمبر ۵۲ مورخه ۲۵/جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۶) b فَلَمَّا اَحَشَ عِيسَى مِنْهُمُ الْكَفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ ج الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللهِ وَاشْهَدُ بِأَنَا مُسْلِمُونَ ) (۵۳) شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ؟ یا اسباب دعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ !....اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کیلئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دیتے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۳ سورة ال عمران کیا وہ ایک ٹکڑ گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں ! من انصاری الی اللہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کم إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الحيوةِ الدُّنْيَا (المؤمن : ۵۲).ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہیں.میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیوں کر مدد کر سکتا ہے.(احکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ ۱۷ پریل ۱۸۹۹ صفحه ۷،۶ ) اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے مدد چاہتے ہیں.مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لیے، تا کہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت پیدا کرے ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب یہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیر اللہ کو متولی قرار دیں اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان محال مطلق ہے.الحام جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۲ را پریل ۱۸۹۹ ، صفحہ ۷) تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے، کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! کوئی کام دینی ہو یا د نیوی بغیر معاونت با ہمی کے چل ہی نہیں سکتا.ہر ایک گروہ کہ جس کا مدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضائے یک دیگر ہے اور ممکن نہیں جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت با ہمی ان کی کے بخوبی وخوش اسلوبی ہو سکے.بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا.انبیاء علیہم السلام جو تو کل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں.ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاهری مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ کہنا پڑا خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں یہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تَعاوَنُوا عَلَى الْبِر وَالتَّقْوَى (المائدة : ۳) کا حکم فرمایا.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۵۱) وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ (۵۵) خَيْرُ الْمَكِرِينَ....یعنی ایسا مکر کرنے والا جس میں کوئی شر نہیں.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲) مکر : لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر نا جائز نہیں.استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة ال عمران مکر کے مفہوم میں کوئی ایسا نا جائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا.شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے.استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۷) لیکھرام نے نشان مانگنے کے وقت خدا تعالیٰ کا نام خَیرُ المکرین رکھا.اور خدا تعالیٰ کے بارے میں ماکر کا لفظ اس صورت میں بولا جاتا ہے کہ جب وہ بار یک اسباب سے مجرم کو ہلاک یا ذلیل کرتا ہے.پس لیکھرام کے منہ سے خود وہ الفاظ نکل گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی موت کا نشان مانگتا تھا یعنی ایسا نشان جس کے اسباب بہت باریک ہوں.سو خدا کی قدرت ہے کہ اسی طرح اس کی موت ہوئی اور ایسے قاتل کے ہاتھ سے مارا گیا جس کی کارروائی ہر ایک کو نہایت تعجب میں ڈالتی ہے کہ کیوں کر اس نے عین روز روشن میں حملہ کیا اور کیوں کر آباد گھر میں ہاتھ اٹھانے کی اس کو جرات ہوئی اور کیوں کر وہ چھری مار کر صاف نکل گیا اور پھر کیوں کر ہندوؤں کی ایک آباد گلی میں باوجود مقتول کے وارثوں کے شور دہائی کے پکڑا نہ گیا.سو جب ہم ان واقعات کو غور سے سوچتے ہیں تو فی الفور طبیعت اس طرف چلی جاتی ہے کہ یہی وہ کام ہے جس کو خیر المکرین کی طرف منسوب کرنا چاہیے.ہم لکھ چکے ہیں کہ خدا کا نام قرآن شریف کی رو سے خَيْرُ المکرین اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب وہ کسی مجرم مستوجب سزا کو باریک اسباب کے استعمال سزا مہیا سے سزا میں گرفتار کرتا ہے.یعنی ایسے اسباب اس کی سزا کے، اس کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو مجرم کسی اور ارادہ سے اپنے لئے آپ مہیا کرتا ہے.پس وہی اسباب جو اپنی بہتری یا ناموری کے لئے مجرم جمع کرتا ہے وہی اس کی ذلت اور ہلاکت کا موجب ہو جاتے ہیں.قانون قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی دنیا میں پایا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت دل مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کر لیتے ہیں.اور ان کی نظر سے وہ امور اس وقت تک مخفی رکھے جاتے ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی قضا و قدر نازل ہو جائے.پس اس مخفی کا رروائی کے لحاظ سے خدا کا نام مارکر ہے.دنیا میں ہزاروں نمونے اس کے پائے جاتے ہیں.سولیکھرام کے معاملہ میں خدا کا مگر یہ ہے کہ اول اسی کے مونہہ سے کہلوایا کہ میں خَيْرُ المکرین سے اپنی نسبت نشان مانگتا ہوں.سو اس درخواست میں اس نے ایسا عذاب مانگا جس کے اسباب مخفی ہوں اور ایسا ہی وقوع میں آیا.کیونکہ جس شخص کو شدھ کرنے کے لئے اس نے اتوار کا دن مقرر کیا تھا اور اتوار کے دن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة ال عمران آریوں کا ایک خوشی کا جلسہ قرار پایا تھا جیسا کہ عید کا دن ہوتا ہے تا اس شخص کو شدھ کیا جائے.سو وہی خوشی کے اسباب اس کیلئے اور اس کی قوم کیلئے ماتم کے اسباب ہو گئے اور خَيْرُ الْمُکرین کے نام کو خدا تعالیٰ نے تمام آریوں کو خوب سمجھا دیا.(استفتاء ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۶۰۱۱۵ حاشیه ) قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کی صفات میں اس قسم کا مکر بھی داخل رکھا ہے جو اُس کی ذات پاک کے منافی نہیں اور جس میں کوئی امر اُس کے تقدس اور اُس کی بے عیب ذات کے مخالف نہیں اور جس پر خدا کا قانون قدرت بھی گواہی دیتا ہے اور اس کی قدیم عادت میں پایا جاتا ہے اور خدا کا مگر اس حالت میں کہا جاتا ہے اور اُس کے اس فعل پر اطلاق پاتا ہے کہ جب وہ ایک شریر آدمی کے لئے اُسی کے پوشیدہ منصوبوں کو اُس کے سزا یاب ہونے کا سبب ٹھہراتا ہے.قرآن شریف کے رُو سے یہی خدا کا مکر ہے جو مکر کرنے والے کے پاداش میں ظہور میں آتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُکرین یعنی کافروں نے ایک بد مکر کیا کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ معظمہ سے نکال دیا اور خدا نے اُن کے مقابل پر ایک نیک مکر کیا کہ وہی نکالنا اس رسول کی فتح اور اقبال کا موجب ٹھہرا دیا.پس خدا نے اس جگہ اپنا نام خَيْرُ المکرین رکھا یعنی ایسا مکر کرنے والا جو نیک مکر ہے نہ بد مکر اور کافروں کے مکر کو بد مگر قرار دیا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے مکر کو دو قسم پر تقسیم کیا ہے؟ ایک بد مکر اور ایک نیک مکر.پس خدا نے نیک مکر اپنی صفات میں داخل کیا ہے اور بد مکر کا فروں اور شریر لوگوں کی عادات میں قرار دیا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحه ۱۱۶) وہ مکر جو خدا کی شان کے مناسب حال ہیں وہ اس قسم کے ہیں جن کے ذریعہ سے وہ نیکوں کو آزماتا ہے اور بدوں کو جو اپنی شرارت کے مکر نہیں چھوڑتے سزا دیتا ہے اور اُس کے قانون قدرت پر نظر ڈال کر ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مخفی رحمتیں یا مخفی مغضب اس کے قانون قدرت میں پائے جاتے ہیں.بعض اوقات ایک مکار شریر آدمی جو اپنے بد مکروں سے باز نہیں آتا بعض اسباب کے پیدا ہونے سے خوش ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ان اسباب کے ذریعہ سے جو میرے لئے میسر آ گئے ہیں ایک مظلوم کو انتہا درجہ کے ظلم کے ساتھ میں ڈالوں گا مگر انہیں اسباب سے خدا اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور یہ خدا کا مکر ہوتا ہے جو شریر آدمی کو ان کاموں کے بد نتیجے سے بے خبر رکھتا ہے اور اُس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اس مکر میں اُس کی کامیابی ہے.اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایسے کام خدا تعالیٰ کے دنیا میں ہزار ہا پائے ا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران جاتے ہیں کہ وہ ایسے شریر آدمی کو جو بد مکروں سے بے گناہوں کو دُکھ دیتا ہے اپنے نیک اور عدل کے مکر سے سزا دیتا ہے..اب ہم عام فائدہ کے لئے کتاب لسان العرب سے جو ایک پرانی اور معتبر کتاب لغت کی ہے مکر کے معنے لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے الْمَكْرُ : اِحْتِيَالُ في خُفْيَةٍ.وَإِنَّ الْكَيْدَ فِي الْحُرُوبِ حَلَال وَالْمَكْرُ في كُلّ حَلالٍ حَرَامٌ.قَالَ اللهُ تَعَالَى وَمَكَرُوا مَكْرًا وَ مَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ( العمل : ۵ ) - قَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالتَّأْوِيْلِ : الْمَكْرُ مِنَ اللهِ تَعَالَى جَزَاءُ سُمَّى بِاسْمِ مَكْرِ الْمَجَازِي - ترجمہ مکر اس حیلہ کو کہتے ہیں جو پوشیدہ رکھا جائے.جنگوں میں اس قسم کے خیلے حلال ہیں.اور ہر ایک حلال امر کو حیلہ کر کے ٹالنا یہ حرام ہے اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں نے اپنی دانست میں ایک بڑا مکر کیا اور ہم نے بھی مکر کیا اور وہ ہمارے مکر سے بے خبر تھے اور اہل علم کہتے ہیں کہ خدا کا مگر یہ ہے کہ مکار کو مکر کی سزا دینا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳،صفحه ۲۰۱،۲۰۰) ہمارے مخالف ہر طرف سے کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے نابود کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ہر قسم کی تدبیریں اور منصوبے کرتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ پہلے ہی ہم کو تسلی دے چکا ہے : مَكَرُوا وَ مَكَرَ اللهُ وَالله خَيْرُ الْمُکرین ، خدا کے ساتھ لڑ کر کبھی کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا.ان کا بھروسہ اپنی تدابیر اور جیل پر ہے اور ہمارا خدا پر.(الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۳) میں نے غور کیا ہے کہ مر کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السلام کے لئے قرآن میں آیا ہے اور میرے لئے بھی یہی لفظ براہین میں آیا ہے گو یا مسیح علیہ السلام کے قتل کے لئے بھی ایک مخفی منصو بہ کیا گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کیا گیا تھا اور یہاں بھی منصوبے ہوئے اور اپنے طور پر آج کل بھی فرق نہیں کیا جاتا مگر خدا تعالیٰ کا مکر ان سب پر غالب آیا.مگر مخفی اور لطیف تدبیر کو کہتے ہیں.لیکھرام نے اپنے خطوط میں یہی لکھا تھا کہ خَيْرُ المکرین سے میرے لئے کوئی نشان طلب کرو.جب خدا تعالیٰ بار یک اسباب سے مجرم کو ہلاک یا ذلیل کرتا ہے اور اپنے بندہ کو جور است باز ہوتا ہے دشمن کے منصوبوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھتا ہے اُس وقت اُس کا نام خیر المکرین بیان ہوتا ہے یعنی ایسے اسباب مجرم کی سزا کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو وہ اپنے لئے کسی اور غرض سے مہیا کرتا ہے.پس وہی اسباب جو بہتری کیلئے بناتا ہے ہلاکت کا باعث بنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسیح کو ایسے طرز پر بچایا کہ وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 22 سورة ال عمران اسباب جوان کی ہلاکت کے لئے جمع ہوئے تھے ان کی زندگی کا موجب ثابت ہوئے.اور ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے کفار مکہ کے منصوبوں سے بچا لیا اور اُسی طرح پر یہاں بھی اُس کا وعدہ ہے.اگر کوئی یوں کہے کہ وہاں ہی محفوظ کیوں نہ رکھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے بلکہ خدا اپنا علم دکھانا چاہتا ہے اس لئے وہاں سے نکال لیتا ہے.لئے ہجرت نہ ہو.مکر کی حد اُس وقت تک ہے جبکہ وہ انسانی تدابیر تک ہو مگر جب انسانی منصوبوں کے رنگ سے نکل گیا پھر وہ خارق عادت معجزہ ہوا.اگر ذرہ بھی ایمان کسی میں ہو تو وہ اُن امور کو صفائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴، مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۴،۳) مکر اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی باریک در بار یک تدابیر اور تجاویز پر آخر کار خدا کی تجاویز غالب آجاویں اور انسان کو ناکامی ہو.اگر کوئی کتاب اللہ سے اس فلاسفی کو نہیں مانتا تو دنیا میں بھی اس کی نظیر موجود ہے اور اس کے اسرار پائے جاتے ہیں.چور کیسی باریک در بار یک تدابیر کے نیچے اپنا کام اور اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن گورنمنٹ نے جو تجاویز بار یک دربار یک اُس کی گرفتاری کی رکھی ہیں آخر وہ غالب آجاتی ہیں تو خدا کیوں نہ غالب آوے؟ البدر جلد ۳ نمبر ۱۹۰۱۸ مورخه ۸ تا ۱۶ مئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۳) جب انسان مکر کرتا ہے تو اس کے ساتھ خدا بھی مکر کرتا ہے.مکر کا مقابلہ مر کرے جب ہی بات بنتی ہے، نادان مکر کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں.یہ زبان کی ناواقفیت کی وجہ سے ہے.اس میں کوئی بری بات نہیں، مگر اس بار یک تدبیر کو کہتے ہیں جو خبیث آدمی کے دفع کے لئے کی جائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا نام خَيْرُ الْمُكِرِينَ رکھا.( بدر جلدے نمبرے ، مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) اِذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُمَّ إلَى مَرْجِعُكُمْ فَاحْكُمُ بَيْنَكُمُ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ.اے عیسی ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور پھر عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ZA سورة ال عمران کی تہمتوں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۳) اے عیسی ! میں تجھے کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دنیا سے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا.براہینِ احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلدا، صفحه ۶۶۴، ۶۶۵ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والا ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں.کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالی کی طرف بلایا جاوے اور ارجعي إلى ربّكِ ( الفجر : ۲۹ ) کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پانا ضروری ہے.پھر بموجب آیت کریمہ: ارجعی الی ربّكِ اور حدیث صحیح کے اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے.اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں پھر بعد اس کے جو خدائے تعالیٰ نے حضرت عیسی کو فرمایا جو میں تجھے کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہود چاہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب کر کے اس الزام کے نیچے داخل کریں جو توریت باب استثناء میں لکھا ہے جو مصلوب لعنتی اور خدائے تعالیٰ کی رحمت سے بے نصیب ہے ، جو عزت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا نہیں جاتا.سو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو اس آیت میں بشارت دی کہ تو اپنی موت طبعی سے فوت ہوگا اور پھر عزت کے ساتھ میری طرف اُٹھایا جائے گا اور جو تیرے مصلوب کرنے کے لئے تیرے دشمن کوشش کر رہے ہیں ان کوششوں میں وہ ناکام رہیں گے اور جن الزاموں کے قائم کرنے کے لئے وہ فکر میں ہیں اُن تمام الزاموں سے میں تجھے پاک اور منز ہ رکھوں گا یعنی مصلوبیت اور اس کے بدنتائج سے جو لعنتی ہونا اور نبوت سے محروم ہونا اور رفع سے بے نصیب ہونا ہے.اور اس جگہ توفّى کے لفظ میں بھی مصلوبیت سے بچانے کے لئے ایک بار یک اشارہ ہے کیونکہ توفی کے معنے پر غالب یہی :
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة ال عمران بات ہے کہ موت طبعی سے وفات دی جائے.یعنی ایسی موت سے جو محض بیماری کی وجہ سے ہو نہ کسی ضربہ سقطہ سے.اسی وجہ سے مفسرین ؛ صاحب کشاف وغیرہ انِّي مُتَوَفِّيكَ کی یہ تفسیر لکھتے ہیں کہ : إِنِّي مُمِيتُكَ حثف أنفك - ہاں ! یہ اشارہ آیت کے تیسرے فقرہ میں کہ : مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا ہے اور بھی زیادہ ہے.غرض فقره مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا جیسا کہ تیسرے مرتبہ پر بیان کیا گیا ہے ایسا ہی ترتیب طبعی کے لحاظ سے بھی تیسری مرتبہ پر ہے.کیونکہ جبکہ حضرت عیسی کا موت طبعی کے بعد نبیوں اور مقدسوں کے طور پر خدا تعالی کی طرف رفع ہو گیا.تو بلاشبہ وہ کفار کے منصوبوں اور الزاموں سے بچائے گئے اور چوتھا فقرہ : وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ جیسا کہ ترتیبا چوتھی جگہ قرآن کریم میں واقع ہے ایسا ہی طبعاً بھی چوتھی جگہ ہے.کیونکہ حضرت عیسی کے متبعین کا غلبہ ان سب امور کے بعد ہوا ہے.سو یہ چار فقرے آیت موصوفہ بالا میں ترتیب طبعی سے واقعہ ہیں اور یہی قرآن کریم کی شان بلاغت سے مناسب حال ہے.کیونکہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا کمال بلاغت میں داخل اور عین حکمت ہے.اسی وجہ سے ترتیب طبیعی کا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.سورہ فاتحہ میں ہی دیکھو کہ کیوں کر پہلے رب العالمین کا ذکر کیا.پھر رحمن پھر رحیم پھر مالک یوم الدین اور کیوں کر فیض کے سلسلہ کو ترتیب وار عام فیض سے لے کر اخص فیض تک پہنچایا.غرض موافق عام طریق کامل البلاغت قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں لیکن حال کے متعصب ملا جن کو یہودیوں کی طرز پر يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعه ( المائدة : ۱۳) کی عادت ہے اور جو مسیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لئے بے طرح ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور کلام الہی کی تحریف و تبدیل پر کمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خدائے تعالیٰ کی ان چار ترتیب وار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبیعی سے منکر ہو بیٹھے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ اگر چہ فقرہ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اور فقره وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ بترتیب طبعی واقع ہیں.لیکن فقره إلى متوفيك اور فقرہ وَ رَافِعُكَ إلى ترتیب طبیعی پر واقع نہیں ہیں بلکہ دراصل فقره إنِّي مُتَوَفِّيكَ مؤخر اور فقرہ رَافِعُكَ إلى مقدم ہے.افسوس کہ ان لوگوں نے باوجود اس کے کہ کلام بلاغت نظام حضرت ذات أَحْسَنُ الْمُتَعَلِّمِينَ جَلَّ شانہ کو اپنی اصل وضع اور صورت اور ترتیب سے بدلا کر مسخ کر دیا.اور چار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبیعی کو مسلم رکھا اور دو فقروں کو دائرہ بلاغت و فصاحت سے خارج سمجھ کر اپنی طرف سے اُن کی اصلاح کی یعنی مقدم کو مؤخر کیا اور مؤخر کو مقدم کیا.مگر باوجود اس قدر
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام یہودیانہ تحریف کے پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے.کیونکہ اگر فرض کیا جائے کہ فقرہ إِنِّي رَافِعُكَ اِلَى فقرہ إِنِّي متوفيك پر مقدم سمجھنا چاہیے تو پھر بھی اس سے محرفین کا مطلب نہیں نکلتا.کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اے عیسی ! میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور وفات دینے والا ہوں اور یہ معنے سراسر غلط ہیں کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی کی آسمان پر ہی وفات ہو وجہ یہ کہ جب رفع کے بعد وفات دینے کا ذکر ہے اور نزول کا درمیان کہیں ذکر نہیں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آسمان پر ہی حضرت عیسی وفات پائیں گے.ہاں ! اگر ایک تیسر افقرہ اپنی طرف سے گھڑا جائے اور ان دونوں فقروں کے بیچ میں رکھا جائے اور یوں کہا جائے يَا عِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ وَمُنَزِّلُكَ وَمُتَوَفِّيكَ تو پھر معنے درست ہوجائیں گے.مگر ان تمام تحریفات کے بعد فقرات مذکورہ بالا خدائے تعالیٰ کا کلام نہیں رہیں گے بلکہ باعث دخل انسان اور صریح تغییر وتبدیل و تحریف کے اسی محرف کا کلام متصورہوں گے.جس نے بے حیائی اور شوخی کی راہ سے ایسی تحریف کی ہے.اور کچھ شبہ نہیں کہ ایسی کارروائی سراسر الحاد اور صریح بے ایمانی میں داخل ہوگی.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۶ تا ۶۰۹ حاشیه ) 119 تفسیر معالم کے صفحہ ۱۶۲ میں زیر تفسیر آیت : يعيسى إلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى لکھا ہے کہ علی بن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ رائی میشک یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرتے ہیں قُلْ يَتَوَفكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ (السجدة :١٢) - الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلبِكَةُ طَيْبِينَ (النحل : ٣٣) - الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلَيكَةُ ظَالِحِي أَنْفُسِيهِمُ (النحل : ٢٩) غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور ناظرین پر واضح ہوگا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں اُن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۵،۲۲۴) قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے اُن تمام مقامات میں توفی کے معنے موت ہی لئے گئے ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۴ حاشیه ) اگر حضرت عیسی حقیقت میں موت کے بعد پھر جسم کے ساتھ اُٹھائے گئے تھے تو قرآن شریف میں عبارت یوں چاہیے تھی : يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ ثُمَّ مُحْيِيكَ ثُمَّ رَافِعُكَ مَعَ جَسَدِكَ إِلَى السَّمَاءِ یعنی اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا پھر زندہ کروں گا پھر تجھے تیرے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھالوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ سورة ال عمران گا.لیکن اب تو بجز مجرد رَافِعُكَ کے جو مُتَوَفِّيكَ کے بعد ہے کوئی دوسرا لفظ رافِعُكَ کا تمام قرآن شریف میں نظر نہیں آتا جو ثُمَّ مُحنت کے بعد ہوا گر کسی جگہ ہے تو وہ دکھلا نا چاہیے.میں بدعویٰ کہتا ہوں کہ اس ثبوت کے بعد کہ حضرت عیسیٰ فی الحقیقت فوت ہو گئے تھے یقینی طور پر یہی ماننا پڑے گا کہ جہاں جہاں رَافِعُكَ يا بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء :۱۵۹) ہے اس سے مراد ان کی روح کا اُٹھایا جانا ہے جو ہر یک مومن کے لئے ضروری ہے.ضروری کو چھوڑ کر غیر ضروری کا خیال دل میں لانا سراسر جہل ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۳۵) قرائن قویہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ میچ جسم کے ساتھ آسمان پر ہر گز نہیں گیا اور نہ آسمان کا لفظ اس آیت میں موجود ہے بلکہ لفظ تو صرف یہ ہے يُعِيسَى إِلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى پھر دوسری جگہ ہے بَلْ زَفَعَهُ الله اليه (النساء :۱۵۹) جس کے یہ معنے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا جیسا کہ یہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مر جاتے ہیں یہی کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھا لیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۶ ۲۴۷) خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جانے کے یہی معنے ہیں کہ فوت ہو جانا.خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ارجعي إلى ربّكِ ( الفجر : ٢٩) اور یہ کہنا کہ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلی ایک ہی معنے رکھتا ہے.سوا اس کے جس وضاحت اور تفصیل اور توضیح کے ساتھ قرآن شریف میں مسیح کے فوت ہو جانے کا ذکر ہے اس سے بڑھ کر متصورنہیں کیونکہ خداوند عز وجلت نے عام اور خاص دونوں طور پر مسیح کا فوت ہو جانا بیان فرمایا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۵،۲۶۴) یہ بات ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم اس جماعت مرفوعہ سے الگ ہے جو دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو کر خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائی گئی ہے تو ان میں جو عالم آخرت میں پہنچ گئے ہرگز شامل نہیں ہو سکتا بلکہ مرنے کے بعد پھر شامل ہوگا اور اگر یہ بات ہو کہ اُن میں جاملا اور بموجب آیت فَادْخُلى في عبدى ( الفجر : (۳۰ ان فوت شدہ بندوں میں داخل ہو گیا تو پھر انہیں میں سے شمار کیا جاوے گا.اور معراج کی حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اُن فوت شدہ نبیوں میں جاملا اور بیٹی نبی کے پاس اس کو مقام ملا.اس صورت میں ظاہر ہے کہ معنے اس آیت کے کہ: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى ہے یہ ہوں گے کہ: ابی مُتوفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلى عِبَادِى الْمُتَوَفَّيْنَ الْمُقَرَّبِينَ وَمُلْحِقُكَ بِالصَّلِحِينَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة ال عمران سو عقلمند کے لئے جو متعصب نہ ہو اسی قدر کافی ہے کہ اگر مسیح زندہ ہی اُٹھایا گیا تو پھر مُردوں میں کیوں جا گھسا ؟ ہاں ! اس قدر ذکر کرنا اور بھی ضروری ہے کہ جیسے بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ آیات ذو معنیین ہیں یہ خیال سراسر فاسد ہے، مومن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے بلکہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض دوسرے مقامات کے لئے خود مفسر اور شارح ہیں.اگر یہ بات سچ نہیں کہ میسج کے حق میں جو یہ آیتیں ہیں کہ ابي متوفيك اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸) یہ در حقیقت مسیح کی موت پر ہی دلالت کرتی ہیں بلکہ ان کے کوئی اور معنے ہیں تو اس نزاع کا فیصلہ قرآن شریف سے ہی کرانا چاہیئے.اور اگر قرآن شریف مساوی طور پر کبھی اس لفظ کو موت کے لئے استعمال کرتا ہے اور کبھی ان معنوں کے لئے جو موت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تو محل متنازعہ فیہ میں مساوی طور پر احتمال رہے گا اور اگر ایک خاص معنے اغلب اور اکثر طور پر مستعملات قرآنی میں سے ہیں تو انہی معنوں کو اس مقام بحث میں ترجیح ہوگی اور اگر قرآن شریف اوّل سے آخر تک اپنے گل مقامات میں ایک ہی معنوں کو استعمال کرتا ہے تو محل محبوث فیہ میں بھی یہی قطعی فیصلہ ہوگا کہ جو معنے تو قی کے سارے قرآن شریف میں لئے گئے ہیں وہی معنے اس جگہ بھی مراد ہیں کیونکہ یہ بالکل غیر مکن اور بعید از قیاس ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے.اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اللہ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے قرآن کریم کے تیئیس مقام میں تو ایک لفظ کے ایک ہی معنے مراد لیتا جاوے اور پھر دو مقام میں جو زیادہ تر محتاج صفائی بیان کے تھے کچھ اور کا اور مراد لے کر آپ ہی خلق اللہ کو گمراہی میں ڈال دے.اب اے ناظرین! آپ پر واضح ہو کہ اس عاجز نے اول سے آخر تک تمام وہ الفاظ جن میں توفّی کا لفظ مختلف صیغوں میں آ گیا ہے قرآن شریف میں غور سے دیکھے تو صاف طور سے کھل گیا کہ قرآن کریم میں علاوہ مکمل متنازعہ فیہ کے یہ لفظ تیئیس جگہ لکھا ہے اور ہر ایک جگہ موت اور قبض روح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور ایک بھی ایسا مقام نہیں جس میں تو فی کا لفظ کسی اور معنے پر استعمال کیا گیا ہو اور وہ یہ ہیں :.نام سورة نساء الجزو آیت قرآن کریم نمبر ٢ حَتَّى يَتَوَفهُنَّ الْمَوْتُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام آل عمران نمبر ۴ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ سجده نساء مومن النحل النحل بقر // انعام اعراف ۲۱ ۲۴ ۱۴ ۱۴ ۹ // التوبة سورة محمد صلعم یونس یوسف ۲۶ 11 ۱۳ ۸۳ قُلْ يَتَوَفيكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِى وكل بكم اِنَّ الَّذِينَ تَوَقُهُمُ الْمَلَبِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِم سورة ال عمران فَإمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ تَتَوَقُهُمُ الْمَلَبِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمُ تَتَوَقُهُمُ الْمَلَيكَةُ طَيِّبِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ تَوَفَّتُهُ رُسُلُنَا رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمُ وو توفنا مسلمين 1300 يتون فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتُهُمُ الْمَلَيكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُم وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ رعد مومن محل حج ۱۳ ۲۴ // ۱۴ ۱۷ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ اوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ وَمِنْكُمْ مَنْ يتولى او نتوقيتك ثُمَّ يَتَوَفيكم وَمِنْكُم مَّنْ يُتَوَكَّى ل الانفال : ۵۱ چاہیے التوبہ سہو درج ہوا ہے.سے یہ نمبر ۵ پر آچکی ہے سہو دوبارہ درج ہوئی ہے.(ناشر) ا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام زمر الانعام ۲۴ L ۸۴ سورة ال عمران اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَبْتُ فِي مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأَخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَهُوَ الَّذِي يَتَوَقِّكُمْ بِأَلَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثْكُمُ فِيْهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى اب ظاہر ہے کہ ان تمام مقامات قرآن کریم میں توفی کے لفظ سے موت اور قبض روح ہی مراد ہے اور دومؤخر الذکر آیتیں اگر چہ بظاہر نیند سے متعلق ہیں مگر در حقیقت ان دونوں آیتوں میں بھی نیند نہیں مراد لی گئی بلکہ اس جگہ بھی اصل مقصد اور مذ عاموت ہے اور یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہی ہے اور جیسی موت میں روح قبض کی جاتی ہے نیند میں بھی روح قبض کی جاتی ہے.سو ان دونوں مقامات میں نیند پر توٹی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ، نوم استعمال کیا گیا ہے یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیا گیا ہے تاہر ایک شخص سمجھ لیوے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے.یہ بات ادنی ذی علم کو بھی معلوم ہوگی کہ جب کوئی لفظ حقیقت مسلمہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایسے معنوں پر جن کے لئے وہ عام طور پر موضوع یا عام طور پر مستعمل ہو گیا ہے تو اس جگہ متکلم کے لئے کچھ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کی شناخت کے لئے کوئی قرینہ قائم کرے کیونکہ وہ اُن معنوں میں شائع متعارف اور متبادر الفہم ہے لیکن جب ایک متکلم کسی لفظ کے معانی حقیقت مسلمہ سے پھیر کر کسی مجازی معنی کی طرف لے جاتا ہے تو اس جگہ صراحتاً یا کنا بتا یا کسی دوسرے رنگ کے پیرائے میں کوئی قرینہ اس کو قائم کرنا پڑتا ہے تا اس کا سمجھنا مشتبہ نہ ہو اور اس بات کے دریافت کے لئے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ اور وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے.مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا.لے اس فہرست میں سورۃ یونس کی آیت نمبر ۱۰۵ ( الَّذِى يَتَوَفكُمْ ) درج ہونے سے رہ گئی ہے.سید عبدالتی نوٹ :.ان سورتوں کی ان آیات کے نمبر حسب ترتیب یہ ہیں:.۱۶ ، ۱۹۴، ۱۲، ۳۸،۶۲،۲۴۱،۲۳۵،۳۳،۲۹،۷۸،۹۸، ۶۱،۴۳،۶،۷۱،۷۸ ،۶۸ ،۴ ۱،۱۰۲ ،۴ ۷ ،۲۸،۱۰۵،۵۱،۱۲۷
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة ال عمران اب چونکہ یہ فرق حقیقت اور مجاز کا صاف طور پر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اوّل سے آخر تک نظر ڈالی ہوگی اور جہاں جہاں توٹی کا لفظ موجود ہے بنظر غور دیکھا ہوگا وہ ایمانا ہمارے بیان کی تائید میں ج شہادت دے سکتا ہے.چنانچہ بطور نمونہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ آیات (۱) إِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ تَتَوَفَّيَنَّكَ (٢) تَوَفَّنِي مُسْلِمًا (۳) وَ مِنْكُمْ فَمَنْ يُتَوَكَّى (٢) تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَيكَةُ (۵) يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (1) تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا (۷) رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمُ (۸) تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (9) وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (١٠) ثُمَّ يَتَو فلم کیسی صریح اور صاف طور پر موت کے معنوں میں استعمال کی گئی ہیں مگر کیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد توئی کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنے مراد لئے گئے ہوں.موت مراد نہ لی گئی ہو.بلاشبہ قطعی اور یقینی طور پر اول سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ در حقیقت توفی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے تو پھر متنازعہ فیہ دو آیتوں کی نسبت جو اِنِّي مُتَوَفِّيكَ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی ہیں، اپنے دل سے کوئی معنے مخالف عام محاورہ قرآن کے گھڑنا اگر الحاد اور تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اس جگہ یہ نکتہ بیان کرنے کے لائق ہے کہ قرآن شریف میں ہر جگہ موت کے محل پر توفی کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے، امانت کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا ؟ اس میں بھید یہ ہے کہ موت کا لفظ ایسی چیزوں کے فنا کی نسبت بھی بولا جاتا ہے جن پر فنا طاری ہونے کے بعد کوئی روح اُن کی باقی نہیں رہتی.اسی وجہ سے جب نباتات اور جمادات اپنی صورت نوعیہ کو چھوڑ کر کوئی اور صو ر قبول کر لیں تو اُن پر بھی موت کا لفظ اطلاق پاتا ہے جیسے کہتے ہیں کہ یہ لو بہ مر گیا اور کشتہ ہو گیا اور چاندی کا ٹکڑہ مر گیا اور کشتہ ہو گیا.ایسا ہی تمام جاندار اور کیڑے مکوڑے جن کی روح مرنے کے بعد باقی نہیں رہتی اور مور دثواب وعقاب نہیں ہوتے اُن کے مرنے پر بھی توفی کا لفظ نہیں بولتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ فلاں جانور مر گیا یا فلاں کیڑ امر گیا.چونکہ خدائے تعالیٰ کو اپنے کلام عزیز میں یہ منظور ہے کہ کھلے کھلے طور پر یہ ظاہر کرے کہ انسان ایک ایسا جاندار ہے کہ جس کی موت کے بعد بکلی اس کی فتانہیں ہوتی بلکہ اس کی روح باقی رہ جاتی ہے جس کو قابض ارواح اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے اس وجہ سے موت کے لفظ کو ترک کر کے بجائے اس کے توفی کا لفظ استعمال کیا ہے تا اس بات پر دلالت کرے کہ ہم نے اس پر موت وارد کر کے بکلی اس کو فنا نہیں کیا بلکہ صرف جسم پر موت وارد کی ہے اور روح کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے اور اس لفظ کے اختیار کرنے میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة ال عمران دہریوں کا رڈ بھی منظور ہے جو بعد موت جسم کے روح کی بقا کے قائل نہیں ہیں.جانا چاہیئے کہ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک تو ٹی کے معنے روح کو قبض کرنے اور جسم کو بریکار چھوڑ دینے کے لئے گئے ہیں اور انسان کی موت کی حقیقت بھی صرف اس قدر ہے کہ روح کو خدائے تعالیٰ قبض کر لیتا ہے اور جسم کو اس سے الگ کر کے چھوڑ دیتا ہے اور چونکہ نیند کی حالت بھی کسی قدر اس حقیقت میں اشتراک رکھتی ہے اسی وجہ سے مذکورہ بالا دو آیتوں میں نیند کو بھی بطور استعارہ توفی کی حالت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ نیند میں بھی ایک خاص حد تک روح قبض کی جاتی ہے اور جسم کو بے کار اور معطل کیا جاتا ہے لیکن توٹی کی کامل حالت جس میں کامل طور پر روح قبض کی جائے اور کامل طور پر جسم بے کار کر دیا جائے وہ انسان کی موت ہے اسی وجہ سے توفی کا لفظ عام طور پر قرآن شریف میں انسان کی موت کے بارے میں ہی استعمال کیا گیا ہے اور اوّل سے آخر تک قرآن شریف اسی استعمال سے بھرا پڑا ہے اور نیند کے محل پر توفی کا لفظ صرف دو جگہ قرآن شریف میں آیا ہے اور وہ بھی قرینہ قائم کرنے کے ساتھ.اور ان آیتوں میں صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ اس جگہ بھی توفی کے لفظ سے نیند مراد نہیں ہے بلکہ موت ہی مراد ہے اور اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ نیند بھی ایک موت ہی کی قسم ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے اور جسم معطل کیا جاتا ہے ، صرف اتنا فرق ہے کہ نیند ایک ناقص موت ہے اور موت حقیقی ایک کامل موت ہے.معنوں پر یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن شریف میں استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ اپنے حقیقی پر مستعمل ہے یعنی موت پر یا غیر حقیقی معنوں پر یعنی نیند پر.ہر ایک جگہ اُس لفظ سے مراد یہی ہے کہ روح قبض کی جائے اور جسم معطل اور بے کار کر دیا جائے.اب جبکہ یہ معنے مذکورہ بالا ایک مسلم قاعدہ ٹھہر چکا، جس پر قرآن شریف کی تمام آیتیں جن میں تو فی کا لفظ موجود ہے شہادت دے رہی ہیں تو اس صورت میں اگر فرض محال کے طور پر ایک لمحہ کے لئے یہ خیال باطل بھی قبول کر لیں کہ انِّي مُتَوَفِّيكَ کے معنے ابی مُدِيمُك ہے یعنی یہ کہ میں تجھے سلانے والا ہوں تو اس سے بھی جسم کا اُٹھایا جانا غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ کے معنے از روئے قاعدہ متذکرہ بالا یہی کریں گے کہ میں تجھ پر نیند کی حالت غالب کر کے تیری روح کو قبض کرنے والا ہوں.اب ظاہر ہے کہ ابى مُتَوَفِّيكَ کے بعد جو رَافِعُكَ إلى فرمايا ہے یعنی میں تیری روح کو قبض کر کے پھر اپنی طرف اٹھاؤں گا یہ رَافِعُكَ کا لفظ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کے لفظ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة ال عمران تعلق رکھتا ہے جس سے بداہت یہ معنے نکلتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے روح کو قبض کیا اور روح کو ہی اپنی طرف اُٹھایا کیوں کہ جو چیز قبض کی گئی وہی اُٹھائی جائے گی جسم کے قبض کرنے کا تو کہیں ذکر نہیں.چنانچہ دوسری آیات میں جو نیند کے متعلق ہیں خدائے تعالیٰ صاف صاف فرما چکا ہے کہ نیند میں بھی موت کی طرح روح ہی قبض کی جاتی ہے، جسم نہیں قبض کیا جاتا.اب ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو قبض کیا جاتا ہے اُٹھایا بھی وہی جائے گا.یہ تو نہیں کہ قبض کیا جائے روح اور پھر جسم کو اُٹھایا جائے.ایسے معنے تو قرآن شریف کی تمام آیات اور منشائے ربانی سے صریح صریح مخالف ہیں.قرآن شریف نیند کے مقامات میں بھی جو توفی کے لفظ کو بطور استعارہ استعمال کرتا ہے اس جگہ بھی صاف فرما تا ہے کہ ہم روح کو قبض کر لیتے ہیں اور جسم کو بے کار چھوڑ دیتے ہیں.اور موت اور نیند میں صرف اتنا فرق ہے کہ موت کی حالت میں ہم روح کو قبض کر کے پھر چھوڑتے نہیں بلکہ اپنے پاس رکھتے ہیں.اور نیند کی حالت میں ایک مدت تک روح کو قبض کر کے پھر اس روح کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہ جسم سے تعلق پکڑ لیتی ہے.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ بیان قرآن شریف کا اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں کہ خدائے تعالی کو جسم قبض کرنے اور اٹھانے سے دونوں حالتوں موت اور نیند میں کچھ سروکار نہیں بلکہ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے یہ جسم خاک سے پیدا کیا گیا ہے اور آخر خاک میں ہی داخل ہوتا ہے.خدائے تعالیٰ ابتدائے دنیا سے صرف روحوں کو قبض کرتا آیا ہے اور روحوں کو ہی اپنی طرف اُٹھاتا ہے جبکہ یہی امر واقعی اور یہی صحیح اور بیچ ہے تو اس صورت میں اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ رانی متوفیک کے یہی معنے ہیں کہ میں تیری روح کو اسی طور سے قبض کرنے والا ہوں جیسا کہ سونے والے کی روح قبض کی جاتی ہے تو پھر بھی جسم کو اس قبض سے کچھ علاقہ نہیں ہوگا اور اس طور کی تاویل سے اگر کچھ ثابت ہوگا تو یہ ہوگا کہ حضرت مسیح کی روح خواب کے طور پر قبض کی گئی اور جسم اپنی جگہ زمین پر پڑا رہا اور پھر کسی وقت روح جسم میں داخل ہوگئی.اور ایسے معنے سراسر باطل اور دونوں فریق کے مقصد کے مخالف ہیں.کیونکہ صرف کچھ عرصہ کے لئے حضرت مسیح کا سونا اور پھر جاگ اُٹھنا ہماری اس بحث سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا.اور قرآن کریم کی آیت ممدوحہ بالا صاف بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ حضرت مسیح کی روح جو قبض کی گئی تو پھر سونے والے کی روح کی طرح جسم کی طرف نہیں چھوڑی گئی بلکہ خدائے تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اُٹھا لیا جیسا کہ الفاظ صريحة الدلالت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی سے ظاہر ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۸ سورة ال عمران انصاف کی آنکھ سے دیکھنا چاہیئے کہ جس طرح حضرت مسیح کے حق میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اني متوفيك فرمایا ہے اس طرح ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے: وَلِما نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُم أوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (یونس :۴۷) یعنی دونوں جگہ مسیح کے حق میں اور ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تو ٹی کا لفظ موجود ہے پھر کس قدر نا انصافی کی بات ہے کہ ہمارے سید و مولی کی نسبت جو توبی کا لفظ آیا ہے تو اس جگہ تو ہم وفات کے ہی معنے کریں اور اُسی لفظ کو حضرت عیسی کی نسبت اپنے اصلی اور شائع متعارف معنوں سے پھیر کر اور اُن متفق علیہ معنے سے جو اوّل سے آخر تک قرآن شریف سے ظاہر ہورہے ہیں انحراف کر کے اپنے دل سے کچھ اور کے اور معنے تراش لیں.اگر یہ الحاد اور تحریف نہیں تو پھر الحاد اور تحریف کس کو کہتے ہیں !!! جس قدر مبسوط تفاسیر دنیا میں موجود ہیں جیسے کشاف اور معالم اور تفسیر رازی اور ابن کثیر اور مدارک اور فتح البیان سب میں زیر تغییر يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ یہی لکھا ہے کہ إِنِّي مُميتك حنف أنفك یعنی اے عیسی میں تجھے طبعی موت سے مارنیوالا ہوں بغیر اس کے کہ تو مصلوب یا مضروب ہونے کی حالت میں فوت ہو.غایت مافی الباب بعض مفسرین نے اپنی کو تہ اندیشی سے اس آیت کی اور وجوہ پر بھی تفسیریں کی ہیں.لیکن صرف اپنے بے بنیاد خیال سے نہ کسی آیت یا حدیث صحیح کے حوالہ سے.اگر وہ زندہ ہوتے تو اُن سے پوچھا جاتا کہ حق کے ساتھ تم نے باطل کو کیوں اور کس دلیل سے ملایا؟ بہر حال جب وہ اس بات کا اقرار کر گئے کہ مجملہ اقوال مختلفہ کے یہ بھی ایک قول ہے کہ ضرور حضرت مسیح فوت ہو گئے تھے اور ان کی روح اُٹھائی گئی تھی تو ان کی دوسری لغزشیں قابل عفو ہیں ان میں سے بعض جیسا کہ صاحب کشاف خود اپنی قلم سے دوسرے اقوال کو قبیل کے لفظ سے ضعیف ٹھہرا گئے ہیں.اب جبکہ توفی کے لفظ کی بخوبی تحقیقات ہو چکی اور ثابت ہو گیا کہ تمام قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک یہ لفظ فقط روح کے قبض کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے تو اب یہ دیکھنا باقی رہا کہ اس کے بعد جو فقرہ رَافِعُكَ اِلی میں رفع کا لفظ ہے یہ کن معنوں پر قرآن شریف میں مستعمل ہے؟ جاننا چاہیے کہ رفع کا لفظ قرآن شریف میں جہاں کہیں انبیاء اور اخیار ابرار کی نسبت استعمال کیا گیا ہے عام طور پر اس سے یہی مطلب ہے کہ جو ان برگزیدہ لوگوں کو خدائے تعالی کی جناب میں باعتبار اپنے روحانی مقام اور نفسی نقطہ کے آسمانوں میں کوئی بلند مرتبہ حاصل ہے اس کو ظاہر کر دیا جائے اور ان کو بشارت دی جائے کہ بعد موت و مفارقت بدن اُن کی روح اُس مقام تک جو اُن کے لئے قرب کا مقام ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ سورة ال عمران.اُٹھائی جائے گی جیسا کہ اللہ جل بھائہ ہمارے سید و مولی کا اعلیٰ مقام ظاہر کرنے کی غرض سے قرآن شریف میں فرماتا ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ درجت (البقرة : ۲۵۴) - یعنی یہ تمام رسول اپنے مرتبہ میں یکساں نہیں بعض اُن میں سے وہ ہیں جن کو روبرو کلام کرنے کا شرف بخشا گیا اور بعض وہ ہیں جن کا رفع درجات سب سے بڑھ کر ہے.اس آیت کی تفسیر احادیث نبویہ میں یہی بیان کی گئی ہے کہ موت کے بعد ہر یک نبی کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور اپنے درجہ کے موافق اس روح کو آسمانوں میں سے کسی آسمان میں کوئی مقام ملتا ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس مقام تک اس روح کا رفع عمل میں آیا ہے تا جیسا کہ باطنی طور پر اس روح کا درجہ تھا خارجی طور پر وہ درجہ ثابت کر کے دکھلایا جائے.سو یہ رفع جو آسمان کی طرف ہوتا ہے تحقیق درجات کے لئے وقوع میں آتا ہے اور آیت مذکورہ بالا میں جو رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ ہے یہ اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع تمام نبیوں کے رفع سے بلند تر ہے اور اُن کی رُوح مسیح کی روح کی طرح دوسرے آسمان میں نہیں اور نہ حضرت موسیٰ کی روح کی طرح چھٹے آسمان میں بلکہ سب سے بلند تر ہے اسی کی طرف معراج کی حدیث تصریح دلالت کر رہی ہے بلکہ معالم النبوۃ میں بصفحہ ۵۱۷ یہ حدیث لکھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں چھٹے آسمان سے آگے گزر گئے تو حضرت موسیٰ نے کہا: رَبِّ لَمْ أَظُنُّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَى احد یعنی اے میرے خداوند ! مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ کوئی نبی مجھ سے اوپر اُٹھایا جائے گا اور اپنے رفع میں مجھ سے آگے بڑھ جائے گا.اب دیکھو کہ رفع کا لفظ محض تحقق درجات کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور آیت موصوفہ بالا کے احادیث نبویہ کی رو سے یہ معنے کھلے کہ ہر یک نبی اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی روح اگر چہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہومگر پھر بھی اُس آسمان سے اُس کا تعلق ہوتا ہے جو اس کی روح کے لئے حد رفع ٹھہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اُس آسمان میں جا ٹھہرتی ہے جو اس کے لئے حد رفع مقر ر کیا گیا ہے.چنانچہ وہ حدیث جس میں عام طور پر موت کے بعد روحوں کے اُٹھائے جانے کا ذکر ہے اس بیان کی مؤید ہے اور چونکہ یہ بحث نہایت صریح اور صاف ہے اور کسی قدر ہم پہلے لکھ بھی چکے ہیں اس لئے کچھ ضرورت نہیں کہ اس کو زیادہ طول دیا جائے.اس مقام میں یہ بھی بیان کرنے کے لائق ہے کہ بعض مفسروں نے جب دیکھا کہ در حقیقت انی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۰ سورة ال عمران مُتَوَفِّيكَ میں توفِّی کے معنے وفات دینے کے ہیں اور بعد اس کے جو رَافِعُكَ الى واقع ہے وہ بقرینہ صریحہ وفات کے روح کے رفع پر دلالت کر رہا ہے تو انہیں یہ فکر پڑی کہ یہ صریح ہماری رائے کے مخالف ہے اس لئے انہوں نے گویا اپنے تئیں نظم فرقانی کا مصلح قرار دے کر یا اپنے لئے استادی کا منصب تجویز کر کے یہ اصلاح کی کہ اس جگہ رَافِعُكَ متقدم اور اني متوفيك مؤخر ہے.مگر ناظرین جانتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے ابلغ واضح کلام میں یہ کس قدر بیجا اور اس کلام کی کسر شان کا موجب ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۶ تا ۲۷۷) بعض علماء نہایت سادگی سے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ انی مُتَوَفِّيكَ کے آگے جو رَافِعُكَ اور بَلْ تَفَعَهُ اللهِ إِلَيْهِ (النساء : ۱۵۹) قرآن کریم میں آیا ہے اس سے زندہ ہو جانا ثابت ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگر یہ معنے سچ نہیں تو پھر بھر مسیح کے اور کسی کے حق میں رافع کا لفظ کیوں نہیں آیا ؟ مگر میں اسی رسالہ ازالہ اوہام میں ان تمام وہموں کا مفصل جواب لکھ چکا ہوں کہ رفع سے مراد روح کا عزت کے ساتھ اُٹھائے جانا ہے.جیسا کہ وفات کے بعد ہمو جب نص قرآن اور حدیث صحیح کے ہر یک مومن کی روح عزت کے ساتھ خدائے تعالی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور مسیح کے رفع کا جو اس جگہ ذکر کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیح کو دعوت حق میں قریباً نا کامی رہی اور یہودیوں نے خیال کیا کہ یہ کا ذب ہے کیونکہ ضرور تھا کہ بچے بیج سے پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہو سو انہوں نے اس سے انکار کیا کہ مسیح کا اور نبیوں کی طرح عزت کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہو بلکہ اس کو نعوذ باللہ العنتی قرارد یا اور لعنتی اس کو کہتے ہیں جس کو عزت کے ساتھ رفع نصیب نہ ہو.سو خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ الزام سیح کے سر پر سے اُٹھاوے.سواؤل اس نے اس بنیاد کو باطل ٹھہرایا جس بنیاد پر حضرت مسیح کا لعنتی ہونا نا بکار یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے دلوں میں سمجھ لیا تھا اور پھر بعد اس کے تصریح یہ بھی ذکر کر دیا کہ مسیح نعوذ باللہ ملعون نہیں جو رفع سے روکا گیا ہے بلکہ عزت کے ساتھ اس کا رفع ہوا ہے.چونکہ مسیح ایک بے کس کی طرح دنیا میں چند روزہ زندگی بسر کر کے چلا گیا اور یہودیوں نے اس کی ذلت کے لئے بہت ساغلو کیا.اُس کی والدہ پر نا جائز تہمتیں لگا ئیں اور اس کو ملعون ٹھہرایا اور راستبازوں کی طرح اُس کے رفع سے انکار کیا اور نہ صرف یہودیوں نے بلکہ عیسائی بھی مؤخر الذکر خیال میں مبتلا ہو گئے اور کمینگی کی راہ سے اپنی نجات کا یہ حیلہ نکالا کہ ایک راستباز کوملعون ٹھہر اویں اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر مسیح کے ملعون ہونے پر ہی نجات موقوف ہے اور تبھی نجات ملتی ہے کہ مسیح جیسے ایک راستباز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام : ۹۱ سورة ال عمران پاک روش خدائے تعالیٰ کے پیارے کو منتی ٹھہرایا جاوے تو حیف ہے ایسی نجات پر ! اس سے تو ہزار درجہ ! دوزخ بہتر ہے.غرض جب مسیح کے لئے دونوں فریق یہود و نصاری نے ایسے ڈور از ادب القاب روار کھے تو خدائے تعالیٰ کی غیرت نے نہ چاہا کہ اس پاک روش کی عزت کو بغیر شہادت کے چھوڑ دیوے.سواس نے جیسا کہ انجیل میں پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا ہمارے سید و مولی ختم المرسلین کو مبعوث فرما کر مسیح کی عزت اور رفع کی قرآن کریم میں شہادت دی.رفع کا لفظ قرآن کریم میں کئی جگہ واقع ہے ایک جگہ بلغم کے قصہ میں بھی ہے کہ ہم نے اس کا رفع چاہا مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا.اور ایک ناکام نبی کی نسبت اس نے فرمایا وَ رَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم : ۵۸) در حقیقت یہ بھی ایک ایسا نبی ہے جس کی رفعت سے لوگوں نے انکار کیا تھا اور چونکہ اس عاجز کی بھی مسیح کی طرح ذلّت کی گئی ہے کوئی کافر کہتا ہے اور کوئی ملحد اور کوئی ہے ایمان نام رکھتا ہے اور فقیہ اور مولوی صلیب دینے کو بھی تیار ہیں جیسا کہ میاں عبد الحق اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ اس شخص کے لئے مسلمانوں کو کچھ ہاتھ سے بھی کام لینا چاہیئے.لیکن پلا طوس سے زیادہ یہ گورنمنٹ بے گناہ کی رعایت رکھتی ہے اور پلاطوس کی طرح رعیت کے رعب میں نہیں آتی مگر ہماری اس قوم نے ذلیل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا تا دونوں طرف سے مشابہت ثابت کر کے دکھا دیوے.انہیں الہام بھی ہو گئے کہ یہ جہنمی ہے، آخر جہنم میں پڑے گا اور اُن میں داخل نہیں ہو گا جن کا عزت کے ساتھ خدائے تعالی کی طرف رفع ہوتا ہے.سو آج میں اُس الہام کے معنی سمجھا جو اس سے کئی سال پہلے براہین میں درج ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ - یعنی یہ مولوی صاحبان عبد الرحمان و عبد الحق تو مجھے اس وقت قطعی دوزخی بناتے ہیں لیکن اُن کے اس بیان سے دس سال پہلے خدائے تعالیٰ مجھے جنتی ہونے کا وعدہ دے چکا ہے اور جس طرح یہودیوں نے خیال کیا تھا کہ نعوذ باللہ عیسی مسیح لعنتی ہے اور ہر گز عزت کے ساتھ اس کا رفع نہیں ہوگا اور اُن کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی تھی : إني مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إلى.اس طرح خدائے تعالیٰ نے اس جگہ بھی پہلے سے ہی اپنے علم قدیم کی وجہ سے یہ الہام بطور پیشگوئی اس عاجز کے دل پر القا کیا......حاصل کلام یہ ہے کہ جو رفع کا لفظ حضرت مسیح کے لئے قرآن کریم میں آیا ہے وہی لفظ الہام کے طور پر اس عاجز کے لئے بھی خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۹ تا ۳۰۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۲ سورة ال عمران قرآن شریف کی نصوص بینہ اسی بات پر بصراحت دلالت کر رہی ہیں کہ مسیح اپنے اُسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ اب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ پہلے لکھا ہے اور را فعل بعد اس کے بیان فرمایا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد از وفات ہوا.اور پھر اور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہور تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو ان لوگوں کی رعیت اور ماتحت کردیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اور آج تک صد ہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں، یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے.ایسے معنے تو بہ ہداہت فاسد ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۱،۳۳۰) بعض چالاکی سے قرآن شریف کے کھلے کھلے ثبوت پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ لغت کی کتابوں میں کئی معنوں پر آیا ہے حالانکہ اپنے دلوں میں خوب جانتے ہیں کہ جن لفظوں کو قرآن شریف اصطلاحی طور پر بعض معانی کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اپنے متواتر بیان سے بخوبی سمجھا دیتا ہے کہ فلاں معنے کے لئے اُس نے فلاں لفظ خاص کر رکھا ہے اس معنی سے اس لفظ کو صرف اس خیال سے پھیرنا کہ کسی لغت کی کتاب میں اس کے اور معنے بھی آئے ہیں، صریح الحاد ہے.مثلا کتب لغت میں اندھیری رات کا نام بھی کافر ہے مگر تمام قرآن شریف میں کافر کا لفظ صرف کافردین یا کا فرنعمت پر بولا گیا ہے.اب اگر کوئی شخص کفر کا لفظ الفاظ مروجہ فرقان سے پھیر کر اندھیری رات اس سے مراد لے اور یہ ثبوت دے کہ لغت کی کتابوں میں یہ معنے بھی لکھے ہیں تو سچ کہو کہ اُس کا یہ ملحدانہ طریق ہے یا نہیں ؟ اسی طرح کتب لغت میں صوم کا لفظ صرف روزہ میں محدود نہیں بلکہ عیسائیوں کے گرجا کا نام بھی صوم ہے اور شتر مرغ کے سرگین کو بھی صوم کہتے ہیں لیکن قرآن شریف کی اصطلاح میں صوم صرف روزہ کا نام ہے.اور اسی طرح صلوۃ کے لفظ کے معنے بھی لغت میں کئی ہیں مگر قرآن شریف کی اصطلاح میں صرف نماز اور درود اور دعا کا نام ہے.یہ بات سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہر ایک فن ایک اصطلاح کا محتاج ہوتا ہے اور اہل اس فن کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة ال عمران حاجات کے موافق بعض الفاظ کو متعدد معنوں سے مجز دکر کے کسی ایک معنی سے مخصوص کر لیتے ہیں.مثلاً طبابت کے فن کو دیکھئے کہ بعض الفاظ جو کئی معنے رکھتے تھے صرف ایک معنے میں اصطلاحی طور پر محصور ومحدود رکھے گئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی علم بغیر اصطلاحی الفاظ کے چل ہی نہیں سکتا.پس جو شخص الحاد کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے سیدھی راہ یہی ہے کہ قرآن شریف کے معنے اس کے مروجہ اور مصطلحہ الفاظ کے لحاظ سے کرے دور نہ تفسیر بالرائے ہوگی.اگر یہ کہا جائے کہ اگر توفی کے معنے الفاظ مروجہ قرآن میں عام طور پر قبض روح ہی ہے تو پھر مفتروں نے اس کے برخلاف اقوال کیوں لکھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موت کے معنے بھی تو وہ برابر لکھتے چلے آئے ہیں.اگر ایک قوم کا ان معنوں پر اجماع نہ ہوتا تو کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک جو تیرہ سو برس گزر گئے یہ معنے تفسیروں میں درج ہوتے چلے آئے.سو ان معنوں کا مسلسل طور پر درج ہوتے چلے آنا صریح اس بات پر دلیل ہے کہ صحابہ کے وقت سے آج تک ان معنوں پر اجماع چلا آیا ہے.رہی یہ بات کہ پھر دوسرے معنے انہیں تفسیروں میں کیوں لکھے گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بعض لوگوں کی غلط رائے ہے اور اس رائے کی غلطی ثابت کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ رائے سراسر قرآن شریف کے منشاء کے برخلاف ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۵۰،۳۴۹) مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں اگر خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتا جس کو اس نے مختلف معنوں میں استعمال کیا ہوتا تو کسی خائن کو خیانت کرنے کی گنجائش ہوتی.سوخیانت پیشہ لوگوں کا خدا تعالیٰ نے ایسا بندو بست کیا کہ توفی کے لفظ کو جو حضرت عیسی کی وفات کے لئے استعمال کیا گیا تھا بچیں جگہ پر ایک ہی معنی پر استعمال کیا اور اس کو ایک اصطلاحی لفظ بنا کر ہر یک جگہ میں اس کے یہ معنے لئے ہیں کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم کو بے کار چھوڑ دینا.تا یہ لفظ اس بات پر دلالت کرے کہ روح ایک باقی رہنے والی چیز ہے جو بعد موت اور ایسا ہی حالت خواب میں بھی خدائے تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے اور جسم پر فنا طاری ہوتی ہے مگر روح پر نہیں.اور چونکہ یہی معنی بالالتزام ہر ایک محل میں جہاں توفی کا لفظ آیا ہے لئے گئے اور ان سے خروج نہیں کیا گیا اس لئے یہ معنے نصوص صریحہ بینہ ظاہرہ قرآن کریم میں سے ٹھہر گئے جن سے انحراف کرنا الحاد ہوگا کیونکہ یہ مسلم ہے کہ النُّصُوصُ يُحْمَلُ عَلَى ظَوَاهِرِهَا.پس قرآن کریم نے توفی کے لفظ کو جو محل متنازعہ فیہ میں یعنی مسیح کی وفات کے متعلق ہے تیئیس جگہ ایک ہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة ال عمران معنوں پر اطلاق کر کے ایسا کھول دیا ہے کہ اب اس کے ان معنوں میں کہ روح قبض کرنا اور جسم کو چھوڑ دینا ہے ایک ذرہ شک و شبہ کی جگہ نہیں رہی.بلکہ یہ اول درجہ کے بینات اور مطالب صریحہ ظاہرہ بدیہہ میں سے ہو گیا جس کو قطع اور یقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے جس سے انکار کرنا بھی اول درجہ کی نادانی ہے.اب قرآن کریم میں اس لفظ کی تشریح کرنے میں صرف دو بیل ہیں تیسرا کوئی سبیل نہیں.(۱) دائمی طور پر روح کو قبض کر کے جسم کو بریکار چھوڑ دینا، جس کا دوسرے لفظوں میں امامت نام ہے یعنی مار دینا.(۲) دوسرے کچھ تھوڑی مدت کے لئے روح کا قبض کرنا اور جسم کو بریکار چھوڑ دینا، جس کا دوسرے لفظوں میں انامت نام ہے یعنی سُلا دینا.لیکن ظاہر ہے کہ محل متنازعہ فیہ سے دوسرے قسم کے معنے کو کچھ تعلق نہیں.کیونکہ سونا اور پھر جاگ اُٹھنا ایک معمولی بات ہے جب تک انسان سویا رہا روح اس کی خدائے تعالیٰ کے قبضہ میں رہی اور جب جاگ اُٹھا تو پھر روح اس جسم میں آگئی جو بطور بیکار چھوڑا گیا تھا.یہ بات صفائی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ جبکہ توفی کے لفظ سے صرف روح کا قبضہ میں کر لینا مراد ہے بغیر اس کے جو جسم سے کچھ سروکار ہو بلکہ جسم کا بریکار چھوڑ دینا توئی کے مفہوم میں داخل ہے تو اس صورت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی حماقت نہیں کہ توفی کے یہ معنے کئے جائیں کہ خدائے تعالیٰ جسم کو اپنے قبضہ میں کر لیوے کیونکہ اگر یہ معنے صحیح ہیں تو نمونہ کے طور پر قرآن کریم کے کسی اور مقام میں بھی ایسے معنے ہونے چاہیئیں مگر ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اول سے آخر تک صرف یہی معنے ہر یک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اس کو بیکار چھوڑ دینا.مگر فرض کے طور پر اگر مسیح ابن مریم کے محل وفات میں دوسرے معنے مراد لیں تو اُن کا ماحصل یہ ہوگا کہ میسیج کچھ مدت تک سو یا ر ہا اور پھر جاگ اُٹھا.پس اس سے تو ثابت نہ ہو سکا کہ جسم آسمان پر چلا گیا.کیا جولوگ رات کو یا دن کو سوتے ہیں تو اُن کا جسم آسمان پر چلا جایا کرتا ہے؟ سونے کی حالت میں جیسا کہ ابھی میں بیان کر چکا ہوں صرف تھوڑی مدت تک روح قبض کر لی جاتی ہے، جسم کے اٹھائے جانے سے اس کو علاقہ ہی کیا ہے؟ ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ نصوص ظاہرہ متواترہ صریحہ قرآن کریم نے توفی کے لفظ کو صرف روح تک محدود رکھا ہے یعنی روح کو اپنے قبضہ میں کر لینا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر توفی کے لفظ سے یہ نکالنا کہ گو یا خدائے تعالیٰ نے نہ صرف مسیح ابن مریم کی روح کو اپنی طرف اٹھایا بلکہ اس کے جسم عنصری کو بھی ساتھ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۵ سورة ال عمران ہی اٹھالیا.یہ کیسا سخت جہالت سے بھرا ہوا خیال ہے جو صریح اور بدیہی طور پر نصوص ہینہ قرآن کریم کے مخالف ہے.قرآن کریم نے نہ ایک بار نہ دوبار بلکہ پچیس بار فرما دیا کہ توفی کے لفظ سے صرف قبض روح مراد ہے جسم سے کچھ غرض نہیں.پھر اگر اب بھی کوئی نہ مانے تو اس کو قرآن کریم سے کیا غرض ؟ اس کو تو ا صاف یہ کہنا چاہئے کہ میں اپنے چند موہومی بزرگوں کی لکیر کو کسی حالت میں چھوڑ نا نہیں چاہتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۰ تا ۳۹۲) خدائے تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ کوئی شخص میری طرف بغیر مرنے کے آ نہیں سکتا.لیکن کچھ ٹھیک نہیں کہ میسیج اس کی طرف اُٹھایا گیا سودہ ضرور مر گیا.خدائے تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس کو ابی مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی سے پکارا ہے.سولفظ متوفّی جن عام معنوں سے تمام قرآن اور حدیثوں میں مستعمل ہے وہ یہی ہے کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو معطل چھوڑ دینا.یہ بڑے تعصب کی بات ہے کہ تمام جہان کے لئے تو توفی کے یہی معنے روح قبض کرنے کے ہوں لیکن مسیح ابن مریم کے لئے جسم قبض کرنے کے معنے لئے جاویں.کیا ہم خاص عیسی کے لئے کوئی نئی لغت بنا سکتے ہیں جو بھی اللہ اور رسول کے کلام میں مستعمل نہیں ہوئی اور نہ عرب کے شعراء اور زبان دان بھی اس کو استعمال میں لائے.پھر جس حالت میں توفی کے یہی شائع متعارفہ معنے ہیں کہ روح قبض کی جائے خواہ بطور ناقص یا بطور تام.تو پھر رفع سے رفع جسد کیوں مراد لیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس چیز پر قبضہ کیا جائے گا رفع بھی اُسی کا ہوگا.نہ یہ کہ قبض تو روح کا ہو اور جسم کا رفع کیا جائے.غرض برخلاف اس متبادر اور مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف سے توفی کے لفظ کی نسبت اوّل سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں ایک نئے معنے اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے.خدائے تعالی مسلمانوں کو اس سے بچاوے اگر یہ کہا جاوے کہ توفی کے معنے تفسیروں میں کئی طور سے کئے گئے.تو میں کہتا ہوں کہ وہ مختلف اور متضاد اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے نہیں لئے گئے ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ بیان جو چشمہ وحی سے نکلا ہے اس میں اختلاف اور تناقض راہ پا سکتا بلکہ وہ مفسرین کے صرف اپنے اپنے بیانات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھی اُن کا کسی خاص معنے پر اجماع نہیں ہوا.اگر ان میں سے کسی کو وہ بصیرت دی جاتی جو اس عاجز کو دی گئی تو ضرور اسی ایک بات پر اُن کا اجماع ہو جاتا لیکن خدائے تعالیٰ نے اس قطعی اور یقینی علم سے اُن کو محروم رکھاتا اپنے ایک بندہ کو کامل طور پر یہ علم دے کر آدم صفی اللہ کی طرح اس کی علمی فضیلت کا ایک نشان ظاہر کرے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۲،۵۰۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة ال عمران عموم محاوره قرآن شریف کا توفی کے لفظ کے استعمال میں یہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ تمام مقامات میں اوّل سے آخر تک ہر ایک جگہ جو ٹوٹی کا لفظ آیا ہے اس کو موت اور قبض روح کے معنے میں لاتا ہے اور جب عرب کے قدیم وجدید اشعار وقصائد و نظم و نثر کا جہاں تک ممکن تھا تمنع کیا گیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں توفی کے لفظ کا ذوی الروح سے یعنی انسانوں سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جل شانہ کو ظہرایا گیا ہے ان تمام مقامات میں توفی کے معنے موت وقبض روح کے کئے گئے ہیں.اور اشعار قدیمہ وجدیدہ عرب میں اور ایسا ہی اُن کی نثر میں بھی ایک بھی لفظ توفی کا ایسا نہیں ملے گا جو ذوی الروح میں مستعمل ہو اور جس کا فاعل لفظاً یا معنا خدائے تعالیٰ ٹھہرایا گیا ہو یعنی فعل عبد کا قرار نہ دیا گیا ہو اور محض خدائے تعالیٰ کا فعل سمجھا گیا ہو اور پھر اس کے معنے بجر قبض روح کے اور مرادر کھے گئے ہوں.لغات کی کتابوں قاموس ،صحاح، صراح وغیرہ پر نظر ڈالنے والے بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ ضرب المثل کے طور پر بھی کوئی فقرہ عرب کے محاورات کا ایسا نہیں ملا جس میں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اور ذوی الروح کے بارہ میں استعمال میں لا کر پھر اس کے اور بھی معنے کئے ہوں.بلکہ برابر ہر جگہ یہی معنے موت اور قبض روح کے کئے گئے ہیں اور کسی دوسرے احتمال کا ایک ذرہ راہ گھلا نہیں رکھا.پھر بعد اس کے اس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ اور خود آنحضرت صلعم اس لفظ توفی کو ذوی الروح کی طرف منسوب کر سکے کن کن معنوں میں استعمال کرتے تھے.آیا یہ لفظ اس وقت اُن کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر استعمال ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا؟ سو اس تحقیقات کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی اور ان تمام کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد، نسائی، دارمی، موطا، شرح السنہ وغیرہ وغیرہ کا صفحہ صفحہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جو داخل مشکوۃ ہیں تین سو چھیالیس مرتبہ مختلف مقامات میں توفی کا لفظ آیا ہے اور ممکن ہے کہ میرے شمار کرنے میں بعض تولی کے لفظ رہ بھی گئے ہوں لیکن پڑھنے اور زیر نظر آ جانے سے ایک بھی لفظ باہر نہیں رہا.اور جس قدر وہ الفاظ توفی کے ان کتابوں میں آئے ہیں.خواہ وہ ایسا لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے یا ایسا ہے جو کسی صحابی نے منہ سے نکالا ہے.تمام جگہ وہ الفاظ موت اور قبض روح کے معنے میں ہی آئے ہیں.اور چونکہ میں نے ان کتابوں کو بڑی کوشش اور جانکاہی سے سطر سطر پر نظر ڈال کر دیکھ لیا ہے.اس لئے میں دعوئی سے اور شرط
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة ال عمران کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر یک جگہ جو توفی کا لفظ ان کتابوں کی احادیث میں آیا ہے اس کے بجز موت اور قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں.اور ان کتابوں سے بطور استقراء کے ثابت ہوتا ہے کہ بعد بعثت اخیر عمر تک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توفی کا لفظ بغیر معنی موت اور قبض روح کے کسی دوسرے معنی کے لئے ہر گز استعمال نہیں کیا اور نہ بھی دوسرے معنی کا لفظ زبان مبارک پر جاری ہوا.اور کچھ شک نہیں کہ استقراء بھی ادلہ یقینیہ میں سے ہے.بلکہ جس قدر حقائق کے ثابت کرنے کے لئے استقراء سے مدد ملی ہے اور کسی طریق سے مدد نہیں ملی.مثلاً ہمارے ان یقینیات کی بناء جو عموما تمام انسانوں کی ایک زبان ہوتی ہے اور دو آنکھ اور عمر انسان کی عموما اس حد سے تجاوز نہیں کر سکتی.اور اناج کی قسموں میں سے چنا اس انداز کا ہوتا ہے اور گیہوں کا دانہ اس انداز کا، یہ سب یقینیات، استقراء سے معلوم ہوئے ہیں.پس جو شخص اس استقراء کا انکار کرے تو ایسا کوئی لفظ توفی کا پیش کرنا اس کے ذمہ ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہو اور بجز موت اور قبض روح کے اس کے کوئی اور معنے ہوں اور امام محمد اسماعیل بخاری نے اس جگہ اپنی سیح میں ایک لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم سات ہزار مرتبہ توفی کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے بعثت کے بعد اخیر عمر تک نکلا ہے.اور ہر ایک لفظ توفی کے معنے قبض روح اور موت تھی.سو یہ نکتہ بخاری کا منجملہ اُن نکات کے ہے جن سے حق کے طالبوں کو امام بخاری کا مشکور وممنون ہونا چاہیئے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۸۳ تا ۵۸۵) وآ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ یہ جو آیت قرآن کریم ہے کہ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اس کے یہ جیسی معنے ہیں کہ اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا.سو امام بخاری صاحب، ابن عباس کا قول بطور تائید کے لائے ہیں تا معلوم ہو کہ صحابہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے.اور پھر امام بخاری نے ایک اور کمال کیا ہے کہ اپنی صحیح کے صفحہ ۵۳۱ میں مناقب ابن عباس میں لکھا ہے کہ خود ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنے سینہ سے لگایا اور دعا کی کہ یا الہی ! اس کو حکمت بخش ، اس کو علم قرآن بخش.چونکہ دُعا نبی کریم کی مستجاب ہے اس لئے ابن عباس کا یہ بیان کہ توفی عیسی جو قرآن کریم میں آیا ہے امانت عیسی اس سے مراد ہے یعنی عیسی کی وفات دینا.یہ معنی آیت کریمہ کے لے سہو کتابت ہے صحیح "کو" ہے.ناشر لو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة ال عمران جو ابن عباس نے کئے ہیں اس وجہ سے بھی قابل قبول ہیں کہ ابن عباس کے حق میں علم قرآن کی دعا مستجاب ہو چکی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۸۷) بعض علماء وقت کو اس بات پر سخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور نہایت بے باکی اور شوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افتراء ہے قرآن کریم کا عموما التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دینے کے معنوں پر ہر یک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں توفّی کے لفظ کو خدائے تعالی کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں ، کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یا اشعار وقصائد ونظم و نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.ایسا ہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کوئی ان کا ہم خیال یہ ثابت کر دیوے کہ الدجال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجز دجال معہود کے کسی اور دجال کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان کے دوں گا.چاہیں تو مجھے سے رجسٹری کرا لیں یا تمسک لکھا لیں.اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة ال عمران کی نسبت آیا ہے اس کے معنی پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑنا.بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اور صحیح سلامت لے لینا.سو اسی معنی سے انکار کر کے یہ شرعلی اشتہار ہے.ایسا ہی محض نفسانیت اور عدم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے اللہ جال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اور مسلم میں جابجا دجال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے، یہ دعوی کر دیا ہے کہ الدجال ، وقال معہود کا خاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعویٰ کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے.سو اس وسیع معنی الدجال سے انکار کر کے اور یہ دعوی کر کے کہ یہ لفظ الدجال کا صرف دجال معہود کے لئے آیا ہے اور بطور علم کے اس کے لئے مقرر ہو گیا ہے.یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اور اُن کے ہم خیال علماء نے لفظ توفی اور الرجال کی نسبت اپنے دعوی متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچادیا تو وہ ہزار روپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اور نیز عام طور پر یہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کر دے گا کہ در حقیقت مولوی محمد حسین صاحب اور اُن کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدث اور مفسر اور رموز اور دقائق قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں.اگر ثابت نہ کر سکے تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ لوگ دقائق و حقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اور حدیث کے سمجھنے سے بھی قاصر اور سراسری اور پلید ہیں اور در پردہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحاد کی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کر کے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں.ایسا ہی اگر کوئی یہ ثابت کر دکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا قطعیۃ الدلالت نہیں اور نیز بجائے لفظ موت اور امانت کے جو متعد دالمعنی ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے، تونی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلا یہ کہ توَفَّاهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ.تو ایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقد دیا جائے (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۲ تا ۶۰۵) گا.سوال اگر مسیح ابن مریم در حقیقت فوت ہو گیا ہے تو پھر کیا یہ بات جو تیرہ سو برس سے آج تک مشہور.چلی آتی ہے کہ مسیح زندہ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا آج غلط ثابت ہوگئی ؟ اما الجواب.پس واضح ہو کہ یہ بالکل افتراء ہے کہ تیرہ سو برس سے بالا جماع یہی مانا گیا ہے کہ مسیح جسم کے
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساتھ زندہ آسمان پر اٹھایا گیا ہے.ظاہر ہے کہ اگر سلف اور خلف کا کسی ایک بات پر اجماع ہوتا تو تفسیروں کے لکھنے والے متفرق قولوں کو نہ لکھتے لیکن کون سی ایسی تفسیر ہے جو اس بارہ میں اقوال متفرقہ سے خالی ہے.کبھی کہتے ہیں کہ مسیح نیند کی حالت میں اُٹھایا گیا اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ مر گیا اور اس کی روح اٹھائی گئی اور کبھی قرآن شریف کی غلطی نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت : إِلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلى میں دراصل مُتَوَفِّيكَ بعد میں ہونا چاہیئے اور رافِعُكَ اِلَى اس سے پہلے.اب ظاہر ہے کہ اگر اُن کا اجماع ایک خاص شق پر ہوتا تو اپنی تفسیروں میں مختلف اقوال کیوں جمع کرتے ؟ اور جب ایک خاص بات پر یقین ہی نہیں تو پھر اجماع کہاں؟ اور یہ اعتراض کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ بات تمہیں کو معلوم ہوئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ در حقیقت یہ قول نیا تو نہیں پہلے راوی اس کے تو ابن عباس ہی تھے لیکن اب خدائے تعالیٰ نے اس عاجز پر اس قول کی حقیقت ظاہر کر دی اور دوسرے اقوال کا بطلان ثابت کر دیا تا قولی طور پر اپنے ایک عاجز بندہ کی اس طرح پر ایک کرامت دکھاوے اور تا عقلمند لوگ سمجھ جاویں کہ یہ رہبری خاص خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ اگر یہ معمولی فہم اور عقل کا کام ہوتا تو دوسرے لوگ بھی اس صداقت کو مع اس کے اُن سب دلائل کے جو ان رسالوں میں درج ہو چکے ہیں بیان کر سکتے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۵) دو گواہوں کے ذریعہ سے پھانسی مل جاتی ہے مگر یہاں اس قدر شواہد موجود ہیں اور وہ بدستو را نکار کرتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: يُعِيسَى إِلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی اور پھر حضرت مسیح کا اپنا اقرار اسی قرآن مجید میں موجود ہے : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ (المائدة :۱۱۸) اور تَوَفِّي کے معنے موت بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کیونکہ یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آیا ہے جیسا که فرما یا : وَ لِمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ (يونس : ۴۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ني فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کہا ہے جس کے معنے موت ہی ہیں اور ایسا ہی حضرت یوسف اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے پھر ایسی صورت میں اس کے کوئی اور معنے کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ یہ بڑی زبر دست شہادت مسیح کی وفات پر ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۴) رافعک الی میں جو رفع کا وعدہ دیا گیا تھا یہ وہی وعدہ ہے جو آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النسا : ۱۵۹) میں پورا کیا گیا اب آپ وعدہ کی آیت پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ اس سے پہلے کون ( سے ) لفظ موجود ہیں توفی الفور آپ کو نظر آ جائے گا کہ اس سے پہلے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ ہے اب ان دونوں آیتوں کے ملانے سے جن میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+1 سورة ال عمران سے ایک وعدہ کی آیت اور ایک ایفاء وعدہ کی آیت ہے آپ پر کھل جائے گا کہ جس طرز سے وعدہ تھا اسی طرز سے وہ پورا ہونا چاہئے تھا یعنی وعدہ یہ تھا کہ اے عیسی ! میں تجھے مارنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اس سے صاف کھل گیا کہ ان کی روح اٹھائی گئی ہے کیونکہ موت کے بعد روح ہی اٹھائی جاتی ہے نہ کہ جسم.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ میں تجھے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جو لوگ موت کے ذریعہ سے اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اسی قسم کے لفظ ان کے حق میں بولے جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے یا خدا تعالی کی طرف رجوع کر گئے جیسا کہ اس آیت میں بھی ہے: يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر : ۲۸ تا ۳۱) اور جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة : ۱۵۷).(الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۸) قرآن کریم کے عموم محاورہ پر نظر ڈالنے سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام قرآن میں توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے.یعنی اس قبض روح میں جو موت کے وقت ہوتا ہے دو جگہ قرآن کریم میں وہ قبض روح بھی مراد لیا ہے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے.لیکن اس جگہ قرینہ قائم کر دیا ہے جس سے سمجھا گیا ہے کہ حقیقی معنے توئی کے موت لئے ہیں اور جو نیند کی حالت میں قبض روح ہوتا ہے وہ بھی ہمارے مطلب کے مخالف نہیں کیونکہ اس کے تو یہی معنے ہیں کہ کسی وقت تک انسان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی روح کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور پھر انسان جاگ اٹھتا ہے، سو یہ وقوعہ ہی الگ ہے اس سے ہمارے مخالف کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.بہر حال جب کہ قرآن میں لفظ توفی کا قبض روح کے معنوں میں ہی آیا ہے اور احادیث میں ان تمام مواضع میں جو خدا تعالیٰ کو فاعل ٹھہرا کر اس لفظ کو انسان کی نسبت استعمال کیا ہے جا بجا موت ہی معنے لئے ہیں تو بلاشبہ یہ لفظ قبض روح اور موت کیلئے قطعیۃ الدلالت ہو گیا.اور بخاری جو اصح الکتب ہے اس میں بھی تفسیر آیت: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کی تقریب میں مُتوفِّيكَ کے معنے مُبيتُك لکھا ہے.اور یہ بات ظاہر ہے کہ موت اور رفع میں ایک ترتیب طبعی واقع ہے ہر ایک مومن کی روح پہلے فوت ہوتی ہے پھر اس کا رفع ہوتا ہے.اس ترتیب طبیعی پر یہ ترتیب وضعی آیت کی دلالت کر رہی ہے کہ پہلے انی متوفیک فرمایا اور پھر بعد اس کے رافعہ کہا اور اگر کوئی کہے کہ رَافِعُكَ مقدم اور مُتَوَفِّيكَ مؤخر ہے.یعنی رَافِعُكَ آیت کے سر پر اور مُتَوَفِّيكَ فقرہ: جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا کے بعد اور بیچ میں یہ فقرہ محذوف ہے ثُمَّ مُنَزِّلُكَ إِلَى الْأَرْضِ، سو یہ ان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ سورة ال عمران یہودیوں کی طرح تحریف ہے جن پر بوجہ تحریف کے لعنت ہو چکی ہے.کیونکہ اس صورت میں اس آیت کو اس طرح پر زیروزبر کرنا پڑے گا - يَا عِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۱۴ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ ثُمَّ مُنَزِّلُكَ إِلَى الْأَرْضِ وَ مُتَوَفِّيكَ اب فرمائیے! کیا اس تحریف پر کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے؟ یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو مؤخر کر دیتے تھے جن کی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ تَمَوَاضِعِهِ ( المآئدة : ١٤ ) ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی.سو ایسی تحریفوں سے ہر یک مسلمان کو ڈرنا چاہئے.اگر کسی حدیث صحیح میں ایسی تحریف کی اجازت ہے تو بسم اللہ وہ دکھلائیے ! غرض آيت : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں اگر قرآن کریم کا عموم محاور ملحوظ رکھا جائے اور آیت کو تحریف سے بچایا جائے تو پھر موت کے بعد اور دوسرے معنے کیا نکل سکتے ہیں.یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ آیت میں رَافِعُكَ إلى وارد ہے رَافِعُكَ اِلَى السَّمَاء وارد نہیں.اس میں حکمت یہ ہے کہ روح کوئی مکانی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے تعلقات مجہول الکنہ ہوتے ہیں.مرنے کے بعد ایک تعلق روح کا قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور کشف قبور کے وقت ارباب مکاشفات پر وہ تعلق ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب قبورا اپنی اپنی قبروں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں.بلکہ ان سے صاحب کشف کے مخاطبات و مکالمات بھی واضح ہو جاتے ہیں.یہ بات احادیث صحیحہ سے بھی بخوبی ثابت ہے.صلوۃ فی القبر کی حدیث مشہور ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ مردے جوتی کی آواز بھی سن لیتے ہیں اور السلام علیکم کا جواب دیتے ہیں، باوجود اس کے ایک تعلق ان کا آسمان سے بھی ہوتا ہے اور اپنے نفسی نقطہ کے مکان پر ان کا تمثل مشاہدہ میں آتا ہے اور ان کا رفع مختلف درجات سے ہوتا ہے بعض پہلے آسمان تک رہ جاتے ہیں بعض دوسرے تک بعض تیسرے تک لیکن موت کے بعد رفع روح بھی ضرور ہوتا ہے.جیسا کہ حدیث صحیح اور آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُم أَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف: ٤١) صریح اشارہ کر رہی ہے.لیکن ان کا آسمان پر ہونا یا قبروں میں ہونا ایک مجہول الکنہ امر ہے.عنصری خا کی جسم تو ان کے ساتھ نہیں ہوتا کہ خاکی اجسام کی طرح ایک خاص اور حیز اور مکان میں ان کا پایا جانا ضروری ہو.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے رافعک الی فرمایا رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ نہیں کہا.کیونکہ جولوگ فوت ہو جاتے ہیں وہ خاص طور پر کسی مکان کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے بلکہ فی مَقْعَدِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۳ سورة ال عمران صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (القمر : ۵۶ ) ہوتے ہیں.یعنی اگر ان کا کوئی خاص مکان ہے تو یہی مکان ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا مکان جو حسب استعداد ان کو ملتا ہے، اب جب کہ قرآن کریم میں رافِعُك اتی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں.اگر جسمانی طور پر رفع مراد لیا جائے تو سخت اشکال پیش آتا ہے کیونکہ احادیث صحیحہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح معہ اپنے خالہ زاد بھائی کے دوسرے آسمان پر ہیں.تو کیا خدا تعالیٰ دوسرے آسمان میں بیٹھا ہوا ہے تا دوسرے آسمان میں ہونا رافِعُكَ اِلَى کا مصداق ہو جائے.بلکہ اس جگہ روحانی رفع مراد ہے جس کا حسب مراتب ایک خاص آسمان سے تعلق ہے.بخاری میں حدیث معراج کی پڑھو اور غور سے دیکھو.اب خلاصہ کلام یہ کہ ان تمام وجوہات کی رو سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عیسی وفات پا گئے ہیں بلاشبہ آیت انّی مُتَوَفِّيكَ حضرت عیسی کی وفات پر قطعی الدلالت ہے.عموم محاورہ قرآن شریف کا اسی پر دلالت کرتا ہے.بخاری میں حضرت ابن عباس کی روایت سے مُتوفیک کے معنے مُميتك لکھے ہیں اور بخاری نے کسی صحابی کی روایت سے کوئی دوسرے مُتوفیک کے معنے ہرگز اپنی صحیح میں نہیں لکھے اور نہ مسلم نے لکھے ہیں.بلکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فاعل ہونے اور انسان کے مفعول ہونے کی حالت میں بجر قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے.اسی بنا پر میں نے ہزار روپیہ کا اشتہار بھی دیا ہے.اب اگر یہ آیت مسیح ابن مریم کی وفات پر قطعیہ الدلالت نہیں تو دلائل مذکورہ بالا اور نیز دلائل مفصلہ مبسوطہ ازالہ اوہام کا جواب دینا چاہئے تا آپ کو ہزار روپیہ بھی مل جائے اور اپنے بھائیوں میں علمی شہرت بھی حاصل ہو جائے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱۴ تا ۲۱۶) دوسری دلیل مسیح ابن مریم کی وفات پر خود جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جس کو امام بخاری اپنی کتاب التفسیر میں اسی غرض سے لایا ہے کہ تا یہ ظاہر کرے کہ لما توفیتَنِی کے معنے لَمَّا آمَتَنِی ہے اور نیز اسی غرض سے اس موقعہ پر ابن عباس کی روایت سے مُتَوَفِّيكَ : مُبيتُک کی بھی روایت لایا ہے تا ظاہر کرے کہ لما توفیتَنِی کے وہی معنی ہیں جو انی متوفیک کے معنی ابن عباس نے ظاہر فرمائے ہیں.اس مقام پر بخاری کو غور سے دیکھ کر ادنی درجہ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ تو فیتنی کے معنی امنننی ہیں یعنی تو نے مجھے مار دیا.اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کا مزار موجود ہے.پھر جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی لفظ فلما توفیتنی کا حدیث بخاری میں اپنے لئے اختیار 119
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة ال عمران کیا ہے اور اپنے حق میں ویسا ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ حضرت عیسی کے حق میں مستعمل تھا تو کیا اس بات کو سمجھنے میں کچھ کسر رہ گئی کہ جیسا کہ آنحضرت صلعم وفات پاگئے ویسا ہی حضرت مسیح ابن مریم بھی وفات پاگئے.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور مفہوم آیات میں کسی طور سے تحریف جائز نہیں اور جو کچھ اصل منشاء اور اصل مفہوم اور اصل مراد ہر یک لفظ کی ہے اس سے عمد ا اس کو اور معنوں کی طرف پھیر دینا ایک الحاد ہے جس کے ارتکاب کا کوئی نبی یا غیر نبی مجاز نہیں ہے اس لئے کیوں کر ہوسکتا ہے کہ نبی معصوم بجز حالت تطابق کلی کے جو فی الواقع مسیح کی وفات سے اس کی وفات کو تھی لفظ فلما تو فیتنی کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا اور نعوذ باللہ تحریف کا مرتکب ہوتا بلکہ ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم امام المعصومین وسید المحفوظین نے ( رُوحِي فِدَاءُ سَبِيلَة ( لفظ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنى کا نہایت دیانت وامانت کے ساتھ انہیں مقررہ معینہ معنوں کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے کہ جیسا کہ وہ بعینہ حضرت عیسی کے حق میں وارد ہے.اب بھائیو! اگر حضرت سید و مولانا بجسده العصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور فوت نہیں ہوئے اور مدینہ میں ان کا مزار مطہر نہیں تو گواہ رہو کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ ایسا ہی حضرت عیسیٰ بھی آسمان کی طرف مجیدہ العصر کی اٹھائے گئے ہوں گے اور اگر ہمارے سید و مولیٰ وسید الکل ختم المرسلين افضل الاولین و الأخرين اول المحبوبين والمقربین در حقیقت فوت ہو چکے ہیں تو آؤ ! خدا تعالیٰ سے ڈرو اور فلما تو فیتنی کے پیارے لفظوں پر غور کرو جو ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میں اور اس عبد صالح میں مشترک بیان کئے ، جس کا نام مسیح ابن مریم ہے.بخاری اس مقام میں سورۃ آل عمران کی یہ آیت اتی مُتَوَفِّيكَ کیوں لایا؟ اور کیوں ابن عباس سے روایت کی کہ متوفيك : مُميتك ؟ اس کی وجہ بخاری کے صفحہ ۶۶۵ میں شارح بخاری نے لکھی ہے : هَذِهِ الْآيَةُ مُتَوَفِّيكَ مِنْ سُوْرَةِ إِلِ عِمْرَانَ ذَكَرَهُهُنَا لِمُنَاسَبَةِ فَلَمَّا تَوَفَّيَتَنى یعنی یہ آیت الى متوفيك سورت آل عمران میں ہے اور بخاری نے جو اس جگہ اس آیت کے ابن عباس سے یہ معنے گئے کہ مُتَوَفِّيكَ : لميتك تو اس کا یہ سبب ہے کہ بخاری نے فلما تو فیتنی کے معنی کھولنے کیلئے بوجہ مناسبت یہ فقرہ لکھ دیا ورنہ آل عمران کی آیت کو اس جگہ ذکر کرنے کا کوئی محل نہ تھا.اب دیکھئے ! شارح نے بھی اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ امام بخاری إلى مُتَوَفِّيكَ : مميتك کے لفظ کو شہادت کے طور پر بہ تقریب تفسیر آیت فَلَمَّا تَوفِّيْتَنِي (المائدة :۱۱۸) لایا ہے اور کتاب التفسیر میں جو بخاری نے ان دونوں متفرق آیتوں کو جمع کر کے لکھا ہے تو بجز اس کے اس کا اور کیا مدعا تھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۵ سورة ال عمران کہ وہ حضرت عیسی کی وفات خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت کر چکا ہے.اب جب کہ اصح الکتاب کی حدیث مرفوع متصل سے جس کے آپ طالب تھے حضرت عیسی کی وفات ثابت ہوئی اور قرآن کی قطعیۃ الدلالت شہادت اس کے ساتھ متفق ہوگئی اور ابن عباس جیسے صحابی نے بھی موت مسیح کا اظہار کر دیا تو اس دوہرے ثبوت کے بعد اور کس ثبوت کی حاجت رہی؟ میں اس جگہ اور دلائل لکھنا نہیں چاہتا.میری کتاب ازالہ اوہام موجود ہے آپ اس کو رد کر کے دکھلاویں.خود حق کھل جائے گا.حضرت عیسی وفات پاچکے اب آپ کسی طور سے ان کو زندہ نہیں کر سکتے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱۶ تا ۲۱۸) بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ آیت انی متوفیک میں صرف حضرت مسیح کی وفات کا وعدہ ہے جس سے صرف اس قدر نکلتا ہے کہ کسی وقت خدا تعالیٰ مسیح کو وفات دے دے گا، یہ تو نہیں نکلتا کہ وفات دے بھی دی مگر یہ لوگ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کے پورا ہونے کی بھی تو خبر دے دی جب کہ خود حضرت مسیح کی زبان سے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى (المائدة : ۱۱۸) کا ذکر بیان فرما دیا.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ کہ میں ایسا کرنے کو ہوں، خود یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ وہ وعدہ جلد پورا ہونے والا ہے اور اس میں کچھ توقف نہیں ، نہ یہ کہ رفع کا وعدہ تو اسی وقت پورا ہو جائے لیکن وفات دینے کا وعدہ ابھی تک جو دو ہزار برس کے قریب گزر گئے پورا ہونے میں نہ آوے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۶،۴۵) وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ قَدْ رَدَّ عَلى تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تمہارے أَقْوَالِكُمْ فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَ مَوْتَ اقوال کی تردید کی ہے اور مسیح علیہ السلام کی موت کو اسی طرح الْمَسِيحِ بِلَفْظِ التَّوَى كَمَا ذَكَرَ مَوْتَ تولی کے لفظ کے ساتھ بیان کیا ہے جیسے اس نے ہمارے نبينا بِذلِك اللَّفْظِ فَأَنْتُمْ تُؤَوّلُونَ نبي ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وفات کو اسی لفظ کے ساتھ ذکر ذلِكَ اللفظ فِي الْمَسِيحَ وَأَمَّا فِي سَيّدِنَا فرمایا.تم حضرت مسیح کے بارے میں تو اس لفظ کی تاویل فَلَا تُوَوّلُونَهُ فَتِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيری کرتے ہو لیکن رسول کریم صلی اللہ وسلم کے بارے میں وَخِيَانَةٌ فِي دِينِ اللهِ - اس کی تاویل نہیں کرتے یہ تو ناقص تقسیم اور اللہ تعالیٰ کے تحفہ بغداد، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۰) دین میں خیانت ہے.(ترجمہ از مرتب )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+4 سورة ال عمران وَ أَمَّا لَفْظُ التَّوَفِّى الَّذِي يُوجَدُ فِي مگر توفی کا لفظ جو قرآن میں حضرت مسیح اور دوسروں الْقُرْآنِ فِي حَقِّ الْمَسِيحِ وَغَيْرِهِ مِنْ بَنِی کے حق میں پایا جاتا ہے سواس میں بغیر معنے مارنے کے ادَمَ فَلَا سَبِيلَ فِيهِ إِلى تَأْوِيْلٍ أُخْرَى بِغَيْرِ اور کوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور یہ معنے مارنے کے ہم نے الْإِمَانَةِ، وَ أَخَذْنَا مَعْنَاهُ مِنَ النَّبِي وَمِن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بزرگ صحابہ سے لیے أَجَلِ الصَّحَابَةِ لَا مِنْ عِندِ أَنْفُسِنَا وَأَنْتَ ہیں.یہ نہیں کہ اپنی طرف سے گھڑے ہیں اور تو جانتا تَعْلَمُ أَنَّ الْإِمَاتَةَ أَمْرُ ثَابِتٌ دَائِم دَاخِل ہے کہ مارنا ایک امر ثابت دائم الوقوع اور خدا تعالیٰ کی فِي سُنَنِ اللَّهِ الْقَدِيمَةِ، وَمَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا قدیم سنتوں میں داخل ہے اور کوئی نبی ایسا نہیں جو فوت تُوُفِّى وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِ عِیسَی نہ ہوا ہو اور حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے جو نبی آئے الرُّسُلُ فَإِذَا تَعَارَضَ لَفْظ التَّوَفِّى وَلَفظ وہ فوت ہو چکے ہیں اور جبکہ لفظ نزول اور لفظ توفی میں النُّزُولِ فَإِنْ سَلَّمَنَا وَفَرَضْنَا صِيحَةَ معارضہ واقع ہوا پس اگر ہم حدیث کی صحت کو قبول کر الْحَدِيثِ فَلا بُدَّ لَنَا أَنْ تُوَوّلَ لَفَظَ اللُّزُولِ لیں تا ہم ہمارے لیے ضروری ہے کہ نزول کے لفظ کی فَإِنَّهُ لَيْسَ مَوضُوعِ لِزُولِ رَجُلٍ فِینَ تاویل کریں کیونکہ وہ دراصل آسمان سے اترنے کے السَّمَاءِ ، بَلْ وُضِعَ لِلْزُولِ مُسَافِرٍ من معنوں کے لیے موضوع نہیں ہے بلکہ وہ تو مسافروں کے نزول کے لئے وضع کیا گیا ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) أَرْضِ بِأَرْضِ نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۷۰،۶۹) انظُرُوا فِي الرَّسَالَةِ الْقَوْزِ الْكَبِيرِ رساله الفوز الکبیر وفتح الخبير جوحکیم الملت سید ولی اللہ وَفَتْحِ الْخَبِيرِ الَّتِي هِيَ تَفْسِيرُ الْقُرْآنِ شاہ صاحب دہلوی کی تصنیف ہے اور جس میں احادیث بِأَقْوَالِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَهِيَ مِن وَلِي الله نبویہ کے ذریعہ تفسیر قرآن بیان ہوئی ہے اسے دیکھیں! الدهلوي حَكِيمِ الْمِلَّةِ، قَالَ مُتَوَفِّيكَ اس میں انہوں نے مُتَوَفِّيكَ كے معنے مُبيتُك كئے مُمِيْتُكَ وَلَمْ يَقُلْ غَيْرَهَا مِنَ الْكَلِمَةِ، وَلَمْ ہیں اور اس کے خلاف کوئی اور بات نہیں کہی اور نہ اس يَذْكُرُ مَعْنَى سِوَاهَا اتَّبَاعًا لِمَعْلٰی خَرَجَ کے سوا اور کوئی معنے نقل کئے ہیں اور ایسا کرنے میں انہوں نے ان معنے کا تتبع کیا ہے جو نور نبوت سے ظاہر من مشكاة النبوة (إثْمَامُ الْحَجَّةِ ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۷۹) ہوئے ہیں.(ترجمہ از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة ال عمران اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو جگہ توفی کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی قرآن کریم میں آیا ہے اور ایسا ہی حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا میں بھی یہی لفظ اللہ جل شانہ نے ذکر فرمایا ہے اور کتنے اور مقامات میں بھی موجود ہے.اور ان تمام مقامات پر نظر ڈالنے سے ایک منصف مزاج آدمی پورے اطمینان سے سمجھ سکتا ہے کہ توفی کے معنے ہر جگہ قبض روح اور مارنے کے ہیں نہ اور کچھ.کتب حدیث میں بھی یہی محاورہ بھرا ہوا ہے.کتب حدیث میں توفی کے لفظ کو صد با جگہ پاؤ گے مگر کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ بجز مارنے کے کسی اور معنے پر بھی استعمال ہوا ہے؟ ہرگز نہیں ! بلکہ اگر ایک اُمی آدمی عرب کو کہا جائے کہ توفی زید تو وہ اس فقرہ سے یہی سمجھے گا کہ زید وفات پا گیا.خیر عربوں کا عام محاورہ بھی جانے دو، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی صحابی یا آپ کے عزیزوں میں سے فوت ہوتا تو آپ توفی کے لفظ سے ہی اس کی وفات ظاہر کرتے تھے اور جب آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو صحابہ نے بھی توفی کے لفظ سے ہی آپ کی وفات ظاہر کی.اسی طرح حضرت ابوبکر کی وفات ، حضرت عمر کی وفات.غرض تمام صحابہ کی وفات توفی کے لفظ سے ہی تقریراً تحریر ابیان ہوئی اور مسلمانوں کی وفات کے لئے یہ لفظ ایک عزت کا قرار پایا تو پھر جب مسیح پر یہی وارد ہوا تو کیوں اس کے خود تراشیدہ معنے لئے جاتے ہیں؟ اگر یہ عام محاورہ کا فیصلہ منظور نہیں تو دوسرا طریق فیصلہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ جو مسیح کے متعلق قرآنی آیات میں توفی کا لفظ موجود ہے اس کے معنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کیا کئے ہیں.چنانچہ ہم نے یہ تحقیقات بھی کی تو بعد دریافت ثابت ہوا کہ صحیح بخاری میں یعنی کتاب التفسیر میں آیت فَلَمَّا توليتنی کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مارنا ہی لکھا ہے اور پھر اس موقعہ پر آيت إني مُتَوَفيك کے معنے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مُبيتك درج ہیں یعنی اے عیسی ! میں تجھے مارنے والا ہوں.اتمام الحجة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۹۲، ۲۹۳) مسئلہ وفات مسیح میں کسی جگہ حدیث نے قرآن شریف کی مخالفت نہیں کی بلکہ تصدیق کی.قرآن میں مُتَوَفِّيكَ آیا ہے ، حدیث میں مُبينك آ گیا ہے.قرآن میں فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي آیا ، حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی لفظ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی بغیر تغییر و تبدیل کے اپنے پر وارد کر کے ظاہر فرما دیا کہ اس کے معنے مارنا ہے نہ اور کچھ اور نبی کی شان سے بعید ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرادی معنوں کی تحریف کرے.
