Language: UR
تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی سیح موعود و مہدی معہود علیه السلام جلد دوم سورة البقرة
i بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.و میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے." ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه (۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مد مقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں ، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلدیں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.تو حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک
کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہوگئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ کتاب مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳ اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وو حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوارِ روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین
E iii بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) اَلحَمدُ لِلَّهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی آنٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوٹی) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.
iv > جون ۱۹۶۹ ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفہ المسح الثالث" نے ۷ مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.
V بسم الله الرحمن الرحیم نحمدا و نصلی علی رسولہ الکریم نمبر شمار ۶ مختصر فہرست مضامین جلد دوم خلاصه مضمون سورة البقرة مضمون الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ مِیں قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی ، علت مادی، علت صوری، اور علت غائی کا ذکر تقویٰ کی حقیقت هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں یہ وعدہ کہ قرآن مجید پر ایمان لانے والے کمال تک پہنچیں گے سورہ بقرہ کی پہلی چھ آیات کا ترجمہ قرآن کریم کی علل اربعہ صفحہ 1 L > ۱۲ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۸ > : ۲۰ متقی کی پہلی صفت متقی کی دوسری صفت نفس کے تین درجہ.نفس اماره، لوامہ، مطمئنہ حالتِ عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی اثر صحبت ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ مِیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَم کی دعا قبول ہونے کی بشارت متقی کی علامت کہ جو کچھ اللہ نے عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتارہتا ہے Δ ۹ 11 ۱۲ ۱۳
صفحہ Σ ۲۱ ۲۱ ۲۳ {}{}} {{{ 3 } ۴۰ ۳۵ vi انفاق فی سبیل اللہ کی دو صورتیں مضمون متقی کے لئے وحی اور الہام کا دروزاہ کھولا جاتا ہے تقومی علوم دینیہ کی کلید ہے متقین سے مراد آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ میں بیان شده مُطَهَّرُونَ ہیں علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے لوگوں نے ابدال کے معنے سمجھنے میں غلطی کھائی.ابدال کے اصل معنی دین کی راہ میں دو قسم کی تکلیفیں ہیں تکالیف شرعی اور سماوی اتفقا افتعال کے باب پر ہے یہ باب تکلف کے لئے آتا ہے متقی کے تولد ثلاثہ تقویٰ کی حقیقت میری رائے میں ائمہ اربعہ ایک برکت کا نشان تھے اور وہ لوگ در حقیقت متقی تھے جب انسان متقی ہو اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے متقی کس کو کہتے ہیں متقی کے لئے خدا تعالیٰ کا وعدہ کہ ہر مشکل اور مصائب سے نکالوں گا مومنوں کی تعریف متقی کے مدارج.ایمان بالغیب اورا قامت الصلوة تقوی کس قدر تکلف کو چاہتا ہے تقویٰ کے تین مراتب نمبر شمار ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱
صفح ۴۵ ۴۵ ۴۷ ۴۸ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۶ ۵۸ ۵۹ ۶۸ ۷۵ ۷۵ 2Y LL ۸۰ ۸۳ ۸۳ ۸۵ vii نمبر شمار ۳۲ اتقا کی اقسام اتقاء علمی اور عملی ۳۴ مضمون ارکانِ صلوۃ.قیام، رکوع اور سجدہ وغیرہ کی حقیقت مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں رزق سے مراد ۳۵ رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے ساتھ مِنا کے لفظ کے استعمال میں حکمت متقی کی تعریف اور ایمان کی فلاسفی ۳۶ ۳۷ صلوٰۃ اور دعا میں فرق ۳۸ نماز اعلیٰ درجہ کی دعا ہے ۳۹ ۴۱ انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے دعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے حقیقی نماز نماز کے فوائد ۴۲ ۴۳ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لیے محویت کی ضرورت ہے و ۴۴ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ کی تفسیر ۴۵ لفظ اخرة میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی کا ذکر ۴۶ أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ میں متقیوں کے کامیاب ہونے کا وعدہ ۴۷ خدا تعالی کے دلوں پر مہر لگانے کی حقیقت ۴۸ ۴۹ في قُلُوبِهِمْ فَرَضٌ کے مصداق لوگ منافقین کا طور وطریق نابینائی کی دو قسمیں ہیں.ایک آنکھوں کی نابینائی اور دوسری دل کی اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ کا مطلب ۵۱
صفحہ ۸۷ ۸۸ ۸۹ 1+1 ۱۰۴ 1+2 ۱۱۵ 117 ۱۲۷ ۱۳۷ ۱۴۰ ۱۴۲ ۱۴۵ ۱۴۸ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۹ viii نمبر شمار ۵۲ ۵۳ مضمون قرآن شریف کی نظیر بنانا حد امکان سے خارج ہے سورۃ فاتحہ میں بیان شدہ معارف بے مثل و مانند ہیں ۵۴ اعجاز قرآن ۵۵ ایمان کی ایسے باغ سے مشابہت جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں آخرت میں دنیاوی اعمال کا تمثل ۵۷ عبادت کی حقیقت ۵۸ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہروں کی حقیقت ۵۹ ۶۰ ضلالت اپنی بداعمالی کا نتیجہ ہوتی ہے آیت كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللہ میں صحابہ کرام کی ترقی کا ذکر ملائک اور ان کی حقیقت فرشتے کیوں نظر نہیں آتے บ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں درجہ فنا تک پہنچنے کے بعد روحانی انعامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ کے آدم ہیں جناب الہی آدم کے متعلق فرشتوں کا سوال اور اس کی لطیف تفسیر آدم سے پہلے مخلوق ۶۸ آدم کو اسماء سکھانے کی تفسیہ انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن.حسن معاملہ وحسن بشرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے ۶۹ اے شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا.یہ لفظ شیط سے نکلا ہے
ix نمبر شمار ۷۲ شیطان اور اس کی حقیقت ۷۳ دوزخ دائمی نہیں ہے ۷۴ اسرائیل کے معنے ZY مضمون لَا تَشْتَرُوا بِايْتِي ثَمَنًا قَلِيلاً کی تفسیر زکوۃ اور اس کے مسائل ۷۷ انسان کے قول اور فعل میں مطابقت ضروری ہے ۷۸ ۷۹ ۸۰ Al ۸۲ ۸۳ ۸۴ رجزًا سے مراد طاعون ہے دَابَةُ الْأَرْضِ اور رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ میں تعلق يَقْتُلُونَ النَّيْنَ کی تفسیر.( کیا نبی قتل ہو سکتا ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر نجات نہیں ہو سکتی رفَعْنَا فَوقَكُمُ الصُّور کا مطلب آیت كُونُوا قِرَدَةٌ خَسِبِيْن میں بنی اسرائیل کے بندر بننے سے مراد اذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا کی تفسیر (کیا فی الحقیقت مردہ زندہ ہو گیا تھا؟) ۸۵ روح القدس کی تفہ ۸۶ ۸۷ ۸۸ ۸۹ روح القدس کا تعلق تمام نبیوں اور پاک لوگوں سے ہوتا ہے لعنت کے معنے یہود کو نبی آخر الزمان کی بعثت کے متعلق خواہیں اور الہام اُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ کی تفسیر جبریل فرشتہ اور اس کی تاثیرات صفح 17.۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۷۲ ۱۷۵ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ۲۰۰ ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۲۳ فرشتوں پر ایمان لانے کا راز ۹۱
صفحہ ۲۲۴ ۲۲۷ ۲۳۰ ۲۳۲ ۲۳۴ ۲۴۳ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۵۰ ۲۵۲ ۲۵۵ ۲۶۱ ۲۶۴ ۲۷۳ ۲۷۵ ۲۷۷ ۲۸۱ X مضمون احادیث آیات قرآنیہ کی ناسخ نہیں ہوسکتیں نجات یا بندہ اور اس کی علامات اسلام کے لغوی اور اصطلاحی معنے خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنا حقیقت اسلام ہے بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ الخ میں مرتبہ فنا ، بقا اور لقا کی طرف اشارہ اللہ تعالی کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی ضرورت مداہنہ کا آخری نتیجہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْراهِمَ کی تفسیر نمبر شمار ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1.1+1 انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہر وقت اپنا معاملہ صاف رکھنا چاہیے جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا کی تفسیر ١٠٢ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُمْ کی تفسیر ١٠ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ کے مخاطب کمزور ایمان والے ہیں نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۰۴ مومنین کا آزمائش میں ثبات قدم اور رحمت الہی کا نزول ۱۰۵ مومن کی زندگی کے دو حصے ١٠٦ نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ میں ثمرات سے مراد اولاد بھی ہے ۱۰۷ مامورین اور ان کی جماعتوں پر ابتلاء ۱۰۸ بلا آنے کی وجہ ۱۰۹ انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو طریق
صفحہ ۲۸۲ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۸ ۲۹۲ ۲۹۷ ۲۹۸ ٣٠ ٣٠١ ۳۰۹ ۳۱۳ ۳۱۴ ۳۳۲ ۳۵۱ ۳۵۳ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۶۶ xi نمبر شمار +11 ۱۱۲ مضمون انسانی مدارج کی ترقی کے واسطے مساوی تکالیف لفظ جناح کے معنے دشنام دہی اور بیان واقعہ میں فرق ۱۱ قرب الہی کی تین قسمیں اور اس کی حقیقت لفظ محبت کے معنی عبادت کے دو حصے مراتب قرب و محبت کے تین درجات ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۷ انسان کے لئے نیکی اور بدی کے دو جاذب.لمہ ملک ولمہ شیطان ۱۱۸ 119 وَمَا اُهل به لِغَيْرِ الله کی تفسیر قصاص کی تعلیم کی وجہ ۱۲۰ روزہ کی فلاسفی اور مسائل ۱۲۱ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ کی تفسیر ۱۲۲ قرآن کے لفظ میں ایک پیشگوئی ۱۲۳ دعا کی ضرورت، اہمیت اور اس کی قبولیت کی شرائط ۱۲۴ قبولیت دعا کے واسطے چار شرائط ۱۲۵ اسلامی جنگیں دفاعی تھیں ١٣٦ لا تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ کی تفسیر ۱۲۷ حج کی فلاسفی ۱۲۸ استغفار کے معنی ، اس کی ضرورت اور فوائد ۱۲۹ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ کی تفسیر
صفحہ ۳۷۱ ۳۷۳ ۳۷۳ ۳۸۱ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۶ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۴ ۴۰۶ xii نمبر شمار ۱۳ ۱۳۱ مضمون وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ میں عذاب نار سے مراد وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطن میں شیطان سے مراد بدی کی تعلیم دینے والے لوگ ہیں ۱۳۲ أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ سے مراد اپنا جلال ظاہر کرنا ہے ١٣٣ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ مِیں تَوَّابِينَ میں باطنی طہارت اور متطهرین میں ظاہری طہارت کی ترغیب ۱۳۴ اسلام میں نکاح کی علت غائی ۱۳۵ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ کی تفسیر ١٣٦ لَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِايْمَانِكُمْ میں عرضہ سے مراد ۱۳۷ بے اختیار تخیلات گناہ گار نہیں کرتے.عند اللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین اقسام ۱۳۸ مسئلہ طلاق کی وضاحت ۱۳۹ طلاق دینے کا طریقہ ۱۴۰ اسلامی طلاق کے ذریعے عورتوں کی ستاری ۱۴۱ حلالہ حرام ہے ۱۴۲ ضلع لینے کا طریق ۱۴۳ شرعی مہر سے مراد ۱۴۴ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا میں قرض سے مراد اعمال صالحہ ہے ۱۴۵ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجت میں صاحب درجات رفیعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں ج ١٤٦ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الخ سے صانع عالم کی ہستی کی دلیل
xiii نمبر شمار مضمون ١٤٧ الله لا إلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ کے لفظی معنی ۱۴۸ شفاعت کے معنے اور اس کی حقیقت ۱۴۹ شفاعت کی فلاسفی ۱۵۰ ۱۵۱ ضرورت شفاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی شفیع ہیں ۱۵۲ اسلام جبر سے نہیں پھیلا ۱۵ اسلام مذہبی امور میں آزادی سکھاتا ہے ۱۵۴ فَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَةُ کی تفسیر ۱۵۵ آمات کے معنے آنام بھی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حضرت ابراھیم کی معرفت سے بڑھی ہوئی تھی ۱۵۷ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُنِي الْمَوْتی میں ایک سرِ الہی ۱۵۸ صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے ۱۵۹ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ میں حکمت سے مراد علم قرآن ہے 17.171 ۱۶۲ سود کے متعلق حضرت مسیح موعود کے ارشادات انتفاع رہن ١٦٢ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہ میں تفرقہ سے مراد ۱۶ قومی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی صفحہ ۴۱۱ ۴۱۴ ۴۲۱ ۴۲۵ ۴۲۶ ۴۲۸ ۴۳۵ ۴۳۷ ۴۳۹ ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۴۳ ۴۴۶ ۴۵۰ ۴۵۸ ۴۶۰ ۴۶۱
XV اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے آیت سورة البقرة ۲ تا ۷ الم - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ.11 خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِم وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا صفحہ نمبر ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ LL ۴۰ LA ۷۹ ۴۱ آیت وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ.........صفحہ ۱۵۸ ۱۵۹ فَازَ لَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا.فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَةٍ فَتَابَ.۱۶۲ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا.۱۶۲ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنا.۱۶۲ يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي.۱۶۳ وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا..۱۶۳ وَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة.۱۶۴ ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ.۱۶۶ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة.۱۶۶ وَإِذْ نَجَيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ.وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُم.۱۶۷ ۱۶۷ وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَالْفُرْقَانَ.۱۶۷ دوووو وَاذْ قُلْتُم يَمُوسى لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ...۱۶۸ ثُمَّ بَعَثْنَكُم مِّنْ بَعْدِ مَوتِكُم.99191 وَظَلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَام وَاَنْزَلْنَا.۱۶۹ ۱۶۹ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَولاً.۱۷۲ وَاذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا.....۱۷۶ وَاذْ قُلْتُم يَمُوسى لَن نَّصْبِرَ.إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا.124 ۱۸۰ وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا.۱۹۱ في قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ...۸۲ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ أمِنُوا كَمَا أمَنَ.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا.۴۲ ۸۲ ۴۴ ۸۲ ۴۵ ۸۳ ۴۶ ۸۴ ة ۸۴ ۵۱ ۸۵ ۵۴ ۸۶ ۵۶ 1++ ۵۷ ۱۱۵ ۵۸ ۶۰ ۱۱۷ ۶۱ 112 ۶۲ ۱۴۸ ۶۳ ۱۵۴ ۶۴ ۱۵۵ 6999 صم بُكُمْ عَلَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُم ۱۳ ،۱۲ ۱۴ ۱۵ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ يَايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِى...۲۵،۲۴ وَإِن كُنتُم فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا.۲۶ ۲۷ ۲۹ ۳۰ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا....كيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللهِ وَ كُنْتُمْ أَمْوَاتًا.هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ.وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ...وَعَلَمَ آدَمَ الْأَسْمَاء كُلها.قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنا وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُ والأدم ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۵
xvi صفحہ نمبر آیت صفحہ ۱۹۲ ۱۴۵ ۱۹۴ ۱۴۶ ۱۹۶ ۱۴۸ ۱۹۶ ۱۴۹ ۱۹۷ ۱۵۲ ۱۹۷ ۱۵۳ ۱۹۷ ۱۵۴ ۲۰۷ ۱۵۵ ۲۱۰ ۱۴۳ ، ۱۴۴ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ.......۲۵۰ قَد نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ.الَّذِينَ اتَيْنُهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَةُ..الْحَقُّ مِنْ رَّبَّكَ فَلَا تَكُونَنَّ.وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا.كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ.فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ..وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ..۱۵۶ تا ۱۵۸ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ.۲۱۱ ۱۵۹ ۲۱۱ 17.۲۱۲ ۱۶۵ ۲۲۳ ۱۶۶ ۲۲۳ ۱۶۸ ۲۲۴ ۱۶۹ ۲۲۷ ۱۷۴ ۲۴۵ ۱۷۸ ۲۴۵ ۱۸۰ ۲۴۵ ۱۸۴ ۲۴۶ ۱۸۵ ۲۴۶ ۱۸۶ ۲۴۷ ۱۸۷ ۲۴۷ ۱۸۸ ۲۴۸ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَابِدِ اللهِ..إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۴ ۲۵۹ ۲۵۹ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۰ ۲۶۰ ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۶ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ...۲۸۸ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَو أَنَّ لَنَا كَرَةٌ ۳۰۰ يايُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ....٣٠٠ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدّم...لَيْسَ الْبِر أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوة ياولي..۳۰۳ ۱۸۱ تا ۱۸۳ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ ايَا مَا مَّعْدُودَتِ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي.أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ.۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۷ ۳۱۲ ۳۱۴ ۳۴۷ ۱۸۹ ۲۴۸ وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمُ ۳۴۸ ۱۹۰ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ.۳۴۸ نمبر آیت ۶۶ ۷۳ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوا مِنْكُمْ وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادْرَ تُم فِيهَا ۷۴ ۸۳ ۸۴ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ.وَاذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ.۸۶،۸۵ وَاذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ.۸۸ ۸۹ وَلَقَد أتَيْنَا مُوسَى الكتب وَقَفَّينا.وو وَقَالُوا قُلُوبُنَا خُلُفْ بَلْ لَعَنَهُمُ.وَ لَمَّا جَاءَهُمْ كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ.وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا.قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ.قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ.مَنْ كَانَ عَدُوا لِلهِ وَمَلَيكَتِهِ.وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيطين.۹۴ ۹۵ ۹۸ ۹۹ ۱۰۳ ۱۰۷ مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنَسِهَا نَأْتِ.۱۱۲ ۱۱۳ وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ.وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا.وَلَنْ تَرْضى عَنْكَ الْيَهُودُ.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ.اذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ وَ وَصُّى بِهَا إِبْرَاهِم بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ تِلكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصْرى......۱۱۵ ۱۱۶ ۱۲۱ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۸،۱۳۷ قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَيْنَا.صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ...۲۴۹ ۱۳۹
xvii صفحہ نمبر آیت صفحہ ۲۳۲ ۳۴۹ ۲۳۳ ۳۵۰ ۳۵۰ ۲۳۴ ۳۵۱ ۲۳۵ ۳۵۱ ۲۳۸ ۳۵۵ ۲۴۶ ۳۵۵ ۲۵۰ ۳۵۶ ۲۵۱ ۳۵۶ ۲۵۲ ۳۶۶ ۲۵۴ ۳۶۹ ۲۵۶ ۳۷۲ ۲۵۷ ۳۷۳ ۲۵۸ ۳۷۳ ۲۶۰ ۳۷۵ ۲۶۱ ۳۷۹ ۲۶۲ ۳۸۰ ۲۶۵ ۳۸۰ ۲۶۷ ۳۸۰ ۲۶۸ ۳۸۵ ۲۷۰ ۳۸۶ ۲۷۲ ۳۸۷ ۲۷۵ ۳۸۷ ۳۸۸ ۲۸۴ ۳۸۸ ۲۸۶ ۳۸۹ ۲۸۷ ۳۹۶ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ.۳۹۸ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ.۳۹۸ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ....وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا.فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ.وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِه..۳۹۹ ۳۹۹ ۴۰۰ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۲ فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللهِ ، وَقَتَلَ.۴۰۲ تلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمُ اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ.اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُ وود اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ.وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِم رَبَّ اَرِنِي.۴۰۲ ۴۰۶ ۴۲۷ ۴۳۶.۴۳۶ ۴۴۱ مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ ۴۴۳ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا.۴۴۳ ايَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ.۴۴۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ.يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ.اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا هِيَ.الَّذِينَ يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ بِاليل ۲۸۰،۲۷۶ اَلَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبوالا.وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَ لَمْ.أمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ اِلَيْهِ.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.۴۴۵ ۴۴۵ ۴۴۸ ۴۴۹ ۴۴۹ ۴۵۸ ۴۵۹ ۴۶۰ آیت وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ.وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُم.قتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ.الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا.وَاتِمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ.الْحَج اَشْهُرٌ مَّعْلُومت.لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا.ثُمَّ اَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ.فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا.وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ.هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اَم حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ.كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرُهُ.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا.وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ.نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا.وَلا تَجْعَلُوا اللهَ عُرضَةً لِإِيمَانِكُمْ لا يُؤَاخِذُ كُمُ اللهُ بِاللَّغْوِي..لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِّسَا بِهِمْ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ.وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ.الطَّلَاقُ مَرَّتَنِ فَامُسَاكَ.فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ....نمبر ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۱۱ ۲۱۵ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۱
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام أعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ خلاصه مضمون ☐ سورة البقرة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تفسير سورة البقرة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس سورۃ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہت تفصیل ہے اور امر اور نہی کھول کر بیان کیا گیا ہے اور صبر اور ایثار کی بہت تاکید ہے.(مکتوبات جلد پنجم ،نمبرپنجم صفحه ۱۵۰ مکتوبات ۳/ ۷۴ بنام حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری ) بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.المن ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ، أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تنذرهم لا يُؤْمِنُونَ ) آیات مندرجہ بالا میں پہلے اس آیت پر یعنی الله ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ پر غور کرنا چاہیئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہہ مذکور * کا جواب دیا ہے اوّل وسوسہ، مذکورہ سے مراد بر ہموسماج والوں کا یہ وسوسہ ہے کہ اگر کامل معرفت قرآن پر ہی موقوف ہے تو پھر خدا نے اس کو تمام ملکوں میں اور تمام معمورات قدیم وجدید میں کیوں شائع نہ کیا اور کیوں کروڑہا مخلوقات کو اپنی معرفت کاملہ اور اعتقاد صحیح سے محروم رکھا.(مرتب)
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا اللہ میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں.یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں پھر بعد اس کے علت مادی قرآن کے بیان میں فرمائی اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا ذلك الكتب وہ کتاب ہے یعنی ایسی عظیم الشان اور عالی مرتبت کتاب ہے جس کی علت مادی علم الہی ہے یعنی جس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا منبع اور چشمہ ذات قدیم حضرت حلیم مطلق ہے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وہ کا لفظ اختیار کرنے سے جو بعد اور دوری کے لئے آتا ہے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ کتاب اس ذات عالی صفات کے علم سے ظہور پذیر ہے جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہے جس کے علوم کا ملہ واسرار دقیقہ نظر انسانی کی حد جولان سے بہت بعید اور دور ہیں.پھر بعد اس کے علت صوری کا قابل تعریف ہونا ظاہر فرمایا اور کہالا ريبَ فِيهِ یعنی قرآن اپنی ذات میں ایسی صورت مدلل و معقول پر واقعہ ہے کہ کسی نوع کے شرک کرنے کی اس میں گنجائش نہیں یعنی وہ دوسری کتابوں کی طرح بطور کتھا اور کہانی کے نہیں بلکہ ادلہ یقینیہ و براہین قطعیہ بینہ اور دلائل شافیہ بیان کرتا مشتمل ہے اور اپنے مطالب پر ہے اور فی نفسہ ایک معجزہ ہے جو شکوک اور شبہات کے دور کرنے میں سیف قاطع کا حکم رکھتا ہے.اور خداشناسی کے بارہ میں صرف ہونا چاہیئے کے خلقی مرتبہ میں نہیں چھوڑتا بلکہ ہے کے یقینی اور قطعی مرتبہ تک پہنچاتا ہے یہ تو علل ثلاثہ کی عظمت کا بیان فرمایا اور پھر باوجود عظیم الشان ہونے ان ہر سہ علتوں کے جن کو تاثیر اور اصلاح میں دخل عظیم ہے علت رابعہ یعنی علت غائی نزول قرآن شریف کو جو رہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کر دیا اور فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی یہ کتاب صرف ان جو ہر قابلہ کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و هم مستقیم وشوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجه ایمان و خداشناسی و تقوی کامل پر پہنچ جائیں گے یعنی جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے اور وہ معارف حقانی میں ترقی کر سکتے ہیں وہ بالآخر اس کتاب سے ہدایت پا جائیں گے اور بہر حال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی اور قبل اس کے جو وہ مریں خدا ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا.اب دیکھو اس جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پا جائیں گے اور پھر ان آیات میں جو اس آیت کے بعد میں لکھی گئی ہیں اسی کی زیادہ تر تفصیل کر دی اور فرمایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة کہ جس قدر لوگ ( خدا کے علم میں ) ایمان لانے والے ہیں وہ اگر چہ ہنوز مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے پر آہستہ آہستہ سب شامل ہو جائیں گے اور وہی لوگ باہر رہ جائیں گے جن کو خدا خوب جانتا ہے کہ طریقہ حلقہ اسلام قبول نہیں کریں گے اور گو ان کو نصیحت کی جائے یا نہ کی جائے ایمان نہیں لائیں گے یا مراتب کاملہ تقویٰ و معرفت تک نہیں پہنچیں گے غرض ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے کھول کر بتلا دیا کہ ہدایت قرآنی سے صرف متقی منتفع ہو سکتے ہیں جن کی اصل فطرت میں غلبہ کسی ظلمت نفسانی کا نہیں اور یہ ہدایت ان تک ضرور پہنچ رہے گی.لیکن جو لوگ متقی نہیں ہیں.نہ وہ ہدایت قرآنی سے کچھ نفع اٹھاتے ہیں اور نہ یہ ضرور ہے که خواہ نخواہ ان تک ہدایت پہنچ جائے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۰۰ تا ۲۰۲ حاشیہ نمبر ۱۱) جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کامل نہ ہوں وہ کتاب کامل نہیں کہلا سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن شریف کے علل اربعہ کا ذکر فرما دیا ہے اور وہ چار ہیں (۱) علت فاعلی (۲) علت مادی (۳) علت صوری (۴) علت غائی.اور ہر چہار کامل درجہ پر ہیں.پس اللہ علت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں : انا الله اعلم یعنی کہ میں جو خدائے عالم الغیب ہوں میں نے اس کتاب کو اُتارا ہے پس چونکہ خدا اس کتاب کی علیقا علی ہے اس لئے اس کتاب کا فاعل ہر ایک فاعل سے زبر دست اور کامل ہے اور علت مادی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ذلك الكتب یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے اور علت صوری کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ لَا رَيْبَ فِيهِ یعنی یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک وشبہ سے پاک ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جو کتاب خدا تعالیٰ کے علم سے نکلی ہے وہ اپنی صحت اور ہر ایک عیب سے مبرا ہونے میں بے مثل و بے مانند ہے اور لاریب ہونے میں اکمل اور اتم ہے اور علت غائی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ هُدًى لِلْمُتَّقِینَ یعنی یہ کتاب ہدایت کامل متقین کے لئے ہے اور جہاں تک انسانی سرشت کے لئے زیادہ سے زیادہ ہدایت ہو سکے وہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۶، ۱۳۷ حاشیه ) اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت غالی هدی لِلْمُتَّقِينَ قرار دی ہے اور قرآن کریم سے رُشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے با تخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.الم ذلِكَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الكتب لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - سورة البقرة (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۰،۱۳۹) جس شخص کو ایک ذرہ ہی بصیرت بھی حاصل ہے.وہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب سلسلہ تحقیق اور تدقیق کا اس حد تک پہنچ جائے کہ حقیقت واقعی بکلی منکشف ہو جائے اور چاروں طرف سے دلائل واضحہ اور شواہد قاطعہ آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نکل آدیں تو امر تنقیح اور تفتیش کا وہیں ختم ہو جاتا ہے اور طالب حق کو اسی جگہ مضبوطی سے قدم مارنا پڑتا ہے اور انسان کو بجز ماننے اس کے کے کچھ بن نہیں پڑتا اور خود ظاہر ہے کہ جب مکمل ثبوت ہاتھ میں آ گیا اور ہر ایک گوشہ امر مبحوث عنہ کا صبح صادق کی طرح کھل گیا اور حق الامر کا چہرہ بکمال صفائی نمودار ہو گیا تو پھر کیوں دانشمند اور صحیح الحواس انسان اس میں شک کرے.اور کیا وجہ کہ سلیم العقل انسان کا دل پھر بھی اس پر تسلی نہ پکڑے.ہاں! جب تک امکان غلطی باقی ہے اور بصفائی تمام انکشاف نہیں ہوا تب تک غور اور فکر کا گھوڑا آگے سے آگے دوڑ سکتا ہے اور نظر ثانی در نظر ثانی ہو سکتی ہے نہ یہ کہ ثابت شدہ صداقت میں بھی وہمیوں کی طرح شک کر کے بیہودہ وساوس میں پڑتے جائیں اس کا نام خیالات کی ترقی نہیں یہ تو مادہ سودا کی ترقی ہے.جس شخص پر ایک امر کے جواز یا عدم جواز کی نسبت حال واقعی اظهَرُ مِنَ الشمس ہو گیا تو پھر کیا وہ مد ہوش یا دیوانہ ہے کہ با وصف اس انکشاف تام کے پھر بھی اپنے دل میں یہ سوال کرے کہ شاید جس امر کو میں ناجائز سمجھتا ہوں وہ جائز ہی ہو یا جس کو میں جائز قرار دیتا ہوں وہ حقیقت میں نا جائز ہو.البتہ ایسے سوالات اس وقت پیش آسکتے تھے اور ایسے وساوس اس حالت میں دلوں میں اٹھ سکتے تھے کہ جب سارا مدار قیاسات عقلیہ پر ہوتا اور عقل انسانی برہمو سماج والوں کی عقل کی طرح اپنے دوسرے رفیق کے اتفاق اور اشتمال سے محروم اور بے نصیب ہوتی لیکن الہام حقیقی کے تابعین کی عقل ایسی غریب اور بے کس نہیں بلکہ اس کا ممد و معاون خدا کا کلام کامل ہے جو سلسلہ تحقیقات کو اپنے مرکز اصلی تک پہنچاتا ہے اور وہ مرتبہ یقین اور معرفت کا بخشتا ہے کہ جس کے آگے قدم رکھنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ ایک طرف تو دلائل عقلیہ کو باستیفا بیان کرتا ہے اور دوسری طرف خود وہ بے مثل و مانند ہونے کی وجہ سے خدا اور اس کی ہدایتوں پر یقین لانے کے لئے محبت قاطعہ ہے.سو اس دوہرے ثبوت سے جس قدر طالب حق کو مرتبہ حق الیقین حاصل ہوتا ہے اس مرتبہ کا قدر وہی شخص جانتا ہے کہ جو کچے دل سے خدا کو ڈھونڈتا ہے اور وہی اس کو چاہتا ہے کہ جو روح کی سچائی سے خدا کا طالب ہے لیکن برہمو سماج والے جن کا یہ اصول ہے کہ ایسی کوئی کتاب یا ایسا کوئی انسان نہیں جس میں غلطی کا امکان نہ ہو کیوں کر اس مرتبہ یقین تک پہنچ سکتے ہیں جب تک
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اس شیطانی اصول سے تو بہ کر کے یقینی راہ کے طالب نہ ہوں کیونکہ جس حالت میں اب تک برہمو سماج والوں کو خود با قرار ان کے ایسی کوئی کتاب نہیں ملی اور نہ انہوں نے آپ بنائی کہ جو ایسے مسائل کا مجموعہ ہو کہ جو غلطی سے خالی ہوں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اب تک ایمان ان کا ورطہ شبہات میں ڈوبتا پھرتا ہے اور یہ اصول ان کا صاف دلالت کرتا ہے کہ ان کو خدا شناسی کے مسائل میں سے کسی مسئلہ پر یقین حاصل نہیں اور ان کے نزدیک یہ بات محالات میں سے ہے کہ کوئی کتاب علم دین میں صحیح مسائل کا مجموعہ ہو بلکہ انہوں نے تو علانیہ یہ رائے ظاہر کر دی ہے کہ گو کوئی کتاب ایسی ہو کہ جو سراسر خدا کی ہستی کی قائل اور اس کو واحد لاشریک اور قادر اور خالق اور عالم الغیب اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور دوسری صفات کاملہ سے یاد کرتی ہو اور حدوث اور فنا اور تغییر اور تبدل اور شرکت غیر وغیرہ امور نا قصہ سے پاک اور برتر سمجھتی ہو مگر تب بھی وہ کتاب ان کے نزدیک غلطی کے امکان سے خالی نہیں اور اس لائق نہیں کہ جو اس پر یقین کیا جائے اور اسی وجہ سے یہ لوگ قرآن شریف سے بھی انکار کر رہے ہیں.اب دیکھو کہ ان کے دین وایمان کا انہیں کے اقرار سے یہ خلاصہ نکلا کہ ان کے نزدیک خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت اور قادریت بھی امکان غلطی سے خالی نہیں !! غرض جب کہ انہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی صحت ان کے نزدیک یقینی ہو تو اس سے صاف کھل گیا کہ ان کے مذہب کی بنیاد سراسر خلقیات پر ہے اور ایمان ان کا مراتب یقینیہ سے بکلی دور مہجور ہے.پس یہ وہی بات ہے جس کو ہم بارہا اسی حاشیہ میں لکھ چکے ہیں کہ مجرد عقلی تقریروں سے علم الہیات میں کامل تسلی اور تشنگی ممکن نہیں اس صورت میں ہمارا اور برہمو لوگوں کا اس بات اور پر تو اتفاق ہو چکا کہ مجرد عقل کی رہبری سے کوئی انسان یقین کامل تک نہیں پہنچ سکتا اور مابه النزاع فقط یہی امر تھا کہ کیا خدا نے برہم لوگوں کی رائے کے موافق انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ باوجود جوش طلب یقین کامل اور حق محض کے جو اس کی فطرت میں ڈالا گیا ہے پھر بھی اپنی اس فطرتی مراد سے نا کام اور بے نصیب رہے اور صرف ایسے خیالوں تک اس کا علم محدود رہے کہ جو امکان غلطی سے خالی نہیں یا خدا نے اس کی معرفت کامل اور پوری پوری کامیابی کے لئے کوئی سبیل بھی مقرر کر رکھا ہے اور کوئی ایسی کتاب بھی عطا فرمائی ہے کہ جو اس اصول متذکرہ بالا سے باہر ہو کہ جس میں امکان غلطی کا قاعدہ کلیہ کر رکھا ہے سو الحمد لله وَالْمِنْةِ ایسی کتاب کا خدا کی طرف سے نازل ہونا براہین قطعیہ سے ہم پر ثابت ہو گیا ہے اور ہم بذریعہ کتاب ممدوح کے اس ہلاکت کے ورطہ سے باہر نکل آئے ہیں جس میں برہمو لوگ مردہ کی طرح پڑے
3 سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوئے ہیں اور وہ کتاب وہی عالی شان اور مقدس کتاب ہے جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق بین دکھلاتی ہے اور ہر ایک قسم کی غلطیوں سے مبرا ہے جس کی پہلی صفت یہی ہے ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ اسی نے ہم پر ظاہر کیا ہے کہ خدا حق کے طالبوں کو مراتب یقینیہ سے محروم رکھ کر ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس رحیم وکریم نے ایسا اپنے ضعیف اور ناقص بندوں پر احسان کیا ہے کہ جس کام کو عقل ناقص انسان کی نہیں کر سکتی تھی اس نے وہ کام آپ کر دکھایا ہے.اور جس درخت بلند تک بشر کا کو تہ ہاتھ نہیں پہنچتا تھا اس کے پھلوں کو اس نے اپنے ہاتھ سے نیچے گرایا ہے اور حق کے طالبوں کو اور سچائی کے بھوکے اور پیاسوں کو یقین کامل اور قطعی کا سامان عطا کر دیا ہے اور جو دینی صداقتوں کے ہزار ہا دقائق ذرات کی طرح روحانی آسمان کی دور دراز فضاؤں میں منتشر تھے اور جو زندگی کا پانی شبنم کی طرح متفرق طور پر انسانی سرشت کے ظلمات میں اور اس کی عمیق در عمیق استعدادات میں مخفی اور متجب تھا جس کو بمنصہ ظہور لانا اور نا پیدا کنار فضاؤں سے ایک جگہ اکٹھا کرنا انسانی عقل کی طاقتوں سے باہر تھا اور بشر کی ضعیف قوتوں کے پاس کوئی ایسا باریک اور غیب نما آلہ نہ تھا کہ جس کے ذریعہ سے انسان ان ادق اور پوشیدہ ذرات حقیقت کو کہ جن کو باستیفاء دیکھنے کے لئے بصارت وفا نہیں کرتی تھی اور جمع کرنے کے لئے عمر فرصت نہیں دیتی تھی آسانی سے دریافت اور حاصل کر لیتا ان سب لطائف حکمت و دقائق معرفت کو اس کامل کتاب نے بلا تفاوت و بلا نقصان و بلا سہو و بلا نسیان خدائی کی قدرت اور قوت سے اور رہبانیت کی طاقت اور حکومت سے ہمارے سامنے لا رکھا ہے تاہم اس پانی کو پی کر بچ جائیں اور موت کے گڑھے میں نہ پڑیں اور پھر کمال یہ کہ اس جامعیت سے اکٹھا کیا ہے کہ کوئی دقیقہ دقائق صداقت سے اور کوئی لطیفہ لطائف حکمت سے باہر نہیں رہا اور نہ کوئی ایسا امر داخل ہوا کہ جو کسی صداقت کے مبائن اور منافی ہو چنانچہ ہم نے منکرین کو ملزم اور رسوا کرنے کے لئے جابجا بصراحت لکھ دیا ہے اور بآواز بلند سنا دیا ہے کہ اگر کوئی برہمو قرآن شریف کے کسی بیان کو خلاف صداقت سمجھتا ہے یا کسی صداقت سے خالی خیال کرتا ہے تو اپنا اعتراض پیش کرے، ہم خدا کے فضل اور کرم سے اس کے وہم کو ایسا دور کر دیں گے کہ جس بات کو وہ اپنے خیال باطل میں ایک عیب سمجھتا تھا اس کا ہنر ہونا اس پر آشکارا ہو جائے گا.براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۲۳ تا ۳۲۷ حاشیہ نمبر ۱۱) یا درکھنا چاہئے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ کہ جو اول حالت میں تکلف اور تصنع سے اختیار کی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے اور برکت توجہ صادقین و جذ بہ کاملین طبیعت میں داخل ہو جائے اور اس کا جز
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بن جائے اور وہ مشکوتی نور دل میں پیدا ہو جاوے کہ جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے جس کو محصوفین دوسرے لفظوں میں روح قدس بھی کہتے ہیں جس کے پیدا ہونے کے بعد خدائے تعالیٰ کی نافرمانی ایسی بالطبع بری معلوم ہوتی ہے جیسی وہ خود خدائے تعالیٰ کی نظر میں بُری ومکروہ ہے اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میسر آتا ہے بلکہ بجز خالق و مالک حقیقی ہر یک موجود کو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے سو اس نور کے پیدا ہونے کے لئے ابتدائی انتقا جس کو طالب صادق اپنے ساتھ لاتا ہے شرط ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی علت غائی بیان کرنے میں فرمایا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ نہیں فرمایا که هدى لِلْفَاسِقِينَ يا هُدًى لِلْكَافِرِينَ ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے منتقی کا لفظ انسان پر صادق آسکتا ہے وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولی اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کا پہلا تولد ہے مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ربوبیت کاملہ مستجمعہ کے پورے جوڑ واتصال سے بطرز ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ (المؤمنون :۱۵) کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے منتقلی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ر بویت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم ہے جس سے مشکلی لاہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور توند ثالث پاتا ہے.(ازالہ اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵۸ تا ۵۶۰ حاشیه ) قرآن شریف نے تو اپنے نزول کی علت غائی ہی یہ قرار دی ہے کہ تقویٰ کی راہوں کو سکھائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی یه کتاب اس غرض سے اُتری ہے کہ تاجو لوگ گناہ سے پر ہیز کرتے ہیں ان کو باریک سے بار یک گناہوں پر بھی اطلاع دی جائے تاوہ ان بڑے کاموں سے بھی پر ہیز کریں جو ہر ایک آنکھ کو نظر نہیں آتے بلکہ فقط معرفت کی خوردبین سے نظر آ سکتے ہیں اور موٹی نگاہیں ان کے دیکھنے سے خطا کر جاتی ہیں مثلاً آپ کے یسوع صاحب کا قول متی نے یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ کرے وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا لیکن قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ نہ تو شہوت سے اور نہ بغیر شہوت کے بیگانہ عورت کے منہ پر ہرگز نظر نہ ڈال اور ان کی باتیں مت سن اور ان کی آواز مت سن اور ان کے حسن کے قصے مت سن کہ ان امور سے پر ہیز کرنا تجھے ٹھوکر کھانے سے بچائے گا.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۶،۴۱۵) یہ کتاب جو شکوک و شبہات سے پاک ہے متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہے اور متقی وہ لوگ ہیں جو خدا پر
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (جس کی ذات مخفی در مخفی ہے ) ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے اور اُس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے پر نازل ہوئی اور نیز اُن کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں وہی لوگ خدا کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جو نجات پائیں گے......خدا تعالیٰ نے ان آیات میں فیصلہ کر دیا ہے اور نجات پانا صرف اسی بات میں حصر کر دیا ہے کہ لوگ خدا تعالی کی کتابوں پر ایمان لاویں اور اس کی بندگی کریں.خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض اور اختلاف نہیں ہو سکتا پس جبکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے نجات کو وابستہ کر دیا ہے تو پھر بے ایمانی ہے کہ ان آیات قطعیۃ الدلالت سے انحراف کر کے متشابہات کی طرف دوڑیں، متشابہات کی طرف وہی لوگ دوڑتے ہیں جن کے دل نفاق کی مرض سے بیمار ہوتے ہیں.اور ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ آیات ممدوحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ الم ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کی یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک وشبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے اور اُن کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے اور خدا ان آیات میں فرماتا ہے کہ متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے.ان آیات سے یہ تو معلوم ہوا کہ نجات بغیر نبی کریم پر ایمان لانے اور اس کی ہدایات نماز وغیرہ کے بجالانے کے نہیں مل سکتی.اور جھوٹے ہیں وہ لوگ جو نبی کریم کا دامن چھوڑ کر محض خشک توحید سے نجات ڈھونڈھتے ہیں مگر یہ عقدہ قابل مل رہا کہ جبکہ وہ لوگ ایسے راستباز ہیں کہ پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے اور نماز بھی ادا کرتے اور روزہ بھی رکھتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں تو پھر یہ فرمانا کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی اُن کو یہ کتاب ہدایت دے گی اس کے کیا معنی ہیں وہ تو ان سب باتوں کو بجالا کر پہلے ہی سے ہدایت یافتہ ہیں اور حاصل شدہ کو حاصل کرانا یہ تو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باوجود ایمان اور عمل صالح کے کامل استقامت اور کامل ترقی کے محتاج ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة البقرة جس کی رہنمائی صرف خدا ہی کرتا ہے انسانی کوشش کا اس میں دخل نہیں.استقامت سے مُراد یہ ہے کہ ایسا ایمان دل میں رچ جائے کہ کسی ابتلاء کے وقت ٹھو کر نہ کھاویں اور ایسے طرز اور ایسے طور پر اعمال صالحہ صادر ہوں کہ اُن میں لذت پیدا ہو اور مشقت اور تلخی محسوس نہ ہو اور اُن کے بغیر جی ہی نہ سکیں گویا وہ اعمال رُوح کی غذا ہو جائیں اور اُس کی روٹی بن جائیں اور اُس کا آب شیریں بن جائیں کہ بغیر اس کے زندہ نہ رہ سکیں.غرض استقامت کے بارے میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن کو انسان محض اپنی سعی سے پیدا نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ روح کا خدا کی طرف سے فیضان ہوتا ہے وہ فوق العادت استقامت بھی خدا کی طرف سے پیدا ہو جائے.اور ترقی سے مراد یہ ہے کہ وہ عبادت اور ایمان جو انسانی کوششوں کی انتہا ہے اس کے علاوہ وہ حالات پیدا ہو جائیں جو محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پیدا ہو سکتے ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی سعی اور عقل صرف اس حد تک رہبری کرتی ہے کہ اس پوشیدہ خدا پر جس کا چہرہ نہیں دیکھا گیا ایمان لایا جائے اسی وجہ سے شریعت جو انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دینا نہیں چاہتی اس بات کے لئے مجبور نہیں کرتی کہ انسان اپنی طاقت سے ایمان بالغیب سے بڑھ کر ایمان حاصل کرے.ہاں! راستبازوں کو اسی آیت ھدی لِلْمُتَّقِينَ میں وعدہ دیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان بالغیب پر هُدًى ثابت قدم ہو جائیں اور جو کچھ وہ اپنی سعی سے کر سکتے ہیں کر لیں تب خدا ایمان کی حالت سے عرفان کی حالت تک ان کو پہنچا دے گا اور اُن کے ایمان میں ایک اور رنگ پیدا کر دے گا.قرآن شریف کی سچائی کی یہ ایک نشانی ہے کہ وہ جو اُس کی طرف آتے ہیں اُن کو اُس مرتبہ ایمان اور عمل پر رکھنا نہیں چاہتا کہ جو وہ اپنی کوشش سے اختیار کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو کیونکر معلوم ہو کہ خدا موجود ہے بلکہ وہ انسانی کوششوں پر اپنی طرف سے ایک ثمرہ مرتب کرتا ہے جس میں خدائی چمک اور خدائی تصرف ہوتا ہے مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا انسان خدا پر ایمان لانے کے بارہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ وہ اس پوشیدہ خدا پر ایمان لاوے جس کے وجود پر ذرہ ذرہ اس عالم کا گواہ ہے مگر انسان کی یہ تو طاقت ہی نہیں ہے کہ محض اپنے ہی قدموں اور اپنی ہی کوشش اور اپنے ہی زور بازو سے خدا کے انوار الوہیت پر اطلاع پاوے اور ایمانی حالت سے عرفانی حالت تک پہنچ جاوے اور مشاہدہ اور رویت کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لے.اسی طرح انسانی سعی اور کوشش نماز کے ادا کرنے میں اس سے زیادہ کیا کر سکتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة پاک اور صاف ہو کر اور نفی خطرات کر کے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد و ثنا حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں لیکن یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی اور خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق و شوق اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اُس کی نماز میں پیدا ہو جائے گویا وہ خدا کو دیکھ لے اور ظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں.اسی وجہ سے خدا تعالی نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گر نے کے لئے مستعد ہے.پس آیت يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک اُن سے ہو سکتا ہے نماز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں.اس لئے اُس کریم و رحیم نے فرمایا : هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی جہاں تک ممکن ہو وہ تقویٰ کی راہ سے نماز کی اقامت میں کوشش کریں.پھر اگر وہ میرے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو میں ان کو فقط انہی کی کوشش اور سعی پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں آپ ان کی دستگیری کروں گا.تب اُن کی نماز ایک اور رنگ پکڑ جائے گی اور ایک اور کیفیت اُن میں پیدا ہو جائے گی جو اُن کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھی.یہ فضل محض اس لئے ہو گا کہ وہ خدا تعالی کے کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور جہاں تک اُن سے ہو سکا اُس کے احکام کے مطابق عمل میں مشغول رہے.غرض نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میتر آ جائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمال باری کی میسر آ جائے جولذات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دنیوی رذایل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: ۱۱۵) ایسا ہی مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا ہے: وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا (ال عمران: ۹۳) لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجا لا دے کہ اپنے اموال محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے کمال تو یہ ہے کہ ماسولی سے بکلی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو کیونکہ وہ بھی مِبَارَزَقْنهُمْ میں داخل ہے خدا تعالیٰ کا منشاء اُس کے قول مِمَّا رَزَقْنَا سے صرف درہم و دینار نہیں ہے بلکہ یہ بڑا وسیع لفظ ہے جس میں ہر ایک وہ نعمت داخل ہے جو انسان کو دی گئی ہے.غرض اِس جگہ بھی هُدًى لِلْمُتَّقِينَ فرمانے سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ جو کچھ انسان کو ہر ایک قسم کی نعمت مثلاً اُس کی جان اور صحت اور علم اور طاقت اور مال وغیرہ میں سے دیا گیا ہے اس کی نسبت انسان اپنی کوشش سے صرف مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ تک اپنا اخلاص ظاہر کر سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر بشری قوتیں طاقت نہیں رکھتیں لیکن خدا تعالیٰ کا قرآن شریف پر ایمان لانے والے کے لئے اگر وہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ کی حد تک اپنا صدق ظاہر کرے گا بموجب آیت ھدی المتقین کے یہ وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس قسم کی عبادات میں بھی کمال تک اُس کو پہنچا دے گا اور کمال یہ ہے کہ اُس کو یہ قوت ایثار بخشی جائے گی کہ وہ شرح صدر سے یہ سمجھ لے گا کہ جو کچھ اُس کا ہے خدا کا ہے اور کبھی کسی کو محسوس نہیں کرائے گا کہ یہ چیز میں اُس کی تھیں جس کے ذریعہ سے اُس نے نوع انسان کی خدمت کی.مثلاً احسان کے ذریعہ سے کبھی انسان کسی کو محسوس کراتا ہے کہ اُس نے اپنا مال دوسرے کو دیا مگر یہ ناقص حالت ہے کیونکہ وہ تبھی محسوس کرے گا کہ جب اُس چیز کو اپنی چیز سمجھے گا.پس جب بموجب آیت هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے خدا تعالیٰ قرآن شریف پر ایمان لانے والے کو اس مقام سے ترقی بخشے گا تو وہ یہاں تک اپنی تمام چیزوں کو خدا کی چیز یں سمجھ لے گا کہ محسوس کرانے کی مرض بھی اُس کے دل میں سے جاتی رہے گی اور نوع انسان کے لئے ایک مادری ہمدردی اُس کے دل میں پیدا ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور کوئی چیز اس کی اپنی نہیں رہے گی بلکہ سب خدا کی ہو جائے گی اور یہ تب ہوگا کہ جب وہ سچے دل سے قرآن شریف اور نبی کریم پر ایمان لائے گا بغیر اس کے نہیں.پس کس قدر گمراہ وہ لوگ ہیں جو بغیر متابعت قرآن شریف اور رسول کریم کے صرف خشک توحید کو موجب نجات ٹھہراتے ہیں بلکہ مشاہدہ ثابت کر رہا ہے کہ ایسے لوگ نہ خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں نہ دنیا کے لالچوں اور خواہشوں سے پاک ہو سکتے ہیں چہ جائیکہ وہ کسی کمال تک ترقی کریں اور یہ بات بھی بالکل غلط اور کورانہ خیال ہے کہ انسان خود بخو د نعمت توحید حاصل کر سکتا ہے بلکہ توحید خدا کی کلام کے ذریعہ سے ملتی ہے اور اپنی طرف سے جو کچھ سمجھتا ہے وہ شرک سے خالی نہیں.اسی طرح خدا تعالی کی کتابوں پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی کوشش صرف اس حد تک ہے کہ انسان تقوی اختیار کر کے اُس کی کتاب پر ایمان لاوے اور صبر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲ سورة البقرة سے اُس کی پیروی کرے اس سے زیادہ انسان میں طاقت نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے آیت هُدًى لِلْمُتَّقِينَ میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر اس کی کتاب اور رسول پر کوئی ایمان لائے گا تو وہ مزید ہدایت کا مستحق ہوگا اور خدا اُس کی آنکھ کھولے گا اور اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کرے گا اور بڑے بڑے نشان اُس کو دکھائے گا.یہاں تک کہ وہ اسی دنیا میں اُس کو دیکھ لے گا کہ اُس کا خدا موجود ہے اور پوری تسلی پائے گا.خدا کا کلام کہتا ہے کہ اگر تو میرے پر کامل ایمان لاوے تو میں تیرے پر بھی نازل ہوں گا.اسی بنا پر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس اخلاص اور محبت اور شوق سے خدا کے کلام کو پڑھا کہ وہ الہامی رنگ میں میری زبان پر بھی جاری ہو گیا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۵ تا ۱۴۱) ترجمہ: میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.یہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہے (مشقی کون ہوتے ہیں؟) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اور منتقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس وحی پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی اور آخرۃ پر بھی یقین رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں.تفسير - اله ذلِكَ الْكِتَبُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُقِین میں اللہ جو بہت جاننے والا ہوں یہ کتاب جو شک وشبہ اور ہر عیب و نقص سے پاک ہے متقیوں کی ہدایت کے لئے بھیجی گئی ہے.قرآن کریم کی علل اربعہ ہر شے کی چار علتیں ہوتی ہیں یہاں بھی ان علل اربعہ کو بیان کیا ہے اور وہ علیل اربعہ یہ ہوتی ہیں عِلتِ کی چارعا فاعلی.علت صوری.عِلتِ مادی.عِلتِ غائی.اس مقام پر قرآن شریف کی چار علتوں کا ذکر کیا.علت فاعلی تو اس کتاب کی اللہ ہے اور اللہ کے معنے میرے نزدیک أَنَا اللهُ أَعلَمُ یعنی میں اللہ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور علت مادى ذلك الكتب ہے یعنی یہ کتاب اس خدا کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے.اور علت صوری لاریب فیہ ہے یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ رَيْبَ فِیهِ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں جو بات ہے مستحکم اور جو دعوئی ہے وہ مدلل اور روشن اور علت غائی اس کتاب کی هُدًى لِلْمُتَّقِينَن ہے یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض وغایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے.یہ چاروں علتیں بیان کرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے عام صفات بتائے ہیں کہ وہ مشقی کون
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة البقرة ج ہوتے ہیں جو ہدایت پاتے ہیں الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ لوَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو خدا پر جو ہنوز پردہ غیب میں ہوتا ہے ایمان لاتے ہیں اور نماز کو کھڑا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور وہ ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تجھ پر نازل کی ہے اور جو کچھ تجھ سے پہلے نازل ہوا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہ صفات متقی کے بیان فرمائے.اب یہاں بالطبع ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کی غرض و غایت تو یہ بتائی هُدًى لِلْمُتَّقِينَ اور پھر متقیوں کے صفات بھی وہ بیان کئے جو سب کے سب ایک باخدا انسان میں ہوتے ہیں یعنی خدا پر ایمان لاتا ہو، نماز پڑھتا ہو، صدقہ دیتا ہو، کتاب اللہ کو مانتا ہو، قیامت پر یقین رکھتا ہو پھر جو شخص پہلے ہی سے ان صفات سے متصف ( ہے ) اور وہ متقی کہلاتا ہے اور ان امور کا پابند ہے تو پھر وہ ہدایت کیا ہوئی ؟ جو اس کتاب کے ذریعہ اُس نے حاصل کی اس میں وہ امر زائد کیا ہے جس کے لئے یہ کتاب نازل ہوئی ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور امر ہے جو اس ہدایت میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ امور جو بطور صفات متقین بیان فرمائے ہیں یہ تو اس ہدایت کے لئے جو اس کتاب کا اصل مقصد اور غرض ہے بطور شرا کا ہیں اور نہ وہ ہدایت اور چیز ہے اور وہ ایک اعلیٰ امر ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے اور جس کو میں بیان کرتا ہوں پس یا درکھو کہ متلی کی صفات میں سے پہلی صفت یہ بیان کی يُؤْمِنُونَ بِالغیب یعنی غیب پر ایمان لاتے ہیں.یہ مومن کی ایک ابتدائی حالت کا اظہار ہے کہ جن چیزوں کو اس نے نہیں دیکھا ان کو مان لیا ہے.غیب اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور اس غیب میں بہشت، دوزخ ، حشر اجساد اور وہ تمام امور جو ابھی تک پردہ غیب میں ہیں شامل ہیں.اب ابتدائی حالت میں تو مومن ان پر ایمان لاتا ہے لیکن ہدایت یہ ہے کہ اس حالت پر اُسے ایک انعام عطا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا علم غیب سے انتقال کر کے شہود کی طرف آجاتا ہے اور اس پر پھر ایسا زمانہ آ جاتا ہے کہ جن باتوں پر وہ پہلے غائب کے طور پر ایمان لاتا تھا وہ ان کا عارف ہو جاتا ہے اور وہ امور جو ابھی تک مخفی تھے اس کے سامنے آ جاتے ہیں اور حالتِ شہود میں انہیں دیکھتا ہے پھر وہ خدا کو غیب نہیں مانتا بلکہ اسے دیکھتا ہے اور اس کی تجلی سامنے رہتی سے غرض اس غیب کے بعد شہود کا درجہ اسے عطا کیا جاتا ہے جیسے ایمان کے بعد عرفان کا مرتبہ ملتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کو اسی عالم میں دیکھ لیتا ہے اور اگر اس کو یہ مرتبہ عطا نہ ہوتا تو پھر يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کے مصداق کو کوئی ہدایت اور انعام عطا نہ ہوتا.اس کے لئے قرآن شریف گویا موجب ہدایت نہ ہوتا.مگر ایسا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة البقرة نہیں ہوتا اور اس کے لئے ہدایت یہی ہے کہ اس کے ایمان کو حالت غیب سے منتقل کر کے حالت شہود میں لے آتا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنى (بنی اسرائیل: ۷۳) یعنی جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ دوسرے عالم میں بھی اندھا اُٹھایا جاوے گا.اس نابینائی سے یہی مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تحیتی اور ان امور کو جو حالت غیب میں ہیں اسی عالم میں مشاہدہ نہ کرے اور یہ نا بینائی کا کچھ حصہ غیب والے میں پایا جاتا ہے لیکن هُدًى لِلْمُتَّقِین کے موافق جو شخص ہدایت پالیتا ہے اس کی وہ نا بینائی دور ہو جاتی ہے اور وہ اس حالت سے ترقی کر جاتا ہے اور وہ ترقی اس کلام کے ذریعہ سے یہ ہے کہ ایمان بالغیب کے درجہ سے شہود کے درجہ پر پہنچ جاوے گا اور اس کے لئے یہی ہدایت ہے.قی کی دوسری صفت مثقفی کی دوسری صفت یہ ہے يُقِيمُونَ الصَّلوة یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں.متقی سے جیسے ہوسکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے.یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے.یعنی مشتقی خدا سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں ہارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے.کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے بار بار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے اس کی ہدایت کیا ہوتی ہے.الحکم نمبر ۲ جلد ۱۰ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵) اس وقت بجائے يُقِيمُونَ الصَّلوة کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لئے بمنزلہ غذا ہو جاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطا کیا جاتا ہے جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر حظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھا نامل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے، یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے.وہ نماز اس کے لئے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب و اضطراب محسوس کرتا ہے لیکن نماز کے ادا کرنے سے اس کے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة البقرة اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہے اور انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالی سے اسے ذاتی محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے.انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اس کی محبت اللہ تعالی سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی.جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکولات و مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اُٹھاتے ہیں.اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن مشقی نماز میں لذت پاتا ہے.اس لئے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے.نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زمینہ ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ، راست باز ، ابدال، قطب گزرے ہیں.انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیوں کر حاصل کئے ؟ اس نماز کے ذریعہ سے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وَقُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہیں پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے.غرض یا د رکھو کہ يُقِيمُونَ الصَّلوة وہ ابتدائی درجہ اور مرحلہ ہے جہاں نماز بے ذوقی اور کشاکش سے ادا کرتا ہے لیکن اس کتاب کی ہدایت ایسے آدمی کے لئے یہ ہے کہ اس مرحلہ سے نجات پا کر اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں نماز اس کے لئے قرۃ العین ہو جاوے.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ اس مقام پر منتقلی سے مراد وہ شخص ہے جو نفس تو امہ کی حالت میں ہے.نفس کے تین درجہ نفس کے تین درجہ ہیں.نفس اتارہ، لوامہ، مطمنہ.نفس اتارہ وہ ہے جو فسق و فجور میں مبتلا ہے اور نافرمانی کا غلام ہے.ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور نکلتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفس او امہ کہلاتی ہے.اس لئے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا بلکہ اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة البقرة اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجا تا ہے اور کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے یہ سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پالیتا ہے پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفسِ مطمئنہ ہے.اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے فسادمٹ جاتے ہیں.نفس مطمئنہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کر کے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس امر کی طرف اشارہ ہے: اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ (العمل: ۳۵) یعنی جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا باناسب تباہ کر دیتے ہیں بڑے بڑے نمبر دار رئیس نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کئے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک تغیر عظیم واقع ہوتا ہے یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے.شیطان کے غلاموں کو قابو کیا جاتا ہے.وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں ان کو کچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اور روحانی طور پر ایک نیا سکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہو جاتی ہے یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتا ہے اس لئے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہیں جاتا بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا.بلکہ دل پر خدا کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرشِ دل پر نزول فرماتا ہے.اسی کو کمال درجہ کی حالت بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَاى ذِي الْقُربى (النحل : 91) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتَائِی ذِي الْقُرْبی کا حکم ہے.حالت عدل عدل کی حالت یہ ہے جو مشقی کی حالت نفس اتارہ کی صورت میں ہوتی ہے اس حالت کی اصلاح کے لئے عدل کا حکم ہے.اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے.مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبالوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جاوے اس صورت میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷ سورة البقرة نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہوگا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا مگر یہ ٹھیک نہیں.عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں.یہ عدل کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے.پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یا درکھے کہ یادر قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور کسی قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے.کیونکہ سیا مرالہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے.حالت احسان اس کے بعد احسان کا درجہ ہے جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں تو ڑتا اللہ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے.یہاں تک کہ عدل ہی نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے.اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے.اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے.دراصل احسان والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ ایتائی ذی القربی کا درجہ ہے.ایتاء ذی القربی کی حالت ايتاء ذی القربی کا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے.یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیوں کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسی ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے.کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا اور اس کی خدمت کرے گا.یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچے کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مرجادے تو بھی تجھ سے مواخذہ نہ ہو گا.اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دو چار گالیاں ہی سناوے گی.اس لئے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہیں.اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸ سورة البقرة ہے.تو یہی وہ حالت ہے جو مطمئنہ کہلاتی ہے.غرض يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے یہ معنے ہیں کہ جب تک نفسِ مطمئنہ نہ ہو اسی کشاکش میں لگارہتا ہے کبھی نفس غالب آ جاتا ہے اور کبھی آپ غالب آ جاتا ہے صبح کو اٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ٹھنڈا پانی ہے اس کو نہانے کی حاجت ہے پس اگر نفس کی بات مان لیتا ہے تو نماز کو کھو لیتا ہے اور اگر ہمت سے کام لیتا ہے تو اس پر فتح پالیتا ہے.شکر کی بات ہے کہ ایک مرتبہ خود مجھے ایسی حالت پیش آئی.سردی کا موسم تھا.مجھے غسل کی حاجت ہو گئی.پانی گرم کرنے کے لئے کوئی سامان اس جگہ کا نہ تھا.ایک پادری کی لکھی ہوئی کتاب میزان الحق میرے پاس تھی.اُس وقت وہ کام آئی میں نے اُس کو جلا کر پانی گرم کر لیا اور خدا کا شکر کیا.اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ بعض وقت شیطان بھی کام آجاتا ہے.پھر میں اصل مطلب کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ يُقِيمُونَ الصَّلوة کے یہی معنے ہیں اور اس پر ترقی یہی ہے کہ ایسی حالت سے نجات پا کر مطمئنہ کی حالت میں پہنچ جاوے.خوب یا درکھو کہ نرا غیب پر ایمان لانے کا انجام خطر ناک ہوتا رہا ہے.افلاطون جب مرنے لگا تو کہنے لگا کہ میرے لئے بت پر ایک مرغا ہی ذبح کرو.جالینوس نے کہا میری قبر میں خچر کے پیشاب گاہ کے برابر ایک سوراخ رکھ دینا تا کہ ہوا آتی رہے.اب غور کرو کہ کیا ایسے لوگ بادی ہو سکتے ہیں جو ایسی مذبذب اور مضطرب حالت میں ہوتے ہیں.اصل بات یہی ہے کہ جب تک اندر روشنی پیدا نہ ہو کیا فائدہ؟ لیکن یہ روشنی خدا تعالیٰ کے فضل ہی سے ملتی ہے.یہ بالکل سچ ہے کہ سب طبائع یکساں نہیں ہوتی ہیں اور خدا تعالیٰ نے سب کو نبی پیدا نہیں کیا.اثر صحبت لیکن صحبت میں بڑا شرف ہے اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے.کسی کے پاس اگر خوشبو ہوتو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے.اسی طرح پر صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں کُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: ١١٩) فرمایا ہے اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں لیکن آریہ سماجی یا عیسائی اس طریق سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جبکہ ان کے ہاں یہ مسلم امر ہے کہ اب کوئی شخص خدا رسیدہ ایسا ہو نہیں سکتا جس پر خدا تعالی کی تازہ بتازہ وحی نازل ہو اور وہ اس سے توفیق پا کر ان لوگوں کو صاف کرے جو گناہ آلود زندگی بسر کرتے ہیں.میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۹ سورة البقرة آریہ سماج کے اندر ایک نئیش ہے وہ بے جا طور سے مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اعتراض کرنا ہی اپنے مذہب کی خوبی اور کمال پیش کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جاوے کہ اسلام کے مقابلہ میں روحانیت پیش کرو تو کچھ نہیں.نکتہ چینی کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوسکتی.وہ شخص بڑا بدنصیب اور نادان ہے جو بغیر اس کے کہ کسی منزل پر پہنچا ہو دوسروں پر نکتہ چینی کرنے لگے.ایک بچہ جو اقلیدس کے اصولوں سے نا واقف ہے اور ان نتائج سے بے خبر ہے جو اس کی اشکال سے پیدا ہوتے ہیں وہ ان ٹیڑھی لکیروں کو دیکھ کر کب خوش ہوسکتا ہے وہ تو اعتراض کرے گا لیکن عقلمندوں کے نزدیک اس اعتراض کی کیا وقعت اور حقیقت ہو سکتی ہے.ایسا ہی حال ان آریوں کا ہے.وہ اعتراض کرتے ہیں مگر خود حق اور حقیقت سے بے خبر اور محروم ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے آگاہ نہیں اور اس کی طاقتوں کا انہیں علم نہیں ہے اور نہ انہیں وہ حواس ملے ہیں جو وہ اسی عالم میں بہشتی نظاروں کو دیکھ سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں کے نمونے مشاہدہ کریں ایسے مذہب کی بنیاد بالکل ریت پر ہے وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں.یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی نا بینا مذہب کی تائید نہیں کرتا اور کوئی نصرت اسے نہیں دی جاتی.اسلام کی سچائی کی یہی بڑی زبردست دلیل ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اس کی نصرت فرماتا ہے اور اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا میں اس کی تازہ بتازہ نصرتوں کا ثبوت دوں.چنانچہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جس نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہ دیکھے ہوں؟ اس کے بالمقابل ہمیں کوئی بتائے کہ وید کیا لایا؟ وہ تو بالکل ادھورا ہے دوسرے لوگوں کو تو خواب بھی آجاتی ہے مگر دید والوں کے نزدیک خواب بھی بے حقیقت چیز ہے اور وہ بھی نہیں آسکتی.جبکہ وہ دروازہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لئے یقینی دروازہ ہے بند ہے تو اور وسائل خدارسی کے کیا ہو سکتے ہیں؟ میں سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس فرقہ کے حالات دیکھے ہیں.ان میں شوخیوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا یا بعض ایسے لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ مذہب کی اصل غرض کیا ہے؟ غرض اسلام ایک ایسا پاک مذہب ہے جو ساری نیکیوں کا حقیقی سر چشمہ اور منبع ہے اس لئے کہ نیکیوں کی جڑھ ہے اللہ تعالی پر کامل ایمان.اور وہ بدون اس کے پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات اور نشانات تازہ بتازہ دیکھتا ر ہے.اور یہ بجز اسلام کے کسی دوسرے کو حاصل نہیں اگر ہے تو کوئی پیش کرے ؟ علاوہ بریں اسلام کی یہ بھی ایک خوبی ہے کہ بعض فطرتی نیکیاں جو انسان کرتا ہے یہ ان پر از دیا د کرتا اور انہیں کامل کرتا ہے اس لئے ہی ھدی للمتقین فرمایا ، هُدًى لِّلظَّالِمِينَ يَا لِلْكَافِرِينَ نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة کہا.عرصہ کی بات ہے ایک برہمو اگنی ہوتری نے کہا تھا کہ لا إله إلا الله تو ہم بھی کہتے ہیں تم محمد رسُولُ اللہ کیوں کہتے ہو؟ ہم نے کہا تھا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دو ہر یہ نہیں ہوتا.چنانچہ اب وہ کھلا وہر یہ ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا ایمان ہوتا تو کیوں دہر یہ بنتا.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف ایسی کامل اور جامع کتاب ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کیا وید میں کوئی ایسی شرقی ہے جو ھڈی لِلْمُتَّقِينَ کا مقابلہ کرے؟ اگر زبانی اقرار کوئی چیز ہے یعنی اس کے شمرات اور نتائج کی حاجت نہیں تو پھر تو ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کا اقرار کرتی ہے اور بھگتی عبادت ،صدقہ، خیرات کو بھی اچھا بجھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ان باتوں پر عمل بھی کرتی ہے پھر ویدوں نے آکر دنیا کو کیا بخشا ؟ یا تو یہ ثابت کرو کہ جو قو میں وید کو نہیں مانتی ہیں ان میں نیکیاں بالکل مفقود ہیں اور یا کوئی امتیازی نشان بتاؤ؟ قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اللہ ہم کوصراط مستقیم کی ہدایت فرما وہ صراط مستقیم جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے انعام واکرام ہوئے.اس دُعا کے ساتھ ہی سورۃ البقرہ کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی ذلِك الكتبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.گویا روحیں دُعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دکھاتی ہے اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے.ایک طرف دُعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہورہی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ابتدائے قرآن مجید میں متقیوں کے صفات بیان فرمائے ہیں ان کو معمولی صفات میں رکھا ہے.لیکن جب انسان قرآن مجید پر ایمان لا کر اسے اپنی ہدایت کے لئے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو ھڈی لِلْمُتَّقِينَ میں مقصود رکھے ہیں قرآن شریف کی اس عِلتِ غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کے کمال کا پتہ لگتا ہے.پھر منتقی کی ایک اور علامت بیان فرمائی وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ یعنی جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.یہ ابتدائی حالت ہوتی ہے اور اس میں سب کے سب شریک ہیں کیونکہ عام طور پر یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة البقرة فطرت انسانی کا ایک تقاضا ہے کہ اگر کوئی سائل اس کے پاس آجاوے تو کچھ نہ کچھ اسے ضرور دے دیتا ہے گھر میں دس روٹیاں موجود ہوں اور کسی سائل نے آ کر صدا کی تو ایک روٹی اس کو بھی دے دے گا یہ امر زیر ہدایت نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک طبعی خاصہ ہے.اور یہ بھی یادر ہے کہ یہاں حِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ عام ہے اس سے کوئی خاص شے روپیہ پیسہ یا روٹی کپڑا مراد نہیں ہے بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں.انفاق کی دوصورتیں غرض یہ انفاق عام انفاق ہے اور اس کے لئے مسلمان یا غیر مسلمان کی بھی شرما نہیں.اور اس لئے یہ انفاق دو قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی دوسرازیر اثر نبوت.فطرتی تو وہی ہے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ تم میں سے کون ہے اگر کوئی قیدی یا بھوکا آدمی جو کئی روز سے بھوکا ہو یا نگا ہو، آ کر سوال کرے اور تم اسے کچھ نہ کچھ دے نہ دو.کیونکہ یہ امر فطرت میں داخل ہے اور یہ بھی میں نے بتا دیا ہے کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ روپیہ پیسہ سے مخصوص نہیں خواہ جسمانی ہو یا علمی سب اس میں داخل ہے جو علم سے دیتا ہے وہ بھی اسی کے ماتحت ہے، مال سے دیتا ہے وہ بھی داخل ہے، طبیب ہے وہ بھی داخل ہے مگر بموجب منشاء هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں قرآن شریف اسے لے جانا چاہتا ہے اور وہ وہ مقام ہے کہ انسان اپنی زندگی ہی خدا تعالی کے لئے وقف کر دے اور یہ المی وقف کہلاتا ہے.اس حالت اور مقام پر جب ایک شخص پہنچتا ہے تو اس میں منا رہتا ہی نہیں کیونکہ جب تک وہ مینا کی حد کے اندر ہے اس وقت تک وہ ناقص ہے اور اس علت غائی تک نہیں پہنچا جو قرآن مجید کی ہے لیکن کامل اسی وقت ہوتا ہے جب یہ حد نہ رہے اور اس کا وجود اس کا ہر فعل ہر حرکت و سکون محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذان کے ماتحت بنی نوع کی بھلائی کے لئے وقف ہو.دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کا کمال یہی ہے جو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کے منشاء کے موافق ہے.(الحکم نمبر ۳ جلد ۱۰ مورخه/ ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵،۴) اس کے بعد ایک اور صفت متقیوں کی بیان کی یعنی وہ والَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے موافق ایمان لاتے ہیں اور ایسا ہی جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نازل فرما یا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں.لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر ہدایت کیا ہے؟ وہ ہدایت یہ ہے کہ ایسا انسان خود اس قابل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی اور الہام کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲ سورة البقرة.وحی الہی اس پر بھی اترتی ہے جس سے اس کا ایمان ترقی کر کے کامل یقین اور معرفت کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس ترقی کو پالیتا ہے جو ہدایت کا اصل مقصود تھا.اس پر وہ انعام واکرام ہونے لگتے ہیں جو مکالمہ الہیہ سے ملتے ہیں.یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا جو لوگ اس اُمت کو الہام ووجی کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں.ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات اور برکات کا معاذ اللہ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہو گیا.وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمه مخاطبہ نہیں تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا مطلب ہی کیا ہوا.بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور پھر قرآن شریف میں یہ کیوں کہا: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۷۰) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (حم السجدة : ۳۱) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتا دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فرشتوں کا نزول ہو اور مخاطبہ نہ ہو.نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں.یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے.استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی اور.خواہ ان پر زلزلے آئیں فتنے آئیں وہ ہر قسم کی مصیبت اور دکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا.ان کا اخلاص اور وفاداری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا کے فرشتے اُتریں اور انہیں بشارت دیں کہ تم کوئی غم نہ کرو.یہ یقیناً یا درکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے.ورنہ عیسائیوں کے ہاں بھی مہر لگ چکی ہے وہ اب کوئی شخص ایسا نہیں بتا سکتے جو اللہ تعالیٰ کے مخاطبہ مکالمہ سے مشرف ہو.اور ویدوں پر تو پہلے ہی سے مہر لگی ہوئی ہے ان کا تو مذہب ہی یہی ہے کہ ویدوں کے الہام کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے یہ سلسلہ بند ہو گیا گویا خدا پہلے بھی بولا تھا مگر اب وہ گونگا ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت کلام نہیں کرتا اور کوئی اس کے اس فیض سے بہرہ ور نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ پہلے بولتا تھا اور یا اب وہ سنتا اور دیکھتا بھی ہے؟ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں مسلمانوں کے منہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے سنتا ہوں کہ اب مخاطبہ مکالمہ کی نعمت کسی کو نہیں مل سکتی.یہ کیوں عیسائیوں یا آریوں کی طرح مہر لگاتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة البقرة ہیں.اگر اسلام میں یہ کمال اور خوبی نہ ہو تو پھر دوسرے مذاہب پر اسے کیا فخر اور امتیاز حاصل ہوگا.نری توحید سے تو نہیں ہوسکتا کیونکہ برہمو بھی تو ایک ہی خدا کو مانتا ہے وہ بھی صدقہ دیتا ہے خدا کو اپنے طور پر یاد بھی کرتا ہے اور یہی اخلاقی صفات اس میں پائی جاتی ہیں تو پھر ایک مسلمان میں اور اس برہمو میں کیا فرق ہوا ؟ یہ امور تو نقل سے بھی ہو سکتے ہیں.اس کا کیا جواب ہے؟ کچھ بھی نہیں بجز اس کے کہ اسلام کا روشن چهره ان امتیازی نشانوں کے ذریعہ دکھایا جاوے جو خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ ملتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ اصل جو فضل آسمان سے آتا ہے اس کی کوئی چوری اور نقل نہیں کر سکتا اگر اسلام میں مکالمہ مخاطبہ اور تفضلات نہ ہوتے تو اسلام کچھ بھی چیز نہ ہوتا ! اس کا یہی تو فخر ہے کہ وہ ایک بچے مسلمان کو ان انعامات و اکرام کا وارث بنا دیتا ہے اور وہ فی الحقیقت خدا انما مذہب ہے.اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دکھا دیتا ہے اور یہی غرض ہے اسلام کی کیونکہ اسی ایک ذریعہ سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہو کر اسے پاک صاف بنا دیتی ہے اور حقیقی نجات کا دروازہ اس پر کھلتا ہے کیونکہ جب تک خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہ ہو گناہ سے بھی نجات مل سکتی ہی نہیں.جیسے یہ ایک ظاہر امر ہے کہ جب انسان کو یقین ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو وہ ہرگز ہرگز اس جگہ داخل نہ ہوگا یا زہر کے کھانے سے مرجانے کا یقین زہر کے کھانے سے بچاتا ہے.پھر اگر خدا تعالیٰ پر پورا پورا یقین ہو کہ وہ سمیع اور بصیر ہے اور ہمارے افعال کی جزا دیتا ہے اور گناہ سے اسے سخت نفرت ہے تو اس یقین کو رکھ کر انسان کیسے جرات کر سکتا ہے؟ کچی بات یہ ہے کہ اسلام کی روح اور اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف وہ انسان کو عطا کرتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ آسمان سے انعام واکرام ملتے ہیں.جب انسان اس مرتبہ اور مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی نسبت کہا جاتا ہے أُولَيكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو کامل ترقی پا کر اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نجات پائی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۲) تقومی علوم دینیہ کی کلید ہے وو قرآن شریف نے شروع میں ہی فرما یا هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ پس قرآن شریف کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لئے تقومی ضروری اصل ہے ایسا ہی دوسری جگہ فرمایا: لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة...) دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں.ریاضی، ہندسہ وہیت وغیرہ میں اس امر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والا ضرور متقی اور پر ہیز گار ہو بلکہ خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہی ہو وہ بھی سیکھ سکتا ہے مگر علم دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة البقرة نہیں کر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے.جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتا ہے کہ علوم دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے ہرگز ہرگز اسے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں ملتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لئے متقی ہونا شرط ہے جیسا کہ یہ فاری شعر ہے عروس حضرت قرآن نقاب آنگاه بردارد که دار الملک معنے راکند خالی زہر غوغا جب تک یہ بات پیدا نہ ہو اور دار الملک معنے خالی نہ ہو وہ غوغا کیا ہے؟ یہی فسق و فجور دنیا پسندی ہے.ہاں یہ خدا امر ہے کہ چور کی طرح کچھ کہلائے تو کہہ دے لیکن جو روح القدس سے بولتے ہیں وہ بحجر تقویٰ کے نہیں بولتے.یہ خوب یا درکھو کہ تقویٰ تمام دینی علوم کی کنجی ہے انسان تقویٰ کے سوا ان کو نہیں سیکھ سکتا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: الم - ذلِكَ الكِتبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ کتاب تقویٰ کرنے والوں کو ہدایت کرتی ہے اور وہ کون ہیں الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.یعنی ابھی وہ خدا نظر نہیں آتا اور پھر نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی نماز میں ابھی پورا سرور اور ذوق پیدا نہیں ہوتا تاہم بے لطفی اور بے ذوقی اور وساوس میں ہی نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ تجھ پر یا تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اُس پر ایمان لاتے ہیں.یہ تھی کے ابتدائی مدارج اور صفات ہیں جیسا کہ میں نے ایک مرتبہ بیان کیا تھا بظاہر یہاں اعتراض ہوتا ہے کہ جب وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں خرچ کرتے ہیں اور ایسا ہی خدا کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں پھر اس کے سوانئی ہدایت کیا ہوگی؟ یہ تو گویا تحصیل حاصل ہوئی ؟ يُنْفِقُونَ میں دونوں باتیں داخل ہیں یعنی دوسروں کو روٹی یا کپڑا یا مال دیتا ہے.اور یا قومی خرچ کرتا ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ عبادتیں اور یہ الفاظ اسی حد تک جو بیان کی گئی ہیں انسان کے کمال سلوک اور معرفت تامہ پر دلالت نہیں کرتے.اگر ہدایت کا انتہائی نقطہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ہی تک ہو تو پھر معرفت کیا ہوئی ؟ اس لئے جو شخص قرآن مجید کی ہدایت پر کار بند ہوگا وہ معرفت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے گا اور وہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے نکل کر مشاہدہ کی حالت تک ترقی کرے گا.گو یا خدا تعالیٰ کے وجود پر عین الیقین کا مقام ملے گا.اس طرح پر نماز کے متعلق ابتدائی حالت تو یہی ہوگی جو یہاں بیان کی کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں یعنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵ سورة البقرة نماز گویا گری پڑتی ہے.گرنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں ذوق اور لذت نہیں بے ذوقی اور وساوس کا سلسلہ ہے اس لئے اس میں وہ کشش اور جذب نہیں کہ انسان جیسے بھوک پیاس سے بے قرار ہو کر کھانے اور پانی کے لئے دوڑتا ہے اسی طرح پر نماز کے لئے دیوانہ وار دوڑے.لیکن جب وہ ہدایت پاتا ہے تو پھر یہ صورت نہیں رہے گی اس میں ایک ذوق پیدا ہو جائے گا وساوس کا سلسلہ ختم ہو کر اطمینان اور سکینت کا رنگ شروع ہوگا.و کہتے ہیں کسی شخص کی کوئی چیز گم ہو گئی تو اس نے کہا کہ ذرا ٹھہر جاؤ نماز میں یاد آ جاوے گی یہ نماز کا ملوں کی نہیں ہوا کرتی کیونکہ اس میں تو شیطان اُنہیں وسوسہ ڈالتا ہے لیکن جب کامل کا درجہ ملے گا تو ہر وقت نماز ہی میں رہے گا اور ہزاروں روپیہ کی تجارت اور مفاد بھی اس میں کوئی ہرج اور روک نہیں ڈال سکتا.اسی طرح پر باقی جو کیفیتیں ہیں وہ نرے قال کے رنگ میں نہ ہوں گی ان میں حالی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور غیب سے شہود پر پہنچ جاوے گا.یہ مراتب نرے سنانے ہی کو نہیں ہیں کہ بطور قصہ تم کو سناد یا اور تم بھی تھوڑی دیر کے لئے سُن کر خوش ہو گئے.نہیں یہ ایک خزانہ ہے اس کو مت چھوڑو.اس کو نکال لو یہ تمہارے اپنے ہی گھر میں ہے اور تھوڑی سی محنت اور سعی سے اس کو پا سکتے ہو.(احکم جلد نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ ) سمجھنا چاہئے کہ صفائی ذہن بھی تو آخر تقویٰ سے ہی حاصل ہوتا ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ فرماتا ہے المن ذلك الكتبُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی یہ کتاب انہیں کو ہدایت نصیب کرتی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جن میں تقویٰ نہیں وہ تو اندھے ہیں.اگر کوئی پاک نظر سے اور خدا کا خوف کر کے اس کو دیکھتا ہے تب تو اس کو سب کچھ اس میں سے نظر آ جاتا ہے اور اگر ضد اور تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھی ہوئی ہے تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مؤرخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) پھر دیکھو کہ تقوی کو ایسی اعلیٰ درجہ کی ضروری شے قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی علت غائی اسی کو ٹھہرایا ہے چنانچہ دوسری سورۃ کو جب شروع کیا ہے تو یوں ہی فرمایا ہے الم 8 ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم کی یہ ترتیب بڑا مرتبہ رکھتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس میں علیل اربعہ کا ذکر فرمایا ہے علت فاعلی، مادی ، صوری ، غائی ہر ایک چیز کے ساتھ یہ چار ہی علل ہوتی ہیں.قرآن کریم نہایت اکمل طور پر ان کو دکھاتا ہے اللہ.اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو بہت جاننے والا ہے اس کلام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے یعنی خدا اس کا فاعل ہے.ذلِكَ الْكِتَبُ -
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة البقرة یہ مادہ بتایا یہ کہو کہ یہ علت مادی ہے.علت صوری لا ریب فیہ.ہر ایک چیز میں شک وشبہ اور ظنون فاسدہ پیدا ہو سکتے ہیں مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی ریب نہیں ہے لاریب اس کے لئے ہے یعنی سب قسم کے ریب اب جبکہ اللہ تعالی نے اس کتاب کی شان یہ بتائی کہ لا رَيْبَ فِيهِ تو طبعاً ہر ایک سلیم الفطرت اور سعادت مند انسان کی روح اُچھلے گی اور خواہش کرے گی کہ اس کی ہدایتوں پر عمل کرے.ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف کی اجلی اور اصفی شان کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا اور نہ قرآن شریف کی خوبیاں اور اس کے کمالات اس کا حسن اپنے اندر ایک ایسا کشش اور جذب رکھتا ہے کہ بے اختیار ہو ہو کر دل اس کی طرف چلے آئیں مثلاً اگر ایک خوش نما باغ کی تعریف کی جاوے اس کے خوشبودار درختوں اور دل کو تر و تازہ کرنے والی بوٹیوں اور روشوں اور مصفا پانی کی بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کا تذکرہ کیا جاوے تو ہر ایک شخص دل سے چاہے گا کہ اس کی سیر کرے اور اس سے حظ اٹھا وے اور اگر یہ بھی بتایا جاوے کہ اس میں بعض چشمے ایسے جاری ہیں جو امراض مزمنہ اور مہلکہ کو شفا دیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش اور طلب کے ساتھ لوگ وہاں جائیں گے.اسی طرح پر قرآن شریف کی خوبیوں اور کمالات کو اگر نہایت ہی خوبصورت اور مؤثر الفاظ میں بیان کیا جاوے تو روح پورے جوش کے ساتھ اس طرف دوڑتی ہے اور حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرما یا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ اور دوسری جگہ کہا: لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - مُطَهَّرُونَ سے مراد وہی مُتَّقِين ہیں جو هُدی ANALAL میں بیان ہوئے ہیں.اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنی علوم کے انکشاف کے لئے تقوی شرط ہے علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے.دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقوی شرط نہیں ہے.صرف ونحو طبیعی، فلسفہ، ہئیت وطبابت پڑھنے والے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم وصلوٰۃ کا پابند ہو، اوامر الہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہو.اپنے ہر فعل وقول کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے.بلکہ بسا اوقات کیا، عموماً دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگار دہر یہ منش ہو کر ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوتے اور دہریہ ہیں.آج دنیا کے سامنے ایک زبر دست تجر بہ موجود ہے یورپ اور امریکہ باوجود یکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت کچھ قابل شرم ہے.لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوتے ( ہیں ) ہم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة البقرة تو ان کا ذکر بھی نہیں کر سکتے.مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے اس میں تو بتہ النصوح کی ضرورت ہے جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھالے اور اس کے جلال اور جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا.اور روح کے اُن خواص اور قویٰ کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر روح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے.قرآن شریف اللہ تعالی کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں پس اس کے لئے تقویٰ بطور نردبان کے ہے.پھر کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ بے ایمان، شریر، خبیث النفس ارضی خواہشوں کے اسیر اُن سے بہرہ ور ہوں.اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف و نحو معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو.دنیا کی نظر میں شیخ الکل فی الکل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے.مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بد قسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنالیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں.یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی دین متین سمجھتے ہیں ان کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ صرف ونحو کے جھگڑوں اور الجھیڑ وں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضالین کے تلفظ پر مرمٹے ہیں.قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں اور ہو کیونکر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.ہاں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تزکیہ نفس کے دعوے کرتا ہے وہ صوفیوں اور سجادہ نشینوں کا گروہ ہے مگران لوگوں نے قرآن شریف کو تو چھوڑ دیا ہے اور اپنے ہی طریق اختراع کر لئے ہیں.کوئی چلہ کشیاں کرتا ہے کوئی الا اللہ کے نعرے مارتا ہے کوئی نفی اثبات توجہ، حبس دم وغیرہ میں مبتلا ہیں.غرض ایسے طریقے نکالے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے اور نہ قرآن شریف کا یہ منشا ہے اور نہ کبھی سلسلہ قت نے ایسے طریقوں کو پسند کیا.غرض یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک انسان ایک پاک تبدیلی نہیں کرتا ہے اور نفس کا تزکیہ نہیں کرتا قرآن شریف کے معارف اور خوبیوں پر اطلاع نہیں ملتی.قرآن شریف میں وہ نکات اور حقائق ہیں جو روح کی پیاس کو بجھا دیتے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة البقرة کاش دنیا کو معلوم ہوتا کہ روح کی لذت کس چیز میں ہے اور پھر وہ معلوم کرتی کہ وہ قرآن شریف اور صرف قرآن شریف میں موجود ہے.دیکھو جس جس قدر انسان تبدیلی کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ ابدال کے زمرہ میں داخل ہوتا جاتا ہے حقائق قرآنی نہیں کھلتے جب تک ابدال کے زمرہ میں داخل نہ ہو.لوگوں نے ابدال کے معنے سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اپنے طور پر کچھ کا کچھ مجھ لیا ہے.اصل یہ ہے کہ ابدال وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلی کرتے ہیں.اور اس تبدیلی کی وجہ سے ان کے قلب گناہ کی تاریکی اور زنگ سے صاف ہو جاتے ہیں شیطان کی حکومت کا استیصال ہو کر اللہ تعالیٰ کا عرش ان کے دل پر ہوتا ہے پھر وہ روح القدس سے قوت پاتے اور خدا تعالیٰ سے فیض پاتے ہیں.تم لوگوں کو میں بشارت دیتا ہوں کہ تم میں سے جو اپنے اندر تبدیلی کرے گا وہ ابدال ہے انسان اگر خدا کی طرف قدم اُٹھائے تو اللہ تعالیٰ کا فضل دوڑ کر اس کی دستگیری کرتا ہے.یہ سچی بات ہے اور میں تمہیں بتا تا ہوں کہ چالاکی سے علوم القرآن نہیں آتے.دماغی قوت اور ذہنی ترقی قرآنی علوم کو جذب کرنے کا اکیلا باعث نہیں ہو سکتا.اصل ذریعہ تقویٰ ہی ہے متقی کا معلم خدا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے اُمّی بھیجا کہ باوجود یکہ آپ نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا.پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جو د نیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا قرآن شریف جیسی پاک، کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی.جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرا دیا.وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علوم میں سب سے بڑھ گئے؟ وہ تقویٰ ہی تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مطہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے.جس کے علوم نے دنیا کو حیران کر دیا ہے.آپ کا اقی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقوی مطلوب ہے نہ دنیوی چالاکیاں.غرض قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت کے منشاء کو حاصل کر سکے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲،مؤرخه ۳۱ مارچ۱۹۰۱ء صفحه ۱ تا۳) یہ بات بدیہی ہے کہ جب تک انسان اپنے اخلاق رڈیہ کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک اُن اخلاق کے مقابل پر جو اخلاق فاضلہ ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں اُن کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ دوضر ہیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں.اسی کی طرف اللہ تعالی قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی ابتدا میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ w سورة البقرة اس نے فرمایا ہے هُدًى لِلْمُ: یعنی قرآن شریف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو مشکلی ہیں.یعنی وہ لوگ جو تکبر نہیں کرتے اور خشوع اور انکسار سے خدا تعالیٰ کے کلام میں غور کرتے ہیں وہی ہیں جو آخر کو ہدایت پاتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۳۰) باعث ضعف بشریت انسان کی فطرت میں ایک بخل بھی ہے کہ اگر ایک پہاڑ سونے کا بھی اُس کے پاس ہو تب بھی ایک حصہ بخل کا اُس کے اندر ہوتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اپنا تمام مال اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے لیکن جب بموجب آیت ھدی للمتقین کے ایک وہی قوت اُس کے شامل حال ہو جاتی ہے تو پھر ایسا انشراح صدر ہو جاتا ہے کہ تمام بخل اور سارا لفتح نفس دُور ہو جاتا ہے تب خدا کی رضا جوئی ہر ایک مال سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ زمین پر فانی خزانے جمع کرے بلکہ آسمان پر اپنا مال جمع کرتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۰ حاشیه ) اسلام نے بہت ہی آسان راہ رکھی ہے اور وہ کشادہ راہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم اب اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا سکھائی ہے تو اس طور پر نہیں کہ دُعا تو سکھا دی لیکن سامان کچھ نہیں.بلکہ جہاں دُعا سکھائی ہے وہاں سب کچھ موجود ہے چنانچہ انگلی سورت میں اس قبولیت کا سے تیار ہے.سدو اشارہ ہے جہاں فرمایا.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.یہ ایسی دعوت ہے کہ دعوت کا سامان پہلے احکم جلد 9 نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵، صفحه ۵) بے نقط لکھنا کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں، یہ ایک قسم کا تکلف ہے اور تکلفات میں پڑنالغوامر ہے.مومنوں کی شان یہ ہے وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون: ۴) یعنی مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اگر بے نقط ہی کو معجزہ سمجھتے ہو تو قرآن شریف میں بھی ایک بے نقط معجزہ ہے اور وہ یہ ہے لاریب فیہ اس میں ریب کا کوئی لفظ نہیں.یہی اس کا معجزہ ہے لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ ( حم السجدة : ۴۳) اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوتی.میں نے کئی بار اشتہار دیا ہے کہ کوئی ایسی سچائی پیش کرو جو ہم قرآن شریف سے نہ نکال سکیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مؤرخہ ۱۷ار نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) دین کی راہ میں دو قسم کی تکلیفیں ہیں ایک تکالیف شرعیہ جیسا کہ نماز ہے اور روزہ ہے اور حج ہے اور زکوۃ ہے.نماز کے واسطے انسان اپنے کاروبار کو ترک کرتا ہے اور ان کا ہرج بھی کر کے مسجد میں جاتا ہے.سردی کے موسم میں پچھلی رات اُٹھتا ہے.ماہ رمضان میں دن بھر کی بھوک اور پیاس برداشت کرتا ہے.حج میں
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سفر کی صعوبتیں اُٹھاتا ہے زکوۃ میں اپنی محنت کی کمائی دوسروں کے سپر د کر دیتا ہے یہ سب تکالیف شرعیہ ہیں اور انسان کے واسطے موجب ثواب ہیں اس کا قدم خدا کی طرف بڑھاتی ہیں.لیکن ان سب میں انسان کو ایک وسعت دی گئی ہے اور وہ اپنے آرام کی راہ تلاش کر لیتا ہے جاڑے کے موسم میں وضو کے واسطے پانی گرم کر لیتا ہے یہ سبب علالت کھڑا ہو کر نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھ لیتا ہے.رمضان میں سحری میں اُٹھ کر خوب کھانا کھا لیتا ہے بلکہ بعض لوگ ماہ صیام میں معمول سے بھی زیادہ خرچ کھانے پینے پر کر لیتے ہیں.غرض ان تکالیف شرعیہ میں کچھ نہ کچھ آرام کی صورت ساتھ ساتھ انسان نکالتا رہتا ہے.اس واسطے اس سے پورے طور پر صفائی نہیں ہوتی.اور منازل سلوک جلدی سے طے نہیں ہو سکتے.لیکن سماوی تکالیف جو آسمان سے اُترتی ہیں ان میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا اور بہر حال برداشت کرنی پڑتی ہے.اس واسطے ان کے ذریعہ سے انسان کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے.ہر دو قسم کی تکلیف شرعی اور سماوی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ( کیا ہے ).تکلیف شرعی کے متعلق پہلے سیپارہ میں فرمایا ہے الم و ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی مومن وہ ہے جو خدا تعالیٰ پر غیب سے ایمان لاتے ہیں اپنی نماز کو کھڑا کرتے ہیں.یعنی صد با وساوس آکر دل کو اور طرف پھیر دیتے ہیں مگر وہ بار بار خدا کی طرف توجہ کر کے اپنی نماز کو (جو ) بہ سبب وساوس کے گرتی رہتی ہے بار بار کھڑا کرتے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں.یہ تکالیف شرعیہ ہیں.مگران پر پورے طور سے بھروسہ حصول ثواب کا نہیں ہو سکتا کیونکہ بہت سی باتوں میں انسان غفلت کرتا ہے.اکثر نماز کی حقیقت اور مغز سے بے خبر ہو کر صرف پوست کو ادا کرتا ہے اس واسطے انسانی مدارج کی ترقی کے واسطے سماوی تکالیف بھی رکھی گئی ہیں.ان کا ذکر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے.جہاں فرمایا وَلَنَبْلُونَكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ ہے الطيريْنَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُوتِيكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتُ مِنْ ربِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة :۱۵۲ ۱۵۸) - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۵ مؤرخه ۱۸ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) سورۃ بقرہ کے شروع میں ہی جو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کہا گیا تو گویا خدا تعالیٰ نے دینے کی تیاری کی یعنی یہ کتاب منتفی کو کمال تک پہنچانے کا وعدہ کرتی ہے.سو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب اُن کے لئے نافع ہے جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١ سورة البقرة پر ہیز کرنے اور نصیحت سنے کو تیار ہو.اس درجہ کا متقی وہ ہے جوختی بالطبع ہو کر حق کی بات سنے کو تیار ہو جیسے جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تو وہ منتقی بنتا ہے.جب کسی غیر مذہب کے اچھے دن آئے تو اس میں اتقا پیدا ہوا.تُجب ، غرور، پندار دور ہوا.یہ تمام روکیں تھیں جو دور ہوگئیں.ان کے دور ہونے سے تاریک گھر کی کھڑکی کھل گئی اور شعاعیں اندر داخل ہو گئیں.یہ جو فرمایا کہ یہ کتاب مُتَّقین کی ہدایت ہے.یعنی هدی لِلْمُتَّقِين تو اتقا جو افتعال کے باب پر ہے اور یہ باب تکلف کے لئے آیا کرتا ہے یعنی اس میں اشارہ ہے کہ جس قدر یہاں ہم تقویٰ چاہتے ہیں، وہ تکلف سے خالی نہیں جس کی حفاظت کے لئے اس کتاب میں ہدایات ہیں.گویا منتقلی کو نیکی کرنے میں تکلیف سے کام لینا پڑتا ہے.جب یہ درجہ گزر جاتا ہے تو سالک عبد صالح ہو جاتا ہے گویا تکلیف کا رنگ دور ہوا.اور صالح نے طبعاً و فطرتا نیکی شروع کی وہ ایک قسم کے دار الامان میں ہے جس کو کوئی خطرہ نہیں.اب کل جنگ اپنے نفسانی جذبات کے برخلاف ختم ہو چکی اور وہ امن میں آ گیا اور ہر ایک قسم کے خطرات سے پاک ہو گیا.اسی امر کی طرف ہمارے ہادی کامل نے اشارہ کیا ہے فرمایا کہ ہر ایک کے ساتھ شیطان ہوتا ہے لیکن میرا شیطان مسلم ہو گیا ہے.سونگلی کو ہمیشہ شیطان کے مقابل جنگ ہے لیکن جب وہ صالح ہو جاتا ہے تو کل جنگیں بھی ختم ہو جاتی ہیں.مثلاً ایک ریا ہی ہے جس سے اُسے آٹھوں پہر جنگ ہے.متقی ایک ایسے میدان میں ہے جہاں ہر وقت لڑائی ہے.اللہ کے فضل کا ہاتھ اُس کے ساتھ ہو تو اسے فتح ہو.جیسے ریا جس کی چال ایک چیونٹی کی طرح ہے.بعض وقت انسان بے سمجھے لیکن موقعہ پر ریا کو دل میں پیدا ہونے کا موقعہ دے دیتا ہے.مثلاً ایک کا چاقو گم ہو جاوے اور وہ دوسرے سے دریافت کرے.تو اس موقعہ پر ایک متقی کا جنگ شیطان سے شروع ہو جاتا ہے جو اُسے سکھاتا ہے کہ مالک چاقو کا اس طرح دریافت کرنا ایک قسم کی بے عزتی ہے جس سے اُس کے افروختہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپس میں لڑائی بھی ہو جاوے.اس موقعہ پر ایک متقی کو اپنے نفس کی بدخواہش سے جنگ ہے.اگر اس شخص میں محض اللہ دیانت موجود ہو تو غصہ کرنے کی اس میں ضرورت ہی کیا ہے کیونکہ دیانت جس قدر مخفی رکھی جاوے اسی قدر بہتر ہو.مثلاً ایک جواہری کو راستہ میں چند چوریل جاویں اور چور آپس میں اُس کے متعلق مشورہ کریں.بعض اُسے دولت مند بتلا دیں اور بعض کہیں کہ وہ کنگال ہے.اب مقابلتا یہ جواہری انہیں کو پسند کرے گا جو اُسے کنگال ظاہر کریں گے.اسی طرح یہ دنیا کیا ہے؟ ایک قسم کی دارالا بتلا ہے.وہی اچھا ہے جو ہر ایک امر خفیہ رکھے اور ریا سے بچے.وہ لوگ جن کے اعمال لکھی ہوتے ہیں.وہ کسی پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة البقرة اپنے اعمال کو ظاہر ہونے نہیں دیتے یہی لوگ منتفی ہیں.میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اُس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے کوئی اُس کی مدد کرے.ایک نے صالح سمجھ کر اُس کو ایک ہزار روپیہ دیا.اُنہوں نے روپیہ لے کر اسکی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی.اس بات پر وہ رنجیدہ ہوا کہ جب جہاں ہی تعریف ہوگئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو.تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اُس کی والدہ کا تھا جو دینا نہیں چاہتی.چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا.جس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہا جھوٹا ہے اصل میں یہ روپیہ دینا نہیں چاہتا.جب شام کے وقت وہ بزرگ گھر گیا.تو وہ شخص ہزار روپیہ اُس کے پاس لایا اور کہا کہ آپ نے سر عام میری تعریف کر کے مجھے محروم ثواب آخرت کیا.اس لئے میں نے یہ بہانہ کیا.اب یہ روپیہ آپ کا ہے لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں.بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تو قیامت تک موردلعن طعن ہوا کیونکہ کل کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے روپیہ واپس دے دیا ہے.ایک متقی تو اپنے نفس امارہ کے برخلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھپاتا ہے اور خفیہ رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اُس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کر دیتا ہے.جیسا ایک بدمعاش کسی بد چلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے.اُسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اُس کو نہ دیکھ لے.سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتا ہے تقویٰ کے مراتب بہت ہیں لیکن بہر حال تقومی کے لئے تکلف ہے.اور متقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اُس جنگ سے باہر ہے جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر او پر ریا کا ذکر کیا جس سے متقی کو آٹھوں پہر جنگ ہے.بسا اوقات ریا اور حلم کا جنگ ہو جاتا ہے.کبھی انسان کا غصہ کتاب اللہ کے برخلاف ہوتا ہے.گالی ٹن کر اُس کا نفس جوش مارتا ہے.تقویٰ تو اس کو سکھلاتا ہے کہ وہ غصہ ہونے سے باز رہے.جیسے قرآن کہتا ہے وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان : ۷۳) ایسا ہی بے صبری کے ساتھ اُسے اکثر جنگ کرنا پڑتا ہے.بے صبری سے مراد یہ ہے کہ اُس کو راہ تقویٰ میں اس قدر وقتوں کا مقابلہ ہے کہ مشکل سے وہ منزل مقصود پر پہنچتا ہے اس لئے بے صبر ہو جاتا ہے.مثلاً ایک کنواں پچاس ہاتھ تک کھودنا ہے اگر دو چار ہاتھ کے بعد کھودنا چھوڑ دیا جاوے تو محض یہ ایک بدظنی ہے.اب تقوی کی شرط یہ ہے کہ جو اللہ تعالی نے احکام دیئے اُس کو اخیر تک پہنچائے اور بے صبر نہ ہو جاوے.رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۳۹ تا ۴۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة البقرة اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی عِلتِ غائی بیان کرنے میں فرمایا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ ( نہیں ) فرمایا کہ هُدًى لِلْفَسِقِينَ يا هُدًى لِلْكَافِرِينَ.ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صادق آسکتا ہے وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولی اس کی مدتی اور وجود بخش ہے جس سے منگنی کا پہلا تولد ہے مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ربوبیت کا ملہ مُسْتَجمعہ کے پورے جوڑ و اتصال سے بطرز ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أخر (المؤمنون: ۱۵) کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے مشتقی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جوخلق جدید سے موسوم ہے جس سے متقی لا ہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۶۳ حاشیه ) اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا تا کہ انسان اُن معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اُسے پتہ نہ تھا.مگر افسوس کہ قرآن کی اس علت غالی کو چھوڑ کر جو ھڈی لِلْمُتَّقِينَ ہے اُس کو صرف چند قص کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور نہایت بے پروائی اور خود غرضی سے مشرکین عرب کی طرح أَسَاطِيرُ الْاَولین کہہ کر ٹالا جاتا ہے.وہ زمانہ تھا آنحضرت صلعم کی بعثت کا اور قرآن کے نزول کا، جب وہ دنیا سے گم شدہ طاقتوں کو یاد دلانے کے لئے آیا تھا.اب وہ زمانہ آ گیا جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن اُن کے حلق سے قرآن نہ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۴) اُترے گا.یا درکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ دنیا یر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے جیسے فرما یا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلعَلَمِينَ (الانبياء : ۱۰۸) اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ ان کی نظیر نہیں پائی جاسکتی.اکام جلد و نمبر ۹ مورانه ۱۷ار مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۶) اصول تقویٰ کا یہ ہے کہ انسان عبودیت کو چھوڑ کر الوہیت کے ساتھ ایسا مل جاوے جیسا کہ لکڑی کے تختے دیوار کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتے ہیں اس کے اور خدا کے درمیان کوئی شے حائل نہ رہے.امور تین قسم کے ہوتے ہیں ایک: یقینی بدیہی یعنی ظاہر دیکھنے میں ایک بات بڑی یا بھلی ہے، دوم: یقینی نظری یعنی ویسا یقین تو نہیں مگر پھر بھی نظری طور پر دیکھنے میں وہ امرا اچھا یا برا ہو ، سوم : وہ امور جو مشتبہ ہوں یعنی اُن میں شبہ ہو کہ شاید
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة البقرة یہ بڑے ہوں پس متقی وہ ہے کہ اس احتمال اور شبہ سے بھی بچے اور تینوں مراتب کو طے کرے....تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے اُس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا وہ شعر یہ ہے ہر اک نیکی کی جڑ یہ انکا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ ، حسنہ نہیں اور کوئی نیکی ، نیکی نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے کہ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.قرآن بھی اُن لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں.ابتدا میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسد اور بخل سے قرآن شریف کو (نہ) دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقویٰ ساتھ لے کر صدق نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مؤرخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۱ صفحه ۱۳) ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں.بعض نے ہندوؤں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتا ہے.ہمارے بھائی صاحب کو ورزش کا شوق تھا ان کے پاس ایک پہلوان آیا تھا.جاتے ہوئے اس نے ہمارے بھائی صاحب کو الگ لے جا کر کہا کہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بہت ہی قیمتی ہے.یہ کہہ کر اس نے ایک منتر پڑھ کر ان کو سنایا اور کہا کہ یہ منتر ایسا پُر تاثیر ہے کہ اگر ایک دفعہ صبح کے وقت اس کو پڑھ لیا جاوے تو پھر سارا دن نہ نماز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ وضو کی ضرورت.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں.وہ کلام پاک جس میں هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا وعدہ دیا گیا ہے خود اس کو چھوڑ کر دوسری طرف بھٹکتے پھرتے ہیں.انسان کے ایمان میں ترقی تب ہی ہو سکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ پر چلے اور خدا پر اپنے تو کل کو قائم کرے.الحکم جلد نمبر ۲۸ مؤرخہ ۱۰ راگست ۱۹۰۷ صفحه ۴) قرآن شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علت غائی ہے اگر انسان تقومی اختیار نہ کرے تو اُس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں چنانچہ اس کی طرف اشارہ کر کے سعدی کہتا ہے.کلید در دوزخ است آن نماز که در چشم مردم گزاری دراز الحکم جلد نمبر ۱۴ مؤرخہ ۱۷ /اپریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۱) ساری جڑ تقویٰ اور طہارت ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے اور (البدر جلد نمبرے مؤرخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۰) نفسانی جذبات دیتے ہیں.تقویٰ سے سب شے ہے قرآن نے ابتداء اسی سے کی ہے ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے بھی مُراد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة البقرة تقویٰ ہے کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرات نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اُسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اُسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے پھر دوسری سورت بھی هُدًى لِلْمُتَّقِينَ سے شروع ہوتی ہے نماز روزہ زکوۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو اُس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اُٹھا دیتا ہے.بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اُسے خبر نہیں البدر جلد نمبرے مؤرخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۱) ہوتی.جہاں قرآن شریف میں تقویٰ کا ذکر کیا ہے وہاں بتایا ہے کہ ہر ایک علم ( اس سے اُخروی علم مراد ہے زمینی اور دنیوی علم مراد نہیں) کی جڑ تقویٰ ہی ہے اور تمام نیکیوں کی جڑ یہی تقویٰ ہے.متقی کا خدا تعالیٰ خود متکفل ہوتا ہے اور اس کے لئے عجیب در عجیب نشان ظاہر کرتا ہے.قرآن شریف نے شروع میں ہی فرمایا ھدی للمتقين پس قرآن شریف کے سمجھنے اور اس کے موافق ہدایت پانے کے لئے تقویٰ ضروری اصل ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۷،۶) تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ ہر چیز کی جڑ ہے.تقویٰ کے معنی ہیں ہر ایک بار یک در باریک رگ گناہ سے بچنا.تقویٰ اس کو کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شبہ بھی ہو اس سے بھی کنارہ کرے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مؤرخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) تقویٰ کا اثر اسی دنیا میں متقی پر شروع ہو جاتا ہے یہ صرف اُدھار نہیں ، نقد ہے.بلکہ جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کا اثر فورا بدن پر ہوتا ہے اسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے.(انظام جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۰ اراگست ۱۹۰۱ صفحه ۴) میری رائے میں ائمہ ار بعد ایک برکت کا نشان تھے اور ان میں روحانیت تھی کیونکہ روحانیت تقویٰ سے شروع ہوتی ہے اور وہ لوگ در حقیقت متقی تھے اور خدا سے ڈرتے تھے اور ان کے دل کلاب الدنیا سے مناسبت نہ رکھتے تھے.یا درکھو یہ تقویٰ بڑی چیز ہے.خوارق کا صدور بھی تقومی ہی سے ہوتا ہے اور اگر خوارق نہ بھی ہوں پھر بھی اور تقویٰ سے عظمت ملتی ہے تقویٰ ایک ایسی دولت ہے کہ اس کے حاصل ہونے سے انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر نقش وجود مٹا سکتا ہے.کمال تقویٰ کا یہی ہے کہ اس کا اپنا وجود ہی نہ رہے اور صیقل زدم آن قدر کہ آئینہ نہ ماند کا مصداق ہو جاوے.اصل میں یہی تو حید اور یہی وحدت وجود تھی جس میں لوگوں نے غلطیاں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة البقرة کھا کر کچھ کا کچھ بنالیا ہے.یہ کیا دین اور تقویٰ ہے کہ ایک ضعیف انسان اور بے چارہ بندہ ہو کر خدائی کا دعوی کرے.......اصل یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ اور تزکیہ نفس کا مدار ہے، تقویٰ اور خدا کا خوف، جو بدقسمتی سے ان لوگوں میں نہیں ہوتا.حقیقت میں تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے انسان کا اکرام ہوتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مؤرخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳،۲) الحکم جلد ۶ نمبر ۳۳ مؤرخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۵) اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اس کو راضی کرنے کے لئے جو شخص ہر ایک بدی سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں......اللہ تعالی تو متقی کے لئے وعدہ کرتا ہے کہ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (الطلاق: ۳) یعنی جو اللہ تعالیٰ کے لئے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اللہ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیتا ہے.لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لئے طرح طرح کے بہانے بنا رکھے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے.پھر بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ سود لینے کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا.ایسے لوگ کیونکر متقی کہلا سکتے ہیں؟ خدا تعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آ سکے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے اور نیچے (سے) رزق دوں گا.پھر فرمایا ہے کہ فی السَّمَاءِ رِزْقُكُمُ (الذاريات: ۲۳) جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں وہ اس سے بالاتر ہے.یہ لوگ ان وعدوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ معاصی میں غرق رہتا ہے اور بہت ساری رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مؤرخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۵) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ عَادَلِي وَلِيًّا فَقَدْ اذنته بالحرب (الحدیث) جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے.اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہو تو خدا اُس کا کس قدر معاون و مددگار ہوگا.لوگ بہت سی مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متقی بچائے جاتے ہیں.بلکہ اُن کے پاس جو آ جاتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے.مصائب کی کوئی حد نہیں، انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں.امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزار ہا مصائب کے پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة البقرة تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک ایسے جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۵-۳۶) اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لئے چاہا ہے کہ ہر دولڈ تیں اُٹھا ئیں.بعض وقت دنیوی لذات آرام اور طیبات کے رنگ میں ، بعض وقت عسرت اور مصائب ہیں، تا کہ اُن کے دونوں اخلاق کامل نمونہ دکھا سکیں.بعض اخلاق طاقت میں اور بعض مصائب میں کھلتے ہیں.ہمارے نبی کریم کو یہ دونوں باتیں میسر آئیں.سو جس قدر ہم آپ کے اخلاق پیش کر سکیں گے کوئی اور قوم اپنے کسی نبی کے اخلاق پیش نہ کر سکے گی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۷) اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ (حم السجدة :۳۲) کہ ہم اس دنیا میں بھی اور آئندہ بھی متقی کے ولی ہیں.سو یہ آیت بھی تکذیب میں، اُن نادانوں کی ہے جنہوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا.اگر نزع میں نزول ملائکہ تھا تو حیات اللہ نیا میں خدا تعالیٰ کیسے ولی ہوا.سو یہ ایک نعمت ہے کہ ولیوں کو خدا کے فرشتے نظر آتے ہیں.آئندہ کی زندگی محض ایمانی ہے لیکن ایک متقی کو آئندہ کی زندگی نہیں دکھلائی جاتی ہے.اُنہیں اسی زندگی میں خدا ملتا ہے، نظر آتا ہے، اُن سے باتیں کرتا ہے.سو اگر ایسی صورت کسی کو نصیب نہیں تو اُس کا مرنا اور یہاں سے چلے جانا نہایت خراب ہے.ایک ولی کا قول ہے کہ جس کو ایک خواب سچا عمر میں نصیب نہیں ہوا اس کا خاتمہ خطرناک ہے جیسے کہ قرآن مومن کے یہ نشان ٹھہراتا ہے.سنو جس میں یہ نشان نہیں اُس میں تقویٰ نہیں.سو ہم سب کی یہ دعا چاہئے کہ یہ شرط ہم میں پوری ہو.اللہ تعالی کی طرف سے الہام، خواب، مکاشفات کا فیضان ہو کیونکہ یہ مومن کا خاصہ ہے سو یہ ہونا چاہئے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۳۸،۳۷) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قرائن صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کر لیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ یعنی ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے جیسا کہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اور گو بعد اسکے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان بر سے اور معجزات ظاہر ہوئے لیکن صحابہ کرام ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اور اگر وہ معجزات کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۸ سورة البقرة دیکھنے پر ایمان موقوف رکھتے تو ایک ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے اور خدائے تعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہو سکتے کیونکہ جن جن لوگوں نے نشان مانگا خدائے تعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور در حقیقت ان کا انجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی کی حالت میں ہی مرے.غرض خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کے لئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا.انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرام کار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کو کوئی نشان دیا نہیں جائے گا.میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر ایک شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پیدا ہوگا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیوں کر فرق کر سکتا ہے اور اگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو.اس کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکثر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ چند قرائن جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں اور تصدیق کا پلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو.مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوں نے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اور جب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے تو بیان کیا کہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ کو استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خدا تعالی پر جھوٹ باندھیں ! ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہر یک صحابی ایک، ایک اخلاقی یا تعلیمی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کا ذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر ہیں.اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری سب تعلیموں سے صاف تر اور پاک تر اور سراسر نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور الہی جوش ان میں اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے.پس انہیں باتوں کو دیکھ کر انہوں نے قبول کر لیا کہ وہ در حقیقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات ظاہر نہیں ہوئے بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں تا صادقوں کا صدق اور کا ذبوں کا اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة البقرة کذب پر کھا جائے.یہ زمانہ ابتلا کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی کھلا کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا.پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کا اپنی نظر دقیق سے ایمان لے آتا ہے اور عوام کا لانعام باقی رہ جاتے ہیں تو اُن پر حجت پوری کرنے کے لئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کیلئے نشان ظاہر ہوتے ہیں مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ ہر روزہ تکذیب سے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ راؤں کو وہ بدل نہیں سکتے آخرای کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں.مجھے دلی خواہش ہے اور میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ آجاوے کہ در حقیقت ایمان کے مفہوم کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے تو پھر اس کا مان لینا ایمان میں داخل نہیں.مثلاً اب جو دن کا وقت ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہوگی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے؟ سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس با برکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیا سے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہور محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیوں کر داخل ہوگا وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان.پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابو جہل اور ابولہب وغیرہ اوائل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذیب میں پختہ ہو گئے اور مخالفانہ راؤں پر اصرار کر چکے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے نشان ظاہر ہوئے تب انہوں نے کہا کہ اب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے.غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اور نشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جہنم ہو چکے ہیں.خدائے تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بدلتا وہ جیسا کہ اس نے فرما دیا ہے انہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے جو زیادہ ضد نہیں کرتے اور قرائن مرجمہ کو دیکھ کر اور علامات صدق پا کر صادق کو قبول کر لیتے ہیں اور صادق کا کلام صادق کی راستبازی صادق کی استقامت اور خود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰ سورة البقرة مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۶ تا۳۳۹) متقی کی حالت میں چونکہ رویت باری تعالیٰ اور مکالمات و مکاشفات کے مراتب حاصل نہیں ہوتے.اس لئے اس کو اول ایمان بالغیب ہی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ تکلف کے طور پر ایمانی درجہ ہوتا ہے کیونکہ قرائن قویہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتا ہے جو بَيْنَ الشَّاكِ وَالْيَقِينِ ہوتا ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ بعض آدمی تقوی کے اس درجہ پر بھی نہیں ہوتے یہ دہر یہ منش لوگ ہیں وہ آثار اور آیات قدرت کو تو دیکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل نہیں ہوتے اور نہیں مانتے مگر متقی اللہ تعالیٰ کو مان لیتا ہے.اور اس پر ایمان لاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.یہ مت سمجھو کہ یہ ادنی درجہ ہے یا اس کا مرتبہ کم ہے.اور جو فہم سے بڑھ کر قدم مارتے ہیں وہ بڑے مجاہد ہیں اور اُن کے لئے بڑے بڑے مراتب اور مدارج ہیں نہیں بلکہ یہ ایمان بالغیب متقی کے پہلے درجہ کی حالت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی وقعت رکھتی ہے.حدیث صحیح میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو سب سے بڑھ کر ایمان کس کا ہے.صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپ کا ہی ہے.آپ نے فرمایا کہ میرا کس طرح ہو سکتا ہے میں تو ہر روز جبریل کو دیکھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نشانات کو ہر وقت دیکھتا ہوں.پھر صحابہ نے عرض کی کہ کیا ہمارا ایمان؟ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان کس طرح تم بھی تو نشانات دیکھتے ہو.آخر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ صد ہا سال کے میرے بعد آئیں گے ان کا ایمان عجیب ہے کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا نشان نہیں دیکھتے جیسے تم دیکھتے ہو مگر پھر بھی اللہ تعالی پر ایمان لاتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ متقی کو اگر وہ اسی ابتدائی درجہ میں مرجاوے تو اسی زمرہ میں داخل کر لیتا ہے اور اسی دفتر میں اس کا نام لکھ دیتا ہے باوجود یکہ وہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کو نہیں جانتا اور اس لذت اور نعمت سے ابھی اس نے کچھ بھی نہیں پایا لیکن پھر بھی وہ ایسی قوت دکھاتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی رکھتا ہے بلکہ اس ایمان کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہے یعنی يُقِيمُونَ الصَّلوةَ.تقویٰ کی اس حالت میں نمازوں میں بھی وسوسے ہوتے ہیں اور قسم قسم کے وہم اور شکوک پیدا ہو کر خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں، باوجود اس کے بھی وہ نماز نہیں چھوڑتے اور نہیں تھکتے اور ہارتے.بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ چند روز نماز پڑھی اور ظنون فاسدہ اور خیالات پراگندہ دل میں گزرنے لگے.نماز چھوڑ دی اور ہار کر بیٹھ رہے مگر متقی اپنی ہمت نہیں ہارتا وہ نماز کو کھڑی کرتا نماز گری پڑتی ہے وہ بار بارا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة البقرة کھڑی کرتا ہے.تقویٰ کی حالت میں دوزمانے متقی پر آتے ہیں.ایک ابتلا کا زمانہ دوسرا اصطفا کا زمانہ.ابتلا کا زمانہ اس لئے آتا ہے کہ تا تمہیں اپنی قدر ومنزلت اور قابلیت کا پتہ مل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر راستبازوں کی طرح ایمان لاتا ہے.اس لئے بھی اس کو وہم اور شکوک آ کر پریشان دل کرتے ہیں کبھی کبھی خدا تعالیٰ ہی کی ذات پر اعتراض اور و ہم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.صادق مومن کو اس مقام پر ڈرنا اور گھبرانا نہ چاہئے بلکہ آگے ہی قدم رکھے کسی نے کہا ہے: عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود شیطان پلید کا کام ہے کہ وہ راضی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالی کی ذات سے منکر نہ کرالے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے روگردان نہ کر لے.وہ وساوس پر وساوس ڈالتا رہتا ہے لاکھوں کروڑوں انسان انہیں وسوسوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہورہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کر لیں پھر دیکھا جائے گا.باوجود اس کے کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک سانس کے بعد دوسرا سانس آئے گا بھی یا نہیں لیکن شیطان ایسا دلیر کرتا ہے کہ وہ بڑی بڑی جھوٹی امیدیں دیتا اور سبز باغ دکھاتا ہے.شیطان کا یہ پہلا سبق ہوتا ہے مگر متقی بہادر ہوتا ہے اس کو ایک جرات دی جاتی ہے کہ وہ ہر وسوسہ کا مقابلہ کرتا ہے اس لئے یقیمُونَ الصلوة فرمایا یعنی اس درجہ میں وہ ہارتے اور تھکتے نہیں اور ابتداء میں اُنس اور ذوق اور شوق کا نہ ہونا اُن کو بے دل نہیں کرتا وہ اسی بے ذوقی اور بے لطفی میں بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سب وساوس اور اوہام دور ہو جاتے ہیں.شیطان کو شکست ملتی اور مومن کامیاب ہو جاتا ہے.غرض منتقی کا یہ زمانہ ستی کا زمانہ نہیں ہوتا بلکہ میدان میں کھڑے رہنے کا زمانہ ہوتا ہے.وساوس کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخه ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) تقوی..کسی قدر تکلف کو چاہتا ہے.اسی لئے تو فرمایا کہ ھڈی لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.اس میں ایک تکلف ہے.مشاہدہ کے مقابل ایمان بالغیب لانا ایک قسم کے تکلف کو چاہتا ہے.سو متقی کے لئے ایک حد تک تکلف ہے کیونکہ جب وہ صالح کا درجہ حاصل کرتا ہے تو پھر غیب اُس کے لئے غیب نہیں رہتا کیونکہ صالح کے اندر سے ایک نہر نکلتی ہے جو اس میں سے نکل کر خدا تک پہنچتی ہے.وہ خدا اور اس کی محبت کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے.کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَغْنى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى (بنی اسرائیل: ۷۳ ) - ای سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک انسان پوری روشنی اسی جہان میں نہ حاصل کرلے وہ بھی خدا کا منہ نہ دیکھے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة البقرة سو متقی کا کام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے سرمے طیار کرتا رہے جس سے اس کا روحانی نزول الماء دور ہو جاوے.اب اس سے ظاہر ہے کہ متقی شروع میں اندھا ہوتا ہے مختلف کوششوں اور تزکیوں سے وہ نور حاصل کرتا ہے.سو جب سوجا کھا ہو گیا اور صالح بن گیا پھر ایمان بالغیب نہ رہا اور تکلف بھی ختم ہو گیا جیسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برأَي الْعَيْنِ اسی عالم میں بہشت و دوزخ وغیرہ سب کچھ مشاہدہ کرایا گیا جو متقی کو ایک ایمان بالغیب کے رنگ میں ماننا پڑتا ہے وہ تمام آپ کے مشاہدہ میں آ گیا.سو اس آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اگر چہ اندھا ہے اور تکلف کی تکلیف میں ہے.لیکن صالح ایک دار الامان میں آگیا ہے اور اُس کا نفس نفسِ مطمئنہ ہو گیا ہے.متقی اپنے اندر ایمان بالغیب کی کیفیت رکھتا ہے.وہ اندھا دھند طریق سے چلتا ہے اُس کو کچھ خبر نہیں.ہر ایک بات پر اُس کا ایمان بالغیب ہے.یہی اُس کا صدق ہے اور اس صدق کے مقابل خدا کا وعدہ ہے کہ وہ فلاح پائے گا أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اس کے بعد متقی کی شان میں آیا ہے.وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتا ہے.یہاں لفظ کھڑی کرنے کا آیا ہے، یہ بھی اُس تکلف کی طرف اشارہ کرتا ہے جو متقی کا خاصہ ہے.یعنی جب وہ نماز شروع کرتا ہے تو طرح طرح کے وساوس کا اُسے مقابلہ ہے جن کے باعث اس کی نماز گویا بار بار گرتی پڑتی ہے جس کو اُس نے کھڑا کرنا ہے.جب اُس نے اللہ اکبر کہا تو ایک ہجوم وساوس ہے جو اُس کے حضور قلب میں تفرق ڈال رہا ہے.وہ ان سے کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے، پریشان ہوتا ہے.ہر چند حضور و ذوق کے لئے و لڑتا مرتا ہے لیکن نماز جو گری پڑتی ہے بڑی جانکنی سے اُسے کھڑا کرنے کے فکر میں ہے.بار بار ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ کر نماز کے قائم کرنے کے لئے دُعا مانگتا ہے اور ایسے القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ہدایت چاہتا ہے جس سے اُس کی نماز کھڑی ہو جاوے.ان وساوس کے مقابل میں منتقی ایک بچہ کی طرح ہے جو خدا کے آگے گڑ گڑاتا ہے روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اخلد إلى الأَرْضِ ہورہا ہوں.سو یہی وہ جنگ ہے جو متقی کونماز میں نفس کے ساتھ کرنا ہے اور اسی پر ثواب مترتب ہوگا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز میں وساوس کو فی الفور دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ کی منشاء کچھ اور ہے.کیا خدا نہیں جانتا؟ حضرت شیخ عبد القادر گیلانی ( رحمتہ اللہ علیہ ) کا قول ہے کہ ثواب اس وقت تک ہے جب تک مجاہدات ہیں اور جب مجاہدات ختم ہوئے تو ثواب ساقط ہو جاتا ہے.گویا صوم وصلوٰۃ اُس وقت تک اعمال ہیں جب تک ایک جدو جہد سے وساوس کا مقابلہ ہے لیکن جب اُن میں ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة البقرة اعلیٰ درجہ پیدا ہو گیا اور صاحب صوم و صلوۃ تقویٰ کے تکلف سے بیچ کر صلاحیت سے رنگین ہو گیا تو اب صوم وصلوٰۃ اعمال نہیں رہے.اس موقعہ پر انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا اب نماز معاف ہو جاتی ہے؟ کیونکہ ثواب تو اُس وقت تک تھا جس وقت تک تکلف کرنا پڑتا تھا.سو بات یہ ہے کہ نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے.یہ نماز اُس کی ایک غذا ہے.اُس کے لئے قرة العین ہے.یہ گویا نقد بہشت ہے.مقابل میں وہ لوگ جو مجاہدات میں ہیں وہ گشتی کر رہے ہیں اور یہ نجات پا چکا ہے.سو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا سلوک جب ختم ہوا.تو اُس کے مصائب بھی ختم ہو گئے.مثلاً ایک مخنث اگر کہے کہ وہ کبھی کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تو وہ کونسی نعمت یا ثواب کا مستحق ہے اس میں تو صفت بد نظری ہے ہی نہیں لیکن ایک مرد صاحب رجولیت اگر ایسا کرے تو ثواب پاوے گا.اسی طرح انسان کو ہزاروں مقامات طے کرنے پڑتے ہیں.بعض بعض امور میں اس کی مشاقی اُس کو قادر کر دیتی ہے.نفس کے ساتھ اُس کی مصالحت ہوگئی.اب وہ ایک بہشت میں ہے لیکن وہ پہلا سا ثواب نہیں رہے گا.وہ ایک تجارت کر چکا ہے جس کا اب وہ نفع اٹھا رہا ہے لیکن پہلا رنگ نہ رہے گا.انسان میں ایک فعل تکلف سے کرتے کرتے اُس میں طبعیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے.ایک شخص جو طبعی طور سے لذت پاتا ہے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اس کام سے ہٹایا جاوے.وہ طبعاً یہاں سے ہٹ نہیں سکتا.سو اتنا اور تقویٰ کی حد تک پورا انکشاف نہیں ہوتا وہ ایک قسم کا دعوئی ہے.اس کے بعد متقی کی شان میں وَمِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ آیا ہے.یہاں متقی کے لئے مینا کا لفظ استعمال کیا.کیونکہ اس وقت وہ ایک اٹلی کی حالت میں ہے اس لئے کہ جو کچھ خدا نے اُس کو دیا اس میں سے کچھ خدا کے نام کا دیا.حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں سب خدا کا ہی ہے.یہ ایک حجاب تھا.جو اتقا میں لازمی ہے.اس حالت اتقا کے تقاضے نے متقی سے خدا کے دیئے میں سے کچھ دلوایا.رسول اکرم نے حضرت عائشہ سے ایام وفات میں دریافت فرمایا کہ گھر میں کچھ ہے.معلوم ہوا کہ ایک دینار تھا.فرمایا کہ یہ سیرت یگانگت سے بعید ہے کہ ایک چیز بھی اپنے پاس رکھی جاوے.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتقا کے درجہ سے گزر کر صلاحیت تک پہنچ چکے تھے.اس لئے مِمَّا اُن کی شان میں نہ آیا.کیونکہ وہ اندھا ہے جس نے کچھ اپنے پاس رکھا اور کچھ خدا کو دیا لیکن یہ لازمہ متقی تھا کیونکہ خدا کے راہ (میں) دینے میں بھی اُسے نفس کے ساتھ جنگ تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کچھ دیا اور کچھ رکھا.وہاں رسول اکرم نے سب خدا کو دیا اور اپنے لئے کچھ نہ رکھا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة البقرة جیسے دھرم مہوتسو کے مضمون میں انسان کی تین حالتیں ذکر کی گئی ہیں جو انسان پر ابتداء سے انتہا تک وارد ہوتی ہیں.اسی طرح یہاں بھی قرآن نے جو انسان کو تمام مراحل ترقی کے طے کرانے آیا.اتقا سے شروع کیا.یہ ایک تکلف کا راستہ ہے، یہ ایک خطر ناک میدان ہے.اُس کے ہاتھ میں تلوار ہے اور مقابل بھی تلوار ہے.اگر بچ گیا تو نجات پا گیا وَ إِلا أَسْفَلُ السَّافِلِين میں پڑ گیا.چنانچہ یہاں متقی کی صفات میں یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہم دیتے ہیں اُسے سب کا سب خرچ کر دیتا ہے.متقی میں ابھی اس قدر ایمانی طاقت نہیں جو نبی کی شان ہوتی ہے کہ وہ ہمارے بادی کامل کی طرح گل کا گل دیا ہوا خدا کا خدا کو دے دے.اس لئے پہلے مخصر سائیکس لگا یا گیا تا کہ چاشنی چکھ کر زیادہ کے لئے تیار ہو جاوے.وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.رزق سے مراد صرف مال نہیں بلکہ جو کچھ اُن کو عطا ہوا ؛ علم ، حکمت، طبابت، یہ (سب) کچھ رزق میں ہی شامل ہے.اُس کو اسی میں سے خدا کی راہ میں بھی خرچ کرتا ہے.انسان نے اس راہ میں بتدریج اور زمینہ بہ زینہ ترقی کرنا ہے.اگر انجیل کی طرح یہ تعلیم ہوتی کہ گال پر ایک طمانچہ کھا کر دوسرے طمانچہ کے لئے گال آگے رکھ دی جاوے.یا سب کچھ دے دیا جاوے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح تعلیم کے ناممکن التعمیل ہونے کے باعث ثواب سے مرحوم رہتے.لیکن قرآن تو حسب فطرت انسانی آہستہ آہستہ ترقی کراتا ہے.انجیل کی مثال تو اُس لڑکے کی ہے جو مکتب میں داخل ہوتے ہی بڑی مشکل مکتب کی کتاب پڑھنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ حکیم ہے، اُس کی حکمت کا یہی تقاضا ہونا چاہئے تھا کہ تدریج کے ساتھ تعلیم کی تکمیل ہو.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۴۴ تا ۴۷) قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت کے منشاء کو حاصل کر سکے.اب اس آیت میں تقویٰ کے تین مراتب کو بیان کیا ہے.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح سے یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے نہ خود کچھ سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سر لگا کر پڑھ لیا.اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر قرآن شریف کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة البقرة تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر کرے.یہ یا درکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے.اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مد نظر نہ رکھا جاوے اور اس پر پورا غور نہ کیا جاوے قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) غرض بات یہ تھی کہ قرآن شریف میں ترتیب کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور یہ آئتیں جو میں نے پڑھی تھیں ان میں ترتیب کو محوظ رکھا گیا ہے يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ.یادرکھو ايقا اتَّقَا تین قسم کا ہوتا ہے.پہلی قسم ایفا کی علمی رنگ رکھتی ہے.یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے.دوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے جیسا کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ میں فرمایا ہے.انسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یقرون نہیں فرمایا بلکہ يُقيمون فرمایا یعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا.سنو! ہر ایک چیز کی ایک علت غائی ہوتی ہے اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہو جاتی ہے مثلاً ایک بیل جو قلبہ رانی کے واسطے خریدا گیا ہے اپنے منصب پر اس وقت قائم سمجھا جاوے گا کہ وہ کر کے دکھا دے نہ صرف یہ کہ اس کی غرض و غایت کھانے پینے ہی تک محدودر ہے.وہ اپنی علت غائی سے دور ہے اور اس قابل ہے کہ اس کو ذبح کیا جاوے.اسی طرح يُقِيمُونَ الصَّلوة سے لوازم الصلوۃ معراج ہے اور یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہوتا ہے.مکاشفات اور رویا صالحہ آتے ہیں ، لوگوں سے انقطاع ہوتا جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پیدا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ تبثل تام ہو کر خدا میں جا ملتا ہے.صلی جلنے کو کہتے ہیں جیسے کباب کو بھونا جاتا ہے اسی طرح نماز میں سوزش لازمی ہے.جب تک دل بریان نہ ہو نماز میں لذت اور سرور پیدا نہیں ہوتا اور اصل تو یہ ہے کہ نماز ہی اپنے بچے معنوں میں اُس وقت ہوتی ہے نماز میں یہ شرط ہے کہ وہ بجميع شرائط ادا ہو جب تک وہ ادا نہ ہو وہ نماز نہیں ہے اور نہ وہ کیفیت جو صلوۃ میں میل نما کی ہے حاصل ہوتی ہے.یا درکھو صلوۃ میں حال اور قال دونوں کا جمع ہونا ضروری ہے.بعض وقت اعلام تصویری ہوتا ہے ایسی تصویر دکھائی جاتی ہے جس سے دیکھنے والے کو پتہ ملتا ہے کہ اس کا منشاء یہ ہے.ایسا ہی صلوۃ میں منشاء الہی کی تصویر ہے.نماز میں جیسے زبان سے کچھ پڑھا جاتا ہے ویسے ہی اعضا اور جوارح کی حرکات سے کچھ دکھایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة البقرة بھی جاتا ہے جب انسان کھڑا ہوتا ہے اور تحمید و تسبیح کرتا ہے اُس کا نام قیام رکھا ہے اب ہر ایک شخص جانتا ہے ر کہ حمد وثنا کے مناسب حال قیام ہی ہے.بادشاہوں کے سامنے جب قصائد سنائے جاتے ہیں تو آخر کھڑے ہو کر ہی پیش کرتے ہیں.ادھر تو ظاہری طور پر قیام رکھا ہی ہے اور زبان سے حمد و ثنا بھی رکھی ہے.مطلب اس کا یہی ہے کہ روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو.حمد ایک بات پر قائم ہو کر کی جاتی ہے جو شخص ا مصدق ہو کر کسی کی تعریف کرتا ہے تو وہ ایک رائے پر قائم ہو جاتا ہے اس الحمد للہ کہنے والے کے واسطے یہ ضروری ہوا کہ وہ بچے طور پر الحمد للہ اسی وقت کہہ سکتا ہے کہ پورے طور پر اس کو یقین ہو جائے کہ جمیع اقسام محامد کے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.جب یہ بات دل میں انشراح کے ساتھ پیدا ہوگئی تو یہ روحانی قیام ہے کیونکہ دل اس پر قائم ہو جاتا ہے.اور وہ سمجھا جاتا ہے کہ کھڑا ہے.حال کے موافق کھڑا ہو گیا تا کہ روحانی قیام نصیب ہو.پھر رکوع میں سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم کہتا ہے قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی کی عظمت مان لیتے ہیں تو اس کے حضور جھکتے ہیں عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے رکوع کرے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم زبان سے کہا اور حال سے جھکنا دکھایا.یہ اس قول کے ساتھ حال دکھایا.پھر تیسرا قول ہے سُبحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلى، أَفْعَلُ التَّفْضِيل ہے یہ بالذات سجدہ کو چاہتا ہے.اس لئے اس کے ساتھ حالی تصویر سجدہ میں گرے گا.اور اس اقرار کے مناسب حال ہیت فی الفور اختیار کر لی.اس قال کے ساتھ تین حال جسمانی ہیں ایک تصویر اس کے آگے پیش کی ہے ہر ایک قسم کا قیام بھی کرتا ہے زبان جو جسم کا ٹکڑا ہے اس نے بھی کہا اور و ہ شامل ہو گئی.تیسری چیز اور ہے وہ اگر شامل نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی وہ کیا ہے؟ وہ قلب ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قلب کا قیام ہو اور اللہ تعالیٰ اس پر نظر کر کے دیکھے کہ در حقیقت وہ حمد بھی کرتا ہے اور کھڑا بھی ہے.اور روح بھی کھڑا ہوا حمد کرتا ہے.جسم ہی نہیں بلکہ روح بھی کھڑا ہے اور جب سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم کہتا ہے تو دیکھے کہ اتنا ہی نہیں کہ صرف عظمت کا اقرار ہی کیا ہے نہیں بلکہ ساتھ ہی جھکا بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی روح بھی جھک گیا ہے پھر تیسری نظر میں خدا کے حضور سجدہ میں گرا ہے اس کی علق شان کو ملاحظہ میں لا کر اس کیساتھ ہی دیکھے کہ روح بھی الوہیت کے آستانہ پر گرا ہوا ہے.غرض یہ حالت جب تک پیدا نہ ہولے اس وقت تک مطمئن نہ ہو کیونکہ یقیمُونَ الصَّلوة کے یہی معنی ہیں..