۱۰۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران اور ایک آیت قرآن شریف کی جس کے معنے خدا تعالیٰ کے نزدیک زندہ اٹھا لینا ہو اسی کو اپنی طرف منسوب کر کے اس کے معنے مار دینا کر دیوے یہ تو خیانت اور تحریف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس گندی کارروائی کو منسوب کرنا میرے نزدیک اول درجہ کا فسق بلکہ کفر کے قریب قریب ہے.افسوس ! کہ حضرت عیسی کی زندگی ثابت کرنے کے لئے ان خیانت پیشہ مولویوں کی کہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی محرف القرآن ٹھہرایا بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْخَالِدِينَ الكاذبين یہ بات نہایت سیدھی اور صاف تھی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کو اسی طرح اپنی ذات کی نسبت منسوب کر لیا جیسا کہ وہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تھی اور منسوب کرنے کے وقت یہ نہ فرمایا کہ اس آیت کو جب حضرت عیسی کی طرف منسوب کریں تو اس کے اور معنے ہوں گے اور جب میری طرف منسوب ہو تو اس کے اور معنے ہیں.حالانکہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت میں کوئی معنوی تغییر و تبدیل ہوتی تو رفع فتنہ کے لئے یہ عین فرض تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس تشبیہ وتمثیل کے موقعہ پر فرما دیتے کہ میرے اس بیان سے کہیں یوں نہ سمجھ لینا کہ جس طرح میں قیامت کے دن فلما توفیتنی کہہ کر جناب الہی میں ظاہر کروں گا کہ بگڑنے والے لوگ میری وفات کے بعد بگڑے.اسی طرح حضرت مسیح بھی فلما توفيتنى کہہ کر یہی کہیں گے کہ میری وفات کے بعد میری امت کے لوگ بگڑے کیونکہ فلما توفیتنی سے میں تو اپنا وفات پا نا مرا در کھتا ہوں لیکن مسیح کی زبان سے جب فَلَمَّا تَوَفِّيتَنى نکلے گا تو اس سے وفات پانا مراد نہیں ہوگا بلکہ زندہ اٹھایا جانا مراد ہوگا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرق کر کے نہیں دکھلایا جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موقعوں پر ایک ہی معنے مراد لئے ہیں.پس اب ذرا آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ جبکہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کے لفظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسی دونوں شریک ہیں گویا یہ آیت دونوں کے حق میں وارد ہے تو اس آیت کے خواہ کوئی معنے کر و دونوں اس میں شریک ہوں گے.سو اگر تم یہ کہو کہ اس جگہ توفی کے معنے زندہ آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہے تو تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ اس زندہ اٹھائے جانے میں حضرت عیسی کی کچھ خصوصیت نہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں کیونکہ آیت میں دونوں کی مساوی شراکت ہے.لیکن یہ تو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ وفات پاگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کی قبر موجود ہے تو پھر اس سے تو بہر حال ماننا پڑا کہ حضرت عیسی بھی وفات پاگئے ہیں.(اتمام الحجة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۹۶،۲۹۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة ال عمران قرآن میں رفع الی اللہ کا ذکر ہے نہ رفع الی السماء کا پھر جبکہ اللہ جل شانہ نے یہ فرمایا ہے کہ: يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إلى تو اس سے قطعی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رفع موت کے بعد ہے کیونکہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا، سو اس میں کیا کلام ہے کہ w خدا کے نیک بندے وفات کے بعد خدا کی طرف اٹھائے جاتے ہیں.سو وفات کے بعد نیک بندوں کا رفع ہونا سنت اللہ میں داخل ہے مگر وفات کے بعد جسم کا اٹھایا جانا سنت اللہ میں داخل نہیں اور یہ کہنا کہ توفی کے معنی اس جگہ سونا ہے سراسر الحاد ہے کیونکہ صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ مُتَوَفِّيكَ مبيتك اور اس کی تائید میں صاحب بخاری اسی محل میں ایک حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لایا ہے پس جو معنی توفی کے ابن عباس اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام متنازعہ فیہ میں ثابت ہو چکے اس کے برخلاف کوئی اور معنی کرنا یہی ملحدانہ طریق ہے.مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام متنازعہ فیہ میں یہی معنی کئے پس بڑی بے ایمانی ہے جو نبی کریم کے معنوں کو ترک کر دیا جائے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۸) وَأَمَّا نَحْنُ فَمَا تَقُولُ في مَعْنَى مگر ہم تو لفظ توفی کے معنے کے بارے وہی کچھ کہتے التَّوَى إِلَّا مَا قَالَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ، وَأَصْحَابُهُ ہیں جو ہمارے رسول خیر الخلق صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ مَّنْبَعِ النُّبُوَّةِ کے ان صحابہ نے جو چشمہ نبوت سے علم دیئے گئے تھے وَمَا تَقْبَلُ خِلَافَ ذَالِكَ رَأَى أَحَدٍ وَلَا فرمایا ہے اور اس کے خلاف کسی کی رائے اور کسی کے قول قَوْلَ قَائِلٍ إِلَّا مَا وَافَقَ قَوْلَ الله وَقَوْلَ کو قبول نہیں کرتے.سوائے اس قول کے جو اللہ تعالی اور خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ.وَإِذَا حَصْحَصَ الْحَقُّ في رسول اكرم صلى اللہ علیہ وسلم کے قول کے موافق ہو.مَعْنَى التَّوَى مِن لِسَانِ خَاتَمِ النَّبِيِّين، خصوصاً جب کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وثَبَتَ أَنَّ التَّوَل هُوَ الإماتة والافنا مبارک سے توفی کے معنے کے بارہ میں حق ظاہر ہو گیا ہے لَا الرَّفْعُ وَالْإِسْتِيْفَاءُ، كَمَا هُوَ زَعَمَ اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ توفی کے معنے مارنے اور فنا المخالفين.کرنے کے ہیں نہ کہ اٹھانے یا پورا پورا لینے کے جیسا کہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۳۰ ۱۳۱۰) مخالفین کا خیال ہے.( ترجمہ از مرتب) لَا يُمْكِنُ لِأَحَدٍ أَنْ يَأْتِي بِأَثَرٍ مِّن کسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ صحابہ کرام کی کوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11.سورة ال عمران الصَّحَابَةِ أَوْ حَدِيدٍ مِنْ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، في روايت يا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پیش کر تَفْسِيرِ لَفْظِ التَّوَى بِغَيْرِ مَعْنَى الْإِمَانَةِ سکے جس میں لفظ توفی کے معنے مارنے کے سوا کچھ اور بیان وَلَا يَقْدِرُونَ عَلَيْهِ أَبَدًا وَلَوْ مَاتُوا ہوئے ہوں اور مخالفین ہرگز ہرگز ایسا کرنے پر قادر نہیں ہوں بِالْحَسْرَةِ فَأَى دَلِيلِ أَكْبَرُ من ذلك لو کان کے اگر چہ حسرت سے مر ہی جائیں پس اگر کسی کے دل میں فِي قَلْبٍ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ الْخَشْيَةِ ذرا بھر بھی خشیت اللہ پائی جاتی ہو.تو اس کے لئے اس انجام آنظم ، روحانی خزائن جلدا ا صفحہ (۱۳۳) سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوگی.( ترجمہ از مرتب ) وَأَمَّا لَفْظ التولي الذي يُفَتِّشُونَه في لفظ تولّی جسے وہ عربی لغت میں تلاش کرتے ہیں اس اللَّسَانِ الْعَرَبِيَّةِ، فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُسْتَعْمَلُ کے بارے میں یادر ہے کہ سوائے مارنے کے اس زبان حَقِيقَةٌ إِلَّا لِلإِمَاتَةِ في هَذِهِ اللَّهْجَةِ میں کسی اور معنے میں از روئے حقیقت وہ استعمال نہیں ہوتا.سَيَّمَا إِذَا كَانَ فَاعِلُهُ الله وَالْمَفْعُولُ خصوصاً اس وقت جب اس کا فاعل اللہ اور مفعول کوئی انسان رَجُلًا أَوْ مِنَ النِّسْوَةِ، فَلَا يَأْتِي إِلَّا يَمَعْنَى مرد یا عورت ہو.پس اس صورت میں سوائے قبض روح قَبْضِ الرُّوحِ وَالْإِمَاتَةِ وَمَا تَری خلاف کے اور موت دئے جانے کے اور کسی معنے میں استعمال نہیں ذَالِك فِي كُتب اللُّغَةِ وَالْأَدَبِيَّةِ وَ مَنْ ہوتا اور کتب لغت اور ادب میں اس کے خلاف ہرگز کوئی فَتَش لُغَاتَ الْعَرَبِ، وَأَنطى إِلَيْهَا معنے نہیں پاؤ گے اور جو کوئی بھی لغت عربی کی تفتیش کرے اور رِكَابَ القَلْبِ، لَن تَجِدَ هَذَا اللفظ في جستجو کی سواریوں کو اس غرض کے لئے لاغر کرے وہ بھی اس مِثْلِ هَذِهِ الْمَقَامَاتِ إِلَّا مَعْنَى الْإِمَاتَةِ لفظ کو ایسے مقامات میں صرف مارنے اور اللہ کی طرف سے وَالْإِهْلَاكِ مِنَ اللهِ رَبِّ الْكَائِنَاتِ وَقَدْ ہلاک کئے جانے کے معنے میں پائے گا اور یہ لفظ قرآن کریم ذكر هذا اللّفظ مِرَارًا فِي الْقُرْآنِ، وَوَضَعَهُ میں بارہا بیان ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس لفظ کو امانت کی اللهُ فِي مَوَاضِعِ الْإِمَاتَةِ وَأَقَامَهُ مَقَامَهَا جگہ پر ہی رکھا ہے اور موت کے لفظ کا قائم مقام بنایا ہے اور في الْبَيَانِ وَالسّر في ذلك أَن لفظ التَّوفى اس میں بھید یہ ہے کہ لفظ توفی متوفی کے وفات پا جانے يَقْتَدِى وُجُودَ شَيْءٍ بَعْدَ الْمَمَاتِ، فَهَذَا کے بعد بھی اس کے باقی رہنے کا مقتضی ہے اور اس میں ان رَةٌ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْتَقِدُونَ بِبَقَاءِ الْأَزْوَاج لوگوں کی تردید ہے جو موت کے بعد بقائے ارواح کے بَعْدَ الْوَفَاةِ فَإِنَّ لَفَظَ التَّوَقِّ يُؤْخَذُ مِن قائل نہیں ہیں کیونکہ لفظ تو فی استیفا سے ماخوذ ہے اور اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 111 سورة ال عمران الْإِسْتِيْفَاءِ، وَ فِيْهِ إِشَارَةٌ إِلى أَخْذِ شَيْءٍ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ موت اور فنا کے بعد بھی فنا بَعْدَ الْإِمَاتَةِ وَالْإِفْنَاءِ وَالْأَخْذُ يَدُلُّ عَلَی کسی چیز کا اخذ (لینا) موجود ہے اور کسی چیز کا ماخوذ ہونا الْبَقَاءِ، فَإِنَّ الْمَعْدُومَ لا يُؤْخَذُ وَلَا يَليقُ اس کے باقی رہنے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جو چیز معدوم بِالْأَخْلِ وَالْاِقْتِنَاء، وَ هذَا مِنَ الْعُلُومِ ہو وہ ماخوذ نہیں ہو سکتی اور یہ نکتہ علوم حکمیہ قرآنیہ میں سے الْحِكَمِيَّةِ الْقُرانِيَةِ فَإِنَّهُ رَجَعَ الْقَوْمَ إلى ہے.کیونکہ قرآن نے عرب قوم کو ان کی زبان کی طرف لِسَانِهِمُ الْمُبَارَكَةِ الْإِلْهَامِيَّةِ، لِيَعْلَمُوا جو مبارک اور الہامی ہے توجہ دلائی ہے تا وہ جان لیں کہ أَن الأَرْوَاحَ بَاقِيَةُ وَالْمَعَادَ حَقٌّ، وَلَيَنْعَمُوا ارواح باقی رہیں گی اور قیامت برحق ہے اور تا کہ وہ مِنْ عَقَائِدِ الدَّهْرِييْنَ وَالطَّبِيعِيين.دہریوں اور نیچریوں کے عقائد سے بچ جائیں.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۱۵۳، ۱۵۴) (ترجمه از مرتب) لَمَّا كَانَ الْمَلْحُوظ في معنى القولى چونکہ لفظ توئی میں اماتت مع الابقاء کا مفہوم ملحوظ ہوتا مَفْهُوْمَ الْإِمَاتَةِ مَعَ الْاِ بْقَاءِ، فَلِأَجْلِ ہے اس لئے یہی لفظ انسان کے سوا کسی اور کے لئے ذلك لا يُسْتَعْمَلُ هذا اللفظ فى غير استعمال نہیں ہوتا.انسان کے علاوہ دوسری چیزوں کے الْإِنْسَانِ بَلْ يُسْتَعْمَلُ في غَيْرِهِ لفظ لئے لفظ امانت و اہلاک وافتاء استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً الْإِمَاتَةِ وَالْإِهْلَاكِ وَالْإِفْنَاءِ مَثَلًا لَّا یہ نہیں کہتے تَوَلَّى اللَّهُ الْحِمَارِ، أَوِ الْقُنْفُنَ وَالْأَفْغَى يُقَالُ تَوَلَّى اللَّهُ الْحِمَارَ، أَوِ الْعُنْفُلَ وَالْأَفْغَى وَالْفَأَرَ، کہ اللہ نے فلاں گدھے یا کچھوے یا اژدھا یا وَالْفَاتِ، فَإِنَّ أَرْوَاحَهَا لَيْسَتْ بِبَاقِيَة چوہے کی توپیچ کی کیونکہ ان جانوروں کی روحیں انسانی روحوں کی طرح باقی رہنے والی نہیں.( ترجمہ از مرتب) كَأَرْوَاحِ الْأَدَمِثِينَ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۵۴ حاشیه ) وَلَنَصْتُ في كَلَامِ الْقَوْمِ وَ تَصَخَفتُ کیا میں نے اہل عرب کے کلام کی ورق گردانی کی اور اسے فَمَا وَجَدتُ لفظ التوفي في كلامٍ أَو شِعْرِ خوب اچھی طرح جانچا مجھے کسی ادیب کے کلام یاکسی شاعر کے الشعراء، إلَّا يتغنى الإِمَا تَةِ مَعَ الإِبقاء شعر میں توفی کے لفظ کے معنے امانة مع الابقاء کے سوا وَمَا اسْتَعْمَلُوا فِي غَيْرِهِ إِلَّا بَعْدَ إِقَامَةِ کچھ نہیں ملے ان لوگوں نے لفظ توفی کا استعمال مذکورہ بالا ا سہو کتابت ہے.ترجمہ کی روشنی میں صحیح لفظ ” تصفحت“ ہے.ناشر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٢ سورة ال عمران الْقَرِينَةِ وَالْإِيمَاءِ ، وَمَا جَاءُوا به في معنوں کے سوا قرینہ اور اشارہ کے بغیر نہیں کیا، اور اگر اللہ صُورَةٍ كَوْنِ اللهِ فَاعِلًا إِلَّا ذَا الْمَعْلى فاعل ہو تو اس کے معنے صرف مارنے کے ہی ہوتے ہیں.وَيَعْلَمُهُ كُلُّ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ الْعَرْبِ مِن اس بات کو علماء عرب میں سے ہر شخص جانتا ہے خواہ وہ ادنی الأعلى إلى الأخلى، وَإِذَا كَتَبْتَ مَثَلًا إلى ہو یا اعلیٰ مثلاً اگر تو کسی اہل زبان کی طرف یہ لکھے کہ ان أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ هَذَا اللَّسَانِ إِنَّ اللهَ تَوَفَّى اللَّهَ تَوَفَّى فَلَانًا مِنَ الْأَحْبَابِ أَوِ الْجِيْرَانِ کہ فلاں فُلَانًا مِنَ الْأَحْبَابِ أَوِ الْجِيرَانِ، فَلَا شخص کو خدا نے وفات دے دی ہے تو وہ عرب سوائے اس يَفْهَمُ مِنْهُ هذَا الْعَرَبِيُّ إِلَّا وَفَاةَ ذلِكَ کے اور کچھ نہیں سمجھے گا کہ وہ شخص وفات پا گیا اور یہ ہرگز الْإِنْسَانِ، وَلَا يَزْعَمُ أَبَدًا أَنَّهُ أَنَامَهُ أَوْ گمان نہیں کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سلا دیا ہے.یا رَفَعَهُ بِالْجِسْمِ مِنْ ذلِكَ الْمَكَانِ بَل اس جگہ سے زندہ مع جسم اٹھا لیا ہے بلکہ فوراً اس شخص کی يَسْتَرْجِعُ عَلَى مَوْتِهِ كَمَا هُوَ عَادَةُ موت پر آگاہ ہو کر مومنوں کی عادت کے مطابق إِنَّا لِلہ الْمُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھے گا.( ترجمہ از مرتب ) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۵۶) براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی يعيسى إني مُتَوَفِّيكَ جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت إِنِّي خوب معنے کھلے یعنی یہ الہام حضرت عیسی کو اس وقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہودان کے مصلوب کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے.اور اس جگہ بجائے یہود، ہنود کوشش کر رہے ہیں اور الہام کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا.دیکھو! اس واقعہ نے عیسی کا نام اس عاجز پر کیسے چسپاں کر دیا (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۳ حاشیه ) ہے.اے عیسیٰ میں تجھے طبیعی وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.اور تیرے تابعین کو ان لوگوں پر غلبہ بخشوں گا جو مخالف ہوں گے......یہ آیت حضرت مسیح پر اس وقت نازل ہوئی تھی کہ جب ان کی جان یہودیوں کے منصوبوں سے نہایت گھبراہٹ میں تھی اور یہودی اپنی خباثت سے ان کے مصلوب کرنے کی فکر میں تھے تا مجرمانہ موت کا داغ ان پر لگ کر توریت کی ایک آیت کے موافق ان کو ملعون ٹھہر اویں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہے.چونکہ صلیب کو جرائم پیشہ سے قدیم طریق سزا دہی کی وجہ سے ایک مناسبت پیدا ہو گئی تھی اور ہر ایک خونی اور نہایت درجہ کا ہد کا رصلیب کے ذریعہ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٣ سورة ال عمران سزا پاتا تھا اس لئے خدا کی تقدیر نے راستبازوں پر صلیب کو حرام کر دیا تھا تا پاک کو پلید سے مشابہت پیدا نہ ہو.پس یہ عجیب بات ہے کہ کوئی نبی مصلوب نہیں ہوا تا ان کی سچائی عوام کی نظر میں مشتبہ نہ ہو جائے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو ایسے اضطراب کے زمانہ میں تسلی دی تھی کہ جب یہودی ان کے مصلوب کرنے کی فکر میں تھے.اب جو یہ آیت براہین احمدیہ میں اس عاجز پر بطور الہام نازل ہوئی تو اس میں ایک بار یک اشارہ یہ ہے کہ اس عاجز کو بھی ایسا واقعہ پیش آئے گا کہ لوگ قتل کرنے یا مصلوب کرانے کے منصوبے کریں گے تا یہ عاجز جرائم پیشہ کی سزا پا کر حق مشتبہ ہو جائے.سو اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس عاجز کا نام عیسی رکھ کر اور وفات دینے کا ذکر کر کے ایما فرماتا ہے کہ یہ منصوبے پیش نہیں جائیں گے اور میں ان کی شرارتوں سے محافظ ہوں گا.(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۳، ۴۴) اس بشارت کی حضرت عیسی کے حق میں بھی ضرورت پڑی تھی کہ اس وقت یہودیوں کی ہر روز کی دھمکیوں سے ان کی جان خطرہ میں تھی اور یہودی لوگ ایک ایسی موت کی ان کو دھمکی دیتے تھے جس موت کو ایک مجرمانہ موت سمجھ سکتے ہیں اور جس پر توریت کے رو سے بھی راستبازی کی شان کو دھبہ لگتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے پر خطر وقت میں ایسی پلید اور لعنتی موت سے ان کو بچا لیا.پس اس الہام میں جو اسی آیت کے ساتھ اس عاجز کو ہوا یہ ایک نہایت لطیف پیشگوئی ہے جو آج کے دن سے سترہ برس پہلے کی گئی اور یہ بآواز بلند بتلا رہی ہے کہ وہی واقعہ اس جگہ بھی پیش آئے گا.اور اس عاجز کو ٹیسی کے نام سے مخاطب کر کے یہ کہنا کہ اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.یہ در حقیقت اس واقعہ کا نقشہ دکھلانا ہے جو حضرت عیسی کو پیش آیا تھا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ یہود نے اس ارداہ سے ان کو قتل کرنا چاہا تھا کہ ان کا کا ذب ہونا ثابت کریں اور انہوں نے یہ پہلو ہاتھ میں لیا تھا کہ ہم صلیب کے ذریعہ سے اس کو قتل کریں گے اور مصلوب لعنتی ہوتا ہے اور لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان بے ایمان اور خدا سے برگشتہ اور دور اور مہجور ہو.اور اس طرح پر ان کا کا ذب ہونا ثابت ہو جائے گا.اور خدا نے ان کو تسلی دی کہ تو ایسی موت سے نہیں مرے گا جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ تولعنتی اور خدا سے دور اور مہجور ہے بلکہ میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی زیادہ سے زیادہ تیرا قرب ثابت کروں گا اور یہود اپنے اس ارادہ میں نامر اور ہیں گے.پس لفظ رفع کے مفہوم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی بھی ایک پیشگوئی مخفی تھی کیونکہ جس سچائی کے زیادہ ظاہر ہونے کا وعدہ تھا وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے وقوع میں آئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورة ال عمران سچے نبی کو بغیر شہادت کے نہ چھوڑا.(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۶ تا ۴۸) یہ وعدہ اس عاجز کو بھی دیا گیا کہ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.چنانچہ اسی آیت کو بطور الہام اس عاجز کے حق میں بھی نازل فرمایا ہے جس سے ہمارے علما ء رفع عصری مراد لیتے ہیں اور میں دلائل سے ثابت کر چکا ہوں کہ یہ آیت میرے حق میں بھی الہام ہوئی ہے.تو اب کیا میری نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ میں معہ جسم عصری آسمان کی طرف اٹھایا جاؤں گا.اگر کہو کہ تمہارا الہام ثابت نہیں تو یہ عذر فضول ہوگا کیونکہ جس لطیف پیشگوئی پر یہ الہام مشتمل ہے وہ ظہور میں آگئی ہے پس اسی دلیل سے الہام کا سچا ہونا ثابت ہو گیا.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۸ حاشیه ) منجملہ قرآن کی ضرورتوں کے ایک یہ امر بھی تھا کہ جو اختلاف حضرت مسیح کی نسبت یہود اور نصاریٰ میں واقع تھا اس کو دور کرے سو قرآن شریف نے ان سب جھگڑوں کا فیصلہ کیا.جیسا کہ قرآن شریف کی یہ آیت : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إلى الغ اسی جھگڑے کے فیصلہ کے لئے ہے کیونکہ یہودی لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ نصاریٰ کا نبی یعنی مسیح صلیب پر کھینچا گیا.اس لئے موافق حکم توریت کے وہ لعنتی ہوا اور اس کا رفع نہیں ہوا اور یہ دلیل اس کے کاذب ہونے کی ہے.اور عیسائیوں کا یہ خیال تھا کہ لعنتی تو ہوا مگر ہمارے لئے اور بعد اس کے لعنت جاتی رہی اور رفع ہو گیا اور خدا نے اپنے دینے ہاتھ اس کو بٹھا لیا.اب اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ رفع بلا توقف ہوا، نہ یہودیوں کے زعم پر دائگی لعنت ہوئی جو ہمیشہ کے لئے رفع الی اللہ سے مانع ہے اور نہ نصاری کے زعم پر چند روز لعنت رہی اور پھر رفع الی اللہ ہوا بلکہ وفات کے ساتھ ہی رفع الی اللہ ہو گیا.اور ان ہی آیات میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی سمجھا دیا کہ یہ رفع توریت کے احکام کے مخالف نہیں کیونکہ توریت کا حکم عدم رفع اور لعنت اس حالت میں ہے کہ جب کوئی صلیب پر مارا جائے.مگر صرف صلیب کے چھونے یا صلیب پر کچھ ایسی تکلیف اٹھانے سے جو موت کی حد تک نہیں پہنچتی لعنت لازم نہیں آتی اور نہ عدم رفع لازم آتا ہے.کیونکہ توریت کا منشاء یہ ہے کہ صلیب خدا تعالی کی طرف سے جرائم پیشہ کی موت کا ذریعہ ہے.پس جو شخص صلیب پر مر گیا وہ مجرمانہ موت مرا جو لعنتی موت ہے لیکن مسیح صلیب پر نہیں مرا اور اس کو خدا نے صلیب کی موت سے بچا لیا.بلکہ جیسا کہ اس نے کہا تھا کہ میری حالت یونس سے مشابہ ہے ایسا ہی ہوا نہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہ یسوع صلیب کے پیٹ پر.اور اس کی دعا: ایلی ایلی لما سبقتانی سنی گئی.اگر مرتا تو پیلاطوس پر بھی ضرور و بال آتا کیونکہ فرشتہ نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ سورة ال عمران پیلاطوس کی جورو کو یہ خبر دی تھی کہ اگر یسوع مر گیا تو یادرکھ کہ تم پر و بال آئے گا مگر پیلاطوس پر کوئی وبال نہ آیا اور یہ بھی یسوع کے زندہ رہنے کی ایک نشانی ہے کہ اس کی ہڈیاں صلیب کے وقت نہیں توڑی گئیں اور صلیب پر سے اتارنے کے بعد چھیدنے سے خون بھی نکلا اور اس نے حواریوں کو صلیب کے بعد اپنے زخم دکھلائے اور ظاہر ہے کہ نئی زندگی کے ساتھ زخموں کا ہونا ممکن نہ تھا.پس اس سے ثابت ہوا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا اس لئے لعنتی بھی نہیں ہوا اور بلاشبہ اس نے پاک وفات پائی اور خدا کے تمام پاک رسولوں کی طرح موت کے بعد وہ بھی خدا کی طرف اٹھایا گیا اور بموجب وعده إلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ الی اس کا خدا کی طرف رفع ہوا.اگر وہ صلیب پر مرتا تو اپنے قول سے خود جھوٹا ٹھہرتا کیونکہ اس صورت میں یونس کے ساتھ اس کی کچھ بھی مشابہت نہ ہوتی.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۵۴،۳۵۳) شیخ محی الدین ابن العربی کا بھی یہی مذہب ہے..........یعنی عیسی کے رفع کے یہ معنی ہیں کہ ہے.جب عالم سفلی سے اس کی روح خدا ہوئی تو عالم بالا سے اس کا اتصال ہو گیا.پھر (اپنی تفسیر کے ) صفحہ ۱۷۸ میں لکھتے ہیں کہ رفع کے یہ معنی ہیں کہ عیسی کی روح اس کے قبض کرنے کے بعد روحوں کے آسمان میں پہنچائی گئی.فَتَدبر ! (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲، ۲۳ حاشیه ) افسوس کہ ہمارے کج فہم علماء پر کہاں تک غباوت اور بلادت وارد ہو گئی ہے کہ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ قرآن نے اگر اس آیت میں کہ اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى ، رفع جسمانی کا ذکر کیا ہے تو اس ذکر کا کیا موقع تھا اور کون سا جھگڑا اس بارے میں یہود اور نصاری کا تھا؟ تمام جھگڑا تو یہی تھا کہ صلیب کی وجہ سے یہود کو بہانہ ہاتھ آ گیا تھا کہ نعوذ باللہ ! یہ شخص یعنی حضرت عیسی علیہ السلام ملعون ہے یعنی اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور جب رفع نہ ہوا تو لعنتی ہو نا لا زم آیا کیونکہ رفع الی اللہ کی ضد لعنت ہے.اور یہ ایک ایسا انکار تھا جس سے حضرت عیسی علیہ السلام اپنے نبوت کے دعوے میں جھوٹے مظہر تے تھے کیونکہ توریت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص مصلوب ہو اس کا رفع الی اللہ نہیں ہوتا یعنی مرنے کے بعد راستبازوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اس کی روح اٹھائی نہیں جاتی یعنی ایسا شخص ہر گز نجات نہیں پاتا.پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے سچے نبی کے دامن کو اس تہمت سے پاک کرے اس لئے اس نے قرآن میں یہ ذکر کیا : وما قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ ( النساء : ۱۵۸).اور یہ فرما یا لعيسى إني مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى - تا معلوم ہو کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 117 سورة ال عمران یہودی جھوٹے ہیں.اور حضرت عیسی علیہ السلام کا اور سچے نبیوں کی طرح رفع الی اللہ ہو گیا اور یہی وجہ ہے جو اس آیت میں یہ لفظ نہیں فرمائے گئے کہ رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رَافِعُكَ إلى تا صریح طور پر ہر ایک کو معلوم ہو کہ یہ رفع روحانی ہے نہ جسمانی کیونکہ خدا کی جناب جس کی طرف راستبازوں کا رفع ہوتا ہے روحانی ہے نہ جسمانی اور خدا کی طرف روح چڑھتے ہیں نہ کہ جسم.اور خدا تعالیٰ نے جو اس آیت میں توٹی کو پہلے رکھا اور رفع کو بعد تو اسی واسطے یہ ترتیب اختیار کی کہ تاہر ایک کو معلوم ہو کہ یہ وہ رفع ہے کہ جو راستبازوں کے لئے موت کے بعد ہوا کرتا ہے.ہمیں نہیں چاہیے کہ یہودیوں کی طرح تحریف کر کے یہ کہیں کہ دراصل توفی کا لفظ بعد میں ہے اور رفع کا لفظ پہلے کیونکہ بغیر کسی محکم اور قطعی دلیل کے محض ظنون اور اوہام کی بنا پر قرآن کو الٹ پلٹ دینا ان لوگوں کا کام ہے جن کی روحیں یہودیوں کی روحوں سے مشابہت رکھتی ہیں.پھر جس حالت میں آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸).میں بیان فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں کا تمام بگاڑ اور گمراہی حضرت عیسی کی وفات کے بعد ہوئی ہے تو اب سوچنا چاہیے کہ حضرت عیسی کو اب تک زندہ ماننے میں یہ اقرار بھی کرنا پڑتا ہے کہ اب تک عیسائی بھی گمراہ نہیں ہوئے اور یہ ایک ایسا خیال ہے جس سے ایمان جانے کا نہایت مخطرہ ہے.(کتاب البریۃ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۳ تا ۲۵) اس آیت میں یہود کے اس قول کا رد ہے کہ وہ کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا اس لئے ملعون ہے اور خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا اور عیسائی کہتے تھے کہ تین دن لعنتی رہ کر پھر رفع ہوا اور اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ بعد وفات بلا توقف خدا تعالیٰ کی طرف عیسی کا رفع روحانی ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جگہ رافعك الى السماء نہیں کہا بلکہ رافعک الی فرمایا تا رفع جسمانی کا شبہ نہ گزرے کیونکہ جو خدا کی طرف جاتا ہے وہ روح سے جاتا ہے نہ جسم سے ارجعي إلى ربّكِ ( الفجر : ۲۹) اس کی نظیر ہے غرض اس طرح پر یہ جھگڑا فیصلہ پایا مگر ہمارے نادان مخالف جو رفع جسمانی کے قائل ہیں وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جسمانی رفع امر متنازع فیہ نہ تھا اور اگر اس بے تعلق امر کو بفرض محال قبول کر لیں تو پھر یہ سوال ہوگا کہ جو جسمانی رفع کے متعلق یہود اور نصاریٰ میں جھگڑا تھا اس کا فیصلہ قرآن کی کن آیات میں بیان فرمایا گیا ہے آخر لوٹ کر اسی طرف آنا پڑے گا کہ وہ آیات یہی ہیں.(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۵۴) اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا اور وفات کے بعد تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے اُن الزاموں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران سے پاک کروں گا جو تیرے پر اُن لوگوں نے لگائے جنہوں نے تیری راستبازی کو قبول نہ کیا.اب ظاہر ہے کہ اس جگہ رفع جسمانی کی کوئی بحث نہ تھی اور یہودیوں کے عقیدہ میں یہ ہرگز داخل نہیں کہ جس کا رفع جسمانی نہ ہو وہ نبی یا مومن نہیں ہوتا.پس اس بے ہودہ قصے کے چھیڑنے کی کیا حاجت تھی.خدا تعالیٰ کا کلام لغو سے پاک ہے.وہ تو اُن مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے جن کا فیصلہ کرنا ضروری ہے.یہود نالائق نعوذ باللہ ! حضرت مسیح کو کافر اور کا ذب اور مفتری ٹھہراتے تھے اور کہتے تھے کہ موسیٰ اور تمام راستبازوں کی طرح اُن کو روحانی رفع نصیب نہیں ہوا اور کسی حد تک نصاری بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے.سو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ یہ دونوں فریق جھوٹے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام بے شک مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے ہیں جیسا کہ اور راستباز اٹھائے گئے.یہ بعینہ ایسا ہی فیصلہ ہے جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ عیسی اور اُس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں.جاہل مولویوں نے اس کے یہ معنے کر لئے کہ بجز حضرت عیسیٰ اور اُن کی ماں کے اور کوئی نبی ہو یا رسول ہو مس شیطان سے پاک نہیں یعنی معصوم نہیں اور آیت: إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن ( الحجر : (۴۳) کو بھول گئے اور نیز آیت سلمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ ولد ( مریم : ۱۲ ) کو پس پشت ڈال دیا.اور بات صرف اتنی تھی کہ اس حدیث میں بھی یہودیوں کا ذب اور دفع اعتراض منظور تھا.چونکہ وہ لوگ طرح طرح کے نا گفتنی بہتان حضرت مریم اور حضرت عیسی پر لگاتے تھے اس لئے خدا کے پاک رسول نے گواہی دی کہ یہودیوں میں سے مس شیطان سے کوئی پاک نہ تھا اگر پاک تھے تو صرف حضرت عیسی اور اُن کی والدہ تھی.نعوذ باللہ ! اس حدیث کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک حضرت عیسیٰ اور اُن کی والدہ ہی معصوم ہیں اور اُن کے سوا کوئی نبی ہو یا رسول ہو مس شیطان سے معصوم نہیں ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۵،۳۵۴) مخالفین کی حالت پر رونا آتا ہے وہ نہیں سوچتے کہ اگر اس آیت: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَی سے ایک پاک موت کا بیان کرنا غرض نہیں تھا اور بجائے ملعون ہونے کے روحانی رفع کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا تو اس قصے کو بیان کرنے کی کون سی ضرورت تھی اور جسمانی رفع کے لئے کون سی دینی ضرورت پیش آئی تھی ؟ افسوس! صاف اور سیدھی بات کو ناحق بگاڑتے ہیں.بات تو صرف اتنی تھی کہ یہودی حضرت عیسی کو ملعون ٹھہرا کر اُن کے رفع روحانی سے منکر ہو گئے تھے.اب رَافِعُكَ اِلی سے اس بات کا ظاہر کرنا مقصود تھا کہ حضرت عیسیٰ ملعون نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف اُن کا رفع ہو گیا.اور توفی کے لفظ سے جس کے معنے صحیح بخاری میں مارنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا گیا حضرت عیسی کی موت ثابت ہو گئی.۱۱۸ سورة ال عمران امام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۴ حاشیه ) بخاری میں عبداللہ بن عباس کے قول سے ثابت ہو چکا ہے کہ يُعيسى إلى مُتَوَفِّيكَ کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا.چنانچہ امام بخاری نے اسی مقام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث لکھ کر جس میں كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے ہیں.پھر بعد اس کے جو حضرت عیسی کی وفات کے بارے میں قرآن نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور عبد اللہ بن عباس کے قول میں بھی یہی آیا دوسرے معنے کرنے یہودیوں کی طرح ایک خیانت ہے.غور کر کے دیکھ لو کہ تمام قرآن میں بجز روح قبض کرنے کے توفی کے اور کوئی معنے نہیں.تمام حدیثوں میں بجز مارنے کے اور کسی محل میں توفی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا.تمام لغت کی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی انسان مفعول یہ مثلاً یہ قول ہو کہ توَفَّى الله زيدا تو بجز روح قبض کرنے اور مارنے کے اور کوئی معنے نہیں لئے جاویں گے.پس جب اس صراحت اور تحقیق سے فیصلہ ہو چکا کہ توفی کے معنے مارنا ہے اور آیت فَلَنا توقيتَنِي (المائدة : ۱۱۸) سے ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت عیسی کی توفی عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے ہو چکی ہے یعنی وہ خدا بنائے جانے سے پہلے فوت ہو چکے ہیں تو پھر اب تک اُن کی وفات کو قبول نہ کرنا یہ طریق بحث نہیں بلکہ بے حیائی کی قسم ہے.خدا تعالیٰ نے چونکہ ان لوگوں کو ذلیل کرنا تھا کہ جو خواہ مخواہ حضرت عیسی کی حیات کے قائل ہیں اس لئے اُس نے نہ ایک پہلو سے بلکہ بہت سے پہلوؤں سے حضرت عیسی کی موت کو ثابت کیا.توفی کے لفظ سے موت ثابت ہوئی اور پھر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُول : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران : ۱۴۵) سے موت ثابت ہوئی.اور پھر آیت مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ( المائدة : ۷۶) سے موت ثابت ہوئی پھر قرآن شریف کی آیت فيها تحيونَ (الاعراف : ۲۶) سے موت ثابت ہوئی اور پھر قرآن شریف کی آیت وَ لَكُم في الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ (البقرة : ٣٧) سے موت ثابت ہوئی کیونکہ ان دونوں آیتوں سے ثابت ہوا کہ آسمان پر جسمانی زندگی اور قرار گاہ کسی انسان کا نہیں ہو سکتا.(ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۳ تا ۳۸۵) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا وہ فضل اور کرم یاد کر جو اس نے عیسیٰ علیہ السلام پر کیا اور عیسی علیہ السلام کو یہ بشارت دی کہ اے عیسی ! میں تجھے موت سے وفات دوں گا یعنی تو مصلوب نہیں ہوگا اور تجھے وفات کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٩ سورة ال عمران بعد اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی تیرے برگزیدہ اور صادق ہونے کے بارے میں آثار قویہ اور جلسیہ ظاہر کروں گا اور اس قدر دنیا میں تیرا ذکر خیر باقی رہ جائے گا کہ یہ ثابت ہو جائے گا کہ تو خدا کا مقرب ہے اور اس کے حضرت قدس میں بلایا گیا ہے اور جو الزام تیرے پر لگائے جاتے ہیں اُن سب سے تیرا پاک دامن ہونا ثابت کر دوں گا اور تیرے تابعین کو جو تیری صحیح صحیح تعلیم کی پیروی کریں گے حجت اور برہان کے رُو سے قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور نیز تیرے مخالفوں اور گالیاں دینے والوں پر ذلت ڈالوں گا وہ ہمیشہ ذلت سے عمر بسر کریں گے.درحقیقت خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے پردے میں ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے کر ایک بشارت دی ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جو تیرے مارنے کے درپے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ نور دُنیا میں نہ پھیلے یہ تمام نامرادر ہیں گے.اور عیسی مسیح کی طرح پر تنگی کے وقت میں خدا تیری نصرت کرے گا اور دشمنوں کے شر سے تجھے بچائے گا اور تیرے پر بہت الزام لگائے جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ تمام الزاموں سے تجھے پاک کرے گا اور قیامت تک تیرے گروہ کو غلبہ بخشے گا اور یہ فقرہ جو آیت موصوفہ بالا میں ہے کہ : مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا اِس میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح جب مسیح علیہ السلام پر یہودیوں اور عیسائیوں نے بہت سے الزام لگائے تو حضرت مسیح کو وعدہ دیا گیا کہ خدا تعالیٰ تیرے بعد ایک نبی پیدا کرے گا جوان تمام الزامات سے تیرے دامن کا پاک ہونا ثابت کر دے گا.ایسا ہی تیری نسبت خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں جبکہ دشمنوں کی نکتہ چینی اور عیب گیری کمال کو پہنچ جائے گی تیری تصدیق کے لئے تیری ہی اُمت میں سے ایک شخص جو مسیح موعود ہے پیدا کیا جائے گا وہ تیرے دامن کو ہر ایک الزام سے پاک ثابت کر دے گا اور تیرے معجزات تازہ کرے گا اور اس پیشگوئی میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل نہیں ہوں گے اور آپ کا رفع الی السماء اپنی نبوت کے رُو سے آفتاب کی طرح چمکے گا کیونکہ ہزار ہا اولیاء اس اُمت میں پیدا ہوں گے اور اس پیشگوئی میں صاف لفظوں میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت مسیح اُس زمانہ سے پہلے وفات پا جائیں گے جبکہ وہ رسول مقبول ظاہر ہوگا جو مخالفوں کے اعتراضات سے اُن کے دامن کو پاک کرے گا.کیونکہ اس آیت کریمہ میں لفت نشر مرتب ہے.پہلے وفات کا وعدہ ہے پھر رفع کا پھر تطہیر کا اور پھر یہ کہ خدا تعالیٰ اُن کے متبعین کو ہر ایک پہلو سے غلبہ بخش کر مخالفوں کو قیامت تک ذلیل کرتا رہے گا.اگر اس ترتیب کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة ال عمران وہ ترتیب جو واقعات خارجیہ نے ثابت کر دی ہے ہاتھ سے جاتی رہے گی اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ قرآنی ترتیب کو بغیر کسی قومی دستاویز کے اُٹھا دے کیونکہ ایسا کرنا گویا یہودیوں کے قدم پر قدم رکھنا ہے.یہ تو بیچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ حرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو.لیکن اس میں کیا شک ہے کہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فقرہ مُتَوَفِّيكَ کو پہلے لایا ہے اور پھر فقره رافعک کو بعد اس کے اور پھر اس کے بعد فقرہ مُطَهَّرُكَ بیان کیا گیا ہے.اور بہر حال ان الفاظ میں ایک ترتیب ہے جس کو خدائے علیم و حکیم نے اپنی ابلغ واضح کلام میں اختیار کیا ہے اور ہمارا اختیار نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ اس ترتیب کو اُٹھا دیں.اور اگر قرآن شریف کے اور مقامات یعنی بعض اور آیات میں مفسرین نے ترتیب موجودہ قرآن شریف کے برخلاف بیان کیا ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ اُنہوں نے خود ایسا کیا ہے یا وہ ایسا کرنے کے مجاز تھے بلکہ بعض نصوص حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی تھی یا قرآن شریف کے دوسرے مواضع کے قرائن واضحہ نے اس بات کے ماننے کے لئے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ ظاہری ترتیب نظر انداز کی جائے.لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ کا ابلغ اور اصح کلام ترتیب سے خالی نہیں ہوتا اگر اتفاقاً کسی عبارت میں ظاہری ترتیب نہ ہو تو بلحاظ معنی ضرور کوئی ترتیب مخفی ہوتی ہے مگر بہر حال ظاہری ترتیب مقدم ہوتی ہے اور بغیر وجود کسی نہایت قوی قرینہ کے اس ظاہری ترتیب کو چھوڑ دینا سراسر الحاد اور خیانت اور تحریف ہوتی ہے.یہی تو وہ خصلت تھی جس کے اختیار کرنے سے یہودی خدا کی نظر میں لعنتی ٹھہرے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۵۲ تا۴۵۶ حاشیه ) یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ وہی زمانہ ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے ہر ایک قسم کی بدزبانی کمال کو پہنچ گئی ہے اور بد گوئی اور عیب گیری اور افترا پردازی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور ساتھ اُس کے مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی نہایت خطرناک ہوگئی ہے.صد ہا بدعات اور انواع اقسام کے شرک اور الحاد اور انکار ظہور میں آرہے ہیں.اس لئے قطعی یقینی طور پر اب یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئی مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا کے مطابق عظیم الشان مصلح پیدا ہو، سوالحمد للہ کہ وہ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۵۳ حاشیه ) اگر یہ کہو کہ ترتیب کو تو ہم مانتے ہیں مگر توفی کے معنے موت نہیں مانتے تو اس کے ہماری طرف سے دو جواب ہیں ؟ (1) اوّل یہ کہ خود صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے یہ معنے مروی ہیں کہ مُتَوَفِّيكَ : میں ہوں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۱ سورة ال عمران مبيتك یعنی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مُتَوَفِّيكَ کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے وفات دوں گا.علاوہ اس کے جو شخص تمام احادیث اور قرآن شریف کا تتبع کرے گا اور تمام لغت کی کتابوں اور ادب کی کتابوں کو غور سے دیکھے گا اس پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہ قدیم محاورہ لسان عرب ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہوتا ہے اور انسان مفعول یہ ہوتا ہے تو ایسے موقعہ پر لفظ توفی کے معنے بجز وفات کے اور کچھ نہیں ہوتے اور اگر کوئی شخص اس سے انکار کرے تو اُس پر واجب ہے کہ ہمیں حدیث یا قرآن یا فن ادب کی کسی کتاب سے یہ دکھلاوے کہ ایسی صورت میں کوئی اور معنے بھی توفی کے آجاتے ہیں.اور اگر ایسا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدسیہ سے پیش کر سکے تو ہم بلا توقف اُس کو پانسو س ر وپے انعام دینے کو طیار ہیں.دیکھو! حق کے اظہار کے لئے ہم کس قدر مال خرچ کرنا چاہتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتا؟ اگر سچائی پر ہوتے تو اس سوال کا ضرور جواب دیتے اور نقد روپیہ پاتے.غرض جب فیصلہ ہو گیا کہ توفی کے معنے موت ہیں یہی معنے حضرت ابن عباس کی حدیث سے معلوم ہوئے اور ابن عباس کا قول جو صحیح بخاری میں مندرج ہے، وہ قول ہے جس کو عینی شارح بخاری نے اپنی شرح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کیا ہے اور یہی معنے محاورات قرآن اور محاورات احادیث میں سے اور نیز کلام بلغاء عرب کے تتبع سے ثابت ہوئے اور اس کے سوا کچھ ثابت نہ ہوا تو پھر ماننا پڑا کہ یہ وعدہ جو اس آیت شریفہ میں مندرج ہے یہ حضرت مسیح کی موت طبعی کا وعدہ ہے اور اس میں حضرت مسیح کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ یہودی کہ جو اس فکر میں تھے کہ آنجناب کو بذریعہ صلیب قتل کر دیں وہ قتل نہیں کرسکیں گے اور اس خوف سے اللہ تعالیٰ نے مسیح کو تسلی بخشی اور ایک لمبی عمر جو انسان کے لئے قانونِ قدرت میں داخل ہے اس کا وعدہ دیا اور یہ فرمایا کہ تو اپنی طبعی موت سے فوت ہوگا.اب اس فیصلہ کے بعد دوسرا تنقیح طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ وعدہ پورا ہو چکا یا ابھی حضرت مسیح زندہ ہیں سو یہ تنقیح بھی نہایت صفائی سے فیصلہ پاچکی ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ اس آیت شریفہ کی ترتیب صاف طور پر دلالت کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں کیونکہ اگر وہ اب تک فوت نہیں ہوئے تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ رفع بھی نہیں ہوا.اور نہ اب تک اُن کی تطہیر ہوئی اور نہ اب تک اُن کے دشمنوں کی ذلت ہوئی اور ظاہر ہے کہ ایسا خیال بدیہی البطلان ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۵۷ تا ۴۶۰ حاشیه ) آيت يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں فقرہ مُتَوَفِّيكَ کو اس جگہ سے جہاں خدا تعالیٰ نے اس کو رکھا ہے اُٹھا
۱۲۲ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران لیا جائے تو پھر اس فقرہ کے رکھنے کے لئے کوئی اور جگہ نہیں ملتی کیونکہ اس کو فقرہ رَافِعُكَ اِلَی کے بعد نہیں رکھ سکتے وجہ یہ کہ بموجب عقیدہ معتقدین رفع جسمانی کے رفع کے بعد بلا فاصلہ موت نہیں ہے بلکہ ضرور ہے کہ آسمان مسیح کو تھامے رہے جب تک کہ خاتم الانبیاء کے ظہور کے ساتھ وعدہ تطہیر پورا نہ ہو جائے.ایسا ہی فقرہ مُطَهَّرُكَ کے بعد بھی نہیں رکھ سکتے کیونکہ بموجب خیال اہل اس عقیدہ کے تطہیر کے بعد بھی بلا فاصلہ موت نہیں ہے بلکہ دائمی غلبہ کے بعد موت ہوگی.اب رہا غلبہ یعنی وعده فقره وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ القِيمة سو اس فقرہ کا دامن قیامت تک پھیلا ہوا ہے اس لئے اس جگہ بھی فقرہ متوفيك کو رکھ نہیں سکتے جب تک قیامت کا دن نہ آجائے اور قیامت کا دن تو حشر کا دن ہو گا نہ کہ موت کا دن.لہذا معلوم ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حصہ میں موت نہیں اور وہ بغیر مرنے کے ہی قیامت کے میدان میں پہنچ جائیں گے اور یہ خیال وعدہ توفی کے برخلاف ہے.لہذا فقرہ مُتَوَفِّيكَ کو اپنی جگہ سے اُٹھانا موجب اجتماع نقیضین ہے اور وہ محال.اس لئے اس فقرہ کی تاخیر بھی محال ہے اور اگر محال نہیں تو کوئی ہمیں بتلاوے کہ اس فقرہ کو اس جگہ سے اُٹھا کر کہاں رکھا جائے اور اگر کہے کہ رَافِعُكَ کے بعد رکھا جائے تو ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ اس جگہ تو ہم کسی طرح نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ کسی کا عقیدہ نہیں ہے کہ رفع کے بعد بلا فاصلہ اور بغیر ظہور دوسرے واقعات مندرجہ آیت طذا موت پیش آجائے گی اور یہی خرابی دوسری جگہوں میں ہے جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اور اگر بلا وجہ قرآنی ترتیب کو الٹا نا پلٹانا اور اسی تصرف کے مناسب حال معنے کر لینا جائز ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ ایسے تغییر تبدیل کے ساتھ نماز بھی درست ہو یعنی نماز میں اس طرح پڑھنا جائز ہو.يُعِيسَى إِلى رَافِعُكَ إِلَى ثُمَّ مُتَوَفِّيكَ حالانکہ ایسا تصرف مفسد نماز اور داخل تحریف قرآن ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۰ حاشیه در حاشیه ) وَالْمَرْفُوعُ مَن يُسقى كاسُ الوِصال اور مرفوع وہ ہے جس کو اس محبوب کے ہاتھ سے جام مِنْ أَيْدِى الْمَحْبُوبِ الَّذِي هُوَ مُجَةُ وصال پلایا جاتا ہے جوحسن و جمال کا دریا ہے اور ربوبیت الْجَمَالِ وَيُدْخَلُ تَحْتَ رِدَاءِ الرُّبُوبِيَّةِ کی چادر کے نیچے داخل کیا جاتا ہے باوجود اس بات کے کہ مَعَ الْعُبُودِيَّةِ الْأَبَدِيَّةِ وَهذَا أَخِرُ مَقَامِ عبودیت ابدی طور پر رہتی ہے اور یہ وہ آخری مقام ہے جس يَبْلُغُهُ طَالِبُ الْحَقِّ فِي النَّشْأَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ - تک ایک حق کا طالب انسانی پیدائش میں پہنچ سکتا ہے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۴۲،۴۱) ( ترجمہ اصل کتاب سے )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۳ سورة ال عمران قرآن شریف میں حضرت مسیح کے بارے میں صاف لفظوں میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ: يُعِیسَی اِنِّی مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى یعنی اے عیسی ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور وفات کے بعد اپنی طرف اُٹھانے والا لیکن ہمارے مخالفوں نے اس نص کے ظاہر الفاظ پر عمل نہیں کیا اور نہایت مکروہ اور پر تکلف تاویل سے کام لیا یعنی رَافِعُكَ کے فقرہ کو مُتَوَفِّيكَ کے فقرہ پر مقدم کیا اور ایک صریح تحریف کو اختیار کر لیا اور یا بعض نے توفی کے لفظ کے معنے بھر لینا کیا جو نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ علم لغت سے ثابت ہوتا ہے اور جسم کے ساتھ اٹھائے جانا اپنی طرف سے ملا لیا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مُتَوَفِّيكَ کے معنے صریح مميتك بخاری میں موجود ہیں.اُن سے منہ پھیر لیا اور علم نحو میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول یہ ہو ہمیشہ اُس جگہ توئی کے معنے مارنے اور رُوح قبض کرنے کے آتے ہیں مگر ان لوگوں نے اس قاعدہ کی کچھ بھی پروا نہیں رکھی اور خدا کی تمام کتابوں میں کسی جگہ رفع الی اللہ کے معنے یہ نہیں کئے گئے کہ کوئی جسم کے ساتھ خدا تعالی کی طرف اُٹھایا جائے لیکن ان لوگوں نے زبردستی سے بغیر وجود کسی نظیر کے رفع الی اللہ کے اس جگہ یہ معنے کئے کہ جسم کے ساتھ اٹھایا گیا.ایسا ہی توفی کے اُلٹے معنے کرنے کے وقت کوئی نظیر پیش نہ کی اور بھر لینا معنے لے لئے.اب بتلاؤ کہ کس نے نصوص کے ظاہر پر عمل کرنا چھوڑ دیا ؟ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۶۲) کوئی فولادی قلعہ بھی ایسا پختہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کی موت کی آیت ہے پھر آسمان سے زندہ مع جسم اُترنے کی پیشگوئی کس قدر موت کی پیشگوئی کی نقیض ہے.ذرہ سوچ لو اور قرآن نے توفی اور رفع کے لفظ کو کئی جگہ ایک ہی معنوں موت اور رفع روحانی کے محل پر ذکر کر کے صاف سمجھا دیا ہے کہ توفی کے معنے مارنا اور رفع الی اللہ کے معنے رُوح کو خدا کی طرف اٹھانا ہے اور پھر توفی کے لفظ کے معنے حدیث کے رُو سے بھی خوب صاف ہو گئے ہیں کیونکہ بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ مُتَوَفِّيكَ مُبيتك يعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لفظ متوفی کے یہی معنے گئے ہیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں اور اس بات پر صحابہ کا اجماع بھی ہو چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور گزشتہ روحوں میں جاملے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۶۳، ۱۶۴) فقره وَ رَافِعُكَ اِلَى اور بَلْ رَفَعَهُ اللهُ الله کے یہ معنے کیوں کئے جاتے ہیں کہ حضرت مسیح آسمان کی طرف اٹھائے گئے؟ ان لفظوں کے تو یہ معنے نہیں اور اگر کسی حدیث نے یہ تشریح کی ہے تو وہ حدیث تو پیش
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۴ سورة ال عمران کرنی چاہئے.ورنہ یہودیوں کی طرح ایک تحریف ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۹۷ حاشیہ) يعيسى إلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ.یعنی اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیری برینت ظاہر کروں گا اور وہ جو تیرے پیرو ہیں میں قیامت تک ان کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا.اس جگہ اس وحی الہی میں عیسی سے مراد میں ہوں اور تابعین یعنی پیروؤں سے مراد میری جماعت ہے.قرآن شریف میں یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے اور مغلوب قوم سے مراد یہودی ہیں جو دن بدن کم ہوتے گئے.پس اس آیت کو دوبارہ میرے لئے اور میری جماعت کے لئے نازل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقدر یوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہو کر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہو گئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے.ایسا ہی اس جماعت کے مخالفوں کا انجام ہوگا اور اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوت مذہب کے رُو سے سب پر غالب ہو جائیں گے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۹۵،۹۴) قَالَ الله تَعَالَى يُعِيسى إلى مُتَوَفِّيكَ وَ اللہ تعالیٰ نے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى فَقَدَّمَ التَّوَى عَلَى الرفع كَمَا فرمایا ہے اور لفظ توٹی کو رفع پر مقدم کیا ہے جیسا کہ تم أَنْتُمْ تَقْرَءُ وَنَ.فَهَذَا حُكْمُ اللهِ وَمَنْ پڑھتے ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور جو لوگ ان احکام کے لم يَحْكُمُ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَبِكَ هُمُ ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے اتارے ہیں فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر الْكَفِرُونَ وَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ تُحَرِّفَ ہیں.کسی شخص کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کلام کو اس كَلمَ اللهِ عَن مَّوَاضِعِهَا وَقَدْ لَعَنَ اللهُ کی جگہوں سے آگے پیچھے کر دے اور جیسا کہ تم جانتے ہو الْمُحَرَّفِينَ كَمَا أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ.اللہ تعالی نے تحریف کرنے والوں پر لعنت کی ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۲۱ حاشیه ) (ترجمه از مرتب) اور توفی طبعی موت دینے کو کہتے ہیں.جیسا کہ صاحب کشاف نے اس آیت کی تفسیر میں یعنی تفسیر ائی مُتَوَفِّيكَ میں لکھا ہے انّی مُبيتُك حتف آنفك - قرآن شریف کی یہ آیت یعنی يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ لے المائدة : ۴۵ و و
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة ال عمران وَرَافِعُكَ إلى تمام جھگڑے کا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ ہمارے مخالف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع زندگی کی حالت میں ہوا اور خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ موت کے بعد رفع ہوا.پس افسوس ہے اُس قوم پر کہ جو نص صریح کتاب اللہ کے مخالف دعویٰ کرتے ہیں اور قرآن شریف اور تمام پہلی کتابیں اور تمام حدیثیں بیان کر رہی ہیں کہ موت کے بعد وہی رفع ہوتا ہے جس کو رفع روحانی کہتے ہیں جو ہر ایک مومن کے لئے بعد موت ضروری ہے.بعض متعصب اس جگہ لاجواب ہو کر کہتے ہیں کہ آیت کو اس طرح پڑھنا چاہیے کہ نعیسى إلى رَافِعُكَ إِلَى وَمُتَوَفِّيكَ أو يا خدا تعالیٰ سے یہ غلطی ہو گئی کہ اس نے یہ مُتَوَفِّيكَ كو رَافِعُكَ پر مقدم کر دیا اور یہ فرمایا کہ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى حالانکہ کہنا یہ تھا که يُعِيسَى إِلى رَافِعُكَ اِلَى وَمُتَوَفِّيكَ ہائے افسوس! تعصب کس قدر سخت بلا ہے کہ اس کی حمایت کے لئے کتاب اللہ کی تحریف کرتے ہیں.یہ عمل تحریف وہی پلید عمل ہے جس سے یہودی لعنتی کہلائے اور ان کی صورتیں مسخ کی گئیں.اب یہ لوگ قرآن شریف کی تحریف پر آمادہ ہیں.اور اگر یہ وعدہ نہ ہوتا کہ اِنا نَحْنُ w نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر :۱۰) تو ان لوگوں سے یہ امید تھی کہ بجائے آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَى کے اس طرح قرآن شریف میں لکھ دیتے کہ یعنى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى وَمُتَوَفِّيكَ مگر اس طرح کی تحریف بھی غیر ممکن تھی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں چار وعدے فرمائے ہیں.جیسا کہ وہ فرماتا ہے: يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ یہ چار وعدے ہیں جن پر نمبر لگا دیئے گئے اور جیسا کہ احادیث صحیحہ اور خود قرآن شریف سے ثابت ہے وعدہ وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا جو وعدہ رفع کے بعد تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پورا ہو گیا کیونکہ آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے دامن کو ان بیجا تہمتوں سے پاک کیا جو یہود اور نصاری نے اُن پر لگائی تھیں.اسی طرح یہ چوتھا وعدہ یعنی وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ اسلام کے غلبہ اور شوکت سے پورا ہو گیا.پس اگر متوفيك کے لفظ کو متا خر کیا جائے اور لفظ رَافِعُكَ الى مقدم کیا جائے.جیسا کہ ہمارے مخالف چاہتے ہیں تو اس صورت میں فقرہ رَافِعُكَ اِلَى فقرہ مُطَهَّرُكَ سے پہلے نہیں آسکتا کیونکہ فقرہ مُطَهَّرُكَ کا وعدہ پورا ہو چکا ہے اور بموجب قول ہمارے مخالفوں کے متوفيك کا وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا اور اس طرح یہ فقرہ متوفيك وعده وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِیمَةِ کے پہلے بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ وعدہ بھی پورا ہو چکا ہے اور قیامت کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ سورة ال عمران دن تک اس کا دامن لمبا ہے.پس اس صورت میں توفی کا لفظ اگر آیت کے سر پر سے اٹھا دیا جائے تو اس کو کسی دوسرے مقام میں قیامت سے پہلے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں.سو اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے بعد مریں گے اور پہلے مرنے سے یہ ترتیب مانع ہے.اب دیکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف کی یہ کرامت ہے کہ ہمارے مخالف یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف پر آمادہ تو ہوئے مگر قادر نہیں ہو سکے اور کوئی جگہ نظر نہیں آتی جہاں فقرہ رافعک کو اپنے مقام سے اُٹھا کر اُس جگہ رکھا جائے.ہر ایک جگہ کی خانہ پری ایسے طور سے ہو چکی ہے کہ دست اندازی کی گنجائش نہیں اور دراصل یہی ایک آیت یعنی آیت يُعيسى الى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى طالب حق کے لئے کافی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ رفع جس پر ہمارے مخالفوں نے شور مچارکھا ہے وہ موت کے بعد ہے نہ موت سے پہلے کیونکہ خدا کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے اور خدا کی گواہی کو قبول نہ کرنا ایماندار کا کام نہیں اور جب کہ بموجب نص قرآن رفع موت کے بعد ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ وہی رفع ہے جس کا ہر ایک ایماندار کے لئے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۷ ۳۴ تا ۳۴۹) اے عیسی ! میں تجھے طبعی موت دوں گا یعنی قتل اور صلیب کے ذریعہ سے تو ہلاک نہیں کیا جائے گا اور میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا پس یہ آیت تو بطور ایک وعدہ کے تھی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۷ ۳۷۸،۳۷) مومن وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے حال سے عبرت پکڑے.اگر نزول کا لفظ احادیث میں موجود ہے تو موت عیسی کے الفاظ قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہیں اور توفی کے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے بجز مار دینے کے اور ثابت نہیں ہوئے.پس جب اصل مسئلہ کی حقیقت یہ کھلی تو نزول اس کی فرع ہے اس کے وہی معنے کرنے چاہئیں جو اصل کے مطابق ہوں.اگر تمام دنیا کے مولوی متفق ہو کر آیت يعيسى إني مُتَوَفِّيكَ اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بجز مار دینے کے کوئی اور معنے ثابت کرنے چاہیں تو ان کے لئے ہر گز ممکن نہیں.اگر چہ اس غم میں مر جائیں.اسی وجہ سے امام ابن حزم اور امام مالک اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے اکابر کا یہی مذہب ہے که در حقیقت حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.افسوس کہ جاہل مولویوں نے ناحق شور مچایا اور آخر حضرت عیسی کی موت ثابت ہی ہوئی جس کے ثبوت سے وہ ایسے نادم ہوئے کہ بس مر گئے.جی اللہ پر کم توجہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة ال عمران رکھنے سے یہ تمام مصیبتیں ان پر پڑیں.مولویوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے سولہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسی رکھا ہے، کیا انسان اتنا لمبا منصو بہ کر سکتا ہے کہ جو افتر اسولہ برس کے بعد کرنا تھا اس کی تمہید اتنی مدت پہلے ہی جمادی اور خدا نے بھی اس قدر بھی مہلت دے دی جس کی دنیا میں جب سے دنیا شروع ہوئی کوئی نظیر نہیں پائی جاتی.والسلام على من اتبع الهدی ضیاء الحق، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۰۸) w معلوم رہے کہ زبان عرب میں لفظ توفی صرف موت دینے کو نہیں کہتے بلکہ طبعی موت دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ قتل وصلیب یا دیگر خارجی عوارض سے نہ ہو.اس لئے صاحب کشاف نے جو علامہ لسان عرب ہے اس مقام میں تفسیر انِّي مُتَوَفِّيكَ میں لکھا ہے کہ إِنِّي مُمِيتُكَ حَتْفَ انْفِك یعنی میں تجھے طبعی موت دوں گا.اسی بناء پر لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے.توفی الْمَيِّتِ : اسْتِيْفَاءُ مُدَّتِهِ الَّتِي وُفِيَتْ لَهُ وَعَدَدِ ايَامِهِ وَ شُهُورِهِ وَ أَعْوَامِهِ في الدُّنْيَا.یعنی مرنے والے کی توفی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبعی زندگی کے تمام دن اور مہینے اور برس پورے کئے جائیں اور یہ صورت اُسی حالت میں ہوتی ہے جب طبعی موت ہو بذریعہ قتل نہ ہو.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۷ حاشیه ) ہو اس جگہ اس بات پر ضد کرنا بے فائدہ ہے کہ توفی کے معنے مارنا نہیں.کیونکہ اس بات پر تمام ائمہ لغتِ عرب اتفاق رکھتے ہیں کہ جب ایک علم پر یعنی کسی شخص کا نام لے کر توفی کا لفظ اُس پر استعمال کیا جائے مثلاً کہا جائے تولّى اللهُ زیدا تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ خدا نے زید کو مار دیا.اسی وجہ سے ائمہ لغت ایسے موقع پر دوسرے معنے لکھتے ہی نہیں ، صرف وفات دینا لکھتے ہیں.چنانچہ لسان العرب میں ہمارے بیان کے مطابق یہ فقرہ ہے : تُونِي فَلَانٌ وَتَوَفَّهُ اللهُ إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ وَ فِي الصَّحَاحِ إِذَا قَبَضَ روعة.یعنی جب یہ بولا جائے گا کہ تُولّی فَلان یا یہ کہا جائے گا تَوَفَّهُ اللہ تو اس کے صرف یہی معنے ہونگے کہ فلاں شخص مر گیا اور خدا نے اُس کو مار دیا.اس مقام میں تاج العروس میں یہ فقرہ لکھا ہے: توتی فلان إذَا مَاتَ یعنی تُونِي فلان اس شخص کی نسبت کہا جائے گا جب وہ مرجائے گا.دوسرا فقرہ تاج العروس میں یہ لکھا ہے: تَوَفَّاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِذَا قَبَضَ نَفْسَهُ یعنی یه نقره کہ تَوَفَّاهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اس مقام میں بولا جائے گا.جب خدا کسی کی روح قبض کرے گا اور صحاح میں لکھا ہے: تَوَفَّهُ اللَّهُ قَبَضَ رُوحَهُ یعنی اس فقرہ تَوَفَّهُ الله کے یہ معنے ہیں کہ فلاں شخص کی روح کو خدا تعالیٰ نے قبض کر لیا ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا رُوحَه
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة ال عمران صحاح ستہ اور دوسری احادیث نبویہ پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور صحابہ کے کلام اور تابعین کے کلام اور تبع تابعین کے کلام میں کوئی ایک نظیر بھی ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی علم پر توفی کا لفظ آیا ہو یعنی کسی شخص کا نام لے کر توفی کا لفظ اس کی نسبت استعمال کیا گیا ہو اور خدا فاعل اور وہ شخص مفعول یہ ٹھہرایا گیا ہو اور ایسی صورت میں اس فقرہ کے معنے بجز وفات دینے کے کوئی اور کئے گئے ہوں بلکہ ہر ایک مقام میں جب نام لے کر کسی شخص کی نسبت تو ٹی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس جگہ خدا فاعل اور وہ شخص مفعول یہ ہے جس کا نام لیا گیا ہے تو اس سے یہی معنے مراد لئے گئے ہیں کہ وہ فوت ہو گیا ہے.چنانچہ ایسی نظیریں مجھے تین سو سے بھی زیادہ احادیث میں ملیں.جن سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور وہ شخص مفعول یہ ہو جس کا نام لیا گیا ہے تو اس جگہ صرف مار دینے کے معنے ہیں نہ اور کچھ ، مگر باوجود تمام تر تلاش کے ایک بھی ایسی حدیث مجھے نہ ملی جس میں توفی کے فعل کا خدا فاعل ہو اور مفعول یہ علم ہو یعنی نام لے کر کسی شخص کو مفعول یہ ٹھہرایا گیا ہو اور اس جگہ بجز مار نے کے کوئی اور معنے ہوں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۹،۳۷۸) علامہ زمخشری آیت إلى مُتَوَفیت کے یہی معنے کرتا ہے کہ إلى ممننك خلف الفك.یعنی اے عیسی ! میں تجھے طبعی موت ماروں گا.حشف لغت عرب میں موت کو کہتے ہیں اور آنف کہتے ہیں ناک کو.اور عربوں میں قدیم سے یہ عقیدہ چلا آتا ہے کہ انسان کی جان ناک کی راہ سے نکلتی ہے.اس لئے طبعی موت کا نام انہوں نے حتف انف رکھ دیا.اور عربی زبان میں توفی کے لفظ کا اصل استعمال طبعی موت کے محل پر ہوتا ہے اور جہاں کوئی شخص قتل کے ذریعہ سے ہلاک ہو وہاں قتل کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ایسا محاورہ ہے کہ جو کسی عربی دان پر پوشیدہ نہیں.ہاں! یہ عرب کے لوگوں کا قاعدہ ہے کہ کبھی ایسے لفظ کو کہ جو اپنی اصل وضع میں استعمال اس کی کسی خاص محل کے لئے ہوتا ہے ایک قرینہ قائم کر کے کسی غیر محل پر بھی مستعمل کر دیتے ہیں یعنی استعمال اس کا وسیع کر دیتے ہیں اور جب ایسا قرینہ موجود نہ ہو تو پھر ضروری ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ لفظ اپنی اصل وضع پر استعمال پاوے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۱) چونکہ یہودیوں کے عقیدہ کے موافق کسی نبی کا رفع روحانی طبعی موت پر موقوف ہے اور قتل اور صلیب رفع روحانی کا مانع ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اول یہود کے رڈ کے لئے یہ ذکر فرمایا کہ عیسی کے لئے طبعی موت ہوگی اور پھر چونکہ رفع روحانی طبعی موت کا ایک نتیجہ ہے اس لئے لفظ مُتَوَفِّيكَ کے بعد رَافِعُكَ إِلَى لکھ دیا.تا
۱۲۹ سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام یہودیوں کے خیالات کا پورا رڈ ہو جائے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۲ حاشیه ) جو لوگ اپنے خدا کی پوری محبت اور پوری اطاعت اختیار کرتے ہیں اور پورے صدق اور وفاداری سے اُس کے آستانہ پر جھکتے ہیں اُن کو خاص طور پر ایک کامل زندگی بخشی جاتی ہے اور ان کے فطرتی حواس میں بھی بہت تیزی عطا کی جاتی ہے اور ان کی فطرت کو ایک نور بخشا جاتا ہے جس نور کی وجہ سے ایک فوق العادت روحانیت اُن میں جوش مارتی ہے اور تمام روحانی طاقتیں جو دنیا میں وہ رکھتے تھے موت کے بعد بہت وسیع کی جاتی ہیں اور نیز مرنے کے بعد وہ اپنی خداداد مناسبت کی وجہ سے جو حضرت عزت سے رکھتے ہیں آسمان پر اُٹھائے جاتے ہیں جس کو شریعت کی اصطلاح میں رفع کہتے ہیں.لیکن جو مومن نہیں ہیں اور جو خدا تعالیٰ سے صاف تعلقات نہیں رکھتے یہ زندگی ان کو نہیں ملتی اور نہ یہ صفات ان کو حاصل ہوتی ہیں.اس لئے وہ لوگ مردہ کے حکم میں ہوتے ہیں.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۲ حاشیه ) قرآن شریف سے تو صرف رفع الی اللہ ثابت ہے جو ایک روحانی امر ہے نہ رفع الی الشماء اور یہودیوں کا اعتراض تو یہ تھا کہ جو شخص لکڑی پر لٹکا یا جاوے اُس کا رفع روحانی دوسرے نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہی اعتراض دفع کرنے کے لائق تھا.پس قرآن شریف نے کہاں اس اعتراض کو دفع کیا ہے یعنی اس تمام نزاع کی بنیاد یہ تھی کہ یہودی کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا ہے اور جو شخص مصلوب ہو اُس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا اس لئے عیسی کا اور نبیوں کی طرح خدا تعالی کی طرف رفع روحانی نہیں ہوا لہذاوہ مومن نہیں ہے اور نہ نجات یافتہ ہے اور چونکہ قرآن اس بات کا ذمہ وار ہے کہ پہلے جھگڑوں کا تصفیہ فرماوے لہذا اُس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عیسی کا بھی دوسرے نبیوں کی طرح رفع ہوا ہے.خدا نے تو ایک جھگڑے کا فیصلہ کرنا تھا.پس اگر خدا تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ فیصلہ نہیں کیا تو پھر بتلاؤ کہ کس مقام میں یہ فیصلہ کیا ؟ کیا نعوذ باللہ ! اس طرح کی بد نمی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوسکتی ہے کہ جھگڑا تو یہود کی طرف سے روحانی رفع کا تھا اور خدا یہ کہے کہ عیسی مع جسم دوسرے آسمان پر بیٹھا ہے.ظاہر ہے کہ نجات کے لئے مع جسم آسمان پر جانا شرط نہیں صرف روحانی رفع شرط ہے.پس اس جگہ اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے یہ بیان کرنا تھا کہ نعوذ باللہ ا عیسی لعنتی نہیں ہے بلکہ ضرور رفع روحانی اس کو نصیب ہوا ہے.ماسوا اس کے قرآن شریف میں جو رفع کے پہلے توفی کا لفظ لایا گیا ہے یہ صریح اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو ہر ایک مومن کو موت کے بعد نصیب ہوتا ہے اور توفی کے یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام w سورة ال عمران معنی کرنا کہ زندہ آسمان پر حضرت عیسی اٹھائے گئے یہ بھی یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف ہے.قرآن شریف اور تمام حدیثوں میں تو فی کا لفظ قبض روح کے بارہ میں استعمال پاتا ہے کسی مقام میں ان معنوں پر استعمال نہیں ہوا کہ کوئی شخص مع جسم زندہ آسمان پر اُٹھایا گیا.ماسوا اس کے ان معنوں سے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قرآن شریف میں عیسی کی موت کا کہیں ذکر نہیں اور اس نے کبھی مرنا ہی نہیں کیونکہ جس جگہ اور جس مقام میں حضرت عیسی کی نسبت توٹی کا لفظ ہوگا وہاں یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ مع جسم آسمان پر چلا گیا یا جائے گا پھر موت اس کی کس طرح ثابت ہوگی ؟ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷، ۱۸) یہ عقیدہ کھلے طور پر قرآن شریف کے مخالف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ سب لوگ حضرت عیسی کو قبول کر لیں گے کیونکہ اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے : يعنى إِلَى مُتَوَفِيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ یعنی اے عیسی میں تجھے موت دُوں گا اور پھر موت کے بعد مومنوں کی طرح اپنی طرف تجھے اُٹھاؤں گا اور پھر تمام تہمتوں سے تجھے بری کروں گا اور پھر قیامت تک تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر غالب رکھوں گا اب ظاہر ہے کہ اگر قیامت سے پہلے تمام لوگ حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر وہ کون سے مخالف ہیں جو قیامت تک رہیں گے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۶) وَأَمَّا مَا قَالَ سُبْحَانَهُ تعالى: يُعيسى اللہ تعالیٰ نے جو يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إلى مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إلَى فَلَيْسَ مَعْنَاهُ إِلَيَّ فرمایا ہے اس کے معنے جسم مع روح کے اٹھائے رَفْعَ الْجِسْمِ مَعَ الرُّوحِ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ جانے کے نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں ذِكْرُ التَّوَقِّ قَبْلَ الرَّفْعِ، وَإِنَّ هَذَا الرَّفْعَ توفّى كا ذكر رفع سے پہلے کیا گیا ہے اور یہ رفع بعد موت حَقُ كُلّ مُؤْمِنٍ بَعْدَ الْمَمَاتِ، وَهُوَ ثَابِت ہر مومن کا حق ہے.یہ بات قرآن کریم اور احادیث اور مِنَ الْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ وَالرَّوَايَاتِ وَإِن روایات سے ثابت ہے.یہودی حضرت عیسی علیہ السلام الْيَهُودَ كَانُوا مُنكِرِينَ يرفع عیسی کے رفع کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ عیسی علیہ السلام کا وَيَقُولُونَ إِنَّ عِيسَى لَا يُرْفَعُ كَمَثَلِ رفع دوسرے مومنوں کی طرح نہیں ہوگا اور نہ وہ زندہ الْمُؤْمِنِينَ وَلا يُخيي وَ ذَالِكَ بِأَنهُمْ كَانُوا کیے جائیں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کو کا فر گردانتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورة ال عمران يُكَفِّرُونَهُ وَلَا يَحْسَبُونَهُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَرَدَّ اللهُ تھے اور آپ کو مومن خیال نہیں کرتے تھے لہذا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان لوگوں کے خیال عَلَيْهِمْ فِي هَذِهِ الْآيَةِ - (الاستفتاء، حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۴۵ حاشیه کی تردید کی ہے.(ترجمہ از مرتب ) فَانْظُرْ كَيْفَ شَهِدَ اللهُ عَلى وَفَاتِهِ في كتابه دیکھ خدا نے اپنی روشن کتاب میں اس کی كِتَابِهِ الْمُبِينِ وَمَعْلُومٌ أَنَّ الرَّفْعَ وَتَطْهِيرَ ذَيْل وفات پر کیسی شہادت دی ہے اور ظاہر ہے کہ مسیح کا الْمَسِيحَ مِنْ الْزَامَاتِ الْيَهُودِ وَبُهْتَانَاعِهِمْ، رفع اور اس کے دامن کا یہود کے الزاموں اور وَغَلَبَةَ أَهْلِ الْحَقِ وَضَرْبَ اللَّلَّةِ عَلَى الْيَهُودِ بہتانوں سے پاک کرنا اور اہل حق کا غلبہ اور یہود وَجَعْلَهُمْ مَغْلُوبِيْنَ مَفهُورِينَ تَحْتَ النَّصَارَى و پر ذلت کا چھا جانا اور نصاری اور مسلمانوں کے الْمُسْلِمِينَ.لَقَدْ وَقَعَتْ هَذِهِ الْأَنْبَاءِ وَالْمَوَاعِيْدُ نیچے مغلوب و مقہور ہونا یہ سب وعدے اپنی ترتیب كُلُّهَا وَتَمَّتْ وَظَهَرَتْ، وَمَا وَقَعَتْ إِلَّا عَلى اور صورت پر پورے ظاہر ہو چکے ہیں اور ان کے صُورَتِهَا وَ تَرْتِيْهَا، وَقَدِ انْقَضَتْ مُدَّةٌ طويلة ظهور پر لمبازمانہ گزر چکا ہے پس کوئی عاقل بالغ جو عَلى ظُهُورِهَا وَوُقُوعِهَا، فَكَيْفَ يَعْتَقِدُ عَاقِلٌ عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھتا ہو کب باور کر سکتا ہے کہ بَالِعُ ذُوْ عَقْلٍ سَلِيْمٍ وَفَهْمٍ مُسْتَقِيمٍ بِأَنَّ خَيْرٌ توفی کا وعدہ جو آیت موصوفہ کی ترتیب میں سب التَّوَفَّى الَّذِى قيم على هذِهِ الْأَخْبَارِ فني وعدوں سے اول ہے وہ اب تک واقع نہ ہو اور عیسی نہ تَرْتِيبِ الْآيَةِ الْمَوْصُوفَةِ هُوَ غَيْرُ وَاقِعِ إِلى بن مریم اس زمانہ تک بھی نہ مرے جو اس کی امت وَقْتِنَا هَذَا وَمَا مَاتَ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ إلى هذا کی ضلالتوں سے فاسد ہو چکا ہے بلکہ کسی غیر معلوم الزَّمَانِ الَّذِى فَسَدَ بِضَلالَاتِ أُمَّتِهِ، بَلْ يَمُوتُ وقت میں نازل ہونے کے بعد مرے گا اور سوچنے بَعْدَ نُزُولِهِ في وَقْتٍ غَيْرٍ مَعْلُومٍ وَلَا يخفى سَخَافَةُ والوں پر اس رائے کا ضعف اور فساد پوشیدہ هَذَا الرَّأْيِ عَلَى الْمُتَفَكِرِينَ وَالْقَائِلُونَ بِحَيَاةِ نہیں.اور مسیح کی حیات کے قائلوں نے جب دیکھا الْمَسِيحِ لَمَّا رَأَوْا أَنَّ الْآيَةَ الْمَوْصُوفَةَ تُبَيْن كه آیت موصوفہ اس کی وفات کو بتصریح بیان کرتی کہ وفاته يتصريح لا يُمكن إخْفَاء جَعَلُوا ہے کہ جس کا اخفا ممکن نہیں تو ضعیف اور رکیک يُؤوَلُوْنَهَا بِتَأْوِيلاتٍ رَكِيكَةٍ وَاهِيَةٍ وَقَالُوا إِنَّ تاویلیں کرنے لگے اور کہتے ہیں کہ آیت یعینی لَفَظَ التَّوَفِّي فِي آيَةِ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ كَانَ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں لفظ تو فی فی الحقیقت ان سب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۲ w سورة ال عمران مُؤَخّرًا فِي الْحَقِيقَةِ مِنْ كُلِّ هَذِهِ الْوَاقِعَاتِ يَعْنِی واقعات سے مؤخر تھا یعنی عیسی کے رفع اور مِنْ رَّفْعِ عِيسَى وَتَطْهِيرِه مِنَ الْبُهْتَانَاتِ بِبَعْثِ آنحضرت کی بعثت کے ساتھ بہتانوں سے ان کی النّبِي الْمُصَدِقِ وَ غَلَبَةِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى الْيَهُودِ تطہیر کرنے اور یہود پر مسلمانوں کے غالب ہونے وَجَعَلِ الْيَهُودِ مِنَ السَّافِلِينَ وَلَكِنَّ اللهَ قَدَّمَ اور ان کے مغلوب ہونے سے مؤخر ہے لیکن خدا لفظ "الْمُتَوَقِّى" على لفظ " رَافِعُكَ " وَعَلَى لفظ نے نظم کلام کے واسطے مضطر ہو کر اس کو مقدم کر دیا "مُطَهَّرُكَ " وَغَيْرِهَا مَعَ حَذْفِ بَعْضِ الْفِقَرَاتِ ہے اور باوجود اس کے کچھ ضروری فقرے حذف الضُّرُورِيَّةِ رِعَايَةً لِصَفَاءِ نَظْمِ الْكَلَامِ کر دیے ہیں اور چونکہ رعایت نظم کے لئے مضطر كَالْمُضْطَرِينَ.وَكَانَ اللَّفْظُ الْمَذْكُورُ.يَعْنِي إِنِّي ہو کر خدا نے لفظ توفی کو مقدم کیا ہے جو دراصل مُتَوَفِّيكَ فِي آخِرِ الْفَاظِ الْآيَةِ، فَوَضَعَهُ اللهُ في مؤخر تھا لہذا اس تقدم و تاخیر میں خدا معذور ہے أَولِهَا اضْطِرَارًا لِرِعَايَةِ النَّظْمِ الْمُعْكَم.کیونکہ الفطرار کی وجہ سے الفاظ غیر محل میں رکھے وَكَانَ اللهُ في هَذَا التَّأْخِيرِ وَالتَّقْدِيمِ مِن ہیں اور قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اور یہ آیت الْمَعْذُورِينَ، فَلِأَجْلِ هَذَا الْإِضْطِرَارِ وَضَعَ كريم ان کے خیال میں درحقیقت یوں تھی اے الْأَلْفاظ في غَيْرِ مَوَاضِعِهَا وَجَعَلَ الْقُرْآن عیسی میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تجھ کو عِضِينَ وَالْآيَةُ برغيهُمْ كَانَتْ فِي الْأَصْلِ عَلى منکروں کے بہتانوں سے پاک کروں گا اور هذِهِ الصُّورَةِ: يَا عِيسَى إِلى رَافِعُكَ إلى تیرے متبعین کو مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا إِنِّي وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ پھر آسمان سے تجھے اتاروں گا پھر اس کے بعد مجھے اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.وفات دوں گا.پس دیکھو کہ کس طرح کلام الہی کو ثُمَّ مُنَالُك مِن السَّمَاءِ ثُمَّ مُتَوَفِّيْك فانظر بدلتے ہیں اور اس کے کلمات کو اپنی اپنی جگہ سے كَيْفَ يُبَدِّلُونَ كَلَامَ اللَّهِ وَيُحَزِفُونَ الْكَلِمَ عَنْ بناتے ہیں اور اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں موَاضِعِهَا، وَلَيْسَ عِندَهُمْ مِنْ بُرْهَانٍ عَلى ہے اپنی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں حالانکہ ان هذَا إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا أَهْوَاءَهُمْ، وَمَا كَانَ لَهُمْ کے لئے مناسب نہ تھا کہ قرآن میں کلام کرتے أَن يَتَكَلَّمُوا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا خَائِفِينَ وَأَنْتَ لیکن ڈرتے ڈرتے.اور تم جانتے ہو کہ اللہ ایسے تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ مُنَزِّهُ عَنْ هَذِهِ الْإِضْطِرَارَاتِ اضطراروں سے پاک ہے اور اس کے سب کلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورة ال عمران وَكَلَامُهُ كُلُّهُ مُرَتِّبْ كَالْجَوَاهَرَاتِ وَالتَّعَلُم جواہرت کی طرح مرتب ہیں اور اس کی شان میں ایسی في شَأْنِهِ مِثْلِ ذلِكَ جَهَالَةٌ عَظِيمَةٌ، بات کہنی بڑی جہالت اور بیوقوفی ہے اور ایسے وسوسوں وَسَفَاهَةٌ شَنِيْعَةُ، وَ مَا يَقَعُ في هَذِهِ میں بجز ایسے شخص کے کوئی بھی نہیں پڑتا کہ جو اس کی الْوَسَاوِسِ إِلَّا الَّذِي نَسِيَ قُدرَةَ الله تعالی و قدرت اور طاقت اور حفظ کو بھلا دے اور حقیر خیال قُوتَهُ وَ حَوْلَهُ، وَاحْتَقَرَهُ وَمَا قَدَرَهُ حَتَّى کرے اور اس کی پوری قدر نہ کرے اور اس کی قَدْرِهِ، وَ مَا عَرَفَ شَأْنَ كَلَامِهِ، بَلِ اجْتَرَأَ کلام کی شان سے جاہل ہو اور اس کو شاعروں کے وَأَلْحَقَ كَلَامَ اللهِ بِكَلَامِ الشَّاعِرِينَ کلام سے ملا دے.وَكَيْفَ يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَن اور کسی مسلمان کے لئے کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ يتَكَلَّمَ مِثْلِ هَذَا ، وَيُبَيّلَ كَلامَ اللهِ مِن وہ ایسی بات منہ پر لاوے اور اللہ کے کلام کو اپنی تِلْقَاء نَفْسِهِ وَيُحَرِّفَهُ عَنْ مَوْضِعِهِ مِنْ غَيْرِ طرف سے بدلے اور خدا و رسول سے اس کے پاس سَنَدٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ؟ أَلَيْسَتْ لَعْنَةُ اللهِ کوئی سند نہ ہو اور کلمات الہیہ کو ان کے محل سے ادھر عَلَى الْمُحَرِّفِينَ وَلَوْ كَانُوا عَلَى الْحَقِّ فَلِمَ لا ادھر کرے.کیا تحریف کرنے والوں پر خدا کی لعنت يَأْتُونَ بِبُرْهَانٍ عَلى هَذَا التَّحْرِيفِ مِنْ آيَةٍ نہیں ہے اور اگر وہ حق پر ہیں تو کیوں اس تحریف پر أَوْ حَدِيثٍ أَوْ قَوْلِ صحابي أَوْ رَأي إمام کوئی آیت یا حدیث یا قول صحابی یا قول امام دلیل تُجْتَهِدٍ إِن كَانُوا مِن الصَّادِقِينَ وَكَيْفَ کے طور پر پیش نہیں کرتے اگر بچے ہوتے تو ضرور پیش نَقْبَلُ تَحْرِيفَاتِهِمُ الَّتِي لَا دَلِيْلَ عَلَيْهَا مِن کرتے اور ہم کیوں کر ایسی تحریفوں کو قبول کر لیں جن پر الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَلَا نَجِدُهَا إِلَّا كَتَحْرِيفِ قرآن اور حدیث سے کوئی دلیل نہیں اور ہم ان کو الْيَهُودِ مِنْ تَلْبِيسِ الشَّيَاطِينِ وَأَمَّا بعینہ ان تحریفوں کی مانند پاتے ہیں جو شیطان کے السلف الصالح فَمَا تَكَلَّمُوا في هذِهِ الْمَسْأَلَةِ دھوکے سے یہود نے کی تھیں اور سلف صالحین نے اس تَفْصِيلًا، بَلْ آمَنُوا مُجيلًا بِأَنَّ الْمَسِيحَ مسئلہ میں مفصل کچھ نہیں کہا بلکہ اجمالی رنگ میں ایمان عِيسَى بْن مَرْيَمَ قَد تُولّى كَمَا وَرَدَ في لاتے تھے کہ میسج مر گیا ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے الْقُرْآنِ، وَآمَنُوا مُجَدّدٍ يَأْتِي مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ اور اس پر کہ آخری زمانہ میں جبکہ نصارای روئے زمین فِي آخِرِ الزَّمَانِ عِنْدَ غَلَبَةِ النَّصَارَى عَلی پر غالب ہو جاویں گے تو اس اُمت میں سے ایک مجدد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة ال عمران وَجْهِ الْأَرْضِ اسْمُهُ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ آئے گا جس کا نام عیسی بن مریم ہوگا اور اس کی وَفَوَّضُوْا تَفْصِيلَ هَذِهِ الْحَقِيقَةِ إِلى اللهِ تَعَالی تفصیل کو انہوں نے خدا تعالیٰ کے سپرد کیا اور واقع وَمَا دَخَلُوا في تَفَاصِيْلِهِ قَبْلَ الْوُقُوعِ، وَ ہونے کے پہلے اس کی تفصیل کے پیچھے نہیں پڑے كَذلِك كَانَتْ سِيْرَتُهُمْ فِي الْأَنْبَاءِ الْمُسْتَقْبِلَةِ جيسا کہ آئندہ زمانہ کی پیش گوئیوں میں ان کی كَمَا هِيَ سُنَّةُ الصَّالِحِينَ.فَخَلَكَ مِن بَعْدِهِمْ عادت تھی اور سب صالحین کی یہی عادت ہے پھر ان خَلْفٌ أَضَاعُوا سُنّعَهُمْ وَتَرَكُوا سِيرعَهُمْ کے بعد ایسی ذریت آئی جنہوں نے ان کی عادت وَأَوَّلُوا قَوْلَ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلى مَا اشْتَهَتْ اور سیرت کو ضائع کر دیا اور قال اللہ قال، الرسول کی أَنْفُسُهُمْ، ثُمَّ أَصَرُوا عَلَيْهِ كَأَنَّهُمْ عَرَفُوا اپنی خواہشوں کے مطابق تاویلیں کر دیں اور پھر ایسا أَسْرَارَ اللهِ يَقِيْنا وَكَأَنَّهُمْ كَانُوا مِن اصرار کیا گویا کہ خدائی اسرار کو انہوں نے یقینا جان لیا اور ان کو پورا یقین حاصل ہے.( ترجمہ از مرتب) الْمُسْتَيْقِيين حمامة البشری روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۹۴ تا ۱۹۸) وَأَنتَ تَعْلَمُ أَنَّ في تَرْتِيبِ هَذِهِ الْآيَةِ اور تو جانتا ہے کہ ترتیب کے لحاظ سے اس آیت كانت هذه الْمَوَاعِيْدُ كُلُّهَا بَعْدَ وَعْدِ التَّوَن میں جتنے وعدے ہیں وہ توفی کے وعدے کے بعد وَكَانَ وَعْدُ التَّوَفِّي مُقَدَّمًا عَلى كُلِّهَا، وَقَدِ ہیں اور توفی کا وعدہ ان سب سے مقدم ہے اور تمام اتَّفَقَ الْقَوْمُ عَلى أَنهَا وَقَعَتْ بِتَرْتِيْبٍ يُوجَدُ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں فِي الْآيَةِ، فَلَوْ فَرَضْنَا أَنَّ لَفَظَ التَّوَفِّي مُؤَخِّرُ موجود ترتیب کے مطابق ہی وہ وعدے پورے مِنْ لَّفْظِ الرَّفْعِ، لَلَزِمَنَا أَن تُقِرَّ بِأَنَّ عِیسَی ہوئے ہیں پس اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ لفظ تو ٹی رفع عَلَيْهِ السَّلَامُ قَد تُوُفِّيَ بَعْدَ الرَّفْعِ وَقَبْلَ کے لفظ سے مؤخر ہے تو ہمارے لئے اس بات کا اقرار وُقُوعِ الْمَوَاعِيْدِ الْبَاقِيَّةِ، وهذا مما لا يَعْتَقِدُ کرنا بھی ضروری ٹھہرے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بِهِ أَحَدمْنَ الْمُخَالِفِينَ وَلَوْ قُلْنَا آن لفظ کی وفات رفع کے بعد اور باقی وعدوں کے پورا ہونے التَّوَفِّي مُؤَخِّرٌ مِنْ جُمْلَةِ وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ سے پہلے واقع ہوگئی ہے حالانکہ یہ ایک ایسی بات ہے كَفَرُوا وَمُقَدَّمُ مِنْ وَعْدٍ وَقَعَ في ترتيب جسے مخالفین میں سے بھی کوئی نہیں مانتا اور اگر ہم یہ کہیں الْآيَةِ بَعْدَهَا، لَلَزِمَنَا أَنْ تُقِرّ بِأَنَّ وَفَاةَ عِيسَى که لفظ توفّى، مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا کے جملہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورة ال عمران عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ بَعْدَ نَبِنَا صَلَّى الله سے مؤخر ہے اور ان وعدوں سے مقدم ہے جو اس آیت کی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ مُكْبِ قَبْلَ غَلَبَةِ ترتیب میں اس جملہ کے بعد ذکر ہوئے ہیں تو لازم آئے گا أَتْبَاعِهِ عَلى أَعْدَاعِهِمْ، وَ هَذَا بَاطِل کہ ہم اقرار کریں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات أَيْضًا بِزَعْمِ الْقَوْمِ، فَإِنهُمْ قَدِ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بلاتاخیر واقع ہوگئی پیشتر اعْتَقَدُوْا أَنَّ الْمَسِيحَ لَا يَمُوتُ إِلَّا بَعْد اس کے کہ آپ کے متبعین کو ان کے دشمنوں پر غلبہ حاصل هَلَاكِ الْمِلَّلِ كُلِّهَا.فَلَوْ رَجَعْنَا مِن ہوتا اور یہ بات مسلمانوں کے خیال کے مطابق باطل ہے هذِهِ الْأَقْوَالِ كُلِّهَا وَقُلْنَا إِنَّ الْمَسِيحَ کیونکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح علیہ السلام تمام باطل فرقوں لا يَمُوتُ إِلَّا بَعْدَ تَكْبِيلِ وَعْدِ الْغَلَبَةِ اور مذہبوں کے مٹنے اور تباہ ہونے کے بعد ہی فوت ہوں الْمُمْتَدَّةِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَمَا صَرَحَتْ گے پس اگر ہم ان تمام امور سے رجوع کرلیں اور یہ کہیں کہ ايه وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ مسیح علیہ السلام کی وفات اس غلبہ کے وعدے کی تکمیل کے كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ للزمَنَا أَن تُقِرّ بعد ہوگی جس کا عرصہ قیامت تک ممند ہے جیسا کہ آیت : بِأَنَّ الْمَسِيحَ لَا يَمُوتُ إِلَّا بَعْدَ يَوْمِ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَإِنَّ الْوَعْدَ قَدِ امْتَدَّ إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ صراحت کر رہی ہے اور یہ بھی ہم پر لازم آتا ہے کہ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُمْكِنُ نُزُولُ الْمَسِيحَ إِلَّا اقرار کریں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات قیامت کے بَعْدَ وَقُوْعِهِ عَلَى الْوَجْهِ الْأَتَم بعد ہوگی کیونکہ یہ غلبہ کا وعدہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اس وَالْأَكْمَلِ، فَمَا تَجِدُ لَهُ مَوْضِعَ قَدّم في وعدہ کے بدرجہ اتم و اکمل پورا ہونے کے بعد ہی آپ کا كِتَابِ الله إِلَّا بَعْد يوم الخشير على نزول ممکن ہوگا اس صورت میں ہمیں کتاب اللہ کی رو سے طَرِيقِ فَرْضِ الْمُحَالِ.وَلَيْتَ شِعْرِی یوم حشر سے پہلے مسیح کے قدم دھرنے کے لئے کوئی گنجائش نظر أنَّ أَعْدَاء مَا يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ إِنَّ لفظ نہیں آتی یہ بات علی سبیل الفرض کہی جارہی ہے اور کاش میں مُتَوَفِّيكَ في ايةِ يُعِيسى إلى مُتَوَفِّيكَ سمجھ سکتا کہ ہمارے مخالف یہ بات اپنے منہ سے کس طرح مُؤَكِّرُ فِي الْحَقِيقَةِ، وَلَيْسَ هَذَا الْمَوْضِعُ نکالتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ متوفيك در حقیقت مؤخر مَوْضِعَهُ وَلَكِنَّهُمْ لا يُنيتُونَنَا بِأَن لَّو ہے اور موجودہ جگہ اس کی اصل جگہ نہیں لیکن وہ ہمیں یہ نہیں نَرْفَعُ هَذَا اللَّفْظَ مِنْ هَذَا الْمُقَامِ بتا سکتے کہ اگر ہم اس لفظ مُتَوَفِّيكَ کو موجودہ جگہ سے ہٹا دیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة ال عمران فَأَيْنَ نَضَعُهُ أَنْسْقِطه مِنْ كِتابِ الله تو اسے کہاں رکھیں کیا ہم اسے تحریف کرنے والوں کی طرح کتاب اللہ سے نکال دیں.كَالْمُحْرِفِينَ.وَالَّذِينَ يَقُولُونَ إِنَّ لفظ التَّوفى اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ لفظ تو فی لفظ رفع سے مُؤَخَرُ مِنْ لَّفْظِ الرَّفْعِ وَمُقَدَّمُ عَلى مؤخر ہے اور باقی تمام وعدوں سے مقدم ہے ان کے مَوَاعِيْدٍ أُخْرَى، فَيَضْحَكُ الْعَاقِلُ مِن اس قول پر عقل مند شخص تو ہنس پڑے گا اور ان کی قَوْلِهِمْ، وَيَتَعَجَّبُ مِنْ مُمقِهِمُ الَّا حماقت پر تعجب کرے گا.کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کا یہ يَعْلَمُونَ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ خِلافُ مَا قول تو ان کے اس عقیدہ کے خلاف ہے جو وہ بزعم خود يَعْتَقِدُونَ في وَقْتِ وَفَاةِ الْمَسِیح صحیح کی وفات کے وقت کے متعلق رکھتے ہیں اور ہم بِزَعْمِهِمْ وَإِنَّا ذَكَرْنَا أَنِفًا أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ ابھی ذکر کر چکے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ وعدہ توفی کا أَنَّ وَعْدَ التّولى لا يَظْهَرُ وَلَا يَقَعُ إِلَّا بَعْدَ ظہور اور وقوع تمام ملتوں کے پیروؤں کے ہلاک هَلَاكِ أَهْلِ الْمِلَلِ كُلِّهَا، فَلَزِمَهُمْ أَنْ ہونے کے بعد واقع ہو گا اس طرح ان پر لازم آتا ہے يَعْتَقِدُوا أَن لفظ القَوَلي مُؤَخَرُ مِنْ هَذَا کہ وہ یہ عقیدہ بھی رکھیں کہ لفظ توئی آخری وعدہ سے الْوَعْدِ الْأَخِرِ لَا مِنَ الرَّفْعِ فَقَط فَإِنَّ بھی مؤخر ہے نہ صرف لفظ رفع سے کیونکہ تأخر وضعی تأخر التَّأْخُرَ الْوَضْعِيَ يَتَّبِعُ التَّأْخُرَ الطبعي طبعی کا تابع ہوتا ہے جیسا کہ فکر کرنے والوں پر یہ بات كما لا يخفى عَلَى الْمُتَفَكِّرِيْنَ ثُمَّ مَا كَانَ مخفی نہیں.علاوہ ازیں ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم لَنَا أَنْ تُوَخِرَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِنَا مَا قَدَّمَ الله از خود بغیر خدا تعالیٰ یا اس کے رسول کی سند کے کسی ایسی تَعَالَى فِي كِتَابِهِ الْمُحْكَمِ مِنْ غَيْرِ سَنَدٍ چیز کو مؤخر قرار دیں جسے خدا تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب ين الله وَرَسُولِهِ وَمَا هذَا إِلَّا التَّحْرِيفُ میں مقدم رکھا ہے اور یہ ایسی تحریف ہوگی جس کی وجہ الَّذِئ لَعَنَ اللهُ لأَجْلِهِ الْيَهُودَ، فَاتَّقُوهُ وَلَا سے اللہ تعالیٰ نے یہود پر لعنت کی تھی پس تم اللہ تعالیٰ کا تُقَلِّبُوا آيَاتِ اللهِ بَعْدَ تَرتيبها إِن كُنتُمْ تقویٰ اختیار کرو اور اگر تمہیں کچھ بھی خوف ہے تو آیات الہیہ کو ان کی ترتیب سے الٹ پلٹ نہ کرو.خَائِفِينَ حمامة البشرکی روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۵۸ تا ۲۶۰).(ترجمه از مرتب) وَالَّذِينَ قَالُوا إِنَّ لَفْظَ مُتَوَفِّيكَ فِي آيَةٍ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۷ سورة ال عمران يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ يَمَعْلى إلى مُدِيمُك میں لفظ مُتَوَفِّيكَ کے معنے مدِیمک ہیں (یعنی میں تجھے مَا كَانَ خَطَاءَهُمْ خَطَأً وَاحِدًا، بَلْ جَمَعُوا سلانے والا ہوں ) تو ان کی یہ غلطی ایک غلطی نہیں ہے بلکہ أَنْوَاعَ الْعَثَرَاتِ في قَوْلِهِمْ وَتَرَكُوا انہوں نے اپنے اس قول میں اور بھی کئی لغزشیں جمع کر لی ہیں تَفْسِيرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کو چھوڑ دیا وَسَلَّمَ، وَهُوَ خَيْرُ الْبَشَرِ وَكَانَ تَكلُمُه ہے حالانکہ آپ خیر البشر تھے اور آپ رحمانی روح سے بِالرُّوحِ الرَّحْمَانِي، وَكَانَ قَوْلُهُ خَيْرًا مِّنْ گفتگو فرماتے تھے اور آپ کا قول مبارک باقی تمام اقوال أَقْوَالٍ كُلِّهَا، وَقَدْ أَحَاطَتْ كَلِمَاتُهُ طُرُقَ پر فوقیت رکھتا ہے اور آپ کے کلمات مبارکہ ذوق وجدان، التَّوْقِ وَ الْوِجْدَانِ وَالْعِلْمِ وَ الْعِرْفَانِ علم ، عرفان اور اس نور پر حاوی ہیں جو آپ کو خدائے رحمان وَالتُّوْرِ الَّذِى أُعْلى لَهُ مِنَ الرَّحْمٰن کی طرف سے دیا گیا تھا نیز ان لوگوں نے حضرت ابن عباس وَتَرَكُوا مَا قَالَ ابْنُ عَبّاس في مَعْلی کے اس قول کو بھی ترک کر دیا ہے جو آپ نے مُتوفِّيكَ کے مُتَوَفِّيكَ وَمَا نَظَرُوا إِلَى الْقُرْان و معنے کے بارہ میں فرمایا ہے.پھر ان لوگوں نے قرآن شریف طرِيقِ اسْتِعْمَالِهِ في هذا اللفظ و اور اس کے توفی کے لفظ کے استعمال کے طریق پر غور نہیں وُرُودِهِ فِيهِ يَمَعْنَى الْإِمَاتَةِ بِالتَّوَاتُرِ کیا اور نہ اس کا خیال کیا کہ یہ لفظ متواتر اور پے در پے وَالتَّتَائِج، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا وَمَا كَانُوا مِن امانت کے معنے میں ہی قرآن مجید میں آیا ہے پس نہ صرف الْمُهْتَدِينَ ثُمَّ إِذَا فَرَضْنَا أَنَّ التَّوَفِّي وہ خود گمراہ ہوئے بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کر دیا يمَعْنَى الْإِنامَةِ فَمَا نَرَى أَنْ يَنْفَعَهُمْ هَذَا اور وہ ہدایت پانے والے نہ بنے پھر اگر ہم فرض کر لیں کہ w w الْمَعْلى مِثْقَالَ ذَرَّةٍ، فَإِنَّ النَّوْمَ مُرَادُ توفی کے معنے سلانے کے ہیں تو ہمارے خیال میں یہ معنے مِنْ قَبْضِ الرُّوحِ وَتَعَقُلِ حَوَاشِ بھی انہیں ذرہ بھر فائدہ نہیں دے سکتے کیونکہ نیند سے مراد الْجِسْمِ مَعَ بَقَاءِ تَعَلَّقٍ بَيْنَ الرُّوحِ دراں حالیکہ جسم اور روح کے درمیان تعلق باقی رہتا ہے وَالْجَسَدِ، فَمِنْ أَيْنَ يَعْبُتُ مِنْ هَذَا أَنَّ اللهَ قبض روح اور جسم کے جو اس کا معطل ہے، اس سے یہ کیسے قَبَضَ جِسْم الْمَسِيحِ أَلَا تَنظُرُ إلى ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کو سُنَّةِ الله القديمة....فَإِنَّهُ يَقْبِضُ قبض کر لیا تھا؟ کیا تو اللہ تعالیٰ کی اس قدیم سنت کو نہیں دیکھتا الْأَرْوَاحَ فِي حَالَةِ النَّوْمِ وَيَتْرُكُ کہ وہ نیند کی حالت میں صرف ارواح کو قبض کرتا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة ال عمران الْأَجْسَاءَ عَلَى الْأَرْضِ فَمن أَيْنَ عَلِمت اجسام کو زمین پر ہی رہنے دیتا ہے پس تو نے یہ کیسے معلوم أن لفظ مُتَوَفِّيكَ مُشْعِر يرفع الجسد؟ کر لیا کہ مُتَوَفيك کا لفظ جسم کو اٹھانے پر دلالت کرتا ہے أَنَّ لَفَظَ وَالْخَلْق يَنَامُونَ كُلُّهُمْ وَلكِن لَّا يَقْبضُ حالانکہ تمام لوگ سوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی اللهُ جِسْم أَحَدٍ مِّنْهُمْ.....کے جسم کو قبض نہیں کرتا......وَعَلَى تَقْدِيرِ فَرْضِ هَذَا الْمَعْنَى يَلْزَمُ یہ معنے فرض کر لینے کے بعد ایک اور خرابی لازم آتی فَسَادٌ أَخَرُ، وَهُوَ أَنَّ لَفْظ التوفي في هذه ہے اور وہ یہ کہ مذکورہ آیت میں لفظ تو فی ایسا وعدہ ہے جو الْآيَةِ وَعْدٌ تُحْدَثٌ مِنَ اللهِ تَعَالَى كَمَوَاعِید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے طور پر پورا ہونے والا ہے ان أُخْرَى الَّتِى ذَكَرَهَا اللهُ فِيْهَا، وَلَوْ كَانَ هذا وعدوں کی طرح جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر الْمَعْلى هُوَ الْحَقُّ فَيَلْزَمُ مِنْهُ أَنْ يَكُونَ فرمایا ہے.اگر یہ بات حق اور درست ہے تو اس سے یہ نَوْمُ الْمَسِيحِ عِنْدَ الرَّفْعِ أَوَّلَ أَمْرٍ وَرَدَ لازم آتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رفع کے وقت پہلی عَلَيْهِ فِي عُمُرِهِ، وَيَلْزَمُهُمْ أَنْ يَعْتَقِدُوا أَن دفعہ ہی عمر بھر میں نیند آئی پھر ان لوگوں پر لازم آئے گا عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ لَا يَنَامُ قَبْل کہ وہ یہ اعتقاد رکھیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام رفع سے الرفع قط، فَإِنَّ الْأَمْرَ الَّذِى قَدْ وَقَعَ عَلَيْهِ پہلے ہرگز نہیں سوتے تھے کیونکہ جو امر آپ کی زندگی میں فِي حَيَاتِهِ غَيْرَ مَرَّةٍ كَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ کئی بار واقع ہو چکا کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو يَذْكُرَهُ اللهُ في مَوَاعِيدٍ جَدِيدَةٍ مُحْدَثَةٍ ان نئے وقوع پذیر ہونے والے وعدوں میں ذکر فَإِنَّ وَعْدَ الشّينِي يَدُلُّ عَلَى عَدُهِ وُجُودِ فرمائے.کیونکہ کسی چیز کا وعدہ اس بات پر دلالت کرتا الشَّيْئِ قَبْلَ الْوَعْدِ، وَإِلَّا فَيَلْزَمُ تَحْصِیلُ ہے کہ وہ چیز وعدہ سے پہلے موجود نہیں تھی ورنہ تحصیل حَاصِلٍ، وَهُوَ فِعَل لَّغُوْ لَّا يَلِيقُ بِشَأْنِ اللَّهِ حاصل لازم آئے گی اور یہ ایسا لغو فضل ہے جو اللہ تعالیٰ کی تَعَالَى وَوَجَبٌ أَن يَنزُةَ عَنْهُ وَعْدُ رَبِّ شان کے شایاں نہیں ہے اور ضروری ہے کہ رب العالمین الْعَالَمِيْنَ ثُمَّ لَوْ كَانَ هَذَا الْمَعْلى هُوَ کے وعدے ایسی باتوں سے پاک ہوں پھر اگر یہ معنے صحیح الصَّحِيحُ فَمَا تَقُولُ فِي آيَةِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ہوں تو آیت : فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ كنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ أَتَظُنُّ أَنَّ کے متعلق تم کیا کہو گے کیا تو خیال کرتا ہے کہ نصاری نے النَّصَارَى التَّخَذُوا الْمَسِيحَ إِلهَا بَعْدَ حضرت مسیح علیہ السلام کو اُن کے سونے کے بعد خدا بنایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ سورة ال عمران نَوْمِهِ لَا بَعْدَ وَفَاتِهِ وَتَظُنُ أنَّ الْمَسِيحَ تھا، نہ اُن کی وفات کے بعد اور کیا تو یہ بھی خیال کرتا ہے کہ مَا نَامَ قَط في عُمُرِهِ إِلَّا في وَقْتِ ضَلالة حضرت مسیح علیہ السلام اپنی زندگی میں صرف نصاری کی النّصَارَى وَلَمْ تَذْقُ عَيْنُهُ طَعْمَ التَّوْمِ گمراہی کے وقت ہی سوئے تھے اور آپ کی آنکھوں نے قط إِلَّا عِندَ الرّفع وَكَانَ قَبْلَ الرَّفع رفع کے وقت ہی نیند کا مزہ چکھا تھا اور اس سے قبل وہ ہمیشہ مُسْتَيْقِظًا دَائمًا فَانظُرْ مُنصفا جاگتے رہتے تھے پس تو انصاف سے بتا کیا یہ معنے اس جگہ أَيَسْتَقِيمُ هَذَا الْمَعْلى في هَذَا الْمَوْضِع ٹھیک بیٹھتے ہیں اور کیا ان معنوں سے سینہ کی ٹھنڈک، روح وَيَحْصُلُ مِنْهُ ثَلْجُ الْقَلْبِ وَسَكِينَةُ کا سکون اور دل کا اطمینان حاصل ہو سکتا ہے؟ تجھے معلوم الرُّوحِ والممتانُ الْبَاطِنِ وَأَنتَ تَعْلَمُ ہے کہ یہ معنے عقل سے دور اور بالبداہت غلط ہیں اور تاویل أَنَّه مُسْتَبْعِدُ جِدًّا وَ فَاسِ بِالْبَدَاهَةِ کرنے والوں کی تاویل بھی انہیں درست قرار نہیں دے وَمَا كَانَ أَنْ يُصْلِحَهُ تَأْوِيلُ الْمُؤَوّلِينَ سکتی.( ترجمه از مرتب) (حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۶۳ تا ۲۶۴) وَمَا خَالَفْنَا الْمُكَفِّرِینَ إِلَّا فِي وَفَاةِ اور جن لوگوں نے ہمیں کافر ٹھہرایا ان سے ہم صرف اس عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، بات میں ان کے مخالف ہیں کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کی فَاغْتَاظُوا غَيْظًا شَدِيدًا، وَمُلِنُوا مِنْهُ وفات کے قائل ہیں، وہ لوگ بہت غضبناک ہوئے اور غصہ سے كَأَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَةٍ يُعِيسى إلى بھر گئے گویا انہیں اس بات پر کچھ ایمان نہیں کہ اے عیسی ! میں إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِ الْوَفَاةِ الَّذِی تجھے وفات دوں گا اور نہ وعدہ وفات پر ایمان ہے جس کی اس قَدْ صُرِحَ فِيْهَا، وَكَانَهُمْ لَا يَعْرِفُونَ آيَةً آیت میں تصریح ہے اور گویا وہ لوگ اس آیت کو بھی پہچانتے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي الَّتِي فِيْهَا إِشَارَةٌ إِلى إِنْجَازِ نہیں جس میں حضرت عیسی کا اقرار ہے کہ تو نے مجھے وفات دی یہ هذَا الْوَعْدِ وَوُقُوعِ الْمَوْتِ وَالْآيَاتُ وی آیت فَلَمَّا تَوَفَّینی ہے جس میں اس وعدہ موت کے پورے بَيْنَةٌ مُنْكَشِفَةٌ، فَلَعَلَّهُمْ فِي شَكٍّ مِن ہونے کی طرف اشارہ ہے جو آیت اِنِّي مُتَوَفِّيكَ میں ہو چکا كِتَابٍ مُّبِينٍ، فَنَبَذُوا كِتَابَ اللهِ وَرَآءَ تھا.آیات کھلے کھلے ہیں مگر شاید یہ لوگ قرآن پر یقین نہیں رکھتے اور شک میں ہیں اور کتاب اللہ کو انہوں نے ایمان لانے هِمْ بَعْدَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ - 119 نور الحق ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ (۸) کے بعد اپنی پس پشت پھینک دیا ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے )
۱۴۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة ال عمران وَقَد ذَكَرْتُ أَيْضًا أَنَا لَوْ فَرَضْنَا عَلَى اور میں ابھی ذکر کر چکا ہوں کہ اگر ہم آیت یعیسی سَبِيلِ الثَّنَالِ وَقُلْنَا إِنَّ التَّوَى فَهُنَا إلى مُتَوَفِّيكَ میں عَلى سَبِيلِ القَنَول لفظ توفی کے أَغْنِى أغنى فى ايةٍ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ يتغنى معنے سلانے کے کر لیں تب بھی یہ ایک دوسری بات ہوگی کر الْإِنامَةِ لَكَانَتْ هَذِهِ الْوَاقِعَةُ وَاقِعَةٌ أُخْرَى اور اس سے استدلال کرنا مخالفین کو کوئی فائدہ نہیں دے وَلَا يَنفَعُ الْإِسْتِمُلالُ بِهَا قَوْمًا مُخالفین گا.کیونکہ اس ساری گڑ بڑ سے مخالفین کا مقصد حضرت فَإِنَّ مَطْلُوبَ الْمُخَالِفِينَ مِنْ خَبْطِهِمْ أَنْ صحیح علیہ السلام کا مع جسم عنصری اٹھایا جانا ثابت کرنا يُثْبِتُوْا رَفَعَ الْمَسِيحِ مَعَ جِسْمِهِ الْعَنْصُرِ ہے.لیکن ان معنوں سے بھی انہیں یہ مقصد حاصل نہیں وَ لكِن لَّا يَحْصُلُ هَذَا الْمَطلُوبُ مِنْ هَذَا ہوتا.بلکہ ان کے مقصد کے خلاف نتیجہ نکلے گا.کیونکہ اس الْمَعْنى، بَلْ يَحْصُلُ مَا يُخَالِفُهُ فَإِنَّ مَعْنَى صورت میں آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اے عیسی ! الْآيَةِ في هذه الصُّورَةِ يَكُونُ هَكَذَا يَا عِیسَی میں تیری روح قبض کرنے والا ہوں اور تیرے جسم کو إلى قَابِضُ رُوحِكَ وَتَارِك جَسَدِك على زمین میں اس صورت میں چھوڑنے والا ہوں کہ روح الْأَرْضِ مَعَ بَقَاءِ عَلَاقَةٍ بَيْنِ الْجَسَدِ وَ اور جسم میں تعلق باقی رہے گا کیونکہ نیند روح کے قبض الرُّوحِ، فَإِنَّ التَّوْمَ عِبَارَةٌ عَنْ قَبْضِ کرنے اور جسم کے چھوڑ دینے کا نام ہے.دراں حالیکہ الرُّوحِ وَ تَرْكِ الْجَسَدِ مَعَ بَقَاءِ عَلَاقَتِهِمَا ان دونوں کے درمیان تعلق باقی رہتا ہے.اب دیکھ لو عَلَى وَجْهِ تَامٍ فَانْظُرْ أَنِّى يَحْضُلُ مَطلُوبُ ان معنوں کی رو سے مخالفین کا مقصد کہاں حاصل ہوتا الْمُخَالِفِينَ مِنْ هَذَا الْمَعْلَى وَ أَيْنَ يَثْبُتُ ہے اور اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کا مِنْهُ رَفْعُ جَسَدِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ إلى جسم آسمان پر اٹھایا گیا بلکہ توفی کو اس کے غیر محل میں السَّمَاءِ ، بَلِ الْأَمْرُ بَقِيَ عَلَى حَالِهِ مَعَ حَمْلِ استعمال کرنے کے باوجود معاملہ جوں کا توں باقی رہے گا.(ترجمہ از مرتب ) مَعْنَى التَّوَى عَلى غَيْر محله - (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۶۵) وَقَدْ تَقْتَضِي حِكْمَةُ اللهِ تَعَالَى وَ دَقَائِق کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مصلحت کی مَصَالِحِهِ أَنَّهُ يَتَوَى نَبِيًّا قَبْلَ فَجنِي أَيَّامِ باریکیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ نبی کو اس کی فتح فَتْحِهِ وَإِقْبَالِهِ، فَلَا يَتَوَفَاهُ حَزِينًا يَائِسًا، بَلْ اور اقبال کے زمانہ کے آنے سے قبل وفات دے دے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة ال عمران يُبيرة يتبْشِرَاتٍ مُتَوَالِيَةٍ مُتَتَابِعَةٍ لیکن اسے نا امید اور غمگین ہونے کی صورت میں وفات نہیں بِغَلَبَةِ مُتَّبِعِيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِ لِيَطْمَئِن دیتا.بلکہ وہ اسے پے در پے بشارات سے نوازتا ہے کہ اس بهَا قَلْبُهُ وَلِكَى لَا يَحْزُنَ وَلِكَى لَا يَرْجِعُ کے ماننے والے اس کی وفات کے بعد غالب آئیں گے اور إلى رَبِّهِ بِقَلْبٍ أَلِيمٍ، بَلْ يَنتَقِلُ مِن یہ اس لئے ہوتا ہے کہ تا اس نبی کا دل مطمئن رہے اور کسی قسم کا هذَا الْعَالَمِ بِسَكِيْنَةٍ وَسُرُورٍ وَحُبُورٍ حزن اسے حاصل نہ ہو اور تا وہ اپنے رب کی طرف دیکھی دل وَقُرَّةٍ عَيْنٍ وَلَا يَبْقَى لَهُ هَم بَعْدَ کے ساتھ نہ لوٹے بلکہ پورے سکون ، سرور، خوشی اور آنکھوں تَبْشِيرِ اللَّهِ وَمَوَاعِيْدِهِ الصَّادِقَةِ کی ٹھنڈک کے ساتھ اس جہان سے رحلت فرمائے.اللہ تعالیٰ وَيَذْهَبُ إِلى رَبِّهِ فَرْحَانَ غَيْرَ حَزِينٍ کی بشارتوں اور اس کے سچے وعدوں کے بعد اسے کوئی غم نہ فَكَذلِكَ كَانَ أَمْرُ عِیسَی عَلَيْهِ رہے اور وہ خوش خوش بے غم ہو کر اپنے رب کی طرف جائے.السَّلَامُ فَإنّه ما راى غَلَبَةٌ في زَمَنِ یہی صورت حال حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہوئی.حَيَاتِهِ، وَاقْتَرَبَ يَوْمُ وَفَاتِهِ فَبَشَرَهُ انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی غلبہ نہ دیکھا یہاں تک کہ آپ اللهُ تَعَالَى بِغَلَبَةِ مُتَّبِعِيْهِ بَعْدَ مَوْتِهِ کی وفات کا وقت قریب آ گیا.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے وَمَا بَشَرَهُ بِغَلَبَةٍ في أَيام حَيَاتِهِ متبعین کے غلبہ کی بشارت دی جو آپ کی موت کے بعد ملنا تھا فَارْجِعْ إِلَى الْآيَةِ الْمُتَقَيَّمَةِ وَدَقِّقِ اور یہ بشارت نہیں دی کہ آپ کو اپنی زندگی میں خود غلبہ النَّظْرَ فِيْهَا.هَلْ تَرَى فِي هَذَا الْمَعْلى حاصل ہو گا.اب آیت مذکورہ بالا پر غور کرو اور اس پر بار یک مِنْ فُتُوْرٍ فَكَأَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ نظر ڈالو کیا تمہیں ان معنی میں کوئی نقص نظر آتا ہے؟ اللہ تعالیٰ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ قَبْل أَن تَری نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اے عیسی ! میں تجھے وفات ظَفَرَكَ وَفَتْحَكَ وَغَلَبَتَكَ، وَإِنِّى دینے والا ہوں پیشتر اس کے کہ تو اپنی کامیابی اور غلبہ کو دیکھے مُعْطِيْك مَقَامَ الْعِزَّةِ وَالتَّفعِ وَالْقُرْبِ اور میں تمہیں یہود کے زعم کے خلاف عزت ، بلندی اور قرب کا عَلى خِلَافِ زَعْمِ الْيَهُودِ، فَلا تبتیس مرتبہ عطا کرنے والا ہوں پس تو اس وجہ سے نمکین نہ ہو کہ تو يمَا تَمُوتُ قَبْلَ رُؤْيَةِ غَلَبَتِكَ، وَلَا اپنے غلبہ کو دیکھنے سے پہلے فوت ہورہا ہے اور نہ اپنے متبعین کی تخص عَلى ضُعْفِ مُتَّبِعِيْك وكثرة موجودہ کمزوری اور اپنے دشمنوں کی کثرت کا فکر کر کیونکہ أعداءك فإلى خليفتك بعدك تمہارے بعد میں تمہارا قائم مقام ہوں گا.میں تمہارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۲ سورة ال عمران فَأُمَرْقُ أَعْدَاءَكَ كُلّ مُمَزَّقٍ، وَأَسْتَأْصِلُهُمْ دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا اور انہیں ہمیشہ کے لِلْأَبَدِ، وَأَجْعَلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ وَتَصَدُّوا لئے تباہ و برباد کر دوں گا اور میں ان لوگوں کو جو تیری پیروی لِخِلافَتِكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ کریں گے اور تیری خلافت کے لئے کوشاں رہیں گے.الْقِيَامَةِ، هَذَا تَفْسِيرُ مَا قَالَ أَحْسَنُ انہیں تیرے نہ ماننے والوں پر تا قیامت غلبہ عطا کروں گا.تفسیر ہے اس کی جو اللہ تعالیٰ احسن القائلین نے فرمایا ہے.وَلَوْ كَانَ عِيسَى نَازِلاً من السَّمَاءِ في اگر حضرت عیسی علیہ السلام نے آئندہ کسی وقت الْقَائِلِينَ.وَقْتٍ مِّنَ الْأَوْقَاتِ لَمَا قَالَ كَذلِك بَل آسمان سے نازل ہونا ہوتا تو خدا تعالیٰ یوں نہ فرما تا بلکہ قَالَ يَا عِيسَى لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنُ، فَإِنَّا لا یوں فرماتا کہ اے عیسی ! ڈرو نہیں، غم مت کھاؤ ، ہم تجھے تميتُك بَلْ نَرْفَعُكَ حَيًّا إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ انا وفات نہیں دیں گے بلکہ تجھے زندہ آسمان پر اٹھا لیں گے نُنَزِّلُكَ إِلَى الْأَرْضِ وَ نَرُدُّكَ إِلى أُمَّتِكَ، پھر تجھے زمین پر نازل کریں گے اور تجھے تیری قوم کی وَتَجْعَلُكَ غَالِبًا عَلى أَعْدَائِكَ، ثُمَّ نَجْعَلُ طرف لوٹائیں گے اور تجھے تیرے دشمنوں پر غالب مُتَّبِعِيْك غَالِبِينَ عَلَيْهِمْ إلى يَوْمِ کریں گے پھر ان پر تیرے متبعین کو تا قیامت غلبہ عطا الْقِيَامَةِ فَلَا تَحْسَبُ نَفْسَك مِن کریں گے پس تو اپنے آپ کو مغلوب لوگوں میں سے الْمَغْلُوبِينَ وَلكِنَّ اللهَ مَا وَعَدَ لَهُ أَن خیال نہ کر لیکن اللہ تعالی نے آپ سے یہ وعدہ نہیں کیا تُنَزِلَهُ مِنَ السَّمَاءِ ، ثُمَّ يَجْعَلَهُ غَالِبًا عَلَى کہ وہ آپ کو آسمان سے نازل کرے گا اور پھر آپ کو أَعْدَائِهِ، بَلْ وَعَدَ لَهُ أَنْ تَجْعَلَ مُتَّبِعِيْهِ آپ کے دشمنوں پر غالب کرے گا بلکہ اس نے مسیح سے غَالِبِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ یہ وعدہ کیا کہ وہ آپ کے متبعین کو آپ کے مخالفوں پر تا فَفَعَلَ كَمَا وَعَدَ وَمَطَى عَلَيْهِ قُرُون قیامت غالب رکھے گا پس اس نے اسی طرح کیا جیسے وعدہ کیا تھا اور اس پر کئی صدیاں گزرگئی ہیں.كثيرة (حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۶۶ تا ۲۶۷) ( ترجمه از مرتب) إنَّ الْمَسِيحَ عِيسَى بْن مَرْيَمَ قَدمَات مسیح عیسی ابن مریم اپنی طبعی موت سے فوت يمَوتِهِ الطَّبْعِي وَتُولّى كَاخْوَانِهِ مِن ہوئے اور اپنے دوسرے مرسل بھائیوں کی طرح الْمُرْسَلِينَ وَبَشَرَنِي وَقَالَ إِنَّ الْمَسِيحَ وفات پاچکے ہیں.اور اس نے مجھے بشارت دی اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ سورة ال عمران الْمَوْعُودَ الَّذِي يَرْقُبُونَهُ وَالْمَهْدِى فرمایا که مسیح موعود جس کی وہ راہ دیکھتے ہیں اور مہدی الْمَسْعُوْدَ الَّذِي يَنْتَظِرُونَهُ هُوَ اَنتَ، مسعود جس کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ تو ہی ہے.ہم جو نَفْعَلُ مَا نَشَاءُ فَلَا تَكُونَنَّ مِن چاہتے ہیں کرتے ہیں.اس لئے تو شک کرنے والوں الْمُمْتَرِيْنَ وَقَالَ إِنَّا جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ میں سے ہرگز نہ بن نیز فرمایا : کہ ہم نے تجھے مسیح ابن ابْنَ مَرْيَمَ، فَفَضَّ خَتَمَ سِرَةٍ وَجَعَلَنِي عَلى مریم بنایا ہے.اس طرح اُس نے اپنے راز کی مہر کو دَقَائِقِ الْأَمْرِ مِنَ الْمُطَّلِعِينَ وَتَوَاتَّرَتْ توڑا اور اس امر کے دقائق پر مجھے مطلع فرمایا اور یہ هذِهِ الْإِلْهَامَاتُ وَتَتَابَعَتِ الْبَشارات الهامات اتنے تواتر سے ہوئے اور یہ بشارتیں اتنی حَتَّى صِرْتُ مِنَ الْمُطْمَئِنِينَ ثُمَّ تَخَيَّرت لگاتار ہوئیں کہ میں پورے طور پر مطمئن ہو گیا.پھر میں طَرِيقَ الْحَزَامَةِ، وَرَجَعْتُ إِلى كِتَابِ الله نے حزم واحتیاط کا طریق اختیار کیا اور سلامتی کی راہوں خَفِيرِ طُرُقِ السَّلَامَةِ، فَوَجَدتُهُ عَلَيْهِ کی محافظ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کیا.تو میں نے أَوّلَ الشَّاهِدِينَ وَ آئی بَيَانِ تَكُونُ اس کو اس پر سب سے پہلا گواہ پایا اور اُس کے بیان وضح " مِن بَيَانِه يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ يُعِيسَى إِنِّي مُتَوفيكَ سے بڑھ کر اور کون سا بیان واضح ؟ 119 فَانظُرْ هَدَاكَ اللهُ قَبْلَ تَوَفِّيكَ وَجَعَلَكَ تر ہو سکتا ہے؟ غور کر! اللہ تعالیٰ تجھے تیری وفات سے مِنَ الْمُسْتَبْصِرِينَ پہلے ہدایت دے اور تجھے صاحب بصیرت بنائے.وَاللهُ اللهُ بِقَوْلِهِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى سے (وفات مسیح فَفَكَّرْ فِيْهِ يَا مَنْ أَذَيْتَنِي وَحَسِبْتَيني من کے عقیدہ) کو پکا کر دیا ہے.اس لئے اے وہ شخص ! جس الْكَافِرِينَ.وَهَذَا نَضٌ لَّا يَرُدُّهُ قَوْلُ مُبَارٍ نے مجھے اذیت دی اور مجھے کافروں میں سے گردا نا تو اس بِأَتَارٍ، وَلَا يَجْرَحُه سَهُمُ مُمَارٍ في مِضْمَارٍ، بارے میں غور کر ! اور یہ وہ نص صریح ہے جسے کسی مخالف کا وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا مَنْ كَانَ مِنَ الظَّالِمِينَ قول احادیث سے رڈ نہیں کر سکتا اور نہ ہی میدان میں کسی وَالَّذِيْنَ غَاضَ دَر أَفَكَارِهِمْ، وَضَعُفَتْ مخالف کا تیرا سے مجروح کر سکتا ہے سوائے ظالم کے اس کا جَوَازِلُ انْقَارِهِمْ لَا يَنظُرُونَ إِلى کوئی انکار نہیں کر سکتا.وہ لوگ جن کے فکر کے سوتے كِتَابِ اللهِ وَبَيِّنَاتِهِ، وَيَتِيبُونَ كَرَجُلٍ تَبِعَ خشک ہو چکے ہوں اور اُن کی نگاہیں کمزور اور کوتاہ ہوں وہ ل هَذَا سَهُو من الناتج والصَّحِيحُ أوضح الناشر) ،،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة ال عمران جَهَلَاتِهِ وَ يَتَكَلَّمُونَ كَمَجَانِيْنَ كتاب اللہ اور اُس کے واضح دلائل پر نگاہ نہیں ڈالتے اور وہ يَقُولُونَ إِنَّ لفظ التَّونِى مَا وُضِعَ اُس شخص کی طرح سرگرداں ہیں جو اپنی جاہلانہ باتوں کا تابع لِمَغنِّى خَاضٍ بَلْ عَمَّتْ مَعَانِيهِ، وَمَا ہو اور پاگلوں جیسی گفتگو کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ لفظ توفی أحْكِمَتْ مَبَانِيْهِ، وَكَذَلِكَ يَكِيدُونَ خاص معنی کے لئے وضع نہیں کیا گیا اس کے معانی عام ہیں اور كَالْمُفْتَرِيْنَ وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ إِنَّ هَذَا اس کی بنیادیں مضبوط نہیں اور وہ اس طرح مفتریوں کی اللفظ ما جاء في الْقُرْآنِ كِتَابِ الله طرح فریب کرتے ہیں.اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ الرَّحْمٰنِ إِلَّا لِلْإِمَاتَةِ وَقَبْضِ الْأَرْوَاحِ رحمن خدا کی کتاب قرآن میں یہ لفظ جہاں بھی وارد ہوا ہے الْمَرْجُوعَةِ، لَا لِقَبْضِ الْأَجْسامِ وہاں اس کے معنی صرف اور صرف مارنے اور دم واپسیں الْعُنصُرِيَّةِ فَكَيْفَ تُصِرُّونَ عَلی رُوح کے قبض کرنے کے ہوتے ہیں نہ کہ اجسام منصری مَعْنًى مَّا ثَبَتَ مِنْ كِتَابِ اللهِ وَبَيَانِ کے قبض کرنے کے.پھر تم کس طرح ان معنوں پر اصرار خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ کرتے ہو جو کتاب اللہ اور خیرالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے وَسَلَّمَ، قَالُوا إِنَّا الْفَيْنَا آبَاء کا عَلی بیان سے ثابت نہیں ؟ تو وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں عَقِيدَتِنَا وَلَسْنَا بِتَارِكِيها إلى آبي کہ ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو اپنے اس عقیدے پر پایا اور ہم اس کو ابدا الآباد تک نہیں چھوڑ سکتے.الأبدين ثُمَّ إِذَا قِيْلَ لَهُمْ إِنَّ خَاتَمَ پھر جب اُن سے کہا جائے کہ سب سے زیادہ سچے مفہ النَّبِيِّينَ وَاصْدَقَ الْمُقَيِّرِينَ فَشَرَ خاتم النبین نے اس آیت کی تفسیر میں لفظ توقی یعنی توفیتینی توَفَّيْتَنِی هكذا لفظ التوفي في تفسير هذہ کی یہی تفسیر کی ہے جیسا کہ اہل دانش پر مخفی نہیں اور حضرت التَّوَفِّي الْآيَةِ، أعنى تَوَفَّيْتَنِي، كَمَا لا يخفى على ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا تتبع کیا ہے تا کہ وہ اس أَهْلِ الرَايَةِ، وَتَبِعَهُ ابْنُ عَبّاس طرح کے وسوسوں کی جڑ کاٹ دیں اور انہوں نے متوفيك لِيَقْطَعَ عِرْقَ الْوَسْوَاسِ وَقَالَ کے معنے مُميتك کے کئے ہیں.تو پھر تم کیوں ان معنوں کو مُتَوَفِّيكَ مُمِيتُكَ فَلِمَ تَترُكُونَ چھوڑتے ہو جو اول درجے کے معصوم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) الْمَعْنَى الَّذِي ثَبَتَ مِن نَّبِي كَانَ أَوَّلَ سے اور آپ کے چچا زاد سے جو اعلیٰ پایہ کے صاحب رشد و الْمَعْصُوْمِينَ، وَمِنَ ابْنِ عَيْهِ الَّذِي ہدایت تھے ، ثابت ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ ہم کیسے تسلیم کریں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة ال عمران كَانَ مِنَ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِنِيْنَ قَالُوا جبکہ ہمارے گزشتہ آباء و اجداد اس پر اعتقاد نہیں رکھتے كَيْفَ نَقْبَلُ وَلَمْ يَعْتَقِدُ بِهذَا آبَاؤُنَا تھے.انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ محض ظلم، جھوٹ اور الْأَوَّلُونَ وَمَا قَالُوا إِلَّا ظُلْمًا وَزُورًا وَمِن افتراء ہے اور اُنہوں نے اسلاف اُمت کی آراء کا احاطہ الْفِرْيَةِ ولَمْ يُحِيطُوا أَرَاءَ سَلْفِ الْأُمَّةِ إِلَّا نہ کیا سوائے ان غلطی خوردہ لوگوں کے جو اُن سے زیادہ الَّذِينَ قَرَّبُوا مِنْهُمْ مِنَ الْمُخْطِئِينَ وَمَا قریب تھے اور انہوں نے صرف فیج آغونج کے اُن فَيْجِ أَغْوَنج تَبِعُوا إِلَّا الَّذِيْنَ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ مِنْ فَيْجِ لوگوں کی اتباع کی جو پہلے ہی گمراہ ہو گئے اور محروم قوم میں أَعْوَجَ وَمِنْ قَوْمٍ مَّحْجُوبِینَ فَمَا زَالُوا سے تھے.وہ اُن لوگوں کے اقوال اختیار کرتے چلے گئے اخِذِينَ بِأَثَارِهِمْ حَتَّی حَصْحَصَ الْحَقُّ تا آنکہ حق واضح ہو گیا پھر اُن میں سے بعض نے تو پشیمان فَرَجَعَ بَعْضُهُمْ مُتَنَدِمِينَ.وَأَمَّا الَّذِينَ ہو کر رجوع کر لیا.البتہ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی طَبَعَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَمَا كَانُوا أَنْ يَقْبَلُوا تھی تو وہ نہ تو حق کوقبول کرنے والے ہوئے اور نہ ہی واعظین الْحَقِّ وَمَا نَفَعَهُمْ وَغظ الْوَاعِظِین کے وعظ نے انہیں کوئی فائدہ پہنچایا.ہاں راسخ فی العلم وَالْعُلَمَاءُ الرَّاسِحُونَ يَبْكُونَ عَلَيْهِمُ علماء اُن کی حالت پر روتے ہیں اور انہیں ( ہلاکت کے ) وَيَجِدُوْنَهُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ نَّاثِمِينَ گڑھے کے کنارے پر سوئے ہوئے پاتے ہیں.يَا حَسْرَةً عَلَيْهِمْ لِمَ لا يُفَكِّرُونَ في وائے حسرت اُن پر! وہ اپنے دلوں میں کیوں : انفُسِهِمْ أَنَّ لَفَظَ التَّوَى لفظ قَدِ اتَّضَحَ نہیں سوچتے کہ توفی کے لفظ کے معنے قرآنی شواہد مَعْنَاهُ مِنْ سِلْسِلَةِ شَوَاهِدِ الْقُرْآنِ، ثُمَّ کے تواتر ، انس و جن کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نیز مِنْ تَفْسِيرِ نَبِي الْإِنْسِ وَنَبِي الْجَانِ، ثُمَّ آپ کے جلیل القدر صحابی کی تفسیر کے ذریعہ واضح ہو مِنْ تَفْسِيرِ صَحَابِي جَلِيْلِ الشَّانِ، وَمَنْ فَسَّرَ گئے ہیں اور جو قرآن کی من مانی تفسیر کرتا ہے وہ الْقُرْآنَ بِرَأيهِ فَهُوَ لَيْسَ بِمُؤْمِنٍ بَلْ هُو مؤمن نہیں بلکہ شیطان کا بھائی ہے.اگر وہ فی الواقعہ آن الشَّيْطَانِ، فَأَى حُجَّةٍ أو ضَعُ مِنْ هَذَا مؤمن ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل واضح ہو سکتی إِن كَانُوا مُؤْمِنِينَ وَلَوْ جَازَ صَرف الفاظ ہے اور اگر الفاظ میں اُن کے مقصودہ، متواترہ معانی سے تَحكُما مِن الْمَعَانِي الْمُرَادَةِ الْمُتَوَاتِرَةِ از راه محکم تصرف کرنا جائز ہو تو پھر اخت اور شرع سے کلیاً لارْتَفَعَ الْآمَانُ عَنِ اللُّغَةِ وَالشَّرْعِ بِالْكَلْيَةِ امان اُٹھ جائے گی اور سب عقائد بگڑ جائیں گے اور ملت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ سورة ال عمران وَفَسُدَتِ الْعَقَائِدُ كُلُّهَا، وَنَزَلَتْ آفات اور دین پر آفات نازل ہوجائیں گی اور جب بھی کلام عَلَى الْمِلَّةِ والدين.وَكُلُّ مَا وَقَعَ في كَلامِ عرب میں کوئی لفظ آئے تو ہم پر لازم ہے کہ اپنی طرف الْعَرَبِ مِن الْفَاظِ وَجَبْ عَلَيْنَا أَن لَّا سے اس کے معانی نہ گھڑیں اور قلیل ( الاستعمال ) معانی کو نَنْحَتَ مَعَانِيهَا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِنَا وَلا كثير ( الاستعمال ) معانی پر مقدم نہ کریں سوائے اس کے تقيّمَ الْأَقَلَّ عَلَى الأَكْثَرِ إِلَّا عِندَ قَرِيْنَةٍ کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جو اہل معرفت کے نزدیک اُس تُوجِبُ تَقْدِيمَةَ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ معنى کو مقدم کرنا واجب کر دے اور یہی طریق کار ہمیشہ وَكَذَلِكَ كَانَتْ سُنَنُ الْمُجْتَهِدِينَ مجتہدین کا رہا ہے.وَلَمَّا تَفَرَّقَتِ الْأُمَّةُ على ثلاث اور جب امت مسالک کے لحاظ سے تہتر فرقوں میں بٹ وَسَبْعِينَ فِرْقَةٌ مِنَ الْمِلَّةِ، وَكُلٌّ زَعَمَ أَنَّهُ گئی اور ہر ایک نے یہ سمجھا کہ وہ اہل سنت میں سے ہے تو ان مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ، فَأَى مَخْرَجِ مِنْ هَذِهِ اختلافات سے نکلنے کی کون سی راہ ہے اور ان آفات سے الاخْتِلافَاتِ، وَآئی طَرِيقِ الْخَلاصِ مِن چھٹکارا حاصل کرنے کا اور کون سا طریق ہے سوائے اس کے کہ الْآفَاتِ مِنْ غَيْرِ أَنْ نَّعْتَصِمَ بِحَبْلِ الله ہم اللہ کی محکم رتی کو مضبوطی سے تھام لیں.پس اے مومنوں الْمَتِينِ: فَعَلَيْكُمْ مَعَاشِرَ الْمُؤْمِنِینَ کے گرو ہو! تم پر فرقان (حمید) کی اتباع لازم ہے اور جس بِأَتْبَاعِ الْفُرْقَانِ، وَمَنْ تَبِعَهُ فَقَدْ نَجَا مِنْ نے اس کی اتباع کی تو وہ یقینا گھاٹے کی راہوں سے طرُقِ الْخُسْرَانِ فَفَكِّرُوا الْآنَ إِنَّ الْقُرْآن نجات پا گیا.لہذا اب غور کرو کہ قرآن، مسیح کو مارتا ہے اور يَتَوَفَّى الْمَسِيحَ وَيُكَمِّلُ فِيْهِ الْبَيَانَ وَمَا اس کے بارہ میں اپنے بیان کو مکمل کرتا ہے اور کوئی حدیث بھی خَالَفَة حَدِيفٌ فِي هَذَا الْمَعْلى بَلْ فَشَرَةُ اِس معنی میں قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ اس کی تفسیر کرتی وَزَادَ الْعِرْفَانَ، وَتَقْرَأُ فِي الْبُخَارِی اور عرفان بڑھاتی ہے.تم بخاری ، عینی اور فضل الباری وَالْعَيْنِي وَفَضْلِ الْبَارِى اَنَّ التَّوَلّى هُوَ میں پڑھتے ہو کہ توفی کے معنی مارنے کے ہیں.جیسا کہ الْإِمَاتَهُ، كَمَا شَهِدَ ابْنُ عَبَّاسِ بِتَوْضِيح (حضرت ابن عباس اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم) الْبَيَانِ، وَسَيْدُنَا الَّذِي إِمَامُ الإِنسِ نے جو تمام انس و جن کے امام اور نبی ہیں.واضح بیان کے وَنَبِيُّ الْجَانِ، فَأَى أَمْرِ بَقِي بَعْدَهُ يَا مَعْشَرَ ساتھ اس کی شہادت دی ہے.تو پھر اے بھائیو اور مسلمانوں الْإِخْوَانِ وَطَوَائِفَ الْمُسْلِمِينَ؟ کے گرو ہو! اس کے بعد اور کون سی بات باقی رہ جاتی ہے؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة ال عمران وَقَدْ أَقَرَّ الْمَسِيحُ فِي الْقُرْآنِ اَنَّ فَسَادَ قرآن میں مسیح کا یہ اقرار موجود ہے کہ اُن کی موت کے أُمَّتِهِ مَا كَانَ إِلَّا بَعْدَ مَوْتِهِ فَإِنْ كَانَ بعد ہی ان کی اُمت میں بگاڑ ظاہر ہوا.پھر اگر عیسی (علیہ عِيسَى لَمْ يَمتُ إِلَى الْآنَ فَلَزِمَكَ أن السلام ) اب تک فوت نہیں ہوئے تو تمہیں لا زمانیہ مانا پڑے گا تَقُولُ إِنَّ النَّصَارَى مَا أَفْسَدُوا مَذْهَبَهُمْ کہ نصاری نے اب تک اپنے مذہب کو نہیں بگاڑا اور جن إلى هذا الزَّمَانِ وَالَّذِينَ نَحتُوا مَعَنِّی أَخَرَ لوگوں نے تولی کے کوئی اور معنی گھر لئے ہیں تو ایسے معنی لِلقَوَى فَهُوَ بَعِيدٌ عَنِ التَّشَفِي وَإِنْ هُوَ إِلَّا نا قابل اطمینان ہیں اور یہ صرف اور صرف ان کی خواہشات مِنْ أَهْوَائِهِمْ وَفَسَادِ أَرَائِم ما انزل اور اُن کے خیالات کا فتور ہے.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے الله به من سُلْطَانٍ، كَمَا لا يخفى على أَهْلِ کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی.جیسا کہ یہ امر اہل علم اور بیداردل بِهِ مِنْ يَخْفَى الْخِبْرَةِ وَقَلْبِ يَقْطَانٍ وَإِن لَّمْ يَنْعَهُوا رکھنے والوں پر نفی نہیں.اگر وہ کینڈرکھنے کی وجہ سے باز نہ آئے حقدًا، وَاَصَرُوا عَلَى الكذب عمدا، اور عمدا جھوٹ پر اصرار کرتے رہے تو اُن کو (اپنے) معانی فَلْيُخْرِجُوا لَنَا عَلَى مَعْنَاهُمْ سَنَدًا، کے لئے کوئی سند ہمارے سامنے پیش کرنی چاہئے یا اگر وہ وَلْيَأْتُوا مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ بطرح مستند بچے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کی کوئی مستند شرح سامنے إِن كَانُوا صَادِقِينَ وَقَدْ عَرَفْتُمْ آن لائیں اور یہ تو تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا توفی کا لفظ صرف امانت ( موت دینا) کے معنی میں بولا تَكَلَّمَ بِلَفْظِ التَّوَقِّ إِلَّا فِي مَعْنَى الْإِمَاتَةِ ہے.اور آپ تمام انسانوں میں سب سے گہرا علم رکھنے والے وَكَانَ اعْمَقَ النَّاسِ عِلْمًا وَاَوَّلَ اور اول درجہ کے صاحب بصیرت تھے.قرآن میں بھی لفظ الْمُبَصِرِينَ.وَمَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ إِلَّا لِهَذَا توفّى ان ہی معنوں میں آیا ہے.اس لئے تم اللہ کے کلمات الْمَعْنى فَلَا تُحَرِّفُوا كَلِمَاتِ اللہ بِخَیال میں (اپنے) گھٹیا خیال سے تحریف نہ کرو اور تم ان چیزوں کے ادلى، وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ الْسِنَتُكُمُ بارے میں جن کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی الكيب ذلِك حَقٌّ وَهُذَا بَاطِلُ، وَاتَّقُوا الله ہیں یہ نہ کہو کہ وہ حق ہے اور یہ باطل ہے.اگر تم متقی ہو تو اللہ إِنْ كُنْتُمْ مُتَّقِينَ لِمَ تَتَّبِعُونَ غَلَطَا وَرَجْمًا بِالْغَيْبِ وَلَا تم غلط اور اٹکل پچو ( عقیدہ) کے پیچھے کیوں لگے ہوئے تَبْغُونَ تَفْسَيْرَ مَنْ هُوَ مُنَزِّةٌ مِنَ الْعَيْبِ ہو اور اُس کی تفسیر کو پسند نہیں کرتے جو ہر عیب سے منزہ ہ اور سے ڈرو!
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۸ سورة ال عمران وَكَانَ سَيْدَ الْمَعْصُومِينَ؟ فَاجْتَنِبُوا تمام معصوموں کا سردار ہے صلی اللہ علیہ وسلم پس اس قسم کے مِثْلَ هَذِهِ التَّعَصُّبَاتِ وَاذْكُرُوا تعصبات سے اجتناب کرو.اے موت کے کیڑو! موت کو الْمَوْتَ يَا دُوْدَ الْمَمَاتِ، انترَكُونَ في یاد رکھو! کیا تم سمجھتے ہو کہ ) تمہیں دنیا میں یونہی شاداں و فرحاں الدُّنْيَا فَرِحِينَ فَاذْكُرُوا يَوْمًا چھوڑ دیا جائے گا.اُس دن کو یاد کرو جب اللہ تمہیں وفات يَتَوَفَّاكُمُ اللهُ ثُمَّ تُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَرَادَی دے گا پھر تم اُس کی طرف ایک ایک کر کے لوٹائے جاؤ فُرَادَى، وَلا يَنصُرُكُمْ مَنْ خَالف الحق گے.اور کوئی بھی حق کا مخالف اور دشمن تمہاری مدد نہ کر سکے وَعَادَى وَتُسْأَلُونَ كَالْمُجْرِمِينَ گا اور تم سے مجرموں کی طرح باز پرس کی جائے گی.وَأَمَّا قَوْلُ بَعْضِ النَّاس من الحمقى رہا بعض احمق لوگوں کا یہ قول کہ عیسی کا روحانی زندگی أَنَّ الْإِجْمَاعَ قَدِ انْعَقَدَ عَلى رفع عیسی کے ساتھ نہیں بلکہ جسمانی زندگی کے ساتھ بلند آسمانوں کی إِلَى السَّمَاوَاتِ الْعُلى بِحَيَاتِهِ الْجِسْمَانِي طرف رفع پر اجماع ہو چکا ہے تو جان لے کہ یہ قول محض لا بِحَيَاتِهِ الرُّوحَانِي فَاعْلَمْ أنَّ هذا ایک لغو بات اور ایک گھٹیا سودا ہے جسے صرف جاہل ہی خرید الْقَوْلَ فَاسِدٌ وَ مَتَاعٌ كَاسِ لا يَشْتَرِيْهِ سکتا ہے.اجماع سے مراد اجماع صحابہ ہے اور وہ اس لَّا ย إِلَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْجَاهِلِينَ.فَإِنَّ الْمُرَادَ عقیدہ میں ثابت نہیں ہے (حضرت ) ابن عباس نے مِنَ الْإِجْمَاعِ إِلجَمَاعُ الصَّحَابَةِ، وَهُوَ مُتَوَفِّيكَ كے معنى مُميتك کے کئے ہیں.پس موت تو ثابت لَيْسَ بِثَابِتٍ فِي هَذِهِ الْعَقِيدَةِ، وَقَد ہے خواہ تیرا بھوت اس کو قبول نہ کرے.اے وہ شخص جس قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ مُتَوَفِّيكَ مُميتك نے مجھے تکلیف دی ہے ! تم نے یہ سنا ہے کہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی فَالْمَوْتُ ثَابِتُ وَإِن لَّمْ يَقْبَل کی آیت دلالت قطعیہ اور واضح عبارت سے اس امر کی عِفْرِيتُكَ.وَقَدْ سَمِعْتَ يَا مَنْ اذَيْتَنِي آن طرف رہنمائی کرتی ہے کہ جو وفات حضرت ابنِ عباس کی ايَةً فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنى تَدلُّ بِدَلَالَةٍ قطعية تفسیر سے ثابت ہوتی ہے وہ وقوع پذیر ہوگئی اور پایہ تکمیل قَطْعِيَّةٍ و عِبَارَةٍ واضحةٍ أَنَّ الْإِمَانَةَ الَّتِي ثَبَتَت کو پہنچ گئی نہ یہ کہ وہ واقع ہونے والی ہے جیسا کہ بعض لوگوں مِنْ تَفْسِيرِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَد وَقَعَت کا خیال ہے.کیا تم خیال کرتے ہو کہ نصاری نے اپنے ربّ وَتَمَّتْ وَلَيْسَ بِوَاقِعِ كَمَا ظَنَ بَعْضُ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا ؟ اور کیا وہ قیدیوں کی طرح اس النَّاسِ أَفَأَنْتَ تَظن أن النصاری ما کے دام میں گرفتار نہیں ہیں؟ اگر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۹ سورة ال عمران اشتَرَكُوا بِرَئيمُ وَلَيْسُوا في شُرُك گمراہ ہو چکے ہیں اور دوسروں کو بھی انہوں نے گمراہ کیا ہوا ہے كَالأَسارَى وَإِنْ أَقْرَرْتُ بأنهم قد تو پھر لازمی طور پر تمہیں اس کا بھی اقرار کرنا ہوگا کہ میسیج مر گئے ضَلُّوا وَأَضَلُّوا فَلَزِمَكَ الْإِقْرَارُ بِأَنَّ اور فوت ہو گئے.کیونکہ ان (نصاری) کی گمراہی مسیح کی وفات الْمَسِيحَ قَدْ مَاتَ وَفَاتَ فَاِن پر موقوف ہے اس لئے غور کرو اور بے حیاؤں کی طرح فضول بحث ضَلَالَعَهُمْ كَانَتْ مَوْقُوفَةٌ عَلى وَفَاةِ نہ کرو اور یہ وفات مسیح کا ) کا معاملہ قرآن اور انس و جن کے الْمَسِيحِ فَتَفَكَّرُ وَلَا تُجَادِلْ كَالْوَقِيح امام اور نبی (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وَهَذَا اَمْرُ قَد ثَبَتَ مِنَ الْقُرْآنِ وَمِن حدیث سے ثابت شدہ ہے.اس لئے تمہیں کسی ایسی حَدِيثِ إِمَامِ الْإِنْسِ وَنَبِي الْجَانِ فَلا روایت پر کان نہیں دھرنے چاہئیں جو ان کے مخالف ہو.تَسْمَعُ رِوَايَةٌ خَالِفُهَا، وَإِنَّ الْحَقِيقَةُ قَدِ حقیقت تو کھل کر سامنے آچکی.اس لئے تم کسی ایسے شخص کی انكَشَفَتْ فَلَا تَلْتَفِتْ إِلى مَنْ خَالَفَهَا، طرف توجہ مت دو جوان کا مخالف ہے اور نہ ہی تم اس کے وَلَا تَلْتَفِتْ بَعْدَهَا إِلى رِوَايَةٍ والراوي، بعد کسی روایت اور راوی کی طرف توجہ دو.ان دعاوی کے وَلَا مُهْلِك نَفْسَكَ مِنَ الدَّعَاوِي وَفَكِّر باعث اپنے تئیں ہلاک نہ کرو.اور عاجزی اختیار کرنے كَالْمُتَوَاضِعِينَ.هَذَا مَا ذَكَرنَاك من والوں کی طرح غور و فکر کرو.یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) و النّبِي وَالصَّحَابَةِ لِنُزِيلَ عَنكَ غِشَاوَةٌ اور صحابہ کرام کا وہ عقیدہ) ہے جو ہم نے تجھے یاد دلایا ہے الْإِسْتِرَابَةِ، وَأَمَّا حَقِيقَةُ اجتماعِ الَّذِينَ تا کہ ہم تجھ سے شکوک کا پردہ ہٹا دیں.صحابہ کے بعد آنے جَاء وَا بَعْدَهُمْ، فَنَذَكُرُكَ شَيْئًا من والے لوگوں کے اجماع کی حقیقت کا جہاں تک تعلق ہے تو كَلِيهِمْ، وَإِنْ كُنْتَ مِن قَبْلُ مِن اُن کی بعض باتوں کا ذکر ہم آئندہ تم سے کریں گے.اگر چہ تم اس سے پہلے محض غافل تھے.الْغَافِلِينَ فَاعْلَمُ أَنَّ الْإِمَامَ الْبُخَارِ جان لو کہ امام بخاری جو اللہ کے فضل سے رئیس المحدثین الَّذِي كَانَ رَئِيسَ الْمُحَدِّثِينَ من تھے وہ وفات مسیح کا سب سے پہلے اقرار کرنے والے تھے فَضْلِ الْبَارِى كَانَ أَوَّلَ الْمُقِرِينَ جیسا کہ انہوں نے اپنی صحیح میں اس کی جانب اشارہ فرمایا يوَفَاةِ الْمَسِيحِ، كَمَا أَشَارَ إِلَيْهِ فِی ہے.انہوں نے ان دو آیتوں (إِنِّي مُتَوَفِيكَ فَلَمَّا الصَّحِيحِ، فَإِنَّهُ جَمَعَ الْآيَتَيْنِ لِهَذَا تَوَفَّيْتَنِى ) کو اس غرض سے جمع کیا تھا تا کہ وہ دونوں ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة ال عمران الْمُرَادِ لِيَتَظَاهَرا وَيَحْصُلُ الْقُوَّةَ دوسرے کو تقویت دیں اور اجتہاد مضبوط ہو اور اگر تمہارا یہ لِلْإِجْتِهَادِ وَإِن كُنتَ تَزْعَمُ أَنَّهُ مَا جَمع خیال ہے کہ اُنہوں نے ان دو متباعد آئینوں کو اس نیست الْآيَتَيْنِ الْمُتَبَاعِدَتَيْنِ لِهذِهِ النِّيَّةِ، وَمَا سے جمع نہیں کیا تھا اور اُن کی غرض اس عقیدہ ( وفات مسیح ) كَانَ لَهُ غَرْضٌ لاثبات هذِهِ الْعَقِيدَة کو ثابت کرنے کی نہیں تھی.تو پھر اگر تم چشم بصیرت رکھتے فَبَيْن لِمَ جَمَعَ الْآيَتَيْنِ إِن كُنتَ مِن ہو تو بتاؤ کہ انہوں نے ان دو آیتوں کو کیوں جمع کیا ؟ اور ذَوِى الْعَيْنَيْنِ وَإِن لَّمْ تُبَيِّنَ، وَلَن اگر تم اس کی وضاحت نہ کر سکو اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے تو تُبَيِّنَ فَاتَّقِ اللهَ وَلَا تُصِر على طرُقِ پھر اللہ سے ڈرو اور فاسقوں کی راہوں پر چلنے پر اصرار نہ الْفَاسِقِين کرو.ثُمَّ بَعْد الْبُخَارِي انظُرُوا يَا ذَوِى اے صاحب بصیرت لوگو ! پھر بخاری کے بعد تم اپنی الأبصار، إلى كِتَابِكُمُ الْمُسَلَّمِ تجمع مسلم کتاب مجمع البھا ر پر غور کرو.اُس نے (حضرت ) الْبِحَارِ، فَإِنَّهُ ذَكَرَ الختلافات في آخر عیسی علیہ السلام کے معاملے میں اختلافات کا ذکر کیا عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، وَقَدَّمَ الْحَيَاةَ ثُمَّ ہے.اور پہلے ان کی حیات کا ذکر کیا ہے اور پھر کہا ہے قَالَ: وَقَالَ مَالِكَ مَّاتَ فَانظُرُوا کہ مالک فرماتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے.اے اہل الْمَجْمَعَ يَا أَهْلَ الْأَرَاءِ ، وَخُذُوا حَظا من دانش ! مجمع البجا رکو دیکھو اور کچھ حیاء سے کام لو.اے الْحَيَاء ، هذَا هُوَ الْقَوْلُ الَّذِي تَكْفُرُونَ فتنہ پرداز و! یہ ہے وہ قول جس کا تم انکار کر رہے ہو اور بِهِ وَتَقْطَعُونَ مَا آمَرَ الله به آن يُوصَل وہ چیز جس کے متعلق اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے اُسے وَبَاعَدُكُمْ عَنْ مَقَامِ الْإِنْفَاءِ ، اليْسَ قطع کرتے ہو.اور تقویٰ کے مقام سے دور ہٹ گئے مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيد يا معشر ہو.کیا تم میں ایک بھی عقل والا نہیں؟ طبرانی اور مستدرک الْمُفْتَتِبِينَ وَجَاءَ في الطبرانی میں (حضرت) عائشہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں وَالْمُسْتَدْرِكِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ که رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسی ابن مریم رَسُولُ اللهِ صَلْعَمْ إِنَّ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ ایک سو میں سال زندہ رہے.پھر ان شہادتوں کے عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةَ سَنَةً ثُمَّ بَعْدَهُذِهِ علاوه ابن القیم المحدث کی جانب نظر دوڑاؤ جن کی الشَّهَادَاتِ انْظُرُوا إِلَى ابْنِ الْقَيْمِ باریک بینی کا ایک عالم گواہ ہے.انہوں نے اپنی کتاب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة ال عمران 66 الْمُحَدِّثِ الْمَشْهُودِ لَهُ بِالتَّدْقِيْقَاتِ، فَإِنَّهُ مدارج السالکین میں فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ اور عیبی زندہ قَالَ فِي مَدَارَجِ السَّالِكِينَ “ إِنَّ مُوسى ہوتے تو انہیں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی وَعِيسَى لَوْ كَانَا حَيَّيُنٍ مَا وَسِعَهُمْ إِلَّا اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.اس کے بعد رسالہ الفوز اقْتِدَاء خَاتَمِ النَّبِيِّينَ ثُمَّ بَعْدَ ذلِك الكبير اور فتح الخبیر پر غور کرو جو خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم انْظُرُوا فِي الرِّسَالَةِ الْقَوْزِ الْكَبِيرِ وَفَتْح کے اقوال سے ہی قرآن کی تفسیر ہے اور حکیم الملت الخبير التي هِيَ تَفْسِيرُ الْقُرْآنِ بِأَقَوَالِ (حضرت) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تالیف ہے.خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَهِيَ مِن ولي الله الدهلوي وہ فرماتے ہیں مُتَوَفِّيكَ : مُمِيتُكَ اُنہوں نے اس حَكِيمِ الْمِلَّةِ.قَالَ مُتَوَفِّيكَ مُميتك وَلَهُ كلمہ کے ہوا اور کچھ نہیں کہا اور مشکوۃ نبوت سے اخذ يَقُلْ غَيْرَهَا مِنَ الْكَلِمَةِ، وَلَمْ يَذْكُر معنی ہونے والے معنی کی اتباع کرتے ہوئے نہ ہی اس کے سِوَاهَا الْبَاعًا لِمَغنِّى خَرَجَ مِنْ مِشْكَاةِ ہوا کسی اور معنی کا ذکر کیا ہے پھر (علامہ زمخشری کی النُّبُوَّةِ ثُمَّ انْظُرُ فِي الْكَشَّافِ وَاتَّقِ الله کتاب) کشاف کو دیکھ اور اللہ سے ڈر اور ظلم کی راہوں کو وَلَا تَخْتَرُ طُرُقَ الْإِعْتِسَافِ كَمُجْتَرِئِينَ بے باکوں کی طرح اختیار نہ کر.w ثُمَّ بَعد ذلِك تَعْلَمُونَ عَقِيدَةَ الْفِرَقِ پھر تم اس کے بعد معتزلہ کے فرقوں کا عقیدہ جانتے الْمُعْتَزِلَةِ، فَإِنَّهُمْ لا يَعْتَقِدُونَ يُحَیاتِ ہو کہ وہ حیات مسیح کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ انہوں نے عِيسَى بَلْ أَقَرُوا يَمَوْتِهِ وَادْخَلُوهُ في اُن کی وفات کا اقرار کیا ہے اور اسے اپنے عقیدہ میں الْعَقِيدَةِ.وَلَا شَكَ أَنَّهُمْ مِنَ الْمَذَاهِب داخل کیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسلامی الْإِسْلَامِيةِ، فَإِنَّ الْأُمَّةَ قَدِ افْتَرَقْت بَعْدَ مسالک میں سے ہیں کیونکہ تیسری صدی کے بعد امت الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، وَلَا يُنكَرُ افْتِرَاقُ هذه فرقوں میں بٹ گئی تھی اور اس ملت کے گروہوں میں بٹنے وَالْمُعْتَزِلَةُ اَحَدٌ مِنَ الطَّوائف سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور معتزلہ بھی اُن متفرق فرقوں الْمُتَفَرِّقَةِ وَقَالَ الْإِمَامُ عَبْدُ الْوَهَّابِ میں سے ایک ہے.امام عبد الوھاب شعرانی " جو الشَّعْرَانِي الْمَقْبُولُ عِندَ الفِقَاتِ في كتابه مستند علماء کے ہاں بہت مقبول ہیں وہ اپنی مشہور کتاب الْمَعْرُوفِ بِاسْمِ الطَّبَقَاتِ وَكَانَ الطبقات میں فرماتے ہیں کہ ”میرے بزرگ افضل سَيّدِى أَفْضَلُ الدِّينِ رَحِمَهُ اللهُ يَقُولُ كَثِيرُ الدین رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ صوفیاء کا اکثر کلام ظاہراً
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة ال عمران مِنْ كَلامِ الصُّوفِيَّةِ لَا يَتَمَشى ظَاهِرُهُ إِلَّا معتزلہ اور فلاسفہ کے قواعد پر ہی چلتا ہے.پس کوئی عقل عَلى قَوَاعِدِ الْمُعْتَزِلَةِ وَالْفَلَاسِفَةِ فَالْعَاقِل من شخص صرف اس وجہ سے کہ یہ علم کلام اُن ( معتزلہ ) یہ لا يُبَادِرُ إِلَى الْإِنْكَارِ مُجَرِّدِ عِزّاء ذلك سے منسوب ہونے کی وجہ سے اس کے انکار میں جلدی الْكَلَامِ إِلَيْهِمْ، بَلْ يَنظُرُ وَيَتَأَمَّلُ في نہیں کرے گا.بلکہ وہ اُن کے ان دلائل پر پورا پورا غور أدِلَّتِهِمْ ثُمَّ قَالَ وَرَأَيْتُ فِي رِسَالَةِ سَيّدِى و خوض کرے گا.پھر وہ (امام شعرانی" ) فرماتے ہیں کہ الشَّيْخِ مُحَمَّدٍ الْمَغْرِبِ الشَّاذِلِي اعْلَمُ أَنَّ سيدى الشيخ محمد المغر بی الشاذلی کے رسالہ میں میں نے طَرِيقَ الْقَوْمِ مَبْنِيٌّ عَلى شُهُودِ الْإِثْبَاتِ، یہ دیکھا ہے.جان لو کہ قوم (صوفیاء) کا طریق اثبات وَعَلَى مَا يَقْرُبُ مِنْ طَرِيقِ الْمُعْتَزِلَةِ في حق کے یقین پر مبنی ہے اور بعض حالات میں معتزلہ کے بَعْضِ الْحَالَاتِ هَذَا مَا نَقَلْنَا مِنْ لَوَاقح طریق سے قریب ہے.یہ ہم نے لواقح الانوار سے نقل الْأَنْوَارِ، فَتَدَبَّرُ كَالأَخْيَارِ، وَلَا تُعْرِضْ کیا ہے.پس برگزیدہ لوگوں کی طرح غور کر اور كَالْأَشْرَارِ، وَلَا تَخْتَرُ سَبِيلَ الْمُعْتَدِينَ شریروں کی طرح اعراض نہ کر اور حد سے تجاوز کرنے (اتمام الحجة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۷۵ تا ۲۸۰) والوں کی راہ اختیار نہ کر.( ترجمہ از مرتب ) حضرت مسیح (علیہ السلام ) جب صلیب پر چڑھائے گئے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ یہ لوگ مجھے صلیبی موت سے ہلاک کرنے کے موجب ٹھہرے ہیں اور اس طرح پر یہ عنتی موت ہوگی اس ہلاکت کی گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو یہ بشارت دی کہ میں تجھے طبعی موت سے وفات دوں گا اور تجھے رفع کرنے والا ہوں اور تجھے پاک کرنے ولا ہوں اس آیت کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے مگر افسوس ! یہ لوگ کچھ بھی غور نہیں کرتے اور قرآن کریم کی ترتیب کو بدل کر تحریف کرنا چاہتے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہ تھا جو یوں کہہ دیتا کہ نعیسی إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ پھر وہ کون سی وقت اور مشکل اس کو پیش آ گئی تھی جو يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ ہی کہا؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مور محه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) اس آیت میں جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ واقعات کی بنا پر ہے، وہ احمق ہے جو کہتا ہے کہ ترتیب واؤ سے نہیں ہوتی ہے اگر ایسا ہی نبی ہے کہ وہ اس کو نہیں سمجھ سکتا تو اس کو واقعات پر نظر کرنی چاہئے اور دیکھئے کہ تطہیر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة ال عمران رفع کے بعد ہوتی ہے یا پہلے اس تطہیر میں دراصل اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تیرے بعد ایک رسول آئے گا جو حکم ہو کر تیری نسبت جھگڑے کو فیصل کر دے گا اور جس قدر الزامات یہودی تجھ پر لگاتے ہیں ان سے تجھے پاک ٹھہرائے گا.تین ترحمیوں کے تو یہ مخالف بھی قائل ہیں یعنی رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا.یہ تو مانتے ہیں کہ مرتب کلام ہے اس میں جو کچھ وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ پورا ہو گیا.جسمانی رفع کے قائل اس میں کچھ کہ نہیں سکتے مگر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب تین ترتیوں کے وہ قائل ہیں اور انہوں نے اس کو تسلیم کر لیا ہے تو توفی کے لفظ کو اٹھانے کی بے فائدہ کوشش کیوں کرتے ہیں بھلا یہ یہودی سیرت اختیار کر کے بتاؤ تو سہی اس لفظ کو رکھو گے کہاں ؟ اگر رفع کے بعد رکھو تو واقعات خارجہ کے خلاف ہے رفع اور تطہیر میں فاصلہ نہیں ہے بلکہ رفع کے بعد تطہیر ہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے اس الزام سے کہ وہ نبی بھی نہیں مانتے تھے اور ملعون قرار دیتے تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ ابن اللہ اور اللہ ہیں جس کو آسمان پر اٹھایا گیا اور وہ ہمارے لئے ملعون ہوا، حضرت عیسی علیہ السلام کو بری کیا ہے، یہ دو انگلیوں کی طرح ہیں ان کو الگ کر سکتے ہی نہیں اور جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ کو دیکھو تو وہ قیامت تک مُطَهَّرُک کے بعد کسی دوسرے لفظ کو آنے ہی نہیں دیتا پھر اس کو رکھو گے تو کہاں رکھو گے؟ جس طرح پر واقعات ظہور میں آئے اسی طرز سے بیان کیا ہے اب الٹ پلٹ کر کہاں رکھ سکتے ہو؟ میں تو یہ کہتا ہوں کہ تمہیں خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ اس قدر دشمنی کیوں ہے جو اس کی ترتیب کو توڑنا چاہتے ہو.کیا تم کو یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی خدائی ثابت کرو؟ عیسائیوں کے اس مردہ خدا کو کہیں تو ( الحکم جلد ۵ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۱ء صفحه ۱) لعنت کی ضد رفع تو وہی ہے جس سے قرب الہی ہو.یہ تو بجز موت کے حاصل نہیں ہوتا پھر جو لوگ ہمارے مخالف ہیں وہ چونکہ موت کے قائل نہیں اس لئے ان کے اعتقاد کے موافق مسیح کو ابھی رفع نہیں ہوا کیونکہ یہ رفع انسان کی آخری زندگی کا نتیجہ ہے اور یہ ان کو حاصل نہیں ہوا.پس اس شق کے لحاظ سے تو ان کا آسمان پر چڑھنا باطل ہوا.( الکام جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) یہ لوگ کہتے ہیں کہ آیت : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلی.الآیة کی ترتیب جو قرآن شریف میں ہے صحیح نہیں ہے مگر میں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا یا گمان کرنا خطرناک مرنے دو!!!
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ سورة ال عمران بے ادبی اور شوخی ہے.میں کہتا ہوں کہ اس آیت کی ترتیب صحیح ہے اور اسی لئے اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں مگر یہ لوگ اس ترتیب کو غلط (معاذ اللہ ) ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رَافِعُكَ اِلَی کی جگہ رافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ چاہیے اور اس کے بعد متوفيك چاہیے گویا کہ ان کے اعتقاد کے موافق خدا تعالی کو غلطی لگی اس نے کہنا تو یہ تھا يعيسى إلى رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ وَمُتَوَفِّيكَ اور کہہ دیا، یہ جو آیت میں درج ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۷ ار ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۵) قرآن شریف تو ہمیں بار بار یہ بتلاتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں، ہاں ! جو رفع ایماندارلوگوں کے لئے فوت کے بعد ہوا کرتا ہے وہ ان کے لئے بھی ہوا تھا جیسا کہ آیت : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ اِلَی سے سمجھا جاتا ہے کیونکہ لفظ را فعک قرآن شریف میں لفظ مُتَوَفِّيكَ کے بعد مذکور ہے اور یہ قطعی قرینہ اس بات پر ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو وفات کے بعد مومنوں کے لئے ہوا کرتا ہے اصل جڑھ اس کی یہ تھی کہ یہودی حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ وہ سولی دیئے گئے تھے تو بموجب حکم تو ریت کے وہ اس رفع سے بے نصیب ہیں جو مومنوں کو موت کے بعد خدا کی طرف سے بطور انعام ہوتا ہے اور خدا کے قرب کے ساتھ ایک پاک زندگی ملتی ہے.سو ان آیات میں یہودیوں کے اس خیال کا اس طرح پر رڈ کیا گیا کہ مسیح صلیب کے ذریعے قتل نہیں کیا گیا تھا اور اس کی موت صلیب پر نہیں روک پر ہوئی اس لئے وہ توریت کے اس حکم کے نیچے نہیں آسکتا کہ جو شخص سولی پر چڑھایا جاوے اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ لعنتی ہو کر جہنم کی طرف جاتا ہے.اب دیکھو کہ جسمانی رفع کا اس جگہ کوئی جھگڑا نہ تھا اور یہودیوں کا کبھی یہ مذہب نہیں ہوا اور نہ اب ہے کہ جو شخص سولی پر لٹکا یا جاوے اس کا جسمانی طور پر رفع نہیں ہوتا یعنی وہ مع جسم آسمان پر نہیں جاتا کیونکہ یہودیوں نے جو حضرت مسیح کے اس رفع کا انکار کیا جو ہر ایک مومن کے لیے موت کے بعد ہوتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں اور نیز مسلمانوں کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ ایماندار کا فوت کے بعد خدا کی طرف رفع ہو جیسا کہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : ۴۱) صریح دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ ارجعي إلى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر (٢٩) میں بھی یہی اشارہ ہے لیکن جسمانی رفع یہودیوں کے نزدیک اور نیز مسلمانوں کے نزدیک بھی نجات کے لئے شرط نہیں ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کا جسمانی رفع نہیں ہوا تو کیا وہ یہودیوں کے نزدیک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة ال عمران نجات یافتہ نہیں ہیں؟ غرض اس قصہ میں اکثر لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے ہیں.قرآن شریف ہرگز اس عقیدہ کی تعلیم نہیں کرتا کہ نجات کے لیے جسمانی رفع کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں.قرآن نے کیوں اس قصہ کو چھیڑا ؟ اس کا فقط یہ سبب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں روحانی طور پر رفع اور عدم رفع میں ایک جھگڑا تھا.یہودیوں کو یہ حجت ہاتھ آگئی تھی کہ یسوع مسیح سولی دیا گیا ہے لہذا وہ توریت کے رو سے اس رفع کا جو ایمانداروں کا ہوتا ہے بے نصیب رہا.اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ وہ سچا نبی نہیں ہے جیسا کہ اب بھی وہ سولی کا واقعہ بیان کر کے یہی مقام توریت کا پیش کرتے ہیں اور میں نے اکثر یہودیوں سے جو دریافت کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ہمیں جسمانی رفع سے کچھ غرض نہیں ہم تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخص توریت کے رو سے ایماندار اور صادق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ سولی دیا گیا پس تو ریت فتوی دیتی ہے کہ اس کا رفع روحانی نہیں ہوا.بمبئی اور کلکتہ میں بہت سے یہودی موجود ہیں جس سے چاہو پوچھ لو.یہی جواب دے گا سو یہی وہ جھگڑا تھا جو فیصلہ کے لائق تھا.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ سے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے کہ: يُعِيسَى إِلَى مُتَوَفِيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى یعنی یہ کہ وفات کے بعد حضرت مسیح کا رفع ہوا ہے اور وہ ایمانداروں کے گروہ میں سے ہے، نہ ان میں سے جن پر آسمان کے دروازے بند ہوئے ہیں.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۸۶،۳۸۵) یہ تو بیچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو قیامت تک میرے منکروں اور مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا.جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا.پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا، ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقش قدم پر چلے اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو.(الحکم جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵) قرآن شریف کی آیت : يعنى اني متوفيك الخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کے مغضوب علیہم ہونے کی بڑی وجہ جس کی سزا ان کو قیامت تک دی گئی اور دائمی ذلت اور محکومیت میں گرفتار کیے گئے یہی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ کے نشان بھی دیکھ کر پھر بھی پورے عناد اور شرارت اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة ال عمران جوش سے ان کی تکفیر اور توہین اور تفسیق اور تکذیب کی اور ان پر اور ان کی والدہ صدیقہ پر جھوٹے الزام لگائے جیسا کہ آیت وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ سے صریح سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہمیشہ کی محکومیت جیسی اور کوئی ذلت نہیں اور دائمی ذلت کے ساتھ دائمی عذاب لازم پڑا ہوا ہے.تحفه گوار و سید، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۹۸) آیت : وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِیمَةِ کو غور سے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (البقرة : ۶۲) کی سزا بھی حضرت مسیح کی ایڈا کی وجہ سے ہی یہود کو دی گئی ہے کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں یہود کے لئے یہ دائمی وعید ہے کہ وہ ہمیشہ محکومیت میں جو ہر ایک عذاب اور ذلت کی جڑھ ہے زندگی بسر کریں گے جیسا کہ اب بھی یہود کی ذلت کے حالات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ کا وہ غصہ نہیں اتر اجو اس وقت بھڑ کا تھا جبکہ اس وجیہ نبی کو گرفتار کر ا کر مصلوب کرنے کے لئے کھو پری کے مقام پر لے گئے تھے اور جہاں تک بس چلا تھا ہر ایک قسم کی ذلت پہنچائی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ وہ مصلوب ہو کر توریت کی نصوص صریحہ کے رو سے ملعون سمجھا جائے اور اس کا نام ان میں لکھا جائے جو مرنے کے بعد تحت الثریٰ کی طرف جاتے ہیں اور خدا کی طرف ان کا رفع نہیں ہوتا.(تحفہ گولڑر و سید، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) آیت: وَ جَاعِلُ اللَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ سے سمجھا جاتا ہے کہ اس قسم کا غضب جو قیامت تک منقطع نہ ہو اس کی نظیر قرآن شریف میں بجزر حضرت مسیح کے دشمنوں کے یا آنے والے مسیح موعود کے دشمنوں کے اور کسی قوم کے لئے پائی نہیں جاتی.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۴) اے عیسی ! خدا تیرے حقیقی تابعین کو جو مسلمان ہیں اور ادعائی تابعین کو جو عیسائی ہیں ادعائی طور پر قیامت تک ان لوگوں پر غالب رکھے گا جو تیرے دشمن اور منکر اور مکذب ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۳۱) ہمارا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ قیامت تک دولت اور سلطنت مسلمانوں اور عیسائیوں میں قائم رہے گی اور وہ لوگ جو حضرت مسیح کے منکر ہیں وہ کبھی بلاد اسلامیہ کے مالک اور بادشاہ نہیں بنیں گے یہاں تک کہ (تحفہ گولز و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۳۲) قیامت آجائے گی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۵۷ سورة ال عمران اس جگہ كَفَرُوا سے مراد بھی یہود ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام محض یہودیوں کے لئے آئے تھے اور اس آیت میں وعدہ ہے کہ حضرت مسیح کو ماننے والے یہود پر قیامت تک غالب رہیں گے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۹) بموجب آیت کریمہ: وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ سب کا ایمان (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۴ حاشیہ ) لا نا خلاف نص صریح ہے.هذِهِ الْآيَةُ دَلِيل قطعي على أن یہ آیت اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ مسلمان الْمُسْلِمِينَ وَالنَّصَارَى يَرِثُونَ الْأَرْضَ وَ يَتَمَلكُونَ أَهْلَهَا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لآن اور نصاری قیامت تک زمین کے وارث رہیں گے کیونکہ مسلمان تو حضرت عیسی علیہ السلام کے حقیقی متبع الْمُسْلِمِينَ اتَّبَعُوا الْمَسِيحَ البَاعًا حَقِيقِيًّا والنَّصَارَى اتَّبَعُوهُ اتَّبَاعًا إِدْ عَائِيًّا.ہیں اور نصاری ادعائی رنگ میں متبع ہیں.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۹۳، ۱۹۴ حاشیہ) ( ترجمه از مرتب) وَمَعْلُوم أن كَونَ الْيَهُودِ مَغْلُوبِینَ یہ بات ظاہر ہے کہ یہود کا قیامت تک مغلوب إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ يَفْتَحنى وُجُوْدَهُمْ رہنا قیامت تک ان کے وجود ، بقا اور کفر کو چاہتا ہے.وبَقَاءَهُمْ وَكُفْرَهُمْ إلى يوم الدين.(حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد کے صفحہ ۲۳۹ حاشیہ ) (ترجمه از مرتب) والْعَجَبُ كُلَّ الْعَجَبِ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ اور یہ بہت ہی تعجب انگیز ہے کہ وہ خدا کی آیات پر إِنَّا أَمَنَا بِآيَاتِ اللهِ ثُمَّ لَا يُؤْمِنُونَ، وَيَقُولُونَ ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں اور پھر (در حقیقت ) ایمان إِنَّا نَتَّبِعُ صُحفَ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُشْبِعُوْنَ.أَلا نہیں لاتے اور وہ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اللہ کے صحیفوں کی يَفْرَاوْنَ فِي الْكِتَابِ الأغلى ما قال الله في عِيسَى إِذْ قَالَ : يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ، وَقَالَ: پیروی کرتے ہیں پھر ( در حقیقت ان کی ) پیروی نہیں کرتے کیا وہ قرآن شریف میں وہ نہیں پڑھتے جو اللہ تعالی نے بعِيسى عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ بعیسی ائی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي وَمَا قَالَ: إِنِّي مُحْيِيكَ فَمِنَ ايْنَ متوفيك (اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا) اور فرمایا عُلِمَ حَيَاةُ الْمَسِيحِ بَعْدَ مَوْتِهِ الطَّرِيحِ فَلَمَّا تَوَفَّيتني (پس جب تو نے مجھے وفات دی) 669 يُؤْمِنُونَ بِأَنَّهُ لَفِي الْأَمْوَاتَ، ثُمَّ يَقُولُونَ مَا اور یہ نہیں فرمایا کہ (میں تجھے زندہ کروں گا ) پس مسیح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة ال عمران مَاتَ تِلْكَ كَلِمُ مُتَهَافِتَةٌ مُتَنَاقِضَةٌ لَّا کی صریح موت کے (ذکر کے ) بعد اس کی حیات کیسے يَنطِقُ بِهَا إِلَّا الَّذِي ضَلَّتْ حَوَاشه معلوم ہوئی ؟ وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ وفات یافتہ لوگوں سے جاملا پھر کہتے ہیں کہ وہ نہیں مرا.یہ کلمات بلا سوچے وَغَرَبَ عُقْلُهُ وَقِيَاسُهُ وَتَرَكَ طَرِيق سمجھے اور متناقض ہیں اور یہ صرف وہی بول سکتا ہے جو جو اس الْمُهْتَدِينَ يَا آسَفَا عَلَيْهِمُ : إِنَّهُمُ باعتہ عقل و فہم سے عاری اور ہدایت یافتہ لوگوں کے اتَّفَقُوا عَلَى الضَّلَالَةِ جَمِيعًا ، وَ خَلْطُوا في طریق کو چھوڑ بیٹھا ہو.ان پر بہت افسوس ہے کہ وہ سب الْكَلَامِ تَخلِيْطًا شَنِيْعًا فَكَيْفَ نَقْبَلُ کے سب ضلالت پر متفق ہو گئے ہیں.اور کلام نہایت ہی قَوْلَهُمُ الَّذِي يُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَكَيْفَ برا خلط ملط کر دیا ہے پس ہم کیسے اُن کے قول کو قبول کر سکتے ہیں جو خلاف قرآن ہے اور اُن کے وہم کو تسلیم کر سکتے نُسَلِّمُ وَهُمَهُمُ الَّذِي لَا يَشْفِي الْجَنَانَ؟ ہیں جو دلوں کو اطمینان نہیں بخشا کیا ہم ان کی ایسی خرافات کو جن کے ساتھ حجت قاطعہ اور تسکین دینے والے واضح انقبل خُرَا فَا بِهِمُ الَّتِي لَيْسَتْ مَعَهَا حُجةٌ قَاطِعَةٌ وَلَا دَلَائِلٌ مُقيعَةٌ وَاضِعَةٌ ؟ دلائل نہیں قبول کر سکتے ہیں.( ترجمہ از مرتب) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۸۴،۸۳) اَيُّهَا النَّاسُ قَدْ اَعْتَرَنِي اللهُ عَلَى اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے اس راز کے بارے میں مجھے هذا الشير وعَلّمين ما لَمْ تَعْلَمُوا وَ اطلاع دی ہے اور مجھے وہی کچھ سکھایا ہے جوتم نہیں جانتے اور اَرْسَلين إلَيْكُمْ حَكَمًا عَدَلًا لاكشف مجھے تمہاری طرف حکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے تا کہ میں ان امور عَلَيْكُمْ مَا كَانَ عَلَيْكُمْ مُسْتَقِرًا فَلا کو جو تم سے پوشیدہ تھیں تم پر ظاہر کروں.پس تم نہ جھگڑو اور نہ تُمَارُوا وَلَا تُجَادِلُوا وَ تَدَبَّرُوا فِي قَوْلِهِ بحث کرو اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ” يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ“ يُعِيسَى إِلى مُتَوَفِّيكَ وَاقْرَءُوا هَذِهِ الْآيَةَ (اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا ) پر غور کرو اور یہ آیت إِلَى قَوْلِهِ يَوْمِ الْقِيمَةِ ثُمَّ أَمْعِنُوا النظر ارشادِ خداوندى " يَوْمِ الْقِيِّمَةِ" تک پڑھو.پھر اے عقلمندو! يَا أُولِي النُّهى وَانْظُرُوا كَيْفَ افْتَتَحَ اللهُ تم دقیق نظر سے دیکھو اس پر غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مِن وَفَاةِ الْمَسِيحِ وَ ذِكْرِ كُلِ وَاقِعَةٍ وفات مسیح کے بارہ میں واقعات کو کھولا ہے اورطبیعی ترتیب سے بِتَرْتِيبِ طَبْعِي تَتَعَلَّقُ بِعِيسَى حَتَّى حضرت عیسی علیہ السلام کے تعلق میں ہر واقعہ کو بیان فرمایا ہے الحتَتَمَهَا عَلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ لَمْ يَذْكُزا یہاں تک اس بیان کا یوم القیامۃ پر اختام فرمایا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورة ال عمران ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۴، ۴۳۵) مِنْ نُّزُوْلِ الْمَسِيحِ فِي هَذِهِ السّلْسِلَة اس سلسلہ میں نزول مسیح کے بارے میں کچھ بھی ذکر نہیں فرمایا شَيْئًا وَمَا أَحْدَتَ في هذا الأمر ذكرا اور نہ ہی اس امر کے بارہ میں کوئی نئی بات بیان فرمائی.الْأَمْرِ ذِكْرًا.(ترجمه از مرتب) اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ يَلى بخش وعدہ ناسوت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا.مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ ، وہ لوگ ہو سکتے ہیں جوا تارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں ! رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۰۰) جو لوگ مجھے قبول کرتے ہیں ان کی دین ودنیا بھی اچھی ہوگی کیونکہ اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ در حقیقت وہ زمانہ آتا ہے کہ ان کو امیت سے نکال کر خود قوت بیان عطا کرے گا اور وہ منکروں پر غالب ہوں گے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا اسی کی طرف اللہ جل شانہ نے اشارہ فرمایا ہے: یعنی اتی مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى یعنی اے عیسی ! میں تجھے طبعی وفات دوں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا یعنی تو مصلوب نہیں ہوگا.اس آیت میں یہود کے اس قول کا رد ہے کہ وہ کہتے تھے کہ عیسی مصلوب ہو گیا اس لئے ملعون ہے.اور خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا اور عیسائی کہتے تھے کہ تین دن لعنتی رہ کر پھر رفع ہوا.اور اس آیت نے یہ فیصلہ کیا کہ بعد وفات بلا توقف خدا تعالیٰ کی طرف عیسی کا رفع روحانی ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جگہ رَافِعُكَ إِلَى السَّمَاءِ نہیں کہا بلکہ رَافِعُكَ ال فرمایا تا رفع جسمانی کا شبہ نہ گزرے کیونکہ جو خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے وہ روح سے جاتا ہے نہ جسم سے ارجعي إلى رتك (الفجر :۲۹).اس کی نظیر ہے.غرض اس طرح پر یہ جھگڑا فیصلہ پایا.مگر ہمارے نادان مخالف جو رفع جسمانی کے قائل ہیں وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جسمانی رفع امر متنازع فیہ نہ تھا اور اگر اس بے تعلق امر کو بفرض محال قبول کر لیں تو پھر یہ سوال ہوگا کہ جو روحانی رفع کے متعلق یہود اور نصاریٰ میں جھگڑا تھا.اس کا فیصلہ قرآن کی کن آیات میں بیان فرمایا گیا ہے.آخر لوٹ کر اسی طرف آنا پڑے گا کہ وہ آیات یہی ہیں.کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۶۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة ال عمران جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ (سے) ثابت ہوتا ہے کہ دجال عیسائیوں کے سوا کوئی علیحدہ گروہ نہیں ہوگا کیونکہ جب غلبہ اور سلطنت قیامت تک عیسائیوں کے لئے مقدر ہے یا مسلمانوں کے لئے جو حقیقی متبع ہیں تو پھر کون ایماندار یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک اور شخص جو حضرت عیسی کا مخالف ہے اور ان کو نبی نہیں جانتا تمام زمین پر اپنا تسلط جمالے گا ؟ ایسا خیال تو نص صریح قرآن شریف تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۵۶، ۴۵۷) کے مخالف ہے.( قرآن نے ) تَوَفَّيْتَنِی فرمایا اور بخاری نے اپنا مذہب اور اس آیت کے معنے بیان کر دیئے کہ مُتَوَفِّيكَ : مُميتك - تو پھر اس کے بعد خواہ نخواہ ان کو زندہ آسمان پر بٹھانا ان لوگوں کی کیسی غلطی ہے وہ بیچارہ تو خود بھی دہائی دیتا ہے کہ یہ لوگ میرے مرنے کے بعد بگڑے ہیں بھلا اب ہمیں کوئی بتاوے کہ یہ لوگ ابھی بگڑے ہوئے ہیں یا نہیں؟ اگر یہ بگڑے ہیں تو مسیح وفات پاچکے ہیں.الحاکم جلد نمبر ۱۸ مؤرخہ ۱۷ارمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) پہلا جھگڑا وفات مسیح کا ہی ہے.کھلی کھلی آیات اس کی حمایت میں ہیں.يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى پر فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ( المائدة : ۱۱۸ ) یہ عذر بالکل جھوٹا ہے کہ توفی کے معنی کچھ اور ہیں.ابن عباس رضی اللہ عنہ اور خود بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنی امانت کے کر دیئے ہیں.یہ لوگ بھی جہاں لفظ توقی استعمال کرتے ہیں تو معنی امانت اور قبض روح کے مراد لیتے ہیں.قرآن شریف نے بھی ہر ایک جگہ اس لفظ کے یہی معنے بیان کیے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۸۰) قرآن شریف تو رفع اختلاف کے لیے آیا ہے.اگر ہمارے مخالف رَافِعُكَ اِلی کے یہ معنے کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جسم سمیت آسمان پر چڑھ گئے تو وہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا یہود کی یہ غرض تھی اور وہ یہ کہتے تھے کہ مسیح آسمان پر نہیں چڑھا ؟ اُن کا اعتراض تو یہ تھا کہ حضرت مسیح کا رفع الی اللہ نہیں ہوا.یعنی اُسے قرب الی اللہ نصیب نہیں ہوا.اگر رافعہ رائی اس اعتراض کا جواب نہیں، تو پھر چاہیے کہ اُن کے اس اعتراض کا جواب دیا اور دکھایا جائے.الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵ ۲۶ مورخه ۳۱ جولائی ۰ اسراگست ۱۹۰۴ صفحه ۱۳) / فَاَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأَعَةِ بُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ ور وردو مَا لَهُمْ مِنْ تُصِرِينَ وَ اَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ فَيُوَفِّيهِم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۶۱ أجُورَهُم ، وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ.۵۸ سورة ال عمران میں کافروں پر عذاب شدید نازل کروں گا کیا دنیا میں اور کیا آخرت میں مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو میں انہیں ان کا پورا بدلہ دوں گا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۳ حاشیه ) b اِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كن فَيَكُونُ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عیسائیوں نے حضرت عیسی کی خدائی پر یہ دلیل پیش کی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو فی الفور خدا تعالیٰ نے اس قسم کی پیدائش کی بلکہ اس سے بڑھ کر نظیر پیش کر دی اور فرمایا: إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِندَ اللهِ كَمَثَلِ آدم اور نظیر ایسی پیش کی جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک مسلم اور بدیہات اور معتقدات میں سے تھی.(ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۸۲ حاشیه) با حضرت مسیح کا بغیر باپ پیدا ہونا بھی امور نادرہ میں سے ہے، خلاف قانون قدرت نہیں ہے کیونکہ یونانی ، مصری ، ہندی طبیبوں نے اس امر کی بہت سی نظیر میں لکھی ہیں کہ کبھی بغیر باپ کے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بحکم قادر مطلق ان میں دونوں قو تیں عاقدہ اور منعقدہ پائی جاتی ہیں اس لئے دونوں خاصیتیں ذکر اور انٹی کی ان کے تخم میں موجود ہوتی ہیں، یونانیوں نے بھی ایسی پیدائشوں کی نظیر میں دی ہیں اور ہندؤں نے بھی نظیر میں دی ہیں اور ابھی حال میں مصر میں جوطبی کتابیں تالیف ہوئی ہیں ان میں بھی بڑی تحقیق کے ساتھ نظیروں کو پیش کیا ہے ہندوؤں کی کتابوں کے لفظ چندر بنسی اور سورج بنسی در حقیقت انہبی امور کی طرف اشارات ہیں.پس اس قسم کی پیدائش صرف اپنے اندر ایک ندرت رکھتی ہے جیسے تو ام میں ایک ندرت ہے اس سے زیادہ نہیں.یہ نہیں کہہ سکتے کہ بغیر باپ پیدا ہونا ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے خصوصیت رکھتا ہے.اگر یہ امر فوق العادت ہوتا اور حضرت عیسی علیہ السلام سے ہی مخصوص ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اس کی نظیر جو اُس سے بڑھ کر تھی کیوں پیش کرتا اور کیوں فرماتا: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم کی مثال کہ خدا نے اس کو مٹی سے جو تمام انسانوں کی ماں ہے پیدا کیا اور اس کو کہا کہ ہو جا تو وہ ہو گیا ވ ط
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ سورة ال عمران یعنی جیتا جاگتا ہو گیا.اب ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بے نظیر نہیں کہلا سکتا اور جس شخص کے کسی عارضہ ء ذاتی کی کوئی نظیر مل جائے تو پھر وہ شخص نہیں کہہ سکتا یہ صفت مجھ سے مخصوص ہے.(تحفہ گولڑ و بیه، روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۲۰۲، ۲۰۳ حاشیه ) یادر ہے کہ خدا نے بے باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم سے حضرت مسیح کو مشابہت دی ہے اور یہ بات کہ کسی دوسرے انسان سے کیوں مشابہت نہیں دی؟ یہ محض اس غرض سے ہے کہ تا ایک مشہور متعارف نظیر پیش کی جائے کیونکہ عیسائیوں کو یہ دعویٰ تھا کہ بے باپ پیدا ہونا حضرت مسیح کا خاصہ ہے اور یہ خدائی کی دلیل ہے پس خدا نے اس حجت کے توڑنے کے لئے وہ نظیر پیش کی جو عیسائیوں کے نزدیک مسلم اور مقبول ہے اگر خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کوئی اور نظیر پیش کرتا تو وہ اس نظیر کی طرح بدیہی اور مسلم الثبوت نہ ہوتی اور ایک نظری امر ہو تاور نہ دنیا میں ہزار ہا افراد ایسے ہیں جو بے باپ پیدا ہوئے ورنہ ہیں اور غایت کار یہ امر امور نادرہ میں سے ہے نہ یہ کہ خلاف قانون قدرت اور عادت اللہ سے باہر (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۰۸ حاشیه ) ہے.ایسا قادر خدا جو ابتداء دنیا میں صرف مٹی سے انسان کو پیدا کر دیتا ہے پھر اگر وہ کسی انسان کو صرف عورت کے نطفہ سے ہی پیدا کرے تو یہ کون سی تعجب کی جگہ ہے.ظاہر ہے کہ نطفہ بہ نسبت مٹی کے بچہ پیدا ہونے کے لئے بہت قریب استعداد رکھتا ہے اور مٹی کی استعداد ایک استعداد بعیدہ ہے پس جبکہ تمہارا یہ اقرار ہے کہ جو چیز استعداد بعید رکھتی ہے اس سے انسان پیدا ہو سکتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ جو چیز بہ نسبت مٹی کے بچہ پیدا ہونے کے لئے استعداد قریب رکھتی ہے اس سے بچہ پیدا نہیں ہو سکتا اگر یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے یسوع کی پیدائش کی مثال بیان کرنے کے وقت آدم کو ہی پیش کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ - خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ يعنى عیسی کی مثال خدا تعالیٰ کے نزدیک آدم کی ہے کیونکہ خدا نے آدم کو مٹی سے بنا کر پھر کہا کہ تو زندہ ہو جا پس وہ زندہ ہو گیا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۷) ہمارے مخالفوں کا یہ اعتقاد کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے محفوظ رہ کر آسمان پر مع جسم عصری چڑھ گئے.یہ ایسا اعتقاد ہے جس سے قرآن شریف سخت اعتراض کا نشانہ ٹھہرتا ہے کیونکہ قرآن شریف ہر ایک جگہ عیسائیوں کے ایسے دعاوی کو جن سے حضرت عیسی کی خدائی ثابت کی جاتی ہے رد کرتا ہے b
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ سورة ال عمران b جیسا کہ قرآن شریف نے حضرت عیسی کا بغیر باپ پیدا ہونا ( جس سے ان کی خدائی پر دلیل پیش کی جاتی تھی یہ کہہ کر رد کیا: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ کہ پھر اگر حضرت عیسی در حقیقت مع جسم عصری آسمان پر چڑھ گئے تھے اور پھر نازل ہونے والے ہیں تو یہ تو ان کی ایسی خصوصیت تھی کہ بے باپ پیدا ہونے سے زیادہ دھو کہ میں ڈالتی تھی پس جواب دو کہ کہاں دھوکہ قرآن شریف نے اس کی کوئی نظیر پیش کر کے اس کو رد کیا ہے، کیا خدا تعالیٰ اس خصوصیت کے توڑنے سے (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۳) عاجز رہا؟ وَاللَّهِ إِنَّ عِيسَى مَاتَ وَإِنَّهُمْ بخدا ! حضرت عیسی فوت ہوچکے ہیں اور اس کے منکر يُعانِدُونَ الْحَقِّ الطَّرِيحَ وَ يَقُولُونَ مَا ثابت شدہ سچائی کے دشمن ہیں اور وہ بات کہتے ہیں جو قرآن يُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَ مَا يَخَافُونَ وَأَنى کے مخالف ہے اور ایسا کہتے ہوئے ڈرتے نہیں.بھلا إشكالِ يَأْخُذُهُمْ في مَوْتِ عِيسَى بَل حضرت عیسی کی موت تسلیم کرنے میں انہیں کون سا اشکال هُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ يُخضِصُونَهُ بِصِفَةٍ پیش آتا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ حد سے بڑھنے والے لوگ لا تُوجَدُ في أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَيُؤَيِّدُونَ ہیں وہ حضرت عیسی کو ایک ایسی صفت سے ممتاز کرتے النَّصَارَى وَهُمْ يَعْلَمُونَ وَكَيْفَ ہیں.جو کسی انسان میں نہیں پائی جاتی اور جان بوجھ کر تَقْبَلُ غَيْرَةُ اللهِ أَنْ تُخَصِّصَ أَحَدًا عیسائیوں کی امداد کرتے ہیں.بھلا خدا کی غیرت کیسے گوارا بِصِفَةٍ لَّا شَرِيكَ لَهُ فِيهَا مِنْ بَدءِ کر سکتی ہے کہ وہ کسی ہستی کو ایسی صفت سے مخصوص کرے الدُّنْيَا إلى أخِرِهَا، وَأَنَّى عَقِيْدَةٍ أَقْرَبُ جس میں نہ کوئی ابتدائے دنیا سے خدا کا شریک ہوا اور نہ إلَى الْكُفْرِ مِنْهَا، لَوْ كَانُوا يَتَدَبَّرُونَ.قیامت تک ہو سکے گا.اگر وہ سوچ بچار سے کام لیں تو اس فَإِنَّ التَّخْصِيْصَ أَسَاسُ الشركِ، وَأَئى سے بڑھ کر اور کون سا عقیدہ کفر سے مشابہ ہوسکتا ہے.کیونکہ ذَلْبٍ أَكْبَرُ من الكِ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ اس قسم کی تخصیص ہی تو شرک کی جڑ ہے اور اسے جاہلو! شرک وَإِذْ قَالَتِ النَّصَارَى إِنَّ عِیسَی ابْنُ اللہ سے بڑا اور کون سا گناہ ہے؟ اور چونکہ عیسائی کہتے تھے کہ يمَا تَوَلَّد مِنْ غَيْرِ آبِ، وَكَانُوا به عیسی خدا کا بیٹا ہے کیونکہ وہ بغیر باپ پیدا ہوا تھا اور اس پر يَتَمَسَّكُونَ، فَأَجَابَهُمُ اللهُ بِقَوْلِهِ اِنَّ اصرار کرتے تھے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ ، خَلَقَۀ کا جواب دیا کہ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ أَدم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة ال عمران مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ وَلكِنَّا لا خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ لیکن نَرَى جَوَابَ خُصُوصِيَّةِ رَفْعِ عِيسَی وَنُزُولِهِ حضرت عیسی کی اس خصوصیت کا کہ وہی آسمان پر في الْقُرْآنِ مَعَ أَنه أَكْبَرُ الثَّلَابِلِ عَلی اُٹھائے گئے تھے پھر اتریں گے کوئی مثال ہمیں قرآن الْوَهِيَّةِ عِيسَى عِندَ أَهْلِ الصُّلْبَانِ.فَلَو مجید میں نظر نہیں آتی.باوجود یکہ صلیب پرستوں کے كَانَ أَمْرُ صُعُودِ عِيسَى وَهُبُوطِهِ سَمِيحًا فی نزدیک عیسی کی خدائی کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے عِلْمٍ رَبَّنَا الرَّحْمَن لَكَانَ مِنَ الْوَاجِبِ آن پس اگر عیسی کے آسمان پر چڑھنے اور پھر اُترنے کی بات يَذْكُرَ اللهُ مَثِيْلَ عِيسَى فِي هَذِهِ الصَّفَةِ في خدا تعالیٰ کے نزدیک درست ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس الْفُرْقَانِ، كَمَا ذَكَرَ ادَمَ لِيُبْطِلُ بِهِ مُجَةَ صفت میں میسی کے کسی مثیل کا ذکر فرقان مجید میں أَهْلِ الصُّلْبَانِ فَلَا شَكَ أَنَّ في تَرْكِ ضرور کرتا تا اس کے ذریعہ عیسائیوں کی اس دلیل کو الْجَوَابِ إِشْعَارُ بِأَنَّ هَذِهِ الْقِصَّةَ بَاطِلَةٌ لا جھلائے.پس بلاشبہ ایسی کوئی مثال پیش نہ کرنے کا أَصْلَ لَهَا وَلَيْسَ إِلَّا كَالْهَذْيَانِ مقصد یہ سمجھانا ہے کہ یہ قصہ صریح جھوٹ ہے اس کی (الاستفتاء، حقیقت الوحی، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۷۴،۶۷۳) کوئی بنیاد نہیں اور محض بکواس ہے.( ترجمہ از مرتب ) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بعض عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ خصوصیت پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو فی الفور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی اس آیت میں جواب ، ديا: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ - خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ یعنی "عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اُس کو کہا کہ ” ہو جا.سو وہ ہو گیا ایسا ہی عیسی بن مریم ، مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہو گیا.پس اتنی بات میں کون سی خدائی اور کون سی خصوصیت اس میں پیدا ہوگئی ! موسم برسات میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خود بخو دز مین سے پیدا ہو جاتے ہیں، کوئی اُن کو خدا نہیں ٹھہراتا، کوئی اُن کی پرستش نہیں کرتا، کوئی اُن کے آگے سر نہیں جھکاتا پھر خواہ نخواہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۱،۵۰) خدا تعالیٰ کے نزدیک عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے بنایا پھر کہا کہ ہو جا پس وہ زندہ جیتا جاگتا ہو گیا.یعنی عیسی علیہ السلام کا بے باپ ہونا کوئی امر خاص اس کے لئے نہیں تا خدا ہونا اس کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۵ سورة ال عمران لازم لاوے.آدم کے باپ اور ماں دونوں نہیں پس جس حالت میں خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ تقاضا کیا کہ حضرت عیسی میں بے پدر ہونے کی خصوصیت نہ رہے تا ان کی خدائی کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرائی جائے تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ میں چار فوق العادت خصوصیتیں لے قبول کر لی ہوں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۸٬۳۹۷) إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدم اگر مسیح بنا باپ کے نہ تھا تو آدم سے مماثلت کیا ہوئی اور وہ کیا اعتراض مسیح پر تھا جس کا یہ جواب دیا گیا.تواریخی بات بھی یہ ہے کہ یہود آپ کی پیدائش کو اسی لئے ناجائز قرار دیتے تھے کہ آپ کا باپ کوئی نہ تھا اس پر خدا نے یہود کو جواب دیا کہ آدم بھی تو بلا باپ پیدا ہوا تھا بلکہ بلاماں بھی.بہ اعتبار واقعات کے جو اعتراض ہوا کرتے ہیں ان سے جواب کو دیکھنا چاہیے اور اگر کوئی اسے خلاف قانون قدرت قرار دیتا ہے تو اول قانون قدرت کی حد بست دکھلا دے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲۲) بغیر نظیر کے کوئی بات نہیں مانی جاتی عیسائیوں نے جب مسیح کے بن باپ ہونے سے اس کی خدائی کا استدلال کیا تو خدا تعالیٰ نے نظیر بتلا کر ان کی بات کو رد کر دیا، فرمایا : إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ أَدَمَ کہ اگر بن باپ ہونے سے انسان خدا ہوسکتا ہے تو آدم کی تو ماں بھی نہ تھی اسے خدا کیوں نہیں مان لیتے.پس جب نصاری کی اس بات کو خدا نے رد کر دیا تو اگر مسیح بھی واقعی آسمان پر زندہ ہوتا اور عیسائی اسے خدائی کی دلیل گردانتے تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی رد کرتا اور چند ایک نظائر پیش کرتا کہ فلاں فلاں اور نبی زندہ آسمان (البدرجلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۵) اگر بن باپ پیدا ہونے والا خدا ہوسکتا ہے.تو پھر جس کا ماں اور باپ دونوں نہ ہوں وہ تو بدرجہ اولی خدا ہوگا.مگر ان کو وہ خدا نہیں مانتے.اور ایسا ہی بیٹی میں بھی خدائی ماننی چاہیے کیونکہ وہ بانجھ سے پیدا الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۲) اگر بے باپ پیدا ہونا دلیل الوہیت اور امنیت ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام بدرجہء اولی اس کے پر موجود ہیں.ہوئے تھے.۱ (۱) وہ مع جسم عصری آسمان پر چلے گئے (۲) صد ہا سال تک بغیر آب و دانہ کے آسمان پر زندہ رہنے والے ٹھہرے (۳) آسمان پر اتنی مدت تک پیرانہ سالی اور ضعف سے محفوظ رہنے والے ٹھہرے (۴) مدت دراز کے بعد آسمان سے مع ملائک نازل ہونے والے ٹھہرے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۵.خلاصہ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة ال عمران مستحق ہیں کیونکہ نہ ان کی ماں ہے نہ باپ اور خدا فرماتا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ - اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت عیسی کے بے باپ پیدا ہونے سے خلقت کو دھوکہ لگنے کا اندیشہ تھا اس لئے خدا نے آدم علیہ السلام کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کر کے ایک نظیر پہلے ہی سے قائم کر دی تھی لیکن اگر اس کے آسمان پر جانے والی بات بھی صحیح مانی جاوے تو چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی ایک نظیر پیش کر دیتا.اب بتلاؤ! جبکہ خدا نے آسمان پر جانے کی کوئی نظیر پیش نہیں کی تو پھر اسی سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے آسمان پر جانے والی کہانی محض جھوٹی ہے.الحکم جلد ۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) نصاری نے ایک عقیدہ پکڑا تھا کہ حضرت عیسی چونکہ بن باپ کے ہیں لہذا یہ خصوصیت ان کی خدائی کی پختہ دلیل ہے اور یہ ان کا مسلمانوں پر ایک بھاری اعتراض تھا اور اس سے وہ حضرت عیسی میں ایک خصوصیت ثابت کر کے ان کی خدائی کی دلیل پکڑتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں ان کا یوں منہ توڑا اور ان کا رڈ یوں بیان کیا کہ : إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ ادم الخ یعنی اگر حضرت عیسی کی پیدائش اعجازی رنگ میں پیش کر کے تم اس کی خدائی کی دلیل ٹھہراتے ہو تو پھر آدم بطریق اولی خدا ہونا چاہیے کیونکہ اس کا نہ باپ نہ ماں، اس طرح سے اول آدم کو بڑا خدا مان لو پھر اس بات کو عیسی کی خدائی کی دلیل ٹھہراتا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۰۸ ء صفحہ ۸،۷) تعجب کی بات ہے ایک شخص انسانی جامہ میں ہو اور انسانی لوازم اور عوارض کے ماتحت ہوکس دلیل سے فوق العادۃ انسان اس کو مانا جا سکتا ہے؟ صورت شکل سے یہ پہچانا کہ وہ خدا ہے یہ تو سراسر خیال باطل اور محال ہے اور نصاری بھی اس کے قائل نہیں ہوں گے تو اب بجز اس کے کہ یہ دکھایا جائے کہ اس کے یہ افعال اور اعمال تھے جو انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہیں اور جو اسے خدائی کا منصب دلاتے ہیں اور کوئی مضبوط دلیل اس کی الوہیت کی ہو نہیں سکتی اور یہ سودائے خام ہے.اسلام آج تک ڈنکے کی چوٹ سے پکار رہا ہے.اِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِندَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ یعنی اللہ کے نزدیک جو حقیقی الوہیت کا حقدار ہے، اس لئے کہ جامع جمیع صفات کا ملہ اور ہر قسم کے بشری ضعفوں اور مخلوقی عوارض ولوازم سے منزہ ہے.ہاں! اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسی آدمی سے کچھ بھی زیادہ نہیں یعنی اس میں سارے وہ لوازم اور عوارض موجود ہیں جو آدمی میں پائے جاتے ہیں.جو شخص اس کی الوہیت کا مدعی ہے وہ معمولی آدمی سے بڑھ کر خواص اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 172 سورة ال عمران میں دکھائے ! یہ بڑا بھاری قرضہ نصاری کی گردن پر ہے اور تیرہ سو برس سے برابر چلا آتا ہے.ان کی غیرت کا اگر ان میں ہوتی یہ مقتضاء ہونا چاہیے تھا کہ اس خطرناک الزام سے بری ہوتے.کہاں یہ کہ وہ ایک شخص کو خدا اور الفا امیگا (ALPHA & OMEGA) لے کہیں اور کہاں یہ کہ اسلام مٹی سے بنے ہوئے آدمی سے کسی طرح بھی بڑھ کر اسے نہ مانے اور نہ ماننے دے.الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷رجون ۱۹۰۳ء صفحه ۴) اب وہ ابن مریم جس کا روحانی باپ زمین پر بجز معلم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا یہاں تک کہ لوگ قبول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا یقبلۂ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پر ہو جائے گی.وہ خلافت جو آدم سے شروع ہوئی تھی خدائے تعالیٰ کی کامل اور بے تغیر حکمت نے آخر کار آدم پر ہی ختم کر دی یہی حکمت اس الہام میں ہے کہ: اردْتُ أَنْ اسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کر دیا چونکہ استدارت زمانہ کا یہی وقت ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں اس لئے خدائے تعالیٰ نے آخر اور اول کے لفظ کو ایک ہی کرنے کے لئے آخری خلیفے کا نام آدم رکھا اور آدم اور عیسی میں کسی وجہ سے روحانی مبائت نہیں بلکہ مشابہت ہے: اِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللهِ كَمَثَلِ آدَمَ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۷) فَمَنْ حَاجَكَ فِيْهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ ابناءَنَا وَ ابْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَ انْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلُ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ.ان کو کہہ دے کہ آؤ! ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں پھر ان پر لعنت کریں جو کا ذب ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۵) مباہلہ کے معنے لغت عرب کے رو سے اور نیز شرعی اصطلاح کے رو سے یہ ہیں کہ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خدا کی لعنت چاہیں.( اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۷۷ حاشیہ) BEGINNING AND THE ENDL
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة ال عمران میرے نزدیک مباہلہ تحریری بھی ہوسکتا ہے.( مجموعہ اشتہارات،جلد دوم صفحه ۶۷۱) صلحا کی سنت قدیمہ سے ثابت ہے کہ مباہلہ کی غایت میعاد ایک سال تک ہوتی ہے.سو ہم بدیہی ثبوت اپنے پاس رکھتے ہیں کہ جن برکات کو ہم نے اپنی نسبت لکھا ہے وہ ایک سال کے اندر ہی ہم پر وارد ہوئیں.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۴ حاشیه ) اصل مسنون طریق مباہلہ میں یہی ہے کہ جو لوگ ایسے مدعی کے ساتھ مباہلہ کریں جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور اس کو کاذب یا کافر ٹھہبر اویں وہ ایک جماعت مباہلین کی ہو.صرف ایک یا دو آدمی نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : فَقُلْ تَعالوا میں تَعالوا کے لفظ کو بصیغہ جمع بیان فرمایا ہے.سواس نے اس جمع کے صیغہ سے اپنے نبی کے مقابل پر ایک جماعت مکذبین کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے نہ شخص واحد کو بلکہ مَنْ حَاجَّكَ کے لفظ سے جھگڑنے والے ایک شخص واحد قرار دے کر پھر مطالبہ جماعت کا کیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جھگڑنے سے باز نہ آوے اور دلائل پیش کردہ سے تسلی نہ پکڑے تو اس کو کہہ دو کہ ایک جماعت بن کر مباہلہ کے لئے آویں.سو اسی بنا پر ہم نے جماعت کی قید لگا دی ہے.جس میں یہ صریح فائدہ ہے کہ جو امر خارق عادت بطور عذاب مکذبین پر نازل ہو وہ مشتبہ نہیں رہے گا مگر صرف ایک شخص میں مشتبہ رہنے کا احتمال ہے.(ضمیمه انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ا ا صفحه ۳۲۰،۳۱۹) مسیح کا بندہ ہونا بالکل سچ اور شک سے منزہ ہے اور اگر اب بھی عیسائی لوگ مسیح ابن مریم کی الوہیت پر تجھ سے جھگڑا کریں اور خدا تعالیٰ کے اس بیان کو جو مسیح در حقیقت آدم کی طرح ایک بندہ ہے گو بغیر باپ کے پیدا ہوا.دروغ سمجھیں اور انسان کا افتر اخیال کریں تو ان کو کہہ دے کہ اپنے عزیزوں کی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں اور ادھر ہم بھی اپنی جماعت کے ساتھ مباہلہ کے لئے آویں گے پھر جھوٹوں پر لعنت کریں گے.اب اس تمام بیان سے بوضاحت کھل گیا کہ مسنون طریق مباہلہ کا یہ ہے کہ جو شخص مباہلہ کی درخواست کرے اس کے دعوی کی بنا ایسے یقین پر ہو جس یقین کی وجہ سے وہ اپنے فریق مقابل کو قطعی طور پر مفتری اور کاذب خیال کرے اور اس یقین کا اس کی طرف سے بصراحت اظہار چاہیے کہ میں اس شخص کو مفتری جانتا ہوں نہ صرف ظن اور شک کے طور سے بلکہ کامل یقین سے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں ظاہر فرمایا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة ال عمران پھر ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ نے دلائل بینہ سے بخوبی عیسائیوں کو سمجھا دیا کہ عیسی بن مریم میں کوئی خدائی کا نشان نہیں اور جب وہ باز نہ آئے تو پھر مباہلہ کے لئے درخواست کی اور نیز آیات موصوفہ بالا سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسنون طریقہ مباہلہ کا یہی ہے کہ دونوں طرف سے جماعتیں حاضر ہوں.اگر جماعت سے کسی کو بے نیازی حاصل ہوتی تو اس کے اول مستحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۸۲، ۱۸۳) اس آیت میں لفظ الکذبین صاف ہمارے مدعا اور بیان کا شاہد ناطق ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ فرما کر ظاہر کرتا ہے کہ مباہلہ اسی صورت میں جائز ہے کہ جب فریقین ایک دوسرے کو عمد اور وغ باز یقین کرتے ہوں نہ یہ کہ صرف مخفی خیال کرتے ہوں.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۸۲ حاشیه ) قُلْ يَاهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَا مُسْلِمُونَ ) (۶۵) قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تقسیم ہے.یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کیلئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اٹھاتا اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلا دیا ہے اور آیت : تعالوا إلى كَلِمَةٍ میں اہل کتاب پر یہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں.ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۹) اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک تو حید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا.لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پرداز ہیں کہ عبد الحلیم خان نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے مثلاً : اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرُى وَالشَّبِيْنَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ (البقرة : ٢٣) اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۰ سورة ال عمران جیسا کہ یہ آیت بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ( البقرة : ۱۱۳).اور جیسا کہ یہ آیت تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِن دُونِ اللهِ - واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی اور اللہ پر پورا ایمان تبھی ہوسکتا ہے کہ اُس کے رسولوں پر ایمان لاوے.وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اُس کی صفات کے بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالی ناقص رہ جاتی (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۲، ۱۷۳) ہے.b وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَب لَوْ يُضِلُّونَكُم وَمَا يُضِلُّونَ إِلاَ وود أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشعرون.کہ ایک گروہ نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ چاہا ہے کہ کسی طرح تم کو گمراہ کریں.اور وہ تم کو تو.کیا گمراہ کریں گے خود اپنے ہی نفسوں کو گمراہ کر رہے ہیں پر اپنی غلطی پر انہیں شعور نہیں.براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۰ حاشیه ۱۱) يَاَهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تعلمون.لِمَ لَا تَتَجَافُونَ عَنِ الْإِستطاط في کیوں تم اس بات سے کنارہ نہیں کرتے کہ الہی کلمات کی تَحْرِيفِ كَلِمَاتِ اللهِ وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ آن تحریف میں حد سے زیادہ بڑھے جاتے ہو اور تم جانتے ہو الصَّدْقَ وَسِيْلَةُ الْفَلَاحِ وَ الْكَذِبَ مِن کہ سچائی نجات کا موجب اور جھوٹ تباہی کی علامت ہے أَثَارِ الطَّلَاحِ وَفِي الْتِزَامِ الْحَقِ نَبَاهَةٌ وَفِي اور حق کے اختیار کرنے میں نیک نامی اور جھوٹ کے اختیار اخْتِيَارِ الزُّوْرِ عَاهَةٌ، فَإِيَّاكُمْ وَطرُقَ کرنے میں آفت ہے سوتم کذابوں کا طریق چھوڑ دو.پس الكَذَّابِيْنَ.فَأَشَارَ اللهُ فِي هَذَا أَنَّ عُلَمَاءَ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا کہ نصاریٰ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 121 سورة ال عمران النَّصَارَى هُمُ الرَّجَالُونَ الْمُفْسِدُونَ کے علماء در حقیقت دجال اور مفسد ہیں اور حق اور حق پرستوں أَعْدَاءُ الْحَقِّ وَأَهْلِهِ نَسُوا ظُلْمَةَ الرَّمْسِ کے دشمن ہیں قبر کی تاریکی کو بھلا دیا سو وہ اس خوف کو جواس - فَلَا يَذْكُرُونَ مَا ثَمَّ، وَحُبُّ الشَّهَوَاتِ جگہ ہے یاد نہیں کرتے اور نفسانی شہوتوں کی محبت ان فِيْهِمْ عَمَّ وتَمَّ وَغَابِ أَثَرُ الدِّينِ میں پھیل گئی اور کمال تک پہنچ گئی اور دین کا نشان گم ہو گیا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۸۲ ۸۳) وَ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتب أمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجهَ النَّهَارِ وَالْفُرُوا اخِرَةُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۷۳ بعض یہود اور عیسائیوں نے کہا کہ یوں کرو کہ دن کے اول وقت میں تو ایمان لاؤ اور دن کے آخری وقت یعنے شام کو حقیت اسلام سے منکر ہو جاؤ تا شاید اسی طور سے لوگ اسلام کی طرف رجوع کرنے سے ہٹ جائیں.( براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۸ حاشیہ نمبر ۱۱) بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جا کر قرآن پر ایمان لے آؤ پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کر لو تا شاید اس طور سے لوگ شک میں پڑ جائیں اور دین اسلام کو چھوڑ دیں.براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۶) ج وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتَبِ مَنْ إِنْ تَأْمَنُهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّةَ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ اِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُوَدِةَ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَابِما ذَلِكَ بِأَنَّهُم قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِينَ سَبِيلٌ وَ يَقُولُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَهُمْ 199191 يعلمون ج اور اہل کتاب میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر اُن کے پاس زرنقد کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھی جائے تو جب تو مانگے وہ سب مال تیرے حوالہ کریں گے اور بعض اہل کتاب ایسے ہیں کہ اگر ایک اشرفی بھی تو اُن کے حوالہ بطور امانت کرے تو وہ بھی حوالہ نہ کریں گے مگر صرف اُس وقت کہ تو اُن کے سر پر کھڑا ہوگا.یہ بد معاملگی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کھلے کھلے طور پر کہتے ہیں کہ عرب کے ان پڑھ لوگوں کا حق مار لینے میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ ہم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور دیدہ دانستہ خدا پر جھوٹ بولتے ہیں.سورة ال عمران چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۱، ۲۴۲) وَإِذْ اَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا أَتَيْتُكُم مِّنْ كِتَب وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولُ مُّصَدِّقُ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ ۖ قَالَ ء اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَى ذلِكُمْ اِصْرِى قَالُوا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَ أَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّهِدِينَ اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا، تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا.تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں.اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہو گئے تھے.یہ حکم ہر نبی کی امت کے لیے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ ورنہ مؤاخذہ ہوگا.اب بتلاویں میاں عبد الحکیم خان نیم ملا خطرہ ایمان ! کہ اگر صرف توحید خشک سے نجات ہو سکتی تو پھر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے کیوں مؤاخذہ کرے گا جو گو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے مگر تو حید باری کے قائل ہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۳، ۱۳۴) قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَه، پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوئے اور پھر حضرت عیسی کو امتی بنانے کے کیا معنے ہیں؟ اور کون سی خصوصیت ؟ کیا وہ اپنے پہلے ایمان سے برگشتہ ہو گئے تھے جو تمام نبیوں کے ساتھ لائے تھے تا نعوذ باللہ ! یہ سزا دی گئی کہ زمین پر اتار کرد و باره تجدید ایمان کرالی جائے مگر دوسرے نبیوں کے لیے وہی پہلا ایمان کافی رہا کیا ایسی کچھی باتیں اسلام سے تمسخر ہے یا نہیں؟ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۳ سورة ال عمران اس آیت سے بنص صریح ثابت ہوا کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح بھی شامل ہیں مامور تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاویں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۹۱) قُلْ أَمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ مَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَعِيلَ وَ اِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.ص ز ۸۵ میں اس وقت کسی خاص قوم کو بے وجہ ملامت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کسی کا دل دُکھانا چاہتا ہوں بلکہ نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا اور تمام دُنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے.جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں ی تعلیم دی که : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ یعنی تم اے مسلما نو ! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کر دیں.اگر ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو، قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا.اسرائیکی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا اسحق اور کیا موسیٰ اور کیا داؤد اور کیا عیسی سب کی نبوت کو مان لیا اور ہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گزرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذاب نہیں کہا بلکہ صاف طور پر کہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گزرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی.مگر افسوس کہ اس صلح کے نبی کو ہر یک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۰،۴۵۹) E دیکھتی ہے.وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الخيرين جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا تو ہر گز قبول نہیں کیا جاوے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة ال عمران اسلام میں خاصیت ہے کہ سچائی سے اس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الہیہ سے مشرف ہو جاتے ہیں اور قبولیت کے انوار جن میں ان کا غیر ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ان کے وجود میں پیدا ہو جاتے ہیں.یہ ایک واقعی صداقت ہے.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۵۵) یا درکھو کہ دنیا میں سچا مذہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزہ ہے صرف اسلام ہے یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا اور خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاتا ہے.(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۵۹) قرآن نے جو دین اسلام پیش کیا ہے جو شخص قرآنی تعلیم کو قبول نہیں کرے گا وہ مقبول خدا ہر گز نہ ہوگا اور مرنے کے بعد وہ زیاں کاروں میں ہوگا.( مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۹۳ ) نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہوا کرتی ہے اس فضل کے حصول کے لیے خدا تعالیٰ نے جو اپنا قانون ٹھہرایا ہوا ہے وہ کبھی باطل نہیں کرتا وہ قانون یہ ہے : إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي ود روو الله (آل عمران : ۳۲) اور مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ - البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ رنومبر ۱۹۰۲، صفحه ۳۱) جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواست گار ہو وہ آخر کارٹوٹے میں رہے گا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ صفحه ۲) اسلام کے سوا اور کوئی دین قبول نہیں ہوسکتا اور یہ نرا دعوی نہیں تاثیرات ظاہر کر رہی ہیں.اگر کوئی اہل مذہب اسلام کے سوا اپنے مذہب کے اندر انوار و برکات اور تاثیرات رکھتا ہے تو پھر وہ آئے ہمارے ساتھ مقابلہ کرے اور ہم نے ہمیشہ ایسی دعوت کی ہے کوئی مقابلہ پر نہیں آیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحہ ۷) كَيْفَ يَهْدِى اللهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَ شَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنْتُ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ.۸۷ یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے.( مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۱۲۸) اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كَفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُم ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۵ سورة ال عمران و أوليكَ هُمُ الضَّالُونَ ) تو بہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی تو بہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کر کے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی طرف چلا آتا ہے.سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اُسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلی نفس امارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانہ حضرت احدیت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس موت کے عوض میں خدا تعالی اُس کو زندگی بخشے.( قادیان کے آریہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۴۸) تو بہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہر گز نہیں کرے گا.پس جب انسان اس صدق اور عزم محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا اپنی ذات میں کریم ورحیم ہے وہ اس گناہ کی سزا معاف کر دیتا ہے اور یہ خدا کی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ تو بہ قبول کر کے ہلاکت سے بچالیتا ہے اور اگر انسان کو تو بہ قبول کرنے کی امید نہ ہو تو پھر وہ گناہ سے باز نہیں آئے گا.عیسائی مذہب بھی تو بہ قبول کرنے کا قائل ہے مگر اس شرط سے کہ تو بہ قبول کرنے والا عیسائی ہو لیکن اسلام میں تو بہ کے لئے کسی مذہب کی شرط نہیں ہے.ہر ایک مذہب کی پابندی کے ساتھ تو بہ قبول ہو سکتی ہے اور صرف وہ گناہ باقی رہ جاتا ہے جو کوئی شخص خدا کی کتاب اور خدا کے رسول سے منکر رہے اور یہ بالکل غیر ممکن ہے کہ انسان محض اپنے عمل سے نجات پا سکے بلکہ یہ خدا کا احسان ہے کہ کسی کی وہ تو بہ قبول کرتا ہے اور کسی کو اپنے فضل سے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ وہ گناہ کرنے ے محفوظ رہتا ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۹۰) تو بہ در اصل حصول اخلاق کے لیے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے اور انسان کو کامل بنا دیتی ہے یعنی جو شخص اپنے اخلاق سینہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ تو بہ کرے.یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ تو بہ کے لیے تین شرائط ہیں.بدوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے تو بتہ النصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی ان ہر سہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جوان خصائل ردیہ کے محرک ہیں.اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے کیونکہ حیطہ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۶ سورة ال عمران ایک تصوری صورت رکھتا ہے پس تو بہ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسد وتصورات بد کو چھوڑ دے مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے تو بہ کرنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے تصورات کا اثر بہت زبر دست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہاں تک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے پس جو خیالات بدلذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع و قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط ندم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حفظ میں کمی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بڑھاپے میں آ کر جبکہ قومی بیکار اور کمزور ہو جاویں گے.آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہوگا پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب باتیں چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کو قلع و قمع کرے جب اور اول ہو یعنی و بیہودہ موقع کرکے یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کیے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے یعنی آئیندہ کے لیے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کروں گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا.یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہوکر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر ، اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرما یا آنَ الْقُوَةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (البقرة : ١٦٦) رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۸،۱۵۷) تو بہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا کی طرف رجوع کرنا ، بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف آگے قدم بڑھانا ، تو بہ ایک طرف (موت) کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا، تو بہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گو یا نئی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے نہ اس کی وہ چال ہو، نہ اس کی وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 122 سورة ال عمران زبان، نہ ہاتھ ، نہ پاؤں ، سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے.دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اور ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ تو بہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں یہ برکات کا سر چشمہ ہے.درحقیقت اولیاء اور صلحاء یہی لوگ ہوتے ہیں جو تو بہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں وہ گناہ سے دُور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں کامل تو بہ کرنے والا شخص ہی ولی قطب اور غوث کہلا سکتا ہے.اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے.اس کے بعد بلائیں اور مصائب جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں مل جاتی ہیں.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ دو تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہر گز پانہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزس خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸) خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم در حقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں اس قربانی کی خدا نے ہمیں تعلیم دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: کن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحبون یعنی تم حقیقی نیکی کو کسی طرح پانہیں سکتے جب تک تم اپنی تمام پیاری چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو.ہے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۷) تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پاسکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۸) مال کے ساتھ محبت نہیں چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کن تنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم ہرگز نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.جن سے تم پیار کرتے ہو.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ آج کل کے حالات کا مقابلہ کیا جاوے تو اس زمانہ کی حالت پر افسوس آتا ہے کیونکہ جان سے پیاری کوئی شے نہیں اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ہی دینی پڑتی تھی.تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے جان سب کو پیاری لگتی ہے مگر وہ ہمیشہ اس بات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۸ سورة ال عمران پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کر دیں.(کلمه طیبه صفحه ۱۴) بیکار اور کتی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ علمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ نقی صریح ہے: لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنًا تُحِبُّونَ جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا.اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیوں کر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو؟ کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا.دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوسکتی ملتا ہے.پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسکی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں.خدا ٹھگا نہیں جاتا.مبارک ہیں وہ لوگ ! جو رضائے الہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروانہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملاتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۷۹ ) دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے.اسی واسط علم تعبیر الرویا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مراد مال ہے یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقا اور ایمان کے حصول کے لیے فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ حقیقی نیکی کو ہر گز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین خرچ نہ کرو گے کیونکہ مخلوق الہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوق الہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا جب تک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیوں کر پہنچا سکتا ہے دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لیے ایثا ر ضروری شے ہے اور اس آیت میں کن تنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحبون میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے.پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة ال عمران میں لیلی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے.سکتے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴/اگست ۱۹۰۰ صفحه ۴) جب تک تم اپنے عزیز ترین اشیاء اللہ تعالیٰ جل شانہ کی راہ میں خرچ نہ کرو تب تک تم نیکی کو نہیں پا الحکم جلدے نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۸) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰۲) لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یہ معنے ہیں کہ سب سے عزیز شے جان ہے اگر موقعہ ہو تو وہ بھی خدا کی راہ میں دے دی جاوے.نماز میں اپنے اوپر جو موت اختیار کرتا ہے وہ بھی پڑ کو پہنچتا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۴) ایسا ہی مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ (البقرة : ۳) اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے: کن تنالُوا البر حتى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ - لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجالا دے کہ اپنے اموال محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے کمال تو یہ ہے کہ ماسوئی سے بکلی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے.یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۰،۱۳۹) انسان میں ہمدردی اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تحبون یعنی تم ہر گز ! ہر گز ! اس نیکی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کا نہیں کہ مثلاً کسی ہندو کی گائے بیمار ہو جاوے اور وہ کہے کہ اچھا اس کو منس ( راہ خدا پر دینا ) دیتے ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ باسی اور سری بسی روٹیاں جو کسی کام نہیں آسکتی ہیں فقیروں کو دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خیرات کر دی ہے ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں اور نہ ایسی خیرات مقبول ہو سکتی ہے وہ تو صاف طور پر کہتا ہے : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة ال عمران تحبون حقیقت میں کوئی نیکی نیکی نہیں ہو سکتی جب تک اپنے پیارے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی اشاعت اور اس کی مخلوق کی ہمدردی کے لیے خرچ نہ کرو.(احکام جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) اس وقت تک تم حقیقی نیکی کو حاصل ہی نہیں کر سکتے جب تک تم اس چیز کو خرچ نہ کرو گے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے.الخام جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ر جنوری ۱۹۰۶ صفحه (۴) مال سے محبت نہ کرو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرِّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یعنی تم پر تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ مال خرچ نہ کر وجس کو تم عزیز رکھتے ہو.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۹) مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور یلہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں.کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر تقلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب للہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں.اگر چہ یہ طریق دنیا اور معاشرت کے اصولوں کے مخالف ہے مگر جو شخص خدائے تعالی کی ہستی پر ایمان لا کر اور دین اسلام کو ایک سچا اور منجانب اللہ دین سمجھ کر اور با ایں ہمہ اپنے زمانہ کے امام کو بھی شناخت کر کے اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی ہو کر محض اعلاء کلمہ اسلام کے لئے اپنے مال حلال اور طیب کو اس راہ میں فدا کرتا ہے اس کا جو عند اللہ قدر ہے وہ ظاہر ہے اللہ جَلَّ شَانُهُ فرماتا ہے : کن تنَالُوا الْبِرَّ حَتى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ - خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار ای فکر میں رہتے ہیں روز و شب کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اُسے دے چکے مال و جان بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۱۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة ال عمران اِن اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى للعلمين جبکہ بیت اللہ تمام عالم کے لیے ہدایت پانے کا ذریعہ ہوا تو اس میں صاف اشارہ ہے کہ وہ ایسے مرکز عا پر واقع ہے جس کی زبان تمام دنیا کی زبانوں سے مشارکت رکھتی ہے اور یہی ام الالسنہ ہونے کی حقیقت منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳۳ حاشیه ) ہے.فَأَوْلى إلى أنَّ الْعَرَبِيَّةَ سَبَقَتِ پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے جو عربی الْأَلْسِنَةَ وَأَحَاطَتِ الْأَمْكِنَةَ وَهِيَ أَوَّلُ تمام زبانوں پر سبقت لے گئی اور تمام مکانوں پر محیط غِذَاء لِلْنَاطِقِيْنَ فَإِنَّ الْبَيْتَ لا تخلوا ہے اور وہ بولنے والوں کی پہلی غذا ہے کیونکہ گھر لوگوں مِنْ تَجْمَعِ النَّاسِ وَالْمَجْمَعُ يَحْتَاجُ إلَى کے مجمع سے خالی نہیں ہوتا اور مجمع دفع حاجت اور باہم الْكَلَامِ لِدَفْعِ الْحَوَائِجِ وَالْإِسْتِيْنَاسِ فَإِنَّ اس پکڑنے کے لئے کلام کی طرف محتاج ہوتا ہے الْمُعَاشَرَةً مَوْقُوفَةٌ عَلَى الْفَهْمِ وَالتَّفْهِيْمِ کیونکہ معاشرت فہم اور تفہیم پر موقوف ہے جیسا کہ زیرک اور فہیم پر یہ بات پوشیدہ نہیں.كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الزَّكِي الفَهِيْمِ.(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۳۳) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) فِيهِ ايْن بَينتُ مَقَامُ ابْراهِيمَ، وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۖ وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ ) حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اللہ حج نہ کرنے کے لئے عد ر صیح ہیں چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے اور نیز اُن میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا - ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۵) اسلام نے.....محبت کی حالت کے اظہار کے لیے حج رکھا ہے، خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة ال عمران کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے، کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے، سر منڈایا جاتا ہے، دوڑتے ہیں ، محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳) حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے مگر واپسی ایسی حالت میں مشکل.بہت ہیں جو وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت ان کو نہیں ملتی.قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں وہاں کے فیوض سے محروم ہوتے ہیں اپنی بدکاریوں کی وجہ سے اور پھر الزام دوسروں پر دھرتے ہیں اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ رہا جاوے تا کہ اس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو اور صدق پورے طور پر نورانی ہو الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۷ اس مارچ ۱۹۰۳ ، صفحہ ۴) جاوے.بے وقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا ، اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کو جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں اس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بے وقت بیت اللہ کی زیارت کی اور بجز ایک کوٹھ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاور بین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا، دل سخت ہو گیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷ حاشیہ) حج سے صرف اتنا ہی مطلب نہیں کہ ایک شخص گھر سے نکلے اور سمندر چیر کر چلا جاوے اور رسمی طور پر کچھ لفظ منہ سے بول کر ایک رسم ادا کر کے چلا آوے اصل بات یہ ہے کہ حج ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے جو کمال سلوک کا آخری مرحلہ ہے، مجھنا چاہیے کہ انسان کا اپنے نفس سے انقطاع کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت میں کھویا جاوے اور تعشق باللہ اور محبت الہی ایسی پیدا ہو جاوے کہ اس کے مقابلہ میں نہ اسے کسی سفر کی تکلیف ہو اور نہ جان و مال کی پروا ہو ، نہ عزیز واقارب سے جدائی کا فکر ہو جیسے عاشق اور محب اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی کرنے سے دریغ نہ کرے اس کا نمونہ حج میں رکھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ سورة ال عمران ہے جیسے عاشق اپنے محبوب کے گرد طواف کرتا ہے اسی طرح حج میں بھی طواف رکھا ہے یہ ایک بار یک نکتہ ہے جیسا بیت اللہ ہے ایک اس سے بھی اوپر ہے جب تک اس کا طواف نہ کرو یہ طواف مفید نہیں اور ثواب نہیں.اس کے طواف کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہونی چاہیے جو یہاں دیکھتے ہو کہ ایک مختصر سا کپڑا رکھ لیتے ہیں اسی طرح اس کا طواف کرنے والوں کو چاہیے کہ دنیا کے کپڑے اتار کر فروتنی اور انکساری اختیار کرے اور عاشقانہ رنگ میں پھر طواف کرے.طواف عشق الہی کی نشانی ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ گویا مرضات اللہ ہی کے گرد طواف کرنا چاہیے اور کوئی غرض باقی نہیں.الحکم جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۹) ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لیے اگر یہ بات پیش آجائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جاسکتا.ہاں ! با جازت اس کے دوسرے وقت میں جاسکتا ہے.( تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۹) اصل میں جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے واسطے جانا بھی ایک طرح کا حج ہی ہے.حج بھی خدا تعالیٰ کے حکم کی پابندی ہے اور ہم بھی تو اس کے دین اور اس کے گھر یعنی خانہ کعبہ کی حفاظت کے واسطے آئے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا اور نہ اس میں حجر اسود رکھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی امور کے مقابل پر جسمانی امور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تا وہ روحانی اُمور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی.اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے؟ (۱) ایک تذلل اور انکسار (۲) دوسری محبت اور ایثار.تذلل اور انکسار کے لئے اُس نماز کا حکم ہوا جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کو خشوع اور خضوع کی حالت میں ڈالتی ہے یہاں تک کہ ولی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ رکھا گیا تا جسم اور روح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بیکار اور لغو نہیں.اول تو یہ امر مسلم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اور دونوں پر اُس کا حق خالقیت ہے ماسوا اس کے جسم اور رُوح ایک : دو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة ال عمران دوسرے کی تاثیر قبول کرتے ہیں بعض وقت جسم کا سجدہ رُوح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ جسم اور رُوح دونوں باہم مرا یا متقابلہ کی طرح ہیں.مثلاً ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں بننے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات وہ کچی ہنسی بھی آ جاتی ہے جو روح کے انبساط سے متعلق ہے ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں ایک رونے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا ہی آجا تا ہے جو روح کی درد اور رقت سے متعلق ہے.پس جبکہ یہ ثابت ہو چکا کہ عبادت کی اس قسم میں جو تذلل اور انکسار ہے جسمانی افعال کا رُوح پر اثر پڑتا ہے اور روحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے.پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اور روح میں عوض معاوضہ ہے.محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے.ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجر اسود میرے آستانہ کا پتھر ہے اور ایسا حکم اس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کر دے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھر کے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بنا کر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں.زینت دُور کر دیتے ہیں، سرمنڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بنا کر اس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کر کے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ روحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے روحانی آستانہ کو چومتی ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ، ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پا کر بھی اُس کو چومتا ہے.کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسود سے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قرار دادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے ویس.جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگر وہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں.پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان مگر اس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۹ تا ۱۰۱) خدا کا آستانہ مصدر فیوض ہے یعنی اسی کے آستانہ سے ہر یک فیض ملتا ہے پس اسی کے لئے معبرین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة ال عمران لکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۰۰ حاشیه ) سے مراد منبع علم و فیض ہے.( اس اعتراض کے جواب میں کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیا.فرمایا :....) عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش علماء مکہ سے فتوی لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اُس جگہ جانے سے پر ہیز کرو.سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے.ان لوگوں کو سی بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پر ہیز کرو.یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بارحج کے بارے میں اعتراض کرنا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۵) کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو خدمت خدا نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے؟ یہ یا درکھنا چاہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہوتی وہ خدا کی ہدایت اور راہ نمائی سے ہر ایک امر کو بجالاتے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہر ایک حکم کی تقدیم و تاخیر الہی ارادہ سے کرتے ہیں.اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گویا اس خدا کے حکم کی مخالفت کرنے والے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِیلا کے بارے میں کتاب سنج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج ساقط ہے حالانکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہو جاتی ہیں.مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہوتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) ۱۳ سال مکہ میں رہے آپ نے کتنی دفعہ حج کیے تھے، ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا.(البدرجلد ۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۲۲) اس سوال کے جواب میں کہ ایک شخص حج کی نیت رکھتا تھا لیکن وہ اس نیت کے پورا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا کیا اس کی طرف سے کوئی شخص حج کر سکتا ہے؟ فرمایا: جائز ہے،اس سے متوفی کو ثواب حج کا حاصل ہو جائے گا.فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَن العلمين....خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز ( براہین احمد سیه، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۴ حاشیه ۱۱) خدا تعالی بوجہ استغناء ذاتی کے بے نیاز ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ..یعنی مطلق ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ مورخه ۲ رمئی ۱۹۰۷ صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام خدا تو تمام دنیا سے بے نیاز ہے.۱۸۶ سورة ال عمران (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۷) خدا بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اس شخص سے جو خدا سے لا پروائی کرتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ : فان اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۲،۱) قُلْ يَاَهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَ اَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ) اے اہل کتاب ! کیوں ایمان لانے والوں کو ایمان لانے سے روکتے ہو اور کبھی اختیار کرتے ہو.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۶) يَااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُه وور مسلمون چاہیئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آوے اور خدائے تعالی کی بزرگی تم میں قائم ہو.اگر قرآن اور حدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اس کو قبول نہ کرو اور باقی سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے.توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ اور اپنے مولی حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو اور اسلام کے لئے سارے دُکھ اُٹھاؤ : وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَانْتُمْ مُسْلِمُونَ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۲) 129 ص وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُم اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ۚ وَكُنْتُمُ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ) (۱۰۴) کیا ہمیں قرآن کریم کے اس مرتبہ پر ایمان نہیں لانا چاہئے جو مرتبہ وہ خود اپنے لئے قرار دیتا ہے؟ دیکھنا چاہئے کہ وہ صاف الفاظ میں بیان فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کیا اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ سورة ال عمران حبل سے حدیثیں مراد ہیں؟ پھر جس حالت میں وہ اس حبل سے پنجہ مارنے کیلئے تاکید شدید فرماتا ہے تو کیا اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم ہر ایک اختلاف کے وقت قرآن کریم کی طرف رجوع کریں؟ الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۷) چاہئے کہ تمہارے تمام اعضاء اور تمام قوتیں خدا کی تابع ہوں اور تم سب ایک ہوکر اُس کی اطاعت لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۷) میں لگو.وہ نمونہ دکھاؤ کہ غیروں کے لیے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی : كُنتُم اَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ - یا درکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یادرکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۰ء صفحه ۹) وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارہ پر سواس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا.براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۱ حاشیه در حاشیه ۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارہ تک پہنچ چکے تھے سوخدا نے تم کو اے ایماندار و نجات دی اسی طرح وہ اپنے نشان کو بیان فرماتا ہے تا تم ہدایت پا جاؤ.(براہین احمدیہ ہر چہار حص، روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۶۵۰) تم اس نبی کے آنے سے پہلے دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر پہنچ چکے تھے اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی متنبہ کیا کہ تم نے اپنے دجل سے خدا کی کتابوں کو بدل دیا اور تم ہر ایک شرارت اور بدکاری میں تمام قوموں کے پیشرو ہو اور بت پرستوں کو جابجا ملزم کیا کہ تم پتھروں اور انسانوں اور ستاروں اور عناصر کی پرستش کرتے ہو اور خالق حقیقی کو بھول گئے ہو اور تم یتیموں کا مال کھاتے اور بچوں کو قتل کرتے اور شرکاء پر ظلم کرتے ہو اور ہر یک بات میں حد اعتدال سے گزر گئے ہو.( نور القرآن نمبر ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۸،۳۳۷) رات بہت بڑی رات گزرگئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی طرف جو تورات میں ہے اور آج تک کسی نے اس پر توجہ نہیں کی مگر خدا نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا پس اسی وقت میں نے تو رات نکالی اور اس کو دیکھا جو لوگ علوم الہیہ اور اس کے استعارات سے دلچپسی رکھتے ہیں ان کو بیشک اس میں مزا آئے گا مگر جو حقائق سے حصہ نہیں رکھتے وہ اس پر ہنسی کریں گے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٨٨ سورة ال عمران وہ پیشگوئی اس طرح پر ہے کہ تو رات میں لکھا ہے کہ جب ہاجرہ کو اور اسماعیل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام چھوڑ آئے تو ان کے پاس ایک پانی کی مشک دے کر چھوڑ آئے جب وہ ختم ہو گئی اور حضرت اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپنے لگے اور قریب المرگ ہو گئے تو حضرت ہاجرہ ان کی اس حالت کو نہ دیکھ سکی اور کچھ فاصلے پر جا بیٹھی وہاں لکھا ہے کہ تیر کے پیٹے پر اس وقت ہاجرہ چلائی اور خدا کے فرشتہ نے اس کو پکارا اور کہا کہ اے ہاجرہ ! مت ڈر، اٹھ لڑکے کو اٹھا غرض پھر ہاجرہ کو ایک کنواں نظر آیا جہاں سے اس نے مشک بھری.ور سو اب غور طلب بات یہ ہے کہ فرشتہ نے جو ہاجرہ کو کنواں دکھایا تھا اسی میں ایک پیشگوئی تھی اس پر میرے دل میں فوراً یہ آیت گزری : وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يبين اللهُ لَكُم أَيته لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ابراہیم کا پانی جب ختم ہو چکا تو اسماعیل قریب المرگ ہو گیا.اس وقت خدا نے اس سے بچا لیا اور ایک اور کنواں پانی کا اسے دیا گیا.عرب والے بھی اسماعیل کی اولاد ہونے کے سبب سے گویا اسماعیل ہی تھے جب ہدایت اور شریعت کا ان میں خاتمہ ہو گیا اور قریب المرگ ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے ایک نئی شریعت ان پر نازل کی اور یہ اس آیت میں اشارہ ہے.غرض یہ پیشگوئی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے توجہ نہیں کی.احکام جلد ۵ نمبر ۴۱ مورخه ۱۰ رنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) وَلَتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.۱۰۵ یعنی تم میں سے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو نیکی کی دعوت کریں اور امر معروف اور نبی منکر اپنا طریق شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۳۱) رکھیں.یوم قف تَبْيَضُ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُ وُجُوهٌ ، فَاَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُم * أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ ) یعنی اس دن بعض منہ سیاہ ہو جائیں گے اور بعض سفید اور نورانی ہو جائیں گے...روحانی حالتیں مخفی نہیں رہیں گی بلکہ جسمانی طور پر نظر آئیں گی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۱، ۴۱۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة ال عمران كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ b b الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْ أَمَنَ اَهْلُ الْكِتَبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ ) حضرت احدیت نے جیسا کہ اس امت کا خیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کوسب سے زیادہ کمالات بھی بخشتے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے.اور نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے با علام الہی مطلع ہو جانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا ؟ اور پھر اُن کی یہ آواز کہ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ الْجَبَلَ مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرت غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارقِ عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی.اسی طرح جناب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات وکشوف مشہور و معروف ہیں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.پھر جس حالت میں خدائے تعالیٰ اپنے نبی کریم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر و بزرگ تر ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف بطور مشتے نمونہ از خروارے پہلی امتوں کے کاملین کا حال بیان کر کے کہتا ہے کہ مریم صدیقہ والدہ عیسیٰ اور ایسا ہی والدہ حضرت موسیٰ اور نیز حضرت مسیح کے حواری اور نیز خضر جن میں سے کوئی بھی نبی نہ تھا یہ جب ملہم من اللہ تھے اور بذریعہ وحی اعلام اسرار غیبیہ سے مطلع کئے جاتے تھے.سو اب سوچنا چاہئیے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُمت محمدیہ کے کامل متبعین اُن لوگوں کی نسبت بوجہ اولی مہم ومحدث ہونے چاہیئیں کیونکہ وہ حسب تصریح قرآن شریف خیر الامم ہیں.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۳ تا ۶۵۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰ سورة ال عمران انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے : كُنْتُمْ خَيْرَ أمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور در حقیقت جس قدر قرآنی تعلیم کے کمالات خاصہ ہیں وہ اس امت مرحومہ کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ کی کتابیں ہمیشہ اس قدر نازل ہوتی ہیں جس قدر اس امت میں جو تعمیل کتاب کی مکلف ہے استعداد ہوتی ہے مثلاً انجیل کی نسبت تمام محققین کی یہ رائے ہے کہ اس کی تعلیم کامل نہیں ہے اور وہ ایک ہی پہلو پر چلی جاتی ہے اور دوسرے پہلو کو بکھی چھوڑ رہی ہے لیکن دراصل یہ قصور ان استعدادوں کا ہے جن کے لئے انجیل نازل ہوئی تھی چونکہ خدا تعالیٰ نے انسانی استعدادوں کو تدریجاً ترقی دی ہے اس لئے اوائل زمانوں میں اکثر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے کہ جو غیبی اور بلید اور کم عقل اور کم فہم اور کم دل اور کم ہمت اور کم یقین اور پست خیال اور دنیا کے لالچوں میں پھنسے ہوئے تھے اور دماغی اور دلی قوتیں ان کی نہایت ہی کمزور تھیں مگر ان زمانوں کے بعد ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ آیا جس میں رفتہ رفتہ استعداد میں ترقی کر گئیں گویا دنیا نے اپنی فطرتی قومی میں ایک اور ہی صورت بدل لی پس ان کی کامل استعدادوں کے موافق کامل تعلیم نے نزول فرمایا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۸،۱۹۷) اور مجملہ ان دلائل کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا قرآن شریف کی یہ آیت ہے: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو جو اس لئے نکالی گئی ہو کہ تاتم تمام دجالوں اور دجال معہود کا فتنہ فروکر کے اور اُن کے شر کو دفع کر کے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاؤ.واضح رہے کہ قرآن شریف میں الناس کا لفظ بمعنی وجال معہود بھی آتا ہے اور جس جگہ ان معنوں کو قرینہ تو یہ تعین کرے تو پھر اور معنے کرنا معصیت ہے چنانچہ قرآن شریف کے ایک اور مقام میں الناس کے معنے دجال ہی لکھا ہے اور وہ یہ ہے : لَخَلْقُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ (المؤمن : ۵۸).یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اسرار اور عجائبات پر ہیں دجال معہود کی طبائع کی بناوٹ اس کے برابر نہیں.یعنی گووہ لوگ اسرار زمین و آسمان کے معلوم کرنے میں کتنی ہی جانکا ہی کریں اور کیسی ہی طبع وقا دلاویں پھر بھی ان کی طبیعتیں ان اسرار کے انتہا تک پہنچ نہیں سکتیں.یادر ہے کہ اس جگہ بھی مفسرین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۹۱ سورة ال عمران نے الناس سے مراد دجال معہود ہی لیا ہے دیکھو تفسیر معالم وغیرہ اور قرینہ قو یہ اس پر یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دجال معہود اپنی ایجادوں اور صنعتوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور اس طرح پر خُدائی کا دعوی کرے گا اور اس بات کا سخت حریص ہوگا کہ خدائی باتیں جیسے بارش برسانا اور پھل لگانا اور انسان وغیر ہ حیوانات کی نسل جاری رکھنا اور سفر اور حضر اور صحت کے سامان فوق العادت طور پر انسان کے لئے مہیا کرنا ان تمام باتوں میں قادر مطلق کی طرح کارروائیاں کرے اور سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہو جائے اور کوئی بات اس کے آگے انہونی نہ رہے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اور خلاصہ مطلب آیت یہ ہے کہ زمین آسمان میں جس قدر اسرار رکھے گئے ہیں جن کو دقبال بذریعہ علم طبعی اپنی قدرت میں کرنا چاہتا ہے وہ اسرار اُس کے اندازہ جودت طبع اور مبلغ علم سے بڑھ کر ہیں اور جیسا کہ آیت ممدوحہ میں الناس کے لفظ سے دجال مراد ہے.ایسا ہی آیت اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں بھی الناس کے لفظ سے دجال ہی مراد ہے.کیونکہ تقابل کے قرینہ سے اس آیت کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ كُنْتُمْ خَيْرَ النَّاسِ اخْرِجَتْ لِشَّرِ النَّاسِ اور شتر الناس سے بلا شبہ گروہ دجال مراد ہے کیونکہ حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ آدم سے قیامت تک شرانگیزی میں دجال کی مانند نہ کوئی ہوا اور نہ ہوگا اور یہ ایک ایسی محکم اور قطعی دلیل ہے کہ جس کے دونوں حصے یقینی اور قطعی اور عقائد مسلمہ میں سے ہیں.یعنی جیسا کہ کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں کہ یہ اُمت خیر الامم ہے اسی طرح اس بات سے بھی انکار نہیں کہ گروہ دجال شتر الناس ہے اور اس تقسیم پر یہ دو آیتیں بھی دلالت کرتی ہیں جو سورۃ لم یکن میں ہیں إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا أُولَبِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحتِ أُولبِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّة ( البينة : ،۸.دیکھو اس آیت کے رو سے ایک ایسے گروہ کوشر البریہ کہا گیا ہے جس میں سے گروہ دجال ہے اور ایسے گروہ کو خیر البریہ کہا گیا ہے جو امت محمدیہ ہے.بہر حال آيت خير الہ کا لفظ الناس کے ساتھ مقابلہ ہو کر قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ الناس سے مراد دجال ہے اور یہی ثابت کرنا تھا.اور اس مقصد پر ایک یہ بھی بزرگ قرینہ ہے کہ خدا کی عادت حکیمانہ یہی چاہتی ہے کہ جس نبی کے عہد نبوت میں دجال پیدا ہو.اُسی نبی کی امت کے بعض افراد اس فتنہ کے فرو کرنے والے ہوں نہ یہ کہ فتنہ تو پیدا ہو دے عہد نبوت محمدیہ میں اور کوئی گزشتہ نبی اس کے فرو کرنے کے لئے نازل ہو اور یہی قدیم سے اور جب سے کہ شریعتوں کی بنیاد پڑی سنت اللہ ہے کہ جس کسی نبی کے عہد نبوت میں کوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة ال عمران مفسد فرقہ پیدا ہوا اُسی نبی کے بعض جلیل الشان وارثوں کو اس فساد کے فرو کرنے کے لئے حکم دیا گیا.ہاں ! اگر یہ فتنہ دجال کا حضرت مسیح کے عہد نبوت میں ہوتا تو اُن کا حق تھا کہ خود وہ یا کوئی اُن کے حواریوں اور خلیفوں میں سے اس فتنہ کو فرو کرتا مگر یہ کیا اندھیر کی بات ہے کہ یہ اُمت کہلا وے تو خیر الام مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں اس قدر نالائق اور لکھی ہو کہ جب کسی فتنہ کے دور کرنے کا موقع آوے تو اس کے دُور کرنے کے لئے کوئی شخص باہر سے مامور ہو اور اس اُمت میں کوئی ایسا لائق نہ ہو کہ اس فتنہ کو دور کر سکے.گویا اس امت کی اس صورت میں وہ مثال ہوگی کہ مثلاً کوئی گورنمنٹ ایک نیا ملک فتح کرے جس کے باشندے جاہل اور نیم وحشی ہوں تو آخر اس گورنمنٹ کو مجبوری سے یہ کرنا پڑے کہ اس ملک کے مالی اور دیوانی اور فوجداری کے انتظام کے لئے باہر سے لائق آدمی طلب کر کے معزز عہدوں پر ممتاز کرے.سو ہر گز عقل سلیم قبول نہیں کر سکتی کہ جس امت کے ربانی علماء کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ علماء أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي اسرائیل یعنی میری امت کے علماء اسرائیلی پیغمبروں کی طرح ہیں اخیر پر ان کی یہ ذلّت ظاہر کرے کہ دجال جو خدائے عظیم القدرت کی نظر میں کچھ بھی چہ نہیں اس کے فتنہ کے فرو کرنے کے لئے اُن میں مادہ لیاقت نہ پایا جائے.اس لئے ہم اسی طرح پر جیسا کہ آفتاب کو دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ آفتاب ہے اس آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کو پہچانتے ہیں اور اس کے یہی معنے کرتے ہیں که كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِشَرِ النَّاسِ الَّذِي هُوَ التَّجَالُ الْمَعْهُودُ یادر ہے کہ ہر ایک اُمت سے ایک خدمت دینی لی جاتی ہے اور ایک قسم کے دشمن کے ساتھ اس کا مقابلہ پڑتا ہے سو مقدر تھا کہ اس اُمت کا دجال کے ساتھ مقابلہ پڑے گا جیسا کہ حدیث نافع بن عقبہ سے مسلم میں صاف لکھا ہے کہ تم دجال کے ساتھ لڑو گے اور فتح پاؤ گے.اگر چہ صحابہ دجال کے ساتھ نہیں لڑے مگر حسب منطوق اخَرِينَ مِنْهُم مسیح موعود اور اس کے گروہ کو صحابہ قرار دیا ہے اب دیکھو اس حدیث میں بھی لڑنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ( جو امت ہیں) قرار دیا اور یہ نہ کہا کہ مسیح بنی اسرائیلی لڑے گا اور نزول کا لفظ محض اجلال اور اکرام کے لئے ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ اس پر فساد زمانہ میں ایمان عن نافع بن عُتْبَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغْرُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللهُ ثُمَّ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللهُ ثُمَّ تَغْرُوْنَ الرُّوْمَ فَيَفْتَحُهَا اللهُ ثُمَّ تَغْرُوْنَ الرَّجَالَ فَيَفْتَحُهُ اللهُ.رواه مسلم (مشكوة شريف باب الملاحم صفحه ۴۶۶ مطبع مجتبائی دهلی)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۳ سورة ال عمران ریا پر چلا جائے گا اور تمام پیری مریدی اور شاگردی استادی اور افادہ استفادہ معرضِ زوال میں آجائے گا اس لئے آسمان کا خدا ایک شخص کو اپنے ہاتھ سے تربیت دے کر بغیر توسط زمینی سلسلوں کے زمین پر بھیجے گا جیسے کہ بارش آسمان سے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے نازل ہوتی ہے.(تحفہ گولر ویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۰ تا ۱۲۳) اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا ؟ کیا اس نے صرف تین برس تک خلیفے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کولمبا کیا پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا: وَ كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء : ۱۱۴ ) ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تو پھر کیوں کر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جاوے اور نیز جب کہ یہ امت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے.مثل مشہور ہے کہ او خویشتن گم است کرار ہبری کند.جب کہ اس امت کو ہمیشہ کے لئے اندھا رکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھتا ہی مد نظر ہے تو پھر یہ کہنا کہ تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے؟ سواے لوگو! جو مسلمان کہلاتے ہو برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں پھر کیوں کر کہتے ہو کہ خلافت صرف تیس برس تک ہوکر پھر زاویہ عدم میں مخفی ہوگئی.اتقوا اللہ! اتقوا اللہ! اتقوا الله! شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵،۳۵۴) ایسے شخص کو جو مریمی صفت سے محض خدا کے نفخ سے عیسوی صفت حاصل کرنے والا تھا اُس کا نام سورۃ تحریم میں ابن مریم رکھ دیا ہے کیونکہ فرمایا ہے کہ جبکہ مثالی مریم نے بھی تقویٰ اختیار کیا تو ہم نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورة ال عمران اپنی طرف سے رُوح پھونک دی.اس میں اشارہ تھا کہ مسیح ابن مریم میں کلمۃ اللہ ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ آخری مسیح بھی کلمتہ اللہ ہے اور روح اللہ بھی بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے جیسا کہ سورۃ تحریم اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ النور اور آیت : كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے سمجھا جاتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۸۴) تمام انبیاء کے متفرق کمالات تھے اور متفرق طور پر اُن پر فضل اور انعام ہوا.اب اس امت کو یہ دُعا سکھلائی گئی کہ اُن تمام متفرق کمالات کو مجھ سے طلب کرو.پس ظاہر ہے کہ جب متفرق کمالات ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو وہ مجموعہ متفرق کی نسبت بہت بڑھ جائے گا.اسی بنا پر کہا گیا کہ: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم اپنے کمالات کے رُو سے سب اُمتوں سے بہتر ہو.چشمه سیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۱،۳۸۰) اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا جس کی امت کو كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہو سکتے ہیں؟ پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق ومعارف کو سمجھ سکتے مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اسی لیے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہے جو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھی ترقی علوم و فنون سب اسی زمانہ میں ہوتا بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں الحکم جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹،۸) وَقَدْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ وَ لَتَكُن اور قرآن میں اس نے یہ فرمایا ہے کہ تم میں سے مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ ہمیشہ ایسے لوگ ہوتے رہیں جو نیکی کی طرف بلاویں اور بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَمَا قَالَ امر معروف اور نہی منکر کریں اور یہ نہیں کہا کہ تم میں سے وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَقْتُلُونَ الْكُفَّارَ لوگ ہمیشہ ایسے ہوتے رہیں کہ جو کافروں کو قتل کریں وَيَدْخُلُونَهُمْ جَبْرًا فِي دِينِهِمْ وَقَالَ اور ان کو اپنے دین میں جبراً داخل کرتے رہیں اور اس جَادِلْهُمْ أَى جَادِلِ النَّصَارَى بِالْحِكْمَةِ نے ی تو کہا کہ عیسائیوں سے حکمت اور نیک نصیحت کے پورا ہوا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة ال عمران وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، وَمَا قَالَ اقْتُلُوهُمْ طور پر بحث کرو اور یہ نہیں کہا کہ ان کو تلواروں سے قتل کر بِالسُّيُوفِ وَالصَّوَارِمِ إِلَّا بَعْدَ صَدِهِمْ عَن ڈالو.مگر اس حالت میں جبکہ وہ دین سے روکیں اور سَبِيلِ اللهِ وَمَكْرِهِمْ لإطفاء نُورٍ اسلام کا نور بجھانے کے لئے منصوبے برپا کریں اور الْإِسْلَامِ وَقِيَامِهِمْ فِي مَقَامِ الْمَعَادِينَ دشمنوں کے مقام میں کھڑے ہو جائیں.نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۳ ) ( ترجمہ اصل کتاب سے) اللہ تعالیٰ نے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تو ہمیں ہی فرمایا ہے.جو اعلیٰ درجہ کے خیر اور برکات تھے وہ اس امت میں جمع ہوئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ایسے وقت تک پہنچ گیا ہوا تھا کہ دماغی اور علی قومی پہلے کی نسبت بہت کچھ ترقی کر گئے تھے.الحاکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ ! اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی بہتک شان ہوتی ہے گو یا اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ جو کہا کہ : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ یہ جھوٹ تھا.نعوذ باللہ !اگر یہ معنی کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیر الامتہ کی بجائے شر الامم ہوئی یہ امت.جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ تو: أوليكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ (الاعراف : ۱۸۰ ) ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہیے نہ کہ خیر الامم.الحکم جلد نمبر ۱۴ مورخه ۱/۱۷ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸) اگر یہودی ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلّة (البقرة : ۶۲) کے مصداق ہو چکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہو چکی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے.اگر یہ تسلیم کیا جاوے گا تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنی نبی مانا جاوے اور اس امت کو بھی اونی امت حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشاء کے صریح خلاف ہے کیونکہ قرآن شریف نے تو صاف طور پر فرمایا: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پھر اس امت کو خیر الامہ کی بجائے شر الامتہ کہو گے؟ اور اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہوگا انگر یقینا یہ سب جھوٹ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اعلیٰ درجہ کی تھی اور ہے اس لیے کہ وہ اب تک اپنا اثر دکھا رہی اور تیرہ سو سال گزرنے کے بعد مطہر اور مقدس وجود پیدا کرتی ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۶ سورة ال عمران یہ ذکر تو جملہ معترضہ کی طرح درمیان آ گیا اب میں اصل مطلب کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ یہ پالیسی ہر گز صحیح نہیں ہے کہ ہم مخالفوں سے کوئی دکھ اٹھا کر کوئی جوش دکھاویں یا اپنی گورنمنٹ کے حضور میں استغاثہ کریں.جو لوگ ایسے مذہب کا دم مارتے ہیں جیسا کہ اسلام، جس میں یہ تعلیم ہے کہ: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ یعنی تم ایک امت اعتدال پر قائم ہو جو تمام لوگوں کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہو.کیا ایسے لوگوں کو زیبا ہے جو بجائے نفع رسانی کے آئے دن مقدمات کرتے رہیں؟ کبھی میموریل بھیجیں اور کبھی فوجداری میں نالش کر دیں اور کبھی اشتعال ظاہر کریں اور صبر کا نمونہ کوئی بھی نہ دکھا وہیں.ذرہ غور کر کے دیکھنا چاہئیے کہ جولوگ تمام گم گشتہ انسانوں کو رحم کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کے بڑے بڑے حوصلے چاہئیں.ان کی ہر ایک حرکت اور ہر ایک ارادہ صبر اور بردباری کے رنگ سے رنگین ہونا چاہئیے.سو جو تعلیم خدا نے ہمیں قرآن شریف میں اس بارے میں دی ہے وہ نہایت صحیح اور اعلیٰ درجہ کی حکمتوں کو اپنے اندر رکھتی ہے جو ہمیں صبر سکھاتی ہے.یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام رومی سلطنت کے ماتحت خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر آئے تو خدا تعالیٰ نے ان کے ضعف اور کمزوری کے لحاظ سے یہی تعلیم ان کو دی کہ شرکا مقابلہ ہرگز نہ کرنا بلکہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو اور یہ تعلیم اس کمزوری کے زمانہ کے نہایت مناسب حال تھی.ایسا ہی مسلمانوں کو وصیت کی گئی تھی کہ ان پر بھی ایک کمزوری کا زمانہ آئے گا اسی زمانہ کے ہم رنگ جو حضرت مسیح پر آیا تھا اور تاکید کی گئی تھی کہ اس زمانہ میں غیر قوموں سے سخت کلمے سن کر اور ظلم دیکھ کر صبر کریں.سومبارک وہ لوگ جو ان آیات پر عمل کریں اور خدا کے گنہگار نہ بنیں.قرآن شریف کو غور سے دیکھیں کہ اُس کی تعلیم اس بارے میں دو پہلور رکھتی ہے.ایک اس ارشاد کے متعلق ہے کہ جب پادری وغیرہ مخالف ہمیں گالیاں دیں اور ستاویں اور طرح طرح کی بد زبانی کی باتیں ہمارے دین اور ہمارے نبی علیہ السلام اور ہمارے چراغ ہدایت قرآن شریف کے حق میں کہیں تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئیے.دوسرا پہلو اس ارشاد کے متعلق ہے کہ جب ہمارے مخالف ہمارے دین اسلام اور ہمارے مقتدا اور پیشوا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی نسبت دھوکہ دینے والے اعتراض شائع کریں اور کوشش کریں کہ تا دلوں کو سچائی سے دور ڈالیں تو اس وقت ہمیں کیا کرنا فرض ہے.یہ دونوں حکم اس قسم کے ضروری تھے کہ مسلمانوں کو یادر کھنے چاہئیں تھے.مگر افسوس ہے کہ اب معاملہ برعکس ہے اور جوش میں آنا اور مخالف موذی کی ایذا کے فکر میں لگ جانا غازہ دینداری ٹھہر گیا ہے اور انسانی پالیسی کو خدا کی سکھلائی 1
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة ال عمران ہوئی پالیسی پر ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ ہمارے دین کی مصلحت اور ہماری خیر اور برکت اسی میں ہے کہ ہم انسانی منصوبوں کی کچھ پرواہ نہ کریں اور خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پر قدم مار کر اس کی نظر میں سعادت مند بندے ٹھہر جائیں.خدا نے ہمیں اس وقت کے لئے کہ جب ہمارے مذہب کی توہین کی جائے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سخت سخت کلمات کہے جائیں کھلے کھلے طور پر ارشاد فرمایا ہے جو سورہ آل عمران کے آخر میں درج ہے اور وہ یہ ہے: وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَ إِن تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (آل عمران : ۱۸۷).یعنی تم اہل کتاب اور دوسرے مخلوق پرستوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے.تب اگر تم صبر کرو گے اور زیادتی سے بچو گے تو تم خدا کے نزدیک اولوا العزم شمار کئے جاؤ گے.ایسا ہی اس دوسرے وقت کے لئے کہ جب ہمارے مذہب پر اعتراض کئے جائیں.یہ ارشاد فرمایا ہے: اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِىَ اَحْسَنُ (النحل : ١٢٦) - وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یعنی جب تو عیسائیوں سے مذہبی بحث کرے تو حکیمانہ طور پر معقول دلائل کے ساتھ کر اور چاہئیے کہ تیرا وعظ پسندیدہ پیرا یہ میں ہو اور تم میں سے ہمیشہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت کریں اور ایسی باتوں کی طرف لوگوں کو بلاویں جن کی سچائی پر عقل اور سلسلہ سماوی گواہی دیتے رہے ہیں اور ایسی باتوں سے منع کریں جن کی سچائی سے عقل اور سلسلہ سماوی انکار کرتے ہیں.جو لوگ یہ طریق اختیار کریں اور اس طرح پر بنی نوع کو دینی فائدہ پہنچاتے رہیں وہی ہیں جو نجات پاگئے.البلاغ - فریاد درد، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۸۹ تا ۳۹۱) ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا کہ: انا اعطيتك الكوثر (الكوثر : ٢) اور دوسری طرف اس امت کو : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ کہا تا کہ یہودیوں پر ز د ہو مگر میرے مخالف عجیب بات کہتے ہیں کہ یہ امت با وجود خیر الامہ ہونے کے پھر شر الامتہ ہے.بنی اسرائیل میں تو عورتوں تک کو شرف مکالمہ البیہ دیا گیا مگر اس امت کے مرد بھی خواہ کیسے ہی متقی ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا جوئی میں مریں اور مجاہدہ کریں مگر ان کو حصہ نہیں دیا جائے گا اور یہی جواب ان کے لیے خدا کی طرف سے ہے کہ بس تمہارے لیے مہر لگ چکی ہے !!! اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی اور اس پر سور قطن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین اور اسلام کی ہتک کیا ہوگی ؟ دوسری قوموں کو ملزم کرنے کے لئے یہی تو زبر دست اور بے مثل اوزار
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۸ سورة ال عمران ہمارے ہاتھ میں ہے اور اسی کو تم ہاتھ سے دیتے ہو.(احکم جلد 9 نمبر ۳۹ مورخه ۱۰رنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت اکثر یہود اور نصاریٰ فاسق تھے جیسا کہ قرآن شریف صاف گواہی دیتا ہے کہ : وَ اكْثَرُهُمْ فَسِقُونَ ( التوبة : (۸) پس جبکہ اکثر لوگ ان میں فاسق تھے جنہوں نے عملی طور پر تو حید کے آداب اور اعمال صالحہ کو چھوڑ دیا تھا اس لئے خدا کے رحم نے ان کی اصلاح کیلئے اپنی سنت قدیمہ کے موافق یہی تقاضا کیا کہ ان کی طرف رسول بھیجے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۶) ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ اَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَارُرُ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٌّ ، ذلِكَ بِمَا عَصَواو كَانُوا يَعْتَدُونَ ان پر وقت کی مارڈالی گئی ہے.یعنی جہاں رہیں گے ذلیل اور محکوم بن کر رہیں گے اور ان کیلئے یہ مقرر کیا گیا ہے کہ بحجر بکسی قوم کے ماتحت رہنے کے کسی ملک میں خود بخود دعزت کے ساتھ نہیں رہیں گے ہمیشہ کمزوری اور ناتوانی اور بد بختی ان کے شامل رہے گی وجہ یہ کہ وہ خدا کے نشانوں سے انکار کرتے رہے ہیں اور خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں یہ اس لئے کہ وہ معصیت اور نافرمانی میں حد سے زیادہ بڑھے ( براہین احمدیہ چہار صص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۹ حاشیہ نمبر ۱۱) گئے.يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَن الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَ أُولَبِكَ مِنَ الصَّلِحِينَ.110 زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے اس قدر ا مرحق روکنا کے اظہار کے لیے کھولنا لازمی امر ہے.يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ مومنوں کی شان ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۹ سورة ال عمران بھی تو بنانی ضروری ہے پس یا درکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو.ہاں !محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہونا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۴) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَ مَا تُخْفِى ج صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ - قَد بَيَّنَا لَكُمُ الْأيتِ إِن كُنتُم تَعْقِلُونَ ٥ یعنی یہود اور نصاری سے محبت مت کرو اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو.ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں.لیکن نہیں سوچتے کہ ہر یک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اُسی صورت میں بجالا نا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے.نہایت سخت جاہل وہ شخص ہو گا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو.ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اس کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہر گز ممکن نہیں.ہاں! مومن کا فر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجالائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو، بھوکوں کو کھلاؤ، غلاموں کو آزاد کرو، قرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۲۱۷،۲۱۶) إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ، وَ اِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُم شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ محيطان اگر تم صبر کرو گے اور ہر یک طور کی بے صبری اور اضطراب سے پر ہیز کرو گے تو ان لوگوں کے مکر کچھ بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارا بگاڑ نہیں سکیں گے.سورة ال عمران (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۹ حاشیہ نمبر۱۱) وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ لا تَحْتَاجُ إِلَى الْحُسَامِ، وَ لَا إِلى حِزْبٍ مِّن ہم تلوار اور لڑنے والے گروہ کے محتاج نہیں اور مُحَارِبِينَ وَ لأَجْلِ ذَالِكَ اخْتَارَ اللهُ سُبْحَانَة اس لیے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لیے لِبَعْثِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِعِدَّةٌ مِنَ الْمِنَاتِ صدیوں کے شمار کو رسول کریم کی ہجرت کے بدر کی كَعِلَّةٍ لَيْلَةِ الْبَدْرِ مِنْ هِجْرَةِ سَيِّدِنَا خَيْر راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرما یا تا وہ شمار اس مرتبہ پر الْكَائِنَاتِ لِتَدُلُّ تِلْكَ الْعِدَّةُ عَلَى مَرْتَبَةِ جو ترقیات کے تمام مرتبوں سے کمال تام رکھتا ہے كَمَالٍ تَامٍ مِن مَّرَاتِبِ العَرَقِيَّاتِ و هی دلالت کرے اور وہ چار سو کا شمار خاتم النبیین صلی اللہ المائةُ الرّابِعُ بَعْدَ الْأَلْفِ مِن خَاتَمِ علیہ وسلم کی ہجرت سے بعد ہے تادین کے غلبہ کا وعدہ جو النَّبِيِّين، لِيَتِم وَعْدُ إِظْهَارِ الدِّينِ الَّذِى كتاب مبین میں پہلے ہو چکا تھا پورا ہو جائے یعنی خدا سَبَقَ فِي الْكِتَابِ الْمُبِينِ، أَغْنِي قَوْلَهُ وَلَقَدْ تعالیٰ کا یہ قول کہ وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِلَّةٌ فَانْظُرْ إِلى هَذِهِ آذِلَّةٌ پس بیناؤں کی طرح اس آیت میں نگاہ کر کیونکہ یہ الْآيَةِ كَالْمُبْعِيرِينَ، فَإِنَّهَا تَدُلُّ عَلَى الْبَلْدَيْنِ آيت يقينا دو بدر پر دلالت کرتی ہے اول وہ بدر جو پہلوں بِالْيَقِينِ.بَدْرٌ مَّضَتْ لِنَصْرِ الْأَوَّلِينَ، وَبَند کی نصرت کے لیے گزرا اور دوسرا وہ بدر جو پچھلوں کے كَانَتْ آيَةٌ لِلْآخِرِينَ.فَلَا شَكَ أَنَّ في هَذِهِ لیے ایک نشان ہے.پس کوئی شک نہیں کہ یہ آیت ایک الْآيَةِ إِشَارَةً لَّطِيفَةً إِلَى الزَّمَانِ الأتي الذى لطیف اشارہ اس آئندہ زمانے کی طرف کرتی ہے جو شمار يُقابِهُ لَيْلَةَ البَدْرِ عِدَّةٌ أَغْنى سَنَةَ أَرْبَع کے رو سے شب بدر کی مانند ہو اور وہ چار سو برس ہزار برس مِائَةٍ بَعْدَ الْأَلْفِ وَهِيَ لَيْلَةُ الْبَدْرِ اسْتِعَارَةُ کے بعد ہے اور یہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ کے عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَإِنْ كَانَ لِلْايَةِ مَعَنِّی نزد یک شب بدر ہے اور ان سب کے باوجود ہم کو یہ بھی آخَرُ يَتَعَلَّقُ بِالزَّمَانِ الْمَاضِي مَعَ هَذَا الْمَعْلى اعتراف ہے کہ اس آیت کے اور معنے بھی ہیں جو گزشتہ كَمَا لا يخفى عَلَى الْعَالِمِینَ فَإِنَّ لِلآيَةِ زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں.جیسا کہ عالموں کو معلوم ہے وَجْهَدْنِ، وَالنَّصْرُ نَصْرَانِ، وَالْبَند بَدَانِ کیونکہ اس آیت کے دورخ ہیں اور نصرت دو نصر تیں اور بَدرُ تَتَعَلَّقُ بِالْمَاضِي وَبَدْرُ تَتَعَلَّقُ بدر دو بدر ہیں ایک بدر گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران بِالْاِسْتِقْبَالِ مِنَ الزَّمَانِ عِنْدَ ذِلَّةٍ تُصِيبُ دوسرا بدر آئندہ زمانہ سے.اس وقت جبکہ مسلمانوں کو الْمُسْلِمِينَ كَمَا تَرَوْنَ في هَذَا الْأَوَانِ، وَكَانَ ذلت پہنچے جیسا کہ اس زمانہ میں دیکھتے ہو اور اسلام الإسْلامُ بَدَأَ كَالْهِلَالٍ وَكَانَ قُيْدَ أَنه بلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر سَيَكُونُ بَدْرًا فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَالْمَالِ بِإِذْنِ زمانہ میں بدر ہو جائے خدا تعالیٰ کے حکم سے پس خدا الله ذى الْجَلالِ، فَاقْتَضَتْ حِكْمَةُ الله أَن تعالی کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی يَكُونَ الْإِسْلَامُ بَدْرًا فِي مِائَةٍ تُشَابِهُ الْبَدْر شکل اختیار کرے جو شمار کے رو سے بدر کی طرح مشابہ عِدَّةً فَإِلَيْهِ أَشَارَ فِي قَوْلِهِ لَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ ہو پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خدا تعالیٰ کے بِبَدْرٍ ، فَفَكَّرْ فِكْرَةً كَامِلَةً وَلَا تَكُنْ مِن اس قول میں کہ لَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ.پس اس امر الْغَافِلِينَ.وَإِنَّ لَفَظَ لَقَدْ نَصَرَكُمْ قَدْ أَتَى هُنا میں باریک نظر سے غور کر اور غافلوں سے نہ ہو اور بے عَلَى وَجْهِ أَخَرَ أَغْنِي بِمَعْنَى يَنْصُرُكُمْ كَمَا لا شك لَقَد نَصَرَكُمُ الله کا لفظ یہاں دوسری وجہ کے رو يخفى عَلَى الْعَارِفِينَ.فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ الله - يَنْصُرُكُمْ کے معنوں میں آیا ہے جیسا کہ كَانَ قَد قَدَّدَ لِلإِسْلَامِ الْعِزَّتَيْنِ بَعْدَ عارفوں پر ظاہر ہے.الغرض خدا تعالیٰ نے اسلام کے اللَّتَيْنِ عَلى رَغْمِ الْيَهُودِ الَّذِينَ كَانَ قَدَّدَ لیے دو ذلت کے بعد دوعز تیں رکھی تھیں.یہود کے لَهُمُ الذِلّتَيْنِ بَعْدَ الْعِزَّتَيْنِ نَكَالًا مِّنْ عِنْدِهِ برخلاف کہ ان کے لیے سزا کے طور پر دوعزتوں کے كَمَا تَقْرَءُ وُنَ فِي سُوْرَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ قِصَّةً بعد دو ذلتیں مقرر کی تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل کی سورۃ الْفَاسِقِينَ مِنْهُمْ وَالظَّالِمِينَ میں ان فاسقوں اور ظالموں کا قصہ پڑھتے ہو.(خطبه الهامیه روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۷) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) فَإِنَّ مُوسَى وَ مُحَمَّدًا عَلَيْهِمَا صَلَوَاتُ حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) اور حضرت محمد صلی اللہ الرَّحْمنِ مُتَمائِلَانِ بنضِ الْفُرْقَانِ وَإِنّ عليه و سلم ہر دو پر خدائے رحمان کا درود اور سلام ہو.قرآنی سِلْسِلَةَ هَذِهِ الْخِلَافَةِ تُشَابِه سِلْسِلَةَ تِلْكَ نَصَّ کے رو سے ایک دوسرے کے مثیل ہیں اور اس الْخِلَافَةِ كَمَا هِيَ مَذْكُورَةٌ فِي الْقُرْآنِ وَفِيْهَا خلافت کا سلسلہ اس سلسلہ خلافت سے مشابہت رکھتا لَا يَخْتَلِفُ اثْنَانِ وَقَدِ اخْتَتَمَتُ مِنَاتُ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس سلسلہ کا ذکر موجود ہے سِلْسِلَةِ خُلَفَاءِ مُوْسٰی عَلى عِیسَی كَمِثْلِ عِدَّةِ اور اس بارہ میں کوئی دو آدمی مختلف نہیں اور خلفاء موسیٰ أَيَّامِ الْبَدْرِ.فَكَانَ مِنَ الْوَاجِبِ أَنْ يَظْهَرَ کے سلسلہ کی صدیاں چودہویں کے چاند کی گنتی کے
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام مَسِيحُ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي مُدَّةٍ هِيَ كَمِثْلِ هذا مطابق حضرت عیسیٰ پر ختم ہو گئیں پس ضروری تھا کہ اس امنہ الْقَدْرِ.وَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ الْقُرْآنُ في قَوْلِهِ کا مسیحای قدر عرصہ میں ( رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ أَذِلَّةٌ.وَإِنَّ بعد ظاہر ہو اور اس کی طرف قرآن مجید نے آیت کریمہ : و الْقُرْآنَ ذُو الْوُجُوهِ كَمَا لا يخفى عَلَى لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ أَذِلَّةٌ میں اشارہ کیا اور جیسا الْعُلَمَاءِ الْأَجِلَّةِ.فَالْمَعْنَى الثَّانِي لِهَذِهِ کہ جلیل القدر عالموں پر مخفی نہیں قرآن کریم ذوالوجوہ ہے سو الْآيَةِ فِي هَذَا الْمَقَامِ اَنَّ اللهَ يَنْصُرُ اس جگہ اس آیت کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان الْمُؤْمِنِينَ يَظُهُورِ الْمَسِيحَ إِلى مِنِينَ صدیوں کے اختتام پر جن کی گفتی بدر کامل کے دنوں کے مشابہ تُشَابِهُ عِدَّتُهَا أَيَّامَ الْبَدْرِ التَّاقِ ہے مسیح موعود کے ظہور سے مومنوں کی مدد فرمائے گا درانحالیکہ وَالْمُؤْمِنُوْنَ أَذِلَّةٌ فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ فَانظُرُ مؤمن اس زمانہ میں حقیر ہوں گے پس اس آیت کو دیکھو کہ کس إِلى هَذِهِ الْآيَةِ كَيْفَ تُشير إلى ضُعْفِ طرح ترقی کے بعد اسلام کے ضعیف ہو جانے کی طرف اشارہ الْإِسْلَامِ ثُمَّ تُشير إلی گونِ خِلالِهِ کرتی ہے پھر یہی آیت خدائے علیم وخبیر کی طرف سے مقرر بَدْرًا في أَجْلٍ مُّسَمًّى من الله العلام کردہ مدت میں ہلال اسلام کے بدر بن جانے کی طرف اشارہ كَمَا هُوَ مَنْهُومٌ مِنْ لَفْظ الْبَدْرِ.کرتی ہے جیسا کہ آیت میں لفظ بدر سے سمجھا جاتا ہے.(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۸۸،۱۸۷) (ترجمه از مرتب) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت موسیٰ سے ہے تو اس مماثلت کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اس صدی کا مجد ومسیح ہو کیونکہ (صحیح) چودھویں صدی پر موسیٰ کے بعد آیا تھا اور آج کل چودھویں صدی ہے چودہ کے عدد کو بڑی مناسبت ہے.چودھویں صدی کا چاند کامل ہوتا ہے اسی کی طرف اللہ نے : و لقد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِلَّةٌ میں اشارہ کیا ہے یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے اپنے مخالفوں پر فتح پائی.اس وقت بھی آپ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے.بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت آذلّہ کی ہورہی ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے.الحکم جلد نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۳ءصفحہ ۳) دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گی جبکہ تم تھوڑے تھے اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا، بدر پر ایسے عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٣ سورة ال عمران تھی اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کو بھی کہتے ہیں اس سے چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایما ہے اور یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لیے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیر و برکت کی آئے گی.خدا کی باتیں پوری ہو ئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشا کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیش گوئی تھی جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو دوکاندار، خود غرض کہا گیا.افسوس ! ان پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا، وقت پا یا اور نہ پہچانا.وہ مر گئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہوگا اور وہ رہ گئے جواب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا ہے وہ کا ذب ہے !! ان کو کیا ہو گیا یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد آذله کی مدد تھی جس وقت ۳۱۳ آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان ۳۱۳ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے، اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی: اللَّهُمَّ إِن أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةُ لَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ ابدا یعنی اے اللہ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا.سنو! میں بھی یقینا اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے وہی بدر اور اذلّه کا لفظ موجود ہے.کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی ؟ نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے ، ایک یوروپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جوسر اٹھائیں ، اس ملک کا کیا حال ہے؟ کیا آذله نہیں ہیں؟ ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا ہے؟ جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں وہ ان میں پاؤ گے، ٹکڑ گدا مسلمان ہی ملیں گے، جیل خانوں میں جاؤ تو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے، شراب خانوں میں جاؤ کثرت سے مسلمان.اب بھی کہتے ہیں ذلت نہیں ہوئی ؟ کروڑہانا پاک اور گندی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة ال عمران کتابیں اسلام کے رد میں تالیف کی گئیں، ہماری قوم میں مغل ، سید کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو کوسنے لگے ،صفدر علی اور عمادالدین ہوکر وغیرہ کون تھے؟ امہات المومنین کا مصنف کون ہے؟ جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے.اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلّت نہیں ہوئی کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا اتنار ہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا تب محسوس کرتے کہ ہاں! اب ذلت ہوئی ہے !!! آہ ! میں تم کو کیوں کر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہو رہی ہے دیکھو! میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے، اسلام پر ذلت پر کا وقت آچکا ہے مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھا دوں.اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۵،۴) اس آیت میں بھی در اصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا.اس وقت اللہ تعالی اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا.پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی ؟ احکم جلد ۱۰ نمبر ۳۶ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۵) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (۱۳۵ دوسری قسم ان اخلاق کی (ہے) جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں.پہلا خلق ان میں سے عفو ہے یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا.اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے ، سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے ، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے.پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے.اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے : وَ الْعَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ جَزُوا سَيِّئَةِ سَيِّئَةً تو مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں.بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہوں کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة ال عمران عفو کے محل پر ہو، نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے تو بہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو.بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو.افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پر دادوں کے کینوں کو یا در رکھتے ہیں.ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگزر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراط سے دیوٹی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگزران سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگزر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ تو بہ توبہ کر اٹھتے ہیں.انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو.یا در ہے کہ مجرد عفو کوخلق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ایک طبعی قوت ہے جو بچوں میں بھی پائی جاتی ہے.بچہ کو جس کے ہاتھ سے چوٹ لگ جائے خواہ شرارت سے ہی لگے تھوڑی دیر کے بعد وہ اس قصہ کو بھلا دیتا ہے اور پھر اس کے پاس محبت سے جاتا ہے اور اگر ایسے شخص نے اس کے قتل کا بھی ارادہ کیا ہوتب بھی صرف میٹھی بات پر خوش ہو جاتا ہے.پس ایسا عفو کسی طرح خلق میں داخل نہیں ہوگا.خلق میں اسی صورت میں داخل ہوگا جب ہم اس کو شل اور موقع پر استعمال کریں گے ورنہ صرف ایک طبعی قوت ہوگی.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے.( مجموعہ اشتہارات ،صفحہ ۱۹۵ حاشیه) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِى السّراء و الصراء.....و تکلیفوں اور کم آمدنی کی حالت میں اور قحط کے دنوں میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران سخاوت سے دل تنگ نہیں ہو جاتے بلکہ تنگی کی حالت میں بھی اپنے مقدور کے موافق سخاوت کرتے رہتے ہیں.وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر.پوشیدہ اس لئے کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے کہ تا دوسروں کو ترغیب دیں.جاوے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۵ تا ۳۵۷) یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا عفو کے لائق ہے یا نہیں.مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہو جاتی ہے جو غصہ تو لاتی ہے لیکن وہ معافی کے قابل ہوتے ہیں اور (بعض) ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی کسی شرارت پر چشم پوشی کی جاوے اور اس کو معاف کر دیا جاوے تو وہ زیادہ دلیر ہو کر مزید نقصان کا باعث بنتا ہے مثلاً ایک خدمتگار ہے جو بڑا نیک اور فرماں بردار ہے وہ چاء لا یا اتفاق سے اس کو ٹھوکر لگی اور چاء کی پیالی گر کر ٹوٹ گئی اور چاء بھی مالک پر گر گئی اگر اس کو مارنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو اور تیز وتند ہو کر اس پر جا پڑے تو یہ سفاہت ہوگی یہ عفو کا مقام ہے کیونکہ اس نے عمد ا شرارت نہیں کی ہے اور عضو اس کو زیادہ شرمندہ کرتا اور آئندہ کے لیے محتاط بناتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا شریر ہے ہے کہ وہ ہر روز توڑتا ہے اور یوں نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر رحم ہی ہوگا کہ اس کو سزا دی اقام جلد ۵ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ ۱۷ پریل ۱۹۰۱ صفحه ۴) ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ موقع دیکھو.اگر نرمی کی ضرورت ہے خاک سے مل جاؤ.اگر سختی کی ضرورت ہے سختی کرو.جہاں عفو سے صلاحیت پیدا ہوتی ہو وہاں عفو سے کام لو.نیک اور با حیا خدمتگار اگر قصور کرے تو بخش دو مگر بعض ایسے خیرہ طبع ہوتے ہیں کہ ایک دن بخشو تو دوسرے دن دگنا بگاڑ کرتے ہیں وہاں سز ا ضروری ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۱ ، صفحہ ۴) کہتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چاء کی پیالی لایا جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپ کے سر پر گر پڑی آپ نے تکلیف محسوس کر کے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا غلام نے آہستہ سے پڑھا الكظِمِينَ الْغَيْظَ یہ سن کر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کظمت.غلام نے پھر کہاؤ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.نظم میں انسان غصہ دبالیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا ہے مگر اندر سے پوری رضا مندی نہیں ہوتی اس لیے عضو کی شرط لگا دی ہے آپ نے کہا کہ میں نے عفو کیا.پھر پڑھا وَ اللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ محبوب الہی وہی ہوتے ہیں جو کظم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں، آپ نے فرمایا جا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۷ سورة ال عمران آزاد بھی کیا.راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چاء کی پیالی گرا کر آزاد ہوا.اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیدا ہوا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ ء صفحه ۳) اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ غربت اور مسکینی میں اپنی زندگی بسر کرے.یہ ایک تقوی کی شاخ ہے جس کے ذریعہ ہمیں غضب ناجائز کا مقابلہ کرنا ہے بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے ہی بچتا ہے.عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۹) ہے.یا درکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵) یا درکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں، وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹھ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے جو مغضوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئے جاتے.غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه (۸) مرد کو چاہیے کہ اپنے قومی کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے.جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۳) دو قو تیں انسان کو منجر به جنون کر دیتی ہیں ایک بدظنی اور ایک غضب جبکہ افراط تک پہنچ جاویں...پس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة ال عمران لازم ہے کہ انسان بدظنی اور غضب سے بہت بچے.سوائے راست بازوں کے باقی جس قدر لوگ دنیا میں ہوتے ہیں ہر ایک کچھ نہ کچھ حصہ جنون کا ضرور رکھتا ہے جس قدر قومی ان کے ہوتے ہیں ان میں ضرور افراط تفریط ہوتی ہے اور اس سے جنون ہوتا ہے.غضب اور جنون میں فرق یہ ہے کہ اگر سر سری دورہ ہو تو اسے غضب کہتے ہیں اور اگر وہ مستقل استحکام پکڑ جاوے تو اس کا نام جنون ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۱ مورخه ۲۱ /اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۴۱) وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ یعنی مومن وہ ہیں جو غصہ کھا جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ عفو اور درگزر سے پیش آتے ہیں اور اگر چہ انجیل میں بھی عفو اور درگزر کی تعلیم ہے جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں مگر وہ یہودیوں تک محدود ہے دوسروں سے حضرت عیسی نے اپنی ہمدردی کا کچھ واسطہ نہیں رکھا اور صاف طور پر فرما دیا کہ مجھے بجز بنی اسرائیل کے دوسروں سے کچھ غرض نہیں خواہ وہ غرق ہوں خواہ نجات پاویں.چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِنْ نُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ ۖ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَ هم يعلمون ص اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اور پھر اپنے ایسے حال میں اللہ تعالی کو یاد کریں اور اُس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اپنے گناہ پر اصرار نہ کریں اُن کا خدا آمرز گار ہو گا اور گنہ بخش دے گا.ظاہر ہے کہ جیسے خدا انسان کا اس طور سے مالک ہے کہ اگر چاہے تو اُس کے گناہ پر اس کو سزا دے.ایسا ہی اس طور سے بھی اُس کا مالک ہے کہ اگر چاہے تو اُس کا گناہ بخش دے کیونکہ ملکیت سبھی متحقق ہوتی ہے کہ جب مالک دونوں پہلوؤں پر قادر ہو.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ® (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶،۲۵) اورست مت ہو اور غم مت کرو اور انجام کار غلبہ تمہیں کو ہوگا اگر تم ایمان پر قائم رہو گے.( براہین احمدیہ چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۹ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ٢٠٩ سورة ال عمران اے مومنو ! مقابلہ سے ہمت مت ہارو اور کچھ اندیشہ مت کرو اور انجام کارغلبہ تمہیں کا ہے اگر تم آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۳، ۳۳۴) واقعی طور پر مومن ہو.إن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَد مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَ تِلْكَ الْأَيَّامُ تدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءِ لا وَاللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ ) (۱۴) یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ نشان بھی ہوتے ہیں اور ان میں التباس بھی ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ مانگا گیا تو کہا کہ خدا قادر ہے.خواہ آسمان سے نشان دکھلاوے یا بعض کو بعض سے جنگ کرا کر نشان دکھاوے چنانچہ جنگوں میں صحابہ بھی قتل ہوئے.بعض کمزور ایمان والوں نے اعتراض کیا کہ اگر یہ عذاب ہے تو ہم میں سے لوگ کیوں مرتے ہیں اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا: إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَشَ الْقَوْمَ فَرحُ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ الے پس اگر ہماری جماعت میں سے کوئی بھی نہ مرے اور کل تو میں مرتی رہیں تو کل دنیا ایک ہی دفعہ راہ راست پر آجاوے اور بجز اسلام کے اور کوئی مذہب دنیا پر نہ رہے حتی کہ گورنمنٹوں کو بھی مسلمان ہونا پڑے اور یہی سر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی فوت ہوئے تھے.ہاں ! سلامتی کا حصہ نسبتاً ہماری طرف زیادہ رہے گا.البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳۸) خدا تعالیٰ نشانوں میں قیامت کا نمونہ دکھانا نہیں چاہتا اور نہ کبھی ایسا ہوا بلکہ ان میں کسی حد تک فناضرور ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں سے بھی بعض ان جنگوں میں شہید ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تکلیف پہنچی لیکن انجام نے دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نشان کیسا عظیم الشان تھا اسی طرح پر یہاں بھی ہے سلامتی کا حصہ نسبتاً ہماری ہی طرف زیادہ ہوگا.(احکم جلدے نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۹) تلك الأيام نداولها بَيْنَ النَّاسِ اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی اور عنایات الہیہ نوبت به نوبت امت محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتے رہتے (براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۵،۶۰۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة ال عمران بنی اسماعیل کو لے لیا کیونکہ وہ لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوئے ہیں.وَ تِلْكَ الْآيَامُ تدَا وِلهَا بَيْنَ النَّاسِ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۴۲) یا درکھو کہ خدا سب کچھ آپ کرتا ہے ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حجروں میں بیٹھ جاویں تب بھی کام ہو جاوے گا اور دجال کو زوال آوے گا : تِلْكَ الأَيَّام نداولھا.اس کا کمال بتاتا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت ہے، اس کا ارتفاع ظاہر کرتا ہے کہ اب وہ نیچا دیکھے گا، اس کی آبادی اس کی بربادی کا نشان ہے.ہاں ! ٹھنڈی ہوا چل پڑی ہے، خدا کے کام آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں.( بدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۹ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۶) یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسماعیل کو نبوت کیوں ملی وہ نہیں جانتے تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو وہ مردود ہے وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۰) سکتا.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَابِنُ مَاتَ اَو قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ ، وَمَنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَ اللهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ (۱۴۵) یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں پس کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم دین اسلام کو چھوڑ دو گے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۱) خداوند عزّ وجلّ نے عام اور خاص دونوں طور پر مسیح کا فوت ہو جانا بیان فرمایا ہے عام طور پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے : وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَابِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے ہر یک رسول جو آیا وہ گزر گیا اور انتقال کر گیا اب کیا تم اس رسول کے مرنے یا قتل ہو جانے کی وجہ سے دین اسلام چھوڑ دو گے؟ اب دیکھو یہ آیت جو استدلالی طور پر پیش کی گئی ہے صریح دلالت کرتی ہے کہ ہر یک رسول کوموت پیش آتی رہی ہے خواہ وہ موت طبعی طور پر ہو یا قتل وغیرہ سے اور گزشتہ نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جو مرنے سے