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة البقرة اگر یہ سوال ہو کہ یہ حالت پیدا کیوں کر ہو؟ تو اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ نماز پر مداومت کی جاوے اور وساوس اور شبہات سے پریشان نہ ہو.ابتدائی حالت میں شکوک وشبہات سے ایک جنگ ضرور ہوتی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ نہ تھکنے والے استقلال اور صبر کے ساتھ لگا رہے اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں مانگتا رہے.آخر وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.یہ تقوی عملی کا ایک جزو ہے.اور دوسری جزو اس ( تقوی) کی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہے جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.عام لوگ رزق سے مراد اشیاء خوردنی لیتے ہیں یہ غلط ہے جو کچھ قومی کو دیا جاوے وہ بھی رزق ہے ، علوم وفنون وغیرہ معارف حقائق عطا ہوتے ہیں یا جسمانی طور پر معاش مال میں فراخی ہو ، رزق میں حکومت بھی شامل ہے اور اخلاق فاضلہ بھی رزق ہی میں داخل ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں یعنی روٹی میں سے روٹی دیتے ہیں علم میں سے علم اور اخلاق میں سے اخلاق.علم کا دینا تو ظاہر ہی ہے یہ یا درکھو کہ وہی بخیل نہیں ہے جو اپنے مال میں سے کسی مستحق کو کچھ نہیں ) دیتا بلکہ وہ بھی بخیل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اور وہ دوسروں کو سکھانے میں مضائقہ کرے.محض اس خیال سے اپنے علوم وفنون سے کسی کو واقف نہ کرنا کہ اگر وہ سیکھ جاوے گا تو ہماری بے قدری ہو جائے گی یا ہ آمدنی میں فرق آ جائے گا شرک ہے کیونکہ اس صورت میں وہ اس علم یا فن کو ہی اپنا رازق اور خدا سمجھتا ہے.اسی طرح پر جو اپنے اخلاق سے کام نہیں لیتا وہ بھی بخیل ہے اخلاق کا دینا یہی ہوتا ہے کہ جو اخلاق فاضلہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دے رکھے ہیں اس کی مخلوق سے ان اخلاق سے پیش آدے.وہ لوگ اس کے نمونہ کو دیکھ کر خود بھی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اخلاق سے اس قدر ہی مراد نہیں ہے کہ زبان کی نرمی اور الفاظ کی نرمی سے کام لے نہیں بلکہ شجاعت، مروّت ، عفت جس قدر قو تیں انسان کو دی گئی ہیں دراصل سب اخلاقی قوتیں ہیں ان کا بر محل استعمال کرنا ہی ان کو اخلاقی حالت میں لے آتا ہے.ایک موقع مناسب پر غضب کا استعمال بھی اخلاقی رنگ حاصل کر لیتا ہے.یہ نہیں کہ انجیل کی تعلیم کی طرح (جو ) ایک ہی پہلو اپنے اندر رکھتی ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.یہ اخلاق نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم حکمت کے اصول پر مبنی ہو سکتی (ہے).اگر ایسا ہو تو تمام فوجوں کا موقوف کر دینا اور ہر قسم کے آلات حرب کو توڑ دینا لازم آئے گا اور مسیحی دنیا کو بطور ایک خادم کے رہنا پڑے گا کیونکہ اگر کوئی کرتہ مانگے تو چونہ بھی دینا پڑے گا ایک کوس بیگار لے جانا چاہے تو دو کوس جانے کا حکم ہے.پھر عیسائی لوگوں کو کس قدر مشکلات پیش آئیں اگر ،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة البقرة اس تعلیم پر عمل کریں.نہ ان کے پاس ضروریات زندگی بسر کرنے کو کچھ رہے اور نہ کوئی آرام کی صورت کیونکہ جو کچھ ان کے پاس ہو کوئی مانگ لے تو پھر ان کے پاس خاک رہ جاوے.اگر محنت مزدوری سے کمانا چاہیں تو کوئی بیگار میں لگا دے غرض اس تعلیم پر زور تو بہت دیا گیا ہے اور پادریوں کو دیکھا ہے کہ وہ بازاروں میں اس تعلیم کی بڑے شدومد سے تعریف کر کے وعظ کرتے ہیں لیکن جب عمل پوچھو تو کچھ نہیں ہے گویا بگفتن ہی سب کچھ ہے کرنے کے واسطے کچھ نہیں اس لئے اُس کا نام اخلاق نہیں ہے.اخلاق یہ ہے کہ تمام قومی کو جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں برمحل استعمال کیا جاوے.مثلاً عقل دی گئی ہے اور کوئی دوسرا شخص جس کو کسی امر میں واقفیت نہیں اس کے مشورہ کا محتاج ہے اور یہ اس کی نسبت پوری واقفیت رکھتا ہے تو اخلاق کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اپنے عقل سلیم سے اس کو پوری مدد دے اور اس کو سچا مشورہ دے.لوگ ان باتوں کو معمولی نظر سے دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا کیا بگڑتا ہے اس کو خراب ہونے دو.یہ شیطانی فعل ہے.انسانیت سے بعید ہے کہ وہ کسی دوسرے کو بگڑتا دیکھے اور اس کی مدد کے لئے تیار نہ ہو.نہیں بلکہ چاہئے کہ نہایت توجہ اور دلدہی سے اس کی بات سنے اور اپنی عقل وسمجھ سے اس کو ضروری مدد دے.لیکن اگر کوئی یہاں یہ اعتراض کرے کہ مِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کیوں فرمایا ؟ مینا کے لفظ سے نکل کی بُو آتی ہے.چاہئے تھا کہ ہر چه داری خرچ کن در راه او.اصل بات یہ ہے کہ اس سے بخل ثابت نہیں ہوتا.قرآن شریف خدائے حکیم کا کلام ہے.حکمت کے معنے ہیں شے راحل داشتن.پس مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محل اور موقع کو دیکھ کر خرچ کرو.جہاں تھوڑ ا خرچ کرنے کی ضرورت ہے وہاں تھوڑا خرچ کرو اور جہاں بہت خرچ کرنے کی ضرورت ہے وہاں بہت خرچ کرو.اب مثلاً عفو ہی ایک اخلاقی قوت ہے اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا عفو کے لائق ہے یا نہیں مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہو جاتی ہے جو غصہ تو لاتی ہے لیکن وہ معافی کے قابل ہوتے ہیں اور ( بعض ) ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اُن کی کسی شرارت پر چشم پوشی کی جاوے اور اُس کو معاف کر دیا جاوے تو وہ زیادہ دلیر ہو کر مزید نقصان کا باعث بنتا ہے.مثلاً ایک خدمتگار ہے جو بڑا نیک اور فرمان بردار ہے وہ چاء لا یا اتفاق سے اس کو ٹھوکر لگی اور چاء کی پیالی گر کر ٹوٹ گئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة البقرة اور چاء بھی مالک پر گر گئی اگر اس کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو اور تیز وتند ہوکر اس پر جا پڑے تو یہ سفاہت ہوگی.یہ عفو کا مقام ہے کیونکہ اس نے عمد أشرارت نہیں کی ہے اور عفو اس کو زیادہ شرمندہ کرتا اور آئندہ کے لئے محتاط بناتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا شریر ہے کہ وہ ہر روز توڑتا ہے اور یوں نقصان پہنچاتا ہے اس پر رحم یہی ہوگا کہ اس کو سزا دی جاوے.پس یہی حکمت ہے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں.ہر ایک مومن اپنے نفس کا مجتہد ہوتا ہے وہ محل اور موقع کی شناخت کرے اور جس قدر مناسب ہو خرچ کرے میں ابھی بتا چکا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے اس کے بالمقابل انجیل کی تعلیم کو دیکھو کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دے وغیرہ وغیرہ کیسی قابل اعتراض ہے کہ اس کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی اور اس کی تمدنی صورت ممکن ہی نہیں ہے.یہاں تک کہ بڑے سے بڑا نرم خو اور تقدس مآب پادری بھی اس تعلیم پر عمل نہیں کر سکتا اگر کوئی انجیل کی اس تعلیم کا عملی ثبوت لینے کے لئے کسی پادری صاحب کے منہ پر طمانچہ مارے تو وہ بجائے اس کے کہ دوسری گال پھیرے پولیس کے پاس دوڑ ا جاوے گا اور اس کو حکام کے سپر د کرا دے گا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انجیل معطل پڑی ہے اور قرآن شریف پر عمل ہو رہا ہے.ایک مفلس اور نادار بڑھیا بھی جس کے پاس ایک جو کی روٹی کا ٹکڑا ہے اس ٹکڑے میں سے ایک حصّہ دے کر مِنًا رَزَقْنهُمْ يُنفِقُونَ میں داخل ہو سکتی ہے لیکن انجیل کے طمانچہ کھا کر گال پھیرنے کی تعلیم میں مقدس سے مقدس پادری بھی شامل نہیں ہو سکتا.ع به بین تفاوت ره از کجاست تا یکجا انجیل تو اس پہلو میں یہاں تک گری ہوئی ثابت ہوتی ہے کہ اور تو اور خود حضرت مسیح بھی اس پر پورا عمل نہ دکھا سکے اور وہ تعلیم جو خود پیش کی تھی عملی پہلو میں انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کہنے ہی کے لئے ہے.ورنہ چاہئے تھا کہ اس سے پیشتر کہ وہ گرفتار ہوتے خود اپنے آپ کو دشمنوں کے حوالے کر دیتے.اور دُعائیں مانگنے اور اضطراب ظاہر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کر کے بھی دکھاتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہو جاتا کہ وہ کفارہ ہی کے لئے آئے ہیں کیونکہ اگر ان کی زندگی کا یہی کام تھا کہ وہ خود کشی کے طریق سے دنیا کو نجات دیں اور بقول عیسائیوں کے خدا بجز اس صورت کے نجات دے ہی نہیں سکتا تھا.تو ان کو چاہئے تھا کہ جس کام کے لئے وہ بھیجے گئے تھے وہ تو یہی تھا پھر وعظ اور تبلیغ کی ضرورت ہی کیا تھی کیوں نہ آتے ہی یہ کہہ دیا کہ مجھے پکڑو اور پھانسی دے دو تا کہ دنیا کی رستگاری ہو.احکام جلد ۵ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ راپریل ۱۹۰۱ صفحه ۲ تا ۴) غرض قرآن شریف کی تعلیم ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور ذرہ ذرہ اس کے آگے ہے اور اس
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تعلیم دی ہے جو انسانی قومی کی تکمیل کرتی ہے اور عفو اور انتقام کو محل اور موقع پر رکھنے کے واسطے اس سے بڑھ کر تعلیم نظر نہیں آئے گی.اگر کوئی اس تعلیم کے خلاف اور کچھ پیش کرتا ہے تو وہ گویا قانونِ الہی کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے بعض طبائع طبعاً عفو چاہتی ہیں اور بعض مار کھانے کے قابل ہوتی ہیں.سب عدالتیں قرآن شریف کی تعلیم کے موافق کھلی رہ سکتی ہیں اگر انجیل کے مطابق کریں تو آج ہی سب کچھ بند کرنا پڑے اور پھر دیکھو کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ انسان انجیلی تعلیم پر عمل نہیں کر سکتا.پس یہ دونمو نے علمی اور عملی تقوی کے ہوتے ہیں لیکن اس کے سوا تیسری قسم تقویٰ کی ہے يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ - انسان قوت شہادت کا محتاج ہے ایسی راہ اختیار نہ کرے کہ پاک شہادتوں سے دور ہو.وہ راہ خطرناک راہ ہے جس میں راست بازوں کی شہادتیں موجود نہیں ہیں.تقویٰ کی راہ یہی ہے کہ جس میں زبردست شہادتیں ہر زمانہ میں زندہ موجود ہوں مثلا تم نے راہ پوچھا کسی نے کچھ کہا کہ یہ راہ فلاں طرف جاتا ہے مگر دس کہتے ہیں کہ نہیں یہ تو فلاں طرف جاتا ہے تو اب تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اُن بھلے مانس آدمیوں کی بات مان لو.یاد رکھو کہ شہادت پاک بازوں کی ہی مقبول اور موزوں ہوتی ہے.بدمعاشوں کی شہادت کبھی مقبول نہیں ہو سکتی یہ تیسری قسم تقویٰ کی ہے جو يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ میں بیان ہوئی ہے اس کو چھوڑ کر بھی لوگ بہت خراب ہوتے ہیں ہمارے ساتھ جو لوگوں نے مخالفت کی ہے تو اسی وجہ سے کہ اُنہوں نے تقویٰ کی اس قسم کو چھوڑ دیا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ صفحه ۱) متقی کی تعریف اور ایمان کی فلاسفی تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میں گناہ میں پڑتا ہوں تو دُعا اور تدبیر سے کام لیوے.ور نہ نادان ہوگا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق: ۳، ۴) کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہر ایک مشکل اور تنگی سے نجات کی راہ اس کے لئے پیدا کر دیتا ہے.متقی درحقیقت وہ ہے کہ جہاں تک اس کی قدرت اور طاقت ہے وہ تدبیر اور تجویز سے کام لیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : المن ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ - ایمان بالغیب کے یہ معنے ہیں کہ وہ خدا سے اڑ نہیں باندھتے بلکہ جو بات پر دہ غیب میں ہو اس کو قرائن مرحمہ کے لحاظ سے قبول کرتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں کہ صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں.یہ بڑی غلطی ہے کہ انسان یہ خیال رکھے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة البقرة کہ آفتاب کی طرح ہر ایک ایمانی امر اس پر منکشف ہو جاوے.اگر ایسا ہو تو پھر بتلاؤ کہ اس کے ثواب حاصل کرنے کا کونسا موقع ملا.کیا ہم اگر آفتاب کو دیکھ کر کہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے تو ہم کو ثواب ملتا ہے؟ ہر گز نہیں.کیوں صرف اس لئے کہ اس میں غیب کا پہلو کوئی بھی نہیں لیکن جب ملائکہ، خدا اور قیامت وغیرہ پر ایمان لاتے ہیں تو ثواب ملتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان پر ایمان لانے میں ایک پہلو غیب کا پڑا ہوا ہے.ایمان لانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ اخفا بھی ہو اور طالب حق چند قرائن صدق کے لحاظ سے ان باتوں کو مان لے.اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ہم نے ان کو عقل ، فکر، فہم ، فراست اور رزق اور مال وغیرہ عطا کیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں اس کے لئے صرف کرتے ہیں.یعنی فعل کے ساتھ بھی کوشش کرتے ہیں پس جو شخص دُعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یاد رکھو کہ جو شخص پوری فہم اور عقل اور زور سے تلاش نہیں کرتا وہ خدا کے نزدیک ڈھونڈنے والا نہیں قرار پاتا اور اس طرح سے امتحان کرنے والا ہمیشہ محروم رہتا ہے لیکن اگر وہ کوششوں کے ساتھ دُعا بھی کرتا ہے اور پھر اُسے کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا اُسے بچاتا ہے اور جو آسانی تن کے ساتھ دروازہ پر آتا ہے اور امتحان لیتا ہے تو خدا کو اس کی پروا نہیں ہے.ابو جہل وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو نصیب ہوئی اور وہ کئی دفعہ آپ کے پاس آیا بھی لیکن چونکہ آزمائش کے لئے آتا رہا اس لئے گر گیا اور اسے ایمان نصیب نہ ہوا.البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مؤرخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۴) اس جگہ ہدایت سے مُراد ایک اور اعلیٰ امر ہے.جو انسان کی کمال ترقیات پر دلالت کرتا ہے اور ان اعمال کو صبر اور استقلال کے ساتھ بجالانے سے حاصل ہوتا ہے.پہلا ایمان غیب پر ہے لیکن اگر ایمان صرف غیب ستک محدود رہے.تو اس میں کیا فائدہ وہ تو ایک سنی سنائی بات ہے.اس کے بعد معرفت اور مشاہدہ کا درجہ حاصل کرنا چاہئے.جو کہ اس ایمان کے بعد رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام کے عطا ہوتا ہے اور انسان کی حالت غیب سے منتقل ہو کر علم شہود کی طرف آجاتی ہے.جن باتوں پر وہ پہلے غیب کے طور پر ایمان لاتا تھا اب ان کا عارف بن جاتا ہے اور اس کو رفتہ رفتہ وہ درجہ عطا ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے.پس غیب پر ایمان لانے والے کو آگے ترقی دی جاتی ہے اور وہ مشاہدہ کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے.البدر جلد ۶ نمبر ۳ مؤرخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲ سورة البقرة ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوۃ میں اور دُعا میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے الصلوةُ هِيَ الدُّعَاءِ الصَّلوةُ مُخُ الْعِبَادَةِ یعنی نماز ہی دُعا ہے، نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دُعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں.لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اُس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب ، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اُس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دُعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دُعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں ہارج ہو جاتے ہیں.خاص کر خامی اور کیچ پنے کے زمانہ میں یہ اُمور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ پُرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے.ویسی ہی گدازش دُعا میں پیدا ہونی چاہئے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اُس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.( بدر جلد نمبر ۸ مورخه ۲۵ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۴) دوسرا امر نماز ہے جس کی پابندی کے لئے بار بار قرآن شریف میں کہا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یادرکھو کہ اسی قرآن مجید میں اُن مصلیوں پر لعنت کی ہے جو نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اپنے بھائیوں سے مجید بخل کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے محفوظ کر دے.انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو جس سے وہ اطمینان اور سکینت اسے ملے جو نجات کا نتیجہ ہے مگر یہ بات اپنی کسی چالا کی یا خوبی سے نہیں مل سکتی جب تک خدا نہ بلاوے یہ جانہیں سکتا جب تک وہ پاک نہ کرے یہ پاک نہیں ہوسکتا.بہتیرے لوگ اس پر گواہ ہیں کہ بار ہا یہ جوش طبیعیتوں میں پیدا ہوتا ہے کہ فلاں گناہ دور ہو جاوے جس میں وہ مبتلا ہیں لیکن ہزار کوشش کریں دور نہیں ہوتا باوجود یکہ نفس لوامہ ملامت کرتا ہے لیکن پھر بھی لغزش ہو جاتی ہے.اس سے معلوم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳ سورة البقرة ہوا کہ گناہ سے پاک کرنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے اپنی طاقت سے کوئی نہیں ہوسکتا ہاں یہ سچ ہے کہ اس کے لئے سعی کرنا ضروری امر ہے.غرض وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب سے دور جا پڑا ہے اس کو پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لئے نماز ہے.اسی ذریعہ سے ان بدیوں کو دور کیا جاتا ہے اور اُس کی بجائے پاک جذبات بھر دیئے جاتے ہیں یہی سر ہے جو کہا گیا ہے کہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا نماز فحشاء اور منکر سے روکتی ہے.پھر نماز کیا ہے؟ یہ ایک دُعا ہے جس میں پورا دور د اور سوزش ہو اسی لئے اس کا نام صلوۃ ہے کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بدا را دوں اور.بُرے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کر دے.صلوٰۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ برے الفاظ اور دُعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش رفت اور در دساتھ ہو.خدا تعالیٰ کسی دُعا کو نہیں سنتا جب تک دُعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے.دُعا مانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دُعا کی تھی مگر اُس کا اثر نہ ہوا.اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ جب تک دُعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دُعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.دُعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہو اور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دُعا میں لگا رہے پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دُعا قبول ہوگی.نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دُعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام، رکوع، سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لئے خواہ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں.ایک اور افسوسناک امر پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ہی مسلمان نماز کی حقیقت سے ناواقف تھے اور اس پر توجہ نہیں کرتے تھے اس پر بہت سے فرقے ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے نماز کی پابندیوں کو اڑا کر اس کی جگہ چند وظیفے اور ورد قرار دیئے.کوئی نوشا ہی ہے کوئی چشتی ہے کوئی کچھ ہے کوئی کچھ.یہ لوگ اندرونی طور پر اسلام اور احکام الہی پر حملہ کرتے ہیں اور شریعت کی پابندیوں کو توڑ کر ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں یقیناً یا درکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالب حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة البقرة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور ان راست بازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے افسوس ان نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں.یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان اُس عالم سے حصّہ نہ رکھتا ہو جہاں سے نماز آتی ہے.الحکم جلد نمبر ۲ مؤرخه / ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۵) انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے امن میں رہتا ہے جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ماں کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑگڑانے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یادرکھو اس نے ایمان کا حظ نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دُعا شروع کرتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں اور حضور الہی سے نکل کر دُعا مانگتے ہیں.نماز میں دُعا مانگو.نماز کو دُعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۱) یہ جو نماز پڑھی جاتی ہے اس میں بھی ایک طرح کا اضطراب ہے.کبھی کھڑا ہونا پڑتا ہے کبھی رکوع کرنا پڑتا ہے اور کبھی سجدہ کرنا پڑتا اور پھر طرح طرح کی احتیاطیں کرنی پڑتی ہیں مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان خدا کے لئے دکھ اور مصیبت کو برداشت کرنا سیکھے ورنہ ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو خدا کی یاد ہوسکتی تھی پر خدا نے ایسا منظور نہیں کیا.صلوٰۃ کا لفظ ہی سوزش پر دلالت کرتا ہے.جب تک انسان کے دل میں ایک قسم کا قلق اور اضطراب پیدا نہ ہو اور خدا کے لئے اپنے آرام کو نہ چھوڑے تب تک کچھ بھی نہیں.ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ فطرتا اس قسم کے ہوتے ہیں جو ان باتوں میں پورے نہیں اتر سکتے اور پیدائشی طور پر ہی ان میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جو وہ ان امور میں استقلال نہیں دکھا سکتے مگر تا ہم بھی تو بہ اور استغفار بہت کرنی چاہئے کہ کہیں ان میں ہی شامل نہ ہو جاویں جو دین سے بالکل بے پروا ہوتے ہیں اور اپنا مقصود بالذات دنیا کو ہی سمجھتے ہیں......یہ نماز جو تم لوگ پڑھتے ہو صحابہ بھی یہی نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی نماز سے انہوں نے بڑے بڑے روحانی فائدے اور بڑے بڑے مدارج حاصل کئے تھے.فرق صرف حضور اور خلوص کا ہی ہے.اگر تم میں بھی وہی اخلاص ، صدق، وفا اور استقلال ہو تو اسی نماز سے اب بھی وہی مدارج حاصل کر سکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے تھے.چاہئے کہ خدا کی راہ میں دکھ اُٹھانے کے لئے ہر وقت تیار رہو.یادرکھو جب اخلاص اور صدق سے کوشش نہیں کرو گے کچھ نہیں بنے گا.بہت آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یہاں سے تو بیعت کر جاتے ہیں مگر گھر میں جا کر جب تھوڑی سی بھی تکلیف آئی اور کسی نے دھمکایا تو جھٹ مرتد ہو گئے.ایسے لوگ ایمان فروش ہوتے ہیں.صحابہ کو دیکھو کہ انہوں نے تو دین کی خاطر اپنے سر کٹوا دیے تھے اور جان و مال سب خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے کسی دشمن کی دشمنی کی انہیں پروا تک بھی نہ تھی وہ تو خدا کی راہ میں سب طرح کی تکالیف اُٹھانے اور ہر طرح کے دکھ برداشت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اور انہوں نے اپنے دلوں میں فیصلہ کیا ہوا تھا مگر یہ ہیں جو ذرا بھی نمبر دار یا کسی اور شخص نے دھمکایا تو دین ہی چھوڑ دیا ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی محض پوست ہی پوست ہوتی ہیں.ایسوں کی نمازیں بھی خدا تک نہیں پہنچتیں بلکہ اسی وقت ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور ان کے لئے لعنت کا موجب ہوتی ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون: ۶،۵) وہ لوگ جو نمازوں کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں ان کی نمازیں نری ٹکریں ہوتی ہیں.ایسے لوگ ایک سجدہ اگر خدا کو کرتے ہیں تو دوسرا دنیا کو کرتے ہیں.جب تک انسان خدا کے لئے تکالیف اور مصائب کو برداشت نہیں کرتا تب تک مقبول حضرت احدیت نہیں ہوتا.دیکھو دنیا میں بھی اس کا نمونہ پایا جاتا ہے اگر ایک غلام اپنے آقا کا ہر ایک تکلیف اور مصیبت میں اور ہر ایک خطر ناک میدان میں ساتھ دیتا ر ہے تو وہ غلام غلام نہیں رہتا بلکہ دوست بن جاتا ہے.یہی خدا کا حال ہے اگر انسان اس کا دامن نہ چھوڑے اور اسی کے آستانہ پر گرار ہے اور استقلال کے ساتھ وفاداری کرتا رہے تو پھر خدا بھی ایسے کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کے ساتھ دوست والا (احکام جلد نمبر ۳۶ مؤرخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۴،۱۱) معاملہ کرتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة علمی تجارب کے ذریعہ سے ماننا پڑتا ہے کہ بے شک دواؤں میں خواص پوشیدہ ہیں اور اگر مرض کے مناسب حال کوئی دوا استعمال ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بے شک مریض کو فائدہ ہوتا ہے سو ایسا ہی علمی تجارب کے ذریعہ سے ہر ایک عارف کو ماننا پڑا ہے کہ دُعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے.ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑ باراستبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہمارا دُعا کرنا ایک قوت متناطیسی رکھتا ہے اور فضل اور رحمت الہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے.نماز کا مغز اور روح بھی دُعا ہی ہے جو سورہ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں تو اس دُعا کے ذریعہ سے اس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے اُتر تا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۱،۲۴۰) تمہیں چاہئے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعامانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو.ہر ایک نماز میں دُعا کے واسطے کئی موقع ہیں.رکوع، قیام ، قعدہ، سجدہ وغیرہ آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنی پڑتی ہے فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب، عشاء اور اس پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں یہ سب دُعا ہی کے لئے موقع ہیں.اصل غرض اور مغز نماز کا دُعا ہی ہے اور دُعا خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے موافق ہے.عام طور پر دیکھو کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بیقرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے.الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا جب انسان خدا تعالیٰ کے دروازہ پر گرتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ گرتا ہے اور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور اس پر رحم کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے.یہ خیال غلط اور باطل ہے جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں لاتے ہیں.اگر وہ حقیقی ایمان پیدا کرتے تو یہ بھی نہ کہتے.جب کبھی کوئی خدا تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنا فضل کیا ہے.یہ بالکل سچ ہے جو کسی نے کہا ہے : عاشق که شد که یار بحالش نظر نہ کر اے خواجہ درد نیست و گرنه طبیب ہست
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة البقرة خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ.صرف اتنی شرط ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ اور وہ کچی تبدیلی پیدا کرو.خدا تعالی میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل و برکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو.اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دُعائیں سنتا ہے اور تائید میں کرتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ محبت اور اخلاص خدا تعالیٰ سے ہو.محبت ایک ایسی شے ہے کہ انسان کی سفلی زندگی کو جلا کر ایک نیا اور مصفا انسان بنا دیتی ہے پھر وہ وہ دیکھتا ہے جو پہلے نہیں دیکھتا تھا وہ وہ سنتا ہے جو پہلے نہیں سنتا تھا.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵) ظنون فاسده والا انسان ناقص الخلقت ہوتا ہے.چونکہ اس کے پاس صرف رسمی امور ہوتے ہیں اس لئے نہ اس کا دین درست ہوتا ہے نہ دنیا.ایسے لوگ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نماز کے مطالب سے نا آشنا ہوتے ہیں اور ہر گز نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں نماز میں تو ٹھونگیں مارتے ہیں لیکن نماز کے بعد دُعا میں گھنٹہ گھنٹہ گزار دیتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ نماز جو اصل دُعا کے لئے ہے اور جس کا مغز ہی دُعا ہے اس میں وہ کوئی دُعا نہیں کرتے.نماز کے ارکان بجائے خود دُعا کے لئے محرک ہوتے ہیں.حرکت میں برکت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے کوئی مضمون نہیں سوجھتا جب ذرا اُٹھ کر پھرنے لگے ہیں تو مضمون سوجھ گیا ہے.اس طرح پر سب اعمال کا حال ہے اگر ان کی اصلیت کا لحاظ اور مغز کا خیال نہ ہو تو وہ ایک رسم اور عادت رہ جاتی ہے اس طرح روزہ میں خدا کے واسطے نفس کو پاک رکھنا ضروری ہے لیکن اگر حقیقت نہ ہو تو پھر یہ رسم ہی رہ جاتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۲) جب خدا کو پہچان لو گے تو پھر نماز ہی نماز میں رہو گے.دیکھو یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ خواہ کوئی ادنی سی بات ہو جب اس کو پسند آجاتی ہے تو پھر دل خواہ مخواہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اسی طرح پر جب انسان اللہ تعالیٰ کو شناخت کر لیتا ہے اور اُس کے حسن و احسان کو پسند کرتا ہے تو دل بے اختیار ہو کر اسی کی طرف دوڑتا ہے اور بے ذوقی سے ایک ذوق پیدا ہو جاتا ہے.اصل نماز وہی ہے جس میں خدا کو دیکھتا ہے.اس زندگی کا مزہ اسی دن آ سکتا ہے جب کہ سب ذوق اور شوق سے بڑھ کر جو خوشی کے سامانوں میں مل سکتا ہے تمام لذت اور ذوق دُعا ہی میں محسوس ہو.یادرکھو کوئی آدمی کسی موت وحیات کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا خواہ رات کو موت آجاوے یا دن کو.جو لوگ دنیا سے ایسا دل لگاتے ہیں کہ گویا کبھی مرنا ہی نہیں وہ اس دنیا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸ سورة البقرة نامراد جاتے ہیں وہاں ان کے لئے خزانہ نہیں ہے جس سے وہ لذت اور خوشی حاصل کر سکیں......نماز کیا چیز ہے؟ نماز اصل میں رب العزت سے دُعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالی اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی اُس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا.جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے اسی طرح پھر گریہ و بکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دُعائیں مانگنا ضروری ہیں اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو) میہ دُعا کرے کہ اے اللہ تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نا بینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آ جاؤں گا.اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے.تو ایسا فضل کرکہ میں نابینا نہ اُٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.جب اس قسم کی دُعا مانگے گا اور اس پر دوام کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر آئے گا کہ اسی بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رفت پیدا کر دے گی.(احکم جلد ۷ نمبر امورحہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۱۱) نماز اُس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لئے تیار ہو جائے جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچا اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھاتا اُس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں.(الحکم جلد ۸ نمبر امورخه ۱۰ ؍ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۳) جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کار بند نہیں ہوتا.اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی....نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا.مدار اسی بات پر ہے کہ جب تک بڑے ارادے ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں انانیت اور شیخی دور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے خدا کا سچا بندہ نہیں کہلا سکتا اور عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لئے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے.میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ سورة البقرة جاؤ اور ایسے کار بند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہوجائیں.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ را پریل ۱۸۹۹ء صفحه ۷) فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَرْكَبُ يُوصِلُ الْعَبْدَ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندہ کو پروردگار عالم تک إلى رَبِّ الْعِبَادِ فَيَصِلُ بِنا إلى مقام لا پہنچاتی ہے اس کے ذریعہ انسان ایسے مقام تک پہنچ جاتا يَصِلُ إِلَيْهِ عَلَى صَهَوَاتِ الجياد ہے جہاں گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھ کر نہیں پہنچ سکتا اور نماز وَصَيْدُهَا لَا يُصَادُ بِالسّهامِ.وَسِرهَا لا کا شکار ( ثمرات ) تیروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا.اس يَظْهَرُ بِالْأَفْلَامِ وَمَنِ الْعَزَمَ هَذِهِ کار از قلموں سے ظاہر نہیں ہو سکتا ہے اور جس شخص نے اس الطَّرِيقَة فَقَدْ بَلَغَ الْحَقِّ وَالْحَقِيْقَةَ وَأَلْفَی طریق کو لازم پکڑا اس نے حق اور حقیقت کو پالیا اور الْحِبَّ الَّذِي هُوَ فِي مُجبِ الْغَيْبِ وَنَجا اس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب کے پردوں میں ہے اور مِنَ الشَّكِ وَالرَّيْبِ فَتَرَى أَيَّامَهُ غُرَرًا شک و شبہ سے نجات حاصل کر لی.پس تو دیکھے گا کہ اس وَكَلامَة دَرَرًا، وَوَجْهَهُ بَدْرًا وَمَقَامَة کے دن روشن ہیں اور اس کی باتیں موتیوں کی مانند ہیں اور صَبْرًا وَمَنْ نَلْ لِلَّهِ فِي صَلَوَاتِهِ أَذَلَّ اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے.اس کا مقام صدر نشینی اللهُ لَهُ الْمُلُوكَ.وَيَجْعَلُ مَالِحًا هَذَا ہے.جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی سے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے بادشاہوں کو جھکا دیتا ہے الْمَمَلُوكَ.اعجاز اسی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۶۶ ۱۶۷) اور اس مملوک بندہ کو مالک بنا دیتا ہے.(ترجمہ (مرتب) نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق، اُنس اور سرور بڑھتا ہے.مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں.جس سے ان کو سرور اور ذوق حاصل ہو.عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دُعا کے لئے کرتے ہیں اور دیر تک دُعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا ( جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دُعا کی جاوے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نماز کا تعہد کرو جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو.فریضہ تو جماعت کے ساتھ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰ ورة البقرة پڑھ لیتے ہیں باقی نوافل اور سکن کو جیسا چاہو طول دو اور چاہئے کہ اس میں گریہ و بکا ہوتا کہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے.نماز ایسی شے ہے کہ سیقات کو دور کر دیتی ہے جیسے فرمایا: إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود : ۱۱۵) نماز کل بدیوں کو دور کر دیتی ہے.حسنات سے مراد نماز ہے مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکار سمجھا جاتا ہے کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا.نرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا آخر مر کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے......میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہو جاتی ہے مگر یہاں تو پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور رو بدنیا اور سفلی زندگی میں نگو نسار ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ نمازوں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیا چیز ہے؟....ایک افغان نماز تو پڑھتا ہے لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے.یادرکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ اور چیز.صلوۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں یہ قرب کی کنجی ہے اسی سے کشوف ہوتے ہیں اس سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں یہ دُعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سے سمجھ کر ادا نہیں کرتا تو وہ رسم اور عادت کا پابند ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۱٫۲۴ کتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۲،۱۱) نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے تو آپ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو کہ جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں.نماز کیا ہے یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اُسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اُس کی عظمت اور اُس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اُس کے آگے سجدہ میں گر جانا اُس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اُس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے تو ایسا ہے.اُس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اُس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اس سے مانگنا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے.انسان ہر وقت محتاج ہے کہ اُس سے اُس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اُس کے فضل کا اُسی سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱ سورة البقرة خواستگار ہو کیونکہ اُسی کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے.اے خدا!! ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہو کر تجھے راضی کر لیں.خدا کی محبت ، اُسی کا خوف ، اُسی کی یاد میں دل لگارہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سور ہنا یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کافر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے چنانچہ قرآن شریف میں ہے کہ أَذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة : ۱۵۳) یعنی اے میرے بندو! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اُس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دم غافل وہ دم کا فر والی بات صاف ہے.یہ پانچ وقت تو خدا تعالیٰ نے بطور نمونہ کے مقرر فرمائے ہیں.ورنہ خدا کی یاد میں تو ہر وقت دل کو لگا رہنا چاہئے اور کبھی کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت اس کی یاد میں غرق ہونا بھی ایک ایسی صفت ہے کہ انسان اس سے انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی طرح کی امید اور بھروسہ کرنے کا حق رکھ سکتا ہے.اصل میں قاعدہ ہے کہ اگر انسان نے کسی خاص منزل پر پہونچتا ہے اُس کے واسطے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جتنی لمبی وہ منزل ہوگی اتنا ہی زیادہ تیزی، کوشش اور محنت اور دیر تک اُسے چلنا ہوگا.سوخدا تک پہونچنا بھی تو ایک منزل ہے اور اُس کا بعد اور دُوری بھی لمبی.پس جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اُس کے دربار میں پہونچنے کی خواہش رکھتا ہے اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہونچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اُسے دل کی تسکین ، آرام اور محبت سے اُس کی حقیقت سے غافل ہوکر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرضِ زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نماز سنوار کر پڑھی جاتی تھی غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دُعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۲ سورة البقرة نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے، التجا کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اُس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا تھا وہ بولتا ہے اور گزارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے خدا کے آگے سربسجود رہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے پھر آخر سچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کے جواب کے واسطے بولتا اور اُس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بحر حقیقی نماز کے ممکن ہے ہر گز نہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸،۷) نماز ایسے نہ ادا کرو جیسے مرغی دانے کے لئے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو اور دُعا ئیں بہت کیا کرونماز مشکلات کی کنجی ہے.ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بھی بہت دُعا کیا کرو تا اس سے سوز گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گداز نہ ہو اُسے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے.چاہئے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو.اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لئے ویسے ہی کھڑا ہو.اگر جھکو تو دل بھی ا ویسے ہی جھکے اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے.دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دور ہونے شروع ہو جاویں گے معرفت بھی ایک شے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے.جیسے جو شخص قسم الفار ، سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا ایسے ہی جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے.اس کے لئے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دُعا سے بڑھے گا اور نماز خود دُعا ہے نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے.....نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے.بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دُعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دو گنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دُعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دُعا کرے اس کی نماز ہی نہیں.چاہئے کہ اپنی نماز کو دُعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کر لو ایسا نہ ہو کہ اس پر وکیل ہو.نماز خدا کا حق ہے اُسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة البقرة ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے.نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود ز ہر ہے جیسے بیمار کوشیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا.یہ دین کو درست کرتی ہے.اخلاق کو درست کرتی ہے.دنیا کو درست کرتی ہے نماز کا مزاد نیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اُ سے ملتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کور بوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کر کے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو.جو تعلق عبودیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے مَنْ كَانَ فِي هذة أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلى (بنی اسرائيل : ۷۳) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں.انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۰) خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اُس سے محبت کیوں کر کر سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر محبت الہی میں وہ ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا.پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لئے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۷،۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۴ سورة البقرة پہلو رکھا ہے اور محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھا ہے.خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳) نماز انسان کا تعویذ ہے پانچ وقت دُعا کا موقع ملتا ہے کوئی دُعا توسنی جائے گی.اس لئے نماز کو بہت سنوار کر پڑھنا چاہئے اور مجھے یہی بہت عزیز ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷ رفروری ۱۹۰۱ صفحه ۷ ) نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے.یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے.پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عید گاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں.ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے.یکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۱، ۲۸۲) اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بنا دے.اس کا نام وحدت جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے.مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں.یہ نمازیں با جماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تاکہ کل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اُسے قوت دیوے حتی کہ حج بھی اسی لئے ہے.اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتداء اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلہ کی مسجد میں ادا کریں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوارل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پیدا ہو جاوے.تعارف بہت عمدہ شے ہے کیونکہ اس سے اُنس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے حتی کہ تعارف والا دشمن ایک نا آشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ا
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں اُنس پیدا ہو جاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے.پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے.اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جاویں گے.پھر سال کے بعد عیدین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تا کہ تعارف اور اُنس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو پھر اسی طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں.غرضیکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں اُلفت اور اُنس ترقی پکڑے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ رستمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۵) اس میں شک نہیں کہ نماز میں برکات ہیں مگر وہ برکات ہر ایک کو نہیں مل سکتے.نماز بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالی نماز پڑھاوے ورنہ وہ نماز نہیں نرا پوست ہے جو پڑھنے والے کے ہاتھ میں ہے اس کو مغز سے کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں.اسی طرح کلمہ بھی وہی پڑھتا ہے جس کو خدا تعالیٰ کلمہ پڑھوا دے.جب تک نماز اور کلمہ پڑھنے میں آسمانی چشمہ سے گھونٹ نہ ملے تو کیا فائدہ؟ وہ نماز جس میں حلاوت اور ذوق ہو اور خالق اتاق ہوکر پوری نیازمند اور کانمونہ ہو سکےساتھی پیدا ہو جاتی جس سے سچا تعلق قائم ہو کر پوری نیاز مندی اور خشوع کا نمونہ ہو اُس کے ساتھ ہی ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جس کو پڑھنے والا فورا محسوس کر لیتا ہے کہ اب وہ وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے تھا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مؤرخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے.اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہر گز نہ ہوگی.نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہر گز نہیں.نماز وہ شے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے.جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے.اور تضرع سے دُعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں اسی قسم کی نماز با برکت ہوتی ہے.اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک ٹور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس اتارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے.جیسے اثر دہا میں ایک سید قاتل ہے اسی طرح نفس اتارہ میں بھی سید قاتل ہوتا ہے اور جس نے اُسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ رستمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۶ سورة البقرة بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز، روزہ کی وجہ سے برکات حاصل نہیں ہوتے وہ غلط کہتے ہیں.نماز ، روزہ کے برکات اور ثمرات ملتے ہیں اور اسی دنیا میں ملتے ہیں.لیکن نماز ، روزہ اور دوسری عبادات کو اس مقام اور جگہ تک پہنچانا چاہئے جہاں وہ برکات دیتے ہیں.صحابہ کا سارنگ پیدا کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کرو پھر معلوم ہوگا کہ کیا کیا برکات ملتے ہیں.(احکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰ر جولائی ۱۹۰۶ء صفحه ۳) خوب یاد رکھو اور پھر یا درکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی ہو ( کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے ) اسی وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو!! سنو!وہ دُعا جس کے لئے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُم (المؤمن: ۶۱) فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.ٹریکٹ نمبر العنوان حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت وجود پر ایک خط مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه ۱۱} نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں نماز میں دُعا کرنی چاہئے کہ (اے اللہ ) مجھ میں اور میرے گناہ میں ڈوری ڈال.صدق سے انسان دُعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جاوے.جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی زمیندار ایک کھیت ہوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا.بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتے.بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں اگر ایک انسان کنواں کھودے اور ۲۰ ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اُس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھود لے تو گوہر مقصود پالیوے.یہ خدا کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دیکھ کے بعد دیا کرتا ہے اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جاوے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی.سعدی نے کیا عمدہ کہا ہے گر نباشد بدوست راه بردن شرط عشق است در طلب مردن البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۰) نماز سے پیشتر ایمان شرط ہے.ایک ہندو اگر نماز پڑھے گا تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟ جس کا ایمان قوی ہوگا وہ دیکھے گا کہ نماز میں کیسی لذت ہے.اور اس سے اول معرفت ہے جو خدا کے فضل سے آتی ہے اور کچھ اس کی طینت سے آتی ہے جو محمود فطرت والے (ہیں) مناسب حال اس کے فضل کے ہوتے ہیں اور اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۷ سورة البقرة اہل ہوتے ہیں انہیں پر فضل ہوا کرتا ہے ہاں یہ بھی لازم ہے کہ جیسے دنیا کی راہ میں کوشش کرتا ہے ویسے ہی خدا کی راہ میں بھی کرے....نماز پڑھو، تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگنی مطلق حرام نہیں ہے جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقع دیا گیا ہے اس وقت کثرت سے مانگو، اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے یہ بات اختیاری نہیں ہوتی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ترشحات پیدا ہوتے ہیں.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸۶) دعاوہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے، اُس دُعا کے ساتھ روح پکھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے.اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے اور رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے.یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعتِ اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے.جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ انسان بسا اوقات بننے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسم کھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے.کیونکہ انسان ترقیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھا ئیں گے تو اُس اُٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی.لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف.سورة البقرة لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۴،۲۲۳) اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بارا اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.بعض صوفیوں نے لکھا ہے کہ صحابہ جب نمازیں پڑھا کرتے تھے تو انہیں ایسی محویت ہوتی تھی جب فارغ ہوتے تو ایک دوسرے کو پہچان بھی نہ سکتے تھے.جب انسان کسی اور جگہ سے آتا ہے تو شریعت نے حکم دیا ہے کہ وہ آکر السلام علیکم کہے.نماز سے فارغ ہوتے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کے کہنے کی حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص نے نماز کا عقد باندھا اور اللہ اکبر کہا تو وہ گویا اس عالم سے نکل گیا اور ایک نئے جہان میں جا داخل ہوا گویا ایک مقام محویت میں جا پہنچا.پھر جب وہاں سے واپس آیا تو السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ کر آن ملا.لیکن صرف ظاہری صورت کافی نہیں ہوسکتی جب تک دل میں اس کا اثر نہ ہو چھلکوں سے کیا ہاتھ آ سکتا ہے.محض صورت کا ہونا کافی نہیں ، حال ہونا چاہئے.علت غائی حال ہی ہے مطلق قال اور صورت جس کے ساتھ حال نہیں ہوتا وہ تو الٹی ہلاکت کی راہیں ہیں.انسان جب حال پیدا کر لیتا ہے اور اپنے حقیقی خالق و مالک سے ایسی سچی محبت اور اخلاص پیدا کر لیتا ہے کہ یہ بے اختیار اس کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے اور ایک حقیقی محویت کا عالم اُس پر طاری ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کیفیت سے انسان کو یا سلطان بن جاتا ہے اور ذرہ ذرہ اس کا خادم بن جاتا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۴ ء صفحه ۳) حقیقت میں جو شخص نماز کو چھوڑتا ہے وہ ایمان کو چھوڑتا ہے اس سے خدا کے ساتھ تعلقات میں فرق آجاتا ہے.اس طرف سے فرق آیا تو معاً اس طرف سے بھی فرق آجاتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخہ ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱) نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف.تمام وظائف اور اور اد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے غم و ھم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل.هم ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اس لئے فرمایا ہے : الا بذکر اللهِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوبُ (الرعد: ۲۹) اطمینان ،سکیت قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة البقرة نہ رہا.نمازا اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں مگر اصل زبان کو ہر گز نہیں چھوڑنا چاہئے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا کچھ بھی باقی احکام جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۸) پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے.یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے : جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمُ (القوية: (٤) ، وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (التوبة: ٣١) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : ۱) یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ.جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجالاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۸، ۴۱۹) مجھے یہ الہام با رہا ہو چکا ہے اُجِيْبُ كُلّ دُعَائِكَ.دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ہر ایک ایسی دُعا جو نفس الامر میں نافع اور مفید ہے قبول کی جائے گی.میں جب اس خیال کو اپنے دل میں پاتا ہوں تو میری روح لذت اور سرور سے بھر جاتی ہے.جب مجھے یہ اول ہی اول الہام ہوا قریباً پچیس یا تیس برس کا عرصہ ہوتا ہے تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ میری دُعائیں جو میرے یا میرے احباب کے متعلق ہوں گی ضرور قبول کرے گا.پھر میں نے خیال کیا کہ اس معاملہ میں بخل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک انعام الہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفت میں فرمایا ہے وَمِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.پس میں نے اپنے دوستوں کے لئے یہ اصول کر رکھا ہے کہ خواہ وہ یاد دلائیں یا نہ یاد دلائیں، کوئی امر خطیر پیش کریں یا نہ کریں اُن کی دینی اور د نیوی بھلائی کے لئے دُعا کی جاتی ہے.متقی کا لفظ باب افتعال سے آتا ہے اور یہ باب تصنع کے لئے آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ متقی کو بڑا مجاہدہ اور کوشش کرنی پڑتی ہے اور اس حالت میں وہ نفس تو امہ کے نیچے ہوتا ہے اور جب حیوانی زندگی بسر کرتا ہے اُس وقت اتارہ کے نیچے ہوتا ہے اور مجاہدہ کی حالت سے نکل کر جب غالب آ جاتا ہے تو مطمئنہ کی حالت رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۳۲)
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام میں ہوتا ہے.متقی نفس امارہ کی حالت سے نکل کر آتا ہے اور لوامہ کے نیچے ہوتا ہے اسی لئے متقی کی شان میں آیا ہے کہ وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں گویا اس میں بھی ایک قسم کی لڑائی ہی کی حالت ہوتی ہے وساوس اور اوہام آ آ کر حیران کرتے ہیں مگر وہ گھبراتا نہیں اور یہ وساوس اُس کو در ماندہ نہیں کر سکتے.وہ بار بار خدا تعالیٰ کی استعانت چاہتا ہے اور خدا کے حضور چلاتا اور روتا ہے یہاں تک کہ غالب آجاتا ہے ایسا ہی مال کے خرچ کرنے میں بھی شیطان اس کو روکتا ہے اور اسراف اور انفاق فی سبیل اللہ کو یکساں دکھاتا ہے حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اسراف کرنے والا اپنے مال کو ضائع کرتا ہے مگر فی سبیل اللہ خرچ کرنے والا اُس کو پھر پاتا ہے اور خرچ سے زیادہ پاتا ہے اس لئے ہی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ فرمایا ہے.احکام جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) دولت مند اور متمول لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ممَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ متقیوں کی صفت کا ایک جز و قرار دیا ہے.یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے.مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے.اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے.تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ.پس ما رَزَقُلهُمْ يُنفِقُونَ میں شفقت علی خلق اللہ کی تعلیم ہے.دینی خدمات کے لئے متمول لوگوں کو بڑے بڑے موقع مل جاتے ہیں.ایک دفعہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ کی ضرورت بتلائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر کا کل اثاث البيت لے کر حاضر ہو گئے آپ نے پوچھا.ابو بکر ! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب میں کہا اللہ اور رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نصف لے آئے.آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا عمر ! گھر میں کیا چھوڑ آئے تو جواب دیا کہ نصف.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر کے فعلوں میں جو فرق ہے وہی ان کے مراتب میں فرق ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ راگست ۱۹۰۰ صفحه ۴،۳) متقیوں کی صفات میں سے ہے کہ وہ بالغیب ایمان لاتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور ممَّا رَزَقُنُهُمْ يُنفِقُونَ یعنی علم ، مال اور دوسرے قوائے ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے.سب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف ، اور کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے خدا نے بڑے بڑے وعدہ انعام کے کئے ہیں.البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۴ء صفحه ۸) پھر مشکفی کے لئے ایک اور منزل آتی ہے وہ مِنَا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہے یعنی جو کچھ ان کو ہم نے دیا ہے اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اے سورة البقرة میں سے خرچ کرتے اور دیتے ہی رہتے ہیں.لکھا ہے کہ ایمان کبھی کسی حال سے، کبھی کسی حال سے قوی ہو جاتا ہے اس کے لئے یہ لکھا ہے کہ اول خود دُعا کرے اور پھر جن پر حُسن ظن ہو ان سے دُعا کرائے.یہ بھی نہ ہو تو خیرات کرے جب خیرات دیتا ہے تو قبض دور ہو جاتی ہے.سوالی اگر آ جاوے تو اس کو پہلے ہی جھڑک نہ دے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک قبض پیدا ہو جاتی ہے اور پھر کچھ بھی دینے کی توفیق نہیں ملتی اور اگر اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے گا تو کچھ دینے کے لئے بھی سینہ کھل جائے گا.صدقات ایسی چیزیں ہیں کہ اُن سے دنیاوی منازل طے ہو جاتی ہیں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر بڑی بڑی نیکیوں کی توفیق دی جاتی ہے غرض مختلف مدارج اور اسباب ہیں اور یہ اس لئے ہیں کہ متقی اپنے اصلی مرتبہ پر پہنچ جائے یہ دوسرا درجہ اصلاح کا ہے.اس وقت متقی کا نام صالح رکھا جاتا ہے اس وقت شیطان کمزور ہو جاتا ہے.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ صالح کا درجہ طفیلی درجہ ہے جو تقویٰ سے آتا ہے پہلا درجہ بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس وقت شبہات سے ایک خطرناک جنگ ہوتی ہے اور شیطان پوری طاقت سے حملہ کرتا ہے مگر اس درجہ میں فساد دور ہو جاتے ہیں شیطان کو بہت سی شکستیں مل چکی ہوتی ہیں اس کی طاقت بہت ہی کمزور ہو جاتی ہے.اس کے بعد تیسرا درجہ یہ کہ فساد دور ہو کر اخلاق فاضلہ اور خدا کی محبت اندر آ جاتی ہے.یہ اطمینان کا درجہ ہے اور یہ وہی درجہ ہے جس کو يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ (الفجر (۲۸) کہا گیا ہے.میں اس کے وہ معنی کرتا ہوں جو مجھ پر کھولے گئے ہیں، جب انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے ایک قدرتی جذب الی اللہ اس میں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ گولی کی طرح لڑھکتا ہوا چلا جاتا ہے اب دور ہنا ناممکن ہے یہ معیت کو چاہتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۲،۱) میں یقیناً جانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں جو ریا کاری کے موقعوں میں تو صد ہا روپیہ خرچ کریں اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں.شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے.جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے...جو ہمیں مدد دیتے ہیں.آخر وہ خدا کی مددیکھیں گے.مجموعه اشتہارات، جلد ۲ صفحه ۳۰۸)
۷۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور بین ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کر کے دکھا دیا ہے.آپ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو یہ ریا کاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيَّثُ (الطبخى : ۱۳) کا عملی اخبار (۱۲: کرے اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سونہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں.اصل مدار نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنادیتی ہے.( الحکم جلد نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰ اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۲ وملفوظات جلد ۲ صفحه ۳۷۹) یعنی متقی وہ ہوتے ہیں جو پہلے نازل شدہ کتب پر اور تجھ پر جو کتاب نازل ہوئی اس پر ( ایمان لاتے ) اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہ امر بھی تکلف سے خالی نہیں.ابھی تک ایمان ایک مجو بیت کے رنگ میں ہے.متقی کی آنکھیں معرفت اور بصیرت کی نہیں.اُس نے تقویٰ سے شیطان کا مقابلہ کر کے ابھی ایک بات کو مان لیا ہے یہی حال اس وقت ہماری جماعت کا ہے.انہوں نے بھی تقویٰ سے مانا تو ہے اور ابھی وہ نہیں جانتے کہ یہ جماعت کہاں تک نشو و نما الہی ہاتھوں سے پانے والی ہے.سو یہ ایک ایمان ہے جو بالآخر فائدہ رساں ہوگا.یقین کا لفظ عام طور پر جب استعمال ہو تو اس سے مراد اس کا ادنیٰ درجہ ہوتا ہے.یعنی علم کے تین مدارج میں سے ادنی درجہ کا علم یعنی علم الیقین اس درجہ پر اتنا والا ہوتا ہے.مگر بعد اس کے عین الیقین اور حق الیقین کا مرتبہ بھی تقوی کے مراحل طے کرنے کے بعد حاصل کر لیتا ہے.تقویٰ کوئی چھوٹی چیز نہیں.اس کے ذریعہ اُن تمام شیطانوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو انسان کی ہر ایک اندرونی طاقت وقوت پر غلبہ پائی ہوئی ہیں.یہ تمام قو تیں نفس امارہ کی حالت میں انسان کے اندر شیطان ہیں.اگر اصلاح نہ پائیں گے تو انسان کو غلام کر لیں گے.علم و عقل ہی برے طور پر استعمال ہوکر شیطان ہو جاتے ہیں.متقی کا کام ان کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۳ سورة البقرة اور ایسا ہی اور کل قومی کی تعدیل کرنا ہے.ایسا ہی جو لوگ انتقام ، غضب یا نکاح کو ہر حال میں برا جانتے ہیں.وہ بھی صحیفہ، قدرت کے مخالف ہیں اور قومی انسانی کا مقابلہ کرتے ہیں.سچا مذ ہب وہی ہے، جو انسانی قومی کا مرتی ہو نہ کہ اُن کا استیصال کرے.رجولیت یا غضب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فطرت انسانی میں رکھے گئے ہیں اُن کو چھوڑ نا خدا کا مقابلہ کرنا ہے.جیسے تارک الدنیا ہونا یا راہب بن جانا یہ تمام حق العباد کو تلف کرنے والے ہیں.اگر یہ امر ایسا ہی ہوتا تو گویا اُس خدا پر اعتراض ہے جس نے یہ قومی ہم میں پیدا گئے.سوایسی تعلیمیں جو انجیل میں ہیں اور جن سے قویٰ کا استیصال لازم آتا ہے ضلالت تک پہنچاتی ہیں.اللہ تعالیٰ تو اس کی تعدیل کا حکم دیتا ہے ضائع کرنا پسند نہیں کرتا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۸٬۴۷) تمام نیکیوں اور راست بازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجمله دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے اور جب انسان آخرت اور اُس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رد ہو گیا اور دونوں جہان سے گیا گزرا ہوا.اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر اُس کو معرفت کے بچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے.پس یاد رکھو کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور آجاتا ہے جس قدر ابرار، اخیار اور راست باز انسان دنیا میں ہو گزرے ہیں جو رات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ ہی میں صبح کر دیتے تھے کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے! نہیں! یاد رکھو اور خوب یا درکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام ہرگز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوت اور طاقت کر سکتی ہے.بہت سے انسان آپ لوگوں نے دیکھے ہوں گے جو تین چار بار دن میں کھاتے ہیں اور خوب لذیذ اور مقوی اغذیہ، پلاؤ وغیرہ کھاتے ہیں مگر اُس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ صبح تک خراٹے مارتے رہتے ہیں اور نیند اُن پر غلبہ رکھتی ہے اور یہاں تک نیند اور ستی کے مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اُن کو عشاء کی نماز بھی دوبھر اور مشکل عظیم معلوم دیتی ہے چہ جائیکہ وہ تہجد گزار ہوں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۶۴) ہم کو اُس (خدا) نے قرآن اور حدیث کے ذریعہ خبر دی ہے کہ ایک زمانہ اور بھی آنے والا ہے جبکہ خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة البقرة کے ساتھ کوئی نہ ہوگا، وہ زمانہ بڑا خوفناک زمانہ ہے.چونکہ اُس پر ایمان لانا ہر مومن اور مسلمان کا کام ہے، جو اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ مسلمان نہیں کا فر ہے اور بے ایمان ہے.جس طرح سے بہشت ، دوزخ، انبیاء علیہم السلام اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے ویسا ہی اُس ساعت پر ایمان لانا لازم ہے.جب نفخ طور ہو کر سب نیست و نابود ہو جاویں گے.یہ سنت اللہ اور عادت اللہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے سمجھانے کے لئے تین طریق اختیار فرمائے ہیں؛ ایک یہ کہ انسان کو عقل دی ہے کہ اگر وہ اُس سے ذرا بھی کام لے اور غور کرے تو یہ امر نہایت صفائی سے ذہن میں آسکتا ہے کہ انسان کی مختصری زندگی دو عد موں کے درمیان واقع ہے اور کبھی بھی باقی نہیں رہ سکتی.قیاس سے مجہولات کا پتہ لگ سکتا ہے.انسان معلوم کر سکتا ہے.مثلاً اگر ہم غور کریں کہ ہمارے باپ دادے کہاں ہیں؟ اس پر غور کریں اور سوچیں تو مان لینا پڑے گا کہ سب کو اسی راستہ پر چلنا ہوگا.نادان ہے وہ انسان جس کے سامنے ہزار ہا نمونے ہوں اور وہ اُن سے سبق نہ لے عقل نہ سیکھے.عموماً دیکھا گیا ہے اور یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ ہر گاؤں اور شہر میں زندوں سے قبریں زیادہ ہوتی ہیں.بعض مخفی اور بعض ظاہر ہوتی ہیں.بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ جب شہر میں کوئی کنواں کھودتے ہیں.تو اُس میں سے ہڈیاں نکلتی ہیں.عموما قبریں ہی قبریں ہر جگہ موجود ہیں.یہ ایک دوسری بات ہے کہ وہ نمودار نہ ہوں.اس سے نابود شدہ طبقہ انسان کا پتہ لگتا ہے.دوسری ایک یہ دلیل عقلی اُس زمانہ کے وجود پر موجود ہے کہ جس طرح پر کھیت میں سبزہ نکلتا ہے.خوش نما معلوم ہوتا ہے.پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ زرد ہو کر خشک ہونے لگتا ہے اور پھر ایک حالت اُس پر آتی ہے کہ وہ گرنے لگتا ہے کہ اس وقت جب نقصان ہونے لگتا ہے تو بونے والا کسان اُس کو خود ہی کاٹ ڈالتا ہے تا کہ ایسا نہ ہو کہ اسی طرح پر اڑ اڑ ہی کر ضائع جاوے.دنیا خدا تعالیٰ کا کھیت ہے.جس طرح زمیندار مصلحت اور انجام بینی سے کبھی کچا ہی کاٹ لیتا ہے، کبھی ذرا پختہ ہوتا ہے تو کاتا ہے.اسی طرح سے ہم بھی پرورش پا کر خداوندی مشیت اور ارادے کے موافق ٹھیک اپنے اپنے وقت پر کائے جاتے ہیں زمیندار کے فعل سے سبق اور عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ انسان کی زندگی کا بھی ٹھیک یہی طرز ہے جیسے بعض دانے اُگنے بھی نہیں پاتے بلکہ زمین کے اندر ہی اندر ضائع ہو جاتے ہیں اُسی طرح بعض بچے شکم مادر ہی سے ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض پیدا ہونے کے چند روز بعد مرتے ہیں.غرض ٹھیک اسی قانون اور عمل کے موافق انسان بچہ، جوان اور بوڑھا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مرضی کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة البقرة در انتی اُسے وقتا فوقتا مصلحت سے کالتی جاتی ہے.کبھی بچے مرتے ہیں جن کو کہتے ہیں کہ اٹھر اسے مرتے ہیں، صحیح البدن توانا وتندرست جوان بھی مرتے ہیں، عمر رسیدہ ہو کر پیر نا تواں بھی آخر اُٹھ جاتے ہیں.غرض, سلسلہ قطع و برید کا دنیا میں ایسا جاری ہے جو ہر آن انسان کو سبق دیتا ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں.پس یہ بھی ایک دلیل اُس زمانہ کی آمد پر ہے.اس کے علاوہ ایک اور دلیل خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے پیش کی ہے اور وہ انبیاء علیہم السلام کے قبری معجزات ہیں جن سے ایک ایک وقت دنیا کے تختہ الٹ گئے اور خلقت کا نام ونشان تک قریباً مٹ گیا ہے.انسان خدا تعالیٰ کے قہر کے ہاتھ میں ہے جب چاہے وہ نابود کر دے.پھر اس کو اور دلیل کے رنگ میں پیش کیا ہے.کہ بعض امراض اس ہیبت اور شدت سے پھیلتی ہیں کہ جنہوں نے اُن کا دورہ دیکھا ہو گا وہ کہہ سکتے ہیں کہ قیامت ہی کا نمونہ ہوتا ہے.(رسالہ الانذار صفحه ۵۴ تا ۵۶ایڈیشن اوّل) طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزمان پر جو کچھ اتارا گیا ہے.اس پر ایمان لاوے اور اس پیغمبر سے پہلے جو کتابیں اور صحیفے سابقہ انبیاء اور رسولوں پر نازل ہوئے اُن کو بھی مانے.وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يوقنون اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا وسز اما نتا ہو.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳۴، ۳۵ مورخه ۱۰ تا ۱۷ /اکتوبر ۱۹۰۴ صفحه ۹) آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے.ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں.اسی امر پر توجہ کر رہا تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے یکا یک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ کریمہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا انْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے.مَا اُنْزِلَ إليك سے قرآن شریف کی وحی اور مَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ سے انبیاء سابقین کی وحی اور آخرۃ سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے.اخرۃ کے معنے ہیں پیچھے آنے والی.وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے.سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے وجیوں کا ذکر ہے.ایک وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ، دوسری وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل نازل ہوئی اور تیسری وہ جو آپ کے بعد آنے والی تھی.ریویو آف ریلیجنز جلد ۱۴ نمبر ۴ بابت ماه مارچ واپریل ۱۹۱۵ ء صفحه ۱۶۴ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۶ سورة البقرة متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا: وأوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر ! قدم مارتے ہیں، ایمان بالغیب لاتے ہیں، نماز ڈگمگاتی ہے پھر اُسے کھڑا کرتے ہیں، خدا کے دیئے سے دیتے ہیں باوجود خطرات نفس ، بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں.وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جارہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے.پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جاویں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں.اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقوی کی تعلیم کر کے ایک ایسی کتاب ہم کو عنایت کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دیئے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۴۹) یعنی جن لوگوں میں مذکورہ بالا اوصاف موجود ہوں وہ لوگ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ پر ہیں اور وہی لوگ نجات یابندہ اور فرقہ ناجیہ کے لوگ ہیں.یہی طریق نجات ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے یہ راستہ کیا صاف اور سیدھا ہے.طالب نجات کو لازم ہے کہ وہ اپنی عقل کو الہام ووحی الہی کے ماتحت چلائے ورنہ بھٹک جائے گا.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳۵،۳۴ مورخه ۱۰ تا ۱۷ را کتوبر ۱۹۰۴ صفحه ۹) اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ.........اس جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پا جائیں گے.اور پھر ان آیات میں جو اس آیت کے بعد میں لکھی گئی ہیں اسی کی زیادہ تر تفصیل کردی اور فرمایا کہ جس قدر لوگ ( خدا کے علم میں ایمان لانے والے ہیں وہ اگر چہ ہنوز مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے پر آہستہ آہستہ سب شامل ہو جائیں گے اور وہی لوگ باہر رہ جائیں گے جن کو خدا خوب جانتا ہے کہ طریقہ حقہ اسلام قبول نہیں کریں گے اور گو ان کو نصیحت کی جائے یا نہ کی جائے ایمان نہیں لائیں گے یا مراتب کاملہ تقویٰ و معرفت تک نہیں پہنچیں گے.غرض ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے کھول کر بتلا دیا کہ ہدایت قرآنی سے صرف متقی منتفع ہو سکتے ہیں جن کی اصل فطرت میں غلبہ کسی ظلمت نفسانی کا نہیں اور یہ ہدایت ان تک ضرور پہنچ رہے گی.لیکن جو لوگ متقی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام LL سورة البقرة نہیں ہیں نہ وہ ہدایت قرآنی سے کچھ نفع اٹھاتے ہیں اور نہ یہ ضرور ہے کہ خواہ نخواہ ان تک ہدایت پہنچ جائے.خلاصہ جواب یہ ہے کہ جس حالت میں دنیا میں دو طور کے آدمی پائے جاتے ہیں.بعض متقی اور طالب حق جو ہدایت کو قبول کر لیتے ہیں اور بعض مفسد الطبع جن کو نصیحت کرنا نہ کرنا برابر ہوتا ہے.b (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۲،۲۰۱) خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَ عَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم ن خدا تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انسان اپنے نفس پر آپ ظلم کرتا ہے.عادۃ اللہ یہ ہے کہ جب ایک فعل یا عمل انسان سے صادر ہوتا ہے تو جو کچھ اس میں اثر مخفی یا کوئی خاصیت چھپی ہوئی ہوتی ہے خدا تعالیٰ ضرور اس کو ظاہر کر دیتا ہے مثلاً جس وقت ہم کسی کوٹھڑی کے چاروں طرف سے دروازے بند کر دیں گے تو یہ ہمارا ایک فعل ہے جو ہم نے کیا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر اثر یہ مترتب ہوگا کہ ہماری کو ٹھٹری میں اندھیرا ہو جائے گا اور اندھیرا کرنا خدا کا فعل ہے جو قدیم سے اس کے قانونِ قدرت میں مندرج ہے.ایسا ہی جب ہم ایک وزن کافی تک زہر کھا لیں گے تو کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارا فعل ہوگا پھر بعد اس کے ہمیں ماردینا یہ خدا کا فعل ہے جو قدیم سے اس کے قانونِ قدرت میں مندرج ہے.غرض ہمارے فعل کے ساتھ ایک فعل خدا کا ضرور ہوتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور میں آتا اور اس کا نتیجہ لازمی ہوتا ہے.سو یہ انتظام جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے ایسا ہی باطن سے بھی متعلق ہے.ہر ایک ہمارا نیک یا بد کام ضرور اپنے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور میں آتا ہے.اور قرآن شریف میں جو خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِ ہم آیا ہے اس میں خدا کے مہر لگانے کے یہی معنی ہیں کہ جب انسان بدی کرتا ہے تو بدی کا نتیجہ اثر کے طور پر اس کے دل پر اور منہ پر خدا تعالی ظاہر کر دیتا ہے اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ (الصف:۲) یعنی جب کہ وہ حق سے پھر گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق کی مناسبت سے دور ڈال دیا اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کا یا پلٹ ان میں ظہور میں آئی اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفتہ رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے ان کے انوار فطرت کو دبا لیا.(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸،۴۷) آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے : خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ کہ خدا نے دلوں پر مہر کر دی ہے تو اس میں انسان کا کیا قصور ہے؟ یہ ان لوگوں کی کو نہ اندیشی ہے کہ ایک کلام کے ماقبل اور مابعد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۸ سورة البقرة پر نظر نہیں ڈالتے ورنہ قرآن شریف نے صاف طور پر بتلایا ہے کہ یہ مہر جو خدا کی طرف سے لگتی ہے یہ دراصل انسانی افعال کا نتیجہ ہے.کیونکہ جب ایک فعل انسان کی طرف سے صادر ہوتا ہے تو سنت اللہ یہی ہے کہ ایک فعل خدا کی طرف سے بھی صادر ہو.جیسے ایک شخص جب اپنے مکان کے دروازے بند کر دے تو یہ اس کا فعل ہے اور اس پر خدا کا فعل یہ صادر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا کر دے کیونکہ روشنی اندر آنے کے جو ذریعہ تھے وہ اُس نے خود اپنے لئے بند کر دیئے.اسی طرح اس مہر کے اسباب کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ کیا ہے جہاں لکھا ہے : فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ الله (الصف:1) کہ جب انہوں نے بھی اختیار کی تو خدا نے ان کو سچ کر دیا، اسی کا نام مہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مہر کو دور نہ کر سکے چنانچہ اُس نے مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اُٹھ جاتی ہے.جیسے کہ یہ فرمایا ہے: اِنَّه كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا (بنی اسرائیل : ۲۶).(البدر، جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱ ستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۶۷) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ) کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی محض اتنی ہی بات پر راضی ہو جاوے کہ وہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ایسے لوگ جو اتنی بات پر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں وہ یادرکھیں انہیں کے لئے دوسری جگہ آیا ہے: مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ.احکم جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) انسان کو صرف پنجگانہ نماز اور روزوں وغیرہ وغیرہ احکام کی ظاہری بجا آوری پر ہی ناز نہیں کرنا چاہئے.نماز پڑھنی تھی پڑھ لی، روزے رکھنے تھے رکھ لئے ، زکوۃ دینی تھی دے دی وغیرہ وغیرہ مگر نوافل ہمیشہ نیک اعمال کی متمم و مکمل ہوتی ہے اور یہی ترقیات کا موجب ہوتا ہے.مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات وصدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجالا وے اور ہر ایک کارخیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش وریاء کو اس میں دخل نہ ہو.یہ حالت مومن کی اُس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اُس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے.الغرض ہر ایک فعل اس کا اور ہر ایک حرکت و سکون اُس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے.اس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ میں کسی بات میں اس قدر تردد نہیں کرتا جس قدر کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة البقرة اُس کی موت میں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیر مومن میں ہمیشہ فرق رکھ دیا جاتا ہے.غلام کو چاہئے کہ ہر وقت رضا ء الہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے.کون ہے جو عبودیت سے انکار کر کے خدا کوا اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے؟ الحکم جلدے نمبر ۲۴ مورخہ ۳۰رمجون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۱) لا في قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيمُ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہو سکتا لیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہر یک طور کی تدبیر ہو سکتی ہے.انبیاء نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہو جائے اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہو جائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کر دیں اور اس راہ میں حرکت کریں گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اور اپنے دلوں کا اہل حق کے دلوں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر لیں گو وہ عدوانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو.اسی کی طرف اللہ جل هائه اشارہ فرماتا ہے : فِي قُلُوبِهِمْ فَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا - : لا یقینا سمجھنا چاہیئے کہ دین اسلام کو بچے دل سے ایک دن وہی لوگ قبول کریں گے جو باعث سخت اور پر زور جگانے والی تحریکوں کے کتب دینیہ کی ورق گردانی میں لگ گئے ہیں اور جوش کے ساتھ اس راہ کی طرف قدم اُٹھا ر ہے ہیں گو وہ قدم مخالفانہ ہی سہی.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۸) ایک نہایت لطیف نکتہ جو سورۃ القدر کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھینچتے ہیں.پس ان آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قومی میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہوگی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہو ناممکن نہیں اور وہ حرکت حسب استعداد و طبائع دو قسم کی ہوتی ہے؛ حرکت تامہ اور حرکت نا قصہ.حرکت تلتہ وہ حرکت ہے جو روح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیز کر کے رو بحق کر دیتی ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۸۰ سورة البقرة حرکت نا قصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیز ہو جاتا ہے مگر باعث عدم سلامت استعداد کے وہ روبحق نہیں ہوسکتا بلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتا ہے کہ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مرضا یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اُس شخص کی پہلی حالت سے بدتر ہو جاتی ہے جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہوتا رہا کہ جب اُن کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا تو ملائکہ کی اندرونی تحریک سے ہر یک طبیعت عام طور پر جنبش میں آگئی تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ اُن راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خواب غفلت سے جاگ تو اُٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن باعث نقصان استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے سوفعل ملائک کا جور بانی مصلح کے ساتھ اُترتے ہیں ہر یک انسان پر ہوتا ہے لیکن اس فعل کا نیکوں پر نیک اثر اور بدوں پر بداثر پڑتا ہے.باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید در شوره بوم و خس اور جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر چکے ہیں یہ آیت کریمہ فی قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا اى مختلف طور کے اثر کی طرف اشارہ کرتی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۵ تا ۱۵۷) ان کے دلوں میں مرض تھی خدا تعالیٰ نے اس مرض کو زیادہ کیا یعنی امتحان میں ڈال کر اس کی حقیقت ظاہر کردی.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۴) جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے.سو وہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ اُن کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تریہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں.مگر اُس کی تحریک اُن کے اختیار میں نہیں ہوتی گوہ بارہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں آوے مگر بجز ارادہ الہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی.بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور سست اعتقاد لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اُن کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی ان کی ایک ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقع میں اپنا چہرہ چھپائے رکھے.اور اسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان اُن پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اُس بڈھنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں کیونکہ تخلق بأخلاق اللہ رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ سورة البقرة في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ اُن سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے منہ پر سے اُتار لیتے ہیں اور وہ حُسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اور ذرہ ذرہ پر نمودار ہو جاتا ہے.اور اُن کا منہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اس رُوحانی حسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی اُن میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرہ ذرہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے.اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے اور اُن کی دردیں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملاء اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمت الہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں.(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۲۱، ۲۲۲) انبیاء علیہم السلام کی خاصیت ہوتی ہے کہ مومن اور کافران کے طفیل سے اپنے کفر اور ایمان میں کمال کرتے ہیں.لکھا ہے کہ ابو جہل کا کفر پورا نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے.پہلے اس کا کفر مخفی تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر اس کا اظہار ہو گیا.اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صدق بھی مخفی تھا جو اس وقت ظاہر ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی دعوت کی ایک نے اس دعوت کو قبول کیا اور دوسرے نے انکار کر دیا.ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا - انبیاء ورسل آکر اس خباثت اور شقاوت کو جوان کے اندر ہوتی ہے ظاہر کر دیتے ہیں.احکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) جب کوئی ابتلا اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے.اُس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورا اثر کر کے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا.یہ مرض ابتلا ہی کے وقت بڑھتی اور اپنا پورا زور دکھاتی ہے.خدا تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ دلوں کی مخفی قوتوں کو ظاہر کر دیتا ہے، جو شخص اپنے دل میں ایک نور رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا صدق اور اخلاص ظاہر کر دیتا ہے اور جو دل میں خبث اور شرارت رکھتا ہے اس کو بھی کھول کر دکھا دیتا ہے اور کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی.الحکم جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة البقرة نرا بدیوں سے بچنا کوئی کمال نہیں ہماری جماعت کو چاہئے کہ اسی پر بس نہ کرے نہیں بلکہ انہیں دونو کمال حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے جس کے لئے مجاہدہ اور دُعا سے کام لیں یعنی بدیوں سے بچیں اور نیکیاں کریں.ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ خدا کو سادہ نہ سمجھ لے کہ وہ مکر وفریب میں آ جائے گا.جو شخص سفلہ طبع ہوکر خدا تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اور نیکی اور راست بازی کی چادر کے نیچے فریب کرتا ہے وہ یادر کھے کہ خدا تعالیٰ اسے اور کبھی رُسوا کرے گا.فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے.نفاق اور ریا کاری کی زندگی لعنتی زندگی ہے یہ چھپ نہیں سکتی.آخر ظاہر ہو کر رہتی ہے اور پھر سخت ذلیل کرتی ہے.خدا تعالیٰ کسی چیز کو چھپاتا نہیں نہ نیکی کو نہ بدی کو.بچے کو کار اپنی نیکیوں کو چھپاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ انہیں ظاہر کر دیتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب حکم ہوا کہ تو پیغمبر ہو کر فرعون کے پاس جا تو انہوں نے عذر ہی کیا اس میں ستر یہ تھا کہ جو لوگ خدا کے لئے پورا اخلاص رکھتے ہیں وہ نمود اور ریا سے بالکل پاک ہوتے ہیں.سچے اخلاص کی یہی نشانی ہے کہ کبھی خیال نہ آوے کہ دنیا ہمیں کیا کہتی ہے.جو شخص اپنے دل میں اس امر کا ذرا بھی شائبہ رکھتا ہے وہ بھی شرک کرتا ہے.(احکم جلد ۱۰ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۳) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمُ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لا يَشْعُرُونَ.اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کومت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں.خبر دار ر ہو! یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پر فساد کر رہے ہیں.( برامین احمد به چهار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۰۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْ مِنْ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاءُ الا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لا يَعْلَمُونَ.اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں.تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ خبر دار ہوا وہی بے وقوف ہیں مگر جانتے نہیں.(براہین احمدیہ چہار حص، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۰۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) لا وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَا وَ إِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِيْنِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة البقرة إنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِعُونَ ® یعنی جب وہ مسلمانوں کے پاس جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب وہ دوسروں کے پاس جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو قرآن شریف میں منافق کہا گیا ہے اس لئے جب تک کوئی شخص پورے طور پر قرآن مجید پر عمل نہیں کرتا تب تک وہ پورا پورا اسلام میں بھی داخل نہیں ہوتا.ود و احکام جلد ۱۲ نمبر ا مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۵) لا صمٌّ بُكُمْ عَلَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ) یعنی اندھے اور گونگے اور بہرے خدا سے دور رہیں گے.( تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۳ حاشیه) قانون الہی یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اُٹھ جاتی ہے اور دلوں میں رقت اور روح میں گدازش نہیں رہتی اُس وقت منذر نشان پیدا ہوتے ہیں.یہ مقام تو ڈرنے کا تھا مگر افسوس ان لوگوں نے اندھے اور بہرے ہو کر ان نشانات الہیہ کو ( جو تضرع اور ابتہال پیدا کر سکتے تھے.ایمان میں ایک نئی زندگی بخش سکتے تھے ) چھوڑ دیا اور صحم بکھر ہو کر گزر گئے ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں.ایسے لوگوں پر خدا کا فتویٰ لگ چکا ہے تم بُكُمْ عَلَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ - الحكم جلد ۴ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۳) جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اُسے ملتا ہے.جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جاتا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اُس کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے.یہاں تک کہ وہ صنم بکھ عُمنٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ کا مصداق ہو کر ذلت اور تباہی کا مورد بن جاتا ہے.مگر اُس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ور انسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۳۴) نابینائی کی دو قسمیں ہیں؛ ایک آنکھوں کی نابینائی ہے اور دوسری دل کی.آنکھوں کی نابینائی کا اثر ایمان پر کچھ نہیں ہوتا مگر دل کی نابینائی کا اثر ایمان پر پڑتا ہے.اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے پورے تذلل اور انکسار کے ساتھ ہر وقت دُعا مانگتا ر ہے کہ وہ اُسے سچی معرفت اور حقیقی بصیرت اور بینائی عطا کرے اور شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے.( رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۶۳) انسان تو اپنی جان کا بھی مالک نہیں چہ جائیکہ وہ دولت کا مالک ہو.ایک چمچہ شربت کا مزہ نہیں پاسکتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة البقرة اگر چہ کئی بار اس میں پڑتا ہے.شیرینی ہاتھوں کے ذریعہ سے منہ تک پہنچتی ہے لیکن ہاتھ شیرینی کا مزہ نہیں پا سکتے.اسی طرح جس کو خدا نے حواس نہیں دیئے وہ ذریعہ بن کر بھی کچھ فائدہ نہیں اٹھاتا.(یادداشتیں، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۲۵) حیات مسیح کے لئے یہ کہنا کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لے جاتا ؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی * سے ناواقفی کو ظاہر کرتا ہے.ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ اَنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ (البقرة : ۱۰۷).اللہ تعالیٰ بے شک ہر بات پر قادر ہے اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے.لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزہ ہے جو اس کی صفات کا ملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے جو اس کے دین کے مخالف ہوں.W (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۶۵ ) اَوْ كَصَيْبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي W أَذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَدَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِيطٌ بِالْكَفِرِينَ.یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو...تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں.(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۶۲) b يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيْهِ وَ إِذَا أَظْلَمَ b عَلَيْهِمْ قَامُوا وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَذَهَبَ بِسَبْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرة كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيْهِ وَ إِذَا أَظْلَمُ عَلَيْهِمْ قَامُوا منافقوں کا کام ہے مگر یہ لوگ قاموا میں داخل ہیں احتیاط سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے.تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہو تو دشمن کی آنکھ میں ابتلا کا موقع اس سے مُراد ہوتا ہے اور اس لئے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴۳) إِنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر یعنی خداوہ قادر ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۱) یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہوتو ایسے خدا سے اس جگہ کتابت کی غلطی سے کوئی لفظ رہ گیا ہے.مرتب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة البقرة اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۵) کیا امید رکھیں.ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اُسے جو کچھ قیامت کو کرنا ہے وہ اسی دنیا میں کر کے دکھا سکتا تھا.کیونکہ وہ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے مگر پھر ایمان ، ایمان نہ رہتا اور نہ اس کے ثمرات میسر ہوتے.جو لوگ ایمان کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اس کو نہیں سمجھ سکتے وہ ایسے اعتراض کرتے ہیں.ایمان کی حقیقت کچھ نہ کچھ مخفی رہنا ضروری ہے.الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ عَلی کُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے.اس واسطے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جھوٹ بولے.ایسا اعتقاد بے ادبی میں داخل ہے.ہر ایک امر جو خدا تعالیٰ کے وعدہ اس کی ذات جلال اور صفات کے برخلاف ہے وہ اس کی طرف منسوب کرنا بڑا گناہ ہے.جو امر اس کی صفات کے برخلاف ہے ان کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں.( بدر جلد نمبر ۲۴ مورخه ۱۴ رستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) غور کرو کہ جس قادر خدا نے انسان کو ایسے ایسے انقلابات میں سے گزار کر انسان بنا دیا ہے اور اب ایسا انسان ہے کہ گو یا عقل حیران ہے کہ کیا سے کیا بن گیا.ناک منہ اور دوسرے اعضا پرغور کرو کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیا بنایا ہے پھر اندرونی حواس خمسہ دیئے اور دوسرے قومی اور طاقتیں اس کو عطا کیں.پس جس خدائے قادر نے اس زمانہ سے جو یہ نطفہ تھا عجیب تصرفات سے انسان بنا دیا.کیا اس کے لئے مشکل ہے کہ اس کو پاک حالت میں لے جاوے اور جذبات سے الگ کر دے؟ جو شخص ان باتوں پر غور کرے گا وہ بے اختیار ہو کر کہہ اُٹھے گا.اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۳) ياَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم وَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُم لا ص تَتَّقُونَ ) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَ السَّمَاءَ بِنَاءً وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَ اَنْتُم دوو تعلمون اے لوگو ! تم اس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا.چاہئے کہ تم اس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے.سوتم دیدہ دانستہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة البقرة انہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۰ حاشیه در حاشیه ۳) یعنی اے لوگو! تم اس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۰) اور اس پر توکل رکھو.جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خدا تعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں.کسی انسان یا اور مخلوق کے لئے ایسا نہیں کہہ سکتے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۰۵ صفحه ۵) یعنی اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا.....عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اُسی سے دل لگاؤ.پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں بیج سمجھا جائے اور جو شخص اولا دکو یا والدین کو یاکسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے.بت پرستی کے یہی تو معنے نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے.حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۸ مورخه ۲۲ /اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۱) ہوتی ہے.وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا ص شهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا (۲۵) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلكفرين.اور اگر تم اس کلام کے بارے میں کہ جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے کسی نوع کے شک میں ہو یعنی اگر تمہارے نزدیک اس نے وہ کلام آپ بنالیا ہے یا جنات سے سیکھا ہے یا جادو کی قسم ہے یا شعر ہے یا کسی اور قسم کا شک ہے تو تم بھی اگر بچے ہو تو بقدر ایک سورۃ اس کی مثل بنا کر دکھلا ؤ اور اپنے دوسرے مددگاروں یا معبودوں سے مدد لے لو اور اگر نہ بناسکو اور یا درکھو کہ ہرگز بنا نہیں سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے طیار کی گئی ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۴ حاشیہ نمبر ۱۱) اور اگر تم کو قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے.تو تم بھی کوئی ایک سورۃ اس کی مانند بنا کر دکھلاؤ اور اگر نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ ہر گز نہیں بنا سکو گے.تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة البقرة ہیں جو کافروں کے لئے طیار کی گئی ہے.پھر میں مکرر کہتا ہوں کہ قبل اس کے جو تم لوگ اس فکر میں پڑو کہ قرآن شریف کے مثل و مانند کوئی دوسرا کلام تلاش کیا جائے.اول تم کو اس بات کا دیکھ لینا نہایت ضروری ہے کہ اس دوسری کلام نے وہ دعویٰ بھی کیا ہے یا نہیں جس دعویٰ کو آیات مذکورہ بالا میں ابھی تم سن چکے ہو.کیونکہ اگر کسی متکلم نے ایسا دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میرا کلام بے مثل و مانند ہے جس کے مقابلہ اور معارضہ سے فی الحقیقت تمام جن و انس عاجز و ساکت ہیں تو ایسے متکلم کے کلام کو خواہ نخواہ بے مثل و مانند سمجھ لینا حقیقت میں اسی مثل مشہور کا مصداق ہے کہ مدعی ست و گواہ چست.ماسوا اس کے کسی کلام کو قرآن شریف کی نظیر اور شبیہ ٹھہرانے میں اس بات کا ثبوت بھی پیدا کر لینا چاہئے کہ جن کمالات ظاہری و باطنی پر قرآن شریف مشتمل ہے انہیں کمالات پر وہ کلام بھی اشتمال رکھتا ہے جس کو بطور نظیر پیش کیا گیا ہے.کیونکہ اگر نظیر پیش کردہ کو کے کمالات قرآنیہ سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں تو پھر ایسی نظیر پیش کرنا بجز اپنی جہالت اور حماقت دکھلانے کے کس غرض پر مبنی ہو گا ؟ یہ بات خوب یا درکھو کہ جیسے ان تمام چیزوں کی نظیر اور شبیہ بنانا کہ جو صادر من اللہ ہیں غیر ممکن اور ممتنع ہے.ایسا ہی قرآن شریف کی نظیر بنانا بھی حد امکان سے خارج ہے.یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے عرب کے نامی شاعروں کو کہ جن کی عربی مادری زبان تھی اور جو طبعی طور پر اور نیز کسی طور پر مذاق کلام سے خوب واقف تھے ماننا پڑا کہ قرآن شریف انسانی طاقتوں سے بلند تر ہے.اور کچھ عرب پر موقوف نہیں بلکہ خود تم میں سے کئی اندھے تھے کہ جو اس کامل روشنی سے بینا ہو گئے اور کئی بہرے تھے کہ اس سے سنے لگ گئے اور اب بھی وہ روشنی چاروں طرف سے تاریکی کو اٹھاتی جاتی ہے اور قرآن شریف کے انوار حقہ دلوں کو منور کرتے جاتے ہیں.واقعی یہ حال ہو رہا ہے کہ جس قدر لوگوں کی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں اسی قدر قرآن شریف کی عظمت کے قائل ہوتے جاتے ہیں.چنانچہ بڑے بڑے متعصب انگریزوں میں سے جو کہ حکیم اور فلاسفر کہلاتے تھے خود بول اٹھے کہ قرآن شریف اپنی فصاحت اور بلاغت میں بے نظیر ہے یہاں تتک که گادفری بیکنس صاحب جیسے سرگرم عیسائی کو اپنی کتاب کی دفعہ ۲۲۱ میں لکھنا پڑا کہ حقیقت میں جیسی عالی عبارتیں قرآن میں پائی جاتی ہیں، اس سے زیادہ غالباً دنیا بھر میں نہیں مل سکتیں اور ایسا ہی یوٹ صاحب کو بیجوری اپنی کتاب میں یہی گواہی دینی پڑی.آریا سماج والے جو خدا کے الہام اور کلام کو وید پر ختم کئے بیٹھے ہیں وہ بھی عیسائیوں کی طرح قرآن شریف * * سہو کتابت ہے.صحیح گاڈ فری ہیگنس (GODFREY HIGGINS) ہے.ناشر سہو کتابت ہے.صحیح پورٹ ( جان ڈیون پورٹ ) (JOHN DAVENPORT) ہے.ناشر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۸۸ سورة البقرة کی بے نظیری سے انکار کر کے اپنے وید کی نسبت فصاحت بلاغت کا دعوی کرتے ہیں.لیکن ہم اس امر کو بار بار غافل لوگوں پر ظاہر کرنا فرض سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف کی بے نظیری سے صرف وہ شخص انکار کر سکتا ہے جس کو یہ طاقت ہو کہ جو کچھ قرآن شریف کی وجوہ بے نظیری اس کتاب میں بطور نمونہ درج کی گئی ہیں.کسی دوسری کتاب سے نکال کر دکھلا سکے.سو اگر آریا سماج والوں کو اپنے وید پر یہ امید ہے کہ وہ قرآن شریف کا مقابلہ کر سکے گا تو انہیں بھی اختیار ہے کہ وید کا زور دکھلا وہیں.مگر صرف دعوی ہی دعویٰ کرنا اور او باشانہ باتیں مونہہ پر لانا نیک طینت آدمیوں کا کام نہیں.انسان کی ساری شرافت اور عقل اس میں ہے کہ اگر اپنے دعوئی پر کوئی دلیل ہو تو پیش کرے ورنہ ایسا دعویٰ کرنے سے ہی زبان بند رکھے جس کا ماحصل بجر فضول گوئی و ژاثر خائی اور کچھ بھی نہیں.سمجھنا چاہئے کہ قرآن شریف کی بلاغت ایک پاک اور مقدس بلاغت ہے.جس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ حکمت اور راستی کی روشنی کو فصیح کلام میں بیان کر کے تمام حقائق اور دقائق علم دین ایک موجز اور مدلل عبارت میں بھر دیئے جائیں.اور جہاں تفصیل کی اشد ضرورت ہو وہاں تفصیل ہو اور جہاں اجمال کافی ہو وہاں اجمال ہو اور کوئی صداقت دینی ایسی نہ ہو جس کا مفصلاً یا مجملاً ذکر نہ کیا جائے اور باوصف اس کے ضرورت حلقہ کے تقاضا سے ذکر ہو نہ غیر ضروری طور پر اور پھر کلام بھی ایسا فصیح اور سلیس اور متین ہو کہ جس سے بہتر بنانا ہر گز کسی کے لئے ممکن نہ ہو اور پھر وہ کلام روحانی برکات بھی اپنے ہمراہ رکھتا ہو، یہی قرآن شریف کا دعوی ہے جس کو اس نے آپ ثابت کر دیا ہے.اور جابجا فرما بھی دیا ہے کہ کسی مخلوق کے لئے ممکن نہیں کہ اس کی نظیر بنا سکے.اب جو شخص منصفانہ طور پر بحث کرنا چاہتا ہے.اس پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ قرآن شریف کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے ایسی کتاب کا پیش کرنا ضروری ہے جس میں وہی خوبیاں پائی جائیں جو اس میں پائی جاتی ہیں..(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۷۳ تا ۴۷۷ حاشیه در حاشیه ۳) جس قدر میں نے اب تک لطائف ومعارف و خواص سورۃ فاتحہ لکھے ہیں وہ بدیہی طور پر بے مثل و مانند ہیں مثلاً جو شخص ذرا منصف بن کر اوّل اُن صداقتوں کے اعلیٰ مرتبہ پر غور کرے جو کہ سورۃ فاتحہ میں جمع ہیں اور پھر ان لطائف اور نکات پر نظر ڈالے جن پر سورہ ممدوحہ مشتمل ہے اور پھر حسن بیان اور ایجاز کلام کو مشاہدہ اور کرے کہ کیسے معانی کثیرہ کو الفاظ قلیلہ میں بھرا ہوا ہے اور پھر عبارت کو دیکھئے کہ کیسی آب و تاب رکھتی ہے اور کس قدر روانگی اور صفائی اور ملائمت اس میں پائی جاتی ہے کہ گویا ایک نہایت مصفی اور شفاف پانی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ سورة البقرة کہ بہتا ہوا چلا جاتا ہے اور پھر اُس کی روحانی تا شیروں کو دل میں سوچے کہ جو بطور خارق عادت دلوں کو ظلمات بشریت سے صاف کر کے مورد انوار حضرت الوہیت بناتی ہیں جن کو ہم اس کتاب کے ہر موقعہ پر ثابت کرتے چلے جاتے ہیں تو اُس پر قرآن شریف کی شان بلند جس سے انسانی طاقتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں ایسی وضاحت سے کھل سکتی ہے جس پر زیادت متصور نہیں اور اگر با وجود مشاہدہ ان کمالات کے پھر بھی کسی کو ر باطن پر عدیم المثالی اُس کلام مقدس کی مشتبہ رہے تو اُس کا علاج قرآن شریف نے آپ ہی ایسا کیا ہے جس سے کامل طور پر منکرین پر اپنی حجت کو پورا کر دیا ہے اور وہ یہ ہے وَ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكُفِرِينَ (البقرة : ۲۵۰۲۳).یعنی اگر تمہیں اس کلام کے منجانب اللہ ہونے میں کچھ شک ہے تو تم اس کے کسی سورہ کی مانند کوئی کلام بنا کر دکھاؤ اور اگر تم بنا نہ سکو اور یا درکھو کہ ہرگز بنا نہ سکو گے سو اُس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے طیار ہے.جس کا ایندھن کا فرآدمی اور ان کے بت ہیں جو نار جہنم کو اپنے گناہوں اور شرارتوں سے افروختہ کر رہے ہیں.یہ قول فیصل ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے منکرین اعجاز قرآنی کے ملزم کرنے کے لئے آپ فرما دیا ہے.اب اگر کوئی ملزم اور لاجواب رہ کر پھر بھی قرآن شریف کی بلاغت بے مثل سے منکر ر ہے اور بیہودہ گوئی اور ژاژخائی سے باز نہ آوے تو ایسے بے حیا مُنقَلِبُ الفِطرت کا اس دنیا میں علاج نہیں ہو سکتا اس کے لئے وہی علاج ہے جس کا خدا نے اپنے قول فیصل میں وعدہ فرمایا ہے.بر این احمدیہ چهار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۰ تا ۶ ۶۵ حاشیہ نمبر ۱۱) یعنی اے منکرین ! اگر تم اس کلام کے بارہ میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے کچھ شک میں ہو یعنی اگر تم اس کو خدا کا کلام نہیں سمجھتے اور ایسا کلام بنانا انسانی طاقت کے اندر خیال کرتے ہو تو تم بھی ایک سورت جو انہیں ظاہری باطنی کمالات پر مشتمل ہو بنا کر پیش کرو.اور اگر تم نہ بنا سکو اور یا درکھو کہ ہرگز بنانہیں سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن پتھر ( بت ) اور آدمی ہیں یعنی بت اور مشرک اور نافرمان لوگ ہی اس آگ کے بھڑکنے کا موجب ہورہے ہیں.اگر دنیا میں بت پرستی و شرک و بے ایمانی و نافرمانی نہ ہوتی تو وہ آگ بھی افروختہ نہ ہوتی تو گویا اس کا ایندھن یہی چیزیں ہیں جو علت موجبہ اُس کے افروختہ ہونے کی ہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۲، ۶۳ حاشیه ) أَلَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْقُرْآنَ مَا ادَّعَى إِعْجَارَ کیا تجھے معلوم نہیں کہ قرآن نے اعجاز بلاغت کا
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْبَلاغَةِ إِلَّا فِي الرِّيَاغَةِ، فَإِنَّ الْعَرَب في دعوى کشتی گاہ کے میدان میں کیا ہے کیونکہ عرب اس کے زَمَانِهِ كَانُوا فُصَحَاءِ الْعَصْرِ وَبُلَغَاءِ الدَّهْرِ زمانہ میں فصحاء عصر اور بلغاء دہر تھے اور ان کے باہم فخر وَكَانَ مَدَارُ تَفَاخُرِهِمْ عَلى غُرَرِ الْبَيَانِ وَ کرنے کا مدار صحیح اور با آب و تاب تقریروں پر تھا اور دُرَرِهِ وَ ثِمَارِ الْكَلَامِ وَ زَهْرِهِ، وَكَانُوا نیز کلام کے پھلوں اور پھولوں پر ناز کرتے تھے اور ان يُنَاضِلُونَ بِالْقَصَائِدِ الْمُبْتَكِرَةِ وَ الخطب کی لڑائیاں نو ایجاد قصیدوں اور پاکیزہ خطبوں کے ساتھ الْمُحَيَّرَةِ، وَلكِن مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَتَكَلَّمُوا ہوتی تھیں مگر ان کو لطائف حکمیہ میں بات کرنے کا فِي اللَّطَائِفِ الْحِكْميَّةِ، وَ مَا مَسَّتْ بَيَانَهُمْ سلیقہ نہ تھا اور ان کے بیان کو معارف الہیہ کی بو بھی نہیں رَائِحَةُ الْمَعَارِفِ الْإِلَهِيَّةِ، بَلْ كَانَ مَسْرَحُ پہنچی تھی بلکہ ان کے فکروں کی چراگاہ صرف عشقیہ شعروں اور أَفْكَارِهِمْ إِلَى الْأَبْيَاتِ الْعِشْقِيَّةِ وَ بنانے والے اور غافل کرنے والے بیتوں تک تھی اور الْأَضَاحِيكِ الْمُلْهِيَّةِ، وَمَا كَانُوا عَلى مضامین حکمیہ کی مرضع نگاری پر وہ قادر نہ تھے حالانکہ وہ تَرْصِيعِ مَضَامِيْنِ الْحِكْمِ قَادِرِيْنَ وَكَانُوا ایک زمانہ سے نظم اور نثر اور لطائف بیان کرنے کے قَدْ مَرَلُوا مِنْ سِنِينَ عَلى أَنوَاعِ النظم مشتاق تھے اور اپنے ہم جنسوں میں مسلم اور مقبول تھے وَالتَّثْرِ وَ لَطَائِفِ الْبَيَانِ، وَسُلِّمُوا وَقُبِلُوا اور اہلِ زبان اور میدانوں میں سبقت کرنے والے في الْأَقْرَانِ، وَكَانُوا أَهْلَ اللَّسَانِ وَ سَوَابِق تھے.پس خدا تعالیٰ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر الْمَيَادِيْنِ فَخَاطَبَهُمُ اللهُ وَقَالَ إِن كُنتُم تمہیں اس کلام میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ من ہے تو تم بھی کوئی سورت اس کی مانند بنا کر لاؤ اور اگر بنا مِثْلِهِ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا نہ سکو اور یا درکھو کہ ہرگز بنا نہیں سکو گے سو اس آگ سے النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ڈرو جس کے ہیزم افروختنی آدمی اور پتھر ہیں اور وہ أعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ، وَقَالَ قُلْ لين اجتمعت آگ کافروں کے لئے طیار کی گئی ہے.اور فرمایا کہ اگر الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بمثل هذا تمام جن و انس اس بات کے لئے اکٹھے ہو جائیں کہ اس الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمُ قرآن کے کوئی مثل بنا لا دیں تو ہرگز نہیں لاسکیں گے.لاویں لِبَعْضٍ فَهِيرًا فَعَـجِـز الكُفَّارُ عَنِ اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.پس کفار المُقَابلَةِ وَوَلَّوُا البَرَ كَالْمَعْلُوبِيْنَ مقابلہ سے عاجز آ گئے اور مغلوب ہو کر پیٹھیں پھیر ص بنی اسرآئیل : ۸۹ وو w وو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة البقرة - : وَلَمَّا عَجَزُوا عَنِ النِّضَالِ فِي الْبَيَانِ، مَالُوا إلى میں اور جب خوش تقریری کی لڑائیوں سے عاجز آ السَّيْفِ وَالسَّنَانِ، مُتَنَدِمِينَ مُخْتَاظِيْنَ گئے تو شرمندہ اور غضبناک ہوکر تلوار اور نیزہ کی طرف وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ أَسْلَمُوا نظرًا عَلَى هَذِهِ الْمُعْجِزَةِ جھک گئے اور بہت سے ان میں سے اعجاز بلاغت كَلْبِيْدِ بْنِ رَبِيعَةَ الْعَامِرِي، صَاحِبِ الْمُعَلَّقَةِ قرآن کو تسلیم کر کے ایمان لائے جیسا کہ لبید بن الرّابِعَةِ، فَإِنَّهُ أَخْرَكَ الْإِسْلَام وَ تَشَرفَ به ربيعة العامری جو معلقہ رابعہ کا مصنف ہے اس نے وأرى الإخلاص التّاةَ، وَمَاتَ سَنَةَ إخلى اسلام کا زمانہ پایا اور مشرف باسلام ہوا اور پورا وَأَرْبَعِينَ.وَكَذَلِكَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ أَقَرُوا بِأَنَّ اخلاص دکھایا اور سن اکتالیس میں فوت ہوا.اور اسی الْقُرْآن مَمْلُو مِنَ الْعِبَارَاتِ الْمُهَنَّبَةِ وَ طرح بہتوں نے ان میں سے قرآن شریف کی الْإِسْتِعَارَاتِ الْمُسْتَعْلَبَةِ وَ الْأَفَانِينَ بلاغت فصاحت کو قبول کر لیا اور اقرار کر لیا کہ الْمُسْتَمْلَحَةِ وَ الْمَضَامِيْنِ الْحِكْمِيَّةِ الْمُوَشَّحَةِ در حقیقت قرآن عبارات پاکیزہ سے پر اور شیریں بَلْ مَنْ أَمْعَنَ مِنْهُمُ النظرَ فَسَعَى إلى استعادات سے مالا مال اور بیج تقریروں اور آراستہ الْإِسْلَامِ وَحَضَرَ وَ دَخَلَ فِي الْمُؤْمِنِينَ فَلَوْ اور حکمیہ مضمونوں سے بھرا ہوا ہے بلکہ جس نے اس كَانَ الْقُرْآنُ مُتَنَالًا مِنْ أَعْلى مَدَارِجِ میں نظر غور کی سو وہ اسلام کی طرف دوڑا اور ایمان الْكَمَالِ فِي فَصَاحَةِ الْمَقَالِ وَبَلاغَةِ الْأَقْوَالِ والوں میں داخل ہوا.پس اگر قرآن فصاحت لَكَانَ الْأَمْرُ أَسْهَل عَلَى الْمُخَالِفِينَ وَلَقَالُوا اور بلاغت کے اعلیٰ مدارج سے متنزل ہوتا تو مخالفوں أَيُّهَا الرَّجُلُ إِنَّ الْكَلَامَ الَّذِي عَرَضْتَ عَلَيْنَا یہ پر بات بہت آسان ہو جاتی.اور وہ کہہ سکتے تھے وَالْحَدِيْكَ الَّذِي أَتَيْتَهُ لَدَيْنَا لَيْسَ بِفَصِبْح کہ اے مرد! جو کلام تو نے پیش کی ہے اور جو بات تو بَلْ لَيْسَ بِصَحِيحٍ، وَلَا تَجِدُ فِيْهِ غَيْرَ الْمَعَانِ لایا ہے وہ فصیح نہیں ہے بلکہ صحیح بھی نہیں ہے اور اس المَطرُوقَةِ الْمَوَارِدِ وَالْكَلَامِ الرَّقِيقِ الْبَارِدِ میں معانی مطروقۃ الموارد پائے جاتے ہیں اور اس وَ مَا جِئْتَ بِأَطْيَبَ وَأَحْلى وَفِيهِ الْفَاظ كَذَا میں الفاظ رقیق موجود ہیں اور تو نے اپنی کلام میں وَكَذَا، وَإِنَّكَ أَسْقَطتَ في حَلامِكَ وَبَاعَدت غلطی کی ہے اور مطلب سے دور جا پڑا ہے اور کوئی عَنْ مَرَامِكَ وَلَسْتَ مِنَ الْمُجِيدِينَ، فَلا نکتہ تیری کلام میں نہیں بلکہ اس میں تو ایسے ایسے لفظ حَاجَةَ إِلى أَن نَّأْتِيَ بِمِثْلِهِ مِنَ الْأَقْوَالِ، أَوْ ہیں پس کچھ حاجت نہیں کہ ہم اس کی کوئی نظیر بناویں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۲ سورة البقرة نَتَوَازَنَ فِي الْمَقَالِ وَنَتَحَاذَى حَذْوَ النِعَالِ یا اس سے نعل بفعل مقابلہ کریں ہم سے الگ ہو اور فَإِلَيْكَ عَنَّا وَتَجَافَ وَاتْرُكِ الْأَوْصَافَ فَإِنَّ اپنی کلام کی تعریفیں چھوڑ دے کیونکہ تیرا کلام مشہور كَلامَكَ سَقَط عِنْدَ الْأُدَبَاءِ الْمَشْهُورِینَ وَ ادیبوں کے نزدیک رڈی ہے مگر کفار عرب اس راہ نہیں الْفُصَحَاءِ الْمَاهِرِينَ وَلكِتَهُمْ مَا سَتَرَوُا ذلك چلے اور اس دعوی میں انہوں نے کچھ جرح قدح نہیں الْمَسْرى، وَمَا قَدَحُوا فِي هَذَا الدَّعْوَى بَل کیا بلکہ انہوں نے تو قرآن کے اعلیٰ مراتب بلاغت کو قَبِلُوا أَعْلَى مَرَاتِبِ بَلاغتِهِ، وَعَجِبُوا لِعُلُو شَأْنٍ قبول کر لیا اور اس کی عظیم الشان فصاحت سے تعجب میں فَصَاحَتِهِ، وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ رہ گئے اور کہا کہ یہ توصریح جادو ہے.وَأَكْثَرُهُمْ آمَنُوا بِإِعْجَازِهِ وَأَقَرُّوا اور اکثر ان کے اس قرآنی معجزہ پر ایمان لائے يتَنَاوُشِ بَازِهِ وَعَجَزُوا عَن دَرْكِ اور اقرار کر لیا کہ اس کے باز کی سخت پکڑیں ہیں اور اس کی هندازِهِ وَقَالُوا كَلَامُ فَاقَ كَلِمَاتِ حقیقت کی دریافت سے عاجز رہ گئے اور کہا کہ یہ ایک کلام الْبَشَرِ وَكُلُّه لُب وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٍ ہے کہ کلمات بشر پر غالب آ گیا اور وہ سارے کا سارامغز مِنَ الْقِشْرٍ وَعَلَيْهِ طَلاوَةٌ وَفِيهِ ہے اور اس کے ساتھ چھا کا نہیں اور اس پر ایک آب و تاب حَلَاوَةٌ، وَهُوَ غَدَقٌ لَّا يَنْفَدُ مِن ہے اور اس میں ایک حلاوت ہے اور وہ ایک بے اندازہ اور شُرْبِ الشَّارِبِينَ.وَمَا نَبَسُوا بِكَلِمَةٍ في بكثرت مصفا پانی ہے جو پینے والوں کے پینے سے ختم قَدْحِ شَأْنِهِ وَمَا فَاهُوا بِكَلام في جرح نہیں ہوتا.اور قرآن کے قدح شان میں وہ کوئی کلمہ منہ پر بَيَانِهِ، وَنَسَوْا جِمَال الْفِكْرِ فِي مَيْدَانِهِ، نہ لائے اور اس کی جرح میں انہوں نے کوئی بات منہ سے ثُمَّ رَجَعُوا مَرْعُونِينَ نَادِمِین نہ نکالی اور اس کے میدان میں انہوں نے فکر کے اونٹ وَأَكْثَرُهُمْ كَانُوا يَبْكُونَ عِنْدَ سِمَاعِه دوڑائے تو سہی مگر خوفناک اور شرمندہ ہوکر رجوع کیا اور اکثر وَيَسْجُدُونَ بَاكِينَ ان کے قرآن کو سن کر روتے اور سجدہ کرتے تھے.هذا مَا نَجِدُ فِي الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ وَ سیہ وہ بیان ہے جو ہم قرآن کریم میں پاتے اور نبی أَحَادِيثِ النَّبِي الرَّؤُوفِي الرَّحِيْمِ، إيمانا و رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں پڑھتے ہیں دِيَانَةً وَصِدْقًا وَأَمَانَةً وَمَا نَجِدُ كَلِمَةً اور ہم نے اس کو ایمانا اور دیانتا اور امانتاً لکھا ہے اور ہم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۳ سورة البقرة خِلَافَ ذلِكَ مِنْ أَسْلَافِ النَّصَارَى أَوِ اس کے برخلاف کوئی ایسا قول بھی نہیں پاتے جو اس وقت الْمُشْرِكِينَ، وَكَانُوا خَيْرًا مِنْكُمْ فِي تَنْقِید کے نصاریٰ اور مشرکوں کے منہ سے قرآن کی شان کے الْكَلِمَاتِ يَا مَعْشَرَ الْجَاهِلِينَ وَأَمَّا مَا برخلاف نکلا ہو اور اے نادانو ! وہ نصاریٰ قرآن کی پرکھ ظَنَنْتَ أَنَّ فِي الْقُرْآنِ بَعْضَ الْفاظِ غَيْرَ میں تم سے بہتر تھے.اور یہ جوئم نے خیال کیا کہ قرآن میں لِسَانِ قُرَيْشٍ بعض الفاظ ایسے ہیں کہ وہ زبان قریش کے مخالف ہیں.فَقَدْ قُلْتَ هَذَا اللَّفْظَ مِنْ جَهْلٍ وَ سو یہ بات تیری سراسر جہل اور نفسانی جوش سے طَيْشٍ، وَمَا كُنتَ مِنَ الْمُتَبَقِرِيْنَ اِعْلَم ہے اور بصیرت کی راہ سے نہیں.اے غیبی اور سفلہ أَيُّهَا الْغَبِى وَالْجَهولُ الذي أَنَّ مَدَارَ نادان! تجھے معلوم ہو کہ فصاحت کا مدار الفاظ مقبولہ پر ہوا الْفَصَاحَةِ عَلَى أَلْفَامٍ مَّقْبُولَةٍ سَوَاءٌ كَانَتْ کرتا ہے خواہ وہ کلمات قوم کی اصل زبان میں سے ہوں مِنْ لِسَانِ الْقَوْمِ أَوْ مِنْ كَلِمٍ مَنْقُولَةٍ یا ایسے کلمات منقولہ ہوں جو بلغاء قوم کے استعمال میں آ مُّسْتَعْمَلَةٍ فِي بُلَغَاءِ الْقَوْمِ غَيْرِ مَجْهُولةٍ گئے ہوں اور خواہ وہ ایک ہی قوم کی لغت میں سے ہوں وَسَوَاءٌ كَانَتْ مِنْ لُغَةِ قَوْمٍ وَاحِدٍ وَمِن اور ان کے دائمی محاورات میں سے ہوں یا ایسے الفاظ مُحَاوَرَابِهِمْ عَلَى الدَّوَامِ، أَوْ خَالَطَهَا أَلفاظ اُن میں مل گئے ہوں جو قوم کے بلغاء کو شیر میں معلوم إسْتَحْلَاهَا بُلَغَاءُ الْقَوْمِ، وَاسْتَعْمَلُوهَا فِی ہوئے اور انہوں نے ان کے استعمال اپنی نظم اور نثر النظمِ وَالنَّثْرِ مِنْ غَيْرِ مَخَافَةِ اللَّوْمِ میں جائز رکھے ہوں اور کسی ملامت سے نہ ڈرے ہوں مُختَارِينَ غَيْرَ مُضْطَرِينَ فَلَمَّا كَانَ مَدَارُ اور نہ کسی اضطرار سے وہ الفاظ استعمال کیسے ہوں.پس الْبَلَاغَةِ عَلى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ فَهُذَا هُوَ مِعْيَارُ جبکہ بلاغت کا مدار اسی قاعدہ پر ہوا پس یہی قاعدہ ان الْكَلِمَاتِ الصَّاعِدَةِ فِي سَمَاءِ الْبَلاغَةِ عبارات بلیغہ کے لئے معیار ہے جو فصاحت کے آسمان الرّاعِدَةِ، فَلَا حَرَجٌ أَن يَكُونَ لفظ مِن غَيْرِ پر چڑھے ہوئے اور بلندی میں گرج رہے ہیں.پس اس اللَّسَانِ مَقْبُوْلًا فِي أَهْلِ الْبَيَانِ، بَلْ رُبما بات میں کچھ بھی حرج نہیں کہ ایک غیر زبان کا لفظ ہومگر يَزِيدُ الْبَلاغَةُ مِنْ هَذَا النهج في بَعْضِ بلغاء نے اس کو قبول کر لیا ہو بلکہ اس طریق سے تو بسا اوقات الْأَوْقَاتِ، بَلْ يَسْتَمْلِحُونَهُ في بَعْضِ بلاغت بڑھ جاتی ہے اور کلام میں زور پیدا ہو جاتا ہے الْمَقَامَاتِ، وَيَتَلَلَّذُونَ بِهِ أَهْلُ الْأَفَانِينَ بلکہ بعض مقامات میں اس طرز کو صحیح اور بلیغ لوگ ملیح اور E
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۴ سورة البقرة وَلكِنَّكَ رَجُلٌ غَمَرُ جَهُولٌ، وَمَعَ ذَلِكَ نمکین سمجھتے ہیں اور تفتن عبارات کے عشاق اس سے لذت مُعَانِدٌ وَ عَجُولٌ فَلا جُلِ ذلِكَ مَا اٹھاتے ہیں مگر تو تو اے معترض! ایک نبی اور جاہل ہے اور تَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ حِقيكَ وَجَهْلِك باوجود اس کے تو جلد باز اور دشمن حق ہے اس لئے تو بغیر کینہ وَمَا تَضَعُ قَدَمًا إِلَّا فِي دَحْلكَ، وَلا اور جہل کے اور کچھ نہیں جانتا اور بغیر گڑھے کے اور کسی جگہ تدرى ما لِسَانُ الْعَرَبِ وَمَا قدم نہیں رکھتا اور تو نہیں جانتا کہ زبان عرب کیا شے ہے اور فصاحت کسے کہتے ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) الْفَصَاحَةُ.نور الحق حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۴۵ تا ۱۵۰) قرآن کریم اپنے اعجاز کے ثبوت میں اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ کہتا ہے.یہ معجزات روحانی ہیں جس طرح وحدانیت کے دلائل دیئے ہیں.اسی طرح پر حکمت، فصاحت، بلاغت بھی انسان اُس کی مثل بنانے پر قادر نہیں.دوسرے مقام پر فرمایا: قل لبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ (بنی اسرائیل: ۸۹) غرض روحانی معجزات میں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ مسلمانوں کا زعم اور خیال ہے.آج کل کے نیچری نہیں بلکہ خلاف نیچر، یہ نہیں مانتے کہ قرآن کا معجزہ ہے.سید احمد نے بھی ٹھوکر کھائی ہے اور وہ اُس کی فصاحت و بلاغت کو معجزہ نہیں مانتا.جب ہم یاد کرتے ہیں تو ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ سید احمد نے معجزات سے انکار کیا ہے.سید صاحب کسی طور سے معجزہ نہیں مان سکتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک معمولی درجہ کا آدمی یا اعلیٰ درجہ کا آدمی بھی نظیر بنا سکتا ہے.مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ اتنا نہیں جانتے کہ قرآن لانے والا وہ شان رکھتا ہے كه يَتْلُوا صحفًا مُطَهَّرَةٌ فِيْهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ (البيئة : ٤،٣) ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.قرآن شریف ایسی حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس کا ذخیرہ اُس کے اندر نہیں.ہر ایک چیز کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اُس کے اندر موجود ہے.وہ ہر پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اُس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.آج کل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہورہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا.لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة البقرة سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اُٹھائے گا اُس کو آخر کا راسی خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے.کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتہ میں اُس کا پتا ملتا ہے اور بالطبع انسان اُسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اُٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اُٹھے گا یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے.اگر کوئی قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو میں ہم لوگوں کو آزما لیتے ہیں.یعنی اگر قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدائے تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے ہم وہ تمام دلائل بھی قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے.اور اگر توحید الہی کی نسبت قلم بند کرے تو وہ سب دلائل بھی قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے اور وہ ویسے دلائل کا دعوی کر کے لکھیں کہ یہ دلائل قرآن میں نہیں یا اُن صداقتوں اور پاک تعلیموں پر لکھے جن کی نسبت اُن کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں تو ہم اس کو واضح طور پر دکھلا دیں گے کہ قرآن کا دعویٰ فِيْهَا كُتُب قيمةٌ کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل اور فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کر کے دکھا ئیں گے اور بتلادیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں اُسی میں موجود ہیں.الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار اُس میں موجود ہیں لیکن اُن کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اُسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے- لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - (الواقعة : ٨٠) ایسا ہی فصاحت بلاغت میں مثلاً سورۃ فاتحہ کی ترکیب چھوڑ کر اور ترکیب استعمال کرو تو وہ مطالب عالیہ اور مقاصد اشلی جو اس ترکیب میں موجود ہیں، ممکن نہیں کسی دوسری ترکیب میں بیان ہو سکیں.کوئی سورۃ لے لو خواہ قُلْ هُوَ الله ہی کیوں نہ ہو.جس قدر نرمی ، ملاطفت کی رعایت کو ملحوظ رکھ کر اُس میں معارف اور حقائق ہیں وہ کوئی دوسرا بیان نہ کر سکے گا یہ بھی اعجاز قرآن ہی ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے جب بعض نادان مقامات حریری یا سبعہ معلقہ کو بے نظیر اور بے مثل کہتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کریم کی بے مانندیت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اول تو حریری کے مصنف نے کہیں اُس کے بینظیر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.پھر وہ خود قرآن کی اعجازی فصاحت کا قائل تھا.ان باتوں کو چھوڑ کر وہ راستی اور صداقت کو ذہن میں نہیں رکھتے بلکہ اُن کو چھوڑ کر الفاظ کی طرف جاتے رہے ہیں.وہ کتابیں حق اور حکمت سے خالی ہیں.اعجاز کی خوبی اور وجہ تو یہی ہے کہ ہر رعایت کو زیر نظر رکھے.فصاحت بلاغت کو بھی ہاتھ سے جانے نہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۹۶ سورة البقرة دے.صداقت اور حکمت کو بھی نہ چھوڑے.یہ معجزہ قرآن شریف ہی کا ہے جو آفتاب کی طرح روشن ہے جو ہر پہلو سے اپنے اندر اعجازی طاقت رکھتا ہے.انجیل کی طرح نرے زبانی ہی جمع خرچ نہیں کہ ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو.یہ لحاظ اور خیال نہیں کہ یہ تعلیم حکیمانہ فعل سے کہاں تک تعلق رکھتی ہے.اور انسان کی فطرت کا لحاظ اس میں کہاں تک ہے؟ اس کے مقابل میں قرآن کی تعلیم پڑھیں گے تو پتہ لگ جائے گا کہ انسان کے خیالات ایسے ہر پہلو پر قادر نہیں ہو سکتے.اور ایسی مکمل اور بے تقص تعلیم ، زمینی دماغ اور ذہن کا نتیجہ نہیں کیا یہ مکن ہے کہ ہزار آدمی ہمارے سامنے مسکین ہوں اور ہم ایک دوکو کچھ دے دیں اور باقی کا خیال تک بھی نہ کریں.اسی طرح انجیل ایک ہی پہلو پر پڑی ہے باقی پہلوؤں کا اُسے خیال تک بھی نہیں رہا.ہم یہ انجیل پر الزام نہیں دیتے.یہ یہودیوں کی شامت اعمال کا نتیجہ ہے جیسی اُن کی استعداد میں تھیں اُن کے ہی موافق انجیل آئی : ” جیسی روح ویسے فرشتے“.اس میں کسی کا کیا قصور؟ اس کے علاوہ انجیل ایک قانون ہے مختص المقام والزمان اور مختص القوم.جیسا کہ انگریز بھی قوانین مختص المقام اور مختص الوقت نافذ کر دیتے ہیں بعد از وقت اُن کا اثر نہیں رہتا.اسی طرح انجیل بھی ایک مختص قانون ہے عام نہیں.مگر قرآن کریم کا دامن بہت وسیع ہے، وہ قیامت تک ایک ہی لا تبدیل قانون ہے اور ہر قوم اور ہر وقت کے لئے ہے چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَايِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر : ۲۲) یعنی ہم اپنے خزانوں میں سے بقدر معلوم نازل کرتے ہیں انجیل کی ضرورت اسی قدر تھی ، اس لئے انجیل کا خلاصہ ایک صفحہ میں آسکتا ہے.لیکن قرآن کریم کی ضرورتیں تھیں سارے زمانہ کی اصلاح قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا، انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا.یہ لفظ مختصر ہیں مگر اس کے ہزار ہا شعبہ ہیں چونکہ یہودیوں، طبعیوں، آتش پرستوں اور مختلف اقوام میں بدروشی کی روح کام کر رہی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے با علام الہی سب کو مخاطب کر کے کہا : يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُم جَبيعًا (الاعراف:۱۵۹).اس لئے ضروری تھا کہ قرآن شریف اُن تمام تعلیمات کا جامع ہوتا جو وقتاً فوقتاً جاری رہ چکی تھیں ، اور ان تمام صداقتوں کو اپنے اندر رکھتا جو آسمان سے مختلف اوقات میں مختلف نبیوں کے ذریعے زمین کے باشندوں کو پہنچائی گئیں تھیں.قرآن کریم کے مد نظر تمام نوع انسان تھا نہ کوئی خاص قوم اور ملک اور زمانہ اور انجیل کا مد نظر ایک خاص قوم تھی.اس لئے مسیح علیہ السلام نے بار بار کہا کہ میں اسرائیل کی گم گشتہ بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں.“ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کیا لایا ؟ وہی تو ہے جو توریت میں ہے.اسی کو تاہ نظری نے بعض عیسائیوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة البقرة عدم ضرورت قرآن جیسے رسائل لکھنے پر دلیر کر دیا.کاش وہ کچی دانائی اور حقیقی فراست سے حصہ رکھتے تا وہ بھٹک نہ جاتے.ایسے لوگ کہتے ہیں کہ توریت میں لکھا ہے کہ تو زنا نہ کر ! ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ زنا نہ کر.قرآن توحید سکھلاتا ہے اور توریت بھی خدائے واحد کی پرستش سکھلاتی ہے.لیکن فرق کیا ہوا؟ بظاہر یہ سوال بڑا پیچدار ہے.اگر کسی ناواقف آدمی کے سامنے پیش کیا جاوے تو وہ گھبرا جاوے.اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے باریک اور پیچد ارسوالات کا حل بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.یہی تو قرآنی معارف ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور توریت میں تطابق ضرور ہے اس سے ہم کو انکار نہیں لیکن توریت نے صرف متن کو لیا ہے جس کے ساتھ دلائل، براہین اور شرح نہیں ہے.لیکن قرآن کریم نے معقولی رنگ کو لیا ہے.اس لئے کہ توریت کے وقت انسانوں کی استعداد میں وحشیانہ رنگ میں تھیں.اس لئے قرآن نے وہ طریق اختیار کیا جو عبادت کے منافع کو ظاہر کرتا ہے اور جو بتلاتا ہے کہ اخلاق کے مفاد یہ ہیں.اور نہ صرف مفاد اور منافع کو بیان ہی کرتا ہے بلکہ معقول طور پر دلائل و براہین کے ساتھ اُن کو پیش کرتا ہے تاکہ عقل سلیم سے کام لینے والوں کو کوئی جگہ انکار کی نہ رہے.جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ قرآن کے وقت استعداد میں معقولیت کا رنگ پکڑ گئی تھیں اور توریت کے وقت وحشیانہ حالت تھی.آدم سے لے کر زمانہ ترقی کرتا گیا تھا اور قرآن کے وقت دائرہ کی طرح پورا ہو گیا.حدیث میں ہے زمانہ مستندیر ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَ لكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ وَلَكِنْ خَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب: ۴۱) یہی تو قرآنی اعجاز ہے کہ وہ اپنے پیرو کو کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہونے دیتا.دلائل اور براہین بھی خود ہی بیان کر کے اُسے مستغنی کر دیتا ہے.قرآن شریف نے دلائل کے ساتھ احکام کولکھا ہے اور ہر حکم کے جُدا گانہ دلائل دیئے ہیں.غرض یہ دو بڑے فرق ہیں جو توریت اور قرآن میں ہیں ؛ اول الذکر میں طریق استدلال نہیں ، دعوے کی دلیل خود تلاش کرنی پڑتی ہے.آخرالڈ کر اپنے دعوے کو ہر قسم کی دلیل سے مدلل کرتا ہے اور پھر پیش کرتا ہے اور خدا کے احکام کو زبردستی نہیں منوا تا بلکہ انسان کے منہ سے سرتسلیم خم کرنے کی صدا نکلواتا ہے.نہ کسی جبر واکراہ سے بلکہ اپنے لطیف طریق استدلال سے اور فطری سیادت سے.توریت کا مخاطب خاص گروہ ہے اور قرآن کے مخاطب کل لوگ جو قیامت تک پیدا ہوں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۴ تا ۸۸) عبد اللہ ابن ابی سرح کے کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا یعنی عبد اللہ کے منہ سے بھی یہ فقرہ نکلا تھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة البقرة فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ (المؤمنون: ۱۵) اور خدا تعالیٰ کی وحی میں بھی یہی آیا.اور اگر کہو کہ پھر خدا تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں ما بہ الامتیاز کیا ہوا؟ تو اول تو ہم اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ قرآن شریف میں فرمایا ہے مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کلام جو غیر کا کلام کہلاتا ہے قرآنی سورتوں میں سے کسی سورت کے برابر ہو.کیونکہ اعجاز کے لئے اسی قدر معتبر سمجھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ یہ نہیں فرمایا که فَأْتُوا بِايَةٍ مِنْ مِثْلِهِ يا فَأْتُوا بِكَلِمَةٍ مِنْ مِثْلِهِ.اور در حقیقت یہ سچ ہے کہ خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر بھی جاری تھے.پھر رنگینی عبارت اور نظم کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیت مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہو گئے اور جو معجزہ خدا تعالیٰ کے افعال میں پایا جاتا ہے اس کی بھی یہی نشانی ہے یعنی وہ بھی اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے جیسا کہ کلام اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے.ہاں خدا تعالیٰ کے منہ سے جو چھوٹے چھوٹے فقرے نکلتے ہیں وہ اپنے مطالب عالیہ کے لحاظ سے جوان کے اندر ہوتے ہیں انسانی فقرات سے امتیاز کلی رکھتے ہیں.یہ امر دیگر ہے کہ انسان ان کے پوشیدہ حقائق و معارف تک نہ پہنچےمگر ضرور ان کے اندر انوار مخفیہ ہوتے ہیں جو ان کلمات کی رُوح ہوتے ہیں.جیسا کہ یہی کلمہ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِينَ (المؤمنون: ۱۵) اپنی گذشتہ آیات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ایک امتیازی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے.یعنی اس قسم کی روحانی فلاسفی اس کے اندر بھری ہوئی ہے کہ وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے جس کی نظیر انسانی کلام میں نہیں ملتی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۱۸۴، ۱۸۵) قرآن شریف کی فصاحت بلاغت ایسی اعلیٰ درجہ کی اور مسلم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کو بھی اسے ماننا پڑا ہے.قرآن شریف نے فَأْتُوا بِسُورَةٍ من مِثْلِہ کا دعویٰ کیا لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لا سکے.عرب جو بڑے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلے میں عاجز ہو گئے.اور پھر قرآن شریف کی فصاحت بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوے اور معانی اور مطالب کی پرواہ نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلیٰ درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں.اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے.ایک جگہ فرماتا ہے: يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبْ قَيَّمَةٌ (البينة: ۳، ۴) یعنی ان پر ایسے صحائف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة البقرة پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں.انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میں پاکیزہ تعلیم اور اخلاقِ فاضلہ کوملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفات رذیلہ کو دُور کر کے بھی دکھا دے اور ان کی جگہ اعلیٰ درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے.عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ سارے عیبوں اور برائیوں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوں سے ان کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپ کے فیوضات اور برکات میں قوت تھی کہ تئیس برس کے اندر کل ملک کی کایا پلٹ دی، یہ تعلیم ہی کا اثر تھا.ایک چھوٹی سے چھوٹی سورۃ بھی اگر قرآن شریف کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہوگا کہ اس میں فصاحت بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کو اس میں بھر دیا ہے.سورہ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کل مراتب کو بیان فرمایا ہے اور ہر قسم کے شرکوں کا ر ڈ کر دیا ہے.اسی طرح سورۃ فاتحہ کو دیکھو کہ کس قدر اعجاز ہے.چھوٹی سی سورہ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے.اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی، اس کے صفات، دُعا کی ضرورت، اس کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع مفید اور سود مند دُعاؤں کا طریق، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھائی ہے وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رد اس میں موجود ہے.اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذاہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے یہ کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم پیش بھی کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بُری بات سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں.یہ کسی مذہب میں نہیں یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رڈ کرتا ہے.اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۷ار مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ ، صفحہ ۲،۱) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں فصاحت بلاغت کا زور تھا، اس لئے آپ کو قرآن کریم بھی ایک معجزہ اسی رنگ کا ملا.یہ رنگ اسی لئے اختیار کیا کہ شعراء، جادو بیان سمجھے جاتے تھے اور ان کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ وہ جو چاہتے تھے چند شعر پڑھ کر کر ا لیتے تھے.جیسے آج کل جوش دلانے کے لئے انگریزوں نے باجا رکھا ہوا ہے ان کے پاس زبان تھی جو دلیری اور حوصلہ پیدا کر دیتی تھی.ہر حربہ میں وہ شعر سے کام لیتے تھے اور فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ (الشعراء : ۲۲۶) کے مصداق تھے.اس لئے اس وقت ضروری تھا کہ خدا
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تعالیٰ اپنا کلام بھیجتا.پس خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور اسی کلام کے رنگ میں اپنا معجزہ پیش کر دیا جبکہ ان کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ وإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ تم جو اپنی زبان دانی کا دم مارتے اور لاف زنی کرتے ہو اگر کوئی قوت اور حوصلہ ہے تو اس کلام کے معجزہ کے مقابل کچھ پیش کر کے دکھا ؤ لیکن باوجود اس کے کہ وہ جانتے تھے کہ اگر کچھ نہ بنایا ( خصوصاً ایسی حالت میں کہ جب تحدی کر دی گئی ہے کہ تم ہرگز ہرگز بنا نہ سکو گے ) تو ملزم ہو کر ذلیل ہو جائیں گے پھر بھی وہ کچھ پیش نہ کر سکے.اگر وہ کچھ بناتے اور پیش کرتے تو صیح تاریخ ضرور شہادت دیتی مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی نے کچھ بنایا ہو.پس خدا تعالیٰ نے اس وقت اسی رنگ کا معجزہ دکھایا تھا.(احکام جلد ۶ نمبر ۱۵ مورمحه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷) اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ.اس میں مِن مِثْلِہ کے یہ معنے بھی اکثر مفسرین نے کئے ہیں کہ اگر مقابلہ میں کوئی لکھ کر لاویں تو اس میں پیشگوئیاں بھی اسی طرح ہوں جیسے قرآن شریف میں ہیں.(البدر جلد نمبرے مورخہ ۱۲ / دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۱) فرمایا : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ یعنی جہنم کی آگ کا ایندھن جس سے وہ آگ ہمیشہ افروختہ رہتی ہے.دو چیزیں ہیں؛ ایک وہ انسان جو حقیقی خدا کو چھوڑ کر اور اور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں یا ان کی مرضی سے ان کی پرستش کی جاتی ہے.جیسا کہ فرمایا: الكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (الانبياء ٩٤) یعنی تم اور تمہارے باطل معبود جو انسان ہو کر خدا کہلاتے رہے جہنم میں ڈالے جائیں گے دوسرا ایندھن جہنم کا بت ہیں.مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا وجود نہ ہوتا تو جہنم بھی نہ ہوتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۳) وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ (٢٦) أتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجالاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی.جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.پس واضح رہے کہ اس جگہ ایک اعلیٰ درجہ کی فلاسفی کے رنگ میں بتلایا گیا ہے کہ جو رشتہ نہروں کا باغ کے ساتھ ہے وہی رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہے.پس جیسا کہ کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا ایسا ہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+1 سورة البقرة کوئی ایمان بغیر نیک کاموں کے زندہ ایمان نہیں کہلا سکتا اگر ایمان ہو اور اعمال نہ ہوں تو وہ ایمان بیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریا کاری ہیں.اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اسی کا ایمان اور اسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے.خدا کی پاک تعلیم ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور مستحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی ذات * اور اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور بارور درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۰) موت کے بعد جو کچھ انسان کی حالت ہوتی ہے درحقیقت وہ کوئی نئی حالت نہیں ہوتی بلکہ وہی دنیا کی زندگی کی حالتیں زیادہ صفائی سے کھل جاتی ہیں.جو کچھ انسان کے عقائد اور اعمال کی کیفیت صالحہ یا غیر صالحہ ہوتی ہے.وہ اس جہان میں مخفی طور پر اس کے اندر ہوتی ہے اور اس کا تریاق یا ز ہر ایک چھپی ہوئی تاثیر انسانی وجود پر ڈالتا ہے.مگر آنے والے جہان میں ایسا نہیں رہے گا بلکہ وہ تمام کیفیات کھلا کھلا اپنا چہرہ دکھلائیں گی.اس کا نمونہ عالم خواب میں پایا جاتا ہے کہ انسان کے بدن پر جس قسم کے مواد غالب ہوتے ہیں عالم خواب میں اسی قسم کی جسمانی حالتیں نظر آتی ہیں.جب کوئی تیز تپ چڑھنے کو ہوتا ہے تو خواب میں اکثر آگ اور آگ کے شعلے نظر آتے ہیں اور بلغمی تپوں اور ریزش اور زکام کے غلبہ میں انسان اپنے تئیں پانی میں دیکھتا ہے.غرض جس طرح کی بیماریوں کے لئے بدن نے تیاری کی ہو وہ کیفیتیں تمثل کے طور پر خواب میں نظر آ جاتی ہیں.پس خواب کے سلسلہ پر غور کرنے سے ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ عالم ثانی میں بھی یہی سنت اللہ ہے کیونکہ جس طرح خواب ہم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کر کے روحانیات کو جسمانی طور پر تبدیل کر کے دکھلاتا ہے.اس عالم میں بھی یہی ہو گا.اور اس دن ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا.اور جیسا کہ انسان جو کچھ خواب میں طرح طرح کے تمثلات دیکھتا ہے اور کبھی گمان نہیں کرتا کہ یہ تمثلات ہیں بلکہ انہیں واقعی چیزیں یقین کرتا ہے ایسا ہی اُس عالم میں ہوگا بلکہ خدا تم قلات کے یہ الفاظ صرف اصل مسودہ میں ہیں.(ناشر)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ سورة البقرة ذریعہ سے اپنی نئی قدرت دکھائے گا.چونکہ وہ قدرت کامل ہے.پس اگر ہم تمقلات کا نام بھی نہ لیں اور یہ کہیں کہ وہ خدا کی قدرت سے ایک نئی پیدائش ہے تو یہ تقریر بہت درست اور واقعی اور صحیح ہے.خدا فرما تا ہے : فَلَا تَعلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفَى لَهُمْ مِنْ قُرَةٍ أَعْيُنٍ (السجدة : ۱۸) یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سوخدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پرمخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں.اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا، اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گزریں.حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں.پس جبکہ خدا اور رسول اس کا ، ان چیزوں کو ایک نرالی چیز میں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہیں اگر یہ گمان کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہو گا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوبا جاتا ہے.گو یا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت سے چھتے لگائے ہوئے ہوں گے اور فرشتے تلاش کر کے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے.کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں.گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے.کوئی یہ گمان نہ کرے کہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے یہ پایا جاتا ہے کہ جو جو نعمتیں بہشت میں دی جائیں گی ان نعمتوں کو دیکھ کر بہشتی لوگ ان کو شناخت کر لیں گے کہ یہی نعمتیں ہمیں پہلے بھی ملی تھیں.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الظَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أَتُوا بِهِ متشابها یعنی جو لوگ ایمان لانے والے اور اچھے کام کرنے والے ہیں جن میں ذرہ فساد نہیں ان کو خوش :
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۰۳ سورة البقرة خبری دے کہ وہ اس بہشت کے وارث ہیں جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے ان پھلوں میں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی ان کو مل چکے تھے پائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو ہمیں پہلے ہی دیئے گئے تھے کیونکہ وہ ان پھلوں کو اُن پہلے پھلوں سے مشابہ پائیں گے.اب یہ گمان کہ پہلے پھلوں سے مراد دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلطی ہے اور آیت کے بدیہی معنے اور اس کے منطوق کے بالکل بر خلاف ہے.بلکہ اللہ جل شانہ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا ہے جس کے درخت ایمان اور جس کی نہریں اعمال صالحہ ہیں.اسی بہشت کا وہ آئندہ بھی پھل کھائیں گے اور وہ پھل زیادہ نمایاں اور شیر میں ہوگا اور چونکہ وہ روحانی طور پر اسی پھل کو دنیا میں کھا چکے ہوں گے اس لئے دوسری دنیا میں اس پھل کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں کہ جو پہلے ہمارے کھانے میں آچکے ہیں اور اس پھل کو اس پہلی خوراک سے مشابہ پائیں گے.سو یہ آیت صریح بتا رہی ہے کہ جو لوگ دنیا میں خدا کی محبت اور پیار کی غذا کھاتے تھے.اب جسمانی شکل پر وہی غذا ان کو ملے گی اور چونکہ وہ پریت اور محبت کا مزہ چکھ چکے تھے اور اس کیفیت سے آگاہ تھے.اس لئے ان کی روح کو وہ زمانہ یاد آ جائے گا کہ جب وہ گوشوں اور خلوتوں میں اور رات کے اندھیروں میں محبت کے ساتھ اپنے محبوب حقیقی کو یاد کرتے اور اس یاد سے لذت اٹھاتے تھے.غرض اس جگہ جسمانی غذاؤں کا کچھ ذکر نہیں اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ جبکہ روحانی طور پر عارفوں کو یہ غذا دنیا میں مل چکی تھی تو پھر یہ کہنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے کہ وہ ایسی نعمتیں ہیں کہ نہ دنیا میں کسی نے دیکھیں نہ سنیں اور نہ کسی کے دل میں گزریں اور اس صورت میں ان دونوں آئینوں میں تناقض پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تناقض اس صورت میں ہوتا کہ جب اس آیت میں دنیا کی نعمتیں مراد ہو تیں لیکن جب اس جگہ دنیا کی نعمتیں مراد نہیں ہیں جو کچھ عارف کو معرفت کے رنگ میں ملتا ہے وہ درحقیقت دوسرے جہان کی نعمت ہوتی ہے جس کا نمونہ شوق دلانے کے لئے پہلے ہی دیا جاتا ہے.یا درکھنا چاہئے کہ با خدا آدمی دنیا میں سے نہیں ہوتا اسی لئے تو دنیا اس سے بغض رکھتی ہے بلکہ وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے آسمانی نعمت اس کو ملتی ہے.دنیا کا آدمی دنیا کی نعمتیں پاتا ہے اور آسمان کا آسمانی نعمتیں حاصل کرتا ہے.سو یہ بالکل سچ ہے کہ وہ نعمتیں دنیا کے کانوں اور دنیا کے دلوں اور دنیا کی آنکھوں سے چھپائی گئیں لیکن جس کی دنیوی زندگی پر موت آجائے اور وہ پیالہ روحانی طور پر اس کو پلایا جائے جو آگے جسمانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة البقرة طور پر پیا جائے گا اس کو یہ پینا اس وقت یاد آ جائے گا جبکہ وہی پیالہ جسمانی طور پر اس کو دیا جائے گا.لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ اس نعمت سے دنیا کی آنکھ اور کان وغیرہ کو بے خبر سمجھے گا.چونکہ وہ دنیا میں تھا اگر چہ دنیا میں سے نہیں تھا اس لئے وہ بھی گواہی دے گا کہ دنیا کی نعمتوں سے وہ نعمت نہیں.نہ دنیا میں اس کی آنکھ نے ایسی نعمت دیکھی نہ کان نے سنی اور نہ دل میں گزری.لیکن دوسری زندگی میں اس کے نمونے دیکھے جو دنیا میں سے نہیں تھے بلکہ وہ آنے والے جہاں کی ایک خبر تھی اور اُسی سے اُس کا رشتہ اور تعلق تھا دنیا سے کچھ تعلق نہیں تھا.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۶ تا ۴۰۰) عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت ، بجھی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مور معبد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر ، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گو یا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آ جاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع واقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اُس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہوکر نشو و نما پائیں گے اور وہ اثمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے جو اُكُلُهَا دَابِم (الرعد: ۳۶) کے مصداق ہوں گے.یاد رکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے اس کا دل عرشِ الہی بنتا ہے اور اللہ تعالی اس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو.جس میں روحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی ھذا الَّذِى رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِها کہنے کا حظ اور لطف اُٹھاتا ہے.غرض حالتِ تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۹) قرآن شریف نے جہاں بہشت کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں پہلے ایمان کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اعمال صالحہ کا.اور ایمان اور اعمال صالحہ کی جزا جَنَّتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ کہا ہے یعنی ایمان کی جزا جنت اور اس جنت کو ہمیشہ سرسبز رکھنے کے لئے چونکہ نہروں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ نہر میں اعمالِ صالحہ کا نتیجہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۵ سورة البقرة ہیں اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہی اعمال صالحہ اس دوسرے جہاں میں انہار جاریہ کے رنگ میں متمثل ہو جائیں گے.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس جس قدر انسان اعمال صالحہ میں ترقی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتا اور سرکشی اور حدود اللہ سے اعتدا کرنے کو چھوڑتا ہے اسی قدر ایمان اُس کا بڑھتا ہے اور ہر جدید عمل صالحہ پر اس کے ایمان میں ایک رسوخ اور دل میں ایک قوت آتی جاتی ہے.خدا کی معرفت میں اسے ایک لذت آنے لگتی ہے اور پھر یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ مومن کے دل میں ایک ایسی کیفیت محبت الہی اور عشق خداوندی کی اللہ تعالیٰ ہی کی موہت اور فیض سے پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کا سارا اوجود اس محبت اور سرور سے جو اس کا نتیجہ ہوتا ہے لبالب پیالہ کی طرح بھر جاتا ہے اور انوار الہی اس کے دل پر بکلی احاطہ کر لیتے ہیں اور ہر قسم کی ظلمت اور تنگی اور قبض دور کر دیتے ہیں.اس حالت میں تمام مصائب اور مشکلات بھی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں ان کے لئے آتے ہیں وہ انہیں ایک لحظہ کے لئے پراگندہ دل اور منقبض خاطر نہیں کر سکتے بلکہ وہ بجائے خود محسوس اللذت ہوتے ہیں یہ ایمان کا آخری درجہ ہوتا ہے.ایمان کے انواع اولیہ بھی سات ہیں اور ایک اور آخری درجہ ہے جو موہبت الہی سے عطا کیا جاتا ہے اس لئے بہشت کے بھی سات ہی دروازے ہیں اور آٹھواں دروازہ فضل کے ساتھ کھلتا ہے غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بہشت اور دوزخ جو اُس جہان میں موجود ہوں گی وہ کوئی نئی بہشت و دوزخ نہ ہوگی بلکہ انسان کے ایمان اور اعمال ہی کا وہ ایک ظل ہیں اور یہی اُس کی سچی فلاسفی ہے وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کے اندر ہی سے وہ نکلتی ہے.مومن کے لئے ہر حال میں اسی دنیا میں بہشت موجود ہوتا ہے.اسی عالم کا بہشت موجود دوسرے عالم میں اس کے لئے بہشت موعود کا حکم رکھتا ہے.پس یہ کیسی سچی اور صاف بات ہے کہ ہر ایک کا بہشت اُس کا ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جن کی اس دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور یہی ایمان اور اعمال دوسرے رنگ میں باغ اور نہریں دکھائی دیتی ہیں.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ اسی دنیا میں باغ اور نہریں نظر آتی ہیں اور دوسرے عالم میں بھی باغ اور نہریں کھلے طور پر محسوس ہوں گی.اسی طرح پر جہنم بھی انسان کی بے ایمانی اور بداعمالی کا نتیجہ ہے جیسے جنت میں انگور، انار وغیرہ پاک درختوں کی مثال دی ہے ویسے ہی جہنم میں زقوم کے درخت کا وجود بتایا ہے اور جیسے بہشت میں نہریں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+4 سورة البقرة سلسبیل اور زنجبیلی اور کا فوری نہریں ہوں گی اسی طرح جہنم میں گرم پانی اور پیپ کی نہریں بتائی ہیں.ان پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایمان منکسر المزاجی اور اپنی رائے کو چھوڑ دینے سے پیدا ہوا ہے اسی طرح بے ایمانی تکبر اور انانیت سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس کے نتیجہ میں زقوم کا درخت دوزخ میں ہوا اور وہ بد اعمالیاں اور شوخیاں جو اس تکبر و خود بینی سے پیدا ہوتی ہیں وہ وہی کھولتا ہوا پانی یا پیپ ہوگی جو دوزخیوں کو ملے گی.اب یہ کیسی صاف بات ہے کہ جیسے بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے اسی طرح پر دوزخ کی زندگی بھی یہاں ہی سے انسان لے جاتا ہے جیسا کہ دوزخ کے باب میں فرمایا ہے کہ نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ (الهمزة: ۷ (۸) یعنی دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اُس کا منبع ہے اور وہ گناہ سے پیدا ہوتی اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آگ کی جڑ وہ ہموم عموم اور حسرتیں ہیں جو انسان کو آگھیرتی ہیں کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں جیسے تمام روحانی سروروں کا منبع بھی دل ہے اور دل ہی سے شروع ہونے بھی چاہئیں کیونکہ دل ہی ایمان یا بے ایمانی کا منبع ہے ایمان یا بے ایمانی کا شگوفہ بھی پہلے دل ہی سے نکلتا ہے.اور پھر تمام بدن اور اعضا پر اس کا عمل ہوتا ہے اور سارے جسم پر محیط ہو جاتا ہے.پس یا درکھو کہ بہشت اور دوزخ اسی دنیا سے انسان ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بات بھولنی نہ چاہئے کہ بہشت اور دوزخ اس جسمانی دنیا کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا مبدء اور منبع روحانی امور ہیں ہاں یہ سچی بات ہے کہ عالم معاد میں وہ جسمانی شکل پر ضرور متشکل ہو کر نظر آئیں گے.یہ ایک بڑا ضروری مضمون ہے جس پر ساری قوموں نے دھوکہ کھایا ہے اور اس کی حقیقت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے کوئی خدا ہی کا منکر ہو بیٹھا ہے اور کوئی تناسخ کا قائل ہو گیا کسی نے کچھ تجویز کیا اور کسی نے کچھ.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۱۷ رنومبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۲،۱) جولوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے ہیں اُن کو خوشخبری دے دو کہ وہ اُن باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہیں.اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے.جو رشتہ اور تعلق نہر جاریہ اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے.پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ پانی کے بدوں سرسبز اور ثمر دار ہو سکے اسی طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہ ہوں مفید اور کارگر نہیں ہو سکتا.پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں.وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اُس کے اندر ہی سے نکلتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة البقرة یاد رکھو کہ اُس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنایا جاتا ہے.پاک ایمان پودہ سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال اخلاق فاضلہ یہ اس پودہ کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں.اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خواب میں دیکھے جاتے ہیں مگر اُس عالم میں محسوس اور مشاہد ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ لکھا ہے کہ جب بہشتی ان انعامات سے بہرہ ور ہوں گے تو یہ کہیں گے هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِها اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہد یا انگور، انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی.نہیں وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے لحاظ سے بالکل اور کی اور ہوں گی.ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جاتا ہے اور اگر چہ ان تمام نعمتوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتادیا گیا ہے کہ وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیں ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے.رُزِقْنَا مِن قَبْلُ سے یہ مراد لینا کہ وہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمالِ صالحہ کئے اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے اس لئے اُس عالم میں اُس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف اُن کو پہچان لیں گے.میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا ربط با ہم اسی طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے.مگر اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ دنیا کی سزائیں تنبیہ اور عبرت کے لئے انتظامی رنگ کی حیثیت سے ہیں.سیاست اور رحمت دونوں باہم ایک رشتہ رکھتی ہیں.اور اسی رشتہ کے اظلال یہ سزائیں اور جزائیں ہیں.انسانی افعال اور اعمال اسی طرح پر محفوظ اور بند ہوتے جاتے ہیں جیسے فونوگراف میں آواز بند کی جاتی ہے.جب تک انسان عارف نہ ہو اس سلسلہ پر غور کر کے کوئی لذت اور فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.الحکم جلد ۶ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵) دوزخیوں کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ اُن کو زقوم کھانے کو ملے گا اور بہشتیوں کو اُس کے بالمقابل دودھ اور شہد کی نہریں اور قسم قسم کے پھل بیان کئے گئے ہیں اس کا ستر کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بالمقابل بیان ہوئی ہیں بہشت کی نعمتوں کا ذکر ایک جگہ کر کے یہ بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۰۸ سورة البقرة فرمایا ہے كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أَتُوا بِهِ مُتَشَابِها تو اس میں رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ سے یہ مراد نہیں کہ دنیا کے آم، خربوزے اور دوسرے پھل اور دنیا کا دودھ اور شہدان کو یاد آ جائے گا.نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ مومن جو اخلاص اور محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس ذوق شوق سے جو لذت اُن کو محسوس ہوتی ہے تو بہشت کی نعمتوں اور لذتوں کے حاصل ہونے پر وہ لذت اُن کو یاد آ جائے گی کہ اس قسم کی لذت بخش نعمتیں ہمارے رب سے پہلے بھی ملتی رہی ہیں.چونکہ بہشتی زندگی اسی عالم سے شروع ہوتی ہے اس لئے ان نعمتوں کا ملنا بھی یہیں سے شروع ہو جاتا ہے ورنہ بہشت کی نعمتوں کے بارہ میں تو آیا ہے کہ نہ اُن کو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا تو ان دنیوی پھلوں سے اُن کا رشتہ کیا ہوا ؟ ایمان اور اعمال کی مثال قرآن شریف میں درختوں سے دی گئی ہے ایمان کو درخت بتایا ہے اور اعمال اس کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں.جب تک اعمال سے ایمان کے پودہ کی آبپاشی نہ ہو اُس وقت تک وہ شیریں پھل حاصل نہیں ہوتے.بہشتی زندگی والا انسان خدا کی یاد سے ہر وقت لذت پاتا ہے اور جو بد بخت دوزخی زندگی والا ہے تو وہ ہر وقت اس دنیا میں زقوم ہی کھا رہا ہے اس کی زندگی تلخ ہوتی ہے مَعِيشَةً صنعا (لطه : ۱۲۵) بھی اسی کا نام ہے جو قیامت کے دن زقوم کی صورت پر متمقل ہو جائے گی.غرض دونوں صورتوں میں باہم رشتے قائم ہیں.الحکم جلدے نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰) کوئی بات سوائے خدا کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتی اور جسے اس دنیا میں فضل ہو گا اُسے ہی آخرت میں بھی ہوگا جیسے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى (بى اسرائيل : ۷۳) اى لئے یہ ضروری ہے کہ ان حواس کے حصول کی کوشش اسی جہان میں کرنی چاہئے کہ جس سے انسان کو بہشتی زندگی حاصل ہوتی ہے اور وہ حواس بلا تقومی کے نہیں مل سکتے.ان آنکھوں سے انسان خدا کو نہیں دیکھ سکتا لیکن تقویٰ کی آنکھوں سے انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے.اگر وہ تقویٰ اختیار کرے گا تو وہ محسوس کرے گا کہ خدا مجھے نظر آ رہا ہے اور ایک دن آوے گا کہ خود کہ اُٹھے گا کہ میں نے خدا کو دیکھ لیا.اسی بہشتی زندگی کی تفصیل جو کہ متقی کو اسی دنیا میں حاصل ہوتی ہے قرآن شریف میں ایک اور جگہ بھی پائی جاتی ہے جیسے لکھا ہے كُلما رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ - جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے ان پھلوں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی ان کومل چکے تھے پائیں گے تو کہ دیویں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو کہ ہمیں اول ہی دیئے گئے تھے کیونکہ وہ ان پھلوں کو ان پہلے پھلوں سے مشابہ پاویں گے.اس سے یہ مطلب
۱۰۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہرگز نہیں ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں مثل دودھ، شہد، گھی اور انار اور انگور وغیرہ اُنہوں نے کھائی ہیں.وہی اُن کو وہاں جنت میں ملیں گے اور وہاں ان چیزوں کے مہیا کرنے کے لئے بہت سے باغات، درخت، مالی اور بیل وغیرہ اور گائیں بھینسوں کے ریوڑ ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہوں گے جن سے شہدا تار کر اہل جنت کو دیا جاوے گا یہ سب غلط خیال ہیں اگر جنت کی یہی نعمت ہے جو ان کو دنیا میں ملتی رہی اور آخرت میں بھی ملے گی تو مومنوں اور کافروں میں کیا فرق رہا؟ ان سب چیزوں کے حاصل کرنے میں تو کافر اور مشرک بھی شریک ہیں پھر اس میں بہشت کی خصوصیت کیا ہے؟ لیکن قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بہشت کی نعمتیں ایسی چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں گزریں اور ہم دنیا کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ سب آنکھوں نے دیکھی کانوں نے سنی اور دل میں گزری ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان جنتی نعمتوں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر وہ اصل میں اور امور ہیں ورنہ رزقنا من قبل کے کیا معنے ہوں گے اس کے وہی معنے ہیں جو کہ مَنْ كَانَ فِي هذة اغْنى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَغْنی کے ہیں دوسرے مقام پر قرآن شریف فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن ( الرحمن : ۴۷) جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت اور جلال کے مرتبہ سے ہراساں ہے اس کے لئے دو بہشت ہیں ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت.جو شخص بچے اور خالص دل سے نقش ہستی کو اس کی راہ میں مٹا کر اس کے متلاشی ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں تو اس میں ان کو ایک قسم کی لذت شروع ہو جاتی ہے اور ان کو وہ روحانی غذا ئیں ملتی ہیں جو روح کو روشن کرتی اور خدا کی معرفت کو بڑھاتی ہیں.ایک جگہ پر شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو اس کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اس کی نماز اب بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہوتی بلکہ یہ معنے ہیں کہ چونکہ اب اسے لذت شروع ہو گئی ہے تو جو اجر اس کا عنداللہ تھا وہ اب اُسے دنیا میں ملنا شروع ہو گیا ہے.جیسے ایک شخص اگر دودھ میں برف اور خوشبو وغیرہ ڈال کر پیتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اُسے ثواب ملے گا کیونکہ لذت تو اس نے اس کی یہیں حاصل کر لی.خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور کسی عمل کی قبولیت اور شے ہے اور ثواب اور شئے ہے، ہر ایک لفظ اپنے اپنے مقام کے لئے چسپاں ہوتا ہے.اس لحاظ سے شیخ عبدالقادر صاحب نے فرمایا کہ عارف کی نماز کا ثواب مارا جاتا ہے.جو اہلِ حال ہوتا ہے وہ اپنی جگہ پورے بہشت میں ہوتا ہے اور جب انسان کو خدا سے پورا تعلق ہوجاتا ہے تو اخلال اور انتقال جس قدر بوجھ اس کی گردن میں ہوتے ہیں وہ سب اُٹھائے جاتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11 + سورة البقرة ہیں وہ لذت جو خدا کی طرف سے اُس کی عبادت میں حاصل ہوتی ہے وہ اور ہے اور جو اکل وشرب اور جماع وغیرہ میں حاصل ہوتی ہے وہ اور ہے.لکھا ہے کہ اگر ایک عارف دروازہ بند کر کے اپنے مولیٰ سے راز و نیاز کر رہا ہو تو اسے اپنی عبادت اور اس راز و نیاز کے اظہار کی بڑی غیرت ہوتی ہے اور وہ ہرگز اُس کا افشاء پسند نہیں کرتا.اگر اس وقت کوئی دروازہ کھول کر اندر چلا جاوے تو وہ ایسا ہی نادم اور پشیمان ہوتا ہے جیسے زانی زنا کرتا پکڑا جاتا ہے.جب اس لذت کی حد کو انسان پہنچ جاتا ہے تو اس کا حال اور ہوتا ہے اور اسی حالت کو وہ یاد کر کے وہ جنت میں کہے گا کہ رُزقنا من قبل بہشتی زندگی کی بنیاد یہی دنیا ہے.بعد مرنے کے جب انسان بہشت میں داخل ہوگا تو یہی کیفیت اور لذت اُسے یاد آوے گی تو اسی بات کا طالب ہر ایک کو ہونا چاہئے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۴، ۳۳۵) قرآن شریف میں وعدہ کیا ہے کہ مرنے کے بعد جو صالح ہوگا بہشت میں جائے گا.بظاہر یہ وعدہ قبضہ معلوم ہوتا ہے.بات یہ ہے کہ قصہ نہیں گو قصہ کا رنگ اختیار کیا گیا اصل میں عرب کے لوگ ( الہیات و روحانیات میں ) بچوں کی طرح تھے.خدا تعالیٰ نے استعارہ کا رنگ قریب الفہم کرنے کے لئے اختیار کیا خدا تعالیٰ نے دوسرے موقعہ پر فرما دیا : مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ (الرعد :٣٢) یعنی سب کچھ اس جنت کی مثال ہے دوسری جگہ رسول اکرم کی زبان پر فرمایا : مَالًا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ - اس جگہ دودھ اور شہد کی نہریں نہ ہوں گی پھر فرمایا: وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ - اے رسول! بشارت دے دے ان ایمانداروں اور عمل صالح کرنے والوں کو، ان کے لئے باغ ہیں ، چلتی ہیں اُن کے نیچے نہریں.پھر فرمایا : مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراهیم :۲۵) کلمہ طیبہ درخت کی مثال ہے اب اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ بطور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کی بجائے ہیں.( بدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ رجُجون ۱۹۰۸ ء صفحه ۵،۴) اس آیت میں ایمان کو اعمال صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے جنات اور انہار یعنی ایمان کا نتیجہ تو جنت ہے اور اعمال صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں.پس جس طرح باغ بغیر نہر اور پانی کے جلدی برباد ہو جانے والی چیز ہے اور دیر پا نہیں اسی طرح ایمان بے عمل صالح بھی کسی کام کا نہیں.پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار ( درختوں ) سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اشجار ہیں اور اعمال صالحہ اُن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 111 سورة البقرة اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں.غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبر کیا جاوے اسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے جس طرح سے ایک کسان کاشت کار کے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخمریزی کرے اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخمریزی ہے ضروری اور لازمی ہے اور پھر جس طرح کاشت کار کھیت یا باغ وغیرہ کی آبپاشی کرتا ہے اُسی طرح سے روحانی باغ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمالِ صالحات کی ضرورت ہے یا درکھو کہ ایمان بغیر اعمال صالح کے ایسا ہی بے کار ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا کسی دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکتا ہے.درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لا پرواہی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہو گا وہ سب جانتے ہیں.یہی حال روحانی زندگی میں شجر ایمان کا ہے.ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمالِ صالح روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں.پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض برکات کے ثمرات حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخه ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۵) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی رکھا ہے.عمل صالحہ اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فسادنہ ہو.یا درکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں وہ کیا ہیں؟ ریا کاری ( کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے ) تعجب ( کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے ) اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اُس سے صادر ہوتے ہیں اُن سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں.عملِ صالحہ وہ ہے جس میں ظلم ، عجب ، دریا، تکبر، حقوق انسان کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو.جیسے آخرت میں عملِ صالحہ سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے.اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالحہ والا ہو تو سب گھر بچارہتا ہے.سمجھ لو کہ جب تک کہ تم میں عملِ صالحہ نہ ہو صرف اتنا فائدہ نہیں کرتا.(البدر جلد نمبر ۹ مورخه ۲۶ ؍ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۶۶) خوب یا درکھو کہ جب تک سچے دل سے اور روحانیت کے ساتھ یہ اعمال نہ ہوں کچھ فائدہ نہ ہوگا اور یہ اعمال کام نہ آئیں گے.اعمال صالحہ اُسی وقت اعمال صالحہ کہلاتے ہیں جب ان میں کسی قسم کا فساد نہ ہو صلاح کی ضد فساد ہے.صالحہ وہ ہے جو فساد سے مبرہ منزہ ہو جن کی نمازوں میں فساد ہے اور نفسانی اغراض چھپے ہوئے ہیں.اُن
۱۱۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام کی نماز یں اللہ تعالیٰ کے واسطے ہرگز نہیں ہیں اور وہ زمین سے ایک بالشت بھی او پر نہیں جاتی ہیں کیونکہ ان میں اخلاص کی روح نہیں اور روحانیت سے خالی ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۲) عملِ صالحہ ہماری اپنی تجویز اور قرارداد سے نہیں ہو سکتا.اصل میں اعمالِ صالحہ وہ ہیں جس میں کسی نوع کا کوئی فساد نہ ہو کیونکہ صالح فساد کی ضد ہے.جیسے غذا طیب اُس وقت ہوتی ہے کہ وہ نہ کچھی ہو نہ سڑی ہوئی ہو اور نہ کسی ادنی درجہ کی جنس کی ہو بلکہ ایسی ہو جو فو را جزو بدن ہو جانے والی ہو.اسی طرح پر ضروری ہے کہ عمل صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق ہو.اور پھر نہ اس میں کسی قسم کا کسل ہو نہ عجب ہو نہ ریا ہو نہ وہ اپنی تجویز سے ہو.جب ایسا عمل ہو تو وہ عمل صالح کہلاتا ہے اور یہ کبریت احمر ہے.(احکام جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۰۶ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۱) ایسا ہی قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں بھی بہشتیوں کے ہمیشہ بہشت میں رہنے کا جابجا ذ کر ہے اور سارا قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے: وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خلِدُونَ اور اولبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة : ۸۳ ) وغیرہ وغیرہ.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱) فلاح آخرت بجز اعمال صالحہ کے نہیں اور اعمال صالحہ وہ ہوں جو خلاف نفس اور مشقت سے ادا کئے جائیں اور عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ دل سے جس کام کے لئے معصم عزم کیا جاوے اس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے.سو مصمم عزم اور عہد واثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.( مکتوبات جلد ۵ نمبر ۵ صفحه ۶۰ مکتوب نمبر ۱۶ بنام حضرت منشی ظفر احمد صاحب) یہ جو لکھا ہے کہ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہاں گائیوں کا ایک گلہ ہوگا اور بہت سارے گوالے ہوں گے جو دودھ دوہ ، دوہ کر ایک نہر میں ڈالتے رہیں گے یا بہت سے چھتے شہد کی مکھیوں کے ہوں گے اور پھر ان کا شہد جمع کر کے نہروں میں گرایا جاوے گا یہ مطلب نہیں.اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات نہ ہوگی اگر یہی خربوزہ اور تربوز یا انار ہوں گے تو پھر بات ہی کیا ہوئی کافر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس دنیا میں کھا لئے تم نے آگے جا کر کھائے.اس کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصُّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجالاتے ہیں وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۳ سورة البقرة ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.اس آیت میں بہشت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے گویا جو رشتہ نہروں کو باغ کے ساتھ ہے وہی تعلق اور رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہوتا ہے اور جس طرح پر کوئی باغ یا درخت بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا اسی طرح پر کوئی ایمان بغیر اعمال صالحہ کے زندہ اور قائم نہیں رہ سکتا.اگر ایمان ہو اور اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان بیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریا کاری ہیں.پس قرآن شریف نے جو بہشت پیش کیا ہے اس کی حقیقت اور فلاسفی یہی ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور اعمال کا ایک ظل ہے اور ہر شخص کی بہشت اس کے اپنے اعمال اور ایمان سے شروع ہوتی ہے اور اس دنیا میں ہی اس کی لذت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ اور نہریں نظر آتی ہیں لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے اور ان کا ایک خارجی وجود نظر آ جائے گا.قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی آبپاشی اعمال صالحہ سے ہوتی ہے بغیر اس کے وہ خشک ہو جاتا ہے.پس یہاں دو باتیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ بہشت باغ ہے دوسرا ان درختوں کی نہروں سے آبپاشی ہوتی ہے.قرآن شریف کو پڑھو اور اوّل سے آخر تک اس پر غور کرو تب اس کا مزہ آئے گا کہ حقیقت کیا ہے؟ ہم مجاز اور استعارہ ہرگز پیش نہیں کرتے بلکہ یہ حقیقت الا مر ہے.وہ خدا تعالیٰ جس نے عدم سے انسان کو بنایا ہے اور جو خلق جدید پر قادر ہے وہ یقیناً انسان کے ایمان کو اشجار سے منتقل کر دے گا اور اعمال کو انہار سے متمثل کرے گا اور واقعی طور پر دکھا دے گا.یعنی ان کا وجود فی الخارج بھی نظر آئے گا.اس کی مختصری مثال یوں بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے انسان خواب میں عمدہ اور شیریں پھل کھاتا ہے اور ٹھنڈے اور خوشگوار پانی پیتا ہے اور فی الواقع وہ پھل اور آب سرد ہوتا ہے اس وقت اس کے ذہن میں کوئی دوسرا امر نہیں ہوتا.پھلوں کو کھا کر سیری ہوتی اور پانی پی کر فی الواقعہ پیاس دور ہوتی ہے لیکن جب اُٹھتا ہے تو نہ ان پھلوں کا کوئی وجود ہوتا ہے.اور نہ اس پانی کا.اسی طرح پر جیسے اس حالت میں اللہ تعالیٰ ان اشیاء کا ایک وجود پیدا کر دیتا ہے عالم آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالحہ کو اُس صورت میں منتقل کر دیا جائے گا.اسی لئے فرمایا ہے ھذا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِها.اس کے اگر یہ معنے کریں کہ وہ جنتی جب ان پھلوں اور میووں کو کھا ئیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ وہ پھل اور خربوزے یا تربوز یا انار ہیں جو ہم نے دنیا میں کھائے تھے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اس طرح پر تو وہ لذت بخش چیز نہیں ہو سکتے اور نعماء جنت کی حقارت ہے اگر کوئی شخص مثلاً
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورة البقرة کشمیر میں جاوے اور وہاں کی ناشپاتیاں کھا کر کہے کہ یہ تو وہی ناشپاتیاں ہیں جو پنجاب میں کھائی تھیں تو یہ صریح ان ناشپاتیوں کی حقارت ہے پس اگر بہشت کی نعماء کی بھی یہی مثال ہے تو یہ خوشی نہیں بلکہ ان سے بیزاری ہے اس لئے اس کا یہ مفہوم اور مطلب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بہشتی لوگ جو اس دنیا میں بڑے عابد اور زاہد تھے.جب وہ اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کے مستقلات سے لطف اُٹھا ئیں گے تو ان کو وہ ایمانی لذت آ جائے گی اور ان مجاہدات اور اعمال صالحہ کا مزا آ جائے گا جو اس عالم میں انہوں نے کئے تھے اس لئے وہ کہیں گے هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ - غرض جس قدر قرآن شریف کو کوئی شخص تد تیر اور غور سے پڑھے گا اسی قدر وہ اس حقیقت کو سمجھ لے گا کہ ان لذات کا تمثیلی رنگ میں فائدہ اُٹھائے گا.محبت الہی کی لذات ہیں.لذت کا لفظ جو مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے وہ جسمانی لذت کے مفہوم سے ہزاروں درجہ زیادہ مفہوم روحانی لذت میں رکھتا ہے.اگر اس محبت کی لذت میں غیر معمولی سیری اور سیرابی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے محبت جسمانی لذات کو ترک کیوں کریں یہاں تک کہ بعض اس قسم کے بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے سلطنت تک کو چھوڑ دیا.چنانچہ ابراہیم ادھم نے سلطنت چھوڑ دی اور انبیاء علیہم السلام نے ہزاروں لاکھوں مصائب کو برداشت کیا.اگر وہ لذت اور ذوق اس محبت الہی کی تہہ میں نہ تھا جو انہیں کشاں کشاں لئے جاتا تھا تو پھر وہ کیا بات تھی کہ اس قدر مصائب کو انہوں نے خوشی کے ساتھ اُٹھا لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اس درجہ میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں اس لئے آپ کی زندگی کا نمونہ بھی سب سے افضل و اعلیٰ ہے.کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں اور عزتیں پیش کیں ، مال و دولت سلطنت عورتیں اور کہا کہ آپ ہمارے بتوں کی مذمت نہ کریں اور یہ توحید کا مذہب پیش نہ کریں اس خیال کو جانے دیں.وہ دنیا دار تھے ان کی نظر دنیا کی فانی اور بے حقیقت لذتوں سے پرے نہ جاسکتی تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ تبلیغ انہیں اغراض کے لئے ہوگی مگر آپ نے ان کی ان ساری پیش کردہ باتوں کو رڈ کر دیا اور کہا کہ اگر میرے دائیں بائیں آفتاب اور ماہتاب بھی لا کر رکھ دو تب بھی میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا.پھر اس کے بالمقابل انہوں نے آپ کو وہ تکالیف پہنچائیں جن کا نمونہ کسی دوسرے شخص کی تکالیف میں نظر نہیں آتا لیکن آپ نے ان تکالیف کو بڑی لذت اور سرور سے منظور کیا مگر اس راہ کو نہ چھوڑا.اب اگر کوئی لذت اور ذوق نہ تھا تو پھر کیا وجہ تھی جو ان مصائب مشکلات کو برداشت کیا ؟ وہ وہی لذت تھی جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ملتی ہے اور جس کی مثال اور نمونہ کوئی پیش نہیں کیا جاسکتا....بہشت کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ سورة البقرة لذات میں ایک اور بھی خوبی ہے جو دنیا کی لذتوں میں اور جسمانی لذتوں میں نہیں ہے مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے تو دوسری لذتیں اُسے یاد نہیں رہتی ہیں.مگر بہشت کی لذات نہ صرف جسم ہی کے لئے ہوں گی بلکہ روح کے لئے بھی لذت بخش ہوں گی دونوں لذتیں اس میں اکٹھی ہوں گی اور پھر اس میں کوئی کثافت نہ ہوگی اور سب سے بڑھ کر جو لذت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا.مگر دیدار الہی کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہاں ہی سے تیاری ہو اور اس کے دیکھنے کے لئے یہاں ہی سے انسان آنکھیں لے جاوے.جو شخص یہاں تیاری کر کے نہ جاوے گا.وہ وہاں محروم رہے گا.(احکام جلد 4 نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰،۹) اِنَّ اللهَ لا يَسْتَحْى أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۖ فَلَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَ اَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَا ذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِى بِهِ كَثِيرًا ۖ وَمَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا ۲۷ الفسقين في فرماتا ہے يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِى بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِینَ یعنی بہتوں کو اس کلام سے گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے.مگر گمراہ ان کو کرتا ہے جو گمراہ ہونے کے کام کرتے ہیں اور فاسقانہ چالیں چلتے ہیں یعنی انسان اپنے ہی افعال کا نتیجہ خدا تعالیٰ سے پالیتا ہے جیسے کہ ایک شخص آفتاب کے سامنے کی کھڑ کی جب کھول دیتا ہے تو یہ ایک قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کی روشنی اور اس کی کرنیں اس کے منہ پر پڑتی ہیں لیکن جب وہ اس کھڑکی کو بند کر دیتا ہے تو اپنے ہی فعل سے اپنے لئے اندھیرا پیدا کر لیتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے بوجہ اپنے علت العلل ہونے کے ان دونوں فعلوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے لیکن اپنے پاک کلام میں اس نے بار ہا تصریح سے فرما دیا ہے کہ جو ضلالت کے اثر کسی کے دل میں پڑتے ہیں وہ اسی کی بد اعمالی کا نتیجہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۳، ۲۳۴) خدائے تعالیٰ کی پیشگوئیوں میں بعض امور کا اخفا اور بعض کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا ہونا شاذ و نادر ہے کہ من کل الوجوہ اظہار ہی ہو کیونکہ پیشگوئیوں میں حضرت باری تعالیٰ کے ارادہ میں ایک قسم کی خلق اللہ کی آزمائش بھی منظور ہوتی ہے اور اکثر پیشگوئیاں اس آیت کا مصداق ہوتی ہیں کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٦ سورة البقرة یہ گھیرا اسی وجہ سے ہمیشہ ظاہر پرست لوگ امتحان میں پڑ کر پیشگوئی کے ظہور کے وقت دھوکا کھا جاتے ہیں اور زیادہ تر انکار کرنے والے اور حقیقت مقصودہ سے بے نصیب رہنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ حرف حرف پیشگوئی کا ظاہری طور پر جیسا کہ سمجھا گیا ہو پورا ہو جائے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۳، ۱۳۴) خدا سے ہر وقت حفاظت چاہتے رہو کیونکہ نا پاک اور نامراد ہے وہ دل جو ہر وقت خدا کے آستانہ پر نہیں گرتا وہ محروم کیا جاتا ہے.دیکھو اگر خدا ہی حفاظت نہ کرے تو انسان کا ایک دم گزارہ نہیں.زمین کے نیچے سے لے کر آسمان کے اوپر تک کا ہر طبقہ اس کے دشمنوں کا بھرا ہوا ہے.اگر اسی کی حفاظت شاملِ حال نہ ہو تو کیا ہوسکتا ہے؟ دعا کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ہدایت پر کار بند رکھے کیونکہ اس کے ارادے دو ہی ہیں ؛ گمراہ کرنا اور ہدایت دینا جیسا کہ فرماتا ہے : يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا.پس جب اس کے ارادے گمراہ کرنے پر بھی ہیں تو ہر وقت دعا کرنی چاہیے کہ وہ گمراہی سے بچاوے اور ہدایت کی توفیق دے.نرم مزاج بنو کیونکہ جو نرم مزاجی اختیار کرتا ہے خدا بھی اس سے نرم معاملہ کرتا ہے.اصل میں نیک انسان تو اپنا پاؤں بھی زمین پر پھونک پھونک کر احتیاط سے رکھتا ہے تا کہ کسی کپڑے کو بھی اس سے تکلیف نہ ہو.غرض اپنے ہاتھ سے، پاؤں سے، آنکھ وغیرہ اعضاء سے کسی نوع کی تکلیف نہ پہنچاؤ اور دعائیں مانگتے رہو.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۱۵،۱۴) ج و كيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ وروور اليه ترجعون.یعنی تم اس خدا سے کیوں انکار کرتے ہو جس نے تمہیں موت کے بعد زندگی بخشی پھر تمہیں موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا اور پھر اس کی درگاہ میں حاضر کئے جاؤ گے.دست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۳) انسان پر ایک زمانہ آتا ہے کہ وہ نطفہ ہوتا ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا پھر مدارج سنہ سے گزر کر اس پر ایک موت آتی ہے اور پھر اُسے ایک احیاء دیا جاتا ہے.یہ ایک مسلم مسئلہ ہے کہ ہر حیات سے پہلے ایک موت ضرور آتی ہے.اس آیت میں صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ اُن پر ایسا گزرا ہے کہ وہ بالکل مردہ تھے یعنی ہر قسم کی ضلالت اور ظلمت میں مبتلا تھے پھر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ زندگی عطا ہوئی اور پھر ان کی تکمیل اور ایک موت ان پر وارد ہوئی جوفنافی اللہ کی موت تھی اس کے بعد ان کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 112 سورة البقرة بابا للہ کا درجہ ملا.اور ہمیشہ کے لئے زندگی پائی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۶) هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَولُهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ نَ وہ وہی خدا ہے جس نے جو کچھ زمین پر ہے تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۵) خدا تعالیٰ نے جو کچھ زمین میں ہے سب پیدا کر کے اور آسمان کو بھی سات طبقے بنا کر غرض اس عالم کی پیدائش سے بکلی فراغت پا کر پھر چاہا کہ آدم کو پیدا کرے.پس اُس نے اُس کو روز ششم یعنی جمعہ کے آخر حصہ میں پیدا کیا کیونکہ جو چیزیں از روئے نص قرآنی چھٹے دن پیدا ہوئی تھیں آدم اُن سب کے بعد میں پیدا کیا گیا.اور اس پر دلیل یہ ہے کہ سورۃ حم السجدة جزو چوبیس میں اس بات کی تصریح ہے کہ خدا نے جمعرات اور جمعہ کے دن سات آسمان بنائے اور ہر ایک آسمان کے ساکن کو جو اس آسمان میں رہتا تھا اس آسمان کے متعلق جو امر تھا وہ اس کو سمجھا دیا اور ور لے آسمان کو ستاروں کی قندیلوں سے سجایا اور نیز اُن ستاروں کو اس لئے پیدا کیا کہ بہت سے امور حفاظت دنیا کے ان پر موقوف تھے.یہ اندازے اُس خدا کے باندھے ہوئے ہیں جو زبر دست اور دانا ہے.(تحفہ گولٹر ویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۸،۲۷۷ حاشیہ) وَ اذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ 19.b يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ قادر مطلق نے دنیا کے حوادث کو صرف اسی ظاہری سلسلہ تک محصور اور محدود نہیں کیا بلکہ ایک باطنی سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا زمین یا وہ بخارات جن سے پانی برستا ہے یا وہ آندھیاں جوز ور سے آتی ہیں یا وہ اولے جو زمین پر گرتے ہیں یا وہ شہپ ثاقبہ جو ٹوٹتے ہیں اگر چہ یہ تمام چیزیں اپنے کاموں اور تمام تغییرات اور تحولات اور حدوثات میں ظاہری اسباب بھی رکھتی ہیں جن کے بیان میں ہیئت اور طبعی کے دفتر بھرے پڑے ہیں لیکن با ایں ہمہ عارف لوگ جانتے ہیں کہ ان اسباب کے نیچے اور اسباب اور بھی ہیں جو مد تبر بالا رادہ ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام ملائک ہے وہ جس چیز سے تعلق رکھتے ہیں اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة البقرة تمام کاروبارکو انجام تک پہنچاتے ہیں اور اپنے کاموں میں اکثر ان روحانی اغراض کو مہِ نظر رکھتے ہیں جو مولیٰ کریم نے ان کو سپرد کی ہیں اور ان کے کام بے ہودہ نہیں بلکہ ہر ایک کام میں بڑے بڑے مقاصد ان کو مد نظر ر ہتے ہیں......حکیم مطلق نے اس عالم کے احسن طور پر کا روبار چلانے کے لئے دو نظام رکھے ہوئے ہیں اور باطنی نظام فرشتوں کے متعلق ہے اور کوئی جز ظاہری نظام کی ایسی نہیں جس کے ساتھ در پردہ باطنی نظام نہ ہو....اس عالم کی حرکات اور حوادث خود بخود نہیں اور نہ بغیر مرضی مالک اور نہ عبث اور بے ہودہ ہیں بلکہ در پردہ تمام اجرام علوی اور اجسام سفلی کے لئے منجانب اللہ مدیر مقرر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں ملائک کہتے ہیں اور جب تک کوئی انسان پابند اعتقاد وجود مستی باری ہے اور دہریہ نہیں اس کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ تمام کاروبار عبث نہیں بلکہ ہر یک حدوث اور ظہور پر خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت بالا رادہ کا ہاتھ ہے اور وہ ارادہ تمام انتظام کے موافق بتوسط اسباب ظہور پذیر ہوتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اجرام اور اجسام کو علم اور شعور نہیں دیا اس لئے ان باتوں کے پورا کرنے کے لئے جن میں علم اور شعور درکار ہے ایسے اسباب یعنی ایسی چیزوں کے توسط کی حاجت ہوئی جن کو علم اور شعور دیا گیا ہے اور وہ ملائک ہیں.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۴ تا ۱۲۸ حاشیه ) فرشتوں کا وجود ماننے کے لئے نہایت سہل اور قریب راہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ یہ بات طے شدہ اور فیصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کی ظاہری تربیت اور تکمیل کے لئے اور نیز اس کام کے لئے کہتا ہمارے ظاہری حواس کے افعال مطلوبہ کما ینبغی صادر ہو سکیں خدا تعالیٰ نے یہ قانون قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس و قمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت میں لگا دیا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قومی کو مدد پہنچا کر ان سے بوجہ احسن ان کے تمام کام صادر کر اویں اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسی طرف بھاگ نہیں سکتے کہ مثلاً ہماری آنکھ اپنی ذاتی روشنی سے کسی کام کو بھی انجام نہیں دے سکتی جب تک آفتاب کی روشنی اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور ہمارے کان محض اپنی قوت شنوائی سے کچھ بھی سن نہیں سکتے جب تک کہ ہوا متکیف بصوت ان کی ممد و معاون نہ ہو.پس کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے ہمارے قومی کی تکمیل اسباب خارجیہ میں رکھی ہے اور ہماری فطرت ایسی نہیں ہے کہ اسباب خارجیہ کی مدد سے مستغنی ہو اگر غور سے دیکھو تو نہ صرف ایک دو بات میں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قوی تمام طاقتوں کی تکمیل کے لئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۹ سورة البقرة خارجی امدادات کے محتاج ہیں پھر جب کہ یہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشریک کا جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجی قومی اور حواس اور اغراض جسمانی کی نسبت نہایت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پایا جاتا ہے تو پھر کیا یہ بات ضروری اور لازمی نہیں کہ ہماری روحانی تکمیل اور روحانی اغراض کے لئے بھی یہی انتظام ہوتا ؟ دونوں انتظام ایک ہی طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کریں اور خود ظاہر ہے کہ جس حکیم مطلق نے ظاہری انتظام کی یہ بنا ڈالی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے کہ اجرام سماوی اور عناصر وغیرہ اسباب خارجیہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قومی اور حواس کی تکمیل ہو اس حکیم قادر نے ہماری روحانیت کے لئے بھی یہی انتظام پسند کیا ہوگا کیونکہ وہ واحد لاشریک ہے اور اس کی حکمتوں اور کاموں میں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل اقیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.سو وہ اشیاء خارجیہ جو ہماری روحانیت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کی طرح جو اغراض جسمانی کے لئے محمد ہیں ہماری اغراض روحانی کو پورا کرتی ہیں انہیں کا نام ہم ملائک رکھتے ہیں.پس اس تقریر سے وجود ملائک کا بوجہ احسن ثابت ہوتا ہے اور گو ہم پر ان کی گنہ کھل نہ سکے اور کھلنا کچھ ضرور بھی نہیں.لیکن اجمالی طور پر قانون قدرت کے توافق اور اتحاد پر نظر کر کے ان کا وجود ہمیں ماننا پڑتا ہے کیونکہ جس حالت میں ہم نے بطیب خاطر ظاہری قانون کو مان لیا ہے تو پھر کیا وجہ کہ ہم اسی طرز اور طریق پر باطنی قانون کو تسلیم نہ کریں.بے شک ہمیں باطنی قانون بھی اسی طرح قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ظاہری قانون کو مان لیا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۳ تا۵ ۱۳ حاشیه ) قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے فرشتے نجوم اور شمس اور قمر اور آسمان کے لئے جان کی طرح ہیں اور قیام اور بقا ان تمام چیزوں کا فرشتوں کے تعلق پر موقوف ہے.اور ان کے ارجاء کی طرف کھسک جانے سے تمام اجرام ستاروں اور شمس و قمر اور آسمان کو موت کی صورت پیش آتی ہے تو پھر اس صورت میں وہ جان کی طرح ہوئے یا کچھ اور ہوئے.میں ان مولویوں کی حالت پر سخت افسوس کرتا ہوں کہ جو ان تمام کھلے کھلے مقامات قرآنی کو دیکھ کر پھر بھی اس بات کے قبول کرنے سے متامل ہیں کہ ملائکہ کو اجرام سماوی بلکہ بعض فرشتوں کو جو عنصر یون ہیں عناصر اور اجرام سماوی سے ایسا شدید تعلق ہے کہ جیسا کہ ارواح کو قوالب کے ساتھ ہوتا ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۳، ۱۴۴ حاشیه ) معقولی طور پر اس بات کا ثبوت کہ نظام ظاہری میں جو کچھ امر خیر ہورہا ہے ان تمام امور کا ظہور وصدور دراصل ملائکہ کے افعال خفیہ سے ہے ان امور پر غور کرنے سے پیدا ہوتا ہے کہ ہر یک چیز سے اللہ جل شانہ وہ کام لیتا ہے جس کام کے کرنے کی اس چیز کو قو تیں عطا کی گئی ہیں.پس اب یہ خیال کرنا کہ ہر یک تغیر اجرام سماوی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۰ سورة البقرة اور کائنات الحجو کا صرف اسباب طبیعیہ خارجیہ سے ظہور میں آتا ہے اور کسی روحانی سبب کی ضرورت نہیں بالکل غیر معقول ہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا کہ یہ تغیرات اجرام سماوی اور حوادث کا ئنات الحجو جو بڑے بڑے مصالح پر مشتمل اور بنی آدم کی بقا اور صحت اور ضرورات معاشرت کی اس شرط سے ممد و معاون ہیں کہ ان میں افراط اور تفریط نہ پایا جائے اگر یہ خود بخود ہوتے اور ایسی ذی شعور چیزوں کا درمیان قدم نہ ہوتا جو ارادہ اور فہم اور مصلحت اور اعتدال کی رعایت کر سکتے ہیں اور ہمارا تمام کاروبار زندگی اور بقا اور ضرورات معاشرت کا صاف ایسی چیزوں پر چھوڑا جاتا جو نہ شعور رکھتے ہیں نہ اور اک اور نہ مصلحت وقت کو پہچان سکتے ہیں اور نہ اپنے کاموں کو افراط اور تفریط سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ نیک انسان اور بد انسان میں فرق کر کے ہریک کے ساتھ اس کے مناسب حال معاملہ کر سکتے ہیں تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا اور صانع حکیم وقدیر و عادل و رحیم و کریم کا کچھ پتہ نہ لگتا بلکہ یہ سلسلہ ذی روحوں کی حیات کا جو زمین پر بستی ہیں ایک دم بھی چل نہ سکتا اور دنیا مع اپنے تمام لوازم کے اپنے خاتمہ کے صدمہ کو دیکھ لیتی.پس اس سے صاف تر اور صریح تر اور روشن تر اور کیا دلیل ہوگی کہ اس آسمانی اور کائنات الحجو کے سلسلہ میں وہ گڑ بڑ اور اندھیر نظر نہیں آتا جو اس صورت میں ہوتا جب کہ تمام مدار اس نظام کا بے جان اور بے شعور چیزوں پر ہوتا سو ہمیں اس دلیل کی روشنی ملائک کے وجود اور ان کی ضرورت کے ماننے کے لئے ایسی بصیرت بخشتی ہے کہ گویا ہم بچشم خود ملائک کے وجود کو دیکھ رہے ہیں.اور اگر کوئی اس جگہ یہ شبہ پیش کرے کہ کیوں یہ بات روا نہیں کہ ملائک درمیان نہ ہوں اور ہر یک چیز خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن اور تدبیر محکم سے وہی خدمت بجالا وے جو اللہ جل شانہ کا منشا ہے تو ایسا شبہ در حقیقت غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوگا کیونکہ ہم ابھی پہلے اس سے لکھ چکے ہیں کہ یہ بات ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ اجرام علوی اور عناصر اور کائنات الجو جو ہماری بقا اور حیات اور معاشرت کے خادم ٹھہرائے گئے ہیں علم اور شعور اور ارادہ نہیں رکھتے پس صرف انہیں کے تغیرات اور حوادث سے وہ کام اور وہ اغراض اور وہ مقاصد ہمارے لئے حاصل ہو جانا جو صرف عاقلانہ وزن اور تعدیل اور تدبیر اور مصلحت اندیشی سے صادر ہو سکتے اور من ہیں بہداہت ممتنع ہے.خدا تعالیٰ جس چیز سے کوئی کام لینا چاہتا ہے اوّل اس کام کے متعلق جس قدر مصالح ہیں ان تمام مصالح کے مناسب حال اس چیز میں قومی رکھ دیتا ہے.مثلاً ایک فعل خدا تعالیٰ کا بارش ہے جس کے انواع اقسام کے اغراض کے لئے ہمیں ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کے موافق کبھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۱ سورة البقرة اس بارش کو عین وقتوں پر نازل کرتا ہے اور افراط تفریط کے نقصانوں سے ہمارے کھیتوں اور ہماری صحتوں کو بچا لیتا ہے اور کبھی دنیا پر کوئی تنبیہ نازل کرنا منظور ہوتا ہے تو بارش کوجس ملک سے چاہے روک لیتا ہے یا اس میں افراط تفریط رکھ دیتا ہے کبھی ایک ملک یا ایک شہر یا ایک گاؤں یا ایک قطعہ زمین کو بعض آدمیوں کو سزا دینے کے لئے اس بارش کے نفع سے بھی محروم کر دیتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے فقط اسی قدر بادل کو آسمان کی فضا میں پھیلاتا ہے یہاں تک کہ ایک کھیت میں بارش برستی ہے اور ایک دوسرا کھیت جو اسی کے ساتھ ملحق ہے اس بارش کے ایک قطرہ سے بھی بہرہ یاب نہیں ہوتا اور خشک اور دھوپ میں سڑا ہوا رہ جاتا ہے.ایسا ہی بھی ایک ہوا کا بگڑ نا ایک شہر یا ایک اقلیم یا ایک محلہ کوسخت و با میں ڈالتا ہے اور دوسری طرف کو بکلی بچالیتا ہے اسی طرح ہم ہزار باد قیق در دقیق ربانی مصالح دیکھتے ہیں.جن کو ہم بے شعور عناصر اور اجرام کی طرف ہرگز منسوب نہیں کر سکتے اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ ایسے مصالح سے بھرے ہوئے کام صرف بے جان اور بے شعور اور بے تد بیر اجرام اور عناصر اور دوسری کا ئنات الحجو سے ہرگز نہیں ہو سکتے.بے شک خدا تعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ ان چیزوں سے یہ سب کام لے لیتا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو اول ان چیزوں کو فہم اور ادراک اور شعور اور وضع اللي في محل کی عقل بخشا اور جب کہ یہ ثابت نہیں تو پھر ضرورتا یہ ثابت ہے کہ ان کے ساتھ در پردہ اور چیزیں ہیں جن کو وضع الشيء في محلہ کی عقل دی گئی ہے اور وہی ملائک ہیں.میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتا ہے اور اس کو رحیم اور کریم اور مرتبہ اور عادل سمجھتا ہے وہ ہرگز ایسا خیال نہیں کرے گا کہ اس حکیم و کریم نے اپنی ربوبیت کے نظام کا تمام کارخانہ ایسی چیزوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے جن کو نیک و بد کی شناخت عطا نہیں ہوئی اور تدابیر اور تعدیل اور مصلحت شناسی کی قوتیں بخشی نہیں گئیں.ہاں ایک طبعی اور دہری جو خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی منکر ہے ضرور ایسا خیال کرے گا مگر وہ ساتھ ہی غفلت کی وجہ سے یہ بھی کہے گا کہ جو کچھ اجرام سماوی یا عناصر اور کائنات الحق سے ظہور میں آ رہا ہے وہ بر وفق حکمت اور مصلحت نہیں ہے اور نہ خدا موجود ہے تا اس کو حکمت اور مصلحت سے کام کرنے والا مان لیا جائے بلکہ اتفاقاً اجرام علوی اور سفلی کے حوادث اور تغیرات سے کبھی خیر اور کبھی شر انسانوں کے لئے پیش آجاتی ہے.سو اس کے قائل کرنے کے لئے الگ طریق ہے جو بہت صاف اور جلد اس کا منہ بند کرنے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے زبردست کام اور پیشگوئیاں جو ر بانی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں جو ملہموں اور واصلان الہی کو دی جاتی ہیں اللہ جل شانہ کے وجود اور اس کی صفات کا ملہ جمیلہ جلیلہ پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۲ سورة البقرة دلالت قویہ قطعیہ یقینیہ رکھتی ہیں لیکن افسوس کہ دنیا میں صدق دل سے خدا تعالیٰ کو طلب کر نے والے اور اس کی معرفت کی راہوں کے بھوکے اور پیاسے بہت کم ہیں اور اکثر ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے جو پکارنے والے کی آواز نہیں سنتے اور بلانے والے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور جگانے والے کے شور سے آنکھ نہیں کھولتے.ہم نے اس امر کی تصدیق کرانے کے لئے خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق اور اذن پا کر ہر ایک مخالف کو بلا یا مگر کوئی شخص دل کے صدق اور سچی طلب سے ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا اور اگر کوئی متوجہ ہوتا یا اب بھی ہو تو وہ زندہ خدا جس کی قدرتیں ہمیشہ عقلمندوں کو حیران کرتی رہی ہیں وہ قادر قیوم جو قدیم سے اس جہان کے حکیموں کو شرمندہ اور ذلیل کرتا رہا ہے بلا شبہ آسمانی چمک سے اس پر حجت قائم کرے گا دنیا میں بڑی خرابی جو افعال شنیعہ کا موجب ہو رہی ہے اور آخرت کی طرف سر اٹھانے نہیں دیتی در اصل یہی ہے کہ اکثر لوگوں کو جیسا کہ چاہئے خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں.بعض تو اس زمانہ میں کھلی کھلی ہستی باری تعالیٰ کے ہی منکر ہیں اور بعض اگر چہ زبان سے قائل ہیں مگر ان کے اعمال اور خیال اور ہاتھ اور پیر گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اللہ جل شانہ پر ایمان نہیں رکھتے اور دن رات دنیا کی فکروں میں ایسے لگے ہوئے ہیں کہ مرنا بھی یاد نہیں اس کا بھی یہی سبب ہے کہ اکثر دلوں پر ظلمت چھا گئی ہے اور نور معرفت کا ایک ذرا دلوں میں باقی نہیں رہا.اب واضح ہو کہ ہم ملائک کی ضرورت وجود کا ثبوت بنگلی دے چکے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جو اپنے تنزہ اور تقدس میں ہر یک برتر سے برتر ہے اپنی تدنیات اور تجلیات میں مظاہر مناسبہ سے کام لیتا ہے اور چونکہ جسم اور جسمانی چیزیں اپنے ذاتی خواص اور اپنی ہستی کی کامل تقیدات سے مقید ہو کر اور بمقابل ہستی اور وجود باری اپنا نام ہست اور موجود ر کھا کر اور اپنے ارادوں یا اپنے طبعی افعال سے اختصاص پا کر اور ایک مستقل وجود جامع ہو یت نفس اور مانع ہویت غیر بن کر ذات علت العلل اور فیاض مطلق سے دور جا پڑے ہیں اور ان کے وجود کے گردا گرد اپنی ہستی اور انانیت کا اور مخلوقیت کا ایک بہت ہی موٹا حجاب ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں رہیں کہ ذات احدیت کے وہ فیضان براہ راست ان پر نازل ہوسکیں جو صرف اس صورت میں نازل ہو سکتے ہیں کہ جب تُجب مذکورہ بالا درمیان نہ ہوں اور ایک ایسی ہستی ہو جو بنگلی نیستی کے مشابہ ہو کیونکہ ان تمام چیزوں کی ہستی نیستی کے مشابہ نہیں ہر ایک چیز اس قسم کی مخلوقات میں سے بزبانِ حال اپنی ہستی کا بڑے زور وشور سے اقرار کر رہی ہے آفتاب کہہ رہا ہے کہ میں وہ ہوں جس پر تمام گرمی و سردی و روشنی کا مدار ہے جو ۳۶۵ صورتوں میں تین سو پینسٹھ قسم کی تاثیریں دنیا میں ڈالتا ہے اور اپنی شعاعوں کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ سورة البقرة مقابلہ سے گرمی اور اپنی انحراف شعاعوں سے سردی پیدا کرتا ہے اور اجسام اور اجسام کے مواد اور اجسام کی شکلوں اور حواس پر اپنی حکومت رکھتا ہے.زمین کہہ رہی ہے کہ میں وہ ہوں کہ جس پر ہزار ہا ملک آباد ہیں اور جو طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی اور طرح طرح کے جواہر اپنے اندر طیار کرتی اور آسمانی تا ثیرات کو عورت کی طرح قبول کرتی ہے.آگ بزبانِ حال کہہ رہی ہے کہ میں ایک جلانے والی چیز ہوں اور بالخاصیت قوت اور احتراق میرے اندر ہے اور اندھیرے میں قائم مقام آفتاب ہوں اسی طرح زمین کی ہر ایک چیز بزبان حال اپنی شنا کر رہی ہے مثلاً سنا کہتی ہے کہ میں دوسرے درجہ کے آخری حصہ میں گرم اور اول درجہ میں خشک اور بلغم اور سودا اور صفرا اور اخلاط سوختہ کا مسہل ہوں اور دماغ کی منتقی ہوں.اور صرع اور شقیقہ اور جنون اور صداع کهنه و درد پهلو وضیق النفس وقولنج و عرق النساء ولنقرس و تشنج عضل وداء الثعلب وداء الحیہ اور حکمہ اور جرب اور جور کہنہ اور اوجاع مفاصل باغمی و صفراوی مخلوط با ہم اور تمام امراض سوداوی کو نافع ہوں اور ریوند بول رہی ہے کہ میں مرکب القوی ہوں اور دوسرے درجہ کی پہلے مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور بالعرض مبر د بھی بوجہ شدت تحلیل ہوں اور رطوبات فضلیہ اپنے اندر رکھتی ہوں مجقف ہوں قابض ہوں جالی ہوں اور منصبح اور منقطع موادلز جہ ہوں اور سموم باردہ کا تریاق ہوں خاص کر عقرب کے لئے اور اخلاط غلیظہ اور رقیقہ کا مسہل ہوں اور حیض اور بول کی مدر ہوں اور جگر کو قوت دیتی ہوں اور اس کے اور نیز طحال اور امعاء کے سدے کھولتی ہوں اور ریحوں کو تحلیل کرتی ہوں اور پرانی کھانسی کو مفید ہوں اور ضیق النفس اور سل اور قر حدر یہ وامعاء اور استقاء کی تمام قسموں اور یرقان سدی اور اسہال سدی اور ماساریقا اور وسطا ر یا اور تحلیل نفخ اور ریاح اور اور ام باردہ ریا اورکی اور اور اورام احتشاد تخمه ومخص و بواسیر ونو اسیر وتپ ربع کو مفید ہوں.اور جدوار کہتی ہے کہ میں تیسرے درجہ کے اوّل مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور حرارت غریزی سے بہت ہی مناسبت رکھتی ہوں اور مفرح اور مقوی قومی اور اعضاء رئیسہ دل اور دماغ اور کبد ہوں اور احشاء کی تقویت کرتی ہوں اور تمام گرم اور سرد زہروں کا تریاق ہوں.اور اسی وجہ سے زرنباد اور مشک اور زنجبیل کا قلیل حصہ اپنے ساتھ ملا کر تیز اب گوگرد اور آب قا قلہ سفید اور آب پودینہ اور آب بادیان کے ساتھ ہیضہ و ہائی کو باذن اللہ بہت مفید ہوں اور مسکن اوجاع اور مقوی باصرہ ہوں اور تفقیت حصاۃ اور قلع قولنج وعسر البول و رفع چپ ربع میں نفع رکھتی ہوں اور بقدر نیم مثقال گزیدہ مار اور عقرب کے لئے بہت ہی فائدہ مند ہوں یہاں تک کہ عقرب جرارہ کی بھی زہر دور کرتی ہوں اور بید مشک اور عرق نیلوفر کے ساتھ دل کے ضعف کو بہت جلد نفع پہنچاتی ہوں اور کم ہوتی ہوئی نبض کو تھام لیتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ سورة البقرة ہوں اور گلاب کے ساتھ وجع مفاصل کو مفید ہوں اور سنگ گردہ اور مثانہ کو نافع ہوں اگر بول بند ہو جائے تو شیر تخم خیارین کے ساتھ جلد اس کو کھول دیتی ہوں اور قولنج ریحی کو مفید ہوں اور اگر بچہ پیدا ہونے میں مشکل پیش آ جائے تو آب عنب الثعلب یا حلبہ یا شیرہ خارخسک کے ساتھ صرف دو دانگ پلانے سے وضع حمل کرا دیتی ہوں اور ائم العصیان اور اکثر امراض دماغی اور اعصابی کو مفید ہوں اور اورام مغابن یعنی پس گوش اور زیر بغل اور بین ران اور خناق اور خنازیر اور تمام اور ام گلو کو نفع پہنچاتی ہوں اور طاعون کے لئے مفید ہوں اور سرکہ کے ساتھ پلکوں کے ورم کو نفع دیتی ہوں اور دانتوں پر ملنے سے ان کے اس درد کو دور کر دیتی ہوں جو بوجہ مادہ بارده ہو اور بواسیر پر ملنے سے اس کی درد کو ساکن کر دیتی ہوں اور آنکھ میں چکانے سے رعد بارد کو دور کر دیتی ہوں اور اصلیل میں چکانے سے نافع حبس البول ہوں اور مشک وغیرہ ادویہ مناسبہ کے ساتھ باہ کیلئے سخت مؤثر ہوں اور صرع اور سکتہ اور فالج اور لقوہ اور استرخاء اور رعشہ اور خدا اور اس قسم کی تمام امراض کو نافع ہوں اور اعصاب اور دماغ کے لئے ایک اکسیر ہوں اور اگر میں نہ ملوں تو اکثر باتوں میں زرنباد میرا قائم مقام ہے.اورا ا غرض یہ تمام چیزیں بزبانِ حال اپنی اپنی تعریف کر رہی ہیں اور مجوب بانفسہا ہیں یعنی اپنے خواص کے پردہ میں مجوب ہیں اس لئے مہدہ فیض سے دور پڑ گئی ہیں اور بغیر ایسی چیزوں کے توسط کے جو ان حجابوں سے منزہ ہوں مبدء فیض کا کوئی ارادہ ان سے تعلق نہیں پکڑ سکتا کیونکہ حجاب اس فیض سے مانع ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ اس کی ارادات کا مظہر اول بننے کے لئے ایک ایسی مخلوق ہو جو محجوب بنفسہ نہ ہو بلکہ اس کی ایک ایسی نرالی خلقت ہو جو برخلاف اور چیزوں کے اپنی فطرت سے ہی ایسی واقع ہو کہ نفس حاجب سے خالی اور خدا تعالیٰ کے لئے اس کے جوارح کی طرح ہو.اور خدا تعالیٰ کے جمیع ارادات کے موافق جو مخلوق اور مخلوق کے کل عوارض سے تعلق رکھتے ہیں اس کی تعداد ہو اور وہ نرالی پیدائش کی چیزیں مرا یا صافیہ کی طرح اپنی فطرت رکھ کر ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے وجود میں ذو جہتین ہوں.ایک جہت تجر د اور تنزہ کی جو اپنے وجود میں وہ نہایت الطف اور منزہ عن الحجب ہوں جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوق سے نرالی اور خدا تعالیٰ کے وجود سے ظلی طور پر مشابہت تامہ رکھتے ہوں اور محجوب بانفسہا نہ ہوں.دوسری جہت مخلوقیت کی جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے مناسبت رکھیں اور اپنی تاثیرات کے ساتھ ان سے نزدیک ہوسکیں.سوخدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے اس عجیب مخلوق کا وجود ہو گیا جس کو ملائک کہتے ہیں.یہ ملائک ایسے فنا فی طاعت اللہ ہیں کہ اپنا ارادہ اور فیشن اور توجہ اور اپنے ذاتی قومی یعنی یہ کہ اپنے نفس سے کسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة البقرة پر مہربان ہونا یا اس سے ناراض ہو جانا اور اپنے نفس سے ایک بات کو چاہنا یا اس سے کراہت کرنا کچھ بھی نہیں رکھتے بلکہ بکلی جوارح الحق کی طرح ہیں.خدا تعالیٰ کے تمام ارادے اول انہیں کے مرا یا صافیہ میں منعکس ہوتے ہیں اور پھر ان کے توسط سے کل مخلوقات میں پھیلتے ہیں چونکہ خدا تعالی بوجہ اپنے مقدس نام کے نہایت تجرد اور تنڑہ میں ہے اس لئے وہ چیزیں جو انانیت اور ہستی مجو بہ کی کثافت سے خالی نہیں اور مجوب بانفسہا ہیں اس میدہ فیض سے کچھ مناسبت نہیں رکھتیں اور اسی وجہ سے ایسی چیزوں کی ضرورت پڑی جو مِن وَجْهِ خدا تعالیٰ سے مناسبت رکھتی ہوں اور من وجہ اس کی مخلوق سے تا اس طرف فیضان حاصل کریں اور اس طرف پہنچادیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود اور قیام اور حرکت اور سکون اور اپنے تغیرات ظاہری اور باطنی اور اپنے ہر ایک خاصہ کے اظہار اور اپنے ہر ایک عرض کے اخذ یا ترک میں مستقل بالذات نہیں بلکہ اس ایک ہی حتی و قیوم کے سہارے سے یہ تمام کام مخلوق کے چلتے ہیں اور بظاہر اگر چہ یہی نظر آتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں کسی غیبی مدد کے محتاج نہیں جب چاہیں حرکت کر سکتے ہیں اور جب چاہیں ٹھہر سکتے ہیں اور جب چاہیں بول سکتے ہیں اور جب چاہیں چپ کر سکتے ہیں.لیکن ایک عارفانہ نظر کے ساتھ ضرور کھل جائے گا کہ ہم اپنی ان تمام حرکات و سکنات اور سب کاموں میں غیبی مدد کے ضرور محتاج ہیں اور خدا تعالیٰ کی قیومیت ہمارے نطفہ میں، ہمارے علقہ میں، ہمارے مضغہ میں، ہمارے جنین میں اور ہماری ہر یک حرکت میں اور سکون میں اور قول میں اور فعل میں غرض ہماری تمام مخلوقیت کے لوازم میں کام کرتی ہے مگر وہ قیومیت بو جہ ہمارے محجوب بانفسنا ہونے کے براہِ راست ہم پر نازل نہیں ہوتی کیونکہ ہم میں اور اس ذات الطف اللطائف اور اعلیٰ اور اغنی اور نور الانوار میں کوئی مناسبت درمیان نہیں کیونکہ ہر ایک چیز ہم میں سے خواہ وہ جاندار ہے یا بے جان محجوب بنفسہ اور ساحت قدسیہ تنزّہ سے بہت دور ہے اس لئے خدا تعالیٰ میں اور ہم میں ملائک کا وجود اسی طرح ضروری ہوا جیسا کہ نفس ناطقہ اور بدن انسان میں قوائے روحانیہ اور حسیہ کا توسط ضروری ٹھہرا کیونکہ نفس ناطقہ نہایت تجرد اور لطافت میں تھا اور بدن انسان محجوب بنفسہ اور کثافت اور ظلمت میں پڑا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان میں قومی روحانیہ اور حسیہ کو ذو جہتین پیدا کیا تا وہ قومی نفس ناطقہ سے فیضان قبول کر کے تمام جسم کو اس سے متاذب اور مہذب کریں.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۶ تا ۱۷۳ حاشیه ) ملائک کی نسبت جو اجرام علوی اور اجسام سفلی کی طرف ہے وہ در حقیقت ایسی ہی ہے جیسے قومی روحانیہ اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ سورة البقرة حسیہ کی نسبت بدن انسان کی طرف ہے کیونکہ جیسا کہ نفس ناطقہ انسان کا بدن انسان کی تدبیر بتوسط قومی روحانیہ اور حسیہ کے کرتا ہے ایسا ہی قیوم العالم جو تمام عالم کے بقا اور قیام کے لئے نفس مدیرہ کی طرح اور بحکم آیت الله نُورُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۶) ان کی حیات کا نور ہے.تد بیر عالم کبیر کی بواسطہ ملائک کے فرماتا ہے اور ہمیں اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں کہ جو کچھ عالم صغیر میں ذات واحد لاشریک کا نظام ثابت ہوا ہے اس کے مشابہ عالم کبیر کا بھی نظام ہے کیونکہ یہ دونوں عالم ایک ہی ذات سے صادر ہیں اور اس ذات واحد لاشریک کا یہی تقاضا ہونا چاہئے کہ دونوں نظام ایک ہی شکل اور طرز پر واقع ہوں تا دونوں مل کر ایک ہی خالق اور صانع پر دلالت کریں کیونکہ توحید فی النظام، توحید باری عزاسمہ کے مسئلہ کو مؤیّد ہے.وجہ یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کئی خالق ہوتے تو اس نظام میں اختلاف کثیر پایا جاتا.غرض یہ بات نہایت سیدھی اور صاف ہے کہ ملائک اللہ عالم کبیر کے لئے ایسے ہی ضروری ہیں جیسے قومی روحانیہ وحسیہ نشاء انسانیہ کے لئے جو عالم صغیر ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷،۱۷۶ حاشیہ ) صرف ہمارے قومی ہماری انسانیت کی گل چلانے کے لئے کافی نہیں ہیں.ضرور ہمیں خارجی ممد وں اور معاونوں کی حاجت ہے مگر قانونِ قدرت ہمیں بتلا رہا ہے کہ وہ خارجی ممدو معاون اگر چہ بلحاظ علت العلل ہونے کے خدائے تعالیٰ ہی ہے مگر اُس کا یہ انتظام ہر گز نہیں ہے کہ وہ بلا توسط ہمارے قومی اور اجسام پر اثر ڈالتا ہے بلکہ جہاں تک ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں اور جس قدر ہم اپنے فکر اور ذہن اور سوچ سے کام لیتے ہیں صریح اور صاف اور بدیہی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر یک فیضان کے لئے ہم میں اور ہمارے خدا وند کریم میں علیل متوسطہ ہیں جن کے توسط سے ہر یک قوت اپنی حاجت کے موافق فیضان پاتی ہے.پس اسی دلیل سے ملائک اور جنات کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خیر اور شر کے اکتساب میں صرف ہمارے ہی قومی کافی نہیں بلکہ خارجی مدات اور معاونات کی ضرورت ہے جو خارقِ عادت اثر رکھتے ہوں مگر وہ مُمد اور معاون خدا تعالی براہ راست اور بلا توسط نہیں بلکہ بتوسط بعض اسباب ہے.سو قانون قدرت کے ملاحظہ نے قطعی اور یقینی طور پر ہم پر کھول دیا کہ وہ میذات اور معاونات خارج میں موجود ہیں گو ان کی گنہ اور کیفیت ہم کو معلوم ہو یا نہ مگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ نہ براہ راست خدا تعالیٰ ہے اور نہ ہماری ہی قوتیں اور ہمارے ہی ملکے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قسموں سے الگ ایسی مخلوق چیزیں ہیں جو ایک مستقل وجود اپنا رکھتی ہیں اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الخیر رکھیں گے تو اسی کو ہم روح
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة البقرة.القدس یا جبرائیل کہیں گے اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الشر رکھیں گے تو اسی کو ہم شیطان اور ابلیس کے نام سے بھی موسوم کریں گے.یہ تو ضرور نہیں کہ ہم روح القدس یا شیطان ہر یک تاریک دل کو دکھلا دیں اگر چہ عارف ان کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور کشفی مشاہدات سے وہ دونوں نظر بھی آ جاتے ہیں مگر مجوب کے لئے جو ابھی نہ شیطان کو دیکھ سکتا ہے نہ روح القدس کو یہ ثبوت کافی ہے کیونکہ متاثر کے وجود سے موثر کا وجود ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی کیوں کر پتہ لگ سکتا ہے.کیا کوئی دکھلا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ صرف متاثرات کی طرف دیکھ کر جو اس کی قدرت کے نمونے ہیں اس مؤثر حقیقی کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے.ہاں عارف اپنے انتہائی مقام پر روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی باتوں کو بھی سنتے ہیں مگر محجوب کے لئے بجز اس کے اور استدلال کا طریق کیا ہے کہ متاثرات کو دیکھ کر اس مؤثر حقیقی کے وجود پر ایمان لاوے.سواسی طریق سے روح القدس اور شیاطین کا وجود ثابت ہوتا ہے اور نہ صرف ثابت ہوتا ہے بلکہ نہایت صفائی سے نظر آ جاتا ہے افسوس ان لوگوں کی حالت پر جو فلسفہ باطلہ کی ظلمت سے متاثر ہو کر ملائک اور شیاطین کے وجود سے انکار کر بیٹھے ہیں اور بینات اور نصوص صریحہ قرآن کریم سے انکار کر دیا اور نادانی سے بھرے ہوئے الحاد کے گڑھے میں گر پڑے.اور اس جگہ واضح رہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے اثبات کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۵ تا ۸۹) واضح ہو کہ یہ خیال کہ فرشتے کیوں نظر نہیں آتے بالکل عبث ہے فرشتے خدا تعالیٰ کے وجود کی طرح نہایت لطیف وجود رکھتے ہیں پس کس طرح ان آنکھوں سے نظر آویں کیا خدا تعالیٰ جس کا وجود ان فلسفیوں کے نزدیک بھی مسلم ہے ان فانی آنکھوں سے نظر آتا ہے.ماسوا اس کے یہ بات بھی درست نہیں کہ کسی طرح نظر ہی نہیں آ سکتے کیونکہ عارف لوگ اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے جوا کثر بیداری میں ہوتے ہیں فرشتوں کو روحانی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں اور کئی علوم ان سے اخذ کرتے ہیں اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو مفتری کذاب کو بغیر ذلیل اور معذب کرنے سے نہیں چھوڑتا کہ میں اس بیان میں صادق ہوں کہ بار ہا عالم کشف میں میں نے ملائک کو دیکھا ہے اور ان سے بعض علوم اخذ کئے ہیں اور ان سے گذشتہ یا آنے والی خبریں معلوم کی ہیں جو مطابق واقعہ تھیں پھر میں کیونکر کہوں کہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آسکتے بلاشبہ نظر آسکتے ہیں مگر اور آنکھوں سے.اور جیسے یہ لوگ ان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة البقرة باتوں پر ہنستے ہیں عارف ان کی حالتوں پر روتے ہیں.اگر صحبت میں رہیں تو کشفی طریقوں سے مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن مشکل تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی کھوپڑی میں ایک قسم کا تکبر ہوتا ہے.وہ تکبر انہیں اس قدر بھی اجازت نہیں دیتا کہ انکسار اور تذلل اختیار کر کے طالب حق بن کر حاضر ہو جائیں.اور یہ خیالات کہ ہمیں فرشتوں کے کاموں کا کیوں کچھ احساس نہیں ہوتا.دراصل پہلے اعتراض کی ایک فرع ہیں.محجوب ہونے کی حالت میں جیسے فرشتے نظر نہیں آتے اور جیسے خدا تعالیٰ کا بھی کچھ پتہ نہیں لگتا صرف اپنے خیالات پر سارا مدار ہوتا ہے.ایسا ہی فرشتوں کے کاموں کا بھی جو روحانی ہیں کچھ احساس نہیں ہوتا.اس جگہ یہی مشکل ٹھیک آتی ہے کہ ایک اندھے نے آفتاب کے وجود کا انکار کر دیا تھا کہ ٹولنے سے اس کا کچھ پتہ نہیں ملتا تب آفتاب نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اے اندھے ! میں ٹٹولنے سے معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ تیرے ہاتھوں سے بہت دور ہوں تو یہ دعا کر کہ خدا تعالیٰ تجھ کو آنکھیں بخشے تب تو آنکھوں کے ذریعہ سے مجھے دیکھ لے گا.اور یہ خیال کہ اگر مد برات اور مقسمات امر فرشتے ہیں تو پھر ہماری تدبیریں کیوں پیش جاتی ہیں اور کیوں اکثر امور ہمارے معالجات اور تد بیرات سے ہماری مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ ہمارے معالجات اور تد بیرات بھی فرشتوں کے دخل اور القاء اور الہام سے خالی نہیں ہیں جس کام کو فر شتے باذنہ تعالیٰ کرتے ہیں وہ کام اس شخص یا اس چیز سے لیتے ہیں جس میں فرشتوں کی تحریکات کے اثر کو قبول کرنے کا فطرتی مادہ ہے مثلاً فرشتے جو ایک کھیت یا ایک گاؤں یا ایک ملک میں باذنہ تعالیٰ پانی برسانا چاہتے ہیں تو وہ آپ تو پانی نہیں بن سکتے اور نہ آگ سے پانی کا کام لے سکتے ہیں بلکہ بادل کو اپنی تحریکات جاذبہ سے محل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں اور مدبرات امر بن کر جس کم اور گیف اور حد اور اندازہ تک ارادہ کیا گیا ہے برسا دیتے ہیں.بادل میں وہ تمام قوتیں موجود ہوتی ہیں جو ایک بے جان اور بے ارادہ اور بے شعور چیز میں باعتبار اس کے جمادی حالت اور عصری خاصیت کے ہو سکتے ہیں اور فرشتوں کی منصبی خدمت دراصل تقسیم اور تدبیر ہوتی ہے اسی لئے وہ مقسمات اور مدبرات کہلاتے ہیں اور القاء اور الہام بھی جوفرشتے کرتے ہیں وہ بھی برعایت فطرت ہی ہوتا ہے مثلاً وہ الہام جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر وہ نازل کرتے ہیں دوسروں پر نہیں کر سکتے بلکہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور اسی قاعدہ کے موافق ہر ایک شخص اپنے انداز و استعداد پر فرشتوں کے الفا سے فیض یاب ہوتا ہے اور جس فن یا علم کی طرف کسی کا روئے خیال ہے اسی میں فرشتہ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹ سورة البقرة مدد پاتا ہے مثلاً جب اللہ جل شانہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی دوا سے کسی کو دست آویں تو طبیب کے دل میں فرشتہ ڈال دیتا ہے کہ فلاں مسہل کی دوا اس کو کھلا دو تب وہ تربد یا خیار شیر* یا شیر خشت یا سقمونیا یا سنا یا کسٹرائل یا کوئی اور چیز جیسے دل میں ڈالا گیا ہو اس بیمار کو بتلا دیتا ہے اور پھر فرشتوں کی تائید سے اس دوا کو طبیعت قبول کر لیتی ہے.تے نہیں آتی تب فرشتے اس دوا پر اپنا اثر ڈال کر بدن میں اس کی تاثیرات پہنچاتے ہیں اور مادہ موذیہ کا اخراج باذنہ تعالیٰ شروع ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے نہایت حکمت اور قدرت کاملہ سے سلسلہ ظاہری علوم و فنون کو بھی ضائع ہونے نہیں دیا اور اپنی خدائی کے تصرفات اور دائمی قبضہ کو بھی معطل نہیں رکھا اور اگر خدا تعالیٰ کا اس قدر دقیق در دقیق تصرف اپنی مخلوق کے عوارض اور اس کی بقا اور فنا پر نہ ہوتا تو وہ ہرگز خدا نہ ٹھہر سکتا اور نہ تو حید درست ہو سکتی.ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عالم میں نہیں چاہا کہ یہ تمام اسرار عام نظروں میں بدیہی ٹھہر جاویں کیونکہ اگر یہ بدیہی ہوتے تو پھر ان پر ایمان لانے کا کچھ بھی ثواب نہ ہوتا مثلاً اگر لوگ خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور اس کے فرشتوں کا مشاہدہ کر لیتے تو پھر یہ معلومات بھی ان تمام معلومات کی مد میں داخل ہو جاتے جو انسان بذریعہ حواس یا تجارب حاصل کرتا ہے اس صورت میں ان امور کا ماننا موجب نجات نہ ٹھہر سکتا جیسا کہ اور دوسرے صدہا امور معلومہ کا ماننا موجب نجات نہیں ہے مثلاً ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ در حقیقت سورج اور چاند موجود ہیں اور زمین پر صد ہا قسم کے جانور ،صد باقسم کی بوٹیاں،صد باقسم کی کانیں اور دریا اور پہاڑ موجود ہیں مگر کیا اس ماننے سے ہمیں کوئی ثواب حاصل ہوگا یا ہم ان چیزوں کا وجود قبول کرنے سے خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے؟ ہر گز نہیں! پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جو شخص خدا جو شخص خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو مانتا ہے بہشت اور دوزخ کے وجود پر ایمان لاتا ہے اور قیامت میں میزان عمل کو قبول کرتا ہے قیامت کی پل صراط پر صدق دل سے یقین رکھتا ہے اور اس حقیقت کو مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کتابیں ہیں جو دنیا میں نازل ہوئی ہیں اور اس کے رسول بھی ہیں جو دنیا میں آئے ہیں اور اس کی طرف سے حشر اجسام بھی ہے جو ایک دن ہوگا اور خدا بھی موجود ہے جو درحقیقت واحد لاشریک ہے تو وہ شخص عند اللہ قابل نجات ٹھہر جاتا ہے پیارو!! یقیناً سمجھو کہ اس کی یہی وجہ ہے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ پر جو هنوز در پردہ غیب ہے ایمان لاتا ہے اور اس کی کتاب کے اخبر غیبیہ کو بھی سمجھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک راست باز اور نیک خیال اور نیک ظن اور فرمانبردار ٹھہرتا ہے تب اس صدق کی برکت سے بخشا جاتا ہے ورنہ مجر دمعلومات کو نجات سے تعلق ہی کیا ہے؟ کیا اگر کوئی روز قیامت میں کل حجابوں کے رفع کے بعد یہ کہے کہ سہو کا اب ہے صحیح شہر ہے (شمس)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة البقرة یہ بہشت اور دوزخ جو سامنے نظر آ رہا ہے اور یہ ملائک جو صف باندھے کھڑے ہیں اور یہ میزان جس سے عمل خل رہے ہیں اور یہ رب العالمین جو عدالت کر رہا ہے.ان سب باتوں پر اب میں ایمان لایا تو کیا ایسے ایمان سے وہ رہا ہو جائے گا ؟ ہر گز نہیں.پس اگر رہا نہیں ہوگا تو اس کا سبب کیا ہے؟ کیا اس کا یہ سبب نہیں کہ اس وقت اس نے ان تمام چیزوں کو دیکھ لیا ہے جو پہلے اس سے پردہ غیب میں تھیں اس لئے وہ موقعہ ثواب کا ہاتھ سے جاتا رہا جو صرف اسی شخص کو مل سکتا ہے جو ان بدیہی ثبوتوں سے بے خبر ہو اور محض قرائن دقیقہ سے استنباط کر کے بات کی اصلیت تک پہنچ گیا ہو.سو افسوس کہ وہ لوگ جو فلسفہ پر مرے جاتے ہیں ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس بات کو نہیں سوچتے کہ اگر علم ذات باری اور علم وجود ملائک اور علم حشر اجسام اور علم جنت و جہنم اور علم نبوت اور رسالت ایسے مانجے جاتے اور صاف کئے جاتے اور بدیہی طور پر دکھلائے جاتے کہ جیسے علوم ہندسہ و حساب اور بعض حصے علوم طبعی اور طبابت اور ہیئت صاف کئے گئے ہیں تو پھر ایسے علوم بدیہہ ضرور یہ کونجات انسانی سے تعلق ہی کیا تھا جب کہ نجات کی یہ حقیقت ہے کہ وہ اللہ جل شانہ کا محبت اور پیار سے بھرا ہوا ایک فضل ہے جو راست بازوں اور صادقوں اور سچے ایمانداروں اور کامل وفاداروں اور اخبار ظنیہ کے ماننے والوں کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر علوم بدیہہ ضرور یہ کا ماننا کس راست بازی اور صدق اور صفا کو ثابت کر سکتا ہے؟ ہم صریح دیکھتے ہیں کہ جیسے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ چار کا نصف دو ہیں ایسا ہی ایک اول درجہ کا بدمعاش بھی اسی بات کا قائل ہوتا ہے ہم دنیا میں ہزار ہا بلکہ کروڑہا چیزوں کو یقینی اور قطعی طور پر مانتے ہیں اور ان کے وجود میں ذرہ شک نہیں کرتے تو کیا ان کے ماننے سے کوئی ثواب ہمیں مل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشانوں کو بھی ایسے بدیہی طور سے اپنے نبیوں کے ذریعہ سے ظاہر نہیں کیا جیسے ہمیشہ سے دنیا کے جاہل لوگ تقاضا کر رہے ہیں بلکہ جن کی استعدادوں پر پردہ تھا ان پر ابتلا کا پردہ بھی ڈال دیا جیسا کہ یہ ذکر قرآن کریم میں موجود ہے کہ مکہ کے جاہل یہ درخواست کرتے تھے کہ ہم اس شرط پر ایمان لا سکتے ہیں کہ عرب کے تمام مُردے زندہ کئے جائیں یا یہ کہ ہمارے رو برو ایک زمینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہمارے روبرو ہی آسمان سے اُتر و اور کتاب الہی ساتھ لاؤ جس کو ہم ہاتھ میں لے کر پڑھ لیں اور وہ نادان نہیں سمجھتے تھے کہ اگر انکشاف حقیقت اس قدر ہو جائے تو پھر اس عالم اور قیامت میں فرق کیا رہا اور ایسے بدیہی نشانوں کے بعد اس قبول پر ایمان کا لفظ کیونکر اطلاق کریں گے؟ کون شخص ہے جو حقائق بدیہہ بینہ کو قبول نہیں کرتا ؟ غرض فلسفہ والوں کے خیالات کی بنیاد ہی غلط ہے وہ چاہتے ہیں کہ کل ایمانیات کو علوم مشہودہ محسوسہ میں داخل کردیں اور ملائک اور جنت اور جہنم اور خدا تعالیٰ کا وجود ایسا ثابت
۱۳۱ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ہو جائے جیسا کہ آج کل کی تحقیقاتوں سے اکثر معمورہ ارض اور بہت کی نباتات اور کانوں کا پتہ لگ گیا ہے مگر جس چیز کو خدا تعالیٰ نے اوّل روز سے انسان کی نجات کا ایک طریق نکالنے کے لئے ایمانیات میں داخل کر دیا ہے وہ کیونکر برخلاف ارادہ الہی اس درجہ کی ہدایت تک پہنچ جائے ؟ ہاں جب انسان ایمان کے درجہ سے عرفان کے مرتبہ پر ترقی کرتا ہے تو بلا شبہ یہ تمام امور بداہت کے رنگ میں نظر آتے ہیں بلکہ ہندسی ثبوتوں سے بڑھ کر ان کا ثبوت ہوتا ہے کیونکہ ہندی ثبوت اکثر دوائر موہومہ پر مبنی ہیں مگر دینی امور عرفانی مرتبہ میں و ہم اور شک سے منزہ ہوتے ہیں اور دنیا میں جس قدر ایک چیز زیادہ سے زیادہ بدیہی طور پر ثابت ہوسکتی ہے اسی طور پر ان تمام عقائد کا ثبوت مل جاتا ہے بلکہ ایسا اعلیٰ ثبوت کہ کوئی نمونہ اس کا دنیا میں پایا نہیں جاتا مگر کمبخت انسان ان راہوں کی طرف ذرہ رغبت نہیں کرتا اور ان راہوں سے حق الیقین تک پہنچنا چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قدیم قانون قدرت نے وہ راہیں ان امور کے دریافت کے لئے مقرر نہیں کیں اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی کسی شیرینی کو آنکھ پر رکھ کر اس کا میٹھا یا کڑوا ہونا امتحان کرے یا آنکھوں کو بند کر کے کانوں سے دیکھنے کا کام لینا چاہے مگر یادر ہے کہ یہ بات بھی نہیں کہ ایمانی مرتبہ میں خدا تعالیٰ نے ان تمام امور کے تسلیم کرانے میں اپنے بندوں کو صرف تکلیف مالا يطاق دینا چاہا ہے بلکہ ان کی تسلیم کے لئے براہین لطیفہ دیئے ہیں جن پر ایک سلیم العقل نظر غور ڈال کر ایک حصہ وافریقین کا حاصل کرسکتا ہے مثلاً گوایمانی مرتبہ میں خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ایک ایمان بالغیب ہے مگر قرآن کریم کو دیکھو کہ اس صانع کا وجود ثابت کرنے کے لئے کس قدر استدلالات اور براہین شافیہ سے بھرا ہوا ہے.ایسا ہی اگر چہ یہ تو نہیں کہ ہم ملائک کو کسی منکر کے ہاتھ میں پکڑا دیں یا کام کرتے دکھلا دیں لیکن طالب حق کے لئے اس قدر کافی ہے کہ دقیق در دقیق تذبیرات نظام کو دیکھ کر ضرورت ملائکہ اس کی نظر میں ضرور ثابت ہو جائیں گے اور اگر ایسا طالب دہر یہ ہے تو پہلے ہم وجودِ باری کا اس کو ثبوت دیں گے اور پھر اس بات کا ثبوت کہ خدا بجز اس کے ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے حکم اور ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہ سکے اور پھر یہ ثبوت دیں گے کہ جن مصالح دقیقہ کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنا فیضان بذریعہ شمس و قمر و نجوم و ابر و باد وغیرہ کر رہا ہے ان مصالح کے شناخت اور وضع بینی في محلّه کے قومی ہرگز ان چیزوں کو نہیں دیئے گئے جیسا کہ ابھی ہم ثابت کر چکے اور یہ بھی ثابت کر چکے کہ خدا تعالیٰ بغیر وسائط کے کوئی کام نہیں کرتا اور جن کو وسائط ٹھہراتا ہے پہلے ان کو ان کاموں کی مناسب حال قو تیں اور طاقتیں عطا کرتا ہے مثلاً شعور کے کام صاحب شعور سے لیتا ہے اور ارادہ کا کام صاحب ارادہ سے انسان کا کام انسان سے اور حیوان کا کام حیوان سے اور نظر دقیق کا کام نظر دقیق سے پس ان ثبوتوں کے بعد بلاشبہ
۱۳۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملائک کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اور ایمانی امور کے لئے صرف اس قدر ثبوت کی حاجت ہے تا تکلیف مالا يطاق نہ ہو اور نیز ایمان لانے کا ثواب بھی ضائع نہ ہو کیونکہ اگر ملائک کے وجود کا ایسا ثبوت دیا جاتا کہ گویا ان کو پکڑ کر دکھلا دیا جاتا تو پھر ایمان ایمان نہ رہتا اور نجات کی حکمت عملی فوت ہو جاتی.فَافُهُمْ وَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُسْتَعْجِلِينَ - (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۱ تا ۲۱۴ حاشیه ) جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.جو چیز کسی عمدہ جو ہر بننے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگر چہ خاک کا ایک ٹکڑہ ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی تربیت سے لعل اور الماس اور یا قوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے.......قرآن شریف میں جس طرز سے ملائک کا حال بیان کیا ہے وہ نہایت سیدھی اور قریب قیاس راہ ہے اور بجز اس کے ماننے کے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا.قرآن شریف پر بدیدہ تعمق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بلکہ جمیع کا ئنات الارض کی تربیت ظاہری و باطنی کے لئے بعض وسائط کا ہونا ضروری ہے اور بعض بعض اشارات قرآنیہ سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وہ نفوس طبیہ جو ملائک سے موسوم ہیں اُن کے تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ ہیں.بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض بعض اور تاثیرات کو زمین پر اتارنے والے ہیں پس اس میں کچھ شک نہیں کہ بوجہ مناسبت نوری و ہ نفوس طبیبہ ان روشن اور نورانی ستاروں سے تعلق رکھتے ہوں گے کہ جو آسمانوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس تعلق کو ایسا نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جیسے زمین کا ہر یک جاندار اپنے اندر جان رکھتا ہے بلکہ ان نفوس طبیہ کو بوجہ مناسبت اپنی نورانیت اور روشنی کے جو روحانی طور پر انہیں حاصل ہے روشن ستاروں کے ساتھ ایک مجہول الکنہ تعلق ہے اور ایسا شدید تعلق ہے کہ اگر اُن نفوس طبیہ کا ان ستاروں سے الگ ہونا فرض کر لیا جائے تو پھر اُن کے تمام قومی میں فرق پڑ جائے گا.انہیں نفوس کے پوشیدہ ہاتھ کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں اور جیسے خدائے تعالیٰ تمام عالم کے لئے بطور جان کے ہے ایسا ہی ( مگر اس جگہ تشبیه کامل مراد نہیں) وہ نفوس نورانیہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورة البقرة کواکب اور سیارات کے لئے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں اور ان کے جدا ہو جانے سے ان کی حالت وجود یہ میں بکتی فساد راہ پا جانا لازمی وضروری امر ہے اور آج تک کسی نے اس امر میں اختلاف نہیں کیا کہ جس قدر آسمانوں میں سیارات اور کواکب پائے جاتے ہیں وہ کائنات الارض کی تکمیل و تربیت کے لئے ہمیشہ کام میں مشغول ہیں.غرض یہ نہایت بچی ہوئی اور ثبوت کے چرخ پر چڑھی ہوئی صداقت ہے کہ تمام نباتات اور جمادات اور حیوانات پر آسمانی کو اکب کا دن رات اثر پڑ رہا ہے اور جاہل سے جاہل ایک دہقان بھی اس قدر تو ضرور یقین رکھتا ہو گا کہ چاند کی روشنی پھلوں کے موٹا کرنے کے لئے اور سورج کی دھوپ ان کو پکانے اور شیریں کرنے کے لئے اور بعض ہوائیں بکثرت پھل آنے کے لئے بلاشبہ مؤثر ہیں.اب جبکہ ظاہری سلسلہ کا ئنات کا ان چیزوں کی تاثیرات مختلفہ سے تربیت پا رہا ہے تو اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ باطنی سلسلہ پر بھی باز نہ تعالیٰ وہ نفوس نورا نیہ اثر کر رہی ہیں جن کا اجرام نورانیہ سے ایسا شدید تعلق ہے کہ جیسے جان کو جسم سے ہوتا ہے.اب اس کے بعد یہ بھی جاننا چاہیئے کہ اگرچہ بظاہر یہ بات نہایت دور از ادب معلوم ہوتی ہے کہ خدائے تعالیٰ اور اُس کے مقدس نبیوں میں افاضہ : انوار وحی کے لئے کوئی اور واسطہ تجویز کیا جائے لیکن ذرا غور کرنے سے بخوبی سمجھ آ جائے گا کہ اس میں کوئی شوہ ادب کی بات نہیں بلکہ سراسر خدائے تعالیٰ کے اس عام قانونِ قدرت کے مطابق ہے جو دنیا کی ہر یک چیز کے متعلق کھلے کھلے طور پر مشہود ومحسوس ہو رہا ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنے ظاہری جسم اور ظاہری قومی کے لحاظ سے انہیں وسائط کے محتاج ہیں اور نبی کی آنکھ بھی گوکیسی ہی نورانی اور بابرکت آنکھ ہے مگر پھر بھی عوام کی آنکھوں کی طرح آفتاب یا اس کے کسی دوسرے قائم مقام کے بغیر کچھ دیکھ نہیں سکتی اور بغیر توسط ہوا کے کچھ ٹن نہیں سکتے لہذا یہ بات بھی ضروری طور پر مانی پڑتی ہے کہ نبی کی روحانیت پر بھی ان سیارات کے نفوس نورانیہ کا ضرور اثر پڑتا ہوگا بلکہ سب سے زیادہ اثر پڑتا ہوگا کیوں کہ جس قدر استعداد صافی اور کامل ہوتی ہے اسی قدر اثر بھی صافی اور کامل طور پر پڑتا ہے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ سیارات اور کواکب اپنے اپنے قالبوں کے متعلق ایک ایک روح رکھتے ہیں جن کو نفوس کو اکب سے بھی نامزد کر سکتے ہیں اور جیسے کو کب اور سیاروں میں باعتبار ان کے قالبوں کے طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں جو زمین کی ہر یک چیز پر حسب استعداداثر ڈال رہے ہیں ایسا ہی ان کے نفوس نورانیہ میں بھی انواع اقسام کے خواص ہیں جو پاتن حکیم مطلق کائنات الارض کے باطن پر اپنا اثر ڈالتے ہیں اور یہی نفوس نورانیہ کامل بندوں پر بشکل جسمانی متشکل ہو کر ظاہر ہو جاتے ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة البقرة بشری صورت سے منتقل ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور یادرکھنا چاہیئے کہ یہ تقریر از قبیل خطابیات نہیں بلکہ یہ وہ صداقت ہے جو طالب حق اور حکمت کو ضرور ماننی پڑے گی کیونکہ جب ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ضرور کا ئنات الارض کی تربیت اجرام سماویہ کی طرف سے ہو رہی ہے اور جہاں تک ہم بطور استقراءاجسام ارضیہ پر نظر ڈالتے ہیں اس تربیت کے آثار ہر یک جسم پر خواہ وہ نباتات میں سے ہے خواہ جمادات میں سے خواہ حیوانات میں سے ہے بدیہی طور پر ہمیں دکھائی دیتے ہیں.پس اس صریح تجربہ کے ذریعہ سے ہم اس بات کے ماننے کے لئے بھی مجبور ہیں کہ روحانی کمالات اور دل اور دماغ کی روشنی کا سلسلہ بھی جہاں تک ترقی کرتا ہے بلا شبہ ان نفوس نورانیہ کا اُس میں بھی دخل ہے.اسی دخل کی رو سے شریعت غزا نے استعارہ کے طور پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولوں میں ملائک کا واسطہ ہونا ایک ضروری امر ظاہر فرمایا ہے جس پر ایمان لانا ضروریات دین میں سے گردانا گیا ہے.جن لوگوں نے اپنی نہایت مکر وہ نادانی سے اس الہی فلسفہ کو نہیں سمجھا جیسے آریہ مذہب والے یا برہمومذہب والے انہوں نے جلدی سے باعث اپنے بے وجہ بخل اور بغض کے جو ان کے دلوں میں بھرا ہوا ہے تعلیم فرقانی پر یہ اعتراض جڑ دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں میں ملائک کا واسطہ ضروری ٹھہراتا ہے اور اس بات کو نہ سمجھا اور نہ خیال کیا کہ خدائے تعالیٰ کا عام قانون تربیت جو زمین پر پایا جاتا ہے اسی قاعدہ پر مبنی ہے.ہندوؤں کے رشی جن پر بقول ہندوؤں کے چاروں وید نازل ہوئے کیا وہ اپنے جسمانی قومی کے ٹھیک ٹھیک طور پر قائم رہنے میں تاثیرات اجرام سماویہ کے محتاج نہیں تھے ؟ کیا وہ بغیر آفتاب کی روشنی کے صرف آنکھوں کی روشنی سے دیکھنے کا کام لے سکتے تھے یا بغیر ہوا کے ذریعہ کے کسی آواز کو سن سکتے تھے؟ تو اس کا جواب بدیہی طور پر یہی ہوگا کہ ہرگز نہیں بلکہ وہ بھی اجرام سماویہ کی تربیت اور تکمیل کے بہت محتاج تھے.ہندوؤں کے ویدوں نے ان ملائک کے بارے میں کہاں انکار کیا ہے بلکہ انہوں نے تو ان وسائط کے ماننے اور قابل قدر جاننے میں بہت ہی غلو کیا ہے یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ کے درجہ سے ان کا درجہ برابر ٹھہرا دیا ہے ایک رگ وید پر ہی نظر ڈال کر دیکھو کہ کس قدر اس میں اجرام سماویہ اور عناصر کی پرستش موجود ہے اور کیسی ان کی اُستت اور مہما اور مدح اور شنا میں ورقوں کے ورق سیاہ کر دیئے ہیں اور کس عاجزی اور گڑ گڑانے سے ان سے دُعائیں مانگی گئی ہیں جو قبول بھی نہیں ہوئیں مگر شریعت فرقانی نے تو ایسا نہیں کیا بلکہ اُن نفوس نورانیہ کو جو اجرام سماویہ سے یا عناصر یا د خانات سے ایسا تعلق رکھتے ہیں جیسے جان کا جسم سے تعلق ہوتا ہے صرف ملائک یا جنات کے نام سے موسوم کیا ہے اور ان نورانی فرشتوں کو جو نورانی ستاروں اور سیاروں پر اپنا مقام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۵ سورة البقرة رکھتے ہیں اپنی ذات پاک میں اور اپنے رسولوں میں ایسے طور کا واسطہ نہیں ٹھہرایا جس کے رو سے ان فرشتوں کو با اقتدار یا با اختیار مان لیا جاوے بلکہ ان کو اپنی نسبت ایسا ظاہر فرمایا ہے کہ جیسے ایک بے جان چیز ایک زندہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے جس سے وہ زندہ جس طور سے کام لینا چاہتا ہے لیتا ہے.اسی بناء پر بعض مقامات قرآن شریف میں اجسام کے ہر یک ذرہ پر بھی ملائک کا نام اطلاق کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب ذرات اپنے رب کریم کی آواز سنتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا گیا ہو مثلاً جو کچھ تغییرات بدن انسان میں مرض کی طرف یا صحت کی طرف ہوتے ہیں ان تمام مواد کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق آگے پیچھے قدم رکھتا ہے.اب ذرا آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ اس قسم کے وسائط کے ماننے میں جو قرآن شریف میں قرار دیئے گئے ہیں کونسا شرک لازم آتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی شانِ قدرت میں کونسا فرق آجاتا ہے بلکہ یہ تو اسرار معرفت و دقائق حکمت کی وہ باتیں ہیں جو قانون قدرت کے صفحہ صفحہ میں لکھی ہوئی نظر آتی ہیں اور بغیر اس انتظام کے ماننے کے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ ثابت ہی نہیں ہوسکتی اور نہ اس کی خدائی چل سکتی ہے بھلا جب تک ذرہ ذرہ اُس کا فرشتہ بن کر اس کی اطاعت میں نہ لگا ہوا ہو تب تک یہ سارا کارخانہ اُس کی مرضی کے موافق کیوں کر چل سکتا ہے؟ کوئی ہمیں سمجھائے تو سہی اور نیز اگر ملائک سماویہ کے نظام روحانی سے خدا تعالیٰ کی قادرانہ شان پر کچھ دھبہ لگ سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں ملائک کے نظام جسمانی کے ماننے سے کہ جو نظام روحانی کا بعینہ ہم رنگ و ہم شکل ہے خدائے تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر کوئی دھبہ نہیں لگ سکتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آریہ وغیرہ ہمارے مخالفوں نے فرط نا بینائی سے ایسے ایسے بے جا اعتراضات کر دیئے ہیں جن کی اصل بناء بہت سے مشرکانہ حواشی کے ساتھ ان کے گھر میں بھی موجود ہے اور ناحق بوجہ اپنی بے بصیرتی کے ایک عمدہ صداقت کو بطالت کی شکل میں سمجھ لیا ہے......یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اسلامی شریعت کی رو سے خواص ملائک کا درجہ خواص بشر سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں اور نظام جسمانی یا نظام روحانی میں ان کا وسائط قرار پانا اُن کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ قرآن شریف کی ہدایت کے رو سے وہ خدام کی طرح اس کام میں لگائے گئے ہیں.توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۸ تا ۷۴ ) ملائک اللہ (جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ) ایک ہی درجہ کی عظمت اور بزرگی نہیں رکھتے نہ ایک ہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة البقرة قسم کا کام انہیں سپرد ہے بلکہ ہر یک فرشتہ علیحدہ علیحدہ کاموں کے انجام دینے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.دنیا میں جس قدر تم تغیرات و انقلابات دیکھتے ہو یا جو کچھ نگمن قوة سے حیر فعل میں آتا ہے یا جس قدر ارواح و اجسام اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتے ہیں ان سب پر تاثیرات سماویہ کام کر رہی ہیں اور بھی ایک ہی فرشتہ مختلف طور کی استعدادوں پر مختلف طور کے اثر ڈالتا ہے.( توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۶،۸۵) ( نیز دیکھیں آیت ۹۸ سورة البقرة) صرف اتنا ہی نہیں کہ ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہونا ظاہر کر ( بركات الدعاء، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶ حاشیه ) دیتے ہیں.یہ سنت اللہ ہے کہ جب ایک مامور آتا ہے تو آسمان سے اس کے ساتھ فرشتے یا یوں کہوں کہ نور اترتا ہے اور وہ نور مستعد دلوں پر پڑتا اور ان کو روشن کرتا اور ان کو قوت دیتا ہے اور ہر ایک شخص قوت پا کر روحانی امور کو سمجھنے لگتا ہے چونکہ اس نزول نور کا اصل سبب وہ مامور ہی ہوتا ہے اس لئے اس زمانہ کے تمام دینی معارف اُسی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۸۷ حاشیه ) ملائک اس معنی سے ملائک کہلاتے ہیں کہ وہ ملاک اجرام سماویہ اور ملاک اجسام الارض ہیں یعنی ان کے قیام اور بقا کے لئے روح کی طرح ہیں اور نیز اس معنے سے بھی ملائک کہلاتے ہیں کہ وہ رسولوں کا کام دیتے توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۸ حاشیه ) ہیں.وَالْمُسْلِمُ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ اور مسلمان وہ ہے جس نے اپنا منہ ذبح ہونے کے لئے رَبِّ الْعَالَمِينَ.وَلَهُ نَحَرَ نَاقَةَ نَفْسِهِ خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیا ہو.اور اپنے نفس کی اونٹنی کو اس کے وَتَلَّهَا لِلْجَبِينِ.وَمَا نَسي الحنين في لئے قربان کر دیا ہو اور ذبح کے لئے پیشانی کے بل اس کو گرا دیا ہو حِينٍ فَخَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ النُّسُك اور موت سے ایک دم غافل نہ ہو پس حاصل کلام یہ ہے کہ ذبیحہ وَالضَّحَايَا فِي الْإِسْلَامِ.هي تذكرة اور قربانیاں جو اسلام میں مروج ہیں وہ سب اسی مقصود کے لئے هِيَ تَذْكِرَةٌ لِهَذَا الْمَرَامِ وَ حَقٌّ عَلى تَحْصِيلِ جو بذل نفس ہے بطور یاددہانی ہیں اور اس مقام کے حاصل هذَا الْمَقَامِ وَارْهَاصٌ لِحَقِيقَةٍ کرنے کے لئے ایک ترغیب ہے اور اس حقیقت کے لئے جو تَحْصُلُ بَعْدَ السُّلُوكِ التَّاقِ سلوک تام کے بعد حاصل ہوتی ہے ایک ارباص ہے.پس فَوَجَبَ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ ہر ایک مرد مومن اور عورت مومنہ پر جو خدائے ودود کی رضا کی كَانَ يَبْتَغِي رِضَاءَ اللهِ الْوَدُودِ.آن طالب ہے واجب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھے اور اس کو اپنے مقصود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۷ سورة البقرة يفهم هذِهِ الْحَقِيْقَةَ وَيَجْعَلَهَا عَيْنَ کا عین قرار دے اور اس حقیقت کو اپنے نفس کے اندر داخل الْمَقْصُودِ وَيُدخِلَهَا فِي نَفْسِه حَتَّی کرے یہاں تک کہ وہ حقیقت ہر ذرہ وجود میں داخل ہو تَسْرِى فِي كُلِّ ذَرَّةِ الْوَجُوْدِ وَلَا يَهْدَهُ وَلا جائے اور راحت و آرام اختیار نہ کرے جب تک کہ اس يَسْكُن قَبْلَ آدَاءِ هَذِهِ الضَّحِيَّةِ لِلرَّبِّ قربانی کو اپنے رب معبود کے لئے ادا نہ کرلے اور جاہلوں الْمَعْبُودِ.وَلا يَفْتَعُ بِنمُوذَج وقشر اور نادانوں کی طرح صرف نمونہ اور پوست بے مغز پر كَالْجُهَلاءِ وَالْعُمْيَانِ.بَلْ يُؤَدِّى حَقِيقَةً قناعت نہ کر بیٹھے بلکہ چاہئے کہ اپنی قربانی کی حقیقت کو أَضْحَاتِهِ وَيَقْضِي بِجَمِيعِ حَصَاتِهِ وَرُوح بجالا وے اور اپنی ساری عقل کے ساتھ اور اپنی تُقَاتِهِ رُوحَ الْقُرْبَانِ پرہیز گاری کی رُوح سے قربانی کی رُوح کو ادا کرے.هذَا هُوَ مُنْعَلى سُلُوكِ السَّالِكين.و یہ وہ درجہ ہے جس پر سالکوں کا سلوک انتہا پذیر غَايَةُ مَقْصَدِ الْعَارِفِينَ.وَعَلَيْهِ يَختتم ہوتا ہے اور عارفوں کا مقصد اپنی غایت کو پہنچتا ہے.اور جَمِيعُ مَدَارِجِ الْأَنْقِيَاءِ وَبِهِ يَكْمُلُ سَائِرُ اس پر تمام درجے پر ہیز گاروں کے ختم ہو جاتے ہیں اور مَرَاحِلِ الصَّدِيقِينَ وَالْأَصْفِيَاءِ.وَإِلَيْهِ سب منزلیں راستبازوں اور برگزیدوں کی پوری ہو جاتی يَنْتَهِي سَيْرُ الْأَوْلِيَاءِ وَإِذَا بَلَغْتَ إلى هذا ہیں اور یہاں تک پہنچ کر سیر اولیاء کا اپنے انتہائی نقطہ تک فَقَدْ بَلَّغْتَ جُهْدَكَ إِلَى الانْتِهَاءِ وَ فُرتَ جا پہنچتا ہے اور جب تو اس مقام تک پہنچ گیا تو تو نے اپنی مَرْتَبَةِ الْفَنَاءِ فَحِينَئِذٍ تَبْلُغُ شَجَرَةُ کوشش کو انتہا تک پہنچادیا اور فنا کے مرتبہ تک پہنچ گیا.پس ވ ވ ވ سُلُوكِك إلى آتمَ النَّمَاءِ وَ تَصِلُ عُنُق اس وقت تیرے سلوک کا درخت اپنے کامل نشو ونما تک رُوحِكَ إِلى لُعَاعِ رَوْضَةِ الْقُدْسِ وَ پہنچ جائے گا اور تیری روح کی گردن تقدس اور بزرگی کے الْكِبْرِيَاءِ كَالنَّاقَةِ الْعَنقَاءِ إِذَا أَوْصَلَتْ مرغزار کے نرم سبزہ تک پہنچ جائے گی.اس اونٹنی کی مانند عُنُقَهَا إِلى الشَّجَرَةِ الخَضْرَاءِ وَ بَعْدَ ذَالِك جس کی گردن لمبی ہو اور اُس نے اپنی گردن کو ایک سبز جَذَبَاتٌ وَنَفَحَاتٌ وَتَجَلِّيَاتٌ مِنَ الحضرة درخت تک پہنچا دیا ہواور اس کے بعد حضرت احدیت الْأَحْدِيَّةِ لِيَقْطَعَ بَعْضَ بَقَايَا عُرُوقِ کے جذبات ہیں اور خوشبوئیں ہیں اور تجلیات ہیں تا وہ الْبَشَرِيَّةِ وَبَعْدَ ذَالِك احياء و ابقاء بعض ان رگوں کو کاٹ دے کہ جو بشریت میں سے باقی وَادْنَا لِلنَّفْسِ الْمُطْمَئِئَةِ الرَّاضِيَة رہ گئی ہوں اور بعد اس کے زندہ کرنا ہے اور باقی رکھنا اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة البقرة الْمَرْضِيَّةِ الْفَانِيَةِ لِيَسْتَعِدَّ الْعَبْدُ قریب کرنا اس نفس کا جو خدا کے ساتھ آرام پکڑ چکا ہے جو لِقَبُولِ الْفَيْضِ بَعْدَ الْحَيَاةِ الثَّانِيَةِ وَ خدا سے راضی اور خدا اس سے راضی اور فنا شدہ ہے تا کہ یہ بَعْدَ ذَالِكَ يُكْسَى الْإِنْسَانُ الْعَامِلُ حُلة بندہ حیاتِ ثانی کے بعد قبول فیض کے لئے مستعد ہو جائے الْخِلافَةِ مِنَ الْحَضَرَةِ وَ يُصَبَّحُ بصِبْغ اور اس کے بعد انسان کامل کو حضرت احدیت کی طرف صِفَاتِ الألُوهِيَّةِ عَلى وَجْهِ الظلية سے خلافت کا پیرایہ پہنایا جاتا ہے اور رنگ دیا جاتا ہے تَخفِيقًا لِمَقامِ الْخِلَافَةِ وَ بَعْدَ ذَالِك الوہیت کی صفتوں کے ساتھ.اور یہ رنگ نظقی طور پر ہوتا يَنزِلُ إِلَى الْخَلْقِ لِيَجْلِبَهُمْ إِلَى ہے تا مقام خلافت متحقق ہو جائے.اور پھر اس کے بعد الرُّوحَانِيَّةِ وَ يُخْرِجَهُمُ مِنَ الظُّلُمَاتِ خلقت کی طرف اترتا ہے تا اُن کو روحانیت کی طرف کھینچے الْأَرْضِيَّةِ إِلَى الْأَنْوَارِ السَّمَاوِيَّةِ اور زمین کی تاریکیوں سے باہر لا کر آسمانی نوروں کی طرف وَيُجْعَلُ وَارِنا لِكُلِ مَنْ مَّطَى مِن قَبْلِهِ لے جائے اور یہ انسان اُن سب کا وارث کیا جاتا ہے جو مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصَّدِّيقِينَ وَاهْلِ نبیوں اور صدیقوں اور اہل علم اور درایت میں سے اور الْعِلْمِ وَ الدّرَايَةِ وَتُمُوسِ الْقُرْب و قرب اور ولایت کے سورجوں میں سے اس سے پہلے گزر الْوَلايَةِ.وَيُعْطى له عِلْمُ الأولين و چکے ہیں اور دیا جاتا ہے اس کو علم اولین کا اور معارف گزشتہ مَعَارِفُ السَّابِقِين من أولى الأبصَارِ و اہل بصیرت اور حکما و ملت کے تا اس کے لئے مقام وراثت حُكَمَاء الْمِلَّةِ تَحْقِيقًا لِمَقَامِ الْوَرَاثَةِ کا تحقق ہو جائے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۵ تا ۴۱) میری نسبت خدا نے میرے ہی ذریعہ سے براہین احمدیہ میں خبر دی کہ میں آدم کے رنگ پر ایک خلیفہ پیدا کرتا ہوں.تب اس خبر کو سن کر بعض مخالفوں نے میرے حالات کو کچھ اپنے عقائد کے برخلاف پا کر اپنے دلوں میں کہا کہ یا الہی کیا تو ایسے انسان کو اپنا خلیفہ بنائے گا کہ جو ایک مفسد آدمی ہے جو ناحق قوم میں پھوٹ ڈالتا ہے اور علماء کے مسلمات سے باہر جاتا ہے.تب خدا نے جواب دیا کہ جو مجھے معلوم ہے وہ تمہیں معلوم نہیں.یہ خدا کا کلام ہے کہ جو مجھ پر نازل ہوا اور درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں اور اس زمانہ کے لوگ اس سے بے خبر ہیں.پس یہی معنے ہیں اس وحی الہی کے کہ قَالَ إِلى أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ - (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۸۱٬۸۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۹ سورة البقرة روحانی طور پر انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں کہ وہ اس قدر صفائی حاصل کرے کہ خدا تعالیٰ کی تصویر اُس میں کھینچی جائے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنِّی جَاعِلٌ في الْأَرْضِ خَلِيفَةً یعنی میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.یہ ظاہر ہے کہ تصویر ایک چیز کی اصل صورت کی خلیفہ ہوتی ہے یعنی جانشین.اور یہی وجہ ہے کہ جس جس موقعہ پر اصل صورت میں اعضا واقع ہوتے ہیں اور خط و خال ہوتے ہیں اُسی اُسی موقعہ پر تصویر میں بھی ہوتے ہیں اور حدیث شریف اور نیز توریت میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا.پس صورت سے مراد یہی روحانی تشابہ ہے.اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب مثلاً ایک نہایت صاف آئینہ پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے تو صرف اسی قدر نہیں ہوتا کہ آفتاب اس کے اندر دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ شیشہ آفتاب کی صفات بھی ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی روشنی انعکاسی طور پر دوسرے پر بھی پڑ جاتی ہے.پس یہی حال روحانی آفتاب کی تصویر کا ہوتا ہے کہ جب ایک قلب صافی اُس سے ایک انعکاسی شکل قبول کر لیتا ہے تو آفتاب کی طرح اُس میں سے بھی شعائیں نکل کر دوسری چیزوں کو منور کرتی ہیں گویا تمام آفتاب اپنی پوری شوکت کے ساتھ اُس میں داخل ہو جاتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷) وَإِنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ اور بے شک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے أدَم خَائِمَةِ الدُّنْيَا وَ مُنْتَهَى الْأَيامِ وَخُلِقَ خاتمہ کے آدم اور زمانہ کے دنوں کے معنی تھے اور كَادَمَ بَعْدَ مَا خُلِقَ عَلَى الْأَرْضِ كُلُّ نَوع آنحضرت آدم کی طرح پیدا کیے گئے اس کے بعد کہ مِنَ الدَّوَابِ وَكُلُّ صِنف من الشباع زمین پر ہر طرح کے کیڑے مکوڑے اور چار پائے اور وَالْأَنْعَامِ وَلَمَّا خَلَقَ اللهُ هَذِهِ الْخَلِيقَة درندے پیدا ہو گئے اور جس وقت خدا نے اس مخلوق کو مِنْ أَنْوَاعِ النَّعَمِ وَالسَّبَاعِ وَالسُّودِ عَلَى یعنی حیوانوں اور درندوں اور چیونٹیوں کو زمین پر پیدا الْأَرْضِينَ أَغْنِى كُلَّ حِزْبِ مِنَ الْفَاجِرِينَ وَ کیا یعنی فاجروں اور کافروں اور دنیا پرستوں کے ہر الْكَافِرِينَ وَالَّذِينَ افَرُوا الدُّنْيَا عَلَى الدِّينِ ایک گروہ کو پیدا کیا اور آسمان میں ستارے اور وَخَلَقَ فِي السَّمَاءِ نُجُومَهَا وَأَقْتارَهَا چاندوں اور سور جوں یعنی پاکوں کے نفوس مستعدہ کو وَهُمُؤسَهَا أَغْلِى التَّفُوسَ الْمُسْتَعِدَّةُ مِن ظہور میں لایا.تو بعد اس کے اُس آدم کو وجود کا خلعت الظَّاهِرِينَ الْمُتَوَرِيْنَ خَلَقَ بَعْدَ هَذَا آدَمَ پہنایا جس کا نام محمد اور احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة البقرة الَّذِي اسْمُهُ مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ، وَهُوَ سَيِّدُ وُلْدِ آدم کی اولاد کا سردار اور خلقت کا امام اور سب سے ادَمَ وَأَتْقَى وَأَسْعَدُ وَإِمَامُ الْخَلِيقَةِ وَ زیادہ تھی اور سعید ہے.اور اس کی طرف خدا تعالیٰ کا یہ إِلَيْهِ أَشَارَ اللهُ في قَوْلِهِ إِذْ قَالَ رَبُّكَ قول اشارہ کرتا ہے : إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ و, 66 لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً وَ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (الآیۃ) اور خدا کی عزت اور جلال کی بِعِزَّةِ اللهِ وَجَلَالِهِ أَنَّ لَفَظَ إِذْ يَدُلُّ بِدَلَالَةٍ قسم کہ إِذْ کا لفظ قطعی دلالت کے ساتھ اس مقصود پر قطعِيَّةٍ عَلى هَذَا الْمَقْصُوْدِ وَيَدُلُّ عَلَيْهِ دلالت کرتا ہے.اور اگر تو یہود کی طرح نہیں تو آیت کا سِيَاقُ الْآيَةِ وَسِبَاقُهَا إِن كُنتَ لَسْتَ سیاق و سباق تجھ پر اس راز کو کھول دے گا پس شک نہیں كَالْيَهُودِ.