۲۱۱ سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچ گیا ہو.سواس جگہ ناظرین ببداہت سمجھ سکتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح جو گزشتہ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں اب تک مرے نہیں بلکہ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے تو اس صورت میں مضمون اس آیت کا جو عام طور پر ہر یک گزشتہ نبی کے فوت ہونے پر دلالت کر رہا ہے صحیح نہیں ٹھہر سکتا بلکہ یہ استدلال ہی لغو اور قابلِ جرح ہوگا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۴، ۲۶۵) محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہو گئے ہیں.اب کیا اگر وہ بھی فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو ان کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا؟ جس کی وجہ سے تم دین سے پھر جاؤ.اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ضروری ہے تو ایسا نبی پہلے نبیوں میں سے پیش کر و جواب تک زندہ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہے تو پھر یہ دلیل جو خدائے تعالیٰ نے پیش کی صحیح نہیں ہوگی.از الداوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۷) بخاری کے صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو بعض آدمی یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے اور بعض کہتے تھے کہ فوت ہو گئے مگر پھر دنیا میں آئیں گے.اس حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے گھر گئے اور دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تب وہ چادر کا پردہ اُٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف جھکے اور چوما اور کہا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان! مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ خدا تیرے پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.پھر لوگوں میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہو جانا ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے اور پھر دنیا میں نہ آنے کی تائید میں یہ آیت پڑھی : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی محمد اس سے زیادہ نہیں کہ وہ رسول اللہ ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے گزر چکے ہیں.یادر ہے کہ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گزشتہ پر محیط ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر دلیل ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جائے تو وہ پھر وہ استدلال جو مدعا قرآن کریم کا ہے اس آیت سے پیدا نہیں ہوسکتا.اس آیت کے پیش کرنے سے حضرت ابو بکر صدیق نے اس بات کا ثبوت دیا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جو فوت نہ ہوا ہو اور نیز اس بات کا ثبوت دیا کہ جو فوت ہو جائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آتا.کیونکہ لغت عرب اور محاورہ اہل عرب میں خلا یا خَلَتْ ایسے لوگوں کے گزرنے کو کہتے ہیں جو پھر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة ال عمران آنے والے نہ ہوں.پس تمام رسولوں کی نسبت جو آیت موصوفہ بالا میں خَلّت کا لفظ استعمال کیا گیا وہ اسی لحاظ سے استعمال کیا گیا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ لوگ ایسے گئے ہیں کہ پھر دنیا میں ہر گز نہیں آئیں گے.چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال یافتہ ہونے کی حالت میں آپ کے چہرہ مبارک کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ تو حیات اور موت میں پاک ہے تیرے پر دو موتیں ہرگز وارد نہیں ہوں گی یعنی تو دوسری مرتبہ دنیا میں ہر گز نہیں آئے گا.اس لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کی تائید میں آیت قرآن کریم کی پیش کی جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ سب رسول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے گزر چکے ہیں اور جو رسول اس دنیا سے گزر گئے ہیں پھر اس دنیا میں ہر گز نہیں آئیں گے کیونکہ جیسا کہ قرآن شریف میں اور فوت شدہ لوگوں کی نسبت خَلَوْا یا خَلَتْ کا لفظ استعمال ہوا ہے.ایسا ہی یہی لفظ نبیوں کے حق میں بھی استعمال ہوا ہے.اور یہ لفظ موت کے لفظ سے اخص ہے کیونکہ اس کے مفہوم میں یہ شرط ہے کہ اس عالم سے گزر کر پھر اس عالم میں نہ آوے.غرض امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ فوت شدہ نبیوں کے دوبارہ نہ آنے کے بارے میں اوّل قول ابو بکر صدیق کا پیش کیا جس میں یہ بیان ہے کہ خدا تیرے پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا کیونکہ دوبارہ آنا دو موتوں کو مستلزم ہے اور پھر اس بارے میں قرآن کریم کی آیت پیش کی اور یہ ثبوت دیا کہ خلا اس گزرنے کو کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد عود نہ ہو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۸۹،۵۸۸) اللہ جل شانہ کی یہ دلیل معقولی که قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ جو بطور استقراء کے بیان کی گئی ہے یہ ایک قطعی اور یقینی دلیل استقرائی ہے جب تک کہ اس دلیل کو توڑ کر نہ دکھلایا جائے اور یہ ثابت نہ کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کی رسالتوں کو لے کر خدا تعالیٰ کے بیٹے بھی آیا کرتے ہیں اس وقت تک حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ جل شانہ اس دلیل میں صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لے کر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت کا شروع ہوا ہے کہ بجز نوع انسان کے کبھی خدا یا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے اور اگر یہ کہو کہ آگے تو نہیں آیا مگر اب تو آ گیا تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادر علی المطلوب ہے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اس کو بطور دلیل پیش کر دیا جائے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۴) يعْنِي مَاتُوا كُلُّهُمْ كَمَا اسْتَدَلَّ بِهِ الصَّدِيقُ یعنی تمام کے تمام رسول فوت ہو گئے جیسا کہ الأكبرُ عِندَ وَفَاةِ النّبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۳ سورة ال عمران فَمَا يَفِي شَكٍّ بَعْدَ ذلِكَ في وَفَاةِ الْمَسِیح سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت استدلال وَامْتِنَاعِ رُجُوعِهِ إِن كُنتُمْ بِالله وَآيَاتِ؟ کیا تھا پس اس کے بعد اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو حضرت مسیح کی وفات اور مسیح کے واپس نہ مُؤْمِنِينَ ( تحفہ، بغداد ، روحانی خزائن جلدے صفحہ (9) آنے کے متعلق کوئی شک باقی نہیں رہتا.( ترجمہ از مرتب) فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَن أَبا بكر الصديق خلاصہ کلام یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رَدَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ قَوْلَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اس آیت کے ساتھ حضرت عمر کے قول کی تردید کی پھر ثُمَّ مَا اكْتَفى عَلى ذلِكَ بَلْ قَصَد آپ نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ آپ مسجد میں تشریف لے الْمَسْجِد وَانْطَلَقَ مَعَه رَحط فین گئے آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی تھی.مسجد میں رَهْطُ مِن الصَّحَابَةِ، فَجَاءَ وَصَعد المنبر، وجمع پہنچ کر آپ منبر پر رونق افروز ہوئے تمام موجود صحابہ کو آپ حَوْلَهُ كُلَّ مَنْ كَانَ مَوْجُودًا من أَصْحَاب نے اپنے گرد جمع کر لیا پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا اور پھر فرمایا اے أَتَى عَلَى اللهِ وَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ وَقَالَ: لوگو! تم یہ جان لو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا أَيُّهَا النَّاسُ اعْلَمُوا أَنَّ رَسُولُ اللہ صَلَّی گئے ہیں پس تم میں سے جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَد تُونِي فَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضور فوت مُحَمَّدًا فَلْيَعْلَمُ أَنَّه قد مات، وَ مَنْ كَانَ ہو گئے ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یقیناً يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّه حَقٌّ لَّا يَمُوتُ ثُمَّ قَرَأَ: وَ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی پھر مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ آپ نے یہ آیت تلاوت کی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُم أَعْقَابِكُمْ فَاسْتَدَلَّ بِهذِهِ الْآيَةِ عَلَى عَلَى أَعْقَابِكُمْ.اور آپ نے اس آیت سے رسول اللہ صلی مَوْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللہ علیہ وسلم کی وفات پر استدلال فرمایا اس بات پر بناء بِنَاءٌ عَلى أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ كُلَّهُمْ قَدْ مَاتُوا رکھتے ہوئے کہ سب کے سب انبیاء فوت ہو گئے ہیں پس فَلَمَّا سَمِعَ الصَّحَابَةُ قَوْلَ الصَّدِيقِ رَضِيَ جب صحابہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات سنی اللهُ عَنْهُ مَا رَةً أَحَدٌ عَلى قَوْلِهِ، وَمَا قَالَ تو ان میں سے کسی نے بھی آپ کی بات کی تردید نہیں کی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة ال عمران أَحَدٌ لَّهُ: أَيُّهَا الرَّجُلُ إِنَّكَ كَذَبْتَ أَوْ اور نہ کسی نے آپ کو کہا کہ اے شخص تو نے جھوٹ بولا ہے أَخْطَأْتَ فِي اسْتِدُلالِكَ أَوْ ذَكَرْتَ یا اپنے استدلال میں غلطی کی ہے یا تو نے ناقص استدلال استدلالا ناقصًا وَمَا كُنت من کیا ہے اور تو ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کی رائے الْمُصِيْبِينَ.درست ہو.ย فَلَوْ كَانُوا مُعْتَقِدِينَ بِأَنَّ عِيسَى اگر ان کا یہ اعتقاد ہوتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی حَى إِلَى ذلِكَ الزَّمَانِ لَرَدُّوا على أَبِي بَكْرٍ تک زندہ ہیں تو وہ ضرور حضرت ابوبکر کی تردید کرتے اور وَقَالُوا كَيْفَ تَفْهَمُ مِنْ هذِهِ الْآيَةِ کہتے آپ اس آیت سے تمام انبیاء کے فوت ہو جانے کا مَوْتَ الْأَنْبِيَاءِ كُلْهُمْ أَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مفہوم کیسے نکال رہے ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ عیسی علیہ عِيسَى قَدْ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ حَيًّا وَيَأْتي في السلام آسمان کی طرف زندہ اٹھائے گئے ہیں اور آخری آخِرِ الزَّمَانِ ؟ فَإِذَا كَانَ عِيسَی رَاجِعا إلى زمانہ میں آپ واپس آئیں گے پس جب حضرت عیسیٰ علیہ الدُّنْيَا مَرَّةٌ ثَانِيَةً وَ أَنْتَ تُؤْمِنُ بِهِ، فَأَتى السلام دنیا میں دوبارہ واپس آنے والے ہیں اور آپ حَرَجٍ وَمُضَايَقَةٍ في أَن يَأْتِيْنَا رَسُولُنَا اس پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر اس بات میں کیا حرج اور صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا كَمَا زَعَمَهُ مضائقہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عُمَرُ الَّذِي يَجْرِى الْحَقُّ عَلَى لِسَانِهِ، وَلَهُ واپس تشریف لے آئیں جیسا کہ حضرت عمر دعوی کر رہے شَأْنْ عَظِيمٌ فِي الرَّأْيِ الصَّائِبِ وَلِرَأيهِ ہیں جن کی زبان پر حق جاری ہوتا ہے اور رائے کے مُوَافَقَةٌ بِأَحْكَامِ الْقُرْآنِ فِي مَوَاضِعَ وَمَعَ صائب ہونے میں ان کی بڑی شان ہے اور ان کی رائے ذلك هُوَ مُلْهَمْ وَمِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَإِنَّ بہت سی جگہوں میں قرآن کریم کے احکام کے موافق تھی.وَفَاةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پھر وہ مہم بھی تھے اور محد ثین میں سے ہیں ہمارے نبی لِلْمُسْلِمِيْن مُصِيبَةٌ مَّا أُصِيْبُوا بمقله اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مسلمانوں کے لیے بڑی فَلَيْسَ مِنَ الْعَجَبِ أَن يَرْجِعَ نَبِيِّنَا صَلَّى مصیبت تھی ایسی مصیبت جو ان پر پہلے کبھی وارد نہیں ہوئی الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلى الدُّنْيَا، بَل رَجُوعُه تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا إِلَى الدُّنْيَا أَحَقُّ وَأَوْلى وَأَنْفَعُ مِنْ رَجُوع میں واپس آئیں بلکہ آپ دنیا میں آنے کے لیے حضرت مسیح الْمَسِيحِ، وَحَاجَةُ الْمُسْلِمِينَ إِلى وُجُودِهِ سے زیادہ حق دار اور موزوں اور فائدہ رساں ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورة ال عمران الْمُبَارَكِ أَشَدُّ وَأَزْيَدُ مِنْ حَاجَتِهِمْ إلى مسلمانوں کو آپ کے وجود مبارک کی جو ضرورت ہے وہ وُجُودِ الْمَسِيحِ لَكِتَهُمْ مَّا رَدُّوا عَلَى حضرت مسیح علیہ السلام کے وجود سے زیادہ شدید اور اہم الصَّدِيقِ بِهذِهِ الْكَلِمَاتِ، بَلْ سَكَتُوا ہے لیکن انہوں نے اس قسم کے الفاظ کہہ کر حضرت ابو بکر كُلُّهُمْ وَ تَبذُوا مِن أَيْدِهم سهام کو جواب نہیں دیا بلکہ سب کے سب خاموش رہے اور اپنے الْإِنْكَارِ، وَقَبِلُوا قَوْلَهُ، وَيَكُوا وَقَالُوا إِنَّا ہاتھوں سے انکار کے تیروں کو پھینک دیا اور آپ کی بات کو لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.وَ نَظَرُوا إِلى مَوْتِ قبول کر لیا اور رو پڑے اور انہوں نے کہا تو یہی کہ انا للہ الْأَنْبِيَاءِ كُلِّهِمْ وَامَانُوا بِهَا، فَاتَهُمْ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ اس طرح انہیں تمام انبیاء کی موت پر مَاتُوا كُلُّهُمْ وَ مَا كَانَ أَحَدٌ مِنْهُمْ فِین یقین آ گیا اور وہ اس بات پر مطمئن ہو گئے کہ سب کے سب نبی فوت ہو گئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہمیشہ الخالدين (حمامة البشری، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۴۶٫۲۳۵) زندہ رہنے والا نہیں.( ترجمہ از مرتب) ، تحلت کا لفظ جہاں جہاں قرآن شریف میں انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے موت کے معنوں پر استعمال ہوا ہے.لہذا آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے بھی حضرت عیسی کی موت ہی ثابت ہوئی.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۴ حاشیه ) وو قَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهُ وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا اور خدا فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں اور رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں یہ آیت بتاتی ہے کہ سارے فَصَرَّحَ بِأَنَّ الْأَنْبِيَاءَ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ اگلے نبی فوت ہو چکے ہیں اسی آیت کو حضرت ابو بکر صدیق قَبْلُ مَاتُوا كُلُّهُمْ وَالْمُرْسَلُونَ، وَهَذِهِ نے تمام صحابہ کو سنایا جب انہوں نے اختلاف کیا یعنی جب أيَةً تَلَاهَا أَبو بَكْرِ الصِّدِّيقُ رَضِيَ الله بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت میں عَنْهُ إذْ كَانَ الْأَصْحَابُ يَخْتَلِفُونَ.أَغنى اختلاف کیا اور حضرت عمر نے کہا کہ آ محضرت (صلی اللہ علیہ إِذَا اخْتَلَفَ بَعْضُ النَّاسِ مِنَ الصَّحَابَةِ وسلم ) اسی طرح واپس آئیں گے جیسا کہ عیسی واپس آئے گا في مَوْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ اور اسی طرح اور بعض خطا کاروں نے بھی کہا تو اس وقت سَلَّمَ، وَقَالَ عُمَرُ إِنَّهُ سَيَرْجِعُ كَمَا يَرْجِعُ حضرت ابو بکر نے ان کا کلام سنا اور ان کے گمان پر آگاہ عِيسَى، وَكَذَالِكَ قَالَ بَعْضُهُمُ الَّذِينَ ہوئے تب منبر پر کھڑے ہوئے اور صحابہ ان کے گرد جمع
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۶ سورة ال عمران كَانُوا يَخْطَمُونَ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ كَلَامَهُمْ وَمَا كَانُوا ہوئے پھر آیت مذکورہ پڑھی اور فرمایا سنو اور يَزعَمُوْنَ فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَاجْتَمَعَ الصَّحَابَةُ سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت حَوْلَهُ وَ تَلَا الْآيَةَ الْمَذْكُورَةً وَ قَالَ اسْتَمَعُونِ وَ پر جمع تھے جب یہ آیت سنی تو عجیب تاثیر اپنے كَانُوا مُجْتَمِعِينَ كُلَّهُمْ لِمَوْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله دلوں میں پائی اور سمجھے کہ گویا یہ آیت آج ہی عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعُوا وَتَأْثَرُوا بِأَثَرِ عَيْبٍ كَانَ اتری ہے.اس کو سن کر انہوں نے رونا شروع کیا الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَالِكَ الْيَوْمِ وَكَانُوا يَبْكُونَ اور تصدیق کی.اس دن ایسا کوئی شخص نہ رہا جو وَيُصَدِّقُونَ.وَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِّنْهُمْ فِي ذَالِكَ الْيَوْمِ اس پر ایمان نہ لایا ہو کہ سارے نبی فوت ہو چکے إِلَّا أَنَّهُ امَن بِصَمِيمِ الْقَلْبِ أَنَّ الْأَنْبِيَاءَ كُلَّهُمْ ہیں اب ان کو اپنے رسول کی موت پر کوئی رنج اور غم قَدْ مَاتُوا وَقَدْ أَدْرَكَهُمُ الْمَنُونُ فَمَا بَقِيَ لَهُمْ اور اپنے پیارے کے لیے کوئی حسرت اور افسوس کی أَسَفُ عَلَى مَوْتِ رَسُوْلِهِمْ وَلَا فَحَلَّ غِبْطَةٍ جگہ نہ رہی اور اس کی موت پر خبردار اور آگاہ ہو گئے لْحَبِيْهِمْ، وَتَنَبَّهُوا عَلى مَوْتِهِ وَفَاضَتْ عُيُونُهُمْ اور آنسوؤں کے دریا آنکھوں سے بہائے اور انا وَقَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.وَكَانُوا يَتْلُونَ لِلَّهِ کہا اور اس آیت کو نگلی کو چوں میں اور گھروں هذِهِ الْآيَةَ في السِّكَكِ وَالْأَسْوَاقِ وَالْبُيُوتِ وَ میں پڑھتے تھے اور روتے تھے چنانچہ حسان بن ثابت نے حضرت ابوبکر کے خطبہ کے بعد رسول اللہ يَبْكُونَ وَقَالَ حَسّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَهُوَ يَرَى لِرَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ خُطْبَةِ أَبِي بَكْرٍ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرثیہ میں کہا: كُنْتَ السَّوَادَلِنَا ظِرِى كُنْتَ السَّوَادَلِنَا ظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحاذِرُ يُرِيدُ أَنَّ خَوْفِي كُلَّهُ كَانَ عَلَيْكَ فَإِذَا مِتَ فَلَا أُبَالِي تو میری آنکھ کی پتلی تھی اب تیرے جاتے رہنے أَنْ يَمُوتَ مُوْسٰى أَوْ عِيسَی فَانْظُرُوا إِلَيْهِمُ كَيْفَ سے میں اندھا ہو گیا تیرے مرنے کے بعد جو أَحَبَّوا نَبِيَّهُمْ وَ كَيْفَ كَانَ تَصْدِرُ مِنْهُمْ آدَابُ چاہے مرے مجھے تو تیرے ہی مرنے کا ڈر تھا یعنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۷ سورة ال عمران الْمَحَبَّةِ وَآثَارُهَا أَيُّهَا الْمُجَادِلُونَ وَ مجھے تو سارا یہی ڈر تھا کہ کہیں تو نہ مرجائے لیکن جبکہ تو ہی مر گیا انْظُرُوا كَيْفَ اقْتَضَتْ غَرَهُمْ أَنهم تو اب مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ موسیٰ مرے یا عیسی مرے.مَا رَضُوا بِحَيَاةِ نَبِي بَعْدَ مَوْتِ رَسُولِ اب غور کرو کہ وہ اپنے نبی کو کس قدر دوست رکھتے تھے اور اللهِ، فَهُدُوا إِلَى القِرَاطِ كَمَا يُهْدَى کس طرح محبت کے آداب اور نشان ان سے ظاہر ہوتے الْعَاشِقُونَ وَاجْتَمَعَتْ قُلُوبُهُمْ عَلی تھے اور یہ بھی غور کرو کہ ان کی غیرت نے ہرگز نہ چاہا کہ مَفْهُوْمِ آيَةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد کسی نبی کی حیات امَنُوا بِهِ وَكَانُوا بِهِ يَسْتَبْشِرُونَ پر راضی ہو جائیں پس خدا نے ان کو اسی طرح سے حق کی راہ (خطبہ الہامی، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۲۸ تا ۲۳۳) دکھلائی جس طرح سے عاشقوں کو دکھلاتا ہے اور ان کے دلوں ني قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ کی آیت کے مفہوم پر اتفاق کرلیا اور اس پر ایمان لائے اور اس پر خوش ہوئے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) قَد جَرَتْ سُنَّةُ أَهْلِ اللَّسَانِ في لفظ خلا کے بارہ میں اہل زبان کا یہ طریق ہے کہ جب لفظ خَلَا أَنَّهُمْ إِذَا قَالُوا مَثَلًا خَلَا وہ یہ نہیں کہ خَلا زَيْلٌ مِنْ هَذِهِ النَّارِ أَوْ مِنْ هَذِهِ : زَيْلٌ مِنْ هَذِهِ النَّارِ أَوْ مِنْ هَذِهِ الدُّنْيَا الدُّنْيَا (یعنی زید اس گھر سے یا اس دنیا سے چلا گیا ) تو اس فَيُرِيدُونَ مِنْ هَذَا الْقَوْلِ انَّهُ لَا يَرْجِعُ قول سے ان کی یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ اس کی طرف کبھی واپس إلَيْهَا أَبَدًا وَمَا اختار الله هذا اللفظ نہیں آئے گا اور اس لفظ کو خدا تعالیٰ نے اسی لیے اختیار کیا إِلَّا إِشَارَةً إلى هذِهِ الْمُحَاوَرَةِ كَمَا لَا ہے تا اہل زبان کے اس استعمال کی طرف اشارہ فرمائے جیسا کہ ظاہر ہے.(ترجمہ از مرتب) يخفى (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۲۸ حاشیه ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس آیت سے استدلال کرنا کہ : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ صاف دلالت کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض نبی تو جناب خاتم الانبیاء کے عہد سے پیشتر فوت ہو گئے ہیں مگر بعض اُن میں سے زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک فوت نہیں ہوئے تو اس صورت میں یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ سورة ال عمران آیت قابلِ استدلال نہیں رہتی کیونکہ ایک نا تمام دلیل جو ایک قاعدہ کلیہ کی طرح نہیں اور تمام افراد گزشتہ پر دائرہ کی طرح محیط نہیں وہ دلیل کے نام سے موسوم نہیں ہو سکتی.پھر اُس سے حضرت ابوبکر کا استدلال لغو ٹھہرتا ہے اور یادر ہے کہ یہ دلیل جو حضرت ابوبکر نے تمام گزشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اس کا انکار مروی نہیں حالانکہ اُس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سن کر خاموش ہو گئے.اس سے ثابت ہے کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا اور صحابہ کا اجماع حجنت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا.سوحضرت ابوبکر کے احسانات میں سے جو اس اُمت پر ہیں ایک یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے اس غلطی سے بچنے کے لئے جو آئیندہ زمانہ کے لئے پیش آنے والی تھی اپنی خلافت حقہ کے زمانہ میں سچائی اور حق کا دروازہ کھول دیا اور ضلالت کے سیلاب پر ایک ایسا مضبوط بند لگا دیا کہ اگر اس زمانہ کے مولویوں کے ساتھ تمام جنیات بھی شامل ہو جا ئیں تب بھی وہ اس بند کوتو ڑ نہیں سکتے.سو ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت ابوبکر کی جان پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پاک الہام پا کر اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ مسیح فوت ہو گیا ہے.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۱، ۴۶۲ حاشیه ) تمام صحابہ کا اُن کی موت پر اجماع ہو گیا اور اگر اجماع نہیں ہوا تھا تو ذرہ بیان تو کرو کہ جب حضرت عمر کے غلط خیال پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور پھر دوبارہ دنیا میں آئیں گے حضرت ابوبکر نے یہ آیت پیش کی کہ مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ تو حضرت ابوبکر نے کیا سمجھ کر یہ آیت پیش کی تھی اور کون سا استدلال مطلوب تھا جو مناسب محل بھی تھا اور صحابہ نے اس کے معنے کیا سمجھے تھے اور کیوں مخالفت نہیں کی تھی اور کیوں اس جگہ لکھا ہے کہ جب یہ آیت صحابہ نے سنی تو اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ؟ تحفہ غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۴۲) ألا تُفَكَّرُ فى قَوْلِهِ عَزَّ اسْمه وَمَا اے مخاطب ! کیا تو خدا تعالی کے قول : وَمَا مُحمد مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پر غور نہیں أَوْ عَلى قَلْبِكَ الْقُفْلُ وَقَدِ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ کرتا یا تیرے دل پر قفل لگا ہوا ہے اور سب سے پہلے عَلَيْهِ قَبْلَ كُلِّ إِجْمَاعِ مِّنَ الصَّحَابَةِ وَ رَجَعَ صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہوا تھا اور حضرت عمر الْفَارُوقُ مِنْ قَوْلِهِ بَعْدَ سِماعِ هَذِهِ الْآيَةِ فاروق نے اس آیت کو سن کر اپنے قول سے رجوع کر فَمَا لَكَ لَا تَرْجِعُ مِنْ قَوْلِكَ وَقَدْ قَرَأَنَا عَلَيْكَ لیا تھا پھر تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو اپنی بات سے رجوع مُحَمَّدٌ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۱۹ سورة ال عمران كَثِيرًا مِّنَ الْآيَاتِ أَتَكْفُرُ بِالْقُرْآنِ أَو نہیں کرتا حالانکہ ہم نے تجھے کئی آیات سنائی ہیں کیا تو قرآن کریم کا انکار کرتا ہے یا یوم جزا کو بھول گیا ہے.نَسِيْتَ يَوْمَ الْمَجَازَاتِ الهدی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۵) ( ترجمه از مرتب) ان سب کے بعد وہ عظیم الشان آیت ہے جس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوا اور ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ نے اس بات کو مان لیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں اور وہ یہ آیت ہے : وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُم عَلَى أَعْقَابِكُمُ.اس جگہ خلت کے معنے خدا تعالیٰ نے آپ فرما دیجئے کہ موت یا قتل.پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے محلِ استدلال میں جمیع انبیاء گزشتہ کی موت پر اس آیت کو پیش کر کے اور صحابہ نے ترک مقابلہ اور تسلیم کا طریق اختیار کر کے ثابت کر دیا کہ یہ آیت موت مسیح اور تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام پر قطعی دلیل ہے اور اس پر تمام اصحاب رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا، ایک فرد بھی باہر نہ رہا جیسا کہ میں نے اس بات کو مفصل طور پر رسالہ تحفہ غزنویہ میں لکھ دیا ہے پھر اس کے بعد تیرہ سو برس تک کبھی کسی مجتہد اور مقبول امام پیشوائے انام نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں بلکہ امام مالک نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں اور امام ابن حزم نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں اور تمام کامل مکمل ملہمین میں سے کبھی کسی نے یہ الہام نہ بنایا کہ خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا ہے کہ عیسی بن مریم برخلاف تمام نبیوں کے زندہ آسمان پر موجود ہے.الغرض جبکہ میں نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ اور اقوال ائمہ اربعہ اور وحی اولیاء امت محمدیہ اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم میں بجز موت مسیح کے اور کچھ نہ پایا تو بنظر تکمیل لوازم تقویٰ انبیاء سابقین علیہم السلام کے قصص کی طرف دیکھا کہ کیا قرون گزشتہ میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے کہ کوئی آسمان پر چلا گیا ہو اور دوبارہ واپس آیا ہو تو معلوم ہوا کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر نہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۱، ۹۲) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر کسی نے اعتراض نہ کیا کہ قرآن میں کیوں تحریف کرتے ہو تمام گزشتہ انبیاء کہاں فوت ہوئے ہیں اور اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس وقت عذر کرتے کہ نہیں صاحب میر انشاء تمام انبیاء کا فوت ہونا تو نہیں ہے میں تو بدل اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ بجسمه العصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور کسی وقت اُتریں گے تو صحابہ جواب دیتے کہ اگر آپ کا یہی اعتقاد ہے تو پھر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٢٠ سورة ال عمران.آپ نے اس آیت کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیالات کا رڈ کیا کیا ؟ کیا آپ کے کان بہرے عمر ہیں؟ کیا آپ سنتے نہیں کہ عمر بلند آواز سے کیا کہہ رہا ہے؟ حضرت وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم مرے نہیں زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے اور منافقوں کو قتل کریں گے اور وہ آسمان کی طرف ایسا ہی زندہ اٹھائے گئے ہیں جیسے کہ عیسی بن مریم اٹھایا گیا تھا، آپ نے آیت تو پڑھ لی مگر اس آیت میں اس خیال کا رڈ کہاں ہے.لیکن صحابہ جو عقلمند اور زیرک اور پاک نبی کے ہاتھ سے صاف کئے گئے تھے اور عربی تو اُن کی مادری زبان تھی اور کوئی تعصب درمیان نہ تھا.اس لئے انہوں نے آیت موصوفہ بالا کے سنتے ہی سمجھ لیا کہ خَلَت کے معنے موت ہیں جیسا کہ خود خدا تعالیٰ نے فقرہ: آفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ میں تشریح کر دی ہے اس لئے انہوں نے بلا توقف اپنے خیالات سے رجوع کر لیا اور ذوق میں آکر اور آنحضرت کے فراق کے درد سے بھر کر بعض نے اس مضمون کو ادا کرنے کے لئے شعر بھی بنائے جیسا کہ حسان بن ثابت نے بطور مرثیہ یہ دوبیت کہے كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی اے میرے پیارے نبی ! تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھی اور میرے دیدوں کا نور تھا.پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کیا غم کروں عیسیٰ مرے یا موسیٰ مرے کوئی مرے مجھے تو تیرا ہی غم تھا.دیکھو عشق محبت اسے کہتے ہیں جب صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ وہ نبی افضل الانبیاء جن کی زندگی کی اشد ضرورت تھی عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہو گئے تو وہ اس کلمہ سے سخت بیزار ہو گئے کہ آنحضرت تو مر جائیں مگر کسی دوسرے کو زندہ رسول کہا جائے.ج (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۳، ۹۴) یہ آیت که : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں کیونکہ یہ آیت وہ عظیم الشان آیت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجماع کر کے اقرار کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب نبی فوت ہو (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۰) یہ وہ آیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس استدلال چکے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة ال عمران کی غرض سے پڑھی تھی کہ تمام گزشتہ انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا.اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۷۴) آیت : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ میں سب نبیوں کی وفات ایک مشترک لفظ میں جو خکت ہے خدا نے ظاہر کی تھی اور حضرت عیسی کے لئے کوئی خاص لفظ استعمال نہیں فرمایا تھا.یہ بھی نعوذ باللہ ! آپ لوگوں کے نزدیک خدا کا ایک جھوٹھ ہے.یہ وہی آیت ہے جس کے پڑھنے سے حضرت ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کی تھی.ابوبکر کی بھی یہ منطق خوب تھی کہ با وجود یکه عیسی آسمان پر زندہ بیٹھا ہے پھر وہ لوگوں کے سامنے یہ آیت پڑھتا ہے یہ کس قسم کی تسلی دیتا قسم کی ہے.کیا اس کو معلوم نہیں کہ عیسی تو زندہ آسمان پر بیٹھا ہے اور پھر دوبارہ آئے گا اور چالیس برس رہے گا.عیسی کی وہ عمر اور افضل الرسل کی یہ عمر : تِلكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزى (النجم : ٢٣) - اور صحابہ بھی خوب سمجھ کے آدمی تھے جو اس آیت کے سننے سے ساکت ہو گئے اور کسی نے ابو بکر کو جواب نہ دیا کہ حضرت آپ یہ کیسی آیت پڑھ رہے ہیں جو اور بھی ہمیں حسرت دلاتی ہے عیسی تو آسمان پر زندہ اور پھر آنے والا اور ہمارا پیارا نبی ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا.اگر عیسی اس قانون قدرت سے باہر اور ہزار ہا برس کی عمر پانے والا اور پھر آنے والا ہے تو ہمارے نبی کو یہ نعمت کیوں عطا نہ ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ نے جو اُس وقت تمام حاضر تھے اُن میں سے ایک بھی غائب نہ تھا.اس آیت کے یہی معنے سمجھے تھے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایک دو کم سمجھ صحابہ کو جن کی درایت عمدہ نہیں تھی.عیسائیوں کے اقوال من کر جو ارد گرد رہتے تھے پہلے کچھ یہ خیال تھا کہ میسی آسمان پر زندہ ہے جیسا کہ ابو ہریرہ جو غیبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا لیکن جب حضرت ابو بکر نے جن کو خدا نے علم قرآن عطا کیا تھا یہ آیت پڑھی تو سب صحابہ پر موت جمیع انبیاء ثابت ہو گئی اور وہ اس آیت سے بہت خوش ہوئے اور اُن کا وہ صدمہ جو اُن کے پیارے نبی کی موت کا اُن کے دل پر تھا جاتا رہا اور مدینہ کی گلیوں کوچوں میں یہ آیت پڑھتے پھرے.اس تقریب پرحسان بن ثابت نے مرثیہ کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں یہ شعر بھی بنائے.شعر كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ منْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۲ سورة ال عمران یعنی تواے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میری آنکھوں کی پتلی تھا.میں تو تیری جدائی سے اندھا ہو گیا.اب جو چاہے مرے، عیسی ہو یا موسیٰ.مجھے تو تیری ہی موت کا دھڑ کا تھا.یعنی تیرے مرنے کے ساتھ ہم نے یقین کر لیا کہ دوسرے تمام نبی مرگئے ہمیں اُن کی کچھ پروا نہیں.مصرعہ عجب تھا عشق اس دل میں محبت ہو تو ایسی ہو اعجاز احمدی ضمیمه نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۶، ۱۲۷) اسلام میں پہلا اجماع یہی تھا کہ کوئی نبی گزشتہ نبیوں میں سے زندہ نہیں ہے.جیسا کہ آیت: مَا مُحَمَّد إلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے ثابت ہے.خدا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بہت بہت اجر دے جو اس اجماع کے موجب ہوئے اور ممبر پر چڑھ کر اس آیت کو پڑھ سنایا.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۶ ۲۴۷) کیوں یہ نہیں سوچتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بھی بعض صحابہ کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے مگر حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھ کر کہ: مَا مُحَمَّدٌ الا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ اس خیال کو رفع دفع کر دیا اور اس آیت کے یہ معنے سمجھائے کہ کوئی نبی نہیں جو فوت نہیں ہو چکا پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو جا ئیں تو کوئی افسوس کی جگہ نہیں یہ امر سب کے لئے مشترک ہے.ظاہر ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں یہ خیال ہوتا کہ عیسی آسمان پر چھ سو برس سے زندہ بیٹھا ہے تو وہ ضرور حضرت ابوبکر کے آگے یہ خیال پیش کرتے لیکن اس روز سب نے مان لیا کہ سب نبی مر چکے ہیں اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال بھی تھا کہ عیسی زندہ ہے تو اُس نے اس خیال کو ایک رڈی چیز کی طرح اپنے دل سے باہر پھینک دیا.یہ میں نے اس لئے کہا کہ ممکن ہے کہ عیسائی مذہب کے قرب و جوار کے اثر کی وجہ سے کوئی ایسا شخص جو نبی ہو اور جس کی درایت صحیح نہ ہو یہ خیال رکھتا ہو کہ شاید عیسی اب تک زندہ ہی ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وعظ صدیقی کے بعد کل صحابہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جتنے نبی تھے سب مر چکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ میں ہوا.اور صحابہ رضی اللہ عنہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں محو تھے کیوں کر اس بات کو قبول کر سکتے تھے کہ باوجودیکہ ان کے بزرگ نبی نے جو تمام نبیوں کا سردار ہے چوسٹھ برس کی بھی پوری عمر نہ پائی.مگر فیسٹی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ سورة ال عمران چھ سو برس سے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.ہرگز ! ہر گز ! محبت نبوی فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ عیسی علیہ السلام کی نسبت با تخصیص ایسی فضیلت قائم کرتے.لعنت ہے ایسے اعتقاد پر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین لا زم آوے.وہ لوگ تو عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.وہ تو اس بات کے سننے سے زندہ ہی مرجاتے کہ اُن کا پیارا رسول فوت ہو گیا مگر عیسی آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.وہ رسول نہ اُن کو بلکہ خدا تعالیٰ کو بھی تمام نبیوں سے زیادہ پیارا تھا.اسی وجہ سے جب عیسائیوں نے اپنی بدقسمتی سے اس رسول مقبول کو قبول نہ کیا اور اُس کو اتنا اُڑایا کہ خدا بنا دیا تو خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ ایک غلام غلمان محمدی سے یعنی یہ عاجز اس کا مثیل کر کے اس امت میں سے پیدا کیا اور اس کی نسبت اپنے فضل اور انعام کا زیادہ اُس کو حصہ دیا تا عیسائیوں کو معلوم ہو کہ تمام فضل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳، ۲۴) عبد الحق غزنوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام لگایا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ ! جھوٹ بولا ہے ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جو فوت نہیں ہو گیا.....قرآن شریف میں فقط قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ موجود ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبر گزرے.( آپ نے فرمایا: کیا گزرنا بجز مرنے کے کوئی اور چیز بھی ہے.جو شخص دنیا سے گز ر گیا، اُس کو تو کہتے ہیں کہ مر گیا.شیخ سعدی فرماتے ہیں: پدر چوں دور عمرش منقضی گشت مرا این یک نصیحت داد و بگذشت اب بتلاؤ کہ بگذشت کے اس جگہ کیا معنے ہیں کیا یہ کہ شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا باپ زندہ جسم عصری آسمان پر چلا گیا تھا یا یہ کہ مر گیا تھا.اے عزیز ! کیا ان تاویلات رکیکہ سے ثابت ہو جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ مع جسم عصری آسمان پر چلے گئے تھے.تمام دنیا کا یہ محاورہ ہے کہ جب مثلاً کہا جائے کہ فلاں بیمار گزر گیا تو کوئی بھی یہ معنے نہیں کرتا کہ وہ آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گیا اور عربی میں بھی گزرنا بمعنی مرنا ایک قدیم محاورہ ہے چنانچہ ایک فاضل کی نسبت جو کسی کتاب کو تالیف کرنا چاہتا تھا اور قبل از تالیف مر گیا کسی کا یہ پرانا شعر ہے وَلَمْ يَتَّفِقُ حَتَّى مَطَى بِسَبِيْلِهِ وَكَمْ حَسَرَاتٍ فِي بُطُونِ الْمَقَابِرِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة ال عمران یعنی اس فاضل کو اس کتاب کا تالیف کرنا اتفاق نہ ہوا یہاں تک کہ گزر گیا اور قبروں کے پیٹ میں بہت سی حسرتیں ہیں یعنی اکثر لوگ قبل اس کے جو اپنے ارادے پورے کریں مرجاتے ہیں اور حسرتوں کو قبروں میں ساتھ لے جاتے ہیں.اب دیکھو کہ اس جگہ بھی گزرنا بمعنی مرنے کے ہے اور اگر یہ کہو کہ کس تفسیر والے نے یہ معنے لکھے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ ہر ایک محقق مفسر جو عقل اور بصیرت اور علم بصیرت سے حصہ رکھتا ہے یہی معنے لکھتا ہے دیکھو! تفسیر مظہری صفحہ ۴۸۵ زیر آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ يعنى مَضَتْ وَ مَاتَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی پہلے نبی دنیا سے گزر گئے اور مر گئے اور الف لام سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ان میں سے موت سے خالی نہیں رہا.ایسا ہی تفسیر تبصیر الرحمان و تيسير المنان للشيخ العلامة زین الدین علی المهائمی - زیر آیت : قَد خَلَتْ لکھا ہے قَدْ خَلَتْ مِنْهُم مَّن مَّاتَ وَمِنْهُمْ مَنْ قُتِلَ فَلَا مَنَافَاتَ بَيْنَ الرَّسَالَةِ وَالْقَتْلِ وَالْمَوْتِ.دیکھو اصفحہ ۱۷۷.جلد پہلی.تبصیر الرحمان.یعنی گزشتہ انبیاء دنیا سے اس طرح گزر گئے کہ کوئی مر گیا اور کوئی قتل کیا گیا.پس نبوت اور موت اور قتل میں کچھ منافات نہیں.ایسا ہی تفسیر جامع البيان للشيخ العلامة سيّد معین الدین ابن شیخ سید صفی الدین صفحہ ۲۱ میں زیر آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ لکھا ہے.قَد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ فَيَخْلُو مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ايضًا یعنی تمام نبی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے موت کے ساتھ یا قتل کے ساتھ دنیا سے گزر گئے.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا سے گزر جائیں گے.ایسا ہی حاشیہ غاية القاضى وكفاية الراضي على تفسير البيضاوی جلد ۳ صفحہ ۶۸ مقام مذکور کے متعلق یہ لکھا ہے.لَيْسَ رَسُولُنَا) صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَرِّءٌ عَنِ الْهَلَاكِ كَسَائِرِ الرُّسُلِ وَيَخْلُوْ كَمَا خَلَوْا.یعنی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت سے مستثنیٰ نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ پہلے اُن سے تمام پیغمبر مر چکے ہیں وہ بھی مریں گے اور جیسا کہ وہ اس دنیا سے گزر گئے وہ بھی گزر جائیں گے.ایسا ہی تفسیر جمل میں جس کا دوسرا نام فتوحات الہیہ ہے یعنی جلد ایک صفحہ ۳۳۶ میں زیر تفسیر آیت: وَمَا مُحَمَّدٌ - قَدْ خَلَتْ یہ لکھا ہے.كَأَنَّهُمُ اعْتَقَدُوْا أَنَّهُ لَيْسَ كَسَائِرِ الرُّسُلِ فِي أَنَّهُ يَمُوتُ كَمَا مَاتُوا.یعنی بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو گویا یہ گمان ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نبیوں کی طرح نہیں مریں گے بلکہ زندہ رہیں گے سوفر مایا کہ وہ بھی مرے گا جیسا کہ پہلے تمام نبی مر گئے.ایسا ہی تفسیر صافی زیر آیت مذکورہ جلد اول میں لکھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۵ سورة ال عمران ہے.فَسَيَخْلُوا كَمَا خَلَوْا بِالْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ یعنی حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا سے ایسا ہی گزر جائے گا جیسا کہ دوسرے نبی موت یا قتل کے ساتھ دنیا سے گزر گئے.اب ظاہر ہے کہ ان تمام تفسیر والوں نے لفظ خلت کے معنے ماتت ہی کیا ہے یعنی اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں کہ جیسے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام فوت ہو گئے ہیں ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پائیں گے.اب دیکھو کہ حضرت مسیح کی موت پر یہ کس قدر روشن ثبوت ہے جو تمام تفسیروں والے یک زبان ہو کر بول رہے ہیں کہ پہلے جس قدر دنیا میں نبی آئے سب فوت ہو چکے ہیں.ماسوا اس کے ہر ایک ایماندار کا یہ فرض ہے کہ اس مقام میں جن معنوں کی طرف خود اللہ جل شانہ نے اشارہ فرمایا ہے انہی معنوں کو درست سمجھے اور اس کے مخالف معنوں کو زیغ اور الحاد یقین کرے اور یہ بات نہایت بدیہی اور اظہر من الشمس ہے کہ اللہ جل شانہ نے آیت : قد خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کی تفسیر میں آپ ہی فرما دیا ہے : أَفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِل پس اس ساری آیت کے یہ معنے ہوئے کہ پہلے تمام نبی اس دنیا سے موت یا قتل سے گزر چکے ہیں.سواگر یہ نبی بھی اُنہی کی طرح موت یا قتل سے گزر جائے تو کیا تم دین سے پھر جاؤ گے.اس جگہ یہ نکتہ یا در رکھنے کے لائق ہے کہ اس مقام میں خدا تعالیٰ نے دنیا سے گزر جانے کے دو ہی طور پر معنے قرار دیئے ہیں ایک یہ کہ بذریعہ موت کشف آنف یعنی طبیعی موت کے انسان مرجائے اور دوسرے یہ کہ مارا جائے یعنی قتل کیا جائے.غرض خدا تعالیٰ نے حلت کے لفظ کو موت یا قتل میں محصور کر دیا ہے.پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی تیسراشق بھی خدا تعالی کے علم میں ہوتا تو حلت کے معنوں کی تکمیل کے لئے اس کو بھی بیان فرما تا مثلاً یہ کہنا: آفابن ماتَ اَوْ قُتِلَ اوَرُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ بِجِسْمِهِ كَمَا رُفِعَ عِيسَى انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ سارے نبی پہلے اس سے گزر چکے ہیں پس اگر یہ نبی بھی مرجائے یا قتل کیا جائے یا عیسی کی طرح مع جسم آسمان پر اُٹھایا جائے تو کیا تم اس دین سے پھر جاؤ گے.اب اے عزیز! کیا تو خدا پر اعتراض کرے گا کہ وہ اس تیسری شق کا بیان کرنا بھول گیا اور صرف دوشق بیان کئے لیکن عقلمند خوب جانتے ہیں کہ لفظ خَلَت جو ایک تشریح طلب لفظ تھا اس کی تشریح صرف موت یا قتل سے کرنا اس بات پر قطعی دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس مقام میں حکمت کے معنے یا موت یا قتل ہے اور کچھ نہیں اور یہ ایک ایسا یقینی امر ہے جو اس سے انکار کرنا گویا خدا کی اطاعت سے خارج ہونا اور اس پر افترا کرنا ہے.جبکہ خدا تعالیٰ نے اسی آیت میں اپنے ہی منہ سے بیان فرما دیا کہ خلت کے معنے یا مرنا یا قتل کئے جانا ہے تو اس سے مخالف بولنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة ال عمران کذب عظیم اور ایک بڑا افترا ہے اور صغائر میں سے نہیں ہے بلکہ کبیرہ گناہ ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک خلت کے معنے دو میں ہی محصور ٹھہرے یعنی مرنا یا قتل کئے جانا تو اس سے زیادہ افترا اور دروغ کیا ہوگا کہ جس طرح نصاری نے خواہ نخواہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اسی طرح خواہ مخواہ بغیر دلیل اور سلطان مبین کے خلت کے معنوں میں آسمان پر جسم عنصری اُٹھائے جانا داخل سمجھا جائے ہاں ! اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوگا کہ جبکہ ائمہ لغت عرب نے بھی حلت کے معنے کہیں یہ نہیں لکھے کہ کوئی شخص زندہ مع جسم عصری آسمان پر چلا جائے تو کیا حاجت تھی کہ خدا تعالیٰ نے آفَائِن مَّاتَ أَوْ قُتِل کے ساتھ لفظ خَلَتُ کی تشریح فرمائی تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالی جانتا تھا کہ فیج اعوج کے زمانہ میں حلت کے یہ معنے بھی کئے جائیں گے کہ حضرت مسیح کو زندہ مع جسم عنصری آسمان پر پہنچا دیا گیا ہے.لہذا اس تشریح سے بطور حفظ ماتقدم پہلے سے ہی ان خیالات فاسدہ کارڈ کر دیا.اب اس تمام تحقیق کے رُو سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے ان معنوں میں کوئی جھوٹ نہیں بولا بلکہ آپ ناراض نہ ہوں آپ خود بوجه ترک معنی قرآن اس قول شنیع درونگوئی کے مرتکب ہوئے ہیں.میں آپ کو ہزار روپیہ بطور انعام دینے کو طیار ہوں اگر آپ کسی قرآن شریف کی آیت یا کسی حدیث قومی یا ضعیف یا موضوع یا کسی قول صحابی یا کسی دوسرے امام کے قول سے یا جاہلیت کے خطبات یا دواوین اور ہر ایک قسم کے اشعار یا اسلامی فصحاء کے کسی نظم یا نثر سے یہ ثابت کر سکیں کہ خلت کے معنوں میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی شخص مع جسم عنصری آسمان پر چلا جائے.خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں اول حلت کا بیان کرنا اور پھر ایسی عبارت میں جو بموجب اصول بلاغت و معانی تفسیر کے محل میں ہے صرف مرنا یا قتل کئے جانا بیان فرمانا.کیا مومن کے لئے یہ اس بات پر حجت قاطع نہیں ہے کہ خلت کے معنے اس محل میں دو ہی ہیں یعنی مرنا یا قتل کئے جانا.اب خدا کی گواہی کے بعد اور کس کی گواہی کی ضرورت ہے؟ الْحَمْدُ لِلَّهِ ! ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ ! کہ اسی مقام میں خدا تعالی نے میری سچائی کی گواہی دے دی اور بیان فرما دیا کہ خلت کے معنے مرنا یا قتل کئے جانا ہے.آپ نے تو اس مقام میں اپنے اس اشتہار میں میری نسبت یہ عبارت لکھی ہے کہ ایسا جھوٹ بولا ہے کہ کسی ایماندار بلکہ ذرہ شرم اور حیا کے آدمی کا کام نہیں لیکن یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان ہے کہ وہی جھوٹ قرآنی شہادت سے آپ پر ثابت ہو گیا.اب بتلائیے کہ میں آپ کی نسبت کیا کہوں؟ آپ نے ناحق جلد بازی کر کے میرا نام دروغ گو رکھا لیکن میں نہیں چاہتا کہ بدی کا بدی کے ساتھ جواب دوں بلکہ اگر اسلامی شریعت میں جھوٹ بولنا حرام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۷ سورة ال عمران اور گناہ نہ ہوتا تو میں بعوض آپ کے کذاب کہنے کے آپ کو صدیق کہتا اور بعوض اس کے کہ آپ نے محض دروغ گوئی سے مجھے ذلیل اور شکست یافتہ قرار دیا آپ کو معزز اور فتحیاب کے نام سے پکارتا.( تحفه غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۷۱ تا۵۷۷) عبدالحق غزنوی نے یہ کہا کہ ) حضرت مسیح علیہ السلام اور تمام نبیوں کی موت پر اجماع ہو جانا یہ بھی سفید جھوٹ ہے.اصحاب کرام تو لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے سب سے ثبوت دینا تو مشکل ہے.( فرمایا : ) اس جگہ مجھے آپ لوگوں کی حالت پر رونا آتا ہے کہ کیسے خدا نے عقل و علم اور دیانت کو سینوں میں سے چھین لیا.کیا اسی مایہ علمی پر آپ لوگ مولوی کہلاتے ہیں اور ایک دوسرے کا نام علماء کرام اور صوفیہ عظام رکھتے ہیں.اے قابل رحم نادان یہ بات فی الواقع سچ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور تمام گذشتہ نبیوں کی موت کی نسبت صحابہ کرام کا اجماع ہو گیا تھا اور جس طرح خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اجماع پایا گیا ہے اسی قسم کا بلکہ اس سے افضل و اعلیٰ یہ اجتماع تھا اور اگر کوئی جرح قدح اس اجماع پر ہوتا ہے تو اس سے زیادہ جرح قدح خلافت مذکورہ کے اجماع پر ہوگا.در حقیقت یہ اجماع خلافت ابوبکر کے اجماع سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ اس میں کوئی ضعیف قول بھی مروی نہیں جس سے ثابت ہو جو کسی صحابی نے حضرت ابو بکر کی مخالفت کی یا تخلف کیا یعنی جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر بطور استدلال کے یہ آیت پڑھی کہ: مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَمِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُهُ عَلَى أَعْقَابِكُمُ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہے اس میں کوئی جز الوہیت کی نہیں اور اس سے پہلے تمام رسول دنیا سے گزر چکے ہیں یعنی مر چکے ہیں.پس ایسا ہی اگر یہ بھی مرکز یا قتل ہو کر دنیا سے گزر گیا تو کیا تم دین سے پھر جاؤ گے تو اس آیت کے سننے کے بعد کسی ایک صحابی نے بھی مخالفت نہیں کی اور اٹھ کر یہ عرض نہیں کی کہ یہ آپ کا استدلال ناقص اور نا تمام ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بعض نبی زندہ جسم عنصری زمین پر موجود ہیں جیسے الیاس و خضر اور بعض آسمان پر جیسے اور میں اور عیسی تو پھر اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت موت کیوں کر ثابت ہو اور کیوں جائز نہیں کہ وہ بھی زندہ ہوں بلکہ تمام صحابہ نے اس آیت کو سن کر تصدیق کی اور سب کے سب اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ تمام نبیوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مرنا ضروری تھا پس یہ اجماع بلا توقف اور تر ڈ د واقع ہوا لیکن وہ اجماع جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر مانا جاتا ہے اس میں بعض صحابہ کی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ سورة ال عمران طرف سے بیعت کرنے میں کچھ توقف اور تر ڈر بھی ہوا تھا گو کچھ دنوں کے بعد بیعت کر لی اور اس ابتلا میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مبتلا ہو گئے تھے لیکن گزشتہ انبیاء کی موت پر کسی صحابی کو بعد سننے صدیقی خطبہ کے کوئی ابتلا پیش نہیں آیا اور نہ ماننے میں کچھ بھی توقف اور تر و دکیا بلکہ سنتے ہی مان گئے.لہذا اسلام میں یہ وہ پہلا اجماع ہے جو بلا توقف انشراح صدر کے ساتھ ہوا.خلاصہ کلام یہ کہ بے شک نصوص صریحہ کے رُو سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی موت پر جس میں حضرت مسیح بھی داخل ہیں اجماع ہو گیا تھا بلکہ حضرت مسیح اس اجماع کا پہلا نشانہ تھے.اب ذیل میں نصوص حدیثیہ کے رُو سے ثبوت لکھتا ہوں تا معلوم ہو کہ ہم دونوں میں سے کون شخص خدا تعالی سے خوف کر کے بیچ پر قائم ہے اور کون شخص دلیری سے جھوٹ بولتا اور نصوص صریحہ کو چھوڑتا ہے.واضح ہو کہ اس بارے میں صحیح بخاری میں جو اصح الکتب کہلاتی ہے مندرجہ ذیل عبارتیں ہیں.عرج عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسُ يَا عُمَرُ فَأَبِي عُمَرُ أَنْ تَجْلِسَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرِ اَمَّا بَعْدُ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ عَن لَّا يَمُوتُ قَالَ اللهُ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ.وَقَالَ وَاللهِ كَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ انْزَلَ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا....إِنَّ عُمَرَ قَالَ وَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَن سَمِعْتُ أَبَابَكْرٍ تَلَاهَا فَعُقِرْتُ حَتَّى مَا يَقِلُنِى رِجُلا وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حَتَّى سَمِعْتُهُ تَلَاهَا أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مات.یعنی ابن عباس سے روایت ہے کہ ابوبکر نکلا ( یعنی بروز وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) اور عمر لوگوں سے کچھ باتیں کر رہا تھا ( یعنی کہہ رہا تھا کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں ) پس ابوبکر نے کہا کہ اے عمر! بیٹھ جا مگر عمر نے بیٹھنے سے انکار کیا.پس لوگ ابوبکر کی طرف متوجہ ہو گئے اور عمر کو چھوڑ دیا پس ابو بکر نے کہا کہ بعد حمد و صلوۃ واضح ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا ہے اس کو معلوم ہو کہ حمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فوت ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا ہے تو خدا زندہ ہے جو نہیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر دلیل یہ ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ محمد صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گزر چکے ہیں یعنی مر چکے ہیں اور حضرت ابوبکر نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۹ سورة ال عمران الشاکرین تک یہ آیت پڑھ کر سنائی، کہا راوی نے پس بخدا گو یا لوگ اس سے بے خبر تھے کہ یہ آیت بھی خدا نے نازل کی ہے اور ابو بکر کے پڑھنے سے اُن کو پتہ لگا.پس اس آیت کو تمام صحابہ نے ابوبکر سے سیکھ لیا اور کوئی بھی صحابی یا غیر صحابی باقی نہ رہا جو اس آیت کو پڑھتا نہ تھا اور عمر نے کہا کہ بخدا میں نے یہ آیت ابوبکر سے ہی سنی جب اُس نے پڑھی پس میں اُس کے سننے سے ایسا بے حواس اور زخمی ہو گیا ہوں کہ میرے پیر مجھے اُٹھا نہیں سکتے اور میں اُس وقت سے زمین پر گرا جاتا ہوں جب سے کہ میں نے یہ آیت پڑھتے سنا اور یہ کلمہ کہتے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے.اور اس جگہ قسطلانی شرح بخاری کی یہ عبارت ہے: وَعُمَرُ بن الخطاب يُكَلِّمُ النَّاسَ يَقُولُ لَهُمْ مَامَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْتُلُ الْمُنَافِقِینَ.یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ کرلیں فوت نہیں ہوں گے اور ملل منحل شہرستانی میں اس قصہ کے متعلق یہ عبارت ہے.قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ مَنْ قَالَ أَنَّ مُحَمَّدًا مَات فَقَتَلْتُهُ بِسَيْفِى هَذَا وَإِنَّمَا رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ كَمَارُفِعَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْن قَحَافَةَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ إلَهَ مُحَمَّدٍ فَإِنَّهُ حَقٌّ لَّا يَمُوتُ وَقَرَءَ هَذِهِ الْآيَةَ وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنَ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَرَجَعَ الْقَوْمُ إِلى قَوْلِہ.دیکھو ملل نحل جلد ثالث.ترجمہ یہ ہے کہ عمر خطاب کہتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو میں اپنی اسی تلوار سے اُس کو قتل کر دوں گا بلکہ وہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں جیسا کہ عیسی بن مریم اُٹھائے گئے اور ابو بکر نے کہا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے تو وہ تو ضر ور فوت ہو گئے ہیں اور جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کی عبادت کرتا ہے تو وہ زندہ ہے نہیں مرے گا یعنی ایک خدا ہی میں یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور باقی تمام نوع انسان و حیوان پہلے اس سے مرجاتے ہیں کہ اُن کی نسبت خلود کا گمان ہو اور پھر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی جس کا یہ ترجمہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) رسول ہیں اور سب رسول دُنیا سے گزر گئے ، کیا اگر وہ فوت ہو گئے یا قتل کئے گئے تو تم مرتد ہو جاؤ گے تب لوگوں نے اس آیت کوسن کر اپنے خیالات سے رجوع کر لیا.اب سوچو کہ حضرت ابوبکر کا اگر قرآن سے یہ استدلال نہیں تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں اور نیز اگر یہ استدلال صریح اور قطعية الدلالت نہیں تھا تو وہ صحابہ جو بقول آپ ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة ال عمران کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے محض ظنی اور شکی امر پر کیوں کر قائل ہو گئے اور کیوں یہ حجت پیش نہ کی کہ یا حضرت یہ آپ کی دلیل نا تمام ہے اور کوئی نص قطعیۃ الدلالت آپ کے ہاتھ میں نہیں.کیا آپ اب تک اس سے بے خبر ہیں کہ قرآن ہی آیت رَافِعُكَ الى میں حضرت مسیح کا مجسمہ العصر کی آسمان پر جانا بیان فرماتا ہے.کیا بن دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بھی آپ نے نہیں سنا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان پر جانا آپ کے نزدیک کیوں مستبعد ہے؟ بلکہ صحابہ نے جو مذاق قرآن سے واقف تھے آیت کو سن کر اور لفظ خَلَتْ کی تشریح نقره آقاین ماتَ أَوْ قُتِلَ میں پا کر فی الفور اپنے پہلے خیال کو چھوڑ دیا.ہاں ! اُن کے دل آنحضرت کی موت کی وجہ سے سخت غمناک اور چور ہو گئے اور اُن کی جان گھٹ گئی اور حضرت عمر نے فرمایا کہ اس آیت کے سننے کے بعد میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میرے جسم کو میرے پیر اٹھا نہیں سکتے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں.سبحان اللہ کیسے سعید اور وقاف عند القرآن تھے کہ جب آیت میں غور کر کے سمجھ آگیا کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تب بجز اس کے کہ رونا شروع کردیا اور غم سے بھر گئے اور کچھ نہ کہا اور تب حضرت حسان بن ثابت نے یہ مرثیہ کہا: كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَيِي عَلَيْكَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی تو میری آنکھ کی پتلی تھا پس میری آنکھیں تو تیرے مرنے سے اندھی ہو گئیں اب تیرے بعد میں کسی کی زندگی کو کیا کروں.عیسی مرے یا موسیٰ مرے بیشک مر جائیں مجھے تو تیرا ہی غم تھا.یادر ہے کہ اگر حضرت ابوبکر کی نظر میں حضرت عیسی علیہ السلام موت سے باہر ہوتے تو وہ ہرگز اس آیت کو بطور استدلال پیش نہ کرتے اور اگر صحابہ کو اس آیت کے ان معنوں میں جو تمام نبی فوت ہو چکے ہیں کچھ تر ڈر ہوتا تو وہ ضرور عرض کرتے کہ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسم عنصری آسمان پر چلے گئے ہیں تو پھر یہ دلیل نا تمام ہے اور کیا وجہ کہ عیسی کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر نہ گئے ہوں لیکن اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسی کی موت کا بھی اُسی دن فیصلہ ہوا اور صحابہ نے اس آیت کوسن کر بعد اس کے کبھی دم نہیں مارا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں اور چونکہ صحیح بخاری کے لفظ کلھم سے ثابت ہو گیا کہ اُس وقت سب صحابہ موجود تھے اور کسی نے اس آیت کے سننے کے بعد مخالفت نہ کی اس لئے ماننا پڑا کہ اُن سب کا تمام گزشتہ انبیاء کی موت پر اجماع ہو گیا اور یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ میں ہوا.اور خلافت ابوبکر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٣١ سورة ال عمران کے اجماع سے جو بعد اس کے ہوا یہ اجتماع بہت بڑھ کر تھا کیونکہ اس میں کسی نے دم نہیں مارا اور خلافت ابوبکر میں ابتدا میں اختلاف ہو گیا تھا.ہاں! اس جگہ یہ خیال گزرتا ہے کہ اس آیت کے سننے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عیسی کی نسبت یہ مذہب تھا کہ باوجود مرجانے کے وہ بھی دنیا میں واپس آئیں گے کیونکہ انہوں نے ان کا رفع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ایک ہی طور کا قرار دیا اور جبکہ وہ طور جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم تو حضرت عائشہ کے گھر میں ہی اب تک پڑا ہے تو وہ باوجود اقرار مشابہت کے کس طرح اس بات کے قائل ہو سکتے تھے کہ حضرت مسیح کا جسم آسمان پر چلا گیا لیکن آیت کو سن کر یہ خیال بھی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس روز تمام صحابہ اس بات پر ایمان لائے کہ اس سے پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں اور در حقیقت بڑی بے ادبی تھی اور سخت گناہ تھا کہ نبی خاتم الرسل افضل الانبیاء فوت ہو جائیں ان کی میت سامنے پڑی ہو اور کسی دوسرے نبی کی نسبت یہ خیال ہو کہ وہ فوت نہیں ہوا.در حقیقت یہ خیال اور محبت اور تعظیم رسول کریم ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی.ایمانداری اور تقویٰ سے سوچو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.اس خیال کا رد بجز اس کے کب ممکن تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت مسیح اور تمام گزشتہ نبیوں کی موت ثابت کرتے بھلا اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اس آیت قد خلت کے پڑھنے سے یہ ارادہ نہ تھا کہ حضرت مسیح وغیرہ انبیاء گذشتہ کی موت ثابت کریں تو انہوں نے حضرت عمر کے خیال کا رڈ کیا کیا ؟ حضرت عمر کے اس خیال کا تمام دار مدار حضرت مسیح کے زندہ اٹھائے جانے پر تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اپنے اجتہاد سے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں تو پھر ہمارے نبی احق و اولی ہیں که زنده آسمان پر چلے جائیں کیونکہ یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ خدا تعالیٰ کسی نبی کو زندہ آسمان پر اپنے پاس بلالے اور بلحاظ طریقت و حسن ادب یہ بات کفر کے رنگ میں تھی کہ ایسا سمجھا جائے کہ گویا حضرت مسیح تو زندہ آسمان پر چلے گئے.اور وہ نبی جو خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہے جس کے وجود باجود کی بہت سی ضرورتیں ہیں وہ عمر طبعی تک بھی نہ پہنچے اگر بے ایمانی اور تعصب مانع نہ ہو تو یہ آیت مذکورہ بالا ایک بڑی نقض صریح اس بات پر ہے کہ تمام صحابہ کا اسی پر اتفاق ہو گیا تھا کہ مسیح وغیرہ تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام فوت ہو چکے
۲۳۲ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة ال عمران ہیں اور اگر یہ نہیں تو بھلا ہوش کر کے اور خدا سے ڈر کر بتلاؤ کہ اس مخالفت کے وقت میں جو حضرت ابوبکر کی رائے اور حضرت عمر کی رائے میں واقع ہوئی تھی جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رائے کی تائید میں یہی پیش کرتے تھے کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھائے جائیں گے اور پھر کیوں ممتنع اور محال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم با وجود بہتر اور افضل ہونے کے حضرت مسیح کی طرح آسمان پر نہ اُٹھائے جائیں.اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر کی رائے کے رو کرنے میں جو آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پڑھی اس سے اُن کا اگر یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت عیسی بھی جن کا حوالہ دیا جاتا ہے فوت ہو چکے ہیں تو پھر اور کیا مطلب تھا اور کیوں کر حضرت عمر کے خیال کا بجز اس کے ازالہ ہوسکتا تھا اور آپ کا یہ کہنا کہ اس پر اجماع نہیں ہوا.یہ ایسا صریح جھوٹ ہے کہ بے اختیار رونا آتا ہے کہ کہاں تک آپ لوگوں کی نوبت پہنچ گئی ہے.اے عزیز ! بخاری میں تو اس جگہ کُلھم کا لفظ موجود ہے جس سے ظاہر ہے کہ کل صحابہ اُس وقت موجود تھے اور لشکر اسامہ جو میں ہزار آدمی تھا اس مصیبت عظمیٰ واقعہ خیر الرسل سے رُک گیا تھا اور وہ ایسا کون بے نصیب اور بد بخت تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنی اور فی الفور حاضر نہ ہوا.بھلا کسی کا نام تولو.ماسوا اس کے اگر فرض بھی کر لیں کہ بعض صحابہ غیر حاضر تھے تو آخر مہینہ، دو مہینہ، چھ مہینہ کے بعد ضرور آئے ہوں گے پس اگر انہوں نے کوئی مخالفت ظاہر کی تھی اور آیت قد خَلَتْ کے اور معنے کئے تھے تو آپ اس کو پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو پس یہی ایمان اور دیانت کے برخلاف ہے کہ ایسے جامع اجماع کے برخلاف آپ عقیدہ رکھتے ہیں حضرت مسیح کی موت پر یہ ایک ایسا زبردست اجماع ہے کہ کوئی بے ایمان اس سے انکار کرے تو کرے ، نیک بخت اور متقی آدمی تو ہرگز اس سے انکار نہیں کرے گا اب بتلاؤ کہ حضرت مسیح کی موت پر اجماع تو ہوازندگی پر کہاں اجماع ثابت ہے ۲۰۰ ( تحفه غزنویه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۷۷ ۵ تا ۵۸۷) اس آیت کا اگلا فقرہ یعنی آقا بنُ مَاتَ اَوْ قُتِلَ صاف بتلا رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک گزر جانا صرف دو قسم پر ہے یا بذریعہ موت حتف آنف اور یا بذریعہ قتل اور خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرما یا کہ گزرجانا اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص زندہ جسم عنصری آسمان پر چلا جائے.پس جبکہ خدا تعالیٰ نے گزر جانے کی تشریح لفظ آفابن مات أو قتل سے آپ کر دی اور اس پر حصر کر دیا تو اس کے بعد نہ ماننا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی صالح مومن کا کام نہیں.۲۳۳ سورة ال عمران تحفه غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۸۰ حاشیه ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جو شخص حضرت سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ کلمہ منہ پر لائے گا کہ وہ مر گئے ہیں تو میں اس کو اپنی اسی تلوار سے اس کو قتل کر دوں گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کو اپنے کسی خیال کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بہت غلو ہو گیا تھا اور وہ اس کلمہ کو جو آنحضرت مر گئے کلمہ کفر اور ارتداد سمجھتے تھے.خدا تعالیٰ ہزار ہا نیک اجر حضرت ابوبکر کو بخشے کہ جلد تر اُنہوں نے اس فتنہ کو فرو کر دیا اور نص صریح کو پیش کر کے بتلا دیا کہ گزشتہ تمام نبی مرگئے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو قتل کیا در حقیقت اس تصریح سے بھی بہت سے پیج اعوج کے کہڈ ابوں کو تمام صحابہ کے اجتماع سے قتل کر دیا گویا چار کذاب نہیں بلکہ پانچ کذاب مارے.یا الہی ان کی جان پر کروڑ با رحمتیں نازل کر آمین.اگر اس جگہ خلت کے یہ معنے کئے جائیں کہ بعض نبی زندہ آسمان پر جا بیٹھے ہیں تب تو اس صورت میں حضرت عمر حق بجانب ٹھہرتے ہیں اور یہ آیت ان کو مضر نہیں بلکہ اُن کی موید ٹھہرتی ہے.لیکن اس آیت کا اگلا فقرہ جو بطور تشریح ہے یعنی : آقاین ماتَ أَوْ قُتِل جس پر حضرت ابوبکر کی نظر جا پڑی ظاہر کر رہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے لینا کہ تمام نبی گزر گئے گو مر کر گزر گئے یا زندہ ہی گزر گئے یہ دجل اور تحریف اور خدا کی منشاء کے برخلاف ایک عظیم افترا ہے اور ایسے افتر اعمد ا کرنے والے جو عدالت کے دن سے نہیں ڈرتے اور خدا کی اپنی تشریح کے برخلاف اُلٹے معنے کرتے ہیں وہ بلا شبہ ابدی لعنت کے نیچے ہیں.لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اُس وقت تک اس آیت کا علم نہیں تھا اور دوسرے بعض صحابہ بھی اسی غلط خیال میں مبتلا تھے اور اُس سہو ونسیان میں گرفتار تھے جو مقتضائے بشریت ہے اور ان کے دل میں تھا کہ بعض نبی اب تک زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے.پھر کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی مانند نہ ہوں.لیکن حضرت ابو بکر نے تمام آیت پڑھ کر اور آفَابِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِل سنا کر دلوں میں بٹھا دیا کہ خلت کے معنے دو قسم میں ہی محصور ہیں (۱) حتف انف سے مرنا یعنی طبیعی موت.(۲) مارے جانا.تب مخالفوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا اور تمام صحابہ اس کلمہ پر متفق ہو گئے کہ گزشتہ نبی سب مر گئے ہیں اور فقرہ آفابن ماتَ أَوْ قُتِل کا بڑا ہی اثر پڑا اور سب نے اپنے مخالفانہ خیالات سے رجوع کرلیا.فالحمد لله على ذالك! تحفه غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۸۲،۵۸۱ حاشیه ) سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے کہ تمام نبی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۴ سورة ال عمران فوت ہو چکے ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی معنے آیت: مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کے کئے گئے یعنی سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس کیا حضرت عیسی رسول نہیں تھے جو فوت سے باہر رہ گئے پھر باوجود اس اجماع کے فیج اعوج کے زمانہ کی تقلید کر نادیانت سے بعید ہے.امام مالک کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں.پس جبکہ سلف الائمہ کا یہ مذہب ہے تو دوسروں کا بھی یہی مذہب ہوگا.اور جن بزرگوں نے اس حقیقت کے سمجھنے میں خطا کی وہ خطا خدا تعالیٰ کے نزدیک درگزر کے لائق ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۶،۵۵) اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت ہو گئے ہیں کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو بعض صحابہ کا یہ بھی خیال تھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے اور پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کی ناک اور کان کاٹیں گے تو اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور یہ آیت پڑھی: مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ يعنى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی ہیں اور تمام انبیاء گزشتہ پہلے ان سے فوت ہو چکے ہیں.تب صحابہ جو سب کے سب موجود تھے رضی اللہ عنہم سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک فوت ہو گئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ کوئی نبی بھی زندہ نہیں اور کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت عیسی اس آیت کے مفہوم سے باہر ہیں اور وہ اب تک زندہ ہیں.اور کیا ممکن تھا کہ عاشقان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو سکتے کہ ان کا نبی تو چھوٹی سی عمر میں فوت ہو گیا اور عیسی چھ سو برسوں سے زندہ چلا آتا ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا بلکہ وہ تو اس خیال سے زندہ ہی مر جاتے پس اسی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کے سامنے یہ آیت پڑھ کر ان کو تسلی دی : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور اس آیت نے ایسا اثر صحابہ کے دل پر کیا کہ وہ مدینہ کے بازاروں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے گویا اُسی دن وہ نازل ہوئی تھی.اور اسلام میں یہ اجماع تمام اجتماعوں سے پہلا تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں.....معلوم ہوتا ہے کہ اس اجماع سے پہلے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی وفات پر ہوا بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ ابھی اس عقیدہ سے بے خبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے صدیق رضی اللہ عنہ کو اس آیت کے عنانے کی ضرورت پڑی اور اس آیت کے سننے کے بعد سب نے یقین کر لیا که تمام گزشتہ لوگ داخل قبور ہو چکے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۸۵،۲۸۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ سورة ال عمران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہوسکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسی زندہ ہیں.مگر اب صدیق اکبر کی آیت مدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے.ابوبکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اجتماع میں تمام صحابہ شریک تھے.ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی.اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسیح موعود کی باہم ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہوگی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب ان کا ظہور ہوگا سو حضرت ابوبکر اور مسیح موعود کے وقت میں ایسا ہی ہوا.یعنی حضرت ابوبکر کے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صد ہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے اور صرف دو مسجد میں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی.حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کو اسلام پر قائم کیا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآن شریف میں مذکور ہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر ان کا ذکر ہے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۸۶،۲۸۵ حاشیه ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ کی وفات سے سخت صدمہ گزرا تھا اور اسی صدمہ کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے بعض منافقوں کے کلمات سن کر فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور منافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے.پس چونکہ یہ خیال غلط تھا اس لئے اول حضرت ابوبکر صدیق حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر آئے اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر سے چادر اٹھا کر پیشانی مبارک کو بوسہ دیا اور کہا : أنت طيب حَيًّا وَ مَيْتًا لَن تَجْمَعَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْمَوْتَيْنِ إِلَّا مؤتتك الأولى یعنی تو زندہ اور میت ہونے کی حالت میں پاک ہے خدا تعالیٰ ہرگز تیرے پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا مگر پہلی موت.اس قول سے مطلب یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں واپس نہیں آئیں گے اور پھر تمام اصحاب رضی الله عَنْهُمْ کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور حسن اتفاق سے اس دن تمام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۳۶ سورة ال عمران صحابہ جو زندہ تھے مدینہ میں موجود تھے پس سب کو جمع کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے منبر پر چڑھ کر یہ آیت پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اعقابکم یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی ہیں اور پہلے اس سے سب نبی فوت ہو چکے ہیں.پس کیا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم لوگ دین کو چھوڑ دو گے؟ یہ پہلا اجماع تھا جو صحا بہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ میں ہوا.جس سے ثابت ہوا کہ کل نبی فوت ہو چکے ہیں جن میں حضرت عیسی بھی داخل ہیں اور یہ کہنا کہ خلت کے معنوں میں زندہ آسمان پر جانا بھی داخل ہے یہ سراسر ہٹ دھرمی ہے کیونکہ عرب کی تمام لغت دیکھنے سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زندہ آسمان پر جانے کے لئے بھی خلت کا لفظ آ سکتا ہے.ماسوا اس کے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے خَلَت کے معنے دوسرے فقرہ میں خود بیان فرما دیئے ہیں کیونکہ فرمایا: آفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ.پس خَلَت کے معنے دوصورتوں میں محدود کر دیئے ؛ ایک یہ کہ طبعی موت سے مرنا، دوسرے قتل کئے جانا.ورنہ تشریح یوں ہونی چاہئے تھی : أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ أَوْ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ مَعَ جِسْمِهِ الْعُنْصُری یعنی اگر مر جائے یا قتل کیا جائے یا مع جسم آسمان پر اٹھادیا جائے.یہ تو بلاغت کے بر خلاف ہے کہ جس قدر معنوں پر خلت کا لفظ بقول مخالفین مشتمل تھا.ان میں سے صرف دو معنے لئے اور تیسرے کا ذکر تک نہ کیا.ماسوا اس کے اصل مطلب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ دوسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہیں آئیں گے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر بوسہ دینے کے وقت حضرت ابو بکر نے اس کی تصریح بھی کر دی تھی تو بہر حال مخالف کو ماننا پڑے گا کہ کسی طرح حضرت عیسی دنیا میں نہیں آسکتے گو بفرض محال زندہ ہوں ورنہ غرض استدلال باطل ہو جائے گی اور یہ صحابہ کا اجماع وہ چیز ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا.( براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۳۷۶،۳۷۵ حاشیه ) یہ صحیح نہیں ہے کہ خلت کا لفظ اور تمام نبیوں کے لئے تو وفات دینے کے لئے آتا ہے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان معنوں پر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو مع جسم عنصری آسمان پر اٹھا لیا.یہ دعوی سراسر بے دلیل ہے.اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی بلکہ جہاں جہاں قرآن شریف میں خَلتُ کا لفظ آیا ہے وفات کے معنوں پر ہی آیا ہے اور کوئی شخص قرآن شریف سے ایک بھی ایسی نظیر پیش نہیں کر سکتا کہ ان معنوں پر آیا ہو کہ کوئی شخص مع جسم عصری آسمان پر اٹھایا گیا.ماسوا اس کے جیسا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة ال عمران میں ابھی بیان کر چکا ہوں خدا تعالیٰ نے انہیں آیات میں حکت کے لفظ کی خود تشریح فرما دی ہے اور حکت کے مفہوم کو صرف موت اور قتل میں محدود کر دیا ہے.یہی آیت شریفہ ہے جس کی رو سے صحابہ رضی اللہ عَنْهُمْ کا اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ تمام نبی اور رسول فوت ہو چکے ہیں اور کوئی ان میں سے دنیا میں واپس آنے والا نہیں بلکہ اس اجماع کی اصل غرض یہی تھی کہ دنیا میں واپس آنا کسی کے لئے ممکن نہیں اور اس اجماع سے اس خیال کا ازالہ مطلوب تھا کہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے.اس صورت میں ظاہر ہے کہ اگر اسلام میں کسی نبی کا دنیا میں واپس آنا تسلیم کیا جاتا تو اس آیت کے پڑھنے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیال کا ازالہ غیر ممکن ہوتا اور ایسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کسر شان تھی بلکہ ایسی صورت میں حضرت ابوبکر کا اس آیت کو پڑھنا ہی بے محل تھا.غرض یہ آیت بھی وہ عالی شان آیت ہے کہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا بلند آواز سے اعلان کرتی ہے.فالحمد لله على ذالك (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۲،۳۹۱) میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی.پھر آپ کا وجود باجود وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپ نے وفات پائی تو صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہو گئے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوارمیان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر جدا کر دوں گا اس جوش کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی انہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور خطبہ پڑھا: مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پاچکے.اب آپ غور کریں اور سوچ کر بتائیں کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی اور اس سے آپ کا کیا مقصد اور منشاء تھا اور پھر ایسی حالت میں کہ کل صحابہ موجود تھے میں یقیناً کہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے صحابہ کے دل پر سخت صدمہ تھا اور اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سنیں ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمر رضی اللہ جیسا جلیل القدر صحابی اس جوش کی حالت میں ہو ان کا غصہ فرو نہیں ہوسکتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورة ال عمران بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلی کا موجب ہوتی اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق تھے اور آپ کی حیات کے سوا کسی اور کی حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے پھر کیوں کر اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو وفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے یعنی جب حضرت ابو بکر نے خطبہ پڑھا تو ان کا جوش فرو ہو گیا اس وقت صحابہ مدینہ کی گلیوں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے اور وہ سمجھے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے.اس وقت حسان بن ثابت نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا: كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَين عليك عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتادیا تھا کہ سب مر گئے اس لیے حسان نے بھی کہہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں.یقیناً سمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہ پر سخت شاق تھی اور ڈو ان کو گوارا نہیں کر سکتے تھے اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میں حضرت مسیح کی وفات کا بھی کلی فیصلہ ہو چکا تھا میں بار بار اس امر میں اس لیے زور دیتا ہوں کہ یہ دلیل بڑی ہی زبردست دلیل ہے جس سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کوئی معمولی اور چھوٹا امر نہ تھا جس کا صدمہ صحابہ کو نہ ہوا ہو.ایک گاؤں کا نمبر دار یا محلہ دار یا گھر کا کوئی عمدہ آدمی مر جاوے تو گھر والوں ، محلہ والوں یا دیہات والوں کو صدمہ ہوتا ہے پھر وہ نبی جو کل دنیا کے لیے آیا تھا اور رحمتہ للعالمین ہو کر آیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ۱۰۸).اور پھر دوسری جگہ فرمایا: قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا اور وہ کمالات دکھائے کہ جن کی نظیر نظر نہیں آتی وہ فوت ہو جاوے اس کے ان جاں نثار متبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دے دینے سے دریغ نہ کیا، جنہوں نے وطن چھوڑا ، خویش واقارب چھوڑے اور اس کے لیے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکلات کو اپنے لیے راحت جان سمجھا.ایک ذرا سے فکر اور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ جس قدر بھی دکھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر سکتے ان کی تسلی اور تسکین کا موجب یہی آیت تھی کہ حضرت ابوبکر نے پڑھی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ سورة ال عمران اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں صحابہ کو سنبھالا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض نادان اپنی جلد بازی اور شتاب کاری کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت تو بیشک حضرت ابو بکر نے پڑھی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام اس سے باہر رہ جاتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ ایسے نادانوں کو میں کیا کہوں وہ باوجود مولوی کہلانے کے ایسی بیہودہ باتیں پیش کر دیتے ہیں وہ نہیں بتاتے کہ اس آیت میں وہ کون سا لفظ ہے جو حضرت عیسی کو الگ کرتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تو کوئی امر قابل بحث اس میں چھوڑا ہی نہیں قَدْ خَلَتْ کے معنے خود ہی کروائے آقا بِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ اگر کوئی تیسری شق بھی اس کے سوا ہوتی تو کیوں نہ کہ دیتا او رُفِعَ بِجَسَدِ الْعُنْصُرِي إِلَى السَّمَاءِ کیا خدا تعالیٰ اس کو بھول گیا تھا جو یہ یاددلاتے ہیں؟ نعوذ باللہ من ذالك ! (احکام جلد ۰ انمبر ۳۲ مورخه ۱۷ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) یہ کہنا کہ حضرت عیسی کا دوبارہ دنیا میں آنا اجماعی عقیدہ ہے یہ سراسر افترا ہے.صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے.اجماع صرف اس آیت پر ہوا تھا کہ : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ - پھر بعد ان کے اُمت میں طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے چنانچہ معتزلہ اب تک حضرت عیسی کی وفات کے قائل ہیں اور بعض اکابر صوفیہ بھی ان کی موت کے قائل ہیں اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر امت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیا کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲ حاشیه ) اس بات پر زور دینا کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آئیں گے یہ عجیب افتراء ہے جو سمجھ نہیں آتا.اگر اتفاق سے مراد صحابہ کا اتفاق ہے تو یہ اُن پر تہمت ہے اُن کی تو بلا کو بھی اس مستحدث عقیدہ کی خبر نہیں تھی کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آجائیں گے اور اگر اُن کا یہ عقیدہ ہوتا تو اس آیت کے مضمون پر روروکر کیوں اتفاق کیا جاتا کہ : مَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے اور اُن سے پہلے سب رسول دنیا سے گزر گئے ہیں.پس اگر حضرت عیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک دنیا سے نہیں گزرے تھے اور اُن کو اُس وقت تک ملک الموت چھو نہیں گیا تھا تو اس آیت کے سننے کے بعد کیوں کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عقیدہ سے رجوع کر لیا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے.ہر ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ سورة ال عمران کو معلوم ہے کہ یہ آیت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُس دن تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں پڑھ کر سنائی تھی جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی اور وہ پیر کا دن تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دفن نہیں کئے گئے تھے اور عائشہ صدیقہ کے گھر میں آپ کی میت مطہر تھی کہ شدت درد فراق کی وجہ سے بعض صحابہ کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں فوت نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو خطرناک سمجھ کر اُسی وقت تمام صحابہ کو جمع کیا اور اتفاق حسنہ سے اُس دن گل صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تھے تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے دوست ایسا ایسا خیال کرتے ہیں مگر سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لئے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے.اس سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا جو فوت نہیں ہوا پھر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی: ما مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے.سو جیسے پہلے اس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں آپ بھی فوت ہو گئے.تب اس آیت کو ٹن کر تمام صحابہ چشم پر آب ہو گئے اور انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ پڑھا اور اس آیت نے اُن کے دلوں میں ایسی تاثیر کی کہ گویا اُسی روز نازل ہوئی تھی.چنانچہ بعد اس کے حستان بن ثابت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ مرثیہ بنایا: كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَبِى عَلَيْكَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی تو میری آنکھوں کی پتلی تھا.میں تو تیری موت سے اندھا ہو گیا.اب بعد اس کے جو چاہے مرے مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا.اس شعر میں حسان بن ثابت نے تمام نبیوں کی موت کی طرف اشارہ کیا ہے گویا وہ کہتا ہے کہ ہمیں اس کی کیا پروا ہے کہ موسیٰ مرگیا ہو یا عیسی مرگیا ہو.ہمارا ما تم تو اس نبی محبوب کے لئے ہے جو آج ہم سے علیحدہ ہو گیا اور آج ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہو گیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں بھی مبتلا تھے کہ گویا حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آئیں گے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پیش کر کے یہ غلطی دور کر دی اور اسلام میں یہ پہلا اجماع تھا کہ سب نبی فوت ہو چکے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة ال عمران غرض اس مرثیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابوھریرہ) وہ اپنی غلط فہمی سے عیسی موعود کے آنے کی پیشگوئی پر نظر ڈال کر یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسی ہی آجائیں گے جیسا کہ ابتداء میں ابو ہریرہ کو بھی یہی دھو کہ لگا ہوا تھا اور اکثر باتوں میں ابوہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا چنانچہ ایک صحابی کے آگ میں پڑنے کی پیشگوئی میں بھی اس کو یہی دھوکہ لگا تھا.....غرض تمام صحابہ کا اجماع حضرت عیسی کی موت پر تھا بلکہ تمام انبیاء کی موت پر اجماع ہو گیا تھا اور یہی پہلا اجماع تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا.اسی اجماع کی وجہ سے تمام صحابہ حضرت عیسی کی موت کے قائل تھے اور اسی وجہ سے حسان بن ثابت نے مذکورہ بالا مرثیہ بنایا تھا جس کا ترجمہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد جو شخص چاہے مرے.عیسی ہو یا موسی مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا.اور در حقیقت صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور ان کو کسی طرح یہ بات گوارا نہ تھی کہ عیسیٰ جس کا وجود شرک عظیم کی جڑ قرار دیا گیا ہے زندہ ہو اور آپ فوت ہو جائیں.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُن کو یہ معلوم ہوتا کہ حضرت عیسی آسمان پر مع جسم عنصری زندہ بیٹھے ہیں اور اُن کا برگزیدہ نبی فوت ہو گیا تو وہ مارے غم کے مرجاتے کیونکہ ان کو ہرگز اس بات کی برداشت نہ تھی کہ کوئی اور نبی زندہ ہو اور اُن کا پیارا بی قبر میں داخل ہو جائے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴ تا ۳۷) جو شخص حضرت عیسی کو آیت : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سے باہر رکھتا ہے اُس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ عیسی انسان نہیں ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت ابو بکر کا اس آیت سے استدلال صحیح نہیں ٹھہرتا کیونکہ جبکہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ مع جسم عنصری موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کوان کی تسلی ہو سکتی تھی؟ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵ حاشیه ) حضرت عیسی نے جو میرے قتل کرنے کے لئے چراغ دین کو عصا د یا معلوم نہیں کہ یہ جوش اور غضب کیوں اُن کے دل میں بھڑ کا ؟ اگر اس لئے ناراض ہو گئے کہ میں نے اُن کا مرنا دنیا میں شائع کیا ہے تو یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة ال عمران اُن کی غلطی ہے یہ میں نے شائع نہیں کیا بلکہ اُس نے شائع کیا ہے جس کی مخلوق ہماری طرح حضرت عیسیٰ بھی ہیں اگر شک ہو تو یہ آیت دیکھیں : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور نیز یہ آیت : فَلَمَّا تَوَليتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ (المائدة : ۱۱۸) اور تعجب کہ جس کو وہ میرے ہلاک کرنے کے لئے عصا دیتے ہیں وہ آپ ہی ہلاک ہو جاتا ہے یہ خوب عصا ہے.سنا ہے کہ دوسرے چراغ دین یعنی عبد الحکیم خان نے بھی میری موت کے بارے میں کوئی پیشگوئی پہلے چراغ دین کی طرح کی ہے مگر معلوم نہیں کہ اُس میں کوئی عصا کا بھی ذکر ہے یا نہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۶ حاشیه ) أيصِرُونَ عَلى حَيَاةِ عِيسَى وَيُخْفُونَ کیا یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی پر اصرار إجْمَاعًا اتَّفَقَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ کرتے ہیں اور اس اجتماع کو چھپاتے ہیں جس پر سارے أَجْمَعُونَ وَيَتَّبِعُونَ غَيْرَ سَبِیلِ قَوْمٍ کے سارے صحابہ متفق ہو گئے تھے اور وہ صحابہ جنہوں نے أَدْرَكُوا صُحْبَةً رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحبت پایا یہ لوگ ان کا راستہ وَسَلَّمَ وَكُلُّ وَاحِدٍ مِّنْهُمُ اسْتَفَاضَ چھوڑ کر دوسرے کی پیروی کرتے ہیں ان صحابہ میں سے ہر ایک مِنَ النَّبِي وَتَعَلَّمَ وَانْعَقَدَ إِجْمَاعُهُمْ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ کیا اور سیکھا اور عَلَى مَوْتِ عِيسَى، وَهُوَ الْإِجْمَاعُ الْأَوَّلُ ان کا موت مسیح پر اجماع ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ رَسُولِ اللهِ وَيَعْلَمُهُ الْعَالِمُونَ کی وفات کے بعد وہ صحابہ کا پہلا اجماع ہے اور تمام علم أَنَسِيْتُمْ قَوْلَ اللهِ: قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ والے اسے جانتے ہیں کیا تم خدا تعالیٰ کے قول : قَدْ خَلَتْ الرُّسُلُ أَوْ أَنْتُمْ لِلْكُفْرِ مُتَعَمِّدُونَ؟ وَقَدْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کو بھول گئے یا تم بالا رادہ کفر کے مرتکب مَاتَ عَلى هَذَا الْإِجْمَاعِ مَنْ كَانَ مِن ہو رہے ہو حالانکہ اسی اجماع کے عقیدہ پر تمام صحابہ نے الصَّحَابَةِ ثُمَّ مِرْتُمْ شِيَعًا وَهَبَّتْ وفات پائی پھر تم گروہ در گروہ ہو گئے اور تم میں تفرقہ کی ہوا فِيْكُمْ رِيحُ التَّفْرِقَةِ وَمَا أُوتِيتُمْ چل پڑی.تمہارے پاس حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی سُلْطَانًا عَلى حَيَاتِهِ وَ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا پر کوئی دلیل نہیں ہے تم صرف گمان کی پیروی کرتے ہو.پھر تَظُنُّونَ وَقَدْ قَالَ اللهُ حِكَايَةٌ عَن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کی زبان سے : فلما تولیتَنِی کا عِيسَى: فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي فَلَا تُفَكِّرُونَ في فقرہ بیان فرمایا ہے لیکن تم اللہ تعالیٰ کے اس قول پر غور قَوْلِ اللهِ وَلَا تَتَوَجَّهُونَ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ نہیں کرتے اور نہ اس طرف توجہ کرتے ہو کیا تم زیادہ b
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورة ال عمران ام الله أَوْ تَقُولُونَ مَا لَا تَعْلَمُونَ - جانتے ہو یا اللہ؟ یا تم وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں (الاستفتاء حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۶۵،۶۶۴) جانتے.( ترجمہ از مرتب ) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کیا ہے تو میں اسے قتل کروں گا ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق نے بڑی جرات اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا: مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہی ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر نبی ہوگزرے ہیں سب نے وفات پائی ہے اس پر وہ جوش فرو ہوا.احکم جلد ۹ نمبر۱۷ مورخہ ۱۷ارمئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) تمام صحابہ کی شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی پر یہ ہوتی ہے کہ سب نبی مر گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کہ ابھی نہیں مرے اور تلوار کھینچ کر کھڑے ہو جاتے ہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر یہ خطبہ پڑھتے (ہیں): ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.اب اس موقع پر جو ایک قیامت ہی کا میدان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کل صحابہ جمع ہیں یہاں تک کہ اسامہ کا لشکر بھی روانہ نہیں ہوا.حضرت عمرؓ کے کہنے پر حضرت ابو بکر بآواز بلند کہتے ہیں کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور اس پر استدلال کرتے ہیں: مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُول سے.اب اگر صحابہ کے وہم و گمان میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہوتی تو ضرور بول اٹھتے مگر سب خاموش ہو گئے اور بازاروں میں یہ آیت پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ گویا یہ آیت آج اتری ہے.معاذ اللہ ! صحابہ منافق نہ تھے جو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے رعب میں آکر خاموش ہو رہے اور حضرت ابوبکر کی تردید نہ کی.نہیں! اصل بات یہی تھی جو حضرت ابوبکر نے بیان کی اس لیے سب نے گردن جھکا لی.یہ ہے اجماع صحابہ کا.حضرت عمرہ بھی تو یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئیں گے اگر یہ استدلال کامل نہ ہوتا ( اور کامل تب ہی ہوتا کہ کسی قسم کا استثناء نہ ہوتا کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے اور انہوں نے پھر آنا تھا تو پھر یہ استدلال کیا ؟ یہ تو ایک مسخری ہوتی.) تو خود حضرت عمررؓ ہی تردید کرتے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة ال عمران جبکہ آیت میں استثنا نہ تھا اور امر واقعی یہی تھا اس لیے سب صحابہ نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کر لیا.......اب مولویوں سے پوچھو کہ ابوبکر دانشمند تھا یا نہیں ؟ کیا یہ وہ ابو بکر نہیں جو صدیق کہلایا ؟ کیا یہی وہ شخص نہیں جو سب سے پہلے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنا جس نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی که مخطر ناک ارتداد کی وباء کو روک دیا.اچھا اور باتیں جانے دو یہی بتاؤ کہ ابوبکر" کو منبر پر چڑھنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ پھر تقویٰ سے یہ بتاؤ کہ انہوں نے جو : ما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پڑھا تو اس سے استدلال تام کرنا تھا یا ایسا ناقص کہ ایک بچہ بھی کہہ سکتا کہ عیسی کو موٹی سمجھنے والا کا فر ہوتا ہے.افسوس ان مخالفوں نے میری مخالفت اور عداوت میں یہی نہیں کہ قرآن کو چھوڑا بلکہ میری عداوت نے ان کی یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ صحابہ کی کل جماعت پر انہوں نے اپنے طریق عمل سے کفر کا فتویٰ دے دیا.اور حضرت ابوبکر صدیق کے استدلال کو استخفاف کی نظر سے دیکھا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۷ اراپریل ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) ایک سنت یہ بھی تھی کہ آپ فوت ہو گئے قرآن شریف میں تھا کہ : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی سب مر گئے وہ بھی مرے گا خدا کی بات پوری ہو گئی کہ آپ مر گئے.البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۸) تلاش کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی تک کل اہل اسلام کا یہی مذہب رہا کہ کل نبی فوت ہو گئے ہیں چنانچہ صحابہ کرام کا بھی یہی مذہب تھا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی صحابہ کا اجماع ہوا.حضرت عمر وفات کے منکر تھے اور وہ آپ کو زندہ ہی مانتے تھے، آخر ابو بکر نے آکر : مَا مُحَمَّد الا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ کی آیت سنائی تو حضرت عمر اور دیگر صحابہ کو آپ کی موت کا یقین آیا اور اگر صحابہ کرام کا یہ عقیدہ ہوتا کہ کوئی نبی زندہ ہے تو سب اٹھ کر ابو بکر کی خبر لیتے کہ ہمارا عقیدہ مسیح کی نسبت ہے کہ وہ زندہ ہے تو کیسے کہتا ہے کہ سب نبی فوت ہو گئے ؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہ ہوں اگر بعض مرتے اور بعض زندہ ہوتے تو کسی قسم کا افسوس نہ ہوتا مگر غریب سے لے کر امیر تک سب مرتے ہیں پھر مسیح کو کیسے زندہ مانا جاوے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۶) قرآن شریف کے صریح الفاظ سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ نے قتل نبی حرام کیا ہو بلکہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة ال عمران آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت لکھا ہے آفَابِنُ مَاتَ أَوْ قُتِلَ جس سے قتل انبیاء کا جواز معلوم ہوتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ رستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۵۷) اس پیغمبر کی شان میں جو افضل الرسل ہے یہ بے ادبی نہ کرو کہ حضرت مسیح کو اس سے افضل قرار دو.کیا تم نہیں جانتے کہ آپ کی وفات پر صحابہ کی کیا حالت ہوئی تھی؟ وہ دیوانہ وار پھرتے تھے آپ کی زندگی ان کو ایسی عزیز تھی کہ حضرت عمر نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر اڑا دوں گا.اس شور پر حضرت ابو بکر آئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر بوسہ دیا کہ آپ پر خدا دو موتیں جمع نہ کرے گا اور پھر یہ آیت پڑھی: مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں آپ سے پہلے جس قدر رسول آئے ہیں سب وفات پاگئے ہیں صحابہ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت اب اتری ہے انہوں نے معلوم کیا کہ آپ کے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے.تم میں وہ عشق اور محبت نہیں جو صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علی وسلم سے تھی ورنہ تم یہ بھی روا نہ رکھتے کہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل زندہ کہتے میں سچ کہتا ہوں کہ اگر صحابہ کے سامنے اس وقت کوئی کہتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہتا وہ اس قدر آپ کے عشق اور محبت میں فنا شدہ تھے.حسان بن ثابت نے اس موقعہ پر ایک مرشہ لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں.كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی اے میرے پیارے نبی ! تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھی اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کیا غم کروں ؟ عیسی مرے یا موسیٰ مرے، کوئی مرے مجھے تو تیرے ہی مرنے کا غم تھا.صحابہ کی تو یہ حالت تھی مگر اس زمانہ میں اپنے منہ سے اقرار کرتے ہیں کہ نہیں ! افضل الانبیاء وفات پاگئے اور حضرت مسیح زندہ ہیں.افسوس ! مسلمانوں کی حالت کیا سے کیا ہو گئی ؟ میں خوب جانتا ہوں اور اس واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا پہلا اجتماع مسیح کی وفات ہی پر ہوا تھا پھر ان کے خلاف کرنا یہ کون سی عقلمندی اور تقویٰ ہے میں یہ مانتا ہوں کہ یہ غلطیاں امتداد زمانہ کی وجہ سے ہیں ، تقویٰ نہیں رہا، جہالت بڑھ گئی ہے، رو بحق ہونا کم ہو گیا ہے، راہ راست مجوب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۶ سورة ال عمران ہو گیا ہے اور یہی امور ہیں جو میری ضرورت کے داعی ہیں.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷رستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۶) یہ کیا ہی مبارک اجماع تھا اگر یہ اجماع نہ ہوتا تو بڑا بھاری فتنہ اسلام میں پیدا ہوتا.اسلام میں سب سے پہلا اجماع : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ہی پر ہوا ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا منشاء تو اس صدمہ ہی کو دور کرنا تھا اور وہ مرگ یاراں جشنے دارد ہی سے دور ہونا تھا.اگر اس آیت کے استدلال میں حضرت مسیح کو مستی کیا جاتا تو صحابہ کے درد کا کیا علاج ہوتا ؟ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسیح سے کم درجہ پر تھے جو زندہ نہ رہتے ؟ قد خلت کے معنے تو خود اسی آیت میں آفابن مات او قتل نے کر دیے ہیں کیا اس میں رُفِعَ بِجَسَدِهِ الْعُنْصُرِی بھی کہیں لکھا ہے؟ غرض جس طرح پر کسی کی قوت شامہ ماری جاوے تو اسے خوشبو کا حاسہ نہیں رہتا اسی طرح پر ان لوگوں کی ایمانی قوت شامہ مرگئی ہے جو مسیح کوزندہ آسمان پر لے جاتے ہیں اگر یہ عقیدہ صحیح ہے تو پھر حالت بہت خطرناک ہے یہی عقیدہ ان کی خدائی کی پہلی اینٹ قرار دیا گیا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۷ اسرا گست ۱۹۰۵ صفحه ۴) کہتے ہیں کہ خلت کے معنے موت کے نہیں مگر یہ تو ان کی غلطی ہے اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے خَلتُ کے معنے کر دئیے ہیں آفاین ماتَ اَوْ قُتِل اگر اس کے سوا کوئی اور معنے ہوتے جو یہ کرتے ہیں تو پھر دُفع بِجَسَدِهِ الْعُنصري بھی ساتھ ہوتا.مگر قرآن شریف میں تو ہے نہیں، پھر ہم کیوں کر تسلیم کر لیں.ایسی صورت میں درمیانی زمانہ کی شہادت کو ہم کیا کریں؟ اور پھر تعجب یہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اس مذہب کے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس کی وفات کا اقرار کیا ہے.(الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر پہلا اجماع یہی کیا کہ مسیح فوت ہو گیا جیسا کہ بار ہا میں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر تلوار نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو اس کا سر اڑا دوں گا اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا : مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر سب رسول وفات پاچکے ہیں.اب بتاؤ اس میں مسیح یا کسی اور کی کیا خصوصیت ہے؟ کیا حضرت ابو بکر نے کسی کو باہر رکھ لیا تھا اور صحابہ کب گوارا کر سکتے تھے کہ وہ کسی اور کو تو ندہ تسلیم کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ تجویز کریں کہ آپ نے وفات پائی ہے غرض صحابہ کا اجماع بھی موت پر مہر کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۴)
۲۴۷ سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلیل قاطع ہے جو اس آیت کے رو سے اجماع تھا: مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ (البدر جلد نمبر ۳۳ مورخه ۶ /نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴) خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ - انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ہر بات کو قبل از وقت سمجھتا ہے اس لیے جب اس کی کوئی محبوب چیز جاتی رہے تو پھر ضر ور غمگین ہوتا ہے یہ ایک فطرتی تقاضا ہے صحابہ کی حالت کا کون انداز کرسکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تھی ان کو تو قریباً ایک قسم کا جنون ہو گیا تھا اس غم میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں ان پر آیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوتو وہ جوش آیا کہ انہوں نے تلوار ہی نکال لی کہ جو شخص کہے گا کہ آپ وفات پاگئے ہیں میں اسے قتل کر دوں گا گویا وہ یہ لفظ بھی سنا نہ چاہتے تھے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور آیت : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ پڑھی تو ان کا جوش فرو ہوا.یہ آیت دراصل ایک جنگ میں نازل ہوئی تھی جبکہ شیطان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز دی گئی مگر اس وقت جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو پڑھا تو صحابہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت ابھی اتری ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) عقیدہ میں یہ بات ہے کہ حضرت عیسی کو ہم اور نبیوں کی طرح فوت شدہ مانتے ہیں اور ایک مسلمان کی محبت جو اسے اپنے متبوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ جب آپ فوت ہو گئے تو ان کے بعد کسی کو زندہ نہ سمجھے.صحابہ کرام کس قدر درد والم میں تھے جب : مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ سنا تو سب کو ٹھنڈ پڑ گئی.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۷ صفحه ۶) خلت کا لفظ قرآن شریف کے محاورے میں ہر گز کسی ایسے شخص کے واسطے استعمال نہیں ہوا جو زندہ ہو بلکہ ہمیشہ وفات یافتہ لوگوں پر ہی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی یہی معنے کیسے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر جب حضرت عمر نے جوش محبت اور وفور الفت کی وجہ سے تلوار کھینچ لی تھی اور آپ ننگی تلوار لیے گلیوں میں پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ جو کوئی کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اس کی گردن مار دوں گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورة ال عمران حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس واقع سے خبر پا کر مسجد میں آئے اور منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں ابتداء یہی آیت پڑھی: مَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَا بِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اعقابکم الا اس وقت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ) اس آیت کو سن کر رو پڑے اور یہ سمجھا کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے اور حضرت عمر نے بھی جن کو اتنا جوش تھا کہ تلوار لیے پھرتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی وفات نہیں پائی اس خطبہ کے بعد تلوار چھوڑ دی اور پھر کبھی کوئی ایسا ذکر نہ کیا.اب ظاہر ہے کہ اگر صحابہ میں سے کسی ایک نفس واحد کا بھی یہ اعتقاد ہوتا کہ حضرت عیسی زندہ جسم عنصری آسمان پر ہیں تو کیوں وہ اس وقت اعتراض نہ کرتے اور کہتے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی قوم کا رسول تو زندہ ہے پر ہمارا رسول جس کو خدا نے تمام جہان کے واسطے قیامت تک کی تمام انسانی نسلوں کے لیے بلا کسی خصوصیت کے بھیجا.وہ تو ستر برس تک بھی زندہ نہ رہ سکے ؟ پس صحابہ کا سکوت اور خاموشی اور کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ تمام صحابہ حضرت عیسی کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ یقین کرتے تھے اور کسی ایک کا بھی ہرگز یہ اعتقاد نہ تھا کہ وہ آسمان پر زندہ جسم عصری خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اور یہ اسلام میں سب سے پہلا اجماع ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۴ راگست ۱۹۰۸ صفحه ۲) وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ كِتبًا مُوجَلًا وَ مَنْ يُرِدُ ثوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَ سَنَجْزِي الشكِرِينَ سچ تو یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی جاندار پر حقیقی موت وارد نہ کرے وہ مر نہیں سکتا.اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جاوے...مَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۵ حاشیه ) قرآن شریف میں ہے مَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ - تَمُوت میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں ایسے ہی ہدایت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة ال عمران وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي (۱۴۸ اَمْرِنَا وَثَبِّتُ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.یعنی اے ہمارے خدا! ہمارے گناہ بخش اور جو اپنے کاموں میں ہم حد سے گزر جاتے ہیں وہ بھی معاف فرما.پس ظاہر ہے کہ اگر خدا گناہ بخشنے والا نہ ہوتا تو ایسی دُعا ہر گز نہ سکھلاتا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵) سَنُلْقِى فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ b بِهِ سُلْطَنَا ۚ وَمَا وَلهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّلِمِينَ عنقریب ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے.(۱۵۲) (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۷۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) b لا ثُمَّ انْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِ آمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَى طَابِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ اِنَّ الْأَمْرَ كُلَّةَ لِلَّهِ يُخْفُونَ فى أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٍ مَا قُتِلُنَاهُهُنَا قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إلى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ، وَاللهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِه ط ج (۱۵۵) اس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے: يَقُولُونَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ اور اس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے، یہ ان کی غلط فہمی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ امر کے معنے حکم اور حکومت کے ہیں اور یہ بعض ان لوگوں کا خیال تھا جنہوں نے کہا کہ کاش اگر حکومت میں ہما را دخل ہوتا تو ہم ایسی تدابیر کرتے جس سے یہ تکلیف جو جنگ احد میں ہوئی ہے پیش نہ آتی.اس کے جواب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۰ سورة ال عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُلْ إِنَّ الأمر كله لله یعنی تمام امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں تمہیں اپنے رسول کریم کا تابع رہنا چاہیئے.اب دیکھنا چاہیئے کہ اس آیت کو قدر سے کیا تعلق ہے؟ سوال تو صرف بعض آدمیوں کا اتنا تھا کہ اگر ہماری صلاح اور مشورہ لیا جاوے تو ہم اس کے مخالف صلاح دیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو منع فرمایا کہ اس امر کی اجتہاد پر بنا نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ج (جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱، ۲۳۲) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَو كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا ج نَفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُم وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِينَ 17.) یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو ان پر نرم ہوا اور اگر تو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نز دیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہو جاتے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ایک شخص نے اپنی خانگی تکالیف کا ذکر کیا.فرمایا : پورے طور پر خدا پر توکل یقین اور امید رکھو تو سب کچھ ہو جاوے گا اور ہمیں خطوط سے ہمیشہ یاد کراتے رہا کرو ہم دعا کریں گے.البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ / نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۷) انسان کو مشکلات کے وقت اگر چہ اضطراب تو ہوتا ہے مگر چاہیے کہ تو کل کو کبھی بھی ہاتھ سے نہ دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بدر کے موقعہ پر سخت اضطراب ہوا تھا چنا نچہ عرض کرتے تھے کہ : يَارَبِّ اِن أهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا مگر آپ کا اضطراب فقط بشری تقاضا سے تھا کیونکہ دوسری طرف تو کل کو آپ نے ہر گز ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا آسمان کی طرف نظر تھی اور یقین تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا.یاس کو قریب نہیں آنے دیا تھا.ایسے اضطرابوں کا آنا تو انسانی اخلاق اور مدارج کی تکمیل کے واسطے ضروری ہے مگر انسان کو چاہیے کہ یاس کو پاس نہ آنے دے کیونکہ یاس تو کفار کی صفت ہے.الحکم جلد نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۳) تو کل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کیے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ (اے ) خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صد ہا آفات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة ال عمران ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کو بھی بربا دو تہ و بالا کر سکتے ہیں ان کی دست برد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا.تو کل ایک طرف سے تو ڑ اور ایک طرف جوڑ کا نام ہے.احکام جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) البدر جلد ۲ نمبر ۹ مورخه ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۶) جب انسان خدا پر سے بھروسا چھوڑتا ہے تو دہریت کی رگ اس میں پیدا ہو جاتی ہے خدا پر بھروسہ اور ایمان اس کا ہوتا ہے جو اسے ہر بات پر قادر جانتا ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹۲) اسلام کی خدمت جو شخص درویشی اور قناعت سے کرتا ہے وہ ایک معجزہ اور نشان ہو جاتا ہے جو جمعیت کے ساتھ کرتا ہے اس کا مزا نہیں آتا.کیونکہ توکل علی اللہ کا پورا لطف نہیں رہتا اور جب تو کل پر کام کیا جاوے تو خدا مدد کرتا ہے اور یہ باتیں روحانیت سے پیدا ہوتی ہیں جب روحانیت انسان کے اندر پیدا ہو تو وہ وضع بدل دیتا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح پر صحابہ کی وضع بدل دی؟ یہ سارا کام اس کشش نے کیا جو صادق کے اندر ہوتی ہے.یہ خیالات باطل ہیں کہ کئی لاکھ روپیہ ہو تو کام چلے خدا تعالی پر توکل کر کے جب ایک کام شروع کیا جاوے اور اصل غرض اس کے دین کی خدمت ہو تو وہ خود مددگار ہو جاتا ہے اور سارے سامان اور اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.(الحکم جلدے نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ رجون ۱۹۰۳ صفحه ۴) جولوگ اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھے رہنے کا نام خدا پر بھروسہ ہے.اسباب سے کام لینا اور خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قومی کو کام میں لگانا.یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدر ہے جو لوگ ان قومی سے کام نہیں لیتے اور منہ سے کہتے ہیں کہ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں وہ بھی جھوٹے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے ( بلکہ ) خدا تعالیٰ کو آزماتے ہیں اور اس کی عطا کی ہوئی قوتوں اور طاقتوں کو اغو قرار دیتے ہیں اور اس طرح پر اس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے مفہوم سے دور جا پڑتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا ظہور چاہتے ہیں.یہ مناسب نہیں! جہاں تک ممکن اور طاقت ہو رعایت اسباب کرے لیکن ان اسباب کو اپنا معبود اور مشکل کشا قرار نہ دے بلکہ کام لے کر پھر تفویض الی اللہ کرے اور اس بات پر سجدات شکر بجالائے کہ اسی خدا نے وہ قومی اور طاقتیں اس کو عطا فرمائی ہیں.وو الحکم جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ /اپریل ۱۹۰۵ ء صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۲ سورة ال عمران انسان کو چاہیے کہ تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دیوے اور خدا پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوسکتی.خدا پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خدا پر چھوڑے اس کا نام تو کل ہے.اگر وہ تد بیر نہیں کرتا اور صرف تو کل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا (جس کے اندر کچھ نہ ہو ) ہوگا اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا پر تو کل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی (جس کے اندر کچھ نہ ہو) ہوگی.ایک شخص اونٹ پر سوار تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دیکھا تعظیم کے لیے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے چنانچہ اس نے اپنے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے واپس آکر آنحضرت صلی اللہ وسلم سے شکایت کی کہ میں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا آپ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی پہلے اونٹ کا گھنٹا باندھتا اور پھر توکل کرتا تو ٹھیک ہوتا.(البدر جلد ۳ نمبر ۹ مورخه یکم مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۲) ایک روز میں لے حضور اقدس کی خدمت میں اندر بیٹھا تھا خدا تعالیٰ پر توکل کی بات چل پڑی حضور اقدس نے فرمایا: میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت جس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی ایسا ہی جب اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے..اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ : جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے جو ذوق وسرور خدا تعالیٰ پر توکل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.اور فرمایا : ان دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والد صاحب اور بھائی صاحب طرح طرح کے ہموم و عموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کر رشک کھاتے اور فرماتے تھے کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب آدمی ہے اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۴) یعنی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رض
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة ال عمران وَمَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَغُلَ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَ يَوْمَ الْقِيمَةِ ثُمَّ تُوَقُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ) عیسائی بیان کرتے ہیں کہ انبیاء بھی اسی طرح گناہ کر سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے لوگ اور یہ کہ انبیاء اور دوسرے لوگوں میں اس بارہ میں کوئی فرق نہیں.قرآن شریف اس کی تردید کرتا ہے وہ اس بارے میں انبیاء اور دوسرے لوگوں میں صاف تمیز کرتا ہے جب بعض لوگوں نے شک کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے زیادہ حصہ لے لیا ہے تو خدائے تعالیٰ نے ان کے شبہات کا اس طرح جواب دیا: مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَغْلَ ( ترجمہ ) نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے جس طرز میں خداوند تعالیٰ نے جواب دیا ہے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گناہ کے بارے میں خدا تعالیٰ انبیاء کو اور دوسرے لوگوں کو مساوات کی نظر سے نہیں دیکھتا.خدائے تعالیٰ ان کے شبہوں کا یوں جواب دے سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں کوئی خیانت نہیں کی، برخلاف اس کے خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی نبی ایسا کام کرے.اس سے معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک انبیاء اور دوسرے لوگ گناہ کے معاملہ میں مساوی نہیں ہیں جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے.خدا یہاں ایک قسم کے گناہ کا ذکر اس لیے کرتا ہے کہ موجودہ صورت میں اسی قسم کا الزام لگایا گیا تھا اور یہی الزام تھا جس سے خدائے تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بری کرنا چاہتا تھا.ریویو آف ریلیجنز جلد ۲ نمبر ۶ صفحه ۲۴۲) لَقَد مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ (۱۶۵) ج صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور انہیں نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہو گئی تھی.لیکن بعد میں جب وہ زمانہ جاتا رہا اور اس زمانہ پر صد ہا سال گزر گئے تو پھر ذریعہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورة ال عمران یقین کا کون سا تھا؟ سچ ہے کہ قرآن شریف ان کے پاس تھا اور قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ بس قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے کبھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جوہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ اور کی باہمی نے فرما دیا کہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.غرض جب خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا تو ہر ایک طالب حق کے لئے ضروری ہوا کہ اسی جہاں میں آنکھوں کا نور تلاش کرے اور اس زندہ مذہب کا طالب ہو جس میں زندہ خدا کے انوار نمایاں ہوں.وہ مذہب مردار ہے جس میں ہمیشہ کے لئے یقینی وحی کا سلسلہ جاری نہیں کیونکہ وہ انسانوں پر یقین کی راہ بند کرتا ہے اور ان کو قصوں کہانیوں پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کو خدا سے نومید کرتا اور تاریکی میں ڈالتا ہے اور کیوں کر کوئی مذہب خدا نما ہوسکتا اور کیوں کر گناہوں سے چھڑا سکتا ہے؟ جب تک کوئی یقین کا ذریعہ اپنے پاس نہیں رکھتا اور جب تک سورج نہ چڑھے کیوں کر دن چڑھ سکتا ہے.پس دنیا میں سچا مذہب وہی ہے جو بذریعہ زندہ نشانوں کے یقین کی راہ دکھلاتا ہے باقی لوگ اس زندگی میں دوزخ میں گرے ہوئے ہیں.بھلا بتاؤ کہ ظن بھی کوئی چیز ہے جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ شائد یہ بات صحیح ہے یا غلط.یاد رکھو کہ گناہ سے پاک ہونا بجر یقین کے بھی ممکن نہیں.فرشتوں کی سی زندگی بجو یقین کے کبھی ممکن نہیں.دنیا کی بے جا عیاشیوں کو ترک کرنا بجر یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لیتا اور خدا کی طرف ایک خارق عادت کشش سے کھینچے جانا بجر یقین کے کبھی ممکن نہیں.زمین کو چھوڑ نا اور آسمان پر چڑھ جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقومی کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة ال عمران ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پرواہ ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ سمجھنا بجز یقین کے ہرگز ممکن نہیں.نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۸ تا ۴۷۰) وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِم يُرْزَقُونَ فى فَرِحِيْنَ بِمَا أَللهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ لا لا يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِم اَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ KI یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ کے راہ میں قتل کئے گئے تم اُن کو مُردے نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے رزق مل رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۶) مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے.....وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ - فَرِحِينَ بِمَا الهُمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱) یادر ہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں.وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ اختیاری یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں.وو (تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۷) جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کی نسبت یہ گمان مت کرو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں خدا تعالیٰ سے اُن کو رزق ملتا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۸) قرآن شریف صاف طور پر بتاتا ہے کہ کفار جو بار بار عذاب مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تم پر عذاب بصورت جنگ نازل ہوگا آخر جب وہ سلسلہ عذاب کا شروع ہوا اور کفار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیاں ہونے لگیں تو کون کہہ سکتا ہے؟ کہ ان جنگوں میں صحابہ شہید نہیں ہوئے.حالانکہ یہ مسلم بات ہے کہ وہ تو کفار پر عذاب تھا اور خاص ان کے ہی لیے آیا تھا مگر صحابہ کو بھی چشم زخم پہنچا اور بعض جو علم الہی میں مقدر تھا شہید ہو گئے.جن کی بابت خود اللہ تعالیٰ نے فرما یا لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة ال عمران في سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ.یعنی جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتل کیے جاویں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں اور اسی جگہ ان کی نسبت فرمایا: فَرِحِينَ بِمَا الهم الله - اب بتاؤ کہ وہ جنگ ایک ہی قسم کا تھا لیکن وہ کفار کے لیے عذاب تھا مگر صحابہ کے لیے باعث شہادت.اسی طرح پر اب بھی حالت ہے لیکن انجام کار دیکھنا چاہیے کہ طاعون سے فائدہ کس کو رہتا ہے ہم کو یا ہمارے مخالفین کو اس وقت معلوم ہوگا کہ کون کم ہوئے اور کون بڑھے.احکام جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوهُم فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ.ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں.سو تم لوگوں سے ڈرو.پس ڈرانے سے اور بھی ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے یعنی ان کی شجاعت کتوں اور درندوں کی طرح نہیں ہوتی جو صرف طبعی جوش پر مبنی ہو جس کا ایک ہی پہلو پر میل ہو بلکہ ان کی شجاعت دو پہلو رکھتی ہے کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں مگر نہ اپنے نفس کا بھروسہ کر کے بلکہ خدا پر بھروسہ کر کے بہادری دکھاتے ہیں.اس آیت میں ) یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑھ صبر اور ثابت قدمی ہے اور ہر ایک جذ بہ نفسانی یا بلا جو دشمنوں کی طرح حملہ کرے اس کے مقابلہ پر ثابت قدم رہنا اور بزدل ہوکر بھاگ نہ جانا یہی شجاعت ہے.سوانسان اور درندہ کی شجاعت میں بڑا فرق ہے.درندہ ایک ہی پہلو پر جوش اور غضب سے کام لیتا ہے اور انسان جو حقیقی شجاعت رکھتا ہے وہ مقابلہ اور ترک مقابلہ میں جو کچھ قرین مصلحت ہو وہ اختیار کر لیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۰،۳۵۹) ج وَلَا يَحْزُنُكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ : إِنَّهُم لَن يَضُرُّوا اللهَ شَيْئًا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۷ سورة ال عمران يُريدُ اللهُ اَلَا يَجْعَلَ لَهُمْ حَقًّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ o اور تجھے کافروں کی بداندیشی سے غم ناک نہیں ہونا چاہئے وہ خدا کے دین کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے اور ان کے لئے خدا نے بزرگ عذاب مقرر کر رکھا ہے.b (براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۳ حاشیہ نمبر ۱۱) مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَبِيْزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَأمِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ ۱۸۰ ص ج اجرٌ عَظِيمٌ یہ بیچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جل شانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دُعائیں جو ظاہری اُمیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دے دیتا ہے تب اُن کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دُعائیں سنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے ہمیں نجات بخشتا ہے.اسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے اگر چہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آسکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے.یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دُعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر تجلی فرماتا ہے اور اپنی رُوح اُس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دُعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اس کو نبی یا محدث کہتے ہیں اور بچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالی آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اول نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہو پیدا ہوتے ہیں.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سورة ال عمران اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (حم السجدة : ۳۱) سو یہی معیار حقیقی سچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے.قف (حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۲، ۴۳) كتُبُلَونَ فِي اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ " وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۖ وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (^2) تم اپنے مالوں اور جانوں میں بھی آزمائے جاؤ گے ، لوگ تمہارے مال لوٹیں گے تمہیں قتل کریں گے اور تم یہودیوں اور عیسائیوں اور مشرکوں کے ہاتھ سے بہت ہی ستائے جاؤ گے.وہ بہت کچھ ایڈا کی باتیں تمہارے حق میں کہیں گے.پس اگر تم صبر کرو گے اور بیجا باتوں سے بچو گے تو یہ ہمت اور بہادری کا کام ہو گا.ان تمام آیات کا مطلب یہ ہے کہ بابرکت علم وہی ہوتا ہے جو عمل کے مرتبہ میں اپنی چمک دکھاوے اور منحوس علم وہ ہے جو صرف علم کی حد تک رہے کبھی عمل تک نوبت نہ پہنچے.جاننا چاہئے کہ جس طرح مال تجارت سے بڑھتا ہے اور پھولتا ہے ایسا ہی علم عملی مزاولت سے اپنے روحانی کمال کو پہنچتا ہے.سو علم کو کمال تک پہنچانے کا بڑا ذریعہ عملی مزاولت ہے.مزاولت سے علم میں نور آ جاتا ہے اور یہ بھی سمجھو کہ علم کا حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچنا اور کیا ہوتا ہے؟ یہی تو ہے کہ عملی طور پر ہر ایک گوشہ اس کا آزمایا جاوے.چنانچہ اسلام میں ایسا ہی ہوا.جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھا یا ان کو یہ موقع دیا کہ عملی طور پر اس تعلیم کو چمکا ویں اور اس کے نور سے پر ہو جاویں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۶) ایسے لوگوں سے افسوس ہی کیا ہے اگر وہ اپنے سخت الفاظ سے ہمارا دل دُکھاویں تو ہمیں صبر کرنا چاہیئے.جب تک کہ ہمارا اور اُن کا خدا تعالیٰ فیصلہ کرے اور اسی صبر کے لئے خدا تعالیٰ کے قرآن شریف میں یہ تعلیم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے...البتہ تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤ گے اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت دل آزار باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور جوش اور اشتعال سے اپنے تیں بچاؤ گے تو یہ بات ہمت کے کاموں سے ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۵)
۲۵۹ سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اور تم یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے مشرکوں سے بہت کچھ دل دکھانے کی باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور ہر یک طور کی بے صبری اور اضطراب سے پر ہیز کرو گے تو اُن لوگوں کے مکر کچھ بھی تمہارا بگاڑ ( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۹ حاشیہ نمبر ۱۱) نہیں سکیں گے.تم اہل کتاب اور دوسرے مخلوق پرستوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے.تب اگر تم صبر کرو گے اور زیادتی سے بچو گے تو تم خدا کے نزدیک اولوا العزم شمار کئے جاؤ گے.البلاغ فریاد درد، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۹۱،۳۹۰) قرآن شریف میں بھی آخری زمانہ میں پادریوں اور مشرکوں کا اسلام پر اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بدگوئی اور فحش گوئیوں کے ساتھ زبان کھولنا بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: وَلَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا یعنی تم اہلِ کتاب اور مشرکوں سے دلآزار اور دُکھ دینے والی باتیں بہت سنو گے.سوجس قدر اس زمانہ میں دل آزار باتیں سنی گئیں اُن کی نظیر تیرہ سو برس میں نہیں پائی گئی.اس لئے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہی زمانہ ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۱۲ حاشیه ) اہل علم مسلمان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بارے میں ایک پیشگوئی ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے وصیت کے طور پر ایک حکم ہے جس کو ترک کرنا سچے قف مسلمان کا کام نہیں ہے اور وہ یہ ہے: لَتُبْلُونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ وَ لَتَسْمَعُنَ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمور - سورة آل عمران - ترجمہ یہ ہے کہ خدا تمہارے مالوں اور جانوں پر بلا بھیج کر تمہاری آزمائش کرے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکوں سے بہت سی دکھ دینے والی باتیں سنو گے سو اگر تم صبر کرو گے اور اپنے تئیں ہر ایک ناکردنی امر سے بچاؤ گے تو خدا کے نزدیک اولو العزم لوگوں میں سے ٹھہرو گے.یہ مدنی سورۃ ہے اور یہ اس زمانہ کے لیے مسلمانوں کو وصیت کی گئی ہے کہ جب ایک مذہبی آزادی کا زمانہ ہو گا کہ جو کچھ کوئی سخت گوئی کرنا چاہے وہ کر سکے گا جیسا کہ یہ زمانہ ہے.سو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے لیے تھی اور اسی زمانہ میں پوری ہوئی کون ثابت کر سکتا ہے کہ جو اس آیت میں آدمی کینیڈا کا لفظ ایک عظیم الشان ایذارسانی کو چاہتا ہے اور کبھی کسی صدی میں اس سے پہلے اسلام نے دیکھی ہے؟ اس صدی سے پہلے عیسائی مذہب کا یہ طریق نہ تھا کہ اسلام پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۰ سورة ال عمران گندے اور نا پاک حملے کرے بلکہ اکثر اُن کی تحریریں اور تالیفیں اپنے مذہب تک ہی محدود تھیں قریباً تیرھویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا جس کے اول بانی ہمارے ملک میں پادری فنڈل صاحب تھے بہر حال اس پیشگوئی میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ جب تم دل آزار کلمات سے دکھ دیے جاؤ اور گالیاں سنو تو اس وقت صبر کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا.سو قر آنی پیشگوئی کے مطابق ضر ور تھا کہ ایسا زمانہ بھی آتا کہ ایک مقدس رسول کو جس کی امت سے ایک حصہ کثیر دنیا کا پُر ہے، عیسائی قوم جیسے لوگ جن کا تہذیب کا دعوی تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ ! زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دنیا کے سب بد تروں سے بدتر ٹھہراتے بیشک یہ ان لوگوں کے لیے بڑے رنج کی بات ہے جو اس پاک رسول کی راہ میں فدا ہیں.اور ایک دانشمند عیسائی بھی احساس کر سکتا ہے کہ جب مثلاً ایسی کتاب امہات المومنین میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ زناکار کے نام سے پکارا گیا اور گندے سے گندے تحقیر کے الفاظ آنجناب کے حق میں استعمال کئے گئے اور پھر عمد اہزار کا پی اس کتاب کی محض دلوں کے دکھانے کے لیے عام اور خاص مسلمانوں کو پہنچائی گئی اس سے کس قدر دردناک زخم عام مسلمانوں کو پہنچے ہوں گے اور کیا کچھ ان کے دلوں کی حالت ہوئی ہوگی اگرچہ بدگوئی میں یہ کچھ پہلی ہی تحریر نہیں ہے بلکہ ایسی تحریروں کی پادری صاحبوں کی طرف سے کروڑ ہا تک نوبت پہنچ گئی ہے مگر یہ طریق دل دکھانے کا ایک نیا طریق ہے کہ خواہ مخواہ غافل اور بے خبر لوگوں کے گھروں میں یہ کتابیں پہنچائی گئیں اور اسی وجہ سے اس کتاب پر بہت شور بھی اٹھا ہے باوجود اس بات کے کہ پادری عمادالدین اور پادری ٹھا کر داس کی کتابیں اور نور افشاں کی پچیس سال کی مسلسل تحریر میں سختی میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں یہ تو سب کچھ ہوا مگر ہمیں آیت موصوفہ بالا میں یہ تاکیدی حکم ہے کہ جب ہم ایسی بدزبانی کے کلمات سنیں جس سے ہمارے دلوں کو دکھ پہنچے تو ہم صبر کریں.(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۱۹٬۳۱۸) لا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُونَ بِمَا اَتَوا وَ يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ دو، يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيم 119 اور چاہتے ہیں کہ ان کاموں کے ساتھ تعریف کئے جائیں جن کو وہ کرتے نہیں سو تو یہ گمان مت کر کہ یہ لوگ عذاب سے بچ جائیں گے ان کے لئے ایک دردناک عذاب مقرر ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۱،۲۶۰ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۱ سورة ال عمران اِنَّ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَا يَتِ لِأُولِي الأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ١٩٢ یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی جستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں.دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے، کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکر اور تدیر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند ! تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہر یک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے.( برا این احمد یہ چهار تص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۳۰۶٬۳۰۵ حاشیہ نمبر ۱۱) رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی جب دانشمند اور اہل عقل انسان زمین اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ میں غور کرتے اور رات اور دن کی کمی بیشی کے موجبات اور علل کو نظر عمیق سے دیکھتے ہیں انہیں اس نظام پر نظر ڈالنے سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل ملتی ہے.پس وہ زیادہ انکشاف کے لئے خدا سے مدد چاہتے ہیں اور اس کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور کروٹ پر لیٹ کر یاد کرتے ہیں جس سے ان کی عقلیں بہت صاف ہو جاتی ہیں.پس جب وہ ان عقلوں کے ذریعہ سے اجرام فلکی اور زمینی کی بناوٹ احسن اور اولی میں فکر کرتے ہیں.تو بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ایسا نظام ابلغ اور محکم ہرگز باطل اور بے سود نہیں بلکہ صانع حقیقی کا چہرہ دکھلا رہا ہے.پس وہ الوہیت صانع عالم کا اقرار کر کے یہ مناجات کرتے ہیں یا الہی تو اس سے پاک ہے کہ کوئی تیرے وجود سے انکار کر کے نالائق صفتوں سے تجھے موصوف کرے.سو تو ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا.یعنی تجھ سے انکار کرنا عین دوزخ ہے اور تمام آرام اور راحت تجھ میں اور تیری شناخت میں ہے.جو شخص کہ تیری کچی شناخت سے محروم رہا وہ در حقیقت اسی دنیا میں آگ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۴) میں ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۲ سورة ال عمران اہل اسلام وہ قوم ہے جن کو جا بجا قرآن میں یہی رغبت دی گئی ہے کہ وہ فکر اور خوض میں مشق کریں اور جو کچھ عجائبات صنعت زمین و آسمان میں بھرے پڑے ہیں ان سے واقفیت حاصل کریں.مومنوں کی تعریف میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے.يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا باطلا مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الہی ان پر کھلتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدایا تو نے ان صنعتوں کو بیکار پیدا نہیں کیا یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں سے اس کو اس قسم کے تعلقات ہیں بلکہ وہ صنعت کی کمالیت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۹۱، ۱۹۲) فما لَنا أَن لَّا نُقِرَ بِتَأْثِيرَاتِ ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم ان اشیاء کی تاثیرات کا اقرار نہ أَشْيَاء قَدْ ذَكَرَهَا اللهُ تَعَالى في الْقُرْآنِ کریں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں فرمایا ہے الْعَظِيمِ، بَلْ فَضَّلَهَا عَلى أَكْثَرِ النَّعْمَاءِ بلکہ اکثر نعمتوں پر فضیلت دی ہے اور اپنے بندوں کو اس وَحَقِّ عِبَادَة عَلى أَن يُفَكِّرُوا في خَلْقٍ بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین اور ان میں السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ آيَاتِهَا وَقَالَ إِنَّ پائے جانے والے نشانوں پر غور کریں چنانچہ فرمایا: اِنَّ في فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ وَالنَّهَارِ لايت لأولي الألْبَابِ وَالْحَقُ أَنَّ لأولى الْأَلْبَابِ اور حق بات یہی ہے کہ سورج چاند اور تأييرَاتِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَ النُّجُومِ ستاروں کی تاثیرات ایسی چیزیں ہیں جن کو لوگ ہر وقت اور نى يَرَاهُ الْخَلْقُ فِي كُلِّ وَقْتٍ وَحِينٍ ہر آن مشاہدہ کرتے ہیں اور اس سے انکار کی کوئی گنجائش (حمامة البشری، روحانی خزائن جلد کے صفحہ ۲۸۷) نہیں.(ترجمہ از مرتب) ، آسمانوں کی بناوٹ اور زمین کی بناوٹ اور رات اور دن کا آگے پیچھے آنا دانشمندوں کو اس اللہ کا صاف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة ال عمران رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۱،۷۰) پتا دیتے ہیں جس کی طرف مذہب اسلام دعوت کرتا ہے.اس آیت میں کس قدر صاف حکم ہے کہ دانشمندا اپنی دانشوں اور مغزوں سے بھی کام لیں اور جان لیں کہ اسلام کا خدا ایسا گورکھ دھندا نہیں کہ اسے عقل پر پتھر مار کر بجبر منوایا جائے اور صحیفہ فطرت میں کوئی بھی ثبوت اس کے لیے نہ ہو بلکہ فطرت کے وسیع اوراق میں اس کے اس قدر نشانات ہیں جو صاف بتلاتے ہیں کہ وہ ہے.ایک ایک چیز اس کا ئنات میں اس نشان اور تختہ کی طرح ہے جو ہر سڑک یا گلی کے سر پر اس سڑک یا محلہ یا شہر کا نام معلوم کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں.خدا کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اس موجود ہستی کا پتہ ہی نہیں بلکہ مطمئن کر دینے والا ثبوت دیتی ہے زمین و آسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اور بناوٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں بلکہ اس خدائے اَحد الصَّمَدُ لَم يَلِدْ وَلَمْ يُولد کی ہستی کو دکھاتی ہیں جو زندہ اور قائم خدا ہے اور جسے اسلام پیش کرتا ہے.طبعی تحقیقا تیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں توحید ہی توحید نکلتی چلی جائے گی.اللہ تعالیٰ اس آيت إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ الآیۃ میں بتلاتا ہے کہ جس خدا کو قرآن پیش کرتا ہے اس کے لیے زمین آسمان دلائل سے بھرے پڑے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۱) قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولوالالباب فرمایا ہے.پھر اس کے آگے فرماتا ہے : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمُ الآية -.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جل شانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں.یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہوسکتی ہیں نہیں ! بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی.اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نو ر الہی سے دیکھتا ہے.صحیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو، فکر کرو ، سوچو، تدبر اور فکر کے لیے قرآن کریم میں بار بار تاکید میں موجود ہیں.کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پارس طبع ہو جاؤ.جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے.پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلا سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تمہارے دل سے نکلے گا.اس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة ال عمران بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء، صفحہ ۷۲، ۷۳) رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيمَانِ اَنْ أمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ۱۹۴ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک منادی کی آواز سنی کہ جولوگوں کو ایمان کی طرف بلاتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۲) اے ہمارے پروردگار! ہم نے پکارنے والے کوسنا.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۳۸) اے ہمارے خدا! ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز کو سنا جو کہتا تھا کہ اپنے ایمان کو درست کرو اور نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۰۲) قوی کرو.ج فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أَضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِّن ذَكَرٍ اَوْ اُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ فَالَذِينَ هَاجَرُوا وَ أَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ أوذُوا فِي سَبِيلِي وَ قَتَلُوا وَ قُتِلُوا لَا كَفَرَنَ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَ b لأدخِلَنَّهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللهِ وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ 197 میں تم میں سے کسی عامل کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو خواہ عورت ہو.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُم تُفْلِحُونَ یعنی اے ایمان والو! دشمنوں کی ایذا پر صبر کرو اور با ایں ہمہ مقابلہ میں مضبوط رہو اور کام میں لگے رہو اور خدا سے ڈرتے رہو تا تم نجات پا جاؤ.سو اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی ہمیں یہی ہدایت ہے کہ ہم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة ال عمران جاہلوں کی تو ہین اور تحقیر اور بدزبانیوں اور گالیوں سے اعراض کریں اور ان تدبیروں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں کہ کیوں کر ہم بھی ان کو سزا دلاویں.بدی کے مقابل پر بدی کا ارادہ کرنا ایک معمولی بات ہے کمال میں داخل نہیں.کمال انسانیت یہ ہے کہ ہم حتی الوسع گالیوں کے مقابل پر اعراض اور درگزر کی خواختیار کریں.( البلاغ - فریاد درد، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۹۲،۳۹۱) اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں.اے مومنو! صبر اور مصاہرت اور مرابطت کرو.رباط ان گھوڑوں کو کہتے ہیں جو دشمن کی سرحد پر باندھے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ صحابہ کو اعدا کے مقابلہ کے لیے مستعد رہنے کا حکم دیتا ہے اور اس رباط کے لفظ سے انہیں پوری اور سچی تیاری کی طرف متوجہ کرتا ہے.ان کے سپر د دو کام تھے ؛ ایک ظاہری دشمنوں کا مقابلہ اور ایک وہ روحانی مقابلہ کرتے تھے اور رباط لغت میں نفس اور انسانی دل کو بھی کہتے ہیں.اور پھر ایک لطیف بات ہے کہ گھوڑے وہی کام آتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں.آج کل گھوڑوں کی تعلیم و تربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ان کو سدھا یا سکھایا جاتا ہے جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام میں تعلیم دی جاتی ہے اگر ان کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل نکھے ہوں اور وہ بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں.یہ اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ انسانوں کے نفوس یعنی رباط بھی تعلیم یافتہ چاہئیں اور ان کے قویٰ اور طاقتیں ایسی ہونی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ کی حدود کے نیچے نیچے چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ اس حرب اور جدال کا کام نہ دے سکیں گے جو انسان اور اس کے خوفناک دشمن یعنی شیطان کے درمیان اندرونی طور پر ہر لحظہ اور ہر آن جاری ہے جیسا کہ لڑائی اور میدان جنگ میں علاوہ قوائے بدنی کے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری ہے اسی طرح اس اندرونی حرب اور جہاد کے لیے نفوس انسانی کی تربیت اور مناسب تعلیم مطلوب ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شیطان اس پر غالب آ جائے گا اور وہ بہت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوگا مثلاً اگر ایک شخص توپ و تفنگ، اسلحہ، حرب بندوق و غیره تو رکھتا ہولیکن اس کے استعمال اور چلانے سے ناواقف محض ہو تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کبھی عہدہ برآنہیں ہوسکتا اور تیر و تفنگ اور سامان حرب بھی ایک شخص رکھتا ہو اور ان کا استعمال بھی جانتا ہو لیکن اس کے بازو میں طاقت نہ ہو تو بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتا.اس سے معلوم ہوا کہ صرف طریق اور طرز استعمال کا سیکھ لینا بھی کار آمد اور مفید نہیں ہوسکتا جب تک کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۶ سورة ال عمران ورزش اور مشق کر کے بازو میں توانائی اور قوت پیدا نہ کی جاوے.اب اگر ایک شخص جو تلوار چلانا تو جانتا ہے لیکن ورزش اور مشق نہیں رکھتا تو میدان حرب میں جا کر جو نہی تین چار دفعہ تلوار کو حرکت دے گا اور دو ایک ہاتھ مارے گا اس کے بازو نکھے ہو جائیں گے اور وہ تھک کر بالکل بیکار ہو جائے گا اور خود ہی آخر د شمن کا شکار ہو جائے گا......جیسا ابھی میں نے بیان کیا کہ میدان کارزار میں کامیاب ہونے کے لیے جہاں ایک طرف طریق استعمال اسلحہ وغیرہ کی تعلیم اور واقفیت کی ضرورت ہے.وہاں دوسری طرف ورزش اور محل استعمال کی بھی بڑی بھاری ضرورت ہے اور نیز حرب و ضرب میں تعلیم یافتہ گھوڑے چاہیں یعنی ایسے گھوڑے جو تو پوں اور بندوقوں کی آواز سے نہ ڈریں اور گرد و غبار سے پراگندہ ہو کر پیچھے نہ ہٹیں بلکہ آگے ہی بڑھیں اسی طرح نفوسِ انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداء اللہ کے مقابل میدان کارزار میں کامیاب نہیں ہو سکتے.لغت عرب بھی عجیب چیز ہے مقابلہ بھی اسی پر ختم ہے رباط کا لفظ جو آ یہ مذکورہ میں آیا ہے جہاں دنیاوی جنگ و جدل اور فنون جنگ کی فلاسفی پر مشتمل ہے وہاں روحانی طور پر اندرونی جنگ اور مجاہدہ نفس کی حقیقت اور خوبی کو بھی ظاہر کرتا ہے.یہ ایک عجیب سلسلہ ہے......اب دیکھو کہ یہی رباط کا لفظ جو ان گھوڑوں پر بولا جاتا ہے جو سرحد پر دشمنوں سے حفاظت کے لیے باندھے جاتے ہیں ایسا ہی یہ لفظ ان نفسوں پر بھی بولا جاتا ہے جو اس جنگ کی تیاری کے لیے تعلیم یافتہ ہوں جو انسان کے اندر ہی اندر شیطان سے ہر وقت جاری ہے.یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ اسلام کو دو قو تیں جنگ کی دی گئیں تھیں ایک قوت وہ تھی جس کا استعمال صد راول میں بطور مدافعت و انتقام کے ہوا یعنی مشرکین عرب نے جب ستایا اور تکلیفیں دیں تو ایک ہزار نے ایک لاکھ کفار کا مقابلہ کر کے شجاعت کا جو ہر دکھایا اور ہر امتحان میں اس پاک قوت وشوکت کا ثبوت دیا.وہ زمانہ گزر گیا اور رباط کے لفظ میں جو فلاسفی ظاہری قوت جنگ اور فنون جنگ کی مخفی تھی وہ ظاہر ہوگئی ہے.اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں جنگ ظاہری کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں بلکہ ان آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا کیونکہ اس وقت باطنی ارتداد اور الحاد کی اشاعت کے لیے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے اس لیے ان کا مقابلہ بھی اسی