فَلَا شَكَ أَنَّهُ ادَهُ آخِرِ الزَّمَانِ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ کے آدم ہیں وَالأُمَّهُ كَالثَّرِيَّةِ لِهَذَا النَّبِي الْمَحْمُودِ وَ اور امت اس نبی محمود کی ذریت کی بجا ہے.اور اس إِلَيْهِ أَشَارَ في قَوْلِهِ " إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ " کی طرف خدا تعالیٰ کے اس قول کا اشارہ ہے انا 66.فَأَمْعِن فِيْهِ وَ تَفَكَّرَ وَ لَا تَكُنْ مِن اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ (الکوثر : ۲) پس ان معنوں میں غور اور الْغَافِلِينَ وَ إِنَّ زَمَانَ رُوحَانِيَّةِ نَبِيِّنَا فکر کر اور غافلوں میں سے مت ہو.اور ہمارے نبی کی عَلَيْهِ السَّلَامُ قَدْ بَدَأَ مِنَ الْأَلف الخامس روحانیت کا زمانہ پانچویں ہزار سے شروع اور چھٹے ہزار وَ كَمل إلى أخرِ الْأَلْفِ الشَّادِس وَ إِلَيْهِ کے آخر تک کامل ہوا اور اس کی طرف خدا تعالیٰ کا قول أَشَارَ في قَوْلِهِ " لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ." اشارہ کرتا ہے کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ (الصف: ١٠) وَتَفْصِيلُ الْمَقَامِ أَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى الله اور اس مقام کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ عَلى قَدَمِ آدَمَ، وَإِنَّ آدم کے قدم پر آئے اور آدم کی روحانیت نے پانچویں رُوحَانِيَّةَ ادَمَ قَدْ طَلَعَتْتُ في الْيَوْمِ دن میں طلوع فرمایا کیونکہ اس دن تک سب کچھ جو اس الخامس لِمَا خُلِقَ إلى هَذَا الْيَوْمِ كُلّ ما کی ہویت کے اجزاء سے اور اس کی ماہیت کی حقیقت كَانَ مِنْ أَجْزَاءِ هُوَيْتِهِ وَحَقِيقَةِ مَاهِيّته سے تھا پیدا ہو گیا کیونکہ زمین اپنی تمام مخلوق کے ساتھ فَإِنَّ الْأَرْضَ يُجَمِيعِ مَخْلُوقَاتِهَا وَ السَّمَاءُ اور آسمان اپنی تمام مصنوعات کے ساتھ آدم کی ہویت يُجَمِيعِ مَصْنُوعَاتِها كَانَتْ حَقِيقَةٌ هُوِيَّةِ کی حقیقت تھے.گویا آدم کا مادہ جمادی حقیقت سے أدَمَ كَانَ مَاذَتَهُ قَدِ انْتَقَلَتْ مِنَ الْحَقِيقَةِ نباتی حقیقت کی طرف اور نباتی حقیقت سے حیوانیت کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة البقرة الْجَمَادِيَّةِ إِلَى الْحَقِيقَةِ النَّبَاتِيَّةِ ثُمَّ مِنَ الْحَقِيقَةِ ہویت کی طرف منتقل ہوا پھر روحانیت کے طور النَّبَاتِيَّةِ إِلَى الْهُويَّةِ الْحَيَوَانِيَّةِ ثُمَّ بَعْدَ ذَالِكَ پر کو کسی کمالات سے قمری کمالات کی طرف اور انْتَقَلَتْ مِنْ حَيْثُ الرُّوحَانِيَّةِ مِنَ الْكَمَالَاتِ قمری انوار سے شمسی شعاعوں کی طرف انتقال الكوكبيَّةِ إِلَى الْكَمَالَاتِ الْقَمَرِيَّةِ وَمِنَ الْأَنْوَارِ فرمایا اور (یہ سب انتقالات مظاہر ترقیات عالم الْقَمَرِيَّةِ إِلَى الْأَشِغَةِ الشَّمْسِيَّةِ وَكَانَتْ هَذِهِ کے حقیقت انسانیہ کے معارج کی طرف تھے.) الإنتقالات كُلُّهَا مَظَاهِرَ تَرَقِّيَّاتِ الْعَالَمِ إلى اور اس راز کو دوسرے لفظوں میں اس طرح پر مَعَارِجِ الْحَقِيقَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ كَأَنَّ الإِنْسَانَ كَانَ سمجھنا چاہیے کہ انسان ایک وقت جماد تھا اور فِي وَقْتٍ جَمَادًا وَفِي وَقْتِ أَخَرَ نَبَاتًا، وَبَعْدَ ذَالِكَ دوسرے وقت نبات اور اس کے بعد حیوان اور حَيَوَانَا، وَبَعْدَ ذَالِكَ كَوْكَبًا وَقَمَرًا وَشَمْسًا حَتَّی اس کے بعد ستارہ اور چاند اور سورج تھا یہاں مُجمعَ فِي الْيَوْمِ الْخَامِسِ كُلُّ مَا اقْتَضَتْ فِطرته تک کہ پانچویں دن وہ سب کچھ جو اس کی مِنَ الْقُوَى الْأَرْضِيَّةِ وَالسَّمَاوِيَّةِ بِفَضْلِ اللهِ فطرت زمینی اور آسمانی قومی سے تقاضا کرتی تھی أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ احسن الخالقین خدا کے فضل سے جمع ہو گیا.فَكَانَ الْخَلْقُ كُلُّه فَرْدًا كَامِلا لأدَمَ ، أَوْ مِرَاةً پس تمام پیدائش آدم کے لئے ایک فرد کامل لِوُجُودِهِ الَّذِى أَعَزَّهُ اللهُ وَأَكْرَمَ ثُمَّ أَرَادَ اللهُ أَنْ تھا یا اس کے وجود کا آئینہ تھا جسے خدا نے معزز يُرِى هَذِهِ الْخَفَايَا عَلَى وَجْهِ الْكَمَالِ فِي شَخص اور مکرم بنایا پھر ارادہ فرمایا کہ پوشید گیوں کو وَاحِدٍ هُوَ مَظْهَرُ جَمِيع هذِهِ الْخِصَالِ.فَتَجَلَّتْ پورے طور پر ایک ہی شخص میں ظاہر کرے جوان رُوْحَانِيَّةُ آدَمَ بِالتَّجَلِي الْجَامِع الْعَامِلِ في خصلتوں کا مظہر ہو.پس آدم کی روحانیت نے السَّاعَةِ الْآخِرَةِ مِنَ الْجُمْعَةِ أَعْلِي الْيَوْمَ الَّذِي جامع كامل تعلمی کے ساتھ جمعہ کے دن آخری هُوَ السَّادِسُ مِنَ السَّتَّةِ فَكَذَالِكَ طَلَعَتْ ساعت میں تحقی فرمائی یعنی اس دن جو چھ کا چھٹا رُوْحَانِيَّةُ نَبِيْنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَلْفِ ہے اس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی الْخَامِس بإجمالِ صِفَاتِهَا وَمَا كَانَ ذَالِكَ الزَّمَانُ روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات مُنْتَهى تَرَقِيَاتِهَا بَلْ كَانَتْ قَدَمًا أُولى لِمَعَارِج کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اُس روحانیت کی كَمَالَاتِهَا ثُمَّ كَمُلَتْ وَتَجَلَّتْ تِلْكَ الرُّوحَانِيَّةُ في ترقيات کا انتہا نہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورة البقرة الْأَلْفِ السَّادِسِ أَعْنِي فِي هَذَا الْحَيْنِ معراج کے لئے پہلا قدم تھا پھر اس روحانیت نے چھٹے كَمَا خُلِقَ آدَمُ في آخِرِ الْيَوْمِ السَّادِس باذن ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت پوری طرح سے تخلی اللهِ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ.وَاتَّخَذَتْ رُوحَانِيَّةُ فرمائی جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں احسن الخالقین نَبِيْنَا خَيْرٍ الرُّسُلِ مَظهَرًا مِن أُمَّتِهِ لِتَبْلُغَ خدا کے اذن سے پیدا ہوا اور خیر الرسل کی روحانیت كَمَالَ ظُهُورِهَا وَغَلَبَةً نُوْرِهَا كَمَا كَانَ وَعْدُ نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ الله في الْكِتَابِ الْمُبِيْنِ فَأَنَا ذَالِكَ الْمَظْهَرُ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے الْمَوْعُودُ وَالنُّورُ الْمَعْهُودُ.فَأمِن وَلَا تَكُن كتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا پس میں وہی مظہر ہوں پس ایمان لا اور کافروں سے مت ہو.مِنَ الْكَافِرِينَ ( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۵۹ تا ۲۶۷) فرشتوں کا جناب الہی میں عرض کرنا کہ کیا تو ایک مفسد کو خلیفہ بنانے لگا ہے؟ اس کے کیا معنے ہیں؟ پس واضح ہو کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے چھٹے دن آسمانوں کے سات طبقے بنائے اور ہر ایک آسمان کے قضاء وقدر کا انتظام فرمایا اور چھٹا دن جو ستارہ سعد اکبر کا دن ہے یعنی مشتری کا دن قریب الاختتام ہو گیا اور فرشتے جن کو حسب منطوق آیت وَ أوحى فِي كُلِّ سَمَاءِ اَمرَهَا ( حم السجدة : ۱۳) سعد و حس کا علم دیا گیا تھا اور ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ سعد اکبر مشتری ہے اور انہوں نے دیکھا کہ بظاہر اس دن کا حصہ آدم کو نہیں ملا کیونکہ دن میں سے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے سو یہ خیال گزرا کہ اب پیدائش آدم کی زُحل کے وقت میں ہوگی اس کی سرشت میں ڈھلی تاثیریں جو قہر اور عذاب وغیرہ ہے رکھی جائیں گی اس لئے اس کا وجود بڑے فتنوں کا موجب ہوگا.سو بناء اعتراض کی ایک خلفی امر تھا نہ یقینی.اس لئے نطقی پیرا یہ میں انہوں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ کیا تو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو مفسد اور خونریز ہوگا اور خیال کیا کہ ہم زاہد اور عابد اور تقدیس کرنے والے اور ہر ایک بدی سے پاک ہیں اور نیز ہماری پیدائش مشتری کے وقت میں ہے جو سعد اکبر ہے تب ان کو جواب ملا کہ ائی اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ یعنی تمہیں خبر نہیں کہ میں آدم کو کس وقت بناؤں گا.میں مشتری کے وقت کے اُس حصے میں اس کو بناؤں گا جو اُس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگر چہ جمعہ کا دن سعدا کبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے.سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا.یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا اسی وجہ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۳ سورة البقرة احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دُعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دُعا قبول ہوتی ہے.یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی.اس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے.سو آدم اسی گھڑی میں پیدا کیا گیا.اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی.اسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ يَنقَطِعُ ابَاتُكَ وَيُبْدَه مِنك دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۰.اور یہ اتفاقات عجیبہ میں سے ہے کہ یہ عاجز نہ صرف ہزار ششم کے آخری حصہ میں پیدا ہوا جو مشتری سے وہی تعلق رکھتا ہے جو آدم کا روز ششم یعنی اس کا آخری حصہ تعلق رکھتا تھا بلکہ یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے.اس جگہ ایک اور بات بیان کرنے کے لائق ہے کہ اگر یہ سوال ہو کہ جمعہ کی آخری گھڑی جو عصر کے وقت کی ہے جس میں آدم پیدا کیا گیا کیوں ایسی مبارک ہے اور کیوں آدم کی پیدائش کے لئے وہ خاص کی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیر کو اکب کا نظام ایسا رکھا ہے کہ ایک ستارہ اپنے عمل کے آخری حصہ میں دوسرے ستارے کا کچھ اثر لے لیتا ہے جو اس حصے سے ملحق ہو اور اس کے بعد میں آنے والا ہو.اب چونکہ عصر کے وقت سے جب آدم پیدا کیا گیا رات قریب تھی لہذاوہ وقت زحل کی تاثیر سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا اور مشتری ؛ سے بھی فیضیاب تھا جو جمالی رنگ کی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے.سوخدا نے آدم کو جمعہ کے دن عصر کے وقت بنایا کیونکہ اس کو منظور تھا کہ آدم کو جلال اور جمال کا جامع بناوے جیسا کہ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ خَلَقْتُ بِیدَی (ص: ۷۶) یعنی آدم کو میں نے اپنے دونوں ہاتھ سے پیدا کیا ہے ظاہر ہے کہ خدا کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہیں.پس دونوں ہاتھ سے مراد جمالی اور جلالی تخلی ہے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی تحیلی کا جامع پیدا کیا گیا اور چونکہ اللہ تعالی علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اُس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا.اور یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں جیسا کہ آیت وَزَيَّنَا السَّمَاةِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظا ( حم السجدة: ۱۳) سے یعنی حفظاً کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے.یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں.یہ چیزیں بجز اڈن الہی کچھ نہیں کر سکتیں.ان کی تاثیرات خدا تعالی کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة البقرة ہاتھ میں ہیں.پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے.لہذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تر بد اور سقمونیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پر سیلتی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظا کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ لوگ جو سرا پا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے تو اب بتلاؤ کہ سَمَاءَ الدُّنْیا کو لاکھوں ستاروں سے پر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے ؟ اور خدا کا یہ کہنا کہ سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں.جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے اور یہ ستارے جیسا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں آسمان دنیا پر ہی نہیں ہیں بلکہ بعض بعض سے بڑے بڑے بُعد پر واقع ہیں اسی آسمان میں مشتری نظر آتا ہے جو چھٹے آسمان پر ہے ایسا ہی زُحل بھی دکھائی دیتا ہے جو ہفتم آسمان پر ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام زُحل ہے جو اس کا بُعد تمام ستاروں سے زیادہ ہے کیونکہ لغت میں راحل بہت دُور ہونے والے کو بھی کہتے ہیں.اور آسمان سے مراد وہ طبقات الطیفہ ہیں جو بعض بعض سے اپنے خواص کے ساتھ متمیز ہیں.یہ کہنا بھی جہالت ہے کہ آسمان کچھ چیز نہیں کیونکہ جہاں تک عالم بالا کی طرف سیر کی جائے محض خلا کا حصہ کسی جگہ نظر نہیں آئے گا.پس کامل استقراء جو مجہولات کی اصلیت دریافت کرنے کے لئے اول درجہ پر ہے صریح اور صاف طور پر سمجھاتا ہے کہ محض خلا کسی جگہ نہیں ہے.اور جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے.اس کے پہلے قدم پر مردوں کا زندہ ہونا ہے اور دوسرے قدم پر زندوں کا مرنا ہے یعنی قیامت میں.خدا نے اس کے وقت میں رحمت کی نشانیاں بھی رکھی ہیں اور قبر کی بھی تا دونوں رنگ جمالی اور جلالی ثابت ہو جائیں.آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالی کا یہ فرمانا کہ آفتاب اور ماہتاب ایک ہی وقت میں تاریک ہو جائیں گے زمین پر جابجا خسف واقع ہوگا.پہاڑ اڑائے جائیں گے.یہ سب قہری اور جلالی نشانیاں ہیں.عیسائیت کے غلبہ کے زمانہ کی نسبت بھی اسی قسم کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة البقرة اشارات قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں.کیونکہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ اس دین کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین میں بذریعہ خسف وغیرہ ہلاکتیں واقع ہوں.غرض وجود آدم ثانی بھی جامع جلال و جمال ہے اور اسی وجہ سے آخر ہزار ششم میں پیدا کیا گیا اور ہزارششم کے حساب سے دنیا کے دنوں کا یہ جمعہ ہے اور جمعہ میں سے یہ عصر کا وقت ہے جس میں یہ آدم پیدا ہوا.اور سورۃ فاتحہ میں اس مقام کے متعلق ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جس میں مہدہ اور معاد کا ذکر ہے یعنی خدا کی ربوبیت سے لے کر یوم الدین تک سلسلہ صفات الہیہ کو پہنچایا ہے اس مناسبت کے لحاظ سے حکیم ازلی نے اس سورۃ کو سات آیتوں پر تقسیم کیا ہے تا دنیا کی عمر میں سات ہزار کی طرف اشارہ ہو.اور چھٹی آیت اس سورة كى اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو اور ضالین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے.یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.(تحف گولڑوی، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۹ تا ۲۸ حاشیه) آدم عصر کے وقت چھٹے دن پیدا ہوا تھا.اس وقت مشتری کا دورہ ختم ہو کر زُحل کا شروع ہونے والا تھا چونکہ زحل کی تاثیرات خون ریزی اور سفا کی ہیں.اس لئے ملائکہ نے اس خیال سے کہ یہ زحل کی تاثیرات کے اندر پیدا ہوگا یہ کہا: اتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس طرح انسان ارضی تاثیرات اور بوٹیوں کے خواص سے واقف ہوتا ہے اس طرح پر آسمانی مخلوق آسمانی تاثیرات سے باخبر ہوتی ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً سے استنباط ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے سے اس وقت کوئی قوم موجود ہو اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : وَالْجَانَّ خَلَقْنَهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّومِ (الحجر : ۲۸) ایک قوم جان بھی آدم سے پہلے موجود تھی بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ سے خالق ہے.اور یہی حق ہے کیونکہ اگر خدا کو ہمیشہ سے خالق نہ مانیں تو اس کی ذات پر ( نعوذ باللہ ) حرف آتا ہے اور ماننا پڑے گا کہ آدم سے پیشتر خدا تعالیٰ معطل تھا لیکن چونکہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کی صفات کو قدیمی بیان کرتا ہے اسی لئے اس حدیث کا مضمون راست ہے قرآن میں جو کوئی ترکیب ہے وہ ان صفات کے استمرار پر دلالت کرتی ہیں لیکن اگر آدم سے ابتدائے خلق ہوتی اور اس سے پیشتر نہ ہوتی تو پھر یہ نحوی ترکیب قرآن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ سورة البقرة (البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۷) میں نہ ہوتی.ممکن ہے کہ ایک قوم موجود ہو اور اس کے ہوتے وہ اور قوم پیدا کر دیوے یا ایک قوم کو ہلاک کر کے اور پیدا کر دے.موسیٰ کے قصہ میں بھی ایک جگہ ایسا واقعہ بیان ہوا ہے.آدم کے وقت بھی خدا سابقہ قوموں کو ہلاک کر چکا تھا پھر جب آدم کو پیدا کیا تو اور قوم بھی پیدا کر دی.خلیفہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ایک قوم ضرور پہلے سے موجود ہو ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک اور قوم کو پیدا کر کے پہلی قوم کا خلیفہ اُسے قرار دیا جاوے اور آدم اس کے مورث اعلیٰ ہوں کیونکہ خدا کی ذات ازلی ابدی ہے اس پر تغیر نہیں آتا مگر انسان ازلی ابدی نہیں ہے اس پر تغیر آتا ہے میرے الہام میں بھی مجھے آدم کہا گیا ہے.جب روحانیت پر موت آجاتی ہے یعنی اصل انسانیت فوت ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بطور آدم کے ایک اور کو پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے ہمیشہ سے آدم پیدا ہوتے رہتے ہیں.اگر قدیم سے یہ سلسلہ ایسا نہ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ ۵ یا ۶ ہزار برس سے خدا ہے قدیم سے نہیں ہے یا یہ کہ اول وہ معطل تھا.(البدرجلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۸۷) اسلام اور قرآن شریف کا یہ مذہب نہیں کہ دنیا چھ ۶ ہزار سال سے ہے یہ تو عیسائی لوگوں کا عقیدہ ہے مگر قرآن شریف میں تو خدا تعالیٰ نے آدم کے متعلق فرمایا ہے کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ اب ظاہر ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیں کہ جو کسی کے پیچھے آوے.اور اس کا جانشین ہو.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق تھی.آدم اس کا قائم مقام اور جانشین ہوا.البدر جلد نمبر ۱۴ مورخہ ۶ جولائی ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم تو ریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا.اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ ای آخری آدم کی نسل ہے.ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں.جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے.خدا نے یہ فرمایا کہ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِیفَةٌ- خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی.پس امریکہ اور آسٹر یلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں.آپ کے سوال کے مناسب حال ایک قول حضرت محی الدین ابن عربی صاحب کا ہے وہ لکھتے ہیں کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة البقرة میں حج کرنے کے واسطے گیا تو وہاں مجھے ایک شخص ملا جس کو میں نے خیال کیا کہ وہ آدم ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو ہی آدم ہے؟ اس پر اُس نے جواب دیا کہ تم کون سے آدم کے متعلق سوال کرتے ہو؟ آدم تو ہزاروں گزرچکے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۵) اتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا فرشتوں نے کشفی رنگ میں دیکھا آدم کی اولا د نے جو فساد ڈالنا تھا.الحکم جلد ۷ ۴ نمبر ۱۹ تا ۲۲ مورخه ۲۱ تا ۲۸ رمئی و۷ تا ۱۴ جون ۱۹۴۳ صفحه ۱۵) اس جگہ یہ بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی ہی نہیں رکھا بلکہ ابتداء سے انتہاء تک جس قدر انبیاء علیہم السلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں.چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میر انام آدم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ أَدَمَ دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۴۹۲ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا خَلَقَ ادَمَ فأكرمه.دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۵۰۴ دونوں فقروں کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کیا یعنی اس عاجز کو.پھر فرمایا پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں تمام سیر کرا دیا.پیدا کیا اس آدم کو.پھر اس کو بزرگی دی.ایک ہی رات میں سیر کرانے سے مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام تکمیل ایک ہی رات میں کر دی اور صرف چار پہر میں اس کے سلوک کو کمال تک پہنچایا اور خدا نے جو میرا نام آدم رکھا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بنی آدم کی روحانیت پر موت آگئی تھی پس خدا نے نئی زندگی کے سلسلہ کا مجھے آدم ٹھہرایا اور اس مختصر فقرہ میں یہ پیشگوئی پوشیدہ ہے کہ جیسا کہ آدم کی نسل تمام دنیا میں پھیل گئی ایسا ہی میری یہ روحانی نسل اور نیز ظاہری نسل بھی تمام دنیا میں پھیلے گی.اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ فرشتوں نے آدم کے خلیفہ بنانے پر اعتراض کیا اور خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رڈ کر کے کہا کہ آدم کے حالات جو مجھے معلوم ہیں وہ تمہیں معلوم نہیں.یہی واقعہ میرے پر صادق آتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ وحی الہی درج ہے کہ لوگ میری نسبت ایسے ہی اعتراض کریں گے جیسے کہ آدم علیہ السلام پر کئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوا أَهذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ - جَاهِلٌ اَوْ مَجنُونَ.یعنی مجھے لوگ ہنسی کی جگہ بنالیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہی شخص خدا نے مبعوث فرمایا ہے.یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ انہیں حصص براہین احمدیہ میں فرماتا ہے: اَنتَ مِل يَمَنزِلَةٍ لَّا يَعْلَمُهَا الْخَلْقُ.یعنی تیرا میرے نزدیک وہ مقام ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۸ سورة البقرة جس کو دنیا نہیں جانتی.یہ جواب اسی قسم کا ہے جیسا کہ آدم کی نسبت قرآن شریف میں ہے قَالَ إِلى أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ بلکہ یہی آیتیں بعینہ اگر چہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں نہیں مگر دوسری کتابوں میں میری نسبت بھی وحی الہی ہو کر شائع ہو چکی ہیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۲، ۱۱۳) وَ عَلَمَ آدَمَ الْإِسْمَاءَ كُهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَيكَةِ فَقَالَ الْبُونِي بِأَسْمَاءِ هولاء إن كُنْتُم صُدِقِينَ (٣٢) لا وَ عَلَمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَهَا أَى عَلَمَهُ وَعَلَّمَ أَدَمَ الْأَسْمَاء كُلها یعنی آدم کو اشیاء کے تمام حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ كُلَّهَا وَجَعَلَهُ عَالَمًا حقائق کا علم عطا فرمایا اور اُسے ایک مجمل عالم بنایا جو عالمین کا مثیل تھا.( ترجمہ از مرتب ) تجملا مثيل الْعَالَمِينَ.(سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۷۴) w قَالَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء فَهَذَا کہا ہے کہ خدا نے آدم کو نام سکھائے پس یہ سکھلانا التَّعْلِيمُ يَدُلُّ عَلى أَشْيَاء مِنْهَا انه تان کئی باتوں پر دلالت کرتا ہے ان میں سے ایک یہ کہ خدا مُعَلِّمَ الْكَلِمَاتِ يَتَوَسطِ الْمُسْبِيَاتِ.و تعالی نے کلمات کو مسمیات کے ذریعہ سے سکھلایا اور نَعْنِى بِالْمُسْمِيَاتِ كُلَّمَا يُمْكِنُ بَيَانُه مسمیات سے مُراد ہمارے ایسے امور ہیں جن کا بیان کرنا بِالْإِشَارَاتِ فِعْلًا كَانَ أَوْ مِنْ أَسْمَاءِ اشارات کے ذریعہ سے ممکن ہے خواہ وہ فعل ہوں یا اسماء الْمَخْلُوقَاتِ وَمِنْهَا أَنَّهُ كَانَ مُعَلَّمَ مخلوقات میں سے ہوں اور پھر دوسرا امر یہ ہے کہ حقائق حَقَايِقَ الْأَشْيَاءِ وَخَوَاضِهَا الْمَكْتُومَةِ اشیاء اور ان کے جو چھپے ہوئے خواص ہیں وہ زبان عربی الْمَخْرُونَةِ في حَيْرِ الْاخْتِفَاءِ بِلُغَةِ عَربی میں سکھلائے گئے.اور اگر تو یہ بات کہے کہ محو یوں نے عَرَبِي مُّبِيْنٍ وَإِنْ قُلْتَ إِنَّ التَّعْوِنِينَ خَصَّصوا لفظ اسم کو اسماء مخصوصہ سے خاص کیا ہے.یعنی وہ اسماء جن لَفْظَ الْإِسْمِ بِالْأَسْمَاءِ الْمَعْصُوصَةِ الَّتِنی کے واسطے معانی ہیں اور تین زمانوں میں سے کسی سے لَهَا مَعَانِي وَلَا تَقْتَرِنُ بِأَحَدٍ مِنَ الْأَزْمِنَةِ اقتران (نہیں) رکھتے ہیں پس جواب اس کا یہ ہے کہ یہ الثَّلَاثَةِ فَجَوَابُهُ أَنَّ ذَالِكَ اصْطِلاح لِهذِهِ اس فرقہ کی اصطلاح ہے اور جب ہم حقیقی طور پر نظر کریں الْفِرْقَةِ وَلَا اِعْتِبَارَ بِهِ عِندَ نَظرِ الْحَقِيقَةِ تو یہ اصطلاح ساقط الاعتبار ہوگی پس دیکھنے والوں کی فَانظُرْ كَالْمُبْصِرِينَ.طرح سوچ.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة البقرة وَإِنْ قِيْلَ إِنَّ الْمَشْهُورَ بَيْنَ الْعَامَّةِ مِن اور اگر کوئی کہے کہ عوام مسلمانوں میں تو یہ مشہور اَهْلِ الْمِلَّةِ.إنّ اللهَ عَلَّمَ آدَمَ جَمِيعَ اللُّغَاتِ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو تمام بولیاں سکھا دی تھیں الْمُخْتَلِفَةِ فَكَانَ يَنْطِقُ بِكُلِ لُغَتِ مِّن اور وہ ہر یک بولی عربی فارسی وغیرہ بولتا تھا پس اس کا الْعَرَبِيَّةِ وَالْفَارِسِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنَ الْأَلْسِنَةِ جواب یہ ہے کہ یہ خطا ہے اور اس کی طرف کوئی عقلمند فَجَوَابه أن هذا خطأ نَشَأَ مِنَ الْغَفْلَةِ لا توجہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ بدیہی الثبوت امر کے يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الخُبْرَةِ بِمَا خَالَفَ مخالف ہے اور بے خبروں کا گمان باطل ہے بلکہ پہلی اَمْرًا ثَبَتَ بِالْبَدَاهَةِ وَمَا هُوَ إِلَّا زَعْمُ زبان اور پہلے زمانہ کی بولی صرف عربی ہے اور اس کا الْغَافِلِينَ بَلِ الْعَرَبِيَّةُ هيَ اللَّسَانُ مِن غیر اس کا مال موروثی ہے.یا کوئی چھوٹا سا موتی اس مُسْتَأنِفِ الْآيَامِ وَ مُسْتَظرِفُهَا وَلَيْسَ کے موتیوں میں سے ہے اور تو جانتا ہے کہ قرآن اور غَيْرُهَا إِلَّا كَمَرْجَانٍ مِنْ دُرَرٍ صَدَفِهَا وَانتَ تورات نے جو کچھ ہم نے کہا وہ ثابت کر دیا ہے کیا تَعْلَمُ اَنَّ الْقُرْآنَ وَ التَّوْرَاتَ قَدْ أَثْبَتَا مَا تجھے معلوم نہیں کہ توریت کتاب پیدائش گیارھویں قُلْنَا وَالْمَلا الإثبات ألا تَعْلَمُ مَا جَاءَ في باب میں لکھا ہے کہ ابتدا میں تمام زمین کی بولی ایک الْأَصْحَاحِ الْحَادِى الْعَشَرَ مِنَ التَّكْوِينِ فَإِنَّهُ تھی پھر جب وہ عراق عرب میں داخل ہوئی.تو بابل شَهِدَ أَنَّ اللَّسَان كَانَتْ وَاحِدَةً فِي الْأَرْضِينَ شہر میں بولیوں میں اختلاف پڑا اور قرآن کا بیان تو تو ثُمَّ الخَتَلَفُوا بِبَابِلَ مُعْرِفِينَ وَ آمَا الْقُرْآن سن چکا.پس تحقیق کرنے والوں کی طرح سوچ.پھر فَقَدْ سَبَقَ فِيهِ الْبَيَانُ فَفَكِّرُ كَالْمُحَقِّقِینَ.اس جگہ ایک اور طریق ثبوت حق اور معرفت کے ثُمَّ هُهُنَا طَرِيق أَخَرُ لِطُلَّابِ الْحَقِّ وَالْمَعْرِفَةِ طالبوں کے لئے ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ہم اللہ وَهُوَ إِنَّا إِذَا نَظَرْنَا فِي سُنَنِ اللهِ ذِی الْجَلَالِ وَ ذو الجلال کی سنتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اس کی الْحِكْمَةِ.فَوَجَدْنَا نِظَامَ خَلْقِهِ عَلى طَرِيقِ پیدائش کا نظام وحدت کے طور پر پاتے ہیں اور یہ وہ الْوَحْدَةِ وَ ذَلِكَ آمَرُ اخْتَارَهُ اللهُ لِهِدَايَةِ امر ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے الْبَرِيَّةِ لِيَكُونَ عَلى أحْدِيَّةِ أَحَدٍ مِنَ الْآدِلَّةِ وَ اختیار کیا ہے تا کہ اس کی وحدانیت پر دلیل ہو.اور لِيّدُل على أنّهُ الْخَالِقُ الْوَاحِدُ لا شريك له في اس دلیل پر دلالت کرے کہ وہ اکیلا پیدا کرنے والا السَّمَاءِ وَالْأَرْضِينَ فَالَّذِي خَلَقَ الْإِنْسَانَ واحد لاشریک ہے کوئی اس کا شریک زمین و آسمان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۵۰ سورة البقرة مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ كَيْفَ تُعْذِی اِلَيْهِ | میں نہیں.پس جس نے انسان کونفسِ واحد سے پیدا کیا كَثْرَةٌ غَيْرُ مُرتَّبَةٍ وَلُغَاتٌ مُتَفَرِّقَةٌ غَيْرُ کیونکر اس کی طرف ایک ایسی کثرت منسوب کی جائے جو مُنتَظِمَةٍ أَلَا تَعْلَمُ أَنَّهُ رَاعَى الْوَحْدَةً في غير مرتب ہے اور کیونکر ایسی زبانیں اس کی طرف سے سمجھی صُحُفِهِ كُلِّ كَثْرَةٍ وَأَشَارَ إِلَيْهِ فِي صُحُفِ مُطَهَّرَةٍ جائیں جو غير منتظم ہیں.کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس نے وَ كِتَابِ اِمَامِ الْعَارِفِينَ وَ آبَان في صحفه هر یک کثرت میں وحدت کی رعایت رکھی ہے اور اپنی ہر الْغَرَّاءِ انّه خَلَقَ كُلَّ شَىءٍ قِینَ الْمَاءِ پاک کلام میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے جو عارفوں کی فَانظُرُ إلى سُنَّةِ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاء كَيْفَ رَدَّ امام ہے اور اس نے اپنی کتاب روشن میں بیان فرمایا ہے الْكَثْرَةَ إِلى وَحْدَةِ الْأَشْيَاءِ وَ جَعَلَ الْمَاءَ کہ اس نے ہر یک چیز کو پانی سے ہی پیدا کیا ہے.پس أم الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ فَفَكِّرُ العقلاء خدا تعالیٰ کی سنت کی طرف دیکھ کیوں کر اس نے کثرت کو وحدت كَالْعُقَلَاءِ فَإِنَّهُ عُنْوَانُ الْاهْتِدَاءِ وَ لَا تَسْتَعْجِل کی طرف رد کیا ہے اور پانی کو زمین اور آسمان کی ماں ٹھہرایا كَالْجَاهِلِينَ وَ إِنَّ هَذِهِ الْآيَةَ دَلیل واضح ہے پس عقلمندوں کی طرح سوچ کہ یہ ہدایت پانے کی علامت عَلَى سُنَّةِ خَالِقِ الرَّقِيعِ وَالْغَيْرَاءِ وَفِيهَا ہے اور جاہل مت بن.اور یہ آیت خالق زمین و آسمان کی تَبْصِرَةٌ لِأَهْلِ الْأَنْطَارِ وَالْأَرَاءِ وَاللهُ وثر سنت پر دلیل واضح ہے اور اس میں اہل نظر کے لئے بصیرت تُحِبُّ الوثرَ يَا مَعْشَرَ الطلباء کی راہ ہے اور خدا تعالیٰ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے.هُوَ الَّذِي نَوَّرَ مِنْ نُورٍ وَاحِدٍ نُجُومَ وہی ہے جس نے ایک نور سے تمام ستاروں کو بنایا اور السَّمَاءِ وَ خَلَقَ نُفُوسًا مُتَشَابِبَةٌ عَلَى زمین پر تمام نفوس متشابہ پیدا کئے اور انسان کو ایک عالم الْغَبْرَاءِ وَجَعَلَ الْإِنْسَانَ عَالِمًا جَامِعَ جميع حقائق اشیاء کا جامع بنایا پس اگر مخلوقات کا نظام جَمِيعَ حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ فَلَوْلَمْ يَكُن وحدت پر مبنی نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کی پیدائش میں یہ نِظَامُ الْخَلْقِ مَبْنِيًّا عَلَى الْوَحْدَةِ لَهَا مشابہت نہ پائی جاتی اور مخلوق متفرق چیزوں کی طرح وُجِدَتْ في خَلْقِ اللهِ وُجُودُ هذه ہوتی بلکہ اگر نظام وحدانی نہ ہوتا تو حکمت باطل ہو جاتی اور الْمُقَابَهَةِ، وَلَكَانَ خَلْقُ الله سر روحانی ضائع ہو جاتا اور رہبانی راہ بند ہو جاتی اور كَالْمُتَفَرِقِينَ، بَلْ لَوْ لَمْ يَكُنِ النظام سالکوں کا امر مشکل ہو جاتا.پس تجھے کیا ہو گیا کہ تو اس الْوَحْدَانِي لَبَطَلَتِ الْحِكْمُ وَضَاعَ السّير وحدت کو نہیں سمجھتا جو اس یگانہ پر دلالت کرتی ہے اور وہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة البقرة دو الرُّوحَانِى وَسُدَّ الخراط الرَّيَّانِي وَعَيرَ آمَرُ اسلام میں توحید کا مدار ہے اور اس کی تعظیم السالكين.فَمَالَكَ لا تَفْهَمُ وَحْدَةً دَالَةٌ عَلَى الْوَحِيْدِ اور تمجید کے لئے اصل کبیر ہے اور خدا تعالیٰ وَهِيَ فِي الْإِسْلَامِ مَدَارُ التَّوْحِيدِ وَ أَصْلُ كَبِيرٌ کی وحدانیت اور اس کی یکتائی کے پہچاننے لِلتَّعْظِيمِ وَ التَّمْجِيدِ وَ سِرَاجٌ مُّبِيرٌ لِمَعْرِفَةِ کے لئے ایک چراغ روشن ہے اور ان الْوَحْدَانِيَّةِ الإِلَهِيَّةِ وَالأَحَدِيَّةِ الرَّيَّانِيَّةِ وَانّهَا مِن علوم میں سے ہے جو اہل اسلام سے عُلُومِ اخْتُضَتْ بِالْمُسْلِمِينَ خاص ہے.(ترجمہ اصل کتاب سے ) (منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۱۱ تا ۲۱۴) ابتدا میں جب خدا نے انسان کو پیدا کیا.اس وقت بذریعہ الہام بولیوں کی تعلیم کرنا ایسا امر تھا کہ جس میں دونوں طور کی شرائط موجود تھی.اوّل ذاتی قابلیت پہلے انسان میں جیسا کہ چاہئیے الہام پانے کے لئے موجود تھی.دوسری ضرورت حقہ بھی الہام کی مقتضی تھی کیونکہ اس وقت بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی حضرت آدم کے لئے رفیق شفیق نہ تھا کہ جو ان کو بولنا سکھاتا.پھر اپنی تعلیم سے شائستگی اور تہذیب کے مرتبہ تک پہنچا تا.بلکہ حضرت آدم کے لئے صرف ایک خدائے تعالیٰ تھا جس نے تمام ضروری حوائج آدم کو پورا کیا اور اُس کو آپ حُسن تربیت اور حُسنِ تادیب سے بمرتبہ حقیقی انسانیت کے پہنچایا.ہاں بعد اس کے جب اولاد حضرت آدم کی دنیا میں پھیل گئی.اور جو علوم خدائے تعالیٰ نے آدم کو سکھلائے تھے.وہ اس کی اولاد میں بخوبی رواج پکڑ گئے.تب بعض انسان بعض انسانوں کے استاد اور معلم بن بیٹھے اور ہر یک بچہ کے لئے اس کے والدین بولی سکھانے کے لئے رفیق شفیق نکل آئے.مگر آدم کے لئے بجز ایک خدا کے اور کوئی نہ تھا جو اس کو بولی سکھاتا اور ادب انسانیت سے ادب آموز کرتا.اس کے لئے بجائے استاد اور معلم اور ما اور باپ کے اکیلا خدا ہی تھا.جس نے اس کو پیدا کر کے آپ سب کچھ اس کو سکھایا.غرض آدم کے لئے یہ ضرورت حقاً ووجو با پیش آگئی تھی کہ خدا اس کی تربیت آپ فرماتا اور اس کے مایحتاج کا آپ بندوبست کرتا.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۳۱ تا ۴۴۰) ممکن ہے کہ جس مقام پر آدم علیہ السلام کی پیدائیش ہوئی ہو وہاں کے لوگ کسی عذاب الہی سے ایسے تباہ ہو گئے ہوں کہ آدمی نہ بچا ہود نیا میں یہ سلسلہ جاری ہے کہ کوئی مقام بالکل تباہ ہو جاتا ہے.کوئی غیر آباد، آباد ہو جاتا ہے.کوئی بر بادشدہ پھر از سر نو آباد ہوتا ہے.....پس ایسی صورت میں ان مشکلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے.ایمان لانا چاہئے کہ خدا تعالیٰ رب ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین ہے اور ہمیشہ سے ہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة البقرة.ہے جاندار ایک تو تکون سے پیدا ہوتے ہیں اور ایک تکوین سے ممکن ہے کہ آدم کی پیدائیش کے وقت اور مخلوقات ہو اور اس کی جنس سے نہ ہو یا اگر ہو بھی تو اس میں کیا ہرج ہے کہ قدرت نمائی کے لئے خدا تعالیٰ نے حوا کو بھی ان کی پسلی سے پیدا کر دیا.( بدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۷) یہ الہام جو میری نسبت ہوا.یعنی يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدھ.جس کے یہ معنے ہیں کہ اے آدم تو اپنے جوڑے کے ساتھ جنت میں رہ، میں نے چاہا کہ میں اپنا مظہر دکھلاؤں اس لئے میں نے اس آدم کو پیدا کیا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدم صفی اللہ کے وجود کا سلسلہ دور یہ اس عاجز کے وجود پر آکر ختم ہو گیا.یہ بات اہل حقیقت اور معرفت کے نزدیک مسلم ہے کہ مراتب وجود دور یہ ہیں یعنی نوع انسان میں سے بعض بعض کی خو اور طبیعت پر آتے رہتے ہیں جیسا کہ پہلی کتابوں سے ثابت ہے کہ ایلیا سیلی نبی کی خو اور طبیعت پر آ گیا اور جیسا کہ ہمارے نبی علیہ السلام حضرت ابراہیم کی خُو اور طبیعت پر آئے.اسی ستر کے لحاظ سے یہ ملتِ محمدی ابراہیمی ملت کہلائی.سوضرور تھا کہ مرتبہ آدمیت کی حرکت دوری زمانہ کے انتہا پر ختم ہوتی.سو یہ زمانہ جو آخر الزمان ہے.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو حضرت آدم علیہ السلام کے قدم پر پیدا کیا جو یہی راقم ہے اور اس کا نام بھی آدم رکھا....اور پہلے آدم کی طرح خدا نے اس آدم کو بھی زمین کے حقیقی انسانوں سے خالی ہونے کے وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں جلالی اور جمالی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح پھونکی کیونکہ دنیا میں کوئی روحانی انسان موجود نہ تھا جس سے یہ آدم روحانی تولد پاتا.اس لئے خدا نے خود روحانی باپ بن کر اس آدم کو پیدا کیا اور.ظاہری پیدائیش کے رُو سے اسی طرح نر اور مادہ پیدا کیا جس طرح کہ پہلا آدم پیدا کیا تھا یعنی اس نے مجھے بھی جو آخری آدم ہوں جوڑا پیدا کیا جیسا کہ الہام يا آدَمُ اسْكُن انتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ میں اس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے اور بعض گذشتہ اکابر نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ وہ انتہائی آدم جو مہدی کامل اور خاتم ولایت عامہ ہے اپنی جسمانی خلقت کے رُو سے جوڑا پیدا ہوگا یعنی آدم صفی اللہ کی طرح مذکر اور مؤنث کی صورت پر پیدا ہوگا اور خاتم الاولاد ہوگا کیونکہ آدم نوع انسان میں سے پہلا مولود تھا.سوضرور ہوا کہ وہ شخص جس پر بکمال و تمام دورہ حقیقت آدمیہ ختم ہو وہ خاتم الاولاد ہو یعنی اس کی موت کے بعد کوئی کامل انسان کسی عورت کے پیٹ سے نہ نکلے.اب یادر ہے کہ اس بندہ حضرت احدیت کی پیدائش جسمانی اس پیشگوئی کے مطابق بھی ہوئی.یعنی میں تو ام پیدا ہوا تھا اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جس کا نام جنت تھا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة البقرة اور یہ الہام کہ یا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ جو آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۶ میں درج ہے.اس میں جو جنت کا لفظ ہے اس میں یہ ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ لڑکی جو میرے ساتھ پیدا ہوئی اس کا نام جنت تھا اور یہ لڑکی صرف سات ماہ تک زندہ رہ کر فوت ہو گئی تھی.غرض چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام اور الہام میں مجھے آدم صفی اللہ سے مشابہت دی تو یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس قانونِ قدرت کے مطابق جو مراتب وجود دوریہ میں حکیم مطلق کی طرف سے چلا آتا ہے مجھے آدم کی خُو اور طبیعت اور واقعات کے مناسب حال پیدا کیا گیا ہے چنانچہ وہ واقعات جو حضرت آدم پر گذرے منجملہ اُن کے یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش زوج کے طور پر تھی یعنی ایک مرد اور ایک عورت ساتھ تھی اور اسی طرح پر میری پیدائیش ہوئی یعنی جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی...اہل کشف نے مہدی خاتم الولایت کی علامتوں میں سے لکھا ہے اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد اور کوئی مہدی پیدا نہیں ہوگا خدا سے براہِ راست ہدایت پائے گا جس طرح آدم نے خدا سے ہدایت پائی اور وہ اُن علوم اور اسرار کا حامل ہوگا جن کا آدم خدا سے حامل ہوا اور ظاہری مناسبت آدم سے اس کی یہ ہوگی کہ وہ بھی زوج کی صورت پیدا ہوگا یعنی مذکر اور موکٹ دونوں پیدا ہوں گے جس طرح آدم کی پیدائیش تھی کہ اُن کے ساتھ ایک موکٹ بھی پیدا ہوئی تھی یعنی حضرت حوا علیہا السلام.اور خدا نے جیسا کہ ابتدا میں جوڑا پیدا کیا مجھے بھی اس لئے جوڑا پیدا کیا کہ تا اولیت کو آخریت کے ساتھ مناسبت نام پیدا ہو جائے یعنی چونکہ ہر ایک وجود سلسلہ بروزات میں دور کرتا رہتا ہے اور آخری بروز اُس کا بہ نسبت درمیانی بروزات کے اتم اور اکمل ہوتا ہے اس لئے حکمتِ الہیہ نے تقاضا کیا کہ وہ شخص کہ جو آدم صفی اللہ کا آخری بروز ہے وہ اس کے واقعات سے اشد مناسبت پیدا کرے.سو آدم کا ذاتی واقعہ یہ ہے کہ خدا نے آدم کے ساتھ حوا کو بھی پیدا کیا سو یہی واقعہ بروز اتم کے مقام میں آخری آدم کو پیش آیا کہ اس کے ساتھ بھی ایک لڑکی پیدا کی گئی اور اُسی آخری آدم کا نام عیسی بھی رکھا گیا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ حضرت عیسی کو بھی آدم صفی اللہ کے ساتھ ایک مشابہت تھی لیکن آخری آدم جو بروزی طور پر عیسیٰ بھی ہے آدم صفی اللہ سے اشد مشابہت رکھتا ہے کیونکہ آدم صفی اللہ کے لئے جس قدر بروزات کا دور ممکن تھا وہ تمام مراتب بروزی وجود کے طے کر کے آخری آدم پیدا ہوا ہے اور اس میں اتم اور اکمل بروزی حالت دکھائی گئی ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۵ میں میری نسبت ایک یہ خدا تعالیٰ کا کلام اور الہام ہے کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۵۴ سورة البقرة خَلَقَ آدَمَ فَأَكْرَمَه یعنی خدا نے آخری آدم کو پیدا کر کے پہلے آدموں پر ایک وجہ کی اس کو فضیلت بخشی.اس الہام اور کلام الہی کے یہی معنے ہیں کہ گو آدم صفی اللہ کے لئے کئی بروزات تھے جن میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے لیکن یہ آخری بروز اکمل اور اتم ہے.( تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۷۵ تا ۴۸۱) إِنَّ اللَّهَ وِثَرٌ تُحِبُّ الْوِتْرَ فَاقْتَضَتْ | خدا اکیلا ہے اور ایک ہونے کو دوست رکھتا ہے.وَحْدَتُهُ أَنْ يَكُونَ الْإِنْسَانُ الَّذِى هُوَ اس لئے اُس کی یکتائی نے چاہا کہ وہ انسان جوخلیفوں کا خَاتَمُ الخُلَفَاءِ مُشَابِها بِادَمَ الَّذِي هُوَ أَوَّلُ خاتم ہو اُس آدم سے مشابہ ہو جو سب خلیفوں کا پہلا تھا مَنْ أُعْطِيَ خِلَافَةً عُظمى وَ أَوَّلُ مَنْ نُفِخَ اور مخلوقات میں اول شخص تھا جس میں خدا کی روح پھونکی فِيْهِ الرُّوحُ مِنْ رَّبِّ الْوَرى لِيَكُونَ زَمَانُ گئی تھی اور یہ اس لئے کیا تا کہ نوع بشر کا زمانہ اُس دائرہ نَوعِ الْبَشَرِ كَدَائِرَةِ يَتَّصِلُ نُقْطَةُ الْآخِرَةِ کی طرح ہو جائے جس کا آخری نقطہ اُس کے پہلے نقطہ بِنُقْطَتِهَا الْأُولى.وَلِيَكُل عَلَى التَّوْحِيدِ سے مل جاتا ہے اور نیز اس لئے کہ اس توحید پر دلالت الَّذِى دُعَى إِلَيْهِ الْإِنْسَانُ وَ التَّوْحِيدُ کرے کہ جس کی طرف انسان کو بلایا گیا ہے.اور توحید أَحَبُّ الْأَشْيَاء إلى ربنا الأغلى فالختار ہمارے پروردگار کو سب چیزوں سے زیادہ پیاری ہے.وَضْعًا دَوْرِيًّا في خَلْقِ الْإِنْسَانِ فَلِذَالِكَ اس لئے انسان کی پیدائش میں وضع دوری کو اختیار خَتَمَ عَلَى آدَمَ كَمَا كَانَ بَدَأَ مِنْ آدَمَ في فرمایا.اور اسی سبب سے آدم پر ختم کیا جیسا کہ شروع أَوَّلَ الْأَوَانِ وَ إِنَّ فِي ذَالِكَ لَآيَةً میں آدم سے ابتدا کیا اور فکر کرنے والوں کے لئے اس لِلْمُتَفَكَرِيْنَ وَإِنَّ ادَمَ الحَرَ الزَّمَانِ میں بڑا بھاری نشان ہے اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت حَقِيقَةٌ هُوَ نَبِيُّنا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہمارے نبی کریم ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور میری نسبت وَالنِّسْبَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ كَنِسْبَةِ مَنْ عَلَّمَ اُس کی جناب کے ساتھ اُستاد اور شاگرد کی نسبت ہے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَتَعَلَّمَ (خطبہ الہامی،روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۵۶ تا ۲۵۸) قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْنَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (٣٣ تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں.سوا اس کے جو تو نے ہم کو سکھایا.تحقیق تو علم اور حکمت والا ہے.( بدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۸ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) کیا عمدہ اور صاف اور پاک اور خدائے تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی کے موافق یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة البقرة سے ہونا ثابت ہے وہ قبول کیا جائے اور جو کچھ آئندہ ثابت ہو اس کے قبول کرنے کے لئے آمادہ رہیں اور بجز امور منافی صفات کمالیہ حضرت باری عزاسمہ سب کاموں پر اس کو قادر سمجھا جائے اور امکانی طور پر سب ممکنات قدرت پر ایمان لایا جائے یہی طریق اہلِ حق ہے جس سے خدائے تعالیٰ کی عظمت و کبریائی قبول کی جاتی ہے اور ایمانی صورت بھی محفوظ رہتی ہے جس پر ثواب پانے کا تمام مدار ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۰۳، ۱۰۴) طریق عبودیت یہی ہے کہ سُبحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا کہنے والوں کے ساتھ ہو.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۱) خدا کا نام علیم ہے اور پھر قرآن میں آیا ہے الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ (الرحمن : ۲، ۳) اسی لئے ملائکہ نے اقام جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۲) کہا.لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَليكةِ اسْجُدُ والأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الكفرين (۳۵) انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں.ایک حُسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع اُن کے متعلق فوت نہ ہو....دوسر احسن انسان کی پیدائش میں حُسنِ بشرہ ہے.اور یہ دونوں حسن اگر چہ رُوحانی اور جسمانی پیدائش درجہ پنجم میں نمودار ہو جاتے ہیں لیکن آب و تاب اُن کی فیضانِ رُوح کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ جسمانی وجود کی رُوح جسمانی قالب طیار ہونے کے بعد جسم میں داخل ہوتی ہے ایسا ہی روحانی وجود کی رُوح روحانی قالب طیار ہونے کے بعد انسان کے رُوحانی وجود میں داخل ہوتی ہے.یعنی اُس وقت جب کہ انسان شریعت کا تمام جوا اپنی گردن پر لے لیتا ہے اور مشقت اور مجاہدہ کے ساتھ تمام حدود الہیہ کے قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اور ورزش شریعت اور بجا آوری احکام کتاب اللہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خُدا کی روحانیت اس کی طرف توجہ فرماوے اور سب سے زیادہ یہ کہ اپنی محبت ذاتیہ سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ کا مستحق ٹھہرالیتا ہے جو برف کی طرح سفید اور شہد کی طرح شیریں ہے.اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وجود روحانی خشوع کی حالت سے شروع ہوتا ہے اور روحانی نشو و نما کے چھٹے مرتبہ پر یعنی اس مرتبہ پر کہ جب کہ رُوحانی قالب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة البقرة کے کامل ہونے کے بعد محبت ذاتیہ الہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے.لیکن یہ حسن جو روحانی حسن ہے جس کو حسن معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ بحسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے.کیونکہ حسن بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہوگی.لیکن وہ روحانی محسن جس کو حسن معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی محسن والا انسان جس میں محبت الہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حُسنِ رُوحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں.تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں.اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے.جب سے کہ صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرہ روحانی حسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی.کیونکہ وہ حسن تھیلی گاہ حق ہے.وہی محسن تھا جس کے لئے فرمایا : اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اس حسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے.نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الانبیاء و خیر الوریٰ مولانا وسید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے: دَنَا فَتَدَلی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أو أدنى (النجم : ۱۰۹) یعنی وہ نبی جناب انہی سے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا.اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا.یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود واقع ہوا جیسے یہ.اس حسن کو نا پاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا خالق مخلوق قوس قور درمیانی خط آنحضرت (199: کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف: ۱۹۹) یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا.آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے.(ضمیمہ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۱) آدم سے مراد کامل انسان ہے جب انسان کامل آدم بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم سجدہ (اطاعت ) کا دیتا ہے اور اس کے ہر ایک کام کو خدا تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ سے سرانجام کرتا ہے لیکن آدم کامل بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا خدا سے سچا اور پکا تعلق ہو جب انسان ہر ایک حرکت اور سکون حکم الہی کے نیچے ہو کر کرتا ہے تو انسان خدا کا ہو جاتا ہے تب خدا انسان کا والی وارث ہو جاتا ہے اور پھر اس پر کوئی مخالفت سے دست اندازی نہیں کر سکتا.لیکن وہ آدمی جو احکام الہی کی پروا نہیں کرتا خدا بھی اُس کی پروا نہیں کرتا ۰۰۰۰۰۰۰ آدم علیہ السلام کامل انسان تھے فرشتوں کو سجدہ ( اطاعت ) کا حکم ہوا.اسی طرح اگر ہم میں ہر ایک آدم بنے تو وہ بھی فرشتوں سے سجدہ کا مستحق ہے.انام جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ارفروری ۱۹۰۵ صفحه ۴) اہل عرب اس قسم کے استثنا کرتے ہیں صرف و نحو میں بھی اگر دیکھا جاوے تو ایسے استثناء بکثرت ہوا کرتے ہیں اور ایسی نظیریں موجود ہیں جیسے کہا جاوے کہ میرے پاس ساری قوم آئی مگر گدھا.اس سے یہ سمجھنا کہ ساری کی ساری قوم جنس حمار میں سے تھی غلط ہے تكَانَ مِنَ الْجِن کے بھی یہ معنے ہوئے کہ وہ فقط ابلیس ہی قوم جن میں سے تھا.ملائکہ میں سے نہیں تھا ملائک ایک الگ پاک جنس ہے اور شیطان الگ.ملائکہ اور ابلیس کار از ایسا مخفی در مخفی ہے کہ بجز آمَنَا وَ صَدَّقْنَا کے انسان کو چارہ نہیں.اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اقتدار و توفیق نہیں دی مگر وسوسہ اندازی میں وہ محترک ہے جیسے ملائکہ پاک تحریکات کے محرک ہیں ویسے ہی شیطان ناپاک جذبات کا محرک ہے.ملائکہ کی منشاء ہے کہ انسان پاکیزہ ہو مطہر ہو اور اُس کے اخلاق عمدہ ہوں اور اس کے بالمقابل شیطان چاہتا ہے کہ انسان گندہ اور ناپاک ہو.اصل بات یہ ہے کہ قانونِ الہی ملائکہ وابلیس کی تحریکات کا دوش بدوش چلتا ہے.لیکن آخر کا ر ارادہ الہی غالب آجاتا ہے.گویا پس پردہ ایک جنگ ہے جو خود بخود جاری رہ کر آخر قادر و مقتدر حق کا غلبہ ہو جاتا ہے اور باطل کی شکست.
۱۵۸ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام چار چیزیں ہیں جن کی گنہ ور از کو معلوم کرنا انسان کی طاقت سے بالا تر ہے اوّل.اللہ جل شانہ، دویم.روح ، سویم.ملائکہ، چہارم.اہیں.جو شخص ان چہاروں میں سے خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل ہے اور ابلیس اس کے صفات الوہیت پر ایمان رکھتا ہے.ضرور ہے کہ وہ ہر سہ اشیاء روح و ملائکہ وابلیس پر ایمان لائے.(الکام، جلد سے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳) بہت سے گناہ اخلاقی ہوتے ہیں جیسے غصہ، غضب ، کینہ ، جوش ، ریا.تکبر ، حسد وغیرہ یہ سب بداخلاقیاں ہیں جو انسان کو جہنم تک پہنچا دیتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ جس کا نام تکبر ہے شیطان نے کیا تھا یہ بھی ایک بد خلقی ہی تھی جیسے لکھا ہے.آبی وَ اسْتَكْبَر (البقرة :۳۵) اور پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا وہ مردود خلائق ٹھہرا.اور ہمیشہ کے لیے لعنتی ہوا مگر یا درکھو کہ یہ تکبر صرف شیطان ہی میں نہیں ہے بلکہ بہت ہیں جو اپنے غریب بھائیوں پر تکبر کرتے ہیں اور اس طرح پر بہت سی نیکیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہ تکبیر کئی طرح پر ہوتا ہے کبھی دولت کے سبب سے، کبھی علم کے سبب سے، کبھی حسن کے سبب سے اور کبھی نسب کے سبب سے ،غرض مختلف صورتوں سے تکبر کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی محرومی ہے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۷ار مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُهَا وَلَا تَقْرَبَا هُذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ حوا پسلی ہی سے بنائی گئی ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان لاتے ہیں.ہاں اگر کوئی کہے کہ پھر ہماری پہلی نہ ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ یہ قیاس ، قیاس مع الفارق ہے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو.میں اگر خدا تعالیٰ کو قادر اور عظیم الشان نہ دیکھتا تو یہ دُعاؤں کی قبولیت کے نمونے جو دیکھتا ہوں نظر نہ آتے.....پس یہ کہنا کہ آدم علیہ السلام کی پہلی نکال لی تھی اور حوا اس پہلی سے بنی تو پھر پہلی کہاں سے آ گئی سخت بیوقوفی اور اللہ تعالیٰ کے حضور سوء ادبی ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحه ۲) انبیاء علیہم السلام کے گلہ کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے.چونکہ وہ ان تعلقات سے محض نا آشنا ہوتا ہے جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں.اس لئے کسی ایسے امر کو جو ہماری سمجھ اور دانش سے بالاتر اور بالا تر ہے اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا صریح حماقت ہے.مثلاً آدم علیہ السلام کا گلہ کرنے لگے کہ انہوں نے درخت ممنوع کا پھل کھایا.یا عبس وتوثی (عبس:۲) کو لے بیٹھے.ایسی حرکت آداب الرسل کے خلاف ہے اور کفر کی حد تک پہنچادیتی ہے.احکم جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ مورخه ۱/۳۰ پریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورة البقرة يادم اسكن أنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.....اے آدم....تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۱٬۵۹۰ بقیه حاشیه در حاشیه) شجرہ کی نسبت سوال ہوا کہ وہ کونسا درخت تھا جس کی ممانعت کی گئی تھی.فرمایا کہ مفسروں نے کئی باتیں لکھی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ انگور ہوگا.شراب اس سے پیدا ہوتی ہے اور شراب کی نسبت لکھا ہے رخش من عَمَلِ الشَّيْطن (المائدة : ٩١) یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت کا انگور ایسا ہی ہو کہ بغیر سرا نے گلانے کے اس کے تازہ شیرہ میں نشہ ہوتا ہو جیسے تاڑی کہ ذرا سی دیر کے بعد اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے.سوال ہوا کہ آدم کی جنت کہاں تھی؟ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳ پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۲) اس کے متعلق فرمایا: ہمارا مذہب یہی ہے کہ زمین میں ہی تھی خدا فرماتا ہے: مِنْهَا خَلَقْنَكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُم ( طه : ۵۶) آدم کی بود و باش آسمان پر یہ بات بالکل غلط ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۱٫۳ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۲) ص فَازَ لَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُةٌ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعُ إِلَى حِينٍ کامل یقین والوں کو شیطان چُھو بھی نہیں سکتا....میرا تو یقین ہے کہ حضرت آدم کی استعداد میں کسی قدر تساہل تھا تب ہی تو شیطان کو وسوسہ کا قابومل گیا.واللہ اگر اس جگہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سا جو ہر قابل کھڑا کیا جاتا تو شیطان کا کچھ بھی پیش نہ جاتا.( بدر جلد ۱۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحه ۲) یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوا کے پاس گیا ہو بلکہ جیسا کہ اب چھپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کر گیا تھا کسی آدم کے اندر وہ اپنا خیال بھر دیتا ہے اور وہ اس کا قائم مقام ہو جاتا ہے.کسی ایسے ہی مخالف دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی.اور وہ بہشت جس میں حضرت آدم رہتے تھے وہ بھی زمین پر ہی تھا.کسی بد نے اُن کے دل میں وسوسہ ڈال دیا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۰) شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا.یہ لفظ شیط سے نکلا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17+ سورة البقرة جود جود شر انگیز ہے یعنی وجود شیطان جس کا مقام ذو العقول کے قسم میں انتہائی نقطہ انخفاض میں واقع ہے اس کا اثر ہر ایک دل کو جو اس سے کچھ نسبت رکھتا ہے شرک کی طرف کھینچتا ہے جس قدر کوئی اس سے مناسبت پیدا کرتا ہے اسی قدر بے ایمانی اور خباثت کے خیال اس کو سو جھتے ہیں یاں تک کہ جس کو مناسبت تام ہو جاتی ہے وہ اسی کے رنگ اور روپ میں آکر پورا پورا شیطان ہو جاتا ہے اور ظلی طور پر ان سب کمالات خباثت کو حاصل کر لیتا ہے جو اصلی شیطان کو حاصل ہیں.سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۱،۲۵۰ حاشیه ) بعض فرقے جو شیطان کے وجود سے منکر ہیں وہ تعجب کریں گے کہ شیطان کیا چیز ہے؟ پس اُن کو یاد رہے کہ انسان کے دل کے ساتھ دو کششیں ہر وقت نوبت به نوبت لگی رہتی ہیں.ایک کشش خیر کی اور ایک کشش شر کی.پس جو خیر کی کشش ہے شریعت اسلام اُس کو فرشتہ کی طرف منسوب کرتی ہے.اور جو شر کی کشش ہے اس کو شریعت اسلام شیطان کی طرف منسوب کرتی ہے.اور مدعا صرف اس قدر ہے کہ انسانی سرشت میں دو کششیں موجود ہیں.کبھی انسان نیکی کی طرف جھکتا ہے اور کبھی بدی کی طرف.ہے.(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۹) شیطان کو ہمیشہ رات سے غرض ہے دن سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ پرانا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵) ( تاریکی تاریکی کو پیدا کرتی ہے اندرونی روشنی اور روشنی کو لاتی ہے اسی واسطے تاریکی کو شیطان سے تشبیہ دی ہے اور روشنی روح القدس سے مشابہہ ہے.احکام جلد ۵ نمبر ۱۶ مورخه ۳۰ / اپریل ۱۹۰۱ ء صفحه ۴) توریت سے ثابت ہوتا ہے کہ سانپ آدم کے گناہ سے پہلے ہی لعنتی جانور تھا جس نے خدا کی مخالفت کی سوسوال یہ ہے کہ یہ آدم سے پہلے کیوں کر لعنتی ہو گیا.توریت کا بیان ہے کہ سانپ نے حوا سے باتیں کیں لیکن ظاہر ہے کہ خدا کے قانونِ قدرت میں یہ بات داخل نہیں ہے کہ سانپ انسان سے باتیں کرے سو کچھ شک نہیں کہ سانپ سے مراد شیطان ہے گو نخاش کا لفظ عبرانی میں صرف سانپ پر اطلاق پاتا ہے مگر کچھ شک نہیں کہ جوائم الالسنہ ( عربی ) میں لفظ آیا ہے وہ خناس ہے اور خنّاس کو غیر مرتب طور پر مقلوب کر کے اور خا کا نقطہ اڑا کر اور اس پر تین نقطے ڈال کر معاش بنایا گیا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ خدا کے قانون قدرت کے رو سے شیطان بھی انسان کے ساتھ باتیں نہیں کرتا.اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان نے تو اسے خواب میں سانپ کی صورت پر باتیں کیں یا کشف میں جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۱ سورة البقرة بیداری سے مشابہ ہوتا ہے باتیں کیں اور تعبیر کی رو سے سانپ شیطان کا نام ہے اور سانپ سے باتیں کرنا یہ ہے کہ کوئی ظالم بادشاہ ظہور کرے جیسا کہ لکھا ہے اِن رَأى أنه يُكَلِّمُ الْحَيَّةَ ظَهَرَ عَدُوٌّ مِنَ الْفَرَاعِنَةِ پس یہ بات قریب قیاس ہے کہ آدم کے خروج کا یہ باعث ہوا ہو کہ کوئی جابر بادشاہ اُس ملک میں آ گیا ہو اور اُس نے آدم کو اس ملک سے نکال دیا ہو کیونکہ یہ عادت اللہ میں داخل نہیں ہے کہ یونہی خدا کے فرشتے دھکے دے کر نکالیں.سانپ کا حوا سے باتیں کرنا صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک استعارہ ہے کیونکہ خدا کا قانونِ قدرت اس بات کی شہادت نہیں دیتا کہ حیوانات انسان سے باتیں کریں اور سلیمان سے طیور کا باتیں کرنا بھی بطریق کشف کے تھا نہ کہ ظاہری طور پر اسی لئے وہ معجزہ تھا اور اگر وہ فعل مجرد انسانی قومی کے ذریعہ سے ہوتا تو آج کل کروڑ ہا آدمی حیوانات سے گفتگو کر سکتے.احکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۵) وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَ وَ مَتَاعٌ إِلى حِينِ یعنی تم اپنے جسم خاکی کے ساتھ زمین پر ہی رہو گے یہاں تک کہ اپنے تمتع کے دن پورے کر کے مرجاؤ گے.یہ آیت جسم خاکی کو آسمان پر جانے سے روکتی ہے کیونکہ لکھ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خا کی آسمان پر جانہیں سکتا بلکہ زمین سے ہی نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۹) (ترجمہ) تمہارے قرار کی جگہ زمین ہی رہے گی.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۰ حاشیه ) تمہاری قرارگاہ زمین ہی ہوگی اور موت کے دنوں تک تم زمین پر ہی اپنے آرام کی چیزیں حاصل کرو گے.یہ آیت بھی آیت ممدوحہ بالا ( فيها تَخيَونَ الخ) کے ہم معنے ہے.پس کس طرح ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ زمین پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے صرف تینتیس برس تک زندگی بسر کریں مگر آسمان پر جو انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں دو ہزار برس تک یا اس سے بھی زیادہ کسی نا معلوم مدت تک سکونت اختیار کر رکھیں.اس سے تو شبہ پڑے گا کہ وہ انسان نہیں ہیں.خاص کر اس صورت میں کہ ایسے فوق الانسانیت خواص دکھلانے میں کوئی دوسرا انسان ان کا شریک نہیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۵،۳۹۴) وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَر یعنی تمہارا قرار گاہ زمین ہی رہے گی.حملہ گولا و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه (۹) تمہاراز مین پر ہی قرار ہوگا اور تم زمین پر ہی اپنی موت تک زندگی بسر کرو گے.یہ بھی خدا کا وعدہ ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۸) آدم جس بہشت میں سے نکالا گیا تھا وہ زمین پر ہی تھا بلکہ توریت میں ان کے حدود بھی بیان کئے گئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۶۲ سورة البقرة ہیں.نصوص قرآنیہ سے یہی ثابت ہے کہ انسان کے رہنے اور مرنے کے واسطے یہی زمین ہے.جو شخص اس کے برخلاف کچھ مذہب رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی بے ادبی کرتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۵) فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَةٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ الثَّوَابُ الرَّحِيمُ ) دُعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کے لئے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اس کا پیرا یہ بتادیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمت اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راست باز بندوں کو قبول ہونے والی دُعائیں خود الہاما سکھا دیتا ہے.بعض وقت ایسی دُعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دُعا کرنے والا نا پسند کرتا ہے مگر وہ قبول ہو جاتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحه ۷) قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَأَمَا يَأْتِيَنَكُمْ مِنِى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) یعنی جولوگ میرے کلام کی پیروی کریں نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں سو یہ موتیں اور ذلتیں جو دنیا پرستوں پر آتی ہیں.ان موتوں کے خوف سے وہ لوگ رہائی پا جاتے ہیں جو کہ خود رضائے الہی میں فانی ہو کر روحانی طور پر موت قبول کر لیتے ہیں.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹) وَالَّذِيْنَ كَفَرُوا وَ كَذَبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.یعنی جو لوگ ہماری کتاب پہنچنے کے بعد کفر اختیار کریں اور تکذیب کریں وہ جہنم میں گرائے جائیں گے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۱۰) جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۱) ہمارا ایمان یہی ہے کہ دوزخ میں ایک عرصہ تک آدمی رہے گا پھر نکل آئے گا گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہو سکی اُن کی اصلاح دوزخ کرے گا.حدیث میں آیا ہے: يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيْهَا احد یعنی دوزخ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اُس میں کوئی تنفس نہیں ہوگا اور نسیم صبا اُس کے دروازوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھٹکھٹائے گی.۱۶۳ سورة البقرة الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۳) يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُونِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کا دیا ہوا لقب ہے اسرائیل کے معنے ہیں جو خدا سے بے وفائی نہیں کرتے اس کی اطاعت اور محبت کے رشتہ میں منسلک قوم.حقیقی اور اصلی طور پر اسلام کے یہی معنے ہیں بہت سی پیشگوئیوں میں جو اسرائیل کا نام رکھا ہے.یہ قلت فہم کی وجہ سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی ہیں اسرائیل سے مراد اسلام ہی ہے اور وہ پیشگوئیاں اسلام کے حق میں ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۷) کسی قوم موجودہ کو مخاطب کرنے سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خطاب قوم موجودہ تک ہی محدود ر ہے بلکہ قرآن کریم کا تو یہ بھی محاورہ پایا جاتا ہے کہ بسا اوقات ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے مگر اصل مخاطب کوئی اور لوگ ہوتے ہیں جو گزر گئے یا آئندہ آنے والے ہیں مثلاً اللہ جل شانہ سورۃ البقرہ میں یہود موجودہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: لبنی اسراءیلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِى أَوْفِ بِعَهْدِكُمْ وَايَايَ فَارهَبُونِ یعنی اے بنی اسرائیل! اُس نعمت کو یاد کرو جو ہم نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو تائیں بھی تمہارے عہد کو پورا کروں اور مجھ سے پس ڈرو.اب ظاہر ہے کہ یہود موجودہ زمانہ آنحضرت تو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ کا مصداق تھے ان پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ان سے یہ عہد ہوا تھا کہ تم نے خاتم الانبیاء پر ایمان لانا.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه (۳۲۶) وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَ إِيَّايَ فَاتَّقُونِ ص خدا کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں اس ملک کے لوگ نذر ختم وغیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے وَلَا تَشْتَرُوا بِايْتِي ثَمَناً قَلِيلاً یہ کفر ہے جو طریق آج کل پنجاب میں نماز کا ہے میرے نزدیک ہمیشہ سے اُس پر بھی اعتراض ہے.ملاں لوگ صرف مقررہ آدمیوں پر نظر کر کے جماعت کراتے ہیں.ایسا امام شرعا نا جائز ہے.صحابہ میں کہیں نظیر نہیں ہے کہ اس طرح اجرت پر امامت کرائی ہو پھر اگر کسی کو مسجد سے نکالا جاوے تو چیف کورٹ تک مقدمہ چلتا ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ ایک ملانے نماز جنازہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة البقرة کی ۶ یا تکبیریں کہیں لوگوں نے پوچھا تو جواب دیا کہ یہ کام روز مرہ کے محاورہ سے یادرہتا ہے.کبھی سال میں ایک آدمی مرتا ہے تو کیسے یادر ہے.جب مجھے یہ بات بھول جاتی ہے کہ کوئی مرا بھی کرتا ہے تو اس وقت کوئی میت ہوتی ہے.اسی طرح ایک ملا یہاں آ کر رہا ہمارے میرزا صاحب نے اُسے محلے تقسیم کر دیئے ایک دن وہ روتا ہوا آیا کہ مجھے جو محلہ دیا ہے اس کے آدمیوں کے قد چھوٹے ہیں اس لئے اُن کے مرنے پر جو کپڑا ملے گا اس سے چادر بھی نہ بنے گی اس وقت ان لوگوں کی حالت بہت ردی ہے صوفی لکھتے ہیں کہ مُردہ کا مال کھانے سے دل سخت ہو جاتا ہے.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ.البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۷۳) ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵) عزیز وا یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا چاہئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگا وے اور بہر حال صدق دکھاوے تافضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام اُن لوگوں کے لئے تیار ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۳) جوز یور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دے دیا جاوے وہ زکوۃ احکام جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۱٫۳۰ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) ے مستقلی ہے.زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا.زیور ہو، کچھ ہو جب کہ انتفاع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں.اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس کی زکوۃ بھی اس کے ذمہ ہے.زیور کی زکوۃ بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱) ایک شخص کا سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو وہ پیدہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا ”نہیں“.( بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ܬܪܙ سورة البقرة ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت ساحصہ خریداروں کی طرف ہوتا ہے اورا گراہی میں پڑا ہوتا ہے اس پر زکوۃ ہے یا نہیں.فرمایا جو مال معلق ہے اس پر زکوۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آ جائے لیکن تاجر کو چاہئے کہ حیلہ بہانے سے زکوۃ کو نہ ٹال دے.آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتا ہے.تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوۃ دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے.بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں.یہ درست نہیں ہے.( بدرجلد ۶ نمبر ۲۸ مورخ ۱۱/ جولائی ۱۹۰۷ صفحه ۵) بہت سے لوگ زکوۃ دے دیتے ہیں مگر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ یہ کس کی زکوۃ ہے؟ اگر کتے کو ذبح کر دیا جاوے یا سور کو ذبح کر ڈالو تو وہ صرف ذبح کرنے سے حلال نہیں ہو جائے گا.زکوۃ تزکیہ سے نکلی ہے مال کو پاک کرو.اور پھر اس میں سے زکوۃ دو.جو اس میں سے دیتا ہے.اس کا صدق قائم ہے لیکن جو حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا وہ اس کے اصل مفہوم سے دور پڑا ہوا ہے اس قسم کی غلطیوں سے دست بردار ہونا چاہئے اور ان ارکان کی حقیقت کو بخوبی سمجھ لینا چاہئے تب یہ ارکان نجات دیتے ہیں ورنہ نہیں اور انسان کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے یقیناً سمجھو کہ فخر کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کا کوئی انفسی یا آفاقی شریک نہ ٹھہراؤ اور اعمال صالحہ بجالاؤ.مال سے محبت نہ کرو.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحه ۹) اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو اُن پر بوجہ املاک و اموال وزیورات وغیرہ کے زکوۃ فرض ہو تو اُن کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے.اور عنقریب ہے جو منکر زکوۃ کا فر ہو جائے.پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوۃ دی جاوے.زکوۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۲۶۷) جائیں.زیورات کی نسبت جو آپ نے دریافت کیا ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے.مگر اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ جوز یور مستعمل ہو اُس کی زکوۃ نہیں ہے.مگر بہتر ہے کہ دوسرے کو عار بیتا کبھی دید یا کریں مثلاً دو تین روز کے لئے کسی عورت کو اگر عاریتا سینے کے لئے دے دیا جائے تو پھر بالا تفاق ساقط ہو جاتی ہے.( مکتوبات جلد نمبر ۵ صفحه ۵۵ مکتوب ۵ نمبر ۱۳ بنام منشی حبیب الرحمان صاحب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة البقرة اتَأمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الكتب اَفَلَا تَعْقِلُونَ.نیک آدمیوں کی یہی نشانی ہے کہ وہ ایسی نصیحت کسی دوسرے کو ہرگز نہیں دیتے جس کے آپ پابند نہ ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِر وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُم کیا تم لوگوں کو نیک باتوں کے لئے نصیحت کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو یعنی آپ ان نیک باتوں پر عمل نہیں کرتے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۰۵) حقیقت میں اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل با ہم ایک مطابقت رکھتے ہوں اگر ان میں مطابقت نہیں تو کچھ بھی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے : أَتَا مُرُونَ النَّاسَ بِالبِر وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہو.مگر اپنے آپ کو اس امریکی کا مخاطب نہیں بناتے بلکہ بھول جاتے ہو.القام جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا.پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے : أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ.اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے چونکہ خود تو وہ پابند ان امور کا نہیں ہوتا اس لئے آخر کار لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کا مصداق ہو جاتا ہے.اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیحت کرنی بہت مشکل ہے لیکن بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بغض اور کبر ملا ہوا ہوتا ہے اگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہوتے تو خدا ان کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا بڑا اسعید وہ ہے جواوّل اپنے عیوب کو دیکھے.ان کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا رہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخہ ۸ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلا عَلَى الْخَشِعِينَ صبر اور صلوۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو.کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دور ہو جاتی ہیں.براتان احمد یه چهار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 172 سورة البقرة نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دُعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ اُن کی نماز اور اُن کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.نہ کا کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۹،۶۸) انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دیئے ہیں جیسے اقیمُوا الصَّلوةَ نماز کو قائم رکھو یا فرمایا وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر گوئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.الحکم جلد نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۱۵) وَ اِذْ نَجَّيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَ يَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءُ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ.یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی وہ تم کو طرح طرح کے دُکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۶) اے بنی اسرائیل ہماری اس نعمت کو یاد کرو کہ ہم نے آل فرعون سے تمہیں چھڑا یا تھا جب وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو رکھ لیتے تھے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶) وَاذْفَرقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُمْ وَأَغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَ انْتُمْ تَنْظُرُونَ ) اور وہ زمانہ یاد کرو جب دریا نے تمہیں راہ دیا تھا اور فرعون اس کے لشکر کے سمیت غرق کیا گیا تھا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶) اور وہ وقت یاد کرو جبکہ ہم نے تمہارے پہنچنے کے ساتھ ہی دریا کو پھاڑ دیا.پھر ہم نے تم کو نجات دے دی اور فرعون کے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور تم دیکھتے تھے.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۶) وَإِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.فرقان...حق و باطل میں فرق کرنے والی.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷ /اکتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة البقرة وَإِذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّعِقَةُ وَ انْتُمْ تَنْظُرُونَ اور وہ زمانہ یا دکر و جب تم نے موسیٰ کو کہا تھا کہ ہم بغیر دیکھے خدا پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶) وہ وقت یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا کہ ہم تیرے کہے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو بچشم خود نہ دیکھ لیں تب تم پر صاعقہ پڑی.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۷) تم وہ وقت یاد کرو جبکہ تم نے ، نہ کسی اور نے یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم آپ ظاہر ظاہر خدا کو نہ دیکھ لیں اور پھر تم کو بجلی نے پکڑا اور تم دیکھتے تھے.اور اس آیت میں ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت کے مضمون میں موجودہ یہودیوں کو گذشتہ لوگوں کے قائم مقام نہیں ٹھہرایا بلکہ ان کو فی الحقیقت گذشتہ لوگ ہی ٹھہرا دیا تو اس صورت میں قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے یہودیوں کے وہی نام رکھ دیئے جو اُن گذشتہ بنی اسرائیل کے نام تھے کیونکہ جبکہ یہ لوگ حقیقت وہی لوگ قرار دیئے گئے تو یہ لازمی ہوا کہ نام بھی وہی ہوں وجہ یہ کہ نام حقائق کے لئے مثل عوارض غیر منفک کے ہیں اور عوارض لا زمیہ اپنے حقائق سے الگ نہیں ہو سکتے.اب خوب متوجہ ہو کر سوچو کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے صریح اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے ہی ایسے ایسے برے کام حضرت موسیٰ کے عہد میں کیسے تھے تو پھر ایسی صریح اور کھلی کھلی نص کی تاویل کرنا اور احادیث کی بنیاد پر حضرت عیسی علیہ السلام کو جو قرآن کریم کی رُو سے وفات یافتہ ہے پھر زمین پر اُتارناکیسی بے اعتدالی اور نا انصافی ہے.عزیز و! اگر خدا تعالیٰ کی یہی عادت اور سنت ہے کہ گزشتہ لوگوں کو پھر دُنیا میں لے آتا ہے تو نص قرآنی جو بہ تکرار در تکرار گزشتہ لوگوں کو مخاطب کر کے اُن کے زندہ ہونے کی شہادت دے رہی ہے اس سے در گذر کرنا ہرگز جائز نہیں اور اگر وہاں یہ دھڑ کہ دل کو پکڑتا ہے کہ ایسے معنے گو خدا تعالیٰ کی قدرت سے تو بعید نہیں لیکن معقول کے برخلاف ہیں.اس لئے تاویل کی طرف رُخ کیا جاتا ہے اور وہ معنے کئے جاتے ہیں جو عند العقل کچھ بعید نہیں ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت عیسی کے آنے کی پیشگوئی کے معنے کرنے چاہئیں کیونکہ اگر گذشتہ یہودیوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زندہ ہو جانا یا اگر بطریق تناسخ کے اُن کی رُوحیں پھر آجانا طریق معقول کے برخلاف ہے تو حضرت مسیح کی نسبت کیوں کر دوبارہ دنیا میں آنا تجویز کیا جاتا ہے جن کی وفات پر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدة: ۱۱۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة البقرة بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کیا یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ دُنیا میں آنا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید اور نیز طریق معقول کے برخلاف لیکن حضرت عیسی کا بجسد والعصری پھر زمین پر آ جانا بہت معقول ہے.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۰،۳۲۹) اُن کی یہ خاص مراد کشف و الہاما و عقلاً وفرقانا مجھے پوری ہوتی نظر نہیں آتی کہ وہ لوگ سچ مچ کسی دن حضرت مسیح ابن مریم کو آسمان سے اُترتے دیکھ لیں گے سو انہیں اس بات پر ضد کرنا کہ ہم تب ہی ایمان لا ئیں گے کہ جب مسیح کو اپنی آنکھوں سے آسمان سے اُترتا ہوا مشاہدہ کریں گے ایک خطرناک ضد ہے اور یہ قول اُن لوگوں کے قول سے ملتا جلتا ہے جن کا خود ذکر اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ وہ حقی ترکی اللہ کہتے رہے اور ایمان لانے سے بے نصیب رہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۸) ثُمَّ بَعَثْنَكُم مِن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.پھر تم کو زندہ کیا گیا تا کہ تم شکر کرو.( شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۷) وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلوى كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ ، وَمَا ظَلَمُونَا وَلكِن كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں بدلی کا سایہ دیا اور تمہارے لئے من وسلویٰ اُتارا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶) اور ہم نے بادلوں کو تم پر سائبان کیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اُتارا.اب ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ تو ان یہودیوں سے جو قرآن میں مخاطب کئے گئے دو ہزار برس پہلے فوت ہو چکے تھے اور ان کا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں نام ونشان بھی نہ تھا پھر وہ حضرت موسیٰ سے ایسا سوال کیوں کر کر سکتے تھے کہاں اُن پر بجلی گری کہاں انہوں نے من وسلویٰ کھایا.کیا وہ پہلے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اور ، اور قالبوں میں موجود تھے اور پھر آنحضرت کے زمانہ میں بھی بطور تناسخ آ موجود ہوئے اور اگر یہ نہیں تو بجز اس تاویل کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ مخاطبت کے وقت ضروری نہیں کہ وہی لوگ حقیقی طور پر واقعات منسوبہ کے مصداق ہوں جو مخاطب ہوں.کلام الہی اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک قاعدہ پھہر گیا ہے کہ بسا اوقات کوئی.ا واقعہ ایک شخص یا ایک قوم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور دراصل وہ واقعہ کسی دوسری قوم یا دوسرے شخص سے تعلق رکھتا ہے اور اسی باب میں سے عیسی بن مریم کے آنے کی خبر ہے کیونکہ بعض احادیث میں آخری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 16 • سورة البقرة زمانہ میں آنے کا ایک واقعہ حضرت عیسی کی طرف منسوب کیا گیا حالانکہ وہ فوت ہو چکے تھے پس یہ واقعہ بھی حضرت مسیح کی طرف ایسا ہی منسوب ہے جیسا کہ واقعہ فرعون کے ہاتھ سے نجات پانے کا اور من وسلوکی کھانے کا اور صاعقہ گرنے کا اور دریا سے پار ہونے کا اور قصہ لَن نَّصْبِرَ عَلى طَعَامٍ وَاحِدٍ(البقرة :۶۲) کا اُن یہودیوں کی طرف منسوب کیا گیا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے.حالانکہ وہ واقعات اُن کی پہلی قوم کے تھے جو اُن سے صدہا برس پہلے مر چکے تھے.پس اگر کسی کو آیات کے معنے کرنے میں معقولی شق کی طرف خیال نہ ہو اور ظاہر الفاظ پر اڑ جانا واجب سمجھے تو کم سے کم ان آیات سے یہ ثابت ہوگا کہ مسئلہ تناسخ حق ہے اور نہ کیونکر ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ ایک فاعل کے فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کرے جس کو اس فعل کے ارتکاب سے کچھ بھی تعلق نہیں حالانکہ وہ آپ ہی فرماتا ہے لا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الأنعام: ۱۶۵) پھر اگر موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کی نافرمانی کی تھی اور اُن پر بجلی گری تھی یا انہوں نے گوسالہ پرستی کی تھی اور ان پر عذاب نازل ہوا تھا تو اس دُوسری قوم کو ان واقعات سے کیا تعلق تھا جو دو ہزار برس بعد پیدا ہوئے.یوں تو حضرت آدم سے تا ایں دم متقدمین متاخرین کے لئے بطور آباء واجداد ہیں لیکن کسی کا گنہ کسی پر عائد نہیں ہوسکتا.پھر خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ فرمانا کہ تم نے موسیٰ کی نافرمانی کی اور تم نے کہا کہ ہم خدا کو نہیں مانیں گے جب تک اس کو دیکھ نہ لیں اور اس گنہ کے سبب سے تم پر بجلی گری کیونکر ان تمام الفاظ کے بنظر ظاہر کوئی اور معنے ہو سکتے ہیں بجز اس کے کہ کہا جائے کہ دراصل وہ تمام یہودی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھے اور انہیں پر من و سلوی نازل ہوا تھا اور انہیں پر بجلی پڑی تھی اور انہیں کی خاطر فرعون کو ہلاک کیا گیا تھا اور پھر وہی یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بطور تناسخ پیدا ہو گئے اور اس طرح پر خطاب صحیح ٹھہر گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسے سیدھے سیدھے معنے نہیں کئے جاتے.کیا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے دُور ہیں اور کیوں ایسے معنے قبول کئے جاتے ہیں جو تاویلات بعیدہ کے حکم میں ہیں کیا خدا تعالیٰ قادر نہیں کہ جس طرح بقول ہمارے مخالفوں کے وہ حضرت عیسی کو بعینہ بجسد و العصری کسی وقت صد ہا برسوں کے بعد پھر زمین پر لے آئے گا.اسی طرح اُس نے حضرت موسیٰ کے زمانہ کے یہودیوں کو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ کر دیا ہو یا اُن کی رُوحوں کو بطور تناسخ پھر دُنیا میں لے آیا ہو جس حالت میں صرف بے بنیاد اقوال کی بنیاد پر حضرت عیسی کی روح کا پھر دنیا میں آنا تسلیم کیا گیا ہے تو کیوں اور کیا وجہ کہ ان تمام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ بطور تناسخ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آجانا قبول نہ کیا جائے جن کے موجود ہو جانے پر نصوص صریحیہ بینہ قرآن کریم شاہد ہیں.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۷ تا ۳۲۹) یہود میں جب طاعون مصر اور کنعان کی راہ میں پھوٹی تو وہ لوگ اُس وقت جنگل میں تھے اور شہر کی عفونتوں سے بالکل الگ تھے.ترنجبین اور بٹیر اُن کی غذا تھی.وہ یقین کرتے تھے کہ اب کوئی بلا ہم پر نہیں آئے گی مگر جب انہوں نے نافرمانی شروع کی اور فسق اور فجور میں مبتلا ہوئے تو وہی ترنجبین اور بٹیر طاعون کا موجب ہو گئے.یہ کیسا باریک بھید خدا کی حکمتوں کا ہے کہ چونکہ اللہ جل شانہ جانتا تھا کہ یہ قوم عنقریب سرکشی اختیار کرے گی اس لئے اُن کے لئے دن رات کی غذا ترنجبین اور بشیر مقرر کیا گیا.یہ دونوں چیز میں طب کے قواعد کی رُو سے بالخاصیت طاعون پیدا کرتی ہیں اسی وجہ سے طبیب لوگ امراض جلدیہ میں جہاں جور اور پھوڑوں کی بیماریاں ہوں ترنجبین دینے سے پر ہیز کیا کرتے ہیں.بد بخت یہود ایک طرف تو ارتکاب جرائم کا کرتے رہے اور دوسری طرف دن رات بٹیر اور ترنجبین کھا کر طاعون کا مادہ اپنے اندر جمع کر لیا.جب اُن کے مواخذہ کا وقت آیا تو ایک طرف تو جرائم انتہا کو پہنچ چکے تھے جو سزا کو چاہتے تھے اور دوسری طرف طاعونی مادہ بٹیر اور ترنجبین کے استعمال سے اس قدر اُن کے اندر جمع ہو گیا تھا کہ اب وہ تقاضا کرتا تھا کہ اُن میں طاعون پھوٹے.سو اس ایک ہی رات میں جب یہودیوں کے لئے آسمان سے سزا کا حکم نازل ہوا ساتھ اس کے مادہ طاعون کو بھی جو تیار بیٹھا تھا یہ حکم آیا کہ ہاں اب نکل اور اس شریر قوم کو ہلاک کر.تب وہ اس جنگل میں کتوں کی طرح مرے.فاعتبروا يا أولى الأبصار ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴۰) هذَا مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ وَتَقْرَءُونَه في یہ آیات ۵۱ تا ۵۸) ہیں جو قرآن کریم میں آئی كِتَابِ اللهِ الْفُرْقَانِ مَعَ أَنَّ ظَاهِرَ ہیں اور تم انہیں کتاب اللہ میں پڑھتے ہو.ان آیات میں صُورت هذَا الْبَيَانِ يُخَالِفُ أَصْلَ ظاہر جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اصل واقعات کے خلاف ہے الْوَاقِعَةِ وَهذَا أَمْرٌ لَّا يَختَلِفُ فِيهِ اور یہ ایسا امر ہے جس میں کوئی دو آدمی بھی اختلاف نہیں اثْنَانِ فَإِنَّ اللهَ مَا فَرَقَ بِيَهُودَ زَمَانِ کرتے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے نبينا تخرا مِنَ الْبِحَارِ وَمَا أَغْرَقَ ال فِرْعَوْنَ أَمَامَ أَعْيُنٍ تِلْكَ الْأَشْرَارِ، وَمَا یہود کے لئے کسی سمندر کو نہیں چیرا.نہ اللہ نے آل فرعون کو ان شریروں کے سامنے غرق کیا اور نہ وہ ان خطرات کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة البقرة كَانُوا مَوْجُودِينَ عِندَ تِلْكَ الأخطار وقت موجود تھے نہ انہوں نے بچھڑے کو معبود بنایا اور نہ وَمَا اتَّخَذُوا الْعِجْلَ وَمَا كَانُوا في ذلك انہوں نے یہ کہا کہ اے موسیٰ ہم اس وقت تک ایمان نہیں الْوَقْتِ حَاضِرِينَ وَمَا قَالُوا يَا مُوسٰی لَن لائیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ظاہر میں نہ دیکھ لیں.تُؤْمِن حَتَّى نَرَى الله جَهْرَةً بَلْ ما تحان بلکہ ان کا کوئی نشان یا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ لَهُمْ فِي زَمَانٍ مُوسَى أَثَرًا وَتَذْكِرَةً وَ میں نہ تھا بلکہ خود ہی وہ معدوم تھے.پھر کس طرح ان کو كَانُوا مَعْدُوْمِينَ فَكَيْفَ أَخَذَعْهُمُ صاعقہ نے آپکڑا.کس طرح وہ موت کے بعد زندہ کئے الصَّاعِقَةُ وَكَيْفَ بُعفُوا مِن بَعْدِ گئے اور موت سے علیحدہ ہو گئے اور کس طرح اللہ تعالی نے الْمَوْتِ وَ فَارَقُوا الْحِمَامَ وَكَيْفَ ظلل ان پر بادلوں کے ذریعہ سایہ کیا اور کس طرح انہوں نے اللهُ عَلَيْهِمُ الْعَمَامَ وَكَيْفَ أَكَلُوا الْمَنُ من و سلوی کھا یا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مصیبت سے نجات وَ السَّلُوى وَنَجَّاهُمُ اللهُ مِنَ الْبَلوى و دی حالانکہ وہ اس وقت موجود بھی نہ تھے بلکہ وہ صدیوں اور مَا كَانُوا مَوْجُودِينَ بَلْ وَلِدُوا بَعْدَ المبا عرصہ بعد پیدا ہوئے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی قُرُونٍ مُتَطَاوِلَةٍ وَأَرْمِنَةٍ بَعِيْدَةٍ مُبْعَدَةٍ دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھایا کرتی اور نہ اللہ تعالی کسی شخص کو وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَ اللهُ لا دوسرے شخص کی بجائے پکڑتا ہے کیونکہ وہ تو سب عدل يَأْخُذُ رَجُلًا مَكَانَ رَجُلٍ وَهُوَ أَعْمَلُ کرنے والوں سے زیادہ عدل کرنے والا ہے اس میں یہ الْعَادِلِينَ فَالسّرُ فِيهِ أَنَّ اللهَ أَقَامَهُمْ راز کی بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے آباء و مَقَامَ آبَائِهِمْ لِمُنَاسَبَةٍ كَانَتْ في اجداد کا بوجہ ان کے خیالات سے مناسبت رکھنے کے قائم أَرَائِهِمْ وَ سَمَّاهُمْ بِتَسْمِيَةِ أَسْلَافِهِمْ وَ مقام بنایا.انہیں ان کے بزرگوں کا نام دیا اور انہیں ان کے جَعَلَهُمْ وَرَثَاءَ أَوْصَافِهِمْ وَكَذلِك اوصاف کا وارث بنایا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت قدیم اسْتَمَرَّتْ سُنَّةَ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے چلی آرہی ہے.(ترجمہ از مرتب ) ستر الخلافہ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۷۶) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمُ فَانْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجُزا منَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ۶۰ یعنی ہم نے ظالموں پر طاعون کا عذاب بھیجا کیونکہ وہ فاسق تھے.یہ تو اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يُؤْمِنُونَ یعنی اس لئے ہم نے ان پر طاعون نازل کی کہ وہ مومن
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام تھے پس مومن کسی صورت میں طاعون کا مستحق نہیں ہوسکتا بلکہ یہ کا فر اور فاسق کے لئے مخصوص ہے.اسی وجہ سے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا کوئی نبی طاعون سے فوت نہیں ہواہاں ایسے مومن جو گناہ سے خالی نہیں ہوتے کبھی وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں اور اُن کی یہ موت اُن کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور اُن کے لئے یہ ایک قسم کی شہادت ہے لیکن کسی نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ موسیٰ ہو کر پھر اس کو طاعون ہو گئی ہو اور ایسا شخص بڑا خبیث اور پلید اور بدذات ہوگا جس کا یہ اعتقاد ہو کہ کوئی نبی یا خلیفہ اللہ طاعون سے مرا ہے.پس اگر یہ ایسی شہادت ہوتی جو قابل تعریف ہے اور جس پر کوئی اعتراض نہیں تو پہلے حق دار اس کے انبیاء اور رسول ہوتے لیکن جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کبھی کوئی نبی یا رسول اور اول درجہ کا کوئی برگزیدہ جو خدا تعالی سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف رکھتا تھا اس خبیث مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا ہو.بلکہ اوّل حق دار اس مرض کے ابتدا سے وہی لوگ رہے ہیں جو طرح طرح کے معاصی اور فجور میں مبتلا تھے یا کافر اور بے ایمان تھے اور عقل ہر گز تجویز نہیں کر سکتی کہ وہ مرض جو قدیم سے خدا نے کفار کے سزا دینے کے لئے تجویز کر رکھی ہے اُس میں خدا کے نبی اور رسول اور مسلم بھی شریک ہو جائیں.توریت اور انجیل اور قرآن تینوں مشفق اللسان بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیشہ طاعون کفار کو سزا دینے کے لئے نازل ہوتی رہی ہے اور خدا نے قدیم سے لاکھوں کفار اور فاسق اور فاجر اسی طاعون کے ذریعہ نیست و نابود کئے جیسا کہ خدا کی کتابوں اور تاریخ سے ظاہر ہے اور خدا اس سے برتر اور اعلیٰ ہے کہ اپنے مقدس لوگوں کو اس عذاب میں کفار کے ساتھ شریک کرے اور جو بلا کفار کے عذاب کے لئے قدیم سے مقرر ہے اور جس کے ذریعہ سے ہمیشہ نبیوں کے عہد میں ہزاروں فاسق فاجر مرتے رہے ہیں وہی بلا اپنے برگزیدہ نبیوں پر مسلط کر دے.پس جس طرح خدا کا وہ عذاب جو قوم لوط پر آیا تھا کسی نبی کی موت اس کے ذریعہ سے ہر گز نہیں ہوئی.بلکہ ہر ایک عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے وارد ہو چکا ہے کوئی نبی اس عذاب سے نہیں مرا ایسا ہی طاعون جو کفار کے لئے ایک مخصوص عذاب ہے کسی برگزیدہ پر وارد نہیں ہو سکتی.اور اگر کوئی اس کے برخلاف دعوی کرے اور یہ کہے کہ کوئی نبی گذشتہ نبیوں میں سے طاعون سے بھی ہلاک ہوا تھا تو یہ اُس کا اختیار ہے.کسی بے باک یا گستاخ کی ہم زبان تو بند نہیں کر سکتے ، مگر کتاب اللہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ طاعون رجز ہے ہمیشہ کافروں پر نازل ہوتی ہے.ہاں جیسا کہ جہنم خاص کافروں کے لئے مخصوص ہے تاہم بعض گنہ گار مومن جو جہنم میں ڈالے جائیں گے وہ محض تمحیص اور تطہیر اور پاک کرنے کے لئے دوزخ میں ڈالے جائیں
۱۷۴ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام گے مگر خدا کے وعدہ کے موافق جو أُولَبِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (الأنبياء : ۱۰۲) ہے برگزیدہ لوگ اس دوزخ سے دور رکھے جائیں گے.اسی طرح طاعون بھی ایک جہنم ہے کا فراس میں عذاب دینے کے لئے ڈالے جاتے ہیں.اور ایسے مومن جن کو معصوم نہیں کہہ سکتے اور معاصی سے پاک نہیں ہیں اُن کے لئے یہ طاعون پاک کرنے کا ذریعہ ہے جس کو خدا نے جہنم کے نام سے پکارا ہے.سو طاعون ادنی مومنوں کے لئے تجویز ہو سکتی ہے جو پاک ہونے کے محتاج ہیں.مگر وہ لوگ جو خدا کے قرب اور محبت میں بلند مقامات پر ہیں وہ ہر گز اس جہنم میں داخل نہیں ہو سکتے.(ضمیمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۴۲ تا ۵۴۴) لوگوں کو طاعون کی خبر نہیں وہ اس کو نزلہ زکام کی طرح ایک عام مرض سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رجز رکھا ہے.رجز عذاب کو بھی کہتے ہیں.لغت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اونٹ کی بٹن ران میں یہ مرض ہوتا ہے اور اس میں ایک کیڑا پڑ جاتا ہے.جسے نغف کہتے ہیں.اس سے ایک لطیف نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ چونکہ اونٹ کی وضع میں ایک قسم کی سرکشی پائی جاتی ہے تو اس سے یہ پایا گیا کہ جب انسانوں میں وہ سرکشی کے دن ہے پائے جاویں تو یہ عذاب الیم اُن پر نازل ہوتا ہے.اور رجز کے معنے لغت میں دوام کے بھی آئے ہیں اور یہ مرض بھی دیر پا ہوتا ہے اور گھر سے سب کو رخصت کر کے نکلتا ہے.اس میں یہ بھی دکھایا ہے کہ یہ بلاگھروں کی صفائی کرنے والی ہے، بچوں کو یتیم بناتی اور بے شمار بے کس عورتوں کو بیوہ کر دیتی ہے.اور رجز کے معنے میں غور کرنے سے اس کا باعث بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مرض پلیدی اور ناپاکی سے پیدا ہوتا ہے.جہاں اچھی صفائی نہیں ہوتی.مکان کی دیوار میں بدنما اور قبروں کا نمونہ ہیں.نہ روشنی ہے نہ ہوا آسکتی ہے.وہاں عفونت کا زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.اس سے یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں جو آیا ہے: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ (المدثر (۲).ہر ایک قسم کی پلیدی سے پر ہیز کرو.ھجر دور چلے جانے کو کہتے ہیں.اس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی پاکیزگی چاہنے والوں کے لئے ظاہری پاکیزگی اور صفائی بھی ضروری ہے.کیونکہ ایک قوت کا اثر دوسری پر اور ایک پہلو کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے.دو حالتیں ہیں.جو باطنی حالت تقویٰ اور طہارت پر قائم ہونا چاہتے ہیں.وہ ظاہری پاکیزگی بھی چاہتے ہیں.(رسالہ الانذار صفحہ ۷،۶.باراوّل) طاعون کا تذکرہ شروع ہوتے ہی فرمایا کہ قرآن شریف میں اس کو جزا مِنَ السَّمَاءِ کہا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پر انسانی ہاتھ نہیں پڑ سکتا اور نہ زمینی تدابیر اس کا مقابلہ کر سکتی ہیں ورنہ یہ عذاب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۵ سورة البقرة آسمانی نہ رہے.طاعون جو اس کا نام رکھا ہے یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے فاروق، جب طعن اور تکذیب حد سے گذر جاتی ہیں تو پھر اس کی پاداش میں طاعون آتی ہے اور پھر صفائی کر کے ہی قہر الہی بس کرتا ہے.عرض کیا گیا کہ دَابَّةُ الْأَرْضِ اور رِجْرِّ مِنَ السَّمَاءِ میں کیا تعلق ہے؟ فرمایا: امر تو آسمانی ہی ہوتے ہیں یعنی اس طاعون کا امر آسمان سے آتا ہے اور وہ انسانی ہاتھوں سے بالاتر امر ہوتا ہے اور اس کا معالجہ بھی آسمان ہی سے آتا ہے.دَابَةُ الأرْضِ طاعون کو کہتے ہیں اس لئے کہ اس کے کیڑے تو زمینی ہی ہوتے ہیں.عرض کیا گیا کہ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں تو پھر عذاب کیوں کر ہوا؟ ( فرمایا ) جو لوگ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ طاعونی موت تو عذاب الہی ہی ہے لیکن یہ جو کسی حدیث میں آیا ہے کہ اگر مومن ہو کر طاعون سے مر جاوے تو شہادت ہے تو یہ اللہ تعالیٰ نے گویا مومن کی پردہ پوشی کی ہے.کثرت سے اگر مرنے لگیں تو شہادت نہ رہے گی پھر عذاب ہو جائے گا.شہادت کا حکم شاذ کے اندر ہے.کثرت ہمیشہ کا فروں پر ہوتی ہے.اگر یہ ایسی ہی شہادت اور برکت والی چیز تھی تو اس کا نام رِجْزُ مِّنَ السَّمَاءِ نہ رکھا جا تا اور پھر کثرت سے مومن مرتے اور انبیاء مبتلا ہوتے مگر کیا کوئی کسی نبی کا نام لے سکتا ہے؟ ہر گز نہیں پس یاد رکھو کہ اگر کوئی شاذ مومن اس سے مرجاوے تو اللہ تعالیٰ اپنی ستاری سے اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور اس کے لئے کہا گیا کہ وہ شہادت کی موت مرتا ہے.ماسوا اس کے میں نے بارہا کہا ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن شریف کے متعارض ہو.اور اُس کی تاویل قرآن کے موافق نہ ہو تو اُسے چھوڑ دینا چاہئے حکم ہمیشہ کثرت پر ہوتا ہے شاذ تو معدوم کا حکم رکھتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۸) یہ (طاعون ) زمینی چیز نہیں ہے کہ زمین اس کا علاج کرے یہ آسمان سے آتی ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا یہ رِجْرٌ مِنَ السَّمَاءِ ہے.سابقہ انبیاء کے وقت بھی یہ بطور عذاب کے ایک نشان ہوتا رہا ہے بس اس کا علاج یہی ہے کہ اپنے ایمان کو اس کی انتہائی غایت تک پہنچا دو اس کے آنے سے پیشتر اس خدا سے صلح کرو، استغفار کرو ، تو یہ کرو.دُعاؤں میں لگو.اس (طاعون ) کی کوئی دوائی نہیں ہے ، مرض ہو تو دوا ہو ، یہ تو ایک عذاب الہی اور قبر ایز دی ہے بجز تقویٰ کے اس کا کیا علاج ہے یا درکھو کہ اگر گھر بھر میں ایک بھی متقی ہوگا تو خدا اس کے سارے گھر کو بچاوے گا بلکہ اگر اس کا تقویٰ کامل ہے تو وہ اپنے محلے کا بھی شفیع ہو سکتا ہے اگر چہ متقی مربھی جاوے تو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ موت ایک قہر الہی کا نمونہ ہے اور بطور نشان کے دنیا پر آتی ہے میرا دل ہر گز شہادت نہیں دیتا کہ کوئی متقی اس ذلت کی موت سے مرے منتقی ضرور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة بیچا یا جاوے گا.البدر جلد نمبر ۵ ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۸) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ بھی طاعون سے فوت ہوئے لیکن ان کے لیے وہ شہادت تھی مومن کے واسطے یہ شہادت ہی ہے پہلی امتوں پر جزا مِنَ السَّمَاء (البقرة : 10 ) تھی.صحابہ کس قدر اعلیٰ درجہ رکھتے تھے لیکن ان میں سے بھی اس کا نشانہ ہو گئے اس سے ان کے مومن میں کوئی شبہ نہیں ابو عبیدہ بن الجراح جیسے صحابی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بڑے ہی عزیز تھے طاعون ہی سے شہید ہوئے تھے.طاعون سے مرنا عام مومنوں کے لیے تو کوئی حرج نہیں البتہ جہاں انتظام الہی میں فرق آتا ہے وہاں خدا تعالیٰ ایسا معاملہ نہیں کرتا ہے یعنی خدا تعالے کا کوئی مامور ومرسل طاعون کا شکار نہیں ہو سکتا اور نہ کسی اور خبیث مرض سے ہلاک ہوتا ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے انتظام میں بڑا نقص اور خلل پیدا ہوتا ہے پس انبیاء ورسل اور خدا کے ماموران امراض سے بچائے جاتے ہیں اور یہی نشان ہوتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵ _ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۹۴،۵۹۳) b وَ إِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبُ بَعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا b عَشْرَة عَيْنا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ اور فساد کی نیت سے زمین پرمت پھرا کرو یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور نا جائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۴۷) وووو وَاذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجُ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الأَرْضُ مِنْ بَعْلِهَا وَقِتَابِهَا وَفُومِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا قَالَ ا تَسْتَبْدِلُونَ الَّذِى هُوَ اَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَّا b سالتُم وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الدِّلَةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَ بَاءُو بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ وَ يَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْاوَ كَانُوا يَعْتَدُونَ جو واقعات آنکھوں کے سامنے ہیں وہ صاف شہادت دے رہے ہیں کہ درحقیقت اس اُمت اور اس
122 سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اُمت کے علماء نے اس زمانہ کے یہودیوں کے قدموں پر قدم مارا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے اور نہ صرف اسی بات میں وہ اس وقت کے یہودیوں کے مشابہ ہو گئے ہیں کہ دیانت اور تقویٰ اور روحانیت اور حقیقت شناسی اُن میں باقی نہیں رہی بلکہ دنیوی او بار بھی ویسا ہی شامل حال ہو گیا ہے کہ جیسا اس زمانہ میں تھا اور جیسا کہ اس وقت یہود سید ریاستوں کو رومی ملوک نے تباہ کر دیا تھا اور ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ کا مصداق ہو گئے تھے اور یہودی اپنے تئیں ضعیف اور بے کس دیکھ کر ایک ایسے مسیح کے منتظر تھے جو بادشاہ ہو کر آوے اور رومیوں پر تلوار چلا دے کیونکہ توریت کے آخر میں یہی وعدہ دیا گیا تھا ویسا ہی یہ قوم مسلمان بھی اکثر اور اغلب طور پر ادبار کی حالت میں گری ہوئی نظر آتی ہے اگر کوئی ریاست ہے تو اس کو اندرونی نفاقوں اور وزراء اور عملہ کی خیانتوں اور بادشاہوں کے کسل اور مستیوں اور جہالتوں اور بے خبریوں اور عیش پسندیوں اور آرام طلبیوں نے ایسا کمزور کر دیا ہے کہ اب ان کا کوئی آخری دم ہی نظر آتا ہے اور یہ لوگ بھی یہودیوں کی طرح منتظر تھے کہ مسیح موعود بادشاہوں کی طرح بڑے جلال کے ساتھ ان کی حمایت کے لئے نازل ہوگا.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۸،۳۵۷) یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں.کیا صدہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے مگر اس پیغمبر زادگی نے ان کو کیا فائدہ پہنچایا.اگر ان کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ کے مصداق کیوں ہوتے.خدا تعالیٰ تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے بعض اوقات انسان کو تکبر نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالوں گا جو بالکل خیال خام ہے.کبیر کہتا ہے کہ اچھا ہوا ہم نے چماروں کے گھر جنم لیا.سکتے.کبیر اچھا ہوا ہم پیچ بھلے سب کو کر میں سلام کریں خدا تعالیٰ وفاداری اور صدق کو پیار کرتا ہے اور اعمال صالحہ کو چاہتا ہے لاف و گزاف اسے راضی نہیں کر الحکم جلد ۸ نمبر ۲۶،۲۵ مورخه ۳۱ جولائی و ۱۰ راگست ۱۹۰۴ صفحه ۱۳) یہودی بیچارے خود ضربَتْ عَلَيْهِمُ الذلة کے مصداق اُن کی وہ حالت تھی کہ صورت ہیں حالش مپرس دنیا پرستی کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں....یہودیوں نے کھانے پینے کے سوا اور کوئی مقصود ہی نہیں رکھا.خدا کی قدرت ہے جب ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللله کی حالت آئی تو وہ افعال بھی آگئے جو ذلت کے جالب اور ذلت کے نتائج تھے اگر وہ تائب ہو جاتے تو پھر ضربت کیونکر صادق آتا.......یہودیوں کی زندگی اگر نا پاکیوں کا مجموعہ نہ تھی تو پھر ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الله کی ماران پر کیوں کر پڑتی.اس پر خوب غور کرو اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام IZA اندر یہ خیفی اسرار ہیں اور پستہ ملتا ہے کہ یہودی قوم کے اطوار بگڑ جاویں گے.سورة البقرة الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ /اپریل ۱۹۰۰ صفحه ۶) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کیا کم تھے ؟ کیا بنی اسرائیل نے کھلے کھلے نشانات نہ دیکھے تھے مگر بتاؤان میں وہ تقویٰ ، وہ خدا ترسی اور نیکی جو حضرت موسیٰ چاہتے تھے کامل طور پر پیدا ہوئی آخر ضربت عَلَيْهِمُ الله وَالمَسْكَنَةُ کے مصداق وہ قوم ہوگئی.(الحکم نمبر ۳۱ جلد ۶ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۲) اس نبی کو جس کی اُمت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالمَسْكَنَةُ پر ہوا ہے اس کو زندہ کہا جاتا ہے حضرت عیسی کی قوم یہودی تھی اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ - اب قیامت تک ان کو عزت نہ ملے گی.اب اگر حضرت عیسی پھر آگئے تو پھر گویا اُن کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہو گئی اور قرآن شریف کا یہ حکم باطل ہو گیا جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن کریم کا ابطال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے.پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایسے اعتقادات رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ تو یہود کے لئے فتویٰ دیتا ہے کہ ان میں نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ذلیل ہو گئے پھر ان میں زندہ نبی کیسے آسکتا ہے؟ (الحاکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲) بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے.اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے.لیکن جب اس کی روحانی حالت بگڑی اور اس نے راہ مستقیم کو چھوڑ دیا سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ کی مصداق ہوئی خدا تعالی کا غضب اُن پر ٹوٹ پڑا اور ان کا نام سور اور بندر رکھا گیا.یہاں تک وہ گر گئے کہ انسانیت سے بھی اُن کو خارج کیا گیا.یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے.بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) اگر یہودی ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الله کے مصداق ہو چکے ہیں اور نبوت اس خاندان سے منتقل ہو چکی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ مسیح دوبارہ اسی خاندان سے آوے؟ اگر یہ تسلیم کیا جاوے گا تو اس کا نتیجہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنی نبی مانا جاوے اور اس اُمت کو بھی ادنی امت حالانکہ یہ قرآن شریف کے منشاء کے صریح خلاف ہے.انتقام جلد ۹ نمبر ۳۸ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۵) آیت جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيمَة کو غور سے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آیت ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّهُ وَالمَسْكَنَةُ کی سزا بھی حضرت مسیح کی ایڈا کی وجہ سے ہی یہود کو دی گئی ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة البقرة کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں یہود کے لئے یہ دائی وعید ہے کہ وہ ہمیشہ محکومیت میں جو ہر ایک عذاب اور ذلت کی جڑ ہے زندگی بسر کریں گے جیسا کہ اب تک یہود کی ذلت کے حالات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ کا وہ غصہ نہیں اُتر ا جو اس وقت بھڑ کا تھا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) أَمَّا قَوْلُ بَعْضِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ الشَّجَالَ يَكُونُ اور بعض علماء کا یہ کہنا کہ دجال یہودی ہوگا یہ پہلی مِنْ قَوْمِ الْيَهُودِ فَهَذَا الْقَوْلُ أَعْجَبُ مِنَ الْقَوْلِ بات سے بھی زیادہ تعجب انگیز ہے.کیا وہ قرآن کی الْأَوَّلِ لَا يَقْرَأُوْنَ فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ یہ آیت نہیں پڑھتے کہ ان پر ذلت اور خواری کا سکہ اللّهُ وَالْمَسْكَتَهُ فَالَّذِينَ ضَرَبَ اللهُ عَلَيْهِمْ لگایا گیا ہے.پس جن یہود پر کہ خدا نے قیامت إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّ ذِلَّةٍ ، وَأَخْبَرَ في كِتَابِه تک کامل ذلّت مسلط کر دی ہے اور اپنی کامل اور الْعَامِلِ الْمُحْكَمِ أَنَّ الْيَهُودَ يَعِيشُونَ دَائما محکم کتاب میں بتا دیا ہے کہ وہ ہمیشہ کسی اور بادشاہ تَحْتَ مَلِكٍ مِنَ الْمُلُوكِ صَاغِرِينَ مَقْهُورِينَ وَلَا کے نیچے ذلیل اور خوار رہیں گے اور کبھی اُن کا ملک يَكُونُ لَهُمْ مُلْكُ إِلَى الْأَبَدِ، كَيْفَ يَخْرُجُ مِنْهُمُ نہ ہوگا ان سے وہ دجال کہاں پیدا ہوسکتا ہے جو الدَّجَّالُ وَيَمْلِكُ الْأَرْضَ كُلَّهَا أَلَا إِنَّ كَلِمَاتِ سب روئے زمین کا مالک ہو جاوے.اصل بات تو اللَّهِ صَادِقَةٌ لَا تَبْدِيلَ لَهَا، وَلَكِنَّ الْقَوْمَ مَا یہ ہے کہ خدا کی باتیں سچی اور اٹل ہیں لیکن ہماری عَلِمُوا مَعَالِي الْأَحَادِيثِ وَمَا فَهِمُوهَا حَقٌّ قوم نے احادیث کے معنے پورے طور پر نہیں سمجھے فَهْمِهَا، وَاللهُ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ اور خدا جس پر اپنا فضل کرتا ہے اس کو وہ باتیں جتا فَيُفَقِمُهُ مَا لَمْ يُفَهِمْ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ دیتا ہے جو اوروں پر پوشیدہ رکھتا ہے.( ترجمه از مرتب) حمامة البشری ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۹۵ حاشیه ) اتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ ادْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اور ادنی کو اعلیٰ کے عوض میں ترک کرتے ہو.نطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۹۴) يَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ توریت میں لکھا ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاوے گا اس کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر قرآن کی نص صریح سے پایا جاوے یا حدیث کے تواتر سے ثابت ہو کہ نبی قتل ہوتے رہے ہیں تو پھر ہم کو اس سے انکار نہیں کرنا پڑے گا.بہر حال یہ کچھ ایسی بات نہیں کہ نبی کی شان میں خلل انداز ہو کیونکہ قتل بھی شہادت ہوتی ہے.مگر ہاں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة البقرة نا کا م قتل ہو جانا انبیاء کی علامات میں سے نہیں.یہ مصالح پر موقوف ہے کہ ایک شخص کے قتل سے فتنہ برپا ہوتا ہے تو مصلحتِ الہی نہیں چاہتی کہ اس کو قتل کرا گرفتنہ برپا کیا جاوے.جس کے قتل سے ایسا اندیشہ نہ ہو اس میں ہرج نہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَالصُّبِحِيْنَ مَنْ أَمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يحزنور یعنی جولوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور جو لوگ یہود ونصاری اور ستارہ پرست ہیں جو شخص اُن میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور اعمال صالحہ بجالائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور ایسے لوگوں کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کو کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ غم.یہ آیت ہے جس سے باعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں.نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے نفسِ اتارہ کے پیرو ہو کر محکمات اور بینات قرآنی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام سے خارج ہونے کے لئے متشابہات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں.اُن کو یادر ہے کہ اس آیت سے وہ کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ اللہ تعالی پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لا نا اس بات کو مستلزم پڑا ہوا ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا جائے.وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اللہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے اور یوم آخر قرآن شریف کی رُو سے یہ ہے جس میں مردے جی اُٹھیں گے اور پھر ایک فریق بہشت میں داخل کیا جائے گا جو جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے اور ایک فریق دوزخ میں داخل کیا جاوے گا جو روحانی اور جسمانی عذاب کی جگہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس یوم آخر پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة البقرة پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود لفظ اللہ اور یوم آخر کے بتصریح ایسے معنی کر دئے جو اسلام سے مخصوص ہیں تو جو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور یوم آخر پر ایمان لائے گا.اُس کے لئے یہ لازمی امر ہو گا کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ ان معنوں کو بدل ڈالے اور ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنی ایجاد کریں کہ جو قرآن شریف کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں ہم نے اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو غور سے دیکھا ہے اور توجہ سے دیکھا اور بار بار دیکھا اور اس کے معانی میں خوب تدیر کیا ہے.ہمیں بدیہی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ہے.مثلاً کہا گیا ہے الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.ایسا ہی اس قسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن اُتارا.اللہ وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.پس جبکہ قرآنی اصطلاح میں اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاوے تبھی اُس کا ایمان معتبر اور صحیح سمجھا جائے گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے.خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ مَنْ آمَنَ بِالرَّحْمنِ يا مَنْ آمَنَ بِالرَّحِيْمِ يَا مَنْ آمَنَ بِالْكَرِيمِ بلکہ یہ فرمایا کہ مَنْ آمَنَ بِالله اور اللہ سے مراد وہ ذات ہے جو تجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور ایک عظیم الشان صفت اُس کی یہ ہے کہ اُس نے قرآن شریف کو اُتارا.اس صورت میں ہم صرف ایسے شخص کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لایا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا ہو اور قرآن شریف پر بھی ایمان لایا ہوا گر کوئی کہے کہ پھر اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا کے کیا معنی ہوئے تو یادر ہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُن کا ایمان معتبر نہیں ہے.جب تک خدا کے رسول پر ایمان نہ لاویں یا جب تک اُس ایمان کو کامل نہ کریں.اس بات کو یا درکھنا چاہئیے کہ قرآن شریف میں اختلاف نہیں ہے.پس یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ صد با آیتوں میں تو خدا تعالیٰ یہ فرماوے کہ صرف توحید کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے نبی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے بجز اس صورت کے کہ کوئی اس نبی سے بیخبر رہا ہو اور پھر کسی ایک آیت میں بر خلاف اس کے یہ بتلاوے کہ صرف توحید سے ہی نجات ہو سکتی ہے.قرآن شریف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۸۲ سورة البقرة اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں اور طرفہ یہ کہ اس آیت میں توحید کا ذکر بھی نہیں.اگر توحید مراد ہوتی تو یوں کہنا چاہیئے تھا کہ مَنْ آمَنَ بِالتَّوْحِيدِ.مگر آیت کا تو یہ لفظ ہے کہ مَنْ آمَنَ بالله.پس آمَنَ بِاللہ کا فقرہ ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قرآن شریف میں اللہ کا لفظ کن معنوں پر آتا ہے.ہماری دیانت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ جب ہمیں خود قرآن سے ہی یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن بھیجا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہم اُسی معنی کو قبول کرلیں جو قرآن شریف نے بیان کئے اور خودروی اختیار نہ کریں.ماسوا اس کے ہم بیان کر چکے ہیں کہ نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لئے بھی کمر بستہ ہو جائے اور اس کی رضامندی کی راہوں کو شناخت کرے.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے یہ دونوں باتیں محض خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں پھر کس قدر یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص تو حید تو رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا.اے عقل کے اندھے اور نادان! توحید بجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہو سکتی ہے.اس کی تو ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص روز روشن سے تو نفرت کرے اور اُس سے بھاگے اور پھر کہے کہ میرے لئے آفتاب ہی کافی ہے دن کی کیا حاجت ہے.وہ نادان نہیں جانتا کہ کیا آفتاب کبھی دن سے علیحدہ بھی ہوتا ہے.ہائے افسوس! یہ نادان نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: لَا تُدركهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام : ۱۰۴) یعنی بصارتیں اور بصیر تیں اس کو پا نہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے.پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی جوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے.ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پر ہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور اُن کے ذریعہ سے عجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے.پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی.وو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٨٣ سورة البقرة اور جو جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیوں کر موحد کہلا سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے جا بجا تو حید کامل کو پیروی رسول سے وابستہ کیا ہے.کیونکہ کامل توحید ایک نئی زندگی ہے اور بجز اُس کے نجات حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا کے رسول کا پیرو ہو کر اپنی سفلی زندگی پرموت وارد نہ کرے.علاوہ اس کے قرآن شریف میں بموجب قول ان نادانوں کے تناقض لازم آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو جا بجاوہ یہ فرماتا ہے کہ بجز ذریعہ رسول تو حید حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ نجات حاصل ہو سکتی ہے.پھر دوسری طرف گو یا وہ یہ کہتا ہے کہ حاصل ہو سکتی ہے حالانکہ توحید اور نجات کا آفتاب اور اُس کو ظاہر کرنے والا صرف رسول ہی ہوتا ہے اُسی کی روشنی سے توحید ظاہر ہوتی ہے پس ایسا تناقض خدا کی کلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.بڑی غلطی اس نادان کی یہ ہے کہ اُس نے توحید کی حقیقت کو بالکل نہیں سمجھا تو حید ایک نور ہے جو آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اُس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا.اخیر پر ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہم فرض محال کے طور پر یہ مان لیں کہ اللہ کا لفظ ایک عام معنوں پر پر مشتمل ہے جس کا ترجمہ خدا ہے اور اُن معنوں کو نظر انداز کر دیں جو قرآن شریف پر نظر تد تر ڈال کر معلوم ہوتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ وہ وہ ذات ہے جس نے قرآن شریف بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.تب بھی یہ آیت مخالف کو مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا نجات کے لئے کافی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر جو خدا تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اور مجمع جمیع صفات کا ملہ حضرت عزت ہے ایمان لائے گا تو خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور کشاں کشاں اس کو اسلام کی طرف لے آئے گا کیونکہ ایک سچائی دوسری سچائی میں داخل ہونے کے لئے مدد دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لانے والے آخر حق کو پالیتے ہیں.قرآن شریف میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالی پر ایمان لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة البقرة کرے گا اور حق اُس پر کھول دے گا اور ر اور است اُسکو دکھائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : ٧٠) پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانے والا ضائع نہیں کیا جاتا آخر اللہ تعالیٰ پوری ہدایت اُس کو کر دیتا ہے چنانچہ صوفیوں نے صدہا مثالیں اس کی لکھی ہیں کہ بعض غیر قوم کے لوگ جب کمال اخلاص سے خدا تعالی پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ میں مشغول ہوئے تو خدا تعالیٰ نے اُن کو اُن کے اخلاص کا یہ بدلہ دیا کہ اُن کی آنکھیں کھول دیں اور خاص اپنی دستگیری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اُن پر ظاہر کر دی.یہی معنی اس آیت کے آخری فقرہ کے ہیں فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ خدا تعالیٰ کا اجر جب تک دنیا میں ظاہر نہیں ہو تا آخرت میں بھی ظاہر نہیں ہوتا.پس دنیا میں خدا پر ایمان لانے کا یہ اجر ملتا ہے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ پوری ہدایت بخشتا ہے اور ضائع نہیں کرتا.اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے.وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء :۱۶۰) یعنی وہ لوگ جو در حقیقت اہل کتاب ہیں اور سچے دل سے خدا پر اور اُس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار اس نبی پر ایمان لے آئیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہاں خبیث آدمی جن کو اہلِ کتاب نہیں کہنا چاہئیے وہ ایمان نہیں لاتے.ایسا ہی سوانح اسلام میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کریم ورحیم ہے اگر کوئی ایک ذرہ بھی نیکی کرے تب بھی اُس کی جزا میں اسلام میں اُس کو داخل کر دیتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے کفر کی حالت میں محض خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے بہت کچھ مال مساکین کو دیا تھا.کیا اس کا ثواب بھی مجھے کو ہوگا.تو آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات ہیں جو تجھ کو اسلام کی طرف کھینچ لائے.پس اسی طرح جو شخص کسی غیر مذہب میں خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک جانتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بموجب آیت فَلهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ آخر اس کو اسلام میں داخل کر دیتا ہے.یہی معاملہ باوانا تک کو پیش آیا.جب اُس نے بڑے اخلاص سے بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ سے محبت کی تو وہی خدا جس نے آیت ممدوحہ بالا میں فرمایا ہے: فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ اُس پر ظاہر ہوا اور اپنے الہام سے اسلام کی طرف اُس کو رہبری کی تب وہ مسلمان ہو گیا اور حج بھی کیا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة البقرة اور کتاب بحر الجواہر میں لکھا ہے کہ ابوالخیر نام ایک یہودی تھا جو پارسا طبع اور راستباز آدمی تھا اور خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک جانتا تھا.ایک دفعہ وہ بازار میں چلا جاتا تھا تو ایک مسجد سے اُس کو آواز آئی کہ ایک لڑکا قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہا تھا:.الم أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت : ٣،٣) یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ یونہی وہ نجات پا جاویں گے صرف اس کلمہ سے کہ ہم ایمان لائے اور ابھی خدا کی راہ میں اُن کا امتحان نہیں کیا گیا کہ کیا ان میں ایمان لانے والوں کی سی استقامت اور صدق اور وفا بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس آیت نے ابوالخیر کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس کے دل کو گداز کر دیا.تب وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر زار زار رو یا.رات کو حضرت سیدنا و مولا نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی خواب میں آئے اور فرمایا یا اَبَا الْخَيْرِ الْجَبَنِي أَنَّ مِثْلَكَ مَعَ كَمَالٍ فَضْلِكَ يُنْكِرُ بِنَبوّتي - يعنى اے ابوالخیر ! مجھے تعجب آیا کہ تیرے جیسا انسان با وجود اپنے کمال فضل اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے.پس صبح ہوتے ہی ابوالخیر مسلمان ہو گیا اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا.خلاصہ یہ کہ میں اس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لاشریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نا بینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ كَانَ فِي هذة أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَ أَضَلُّ سبيلا (بنی اسرائیل : ۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اس سے بھی بدتر.یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا.خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں.ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے.پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا.یہ عجیب نجات ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاگ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے پہلے اُس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اُس کو علم عطا کرتا ہے.صد ہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمت ہے اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام JAY سورة البقرة ہے تو وہ دو قدم آتا ہے.اور جو شخص اُس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اُس کی طرف دوڑ تا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے.پھر کیوں کر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اُس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہ لاشریک سمجھا اور اُس سے محبت کی اور اس کے اولیاء میں داخل ہوا.پھر خدا نے اُس کو نابینا رکھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا.اسی کی مؤید یہ حدیث ہے کہ مَنْ مَّاتَ وَلَمْ يَعْرِفُ إِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراط مستقیم سے بے نصیب رہا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۴ تا ۱۵۱) اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک توحید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پرداز ہیں کہ عبد الحکیم خان نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے مثلاً إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِيْنَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَالطَّبِينَ مَنْ أمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ الجواب:.واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی اور اللہ پر پورا ایمان تبھی ہوسکتا ہے کہ اُس کے رسولوں پر ایمان لاوے.وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اُس کی صفات کے بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالی ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ مثلاً یہ صفات اللہ تعالیٰ کے کہ وہ بولتا ہے، سنتا ہے، پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، رحمت یا عذاب کرنے پر قدرت رکھتا ہے بغیر اس کے کہ رسول کے ذریعہ سے اُن کا پتہ لگے کیوں کر اُن پر یقین آ سکتا ہے اور اگر یہ صفات مشاہدہ کے رنگ میں ثابت نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا تو اس صورت میں اس پر ایمان لانے کے کیا معنی ہوں گے اور جو شخص خدا پر ایمان لاوے ضرور ہے کہ اُس کے صفات پر بھی ایمان لاوے اور یہ ایمان اُس کو نبیوں پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے گا کیونکہ مثلاً خدا کا کلام کرنا اور بولنا بغیر ثبوت خدا کی کلام کے کیوں کر سمجھ آ سکتا ہے اور اس کلام کو پیش کرنے والے مع اس کے ثبوت کے صرف نبی ہیں.پھر یہ بھی واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو قسم کی آیات ہیں ایک محکمات اور بینات جیسا کہ یہ آیت إِنَّ الَّذِينَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ سورة البقرة ر يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَ يُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنْ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَ يُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا لى أوليكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَ اعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مهينا ( النساء : ۱۵۲،۱۵۱) یعنی جو لوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاویں اور اس کے رسولوں پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیں یا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بین بین راہ اختیار کر لیں یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کا فر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے.یہ تو آیات محکمات ہیں جن کی ہم ایک بڑی تفصیل ابھی لکھ چکے ہیں.دوسری قسم کی آیات متشابہات ہیں جن کے معنی باریک ہوتے ہیں اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں اُن لوگوں کو اُن کا علم دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ آیات محکمات کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکمات کی علامت یہ ہے کہ محکمات آیات خدا تعالیٰ کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کا کلام اُن سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے معنی کھلے کھلے ہوتے ہیں اور اُن کے نہ ماننے سے فساد لازم آتا ہے مثلاً اس جگہ دیکھ لو کہ جو شخص محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اُس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتا اُس کو خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر ہونا پڑتا ہے.مثلاً ہمارے زمانہ میں برہمو جو ایک نیا فرقہ ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالی سنتا ہے تو بولتا بھی ہے.پس اگر اس کا بولنا ثابت نہیں تو سٹنا بھی ثابت نہیں.اس طرح پر ایسے لوگ صفات باری سے انکار کر کے دہریوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور صفات باری جیسے ازلی ہیں ویسے ابدی بھی ہیں اور ان کو مشاہدہ کے طور پر دکھلانے والے محض انبیاء علیہم السلام ہیں اور نفی صفات باری نفی وجود باری کو مستلزم ہے.اس تحقیق سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا کس قدر ضروری ہے کہ بغیر اُن کے خدا پر ایمان لانا ناقص اور نا تمام رہ جاتا ہے اور نیز آیات محکمات کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ اُن کی شہادت نہ محض کثرت آیات سے بلکہ عملی طور پر بھی ملتی ہے.یعنی خدا کے نبیوں کی متواتر شہادت اُن کے بارہ میں پائی جاتی ہے.جیسا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف اور دوسرے نبیوں کی کتابوں کو دیکھے گا.اُس کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی کتابوں میں جس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ سورة البقرة طرح خدا پر ایمان لانے کی تاکید ہے ایسا ہی اُس کے رسولوں پر بھی ایمان لانے کی تاکید ہے اور متشابہات کی یہ علامت ہے کہ اُن کے ایسے معنی ماننے سے جو مخالف محکمات کے ہیں فساد لازم آتا ہے اور نیز دوسری آیات سے جو کثرت کے ساتھ ہیں مخالف پڑتی ہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکن نہیں اس لئے جو قلیل ہے بہر حال کثیر کے تابع کرنا پڑتا ہے اور میں لکھ چکا ہوں کہ اللہ کے لفظ پر غور کرنا اس وسوسہ کو مٹا دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے اپنے بیان میں اللہ کے لفظ کی یہ تصریح ہے کہ اللہ وہ خدا ہے جس نے کتابیں بھیجی ہیں اور نبی بھیجے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ وہ ان مدارج اور مراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے کیونکہ جن منازل تک باعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے.اور جبکہ خدا تعالیٰ نے اسم اللہ کو اپنے تمام صفات اور افعال کا موصوف ٹھہرایا ہے تو اللہ کے لفظ کے معنے کرنے کے وقت کیوں اس ضروری امر کو محفوظ نہ رکھا جاوے.ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ قرآن شریف سے پہلے عرب کے لوگ اللہ کے لفظ کو کن معنوں پر استعمال کرتے تھے.مگر ہمیں اس بات کی پابندی کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک اللہ کے لفظ کو انہیں معنوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ رسولوں اور نبیوں اور کتابوں کا بھیجنے والا اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا اور فلاں فلاں صفت سے متصف اور واحد لا شریک ہے.ہاں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں پہنچا اور وہ بالکل بے خبر ہیں اُن سے اُن کے علم اور عقل اور فہم کے موافق مؤاخذہ ہوگا.لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ وہ ان مدارج اور مراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے.کیونکہ جن منازل تک بباعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے.جملہ پھر اس ظلم کو تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف کی صد با آیتیں بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ نری توحید موجب نجات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ رسول کریم پر ایمان لانا شرط ہے پھر بھی میاں عبد الحکیم خان ان آیات کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے اور یہودیوں کی طرح ایک دو آیت جو مجمل طور پر واقع ہیں اُن کے الٹے معنے کر کے بار بار پیش کرتے ہیں.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ان آیات کے یہی معنے ہیں جو عبد الحکیم پیش کرتا ہے تب اسلام دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے.اور جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام مثل نماز، اگر اس مجمل آیت کے یہ معنی کئے جائیں تو کیا وجہ کہ اس دوسری مجمل آیت یعنی إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر: ۵۴) کی رو سے اعتقاد یہ رکھا جائے کہ شرک بھی بخشا جائے گا.منہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة البقرة روزہ وغیرہ کے سکھلائے ہیں وہ سب کچھ بیہودہ اور لغو اور عبث ٹھہرتا ہے.کیونکہ اگر یہی بات ہے کہ ہر ایک شخص اپنی خیالی توحید سے نجات پاسکتا ہے تو پھر نبی کی تکذیب کچھ بھی گناہ نہیں اور نہ مرتد ہونا کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے.پس یادر ہے کہ قرآن شریف میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں کہ جو نبی کریم کی اطاعت سے لا پروا کرتی ہو اور اگر بالفرض وہ دو تین آیتیں ان صدہا آیتوں کے مخالف ہو تیں تب بھی چاہئے تھا کہ قلیل کو کثیر کے تابع کیا جاتا نہ کہ کثیر کو بالکل نظر انداز کر کے ارتداد کا جامہ پہن لیں.اور اس جگہ آیات کلام اللہ میں کوئی تناقض بھی نہیں صرف اپنے فہم کا فرق اور اپنی طبیعت کی تار کی ہے.ہمیں چاہئے کہ اللہ کے لفظ کے وہ معنی کریں جو خدا تعالیٰ نے خود کئے ہیں نہ کہ اپنی طرف سے یہودیوں کی طرح اور معنی بناویں.ماسوا اس کے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسولوں کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ وہ ہر ایک سرکش اور سخت منکر کو اس پیرایہ سے بھی ہدایت کیا کرتے ہیں کہ تم صحیح اور خالص طور پر خدا پر ایمان لاؤ.اُس سے محبت کرو.اُس کو واحد لاشریک سمجھو تب تمہاری نجات ہو جائے گی اور اس کلام سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پورے طور سے خدا پر ایمان لائیں گے تو خدا ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دے گا.قرآن شریف کو یہ لوگ نہیں پڑھتے.اس میں صاف لکھا ہے کہ خدا پر سچا ایمان لانا اُس کے رسول پر ایمان لانے کے لئے موجب ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کا سینہ اسلام کو قبول کرنے کیلئے کھولا جاتا ہے اس لئے میرا بھی یہی دستور ہے کہ جب کوئی آریہ یا برہمو یا عیسائی یا یہودی یا سکھ یا اور منکر اسلام کی بھی کرتا ہے اور کسی طرح باز نہیں آتا تو آخر کہہ دیا کرتا ہوں کہ تمہاری اس بحث سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہو گا تم خدا پر پورے اخلاص سے ایمان لاؤ اس سے وہ تمہیں نجات دے گا.مگر اس کلمہ سے میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بغیر متابعت نبی کریم کے نجات مل سکتی ہے بلکہ میرا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو شخص پورے صدق سے خدا پر ایمان لائے گا خدا اُس کو تو فیق بخش دے گا اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے لئے اُس کا سینہ کھول دے گا.ایسا ہی میں نے تجربہ سے دیکھا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق بخشتی ہے اور ایک نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طاقت دے دیتا ہے.تذکرۃ الاولیاء میں یہ ایک عجیب حکایت لکھی ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند دن بارش رہی اور بہت مینہ برسا.مینہ تقسم جانے کے بعد میں اپنے کوٹھے پر کسی کام کے لئے چڑھا اور میرا ہمسایہ ایک بڑھا آتش پرست تھا وہ اُس وقت اپنے کو ٹھے پر بہت سے دانے ڈال رہا تھا.میں نے سبب پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ چند روز سے بباعث بارش پرندے بھوکے ہیں مجھے اُن پر رحم آیا اس لئے میں یہ دانے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٠ سورة البقرة اُن کے لئے ڈال رہا ہوں تا مجھے ثواب ہو.میں نے جواب دیا کہ اے بڑھے تیرا یہ خیال غلط ہے.تو مشرک ہے اور مشرک کو کوئی ثواب نہیں ملتا کیونکہ تو آتش پرست ہے.یہ کہہ کر میں نیچے اُتر آیا.کچھ مدت کے بعد مجھے حج کرنے کا اتفاق ہوا اور میں مکہ معظمہ پہنچا اور جب میں طواف کر رہا تھا تو میرے پیچھے سے ایک طواف کرنے والے نے مجھے میرا نام لے کر آواز دی.جب میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہی بڑھا تھا جو مشرف باسلام ہو کر طواف کر رہا تھا.اُس نے مجھے کہا کہ کیا ان دانوں کا جو میں نے پرندوں کو ڈالے تھے مجھے ثواب ملایا نہ ملا؟ پس جبکہ پرندوں کو دانہ ڈالنا آخر کھینچ کر اسلام کی طرف لے آتا ہے تو پھر جو شخص اس کچے بادشاہ قادر حقیقی پر ایمان لاوے تو کیا وہ اسلام سے محروم رہے گا.ہر گز نہیں.عاشق که شد که یار بحالش نظر نہ کرو اے خواجہ درد نیست و گرنه طبیب ہست یا در ہے کہ اول تو توحید بغیر پیروی نبی کریم کے کامل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ابھی ہم بیان کر آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کی ذات سے الگ نہیں ہو سکتیں بغیر آئینہ، وحی نبوت کے مشاہدہ میں آنہیں سکتیں.اُن صفات کو مشاہدہ کے رنگ میں دکھلانے والا محض نبی ہوتا ہے.علاوہ اس کے اگر بفرض محال حصول اُن کا ناقص طور پر ہو جائے تو وہ شرک کی آلائش سے خالی نہیں جب تک کہ خدا اسی مغشوش متاع کو قبول کر کے اسلام میں داخل نہ کرے کیونکہ جو کچھ انسان کو خدا تعالیٰ سے اُس کے رسول کی معرفت ملتا ہے وہ ایک آسمانی پانی ہے اس میں اپنے فخر اور تُجب کو کچھ دخل نہیں لیکن انسان اپنی کوشش سے جو کچھ حاصل کرتا ہے.اس میں ضرور کوئی شرک کی آلائش پیدا ہو جاتی ہے.پس یہی حکمت تھی کہ تو حید کو سکھلانے کے لئے رسول بھیجے گئے اور انسانوں کی محض عقل پر نہیں چھوڑا گیا تا توحید خالص رہے اور انسانی عجب کا شرک اس میں مخلوط نہ ہو جائے اور اسی وجہ سے فلاسفہ ضالہ کو توحید خالص نصیب نہیں ہوئی.کیونکہ وہ رعونت اور تکبر اور عجب میں گرفتار ر ہے اور توحید خالص نیستی کو چاہتی ہے اور وہ نیستی جب تک انسان سچے دل سے یہ نہ سمجھے کہ میری کوشش کا کچھ دخل نہیں یہ محض انعام الہی ہے حاصل نہیں ہو سکتی.مثلاً ایک شخص تمام رات جاگ کر اور اپنے نفس کو مصیبت میں ڈال کر اپنے کھیت کی آب پاشی کر رہا ہے اور دوسرا شخص تمام رات سوتا رہا اور ایک بادل آیا اور اُس کے کھیت کو پانی سے بھر دیا.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا وہ دونوں خدا کا شکر کرنے میں برابر ہوں گے؟ ہر گز نہیں.بلکہ وہ زیادہ شکر کرے گا جس کے کھیت کو بغیر اُس کی محنت کے پانی دیا گیا.اسی لئے خدا تعالیٰ کے کلام میں بار بار آیا ہے کہ اس خدا کا شکر کرو جس نے رسول بھیجے اور تمہیں تو حید سکھائی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۲ تا ۱۷۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۱ سورة البقرة اللہ پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ اُسے اُن تمام صفات سے موصوف مانا جاوے جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے مثلا رب ، رحمن، رحیم، تمام محامد والا ، رسولوں کا بھیجنے والا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے والا اب آپ ہی بتلاویں کہ قرآن شریف میں لفظ اللہ کے یہ معنے ہیں کہ نہیں پھر جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا.قرآن کو نہیں مانتا تو اس نے کیا اُس اللہ کو مانا جسے قرآن نے پیش کیا ہے.جیسے گلاب کے پھول سے خوشبو دور کر دی جاوے تو پھر وہ گلاب کا پھول پھول نہیں رہتا اور اُسے پھینک دیتے ہیں پس اسی طرح اللہ کو ماننے والا وہی ہو گا جو اُسے اُن صفات کے ساتھ مانے جو قرآن نے بیان کئے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱رستمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۶۵) لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.اگر کوئی ہم و غم واقع بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے الہام سے اس کے لئے خارجی اسباب ان کے دُور کرنے کے پیدا کر دیتا ہے یا خارق عادت صبر ان کو عطا کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری،تلف حقوق، ریا، تُجب ، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.لوگوں سے مروّت ، خوشی خلقی ، ہمدردی سے پیش آوے.خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان منتقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں.وہی اصل متقی ہوتے ہیں (یعنی اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں ) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لا خُوفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ہے.الهدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ ء - ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۸۰ ) وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُم وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ - خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.احادیث صحیحہ صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ یا جوج ماجوج کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب قوم یا جوج ماجوج اپنی قوت اور طاقت کے ساتھ تمام قوموں پر غالب آجائے گی اور ان کے ساتھ کسی کو تاب مقابلہ نہیں رہے گی.تب مسیح موعود کو حکم ہوگا کہ اپنی جماعت کو کوہ طور کی پناہ میں لے آوے یعنی آسمانی نشانوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرے اور خدا کی زبر دست اور ہیبت ناک عجائبات سے مدد
۱۹۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے اُن نشانوں کی مانند جو بنی اسرائیل کی سرکش قوم کے ڈرانے کے لئے کوہ طور میں دکھلائے گئے تھے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطور یعنی کوہ طور میں نشان کے طریق پر بڑے بڑے زلزلے آئے اور خدا نے طور کے پہاڑ کو یہود کے سروں پر اس طرح پر لرزاں کر کے دکھلایا کہ گویا اب وہ ان کے سروں پر پڑتا ہے تب وہ اس ہیبت ناک نشان کو دیکھ کر بہت ڈر گئے.اسی طرح مسیح موعود کے زمانہ میں بھی ہوگا.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۹٬۸۸) لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا نے کس طرح پہاڑ کو بنی اسرائیل کے اوپر کر دیا تھا.یہ قصہ بیج نہیں معلوم ہوتا.اب کانگڑہ ، دھرم سالہ مقامات کے لوگوں نے خوب سمجھ لیا ہوگا کہ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْر کس طرح سے ہو سکتا ہے.ذرا سے زلزلے میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ گویا پہاڑ او پر آ گرا.پھر خدا چاہے اس کو پیچھے ہٹا دے یا اوپر گرا دے.یہ نیچریت زمانہ کے جہلا کا جواب ہے جو خدا نے زلزلہ کے ذریعہ سے دیا ہے.امید ہے کہ اس قدر نظارے دیکھ کر بعض خوش قسمت لوگ سمجھ جائیں گے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے احاطہ و قدرت میں ہے.اور وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے.( بدر جلد نمبر ۳ مورخه ۲۰ را پریل ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) وَ لَقَد عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوا مِنْكُمْ فِي السَّبُتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خسِبِيْنَ اسلام میں صرف وہ قسم تناسخ یعنی اواگون کی باطل اور غلط تھہرائی گئی ہے جس میں گذشتہ ارواح کو پھر دنیا کی طرف لوٹا یا جاوے لیکن بجز اس کے اور بعض صورتیں تناسخ یعنی اواگون کی ایسی ہیں کہ اسلام نے ان کو روا رکھا ہے چنانچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ ایک شخص جو اس دنیا میں زندہ موجود ہے جب تک وہ تزکیہ نفس کر کے اپنا سلوک تمام نہ کرے اور پاک ریاضتوں سے گندے جذبات اپنے دل میں سے نکال نہ دیوے تب تک وہ کسی نہ کسی حیوان یا کیڑے مکوڑے سے مشابہ ہوتا ہے اور اہل باطن کشفی نظر سے معلوم کر جاتے ہیں کہ وہ اپنے کسی مقام نفس پرستی میں مثلاً بیل سے مشابہ ہوتا ہے یا گدھے سے یا کٹے سے یا کسی اور جانور سے اور اسی طرح نفس پرست انسان اسی زندگی میں ایک بجون بدل کر دوسری بجون میں آتا رہتا ہے ایک جون کی زندگی سے مرتا ہے اور دوسری مجون کی زندگی میں جنم لیتا ہے.اسی طرح اس زندگی میں ہزارہا موتیں اس پر آتی ہیں اور ہزار ہا جو نیں اختیار کرتا ہے اور اخیر پر اگر سعادت مند ہے تو حقیقی طور پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۹۳ سورة البقرة.انسان کی مجون اس کو ملتی ہے اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے نافرمان یہودیوں کے قصہ میں فرمایا کہ وہ بندر بن گئے اور سور بن گئے سو یہ بات تو نہیں تھی کہ وہ حقیقت میں تناسخ کے طور پر بندر ہو گئے تھے بلکہ اصل حقیقت یہی تھی کہ بندروں اور سؤروں کی طرح نفسانی جذبات ان میں پیدا ہو گئے تھے.غرض یہ قسم تناسخ کی اسی دنیا کی زندگی کے غیر منقطع سلسلہ میں شروع ہوتی ہے اور اسی میں ختم ہو جاتی ہے اور اس میں مرنا اور جینا اور آنا اور جانا ایک حکمی امر ہوا کرتا ہے نہ واقعی اور حقیقی.اور دوسری قسم تناسخ کی وہ ہے جو قیامت کے دن دوزخیوں کو پیش آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک دوزخی جس گندے جذبہ میں گرفتار ہوگا اسی کے مناسب حال کسی حیوان کی صورت بنا کر اس کو دوزخ میں ڈالا جائے گا مثلاً جو لوگ شکم پرستی کی وجہ سے خدا سے دور پڑ گئے وہ کتوں کی شکل میں کر کے دوزخ میں گرائے جائیں گے اور جو لوگ شہوت کے جماع کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حکم سے روگردان ہو گئے وہ سوروں کی شکل میں دوزخ میں گرائے جائیں گے.اور جن لوگوں نے نافرمانی کر کے بہت سے حیوانوں کے ساتھ مشابہت پیدا کر لی تھی وہ بہت سی بجونوں میں پڑیں گے اس طرح پر کہ ایک جون کو ایسی حالت میں ختم کر کے جو موت سے مشابہ ہے دوسری جون کا چولہ پہن لیں گے.اسی طرح ایک مجون کے بعد دوسری بجون میں آئیں گے اور نہ ایک موت بلکہ ہزاروں موتیں ان پر آئیں گی.اور وہ موتیں وہی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے شبور کثیر کے لفظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے.مگر مومنوں پر بجز ایک موت کے جو موتہ اولی ہے اور کوئی موت نہیں آئے گی.تیسری قسم تناسخ کی جو قرآن میں بیان ہے یہ ہے جو انسانی نطفہ ہزار ہا تغیرات کے بعد پھر نطفہ کی شکل بنتا ہے مثلاً اول گندم کا دانہ ہوتا ہے اور ہزاروں برس اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ زمیندار اس کو زمین میں ہوتا ہے اور وہ سبزہ کی شکل پر ہو کر زمین سے نکلتا ہے آخر دانہ بن جاتا ہے پھر کسی وقت زمیندار اس کو بوتا ہے اور پھر سبزہ بنتا ہے اسی طرح صد ہا سال ایسا ہی ہوتا رہتا ہے اور ہزار ہا قالب میں وہ دانہ آتا ہے یہاں تک کہ اس کے انسان بننے کا وقت آ جاتا ہے تب اس دانہ کو کوئی انسان کھا لیتا ہے اور اس سے انسانی نطفہ بن جاتا ہے.(ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۰۶ تا ۲۰۸) کتے سے مُراد ایک طماع آدمی جو کہ تھوڑی سی بات پر راضی اور تھوڑی سی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں اور بندر سے مراد ایک مسخ شدہ آدمی ہے.مفسرین سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ مسخ شدہ یہود پر پشم بھی پیدا ہوئی تھی اور ان کی دم بھی نکل آئی تھی بلکہ ان کے عادات مثل بندروں کے ہو گئے تھے.اس وقت بھی اُمّت مثل یہود کے ہو گئی ہے اس سے مراد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ یہی ہے کہ ان کی خصلت ان میں آگئی ہے کہ مامور کا انکار کرتے ہیں.سورة البقرة ( البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۴) یہودیوں پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ اُن میں نری زبان درازی ہی رہ گئی تھی اور انہوں نے صرف زبان کی باتوں پر ہی کفایت کر لی تھی.زبان سے تو وہ بہت کچھ کہتے تھے مگر دل میں طرح طرح کے گندے خیالات اور زہریلے مواد بھرے ہوئے تھے یہی وجہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر طرح طرح کے عذاب نازل کئے اور ان کو مختلف مصیبتوں میں ڈالا اور ذلیل کیا یہاں تک کہ انہیں سور اور بندر بنایا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۳) وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادْرَعْتُمْ فِيهَا وَاللهُ مُخْرِجُ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ ج ۷۳ ایک اور و ہم پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض مردے زندہ ہو گئے.جیسے وہ مردہ جس کا خون بنی اسرائیل نے چھپا لیا تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہے : وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَاذْرَ تُم فِيهَا وَاللهُ مُخْرج ما كُنتُم تَکتمون.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے قصوں میں قرآن شریف کی کسی عبارت سے نہیں نکلتا کہ فی الحقیقت کوئی مردہ زندہ ہو گیا تھا اور واقعی طور پر کسی قالب میں جان پڑ گئی تھی بلکہ اس آیت پر نظر غور کرنے سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے ایک خون کر کے چھپا دیا تھا اور بعض بعض پر خون کی تہمت لگاتے تھے.سو خدائے تعالیٰ نے اصل مجرم کے پکڑنے کے لئے یہ تدبیر سمجھائی تھی کہ تم ایک گائے کو ذبح کر کے اس کی بوٹیاں اس لاش پر مارو اور وہ تمام اشخاص جن پر شبہ ہے ان بوٹیوں کو نوبت به نوبت اس لاش پر ماریں.تب اصل خونی کے ہاتھ سے جب لاش پر بوٹی لگے گی تو لاش سے ایسی حرکات صادر ہوں گی جس سے خونی پکڑا جائے.اب اس قصہ سے واقعی طور پر لاش کا زندہ ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا.بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک دھمکی تھی کہ تا چور ہے دل ہو کر اپنے تئیں ظاہر کرے.لیکن ایسی تاویل سے عالم الغیب کا عجز ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تاویلیں وہی لوگ کرتے ہیں کہ جن کو عالم ملکوت کے اسرار سے حصہ نہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق علم عمل الترب یعنی مسمریزم کا ایک شعبہ تھا جس کے بعض خواص میں سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات میں ایک حرکت مشابہ بحرکت حیوانات پیدا ہو کر اس سے بعض مشتبہ اور مجہول امور کا پتہ لگ سکتا ہے.ہمیں چاہیے کہ کسی سچائی کو ضائع نہ کریں اور ہر ایک وہ حقیقت یا خاصیت جو عین صداقت ہے اس کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة البقرة خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں.علم عمل الترب ایک عظیم الشان علم ہے جو طبیعی کا ایک روحانی حصہ ہے جس میں بڑے بڑے خواص اور عجائبات پائے جاتے ہیں.اور اس کی اصلیت یہ ہے کہ انسان جس طرح باعتبار اپنے مجموعی وجود کے تمام چیزوں پر خلیفتہ اللہ ہے اور سب چیزیں اس کے تابع کر دی گئی ہیں اسی طرح انسان جس قدر اپنے اندر انسانی قومی رکھتا ہے تمام چیزیں ان قومی کی اس طرح پر تابع ہیں کہ شرائط مناسبہ کے ساتھ ان کا اثر قبول کر لیتی ہیں.انسان قوت فاعلہ کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے اور دوسری چیزیں قوت منفعلہ رکھتی ہیں.ادنی اثر انسان کی قوت فاعلہ کا یہ ہے کہ ہر یک جاندار اس سے ایسا ہل سکتا ہے کہ اس کے خادموں میں اپنے تئیں شمار کر لیتا ہے اور اس کا مسخر ہو جاتا ہے.فطرت نے جن انسانوں کو قوت فاعلہ کا بہت ساحصہ دیا ہے اُن سے عمل الترب کے عجیب عجیب خواص ظاہر ہوتے ہیں.درحقیقت انسان ایک ایسا جانور ہے کہ اس کے ظاہری اور باطنی قومی ترقی دینے سے ترقی پذیر ہو سکتے ہیں اور ان کی قوت فاعلی کا اثر بڑھ جاتا ہے.مثلاً جن لوگوں کو ہمارے ملک میں ڈائن کہتے ہیں ان کی صرف اس قدر حقیقت ہے کہ ان کی زہریلی نظر سے ضعیف الخلفت لوگ بچے وغیرہ کسی قدر متاثر ہو جاتے ہیں.بعض لوگ اپنی زہریلی نظر سے درندوں کو مغلوب اور متاثر کر کے آسانی سے اُن کا شکار کر لیتے ہیں.بعض اپنے تصورات تربی مشق کی وجہ سے دوسرے کے دل میں ڈال دیتے ہیں.بعض اپنی کیفیت ذوقی کا اثر اسی عمل کے زور سے دوسرے کے دل تک پہنچا سکتے ہیں.بعض بے جان چیزوں پر اثر ڈال کر ان میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں.چنانچہ زمانہ حال میں بھی ان ہاتوں میں مشق رکھنے والے بہت نظر آتے ہیں.بعض کئے ہوئے سر بکری وغیرہ کے عمل الشرب کے زور سے ایسی حرکت میں لاتے ہیں کہ وہ ناچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.بعض عمل الترب کے زور سے چوروں کا پتہ لگا لیتے ہیں.قرآن شریف یا لوٹے کو حرکت دے کر جو چور کا پتہ نکالتے ہیں حقیقت میں یہ عمل الترب کی ایک شاخ ہے.اگر چہ اس کی شرائط ضرور یہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے غلطی واقع ہو.چنانچہ اسی وجہ سے بکثرت غلطی واقع ہوتی بھی ہے لیکن یہ غلطی اس عمل کی عزت اور عظمت کو گھٹا نہیں سکتی کیونکہ بہت سے تجارب صحیحہ سے اس کی اصلیت ثابت ہو چکی ہے.بے شک انسانی حیات اور شعور کا اثر دوسری چیزوں پر بھی پڑ سکتا ہے اور انسان کی قوت کشفی کا پر توہ جمادات یا کسی مردہ حیوان پر پڑ کر اس کو بعض مجہولات کے استکشاف کا آلہ بنا سکتا ہے.چنانچہ قضیہ مذکورہ بالا جس کا آیت مذکورہ بالا میں ذکر ہے اسی قسم میں سے ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۳ تا۵۰۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۶ سورة البقرة نیکی کو نیک لوگ اگر ہزار پردوں کے اندر بھی کریں تو خدا نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ اُسے ظاہر کر دے گا اور اسی طرح بدی کا حال ہے.بلکہ لکھا ہے کہ اگر کوئی عابد زاہد خدا کی عبادت میں مشغول ہو اور اُس صدق اور جوش کا جو اُس کے دل میں ہے انتہا کے نقطہ تک اظہار کر رہا ہو.اور اتفاقاً کنڈی لگانی بھول گیا ہو تو کوئی اجنبی باہر سے آکر اُس کا دروازہ کھول دے تو اُس کی حالت بالکل وہی ہوتی ہے جو ایک زانی کی عین زنا کے وقت پکڑا جانے سے کیونکہ اصل غرض تو دونوں کی ایک ہی ہے یعنی اخفائے راز.اگر چہ رنگ الگ الگ ہیں ایک نیکی کو اور دوسرا بدی کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے.غرض خدا کے بندوں کی حالت تو اس نقطہ تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے نیک بھی چاہتے ہیں کہ ہماری نیکی پوشیدہ رہے اور بد بھی اپنی بدی کو پوشیدہ رکھنے کی دُعا کرتا ہے مگر اس امر میں دونوں نیک و بد کی دُعا قبول نہیں ہوتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو قانون بنا رکھا ہے کہ وَاللهُ مُخْرج الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحہ ۷ ) ما كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ.لا و فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذلِكَ يُحْيِ الله الموتى " وَ يُرِيكُم ايته لَعَلَّكُم تَعْقِلُونَ یہ حیات حقیقی کا ثبوت نہیں بلکہ ایک اعجوبہ قدرت کے ثابت ہونے سے دوسری قدرت کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ جا بجا قرآن شریف میں یہی طریق ہے یہاں تک کہ نباتات کے اُگنے کو احیاء موٹی پر دلیل ٹھہرائی گئی ہے اور یہی آیت كَذلِكَ يُخي الله الموتى ان مقامات میں بھی لکھی گئی ہے.اور یا درکھنا چاہیئے کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب جتلا رہے ہیں کہ انسان میں جمیع کا ئنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف اور کھینچ لے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۶) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أُولَبِكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ بہشتیوں کے ہمیشہ بہشت میں رہنے کا جابجاذکر ہے اور سارا قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة البقرة وہ تمام آیتیں جن کے بعد خالدون یا خالدین آتا ہے اسی امر کو ظاہر کر رہی ہیں کہ کوئی انسان راحت یارنج عالم معاد کے چکھ کر پھر دنیا میں ہر گز نہیں آتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۱ حاشیه در حاشیه ) قف وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَ ذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَنى وَالْمَسَكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسُنَّا وَ أَقِيمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزكوة ، ثُمَّ تَوَلَّيْتُمُ الاَ قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ.قُولُوا لِلنَّاسِ حُسنا لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۰) وَ إِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُونَ ثُمَّ اَنْتُم هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ b اَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ إِنْ يَأْتُوكُمْ أَسْرَى تُفَدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمُ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ، اَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْض الكتب وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌّ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى اَشَلِ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم نے خون نہ کرنا اور اپنے عزیزوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالنا اور تم نے اقرار کر لیا تھا کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں گے لیکن تم پھر بھی ناحق کا خون کرتے اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نکالتے رہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶) فَمَا جَزَاء مَنْ يَفْعَلُ ذلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْى فى الحيوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدّ الْعَذَابِ یعنی جو شخص تم میں سے ایسا کام کرے دُنیا کی زندگی میں اُس کو رُسوائی ہوگی اور قیامت کو اُس کے لئے سخت عذاب ہے.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۲) وَ لَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَ أَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۸ سورة البقرة مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ اَيَّدُ نَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهُوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَنَّ بِتُم وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ.تمہاری یہی عادت رہی کہ جب کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا گیا تو بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کے در پے قتل ہوئے یاقتل ہی کر دیا.اب فرمائیے کہ اگر یہ کلمات بطور استعارہ نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو ظاہر پر حمل کرنا چاہیئے تو پھر یہ مانا پڑے گا کہ جولوگ در حقیقت ان آیات کے مخاطب ہیں جن کو آل فرعون سے نجات دی گئی تھی اور جن کو دریا نے راہ دیا تھا اور جن پر من وسلویٰ اتارے گئے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک زندہ ہی تھے یا مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر آگئے تھے.کیا آپ لوگ جب مسجدوں میں بیٹھ کر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو ان آیات کے معنے یہ سمجھایا کرتے ہیں کہ ان آیات کے مخاطبین ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت تک بقید حیات تھے یا قبروں سے زندہ ہو کر پھر دنیا میں آگئے تھے.اگر کوئی طالب علم آپ سے سوال کرے کہ ان آیات کے ظاہر مفہوم سے تو یہی معنے نکلتے ہیں کہ مخاطب وہی لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے نبیوں کے وقت موجود تھے کیا اب یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ تھے یا زندہ ہو کر پھر دنیا میں آگئے تھے.تو کیا آپ کا یہی جواب نہیں کہ بھائی وہ تو سب فوت ہو گئے اور اب مجازی طور پر مخاطب اُن کی نسل ہی ہے جو اُن کے کاموں پر راضی ہے گویا انہیں کا وجود ہے یا یوں کہو کہ گویا وہی ہیں.تو اب سمجھ لو کہ یہی مثال ابن مریم کے نزول کی ہے.عنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ مراتب وجود دوری ہیں اور بعض کے ارواح بعض کی صورت مثالی لے کر اس عالم میں آتے ہیں اور روحانیت ان کی بکلی ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہے.آیت تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ (البقرة:119) کو غور سے پڑھو.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶، ۴۴۷) یعنی اے بنی اسرائیل! کیا تمہاری یہ عادت ہو گئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میں سے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴) وَقَطَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ مولویوں کے احادیث پیش کرنے پر فرمایا کہ ان (احادیث) پر ایسا وثوق تو نہیں ہوتا جیسے کلام الہی پر.کیونکہ خواہ کچھ ہی ہو پھر بھی وہ میں انسان سے تو خالی نہیں مگر خدا تعالیٰ جس کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٩ سورة البقرة تنقید کرتا جاوے وہ صحیح ہوتا جاوے گا اگر احادیث میں نزول مسیح کا ذکر تھا تو دیکھئے قرآن شریف میں وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ موجود ہے جو کہ اصل حقیقت کو واضح کر رہا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۵) وَ لَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَ قَقَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ.یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بہت سے رسل اس کے پیچھے آئے.چونکہ مماثلت فی الانعامات ہونا از بس ضروری ہے اور مماثلت تامہ تبھی متحقق ہو سکتی تھی کہ جب مماثلت فی الانعامات متحقق ہو.پس اسی لئے یہ ظہور میں آیا کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قریباً چودہ سو برس تک ایسے خدام شریعت عطا کئے گئے کہ وہ رسول اور مہم من اللہ تھے اور اختتام اس سلسلہ کا ایک ایسے رسول پر ہوا جس نے تلوار سے نہیں بلکہ فقط رحمت اور خلق سے حق کی طرف دعوت کی.اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ خدام شریعت عطا کئے گئے جو بر طبق حديث عُلَمَاء أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي اسرائیل ملہم اور محدث تھے اور جس طرح موسیٰ کی شریعت کے آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نہ تلوار سے بلکہ صرف خلق اور رحمت سے دعوت حق کی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اس شریعت کے لئے مسیح موعود کو بھیجا تا وہ بھی صرف خُلق اور رحمت اور انوار آسانی سے راہ راست کی دعوت کرے اور جس طرح حضرت مسیح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قریباً چودہ سو برس بعد آئے تھے اس مسیح موعود نے بھی چودھویں صدی کے سر پر ظہور کیا اور محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ سے انطباق کلی پا گیا.اور اگر یہ کہا جائے کہ موسوی سلسلہ میں تو حمایت دین کیلئے نبی آتے رہے اور حضرت مسیح بھی نبی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا ایسا ہی محد ثین کا نام بھی مرسل رکھا.اسی اشارہ کی غرض سے قرآن شریف میں وَ قَطَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ آیا ہے اور یہ نہیں آیا کہ قفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالْاَنْبِيَاءِ.پس یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مُراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدّث رکھے گئے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ فلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (الواقعة: ۳۱۰۴۰) چونکہ قله کا لفظ دونوں فقروں میں برابر آیا ہے.اس لئے قطعی طور پر یہاں سے ثابت ہوا کہ اس اُمت کے محدث اپنی تعداد میں اور اپنے طولانی سلسلہ میں موسوی اُمت کے مرسلوں کے برابر ہیں اور در حقیقت اسی و بدو
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے اور وہ یہ ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ.....لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا ( النور :۵۶) یعنی خدا نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ البتہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ کرے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو کیا جو اُن سے پہلے گزر گئے اور اُن کے دین کو جو اُن کے لئے پسند کیا ہے ثابت کر دے گا اور اُن کے لئے خوف کے بعد امن کو بدل دے گا میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۴) ايد لهُ بِرُوحِ الْقُدُ ہیں.جب محبت الہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سامی انسان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے اور اُن کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اُس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی ان سے جُدا ہوتی ہے.وہ روشنی ہر دم اُن کے تنفس کے ساتھ نکلتی ہے اور اُن کی نظر کے ساتھ ہر یک چیز پر پڑتی ہے.اور اُن کی کلام کے ساتھ اپنی نورانیت لوگوں کو دکھلاتی ہے اسی روشنی کا نام روح القدس ہے مگر یہ حقیقی روح القدس نہیں حقیقی روح القدس وہ ہے جو آسمان پر ہے یہ روح القدس اُس کا ظلت ہے جو پاک سینوں اور ولوں اور دماغوں میں ہمیشہ کے لئے آباد ہو جاتا ہے اور ایک طرفہ اعین کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا اور جو شخص تجویز کرتا ہے کہ یہ روح القدس کسی وقت اپنی تمام تاثیرات کے ساتھ ان سے جُدا ہو جاتا ہے وہ شخص سراسر باطل پر ہے اور اپنے پر ظلمت خیال سے خدا تعالیٰ کے مقدس برگزیدوں کی تو ہین کرتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ حقیقی روح القدس تو اپنے مقام پر ہی رہتا ہے لیکن روح القدس کا سایہ جس کا نام مجاز اروح القدس ہی رکھا جاتا ہے اُن سینوں اور دلوں اور دماغوں اور تمام اعضا میں داخل ہوتا ہے جو مرتبہ بقا اور لقا کا پاکر اس لائق ٹھہر جاتے ہیں کہ اُن کی نہایت اصفی اور اصلی محبت پر خدا تعالیٰ کی کامل محبت اپنی برکات کے ساتھ نازل ہو.اور جب وہ روح القدس نازل ہوتا ہے تو اس انسان کے وجود سے ایسا تعلق پکڑ جاتا ہے کہ جیسے جان کا تعلق جسم سے ہوتا ہے وہ قوت بینائی بن کر آنکھوں میں کام دیتا ہے اور قوت شنوائی کا جامہ پہن کر کانوں کو روحانی حس بخشتا ہے وہ زبان کی گویائی اور دل کے تقویٰ اور دماغ کی ہشیاری بن جاتا ہے اور ہاتھوں میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورة البقرة بھی سرایت کرتا ہے اور پیروں میں بھی اپنا اثر پہنچاتا ہے.غرض تمام ظلمت کو وجود میں سے اُٹھا دیتا ہے اور سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخنوں تک منور کر دیتا ہے اور اگر ایک طرفۃ العین کے لئے بھی علیحدہ ہو جائے تو فی الفور اس کی جگہ ظلمت آجاتی ہے مگر وہ کاملوں کو ایسا نعم القرین عطا کیا گیا ہے کہ ایک دم کے لئے بھی ان سے علیحدہ نہیں ہوتا اور یہ گمان کرنا کہ اُن سے علیحدہ بھی ہو جاتا ہے یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ بعد اس کے جو روشنی میں آگئے پھر تاریکی میں پڑ جاتے ہیں اور بعد اس کے جو معصوم یا محفوظ کئے گئے پھر نفس اتارہ اُن کی طرف عود کرتا ہے اور بعد اس کے جو روحانی حواس اُن پر کھولے گئے پھر وہ تمام حواس بے کار اور معطل کئے جاتے ہیں.سواے دے لوگو جو اس صداقت سے منکر اور اس نکتہ معرفت سے انکاری ہو مجھ سے جلدی مت کرو اور اپنے ہی نور قلب سے گواہی طلب کرو کہ کیا یہ امر واقعی ہے کہ برگزیدوں کی روشنی کسی وقت بتمام و کمال ان سے دور بھی ہو جاتی ہے.کیا یہ درست ہے؟ کہ وہ تمام نورانی نشان کامل مومنوں سے کمال ایمان کی حالت میں کبھی تم بھی ہو جاتے ہیں.اگر یہ کہو کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا ہے کہ برگزیدوں کی روحانی روشنی کبھی سب کی سب دور بھی ہو جاتی ہے اور سراسر ظلمت ان پر احاطہ کر لیتی ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ آپ لوگوں کے عقیدہ سے ایسا ہی نکلتا ہے کیونکہ آپ لوگ بالتزام و اتباع آیات کلام الہی اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ہر یک نور اور سکینت اور اطمینان اور برکت اور استقامت اور ہر یک روحانی نعمت برگزیدوں کو روح القدس سے ہی ملتی ہے اور جیسے اشرار اور کفار کے لئے دائمی طور پر شیطان کو پنس القرين قرار دیا گیا ہے تا ہر وقت وہ ان پر ظلمت پھیلا تا رہے اور اُن کے قیام اور قعود اور حرکت اور سکون اور نیند اور بیداری میں اُن کا پیچھا نہ چھوڑے ایسا ہی مقربین کے لئے دائمی طور پر روح القدس کو نِعْمَ الْقَرِين عطا کیا گیا ہے تا ہر وقت وہ اُن پرنور برساتا رہے اور ہر دم اُن کی تائید میں لگا ر ہے اور کسی دم اُن سے جُدا نہ ہو.اب ظاہر ہے کہ جب کہ بمقابل بِئْسَ الْقَرِينُ کے جو ہمیشہ اشد شریروں کا ملازم اور رفیق ہے مقتربوں کے لئے نِعْمَ الْقَرِین کا ہر وقت رفیق اور انیس ہونا نہایت ضروری ہے اور قرآن کریم اس کی خبر دیتا ہے تو پھر اگر اُس نِعْمَ الْقَرِین کی علیحدگی مقربوں سے تجویز کی جائے جیسا کہ ہمارے اندرونی مخالف قومی بھائی گمان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل کا نام ہے بھی تو وہ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور مقتربوں سے نہایت درجہ اتصال کر لیتا ہے یہاں تک کہ اُن کے دل میں دھنس جاتا ہے اور بھی ان کو اکیلا چھوڑ کر اُن
۲۰۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جُدائی اختیار کر لیتا ہے اور کروڑہا بلکہ بے شمار کوسوں کی دوری اختیار کر کے آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور اُن مقتربوں سے بالکل قطع تعلقات کر کے اپنی قرارگاہ میں جا چھپتا ہے تب وہ اُس روشنی اور اُس برکت سے بکلی محروم رہ جاتے ہیں جو اُس کے نزول کے وقت اُن کے دل اور دماغ اور بال بال میں پیدا ہوتی ہے تو کیا اس عقیدہ سے لازم نہیں آتا کہ رُوح القدس کے جُدا ہونے سے پھر اُن برگزیدوں کو ظلمت گھیر لیتی ہے اور نعوذ باللہ انعْمَ الْقَرِينُ کی جدائی کی وجہ سے بِئْسَ الْقَدِین کا اثر اُن میں شروع ہو جاتا ہے.اب ذرہ خوف الہی کو اپنے دل میں جگہ دے کر سوچنا چاہئے کہ کیا یہی ادب اور یہی ایمان اور عرفان ہے اور یہی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس نقص اور تنزل کی حالت کو روا رکھا جائے کہ گویا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں تک علیحدہ ہو جاتا تھا اور نعوذ باللہ ان مدتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انوار قدسیہ سے جو روح القدس کا پر توہ ہے محروم ہوتے تھے.غضب کی بات ہے کہ عیسائی لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یقینی اور قطعی طور پر یہ اعتقاد رکھیں کہ روح القدس جب سے حضرت مسیح پر نازل ہوا کبھی ان سے جدا نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ اور ہر دم روح القدس سے تائید یافتہ تھے یہاں تک کہ خواب میں بھی ان سے روح القدس خدا نہیں ہوتا تھا اور ان کا روح القدس بھی آسمان پر ان کو اکیلا اور مہجور چھوڑ کر نہیں گیا اور نہ روح القدس کی روشنی ایک دم کے لئے بھی کبھی ان سے جُدا ہوئی لیکن مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے جُدا بھی ہو جاتا تھا اور اپنے دشمنوں کے سامنے بصراحت تمام یہ اقرار کریں کہ رُوح القدس کی دائمی رفاقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسی کی طرح نصیب نہیں ہوئی.اب سوچو کہ اس سے زیادہ تر اور کیا بے ادبی اور گستاخی ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح تو ہین کی جاتی ہے اور عیسائیوں کو اعتراض کرنے کے لئے موقع دیا جاتا ہے اس بات کو کون نہیں جانتا کہ روح القدس کا نزول نورانیت کا باعث اور اس کا جُدا ہو جانا ظلمت اور تاریکی اور بدخیالی اور تفرقہ ایمان کا موجب ہوتا ہے خدا تعالیٰ اسلام کو ایسے مسلمانوں کے شرسے بچاوے جو کلمہ گو کہلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی حملہ کر رہے ہیں.عیسائی لوگ تو حواریوں کی نسبت بھی یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ کبھی ان سے روح القدس خدا ہوتا تھا بلکہ ان کا تو یہ عقیدہ ہے کہ وہ لوگ روح القدس کا فیض دوسروں کو بھی دیتے تھے.لیکن یہ لوگ مسلمان کہلا کر اور مولوی اور محدث اور شیخ الکل نام رکھا کر پھر جناب ختم المرسلین خیر الاولین والآخرین کی شان میں ایسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۳ سورة البقرة ایسی بدگمانی کرتے ہیں اور اس قدر سخت بد زبانی کر کے پھر خاصے مسلمان کے مسلمان اور دوسرے لوگ ان کی نظر میں کافر ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۲ تا ۷۶ ) اس کی تفسیر میں تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ روح القدس ہر وقت قرین اور رفیق حضرت عیسی کا تھا اور ایک دم بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا دیکھو تفسیر حسینی ، تفسیر مظہری، تفسیر عزیزی، معالم، ابن کثیر وغیرہ اور مولوی صدیق حسن فتح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں یہ عبارت لکھتے ہیں وَ كَانَ جِبْرَائِيلُ يَسِيرُ مَعَ عِيسَى حَيْثُ سَارَ فَلَمْ يُفَارِقُهُ حَتَّى صَعِدَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ.یعنی جبرائیل ہمیشہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہی رہتا تھا ایک طرفہ العین بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہی آسمان پر گیا.اس جگہ دو باتیں نہایت قابل افسوس ناظرین کی توجہ کے لائق ہیں.(۱) اول یہ کہ ان مولویوں کا تو یہ اعتقاد تھا کہ جبرائیل وحی لے کر آسمان سے نبیوں پر وقتاً فوقتاً نازل ہوتا تھا اور تبلیغ وحی کر کے پھر بلا توقف آسمان پر چلا جاتا تھا.اب مخالف اس عقیدہ کے حضرت عیسی کی نسبت ایک نیا عقیدہ تراشا گیا اور وہ یہ کہ حضرت عیسی کی وحی کے لئے جبرائیل آسمان پر نہیں جاتا تھا بلکہ وحی خود بخود آسمان سے گر پڑتی تھی اور جبرائیل ایک طرفہ العین کے لئے بھی حضرت عیسی سے جدا نہیں ہوتا تھا اُسی دن آسمان کا منہ جبرائیل نے بھی دیکھا جب حضرت عیسیٰ آسمان پر تشریف لے گئے ورنہ پہلے اس سے تینتیس برس تک برابر دن رات زمین پر رہے اور ایک دم کے لئے بھی حضرت عیسیٰ سے جدا نہیں ہوئے اور برابر تینتیس برس تک اپنا وہ آسمانی مکان جو ہزار کوس کے طول و عرض سے کچھ کم نہیں ویران سنسان چھوڑ دیا حالانکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ایک دم کے لئے بھی آسمان بقدر بالشت بھی فرشتوں سے خالی نہیں رہتا.اور تینتیس برس تک جو حضرت عیسی کو وحی پہنچاتے رہے اس کی طر ز بھی سب انبیاء سے نرالی نکلی کیونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں اور ایسا ہی ابوداؤد اور ترمندی اور ابن ماجہ نے اور ایسا ہی مسلم نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے کہ نزول جبرائیل کا وحی کے ساتھ انبیاء پر وقتا فوقتا آسمان سے ہوتا ہے ( یعنی وہ پہلی جس کی ہم تصریح کر آئے ہیں ) اور اس کی تائید میں ابن جریر اور ابن کثیر نے یہ حدیث بھی لکھی ہے.عَنِ النَّواسِ بْنِ سَمْعَانَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أنْ يُوحَى بِأَمْرِهِ تَكَلَّمَ بِالْوَحْيِ فَإِذَا تَكَلَّمَ أَخَذَتِ السَّمْوَاتُ مِنْهُ رَجْفَةٌ أَوْ قَالَ رَعْدَةٌ شَدِيدَةٌ مِنْ خَوْفِ اللهِ تَعَالَى فَإِذَا سَمِعَ بِذلِكَ أَهْلُ السَّمَوَاتِ صَعِفُوا وَخَرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا فَيَكُونُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة البقرة أَوَّلَ مَنْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ جِبْرَائِيْلُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ فَكَلَّمَهُ اللَّهُ مِنْ وَحْيِهِ بِمَا أَرَادَ فَيَمْضِى بِهِ جِبْرَائِيلُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى الْمَلَائِكَةِ كُلِّهَا مِنْ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ يَسْئَلُهُ مَلَائِكَتُهَا مَاذَا قَالَ رَبُّنَا يَا جِبْرَائِيلُ فَيَقُولُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ الْحَقِّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَقُولُونَ كُلُّهُمْ مِثل ما قَالَ جِبْرَائِيلُ فَيَنعَهى جِبْرَائِيلُ بِالْوَحي إلى حَيْثُ أَمَرَهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ.یعنی نو اس بن سمعان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس وقت خدا تعالی ارادہ فرماتا ہے کہ کوئی امروجی اپنی طرف سے نازل کرے تو بطور وحی متکلم ہوتا ہے یعنی ایسا کلام کرتا ہے جو ابھی اجمال پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک چادر پوشیدگی کی اُس پر ہوتی ہے تب اُس مجوب المفہوم کلام سے ایک لرزہ آسمانوں پر پڑ جاتا ہے جس سے وہ ہولناک کلام تمام آسمانوں میں پھر جاتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اس کے کیا معنی ہیں اور خوف الہی سے ہر ایک فرشتہ کانپنے لگتا ہے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے اور اُس ہولناک آواز کوسن کر ہر یک فرشتہ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام سجدہ سے سر اٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس وحی کی تمام تفصیلات اُس کو سمجھا دیتا ہے اور اپنی مراد اور منشاء سے مطلع کر دیتا ہے تب جبرائیل اُس وحی کو لے کر تمام فرشتوں کے پاس جاتا ہے جو مختلف آسمانوں میں ہیں اور ہر ایک فرشتہ اُس سے پوچھتا ہے کہ یہ آواز ہولناک کیسی تھی اور اس سے کیا مراد تھی تب جبرائیل اُن کو یہ جواب دیتا ہے کہ یہ ایک امر حق ہے اور خدا تعالیٰ بلند اور نہایت بزرگ ہے یعنی یہ وحی اُن حقائق میں سے ہے جن کا ظاہر کرنا اُس العلم الكبیر نے قرین مصلحت سمجھا ہے تب وہ سب اُس کے ہم کلام ہو جاتے ہیں.پھر جبرائیل اس وحی کو اس جگہ پہنچا دیتا ہے جس جگہ پہنچانے کے لئے اُس کو حکم تھا خواہ آسمان یاز مین.اب اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نزول وحی کے وقت جبرائیل آسمان پر ہی ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اُس کی آواز میں قوت اور قدرت بخشی ہے اپنے محل میں اُس وحی کو پہنچا دیتا ہے.اس صورت میں یہ عقیدہ رکھنا کہ گو یا جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمانوں سے ہجرت کر کے حضرت عیسی کے پاس آ گیا تھا اور تینتیس برس برابر اُن کے پاس رہا اور وہ تمام خدمات جو آسمانوں پر اُس کے سپرد تھیں جن کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں وہ تینتیس برس تک معرض التوا میں رہیں کیسا باطل عقیدہ ہے جس سے یہ بھی لازم آتا ہے که وحی بغیر توسط جبرائیل کے خود بخو دزمین پر نازل ہوتی تھی اور زمین پر ہی وہ وجی جبرائیل کو مل جاتی تھی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة البقرة دوسری بات ناظرین کی توجہ کے لائق یہ ہے کہ ان مولویوں نے بات بات میں حضرت عیسی کو بڑھایا اور ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی.غضب کی بات ہے کہ ان کا عقیدہ حضرت مسیح کی نسبت تو یہ ہو کہ کبھی روح القدس اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا اور مسن شیطان سے وہ بری تھے اور یہ دونوں باتیں انہیں کی خصوصیت تھی لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ان کا یہ اعتقاد ہو کہ نہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت اُن کے پاس رہا اور نہ وہ نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد ) مسن شیطان سے بری تھے.باوجود ان باتوں کے یہ ( لوگ مسلمان کہلا دیں ان کی نظر میں ہمارے سید و مولی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مردہ مگر حضرت عیسی اب تک زندہ.اور عیسی کے لئے رُوح القدس دائی رفیق مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ! اس نعمت سے بے بہرہ اور حضرت عیسیٰ مس شیطان سے محفوظ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ نہیں.جن لوگوں کے یہ عقائد ہوں اُن کے ہاتھ سے جس قدر دین اسلام کو اس زمانہ میں نقصان پہنچ رہا ہے کون اس کا اندازہ کر سکتا ہے یہ لوگ چھپے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں.چاہیئے کہ ہر یک مسلمان اور سچا عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پر ہیز کرے.سلف صالح کو سراسر شرارت کی راہ سے اپنے اقوال مردودہ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے - ہیں حالانکہ اپنی نا بینائی کی وجہ سے سلف صالح کے اقوال کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ احادیث نبویہ کی اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں صرف دھوکہ دینے کی راہ سے کہتے ہیں کہ اگر ہمارا یہ حال ہے تو یہی عقیدہ سلف صالح کا ہے.اے نادانو! یہ سلف صالح کا ہر گز طریقہ نہیں.اگر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اعتقادر رکھتے کہ کبھی یا مدتوں تک آپ سے روح القدس عبدا بھی ہو جاتا تھا تو وہ ہرگز ہر ایک وقت اور ہر یک زمانہ کی احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ نہ کرتے ان کی نظر تو اس آیت پر تھی.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوى اِنْ هُوَ إِلا وفى يولى (النجم : ۵،۴) اگر صحابہ تمہاری طرح مسن شیطان کا اعتقاد رکھتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سید المعصومین کیوں قرار دیتے خدا تعالی سے ڈرو کیوں افترا پر کمر باندھی ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۴ تا ۱۱۲) روح القدس کا تعلق تمام نبیوں اور پاک لوگوں سے ہوتا ہے پھر مسیح کی اس سے کیا خصوصیت ہے ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی خصوصیت نہیں بلکہ اعظم اور اکبر حصہ روح القدس کی فطرت کا حضرت سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.لیکن چونکہ یہود شریر الطبع نے حضرت مسیح پر یہ بہتان لگایا تھا کہ ان کی ولادت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۰۶ سورة البقرة رُوح القدس کی شراکت سے نہیں بلکہ شیطان کی شراکت سے ہے یعنی ناجائز طور پر اس لئے خدا نے اس بہتان کی ذب اور دفع کے لئے اس بات پر زور دیا کہ میچ کی پیدائش روح القدس کی شراکت سے ہے اور وہ مست شیطان سے پاک ہے.اس سے یہ نتیجہ نکالنا لعنتیوں کا کام ہے کہ دوسرے نبی مست شیطان سے پاک نہیں ہیں بلکہ یہ کلام محض یہودیوں کے خیال باطل کے دفع کے لئے ہے کہ مسیح کی ولادت مسن شیطان سے ہے یعنی حرام کے طور پر.پھر چونکہ یہ بحث مسیح میں شروع ہوئی اس لئے رُوح القدس کی پیدائش میں ضرب المثل مسیح ہو گیا.ورنہ اس کو پاک پیدائش میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ذرہ ترجیح نہیں بلکہ دنیا میں معصوم کامل صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوا ہے اور بعض حدیثوں کے یہ الفاظ کہ مس شیطان سے پاک صرف ابن مریم اور اس کی ماں یعنی مریم ہے.یہ لفظ بھی یہودیوں کے مقابل پر مسیح کی پاکیزگی ظاہر کرنے کے لئے ہے.گویا یہ فرماتا ہے کہ دنیا میں صرف دو گروہ ہیں ایک وہ جو آسمان پر ابن مریم کہلاتے ہیں اگر مرد ہیں.اور مریم کہلاتے ہیں اگر عورت ہیں.دوسرے وہ گروہ ہے جو آسمان پر یہود مغضوب مصم ليهم کہلاتے ہیں.پہلا گروہ مست شیطان سے پاک ہے اور دوسرا گروہ شیطان کے فرزند ہیں.(تحفہ گولر و سیہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۴ حاشیه در حاشیه ) جب شیطان کا ظہور ہوا تو اس کا اثر مٹانے کے لئے رُوح القدس کا ظہور ضروری ہوا.جس طرح شیطان بدی کا باپ ہے رُوح القدس نیکی کا باپ ہے.انسان کی فطرت کو دو مختلف جذ بے لگے ہوئے ہیں (۱) ایک جذ بہ بدی کی طرف جس سے انسان کے دل میں برے خیالات اور بدکاری اور ظلم کے تصورات پیدا ہوتے ہیں.یہ جذبہ شیطان کی طرف سے ہے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی فطرت کے لازم حال یہ جذبہ ہے.گو بعض قو میں شیطان کے وجود سے انکار بھی کریں لیکن اس جذبہ کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے.(۲) دوسرا جذ بہ نیکی کی طرف ہے جس سے انسان کے دل میں نیک خیالات اور نیکی کرنے کی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ جذ بہ روح القدس کی طرف سے ہے.اور اگر چہ قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قسم کے جذبے انسان میں موجود ہیں لیکن آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ پورے زورشور سے یہ دونوں قسم کے جذبے انسان میں ظاہر ہوں.اس لئے اس زمانہ میں بروزی طور پر یہودی بھی پیدا ہوئے اور بروزی طور پر مسیح ابن مریم بھی پیدا ہوا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۵ حاشیه ) روح القدس کے فرزند وہ تمام سعادت مند اور راست باز ہیں جن کی نسبت اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۷ سورة البقرة عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ (الحجر : ۴۳) وارد ہے.اور قرآن کریم سے دو قسم کی مخلوق ثابت ہوتی ہے اوّل وہ جو روح القدس کے فرزند ہیں اور بن باپ پیدا ہونا تو کوئی خصوصیت نہیں.دوم شیطان کے فرزند.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۳) وقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ.لعنت کا لفظ جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے نہایت پلید معنے رکھتا ہے اور اس لفظ کے ایسے خبیث معنے ہیں کہ بجز شیطان کے اور کوئی اس کا مصداق نہیں ہوسکتا.کیونکہ عربی اور عبرانی کی زبان میں ملعون اس کو کہتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ کے لئے رو کیا جائے.اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے رحمت الہی سے رڈ کیا گیا ہے.اور خدا تعالی کی تمام کتابوں میں تو ریت سے قرآن شریف تک کسی ایسے شخص کی نسبت ملعون ہونے کا لفظ نہیں بولا گیا جس نے انجام کا رخدا کی رحمت اور فضل سے حصہ لیا ہو.بلکہ ہمیشہ سے یہ ملعون اور لعنتی کا لفظ انہی ازلی بدبختوں پر اطلاق پاتا رہا ہے جو ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت اور نجات اور نظر محبت سے بے نصیب کئے گئے اور خدا کے لطف اور مہربانی اور فضل سے ابدی طور پر دور اور مجبور ہو گئے اور ان کا رشتہ دائمی طور پر خدا تعالیٰ سے کاٹ دیا گیا اور اُس جہنم کا خلود اُن کے لئے قرار پایا جو خدا تعالیٰ کے غضب کا جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے کی اُمید نہ رہے اور نبیوں کے منہ سے بھی یہ لفظ کبھی ایسے اشخاص کی نسبت اطلاق نہیں پایا جو کسی وقت خدا کی ہدایت اور فضل اور رحم سے حصہ لینے والے تھے.اس لئے یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رُو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیا ہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اُس پر ملعون کا لفظ بولا گیا ہو.وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتا ہے.جیسا کہ اس آیت میں یہی اشارہ ہے.مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أَخِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلًا (الأحزاب : ۶۲) یعنی زنا کار اور زنا کاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ عنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رڈ کئے گئے اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پا و قتل کر دو.پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ لعنتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم ہوتا ہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکاری کا جوش غالب رہتا ہے.اور اسی بنا پر قتل کرنے کا حکم ہوا کیونکہ جو قابل علاج نہیں اور مرض متعدی رکھتا ہے اس کا مرنا بہتر ہے.اور یہی توریت میں لکھا ہے کہ لعنتی ہلاک ہو گا.علاوہ اس کے ملعون کے لفظ میں یہ کس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة البقرة قدر پلید معنے مندرج ہیں کہ عربی اور عبرانی زبان کی رُو سے ملعون ہونے کی حالت میں ان لوازم کا پایا جانا ضروری ہے کہ شخص ملعون اپنی دلی خواہش سے خدا تعالیٰ سے بیزار ہواور خدا تعالیٰ اس سے بیزار ہواور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے دلی جوش کے ساتھ دشمنی رکھے اور ایک ذرہ محبت اور تعظیم اللہ جل شانہ کی اُس کے دل میں نہ ہو.اور ایسا ہی خدا تعالی کے دل میں بھی ایک ذرہ اُس کی محبت نہ ہو یہاں تک کہ وہ شیطان کا وارث ہو نہ خدا کا.اور یہ بھی لعنتی ہونے کے لوازم میں سے ہے کہ شخص ملعون خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت اور محبت سے بکلی بے نصیب ہو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۳۶ تا ۲۳۸) لعنت ایک ایسا مفہوم ہے جو شخص ملعون کے دل سے تعلق رکھتا ہے.اور کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے.اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ لعنت قرب کے مقام سے رڈ کرنے کو کہتے ہیں.اور یہ لفظ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جس کا دل خدا کی محبت اور اطاعت سے دور جا پڑے اور درحقیقت وہ خدا کا دشمن ہو جائے.لفظ لعنت کے یہی معنے ہیں جس پر تمام اہل لغت نے اتفاق کیا ہے.لعنت شیطان سے مخصوص ہے اور لعین شیطان کا نام ہے اور محنتی وہ ہوتا ہے جو شیطان سے نکلا اور شیطان سے ملا ہوا اور خودشیطان ہے.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۲، ۳۳۳) کتاب لسان العرب میں لعن کے یہ معنی لکھتے ہیں کہ اللعْنُ الْإِبْعَادُ وَالظَّرْ دُمِنَ الْخَيْرِ يعني لعنت کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک نیکی اور مال اور برکت اور بہتری سے کسی کو محروم کیا جائے.پھر دوسرے معنی لعنت کے یہ لکھے ہیں کہ الا بُعَادُ مِنَ اللهِ وَمِنَ الْخَلْقِ یعنی لعنت کے یہ معنی ہیں کہ جناب الہی سے مردود ہو جاوے اور قبولیت سے محروم رہے.اور مخلوق کی نظر سے بھی گر جاوے اور علات اور وجاہت بھی جاتی رہے.غرض خدا کے نزدیک لعنت کا لفظ تمام نامرادیوں اور مردود اور مخذول ہونے کے معنوں پر محیط ہے اور ہر ایک نوع کی برکت سے محروم اور مخذول اور مردود رہنا اس کے لوازم میں سے ہے اور جس شخص پر خدا کی لعنت وارد ہو جائے اُس کا ثمرہ ہلاکت اور تباہی ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نجران کے عیسائی مجھ سے مباہلہ کرتے (جو لَعَنَتُ اللهِ عَلَى الْكَذِبِین کے ساتھ کیا جاتا ہے ) تو اس قدر موت اور ہلاکت اُن پر آتی کہ اُن کے درختوں کے پرندے بھی مرجاتے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵۲) با تفاق تمام اہل زبان لعنت کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس حالت میں کسی کو ملعون کہا جائے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة البقرة جب کہ حقیقت میں اس کا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہو جائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ اور خدا کی معرفت سے بکلی تہی دست اور خالی اور شیطان کی طرح اندھا اور بے بہرہ ہوکر گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہو اور خدا کی محبت اور معرفت کا نور ایک ذرہ اس میں باقی نہ رہے اور تمام تعلق مہر و وفا کا ٹوٹ جائے اور اس میں اور خدا میں باہم بغض اور نفرت اور کراہت اور عداوت پیدا ہو جائے.یہاں تک کہ خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے.غرض ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہو جائے اور اسی وجہ سے عین شیطان کا نام ہے.مسیح ہندوستان میں ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۸،۱۷) لغت کی کتابوں میں صاف لکھا ہوا ہے کہ لعین شیطان کا نام ہے اور ملعون وہ شخص ہوتا ہے جس کا خدا سے الحکم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۳) کوئی تعلق نہ ہو اور وہ خدا سے دور ہو.لعنت کا تعلق دل سے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملعون خدا کا اور خدا ملعون کا دشمن ہو جاوے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور وہ خدا سے برگشتہ ہو جاوے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۷) خدا کے نزدیک لعنت وہ نہیں ہوتی جو کہ عام لوگوں کے نزدیک ہوتی ہے بلکہ خدا کی لعنت سے مراد دنیا اور آخرت کی لعنت ہے (یعنی ہر ) دو کی ذلت ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخه ۲۸ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۵۰) لسان العرب میں کہ جو لغت کی ایک پرانی کتاب اسلامی تالیفات میں سے ہے.اور ایسا ہی قطر المحیط اور محیط اور اقرب الموارد میں جو دو عیسائیوں کی تالیفات ہیں.جو حال میں بمقام بیروت چھپ کر شائع ہوئی ہیں.اور ایسا ہی کتب لغت کی تمام کتابوں میں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں لعنت کے معنی یہ لکھے ہیں.اللَّعْن الإبعادُ وَالطَّرْدُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مِنَ اللهِ وَمِنَ الْخَلْقِ وَمَنْ أَبَعَدَهُ اللهُ لَمْ تَلْحَقْهُ رَحْمَتُهُ وَخُلِدَ فِي الْعَذَابِ وَاللَّعِيْنُ الشَّيْطَانُ وَالْمَبْسُوحُ وَقَالَ الشَّمَاحُ مَقَامُ الذِّنْبِ كَالرَّجُلِ اللَّعِينِ - یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اُس کو کہتے ہیں جو ہر یک خیر و خوبی اور ہر قسم کی ذات صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بنگی بے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے.اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے یعنی اُس کا دل بکلی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اُس کے نفس میں باقی نہ رہے.اور شیطان بن جائے اور اُس کا اندر مسخ ہو جائے.یعنی کتوں اور سوروں اور بندروں کی خاصیت اُس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة البقرة کے نفس میں پیدا ہو جائے.اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیڑ یا رکھا ہے.اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تمَّ كَلَامُهُمْ.ایسا ہی عرف عام میں بھی جب یہ بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر خدا کی لعنت ہے.تو ہر ایک ادنی اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ وہ شخص خدا کی نظر میں واقعی طور پر پلید باطن اور بے ایمان اور شیطان ہے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے روگردان ہے.مجموعہ اشتہارات ، جلد ۲ صفحه ۴۱،۴۰) یعنی کا فر کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں.ایسے رقیق اور پتلے دل نہیں کہ حق کا انکشاف دیکھ کر اس کو قبول کریں.اللہ جل شانہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ یہ کچھ خوبی کی بات نہیں بلکہ لعنت کا اثر ہے جو دلوں پر ہے یعنی لعنت جب کسی پر نازل ہوتی ہے.اس کے نشانوں میں سے یہ بھی ایک نشان ہے کہ دل سخت ہو جاتا ہے اور گو کیسا ہی حق کھل جائے پھر انسان اس حق کو قبول نہیں کرتا.(مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۳۲۶٫۳۲۵) وَ لَمَّا جَاءَهُم كِتَبُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ ا لا يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ على الكفرين.كَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ.اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے نصرت دین کے لئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا تھا اگر چہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خدا تعالی کی نظر سے گر گئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ مخلوق پرستی کے مر گیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہو گئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہو گا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ملک عرب میں آ رہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَ هُمُ (البقرة : ۱۴۷) یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو.مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہو گیا.تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہو گئے.مگر بعض سعادت مند مسلمان ہو گئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا.ضرورت الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۱ سورة البقرة ریویوآف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۶ صفحه ۲۰۱) اہلِ کتاب منتظر تھے کہ پیغمبر کے آنے پر وہ اس کے ساتھ مل کر کفار سے جنگ کریں گے.لیکن جب پیغمبر آیا تو انکار پر آمادہ ہو گئے.دیکھو یہی علماء کیسے شوق سے چودھویں صدی کے منتظر تھے اور تمام دل بول اٹھے تھے کہ اسی صدی کے سر پر مہدی اور مسیح پیدا ہوگا.بہت سے صلحا اور اولیاء کے کشف اس بات پر قطع کر چکے تھے کہ مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ہے.اب ان کے دلوں کو کیا ہو گیا.وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ (ضمیمه رساله انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۲۲) وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا أَتَيْنَكُم بِقُوَةٍ وَ اسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَ أَشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِه إِيمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ.أَشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ.یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.در حقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اس قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلی طور پر بقدرا اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے.اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۰) قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوا المَوتَ إِن كُنتُم صُدِقِينَ ۹۵ اس فرمانے سے مدعا یہ تھا کہ در حقیقت یہودیوں کا یہ بیان کہ ہم نے در حقیقت مسیح کو پھانسی دے دیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ نعوذ باللہ مسیح ملعون ہے اور نبی صادق نہیں.اور ایسا ہی عیسائیوں کا یہ بیان کہ در حقیقت مسیح پھانسی کی موت سے مرگیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظور تھا کہ مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لئے کفارہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢١٢ سورة البقرة ہوا.یہ دونوں خیال یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط ہیں اور کسی کو ان دونوں گروہ میں سے ان خیالات پر دلی یقین نہیں بلکہ دلی ایمان اُن کا صرف اسی پر ہے کہ مسیح یقینی طور پر مصلوب نہیں ہوا.اس تقریر سے خدائے تعالیٰ کا یہ مطلب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی خاموشی سے منصفین قطعی طور پر سمجھ لیویں کہ اس بارے میں بجر شک کے اُن کے پاس کچھ نہیں اور یہودی اور عیسائی جو اس آیت کو سُن کر چپ رہے اور انکار کے لئے میدان میں نہ آئے تو اس کی یہ وجہ تھی کہ وہ خوب جانتے تھے کہ اگر ہم مقابل پر آئے اور وہ دعویٰ کیا جو ہمارے دل میں نہیں تو ہم سخت رُسوا کئے جائیں گے اور کوئی ایسا نشان خدائے تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو جائے گا جس سے ہمارا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا.اس لئے انہوں نے دم نہ مارا اور چپ رہے.اور اگر چہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہماری اس خاموشی سے ہمارا مان لینا ثابت ہو جائے گا جس سے ایک طرف تو ان کفار کے اس عقیدہ کی بیخ کنی ہوگی اور ایک طرف یہ یہودی عقیدہ باطل ثابت ہو جائے گا کہ مسیح خدائے تعالی کا سچا رسول اور راستباز نہیں اور اُن میں سے نہیں جن کا خدائے تعالیٰ کی طرف عزت کے ساتھ رفع ہوتا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی چمکتی ہوئی تلوار اُن کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی.پس جیسا کہ قرآن شریف میں انہیں کہا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو لیکن مارے خوف کے کسی نے یہ تمنانہ کی.اسی طرح اس جگہ بھی مارے خوف کے انکار نہ کر سکے.یعنی یہ دعوی نہ کر سکے کہ ہم تو مسیح کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں ہمیں کیوں بے یقینوں میں داخل کیا جاتا ہے؟ سو اُن کا نبی کے زمانہ میں خاموشی اختیار کرنا ہمیشہ کے لئے حجت ہو گئی اور اُن کے ساختہ پر داختہ کا اثر اُن کی آنے والی ذریتوں پر بھی پڑا کیونکہ سلف خلف کے لئے بطور وکیل کے ہوتے ہیں اور ان کی شہادتیں آنیوالی ذریت کو ماننی پڑتی ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۹۳،۲۹۲) قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ جبریل جو ایک عظیم الشان فرشتہ ہے اور آسمان کے ایک نہایت روشن نیر سے تعلق رکھتا ہے اس کو کئی قسم کی خدمات سپرد ہیں انہیں خدمات کے موافق جو اس کے نیر سے لئے جاتے ہیں سو وہ فرشتہ اگر چہ ہر یک ایسے شخص پر نازل ہوتا ہے جو وحی الہی سے مشرف کیا گیا ہو ( نزول کی اصل کیفیت جوصرف اثر اندازی کے طور پر ہے نہ واقعی طور پر یا د رکھنی چاہئے ).
۲۱۳ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام لیکن اُس کے نزول کی تاثیرات کا دائرہ مختلف استعدادوں اور مختلف ظروف کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی شکلوں پر تقسیم ہو جاتا ہے.نہایت بڑا دائرہ اس کی روحانی تاثیرات کا وہ دائرہ ہے جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی وجی سے متعلق ہے.اسی وجہ سے جو معارف و حقائق و کمالات حکمت و بلاغت قرآن شریف میں اکمل اور اتم طور پر پائے جاتے ہیں یہ عظیم الشان مرتبہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور یہ بھی یادرکھنا چاہیئے (جیسا کہ پہلے بھی ہم اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں ) کہ ہر ایک فرشتہ کی تاثیر انسان کے نفس پر دو قسم کی ہوتی ہے.اوّل وہ تاثیر جو رحم میں ہونے کی حالت میں باذنہ تعالیٰ مختلف طور کے تخم پر مختلف طور کا اثر ڈالتی ہے پھر دوسری وہ تاثیر ہے جو بعد طیاری وجود کے اس وجود کی مخفی استعدادوں کو اپنے کمالات ممکنہ تک پہنچانے کے لئے کام کرتی ہے.اس دوسری تاثیر کو جب وہ نبی یا کامل ولی کے متعلق ہو وجی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یوں ہوتا ہے کہ جب ایک مستعد نفس اپنے نورِ ایمان اور نور محبت کے کمال سے مبدء فیوض کے ساتھ دوستانہ تعلق پکڑ لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی زندگی بخش محبت اُس کی محبت پر پر توہ انداز ہو جاتی ہے تو اس حد اور اس وقت تک جو کچھ انسان کو آگے قدم رکھنے کے لئے مقدور حاصل ہوتا ہے یہ دراصل اس پنہانی تاثیر کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کے فرشتہ نے انسان کے رحم میں ہونے کی حالت میں کی ہوتی ہے پھر بعد اس کے جب انسان اس پہلی تاثیر کی کشش سے یہ مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہی فرشتہ از سر نو اپنا اثر نور سے بھرا ہوا اس پر ڈالتا ہے مگر یہ نہیں کہ اپنی طرف سے بلکہ وہ درمیانی خادم ہونے کی وجہ سے اس نالی کی طرح جو ایک طرف سے پانی کو پہنچتی اور دوسری طرف اس پانی کو پہنچادیتی ہے خدائے تعالیٰ کا نور فیض اپنے اندر کھینچ لیتا ہے پھر عین اس وقت میں کہ جب انسان بوجہ اقتران محبتیں روح القدس کی نالی کے قریب اپنے تیں رکھ دیتا ہے معا اس نالی میں سے فیض وہی اس کے اندر گر جاتا ہے یا یوں کہو کہ اس وقت جبرئیل اپنا نورانی سایہ اس مستعد دل پر ڈال کر ایک عکسی تصویر اپنی اس کے اندرلکھ دیتا ہے تب جیسے اس فرشتہ کا جو آسمان پر مستقر ہے جبریل نام ہے، اس عکسی تصویر کا نام بھی جبریل ہی ہوتا ہے یا مثلاً اس فرشتہ کا نام روح القدس ہے تو عکسی تصویر کا نام بھی روح القدس ہی رکھا جاتا ہے سو یہ نہیں کہ فرشتہ انسان کے اندر گھس آتا ہے بلکہ اس کا عکس انسان کے آئینہ قلب میں نمودار ہو جاتا ہے مثلاً جب تم نہایت مصفی آئینہ اپنے منہ کے سامنے رکھ دو گے تو موافق دائرہ مقدار اس آئینہ کے تمہاری شکل کا عکس بلا توقف اس میں پڑے گا.یہ نہیں کہ تمہارا منہ اور تمہارا سر گردن سے ٹوٹ کر اور الگ ہو کر آئینہ میں رکھ دیا جائے گا بلکہ اس جگہ رہے گا جو رہنا چاہئے صرف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة البقرة اُس کا عکس پڑے گا اور عکس بھی ہر یک جگہ ایک ہی مقدار پر نہیں پڑے گا بلکہ جیسی جیسی وسعت آئینہ قلب کی ہوگی اسی مقدار کے موافق اثر پڑے گا مثلاً اگر تم اپنا چہرہ آرسی کے شیشہ میں دیکھنا چاہو کہ جو ایک چھوٹا سا شیشہ ایک قسم کی انگشتری میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اگر چہ اس میں بھی تمام چہرہ نظر آئے گامگر ہر ایک عضوا اپنی اصلی مقدار سے نہایت چھوٹا ہو کر نظر آئے گا لیکن اگر تم اپنے چہرہ کو ایک بڑے آئینہ میں دیکھنا چاہو جو تمہاری شکل کے پورے انعکاس کے لئے کافی ہے.تو تمہارے تمام نقوش اور اعضاء چہرہ کے اپنی اصلی مقدار میں نظر آجائیں گے.پس یہی مثال جبریل کی تاثیرات کی ہے.ادنیٰ سے ادنی مرتبہ کے ولی پر بھی جبریل ہی تاثیر وجی کی ڈالتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر بھی وہی جبریل تاثیر وحی کی ڈالتا رہا ہے.لیکن ان دونوں وجیوں میں وہی فرق مذکورہ بالا آرسی کے شیشہ اور بڑے آئینہ کا ہے.یعنی اگر چہ بظاہر صورت جبریل وہی ہے اور اس کی تاثیرات بھی وہی مگر ہر یک جگہ مادہ قابلہ ایک ہی وسعت اور صفائی کی حالت پر نہیں اور یہ جو اس جگہ میں نے صفائی کا لفظ بھی لکھ دیا تو یہ اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جبریلی تاثیرات کا اختلاف صرف کمیت کے ہی متعلق نہیں بلکہ کیفیت کے بھی متعلق ہے.یعنی صفائی قلب جو شرط انعکاس ہے تمام افراد ملہمین کے ایک ہی مرتبہ پر کبھی نہیں ہوتے جیسے تم دیکھتے ہو کہ سارے آئینے ایک ہی درجہ کی صفائی ہرگز نہیں رکھتے.بعض آئینے ایسے اعلیٰ درجہ کے آبدار اور مصفی ہوتے ہیں کہ پورے طور پر جیسا کہ چاہیئے دیکھنے والے کی شکل ان میں ظاہر ہو جاتی ہے اور بعض ایسے کثیف اور مکر اور پر غبار اور دود آمیز جیسے ہوتے ہیں کہ صاف طور پر ان میں شکل نظر نہیں آتی بلکہ بعض ایسے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر مثلاً ان میں دونوں لب نظر آویں تو ناک دکھائی نہیں دیتا اور اگر ناک نظر آ گیا تو آنکھیں نظر نہیں آتیں.سو یہی حالت دلوں کے آئینہ کی ہے جو نہایت درجہ کا مصفی دل ہے اس میں مصفا طور پر انعکاس ہوتا ہے اور جو کسی قدر مکۃ رہے اس میں اسی قدر مکر ردکھائی دیتا ہے اور اکمل اور اتم طور پر یہ صفائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو حاصل ہے ایسی صفائی کسی دوسرے دل کو ہر گز حاصل نہیں.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۶ تا ۸۸) خدائے تعالیٰ کی وحی میں جو پاک دلوں پر نازل ہوتی ہے جبریل کا تعلق جو شریعت اسلام میں ایک ضروری مسئلہ سمجھا گیا اور قبول کیا گیا ہے.....اس کی تفصیل یہ ہے کہ حسب قانون قدرت مذکورہ بالا یہ امر ضروری ہے کہ وحی کے القا یا ملکہ وحی کے عطا کرنے کے لئے بھی کوئی مخلوق خدائے تعالی کے الہامی اور
۲۱۵ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام روحانی ارادہ کو بمنصہ ظہور لانے کے لئے ایک عضو کی طرح بن کر خدمت بجا لاوے جیسا کہ جسمانی ارادوں کے پورا کرنے کے لئے بجالا رہے ہیں سو وہ وہی عضو ہے جس کو دوسرے لفظوں میں جبریل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو بہ تبعیت حرکت اس وجودِ اعظم کے سچ سچ ایک عضو کی طرح بلا توقف حرکت میں آجاتا ہے یعنی جب خدائے تعالیٰ محبت کرنے والے دل کی طرف محبت کے ساتھ رجوع کرتا ہے تو حسب قاعدہ مذکورہ بالا جس کا ابھی بیان ہو چکا ہے جبریل کو بھی جو سانس کی ہوا یا آنکھ کے نور کی طرح خدائے تعالیٰ سے نسبت رکھتا ہے اُس طرف ساتھ ہی حرکت کرنی پڑتی ہے.یا یوں کہو کہ خدائے تعالیٰ کی جنبش کے ساتھ ہی وہ بھی بلا اختیار و بلا ارادہ اسی طور سے جنبش میں آجاتا ہے کہ جیسا کہ اصل کی جنبش سے سامیہ کا ملنا طبعی طور پر ضروری امر ہے.پس جب جبریلی نور خدائے تعالیٰ کی کشش اور تحریک اور طلحہ نورانیہ سے جنبش میں آ جاتا ہے تو معاً اس کی ایک عکسی تصویر جس کو روح القدس کے ہی نام سے موسوم کرنا چاہیئے محبت صادق کے دل میں منقش ہو جاتی ہے.اور اس کی محبت صادقہ کا ایک عرض لازم ٹھہر جاتی ہے تب یہ قوت خدائے تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے کان کا فائدہ بخشتی ہے اور اس کے عجائبات کے دیکھنے کے لئے آنکھوں کی قائم مقام ہو جاتی ہے اور اس کے الہامات زبان پر جاری ہونے کے لئے ایک ایسی محترک حرارت کا کام دیتی ہے جو زبان کے پہیہ کو زور کے ساتھ الہامی خط پر چلاتی ہے اور جب تک یہ قوت پیدا نہ ہو اس وقت تک انسان کا دل اندھے کی طرح ہوتا ہے اور زبان اس ریل کی گاڑی کی طرح ہوتی ہے جو چلنے والے انجن سے الگ پڑی ہو.لیکن یادر ہے کہ یہ قوت جو روح القدس سے موسوم ہے ہر ایک دل میں یکساں اور برابر پیدا نہیں ہوتی بلکہ جیسے انسان کی محبت کامل یا ناقص طور پر ہوتی ہے اسی اندازہ کے موافق یہ جبریلی نور اس پر اثر ڈالتا ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ روح القدس کی قوت جو دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے دل میں جبریلی نور کے پر تو ہ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کے وجود کے لئے یہ امر لازم نہیں کہ ہر وقت انسان خدائے تعالیٰ کا پاک کلام سنتا ہی رہے یا کشفی طور پر کچھ دیکھتا ہی رہے بلکہ یہ تو انوار سماویہ کے پانے کے لئے اسباب قریبہ کی طرح ہے یا یوں کہو کہ یہ ایک روحانی روشنی روحانی آنکھوں کے دیکھنے کے لئے یا ایک روحانی ہوا روحانی کانوں تک آواز پہنچانے کے لئے منجانب اللہ ہے اور ظاہر ہے کہ جب تک کوئی چیز سامنے موجود نہ ہو مجرد روشنی کچھ دکھا نہیں سکتی.اور جب تک منتظم کے منہ سے کلام نہ نکلے مجرد ہوا کانوں تک کوئی خبر نہیں پہنچا سکتی.سوید روشنی یا یہ ہوا روحانی حواس کے لئے محض ایک آسمانی مؤید عطا کیا جاتا ہے جیسے ظاہری آنکھوں کے لئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۶ سورة البقرة آفتاب کی روشنی اور ظاہری کانوں کے لئے ہوا کا ذریعہ مقرر کیا گیا ہے اور جب باری تعالی کا ارادہ اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اپنا کلام اپنے کسی مہم کے دل تک پہنچا وے تو اس کی اس متکلمانہ حرکت سے معاجبر یلی نور میں القا کے لئے ایک روشنی کی موج یا ہوا کی موج یا الہم کی تحریک لسان کے لئے ایک حرارت کی موج پیدا ہو جاتی ہے اور اس تموج یا اس حرارت سے بلا توقف وہ کلام ملہم کی آنکھوں کے سامنے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے یا کانوں تک اس کی آواز پہنچتی ہے یا زبان پر وہ الہامی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور روحانی حواس اور روحانی روشنی جو قبل از الہام ایک قوت کی طرح ملتی ہے.یہ دونوں قوتیں اس لئے عطا کی جاتی ہیں کہ تا قبل از نزول الہام، الہام کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے کیونکہ اگر الہام ایسی حالت میں نازل کیا جاتا کہ مہم کا دل حواس روحانی سے محروم ہوتا یا روح القدس کی روشنی دل کی آنکھ کو پہنچی نہ ہوتی تو وہ الہام الہی کو کن آنکھوں کی پاک روشنی سے دیکھ سکتا سو اسی ضرورت کی وجہ سے یہ دونوں پہلے ہی سے ملہمین کو عطا کی گئیں.اور اس تحقیق سے یہ بھی ناظرین سمجھ لیں گے کہ وحی کے متعلق جبریل کے تین کام ہیں.اول یہ کہ جب رحم میں ایسے شخص کے وجود کے لئے نطفہ پڑتا ہے جس کی فطرت کو اللہ جلشانہ اپنی رحمانیت کے تقاضا سے جس میں انسان کے عمل کو کچھ دخل نہیں ملہمانہ فطرت بنانا چاہتا ہے تو اس پر اسی نطفہ ہونے کی حالت میں جبریلی نور کا سایہ ڈال دیتا ہے تب ایسے شخص کی فطرت منجانب اللہ الہامی خاصیت پیدا کر لیتی ہے اور الہامی حواس اس کو مل جاتے ہیں.پھر دوسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب بندہ کی محبت خدائے تعالیٰ کی محبت کے زیر سایہ آپڑتی ہے تو خدائے تعالیٰ کی مربیانہ حرکت کی وجہ سے جبریلی نور میں بھی ایک حرکت پیدا ہو کر محبت صادق کے دل پر وہ نور جا پڑتا ہے یعنی اس نور کا عکس مُحب صادق کے دل پر پڑ کر ایک عکسی تصویر جبریل کی اس میں پیدا ہو جاتی ہے.جو ایک روشنی یا ہوا یا گرمی کا کام دیتی ہے اور بطور ملکہ الہامیہ کے ملہم کے اندر رہتی ہے.ایک سرا اس کا جبریل کے نور میں غرق ہوتا ہے اور دوسرا اہم کے دل کے اندر داخل ہو جاتا ہے جس کو دوسرے لفظوں میں روح القدس یا اس کی تصویر کہہ سکتے ہیں.تیسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے کسی کلام کا ظہور ہوتو ہوا کی طرح موج میں آکر اس کلام کو دل کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے یا روشنی کے پیرایہ میں افروختہ ہو کر اس کو نظر کے سامنے کر دیتا ہے یا حرارت محرکہ کے پیرایہ میں تیزی پیدا کر کے زبان کو الہامی الفاظ کی طرف چلاتا ہے.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۱ تا ۹۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ سورة البقرة جبریلی نور کا چھیالیسواں حصہ تمام جہان میں پھیلا ہوا ہے جس سے کوئی فاسق اور فاجر اور پرلے درجہ کا بدکار بھی باہر نہیں.بلکہ میں یہاں تک مانتا ہوں کہ تجربہ میں آچکا ہے کہ بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہے جس کی تمام جوانی بدکاری میں ہی گزری ہے کبھی سچی خواب دیکھ لیتی ہے.اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت کبھی ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بسر و آشنا ببر کا مصداق ہوتی ہے کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ کچی نکلتی ہے.مگر یا درکھنا چاہیے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ جبریلی نور آفتاب کی طرح جو اس کا ہیڈ کوارٹر ہے تمام معمورہ عالم پر حسب استعداد ان کی اثر ڈال رہا ہے اور کوئی نفس بشر د نیا میں ایسا نہیں کہ بالکل تاریک ہو کم سے کم ایک ذرہ ہی محبت وطن اصلی اور محبوب اصلی کی ادنی سے ادنی سرشت میں بھی ہے.اس صورت میں نہایت ضروری تھا کہ تمام بنی آدم پر یہاں تک کہ ان کے مجانین پر بھی کسی قدر جبریل کا اثر ہوتا اور فی الواقعہ ہے بھی کیونکہ مجانین بھی جن کو عوام الناس مجذوب کہتے ہیں اپنے بعض حالات میں بوجہ اپنے ایک طور کے انقطاع کے جبریلی نور کے نیچے جاپڑتے ہیں تو کچھ کچھ ان کی باطنی آنکھوں پر اس نور کی روشنی پڑتی ہے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے تصرفات خفیہ کو کچھ کچھ دیکھنے لگتی ہے مگر ایسی خوابوں یا ایسے مکاشفات سے نبوت اور ولایت کو کچھ صدمہ نہیں پہنچتا اور انکی شان بلند میں کچھ بھی فرق نہیں آتا اور کوئی التباس حیران کرنے والا واقعہ نہیں ہوتا.کیونکہ درمیان میں ایک ایسا فرق بین ہے کہ جو بدیہی طور پر ہر یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خواص اور عام کی خوا ہیں اور وہ مکاشفات اپنی کیفیت اور کمیت اتصالی و انفصالی میں ہرگز برابر نہیں ہیں.جو لوگ خدائے تعالے کے خاص بندے ہیں وہ خارق عادت کے طور پر نعمت غیبی کا حصہ لیتے ہیں.دُنیا اُن نعمتوں میں جو انہیں عطا کی جاتی ہیں صرف ایسے طور کی شریک ہے جیسے شاہ وقت کے خزانہ کے ساتھ ایک گدا در یوزہ گر ایک درم کے حاصل رکھنے کی وجہ سے شریک خیال کیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ اس ادنی مشارکت کی وجہ سے نہ بادشاہ کی شان میں کچھ شکست آ سکتی ہے اور نہ اس گدا کی کچھ شان بڑھ سکتی ہے اور اگر ذرہ غور کر کے دیکھو تو یہ ذرہ مثال مشارکت ایک کرم شب تاب بھی جس کو پٹ بیجنا یا جگنو بھی کہتے ہیں آفتاب کے ساتھ رکھتا ہے تو کیا وہ اس مشارکت کی وجہ سے آفتاب کی عزت میں سے کوئی حصہ لے سکتا ہے.توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۶٬۹۵) یہ عاجز ملائک اور حضرت جبرائیل کے وجود کو اُسی طرح مانتا ہے جس طرح قرآن اور حدیث میں وارد ہے اور جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رُو سے ملائک کے اجرام سماوی سے خادمانہ تعلقات پائے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ جاتے ہیں یا جو جو کام خاص طور پر انہیں سپر د ہو رہا ہے اسی کی تشریح رسالہ توضیح مرام میں ہے.سورة البقرة (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۰) بالآخر ہم چند اقوال پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالح کا ہرگز یہ عقیدہ نہ تھا کہ روح القدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص خاص وقتوں پر نازل ہوتا تھا اور دوسرے اوقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے نعوذ باللہ بکلی محروم ہوتے تھے از انجملہ وہ قول ہے جو شیخ عبدالحق رب محدث دہلوی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ کے صفحہ ۴۲ میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ملائک وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دائی رفیق اور قرین ہیں چنانچہ وہ جامع الاصول اور کتاب الوفا سے نقل کرتے ہیں کہ ابتدائے نبوت سے تین برس برابر حضرت اسرافیل ملازم صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رہے اور پھر حضرت جبرائیل دائگی رفاقت کے لئے آئے اور بعد اس کے صاحب سفر السعادت سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سات سال کے تھے جب حضرت اسرافیل کو اللہ جل شانہ کی طرف سے حکم ہوا کہ آنحضرت صلعم کے ملازم خدمت رہیں پس اسرافیل ہمیشہ اور ہر وقت آنحضرت صلعم کے پاس رہتا تھا اور آنحضرت صلعم کی عمر کا گیارھواں سال پورا ہونے تک یہی حال تھا مگر اسرافیل بجز کلمہ دوکلمہ کے اور کوئی بات وحی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہیں ڈالتا تھا ایسا ہی میکائیل بھی آنحضرت کا قرین رہا.پھر بعد اس کے حضرت جبرائیل کو حکم ہوا اور وہ پورے انتیس سال قبل از وحی ہر وقت قرین اور مصاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے پھر بعد اس کے وحی نبوت شروع ہوئی.اس بیان سے ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جن بزرگوں نے مثلاً حضرت جبرائیل کی نسبت لکھا ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی انتیس سال تک ہمیشہ اور ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائگی رفیق تھا اُن کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہو سکتا تھا کہ جبرائیل کسی وقت آسمان پر بھی چلا جاتا تھا کیونکہ کسی وقت چھوڑ کر چلا جانا دوام قرب اور معیت غیر منقطع کے منافی ہے لیکن جب ان بزرگوں کا دوسرا عقیدہ بھی دیکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا قرار گاہ آسمان ہی ہے اور وہ ہر ایک وحی آسمان سے ہی لاتا ہے تو ان دونوں عقیدوں کے ملانے سے جو تناقض پیدا ہوتا ہے اس سے رہائی پانے کے لئے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں مل سکتی کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا آسمان سے اتر نا حقیقی طور پر نہیں بلکہ ملی ہے اور جب تمثلی طور پر اتر نا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے تمشکلی وجود سے ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر دم اور ہر طرفہ العین انبیا علیہم السلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة البقرة کے ساتھ رہے کیونکہ وہ اپنے اصلی وجود کے ساتھ تو آسمان پر ہی ہے اور اسی مذہب کی تصدیق اور تصویب شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ کے صفحہ ۴۵ میں کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نزولِ جبرائیل جو بعض اوقات دحیہ کلبی کی صورت میں یا کسی اور انسان کی صورت میں ہوتا تھا اس میں اہل نظر کو اشکال ہے اور یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر در حقیقت جبرائیل علیہ السلام ایک نیا جسم اپنے لئے مشابہ جسم دحیہ کلبی حاصل کر کے اس میں اپنا روح داخل کر دیتے تھے تو پھر وہ اصلی جسم ان کا جس کے تین سو جناح ہیں کس حالت میں ہوتا تھا کیا وہ جسد بے روح پڑا رہتا تھا اور حضرت جبرائیل فوت ہو کر پھر بطریق تناسخ دوسرے جسم میں آجاتے تھے.اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ تمثلی نزول ہے نہ حقیقی تا حقیقتاً ایک جسم کو چھوڑنا اور دوسرے جسم میں داخل ہونا لازم آوے.پھر لکھتے ہیں بات یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے ذہن میں جو دحیہ کلبی کی صورت علمیہ تھی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بوجہ قدرت کاملہ وارادت شاملہ اپنی کے اس صورت پر اپنے وجود کا افاضہ مع جمیع صفات کا ملہ اپنی کے کر کے تمقل کے طور پر اس میں اپنے تئیں ظاہر کر دیتے تھے یعنی دحیہ کلبی کی صورت میں بطور تمقل اپنے تئیں دکھلا دیتے تھے اور اس صورت علمیہ کو اپنی صفات سے متلبس کر کے نبی علیہ السلام پر مثلا ظاہر کر دیتے تھے یہ نہیں کہ جبرائیل آپ اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمان سے اتر تا تھا بلکہ جبرائیل علیہ السلام اپنے مقام پر آسمان میں ثابت وقائم رہتا تھا اور یہ جبرائیل اس حقیقی جبرائیل کی ایک مثال تھی یعنی اس کا ایک طال تھا اس کا عین نہیں تھا کیونکہ عین جبرائیل تو وہ ہے جو اپنی صفات خاصہ کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور اس کی حقیقت اور شان الگ ہے.پھر اس قدر تحریر کے بعد شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ جس طرح جبرائیل علیہ السلام تمقلی صورت میں نہ حقیقی صورت میں نازل ہوتا رہا ہے.یہی مثال روحانیات کی ہے جو بصورت جسمانیات متمقل ہوتی ہیں اور یہی مثال خدا تعالیٰ کے تمثل کی بھی ہے جو اہل کشف کو صورت بشر پر نظر آتا ہے اور یہی مثال مکمل اولیا کی ہے جو مواضع متفرقہ میں پھور متعددہ نظر آ جاتے ہیں.خدا تعالیٰ شیخ بزرگ عبد الحق محدث کو جزاء خیر دیوے کیونکہ انہوں نے بصدق دل قبول کر لیا کہ جبرائیل علیہ السلام بذات خود نازل نہیں ہوتا بلکہ ایک تم تمقلی وجود انبیاء علیہم السلام کو دکھائی دیتا ہے اور جبرائیل اپنے مقام آسمان میں ثابت و برقرار ہوتا ہے.یہ وہی عقیدہ اس عاجز کا ہے جس پر حال کے کور باطن نام کے علماء
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۰ سورة البقرة کفر کا فتویٰ دے رہے ہیں افسوس کہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اس بات پر تمام مفسرین نے اور نیز صحابہ نے بھی اتفاق کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے حقیقی وجود کے ساتھ صرف دو مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا ہے اور ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے اصلی اور حقیقی وجود کے ساتھ آنحضرت صلعم کے پاس آتے تو خود یہ غیر ممکن تھا کیونکہ ان کا حقیقی وجود تو مشرق مغرب میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے بازو آسمانوں کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہیں پھر وہ مکہ یا مدینہ میں کیوں کر سما سکتے تھے.جب تم حقیقت اور اصل کی شرط سے جبرائیل کے نزول کا عقیدہ رکھو گے تو ضرور تم پر یہ اعتراض وارد ہو گا کہ وہ اصلی وجود کیوں کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں سما گیا اور اگر کہو کہ وہ اصلی وجود نہیں تھا تو پھر ترک اصل کے بعد تمثل ہی ہوا یا کچھ اور ہوا اصل کا نزول تو اس حالت میں ہو کہ جب آسمان میں اس وجود کا نام و نشان نہ رہے اور جب آسمان سے وہ وجود نیچے اتر آیا تو پھر ثابت کرنا چاہیئے کہ کہاں اس کے ٹھہرنے کی گنجائش ہوئی.غرض یہ خیال کہ جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر اتر آتا تھا بدیہی البطلان ہے.خاص کر جب دوسری شق کی طرف نظر کریں اور اس فساد کو دیکھیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اکثر اوقات فیض وجی سے محروم اور معطل رہیں تو پھر نہایت بے شرمی ہوگی کہ اس عقیدہ کا خیال بھی دل میں لاویں.شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوت کے صفحہ ۸۳ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کلمات و حدیث وحی خفی ہیں باستثناء چند مواضع یعنی قصہ اسا رائے بد رو قصہ ماریہ و عسل و تا بی نخل جو نادر اور حقیر ہیں.اور پھر اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ اوزاعی حسان بن عطیہ سے روایت کرتا ہے کہ نزول جبرائیل قرآن سے مخصوص نہیں بلکہ ہر یک سنت نزول جبرائیل سے ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی میں سے ہے.اور پھر صفحہ ۸۷ میں لکھتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلعم کے ہر یک قول و فعل قلیل و کثیر وصغیر و کبیر کو وحی سمجھتے تھے.اور اُس پر عمل کرنے میں کچھ تو قف اور بحث نہیں کرتے تھے اور حرص رکھتے تھے کہ جو کچھ آنحضرت صلعم سر اور خلوت میں کرتے ہیں وہ بھی معلوم کر لیں.پس کچھ شک نہیں کہ جو شخص احوال صحابہ میں تامل کرے کہ وہ کیوں کر ہر یک امر اور قول اور فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت دین سمجھتے تھے اور کیوں کر وہ آنحضرت کے ہر یک زمانہ اور ہر ایک وقت اور ہر یک دم کو وحی میں مستغرق جانتے تھے.تو اس اعتقاد کے رکھنے سے کہ کبھی جبرائیل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آسمان پر چلا جاتا تھا خدا تعالیٰ سے شرم کرے گا اور ڈرے گا کہ ایسا وہم بھی اس کے دل میں گزرے مگر افسوس کہ ہمارے یہ علماء جو محدث بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة البقرة کہلاتے ہیں کچھ بھی ڈرتے نہیں اگر ان کے ایسے عقیدوں کو ترک کرنا کفر ہے تو ایسا کفر اگر ملے تو ز ہے سعادت.ہم ان کے ایسے ایمان سے سخت بیزار ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ان کے ایسے اقوال سے داد خواہ ہیں جن کی وجہ سے سخت اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں میں ہو رہی ہے ان لوگوں کے حق میں کیا کہیں اور کیا لکھیں جنہوں نے کفار کو نسی اور ٹھٹھہ کا موقع دیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو حضرت عیسی کی نسبت ایسا اور اس قدر گھٹا دیا کہ جس کے تصور سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۷ تا ۱۲۶) اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں تین قسم کی حکومت رکھی ہے ایک دماغ ، دوسرا دل ، تیسری زبان، دماغ عقول اور براہین سے کام لیتا ہے اور اس کا یہ کام ہے کہ ہر وقت وہ ایک تراش خراش میں لگا رہتا ہے.اور نئی نئی براہین اور حج کوسوچتا رہتا ہے.اس کے سپر دیہی خدمت ہے کہ وہ مقدمات مرتب کر کے نتائج نکالتا رہتا ہے.قلب تمام وجود کا بادشاہ ہے یہ دلائل سے کام نہیں لیتا چونکہ اس کا تعلق ملک الملوک سے ہے اس لئے کبھی صریح الہام سے کبھی خفی الہام سے اطلاع پاتا ہے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دماغ وزیر ہے وزیر مدیر ہوتے ہیں اس لئے دماغ تجاویز ، اسباب، دلائل اور نتائج کے متعلق کام میں لگارہتا ہے قلب کو ان سے کام نہیں ہے اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قوت حائہ رکھی ہے جیسے چیونٹی جہاں کوئی شیرینی رکھی ہوئی ہو معا اس جگہ پر پہنچ جاتی ہے حالانکہ اس کے لئے کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہوتی کہ وہاں شیرینی ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اس میں ایک قوتِ حاتہ رکھی ہوئی ہوتی ہے جو اس کی رہبری کرتی ہے اسی طرح پر قلب کو چیونٹی کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ اس میں بھی وہ قوت حانہ موجود ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے اور وہ دلائل و براہین اور ترتیب مقدمات اور استخراج نتائج کی ضرورت نہیں رکھتا.گو یہ امر دیگر ہے کہ دماغ اس کے لئے یہ اسباب اور امور بھی بہم پہنچا دیتا ہے.قلب کے معنے ایک ظاہری اور جسمانی ہیں اور ایک روحانی.ظاہری معنی تو یہی ہیں کہ پھرنے والا چونکہ دوران خون اسی سے ہوتا ہے اس لئے اس کو قلب کہتے ہیں روحانی طور پر اس کے یہ معنی ہیں کہ جو ترقیات انسان کرنا چاہتا ہے وہ قلب ہی کے تصرف سے ہوتی ہیں جس طرح پر دوران خون جو انسانی زندگی کے لئے ایک اشد ضروری چیز ہے اسی قلب سے ہوتا ہے اسی طرح پر روحانی ترقیوں کا اسی کے تصرف پر انحصار ہے.بعض نادان آج کل کے فلسفی بیخبر ہیں وہ تمام عمدہ کا روبار کو دماغ سے ہی منسوب کرتے ہیں مگر وہ اتنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورة البقرة خط نہیں جانتے کہ دماغ تو صرف دلائل و براہین کا ملکہ ہے قوت متفکرہ اور حافظہ دماغ میں ہے لیکن قلب میں ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے وہ سردار ہے یعنی دماغ میں ایک قسم کا تکلف ہے اور قلب میں نہیں بلکہ وہ بلا تکلف ہے.اس لئے قلب رب العرش سے ایک مناسبت رکھتا ہے صرف قوت حامہ کے ذریعہ دلائل و براہین کے بغیر پہچان جاتا ہے.اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ اِسْتَفْتِ الْقَلْبَ یعنی قلب سے فتویٰ پوچھ لے یہ نہیں کہا کہ دماغ سے فتویٰ پوچھ لو.الوہیت کی تاراسی کے ساتھ لگی ہوئی ہے کوئی اس کو بعید نہ سمجھے یہ بات ادق اور مشکل تو ہے مگر تزکیہ نفس کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ مکر مات قلب میں موجود ہیں.اگر قلب میں یہ طاقتیں نہ ہوتیں تو انسان کا وجود ہی بریکار سمجھا جاتا.صوفی اور مجاہدہ کرنے والے لوگ جو تصوف اور مجاہدات کے مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ قلب سے روشنی اور نور کے ستون شہودی طور پر نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ایک مستقیم میں آسمان کو جاتے ہیں یہ مسئلہ بدیہی اور یقینی ہے میں اس کو خاص مثال کے ذریعہ سے بیان نہیں کر سکتا.ہاں جن لوگوں کو مجاہدات کرنے پڑتے ہیں یا جنہوں نے سلوک کی منزلوں کو طے کرنا چاہا ہے انہوں نے اُس کو اپنے مشاہدہ اور تجربہ سے صحیح پایا ہے قلب اور عرش کے درمیان گویا بار یک تارہے قلب کو جو حکم کرتا ہے اس سے ہی لذت پاتا ہے خارجی دلائل اور براہین کا محتاج نہیں ہوتا ہے بلکہ مہم ہو کر خدا سے اندر ہی اندر باتیں پا کر فتوی دیتا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے کہ جب تک قلب قلب نہ بنے لَو كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ الملك :(۱) کا مصداق ہوتا ہے یعنی انسان پر ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ جس میں نہ قلب و دماغ کی قوتیں اور طاقتیں ہوتی ہیں.پھر ایک زمانہ دماغ کا آتا ہے.دماغی قوتیں اور طاقتیں نشوونما پاتی ہیں اور ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ قلب مئور اور مشتعل اور روشن ہو جاتا ہے جب قلب کا زمانہ آتا ہے.اُس وقت انسان روحانی بلوغ حاصل کرتا ہے اور دماغ قلب کے تابع ہو جاتا ہے.اور دماغی قوتوں کو قلب کی خاصیتوں اور طاقتوں پر فوق نہیں ہوتا.یہ بھی یادر ہے کہ دماغی حالتوں کو مومنوں سے ہی خصوصیت نہیں ہے.ہندو اور چوڑھے وغیرہ بھی سب کے سب ہر ایک دماغ سے کام لیتے ہیں جو لوگ دنیوی معاملات اور تجارت کے کاروبار میں مصروف ہیں وہ سب کے سب دماغ سے کام لیتے ہیں ان کی دماغی قوتیں پورے طور پر نشو نما پائی ہوئی ہوتی ہیں اور ہر روز نئی نئی باتیں اپنے کاروبار کے متعلق ایجاد کرتے ہیں یورپ اور نئی دنیا کو دیکھو کہ یہ لوگ کس قدر دماغی قوتوں سے کام لیتے ہیں اور کس قدر آئے دن نئی ایجادیں کرتے ہیں.قلب کا کام جب ہوتا ہے جب انسان خدا کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۳ سورة البقرة بنتا ہے اُس وقت اندر کی ساری طاقتیں اور ریاستیں معدوم ہو کر قلب کی سلطنت ایک اقتدار اور قوت حاصل کرتی ہے تب انسان کامل انسان کہلاتا ہے یہ وہی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحى (الحجر : ٣٠) کا مصداق ہوتا ہے.اور ملائکہ تک اسے سجدہ کرتے ہیں.اس وقت وہ ایک نیا انسان ہوتا ہے اس کی روح پوری لذت اور سرور سے سرشار ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۱ ء صفحه ۴،۳) مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلهِ وَ مَلَكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَ جِبْرِيلَ وَمِيْكُلَ فَإِنَّ اللهَ عَدُ تلكفِرِينَ ۹۹ یعنی جو شخص خدا اور اُس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو خدا ایسے کافروں کا خود دشمن ہے.اب ظاہر ہے کہ جو شخص تو حید خشک کا تو قائل ہے مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ہے وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے لہذا بموجب منشاء اس آیت کے خدا اُس کا دشمن ہے اور وہ خدا کے نزدیک کافر ہے تو پھر اس کی نجات کیوں کر ہو سکتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۹،۱۲۸) ذرہ ذرہ عالم کا جس سے انواع واقسام کے تغیرات ہوتے رہتے ہیں یہ سب خدا کے فرشتے ہیں اور توحید پوری نہیں ہوتی جب تک ہم ذرہ ذرہ کو خدا کے فرشتے مان نہ لیں کیونکہ اگر ہم تمام مؤثرات کو جو دنیا میں پائی جاتی ہیں خدا کے فرشتے تسلیم نہ کر لیں تو پھر ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ تمام تغیرات انسانی جسم اور تمام عالم میں بغیر خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ اور مرضی کے خود بخود ہورہے ہیں اور اس صورت میں خدا تعالیٰ کو محض معطل اور بے خبر ماننا پڑے گا.پس فرشتوں پر ایمان لانے کا یہ راز ہے کہ بغیر اس کے تو حید قائم نہیں رہ سکتی اور ہر ایک چیز کو اور ہر ایک تاثیر کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے باہر ماننا پڑتا ہے اور فرشتہ کا مفہوم تو یہی ہے کہ فرشتے وہ چیزیں ہیں جو خدا کے حکم سے کام کر رہی ہیں پس جبکہ یہ قانون ضروری اور مسلم ہے تو پھر جبرئیل اور میکائیل سے کیوں انکار کیا جائے؟ (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۸۱ حاشیه ) وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيْطينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَ لكِن ق ج الشَّيطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِمَنِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة البقرة تَكْفُرُ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم ، بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ ۖ وَ يَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَريهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَواية أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ) بعض نابکار قو میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بت پرست کہتی ہیں اللہ تعالیٰ اس آیت میں اُن کی تردید کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف واقعات پر بحث کرتا ہے اور قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے جیسے فرمایا ہے فِيهَا كُتُبُ قَيَّمَةُ (البَيِّنَة:٢) اور صُحُفا مُطَهَّرَةٌ (البَيِّنَة :٣) - پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں بلکہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہئے......اس قصہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بریت منظور ہے اور ان کو اس ناپاک الزام سے بری کرنا مقصود ہے جو ان پر لگایا جاتا ہے کہ وہ بت پرست تھے خدا نے فرمایا مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ سلیمان نے کفر نہیں کیا.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۰ مورد ۱۰ نومبر ۱۹۰۰ صفحه (۴).......اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَفَرَ سُکین.کوئی کہے کہ کیا انبیاء بھی کافر ہوا کرتے ہیں.نہیں ایسا نہیں لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ وہ بت پرست ہو گئے تھے ایک عورت کے لئے.اُس اعتراض کا الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۲) و جواب دیا.مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ اَوْ نَفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۖ أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيره قرآن حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے آیا ہے پھر اگر وہ معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ بلا شبہ قرآن کریم تمام صداقتوں پر حاوی ہے اور تمام علوم میں جہاں تک صحت سے ان کو تعلق ہے قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں.لیکن وہ عظمتیں اور وہ کمالات جو قرآن میں ہیں مطہرین پر کھلتے ہیں جن کو وحی الہی سے مشرف کیا جاتا ہے اور ہر ایک شخص تب مومن بنتا ہے کہ جب سچے دل سے اس بات کا اقرار کرے کہ در حقیقت قرآن کریم احادیث کے لئے جو راویوں کے دخل سے جمع کی گئی ہیں معیار ہے.گو اس معیار کے تمام استعمال پر عوام کو فہمی قدرت حاصل نہیں صرف اخص لوگوں کو حاصل ہے لیکن قدرت کا حاصل نہ ہونا اور چیز ہے اور ایک چیز کا
۲۲۵ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک چیز کے لئے واقعی طور پر معیار ہونا یہ اور امر ہے.میں پوچھتا ہوں کہ جو صفات اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے لئے آپ بیان فرمائی ہیں کیا ان پر ایمان لانا فرض ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہے تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس سبحانہ نے قرآن کریم کا نام عام طور پر قول فصل اور فرقان اور میزان اور امام اور حکم اور نور نہیں رکھا ؟ اور کیا اس کو جمیع اختلافات کے دور کرنے کا آلہ نہیں ٹھہرایا؟ اور کیا یہ نہیں فرمایا کہ اس میں ہر ایک چیز کی تفصیل ہے؟ اور ہر یک امر کا بیان ہے اور کیا یہ نہیں لکھا کہ اس کے فیصلہ کے مخالف کوئی حدیث ماننے کے لائق نہیں؟ اور اگر یہ سب باتیں سچ ہیں تو کیا مومن کے لئے ضروری نہیں جو ان پر ایمان لاوے اور زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرے؟ اور واقعی طور پر اپنا یہ اعتقاد ر کھے کہ حقیقت میں قرآن کریم معیار اور حکم اور امام ہے.لیکن محجوب لوگ قرآن کریم کے دقیق اشارات اور اسرار کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط اور استخراج کرنے پر قادر نہیں اس لئے وہ احادیث صحیحہ نبویہ کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ گویا وہ قرآن کریم پر کچھ زواید بیان کرتی ہیں یا بعض احکام میں اس کی ناسخ ہیں.اور نہ زواید بیان کرتی ہیں بلکہ قرآن شریف کے بعض مجمل اشارات کی شارح ہیں.قرآن کریم آپ فرماتا ہے: مَا نَنْسَخ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا یعنی کوئی آیت ہم منسوخ یا منسی نہیں کرتے جس کے عوض دوسری آیت ویسی ہی یا اس سے بہتر نہیں لاتے.پس اس آیت میں قرآن کریم نے صاف فرما دیا ہے کہ نسخ آیت کا آیت سے ہی ہوتا ہے اسی وجہ سے وعدہ دیا ہے کہ نسخ کے بعد ضرور آیت منسوخہ کی جگہ آیت نازل ہوتی ہے ہاں علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے جیسا کہ حنفی فقہ کے رو سے مشہور حدیث سے آیت منسوخ ہو سکتی ہے مگر امام شافعی اس بات کا قائل ہے کہ متواتر حدیث سے بھی قرآن کا نسخ جائز نہیں اور بعض محدثین خبر واحد سے بھی نسخ آیت کے قائل ہیں لیکن قائلین نسخ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر حدیث سے آیت منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ واقعی امر تو یہی ہے کہ قرآن پر نہ زیادت جائز ہے اور نہ نسخ کسی حدیث سے لیکن ہماری نظر قاصر میں جو استخراج مسائل قرآن سے عاجز ہے یہ سب باتیں صورت پذیر معلوم ہوتی ہیں اور حق یہی ہے کہ حقیقی نسخ اور حقیقی زیادت قرآن پر جائز نہیں کیونکہ اس سے اس کی تکذیب لازم آتی ہے نور الانوار جو حنفیوں کے اصول فقہ کی کتاب ہے اس کے صفحہ ۹۱ میں لکھا ہے.رُوی عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَكَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ قَالَ لَهُ بِمَا تَقْضِي يَا مُعَاذُ فَقَالَ بِكِتَابِ اللهِ قَالَ فَإِن لَّمْ تَجِدُ قَالَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ قَالَ فَإِنْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۲۶ سورة البقرة لَّمْ تَجِدُ قَالَ اجْتَهِدُ بِرَأَي فَقَالَ الْحَمْدُلِلهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُوْلَهُ بِمَا يَرْضَى بِهِ رَسُوْلُهُ لَا يُقَالُ إِنَّهُ يُنَاقِضُ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ فَكُلُّ شَيْءٍ فِي الْقُرْآنِ فَكَيْفَ يُقَالُ فَإِن لَّمْ تَجِدُ فِي كِتَابِ اللهِ لِاَنَا نَقُولُ إِنَّ عَدُمَ الْوِجْدَانِ لَا يَقْضِي عَدُمَ كَوْنِهِ فِي الْقُرْآنِ وَلِهَذَا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِن لَّمْ تَجِدُ وَلَمْ يَقُلْ فَإِن لَّمْ يَكُنْ فِي الْكِتَابِ.اس عبارت مذکورہ بالا میں اس بات کا اقرار ہے کہ ہر ایک امر دین قرآن میں درج ہے کوئی چیز اس سے باہر نہیں اور اگر تفاسیر کے اقوال جو اس بات کے مؤید ہیں بیان کئے جائیں تو اس کے لئے ایک دفتر چاہئے.لہذا اصل حق الامر یہی ہے کہ جو چیز قرآن سے باہر یا اس کے مخالف ہے وہ مردود ہے اور احادیث صحیحہ قرآن سے باہر نہیں کیونکہ وحی غیر متلو کی مدد سے وہ تمام مسائل قرآن سے مستخرج اور مستنبط کئے گئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ وہ استخراج اور استنباط بجز رسول اللہ یا اس شخص کے جو ظلی طور پر ان کمالات تک پہنچ گیا ہو ہر ایک کا کام نہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جن کو ظلی طور پر عنایات الہیہ نے وہ علم بخشا ہو جو اس کے رسول متبوع کو بخشا تھا وہ حقائق و معارف دقیقہ قرآن کریم پر مطلع کیا جاتا ہے.مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۲، ۹۳) میرا صد ہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دُعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دُعا منظور کر لیتا ہے جو اُس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے : مَا نَسَخ مِنْ آيَةٍ اَوْ تُنْسِهَا نَاتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۰) صبح کو ایک الہام ہوا تھا میرا ارادہ ہوا کہ لکھ لوں پھر حافظہ پر بھروسہ کر کے نہ لکھا.آخر وہ ایسا بھولا کہ ہر چند یاد کیا مطلق یاد نہ آیا دراصل یہی بات ہے.مَا نَسحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ ( البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۵۰) مِثْلِهَا - ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے جو کامل اختیارات رکھتا ہے يَمْحُوا اللهُ مَا يَشَاءُ.ہمارا ایمان ہے کہ وہ جوتشی کی طرح نہیں وہ ایک حکم صبح دیتا اور رات کو اس کے بدلنے کے کامل اختیارات رکھتا ہے مَا نَنْسَخ مِنْ اية والی آیت اس پر گواہ ہے.آخر صدقہ خیرات بھی کوئی چیز ہے.تمام انبیاء کرام کا اجماعی مسئلہ ہے کہ صدقہ و استغفار سے رد بلا ہوتا ہے بلا کیا چیز ہے یعنی وہ تکلیف وہ امر جو خدا کے ارادے میں مقدر ہو چکا ہے.اب اس بلا کی اطلاع جب کوئی نبی دے.تو وہ پیشگوئی بن جاتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورة البقرة تضرع کرنے والوں پر اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اس لئے ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ وعید کی پیشگوئیاں اٹل ( بدر جلدے نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۴) نہیں بلکہ وہ ٹل جاتی ہیں.ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اس کا ارادہ ہو کر رہتا ہے.آلَم تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کے یہ معنے تو نہیں کہ اللہ تعالی خود کشی پر بھی قادر ہے.اس طرح تو وہ اپنا بیٹا بنانے پر بھی قادر کہا جا سکتا ہے.پھر عیسائی مذہب کے اختیار کرنے میں کیا تامل ہے.یا درکھو اللہ تعالیٰ بیشک قادر ہے مگر وہ اپنے تقدس اور ان صفات کے خلاف نہیں کرتا جو قدیم سے الہامی کتب میں بیان کی جارہی ہیں گویا ان کے خلاف اس کی توجہ ہوتی ہی نہیں.وہ ذات پاک اپنے مواعید کے خلاف بھی نہیں کرتا اور نہ اس طرف وہ متوجہ ہوتا ہے.(بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ صفحه ۹) وَقَالُوا لَن يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصْرَى تِلْكَ آمَانِتُهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُم صُدِقِينَ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ ص مُحْسِنُ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور کہا انہوں نے کہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہوگا یعنی نجات نہیں پائے گا مگر وہی شخص جو یہودی ہوگا یا نصرانی ہوگا یہ ان کی بے حقیقت آرزوئیں ہیں.کہو ، لاؤ برہان اپنی ! اگر تم سچے ہو یعنی تم دکھلاؤ کہ تمہیں کیا نجات حاصل ہو گئی ہے؟ بلکہ نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجود اللہ کی راہ میں سونپ دیا.یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا.اور وہ بعد وقف کرنے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجالانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے.اس مقام میں اللہ جل شانہ نے عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت فرما دیا کہ جو وہ اپنی اپنی نجات یابی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں اور ان آرزوؤں کی حقیقت جو زندگی کی روح ہے ان میں ہرگز پائی نہیں جاتی بلکہ اصلی اور حقیقی نجات وہ ہے جو اسی دنیا میں اس کی حقیقت نجات یا بندہ کو محسوس ہو جائے اور وہ اس طرح پر ہے کہ نجات یا بندہ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ توفیق عطا
و ۲۲۸ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو جائے کہ وہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے.اس طرح پر کہ اس کا مرنا اور جینا اور اس کے تمام اعمال خدا تعالی کے لئے ہو جائیں اور اپنے نفس سے وہ بالکل کھویا جائے اور اس کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو جائے اور پھر نہ صرف دل کے عزم تک یہ بات محدودر ہے بلکہ اس کی تمام جوارح اور اس کے تمام قویٰ اور اس کی عقل اور اس کا فکر اور اس کی تمام طاقتیں اسی راہ میں لگ جائیں تب اس کو کہا جائے گا کہ وہ محسن ہے یعنی خدمت گاری کا اور فرمانبرداری کا حق بجالا یا جہاں تک اس کی بشریت سے ہوسکتا تھا سو ایسا شخص نجات یاب ہے.جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ فرماتا ہے : قُلْ اِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَولُ المُسْلِمِينَ (سورہ انعام : ۱۳، ۱۶۴).کہہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری تمام اس اللہ کے واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا جس کا کوئی اللہ وا شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اول مسلمانوں کا ہوں.پھر بعد اس کے اللہ جل شانہ اس نجات کی علامات اپنی کتاب کریم میں لکھتا ہے کیونکہ گو جو کچھ فرمایا گیا وہ بھی ایک حقیقی ناجی کے لئے مابہ الامتیاز ہے لیکن چونکہ دنیا کی آنکھیں اس باطنی نجات اور وصول الی اللہ کو دیکھ نہیں سکتیں اور دنیا پر واصل اور غیر واصل کا امر مشتبہ ہو جاتا ہے اسلئے اس کی نشانیاں بھی بتلا دیں کیونکہ یوں تو دنیا میں کوئی بھی فرقہ نہیں کہ اپنے تئیں غیر ناجی اور جہنمی قرار دیتا ہے کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں بلکہ ہر ایک قوم کا آدمی جس کو پوچھو اپنی قوم کو اور اپنے مذہب کے لوگوں کو اول درجہ کا نجات یافتہ قرار دے گا.اس صورت میں فیصلہ کیوں کر ہو تو اس فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ نے حقیقی اور کامل ایمانداروں اور حقیقی اور کامل نجات یافتہ لوگوں کے لئے علامتیں مقرر کر دی ہیں اور نشانیاں قرار دے دی ہیں تا دنیا شبہات میں مبتلا نہ رہے چنانچہ منجملہ ان نشانیوں کے بعض نشانیوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.الا إِنَّ أَوْلِيَاةِ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاهُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِيتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سوره يونس : ۶۳ تا ۶۵ ) یعنی خبر دار ہو تحقیق وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہ وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے یعنی اللہ رسول کے تابع ہو گئے اور پھر پرہیز گاری اختیار کی ان کے لئے خدا تعالی کی طرف سے اس دنیا کی زندگی اور نیز آخرت میں بشری ہے یعنی خدا تعالیٰ خواب اور الہام کے ذریعہ سے اور نیز مکاشفات سے ان کو بشارتیں دیتا رہے گا خدا تعالیٰ کے وعدوں میں مختلف نہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو ان کے لئے مقرر ہو گئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۹ سورة البقرة یعنی اس کامیابی کے ذریعہ سے ان میں اور غیروں میں فرق ہو جائے گا.اور جو سچے نجات یافتہ نہیں ان کے مقابل میں دم نہیں مارسکیں گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ( سور وحم السجدة: ۳۱ تا ۳۳) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت اختیار کی ان کی یہ نشانی ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم مت ڈرو اور کچھ غم نہ کرو اور خوشخبری سنو اس بہشت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا ہم تمہارے دوست اور متوتی اس دنیا کی زندگی میں ہیں اور نیز آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشت میں وہ سب کچھ دیا گیا جو تم مانگو یہ مہمانی ہے غفور رحیم ہے.اب دیکھئے اس آیت میں مکالمہ الہیہ اور قبولیت اور خدا تعالیٰ کا متولی اور متکفل ہونا اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی کی بنا ڈالنا اور ان کا حامی اور ناصر ہونا بطور نشان کے بیان فرمایا گیا.اور پھر اس آیت میں......کہ تُؤْتِي أَكُلَهَا كُلَّ حِينٍ (ابراهيم : ۲۶) اسی نشانی کی طرف اشارہ ہے کہ کچی نجات کا پانے والا ہمیشہ اچھے پھل لاتا ہے اور آسمانی برکات کے پھل اس کو ہمیشہ ملتے رہتے ہیں اور پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے: وَ اِذَا و سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا فِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) اور جب میرے بندے میرے بارہ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی جب وہ لوگ جو اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں.تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دُور ہیں جب کوئی دُعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دُعا کرے دُعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہمکلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دُعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں پس چاہیئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تا کہ بھلائی پاویں ایسا ہی اور کئی مقامات میں اللہ جل شانہ نجات یافتہ لوگوں کے نشان بیان فرماتا ہے اگر وہ تمام لکھے جاویں تو طول ہو جائے گا جیسا کہ ان میں سے ایک یہ بھی آیت ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لكم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة البقرة فرقان (الانفال :۳۰) کہ اے ایمان والو اگر تم خدا تعالی سے ڈرو تو خدا تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیا ز رکھ دے گا.وو ق ( جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۳ تا ۱۴۶) فرمایا : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں.سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم کرتے ہیں.یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہو جاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے.(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۲۲۱) خدا تعالیٰ نے جیسے ابتداء سے انسان کی فطرت میں ایک ملکہ گناہ کرنے کا رکھا.ایسا ہی گناہ کا علاج بھی اسی طرز سے اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے جیسے کہ وہ خود فرماتا ہے: بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ تَحْسِنَ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) یعنی جو شخص اپنے تمام وجود کو خدا تعالیٰ کی راہ میں سونپ دیوے اور پھر اپنے تئیں نیک کاموں میں لگا دیوے تو اس کو ان کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملے گا.اور ایسے لوگ بے خوف اور بے غم ہیں.اب دیکھئے کہ یہ قاعدہ کہ تو بہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دینا یہ گناہ کے بخشے جانے کے لئے ایک ایسا صراط مستقیم ہے کہ کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں جب سے انسان اس مسافر خانہ میں آیا تب سے اس قانون کو اپنے ساتھ لایا.جیسے اس کی فطرت میں ایک شق یہ موجود ہے کہ گناہ کی طرف رغبت کرتا ہے ایسا ہی یہ دوسراشق بھی موجود ہے کہ گناہ سے نادم ہو کر اپنے اللہ کی راہ میں مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.زہر بھی اسی میں ہے اور تریاق بھی اسی میں ہے.یہ نہیں کہ زہر اندر سے نکلے اور تریاق جنگلوں سے تلاش کرتے پھریں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلی من اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَكَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٣١ سورة البقرة ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر د یوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالی کی شناخت اور اس کی طاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاً للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خداداد اور توفیق سے وابستہ ہیں بجالا وے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.پھر بقیہ ترجمہ آیت کا یہ ہے کہ جس کی اعتقادی و عملی صفائی ایسی محبت ذاتی پر مبنی ہو اور ایسے طبعی جوش سے اعمال حسنہ اُس سے صادر ہوں وہی ہے جو عند اللہ سحق اجر ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم رکھتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کے لئے نجات نقد موجود ہے کیونکہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر ایمان لا کر اس سے موافقت تامہ ہوگئی اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہو گیا اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر گئی اور جمیع اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذ ذ اور احتظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگے تو یہی وہ کیفیت ہے جس کو فلاح اور نجات اور رستگاری سے موسوم کرنا چاہئے اور عالم آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہود ومحسوس ہوگا وہ در حقیقت اس کیفیت راسخہ کے اظلال و آثار ہیں جو اس جہان میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہو جاتی ہے اور جہنمی عذاب کی جڑھ بھی اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے.اب آیات ممدوحہ بالا پر ایک نظر غور ڈالنے سے ہر یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی معطی حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۲ سورة البقرة قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا تعالی کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قومی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل وجان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علومرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قومی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں.دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور سچی غم خواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دکھا اٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رنج گوارا کرلیں.اس تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس امارہ کا نقش ہستی معہ اس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن اللہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.