سورة ال عمران تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قسم کے اسلحوں سے ضروری ہے کیونکہ آج کل امن و امان کا زمانہ ہے اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ اور احکام کی بجا آوری کر سکتا ہے پھر اسلام جو امن کا سچا حامی ہے بلکہ حقیقتا امن اور سلم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے کیوں کر اس زمانہ امن و آزادی میں اس پہلے نمونہ کو دکھانا پسند کر سکتا تھا.پس آج کل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۶۵ تا ۶۷).مطلوب ہے.جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ وہ حد سے نہ نکلنے پاوے.اسی طرح تم بھی تیار رہو ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے.....اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو.جس سے خود تم خدائے تعالی کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے.قومیں ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں.اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو.تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے.اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راست بازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے.اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے.بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے.کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے.پگڑی گلے میں ہوتی ہے موریوں اور گندے نالوں میں گرتا پھرتا ہے.پولیس کے جوتے پڑتے ہیں.ہند و اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں.اب اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۱،۸۰) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا صبر ایک نقطہ کی طرح پیدا ہوتا ہے اور پھر دائرہ کی شکل اختیار کر کے سب پر محیط ہو جاتا ہے آخر بد معاشوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان تقومی کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوط قدم مارے کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اس کا رعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۸۲، ۸۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۲۶۹ سورة النساء نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تفسير سورة النِّسَاء بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ياَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَ الأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًان وتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَيذٍ يَمُوجُ في بَعْضٍ وَنُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا (الكهف : ١٠٠) جس سے ظاہر ہے کہ نہایت درجہ کا اختلاف پیدا ہو جائے گا اور سب مذاہب ایک دنگل میں ہو کر نکلیں گے."دنا" کا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آزادی کا زمانہ ہوگا اور یہ آزادی کمال تک پہنچ جائے گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے مامور کی معرفت ان کو جمع کرنے کا ارادہ کرے گا پہلے دیکھو جمعتهم فرمایا اور ود ابتدائے عالم کے لئے خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ فرما یا: لفظ بَثَّ اور جمع آپس میں پورا تناقض رکھتے ہیں گو یا دائرہ پورا ہو کر پھر وہی زمانہ ہو جائے گا پہلے تو وحدت شخصی تھی.اب اخیر میں وحدت نوعی ہو جائے گی.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا یعنی آدم کے وجود میں سے ہی ہم نے اس کا جوڑا پیدا کیا جو حوا ہے تا آدم کا یہ تعلق حوا اور اس کی اولاد سے طبعی ہو نہ بناوٹی اور یہ اس لیے کیا کہ تا آدم زادوں کے تعلق اور ہمدردی کو بقا ہو کیونکہ طبعی تعلقات غير منفك ہوتے ہیں مگر غیر طبعی تعلقات کے لئے بقا نہیں ہے کیونکہ ان میں وہ باہمی کشش
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة النساء نہیں ہے جو طبعی میں ہوتی ہے.غرض خدا نے اس طرح پر دونوں قسم کے تعلق جو آدم کے لیے خدا سے اور بنی نوع سے ہونے چاہیے تھے طبعی طور پر پیدا کیے.ریویو آف ریلیجنز جلد انمبر ۵ صفحه ۱۷۹) وَأتُوا الْيَتَنَى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَهُمْ إِلَى اَمْوَالِكُمْ إِنَّكَ كَانَ حُوبًا كَبِيران تم اچھی چیزوں کے عوض میں خبیث اور ردی چیزیں نہ دیا کرو یعنی جس طرح دوسروں کا مال دبا لیتا نا جائز ہے اسی طرح خراب چیزیں بیچنا یا اچھی کے عوض میں بری دینا بھی نا جائز ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۸،۳۴۷) وَإِنْ خِفْتُمُ اَلَا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَّى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَثَ وَرُبعَ : فَإِنْ خِفْتُمُ اَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ b أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى اَلَا تَعُولُوان یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے.ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشر طیکہ اعتدال کرو اور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو گو ضرورت پیش آوے.چار کی جو حد لگادی گئی ہے وہ اس مصلحت سے ہے کہ تا تم پرانی عادت کے تقاضے سے افراط نہ کرو یعنی صد با تک نوبت نہ پہنچاؤ.یا یہ کہ حرام کاری کی طرف جھک نہ جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعداد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بیدی اور بے قیدی کو رد کر دیا ہے اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سوسو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرام کاری میں مبتلا رہے اور کیا ان کی اولاد جن میں سے بعض راست باز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے؟ (حجتہ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۷) عرب میں صدہا بیو یوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء انگریزوں نے بھی لکھا ہے.قرآن کریم نے ان صد ہانکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا فان خِفْتُمْ اَلَا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةٌ یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھرا ایک ہی رکھوپس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتا ؤ ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہرگز نا ممکن ہے جیسی بعض صورتیں خروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں اور یا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطرتا دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اسی لیے اس قدر تعدد کے لیے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگادی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے.جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا.پس جس نے تعدد ازواج کی رسم کو گھٹایا اور نہایت ہی کم کر دیا اور صرف اس اندازہ پر جواز کے طور پر رہنے دیا جس کو انسان کی تمدن کی ضرورتیں کبھی نہ کبھی چاہتی ہیں کیا اس کو کہہ سکتے ہیں کہ اس نے شہوت رانی کی تعلیم سکھائی ہے؟ آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴، ۴۵) یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اس فعل کو ز نا اور حرام کاری خیال کرتے ہیں.کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکتا.بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ وقت آپڑتی ہے کہ ایک جور و عقیمہ اور ناقابل اولا نکلتی ہے اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ در اصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ سورة النساء حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اُجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کر دیا ہے اور انسان کے تقویٰ کے لیے یہ فعل کیساز بر دست مرد و معین ہے خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق با برکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کے رو سے کر سکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لیے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہو جائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کارروائی کا ہے بیکار اور معطل ہو جاتی ہے لیکن اگر مرد بد شکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کی گل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے ہاں اگر مردا اپنی قوت مردمی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کر سکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہو سکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کے لیے قائم رہتا ہے.جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کے لیے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے بعض اسلام کے مخالف نفس امارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جوان میں پھیل رہی ہے ان کو اس پاک طریق کی کچھ پروا اور حاجت نہیں اس مقام میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلم النبوت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں.شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑا اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے جس کی حضرت داؤد ( مسیح کے باپ ) نے نہ دونہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرنا زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں اور اس پر خبت کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم صدیقہ کی طرف عائد ہوتا ہے اس سے ذرا پر ہیز نہیں کرتے اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں.جانا چاہیے کہ نیکن کے رو سے تعدد نکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہیں عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استقباب پر مہر لگا دی ہے.اے ناخدا ترس عیسائیو! اگر ملہم کے لیے ایک ہی جو رو ہونا ضروری ہے تو پھر کیا تم داؤد جیسے راست باز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الہی کو ملہم ہونے سے خارج کر دو گے.کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة النساء ان انبیاء کا جن کے دلوں پر گویا ہر دم الہام الہی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا نا خوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہورہے تھے ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اس کے حکموں کی کچھ پروانہ کی.وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے نمود اور عاد کو ہلاک کیا، لوط کی قوم پر پتھر برسائے ، فرعون کو معہ تمام شریر جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کر دیا کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نا فرمان پا کر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی.کیا آپ کے خدا کو الہام اتارنے کے لیے کوئی اور آدمی نہیں ملتا تھا یا بہت سی جو رواں کرنے والے ہی اس کو پسند آگئے؟ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی جو رواں کر کے اور پھر روحانی طاقتوں اور قبولیتوں میں سب سے سبقت لے جا کر تمام دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ دوست الہی بننے کے لیے یہ راہ نہیں کہ انسان دنیا میں مخنتوں اور نامردوں کی طرح رہے بلکہ ایمان میں قومی الطاقت وہ ہے جو بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ اٹھا کر پھر باوجودان سب تعلقات کے بے تعلق ہو.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۸۱ تا ۲۸۴) اگر چہ آریہ سماج والے تعدد ازواج کو نظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلاشبہ وہ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جس کے لیے اکثر انسان تعدد ازواج کے لیے مجبور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رہنے کے لیے کوئی احسن طریق اختیار کرے اور لا ولد رہنے سے اپنے تئیں بچاوے اور یہ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی سے اولا د نہیں ہوتی اور یا ہوتی ہے اور بباعث لاحق ہونے کسی بیماری کے مر مر جاتی ہے اور یا لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں مرد کو دوسری بیوی کے نکاح کے لیے ضرورت پیش آتی ہے خاص کر ایسے مرد جن کی نسل کا مفقود ہونا قابل افسوس ہوتا ہے اور ان کی ملکیت اور ریاست کو بہت حرج اور نقصان پہنچتا ہے ایسا ہی اور بہت سے وجوہ تعدد نکاح کے لیے پیش آتے ہیں مگر بالفعل ہم صرف یہ ایک ہی وجہ بیان کر کے قرآن شریف کی اس تعلیم کا جو تعدد ازواج کی ضرورت پیش کرتی ہے وید کی اس تعلیم سے مقابلہ کرتے ہیں جو ضرورت مندرجہ بالا کے پورا کرنے کے لیے وید نے پیش کی ہے.سنو! جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے تعد وازواج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة النساء کو روا رکھا ہے اور منجملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تا بعض صورتوں میں تعدد ازواج نسل قائم رہ جانے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی تو میں بنتی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ کثرت نسل کے لیے نہایت عمدہ طریق تعدد ازواج ہے پس وہ برکت جس کا دوسرے لفظوں میں نام کثرت نسل ہے اس کا بڑا بھاری ذریعہ تعد وازواج ہی ہے یہ تو وہ ذریعہ کثرت نسل کا ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور اس کے برخلاف جو وید نے ذریعہ پیش کیا ہے جس کو وہ نہایت ضروری سمجھتا ہے وہ نیوگ ہے یعنی یہ کہ اگر کسی کے گھر میں پہلی بیوی سے اولاد نہ ہو تو اولاد حاصل کرنے کے لیے دوطریق ہیں.- ایک یہ کہ اس کی اپنی بیوی کسی دوسرے مرد سے منہ کالا کر اوے نہ ایک دن نہ دو دن بلکہ قریباً چودہ سال تک کسی دوسرے مرد سے ناجائز تعلق رکھے یا کم و بیش.اور جو اس غیر مرد سے اولاد ہو وہ مرغیوں کے بچوں کی طرح نصفا نصف تقسیم ہو جائے گی.یعنی نصف بچے تو اس پاکدامن کے خاوند کو ملیں گے اور نصف دیگر اس کو ملیں گے جس کے ساتھ یارا نہ اولاد کے لیے لگایا گیا.اب اگر چہ آریہ صاحبان اس کام سے کچھ بھی نفرت نہیں کرتے مگر میں جانتا ہوں کہ اب بھی کئی کروڑ ہندو اسی آریہ ورت میں ایسے ہوں گے کہ وید کی اس تعلیم کو ان کا دل ہرگز منظور نہیں کرتا ہوگا.اور مسلمانوں کی طرح ضرورت کے وقت دوسری شادی کرتے ہوں گے.اس سے ظاہر ہے کہ شریف ہندوؤں کی فطرت نے بھی ضرورت کے وقت نکاح ثانی کو پسند کیا ہے اگر تم پنجاب میں ہی تلاش کرو تو ہزار ہا دولت مند اور امیر ہندو ایسے نکلیں گے کہ وہ دو دو تین تین بیویاں ہا رکھتے ہوں گے مگر بجز اس قلیل گروہ آریوں کے کوئی شریف با عزت ہندو اس بات کو منظور نہیں کرے گا کہ اپنی جوان خوبصورت بیوی کو رات کو دوسرے کے ساتھ ہم بستر کراوے اگر یہ بے غیرتی نہیں تو پھر بے غیرتی اور بے شرمی کس چیز کا نام ہے؟ مگر کئی بیویاں کرنے کا طریق مسلمانوں کی طرح ہندوؤں میں بھی ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اس وقت کے ہندو راجے بھی برابر اس کے کار بند ہیں اور ہم بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ کئی بیویاں کرنے کا طریق فقط اسی زمانہ میں ہندوؤں میں پیدا نہیں ہوا بلکہ ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے ان کا تعدد ازواج بھی ثابت ہے چنانچہ کرشن جی کی ہزاروں بیویاں بیان کی جاتی ہیں اور اگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تو اس میں شک نہیں کہ دس ہیں تو ضرور ہوں گی.راجہ رام چندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدد ازواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة النساء بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھا ایسا ہی باوانا نک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کیے گئے ہیں ان کی بھی دو بیویاں تھیں.اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لیے ایک ہی بیوی ہو مگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خواه نخواه مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرح لکھی جائے تو بیشک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقص عہد کا مرتکب ہوگا.لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اور حکم شرع پر راضی ہو وے تو اس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بیجا ہوگا اور اس جگہ یہ شل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی.ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدّ داز واج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے.پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لیے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کے لیے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے.کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ نخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ کیا اس مرد نے ان عورتوں سے نکاح کرنا ہے یا اس آریہ سے.جس حالت میں خدا نے تعدد ازواج کو کسی موقع پر انسانی ضرورتوں میں جائز رکھا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے دوسرے نکاح میں رضامندی ظاہر کرتی ہے اور دوسری عورت بھی اس نکاح پر خوش ہے تو کسی کا حق نہیں ہے کہ ان کے اس باہمی فیصلہ کو منسوخ کر دے اور اس جگہ یہ بحث پیش کرنا کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا پہلی بیوی کے حق میں ظلم ہے اور طریق اعتدال کے برخلاف ہے یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی تعصب سے عقل ماری گئی ہے.ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالی کا حرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یا دوسری بیوی کا پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ ضلع کراسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج بجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود بجھتی ہے پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خواہ نخواہ کا دخل ہے اور باایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں.اور یہ کہنا کہ تعدد ازواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اور متعصبانہ خیال ہے ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدد ازواج کی مبارک رسم کے پابند ہو جا ئیں تب تو وہ فسق و فجور اور زنا کاری اور بدکاری سے رُک جاتے ہیں اور یہ طریق ان کو شقی اور پر ہیز گار بنا دیتا ہے ورنہ نفسانی شہوات کا تند اور تیز سیلاب بازاری عورتوں کے دروازہ تک ان کو پہنچا دیتا ہے آخر آتشک اور سوزاک خریدتے یا اور کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کام فسق و فجور کے چھپے چھپے اور کھلے کھلے ان سے صادر ہوتے ہیں جن کی نظیر ان لوگوں میں ہرگز نہیں پائی جاتی جن کی دو دو تین تین دل پسند بیویاں ہوتی ہیں.یہ لوگ تھوڑی مدت تک تو اپنے تئیں روکتے ہیں آخر اس قدر یک دفعہ ان کی ناجائز شہوات جوش میں آتی ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر وہ دریا دن کو یا رات کو تمام اردگرد کے دیہات کو تباہ کر دیتا ہے بیچ تو یہ ہے کہ تمام کام نیت پر موقوف ہیں جو لوگ اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسری بیوی کرنے سے ان کے تقویٰ کا سامان پورا ہو جائے گا اور وہ فسق و فجور سے بیچ جائیں گے یا یہ کہ وہ اس ذریعہ سے اپنی صالح اولاد چھوڑ جائیں گے تو ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ضرور اس بابرکت کام سے حصہ لیں خدا کی جناب میں بدکاری اور بد نظری ایسے ناپاک گناہ ہیں جن سے نیکیاں باطل ہو جاتی ہیں اور آخر اسی دنیا میں جسمانی عذاب نازل ہو جاتے ہیں.پس اگر کوئی تقویٰ کے محکم قلعہ میں داخل ہونے کی نیت سے ایک سے زیادہ بیویاں کرتا ہے اس کے لیے صرف جائز ہی نہیں بلکہ یہ عمل اس کے لیے موجب ثواب ہے جو شخص اپنے تئیں بدکاری سے روکنے کے لیے تعدد ازواج کا پابند ہوتا ہے وہ گویا اپنے تئیں فرشتوں کی طرح بنانا چاہتا ہے میں خوب جانتا ہوں کہ یہ اندھی دنیا صرف جھوٹی منطقوں اور جھوٹی شیخیوں میں گرفتار ہے وہ لوگ جو تقویٰ کی تلاش میں لگے نہیں رہتے کہ کیوں کر حاصل ہو اور تقویٰ کے حصول کے لیے کوئی تدبیر نہیں کرتے اور نہ دعا کرتے ہیں ان کی حالتیں اس پھوڑے کی مانند ہیں جو اوپر سے بہت چمکتا ہے مگر اس کے اندر بجز پیپ کے اور کچھ نہیں اور خدا کی طرف جھکنے والے جو کسی علامت گر کی علامت کی پروا نہیں کرتے وہ تقویٰ کی راہوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة النساء یوں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جیسا کہ ایک گدا روٹی کو اور جو لوگ خدا کی راہ میں مصیبتوں کی آگ میں پڑتے ہیں جن کا دل ہر وقت مغموم رہتا ہے اور خدا کی راہ میں بڑے مقاصد مگر دشوار گذار اُن کی روح کو تحلیل کرتے اور کمر کو توڑتے رہتے ہیں ان کے لیے خدا خود تجویز کرتا ہے کہ وہ اپنے دن یا رات میں سے چند منٹ اپنی مانوس بیویوں کے ساتھ بسر کریں اور اس طرح پر اپنے کوفتہ اور شکستہ نفس کو آرام پہنچا ویں اور پھر سر گرمی سے اپنے دینی کام میں مشغول ہو جاویں.ان باتوں کو کوئی نہیں سمجھتا مگر وہ جو اس راہ میں مذاق رکھتے ہیں.میں نے ہندوؤں کی ہی پستک میں یہ ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک شخص کسی بہت ضروری کام کے لیے کسی طرف جاتا تھا اور راہ میں اس کے ایک خونخوار دریا تھا.اور کوئی کشتی نہیں تھی اور جانا ضروری تھا جب وہ دریا کے کنارہ پر پہنچا تو ایک فقیر کو اس نے دیکھا جس کی سو بیوی تھی جب اس نے اس کی خدمت میں عرض کی کہ آپ دعا کریں کہ میں کسی طرح اس دریا سے پار ہو جاؤں اس فقیر نے کہا کہ تو دریا کے کنارہ پر جا اور اس دریا کو کہہ دے کہ میں تیرے آگے اس فقیر مجرد کا واسطہ ڈالتا ہوں جو تیرے کنارہ پر بیٹھا ہے جس نے ساری عمر میں کسی عورت کو چھوا بھی نہیں.پس اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے راہ دے دے جب اس شخص نے یہ پیغام اس دریا کو پہنچایا تو یہ سنتے ہی دریا نے راہ دے دی اور وہ دریا سے پار ہو گیا اور آتے وقت پھر وہی مشکل تھی اور دوسرے کنارہ پر اور فقیر بیٹھا ہوا تھا جو ہر روز ایک دیگ پلاؤ کی کھاتا تھا یہ شخص اس کے پاس گیا اور اپنی مشکل بیان کی اس نے کہا کہ دریا کو میری طرف سے جا کر کہہ دے کہ میں تیرے آگے اس فقیر کا واسطہ ڈالتا ہوں جو تیرے کنارہ پر بیٹھا ہے جس نے کبھی ایک دانہ اناج کا بھی نہیں کھایا.اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے راہ دے دے.تب فی الفور دریا نے راہ دے دی.چه تو مردان آن راه چون بنگری بنگری که از کینه و بغض کوروکری دانی که ایشان چساں می زیند ز دنیا نهان در نهان می زیند فدا گشت در راه آن جان پناه زکف دل ز سر اوفتاده کلاه ولے ریش رفتہ بکوئے دگر ز تحسین ولعن جہان بے خبر چو بیت المقدس دروں پر زتاب رہا کرده دیوار بیرون خراب (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۴ تا ۲۴۹) کثرت ازدواج کثرت اولاد کا موجب ہے جو ایک برکت ہے.اگر ایک عورت کا سو خاوند ہو تو اس کو سو
۲۷۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء لڑکا پیدا نہیں ہوسکتا لیکن اگر سو عورت کا ایک خاوند ہو تو سولڑ کا پیدا ہونا کچھ بعید نہیں ہے پس جس طریق سے انسان کی نسل پھیلتی ہے اور خدا کے بندوں کی تعداد بڑھتی ہے اس طریق کو کیوں برا کہا جاوے؟ اگر کہو کہ یہ اعتدال کے برخلاف ہے تو یہ خیال باطل ہے کیونکہ جب کہ خدا نے ایک کو مرد بنایا اور زیادہ بچہ پیدا کرانے کا اس میں مادہ رکھا اور عورت کی نسبت اس کو بہت زبر دست قوتیں دیں تو اس صورت میں اعتدال کو تو خدا نے اپنے ہاتھ سے توڑ دیا جن کو خدا نے برابر نہیں کیا وہ کیوں کر برابر ہو جائیں ان کو برابر سمجھنا صریح حماقت ہے.ماسوا اس کے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تعدد ازدواج میں کسی عورت پر ظلم نہیں مثلاً اگر کسی شخص کی پہلی بیوی موجود ہے تو اب دوسری عورت جو اس سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ کیوں ایسے شخص سے شادی کرتی ہے جو پہلے بھی ایک بیوی رکھتا ہے ظاہر ہے کہ وہ تو تبھی شادی کرے گی کہ جب تعد دازدواج پر راضی ہو جائے گی پھر جب میاں بیوں راضی ہو گئے تو پھر دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا.جب حقدار نے اپنا حق چھوڑ دیا تو پھر دوسرے کا اعتراض محض جھک مارنا ہے اور اگر پہلی بیوی ہے تو وہ خوب جانتی ہے کہ اسلام میں دوسری بیوی کر سکتے ہیں تو وہ کیوں نکاح کے وقت میں یہ شرط نہیں کر لیتی کہ اس کا خاوند دوسری بیوی نہ کرے اس صورت میں وہ بھی اپنی خاموشی سے اپنا حق چھوڑتی ہے اور یہ بھی یادر ہے کہ کثرت ازواج خدا کے تعلق کی کچھ حارج نہیں اگر کسی کی دس ہزار بیوی بھی ہو تو اگر اس کا خدا سے پاک اور سلام تعلق ہے تو دس ہزار بیوی سے اس کا کچھ حرج نہیں بلکہ اس سے اس کا کمال ثابت ہوتا ہے کہ ان تمام تعلقات کے ساتھ وہ ایسا ہے کہ گو یا اس کو کسی کے ساتھ بھی تعلق نہیں اگر ایک گھوڑا بوجھ کی حالت میں کچھ چل نہیں سکتا مگر بغیر سواری اور بوجھ خوب چال نکالتا ہے تو وہ گھوڑ ا کس کام کا ہے؟ اسی طرح بہادر وہی لوگ ہیں جو تعلقات کے ساتھ ایسے ہیں کہ گویا بے تعلق ہیں.پاک آدمیوں کی شہوات کو ناپاکوں کی شہوات پر قیاس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نا پاک لوگ شہوات کے اسیر ہوتے ہیں مگر پاکوں میں خدا اپنی حکمت اور مصلحت سے آپ شہوات پیدا کر دیتا ہے اور صرف صورت کا اشتراک ہے جیسا کہ مثلاً قیدی بھی جیل خانہ میں رہتے ہیں اور داروغہ جیل بھی.مگر دونوں کی حالت میں فرق ہے.دراصل ایک انسان کا خدا سے کامل تعلق تبھی ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر بہت سے تعلقات میں وہ گرفتار ہو.بیویاں ہوں اولاد ہو تجارت ہو زراعت ہو اور کئی قسم کے اس پر بوجھ پڑے ہوئے ہوں اور پھر وہ ایسا ہو کہ گویا خدا کے سوا کسی کے ساتھ بھی اس کا تعلق نہیں یہی کامل انسانوں کے علامات ہیں اگر ایک شخص ایک بن میں بیٹھا ہے نہ اس کی کوئی جو رو ہے نہ اولاد ہے نہ دوست ہیں اور نہ کوئی بوجھ کسی قسم کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۹ سورة النساء تعلق کا اس کے دامنگیر ہے تو ہم کیوں کر سمجھ سکتے ہیں کہ اس نے تمام اہل وعیال اور ملکیت اور مال پر خدا کو مقدم کر لیا ہے اور بے امتحان ہم اس کے کیوں کر قائل ہو سکتے ہیں اگر ہمارے سید ومولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے تو ہمیں کیوں کر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جانفشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لا کر صد ہا امتحانوں کے موقع پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیار کالڑ کے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا.ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جولخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے لکھتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں.کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے ایک مرتبہ ایک جنگ کے موقع پر آپ کی انگلی پر تلوارلگی اور خون جاری ہو گیا تب آپ نے اپنی انگلی کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انگلی تو کیا چیز ہے صرف ایک انگلی ہے جو خدا کی راہ میں زخمی ہوگئی.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ نے فرمایا کہ اے عمر تو کیوں روتا ہے.حضرت عمر نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا.قیصر اور کسری جو کافر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں.تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام! میری مثال اس سوار کی ہے کہ جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہے اور جب دو پہر کی شدت نے اس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لیے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اسی گرمی میں اپنی راہ لی.اور آپ کی بیویاں بھی بجز حضرت عائشہ کے سب سن رسیدہ تھیں بعض کی عمر ساٹھ برس تک پہنچ چکی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعدد ازواج سے یہی اہم اور مقدم مقصود تھا کہ عورتوں میں مقاصد دین شائع کیے جائیں اور اپنی صحبت میں رکھ کر علم دین ان کو سکھایا جائے تا وہ دوسری عورتوں کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے ہدایت دے سکیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة النساء یہ آپ ہی کی سنت مسلمانوں میں اب تک جاری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے وقت کہا جاتا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رجِعُونَ (البقرة : ۱۵۷) یعنی ہم خدا کے ہیں اور خدا کا مال ہیں اور اسی کی طرف ہمارا رجوع ہے.سب سے پہلے یہ صدق و وفا کے کلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے تھے پھر دوسروں کے لیے اس نمونہ پر چلنے کا حکم ہو گیا.اگر آنجناب بیویاں نہ کرتے اور لڑکے پیدا نہ ہوتے تو ہمیں کیوں کر معلوم ہوتا کہ آپ خدا کی راہ میں اس قدر فدا شدہ ہیں کہ اولاد کو خدا کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۷ تا ۳۰۰) کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دو دو تین تین چار چار کر کے ہی آئے ہیں.مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے.اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزور ہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے.ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلا میں نہ ڈالے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - (المائدة : ٨٨) حلال پر بھی ایسا زور نہ مارو کہ نفس پرست ہی بن جاؤ.غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر بیویوں ہی کا بندہ ہو جاوے تو بھی غلطی کرتا ہے.ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا.اس کا یہ منشا نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جاؤ.اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تیں بے جا کاروائیوں میں نہ ڈالو.انبیاء علیہم السلام کے لیے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں دیکھو تو ریت میں کا ہنوں کے فرقہ کے ساتھ خاص مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیں اور ہندوؤں کے برہمنوں کے لیے خاص خاص رعایتیں ہیں.پس یہ نادانی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں.الحکم جلد ۲ نمبر ۲ مورخه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ء صفحه ۲) کثرت ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے.ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو.ہاں یہ ایک سچی بات ہے.اور بالکل طبیعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے.مثلاً عورت اندھی ہوگئی یا کسی اور خطرناک ( مرض ) میں مبتلا ہو کر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة النساء اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی.اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں اگر نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو تو بتلاؤ کیا اس سے بدکاری اور بد اخلاقی کو ترقی نہ ہوگی ؟ پھر اگر کوئی مذہب و شریعت کثرت ازدواج کو روکتی ہے تو یقینا وہ بدکاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے.لیکن اسلام جو دنیا سے بداخلاقی اور بدکاری کو دور کرنا چاہتا ہے اجازت دیتا ہے کہ اسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے.ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لاولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے.بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں.پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا.عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے.کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہوگا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا.لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۸) عیسائیوں نے جو مسیح کو خدا بناتے ہیں باوجود خدا بنانے کے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور باتوں کے علاوہ ایک نئی بات مجھے معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ جس یوسف کے ساتھ حضرت مریم کی شادی ہوئی اس کی ایک بیوی پہلے بھی موجود تھی اب غور طلب یہ امر ہے کہ یہودیوں نے تو اپنی شرارت سے اور حد سے بڑھی ہوئی شوخی سے حضرت مسیح کی پیدائش کو نا جائز قرار دیا.اور انہوں نے یہ ظلم پر ظلم کیا کہ ایک تار کہ اور نذر دی ہوئی لڑکی کا اپنی شریعت کے خلاف نکاح کیا اور پھر حمل میں نکاح کیا.اس طرح پر انہوں نے شریعت موسوی کی توہین کی اور با ایں حضرت مسیح کی پاک پیدائش پر نکتہ چینی کی اور ایسی نکتہ چینی جس کو ہم سن بھی نہیں سکتے ان کے مقابلے میں عیسائیوں نے کیا کیا ؟ عیسائیوں نے حضرت مسیح کی کہ پیدائش کو تو بے شک اعتقادی طور پر روح القدس کی پیدائش قرار دیا اور خود خدا ہی کو مریم کے پیٹ سے پیدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة النساء کیا مگر تعد دازواج کو نا جائز کہہ کر وہی اعتراض اس شکل میں حضرت مریم کی اولاد پر کر دیا اور اس طرح پر خود مسیح اور ان کے دوسرے بھائیوں کی پیدائش پر حملہ کیا.واقعی عیسائیوں نے تعدد ازواج کے مسئلہ پر اعتراض کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ہم تو حضرت مسیح کی شان بہت بڑی سمجھتے ہیں اور اسے خدا کا سچا اور برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی پیدائیش باپ کے بدوں خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نمونہ تھی اور حضرت مریم صدیقہ تھیں یہ قرآن کریم کا احسان ہے حضرت مریم پر اور حضرت مسیح پر جو ان کی تطہیر کرتا ہے اور پھر یا احسان ہے اس زمانہ کے موعود امام کا کہ اس نے از سر نو اس تطہیر کی تجدید فرمائی.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۱، مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۳) اگر چه عورت بجائے خود پسند نہیں کرتی کہ کوئی اور اس کی سوت آدے مگر اسلام نے جس اصول پر کثرت ازدواج کو رکھا ہے وہ تقویٰ کی بنا پر ہے.بعض وقت اولاد نہیں ہوتی اور بقائے نوع کا خیال انسان میں ایک فطرتی تقاضا ہے اس لیے دوسری شادی کرنے میں کوئی عیب نہیں ہوتا.بعض اوقات پہلی بیوی کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اور بہت سے اسباب اس قسم کے ہوتے ہیں پس اگر عورتوں کو پورے طور پر خدا تعالیٰ کے احکام سے اطلاع دی جاوے اور انہیں آگاہ کیا جاوے تو وہ خود بھی دوسری شادی کی ضرورت پیش آنے پر سائی ہوتی ہیں.الحکام جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۱ء صفحه ۲) عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لیے کوئی دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور اس بندۂ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ایسے ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس میں صد با مصالحہ ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں برا کہا جائے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں نہایت مردود اور شیطان کی بہنیں اور بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کے لیے دوسرا نکاح ضرور کرے.( مجموعه اشتها را تجلد اولصفحه ۸۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ سورة النساء کثرت ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اور ہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدّ دازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ.بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کورد کر دیا ہے اور کیا وہ اسرائیلی قوم کے مقدس نبی جنہوں نے سوسو بیوی کی بلکہ بعض نے سات سو تک نوبت پہنچائی وہ اخیر عمر تک حرامکاری میں مبتلا رہے؟ اور کیا ان کی اولاد جن میں سے بعض راست باز بلکہ نبی بھی تھے ناجائز طریق کی اولاد سمجھی جاتی ہے؟ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۳۵) واحدہ لاشریک ہونا خدا کی تعریف ہے.مگر عورتیں بھی شریک ہرگز پسند نہیں کرتی ہیں ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے ہمسایہ میں ایک شخص اپنی بیوی سے بہت کچھ سختی کیا کرتا تھا.اور ایک مرتبہ اس نے دوسری بیوی کرنے کا ارادہ کیا.تب اس بیوی کو نہایت رنج پہنچا اور اس نے اپنے شوہر کو کہا کہ میں نے تیرے سارے دکھ ہے.مگر یہ دکھ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا کہ تو میرا خاوند ہو کر اب دوسری کو میرے ساتھ شریک کرے.وہ فرماتے ہیں کہ ان کے اس کلمہ نے میرے دل پر نہایت دردناک اثر پہنچایا میں نے چاہا کہ اس کلمہ کے مشابہ قرآن شریف میں پاؤں.سو یہ آیت مجھے ملی.وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ (النساء :۱۱۷) یہ مسئلہ بظاہر بڑا نازک ہے.دیکھا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کی غیرت نہیں چاہتی کہ اس کی عورت اس میں اور اس کے غیر میں شریک ہو.اسی طرح عورت کی غیرت بھی نہیں چاہتی کہ اس کا مرد اس میں اور اس کے غیر میں بٹ جاوے مگر میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم میں نقص نہیں ہے اور نہ وہ خواص فطرت کے برخلاف ہے اس میں پوری تحقیق یہی ہے کہ مرد کی غیرت ایک حقیقی و کامل غیرت ہے جس کا انفکاک واقعی لا علاج ہے مگر عورت کی غیرت کامل نہیں بالکل مشتبہ اور زوال پذیر ہے اس میں وہ نکتہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا تھا نہایت معرفت بخش نکتہ ہے کیونکہ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست نکاح پر عذر کیا کہ آپ کی بہت بیویاں ہیں اور آئندہ بھی خیال ہے اور میں ایک عورت غیرت مند ہوں جو دوسری بیوی کو دیکھ نہیں سکتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیرے لیے دعا کروں گا کہ تا خدا تعالیٰ تیری یہ غیرت دور کر دے اور صبر بخشے.....نئی بیوی کی دل جوئی نہایت ضروری ہے کہ وہ مہمان کی طرح ہے مناسب ہے کہ آپ کے اخلاق اس سے اول درجہ کے ہوں اور ان سے بے تکلف مخالطت اور محبت کریں اور اللہ جل شانہ سے چاہیں کہ اپنے فضل وکرم سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة النساء ان سے آپ کی صافی محبت و تعشق پیدا کر دے کہ یہ سب امور اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۸۲، ۸۳ مکتوب بنام حضرت خلیفہ اول) چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنا لے قرآن کا منشا تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک کی اجازت دے دی ہے ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعوی بھی کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے وہ تو اسلام کے معترض ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بنانے کے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے.بھلا اگر کسی شخص کی ایک بیوی ہے اسے جذام ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہوگئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولا داس سے حاصل ہو سکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہو جاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہیے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تد بیر پیش کرتے ہیں یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیوی کا خطاب دے رکھے.خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریات کو ہی پورانہیں کر سکتا اب ان مذکورہ حالتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو.اب تو انگلستان میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرت ازدواج اور طلاق شروع ہوتا جاتا ہے ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جا رہا.غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے.جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف سی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے.الحکم جلد نمبر ۸ مورخه ۲۸ رفروری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵) میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور کثرت اولاد سے جماعت کو بڑھاویں..بڑھا دیں.مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیویوں کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اسے تکلیف نہ ہو.دوسری بیوی ، پہلی بیوی کو اسی لیے ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ سورة النساء غور و پرداخت اور حقوق میں کمی کی جاوے گی مگر میری جماعت کو اس طرح نہ کرنا چاہیے اگر چہ عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا ہاں یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور و پرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا جاوے ور نہ یہ نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو.عیسائیوں کو بھی اس امر کی ضرورت پیش آئی ہے اور بعض دفعہ پہلی بیوی کو زہر دے کر دوسری کی تلاش سے اس کا ثبوت دیا ہے یہ تقومی کی عجیب راہ ہے مگر بشر طیکہ انصاف ہو اور پہلی کی نگہداشت میں کمی نہ ہو.البدر جلد ۳ نمبر۷ مورخہ ۱۶ فروری ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۱) بد نظری اور بدکاری سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی جماعت کو کثرت ازدواجی کی بھی نصیحت کی ہے کہ تقویٰ کے لحاظ سے اگر وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا چاہیں تو کر لیں مگر خدا کی معصیت کے مرتکب نہ ہوں پھر ( گناہ کر کے ) جو شخص ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.(البدرجلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۴) ایک احمدی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدد ازواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت الرِّجَالُ قَوامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویساسلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنے ہیں.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہیے مثلاً پارچه جات، خرچ خوراک، معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوا رہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسی لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے تعدد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچار ہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اس نے اس کے ساتھ گزارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ سورة النساء بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ البدر اور الحکم اخباروں میں تعدد ازواج کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر دیا ہے (....) آپ نے فرمایا کہ ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقومی پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگاہ داشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو.اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کرلو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے دل دکھا نا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امید میں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اسے ضرورت شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے رو رو کر دعائیں کرتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بیویوں کی ناراضگی کا بڑا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر ان کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں.فساد کی بنا تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی ہے.خدا کے قانون کو اس کے منشا کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہیے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہیے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یا د رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالی بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہواگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لیے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام.۲۸۷ سورة النساء بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہیے تا کہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبُكُوا كَثِيرًا یعنی ہنسو تھوڑا اور رؤو بہت کا مصداق بنو لیکن جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقت اور رونا کب نصیب ہوگا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشا سے دور جا پڑتے ہیں خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیا جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے.خدا تعالی تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا کہ وہ اپنے رب کے لیے تمام تمام ا رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشا کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے.وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لیے شریک پیدا کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے پھر بھی آپ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے ایک رات آپ کی باری عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہ کی آنکھ کھلی ، دیکھا کہ آپ موجود نہیں اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے اس نے اٹھ کر ہر ایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے آخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں.اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چاہتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپ کی بیویاں حفظ نفس یا اتباع شہوت کی بنا پر ہو سکتی ہیں ؟ غرض کہ خوب یادرکھو کہ خدا کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لیے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کرلو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے گئے ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جب حضرت عمر اندر آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے حضرت عمر نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے حضرت عمران کو دیکھ کر رو پڑے آپ نے پوچھا اے عمر تجھ کو کس چیز نے رلایا ؟ عمر نے عرض کی کہ کسر لی اور قیصر تو ستم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خدا کے رسول اور دو جہاں کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا.اے عمر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة النساء مجھے دنیا سے کیا غرض میں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جو نہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے جس قدر نبی اور رسول ہوئے ہیں سب نے دوسرے پہلو (آخرت) کو ہی مد نظر رکھا ہوا تھا.پس جانا چاہیے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دور رہتا ہے.ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرتا اور روتا کم یا بالکل ہی نہیں روتا اور ہنستا زیادہ ہے تو یادر ہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے.استیفا ء لذات اگر حلال طور پر ہو تو حرج نہیں جیسے ایک شخص مٹو پر سوار ہے اور راستہ میں اسے نہاری وغیرہ اس لیے دیتا ہے کہ اس کی طاقت قائم رہے اور وہ منزل مقصود تک اسے پہنچا دے جہاں خدا تعالیٰ نے سب کے حقوق رکھے وہاں نفس کا بھی حق رکھا ہے کہ وہ عبادت بجالا سکے.لوگوں کے نزدیک چوری زنا وغیرہ ہی گناہ ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ استیفا ولذات میں مشغول ہونا بھی گناہ ہے.اگر ایک شخص اپنا اکثر حصہ وقت کا تو عیش و آرام میں بسر کرتا ہے اور کسی وقت اُٹھ کر چار ٹکریں بھی مار لیتا ہے ( یعنی نماز پڑھ لیتا ہے ) تو وہ نمرودی زندگی بسر کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاضت اور مشقت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو اس محنت میں مر جاوے گا حالانکہ ہم نے تیرے لیے بیویاں بھی حلال کی ہیں یہ خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے ہی فرمایا جیسے ماں اپنے بچہ کو پڑھنے یا دوسرے کام میں مستغرق دیکھ کر صحت کے قیام کے لحاظ سے اسے کھیلنے کودنے کی اجازت دیتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہ خطاب اسی غرض سے ہے کہ آپ تازہ دم ہو کر پھر دین کی خدمت میں مصروف ہوں اس سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ آپ شہوات کی طرف جھک جاویں.نادان معترض ایک پہلو کو تو دیکھتے ہیں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پادریوں نے اس بات کی طرف کبھی غور نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی میلان کس طرف تھا اور رات دن آپ کس فکر میں رہتے تھے بہت سے ملا اور عام لوگ ان باریکیوں سے ناواقف ہیں اگر ان کو کہا جاوے کہ تم شہوات کے تابع ہو تو جواب دیتے ہیں کیا ہم حرام کرتے ہیں شریعت نے ہمیں اجازت دی ہے تو ہم کرتے ہیں.ان کو اس بات کا علم نہیں کہ بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے.پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جس قدر چیز اسے درکار ہے اگر اس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شے حلال ہی ہونگر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ سورة النساء فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حرام ہو جاتی ہے جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکتا.ہمارے کلام کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھا جاوے یہ نہیں کہ صرف لذات کے پہلو پر زور دیا جاوے اور تقویٰ کو بالکل ترک کر دیا جاوے.اسلام نے جن کاموں اور باتوں کو مباح کہا ہے اس سے یہ غرض ہر گز نہیں ہے کہ رات دن اس میں مستغرق رہے صرف یہ ہے کہ بقدر ضرورت وقت پر ان سے فائدہ اٹھا یا جاوے.اس مقام پر پھر وہی صاحب بولے کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ تعداد ازواج بطور دوا کے ہے نہ بطور غذا کے.حضور نے فرمایا ہاں.اس پر انہوں نے عرض کی کہ ان اخبار والوں نے تو لکھا ہے کہ احمدی جماعت کو بڑھانے کے لیے زیادہ بیویاں کرو.حضور نے فرمایا کہ ایک حدیث میں یہ ہے کہ کثرت ازدواج سے اولاد بڑھاؤ تا کہ اُمت زیادہ ہو.اصل بات یہ ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالیاتِ انسان کے ہر عمل کا مدار اس کی نیت پر ہے کسی کے دل کو چیر کر ہم نہیں دیکھ سکتے.اگر کسی کی یہ نیت نہیں ہے کہ زیادہ بیویاں کر کے عورتوں کی لذات میں فنا ہو بلکہ یہ ہے کہ اس سے خادم دین پیدا ہوں تو کیا حرج ہے لیکن یہ امر بھی مشروط بشرائط بالا ہے مثلاً اگر ایک شخص کی چار بیویاں ہوں اور ہر سال ہر ایک سے ایک ایک اولاد ہو تو چار سال میں سولہ بچے ہوں گے مگر بات یہ ہے کہ لوگ دوسرے پہلو کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایک پہلو پر ہی زور دیا جاوے حالانکہ ہمارا یہ منصب ہر گز نہیں ہے.قرآن شریف میں متفرق طور پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے لیکن جہاں کہیں بیویوں کا ذکر ہے وہاں ضرور ہی تقویٰ کا بھی ذکر ہے ادا ئیگی حقوق ایک بڑی ضروری شے ہے اسی لیے عدل کی تاکید ہے اگر ایک شخص دیکھتا ہے کہ وہ حقوق کو ادا نہیں کر سکتا یا اس کی رجولیت کے قومی کمزور ہیں یا خطرہ ہو کہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اسے چاہیے کہ دیدہ دانستہ اپنے آپ کو عذاب میں نہ ڈالے.تقویٰ یعنی شرعی ضرورت جو اپنے محل پر ہو اگر موجود ہو تو پہلی بیوی خود تجویز کرتی ہے کہ خاوند اور نکاح کر لے.آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کے لیے سپر نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اسے کر لیا کل اور نظر آئی تو اسے کر لیا یہ تو گویا خدا کی گدی پر عورتوں کو بٹھانا اور اُسے بھلا دینا ہوا.دین تو چاہتا ہے کہ کوئی زخم دل پر ایسا رہے جس سے ہر وقت خدا تعالی یاد آوے ورنہ سلب ایمان کا خطرہ ہے اگر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة النساء صحابہ کرام عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے حالانکہ ان کا یہ حال تھا کہ ایک کی انگلی کٹ گئی تو اسے مخاطب ہو کے کہا کہ تو ایک انگلی ہی ہے اگر کٹ گئی تو کیا ہوا.مگر جو شب و روز عیش و عشرت میں مستغرق ہے وہ کب ایسا دل لاسکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں اس قدر روتے اور قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم ہو جا تا صحابہ نے عرض کی کہ خدا نے آپ کے تمام گناہ بخش دیئے ہیں پھر اس قدر مشقت اور رونے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ ہوں.البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۳،۲) تعدد ازواج کا ذکر تھا.فرمایا کہ شریعت حقہ نے اس کو ضرورت کے واسطے جائز رکھا ہے ایک لائق آدمی کی بیوی اگر اس قسم کی ہے کہ اس سے اولاد نہیں ہو سکتی تو وہ کیوں بے اولا در ہے اور اپنے آپ کو بھی عقیم بنا لے.ایک عمدہ گھوڑا ہوتا ہے تو اس کی نسل بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے انسان کی نسل کو کیوں ضائع کیا جاوے.پادری لوگ دوسری شادی کو زنا کاری قرار دیتے ہیں تو پھر پہلے انبیاء کی نسبت کیا کہتے ہیں حضرت سلیمان کی کہتے ہیں کئی سو بیویاں تھیں اور ایسا ہی حضرت داؤد کی تھیں.نیت صحیح ہو اور تقویٰ کی خاطر ہو تو دس ہیں بیویاں بھی گناہ نہیں.اگر نعوذ باللہ عیسائیوں کے قول کے مطابق ایک سے زیادہ نکاح سب زنا ہیں تو حضرت داؤد کی اولاد سے ہی ان کا خدا بھی پیدا ہوا ہے تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اور بڑی برکت والا طریق بدر جلد ۸ نمبر ۷ ۸ ۹ مورخه ۲۴ تا ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۳) ہے.( أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ) یہ امر کہ کافروں کی عورتوں اور لڑکیوں کو جولڑائیوں میں ہاتھ آویں لونڈیاں بنا کران سے ہم بستر ہونا تو یہ ایک ایسا امر ہے جو شخص اصل حقیقت پر اطلاع پاوے وہ اس کو ہرگز محل اعتراض نہیں ٹھہرائے گا.اور اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی زمانہ میں اکثر چنڈال اور خبیث طبع لوگ ناحق اسلام کے دشمن ہو کر طرح طرح کے دکھ مسلمانوں کو دیتے تھے اگر کسی مسلمان کو قتل کریں تو اکثر اس میت کے ہاتھ پیر اور ناک کاٹ دیتے تھے اور بے رحمی سے بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم کی عورت ہاتھ آتی تھی جو اس کو لونڈی بناتے تھے اور اپنی عورتوں میں ( مگر لونڈی کی طرح ) اس کو داخل کرتے تھے اور کوئی پہلو ظلم کا نہیں تھا جو انہوں نے اُٹھا رکھا تھا ایک مدت دراز تک مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم ملتار ہا کہ ان لوگوں کی شرارتوں پر صبر کرو مگر آخر کار جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو خدا نے اجازت دے دی کہ اب ان شریر لوگوں سے لڑو اور جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اس سے زیادہ نہ کرو لیکن پھر بھی مثلہ کرنے سے منع کیا یعنی منع فرما دیا کہ کافروں کے کسی مقتول کی ناک کان ہاتھ وغیرہ نہیں کاٹنے چاہئیں اور جس بے عزتی کو مسلمانوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة النساء کے لیے وہ لوگ پسند کرتے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے حکم دے دیا.اسی بنا پر اسلام میں یہ رسم جاری ہوئی کہ کافروں کی عورتیں لونڈی کی طرح رکھی جائیں اور عورتوں کی طرح استعمال کی جائیں یہ تو انصاف اور طریق عدل سے بعید تھا کہ کا فر تو جب کسی مسلمان عورت کو اپنے قبضہ میں لاویں تو اس کو لونڈی بنا دیں اور عورتوں کی طرح ان کو استعمال کریں اور جب مسلمان ان کی عورتوں اور ان کی لڑکیوں کو اپنے قبضہ میں کریں تو ماں بہن کر کے رکھیں.خدا بیشک حلیم ہے مگر وہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے اس کی غیرت ہی تھی جو نوح کے طوفان کا باعث ہوئی، اسی کی غیرت نے ہی انجام کار فرعون اور اس کے تمام لشکر کو دریا میں غرق کر دیا، اسی کی غیرت نے لوط کی قوم پر زمین کا تختہ الٹا دیا اور اسی کی غیرت اب جابجا ہیبت ناک زلزلے دکھلا رہی ہے اور لاکھوں انسانوں کو طاعون سے ہلاک کر رہی ہے اور اسی کی غیرت نے لیکھرام کو جو بد زبانی سے کسی طرح باز نہیں آتا تھا اسی کی زبان کی چھری سے آخر لوہے کی چھری غیب سے پیدا کر دی اور جواناں مرگ مارا اور بڑے دکھ سے اس کو اس کی قوم میں سے اٹھایا اور کوئی اس کو بچا نہ سکا اور خدا نے اپنی پیشگوئی اس میں پوری کر دی پس اسی طرح جب عرب کے خبیث فطرت ایذاء اور دکھ دینے سے باز نہ آئے اور نہایت بے حیائی اور بے غیرتی سے عورتوں پر بھی فاسقانہ حملے کرنے لگے تو خدا نے ان کی تنبیہ کے لیے یہ قانون جاری کر دیا کہ ان کی عورتیں بھی اگر لڑائیوں میں پکڑی جائیں تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے پس یہ تو بموجب مثل مشہور که عوض معاوضه گله ندارد کوئی محل اعتراض نہیں جیسی ہندی میں بھی یہ شکل مشہور ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی مگر یہ دوسری بات در حقیقت نہایت بے رحمی ، دیوئی اور بے حیائی کا کام ہے کہ انسان اپنی عورت سے محض لڑکا پیدا ہونے کی خواہش سے زنا کرا دے یہ ایک ایسی ناپاکی کی راہ اور گندی نظیر ہے کہ تمام دنیا میں اگر تلاش کرو تو ہرگز ہرگز اس کی نظیر نہیں ملے گی.پھر ماسوا اس کے اسلام اس بات کا حامی نہیں کہ کافروں کے قیدی غلام اور لونڈیاں بنائی جائیں بلکہ غلام آزاد کرنے کے بارہ میں اس قدر قرآن شریف میں تاکید ہے کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں.غرض ابتدا غلام لونڈی بنانے کی کافروں سے شروع ہوئی اور اسلام میں بطور سزا کے یہ حکم جاری ہوا اور اس میں بھی آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵۲ تا ۲۵۵) یادر ہے کہ نکاح کی اصل حقیقت یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی کی اور نیز مرد کی بھی رضا مندی لی جاتی ہے لیکن جس حالت میں ایک عورت اپنی آزادی کے حقوق کھو چکی ہے اور وہ آزاد نہیں ہے بلکہ وہ ان ظالم طبع جنگ جو لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مسلمانوں کے مردوں اور عورتوں پر بے جا ظلم کیے ہیں تو ایسی عورت جب گرفتار ہو کر اپنے اقارب کے جرائم کی پاداش میں لونڈی بنائی گئی تو اس کی آزادی کے حقوق سب تلف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة النساء ہو گئے لہذاوہ اب فتح یاب بادشاہ کی لونڈی ہے اور ایسی عورت کو حرم میں داخل کرنے کے لیے اس کی رضامندی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے جنگجو اقارب پر فتح یاب ہو کر اس کو اپنے قبضہ میں لانا یہی اس کی رضامندی ہے یہی حکم توریت میں بھی موجود ہے ہاں قرآن شریف میں فاق رقبة (البلد : ۱۴) یعنی لونڈی غلام کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام بیان فرمایا ہے اور عام مسلمانوں کو رغبت دی ہے کہ اگر وہ ایسی لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کر دیں تو خدا کے نزدیک بڑا اجر حاصل کریں گے اگر چہ مسلمان بادشاہ ایسے خبیث اور چنڈال لوگوں پر فتح یاب ہو کر غلام اور لونڈی بنانے کا حق رکھتا ہے مگر پھر بھی بدی کے مقابل پر نیکی کرنا خدا نے پسند فرمایا ہے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کا فرکہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدی اور زیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے اس لیے اب مسلمانوں کے لیے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بنادیں کیونکہ خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل پر صرف اسی قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کا فرلوگ جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کو اور ان کے مردوں اور عورتوں کو لونڈیاں اور غلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لیے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا نا جائز اور (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵۳ حاشیه ) حرام ہے.وَأتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا قَرِيان اور اپنی عورتوں کو مہر دو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتى جَعَلَ اللهُ لَكُم قِيمًا وَارْزُقُوهُم فِيهَا وَالسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا وَابْتَلُوا الْيَتَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ : فَإِنْ أَنَسْتُم مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ اَمْوَالَهُمْ ۚ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَ بدَارًا أن يَكْبَرُوا وَ مَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلُ بِالْمَعْرُونِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللهِ حسيبان یعنی اگر کوئی ایسا تم میں مال دار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلا یتیم یا نا بالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے
۲۹۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم ( بطور کورٹ آف وارڈس کے ) وہ تمام مال اس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالہ مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت ان کے کھانے اور پہننے کے لیے دے دیا کرو اور ان کو اچھی باتیں قول معروف کی کہتے رہو یعنی ایسی باتیں جن سے ان کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے ان کے مناسب حال ان کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے ان کو سکھلاؤ اور اگر کوئی اور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسب حال ان کو پختہ کر دو.غرض ساتھ ساتھ ان کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتا فوقتا امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں.پھر جب نکاح کے لائق ہو جائیں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ ان میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہو گئی ہے تو ان کا مال ان کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر ان کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے ان کے مال کا نقصان کرو.جو شخص دولت مند ہو اس کو نہیں چاہیے کہ ان کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے.عرب میں مالی محافظوں کے لیے یہ طریق معروف تھا کہ اگر قیموں کے کار پرداز ان کے مال میں سے لینا چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جو کچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا اس میں سے آپ بھی لیتے راس المال کو تباہ نہ کرتے.سو یہ اسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی ایسا کرو اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے رو بروان کو ان کا مال دو.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۶، ۳۴۷) لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَنِ وَ الْاَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَنِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا وَإِذَا ، حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُم قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعْفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًان مردوں کے لیے اس جائیداد میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اور قرابتی چھوڑ گئے ہوں ایسا ہی عورتوں
ا ۲۹۴ سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے اس جائیداد میں سے ایک حصہ ہے جو ماں باپ اور قرابتی چھوڑ گئے ہوں.اس میں سے کسی کا حصہ تھوڑا ہو یا بہت ہو بہر حال ہر ایک کے لئے ایک حصہ مقرر کیا گیا ہے.اور جب ترکہ کی تقسیم کے وقت ایسے قرابتی لوگ حاضر آویں جن کو حصہ نہیں پہنچتا.ایسا ہی اگر یتیم اور مسکین بھی تقسیم کے موقع پر آ جاویں تو کچھ کچھ اس مال میں سے ان کو دے دو اور ان سے معقول طور پر پیش آؤ یعنی نرمی اور خلق کے ساتھ پیش آؤ اور سخت جواب نہ دو اور وارثان حقدار کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مرتے تو ان کے حال پر ان کو کیسا کچھ ترس نہ آتا اور کیسی وہ ان کی کمزوری کی حالت کو دیکھ کر خوف سے بھر جاتے پس چاہیے کہ وہ کمزور بچوں کے ساتھ سختی کرنے میں اللہ سے ڈریں اور ان کے ساتھ سیدھی طرح بات کریں یعنی کسی قسم کے ظلم اور حق تلفی کا ارادہ نہ کریں.وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعْفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ اور جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اس کے ضعیف اور صغير السن ہوں تو اس کو نہیں چاہیے کہ کوئی ایسی وصیت کرے کہ جس میں بچوں کی حق اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱۲) تلفی ہو.اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَ سَيَصْلُونَ سَعِيران جولوگ ایسے طور سے یتیم کا مال کھاتے ہیں جس سے یتیم پر ظلم ہو جائے تو وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آگ میں ڈالے جائیں گے.اب دیکھو خدائے تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے.سوحقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقل مندی کو دخل دے کر امانت داری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمر اور کھے گی.ق اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) ج يُوصِيكُمُ اللهُ فِى اَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءَ فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَ إِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النَّصْفُ وَ لاَبَوَيْهِ لِحْلِ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة النساء لّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَةٌ اَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ القُلْتُ فَإِنْ كَانَ لَهُ اخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِى بِهَا اَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَ ابْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةٌ مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا وَ لَكُمْ ۖ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ، وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا دوو تَرَكْتُم إِن لَّمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُؤْصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنِ وَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَللَةً أَوِ امْرَاةٌ ، وَلَةَ اَحْ أَوْ أَخْتَ فَلِكُلِ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثَّلْثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارِ وَصِيَّةٌ مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دولڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو پھر اگر لڑکیاں دو یا دو سے بڑھ کر ہوں تو جو کچھ مرنے والے نے چھوڑا ہے اس مال میں سے ان کا حصہ تہائی ہے اور اگر لڑ کی اکیلی ہو تو وہ مال متروکہ میں سے نصف کی مستحق ہے.اور میت کے ماں باپ کو یعنی دونوں میں سے ہر ایک کو اس مال میں سے جو میت نے چھوڑا ہے چھٹا حصہ ہے اور یہ اس حالت میں کہ مرنے والا کچھ اولا د چھوڑ گیا ہو اور اگر مرنے والا لا ولد مرا ہو اور اس کے وارث صرف ماں باپ ہوں تو ماں کا حصہ صرف ایک تہائی ہے باقی سب باپ کا.اگر ماں باپ کے علاوہ میت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہنیں ہوں تو اس صورت میں ماں کا چھٹا حصہ ہوگا لیکن یہ حصہ وصیت یا قرض کے ادا کرنے کے بعد دینا ہوگا.تمہارے باپ ہوں یا بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں سے باعتبار نفع رسانی کے کون سا تم سے زیادہ قریب سے پس جو حصے خدا نے قرار دے دیتے ہیں ان پر کار بند ہو جاؤ کیونکہ وہ صرف خدا ہی ہے جس کا علم غلطی اور خطا سے پاک ہے اور جو حکمت سے کام کرتا اور ہر ایک مصلحت سے واقف ہے اور جو تر کہ تمہاری بیبیاں چھوڑ مریں پس اگر وہ لا ولد مر جاویں تو ان کے ترکے میں سے تمہارا آدھا حصہ ہے اور اگر تمہاری بیبیوں کی اولاد ا، یہ اس لیے ہے کہ لڑکی سسرال میں جا کر ایک حصہ لیتی ہے پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پا کر اور ایک حصہ سسرال سے پا کر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہو جاتا ہے.منہ
۲۹۶ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ہے تو اس حالت میں ان کے ترکہ میں سے تمہارا حصہ چوتھائی ہے مگر وصیت یا قرض کے ادا کرنے کے بعد.اور اگر تم مرجاؤ اور تمہاری کچھ اولاد نہ تو تمہاری بیبیوں کا حصہ تمہارے مال میں سے چوتھائی ہے اور اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا حصہ تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں ہے مگر اس امر کے بعد کہ پہلے ان کی وصیت کی تعمیل کی جائے یا جو کچھ ان کے سر پر قرضہ ہے وہ ادا کیا جائے اور اگر کسی مرد یا عورت کی میراث ہو اور وہ ایسا ہو کہ اس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا اور اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان بھائی یا بہنوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو اس صورت میں ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے مگر ضروری ہوگا کہ پہلے وصیت کی تعمیل کی جائے یا اگر مرنے والے کے ذمہ قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے لیکن اس وصیت اور اس قرض میں ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ اس وصیت یا اس قرضہ کے ذریعہ سے مرنے والے نے کسی کو نقصان پہنچانا نہ چاہا ہو.اس طرح پر کہ ایک ثلث سے زیادہ کی وصیت کر دی ہو یا ایک فرضی قرضہ ظاہر کیا ہو.یہ خدا کا حکم ہے وہ خدا جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اور وہ علیم ہے اس لیے وہ باوجود علم کے نافرمان کو جلدی سزا نہیں دیتا.یعنی وہ سزا دینے میں دھیما ہے پس اگر کسی ظلم اور خیانت کے وقت کوئی شخص اپنے کیفر کردار کونہ پہنچے تو اس کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ خدا کو اس کی مجرمانہ حرکت کی خبر نہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ باعث خدا کے حکم کے یہ تاخیر واقع ہوئی ہے اور آخر شریر آدمی کو وہ سزا دیتا ہے جس کے وہ لائق ہوتا ہے.ہاں مشو مغرور بر حلم خدا دیر گیرد سخت گیرد مر ترا اب ان تمام آیات ( ۸ تا ۱۲) سے صاف ظاہر ہے کہ کیسے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدین کے حق کو تاکید کے ساتھ ظاہر فرمایا ہے اور ایسا ہی اولاد کے حقوق بلکہ تمام اقارب کے حقوق ذکر فرمائے ہیں اور مساکین اور یتیموں کو بھی فراموش نہیں کیا بلکہ ان حیوانات کا حق بھی انسانی مال میں ٹھہرایا ہے جو کسی انسان کے قبضہ میں ہوں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱۲ تا ۲۱۴) ( اس سوال کے جواب میں کہ بیٹوں کی موجودگی میں یتیم پوتا محروم الارث کیوں ہے ) فرمایا کہ دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دے دے بلکہ جو چاہے دے دے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کہا جاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہوتو وہ وارث ہو اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے.یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہیے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ سورة النساء کی درخواست کریں.چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے.خدا تعالی کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لیے یہ قانون رکھا.ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں بے وَ إِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْن وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلاً معْرُوفًا.( یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو ان کو کچھ دیا تو کرو) تو وہ ہوتا جس کا باپ مر گیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رقم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۷۶) وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَة يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ ۱۵ عَذَابٌ مُهين جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے باہر ہو جائے خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر ذلیل کرنے والا عذاب نازل ہوگا.اب دیکھو کہ رسول سے قطع تعلق کرنے میں اس سے بڑھ کر اور کیا وعید ہو گا کہ خدائے عز وجل فرماتا ہے کہ جو شخص رسول کی نافرمانی کرے اس کے لیے دائی جہنم کا وعدہ ہے مگر میاں عبدالحکیم کہتے ہیں کہ جو شخص نبی کریم کا مکذب اور نافرمان ہوا گر وہ تو حید پر قائم ہو تو وہ بلا شبہ بہشت میں جائے گا مجھے معلوم نہیں کہ ان کے پیٹ میں کس قسم کی توحید ہے کہ باوجود نبی کریم کی مخالفت اور نافرمانی کے جو تو حید کا سر چشمہ ہے بہشت تک پہنچا سکتی ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۰،۱۲۹) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُدُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضٍ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ يَجْعَلَ اللهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيران یہ بھی تمہارے لیے جائز نہ ہوگا کہ جبراً عورتوں کے وارث بن جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة النساء ( عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ ) در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہر و.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی کرو اور حدیث میں ہے خَیرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ بِأَهْلِهِ - اربعين ) یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو.(ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۷۵ حاشیہ، اور اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۸ حاشیه ) قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھیرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہے که عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقل مند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۸) فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں......میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور با ایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی لیں پڑھیر کا نتیجہ ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ صفحه ۴،۳) ہمارے بادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدو کوب کرے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة النساء وقت ایک غصہ میں بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے اس لیے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف اور بدعت ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا.اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۲) عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلی الرسن کر دیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے علی الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.بعض وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑے بھی ہیں ایک مرتبہ آپ آگے نکل گئے اور دوسری مرتبہ خود نرم ہو گئے تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا آگے نکل جائیں اور وہ آگے نکل گئیں اسی طرح پر یہ بھی ثابت ہے کہ ایک بار کچھ بنی آئے جو تماشہ کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا تماشہ دکھایا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آئے تو وہ حبشی ان کو دیکھ کر بھاگ گئے.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۲) شریعت میں حکم ہے عاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لیے دعا کرنی چاہیے قصاب کی طرح برتاؤ نہ کرے کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا.مجھ پر بھی بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ عورتوں کو پھراتے ہیں اصل میں بات یہ ہے کہ میرے گھر میں ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کا علاج پھرانا ہے جب ان کی طبیعت زیادہ پریشان ہوتی ہے تو بدیں خیال کہ گناہ نہ ہو کہا کرتا ہوں کہ چلو پھرالا ؤں اور بھی عورتیں ہمراہ ہوتی ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۵۷) خدا تعالیٰ اس سے تو منع نہیں کرتا کہ انسان دنیا میں کام نہ کرے مگر یہ بات ہے کہ دنیا کے لیے نہ کرے بلکہ دین کے لیے کرے تو وہ موجب برکات ہو جاتا ہے مثلاً خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ بیویوں سے نیک سلوک کر و عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ لیکن اگر انسان محض اپنی ذاتی اور نفسانی اغراض کی بنا پر وہ سلوک کرتا ہے تو فضول ہے اور وہی سلوک اگر اس حکم الہی کے واسطے ہے تو موجب برکات.....مومن کی غرض ہر آسائش ہر قول و فعل حرکت و سکون سے گو بظا ہر نکتہ چینی ہی کا موقع ہو مگر در اصل عبادت ہوتی ہے.بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جاہل اعتراض سمجھتا ہے مگر خدا کے نزدیک عبادت ہوتی ہے لیکن اگر اس میں اخلاص کی نیت نہ ہو تو نماز بھی لعنت کا طوق ہو جاتی ہے.......اس طرح عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ امر کی بجا آوری سے ثواب الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) بیوی اسیر کی طرح ہے اگر یہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) حضرت سید فصیلت علی شاہ صاحب کے نام ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے.ہوتا ہے.لینے والا نہیں ہے.تحریر فرمایا) باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدت رکھتے ہیں یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا انداز ہ ملحوظ نہیں رہتا.میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠١ سورة النساء حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قستام از لی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ ہی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں اللہ جل شانہ فرماتا ہے عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ بِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لیے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا.عزیز من انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے.نرمی برتنی چاہیے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہیے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیوں کر شرائط مہمان داری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے خونخوار انسان نہیں بننا چاہیے بیویوں پر رحم کرنا چاہیے اور ان کو دین سکھلانا چاہیے در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقع اس کی بیوی ہے میں جب کبھی اتفاقا ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لیے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے علم کرتے تھے زیادہ کیا لکھوں.والسلام القام جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۶) وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ ابَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلان ی بھی جائز نہیں کہ تم ان عورتوں کو نکاح میں لاؤ جو تمہارے باپوں کی بیویاں تھیں جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا سورة النساء اور جن عورتوں کے ساتھ تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو تم ان کے ساتھ نکاح مت کرو اور جو ہو چکا اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں ( یعنی جاہلیت کے زمانہ کی خطا معاف کی گئی ) اور پھر فرماتا ہے کہ باپ کی منکوحہ عورت کو کرنا یہ بڑی بے حیائی اور غضب کی بات تھی اور بہت ہی برا دستور تھا.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۵۰) حُرمَتْ عَلَيْكُمْ أمَّهُتُكُمْ وَبَنْتُكُمْ وَاَخَوَاتُكُمْ وَعَمْتُكُمْ وَخُلتُكُمْ وَبَنتُ الآخ وَ بَنْتُ الْأُخْتِ وَأَمَّهُتُكُمُ الَّتِى اَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ أَمَّهُتُ نِسَابِكُمْ وَ رَبَا بِبُكُمُ الَّتِى فِى حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَا بِكُمُ الَّتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَابِلُ ابْنَا بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا نَحِيمان اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے ایک ایک شخص صدہا بیویاں کر لیتا تھا، حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا، ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ حُرمَتْ عَلَيْكُمْ أمهتم یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہو گئیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزین جلد ۱۰ صفحه ۳۲۸، ۳۲۹) تم پر تمہاری مائیں حرام کی گئیں اور ایسا ہی تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کے پہلے خاوند سے لڑکیاں جن سے تم ہم صحبت ہو چکے ہو اور اگر تم ان سے ہم صحبت نہیں ہوئے تو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹیوں کی عورتیں اور ایسے ہی دو بہنیں ایک وقت میں یہ سب کام جو پہلے ہوتے تھے.آج تم پر حرام کیے گئے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزئن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶،۳۳۵) تم پر یہ سب رشتے حرام کیے گئے ہیں جیسے تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور دائیاں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں پرورش پائیں اور تمہارے گھروں میں رہیں مگر عورتوں سے وہ عورتیں مراد ہیں جو تم سے ہم بستر ہو چکی ہوں اور اگر تم نے ان عورتوں سے صحبت داری نہ کی ہو تو اس صورت میں تمہیں
۳۰۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نکاح کرنے میں مضائقہ نہیں اور ایسا ہی تمہارے بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں مگر وہ بیٹے جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں متمنی نہیں ہیں اور یہ حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح کرو اور دونوں تمہارے نکاح میں ہوں مگر جو پہلے اس سے گزر گیا اس پر کچھ مؤاخذہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵۰) خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں جیسا کہ یہ آیت ہے وَ حَلَابِلُ ابْنَا بِكُمُ الَّذِينَ مِنْ اصلا بكُم یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جو رواں حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا تو اب ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا.قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متلی کی جور و حرام نہیں ہو سکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا.تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لاؤ.(آرید دهرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۸) ج وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَبَ اللهِ عَلَيْكُمْ ج وَأحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوا بِاَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۖ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا احصان.....سے مراد خاص وہ پاک دامنی ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے اور محصن یا محصنہ اس مرد یا اس عورت کو کہا جائے گا کہ جو حرامکاری یا اس کے مقدمات سے مجتنب رہ کر اس نا پاک بدکاری سے اپنے تئیں روکیں.جس کا نتیجہ دونوں کے لیے اس عالم میں ذلت اور لعنت اور دوسرے جہان میں عذاب آخرت اور متعلقین کے لیے علاوہ بے آبروئی نقصان شدید ہے مثلاً جو شخص کسی کی بیوی سے ناجائز حرکت کا مرتکب ہو یا مثلاً زنا تو نہیں مگر اس کے مقدمات مرد اور عورت دونوں سے ظہور میں آویں تو کچھ شک نہیں کہ اس غیرت مند مظلوم کی ایسی بیوی کو جو زنا کرانے پر راضی ہوگئی تھی یا زنا بھی واقع ہو چکا تھا طلاق دینی پڑے گی اور بچوں پر بھی اگر اس عورت کے پیٹ سے ہوں گے بڑا تفرقہ پڑے گا اور مالک خانہ یہ تمام نقصان اس بدذات کی وجہ سے اٹھائے گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة النساء اس جگہ یادر ہے کہ یہ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے یعنی پاک دامنی یہ اسی حالت میں خلق کہلائے گا جبکہ ایسا شخص جو بدنظری یا بدکاری کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے یعنی قدرت نے وہ قومی اس کو دے رکھے ہیں جن کے ذریعہ سے اس جرم کا ارتکاب ہوسکتا ہے اس فعل شنیع سے اپنے تئیں بچائے.اور اگر باعث بچہ ہونے یا نامرد ہونے یا خوجہ ہونے یا پیر فرتوت ہونے کے یہ قوت اس میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس کو اس خلق سے جس کا نام احسان یا عفت ہے موصوف نہیں کر سکتے ہاں یہ ضرور ہے کہ عفت اور احصان کی اس میں ایک طبعی حالت ہے مگر ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ طبعی حالتیں خلق کے نام سے موسوم نہیں ہوسکتیں بلکہ اس وقت خلق کی مد میں داخل کی جائیں گی جبکہ عقل کے زیر سایہ ہو کر اپنے محل پر صادر ہوں یا صادر ہونے کی قابلیت پیدا کر لیں لہذا جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ بچے اور نامرد اور ایسے لوگ جو کسی تدبیر سے اپنے تئیں نامرد کر لیں اس خلق کا مصداق نہیں ٹھہر سکتے گو بظاہر عفت اور احسان کے رنگ میں اپنی زندگی بسر کریں بلکہ تمام صورتوں میں ان کی عفت اور احصان کا نام طبعی حالت ہوگا نہ اور کچھ.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۱،۳۴۰) واضح ہو کہ احسان کا لفظ حصن سے مشتق ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں اور نکاح کرنے کا نام احسان اس واسطے رکھا گیا کہ اس کے ذریعہ سے انسان عفت کے قلعہ میں داخل ہو جاتا ہے اور بدکاری اور بدنظری سے بچ سکتا ہے اور نیز اولاد ہو کر خاندان بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور جسم بھی بے اعتدالی سے بچا رہتا ہے پس گویا نکاح ہر ایک پہلو سے قلعہ کا حکم رکھتا ہے.آرید هرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲ حاشیه ) ہمیں قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پر ہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو اور اولاد صالح طلب کرنے کے لیے دعا کرو جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ یعنی چاہیے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقومی اور پر ہیز گاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ حیوانات کی طرح محض نطفہ نکالنا ہی تمہارا مطلب ہو اور محسنین کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے سو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں ایک عفت اور پر ہیز گاری دوسری حفظ صحت، تیسری اولاد.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲) اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو دوسروں کے قید نکاح میں ہیں مگر وہ عورتیں جو شرعی طور پر ظالم کا فروں کی لڑائی میں قید ہو کر تمہارے قبضہ میں آئی ہوں.یہ خدا کا حکم تحریری ہے جو تم پر لازم کیا جاتا ہے ان عورتوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة النساء کےسوا جو ذکر ہوچکیں (آیت ۲۳ تا ۲۵) باقی سب عورتیں تم پر حلال ہیں مگر اس شرط سے کہ وہ تعلق صرف شہوت رانی کا ناجائز تعلق نہ ہو بلکہ نیک اور پاک مقاصد کی بنا پر نکاح ہو.یہ ہیں وہ عورتیں جو خدا کے قانون نے مسلمانوں پر حرام کر دی ہیں اور یہ محض خدا کا حق ہے کہ جن چیزوں کو چاہے حلال کرے اور جن کو چاہے حرام کرے اور وہی اپنے مصالح کو خوب جانتا ہے اب آریوں کا خدائی قانون میں خواہ نخواہ بغیر کسی حجت اور روشن دلیل کے دخل دینا صرف شوخی اور کمینگی ہے اور ہمیں تو تعجب آتا ہے کہ جولوگ حیوانات کا پیشاب اور گوبر بھی کھا جاتے ہیں اور حرام حلال کا یہ حال ہے کہ اپنی بیوی کو بنام نہاد نیوگ دوسروں سے ہم بستر کراتے ہیں وہ اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قریبی رشتہ داروں سے کیوں نکاح کیا جاتا ہے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ وہ خدا کے نزدیک ایسے قریبی نہیں ہیں جو تمہارے خیال خام میں قریبی معلوم ہوتے ہیں جن کو خدا نے قریبی ٹھیرایا ہے ان کا ذکر اپنی کتاب میں کر دیا ہے اور وہ نکاح حرام کیے گئے ہیں جیسا کہ ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں مگر اس کا کیا جواب ہے کہ وید کے پرمیشر نے ایک بڑا اندھیر مارا ہے ( جس کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آریہ لوگ بسا اوقات ماؤں اور بہنوں سے بھی شادی کر لیتے ہیں ) اور وہ تناسخ یعنی آواگون کا دھوکہ دینے والا طریق ہے کیونکہ جس حالت میں دوبارہ آنے والی روح کے ساتھ پر میشر کی طرف سے کوئی ایسی فہرست پیٹ میں سے ساتھ نہیں نکلتی جس سے معلوم ہو کہ فلاں عورت سے پیدا ہونے والی در حقیقت فلاں شخص کی ماں ہے یا دادی ہے یا نانی ہے یا بیٹی ہے یا بہن ہے تو اس میں کیا شک ہے کہ بسا اوقات ایک آریہ شادی کرنے والا اپنی ماں سے نکاح کر لیتا ہوگا ؟ یا بیٹی سے یا بہن سے یا دادی سے اگر کہو کہ یہ تو پر میشر کا قصور ہے ہمارا قصور نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر تم ایسے پر میشر پر کیوں ایمان لاتے ہو؟ جو تمہیں دیدہ دانستہ ایسی ایسی ناپاکی میں ڈالتا ہے اور اگر وہ ان رشتوں کو تمہارے لیے حلال سمجھتا ہے تو پھر تم کیوں اپنے پر میشر کی نافرمانی کرتے ہو اور کیوں شاکت مت کی طرح جو ہندوؤں کی ایک شاخ ہے ماؤں بہنوں کو اپنے پر حلال نہیں کر لیتے یہ کمال نا سمجھی اور کمزوری ہے کہ جن چیزوں کو پرمیشر تمہارے لیے حلال ٹھیراتا ہے تم ان چیزوں کو حرام ٹھیراتے ہو.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵۰ تا۲۵۲) محصنات تو قرآن شریف میں خود نکاح والی عورتوں پر بولا گیا ہے.وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ النِّسَاءِ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ راکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٦ سورة النساء.......وَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُونِ........۲۶ مہر کی مقدار کس قدر ہو؟) فرمایا کہ تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا.اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لیے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کے دینے کی.میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر شدہ نہ دلا یا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۲۳) قانون.ج يُرِيدُ اللهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًات ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۵۸) ضعیفا اس کی حقیقت ہے.انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے یہی کمزوری ہے کہ اگر الہی طاقت اس کے ساتھ شامل نہ ہو تو انواع اقسام کے گناہوں کا موجب ہو جاتی ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد نمبر ۵ صفحه (۱۹۱) یقیناً یا د رکھو کہ انسان کمزوریوں کا مجموعہ ہے اور اسی لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا اس کا اپنا تو کچھ بھی نہیں سر سے پاؤں تک اتنے اعضا نہیں جس قدر امراض اس کو لاحق ہوتے ہیں پھر جب وہ اس قدر کمزوریوں کا نشانہ اور مجموعہ ہے تو اس کے لیے امن اور عافیت کی یہی سبیل ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ صاف ہو اور وہ اس کا سچا اور مخلص بندہ بنے.اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صدق کو اختیار کرے.جسمانی نظام کی کل بھی صدق ہی ہے جو شخص صدق کو چھوڑتے ہیں اور خیانت کر کے جرائم کو پناہ میں لانے والی سپر کذب کو خیال کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں.(احکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا انسان چند روز کے لیے زندہ ہے ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جوحی و قیوم ہے جب وقت موعود آ جاتا ہے تو ہر ایک چیز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٧ سورة النساء السلام علیکم کہتی اور سارے قومی رخصت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ( یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ) اور اس میں بذات خود کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے جب تک خدا تعالیٰ خود نہ عطا فرمادے اگر آنکھیں ہیں اور تم ان سے دیکھتے ہو یا کان ہیں اور تم ان سے سنتے ہو یا زبان ہے اور تم اس سے بولتے ہو تو یہ سب خدا کا فضل ہے کہ یہ سب قومی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں وگرنہ اکثر لوگ مادر زاد اندھے یا بہرے یا گونگے پیدا ہوتے ہیں.بعض بعد پیدائش کے دوسرے حوادثات سے ان نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں مگر تمہاری آنکھیں بھی نہیں دیکھ سکتیں جب تک روشنی نہ ہو اور کان نہیں سن سکتے جب تک ہوا نہ ہو.پس اس سے سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ دیا گیا ہے جب تک آسمانی تائید اس کے ساتھ نہ ہو تب تک تم محض بریکار ہو.ایک بات کو تم کتنے ہی صدق دل سے قبول کرو مگر جب تک فضل الہی شامل حال نہیں تم اس پر قائم نہیں رہ سکتے.(البد رجلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ صفحه ۳) انسان کمزور ہے جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے.اس کے لیے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴) بچہ کو اگر دودھ نہ ملے تو وہ کب تک جئے گا ؟ آخر سک کر مر جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے انقطاع امداد ہو تو انسان چونکہ کمزور اور ضعیف ہے جیسا کہ فرما یا خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا پس وہ بھی آخر روحانی طور پر مر جائے گا.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) انسان ناتوان ہے.غلطیوں سے پر ہے.مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں.پس دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بناوے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۳) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً قف عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمُ رَحِيْمان نا جائز طور ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ مگر باہم رضامندی کی تجارت سے.( شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۸ سورة النساء لَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ تم خود کشی نہ کرو.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) الرِّجَالُ قَوَمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ، فَالصَّلِحْتُ قنتت حفظت لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظ الله و التي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ b فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ملوک کے خیالات کا مذہب، طرز، لباس وغیرہ ہر قسم کے امور کا اخلاقی ہوں یا مذہبی بہت بڑا اثر رعایا پر پڑتا ہے.جیسے ذکور کا اثر اناث پر پڑتا ہے اس لیے فرمایا گیا ہے.الرِّجَالُ قَؤْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ اپریل ۱۹۰۱ء صفحه ۲) یہ بھی عورتوں میں خراب عادت ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا ان کے حق میں کہہ دیتی ہیں ایسی عورتیں اللہ اور رسول کے نزدیک لعنتی ہیں ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری اپنے خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجانہ لائے اور پس پشت یعنی اس کے پیچھے اس کی خیر خواہ نہ ہواور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار ر ہیں ورنہ ان کا کوئی عمل منظور نہیں اور نیز فرمایا ہے کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بد زبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر پھر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہیے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چر اویں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچاویں.اور یا درکھنا چاہیے کہ بغیر خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں ان سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بد کار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں اور میں نہ آنے دیں اور ان کو اپنی خدمت میں نہ رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کا رعورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۸۶،۸۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة النساء عورتوں کے لیے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا ان کو ہر ایک بلا سے بچاوے گا.اور ان کی اولا د عمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی.مکتوبات جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۲۰۷ مکتوب بنام ہر دو اہلیہ حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری) مرد چونکہ الرجال قوامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کا مصداق ہے اس لیے اگر وہ لعنت لیتا ہے تو وہ لعنت بیوی بچوں کو بھی دیتا ہے اور اگر برکت پاتا ہے تو ہمسائیوں اور شہر والوں تک کو بھی دیتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۷) الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء.اسی لیے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی.البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۷۵ ) عورتیں اصل میں مردوں کی ہی ذیل میں ہوا کرتی ہیں.(الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) مرد گھر کا کشتی بان ہوتا ہے اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی اسی لیے کہا الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل وعیال کی رستگاری ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶ ؍ جولائی ۱۹۰۴ ، صفحہ ۴) عورتوں میں بت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ ان کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بت پرستی کی ابتدا انہی سے ہوئی ہے بزدلی کا مادہ بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذراسی سختی پر اپنی جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہے اس لیے جو لوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ ان میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں.پس بہت ضروری ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ رہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.اور اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قوی زیادہ دیئے گئے ہیں.اس وقت جونئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف؟ ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی.غرضیکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لیے مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے.یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی یہ لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے.جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کو اندازہ
سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرو.اگر اس آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ؟ ور نہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گو یا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے.کم سے کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ رستمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۶) جن عورتوں کی طرف سے نا موافقت کے آثار ظاہر ہو جائیں پس تم ان کو نصیحت کرو اور خواب گاہوں میں ان سے جدا ر ہو اور مارو ( یعنی جیسی جیسی صورت اور مصلحت پیش آوے ) پس اگر وہ تمہاری تابعدار ہو جائیں تو تم بھی طلاق وغیرہ کا نام نہ لو اور تکبر نہ کرو کہ کبریائی خدا کے لیے مسلم ہے یعنی دل میں یہ نہ کہو کہ اس کی مجھے کیا حاجت ہے میں دوسری بیوی کر سکتا ہوں بلکہ تواضع سے پیش آؤ کہ تواضع خدا کو پیاری ہے.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۱) وَ اِن خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا اِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا اگر میاں بیوی کی مخالفت کا اندیشہ ہو تو ایک منصف خاوند کی طرف سے مقرر کرو اور ایک منصف بیوی کی طرف سے.اگر منصف صلح کرانے کے لیے کوشش کریں گے تو خدا توفیق دے دے گا.(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۱) وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة النساء b الْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوران تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھیرا ؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرہ میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے ) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو.خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا مگر افسوس ! کہ ایک آریہ بجز عوض معاوضہ کے کسی پر رحم نہیں کر سکتا کیونکہ یہ صفت اس کے پرمیشر میں بھی موجود نہیں کیونکہ وہ بھی صرف اعمال کی جزا دے سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں اور اسی وجہ سے مکتی محدود ہے نہ دائگی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۹،۲۰۸) تم ماں باپ سے نیکی کرو اور قریبیوں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور ہمسایہ سے جو تمہارا قریبی ہے اور ہمسایہ سے جو بیگانہ ہے اور مسافر سے اور نوکر اور غلام اور گھوڑے اور بکری اور بیل اور گائے سے اور حیوانات سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں کیونکہ خدا کو جو تمہارا خدا ہے یہی عادتیں پسند ہیں.وہ لا پروا اور خود غرضوں سے محبت نہیں کرتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۸) الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا النَّهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينان ایسے لوگوں کو نہیں چاہتا جو بخیل ہیں اور لوگوں کو بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مال کو چھپاتے ہیں یعنی محتاجوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۸) فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هُوَ لَا ءِ شَهِيدًان جب ان قوموں میں ایک مدت دراز گزرنے کے بعد باہمی تعلقات پیدا ہونے شروع ہو گئے اور
٣١٢ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ایک ملک کا دوسرے ملک سے تعارف اور شناسائی اور آمد و رفت کا کسی قدر دروازہ بھی کھل گیا اور دنیا میں مخلوق پرستی اور ہر ایک قسم کا گناہ بھی انتہا کو پہنچ گیا تب خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تا بذریعہ اس تعلیم قرآنی کے جو تمام عالم کی طبائع کے لیے مشترک ہے دنیا کی تمام متفرق قوموں کو ایک قوم کی طرح بنا دے اور جیسا کہ وہ واحد لاشریک ہے ان میں بھی ایک وحدت پیدا کرے اور تا وہ سب مل کر ایک وجود کی طرح اپنے خدا کو یاد کریں اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیں اور تا پہلی وحدت قومی جو ابتدائے آفرینش میں ہوئی اور آخری وحدت اقوامی جس کی بنیاد آخری زمانہ میں ڈالی گی یعنی جس کا خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے وقت میں ارادہ فرمایا یہ دونوں قسم کی وحدتیں خدائے واحد لاشریک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دوہری شہادت ہو کیونکہ وہ واحد ہے اس لیے اپنے تمام نظام جسمانی اور روحانی میں وحدت کو دوست رکھتا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۰) اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا.(براہین احمدیہ چہار ص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۱۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اللہ جل شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا...........وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا - شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا تھا اس نے کچھ کہا تھا تو آپ نے فرمایا بس کر اب تو میں اپنی ہی امت پر گواہی دینے کے قابل ہو گیا ہوں مجھے فکر ہے کہ میری امت کو میری گواہی کی وجہ سے سزا الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۰ ؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) ملے گی.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ وَأَنْتُمْ سُكرى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ ولا جنبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِنْكُم مِّنَ الْغَابِطِ اَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا b صَعِيدً ا طَيْبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا غَفُورات اگر تم مریض ہو یا سفر پر یا پاخانہ سے آؤ یا عورتوں سے مباشرت کرو اور پانی نہ ملے تو ان سب صورتوں میں پاک مٹی سے تیم کرلو.جن لوگوں کو ساری عمر میں تعلَمُوا نصیب نہ ہو ان کی نماز ہی کیا ہے؟ ایک عورت کا ذکر کرتے ہیں کہ نماز (شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱، ۳۳۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٣ سورة النساء پڑھا کرتی تھی ایک دن اس نے پوچھا کہ درود میں جو صَلِّ عَلی مُحمد آتا ہے اس کے کیا معنے ہیں.خاوند نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے رسول تھے اس پر اس نے تعجب کیا اور کہا کہ ہائے ہائے میں ساری عمر بیگا نہ مرد کا نام لیتی رہی.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۵،۱۱۴) ابتدا میں بعض صحابہ نے شراب پی ہوئی ہوتی تھی اور نماز پڑھ لیتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو منع نہیں کیا جب تک آیت کریمہ لا تقربوا الصلوةُ وَ انْتُمْ سُکری نہ نازل ہوئی.دھو.البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱۴ /اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۳۴) بیجا عذر تراشنے کے واسطے تو بڑے حیلے ہیں بعض شریر لا تقربوا الصلوۃ کے یہ معنے کر دیتے ہیں کہ نماز نہ البدر جلد نمبر ۲۶ مورخه ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴) مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَع وَ رَاعِنَا لَيًّا بِالْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ وو قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم واقوم ولكن لعنهم اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو مؤخر کر دیتے تھے جن کی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعہ کہ ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی سو ایسی تحریفوں سے ہر یک مسلمان کو ڈرنا چاہیے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱۵) دجال کی نسبت حدیثوں میں یہ بیان ہے کہ وہ دجل سے کام لے گا اور مذہبی رنگ میں دنیا میں فتنہ ڈالے گا سو قرآن شریف میں یہ صفت عیسائی پادریوں کی بیان کی گئی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه - چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۷،۸۶ حاشیه ) دجل یہ ہے کہ اندر ناقص چیز ہو اور اوپر کوئی صاف چیز ہو.مثلاً او پر سونے کا مطمع ہو اور اندر تانبا ہو.یہ دجل ابتدائے دنیا سے چلا آتا ہے مکر و فریب سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا.زرگر کیا کرتے ہیں؟ جیسے دنیا کے کاموں میں دجل ہے ویسے ہی روحانی کاموں میں بھی دجل ہوتا ہے.يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ بھی الحکم جلد ۵ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ / اپریل ۱۹۰۱ ء صفحه ۲) وجل ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة النساء ان کتابوں (توریت اور انجیل) کی نسبت قرآن مجید میں يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ تَمَوَاضِعِهِ لکھا ہے وہ لوگ شرح کے طور پر اپنی طرف سے بھی کچھ ملا دیا کرتے تھے.الحکم جلد۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (٤٩) خدا ہر یک گناہ بخش دے گا جس کے لیے چاہے گا پر شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) اسی طرح پر خدا نے قرآن میں فرمایا يَغْفِرُ مَا دُونَ ذلِكَ الے یعنی ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا انہیں بخشے گا پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۳، ۳۲۴ حاشیه ) یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات دنیا پر زوردیا جاوے اسی کا نام ہی شرک ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۴ مورخہ ۳۰/جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُونَ اَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلا وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلاً......اور ایک تاگے کے برابر کسی پر زیادتی نہیں ہوگی.W ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) الم تَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الكتب يُؤْمِنُونَ بِالْجِبَتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا کیا تو نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تو رات کو کچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیوتوں اور بتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں.(براہین احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۸۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ أولبِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًات سورة النساء یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کے لیے کوئی مددگار نہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۷) (۵۵) ام يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ فَقَدْ أَتَيْنَا الَ إبراهيم الكتب وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا موسیٰ نے ظاہر ہو کر تین بڑے کھلے کھلے کام کیے جو دنیا پر روشن ہو گئے ایسے ہی کھلے کھلے تین کام جو دنیا پر بدیہی طور پر ظاہر ہو گئے ہوں جس نبی سے ظہور میں آئے ہوں وہی نبی مثیل موسیٰ ہوگا اور وہ کام یہ ہیں.(۱) اول یہ کہ موسیٰ نے اس دشمن کو ہلاک کیا جو ان کی اور ان کی شریعت کی بیخ کنی کرنا چاہتا تھا (۲) دوسرے یہ کہ موسیٰ نے ایک نادان قوم کو جو خدا اور اس کی کتابوں سے ناواقف تھی اور وحشیوں کی طرح چار سو برس سے زندگی بسر کرتے تھے کتاب اور خدا کی شریعت دی یعنی توریت عنایت کی اور ان میں شریعت کی بنیاد ڈالی.(۳) تیسرے یہ کہ بعد اس کے کہ وہ لوگ ذلت کی زندگی بسر کرتے تھے ان کو حکومت اور بادشاہت عنایت کی اور ان میں سے بادشاہ بنائے.ان تینوں انعامات کا قرآن شریف میں ذکر ہے جیسا کہ فرمایا.قال عَسَى رَبِّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ دیکھو سورة الاعراف الجزء 9.اور پھر دوسری جگہ فرما یا فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا دیکھو سورۃ النساء - الجز و نمبر ۵.اب سوچ کر دیکھ لو کہ ان تینوں کاموں میں حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ذرہ بھی مناسبت نہیں نہ وہ پیدا ہو کر یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کر سکے اور نہ وہ ان کے لیے کوئی نئی شریعت لائے اور نہ انہوں نے بنی اسرائیل یا ان کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی.........یہ پیشگوئی سید نامحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوگئی ہے اور ایسی صفائی سے پوری ہو گئی ہے کہ اگر مثلاً ایک ہندو کے سامنے بھی جو عقل سلیم رکھتا ہو یہ دونوں تاریخی واقعات رکھے جائیں یعنی جس طرح موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور پھر سلطنت بخشی اور پھر ان وحشی لوگوں کو جو غلامی میں بسر کر رہے تھے ایک شریعت بخشی اور جس طرح سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غریبوں اور کمزوروں کو جو آپ پر ایمان لائے تھے عرب کے خونخوار درندوں سے نجات دی اور سلطنت عطا کی اور پھر اس وحشیانہ حالت کے بعد ان کو ایک شریعت عطا کی تو بلا شبہ وہ ہندو دونوں واقعات کو ایک ہی رنگ میں سمجھے گا اور ان کی مماثلت کی گواہی دے گا.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۹۹ تا ۳۰۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٦ سورة النساء اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِايْتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمُ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بدلتهُم جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا بہشت میں بھی ہر روز ایک مجدد ہوتا رہے گا.اسی طرح دوزخیوں پر بھی لکھا ہے.بدلتهُمْ جُلُودًا غيرها مگر خدا کا تجد دبے پایاں ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا.خدا کے کاموں میں انتہا نہیں فرماتا ہے ولدينا مزید.یعنی زیادتی ہوتی رہے گی.البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۹۱) اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَ إِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل بر طبق آيت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.......اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّتی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۱، ۱۶۲) امانتوں کو ان کے حق داروں کو واپس دے دیا کرو خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) ہم اسی وقت بچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لیے تیار ہو جائیں ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے.تُؤْذُوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا.مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۸۰ حاشیہ.مکتوب بنام ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب جموں ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَأْوِيلاًان قرآن میں حکم ہے اَطِیعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم اب اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ منکم میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے.گورنمنٹ جو
۳۱۷ سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بات شریعت کے موافق کرتی ہے وہ منکر میں داخل ہے.جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کی باتیں مان لینی چاہیے.(رسالہ الانذار صفحہ ۶۹) اگر حاکم ظالم ہو تو اُس کو برا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بدعملیوں کے سبب آتی ہے ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لیے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۹) اے مسلمانو ! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقعہ ہو تو اس امر کو فیصلہ کے لیے اللہ اور رسول کے حوالہ کرو اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے.کرو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۹۶) ا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲) اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.اور جسمانی طور پر جوشخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے.وہ ہم میں سے ہے.(ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۳) فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف رڈ کرو اور صرف اللہ اور رسول کو حکم بناؤ نہ کسی اور کو.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۸۴) یعنی اللہ اور اس کے رسول اور ملوک کی اطاعت اختیار کرو.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة النساء قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرماں برداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سر ہے اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اگر ان میں یہ اطاعت یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لیے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ ہاں باہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ باہم ایک تھے اور کچھ بھی کسی سے عداوت نہ تھی نا سمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ میچ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہ کی تھیں یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جو ان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لیے تھی ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقیناً وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے.سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بردل انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر بچے دل سے قبول کیا تھا اس میں کوئی تکلف اور نمائش
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ سورة النساء بی تھی ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھیرا.یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے.آپ ( پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لیے ہوئے تھی اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچے لیتے تھے اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو سیح موعود کے ہاتھ سے طیار ہورہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لیے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو.باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) فكيفَ إِذَا اَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَ تَوْفِيقًا یعنی کس طرح جس وقت پہنچے ان کو مصیبت بوجہ ان اعمال کے جو ان کے ہاتھ کر چکے ہیں اب دیکھیئے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے کاموں میں اختیار بھی رکھتا ہے.b جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱) وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَابًا رَّحِيمان یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ کسی دوسرے کا مطیع اور تابع ہو.ہاں محدث جو مرسلین میں سے ہے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی.امتی وہ اس وجہ سے کہ وہ بکلی تابع شریعت رسول اللہ اور مشکوۃ رسالت سے فیض پانے والا ہوتا ہے.اور نبی اس وجہ سے کہ خدائے تعالیٰ نبیوں سا معاملہ اس سے کرتا ہے اور محدث کا وجود انبیاء اور اہم میں بطور برزخ کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ اگر چہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے.محدث
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء کے لیے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۷) یعنی ہر ایک نبی ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اب ظاہر ہے کہ جبکہ بہ منشاء اس آیت کے نبی واجب الاطاعت ہے پس جو شخص نبی کی اطاعت سے باہر ہو وہ کیوں کر نجات (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۰ ) پاسکتا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحِكَمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُ وافي ۶۶ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یعنی اے پیغمبر تمہارے ہی پروردگار کی قسم ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنے باہمی جھگڑے تم ہی سے فیصلہ نہ کرائیں اور صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ جو کچھ تم فیصلہ کر دو اس سے کسی طرح دل گیر بھی نہ ہوں بلکہ کمال اطاعت اور دلی رضامندی اور شرح صدر سے اس کو قبول کر لیں تب تک یہ لوگ ایمان سے بے بہرہ ہیں.ج تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۲۰) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقات ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنے ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لیے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں نبیوں کا کمال، صدیقوں کا کمال، شہیدوں کا کمال ، صلحاء کا کمال ، سونبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو.اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کے صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے.سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٢١ سورة النساء دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اس میں ایمان بھی نہیں.ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنج وقت خدا تعالیٰ سے چار نشان مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تا ہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین کو پلید نہ کرے اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا ر ہے.حضرت مسیح نے بھی مختصر لفظوں میں یہی سکھایا تھا.دیکھو متی باب ۸ آیت ۹.پس تم اسی طرح دعا مانگو کہ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۲۸،۳۲۷) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۵) نبی کا لفظ نبأ سے نکلا ہے نبا کہتے ہیں خبر دینے کو اور نبی کہتے ہیں خبر دینے والے کو یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پا کر جو غیب پر مشتمل زبر دست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کے رو سے نبی کہلاتا ہے.نبی وہ ہوتے ہیں جن کا تبتل الی اللہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا سے کلام کرتے اور وحی پاتے الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) انسان جب سفلی زندگی کو چھوڑ دیتا ہے اور بالکل سانپ کی کینچلی کی طرح اس زندگی سے الگ ہو جاتا ہے اس وقت اس کی حالت اور ہو جاتی ہے وہ بظاہر اسی زمین پر چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہے اور اس پر قانون قدرت کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسا دوسرے لوگوں پر لیکن باوجود اس کے بھی وہ اس دنیا سے الگ ہوتا ہے وہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر جا پہنچا ہے جو نقطہ نبوت کہلاتا ہے اور جہاں وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کرتا ہے.یہ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہ جب وہ نفس اور اس کے تعلقات سے الگ ہو جاتا ہے تو پھر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتا ہے اور اسی سے وہ مکالمہ کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) نبوت کیا ہے یہ ایک جوھر خدا داد ہے اگر کسب سے ہوتا تو سب نبی ہو جاتے ان کی فطرت ہی اس قسم کی نہیں ہوتی کہ وہ ان بے جا سلسلہ کلام میں مبتلا ہوں.وہ نفسی کلام کرتے ہی نہیں دوسرے لوگوں میں تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ان سلسلوں میں کچھ ایسے مبتلا ہوتے ہیں کہ خدا کا خانہ ہی خالی رہتا ہے لیکن نبی ان دونوں سلسلوں سے الگ ہو کر خدا میں کچھ ایسے گم ہوتے ہیں اور اس کے مخاطبہ مکالمہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ ان سلسلوں کے لیے ان کے دل و دماغ میں سمائی اور گنجائش ہی نہیں ہوتی بلکہ خدا ہی کا سلسلہ کلام رہ جاتا ہے
۳۲۲ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء چونکہ وہی حصہ باقی ہوتا ہے اس لیے خدا ان سے کلام کرتا ہے اور وہ خدا کو مخاطب کرتے رہتے ہیں.تنہائی اور بریکاری میں بھی جب ایسے خیالات کا سلسلہ ایک انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اس وقت اگر نبی کو بھی ویسی ہی حالت میں دیکھو تو شاید غلطی اور نا واقعی سے یہ سمجھ لو کہ اب اس کا سلسلہ تو خدا سے کلام کا نہ ہو گا ؟ مگر نہیں وہ ہر وقت خدا ہی سے باتیں کرتا ہے کہ اے خدا میں تجھ سے پیار کرتا ہوں اور تیری رضا کا طالب ہوں.مجھے پر ایسا فضل کر کہ میں اس نقطہ اور مقام تک پہنچ جاؤں جو تیری رضا کا مقام ہے.مجھے ایسے اعمال کی توفیق دے جو تیری نظر میں پسندیدہ ہوں دنیا کی آنکھ کھول کہ وہ تجھے پہچانے اور تیرے آستانہ پر گرے.یہ اس کے خیالات ہوتے ہیں اور یہ اس کی آرزوئیں.اس میں ایسا محو اور فنا ہوتا ہے کہ دوسرا اس کو شناخت نہیں کر سکتا.وہ اس سلسلہ کو ذوق کے ساتھ دراز کرتا ہے اور پھر اسی میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کا دل پگھل جاتا ہے اور اس کی روح بہ نکلتی ہے وہ پورے زور اور طاقت کے ساتھ آستانہ الوہیت پر گرتی اور انتَ رَبِّي أَنتَ ربی کہہ کر پکارتی ہے تب اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم جوش میں آتا ہے اور وہ اس کو مخاطب کرتا اور اپنے کلام سے اس کو جواب دیتا ہے.یہ ایسا لذیذ سلسلہ ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھ نہیں سکتا اور یہ لذت ایسی ہے کہ الفاظ اس کو ادا نہیں کر سکتے پس وہ بار بار مستسقی کی طرح باب ربوبیت ہی کو کھٹکا تا رہتا ہے اور وہاں ہی اپنے لیے راحت و آرام پاتا ہے.وہ دنیا میں ہوتا ہے لیکن دنیا سے الگ ہوتا ہے.وہ دنیا کی کسی چیز کا آرزومند نہیں ہوتا لیکن دنیا اس کی خادم ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کے قدموں پر دنیا کولا ڈالتا ہے.یہ ہے مختصر حقیقت نبوت کے مقام کی.یہاں کلام نفسی کے دونوں سلسلے بھسم ہو جاتے ہیں اور تیسر اسلسلہ شروع ہوتا ہے جس کا مبدا اور منتہا خدا ہی ہوتا ہے اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو جذب کرتا ہے جس میں اس قسم کے دخان اور اضغاث احلام نہیں ہوتے جو نفسی کلام میں ہوتے ہیں بلکہ وہ دنیا سے انقطاع کلی کیے ہوئے ہوتا ہے جیسے ایک نفسانی خواہشوں کا اسیر اعلیٰ درجہ کا محبوبہ سے تعلق پیدا کر کے ہمہ گوش ہو کر تصور کرتا ہے اور اسے نفسانی لذات کا معراج پاتا ہے اور قطعا نہیں چاہتے کہ کسی دوسرے کو ملیں اسی طرح پر نبی خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ اس تنہائی اور خلوت میں کسی دوسرے کا دخل ہر گز پسند نہیں کرتے وہ اپنے محبوب سے ہمکلام ہوتا ہے اور اسی میں لذت و راحت پاتے ہیں وہ ایک دم کے لیے بھی اس خلوت کو چھوڑ نا پسند نہیں کرتے لیکن خدا تعالیٰ انہیں دنیا کے سامنے لاتا ہے تا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں اور خدا نما آئینہ ٹھہر ہیں.نبی طبعاً ایک لذت اور کیفیت پاتا ہے اور اسے خدا تعالی ہی میں چاہتا ہے اس سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ سورة النساء زیادہ میں اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا اگر چہ دل اس لذت سے بھرا ہوا ہے اگر چہ اس ذکر کی درازی اور بھی لذت بخش ہے مگر وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جس میں میں اس کو ظاہر کرسکوں.نبیوں کا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰اپریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) صدیق وہ ہوتا ہے جس کو سچائیوں کا کامل طور پر علم بھی ہو اور پھر کامل اور طبعی طور پر ان پر قائم بھی ہو.مثلاً اس کو ان معارف کی حقیقت معلوم ہو کہ وحدانیت باری تعالیٰ کیا شے ہے اور اس کی اطاعت کیا شے اور محبت باری عزاسمہ کیا شے اور شرک سے کس مرتبہ اخلاص پر مخلصی حاصل ہو سکتی ہے اور عبودیت کی کیا حقیقت ہے اور اخلاص کی حقیقت کیا اور تو بہ کی حقیقت کیا اور صبر اور توکل اور رضا اور محویت اور فنا اور صدق اور وفا اور تواضع اور سخا اور ابتہال اور دعا اور عفو اور حیا اور دیانت اور امانت اور اتقا وغیرہ اخلاق فاضلہ کی کیا کیا حقیقتیں ہیں.پھر ماسوا اس کے ان تمام صفات فاضلہ پر قائم بھی ہو.( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۰) صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے الکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں اور اس صدیق کے صدق پر گواہی دیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۶) صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راست بازی میں فنا شدہ ہو.اور کمال درجہ کا پابند راست بازی اور عاشق صادق ہو.اس وقت وہ صدیق کہلاتا ہے یہ ایک ایسا مقام ہے جب ایک شخص اس درجہ پر پہنچتا ہے تو وہ ہر قسم کی صداقتوں اور راست بازیوں کا مجموعہ اور ان کو کشش کرنے والا ہو جاتا ہے جس طرح پر آتشی شیشہ سورج کی شعاعوں کو اپنے اوپر جمع کر لیتا ہے اسی طرح پر صدیق کمالات صداقت کا جذب کرنے والا ہوتا ہے.بقول شخصے، زرزر کشد در جہاں گنج گنج.جب ایک شے بہت بڑا ذخیرہ پیدا کر لیتی ہے تو اسی قسم کی اشیاء کو جذب کرنے کی قوت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا نہ
وو ۳۲۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء جھوٹی گواہی دوں گا اور جذ بہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا.نہ لغو طور پر نہ کسب خیر کے لیے نہ دفع شر کے لیے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا ایاک نعبد پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض اور صدق اور راستی کا چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا جیسے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ کوئی تاجر جو اچھے اصولوں پر چلتا ہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگر وہ ایک چیسہ سے تجارت کرے اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسہ کے لاکھوں لاکھ روپیہ دیتا ہے.دو اسی طرح پر جب عام طور پر انسان راستی اور راست بازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خدا تعالی کو دکھا دیتی ہے اور وہ صدق مجسم قرآن کریم ہے اور وہ صدق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل حق اور صدق ہوتے ہیں پس وہ اس صدق تک پہنچ جاتے ہیں تب ان کی آنکھ کھلتی ہے اور ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس ا سے معارف قرآنی کھلنے لگتے ہیں.میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی طیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راست بازی کو اپنا شعار نہیں بنا تا وہ قرآن کریم کے معارف کو سمجھ بھی سکے اس واسطے کہ اس کے قلب کو مناسبت ہی نہیں یہ تو صدق کا چشمہ ہے اس سے وہی پی سکتا ہے جس کو صدق سے محبت ہو.الفلم جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) صدیق وہ ہوتے ہیں جو صدق سے پیار کرتے ہیں سب سے بڑا صدق لا إِلهَ إِلا الله ہے اور پھر دوسرا صدق مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے وہ صدق کی تمام راہوں سے پیار کرتے ہیں اور صدق ہی چاہتے ہیں....صدیق عملی طور پر صدق سے پیار کرتا اور کذب سے پر ہیز کرتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) صدیقوں کے کمال کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے اور اگر کسی کی نسبت کوئی سوء ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تا کہ اس حصیت اور اس کے برے نتیجے سے بیچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے.اس کو کبھی معمولی چیز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة النساء نہیں سمجھنا چاہیے یہ بہت ہی خطر ناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.الحکم جلد 4 نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا ہے تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ میں کیا کیا کمالات تھے.یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اس کے دل کے اندر ہے اور حقیقت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو صدق دکھایا ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اسے ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے جہاں تک ممکن ہے مجاہدہ کرے اور پھر جہاں تک ہو سکے دعا کرے جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا وہ کمالات حاصل نہیں ہو سکتے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) صدق کامل اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک تو بتہ النصوح کے ساتھ صدق کو نہ کھینچے قرآن کریم ہوتا نہ تمام صداقتوں کا مجموعہ اور صدق تام ہے جب تک خود صادق نہ بنے صدق کے کمال اور مراتب سے کیوں کر واقف ہو سکتا ہے.ہوسکتا.صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے اس لیے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ فرمایا گیا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱) مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوت ایمان سے اس قدر اپنے خدا اور روز جزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دور ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضاء وقدر بباعث موافقت کے شہد کی طرح دل میں نازل ہوتی اور تمام صحن سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے.سوشہید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوت ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اس کے تلخ قضاء قدر سے شہد شیریں کی طرح لذت اٹھاتا ہے اور اسی معنے کے رو سے شہید کہلاتا ہے اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لیے بطور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نشان کے ہے.۳۲۶ سورة النساء تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۱،۴۲۰) شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلا دے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۶) جب تک ایمان قوی ہوتا ہے اسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے یہاں تک کہ اگر یہ قوت ایمانی پورے طور پر نشو ونما پا جاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی امر اس کے سد راہ نہیں ہوسکتا وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تامل اور دریغ نہ کرے گا.(الحکم جلد ۹ نمبر ۹ مورخہ ۷ اسر مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) عام لوگ تو شہید کے لیے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیر یا بندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مر جاوے مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے......میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اور ہی ہے اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے.یاد رکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے اور وہ اس کے دوسرے درجہ پر ہوتا ہے اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہید بھی ہوتا ہے صالح بھی ہوتا ہے لیکن صدیق اور شہید ایک الگ الگ مقام ہیں.اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق شہید ہوتا ہے یا نہیں.وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھا جاتا ہے وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلا تکلف صادر ہوتے ہیں کوئی خوف اور رجا ان اعمالِ صالحہ کے صدور کا باعث نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اس کی فطرت اور طبیعت کا ایک جزو ہو جاتے ہیں تکلف اس کی طبیعت میں نہیں رہتا جیسے ایک سائل کسی شخص کے پاس آوے تو خواہ اس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو تو اسے دینا ہی پڑے گا.اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے مگر اس قسم کا تکلف شہید میں نہیں ہوتا اور یہ قوت اور طاقت اس کی بڑھتی جاتی ہے جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا مثلاً ہاتھی کے سر پر ایک چیونٹی ہو تو وہ اس کا کیا احساس کرے گا.احکام جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا، یا دریا میں ڈوب گیا
سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا و با میں مر گیا وغیرہ مگر میں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محد و درکھنا مومن کی شان سے بعید ہے شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کر سکتا وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتا ہے یہاں تک کہ اگر محض خدا تعالیٰ کے لیے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اس کو ملتا ہے اور وہ بدوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کیے اپنا سر رکھ دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ بار بار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں.ایک ایسی لذت اور سروران کی روح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جوان کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جوان کو میں ڈالے ان کو پہنچتی ہے وہ ان کو ایک نئی زندگی نئی مسرت اور تازگی عطا کرتی ہے یہ ہیں شہید کے معنی.پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے عبادت شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خد کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے طیار ہو جاتے ہیں وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اور جیسے شہد فِيهِ شِفَاء للناس کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں ان کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پا جاتے ہیں.اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے اس کا نام احسان بھی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۱) صالحین وہ ہوتے ہیں جن کے اندر سے ہر قسم کا فساد جاتا رہے جیسے تندرست آدمی جب ہوتا ہے تو اس کی زبان کا مزہ بھی درست ہوتا ہے پورے اعتدال کی حالت میں تندرست کہلاتا ہے کسی قسم کا فساد اندر نہیں رہتا.اسی طرح پر صالحین کے اندر کسی قسم کی روحانی مرض نہیں ہوتی اور کوئی مادہ فساد کا نہیں ہوتا اس کا کمال اپنے نفس میں نفی کے وقت ہے اور شہید ، صدیق ، نبی کا کمال ہوتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) صلاح کی حالت میں انسان کو ضروری ہوتا ہے کہ ہر ایک قسم کے فساد سے خواہ وہ عقائد کے متعلق ہو یا اعمال کے متعلق پاک ہو جیسے انسان کا بدن صلاحیت کی حالت اس وقت رکھتا ہے جبکہ سب اخلاط اعتدال کی حالت پر ہوں اور کوئی کم زیادہ نہ ہو لیکن اگر کوئی خلط بھی بڑھ جائے تو جسم بیمار ہو جاتا ہے اسی طرح پر روح کی صلاحیت کا مدار بھی اعتدال پر ہے اسی کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں صراط مستقیم ہے صلاح کی حالت میں انسان محض خدا کا ہو جاتا ہے جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت تھی اور رفتہ رفتہ صالح انسان ترقی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ کرتا ہوا مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدر ہوتا ہے.سورة النساء الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) کامل صلاح یہ ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی فساد باقی نہ رہے بدن صالح میں کسی قسم کا کوئی خراب اور زہریلا مادہ نہیں ہوتا بلکہ صاف اور مؤید صحت مواد اس میں ہو اس وقت صالح کہلاتا ہے جب تک صالح نہیں لوازم بھی صالح نہیں ہوتے یہاں تک کہ مٹھاس بھی اسے کڑوی معلوم ہوتی ہے اسی طرح پر جب تک صالح نہیں بنتا اور ہر قسم کی بدیوں سے نہیں بچتا اور خراب مادے نہیں نکلتے اس وقت تک عبادات کر وی معلوم ہوتی ہیں نماز میں جاتا ہے مگر اسے کوئی لذت اور سرور نہیں آتا وہ فکریں مار کر منحوس منہ سے سلام پھیر کر رخصت ہوتا ہے لیکن مزا اسی وقت آتا ہے جب گندے مواد نکل جاتے ہیں تو انس اور ذوق شوق پیدا ہوتا ہے.اور اصلاح انسانی اسی درجہ سے شروع ہوتی ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۸) چوتھا درجہ صالحین کا ہے جن کو مواد ردیہ سے صاف کر دیا گیا ہے اور ان کے قلوب صاف ہو گئے ہیں یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب تک مواد ر د یہ دور نہ ہوں اور سوء مزاج رہے تو مزہ زبان تک کا بھی بگڑ جاتا ہے، تلخ معلوم دیتا ہے اور جب بدن میں پوری صلاحیت اور اصلاح ہو اس وقت ہر ایک شے کا اصل مزہ معلوم ہوتا ہے اور طبیعت میں ایک قسم کی لذت اور سرور اور چستی اور چالا کی پائی جاتی ہے اسی طرح پر جب انسان گناہ کی ناپاکی میں مبتلا ہوتا ہے.اور روح کا قوام بگڑ جاتا ہے پھر روحانی قوتیں کمزور ہونی شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ عبادات میں مزہ نہیں رہتا طبیعت میں ایک گھبراہٹ اور پریشانی پائی جاتی ہے لیکن جب مواد رد یہ جو گناہ کی زندگی سے پیدا ہوئے تھے تو بہ النصوح کے ذریعہ خارج ہونے لگیں تو روح میں وہ اضطراب اور بے چینی کم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ آخر ایک سکون اور تسلی ملتی ہے پہلے جو گناہ کی طرف قدم اٹھانے میں راحت محسوس ہوتی تھی اور پھر اسی فعل میں جو نفس کی خواہش کا نتیجہ ہوتا تھا اور جھکنے میں خوشی ملتی تھی اس طرف جھکتے ہوئے دکھ اور رنج معلوم ہوتا ہے روح پر ایک لرزہ پڑ جاتا ہے اگر اس تاریک زندگی کا وہم یا تصور بھی آجائے اور پھر عبادات میں ایک لطف ، ذوق ، جوش اور شوق پیدا ہونے لگتا ہے.روحانی قومی جو گناہ آمیز زندگی سے مردہ ہو چلے تھے ان کا نشود نما شروع ہوتا ہے اور اخلاقی طاقتیں اپنا ظہور کرتی ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۲،۱) منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں نبی صدیق شہدا اور صالح.انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع
۳۲۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ہوتی ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لیے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے.....اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) الہام صحیح اور بچے کے لیے یہی شرط لازمی ہے کہ اس کے مقامات مجملہ کی تفصیل بھی اسی الہام کے ذریعہ سے کی جائے جیسا کہ قرآن کریم میں یعنی سورہ فاتحہ میں یہ آیت ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - اب اس آیت میں جو انعمت علیھم کا لفظ ہے یہ ایک مجمل لفظ تھا اور تشریح طلب.اَنْعَمتَ تھا تو خدا تعالیٰ نے دوسرے مقام میں خود اس کی تشریح کر دی اور فرمایا کہ أُولَبِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۵) قَلّى اللهُ ذِكْرَ الصَّدِيقِينَ بَعْدَ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے ذکر کے بعد صد یقوں کا ذکر النَّبِيِّينَ وَقَالَ أُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ فرمایا ہے جیسے کہ فرمایا أُولَبِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وَفِي ذلِكَ الصَّلِحِينَ اس میں حضرت ابوبکر کی طرف اور دوسروں پر إِشَارَاتُ إِلَى الضِيِّيْنِ وَتَفْضِيْلِهِ عَلَی آپ کی فضیلت کی طرف کئی ایک اشارے ہیں کیونکہ الْآخَرِينَ، فَإِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے آپ کے سوا وَسَلَّمَ مَا سَلمى أحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ کسی کا نام صدیق نہیں رکھا تا کہ آپ کے مقام اور آپ کی صِدِّيقًا إِلَّا إِيَّاهُ لِيُظْهِرَ مَقَامَهُ وَرَيَّاهُ فضیلت کو ظاہر کرے پس غور کرنے والوں کی طرح دیکھو فَانْظُرْ كَالْمُتَدَثِرِينَ وَفِي الْآيَةِ إِشَارَةٌ پھر اس آیت میں سالکوں کے لیے مراتب کمال اور ان عَظِيمَةٌ إلى مَرَاتِبِ الْكَمَالِ وَأَهْلِهَا مراتب کے حاصل کرنے والوں کی طرف ایک بلیغ اشارہ لِقَوْمٍ سالكين وَ إِنَّا إِذَا تَدَبَّرُنَا هَذِهِ ہے جب ہم نے اس آیت پر تدبر کیا اور اپنے فکر کو انتہا
٣٣٠ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء الْآيَةِ، وَبَلَّغْنَا الْفِكْرَ إِلَى النِهَايَةِ، فَانْكَشَفَ تک پہنچایا تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ آیت کمالات أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ أَكْبَرُ شَوَاهِدِ كَمَالَاتِ صدیقیہ کے بڑے شواہد میں سے ہے اور اس میں ایک الصديقِ، وَفِيهَا سِر عَمِيق يُنكَشِفُ عَلى گہرا راز ہے اور وہ ہر اس شخص پر ظاہر ہوتا ہے جو تحقیق كُل مَن يتمايل عَلَى التَّحْقِيقِ فَإِنَّ أَبا بَكْرِ کی طرف مائل ہو.پس حضرت ابو بکر" کا نام رسول کریم لى صِدِيقًا عَلى لِسَانِ الرَّسُوْلِ الْمَقْبُولِ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صدیق رکھا گیا وَالْفُرْقَانُ أَلْحَقَ الصَّدِيقِينَ بِالْأَنْبِيَاءِ كَمَا اور قرآن کریم نے صدیقوں کو انبیاء کے ساتھ ملایا ہے لَا يَخْفَى عَلَى ذَوِى الْعُقُولِ، وَلَا تَجِدُ إطلاق جیسا کہ یہ بات کسی عقلمند پر مخفی نہیں اور ہم صدیق کے هذا اللقب والخطاب عَلَى أَحَدٍ مِّنَ لقب اور خطاب کا اطلاق صحابہ میں سے کسی اور پر نہیں الْأَصْحَابِ فَتَبَتَ فَضِيلَةُ الصِّدِّيقِ پاتے.پس اس سے اس صدیق امین کی فضیلت ثابت الْأَمِينِ، فَإِنَّ اسْتَمَهُ ذُكِرَ بَعْدَ النَّبِيِّينَ ہوتی ہے کیونکہ آپ کا نام نبیوں کے بعد ذکر کیا گیا ہے فَانْظُرْ بِالإِنابَةِ وَفَارِقُ غِشَاوَةُ الإسترابة پس تو پوری توجہ سے دیکھا اور شک کے پردوں کو پھاڑ ڈال.(سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۵۷) ( ترجمه از مرتب) اَيْنَ مَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمُ في بُرُوج مُشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُم فِى : حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۚ وَ إِنْ تُصِبُهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ (۹) حَدِيثًا یعنی جس جگہ تم ہو اُسی جگہ موت تمہیں پکڑے گی اگر چہ تم بڑے مرتفع برجوں میں بودوباش اختیار کرو.اس آیت سے بھی صریح ثابت ہوتا ہے کہ موت اور لوازم موت ہر یک جگہ جسم خاکی پر وارد ہو جاتے ہیں یہی سنت اللہ ہے اور اس جگہ بھی استثناء کے طور پر کوئی ایسی عبارت بلکہ ایک ایسا کلمہ بھی نہیں لکھا گیا ہے جس سے مسیح باہر رہ جاتا پس بلاشبہ یہ اشارات النص بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کر رہے ہیں موت کے تعاقب سے مراد زمانہ کا اثر ہے جو ضعف اور پیری یا امراض و آفات منجر و الی الموت تک پہنچاتا ہے اس سے کوئی نفس مخلوق خالی نہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۶) وَ يَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِكَ بَيْتَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ غَيْرَ الَّذِى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ سورة النساء تَقُولُ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وكيلات کرتا.كفى بالله وكيلاً یعنی خدا اپنے کاموں کا آپ ہی وکیل ہے کسی دوسرے کو پوچھ پوچھ کر احکام جاری نہیں ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۸) أفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا گشیران فَأَشَارَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ أَنَّ الإختلاف اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ) اس بات کی طرف اشارہ لَا يُوجَدُ فِي الْقُرْآنِ، وَهُوَ كِتَابُ الله کیا ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف نہیں پایا جاتا اور وہ اللہ وَشَأْنُه أَرْفَعُ مِنْ هَذَا، وَإِذَا ثَبَتَ أَن تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ کی شان ایسے امور سے بالا ہے اور كِتَابَ اللهِ مُنَزِّهُ عَنِ الْإِنختلافات جب یہ ثابت ہو گیا کہ قرآن مجید اختلافات سے پاک ہے تو فَوَجَبْ عَلَيْنَا أَلا تختار في تفسيره ہم پر واجب ہے کہ اس کی تفسیر کرتے وقت ہم کوئی ایسا طَرِيقًا يُوجِبُ التَّعَارُضَ وَالتَّنَا قُضَ طریق اختیار نہ کریں جو تعارض اور تناقض کا موجب ہو.(حمامتہ البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۵۶ حاشیه ) (ترجمه از مرتب) یعنی کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے اور اگر وہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا.اور ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس میں اختلاف نہیں تو اس زمانہ کے لوگوں کا حق تھا کہ اگر ان کے نزدیک کوئی اختلاف تھا تو وہ پیش کرتے مگر سب ساکت ہو گئے اور کسی نے دم نہ مارا اور اختلاف کیوں کر اور کہاں سے ممکن ہے جس حالت میں تمام احکام ایک ہی مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں یعنی علمی اور عملی رنگ میں اور درشتی اور نرمی کے پیرایہ میں خدا کی توحید پر قائم کرنا اور ہوا و ہوس چھوڑ کر خدا کی توحید کی طرف کھینچنا ہی قرآن کا مدعا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۹۸) اگر وحی نبوت میں کبھی کچھ بیان ہواور کبھی کچھ تو اس سے امان اٹھ جاتا ہے.( ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۰۹) جولوگ قصص اور ہدایات میں تمیز نہیں کرتے ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ سورة النساء اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے لَو كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا گھیرا.اور عدم اختلاف اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہرائی گئی ہے لیکن یہ نا عاقبت اندیش قصص اور ہدایات میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا کر کے اس کو من عند غیر اللہ ٹھیراتے ہیں افسوس ان کی دانش الحکم جلد ۴ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۶ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۲) / پر!!! مَنْ تَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِنْهَا ۚ وَمَنْ تَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيْئَةً يَكُن لَّهُ كِفَلُ مِنْهَا وَ كَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيِّتًا وَكَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيِّتًا اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے.999 پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۴) وَإِذَا حَيْيُتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلى كُل شَيْءٍ حَيْبان اور سلام کا جواب احسن طور پر دے.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) اور اگر تمہیں کوئی سلام کہے تو اس سے بہتر اور نیک تر اس کو سلام کہو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) وَمَنْ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ ولعنه وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا یعنی جو شخص کہ ایک مومن کو بلا کسی کافی عذر کے قتل کر دے پس اس کی سزا جہنم ہے.....اور یہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے شخص پر میر ا غضب نازل ہوگا پس خدا کے غضب سے اور کون سی چیز ہے جو البدر جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۰) خطرناک ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ اَلْقَى ج اِلَيْكُمُ السَّلمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ، تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَ اللهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللهَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ٣٣٣ سورة النساء قرآن شریف نے تو نکتہ چینی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے.كَذلِكَ كُنتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَ اللهُ عَلَيْكُمْ يعنى تم بھی تو ایسے ہی تھے خدا نے تم پر احسان کیا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰ مورخه ۲۶ /اپریل ۱۹۰۴ ء صفحه ۲) لا يَسْتَوِي الْقَعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالمُجْهِدُونَ فِى سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى ، وَ فَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَعِدِينَ اَجْرًا عَظِيمات قاعدین یعنی ست اور معمولی حیثیت کے لوگ اور خدا کی راہ میں کوشش اور سعی کرنے والے ایک برابر نہیں ہوتے.یہ تجربہ کی بات ہے اور سالہائے دراز سے ایسا ہی دیکھنے میں آ رہا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۲ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۲) وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَبًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهُ عَلَى اللهِ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمان حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں لیکن میں کہتا ہوں کہ نہ صرف نبی بلکہ بجز اپنے وطن کے کوئی راست باز بھی دوسری جگہ ذلت نہیں اٹھا تا اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے.....جوشخص اطاعت الہی میں اپنے وطن کو چھوڑے تو خدائے تعالی کی زمین میں ایسے آرام گاہ پائے گا جن میں بلا حرج.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۲۶) دینی خدمت بجالا سکے.اسباب کیا شے ہیں کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری راہ میں جاؤ گے تو مُرغَبًا كَثِيرًا پاؤ گے صحت نیت سے جو قدم اٹھاتا ہے خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ انسان اگر بیمار ہو تو اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری / ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۵) وَ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلوة اِن خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَفِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوا مُّبِينًا فرمایا جو شخص تین دن کے واسطے یہاں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة النساء عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائز ہے.یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے.ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی.حکام کا دورہ سفر نہیں ہوسکتا وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنے باغ کی سیر کرتا ہے.خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کوئی وجود نہیں.اگر دوروں کی وجہ سے انسان قصر کرنے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہوگا.جس کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے.حکام کہاں مسافر کہلا سکتے ہیں سعدی نے بھی کہا ہے.؎ منعم بکوه و دشت و بیاباں غریب نیست هر جا که رفت خیمه زدوخواب گاه ساخت (الکام جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے اور اس بات کا ملازم ہے وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلا سکتا.اس کو (البدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷ فروری ۱۹۰۷ ء صفحه ۴) پوری نماز پڑھنی چاہیے.سفر تو وہ ہے جو ضر ور تا گا ہے گا ہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں.اپنی تجارت کرتا پھرے.یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گزار دے.(البدر جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۴) مرض کی حالت میں قصر نماز نہیں چاہیے البتہ اگر طاقت کھڑے ہونے کی نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں.( مکتوبات جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۵۴ مکتوب بنام حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب) ج فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا اللهَ تِيماً وَ قُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا (۱۰۴) اطمَا نَنْتُمْ فَاقِيمُوا الصَّلوةَ ۚ إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتبًا مَّوْقُوتًا پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لیے ان کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱) پہلے جبکہ تم مطلع کیے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے.مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲) دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے.جبکہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کیے جاتے ہو.مثلاً جبکہ تم
۳۳۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳) تیر تغیر تم پر اس وقت آتا ہے.جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لیے گزر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے.مثلاً جبکہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لیے ایک پولس مین دادجرم اور کے تم حوالہ کیسے جاتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے.جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشا مقرر ہے.(۵) پھر جبکہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو.تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لیے مقرر کیں.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لیے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو.تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہارے اندرونی اور روحانی تغیرات کاظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضا و قدر تمہارے لیے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لیے خیر و برکت کا دن چڑھے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۰،۶۹) خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے.یعنی آثار مصیبت کے جو خوف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ سورة النساء دلاتے ہیں.اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا.اور پھر ایسی حالت جب نومیدی....پیدا ہوتی ہے اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا.اور پھر صبح رحمت الہی کی یہ پانچ وقت ہیں.جن کے نمونہ پانچ نمازیں ہیں.پیغام مصلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۸۰ ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ یادداشتیں صفحہ ۴۲۲) یا درکھو کہ یہ جو پانچ وقت نماز کے لیے مقرر ہیں یہ کوئی تحکم اور جبر کے طور پر نہیں بلکہ اگر غور کرو تو یہ دراصل روحانی حالتوں کی ایک عکسی تصویر ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ آقمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ یعنی قائم کرو نماز کو دلوک الشمس سے.اب دیکھو.اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام صلوۃ کو داوک شمس سے لیا ہے.دلوک کے معنوں میں گو اختلاف ہے.لیکن دو پہر کے ڈھلنے کے وقت کا نام دلوک ہے.اب دلوک سے لے کر پانچ نماز میں رکھ دیں.اس میں حکمت اور سر کیا ہے.قانون قدرت دکھاتا ہے کہ روحانی تذلل اور انکسار کے مراتب بھی دلوک ہی سے شروع ہوتے ہیں.اور پانچ ہی حالتیں آتی ہیں پس یہ طبعی نماز بھی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب حزن اور ہم و غم کے آثار شروع ہوتے ہیں.اس وقت جبکہ انسان پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے تو کس قدر تذلل اور انکساری کرتا ہے.اب اس وقت اگر زلزلہ آوے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ طبیعت میں کیسی رقت اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح پر سوچو کہ اگر مثلاً کسی شخص پر نالش ہو تو سمن یا وارنٹ آنے پر اس کو معلوم ہوگا کہ فلاں دفعہ فوجداری یا دیوانی میں نالش ہوتی ہے.اب بعد مطالعہ وارنٹ اس کی حالت میں گویا نصف النہار کے بعد زوال شروع ہوا.کیونکہ وارنٹ یا سمن تک تو اسے کچھ معلوم نہ تھا.اب خیال پیدا ہوا کہ خدا جانے ادھر وکیل ہو یا کیا ہو؟ اس قسم کے ترودات اور تفکرات سے جو زوال پیدا ہوتا ہے یہ وہی حالت دلوک ہے.اور یہ پہلی حالت ہے جو نماز ظہر کے قائم مقام ہے اور اس کی عکسی حالت نماز ظہر ہے.اب دوسری حالت اس پر وہ آتی ہے جبکہ وہ کمرہ عدالت میں کھڑا ہو.فریق مخالف اور عدالت کی طرف سے سوالات جرح ہورہے ہیں.اور وہ ایک عجیب حالت ہوتی ہے یہ وہ حالت اور وقت ہے جو نماز عصر کا نمونہ ہے.کیونکہ عصر گھوٹنے اور نچوڑنے کو کہتے ہیں.جب حالت اور بھی نازک ہو جاتی ہے اور فرد قرار داد جرم لگ جاتی ہے تو یاس اور نا امیدی بڑھتی ہے کیونکہ اب خیال ہوتا ہے کہ سزامل جاوے گی.یہ وہ وقت ہے جو مغرب کی نماز کا عکس ہے.پر جب حکم سنایا گیا اور منسٹبل یا کورٹ انسپکٹر کے حوالہ کیا گیا تو وہ روحانی طور پر نماز عشاء کی عکسی تصویر ہے یہاں تک کہ نماز کی صبح صادق ظاہر ہوئی.اور اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کی حالت کا وقت آ گیا تو روحانی نماز فجر کا وقت آگیا.اور فجر کی نماز اس کی عکسی تصویر ہے.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۲۲ ۱۲۷)
۳۳۷ سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز بھی ظہر ہی سے شروع ہوتی ہے جو زوال کا وقت ہے یہاں تک کہ غروب تک بالکل تاریکی میں جا پڑتا ہے اور رات میں دعائیں کرتا ہے یہاں تک کہ صبح میں سے جا حصہ لیتا ہے نماز کی تقسیم بھی بتاتی ہے کہ خدا نے تقسیم میں ایک صبح اور باقی چار ایسی رکھی ہیں جو تاریکی سے حصہ رکھتی ہیں ورنہ ممکن تھا کہ اقبال تک ختم (احکام جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۴) اس ہو جاتیں.میں طبعاً اور فطرتا اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جاوے اگر چہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پر بڑے بڑے مباحثے کیے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱) لوگ زمانہ جاہلیت میں گالیوں کے واسطے یہ انگلی اٹھایا کرتے تھے اس لیے اس کو سبابہ کہتے ہیں یعنی گالی دینے والی.خدا تعالیٰ نے عرب کی اصلاح فرمائی اور وہ عادت ہٹا کر فرمایا کہ خدا کو واحد لاشریک کہتے وقت یہ انگلی اٹھایا کرو تا کہ اس سے وہ الزام اٹھ جاوے.ایسے ہی عرب کے لوگ پانچ وقت شراب پیتے تھے اس کے عوض میں پانچ وقت نماز رکھی.البدر جلد ۲ نمبر ۹ مورخه ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶۶) ارکان نماز در اصل روحانی نشست و برخواست کے ہیں انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمتگاران میں سے ہے.رکوع جو دوسرا حصہ ہے.بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمال ادب اور کمال تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے.یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یادداشت کے مقرر کر دیئے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے.اب اگر ظاہری طریق میں ( جو اندرونی اور باطنی طریق کا ایک عکس ہے ) صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بار گراں سمجھ کر اتار پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتلا ؤاس میں کیا لذت اور حظ آ سکتا ہے اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے اس کی حقیقت کیوں کر تحقیق ہوگی اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے اس وقت ایک سرور اور نورا اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ را پریل۱۸۹۹ صفحه ۵) (نمازوں میں تعداد رکعات کے متعلق فرمایا.( اس میں اللہ تعالیٰ نے اور اسرار رکھے ہیں جو شخص نماز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة النساء پڑھے گا وہ کسی نہ کسی حد پر تو آخر ر ہے گا ہی اور اسی طرح پر ذکر میں بھی ایک حد تو ہوتی ہے لیکن وہ حد وہی کیفیت اور ذوق و شوق ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے جب وہ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بس کر جاتا ہے.دوسرے یہ بات حال والی ہے قال والی نہیں جو شخص اس میں پڑتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے.اصل غرض ذکر الہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچار ہے گا.الحکم جلد ۸ نمبر ۲۱ مورخه ۲۴ جون/ ۱۹۰۴ صفحه۱) وَلَا تَهنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ اِنْ تَكُونُوا تَألَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا ج تَألَمُونَ وَ تَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًان وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ اور قوم کی ہمدردی میں سرگرم رہو تحکومت.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳) انَّا اَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَيكَ اللهُ ۖ وَلَا تَكُن لِلْخَاسِنِينَ خَصِيمان وَلَا تَكُن لِلْخَانِينَ خَصِيمًا اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے مت جھگڑو.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳) b وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَانًا اشان اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے مت جھگڑو جو خیانت کرنے سے باز نہیں آتے خدا تعالی خیانت پیشہ لوگوں کو دوست نہیں رکھتا.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۳) وَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا اَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رجيمان یعنی جس سے کوئی بد عملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا اس لطیف اور پر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوسِ نا قصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلہ پر خدا کا ازلی اور ابد کی خاصہ مغفرت ورحم ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة النساء اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے یعنی اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفتِ قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صدور لغزش و گناه به ندامت و تو به خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے اور یہ رجوع الہی بندہ نادم اور تائب کی طرح ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گنہ گار تو بہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھو کر نہ کھاویں یا جو لوگ قومی بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے بلکہ اس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشے جائیں لیکن جو شخص بعض قوتوں میں فطرتا ضعیف ہے وہ قومی نہیں ہو سکتا اس میں تبدیل پیدائش لازم آتی ہے اور وہ بداہنا محال ہے اور خود مشہود ومحسوس ہے کہ مثلاً جس کی فطرت میں سریع الغضب ہونے کی خصلت پائی جاتی ہے وہ بھی الغضب ہر گز نہیں بن سکتا بلکہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسا آدمی غضب کے موقع پر آثار غضب بلا اختیار ظاہر کرتا ہے اور ضبط سے باہر آ جاتا ہے یا کوئی نا گفتنی بات زبان پر لے آتا ہے اور اگر کسی لحاظ سے کچھ صبر بھی کرے تو دل میں تو ضرور پیچ و تاب کھاتا ہے پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ کوئی منتر جنتر یا کوئی خاص مذہب اختیار کرنا اس کی طبیعت کو بدلا دے گا اسی جہت سے اس نبی معصوم نے جس کی لبوں پر حکمت جاری تھی فرما یا خيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ یعنی جو لوگ جاہلیت میں نیک ذات ہیں وہی اسلام میں بھی داخل ہو کر نیک ذات ہوتے ہیں غرض طبائع انسانی جواہر کافی کی طرح مختلف الاقسام ہیں بعض طبیعتیں چاندی کی طرح روشن اور صاف بعض گندھک کی طرح بد بودار اور جلد بھڑ کنے والی بعض زیبق کی طرح بے ثبات اور بے قرار بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف اور جیسا یہ اختلاف طبائع بدیہی الثبوت ہے ایسا ہی انتظام ربانی کے بھی موافق ہے.کچھ بے قاعدہ بات نہیں کوئی ایسا امر نہیں کہ قانون نظام عالم کے برخلاف ہو بلکہ آسائش و آبادی عالم اسی پر موقوف ہے ظاہر ہے کہ اگر تمام طبیعتیں ایک ہی مرتبہ استعداد پر ہوتیں تو پھر مختلف طور کے کام ( جو مختلف طور کی استعدادوں پر موقوف تھے ) جن پر دنیا کی آبادی کا مدار تھا حیز التوا میں رہ جاتے کیونکہ کثیف کاموں کے لیے وہ طبیعتیں مناسب حال ہیں جو کثیف ہیں اور لطیف کاموں کے لیے وہ طبیعتیں مناسبت رکھتی ہیں جو لطیف ہیں یونانی
۳۴۰ سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکیموں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے کہ جیسے بعض انسان حیوانات کے قریب قریب ہوتے ہیں اسی طرح عقل تقاضا کرتی ہے کہ بعض انسان ایسے بھی ہوں جن کا جوہر نفس کمال صفوت اور لطافت پر واقعہ ہو.تاجس طرح طبائع انسانی کا سلسلہ نیچے کی طرف اس قدر منزل نظر آتا ہے کہ حیوانات سے جا کر اتصال پکڑ لیا ہے اسی طرح اوپر کی طرف بھی ایسا متصاعد ہو کہ عالم اعلیٰ سے اتصال پکڑ لے.( براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۸۸،۱۸۷ حاشیہ نمبر۱۱) وَ مَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً اَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَ الا مبينان.یعنی جو شخص کوئی خطا یا گناہ کرے اور پھر کسی ایسے شخص پر وہ گناہ لگاوے جس پر وہ گناہ ایک ثابت شدہ امر نہیں تو اس نے ایک کھلے کھلے بہتان اور گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لیا.پس اس جگہ خدائے عزوجل نے بری کے لفظ سے اس شخص کو مرا دلیا ہے جس پر کوئی گناہ ثابت نہ ہوا ہو اور اگر کوئی ہمارے اس بیان کی مخالفت کر کے یہ کہے کہ اس جگہ بری کے لفظ سے یہ معنے مراد نہیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ ایسے شخص پر گناہ لگاوے جس نے شہادتوں کے ذریعہ سے عدالت میں اپنا بے گناہ ہونا بپایہ ثبوت پہنچا دیا ہو اور گواہوں کے ذریعہ سے اپنا پاک دامن ہونا ثابت کر دیا ہو تو یہ معنے سراسر فاسد اور قرآن شریف کی منشاء سے صریح مخالف اور ضد ہیں کیونکر اگر یہی معنے اس آیت کے ہیں تو پھر اس صورت میں یہ بڑی خرابی لازم آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر تہمت لگانا کوئی گناہ نہ ہو جس پر وہ گناہ ثابت نہیں ہے بلکہ اسی کی نسبت گناہ ہو جس نے اپنی پاک دامنی پر عدالت میں گواہ دے دیئے ہوں اور اپنا بے قصور ہونا بپاؤ ثبوت پہنچا دیا ہواور یہ معنے با تفاق تمام گروہ اسلام باطل ہیں اسی وجہ سے تمام علماء اسلام کے نزدیک ایسے شخص بھی اس آیت کے مواخذہ کے نیچے ہیں جومستور الحال عورتوں پر زنا کا الزام لگاومیں اور گوان عورتوں کے اعمال مخفی ہوں مگر اس آیت میں ان کا نام بری رکھا کیونکہ شرعی طور پر ان پر جرم کا ثبوت نہیں پس اس نص قرآنی سے ثابت ہوا کہ جس پر شرعی طور پر جرم کا ثبوت نہ ہووہ بری ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عرب کی زبان بھی اس کا نام بری رکھتی ہے کیونکہ قرآن سے بڑھ کر محاورات عرب کے جاننے کے لیے اور کوئی ذریعہ نہیں اور اسی آیت کے مفہوم کی مؤید قرآن شریف کی وہ آیت ہے جو جز واٹھار کا سورۃ النور کی تیسری آیت ہے اور وہ یہ ہے.وَ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَربَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمِنِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ( النور : ۵)
۳۴۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء یعنی جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور اس تہمت کے ثابت کرنے کے لیے چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی ڈرے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ آپ ہی بدکار ہیں.اس جگہ آنٹی محصنات کے لفظ کے وہی معنے ہیں جو آیت گذشتہ میں بری کے لفظ کے معنے ہیں اب اگر بموجب قول مولوی محمد حسین ایڈیٹر اشاعۃ السنتہ کے بری کے لفظ کا مصداق صرف وہ شخص ہو سکتا ہے کہ جس پر اول فرد قرار داد جرم لگائی جاوے اور پھر گواہوں کی شہادت سے اس کی صفائی ثابت ہو جائے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صورت میں یعنی اگر بری کے لفظ میں جو آیت ثُمَّ يَرُمِ په بریا میں ہے یہی منشا قرآن کا ہے تو کسی عورت پر مثلا زنا کی تہمت لگانا کوئی جرم نہ ہوگا بجز اس صورت کے کہ اس نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت کر دیا ہو کہ وہ زانیہ نہیں اور اس سے یہ لازم آئے گا کہ ہزار ہا مستور الحال عورتیں جن کی بد چلنی ثابت نہیں حتی کہ نبیوں کی عورتیں اور صحابہ کی عورتیں اور اہل بیت میں سے عورتیں تہمت لگانے والوں سے بجز اس صورت کے مخلصی نہ پاسکیں.اور نہ بری کہلانے کی مستحق ٹھہر سکیں جب تک یہ عدالتوں میں حاضر ہو کر اپنی عفت کا ثبوت نہ دیں حالانکہ ایسی تمام عورتوں کی نسبت جن کی بد چلنی ثابت نہ ہو خدا تعالیٰ نے بار ثبوت الزام لگانے والوں پر رکھا ہے اور ان کو بری اور محصنات کے نام سے پکارا ہے جیسا کہ اس آیت ثُمَّ لَم يَأْتُوا بِأَربَعَةِ شُهَدَاء سے سمجھا جاتا ہے.اور اگر کسی مخالف کونبیوں کی عورتوں اور ان کے صحابہ کی عورتوں اور تمام شرفا کی عورتوں کی ہماری مخالفت کے لیے کچھ پرواہ نہ ہو تو پھر ذرہ شرم کر کے اپنی عورتوں کی نسبت ہی کچھ انصاف کرے کہ کیا اگر ان پر کوئی شخص ان کی عفت کے مخالف کوئی ایسی تہمت لگاوے جس کا کوئی ثبوت نہیں تو کیا وہ عورتیں آیت یزم په بریا کی مصداق ٹھہر کر بری سمجھی جاسکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزا کے لائق ٹھہرتا ہے یا وہ اس حالت میں بڑی سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاکدامنی کے عدالت میں گواہ گذرا نہیں اور جب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت کا عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے ان کی عفت پر حملہ کرے اور ان کو غیر بری قرار دے.کیا آیت موصوفہ بالا میں یعنی آیت يَزم په بریا میں بری کے لفظ کا یہی منشا ہے کہ اس میں گناہ کا ثابت نہ ہونا کافی نہیں بلکہ بذریعہ قوی شہادتوں کے عفت اور صفائی ثابت ہونی چاہیے.....اور دوسری قسم بری کی جس میں شخص ملزم اپنی پاک دامنی کا ثبوت دیتا ہے اس کا نام قرآن شریف میں مبرء رکھا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے أُولَبِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۱۷ تا ۳۲۰) زبان عرب اور قرآن شریف کے نصوص صریحہ کے رو سے تمام انسان جو دنیا میں ہیں کیا مرد اور کیا عورت يَقُولُونَ -
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة النساء بری کہلانے کے مستحق ہیں جب تک کہ ان پر کوئی جرم ثابت نہ ہو.پس قرآن کے رو سے بری کے معنے ایسے وسیع ہیں کہ جب تک کسی پر کسی جرم کا ثبوت نہ ہو وہ بری کہلائے گا کیونکہ انسان کے لیے بری ہونا طبعی حالت ہے اور گناہ ایک عارضہ ہے جو پیچھے سے لاحق ہوتا ہے لہذا اس کے لیے ثبوت درکار ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۲۲ حاشیه ) ڈسچارج کا عربی میں ٹھیک ٹھیک ترجمہ بری ہے اور ایکٹ کا ترجمہ منزہ ہے.عرب کے یہ دو مقولے ہیں کہ آنَا بَرِى مِنْ ذَلِكَ وَأَنَا مُبَر من ذلك- پہلے قول کے یہ معنے ہیں کہ میرے پر کوئی تہمت ثابت نہیں کی گئی اور دوسرے قول کے یہ معنے ہیں کہ میری صفائی ثابت کی گئی ہے اور قرآن شریف میں یہ دونوں محاورے موجود ہیں چنانچہ بری کا لفظ قرآن شریف میں بعینہ ڈسچارج کے معنوں پر بولا گیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ مَنْ يَكْسِبُ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِنَا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَ إِثْمًا مُبِينًا الجزء نمبر ۵ سورہ نساء.یعنی جو شخص کوئی خطا یا کوئی گناہ کرے اور پھر کسی ایسے شخص پر وہ گناہ لگا دے جس پر وہ گناہ ثابت نہیں تو اس نے ایک کھلے کھلے بہتان اور گناہ کا بوجھ اپنی گردن پر لیا اور مبرء کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولَيكَ مُبَرَّءُونَ مِنَا يَقُولُونَ.یہ اس مقام کی آیت ہے کہ جہاں بے لوث اور بے گناہ ہونا ایک کا ایک وقت تک مشتبہ رہا پھر خدا نے اس کی طرف سے ڈیفنس پیش کر کے اس کی بریت کی.اب آیت يَرم به بریا سے بہ بداہت ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کا نام بڑی رکھا ہے جس پر کوئی گناہ ثابت نہیں کیا گیا اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو انگریزی میں ڈسچارج کہتے ہیں.لیکن اگر کوئی مکابرہ کی راہ سے یہ کہے کہ اس جگہ بری کے لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو مجرم ثابت ہونے کے بعد اپنی صفائی کے گواہوں کے ذریعہ سے اپنی بریت ظاہر کرے تو ایسا خیال بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا بری کے لفظ سے یہی منشا ہے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ اس آیت سے یہ فتوی ملے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر جس کا گناہ ثابت نہیں کسی گناہ کی تہمت لگانا کوئی جرم نہیں ہو گا گوہ مستور الحال شریفوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہی ہو اور صرف یہ کسر ہو کہ ابھی اس نے بے قصور ہونا عدالت میں حاضر ہو کر ثابت نہیں کیا.حالانکہ ایسا سمجھنا صریح باطل ہے اور اس سے تمام تعلیم قرآن شریف کی زیروز بر ہو جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں جائز ہوگا کہ جولوگ مثلاً ایسی مستور الحال عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جنہوں نے عدالت میں حاضر ہو کر اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ وہ ہر قسم کی بدکاری سے مذت العمر محفوظ رہے ہیں وہ کچھ گناہ نہیں کرتے اور ان کو روا ہے کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة النساء مستور الحال عورتوں پر ایسی تہمتیں لگایا کریں حالانکہ ایسا خیال کرنا اس مندرجہ ذیل آیت کے رو سے صریح حرام اور معصیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَربَعَةِ شُهَدَاءِ فَاجْلِدُوهُمْ ثَنِينَ جَلْدَةً یعنی جو لوگ ایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کار ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں تو ان کو اسی ڈڑے مارنے چاہئیں اب دیکھو کہ ان عورتوں کا نام خدا نے بڑی رکھا ہے جن کا زانیہ ہونا ثابت نہیں.پس بری کے لفظ کی یہ تشریح بعینہ ڈسچارج کے مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بری کا لفظ جو قرآن نے آیت يَرهِ په بریا میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا ہے کہ جبکہ کسی کو مجرم ٹھہرا کر اس پر فرد قرار داد جرم لگائی جائے اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اس صورت میں ہر ایک شریر کو آزادی ہوگی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگاوے جنہوں نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت نہیں کر دیا کہ وہ زانیہ نہیں ہیں خواہ وہ رسولوں اور نبیوں کی عورتیں ہوں اور خواہ صحابہ کی اور خواہ اولیاء اللہ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیں ہوں اور ظاہر ہے کہ آیت يَرو په بریا میں بری کے لفظ سے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہرگز خدا تعالیٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں بری کے لفظ سے خدا تعالی کا یہی منشاء ہے کہ جو مستور الحال لوگ ہیں خواہ مرد ہیں خواہ عورتیں ہیں جن کا کوئی گناہ ثابت نہیں وہ سب بری کے نام کے مستحق ہیں اور بغیر ثبوت ان پر کوئی تہمت لگانا فسق ہے جس سے خدا تعالی اس آیت میں منع فرماتا ہے اور اگر کسی کو نبیوں اور رسولوں کی کچھ پرواہ نہ ہو اور اپنی ضد سے باز نہ آوے تو پھر ذرا شرم کر کے اپنی عورتوں کی نسبت ہی کچھ انصاف کرے کہ کیا اگر ان پر کوئی شخص ان کی عفت کے مخالف کوئی ایسی ناپاک تہمت لگاوے جس کا کوئی ثبوت نہ ہو تو کیا وہ عورتیں آیت پڑھ په بریا کی مصداق ٹھہر کر بری سمجھی جاسکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزا کے لائق ٹھہرتا ہے یاوہ محض اس حالت میں بڑی سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاک دامنی کے بارے میں عدالت میں گواہ گذرا نہیں اور جب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت کا عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے ان کی عفت پر حملہ کیا کرے اور ان کو غیر بری قرار دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں بار ثبوت تہمت لگانے والے پر رکھا ہے اور جب تک تہمت لگانے والا کسی گناہ کو ثابت نہ کرے تب تک تمام مردوں اور عورتوں کو بری کہلانے کے مستحق ٹھہرایا ہے.پس قرآن اور زبان عرب کے رو سے بری کے معنے ایسے وسیع
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة النساء ہیں کہ جب تک کسی پر کسی جرم کا ثبوت نہ ہو وہ بری کہلائے گا کیونکہ انسان کے لیے بری ہونا طبعی حالت ہے اور گناہ ایک عارضہ ہے جو پیچھے سے لاحق ہوتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ جلد ۴۴۱ تا ۴۴۴) وَلَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَب وَ b الحِكْمَةَ وَعَلَبِكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا یعنی خدا نے تجھ پر کتاب اُتاری اور حکمت یعنی دلائل حقیت کتاب و حقیت رسالت تجھ پر ظاہر کیے اور تجھے و علوم سکھائے جنہیں تو خود بخود جان نہیں سکتا تھا اور تجھ پر اس کا ایک عظیم فضل ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۶) وَ كَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظيما یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ و تک نہیں پہنچ سکتا.یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ۴۵ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلدا صفحه ۶۰۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کیے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف البہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالی نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگر چہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم وصلوۃ اور دعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری عزاسمہ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب توفیق یا سکتا ہے کہ صوم اور صلوۃ بجالا وے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل در اصل اسی کے پیدا کردہ اور اس کے بنین و بنات ہیں اور ابتدا اس معرفت کی پر تو ہ اسم رحمانیت سے ہے نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلا علت فیضان سے صرف ایک موہت ہے يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَيُضِلُّ مَنْ يشاء.مگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حصن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر الہام
۳۴۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام محن سینہ کو اس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس معرفتِ تامہ کے درجہ پر پہنچ کر اسلام صرف لفظی اسلام نہیں رہتا بلکہ وہ تمام حقیقت اس کی جو ہم بیان کر چکے ہیں حاصل ہو جاتی ہے اور انسانی روح نہایت انکسار سے حضرت احدیت میں اپنا سر رکھ دیتی ہے تب دونوں طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ جو میرا سو تیرا ہے.یعنی بندہ کی روح بھی بولتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ یا الہی جو میرا ہے سو تیرا ہے اور خدا تعالیٰ بھی بولتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ اے میرے بندے جو کچھ زمین آسمان وغیرہ میرے ساتھ ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۷ تا۱۸۹) رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم پر خدا کا بہت بڑا فضل تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيما اور اصل یہ ہے کہ انسان بچتا بھی فضل سے ہی ہے.پس جس شخص پر خدا تعالی کا فضل عظیم ہو اور جس کو کل دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا ہو اور جو رحمتہ للعالمین ہو کر آیا ہو.اس کی عصمت کا اندازہ اسی سے ہو سکتا ہے.عظیم الشان بلندی پر جو شخص کھڑا ہے ایک نیچے کھڑا ہوا اس کا مقابلہ کیا کرسکتا ہے؟ مسیح کی ہمت اور دعوت صرف بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں تک محدود ہے.پھر اس کی عصمت کا درجہ بھی اسی حد تک ہونا چاہیے لیکن جو شخص کل عالم کی نجات اور رستگاری کے واسطے آیا ہے ایک دانشمند خودسوچ سکتا ہے کہ اس کی تعلیم کیسی عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہوگی اور اسی لیے وہ اپنی تعلیم اور تبلیغ میں کس درجہ کا معصوم ہو گا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جو کسی نبی میں نہیں ہے میں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے.الحکم جلد نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲) ہم قرآن سے کیا بلکہ کل کتابوں سے دکھا سکتے ہیں کہ جس قدر اخلاق اور خوبیاں کل انبیاء میں تھیں وہ سب کی سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھیں.وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا اسی کی طرف اشارہ ہے.( البدر جلد ۳ نمبر ۳۵ مورخه ۱۶ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲) الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحْتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الاَنْهرُ خُلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَعْدَ اللهِ حَقًّا وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللهِ قِيلًا یعنی خدا مومنین صالحین کو ہمیشہ کی بہشت میں داخل کرے گا خدا کی طرف سے یہ سچا وعدہ ہے اور خدا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة النساء زیادہ تر سچا اپنی باتوں میں اور کون ہے.اب خود منصف ہو کر بتلاؤ کہ کیا اس صریح وعدہ سے صرف اپنے ہی دل کے خیالات برابر ہو سکتے ہیں کیا کبھی یہ دونوں صورتیں یکساں ہو سکتی ہیں کہ ایک کو ایک راستباز کسی قدر مال دینے کا اپنی زبان سے وعدہ کرے اور دوسرے کو وہ راست بازا اپنی زبان سے کچھ بھی وعدہ نہ کرے کیا مبشر اور غیر مبشر دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں اب اپنے ہی دل میں سوچو کہ زیادہ صاف اور کھلا ہوا اور با اطمینان وہ کام ہے کہ جس میں خدا کی طرف سے نیک اجر دینے کا وعدہ ہو یا وہ کام کہ جو فقط اپنے ہی دل کا منصوبہ ہو اور خدا کی طرف سے خاموشی ہو.کون دانا ہے کہ جو وعدہ کو غیر وعدہ سے بہتر نہیں جانتا کون سا دل ہے جو وعدہ کے لیے نہیں تڑپتا اگر خدا کی طرف سے ہمیشہ چپ چاپ ہی ہو تو پھر اگر خدا کی راہ میں کوئی محنت بھی کرے تو کس بھروسہ پر.کیا وہ اپنے ہی تصورات کو خدا کے وعدے قرار دے سکتا ہے ہرگز نہیں جس کا ارادہ ہی معلوم نہیں کہ وہ کون سا بدلہ دے گا اور کیوں کر دے گا اور کب تک دے گا اس کے کام پر کون خود بخود پختہ امید کر سکتا ہے اور نا امیدی کی حالت میں کیوں کر محنتوں اور کوششوں پر دل لگا سکتا ہے انسان کی کوششوں کو حرکت دینے والے اور انسان کے دل میں کامل جوش پیدا کرنے والے خدا کے وعدے ہیں انہیں پر نظر کر کے عقلند انسان اس دنیا کی محب کو چھوڑتا ہے اور ہزاروں پیوندوں اور تعلقوں اور زنجیروں سے خدا کے لیے الگ ہو جاتا ہے وہی وعدے ہیں کہ جو ایک آلودہ حرص و ہوا کو یکبارگی خدا کی طرف کھینچ لاتے ہیں جبھی کہ ایک شخص پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ خدا کا کلام برحق ہے اور اس کا ہر ایک وعدہ ضرور ایک دن ہونے والا ہے تو اسی وقت دنیا کی محبت اس پر سرد ہو جاتی ہے ایک دم میں وہ کچھ اور ہی چیز ہو جاتا ہے اور کسی اور ہی مقام پر پہنچ جاتا ہے خلاصہ کلام یہ کہ کیا ایمان کے رو سے اور کیا عمل کے رو سے اور کیا جزا سزا کی امید کے رو سے کھلا ہوا اور مفتوح دروازہ خدا کے سچے الہام اور پاک کلام کا دروازہ ہے وبس.کلام پاک آن بیچون و بد صد جام عرفان را کسے کو بیخبر زان می چه داند ذوق ایمان را نه چشم است آنکه در کوری ہمہ عمرے بسر کر دست نه گوش ست آنکہ نہ شنیدست گا ہے قولِ جانان را برا این احمد یه چهار تحصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۲۲، ۲۲۳ حاشیہ نمبر ۱۱) b وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطَان خداوہ ہے جو ہر یک چیز پر احاطہ کر رہا ہے.کیا ایسی پاک اور کامل (کتاب) کی نسبت کوئی عظمند شبہ کر سکتا ہے کہ اس نے خدا کو جسم اور جسمانی ٹھیرا کر بزمرۂ عالمین داخل کر دیا ہے.مگر جو کچھ ویدوں پر وارد ہوتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة النساء میں نہیں جانتا کہ آریہ لوگ اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۹) یعنی خدا ہر ایک چیز پر احاطہ کرنے والا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰) وَ اِنِ امْرَاةُ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا اَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُدْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ، وَأَحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّخَ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَ ۖ تَتَّقُوا فَانَ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيران - اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۹) الصلحُ خیر صلح میں خیر ہے.قرآن شریف میں آیا ہے.وَالصُّلْحُ خَیر.اس لیے اگر آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے تو صلح کر لینی چاہیے کیونکہ اس میں خیر اور برکت ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ غیر مذاہب کے ساتھ بھی یہ بات رکھی جائے بلکہ ان کے ساتھ سخت مذہبی عداوت رکھنا چاہیے جب تک مذہب کی غیرت نہ ہو انسان کا مذہب ٹھیک نہیں ہوتا.اب یہ جو ہندو عیسائی ہمارے آنحضرت کو گالیاں نکالتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ صلح رکھ سکتے ہیں بلکہ ان کی محفلوں میں بیٹھنا اور ان کے ساتھ دوستی کرنا اور ان کے گھروں میں جانا تو معصیت میں داخل ہے ہاں آپس میں جو ایک فرقہ میں ہوں تو لڑائی جھگڑا کی زیادہ تر بنیا د بدظنی ہوتی ہے.کو.البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخه ۷ /جون ۱۹۰۶ صفحه ۵) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ وَ لَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُن غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى اَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَانَ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہیے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لیے ہو.جھوٹ مت بولوا گر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) (عیسائیوں کا) ایک یہ اعتراض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے اور اپنے دین کو چھپا لینے کے واسطے قرآن میں صاف حکم دے دیا ہے مگر انجیل نے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں دی.اما الجواب.پس واضح ہو کہ جس قدر راستی کے التزام کے لیے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہرگز باور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة النساء نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو.بیس برس کے قریب عرصہ ہو گیا کہ میں نے اسی بارہ میں ایک اشتہار دیا تھا اور قرآنی آیات لکھ کر اور عیسائیوں وغیرہ کو ایک رقم کثیر بطور انعام دینا کر کے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ جیسے ان آیات میں راست گوئی کی تاکید ہے اگر کوئی عیسائی اس زور وشور کی تاکید انجیل میں سے نکال کر دکھلا دے تو اس قدر انعام اس کو دیا جائے گا مگر پادری صاحبان اب تک ایسے چپ رہے کہ گویا ان میں جان نہیں اب مدت کے بعد فتح مسیح صاحب کفن میں سے بولے شاید بوجه امتداد زمانہ ہمارا وہ اشتہاران کو یاد نہیں رہا.پادری صاحب آپ خس و خاشاک کو سونا بنانا چاہتے ہیں اور سونے کی کان سے منہ مروڑ کر ادھر ادھر بھاگتے ہیں اگر یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھیرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الإِجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قول الزور یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پر ہیز کرو اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے یااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگر چہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھا دیں.اب اے نا خدا ترس ذرا انجیل کو کھول اور ہمیں بتلا کہ راست گوئی کے لیے ایسی تاکید انجیل میں کہاں ہیں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَبِ الَّذِي نَزِّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَ الكتب الَّذِى اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرُ بِاللهِ وَمَلَيكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَ..( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۰۲، ۴۰۳) الْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَللَّا بَعِيدان اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر اور اس کی اس کتاب پر جو اس رسول پر نازل ہوئی ہے یعنی قرآن شریف پر اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو پہلے نازل ہوئی یعنی تو ریت وغیرہ پر اور جو شخص خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائے گا وہ حق سے بہت دور جا پڑا یعنی نجات سے محروم رہا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۹) الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحُ مِنَ اللهِ قَالُوا الَم تَكُن لا مَعَكُمْ وَإِنْ كَانَ لِلْكَفِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَسْنَعْكُمْ مِّنَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة النساء وط الْمُؤْمِنِينَ - فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَ لَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلان لَن يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً یعنی خدائے تعالی ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہیں دے گا.سو دیکھو خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں مقابلہ کے وقت مومنوں کو فتح کی بشارت دے رکھی ہے اور خود ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ مومن کا ہی حامی اور ناصر ہوتا ہے مفتری کا ہرگز ناصر اور حامی نہیں ہوسکتا.آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۴) خدائے تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مومن بہر حال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے لَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً یعنی ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ کا فرمومن پر راہ پاوے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۶) لَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومنوں کو ملزم کرنے کے لیے راہ پاسکیں.اللہ مومنوں پر کافروں کو راہ نہیں دیتا.(شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۳) اللہ تعالی کبھی بھی اپنے پاک بندوں کو ذلیل نہیں کرتا اور کنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) سبیلا اس کا سچا وعدہ ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمُ نَصِيرًان ذلت صرف اسی کا نام نہیں کہ بر سر بازار کسی کے سر پر جوتے پڑیں بلکہ جو شخص مولوی اور متقی ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کا منافقانہ چلن اگر ثابت ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اس کی کوئی ذلت نہیں.منافق سے ذلیل تر اور کوئی نہیں ہوتا اِنَّ الْمُنفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ - ( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۹) یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ماننا ذَانٍ وَهُوَ مُؤْمِن وَمَا سَرَقَ سَارِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ یعنی کوئی زانی زنا کی حالت میں اور کوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوتا.پھر منافق نفاق کی حالت میں کیوں کر مومن ہو سکتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۹) اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیوں کر پورے ہوں گے،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۰ سورة النساء لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو.تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي چھپاتا ہے.الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ - بدر جلد نمبر ۳۴ مورخه ۸ /نومبر ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) میں منافقوں کو پسند نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ يقيناً يا درکھو منافق کا فر سے بھی بدتر ( ہے ) اس لیے کہ کافر میں شجاعت اور قوت فیصلہ تو ہوتی ہے وہ دلیری کے ساتھ اپنی مخالفت کا اظہا کر دیتا ہے مگر منافق میں شجاعت اور قوت فیصلہ نہیں ہوتی وہ الحکم جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۳) اللہ تعالی اس امت کو منافق نہیں بنانا چاہتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو نفاق سے ڈراتا ہے اور اس طریق زندگی کو بدترین حالت بیان فرماتا ہے.اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ کسی پکے مسلمان کی غیرت اور حمیت یہ کب گوارا کر سکتی ہے کہ اپنے معتقدات اور مذہبی مسلمہ پیارے عقائد کے خلاف سن سکے یا ان کی تو ہین ہوتے دیکھ سکے.یا ایسے لوگوں سے جو اس کے بزرگوں کو جن کو وہ دین کا پیشوا یقین کرتا ہے برا کہنے والے یا گالیاں دینے والوں سے سچی محبت اور اتفاق رکھ سکے.ہمارے نزدیک تو ایسا انسان جو با ایں ہمہ کسی سے محبت و مودت رکھتا ہے دنیا کا کتا اور منافق ہے کیونکہ ایک سچے مسلمان کی غیرت یہ چاہ سکتی ہی نہیں کہ وہ التحام جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۱) نفاق کرتا ہے.مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُهُ وَأَمَنْتُمْ وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِيمًا اگر تم ایمان بھی لاؤ اور شکر گزار بھی بنو کہ تمہاری نجات کے لیے خدا نے آپ ہی ذریعہ مقرر کر دیا تو پھر خدا کو کیا ضرورت جو تمہیں عذاب دے.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱) یعنی خدا تعالی تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار اور مومن بن جاؤ گے.اس پیشگوئی میں ظاہر فرمایا کہ آنے والا عذاب شکر اور ایمان کے ساتھ دور ہو جائے گا.یعنی خدا نے تم کو عذاب دے کر کیا کرنا ہے اگر تم دیندار ہو جاؤ.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۳ حاشیه ) الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۶) یہ تو اس کا فضل ہے کہ سوئے ہوؤں کو ایک تازیانہ سے جگار ہا ہے اور نہ اسے کیا پڑی ہے کہ کسی کو عذاب دیوے جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَا بِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُم کہ اگر تم میری راہ اختیار کرو تو تم کو کیوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عذاب ہو.۳۵۱ سورة النساء البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹۲) یعنی اگر تم شکر یہ ادا کرو اور ایمان لاؤ تو خدا نے تمہیں عذاب کر کے کیا لینا ہے.یہ تمہارے بد اعمال ہی تم کو عذاب میں گراتے ہیں.خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ.البدر جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۴) الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۷ صفحہ۱۱) یعنی خدا تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا.اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور خدا پر ایمان لاؤ اور اس کی عظمت ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۵۱) اور سزا کے دن سے ڈرو.اِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ تُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا ك أُولَيكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُهِيَنان وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ لَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَبِكَ سَوْفَ b (۱۵۳) يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا وہ لوگ جو خدا اور رسول سے منکر ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈال دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں یعنی صرف خدا کا مانا یا صرف بعض رسولوں پر ایمان لانا کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ خدا کے ساتھ رسول پر بھی ایمان لاویں یا سب نبیوں پر ایمان لاویں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بین بین مذہب اختیار کر لیں.وہی پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے اور وہ لوگ جو خدا اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے یعنی یہ تفرقہ اختیار نہیں کرتے کہ صرف خدا پر ایمان لاویں مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ لاویں اور نہ یہ تفرقہ پسند کرتے ہیں کہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاویں اور بعض سے برگشتہ رہیں ان لوگوں کو خدا ان کا اجر دے گا.اب کہاں ہیں میاں عبد الحکیم خان مرتد جو میری اس تحریر سے مجھ سے برگشتہ ہو گیا.چاہیے کہ اب آنکھ کھول کر دیکھے کہ کس طرح خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة النساء اور رسول کا وجود چقماق کی طرح جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے تو حید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اس کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہر ہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۱،۱۳۰) یعنی جو لوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاویں اور اس کے رسولوں پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیں یا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بین بین راہ اختیار کر لیں.یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے.فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيْثَاقَهُمْ وَ كَفْرِهِمْ بِأَيْتِ اللهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَق (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۴) قَوْلِهِم قُلُوبُنَا خُلُفْ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ص ۱۵ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ یعنی خدا تعالیٰ نے بباعث ان کی بے ایمانیوں کے ان کے دلوں پر مہریں لگا ( جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۴) ج ۱۵۷ وَ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا المَسيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُيّه لَهُمْ وَ إِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِى شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتبَاعَ الظَّنّ وَ مَا قَتَلُوهُ يَقِينان بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا (۱۵۹) حَكِيمًا اس آیت میں دونوں جملوں کا جواب ہے اور خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ نہ تو عیسی کی ناجائز ولادت ہے اور نہ وہ صلیب پر مرا بلکہ دھوکے سے سمجھ لیا گیا کہ مرگیا ہے اس لیے وہ مقبول ہے اور اس کا اور نبیوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہو گیا ہے.اب کہاں ہیں وہ مولوی جو آسمان پر حضرت عیسی کا جسم پہنچاتے ہیں یہاں تو سب جھگڑا ان کی روح کے متعلق تھا جسم سے اس کو کچھ علاقہ نہیں.اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۱) مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبّه لَهُمُ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ مسیح فوت نہیں ہوا کیا مرنے کے
۳۵۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء لیے یہی ایک راہ ہے کہ انسان قتل کیا جائے یا صلیب پر کھینچا جائے؟ بلکہ اس نفی سے مدعا اور مطلب یہ ہے کہ توریت استثنا.باب ۲۱ آیت ۲۳ میں لکھا ہے کہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون ہے اور یہود جنہوں نے اپنے زعم میں حضرت عیسی کو پھانسی دے دیا تھا وہ بہ تمسک اس آیت کے یہ خیال رکھتے تھے کہ مسیح ابن مریم نہ نبی تھا اور نہ مقبول الہی کیونکہ وہ پھانسی دیا گیا اور توریت بیان کر رہی ہے کہ جو شخص پھانسی دیا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے سوخدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اصل حقیقت ظاہر کر کے ان کے اس قول کو رد کرے سو اس نے فرمایا کہ مسیح ابن مریم در حقیقت مصلوب نہیں ہوا اور نہ مقتول ہوا بلکہ اپنی موت سے فوت ہوا.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۷۷) اور یہودی جو خدائے تعالیٰ کی رحمت اور ایمان سے بے نصیب ہو گئے اس کا سبب ان کے وہ برے کام ہیں جو انہوں نے کئے منجملہ ان کے یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ لوہم نے اس مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کر دیا جو رسول اللہ ہونے کا دعوی کرتا تھا ( یہودیوں کا کہنا کہ ہم نے عیسیٰ رسول اللہ کو قتل کر دیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حضرت مسیح کو رسول جانتے تھے کیونکہ اگر وہ اس کو سچا رسول جانتے تو سولی دینے کے لیے کیوں آمادہ ہوتے بلکہ یہ قول ان کا کہ لو ہم نے اس رسول کو پھانسی دے دیا بطور استہزا کے تھا اور اس ہنسی ٹھٹھے کی بنا توریت کے اس قول پر تھی جولکھا ہے کہ جو پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے یعنی خدائے تعالیٰ کی رحمت اور قرب الہی سے دور و مجور ہے اور یہودیوں کے اس قول سے مدعا یہ تھا کہ اگر عیسی ابن مریم سچا رسول ہوتا تو ہم اس کو پھانسی دینے پر ہرگز قادر نہ ہو سکتے کیونکہ توریت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ مصلوب لعنتی ہوتا ہے ) اب قرآن شریف اس آیت کے بعد فرماتا ہے کہ در حقیقت یہودیوں نے مسیح ابن مریم کو قتل نہیں کیا اور نہ پھانسی دیا بلکہ یہ خیال ان کے دلوں میں شہر کے طور پر ہے یقینی نہیں اور خدائے تعالیٰ نے ان کو آپ ہی شبہ میں ڈال دیا ہے تا ان کی بیوقوفی ان پر اور نیز اپنی قادر بیت ان پر ظاہر کرے اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو اس شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ شاید مسیح پھانسی ہی مل گیا ہو ان کے پاس کوئی یقینی قطعی دلیل اس بات پر نہیں صرف ایک ظن کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ انہیں یقینی طور پر اس بات کا علم نہیں کہ مسیح پھانسی دیا گیا بلکہ یقینی امر یہ ہے کہ وہ فوت ہو گیا اور اپنی طبعی موت سے مرا اور خدائے تعالیٰ نے اس کو راست باز بندوں کی طرح اپنی طرف اٹھالیا اور خدا عزیز ہے ان کو عزت دیتا ہے جو اس کے ہورہتے ہیں اور حکیم ہے اپنی حکمتوں سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو اس پر توکل کرتے ہیں اور پھر فرمایا کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر جو ہم نے اہل کتاب کے خیالات کی نسبت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۴ سورة النساء جو ظاہر کیا ہے ایمان نہ رکھتا ہو قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لاوے جو مسیح اپنی طبعی موت سے مرگیا.یعنی ہم بیان کر آئے ہیں کہ کوئی اہل کتاب اس بات پر دلی یقین نہیں رکھتا کہ در حقیقت مسیح مصلوب ہو گیا ہے کہ عیسائی اور کیا یہودی صرف ظن اور شبہ کے طور پر ان کے مصلوب ہونے کا خیال رکھتے ہیں.یہ ہمارا بیان صحیح ہے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.ہاں اس کی موت کے بارہ میں انہیں خبر نہیں کہ وہ کب مراسو اس کی ہم خبر دیتے ہیں کہ وہ مر گیا اور اس کی روح عزت کے ساتھ ہماری طرف اٹھائی گئی.اس جگہ یادر ہے کہ خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں کہ ہمارے اس بیان پر جوان کے خیالات کے بارہ میں ہم نے ظاہر کیا ایمان نہ رکھتا ہو یہ ایک اعجازی بیان ہے اور سی اس آیت کے موافق ہے جیسا کہ یہودیوں کو فرمایا تھا: فَتَسَنُوا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ سواس فرمانے سے مدعا یہ تھا کہ در حقیقت یہودیوں کا یہ بیان کہ ہم نے در حقیقت مسیح کو پھانسی دے دیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ نعوذ باللہ ریح ملعون ہے اور نبی صادق نہیں اور ایسا ہی عیسائیوں کا یہ بیان کہ در حقیقت مسیح پھانسی کی موت سے مر گیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوا.یہ دونوں خیال یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط ہیں اور کسی کو ان دونوں گروہ میں سے ان خیالات پر دلی یقین نہیں بلکہ دلی ایمان ان کا صرف اسی پر ہے کہ مسیح یقینی طور پر مصلوب نہیں ہوا اس تقریر سے خدائے تعالیٰ کا یہ مطلب تھا کہ تا یہودیوں اور عیسائیوں کی خاموشی سے منصفین قطعی طور پر سمجھ لیویں کہ اس بارے میں بجز شک کے ان کے پاس کچھ نہیں اور یہودی اور عیسائی جو اس آیت کوسن کر چپ رہے اور انکار کے لیے میدان میں نہ آئے تو اس کی یہ وجہ تھی کہ وہ خوب جانتے تھے کہ اگر ہم مقابل پر آئے اور وہ دعوی کیا جو ہمارے دل میں نہیں تو ہم سخت رسوا کیسے جائیں گے اور کوئی ایسا نشان خدائے تعالی کی طرف سے ظاہر ہو جائے گا جس سے ہمارا جھوٹھا ہونا ثابت ہو جائے گا اس لیے انہوں نے دم نہ مارا اور چپ رہے اور اگر چہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہماری اس خاموشی سے ہمارا مان لینا ثابت ہو جائے گا جس سے ایک طرف تو ان کفار کے اس عقیدہ کی بیخ کنی ہوگی اور ایک طرف یہ یہودی عقید ہ باطل ثابت ہو جائے گا کہ مسیح خدائے تعالی کا سچا رسول اور راست باز نہیں اور ان میں سے نہیں جن کا خدائے تعالیٰ کی طرف عزت کے ساتھ رفع ہوتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی چمکتی ہوئی تلوار ان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی پس جیسا کہ قرآن شریف میں انہیں کہا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو لیکن مارے خوف کے کسی نے یہ تمنا نہ کی اسی طرح اس جگہ بھی مارے خوف کے انکار نہ کر سکے یعنی یہ دعوی نہ کر سکے کہ ہم تو مسیح کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں ہمیں کیوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۵ سورة النساء بے یقینوں میں داخل کیا جاتا ہے سو ان کا نبی کے زمانہ میں خاموشی اختیار کرنا ہمیشہ کے لیے حجت ہوگئی اور ان کے ساختہ پر داختہ کا اثر ان کی آنے والی ذریتوں پر بھی پڑا کیونکہ سلف خلف کے لیے بطور وکیل کے ہوتے ہیں اور ان کی شہادتیں آنے والی ذریت کو مانی پڑتی ہیں.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے جو اس بحث کو چھیڑا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ اپنی موت سے فوت ہوا اس تمام بحث سے یہی غرض تھی کہ مسیح کے مصلوب ہونے سے دو مختلف فرقے یعنی یہود اور عیسائی دو مختلف نتیجے اپنی اپنی اغراض کی تائید میں نکالتے تھے یہودی کہتے تھے کہ مسیح مصلوب ہو گیا اور توریت کی روسے مصلوب لعنتی ہوتا ہے یعنی قرب الہی سے مہجور اور رفع کی عزت سے بے نصیب رہتا ہے اور شان نبوت اس حالت ذلت سے برتر و اعلیٰ ہے.اور عیسائیوں نے یہودیوں کی لعن و طعن سے گھبرا کر یہ جواب بنالیا تھا کہ مسیح کا مصلوب ہونا اس کے لیے مضر نہیں بلکہ یہ لعنت اس نے اس لیے اپنے ذمہ لے لی کہ تا گنہ گاروں کو لعنت سے چھڑا دے.سو خدائے تعالی نے ایسا فیصلہ کیا کہ ان دونوں فریق کے بیانات مذکورہ بالا کو کالعدم کردیا اور ظاہر فرما دیا کہ کسی کو ان دونوں گروہ میں سے مسیح کے مصلوب ہونے پر یقین نہیں اور اگر ہے تو وہ سامنے آوے سودہ بھاگ گئے اور کسی نے دم بھی نہ مارا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کا ایک معجزہ ہے جو اس زمانہ کے نادان مولویوں کی نگاہ سے چھپا ہوا ہے اور مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت مذکورہ بالا میرے پر ظاہر کی گئی ہے اور اسی معلم حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے جو ابھی لکھا ہے فالحمد للہ علی ڈالک.اور عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو اس بیان کی سچائی پر ہر یک عقل سلیم گواہی دے گی کیونکہ خدائے تعالیٰ کا کلام لغو باتوں سے منزہ ہونا چاہیے اور ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس بحث میں یہ مقاصد عظمی درمیان نہ سکتا ہوں تو یہ سارا بیان ایسا لغو ہوگا جس کے تحت کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ جھگڑا کہ کوئی نبی پھانسی ملا یا اپنی طبعی موت سے مرا بالکل بے فائدہ جھگڑا ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا.سو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس پر جوش اور کروفر کے بیان میں کہ کسی یہودی یا عیسائی کو یقینی طور پر مسیح کی مصلوبیت پر ایمان نہیں کون سی بڑی غرض رکھتا ہے؟ اور کون سا بھارا مدعا اس کے زیر نظر ہے جس کے اثبات کے لیے اس نے دونوں فریق یہود اور نصاری کو خاموش اور لاجواب کر دیا ہے سو یہی مدعا ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے اس عاجز بندہ پر کہ جو مولویوں کی نظر میں کافر اور ملحد ہے اپنے خاص کشف کے ذریعہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۶ سورة النساء سے کھول دیا ہے.اے خدا جانم بر اسرارت فدا امیاں را مے دہی فہم و ذکا در جہانت ہمیچو من امی کجاست در جهالت با مرا نشونماست کر سکے بودم مرا کردی بشر من عجب تر از مسیح بے پدر اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ مسیح کی عدم مصلوبیت پر انجیل کی رو سے کوئی استدلال پیدا ہوسکتا ہے یا نہیں یعنی یہ ثات ہوسکتا ہے یا نہیں کہ گو بظا ہر صورت مسیح کو صلیب ہی دی گئی ہو مگر تحمیل اس فعل کی نہ ہوئی ہو یعنی اس صلیب کی وجہ سے وفات یاب نہ ہوا ہو.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اناجیل اربعہ قرآن شریف کے اس قول پر کہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ صاف شہادت دے رہی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا منشاما صَلَبُوہ کے لفظ سے یہ ہر گز نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر چڑھایا نہیں گیا بلکہ منشاء یہ ہے کہ جو صلیب پر چڑھانے کا اصل مدعا تھا یعنی قتل کرنا اس سے خدائے تعالیٰ نے مسیح کومحفوظ رکھا اور یہودیوں کی طرف سے اس فعل یعنی قتل عمد کا اقدام تو ہوا مگر قدرت اور حکمت الہی سے تکمیل نہ پاسکا اور جیسا کہ انجیلوں میں لکھا ہے یہ واقعہ پیش آیا کہ جب پلاطوس سے صلیب دینے کے لیے یہودیوں نے مسیح کو جو حوالات میں تھا مانگا تو پلاطوس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح صحیح کو چھوڑ دے کیونکہ وہ صاف دیکھتا تھا کہ مسیح بے گناہ ہے لیکن یہودیوں نے بہت اصرار کیا کہ اس کو صلیب دے صلیب دے اور سب مولوی اور فقیہ یہودیوں کے اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ یہ کافر ہے اور توریت کے احکام سے لوگوں کو پھیرتا ہے.پلا طوس اپنے دل میں خوب سمجھتا تھا کہ ان جزئی اختلافات کی وجہ سے ایک راست باز آدمی کو قتل کر دینا بے شک سخت گناہ ہے اسی وجہ سے وہ حیلے پیدا کرتا تھا کہ کسی طرح مسیح کو چھوڑ دیا جائے مگر حضرات مولوی کب باز آنے والے تھے.انہوں نے جھٹ ایک اور بات بنائی کہ یہ شخص یہ بھی کہتا ہے کہ میں یہودیوں کا بادشاہوں اور در پردہ قیصر کی گورنمنٹ سے باغی ہے اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو پھر یا در رکھ کہ ایک باغی کو تو نے پناہ دی تب پلاطوس ڈر گیا کیونکہ وہ قیصر کا ماتحت تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پھر بھی اس خون ناحق سے ڈرتا رہا اور اس کی عورت نے خواب دیکھی کہ یہ شخص راست باز ہے اگر پلاطوس اس کو قتل کرے گا تو پھر اسی میں اس کی تباہی ہے سو پلا طوس اس خواب کو سن کر اور بھی ڈھیلا ہو گیا اس خواب پر غور کرنے سے جو انجیل میں لکھی ہے ہر یک ناظر بصیر سمجھ سکتا ہے کہ ارادہ الہی یہی تھا کہ مسیح کو قتل ہو جانے سے بچاوے سو پہلا اشارہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة النساء منشاء الہی کا اس خواب سے ہی نکلتا ہے اس پر خوب غور کرو.بعد اس کے ایسا ہوا کہ پلا طوس نے آخری فیصلہ کے لیے اجلاس کیا اور نابکار مولویوں اور فقیہوں کو بہتیر سمجھایا کہ مسیح کے خون سے باز آ جاؤ مگر وہ باز نہ آئے بلکہ چیخ چیخ کر بولنے لگے کہ ضرور صلیب دیا جائے دین سے پھر گیا ہے تب پلاطوس نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے کہ دیکھو میں اس کے خون سے ہاتھ دھوتا ہوں.تب سب یہودیوں اور فقیہوں اور مولویوں نے کہا کہ اس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد پر.پھر بعد اس کے مسیح ان کے حوالہ کیا گیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور جنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب اس نے دیکھا آخر صلیب دینے کے لیے طیار ہوئے یہ جمعہ کا دن تھا اور عصر کا وقت اور اتفاقایہ یہودیوں کی عید فسح کا بھی دن تھا اس لیے فرصت بہت کم تھی اور آگے سبت کا دن آنے والا تھا جس کی ابتدا غروب آفتاب سے ہی سمجھی جاتی تھی کیونکہ یہودی لوگ مسلمانوں کی طرح پہلی رات کو اگلے دن کے ساتھ شامل کر لیتے تھے اور یہ ایک شرعی تاکید تھی کہ سبت میں کوئی لاش صلیب پر لٹکی نہ رہے.تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا تا شام سے پہلے ہی لاشیں اتاری جائیں مگر اتفاق سے اسی وقت ایک سخت آندھی آ گئی جس سے سخت اندھیرا ہو گیا یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ اب اگر اندھیری میں ہی شام ہو گئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہو جائیں گے جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے سو انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اتارلیا اور یا درکھنا چاہیے کہ یہ بالا تفاق مان لیا گیا ہے کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی پھانسی ہوتی ہے اور گلے میں رسہ ڈال کر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیا جاتا ہے بلکہ اس قسم کا کوئی رسہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھوکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور اور پھر بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیا جاتا تھا کہ اب مصلوب مر گیا مگر خدائے تعالیٰ کی قدرت سے مسیح کے ساتھ ایسا نہ ہوا عید فسح کی کم فرصتی اور عصر کا تھوڑا سا وقت اور آگے سبت کا خوف اور پھر آندھی کا آ جانا ایسے اسباب یک دفعہ پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے چند منٹ میں ہی مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا اور دونوں چور بھی اتارے گئے اور پھر ہڈیوں کے توڑنے کے وقت خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا یہ نمونہ دکھا یا کہ بعض سپاہی پلاطوس کے جن کو در پردہ خواب کا خطرناک انجام سمجھایا گیا تھا وہ اس وقت موجود تھے جن کا مدعا یہی تھا کہ کسی طرح یہ بلایچ کے سر پر سے مل جائے ایسا نہ ہو کہ مسیح کے قتل ہونے کی وجہ سے وہ خواب سچی ہو جائے جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة النساء پلاطوس کی عورت نے دیکھی تھی اور ایسا نہ ہو کہ پلاطوس کسی بلا میں پڑے.سو پہلے انہوں نے چوروں کی ہڈیاں توڑا ئیں اور چونکہ سخت آندھی تھی اور تاریکی ہو گئی تھی اور ہوا تیز چل رہی تھی اس لیے لوگ گھبرائے ہوئے تھے کہ کہیں جلد گھروں کو جاویں سوسپاہیوں کا اس موقعہ پر خوب داؤ لگا جب چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یونہی ہاتھ رکھ کر کہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیاں توڑی جائیں اور ایک نے کہا کہ میں ہی اس لاش کو دفن کر دوں گا اور آندھی ایسی چلی کہ یہودیوں کو اس نے دھکے دے کر اس جگہ سے نکالا پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا اور پھر وہ حواریوں کو ملا اور ان سے مچھلی لے کر کھائی لیکن یہودی جب گھروں میں پہنچے اور آندھی فرو ہوگئی تو اپنی نا تمام کارروائی سے شک میں پڑگئے اور سپاہیوں کی نسبت بھی ان کے دلوں میں ظن پیدا ہو گیا چنانچہ اب تک عیسائیوں اور یہودیوں کا یہی حال ہے کہ کوئی ان میں سے قسم کھا کر اور اپنے نفس کے لیے بلا اور عذاب کا وعدہ دے کر نہیں کہہ سکتا کہ مجھے در حقیقت یہی یقین ہے کہ بیچ (میچ ) میں قتل کیا گیا.یہ شکوک اسی وقت پیدا ہو گئے تھے اور پولس نے اپنی چالاکی سے کوشش بھی کی کہ ان شکوک کو مٹا دے مگر وہ اور بھی بڑھتے گئے چنانچہ پولس کے بعض خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے مسیح جب صلیب سے اتارا گیا تو اس کے زندہ ہونے پر ایک اور پختہ ثبوت یہ پیدا ہو گیا کہ اس کی پسلی کے چھیدنے سے فی الفور اس میں سے خون رواں ہوا.یہودی اپنی شتاب کاری کی وجہ سے اور عیسائی انجیل کی روئداد موجودہ کے لحاظ سے اس شک میں شریک ہیں اور کوئی عیسائی ایسا نہیں جو انجیل پر غور کرے اور پھر یقینی طور پر یہ اعتقادر کھے کہ بیچ بیچ مسیح صلیب کے ذریعہ فوت ہو گیا بلکہ ان کے دل آج تک شک میں پڑے ہوئے ہیں اور جس کفارہ کو وہ لیے پھرتے ہیں اس کی ایسے ریت کے تو وہ پر بناء ہے جس کو انجیل کے بیانات نے ہی برباد کر دیا ہے.....غرض قرآن شریف میں تین جگہ مسیح کا فوت ہو جانا بیان کیا گیا ہے پھر افسوس کہ ہمارے مولوی صاحبان ان مقامات پر نظر نہیں ڈالتے اور بعض ان میں سے بڑی چالا کی سے کہتے ہیں کہ یہ تو ہم نے مانا کہ قرآن کریم یہی فرماتا ہے کہ میچ فوت ہوگیا مگر کیا اللہ جل شانہ اس بات پر قادر نہیں کہ پھر زندہ کر کے اس کو دنیا میں لاوے؟ مگر ان علماء کے علم اور فہم پر رونا آتا ہے اے حضرات! ہم نے یہ بھی مانا کہ خدائے تعالیٰ ہر یک چیز پر قادر ہے چاہے تو تمام نبیوں کو زندہ کر دیوے مگر آپ سے سوال تو یہ کیا تھا کہ قرآن شریف تو حضرت مسیح کو وفات تک پہنچا کر پھر چپ ہو گیا ہے اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسی آیت قرآن کریم میں ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ میچ کو مارنے کے بعد پھر ہم نے زندہ کر دیا تو وہ آیت پیش کیجیے.ورنہ یہ قرآن شریف کا مخالفانہ مقابلہ ہے کہ وہ تو مسیح کا فوت ہو جانا بیان کرے اور آپ اس کے برخلاف یہ دعوی کریں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ مسیح مرا نہیں بلکہ زندہ ہے.۳۵۹ سورة النساء (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۰ تا ۲۹۹) تیسری دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے کہ سورت نساء میں ہے وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينان بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ۖ وَ كَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا آپ اس میں بھی قبول کرتے ہیں کہ یہ آیت قطعیه الدلالۃ نہیں مگر باوجود اس کے آپ کے دل میں یہ خیال ہے کہ اس رفع سے رفع مع الجسد مراد ہے کیونکہ وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوں کے ضمیر کا مرجع بھی روح مع الجسد ہے.لیکن حضرت آپ کی یہ سخت غلطی سے نفی قتل اور نفی مصلوبیت سے تو صرف یہ مدعا اللہ جل شانہ کا ہے کہ مسیح کو اللہ جل شانہ نے مصلوب ہونے سے بچالیا اور آیت بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ اس وعدہ کے ایفا کی طرف اشارہ ہے جو دوسری آیت میں ہو چکا ہے اور اس آیت کے ٹھیک ٹھیک معنے سمجھنے کے لیے اس آیت کو بغور پڑھنا چاہیے جس میں رفع کا وعدہ ہوا تھا اور وہ آیت یہ ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى حضرت اس رَافِعُكَ اِلی میں جو رفع کا وعدہ دیا گیا تھا یہ وہی وعدہ ہے جو آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں پورا کیا گیا.اب آپ وعدہ کی آیت پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ اس کے پہلے کون لفظ موجود ہیں تو فی الفور آپ کو نظر آ جائے گا کہ اس سے پہلے اِنِّی مُتَوَفِّيكَ ہے اب ان دونوں آیتوں کے ملانے سے جن میں سے ایک وعدہ کی آیت اور ایک ایفا و عدہ کی آیت ہے آپ پر کھل جائے گا کہ جس طرز سے وعدہ تھا اسی طرز سے وہ پورا ہونا چاہیے تھا یعنی وعدہ یہ تھا کہ اے عیسی میں تجھے مارنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اس سے صاف کھل گیا کہ ان کی روح اٹھائی گئی ہے کیونکہ موت کے بعد روح ہی اٹھائی جاتی ہے نہ کہ جسم خدا تعالی نے اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ میں تجھے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جولوگ موت کے ذریعہ سے اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اسی قسم کے لفظ ان کے حق میں بولے جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالی کی طرف اٹھائے گئے یا خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر گئے.(الحق مباحثہ و علی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۷، ۱۶۸) وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوہ یعنی عیسی نہ مصلوب ہوا نہ مقتول ہوا اس بیان سے یہ بات منافی نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر زخمی ہو گئے کیونکہ مصلوبیت سے مراد وہ امر ہے جو صلیب پر چڑھانے کی علت غائی ہے اور وہ قتل ہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے اس اصل مقصود سے ان کو محفوظ رکھا اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے واللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ( المائدة : ۶۸) یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا.حالانکہ لوگوں نے طرح طرح کے دکھ دیئے وطن سے نکالا دانت شہید کیا انگل کو زخمی کیا اوکئی زخم تلوار کے پیشانی پر لگائے سو در حقیقت اس پیشگوئی
۳۶۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء میں بھی اعتراض کا محل نہیں کیونکہ کفار کے حملوں کی علت غائی اور اصل مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زخمی کرنا یا دانت کا شہید کرنا نہ تھا بلکہ قتل کرنا مقصود بالذات تھا.سو کفار کے اصل ارادے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے محفوظ رکھا.اسی طرح جن لوگوں نے حضرت مسیح کو سولی پر چڑھایا تھا ان کی اس کاروائی کی علت غائی حضرت مسیح کا زخمی ہونا نہ تھا بلکہ ان کا اصل ارادہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی کے ذریعہ سے قتل کر دینا تھا سو خدا نے ان کو اس بد ارادہ سے محفوظ رکھا اور کچھ شک نہیں کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے پس قول ما صَلَبُوهُ ان پر صادق آیا.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۱ حاشیه ) مجھ سے پہلے یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت بھی یہی ارادہ کیا کہ ناحق مجرم ٹھہرا کر سولی دلا دیں.مگر خدا کی قدرت دیکھو کہ کس طرح اس نے اپنے اس مقبول کو بچالیا اس نے پیلاطوس کے دل میں ڈال دیا کہ یہ شخص بے گناہ ہے اور فرشتہ نے خواب میں اس کی بیوی کو ایک رعب ناک نظارہ میں ڈرایا کہ اس شخص کے مصلوب ہونے میں تمہاری تباہی ہے.پس وہ ڈر گئے اور اس نے اپنے خاوند کو اس بات پر مستعد کیا کہ کسی حیلہ سے مسیح کو یہودیوں کے بدارادہ سے بچالے.پس اگر چہ وہ بظاہر یہودیوں کے آنسو پونچھنے کے لیے صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ قدیم رسم کے موافق نہ تین دن صلیب پر رکھا گیا جو کسی کے مارنے کے لیے ضروری تھا اور نہ ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ یہ کہہ کر بچالیا گیا کہ اس کی تو جان نکل گئی اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا خدا کا مقبول اور نکل راست باز نبی جرائم پیشہ کی موت سے مرکز یعنی صلیب کے ذریعہ سے جان دے کر اس لعنت کا حصہ نہ لیوے جو روز ازل سے ان شریروں کے لیے مقرر ہے جن کے تمام علاقے خدا سے ٹوٹ جاتے ہیں اور در حقیقت جیسا کہ لعنت کا مفہوم ہے وہ خدا کے دشمن اور خدا اُن کا دشمن ہو جاتا ہے پس کیوں کر وہ لعنت جس کا یہ نا پاک مفہوم ہے ایک برگزیدہ پر وارد ہو سکتی ہے؟ سو اس لیے حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے.اور جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے وہ کشمیر میں آ کر فوت ہوئے اور اب تک نبی شہزادہ کے نام پر کشمیر میں ان کی قبر موجود ہے.اور لوگ بہت تعظیم سے اس کی زیارت کرتے ہیں اور عام خیال ہے کہ وہ ایک شہزادہ نبی تھا جو اسلامی ملکوں کی طرف سے اسلام سے پہلے کشمیر میں آیا تھا اور اس شہزادہ کا نام غلطی سے بجائے یسوع کے کشمیر میں یوز آسف کر کے مشہور ہے جس کے معنے ہیں کہ یسوع غم ناک.اور جب پلاطوس کی بیوی کو فرشتہ نظر آیا اور اس نے اس کو دھمکایا کہ اگر یسوع مارا گیا تو تمہاری تباہی ہوگی یہی اشارہ خدا تعالی کی طرف سے بچانے کے لیے تھا ایسا دنیا میں کبھی نہیں ہوا کہ اس طرح پر کسی راستباز کی حمایت کے لیے فرشتہ ظاہر ہوا ہو اور پھر رویا میں فرشتہ کا ظاہر ہونا عبث.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۱ سورة النساء اور لاحاصل گیا ہو اور جس کی سفارش کے لیے آیا ہو وہ ہلاک ہو گیا ہو.غرض یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس وقت کے یہودی اپنے ارادہ میں نامرادر ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام جس کو ٹھے میں رکھے گئے تھے جو قبر کے نام سے مشہور تھا اور دراصل ایک بڑا وسیع کو ٹھا تھا وہ اس سے تیسرے دن بخیر و عافیت باہر آگئے اور شاگردوں کو ملے اور ان کو مبارک باد دی کہ میں خدا کے فضل سے دنیوی زندگی کے ساتھ بدستور اب تک زندہ ہوں اور پھر ان کے ہاتھ سے لے کر روٹی اور کباب کھائے اور اپنے زخم ان کو دکھلائے اور چالیس دن تک ان کے ان زخموں کا اس مرہم کے ساتھ علاج ہوتا رہا جس کو قرابادینوں میں مرہم عیسی یا مرہم رسل یا مرہم حوار بین کے نام سے موسوم کرتے ہیں یہ مرہم چوٹ وغیرہ کے زخموں کے لیے بہت مفید ہے اور قریباً طب کی ہزار کتاب میں اس مرہم کا ذکر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لیے اس کو بنایا گیا تھا وہ پرانی طب کی کتابیں عیسائیوں کی جو آج سے چودہ سو برس پہلے رومی زبان میں تصنیف ہو چکی تھیں اُن میں اس مرہم کا ذکر ہے اور یہودیوں اور مجوسیوں کی طبابت کی کتابوں میں بھی یہ نسخہ مرہم عیسی کا لکھا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرہم الہامی ہے اور اس وقت جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر کسی قدر زخم پہنچے تھے انہیں دنوں میں خدا تعالیٰ نے بطور الہام یہ دوائیں ان پر ظاہر کی تھیں.یہ مرہم پوشیدہ راز کا نہایت یقینی طور پر پتہ لگاتی ہے اور قطعی طور پر ظاہر کرتی ہے کہ در حقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیبی موت سے بچائے گئے تھے کیونکہ اس مرہم کا تذکرہ صرف اہل اسلام کی ہی کتابوں میں نہیں کیا گیا بلکہ قدیم سے عیسائی یہودی ، مجوسی اور اطباء اسلام اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کرتے آئے ہیں اور نیز یہ بھی لکھتے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لیے یہ مرہم طیار کی گئی تھی حسن اتفاق سے یہ سب کتابیں موجود ہیں اور اکثر چھپ چکی ہیں اگر کسی کو سچائی کا پتہ لگانا اور راستی کا سراغ چلا نا منظور ہو تو ضرور ان کتابوں کا ملاحظہ کرے شاید آسمانی روشنی اس کے دل پر پڑ کر ایک بھاری بلا سے نجات پا جائے اور حقیقت کھل جائے اس مرہم کو ادنی ادنی طبابت کا مذاق رکھنے والے بھی جانتے ہیں یہاں تک کہ قرابادین قادری میں بھی جو ایک فارسی کی کتاب ہے تمام مرہموں کے ذکر کے باب میں اس مرہم کا نسخہ بھی لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہی مرہم حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بنائی گئی تھی پس اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ دنیا کے تمام طبیبوں کے اتفاق سے جو ایک گروہ خواص ہے جن کو سب سے زیادہ تحقیق کرنے کی عادت ہوتی ہے اور مذہبی تعصبات سے پاک ہوتے ہیں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لیے طیار کی تھی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة النساء ایک عجیب فائدہ اس مرہم کے واقعہ کا یہ ہے کہ اس سے حضرت عیسی کے آسمان پر چڑھنے کی بھی ساری حقیقت کھل گئی اور ثابت ہو گیا کہ یہ تمام باتیں بے اصل اور بیہودہ تصورات ہیں اور نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ رفع جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے حقیقت میں وفات کے بعد تھا اور اسی رفع مسیح سے خدا تعالیٰ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے اس جھگڑے کا فیصلہ کیا جو صد ہا برس سے ان کے درمیان چلا آتا تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ مردودوں اور ملعونوں سے نہیں ہیں اور نہ کفار میں سے جن کا رفع نہیں ہوتا بلکہ وہ بچے نبی ہیں اور در حقیقت ان کا رفع روحانی ہوا ہے جیسا کہ دوسرے نبیوں کا ہوا یہی جھگڑا تھا اور رفع جسمانی کی نسبت کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ وہ غیر متعلق بات تھی جس پر کذب اور صدق کا مدار نہ تھا.بات یہ ہے کہ یہود یہ چاہتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب کا الزام دے کر ملعون شہر اویں یعنی ایسا شخص جس کا مرنے کے بعد خدا کی طرف روحانی رفع نہیں ہوتا اور نجات سے جو قرب الہی پر موقوف ہے بے نصیب رہتا ہے سو خدا نے اس جھگڑے کو یوں فیصلہ کیا کہ یہ گواہی دی کہ وہ صلیبی موت جو روحانی رفع سے مانع ہے حضرت مسیح پر ہرگز وارد نہیں ہوئی اور ان کا وفات کے بعد رفع الی اللہ ہو گیا ہے.اور وہ قرب الہی پاکر کامل نجات کو پہنچ گیا کیونکہ جس کیفیت کا نام نجات ہے اس کا دوسرے لفظوں میں نام رفع ہے اسی کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے که وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ.....بَلْ تَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ - (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳، صفحه ۲۰ تا ۲۳) ایک بڑا دھو کہ ان کم فہم علماء کو یہ لگا ہوا ہے جب قرآن شریف میں یہ لوگ یہ آیت پڑھتے ہیں کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبّهَ لَهُمُ اور نیز یہ آیت کہ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ الیہ تو اپنی غایت درجہ کی نادانی سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ فی قتل اور نفی صلیب اور لفظ رفع اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام یہود کے ہاتھ سے بچ کر اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے.گویا بجز آسمان کے اور کوئی جگہ ان کے پوشیدہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو زمین پر نہیں ملتی تھی.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں کے ہاتھ سے محفوظ رکھنے کے لیے تو ایک وحشت ناک اور سانپوں سے بھری ہوئی غار کفایت ہو گئی مگر مسیح کے دشمن زمین پر اس کو نہیں چھوڑ سکتے تھے خواہ اللہ تعالیٰ ان کو بچانے کے لیے زمین پر کیسی ہی تدبیر کرتا اس لیے مجبوراً یہودیوں سے اللہ تعالیٰ نے نعوذ باللہ عاجز آکر ان کے لیے آسمان تجویز کیا قرآن میں تو رفع الی السماء کا ذکر بھی نہیں بلکہ رفع الی اللہ کا ذکر ہے جو ہر ایک مومن کے لیے ہوتا ہے.یہ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر یہی قصہ صحیح ہے تو قرآن شریف نے جو اس قصہ کولکھا تو ان آیات کی شان
۳۶۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نزول کیا تھی اور کون سا جھگڑا یہود اور نصاریٰ میں حضرت عیسی کے آسمان پر معہ جسم عنصری کے جانے کے متعلق تھا جس جھگڑے کو قرآن شریف نے ان آیات کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہا.ظاہر ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے اختلافات کو حق اور راستی کے ساتھ فیصلہ کرے سو یا در ہے کہ یہود اور نصاریٰ میں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اختلاف تھا اور اب بھی ہے وہ اختلاف ان کے رفع روحانی کے بارے میں ہے یہود نے صلیب دیئے جانے سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ حضرت عیسی کا رفع روحانی نہیں ہوا اور نعوذ باللہ وہ ملعون ہیں کیونکہ ان کے مذہب کے رو سے ہر ایک مومن کا مرنے کے بعد خدا تعالی کی طرف رفع ہوتا ہے لیکن جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا یعنی وہ شخص لعنتی ہوتا ہے پس یہودیوں کی یہ حجت تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب ہو گئے اس لیے ان کا رفع روحانی نہیں ہوا اور وہ لعنتی ہیں اور نالائق عیسائیوں نے بھی تین دن کے لیے حضرت عیسی کو رفع سے محروم سمجھا اور لعنتی ٹھہرایا اب قرآن شریف کا اس ذکر سے مدعا یہ ہے کہ حضرت عیسی کے روحانی رفع پر گواہی دے سو اللہ تعالیٰ نے مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ کہ کر نفی صلیب کی اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ بَلْ تَفَعَهُ اللهُ الیہ اور اس طرح پر جھگڑے کا فیصلہ کر دیا.اب انصافاً دیکھو کہ اس جگہ رفع جسمانی کا تعلق اور واسطہ کیا ہے.یہودیوں میں سے اب تک لاکھوں تک زندہ موجود ہیں.ان کے عالموں فاضلوں کو پوچھ لو کہ کیا آپ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کا رفع روحانی نہیں ہوا یا یہ کہ ان کا رفع جسمانی نہیں ہوا.ایسا ہی یہودیہ کہتے تھے کہ سچا مسیح اس وقت آئے گا کہ جب ایلیا نبی ملاکی کی پیشگوئی کے موافق دوبارہ دنیا میں آجائے گا پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے جس کی حقیقت انسانوں پر نہیں کھل سکتی یہود کو اس امتحان میں ڈالا کہ ایلیا نبی جس کا ان کو انتظار تھا آسمان سے نازل نہ ہوا اور حضرت ابن مریم نے مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیا تو یہ دعوئی یہودیوں کو خلاف نصوص صریحہ معلوم ہوا اور انہوں نے کہا کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو پھر نعوذ باللہ توریت باطل ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کی کتابیں باطل ہوں.پس تمام جڑ انکار کی یہی تھی.اسی وجہ سے یہودی حضرت مسیح کے سخت دشمن ہو گئے اور ان کو کافر اور مرتد اور دجال اور محمد کہنے لگے اور تمام علماء کا فتویٰ ان کے کفر پر ہو گیا اور ان میں زاہد اور راہب اور ربانی بھی تھے وہ سب ان کے کفر پر متفق ہو گئے کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ یہ شخص ظاہر نصوص کو چھوڑتا ہے.یہ تمام فتنہ صرف اس بات سے پڑا کہ حضرت مسیح نے ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کے بارے میں یہ تاویل پیش کی تھی کہ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اس کی خواور طبیعت پر ہو اور وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ سورة النساء 66 یوحنا یعنی سیمی زکریا کا بیٹا ہے مگر یہ تاویل یہودیوں کو پسند نہ آئی.اور جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے انہوں نے ان کو ملحد قرار دیا کہ جو نصوص کو ان کے ظاہر سے پھیرتا ہے لیکن چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام در حقیقت سچا نبی تھا اور ان کی تاویل بھی گو بظاہر کیسی ہی بعید از قیاس تھی مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک درست تھی اس لیے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ بھی خیال تھا کہ اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو راستبازی کے انوار کیوں اس میں پائے جاتے ہیں اور کیوں بچے رسولوں کی طرح اس سے نشان ظاہر ہوتے ہیں پس اس خیال کے دور کرنے کے لیے یہودیوں کے مولوی ہر وقت اسی تدبیر میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ شخص نعوذ باللہ کا ذب اور ملعون ہے آخر ان کو یہ بات سو جبھی کہ اگر اس کو صلیب دی جائے تو البتہ ہر ایک پر صاف طور پر ثابت ہوجائے گا کہ یہ شخص نعوذ باللہ معنی ہے اور اس رفع سے بے نصیب ہے جو راستبازوں کا خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور اس سے اس کا کا ذب ہونا ثابت ہوگا کیونکہ توریت میں یہ لکھا تھا کہ جوشخص صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہے یعنی اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا.سو انہوں نے اپنی دانست میں ایسا ہی کیا یعنی صلیب دیا اور یہ امر نصاریٰ پر بھی مشتبہ ہو گیا اور انہوں نے بھی گمان کیا کہ حضرت مسیح حقیقت میں مصلوب ہو گئے ہیں اور پھر اس اعتقاد سے یہ دوسرا عقیدہ بھی انہیں اختیار کرنا پڑا کہ وہ لعنتی بھی ہیں مگر لعنت کے چھپانے کے لیے اور اس کا کلنک دور کرنے کے لیے یہ تجویز سوچی گئی کہ ان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بنایا جائے ایسا بیٹا جس نے دنیا کے تمام گنہ گاروں کی لعنتیں اپنے سر پر اٹھا لیں اور بجائے دوسرے ملعونوں کے آپ ملعون بن گیا اور پھر ملعونوں کی موت سے مرا یعنی مصلوب ہوا.کیونکہ بنی اسرائیل میں قدیم سے یہ رسم تھی کہ جرائم پیشہ اور قتل کے مجرموں کو بذریعہ صلیب ہی ہلاک کیا کرتے تھے اس مناسبت سے صلیبی موت لعنتی موت شمار کی گئی تھی مگر عیسائیوں کو یہ بڑا دھو کہ لگا کہ انہوں نے اپنے پیر ومرشد اور نبی کو ملعون ٹھہرا یا وہ بہت ہی شرمندہ ہوں گے جب وہ اس بات پر غور کریں گے کہ لعنت کا مفہوم لغت کی رو سے اس بات کو چاہتا ہے کہ شخص ملعون در حقیقت خدا سے مرتد ہو گیا ہو.کیونکہ لعنت ایک خدا کا فعل ہے اور یہ فعل انسان کے اس فعل کے بعد ظہور میں آتا ہے کہ جب انسان عمد أبے ایمان ہو کر خدا تعالیٰ سے تمام تعلقات توڑ دے اور خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا اس سے بیزار ہو جائے سو جب ایسے شخص سے خدا بھی بیزار ہو جائے اور اس کو اپنی درگاہ سے رد کر دے اور اس کو دشمن پکڑے تو اس صورت میں اس مردود کا نام ملعون ہوتا ہے اور یہ امر ضروری ہوتا ہے کہ یہ شخص ملعون خدا سے بیزار ہو اور خدا تعالیٰ اس سے بیزار ہو اور شخص ملعون خدا تعالیٰ کا دشمن ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء جائے اور خدا تعالیٰ اس کا دشمن ہو جائے اور شخص ملعون خدا تعالیٰ کی معرفت سے بکلی بے نصیب ہو جائے اور اندھا اور گمراہ ہو جائے اور ایک ذرہ خدا کی محبت اس کے دل میں نہ رہے.اسی لیے لغت کے رو سے لعین شیطان کا نام ہے.پس ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بالکل اس تہمت سے پاک ہیں کہ نعوذ باللہ ان کو ملعون کہا جائے اور رفع الی اللہ سے ان کو بے نصیب سمجھا جائے لیکن عیسائیوں نے اپنی حماقت سے اور یہودیوں نے اپنی شرارت سے ان کو ملعون قرار دیا اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں لعنت کا لفظ رفع کے لفظ کی نقیض ہے پس اس سے یہ لازم آیا کہ وہ نعوذ باللہ موت کے بعد خدا کی طرف نہیں بلکہ جہنم کی طرف گئے کیونکہ لعنتی یعنی وہ شخص جس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہ ہوا وہ جہنم کی طرف جاتا ہے یہ متفق علیہ اہل اسلام اور یہود کا عقیدہ ہے اسی لیے نصاری کو یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ حضرت عیسی مرنے کے بعد تین دن تک جہنم میں رہے.بہر حال ایک سچے نبی کی ان دونوں قوموں نے بڑی بے ادبی کی.اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اس الزام سے بری کرے.پس اوّل تو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فرمایا کہ مسیح ابن مریم در حقیقت سچا نبی اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے مقربوں میں سے تھا اور پھر یہود اور نصاریٰ کے اس وسوسہ کو بھی دور کیا کہ وہ مصلوب ہو کر لعنتی ہوا اور فرمایا وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَ لكِن شُيْه لَهُمْ اور یہ بھی فرما دیا کہ بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ ۶۰۰ پس اس طرح پر وہ لعنت اور عدم رفع کی تہمت جو چھ سو برس سے یہود اور نصاری کی طرف سے ان پر وارد کی گئی تھی اس کو دور فر ما یا سو ان آیات کی شان نزول یہی ہے کہ اس وقت کے یہود اور نصاریٰ حضرت مسیح کو ملعون خیال کرتے تھے اور نہایت ضروری تھا کہ ان شریروں اور احمقوں کی غلطی ظاہر کر کے ان کے جھوٹے الزام سے حضرت مسیح کو بری کر دیا جائے.پس اس ضرورت کے لیے قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور جبکہ مصلوب نہ ہوا تو یہ اعتراض سراسر غلط ظہرا کہ خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا اور نعوذ باللہ وہ ملعون ہوا بلکہ خدا تعالیٰ نے اور مقربوں کی طرح اس کو بھی رفع کی خلعت سے ممتاز کیا اور خدا تعالیٰ نے اس فیصلہ میں حضرت عیسی کے ملعون اور غیر مرفوع ہونے کے بارے میں عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کو جھوٹا ٹھہرایا.اب اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کی بریت اور ان کا صادق اور غیر کا ذب ہونا جسمانی رفع پر موقوف نہ تھا اور جسمانی رفع کے نہ ہونے سے ان کا کا ذب اور ملعون ہونا لازم نہ آتا تھا کیونکہ اگر صادق
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة النساء اور مقرب الہی ہونے کے لیے جسمانی رفع کی ضرورت ہے تو بموجب عقیدہ ان نادان علما کے لازم آتا ہے کہ صرف حضرت عیسی ہی خدا کے مقرب ہوں اور باقی تمام نبی جن کا جسمانی رفع جسم عنصری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوا وہ نعوذ باللہ قرب الہی سے بے نصیب ہوں.اور جبکہ جسمانی رفع کچھ شے نہ تھا اور کسی نبی کے صادق اور مقرب الہی ہونے کے لیے جسمانی طور پر اس کا آسمان پر جانا ضروری نہ تھا تو کیوں کر ممکن تھا کہ خدا کی کلام میں جو پر حکمت ہے یہ فضول اور لغو اور بے تعلق جھگڑا شروع کیا جاتا.حالانکہ یہود کا یہ مدعا اور جاتا.حالانکہ مقصود نہ تھا کہ حضرت مسیح کے رفع جسمانی میں بخشیں کریں اور ایسی بحث سے ان کو کچھ حاصل نہ تھا ان کا تمام مقصد جس کے لیے ان کی قوم میں معاندانہ جوش پیدا ہوا تھا اور اب تک ہے صرف یہ تھا کہ وہ ان کے مصلوب ہونے سے یہ نتیجہ نکالیں کہ ان کا روحانی رفع نہیں ہوا اسی وجہ سے انہوں نے اپنی دانست میں ان کو صلیب دیا اور توریت میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ جو شخص لکڑی پر لٹکایا جائے یعنی صلیب دیا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب اس کو میسر نہیں ہوتا دوسرے لفظوں میں یہ کہ رفع الی اللہ نہیں ہوتا بلکہ اسفل السافلین میں گرایا جاتا ہے پس یہ صلیب کا لفظ اور جو اس کا نتیجہ لعنت بیان کیا گیا ہے یہی پکار پکار گواہی دے رہا ہے کہ یہود کا تمام شور و غوغا اس وقت یہی تھا کہ صلیب ملنے سے مسیح کا لعنتی ہونا ثابت ہے اور لعنتی ہونے سے عدم رفع ثابت.پس جو جھوٹا الزام لگایا گیا تھا خدا نے اس کا فیصلہ کرنا تھا.ہاں اگر مصلوب ہونے کا نتیجہ توریت کے رو سے یہ بیان کیا جاتا کہ جو شخص مصلوب ہو اس کا جسمانی رفع نہیں ہوتا تو ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح کو جسمانی طور پر آسمان پر پہنچا تا اور کچھ بھی شبہ نہ رہنے دیتا مگر اب تو یہ خیال سراسر بے تعلق اور اصل جھگڑے اور اس کے فیصلہ سے کچھ لگاؤ نہیں رکھتا اور خدا تعالیٰ کی شان اس سے منزہ ہے کہ اس بیہودہ اور لغو اور بے تعلق امر کی بحث میں اپنے تئیں ڈالے.خدا کی تعلیمیں نجات اور قرب الہی کی راہیں بتلاتی ہیں اور ان الزموں کا نبیوں پر سے ذب اور دفع کرتی ہیں جن کی رو سے ان کے مقرب اور ناجی ہونے پر حرف آتا ہے مگر آسمان پر اس جسم کے ساتھ چڑھ جانا نجات اور قرب الہی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ورنہ ماننا پڑتا ہے کہ بجر حضرت مسیح کے نعوذ باللہ باقی تمام نبی نجات اور قرب الہی سے محروم ہیں اور یہ خیال صریح کفر ہے.ہمارے نادان مولوی اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تمام جھگڑا رفع اور عدم رفع کا صلیب کے مقدمہ سے شروع ہوا ہے یعنی توریت نے صلیب پر مرنے والوں کو روحانی رفع سے محروم ٹھہرایا ہے.پھر اگر توریت کے معنے یہ کیے جائیں کہ صلیب پر مرنے والا رفع جسمانی سے بے نصیب رہتا ہے تو ایسے عدم رفع سے نبیوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء اور تمام مومنوں کا کیا حرج ہے.ہاں اگر یہ فرض کر لیں کہ نجات کے لیے رفع جسمانی شرط ہے تو نعوذ باللہ ماننا پڑتا ہے کہ بجر مسیح تمام انبیاء نجات سے محروم ہیں اور اگر رفع جسمانی کونجات اور ایمان اور نیک بختی اور مراتب قرب سے کچھ بھی تعلق نہیں جیسا کہ فی الواقع یہی سچ ہے تو قرآن کے لفظ رفع کو اصل مقصد اور مراد سے پھیر کر اور اس کی ان نزول سے لا پرواہ ہو کر خود بخو در فع جسمانی مراد لے لینا کس قدر گمراہی ہے قرآن شریف میں تو یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بلغم کا رفع کرنا چاہا تھا لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا تو کیا اس جگہ بھی یہ کہو گے کہ اللہ تعالی کا ارادہ تھا کہ بلم کو جسم عنصری آسمان پر اٹھا وے سو ہر ایک شخص یا در کھے اور بے ایمانی کی راہ کو اختیار نہ کرے کہ قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مرا در فع روحانی ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۲۷ تا ۷ ۲۳ حاشیه ) یہ کس کو معلوم تھا کہ مرہم عیسی کا نسخہ صد باطبی کتابوں میں لکھا ہوا پیدا ہو جائے گا اس بات کی کس کو خبر تھی کہ بدھ مذہب کی پرانی کتابوں سے یہ ثبوت مل جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بلا دشام کے یہودیوں سے نومید ہو کر ہندوستان اور کشمیر اور تبت کی طرف آئے تھے.یہ بات کون جانتا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر میں قبر ہے کیا انسان کی طاقت میں تھا کہ ان تمام باتوں کو اپنے زور سے پیدا کر سکتا.اب یہ واقعات اس طرح سے عیسائی مذہب کو مٹاتے ہیں جیسا کہ دن چڑھ جانے سے رات مٹ جاتی ہے اس واقعہ کے ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کو وہ صدمہ پہنچتا ہے جو اس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام بوجھ ایک شہتیر پر تھا شہتیر ٹوٹا اور چھت گری.پس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.انہی قدرتوں سے وہ پہنچانا گیا ہے.دیکھو کیسے عمدہ معنے اس آیت کے ثابت ہوئے کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ یعنی قتل کرنا اور صلیب سے مسیح کا مارنا سب جھوٹ ہے اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو دھو کہ لگا ہے اور مسیح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق صلیب سے بچ کر نکل گیا.اور اگر انجیل کوغور سے دیکھا جائے تو انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیا مسیح کی تمام رات کی دردمندانہ دعا رد ہوسکتی تھی.کیا مسیح کا یہ کہنا کہ میں یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا اس کے یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ مردہ قبر میں رہا.کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں تین دن مرا ر ہا تھا.کیا پیلاطوس کی بیوی کے خواب سے خدا کا یہ منشاء نہیں معلوم ہوتا کہ مسیح کو صلیب سے بچا لے.ایسا ہی مسیح کا جمعہ کی آخری گھڑی صلیب پر چڑھائے جانا اور شام سے پہلے اتارے جانا اور رسم قدیم کے موافق تین دن تک صلیب پر نہ رہنا اور ہڈی نہ توڑے جانا اور خون کا نکلنا کیا یہ تمام وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة النساء امور نہیں جو بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ یہ تمام اسباب مسیح کی جان بچانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور دعا کرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کے اسباب ظہور میں آئے.بھلا مقبول کی ایسی دعا جو تمام رات روروکر کی گئی کب رد ہو سکتی تھی.پھر مسیح کا صلیب کے بعد حواریوں کو ملنا اور زخم دکھلانا کس قدر مضبوط دلیل اس بات پر ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرا اور اگر یہ میچ نہیں ہے تو بھلا اب مسیح کو پکارو کہ تمہیں آکر مل جائے جیسا کہ حواریوں کو ملا تھا.غرض ہر ایک پہلو سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کی صلیب سے جان بچائی گئی اور وہ اس ملک ہند میں آئے کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے ان ہی ملکوں میں آگئے تھے جو آخر کار مسلمان ہو گئے اور پھر اسلام کے بعد بموجب وعدہ توریت کے ان میں کئی بادشاہ بھی ہوئے اور یہ ایک دلیل صدق نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ توریت میں وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل نبی موعود کے پیرو ہو کر حکومت اور سلطنت پائیں گے.غرض مسیح ابن مریم کو صلیبی موت سے مارنا یہ ایک ایسا اصل ہے کہ اسی پر مذہب کے تمام اصولوں کفارہ اور تثلیث وغیرہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور یہی وہ خیال ہے کہ جو نصاری کے چالیس کروڑ انسانوں کے دلوں میں سرایت کر گیا ہے اور اس کے غلط ثابت ہونے سے عیسائی مذہب کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اٹھے تو جو گر وہ چالیس کروڑ انسان کا انیس سو برس میں طیار ہوا ہے ممکن ہے کہ انہیں ماہ کے اندر دست غیب سے ایک پلٹا کھا کر مسلمان ہو جائے کیونکہ صلیبی اعتقاد کے بعد یہ ثابت ہونا کہ حضرت مسیح صلیب پر نہیں مارے گئے بلکہ دوسرے ملکوں میں پھرتے رہے یہ ایسا امر ہے کہ ایک دفعہ عیسائی عقائد کو دلوں سے اڑاتا ہے اور عیسائیت کی دنیا میں انقلاب عظیم ڈالتا ہے.ر از حقیقت ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۶۴ تا ۱۶۶ حاشیه ) حال میں مسلمانوں کی تالیف بھی چند پرانی کتا بہیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں صریح یہ بیان موجود ہے کہ یوز آسف ایک پیغمبر تھا جو کسی ملک سے آیا تھا اور شہزادہ بھی تھا اور کشمیر میں اس نے انتقال کیا اور بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی چھ سو برس پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزرا ہے.ر از حقیقت، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۶۴ حاشیه) میں نے طاعون کے علاج کے لیے ایک مرہم بھی طیار کی ہے.یہ ایک پرانا نسخہ ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے اور اس کا نام مرہم عیسی ہے.......اور مرہم حوار بین بھی اسے کہتے ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ سورة النساء مرہم الرسل بھی اس کا نام ہے کیونکہ عیسائی لوگ حواریوں کو مسیح کے رسول یعنی ایلچی کہتے تھے کیونکہ ان کو جس جگہ جانے کے لیے حکم دیا جاتا تھاوہ اینچی کی طرح جاتے تھے یہ نہایت عجیب بات ہے کہ جیسا کہ یہ نسخہ طب کے تمام نسخوں سے قدیم اور پرانا ثابت ہوا ہے ایسا ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کی اکثر قوموں کے طبیبوں نے اس نسخہ کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے چنانچہ جس طرح عیسائی طبیب اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں ایسا ہی رومی طبابت کی قدیم کتابوں میں بھی یہ نسخہ پایا جاتا ہے اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ یہودی طبیبوں نے بھی اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ نسخہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لیے بنایا گیا تھا اور نصرانی طبیبوں کی کتابوں اور مجوسیوں اور مسلمان طبیبوں اور دوسرے تمام طبیبوں نے جو مختلف قوموں میں گزرے ہیں اس بات کو بالاتفاق تسلیم کر لیا ہے کہ یہ نسخہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے بنایا گیا تھا چنانچہ ان مختلف فرقوں کی کتابوں میں سے ہزار کتاب ایسی پائی گئی ہے جن میں یہ نسخہ مع وجہ تسمیہ درج ہے اور وہ کتابیں اب تک موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اکثر وہ کتا بیں ہمارے کتب خانہ میں ہیں اور شیخ الرئیس بوعلی سینا نے بھی اس نسخہ کو اپنے قانون میں لکھا ہے.چنانچہ میرے کتب خانہ میں شیخ بوعلی سینا کے قانون کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے جو پانسو برش کا لکھا ہوا ہے اس ۵۰۰ میں بھی یہ نسخہ مع وجہ تسمیہ موجود ہے ان تمام کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرہم عیسی اس وقت طیار کی گئی تھی کہ جب نالائق یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے صلیب پر چڑھا دیا تھا اور ان کے پیروں اور ہاتھوں میں لوہے کے کیل ٹھونک دیئے تھے لیکن خدا تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ ان کو صلیبی موت سے بچاوے اس لیے خدائے عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے ایسے اسباب جمع کر دیئے جن کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان بچ گئی منجملہ ان کے ایک یہ سبب تھا کہ آنجناب جمعہ کو قریب عصر کے صلیب پر چڑھائے گئے اور صلیب پر چڑھانے سے پہلے اسی رات پیلاطوس کی بیوی نے جو اس ملک کا بادشاہ تھا ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر یہ شخص جو یسوع کہلاتا ہے قتل کیا گیا تو تم پر تباہی آئے گی.اس نے یہ خواب اپنے خاوند یعنی پیلاطوس کو بتلایا اور چونکہ دنیا دار لوگ اکثر وہمی اور بزدل ہوتے ہیں اس لیے پیلاطوس خاوند اس کا اس خواب کو سن کر بہت ہی گھبرایا اور اندر ہی اندر اس فکر میں لگ گیا کہ کسی طرح یسوع کو قتل سے بچا لیا جائے.سو اس دلی منصوبہ کے انجام کے لیے پہلا داؤ جو اس نے یہودیوں کے ساتھ کھیلا وہ یہی تھا کہ یہ تدبیر کی کہ یسوع کو جمعہ کے روز عصر کے وقت صلیب دی جائے اور اسے معلوم تھا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۰ سورة النساء یہودی صرف اسے صلیب دینا چاہتے ہیں کسی اور طریق سے قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہودیوں کے مذہب کے رو سے جس شخص کو صلیب کے ذریعہ قتل کیا جائے خدا کی لعنت اس پر پڑ جاتی ہے اور پھر خدا کی طرف اس کا رفع نہیں ہوتا اور بعد اس کے یہ امر ممکن ہی نہیں ہوتا کہ خدا اس سے محبت کرے اور یا وہ خدا کی نظر میں ایمانداروں اور راست بازوں میں شمار کیا جائے.لہذا یہودیوں کی یہ خواہش تھی کہ یسوع کو صلیب دے کر پھر توریت کے رو سے اس بات کا اعلان دے دیں کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو ہرگز مصلوب نہ ہو سکتا اور اس طرح پر مسیح کی جماعت کو متفرق کردیں یا جو لوگ اندر ہی اندر کچھ نیک ظن رکھتے تھے ان کی طبیعتوں کو خراب کر دیں اور خدانخواستہ اگر واقعہ صلیب وقوع میں آجاتا تو حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ ایک ایسا داغ ہوتا کہ کسی طرح ان کی نبوت درست نہ ٹھہر سکتی اور نہ وہ راستباز ٹھہر سکتے اس لیے خدا تعالی کی حمایت نے وہ تمام اسباب جمع کر دئیے جن سے حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب ہونے سے بچ گئے.ان اسباب میں سے پہلا سبب یہی تھا کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب آیا اور اس سے ڈر کر پیلاطوس نے یہ تدبیر سوچی کہ یسوع جمعہ کے دن عصر کے وقت صلیب دیا جائے اس تدبیر میں پیلاطوس نے یہ سوچا تھا کہ غالباً اس قلیل مدت کی وجہ سے جو صرف جمعہ کے ایک دو گھنٹے ہیں یسوع کی جان بچ جائے گی کیونکہ یہ ناممکن تھا کہ جمعہ ختم ہونے کے بعد مسیح صلیب پر رہ سکتا.صلیب دینے کا یہ طریق تھا کہ صرف مجرم کو صلیب کے ساتھ جوڑ کر اس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور تین دن تک وہ اسی حالت میں دھوپ میں پڑا رہتا تھا اور آخر کئی اسباب جمع ہو کر یعنی درد اور دھوپ اور تین دن کا فاقہ اور پیاس مجرم مرجاتا تھا مگر جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے جو شخص جمعہ میں صلیب پر کھینچا جاتا تھا وہ اسی دن اتار لیا جاتا تھا کیونکہ سبت کے دن صلیب پر رکھنا سخت گناہ اور موجب تاوان اور سزا تھا سو یہ داؤ پیلاطوس کا چل گیا کہ یسوع جمعہ کی آخری گھڑی میں صلیب پر چڑھایا گیا اور نہ صرف یہی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل نے چند اور اسباب بھی ایسے پیدا کر دیئے جو پیلاطوس کے اختیار میں نہ تھے اور وہ یہ کہ عصر کے تنگ وقت میں تو یہودیوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا اور ساتھ ہی ایک سخت آندھی آئی جس نے دن کو رات کے مشابہ کر دیا.اب یہودی ڈرے کہ شاید شام ہوگئی کیونکہ یہودیوں کو سبت کے دن یا سبت کی رات کسی کو صلیب پر رکھنے کی سخت ممانعت تھی اور یہودیوں کے مذہب کے رو سے دن سے پہلے جو رات آتی ہے وہ آنے والے دن میں شمار کی جاتی ہے اس لئے جمعہ کے بعد جو رات تھی وہ سبت کی رات تھی لہذا یہودی آندھی کے پھیلنے کے وقت میں اس بات سے بہت گھبرائے کہ ایسا نہ ہو کہ سبت ا
سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رات میں یہ شخص صلیب پر ہو.اس لیے جلدی سے انہوں نے اتار لیا اور دو چور جو ساتھ صلیب دیئے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں لیکن مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں کیونکہ پیلاطوس کے سپاہیوں نے جن کو پوشیدہ طور سمجھایا گیا تھا کہ دیا کہ اب نبض نہیں ہے اور یسوع مر چکا ہے.مگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ راست باز کا قتل کرنا کچھ سہل امر نہیں اس لیے اس وقت نہ صرف پیلاطوس کے سپاہی یسوع کے بچانے کے لیے تدبیریں کر رہے تھے بلکہ یہود بھی حواس باختہ تھے اور آثار قہر دیکھ کر یہودیوں کے دل بھی کانپ گئے تھے اور اس وقت وہ پہلے زمانہ کے آسمانی عذاب جو ان پر آتے رہے ان کی آنکھوں کے سامنے تھے اس لیے کسی یہودی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ یہ کہے کہ ہم تو ضرور ہڈیاں توڑیں گے اور ہم باز نہیں آئیں گے.کیونکہ اس وقت رَبُّ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ نهایت غضب میں تھا.اور جلال انہی یہودیوں کے دلوں پر ایک رعب ناک کام کر رہا تھا.لہذا انہوں نے جن کے باپ دادے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے غضب کا تجربہ کرتے آئے تھے جب سخت اور سیاہ آندھی اور عذاب کے آثار دیکھے اور آسمان پر سے خوفناک آثار نظر آئے تو وہ سراسیمہ ہو کر گھروں کی طرف بھاگے.اس بات پر یقین کرنے کے لیے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہرگز صلیب پر فوت نہیں ہوئے پہلی دلیل یہ ہے کہ وہ انجیل میں یونس نبی سے اپنی مشابہت بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یونس کی طرح میں بھی قبر میں تین دن رہوں گا جیسا کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا اب یہ مشابہت جو نبی کے منہ سے نکلی ہے قابل غور ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں رکھے گئے تھے تو پھر مردہ اور زندہ کی کس طرح مشابہت ہو سکتی ہے؟ کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں مرار ہا تھا ؟ سو یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ ہر گز مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ وہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوئے پھر دوسری دلیل یہ ہے کہ پیلاطوس کی بیوی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ اگر یہ شخص مارا گیا تو اس میں تمہاری تباہی ہے اب ظاہر ہے کہ اگر حقیقت میں عیسیٰ علیہ السلام صلیب دیئے جاتے یعنی صلیبی موت سے مرجاتے تو ضرور تھا کہ جو فرشتہ نے پیلاطوس کی بیوی کو کہا تھا وہ وعید پورا ہوتا.حالانکہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ پیلاطوس پر کوئی تباہی نہیں آئی تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لیے تمام رات دعامانگی تھی اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو.چوتھی دلیل یہ ہے کہ صلیب پر پھر مسیح نے اپنے بچنے کے لیے یہ دعا کی ایلی ایلی لما سبقتانی اے میرے خدا! اے میرے خدا!" تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة النساء نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اب کیوں کر ممکن ہے کہ جب کہ اس حد تک ان کی گدازش اور سوزش پہنچ گئی تھی پھر خدا ان پر رحم نہ کرتا.پانچویں دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رکھے گئے اور شاید اس سے بھی کم اور پھر اتارے گئے اور یہ بالکل بعید از قیاس ہے کہ اس تھوڑے عرصہ اور تھوڑی تکلیف میں ان کی جان نکل گئی ہو اور یہود کو بھی پختہ ظن سے اس بات کا دھڑ کا تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا.چنانچہ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا قَتَلُوهُ یقینا یعنی یہود قتل مسیح کے بارے میں فلن میں رہے اور یقینی طور پر انہوں نے نہیں سمجھا کہ در حقیقت ہم نے قتل کر دیا.چھٹی دلیل یہ ہے کہ جب یسوع کے پہلو میں ایک خفیف سا چھید دیا گیا تو اس میں سے خون نکلا اور خون بہتا ہوا نظر آیا اور ممکن نہیں کہ مردہ میں خون بہتا ہوا نظر آئے.ساتویں دلیل یہ ہے کہ یسوع کی ہڈیاں توڑی نہ گئیں جو مصلوبوں کے مارنے کے لیے ایک ضروری فعل تھا کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ تین دن صلیب پر رکھ کر پھر بھی بعض آدمی زندہ رہ جاتے تھے پھر کیوں کر ایسا شخص جو صرف چند منٹ صلیب پر رہا اور ہڈیاں نہ توڑی گئیں وہ مر گیا؟ آٹھویں دلیل یہ ہے کہ انجیل سے ثابت ہے کہ یسوع صلیب سے نجات پا کر پھر اپنے حواریوں کو ملا اور ان کو اپنے زخم دکھلائے اور ممکن نہیں کہ یہ زخم اس حالت میں موجود رہ سکتے کہ جب کہ یسوع مرنے کے بعد ایک تازہ اور نیا جلالی جسم پاتا.نویں دلیل حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر یہی نسخہ مرہم عیسی ہے کیونکہ ہرگز خیال نہیں ہو سکتا کہ مسلمان طبیبوں اور عیسائی ڈاکٹروں اور رومی مجوسی اور یہودی طبیبوں نے باہم سازش کر کے یہ بے بنیا د قصہ بنالیا ہو.بلکہ یہ نسخہ طبابت کی صد با کتابوں میں لکھا ہوا اب تک موجود ہے.ایک ادنی استعداد کا آدمی بھی قرابادین قادری میں اس نسخہ کو امراض الجلد میں لکھا ہوا پائے گا.یہ بات ظاہر ہے کہ مذہبی رنگ کی تحریروں میں کئی قسم کی کمی زیادتی ممکن ہے.کیونکہ تعصبات کی اکثر آمیزش ہو جاتی ہے لیکن جو کتا ہیں علمی رنگ میں لکھی گئیں ان میں نہایت تحقیق اور تدقیق سے کام لیا جاتا ہے.لہذا یہ نسخہ مرہم عیسیٰ اصل حقیقت کے دریافت کے لیے نہایت اعلیٰ درجہ کا ذریعہ ہے.اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ خیالات کہ گویا حضرت عیسی آسمان پر چلے گئے تھے کیسے اور کس پایا کے ہیں اور خود ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کے جسم کو آسمان پر اٹھانے کے لیے کوئی بھی ضرورت نہیں تھی خدا تعالیٰ حکیم ہے عبث کام کبھی نہیں کرتا جبکہ اس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غار ثور میں صرف دو تین میل کے فاصلے پر مکہ سے چھپا دیا اور سب ڈھونڈ نے والے نا کام اور نامراد واپس کئے تو وہ حضرت مسیح کو کسی پہاڑ کی غار میں چھپا نہیں سکتا تھا اور بجز دوسرے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۳ سورة النساء آسمان پر پہنچانے کے یہودیوں کی ہمت اور تلاش پر اس کو دل میں کھڑ کا تھا ؟ ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۷ تا ۳۵۳) حدیث صحیح میں حضرت عیسی کی عمر ایک سو بیس برس مقرر کر دی گئی ہے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی اس عالم کو چھوڑ کر عالم اموات میں گئے اور اب تک ان لوگوں میں رہتے ہیں جو فوت ہو چکے ہیں نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ سوتے ہیں اور نہ کوئی اور خاصہ اس دنیا کی زندگی کا ان میں موجود ہے بیٹی نبی جو فوت ہو کر دوسرے عالم میں گیا ہے وہ بھی ان کے ساتھ ہی ہے.(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۵۳ حاشیه ) انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسی علیہ السلام صاف دعوی کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں، میں بادی ہوں اور میں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس سے پاک پیدائش پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں پھر باوجود ان غیر منفک اور پاک تعلقات کے لعنت کا نا پاک مفہوم کیوں کر مسیح کے دل پر صادق آ سکتا ہے ہر گز نہیں.پس بلاشبہ یہ بات ثابت ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا یعنی صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اس کی ذات صلیب کے نتیجہ سے پاک ہے اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو لعنت کی ناپاک کیفیت سے بیشک اس کے دل کو بچایا گیا.اور بلاشبہ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ وہ آسمان پر ہرگز نہیں گیا کیونکہ آسمان پر جانا اس منصوبہ کی ایک جز تھی اور مصلوب ہونے کی ایک فرع تھی پس جبکہ ثابت ہوا کہ وہ نہ لعنتی ہوا اور نہ تین دن کے لیے دوزخ میں گیا اور نہ مرا تو پھر یہ دوسری جز آسمان پر جانے کی بھی باطل ثابت ہوئی اور اس پر اور بھی دلائل ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ قول ہے جو مسیح کے منہ سے نکلا لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا“.دیکھو متی باب ۲۶ آیت ۳۲ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح قبر سے نکلنے کے بعد جلیل کی طرف گیا تھا نہ آسمان کی طرف اور مسیح کا یہ کلمہ کہ اپنے جی اٹھنے کے بعد اس سے مرنے کے بعد جینا مراد نہیں ہوسکتا.بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مر چکا تھا اس لیے مسیح نے پہلے سے ان کے آئندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا اور در حقیقت جس شخص کو صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھو کے گئے یہاں تک کہ وہ اس تکلیف سے غشی میں ہو کر مردہ کی سی حالت میں ہو گیا اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پا کر پھر ہوش کی حالت میں آجائے تو اس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر زندہ ہو گیا اور بلاشبہ اس صدمہ عظیمہ کے بعد مسیح کا بچ جانا ایک معجزہ تھا معمولی بات نہیں تھی لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ایسا خیال کیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ سورة النساء جائے کہ مسیح کہ جان نکل گئی تھی سچ ہے کہ انجیلوں میں ایسے لفظ موجود ہیں لیکن یہ اسی قسم کی انجیل نویسوں کی غلطی ہے جیسا کہ اور بہت سے تاریخی واقعات کے لکھنے میں انہوں نے غلطی کھائی ہے.انجیلوں کے محقق شارحوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ انجیل میں دو حصے ہیں (۱) ایک دینی تعلیم ہے جو حواریوں کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ملی تھی جو اصل روح انجیل کا ہے.(۲) دوسرے تاریخی واقعات ہیں ایسے حضرت عیسی کا شجرہ نسب اور ان کا پکڑا جانا اور مارا جانا اور مسیح کے وقت میں ایک معجزہ نما تالاب کا ہونا وغیرہ یہ وہ امور ہیں جو لکھنے والوں نے اپنی طرف سے لکھے تھے.سو یہ باتیں الہامی نہیں ہیں بلکہ لکھنے والوں نے اپنے خیال کے موافق لکھی ہیں اور بعض جگہ مبالغہ بھی حد سے زیادہ کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ جس قدر مسیح نے کام کیے یعنی معجزات دکھلائے اگر وہ کتابوں میں لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سمانہ سکتیں.یہ کس قدر مبالغہ ہے.ما سوا اس کے ایسے بڑے صدمہ کو جو مسیح پر وارد ہوا تھا موت کے ساتھ تعبیر کرنا خلاف محاورہ نہیں ہے ہر ایک قوم میں قریباً یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص ایک مہلک صدمہ میں مبتلا ہو کر پھر آ خریچ جائے اس کو کہا جاتا ہے کہ نئے سرے زندہ ہوا اور کسی قوم اور ملک کے محاورہ میں ایسی بول چال میں کچھ بھی تکلف نہیں.ان سب امور کے بعد ایک اور بات ملحوظ رکھنے کے لائق ہے کہ برنباس کی انجیل میں جو غالباً لندن کے کتب خانہ میں بھی ہوگی یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور نہ صلیب پر جان دی.اب ہم اس جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گو یہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلہ کے رد کر دی گئی ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جبکہ دوسری انجیلیں لکھی گئیں کیا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ اس پرانی اور دیرینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاویں ؟ اور کیا کم سے کم اس کتاب کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسیح علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے.پھر ماسوا اس کے جبکہ خودان چار انجیلوں میں ایسے استعارات موجود ہیں کہ ایک مردہ کو کہہ دیا ہے کہ یہ سوتا ہے مرا نہیں تو اس حالت میں اگر غشی کی حالت میں مردہ کا لفظ بولا گیا تو کیا یہ بعید ہے ہم لکھ چکے ہیں کہ نبی کے کلام میں ہم جھوٹ جائز نہیں.مسیح نے اپنی قبر میں رہنے کے تین دن کو یونس کے تین دنوں سے مشابہت دی ہے.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ یونس تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ایسا ہی مسیح بھی تین دن قبر میں زندہ رہا اور یہودیوں میں اس وقت کی قبریں اس زمانہ کی قبروں کے مشابہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک کو ٹھے کی طرح اندر ،.
۳۷۵ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء سے بہت فراخ ہوتی تھیں اور ایک طرف کھڑکی ہوتی تھی جس کو ایک بڑے پتھر سے ڈھانکا ہوا ہوتا تھا اور عنقریب ہم اپنے موقع پر ثابت کریں گے کہ عیسی علیہ السلام کی قبر جو حال میں سری نگر کشمیر میں ثابت ہوئی ہے وہ بعینہ اسی طرز کی قبر ہے جیسا کہ یہ قبر تھی جس میں حضرت مسیح غشی کی حالت میں رکھے گئے.غرض یہ آیت جس کو ابھی ہم نے لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا اور مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کر جلیل کی سڑک پر جاتا ہوا دکھائی دیا اور آخر ان گیاراں حواریوں کو ملا جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جو زخمی تھے دکھائے اور انہوں نے گمان کیا کہ شاید یہ روح ہے.تب اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور ان سے ایک بھونی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا اور شہد کا ایک چھتا لیا اور ان کے سامنے کھا یا دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۱۴.اور لوقا باب ۲۴ آیت ۳۹ اور ۴۰ اور ۴۱ اور ۴۲.ان آیات سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہر گز آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی جسم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا اگر وہ مر کر زندہ ہوتا تو کیوں کر ممکن تھا کہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے اور اس کو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہوگا.ناظرین کو اس دھو کے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہوگی جس سے نجات پانا قریباً محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رسا گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر لٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب پر کھینچ کر ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے جاتے اور یہ بات ممکن ہوتی تھی کہ اگر صلیب پر کھینچنے اور کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دو دن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کر کے ہڈیاں توڑنے سے پہلے اس کو زندہ اتار لیا جائے اور اگر مارنا ہی منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھنچا ہوا رہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخران تمام عذابوں کے بعد وہ مرجاتا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچا لیا جس سے زندگی کا خاتمہ ہو جا تا انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ تین دن تک صلیب پر رہے اور نہ تین دن کی بھوک اور پیاس اٹھائی اور نہ ان کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ قریباً دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے رحم اور فضل نے ان کے لیے یہ تقریب قائم
سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کر دی کہ دن کے اخیر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید فسح تھی اور یہودیوں کے لیے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو سبت یا.سبت کی رات میں صلیب پر رہنے دیں اور مسلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم سمجھی جاتی تھی پس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جوز مینی اسباب سے پیدا ہوئی اور دوسری طرف آسانی اسباب خدا تعالی کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا.دیکھو مرقس باب ۶ آیت ۳۳.یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا یعنی وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے.اب یہودیوں کو اس شدت اندھیرے میں یہ فکر پڑی کہ مبادا سبت کی رات آ جائے اور وہ سبت کے مجرم ہو کر تاوان کے لائق ٹھہر میں اس لیے انہوں نے جلدی سے میسج کو اور اس کے ساتھ کے دو چوروں کو بھی صلیب پر سے اتارلیا.اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اس کی جورو نے اسے کہلا بھیجا کہ تو اس راست باز سے کچھ کام نہ رکھ ( یعنی اس کے قتل کرنے کے لیے سعی نہ کر ) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سبب سے بہت تکلیف پائی دیکھو متی باب ۲۷ آیت ۱۹.سو یہ فرشتہ جو خواب میں پلاطس کی بیوی کو دکھایا گیا.اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک یہ کبھی نہ ہوا کہ جس شخص کے بچانے کے لیے خدائے تعالیٰ رویا میں کسی کو ترغیب دے کہ ایسا کرنا چاہیے تو وہ بات خطا جائے.مثلاً انجیل متی میں لکھا ہے کہ خدا وند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کے کہا اٹھ اس لڑکے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اور وہاں جب تک میں تجھے خبر نہ دوں ٹھہرارہ کیونکہ ہیرو دوس اس لڑکے کو ڈھونڈے گا کہ مار ڈالئے دیکھو انجیل متی باب ۲ آیت ۱۳.اب کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کا مصر میں پہنچ کر مارا جانا ممکن تھا اسی طرح خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک تدبیر تھی کہ پلاطوس کی جورو کو مسیح کے لئے خواب آئی اور ممکن نہ تھا کہ یہ تدبیر خطا جاتی اور جس طرح مصر کے قصہ میں مسیح کے مارے جانے کا اندیشہ ایک ایسا خیال ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک مقرر شدہ وعدہ کے برخلاف ہے اسی طرح اس جگہ بھی یہ خلاف قیاس بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا فرشتہ پلا طوس کی جورو کو نظر آدے اور وہ اس ہدایت کی طرف اشارہ کرے کہ اگر مسیح صلیب پر فوت ہو گیا تو یہ تمہارے لیے اچھا نہ ہو گا تو پھر اس غرض سے فرشتہ کا ظاہر ہونا بے سود جاوے اور مسیح صلیب پر مارا جائے کیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة النساء اس کی دنیا میں کوئی نظیر ہے؟ ہر گز نہیں.ہر ایک نیک دل انسان کا پاک کانشنس جب پلاطوس کی بیوی کے خواب پر اطلاع پائے تو بیشک وہ اپنے اندر اس شہادت کو محسوس کرے گا کہ در حقیقت اس خواب کا منشاء یہی تھا کہ مسیح کے چھوڑانے کی ایک بنیاد ڈالی جائے یوں تو دنیا میں ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنے عقیدہ کے تعصب سے ایک کھلی کھلی سچائی کو رد کر دے اور قبول نہ کرے.لیکن انصاف کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ پلاطوس کی بیوی کی خواب مسیح کے صلیب سے بچنے پر ایک بڑے وزن کی شہادت ہے.اور سب سے اول درجہ کی انجیل یعنی متی نے اس شہادت کو قلمبند کیا ہے اگر چہ ایسی شہادتوں سے جو میں بڑے زور سے اس کتاب میں لکھوں گا مسیح کی خدائی اور مسئلہ کفارہ یک لخت باطل ہوتا ہے لیکن ایمانداری اور حق پسندی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ ہم سچائی کے قبول کرنے میں قوم اور برادری اور عقائد رسمیہ کی کچھ پرواہ نہ کریں جب سے انسان پیدا ہوا ہے آج تک اس کی کو نہ اندیشیوں نے ہزاروں چیزوں کو خدا بنا ڈالا ہے یہاں تک کہ بلیوں اور سانپوں کو بھی پوجا گیا ہے لیکن پھر بھی عقلمند لوگ خدا داد توفیق سے اس قسم کے مشرکانہ عقیدوں سے نجات خداداد.پاتے آئے ہیں.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر ملتی ہیں اس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اس نے کیا چنانچہ اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم مگر لینی کو ملا.مریم نے فی الفور حواریوں کو خبر کی کہ مسیح تو جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے پھر وہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا آخر وہ گیارھوں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور ان کی بے ایمانی اور سخت دلی پر ملامت کی.دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ آیت ۹ سے آیت ۱۴ تک.اور جب مسیح کے حواری سفر کرتے ہوئے اس بستی کی طرف جارہے تھے جس کا نام املوس ہے جو یروشلم سے پونے چارکوس کے فاصلہ پر ہے تب مسیح ان کو ملا.اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو مسیح نے آگے بڑھ کر چاہا کہ ان سے الگ ہو جائے تب انہوں نے اس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے اور اس نے ان کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی اور وہ سب مع مسیح کے املوس نام ایک گاؤں میں رات رہے.دیکھو لوقا باب ۲۴ آیت ۱۳ سے ۳۱ تک.اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے صحیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہونا اور کھانا اور پینا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جو یروشلم سے قریبا ستر کوس کے فاصلے پر تھا بالکل غیر ممکن اور نا معقول بات ہے اور باوجود اس کے کہ خیالات کے میلان.