۲۳۳ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا جسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.اور خلق اللہ کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسّام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض للہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور ان کی دنیاو آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگا دے.مگر یہ للی وقف محض اس صورت میں اسم باسمٹی ہوگی کہ جب تمام اعضاء الہی طاعت کے رنگ سے ایسے رنگ پذیر ہو جائیں کہ گویا وہ ایک الہی آلہ ہیں جن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً افعال البیہ ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ایک مصفا آئینہ ہیں جس میں تمام مرضیات الہیہ بصفاء تام عکسی طور پر ظہور پکڑتی رہتی ہیں اور جب اس درجہ کاملہ پرانی طاعات و خدمات پہنچ جائیں تو اس صبغتہ اللہ کی برکت سے اس وصف کے انسان کے قومی اور جوارح کی نسبت وحدت شہودی کے طور پر یہ کہنا صحیح ہوتا ہے کہ مثلاً یہ آنکھیں خدا تعالیٰ کی آنکھیں اور یہ زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور یہ ہاتھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ اور یہ کان خدا تعالیٰ کے کان اور یہ پاؤں خدا تعالیٰ کے پاؤں ہیں.کیونکہ وہ تمام اعضاء اور قوتیں لیکمی راہوں میں خدا تعالیٰ کے ارادوں سے پر ہو کر اور اس کی خواہشوں کی تصویر بن کر اس لائق ہو جاتی ہیں کہ ان کو اسی کا روپ کہا جاوے وجہ یہ کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء پورے طور پر اس کی مرضی اور ارادہ کے تابع ہوتے ہیں ایسا ہی کامل انسان اس درجہ پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کی مرضیات و ارادت سے موافقت نامہ پیدا کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت اور مالکیت اور معبودیت اور اس کی ہر یک مرضی اور خواہش کی بات ایسی ہی اس کو پیاری معلوم ہوتی ہے کہ جیسی خود خدا تعالیٰ کو.سو یہ عظیم الشان للہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیت تامہ سے بھری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ص ۲۳۴ سورة البقرة ہوئی ہے یہی اسلام اور اسلام کی حقیقت اور اسلام کا لب لباب ہے جو نفس اور خلق اور ہوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے.اس جگہ یہ نکتہ بھی یادر ہے کہ آیت موصوفہ بالا یعنی بلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنُ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.عادت تامہ کے تینوں ضروری در جوں یعنی فنا اور بقا اور لقا کی طرف اشارت کرتی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں اَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کا فقرہ یہ تعلیم کر رہا ہے کہ تمام قومی اور اعضاء اور جو کچھ اپنا ہے خدا تعالیٰ کو سونپ دینا چاہئے اور اس کی راہ میں وقف کر دینا چاہئے اور یہ وہی کیفیت ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں فنا ہے.وجہ یہ کہ جب انسان نے حسب مفہوم اس آیت ممدوحہ کے اپنا تمام وجود معہ اس کی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کو سونپ دیا اور اس کی راہ میں وقف کر دیا اور اپنی نفسانی جنبشوں اور سکونوں سے بکلی باز آ گیا تو بلاشبہ ایک قسم کی موت اس پر طاری ہوگئی اور اسی موت کو اہلِ تصوف فنا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.پھر بعد اس کے وَهُوَ مُحسین کا فقرہ مرتبہ بقا کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ جب انسان بعد فنا مکمل واتم و سلب جذبات نفسانی، الہبی جذبہ اور تحریک سے پھر جنبش میں آیا اور بعد منقطع ہو جانے تمام نفسانی حرکات کے پھر ربانی تحریکوں سے پر ہو کر حرکت کرنے لگا تو یہ وہ حیات ثانی ہے جس کا نام بتا رکھنا چاہئے.پھر بعد اس کے یہ فقرات فلةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ جو اثبات و ایجاب اجر و نفی و ساب خوف و حزن پر دلالت کرتے ہیں یہ حالت لقا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جس وقت انسان کے عرفان اور یقین اور توکل اور محبت میں ایسا مرتبہ عالیہ پیدا ہو جائے کہ اس کے خلوص اور ایمان اور وفا کا اجر اس کی نظر میں وہمی اور خیالی اور نلنی نہ رہے بلکہ ایسا یقینی اور قطعی اور مشہود اور مرئی اور محسوس ہو کہ گویا وہ اس کویل چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود پر ایسا یقین ہو جائے کہ گویا وہ اس کو دیکھ رہا ہے اور ہر یک آیندہ کا خوف اس کی نظر سے اٹھ جاوے اور ہر یک گزشتہ اور موجودہ غم کا نام ونشان نہ رہے اور ہر یک روحانی شکم موجود الوقت نظر آوے تو یہی حالت جو ہر ایک قبض اور کدورت سے پاک اور ہر یک دغدغہ اور شک سے محفوظ اور ہر یک درد انتظار سے منزہ ہے لقا کے نام سے موسوم ہے اور اس مرتبہ لقا پر محسن کا لفظ جو آیت میں موجود ہے نہایت صراحت سے دلالت کر رہا ہے کیونکہ احسان حسب تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت کا ملہ کا نام ہے کہ جب انسان اپنی پرستش کی حالت میں خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ سورة البقرة اور یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کے لئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.یہ وہی مقام ہے جس پر پہنچ کر بعض سالکین نے لغزشیں کھائی ہیں اور شہودی پیوند کو وجودی پیوند کے رنگ میں سمجھ لیا ہے.اس مقام میں جو اولیاء اللہ پہنچے ہیں یا جن کو اس میں سے کوئی گھونٹ میسر آ گیا ہے.بعض اہل تصوف نے ان کا نام اطفال اللہ رکھ دیا ہے اس مناسبت سے کہ وہ لوگ صفات الہی کے کنار عاطفت میں بکلی جا پڑے ہیں اور جیسے ایک شخص کا لڑکا اپنے حلیہ اور خط و خال میں کچھ اپنے باپ سے مناسبت رکھتا ہے ویسا ہی ان کو بھی ظلی طور پر بوجہ تَخَلَّقُ بِأَخَلَاقِ اللَّهِ خدا تعالیٰ کی صفات جمیلہ سے کچھ مناسبت پیدا ہوگئی ہے.ایسے نام اگر چہ کھلے کھلے طور پر بزبان شرع مستعمل نہیں ہیں.مگر در حقیقت عارفوں نے قرآن کریم سے ہی اس کو استنباط کیا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذكرًا (البقرة : ٢٠١) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یا د کرو کہ جیسے تم اپنے ۲۰۱) باپوں کو یاد کرتے ہو اور ظاہر ہے کہ اگر مجازی طور پر ان الفاظ کا بولنا منہیات شرع سے ہوتا تو خدا تعالیٰ ایسی طرز سے اپنی کلام کو منزہ رکھتا جس سے اس اطلاق کا جواز مستنبط ہو سکتا ہے.اور اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دُعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھا گنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى (الانفال : ١٨) یعنی جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا.یعنی در پردہ الہی طاقت کا م کر گئی ، انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دُعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آ گیا IA:
۲۳۶ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دُعا نہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جوصرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جاپڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوہ تھی.حال کے برہمو اور فلسفی اور نیچری اگر ان معجزات سے انکار کریں تو وہ معذور ہیں کیونکہ وہ اس مرتبہ کو شناخت نہیں کر سکتے جس میں ظلی طور پر الہی طاقت انسان کو ملتی ہے پس اگر وہ ایسی باتوں پر ہنسیں تو وہ اپنے ہننے میں بھی معذور ہیں کیونکہ انہوں نے بجز طفلانہ حالت کے اور کسی درجہ روحانی بلوغ کو طے نہیں کیا اور نہ صرف اپنی حالت ناقص رکھتے ہیں بلکہ اس بات پر خوش ہیں کہ اسی حالت ناقصہ میں مریں بھی.مگر زیادہ تر افسوس ان عیسائیوں پر ہے جو بعض خوارق اسی کے مشابہ مگر ان سے ادنی حضرت مسیح میں سن سنا کر ان کی الوہیت کی دلیل ٹھہرا بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کا مردوں کا زندہ کرنا اور مفلوجوں اور مجذوموں کا اچھا کرنا اپنے اقتدار سے تھا کسی دُعا سے نہیں تھا اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ وہ حقیقی طور پر ابن اللہ بلکہ خدا تھا.لیکن افسوس کہ ان بیچاروں کو بر نہیں کہ اگر انہیں باتوں سے انسان خدا بن جاتا ہے تو اس خدائی کا زیادہ تر استحقاق ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ اس قسم کے اقتداری خوارق جس قدر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام ہر گز دکھلا نہیں سکے اور ہمارے ہادی و مقتد اصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اقتداری خوارق نہ صرف آپ ہی دکھلائے بلکہ ان خوارق کا ایک لمبا سلسلہ روز قیامت تک اپنی اُمت میں چھوڑ دیا جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حسب ضرورت زمانہ ظہور میں آتا رہا ہے اور اس دنیا کے آخری دنوں تک اسی طرح ظاہر ہوتا رہے گا اور الہی طاقت کا پر توہ جس قدر اس اُمت کی مقدس رُوحوں پر پڑا ہے اس کی نظیر دوسری امتوں میں ملنی مشکل ہے پھر کس قدر بے وقوفی ہے کہ ان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة البقرة خارقِ عادت امور کی وجہ سے کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا جائے اگر ایسے ہی خوارق سے انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر خداؤں کا کچھ انتہا بھی ہے؟ لیکن یہ بات اس جگہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ اس قسم کے اقتداری خوارق گو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ان خاص افعال سے جو بلا توسط ارادہ غیرے ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے اور نہ برابر ہونا ان کا مناسب ہے اسی وجہ سے جب کوئی نبی یا ولی اقتداری طور پر بغیر توسط کسی دُعا کے کوئی ایسا امر خارق عادت دکھلاوے جو انسان کو کسی حیلہ اور تدبیر اور علاج سے اس کی قوت نہیں دی گئی تو نبی کا وہ فعل خدا تعالیٰ کے ان افعال سے کم رتبہ پر رہے گا جو خود خدا تعالیٰ علانیہ اور بالجبیر اپنی قوت کا ملہ سے ظہور میں لاتا ہے یعنی ایسا اقتداری معجزہ بہ نسبت دوسرے الہی کاموں کے جو بلا واسطہ اللہ جن شاعہ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجود رکھتا ہوگا تا سرسری نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی الخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا با وجود اس کے کئی دفعہ سانپ بنا لیکن آخر عصا کا عصا ہی رہا.اور حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کے مٹی ہی تھے اور کہیں خدا تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہوگئیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق میں چونکہ طاقت الہی سب سے زیادہ بھری ہوئی تھی کیونکہ وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجلیات الہیہ کے لئے آئم واعلیٰ وارفع و اکمل نمونہ تھا اس لئے ہماری نظریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق کو کسی درجہ بشریت پر مقرر کرنے سے قاصر ہیں مگر تا ہم ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اس جگہ بھی اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں مخفی طور پر کچھ فرق ضرور ہو گا.اب ان تحریرات سے ہماری غرض اس قدر ہے کہ لقا کا مرتبہ جب کسی انسان کو میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کے تموج کے اوقات میں الہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا کیونکہ اس تموج کی حالت میں کچھ الہی صفات کا رنگ فلی طور پر انسان میں آجاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رحم خدا تعالی کا رحم اور اس کا غضب خدا تعالیٰ کا غضب ہو جاتا ہے اور بسا اوقات وہ بغیر کسی دُعا کے کہتا ہے کہ فلاں چیز پیدا ہو جائے تو وہ پیدا ہو جاتی ہے اور کسی پر غضب کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس پر کوئی وبال نازل ہو جاتا ہے اور کسی کو رحمت کی
۲۳۸ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نظر سے دیکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مورد رحم ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کا گنج دائمی طور پر نتیجہ مقصودہ کو بلا تخلف پیدا کرتا ہے ایسا ہی اُس کا گن بھی اس جموج اور مد کی حالت میں خطا نہیں جاتا.اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ان اقتداری خوارق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ شخص شدت اتصال کی وجہ سے خدائے عزوجل کے رنگ سے ظلی طور پر رنگین ہو جاتا ہے اور تجلیات الہیہ اس پر دائمی قبضہ کر لیتے ہیں اور محبوب حقیقی حجب حائلہ کو درمیان سے اٹھا کر نہایت شدید قرب کی وجہ سے ہم آغوش ہو جاتا ہے اور جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے تب ہر یک چیز جو اس سے مش کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دُعا کرے برکت پاتی ہے.اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ معہ اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی گنہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ فنافی اللہ کے درجہ کی تحقیق کے بعد یعنی اس درجہ کے بعد جو أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ کے مفہوم کو لازم ہے جس کو صوفی فنا کے نام سے اور قرآن کریم استقامت کے اسم سے موسوم کرتا ہے درجہ بقا اور لقا کا بلا توقف پیچھے آنے والا ہے یعنی جب کہ انسان خلق اور ہوا اور ارادہ سے بکلی خالی ہو کر فنا کی حالت کو پہنچ گیا تو اس حالت کے راسخ ہونے کے ساتھ ہی بقا کا درجہ شروع ہو جاتا ہے مگر جب تک یہ حالت راسخ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف بکلی جھک جانا ایک طبیعی امر نہ ٹھہر جائے تب تک مرتبہ بقا کا پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مرتبہ صرف اسی وقت پیدا ہوگا کہ جب ہر یک اطاعت کا تصنع درمیان سے اٹھ جائے اور ایک طبعی روئیدگی کی طرح فرمانبرداری کی سرسبز اور اہراتی ہوئی شاخیں دل سے جوش مار کر نکلیں اور واقعی طور پر سب کچھ جو اپنا سمجھا جاتا ہے خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور جیسے دوسرے لوگ ہوا پرستی میں لذت اٹھاتے ہیں اس شخص کی تمام کامل لذتیں پرستش اور یاد الہی میں ہوں.اور بجائے نفسانی ارادوں کے خدا تعالیٰ کی مرضیات جگہ پکڑ لیں.پھر جب یہ بقا کی حالت بخوبی استحکام پکڑ جائے اور سالک کے رگ وریشہ میں داخل ہو جائے اور اُس کا جز و وجود بن جائے اور ایک نور آسمان سے اتر تا ہوا دکھائی دے جس کے نازل ہونے کے ساتھ ہی تمام
۲۳۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام پر دے دور ہو جا ئیں اور نہایت لطیف اور شیریں اور حلاوت سے ملی ہوئی ایک محبت دل میں پیدا ہو جو پہلے نہیں تھی اور ایک ایسی خنکی اور اطمینان اور سکینت اور سرور دل کو محسوس ہو کہ جیسے ایک نہایت پیارے دوست مدت کے بچھڑے ہوئے کی یکدفعہ ملنے اور بغل گیر ہونے سے محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے روشن اور لذیذ اور مبارک اور سرور بخش اور فصیح اور معطر اور مبشرانہ کلمات اُٹھتے اور بیٹھتے اور سوتے اور جاگتے اس طرح پر نازل ہونے شروع ہو جائیں کہ جیسے ایک ٹھنڈی اور دلکش اور پر خوشبو ہوا ایک گلزار پر گزر کر آتی اور صبح کے وقت چلنی شروع ہوتی اور اپنے ساتھ ایک شکر اور سرور لاتی ہے.اور انسان خدا تعالیٰ کی طرف ایسا کھینچا جائے کہ بغیر اُس کی محبت اور عاشقانہ تصور کے جی نہ سکے اور نہ یہ کہ مال اور جان اور عزت اور اولاد اور جو کچھ اس کا ہے قربان کرنے کے لئے طیار ہو بلکہ اپنے دل میں قربان کر ہی چکا ہو اور ایسی ایک زبردست کشش سے کھینچا گیا ہو جو نہیں جانتا کہ اسے کیا ہو گیا اور نورانیت کا بشدت اپنے اندر انتشار پاوے جیسا کہ دن چڑھا ہوا ہوتا ہے اور صدق اور محبت اور وفا کی نہریں بڑے زور سے چلتی ہوئی اپنے اندر مشاہدہ کرے اور لمحہ بہ لحد ایسا احساس کرتا ہو کہ گویا خدا تعالیٰ اُس کے قلب پر اُترا ہوا ہے.جب یہ حالت اپنی تمام علامتوں کے ساتھ محسوس ہو تب خوشی کرو اور محبوب حقیقی کا شکر بجالاؤ کہ یہی وہ انتہائی مقام ہے جس کا نام لقار کھا گیا ہے.اس آخری مقام میں انسان ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا بہت سے پاک پانیوں سے اُس کو دھو کر اور نفسانیت کا بکی رگ وریشہ اس سے الگ کر کے نئے سرے اُس کو پیدا کیا گیا اور پھر رب العالمین کا تخت اس کے اندر بچھایا گیا اور خدائے پاک و قدوس کا چمکتا ہوا چہرہ اپنے تمام دلکش حسن و جمال کے ساتھ ہمیشہ کے کا ؟ لئے اُس کے سامنے موجود ہو گیا ہے مگر ساتھ اس کے یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ یہ دونوں آخری درجہ بقا اور لقا کے کیسی نہیں ہیں بلکہ وہی ہیں اور کسب اور جدوجہد کی حد صرف فنا کے درجہ تک ہے اور اسی حد تک تمام راست باز سالکوں کا سیر و سلوک ختم ہوتا ہے اور دائرہ کمالات انسانیہ کا اپنے استدارت تامہ کو پہنچتا ہے اور جب اس درجہ فنا کو پاک باطن لوگ جیسا کہ چاہئے طے کر چکتے ہیں تو عادتِ الہیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ بیک دفعہ عنایت الہی کی نیم چل کر بقا اور لقا کے درجہ تک انہیں پہنچادیتی ہے.اب اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس سفر کی تمام صعوبتیں اور مشقتیں فنا کی حد تک ہی ہیں اور پھر اس سے آگے گذر کر انسان کی سعی اور کوشش اور مشقت اور محنت کو دخل نہیں بلکہ وہ محبت صافیہ جو فنا کی حالت میں خداوند کریم و جلیل سے پیدا ہوتی ہے الہی محبت کا خود بخود اُس پر ایک نمایاں شعلہ پڑتا ہے جس کو مرتبہ بقا اور لقا
۲۴۰ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعبیر کرتے ہیں اور جب محبت الہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سایہ انسان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے اور اُن کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اُس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی ان سے جدا ہوتی ہے.وہ روشنی ہر دم اُن کے تنفس کے ساتھ نکلتی ہے اور اُن کی نظر کے ساتھ ہر ایک چیز پر پڑتی ہے.اور اُن کی کلام کے ساتھ اپنی نورانیت لوگوں کو دکھلاتی ہے اس روشنی کا نام روح القدس ہے مگر یہ حقیقی روح القدس نہیں حقیقی روح القدس وہ ہے جو آسمان پر ہے یہ روح القدس اُس کا ظل ہے جو پاک سینوں اور دلوں اور دماغوں میں ہمیشہ کے لئے آباد ہو جاتا ہے اور ایک طرفتہ العین کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا اور جو شخص تجویز کرتا ہے کہ یہ روح القدس کسی وقت اپنی تمام تاثیرات کے ساتھ ان سے جدا ہو جاتا ہے وہ شخص سراسر باطل پر ہے اور اپنے پر ظلمت خیال سے خدا تعالیٰ کے مقدس برگزیدوں کی توہین کرتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ حقیقی روح القدس تو اپنے مقام پر ہی رہتا ہے لیکن روح القدس کا سایہ جس کا نام مجاز اروح القدس ہی رکھا جاتا ہے اُن سینوں اور دلوں اور دماغوں اور تمام اعضاء میں داخل ہوتا ہے جو مرتبہ بقا اور لقا کا پاکر اس لائق ٹھہر جاتے ہیں کہ اُن کی نہایت اصفی اور اعلی محبت پر خدا تعالیٰ کی کامل محبت اپنی برکات کے ساتھ نازل ہو.اور جب وہ روح القدس نازل ہوتا ہے تو اس انسان کے وجود سے ایسا تعلق پکڑ جاتا ہے کہ جیسے جان کا تعلق جسم سے ہوتا ہے وہ قوت بینائی بن کر آنکھوں میں کام دیتا ہے اور قوت شنوائی کا جامہ پہن کر کانوں کو روحانی حش بخشتا ہے وہ زبان کی گویائی اور دل کے تقویٰ اور دماغ کی ہشیاری بن جاتا ہے اور ہاتھوں میں بھی سرایت کرتا ہے اور پیروں میں بھی اپنا اثر پہنچاتا ہے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۷ تا ۷۳) نجات یافتہ وہ شخص ہے جو اپنے وجود کو خدا کے لئے اور خدا کی راہ میں قربانی کی طرح رکھ دے اور نہ صرف نیت سے بلکہ نیک کاموں سے اپنے صدق کو دکھلاوے.جو شخص ایسا کرے اس کا بدلہ خدا کے نزدیک مقرر ہو چکا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ ہمگین ہوں گے.(اسلامی اصول کی فلسفی، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۵۲۵) ۱۰ ہماری استقامت یہ ہے کہ جیسا وہ فرماتا ہے کہ : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ یعنی یہ کہ قربانی کی طرح میرے آگے گردن رکھ دو.ایسا ہی ہم اس وقت درجہء استقامت حاصل کریں گے کہ جب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة البقرة ہمارے وجود کے تمام پرزے اور ہمارے نفس کی تمام قوتیں اس کام میں لگ جائیں اور ہماری موت اور ہماری زندگی اسی کے لئے ہو جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۳، ۳۸۴) انسان کا اپنی ذات کو اپنے تمام قومی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دینا اور پھر اپنی معرفت کو احسان کی حد تک پہنچا دینا یعنی ایسا پردہ غفلت درمیان سے اٹھانا کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے یہی اسلام ہے پس ایک شخص کو مسلمان اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ تمام قو تیں اس کی خدا تعالیٰ کے راہ میں لگ جائیں اور اس کے زیر حکم واجب طور پر اپنے اپنے محل پر مستعمل ہوں اور کوئی قوت بھی اپنی خودروی سے نہ چلے.یہ تو ظاہر ہے کہ نئی زندگی کامل تبدیلی سے ملتی ہے اور کامل تبدیلی ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان کی تمام قوتیں جو اس کی انسانیت کا نچوڑ اور آپ کباب ہیں اطاعت الہی کے نیچے نہ آجائیں اور جب تمام قوتیں اطاعت الہی کے نیچے آ گئیں اور اپنے نیچرل خواص کے ساتھ خط استقامت پر چلنے لگیں تو ایسے شخص کا نام مسلمان ہوگا.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۷۱، ۲۷۲) وجہ کے اصل معنی لغت کی رو سے منہ کے ہیں چونکہ انسان منہ سے شناخت کیا جاتا ہے اور کروڑہا انسانوں میں مابہ الامتیاز منہ سے قائم ہوتا ہے.اس لئے اس آیت میں منہ سے مراد استعارہ کے طور پر انسان کی ذات اور اس کی قوتیں ہیں جن کی رو سے وہ دوسرے جانوروں سے امتیاز رکھتا ہے گویا وہ قو تیں اس کی انسانیت کا منہ ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۷۱ حاشیه ) جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو.سو وہ سر چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قومی کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے.اور حقیقی نیکی کے بجالانے میں سرگرم رہے سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور خون سے نجات بخشے گا.یادر ہے کہ یہی اسلام کا لفظ کہ اس جگہ بیان ہوا ہے دوسرے لفظوں میں قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سبھی جاتی ہے.اور انسان کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة البقرة وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قومی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۵،۳۴۴) عَلى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنُ.یعنی اسلام کے دو ٹکڑے ہیں ؛ ایک یہ کہ خدا کی رضا میں ایسا محو ہو جانا کہ اپنی رضا چھوڑ کر اُس کی رضا جوئی کیلئے اُس کے آستانہ پر سر رکھ دینا اور دوسرے عام طور پر تمام بنی نوع سے نیکی کرنا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹) مسلمان وہی ہے جو اسلم وَجْهَهُ لِلهِ کا مصداق ہو گیا ہو.وجہ مونہہ کو کہتے ہیں.مگر اُس کا اطلاق ء ذات اور وجود پر بھی ہوتا ہے.پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دی ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۷۹ ۸۰) سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.چنانچہ خود اللہ تعالیٰ اس لیلی وقف کی طرف ایما کر کے فرماتا ہے : مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اس جگہ اسلم وَجْهَهُ لِلہ کے معنے یہیں ہیں کہ ایک نیستی اور تذلیل کا لباس پہن کر آستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان مال آبرو غرض جو کچھ اس کے پاس ہے خدا ہی کے لئے وقف کرے.اور دنیا اور اُس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کچھ غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے.میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے، یہ بزدلوں کا کام ہے.مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کے نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا ( اور ) اس کا مال وجاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادراہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورة البقرة انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے.میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی ہے اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو اُن کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں.یاد رکھو یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاد اور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لئے اُس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے؟ ہرگز نہیں فلة أجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - اس الہی وقف کا اجر اُن کا رب دینے والا ہے.یہ وقف ہر قسم کے ہموم و عموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے....میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے.پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالی نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دُکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رُک نہیں سکتا.(الحکم جلد ۴ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۰ صفحه ۴،۳) اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصرفات کے نیچے آجانے کا نام ہے اور اس کا خلاصہ خدا کی سچی اور کامل اطاعت ہے.مسلمان وہ ہے جو اپنا سارا وجود خدا تعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے بدوں کسی امید پاداش کے مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ.اسلام کی فتح حقیقی اس میں ہے کہ جیسے اسلام کے لفظ کا مفہوم ہے.اُسی طرح ہم اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کے حوالہ کر دیں اور اپنے نفس اور اس کے جذبات سے بکلی خالی ہوجائیں.اور کوئی بت ہوا اور ارادہ اور مخلوق پرستی کا ہماری راہ میں نہ رہے.اور بکلی مرضیات الہیہ میں محو ہو جائیں.اور بعد اس فنا کے وہ بقا ہم کو حاصل ہو جائے جو ہماری بصیرت کو ایک دوسرا رنگ بخشے.اور ہماری معرفت کو ایک نئی نورائیت عطا کرے اور ہماری محبت میں ایک جدید جوش پیدا کرے اور ہم ایک نئے آدمی ہو جائیں.اور ہمارا وہ قدیم خدا بھی الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة البقرة ہمارے لئے ایک نیا خدا ہو جائے.یہی فتح حقیقی ہے جس کے کئی شعبوں میں سے ایک شعبہ مکالمات الہیہ بھی ہیں.مجموعہ اشتہارات جلد اول ۱۵۷ صفحه جدید ایڈیشن) مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جاوے.گویا اس کے قومی خدا تعالیٰ کے لئے مرجاتے ہیں گویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہو جاتا ہے.جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلایا کہ ارادہ الہی کی بجا آوری میں اپنے نفس کو ذرا بھی دخل نہ دیا اور ایک ذرا سے اشارہ سے بیٹے کو ذبح کرنا شروع کر دیا.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۳۴) لا اله الا اللہ ایک قول ہے اس کا عملی ثبوت بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فعل ہے نا قول (ایمان کا دعویٰ) کسی کام کا نہیں اور نہ ہی وہ کچھ مفید ہو سکتا ہے.خشک ایمان ایک بے بال و پر مرغ کی مثال ہے.جو ایک مضغہ گوشت ہے جو نہ چل پھر سکتا ہے نہ اُڑنے کی اس میں طاقت ہے.بلکہ اسلام اس کو کہتے ہیں کہ انسان با وجود ہیبت ناک نظارے دیکھنے اور اس امر کا یقین ہونے کے کہ اس مقام پر کھڑا ہونا ہی گویا جان کو خطرہ میں ڈالنا ہے پھر بھی خدا کی راہ میں سر ڈال دے اور خدا کی راہ میں اپنے کسی نقصان کی پرواہ نہ کرے جنگ کے موقع پر سپاہی جانتا ہے کہ میں موت کے منہ میں جارہا ہوں اور اُسے یہ نسبت زندہ پھر نے کے مرنا یقینی نظر آتا ہے مگر بایں ہمہ وہ اپنے افسر کی فرماں برداری اور وفاداری کر کے آگے ہی بڑھتا ہے.اور کسی خطرے کی پرواہ نہیں کرتا اس کا نام اسلام ہے.غرض ایک فقرہ (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ) میں تو اللہ تعالیٰ نے تو حید سکھائی ہے اور دوسرے (مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ) میں یہ سکھایا کہ اس توحید پر سچے اور زندہ ایمان کا ثبوت اپنے اس فعل سے دو اور خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.ق الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴ / جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۸) یہ دونوں سلسلے کہ کبھی انسان تکالیف شرعیہ کی پابندی کر کے اپنے ہاتھوں اور کبھی قضا و قدر کے آگے گردن جھکاتا ہے اس واسطے ہیں کہ انسان کی تکمیل ہو جاوے.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلہ یعنی اسلام کیا ہے؟ یہی کہ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے واسطے گردن ڈال دینا ابتلاؤں کا ہیبت ناک نظارہ لڑائی میں ننگی تلواروں کی چمک اور کھٹا کھٹ کی طرح آنکھوں کے سامنے موجود ہے جان جانے کا اندیشہ ہے.مگر کسی بات کی پرواہ نہ کر کے خدا کے واسطے یہ سب کچھ اپنے نفس پر وارد کر لینا یہ ہے اسلام کی تعلیم کی....کپ کباب.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة البقرة وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْبُهُ وَسَعى فِي خَرَابِهَا أولبِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَابِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌّ وَ لَهُمُ في الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.۱۱۵ اور اس سے اور کون ظالم تر ہے کہ جو خدا کی مسجدوں کو اس بات سے رو کے کہ ان میں ذکر الہی کیا جائے اور مسجدوں کے خراب اور منہدم کرنے میں کوشش کرے.یہ عیسائیوں کی بد چلنی اور مفسدانہ حرکت کا حال جتلایا ہے جنہوں نے بیت المقدس کا کچھ پاس نہ کیا اور اسے متکبرانہ جوش میں آ کر منہدم کیا اور بعد اس آیت کے فرمایا کہ جن عیسائیوں نے ایسی شوخی کی ان کو دنیا میں رسوائی در پیش ہے اور آخرت میں عذاب عظیم.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۱) وَلِلهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجَهُ اللهِ إِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ جس طرف تم منہ کرواسی طرف خدا کا منہ پاؤ گے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۴) أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ الله فرماتا ہے کہ جدھر منہ پھیر واُدھر ہی خدا ہے.شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۸) فرمایا - أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَتَم وَجْهُ الله جدھر منہ پھیر وادھر ہی خدا کا منہ ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰) وَ لَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصْرِى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الهُدى وَلَبِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ وَلي وَلَا نَصِيرٍ ) ۱۲۱ قُلْ اِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی - کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے.برا این احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلدا صفحه ۶۱۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) مداہنہ کی انتہا یہی ہوا کرتی ہے کہ آخر اسی قوم کا انسان کو بنا پڑتا ہے.قرآن شریف میں اسی لئے ہے لَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصْرَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِنْتَهُمُ دوسرے کو راضی کرنے کے لئے انسان کو اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۶ کے مذہب کو بھی اچھا کہنا پڑتا ہے اسی لئے مداہنہ سے مومن کو پر ہیز کرنا چاہئے.سورة البقرة الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ رفروری ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى وَعَهِدُنَا إِلَى إِبْرَاهِم وَ إِسْمَعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَ الْعَكِفِينَ وَ (۱۲۶) الركع السجود وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْراهِم مُصلِّی.اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.اس جگہ مقام ابراہیم سے اطلاق مرضیہ و معامله باللہ مراد ہے یعنی محبت الہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجالا ؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.اربعین نمبر ۳، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۲۱،۴۲۰) آیت وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہوگا.اربعین نمبر ۳، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۲۱) اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی میری موت میری قربانیاں میری نماز میں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے اسلمت لرب العلمین جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة البقرة کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور فرض سمجھتا ہوں پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۴) وَ وَطى بِهَا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ - يُبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ ) دیکھود نیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مرنے والے ہیں.قبریں منہ کھولے ہوئے آواز میں ماررہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نوبت پر جا داخل ہوتا ہے عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اُٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی بات ہے کہ وہ یقینی ہے ٹلنے والی نہیں تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار رہے اسی لئے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے: لا تموت إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق ( عباد) بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق عباد اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے یا بیٹا مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اُس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے.اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے.بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دُعانہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْتَلُونَ عَمَّا كَانُوا يعملون (۱۳۵ یعنی اس وقت سے جتنے پیغمبر پہلے ہوئے ہیں یہ ایک گروہ تھا جو فوت ہو گیا.اُن کے اعمال اُن کے لئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۴۸ سورة البقرة اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور اُن کے کاموں سے تم نہیں پوچھے جاؤ گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۸) وَقَالُوا كُونُوا هُودًا اَوْ نَصْرِى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.ہبل نوحہ کو کہتے ہیں خدا نے شیث کو یہ بروز دیا.پھر یہ سلسلہ برابر چلتا گیا.یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بروز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اس لئے قُلْ بَلْ مِلَّةَ ابْراهِمَ حَنِيفًا فرمایا.اس میں یہی سر ہے.ابراہیم دواڑھائی ہزار سال کے بعد عبداللہ کے گھر میں ظاہر ہوا.غرض بروز کا مذہب ایک متفق علیہ مسئلہ ظہورات کا ہے.قُولُوا آمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ مَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِم وَ اسْعِيلَ وَإِسْحَقَ وَ ( ملفوظات جلد ۱ صفحه ۲۹۵،۲۹۴) يَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا أَمَنْتُمْ بِه ملے ج فَقَدِ اهْتَدَوا ۚ وَ إِنْ تَوَلَّوا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ یعنی اے مسلمانو! تم اس طرح پر ایمان لاؤ اور یہ کہو کہ ہم اس خدا پر ایمان لائے جس کا نام اللہ ہے یعنی جیسا کہ قرآن شریف میں اُس کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ جامع تمام صفات کا ملہ کا ہے اور تمام عیبوں سے پاک ہے اور ہم خدا کے اُس کلام پر ایمان لائے جو ہم پر نازل ہوا یعنی قرآن شریف پر اور ہم خدا کے اس کلام پر بھی ایمان لائے جو ابراہیم نبی پر نازل ہوا تھا اور ہم خدا کے اس کلام پر ایمان لائے جو اسمعیل نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ایمان لائے جو اسحاق نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ایمان لائے جو یعقوب نبی پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ایمان لائے جو یعقوب نبی کی اولاد پر نازل ہوا تھا اور اُس کلام خدا پر ہم ایمان لائے جو موسیٰ نبی کو دیا گیا تھا اور اُس کلام خدا پر ہم ایمان لائے جو عیسی نبی کو دیا گیا تھا اور ہم اُن تمام کتابوں پر ایمان لائے جو دنیا کے کل نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھیں یعنی اس کی طرف سے جس نے کھلے کھلے طور پر اُن کی ربوبیت کی اور دنیا پر ثابت کیا کہ وہ اُن کا ناصر اور حامی اور مرتی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة البقرة خواہ وہ کسی قوم یا کسی ملک میں پیدا ہوئے تھے.ہم خدا کے نبیوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے جو بعض کو قبول کریں اور بعض کو ر ڈ کریں بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں جو خدا کی طرف سے دُنیا میں آئے اور ہم اس طرح پر جو خدا نے سکھایا ہے اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور خدا کے آگے اپنی گردن ڈالتے ہیں پس اگر دوسرے لوگ بھی جو اسلام کے مخالف ہیں اسی طرح ایمان لاویں اور کسی نبی کو جو خدا کی طرف سے آیا ر ڈ نہ کریں تو بلاشبہ وہ بھی ہدایت پاچکے اور اگر وہ رُوگردانی کریں اور بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کو رڈ کر دیں تو انہوں نے سچائی کی مخالفت کی اور خدا کی راہ میں پھوٹ ڈالنی چاہی پس تو یقین رکھ کہ وہ غالب نہیں ہو سکتے اور اُن کو سزا دینے کے لئے خدا کافی ہے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا سن رہا ہے اور اُن کی باتیں خدا کے علم سے باہر نہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۶، ۳۷۷) اگر وہ ایسا ( ایمان ) لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ج دو ایسی قوم ہے کہ جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں.( پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۷۵) فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اور ان کی شرارتوں کے دفع کرنے کے لئے خدا تجھے کافی ہے اور (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۴) وہ سمیع اور علیم ہے.خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں.تمہارا مددگار ہوگا.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۳۷) صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ وَنَحْنُ لَهُ عَبدُونَ.یہ طریق اصطباغ خدا نے تمہیں سکھایا ہے اور یہ خدا کا بپتسمہ ہے اور خدا کے بپتسمہ سے کونسا بپتسمہ بہتر ہوسکتا ہے اور تم اس بات کا اقرار کرو کہ ہم اُسی خدا کے پرستار ہیں اور اُسی کی پرستش کرتے ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۷) یوحنا نبی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالیت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے بطور پیشگوئی گواہی دی جو انجیل متی باب سوم میں اس طرح پر درج ہے: (۱۱) میں تو تمہیں تو بہ کے لئے پانی سے بپتسمادیتا ہوں لیکن وہ جو میرے بعد آ تا ہے مجھ سے قوی تر ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں وہ تمہیں روح قدس اور آگ سے بپتسما دے گا.اس پیشگوئی پر محض نادانی کی راہ سے عیسائی لوگ خصومت کرتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں ہے مگر یہ دعولی سراسر باطل و بے بنیاد ہے اوّل تو حضرت مسیح حضرت یوحنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۰ سورة البقرة کے ہم عصر تھے نہ کہ بعد میں آنے والے یا بعد میں ابنیت کا منصب پانے والے.ماسوا اس کے ہر یک شخص آزما سکتا ہے کہ دائمی طور پر سچے طالبوں کو روح قدس اور آتشِ محبت سے بپتسما دینے والا آسمان کے نیچے صرف ایک ہی ہے یعنی جناب سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس کے جلال نام کا حضرت مسیح اپنی پیش گوئیوں میں آپ اقرار کرتے ہیں اور اسی روح کے بپتسما کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اشارہ بھی فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے و اید هُم بِرُوحِ مِنْهُ (المجادلة: ٢٣) یعنی خدائے تعالی مومنوں کو روح قدس سے تائید کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے : صِبْغَةَ اللهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً یعنی یہ خدا کا بپتسما ہے اور کون سا پتسما اس سے بڑھ کر خوبصورت ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۴، ۲۸۵ حاشیه ) b سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ - يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَ كَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَ إِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللهُ وَ مَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيم اس مبارک اُمت کے لئے قرآن شریف میں وسط کی ہدایت ہے.توریت میں خدائے تعالیٰ نے انتظامی امور پر زور دیا تھا اور انجیل میں عفو اور در گذر پر زور دیا تھا اور اس اُمت کو موقع شناسی اور وسط کی تعلیم لی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا.یعنی ہم نے تم کو وسط پر عمل کرنے والے بنایا اور وسط کی تعلیم تمہیں دی.سو مبارک وہ جو وسط پر چلتے ہیں.خَيْرُ الْأُمُورِ أَوْسَطهَا.(۱۴۴) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۷) قرآن شریف کی تعلیم جس پہلو اور جس باب میں دیکھو اپنے اندر حکیمانہ پہلو رکھتی ہے.افراط یا تفریط اس میں نہیں ہے بلکہ وہ نقطہ وسط پر قائم ہوئی ہے اور اسی لئے اس اُمت کا نام بھی اُمَّةً وَسَطًا رکھا گیا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰/اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱) حفظ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتا ہے تمام احکام میں اس کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة البقرة یہی صورت ہے مال کی طرف دیکھو نہ ممسک بناتا ہے نہ مسرف یہی وجہ ہے کہ اس امت کا نام ہی اُمَّةً وَسَطًا الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵) رکھ دیا گیا.خدا نے اُمت وسط کہا تھا.وسط سے مُراد: میانہ رو.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۷۴) خدا نے اسلام کو دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ بنایا ہے اس میں ایسی وسطی راہ اختیار کی گئی ہے جو افراط و تفریط سے بالکل خالی ہے وَكَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۳) قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجُهِكَ فِي السَّمَاءِ ، فَلَنُوَلِيَنَّكَ قِبْلَةً تَرضُهَا فَوَلِ وَجْهَكَ b شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً وَ إِنَّ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ مَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا اوروور (۱۴۵ يعملون ® آپ ( مولوی محمد بشیر بھو پالوی) نے جو نونِ ثقیلہ کا قاعدہ پیش کیا ہے وہ سراسر مخدوش اور باطل ہے.حضرت ہر ایک جگہ اور ہر ایک مقام میں نون ثقیلہ کے ملانے سے مضارع استقبال نہیں بن سکتا.قرآن کریم کے لئے قرآن کریم کی نظیریں کافی ہیں اگر چہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم کے مضارعات پر جب نونِ ثقیلہ ملا ہے تو وہ استقبال کے معنوں پر مستعمل ہوئے ہیں.لیکن بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یا حال اور استقبال بلکہ ماضی بھی اشترا کی طور پر ایک سلسلہ متصلہ معدہ کی طرح مراد لئے گئے ہیں.یعنی ایسا سلسلہ جو حال یا ماضی سے شروع ہوا اور استقبال کی انتہا تک بلا انقطاع برابر چلا گیا.ص پہلی آیات کی نظیر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: فَلَنُوَلِيَنَّكَ قِبْلَةٌ تَرْضُهَا قَولِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال ہی مُراد ہے کیونکہ بمجرد نزول آیت کے بغیر توقف اور تراخی کے خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم ہو گیا یہاں تک کہ نماز میں ہی منہ پھیر دیا گیا.اگر یہ حال نہیں تو پھر حال کس کو کہتے ہیں.استقبال تو اس صورت میں ہوتا کہ خبر اور ظہور خبر میں کچھ فاصلہ بھی ہوتا سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم تجھ کو اس قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں جس پر تو راضی ہے سوتو مسجد حرام کی طرف منہ کر.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۲، ۱۶۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة البقرة b الَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُمْ ۖ وَ إِنَّ فَرِيقًا مِنْهُم لَيَكتُمُونَ الْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ® ۱۴۷ اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیوں کر ایک صریح امر خلاف واقعہ پا کر خاموش رہتے بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہو چکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمّی اور نا خواندہ کا کام نہیں اور نہ دس ہیں آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے اَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَخَرُونَ (الفرقان :۵) کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کر چکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور اُن پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا يَعرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں کہ جیسا اپنے بیٹوں کو شناخت کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ دروازہ یقین اور معرفت کا کچھ ان کے لئے ہی نہیں کھلا بلکہ اس زمانہ میں بھی سب کے لئے کھلا ہے کیونکہ قرآن شریف کی حقانیت معلوم کرنے کے لئے اب بھی وہی معجزات قرآنیہ اور وہی تاثیرات فرقانیہ اور وہی تائیدات غیبی اور وہی آیات لا ریہی موجود ہیں جو اس زمانہ میں موجود تھی خدا نے اس دین قویم کو قائم رکھنا تھا اس لئے اس کی سب برکات اور سب آیات قائم رکھیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کے ادیان محترفہ اور باطلہ اور نا قصہ کا استیصال منظور تھا اس جہت سے ان کے ہاتھ صرف قصے ہی قصے رہ گئے اور برکت حقانیت اور تائیدات سماویہ کا نام ونشان نہ رہا.ان کی کتابیں ایسے نشان بتلا رہی ہیں جن کے ثبوت کا ایک ذرا نشان اُن کے ہاتھ میں نہیں صرف گزشتہ قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر قرآن شریف ایسے نشان پیش کرتا ہے جن کو ہر ایک شخص دیکھ سکتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۸۸ تا ۵۹۲) حضرت موسیٰ کی نسبت اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَجَحَدُوا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمُ (العمل : ۱۵) یعنی انہوں نے موسیٰ کے نشانوں کا انکار کیا.لیکن ان کے دل یقین کر گئے اور ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاء هُمْ یعنی کافر لوگ جو اہل کتاب ہیں ایسے یقینی طور پر اس کو شناخت کرتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۶)
۲۵۳ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب ملہم اور اہل کشف تھے اور نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے امام الزمان کو جو خاتم الانبیاء تھے قبول نہ کیا تو خدا کے غضب کے صاعقہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کے تعلقات خدا تعالی سے بکھی ٹوٹ گئے اور جو کچھ ان کے بارے میں قرآن شریف میں لکھا گیا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یہ وہی ہیں جن کے حق میں قرآن شریف میں فرمایا گیا: وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ (البقرة : ٩٠) اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالی سے نصرت دین کے لئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا تھا اگر چہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خدا تعالیٰ کی نظر سے گر گئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ مخلوق پرستی کے مر گیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہو گئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہوگا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ملک عرب میں آ رہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ.یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو.مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہو گیا.تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہیوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہو گئے.مگر بعض سعادت مند مسلمان ہو گئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا.( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۶،۴۷۵) حدیث نبوى يَعْرِفُهُمْ غَير مٹی کے معنے جو اس عاجز کے دل میں ڈالے گئے ہیں یہ ہیں کہ غیر کے لفظ سے نفی ماسوا اللہ مراد نہیں بلکہ نفی نا اہل و نا آشنا مراد ہے.مگر جو لوگ مومن حقیقی ہیں وہ بباعث استعداد فنا اور زوال حجب کے کبریائی و امن کے اندر داخل ہیں اور غیر نہیں ہیں.خود خدا تعالیٰ نے بعض صالح اہل کتاب کے حق میں اپنی کتاب مجید میں فرمایا ہے: يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُمْ یعنی وہ لوگ پیغمبر آخرالزمان کو جو امام الانبیاء اور سید الاولیاء ہے.اس طرح پر شناخت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو شناخت کر رہے ہیں.اور اسی طرح روحانی روشنی کی برکت سے اولیاء اولیاء کو شناخت کر لیتے ہیں.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اولیس کے وجود کو یمن میں شناخت کر لیا.اور بار ہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یمن کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۴ سورة البقرة طرف سے رحمان کی خوشبو آ رہی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہر ایک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا.ہاں جو لوگ بیگا نہ ہیں وہ لگا نہ حضرت احدیت کو شناخت نہیں کر سکتے.جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف: ١٩٩) یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں پر تو انہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکا را بیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے.جیسے ایک عیسائی نے جبکہ مباہلہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معه حسنین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم عیسائیوں کے سامنے آئے ، دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو، مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا.سوخدا جانے کہ اس وقت نور نبوت و ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کافر ، بد باطن، سیہ دل کو بھی نظر آ گیا.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۶۲، ۵۶۳ جدید ایڈیشن) اَلْحَقِّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ اس آیت کا سیاق سباق یعنی اگلی پچھلی آیتوں کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ نبوت اور قرآن شریف کا کوئی ذکر نہیں.صرف اس بات کا بیان ہے کہ اب بیت المقدس کی طرف نہیں بلکہ بیت کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنی چاہئے.سو اللہ جل شانہ اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ ہی حق بات ہے یعنی خانہ کعبہ کی طرف ہی نماز پڑھنا حق ہے جو ابتداء سے مقرر ہو چکا ہے اور پہلی کتابوں میں بطور پیشگوئی اس کا بیان بھی ہے سوٹو (اے پڑھنے والے اس کتاب کے ) اس بارے میں شک کرنے والوں سے مت ہو.پھر اس آیت کے آگے بھی اسی مضمون کے متعلق آیتیں ہیں چنانچہ فرماتا ہے : وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن ذَيْكَ (البقرة :۱۵۰) یعنی ہر ایک طرف سے جو تو نکلے تو خانہ کعبہ کی ہی طرف نماز پڑھ یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام آیات خانہ کعبہ کے بارے میں ہیں نہ کسی اور تذکرہ کے متعلق اور چونکہ یہ حکم جو خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے صادر ہوا ایک عام حکم ہے جس میں سب مسلمان داخل ہیں لہذا بوجہ عموم منشاء حکم بعض وسوسے والی طبیعیتوں کا وسوسہ ڈور کرنے کے لئے ان آیات میں اُن کو تسلی دی گئی کہ اس بات سے متردد نہ ہوں کہ پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے پڑھتے اب اُس طرف سے ہٹ کر خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا کیوں شروع کر دیا سوفرمایا کہ یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة البقرة کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی مقرر شدہ بات ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے پہلے نبیوں کے ذریعہ سے پہلے ہی سے بتلا رکھا تھا اس میں شک مت کرو.دوسری آیت جو معترض نے بتائید دعویٰ خود تحریر کی ہے.وہ سورہ انعام کی ایک آیت ہے جو معہ اپنی آیات متعلقہ کے اس طرح پر ہے: افغيْرَ اللهِ ابْتَغِى حَكَما وَ هُوَ الَّذِى أنزل إليكم الكتب مُفَضَلا و الَّذِيْنَ أتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزِّلُ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (الأنعام : ۱۱۵) یعنی کیا بجز خدا کے میں کوئی اور حکم طلب کروں اور وہ وہی ہے جس نے مفصل کتاب تم پر اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب یعنی قرآن دیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو ہم نے علم قرآن سمجھایا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ منجانب اللہ ہے، سوائے پڑھنے والے ! تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب ان آیات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اس آیت کے جو فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ہے ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان اور علم سے کم حصہ رکھتے ہیں بلکہ اوپر کی آیتوں سے بھی کھلتا ہے کہ اس جگہ یہ حکم فلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُسْتَرِینَ کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شروع کی آیت میں جس سے یہ آیت تعلق رکھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی قول ہے یعنی یہ کہ افغیر اللهِ ابْتَغِي حَكَما سو ان تمام آیات کا با محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ میں بجز خدائے تعالیٰ کے کوئی اور حکم جو مجھ میں اور تم میں فیصلہ کرے مقرر نہیں کر سکتا وہ وہی ہے جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی سوجن کو اس کتاب کا علم دیا گیا ہے وہ اس کا منجانب اللہ ہونا خوب جانتے ہیں سوتو (اے پیغبر آدمی ) شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب تحقیق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شک نہیں کرتے بلکہ شک کرنے والوں کو بحوالہ شواہد و دلائل منع فرماتے ہیں پس با وجود ایسے کھلے کھلے بیان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شک فی الرسالت کو منسوب کرنا بیخبری و بے علمی یا محض تعصب نہیں تو کیا ہے.پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نو مسلم یا متر و منع کئے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو اُن کو یوں کہنا چاہئے تھا کہ تم شک مت کرو، نہ یہ کہ تو شک مت کر! کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اول سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة البقرة آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر ان آیات کو دیکھو.لَا تَجْعَلُ مَعَ اللَّهِ إِلَهَا أَخَرَ فَتَقْعُد 19911 مَنْ مُومًا مَخْذُولًا وَ قَضَى رَبُّكَ اَلَا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ احدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أفْ وَلَا تَنْهَرُهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِ مِنَ الرّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيران (بنی اسرائیل : ۲۳ تا ۲۵) یعنی خدائے تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدامت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا.اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اس کی بندگی کرو اس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونوں یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تو اُن کو اُف نہ کہہ اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے اور تذلیل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دعا کر کہ اے میرے رب ! تو ان پر رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی.اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت امت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بڑ و احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغیرسنی کے زمانے میں بلکہ جناب مدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہو چکے تھے سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جابجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے یہی محاورہ توریت کے احکام میں بھی پایا جاتا ہے کہ واحد مخاطب کے لفظ سے کم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے جیسا کہ خروج باب ۳۳ و ۳۴ میں بظاہر حضرت موسیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے.(۱۱) آج کے دن میں جو حکم تجھے کرتا ہوں تو اُسے یادرکھیو.(۱۲) ہوشیار رہ تا نہ ہووے کہ اُس زمین کے باشندوں کے ساتھ جس میں تو جاتا ہے کچھ عہد باندھے (۱۷) تو اپنے لئے ڈھائے ہوئے معبودوں کو مت بنائیو.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة البقرة اب ان آیات کا سیاق سباق دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ اگر چہ ان آیات میں حضرت موسی مخاطب کئے گئے تھے مگر دراصل حضرت موسیٰ کو ان احکام کا نشانہ نہیں بنایا گیا حضرت موسی نہ کنعان میں گئے اور نہ بت پرستی جیسا بُرا کام حضرت موسی جیسے مرد خدا بت شکن سے ہو سکتا تھا جس سے ان کو منع کیا جاتا کیونکہ موسی وہ مقترب اللہ ہے جس کی شان میں اسی باب میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میری نظر میں منظور ہے اور میں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں دیکھو خروج باب ۳۳ آیت (۱۷).سویا درکھنا چاہئے کہ یہی طرز قرآن شریف کی ہے توریت اور قرآن شریف میں اکثر احکام اسی شکل سے واقعہ ہیں کہ گویا مخاطب اُن کے حضرت موسیٰ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر دراصل وہ خطاب قوم اور اُمت کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے لیکن جس کو ان کتابوں کی طرز تحریر معلوم نہیں وہ اپنی بیخبری سے یہی خیال کر لیتا ہے کہ گویا وہ خطاب وعتاب نبی منززل علیہ کو ہورہا ہے مگر غور اور قرائن پر نظر ڈالنے سے اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ سر اس غلطی ہے.کہ سراسر پھر یہ اعتراض اُن آیات پر نظر ڈالنے سے بھی بکلی مستاصل ہوتا ہے جن میں اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین کامل کی تعریف کی ہے جیسا کہ وہ ایک ( جگہ ) فرماتا ہے: قُلْ اِنِّی عَلیٰ بَيْنَةٍ من ربي (الانعام : ۵۸) یعنی کہ کہ مجھے اپنی رسالت پر کھلی کھلی دلیل اپنے رب کی طرف سے ملی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے : قُلْ هَذِهِ سَبِيلَ ادْعُوا إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرة - (يوسف : ۱۰۹) یعنی کہہ کہ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کاملہ کے ساتھ بلاتا ہوں اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے : وَ انْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَعَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : ۱۱۳) یعنی خدا نے تجھ پر کتاب اُتاری اور حکمت یعنی دلائل حقیت کتاب و حقیت رسالت تجھ پر ظاہر کئے اور تجھے وہ علوم سکھائے جنہیں تو خود بخود جان نہیں سکتا تھا اور تجھ پر اس کا ایک عظیم فضل ہے پھر سورہ نجم میں فرماتا ہے: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ ما راى.....مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ أَيْتِ رَبِّهِ الكبرى ( النجم : ۱۸۰۱۲ ،۱۹) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے جو اپنی صداقت کے آسمانی نشان دیکھے تو اس کی کچھ تکذیب نہ کی یعنی شک نہیں کیا اور آنکھ چپ و راست کی طرف نہیں پھیری اور نہ حد سے آگے بڑھی یعنی حق پر ٹھہر گئی اور اُس نے اپنے خدا کے وہ نشان دیکھے جو نہایت بزرگ تھے.اب اے ناظرین! ذرا انصافاً دیکھو، اے حق پسند و! ذرا منصفانہ نگہ سے غور کرو کہ خدائے تعالیٰ کیسے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سورة البقرة صاف صاف طور پر بشارت دیتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیرت کا ملہ کے ساتھ اپنی نبوت پر یقین تھا اور عظیم الشان نشان ان کو دکھلائے گئے تھے.اب خلاصہ جواب یہ ہے کہ تمام قرآن شریف میں ایک نقطہ یا ایک شعشہ اس بات پر دلالت کرنے والا نہیں پاؤ گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت یا قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت کچھ شک تھا بلکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جس قدر یقین کامل و بصیرت کامل و معرفت اکمل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات بابرکات کی نسبت دعوی کیا ہے اور پھر اُس کا ثبوت دیا ہے ایسا کامل ثبوت کسی دوسری موجودہ کتاب میں ہرگز نہیں پایا جاتا.فَهَلْ مَنْ يَسْمَعُ فَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَكُونُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْمُخْلِصِينَ.واضح رہے کہ انجیلوں میں حضرت مسیح کے بعض اقوال ایسے بیان کئے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اپنی عمر کے آخری دنوں میں اپنی نبوت اور اپنے موید من اللہ ہونے کی نسبت کچھ شبہات میں پڑ گئے تھے جیسا کہ یہ کلمہ کہ گویا آخری دم کا کلمہ تھا یعنی ایلی ایلی لما سبقتنی.جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.عین دنیا سے رخصت ہونے کے وقت میں کہ جو اہل اللہ کے یقین اور ایمان کے انوار ظاہر ہونے کا وقت ہوتا ہے آنجناب کے منہ سے نکل گیا.پھر آپ کا یہ بھی طریق تھا کہ دشمنوں کے بد ارادہ کا احساس کر کے اُس جگہ سے بھاگ جایا کرتے تھے حالانکہ خدائے تعالیٰ سے محفوظ رہنے کا وعدہ پاچکے تھے ان دونوں امور سے شک اور تحیر ظاہر ہے پھر آپ کا تمام رات رو رو کر ایسے امر کے لئے (دُعا کرنا) جس کا انجام بد آپ کو پہلے سے معلوم تھا بجز اس کے کیا معنے رکھتا ہے کہ ہر ایک بات میں آپ کو شک ہی شک تھا.یہ باتیں صرف عیسائیوں کے اس اعتراض اٹھانے کی غرض سے لکھی گئی ہیں ورنہ ان سوالات کا جواب ہم تو احسن طریق سے دے سکتے ہیں اور اپنے پیارے مسیح کے سر سے جو بشری ناتوانیوں اور ضعفوں سے مستثنی نہیں تھے ان تمام الزامات کو صرف ایک نفی الوہیت و اہنیت سے ایک طرفۃ العین میں اُٹھا سکتے ہیں مگر ہمارے عیسائی بھائیوں کو بہت دقت پیش آئے گی.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱ ۴ تا ۴۲۷) عرصہ قریبا تین برس کا ہوا ہے کہ بعض تحریکات کی وجہ سے.....خدائے تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیار پوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة البقرة نکاح میں آئے گی.اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی.اُس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آ گئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے.تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا.تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام هوا اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے.سو اُس وقت مجھ پر یہ بھید کھلا کہ کیوں خدائے تعالیٰ نے اپنے رسول کریم کو قرآن کریم میں کہا که تو شک مت کر.سو میں نے سمجھ لیا کہ در حقیقت یہ آیت ایسے ہی نازک وقت سے خاص ہے جیسے یہ وقت تنگی اور نومیدی کا میرے پر ہے اور میرے دل میں یقین ہو گیا کہ جب نبیوں پر بھی ایسا ہی وقت آ جاتا ہے جو میرے پر آیا تو خدائے تعالیٰ تازہ یقین دلانے کے لئے اُن کو کہتا ہے کہ تو کیوں شک کرتا ہے اور مصیبت نے تجھے کیوں نو امید کر دیا تونو امید مت ہو.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۰۶،۳۰۵) وَلِكُل وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ، اَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ ۱۴۹ مجر دسبقت کا جوش اپنے اندر برا نہیں ہے.خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ یعنی خیر اور بھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے چلو سو جو شخص نیک وسائل سے خیر میں سبقت کرنا چاہتا ہے وہ درحقیقت حسد کے مفہوم کو پاک صورت میں اپنے اندر رکھتا ہے.مجموعه اشتہارات جلد ا صفحه ۵۶۸) ވ كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ابْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعلَمُونَ یعنی رسول تم کو کتاب اور حکمت اور وہ تمام حقائق اور معارف سکھاتا ہے.جن کا خود بخو د معلوم کر لینا تمہارے لئے ممکن نہ تھا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۰۰،۴۹۹) فاذكروني اذكركُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ یعنی تم مجھ کو یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۰ سورة البقرة اور مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور مجھ سے دُعا مانگو.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۵) اے میرے بندو! تم مجھے یاد کیا کرو اور میری یاد میں مصروف رہا کرو میں بھی تم کو نہ بھولوں گا تمہارا خیال رکھوں گا اور میرا شکر کیا کرو میرے انعامات کی قدر کیا کرو اور کفر نہ کیا کرو.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ذکر الہی کے ترک اور اُس سے غفلت کا نام کفر ہے پس جو دم غافل وہ دم کا فروالی بات صاف ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) تم مجھ کو یا درکھو میں تم کو یا درکھوں گا یعنی آرام اور خوشحالی کے وقت تم مجھے کو یا درکھو اور میرا قرب حاصل کرو تا کہ مصیبت میں تم کو یا درکھوں.البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۲۵) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے مگر تم اس نعمت کو کیوں کر پاسکو اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : ٣٦) یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے؟ وہ دُعا ہے جو سبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دُعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجر قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دُعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ محضر عانہ ادا کر لیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹،۶۸) کا کچھ اثر ہو.ہیں.صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۵) (۱۵۵) وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ.جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہوں ان کو مردے مت کہو.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۵) جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتل کئے جاویں اُن کو مردے مت کہو بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۱ سورة البقرة الثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولَبِكَ هُمُ المهتدون (۱۵۸) انسان کو خدا کی طرف سے تسلی پانے کی بڑی بڑی حاجتیں پڑتی ہیں بسا اوقات وہ ایسی سخت مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ اگر خدا کا کلام آیا نہ ہوتا اور اس کو اپنی اس بشارت سے مطلع نہ کرتا.وَلَنَبْلُوَلَكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.تو وہ بے حوصلہ ہوکر شاید خدا کے وجود سے ہی انکار کرتا اور یا نا امیدی کی حالت میں خدا سے بکی رابطہ توڑ دیتا اور یا غموں کے صدمہ سے ہلاک ہو جاتا.( براہینِ احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۴۱ حاشیہ نمبر۱۱) خدا تعالی کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں.(۱) اوّل یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اُس نے خود فرمایا ہے: بَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اِلَيْهِ رجِعُونَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتَ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یعنی ہمارا یہی قانونِ قدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں انہیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں.(۲) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و مبین و ائمہ و اولیاء وخلفاء ہے.تا اُن کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آجائیں اور اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں سوخدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں.پس اول اُس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا کشّرِ الصّبِرِینَ کا سامان مومنوں کے لئے طیار کر کے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے سو وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض اللہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کا شفیع ٹھہر گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا.....دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا.سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۶۱ تا ۴۶۳ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۲ سورة البقرة یہ آیت وَلَتَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ اصل مفهوم سے پھیری گئی کیونکہ عرف عام میں آزمائش کرنے والا اس نتیجہ سے غافل اور بے خبر ہوتا ہے جو امتحان کے بعد پیدا ہوتا ہے مگر اس سے اس جگہ یہ مطلب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں ڈالنے سے یہ مطلب ہے کہ تا شخص زیر امتحان پر اس کے اندرونی عیب یا اندرونی خوبیاں کھول دے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵) یعنی اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہوگی اور کبھی فقر وفاقہ تمہارے شامل حال ہوگا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہوگا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولاد مرے گی.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پاگئے.غرض اس خلق کا نام صبر اور رضا برضائے الہی ہے.اور ایک طور سے اس خُلق کا نام عدل بھی ہے کیونکہ جبکہ خدائے تعالیٰ انسان کی تمام زندگی میں اس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور نیز ہزار ہا باتیں اس کی مرضی کے موافق ظہور میں لاتا ہے اور انسان کی خواہش کے مطابق اس قدر نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا تو پھر یہ شرط انصاف نہیں کہ اگر وہ کبھی اپنی مرضی بھی منوانا چاہے تو انسان منحرف ہو.اور اس کی رضا کے ساتھ راضی نہ ہو اور چون و چرا کرے یا بے دین اور بے راہ ہو جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۲) ہم تمہیں خوف اور فاقہ اور مال کے نقصان اور جان کے نقصان اور کوشش ضائع جانے اور اولاد کے فوت ہو جانے سے آزمائیں گے یعنی یہ تمام تکلیفیں قضاء و قدر کے طور پر یا دشمن کے ہاتھ سے تمہیں پہنچیں گی.سو ان لوگوں کو خوشخبری ہو جو مصیبت کے وقت صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں اور خدا کی طرف رجوع کریں گے.ان لوگوں پر خدا کا درود اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے کمال تک پہنچ گئے ہیں.یعنی محض اس علم میں کچھ شرف اور بزرگی نہیں جو صرف دماغ اور دل میں بھرا ہوا ہو بلکہ حقیقت میں علم وہ ہے کہ دماغ سے اتر کر تمام اعضاء اس سے متاذب اور رنگین ہو جائیں اور حافظہ کی یادداشتیں عملی رنگ میں دکھائی دیں.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة البقرة خدا کی کتاب نے دُعا کے بارہ میں یہ قانون پیش کیا ہے کہ وہ نہایت رحم سے نیک انسان کے ساتھ دوستوں کی طرح معاملہ کرتا ہے یعنی کبھی تو اپنی مرضی کو چھوڑ کر اس کی دُعا سنتا ہے جیسا کہ خود فرمایا: ادْعُوني اَسْتَجِبْ لَكُمْ اور کبھی کبھی اپنی مرضی ہی منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرمایا: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الجوع ایسا اس لئے کیا کہ تا کبھی انسان کی دُعا کے موافق اس سے معاملہ کر کے یقین اور معرفت میں اس کو ترقی دے اور کبھی اپنی مرضی کے موافق کر کے اپنی رضا کی اس کو خلعت بخشے اور اس کا مرتبہ بڑھا دے اور اس سے محبت کر کے ہدایت کی راہوں میں اس کو ترقی دیوے.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱ حاشیه ) یادر ہے کہ مومن کے ساتھ خدا تعالیٰ دوستانہ معاملہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کبھی تو وہ مومن کے ارادہ کو پورا کرے اور کبھی مومن اس کے ارادہ پر راضی ہو جائے.پس ایک جگہ تو مومن کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: أَدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) یعنی دُعا کرو کہ میں تمہاری دُعا قبول کروں گا.اس جگہ تو مومن کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے اور دوسری جگہ اپنی خواہش مومن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصيرِينَ فى الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ.افسوس که نادان آدمی صرف ایک پہلو کودیکھتا ہے اور دونوں پہلوؤں پر نظر نہیں ڈالتا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم جلد ۲۱ صفحه ۲۲۶ حاشیه ) یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دُعا قبول ہو جاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے کبھی وہ اُن کی دُعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اُس سے منوانا چاہتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابت دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) یعنی تم مجھے سے دُعا کرو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا.اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضا و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُونَكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ فى الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.پس ان دونوں آیتوں کو ایک جگہ پڑھنے سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ دُعاؤں کے بارے میں کیا سنت اللہ ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة البقرة (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱) رب اور عہد کا کیا با ہمی تعلق ہے.قضا و قدر کا دُعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.دُعا کے ساتھ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دُعا ضرور اثر کرتی ہے جو لوگ دُعا سے منکر ہیں ان کو ایک دھوکا لگا ہوا ہے قرآن شریف نے دُعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا بے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.نونِ ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج قالوا انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ ہی ہے.اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :(۶) میں ظاہر کیا ہے.پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہئے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۴) مصیبتوں کو بُرا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ ) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں.ان کو تباہ کر دیتی ہیں غرض مصیبت کے وقت قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھنا چاہئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے.مومن کی زندگی کے دو حصہ جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لئے اجر مقرر ہوتا ہے مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں.یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا.خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصہ کرتا ہے جو صبر کے معنے سمجھ لیتے ہیں.اول جب وہ دُعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اُسے قبول کرتا ہے جیسا کہ فرمایا أَدْعُوْنِ اسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ٢١) أَجِيبُ دَعْوَةَ اللَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: ) دوم.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ مومن کی دُعا کو بعض مصلحت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو اُس وقت مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سر تسلیم خم کر دیتا ہے.تنزل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن سے دوست کا واسطہ رکھتا ہے جیسا کہ دو دوست ہوں ان میں سے ایک دوسرے کی بات تو کبھی مانتا ہے اور کبھی اس سے منواتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس تعلق کی مثال ہے جو وہ مومن سے رکھتا ہے کبھی وہ مومن کی دُعا کو قبول کرتا ہے جیسا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة البقرة فرماتا ہے: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ اور کبھی وہ مومن سے اپنی باتیں منوانی چاہتا ہے چنانچہ فرماتا ہے: ولنبلونكم يشى و من الخوف الخ.پس اس بات کا سمجھنا ایمانداری ہے کہ ایک طرف زور نہ دے.مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہئے وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا.اصل بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ایک محبت کا سرچشمہ جاری ہو جاتا ہے مومن کو کوئی مصیبت نہیں ہوتی جس سے اس کو ہزارہا قسم لذت نہیں پہنچتی.بلکہ مومن کو آرام کی زندگی میں ایسی لذت نہیں ہوتی جیسا کہ مصیبت کے زمانے میں ان کو لذت پہنچتی ہے.خدا کے لوگوں کو یہ ایک مرض ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو خدا سے مار پڑتی رہے.خدا تعالی کے پیاروں کو گناہ سے مصائب نہیں پہنچتے.دیکھو جب تک لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہوتی ہے والدین اُسے بہت پیار کرتے ہیں اور نکاح کے وقت اگر چہ والدین کو بہت تکلیف ہوتی ہے حتی کہ والدہ ایک طرف روتی ہے اور والد ایک طرف روتا ہے تاہم وہ سب تکالیف برداشت کر کے اس کو ہمیشہ کے لئے الگ کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے.وہ جانتے (ہیں) کہ اس لڑکی میں ایک جو ہر ہے جو کہ سسرال میں جا کر ظاہر ہوگا اس لئے مومن کے جو ہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھوں اور نصرت کے زمانہ پر آپ کے اخلاق کو کس طرح ظاہر کیا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف نہ پہنچتے تو اب ہم ان کے اخلاق کے متعلق کیا بیان کرتے.مومن کی تکالیف کو دوسرے بیشک تکالیف سمجھتے ہیں.مگر مومن اس کو تکالیف نہیں خیال کرتا.غرض یہ ضروری بات ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے مقرب کو دوسروں کی نسبت زیادہ دکھ پہنچائے مومن کو ہر روز مرنا پڑتا ہے اور یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنی کچی تو بہ پر قائم رہے اور یہ سمجھے کہ تو بہ سے ان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے اور اگر تو بہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ تو بہ کی تکمیل کرو.دیکھو جب مالی بوٹا لگاتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آبپاشی عمل سے ہوتی ہے اس لئے ایمان کی تکمیل کے لئے عمل کی از حد ضرورت ہے اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہوں گے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گے.(البدر جلد ۲ نمبر ۹ مورخه ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶۷) تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو بُرا نہ جانو اور برا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے.قرآن شریف فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشر الصُّبِرِينَ فى الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۶۶ سورة البقرة بھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولا د یا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شا کر رہتے ہیں تو اُن لوگوں کو بشارت دو کہ اُن کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور اُن پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یعنی ہم اور ہمارے متعلق کل اشیا یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کار ان کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتا.اور وہ لوگ مقام رضا میں بود و باش رکھتے ہیں.ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں.و مُهْتَدُونَ سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے منشا کو پالیا اور اُس کے مطابق عملدرآمد کرنے لگ گئے ایسے ہی لوگ تو ولی ہوتے ہیں.انہیں کو تو لوگ قطب کہتے ہیں ، یہی تو غوث کہلاتے ہیں.پس کوشش کرو کہ تم بھی ان مدارج عالیہ کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکو.خدا تعالیٰ نے تو انسان سے نہایت تنزل کے رنگ میں دوستانہ برتاؤ کیا ہے.دوستانہ تعلق کیا ہوتا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی بات کو مان لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ٢١) اور إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة) (۱۸۷) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی بات کو مان لیتا ہے اور اس کی دُعا کو قبول فرماتا ہے اور دوسری جگہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا في (البقرة :) سے اور وَلَنَبْلُوَنَّكُم آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے.بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دُعا کو قبول نہیں کرتا یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں کہ اُن کی فلاں دُعا قبول نہیں ہوئی.اصل میں وہ نادان اس قانون الہی سے نا آشنا محض ہوتے ہیں.جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہو گا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہوگا اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دونمونے پیش کئے ہیں انہی کو مان لینا ایمان ہے.تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پرزور دو ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اُس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو.مومن کے لئے مصائب ہمیشہ نہیں رہتے اور نہ لمبے ہوتے ہیں بلکہ اُس کے واسطے رحمت، محبت اور لذت کا چشمہ جاری کیا جاتا ہے.عاشق لوگ عشق کے غلبہ کے وقتوں اور اُس کے دردوں میں ہی لذت پاتے ہیں.یہ باتیں گو ایک خشک محض انسان کے لئے سمجھانی مشکل ہیں مگر جنہوں نے اس راہ میں قدم مارا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة البقرة ہے وہ اُن کو خوب جانتے ہیں.بلکہ اُن کو تو معمولی آرام اور آسائش میں وہ چین اور لذت نہیں ہوتی جو دُکھ کے اوقات میں ہوتی ہے.مثنوی رومی میں ایک حکایت ہے کہ ایک مرض ایسا ہے کہ اس میں جب تک ان کو تھے مارتے کو ٹتے اور لتاڑتے رہتے ہیں تب تک وہ آرام میں رہتا ہے ورنہ تکلیف میں رہتا ہے سو یہی حال اہل اللہ کا ہے کہ جب تک ان کو مصائب و شدائد کے مشکلات آتے رہیں اور اُن کو مار پڑتی رہے تب تک وہ خوش ہوتے اور لذت اُٹھاتے ہیں ورنہ بے چین اور بے آرام رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ اپنے بندوں کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچنے دیتا اور ہر طرح سے عیش و آرام میں اُن کی زندگی بسر کرواتا.اُن کی زندگی شاہانہ زندگی ہوتی.ہر وقت اُن کے لئے عیش و طرب کے سامان مہیا کئے جاتے مگر اُس نے ایسا نہیں کیا اس میں بڑے اسرار اور راز نہانی ہوتے ہیں دیکھو ایک والدین کو اپنی لڑکی کیسی پیاری ہوتی ہے بلکہ اکثر لڑکوں کی نسبت زیادہ پیاری ہوتی ہیں مگر ایک وقت آتا ہے کہ والدین ان کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ اُس وقت کو دیکھنا بڑے جگر والوں کا کام ہوتا ہے دونوں طرف کی حالت ہی بڑی قابل رحم ہوتی ہے.قریباً چودہ پندرہ سال ایک جگہ رہے ہوئے ہوتے ہیں آخر ان کی جدائی کا وقت نہایت ہی رقت کا وقت ہوتا ہے اُس جُدائی کو بھی کوئی نادان بے رحمی کہہ دے تو بجا ہے مگر اُس لڑکی میں بعض ایسے قومی ہوتے ہیں جن کا اظہار اس علیحدگی اور سسرال میں جا کر شوہر سے معاشرت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے جو طرفین کے لئے موجب برکت اور رحمت ہوتا ہے.یہی حال اہل اللہ کا ہے.ان لوگوں میں بعض خلق ایسے پوشیدہ ہوتے ہیں کہ جب تک اُن پر تکالیف اور شدائد نہ آویں اُن کا اظہار ناممکن ہوتا ہے دیکھو اب ہم لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بیان کرنے میں فخر اور جرات سے کام لیتے ہیں یہ بھی تو صرف اسی وجہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ دونوں زمانے آچکے ہوئے ہیں.ورنہ ہم یہ فضیلت کس طرح بیان کرتے.دکھ کے زمانہ کو بری نظر سے نہ دیکھو یہ خدا سے لذت کو اور اُس کے قرب کو اپنی طرف کھینچتا ہے اُس لذت کے حاصل کرنے کے واسطے جو خدا کے مقبولوں کو ملا کرتی ہے دنیوی اور سفلی گل لذات کو طلاق دینی پڑا کرتی ہے.خدا کا مقرب بننے کے واسطے ضروری ہے کہ دکھ سہتے جاویں.اور شکر کیا جاوے اور نئے دن ایک نئی موت اپنے اوپر لینی پڑتی ہے جب انسان دنیوی ہوا و ہوس اور نفس کی طرف سے بکلی موت اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے تب اسے وہ حیات ملتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی.پھر اس کے بعد مرنا کبھی نہیں ہوتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة البقرة قرآن شریف غم کی حالت میں نازل ہوا ہے تم بھی اسے غم ہی کی حالت میں پڑھا کرو.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بہت بڑا حصہ غم والم میں گذرا ہے.تو بہ کے درخت بو لو تا تم اس کے پھل کھاؤ.تو بہ کا درخت بھی بالکل ایک باغ کے درخت کی مانند ہے.جو جو حفاظتیں اور خدمات اُس باغ کے لئے جسمانی طور سے ہیں وہی اس تو بہ کے درخت کے واسطے روحانی طور پر ہیں.پس اگر تو بہ کے درخت کا پھل کھانا چاہو تو اس کے متعلق قوانین اور شرائط کو پورا کرو ورنہ بے فائدہ ہوگا.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۲، ۱۳) اس سے بڑھ کر انسان کے لئے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان سے مساوات بنالیتا ہے کبھی ان کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے ایک طرف فرماتا ہے: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :۶۱) دوسری طرف فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مقام دُعا کا نہیں ہوتا.تبلُوَنَّكُمْ کے موقع پر انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنا پڑے گا یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں لوگ ایسے موقع پر دھوکا کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دُعا کیوں قبول نہیں ہوتی.ان کا خیال ہے کہ خدا ہماری مٹھی میں ہے جو جب چاہیں گے منوالیں گے بھلا امام حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دُعانہ مانگی ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دُعانہ کی ہوگی بات یہ ہے یہ مقام صبر اور رضا کے تھے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۲۹/اکتوبر و ۸ / نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۱، ۳۲۲) لوگوں کا دستور ہے کہ حالت تنعم میں وہ خدا سے برگشتہ رہتے ہیں اور جب مصیبت اور تکلیف پڑتی ہے تو لمبی چوڑی دُعائیں مانگتے مانتے ہیں اور ذرا سے ابتلاء سے خدا سے قطع تعلق کر لیتے ہیں خدا کو اس شرط پر ماننے کے لئے تیار ہیں کہ وہ ان کی مرضی کے برخلاف کچھ نہ کرے.حالانکہ دوستی کا اصول یہ ہے کہ بھی اپنی اس سے منوائے اور کبھی اس کی آپ مانے اور یہی طریق خدا نے بھی بتلایا ہے ایک جگہ تو فرماتا ہے : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن :۶۱) کہ تم مانگو تو میں دوں گا یعنی تمہاری بات مانوں گا اور دوسری جگہ اپنی منواتا ہے اور فرماتا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوفِ ال مگر یہاں آج کل لوگ خدا تعالی کو مثل غلام کے اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے ہیں.حالانکہ غوث، قطب، ابدال اور اولیاء وغیرہ جس قدر لوگ ہوئے ہیں اُن کو یہ سب مراتب اسی لئے ملے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھتے چلے آئے.البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۵) جب انسان خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے تو اکثر خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دُعا قبول کرتا ہے لیکن بعض دفعہ
۲۶۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام خدا تعالیٰ اپنی بات منواتا ہے.دو دوستوں کی آپس میں دوستی کے قائم رہنے کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ کبھی اس نے اُس کی بات مان لی اور کبھی اُس نے اس کی بات مان لی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہمیشہ ایک ہی دوسرے کی بات مانتا ہے اور وہ اپنی بات کبھی نہ منائے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی دُعا قبول ہوتی رہے اور اسی کی خواہش پوری ہوتی رہے.وہ بڑی غلطی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے قرآن شریف میں دو آیتیں نازل فرمائی ہیں ، ایک میں فرمایا ہے : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱) تم دُعا مانگو.میں تمہیں جواب دوں گا دوسری آیت میں فرمایا ہے: وَلَنَتلُونَكُمْ بِشَيْ ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ الع یعنی ضرور ہے تم پر قسما قسم کے ابتلاء پڑیں اور امتحان آئیں اور آزمائشیں کی جاویں تا کہ تم انعام حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرو.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے.لیکن جو لوگ استقامت اختیار کرتے ہیں خدا ان کو ضائع نہیں ہونے دیتا.دُعا کے بعد کامیابی اپنی خواہش کے مطابق ہو یا مصلحت الہی کوئی دوسری صورت پیدا کر دے.ہر حال میں دُعا کا جواب ضرور خدا تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے.ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ دُعا کے واسطے اس کی حد تک جو ضروری ہے تضرع کی جاوے اور پھر جواب نہ ملے.(بدرجلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۹ راگست ۱۹۰۶ صفحہ ۳ نیز دیکھیں احکام جلد ۱۰ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۶ صفحه ۹) دیکھو ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱ ) یعنی اگر تم مجھ سے مانگو تو قبول کروں گا اور دوسری جگہ فرمایا: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ......أُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ اس سے.صاف ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے بھی امتحان آیا کرتے ہیں......اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں انسان اسی واسطے آتا ہے کہ آزمایا جاوے.اگر وہ اپنی منشاء کے موافق خوشیاں مناتا رہے اور جس بات پر اس کا دل چاہے وہی ہوتا رہے تو پھر ہم اس کو خدا کا بندہ نہیں کہہ سکتے.اس واسطے ہماری جماعت کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کی تقسیم کی ہوئی ہے.اس لئے اس تقسیم کے ماتحت چلنے کی کوشش کی جاوے.ایک حصہ تو اس کا یہ ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو مانتا ہے اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنی منواتا ہے.جو شخص ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ خدا ہمیشہ اس کی مرضی کے مطابق کرتا رہے اندیشہ ہے کہ شاید وہ کسی وقت مرتد ہو جاوے.کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پر ہی تکلیف اور ابتلا کا زمانہ آیا ہے بلکہ ابتداء سے سب نبیوں پر آتا رہا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کا بیٹا جب فوت ہوا تھا تو کیا انہیں غم نہیں ہوا تھا.ایک روایت میں لکھا ہے کہ ہمارے
سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ' بیٹے فوت ہوئے تھے آخر بشریت ہوتی ہے.غم کا پیدا ہونا ضروری ہے مگر ہاں صبر کرنے والوں کو پھر بڑے بڑے اجر ملا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ساری کتابوں کا منشا یہی ہے کہ انسان رضا بالقضاء سیکھے.جو شخص اپنے ہاتھ سے آپ تکلیف میں پڑتا ہے اور خدا کے لئے ریاضات اور مجاہدات کرتا ہے.وہ اپنے رگ، پیٹھے کی صحت کا خیال بھی رکھ لیتا ہے اور اکثر اپنی خواہش کے موافق ان اعمال کو بجالاتا ہے.اور حتی الوسع اپنے آرام کو مد نظر رکھتا ہے.مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان پڑتا ہے اور کوئی ابتلا آتا ہے تو وہ رگ اور پٹھے کا لحاظ رکھ کر نہیں آتا.خدا کو اس کے آرام اور رگ ، پٹھے کا خیال مد نظر نہیں ہوتا.انسان جب کوئی مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنا تصرف رکھتا ہے مگر جب خدا کی طرف سے کوئی امتحان آتا ہے تو اس میں انسان کے تصرف کا دخل نہیں ہوتا.انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے.اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا.اسی واسطے اُدْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: 11) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بشارت نہیں دی مگر وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ.....میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی برکتیں اور حمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا کو راضی کر سکتا ہے.نہیں تو اگر خدا کے ساتھ شریک بن جاوے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے چلانا چاہے تو یہ ایک خطر ناک راستہ ہوگا.جس کا انجام ہلاکت ہے.ہماری جماعت کو منتظر رہنا چاہئے کہ اگر کوئی ترقی کا ایسا موقع آ جاوے تو اس کو خوشی سے قبول کیا جاوے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۵) یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے.وَلَنَبْلُونَكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوفِ جو فرمایا تو اس مقام پر وہ اپنی منوانا چاہتا ہے.کبھی کسی قسم کا خوف آتا ہے اور کبھی بھوک آتی ہے اور کبھی مالوں میں کمی واقع ہوتی ہے تجارتوں میں خسارہ ہوتا ہے اور کبھی ثمرات میں کمی ہوتی ہے اولا د ضائع ہوتی ہے اور ثمرات برباد ہو جاتے ہیں اور نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں ایسی صورتوں میں خدا تعالیٰ کی آزمائش ہوتی ہے اُس وقت خدا اپنی شان حکومت دکھانا چاہتا ہے اور اپنی منوانا چاہتا ہے اس وقت صادق اور مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ نہایت اخلاص اور انشراح صدر کے ساتھ خدا کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اُس پر خوش ہو جاتا ہے کوئی شکوہ اور بدلتی نہیں کرتا.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة البقرة وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو.یہ نہیں فرمایا کہ دُعا کرنے والوں کو بشارت دو بلکہ صبر کرنے والوں کو اس لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اگر بظاہر اپنی دعاؤں میں ناکامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے.اہل اللہ کو نظر آ جاتا ہے کہ یہ کام ہو نہار ہے پس جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو دُعا کرتے ہیں ورنہ قضا و قدر پر راضی رہتے ہیں.اہل اللہ کے دو ہی کام ہوتے ہیں جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دُعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضاء وقد راسی طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھا.جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ دو سیمیں رکھ دی ہیں اور یہ اُس کی سنت ٹھہر چکی ہے اور یہ بھی اُس نے فرمایا ہے: آج تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب: ۳ اور الفتح: ۲۴) پھر کس قدر غلطی ہے جو انسان اس کے خلاف چاہے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ انسان کے ساتھ خدا نے دوستانہ معاملہ رکھا ہے بھی ایک دوست دوسرے کی مان لیتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے اور دُعابندہ اور خدا میں بھاجی کی طرح ہے.اگر انسان یہ سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کمزور رعایا کی طرح ہر بات مان لے تو یہ نقص ہے، ماں بھی بچہ کی ہر بات نہیں مان سکتی.کبھی بچہ آگ کی انگار یاں مانگتا ہے تو وہ کب دیتی ہے یا مثلاً آنکھیں دکھتی ہوں تو اُسے زنگ یا اور کوئی دواڈالنی ہی پڑتی ہے اسی طرح پر بندہ چونکہ تکمیل کا محتاج ہے اُسے ماروں کی ضرورت ہے تا کہ وہ صدق و وفا اور ثبات قدم میں کامل ثابت ہو.پھر دعا کرانے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صابر ہو جلد باز نہ ہو جو ذراسی بات پر دجال کہنے کو تیار ہے پس وہ کیا فائدہ اُٹھائے گا.اسے تو چاہئے کہ صبر کے ساتھ انتظار کرے اور محسن فلن سے کام لے.جب کہ خدا تعالیٰ نے لنبلونکم فرمایا ہے تو صبر کرنے والوں کے لئے بشارت دی اور أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صلوات بھی فرمایا.میرے نزدیک اس کے یہی معنی ہیں کہ قبولیت دعا کی ایک راہ نکال دیتا ہے حکام کا بھی یہی حال ہے کہ جس پر ناراض ہوتے ہیں اگر وہ صبر کے ساتھ برداشت کرتا اور شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا تو اُسے ترقی دے دیتے ہیں قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ابتلا آویں جیسے فرمایا: أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت: ۳) یعنی کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف امنا کہنے سے چھوڑے جائیں اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں....مصائب اور تکالیف پر اگر صبر کیا جاوے اور خدا تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضا ظاہر کی جاوے تو وہ مشکل کشائی کا مقدمہ ہوتی ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۳، ۱۴)
۲۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یعنی ہم آزماتے رہیں گے کبھی ڈرا کر کبھی بھوک سے کبھی مالوں اور ثمرات وغیرہ کا نقصان کر کے ثمرات میں اولا د بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ بڑی محنت سے کوئی فصل تیار کی اور یکا یک اسے آگ لگی اور وہ تباہ ہوگئی یا اور امور کے لئے محنت مشقت کی نتیجہ میں ناکام رہ گیا، غرض مختلف قسم کے اجتلا اور عوارض انسان پر آتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کی آزمائش ہے ایسی صورت میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر کے لئے سر تسلیم خم کرتے ہیں وہ بڑی شرح صدر سے کہتے ہیں إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کسی قسم کا شکوہ اور شکایت یہ لوگ نہیں کرتے ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أوتيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوت یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت آتی ہے اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو مشکلات میں راہ دکھا دیتا ہے یا درکھو اللہ تعالیٰ بڑا ہی کریم و رحیم اور با مروت ہے جب کوئی اس کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اس کی مرضی پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ اس کو اس کا بدلہ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا.غرض یہ تو وہ مقام اور مرحلہ ہے جہاں وہ اپنی بات منوانی چاہتا ہے دوسرا مقام اور مرحلہ وہ ہے جو اس نے اُدعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ۶۱) میں فرمایا ہے یہاں وہ اس کی بات ماننے کا وعدہ فرماتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) چونکہ انسان کو بڑے بڑے ابتلا آتے رہتے ہیں جیسا خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ ہم تمہیں آزماتے رہیں گے کبھی ڈر سے اور کبھی مالوں میں نقصان کرنے سے اور کبھی ثمرات کو تلف کرنے سے.اتلاف ثمرات سے مراد تفاسیر میں اولاد بھی لکھی ہے.اور اس میں کوششوں کا ضائع ہونا بھی شامل ہے.مثلاً حصول علم کی کوشش، تجارت میں کامیابی کی کوشش، زمینداری کی کوشش، غرض ان کوششوں کا ضائع ہونا بڑی مصیبت ہوتی ہے.ہر وقت انسان کو خیال ہوتا ہے کہ کامیاب ہو جاؤں گا.آخر خدا تعالیٰ کے علم میں ان کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ ناکام رہے.یا کھیتی نہیں لگتی یا تجارت میں کامیاب نہیں ہوتے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار امتحان رکھے ہیں ؛ ایک خوف ، دوم بھی نقصان مال اور تیسرے نقصان جان ، چہارم تلف ثمرات.(رسالہ الانذار صفحه ۳ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ.خوف سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈر ہی ڈر ہے انجام اچھا ہے اس سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے.پھر الجوع فقر وفاقہ تنگ کرتا ہے بعض وقت ایک کر نہ پھٹ جاوے تو دوسرے کی توفیق نہیں ملتی.جوع کا لفظ رکھ کر عطش کا لفظ چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ جُوع میں داخل ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة البقرة نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ چور لے جاتے ہیں اور اتنا بھی نہیں چھوڑ جاتے کہ صبح کی روٹی کھا سکیں.سوچوکس قدر تکلیف اور آفت کا سامنا ہوتا ہے.پھر جانوں کا نقصان ہے بچے مرنے لگ جاتے ہیں ( خدا محفوظ ہی رکھے.آمین ) یہاں تک کہ ایک بھی نہیں رہتا.جانوں کے نقصان میں یہ بات داخل ہے کہ خود تو زندہ رہے اور عزیز ومتعلقین مرتے جاویں کس قدر صدمہ ایسے وقت پر ہوتا ہے.......شمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور محنتوں کے بعد آخر کی کامیابیاں بھی مراد ہیں ان کے ضائع ہونے سے بھی سخت صدمہ ہوتا ہے.امتحان دینے والے اگر کبھی فیل ہو جاتے ہیں تو بارہا دیکھا گیا ہے کہ وہ خود کشیاں کر لیتے ہیں.......غرض اس قسم کے ابتلا جن پر آئیں پھر اللہ تعالیٰ ان کو بشارت دیتا ہے وکبشر الطبرین یعنی ایسے موقع پر جہد کے ساتھ برداشت کرنے والوں کو خوش خبری اور بشارت ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ یا د رکھو کہ خدا کا خاص بندہ اور مقترب تب ہی ہوتا ہے کہ ہر مصیبت پر خدا ہی کو مقدم رکھے.غرض ایک وہ حصہ ہوتا ہے جس میں خدا اپنی منوانا چاہتا ہے.دُعا کے معنی تو یہی ہیں کہ انسان خواہش ظاہر کرتا ہے کہ یوں ہو، پس کبھی مولیٰ کریم کی خواہش مقدم ہونی چاہئے اور کبھی اللہ کریم اپنے بندہ کی خواہش کو پورا کرتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ / دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحه ۲، ۳) دنیوی بادشاہوں اور حاکموں نے جو اعلیٰ مراتب کے عطا کرنے کے واسطے امتحان مقرر کئے ہیں یہی سنتُ اللہ کے مطابق ہے.اللہ تعالیٰ بھی بعد امتحانوں کے درجات عطا کرتا ہے.جن مصائب اور تکالیف کے امتحانات میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاس ہوئے وہ دوسرے کا کام نہ تھا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۴) جن لوگوں کی پاک تبدیلی خدا تعالیٰ دُعاؤں سے چاہتا ہے ان کی تبدیلی اسی طرح پر ہوتی ہے کہ ان پر بلائیں اور خوف آتے ہیں جیسے فرمایا: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ - اگر انسان کے افعال سے گناہ دور ہو جاوے تو شیطان چاہتا ہے کہ آنکھ، کان، ناک تک ہی رہے اور جب وہاں بھی اُسے قابو نہیں ملتا تو پھر وہ یہاں تک کوشش کرتا ہے کہ اور نہیں تو دل ہی میں گناہ رہے.گویا شیطان اپنی لڑائی کو اختتام تک پہنچاتا ہے.مگر جس دل میں خدا کا خوف ہے وہاں شیطان کی حکومت نہیں چل سکتی.شیطان آخر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور الگ ہوتا ہے اور اپنی لڑائی میں ناکام و نامراد ہو کر اسے اپنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة البقرة بوریا بستر باندھنا پڑتا ہے.احکام جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) ہماری فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیف کو بھی چاہتی ہے تاکہ تکمیل ہو جاوے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلاؤں میں ڈال دیتا ہے اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قو تیں بڑھتی ہیں.جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذراسی تکلیف کے پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے.مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کے ابتلا آویں اور تا کہ اللہ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے.اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلا نہیں آتا.ان کا حال دیکھو کہ کیسا ہوتا ہے وہ بالکل دنیا اور اُس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں ان کا سر اوپر کی طرف نہیں اُٹھتا.خدا تعالیٰ کا ان کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لئے وہ راحت اور اطمینان کے سامان پیدا کرتی جو کسی مال و دولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں.مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اُس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں.لیکن جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اُن پر ابتلا آتا ہے.جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلاء نہیں آیا وہ بد قسمت ہیں وہ ناز و نعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کی زبان ہے مگر وہ حق بول نہیں سکتی خدا کی حمد وثنا اس پر جاری نہیں ہوتی.بلکہ وہ صرف فسق و فجور کی باتیں کرنے کے لئے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے.ان کے آنکھیں ہیں مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں بلکہ وہ بدکاری کے لئے ہیں پھر ان کو خوشی اور راحت کہاں سے میسر آتی ہے، یہ مت سمجھو کہ جس کو ہم و غم پہنچتا ہے وہ بد قسمت ہے.نہیں خدا اس کو پیار کرتا ہے.جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے اسی طرح خدا کی راہ میں ہم و غم آنا ضروری ہے.غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقعہ شدہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں ابتلاؤں میں ہی دُعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور کہ اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دُعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے دنیا میں جس قدر قو میں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دُعاؤں کو سنتا ہو.کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دُعا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة البقرة کروں تو یہ مجھے جواب دیتا ہے؟ ہر گز نہیں کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے وہ میری دُعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہر گز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ٢١) - الحکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخه ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲،۱) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ الخ کبھی ہم تم کو نہایت فقر و فاقہ سے آزمائیں گے اور بھی تمہارے بچے مر جاویں گے تو جو لوگ مومن ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا ہی مال تھا.ہم بھی تو اُسی کے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہی لوگوں نے جو صبر کرتے ہیں میرے مطلب کو سمجھا ہے ان پر میری بڑی رحمتیں ہیں جن کا کوئی حد و حساب نہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۱) - کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلا نہ آئے ہوں.مسیح علیہ الصلواۃ و السلام کو قید کیا گیا اور کیا کیا اذیت دی گئی.موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کیا سلوک ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے اگر خدا کی سنت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک تنظم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلاؤ، زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اور دنیا داروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا.پلاؤ، زردے کھا کر حمد اللہ و شکر اللہ کہنا آسان ہے اور ہر ایک بے تکلف کہ سکتا ہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی وہ اسی دل سے کہے.مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں ، ہلاکت کا خوف ہوتا ہے، طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں.گذبُوا کے یہی معنے ہیں، دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں اُن کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتا ہے جب مصائب آئے تو وہ الگ ہو جاتے ہیں میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہوتو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ اُن کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فرماتا ہے: وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا اَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ یعنی ہر ایک قسم کی مصیبت اور دُکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں خوشی کے ایام اگر چہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا.رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة البقرة ٹوٹ جاتا ہے خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاً کسری اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اُسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مبيناً (الفتح:۲) کی آواز کیسے سنائی دیتی.ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے ، غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵) دنیا میں دو قسم کے دکھ ہوتے ہیں بعض دکھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں تسلی دی جاتی ہے اور صبر کی توفیق ملتی ہے.فرشتے سکینت کے ساتھ اترتے ہیں اس قسم کے دیکھ نبیوں اور راست بازوں کو بھی ملتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ابتلا آتے ہیں جیسا کہ اُس نے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ میں فرمایا ہے ان دکھوں کا انجام راحت ہوتا ہے اور درمیان میں بھی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ خدا کی طرف سے صبر اور سکیت ان کو دی جاتی ہے.مگر دوسری قسم دکھ کی وہ ہے جس میں یہی نہیں کہ دکھ ہوتا ہے بلکہ اس میں صبر وثبات کھویا جاتا ہے اس میں نہ انسان مرتا ہے نہ جیتا ہے اور سخت مصیبت اور بلا میں ہوتا ہے یہ شامت اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے.جس کی طرف اس آیت میں اشارہ بے مَا أَصَابَكُمْ مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشورى: ٣١) اور اس قسم کے دکھوں سے بچنے کا یہی طریق اور علاج ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتار ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) یا درکھو ابتلا بھی دو قسم کے ہوتے ہیں؛ ایک ابتلا شریعت کے اوامر ونواہی کا ہوتا ہے دوسرا ابتلا قضاء وقدر کا ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوفِ.پس اصل مردمیدان اور کامل وہ ہوتا ہے جو ان دونوں قسم کی ابتلاؤں میں پورا اترے.بعض اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اوامر و نواہی کی رعایت کرتے ہیں لیکن جب کوئی ابتلا مصیبت ، قضاء و قدر کا پیش آتا ہے تو اللہ تعالی کا شکوہ کرتے ہیں...قوی وہی سے جو اعتقاد صحیح رکھتا ہو.اعمال صالحہ کرنے والا ہو اور مصائب و شدائد میں پورا اُترنے والا ہو اور یہی جوانمردی ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ مورخه ۸ مورخه ۱۶ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۱۰) یاد رکھو کہ خدا کے فضل کے حاصل کرنے کے دو راہ ہیں؛ ایک تو زہد نفس کشی اور مجاہدات کا ہے اور دوسرا قضا و قدر کا.لیکن مجاہدات سے اس راہ کا ملے کرنا بہت مشکل ہے.کیونکہ اس میں انسان کو اپنے ہاتھ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة البقرة اپنے بدن کو مجروح اور خستہ کرنا پڑتا ہے عام طبائع بہت کم اس پر قادر ہوتی ہیں کہ وہ دیدہ و دانستہ تکلیف جھیلیں لیکن قضاء وقدر کی طرف سے جو واقعات اور حادثات انسان پر آ کر پڑتے ہیں وہ نا گہانی ہوتے ہیں اور جب آپڑتے ہیں تو قہر درویش بر جان درویش ان کو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے جو کہ اس کے تزکیہ نفس کا باعث ہو جاتا ہے جیسے شہداء کو دیکھو کہ جنگ کے بیچ میں لڑتے لڑتے جب مارے جاتے ہیں تو خدا کے نزدیک کس قدر اجر کے مستحق ہوتے ہیں.یہ درجات قرب ہی اُن کو قضاء قدر سے ہی ملتے ہیں ورنہ اگر تنہائی میں ان کو اپنی گردنیں کاٹنی پڑیں تو شاید بہت تھوڑے ایسے نکلیں جو شہید ہوں.اسی لئے اللہ تعالیٰ غرباء کو بشارت دیتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَ بَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.اس کا یہی مطلب ہے کہ قضاء وقدر کی طرف سے ان کو ہر ایک قسم کے نقصان پہنچتے ہیں.اور پھر وہ جوصبر کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کی عنائتیں اور رحمتیں اُن کے شامل حال ہوتی ہیں.کیونکہ تلخ زندگی کا حصہ ان کو بہت ملتا ہے.لیکن امراء کو یہ کہاں نصیب.البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخه ۱۶ / اگست ۱۹۰۴ صفحه ۴،۳) بہت سے لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ انسان پر جو بلائیں آتی ہیں بے وجہ یونہی آجاتی ہیں یا اُن کے نزول کو انسان کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے.ایسا خیال بالکل غلط ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ ہر بلا جو اس زندگی میں آتی ہے یا جو مرنے کے بعد آئے گی جس کا ہمیں یقین ہے اس کی اصل جڑا گناہ ہی ہے کیونکہ گناہ کی حالت میں انسان اپنے آپ کو ان انوار اور فیوض سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں پرے ہٹا دیتا ہے اور اس اصل مرکز سے جو حقیقی راحت کا مرکز ہے ہٹ جاتا ہے اس لئے تکلیف کا آنا اس حالت میں اس پر ضروری ہے.یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ انبیاء اور راست بازوں پر بھی بعض اوقات بلائیں آجاتی ہیں اور بھی مصائب اور شدائد میں ڈالے جاتے ہیں لیکن یہ گمان کرنا کہ وہ مصائب اور بلائیں کسی گناہ کی وجہ سے آتی ہیں خطرناک غلطی اور گناہ ہے.اُن بلاؤں میں جو خدا کے راست بازوں اور پیارے بندوں پر آتی ہیں اور اُن بلاؤں میں جو خدا ستائی کے نافرمانوں اور خطا کاروں پر آتی ہیں زمین و آسمان کا فرق ہے.اس لئے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں.نبیوں اور راست بازوں پر جو بلائیں آتی ہیں ان میں ان کو ایک صبر جمیل دیا جاتا ہے جس سے وہ بلا اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ سورة البقرة مصیبت ان کے لئے مدرک العلاوت ہو جاتی ہے وہ اس سے لذت اُٹھاتے ہیں اور روحانی ترقیوں کے لئے ایک ذریعہ ہو جاتی ہیں.کیونکہ ان کے درجات کی ترقی کے لئے ایسی بلاؤں کا آنا ضروری ہے جو ترقیات کے لئے زمینہ کا کام دیتی ہیں.جو شخص ان بلاؤں میں نہیں پڑتا اور ان مصیبتوں کو نہیں اُٹھاتا وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتا.دنیا کے عام نظام میں بھی تکالیف اور مشقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں سے ہر ایسے شخص کو جو ترقی کا خواہاں ہے گزرنا پڑتا ہے.لیکن ان تکالیف اور شاقہ محنتوں میں باوجود تکالیف کے ایک لذت ہوتی ہے جو اسے کشاں کشاں آگے لئے جاتی ہے برخلاف اس کے وہ مصیبت اور تکالیف جو انسان کی اپنی بدکرداری کی وجہ سے اس پر آتی ہے وہ وہ مصیبت آتی ہے جس میں ایک درد اور سوزش ہوتی ہے جو اس کی زندگی اس کے لئے وبال جان کر دیتی ہے وہ موت کو ترجیح دیتا ہے مگر نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ مر کر بھی ختم نہیں ہوگا.غرض بلاؤں کے نزول میں ہمیشہ سے قانونِ قدرت یہی ہے کہ جو بلائیں شامت اعمال کی وجہ سے آتی ہیں وہ الگ ہیں اور خدا کے راستبازوں اور پیغمبروں پر جو بلائیں آتی ہیں وہ اُن کی ترقی درجات کے لئے ہوتی ہیں.بعض جاہل جو اس راز کو نہیں سمجھتے وہ جب بلاؤں میں مبتلا ہوتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس بلا سے فائدہ اُٹھائیں اور کم از کم آئندہ کے لئے مفید سبق حاصل کریں اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا کریں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم پر مصیبت آئی تو کیا ہوا؟ نبیوں اور پیغمبروں پر بھی تو آ جاتی ہیں حالانکہ ان بلاؤں کو انبیاء کے مشکلات اور مصائب سے کوئی نسبت ہی نہیں.جہالت بھی کیسی بری مرض ہے کہ انسان اس میں قیاس مع الفارق کر بیٹھتا ہے.یہ بڑا دھو کہ واقعہ ہوتا ہے جو انسان تمام انبیاء کی مشکلات کو عام لوگوں کی دھوکہ بلاؤں پر حمل کر لیتا ہے.پس خوب یاد رکھو کہ جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے انبیاء اور دوسرے اختیار و ابرار کی بلائیں محبت کی راہ سے ہیں خدا تعالیٰ اُن کو ترقی دیتا جاتا ہے اور یہ بلائیں وسائل ترقی میں سے ہیں.لیکن جب مفسدوں پر آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو اس عذاب سے تباہ کرنا چاہتا ہے وہ بلائیں ان کے استیصال اور نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہو جاتی ہیں.یہ ایسا فرق ہے کہ دلائل کا محتاج نہیں ہے کیونکہ جب اچھے آدمی جو خدا تعالیٰ کو مقدم کر لیتے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ بہشت اور دوزخ ان کے دل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۷۹ سورة البقرة میں نہیں ہوتا.اور نہ بہشت کی خواہش یا دوزخ کا ذکر ان کو خدا تعالیٰ کی اطاعت کا محرک ہوتا ہے بلکہ وہ طبعی جوش اور طبعی محبت سے خدا تعالیٰ سے محبت کرتے اور اس کی اطاعت میں محو ہوتے ہیں ان پر جب کوئی بلا آتی ہے تو وہ خود محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ از راہ محبت ہے وہ دیکھتے ہیں کہ ان بلاؤں کے ذریعہ ایک چشمہ کھولا جاتا ہے جس سے وہ سیراب ہوتے ہیں اور ان کا دل لذت سے بھر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک فوارہ کی طرح جوش مارنے لگ جاتی ہے تب وہ چاہتے ہیں کہ یہ بلا زیادہ ہوتا کہ قرب الہی زیادہ ہو اور رضا کے مدارج جلد طے ہوں.غرض الفاظ وفا نہیں کرتے جو اس لذت کو بیان کر سکیں جو اخیار و ابرار کو ان بلاؤں کے ذریعہ آتی ہے.یہ لذت تمام سفلی لذتوں سے بڑھی ہوئی ہے اور فوق الفوق لذت ہوتی ہے.یہ مصیبت کیا ہے؟ ایک عظیم الشان دعوت ہے جس میں قسم قسم کے انعام و اکرام اور پھل اور میوے پیش کئے جاتے ہیں.خدا اس وقت قریب ہوتا ہے فرشتے ان سے مصافحہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے مکالمہ کا شرف عطا کیا جاتا ہے اور وحی اور الہام سے اس کی تسلی اور سکینت دی جاتی ہے.لوگوں کی نظر میں یہ بلاؤں اور مصیبتوں کا وقت ہے مگر دراصل اس وقت اللہ تعالیٰ کے فیضان اور فیوض کی بارش کا وقت ہوتا ہے.سفلی اور سطحی خیال کے لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ بلاؤں اور غموں ہی کا وقت ہے جو مزا آتا ہے اور راحت ملتی ہے.کیونکہ خدا جو انسان کا اصل مقصود ہے اس وقت اپنے بندے کے بہت ہی قریب ہوتا ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ قرآن جو دیا گیا ہے غم کی حالت میں دیا گیا ہے پس تم بھی اس کو غم کی حالت میں پڑھو.غرض میں کہاں تک بیان کروں کہ ان بلاؤں میں کیا لذت اور مزا ہوتا ہے اور عاشق صادق کہاں تک ان سے محظوظ ہوتا ہے.مختصر طور پر یاد رکھو کہ ان بلاؤں کا پھل اور نتیجہ جو ابرار اور اخیار پر آتی ہیں.جنت اور ترقی درجات ہے اور وہ بلائیں اور غم جو مفسدوں اور شریروں پر آتے ہیں ان کی وجہ شامت اعمال اور تاریک زندگی ہے اور اس کا نتیجہ جہنم اور عذاب الہی ہے.پس جو شخص آگ کے پاس جاتا ہے ضرور ہے کہ وہ اس کی سوزش سے حصہ لے اور اسے محسوس کرے اور اسے دکھ پہنچے لیکن جو ایک باغ میں جاتا ہے یقینی امر ہے کہ اس کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو سے اور اس خوبصورت نظارہ کے مشاہدہ سے لذت پاوے.اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامت اعمال کی وجہ سے آتی ہیں اور جن کا نتیجہ جہنمی زندگی اور عذاب الہی ہے، اُن بلاؤں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں کیا کوئی ایسی صورت بھی ( ہے ) جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة البقرة اس عذاب اور دکھ سے رہائی کی بجز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے تو بہ کرے جب تک کچی تو بہ نہیں کرتا یہ بلائیں جو عذاب الہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوا مَا بِأَنفُسِهِم (الرعد :۱۲) یعنی جب تک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی اللہ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا.خدا تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذاب الہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی....پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کے لئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کے لئے تیار کئے ہیں اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے.جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اُس نے اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بانفسھم میں کیا ہے اس کے عذاب اور دکھ کو بدلا دیتا ہے اور دکھ کو سکھ سے تبدیل کر دیتا ہے......اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلاؤں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان بلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہے جو شامت اعمال کی وجہ سے آتی ہیں.اور یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں پس تو بہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کا حافظ اور نگران ہو جاتا ہے.اور ساری بلاؤں کو خدا دور کر دیتا ہے.اور اُن منصوبوں سے جو دشمن اُس کے لئے تیار کرتے ہیں ان سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالی کے ہی ہیں اس لئے ہر ایک شخص جو اس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا.جیسے پہلا شخص تو بہ کر چکا ہے وہ ہر ایک سچی توبہ کرنے والے کو بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ رستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳،۲) ثمرات سے مراد اولاد ہے.اور یہ خدا کی طرف سے ابتلا ہوتے ہیں اور یہی انسان کا امتحان ہوتا ہے ہاں یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے، توبہ استغفار سے.اس کی کثرت کرو اور رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف : ٢٣) پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو خدا تعالیٰ نعم البدل عطا کرے گا.خدا کا دامن نہ چھوڑنے والا گنہگار ہو کر بھی بخشا جاتا ہے.ہاں تعلق توڑنا بری بات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة البقرة ہے اور یہ زہر قاتل ہے پس تو بہ استغفار کرو.اور نمازوں میں دُعائیں کرتے رہو.اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہو.البدرجلد ۳ نمبر ۴۵،۴۴ مورخه ۲۴ نومبر و یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیخیں مارکر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوں سے لی گئی ہیں جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں.کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ کہیں.یعنی ہم خدا کا مال اور ملک ہیں، اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.انسان کے واسطے ترقی کرنے کے دو ہی طریق ہیں ( بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۲۶ / جولائی ۱۹۰۶ ء صفحه ۱۲) اول تو انسان تشریعی احکام یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج وغیرہ تکالیف شریعہ کی پابندی سے جو کہ خدا کے حکم کے موجب خود بجالا کر کرتا ہے.مگر یہ امور چونکہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں اس لئے کبھی ان میں سستی اور تساہل بھی کر بیٹھتا ہے.اور کبھی ان میں کوئی آسانی اور آرام کی صورت ہی پیدا کر لیتا ہے لہذا دوسرا وہ طریق ہے.جو براہ راست خدا کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے.اور یہی انسان کی اصلی ترقی کا باعث ہوتا ہے.کیونکہ تکالیف شرعیہ میں انسان کوئی نہ کوئی راہ بچاؤ یا آرام و آسائش کی نکال ہی لیتا ہے دیکھو کسی کے ہاتھ میں تازیانہ دے کر اگر اسے کہا جاوے کہ اپنے بدن پر مارو تو قاعدہ کی بات ہے کہ آخر اپنے بدن کی محبت دل میں آہی جاتی ہے کون ہے جو اپنے آپ کو دکھ میں ڈالنا چاہتا ہے؟ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے انسانی تکمیل کے واسطے ایک دوسری راہ رکھ دی.اور فرمایا: وَلَنَبلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اليه رجعون ہم آزماتے رہیں گے.تم کو کبھی کسی قدر خوف بھیج کر کبھی فاقہ سے کبھی مال جان اور پھلوں پر نقصان وارد کرنے سے مگر ان مصائب شدائد اور فقر و فاقہ پر صبر کر کے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے والے کو بشارت دے دو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں.دیکھو ایک کسان کس محنت اور جانفشانی سے قلبہ رانی کر کے زمین کو درست کرتا پھر تخم ریزی کرتا، آبپاشی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة البقرة کی مشکلات جھیلتا ہے.آخر جب طرح طرح کی مشکلات محنتوں اور حفاظتوں کے بعد کھیتی تیار ہوتی ہے تو بعض اوقات خدا کی بار یک در بار یک حکمتوں سے ژالہ باری ہوجاتی یا کبھی خشک سالی ہی کی وجہ سے کھیتی تباہ و برباد ہو جاتی ہے غرض یہ ایک مثال ہے.اُن مشکلات کی جن کا نام تکالیف قضا و قدر ہے.ایسی حالت میں مسلمانوں کو جو پاک تعلیم دی گئی ہے وہ کیسی رضا بالقضا کا سچانمونہ اور سبق ہے اور یہ بھی صرف مسلمانوں ہی کا حصہ ہے.آریہ جو کہ روح اور ذات کو مع ان کے خواص کے خود بخود اور خدا کی طرح ازلی ابدی مانتے ہیں وہ کیونکر انا للہ کہہ سکتے ہیں اور یہ توفیق ان کو کیسے نصیب ہو سکتی ہے.غرض تکالیف دو ہی قسم کی ہیں ایک حصہ تو وہ ہے جو احکام پر مشتمل ہے.جن میں نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج وغیرہ داخل ہیں.ان میں کسی قدر عذر اور حیلے وغیرہ کی بھی گنجائش ہے.اور جب تک پورا اخلاص اور کامل یقین نہ ہو، انسان ان سے کسی نہ کسی قدر بچنے کی یا آرام کی صورت پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتا ہے.پس اس طرح کی کوئی کسر جو انسانی کمزوری کی وجہ سے رہ گئی ہو.اس کسر کے پورا کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے تکالیف قضا و قدر رکھ دی ہیں.تاکہ انسانی فطرت کی کمزوری کی وجہ سے جو کمی رہ گئی ہو.خدا کے فضل کے ہاتھ سے پوری ہو جاوے.تکالیف قضاء و قدر کا نام آریہ لوگ پہلی بجون کا پھل رکھتے ہیں.مگر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہے.تو پھر تمہارے جب آپ کس مرض کی دوا ہیں ؟ اگر آسمانی تکالیف تمہارے پہلے اعمال کا نتیجہ ہیں تو کیوں ایک اور عذاب جپ تپ کی مصیبت میں پڑ کر اپنے واسطے پیدا کرتے ہو؟ غرض یہ دونوں سلسلے کہ کبھی انسان تکالیف شرعیہ کی پابندی کر کے اپنے ہاتھوں اور کبھی قضاوقدر کے آگے گردن جھکاتا ہے.اس واسطے ہیں کہ انسان کی تکمیل ہو جاوے.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ (البقرة : ۱۱۳) یعنی اسلام کیا ہے؟ یہی کہ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کے واسطے گردن ڈال دینا، ابتلاؤں کا ہیبت ناک نظارہ لڑائی میں تنگی تلواروں کی چمک اور کھٹا کھٹ کی طرح آنکھوں کے سامنے موجود ہے.جان جانے کا اندیشہ ہے مگر کسی بات کی پرواہ نہ کر کے خدا کے واسطے یہ سب کچھ اپنے نفس پر وارد کر لینا یہ ہے اسلام کی تعلیم کی لب لباب.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۰) انسانی مدارج کی ترقی کے واسطے سماوی تکالیف بھی رکھی گئی ہیں.ان کا ذکر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن شریف
۲۸۳ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کیا ہے.جہاں فرمایا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُوتِيكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتُ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.یہ وہ مصائب ہیں جو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے ڈالتا ہے.یہ ایک آزمائش ہے جس میں بھی تو انسان پر ایک بھاری درجہ کا ڈر لاحق ہوتا ہے وہ ہر وقت اس خوف میں ہوتا ہے کہ شاید اب معاملہ بالکل بگڑ جائے گا.بھی فقر و فاقہ شامل حال ہو جاتا ہے.ہر ایک امر میں انسان کا گذارا بہت تنگی سے ہونے لگتا ہے کبھی مال میں نقصان نمودار ہوتا ہے.تجارت اور دکانداری بگڑ جاتی ہے.یا چور لے جاتے ہیں.کبھی ثمرات میں نقصان ہوتا ہے.یعنی پھل خراب ہو جاتے ہیں کھیتی ضائع ہو جاتی ہے یا اولا دعزیز مرجاتی ہے.محاورہ عرب میں اولاد کو بھی شمر کہتے ہیں اولاد کا فتنہ بھی بہت سخت ہوتا ہے اکثر لوگ مجھے گھبرا کر خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ دُعا کریں کہ میری اولاد ہو.اولاد کا فتنہ ایسا سخت ہے کہ بعض نادان اولاد کے مرجانے کے سبب دہر یہ ہو جاتے ہیں.بعض جگہ اولا د انسان کو ایسی عزیز ہوتی ہے کہ وہ اس کے واسطے خدا کا ایک شریک بن جاتی ہے بعض لوگ اولاد کے سبب سے دہریہ، ملحد اور بے ایمان بن جاتے ہیں.بعضوں کے بیٹے عیسائی بن جاتے ہیں تو وہ بھی اولاد کی خاطر عیسائی ہو جاتے ہیں.بعض بچے چھوٹی عمر میں مرجاتے ہیں.تو وہ ماں باپ کے واسطے سلپ ایمان کا موجب ہو جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ظالم نہیں.جب کسی پر صدمہ سخت ہو، اور وہ صبر کرے تو جتنا صدمہ ہو.اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے.خدا تعالی رحیم غفور اور ستار ہے.وہ انسان کو اس واسطے تکلیف نہیں پہنچا تا کہ وہ تکلیف اٹھا کر دین سے الگ ہو جائے.بلکہ تکالیف اس واسطے آتی ہیں کہ انسان آگے قدم بڑھائے.صوفیا کا قول ہے کہ ابتلاء کے وقت فاسق آدمی قدم پیچھے ہٹاتا ہے لیکن صالح آدمی اور بھی قدم آگے بڑھاتا ہے.( بدر جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۴، ۵ والحکم جلد ۱۲ نمبر ۵ مورخه ۱۸ /جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) انسان نے جو اپنے مالک حقیقی کے مقابل پر اپنا نام بندہ رکھا یا اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کا اقرار کیا یعنی ہمارا مال، جان، بدن ، اولا دسب خدا کی ملک ہے تو اس اقرار کے بعد اس کا کوئی حق نہ رہا جس کا وہ خدا سے مطالبہ کرے.اسی وجہ سے وہ لوگ جو در حقیقت عارف ہیں باوجود صد با مجاہدات اور عبادات اور خیرات کے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے رحم پر چھوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے اور کوئی دعوی نہیں کرتے کہ ہمارا کوئی حق ہے یا ہم کوئی حق بجالائے ہیں کیونکہ در حقیقت نیک وہی ہے جس کی توفیق سے کوئی انسان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة البقرة (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳) نیکی کر سکتا ہے اور وہ صرف خدا ہے.یہ آپ ہی کی سنت مسلمانوں میں اب تک جاری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے وقت کہا جاتا ہے انا للہ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.یعنی ہم خدا کے ہیں اور خدا کا مال ہیں اور اسی کی طرف ہمارا رجوع ہے.سب سے پہلے یہ صدق و وفا کے کلمے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے تھے پھر دوسروں کے لئے اس نمونہ پر چلنے کا حکم ہو گیا.اگر آنجناب ہیویاں نہ کرتے اور لڑکے پیدا نہ ہوتے تو کیوں کر معلوم ہوتا کہ آپ خدا کی راہ میں اس قدر فدا شدہ ہیں کہ اولاد کو خدا کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۰) جب میں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو جن کو میں نے بذات خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکی ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خداوند کریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے.اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اُسے معلوم ہو جاوے کہ کیوں کر وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے.غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر وکریم ورحیم ہے.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۲۷ جدید ایڈیشن مکتوب نمبر ۱۵ بنام حضرت خلیفہ اول) کو کیسے عوارض شدیدہ ہوں خدا تعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں.اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہئے.ہاں اس وقت اضطراب میں تو بہ واستغفار کی بہت ضرورت ہے.یہ ایک نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو تو بہ نصوح کے طور پر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہر گز اس کے ارادہ میں نہ تھا تو یہ عمل اس کے لئے ایک کفارہ عظیم ہو جاتا ہے اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے.مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۹۸ جدید ایڈیشن مکتوب نمبر ۶۳ بنام حضرت خلیفہ اول) اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَابِدِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ تَطَوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ.۱۵۹ یہ بات نہایت صاف اور ظاہر ہے کہ چونکہ انسان خدا کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے اس کا تمام آرام کا اور ساری خوشحالی صرف اسی میں ہے کہ وہ سارا خدا کا ہی ہو جائے.اور حقیقی راحت بھی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک انسان اس حقیقی رشتہ کو جو اس کو خدا سے سے مکمن قوت سے حتی فعل میں نہ لاوے.لیکن جب انسان خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ سورة البقرة سے منہ پھیر لیوے تو اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسا کہ کوئی شخص ان کھڑکیوں کو بند کر د یوے جو آفتاب کی طرف تھیں اور کچھ شک نہیں کہ ان کے بند کرنے کے ساتھ ہی ساری کو ٹھٹری میں اندھیرا پھیل جائے گا.اور وہ روشنی جو محض آفتاب سے ملتی ہے یک لخت دور ہو کر ظلمت پیدا ہو جائے گی.اور وہی ظلمت ہے جو ضلالت ر جہنم سے تعبیر کی جاتی ہے.کیونکہ دکھوں کی وہی جڑ ہے اور اس ظلمت کا دور ہونا اور اس جہنم سے نجات پانا اگر قانون قدرت کے طریق پر تلاش کی جائے تو کسی کے مصلوب کرنے کی حاجت نہیں بلکہ وہی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو ظلمت کی باعث ہوئی تھیں.کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ہم درحالیکہ نور پانے کی کھڑکیوں کے بند رکھنے پر اصرار کریں کسی روشنی کو پاسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں سو گناہ کا معاف ہونا کوئی قصہ کہانی نہیں جس کا ظہور کسی آئندہ زندگی پر موقوف ہو.اور یہ بھی نہیں کہ یہ امور محض بے حقیقت اور مجازی گورنمنٹوں کی نافرمانیوں اور قصور بخشی کے رنگ میں ہیں بلکہ اس وقت انسان کو مجرم یا گنہ گار کہا جاتا ہے کہ جب وہ خدا سے اعراض کر کے اس روشنی کے مقابلہ سے پرے ہٹ جاتا اور اس چمک سے ادھر ادھر ہو جاتا ہے جو خدا سے اُترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے.اس حالت موجودہ کا نام خدا کی کلام میں جناح ہے جس کو پارسیوں نے مبدل کر کے گناہ بنالیا ہے اور جنح جو اس کا مصدر ہے اس کے معنے ہیں میل کرنا اور اصل مرکز سے ہٹ جانا.پس اس کا نام جناح یعنی گناہ اس لئے ہوا کہ انسان اعراض کر کے اس مقام کو چھوڑ دیتا ہے جو الہی روشنی پڑنے کا مقام ہے اور اس خاص مقام سے دوسری طرف میل کر کے ان نوروں سے اپنے تئیں دور ڈالتا ہے جو اس سمت مقابل میں حاصل ہو سکتے ہیں.ایسا ہی مجرم کا لفظ جس کے معنے بھی گناہ ہیں جرم سے مشتق ہے اور جرم عربی زبان میں کاٹنے کو کہتے ہیں پس مُجرم کا نام اس لئے جرم ہوا کہ جرم کا مرتکب اپنے تمام تعلقات خدا تعالیٰ سے کاٹتا ہے اور باعتبار مفہوم کے جرم کا لفظ جناح کے لفظ سے سخت تر ہے کیونکہ جناح صرف میل کا نام ہے جس میں کسی طرح کا ظلم ہو مگر جُرم کا لفظ کسی گناہ پر اس وقت صادق آئے گا کہ جب ایک شخص عمد أخدا کے قانون کو توڑ کر اور اس کے تعلقات کی پرواہ نہ رکھ کر کسی ناکردنی امر کا دیدہ و دانسته ارتکاب (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۹،۷۸) کرتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّتَهُ لِلنَّاسِ في الكتب أولبِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنْهُمُ اللَّعِنُونَ یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی اُن کھلی کھلی تعلیمات اور ہدایتوں کو لوگوں پر پوشیدہ رکھتے ہیں جن کو ہم نے اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ کتاب میں بیان کر دیا ہے.اُن پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے.اور نیز اُس کے بندوں کی بھی لعنت.سورة البقرة ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۳۴) قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے ایک غایت درجہ کا غیبی اور سخت درجہ کا نا دان بھی اُس سے بے خبر نہیں رہ سکتا.مثلاً زمانہ حال کے مہذ بین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے.لیکن قرآن شریف کفار کو سنائنا کران پر لعنت بھیجتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: أُولبِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا ( البقرة : ١٢٣) - أوتيكَ يَلْعَنْهُمُ اللهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللعنون - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۵ حاشیه) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے.بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کے کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے اور اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذا رسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے کیونکہ جو کچھ بنوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے الفاظ یہ بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۹) اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَا اَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ (۱۶۵ المُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَايْتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ سورة البقرة : دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا.اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخر کیا.یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدتم بالا رادہ ہونے پر نشانات ہیں.اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جل شانہ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانونِ قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہ لاشریک اور مدتم بالا رادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ تمام مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے.یہ صاف طور پر جتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لاشریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مدبر بالا رادہ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو.( جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۵) ہواؤں اور بادلوں کو پھیرنا یہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے اور اس میں عقل مندوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے اختیار کامل کا پتہ لگتا ہے.اور یہ پھیر نا دو قسم پر ہے ایک ظاہری طور پر اور وہ یہ ہے کہ ہواؤں اور بادلوں کو ایک جہت سے دوسری جہت کی طرف اور ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف پھیرا جائے.دوسری قسم پھیرنے کی باطنی طور پر ہے.اور وہ یہ کہ ہواؤں اور بادلوں میں ایک کیفیت تریاقی یا ستمی پیدا کر دی جائے تا موجب امن و آسائش خلق ہوں یا امراض وبائیہ کا موجب ٹھہریں.سو ان دونوں قسموں کے پھیرنے میں انسان کا دخل نہیں اور بکلی انسانی طاقت سے باہر ہیں.اور با ایں ہمہ ایک یہ مشکل بھی پیش ہے کہ ہماری صحت یا عدم صحت کا مدار صرف ان ہی دو چیزوں پر نہیں بلکہ ہزار درہزار اسباب ارضی و سماوی اور بھی ہیں جود قیق در دقیق اور انسان کی فکر اور نظر سے مخفی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تمام اسباب اُس کی جدوجہد سے پیدا ہو سکتے ہیں.پس اس میں کیا شک ہے کہ انسان کو اس خدا کی طرف رجوع کرنے کی حاجت ہے جس کے ہاتھ میں یہ تمام اسباب اور اسباب در اسباب ہیں.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۶) خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہو رہی ہے.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة البقرة طبعی تحقیقا تیں جہاں تک ہوتی چلی جائیں گی وہاں تو حید ہی تو حید نکلتی چلی جائے گی اللہ تعالیٰ اس آیت اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ میں بتلاتا ہے کہ جس خدا کو قرآن پیش کرتا ہے اُس کے لئے زمین آسمان دلائل سے بھرے پڑے ہیں.مجھے ایک حکیم کا مقولہ بہت ہی پسند آتا ہے کہ اگر گل کتا بیں دریا برد کر دی جاویں تو پھر بھی اسلام کا خدا باقی رہ جائے گا.اس لئے کہ وہ مثلث اور کہانی نہیں.اصل میں پختہ بات وہی ہے جس کی صداقت کسی خاص چیز پر منحصر (نہ) ہو کہ اگر وہ نہ ہو تو اُس کا پتہ ہی ندارد.قصہ کہانی کا نقش نہ دل میں ہوتا ہے نہ صحیفہ فطرت میں.جب تک کسی پنڈت پاند ہے یا پادری نے یا درکھا ان کا کوئی وجود مسلم رہا، زاں بعد حرف غلط کی طرح مٹ گیا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۲،۷۱) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحْبِ اللهِ وَالَّذِينَ امَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وَ لَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ جاننا چاہئے کہ قرب الہی کی تین قسمیں، تین قسم کی تشبیہ پر موقوف ہیں جن کی تفصیل سے مراتب ثلاثہ قرب کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.اوّل قسم قرب کی خادم اور مخدوم کی تشبہ سے مناسبت رکھتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُنَّا لِلهِ یعنی مومن جن کو دوسرے لفظوں میں بندہ فرماں بردار کہہ سکتے ہیں سب چیزوں سے زیادہ اپنے مولیٰ سے محبت رکھتے ہیں.تفصیل اس کی یہ ہے کہ جیسے ایک نوکر با اخلاص و باصفا و با وفا بوجه مشاہدہ احسانات متواترہ و انعامات متکاثره وکمالات ذاتیہ اپنے آقا کی اس قدر محبت و اخلاص و یک رنگی میں ترقی کر جاتا ہے جو بوجہ ذاتی محبت کے جو اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اپنے آقا سے ہم طبیعت و ہم طریق ہو جاتا ہے اور اس کی مرادات کا ایسا ہی طالب اور خواہاں ہوتا ہے جیسے آقا خود اپنی مرادات کا خواہاں ہے اسی طرح بندہ وفادار کی حالت اپنے مولیٰ کریم کے ساتھ ہوتی ہے یعنی وہ بھی اپنے خلوص اور صدق و صفا میں ترقی کرتا کرتا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے وجود سے بکلی محو و فنا ہو کر اپنے مولیٰ کریم کے رنگ میں مل جاتا ہے.آنجا که محبتے نمک میریزد ہر پرده که بود از میان برخیزد ایس نفس دنی که صد ہزارش دهن است خاموش شود چو عشق شور انگیزد چون رنگ خودی رود کسی را از عشق یارش از کرم برنگ خویش آمیزد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۹ سورة البقرة سوایسا خادم جو ہم رنگ اور ہم طبیعت مخدوم ہو رہا ہے طبعی طور پر اُن سب باتوں سے منتظر ہوجاتا ہے جو اس کے مخدوم کو بری معلوم ہوتی ہیں وہ نافرمانی کو اس جہت سے نہیں چھوڑتا کہ اس پر سزا مترتب ہوگی اور تعمیل حکم اس وجہ سے نہیں کرتا کہ اس سے انعام ملے گا اور کوئی قول یا فعل اس کا اپنے اخلاق کا ملہ کے تقاضا سے صادر نہیں ہوتا بلکہ محض اپنے مخدوم حقیقی کی اطاعت کی وجہ سے جو اس کی سرشت میں رچ گئی ہے صادر ہوتا ہے اور بے اختیار اسی کی طرف اور اس کی مرضیات کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے وہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال کا پھیر نا خواہ نخواہ واجب نہیں جانتا اور نہ طمانچہ کی جگہ طمانچہ مارنا اس کو لا بلا ضروری معلوم ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ایک رنگ دل سے فتویٰ پوچھتا ہے جو اس وقت خاص میں اس کے محبوب حقیقی کی مرضی کیا ہے اور اس بات کے لئے کوئی معقول وجہ تلاش کرتا ہے کہ کس طریق کے اختیار کرنے میں زیادہ تر خیر ہے جو موجب خوشنودی حضرت باری جل شانہ ہے آیا عفو میں یا انتقام میں؟ سو جو عمل موجودہ حالت کے لئے قرین بصواب ہو اسی کو بروئے کار لاتا ہے.اسی طرح اس کی بخشش اور عطا بھی سخاوت جمیلہ کے تقاضا سے نہیں ہوتی بلکہ اطاعت کامل کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی اطاعت کے جوش سے وقت موجودہ میں خوب سوچ لیتا ہے کہ کیا اس وقت اس طرز کی سخاوت یا ایسے شخص پر احسان و مروّت مقرون بہ مرضی مولیٰ ہوسکتی ہے اور اگر نامناسب دیکھتا ہے تو ایک حبه خرچ نہیں کرتا اور کسی ملامت کنندہ کی علامت سے ہرگز نہیں ڈرتا غرض احمقانہ تقلید سے وہ کوئی کام بھی نہیں کرتا بلکہ سچی اور کامل محبت کی وجہ سے اپنے آقا کا مزاج دان ہو جاتا ہے اور یکرنگی اور اتحاد کی روشنی جو اس کے دل میں ہے وہ ہر ایک تازہ وقت میں تازہ طور پر اس کو سمجھا دیتی ہے جو اس خاص وقت میں کیوں کر اور کس طرز سے کوئی کام کرنا چاہیئے جو مخدوم حقیقی کے منشاء کے مطابق ہو اور چونکہ اس کو اپنے منعم حقیقی سے ایک تعلق ذاتی پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اطاعت اور فرمانبرداری اس کے سر پر کوئی آزار رساں بوجھ نہیں ہوتا بلکہ وہ فرمانبرداری اس کے ایک امر طبیعی کے حکم میں ہو جاتی ہے جو بالطبع مرغوب اور بلا تصنع و تکلف اس سے صادر ہوتی رہتی ہے اور جیسی اللہ جل شانہ کو اپنی خوبی اور عظمت محبوب بالطبع ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنا اس کے لئے محبوب بالطبع ہو جاتا ہے اور اپنے مخدوم حقیقی کی ہر ایک عادت و سیرت اس کی نظر میں ایسی پیاری ہو جاتی ہے کہ جیسی خود اس کو پیاری ہے.سو یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جن کے سینے محبت غیر سے بالکل منزہ وصاف ہو جاتے ہیں اور خدائے تعالی کی رضا مندی کو ڈھونڈنے کے لئے ہر ایک وقت جان قربان کرنے کو طیار رہتے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة البقرة سینه می باید تهی از غیر یار دل ہمی باید پر از یاد نگار جاں ہمی باید براه او فدا سرهمی باید به پائے اوتار هیچ دانی چیست دین عاشقاں گوئمت گر بشنوی عشاق دا از ہمہ عام فردیستن نظر لوح دل شستن ز غیر دوستدار قرب کی دوسری قسم والد اور والد کی تشبہ سے مناسبت رکھتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً (البقرة : ۲۰۱) یعنی اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا درکھنا چاہیئے کہ مخدوم اس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ شدت واقع ہو جاتی ہے اور محب جو ہر یک کدورت اور غرض سے مصفا ہے دل کے تمام پردے چیر کر دل کی جڑھ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اس کی جز ہے تب جس قدر جوش محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہم رنگ اور اس کی جز ہو جاتا ہے کہ سعی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصور کرنے سے ایک روحانی نسبت محسوس ہوتی ہے ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اس نسبت کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جیسے بیٹا اپنے باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اس کی رفتار اور کردار اور محو اور بو بصفائی نام اس میں پائی جاتی ہے علی ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے اور اس درجہ اور قرب اوّل کے درجہ میں فرق یہ ہے کہ قرب اوّل کا درجہ جو خادم اور مخدوم سے تشبیہ رکھتا ہے وہ بھی اگر چہ اپنے کمال کے رو سے اس درجہ ثانیہ سے نہایت مشابہ ہے لیکن یہ درجہ اپنی نہایت صفائی کی وجہ سے تعلق مادر زاد کے قائم مقام ہو گیا ہے اور جیسا باعتبار نفس انسانیت کے دوانسان مساوی ہوتے ہیں لیکن بلحاظ شرت وضعف خواص انسانی کے ظہور آثار میں متفاوت واقع ہوتی ہیں ایسا ہی اِن دونوں درجوں میں تفاوت درمیان ہے غرض اس درجہ میں محبت کمال لطافت تک پہنچ جاتی ہے اور مناسبت اور مشابہت بال بال میں ظاہر ہو جاتی ہے.خیال کرنا چاہئے کہ اگر چہ ایک شخص کمال عشق کی حالت میں اپنے معشوق سے ہم رنگ ہوجاتا ہے.مگر جو شخص اپنے باپ سے جس سے وہ نکلا ہے مشابہت رکھتا ہے اس کی مشابہت اور ہی آب و تاب رکھتی ہے.تیسری قسم کا قرب ایک ہی شخص کی صورت اور اس کے عکس سے مشابہت رکھتا ہے یعنی جیسے ایک شخص آئینہ صاف و وسیع میں اپنی شکل دیکھتا ہے تو تمام شکل اس کی معہ اپنے تمام نقوش کے جو اس میں موجود ہیں ا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة البقرة عکسی طور پر اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہے ایسا ہی اس قسم ثالث قرب میں تمام صفات الہیہ صاحب قرب کے وجود میں یہ تمام تر صفائی منعکس ہو جاتی ہیں.اور یہ انعکاس ہر یک قسم کی تشبہ سے جو پہلے اس سے بیان کیا گیا ہے اتم و اکمل ہے کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ جیسے ایک شخص آئینہ صاف میں اپنا منہ دیکھ کر اس شکل کو اپنی شکل کے مطابق پاتا ہے وہ مطابقت اور مشابہت اس کی شکل سے نہ کسی غیر کو کسی حیلہ یا تکلف سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ کسی فرزند میں ایسی ہو بہو مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ مرتبہ کس کے لئے میٹر ہے اور کون اس کامل درجہ قرب سے موسوم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس کو میسر آتا ہے کہ جو الوہیت و عبودیت کے دونوں قوسوں کے بیچ میں کامل طور پر ہو کر دونوں قوسوں سے ایسا شدید تعلق پکڑتا ہے کہ گویا ان دونوں کا عین ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کو بکی درمیان سے اٹھا کر آئینہ صاف کا حکم پیدا کر لیتا ہے اور وہ آئینہ ذو جہتین ہونے کی وجہ سے ایک جہت سے صورت الہیہ بطور ظلی حاصل کرتا ہے اور دوسری جہت سے وہ تمام فیض حسب استعداد و طبائع مختلفہ اپنے مقابلین کو پہنچاتا ہے اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.ثق دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی (النجم : ۱).(سرمه چشم آری، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۲ تا ۲۶۴ حاشیه) اب جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قوی میں سے یہ بھی ایک قوت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہر یک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جو ہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے اللہ تعالی فرماتا ہے اشرِ بُوا في قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ (البقرة :) یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.در حقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلمی طور پر بقد را اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے.اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے پس جبکہ محبت کی حقیقت یہ ہے تو پھر کیوں کر ایک کچی کتاب جو منجانب اللہ ہے اجازت دے سکتی ہے کہ تم شیطان سے وہ محبت کرو جو خدا سے کرنی چاہئے اور شیطان کے جانشینوں سے وہ پیار کرو جو رحمن کے جانشینوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة البقرة سے کرنا چاہئے افسوس کہ پہلے تو انجیل کے باطل ہونے پر ہمارے پاس یہی ایک دلیل تھی کہ وہ ایک عاجز مشت خاک کو خدا بناتی ہے اب یہ دوسری دلائل بھی پیدا ہوگئیں کہ اس کی دوسری تعلیمیں بھی گندی ہیں کیا یہ پاک تعلیم ہو سکتی ہے کہ شیطان سے ایسی ہی محبت کرو جیسا کہ خدا سے اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ یسوع کے منہ سے سہوا یہ باتیں نکل گئیں کیونکہ وہ الہیات کے فلسفہ سے ناواقف تھا تو یہ عذر کیا اور فضول ہوگا کیونکہ اگر وہ ایسا ہی نا واقف تھا تو کیوں اس نے قوم کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا.کیا وہ بچہ تھا اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہوتا اپنے محبوب میں ہو کر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہو کر اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کے ساتھ ہو کر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پر ہو جانا ہے چنانچہ عرب میں یہ نشل مشہور ہے کہ تحبَّبَ الْحِمارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تحب الحمار اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پر ہو گیا تو کہتے ہیں شیرِبَتِ الإِبل حتى تحببت اور حب جو دانہ کو کہتے ہیں وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بناء پر احباب سونے کو بھی کہتے ہیں کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حسّ اس کو باقی نہیں رہے گی پھر جبکہ محبت کی یہ حقیقت ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو دوسرے لفظوں میں اس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جاؤ، خوب تعلیم ہے.ایسی تعلیم کیوں کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچاوے.اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا حرام ہے تو کس قسم کا خلق ان سے برتنا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ ان پر کمال درجہ کی شفقت چاہئے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی جذامیوں اور اندھوں اور اولوں اور لنگڑوں وغیرہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ سورة البقرة دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محبّ اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظر استحسان دیکھتا ہے اور رغبت رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہو جائیں مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظر خوف وعبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شائد وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقعہ کے مناسب حال کا رروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے بعض وقت اس کو شربت پلاتا ہے اور بعض اوقات ایک حاذق ڈاکٹر کی طرح اس کا ہاتھ یا پیر کاٹنے میں اس کی زندگی دیکھتا ہے اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے.اگر تم ایک دن ایک بڑے شفاخانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہر یک قسم کے مریض آتے ہوں، بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنے تمہاری سمجھ میں آجائیں گے.سو تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ (التَّوبة : ۱۲۸) یعنی اے کا فروا یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ پھر فرماتا ہے: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ٣) یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا.کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے : تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد :۱۸) یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو.اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے جیسا کہ فرماتا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لله اور فرماتا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصْرَى أَوْلِلیلة (المائدة: or) اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةٌ مِنْ دُونِكُمْ (ال عمران :۱۹) یعنی یہود اور نصاری سے محبت مت کرو اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو.ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ سورة البقرة b ہر یک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجالانا متصوّر ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے.نہایت سخت جاہل وہ شخص ہو گا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو ہم بار بالکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہر گز ممکن نہیں.ہاں مومن کا فر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجالائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب، ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو بھوکوں کو کھلا ؤ غلاموں کو آزاد کر وقرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.اور فرماتا ہے: ان الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَانِى ذِي الْقُرْبى (النحل : (٩) یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو.جیسے بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے: لَا يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة : ٩) یعنی نصاری وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں.اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگر چہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو ان سے ہمدردی کرو انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے: إِنَّمَا يَنْفَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِيْنَ قتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظُهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (الممتحنة :) یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا.جب تک با ہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا.سو ان کی دوستی حرام ہے کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یا درکھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تونی (تولی کی تا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توئی میں ایک تکلف ہے جو مغائرت پر دلالت کرتا ہے مگر محبت میں ایک ذرہ مغائرت باقی نہیں رہتی.منہ ) عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں جس کا دوسرا نام مودت ہے اور اصل حقیقت دوستی اور مودت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سومومن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة البقرة نصاری اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کر سکتا ہے.احسان کر سکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کر سکتا یہ ایک بار یک فرق ہے اس کو خوب یا درکھو.پھر آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے.اما الجواب : پس واضح ہو کہ یہ اعتراض در حقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجود نہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے قرآن نے صاف فرما دیا ہے: فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقرة:٢٠١) وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِله یعنی خدا کو ایسا یاد کرو.جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ.اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے اور پھر فرمایا: حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمُ (الحجرات :) یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنادیا اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا......اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الہی اور رضاء الہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے؟ ہم ہر یک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہرگز بیان نہیں کیا....اگر کہو کہ انجیل نے یہ سکھلا کر کہ خدا کو باپ کہو محبت ذاتی کی طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے خدا کے بیٹے کا لفظ دو طور سے استعمال کیا ہے (۱) اول تو یہ کہ مسیح کے وقت میں یہ قدیم رسم تھی کہ جو شخص رقم اور نیکی کے کام کرتا اور لوگوں سے مروت اور احسان سے پیش آتا تو وہ واشگاف کہتا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور اس لفظ سے اس کی یہ نیت ہوتی تھی کہ جیسے خدا نیکوں اور بدوں دونوں پر رحم کرتا ہے اور اس کے آفتاب اور ماہتاب اور بارش سے تمام برے بھلے فائدہ اٹھاتے ہیں ایسا ہی عام طور پر نیکی کرنا میری عادت ہے لیکن فرق اس قدر ہے کہ خدا تو ان کاموں میں بڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں.سوانجیل نے بھی اس لحاظ سے خدا کو باپ ٹھہرایا کہ وہ بڑا ہے اور دوسروں کو بیٹا ٹھہرایا یہ نیت کر کے کہ وہ چھوٹے ہیں مگر اصل امر میں خدا سے مساوی کیا یعنی کمیت میں کمی بیشی کو مان لیا مگر کیفیت میں باپ بیٹا ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سورة البقرة رہے اور یہ ایک مخفی شرک تھا اس لئے کامل کتاب یعنی قرآن شریف نے اس طرح کی بول چال کو جائز نہیں رکھا.یہودیوں میں جو ناقص حالت میں تھے جائز تھا اور انہیں کی تقلید سے یسوع نے اپنی باتوں میں بیان کر دیا چنانچہ انجیل کے اکثر مقامات میں اسی قسم کے اشارے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی طرح رحم کر وخدا کی طرح صلح کار بنو خدا کی طرح دشمنوں سے بھی ایسی ہی بھلائی کرو جیسا کہ دوستوں سے تب تم خدا کے فرزند کہلاؤ گے کیونکہ اس کے کام سے تمہارا کام مشابہ ہوگا.صرف اتنا فرق رہا کہ وہ بڑا بمنزلہ باپ خدا اور تم چھوٹے بمنزلہ بیٹے کے ٹھہرے سو یہ تعلیم در حقیقت یہودیوں کی کتابوں سے لی گئی تھی.اسی لئے یہودیوں کا اب تک لی یہ اعتراض ہے کہ یہ چوری اور سرقہ ہے بائیل سے چرا کر یہ باتیں انجیل میں لکھ دیں.بہر حال یہ تعلیم ایک تو ناقص ہے اور دوسرے اس طرح کا بیٹا محبت ذاتی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.(۲) دوسری قسم کے بیٹے کا انجیل میں ایک بے ہودہ بیان ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ میں ہے یعنی اس درس میں بیٹا تو ایک طرف ہریک کو خواہ کیسا ہی بدمعاش ہو خدا بنا دیا ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ نوشتوں کا باطل ہونا ممکن نہیں.غرض انجیل نے شخصی تقلید سے اپنی قوم کا ایک مشہور لفظ لے لیا علاوہ اس کے یہ بات خود غلط ہے کہ خدا کو باپ قرار دیا جاوے اور اس سے زیادہ تر نادان اور بے ادب کون ہوگا کہ باپ کا لفظ خدا تعالیٰ پر اطلاق کرے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۰ تا ۴۴۳) محبت کا انتہا عبادت ہے اس لئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے.اور نوع انسان کے لئے بجائے محبت کے خدا کے کلام میں رحم اور احسان کا لفظ آیا ہے کیونکہ کمال محبت پرستش کو چاہتا ہے اور کمال رحم ہمدردی کو چاہتا ہے.اس فرق کو غیر قوموں نے نہیں سمجھا اور خدا کا حق غیروں کو دیا.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۹) خدا کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں جس میں یہ داخل ہے کہ جدائی سے درد اور تکلیف ہو بلکہ خدا کی محبت سے مراد یہ ہے کہ وہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ایسا پیش آتا ہے جیسا کہ محبت پیش آتا ہے.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۸ حاشیه ) محبت کا لفظ جہاں کہیں با ہم انسانوں کی نسبت آیا بھی ہو اس سے در حقیقت حقیقی محبت مراد نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم کی رو سے حقیقی محبت صرف خدا سے خاص ہے اور دوسری محبتیں غیر حقیقی اور مجازی طور پر ہیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۹ حاشیه ) پھر بعد اس کے لفظ اسلام کا مفہوم بھی محبت پر ہی دلالت کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ سورة البقرة اور صدق دل سے قربان ہونے کے لئے طیار ہو جانا جو اسلام کا مفہوم ہے یہ وہ عملی حالت ہے جو محبت کے سر چشمہ سے نکلتی ہے.اسلام کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے صرف قولی طور پر محبت کو محدود نہیں رکھا بلکہ عملی طور پر بھی محبت اور جان فشانی کا طریق سکھایا ہے.دنیا میں اور کونسا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے؟ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنے کوٹ کوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں.پس مبارک وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے.ایسا ہی خدا کی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہ یعنی ایماندار وہ ہیں جو سب سے زیادہ خدا سے محبت (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۷) رکھتے ہیں.خدا تو محبت اور اطاعت کی راہ بتاتا ہے چنانچہ خود قرآن شریف میں اس نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ اور فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ (البقرة:1) اور پھر کیا دنیا میں بھی یہ بھی ہوا ہے کہ بیٹا باپ کی محبت میں فنا ہو کر خود باپ بن جاوے باپ کی محبت میں فتا تو ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ باپ ہی ہو جاوے یہ یادرکھنے کے قابل بات ہے کہ فناء نظری ایک ایسی شے ہے جو محبت سے ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی فنا جو در حقیقت بہانہ فنا کا ہو اور ایک جدید وجود کے پیدا کرنے کا باعث بنے کہ میں ہی ہوں یہ ٹھیک نہیں ہے.( الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۳) عبادت کے دو حصے تھے.ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی روح گداز ہو کر الوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اس میں پیدا ہو جاتا ہے.دوسراحصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہ اور ر دنیا کی ساری محبتوں کو غیر فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جاوے.یہ دوحق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے ان دونوں قسم کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اُس کے لئے مقرر کی ہوئی ہیں.خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اس سے محبت کیوں کر کر سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی اور جس قدر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة البقرة محبت الہی میں وہ ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا.پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لئے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا ہے اور محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھا ہے.خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے، سرمنڈایا جاتا ہے، دوڑتے ہیں ، محبت کا بوسہ رہ گیا، وہ بھی ہے.جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے نادان ہے وہ شخص جو اپنی نا بینائی سے اعتراض کرتا ہے.(احکام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳) مراتب قرب و محبت باعتبار اپنے روحانی درجات کے تین قسم پر منقسم ہیں ؛ سب سے ادنی درجہ جو در حقیقت وہ بھی بڑا ہے یہ ہے کہ آتشِ محبت الہی اوج قلب انسان کو گرم تو کرے اور ممکن ہے کہ ایسا گرم کرے کہ بعض آگ کے کام اُس مخرُور سے ہو سکیں لیکن یہ کسر باقی رہ جائے کہ اُس متاثر میں آگ کی چمک پیدا نہ ہو اس درجہ کی محبت پر جب خدا تعالیٰ کی محبت کا شعلہ واقع ہو تو اس شعلہ سے جس قدر روح میں گرمی پیدا ہوتی ہے اس کو سکینت و اطمینان اور کبھی فرشتہ و ملک کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں.دوسرا درجہ محبت کا وہ ہے......جس میں دونوں محبتوں کے ملنے سے آتش محبت الہی لوح قلب انسان کو اس قدر گرم کرتی ہے کہ اُس میں آگ کی صورت پر ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے لیکن اُس چمک میں کسی قسم کا اشتعال یا بھڑک نہیں ہوتی.فقط ایک چمک ہوتی ہے جس کو رُوح القدس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.تیسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں ایک نہایت افروختہ شعلہ محبت الہی کا انسانی محبت کے مستعد فتیلہ پر پڑ کر اُس کو افروختہ کر دیتا ہے اور اس کے تمام اجزا اور تمام رگ وریشہ پر استیلا پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل مظہر اس کو بنا دیتا ہے اور اس حالت میں آتشِ محبت الہی لوحِ قلب انسان کو نہ صرف ایک چمک بخشتی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة البقرة بلکہ معاً اس چمک کے ساتھ تمام وجود بھڑک اٹھتا ہے اور اس کی لوئیں اور شعلے ارد گرد کو روز روشن کی طرح روشن کر دیتے ہیں اور کسی قسم کی تاریکی باقی نہیں رہتی اور پورے طور پر اور تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ وہ سارا وجود آگ ہی آگ ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کو روح امین کے نام سے بولتے ہیں کیونکہ یہ ہر یک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر یک غبار سے خالی ہے اور اس کا نام شدید القویٰ بھی ہے کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقت وحی ہے جس سے قومی تروجی دوو متصورنہیں اور اس کا نام ذُو الْأُفُقِ الأخلی بھی ہے کیونکہ یہ وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلی ہے اور اس کو رای مارای کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات کے قیاس اور گمان اور وہم سے باہر ہے اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے.اور دائرہ استعدادات بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے اور وہ در حقیقت پیدائش الہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے.حکمت الہی کے ہاتھ نے ادنیٰ سے ادنی خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلیٰ درجہ کے نقطہ تک پہنچادیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ، جس کے معنے یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا یعنی کمالات تامہ کا مظہر سوجیسا کہ فطرت کے رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ وارفع مرتبہ وحی کا اس کو عطا ہوا اور اعلیٰ وارفع مقام محبت کا ملا.( توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۳ ، ۶۴) جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی.ایمان جو ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اُس سے شریک نہ کریں اللہ جل شانہ مومن کی یہ علامت فرماتا ہے : وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ یعنی جو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے محبت ایک خاص حق اللہ جل شانہ کا ہے جو شخص اُس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا.تمام برکتیں جو مردان خدا کو ملتی ہیں اور تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز و روزہ سے ملتی ہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں، جو اُسی کے ہو جاتے ہیں، اُسی کے ہو رہتے ہیں.اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اُس کی راہ میں قربان کرتے ہیں.میں خوب اُس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یک دفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا تھا لیکن مجھے غیرت اس بات میں ہے کہ ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۰ سورة البقرة پر کوئی اور نہ ہونا چاہے.ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا جس سے الہی محبت باہر ہو خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست کوئی ہو ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر نعمت اور رحمت الہی تدارک نہ کرے توسلپ ایمان کا خطرہ ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۹) تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرمایا: اَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا.ساری قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں اور انسان ضعیف البنیان تو کمزور ہستی ہے.خُلِقَ الإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء : ۲۹) اس کی حقیقت ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۵۸) وَ قَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَةً فَنَتَبَرَّاً مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَا كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخْرِجِينَ مِنَ النَّارِ یعنی دوزخی لوگ درخواست کریں گے جو ایک دفعہ ہم دنیا میں جائیں.تا ہم اپنے باطل معبودوں سے ایسے ہی بیزار ہو جا ئیں جیسے وہ ہم سے بیزار ہیں لیکن وہ دوزخ سے نہیں نکلیں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۰ حاشیه در حاشیه ) ياَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طَيِّبًا وَ لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشّيطن (179 إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ہر ایک انسان کے لئے دو جاذب موجود ہیں یعنی کھینچنے والے.ایک جاذب خیر ہے جو نیکی کی طرف اُس کو کھینچتا ہے، دوسرا جاذب شتر ہے جو بدی کی طرف کھینچتا ہے.جیسا کہ یہ امر مشہود و محسوس ہے کہ بسا اوقات انسان کے دل میں بدی کے خیالات پڑتے ہیں اور اُس وقت وہ ایسا بدی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا اُس کو کوئی بدی کی طرف کھینچ رہا ہے اور پھر بعض اوقات نیکی کے خیالات اس کے دل میں پڑتے ہیں اور اُس وقت وہ ایسا نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ گویا کوئی اُس کو نیکی کی طرف کھینچ رہا ہے اور بسا اوقات ایک شخص بدی کر کے پھر نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے اور نہایت شرمندہ ہوتا ہے کہ میں نے برا کام کیوں کیا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی کو گالیاں دیتا اور مارتا ہے اور پھر نادم ہوتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ یہ کام میں نے بہت ہی بیجا کیا اور اُس سے کوئی نیک سلوک کرتا ہے یا معافی چاہتا ہے سو یہ دونوں قسم کی قوتیں ہر ایک انسان میں پائی جاتی ہیں اور شریعت اسلام نے نیکی کی قوت کا نام لمہ ، ملک رکھا ہے اور بدی کی قوت کولمہ شیطان سے موسوم کیا ہے.فلسفی لوگ تو صرف اس حد تک ہی قائل ہیں کہ یہ دونوں قو تیں ہر ایک انسان میں ضرور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠١ سورة البقرة موجود ہیں مگر خدا جو وراء الوراء اسرار ظاہر کرتا ہے اور عمیق اور پوشیدہ باتوں کی خبر دیتا ہے اُس نے ان دونوں قوتوں کو مخلوق قرار دیا ہے، جو نیکی کا القاء کرتا ہے اُس کا نام فرشتہ اور روح القدس رکھا ہے اور جو بدی کا القاء کرتا ہے اُس کا نام شیطان اور ابلیس قرار دیا ہے مگر قدیم عقلمندوں اور فلاسفروں نے مان لیا ہے کہ القاء کا مسئلہ بیہودہ اور لغو نہیں ہے.بے شک انسان کے دل میں دو قسم کے القاء ہوتے ہیں.نیکی کا الفاء اور بدی کا القاء.اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں القاء انسان کی پیدائش کا جزو نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ باہم متضاد ہیں اور نیز انسان اُن پر اختیار نہیں رکھتا اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں القاء باہر سے آتے ہیں اور انسان کی تکمیل اُن پر موقوف ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے وجود یعنی فرشتہ اور شیطان کو ہندوؤں کی کتابیں بھی مانتی ہیں اور گیر بھی اس کے قائل ہیں بلکہ جس قدر خدا کی طرف سے دُنیا میں کتا بیں آئی ہیں سب میں ان دونوں وجودوں کا اقرار ہے.پھر اعتراض کرنامحض جہالت اور تعصب ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۳، ۲۹۴) إنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ ۱۷۴ فَمَنِ اضْطُرَ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.شریعت کی بنا نرمی پر ہے تختی پر نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ وَمَا أُهِنَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہ سے یہ مراد ہے کہ جوان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور بیع و شرا میں آجاتے ہیں اس کی حلت ہی سمجھی جاتی ہے.زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے دیکھو حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ اُن کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی بنی ہوئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا کہ شیر بینیاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور جب کھانڈ تیار کرتے ہیں تو اُس کو پاؤں سے ملتے ہیں چوڑھے چمارگر وغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جھوٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشدد ہو تو سب حرام ہو جاویں.اسلام نے مالا يطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے.الحکم جلد ۷ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۰) جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا.تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے.( بدر جلد نمبر ۵ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۸ ء صفحه ۶) لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٢ سورة البقرة بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتب وَالنَّبِينَ وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِى الْقُرْبى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ ج أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّلوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَهَدُوا ۚ وَالصُّبِرِينَ فِي وو الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان مالوں کو غلاموں کے آزاد کرانے کے لئے اور قرض داروں کو سبکدوش کرنے کے لئے بھی دیتے ہیں.،، اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) وَاللهُ أَدْخَلَ وُجُودَ الْمَلَائِكَةِ في اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے وجود کو ایمانیات میں شامل کیا ہے الْإِيمَانِيَاتِ كَمَا أَدْخَلَ فِيْهَا نَفْسَه ٹھیک اسی طرح جس طرح اس نے اپنے آپ کو شامل کیا وَقَالَ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ ہے.اور فرمایا ہے : وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتب وَالنَّبِيَّنَ، وَقَالَ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ اور فرمایا ہے : وَمَا وَ مَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبَّكَ إِلَّا هُوَ فَبَيَّنَ يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ *.پس اس طرح اللہ تعالیٰ لِلنَّاسِ أَنّ حَقِيقَةَ الْمَلَائِكَةِ وَحَقِيقَةٌ نے لوگوں کو کھول کر بتا دیا کہ ملائکہ اور ان کی صفات کی صِفَاتِهِمْ مُتَعَالِيَةٌ عَنْ طَوْرِ الْعَقْلِ وَ لا حقیقت عقل سے بالا تر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا اللهُ فَلا تَضْرِبُوا الله نہیں جانتا اس لئے تم اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے وَلَا لِمَلَائِكَتِهِ الْأَمْثَالَ وَأَتُوهُ مُسْلِمِينَ متعلق اپنے پاس سے باتیں نہ بنایا کرو اور اس کے حضور - (حمامۃ البشری ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۷۲ میں فرمانبردار بن کر حاضر ہو.( ترجمہ از مرتب ) وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاء وَحِيْنَ الْباس بہادر وہ ہیں کہ جب لڑائی کا موقعہ آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۹) (المدثر :۳۲ ) یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۳ سورة البقرة منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے.لیکن جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب کے رُو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرور تاً ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا، چیتا سر پیٹتا ہے.آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے.پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں ان کو خلق سے کچھ تعلق نہیں.بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے.اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اُس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۲،۳۶۱) وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.جیسے بات بات میں سزا دینا اور انتقام لینا مذموم و خلاف اخلاق ہے.اسی طرح یہ بھی خیر خواہی حقیقی کے برخلاف ہے کہ ہمیشہ یہی اصول ٹھہرایا جاوے کہ جب کبھی کسی سے کوئی مجرمانہ حرکت صادر ہو تو جھٹ پٹ اس کے جرم کو معاف کیا جائے.جو شخص ہمیشہ مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑ دیتا ہے وہ ایسا ہی نظام عالم کا دشمن ہے جیسے وہ شخص کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں انتقام اور کینہ کشی پر مستعد رہتا ہے.نادان لوگ ہر محل میں عفو اور درگزر کرنا پسند کرتے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ ہمیشہ درگزر کرنے سے نظام عالم میں ابتری پیدا ہوتی ہے.اور یہ فعل خود مجرم کے حق میں بھی مضر ہے کیونکہ اس سے اس کی بدی کی عادت پکتی جاتی ہے اور شرارت کا ملکہ راسخ ہوتا جاتا ہے.ایک چور کو سزا کے بغیر چھوڑ دو پھر دیکھو کہ دوسری مرتبہ کیا رنگ دکھاتا ہے.اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے اپنی اس کتاب میں جو حکمت سے بھری ہوئی ہے فرمایا: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ - مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَانَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَبيعًا (المائدة : ۳۳) یعنی اے دانشمندو! قاتل کے قتل کرنے اور موذی کی اسی قدر ایذا دینے میں تمہاری زندگی ہے.جس نے ایک انسان کو ناحق بے موجب قتل کر دیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا.بر این احمدیہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۱ ۴ تا ۲۲۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا ہوا ہے کہ وہ شریروں اور سرکشوں کو جو اس کے حدود اور اوامر کی پروا نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة البقرة کرتے سزا دیتا ہے.تا کہ حد سے نہ بڑھ جائیں جنہوں نے حد سے بڑھنا چاہا خدا نے وہیں انہیں تنبیہ کی.اور یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ سزا اور تنبیہ اس شخص کے لئے بھی ، جسے دی جاتی ہے اور دوسروں کے واسطے بھی جو عبرت کی نگاہ سے اُسے دیکھتے ہیں بطور رحمت ہے.کیونکہ اگر سزا نہ دی جاتی تو امن اُٹھ جاتا اور انجام کا نتیجہ بہت ہی برا ہوتا.قانونِ قدرت پر نظر کرو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات رکھی ہوئی ہے اور اس فطرتی نقش ہی کی بنا پر قرآن نے یہ فرمایا ہے: وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ یعنی تمہارے تمدن کے قیام کے لئے قصاص کا ہونا ضروری ہے.اگر افعال کے کچھ نتائج ہی نہیں ہوتے تو وہ افعال کیا ہوتے ؟ اور ان سے کیا غرض مقصود ہوتی ؟ غرض ضروری اور واقعی طور پر یہ سزا ئمیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک فل ہیں اصل سزاؤں کا اور اُن کی غرض ہے عبرت.دوسرے عالم کے مقاصد اور ہیں اور وہ بالا تر اور بالاتر ہیں.وہاں تو مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَةُ ( الزلزال:۹) کا انعکاسی نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی در مخفی گناہوں اور عزیمتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی.دنیا اور آخرت کی سزاؤں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیں اور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں وہاں اسے سزا ضرور ملنی ٹھہری کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بدوں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے.عاقبت کی سزا اپنے اندر ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے جس کو کوئی مذہب بجز اسلام کے کامل طور پر بیان نہیں کر سکا.الحکم جلد ۶ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۴) كتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقَا عَلَى الْمُتَّقِينَ ، فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿ فَمَنْ خَافَ مِنْ قُوصٍ (١٨٣ جَنَّفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ نَ تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جس وقت تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاوے تو اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہے تو چاہئے کہ ماں باپ کے لئے اس مال میں سے کچھ وصیت کرے ایسا ہی خویشوں کے لئے بھی معروف طور پر جو شرع اور عقل کے رُو سے پسندیدہ ہے اور مستحسن سمجھا جاتا ہے وصیت کرنی چاہئے ، یہ خدا نے پر ہیز گاروں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة البقرة کے ذمہ ایک حق ٹھہرا دیا ہے جس کو بہر حال ادا کرنا چاہئے.یعنی خدا نے سب حقوق پر وصیت کو مقدم رکھا ہے اور سب سے پہلے مرنے والے کے لئے یہی حکم دیا ہے کہ وہ وصیت لکھے.اور پھر فرمایا کہ جو شخص سننے کے بعد وصیت کو بدل ڈالے تو یہ گناہ اُن لوگوں پر ہے جو جرم تبدیل وصیت کے عمد امرتکب ہوں.تحقیق اللہ سنتا اور جانتا ہے یعنی ایسے مشورے اُس پر مخفی نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں کہ اُس کا علم ان باتوں کے جاننے سے قاصر ہے اور پھر فرمایا کہ جس شخص کو یہ خوف دامنگیر ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بھی اختیار کی ہے یعنی بغیر سوچنے سمجھنے کے کچھ غلطی کر بیٹھا ہے یا کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے یعنی عمداً کوئی ظلم کیا ہے اور اُس نے اس بات (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۱۱٬۲۱۰) پر اطلاع پا کر جن کے لئے وصیت کی گئی ہے اس میں کچھ مناسب اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں تحقیق اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے پھر رکھے.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں.کتب سے فرضی روزے مُراد ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۵) الحکم جلد نمبر ۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۱۴) اس سوال کے جواب میں کہ جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا روزہ کیوں کر رکھیں؟ فرمایا : اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر اُن کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قومی کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دکھلانا چاہیے.پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیئے اور اگر اُن کے حساب کی ، تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے.حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دن کا یہی مقدار ہے اور اس کے مطابق اُن کے قومی بھی ہیں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۷۷)
۳۰۶ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے.روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں.خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تمبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلی اور سیری کا باعث ہے.اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں.جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.الحکم جلد ۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۹) را روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز وگداز پیدا ہوتی ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں.مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے.لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے.اس میں کوئی ( بدر جلد نمبر ۱۰ مورخه ۸ /مجون ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) شامل نہیں.ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: جائز ہے.اسی طرح ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سر کو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: جائز ہے.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں.فرمایا: جائز ہے.سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے.فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے.رات کو سرمہ لگا سکتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷ /فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۷ فرمایا کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اُس پر اُس روزہ کے بدلے میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا.سورة البقرة الحکم جلدا نمبرے مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۱۴) ایک شخص کا حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں؟.فرمایا : ضروری نہیں ہے.اسی طرح سوال پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے یا کہ نہیں؟ فرمایا: ضروری نہیں.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴ مارچ ۱۹۰۷ صفحه ۵) ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کر روزے کی نیت کی.مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا.دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا.( بدر جلد ۶ نمبرے مورخہ ۱۴ / فروری ۱۹۰۷ صفحه ۸) ايا ما مَعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَه وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.(۱۸۵) منکم کا لفظ قرآن کریم میں قریباً بیاسی (۸۲) جگہ آیا ہے اور بجز دو یا تین جگہ کے جہاں کوئی خاص قرینہ قائم کیا گیا ہے باقی تمام مواضع میں منکم کے خطاب سے وہ تمام مسلمان مراد ہیں جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے.فمن كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ یعنی جو تم میں سے مریض یا سفر پر ہو تو اتنے ہی روزے اور رکھ لے.اب سوچو کہ کیا یہ حکم صحابہ سے ہی خاص تھا یا اس میں اور بھی مسلمان جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے شامل ہیں.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے اس میں امر ہے یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہور کھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی ہرج نہیں مگر عِدَّةٌ مِنْ آيَامٍ اُخَرَ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے.....