۳۷۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا ہے تاہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں ان سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اسی فانی اور معمولی جسم سے اپنے حواریوں کو ملا اور پیادہ پا جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کیا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات ان کے پاس روٹی کھائی اور سو یا اور آگے چل کر ہم ثابت کریں گے کہ اس نے اپنے زخموں کا ایک مرہم کے استعمال سے علاج کیا.اب یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی جسم پانے کے بعد یعنی اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھا کہ کھانے پینے سے پاک ہو کر ہمیشہ خدائے تعالیٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک داغ اور درد اور نقصان سے منزہ ہو اور ازلی ابدی خدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہوا بھی اس میں یہ نقص باقی رہ گیا کہ اس پر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے جن سے خون بہتا تھا اور درد اور تکلیف ان کے ساتھ تھی جن کے واسطے ایک مرہم بھی طیار کی گئی تھی اور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جو ابد تک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر متغیر چاہیے تھا کئی قسم کے نقصانوں سے بھرارہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلائیں اور پھر اسی پر کفایت نہیں بلکہ اس فانی جسم کے لوازم میں سے بھوک اور پیاس کی درد بھی موجود تھی ورنہ اس لغو حرکت کی کیا ضرورت تھی کہ میسج جلیل کے سفر میں کھانا کھاتا اور پانی پیتا اور آرام کرتا اور سوتا.اس میں کیا شک ہے کہ اس عالم میں جسم فانی کے لیے بھوک اور پیاس بھی ایک درد ہے جس کے حد سے زیادہ ہونے سے انسان مرسکتا ہے پس بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک نفی کی حالت ہو گئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہوا کہ جس قبر میں وہ رکھا گیا وہ اس ملک کی قبروں کی طرح نہ تھی بلکہ ایک ہوا دار کوٹھہ تھا جس میں ایک کھڑ کی تھی اور اس زمانے میں یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ قبر کو ایک ہوادار اور کشادہ کوٹھہ کی طرح بناتے تھے اور اس میں ایک کھڑکی رکھتے تھے اور ایسی قبریں پہلے سے موجود رہتی تھیں اور پھر وقت پر میت اس میں رکھی جاتی تھی چنانچہ یہ گواہی انجیلوں سے صاف طور پر ملتی ہے.انجیل لوقا میں یہ عبارت ہے.اور وے عورتیں اتوار کے دن بڑے تڑکے یعنی کچھ اندھیرے سے ہی ان خوشبوؤں کو جو طیار کی تھیں لے کر قبر پر آئیں اور ان کے ساتھ کئی اور بھی عورتیں تھیں اور انہوں نے پتھر کو قبر پر سے ڈھلکا ہوا پایا ( اس مقام میں ذرہ غور کرو ) اور اندر جاکے خداوند یسوع کی لاش نہ پائی.دیکھ لوقا باب ۲۴ آیت ۲ - ۳.اب اندر جانے کے لفظ کو ذرہ سوچو.ظاہر ہے کہ اسی قبر کے اندر انسان جاسکتا ہے کہ جو ایک کو ٹھے کی طرح ہو اور اس میں کھڑ کی ہو.اور ہم اپنے محل پر 66
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۹ سورة النساء اسی کتاب میں بیان کریں گے کہ حال میں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں پائی گئی ہے وہ بھی اس قبر کی طرح کھڑکی دار ہے.اور یہ ایک بڑے راز کی بات ہے جس پر توجہ کرنے سے محققین کے دل ایک عظیم الشان نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کوملی ہیں پلاطس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے اور جبکہ شام ہوئی اس لیے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا.یوسف ارتیا جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا آیا اور دلیری سے پلاطس پاس جا کے یسوع کی لاش مانگی اور پیلاطس نے متعجب ہو کر شبہ کیا کہ وہ یعنی مسیح ایسا جلد مر گیا.دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۴۲ سے ۴۴ تک.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی یسوع کے مرنے پر شبہ ہوا.اور شبہ بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں کیونکہ وہ دن طیاری کا تھا بلکہ بڑا ہی سبت تھا پلاطوس سے عرض کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں تب سپاہیوں نے آ کر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اس کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے توڑیں.لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آ کے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکلا.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے آیت ۳۴ تک.ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اس کو کئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے لیکن مسیح کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑی گئیں.اور وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ اتارا گیا.اسی وجہ سے پہلی چھیدنے سے خون بھی نکلا.مردہ کا خون جم جاتا ہے اور اس جگہ یہ بھی صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر یہ کچھ سازش کی بات تھی پلاطوس ایک خدا ترس اور نیک دل آدمی تھا.کھلی کھلی رعایت سے قیصر سے ڈرتا تھا کیونکہ یہودی مسیح کو باغی ٹھہراتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھا کہ اس نے مسیح کو دیکھا لیکن قیصر نے اس نعمت کو نہ پایا.اس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی اور اس کا ہرگز منشا نہ تھا کہ مسیح صلیب پاوے.چنانچہ انجیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلا طوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ مسیح کو چھوڑ دے لیکن
۳۸۰ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں اور یہ کہا کہ یہ باغی ہے اور خود بادشاہ بننا چاہتا ہے دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۲۱.اور پلاطوس کی بیوی کی خواب اور بھی اس بات کی محرک ہوئی تھی کہ کسی طرح مسیح کو مصلوب ہونے سے بچایا جائے ورنہ ان کی اپنی تباہی ہے.مگر چونکہ یہودی ایک شریر قوم تھی اور پلا طوس پر قیصر کے حضور میں مخبری کرنے کو بھی طیار تھے اس لیے پلاطوس نے مسیح کے چھڑانے میں حکمت عملی سے کام لیا.اول تو مسیح کا مصلوب ہونا ایسے دن پر ڈال دیا کہ وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف چند گھنٹے دن سے باقی تھے اور بڑے سبت کی رات قریب تھی اور پلا طوس خوب جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعت کے حکموں کے موافق صرف شام کے وقت تک ہی مسیح کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں اور پھر شام ہوتے ہی ان کا سبت ہے جس میں صلیب پر رکھنا روا نہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مسیح شام سے پہلے صلیب پر سے اتارا گیا.اور یہ قریب قیاس نہیں کہ دونوں چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے وہ زندہ رہے.مگر مسیح صرف دو گھنٹہ تک مر گیا بلکہ یہ صرف ایک بہانہ تھا جو مسیح کو ہڈیاں توڑنے سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا سمجھ دار آدمی کے لیے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دونوں چور صلیب پر سے زندہ اتارے گئے اور ہمیشہ معمول تھا کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اتارے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں اور یا بھوک اور پیاس کی حالت میں چند روز صلیب پر رہ کر جان نکلتی تھی مگر ان باتوں میں سے کوئی بات بھی مسیح کو پیش نہ آئی نہ وہ کئی دن صلیب پر بھوکا پیاسا رکھا گیا اور نہ اس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور یہ کہہ کر کہ مسیح مر چکا ہے یہودیوں کو اس کی طرف سے غافل کر دیا گیا.مگر چوروں کی ہڈیاں توڑ کر اسی وقت ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا.بات تو تب تھی کہ ان دونوں چوروں میں سے بھی کسی کی نسبت کہا جاتا کہ وہ مر چکا ہے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں اور یوسف نام پلاطوس کا ایک معزز دوست تھا جو اس نواح کا رئیس تھا اور مسیح کے پوشیدہ شاگردوں میں داخل تھا وہ عین وقت پر پہنچ گیا.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی پلاطوس کے اشارہ سے بلا یا گیا تھا مسیح کو ایک لاش قرار دے کر اس کے سپرد کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک بڑا آدمی تھا اور یہودی اس کے ساتھ کچھ پر خاش نہیں کر سکتے تھے.جب وہ پہنچا تو مسیح کو جو شی میں تھا ایک لاش قرار دے کر اس نے لیا اور اسی جگہ ایک وسیع مکان تھا جو اس زمانہ کی رسم پر قبر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں ایک کھڑ کی بھی تھی اور ایسے موقع پر تھا جو یہودیوں کے تعلق سے الگ تھا اسی جگہ پلا طوس کے اشارہ سے مسیح کو رکھا گیا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ حضرت موسیٰ کی وفات پر چودھویں صدی گزر رہی تھی اور اسرائیلی شریعت کے زندہ کرنے کے لیے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة النساء مسیح چودھویں صدی کا مجد دکھا اور اگرچہ یہودیوں کو اس چودھویں صدی میں مسیح موعود کا انتظار بھی تھا اور گذشتہ نبیوں کی پیشگوئیاں بھی اس وقت پر گواہی دیتی تھیں لیکن افسوس کہ یہودیوں کے نالائق مولویوں نے اس وقت اور موسم کو شناخت نہ کیا اور مسیح موعود کو جھوٹا قرار دے دیا.نہ صرف یہی بلکہ اس کو کافر قرار دیا اس کا نام ملحد رکھا اور آخر اس کے قتل پر فتویٰ لکھا اور اس کو عدالت میں کھینچا اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ خدا نے چودھویں صدی میں کچھ تاثیر ہی ایسی رکھی ہے جس میں قوم کے دل سخت اور مولوی دنیا پرست اور اندھے اور حق کے دشمن ہو جاتے ہیں اس جگہ اگر موسیٰ کی چودھویں صدی اور موسیٰ کے مثیل کی چودھویں صدی کا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باہم مقابلہ کیا جائے تو اول یہ نظر آئے گا کہ ان دونوں چودھویں صدیوں میں دو ایسے شخص ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ دعوی سچا تھا اور خدا کی طرف سے تھا.پھر اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوگا کہ قوم کے علماء نے ان دونوں کو کافر قرار دیا اور ان دونوں کا نام ملحد اور دجال رکھا اور ان دونوں کی نسبت قتل کے فتوے لکھے گئے اور دونوں کو عدالتوں کی طرف کھینچا گیا جن میں سے ایک رومی عدالت تھی اور دوسری انگریزی.آخر دونوں بچائے گئے اور دونوں قسم کے مولوی یہودی اور مسلمان ناکام رہے.اور خدا نے ارادہ کیا کہ دونوں مسیحوں کو ایک بڑی جماعت بنادے اور دونوں قسم کے دشمنوں کو نامراد رکھے.غرض موسیٰ کی چودھویں صدی اور ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چودھویں صدی اپنے اپنے میحوں کے لیے سخت بھی ہیں اور انجام کا رمبارک بھی.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں یعنی آیت ۳۶ سے ۴۶ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کیے جانے کا الہام پا کر تمام رات جناب الہی میں رو رو کر سجدے کرتے ہوئے دعا کرتے رہے.اور ضرور تھا کہ ایسی تفرع کی دعا جس کے لیے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بیقراری کے وقت کا سوال ہو ہر گز رد نہیں ہوتا پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دعارہ ہوگئی حالانکہ مسیح دعوی کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے پس کیوں کر باور کیا جائے کہ خدا اس کی سنتا تھا جبکہ ایسی بیقراری کی دعاسنی نہ گئی اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہو گئی اور اس دعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا.اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی
۳۸۲ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی‘“اے میرے خدا! اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا.یعنی مجھے یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہوگا اور میں صلیب پر مروں گا اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعا سنے گا.پس ان دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود دلی یقین تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی اور میرا تمام رات کا روروکر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا.اور خود اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کرو گے تو قبول کی جائے گی بلکہ ایک مثال کے طور پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آجائے کہ بیشک خدائے تعالیٰ دعا سنتا ہے.اور اگر چہ میچ کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت کے آنے کا خدائے تعالی کی طرف سے علم تھا.مگر مسیح نے عارفوں کی طرح اس بنا پر دعا کی کہ خدائے تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک محوداثبات اس کے اختیار میں ہے.لہذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود دعا قبول نہ ہوئی یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کرنے والا تھا.سو کیوں کر ممکن تھا کہ ایسا نمونہ جو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پر سوز دعا قبول نہ ہوسکی تو اس بدنمونہ سے ان کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا.لہذا خدا تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دعا کو قبول کرتا یقیناً سمجھو کہ وہ دعا جو گمینی نام مقام میں کی گئی تھی ضرور قبول ہو گئی تھی.مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۹ تا ۳۱) اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ - الآي- وَمَا قَتَلُوهُ یقینا الآیہ یعنی یہودیوں نے نہ حضرت مسیح کو در حقیقت قتل کیا اور نہ بذریعہ صلیب ہلاک کیا بلکہ ان کو محض ایک شبہ پیدا ہوا کہ گویا حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت ہو گئے ہیں اور ان کے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن کی وجہ ا سے ان کے دل اس بات پر مطمئن ہو سکیں کہ یقیناً حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر جان نکل گئی تھی.ان آیات میں اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ بیچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے مارنے کا ارادہ کیا گیا مگر یہ محض ایک دھوکا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ایسا خیال کر لیا کہ در حقیقت لیہ حضرت مسیح علیہ السلام کی جان صلیب پر نکل گئی تھی بلکہ خدا نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے جن کی وجہ سے وہ صلیبی موت سے بیچ رہا.اب انصاف کرنے کا مقام ہے کہ جو کچھ قرآن کریم نے یہود اور نصاری کے برخلاف فرمایا تھا آخر کار وہی بات سچی نکلی اور اس زمانہ کی اعلیٰ درجہ کی تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت مسیح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ سورة النساء در حقیقت صلیبی موت سے بچائے گئے تھے کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیوں کر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹہ میں نکل گئی.اسی وجہ سے بعض یہودیوں نے ایک اور بات بنائی ہے کہ ہم نے مسیح کو تلوار سے قتل کر دیا تھا حالانکہ یہودیوں کی پرانی تاریخ کے رو سے مسیح کو تلوار کے ذریعہ سے قتل کرنا ثابت نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ مسیح کے بچانے کے لیے اندھیرا ہوا، بھونچال آیا ، پلاطوس کی بیوی کو خواب آئی ، سبت کے دن کی رات قریب آگئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا روا نہ تھا.حاکم کا دل بوجہ ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کے لیے متوجہ ہوا.یہ تمام واقعات خدا نے اس لیے ایک ہی دفعہ پیدا کر دیئے کہ تا مسیح کی جان بچ جائے اس کے علاوہ مسیح کو ششی کی حالت میں کردیا کہ ہر ایک کو مردہ معلوم ہو.اور یہودیوں پر اس وقت ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بزدلی اور خوف اور عذاب کا اندیشہ طاری کر دیا.اور یہ دھٹر کہ اس کے علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صلیب پر نہ رہ جائیں پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے مسیح کوششی میں دیکھ کرسمجھ لیا کہ فوت ہو گیا ہے.اندھیرے اور بھونچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا.گھروں کا بھی ان کو فکر پڑا کہ شاید اس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب ہوئی کہ اگر یہ اور شخص کا ذب اور کافر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اس کے اس دکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے لہذا ان کے دل بیقرار ہو کر اس لائق نہ رہے کہ وہ مسیح کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مر گیا یا کیا حال ہے.مگر در حقیقت یہ سب امور مسیح کے بچانے کے لیے خدائی تدبیریں تھیں اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.ولکن شُبِّهَ لَهُمْ یعنی یہود نے مسیح کو جان سے مارا نہیں ہے لیکن خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے ماردیا ہے.اس سے راست بازوں کی خدائے تعالیٰ کے فضل پر بڑی امید بڑھتی ہے کہ جس طرح اپنے بندوں کو چاہے بچالے.مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۲،۵۱) افسوس کس قدر قرآن شریف کی تحریف کی جاتی ہے.یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں ما قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ موجود ہے اس سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ کسی شخص کا نہ مقتول ہونا نہ مصلوب ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر اٹھایا گیا ہو اگلی آیت میں صریح یہ لفظ موجود ہیں کہ لكن شُبَهَ لَهُمْ یعنی یہودی قتل کرنے میں کامیاب نہیں وو
۳۸۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ہوئے.مگر ان کو شبہ میں ڈالا گیا کہ ہم نے قتل کر دیا ہے پس شبہ میں ڈالنے کے لیے اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ کسی مومن کو مصلوب کر کے لعنتی بنایا جائے یا خود یہودیوں میں سے کسی کو حضرت عیسی کی شکل بنا کر صلیب پر چڑھایا جاوے کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص اپنے تئیں حضرت عیسی کا دشمن ظاہر کر کے اور اپنے اہل وعیال کے پتے اور نشان دے کر ایک دم میں مخلصی حاصل کر سکتا تھا کہ عیسی نے جادو سے مجھے اپنی شکل پر بنا دیا ہے یہ کس قدر مجنونانہ تو ہمات ہیں کیوں لیکن شُبه لَهُمْ کے معنے یہ نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت نہیں ہوئے مگر غشی کی حالت ان پر طاری ہو گئی تھی بعد میں دو تین روز تک ہوش میں آگئے اور مرہم عیسی کے استعمال سے ( جو آج تک صد باطبی کتابوں میں موجود ہے جو حضرت عیسی کے لیے بنائی گئی تھی ) ان کے زخم بھی اچھے ہو گئے.پھر ایک اور بدقسمتی ہے کہ وہ ان آیتوں کے شان نزول کو نہیں دیکھتے.قرآن شریف یہود و نصاری کے اختلافات دور کرنے کے لیے بطور حکم کے تھا تا ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے اور اس کا فرض تھا کہ ان کے متنازعہ فیہ امور کا فیصلہ کرتا پس منجملہ متنازعہ فیہ امور کے ایک یہ امر بھی متنازعہ فیہ تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہماری توریت میں لکھا ہے کہ جو کا ٹھ پر لڑکا یا جاوے وہ لعنتی ہوتا ہے اس کی روح مرنے کے بعد خدا کی طرف نہیں جاتی.پس چونکہ حضرت عیسی صلیب پر مر گئے اس لیے وہ خدا کی طرف نہیں گئے اور آسمان کے دروازے ان کے لیے نہیں کھولے گئے اور عیسائیوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عیسائی تھے اپنا یہ عقیدہ مشہور کیا تھا چنانچہ آج تک وہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی تصلیب پر جان دے کر لعنتی تو بن گئے مگر یہ لعنت اور وں کو نجات دینے کے لیے انہوں نے خود اپنے سر پر لے لی تھی اور آخر وہ نہ جسم عنصری کے ساتھ بلکہ ایک نئے اور ایک جلالی جسم کے ساتھ جو خون اور گوشت اور ہڈی اور زوال پذیر ہونے والے مادہ سے پاک تھا خدا کی طرف اٹھائے گئے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں متخاصمین کی نسبت یہ فیصلہ دیا کہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ عیسی کی صلیب پر جان نکلی یا وہ قتل ہوا تا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ وہ بموجب حکم تو ریت لعنتی ہے بلکہ وہ صلیبی موت سے بچایا گیا اور مومنوں کی طرح اس کا خدا کی طرف رفع ہوا اور جیسا کہ ہرا یک مومن ایک جلالی جسم خدا سے پا کر خدائے عزوجل کی طرف اٹھایا جاتا ہے وہ بھی اٹھائے گئے.اور ان نبیوں میں جا ملے جو ان سے پہلے گزر چکے تھے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان سے سمجھا جاتا ہے کہ جو آپ نے معراج سے واپس آکر بیان فرمایا کہ جیسے اور نبیوں کے مقدس اجسام دیکھے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة النساء ویسا ہی حضرت عیسی کو بھی انہیں کے رنگ میں پایا اور ان کے ساتھ پا یا کوئی نرالا جسم نہیں دیکھا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۸ تا ۴۰) کہتے ہیں کہ آیت مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ حضرت عیسی کی حیات پر دلالت کرتی ہے ان کی ایسی سمجھ پر رونا آتا ہے کیا جو شخص مصلوب نہیں ہوتا وہ مرتا نہیں ؟ میں نے بار بار بیان کیا ہے کہ قرآن شریف میں نفی صلیب اور رفع عیسی کا ذکر اس لیے نہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت عیسی کی حیات ثابت کرے بلکہ اس لیے یہ ذکر ہے کہ تا یہ ثابت کرے کہ عیسی لعنتی موت سے نہیں مرا اور مومنوں کی طرح اس کا رفع روحانی ہوا ہے اس میں یہود کا رو مقصود ہے کیونکہ وہ ان کے رفع ہونے کے منکر ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۱ حاشیه ) وَفِي آيَةٍ : وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ إِشَارَةُ اور آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ میں ایک اور بھی أُخْرَى، وَهِيَ أَنَّ النَّصَارَی زَعَمُوا أَنَّ اشارہ ہے اور وہ یہ کہ نصاریٰ کا خیال ہے کہ انہیں عِيسَى صُلِبَ لأَجْلِ تَطْهِيرِهِمْ مِن گناہوں سے پاک کرنے کی خاطر حضرت عیسی علیہ السلام الْمَعَاصِي وَظَنُّوا كَأَنَّهُ حَمَلَ بَعْدَ کو سولی دیا گیا اور ان کا یہ بھی خیال ہے کہ صلیبی موت کے الصَّلْبِ جَمِيعَ ذُنُوبِهِمُ عَلى نَفْسِهِ، وَهُوَ بعد حضرت مسیح نے ان کے تمام گناہ اپنے اوپر اٹھالیے اور كَفَّارَةٌ لَّهُمْ وَمُطَهَّرُهُمْ مِنْ جَميع وہ ان کے لیے کفارہ ہو گئے اور انہیں تمام گناہوں اور الْمَعَاصِي وَالْخَطِيئَاتِ فَفِي نَفْيِ الصَّلْبِ خطاؤں سے پاک کرنے والے ہیں پس صلیب کی نفی میں رَدُّ عَلَى النَّصَارَى وَهَدُمُ نِعَقِيدَة نصاری کا رد اور ان کے عقیدہ کفارہ کا توڑ ہے اور اس کے الْكَفَّارَةِ، وَمَعَ ذَلِكَ رَدُّ عَلَى الْيَهُودِ ساتھ ہی یہود کا بھی رد ہے اور ان کے اس مکر کی بھی بیخ کنی وَاسْتيْصَالُ لِكَيْدِهِمُ الَّذِي احْتَالُوا ہے جو انہوں نے تو رات کی آڑ لے کر اختیار کیا.نیز اس اعْتِصَامًا بِالتَّوْرَاةِ، وَإِظْهَارُ بَرِيَّةِ میں ان قوموں کے بہتان سے حضرت مسیح علیہ السلام کی عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ بُهْتَانِ تِلكَ بريت كا اظہار مقصود ہے.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے الْأَقْوَامِ.فَهَذَا هُوَ السَّبَبُ الَّذِى ذَكَرَ قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب دیئے الله قِضَةَ صَلْبِ عِيسَى فِي الْقُرْآنِ جانے کے قصہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی تردید کی ہے ورنہ وَكَذَّبَه وَإِلَّا فَمَا كَانَ فَائِدَةٌ فِي ذِكْرِہ اس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ تھا ایسے کئی نبی گزرے ہیں جو وَكَمْ مِنْ نَّبِي قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَمَا خدا کی راہ میں قتل کئے گئے تھے.لیکن قرآن کریم میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۶ سورة النساء دو جَاءَ ذِكْرُ قَتْلِهِمْ فِي الْقُرْآنِ فَخُذ معنی ان کے قتل کا ذکر موجود نہیں.پس تم اس نکتہ کو مجھ سے سمجھ لو.اور تم هذِهِ النُّكْتَةَ وَكُنْ مِنَ الْمُصَدِّقِينَ تصدیق کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ.( ترجمہ از مرتب ) حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۲۲، ۲۲۳) وو یادر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے مسئلہ کو مسلمان عیسائیوں سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اس کی موت کا بار بار ذکر ہے لیکن بعض نادانوں کو یہ دھو کہ لگا ہوا ہے کہ اس آیت قرآن شریف میں یعنی وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبَهَ لَهُمْ میں لفظ شُيْه سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسی کی جگہ کسی اور کو سولی دیا گیا اور وہ خیال نہیں کرتے کہ ہر ایک شخص کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے پس اگر کوئی اور شخص حضرت عیسی کی جگہ صلیب دیا جاتا تو صلیب دینے کے وقت ضرور وہ شور مچا تا کہ میں تو عیسی نہیں ہوں اور کئی دلائل اور کئی امتیازی اسرار پیش کر کے ضرور اپنے تئیں بچا لیتا نہ یہ کہ بار بار ایسے الفاظ منہ پر لاتا جن سے اس کا عیسی ہونا ثابت ہوتا.رہا لفظ شُبّه لَهُمْ سو اس کے وہ معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور نہ ان معنوں کی تائید میں قرآن اور احادیث نبویہ سے کچھ پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ موت کا وقوعہ یہودیوں پر مشتبہ کیا گیا وہ یہی سمجھ بیٹھے کہ ہم نے قتل کر دیا ہے حالانکہ مسیح قتل ہونے سے بچ گیا.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اس آیت میں شبه لَهُمْ کے یہی معنے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے ہی دھو کہ میں مخالفین کو ڈال دیتا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے شُبه لَهُمْ سے خدا نے کام لیا یعنی مخالفین کو اس دھو کہ میں ڈال دیا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس غار کے منہ پر عنکبوت نے اپنا جالا بنا ہوا ہے اور کبوتری نے انڈے دے رکھے ہیں پس کیوں کر ممکن ہے کہ اس میں آدمی داخل ہو سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں جو قبر کی مانند تھی تین دن رہے جیسا کہ حضرت مسیح بھی اپنی شامی قبر میں جب غشی کی حالت میں داخل کیے گئے تین دن ہی رہے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کو یونس پر بزرگی مت دو یہ بھی اشارہ اس مماثلت کی طرف تھا کیونکہ غار میں داخل ہونا اور مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونا یہ دونوں واقعہ باہم ملتے ہیں پس نفی تفضیل اس وجہ سے ہے نہ کہ ہر ایک پہلو سے.اس میں کیا شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یونس سے بلکہ ہر ایک نبی سے افضل ہیں.اب خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنتوں اور عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب مخالف اس کے
۳۸۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نبیوں اور ماموروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کر دیا حالانکہ موت تک اس کی نوبت نہیں پہنچتی اور یا وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا حالانکہ وہیں چھپا ہوا ہوتا ہے اور ان کے شر سے بچ جاتا ہے.پس شُبّهَ لَهُمْ کے یہی معنی ہیں اور یہ فقرہ شبّه لَهُمُ صرف حضرت مسیح سے خاص نہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے تب بھی یہ عادت اللہ ظہور میں آئی ابراہیم آگ سے جدا نہیں کیا گیا اور نہ آسمان پر چڑھایا گیا لیکن حسب منطوق آیت قُلْنَا ينارُ كُون بَردا آگ اس کو جلا نہ سکی.اسی طرح یوسف بھی جب کو ئیں میں پھینکا گیا آسمان پر نہیں گیا بلکہ کنواں اس کو ہلاک نہ کر سکا اور ابراہیم کا پیارا فرزند اسماعیل بھی ذبح کے وقت آسمان پر نہیں اُٹھایا گیا (....) تھا بلکہ چھری اس کو ذبح نہ کر سکی ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محاصرہ غار ثور کے وقت آسمان پر نہیں گئے بلکہ خونخوار دشمنوں کی آنکھیں ان کو دیکھ نہیں سکیں اسی طرح مسیح بھی صلیب کے وقت آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب اس کو قتل نہیں کر سکا.غرض ان تمام نبیوں میں سے کوئی بھی مصیبتوں کے وقت آسمان پر نہیں گیا ہاں آسمانی فرشتے ان کے پاس آئے اور انہوں نے مدد کی یہ واقعات بہت صاف ہیں اور صاف طور پر ان سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے اور ان کا اسی قسم کا رفع ہوا جیسا کہ ابراہیم اور تمام نبیوں کا ہوا تھا اور وہ آخر وفات پاگئے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۳۷ تا ۳۳۹) قرآن شریف یہود و نصاری کی غلطیوں اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے آیا ہے.اور قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے کرنے کے وقت جو یہود و نصاریٰ کے متعلق ہو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ ان میں کیا جھگڑا تھا جس کو قرآن شریف فیصلہ کرنا چاہتا ہے اب اس اصول کو مد نظر رکھ کر اس آیت کے معنے کہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شَيْهَ لَهُمْ.....بَلْ تَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ بڑی آسانی سے ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے.کیونکہ یہود کے عقیدہ کے رو سے جو شخص صلیب کے ذریعہ سے قتل کیا جائے وہ ملعون ہوتا ہے اور اس کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ شیطان کی طرف جاتا ہے اب خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت عیسی کا رفع روحانی خدائے تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہ ہوا.سوخدا نے اوّل یہود کے اس وہم کو مٹایا کہ حضرت عیسی بذریعہ صلیب قتل ہو چکے ہیں اور فرمایا کہ یہود کا صرف یہ ایک شبہ تھا جو خدا نے ان کا کے دلوں میں ڈال دیا عیسی بذریعہ صلیب قتل نہیں ہوا تا اس کو ملعون قرار دیا جائے بلکہ اس کا رفع روحانی ہوا
۳۸۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء جیسے کہ اور مومنوں کا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کو اس فضول بحث اور فیصلہ کی ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسی بجسم عصری آسمان پر گیا یا نہ گیا.کیونکہ یہود کا یہ متنازع فیہ امر نہ تھا اور یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو شخص مصلوب ہو جائے وہ مع جسم عصری آسمان پر نہیں جاتا کیونکہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ جو شخص مصلوب نہ ہو وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلا جاتا ہے اور نہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ بے ایمان اور لعنتی آدمی مع جسم آسمان پر نہیں جاتا مگر مومن مع جسم عصری آسمان پر چلا جاتا ہے کیونکہ موسی جو یہود کے نزدیک سب سے بڑا نبی تھا اس کی نسبت بھی یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا.پس تمام جھگڑا تو رفع روحانی کا تھا یہود کی طرف سے اپنے عقیدہ کے موافق یہ بحث تھی کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی ملعون ہیں کیونکہ ان کا رفع روحانی نہیں ہوا وجہ یہ کہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مارے گئے پس اسی غلطی کو خدا تعالیٰ نے دور کرنا تھا سو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ عیسی ملعون نہیں ہے بلکہ اس کا رفع روحانی اور مومنوں کی طرح ہو گیا.یادر ہے کہ ملعون کا لفظ مرفوع کے مقابل پر آتا ہے جبکہ مرفوع کے معنے روحانی طور پر مرفوع ہو پس جو لوگ حضرت عیسی کو بوجہ مصلوب ہونے کے ملعون ٹھہراتے ہیں ان کے نزدیک ملعون کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ ایسے شخص کا رفع روحانی نہیں ہوتا عیسائیوں نے بھی اپنی غلطی سے تین دن کے لیے حضرت عیسی کو ملعون مان لیا یعنی تین دن تک اس کا رفع روحانی نہیں ہوا.اور ہمو جب ان کے عقیدہ کے حضرت عیسی ملعون ہونے کی حالت میں تحت الثریٰ میں گئے اور ساتھ کوئی جسم نہ تھا پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت ہوئی دونوں حالتیں ایک ہی رنگ کی ہونی چاہئیں.یہ ہماری طرف سے عیسائیوں پر یہ الزام ہے کہ وہ بھی رفع کے بارے میں غلطی میں پھنس گئے وہ اب تک اس بات کے اقراری ہیں کہ صلیب کا نتیجہ توریت کی رو سے ایک روحانی امر تھا یعنی لعنتی ہونا جس کو دوسرے لفظوں میں عدم رفع کہتے ہیں.پس بموجب ان کے عقیدہ کے عدم رفع روحانی طور پر ہی ہوا اس حالت میں رفع بھی روحانی ہونا چاہیے تھا تا تقابل قائم رہے، عیسائی صاحبان مانتے ہیں کہ حضرت عیسی ملعون ہونے کی حالت میں صرف روحانی طور پر تحت الشرمی اور دوزخ کی طرف گئے اس وقت ان کے ساتھ کوئی جسم نہ تھا پھر جبکہ یہ حالت ہے تو پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت پڑی اور کیوں جسم کو ساتھ ملایا گیا حالانکہ قدیم سے توریت کے ماننے والے تمام نبی اور تمام یہود کے فقیہ صلیبی لعنت کے یہی معنے کرتے آئے ہیں کہ روحانی طور پر رفع نہ ہو.اور اب بھی یہی کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے اس کا خدا تعالی کی طرف رفع نہیں ہوتا.لعنت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة النساء کے معنے عدم رفع ہے.بہر حال جبکہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اعتراض دور کرنا تھا اور یہود اب تک عدم رفع سے مرا د روحانی معنے لیتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ روحانی طور عیسی کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا.اور وہ کا ذب تھا تو پھر خدا تعالیٰ اصل بات کو چھوڑ کر اور طرف کیوں چلا گیا گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اصل جھگڑا سمجھا ہی نہیں اور ایسے حج کی طرح فیصلہ کیا جو سراسر روئداد مثل کے برخلاف فیصلہ لکھ مارتا ہے ایسا گمان اگر عمداً خدا تعالیٰ کی نسبت کیا جائے تو پھر کفر میں کیا شک ہے.پھر ماسوا اس کے ہم کہتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے یہود کے اصل جھگڑے کی اس جگہ پرواہ نہ رکھ کر ایک نئی بات بیان کر دی ہے جس کا بیان کرنا محض ایک فضول ایک غیر ضروری امر تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسی کو مع جسم عصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا تو پھر اس خیال کا بطلان اس طرح پر ہوتا ہے کہ اول تو قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسی کو مع جسم عصری دوسرے آسمان پر بٹھا یا گیا بلکہ قرآن شریف کے لفظ تو یہ ہیں کہ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ اللهِ یعنی خدا نے عیسی کو اپنی طرف اٹھا لیا.پس سوچو کہ کیا خدا دوسرے آسمان پر مجسم چیزوں کی طرح بیٹھا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی تمام نبیوں کی تعلیم ہے خدا جسم نہیں ہے کہ تا جسمانی رفع اس کی طرف ہو تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نسبت فرمایا جاتا ہے کہ خدا کی طرف وہ گیا یا خدا کی طرف اس کا رفع ہوا تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ روحانی طور پر اس کا رفع ہوا جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعي إلى ربك ( الفجر :۲۹) کہ اے نفس مطمعنہ رَبِّكِ اپنے رب کی طرف واپس آجا پس کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ مع جسم عنصری آجا.ماسوا اس کے اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ اگر اس جگہ رفع روحانی کا بیان نہیں ہے اور اس جگہ وہ جھگڑا فیصلہ نہیں کیا گیا جو یہود نے حضرت مسیح کے رفع روحانی کی نسبت انکار کیا تھا اور نعوذ باللہ ملعون قرار دیا تھا تو پھر قرآن شریف کے کس مقام میں یہود کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جس کا جواب دینا بموجب وعدہ الہی کے ضروری تھا.پس اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی کے رفع کو جسمانی ٹھہرانا سراسر ہٹ دھرمی اور حماقت ہے.بلکہ یہ وہی رفع ہے جو ہر ایک مومن کے لیے وعدہ الہی کے موافق موت کے بعد ہونا ضروری ہے.اور کافر کے لیے حکم ہے: لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : ۳۱) یعنی ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے.یعنی ان کا رفع نہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے : مُفَتَّحَةٌ لَّهُمُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة النساء الابواب ( ص :۵۱) پس سیدھی بات کو الٹا دینا تقویٰ اور طہارت کے برخلاف اور ایک طور سے تحریف کلام الہی ہے.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۲ تا ۵۵) اور ان کا ( یعنی یہود کا ) یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ صلیب دیا بلکہ یہ امران پر مشتبہ ہو گیا اور جو لوگ عیسی کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ( یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ عیسی زندہ آسمان پر اُٹھایا گیا اور یہودی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کو ہلاک کر دیا ) یہ دونوں گروہ محض شک میں پڑے ہوئے ہیں حقیقت حال کی ان کو کچھ بھی خبر نہیں اور صحیح علم ان کو حاصل نہیں محض انکلوں کی پیروی کرتے ہیں یعنی نہ عیسی آسمان پر گیا جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اور نہ یہودیوں کے ہاتھ سے ہلاک کیا گیا جیسا کہ یہودیوں کا گمان ہے بلکہ صحیح بات ایک تیسری بات ہے کہ وہ مخلصی پا کر ایک دوسرے ملک میں چلا گیا اور خود یہودی یقین نہیں رکھتے کہ انہوں نے اس کو قتل کر دیا بلکہ خدا نے اس اپنی طرف اٹھالیا اور خدا غالب اور حکمتوں والا ہے.اب ظاہر ہے کہ ان آیات کے سر پر یہ قول یہودیوں کی طرف سے منقول ہے کہ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ یعنی ہم نے مسیح عیسی بن مریم کو قتل کیا سوجس قول کو خدا تعالیٰ نے یہودیوں کی طرف سے بیان فرمایا ہے ضرور تھا کہ پہلے اسی کو رد کیا جاتا اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قتَلُوا کے لفظ کو صَلَّبُوا کے لفظ پر مقدم بیان کیا کیونکہ جو دعوئی اس مقام میں یہودیوں کی طرف سے بیان کیا گیا ہے وہ تو یہی ہے کہ انا قتلنا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ - پھر بعد اس کے یہ بھی معلوم ہو کہ حضرت عیسی کے ہلاک کرنے کے بارے میں کہ کس طرح ان کو ہلاک کیا یہودیوں کے مذہب قدیم سے دو ہیں.ایک فرقہ تو کہتا ہے کہ تلوار کے ساتھ پہلے ان کو قتل کیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کولوگوں کی عبرت کے لیے صلیب یا درخت پر لٹکایا گیا اور دوسرا فرقہ یہ کہتا ہے کہ ان کو صلیب دیا گیا تھا اور بعد صلیب ان کو قتل کیا گیا.اور یہ دونوں فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں پس چونکہ ہلاک کرنے کے وسائل میں یہودیوں کو اختلاف تھا بعض ان کی ہلاکت کا ذریعہ اوّل قتل قرار دے کر پھر صلیب کے قائل تھے اور بعض صلیب کو قتل پر مقدم سمجھتے تھے اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ دونوں فرقوں کا رد کر دے مگر چونکہ جس فرقہ کی تحریک سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جو قبل از صلیب قتل کا عقیدہ رکھتے تھے اس لیے قتل کے گمان کا ازالہ پہلے کر دیا گیا اور صلیب کے خیال کا ازالہ بعد میں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة النساء افسوس کہ یہ شبہات دلوں میں اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اکثر مسلمانوں کو نہ یہودیوں کے فرقوں اور ان کے عقیدہ سے پوری واقفیت ہے اور نہ عیسائیوں کے عقیدوں کی پوری اطلاع ہے.لہذا میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس جگہ میں یہودیوں کی ایک پرانی کتاب میں سے جو قریباً انین نو برس کی تالیف ہے اور اس جگہ ہمارے پاس موجود ہے ان کے اس عقیدہ کی نسبت جو حضرت مسیح کے قتل کرنے کے بارے میں ایک فرقہ ان کا رکھتا ہے بیان کردوں اور یادر ہے کہ اس کتاب کا نام تولید وت یشوع ہے جو ایک قدیم زمانہ کی ایک عبرانی کتاب مصنفہ بعض علماء یہود ہے چنانچہ اس کتاب کے صفحہ ۳۱ میں لکھا ہے ” پھر وہ (یعنی یہودی لوگ یسوع کو باہر سزا کے میدان میں لے گئے اور اس کو سنگ سار کر کے مار ڈالا اور جب وہ مر گیا تب اس کو کا ٹھ پر لٹکا دیا تا کہ اس کی لاش کو جانور کھا ئیں اور اس طرح مردہ کی ذلت ہو.اس قول کی تائید انجیل کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جہاں لکھا ہے کہ یسوع جسے تم نے قتل کر کے کا ٹھر پر لڑکا یا.دیکھو اعمال باب ۵ آیت ۳۰.انجیل کے اس فقرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے قتل کیا پھر کاٹھ پر لٹکایا اور یادر ہے کہ جیسا کہ پادریوں کی عادت ہے انجیلوں کے بعض اردو تر جمہ میں اس فقرہ کو بدلا کر لکھ دیا گیا ہے مگر انگریزی انجیلوں میں اب تک وہی فقرہ ہے جو ابھی ہم نے نقل کیا ہے.بہر حال یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہودیوں کے حضرت عیسی کے ہلاک کرنے کے بارے میں دو مذہب ہیں جن میں سے ایک یہ کہ اول قتل کیا اور پھر صلیب دیا.پس اس مذہب کا بھی رد کرنا ضروری تھا اور ایسے خیال کے لوگوں کا پہلی آیت میں ذکر بھی ہے یعنی اس آیت میں کہ إنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِیسَی ابْنَ مَرْيَمَ پس جبکہ دعوی یہ تھا کہ ہم نے عیسی کو قتل کیا تو ضرور تھا کہ پہلے اس دعوی کو رد کیا جاتا.لیکن خدا تعالیٰ نے روکو مکمل کرنے کے لیے دوسرے فرقہ کا بھی اس جگہ رد کر دیا جو کہتے تھے کہ ہم نے پہلے صلیب دیا ہے پس اس کے رد کے لیے ما صلبوہ فرما دیا اور بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے فرما: یا ولکن شُبّهَ لَهُمْ وَ إِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قتَلُوهُ يَقينا - ترجمہ یعنی عیسی نہ قتل کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا بلکہ ان لوگوں پر حقیقت حال مشتبہ کی گئی.اور یہود و نصاری جو مسیح کے قتل یا رفع روحانی میں اختلاف رکھتے ہیں محض شک میں مبتلا ہیں ان میں سے کسی کو بھی علم صحیح حاصل نہیں محض ظنوں اور شکوک میں گرفتار ہیں اور وہ خود یقین نہیں رکھتے کہ سچ مچ عیسی کو قتل کر دیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں میں بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے یعنی یہ عقیدہ بالکل غلط ہے کہ صیح زندہ آسمان پر بیٹھا ہے بلکہ درحقیقت وہ فوت ہو چکا ہے ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة النساء اور یہ جو وعدہ ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح دوبارہ آئے گا اس آمدثانی سے مراد ایک ایسے آدمی کا آنا ہے کہ جو عیسی مسیح کی خواور خلق پر ہوگا نہ یہ کہ عیسیٰ خود آ جائے گا چنانچہ کتاب نیو لائف آف جیزس جلد اول صفحه ۴۱۰ مصنفہ ڈی ایف سٹراس میں اس کے متعلق ایک عبارت ہے جس کو میں اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۲۷ میں درج کر چکا ہوں اور اس جگہ اس کے ترجمہ پر کفائت کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے.اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں پر میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشیخ میں گرفتار ہو کر مرجاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں پس اگر فرض بھی کر لیا جاوے کہ قریب چھ گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت خوشبو دار دوائیاں مل کر اسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اس کی بیہوشی دور ہوئی اس دعویٰ کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے میں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے پس ٹیٹس (حاکم وقت ) سے ان کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً اتار کر ان کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے.“ لیا اور کتاب ”ماڈرن ڈوٹ اینڈ کرسچین بیلیف“ کے صفحہ ۷٫۴۵۵ ۴۵ و ۳۴۷ میں انگریزی میں ایک عبارت ہے جس کو ہم اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ کے صفحہ ۱۳۸.میں لکھ چکے ہیں ترجمہ اس کا ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.شلیر میجر اور نیز قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہراً موت کی سی حالت ہوگئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا.اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.“ اور یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۵۳ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی اپنی دعا بھی جو انجیل میں موجود ہے یہی ظاہر کر رہی ہے جیسا کہ اس میں لکھا ہے : دَعَا بِدُمُوعِ جَارِيَةٍ وَعَبَرَاتٍ مُتَحَيّرَةٍ فَسُمِعَ لِتَقوهُ یعنی عیسی نے بہت گریہ وزاری سے دعا کی اور اس کے آنسو اس کے رخساروں پر پڑتے تھے پس بوجہ اس کے تقویٰ کے وہ دعا منظور ہوگئی.لے انگریزی لفظ THOUGHT ہے.ناشر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۳ سورة النساء ہے.اور کرئیرڈ لا سیرا جنوبی اٹلی کے سب سے مشہور اخبار نے مندرجہ ذیل عجیب خبر شائع کی ۱۳ / جولائی ۱۸۷۹ ء کو یروشلم میں ایک بوڑھا راہب مسمی کورمرا جو اپنی زندگی میں ایک ولی مشہور تھا اس کے پیچھے اس کی کچھ جائیداد ہی اور گورنر نے اس کے رشتہ داروں کو تلاش کر کے ان کے حوالہ دولا کھ فرینک ( ایک لاکھ پونے انیس ہزار روپیہ) کیسے جو مختلف ملکوں کے سکوں میں تھے اور اس غار میں سے ملے جہاں وہ راہب بہت عرصہ سے رہتا تھا روپیہ کے ساتھ بعض کا غذات بھی ان رشتہ داروں کو ملے جن کو وہ پڑھ نہ سکتے تھے.چند عبرانی زبان کے فاضلوں کو ان کا غذات کے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہ کاغذات بہت ہی پرانی عبرانی زبان میں تھے جب ان کو پڑھا گیا تو ان میں یہ عبارت تھی.پطرس ماہی گیر یسوع مریم کے بیٹے کا خادم اس طرح پر لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نام میں اور اس کی مرضی کے مطابق خطاب کرتا ہے اور یہ خط اس طرح ختم ہوتا ہے.میں پطرس ماہی گیر نے یسوع کے نام میں اور اپنی عمر کے نوے سال میں یہ محبت کے الفاظ اپنے آقا اور مولی یسوع مسیح مریم کے بیٹے کی موت کے تین عید فسح بعد ( یعنی تین سال بعد ) خداوند کے مقدس گھر کے نزدیک بولیر کے مکان میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے.“ ان فاضلوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نسخہ پطرس کے وقت کا چلا آتا ہے.لنڈن بائبل سوسائٹی کی بھی یہی رائے ہے.اور ان کا اچھی طرح امتحان کرانے کے بعد بائبل سوسائٹی اب ان کے عوض چار لاکھ لیرا ( دو لاکھ ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ ) مالکوں کو دے کر کاغذات کو لینا چاہتی ہے.یسوع ابن مریم کی دعا ان دونوں پر سلام ہو.اس نے کہا اے میرے خدا میں اس قابل نہیں کہ اس چیز پر غالب آ سکوں جس کو میں برا سمجھتا ہوں نہ میں نے اس نیکی کو حاصل کیا ہے جس کی مجھے خواہش تھی مگر دوسرے لوگ اپنے اجر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور میں نہیں.لیکن میری بڑائی میرے کام میں ہے مجھ سے زیادہ بری حالت میں کوئی شخص نہیں ہے اے خدا جو سب سے بلند تر ہے میرے گناہ معاف کر.اے خدایسانہ کرکہ میں اپنے دشمنوں کے لیے الزام کا سبب ہوں نہ مجھے اپنے دوستوں کی نظر میں حقیر ٹھہرا.اور ایسا نہ ہو کہ میرا تقویٰ مجھے مصائب میں ڈالے.ایسا نہ کر کہ یہی دنیا میری بڑی خوشی کی جگہ یا میرا بڑا مقصد ہو اور ایسے شخص کو مجھے پر مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے اے خدا جو بڑے رحم والا ہے اپنے رحم کی خاطر ایسا ہی کر تو ان سب پر رحم کرتا ہے جو تیرے رحم کے حاجت مند ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۶ تا ۳۴۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة النساء یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسی کو قتل کر دیا اس قول سے یہودیوں کا مطلب یہ تھا کہ عیسی کا مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا پیغمبر قتل کیا جاتا ہے پس خدا نے اس کا جواب دیا کہ عیسی قتل نہیں ہوا بلکہ ایمانداروں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف اس کا رفع ہوا.( برا این احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۷ حاشیه ) (سوال پیش ہوا کہ ) آیت کریمہ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ مِیں یہ شبہ باقی ہے کہ لفظ بَلْ فقره رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ و مَا قَتَلُوهُ یقینا کے ساتھ ایک خاص ربط بخشتا ہے جس سے ان دونوں واقعات کا با ہم اتصال سمجھا جاتا ہے پس یہ بظاہر مقتضی اس بات کا ہے کہ واقع رفع کا زمانہ واقع قتل کے زمانہ کے ساتھ متحد و متصل ہو اور دونوں زمانوں میں کچھ فاصلہ نہ ہو حالانکہ حضرت کے بیان مبارک کے مطابق واقع رفع کے زمانہ اور واقع قتل کے زمانہ میں بہت فاصلہ اور ایک دور دراز مدت ہے.اس تقدیر میں اگر آیت قرآن شریف کی اس طرح ہوتی کہ مَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ خَلَصَهُ اللهُ مِنْ أَيْدِيهِمْ حَيَّا ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيْهِ تَبْ البتہ یہ معنے ظاہر ہوتے.“ فرمایا) یه شبه صرف سرسری خیال سے آپ کے دل میں پیدا ہوا ہے ورنہ اگر اصل واقعات آپ کے ملحوظ خاطر ہوتے تو یہ شبہ ہرگز پیدا نہ ہو سکتا.اصل بات تو یہ تھی کہ توریت کی رو سے یہودیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر نبوت کا دعوی کرنے والا مقتول ہو جائے تو وہ مفتری ہوتا ہے سچا نبی نہیں ہوتا اور اگر کوئی صلیب دیا جائے تو وہ لعنتی ہوتا ہے اور اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا ہے.اور یہودیوں کا حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل بھی کیے گئے اور صلیب بھی دیئے گئے بعض کہتے ہیں کہ پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گئے اور بعض کہتے ہیں کہ پہلے صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیا گیا.پس ان وجوہ سے یہودی لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع روحانی کے منکر تھے اور اب تک منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ قتل کیے گئے اور صلیب دیئے گئے اس لیے ان کا خدا تعالیٰ کی طرف مومنوں کی طرح رفع نہیں ہوا.یہودیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ کافر کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا مگر مومن مرنے کے بعد خدا تعالی کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور ان کے زعم میں حضرت عیسی مصلوب ہو کر نعوذ باللہ کا فر اور لعنتی ہو گئے اس لیے وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے نہیں گئے.یہ امر تھا جس کا قرآن شریف نے فیصلہ کرنا تھا پس خدا تعالیٰ نے ان آیات سے جو اوپر ذکر ہو چکی ہیں یہ فیصلہ کر دیا چنانچہ آیت وَ مَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ اسی فیصلہ کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ رفع الی اللہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة النساء یہودیوں اور اسلام کے عقیدہ کے موافق اس موت کو کہتے ہیں جو ایمانداری کی حالت میں ہو اور روح خدا تعالیٰ کی طرف جاوے اور قتل اور صلیب کے اعتقاد سے یہودیوں کا منشاء یہ تھا کہ مرنے کے وقت روح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں گئی.پس یہودیوں کے دعوی قتل اور صلیب کا یہی جواب تھا جو خدا نے دیا اور دوسرے لفظوں میں ماحصل آیت کا یہ ہے کہ یہودی قتل اور صلیب کا عذر پیش کر کے کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا خدا تعالیٰ کی طرف مرنے کے وقت رفع نہیں ہوا اور خدا تعالیٰ جواب میں کہتا ہے کہ بلکہ میسی کی روح کا خدا تعالیٰ کی طرف مرنے کے وقت رفع ہو گیا ہے.پس تفسیر عبارت کی یہ ہے بک رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ عِنْدَ مَوْتِهِ چونکہ رفع الی اللہ موت کے وقت ہی ہوتا ہے بلکہ ایمان کی حالت میں جو موت ہو اس کا نام رفع الی اللہ ہے پس گویا یہودی یہ کہتے تھے کہ مَاتَ عِيسَى كَافِرًا غَيْرَ مَرْفُوعَ إِلَى اللهِ اور خدا تعالیٰ نے یہ جواب دیا ہے بل مَاتَ مُؤْمِنًا مَّرْفُوعًا الى الله - سوبل کا لفظ اس جگہ غیر محل نہیں بلکہ عین محاورہ زبان عرب کے مطابق ہے یہودیوں کی یہ غلطی تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام درحقیقت مصلوب ہو گئے ہیں اس لیے وہ ایک غلطی سے دوسری غلطی میں پڑ گئے کہ موت کے وقت ان کے رفع الی اللہ سے انکار کر دیا لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ہرگز مقتول اور مصلوب نہیں ہوئے اور موت کے وقت ان کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہوا ہے.پس اس طرز کلام میں کوئی اشکال نہیں اور بل کا لفظ ہر گز ہرگز ان معنوں کی رو سے غیر محل پر نہیں بلکہ جس حالت میں باتفاق یہود و اہل اسلام رفع الی اللہ کہتے ہیں اس کو ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کی روح خدا تعالیٰ کی طرف جائے تو اس صورت میں اس مقام میں کسی دوسرے معنوں کی گنجائش ہی نہیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد صفحه ۳۴۵ تا۳۴۷) یادر ہے کہ قرآن شریف صاف لفظوں میں بلند آواز سے فرما رہا ہے کہ عیسی اپنی طبعی موت سے فوت ہو گیا ہے جیسا کہ ایک جگہ تو اللہ تعالیٰ وعدہ کے طور پر یہ فرماتا ہے: یعیسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى اور دوسری آیت میں اس وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول ہے : وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی ! میں تجھے طبعی موت دوں گا یعنی قتل اور صلیب کے ذریعہ سے تو ہلاک نہیں کیا جائے گا اور میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.پس یہ آیت تو بطور ایک وعدہ کے تھی اور دوسری آیت ممدوحہ بالا میں اس وعدہ کے ایفاء کی طرف اشارہ ہے جس کا ترجمہ مع تشریح یہ ہے کہ یہود خود یقیناً اعتقاد نہیں رکھتے کہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا ہے اور جب قتل ثابت نہیں تو پھر موت طبعی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة النساء ثابت ہے جو ہر ایک انسان کے لیے ضروری ہے.پس اس صورت میں جس امر کو یہودیوں نے اپنے خیال میں حضرت عیسی کے رفع الی اللہ کے لیے مانع ٹھہرایا تھا یعنی قتل اور صلیب وہ مانع باطل ہوا اور خدا نے اپنے وعدہ کے موافق ان کو اپنی طرف اٹھالیا.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۷۸،۳۷۷) علامہ امام زمخشری نے زیر آیت إلى مُتَوَفِّيكَ يہ لکھا ہے کہ إِلى مُبِيْتُكَ خَلْفَ أَنْفِك یعنی اے عیسی میں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا ان معنوں کے کرنے میں علامہ موصوف نے صرف لفظ توفی کی اصل وضع استعمال پر نظر نہیں رکھی بلکہ مقابل پر اس آیت کو دیکھ کر کہ مَا قَتَلُوهُ يَقِينا اور اس آیت کو دیکھ کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوه اس بات پر قرینہ قویہ پایا کہ اس جگہ لفظ مُتوفیک کا استعمال اپنی اصل وضع پر ضروری اور واجب ہے یعنی اس جگہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسی میں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا اسی وجہ سے اس نے آیت إلي متوفيك كى يہ تفسیر کی که إلى مُميتك عنف أنفك یعنی میں تجھے طبعی موت سے ماروں گا پس امام زمخشری کی نظر میں نہایت قابل تعریف ہے کہ انہوں نے لفظ توفی کے صرف اصل وضع استعمال پر حصر نہیں رکھا بلکہ بالمقابل قرآن شریف کی ان آیتوں پر نظر ڈال کر کہ عیسی قتل نہیں کیا گیا اور نہ صلیب دیا گیا اصل وضع لفظ کے مطابق مُتوفِّيكَ کی تفسیر کر دی.اور ایسی تفسیر بجز ماہر فن علم لغت کے ہر ایک نہیں کر سکتا یا در ہے کہ علامہ امام زمخشری لسان العرب کا مسلم عالم ہے اور اس فن میں اس کے آگے تمام ما بعد آنے والوں کا سر تسلیم خم ہے اور کتب لغت کے لکھنے والے اس کے قول کو سند میں لاتے ہیں جیسا کہ صاحب تاج العروس بھی جابجا اس کے قول کی سند پیش کرتا ہے.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ جب کہ آیت مَا قَتَلُوهُ يَقينا اور آیت وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ صرف توفی کے لفظ کی توضیح کے لیے بیان فرمائی گئی ہے کوئی نیا مضمون نہیں ہے بلکہ صرف یہ تشریح مطلوب ہے کہ جیسا کہ لفظ مُتَوَفِّيكَ میں یہ وعدہ تھا کہ عیسی کو اس کی طبعی موت سے مارا جائے گا ایسا ہی وہ طبعی موت سے مر گیا نہ کسی نے قتل کیا اور نہ کسی نے صلیب دیا.پس یہ خیال بھی جو یہود کے دل میں پیدا ہوا تھا جو عیسی نعوذ باللہ لعنتی ہے اور اس کا روحانی رفع نہیں ہوا ساتھ ہی باطل ہو گیا کیونکہ اس خیال کی تمام بنا صرف قتل اور صلیب پر تھی اور اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی ملعون اور راندہ درگاہ الہی ہیں جن کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا.پس چونکہ مُتَوَفِّيكَ کے لفظ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ شہادت دی کہ عیسی اپنی طبعی موت سے مرا ہے اور پھر خدا نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ مُتَوَفِّيكَ کے لفظ کا جو اصل منشاء تھا یعنی طبعی موت سے
۳۹۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء مرنا اس منشاء کی آیت مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ اور آیت وَمَا قَتَلُوهُ يَقينا کے ساتھ پورے طور پر تشریح کر دی کیونکہ جس شخص کی موت قتل وغیرہ خارجی ذریعوں سے نہیں ہوئی اس کی نسبت یہی سمجھا جائے گا کہ وہ طبعی موت سے مرا ہے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ فقرہ وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ مُتَوَفِّيكَ کے لفظ کے لیے بطور تشریح واقع ہوا ہے اور جب قتل اور صلیب کی نفی ثابت ہوئی تو بموجب اس قول کے کہ إِذَا فَاتَ الشرط قات المشروط رفع الی اللہ حضرت عیسی کا ثابت ہو گیا اور یہی مطلوب تھا.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۱ تا ۳۸۳) برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۲ حاشیه ) چونکہ یہودیوں کے عقیدہ کے موافق کسی نبی کا رفع روحانی طبعی موت پر موقوف ہے اور قتل اور صلیب رفع روحانی کا مانع ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے اوّل یہود کے رد کے لیے یہ ذکر فرمایا کہ عیسی کے لیے طبعی موت ہوگی اور پھر چونکہ رفع روحانی طبعی موت کا ایک نتیجہ ہے اس لیے لفظ مُتَوَفِّيكَ کے بعد رَافِعُكَ اِلَى لکھ دیا تا یہودیوں کے خیالات کا پورارد ہو جائے.کہتے ہیں کہ مسیح کی شبیہ کوسولی دی گئی مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں حصر عقلی یہی بتاتا ہے کہ وہ شخص جو مسیح کی شبیہ بنایا گیا یا دشمن ہوگا یا دوست اگر وہ دشمن تھا تو ضرور تھا کہ وہ شور مچاتا کہ میں مسیح نہیں ہوں اور میرے فلاں رشتہ دار موجود ہیں میرا اپنی بیوی کے ساتھ فلاں راز ہے صحیح کو تو میں ایسا سمجھتا ہوں.غرض وہ شور مچا کر اپنی صفائی اور بریت کرتا حالانکہ کسی تاریخ صحیح سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جو شخص صلیب پر لٹکا یا گیا تھا اس نے شور مچا کر رہائی حاصل کر لی تھی.اور اگر وہ میچ کا دوست اور حواری ہی تھا پھر صاف بات ہے کہ وہ مومن باللہ تھا اور وہ صلیب پر مرنے کی وجہ سے بلا وجہ ملعون ہوا اور خدا نے اس کو ملعون بنایا.رہی یہ بات کہ مصلوب ملعون کیوں ہوتا ہے؟ یہ عام بات ہے کہ جو چیز کسی فرقہ سے تعلق رکھتی ہے وہ اس کے ساتھ منسوب ہو جاتی ہے.سولی کو مجرموں کے ساتھ تعلق ہے جو گویا کاٹ دینے کے قابل ہوتے ہیں اور خدا کا تعلق مجرم کے ساتھ کبھی نہیں ہوتا یہی لعنت ہے اس وجہ سے وہ لعنتی ہوتا ہے.اس لیے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک مومن ناکردہ گناہ ملعون قرار دیا جاوے.پس یہ دونوں باتیں غلط ہیں اصل وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کی کہ مسیح کی حالت غشی وغیرہ سے ایسی ہو گئی جیسے مردہ ہوتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخه ۱۷ رفروری ۱۹۰۱ صفحه ۸،۷) میں اس کو نہیں مانتا کہ وہ ( حضرت مسیح علیہ السلام ) صلیب پر مرے ہوں بلکہ میری تحقیقات سے یہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة النساء ثابت ہوا ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور خود مسیح علیہ السلام بھی میری رائے کے ساتھ متفق ہیں حضرت مسیح علیہ السلام کا بڑا معجزہ یہی تھا کہ وہ صلیب پر نہیں مریں گے کیونکہ یونس نبی کے نشان کا انہوں نے وعدہ کیا تھا.اب اگر یہ مان لیا جائے جیسا کہ عیسائیوں نے غلطی سے مان رکھا ہے کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے تو پھر یہ نشان کہاں گیا؟ اور یونس نبی کے ساتھ مماثلت کیسی ہوگی.یہ کہنا کہ وہ قبر میں داخل ہو کر تین دن کے بعد زندہ ہوئے بہت بیہودہ بات ہے اس لیے کہ یونس تو زندہ مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوئے تھے نہ مرکزیہ نبی کی بے ادبی ہے اگر ہم اس کی تاویل کرنے لگیں.اصل بات یہی ہے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے ہر ایک سلیم الفطرت انسان کو واجب ہے کہ جو کچھ مسیح نے صاف لفظوں میں کہا اس کو محکم طور پر پکڑیں حضرت عیسیٰ پر ایک نشی کی حالت تھی.انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اور اسباب اور واقعات بھی اس قسم کے پیش آگئے تھے کہ وہ صلیب کی موت سے بچ جائیں چنانچہ سبت کے شروع ہونے کا خیال.حاکم کا مسیح کے خون سے ہاتھ دھونا، اس کی بیوی کا خواب دیکھنا وغیرہ.خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھا دیا ہے اور ایک بہت بڑا ذخیرہ دلائل اور براہین کا دیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہرگز ہرگز صلیب پر نہیں مرے صلیب پر سے زندہ اتر آئے بخشی کی حالت بجائے خود موت ہوتی ہے دیکھو سکتہ کی حالت میں نہ نبض رہتی ہے نہ دل کا مقام حرکت کرتا ہے بالکل مردہ ہی ہوتا ہے مگر پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے.مسیح کے نہ مرنے کے دو بڑے زبر دست گواہ ہیں اول تو یہ ہے کہ یہ ایک نشان اور معجزہ تھا ہم نہیں چاہتے کہ اس کی کسر شان کی جاوے اور وہ آدمی سخت حقارت اور نفرت کے لائق ہے جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کو حقیر سمجھ لیتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ وہ صلیب پر مرے ہیں بلکہ صلیب پر سے زندہ اتر آئے اور پھر اپنی طبعی موت سے مرنے کی تصدیق فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اگر انجیل کی ساری باتوں کو جو اس واقعہ صلیب کے متعلق ہیں یکجائی نظر سے دیکھیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر مرے ہوں، حواریوں کو ملنا، زخم دکھانا ، کباب کھانا ،سفر کرنا یہ سب امور ہیں جو اس بات کی نفی کرتے ہیں اگر چہ خوش اعتقادی سے ان واقعات کی کچھ بھی تاویل کیوں نہ کی جاوے لیکن ایک منصف مزاج کہہ اٹھے گا کہ زخم لگے رہے اور کھانے کے محتاج رہے یہ زندہ آدمی کے واقعات ہیں.یہ واقعات اور صلیب کے بعد کے دوسرے واقعات گواہی دیتے ہیں اور تاریخ شہادت دیتی ہے کہ دو تین گھنٹہ سے زیادہ صلیب پر نہیں رہے اور وہ صلیب اس قسم کی نہ تھی جیسے آج کل کی پھانسی ہوتی ہے جس پر لٹکاتے ہی دو تین منٹ کے اندر ہی کام تمام ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة النساء جاتا ہے بلکہ اس میں تو کیل وغیر ہ ٹھونک دیا کرتے تھے اور کئی دن رہ کر انسان بھوکا پیاسا مر جاتا تھا.مسیح کے لیے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا وہ صرف دو تین گھنٹہ کے اندر ہی صلیب سے اتار لیے گئے.یہ تو وہ واقعات ہیں جو انجیل میں موجود ہیں جو مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے لیے زبردست گواہ ہیں.پھر ایک اور بڑی شہادت ہے جو اس کی تائید میں ہے وہ مرہم عیسی ہے جو طب کی ہزاروں کتابوں میں برابر درج ہے اور اس کے متعلق لکھا گیا ہے کہ یہ مرہم مسیح کے زخموں کے واسطے حواریوں نے طیار کی تھی یہودیوں، عیسائیوں کی طبی کتابوں میں اس مرہم کا ذکر موجود ہے.پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ صلیب پر مر گئے تھے.ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور امر پیدا ہو گیا ہے جس نے قطعی طور سے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا صلیب پر مرنا بالکل غلط اور جھوٹ ہے وہ ہرگز ہرگز صلیب پر نہیں مرے اور وہ ہے مسیح کی قبر مسیح کی قبر سرینگر خانیار کے محلہ میں ثابت ہوگئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زلزلہ میں ڈال دے گی کیونکہ اگر مسیح صلیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں سے آ گئی؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۲ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) سوال کیا گیا کہ مسیح کو صلیب پر چڑھانا قرآن میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟) فرمایا: وَلكِن شَيْهَ لھم سے یہ واقعہ عیسائیوں اور یہودیوں کے متواترات سے ہے قرآن شریف اس کا انکار کیوں کرنے لگا تھا؟ قرآن یا حدیث صحیح میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ مسیح چھت پھاڑ کر آسمان پر چلا گیا یہ صرف خیالی امر ہے کیونکہ اگر مسیح صلیب پر چڑھا یا نہیں گیا اور وہ کوئی اور شخص تھا تو دوصورتوں سے خالی نہیں یا دوست ہوگا یا دشمن پہلی صورت میں مسیح نے اپنے ہاتھ سے ایک دوست کو ملعون بنایا.جس لعنت سے خود بچنا چاہتا تھا اس کا نشانہ دوست کو بنایا.یہ کون شریف پسند کر سکتا ہے.پس وہ حواری تو ہو نہیں سکتا.اگر دشمن تھا تو چاہیے تھا کہ وہ دہائی دیتا اور شور مچاتا کہ میں تو فلاں شخص ہوں مجھے کیوں صلیب دیتے ہو میری بیوی اور رشتہ داروں کو بلا ؤ میرے فلاں اسرار ان کے ساتھ ہیں تم دریافت کرلو.غرض اس تواتر کا انکار فضول ہے اور قرآن شریف نے ہر گز اس کا انکار نہیں کیا.ہاں! یہ سچ ہے کہ قرآن شریف نے تکمیل صلیب کی نفی کی ہے جو لعنت کا موجب ہوتی تھی نفس صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی نہیں کی.اس لیے مَا قَتَلُوهُ کہا اگر یہ مطلب نہ تھا تو پھر مَا قَتَلُوہ کہنا فضول ہو جائے گا یہ ان کے تواترات میں کہاں تھا؟ یہ اس لیے فرمایا کہ صلیب کے ذریعہ قتل نہیں کیا پھر مَا صَلَبُوہ سے اور صراحت کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء اور لیکن شُبَهَ لَهُمْ سے اور واضح کر دیا کہ وہ زندہ ہی تھا یہودیوں نے مردہ سمجھ لیا.اگر آسمان پر اٹھایا جاتا تو خدا تعالیٰ کی قدرت پر جنسی ہوتی کہ اصل مقصود تو بچانا تھا یہ کیا تماشا کیا کہ دوسرے آسمان سے پہلے بچا ہی نہ سکا.چاہیے تھا کہ ایک یہودی کو ساتھ لے جاتے اور آسمان سے گرا دیتے تا کہ ان کو معلوم ہو جا تا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) یہود لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام ) کو دو وجہ سے ملعون ٹھہراتے تھے کہ ایک ان کو ولد الزنا کہہ کر دوسرا مصلوب کرنے کے لحاظ سے.جب خدا تعالیٰ نے ان کے ولد الزنا ہونے کا ذب کیا ہے تو چاہیے تھا کہ ان کے مصلوب ہونے کا بھی ذب کرتا.جسم کے ساتھ آسمان پر جانا تو ایک الگ تھلگ امر ہے اول ذب دلالت کرتا ہے کہ دوسرا بھی ذب ہو.البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۲،۲۱) عام محاورہ زبان میں اگر یہ کہا جاوے کہ فلاں مصلوب ہوا یا پھانسی دیا گیا تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ صلیب پر اس کی جان نکل گئی اگر کوئی مجرم پھانسی پر لٹکا یا جاوے مگر اس کی جان نہ نکلے اور زندہ اتار لیا جاوے تو کیا اس کی نسبت پھانسی دیا گیا یا مصلوب کا لفظ بولا جاوے گا ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ اس کی نسبت یہ الفاظ بولنے ہی جرم ہوں گے.مصلوب اسے کہتے ہیں جس کی جان صلیب پر نکل جاوے اور جس کی جان نہ نکلے اسے مصلوب نہیں کہتے خواہ وہ صلیب پر چڑھا کر اتار لیا گیا ہو.یہودی زندہ موجود ہیں ان سے دریافت کرلو ا کہ آیا مصلوب کے یہ معنے ہیں جو ہم کرتے ہیں یا وہ جو ہمارے مخالف کرتے ہیں.پھر محاورہ زبان کو بھی دیکھنا چاہیے مَا صَلَبُوہ کے ساتھ ہی ماقتلوہ رکھ دیا کہ بات سمجھ میں آجاوے کہ صلیب سے مراد جان لینی تھی جو کہ نہیں لی گئی اور صلیبی قتل وقوع میں نہیں آیا.شبّه لَهُمْ کے معنے ہیں مشبہ بالمصلوب ہو گیا اس میں ان لوگوں کا یہ قول کہ کوئی اور آدمی مسیح کی شکل میں بن گیا تھا بالکل باطل ہے عقل بھی اسے قبول نہیں کرتی اور نہ کوئی روایت اس کے بارے میں صحیح...موجود ہے بھلا سوچ کر دیکھو کہ اگر کوئی اور آدمی مسیح کی شکل بن گیا تھا تو وہ دو حال سے خالی نہ ہوگا یا تو مسیح کا دوست ہوگا یا اس کا دشمن.اگر دوست ہوگا تو یہ اعتراض ہے کہ جس لعنت سے خدا نے مسیح کو بچانا چاہا.وہ اس کے دوست کو کیوں دی ؟ اس سے خدا ظالم ٹھہرتا ہے اور اگر وہ دشمن تھا تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ مسیح کی جگہ پھانسی ملتا اس نے دو ہائی دی ہوگی اور چلایا ہو گا کہ میرے بیوی بچوں سے پوچھو میرا فلاں نام ہے اور میں مسیح نہیں ہوں پھر اکثر موجودہ آدمیوں کی تعداد میں سے بھی ایک آدمی کم ہو گیا ہو گا جس سے معا پتہ لگ سکتا ہے کہ یہ شخص مسیح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة النساء نہیں غرضیکہ ہر طرح سے یہ خیال باطل ہے اور شبہ لھم سے مراد مشبه بالمصلوب ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۲۹/اکتوبر ۸ نومبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۲۲، ۳۲۳) یہود کا اعتراض جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہی ہے کہ اِنا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ یعنی ہم نے مسیح کو قتل کیا چونکہ انہوں نے قتل کا لفظ بولا تھا.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے پہلے لفظ قتل کی ہی نفی کی.دوم یہ کہ یہود میں دو روایتیں تھیں؛ ایک یہ کہ ہم نے یسوع کو تلوار سے قتل کر دیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کو صلیب پر مارا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہر دو کی جدا جد انفی کی.تیسری بات یہ ہے کہ یہودیوں کی بعض پرانی کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یسوع کو پہلے سنگسار کیا گیا تھا اور جب وہ مر گیا تو بعد میں اس کو کاٹھ پر لٹکایا گیا.یعنی پہلے قتل ہوا اور پیچھے صلیب.پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نفی کی اور فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں نہ حضرت مسیح ان کے ہاتھوں قتل ہوئے اور نہ صلیب کے ذریعے سے مارے گئے.البدر جلد نمبر ۲۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) انجیل کے دو مقام پر غور کرنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح سولی پر ہر گز نہیں مرا چنانچہ ایک جگہ مسیح خود اپنے قصہ کو یونس بن متی کے قصہ سے مشابہت دیتا ہے بلکہ اس قصہ کو بطور نشان کے قرار دیتا ہے اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ کے اندر نہیں مرا تھا اور نہ مردہ ہونے کی حالت میں شکم ماہی میں داخل ہوا تھا تو پھر اگر فرض کیا جائے کہ مسیح مردہ ہونے کی حالت میں قبر میں داخل ہوا تھا تو یونس کے قصہ سے اس کے قصہ کو کسی طرح مشابہت نہیں رہتی.پس یہ مثال جو اپنے لیے مسیح نے پیش کی ہے ایک دانشمند کے لیے بشرطیکہ اس کی عقل کسی تعصب یا عادت کے نیچے دبی ہوئی نہ ہو.مسیح کی طرف سے ایک صاف گواہی ہے کہ وہ سولی پر نہیں مرا تھا اور قبر میں زندہ داخل ہوا تھا جیسا کہ یونس بھی مچھلی کے پیٹ میں زندہ ہی داخل ہوا تھا اور یونس نبی پر جو ابتلا آیا تھا اصل جڑھ اس کی وہ پیشگوئی تھی جو قوم کی نسبت اس نے کی تھی یعنی یہ کہ چالیس دن کے اندران پر عذاب نازل ہوگا اور وہ عذاب ان پر نازل نہ ہوا اس لیے یونس کے دل پر اس سے بہت صدمہ پہنچا کہ اس کی پیشگوئی غلط نکلی اور وہ قوم سے ڈر کر کسی دوسرے ملک کی طرف بھاگ گیا.اسی طرح مسیح ابن مریم پر جو ابتلا آیا اس کی جڑھ بھی اس کی وہ پیش گوئی تھی جو قوم کی نسبت اس نے کی تھی یعنی یہ کہ وہ اس قوم پر حکمران اور بادشاہ ہو جائے گا اور داؤد کا تخت اسے ملے گا مگر وہ پیش گوئی ان معنوں کی رو سے جو سیح نے کبھی پوری نہ ہوئی اور غلط نکلی اس لیے مسیح کو اس کی وجہ سے بہت صدمہ پہنچا اور وہ جیسا کہ اس نے انجیل میں اشارہ کیا ہے ارادہ رکھتا تھا کہ یونس کی طرح کسی اور ملک کی طرف بھاگ جائے کیونکہ اس نے کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة النساء وطن میں.پس اس کے دل میں تھا کہ کسی اور جگہ ہجرت کر کے عزت پاوے اور ہجرت انبیاء علیہم السلام کی سنت میں سے بھی ہے لیکن چونکہ کسی قدر قوم کے ہاتھ سے دکھ اُٹھانا اس کی قسمت میں تھا اس لیے اس ارادہ کے پورا کرنے سے پہلے ہی پکڑا گیا اور سولی پر کھینچا گیا مگر جیسا کہ یونس کے قصہ کے خیال سے سمجھا جاتا ہے خدا نے اس کو اس موت سے بچا لیا اور اس کی دعا کو جو باغ میں کی تھی اس کے تقویٰ کی وجہ سے قبول کیا.تب اس نے اپنے اس ارادہ کو پورا کیا جو اس کے دل میں تھا اور دوسری گم شدہ بھیٹروں کی تلاش میں وہ دور دراز ملکوں کی طرف نکل گیا اسی وجہ سے اس کا یسوع آسف نام ہوا.یعنی گم شدہ قوم کو تلاش کرنے والا، پھر کثرت استعمال سے یہ لفظ یوز آسف کے نام سے مشہور ہو گیا.غرض یونس نبی سے مسیح کی یہی مماثلت تھی کہ وہ زندگی کی حالت میں ہی یونس کی طرح قبر میں داخل ہوا اور نیز قوم کے ڈر سے دوسرے ملک کی طرف بھاگا اگر اس مماثلت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر مسیح کا بیان خلاف واقع ٹھہرتا ہے اور نیز بجائے مماثلت کے منافات ثابت ہوتی ہے اور مماثلت کے قبول کرنے سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.پھر دوسری دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.اس کی وہ دعا ہے جو اس نے باغ میں نہایت تضرع اور عاجزی سے کی تھی جس کا مفصل ذکر انجیلوں میں موجود ہے اور میں ہر گز سمجھ نہیں سکتا کہ اس قسم کی دعا کہ مسیح جیسا ایک راست باز ساری رات کرے اور گریہ اور زاری اور تضرع کو انتہا تک پہنچا دے تب بھی وہ دعا قبول نہ ہو.دعا کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ سولی سے بچایا جاوے کیونکہ یہودیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسیح کو سولی دے کر یہ امر لوگوں کے ذہن نشین کریں کہ وہ نعوذ باللہ ! صادق نہیں ہے اور ان کا ذبوں میں سے ہے جن پر خدا کی لعنت ہے، یہی غم تھا جس کی وجہ سے مسیح نے ساری رات دعا کی تھی ورنہ اس کوموت کا کوئی غم نہ تھا اور ایسی حالت میں ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ مسیح کی بریت کے لیے اس کی دعا منظور فرما تا سو وہ دعا منظور کی گئی چنانچہ انجیل میں صریح الفاظ میں اس کا ذکر ہے کہ مسیح رات کو روتا رہا اور وہ جناب الہی میں چنیں مارتا رہا اور ساری رات اس کے آنسو جاری رہے.پس اس کے تقویٰ کی وجہ سے وہ دعا قبول کی گئے دیکھو عبرانیوں ۷ / ۵ اس مقام میں عیسائیوں کی عقل اور سمجھ پر بہت سخت تعجب ہے کہ جس حالت میں انجیل خود گواہی دیتی ہے کہ باغ والی دعا قبول کی گئی تو پھر قبول ہونے کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ وہ صلیب پر مرنے سے بچایا گیا.پھر تیسری دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اس کا زندہ دیکھا جانا ہے یعنی وہ بعد صلیب کے اپنے حواریوں کو ملا اور اپنے زخم دکھلائے اور ان کے ساتھ تکمیل کی طرف گیا اس جگہ عقل کو اس فتقومی کے لیے کوئی راہ
۴۰۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نہیں کہ وہ مرکر پھر زندہ ہو گیا کیونکہ یہ امر غیر معقول اور سخت بعید از قیاس ہے جو بودی اور کمزور شہادتوں سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ عقل کے لیے سہل طریق یہی ہے کہ صلیب پر اس کی جان نہیں نکلی تھی جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایسے اتفاق کئی ہوئے تھے کہ بعض آدمی صلیب پر نہیں مرے تھے پس طریق معقول کو چھوڑ کر طریق نامعقول کو اختیار کرنا سراسر سچائی سے دشمنی اور جہالت سے دوستی ہے اگر مسیح نئے سرے زندہ کیا جاتا تو اس کو قوم کا کچھ خوف نہ ہوتا کیونکہ جس خدا نے اس کو مار کر پھر زندہ کیا وہ خدا اس کو ضرور بچا تا اور اس کا یقین بڑھ جاتا.پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ مسیح دوبارہ زندگی کے بعد یہود سے ڈرتا رہا کہ مجھے پکڑ نہ لیں اور اپنے شاگردوں کو منع کرتا رہا کہ میبود کو میری اطلاع نہ ہو، تا ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ پھر آ کر مجھے پکڑ لیں.پھر عجیب در عجیب یہ بات ہے کہ مسیح کو دو بار خدا نے زندہ تو کیا مگر اس کے زخموں کے اچھا کرنے پر وہ قادر نہ ہو سکا اور آخر اچھا کرنے کے لیے اس مرہم کی حاجت پڑی جو آج تک مرہم عیسی کے نام سے مشہور چلی آتی ہے.پھر چوتھی دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا نسخہ مرہم عیسی ہے جو طب کی کتابوں میں جو ہزار کے قریب ہیں بلکہ غالباً اس سے زیادہ ہوں گی.اب تک پایا جاتا ہے موجود ہے اور یہ کتابیں یونانی ، رومی، عبرانی، فارسی میں موجود ہیں اور اس زمانہ سے عیسوی تاریخ کی دوسری صدی تک ان کتابوں کا پتہ ملتا ہے، اس نسخہ مرہم عیسی کی نسبت طبیب لوگ یہ لکھتے چلے آئے ہیں کہ یہ مرہم حواریوں نے عیسی کے لیے تیار کی تھی اور چونکہ اس مرہم کے فوائد میں یہ لکھا ہے کہ وہ چوٹوں کے لیے بہت مفید ہے اور زخم کو اچھا کرتی ہے اور خون جاری کو بند کرتی ہے پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرہم حضرت مسیح کی ان چوٹوں کے لیے تیار کی گئی تھی جو صلیب سے اس کو پہنچی تھیں.یہ شہادت یعنی نسخہ مرہم عیسی بڑی توجہ کے لائق ہے کیونکہ علمی کتابوں میں یہ درج ہے اور ہزارہا طبیب اس کی تصدیق کرتے آئے ہیں.پھر پانچویں دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا، نقودیموس کی انجیل ہے جو لنڈن میں بزبان انگریزی ۱۸۲۰ء میں چھپی تھی اس انجیل کے دسویں باب میں لکھا ہے کہ رومی سپاہیوں نے یہودیوں کو کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم نے یوسف کو جس نے یسوع کی نعش کو کفنایا تھا ایک کوٹھہ میں بند کیا ہے جس کی کلید مہر بند کر کے رکھی تھی اور جب تم نے اس کو ٹھہ کو کھولا تو یوسف کو تم نے نہ پایا.ہم کو یوسف کو دو جس کو تم نے ایک کوٹھہ میں بند کیا تھا تو ہم تم کو یسوع کو ( یعنی عیسی علیہ السلام ) دے دیں گے جس کی ہم نے قبر میں حفاظت کی تھی.یہودیوں نے جواب دیا کہ ہم تم کو یوسف کو دے دیں گے تم ہم کو یسوع کو دو.یوسف اپنے شہر اری ہاتھی"
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ سورة النساء 66 میں ہے.سپاہیوں نے جواب دیا کہ اگر یوسف ”اری ہاتھی میں ہے تو یسوع «گلیل“ میں ہے.‘ اس لفظ میں صریح اشارہ ہے کہ یسوع یعنی حضرت عیسی صلیب سے بچ کر اپنے شہر گلیل میں چلا گیا تھا.اور اس انجیل پر کچھ موقوف نہیں مروجہ چار انجیلوں پر غور کر کے بھی اس قدر ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا تھا.پس ایک امر قریب القیاس کو چھوڑ کر جو صاف اور سیدھے طور پر معلوم ہورہا ہے.ایک اعجوبہ بعید از قیاس بنانا اور مسیح کو مار کر پھر اس کو زندہ کرنا ایک ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی عقلمند اس کو قبول نہیں کرے گا.کیوں یہ بات نہ مان لی جائے کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا اور مرنے کے اسباب بھی پیدا نہیں ہوئے تھے نہ اس کی ٹانگیں توڑی گئیں اور نہ وہ بہت دیر تک صلیب پر رکھا گیا پھر کچھ تعجب کی بات نہیں تھی کہ وہ صلیب پر نہ مرتا بلکہ تعجب کی بات یہ تھی کہ باوجود ٹانگیں نہ توڑنے کے وہ صرف تین چار گھنٹہ کی مدت میں صلیب پر مرجاتا.اس واقعہ کی نظیر کسی مصلوب میں نہ پاؤ گے کہ وہ باوجود ٹانگوں کے نہ توڑنے کے اس قدر جلد مر گیا.قیاس تو یہ چاہتا تھا کہ خدا کی جان بہ نسبت انسان کی جان کے بہت دیر کے بعد نکلتی کیونکہ جس قدر خدا اور انسان میں فرق ہے اسی قدر ان کے مرنے میں بھی فرق ہونا چاہیے.پس یہ کیا بات ہے کہ انسانوں کی تو صلیب پر چھ چھ سات سات دن کے بعد جان نکلے اور جو خدا کہلاتا تھا جس نے اپنی قومی طاقتوں سے دنیا کو نجات دینا تھا وہ تین چار گھنٹہ میں مرجائے اور یہ جواب صحیح نہیں ہے کہ اگر چہ وہ خدا تھا لیکن تمام دنیا کے گناہ جو یک دفعہ اکٹھے ہو کر اس کی گردن پر پڑے اس لیے وہ کمزور ہو گیا اور ان گناہوں کے بوجھ کی برداشت نہ کر سکا اس لیے وہ جلد تر مرگیا کیونکہ اگر وہ گناہوں کے بوجھ کی برداشت نہیں کر سکتا تھا تو کیوں اس نے ایسی فضولی کی کہ میں برداشت کر لوں گا اور کیوں اس نے کہا کہ میں تمام دنیا کے گناہ اپنے سر پر لے سکتا ہوں.جس حالت میں گناہ غالب رہے جنہوں نے بہت جلد اس کو ہلاک کر دیا اس لیے قومی طاقت کے لحاظ سے گناہ قابل تعریف ہیں نہ کہ یسوع مسیح کہ جو ایسا جلد ان کے نیچے دب کر مر گیا جیسا کہ ایک کمزور بچہ تھوڑے سے صدمہ سے مرجاتا ہے بہر حال یہ عجیب بات ہے کہ خدا پر گناہ غالب آ گئے.یہاں تک کہ ان گناہوں نے صرف تین گھنٹوں تک اس کا کام تمام کر دیا ایسے کمزور خدا پر ایمان لانا جس کی موت کا باعث اس کی کمزوری ہے اگر بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ تو پادری صاحبوں کا عجیب عقیدہ ہے مگر ان کی انسکلو پیڈیا جلد ۱۳ صفحہ ۶۶۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے واقعہ صلیب کے بعد دس دفعہ لوگوں سے ملاقات کی اور وہ صرف تین گھنٹہ تک صلیب پر رہا تھا.اب اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ضرور صلیب سے زندہ بچ گیا.جیسا کہ اس سے پہلے بھی وہ یہودیوں کے حملوں سے بچتا رہا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة النساء پھر چھٹی دلیل اس بات پر کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا یہ ہے کہ عیسائی فرقوں میں سے بعض فرقوں میں سے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی رنگ میں ہوگی نہ کہ حقیقی یعنی اس کی خو اور صفت پر کوئی اور آ جائے گا کیونکہ وہ مر چکا ہے.چنانچہ نیولائف آف جیزس جلد اول صفحہ ۴۱۰ مصنفہ ڈی ایف سٹراس میں یہ عبارت ہے جس کا ترجمہ ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.جرمن کے محقق عیسائی یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر چہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں پر میخیں ماری جائیں پھر بھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے.اس واسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضا پر زور پڑنے کے سبب تشیخ میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں.پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب چھ گھنٹے صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا.تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبودار دوائیاں مل کر اسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اس کی بیہوشی دور ہوئی.اس دعوی کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں میں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے میں نے پہنچانا کہ تین میرے واقف تھے.پس میں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے ان کے اتار لینے کی اجازت حاصل کی اور ان کو فوراً استار کر ان کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دومر گئے.اور کتاب ماڈرن ڈوٹ اینڈ کر سچن بیلیف کے صفحہ ۴۵۵، ۴۵۷ میں یہ عبارت ہے جس ذیل میں ترجمہ لکھا جاتا ہے.شیلر میجز اور نیز قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہر أموت کی سی حالت ہو گئی تھی اور قبر کے نکلنے کے بعد کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتارہا اور پھر دوسری یعنی اصل موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.ایسا ہی کتاب سوپر نیچرل ریجن کے صفحہ ۸۷۵ پر لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ پہلی تفسیر جو بعض لائق محققین نے کی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع در اصل صلیب پر نہیں مرا بلکہ صلیب سے زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے دوستوں کے حوالہ کیا گیا اور وہ آخر بیچ نکلا.اس عقیدہ کی تائید میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ اناجیل کے بیان کے مطابق یسوع صلیب پر تین گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے رہ کر فوت ہوا.لیکن صلیب پر ایسی جلدی کی موت کبھی پہلے واقع نہیں ہوئی تھی.یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس کے ہاتھوں پر میخیں لگائی گئی تھیں اور
۴۰۶ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء پاؤں پر نہیں تھیں.چونکہ یہ عام قاعدہ نہ تھا کہ ہر ایک مصلوب کی ٹانگ توڑی جاوے اس واسطے تین انجیل نویسوں نے تو اس کا کچھ ذکر بھی نہیں کیا اور چوتھے نے صرف اپنی کسی خاص غرض کی تکمیل کے لئے اس کا ذکر کیا ہے اور جہاں نانگ توڑنے کا ذکر نہیں ہے تو ساتھ ہی برچھی کا واقعہ بھی کالعدم ہو جاتا ہے.پس ظاہر أموت جو واقع ہوئی وہ ایک سخت بیہوشی تھی جو کہ چھ گھنٹے کے جسمانی اور دماغی صدموں کے بعد واقع ہوئی اور اس کے علاوہ گزشتہ شب بھی بیداری اور تکلیف میں گزری تھی.جب اسے کافی صحت پھر حاصل ہو گئی تو اپنے حواریوں کو پھر یقین دلانے کے واسطے کئی دفعہ ملا لیکن یہودیوں کے ڈر سے وہ بڑی احتیاط سے نکلتا تھا.حواریوں نے یہی سمجھا کہ وہ مر کر زندہ ہوا ہے اور چونکہ موت کی سی بیہوشی تک پہنچ کر وہ پھر بحال ہوا اس لئے ممکن ہے کہ اس نے خود بھی یہی خیال کیا ہو کہ میں مرکز پھر زندہ ہوا ہوں.اب جب استاد نے دیکھا کہ اس ظاہری موت نے میرے کام کی تکمیل کر دی ہے تو پھر وہ کسی نا معلوم تنہائی کی جگہ میں چلا گیا اور مفقودالنخبر ہو گیا.ایسا ہی مشہور و معروف رین اپنی کتاب میں لکھتا ہے ( لائف آف جیزس صفحہ ۲۶۹) یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یسوع کی موت کی اصلیت کی نسبت بہت شکوک پیدا ہو گئے تھے.جولوگ صلیب پر موت کو دیکھنے کے عادی تھے وہ کبھی اس بات کو تسلیم کر ہی نہ سکتے تھے کہ چند گھنٹے صلیب پر رہ کر جیسا کہ یسوع رہا موت واقع ہوسکتی ہے.وہ بہت ساری مثالیں مصلوب آدمیوں کی پیش کرتے تھے جن کو وقت پر صلیب سے اتارا گیا تو آخرکار علاج کرنے سے وہ بالکل شفایاب ہو گئے.آری گن کا ابتدائی زمانہ کا ایک مشہور عیسائی فاضل ) کچھ عرصہ بعد یہ خیال تھا کہ اس قدر جلدی موت کا واقع ہونا مسیح کا معجزہ ہے.یہی حیرت مرقس کے بیان میں بھی پائی جاتی ہے.اب اس کے بعد ایک بھاری ثبوت اس بات کا کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب سے مخلصی پا کر آسمان کی طرف نہیں اُٹھائے گئے بلکہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے، ایک اور ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں لیکن قبل تحریر اس واقعہ کے ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قصہ کہ گویا حضرت مسیح مصلوب ہونے کے بعد یا مصلوب ہونے سے پہلے آسمان پر چلے گئے تھے ایسا ایک بیہودہ قصہ ہے کہ ایک غور کرنے والی طبیعت اس کو بدیہی طور پر جھوٹا قرار دے گی.خدا تعالی کا یہ عام قانون قدرت ہے کہ کوئی شخص مع جسم عصری آسمان پر نہیں جا سکتا اور نہ نازل ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کی نظیر الیاس کا قصہ ہے کیونکہ الیاس کا قصہ جس کی دوبارہ آمد پر مسیح کی نبوت موقوف تھی.آخر مسیح کی زبان سے ہی قابل تاویل ٹھہرا اور دوبارہ آنا اس کا محض ایک مجاز کے طور پر تصور کیا گیا.پھر کیوں کر اعتبار کیا جائے کہ مسیح کے صعود اور نزول سے مراد حقیقی صعود اور نزول ہے.جس امر کی دنیا کی ابتدا سے کوئی بھی نظیر نہیں اس امر پر اصرار کرنا اپنے تئیں ہلاکت کے گڑھے میں ڈالنا ہے.
۴۰۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ماسوا اس کے یہ امر سراسر غیر معقول ہے کہ ایک نبی اپنی فرض منصبی کونا تمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے.مسیح کو اس بات کا اقرار ہے کہ اس کی اور بھی بھیٹر میں ہیں جن کو پیغام پہنچانا ضروری ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ یہودی جو دوسرے ملکوں میں منتشر ہو گئے تھے ابھی ان کو ہدایت کرنا باقی ہے.پس صلیب سے مخلصی پا کر مسیح کا یہ فرض تھا کہ ان بدقسمت یہودیوں کو اپنے آنے سے مطلع کرتا جن کو اس کے آنے کی خبر بھی نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ ہندوستان کے بعض حصوں میں خاص کر کشمیر میں مدت سے سکونت پذیر ہو گئے تھے اور مسیح نے خود اس بات کو بیان کر دیا تھا کہ یہ اس کا فرض ہے کہ منتشر شدہ بنی اسرائیل کو بھی ان سے ملاقات کر کے ان کو اپنی ہدایتوں سے فیض یاب کرے.پس ایک راست باز کے بدن پر اس سے لرزہ پڑتا ہے کہ یہ گناہ عظیم مسیح کی طرف منسوب کر سکے کہ وہ منصبی کام کو نا تمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھا اور نہ ہم اس لغو اور بیہودہ امر کو خدائے حکیم کی طرف منسوب کر سکتے ہیں کہ وہ ایک زندہ شخص کو جس میں اچھے اچھے کام کرنے کی قوتیں موجود ہیں اور مخلوق کو اپنی ہدایتوں سے نفع پہنچا سکتا ہے تمام کاموں سے معطل کر کے آسمان پر بٹھا وے اور اس قیدی کی طرح جو قید محض میں ایام گزارتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا چھوڑ دے.کیا مسیح کے لئے یہ بہتر تھا کہ وہ اپنی اس لمبی عمر کو بنی نوع انسان کی خدمت میں مصروف کرتا اور ہر ایک ملک میں سفر کر کے جیسا کہ خود اس کو ایک نبی سیاح سمجھا گیا ہے اپنی منتشر قوم کو فائدہ پہنچا تا یا یہ کہ اپنی تبلیغ کا کام نا تمام چھوڑ کر اور قوم کو طرح طرح کی گمراہیوں میں پاکر آسمان پر جا بیٹھتا.بالخصوص ان بدقسمت لوگوں کا کیا گناہ تھا جنہوں نے ابھی اس کو دیکھا بھی نہیں تھا.اور یہ کہ وہ مختلف ملکوں کا سیر کرتا ہوا آخر کشمیر میں چلا گیا اور تمام عمر وہاں سیر کر کے آخر سری نگر محلہ یارخاں میں بعد وفات مدفون ہوا.اس کا ثبوت اس طرح پر ملتا ہے کہ عیسائی اور مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یوز آسف نام ایک نبی جس کا زمانہ وہی زمانہ ہے جو مسیح کا زمانہ تھا دور دراز سفر کر کے کشمیر میں پہنچا اور وہ نہ صرف نبی بلکہ شاہزادہ بھی کہلاتا تھا اور جس ملک میں یسوع مسیح رہتا تھا اسی ملک کا وہ باشندہ تھا اور اس کی تعلیم بہت سی باتوں میں مسیح کی تعلیم سے ملتی تھی بلکہ بعض مثالیں اور بعض فقرے اس کی تعلیم کے بعینہ مسیح کے ان تعلیمی فقرات سے ملتے ہیں جو اب تک انجیلوں میں پائے جاتے ہیں اور عیسائی نہایت مجبور اور حیرت زدہ ہو کر اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ یہ شخص جو یوز آسف اور شاہزادہ نبی کہلاتا ہے وہ مسیح کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھا.اسی بناء پر اس کو بڑا مقدس سمجھا گیا ہے یہاں تک کہ سسلی میں اس کے نام کا ایک گرجا بھی بنایا ہوا ہے جو پورانا اور قدیم زمانہ سے ہے اور اسی تعلق کے قبول کرنے کے بعد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة النساء یوز آسف کا قصہ یورپ کی تمام زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے.....جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس قدر پُر جوش محبت سے یورپ کی تمام زبانوں میں یوز آسف کی تعلیم کا ترجمہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ کم سے کم یوز آسف کو ایک مقدس حواری سمجھا گیا ہے.پس اس صورت میں تمام عیسائی صاحبان اس مطالبہ کے نیچے ہیں کہ انہوں نے بہر حال یوز آسف کا عیسائی مذہب سے ایک تعلق مان لیا ہے اور اس کے ظہور کا بھی وہی زمانہ قرار دیا ہے جو سیح کا زمانہ تھا اور اس کی سوانح کا بڑی محبت اور دلچسپی سے ترجمہ بھی کیا اور اس کی یاد گار کا ایک گرجا بھی بنایا اور یہ بھی اقرار کیا اس کی تعلیم کا اخلاقی حصہ انجیل کی تعلیم سے ملتا ہے اور اس نے بھی اپنی تعلیم کا نام انجیل ہی رکھا ہے.پس اس صورت میں اگر یوز آسف یسوع نہیں ہے تو یہ بارثبوت عیسائی صاحبوں کی گردن پر ہے کہ وہ ثابت کر کے دکھلا دیں کہ کبھی مسیح کا کوئی شاگرد شہزادہ نبی بھی کہلاتا تھا اور کبھی اس نے مسیح کی تعلیم کو اپنی تعلیم بھی قرار دیا اور اس کا نام انجیل رکھا اور میں بڑے دعوے اور ثبوت سے کہتا ہوں کہ یہ ثبوت ا ہرگز ان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ ان کے نزدیک شاہزادہ نبی ایک ہی ہے یعنی یسوع ابن مریم.اور یوز آسف کے حالات بیان کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی کتابوں میں بعض ہزار برس سے زیادہ زمانہ کی تالیف میں جیسا کہ کتاب اکمال الدین جس میں یہ تمام باتیں درج ہیں اور اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یوز آسف نے جو شاہزادہ نبی تھا اپنی کتاب کا نام انجیل رکھا تھا.ماسوا اس کتاب کے خاص سری نگر میں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے ایسے پورا نے نوشتے اور تاریخی کتا ہیں پائی گئی ہیں جن میں لکھا ہے کہ نبی جس کا نام یوز آسف ہے اور اسے عیسی نبی بھی کہتے ہیں اور شاہزادہ نبی کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں یہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی ہے جو اس پورانے زمانہ میں کشمیر میں آیا تھا جس کو ان کتابوں کی تالیف کے وقت تک قریباً سولہ سو برس گزر گئے تھے یعنی اس موجودہ زمانہ تک انیس سو برس گزرا ہے اور اس قسم کی تحریریں کشمیر کے باشندوں کے پاس کچھ تھوڑی نہیں بلکہ بہت سی کتاب میں پائی جاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ اس جگہ کے ہندوؤں کے پاس بھی اپنی زبان میں ایک کتاب ہے جس میں اس شہزادہ نبی کا ذکر ہے.پس ایک حق کے طالب کو یہ تمام ثبوت اس بات کے قبول کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں کہ در حقیقت یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر ہے.بالخصوص جبکہ ان تمام باتوں کو سیکھائی نظر سے دیکھا جائے کہ اول تو خود انجیل سے یہ پتہ لگتا ہے کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ وہ صلیب پر غشی کی حالت میں ہو گیا تھا جیسا کہ اس نے خود کہا کہ یونس نبی کا معجزہ دکھا یا جاوے گا.پس اگر صلیب پر مر گیا تھا اور مردہ ہونے کی
۴۰۹ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء حالت میں قبر میں داخل ہوا تو اس کے اس واقع کو یونس کے واقع سے کیا مشابہت ہوئی.پھر یہ کہ انہیں انجیلوں میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے زندہ نکلا اور ابھی زخم اس کے اچھے نہیں ہوئے تھے اور وہ اپنے حواریوں کو ملا اور منع کیا کہ میرا حال کسی سے مت کہو اور ان کے ساتھ اپنے وطن کی طرف چلا گیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور پھر طب کی کتابوں سے متواتر طور پر ثابت ہوا ہے کہ یسوع کے زخموں کے لئے مرہم عیسی بنائی گئی تھی جس کے استعمال سے اس کے زخم اچھے ہوئے اور چونکہ وہ یہود کے دوبارہ حملے سے ڈرتا تھا اس لئے وہ اس ملک سے نکل گیا اور یہ رائے کچھ ہماری خاص رائے نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے محقق پادریوں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے جیسا کہ جرمن کے پچاس پادریوں کی رائے ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں.اور کئی پورانی تحریریں اور بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یسوع واقعہ صلیب کے بعد مدت تک مختلف ملکوں میں سیاحت کرتا رہا یہاں تک کہ اس کا نام نہبی سیاح ہو گیا.اور ان باتوں کو مسلمانوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح نبوت پانے کے بعد ایک مدت تک مختلف بلاد میں سیاحت کرتا رہا ہے.پس ان تمام باتوں کو ایک ہی جگہ جمع کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یسوع ہر گز آسمان پر نہیں چڑھا اور جیسا کہ یہ تمام واقعات ایسے قریب قیاس ہیں کہ بڑی سرعت سے عقل ان کو قبول کرتی ہے.ایسا ہی آسمان پر چڑھنا ایسا بعید از قیاس ہے کہ عقل اس کو فی الفور رڈ کرتی ہے اور دھکے دیتی ہے.پس کیا وجہ کہ جو واقعات ثابت شدہ اور قریب قیاس ہیں ان کو تو قبول نہ کیا جائے اور جو خیالات ثابت نہیں ہو سکے اور نہ وہ قریب قیاس ہیں ان کو قبول کیا جائے ؟...سچ تو یہ ہے کہ اگر ان واقعات اور دلائل میں سے جو ہم نے پیش کئے ہیں ایک بھی پیش نہ کیا جاتا تب بھی عقل سلیم کا یہی فتویٰ تھا کہ یسوع ابن مریم آسمان پر ہر گز نہیں گیا.وہ ہمیشہ انسانوں کی طرح کمزوریاں دکھلاتا رہا اور بسا اوقات اس نے ماریں کھائیں اور جب شیطان نے اسے کہا کہ اوپر سے اپنے تئیں نیچے گرا دے تو وہ اپنے تئیں نیچے نہ گرا سکا.اور کوئی امر اس میں ایسا نہ تھا کہ جو انسان سے بڑھ کر شمار کیا جائے بلکہ بعض نبیوں نے اس سے بڑھ کر معجزات دکھلائے پھر یہ امر بغیر عقلی دلائل اور یقینی براہین کے کیوں کر مان لیا جائے کہ وہ در حقیقت آسمان پر چڑھ گیا تھا اور اب تک زندہ موجود ہے.اور اگر آسمان پر چڑھنا ممکن بھی ہو تب بھی اس کے لئے ناجائز بلکہ ایک جرم کا ارتکاب تھا کیونکہ ابھی وہ اپنے فرض تبلیغ کو تمام نہیں کر چکا تھا اور یہود کے اور بہت سے فرقے ہنوز اور اور ملکوں میں ایسے تھے جنہوں نے مسیح کا نام بھی نہیں سنا تھا جن کو پیغام پہنچا نا باقی تھا اور آسمان پر تو یہود کی کوئی قوم آباد نہیں تھی تا یہ کہا جائے کہ آسمان پر بھی ان کا جانا ضروری تھا.پس جیسے کہ یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة النساء امر نا معقول ہے کہ یسوع نے صلیب کو اپنے لئے پسند کیا اور خودکشی کو روا رکھا ایسا ہی یہ بھی نا معقول ہے کہ وہ اب تک ایک عمدہ زمانہ اپنی زندگی کا محض بریکاری سے گزار رہا ہے حالانکہ اس کو چاہئے تھا کہ اپنے اس وقت عزیز کو اپنی قوم کی ہمدردی میں خرچ کرتا نہ یہ کہ ایسی بیہودہ حرکتیں کہ دوسروں کے لئے خود کشی کرے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر جا بیٹھے.پس ایک عقلمند بجز اس کے کیا کرے کہ ان قصوں کو جھوٹے قرار دے.سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ صرف واقعات سے ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ دلائل عقلیہ بھی اس پر شہادت دیتے ہیں.لیکن جو جھوٹ ہے نہ اس کے لئے واقعات صحیحہ ثابت شدہ ملتے ہیں اور نہ عقلی دلائل اس پر قائم ہو سکتے ہیں.افسوس کہ عیسائی کسی بات پر بھی غور نہیں کرتے.انہیں کے انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ تھو ما رسول جس کا ذکر انجیلوں میں درج ہے ہندوستان میں آیا تھا اور میلا پور میں شہید ہوا اور یہ بھی اسی میں لکھا تھا کہ یسوع کا ایک بھائی بھی اس کے ساتھ تھا.اب جائے غور ہے کہ ایک طرف تو عیسائی صاحبان قبول کرتے ہیں کہ اسی بلادشام سے ہندوستان میں انہیں دنوں میں ایک شاہزادہ نبی آیا تھا جو آخر سری نگر کشمیر میں فوت ہوا اور پھر انہی ایام میں تھو ما حواری اور ایک یسوع کا بھائی بھی ہندوستان میں آیا تھا اور پھر دوسری طرف اس بات کو نہیں مانتے کہ وہ جو شاہزادہ نبی کہلاتا تھا اور بیان کرتا تھا کہ میرے پر انجیل نازل ہوئی ہے وہی یسوع مسیح ہے یہ واقعات بہت ہی صاف تھے اور ان کا نتیجہ بھی بہت ہی صاف تھا مگر ہائے افسوس کہ پادری صاحبوں نے تاریکی سے پیار کیا اور نور سے دشمنی.ریویو آف ریلیجنز جلد ۲ نمبر ۹ صفحه ۳۳۱ تا ۳۴۲) حضرت مسیح علیہ السلام وہ انسان تھے جو مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب پر چڑھے.گوخدا کے رحم نے ان کو بچا لیا اور مرہم عیسی نے ان کے زخموں کو اچھا کر کے آخر کشمیر جنت نظیر میں ان کو پہنچا دیا.سو انہوں نے سچائی کے لئے صلیب سے پیار کیا اور اس طرح اس پر چڑھ گئے جیسا کہ ایک بہادر سوار خوش عناں گھوڑے پر چڑھتا ہے.سو ایسا ہی میں بھی مخلوق کی بھلائی کے لئے صلیب سے پیار کرتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے حضرت مسیح کو صلیب سے بچا لیا اور ان کی تمام رات کی دعا جو باغ میں کی گئی تھی قبول کر کے ان کو صلیب اور صلیب کے نتیجوں سے نجات دی، ایسا ہی مجھے بھی بچائے گا اور حضرت مسیح صلیب سے نجات پا کر نصیین کی طرف آئے اور پھر افغانستان کے ملک میں (سے) ہوتے ہوئے کوہ نعمان میں پہنچے.اور جیسا کہ شہزادہ نبی کا چبوترہ اب تک گواہی دے رہا ہے وہ ایک مدت تک کوہ نعمان میں رہے اور پھر اس کے بعد پنجاب کی طرف آئے آخر کشمیر میں گئے اور کو سلیمان پر ایک مدت تک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة النساء عبادت کرتے رہے اور سکھوں کے زمانہ تک ان کی یادگار کا کوہ سلیمان پر کتبہ موجود تھا.آخر سری نگر میں ایک سو پچیس برس کی عمر میں وفات پائی اور خان یار کے محلہ کے قریب آپ کا مقدس مزار ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۶۱، ۳۶۲) بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ یعنی مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہو کر مردود اور ملعون لوگوں کی موت سے نہیں مرا.جیسا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا خیال ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا.جاننا چاہئے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو.جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے وَ رَفَعَنْهُ مَكَانًا عَلِيًّا.یہ آیت حضرت ادریس کے حق میں ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے اور میں کو موت دے کر مکان بلند میں پہنچا دیا.کیونکہ اگر وہ بغیر موت کے آسمان پر چڑھ گئے تو پھر بوجہ ضرورت موت جو ایک انسان کے لئے ایک لازمی امر ہے یہ تجویز کرنا پڑے گا کہ یا تو وہ کسی وقت او پر ہی فوت ہو جا ئیں اور یا زمین پر آ کر فوت ہوں.مگر یہ دونوں شق ممتنع ہیں.کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جسم خاکی موت کے بعد پھر خاک ہی میں داخل کیا جاتا ہے اور خاک ہی کی طرف عود کرتا ہے اور خاک ہی سے اس کا حشر ہوگا.اور ادریس کا پھر زمین پر آنا اور دوبارہ آسمان سے نازل ہونا قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں.لہذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے.مگر ایسی موت جوعزت کے ساتھ ہو.جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علمین تک پہنچائی جاتی ہیں فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكِ مُقْتَدِرٍ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۳، ۴۲۴) قَالَ بَعْضُ النَّاسِ الَّذِي لَا عِلْمَ عِنْدَہ ایک ایسے شخص نے جو علم سے بالکل بے بہرہ ہے إنَّ ايَةً وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَ لكِن شُبہ یہ کہا ہے کہ آیت وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شَيْهَ لَهُمْ وَايَةَ بَلْ تَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ دَلِيْلٌ عَلَى أَنَّ لَهُمُ اور آیت بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ اس بات کی دلیل الْمَسِيحَ رُفِعَ حَيًّا بِسْمِهِ الْعُنْصُرِيّ هَذَا ہیں کہ مسیح ناصری اپنے جسم عصری کے ساتھ زندہ قَوْله وَاسْتدلاله ولكن لَوْ كَانَ هَذَا اُٹھائے گئے یہ محض اس کا قول اور استدلال ہے لیکن اگر الرَّجُلُ مُطَلِعًا عَلَى شَأْنِ نُزُوْلِ هَذِهِ الْآيَةِ شخص اس آیت کے شان نزول سے واقف ہوتا تو لرجعَ مِنْ قَوْلِهِ بَلْ مَا الْتَفَتَ إلى معنى اپنے اس قول سے ضرور رجوع کر لیتا بلکہ ان معنی کی طرف يُخَالِف طَرِيقَ الْمَعْقُولِ وَالْمَنقُولِ، وَمَا جو معقول اور منقول طریق کے مخالف ہیں تو جہ ہی نہ کرتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة النساء تَكَلَّمَ بِالْفُضُولِ، وَكَانَ مِنَ الْمُتَنَدِمِينَ اور ایسی فضول باتیں منہ پر نہ لاتا جن کے نتیجہ میں وہ نادم فَاسْمَعُ أَيُّهَا الْعَزِيزُ اَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا اور شرمندہ ہوتا پس اے عزیز سنو! یہودی لوگ تو رات میں يَفْرَأُونَ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ الْكَاذِبَ في دَعْوَی یہ پڑھا کرتے تھے کہ جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والا قتل کیا النُّبُوَّةِ يُقْتَلُ، وَاَنَّ الَّذِى صُلِب فَهُوَ جائے گا اور یہ کہ جس کو صلیب پر مارا جائے وہ ملعون ہوتا مَلْعُونٌ لَّا يُرْفَعُ إِلى اللهِ وَكَانَتْ ہے اس کا اللہ کی طرف رفع نہیں ہوتا یہ ان کا پختہ اعتقاد تھا عَقِيْدَهُهُمْ مُسْتَحْكِمَةً عَلى ذلِكَ، ثُمَّ پھر اللہ تعالی کی طرف سے بطور ابتلا انہیں اس شبہ میں شُيَّدَ لَهُمُ ابْتِلاءٌ مِنْ عِندِ الله انهم ڈال دیا گیا کہ گویا انہوں نے حضرت مسیح ابن مریم کو صلیب صَلَّبُوا الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَقَتَلُوهُ پر مار دیا ہے اور قتل کر دیا ہے.پس انہوں نے حضرت مسیح فَحَسِبُوهُ مَلْعُوْنًا غَيْرَ مَرْفُوع، وَرَبُوا کو مرفوع نہیں بلکہ ملعون خیال کر لیا اور قضیہ کو اس شکل الشَّكل هَكَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ میں مرتب کیا کہ مسیح ابن مریم صلیب پر مارا گیا اور ہر مَصْلُوبٌ، وَكُلُّ مَصْلُوبِ مَّلْعُونَ وَلَيْسَ مصلوب ملعون ہوتا ہے مرفوع الی اللہ نہیں ہوتا.پس ان مرْفُوعَ، فَتَبَتَ عِندَهُمْ مِنَ الشَّكلِ کے نزدیک اس شکل اول سے جو بین الانتاج ہوتی ہے یہ الأَوَّلِ الَّذِي هُوَ بَيْن الإنتاج أَنَّ عِیسی ثابت ہو گیا کہ عیسی نعوذ باللہ ملعون ہیں اور ان کا رفع خدا (تَعُوذُ بِالله مَلْعُوْنَ وَلَيْسَ يمرفوع کی طرف نہیں ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہود کے فَأَرَادَ اللهُ أَن تُزِيْلَ هَذَا الْوَهُم وَيُر: اس وہم کو دور کرے اور عیسی علیہ السلام کو اس بہتان سے بری عِيسَى مِنْ هَذَا الْبُهْتَانِ فَقَالَ مَا قَتَلُوهُ ٹھہرائے سو اس لیے فرمایا کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ بَلْ لَكِنْ شُبِّهَ لَهُمُ.....بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ - خدا تعالیٰ کے رَّفَعَهُ اللهُ، وَحَاصِلُ كَلَامِ تَعَالى أَن شَأْن اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عيسى مُنَزَّةٌ عَنِ الصَّلْبِ وَالنَّتيجة التى شان صلیب پر مارے جانے اور اس کے نتیجہ یعنی ملعونیت هى الْمَلعُونِيَّةُ وَعَلمُ الرَّفْعِ، بَلْ هُوَ مَاتَ اور عدم رفع سے پاک ہے بلکہ انہوں ( یعنی حضرت عیسی ) حَتْفَ أَنْفِهِ، وَرُفِعَ إِلَى اللهِ كَمَا يُرْفَعُ نے اپنی طبعی موت سے وفات پائی تھی اور مقرب الی اللہ الْمُقَرَّبُونَ وَمَا كَانَ مِنَ الْمَلْعُونِينَ.وَهُدًا لوگوں کی طرح ان کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہوا تھا هُوَ السَّبَبُ الَّذِي ذَكَرَ الله تعالى لأَجْلِه اور آپ ہرگز ملعون لوگوں میں سے نہیں تھے اور اس سبب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ سورة النساء قِصَّةَ عَدُمٍ صَلْبِ عِيسَى، وَبَرَأَة مما سے اللہ تعالیٰ نے ( قرآن مجید میں ) حضرت عیسی علیہ السلام قَالُوا، وَإِلَّا فَأَى ضُرُورَةٍ كَانَتْ دَاعِيَةٌ کے صلیب پر وفات نہ پانے کے قصہ کو بیان کیا ہے اور إِلى ذِكْرِ هَذِهِ الْقِصَّةِ، وَمَا كَانَ مَوْتُ انہیں لوگوں کے الزام سے بری قرار دیا ہے وگرنہ اس قصہ الْقَتْلِ نَفْسًا لِأَنْبِيَائِهِ وَكسترا کے بیان کی کون کی ضرورت مقتضی تھی قتل کے ذریعہ انبیاء کا لِشَأْنِهِمْ وَعِزَّتِهِمْ، وَكَأَيْنَ مِنَ النَّبِيِّينَ وفات پانا ان کی تنقیص اور کسر شان اور ان کی عزت کے منافی قُتِلُوا في سَبِيلِ اللهِ كَيَحْنِی عَلَيْهِ نہیں ہوتا اور کئی ایک نبی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں قتل کیے السَّلامُ وَأَبِيهِ، فَتَفَكَّرُ واطلب صِرَاط گئے جیسے بیمی علیہ السلام اور ان کے باپ زکریا علیہ السلام.الْمُهْتَدِينَ وَلَا تَجْلِسُ مَعَ الْغَاوِيْنَ پس غور کرو اور ہدایت یافتہ لوگوں کا طریق تلاش کرو اور (حمامۃ البشری، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۵۵ حاشیہ) گمراہ ہونے والوں کے ساتھ نہ بیٹھو.( ترجمہ از مرتب) وَقَالُوا إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ بَلْ زَفَعَهُ ہمارے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ اللہ عز وجل نے قرآن مجید میں اللهُ، وَيَحْتَجُونَ بِهذِهِ الْآيَةِ عَلَى رَفْعِ جِسْمِ فرمایا ہے بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.وہ اس آیت سے مسیح علیہ السلام المسيح، وَلَا يَتَدَبَّرُونَ أَنَّ الْأَمْرَ لَوْ کے جسم کے اُٹھائے جانے پر استدلال کرتے ہیں اور اس بات كَانَ كَذَالِكَ لتَعَارَضَ الايتان پر غور نہیں کرتے کہ اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا تو قرآن مجید کی دو أَعْنِي ايَةً بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ وَآيَةً فِيْهَا آیتیں باہم ٹکرا جاتیں.میری مراد ایک تو آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ لے تَحيَوْنَ - وَأَنتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْقُرْآنَ مُنَزَّةٌ إِلَيْهِ سے ہے اور دوسری آیت فِيهَا تَحیون سے.حالانکہ تم عَنِ التَّعَارُضِ وَالثَّخَالُفِ، وَقَالَ اللهُ جانتے ہو کہ قرآن کریم تعارض اور تخالف سے پاک ہے اور تَعَالَى وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا اللہ تعالی نے فرمایا ہے لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَأَشَارَ فِي هَذِهِ فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا الْآيَةِ أَنَّ الْإِخْتِلافَ لَا يُوجَدُ فِي الْقُرْآنِ، ہے کہ قرآن کریم میں اختلاف نہیں پایا جاتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ وَهُوَ كِتَابُ اللهِ وَشَأْنُه أَرْفَعُ مِنْ هَذَا کی کتاب ہے اور اس کی شان اس قسم کے اختلاف سے وَإِذَا نَبَتَ أَنَّ كِتَابَ اللهِ مُنَزِّةٌ عَن بہت بلند ہے اور جب یہ ثابت ہے کہ اللہ کی کتاب اختلافات الإخْتِلاقات فَوَجَبْ عَلَيْنَا أَلَّا نَختار سے پاک ہے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی تفسیر تنخ الاعراف: ۲۴ النساء : ۸۳
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ سورة النساء فِي تَفْسِيرِه طَرِيقًا يُوجِبُ التَّعَارُضَ کرتے وقت کوئی ایسا طریق اختیار نہ کریں جو کسی تناقض یا وَالتَّناقُضَ وَمَا كَانَ لِلْيَهُودِ غَرْضٌ تعارض کا موجب ہو.اور (یہ بات مدنظر رہے کہ ) یہود کو وَبَحْتُ فِي رَفْعِ جِسْمِهِ أَوْ عَدَمِ رفعِهِ فَلَا حضرت مسیح کے جسم کے اٹھائے جانے یا نہ اُٹھائے جانے بُدَّ مِنْ أَنْ تُفَشِرَ الرَّفْعَ فِي آيَةٍ بَل رَّفَعَهُ سے کوئی غرض اور بحث نہیں تھی پس ضروری ہے کہ ہم آیت اللهُ بِالرَّفْعِ الرُّوحَانِي كَمَا هُوَ مَنْهُوهُ آيَةٍ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ الیہ میں رفع سے مرا در فع روحانی لیں جیسا ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ فَإِنَّ که آیت ارجعى إلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ کا مفہوم ہے الرُّجُوعَ إِلَى اللهِ تَعَالَى رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کی حالت رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ کی وَالرَّفْعَ إِلَيْهِ أَمْرٌ وَاحِدٌ لا فَرْقَ بَيْنَهُما حالت میں رجوع اور اس کی طرف رفع دونوں ایک ہی ہیں مَعْنى ثُمَّ انْظُرُ وَتَدَبَّرُ وَهَبَكَ اللهُ مِن اور ان دونوں میں معنا کوئی فرق نہیں پھر نظر ڈالو اور غور وفکر عِنْدِهِ قُوَّةَ الْفَيْصَلَةِ أَنَّ النَّزَاعَ كَانَ في کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے پاس سے قوت فیصلہ عطا کرے الرَّفْعِ الرُّوْحَانِي لا في الرفع الجسماني که جھگڑا تو رفع روحانی میں ہے نہ کہ رفع جسمانی میں کیونکہ کہ فَإِنَّ الْيَهُودَ كَانُوا مُنْكِرِينَ مِن رَفع بهبودی حضرت عیسی علیہ السلام کے اس رفع الی اللہ کے منکر رفع اللہ عِيسَى إِلَى اللهِ كَمَا يُرْفَعُ الْمُطَهَّرُونَ تھے جو خدا تعالیٰ کے پاک اور مقربین انبیاء کو نصیب ہوتا الْمُقَرَّبُونَ مِنَ النَّبِيِّينَ وَكَانُوا يُصِرُّونَ (لَعَنَهُمُ اللهُ عَلَى أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السّلامُ مِنَ الْمَلْعُونِينَ لَا مِنَ الْمَرْفُوعِيْنَ، كَمَا أَتَهُمْ يَقُولُونَ إلى هَذِهِ ہے اور وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ عیسی علیہ السلام ملعونوں میں سے ہیں نہ کہ ان لوگوں میں سے جن کا رفع اللہ کی طرف ہوتا ہے (لَعَنَهُمُ اللهُ ) جیسا کہ وہ آج الْأَيَّامِ وَكَانُوا يَسْتَدِلُونَ غَضِبَ الله کے دن تک کہ رہے ہیں اور وہ (غَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ ) عَلَيْهِمْ عَلَى مَلْعُوْنِيَّتِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ مسیح علیہ السلام کی ملعونیت پر آپ کے صلیب دیئے جانے مِن مَّصْلُوبِيَّتِهِ فَإِنَّ الْمَصْلُوبَ مَلْعُون سے استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان کے مذہب میں مصلوب غَيْرُ مَرْفُوعٍ فِي دِينِهِمْ كَمَا جَاءَ في ملعون ہوتا ہے مرفوع نہیں ہوتا.جیسا کہ تو رات کی کتاب التَّوْرَاةِ فِي كِتَابِ الْاسْتِثْنَاءِ فَأَرَادَ الله استثناء میں بیان ہوا ہے.پس اللہ تعالی نے ارادہ کیا کہ تَعَالَى أَنْ يُبَرِ نَبِيَّه عسى الله من هذا وہ اپنے نبی حضرت عیسی علیہ السلام کو اس بہتان الفجر : ٢٩
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة النساء الْبُهْتَانِ الَّذِي يُنِي عَلَى آيَةِ التَّوْرَاةِ بری قرار دے جس کی بنیا دتورات کی آیت اور واقعہ وَوَاقِعَةِ الصَّلْبِ فَإِنَّ التَّوْرَاةَ يَجْعَلُ صلیب پر رکھی گئی ہے کیونکہ تو رات ہر اس شخص کو ملعون الْمَصْلُوبَ مَلْعُوْنًا غَيْرَ مَرْفُوعِ إِذَا كَانَ قرار دیتی ہے مرفوع نہیں ٹھہراتی جبکہ وہ نبوت کا مدعی ہو يدعى النُّبُوَّةَ ثُمَّ مَعَ ذَلِكَ كَانَ قُتِل پھر وہ قتل کیا جائے اور صلیب پر مارا جائے.پس اللہ وَصْلِبٌ، فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ لِذَب بنام عزوجل نے حضرت عیسی علیہ السلام سے اس بہتان کے عَنْ عِيسَى مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ...بل دور کرنے کے لیے فرمایا وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ....رّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ يَعْنِي الصَّلْبَ الَّذِى بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.یعنی وہ مصلوبیت جو از روئے حکم يَسْتَلْزِمُ الْمَلْعُونِيَّةَ وَعَدَمَ الرَّفْعِ مِن تورات لعنت اور عدم رفع کو مستلزم ہے وہ درست نہیں حُكْمِ التَّوْرَاةِ لَيْسَ بِصَحِيح، بَلْ رَّفَعَ بلکہ اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کا اپنی طرف رفع فرمایا اللهُ عِيسَى إِلَيْهِ، يَعْنِى إِذَا لَّمْ يَغْبُتِ یعنی جب قتل اور صلیب دیا جانا ثابت نہیں تو ملعونیت الصَّلْبُ وَالْقَتْلُ لَمْ يَغْبُتِ الْمَلْعُونِيَّةُ اور عدم رفع بھی ثابت نہیں ہوتا.پس دوسرے سچے وَعَلمُ الرَّفْعِ، فَقَبتَ العُ الرُّوحَانِ نبیوں کی طرح مسیح کا رفع روحانی ثابت ہو گیا اور یہی كَالأَنْبِيَاءِ الصَّادِقِينَ وَهُوَ الْمَطْلُوبُ اصل مطلوب ہے اور یہی اس قصہ کی حقیقت ہے یہاں هذهِ حَقِيقَةُ هذِهِ الْقِصَّةِ، وَمَا كَانَ فهُنا رفع جسمانی کے بارہ میں کوئی جھگڑا اور نزاع نہیں تھا جدال ونراع في الرفع الْجِسْمَانِي وَمَا كَانَ اور یہ بات ہرگز یہود کے زیر بحث نہیں تھی اور اس هذَا الْأَمْرُ تَحْتَ بَحْثِ الْيَهُودِ أَصْلًا، وَمَا سے ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں تھی بلکہ یہودی علماء ا كَانَ غَرْضُهُمْ مُتَعَلَّقًا بِهِ بَلْ عُلماء مسیح علیہ السلام کو جھوٹا اور کافر ثابت کرنے کے لیے مکر الْيَهُودِ كَانُوا يَمْكُرُونَ لِتَكْذِيبِ الْمَسِيحِ کر رہے تھے اور وہ ان کی تکذیب اور تکفیر کے لیے وَتَكْفِيرِهِ، وَيُفَتِّشُونَ لِتَكْذيبه وَ تَكْفِیرِه بزعم خود شرعی حیلہ کی تلاش میں تھے پس ان کو یہ تدبیر نظر حِيْلَةٌ شَرْعِيَّةٌ، فَبَدًا لَهُمْ أَن يُصْلِبُوهُ آئی کہ وہ مسیح کو صلیب دے دیں تا کہ تورات کی نص لِيُثْبِتُوا مَلْعُونِيَّتَهُ وَعَدُمَ رَفْعِہ کے مطابق مسیح کی ملعونیت اور ان کے اس رفع روحانی الرُّوحَانِي كَالأَنْبِيَاءِ الصَّادِقِينَ بنض کے عدم کو ثابت کر سکیں جو راستبا زنبیوں کو حاصل ہوتا التَّوْرَاةِ لِئَلَّا يَكُونَ حُجَةٌ لِأَحَدٍ بَعْدَ ہے تا کتاب اللہ کے حکم کے بعد کسی کے لیے کوئی حجت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة النساء كِتَابَ اللهِ، فَصَلَبُوهُ بِزَعْمِهِمْ ، وَفَرِحُوا باقی نہ رہے سو انہوں نے اپنے زعم کے مطابق اس کو صلیب بِأَنَّهُمْ أَثْبَتُوا مَلْعُونِيَّتَهُ وَعَدُمِ رَفْعِه پر مار دیا اور اس بات پر خوش ہو گئے کہ انہوں نے تو رات بِالتَّوْرَاةِ، وَلَكِنَّ اللهَ نَجَاهُ مِنْ حِيَلِهِمْ کے مطابق مسیح کی ملعونیت اور عدم رفع کو ثابت کر دیا ہے وَقَتْلِهِمْ، فَأَخْبَرَ عَنْ هَذِهِ الْقِصَّةِ في لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے حیلوں اور قتل کی کوششوں كِتَابِهِ الَّذِي أَنْزَلَ بَعْدَ الْإِنجِيلِ حَكَما سے نجات دی پھر اس قصہ کو اپنی کتاب میں بیان فرما دیا عدلًا وَمُبَيِّنًا لِظُلْمِ كُلِّ قَوْمٍ جس کو انجیل کے بعد بطور حکم وعدل نازل کیا تھا اور جو ہر قوم وإِيْدَ آتِهِمْ وَكَيْدِهِمْ وَمُكَذِبا کے ظلم اور ان کی ایذا رسانی اور ان کی تدبیروں کو واضح کرنے لِلْكَافِرِينَ فَكَانَ يَقُولُ يَا حِزْبَ والی اور کافروں کو جھوٹا ٹھہرانے والی ہے گو یا اللہ تعالیٰ فرماتا الْمَاكِرِينَ : يَا أَعداء الصدق ہے اے مکر کرنے والوں کے گروہ اور اے سچائی اور صادقوں وَالصَّادِقِينَ لِمَ تَقُولُونَ إِنَّا قَتَلْنَا کے دشمنوں تم کیوں یہ کہتے ہو کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل الْمَسِيحَ ابْن مَرْيَمَ وَصَلَبَنَا وَأَنبَتْنَا کر دیا اور صلیب پر مار دیا اور ثابت کر دیا کہ آپ ملعون ہیں أَنَّهُ مَلْعُوْنَ غَيْرُ مَرْفُوعٍ فَأُخْبِرُكُمْ مرفوع نہیں.پس اے خبیث قوم میں تم کو بتا تا ہوں کہ نہ تم أَيُّهَا الْقَوْمُ الْخَبِيدُونَ أَنَّكُمْ مَا نے اس کو قتل کیا ہے نہ ہی صلیب پر مارا ہے بلکہ در حقیقت قَتَلْتُمُوهُ وَمَا صَلَبْتُمُوهُ وَلكِن شُبه صحیح مقتول اور مصلوب کے مشابہ بنایا گیا اور تم خود بھی اپنے لَكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ في أَنفُسِكُمْ دلوں میں خوب سمجھتے ہو کہ تم نے مسیح کو ہر گز قتل نہیں کیا بلکہ أَنَّكُمْ مَا قَتَلْتُمُوهُ يَقِينًا، بَلْ نَجَاهُ الله اللہ تعالی نے اسے تمہارے مکر سے بچا لیا اور اسے وہ روحانی مِن مَّكْرِكُمْ وَرَزَقَهُ الرَّفْعَ الرُّوحَانِ رفع عطا کیا جو تم اس کے لیے نہیں چاہتے تھے اور تم حیلے کر الَّذِي كُنتُمْ لَا تُرِيدُونَ لَهُ وَتَمْكُرُونَ رہے تھے کہ اسے یہ مقام حاصل نہ ہو مگر اسے یہ مقام لِئَلَّا يَحْصِلَ لَهُ ذُلِكَ الْمَقَامُ، فَقَد حاصل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا رفع فرمایا اور اللہ تعالیٰ حَصَلَ لَهُ وَرَفَعَهُ اللهُ وَكَانَ اللهُ غالب اور حکمت والا ہے اور یہ قول یعنی عَزِيزًا حَكِيمًا اس عَزِيزًا حَكِيمًا.وَهُذَا الْقَوْلُ يَعْنِی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عزت دیتا قَوْله تَعَالَى عَزِيزًا حَكِيمًا إِشَارَةً إلى ہے اور اپنے برگزیدہ لوگوں کی عزت کی دقیق کامل اور لطیف أَنَّ اللهَ يُعِزُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَـحْـفـظ حکمت کے ساتھ حفاظت کرتا ہے.کسی مکر کرنے والے کا مکر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ سورة النساء عِزَّةَ أَصْفِيَاتِهِ بِحِكْمَتِهِ التَّقِيقَةِ اصفیاء کی عزت کو ضر ر نہیں پہنچا سکتا جیسا کہ یہودیوں کے الْبَالِغَةِ اللَّطِيفَةِ، لَا يَضُرُّهَا مَكْرُ مکر نے حضرت عیسی علیہ السلام کی عزت کو کوئی نقصان نہ مَاكِرٍ كَمَا مَا أَضَرَّ عِزَّةَ عِيسَى مَكْرُ پہنچایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت کو بڑھایا اور بلند الْيَهُودِ بَلْ أَعَزَّ وَرَفَعَهُ وَدَمر درجہ عطا فرمایا اور ہلاکت کی تدابیر کرنے والوں کو تباہ الْمَاكِرِينَ برباد کر دیا.فَاعْلَمْ أَيُّهَا الْعَزِيزُ هَذَا تَفْسِيرُ پس اے عزیز تم سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کے قول بَل رَّفَعَهُ قَوْلِهِ تَعَالَى بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ، وَلكِن لَّا اللهُ إِلَيْهِ کی تفسیر یہی ہے مگر ہمارے لوگ اسے قبول نہیں يَقْبَلُه قَوْمُنَا وَيُحَرِّفُونَ كَلَامُ الله وَلا کرتے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں وہ اس يَتَدَبَّرُوْنَ فِي شَأْنٍ نُزُولِهِ، وَيَمْشُونَ عَلَی آیت کے شانِ نزول میں غور نہیں کرتے اور زمین میں اکٹر الْأَرْضِ مُسْتَكْبِرِينَ.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ إِنَّ کر چلتے ہیں اور جب انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور الله وَرَسُولَهُ قَد شَهِدَا عَلَى وَفَاةِ الْمَسِيحَ اس کے رسول نے وفات مسیح پر شہادت دی ہے اور اسی وَكَذلِكَ شَهِدُوا عَلَيْهِ أَكَابِرُ الْمُؤْمِنِينَ طرح مومنوں میں سے جلیل القدر صحابہ تابعین اور ائمہ مِن الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْن وَأَئمة حدیث نے بھی اس پر شہادت دی ہے تو ان کا آخری الْمُحَدِّثِينَ، فَكَانَ أَخِرُ جَوَاهِمْ أَنَّ الله جواب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ مسیح قَادِرُ عَلى أَن يُحْيِيَة بَعْدَ وَفَاتِهِ مَرَّةٌ کو موت کے بعد ایک مرتبہ پھر زندہ کر دے اور یہ نہیں أُخْرَى، وَلَا يَتَفَكَّرُوْنَ أَن تُندَةَ الله سوچتے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ان باتوں سے کوئی تعلق تعالى لا يَتَعَلَّقُ مَا يُخَالِف مَوَاعِیدَہ نہیں جو اس کے سچے وعدوں کے مخالف ہوں اور خود اس الصَّادِقَةَ، وَقَدْ قَالَ فَيُمُسِكُ التِي قضى نے فرمایا ہے فیس الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ - اى عَلَيْهَا الْمَوْتَ ، وَقَالَ وَمَا هُمْ مِنْهَا طرح فرمایا وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ نیز فرمایا لا بِمُخْرَجِينَ ، وَقَالَ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولى اس بات میں إلا المَوْتَةَ الأولى ، وَلا شَكٍّ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ کوئی شک نہیں کہ جو بھی نیک لوگوں میں سے وفات پا جاتا مِن الضُّلَحَاءِ فَإِنَّهُ نَالَ حَظًّا مِنَ الْجَنَّةِ ہے وہ جنت میں سے حصہ پالیتا ہے اور اس پر دوسری موت الزمر :٤٣ الحجر : ۴۹ الدخان:۵۷