۳۰۸ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے اُس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا ہی غلطی ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نبی میں سچا ایمان ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۸۹۹ء صفحه ۷) میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت وقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے.عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اُس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے.انما الْأَعْمَالُ بِالنِيَّاتِ بعض دفعہ ہم دودو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے.شریعت کی بنا وقت پر نہیں ہے جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اُس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۱۳) اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکا بر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرماں برداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمْ فَرِيضًا أَوْ عَلى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روز ہ نہیں رکھا.الحکم جلد نمبر ۴ مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۴) مَنْ كَانَ مِنْكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ.اگر تم مریض ہو یا کسی سفر قلیل یا کثیر پر ہو تو اسی قدرروزے اور دنوں میں رکھ لو.سو اللہ تعالیٰ نے سفر کی کوئی حد مقرر نہیں کی اور نہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کا نام سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے ایک منزل (سے) جو کم حرکت ہو اس کو سفر نہیں کہا جا سکتا.(مکتوبات جلد نم نمبر پنجم صفحه ۸۱ مکتوب ۲/ ۳۰ بنام حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ) جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة البقرة ا نافرمانی کرتا ہے خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے.مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے.خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے.مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو اُن پر حکم عدولی کا فتوی لازم آئے گا.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۷) سوال پیش ہوا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخمریزی و درودگی ہوتی ہے، ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا.ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمايا: الأعمال بالنیات.یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب ( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷) میشر ہو رکھ لے.وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ ) ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا ہی کی ذات ہے جو تو فیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے....پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دُعا کرے کہ الہی ! یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ اور اُس سے تو فیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس اُمت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالی میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں تو مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے جو شخص کہ روزے سے محروم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۰ سورة البقرة رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت در ددل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اُس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خدا تعالیٰ ہرگز اُسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا.یہ ایک بار یک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کی کسل کی وجہ سے ) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جو خدا کی نعمت کو خود اپنے او پر گراں گمان کرتا ہے کب اُس ثواب کا مستحق ہوگا.ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا منتظر میں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہا نہ بجو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکہ دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان وسائل کو صحیح گردانتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے.تکلفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان خدا چاہے تو اُس کے رُو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل ہی نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاق سے رکھتا ہے خدا جانتا ہے کہ اُس کے دل میں درد ہے اور خدا اُسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شے ہے.حیلہ بجو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں.جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ملا ( کشف میں ) اور انہوں نے کہا تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے؟ اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اُسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت (البدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۳،۵۲) میں پڑا ہوا ہے.ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فد یہ دوں ؟ فرمایا : خدا ہر شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا.وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دے دو اور فرمایا: خدا کو کی سے باہر دکھ کے موافق کا فدیہ (البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۹۱) آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ کی نسبت فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے.( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة البقرة اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں.فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷) 66 گذشته پر چه اخبار نمبر ۴۲ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ ء کے صفحہ سے کالم اول میں یہ لکھا گیا تھا کہ.....جو مریض اور مسافر صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہئے کہ روزہ کے بجائے فدیہ دیں.اس جگہ مریض اور مسافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کبھی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے.مثلاً ایک نہایت بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا.ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھے ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں.باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے.چونکہ اخبار بدر کی مذکورہ بالا عبارت صاف نہ تھی اس واسطے یہ مسئلہ دوبارہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا آپ نے فرمایا (ایڈیٹر): صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہوسکتا ہے.جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں.صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے.جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں.اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کوسر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جولوگ میرے راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی.فرمایا: خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں.نماز ، روزہ ، زکوتہ صدقات، حج، اسلامی دشمن کا ذب اور دفع خواہ سیفی ہو، خواہ قلمی.یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں.ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں یعنی ایسا نہیں چاہئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا ر ہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ نفلی روزہ بھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۳) فدیہ رمضان کے متعلق فرمایا: ) خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے.( بدر جلد ۶ نمبر ۶ مورخہ ۷ رفروری ۱۹۰۷ صفحه ۴)
٣١٢ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجالا وے.روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے: وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے.البدر جلد نمبر ۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۵۲) شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَ b الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ W , فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ ُأخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ، رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے، روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا، میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے.کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی.روحانی رمض سے مُراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے، رمض اُس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ صفحہ ۲) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہِ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے.صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم ( روزہ ) تحلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے اور تحلیلی ، قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے.پس أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ میں یہی اشارہ ہے اس میں شک وشبہ کوئی نہیں ہے روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے میرے حق میں پیغمبر خدا نے فرمایا: سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ سَلْمَانُ یعنی الصلح کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی ایک اندرونی دوسری بیرونی، اور یہ اپنا کام رفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں مشرب حسین پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ سورة البقرة نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشرب حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی ، میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے.اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں، یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے.لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا...خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں ایک عبادات مالی دوسرے عبادات بدنی عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہیں.اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ ۶۰ سال جب گزرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں.نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آجاتا ہے.یہ ٹھیک کہا کہ پیری وصد عیب اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اُسی کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اُسے بڑھاپے میں بھی صد ہارنج برداشت کرنے پڑتے ہیں.موئے سفید از اجل آرد پیام.انسان کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجالا وے.روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہے: وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لكُم یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے.(البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۲) میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہوگی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اُس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.(اور فرمایا فرقان کے بھی یہی معنے ہیں یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہوگی.....اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو....بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے.....ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدریر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کر دیں....بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.....اس
۳۱۴ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.میں کہتا ہوں در حقیقت یہی ایک ہتھیار ہے جواب بھی کارگر ہے اور ہمیشہ کے لئے کارگر ہوگا اور پہلے بھی قرنِ اوّل میں یہی ایک حربہ تھا جو خود حضور سرور عالم علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کے ہاتھ میں تھا.مبار کی اور صد ہزار مبار کی ہے اُس قوم کو، جو اس کے اختیار کرنے اور اسی لیگا نہ کتاب کو اپنا مایہ ایمان قرار دینے میں ذرا بھی تردد اور تذبذب میں نہیں پڑی، بڑے جوش اور خوشی سے آگے بڑھ کر اس فرقان اور نور کو لبیک کہا.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۷ مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۶،۵) هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ، ان کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا.ان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۵) وَ اِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ b فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دُعا کرنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں.( برا این احمد یہ چهار تخصص ، روحانی خزائن جلدا صفحه ۶۰۳ حاشیه حاشه در حاشیه نمبر ۳) جب میرے بندے میرے بارہ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی جب وہ لوگ جو اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں.تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دُور ہیں جب کوئی دُعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دُعا کرے دُعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہمکلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دُعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں پس چاہئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تا کہ بھلائی پاویں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه (۱۴۶) اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص بندے ( جو برگزیدہ ہیں ) میرے بارہ میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہے تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں.اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جب ہی کہ کوئی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة البقرة مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے ) سن لیتا ہوں ( پس اس سے قرب ظاہر ہے ) مگر چاہئے کہ وہ ایسی اپنی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعائن لیا کروں.یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے.جب پاک حالت کو چھوڑ کر دُور جا پڑتا ہے تب خدائے تعالیٰ بھی اُس سے دُور ہو جاتا ہے اور چاہیئے کہ ایمان اپنا مجھ پر ثابت رکھیں ( کیونکہ قوت ایمانی کی برکت سے دُعا جلد قبول ہوتی ہے ) اگر وہ ایسا کریں تو رشد حاصل کر لیں گے یعنی ہمیشہ خدائے عز و جل اُن کے ساتھ ہوگا.اور کبھی عنایت ورہنمائی الہی اُن سے الگ نہیں ہوگی.سو استجاب دعاء بھی اولیاء اللہ کے لئے ایک بھاری نشان ہے.فتدبر ! منہ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۸۱ حاشیہ ) ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دُعاؤں کا قبول کرنے والا.لئے دُور.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۶) اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۶) یعنی اگر میرے بندے میری نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے؟ تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت ہی قریب ہے.میں دُعا کرنے والے کی دُعا سنتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ دُعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھے پر ایمان لاویں تا کامیاب ہوویں.اور جب میرے پرستار تجھ سے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں یعنی دوستوں کے لئے نزدیک اور دشمنوں کے ست بچن ، روحانی خزائن ، جلد ۱۰ صفحه ۲۳۲) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں.میرا وجود نہایت اقرب طریق سے سمجھ آ سکتا ہے اور نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دُعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرا قادر ہونا بھی بپا یہ یقین پہنچتا ہے لیکن چاہیئے کہ لوگ ایسی حالت تقومی اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں اُن کی آواز سنوں.اور نیز چاہیے کہ وہ مجھ پر ایمان لاویں اور قبل اس کے جو ان کو معرفت تامہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اُسی کو عرفان دیا جاتا ہے.(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۶۱،۲۶۰) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے.پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٦ سورة البقرة ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.ہر ایک چیز کی گن میرے ہاتھ میں ہے اور میراعلم سب پر محیط ہے.میں ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھا رہا ہوں.میں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اُٹھا رہا ہوں.نیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۴) یعنی اگر میرے بندے میرے وجود سے سوال کریں کہ کیوں کر اس کی ہستی ثابت ہے اور کیوں کر سمجھا جائے کہ خدا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں.میں اپنے پکارنے والے کو جواب دیتا ہوں.اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی آواز سنتا ہوں.اور اُس سے ہم کلام ہوتا ہوں.پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسے بناویں کہ میں اُن سے ہم کلام ہوسکوں.اور مجھ پر کامل ایمان لاویں تا اُن کو میری لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۹) راہ ملے.ہے.چاہئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں تاکہ ان کا بھلا ہو.براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۵) قرآن شریف نے جو کہا ہے : أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کا جواب ملتا الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱/۱۰اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۲) أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی میں تو بہ کرنے والے کی تو بہ قبول کرتا ہوں خدا تعالی کا یہ وعدہ اُس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ بچے دل سے تو بہ کرنے والا کرتا ہے اگر خدا تعالی کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر تو بہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا.بچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اُس نے تو بہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں.اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۷) وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَانی قریب کے یہی معنے ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیوں کر ہوا.تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خدا بہت قریب ہے.اگر کوئی اُسے سچے دل سے بلاتا ہے.تو وہ جواب دیتا ہے.دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ اُن کا پتہ ہی ندارد.اعلیٰ سے اعلیٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے.جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے.دوسرے تمام دلائل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ سورة البقرة اس کے آگے پیچ ہیں.کلام ایک ایسی شے ہے جو کہ دیدار کے قائم مقام ہے.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ صفحه ۳) جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے پس میں بہت ہی قریب ہوں میں پکارنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے.بعض لوگ اُس کی ذات پر شک کرتے ہیں.پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو.میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا.اور تمہیں یاد کروں گا.اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے.وہ شخص تو تمہاری آواز سن کر تم کو جواب دے گا.مگر جب وہ دُور سے جواب دے گا تو تم باعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے.پس بجوں جوں تمہارے درمیانی پر دے اور حجاب اور ڈوری دُور ہوتی جاوے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے.جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہو جاتی کہ اُس کی کوئی ہستی ہے بھی پس خدا کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبر دست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اُس کی آواز کو سن لیں.یاد یدار یا گفتار.پس آج کل کا گفتار قائم مقام ہے دیدار کا.ہاں جب تک خدا کے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اُس وقت تک ہم سن نہیں سکتے جب درمیانی پردہ اُٹھے جاوے گا تو اُس کی آواز سنائی دے گی.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخہ ۱۰.۱۷ رنومبر ۱۹۰۴ صفحه ۷،۶) دُعا خدا تعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ وہ بہت ہی قریب ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دُعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتا ہوں یہ جواب کبھی رویا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے اور علاوہ بریں دُعاؤں کے ذریعہ خدا تعالی کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے.اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے جب کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے.غرض دُعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جابجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنے مشکلات سے نجات پائی.انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دُعا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة البقرة کے واسطے دُعاؤں میں لگے رہو.دُعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے.فضل معرفت کو نہایت مصفی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اُٹھا دیتا ہے اور نفس اتارہ کے لئے گردوغبار کو دور کر دیتا ہے اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفس اتارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بدخواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے.تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے رُوح میں پیدا ہوتی ہے وہ دُعا ہے.یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دُعا کرتے ہیں اور تمام نماز دُعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں.کیونکہ وہ دُعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے، وہ فنا کرنے والی چیز ہے، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے، وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تندرسیل ہے پر آخر کوکشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۲) دُعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دُعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دُعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے.پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنے صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبد یلی یافتہ کے لئے اُس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.گویاوہ اور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں.مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا، یہی وہ خوارق ہے.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۳) دُعا میں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مرجاتا ہے.مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعوی کرے کہ میری پیاس بجھ گئی یا اُسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس کی بات کی تصدیق ہو گی.پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب ایک رنگ میں دعا کی جاتی ہے.حتی کہ روح گداز ہو کر آستانہ الہی پر گر پڑتی ہے اور اسی کا نام دُعا ہے اور الہی سنت یہی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ سورة البقرة کہ جب ایسی دُعا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یا تو اُسے قبول کرتا ہے اور یا جواب دیتا ہے....بات کر کے بتلا دیتا ہے......مکالمات الہیہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان پر کلام جاری کر رہا ہے اور وہ ایسی طاقت اور شدت سے ہوتی ہے جیسے ایک فولادی میخ دھنستی جاتی ہے ایسی لطافت ہوتی ہے کہ گویا خدا کا کلام ہے.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸۶) دیکھو ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب اور بے قرار ہو کر دودھ کے لئے چلاتا ہے اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے حالانکہ بچہ تو دُعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چینیں دودھ کو جذب کر لاتی ہیں یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے.کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں لیکن جو نہی بچہ کی دردناک چیخ کان میں پہنچی فوراً دودھ اتر آیا ہے کہ جیسے بچہ کی ان چیخوں کو دودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اُس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اُس کو کھینچ لاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھنچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کر سکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دنیا سے اُٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ میں قبولیت دعا کا نمونہ دکھانے کے لئے ہر وقت طیار ہوں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دُعا کی تعلیم نہیں دی یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے.اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دُعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے....جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دُعائیں مانگتا ہے تو وہ اور ہی انسان ہو جاتا ہے اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتا ہے تب خدا تعالیٰ جو رحمن رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۷ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۱ صفحه ۴،۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۰ سورة البقرة د عار بوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے اگر دُعاؤں کا اثر نہ ہوتا تو پھر اُس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مؤرخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) دُعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کر سکتی ہے.اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں جہاں تک قضاء قدر کے سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کوئی کیسا ہی معصیت میں غرق ہودُعا اُس کو بچالے گی.اللہ تعالیٰ اُس کی دستگیری کرے گا اور وہ خود محسوس کرلے گا کہ میں اب اور ہوں.دیکھو جو شخص مسموم ہے کیا وہ اپنا علاج آپ کر سکتا ہے اُس کا علاج تو دوسرا ہی کر لے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے تطہیر کے لئے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور مامور کی دُعا ئیں تطہیر کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہیں دُعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے دُعا کے لئے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہئے کہ دُعا قبول ہوگئی.یہ اسم اعظم ہے اس کے سامنے کوئی انہونی چیز نہیں ہے.ایک خبیث کے لئے جب دُعا کے ایسے اسباب میسر آجائیں تو یقیناً وہ صالح ہو جاوے اور بغیر دُعا کے وہ اپنی تو بہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا.بیمار اور محجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کر سکتا.سنت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دُعا ئیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اُس کے دل پر گرتا ہے جو اُس کی ساری خباثتوں کو جلا کر تاریکی دور کر دیتا اور اندر ایک روشنی پیدا کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶،۵) ساری عقدہ کشائیاں دُعا سے ہو جاتی ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۳) اسلام کی صداقت اور حقیقت دُعا ہی کے نکتہ کے نیچے خفی ہے کیونکہ اگر دُعا نہیں تو نماز بے فائدہ زکوۃ بےشود اور اسی طرح سب اعمال معاذ اللہ لغو ٹھہرتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۳) اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دُعا.جب کوئی شخص بکاء وزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۴) حصول فضل کا اقرب طریق دُعا ہے اور دُعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رفت ہو اضطراب اور گدازش ہو.جو دُعا عاجزی اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدائے تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ٣٢١ سورة البقرة سکتی.اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دُعا کرتا رہے خواہ کیسی ہی بے دلی اور بے ذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو تکلف اور تصنع سے کرتا ہی رہے اصلی اور حقیقی دُعا کے واسطے بھی دُعا ہی کی ضرورت ہے.بہت سے لوگ دُعا کرتے ہیں اور ان کا دل سیر ہو جاتا ہے وہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا مگر ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی ہی میں برکت ہے کیونکہ آخر گو ہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آ جاتا ہے کہ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقت جو دُعا کے لوازمات ہیں پیدا ہو جاتے ہیں.جو رات کو اُٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حضوری اور بے صبری ہو لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دُعا کرتا ہے کہ الہی دل تیرے ہی قبضہ و تصرف میں ہے تو اس کو صاف کر دے اور مین قبض کی حالت میں اللہ تعالی سے بسط چاہے تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گی اور رقت پیدا ہو جائے گی یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر پانی کی طرح بہتی ہے اور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۳) دُعا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے دعا کے ساتھ مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے لوگوں کو دُعا کی قدر و قیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہو جاتے ہیں اور ہمت ہار کر چھوڑ بیٹھتے ہیں.حالانکہ دُعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے.جب انسان پوری ہمت سے لگا رہتا ہے تو پھر ایک بدخلقی کیا ہزاروں بدخلقیوں کو اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے اور اُسے کامل مومن بنا دیتا ہے لیکن اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہ شرط ہے جو دُعاہی سے پیدا ہوتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۴ صفحه ۴) انسان کو چاہئے کہ اس زندگی کو اس قدر قبیح خیال کر کے اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرے اور دُعا سے کام لے کیونکہ جب وہ حق تدبیر ادا کرتا ہے اور پھر سچی دُعاؤں سے کام لیتا ہے تو آخر اللہ تعالیٰ اُس کو نجات دے دیتا ہے اور وہ گناہ کی زندگی سے نکل آتا ہے.کیونکہ دُعا بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک موت ہی ہے جب اس موت کو انسان قبول کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو مجرمانہ زندگی سے جوموت کا موجب ہے بچالیتا ہے اور اُس کو ایک پاک زندگی عطا کرتا ہے.بہت سے لوگ دُعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں سویا درکھنا چاہئے کہ دُعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہاتھ اُٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ میں سے کہہ دیا.اس دُعا سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دعانری ایک منتر کی طرح ہوتی ہے نہ اس میں دل شریک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کوئی ایمان ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ سورة البقرة ہے.یا درکھو! دُعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہوتی ہے اسی طرح پر دُعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے اس لئے دُعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی پس چاہئے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نہایت تضرع اور زاری و ابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دُعا کو اس حد تک پہنچا وے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے اُس وقت دُعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے.یہ بھی یا درکھو کہ سب سے اوّل اور ضروری دُعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دُعا کرے.ساری دُعاؤں کا اصل اور جز یہی دُعا ہے کیونکہ جب یہ دُعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے تو پھر دوسری دُعائیں جو اس کی حاجات ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اُس کو مانگنی بھی نہیں پڑتی ہیں وہ خود بخود قبول ہوتی چلی جاتی ہیں.بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دُعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں متقی اور راست باز ٹھہرایا جاوے.یعنی اوّل اوّل جو حجاب انسان کے دل پر ہوتے ہیں اُن کا دور ہونا ضروری ہے جب وہ دُور ہو گئے تو دوسرے حجابوں کے دور کرنے کے واسطے اس قدر محنت اور مشقت کرنی نہیں پڑے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہو کر ہزاروں خرابیاں خود بخود دور ہونے لگتی ہیں اور جب اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی خود بخو داُس کا متکفل اور متوتی ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی حاجت کو مانگے اللہ تعالیٰ خود اُس کو پورا کر دیتا ہے.یہ ایک بار یک ستر ہے جو اُس وقت کھلتا ہے جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے اس سے پہلے اس کی سمجھ میں آنا بھی مشکل ہوتا ہے.لیکن یہ ایک عظیم الشان مجاہدہ کا کام ہے کیونکہ دعا بھی ایک مجاہدہ کو چاہتی ہے جو شخص دُعا سے لا پروائی کرتا ہے اور اُس سے دور رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا اور اس سے دور ہو جاتا ہے.جلدی اور شتاب کاری یہاں کام نہیں دیتی خدا تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جو چاہے عطا کرے اور جب چاہے عنایت فرمائے.سائل کا کام نہیں ہے کہ وہ فی الفور عطا نہ کئے جانے پر شکایت کرے اور بدظنی کرے بلکہ استقلال اور صبر سے مانگتا چلا جاوے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورمحه ۱۷۲۲ پریل ۱۹۰۴ صفحه ۶،۵) دُعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ سورة البقرة پیدا ہو جاتے ہیں.پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں.یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہواُسے چاہئے کہ دُعا کرے.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۲۴ ا پریل ۱۹۰۴ء صفحه ۶) اگر دُعا اپنے اختیار میں ہوتی تو انسان جو چاہتا کر لیتا اسی لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوست یا رشتہ دار کے حق میں ضرور فلاں بات ہو ہی جاوے گی بعض وقت با وجود سخت ضرورت محسوس کرنے کے دُعا نہیں ہوتی اور دل سخت ہو جاتا ہے چونکہ اس کے سر سے لوگ واقف نہیں ہوتے اس لئے گمراہ ہو جاتے ہیں.اس پر ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جَفَ الْقَلَمُ والی ( یعنی مسئلہ تقدیر جس رنگ میں سمجھا گیا ہے ) بات ٹھیک ہے.لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے علم میں سب سے ضرور ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ فلاں کام ضرور ہی کر دیوے اگر ان لوگوں کا یہی اعتقاد ہے کہ جو کچھ ہونا تھا وہ سب کچھ ہو چکا اور ہماری محنت اور کوشش بے سود ہے تو دردِ سر کے وقت علاج کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں؟ پیاس کیلئے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ انسان کے تر ڈر پر بھی کچھ نہ کچھ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.دُعا عمدہ شیء ہے اگر توفیق ہو تو ذریعہ مغفرت کا ہو جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ مہربان ہو جاتا ہے.دُعا کے نہ کرنے سے اوّل زنگ دل پر چڑھتا ہے، پھر قساوت پیدا ہوتی ہے، پھر خدا سے اجمیت ، پھر عداوت پھر نتیجہ سب ایمان ہوتا ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۸-۱۹ مؤرخه ۸-۱۶ مئی ۱۹۰۴ صفحه ۳) جو دعا سے منکر ہے وہ خدا سے منکر ہے.صرف ایک دُعا ہی ذریعہ خدا شناسی کا ہے.( البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ ،۱۹ ، مورخه ۸-۱۶ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۴) دُعا کی مثال ایک چشمہء شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے وہ جب چاہے اُس چشمہ سے پنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے.جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دُعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.اس دُعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بد معاشی میں میسر آ سکتا ہے بیچ ہے.بڑی بات جو دُعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الہی ہے دُعا کے ذریعہ ہی انسان خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے جب مومن کی دُعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا کو بھی اُس پر رحم آجاتا ہے اور خدا اُس کا متولی ہو جاتا ہے اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الہی تو تی کے بغیر انسانی زندگی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۲۴ سورة البقرة الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹ ،۲۰ مورخہ ۱۷،۱۰ جون ۱۹۰۴ صفحه ۶) قطعا تلخ ہو جاتی ہے.اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے.مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا.ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے انسان کمزور ہے جب تک دُعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گذار منزل کو طے نہیں کر سکتا.خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعف حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء :۲۹) یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے.پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعوی کرنا سراسر خام خیالی ہے.اس کے لئے دُعا کی بہت بڑی ضرورت ہے دُعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں.اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے.کیونکہ دُعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے.جو شخص کثرت سے دُعاؤں میں لگا رہتا ہے.وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہوکر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے.ہاں نری دُعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مسائی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اُس کے ساتھ دُعا سے کام لے.اسباب سے کام لے، اسباب سے کام نہ لینا اور نری دُعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے نا واقعی ہے.اور خدا تعالی کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دُعا کو لاشے محض سمجھنا یہ دہریت ہے.یقیناً سمجھو کہ دُعا بڑی دولت ہے جو شخص دُعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی، وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگر مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں.لیکن جو دُعاؤں سے لا پروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے.وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے.ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی اس لئے یا درکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ یہی دُعا ہے.یہی دُعا اس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اس میں لگا ر ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ رستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۴) دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی اور خاتمہ بالخیر کے حاصل کرنے کا جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے جو دراصل سب سے مقدم ہے وہ دُعا ہے اس لئے جس قدر ہو سکے دُعا کرو یہ طریق اعلیٰ درجہ کا مفید اور مجرب ہے کیونکہ خود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة البقرة اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن (1) تم مجھ سے دُعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا.دُعا ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو دوسری قوموں پر فخر کرنا چاہئے دوسرے مذاہب کو دُعا کی حقیقت کی کچھ بھی خبر نہیں اسی واسطے ان کو دُعا کی کوئی قدر نہیں.بلکہ مسلمانوں نے بھی اس میں سخت ٹھوکر کھائی ہے کہ دُعا جیسی شے کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں حالانکہ یہ فخر اور نا ز صرف اسلام کو ہی ہے.دوسرے مذاہب اس سے بکلی بے بہرہ ہیں.( تقریریں صفحہ سے تقریر حضرت اقدس تقریر جلسه سالانه ۲۹ دسمبر ۱۹۰۴ طبع اول ) دُعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے.مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دُعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قومی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں.جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقیناً سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے.یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے.مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ دُعا کی حقیقت اور حالت سے محض نا واقف ہیں اور اسی وجہ سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ اس سے منکر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ان تاثیرات کو نہیں پاتے.اور منکر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے پھر دُعا کی کیا حاجت ہے؟ مگر میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تو نرا بہانہ ہے.الحکم جلد ۹ نمبر اوّل مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) انہیں چونکہ دُعا کا تجربہ نہیں اس کی تاثیرات پر اطلاع نہیں اس لئے اس طرح کہہ دیتے ہیں ورنہ اگر وہ ایسے ہی متوکل ہیں تو پھر بیمار ہو کر علاج کیوں کرتے ہیں.....جب کہ دوسری اشیاء میں تاثیرات موجود ہیں تو کیا وجہ ہے کہ باطنی دنیا میں تاثیرات نہ ہوں.جن میں سے دُعا ایک زبردست چیز ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۲) دُعا کرتے وقت بے دلی اور گھبراہٹ سے کام نہیں لینا چاہئے اور جلدی ہی تھک کر نہیں بیٹھنا چاہئے.بلکہ اس وقت تک ہٹنا نہیں چاہئے جب تک دُعا اپنا پورا اثر نہ دکھائے.جو لوگ تھک جاتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ یہ محروم رہ جانے کی نشانی ہے میرے نزدیک دُعا بہت عمدہ چیز ہے اور میں اپنے
٣٢٦ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تجربہ سے کہتا ہوں خیالی بات نہیں جو مشکل کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی ہو اللہ تعالیٰ دُعا کے ذریعہ اسے آسان کر دیتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ دُعا بڑی زبر دست اثر والی چیز ہے.بیماری سے شفا اس کے ذریعہ ملتی ہے.دنیا کی تنگیاں مشکلات اس سے دور ہوتی ہیں دشمنوں کے منصوبے سے یہ بچا لیتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو دُعا سے حاصل نہیں ہوتی ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو پاک یہ کرتی ہے اور خدا تعالیٰ پر زندہ ایمان یہ بخشتی ہے.گناہ سے نجات دیتی ہے اور نیکیوں پر استقامت اس کے ذریعہ سے آتی ہے.بڑا ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دُعا پر ایمان ہے.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کو دیکھتا ہے اور خدا تعالی کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے کہ وہ قادر کریم خدا ہے.اللہ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دُعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہو سکتا....خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دُعا کی بہت بڑی ضرورت ہے اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو.غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دُعا کا ہے.اس میں جس قدر تو گل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا.اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے تمام مشکلات دور ہو جائیں گی.اور دُعا کرنے والا تقومی کے اعلیٰ محل پر پہونچ جاوے گا.یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا.نفسانی جذبات پر محض خدا تعالی کے فضل اور جذ بہ ہی سے موت آتی ہے.اور یہ فضل اور جذ بہ دُعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دُعا ہی جذبہ یہی سے ملتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دُعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہی دُعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہئے.اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دُعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور وہ توجہ نہیں کر سکتے.(الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳،۲) دُعا ایسی شے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لا علاج کہہ دیتے ہیں ان کا علاج بھی دُعا کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے.البدرجلد نمبر ۳ مورخه ۱/۲۰ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) اصل حقیقت دُعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے.اور انسان کو نا معقول باتوں سے ہٹاتی ہے.اصل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۷ سورة البقرة بات یہی ہے کہ انسان رضائے الہی کو حاصل کرے.اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دُعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں بارج ہو جاتے ہیں.خاص کر خامی اور کیچ پنے کے زمانہ میں یہ اُمور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.صلوۃ کا لفظ پرسوز معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دُعا میں پیدا ہونی چاہئے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اُس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.البدر جلد نمبر ۸ مورخه ۲۵ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) اصل راہ اور گر خداشناسی کا دُعا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحه ۹) میرا مذہب بیماریوں کے دُعا کے ذریعہ سے شفا کے متعلق ایسا ہے کہ جتنا میرے دل میں ہے اتنا میں ظاہر نہیں کر سکتا.طبیب ایک حد تک چل کر ٹھہر جاتا ہے اور مایوس ہو جاتا ہے مگر اُس کے آگے خدا دعا کے ذریعہ سے راہ کھول دیتا ہے.خداشناسی اور خدا پر توکل اسی کا نام ہے کہ جو حد میں لوگوں نے مقرر کی ہوئی ہیں اُن سے آگے بڑھ کر رجا پیدا ہو.ورنہ اس میں تو آدمی زندہ ہی مرجاتا ہے.اسی جگہ سے اللہ تعالیٰ کی شناخت شروع ہو جاتی ہے....عام لوگوں کے نزدیک جب کوئی معاملہ پاس کی حالت تک پہنچ جاتا ہے خدا تعالیٰ اندر ہی اندر تصرفات شروع کرتا ہے اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے....اکثر لوگ دُعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دُعا کے ٹھیک ٹھکانہ پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے.در اصل دُعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے.(الحاکم جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) دُعا اور توجہ میں ایک روحانی اثر ہے.جس کو طبعی لوگ جو صرف مادی نظر رکھنے والے ہیں نہیں سمجھ سکتے.سنت اللہ میں دقیق در دقیق اسباب کا ذخیرہ ہے جو دُعا کے بعد اپنا کام کرتا ہے....اس جہاں کے لوگ جب فتنہ وفساد کی کثرت کو دیکھ کر اس کی اصلاح سے عاجز آ جاتے ہیں.تب اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایسے قومی عطا کرتے ہیں.جن کی توجہ سے سب کام درست ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ دُعا کے ذریعہ سے عمریں بڑھ جاتی ہیں.( بدر جلد نمبر۱۷ مؤرخہ ۲۷ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دُعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھو کے لگتے ہیں....اور دُعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدا تعالی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ سورة البقرة.کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کشتوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دُعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے سوجس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل و فاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دُعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دُعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دُعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں.اور اگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دُعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی باز نہ تعالیٰ وہ دُعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب فلا ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی در اصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دُعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمّی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل وسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِعَدَدِ هَيْهِ وَ غَيْهِ وَحُريم لهذه الأمة و الزِلْ عَليهِ الوَار رَحْمَتِكَ إلى الأبد.اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ سورة البقرة ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے.بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التا ثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے.اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دُعا ئیں خطا جاتی ہیں اور اُن کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہورہی ہے.مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا.بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں.مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور پر میسر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے.تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے.یعنی دُعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اُس کے قبول کرنے کا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متأثرات میں باندھ رکھا ہے.بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹ تا ۱۲ ) دُعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دُعا کرتا ہے یا جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اُس کی دنیا اور آخرت کے لئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الہی بھی نہ ہو.کیونکہ بسا اوقات دُعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الہی ہوتی ہے.اور اس کے پورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے.یا ایک زہر جو بظا ہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہرگز اُس کی ماں پورا نہیں کرے گی.اور اگر پورا کر د یوے اور اتفاقاً بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شا کی ہوگا.اور بجز اسکے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اُس وقت تک دُعا کو دُعا نہیں کہہ سکتے.اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اور جو دُعا کرتا ہے ان میں استعداد قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثر دُعا امید موہوم ہے.اور جب تک ارادہ الہی قبولیت دعا کے متعلق نہیں ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣٠ سورة البقرة تب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں اور ہمتیں پوری تو مجہ سے قاصر رہتی ہیں.(بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳ ، ۱۴) سرے سے قبولیت دعا سے انکار کرنا تو خلاف تجارب صحیحہ و عقل و نقل ہے.ہاں دُعاؤں کی قبولیت کے لئے اُس رُوحانی حالت کی ضرورت ہے جس میں انسان نفسانی جذبات اور میل غیر اللہ کا چولہ اُتار کر اور بالکل روح ہو کر خدا تعالیٰ سے جاملتا ہے.ایسا شخص مظہر العجائب ہوتا ہے اور اس کی محبت کی موجیں خدا کی محبت کی موجوں سے یوں ایک ہو جاتی ہیں جیسا کہ دو شفاف پانی، دو متقارب چشموں سے جوش مار کر آپس میں مل کر بہنا شروع کر دیتے ہیں ایسا آدمی گویا خدا کی شکل دیکھنے کے لئے ایک آئینہ ہوتا ہے اور غیب الغیب خدا کا اس کے عجائب کاموں سے پتہ ملتا ہے.اس کی دُعائیں اس کثرت سے منظور ہوتی ہیں کہ گویا دنیا کو پوشیدہ خدا دکھا دیتا ہے.تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۷۰،۴۶۹) جب تو دُعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دُعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رؤیت سے ہے نہ بطور قصہ کے.اُس شخص کی دُعا کیوں کر منظور ہو اور خود کیوں کر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اُس کے نزد یک قانون قدرت کے مخالف ہیں دُعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دُعاؤں کو سنتا ہے اور اُن کو قبولیت کا شرف بخشا ہے.مگر ہر رطب و یابس کو نہیں.کیونکہ جوش نفس کی وجہ سے انسان انجام اور مال کو نہیں دیکھتا اور دُعا کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ اور مال بین ہے.اُن مضرتوں اور بدنتائج کو ملحوظ رکھ کر جو اُس دُعا کے تحت میں بصورت قبول داعی کو پہنچ سکتے ہیں اُسے رد کر دیتا ہے.اور یہ رڈ دُعا ہی اُس کے لئے قبول دُعا ہوتا ہے.پس ایسی دُعائیں جن میں انسان حوادث اور صدمات سے محفوظ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے مگر مضر دُعاؤں کو بصورت رو قبول فرمالیتا ہے....یہ بات بھی بحضور دل من لینی چاہئے کہ قبول دُعا کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں ان میں سے بعض تو دُعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض دعا کرانے والے کے متعلق.دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مد نظر رکھے اور اُس کے غنا ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے اور صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنالے.تقومی اور راستبازی سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ خدائے تعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دُعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے.سورة البقرة رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ، صفحہ ۱۳۲) یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دُعا نہیں کرتا بلکہ خدائے تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.اس لئے دُعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے، اور یہی معنی اس دُعا (اهدنا الصراط المستقيم الخ) کے ہیں پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد، اعمال میں نظر کرے.کیونکہ خدائے تعالی کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرا یہ میں ہوتی ہے.وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دُعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے.وہ نادان سوچیں کہ دُعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۴۵) بعض لوگ دُعا کی درخواست کرتے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرو مگر افسوس ہے کہ وہ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے......جب تک دعا کرانے والا اپنے اندر ایک صلاحیت اور اتباع کی عادت نہ ڈالے دُعا کارگر نہیں ہو سکتی.مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا ممکن نہیں کہ فائدہ اُٹھا سکے.جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پر چلے تو فائدہ اُٹھائے گا.ایسے ہی دُعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دُعا کی خواہش کی.بزرگ نے فرمایا کہ دودھ چاول لاؤ.وہ شخص حیران ہوا، آخر وہ لایا.بزرگ نے دُعا کی اور اُس شخص کا کام ہو گیا.آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کے لئے تھا ایسا ہی باوا فرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہوا اور وہ دُعا کے لئے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوا کھلاؤ اور وہ قبالہ حلوائی کی دوکان سے مل گیا.ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دُعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہو دُعا متاثر نہیں ہوتی.غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دُعا کرنے والے کے قلق دعا کرانے والے کا قلق نہ ہو جائے کچھ اثر نہیں کرتی.بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دُعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دُعا کا کوئی بقین فائدہ محسوس نہ کر کے خدائے تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابل رحم بنا لیتے ہیں.بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دُعا کرو یا دعا کراؤ.پاکیزگی اور طہارت پیدا کرو، استقامت چاہو اور تو بہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ سورة البقرة ساتھ گر جاؤ کیونکہ یہی استقامت ہے.اس وقت دُعا میں، قبولیت نماز میں لذت پیدا ہوگی.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحه ۲۱،۲۰ بار چهارم مطبوعه اگست ۱۹۲۴ء) حدیث میں آیا ہے کہ قبل از وقت دُعا قبول ہوتی ہے.خوف و خطر میں جب انسان مبتلا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں تو ہر شخص دُعا اور رجوع کر سکتا ہے.سعادت مند وہی ہے جو امن کے وقت دُعا کرے.الانذار صفحه ۱۶ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) دُعا کے بعد جلدی جواب ملے تو عموماً اچھا نہیں ہوتا توقف کامیابی کا موجب ہوتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۰ مورخه ۹ / جون ۱۸۹۹ صفحه ۱) وحی کے سلسلہ سے شوق اور محبت بڑھتی ہے.لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ پر پہنچاتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بے قراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دُعاوں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر یارب ! یا رب ! کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق کے جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے.جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو بے اختیار ہو ہو کر ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا ہے اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بے حد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے یا درکھوا روح میں جس قدر اضطراب اور بیقراری خدا تعالیٰ کے لئے ہوگی اسی قدر دُعاؤں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہوگا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۱ صفحه ۴) قبولیت دعا کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے تب کسی کے واسطے دُعا قبول ہوتی ہے.شرط اول یہ ہے کہ اتقا ہو یعنی جس سے دعا کرائی جاوے وہ دُعا کرنے والا متقی ہو....دوسری شرط قبولیتِ دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دُعا کرتا ہواُس کے لئے دل میں درد ہو اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ النَّمل : ٢٣) - تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصلی میسر آوے ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو...چوتھی شرط یہ ہے کہ پوری مدت دُعا کی حاصل ہو یہاں تک کہ خواب یا وحی سے اللہ تعالی خبر دے.محبت و اخلاص والے کو جلدی نہیں چاہئے بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہئے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ / اگست ۱۹۰۱ صفحه ۱۳، ۱۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۳ سورة البقرة دُعا ایک ایسی سرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذت اور سرور کو دنیا کو سمجھاؤں یہ تو محسوس کرنے ہی سے پتہ لگے گا.مختصر یہ کہ دُعا کے لوازمات سے اوّل ضروری یہ ہے کہ اعمال صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا اور دُعا کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دُعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہنچانے.اتباع سنت ضروری ہے مگر تلاش رقت بھی اتباع سنت ہے.اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو دُعا کرو تا کہ دُعا میں جوش پیدا ہو.الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے، حقیقت پرست بنا چاہئے.مسنون دُعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہئے مگر حقیقت کو پاؤ.ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۹) دُعا کے لئے اصول ہیں.میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ خدا تعالی کبھی اپنی منواتا ہے اور کبھی مومن کی مانتا ہے اس کے سوا چونکہ ہم تو علیم نہیں اور نہ اپنی ضرورتوں کے نتائج سے آگاہ ہیں.اس لئے بعض وقت ایسی چیزیں مانگ لیتے ہیں جو ہمارے لئے مضر ہوتی ہیں.پس وہ دُعا تو قبول کر لیتا ہے اور جو دعا کرنے والے کے واسطے مفید ہوتا ہے وہ اُسے عطا کرتا ہے جیسے ایک زمیندار کسی بادشاہ سے ایک اعلیٰ درجہ کا گھوڑ امانگے اور بادشاہ اس کی ضرورت کو سمجھ کر اسے عمدہ بیل دے دے.تو اس کے لئے وہی مناسب ہو سکتا ہے.دیکھو ماں بھی تو بچے کی ہر خواہش کو پورانہیں کرتی اگر وہ سانپ یا آگ کو لینا چاہے تو کب دیتی ہے پس خدا تعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور تقوی اور ایمان میں ترقی کرنی چاہئے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۱ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) وہی دُعا مفید ہوتی ہے جب کہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مفر نظر نہ آوے جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جو یاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶) تم ایسے ہو جاؤ کہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا.یاد رکھو جو مخلوق کا حق دیا تا ہے اس کی دُعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۲ صفحه ۴) اللہ کارحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی پر مصیبت وارد ہوتی ہو تو وہ
اور ۳۳۴ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة ڈرے جو امن کے وقت خدا کو نہیں بھلاتا خدا اسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانے کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دُعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.جب عذاب الہی کا نزول ہوتا ہے تو تو بہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الہی کے نزول سے پیشتر دُعا میں مصروف رہتا ہے.صدقات دیتا ہے اور امر الہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے.اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے.یہی ہیں جو سعادت کے نشان ہیں درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے.(البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ /نومبر و ۵ /دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۸) مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کا خدا دعاؤں کا سنے والا ہے.کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ایک طالب نہایت رفت اور درد کے ساتھ دُعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقف واقع ہوتا ہے اس کا ستر کیا ہے؟ اس میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اول تو جس قدر امور دنیا میں ہوتے ہیں ان میں ایک قسم کی تدریج پائی جاتی ہے.دیکھو ایک بچہ کو انسان بننے کے لئے کس قدر مر حلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں ایک بیج کا درخت بننے کے لئے کس قدر توقف ہوتا ہے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امور کا نفاذ بھی تدریجا ہوتا ہے.دوسرے اس توقف میں یہ مصلحت الہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزم اور عقد ہمت میں پختہ ہو جاوے اور معرفت میں استحکام اور رسوخ ہو.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلیٰ مراتب اور مدارج کو حاصل کرنا چاہتا ہے اُسی قدر اُس کو زیادہ محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے.پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا.اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح :) - اسی لئے فرمایا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۷ اردسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) اگر قبولیت دعا نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہو سکتے تھے اور ہوتے.اور حقیقت میں جولوگ قبولیت دعا کے قائل نہیں ہیں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے.میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دعا اور اُس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنم میں جائے گا.وہ خدا ہی کا قائل نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی شناخت کا یہی طریق ہے کہ اس وقت تک دُعا کرتا رہے جب تک خدا اُس کے دل میں یقین نہ بھر دے اور آنا الحق کی آواز اُس کو نہ آ جاوے.اس میں شک نہیں کہ اس مرحلہ کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت سی مشکلات ہیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۳۵ سورة البقرة تکلیفیں ہیں مگر ان سب کا علاج صرف صبر سے ہوتا ہے حافظ نے کیا اچھا کہا ہے.شعر گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود و لیک بخون جگر شود یا درکھو کوئی آدمی کبھی دُعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دُعاؤں میں نہ لگا رہے.اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی اور بدگمانی نہ کرے اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے، وہ وقت آ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کوسن لے گا اور اُسے جواب دے گا.جو لوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بدنصیب اور محروم نہیں ہو سکتے.بلکہ یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں.خدا تعالی کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے پس اُس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اس قانون کو اس کے لئے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی کرتا اور بے ادبی کی جرات کرتا ہے.پھر یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہو جا ئیں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا.اپنا ہی نقصان کرے گا.بے صبری کر کے دیکھ لے ! وہ کہاں جائے گا ؟ میں ان باتوں کو کبھی نہیں مان سکتا اور در حقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہانیاں ہیں کہ فلاں فقیر نے پھونک مار کر یہ بنا دیا اور وہ کر دیا.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور قرآن شریف کے خلاف ہے اس لئے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.ہر امر کے فیصلہ کے لئے معیار قرآن ہے.دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹا یوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اُس کے لئے دُعائیں کرتے رہے اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا.چالیس برس تک دُعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا.آخر چالیس برس کے بعد وہ دُعائیں بھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے مگر انہوں نے یہی کہا کہ میں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.بے شک اُن کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا اني لا جدريح يُوسُفَ (یوسف:1).پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دُعاؤں کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے اللہ تعالی نے اگر دُعاؤں سے محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے.کیونکہ کریم سائل کو دیر تیک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اُس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲،۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ سورة البقرة دُعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دُعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دُعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دُعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے بعض ایسے ہیں جو سرے سے دُعا کے منکر ہیں اور جو دُعا کے منکر تو نہیں ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ اُن کی دُعائیں بوجہ آداب الدعا کی ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دُعا اپنے اصلی معنوں میں دُعا ہوتی ہی نہیں اس لئے وہ منکرین دُعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے.دُعا کے لئے سب سے اول اس امر کی ضرورت ہے کہ دُعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جب مقصد کا شگوفہ سرسبز ہونے کے قریب ہوتا ہے دُعا کرنے والے تھک گئے ہیں جس کا نتیجہ نا کامی اور نامُرادی ہو گیا ہے.اور اس نامرادی نے یہاں تک بُرا اثر پہنچایا ہے کہ پھر دُعا کے تاثیرات کا انکار شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ پھر خدا کا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دُعاؤں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دُعا کی گئی ہے کیوں قبول نہ ہوئی.مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھوکر کھانے والا انسان اگر اپنے عدم استقلال اور تکون کو سوچے تو اسے معلوم ہو جائے کہ یہ ساری نامراد یاں اس کی اپنی ہی جلد بازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہیں جن پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامراد کرنے والی مایوسی بڑھ گئی ، پس کبھی جھکنا نہیں چاہئے.دُعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹھی کے نیچے دبادیا اُس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشو و نما پا کر پھل لائے گا.باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندرزمین میں ایک پودہ کی صورت اختیار کر رہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودہ بنے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اُس کو دیکھ سکتے ہیں.اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اُسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا.مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی.اور اب جبکہ اس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۳۷ سورة البقرة وہ یہ چاہتا ہے کہ کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا ؟ مگر فقمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غور پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آ جاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا اور وہ پک بھی جاتا ہے.یہی حال دُعا کا ہے اور بعینہ اسی طرح دُعا نشوونما پاتی اور مثمر ثمرات ہوتی ہے.جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مال اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں.یہ سچی بات ہے کہ دُعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دُعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں.ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کر سکتے حالانکہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے.دیکھو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اُس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے.پہلے نباتات کی نشوونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا.چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا.پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے.بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے.مرد شایدان تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کر سکیں جو اس مدت حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے.اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اُس کو قبول کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے.اسی طرح پر دُعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلون اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دُعا قبول نہیں ہوئی آخر آنے والا زمانہ آ جاتا ہے اور دُعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جب کہ گویا مراد کا بچہ پیدا ہوتا ہے.دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حد تک پہنچایا جاوے جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے جس طرح پر آتشی شیشی کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعاعیں اس شیشہ پر آ کر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت وحدت اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے پھر یکا یک وہ کپڑا جل اُٹھتا ہے.اسی طرح پر ضروری ہے کہ دُعا اس مقام تک پہنچے جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نا مراد یوں کو جلا دے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اور مقصد مُراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے.۳۳۸ پیداست ندا را که بلند جنابت سورة البقرة مدت دراز تک انسان کو دُعاؤں میں لگے رہنا پڑتا ہے آخر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے اور گذشتہ راست بازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی اُمید ہوتی ہے لیکن جس امر میں جلد جواب مل جاتا ہے وہ ہونے والا نہیں ہوتا.عام طور پر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت عاجزی اور اضطراب سے مانگتا ہے اور کچھ دیر تک جھڑکیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آخر اس کو بھی کچھ شرم آ ہی جاتی ہے خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے تو کیا دُعا کرنے والے کو کم از کم ایک معمولی سائل جتنا استقلال بھی نہیں ہونا چاہئیے ؟ اور خدا تعالیٰ جو کریم ہے اور حیارکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا.اگر انجام بد ہو تو اپنے ظن سے ہوتا ہے جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ کیوں پیدا نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دو کھالے تو اُس وقت کیا بچہ پیدا ہوگا یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہوگی.اسی طرح جو شخص قبل از وقت جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اُٹھاتا ہے اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچاتا ہے بعض ایسی حالت میں دہریہ ہو جاتے ہیں ہمارے گاؤں میں ایک نجار تھا اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مرگئی اُس نے کہا کہ اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دُعائیں کی تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مرتی اور اس طرح پر وہ دہر یہ ہو گیا.لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اُس کا ایمان بڑھتا ہے اور سب کچھ ہو بھی جاتا ہے زمین کی دولتیں خدا تعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں وہ ایک دم میں سب کچھ کر سکتا ہے کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنادیا اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنادیا اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا.انسان اگر تقویٰ اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کا ہو جاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جوانمرد ہو کر دکھائے دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریا کاری اور شرک کی نہ ہو.ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابو السملت اور ابوالحنفا قرار دیا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں ، وہ یہی صدق اور اخلاص تھا.دیکھو! ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک دُعا کی تھی کہ اُس کی اولاد میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة البقرة الحکم جلدے نمبر ۸ مؤرخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲،۱) سے عرب میں ایک نبی ہو.پھر کیا وہ اُسی وقت قبول ہو گئی ابراہیم کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دُعا کا کیا اثر ہوا.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دُعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.شفاعت اعمال حسنہ کی محرک کس طرح پر ہے؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی جو عیسائی مانتے ہیں کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کا بلی اور سستی پیدا ہوتی بلکہ فرمایا: إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں.قریب والا تو سب کچھ کر سکتا ہے دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے.اس لئے فرمایا کہ کہہ دو کہ میں قریب ہوں.پس یہ آیت بھی قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایمان کامل پیدا ہو.اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے اور ایمان ہو کہ وہ ہر پکار کو سنتا ہے.بہت سی دُعاؤں کے رڈ ہونے کا یہ بھی تر ہے کہ دُعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دُعا کو مسترد کر الیتا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ دُعا کو قبول ہونے کے لائق بنا یا جاوے کیونکہ اگر وہ دُعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہوگی اور کوئی فائدہ اور نتیجہ اس پر مترتب نہیں ہو سکے گا.اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا صَلِ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنْ لَهُمْ (القوبة : ۱۰۳).تیری صلوۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش و جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے دوسری طرف فَلْيَسْتَجِيبُوانی کا بھی حکم فرمایا.ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دُعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات پھر ان تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اُن کا بھی پتہ لگتا ہے کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرت کی شفاعت اور دُعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے اور نہ یہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرت کی شفاعت اور دُعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جاوے.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰ ؍ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) دنیا میں کبھی کوئی شخص کامیاب نہیں ہوا جو جسم اور روح دونوں سے کام نہ لے.اگر روح کوئی چیز نہیں تو ایک مردہ جسم سے کوئی کام کیوں نہیں ہو سکتا ؟ کیا اس کے سارے اعضا اور قومی موجود نہیں ہوتے؟
۳۴۰ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اب یہ بات کیسی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ روح اور جسم کا تعلق جب کہ ابدی ہے پھر کیوں کسی ایک کو بیکار قرار دیا جاوے.دُعا کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ جسم تکالیف اٹھائے اور روح گداز ہو.اور پھر صبر اور استقلال سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر حسنِ ظن سے کام لیا جاوے.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) دُعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے اجتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دُعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دُعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بیقراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے یہ کبھی بھی خیال کرنا نہیں چاہئے کہ میری دُعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی.ایسا ہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دُعائیں قبول فرمانے والا ہے.کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک امر کے لئے دُعا کرتا ہے مگر وہ دُعا اُس کی اپنی نا واقعی اور نادانی کا نتیجہ ہوتی ہے.یعنی ایسا امر خدا سے چاہتا ہے جو اس کے لئے کسی صورت سے مفید اور نافع نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دُعا کو تو رڈ نہیں کرتا.لیکن کسی اور صورت میں پورا کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار جس کو ہل چلانے کے لئے بیل کی ضرورت ہے وہ بادشاہ سے جا کر ایک اونٹ کا سوال کرے اور بادشاہ جانتا ہے کہ اس کو دراصل بیل دینا مفید ہوگا اور وہ حکم دے دے کہ اس کو ایک بیل دے دو، وہ زمیندار اپنی بے وقوفی سے یہ کہہ دے کہ میری درخواست منظور نہیں ہوئی تو یہ اس کی حماقت اور نادانی ہے لیکن اگر وہ غور کرے تو اُس کے لئے یہی بہتر تھا.اس طرح پر اگر ایک بچہ آگ کے سرخ انگارے کو دیکھ کر ماں سے مانگے تو کیا مہربان اور شفیق ماں یہ پسند کرے گی کہ اس کو آگ کے انگارے دے دے؟ غرض بعض اوقات دُعا کی قبولیت کے متعلق ایسے امور بھی پیش آتے ہیں.جو لوگ بے صبری اور بدظنی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی دُعا کوردکرا لیتے ہیں.اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے زمانہ میں اور بھی درازی ہو جاتی ہے بنی اسرائیل اسی وجہ سے چالیس برس تک ارضِ مقدس میں داخل ہونے سے محروم ہو گئے کہ ذرا ذراسی بات پر شوخیوں سے کام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیتے تھے....۳۴۱ سورة البقرة اسی طرح پر قبولیت کی ارض مقدس ان مولویوں کے نصیب معلوم نہیں ہوتی جو آئے دن مخالفت اور شرارت میں بڑھتے جاتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ ان کو کیا کہا گیا تھا کیا تعلیم ملی تھی اور اب انہوں نے اس پر کس حد تک عمل کیا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه (۲۰۱) بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بری خیال کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دُعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے نماز اور دُعا جب تک انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی.اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہو گا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کر کے کام تمام کر دے گا.یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دُعائیں قبول نہیں ہو تیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے.یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دُعا قبول نہ ہو ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقررہ شرائط کو کامل طور پر ادا کرائے.( البدرجلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۹،۱۰۸) اس میں شک نہیں کہ دُعاؤں کی قبولیت پر ہمارا ایمان ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے مگر دُعاؤں کے اثر اور قبولیت کو توجہ کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے اور پھر حقوق کے لحاظ سے دُعا کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے.....دعا کرانے والے کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اللہ تعالیٰ سے صلح کرے اپنے گناہوں سے تو بہ کرے پس جہاں تک ممکن ہو تم اپنے آپ کو درست کرو اور یہ یقینا سمجھ لو کہ انسان کا پرستار کبھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.الحکم جلدے نمبر ۳۷ مورخہ ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۲) سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو اُس کو موجود سمیع، بصیر، خبیر، علیم، متصرف ، قادر سمجھے اور اُس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دُعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے مگر کیا کروں؟ کس کو سناؤں، اب اسلام میں مشکلات ہی اور آپڑی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ سے کرنی چاہئے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا کا رتبہ انسانوں اور مردوں کو دیتے ہیں.حاجت روا اور مشکل گشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی مگر اب جس قبر کو دیکھو وہ حاجت روا ٹھہرائی گئی ہے.....حاجت روا اور مشکل گشا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۴۲ سورة البقرة تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی اس صفت کا موصوف نہیں.قبر سے کسی آواز کی اُمید مت رکھو بر خلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اور میرا اپنا تجربہ ہے کہ وہ دس دفعہ ہی آواز سنتا اور دس ہی دفعہ جواب دیتا ہے لیکن یہ شرط ہے کہ پکارے اس طرح پر جو پکارنے کا حق ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) دُعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا کی حدود کو توڑتا ہے تو دُعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹ مورخه ۱۰ رجون ۱۹۰۴ ء صفحه ۱) دُعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اُسی قدر اثر کم ہوتا ہے.یعنی اُس کی استجابت ضروری نہیں سمجھی جاتی.مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گزارہ ایک دور و پہیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہو گا.یہ ضروری امر ہے کہ ضرورت حقہ اللہ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخه یکم اگست ۱۹۰۴ صفحه ۳) خدا تعالیٰ ایک تعلق چاہتا ہے اور اس کے حضور میں دُعا کرنے کے لئے تعلق کی ضرورت ہے.بغیر تعلق کے دُعا نہیں ہوسکتی.پہلے بزرگوں کی بھی اسی قسم کی باتیں چلی آتی ہیں کہ جن سے دُعا کرنے والوں کو دُعا کرانے سے پہلے تعلق ثابت کرنے کی تاکید کی.خواہ مخواہ بازار میں چلتے ہوئے کسی بے تعلق کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تو میرا دوست ہے اور نہ ہی اس کے لئے درد دل ہی ہوتا ہے اور نہ ہی جوش دُعا پیدا ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہوسکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ میں نے خدا سے تعلق پیدا کر لیا ہے.....اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بارا اپنی جماعت کو اس بات پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہوکر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی ، اس وقت تک ثبات میسر نہیں آ سکتا.البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۴ صفحه ۳) دعاؤں میں جو رو بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے.لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دُعاؤں میں قبولیت خدا تعالی ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لئے بھی ایک وقت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة البقرة ( ہوتا ہے ) جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے، اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں.اسی طرح پر دُعا کے لئے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جب کہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۷ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۳) دُعا جو خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے.اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں.(۱) ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو.کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مُرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ تا دُعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو (۳) تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.(۴) چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رویا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۲) (ایاما حق بات یہی ہے کہ جیسے حکیم مطلق نے دواؤں میں باوجود انضباط قوانین قدرتیہ کی تاثیرات رکھی ہیں ایسا ہی دُعاؤں میں بھی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ تجارب صحیحہ سے ثابت ہوتی ہیں اور جس مبارک ذات علت احلل نے استجابت دعا کو قدیم سے اپنی سنت ٹھہرایا ہے اسی ذات قدوس کی یہ بھی سنت ہے کہ جو مصیبت رسیدہ لوگ ازل میں قابل رہائی ٹھہر چکے ہیں وہ انھیں لوگوں کے انفاس پاک یا دُعا اور توجہ اور یا ان کے وجود فی الارض کی برکت سے رہائی پاتے ہیں جو قرب اور قبولیت انہی کے شرف سے مشرف ہیں.(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۸) میں کہتا ہوں کہ دُعا جیسی کوئی چیز نہیں.دنیا میں دیکھو! بعض خر گدا ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہیں اُن کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے جب یہ اڑ کر دُعا کرتا ہے تو پالیتا ہے.کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں؟ یہ قاعدہ یا درکھو کہ جب دُعا سے باز نہیں آتا اور اس میں لگا رہتا ہے تو آخر دُعا قبول ہو جاتی ہے.مگر یہ بھی یادر ہے کہ باقی ہر قسم کی دُعائیں طفیلی ہیں اصل دُعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں.باقی دُعا ئیں خود بخود قبول ہو جائیں گی.کیونکہ گناہ کے دور ہونے سے برکات آتی ہیں.یوں دُعا قبول نہیں ہوتی جو نری دنیا ہی کے واسطے ہو.اس لئے پہلے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے دُعائیں کرے.اور وہ سب سے بڑھ کر دُعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے جب یہ دُعا کرتا رہے گا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۴۴ سورة البقرة تو وہ منعم علیہم کی جماعت میں داخل ہوگا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۷) سب سے عمدہ دُعا یہ ہے کہ خدا کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گنا ہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دُعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے.(البدر جلد ۳ نمبر ۳۱ مورخه ۱۶ راگست ۱۹۰۴ صفحه ۶) میں سمجھتا ہوں کہ دُعا سے آخری فتح ہوگی اور انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز رہا ہے کہ جب دلائل اور بیج کام نہیں دیتے تو اُن کا آخری حربہ دُعا ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا : وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (ابراهيم :۱۲).....میں یقینا سمجھتا ہوں کہ کسر صلیب جانکاہ دُعاؤں پر موقوف ہے دُعا میں ایسی قوت ہے کہ جیسے آسمان صاف ہو اور لوگ تضرع اور ابتہال کے ساتھ دُعا کریں تو آسمان پر بدلیاں کی نمودار ہو جاتی ہیں اور بارش ہونے لگتی ہے اسی طرح پر میں خوب جانتا ہوں کہ دُعا اس باطل کو ہلاک کر دے گی.اور لوگوں کو تو کوئی غرض نہیں ہے کہ وہ دین کے لئے دُعا کریں مگر میرے نزدیک بڑا چارہ دُعا ہی ہے اور یہ بڑا خطرناک جنگ ہے جس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے وانعم ماقیل : اندریں وقت مصیبت چارہ ہائے بیکساں جو دعائی بامداد وگریه اسحار نیست پھر ان دعاؤں کے لئے گوشہ نشینی کی بڑی ضرورت ہے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ رفروری ۱۹۰۴ صفحه ۵) فَاعْلَمُوا أَنَّ الدُّعَاءَ حَرْبَةٌ أُعْطِيتُ خوب یا درکھیں کہ دُعا وہ ہتھیار ہے، جو اس زمانہ کی فتح مِنَ السَّمَاءِ لِفَتح هَذَا الزَّمَانِ، وَلَن کے لئے مجھے آسمان سے دیا گیا ہے.اور اے میرے تَغْلِبُوا إِلَّا بِهذِهِ الْحَربَةِ يَا مَعْشَرَ دوستوں کی جماعت ! تم صرف اسی حربہ سے غالب آ سکتے ہو.الخلانِ وَقَد أَخْبَرَ النَّبِيُّونَ مِنْ أَوَّلِهِمْ تمام نبیوں نے اوّل سے آخر تک اس ہتھیار کی خبر دی ہے.إلى آخِرِهِمْ بِهذِهِ الْحَرْبَةِ، وَقَالُوا إِنَّ اور سب نے فرمایا کہ مسیح موعود دعا اور بارگاہ رب العزت الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ يَنَالُ الْفَتْحَ بِالدُّعَاءِ میں تضرعات کے ذریعہ سے ہی فتح حاصل کرے گا، جنگوں و النصر في الخطرة، لا بِالْمَلاحم و اور لوگوں کے خون بہانے سے نہیں.دُعا کی حقیقت یہ سَفْكِ دِمَاءِ الْأُمَّةِ إِنَّ حَقِيقَةَ ہے کہ انسان ساری ہمت ، پورے صدق اور کامل صبر الدُّعَاءِ الإِقْبَالُ عَلَى اللهِ يُجَمِيعِ الْهِمَّة کے ساتھ مصیبت کے دور کروانے کے لئے اللہ تعالی کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة البقرة والصدقِ وَالصَّيرِ لِدفْعِ الطَّرَاء وَإِن طرف متوجہ ہو.یقیناً اولیاء اللہ جب اپنے رب کی طرف أَوْلِيَاء الله إذَا تَوَجهُوا إلى ربهم لدفع تفرع اور ابتبال کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں.تاکہ کسی مُؤذِ بِالتَّصَرع و الابيالِ، جَرَتْ عَادَةُ موذی چیز کو دُور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی عادت اس طرح اللهِ أَنَّهُ يَسْمَعُ دُعَاءَ هُمْ وَلَوْ بَعْدَ سے جاری ہے کہ وہ ان کی دُعاؤں کو بہر حال سنتا ہے.خواہ حِينٍ أَوْ فِي الْحَالِ، وَتَوَجَّهَتِ الْعِنَايَةُ فوراً، خواہ کچھ عرصہ بعد.خدائے صمد کی توجہ اس بلا اور وبال الصَّمَدِيَّةُ لِيَدْفَعَ مَا نَزَلَ بِهِم مِن کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو خدا کے نیک الْبَلاءِ وَالْوَبَالِ بَعْدَ مَا أَقْبَلُوا عَلَى بندوں پر نازل ہوتی ہے.یہ بات اس وقت ہوتی ہے الله كُلّ الإِقْبَالِ، وَإِنَّ أَعْظَمَ جب وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتے الْكَرَامَاتِ اِسْتِجَابَةُ الدَّعَوَاتِ، عِنْدَ ہیں.سب سے بڑی کرامت آفات کے اترنے کے وقت حُلُولِ الْآفَاتِ.قبولیت دعا ہی ہے....قيل ما معنى الدُّعَاءِ بَعْدَ قَدَر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ تقدیر مبرم کے بعد اور نہ رو ہونے مَعْنَى لا يُرَةُ، وَقَضَاءٍ لَّا يُصَلُّ: فَاعْلَمْ أَنَّ هذا والی قضاء کے بعد دُعا کے کیا معنے ہیں؟ تو جانا چاہئے کہ یہ راز ایسا الشر مَوْرٌ تَضِلُّ بِهِ الْعُقُولُ وَيَخْتَالُ راستہ ہے جہاں عقلیں بھٹک جاتی ہیں اور راہ زن اس پر راہ فِيْه الْغُولُ، وَلَا يَبْلُغُهُ إِلَّا مَنْ يَتُوبُ زنی کرتے ہیں اور اس راستے پر وہ ہی منزل مقصود تک پہنچتا ہے وَمِن التّوْبَةِ يَذُوبُ....جو حقیقی تو بہ کرتا ہے اور تو بہ سے گداز ہوتا ہے.فَمَنْ أَرْهَفَ أُذُنَه يسمع هذه پس جو شخص میرے بیان کردہ حقائق پر کان دھرتا ہے اور الْحَقَائِقِ، وَحَفَدَ إِلَيْنَا كَاللَّهِيفِ دردمند شوق رکھنے والے انسان کی طرح ہماری طرف آتا ہے.الشَّائِقِ ، فَسَأَخْفِرُهُ بمَا يَسْرُوْ رِيبَتَه.میں اس کا محافظ بنوں گا اور اس کی حفاظت ایسی باتوں سے کروں وَيَمْلاً عَيْبَتَهُ، وَهُوَ أَنَّ اللهَ جَعَلَ بَعْضَ گا.جو اس کے شکوک و شبہات کو دور کر دیں گی.اور اس کے الْأَشْيَاءِ مُعَلَّقًا بِبَعْضِهَا مِنَ الْقَدِيمِ، روحانی خزانوں کو بھر دیں گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قدیم سے وَكَذَالِكَ عَلَّقَ قَدْرَهُ بِدَعْوَةِ الْمُضْطَرِ بعض چیزوں کو بعض چیزوں سے وابستہ کر رکھا ہے.اسی طرح الْأَلِيمِ.فَمَنْ نَهَضَ مُهَرُولًا إلى حَضْرَةِ الله تعالى نے اپنی تقدیر کو مضطر اور دکھی انسان کی دُعا سے وابستہ الْعِزَّةِ بِعَبَرَاتٍ مُتَحَذِدَةٍ وَ دُمُوعِ کیا ہے.پس جو شخص دوڑتے ہوئے بارگاہ عزت میں پہنچتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۴۶ سورة البقرة جَارِيَةٍ مِّنَ الْمَقْلَةِ ، وَ قَلْبِ ہے.اس کے آنسو بہتے ہیں ، اور اس کی آنکھوں سے پانی جاری يُضْجَرُ كَأَنَّهُ وُضِعَ عَلَى الجَمرة ، ہوتا ہے.اور اس کا دل سوز و گداز سے بھرا ہوتا ہے گویا کہ وہ آگ تَحَرَّكَ لَهُ مَوْجُ الْقُبُولِ مِن کے انگارے پر رکھا گیا ہے.ایسے شخص کے لئے بارگاہ احدیت الْحَضْرَةِ، وَ نُحِيَ مِن كَرْبِ بَلَغَ سے قبولیت کی موج حرکت میں آتی ہے.اور اللہ تعالیٰ اسے اس أَمْرُهُ إِلَى الْهَلَكَةِ ، بَيْد أَن هذا مصیبت سے نجات دیتا ہے.جو اسے ہلاکت تک پہنچا رہی تھی.الْمَقَامَ لا يَحْصُلُ إِلَّا لِمَن قُلی فی ہاں یادر ہے کہ یہ مقام صرف اسی کو حاصل ہوتا ہے جو فانی فی اللہ ہو الله وأثَرَ الْحَبِيْب الْعَلّام، و اور اپنے عالم الغیب محبوب کو سب پر ترجیح دے.اور ہر اس چیز کو ترَكَ كُلَّمَا يُشَابِهُ الْأَصْنَام ترک کر دے جو بتوں سے مشابہ ہے پھر قرآن مجید کی آواز پر وَلَبَى نِدَاء الْقُرْآنِ، وَحَضَرَ حَرِيمَ لبیک کہے اور دونوں جہانوں کے بادشاہ خدا کےسامنے حاضر ہو السُّلْطَانِ ، وَأَطاعَ الْمَوْلى حَتَّی جائے.اپنے آقا کی اطاعت میں فناء کے مقام تک پہنچ جائے.قلى ، وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الهَوى ، اور نفس کو تمام خواہشات سے روکے.وہ اس وقت اللہ کے حضور وَتَيَقَظَ فِي زَمَنٍ نَعْسِ النَّاسِ جاگ کر وقت گزارے جب لوگوں پر نیند کا غلبہ ہو اور وسوسہ انداز وَعَاكَ الْوَسْوَاسُ ، وَرَضِيَ عَن شیطان ان میں خرابی پیدا کرتا ہو.ایسا مومن جو اپنے رب سے اور ربِّهِ وَمَا قَطَى وَأَلْقَى إِلَيْهِ العُری اس کی قضا پر ہر حال میں راضی ہو اور اپنے تمام معاملات کو اس کے وَمَا دَنَّسَ نَفْسَهُ بِالذُّنُوبِ بَعْد سپر د کر دے اور جب اسے محبوب کے دیار میں پاک دل اور مضبوط مَا أُدْخِلَ فِي دِيَارِ الْمَحْبُوبِ عزیمت اور واضح سچائی کے طفیل داخل کیا جا چکا ہو تو وہ اپنے نفس کو بِقَلْبٍ نَّتِي وَ عَزْمٍ قَوِي وَ صِدْقٍ کسی قسم کے گناہ سے بھی میلا نہ کرے.یہ وہ لوگ ہیں، جن کی جلي، أُوليك لا تُضَاعُ دَعَوَاهُمْ دُعائیں بھی ضائع نہیں جاتیں اور جن کی عاجزانہ التجا ئمیں کبھی رڈ نہیں ہوتیں.( ترجمہ از مرتب ) وَلَا تُرَدُّ كَلماتهم.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۸۲، ۸۳) خدا تعالیٰ نے تو انسان سے نہایت تنزل کے رنگ میں دوستانہ برتاؤ کیا ہے.دوستانہ تعلق کیا ہوتا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی بات مان لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے چنانچہ خدا تعالی بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : (1) اور إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة البقرة b عَلى فَإِني قَرِيبٌ ُأجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی بات کو مان لیتا ہے اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور دوسری فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا فی سے اور وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ (البقرة :۱۵۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے.بعض لوگ خدا تعالی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کو قبول نہیں کرتا.یا اولیا ، لوگوں پر طعن کرتے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی.اصل میں وہ نادان اس قانون الہی سے نا آشنا محض ہوتے ہیں جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہوگا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہوگا.خدا تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دو نمونے پیش کئے ہیں.انہی کو مان لینا ایمان ہے تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پر زور دو.ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو.قبولیت دعا کی شرط الحکم جلدے نمبر ۱۱ مؤرخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲ وملفوظات جلد سوم صفحه ۱۵۱) یہ خوب یاد رکھو کہ انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے غفلت فسق و فجور کو چھوڑ دے.جس قدر قرب الہی انسان حاصل کرے گا اسی قدر قبولیت دعا کے ثمرات سے حصہ لے گا.اسی لئے فرمایا ط دو وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ و آئی لَهُمُ التَّناوُشُ مِنْ لَمَكَانِ بَعِيد (سبا: ۵۳) یعنی جو مجھ سے دور ہو اس کی دعا کیوں کرسنوں؟ یہ گویا عام قانون قدرت کے نظارہ سے ایک سبق دیا ہے.یہ نہیں کہ خدا سن نہیں سکتا.وہ تو دل کے مخفی در مخفی ارادوں اور ان ارادوں سے بھی واقف ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے.مگر یہاں پر انسان کو قرب الہی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جیسے دور کی آواز سنائی نہیں دیتی ، اسی طرح پر جو شخص غفلت اور فسق و فجور میں مبتلا رہ کر مجھ سے دور ہوتا جاتا ہے، جس قدر وہ دور ہوتا ہے اسی قدر حجاب اور فاصلہ اس کی دعاؤں کی قبولیت میں ہوتا جاتا ہے.کیا سچ کہا ہے: پیدا است ندارا که بلند هست جنابت ه پیدا جیسے میں نے ابھی کہا گو خدا عالم الغیب ہے، لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مؤرخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۳) أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُمُ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة البقرة ص فالن بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى اليل : وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَ اَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ ايَتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ كُلُوا ایک امر ہے جب مومن اس کو امر سمجھ کر بجالا وے تو اس کا ثواب ہوگا اسی طرح عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:۲) امر کی بجا آوری سے ثواب ہوتا ہے لیکن اگر ریا کاری سے نماز بھی ادا کرے تو پھر اس الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ر مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) کے لئے ویل ہے.( وَ اَنْتُمْ عَرِفُونَ فِي المَسجِدِ ) اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا ر ہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ....چھت پر دھوپ ہوتی ہے.وہاں جا کر آپ ( ڈاکٹر عباد اللہ صاحب امرتسری عباداللہ اور خواجہ کمال الدین صاحب سے خطاب ہے.ہر دو اصحاب ان دنوں قادیان کی مسجد میں معتکف تھے.مرتب ) بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ہر ایک ضروری بات کر سکتے ہیں ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام ( مومن کا ) عبادت ہی ہوتا ہے.البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۴) وَلا تَأكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدُلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا W مِنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو نا جائز طور پر مت کھایا کرو اور نہ اپنے مال کو رشوت کے طور پر حکام تک پہنچایا کرو.تا اس طرح پر حکام کی اعانت سے دوسرے کے مالوں کو دبا لو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۷) شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱) ناجائز طور پر ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ.تم ایک دوسرے کے مال کو ناحق کے طور پر مت کھاؤ.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِانْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة البقرة اتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.اور گھروں میں دیواروں پر سے کود کر نہ جایا کرو بلکہ گھروں میں ان گھروں کے دروازوں میں سے جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ یعنی خدا کی راہ میں اُن لوگوں کے ساتھ لڑو جو لڑنے میں سبقت کرتے ہیں اور تم پر چڑھ چڑھ کے آتے ہیں مگر ان پر زیادتی نہ کرو اور تحقیقاً یا در کھوا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۲) اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ تمہیں قتل کرنے کے لئے آتے ہیں اُن کا دفع شر کے لئے مقابلہ تو کرو مگر کچھ زیادتی نہ کرو.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۲) جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھانہ بحیثیت رسالت.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.( ترجمہ ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو.خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۳) یعنی جو لوگ تم سے لڑتے ہیں ان کا مقابلہ کرو اور پھر بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ خدا تعالیٰ حد سے بڑھنے جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) والوں کو دوست نہیں رکھتا.اور تم خدا کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑیں لڑ ولیکن حد سے مت بڑھو اور کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) جب بے رحم کا فروں کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا، خدا نے جو آخر اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے.اپنے رسول پر اپنی وحی نازل کی کہ مظلوموں کی فریاد میرے تک پہنچ گئی.آج میں اجازت دیتا ہوں کہ تم بھی اُن کا مقابلہ کرو اور یا درکھو کہ جو لوگ بے گناہ لوگوں پر تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے جائیں گے.مگر تم کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا از یادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۷، ۴۶۸)
۳۵۰ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس طرح اور جن آلات سے کفار لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں انہی طریقوں اور آلات سے تم ان لوگوں کا مقابلہ کرو.اب ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے حملے اسلام پر تلوار سے نہیں ہیں بلکہ قلم سے ہیں لہذا ضرور ہے کہ ان کا جواب قلم سے دیا جاوے اگر تلوار سے دیا جاوے گا تو یہ اعتدا ہوگا جس سے خدا تعالیٰ کی صریح ممانعت قرآن شریف میں موجود ہے : إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - الحکم جلد ۹ نمبر۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۵ صفحه ۲) کثرت ازدواج سے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دو دو، تین تین، چار چار کر کے ہی آئے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے.اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو.اور یا قوائے رجولیت ہی کمزور ہوں تو پھر ایک سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے.ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.حلال پر بھی ایسا زور نہ مارو کہ نفس پرست ہی بن جاؤ.غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیو یوں ہی کا بندہ ہو جائے تو بھی غلطی کرتا ہے.ہر ایک شخص اللہ تعالی کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا.اس کا یہ منشا نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جاؤ اور وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کارروائیوں میں نہ ڈالو.W الحکم جلد ۲ نمبر ۲ مورخه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ ء صفحه ۲) وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَاخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقْتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقْتِلُوكُمْ فِيهِ ۚ فَإِنْ قتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِينَ یعنی قتل کرو انہیں جہاں پاؤ اور اسی طرح نکالوجس طرح انہوں نے نکالا.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) وَقْتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ الا عَلَى الظَّلِمِينَ ۱۹۴ یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دُور ہو جاوے اور دین کی روکیں اُٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) یعنی عرب کے اُن مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۱ سورة البقرة کی ہو جائے.اس سے کہاں جبر نکلتا ہے.اس سے تو صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ اُس حد تک لڑو کہ اُن کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساد اُٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام ادا کر سکیں.اگر اللہ جل شانہ کا ایمان بالجبر منشاء ہوتا تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کے لئے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کریں.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۳) بعض لوگ جن کو حق کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے.جب ایسی تعلیم سنتے ہیں تو اور کچھ نہیں تو یہی اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام میں اگر ہمدردی کی تعلیم ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائیاں کیوں کرتے وہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگ کئے وہ تیرہ برس تک خطر ناک دُکھ اور تکلیف پر تکلیف اُٹھانے کے بعد کئے اور وہ بھی صرف مدافعت کے طور پر.تیرہ برس تک ان کے ہاتھوں سے آپ تکالیف اُٹھاتے رہے.ان کے عزیز دوست اور یاروں کو سخت سخت عذاب دیا جاتارہا اور جور و ظلم کا کوئی بھی ایسا پہلو نہ رہا جو کہ مخالفوں نے اُن کے لئے نہ برتا ہو یہاں تک کہ کئی مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اُن کے ہاتھ سے شہید بھی ہو گئے اور اُن کے ہر وقت کے ایسے شدید ظلموں سے تنگ آ کر بحکم الہی شہر بھی چھوڑنا پڑا.جب مدینہ منورہ کو تشریف لے گئے اور وہاں بھی ان ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا.جب اُن کے ظلموں اور شرارتوں کی بات انتہا تک پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے مظلوم قوم کو اس مظلومانہ حالت میں مقابلہ کا حکم دیا اور وہ بھی اس لئے کہ شریر اپنی شرارت سے باز آجاویں اور ان کی شرارت سے مخلوق خدا کو بچایا جاوے اور ایک حق پرست قوم اور دین حق کے لئے ایک راہ کھل جاوے.تقریریں صفحہ ۲۸ ، تقریر حضرت اقدس جلسه سالانه ۲۹ / دسمبر ۱۹۰۴ طبع اوّل ) اَلشَّهُرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَتُ قِصَاصُ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا ص (۱۹۵) عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ خدا کی محبت متقی کے ساتھ ہوتی ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ.(احکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۳) وَ أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَ اَحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۱۹۶ اور تم خدا کی راہ میں خرچ کرو اور دانستہ اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو.اور لوگوں سے احسان کرو کہ خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة البقرة محسنین کو دوست رکھتا ہے.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) یعنی خود کشی نہ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنی موت کے باعث نہ ٹھہر واور یہ ظاہر ہے کہ اگر مثلاً خالد کے پیٹ میں درد ہو اور زید اس پر رحم کر کے اپنا سر پھوڑے تو زید نے خالد کے حق میں کوئی نیکی کا کام نہیں کیا بلکہ اپنے سرکو احمقانہ حرکت سے ناحق پھوڑا.نیکی کا کام تب ہوتا کہ جب زید خالد کی خدمت میں مناسب اور مفید طریق کے ساتھ سرگرم رہتا اور اس کے لئے عمدہ دوائیں میتر کرتا اور طبابت کے قواعد کے موافق اس کا علاج کرتا.مگر اس کے سر کے پھوڑنے سے زید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا.ناحق اس نے اپنے وجود کے ایک شریف عضو کو دکھ پہنچایا.قوم کی راہ میں جان دینے کا حکیمانہ طریق یہی ہے کہ قوم کی بھلائی کے لئے قانون قدرت کی مفید راہوں کے موافق اپنی جان پر سختی اٹھا دیں اور مناسب تدبیروں کے بجالانے سے اپنی جان ان پر فدا کر دیں نہ یہ کہ قوم کو سخت بلا یا گمراہی میں دیکھ کر اور خطرناک حالت میں پا کر اپنے سر پر پتھر مارلیں یا دو تین رتی اسٹر کنیا " کھا کر اس جہان سے رخصت ہو جائیں اور پھر گمان کریں کہ ہم نے اپنی اس حرکت بیجا سے قوم کو نجات دے دی ہے.یہ مردوں کا کام نہیں ہے، زنانہ خصلتیں ہیں اور بے حوصلہ لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے کہ مصیبت کو قابل برداشت نہ پا کر جھٹ پٹ خود کشی کی طرف دوڑتے ہیں.ایسی خود کشی کی ، گو بعد میں کتنی ہی تاویلیں کی جائیں مگر یہ حرکت بلاشبہ عقل اور عقلمندوں کا ننگ ہے.مگر ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا صبر اور دشمن کا مقابلہ نہ کرنا معتبر نہیں ہے جس کو انتقام کا موقعہ ہی نہ ملا کیونکہ کیا معلوم ہے کہ اگر وہ انتقام پر قدرت پاتا تو کیا کچھ کرتا ؟ جب تک انسان پر وہ زمانہ نہ آوے جو ایک مصیبتوں کا زمانہ اور ایک مقدرت اور حکومت اور ثروت کا زمانہ ہو.اس وقت تک اس کے بچے اخلاق ہر گز ظاہر نہیں ہو سکتے.صاف ظاہر ہے کہ جو شخص صرف کمزوری اور ناداری اور بے اقتداری کی حالت میں لوگوں کی ماریں کھا تا مر جاوے اور اقتدار اور حکومت اور ثروت کا زمانہ نہ پاوے.اس کے اخلاق میں سے کچھ بھی ثابت نہ ہوگا.اور اگر کسی میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوا تو یہ بھی ثابت نہیں ہو گا کہ وہ دل کا بہادر تھا یا بزدل.اس کے اخلاق کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۸ تا ۴۵۰) ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں فرمایا: مت جاؤ.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ پچھلی رات کو اٹھ کر اُن کے لئے دُعا کرو یہ بہتر ہوگا.وو * Strychnia کچلہ.ناشر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۳ سورة البقرة بہ نسبت اس کے کہ تم خود جاؤ.ایسے مقام پر جانا گناہ ہے.“ (الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۲ صفحه ۸) سوال ہوا کہ بعض باتیں واقع میں صحیح ہوتی ہیں مگر مصلحت وقت اور قانون ان کے اظہار کا مانع ہوتا ہے تو کیا ہم لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةً کے موافق ظاہر کر دیا کریں؟ فرمایا: یہ بات اس وقت ہوتی ہے جب آدمی آزاد بالطبع ہو.دوسری جگہ یہ بھی تو فرمایا ہے: لَا تُلْقُوا بِاید یکم إلَى التَّهْلُكَةِ قانون کی پابندی ضروری شے ہے.جب قانون روکتا ہے تو رکنا چاہئے جب کہ بعض جگہ اخفاء ایمان بھی کرنا پڑتا ہے تو جہاں قانون بھی مانع ہو وہاں کیوں اظہار کیا جاوے؟ جس راز کے اظہار سے خانہ بر بادی اور تباہی آتی ہو وہ اظہار کرنا منع ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰) سرحد کے پٹھانوں کو یہ بھی ایک خبط سمایا ہوا ہے کہ وہ انگریز افسروں پر آ کر حملے کرتے ہیں اور اپنی شوریدہ سری سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں.انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اگر ہم کسی کافر یا غیر مذہب والے کو ہلاک کر دیں گے تو ہم غازی ہوں گے اور اگر مارے جاویں گے تو شہید ہوں گے.مجھے ان کمینہ فطرت ملانوں پر بھی افسوس ہے جو ان شوریدہ سر پٹھانوں کو اکساتے ہیں وہ انہیں نہیں بتاتے کہ تم اگر کسی شخص کو بلا وجہ قوی قتل کرتے ہو تو غازی نہیں ظالم ٹھہرتے ہو اور اگر وہاں ہلاک ہو جاتے ہو تو شہید نہیں بلکہ خود کشی کر کے حرام موت مرتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے : لَا تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور فساد کرتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ سخت سزا کے مستوجب ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) رشوت ہرگز نہیں دینی چاہئے ، یہ سخت گناہ ہے مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کئے جاویں.میں اس سے سخت منع کرتا ہوں لیکن ایسے طور پر کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مد نظر نہ ہو بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو تو یہ میرے نزدیک منع نہیں اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی بلکہ لا تُلْقُوا بِايِّدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ فرمایا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۹) شریعت اور الہامی اور کشفی امور الگ الگ ہیں اس لیے ان کو شریعت کے ظاہری الفاظ کے تابع نہ کرنا چاہیے.وحی الہی کا معاملہ ہی اور ہوتا ہے اس کی ایک دو نظیر میں نہیں بلکہ ہزار ہا نظائر ہیں بعض وقت ایک ملہم کو الہام کی رو سے ایسے احکام بتلائے جاتے ہیں کہ شریعت کی رو سے ان کی بجا آوری درست نہیں ہوتی.مگر جسے بتلائے جاتے ہیں اسے ان کا بجالا نا فرض ہوتا ہے.اور عدم بجا آوری میں اسے موت نظر آتی ہے اور
۳۵۴ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت گناہ ہوتا ہے حالانکہ شریعت اسے گناہ قرار ہی نہیں دیتی....ایک جاہل تو ان کو شریعت کے مخالف قرار دے گا.اور اعتراض کرے گا مگر وہ اس کی بے وقوفی ہوگی وہ بھی اصل میں ایک شریعت ہی ہے جب سے دنیا چلی آئی ہے یہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ چلی آتی ہیں یعنی ایک تو ظاہر شریعت جو کہ دنیا کہ امور کے واسطے ہوتی ہے اور ایک وہ امور جو کہ از روئے کشف والہام کے ایک مامور پر نازل ہوتے ہیں اور اسے حکم ہوتا ہے کہ یہ کرو.بظاہر گووہ شریعت کے مخالف ہو مگر اصل میں بالکل مخالف نہیں ہوتا مثلا دیکھ لو کہ از روئے شریعت تو دیدہ دانستہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا منع ہے وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى اللَّهلگا مگر ایک شخص کو حکم که تو در یا میں جا اور چیر کر نکل جا تو کیا وہ اس کی نافرمانی کرے گا ؟ بھلا بتلاؤ تو سہی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عمل کہ بیٹے کو ذبح کرنے لگ گئے کونسا شریعت کے مطابق تھا ؟ کیا یہ کہیں شریعت میں لکھا ہے کہ خواب آوے تو سچ مچ بیٹے کو اُٹھ کر ذبح کرنے لگ جاوے؟ مگر وہ ایسا عمل تھا کہ اُن کے قلب نے اسے قبول کر سکے تعمیل کی.پھر دیکھو موسٹی کی ماں تو نبی بھی نہ تھی مگر اس نے خواب کی رو سے موسیٰ کو دریا میں ڈال دیا.شریعت کب اجازت دیتی ہے کہ اس طرح ایک بچہ کو پانی میں پھینک دیا جاوے.بعض امور شریعت سے وراء الوری ہوتے ہیں اور وہ اہل حق سمجھتے ہیں جو کہ خاص نسبت خدا تعالیٰ سے رکھتے ہیں اور وہی ان کو بجالاتے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخه ۱۹ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۷۱،۱۷۰) شریعت ظاہری وہ ہے کہ جس میں امور دنیا کا پورا پورا انصرام اہتمام کیا گیا ہے تا کہ اس کے انتظام میں بلحاظ ظاہر کے کوئی بات خلاف طریق ظاہر نہ ہو.شریعت باطنی وہ ہے کہ بعض امور ظاہری جو بادی النظر میں کامل طور پر ظہور پذیر نہیں ہو سکتے الہام و کشوف سے ظاہر اور رواج دیئے جاتے ہیں شریعت ظاہری کی طرح اہل کشف پر احکام نازل ہوتے ہیں جو امور بعض امور کے حقائق پر مشتمل ہوتے ہیں اور جب تک ملہم ان کی بجا آوری میں بدل و جان کوشش نہ کرے ممکن نہیں کہ اندرونی اصلاح کماحقہ حقیقتاً ہو سکے اور یہ امور جو اہلِ کشف پر نازل ہوتے ہیں شریعت کے دراصل مخالف نہیں ہوتے بلکہ بعض حقائق کی تکمیل ہوتی ہے مثلاً کہا جاتا ہے کہ وَلَا تُلْقُوا بِايْدِ يْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالومگر ایک شخص کو حکم ہوتا ہے کہ تو اپنے بچے کو دریا میں ڈال دے جیسے حضرت موسی کی ماں کو حکم ہوا.یا در یا چیر کر نکل جا.جیسے خود موسی علیہ السلام کو یا مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر اور آپ کرنے لگ گئے.یہ امور شریعت سے وراء الوری ہوتے ہیں جن کو اہلِ حق ہی سمجھتے ہیں اور وہی ان کو بجالاتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ رجون ۱۹۰۳ صفحه ۱۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۵ سورة البقرة کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالی فرماتا ہے: وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہ جلیں گے.اس لئے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لئے خدا نے اول ہی سے الہام کر دیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.ہے.( البدر جلد ۲ نمبر ۴۷ مورخه ۱۶ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۷۳) اَحْسِنُوا اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِين خدا کی مخلوق سے احسان کرو کہ خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا وَاتِمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ........حج اور عمرہ کو اللہ کے واسطے پورا کرو.ج (192) (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۶) شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) اَلْحَجُّ اشْهُرُ مَعْلُومَنَّ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جدَالَ فِى الْحَج وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَأولِي الْأَلْبَابِ.۱۹۸ حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی.عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا.سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کا لباس میں ہوتا ہے وہ حج میں موجود ہے.سر منڈا یا جاتا ہے، دوڑتے ہیں، محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلا آیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے اسلام نے پورے طور پر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے نادان ہے وہ شخص جو اپنی نابینائی سے اعتراض کرتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مؤرخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳)
۳۵۶ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حج کے واسطے جانا خلوص اور محبت سے آسان ہے مگر واپسی ایسی حالت میں مشکل.بہت ہیں جو وہاں سے نامراد اور سخت دل ہو کر آتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حقیقت اُن کو نہیں ملتی.قشر کو دیکھ کر رائے زنی کرنے لگ جاتے ہیں.وہاں کے فیوض سے محروم ہوتے ہیں اپنی بدکاریوں کی وجہ سے اور پھر الزام دوسروں پر دھرتے ہیں.اس واسطے ضروری ہے کہ مامور کی خدمت میں صدق اور استقلال سے کچھ عرصہ رہا جاوے تا کہ اُس کے اندرونی حالات سے بھی آگاہی ہو اور صدق پورے طور پر نورانی ہو جاوے.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۴) جب سفر کرو تو ہر ایک طور پر سفر کا انتظام کر لیا کرو اور کافی زادراہ لے لیا کرو تا گداگری سے بچو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) اور اپنے پاس تو شہ رکھو کہ تو شہ میں یہ فائدہ ہے کہ تم کسی دوسرے سے سوال نہیں کرو گے یعنی سوال ایک ذلت ہے اس سے بچنے کے لئے تدبیر کرنی چاہئے.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے.فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى - الحکم جلد ۴ نمبر ۴۲ مورخه ۲۴ رنومبر ۱۹۰۰ صفحه ۵) لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِن رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَةٍ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدِيكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ.گناہ اصل میں جناح سے لیا گیا ہے اور ج کا تبادلہ گ سے کیا گیا ہے جیسے فارسی والے کر لیتے ہیں اور جناح اصل میں عمداً کسی طرف میل کرنے کو کہتے ہیں.پس گناہ سے یہ مراد ہے کہ عمد ابدی کی طرف میل کیا جاوے.پس میں ہر گز نہیں مان سکتا کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ حرکت سرزد ہو اور قرآن شریف میں اس کا ذکر بھی نہیں.انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور اس لئے ناممکن ہے کہ عارفانہ حالت کے انتہائی مقام پر وہ ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ عارف بدی کی طرف میل کرے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۲) دو ثُمَّ اَفِيُضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّ ور رحیم © استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنے پر آیا ہے؛ ایک تو یہ کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة البقرة اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جوعلیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفتہ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھا گنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشو و نما پا کر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا.کیونکہ غفر جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں.گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لے کر اپنی متر وستیت میں سے حصہ دے یا اگر کوئی جڑا گناہ کے ظہور سے ننگی ہو گئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۷) جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہر دم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا اور دور کھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے.اور استغفار کے حقیقی معنے یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعف بشریت انسان سے صادر ہو سکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے اور مستور ومخفی رہے.پھر بعد اس کے استغفار کے معنے عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے.پس نجات حقیقی کا سر چشمہ محبت ذاتی خدائے عزوجل کی ہے جو عجز و نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۰،۳۷۹) روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا بھی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے (نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۷) موسوم کرتا ہے.
۳۵۸ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مغفرت ) لغت میں ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے انسان آفات سے محفوظ رہے.اسی وجہ سے مغفر جوخود کے معنی رکھتا ہے اسی میں سے نکالا گیا ہے اور مغفرت مانگنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس بلا کا خوف ہے یا جس گناہ کا اندیشہ ہے خدا تعالیٰ اس بلا یا اس گناہ کو ظاہر ہونے سے روک دے اور ڈھانکے رکھے.(نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۶،۳۵۵) انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے اس لئے ضروری ہوا کہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہی استغفار ہے.اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے پھر اس کو وسیع کر کے ان لوگوں کے لئے کیا گیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کہ ان کے بڑے نتائج سے محفوظ رکھا جاوے لیکن اصل یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں سے بیچا یا جاوے.پس جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتاوہ بے ادب دہر یہ ہے.الحکم جلد 4 نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵) استغفار کے اصل معنے تو یہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں اُن سے محفوظ البدر جلد نمبر ا مورخه ۱۹ /اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۷) رہوں.غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آجاتی ہے اس لئے استغفار ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے.عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے.اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنی رکھتا ہے تو وہ بتلا دیں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کونسا لفظ ہے.غفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں تمام انبیاء اس کے محتاج تھے جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اتنا ہی معصوم ہوتا ہے اصل معنے یہ ہیں کہ خدا نے اُسے بچایا.معصوم کے معنے مستغفر کے ہیں.البدر جلد نمبر ۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۲) گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے.استغفار کیا ہے؟ یہی جو گناہ صادر ہو چکے ہیں ان کے بد ثمرات سے خدا محفوظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا ہی وقت نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر (البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۶) راکھ ہوجاویں.