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة النساء وَحُرِّمَ عَلَيْهِ الْمَوْتَةُ الثَّانِيَةُ فَكَيْفَ واقع نہیں ہوتی.پس یہ کس طرح جائز ٹھہرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ يَجُوزُ أَنْ يُرَةً عِيسَى إِلَى الدُّنْيَا وَيُخرج السلام کو دنیا کی طرف لوٹایا جائے اور وہ جنت اور اس کی مِن حَةِ الْجَنَّةِ وَنَعِيْهِهَا أَوْ يُسَنَّ عَلَيْهِ نعمتوں سے باہر نکالا جائے اور اس پر اس کے بالا خانوں کے غُرْفَتُهَا ثُمَّ يُتَوَى مَرَّةٌ ثانِيَةُ؟ مَعَ أَن دروازے بند کر دیے جائیں پھر وہ دوسری مرتبہ وفات الْآيَةَ الْمُتَقَيِّمَةَ أَغْنِى لَا يَذُوقُونَ فِيهَا پائیں باوجود یکہ آیت مذکورہ بالا لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ الموت إلا الموتة الأولى تَدُلُّ عَلى دَوَامِ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولىی آپ کے مرنے کے بعد دائی زندگی الْحَيَاةِ وَعَدُمٍ ذَوقِ الْمَوْتِ.پانے اور دوبارہ موت کو نہ چیکھنے پر دلالت کرتی ہے.(حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۵۶ تا ۲۵۸ حاشیه) (ترجمه از مرتب) الرَّفْعُ الَّذِي جَاءَ فِي ذِكْرِ عِيسَى قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ذکر کے عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي الْقُرْآنِ.فَهُوَ لَيْسَ دوران جس رفع کا ذکر کیا گیا ہے وہ رفع جسمانی نہیں اسی لیے رَفَعُ جِسْمَانِي وَلِذَالِكَ قُدِمَ عَلَيْهِ لَفظ اس سے پہلے لفظ تو فی بیان کیا گیا ہے.تا کہ لوگ جان لیں التَّوَفَّى فى الْبَيَانِ لِيَعْلَمَ النَّاسُ انَّه کہ وہ رفع روحانی ہے جیسا کہ اللہ کی سنت ہمیشہ سے جاری رَفْعُ تُوحَانِي كَمَا جَرَتْ عَلَيْهِ سُنَّةُ الله ہے کہ اہل ایمان کا موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا بَعْدَ مَوْتِ أَهْلِ الْإِيمَانِ فَإِنَّهُمْ ہے اور خوش خوش اس کی جنتوں میں داخل کیے جاتے ہیں اور يُرْفَعُونَ إِلَى اللهِ بَعْدَ قَبْض الروح و یہ آیت یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین جھگڑے کا فیصلہ يُدْخَلُونَ فِي نَعِيمِ الْجِنَانَ فَرِحِينَ کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے کیونکہ یہودی یہ دعوی کرتے وَالْآيَاتُ نَزَلَتْ لِيَقْضِيَ بَيْنَ الْيَهُودِ تھے کہ حضرت مسیح کا ذبوں میں سے تھا اور ملعون تھا اور وہ ان وَالْمَسِيحِيين.فَإِنَّ الْيَهُودَ زَعَمُوا آن مقربین میں شامل نہیں تھا جن کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا الْمَسِيحَ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ وَ مَلْعُونَا وَ ہے وہ کہتے ہیں کہ مسیح مصلوب ہوا اور جو مصلوب ہو وہ مَا كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ الْمَرْفُوعِینَ وَ تورات کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف مرفوع نہیں قَالُوا إِنَّه صُلب وَالْمَعْلُوبُ لَا يُرْفَعُ إِلَى ہوتا بلکہ بارگاہ الہی سے دھتکارا جاتا ہے اور مرد و دلوگوں میں اللهِ بِحُكْمِ التَّوْرَاةِ بَلْ يُلْعَنُ مِن شمار ہوتا ہے.اس کے برخلاف نصاری یہ کہتے ہیں کہ مسیح خدا حَضْرَتِهِ وَيُجْعَلُ مِنَ الْمَرْدُودِينَ.وَقَالَ کا بیٹا ہے اور مخلوق کو نجات دلانے کی خاطر صلیب پر مارا گیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ سورة النساء النَّصَارَى إِنَّهُ كَانَ ابْنُ اللهِ فَضلِب اور بیشک شروع میں اس کا رفع نہیں ہوا بلکہ اس پر لعنت ڈالی لإنْجَاءِ الخَلْقِ وَ مُبعَ مِنَ الرفع في أَوَّلِ گئی اور اسے عذاب دیا گیا اور بد کا رلوگوں کی طرح تین دن الرَّفْعِ الْأَمْرِ وَلُعِنَ وَعُذْبٌ وَادْخِلَ فِي جَهَنَّمَ تک جہنم میں رکھا گیا لیکن اس کے بعد اسے عرش کی طرف إلى تلقَةِ أَيَّامٍ كَالْفَاسِقِينَ ثُمَّ رُفِعَ إِلَى اُٹھایا گیا اور اللہ نے اسے ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے دائیں الْعَرْشِ وَأَوَاهُ الله إلى يمينه إلى ابد ہاتھ بٹھالیا گویا یہود تفریط ظلم اور تنقیص کی طرف چلے گئے اور الْأَبِدِينَ.فَالْيَهُودُ ذَهَبُوا إِلى تَفْرِيطٍ و نصاری نے تفریط کے ساتھ افراط کو اختیار کر لیا تب اللہ تعالیٰ هَمْطٍ وَاهْبَاطٍ وَالنَّصَاری مَعَ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارہ میں جو درست اور حقیقت التَّفْرِيطِ إِلى إِفْرَاطٍ فَبَلَنَ اللهُ مَا كَانَ پر مبنی بات تھی اسے بیان کر دیا اور فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ أَحَقِّ وَأَقْوَمَ فِي أَمْرِ عِيسَى، فَقَالَ إِنَّهُ السلام کو صلیب پر نہیں مارا گیا بلکہ انہوں نے طبعی موت سے مَا صُلِبَ بَلْ تُوُفِّيَ بِحَتَفِ اَنْفِهِ وَالْحِقَ وفات پائی اور وفات یافتوں سے جاملے.پھر بغیر لعنتی ہونے بِالْمَوْلَى ثُمَّ رُفِعَ كَالْمُقَرَّبِينَ مِنْ غَيْرِ کے اور جہنم میں ڈالے جانے کے مقربین کی طرح اللہ تعالیٰ کی أَنْ يُلْعَنَ وَيُدْخَلَ فِي اللَّظى فَالْحَاصِلُ طرف ان کا رفع ہوا.پس حاصل کلام یہ ہے کہ یہود اور أنَّ هَذَا قَضَاء مِن الله الأغلى بين نصاری کے درمیان یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے تا وہ اپنے بندہ کو الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى ليرة عبدة من ملعون ہونے اور عدم رفع کے بہتان سے بری کرے اور صحیح عَبْدَهُ بُهْتَانِ اللَّعْنِ وَ عَدُهِ الرَّفْعِ وَيَفْعِی اور درست فیصلہ فرمائے.پس اس نے ان کے درمیان جو يمَا هُوَ أَحَقُّ وَ أَوْلى فَحَكَمَ بَيْنَهُمْ فَمَا اختلاف تھا اس کا فیصلہ کر دیا اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں الختَلَفُوا فِيْهِ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ میں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.وَلَوْ لَا هَذَا الْغَرَضُ فَمَا كَانَ وَجْهُ اگر یہ غرض نہ تھی تو پھر اس قصہ کے بیان کرنے کی کوئی لذكر هذهِ الفِضَّةِ، بَلْ لَّوْ فُرِضَت وجہ نہ تھی بلکہ اگر اس قصہ کو اس طرز پر نہ سمجھا جائے تو یہ پورا الْقِصَّةُ عَلى خِلَافِ هذهِ الصُّورَةِ لَكَانَ قصہ لغو ظہرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فعل محل اعتراض بن جاتا لغُوا كُلُّهَا وَ تَحَلَّ اعتراض علی فعل ہے.کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ وہ مسیح علیہ السلام حَضْرَةِ الْعِزَّةِ الَّمْ تَكُن آرضُ الله کو غاروں میں سے کسی غار میں چھپا لیتا جیسا کہ اس نے وَاسِعَةً فَيُخْفِي الْمَسِيحَ فِي مَغَارَةٍ مِّنَ دشمنوں کے تعاقب کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ سورة النساء الْمَغَارَاتِ كَمَا أَخْفَى أَفضَلَ الرُّسُلِ چھپا لیا تھا.پس سوچو مسیح کے آسمان کی طرف اُٹھا لینے عِندَ التَّعَاقَبَاتِ فَفَكِّر آئی حَاجَة کے لیے کون سی شدید ضرورت اسے پیش آئی تھی کیا اللہ تعالی اشْتَدَّتْ لِرَفَعِهِ إِلَى السَّمَوتِ آخَشِيَ الله ان ذلیل یہودیوں کے رُعب سے ڈر گیا تھا اور اسے رُعْبَ الْيَهُودِ الْمَخْذُوْلِينَ.وَظَن انهم خدشہ تھا کہ وہ اسے زمین کے ہر حصہ سے نکال لیں گے يُخْرِجُونَهُ مِنَ الْأَرْضِينَ اَلَا تَعْلَمُ آن کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور ہر فعل بقدر ضرورت الله حَكِيمٌ لَّا يَفْعَلُ فِعْلًا إِلَّا بِقَدْرِ اور حکمت کے تقاضا کے مطابق کرتا ہے اور کسی لغو بات کی ضُرُورَةٍ وَلَا يَتَوَجَّهُ إِلى لَغْوِ بِغَيْرِ حِكْمَةٍ طرف توجہ نہیں کرتا.پس مسیح علیہ السلام کو آسمان کی طرف دَاعِيَةٍ فَأَى حِكْمَةِ الْجَأَ الله يرفع اٹھانے کے لیے کون سی حکمت نے اللہ تعالیٰ کو مجبور کیا تھا.الْمَسِيحِ إِلَى السَّمَاءِ أَمَا وَجَدَ مَوْضِعاً في کیا اسے زمین میں چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملی تھی الْأَرْضِ لِلْإِخْفَاءِ فَفَكِّرُ كَالْمُبَطِرِينَ پس آنکھوں والوں کی طرح غور کرو.( ترجمہ از مرتب ) انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۶۸ تا۱۷۲ حاشیه ) یہودیوں نے ایک پاک نبی کو ملعون کہہ کر خدا کے غضب کی راہ اختیار کی اور عیسائیوں نے اپنے پاک نبی اور مرشد اور ہادی کے دل کو بوجہ لعنت کے مفہوم کے ناپاک اور خدا سے پھرا ہوا قرار دے کر ضلالت کی راہ اختیار کی اس لئے ضروری ہوا کہ قرآن بحیثیت حکم ہونے کے اس امر کا فیصلہ کرے.پس یہ آیات بطور فیصلہ ہیں کہ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شَيْءَ لَهُمْ.....بَلْ نَفَعَهُ اللهُ اليه - یعنی یہ سرے سے بات غلط ہے کہ یہودیوں نے بذریعہ صلیب حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے اس لئے اس کا نتیجہ بھی غلط ہے کہ حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا اور نعوذ باللہ شیطان کی طرف گیا ہے بلکہ خدا نے اپنی طرف اُس کا رفع کیا ہے.ظاہر ہے کہ یہود اور نصاریٰ میں رفع جسمانی کا کوئی جھگڑا نہ تھا اور نہ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ جس کا رفع جسمانی نہ ہو وہ مومن نہیں ہوتا اور ملعون ہوتا ہے اور خدا کی طرف نہیں جاتا بلکہ شیطان کی طرف جاتا ہے.خود یہود قائل ہیں کہ حضرت موسیٰ کا رفع جسمانی نہیں ہوا حالانکہ وہ حضرت موسیٰ کو تمام اسرائیلی نبیوں سے افضل اور صاحب الشریعت سمجھتے ہیں اب تک یہود زندہ موجود ہیں اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ انہوں نے حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے کیا نتیجہ نکالا تھا ؟ کیا یہ کہ اُن کا رفع جسمانی نہیں ہوا یا یہ کہ اُن کا رفع روحانی نہیں ہوا اور وہ نعوذ باللہ او پر کو خدا کی طرف نہیں گئے بلکہ نیچے کو شیطان کی طرف گئے.بڑی حماقت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ سورة النساء انسان کی یہ ہے کہ وہ ایسی بحث شروع کر دے جس کو اصل تنازع سے کچھ بھی تعلق نہیں.بمبئی کلکتہ میں صد با یہودی رہتے ہیں بعض اہل علم اور اپنے مذہب کے فاضل ہیں اُن سے بذریعہ خط دریافت کر کے پوچھ لو کہ انہوں نے حضرت مسیح پر کیا الزام لگایا تھا اور صلیبی موت کا کیا نتیجہ نکالا تھا کیا عدم رفع جسمانی یا عدم رفع روحانی کیا.غرض حضرت مسیح کے رفع کا مسئلہ بھی قرآن شریف میں بے فائدہ اور بغیر کسی محرک کے بیان نہیں کیا گیا بلکہ اس میں یہود کے ان خیالات کا ذب اور دفع مقصود ہے جن میں وہ حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں.بھلا اگر تنزل کے طور پر ہم مان بھی لیں کہ یہ لغو حرکت نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے اپنے لئے پسند کی کہ مسیح کو مع جسم اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنے نفس پر جسم اور جسمانی ہونے کا اعتراض بھی وارد کر لیا کیونکہ جسم جسم کی طرف کھینچا جاتا ہے پھر بھی طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ قرآن شریف یہود اور نصاری کی غلطیوں کی اصلاح کرنے آیا ہے اور یہود نے یہ ایک بڑی غلطی اختیار کی تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نعوذ باللہ ملعون قرار دیا اور اُن کے رُوحانی رفع سے انکار کیا.اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مرکر خدا کی طرف نہیں گیا ہے بلکہ شیطان کی طرف گیا تو اس الزام کا دفع اور ذَب قرآن میں کہاں ہے جو اصل منصب قرآن کا تھا کیونکہ جس حالت میں آیت رَافِعُكَ اِلَى (ال عمران : ۵۶ ) اور آیت بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ جسمانی رفع کیلئے خاص ہو گئیں تو روحانی رفع کا بیان کسی اور آیت میں ہونا چاہیے اور یہود اور نصاری کی غلطی دُور کرنے کے لئے کہ جو عقید و لعنت سے متعلق ہے ایسی آیت کی ضرورت ہے کیونکہ جسمانی رفع لعنت کے مقابل پر نہیں بلکہ جیسا کہ لعنت بھی ایک روحانی امر ہے ایسا ہی رفع بھی ایک امر رُوحانی ہونا چاہئے.پس وہی مقصود بالذات امر تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ جو امر تصفیہ کے متعلق تھا وہ اعتراض تو بدستور گلے پڑا رہا اور خدا نے خواہ نخواہ ایک غیر متعلق بات جو یہود کے عقیدہ اور باطل استنباط سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی یعنی رفع جسمانی اس کا قصہ بار بار قرآن شریف میں لکھ مارا.گویا سوال دیگر اور جواب دیگر.ظاہر ہے کہ رفع جسمانی یہود اور نصاری اور اہل اسلام تینوں فرقوں کے عقائد کے رو سے مدار نجات نہیں.بلکہ کچھ بھی نجات اس پر موقوف نہیں تو پھر کیوں خدا نے اس کو بار بار ذکر کر نا شروع کر دیا.یہود کا یہ کب مذہب ہے کہ بغیر جسمانی رفع کے نجات نہیں ہو سکتی اور نہ سچا نبی ٹھہر سکتا ہے پھر اس لغو ذ کر سے فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو تصفیہ کے لائق امر تھا جس کے عدم تصفیہ سے ایک سچا نبی جھوٹا ٹھہرتا ہے بلکہ نعوذ باللہ کا فر بنتا ہے اور لعنتی کہلاتا ہے اس کا تو قرآن نے کچھ ذکر نہ کیا اور ایک بے ہودہ قصہ رفع جسمانی کا جس سے کچھ بھی فائدہ نہیں شروع کر دیا.غرض حضرت مسیح کی موت اور رفع جسمانی پر یہ دلائل ہیں جو ہم نے بہت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة النساء بسط سے اپنی کتابوں میں بیان کئے ہیں اور اب تک ہمارے مخالف عدم جواب کی وجہ سے ہمارے مدیون ہیں.پھر اس میں اب ہم پیر مہر علی شاہ یا کسی اور پیر صاحب یا مولوی صاحب سے کیا بحث کریں.ہم تو باطل کو ذبح کر چکے اب ذبح کے بعد کیوں اپنے ذبیحہ پر بے فائدہ چھری پھیریں.اے حضرات ! ان اُمور میں اب بحثوں کا وقت نہیں.اب تو ہمارے مخالفوں کے لئے ڈرنے اور تو بہ کرنے کا وقت ہے کیونکہ جہاں تک اس دنیا میں ثبوت ممکن ہے اور جہاں تک حقائق اور دعاوی کو ثابت کیا جاتا ہے اسی طرح ہم نے حضرت مسیح کی موت اور اُن کے رفع روحانی کو ثابت کر دیا ہے.فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَلُ - (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۰ تا ۱۱۴) یہود حضرت عیسی علیہ السلام کے اس رفع سے منکر تھے جو ہر یک مومن کے لئے مدار نجات ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ جان نکلنے کے بعد ہر ایک مومن کی روح کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں مگر کافر پر آسمان کے دروازے بند ہوتے ہیں اس لیے اس کی روح نیچے شیطان کی طرف پھینک دی جاتی ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں بھی شیطان کی طرف ہی جاتا تھا لیکن مومن اپنی زندگی میں اوپر کی طرف جاتا ہے اس لیے مرنے کے بعد بھی خدا کی طرف اس کا رفع ہوتا ہے اور ارجعی الی ربک کی آواز آتی ہے.تحفہ گولڑ و یه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۳ حاشیه ) رفع جسمانی کا خیال اس وقت نصاری کے دل میں پیدا ہوا جبکہ ان کا ارادہ ہوا کہ مسیح کو خدا بنا دیں اور دنیا کا منجی قرار دیں ورنہ نصاریٰ بھی خود اس بات کے قائل ہیں کہ نجات کے لئے تو صرف روحانی رفع کافی ہے پس افسوس کہ جس امر کو نصاری حضرت مسیح کی خدائی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ان کی ایک خصوصیت ٹھہراتے ہیں وہی امر مسلمانوں نے بھی اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے اگر مسلمان یہ جواب دیں کہ ہم تو اور یس کو بھی مسیح کی طرح آسمان پر عقیدہ رکھتے ہیں یہ دوسرا جھوٹھ ہے کیونکہ جیسا کہ تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے کہ اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ اور میں آسمان پر زندہ جسم عنصری نہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ بھی کسی دن زمین پر مرنے کے لیے آئے گا تو اب خواہ نخواہ رفع جسمانی میں مسیح کی خصوصیت ماننی پڑی اور قبول کرنا پڑا کہ اس کا جسم غیر فانی ہے اور خدا کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور یہ صریح باطل ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۳ حاشیہ) خدا کی طرف جانے کا نام رفع ہے اور شیطان کی طرف جانے کا نام لعنت ہے.ان دونوں لفظوں میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ سورة النساء تقابل اضداد ہے.نادان لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھے یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر رفع کے معنے مع جسم اٹھانا ہے تو اس کے مقابل کا لفظ کیا ہوا جیسا کہ رفع روحانی کے مقابل پرلعنت ہے.(تحفہ گولڑو یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۰۹) یہ خیال کہ قرآن شریف میں (حضرت مسیح) کی نسبت بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ آیا ہے اور بل دلالت کرتا ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے.یہ خیال نہایت ذلیل خیال اور بچوں کا ساخیال ہے.اس قسم کا رفع تو بلغم کی نسبت بھی مذکور ہے یعنی لکھا ہے کہ ہم نے ارادہ کیا تھا کہ بلغم کا رفع کریں مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا.ظاہر ہے کہ مسیح کیلئے جو لفظ رفع میں استعمال کئے گئے وہی لفظ بلعم کی نسبت استعمال کئے گئے.مگر کیا خدا کا ارادہ تھا کہ بلغم کو مع جسم آسمان پر پہنچا دے بلکہ صرف اُس کی رُوح کا رفع مراد تھا.اے حضرات ! خدا سے خوف کرو.رفع جسمانی تو یہودیوں کے الزام میں معرض بحث میں ہی نہیں تمام جھگڑا تو رفع روحانی کے متعلق ہے کیونکہ یہود نے حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر بموجب نص توریت کے یہ خیال کر لیا تھا کہ اب اس کا رفع روحانی نہیں ہوگا اور وہ نعوذ باللہ خدا کی طرف نہیں جائے گا بلکہ ملعون ہو کر شیطان کی طرف جائے گا یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف بلایا جاتا ہے اس کو مرفوع کہتے ہیں اور جو شیطان کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اس کو ملعون کہتے ہیں سو یہی وہ یہودیوں کی غلطی تھی جس کا قرآن شریف نے بحیثیت حکم ہونے کے فیصلہ کیا اور فرمایا کہ مسیح صلیب پر قتل نہیں کیا گیا اور فعل صلیب پا یہ تکمیل کو نہیں پہنچا اس لئے مسیح رفع روحانی سے محروم نہیں ہوسکتا.وَأَثْبَتَ بِتُبُوتٍ بَيْن واضح أَنَّ اللہ تعالیٰ نے ایک بین اور واضح ثبوت کے ذریعہ سے عيسى ما صُلب.وَمَا رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ ثابت کردیا کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب پر نہیں مارا گیا اور نہ وہ وَمَا كَانَ رَفْعُهُ أَمْرًا جَدِيْدًا مَّخصُوصًا آسمان کی طرف اُٹھائے گئے اور نہ آپ کا رفع کوئی نئی بات بِهِ.بَلْ كَانَ رَفَعَ الرُّوحِ فَقَط كَمِثْلِ رَفْعِ تھی جو آپ کے ساتھ مخصوص تھی بلکہ یہ تو آپ کے بھائیوں إِخْوَانِهِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ، وَأَمَّا ذِكرُ رَفْعِه یعنی دوسرے انبیاء کی طرح صرف روحانی رفع تھا اور یہ جو بِالْخُصُوصِيَّةِ فِي الْقُرْآنِ، فَكَانَ لِذَبِ مَا قرآن کریم میں آپ کے رفع کو خصوصیت سے ذکر کیا گیا زَعَمَ الْيَهُودُ وَأَهْلُ الصُّلْبَانِ فَإِنَّهُمْ ہے وہ تو محض یہودیوں اور صلیب پرستوں کے خیالات کا ظَنُّوا أَنَّه صُلب ولعن حُكْمِ التَّوْرَاة رد تھا.کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ آپ کو صلیب دیا گیا اور (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۰۱، ۱۰۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ سورة النساء وَاللَّعْنُ يُنَا فِي الرَّفْعَ بَلْ هُوَ ضِدُّهُ كَمَا لَا آپ تو رات کے حکم کے مطابق ملعون ہو گئے اور لعنت يخفى على ذَوِى الْحَصَاةِ، فَرَدَّ اللهُ عَلى رفع کی منافی ہے بلکہ اس کی ضد ہے جیسا کہ اہل عقل پر هَاتَيْنِ الطَّائِفَتَيْنِ بِقَوْلِهِ : بَلْ رَفَعَهُ الله مخفی نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے بَلْ نَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کہہ کر إِلَيْهِ، وَالْمَقْصُودُ مِنْهُ أَنَّهُ لَيْسَ يَمَلْعُونِ ان دونوں گروہوں کا رد کر دیا اور اس سے مقصد یہ تھا کہ بَلْ مِنَ الَّذِينَ يُرْفَعُونَ وَيُكْرَمُونَ أَمَامَ عیسی علیہ السلام ملعون نہیں ہیں بلکہ آپ ان لوگوں میں سے عَيْنَيْهِ، وَمَا كَانَ إنْكَارُ الْيَهُودِ إِلَّا مِن ہیں جن کا رفع کیا جاتا ہے اور جو خدا کی نگاہ میں معزز ہوتے الرَّفْعِ الرُّوْحَانِي الَّذِى لَا يَسْتَحِقُهُ ہیں.نیز یہود کا انکار بھی اسی رفع روحانی سے تھا جس کا الْمَصْلُوبُ وَلَيْسَ عِندَهُمْ رَفعُ الجِسْمِ کسی مصلوب کو حق نہیں پہنچتا ورنہ ان کے نزدیک رفع مَدَارَ النَّجَاةِ، فَالْبَحْتُ عَنْهُ لَغُوَلا يَلْزِمُ جسمانی نجات کا مدار نہیں.پس رفع جسمانی کے متعلق مِنْهُ اللَّعْنَ وَالذُّنُوبُ فَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ ایسی بحث کرنا لغو ہے جس سے گناہ اور لعنت لازم نہ آئیں وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَمُوسَى مَا رُفِعَ أَحَدٌ دیکھو ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ میں سے کوئی مِنْهُمْ إِلَى السَّمَاءِ جِسْمِهِ الْعُنْصُرِي كَمَا بھی اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان کی طرف نہیں اُٹھایا لا يخفى وَلَا شَكَ أَنَّهُمْ يُعِدُوا من اللَّعْنَةِ گیا جیسا کہ سب پر ظاہر ہے اور اس میں بھی کوئی شک وَجُعِلُوا مِنَ الْمُقَرَّبِينَ، وَتَجَوْا بِفَضْلِ اللہ نہیں کہ یہ سب لعنت سے دور رکھے گئے تھے اور اللہ کے بَلْ كَانُوا سَادَةَ النَّاجِينَ، فَلَوْ كَانَ رَفْعُ مقرب بنائے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ الْجِسْمِ إِلَى السَّمَاءِ مِنْ شَرَائِطِ التَّجَاةِ.انہوں نے نجات حاصل کی تھی بلکہ وہ نجات پانے والوں لكَانَ عَقِيدَةُ الْيَهُودِ فِي أَنْبِيَاءهم أَنَّهُمْ کے سردار تھے اگر جسم کا آسمان کی طرف اُٹھایا جانا نجات رُفِعُوا مَعَ الْجِسْمِ إِلَى السَّمَاوَاتِ کی شرائط میں سے ہوتا تو یہود کا عقیدہ اپنے انبیاء کے فَالْحَاصِلُ أَنَّ رَفَعَ الْجِسْمِ مَا كَانَ عِنْدَ بارہ میں یہ ہوتا کہ وہ جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے الْيَهُودِ مِنْ عَلَامَاتِ أَهْلِ الْإِيْمَانِ، وَمَا ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ جسم کا اُٹھایا جانا یہود کے نزدیک كَانَ إِنْكَارُهُمْ إِلَّا مِنْ رَّفْعِ رُوحِ عِیسَی اہلِ ایمان کی علامت نہیں تھا اور ان کا انکار محض عیسی کے وَكَذلِكَ يَقُولُونَ إِلى هَذَا الزَّمَانِ، فَإن رفع روحانی سے تھا اور وہ اب تک یہی مانتے ہیں.اگر ہم فَرَضْنَا أَنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى: بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ فرض کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۵ سورة النساء كَانَ لِبَيَانِ رَفْعِ جِسْمِ عيسى إلى مقصد یہ تھا کہ عیسی علیہ السلام کے جسم عنصری آسمان پر السَّمَاءِ ، فَأَيْنَ ذِكْرُ رَفْعِ رُوْحِهِ الَّذِي اُٹھائے جانے کا ذکر کیا جائے تو آپ کے رفع روحانی کا ذکر فِيهِ تَطْهِيرُهُ مِنَ اللَّعْنَةِ وَشَهَادَةُ کہاں ہے جس میں آپ کے لعنت سے پاک ہونے اور الْإِبْرَاءِ ، مَعَ أَنَّ ذِكْرَهُ كَانَ وَاجِبًا لِرَدِ مَا الزامات سے بری ہونے کی شہادت ہے حالانکہ اس کا ذکر زَعَمَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى مِن الخطاء یہود اور نصاری کے جھوٹے خیالات کی تردید کے لیے وَكَفَاكَ هَذَا إِن كُنتَ مِنْ أَهْلِ الرُّشْد ضروری تھا اور اگر تو اہل رشد و عقل میں سے ہے تو تیرے وَالدُّهَاءِ أَتَظُنُّ أَنَّ اللهَ تَرَكَ بَيَان رَفع لیے اس قدر بیان کافی ہے.کیا تو خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ الرُّوحِ الَّذِى يُنى عیسی با افتی نے اس رفع روحانی کا ذکر تو چھوڑ دیا جو حضرت مسیح علیہ عَلَيْهِ فِي الشَّرِيعَةِ الْمُؤسَوِيَّةِ وَتَصَلَّى السلام کو شریعت موسویہ کی رو سے دئے گئے فتویٰ سے نجات لِذِكْرِ رَفْعِ الْجِسْمِ الَّذِي لَا يَتَعَلَّقُ بِأَمْرِ یافتہ اور مخلصی پانے والا قرار دیتا تھا اور اللہ تعالیٰ جسم کے رفع يَسْتَلْزِمُ اللَّعْنَةَ عِنْدَ هَذِهِ الْفِرْقَةِ؟ بَل کے ذکر کے پیچھے پڑ گیا جو کسی ایسے امر سے تعلق نہیں رکھتا جو أَمْرُ لَّغُوُ اشْتَهَرَ بَيْنَ زَمَعِ النَّصَاری ان لوگوں کے نزدیک لعنت کو مستلزم ہو.بلکہ وہ ایسی لغو بات وَالْعَامَّةِ، وَلَيْسَ تَخته شنی مین ہے جو نصاری کے کم فہم افراد اور عوام میں مشہور ہو گئی تھی اور الْحَقِيقَةِ، وَمَا حَمَلَ النّصارى عَلى ذلِك جس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.اس بات پر نصاری کو صرف إلَّا طَعْنُ الْيَهُودِ بِالإخترارِ، وَقَوْلُهُمْ أَنَّ یہودیوں کے پے در پے طعنوں اور ان کے اس الزام نے عِيسَى مَلْعُوْنَ بِمَا صُلِب كَالْأَشْرَارِ، اکسایا کہ عیسی علیہ السلام ملعون ہیں کیونکہ آپ کو شریروں وَالْمَصْلُوبُ مَلْعُون بِحُكْمِ التَّوْرَاةِ کی طرح صلیب پر مارا گیا اور مصلوب شخص تورات کے حکم وَلَيْسَ هُهُنَا سَعَةُ الْفِرَارِ، فَضَاقَتِ کے مطابق ملعون ہوتا ہے.اور اس جگہ اس الزام سے الْأَرْضُ بِهذا الطلعْنِ عَلَى النّصارى فرار کی کوئی گنجائش نہ تھی.پس ان طعنوں سے عیسائیوں وَصَارُوا فِي أَيْدِى الْيَهُودِ حالا ساری پر زمین تنگ ہو گئی اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں میں قیدیوں فَتَحَنُوْا مِنْ عِندِ أَنْفُسِهِمْ حِيْلَةَ صَعُودِ کی طرح ہو گئے.پس انہوں نے اپنے پاس سے عیسیٰ علیہ عيسى إلى السَّمَاءِ ، لَعَلَّهُمْ يُطْهَرُودُ من السلام کے آسمان پر چڑھ جانے کا حیلہ تراش لیا.تا وہ اس اللَّعْتَةِ بهذا الافتراء.وَمَا كَانَ مَقَرٌّ جھوٹے عقیدہ کے ذریعہ مسیح کو لعنت سے پاک قرار دے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ سورة النساء من تِلْكَ الْحَادِثَةِ الشَّهِيرَةِ الَّتِى سکیں انہیں اس مشہور واقعہ سے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی جو اشْتَهَرَتْ بَيْنَ الْخَوَاضِ وَالْعَوَاقِ، فَإِنَّ خواص اور عوام میں شہرت پاچکا تھا کیونکہ تمام یہودی فرقوں الصَّلِيْب كَانَ مُوجِباً لِلَّعْنَةِ بِاتِّفَاقِ اور ان کے بڑے بڑے علماء کے اتفاق سے صلیبی موت جميع فِرَقِ الْيَهُودِ وَعُلَمَائِهُمُ موجب لعنت ہے اس لیے انہوں نے عیسی کی بریت کے لیے الْعِظَامِ، فَلِذلِكَ يُحتَتْ قِصَّةُ صَعُودِ بطور ایک حیلہ کے بجسده العصری آپ کے آسمان پر چڑھ الْمَسِيحِ مَعَ الْجِسْمِ حِيْلَةٌ لِلإِبْرَاءِ جانے کا قصہ گھڑ لیا.لیکن گواہوں کے موجود نہ ہونے کی وجہ فَمَا قُبِلَتْ لِعَدُمِ الشُّهَدَاءِ ، فَرَجَعُوا سے اس حیلہ کو قبولیت عامہ حاصل نہ ہوئی.پس وہ لعنت کے مُضْطَرِيْنَ إِلى قُبُوْلِ الرّامِ اللَّعْنَةِ، الزام کو قبول کرنے کے لیے بے بس ہو گئے اور انہوں نے یہ وَقَالُوا حَمَلَهَا الْمَسِيحُ تَنْجِيَّةُ للأُمة کہنا شروع کر دیا کہ مسیح علیہ السلام نے امت کی نجات کی وَمَا كَانَتْ هَذِهِ الْمَعَاذِيرُ إِلَّا كَخَبْط خاطر اس لعنت کو قبول کر لیا تھا.لیکن یہ سب عذر اندھیرے عَشْوَاءَ، ثُمَّ بَعْدَ مُدَّةِ اتَّبَعُوا الْأَهْوَاءِ میں ہاتھ پیر مارنے کے مترادف تھے پھر کچھ مدت کے بعد وَجَعَلُوا مُتَعَبْدِيْنَ ابْنَ مَرْيَمَ لِله انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کی اور كَشُرَكَاء وَصَارَ صُعُودُ المسيح جان بوجھ کر ابن مریم کو اللہ کا شریک قرار دے دیا.اور تین وَحَمْلُهُ اللَّعْنَةِ عَقِيدَةُ بَعْدَ ثَلَاثَ سو سال بعد صحیح علیہ السلام کا آسمان پر چڑھ جانا اور لعنت کو مِائَةِ سَنَةٍ عِندَ الْمَسِيحِينَ، ثُمَّ قبول کرنا عیسائیوں کے نزدیک ایک عقیدہ قرار پا گیا پھر تبِعَ بَعْضَ خَيَالَاتِهِمْ بَعْدَ الْقُرُونِ مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سو سال الثَّلاثَةِ الفَي الأعوج من بعد میج اعوج میں عیسائیوں کے بعض خیالات کی تقلید شروع الْفَيْجِ الْأَعْوَجِ الْمُسْلِمِينَ.وَاعْلَمُ ، أَرْشَدَكَ اللهُ أَنَّ کر دی اور اے مخاطب ! اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے رَسُوْلَنَا مَا رَأى عيسى لِيْلة المعراج خوب سمجھ لو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات الْمِعْرَاجِ إِلَّا فِي أَرْوَاحِ الْأَمْوَاتِ وَإِنَّ في ذلك حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ لوگوں کی روحوں میں ہی لايَةٌ لذوى الْحَصَاةِ.وَكُلُّ مُؤْمِن يُرْفَعُ دیکھا تھا اور اس میں عقلمندوں کے لیے ایک نشان ہے.اور رُوحُه بَعْدَ الْمَوْتِ وَتُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ موت کے بعد ہی مومنوں کی روح کا رفع ہوتا ہے اور اس السَّمَاوَاتِ، فَكَيْفَ وَصَلَ الْمَسِيحُ کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۷ سورة النساء إِلَى الْمَوْلَى وَمَقَامَاتِهِمْ مَعَ أَنَّهُ كَانَ فِي رَبقَةِ حضرت مسیح علیہ السلام بقید حیات ہونے کے باوجود الحياة؟ الهدی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۲ تا ۳۶۴) وفات یافتہ لوگوں اور ان کے مقامات تک کیسے پہنچے.(ترجمه از مرتب) یہود کا جھگڑا تو صرف رفع روحانی کے بارہ میں تھا اور اُن کا خیال تھا کہ ایمانداروں کی طرح حضرت عیسی کی روح آسمان پر نہیں اُٹھائی گئی کیونکہ وہ صلیب دیئے گئے تھے اور جو صلیب دیا جائے وہ لعنتی ہے یعنی آسمان پر خدا کی طرف اس کی روح نہیں اُٹھائی جاتی اور قرآن شریف نے صرف اسی جھگڑے کو فیصلہ کرنا تھا جیسا کہ قرآن شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ یہود ونصاریٰ کی غلطیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے اور یہود کا جھگڑا تو یہ تھا کہ عیسی مسیح ایماندار لوگوں میں سے نہیں ہے اور اس کی نجات نہیں ہوئی اور اس کی روح کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوا.پس فیصلہ طلب یہ امر تھا کہ عیسی مسیح ایماندار اور خدا کا سچا نبی ہے یا نہیں اور اس کی روح کا رفع مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہیں.یہی قرآن شریف نے فیصلہ کرنا تھا.پس اگر آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ سے یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی کو معہ جسم عنصری دوسرے آسمان پر اُٹھا لیا تو اس کارروائی سے متنازعہ فیہ امر کا کیا فیصلہ ہوا ؟ گویا خدا نے امر متنازعہ فیہ کو سمجھا ہی نہیں اور وہ فیصلہ دیا جو یہودیوں کے دعوئی سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا.پھر آیت میں تو یہ صاف لکھا ہے کہ عیسی کا رفع خدا کی طرف ہوا.یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرے آسمان کی طرف رفع ہوا.کیا خدائے عزوجل دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے؟ یا نجات اور ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جسم بھی ساتھ ہی اُٹھایا جائے اور عجب بات یہ ہے کہ آیت بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں آسمان کا ذکر بھی نہیں بلکہ اس آیت کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ خدا نے اپنی طرف مسیح کو اُٹھا لیا.اب بتلاؤ کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل ،حضرت ،اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت موسی اور آنحضرت صلعم نعوذ باللہ کسی اور طرف اُٹھائے گئے تھے خدا کی طرف نہیں ؟ میں اس جگہ زور سے کہتا ہوں کہ اس آیت کی حضرت مسیح سے تخصیص سمجھنا یعنی رفع إِلَى اللهِ انہیں کے ساتھ خاص کرنا اور دوسرے نبیوں کو اس سے باہر رکھنا یہ کلمہ کفر ہے.اس سے بڑھ کر اور کوئی کفر نہ ہو گا.کیونکہ ایسے معنوں سے باستثناء حضرت عیسی تمام انبیاء کو رفع سے جواب دیا گیا ہے.حالانکہ آنحضرت صلعم نے معراج سے آکر ان کی رفع کی گواہی بھی دی اور یہ یادر ہے کہ حضرت عیسی کی رفع کا ذکر صرف یہودیوں کی تنبیہ اور دفع اعتراض کے لئے تھا.ورنہ یہ رفع تمام انبیاء اور رسل اور مومنوں میں عام
۴۲۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء ہے.مرنے کے بعد ہر ایک مومن کا رفع ہوتا ہے.چنانچہ آیت هذَا ذِكرُ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَأْبٍ - جَنْتِ عَدْنٍ مُّفَتَحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ (ص) :۵۱،۵۰) ( سورة ص پارہ ۲۳ ۱۳۶ ) میں اس رفع کی طرف اشارہ ہے.لیکن کافر کا رفع نہیں ہوتا چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف:۴۱) اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۶، ۲۱۷) اگر یہ بات صحیح ہے کہ آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ الله کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسی آسمان دوم کی طرف اُٹھائے گئے تو پھر پیش کرنا چاہئے کہ اصل متنازعہ فیہ امر کا فیصلہ کس آیت میں بتلایا گیا ہے.یہودی جواب تک زندہ اور موجود ہیں وہ تو حضرت مسیح کے رفع کے انہیں معنوں سے منکر ہیں کہ وہ نعوذ باللہ مومن اور صادق نہ تھے اور ان کی روح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور شک ہو تو یہودیوں کے علماء سے جا کر پوچھ لو کہ وہ صلیبی موت سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ اس موت سے روح معہ جسم آسمان پر نہیں جاتی.بلکہ وہ بالا تفاق یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ ملعون ہے.اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسی کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُيْهَ انکار لَهُمُ اور صلَبُوہ کے ساتھ آیت میں قتلوہ کا لفظ بڑھا دیا.تا اس بات پر دلالت کرے کہ صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب لعنت نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور بہ نیت قتل اس کی ٹانگیں بھی توڑی جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ موت ملعون کی موت کہلائے گی مگر خدا نے حضرت عیسی کو اس موت سے بچالیا.وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی.ہاں یہود کے دلوں میں یہ شبہ ڈال دیا کہ گویا وہ صلیب پر مر گئے ہیں اور یہی دھوکا نصاری کو بھی لگ گیا.ہاں انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہو گئے ہیں لیکن اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے تھے اور یہی معنی شبه لھم کے ہیں.(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۹) یہودی فاضل جواب تک موجود ہیں اور بمبئی اور کلکتہ میں بھی پائے جاتے ہیں عیسائیوں کے اس قول پر کہ حضرت عیسی آسمان پر چلے گئے بڑاٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں جنہوں نے اصل بات کو سمجھا نہیں.کیونکہ قدیم یہودیوں کا تو یہ دعویٰ تھا کہ جو شخص صلیب دیا جائے وہ بے دین ہوتا ہے اور اس کی روح آسمان پر اٹھائی نہیں جاتی.اس دعوی کے رو کرنے کے لئے عیسائیوں نے یہ بات بنائی کہ گویا حضرت عیسی مع جسم آسمان پر چلے گئے ہیں تا وہ داغ جو مصلوب ہونے سے حضرت عیسی پر لگتا تھا وہ وو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ سورة النساء دُور کر دیں مگر اس منصو بہ میں انہوں نے نہایت نادانی ظاہر کی کیونکہ یہودیوں کا یہ تو عقیدہ نہیں کہ جو شخص مع جسم آسمان پر نہ جاوے وہ بے دین اور کافر ہوتا ہے اور اس کی نجات نہیں ہوتی.کیونکہ بموجب عقیدہ یہودیوں کے حضرت موسیٰ بھی مع جسم آسمان پر نہیں گئے.یہودیوں کی حجت تو یہ تھی کہ بموجب حکم توریت کے جو شخص کا لٹھ پر لٹکایا جائے اس کی روح آسمان پر اُٹھائی نہیں جاتی کیونکہ صلیب جرائم پیشہ لوگوں کے ہلاک کرنے کا آلہ ہے.پس خدا اس سے پاک تر ہے کہ ایک مظہر اور راستباز مومن کو صلیب کے ذریعہ ہلاک کرے سو توریت میں یہی حکم لکھ دیا گیا کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ مومن نہیں اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی نہیں جاتی یعنی رفع الی اللہ نہیں ہوتا اور جب کہ مسیح صلیب کے ذریعہ سے ہلاک ہو گیا تو اس سے نعوذ باللہ بقول یہود ثابت ہو گیا کہ وہ ایمان دار نہ تھا.اور اس کی رُوح خدا تعالی کی طرف اٹھائی نہیں گئی.پس اس کے مقابل پر یہ کہنا کہ میسیج مع جسم آسمان پر چلا گیا یہ حماقت ہے اور ایسے بیہودہ جواب سے یہودیوں کا اعتراض بدستور قائم رہتا ہے کیونکہ ان کا اعتراض رفع روحانی کے متعلق ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو نہ رفع جسمانی کے متعلق جو آسمان کی طرف ہو.اور قرآن شریف جو اختلاف نصاری اور یہود کا فیصلہ کرنے والا ہے اس نے اپنے فیصلہ میں یہی فرمایا بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ کہ یعنی خدا نے عیسی کو اپنی طرف اٹھا لیا.اور ظاہر ہے کہ خدا کی طرف رُوح اٹھائی جاتی ہے نہ جسم.خدا نے یہ تو نہیں فرمایا که بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ بلکہ فرمایا کہ بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ اور اس مقام میں خدا تعالیٰ کا صرف یہ کام تھا جو یہودیوں کا اعتراض دُور کرتا جو رفع روحانی کے انکار میں ہے اور نیز عیسائیوں کی غلطی کو دُور فرما تا.پس خدا تعالیٰ نے ایک ایسا جامع لفظ فرمایا جس سے دونوں فریق کی غلطی کو ثابت کر دیا.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ اللهِ صرف یہی ثابت نہیں کرتا کہ مسیح کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف ہو گیا اور وہ مومن ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ آسمان کی طرف اس کا رفع نہیں ہوا کیونکہ خدا تعالیٰ جو جسم اور جہات اور احتیاج مکان سے پاک ہے اس کی طرف رفع ہونا صاف بتلا رہا ہے کہ وہ جسمانی رفع نہیں بلکہ جس طرح اور تمام مومنوں کی روحیں اُس کی طرف جاتی ہیں.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی رُوح بھی اُس کی طرف گئی.ہر ایک ذی علم جانتا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے کہ جب مومن فوت ہوتا ہے اس کی روح خدا کی طرف جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَآيَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر : ۲۸ تا ۳۱).یعنی اے رُوح اطمینان یافته
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۰ سورة النساء اپنے رب کی طرف واپس چلی آوہ تجھ سے راضی اور تو اُس سے راضی.اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا.اور یہی یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ مومن کی رُوح کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور بے دین اور کافر کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر اور بے دین سمجھتے تھے کہ اس شخص نے خدا پر افتراء کیا ہے اور یہ سچا نبی نہیں ہے.اور اگر سچا ہوتا تو اس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آتا.اسی لئے وہ لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے اور اب تک رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی کی رُوح مومنوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں گئی بلکہ نعوذ باللہ شیطان کی طرف گئی.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہود کو جھوٹا ٹھہرایا اور ساتھ ہی عیسائیوں کو بھی دروغ گو قرار دیا.یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام پر بڑے بڑے افتراء کئے ہیں.ایک جگہ طالمود میں جو یہودیوں کی حدیثوں کی کتاب ہے لکھا ہے کہ یسوع کی لاش کو جب دفن کیا گیا تو ایک باغبان نے جس کا نام یہودا اسکر یوٹی تھا لاش کو قبر سے نکال کر ایک جگہ پانی کے روکنے کے واسطے بطور بندھ کے رکھ دیا.یسوع کے شاگردوں نے جب قبر کو خالی پایا تو شور مچادیا کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا تب وہ لاش ملکہ میلینیا کے رو بروسب کو دکھائی گئی اور یسوع کے شاگر دسخت شرمندہ ہوئے (لعنة اللہ علی الکاذبین) دیکھو جیوئش انسائیکلو پیڈ یا صفحہ ۱۷۲ جلد نمبرے.یہ انسائیکلو پیڈیا یہودیوں کی ہے.(براہین احمدیہ حصہ پیم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۸تا۳۴۲ حاشیه ) اگر خدا تعالیٰ کی ان آیات میں یعنی بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مع جسم عصری دوسرے یا چوتھے آسمان پر پہنچائے گئے تھے تو ہمیں کوئی بتلائے کہ یہودیوں کے اس اعتراض کا کن آیات میں جواب سے جو وہ کہتے ہیں جو مومنوں کی طرح حضرت عیسی کا رفع روحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوا.یہ تو نعوذ باللہ قرآن شریف کی ہتک ہے کہ اعتراض تو یہودیوں کا کوئی اور تھا اور جواب کوئی اور دیا گیا.گویا خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا منشاء نہیں سمجھا.یہودی تو اس بارے میں حضرت عیسی سے کوئی خصوصیت کا معجزہ نہیں چاہتے تھے.ان کا تو یہی اعتراض تھا کہ عام مومنوں کی طرح اُن کا رفع نہیں ہوا.اور ان کا جواب تو صرف ان الفاظ سے دینا چاہیئے تھا کہ ان کا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہو گیا ہے.پس اگر ممدوحہ بالا آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ آسمان پر بٹھانے کا مطلب ہے تو یہ یہودیوں کے اعتراض کا جواب نہیں ہے.قرآن شریف کی نسبت یہ خیال کہ سوال دیگر اور جواب دیگر ایسا خیال تو کفر تک پہنچ جاتا ہے جب کہ قرآن شریف کا یہ بھی منصب ہے کہ یہود کی اُن غلط تہمتوں کو دور کرے جو حضرت عیسی پر انہوں نے لگائی
۴۳۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء تھیں تو مجملہ ان تہمتوں کے یہ بھی یہود کی ایک تہمت تھی کہ وہ حضرت عیسی کے رفع روحانی کے منکر تھے اور اس طور سے نعوذ باللہ ان کو کافر ٹھہراتے تھے.پس قرآن شریف کا فرض تھا کہ اس تہمت سے اُن کو بری کرتا.سو اگر ان آیتوں میں اس نے حضرت عیسی کو اس تہمت سے بری نہیں کیا تو قرآن شریف میں سے اور ایسی آیتیں پیش کرنی چاہئیں جن میں اس نے اس تہمت سے حضرت عیسی کو بری کر دیا ہے.(ضمیمه بر این احمدیہ حصہ پایم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۴۰ حاشیه ) خدا تعالیٰ کے اس کلام سے کہ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ یہ معنی نکالنا کہ حضرت عیسی مع جسم عصری دوسرے آسمان پر حضرت بیٹی کے پاس جا بیٹھے کس قدر نا نہیں اور نادانی ہے.کیا خدائے عزوجل دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور کیا قرآن میں رفع الی اللہ کے معنی کسی اور محل میں بھی یہ آئے ہیں کہ آسمان پر مع جسم عنصری اُٹھا لینا اور کیا قرآن شریف میں اس کی کوئی نظیر ہے کہ جسم عنصری بھی آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے؟ اور اس آیت کے مشابہ دوسری آیت بھی قرآن شریف میں موجود ہے اور وہ یہ کہ يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ ارْجِعِى إلى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيّةً (الفجر : ۲۹،۲۸).پس کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اے نفس مطمئنہ مع جسم عصری دوسرے آسمان پر چلا جا! اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بلعم باعور کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی طرف اُس کا رفع چاہا مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا.کیا اس آیت کے بھی یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ بلعم باعور کو مع جسم عصری آسمان پر اُٹھانا چاہتا تھا مگر بعلم نے زمین پر رہنا ہی پسند کیا.افسوس کس قدر قرآن شریف کی تحریف کی جاتی ہے.یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوہ موجود ہے اس سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں.مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ کسی شخص کا نہ مقتول ہونا نہ مصلوب ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ مع جسم عصری آسمان پر اُٹھایا گیا ہو.اگلی آیت میں صریح یہ لفظ موجود ہیں کہ لكن شُبّه لَهُمْ یعنی یہودی قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے.مگر اُن کو شبہ میں ڈالا گیا کہ ہم نے قتل کر دیا ہے.پس شبہ میں ڈالنے کے لئے اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ کسی اور مومن کو مصلوب کر کے لعنتی بنایا جائے.یا خود یہودیوں میں سے کسی کو حضرت عیسی کی شکل بنا کر صلیب پر چڑھایا جاوے.کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص اپنے تئیں حضرت عیسی کا دشمن ظاہر کر کے اور اپنے اہل وعیال کے پتے اور نشان دے کر ایک دم میں مخلصی حاصل کر سکتا تھا اور کہ سکتا تھا کہ میسی نے جادو سے مجھے اپنی شکل پر بنادیا ہے یہ کس قدر مجنونانہ تو ہمات ہیں.کیوں لیکن شُبه لَهُمْ کے معنی یہ نہیں کرتے کہ حضرت عیسی صلیب پر فوت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۲ سورة النساء نہیں ہوئے.مگر غشی کی حالت اُن پر طاری ہوگئی تھی بعد میں دو تین روز تک ہوش میں آگئے اور مرہم عیسی کے استعمال سے ( جو آج تک صد باطبی کتابوں میں موجود ہے جو حضرت عیسی کیلئے بنائی گئی تھی ) اُن کے زخم بھی اچھے ہو گئے.پھر ایک اور بدقسمتی ہے کہ وہ ان آیتوں کے شان نزول کو نہیں دیکھتے.قرآن شریف یہود ونصاری کے اختلافات دور کرنے کے لئے بطور حکم کے تھا تا اُن کے اختلافات کا فیصلہ کرے اور اُس کا فرض تھا کہ اُن کے متنازعہ فیہ امور کا فیصلہ کرتا پس منجملہ متنازعہ فیہ امور کے ایک یہ امر بھی متنازعہ فیہ تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہماری توریت میں لکھا ہے کہ جو کاٹھ پر لٹکایا جاوے وہ لعنتی ہوتا ہے اُس کی روح مرنے کے بعد خدا کی طرف نہیں جاتی.پس چونکہ حضرت عیسیٰ صلیب پر مر گئے اس لئے وہ خدا کی طرف نہیں گئے اور آسمان کے دروازے اُن کے لئے نہیں کھولے گئے.اور عیسائیوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عیسائی تھے اپنا یہ عقیدہ مشہور کیا تھا چنانچہ آج تک وہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی صلیب پر جان دے کر لعنتی تو بن گئے مگر یہ لعنت اور وں کو نجات دینے کے لئے انہوں نے خود اپنے سر پر لے لی تھی اور آخر وہ نہ جسم عنصری کے ساتھ بلکہ ایک نئے اور ایک جلالی جسم کے ساتھ جو خون اور گوشت اور ہڈی اور زوال پذیر ہونے والے مادہ سے پاک تھا خدا کی طرف اُٹھائے گئے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں متخاصمین کی نسبت یہ فیصلہ دیا کہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ عیسی کی صلیب پر جان نکلی یا و قتل ہوا تا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ وہ بموجب حکم تو ریت لعنتی ہے بلکہ وہ صلیبی موت سے بچایا گیا اور مومنوں کی طرح اُس کا خدا کی طرف رفع ہوا اور جیسا کہ ہر ایک مومن ایک جلالی جسم خدا سے یا کر خدائے عزوجل کی طرف اُٹھایا جاتا ہے وہ بھی اُٹھائے گئے اور اُن نبیوں میں جا ملے جو اُن سے پہلے گزر چکے تھے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان سے سمجھا جاتا ہے کہ جو آپ نے معراج سے واپس آ کر بیان فرمایا کہ جیسے اور نبیوں کے مقدس اجسام دیکھے ویسا ہی حضرت عیسی کو بھی انہیں کے رنگ میں پایا اور اُن کے ساتھ پا یا کوئی نرالا جسم نہیں دیکھا.پس یہ مسئلہ کیسا صاف اور صریح تھا کہ یہودیوں کا انکار محض رفع روحانی سے تھا کیونکہ وہی رفع ہے جو لعنت کے مفہوم کے برخلاف ہے مگر مسلمانوں نے محض اپنی نا واقفیت کی وجہ سے رفع روحانی کو رفع جسمانی بنادیا.یہودیوں کا ہرگز یہ اعتقاد نہیں کہ جو شخص مع جسم عنصری آسمان پر نہ جاوے وہ مومن نہیں بلکہ وہ تو آج تک اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ جس کا رفع روحانی نہ ہو اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۳ سورة النساء جائیں وہ مومن نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن شریف بھی فرماتا ہے لا تُفتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (ص :۵۱،۵۰) وو یعنی کافروں کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے.مگر مومنوں کیلئے فرماتا ہے مُفتَعَةٌ لَهُمُ الأبواب (الاعراف:۴۱).یعنی مومنوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے.پس یہودیوں کا یہی جھگڑا تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کا فر ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف اُن کا رفع نہیں ہوا.یہودی اب تک زندہ ہیں مر تو نہیں گئے.اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا کیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ مرتو مع جسم عصری آسمان پر نہیں جاتا اور اُس کے جسم کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا.جہالت بھی ایک عجیب بلا ہے.مسلمانوں نے اپنی نانہی سے کہاں کی بات کہاں تک پہنچا دی اور ایک فوت شدہ انسان کے دوبارہ آنے کے منتظر ہو گئے حالانکہ حدیثوں میں حضرت عیسی کی عمر ایک سو بیس برس مقرر ہو چکی ہے.کیا وہ ایک سو بیس برس اب تک نہیں گزرے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷ تا ۴۰) اگر آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ الله کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسی مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے تو ہمیں کوئی دکھلائے کہ قرآن شریف میں وہ آیت کہاں ہے جو امر متنازعہ فیہ کا فیصلہ کرتی ہے یعنی جس میں یہ لکھا ہے کہ حضرت عیسی کا بعد موت مومنوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہوگا اور وہ مرنے کے بعد بیٹی وغیرہ انبیاء کے ساتھ جا ملیں گے کیا نعوذ باللہ خدا کو یہ دھو کہ لگا کہ یہود کی طرف سے انکار تو تھا اُن کے رفع روحانی کا جو مومن کا بعد موت ہوتا ہے اور خدا نے کچھ اور کا اور سمجھ لیا.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ هَذَا الْإِفْتِرَاءِ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۹ حاشیه ) یہود کا اعتراض تو یہی تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی چونکہ سولی چڑھائے گئے ہیں اس واسطے وہ ملعون ہیں اور صاف بات ہے کہ ملعون کا رفع روحانی نہیں ہو سکتا.اسی کے جواب میں قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ بَلْ دَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ - اچھا ہم یہ دریافت کرتے ہیں کہ اگر یہودیوں کا یہی اعتراض تھا کہ حضرت عیسی کا رفع جسمانی نہیں ہوا تو پھر قرآن شریف جو کہ ان دونوں قوموں میں حکم ہو کر آیا ہے اس نے یہود کے اس اعتراض کا کیا جواب دیا ہے.کیا وجہ کہ قرآن شریف نے یہود کے اصل اعتراض کا تو کہیں جواب نہ دیا اور رفع روحانی پر اتنا زور دیا اور رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ فرمایا رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ کیوں نہ فرمایا ہے؟ عرش الہی ایک وراء الوراء مخلوق ہے جو زمین سے اور آسمان سے بلکہ تمام جہات سے برابر ہے.یہ نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۴ سورة النساء کہ نعوذ باللہ عرش الہی آسمان سے قریب اور زمین سے دور ہے.لعنتی ہے وہ شخص جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے عرش مقام تنزیہہ ہے اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر ناظر ہے جیسا کہ فرماتا ہے هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمُ (الحدید: ۵).اور مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمُ (المجادلة : ۸).اور فرماتا ہے کہ وَنَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: ۱۷).غرض اصل جھگڑا تو صرف ان کے رفع روحانی اور مقرب بارگاہ سلطانی ہونے کے متعلق تھا.سو اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ ہی کر دیا یہ فرما کر کہ بَلْ زَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.اب کوئی بتائے کہ بھلا اس سے ان کا آسمان پر چڑھ جانا کیسے ثابت ہوتا ہے.کیا خدا آسمان پر ہے اور زمین پر نہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۱ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲) اصل جھگڑا تو یہود کا یہ تھا کہ حضرت مسیح کا رفع روحانی نہیں ہوا.وہ تو اس بات کو ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ مسیح لعین اور مردود ہیں اسی واسطے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہم نے مسیح کو صلیب دیا اور اس طرح ان کو قتل کرنے کے مدعی تھے تا کہ اپنی کتاب کے فرمودہ کے مطابق ان کو جھوٹا نبی ثابت کریں.رفع جسمانی کے متعلق تو کوئی جھگڑا ہی نہ تھا.قرآن شریف چونکہ بنی اسرائیل کے متنازعہ فیہ امور میں حکم اور قول فیصل ہے اس نے یہود کے اس اعتراص اور بہتان کا جو انہوں نے مسیح کو لعنتی اور جھوٹا نہی ثابت کرنے کے واسطے باندھا تھا جواب دیا کہ مَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ.کہ یہود نے جیسا کہ ان کا زعم ہے حضرت مسیح کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی اس طرح سے وہ ان کو جھوٹا نبی ثابت کرنے کے دعوی میں کامیاب ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا رفع روحانی کیا اور ان کو ایسی ذلت اور ادبار سے بچالیا.اگر رفع جسمانی ہی نجات اور پاکیزگی اور مقبول اور محبوب الہی ہونے کا موجب ہے تو پھر تو سارے ہی نبی جھوٹے ٹھیر تے ہیں اور کوئی بھی نجات یافتہ نہیں رہتا چہ جائیکہ کوئی خدا کا محبوب اور مقبول بھی ہو ( نعوذ باللہ من ذلک ) تعصب نے ان کو کسی کام کا نہ چھوڑا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۷ ۴ مورخه ۱۴ /اگست ۱۹۰۸ صفحه ۴) وَ اِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدان سوال قرآن شریف کی آیت مندرجہ ذیل مسیح ابن مریم کی زندگی پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے وان مِنْ أَهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۵ سورة النساء کتاب اس پر ایمان لے آویں گے.سو اس آیت کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح اس وقت تک جیتار ہے جب تک کہ تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں.انا الجواب.پس واضح ہو کہ سائل کو یہ دھوک لگا ہے کہ اس نے اپنے دل میں یہ خیال کر لیا ہے کہ آیت فرقانی کا یہ منشاء ہے کہ میچ کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب کے فرقوں کا اُس پر ایمان لانا ضروری ہے.کیونکہ اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم کر لیں کہ آیت موصوفہ بالا کے یہی معنے ہیں جیسا کہ سائل سمجھا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ زمانہ صعود مسیح سے اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو جس قدر اہل کتاب دنیا میں گزرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہوں.حالانکہ یہ خیال بہداہت باطل ہے.ہر یک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر اب تک واصل جہنم ہو چکے ہیں اور خدا جانے آئندہ بھی کس قدر کفران کی وجہ سے اس آتشی تنور میں پڑیں گے اگر خدائے تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ وہ تمام اہل کتاب فوت شدہ مسیح کے نازل ہونے کے وقت اُس پر ایمان لاویں گے تو وہ اُن سب کو اُس وقت تک زندہ رکھتا جب تک کہ مسیح آسمان سے نازل ہوتا لیکن اب مرنے کے بعد اُن کا ایمان لانا کیوں کر ممکن ہے؟ بعض لوگ نہایت تکلف اختیار کر کے یہ جواب دیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت خدائے تعالیٰ اُن سب اہل کتاب کو پھر زندہ کرے جو مسیح کے وقت بحث سے مسیح کے دوبارہ نزول تک کفر کی حالت میں مر گئے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو کوئی کام خدائے تعالیٰ سے غیر ممکن نہیں لیکن زیر بحث تو یہ امر ہے کہ کیا قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ان خیالات کا کچھ نشان پایا جاتا ہے اگر پایا جاتا ہے تو کیوں وہ پیش نہیں کیا جاتا؟.بعض لوگ کچھ شرمندے سے ہو کر دبی زبان یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اور وہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آویں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مومنوں کی فوج میں داخل ہو جا ئیں گے لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں اوّل تو آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تمیم کا دے رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو سیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے.اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو.علاوہ اس کے یہ معنے بھی جو پیش کئے گئے ہیں بداہت فاسد ہیں.کیونکہ احادیث بآواز بلند بتلا رہی ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۶ سورة النساء کہ مسیح کے دم سے اُس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیر اہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے اور کچھ ضرور نہیں کہ ہم بار بار ان حدیثوں کو نقل کریں.اسی رسالہ میں اپنے موقعہ پر دیکھ لینا چاہیئے ماسوا اس کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ مسلمہ ہے کہ دجال بھی اہل کتاب میں سے ہی ہوگا اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان نہیں لائے گا.اب میں اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس خیال کے پیروان حدیثوں کو پڑھ کر کس قدر شرمندہ ہوں گے.یہ بھی مانا گیا اور مسلم میں موجود ہے کہ مسیح کے بعد شریر رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی.اگر کوئی کا فرنہیں رہے گا تو وہ کہاں سے آ جائے گی.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۸ تا ۲۹۰) إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتب الا ليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ پیشگوئی کی صورت پر نہیں جیسا کہ ہمارے بھائی مولوی صاحبان جو بڑے علم کا دم مارتے ہیں خیال کر رہے ہیں.بلکہ یہ تو اس واقعہ کا بیان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھا یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے خیالات کی جو اُس وقت حالت تھی خدائے تعالیٰ اتماما للحجة اُنہیں سنا رہا ہے اور اُن کے دلوں کی حقیقت اُن پر ظاہر کر رہا ہے اور اُن کو ملزم کر کے انہیں یہ سمجھا رہا ہے کہ اگر ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو مقابل پر آ کر صاف طور پر دعویٰ کرو کہ یہ خبر غلط بتائی گئی ہے اور ہم لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ یقینی طور پر سمجھ بیٹھے ہیں کہ سچ سچی مسیح مصلوب ہو گیا ہے.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ آخر آیت میں جو یہ لفظ واقعہ ہے کہ قبلَ مَوْتِهِ اس کلام سے اللہ جل شانہ کا یہ مطلب ہے کہ کوئی شخص مسیح کی عدم مصلوبیت سے یہ نتیجہ نہ نکال لیوے کہ چونکہ مسیح صلیب کے ذریعہ سے مارا نہیں گیا اس لئے وہ مرا بھی نہیں.سو بیان فرما دیا کہ یہ تمام حال تو قبل از موت طبعی ہے اس سے اُس موت کی نفی نہ نکال لینا جو بعد اس کے طبعی طور پر مسیح کو پیش آگئی.گویا اس آیت میں یوں فرماتا ہے کہ یہود اور نصاری ہمارے اس بیان پر بالا تفاق ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح یقینی طور پر صلیب کی موت سے نہیں مرا صرف شکوک و شبہات ہیں.سو قبل اس کے جو وہ لوگ مسیح کی موت طبعی پر ایمان لاویں جو درحقیقت واقعہ ہو گئی ہے.اس موت کے مقدمہ پر انہیں ایمان ہے کیونکہ جب مسیح صلیب کی موت سے نہیں مراجس سے یہود اور نصاری اپنے اپنے اغراض کی وجہ سے خاص خاص نتیجے نکالنے چاہتے تھے تو پھر اُس کی طبعی موت پر بھی ایمان لانا اُن کے لئے ضروری ہے کیونکہ پیدائش کے لئے موت لازمی ہے.سو قبل موتہ کی تفسیر یہ کہ قبل ایمانه بموته.
۴۳۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء اور دوسرے طور پر آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ مسیح تو ابھی مرا بھی نہیں تھا کہ جب سے یہ خیالات شک و شبہ کے یہود و نصاری کے دلوں میں چلے آتے ہیں.پس ان معنوں کی رُو سے بھی قرآن کریم بطور اشارة النص مسیح کے فوت ہو جانے کی شہادت دے رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۸،۲۹۷) بعض نا فہم مولوی بطور جرح یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ مسیح ابن مریم کی یہ علامت لکھی ہے کہ دجال معہود کو وہ تقل کرے گا اور تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں گے اور اس خیال کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے ہيں وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ میں کہتا ہوں کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مسیح کے نزول کے وقت تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے تو پھر ہم ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ دجال کفر کی حالت میں ہی قتل کیا جائے گا.ماسوا اس کے مسلم کی حدیث میں صاف لکھا ہے کہ دجال کے ساتھ ستر ہزار اہل کتاب شامل ہو جائیں گے اور اکثر کی اُن میں سے کفر پر موت ہوگی اور مسیح کی وفات کے بعد بھی اکثر لوگ کا فر اور بے دین باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی اور قرآن کریم بھی صریح اور صاف طور پر اس پر شہادت دیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے.يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ (ال عمران (۵۶) یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دوں گا.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے دن تک یہود کی نسل تھوڑی بہت باقی رہ جائے گی اور پھر فرماتا ہے فَاغْرَینَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ (المائدة : ۱۵) یعنی ہم نے یہود اور نصاریٰ میں قیامت کے دن تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے.اس آیت سے بھی صاف طور پر ثابت ہے کہ یہودی قیامت کے دن تک رہیں گے کیونکہ اگر وہ پہلے ہی حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے تو پھر سلسلہ عداوت اور بغض کا قیامت تک کیوں کر مند ہوگا.لہذا ماننا پڑا کہ ایسا خیال کہ حضرت مسیح کے نزول کی یہ علامت ہے کہ تمام اہل کتاب اُس پر ایمان لے آویں گے صریح نص قرآن اور حدیث سے مخالف ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۸،۴۹۷) اگر فرض کے طور پر یہ مان لیا جائے کہ آیت موصوفہ میں لفظ لَيُؤْمِنَنَّ استقبال کے ہی معنی رکھتا ہے پھر بھی کیوں کر یہ آیت مسیح کی زندگی پر قطعیۃ الدلالہ ہو سکتی ہے کیا استقبالی طور پر یہ دوسرے معنے بھی نہیں ہو سکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے کیونکہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبر دیتی ہے بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت
۴۳۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء صریحہ ہے اس واسطے کہ دوسری قراءت میں یوں آیا ہے جو بیضاوی وغیرہ میں لکھی ہیں الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے مسیح ابن مریم پر ایمان لے آویں گے اب دیکھئے کہ قبل موتہ کی ضمیر جو آپ حضرت مسیح کی طرف پھیرتے تھے دوسری قراءت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت مسیح کی طرف نہیں بلکہ اہل کتاب فرقہ کی طرف پھرتی ہے.آپ جانتے ہیں کہ قراءت غیر متواترہ بھی حکم حدیث احاد کا رکھتی ہے اور آیات کے معنوں کے وقت ایسے معنے زیادہ تر قبول کے لائق ہیں جو دوسری قراءت کے مخالف نہ ہوں.اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ یہ آیت جس کی دوسری قراءت آپ کے خیال کو بکلی باطل ٹھہرا رہی ہے.کیوں کر قطعی الدلالہ پھہر سکتی ہے.ماسوا اس کے.....ہر ایک جگہ اور ہر ایک مقام میں نون ثقیلہ کے ملانے سے مضارع استقبال نہیں بن سکتا.قرآن کریم کے لئے قرآن کریم کی نظیریں کافی ہیں اگر چہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم کے مضارعات پر جب نون ثقیلہ ملا ہے تو وہ استقبال کے معنوں پر مستعمل ہوئے ہیں.لیکن بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یا حال اور استقبال بلکہ ماضی بھی اشترا کی طور پر ایک سلسلہ متصلہ ممتد ہ کی طرح مراد لئے گئے ہیں.یعنی ایسا سلسلہ جو حال یا ماضی سے شروع ہوا اور استقبال کی انتہا تک بلا انقطاع برابر چلا گیا.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۲) فرض کے طور پر اگر آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ حضرت عیسی کے نزول کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے سب مسلمان ہو جائیں گے جیسا کہ ابو مالک سے آپ نے روایت کیا ہے تو مجھے مہربانی فرما کر سمجھا دیں کہ یہ معنے کیوں کر درست ٹھہر سکتے ہیں.آپ تسلیم کر چکے ہیں کہ میچ کے دم سے اس کے نزول کے بعد ہزار ہا لوگ کفر کی حالت میں مریں گے.اب اگر آپ ان کفار کو جو کفر پر مر گئے مومن ٹھہراتے ہیں یا اس جگہ ایمان سے مراد یقین رکھتے ہیں تو اس دعوے پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے.حدیث میں تو صرف کفر پر مرنا ان کا لکھا ہے یہ آپ نے کہاں سے اور کس جگہ سے نکال لیا ہے کہ کفر پر تو مریں گے مگر ان کو حضرت عیسیٰ کی رسالت پر یقین ہوگا اور کس نص قرآن یا حدیث سے آپ کو معلوم ہوا کہ اس جگہ ایمان سے مراد حقیقی ایمان نہیں بلکہ یقین مراد ہے ظاہر لفظ ایمان کا حقیقی ایمان پر دلالت کرتا ہے اور صرف عن الظاہر کے لئے کوئی قرینہ آپ کے پاس چاہئے.جب کہ لفظ لفظ آیت میں یہ شبہات ہیں تو پھر آیت قطعیۃ الدلالت کیوں کر ہوئی اگر آپ لیؤمنن سے بغیر کسی قرینہ کے مجازی ایمان مراد لیں گے تو آپ کے مخالف کا حق ہوگا کہ وہ حقیقی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۹ سورة النساء معنی مراد لیوے آپ کو سوچنا چاہئے کہ ایسے ایمان سے فائدہ ہی کیا ہے اور مسیح کی خصوصیت کیا ٹھہری ایسا تو ہر ایک نبی کے زمانہ میں ہوا کرتا ہے کہ بد بخت لوگ زبان سے اس کے منکر ہوتے ہیں اور دل سے یقین کر جاتے ہیں......آیت کے یہ معنی ہیں کہ مسیح کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ اس زمانہ کے اہل کتاب ان پر ایمان لے آویں گے اور اس زمانہ سے پہلے کفر پر مرنے والے کفر پر مریں گے....ان کا لفظ تو ایسا کامل حصر کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جائے تو یہ لفظ بیکار اور غیر مؤثر ٹھہرتا ہے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۶،۱۶۵) میں ثابت کرتا ہوں کہ اگر فی الحقیقت نحویوں کا یہی مذہب ہے کہ نون ثقیلہ سے مضارع خالص مستقبل کے معنوں میں آجاتا ہے اور کبھی اور کسی مقام اور کسی صورت میں اس کے برخلاف نہیں ہوتا تو انہوں نے سخت غلطی کی ہے.قرآن کریم ان کی غلطی ظاہر کر رہا ہے اور اکابر صحابہ اس پر شہادت دے رہے ہیں.حضرت انسانوں کی اور کوششوں کی طرح نحویوں کی کوششیں بھی خطا سے خالی نہیں.آپ حدیث اور قرآن کو چھوڑ کر کس جھگڑے میں پڑ گئے.اور اس خیال خام کی نحوست سے آپ کو تمام اکابر کی نسبت بدظنی کرنی پڑی کہ وہ سب تفسیر آیت ليُؤْمِنَنَّ بِہ میں غلطی کرتے رہے.ابھی میں انشاء اللہ القدیر آپ پر ثابت کروں گا کہ آیت لیؤْمِلَن پہ آپ کے معنوں پر اس صورت میں قطعیۃ الدلالت ٹھہر سکتی ہے کہ ان سب بزرگوں کی قطعیۃ الجہالت ہونے پر فتولی لکھا جائے اور نعوذ باللہ نبی معصوم کو بھی ان میں داخل کر دیا جائے ورنہ آپ کبھی اور کسی صورت میں قطعیت کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتے اور کوئی تقوی شعار علماء میں سے اس قطعیت کے دعوے میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوگا اور کیوں کر شریک ہو.شریک تو تب ہو کہ بہت سے بزرگوں اور صحابہ کو جاہل قرار دیوے اور نبی مسلم پر بھی اعتراض کرے.سُبحانه هذا بہتان عظیم - اب میں آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسی کے نزول کے لئے قطعية الدلالت قرار دیا ہے یا کچھ اور ہی معنے لکھے ہیں.سو واضح ہو کہ کشاف صفحہ ۱۹۹ میں لَيُؤْمِنَنَّ بِہ کی آیت کے نیچے یہ تفسیر ہے جُمْلَةٌ قَسْبِيَّةٌ وَاقِعَةٌ صِفَةٌ لِمَوْصُوفٍ فَخَذُوْفٍ تَقْدِيرُهُ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَب اَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِعِيسَى وَبِأَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ يَعْنِي إِذَا عَايَنَ قَبْلَ أَن تَزْهَقَ رُوحُهُ حِيْنَ لا يَنفَعُهُ إيْمَانُهُ لِانْقِطَاعِ وَقْتِ التَّكْلِيفِ وَعَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْ شَبَ قَالَ لِي الْحَجَاجُ ايَةٌ مَّا قَرَيْتُهَا إِلَّا تُخَالِجُ فِي نَفْسِى شَيْءٍ مِّنْهَا يَعْنِي هَذِهِ الْآيَةَ إِنِّي أَضْرِبُ عُنُقَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۰ سورة النساء الْآسِيرِ مِنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَلَا أَسْمَعُ مِنْهُ ذَالِك فَقُلْتُ إِنَّ الْيَهُودِقَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ دُبُرَهُ وَوَجْهَهُ وَقَالُوا يَاعَدُوَاللهِ اتَاكَ عِيسَى نَبِيًّا فَكَذَّبْتَ بِهِ فَيَقُولُ امَنتُ أنَّه عَبْد نَبِيٌّ وَ تَقُولُ لِلنَّصْرَانِي آتَاكَ عِيسَى نَبِيًّا فَزَعَمْتَ أَنَّهُ اللهُ أَوِ ابْنُ اللهِ فَيُؤْمِنُ أَنَّه عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاس أَنَّهُ فَسَّرَهُ كَذلِكَ فَقَالَ لَهُ عِكْرِمَهُ فَإِنْ آتَاهُ رَجُلٌ فَضُرِبَ عُنْقُه قَالَ لا تَخْرُجُ نَفْسُهُ حَتَّى يَتَحَرَّكَ بِهَا شَفَتَيْهِ قَالَ عِكْرَمَةُ وَإِنْ خَرَّ مِنْ فَوْقِ بَيْت أَوِ احْتَرَقَ أو اكله سبع قَالَ يَتَكَلَّمُ بِهَا فِي الْهَوَاء وَلا تَخْرُجُ رُوحُهُ حَتَّى يُؤْمِن بِهِ وَ تَدلُ عَلَيْهِ قِرَاءَةُ أَبِي إِلَّا لَيُؤْمِنُنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمْ بِضَةِ النُّونِ عَلَى مَعْلَى وَإِنْ مِّنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنُونَ قَبْلَ مَوْتِهِمْ وَقِيلَ الضَّمِيرُ إِنْ لِعِيسَى يَعْنِى وَإِنْ مِّنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ يَعْنِي قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى أَهُمْ أَهْلُ الْكِتَبِ الَّذِينَ يَكُونُونَ فِي زَمَانِ نُزُوْلِهِ رُوِيَ أَنَّهُ يَنْزِلُ فِي أَخِرِ الزَّمَانِ فَلا يَبْقَى أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الَّايُؤْمِنُ بِهِ حَتَّى تَكُونَ المِلةُ وَاحِدَةً وَهِيَ مِله الْإِسْلامِ وَقِيلَ الضَّمِيرُ فِي بِهِ يَرْجِعُ إِلَى اللهِ تَعَالَى وَقِيلَ إلى مُحَمَّدِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ترجمہ یعنی ليُؤْمِکن به جمله قسمیہ ہے اور آیت موصوف محذوف کے لئے صفت ہے اور محذوف کو ملانے کے ساتھ اصل عبارت یوں ہے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے عیسی پر ایمان نہ لاوے اور نیز اس بات پر ایمان لاوے کہ وہ اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہے یعنی جس وقت جان کندن کا وقت ہو جب کہ ایمان بوجہ انقطاع وقت تکلیف کے کچھ نفع نہیں دیتا.اور شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ مجھے حجاج نے کہا کہ ایک آیت ہے کہ جب کبھی میں نے اس کو پڑھا تو اس کی نسبت میرے دل میں ایک خلجان گزرا یعنی یہی آیت اور خلجان یہ ہے کہ مجھے کتابی اسیر قتل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے اور میں یہود یا نصاری کی گردن مارتا ہوں اور میں اس کے مرنے کے وقت یہ نہیں سنتا کہ میں عیسی پر ایمان لایا.ابن حوشب کہتا ہے کہ میں نے اس کو کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب یہودیوں پر جان کندن کا وقت آتا ہے تو فرشتے اس کے منہ پر اور پیچھے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے دشمن خدا تیرے پاس عیسی نبی آیا اور تو نے اس کی تکذیب کی پس وہ کہتا ہے کہ اب میں عیسی پر ایمان لایا کہ وہ بندہ اور پیغمبر ہے اور نصرانی کو فرشتے کہتے ہیں کہ تیرے پاس عیسی نبی آیا اور تو نے اس کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا تب وہ کہتا ہے کہ اب میں نے قبول کیا کہ وہ خدا کا بندہ اور رسول ہے.اور ابن عباس سے روایت ہے کہ اس نے ایک موقعہ پر یہی تفسیر کی تب عکرمہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۱ سورة النساء نے اس کو کہا کہ اگر نا گاہ کسی شخص کی گردن کاٹ دی جائے تو کس وقت اور کیونکر وہ عیسی کی نبوت کا اقرار کرے گا.تب ابن عباس نے کہا کہ اس کی اس وقت تک جان نہیں نکلے گی جب تک اس کے لبوں پر کلمہ اقرار نبوت مسیح کا جاری نہ ہولے پھر عکرمہ نے کہا کہ اگر وہ گھر کی چھت پر سے گرے یا جل جائے یا کوئی درندہ اس کو کھا لیوے تو کیا پھر بھی اقرار نبوت عیسی کا اس کو موقعہ ملے گا تب ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ گرتے گرتے ہوا میں یہ اقرار کر دے گا.اور جب تک یہ اقرار نہ کر لے تب تک اس کی جان نہیں نکلے گی اور اسی پر دلالت کرتی ہے قراءت اُبی بن کعب کی.الا لَيُؤْمِنُنَّ بِهِ قبل موتهم بِضَةِ النُّون یعنی دوسری قراءت میں بجاۓ قبل موتہ کے قبل موتھ لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسی کی طرف.اور ایک قول ضعیف یہ بھی ہے کہ دونوں ضمیریں ہے اور موتہ کی حضرت عیسی کی طرف پھرتی ہیں جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عیسی کے نزول کے بعد تمام اہل کتاب ان کی نبوت پر ایمان لے آویں گے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ضمیر بہے کی اللہ تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضمیر بہ کی پھرتی ہے.پھر نووی میں یہ عبارت لکھی ہے ذَهَبَ كَثِيرُونَ بَلْ اكْثَرُونَ إِلَى أَنَّ الظَّهِيرَ فِي آيَةٍ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ يَعُودُ إلى أَهْلِ الْكِتَبِ وَيُؤَيْدُ هَذَا أَيْضًا قِرَاءَةُ مَن قَرَأَ قَبْلَ مَوْتِهِمْ.یعنی بہت سے لوگ بلکہ نہایت کثرت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ آیت إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِہ میں موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے اور اسی کی مؤید قراءت قبل موتھ ہے.پھر تفسیر مدارک میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے وَالْمَعْلٰی مَا مِنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ قَبْلَ مَوْتِهِ بِعِيسَى وَبِأَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ وَرُوِيَ أَنَّ الضَّمِيرَ فِي بِهِ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ أَوَ إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالضَّمِيرَ الثَّانِي إِلَى الْكِتَابِي یعنی اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاری میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جو اپنی موت سے پہلے عیسی پر ایمان نہ لاوے اور اس کی رسالت اور عبدیت کو قبول نہ کرے اور یہ بھی روایت ہے کہ ضمیر بہے کی اللہ کی طرف پھرتی ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے.ایسا ہی بیضاوی میں زیر آیت لَيُؤْمِنَنَّ بِہ یہ تفسیر کی ہے.وَالْمَعْلى مَامِنَ الْيَهُودِ وَ النَّصَارَى اَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِاَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَيُؤَيَّدُ ذَالِكَ إِنْ قُرِءَ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمْ وَقِيلَ الضَّمِيْرانُ لِعِیسَی.یعنی اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۲ سورة النساء آیت کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں سے ایسا کوئی نہیں جو اپنی موت سے پہلے عیسی پر ایمان نہ لاوے اور قبل موتہم کی قراءت انہیں معنوں کی مؤید ہے اور ایک قول ضعیف یہ بھی ہے کہ دونوں ضمیریں عیسی کی طرف پھرتی ہیں.اور تفسیر مظہری کے صفحہ ۷۳۱ اور ۷۳۲ میں زیر آیت موصوفہ یعنی لَيُؤْمِنَنَّ بِہ کے لکھا ہے.رُوی عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ الضَّمِيرَ في بِهِ يَرْجِعُ إِلى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقِيْلَ رَاجِعَةٌ إِلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ وَالْمَالُ وَاحِدٌ فَإِنَّ الْإِيْمَانَ بِاللهِ لَا يَعْتَدُّ مَالَمْ يُؤْمِنُ بِجَمِيعِ رُسُلِهِ وَالْإِيْمَانُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلْزِمُ الْإِيْمَانَ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ.قَبْلَ مَوْتِهِ.أَى قَبْلَ مَوْتِ ذَالِكَ الْأَحَدِ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ عِنْدَ مُعَانَنَةِ مَلَائِكَةِ الْعَذَابِ عِنْدَ الْمَوْتِ حِيْنَ لَا يَنْفَعُهُ اِيْمَانُهُ هذَا رِوَايَةُ عَلِي بْنِ طَلْحَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ إِنْ خَرَّمِن فَوْقِ بَيْتٍ قَالَ يَتَكَلَّمُ فِي الْهَوَاء فَقِيْلَ أَرَأَيْتَ إِنْ ضُرِبَ عُنُقُهُ قَالَ تُلَجْلِجُ لِسَانُهُ وَالْحَاصِل أَنَّهُ لَا يَمُوتُ كِتَابِي حَتَّى يُؤْمِنَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ قِيْلَ يُؤْمِنُ الْكِتَابِي فِي حِينٍ مِنَ الْأَحْيَانِ وَلَوْ عِنْدَ مُعَايَنَةِ الْعَذَابِ.وَقَالَ الضَّمِيرُانَ لِعِيسَى وَالْمَعْنَى إِنَّهُ إذَا نَزَلَ آمَنَ بِهِ أَهْلُ الْبِلَلِ اجْمَعُونَ وَلَا يَبْقَى اَحَدٌ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ وَهَذَا التَّاوِيلُ مَرُويٌّ عَنْ ابِي هُرَيْرَةَ لَكِن كَوْنُهُ مُسْتَفَادًا مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَ تَأْوِيلِ الْآيَةِ بِإِرْجَاعِ الضَّمِيرِ الثَّانِي إِلَى w عِيسَى مَمْنُوعٌ أَنَّمَا هُوَزَعُمُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْسَ ذَلِكَ فِي شَيْءٍ مِّنَ الْأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ وَ كَيْفَ يَصِحُ هَذَا التَّاوِيلُ مَعَ أَنَّ كَلِمَةً إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ شَامِلٌ لِلْمَوْجُوْدِيْنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَئَةَ سَوَاءٌ كَانَ هَذَا الْحُكْمُ خَامَّا بِهِمْ أَوَّلَّا فَإِنَّ حَقِيْقَةَ الْكَلَامِ لِلْعَالِ وَلَا وَجْةٌ لأَن يُرَادَ بِهِ فَرِيقٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ يُوجَدُوْنَ حِيْنَ نُزُوْلِ عِيْسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فَالتَّأْوِيلُ الصَّحِيحُ هُوَ الْأَوَّلُ وَيُؤيّدُهُ قِرَاءَةُ أَبِي بْنِ كَعْبِ أَخْرَجَ ابْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ أَبِي هَاشَم وَعُرُوَةً قَالَ فِي مُصْحَفِ أَبَ بْنِ كَعْبٍ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِمْ - ترجمہ.عکرمہ سے روایت ہے آیت لیؤمنن بہ " میں بہ کی ضمیر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اللہ جل شانہ کی طرف راجع ہے اور مال واحد ہے کیونکہ ایمان باللہ معتبر وو
۴۴۳ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء نہیں جب تک تمام رسولوں پر ایمان نہ لایا جائے اور محمد مصطفی صلحم پر ایمان لا نا عیسی پر ایمان لانے کو مستلزم ہے.اور قبل موتہ کی یہ تفسیر ہے کہ ہر ایک کتابی اپنی موت سے پہلے عذاب کے فرشتوں کے دیکھنے کے بعد رسول اللہ صلعم پر ایمان لائے گا جب کہ اس کو ایمان کچھ فائدہ نہیں دے گا.یہ علی بن طلحہ کی روایت ابن عباس سے ہے رضی اللہ عنہما علی بن طلحہ کہتا ہے کہ ابن عباس کو کہا گیا کہ اگر کوئی چھت پر سے گر پڑے تو پھر وہ کیونکر ایمان لائے گا.ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ ہوا میں اس اقرار کو ادا کرے گا پھر پوچھا گیا کہ اگر کسی کی گردن ماری جاوے تو وہ کیونکر ایمان لاوے گا تو ابن عباس نے کہا کہ اس وقت بھی اس کی زبان میں اقرار کے الفاظ جاری ہو جائیں گے.حاصل کلام یہ کہ کتابی نہیں مرے گا جب تک اللہ جل شانہ، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسی پر ایمان نہ لاوے بعض کہتے ہیں کہ کتابی فی حین من الاحیان ایمان لائے گا اگر چہ عذاب کے معائنہ کے وقت ہو اور بعض کہتے ہیں کہ دونوں ضمیریں عیسی کی طرف پھرتی ہیں.اور یہ معنے لیتے ہیں کہ جب عیسی نازل ہوگا تو تمام اہلِ ملل اس پر ایمان لے آئیں گے اور کوئی منکر باقی نہیں رہے گا اور یہ تاویل ابوہریرہ سے مروی ہے لیکن آیت لیو منن بہ سے یہ معنے جو ابو ہریرہ نے خیال کئے ہیں ہرگز نہیں نکلتے اور قبل موتہ کی ضمیر عیسی کی طرف کسی طرح پھر نہیں سکتی یہ صرف ابو ہریرہ کا گمان ہے.احادیث مرفوعہ میں اس کا کوئی اصل صحیح نہیں پایا جاتا اور کیوں کر یہ تاویل صحیح ہوسکتی ہے باوجود یکہ کلمہ ان موجود بین کو بھی تو شامل ہے یعنی ان اہل کتاب کو جو آنحضرت مسلم کے زمانہ میں موجود تھے.خواہ یہ کلمہ انہیں سے خاص ہو یا خاص نہ ہو لیکن حقیقت کلام کا مصداق ٹھہرانے کیلئے حال سب زمانوں سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے اور کوئی وجہ اس بات کی نہیں پائی جاتی کہ کیوں وہی اہل کتاب خاص کئے جائیں جو حضرت عیسی کے نزول کے وقت موجود ہوں گے پھر صحیح تاویل وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یعنی ضمیر ہے کی عیسی کی طرف نہیں پھرتی بلکہ کتابی کی طرف پھرتی ہے اور اسی کے قراءت ابی بن کعب مؤید ہے جس کو ابن المنذر نے ابی ہاشم سے لیا ہے اور نیز عُروہ سے بھی.اور وہ قراءت یہ ہے.وَ اِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَلَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوْتِهِمْ - یعنی اہل کتاب اپنی موت سے پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسی پر ایمان لاویں گے.اسی کے قریب قریب ابن کثیر اور تفسیر کبیر اور فتح البیان و معالم التنزیل وغیرہ تفاسیر میں لکھا ہے.اب دیکھئے کہ حضرت عکرمہ اور حضرت ابن عباس اور علی بن طلحہ رضی اللہ عنہم یہی تأویل لیؤمنن بہ کی کرتے ہیں کہ پہلی ضمیر محمد مصطفی صلحم اور عیسی کی طرف پھرتی ہے اور دوسری ضمیر قبل موتہ اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۴ b سورة النساء اور قراءت قبل موتہم کس قدر وثوق سے ثابت ہوتی ہے پھر باوجود یکہ یہ تاویل صحابہ کرام کی طرف سے ہے اور بلا شبہ قراءت شازہ حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے مگر آپ اس کو نظر انداز کر کے اور نحوی قواعد کو اپنے زعم میں اس کے مخالف سمجھ کر تمام بزرگ اور اکا بر قوم اور صحابہ کرام کی صریح ہجو اور توہین کر رہے ہیں گویا آپ کے نحوی قواعد کی صحابہ کو بھی خبر نہیں تھی اور ابن عباس جیسا صحابی جس کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فہم قرآن کی دعا بھی ہے وہ بھی آپ کے ان عجیب معنوں سے بے خبر رہا.آپ پر قراءت قبل موتھ کا بھی وثوق کھل گیا ہے اب فرض کے طور پر اگر قبول کر لیں کہ ابن عباس اور علی بن طلحہ اور عکرمہ وغیرہ صحابہ ان معنوں کے سمجھنے میں خطا پر تھے اور قراءت اُبی بن کعب بھی یعنی قبل موتهم کامل درجہ پر ثابت نہیں تو کیا آپ کے دعوئی قطعیۃ الدلالت ہو نے آیت لیؤمنن بہ پر اس کا کچھ بھی اثر نہ پڑا.کیا وہ دعوی جس کے مخالف صحابہ کرام بلند آواز سے شہادت دے رہے ہیں اور دنیا کی تمام مبسوط تفسیریں باتفاق اس پر شہادت دے رہی ہیں اب تک قطعیۃ الدلالت ہے.يَا أَخي اتَّقِ اللهَ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُوتِيكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل : ۳۷).اور جب ان روایتوں کے ساتھ وہ روایتیں بھی ملا دیں جن میں اِنِّي مُتَوَفِّيكَ كے معنے مُميتك لکھے ہیں جیسے ابن عباس کی روایت اور وہب اور محمد بن اسحاق کی روایت کے کوئی ان میں سے عام طور پر حضرت مسیح کی موت کا قائل ہے اور کوئی کہتا ہے کہ تین گھنٹہ تک مر گئے تھے اور کوئی سات گھنٹہ تک ان کی موت کا قائل ہے اور کوئی تین دن تک جیسا کہ فتح البیان اور معالم التنزیل اور تفسیر کبیر وغیرہ تفاسیر سے ظاہر ہے تو پھر اس صورت میں اس وہم کی اور بھی بیخ کنی ہوتی ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے.غرض آپ کا نور قلب شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر میں نے لکھا ہے آپ کے دعوے قطعیۃ الدلالت کے توڑنے کیلئے کافی ہے قطعیۃ الدلالت اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی دوسرا احتمال پیدا نہ ہو سکے مگر آپ جانتے ہیں کہ اکابر صحابہ اور تابعین کے گروہ نے آپ کے معنے قبول نہیں کئے اور مفسرین نے جابجا اس آپ کی تاویل کو قیل کے لفظ سے بیان کیا ہے جو ضعف روایت پر دلالت کرتا ہے.عام رائے تفسیروں کی یہی پائی جاتی ہے کہ قراءت قبل موتہم کے موافق معنے کرنے چاہئیں اور ضمیر بہ کا نہ صرف حضرت عیسیٰ کی طرف بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ جل شانہ کی طرف پھیرتے ہیں.اب آپ کی رائے کی قطعیت کیونکر باقی رہ سکتی ہے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۸۴ تا ۱۹۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۵ سورة النساء مولوی صاحب ( مولوی محمد بشیر صاحب ) اس آیت کو حضرت عیسی کی جسمانی زندگی پر قطعی الدلالت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس آیت کے قطعی طور پر یہی معنے ہیں کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں کہ جو عیسی پر اس کی موت سے پہلے ایمان نہیں لائے گا.اور چونکہ اب تک تمام اہل کتاب کیا عیسائی اور کیا یہودی حضرت عیسی پر سچا اور حقیقی ایمان نہیں لائے بلکہ کوئی ان کو خدا قرار دیتا ہے اور کوئی ان کی نبوت کا منکر ہے اس لئے ضروری ہے کہ حسب منشاء اس آیت کے حضرت عیسی کو اس زمانہ تک زندہ تسلیم کر لیا جائے جب تک کہ سب اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں.مولوی صاحب اس بات پر حد سے زیادہ ضد کر رہے ہیں که ضرور یہ آیت موصوفہ بالا حضرت مسیح کی جسمانی زندگی پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہے اور یہی صحیح معنے اس کے ہیں کسی دوسرے معنے کا احتمال اس میں ہر گز نہیں اور اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ گو بعض صحابہ اور تابعین اور مفسرین نے اور بھی کتنے معنے اس آیت کے کئے ہیں مگر وہ معنے صحیح نہیں ہیں.کیوں صحیح نہیں ہیں؟ اس کا سبب یہ بتلاتے ہیں کہ اس جگہ لیؤمنن کا صیغہ نون ثقیلہ کے لگنے کی وجہ سے خالص استقبال کے معنوں میں ہو گیا ہے اور خالص استقبال کے معنے صرف اسی طریق بیان سے محفوظ رہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی کا کسی آئندہ زمانہ میں نازل ہونا قبول کر کے پھر اس زمانہ کے اہل کتاب کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ سب کے سب حضرت عیسی پر ایمان لے آویں گے اور فرماتے ہیں کہ جو حضرت ابن عباس وغیرہ صحابہ نے اس کے مخالف معنے کئے ہیں اور قبل موتہ کی ضمیر کتابی کی طرف پھیر دی ہے یہ معنے ان کی نحو کے اجماعی قاعدہ کے مخالف ہیں.کیوں مخالف ہیں؟ اس وجہ سے کہ ایسے معنوں کے کرنے سے لفظ ليُؤْمِنَنَّ کا خالص استقبال کے لئے مخصوص نہیں رہتا.سو مولوی صاحب کی اس تقریر کا حاصل کلام یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابن عباس اور عکرمہ اور ابی ابن کعب وغیرہ صحابہ نونہیں پڑھے ہوئے تھے اور نحو کے وہ اجماعی قواعد جومولوی صاحب کو معلوم ہیں انہیں معلوم نہیں تھے اس لئے وہ ایسی صریح غلطی میں ڈوب گئے جو انہیں وہ قاعدہ یاد نہ رہا جس پر تمام نحویوں کا اجماع اور اتفاق ہو چکا تھا بلکہ انہوں نے اپنی زبان کا قدیمی محاورہ بھی چھوڑ دیا جس کی پابندی طبعاً ان کی فطرت کے لئے لازم تھی.ناظرین برائے خدا غور فرما دیں کہ کیا مولوی صاحب اس بات کے مجاز ٹھہر سکتے ہیں کہ ابن عباس جیسے جلیل الشان صحابی کو نحوی غلطی کا الزام دیو ہیں.اور اگر مولوی صاحب نحوی غلطی کا ابن عباس پر الزام قائم نہیں کرتے تو پھر کیا کوئی اور بھی وجہ ہے جس کے رو سے مولوی صاحب کے خیال میں ابن عباس کے وہ معنے اس آیت متنازع فیہ میں رو کے لائق ہیں جن کی تائید میں ایک قراءت شاذہ بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۶ سورة النساء موجود ہے یعنی قبل موتهم.فرض کرو کہ وہ قراءت بقول حضرت مولوی صاحب ایک ضعیف حدیث ہے مگر آخر حدیث تو ہے.یہ تو ثابت نہیں ہوا کہ وہ کسی مفتری کا افتر ا ہے پس وہ کیا ابن عباس کے معنوں کو ترجیح دینے کیلئے کچھ بھی اثر نہیں ڈالتی یہ کس قسم کا تحکم ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ ابن عباس کے یہ معنے نحوی قاعدہ کے مخالف ہیں اور قراءت قبل موتهم کسی راوی کا افترا ہے.ابن عباس اور عکرمہ پر یہ الزام دینا کہ وہ محوی قاعدہ سے بے خبر تھے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مولوی صاحب یا کسی اور کا حق ہے کہ ان بزرگوں پر ایسا الزام رکھ سکے جن کے گھر سے ہی نخونکلی ہے.ظاہر ہے کہ مجھ کو ان کے محاورات اور ان کے فہم کی تابع ٹھہرانا چاہئے نہ کہ ان کی بول چال اور ان کے فہم کا محک اپنی خود تر اشید و چو کو قراردیا جائے.اب اگر مولوی صاحب اپنی ضد کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتے اور ابن عباس اور عکرمہ کو ٹھو کے اجتماعی قاعدہ سے بے خبر ٹھہراتے ہیں اور قراءت ابی بن کعب کو بھی جو قبل موتھ ہے بلکلی مردود اور تحقیق الافتر اخیال کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ صرف ان کے دعوے سے ہی یہ ان کا بہتان قابل تسلیم نہیں ٹھہر سکتا بلکہ اگر وہ اپنے معنوں کو قطعیۃ الدلالت بنانا چاہتے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ ان دونوں باتوں کا قطعی طور پر پہلے فیصلہ کر لیں.کیونکہ جب تک ابن عباس اور عکرمہ کے مخالفانہ معنوں میں احتمال صحت باقی ہے اور ایسا ہی گو حدیث قراءت شاذه بقول مولوی صاحب ضعیف ہے مگر احتمال صحت رکھتی ہے تب تک مولوی صاحب کے معنے باوجود قائم ہونے ان تمام احتمالات کے کیو نکر قطعی ٹھہر سکتے ہیں.ناظرین آپ لوگ خود سوچ لیں کہ قطعی معنے تو انہی معنوں کو کہا جاتا ہے جن کی دوسری وجوہ سرے سے پیدا نہ ہوں یا پیدا تو ہوں لیکن قطعیت کا مدعی دلائل شافیہ سے ان تمام مخالف معنے کو توڑ دے.لیکن مولوی صاحب نے اب تک ابن عباس اور عکرمہ کے معنوں اور قبل موتہ کی قراءت کو توڑ کر نہیں دکھلایا ان کا توڑ نا تو صرف ان دو باتوں میں محدود تھا اول یہ کہ مولوی صاحب صاف بیان سے اس بات کو ثابت کر دیتے کہ ابن عباس اور عکرمہ ان کے اجماعی قاعدہ نحو سے بکلی بے خبر اور غافل تھے اور انہوں نے سخت غلطی کی کہ اپنے بیان کے وقت نحو کے قواعد کو نظر انداز کر دیا.دوسرے مولوی صاحب پر یہ بھی فرض تھا کہ قراءت شاذه قَبْلَ مَوْتِهِمْ کے راوی کا صریح افترا ثابت کرتے اور یہ ثابت کر کے دکھلاتے کہ یہ حدیث موضوعات میں سے ہے.مجرد ضعف حدیث کا بیان کرنا اس کو بکلی اثر سے روک نہیں سکتا.امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ فخر الائمہ سے مروی ہے کہ میں ایک ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں.اب کیا جس قدر حدیثیں صحاح ستہ میں باعث بعض
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۷ سورة النساء راویوں کے قابل جرح یا مرسل اور منقطع الاسناد ہیں وہ بالکل پایہ اعتبار سے خالی اور بے اعتبار محض ہیں؟ اور کیا وہ محدثین کے نزدیک موضوعات کے برابر سمجھی گئی ہیں؟ ناظرین متوجہ ہو کر سنواب میں اس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہوں کہ اگر فرض کے طور پر ابن عباس اور عکرمہ اور مجاہد اور ضحاک وغیرہ کے معنے جو مخالف مولوی صاحب کے معنوں کے ہیں غلط ٹھہرائے جاویں اور قبول کیا جائے کہ یہ تمام اکابر اور بزرگ مولوی صاحب کے اجماعی قاعدہ نحو سے عمداً یا سہو باہر چلے گئے تو پھر بھی مولوی صاحب کے معنے قطعیۃ الدلالت نہیں ٹھہر سکتے.کیوں نہیں ٹھہر سکتے ؟ اس کی وجوہ ذیل میں لکھتا ہوں.(۱) اول یہ کہ مولوی صاحب کے ان معنوں میں کئی امور ہنوز قابل بحث ہیں جن کا وہ یقینی طور پر فیصلہ نہیں کر سکے اور نہ ان کا ایک ہی معنوں پر قطعیۃ الدلالت ہونا بپایہ ثبوت پہنچا چکے ہیں.از انجملہ ایک یہ کہ اہل الکتاب کا لفظ اکثر قرآن کریم میں موجودہ اہل کتاب کیلئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے بیان فرمایا گیا ہے اور ہر ایک ایسی آیت کا جس میں اہل کتاب کا ذکر ہے وہی مصداق اور شان نزول قرار دئیے گئے ہیں.پھر مولوی صاحب کے پاس باوجود اس دوسرے معنے ابن عباس اور عکرمہ کی کونسی قطعی دلیل اس بات پر ہے کہ اس ذکر اہل کتاب سے وہ لوگ قطعا باہر رکھے گئے ہیں اور کون سی حجت شرعی یقینی قطعیۃ الدلالت اس بات پر ہے کہ اہل کتاب سے مراد اس زمانہ نا معلوم کے اہل کتاب ہیں جس میں تمام وہ لوگ حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے.از انجملہ ایک یہ کہ مولوی صاحب نے تعیین مرجع ليؤمنن پہ میں کوئی قطعی ثبوت پیش نہیں کیا.کیونکہ تفسیر معالم التنزیل وغیرہ تفاسیر معتبرہ میں حضرت عکرمہ وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بھی روایت ہے کہ ضمیر پہ کی جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور یہ روایت قوی ہے کیونکہ مجرد مسیح این مریم پر ایمان لانا موجب نجات نہیں ٹھہر سکتا.ہاں خاتم الانبیاء پر ایمان لانا بلاشبہ موجب نجات ہے کیونکہ وہ ایمان تمام نبیوں پر ایمان لانے کو مستلزم ہے.پس اگر حضرت عیسی کو بہ کے ضمیر کا مرجع ٹھہرایا جائے تو اس کا فساد ظاہر ہے.آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اہل کتاب شرک سے تو بہ کر کے صرف حضرت عیسی کی رسالت اور عبدیت کا قائل ہو.لیکن ساتھ اس کے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے قطعا منکر ہو تو کیا وہ اسی ایمان سے نجات پاسکتا ہے ہر گز نہیں.پھر یہ ضمیر پہ کی حضرت عیسی کی طرف آپ کے معنوں کے رو سے کیونکر پھر سکتی ہے.اگر یہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی تو ہم یہ خیال کر لیتے اس میں حضرت عیسی بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۸ سورة النساء داخل ہیں لیکن ضمیر تو واحد کی ہے صرف ایک کی طرف پھرے گی اور اگر وہ ایک بجز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی دوسرا ٹھہرایا جائے تو معنے فاسد ہوتے ہیں.لہذا بالضرورت ماننا پڑا کہ اس ضمیر کا مرجع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس صورت میں موتہ کی ضمیر کتابی کی طرف پھیری جائے گی.اگر آپ اس جگہ یہ اعتراض کریں کہ ایسے معنوں سے لیؤمنن کا لفظ استقبال کے خالص معنوں میں کیوں کر رہے گا تو میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ جیسے آپ کے معنوں میں رہا ہوا ہے.اس وقت ذرہ آپ متوجہ ہو کر بیٹھ جائیں اور اس قادر سے مدد چاہیں جو سینوں کو کھولتا اور دلوں میں سچائی کا نور نازل کرتا ہے.حضرت سیئے آپ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ ایک زمانہ قبل موت عیسیٰ کے ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے.اور ہموجب روایت عکرمہ برعایت آپ کے نحوی قاعدہ کے یہ معنے ٹھہریں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لے آئیں گے جس ایمان کے طفیل مسیح ابن مریم پر بھی ایمان لانا انہیں نصیب ہو جائے گا.اب حضرت اللہ جلشانہ سے ڈر کر فرمائیے کہ کیا آپ کے قطعیۃ الدلالت ہونے کا دعویٰ بکلی نابود ہو گیا.یا ابھی کچھ کسر باقی ہے.آپ خوب سوچ کر اور دل کو تھام کر بیان فرما دیں.کہ آپ کی طرز تاویل میں کونسی خالص استقبال کی علامت خاص طور پر پائی جاتی ہے جو اس تاویل میں وہ نہیں پائی جاتی.ناظرین برائے خدا آپ بھی ذرا سوچیں.بہت صاف بات ہے ذرہ توجہ فرماویں.اے ناظرین آپ لوگ جانتے ہیں کہ کئی دن سے مولوی صاحب کی یہی بحث لگی ہوئی تھی اور فقط اسی بات پر ان کی ضد تھی کہ لفظ لیؤمنن لام اور نون ثقیلہ کی وجہ سے خالص استقبال کے معنوں میں ہو گیا ہے.اور مولوی صاحب اپنے گمان میں یہ سمجھ رہے تھے کہ خالص استقبال صرف اس طور کے معنے کرنے سے متحقق ہوتا ہے کہ قبل موتہ کی ضمیر مسیح ابن مریم کی طرف پھیریں اور اس کی حیات کے قائل ہوجائیں.اور اب اے بھائیو میں نے ثابت کر کے دکھلا دیا کہ خالص استقبال کیلئے یہ ضروری نہیں کہ قبل موتہ کی ضمیر حضرت عیسی کی طرف پھیری جائے بلکہ اس جگہ حضرت عیسی کی طرف ضمیر بہ اور ضمیر قَبلَ مَوْتِه پھیرنے سے معنے ہی فاسد ہو جاتے ہیں.کیونکہ فقط عیسی پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی نہیں.بلکہ بچے اور واقعی معنے اس طرز پر یہی ہیں کہ ضمیر ہے کی ہمارے سید و مولی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیری جائے اور ضمیر قبل موتہ کی کتابی کی طرف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں خود حضرت عیسی وغیرہ انبیاء
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب ہی آجائیں گے ۴۴۹ سورة النساء نام احمد نام جمله انبیا است چونکه صد آمد نو هم نزد ماست بھائیو! برائے خدا خود سوچ لو کہ ان معنوں میں اور حضرت مولوی صاحب کے معنوں میں خالص مستقبل ہونے میں برابری کا درجہ ہے یا ابھی کچھ کسر باقی ہے.بھائیو میں محض اللہ آپ لوگوں کے سمجھانے کے لئے پھر دوہرا کر کہتا ہوں کہ مولوی صاحب آیت لیؤمنن بہ کے معنے یوں کرتے ہیں کہ ایک زمانہ به ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب حضرت عیسی کی موت سے پہلے سب کے سب ان پر ایمان لے آئیں گے.اور میں حسب روایت حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جیسا کہ معالم وغیرہ میں لکھا ہے.مولوی صاحب کی ہی طرز پر یہ معنے کرتا ہوں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب موجودہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ہمارے نبی کریم صلعم پر ایمان لے آئیں گے.بھائیو برائے خدا ذرہ نظر ڈال کر دیکھو کہ کیا خالص استقبال میری تاویل اور مولوی صاحب کی تاویل میں برابر درجہ کا ہے یا ابھی فرق رہا ہوا ہے.اب بھائیو انصافاً دیکھو کہ ان معنوں میں بہ نسبت مولوی صاحب کے معنوں کے کس قدر خوبیاں جمع ہیں.وہ اعتراض جو مولوی صاحب کی طرز پر ضمیر پہ کے تعین مرجع میں ہوتا تھا.وہ اس جگہ نہیں ہوسکتا.قراءت شاذہ اس تاویل کی مؤید ہے.اور بائیں ہمہ خالص استقبال موجود ہے.اب اے حاضرین مبارک.مولوی صاحب کے دعویٰ قطعیت کا بھانڈا پھوٹ گیا.مگر تعصب اور طرف داری سے خالی ہو کر غور کرنا.مولوی صاحب نے اس بحث حیات مسیح کا حصر پانچ دلیلوں پر کیا تھا.چار دلیلوں کو تو انہوں نے خود چھوڑ دیا اور پانچویں کو خدا تعالیٰ نے حق کی تائید کر کے نیست و نابود کیا.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنى اسرائيل : ۸۲).اب اے حاضرین.اے خدا تعالیٰ کے نیک دل بند و.سوچ کر دیکھو اور ذرہ اپنے فکر کو خرچ کر کے نگاہ کرو کہ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب کا کیا دعوی تھا.یہی تو تھا کہ آیت لیومنن بہ کے وہ سچے اور صحیح معنے ٹھہر سکتے ہیں جن میں لفظ لیؤمنن کو خالص مستقبل ٹھہرایا جائے اور مولوی صاحب نے اپنے مضمون کے صفحوں کے صفحے اسی بات کے ثابت کرنے کیلئے لکھ مارے کہ نون ثقیلہ مضارع کے آخر مل کر خالص مستقبل کے معنوں میں لے آتا ہے.اسی دھن میں مولوی صاحب نے حضرت ابن عباس کے معنوں کو قبول نہیں کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ وہ معنے بھی تحویوں کے اجماعی عقیدہ کے برخلاف ہیں.سو ہم نے مولوی صاحب کی خاطر سے ابن عباس کے معنوں کو پیش کرنے سے موقوف رکھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۰ سورة النساء اور روایت عکرمہ کی بنا پر وہ معنے پیش کئے جو خالص مستقبل ہونے میں بکلی مولوی صاحب کے معنوں سے ہمرنگ اور ان نقصوں سے مبرا ہیں جو مولوی صاحب کے معنوں میں پائے جاتے ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ میسیج پر ایمان لانے کے وقت ہمارے سید و مولا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ضمن میں ہر یک نبی پر ایمان لانا داخل ہے.پھر کیا ضرورت ہے کہ اس ایمان کے لئے حضرت مسیح کو آسمانوں کے دارالسرور سے اس دار الابتلا میں دوبارہ لایا جائے.مثلا دیکھئے کہ جولوگ بقول آپ کے آخری زمانہ میں آنحضرت صلعم پر ایمان لائیں گے یا اب ایمان لاتے ہیں.کیا ان کے ایمان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے آویں.پس ایسا ہی یقین کیجئے کہ حضرت مسیح پر ایمان لانے کیلئے بھی دوبارہ ان کا دنیا میں آنا ضروری نہیں اور ایمان لانے اور دوبارہ آنے میں کچھ تلازم نہیں پایا جاتا.اور اگر آپ اپنی ضد نہ چھوڑیں اور ضمیر لیؤمنن بہ کو خواہ نخواہ حضرت عیسی کی طرف ہی پھیرنا چاہیں باوجود اس فساد معنے کے جس کا نقصان آپ کی طرف عائد ہے.ہماری طرز بیان کا کچھ بھی حرج نہیں.کیونکہ ہمارے طور پر برعایت خالص استقبال کے پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسی پر ایمان لے آویں گے.سو یہ معنے بھی خالص استقبال ہونے میں آپ کے معنے کے ہم رنگ ہیں.کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابھی تک وہ زمانہ نہیں آیا جو سب کے سب موجودہ اہل کتاب حضرت عیسی پر یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ہوں.لہذا خالص استقبال کے رنگ میں اب تک یہ پیشگوئی موافق ان معنوں کے چلی آتی ہے.اب اگر ہماری اس تاویل میں آپ کوئی جرح کریں گے تو وہی جرح آپ کی تاویل میں ہوگی.یہاں تک کہ آپ پیچھا چھڑا نہیں سکیں گے.جن باتوں کو آپ اپنے پر چوں میں قبول کر بیٹھے ہیں انہیں کی بنا پر میں نے یہ تطبیق کی ہے.اور جس طرز سے آپ نے آخری زمانہ میں اہل کتاب کا ایمان لا نا قرار دیا ہے اسی طرز کے موافق میں نے آپ کو ملزم کیا ہے.اور اسے خالص استقبال کے موافق خالص استقبال پیش کر دیا ہے.آپ جانتے ہیں کہ صحابہ کے وقت سے اس آیت کو ذو الوجوہ قرار دیتے چلے آئے ہیں.ابن کثیر نے زیر ترجمہ اس آیت کے یہ لکھا ہے قَالَ ابْنُ جَرِير الختلفَ أَهْلُ الشَّاوِيْلِ فِي مَعْلَى ذلِك فَقَالَ بَعْضُهُمْ مَعْلَى ذَلِكَ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ يَعْنِي قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى وَقَالَ أَخَرُونَ يَعْنِي بِذلِكَ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِعِيْسَى قَبْلَ مَوْتِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۱ سورة النساء الِكِتَابِ ذَكَرَ مَنْ كَانَ يُوَجْهُ ذَلِكَ إِلَى أَنَّهُ إِذَا عَايَنَ عِلْمُ الْحَقِّ مِنَ الْبَاطِلِ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ فِي الْآيَةِ قَالَ لَا يَمُوتُ يَهُودِى حَتَّى يُؤْمِنَ بِعِيسَى وَكَذَارَوَى أَبُو دَاوُدُ الظَّيَالِسِى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي هَارُونَ الْغَنْوِي عَنْ عِكْرَمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ فَهَذِهِ كُلُّهَا أَسَانِيدُ صَحِيحَةٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَالَ أَخَرُونَ مَعْنى ذلِكَ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِمُحَمَّدٍ قَبْلَ مَوْتِ الْكِتَابِی یعنی اس آیت کے معنے میں اہل تاویل کا اختلاف چلا آیا ہے.کوئی ضمیر قبل موته کی عیسی کی طرف پھیرتا ہے اور کوئی کتابی کی طرف اور کوئی ہے کی ضمیر حضرت عیسی کی طرف پھیرتا ہے اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف.پس گوابن جریر یا ابن کثیر کا اپنا مذ ہب کچھ ہو یہ شہادت تو انہوں نے بڑی بسط سے بیان کر دی ہے کہ اس آیت کے معنے اہل تاویل میں مختلف فیہ ہیں اور ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم کے نزول اور حیات پر قطعی دلالت اس آیت کی ہر گز نہیں اور یہی ثابت کرنا تھا.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۰۷ تا ۲۱۴) 66 ثُمَّ الْقَرِينَةُ الثَّانِيَةُ عَلى خطأ....في آيت قَبْلَ مَوْتِهِ کے معنوں میں ابو ہریرة کے خَطَأَ آيَةِ : " قَبْلَ مَوْتِهِ "مَا جَاءَ فِي قِرَاءَةِ أُبي بْنِ غلطی کھانے پر دوسرا قرینہ حضرت ابی بن کعب کی كَعْبٍ أَغْنِى : مَوْتِهِمْ، فَإِنَّهُ يَفْرَأُ هَكَذَا قراءت مَوْہم ہے.وہ اس آیت کو یوں پڑھا "وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ کرتے تھے وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ الأَلَيُؤْمِنَنَّ بِهِ مَوْتِهِمُ ، فَقَبَتَ مِنْ هَذِهِ الْقِرَاءَةِ أَنَّ قَبْلَ مَوتِم پس اس قراءت سے ثابت ہو گیا کہ ضَمِيرَ لَفْظِ مَوْتِهِ لَا يَرْجِعُ إِلى عِيسَى عَلَيْهِ موتہ کے لفظ میں ضمیر عیسی علیہ السلام کی طرف نہیں جاتی السَّلَامُ، بَلْ يَرْجِعُ إِلى أَهْلِ الْكِتَابِ فَإلى بلکہ اہل کتاب کی طرف جاتی ہے پس طالبانِ حق کے أَي ثَبُوْتٍ حَاجَةٌ بَعْدَ قِرَاءَةِ أَبي بْنِ كَعْبٍ لیے ابی بن کعب کی قراءت کے بعد کسی اور ثبوت کی لِقَوْمٍ طَالِبِينَ.ثُمَّ مَعَ ذَلِكَ قَدِ اخْتُلِفَ ضرورت ہے؟ علاوہ ازین مفسرین نے بھی یہ کی ضمیر أَهْلُ التَّفْسِيرِ فِي مَرْجَع ضَمِيرِ بِهِ، فَقَالَ کے مرجع کے بارہ اختلاف کیا ہے ان میں سے بعض بَعْضُهُمْ إِنَّ هَذَا الضَّمِيرَ الَّذِي يُوجَدُ في نے کہا ہے کہ یہ میر ليُؤْمِنَنَّ بِہ میں پائی جاتی ہے وہ آيَةِ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ رَاجِعْ إِلى نَبِيِّنَا صَلَّى الله رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتی ہے اور یہ سب عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَرْجُحُ الْأَقْوَالِ.وَقَالَ سے زیادہ مریخ قول ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ضمیر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۲ سورة النساء بَعْضُهُمْ إِنَّهُ رَاجِعُ إِلَى الْفُرْقَانِ وَقَالَ قرآن کریم کی طرف جاتی ہے اور ان میں سے بعض نے کہا بَعْضُهُمْ إِنَّهُ رَاجِعُ إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَقِيلَ ہے کہ یہ غیر اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے اور بعض کے نزدیک إِنَّهُ رَاجِع إلى عِيسَى وَهَذَا قَوْل ضَعِيفٌ اس ضمیر کا مرجع حضرت عیسی علیہ السلام ہیں.لیکن یہ ایک مَّا الْتَفَتَ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ الْمُحَقِيقِينَ فَيَا ضعیف قول ہے جس کو کسی محقق نے قابل اعتنا نہیں ٹھہرایا.حَسْرَةً عَلى أَعْدَاتِنَا الْمُخَالِفِينَ ! إِنَّهُمْ ہیں ہمارے مخالف دشمنوں پر افسوس ہے کہ وہ قرآن کریم يَتْرُكُونَ الْقُرْآنَ وَبَيْنَاتِهِ، بَلْ قُلُوبُهُمْ اور اس کے بینات کو چھوڑتے ہیں.بلکہ اس کے متعلق ان في غَمْرَةٍ مِن هَذَا وَيَقُولُونَ بِالخَوَانِهِمْ إِنَّا کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے مونہوں نَتَّبِعُ أَخْبَارَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ سے تو کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث وَسَلَّمَ، وَلَيْسُوا مُتَّبِعِینَ، بَلْ يَتْرُكُونَ کی پیروی کرتے ہیں.لیکن حقیقت میں وہ پیروی کرنے أَقْوَالًا ثَابِتَةً مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والے نہیں.بلکہ وہ ایسے اقوال کو بھی ترک کر دیتے ہیں جو وَسَلَّمَ، وَيُبَتِلُونَ الخَبية بالطيب رسول اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور بِالطَّيِّبِ وَيَكْتُمُونَ الْحَقِّ وَكَانُوا عَارِفِينَ.طیب کے بدلے خبیث کو اختیار کرتے ہیں اور جانتے (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۴۱) بو جھتے ہوئے حق کو چھپاتے ہیں.(ترجمہ از مرتب ) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر اسی لئے زور دیا ہے کہ تا آئندہ زمانہ میں ایسے لوگوں پر حجت ہو جائے جو ناحق اس دھو کہ میں مبتلا ہونے والے تھے کہ گویا حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مسیح کی حیات پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور جو دلائل پیش کرتے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن پر سخت درجہ کی عبادت غالب آگئی ہے.مثلاً وہ کہتے ہیں کہ آیت وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ حضرت مسیح کی زندگی پر دلالت کرتی ہے اور اُن کے مرنے سے پہلے تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لے آئیں گے مگر افسوس کہ وہ اپنے خود تراشیدہ معنوں سے قرآن میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں جس حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ - جس کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے.جب یہودی نہ رہے اور سب ایمان لے آئے تو پھر بغض اور دشمنی کے لئے
۴۵۳ سورة النساء تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون موقعہ اور محل رہا.اور ایسا ہی اللہ تعالی فرماتا ہے فَاقْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ - اس کے بھی یہی معنے ہیں جو او پر گذر چکے اور وہی اعتراض ہے جو اوپر بیان ہو چکا.اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ - اس جگہ كَفَرُوا سے مراد بھی یہود ہیں کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام محض یہودیوں کے لئے آئے تھے اور اس آیت میں وعدہ ہے کہ حضرت مسیح کو ماننے والے یہود پر قیامت تک غالب رہیں گے.اب بتلاؤ کہ جب ان معنوں کے رو سے جو ہمارے مخالف آیت وَ إِنْ مِنْ أَهْلِ الکتب کے کرتے ہیں تمام یہودی حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے تو پھر یہ آیتیں کیونکر صحیح ٹھہر سکتی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کی قیامت تک باہم دشمنی رہے گی اور نیز یہ کہ قیامت تک یہود ایسے فرقوں کے مغلوب رہیں گے جو حضرت مسیح کو صادق سمجھتے ہوں گے.ایسا ہی اگر مان لیا جاوے کہ حضرت مسیح زندہ جسم عصری آسمان پر تشریف لے گئے تو پھر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنی کیوں کر صحیح ٹھہر سکتی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد عیسائی بگڑ گئے جب تک کہ وہ زندہ تھے عیسائی نہیں بگڑے.اور پھر اس آیت کے کیا معنے ہو سکتے ہیں کہ فِيهَا تَحْيَونَ وَفِيهَا توتون کہ زمین پر ہی تم زندگی بسر کرو گے اور زمین پر ہی مرد گے.کیا وہ شخص جو اٹھارہ سو برس سے آسمان پر بقول مخالفین زندگی بسر کر رہا ہے وہ انسانوں کی قسم میں سے نہیں ہے؟ اگر مسیح انسان ہے تو نعوذ باللہ مسیح کے اس مدت دراز تک آسمان پر ٹھہر نے سے یہ آیت جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اگر ہمارے مخالفوں کے نزدیک انسان نہیں ہے بلکہ خدا ہے تو ایسے عقیدہ سے وہ خود مسلمان نہیں ٹھہر سکتے.پھر یہ آیت قرآن شریف کی کہ اموَاتٌ غَيْرُ احیا اس کے یہ معنے ہیں کہ جن لوگوں کی خدا کے سوا تم عبادت کرتے ہو وہ سب مر چکے ہیں اُن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں.صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۰،۳۰۹) بعض لوگ محض نادانی سے یا نہایت درجہ کے تعصب اور دھوکا دینے کی غرض سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی پر اس آیت کو بطور دلیل لاتے ہیں کہ وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَبِ الْالَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ اور اس سے یہ معنے نکالنا چاہتے ہیں کہ اس وقت تک حضرت عیسی فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب اُن پر ایمان نہ لے آویں.لیکن ایسے معنے وہی کرے گا جس کو فہم قرآن سے پورا حصہ نہیں ہے.یا جود یانت کے طریق سے دور ہے.کیونکہ ایسے معنے کرنے سے قرآن شریف کی ایک پیشگوئی باطل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ اور پھر دوسری جگہ فرماتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۴ سورة النساء ہے.وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ - ان آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قیامت تک یہود اور نصاری میں دشمنی اور عداوت ڈال دی ہے پس اگر آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ قیامت سے پہلے تمام یہودی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کسی وقت یہود و نصاریٰ کا بغض با ہمی دور بھی ہو جائے گا اور یہودی مذہب کا تخم زمین پر نہیں رہے گا حالانکہ قرآن شریف کی ان آیات سے اور کئی اور آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی مذہب قیامت تک رہے گا.ہاں ذلت اور مسکنت ان کے شامل حال ہوگی اور وہ دوسری طاقتوں کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے.پس آیت مدوحہ بالا کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اہل کتاب میں سے ہے وہ اپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا حضرت عیسی پر ایمان لے آویں گے.غرض موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسی کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراءت میں مو تجھ واقع ہے.اگر حضرت عیسی کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراءت میں موت کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنے ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ابو ہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے.ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا.اور میں کہتا ہوں کہ اگر ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایسے معنے کئے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہے جیسا کہ اور کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہ اُن کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے.یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہوسکتی.شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ہے.سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہو چکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں.اور یاد رکھنا چاہیئے کہ جبکہ آیت قبل موتہ کی دوسری قراءت قبل موتهم موجود ہے جو بموجب اصول محد ثین کے حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے یعنی ایسی حدیث جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو کار اس صورت میں محض ابو ہریرہ کا اپنا قول رد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے مقابل پر پیچ اور لغو ہے اور اُس پر اصرار کرنا کفر تک پہنچا سکتا ہے.اور پھر صرف اسی قدر نہیں بلکہ ابو ہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جابجا فرماتا ہے کہ یہودو نصاری قیامت تک رہیں گے ان کا بکی استیصال نہیں ہوگا.اور ابو ہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۵ سورة النساء ہو جائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے.جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیئے کہ ابو ہریرہ کے قول کو ایک رڈی متاع کی طرح پھینک دے بلکہ چونکہ قراءت ثانی حسب اصول محدثین حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے اور اس جگہ آیت قبل موتہ کی دوسری قراءت قبل موتھ موجود ہے جس کو حدیث صحیح سمجھنا چاہیئے.اس صورت میں ابو ہریرہ کا قول قرآن اور حدیث دونوں کے مخالف ہے.فلا شك انه باطل و من تبعه فانّه مفسد بطال.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) یہ عقیدہ کھلے طور پر قرآن شریف کے مخالف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ سب لوگ حضرت عیسی کو قبول کر لیں گے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۶) دنیا میں خدا پر ایمان لانے کا یہ اجر ملتا ہے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ پوری ہدایت بخشتا ہے اور ضائع نہیں کرتا اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے.وَ اِنْ مِنْ أَهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ - یعنی وہ لوگ جو درحقیقت اہل کتاب ہیں اور سچے دل سے خدا پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار اس نبی پر ایمان لے آئیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہاں خبیث آدمی جن کو اہل کتاب نہیں کہنا چاہیئے وہ ایمان نہیں لاتے.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۹) یعنی ایسا کوئی اہل کتاب نہیں جو اپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسی پر ایمان نہ لاوے.اور تفاسیر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کو یہ الہام اس وقت ہوتا ہے جب وہ جان کندن کی حالت میں ہوتے ہیں یا موت کا وقت بہت قریب ہوتا ہے اور اب ظاہر ہے کہ وہ تبھی ایمان لاتے ہیں جب ان کو منجانب اللہ الہام ہوتا ہے کہ فلاں رسول سچا ہے مگر اس الہام سے وہ خدا کے برگزیدہ نہیں ٹھہر سکتے اور خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ موت کے قریب اکثر لوگوں کو کوئی خواب یا الہام ہو جاتا ہے.اس میں کسی مذہب کی خصوصیت نہیں اور نہ صالح اور نکوکار ہونے کی شرط ہے.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵۸) وَ أَمَّا إِيْمَانُ أَهْلِ الْكِتَابِ كُلِّهِمْ تمام اہل کتاب کا حضرت عیسی پر ایمان لے آنا جیسا بِعِيسَى كَمَا ظَنُّوا فِي مَعْنَى الْآيَةِ المَذْكُورَةِ کہ آیت مذکورہ کے بارہ میں ان کا خیال ہے تو تم ان کے فَأَنْتَ تَعْلَمُ حَقِيقَةً إِبْمَا يهم، لا حَاجَةَ إِلَى ایمان کی حقیقت کو جانتے ہو اس کے ذکر کرنے کی التَّذْكِرَةِ وَتَعْلَمُ أَنّ أَفْوَاجًا مِن الْيَهُودِ ضرورت نہیں.نیز تم یہ بھی جانتے ہو کہ فوج در فوج یہودی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۶ سورة النساء قَدْ مَاتُوْا وَلَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ، فَلَا تُحَرِّفُ كَلام فوت ہوچکے ہیں اور وہ مسیح پر ایمان نہیں لائے تھے.پس اللهِ لِعَقِيدَةٍ هِيَ بَاطِلَةٌ بِالْبَدَاهَةِ.وَقَدْ قَالَ تو اس عقیدہ کی خاطر جو بالبداہت باطل ہے اللہ کے کلام الله تعالى وَالْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء میں تحریف نہ کر.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ فَكَيْفَ الْعَدَاوَةُ بَعْدَ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ پھر ایمان لانے الْإِيْمَانِ بِعِيسَى: أَلَمْ يَبْقَ فِي رَأْسِكُمْ کے بعد مسیح سے عداوت کیسی.کیا تمہارے سروں میں ذرا ذَرَّةٌ مِنَ الْفِطْئَةِ أَلَيْسَ في هَذِهِ الْآيَةِ رَدُّ بھی سمجھ نہیں رہی.کیا اس آیت میں ان تمام لوگوں کا عَلى مَنْ زَعَمَ أَنَّ جَمِيعَ فِرَقِ الْيَهُودِ رو نہیں ہے جو گمان کرتے ہیں کہ تمام فرقہائے یہود يُؤْمِنُونَ بِعِيسَى فَمَا لَكُمْ تُخَالِفُونَ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے.پس النّص الَّذِي هُوَ أَظهَرُ وَأَجْلى؟ فَأَيُّ آيَةٍ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک ایسی نص کی مخالفت کرتے ہو بَقِيَتْ فِي أَيْدِيكُمْ بِهَا تَتَمَسَّكُونَ؟ جو نہایت واضح اور روشن ہے تمہارے پاس وہ کونسی آیت (الاستفتاء، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۷۲، ۶۷۳) ہے جس سے تم یہ استدلال کرتے ہو.(ترجمہ از مرتب) ہمارے مخالف اس آیت کو پیش کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب مومن ہو جائیں گے.ان کو اتنا معلوم نہیں کہ موتہ کی ضمیر اس طرف نہیں جاتی.تفسیر مظہری میں اس آیت پر خوب بحث کی گئی ہے اور انہوں نے دوسری قرآت قبل موعہ کی لکھی ہے اور ابو ہریرہ کی حدیث جو اس کی تائید میں مخالف پیش کرتے ہیں اس پر بھی جرح کی گئی ہے.خود انہوں نے مانا ہے کہ ابو ہریرہ کی درایت ٹھیک نہیں.علاوہ بریں یہ معنی قرآن شریف کے صریح مخالف ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام ہی کو مخاطب کر کے فرمایا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ - اب تک اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ منکرین کا وجود قیامت تک رہے گا کیونکہ اگر منکرین ہی کا وجود نہیں تو پھر غلبه کیسا؟ پھر دوسری جگہ فرمایا وَ الْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ اور پھر تیسری جگہ فرمایا فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ - ان سب آیتوں پر یکجائی نظر کرنے کے بعد یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ کل فرقے باقی رہیں گے یہ کہنا کہ کل مسلمان ہو جائیں گے غلط ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۷ سورة النساء وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَ ١٢٦ كلم الله موسى تَكْلِيمَانَ رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا کیا ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی امتوں پر تو خدا تعالیٰ کا رحم تھا اس لئے اس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزار ہا رسول اور محدث توریت کی تائید کے لئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کے لئے بھیجے لیکن یہ امت مورد غضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کر کے ان سب باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کے لئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا اور حضرت موسیٰ کی نسبت تو صاف فرمایا وَ كَلَّمَ اللهُ مُوسى تَكْلِيمان رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا يعنى خدا موسیٰ سے ہمکلام ہوا اور اس کی تائید اور تصدیق کے لئے رسول بھیجے جو مبشر اور مندر تھے تا کہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہے اور نبیوں کا مسلسل گروہ دیکھ کر توریت پر دلی صدق سے ایمان لاویں.اور فرمایا وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ یعنی ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور بعض کا تو ہم نے ذکر کیا اور بعض کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسیٰ کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہمیشہ امتداد زمانہ کے بعد پہلے معجزات اور کرامات قصہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور پھر آنے والی نسلیں اپنے گروہ کو ہر یک امر خارق عادت سے بے بہرہ دیکھ کر آخر گذشته معجزات کی نسبت شک پیدا کرتی ہیں پھر جس حالت میں بنی اسرائیل کے ہزار ہا انبیاء کا نمونہ آنکھوں کے سامنے ہے تو اس سے اور بھی بید لی اس امت کو پیدا ہوگی اور اپنے تئیں بد قسمت پا کر بنی اسرائیل کو رشک کی نگہ سے دیکھیں گے یا بد خیالات میں گرفتار ہو کر ان کے قصوں کو بھی صرف افسانجات خیال کریں گے اور یہ قول کہ پہلے اس سے ہزار ہا انبیاء ہو چکے اور معجزات بھی بکثرت ہوئے اس لئے اس امت کو خوارق اور کرامات اور برکات کی کچھ ضرورت نہیں تھی لہذا خدا تعالیٰ نے ان کو سب باتوں سے محروم رکھا.یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں جنہیں وہ لوگ منہ پر لاتے ہیں جن کو ایمان کی کچھ بھی پرواہ نہیں ورنہ انسان نہایت ضعیف اور ہمیشہ تقویت ایمان کا محتاج ہے اور اس راہ میں اپنے خود سا مختہ دلائل بھی کام نہیں آسکتے جب تک تازہ طور پر معلوم نہ ہو کہ خدا موجود ہے ہاں جھوٹا ایمان جو بدکاریوں کو روک نہیں سکتا نقلی اور عقلی طور پر قائم رہ سکتا ہے اور اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ دین کی تکمیل اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۸ سورة النساء بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بکلی دستبردار ہو جائے مثلاً اگر کوئی گھر بنادے اور اس کے تمام کمرے سلیقہ سے طیار کرے اور اس کی تمام ضرورتیں جو عمارت کے متعلق ہیں باحسن وجہ پوری کر دیوے اور پھر مدت کے بعد اندھیریاں چلیں اور بارشیں ہوں اور اس گھر کے نقش و نگار پر گردوغبار بیٹھ جاوے اور اس کی خوبصورتی چُھپ جاوے اور پھر اس کا کوئی وارث اس گھر کو صاف اور سفید کرنا چاہے مگر اس کو منع کر دیا جاوے کہ گھر تو مکمل ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ منع کرنا سراسر حماقت ہے افسوس کہ ایسے اعتراضات کرنے والے نہیں سوچتے کہ تکمیل شے دیگر ہے اور وقتاً فوقتاً ایک مکمل عمارت کی صفائی کرنا یہ اور بات ہے.یہ یادر ہے کہ مجد دلوگ دین میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے و مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ ظَلَمُوا لَمْ يَكُن اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمُ (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۳، ۳۴۴) طَرِيقَالُ الاَ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا باطنی بشارتوں کی طرف اشارہ فرما کر کہا.کافر اور مشرک کہ جو شرک اور کفر پر مریں.ان کے گناہ نہیں بخشے جائیں گے اور خدا ان کو ان کے کفر کی حالت میں اپنی معرفت کا راہ دکھلائے گا.ہاں جہنم کا راہ دکھلائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے.( براہین احمدیہ چهار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۴ حاشیہ نمبر ۱۱) يَايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَا مِنُوا خَيْرًا لَكُمْ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ، وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًا.یعنی اے لو گو حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تمہارے پاس یہ نبی آیا ہے.نور القرآن نمبر ا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) اے لوگو! تمہارے پاس رسول حق کے ساتھ آیا ہے پس تم اس رسول پر ایمان لاؤ.تمہاری بہتری اسی میں ہے اور اگر تم کفر اختیار کرو تو خدا کو تمہاری کیا پروا ہے.زمین و آسمان سب اسی کا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں اور خد العلیم اور حکیم ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۱، ۱۳۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۹ سورة النساء يَاَهْلَ الْكِتب لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقِّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللهِ وَ كَلِمَتُهُ الْقُهَا إِلى مَرْيَمَ وَرُوحُ مِنْهُ فَأمِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَثَةُ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إلهُ وَاحِدٌ: سُبُحْنَةَ اَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ كَفَى بِاللهِ وَكِيلًا اس جگہ خدائے تعالیٰ نے روح کا نام کلمہ رکھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت تمام ارواح کلمات اللہ ہی ہیں جو ایک لا یدرک بھید کے طور پر جس کی تہ تک انسان کی عقل نہیں پہنچ سکتی روحیں بن گئی ہیں.اسی بناء پر اس آیت کا مضمون بھی ہے كَلِمَةُ الْقُهَا إِلى مَرْيَمَ.اور چونکہ یہ ستر ربوبیت ہے اس لئے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے بڑھ کر کچھ بول سکے کہ کلمات اللہ ہی بحکم و باذن ربی لباس روح کا پہن لیتے ہیں اور ان میں وہ تمام طاقتیں اور قو تیں اور خاصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو روحوں میں پائی جاتی ہیں اور پھر چونکہ ارواح طیبہ فنافی اللہ ہونے کی حالت میں اپنے تمام قومی چھوڑ دیتی ہیں اور اطاعت الہی میں فانی ہو جاتی ہیں تو گویا پھر وہ روح کی حالت سے باہر آ کر کلمتہ اللہ ہی بن جاتی ہیں جیسا کہ ابتدا میں وہ کلمۃ اللہ تھیں.سو کلمتہ اللہ کے نام سے ان پاک روحوں کو یاد کرنا اُن کے اعلیٰ درجہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے سو انہیں نور کا لباس ملتا ہے اور اعمال صالحہ کی طاقت سے اُن کا خدائے تعالی کی طرف رفع ہوتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۳، ۳۳۴) إن كُنتُمْ تَظُنُّونَ أَنَّ الْقُرْآنَ صَدَّقَ اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ قرآن تمہارے قول کی قَوْلَكُمْ وَأَعَانَ وَقَالَ فِي شَأْنٍ عِيْسی تصدیق کرتا اور تمہیں مدد دیتا ہے اور عیسی کے بارہ میں کہا وَرُوْحُ مِنْهُ وَقَبِلَ أَنَّهُ خَرَجَ مِن لَّدُنْهُ فَمَا ہے کہ وہ اُس سے رُوح ہے اور اس بات کو قبول کر لیا ہے هذا إِلَّا جَهْلْ صَرِيحٌ وَوَهُمْ قَبِيحُ وخَطا کہ وہ اس نکلا ہے تو یہ خیال تمہارا صریح جہل اور مکروہ مُّبِيْن ثُمَّ إِن فُرِضَ أَن قَوْلَهُ تَعَالى وہم ہے اور کھلا کھلا خطا ہے.پھر اگر ہم فرض کر لیں کہ وَرُوحُ مِنْهُ يَزِيدُ شَأْنَ ابْنَ مَرْيَمَ، رُوحٌ مِنْهُ کا لفظ حضرت عیسی کی شان بڑھاتا ہے اس کو وَيَجْعَلُهُ ابْنَ اللهِ وَأَعْلى وَأَكْرَمَ، فَيَجِبُ أَنْ ابن الله اور بلند تر تھہراتا ہے.سو اس سے لازم آتا ہے کہ ،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۰ سورة النساء يكُونَ مَقَامَ آدَمَ أَرْفَعَ مِنْهُ وَأَعْظَم حضرت آدم کا مقام حضرت مسیح سے زیادہ بلند ہو اور پہلا وَيَكُونُ ادَمَ أَوَّلَ أَبْنَاءَ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَإِنَّ بیٹا خدا تعالیٰ کا حضرت آدم ہی ہو کیونکہ حضرت آدم کی فِي شَأْنٍ آدَمَ بَيَانُ أَكْبَرُ مِنْ شَأْنِ عِیسَی شان میں حضرت عیسی کی نسبت زیادہ تعریف بیان کی گئی فَتَفَكَّرْ فِي آيَةٍ فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ وَ تَدَبر تحولی ہے سو عقلمندوں کی طرح لفظ فَقَعُوا لَهُ سُجِدِین میں غور کر اللهى، وَفَكّر في لفظ خَلَقْتُ بیدی ولفظ اور پھر اس لفظ میں غور کر جو خَلَقْتُ بیدی اور سَوَيْتُه سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن روحى وألفاظ الخرى اور نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِی ہے اور دوسرے لفظوں کو بھی لِيَظْهَر عَلَيْكَ جَلَالَهُ أدَمَ وَشَأْلُهُ الْأَغلى سوچ تا کہ تیرے پر حضرت آدم کی شان اعلیٰ ظاہر ہو فَإِنَّ مَنطَوْقَ الْآيَةِ يَدُلُّ عَلى أَن رُوحَ الله کیونکہ منطوق آیت کا دلالت کرتا ہے کہ روح اللہ آدم میں نَزَلَ فِي آدَمَ بِنُزُولِ أَجْلى، حَتَّى جَعَلَهُ مَسْجُوْدَ اُترا تھا اور وہ اتر نا بہت روشن تھا یہاں تک کہ آدم ملائکہ کا الْمَلَائِكَةِ وَمَظْهَرَ تَجَيَاتٍ وَأَقْرَبَ إِلَى الله سجدہ گاہ ٹھہرا اور تجلیات عظمی کا مظہر بنا اور خدائے غنی سے الأَغْنى وَأَعْلَمَ وَأَفْضَلَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ بہت قریب ہوا اور افضل تھہرا اور خدا تعالیٰ کا خلیفہ بنا مگروہ أَجْمَعِينَ، وَخَلِيفَةَ اللهِ عَلَى الْأَرْضِينَ وَأَمَّا آیت جو حضرت عیسی کی شان میں نازل ہوئی ہے سو وہ اس الْآيَةُ الَّتِى نَزَلَتْ فِي شَأْنٍ عِيسَى فَمَا تَجْعَلُه کو کچھ بہت اونچا نہیں بناتی اور نہ زیادہ پاک اور صاف أَرْفَعَ وَأَعْلى وَلَا أَصْفَى وَأَزْكَى بَلْ يَعْبُتُ بناتی ہے بلکہ اس سے تو صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مِنْهُ أَنَّ عِيسَى رُوحُ مِنَ الله وَعَبْدُهُ الْعَاجِز حضرت عیسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روح ہیں جیسا كَأَشْيَاءَ أُخْرَى وَمِنَ الْمَخْلُوقِيْنَ مَا سَجَدَه کہ دوسری چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ثابت إِبْلِيسُ بَلْ أَمَرَهُ أَنْ يَسْجُدَ لَهُ وَمَعَ ذلك ہوتا ہے کہ وہ مخلوق ہے شیطان نے اس کو سجدہ نہ کیا بلکہ جَرَّبَهُ ذُلِكَ الْخَبِيتُ، وَسَجَدَ لِأدَمَ الْمَلَائِكَةُ چاہا کہ وہ شیطان کو سجدہ کرے.اور اس کا امتحان لیا اور كُلُّهُمْ أَجْمَعِينَ وَإِنَّ آدَمَ أَنْبَأَ الْمَلَائِكَةَ آدم کو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور آدم نے فرشتوں کو بِأَسْمَاءِ سَائِرِ الْأَشْيَاء ، فَقَبَتَ أَنَّهُ أَعْلَمُ تمام چیزوں کے نام بتلائے پس ثابت ہوا کہ وہ ان سے وَسِرة مُحيط عَلَى الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ ، ولکن زیادہ عالم تھا اور اُس کا سر تمام کائنات پر محیط تھا مگر عِيْسَى أَقرَّ بِأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ السَّاعَةُ وَأَشَارَ إلى حضرت عیسی نے تو اقرار کیا کہ اس کو قیامت کا علم نہیں الحجر : ٣٠
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۱ سورة النساء أَنَّ الْمَلَائِكَةَ قَدْ فَاقُوْهُ عِلْمًا وَأَكْمَلُوا کہ کب آئے گی اور یہ بھی اشارہ کیا کہ ملائک اس سے الْخَوْفَ وَالطَاعَةَ، فَتَفَكَّرُوا فِي هَذَا وَلَا علم اور طاعت میں افضل ہیں سو اس بات کو سوچو اور تَمْشُوا كَقَوْمٍ عَمِيْنَ ثُمَّ إِذَا دَفَقْت النظر اندھوں کی طرح مت چلو پھر اگر تو غور سے دیکھے اور أَوْ أَمْعَنْتَ فِيمَا حَضَرَ ، فَيَظْهَرُ عَلَيْكَ أَنَّ قَوْلَهُ واقعات موجودہ میں غور کرے تو تیرے پر ظاہر ہوگا کہ تَعَالَى رُوحُ مِنْهُ يُشَابِهُ قَوْله تَعَالَى الله جل شانہ کا یہ قول کہ رُوح منہ ایسا ہی قول ہے جیسا جَمِيعًا مِنْهُ فَمِنَ الْعَبَادَةِ أَن تُقبتَ مِن کہ اس کا دوسرا قول.سو بڑی نادانی کی بات ہے کہ لَفْطِ رُوحٌ مِنْهُ أُلُوهِيَّةَ عِيسَى وَلَا تُفِر مِنْ رُوحٌ مِنْهُ کے لفظ سے حضرت عیسی کی خدائی تو ثابت لفظ جَمِيعًا مِنْهُ بِالْوَهِيَّةِ أَزْوَاجِ الْكِلابِ کرے اور جَمِیعاً مِنْہ کے لفظ سے کتوں اور بلیوں اور وَالْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ وَأَشْيَاءَ أُخْرى، فَإِنَّ سوروں اور دوسری چیزوں کی خدائی کا اقرار نہ کرے مَنْظُوقَ الْآيَةِ يَشْهَدُ عَلَى أَنَّهَا جَمِيعًا مِنْهُ، کیونکہ منطوق آیت کا دلالت کر رہا ہے ہر یک چیز میں فَمَتْ مِنَ النَّدَامَةِ إِن كُنتَ من داخل ہے یعنی تمام ارواح وغیرہ خدا سے ہی نکلے الْمُسْتَحْيِينَ وَتَفَكَّرُوْا يَا مَعْشَرَ النَّصَاری ہیں پس اب ندامت سے مرجا اگر کچھ شرم ہے اور أَلَيْسَ فِيْكُمْ رَجُلٌ مِنَ الْمُتَفَكِّرِيْنَ اے نصرانی لوگو! اس میں غور کرو کیا تم میں کوئی بھی غور وَلَيْسَ لَكَ أَن تَرْفَعَ في جَوَابِنَا الصَّوْتَ وَإِنْ کرنے والا نہیں ہے اور کبھی ممکن نہیں جو تو ہمارا جواب تلاقى مِن فِكْرِكَ الْمَوْتَ فَإِنَّ مَثَلَ دے سکے اگر چہ اسی فکر میں مرجائے کیونکہ جھوٹا آدمی الْكَاذِبِ كَخُذْرُوفٍ مُتخرَج وَلَا قَرَار لَه ایک گیند کی طرح گردش میں ہوتا ہے اور بچوں کے سامنے اس کو قرار نہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) عِنْدَ الصَّادِقِينَ ( نور الحق حصہ اول ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۳۵ تا ۱۳۷) لوگوں نے کلمتہ اللہ کے لفظ پر جو مسیح کی نسبت آیا ہے سخت غلطی کھائی ہے اور مسیح کی کوئی خصوصیت سمجھی ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ہر انسان جب نفسانی ظلمتوں اور گندگیوں اور تیرگیوں سے نکل آتا ہے اس وقت وہ کلمتہ اللہ ہوتا ہے.یا د رکھو ہر انسان کلمتہ اللہ ہے کیونکہ اس کے اندر روح ہے جس کا نام قرآن شریف میں امر ربی رکھا گیا ہے لیکن انسان نادانی اور نا واقعی سے روح کی کچھ قدر نہ کرنے کے باعث اُس کو انواع و اقسام کی سلاسل اور زنجیروں میں مقید کر دیتا ہے اور اس کی روشنی اور صفائی کو خطر ناک تاریکیوں اور سیاہ کاریوں کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۲ سورة النساء وجہ سے اندھا اور سیاہ کر دیتا ہے اور اسے ایسا دھندلا بناتا ہے کہ پتہ بھی نہیں لگتا لیکن جب تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنی نا پاک اور تاریک زندگی کی چادر اتار دیتا ہے تو قلب منور ہونے لگتا ہے اور پھر اصل مبدا کی طرف رجوع شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ تقویٰ کے انتہائی درجہ پر پہنچ کر سارا میل کچیل اتر کر پھر وہ کلمۃ اللہ ہی رہ جاتا ہے.یہ ایک بار یک علم اور معرفت کا نکتہ ہے ہر شخص اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱) ( قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسی کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں بلکہ قرآن شریف اور حدیث نے ضرور کا یہود کے منہ کو بند کرنے کے لیے یہ فقرے بولے ہیں کہ یہود نعوذ باللہ مریم کو زنا کا ر عورت اور حضرت عیسی کو ولد الزنا کہتے تھے اس لیے قرآن شریف نے ان کا ذب کیا ہے کہ وہ ایسا کہنے سے باز آویں.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ اپریل ۱۹۰۲ صفحه ۸) میسیج کو جو روح اللہ کہتے ہیں اور عیسائی اس پر ناز کرتے ہیں کہ یہ مسیح کی خصوصیت ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے ان کو معلوم نہیں کہ قرآن شریف میں مسیح پر روح اللہ کیوں بولا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے مسیح ابن مریم پر خصوصیت کے ساتھ بہت بڑا احسان کیا ہے جو ان کا تبریہ کیا ہے.بعض نا پاک فطرت یہودی حضرت مسیح کی ولادت پر بہت ہی ناپاک اور خطرناک الزام لگاتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ بعض ولد اس قسم کے ہوتے ہیں کہ شیطان ان کی پیدائش میں شریک ہو جاتا ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح اور حضرت مریم کے دامن کو ان اعتراضوں سے پاک کرنے کے لیے اور اس اعتراض سے بچانے کے لیے جو ولد شیطان کا ہوتا ہے قرآن شریف میں روح اللہ کہا.اس سے خدائی ثابت کرنا حماقت ہے.کیونکہ دوسری جگہ حضرت آدم کے لیے نَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُومی بھی تو آیا ہے یہ صرف تبر یہ کیا ہے لیکن جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں وہ ان سے بحث خاک کریں گے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۱٫۳۱ کتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) حضرت عیسی کو اللہ تعالیٰ نے کلمتہ اللہ خصوصیت سے کیوں کہا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی ولادت پر لوگ بڑے گندے اعتراض کرتے تھے اس واسطہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ان الزاموں سے بری کرنے کے لیے فرمایا کہ وہ تو کلمۃ اللہ ہیں اُن کی ماں بھی صدیقہ ہے یعنی بڑی پاک باز اور عفیفہ ہے ورنہ یوں تو کلمتہ اللہ ہر شخص ہے اُن کی خصوصیت کیا تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے اتنے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہو سکتے.انہی وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۳ سورة النساء اعتراضوں سے ہی بری کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے اُن کو کہا کہ وہ شیطان کے مس سے پاک ہیں ورنہ کیا دوسرے انبیاء شیطان کے ہاتھ سے مس شدہ ہیں جو نعوذ باللہ دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ ان پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ شیطان کو کسی معمولی انسان پر بھی تسلط نہیں ہوتا تو انبیاء پر کس طرح ہو سکتا ہے.اصل وجہ یہی تھی کہ ان پر بڑے اعتراض کیے گئے تھے اسی واسطے ان کی بریت کا اظہار فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَفَرَ سُکین کوئی کہے کہ کیا انبیاء بھی کافر ہوا کرتے ہیں.نہیں ایسا نہیں لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ بت پرست ہو گئے تھے ایک عورت کے لیے.اُس اعتراض کا جواب دیا یہی حال ہے حضرت عیسی کے متعلق.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۲،۱۱) ان کلمہ اس لیے کہا گیا تھا کہ یہود ان کو نا جائز ولادت قرار دیتے تھے ورنہ کیا دوسرے انبیاء کلمتہ اللہ نہ تھے اسی طرح مریم علیہا السلام کو صدیقہ کہا گیا اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اور عور تیں صدیقہ نہ تھیں یہ بھی اسی لیے کہا کہ یہودی ان پر تہمت لگاتے تھے تو قرآن نے اس تہمت کو دور کیا.البدر جلد ۲ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱) اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح کو روح منه فرمانے سے اصلی مطلب یہ ہے کہ تا ان تمام اعتراضات کا جواب دیا جاوے جو اُن کی ولادت کے متعلق کیے جاتے ہیں.یا درکھو ولادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ولادت تو وہ ہوتی ہے کہ اُس میں روح الہی کا جلوہ ہوتا ہے اور ایک وہ ہوتی ہے کہ اس میں شیطانی حصہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آیا ہے کہ وَشَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَولاد یہ شیطان کو خطاب ہے.غرض خدا تعالیٰ نے رُوح منه فرما کر یہودیوں کے اس اعتراض کو رد کیا ہے جو وہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کی ولادت کو نا جائز ٹھہراتے تھے.رُوح منہ کہ کر صاف کر دیا کہ ان کی ولادت پاک ہے یہودی تو ایسے بے باک اور دلیر تھے کہ اُن کے منہ پر بھی اُن کی ولادت پر حملہ کرتے تھے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ وہ مس شیطان سے پاک ہے اس میں بھی اسی کی تصدیق ہے ورنہ تمام انبیاء اور صلحا مس شیطان سے پاک ہوتے ہیں.حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.ان کی صراحت اس واسطے کی ہے کہ ان پر ایسے ایسے اعتراض ہوئے اور کسی نبی پر چونکہ اعتراض نہیں ہوئے.اس لیے اُن کے لیے صراحت کی ضرورت بھی نہ پڑی دوسرے نبیوں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے الفاظ ہوتے تو یہ بھی ایک قسم کی توہین ہے کیونکہ اگر ایک مسلم و مقبول نیک آدمی کی نسبت کہا جاوے کہ وہ تو زانی نہیں یہ اُس کی ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۴ سورة النساء رنگ میں ہتک ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو توخود اہل مکہ تسلیم کر چکے ہوئے تھے کہ وہ مست شیطان سے پاک ہے تب ہی تو آپ کا نام اُنہوں نے امین رکھا ہوا تھا اور آپ نے ان پر تحدی کیا کہ قَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمرا.پھر کیا ضرورت تھی کہ آپ کی نسبت بھی کہا جاتا.یہ الفاظ حضرت مسیح کی عزت کو بڑھانے والے نہیں ہیں اُن کی برأت کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک کلنگ کا بھی پتہ دے دیتے ہیں کہ اُن پر الزام تھا.یاد رکھو کہ کلمہ اور روح کا لفظ عام ہے حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں ہے يُؤْمِنُ بِاللهِ و حلمته اب اللہ تعالیٰ کے کلمات تو لا انتہا ہیں.اور ایسا ہی صحابہ کی تعریف میں آیا ہے آيَدَهُم بِرُوحِ مِنْهُ پھر مسیح کی کیا خصوصیت رہی.حضرت مسیح کی ماں کی نسبت جو صد یقہ کا لفظ آیا ہے یہ بھی دراصل رفع الزام ہی کے لیے آیا ہے.یہودی جو معاذ اللہ ان کو فاسقہ فاجر پھہراتے تھے قرآن شریف نے صدیقہ کہہ کر اُن کے الزاموں کو دور کیا ہے کہ وہ صدیقہ تھیں.اس سے کوئی خصوصیت اور فخر ثابت نہیں ہوتا اور نہ عیسائی کچھ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.بلکہ ان کو تو یہ امور پیش بھی نہیں کرنے چاہئیں.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۳۰/اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸) ہم بھی تو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کو میں شیطان سے پاک سمجھتے اور دوسرے نبیوں کی ارواح کی طرح اس کی روح کو بھی رُوح منہ مانتے ہیں.اور يُؤْمِنُ بِاللهِ وَ كَلِمٰتِہ پر یقین رکھتے ہیں مگر اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی دوسرے انبیاء سے کوئی فضیلت تو ثابت نہیں ہوسکتی.آپ ہی بتائیں کہ ہر ایک شخص رُوحَ مِنْهُ ہوتا ہے یا کسی اور طرف سے؟ سب ارواح خدا تعالیٰ کی مخلوق اور اسی کی طرف سے ہوتی ہیں نہ کہ کسی اور طرف سے.ہاں اس میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ فاسقوں فاجروں کی ارواح کو بسبب ان کے فسق و فجور اور شرک کی گندگی کے رُوح منہ نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ روح الشیطان ہوتے ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالی (نے) وَ شَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَ الْاَولاد اور اس طرح سے ہم مانتے ہیں کہ بعض روح الشیطان ہوتے ہیں اور بعض رُوح مِنْہ ہوتے ہیں بعض آدمی ایسے خراب ہوتے ہیں کہ وہ نہایت ہی خبیث الفطرت اور شیطان خصلت ہوتے ہیں ان سے توقع ہی نہیں ہو سکتی کہ وہ کبھی رجوع الی اللہ کرسکیں.ایسے لوگوں پر رُوح منہ کا لفظ نہیں بولا جاتا بلکہ وہ روح الشیطان ہوتے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام پر جو w
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النساء رُوح منه یا کلمتہ کا لفظ بولا گیا ہے تو وہ بطور ذب اور دفع کے ہے.اور اس الزام کو دور کیا گیا ہے جو ان پر لگایا گیا تھا ورنہ کل راستباز اور نیکو کار لوگ رُوع منہ ہی ہوتے ہیں.......اگر بے باپ پیدا ہونا دلیل الوہیت اور امنیت ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں.کیونکہ نہ ان کی الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) ماں ہے نہ باپ.( فَأمِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ.....اِنَّمَا اللهُ الهُ وَاحِدٌ ) سو تم خدا اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ تین ہیں باز آجاؤ یہی تمہارے لیے بہتر ہے.براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ( إِنَّمَا اللهُ الله وَاحِدٌ.....و كفى بالله وكيلا ) خدا هر یک نقصان سے پاک ہے وہ تو غنی اور بے نیاز ہے جس کو کسی کی حاجت نہیں جو کچھ آسمان وزمین میں ہے سب اُسی کا ہے.کیا تم خدا پر ایسا بہتان لگاتے ہو جس کی تائید میں تمہارے پاس کسی نوع کا علم نہیں.خدا کیوں بیٹوں کا محتاج ہونے لگاوہ کامل ہے اور فرائض الوہیت کے ادا کرنے کے لیے وہ ہی اکیلا کافی ہے کسی اور منصوبہ کی حاجت نہیں.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ياتهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا اے لوگو تمہارے پاس یہ یقینی بربان پہنچی ہے اور ایک کھلا نور تمہاری طرف ہم نے اُتارا ہے.۱۷۵ ( نور القرآن نمبرا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) اے لوگو! قرآن ایک بُرہان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو ملی ہے اور ایک کھلا کھلا نور ہے جو تمہاری (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۵۶) طرف اُتارا گیا ہے.