۳۵۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام گناہ جو انسان سے صادر ہوتا ہے اگر انسان یقین سے تو بہ کرے تو خدا بخش دیتا ہے.پیغمبر خدا جو ستر بار استغفار کرتے تھے حالانکہ ایک دفعہ کے استغفار سے گذشتہ گناہ معاف ہو سکتے تھے پس اس سے ثابت ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ خدا آئندہ ہر ایک غفلت اور گناہ کو دبائے رکھے.اس کا صدور بالکل نہ ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخه ۱۹ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۶۹) تو بہ واستغفار کرنی چاہئے.بغیر توبہ استغفار کے انسان کر ہی کیا سکتا ہے؟ سب نبیوں نے یہی کہا ہے کہ اگر تو بہ واستغفار کرو گے تو خدا بخش دے گا.سونمازیں پڑھو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور پچھلے گناہوں کی معافی مانگو اور بار بار استغفار کرو تا کہ جو قوت گناہ کی انسان کی فطرت میں ہے وہ ظہور میں نہ آوے.انسان کی فطرت میں دو طرح کا ملکہ پایا جاتا ہے ایک تو کسب خیرات اور نیک کاموں کے کرنے کی قوت ہے اور دوسرے بڑے کاموں کو کرنے کی قوت اور ایسی قوت کو روکے رکھنا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ قوت انسان کے اندر اس طرح سے ہوتی ہے جس طرح کہ پتھر میں ایک آگ کی قوت ہے اور استغفار کے یہی معنی ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوت ظہور میں نہ آوے.انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے.اور عوام کے واسطے استغفار کے دوسرے معنے بھی لئے جاویں گے کہ جو جرائم اور گناہ ہو گئے ہیں ان کے بدنتائج سے خدا بچائے رکھے اور ان گناہوں کو معاف کر دے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے..بہر حال یہ انسان کے لئے لازمی امر ہے کہ وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے.یہ جو قحط اور طرح طرح کی بلائیں دنیا میں نازل ہوتی ہیں.ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہوجائیں مگر استغفارکا یہ مطلب نہیں ہے جو استغفر الله استغفر الله ! کہتے رہیں.اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے.عرب کے لوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا.سوتسبیح یا ہزار تسبیح پڑھی.مگر جو استغفار کا مطلب اور معنے پوچھو تو بس کچھ نہیں ہکا بکا رہ جاویں گے انسان کو چاہئے کہ حقیقی طور پر دل ہی دل میں معافی مانگتا ہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۰ سورة البقرة دے اور معصیت سے بچائے رکھے.خوب یا درکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا اپنی زبان میں بھی استغفار ہوسکتا ہے کہ خدا پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی استغفر الله استغفر الله ! کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو.یادرکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جو دل سے نکلتی ہے.اپنی زبان میں ہی خدا سے بہت دُعائیں مانگنی چاہئیں.اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے.زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے بغیر دل کے صرف زبانی دُعا ئیں عبث ہیں، ہاں ! دل کی دُعائیں اصلی دُعائیں ہوتی ہیں.جب قبل از وقت بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا سے دُعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے.تو پھر خداوند رحیم و کریم ہے وہ بلائل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہو جاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی.بلا کے نازل ہونے سے پہلے دُعائیں کرتے رہنا چاہئے اور بہت استغفار کرنا چاہئے اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۴) استغفار کے معنی یہ ہیں کہ خدا سے اپنے گذشتہ جرائم اور معاصی کی سزا سے حفاظت چاہنا اور آئندہ رکھتا ہے.گناہوں کے سرزد ہونے سے حفاظت مانگنا.استغفارا انبیاء بھی کیا کرتے ہیں اور عوام بھی.بعض نادان پادریوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار پر اعتراض کیا ہے اور لکھا ہے کہ اُن کے استغفار کرنے سے نعوذ باللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے.یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ استغفار تو ایک اعلیٰ صفت ہے انسان فطرتاً ایسا بنا ہے کہ کمزوری اور ضعف اس کا فطری تقاضا ہے.انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں.لہذا وہ دُعا کرتے ہیں کہ یا الہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں.غفر کہتے ہیں ڈھکنے کو.اصل بات یہی ہے کہ جو طاقت خدا کو ہے وہ نہ کسی نبی کو ہے، نہ ولی کو اور نہ رسول کو.کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میں اپنی طاقت سے گناہ سے بچ سکتا ہوں.پس انبیاء بھی حفاظت کے واسطے خدا کے محتاج ہیں پس اظہار عبودیت کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور انبیاء کی طرح اپنی حفاظت خدا سے مانگا کرتے تھے....استغفار ایک عربی لفظ ہے.اس کے معنے ہیں: طلب مغفرت کرنا.کہ یا الہی ! ہم سے پہلے جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں.ان کے بدنتائج سے ہمیں بچا کیونکہ گناہ ایک زہر ہے اور اس کا اثر بھی لازمی ہے.اور آئندہ ایسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البقرة حفاظت کر کہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں.صرف زبانی تکرار سے مطلب حاصل نہیں ہوتا...پس چاہئے کہ تو بہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ ان کے مفہوم اور معانی کو مد نظر رکھ کر تڑپ اور کچی پیاس سے خدا کے حضور دعائیں کرو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۸ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۳) خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا....لیکن انسانی فطرت کو قبول عدمِ قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے ہاں صرف قانون دو ہیں.ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضا و قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے ، خدا کے قضاء و قدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اُن کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہوسکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بیچتے ہیں.اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہ گار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۴) آدمی کو لازم ہے کہ تو بہ واستغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے کہ ایسا نہ ہو بد اعمالیاں حد سے گذر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاو میں جب خدا تعالی کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے تو عام طور پر دلوں میں اُس کی محبت کا القا کر دیتا ہے لیکن جس وقت انسان کا شتر حد سے گذر جاتا ہے اُس وقت آسمان پر اُس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں مگر جو نبی وہ توبہ واستغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ اُس کی محبت کا بیج لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے.غرض تو بہ واستغفار کا ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۷ مورخه ۱۲ مئی ۱۸۹۹ صفحه ۵) میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ وحرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں.میں تو اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا سے صلح و موافقت پیدا کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۳ مورخه ۳۰/جون ۱۸۹۹ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة البقرة استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے.استغفار کلید ترقیات روحانی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱) الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۱) استغفار بہت کرو.اس سے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی اولاد بھی دے دیتا ہے.یاد رکھو! یقین بڑی چیز ہے جو شخص یقین میں کامل ہوتا ہے خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرتا ہے.w الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱) جو لوگ قبل از نزول بلا دُعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر رحم کرتا ہے اور عذاب الہی سے اُن کو بچا لیتا ہے.میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو، میں نُضحاً للہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دُعا میں لگ جانے کے لئے کہو.استغفار عذاب الہی اور مصائب شدیدہ کے لئے سپر کا کام دیتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا كَانَ اللهُ ليعيّ بَهُمْ وَاَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (الانفال ) اس لئے اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو.(الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۱) استغفار بہت پڑھا کرو.انسان کی دوہی حالت ہیں یا تو وہ گناہ نہ کرے اور یا اللہ تعالی اس گناہ کے بد انجام سے بچا لے.سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گذشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچالے.مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا بلکہ دل چاہے.نماز میں اپنی زبان میں بھی دُعا مانگو یہ ضروری ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) مرض دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف.مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس نہیں ہوتا جیسے برص اور مرض مختلف وہ ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے، اس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مستوی کی چنداں پروا نہیں کرتا.اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اُن کو محسوس بھی نہیں کرتا اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خدا تعالیٰ سے استغفار کرتار ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۶) ہم نے تحقیق کر لی ہے کہ استغفار کے یہ معنی ہیں کہ انسانی قومی جو کر توت کر رہے ہیں اُن کا افراط اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ سورة البقرة تفریط یعنی بے محل استعمال نافرمانی ہوتا ہے، تو خدا کا لطف و کرم مانگنا کہ تو رحم کر اور ان کے استعمال کی افراط تفریط سے محفوظ رکھ.یعنی اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرنی ہے.میسیج بھی خدا کی مدد کے محتاج تھے اگر کوئی اس طرح نہیں سمجھتا تو وہ مسلمان نہیں....(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کے متعلق فرمایا ) اس سے مراد تو ترقی مراتب ہے.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳) اگر استغفار کے لئے معنے ہیں کہ گذشتہ گناہوں سے معافی ہو، تو پھر بتلاویں کہ آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے کونسا لفظ ہے؟ گناہ سے حفاظت یعنی عصمت تو انسان کو استغفار سے ملتی ہے کہ انسان خدا سے چاہے کہ اُن قومی کا ظہور اور بروز ہی نہ ہو جو معاصی کی طرف کھینچتے ہیں کیونکہ جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گذشتہ گناہ اس کے بخشے جاویں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قومی سے گناہ کا ظہور و بروز نہ ہو.یہ مسئلہ بھی قابل دُعا کے ہے ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اُس وقت تو دُعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دُعا نہ کرے اگر انجیل میں یہ دُعا نہیں ہے تو پھر وہ کتاب ناقص ہے.انجیل میں لکھا ہے مانگو تو دیا جاوے گا پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار مانگا آپ کو دیا گیا، مسیح نے نہ مانگا ان کو نہ دیا گیا.غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دو نو راہ کا محتاج ہے بھی گناہ کی معافی کا، کبھی اس امر کا کہ وہ قوائے ظہور و بروز نہ کریں ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قوائے خدا کی حفاظت کے بغیر خود بچے رہیں.وہ کتاب کامل ہے جس نے دونوں قسم کی تعلیم بتلائی اور عقل اور ضرورت خود دونوں قسم کی دُعا کا تقاضا کرتی ہے.البدر جلد اوّل نمبرے مؤرخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۳) جو شخص دعوی سے کہتا ہے کہ میں گناہ سے بچتا ہوں وہ جھوٹا ہے.جہاں شیرینی ہوتی ہے وہاں چیونٹیاں ضرور آتی ہیں اسی طرح نفس کے تقاضا ہائے تو ساتھ لگے ہی ہیں ان سے نجات کیا ہوسکتی ہے؟ خدا کے فضل اور رحمت کا ہاتھ نہ ہو تو انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا نہ کوئی نبی ، نہ ولی اور نہ ان کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ ہم سے گناہ صادر نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ خدا کا فضل مانگتے تھے.اور نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کا ہاتھ ان پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہرگز معصوم اور محفوظ نہیں ہوسکتا اللَّهُمَّ بَاعِدُ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَائ.اور دوسری دُعائیں بھی استغفار کے اس مطلب کو بتلاتی ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ سورة البقرة عبودیت کا ستر یہی ہے کہ انسان خدا کی پناہ کے نیچے اپنے آپ کو لے آوے.جو خدا کی پناہ نہیں چاہتا ہے البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مؤرخه ۲۶ جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۷۸) وہ مغرور اور متکبر ہے.احمق، حقیقت سے نا آشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جس قدر یہ لفظ پیارا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی پاکیزگی پر دلیل ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاشق رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کر رہے ہیں.جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرتے ہیں اور اظہار شکر سے قاصر پا کر تدارک کرتے ہیں یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجذوم القلب لوگوں کو سمجھا ئیں ، ان پر وارد ہو تو وہ سمجھیں.جب ایسی حالت ہوتی ہے، احسانات البیہ کی کثرت آکر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر استغفار کے ذریعہ اپنے قصور شکر کا تدارک کرتی ہے.یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قومی جن سے کوئی کمزوری یا غفلت صادر ہو سکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں.نہیں ! وہ ان قومی پر تو فتح حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کر کے استغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کر سکتے.یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ نا آشنا ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۵،۱۴ مؤرخه ۳۰/اپریل و ۱۰ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۲) جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خدا اس کا متوئی اور متکفل ہو جاتا ہے اور جیسے ماں بچے کو گود تو کا میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے.اور یہی حالت ہے کہ خدا کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے لیکن ایسی حالت میں بھی اسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہئے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ مجھ پر ہوگی.....انسان کو جور وشنی عطا ہوتی ہے وہ بھی مستقل نہیں ہوتی.بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہے.انبیاء جو استغفار کرتے ہیں.اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے.کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں.اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے....کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنے والا ثابت ہو گا اُسی قدر اُس کا درجہ بڑا اور بلند ہوگا.لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے.اور ممکن ہے کہ کسی وقت اُس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے
۳۶۵ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذریعہ اُسے مدامی طور پر رکھتے ہیں.بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور سب خدا سے انہیں حاصل کرتے ہیں.سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے.استغفار کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے.اسی کی تحصیل کے لئے پنجگاہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اُس روشنی کو خدا سے مانگ لیوے.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مؤرخه ۸ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) یہ جو فر ما یا کہ وہ ہمیشہ اپنی مغفرت چاہیں گے.اس جگہ سوال یہ ہے کہ جب بہشت میں داخل ہو گئے تو پھر مغفرت میں کیا کسر رہ گئی اور جب گناہ بخشے گئے تو پھر استغفار کی کون سی حاجت رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے اصل معنے یہ ہیں : نا ملائم اور ناقص حالت کو نیچے دبانا اور ڈھانکنا.سو بہشتی اس بات کی خواہش کریں گے کہ کمال تام حاصل کریں اور سراسر نور میں غرق ہو جائیں.وہ دوسری حالت کو دیکھ کر پہلی حالت کو ناقص پائیں گے.پس چاہیں گے کہ پہلی حالت نیچے دبائی جائے.پھر تیسرے کمال کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوسرے کمال کی نسبت مغفرت ہو یعنی وہ حالت نا قصہ نیچے دبائی جاوے اور مخفی کی جاوے.اسی طرح غیر متناہی مغفرت کے خواہشمند رہیں گے.یہ وہی لفظ مغفرت اور استغفار کا ہے جو بعض نادان بطور اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیش کیا کرتے ہیں.سو ناظرین نے اس جگہ سے سمجھ لیا ہوگا کہ یہی خواہش استغفار، فخر انسان ہے.جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفارا اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سوجا کھا اور نا پاک ہے نہ طیب.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۳) خوب یاد رکھو! کہ دل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اس کا فضل نہ ہوتو دوسرے دن جا کر عیسائی ہو جاوے یا کسی اور بے دینی میں مبتلا ہو جاوے.اس لئے ہر وقت اس کے فضل کے لئے دُعا کرتے رہو.اور اس کی استعانت چاہوتا کہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے.جو شخص خدا تعالیٰ سے بے نیاز ہوتا ہے وہ شیطان ہو جاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان استغفار کرتا رہے تا کہ وہ زہر اور جوش پیدا نہ ہو جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱۰) تو بہ استغفار کرتے رہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو استغفار کرتا ہے اسے رزق میں کشائش دیتا ہے.البدر جلدے نمبر ۵ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة البقرة فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَالَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذكرًا یعنی اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا د رکھنا چاہیئے کہ مخدوم اس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غائت درجہ شدت واقع ہو جاتی ہے اور محب جو ہر یک کدورت اور غرض سے مصفا ہے، دل کے تمام پردے چیر کر دل کی جڑھ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اس کی جز ہے تب جس قدر جوش محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہمرنگ اور اس کی جز ہو جاتا ہے کہ سعی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصور کرنے سے ایک کا روحانی نسبت محسوس ہوتی ہے ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اس نسبت کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جیسے بیٹا اپنے باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اس کی رفتار اور کردار اور خو اور ہو بصفائی نام اس میں پائی جاتی ہے علیٰ ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۹، ۲۶۰ حاشیه ) اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسے تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور ظاہر ہے کہ اگر مجازی طور پر ان الفاظ کا بولنا منہیات شرع سے ہوتا تو خدا تعالیٰ ایسی طرز سے اپنی کلام کو منزہ رکھتا جس سے اس اطلاق کا جواز مستنبط ہو سکتا (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵) ہے.ایک دفعہ مجھے خدا نے مخاطب کر کے فرمایا : انت منی بمنزلة أَولَا دِي.أَنْتَ مِني مَنْزِلَةٍ لَّا يَعْلَمُهَا الخلق یعنی تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے اور تجھے مجھ سے وہ نسبت ہے جس کو دنیا نہیں جانتی تب مولویوں نے اپنے کپڑے پھاڑے کہ اب کفر میں کیا شک رہا اور اس آیت کو بھول گئے : فَاذْكُرُوا اللهَ كَن كركم (چشمہ مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۶ حاشیه ) فاذكروا الله كذكركم أباءَ كُمْ أوْ أَشَدَّ ذكرا یعنی خدا کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے اباء كم - تھے بلکہ اس سے زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۷) تم خدا کو ایسا یا دکر وجیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۶) یاد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۷ سورة البقرة خدا کو ایسا یا دکرو! جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ.(نورالقرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۴۳۶) یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.اس جگہ دو رمز ہیں.ایک تو ذکر اللہ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے.اس میں یہ ستر ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے.دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے.گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے.اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے.یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہئے.یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے.(لیکچرلدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۲) تم محبت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ خدا کو یاد کرو! جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۲، ۴۷۳) (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۷) پس تم خدا کو یاد کرو! جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو پس اس جگہ خدا تعالیٰ کو باپ کے ساتھ تشبیہ دی اور استعارہ بھی صرف تشبیہ کی حد تک ہے.ہر ایک ابن آدم اپنے اندر ایک حیض کی نا پا کی رکھتا ہے مگر وہ جو سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے وہی حیض اُس کا ایک پاک لڑکے کا جسم تیار کر دیتا ہے.اسی بنا پر خدا میں فانی ہونے والے اطفال اللہ کہلاتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ وہ خدا کے در حقیقت بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کلمہ کفر ہے اور خدا بیٹیوں سے پاک ہے یہ بلکہ اس لئے استعارہ کے رنگ میں وہ خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں کہ وہ بچہ کی طرح دلی جوش سے خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں.اسی مرتبہ کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کر کے فرمایا گیا ہے : فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أوْ أَشَدَّ ذكرًا یعنی خدا کو ایسی محبت اور دلی جوش سے یاد کرو جیسا کہ بچہ اپنے باپ کو یاد کرتا ہے.اسی بنا پر ہر ایک قوم کی کتابوں میں آب یا پتا کے نام سے خدا کو پکارا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ کو استعارہ کے رنگ میں ماں سے بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ جیسے ماں اپنے پیٹ میں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے پیارے بندے خدا کی محبت کی گود میں پرورش پاتے ہیں اور ایک گندی فطرت سے ایک پاک جسم انہیں ملتا ہے.سو اولیاء کو جو صوفی اطفال حق کہتے ہیں یہ صرف ایک استعارہ ہے ورنہ خدا اطفال سے پاک اور لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۸۲) خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جو رو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة البقرة پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے: فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُم أوْ أَشَدَّ ذكرًا.یعنی اللہ تعالی کو ایسا یا د کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو.اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھو کہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے او أشد ذكرا رکھ دیا اور اگر آؤ أَشَدَّ ذكرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا مگر اب اس نے اس کو حل کر دیا.جو باپ کہتے ہیں وہ کیسے گرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اُٹھے.احکام جلد ۶ نمبر ۱۹ مورحه ۲۴ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رایت رَبِّي عَلَى صُورَةِ أَبِي یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا.میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا ان کی شکل بڑی با رعب تھی انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا.اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے غرض میں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے.اس میں ستر یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلق شدید رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت تعلق اور شدت محبت کو ظاہر کرتا ہے اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے: كَذِكرِكُمْ آبَاءَ کُفر اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے: انتَ مِنِی مَنْزِلَهِ أَوْلادِی یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲، صفحہ ۷) وجودی مذہب والوں نے کیا بنایا، انہوں نے کیا معلوم کیا، جو ہم کو معلوم نہ تھا؟ بنی نوع کو انہوں نے کیا فائدہ پہنچایا ؟ ان ساری باتوں کا جواب نفی میں دینا پڑے گا.اگر کوئی ضد اور ہٹ سے کام نہ لے تو ذرا بتائے تو سہی کہ خدا تو محبت اور اطاعت کی راہ بتاتا ہے؟ چنانچہ خود قرآن شریف میں اس نے فرمایا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة:۱۶۲) اور فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكَرِكُمْ آبَاءَكُم پھر کیا دنیا میں کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ بیٹا باپ کی محبت میں فنا ہو کر خود باپ بن جاوے.باپ کی محبت میں فنا تو ہوسکتا ہے، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ باپ ہی ہو جاوے.یہ یادرکھنے کے قابل بات ہے کہ فنا نظری ایک ایسی شے ہے جو محبت سے ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ایسی فنا جو در حقیقت بہانہ فنا کا ہو اور ایک جدید وجود کے پیدا کرنے کا باعث بنے کہ میں ہی ہوں، یہ ٹھیک نہیں ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ سورة البقرة وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراحب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کے نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال وجاہ دین کا خادم ہوتا ہے.پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو.جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادراہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات.اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر.اللہ تعالیٰ نے جو یہ دُعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ حسنة الدنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہو جاوے، اس دُعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الاخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے.اور ساتھ ہی حسنة الدنیا کے لفظ میں اُن تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو کہ ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئیں دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو.جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو.نہ وہ طریق (جو) کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو، نہ ہم جنسوں میں کسی عار و شرم کا باعث.ایسی دنیا بیشک حسنةالآخرة کا موجب ہوگی پس یاد رکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کر دیتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پا ہو جاتا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں ! بلکہ دین اور یہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنا دیتا ہے، سستی اور کسل اس کے پاس نہیں آتا.حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کے حضرت عمر نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا تو میرے باپ نے جواب دیا کہ میں بڑھا ہوں کل مر جاؤں گا پس اُس کو حضرت عمر نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے.میں پھر کہتا ہوں کہ سست نہ بنو اللہ تعالیٰ حصول دنیا سے منع نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٧٠ سورة البقرة فرما تا بلکہ حسنة الدنیا کی دُعا تعلیم فرماتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۴،۳) انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے.ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلا وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے.دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور کرتی ہیں.ان سے نجات پاوے تو دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء :۲۹).ایک ناخن میں ہی درد ہو تو زندگی بے مزا ہو جاتی ہے.میری زبان کے تلے ذرا درد ہے.اس سے سخت تکلیف ہے.اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے جیسے بازاری عورتوں کا گروہ.کہ ان کی زندگی کیسی ظلمت سے بھری ہوئی اور بہائم کی طرح ہے کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں.تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو خواہ آخرت کا ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.اور فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے اگر دنیا کا حسنہ انسان کومل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے.یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حسنہ کیا مانگنا ہے آخرت کی بھلائی ہی مانگو.صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو دنیا میں آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اسی لئے دنیا کو آخرت کا مزرعہ کہتے ہیں اور در حقیقت جسے خدا دنیا میں صحت ، عزت ، اولاد، اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمال صالح اس کے ہوں تو امید ہوتی ہے کہ اُس کی آخرت بھی اچھی ہوگی.البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۷) تو بہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنور جاتے ہیں.اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان میں دونوں میں آرام اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے.دیکھو! قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب ! ہمیں اس دنیا میں بھی آرام و آسائش کے سامان عطا فرما.اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.دیکھو! در حقیقت ربنا کے لفظ میں تو بہ ہی کی طرف ایک بار یک اشارہ ہے کیونکہ ربنا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ر توں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے اُن سے بیزار ہو کر اس رب کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا.رب کہتے ہیں بتدریج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۱ سورة البقرة کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو.اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں.اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اُس کے رب ہیں.اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اُس کا رب ہے.غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں جب تک اُن سب کو ترک کر کے اُن سے بیزار ہو کے اس واحد لاشریک بچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور ربنا کی پر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اُس کے آستانہ پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا.پس جب ایسی دلسوزی اور جانگدازی سے اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے تو بہ کرتا اور اُسے مخاطب کرتا ہے کہ ربنا یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے اب میں نے اُن جھوٹے بُتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدقِ دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں تیرے آستانہ پر آ تا ہوں.غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے.جب تک انسان کے دل سے دوسرے رب اور اُن کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اُس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اُٹھاتا.بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہوا ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بڑوں گزارا ہی مشکل ہے.بعض چوری اور ہرنی اور فریب وہی ہی کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا اُن کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں.سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں.دیکھو! ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقع بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اُس کا رزق آ سکتا ہے.وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے.غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے اُن کو خدا سے استعانت اور دُعا کرنے کی کیا حاجت؟ دُعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس در کے نہ ہو اسی کے دل سے دُعا نکلتی ہے.غرض ربنا اتنا في الدُّنْيَا الخ ایسی دُعا کرنا صرف اُنہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور اُن کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ بیچ ہیں.آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۷۲ سورة البقرة لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں.تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے.طرح طرح کے عذاب، خوف، خون، فقر و فاقے ، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں اُلجھن غرض یہ سب آگ ہیں.تو مومن دُعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا.جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۰،۹) b وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں.وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو اطاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں.ایسے ذوق و شوق و حضور دل سے بجالاتا ہے کہ گویا وہ اپنی فرماں برداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے اور ارادہ اس کا خدائے تعالیٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہو جاتا ہے اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے اور تمام اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذذ اور احتفاظ کی کشش سے ظاہر ہونے لگتے ہیں.یہی وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گاوہ درحقیقت اسی کے اظلال و آثار ہیں جس کو دوسرے عالم میں قدرت خداوندی جسمانی طور پر متمثل کر کے دکھلائے گی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۵) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۳ سورة البقرة روح ہے جو بیان کی گئی.جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۲۱) بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں.تا کسی طرح وہ راضی ہو.پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۳) بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا الیسوں ہی پر مہربان ہے.نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۴۰) اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اُن کے ساتھ وہ رافت اور محبت کرتا ہے چنانچہ خود فرماتا ہے : وَاللهُ رَسُونُ بِالْعِبَاد.یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے، اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کر دیتے ہیں.اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں.مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو ما دَامَ الْحَيَاتُ وقف کر دے.تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ ء صفحه ۳) يَااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةَ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ (٢.٩) لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ.اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے.اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں.براتین احمدیہ حصہ پانیم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۶) هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَئِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَ إِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا یعنی انسانی مظہر کے ذریعہ سے اپنا جلال ظاہر کرے گا اور اپنا چہرہ دکھلائے گا.کفر اور شرک نے بہت غلبہ کیا اور وہ خاموش رہا اور ایک مخفی خزانہ کی طرح ہو گیا.اب چونکہ شرک اور انسان پرستی کا غلبہ کمال تک پہنچ گیا اور اسلام اس کے پاؤں کے نیچے کچلا گیا اس لئے خدا فرماتا ہے کہ میں زمین پر نازل ہوں گا اور وہ قہری نشان دکھلاؤں گا کہ جب سے نسل آدم پیدا ہوئی ہے کبھی نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ سورة البقرة دکھلائے.اس میں حکمت یہ ہے کہ مدافعت بقدر حملہ ، دشمن ہوتی ہے پس جس قدر انسان پرستوں کو شرک پر غلق ہے وہ غلو بھی انتہا تک پہنچ گیا ہے.اس لئے اب خدا آپ لڑے گا وہ انسانوں کو کوئی تلوار نہیں دے گا اور نہ کوئی جہاد ہو گا ہاں اپنا ہاتھ دکھلائے گا.فإِذَا نَزَلَ أَحَدٌ مِنْهُمْ بِجسمه پس ان میں سے جب کوئی اپنے مادی جسم کے ساتھ بِحِسْمِهِ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۸) الْعُنْصُرِي فَلَزِمَ أَنْ يَتْرُكَ مَقَامَه خَالِيًا نازل ہو تو لازم آئے گا کہ وہ اپنی جگہ کو خالی چھوڑ آئے ويَخْرُجَ مِن صَلِّهِ وَيَبْعُدَ عَنْ مَقَامِ اور اپنی صف سے باہر نکل جائے اور اپنے مقام تسبیح یا تَسْبِيْحِهِ أَوْ رُكُوعِهِ أَوْ سَجَدَتِهِ الَّذِئ رکوع یا سجود سے دور ہو جائے جس پر اللہ نے اُسے قائم أَقَامَهُ اللهُ عَلَيْهِ، وَيَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ فرمایا ہے اور مسافروں کی طرح زمین پر نازل ہو اور كَالْمُسَافِرِينَ، وَمَا نَرَى فِي الْقُرْآنِ أَثَرًا ہم قرآن میں اس تعلیم کا کوئی شائبہ تک نہیں دیکھتے.مِنْ هَذَا التَّعْلِيمِ، بَلْ جَعَلَ اللهُ نُزُول بلکہ اللہ نے فرشتوں کے نزول کو اپنی ذات کے نزول کی الْمَلَائِكَةِ كَنْزُولِ نَفْسِهِ وَجَعَلَ فَجِيْنَهُمْ طرح قرار دیا ہے اور اُن کی آمد کو اپنی ذات کی آمد كَمَعِيْءٍ ذَاتِهِ.أَلَا تَنْظُرُ إلى هذه الآية کی طرح بنایا ہے.کیا تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی أَعْنِي قَوْله تَعَالى وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا - طرف نہیں دیکھتا وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا ، اور اللہ وَقَوْله عَزَّ وَجَلَّ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا اَنْ عزوجان کے قول هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ط ** * يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَبِكَةُ ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَاءِ وَالْمَلائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۖ وَ إِلَى اللَّهِ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ - تَرْجَعُ الْأُمُورُ..طرف نہیں دیکھتا؟ اور یہاں ایک وَهُهُنَا نُكْتَةٌ أُخْرَى وَهِيَ أَنَّ اللهَ إِذَا نَزَلَ اور نکتہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ جب اپنے فرشتوں کے إلَى الْأَرْضِ مَعَ مَلا يُكَتِهِ فَلَا بُدَّ مِنْ أَن ساتھ زمین کی طرف نزول فرماتا ہے تو ضروری ہے کہ يَنزِلَ الْمَلائِكَةُ كُلُّهُمْ، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ تمام کے تمام فرشتے بھی اُتریں کیونکہ فرشتے اللہ کی فوج جُنُدُ اللَّهِ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَتَخَلَّفَ أَحَدٌ مِنْهُمْ ہیں.اس لئے جائز نہیں کہ ان میں سے کوئی رب العرش * اور تیرا رب آئے گا اور صف بہ صف فرشتے بھی.(الفجر : ۲۳) * * کیا وہ محض یہ انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ بادلوں کے سایوں میں اُن کے پاس آئے اور فرشتے بھی اور معاملہ نپٹا دیا جائے اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں.(البقرۃ: ۲۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ سورة البقرة عِنْدَ نُزُولِ رَبِّ الْعَرْشِ إِلَى الْأَرْضِ فَإِذَا کے زمین پر نزول فرمانے کے وقت پیچھے رہ جائے.تَقَرَّرَ هَذَا فَيَلْزَمُ مِنْهُ أَنْ تَبقى كُلُّ سَمَاءٍ اور جب یہ ثابت ہو گیا تو اس سے یہ بھی لازم آیا کہ عرش من الْعَرْشِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا خَالِيَةٌ سے لے کر سماء الدنیا تک ہر آسمان اللہ تعالیٰ کے زمین پر عِندَ نُزُولِ اللهِ تَعَالَى عَلَى الْأَرْضِ لَيْسَ نزول فرما ہوتے وقت خالی ہو جائے.نہ اس میں رب رحیم اور فِيهَا رَبِّ رَحِيمٌ رَبُّ الْعَرْشِ وَلَا مَلَكَ ربّ العرش ہو اور نہ فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ اور جیسا کہ مِنَ الْمَلائِكَةِ وَاللَّازِمُ بَاطِل فَالْمَلْرُوهُ غور و فکر کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ ( جب ) لازم باطل مِثْلُهُ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُتَفَكِّرِيْنَ ہو تو ملزوم بھی ویسے ہی (باطل) ہوگا.(ترجمہ از مرتب ) ( حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۸۲) أَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَتْهُمُ الْبَاسَاءُ وَالضَّرَاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى نَصْرُ اللهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ.۲۱۵ ط لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلا مجاہد ہو تزکیہ ایک دم میں صدیقین میں داخل ہو گیا.قرآن کو دیکھو کہ خدا کس طرح تم پر راضی ہو؟ جب تک نبیوں کی طرح تم پر مصائب و زلازل نہ آویں، جنہوں نے بعض وقت تنگ آکر یہ بھی کہہ دیا: حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَةَ مَتَى نَصْرُ اللهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ ( البقرة : ۲۱۵) اللہ کے بندے ہمیشہ بلاؤں میں ڈالے گئے.پھر خدا نے اُن رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۳) کو قبول کیا.الا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب ( البقرة : ۲۱۵) یا درکھو کہ خدا کی مدد بہت ہی قریب ہے.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۸ حاشیہ نمبر ۱۱) ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۹) خدا کی رحمت اس ابتلاء کے دنوں کے بعد جلد آئے گی.( أنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ - ) مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الہی کا گھر ہے اور دونوں قسم کی سعادتوں روحانی اور جسمانی کی جگہ ہے، ہاں ! عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے.(حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۷) خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ بہشت کی نعمتیں فوق الفہم ہیں تمہیں ان کا حقیقی علم نہیں دیا گیا اور تم وہ نعمتیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٦ سورة البقرة پاؤ گے جواب تم سے پوشیدہ ہیں، جو نہ دنیا میں کسی نے دیکھیں اور نہ سنیں اور نہ دلوں میں گزریں وہ تمام مخفی امور ہیں اسی وقت سمجھ میں آئیں گی جب وارد ہوں گی.جو کچھ قرآن اور حدیث میں وعدے ہیں وہ سب مثال کے طور پر بیان کیا ہے اور ساتھ اس کے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ امور مخفی ہیں جن کی کسی کو اطلاع نہیں پس اگر وہ لذات اسی قدر ہوتیں جیسے اس دنیا میں شربت یا شراب پینے کی لذت یا عورت کے جماع کی لذت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یہ نہ کہتا کہ وہ ایسے امور ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے اور نہ کسی کان نے سنے اور نہ وہ کبھی کسی کے دل میں گزرے.پس ہم مسلمان لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ بہشت جو جسم اور روح کے لئے دارالجزا ہے وہ ایک ادھورا اور ناقص دار الجز انہیں بلکہ اس میں جسم اور جان دونوں کو اپنی اپنی حالت کے موافق جزا ملے گی جیسا کہ جہنم میں اپنی اپنی حالت کے موافق دونوں کو سزادی جائے گی اور اس کی اصل تفصیلات ہم خدا کے حوالے کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ جزا سزا جسمانی روحانی دونوں طور پر ہوں گی اور یہی وہ عقیدہ ہے جو عقل اور انصاف کے موافق ہے اور یہ نہایت شرارت اور خباثت اور حرام زدگی ہے کہ قرآن پر یہ طعن وارد کیا جائے کہ وہ صرف جسمانی بہشت کا وعدہ کرتا ہے.قرآن تو صاف کہتا ہے کہ ہر یک جو بہشت میں داخل ہوگا وہ جسمانی روحانی دونوں قسم کی جزا پائے گا اور جیسا کہ نعمت جسمانی اس کو ملے گی ایسا ہی وہ دیدار الہی سے لذت اٹھائے گا اور یہی اعلی لذت بہشت میں ہے، معارف کی لذت بھی ہوگی اور طرح طرح کے انوار کی لذت بھی ہوگی اور عبادت کی لذت بھی ہوگی مگر اس کے ساتھ جسم بھی اپنی سعادت تامہ کو پہنچے گا.( نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۳، ۴۲۴) وَمِنْ اِعْتِرَاضَاتِهِمْ أَنَّهُمْ قَالُوا إِن اور اُن کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ كَانَ هَذَا هُوَ الْمَسِيحُ الَّذِى أُرْسِلَ لِكَسْرِ کہتے ہیں کہ اگر یہ وہی مسیح ہے جو صلیب توڑنے اور الصَّلِيْب وَقَتْلِ الْخَنَازِيرِ فَقَدْ مَضَتْ سوروں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے تو اس پرصدی عَلَيْهِ إحْدَى عَشَرَ سَنَةٌ مِنْ رَأْسِ الْقَرْنِ کے سر سے گیارہ سال گزر چکے ہیں.تو کون سی صلیب فَأَى صَلِيْب گستر، وَأَى خِنْزِيرٍ قُتِلَ، وَأَئى توڑی گئی اور کون ساختر پر قتل کیا ہے اور کونسا جز یہ موقوف جِزْيَةٍ وُضِعَ، وَمَنْ ذَا الَّذِي دَخَلَ فی کیا گیا ؟ اور کون ہے جس نے کافروں کی راہوں کو چھوڑا الْإِسْلَامِ وَتَرَكَ سُبُلَ الْكَافِرِينَ اور اسلام میں داخل ہوا؟ أَمَّا الْجَوَابَ فَاعْلَمُ أَنَّ الْحَقِّ لَا يَأْتي اس کا جواب یہ ہے کہ تو جان لے ! کہ حق یکدم نہیں آیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة البقرة دَفْعَةً بَلْ يَأْتِ تَدْرِيجا، وَفِي الْعَيْنِي عَنِ ابْنِ کرتا بلکہ تدریجا آتا ہے.اور عینی (عمدۃ القاری فی عَبَّاس : يُقِيمُ عِيسَى يَسْعَ عَشَرَ سَنَةٌ شرح البخاری ) میں ابن عباس سے روایت ہے کہ عیسی لا يَكُونُ أَمِيرًا وَلَا شَرْطِئًا وَلَا مَلِكًا وَقَدْ اُنیس سال قیام کریں گے.وہ نہ تو امیر ہوں گے، نہ مَضَتُ عَلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ حالم اور نہ ہی بادشاہ.اور رسول اللہ پر مکہ میں تیرہ سال وَسَلَّمَ ثَلَاثَ عَشَرَ سَنَةٌ في مَكَّةَ وَمَا لحق کا عرصہ گزرا اور اس مدت میں آپ کے ساتھ کمزوروں يه في هذِهِ الْمُدَّةِ إِلَّا فِئَةٌ قَلِيْلَةٌ ممن کا صرف ایک چھوٹا سا گروہ شامل ہوا تھا.اور تورات الْمَسَاكِيْنَ وَكَانَ مِنْ بَعْضٍ عَلَامَاتِهِ میں لکھی ہوئی حضور کی بعض علامات میں سے روم، شام الْمَكْتُوبَةِ فِي التَّوْرَاةِ فَتْحُ الرُّوْمِ وَالشَّامِ اور فارس کے علاقوں کا فتح ہونا تھا.لیکن یہ ( فتوحات) وَبِلَادِ فَارِسَ فَمَا عَايَنَهَا النَّاسُ فِي وَقْتِ لوگوں نے آپ کی زندگی میں نہیں دیکھیں اور نہ ہی قوم حَيَاتِهِ، وَمَا تَبِعَه جَمُوعٌ كَثِيرَةٌ مِنْ كُلِّ اور ملک کے بڑے بڑے گروہوں نے آپ کی پیروی قَوْمٍ وَمُلْكٍ إِلَّا بَعْدَ انْتِقَالِهِ إِلى رَفِيقِهِ کی یہاں تک کہ آپ رفیق اعلیٰ سے جاملے.بلکہ آپ الْأَعْلى، بَلْ مَا رَأَى فِي أَوَائِلِ زَمَانِهِ إِلَّا نے اپنے اوائل زمانہ میں مصیبت پر مصیبت کے سوا کچھ مُصِيبَةً عَلَى مُصِيبَةٍ، وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَه نہ دیکھا اور جو لوگ آپ پر ایمان لاتے تھے اُنہیں بھی أذَاهُمُ الْقَوْمُ إيذاء كَثِيرًا وَ عَيّرُوهُمْ قوم نے بہت اذیت دی اُن پر الزام تراشی کی ، انہیں وَظَردُوهُمْ وَقَالُوا عَلَيْهِمْ كُلَّ كَلِمَةٍ دھتکارا اور ان کے خلاف جھوٹ بولتے ہوئے ہر طرح شَرِيرَةٍ كَاذِبِينَ وَهَكَذَا طَرَحُوا الْأَنْبِيَاءِ کی شرانگیز باتیں کیں.اور اسی طرح تمام انبیاء كُلَّهُمْ وَمَسعُهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء في دھتکارے گئے اور اُن کو اُن کے زمانے کے اوائل میں أَوَائِلِ زَمَانِهِمْ، فَمَضَتْ عَلى ذلِكَ الْإِبتلاء دکھ اور تکلیفیں پہنچیں.اور اس ابتلا پر ایک طویل مدت مُدَّةً طَوِيْلَةً حَتَّى قَالُوا مَتى نَصُرُ اللهِ ، گزرگئی.یہاں تک کہ وہ مَتَى نَصْرُ اللهِ پکار اٹھے.فَهَلَكَ مَنْ كَانَ مِنَ الْهَالِكِينَ كَمَا قَالَ پھر یوں ہوا کہ ) جو ہلاک ہونے والوں میں سے تھے اللهُ تَعَالَى " أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ وہ ہلاک ہو گئے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آمْ حَسِبْتُمْ لَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ مَسَّتْهُمُ الْبَاسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى قَبْلِكُمْ، مَشَتْهُمُ الْبَاسَاءُ وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُوا حَتَّى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة البقرة 66 يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرُ اللهِ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبُ - نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ.پس اسی طرح اس زمانے کے لوگ فَكَذَلِكَ يُرِيدُ أَبْنَاء هَذَا الزَّمَانِ چاہتے ہیں کہ مجھے قتل کریں یا مجھے صلیب دیں یا مجھے کسی لِيَقْتُلُونى أو يُصَلَّبُوني أو يطرحوني في اندھے کنویں میں ڈال دیں یا صداقت کو اپنے پاؤں تلے غَيَابَةِ جُتٍ، وَيَدُوسُوا الصَّداقة روند دیں.اور سرسبز درختوں کو اسی طرح جلا دیں جیسے خشک بأَرْجُلِهِمْ، وَيُحَرِّقُوا الْأَشْجَارَ الْخَضِرَةَ گھاس کو جلا دیا جاتا ہے.پس اللہ کی ذات ہی ہے جس سے كَمَا يُحْرَقُ الْحَشَآئِشُ الْيَابِسَةُ، فَاللهُ اُن کے مکروہ منصوبوں کے خلاف مدد حاصل کی جاسکتی الْمُسْتَعَانُ عَلى مَا يَكِيدُونَ وَهُوَ خَيْرُ ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے.البتہ اُس کی وہ مددجس کا النَّاصِرِينَ وَأَمَّا نَصْرَهُ الَّذِي يُنْكِرُونَه وہ انکار کرتے ہیں تو وہ ایک ایسی چیز ہے کہ عنقریب تو وہ کچھ فَشَيْءٌ سَتَرَى مَا لَا تَسْمَعُ، بَلْ ظَهَرَتْ دیکھے گا جسے تُو سنتا نہیں بلکہ اُس کی علامات دیکھنے والوں کی عَلَامَاتُه فِي أَعْيُنِ النَّاظِرِينَ نگاہوں میں ظاہر ہو گئی ہیں.أَلَا تَرَى أَنَّ الزَّمَانَ كَيْفَ انْقَلَب کیا تو نہیں دیکھتا کہ زمانہ کیسے توحید کی طرف پلٹ گیا إِلَى التَّوْحِيدِ.وَكَيْفَ هَبْتُ رِيَاحُ ہے اور کس طرح اسلام کی ہوائیں مشرکوں کے ملکوں میں الْإِسْلَامِ فِي بِلَادِ الْمُشْرِكِينَ.وَكَيْفَ چل پڑی ہیں اور کس طرح لوگ اللہ کے دین میں ہر ملک يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا في كُلِ سے فوج در فوج داخل ہورہے ہیں؟ پس یہ وہی نور ہے مُلْكٍ فَمَا هُذَا إِلَّا النُّورُ الَّذِي نَزَلَ مِنَ جو آسمان سے اُس شخص کے ساتھ نازل ہوا جو لوگوں کی السَّمَاءِ مَعَ الَّذِي أُنْزِلَ لِإِصْلَاح اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا.اس سے واضح تر دلیل اور النَّاسِ فَأَى دَلِيلٍ وَاضِع مِنْ هَذَا إِن کون سی ہو سکتی ہے.اگر تو انصاف کرنے والوں میں سے كُنتَ مِنَ الْمُنْصِفِينَ : يَا مِسکنین.قم ہے.اے سادہ لوح ! اُٹھ ! اور آنکھ کھول تا کہ تو دیکھے کہ وَافْتَحِ الْعَيْن لِتَنْظُر كَيْفَ يُكسر صلیب کس طرح توڑی جارہی ہے اور آسمانی حربہ سے سور الصَّليب وَيُقْتَلُ الْخِنْزِيرُ بِحَرْبَةِ قتل کئے جارہے ہیں؟ جہاں تک لوگوں کو اس دنیا کے کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں انہیں تختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی.(البقرۃ : ۲۱۵)
۳۷۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام السَّمَاءِ وَأَمَّا قَتْلَ النَّاسِ بِآلاتِ هذهِ الدُّنْيَا آلات سے قتل کرنے کا تعلق ہے تو یہ کوئی عجیب فَلَيْسَ بِشَيْءٍ عَيْبٍ أَلَيْسَ الْمُلُوكُ يَفْعَلُونَ چیز نہیں.کیا بادشاہ ایسے نہیں کیا کرتے؟ پس تو أَيْضًا ذلِك؛ فَتَحَسَّسُ حَرْبَةَ اللهِ، وَلَا تَكُنْ مِن اللہ کے حربہ کو تلاش کر اور انکار کرنے والوں میں سے نہ ہو.(ترجمہ از مرتب ) الْمُنكِرِينَ حمامة البشری، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۱۸،۳۱۷) ہمارا اس بات پر ایمان چاہیئے کہ اس کے وعدے برحق ہیں اگر تمام اسباب اس کے منافی نظر آویں پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے اگر ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ نہ ہو تو پھر بھی اس کا وعدہ سچا ہے.وعدہ اس کا کمزور ہو سکتا ہے جس کی قدرت اور اختیار کمزور ہو، ہمارے خدا میں کوئی کمزوری نہیں ہے وہ بڑا قادر ہے اور اس کی حرکت جاری ہے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ اسی ایمان کو ہاتھ میں رکھے.بعض جماعت پر ابتلا بھی آتے ہیں اور تفرقہ پڑ جاتا ہے جیسے آنحضرت کے صحابہ مکہ مدینہ اور حبشہ کی طرف منتشر ہو گئے لیکن آخر خدا تعالیٰ نے ان کو پھر ایک جا جمع کر دیا.ابتلا اس کی سنت ہے اور ایسے زلزلے آتے ہیں کہ مَتى نَصر الله (البقرۃ:۲۱۵) کہنا پڑتا ہے اور بعض کا خیال اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ممکن ہے وہ وعدے غلط ہوں مگر انجام کار خدا کی بات سچی نکلتی ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۴) دو كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهُ لَكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ تَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ج یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بڑی ہو اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور تم نہیں ( براہینِ احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۱ حاشیه در حاشیہ نمبر ۱۱) دُعا جب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ اس کے لئے دل میں ایک سچا جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ خود ہی ایک دُعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اس کا پیرا یہ بتادیتا ہے.جیسا کہ فرماتا جانتے.ارو ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ حلمت (البقرۃ:۳).اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دُعائیں خود الہانا سکھا دیتا ہے.بعض وقت ایسی دُعا میں ایسا حصہ بھی ہوتا ہے جس کو دُعا کرنے والا نا پسند کرتا ہے مگر وہ قبول ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عسى أن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ - ۳۸۰ سورة البقرة الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۷) بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو تم پسند کرتے ہو اور وہ اچھی نہیں ہوتی ہیں اور بہت سی ایسی ہوتی ہیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو اور وہ درحقیقت تمہارے لئے مفید ہوتی ہیں.انکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحہ ۲) يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرُ ۖ وَصَةٌ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَ كُفْرَ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ وَ الْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَ مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ ۲۱۸ فِيهَا خَلِدُونَ یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خدا تعالی کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے.اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہو نا قتل سے بڑھ کر ہے اور ہمیشہ قتل کے لئے یہ لوگ مقابلہ کریں گے تا اگر ممکن ہوتو تمہیں دین حق سے پھیر دیں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵۵) اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ الله وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيم یعنی جولوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جُدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی ، وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضروران لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں.کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.عاشق که شد که یار بحالش نظر نه کرد اے خواجہ درد نیست و گرنه طبیب ہست وگرنہ (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۱، ۴۵۲ حاشیه ۱۱) وَ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة البقرة ج تَقْرَبُوهُنَ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جاؤ یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہو لیں.اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفورموت نتیجہ ہے.اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں.بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اٹھا نہ سکتا اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبا نہ سکتا اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہو گئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے.سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور بیچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۹) إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ یعنی خدا تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور اُن کو بھی دوست رکھتا ہے جو جسمانی طہارت کے پابند رہتے ہیں.سو توابین کے لفظ سے خدا تعالیٰ نے باطنی طہارت اور پاکیزگی کی طرف توجہ دلائی اور متطهرین کے لفظ سے ظاہری طہارت اور پاکیزگی کی ترغیب دی.اور اس آیت سے یہ مطلب نہیں کہ صرف ایسے شخص کو خدا تعالیٰ دوست رکھتا ہے کہ جو محض ظاہری پاکیزگی کا پابند ہو بلکہ توابین کے لفظ کو ساتھ ملا کر بیان فرمایا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے اکمل اور اتحد محبت جس سے قیامت میں نجات ہوگی اسی سے وابستہ ہے کہ انسان علاوہ ظاہری پاکیزگی کے خدا تعالیٰ کی طرف سچار جوع کرے.لیکن محض ظاہری پاکیزگی کی رعایت رکھنے والا دنیا میں اس رعایت کا فائدہ صرف اس قدر اٹھا سکتا ہے کہ بہت سے جسمانی امراض سے محفوظ رہے.اور اگر چہ وہ خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت کا نتیجہ نہیں دیکھ سکتا مگر چونکہ اُس نے تھوڑا سا کام خدا تعالیٰ کی منشا کے موافق کیا ہے یعنی اپنے گھر اور بدن اور کپڑوں کو ناپاکیوں سے پاک رکھا ہے اس لئے اس قدر نتیجہ دیکھنا ضروری
۳۸۲ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے کہ وہ بعض جسمانی بلاؤں سے بچا لیا جائے بجز اس صورت کے کہ وہ کثرتِ گناہوں کی وجہ سے سزا کے لائق ٹھہر گیا ہو.کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے یہ حالت بھی خدا تعالیٰ میسر نہیں کرے گا کہ وہ ظاہری پاکیزگی کو کما حقہ بجا لا کر اس کے نتائج سے فائدہ اُٹھا سکے.غرض بموجب وعدہ الہی کے محبت کے لفظ میں سے ایک خفیف اور ادنی سے حصہ کا وارث وہ دشمن بھی اپنی دنیا کی زندگی میں ہو جاتا ہے جو ظاہری پاکیزگی کے لئے کوشش کرتا ہو.جیسا کہ تجربہ کے رُو سے یہ مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ جولوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں اور اپنی بدر روؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اور اپنے کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبو اور عفونت سے پر ہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں پس گویا وہ اس طرح پر يُحِبُّ الْمُتَطَرِین کے وعدہ سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں.لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پروا نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ بیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں اُن کو آ پکڑتی ہیں.اگر قرآن کو غور سے پڑھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا رحم نے یہی چاہا ہے کہ انسان باطنی پاکیزگی اختیار کر کے رُوحانی عذاب سے نجات پاوے اور ظاہری پاکیزگی اختیار کر کے دنیا کے جہنم سے بچار ہے جو طرح طرح کی بیماریوں اور وباؤں کی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے اور اس سلسلہ کو قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک بیان فرمایا گیا ہے.جیسا کہ مثلاً یہی آیت إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ صاف بتلا رہی ہے کہ توابین سے مراد وہ لوگ ہیں جو باطنی پاکیزگی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور مُتَطَهِّرِينَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہری اور جسمانی پاکیزگی کے لئے جد و جہد کرتے رہتے ہیں.ایسا ہی ایک دوسری جگہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المؤمنون: ٥٢) یعنی پاک چیزیں کھاؤ اور پاک عمل کرو.اس آیت میں حکم جسمانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے كُلُوا مِن الطیبت کا ارشاد ہے.اور دوسرا حکم روحانی صلاحیت کے انتظام کے لئے ہے جس کے لئے وَاعْمَلُوا صَالِحًا کا ارشاد ہے اور ان دونوں کے مقابلہ سے ہمیں یہ دلیل ملتی ہے کہ بدکاروں کے لئے عالم آخرت کی سز ا ضروری ہے.کیونکہ جب کہ ہم دنیا میں جسمانی پاکیزگی کے قواعد کو ترک کر کے فی الفور کسی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ امر بھی یقینی ہے کہ اگر ہم روحانی پاکیزگی کے اصول کو ترک کریں گے تو اسی طرح موت کے بعد بھی کوئی عذاب مؤلم ضرور ہم پر وارد ہوگا.جو وباء کی طرح ہمارے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ ورة البقرة ہی اعمال کا نتیجہ ہوگا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۶ تا ۳۳۸) اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات تو یہ ہے جس کے معنے رجوع کے ہیں.تو یہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جس سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے.گویا کہ گناہ میں اس نے بود و باش مقرر کر لی ہوئی ہے تو تو بہ کے معنے یہ ہیں کہ اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑ نا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوست سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے، اور سب چیزوں کو مثل چار پائی فرش و ہمسائے وگلیاں کو چے باز ارسب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس وطن میں کبھی نہیں آنا.اس کا نام تو بہ ہے.معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں اور تقوی کے دوست اور اس تبدیلی کو صوفیا نے موت کہا ہے.جو تو بہ کرتا ہے اُسے بڑا حرج اُٹھانا پڑتا ہے اور کچی تو بہ کے وقت بڑے بڑے حرج اُس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے وہ جب تک اُس کل کا نعم البدل عطا نہ فرما دے نہیں مارتا.اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ میں یہی اشارہ ہے کہ وہ تو بہ کر کے غریب بیکس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اُسے محبت اور پیار کرتا ہے اور اُسے نیکیوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.(البدر جلد نمبر ۶،۵ مورخه ۲۸ نومبر و ۵ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۶) یعنی جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں میں اُن کو دوست رکھتا ہوں.ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی محمد اور معاون ہے.اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے تو اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے.پس یا درکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے.اس لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو نسل کرو، ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگا لو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے.پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے تمیت اور عفونت سے روک ہوگی.جیسا اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.بے شک اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنالیتا ہے بلکہ یہ (رسالہ انذار صفحہ ۸،۷ مطبوعہ ۱۹۳۶ء)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة البقرة بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی تو بہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے.ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری تو بہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱) یا درکھو کہ گناہ ایک زہر ہے اور ہلاکت ہے مگر تو بہ اور استغفار ایک تریاق ہے.قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پیار کرتا ہے جو تو بہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاک ہو جاویں.( بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۲۶ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۳) اللہ تعالی دُعا کرنے والے کو ضائع نہیں کرتا.جب تضرع سے دُعا کرتا ہے اور معصیت میں مبتلا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ یہ شخص بچایا جاوے اور وہ بچایا جاتا ہے کیونکہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحہ ۱۱،۱۰) حقیقی تو به انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز اُن لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں.تو بہ حقیقت میں ایک ایسی شے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے جو اُس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے.یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے تو بہ کرنے والا ایسا ہوتا ہے کہ گویا اُس نے کوئی گناہ نہیں کیا یعنی تو بہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں.اُس وقت سے پہلے جو کچھ بھی اس کے حالات تھے اور جو بے جا حرکات اور بے اعتدالیاں اُس کے چال چلن میں پائی جاتی تھیں.اللہ تعالی اپنے فضل سے اُن کو معاف کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع الحکم جلدے نمبر ۳۸ مورخه ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۳ صفحه ۱) یہ سچی بات ہے کہ تو بہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے.پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لئے خدا سے معاملہ صاف کر لے.اس طرح پر خدا تعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اور پھر اُس پر کوئی خوف و حزن نہ ہوگا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مار چ ۱۹۰۴ صفحه ۵) ہوتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة البقرة اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور نیز اُن لوگوں سے پیار کرتا ہے کہ جو اس بات پر زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح گناہ سے پاک ہو جائیں.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴) ایک تو تواب ہوتے ہیں ایک مطھر ہوتے ہیں.تو اب ان کو کہا جاتا ہے جو بکلی خدا کی طرف رجوع کر لیتے ہیں اور مطھر وہ ہوتے ہیں کہ وہ مجاہدات اور ریاضات کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل میں ایک کیٹ سی لگی رہتی ہے کہ کسی طرح سے ان آلائشوں سے پاک ہو جاویں اور نفس امارہ کے جذبات پر ہر طرح سے غالب آ کر ز کی النفس بن جاویں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ الى شقتُم وَقَدِمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَ 00 اتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمُ مُلْقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اسلام نے نکاح کرنے سے علتِ غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں رکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پر ہیز گاری حاصل ہو کر نا جائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچار ہے.کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایا کہ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تالوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو.کیا کھیتی سے صرف لہو و لعب ہی غرض ہوتی ہے؟ یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کر لیں.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا : مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسْفِحِينَ (النساء : ۲۵ ، المائدة:1) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پرہیز گاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بیچ جاؤ، یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت ہے.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴) تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ.صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو.بعض آدمی اسلام کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۸۶ سورة البقرة اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پر ہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے.اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کا نام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت در حقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طرح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے.ہاں! اگر عورت بیمار ہو اور یقین ہو کہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستقلی ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے.غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تا اس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں.دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مردا اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے.تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تابا ہم اُنس ہو کر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۲، ۲۹۳) وَلا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِإِيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَ تَتَّقُوا وَ تُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(۲۲۵ قرآن شریف کی رو سے لغو یا جھوٹی قسمیں کھانا منع ہے کیونکہ وہ خدا سے ٹھٹھا ہے اور گستاخی ہے اور ایسی قسمیں کھانا بھی منع ہے جو نیک کاموں سے محروم کرتی ہوں جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی تھی کہ میں آئندہ مسطح صحابی کو صدقہ خیرات نہیں دوں گا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةٌ لإيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَ تَتَّقُوا.یعنی ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیک کاموں سے باز رکھیں..تفسیر مفتی ابو مسعود مفتی روم میں زیر آیت لَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةٌ لِإِيْمَانِكُمْ لکھا ہے کہ عُرضہ اس کو کہتے ہیں کہ جو چیز ایک بات کے کرنے سے عاجز اور مانع ہو جائے اور لکھا ہے کہ یہ آیت ابوبکر صدیق کے حق میں ہے جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ مسطح کو جو صحابی ہے باعث شراکت اس کی حدیث افک میں کچھ خیرات نہیں دوں گا.پس خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ایسی قسمیں مت کھاؤ جو تمہیں نیک کاموں اور اعمال صالحہ سے روک دیں نہ یہ کہ معاملہ متنازعہ جس سے طے ہو.الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۴ صفحہ ۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ سورة البقرة لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي اَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذْ كُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبِكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيم.٢٢٦ انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گناہ گار نہیں کرتے بلکہ عند اللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں (۱) اوّل یہ کہ زبان پر نا پاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں (۲) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کے حرکات صادر ہوں (۳) تیسرے یہ کہ دل نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعلِ بدضرور کروں گا.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولكن يُؤَاخِذْ كُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ.یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا مگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہوگا کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں.ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: ان السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أوليكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) بَنِي إِسْراويل : ۳۷) یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی.اب دیکھو! جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھ سے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں.بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا ہے.صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں.ہاں اس وقت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے ایسا ہی اللہ جل شانہ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے : قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (الاعراف: ۳۴) یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۸،۴۲۷) لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَابِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۚ فَإِنْ فَاءُ وَ فَإِنَّ اللَّهَ غفور رحيم (۲۲۷) جولوگ اپنی بیویوں سے جُدا ہونے کے لئے قسم کھا لیتے ہیں وہ طلاق دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ چار
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة البقرة مہینے انتظار کریں.سو اگر وہ اس عرصہ میں اپنے ارادہ سے باز آجاویں پس خدا کو غفور و رحیم پائیں گے.وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.(۲۲۸) آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۲) اور اگر طلاق دینے پر پختہ ارادہ کرلیں سو یا د رکھیں کہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے یعنی اگر وہ عورت جس کو طلاق دی گئی خدا کے علم میں مظلوم ہو اور پھر وہ بددعا کرے تو خدا اس کی بددعا سن لے گا.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه (۵۲) وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ تَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللهُ فِى اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ بُعُولَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدّهِنَ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۖ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ b بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُن آریہ لوگ جب اُس اعتراض کے وقت جو نیوگ پر وارد ہوتا ہے بالکل لاجواب اور عاجز ہو جاتے ہیں تو پھر انصاف اور خدا ترسی کی قوت سے کام نہیں لیتے بلکہ اسلام کے مقابل پر نہایت مکروہ اور بے جا افتر اؤں پر آ جاتے ہیں.چنانچہ بعض تو مسئلہ طلاق کو ہی پیش کرتے ہیں.حالانکہ خوب جانتے ہیں کہ قدرتی طور پر ایسی آفات ہر یک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہو ر ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں.مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھردن رات زناکاری کی حالت میں مشغول رہے.ایسا ہی اگر کسی کی جورو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے.بلکہ ایک غیرت مند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو.تا ہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا.اگر آریہ کہیں کہ کیا حرج ہے کچھ مضائقہ نہیں تو ہم ان سے بحث کرنا نہیں چاہتے ہمارے مخاطب صرف وہ شریف ہیں جن کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة البقرة غیرت اور حیا کا مادہ رکھا ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۶۵) اور چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۲) اس سوال کے جواب میں کہ کیا کوئی عورت نبیہ ہو سکتی ہے؟ فرمایا: نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الرجال قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ (النساء: ۳۵) اور الرّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَة - عورتیں اصل میں مردوں کی ہی ذیل ہوا کرتی ہیں.جب صاحب درجہ اور صاحب مرتبہ کے واسطے ایک دروازہ بند کر دیا گیا تو یہ بیچاری ناقصات العقل کس حساب میں ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰،۹) عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی.مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات اُن سے لیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.ص البد ر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۳۷) الطَّلَاقُ مَرَّتَنِ فَإِمْسَاكَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحُ بِإِحْسَانٍ ، وَ لَا يَحِلُّ لَكُم b اَنْ تَأخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا اَلَا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ - فَإِنْ خِفْتُمُ اللَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حدُودُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ان تین حیض میں ( جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہو چکا ہے ) جو قریباً تین مہینے ہیں دو دفعہ طلاق ہوگی یعنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة البقرة ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے.آرید دهرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۲) جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے.اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اس محرومی کا نام دوسرے لفظوں میں طلاق ہے لہذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بداثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہو گیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ تعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھیٹر دیا جائے اور کاٹ دیا جائے اور پھینک دیا جائے یہ سب کا رروائی قانون قدرت کے موافق ہے.عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کسی ایسی آفت میں مبتلا ہو جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر تیری منکوحہ اپنی بدچلنی اور کسی مہان پاپ سے تیرے پر و بال لاوے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑ گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے ایسا نہ ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے.اور تجھے ہلاک کرے پھر اگر اس کاٹے ہوئے اور زہر یلے جسم کو کوئی پرند یا درند کھالے تو مجھے اس سے کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اس وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جبکہ تو نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا اب جبکہ طلاق کی ایسی صورت ہے کہ اس میں خاوند خاوند نہیں رہتا اور نہ عورت اس کی عورت رہتی ہے اور عورت ایسی جدا ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک خراب شدہ عضو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے تو ذرہ سوچنا چاہئے کہ طلاق کو نیوگ سے کیا مناسبت ہے؟ طلاق تو اس حالت کا نام ہے کہ جب عورت سے بیزار ہو کر بکلی قطع تعلق اس سے کیا جائے مگر نیوگ میں تو خاوند بدستور
۳۹۱ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام خاوند ہی رہتا ہے اور نکاح بھی بدستور نکاح ہی کہلاتا ہے اور جو شخص اس غیر عورت سے ہم بستر ہوتا ہے اس کا نکاح اس عورت سے نہیں ہوتا اور اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون: ۴) اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے.ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہر حال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا.اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں.اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا.بھلا کون ایسا پاگل ہے کہ بے وجہ اس قدر تباہی کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لے بہر حال جب مرد اور عورت کے تعلقات نکاح با ہم باقی نہ رہے تو پھر نیوگ کو اس سے کیا نسبت جس میں عین نکاح کی حالت میں ایک شخص کی عورت دوسرے شخص سے ہم بستر ہو سکتی ہے پھر طلاق مسلمانوں سے کچھ خاص بھی نہیں بلکہ ہر یک قوم میں بشرطیکہ دیوث نہ ہوں نکاح کا معاہدہ صرف عورت کی نیک چلنی تک ہی محدود ہوتا ہے اور اگر عورت بد چلن ہو جائے تو ہر ایک قوم کے غیر تمند کو خواہ ہندو ہو خواہ عیسائی ہو بد چلن عورت سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پڑتی ہے.....گندی عورت گندے عضو کی طرح ہے اور اس کا کاٹ کر پھینکنا اسی قانون کے رو سے ضروری پڑا ہوا ہے جس قانون کے رو سے ایسے عضو کاٹے جاتے ہیں اور چونکہ ایسی عورتوں کو اپنے پاس سے دفع کرنا واقعی طور پر ایک پسندیدہ بات اور انسانی غیرت کے مطابق ہے اس لئے کوئی مسلمان اس کارروائی کو چھپے چھپے ہرگز نہیں کرتا مگر نیوگ چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ برا کام ہے.: آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸ تا ۴۱) اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہئے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہو گا.میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے، نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے.ناموافقت سے عورت کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة البقرة رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے.طلاق ایک مصیبت ہے جو ایک بدتر مصیبت کے عوض اختیار کی جاتی ہے، تمام معاہدے بدعہدی سے ٹوٹ جاتے ہیں پھر اس پر کون سی معقول دلیل ہے کہ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ نہیں سکتا؟ اور کیا وجہ کہ نکاح کی نوعیت تمام معاہدوں سے مختلف ہے؟ عیسی نے زنا کی شرط سے طلاق کی اجازت دی مگر آخر اجازت تو دے دی.نکاح ملاپ کے لئے ہے اس لئے نہیں کہ ہم دانگی تردد اور نزاع کے باعث سے پریشان خاطر رہیں.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳، ۵۴ حاشیه ) عورت کا جوڑا اپنے خاوند سے پاکدامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آجاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے.پس اگر کوئی عضو سر گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کا ٹا جاتا ہے.پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہا ہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں.اُسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں محصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موڈی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کار بند ہو کر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ در حقیقت جوڑ نہیں ہے.آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۶۶،۶۵) خدا تعالیٰ نے جو ضر ورتوں کے وقت میں مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی اور کھول کر یہ نہ کہا کہ عورت کی زنا کاری سے یا کسی اور بدمعاشی کے وقت اس کو طلاق دی جاوے اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستاری نے چاہا کہ عورت کی تشہیر نہ ہو.اگر طلاق کے لئے زنا وغیرہ جرائم کا اعلان کیا جاتا تو لوگ سمجھتے کہ اس عورت پر کسی بدکاری کا شبہ ہے یا فلاں فلاں بدکاری کی قسموں میں سے ضرور اس نے کوئی بدکاری کی ہوگی مگر اب یہ راز خاوند تک محدود رہتا ہے.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۶۵ حاشیه ) دنیا میں کوئی فرقہ نہیں جو طلاق کا مخالف ہوں، کسی نہ کسی ضرورت سے بعض وقت طلاق دینی پڑتی ہے......یہ رسم کس مذہب میں نہیں ؟ جب مرد و عورت میں سخت مخالفت ہوگی تو بجز طلاق اور کیا چارہ ہوگا.سناتن دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۷۱،۴۷۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۹۳ سورة البقرة اگر طلاق ایسا امر ہوتا جو کہ کانشنس کے خلاف ہے تو پھر دیگر اقوام بھی اسے بجانہ لاتیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی قوم نہیں ہے جو ضرورت کے وقت عورت کو طلاق نہ دیتی ہو.البدرجلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۷) در حقیقت اسلامی پاکیزگی نے ہی طلاق کی ضرورت کو محسوس کیا ہے ورنہ جو لوگ دیوثوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ان کے نزدیک گوان کی عورت کچھ کرتی پھرے طلاق کی ضرورت نہیں.(نسیم دعوت ،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴۶ حاشیه ) روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو، اُن کے لئے دُعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.(تحفہ گولا و بی روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۵ حاشیہ ) ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں اُن کی وہ طلاق جائز ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف کے فرمودہ کی رو سے تین طلاق دی گئی ہوں اور اُن میں سے ہر ایک کے درمیان اتنا ہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوں کی عدت کے گزرنے کے بعد اس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہاں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھر اتفاقاً وہ اُس کو طلاق دے دے تو اُس خاوند اوّل کو جائز ہے کہ اُس بیوی سے نکاح کرلے.مگر اگر دوسرا خاوند، خاوند اول کی خاطر سے یا لحاظ سے اُس بیوی کو طلاق دے کہ تاوہ پہلا خاوند اُس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے.لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گزرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ ورسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا دراصل قرآن شریف میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑ کر الگ الگ ہو جائیں.یہی وجہ ہے کہ اُس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں.وقفہ کے بعد تین طلاق کا دینا اور ان کا ایک ہی جگہ رہنا وغیرہ.یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دور ہو کر آپس میں صلح ہو جاوے.اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میں حکام کے پاس عرضی پرچے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة البقرة لے کر آتے ہیں تو آخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا.اصل غرض ان کی صرف یہی ہوتی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور اُن کے یہ جوش فرو ہوں گے تو پھر ان کی مخالفت باقی (نہ) رہے گی اسی واسطے وہ اس وقت اُن کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرد اور عورت کے الگ ہونے کے واسطے ایک کافی موقعہ رکھ دیا ہے.یہ ایک ایسا موقع ہے کہ طرفین کو اپنی بھلائی برائی کے سوچنے کا موقع مل سکتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الطلاق مرشن.یعنی دو دفعہ کی طلاق ہونے کے بعد یا اُسے اچھی طرح سے رکھ لیا جاوے یا احسان سے جُدا کر دیا جاوے.اگر اتنے لمبے عرصے میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلاح پذیر ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ /اپریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۴) طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہو سکتی طلاق میں تین طہر ہونے ضروری ہیں فقہا نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائز رکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے.قرآن کریم کی رو سے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلا خاوند اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکاح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بلا عمداً اُسے طلاق دے دیوے اگر وہ عمداً اسی لئے طلاق دے گا کہ اپنے پہلے خاوند سے وہ پھر نکاح کر لیوے تو یہ حرام ہوگا کیونکہ اس کا نام حلالہ ہے جو کہ حرام ہے.فقہا نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدت کے گزرنے کے بعد اُسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّل اُسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو طلاق بہت ناگوار ہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خانہ بربادی ہو جاتی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقرر کی کہ اس عرصہ میں دونوں اپنا نیک و بد سمجھ کر اگر صلح چاہیں تو کر لیو یں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۵) عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہوتا ہے اس پر دوسرے کو کامل اطلاع نہیں ہوتی بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مخش عیب عورت میں نہیں ہوتا مگر تاہم مزاجوں کی ناموافقت ہوتی ہے جو کہ باہمی معاشرہ کی مخل ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے.بعض وقت عورت ، گوولی ہو اور بڑی عابد اور پرہیز گار اور پاکدامن ہو اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو
۳۹۵ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چونکہ اس کی طرف سے کراہت ہوتی ہے اس لئے وہ طلاق دے سکتا ہے.مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہونا یہ بھی ایک شرعی امر ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۱۷) اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اور وہ بات ہو جائے تو پھر واقعی طلاق ہو جاتی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اور پھر وہ کھالے تو طلاق ہو جاتی ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۱ مورخه ۱۲ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۶۲) ایک صاحب نے اول بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے.چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ : وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں.جو کچھ زوجہ اول کو دیو یں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب ادھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اول کا دست نگر کر کے نہ رکھا جاوے.(البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخه ۲۶ رنجون ۱۹۰۳ صفحه ۱۷۸) یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے کہ وہ ذراسی بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بھلا بُرا کہتی ہیں بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں حالانکہ وہ اُس کے خاوند کے بھی قابلِ علات بزرگ ہیں وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیتی ہیں اور ان سے لڑ نا وہ ایسا ہی سمجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے.یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے تو اُس کے لڑکے کو چاہئے کہ وہ طلاق دے دے پس جبکہ ایک عورت کی ساس اور سسر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اور کون سی بات رہ گئی ہے.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۷ صفحہ ۱۰) جائز چیزوں میں سے سب سے زیادہ بُرا خدا اور اُس کے رسول نے طلاق کو قرار دیا ہے اور یہ صرف ایسے موقعوں کے لئے رکھی گئی ہے.جبکہ اشد ضرورت ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جو رب ہے کہ سانپوں اور بچھوؤں کے لئے خوراک مہیا کی ہے ویسا ہی ایسے انسانوں کے لئے جن کی حالتیں بہت گرمی ہوئی ہیں اور جو اپنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة البقرة او پر قابو نہیں رکھ سکتے.طلاق کا مسئلہ بنا دیا ہے کہ وہ اس طرح ان آفات اور مصیبتوں سے بچ جاویں جو طلاق کے نہ ہونے کی صورت میں پیش آئیں یا بعض اوقات دوسرے لوگوں کو بھی ایسی صورتیں پیش آجاتی ہیں اور ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ سوائے طلاق کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا.پس اسلام نے جو کہ تمام مسائل پر حاوی ہے یہ مسئلہ طلاق کا بھی دکھلایا ہے اور ساتھ ہی اس کو مکر وہ بھی قرار دیا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۷) شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے.اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کا نام ضلع ہے.جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابل برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد در بنا نا گوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کر دے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۹،۲۸۸) مجبوریوں کے وقت عورتوں کے لئے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے ضلع کرالیں جو طلاق کے قائم مقام ہے.....اگر عورت مرد کے تعد دازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۱۰۸۰) کراسکتی.کرا سکتی ہے.فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَةً فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللهِ يبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (۲۳۱) اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے، دے دے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کر لے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہو سکتا ( یعنی ایسے شخص کی سزا یہی ہے جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ سورة البقرة باوجود ہدایت متذکرہ بالا کے پھر نہ سمجھے اور چونکہ یہ عورت اب اس کی عورت نہیں رہی اس لئے وہ خاوند کرنے w آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳،۵۲) میں اختیار کلی رکھتی ہے.) بعض آر یہ عذر معقول سے عاجز آ کر یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں حلالہ کی رسم نیوگ سے مشابہ ہے یعنی جو مسلمان اپنی جورو کو طلاق دے وہ اپنی جو رو کو اپنے پر حلال کرنے کے لئے دوسرے سے ایک رات ہم بستر کراتا ہے تب آپ اس کو اپنے نکاح میں لے آتا ہے.سو ہم اس افترا کا جواب بجز لعنة اللہ علی الکاذبین اور کیا دے سکتے ہیں.ناظرین پر واضح رہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں.اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہو گا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جو رو بنالے اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جور و بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے.غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور آئمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ، عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور سعید بن مسیب اور امام مالک، لیٹ ، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جور و بنانے کے لئے تمام حقوق کو مدِ نظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو.اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حتٰی تَنْكِحَ زَوْجًا غَیرہ اس کے یہی معنے ہیں کہ جیسے دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا.سو آیت کا یہ منشاء نہیں ہے کہ جو رو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنا دے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مد نظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عند الشرع وہ نکاح ہرگز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة البقرة درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا.لہذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یا د رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری و مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۶۶، ۶۷) قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں تو پھر ایسی عورت خاوند سے بالکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا ، اس کو طلاق دے دے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آسکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہر ایک شخص طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آگئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہو گیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اس کا غصہ اتر جائے.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۶۷ حاشیه ) وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَ مَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْتِ اللهِ هُزُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ وَ مَا انْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِ ص شَيْءٍ عَلِيمٌ ن (٢٣٢ عورتوں کو دکھ دینے کی غرض سے بند مت رکھو.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) اگر تم طلاق دو تو عورتوں کو احسان کے ساتھ رخصت کرو.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إذَا تَرَاضَوا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ مدت مقررہ تک پہنچ جائیں اور عدت کی میعاد گذر جائے تو ان کو نکاح کرنے سے مت روکو یعنی جب تین حیض کے بعد تین طلاقیں ہو چکیں عدت بھی گذر گئی تو اب وہ عورتیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۹۹ سورة البقرة تمہاری عورتیں نہیں ان کو نکاح کرنے سے مت روکو.(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳) ذلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ یعنی یہ اُس کو وعظ کیا جاتا ہے جو تم میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱) وَ الْوَالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَ عَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلِّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودُ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَاِن اَرَدتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا أَتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ یعنی ماؤں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو دو برس کامل تک دودھ پلا دیں اگر وہ مدت رضاعت کو پورا کرنا چاہتی ہیں اور اُن کی خوراک پوشاک اس مرد کے ذمہ ہے جس کے وہ بچے ہیں.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه (۲۱۱) وَ عَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَ كسوتُهُنَّ یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جو عورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں.اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور حسن اور ذمہ وار آسائش کا ظہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۸) وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۚ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي انْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ) (۲۳۵ اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جو روئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن نکاح کرنے سے شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۶) رکی رہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰ سورة البقرة وَاِن طَلَقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَد فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ اَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَ اَنْ تَعُفُوا 609 اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمُ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کے دینے کی.میرا مذ ہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر شدہ نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخه ۸ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۲۳) سوال ہوا کہ جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟ فرمایا: لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہئے.اگر اس کی حیثیت ۱۰ روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ کا مہر کیسے ادا کرے گا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مبر ہی نہیں یہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں داخل ہے.(البدر جلد نمبر ۱ مورخه ۱۹ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) سوال ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.فرمایا: یہ عورت کا حق ہے اُسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے.البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۖ وَاللَّهُ ص يَقْبِضُ وَيَبْطُ وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ ) اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کو حاجت ہے اور وہ محتاج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة البقرة ہے ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ واپس کروں گا یہ ایک طریق ہے.اللہ تعالیٰ جس سے فضل کرنا چاہتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ صفحہ ۷) ایک نادان کہتا ہے کہ: مَنْ ذَ الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ( کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دے) اس کا مفہوم یہ ہے کہ گو یا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟ یہاں قرض کا مفہوم اصل تو یہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے اس کے ساتھ افلاس اپنی طرف سے لگا لیتا ہے.یہاں قرض سے مُراد یہ ہے کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمالِ صالحہ دے، اللہ تعالیٰ ان کی جزا اسے کئی گنا کر کے دیتا ہے.یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے اُس پر غور کرنے سے اُس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خدا تعالی بدوں کسی نیکی ، دعاء اور التجا اور بدوں تفرقہ کا فرو مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچارہا ہے پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کب ضائع کرے گا اُس کی شان تو یہ ہے : مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ ( الزلزال :۸) جو ذرہ بھی نیکی کرے اُس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرہ بدی کرے گا اُس کی پاداش بھی ملے گی.یہ ہے قرض کا اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے چونکہ اصل مفہوم قرض کا اس سے پایا جاتا تھا اس لئے یہی کہہ دیا: مَنْ دَالَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ (الزلزال : ٨) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰ رنجون ۱۹۰۱ صفحه ۳) فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنّى وَ مَنْ لَمْ يَطْعَمُهُ فَإِنَّهُ مِنَى إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةٌ بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا لا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا اللَّهِ كَمْ (۲۵٠ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللهُ مَعَ الصُّبِرِينَ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین دوست پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جوز مین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ،مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اُس دوسرے کی طرف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة البقرة رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے، وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللهِ - (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۹ حاشیه ) وَ لَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَ جُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتُ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ایک وہ زمانہ تھا کہ تلواروں سے ڈرایا جاتا تھا اور وہ لوگ اس کے مقابلہ پر کیا کرتے تھے خدائے تعالیٰ سے دُعائیں مانگتے اور کہتے رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبَتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ مگر آج کل تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تلوار سے نہیں ڈرایا جاتا.(۲۵۲) الحکم جلد نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۴) فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللهِ وَ قَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَاللهُ اللهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَ عَلَمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ تَفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِينَ ( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ.الخ ) اور اگر خدا صالح لوگوں کے ذریعہ سے گمراہوں کا تدارک نہ فرماتا اور بعض کو بعض سے دفعہ نہ کرتا تو زمین بگڑ جاتی پر یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ گمراہی کے پھیلنے کے وقت اپنی طرف سے ہادی بھیجتا ہے کیونکہ تفضل اور احسان اُس کی عادت ہے.(براہین احمد یہ چہار ص روحانی خزائن جلد صفحه ۶۵۱) تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَّنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ وَ أَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ اَيَّدتهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتُهُمُ البَيِّنتُ ولكن اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا ،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قف اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ۴۰۳ سورة البقرة جاننا چاہیئے کہ رفع کا لفظ قرآن شریف میں جہاں کہیں انبیاء اور اختیار ابرار کی نسبت استعمال کیا گیا ہے ا عام طور پر اس سے یہی مطلب ہے کہ جو ان برگزیدہ لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی جناب میں باعتبار اپنے روحانی مقام اور نفسی نقطہ کے آسمانوں میں کوئی بلند مرتبہ حاصل ہے، اس کو ظاہر کر دیا جائے اور ان کو بشارت دی جائے کہ بعد موت و مفارقت بدن اُن کی روح اُس مقام تک جو اُن کے لئے قرب کا مقام ہے اُٹھائی جائے گی.جیسا کہ اللہ جل شانہ ہمارے سید و مولی کا اعلیٰ مقام ظاہر کرنے کی غرض سے قرآن شریف میں فرماتا ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتٍ - یعنی یہ تمام رسول اپنے مرتبہ میں یکساں نہیں بعض اُن میں سے وہ ہیں جن کو روبرو کلام کرنے کا شرف بخشا گیا اور بعض وہ ہیں جن کا رفع درجات سب سے بڑھ کر ہے.اس آیت کی تفسیر احادیث نبویہ میں یہی بیان کی گئی ہے کہ موت کے بعد ہر یک نبی کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور اپنے درجہ کے موافق اس روح کو آسمانوں میں سے کسی آسمان میں کوئی مقام ملتا ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس مقام تک اس روح کا رفع عمل میں آیا ہے تا جیسا کہ باطنی طور پر اس روح کا درجہ تھا خارجی طور پر وہ درجہ ثابت کر کے دکھلایا جائے.سو یہ رفع جو آسمان کی طرف ہوتا ہے تحقیق درجات کے لئے وقوع میں آتا ہے اور آیت مذکورہ بالا میں جو رَفَعَ بَعْضَهُمْ درجات ہے یہ اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع تمام نبیوں کے رفع سے بلند تر ہے اور اُن کی رُوح مسیح کی روح کی طرح دوسرے آسمان میں نہیں اور نہ حضرت موسیٰ کی روح کی طرح چھٹے آسمان میں بلکہ سب سے بلند تر ہے.اسی کی طرف معراج کی حدیث تفریح دلالت کر رہی ہے بلکہ معالم النبوت میں بصفحہ ۵۱۷ یہ حدیث لکھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں چھٹے آسمان سے آگے گزر گئے تو حضرت موسیٰ نے کہا ربّ لَمْ أَظُنُّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَى اَحَد یعنی اے میرے خداوند ! مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ کوئی نبی مجھ سے اوپر اُٹھایا جائے گا اور اپنے رفع میں مجھ سے آگے بڑھ جائے گا.اب دیکھو کہ رفع کا لفظ محض تحقیق درجات کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور آیت موصوفہ بالا کے احادیث نبویہ کی رو سے یہ معنے کھلے کہ ہر یک نبی اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصہ لیتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی روح اگر چہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہومگر پھر بھی اُس آسمان سے اُس کا تعلق ہوتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ سورة البقرة جو اس کی روح کے لئے حد رفع ٹھہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اُس آسمان میں جائھہرتی ہے جو اس کے لئے حد رفع مقرر کیا گیا ہے.چنانچہ وہ حدیث جس میں عام طور پر موت کے بعد روحوں کے اُٹھائے جانے کا ذکر ہے اس بیان کی مؤیّد ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۷۶،۲۷۵) وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجت.اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جن کو ظلمی طور پر انتہائی درجہ کے کمالات جو کمالات الوہیت کے اظلال و آثار ہیں بخشے گئے اور وہ خلافت حقہ جس کے وجود کامل کے تحقیق کے لئے سلسلہ بنی آدم کا قیام بلکہ ایجاد کل کائنات کا ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے اپنے مرتبہ ء اتم و اکمل میں ظہور پذیر ہوکر آئینہ خدا نما ہوئے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۴، ۲۳۵ حاشیه ) اللہ تعالیٰ اس نبی کریم کی شان رفیع کے بارہ میں فرماتا ہے: وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجت.پس اس رفع درجات سے وہی انتہائی درجہ کا ارتفاع مراد ہے جو ظاہری اور باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یہ وجود باجود جو خیر مجسم ہے مقربین کے تین قسموں سے اعلیٰ و اکمل ہے جو الوہیت کا مظہر اتم کہلاتا سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۲ حاشیه ) ہے.یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ اولیاء اللہ کے بھی کئی درجات ہوتے ہیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْض بعض بعض پر فضیلت رکھتے ہیں بلکہ بعض اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ ادنی درجہ کے صلحاء اُن کو شناخت نہیں کر سکتے اور اُن کے مقام عالی سے منکر رہتے ہیں اور یہ اُن کے لئے ابتلا اور ٹھوکر کا باعث ہو جاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ربوبیت کی تجلیات الگ الگ ہوتی ہیں جو آخَصُّ الْعِبَاد ہوتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کی تھیلی سے مخصوص کئے جاتے ہیں دوسروں کو اس تحلی سے کوئی حصہ نہیں ملتا.اگر چہ خدا ایک ہے اور واحد لاشریک ہے مگر پھر بھی مختلف تجلیات کے اعتبار سے ہر ایک کا خدا خدا رب ہے.یہ نہیں کہ رب بہت ہیں، رب ایک ہی ہے جو سب کا رب ہے اور کثرت کا قائل کا فر ہے.مگر تعلقات کے مختلف مراتب کے لحاظ سے اور صفات الہیہ کے ظہور کی کمی بیشی کے لحاظ سے ہر ایک کا جدا جدا رب کہنا پڑتا ہے جیسا کہ بہت سے آئینے اگر ایک چہرہ کے مقابل پر رکھے جائیں جن میں سے بعض آئینے اس قدر چھوٹے ہوں کہ جیسے آری کا شیشہ ہوتا ہے اور بعض اس سے بھی چھوٹے اور بعض اس قدر چھوٹے کہ گویا آرسی کے آئینہ سے پچاسواں حصہ ہیں اور بعض آرسی کے آئینہ سے کسی قدر بڑے ہیں اور بعض اس قدر بڑے ہیں کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة البقرة اُن میں پورا چہرہ نظر آ سکتا ہے پس اس میں شک نہیں کہ اگر چہ چہرہ ایک ہی ہے لیکن جس قدر آئینہ چھوٹا ہوگا چہرہ بھی اس میں چھوٹا دکھائی دے گا.یہاں تک کہ بعض نہایت چھوٹے آئینوں میں ایک نقطہ کی طرح چہرہ نظر آئے گا اور ہرگز پورا چہرہ نظر نہیں آئے گا جب تک پورا آئینہ نہ ہو پس اس میں کچھ شک نہیں کہ چہرہ تو ایک ہے اور یہ بات واقعی صحیح ہے لیکن جو بظاہر مختلف آئینوں میں نظر آتا ہے اُس کی نسبت یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ وہ باعتبار اس نمائش کے ایک چہرہ نہیں ہے بلکہ کئی چہرے ہیں.اسی طرح ربوبیت الہیہ ہر ایک کے لئے ایک درجہ پر ظاہر نہیں ہوتی.انسانی نفس تزکیہ کے بعد ایک آئینہ کا حکم رکھتا ہے جس میں ربوبیت الہیہ کا چہرہ منعکس ہوتا ہے مگر گو کسی کے لئے تزکیہ نفس حاصل ہو گیا ہو مگر فطرت کے لحاظ سے تمام نفوس انسانیہ ہے برابر نہیں ہیں کسی کا دائرہ استعداد بڑا ہے اور کسی کا چھوٹا.جس طرح اجرام سماویہ چھوٹے بڑے ہیں.پس جو چھوٹی استعداد کا نفس ہے گو اس کا تزکیہ بھی ہو گیا مگر چونکہ استعداد کی رُو سے اس نفس کا ظرف چھوٹا ہے اس لئے ربوبیت الہیہ اور تجلیات ربانیہ کا عکس بھی اس میں چھوٹا ہوگا.پس اس لحاظ سے اگر چہ رب ایک ہے لیکن ظروف نفسانیہ میں منعکس ہونے کے وقت بہت سے رب نظر آئیں گے.یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہی کہتے تھے کہ: سبحان ربی الاعلی سبحان ربی العظیم.یعنی میرا رب سب سے بڑا اور بزرگ ہے پس اگر چہ رب تو ایک ہے مگر تجلیات عظیمہ اور ر بوبیتِ عالیہ کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب سب سے اعلیٰ ہے.پھر اس جگہ ایک اور نکتہ ہے کہ چونکہ مدارج قرب اور تعلق حضرت احدیت کے مختلف ہیں اس لئے ایک شخص با وجود خدا کا مقرب ہونے کے جب ایسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو قرب اور محبت کے مقام میں اس سے بہت بڑھ کر ہے تو آخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جو ادنی درجہ کا قرب الہی رکھتا ہے نہ صرف ہلاک ہوتا ہے بلکہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے جیسا کہ موسیٰ کے مقابل پر بلعم باعور کا حال ہوا.پہلے تو وہ مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف تھا اور اُس کی دُعائیں قبول ہوتی تھیں اور تمام ملک میں ولی کہلاتا تھا اور صاحب کرامات تھا لیکن جب خواہ نخواہ موسیٰ کے ساتھ مقابلہ کر بیٹھا اور اپنی قدر کو شناخت نہ کیا تب ولایت اور قرب کے مقام سے گرایا گیا اور خدا نے کتے کے ساتھ اُس کو مثال دی.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۷ تا ۳۴۹) کروڑ ہا نیک بندوں کو الہام ہوتا رہا ہے مگر ان کا مرتبہ خدا کے نزدیک ایک درجہ کا نہیں بلکہ خدا کے پاک نبی جو پہلے درجہ پر کمال صفائی سے خدا کا الہام پانے والے ہیں وہ بھی مرتبہ میں برابر نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ سورة البقرة ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ.یعنی بعض نبیوں کو بعض نبیوں پر فضیلت ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الہام محض فضل ہے اور فضیلت کے وجود میں اس کو دخل نہیں بلکہ فضیلت اس صدق اور اخلاص اور وفاداری کی قدر پر ہے جس کو خدا جانتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۹) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت انسانی فطرت کے انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اس لئے قرآن شریف کامل نازل ہوا.اور یہ کچھ برا ماننے کی بات نہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ کہ یعنی بعض نبیوں کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے.اور ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں، اخلاق میں، عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں.پس اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو فلی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہر گز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶) ج دو اللهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ : لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ج اَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.اللہ جو جامع صفات کا ملہ اور مستحق عبادت ہے اس کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حتی بالذات اور قائم بالذات ہے بجز اس کے کوئی چیز حتی بالذات اور قائم بالذات نہیں یعنی اس کے بغیر کسی چیز میں یہ صفت پائی نہیں جاتی کہ بغیر کسی علت موجدہ کے آپ ہی موجود اور قائم رہ سکے یا کہ اس عالم کی جو کمال حکمت اور ترتیب محکم اور موزون سے بنایا گیا ہے علت موجبہ ہو سکے اور یہ امر اس صانع عالم جامع صفات کاملہ کی ہستی کو ثابت کرنے والا ہے.تفصیل اس استدلال لطیف کی یہ ہے کہ یہ بات یہ ہداہت ثابت ہے کہ عالم کے اشیاء میں سے ہر یک موجود جو نظر آتا ہے اس کا وجود اور قیام نظراً على ذاته ضروری نہیں مثلاً زمین کروی الشکل ہے اور قطر اس کا بعض کے گمان کے موافق تخمیناً چار ہزار کوس پختہ ہے مگر اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی کہ کیوں یہی شکل اور یہی مقدار اس کے لئے ضروری ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم ہو یا برخلاف شکل حاصل کے کسی اور شکل سے متشکل ہو اور جب اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہوئی تو یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة البقرة شکل اور یہ مقدار جس کے مجموعہ کا نام وجود ہے زمین کے لئے ضروری نہ ہوا اور علی ہذا القیاس عالم کی تمام اشیاء کا وجود اور قیام غیر ضروری ٹھہرا.اور صرف یہی بات نہیں کہ وجود ہر یک ممکن کا نظراً على ذاته غیر ضروری ہے بلکہ بعض صورتیں ایسی نظر آتی ہیں کہ اکثر چیزوں کے معدوم ہونے کے اسباب بھی قائم ہو جاتے ہیں پھر وہ چیز میں معدوم نہیں ہوتیں مثلاً باوجود اس کے کہ سخت سخت قحط اور وبا پڑتی ہیں مگر پھر بھی ابتداء زمانہ سے تخم ہر یک چیز کا بچتا چلا آیا ہے حالانکہ عند العقل جائز بلکہ واجب تھا کہ ہزار ہاشدائد اور حوادث میں سے جو ابتدا سے دنیا پر نازل ہوتی رہی کبھی کسی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شدت قحط کے وقت غلہ جو کہ خوراک انسان کی ہے بالکل مفقود ہوجاتا یا کوئی قسم غلہ کی مفقود ہو جاتی یا کبھی شدت وبا کے وقت نوع انسان کا نام ونشان باقی نہ رہتا یا کوئی اور انواع حیوانات میں سے مفقود ہو جاتے یا کبھی اتفاقی طور پر سورج یا چاند کی گل بگڑ جاتی یا دوسری بے شمار چیزوں سے جو عالم کی درستی نظام کے لئے ضروری ہیں کسی چیز کے وجود میں خلل راہ پا جاتا کیونکہ کروڑ با چیزوں کا اختلال اور فساد سے سالم رہنا اور کبھی ان پر آفت نازل نہ ہونا قیاس سے بعید ہے.پس جو چیز میں نہ ضروری الوجود ہیں، نہ ضروری القیام بلکہ ان کا کبھی نہ کبھی بگڑ جانا ان کے باقی رہنے سے زیادہ تر قرین قیاس ہے ان پر کبھی زوال نہ آنا اور احسن طور پر بہ ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ ان کا وجود اور قیام پا یا جانا اور کروڑ ہا ضروریات عالم میں سے بھی کسی چیز کا مفقود نہ ہونا صریح اس بات پر نشان ہے کہ ان سب کے لئے ایک میمی اور محافظ اور قیوم ہے جو جامع صفات کا ملہ یعنی مدبر اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور اپنی ذات میں ازلی ابدی اور ہر یک نقصان سے پاک ہے جس پر بھی موت اور فنا طاری نہیں ہوتی بلکہ اونگھ اور نیند سے بھی جو فی الجملہ موت سے مشابہ ہے پاک ہے.سو وہی ذات، جامع صفات کا ملہ ہے جس نے اس عالم امکانی کو برعایت کمال حکمت و موز و نیت وجود عطا کیا اور ہستی کو نیستی پر ترجیح بخشی اور وہی بوجہ اپنی کمالیت اور خالقیت اور ربوبیت اور قیومیت کے مستحق عبادت ہے.یہاں تک تو ترجمہ اس آیت کا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ دو ط ج الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.اب بنظر انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور ما في السمواتِ وَمَا في الْأَرْضِ کے لئے ایسی محکم دلیل سے وجود ایک خالق کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء ناقص الفہم نے ارواح اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة البقرة اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس راز دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلّم ہے.یہ عمیق معرفت اس آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفات کاملہ ہے اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور فرمايا: لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ.یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علت موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا.اور ضرور ہے کہ ایسی علت موجبہ جامع صفات کا ملہ اور مدتم بالا رادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو.سو وہی اللہ ہے.کیونکہ الله بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام ہے جو تجمع کمالات تامہ ہے اسی وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفات کا ملہ کا موصوف ٹھہرایا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ ربّ العالمین ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مدبر بالا رادہ ہے، حکیم ہے، عالم الغیب ہے، قادر مطلق ہے، ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ.سو یہ قرآن شریف کی ایک اصطلاح ٹھہرائی گئی ہے کہ اللہ ایک ذات جامع جمیع صفات کاملہ کا نام درووو.ہے.اسی جہت سے اس آیت کے سر پر بھی اللہ کا اسم لائے اور فرمایا: الله لا إله إلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ - یعنی اس عالم بے ثبات کا قیوم، ذات جامع الکمالات ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عالم جس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ سے موجود اور مترتب ہے اس کے لئے یہ گمان کرنا باطل ہے کہ انہیں چیزوں میں سے بعض چیزیں بعض کے لئے علت موجبہ ہو سکتی ہیں بلکہ اس حکیمانہ کام کے لئے جو سراسر حکمت سے بھرا ہوا ہے ایک ایسے صانع کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں مدبر بالا رادہ اور حکیم اور علیم اور رحیم اور غیر فانی اور تمام صفات کا ملہ سے متصف ہو.سو وہی اللہ ہے جس کو اپنی ذات میں کمال تام حاصل ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۱۴ تا ۵۱۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ : لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ، ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقاء ہر چیز کا اسی کے بقاء اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہر دم تھامے ہوئے ہے، نہ اس پر اونگھ طاری ہوتی ہے، نہ نیند سے پکڑتی ہے یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا.پس جبکہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے.پس ثابت ہے کہ ہر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۰۹ سورة البقرة ایک مخلوقات آسمانوں کا اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے ( جز اول قیاس مرکب کی ) ( صغری ) خدا کو بلا شرکۃ الغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبری) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق از لی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے ( نتیجہ ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے.( جز ثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اوّل کا صغری قیاس کا بنایا گیا ہے ) (صغری ) ( خداوند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے ) (کبری) (اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے ) ( نتیجہ ) ( خدا تمام چیزوں کا خالق ہے ).صغری جز اول قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشركة الغير ے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے، باقرار فریق ثانی ثابت ہے.پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبری جز اول قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدائے تعالی ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہوا یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہو سکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کا ذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے حالانکہ ابھی ذکر ہو چکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے.پس ماننا پڑا کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے.اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں یعنی حیات اور بقاء دوسروں کی اس کی حیات اور بقاء پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہو گا.بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی نہ بطور علت حقیقتہ حافظ الاشیاء کے کیونکہ مؤثر بالقسر اسے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متأثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زید نے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اسی وقت پتھر چلاتے ہی مر گیا.تو بے شک اس پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چُھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی.پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدائے تعالیٰ کو محض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ ! یہ لازم آتا ہے کہ اگر پر میشر کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرات کا کچھ بھی حرج نہ ہو کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة البقرة کے کہ جس کو انہوں نے ستیارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیا ناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک صاحب کے کہ جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے، وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقاء اور حیات میں بالکل پر میشر سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پر میشر کو مخلوقات سے نسبت ہے یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پر میشر گری کا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پر میشر کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقاء اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پر میشر کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ خلل بھی واقع نہ ہو سکے.پس ثابت ہوا کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پر میشر کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے.کاش ! اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نختاروں سا نہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پر میشر کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں.لیکن شاید وید میں یہی لکھا ہوگا ورنہ میں کیوں کر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومیت پروردگار میں جو اجلی بدیہیات ہے کچھ شک ہے.اور اگر پنڈت صاحب پر میشر کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی پدیا ہے.اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے؟ دیکھو! فرقان مجید میں صفت قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکڑر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا: ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور : ۳۲) یعنی خدا آسمان وزمین کا نور ہے.اسی سے طبقہ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے.پس اس ہماری تحقیق سے جز اول قیاس مرکب کی ثابت ہوئی اور صغری جز ثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اول قیاس مرکب کا نتیجہ ہے اور جز اول قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہو چکی ہے پس نتیجہ بھی ثابت ہو گیا.اور کبری جز ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے.اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور ان کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو اور شرط کے یہ معنے ہیں کہ اگر اس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے جیسے کہیں کہ اگر خدائے تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو.پس یہ قول کہ اگر خدائے تعالیٰ کا وجود نہ ہو تو کسی چیز کا وجود نہ ہو بعینہ اس قول کے مساوی ہے کہ خدائے تعالیٰ کا وجود نہ ہوتا تو کسی چیز کا وجود نہ ہوتا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة البقرة پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ وجود خالق کا ، وجود مخلوق کے لئے علت ہو.پس ثابت ہو گیا کہ خدا خالق ہے اور یہی پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۶ تا ۱۹) درووو مطلب تھا.الله لا إله إلا هو الحى القيوم کہ وہی معبود برحق ہر یک چیز کی جان اور ہر یک وجود کا سہارا ہے.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۸) یعنی وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں وہی ہر ایک جان کی جان اور ہر ایک وجود کا سہارا ہے.اس آیت کے لفظی معنے یہ ہیں کہ زندہ وہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے پس جب کہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اُسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اُسی کی ذات سے قائم ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰) حقیقی وجود اور حقیقی بقا اور تمام صفات حقیقیہ خاص خدا کے لئے ہیں کوئی اُن میں اُس کا شریک نہیں وہی بذاتہ زندہ ہے اور باقی تمام زندے اُس کے ذریعہ سے ہیں.اور وہی اپنی ذات سے آپ قائم ہے اور باقی تمام چیزوں کا قیام اُس کے سہارے سے ہے اور جیسا کہ موت اُس پر جائز نہیں ایسا ہی ادنیٰ درجہ کا تعطل حواس بھی جو نیند اور اُونگھ سے ہے وہ بھی اُس پر جائز نہیں مگر دوسروں پر جیسا کہ موت وارد ہوتی ہے نیند اور اونگھ بھی وارد ہوتی ہے.جو کچھ تم زمین میں دیکھتے ہو یا آسمان میں وہ سب اُسی کا ہے اور اُسی سے ظہور پذیر اور قیام پذیر ہے.کون ہے جو بغیر اُس کے حکم کے اُس کے آگے شفاعت کر سکتا ہے؟ وہ جانتا ہے جو لوگوں کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے یعنی اُس کا علم حاضر اور غائب پر محیط ہے اور کوئی اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جس قدر وہ چاہے.اُس کی قدرت اور علم کا تمام زمین و آسمان پر تسلط ہے.وہ سب کو اٹھائے ہوئے ہے، یہ نہیں کہ کسی چیز نے اُس کو اُٹھا رکھا ہے اور وہ آسمان وزمین اور ان کی تمام چیزوں کے اٹھانے سے تھکتا نہیں اور وہ اس بات سے بزرگ تر ہے کہ ضعف و ناتوانی اور کم قدرتی اُس کی طرف منسوب کی (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۴،۲۷۳) تمام مخلوقات ، اجرام فلکی سے لے کر ارضی تک اپنی بناوٹ ہی میں عبودیت کا رنگ رکھتی ہے، ہر پٹے سے جائے.یہ پتہ ملتا ہے ہر شاخ اور آواز سے یہ صدا نکلتی کہ الوہیت اپنا کام کر رہی ہے.اس کے عمیق در عمیق تصرفات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة البقرة جن کو ہم خیال اور قوت سے بیان نہیں کر سکتے بلکہ کامل طور پر سمجھ بھی نہیں سکتے اپنا کام کر رہے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : اللهُ لا إلهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جامع صفات کا ملہ اور ہر ایک نقص سے منزہ ہے وہی مستحق عبادت ہے.اُسی کا وجود بد یہی الثبوت ہے.کیونکہ وہ حي بالذات اور قائم بالذات ہے.اور بجز اس کے اور کسی چیز میں حی بالذات اور قائم بالذات ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی.کیا مطلب کہ اللہ تعالیٰ کے بڑوں اور کسی میں یہ صفت نظر نہیں آتی کہ بغیر کسی علت موجبہ کے آپ ہی موجود اور قائم ہو.یا کہ اُس عالم کی ، جو کمال حکمت اور ترتیب محکم و موزون سے بنایا گیا ہے، علت موجبہ ہو سکے.غرض اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان مخلوقات عالم میں تغییر و بدل کر سکتا ہو یا ہر ایک شے کی حیات کا موجب اور قیام کا باعث ہو.اس آیت پر نظر کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وجودی مذہب حق سے دور چلا گیا ہے اور اُس نے صفات الہیہ کے سمجھنے میں ٹھو کر کھائی ہے.وہ معلوم نہیں کر سکتا کہ اُس نے عبودیت اور الوہیت کے ہی رشتہ پر ٹھوکر کھائی ہے.اصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُن میں سے جولوگ اہل کشف ہوئے ہیں اور اُن میں سے اہل مجاہدہ نے دریافت کرنا چاہا تو عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ میں امتیاز نہ کر سکے اور خلق الاشیاء کے قائل ہو گئے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۳۹،۱۳۸) یعنی خدا ہی جو قابل پرستش ہے کیونکہ وہی زندہ کرنے والا ہے اور اسی کے سہارے سے انسان زندہ رہ سکتا ہے.یعنی انسان کا ظہور ایک خالق کو چاہتا تھا اور ایک قیوم کو ، تا خالق اس کو پیدا کرے اور قیوم اس کو بگڑنے سے محفوظ رکھے.سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے، اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے.پس استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے کرتے رہنے کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہوگا دو ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں.( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۷۲) هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی حقیقی حیات اس کو ہے اور دوسری سب چیزیں اس سے پیدا اور اس کے ساتھ زندہ ہیں یعنی در حقیقت سب جانوں کی جان اور سب طاقتوں کی طاقت وہی ہے لیکن اگر یہ خیال کیا جائے کہ وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ سورة البقرة قدیم سے الگ کا الگ چلا آتا ہے اور اس کی ربوبیت کا کسی چیز پر احاطہ نہیں اور کوئی چیز اس سے ظہور پذیر نہیں ہوئی تو اس صورت میں علم کائنات تو اسے کیا ہوگا بلکہ محدود چیزوں میں سے وہ بھی ایک چیز ہوگی جس کا کوئی اور محدد تلاش کرنا پڑے گا.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۲۵،۲۲۴ حاشیه ) خدا تعالیٰ کے دو نام ہیں؛ ایک کی دوسرا قیوم کي کے یہ معنے ہیں کہ خود بخودزندہ اور دوسری چیزوں کو زندگی بخشنے والا اور قیوم کے یہ معنے ہیں کہ اپنی ذات میں آپ قائم اور اپنی پیدا کردہ چیزوں کو اپنے سہارے سے باقی رکھنے والا.پس خدا تعالیٰ کے نام قیوم سے وہ چیز فائدہ اُٹھا سکتی ہے جو پہلے اس سے اس کے نام حی سے فائدہ اُٹھا چکی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی پیدا کردہ چیزوں کو سہارا دیتا ہے، نہ ایسی چیزوں کو جن کے وجود اور ہستی کو اس کا ہاتھ ہی نہیں چھوا.پس جو شخص خدا تعالیٰ کو حتی یعنی پیدا کرنے والا مانتا ہے اُسی کا حق ہے کہ اس کو قیوم بھی مانے.یعنی اپنی پیدا کردہ کو اپنی ذات سے سہارا دینے والا.لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کو حتی یعنی پیدا کرنے والا نہیں جانتا اس کا حق نہیں ہے کہ اس کی نسبت یہ اعتقا در کھے کہ وہ ان چیزوں کو ، ان کے رہنے میں سہارا دینے والا ہے.کیونکہ سہارا دینے کے یہ معنے ہیں کہ اگر اس کا سہارا نہ ہو وہ چیزیں معدوم ہو جائیں.اور ظاہر ہے کہ جن چیزوں کا اس کی طرف سے وجود نہیں وہ چیزیں اپنے بقائے وجود میں اس کی محتاج بھی نہیں ہو سکتیں اور اگر وہ بقائے وجود میں محتاج ہیں تو اس وجود کی پیدائش میں بھی محتاج ہیں.غرض خدا تعالیٰ کے یہ دونوں اسم حي و قیوم اپنی تاثیر میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں کبھی علیحدہ علیحدہ نہیں ہو سکتے.پس جن لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ خدا روحوں اور ذرات کا پیدا کرنے والا نہیں وہ اگر عقل اور سمجھ سے کچھ کام لیں تو اُن کو اقرار کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ ان چیزوں کا قیوم بھی نہیں.یعنی وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کے سہارے سے ذرّات یا ارواح پیدا ہوئے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے سہارے کی محتاج وہ چیزیں ہیں جو اس کی پیدا کردہ ہیں.غیر کو جو اپنے وجود میں اس کا محتاج نہیں اس کے سہارے کی کیوں حاجت پڑ گئی ؟ یہ دعویٰ بے دلیل ہے.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۲، ۳۶۳) جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں ؛ الْحَى اور الْقَيُّوم - الْحَیّ کے معنے ہیں خود زندہ اور دوسرں کو زندگی عطا کرنے والا ، القیوم خود قائم اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث.ہر ایک چیز کا ظاہری، باطنی قیام اور زندگی، انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے.پس حي کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے اور الْقَيُّوم چاہتا ہے کہ اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۱۴ سورة البقرة سے سہارا طلب کیا جاوے اس کو ايَّاكَ نَسْتَعِین کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے.حي کا لفظ عبادت کو اس لئے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا جیسے مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اس کے مرجانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے مگر انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے اس لئے ضروری ہوا کہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہی استغفار ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵) اللهُ لا إلهَ إلا هُوَ.....وہی ایک سب کا رب ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) ( مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِاِذْنِهِ ) مشرک لوگ بھی اپنے معبودوں سے عبث طور پر مدد طلب کرتے ہیں جس پر کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوسکتا.گو کوئی مقترب الہی ہو، مگر کسی کی مجال نہیں کہ خواہ نخواہ سفارش کر کے کسی مجرم کو رہا کرا دے.خدا کا علم ان کے پیش و پس پر محیط ہورہا ہے اور ان کو خدا کے علوم سے صرف اسی قدر ا طلاع ہوتی ہے جن باتوں پر وہ آپ مطلع کرے اس سے زیادہ نہیں.( براہینِ احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۲ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) خدا کے اڈن کے سوا کوئی شفاعت نہیں ہو سکتی.قرآن شریف کی رُو سے شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے یا کوئی بلائل جائے.پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دُعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو یہی حقیقت شفاعت ہے.سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بیشک دُعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوت دے اور ان کی بلا دُور کرے اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے.پس اگر وید نے اس ہمدردی کو نہیں سکھلایا اور وید کی رُو سے ایک بھائی دوسرے کے لئے دُعا نہیں کر سکتا تو یہ بات وید کے لئے قابل تعریف نہیں بلکہ ایک سخت عیب ہے.چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگر چہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی ان کے لئے دُعا کرنے میں لگے رہو اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دُعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے.اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے.شفع : بحفت کو کہتے ہیں جو طاق کی ضد ہے.پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے.اور یادر ہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہوسکتا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة البقرة جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو بلکہ دین کے دو ہی کامل حصے ہیں ؛ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دُعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۶۳، ۴۶۴) یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذنِ الہی کے کسی کی شفاعت کر سکے؟ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۹) یا درکھو! کہ خدائی کے دعوی کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے ، انہوں نے ہرگز ایسا دعوی نہیں کیا.جو کچھ انہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ الفاظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں.سونبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے.حضرت موسی کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پاگئے اور میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں اور میری جماعت کے اکثر معز ز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دکھوں سے رہائی پاگئے اور یہ خبر یں اُن کو پہلے سے دی گئی تھیں.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳۶) خدا کا قدیم سے قانون قدرت ہے کہ وہ تو بہ اور استغفار سے گناہ معاف کرتا ہے.اور نیک لوگوں کی شفاعت کے طور پر دُعا بھی قبول کرتا ہے.چشمه سیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۷) شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنے بجفت کے ہیں.اس لئے شفیع وہ ہوسکتا ہے جو دو مقامات کا مظہر اتم ہو.یعنی مظہر کامل لاہوت اور ناسوت کا ہو.لاہوتی مقام کا مظہر کامل ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کا خدا کی طرف صعود ہو، وہ خدا سے حاصل کرے اور نا سوتی مقام کے مظہر کا یہ مفہوم ہے کہ مخلوق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حاصل کرے.وہ مخلوق کو پہنچا دے.اور مظہر کامل ان مقامات کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس کی طرف اشارہ ہے: دنا فتدلى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی.(النجم :)) ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدوں کامل حصہ مقام لاہوت کا کسی نبی میں نہیں آیا.اور نا سوتی حصہ چاہتا ہے بشری لوازم کو ساتھ رکھے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام میں یہ ساری باتیں پوری پائی جاتی ہیں.آپ نے شادیاں بھی کیں، بچے بھی ہوئے، دوستوں کا زمرہ بھی تھا ، فتوحات کر کے اختیاری قوتوں کے ہوتے ہوئے انتقام چھوڑ کر رحم کر کے بھی دکھایا.جب تک انسان کے پیرا یہ پورے نہ ہوں وہ پوری ہمدردی نہیں کر سکتا، اُس حصہ اخلاق فاضلہ میں وہ نامکمل رہے گا مثلاً جس نے شادی ہی نہیں کی وہ بیوی اور بچوں کے حقوق کی کیا قدر کر سکتا ہے؟ اور ان پر اپنی شفقت اور ہمدردی کا کیا نمونہ دکھا سکتا ہے؟ رہبانیت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة البقرة ہمدردی کو دور کر دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا.غرض کامل شفیع وہی ہو سکتا ہے جس میں یہ دونوں حصے کامل طور پر پائے جائیں.چونکہ یہ ایک ضروری امر تھا کہ شفیع ان دونوں مقامات کا مظہر ہو.اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے ہی اس سلسلہ کا ظل قائم رکھا.یعنی آدم علیہ السلام کو جب پیدا کیا تو لاہوتی حصہ تو اس میں یوں رکھ دیا جب کہا: فَإِذَا سَوَيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَه سجدين ( الحجر :۳۰) اور نا سوتی حصہ یوں رکھا کہ حوا کو اُس سے پیدا کیا.یعنی جب روح پھونکی تو ایک جوڑ آدم کا خدا تعالیٰ سے قائم ہوا اور جب حوا نکالی تو دوسرا جوڑ مخلوق کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناسوتی ہو گیا.پس جب تک یہ دونوں حصے کامل طور پر کامل انسان میں نہ پائے جاویں وہ شفیع نہیں ہو سکتا.جیسے آدم کی پسلی سے جو انکلی اسی طرح پر کامل انسان کی پسلی سے مخلوق نکلتی ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ رفروی ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵) تعجب ہے! کہ عیسائی لوگ شفاعت کے لئے عصمت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں نری عصمت ،شفاعت کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ شفاعت تب ہوسکتی ہے جبکہ شفیع معصوم ہو اور پھر وہ ابن اللہ ہو اور پھر صلیب پر لٹکا یا جا کر ملعون ہو.جب تک یہ تثلیث عیسائی مذہب کے عقیدہ کے موافق قائم نہ ہو شفیع نہیں ہوسکتا، پھر وہ عصمت عصمت ہی کیوں پکارتے ہیں؟ کیا اگر کوئی معصوم ان کے سامنے پیش کیا جاوے، یہ ثابت کر دیا جاوے، تو وہ مان لیں گے کہ وہ شفیع ہے؟ ہر گز نہیں ! بلکہ عیسائی عقیدہ کے موافق یہ ضروری ہے کہ وہ خدا بھی نہ ہو بلکہ ابن اللہ ہو اور وہ مصلوب ہو کر جب تک ملعون نہ ہولے ہرگز ہرگز وہ شفیع نہیں ہو سکتا.پھر ایک اور بات قابل غور ہے کہ جبکہ یسوع خود خدا تھا اور اس لئے وہ علت العلل تھا اور اس نے کل جہان کے گناہ بھی اپنے ذمے لئے پھر وہ معصوم کیوں کر ہوا؟ اور گناہوں کا تذکرہ ہم چھوڑتے ہیں جو یہودی مؤرخوں اور فری تھنکروں (آزاد خیال) نے ان کی انجیل سے ثابت کئے ہیں لیکن جب اُس نے خود گناہ اُٹھا لئے اور بوجہ علت العلل ہونے کے سارے گناہوں کا کرانے والا وہی ٹھہرا تو پھر ا سے معصوم قرار دینا عجیب دانشمندی ہے.پھر خدا کا نام معصوم نہیں کیونکہ معصوم وہ ہے جس کا کوئی دوسرا عاصم ہو خدا کا نام عاصم ہے اس لئے جب شفاعت کے لئے اہنیت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بھی مصلوبیت کی لعنت ضروری ہے تو یہ سارا تانا بانا ہی بنائے فاسد بر فاسد کا مصداق ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ سورة البقرة حقیقی اور سچی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لئے ضروری ہے کہ اول خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو تا کہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کرے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہوتا کہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتا ہے مخلوق کو پہنچاوے جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا.پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابل غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بخشیں فرضی ہیں.مسیح کے نمونہ کو دیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے، ہمیشہ ان کوست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا.بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انہوں نے عذاب الیم سے چھوڑایا اور گناہ کی زندگی سے ان کو نکالا کہ عالم ہی پلٹ دیا، ایسا ہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا.عیسائی جو مسیح کو مثیل موسیٰ قرار دیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ موسیٰ کی طرح انہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی.اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تو لنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کر دیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑا دیا ہے یا پھنسا دیا ؟ ہے اور یوں کہنے کو تو ایک چوہڑا بھی کہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھوڑا یا مگر یہ نرے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے.پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لئے آیا تھا، ایک خیالی بات ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور روحانیت سے بالکل دُور جا پڑی.ہاں! سچا شفیع اور کامل شفیع آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپ کی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ نمونہ بھیج دیتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵،۴) مامور من اللہ کی دُعاؤں کا کل جہان پر اثر ہوتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک بار یک قانون ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا.جن لوگوں نے شفیع کے مسئلہ سے انکار کیا ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے شفیع کو قانون قدرت چاہتا ہے.اس کو ایک تعلق شدید خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور دوسر ا مخلوق سے مخلوق کی ہمدردی اس میں اس قدر ہوتی ہے کہ یوں کہنا چاہئے کہ اس کے قلب کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہمدردی کے لئے جلد متاثر ہو جاتا ہے.اس لئے وہ خدا سے لیتا ہے اور اپنی عقد ہمت اور توجہ سے مخلوق کو پہنچاتا ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة البقرة اپنا اثر اس پر ڈالتا ہے اور یہی شفاعت ہے.انسان کی دُعا اور توجہ کے ساتھ مصیبت کا رفع ہونا یا معصیت اور ذنوب کا کم ہونا یہ سب شفاعت کے نیچے ہے.توجہ سب پر اثر کرتی ہے خواہ مامور کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا نام اور ( پتا) بھی یاد ہو نہ ہو.احکام جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶) یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں.ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے : صَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلوتَكَ سَكَن لَّهُمْ (القوبة : ١٠٣) - سَكن لَّهُمْ یہ شفاعت کا فلسفہ ہے یعنی جو گناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آجاتی ہے.جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر ان کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بریکا رنہیں کیا بلکہ اعمال حسنہ کی تحریک کی ہے.شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کونہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے اور شفاعت اور کفارہ کو ایک قرار دیا حالانکہ یہ ایک نہیں ہو سکتے ہیں کفارہ اعمال حسنہ سے مستغنی کرتا ہے اور شفاعت اعمال حسنہ کی تحریک.جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے وہ بیچ ہے.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد اور اُس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور علمی پیرایہ اس کے ساتھ موجود ہے جو دوسرے مذاہب کے عقائد میں نہیں ملتا.شفاعت اعمال حسنہ کی محرک کس طرح پر ہے؟ اس سوال کا جواب بھی قرآن شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی جو عیسائی مانتے ہیں کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کا ہلی اور شستی پیدا ہوتی بلکہ فرمایا: إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ( البقرة : ۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے؟ تو کہہ دے کہ میں قریب ہوں.قریب والا تو سب کچھ کر سکتا ہے، ڈور والا کیا کرے گا ؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اُس وقت تک تو شائد وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے.اس لئے فرمایا کہ کہہ دو میں قریب ہوں.پس یہ آیت بھی قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایمان کامل پیدا ہو اور اُسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے اور ایمان ہو کہ وہ ہر پکار کوسنتا ہے.بہت سی دُعاؤں کے رڈ ہونے کا یہ بھی ستر ہے کہ دُعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دُعا کو مستر د کرالیتا ہے اس لئے یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ سورة البقرة ضروری ہے کہ دُعا کو قبول ہونے کے لائق بنایا جاوے کیونکہ اگر وہ دُعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہوگی اور کوئی فائدہ اور نتیجہ اس پر مترتب نہیں ہو سکے گا.b اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا : صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَن لَّهُمُ (التوبة : ۱۰۳) تیری صلوٰۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش و جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے دوسری طرف فَلْيَسْتَجِيبُوا لي (البقرة : ۱۸۷) کا بھی حکم فرمایا.ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دُعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات، پھر ان تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اُن کا بھی پتہ لگتا ہے کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرت کی شفاعت اور دُعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے.اور نہ یہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرت کی شفاعت اور دُعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۰/ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳،۲) جاوے.دُعا اسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے.پیغمبر کسی کے لئے اگر شفاعت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلاح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفاعت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک ذکر کیا ہے کہ ایک دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی ، وہ گرنے والی تھی اُس کے نیچے خزانہ تھا لڑ کے ابھی نا بالغ تھے.اُس دیوار کے گرنے سے اندیشہ تھا کہ خزانہ نگا ہو کر لوگوں کے ہاتھ آجائے گا.وہ لڑ کے بیچارے خالی ہاتھ رہ جاویں گے تو اللہ تعالیٰ نے دو نبیوں کو اس خدمت کے واسطے مقرر فرمایا.وہ گئے اور اس دیوار کو درست کر دیا کہ جب وہ بڑے ہوں تو پھر کسی طرح اُن کے ہاتھ وہ خزانہ آجاوے.پس اس جگہ اللہ تعالی نے یہی فرمایا کہ: وَكَانَ ابُوهُمَا صَالِحًا (الکھف: (۸۳) یعنی ان لڑکوں کا باپ نیک مرد تھا جس کے واسطہ ہم نے اُن کے خزانہ کی حفاظت کی.اللہ تعالیٰ کے ایسا فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے کچھ اچھے نہ تھے اور نہ اچھے ہونے والے تھے.ورنہ یہ فرما تا کہ یہ لڑ کے اچھے ہیں صالح ہیں اور صالح ہونے والے ہیں نہیں بلکہ اُن کے باپ کا ہی حوالہ دیا کہ اُن کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے دیکھو یہی تو شفاعت ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۵) مذہبی مسائل میں سے نجات اور شفاعت کا مسئلہ ایک ایسا عظیم الشان اور مدار المہام مسئلہ ہے کہ مذہبی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ سورة البقرة پابندی کے تمام اغراض اسی پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں.اور کسی مذہب کے صدق اور سچائی کے پر کھنے کے لئے وہی ایک ایسا صاف اور کھلا کھلا نشان ہے جس کے ذریعہ سے پوری تسلی اور اطمینان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں مذہب در حقیقت سچا اور خدا کی طرف سے ہے اور یہ بات بالکل راست اور درست ہے کہ جس مذہب نے اس مسئلہ کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا یا اپنے فرقہ میں نجات یافتہ لوگوں کے موجودہ نمونے کھلے کھلے امتیاز کے ساتھ دکھلا نہیں سکا اس مذہب کے باطل ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں.مگر جس مذہب نے کمال صحت سے نجات کی اصل حقیقت دکھلائی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اپنے موجودہ زمانے میں ایسے انسان بھی پیش کئے ہیں جن میں کامل طور پر نجات کی روح پھونکی گئی ہے اس نے مہر لگا دی ہے کہ وہ سچا اور منجانب اللہ ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک انسان طبعاً اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ وہ صد با طرح کی غفلتوں اور پردوں اور نفسانی حملوں اور لغزشوں اور کمزوریوں اور جہالتوں اور قدم قدم پر تاریکیوں اور ٹھوکروں اور مسلسل خطرات اور وساوس کی وجہ سے اور نیز دنیا کی انواع اقسام کی آفتوں اور بلاؤں کے سبب سے ایک ایسے زبردست ہاتھ کا ضرور محتاج ہے جو اُس کو ان تمام مکروہات سے بچاوے.کیونکہ انسان اپنی فطرت میں ضعیف ہے اور وہ کبھی ایک دم کے لئے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود بخو دنفسانی ظلمات سے باہر آ سکتا ہے.یہ تو انسانی کانشنس کی شہادت ہے اور ماسوا اس کے اگر غور اور فکر سے کام لیا جائے تو عقل سلیم بھی اسی کو چاہتی ہے کہ نجات کے لئے شفیع کی ضرورت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ تقدس اور تطہیر کے مرتبہ پر ہے اور انسان نہایت درجہ ظلمت اور معصیت اور آلودگی کے گڑھے میں ہے اور بوجہ فقدان مناسبت اور مشابہت عام طبقہ انسانی گروہ کا اس لائق نہیں کہ وہ براہ راست خدا تعالی سے فیض پا کر مرتبہ نجات کا حاصل کر لیں.پس اس لئے حکمت اور رحمت الہی نے یہ تقاضا فرمایا کہ نوع انسان اور اس میں بعض افراد کاملہ جواپنی فطرت میں ایک خاص فضیلت رکھتے ہوں درمیانی واسطہ ہوں اور وہ اس قسم کے انسان ہوں جن کی فطرت نے کچھ حصہ صفات لا ہوتی سے لیا ہو اور کچھ حصہ صفات ناسوتی سے تا باعث لاہوتی مناسبت کے خدا سے فیض حاصل کریں.اور باعث ناسوتی مناسبت کے اس فیض کو جو اوپر سے لیا ہے نیچے کو یعنی بنی نوع کو پہنچاویں اور یہ کہنا واقعی صحیح ہے کہ اس قسم کے انسان بوجہ زیادت کمال لا ہوتی اور ناسوتی کے دوسرے انسانوں سے ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں گویا یہ ایک مخلوق ہی الگ ہے کیونکہ جس قدر ان لوگوں کو
۴۲۱ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے جلال اور عظمت ظاہر کرنے کے لئے جوش دیا جاتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں وفاداری کا مادہ بھرا جاتا ہے اور پھر جس قدر بنی نوع کی ہمدردی کا جوش ان کو عطا کیا جاتا ہے، وہ ایک ایسا امرفوق العادت ہے جو دوسرے کے لئے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے.ہاں ! یہ بھی یا در رکھنے کے لائق ہے کہ یہ تمام اشخاص ایک مرتبہ پر نہیں ہوتے بلکہ ان فطرتی فضائل میں کوئی اعلیٰ درجہ پر ہے کوئی اس سے کم اور کوئی اس سے کم.اور ایک سلیم العقل کا پاک کا نشنس سمجھ سکتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ کوئی بناوٹی اور مصنوعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خدا کے مقرر کردہ انتظام میں ابتدا سے اس کی نظیریں موجود ہیں اور قانونِ قدرت میں اس کی شہادتیں صریح طور پرماتی ہیں.اب شفاعت کی فلاسفی یوں سمجھنی چاہئے کہ شفع لغت میں جفت کو کہتے ہیں پس شفاعت کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ضروری امر جو شفیع کی صفات میں سے ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کو دوطرفہ اتحاد حاصل ہو یعنی ایک طرف اس کے نفس کو خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو ایسا کہ گویا وہ کمال اتحاد کے سبب حضرت احدیت کے لئے بطور جفت اور پیوند کے ہو اور دوسری طرف اس کو مخلوق سے بھی شدید تعلق ہو گویا وہ ان کے اعضا کی ایک جز ہو.پس شفاعت کا اثر مترتب ہونے کے لئے در حقیقت یہی دو جز ہیں جن پر ترتب اثر موقوف ہے.یہی راز ہے جو حکمتِ الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتدا سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیئے یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا: فَإِذَا سَوَيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ( الحجر :٣٠) یعنی جب میں آدم کو ٹھیک ٹھیک بنالوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو! اسی وقت تم سجدہ میں گر جاؤ.اس مذکورہ بالا آیت سے صا ف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتاً خدا سے تعلق پیدا ہو جائے ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود، آدم کی ہڈی میں سے بڑی اور گوشت میں سے گوشت ہو گا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی پس اس لئے آدم طبعی طور پر ان کا شفیع ٹھہرے گا.کیونکہ باعث نفخ روح جو راستبازی آدم کی فطرت کو دی گئی ہے ضرور ہے کہ اس کی راست بازی کا کچھ حصہ اس شخص کو بھی ملے جو اس میں سے نکلا ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ ہر ایک جانور کا بچہ اس کی صفات اور افعال میں سے حصہ لیتا ہے اور دراصل شفاعت کی حقیقت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة البقرة بھی یہی ہے کہ فطرتی وارث اپنے مورث سے حصہ لے کیونکہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ شفاعت کا لفظ شفع کے لفظ سے نکلا ہے جو زوج کو کہتے ہیں.پس جو شخص فطرتی طور پر ایک دوسرے شخص کا زَوج ٹھہر جائے گا ضرور اس کی صفات میں سے حصہ لے گا.اسی اصول پر تمام سلسلہ خلقی تو ارث کا جاری ہے یعنی انسان کا بچہ انسانی قویٰ میں سے حصہ لیتا ہے اور گھوڑے کا بچہ گھوڑے کے قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور بکری کا بچہ بکری کے قوی میں سے حصہ لیتا ہے اور اسی وارشت کا نام دوسرے لفظوں میں شفاعت سے فیضیاب ہونا ہے کیونکہ جبکہ شفاعت کی اصل شفع یعنی زوج ہے.پس تمام مدار شفاعت سے فیض اٹھانے کا اس بات پر ہے کہ جس شخص کی شفاعت سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اُس سے فطرتی تعلق اُس کو حاصل ہو، تا جو کچھ اُس کی فطرت کو دیا گیا ہے اس کی فطرت کو بھی وہی ملے یہ تعلق جیسا کہ وہی طور پر انسانی فطرت میں موجود ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ایک جز ہے ایسا ہی کسی طور پر بھی یہ تعلق زیادت پذیر ہے یعنی جب ایک انسان یہ چاہتا ہے کہ جو فطرتی محبت اور فطرتی ہمدردی بنی نوع کی اس میں موجود ہے اس میں زیادت ہو تو اس میں بقدر دائرہ فطرت اور مناسبت کے زیادت بھی ہو جاتی ہے اسی بنا پر قوت عشقی کا تموج بھی ہے کہ ایک شخص ایک شخص سے اس قدر محبت بڑھاتا ہے کہ بغیر اس کے دیکھنے کے آرام نہیں کر سکتا.آخر اس کی شدت محبت اس دوسرے شخص کے دل پر بھی اثر کرتی ہے اور جو شخص انتہا درجہ پر کسی سے محبت کرتا ہے وہی شخص کامل طور پر اور سچے طور پر اس کی بھلائی کو بھی چاہتا ہے چنانچہ یہ امر بچوں کی نسبت ان کی ماؤں کی طرف سے مشہود اور محسوس ہے.پس اصل جڑ شفاعت کی یہی محبت ہے جب اس کے ساتھ فطرتی تعلق بھی ہو کیونکہ بجز فطرتی تعلق کے محبت کا کمال جو شرط شفاعت ہے غیر ممکن ہے اس تعلق کو انسانی فطرت میں داخل کرنے کے لئے خدا نے حوا کو علیحدہ پیدا نہ کیا بلکہ آدم کی پہلی سے ہی اس کو نکالا.جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے: وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا (النساء:۲) یعنی آدم کے وجود میں سے ہی ہم نے اس کا جوڑا پیدا کیا جو حوا ہے.تا آدم کا یہ تعلق حوا اور اس کی اولاد سے طبعی ہو نہ بناوٹی.اور یہ اس لئے کیا کہ تا آدم زادوں کے تعلق اور ہمدردی کو بقا ہو کیونکہ طبعی تعلقات غیر منفک ہوتے ہیں مگر غیر طبعی تعلقات کے لئے بقا نہیں ہے کیونکہ ان میں وہ باہمی کشش نہیں ہے جو طبعی میں ہوتی ہے.غرض خدا نے اس طرح پر دونوں قسم کے تعلق جو آدم کے لئے خدا سے اور بنی نوع سے ہونے چاہئے تھے طبعی طور پر پیدا کئے پس اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ کامل انسان جو اور شفیع ہونے کے لائق ہو، وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے کامل حصہ لیا ہو اور کوئی شخص بجز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ سورة البقرة ان ہر دو قسم کے کمال کے ، انسان کامل نہیں ہو سکتا.اسی لئے آدم کے بعد یہی سنت اللہ ایسے طرح پر جاری ہوئی کہ کامل انسان کے لئے جو شفیع ہو سکتا ہے یہ دونوں تعلق ضروری ٹھہرائے گئے یعنی ایک یہ تعلق کہ ان میں آسمانی روح پھونکی گئی اور خدا نے ایسا ان سے اتصال کیا کہ گویا ان میں اتر آیا اور دوسرے یہ کہ بنی نوع کی زوجیت کا وہ جوڑ جو حوا اور آدم میں باہمی محبت اور ہمدردی کے ساتھ مستحکم کیا گیا تھا ان میں سب سے زیادہ چمکایا گیا.اسی تحریک سے ان کو بیویوں کی طرف بھی رغبت ہوئی اور یہی ایک اوّل علامت اس بات کی ہے کہ ان میں بنی نوع کی ہمدردی کا مادہ ہے اور اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں کہ : خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ بِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے سب سے زیادہ بنی نوع کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے.پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا اور یا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اس میں مفقود ہے.اس لئے اگر عصمت اس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی بیویاں آتی ہیں اور بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کی اس عادت کا دائرہ وسیع ہو کر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے لیکن جو لوگ جو گیوں کی طرح نشو نما پاتے ہیں ان کو اس عادت کے وسیع کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا.اس لئے ان کے دل سخت اور خشک رہ جاتے ہیں.اور عصمت کو شفاعت سے کوئی حقیقی تعلق نہیں کیونکہ عصمت کا مفہوم صرف اس حد تک ہے کہ انسان گناہ سے بچے اور گناہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کوعمداً تو ڑ کر لائق سز اٹھہرے.پس صاف ظاہر ہے کہ عصمت اور شفاعت میں کوئی تلازم ذاتی نہیں کیونکہ تعریف مذکورہ بالا کے رو سے نابالغ بچے اور پیدائشی مجنوں بھی معصوم ہیں وجہ یہ کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ کوئی گناہ عمد ا کریں اور نہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی فعل کے ارتکاب سے قابل سز ا ٹھہرتے ہیں.پس بلا شبہ وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو معصوم کہا جائے مگر کیا وہ یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ وہ انسانوں کے شفیع ہوں اور میچی کہلائیں پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ میجی ہونے اور
۴۲۴ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام معصوم ہونے میں کوئی حقیقی رشتہ نہیں اور ہر گز عقل سمجھ نہیں سکتی کہ عصمت کو شفاعت سے کوئی حقیقی تعلق ہے.ہاں ! عقل اس بات کو خوب سمجھتی ہے کہ شفیع کے لئے یہ ضروری ہے کہ مذکورہ بالا دو قسم کے تعلق اس میں پائے جائیں اور عقل بلاتر در یہ حکم کرتی ہے کہ اگر کسی انسان میں یہ دو صفتیں موجود ہوں کہ ایک خدا سے تعلق شدید ہوا اور دوسری طرف مخلوق سے بھی محبت اور ہمدردی کا تعلق ہو تو بلا شبہ ایسا شخص ان لوگوں کے لئے جنہوں نے عمداً اُس سے تعلق نہیں توڑا، دلی جوش سے شفاعت کرے گا اور وہ شفاعت اس کی منظور کی جائے گی کیونکہ جس شخص کی فطرت کو یہ دو تعلق عطا کئے گئے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہی کہ وہ خدا کی محبت تامہ کی وجہ سے اس فیض کو کھینچے اور پھر مخلوق کی محبت تامہ کی وجہ سے وہ فیض ان تک پہنچا دے اور یہی وہ کیفیت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں.شخص شفیع کے لئے جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے ضروری ہے کہ خدا سے اس کو ایک ایسا گہرا تعلق ہو کہ گویا خدا اس کے دل میں اترا ہوا ہو اور اس کی تمام انسانیت مرکز بال بال میں لاہوتی تحلی پیدا ہوگئی ہو اور اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر خدا کی طرف بہ نکلی ہو اور اس طرح پر الہی قرب کے انتہائی نقطہ پر جا پہنچی ہو.اور اسی طرح شفیع کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کے لئے وہ شفاعت کرنا چاہتا ہے اس کی ہمدردی میں اس کا دل اُڑا جاتا ہو ایسا کہ گویا عنقریب اس پر غشی طاری ہوگی اور گو یا شدت قلق سے اس کے اعضا اس سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں اور اس کے حواس منتشر ہیں اور اس کی ہمدردی نے اس کو اس مقام تک پہنچایا ہو کہ جو باپ سے بڑھ کر اور ماں سے بڑھ کر اور ہر ایک غمخوار سے بڑھ کر ہے پس جبکہ یہ دونوں حالتیں اس میں پیدا ہو جائیں گی تو وہ ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ ایک طرف سے لا ہوت کے مقام سے مفت ہے اور دوسری طرف ناسوت کے مقام سے جفت تب دونوں پلہ میز ان کے اس میں مساوی ہوں گے.یعنی وہ مظہر لاہوت کامل بھی ہو گا اور مظہر ناسُوت کامل بھی اور بطور برزخ دونوں لاہوت شفع ناسوت نقطه برزخ مقام مشفع حالتوں میں واقع ہوگا.اس طرح پر....اسی مقام شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شفیع ہونے کی (1..9: شان میں فرمایا ہے: دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ ادنى (النجم : ۱۰۰۹) یعنی یہ رسول خدا کی طرف چڑھا اور جہاں تک امکان میں ہے خدا سے نزدیک ہوا اور قرب کے تمام کمالات کو طے کیا اور لاہوتی مقام سے پورا حصہ لیا اور پھر نا سوت کی طرف کامل رجوع کیا یعنی عبودیت کے انتہائی نقطہ تک اپنے تئیں پہنچایا اور بشریت کے پاک لوازم یعنی بنی نوع کی ہمدردی اور محبت سے جو نا سوتی کمال کہلاتا ہے پورا حصہ لیا لہذا ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۵ سورة البقرة طرف خدا کی محبت میں اور دوسری طرف بنی نوع کی محبت میں کمال تام تک پہنچا.پس چونکہ وہ کامل طور پر خدا سے قریب ہوا اور پھر کامل طور پر بنی نوع سے قریب ہوا اس لئے دونوں طرف کے مساوی قرب کی وجہ سے ایسا ہو گیا جیسا کہ دوقوسوں میں ایک خط ہوتا ہے لہذا وہ شرط جو شفاعت کے لئے ضروری ہے اس میں پائی گئی ا اور خدا نے اپنے کلام میں اس کے لئے گواہی دی کہ وہ اپنے بنی نوع میں اور اپنے خدا میں ایسے طور سے درمیان ہے جیسا کہ وتر دو قوسوں کے درمیان ہوتا ہے.( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ اصلحه ۲۵۵ تا ۲۶۴) ضرورت شفاعت ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی شخص یہ سوال بھی پیش کرے کہ انسان کو شفاعت کی کیوں ضرورت ہے اور کیوں جائز نہیں کہ ایک شخص براہ راست تو بہ اور استغفار کر کے خدا سے معافی حاصل کر لے؟ اس سوال کا جواب قانونِ قدرت خود دیتا ہے کیونکہ یہ بات مسلّم ہے اور کسی کو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ انسان بلکہ تمام حیوانات کی نسل کا سلسلہ شفاعت پر ہی چل رہا ہے کیونکہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ شفاعت کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی بجفت ہے پس اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ تمام برکات تناسل شفع سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں.ایک انسان کے اخلاق اور قوت اور صورت دوسرے انسان میں اسی ذریعہ سے آجاتے ہیں یعنی وہ ایک جوڑ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ایسا ہی ایک حیوان جو دوسرے سے پیدا ہوتا ہے مثلاً بکری، بیل، گدھا وغیرہ وہ تمام قومی جو ایک حیوان سے دوسرے حیوان میں منتقل ہوتے ہیں وہ بھی درحقیقت ایک جوڑ کا ہی نتیجہ ہوتا ہے.پس یہی جوڑ جب ان معنوں سے لیا جاتا ہے کہ ایک ناقص ایک کامل سے روحانی تعلق پیدا کر کے اس کی روح سے اپنی کمزوری کا علاج پاتا ہے اور نفسانی جذبات سے محفوظ رہتا ہے تو اس جوڑ کا نام شفاعت ہے.جیسا کہ چاند سورج کے مقابل ہو کر ایک قسم کا اتحاد اور جوڑ اس سے حاصل کرتا ہے تو معاً اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو آفتاب میں ہے اور چونکہ اس روحانی جوڑ کو جو پُر محبت دلوں کو انبیاء کے ساتھ حاصل ہوتا ہے اس جسمانی جوڑ سے ایک مناسبت ہے جو زید کو مثلاً اپنے باپ سے ہے اس لئے یہ روحانی فیضیاب بھی خدا کے نزدیک اولاد کہلاتی ہے اور اس تولد کو کامل طور پر حاصل کرنے والے وہی نقوش اور اخلاق اور برکات حاصل کر لیتے ہیں جو نبیوں میں موجود ہوتے ہیں پس در اصل یہی حقیقت شفاعت ہے اور جس طرح جسمانی شفع یعنی جوڑ کا یہ لازمہ ذاتی ہے کہ اولا د مناسب حال اس شخص کے ہوتی ہے جس سے یہ جوڑ کیا گیا ہے ایسا ہی روحانی شفع کا بھی خاصہ ہے.غرض یہی حقیقت شفاعت ہے کہ خدا کا قانون قدرت جسمانی اور روحانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ سورة البقرة اس طرح پر قدیم سے واقع ہے کہ تمام برکات جوڑ سے ہی پیدا ہوتی ہیں صرف یہ فرق ہے کہ ایک قسم کو شفع کہا گیا ہے اور دوسری قسم کا نام شفاعت رکھا گیا اور انسان کو جس طرح کہ سلسلہ تناسل کے محفوظ رکھنے کے لئے شفع کی ضرورت ہے ایسا ہی روحانیت کا سلسلہ باقی رکھنے کے لئے شفاعت کی ضرورت ہے اور خدا کے کلام نے دونوں قسموں کو بیان فرما دیا ہے.جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالی قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے کہ خدا نے آدم کو جوڑا پیدا کیا اور پھر اس جوڑا سے بہت سی مخلوق مرد اور عورت پیدا کئے اور ایسا ہی فرماتا ہے کہ خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ پیدا کیا جو آدم تھا جس میں خدائی روح تھی پھر وہ نور آدم سے دوسرے نبیوں میں منتقل ہوتا گیا اور ابراہیم اور اسحاق اور اسماعیل اور یعقوب اور موسیٰ اور داؤد اور عیسی وغیرہ سب اس نور کے وارث ہوئے یہاں تک کہ آخری وارث ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں ان تمام پاک نبیوں نے جیسا کہ آدم سے وراثت میں جسمانی نقوش پائے ایسا ہی بحیثیت خلیفہ ہو نے آدم کے اُس سے خدائی روح بھی پایا پھر ان کے ذریعہ سے وقتا فوقتا اور لوگ بھی وارث ہوتے گئے.( عصمت انبیا علیہم السلام ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۷۸ تا ۶۸۰) آخرت کا شفیع وہ ثابت ہو سکتا ہے جس نے دنیا میں شفاعت کا کوئی نمونہ دکھلایا ہو.سو اس معیار کو آگے رکھ کر جب ہم موسیٰ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ بھی شفیع ثابت ہوتا ہے کیونکہ بارہا اس نے اترتا ہوا عذاب دُعا سے ٹال دیا.اس کی توریت گواہ ہے اسی طرح جب ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کا شفیع ہونا اجلی بدیہیات معلوم ہوتا ہے کیونکہ آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ آپ نے غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا اور آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشو و نما پایا تھا ایسے موحد ہو گئے جن کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر آپ کی شفاعت کا ہی اثر ہے کہ اب تک آپ کی پیروی کرنے والے خدا کا سچا الہام پاتے ہیں خدا ان سے ہم کلام ہوتا ہے مگر مسیح ابن مریم میں یہ تمام ثبوت کیوں کر اور کہاں سے مل سکتے ہیں.ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر اس سے بڑھ کر اور زبردست شہادت کیا ہوگی کہ ہم اس جناب کے واسطے سے جو کچھ خدا سے پاتے ہیں ہمارے دشمن وہ نہیں پاسکتے اگر ہمارے مخالف اس امتحان کی طرف آویں تو چند روز میں فیصلہ ہوسکتا ہے.( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷۰۰،۶۹۹) تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۳)
۴۲۷ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو شخص مجھ سے سچی بیعت کرتا ہے اور بچے دل سے میرا پیر و بنتا ہے اور میری اطاعت میں محو ہو کر اپنے تمام ارادوں کو چھوڑتا ہے وہی ہے جو ان آفتوں کے دنوں میں میری رُوح اُس کی شفاعت کرے گی.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵،۱۴) وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِیمُ یعنی خدا کی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ اُن سب کو اٹھائے ہوئے ہے.ان کے اٹھانے سے وہ چھکتا نہیں ہے اور وہ نہایت بلند ہے کوئی عقل اس کی گنہ تک پہنچ نہیں سکتی اور نہایت بڑا ہے اس کی عظمت کے آگے سب چیزیں بیچ ہیں.یہ ہے ذکر کرسی کا اور یہ محض ایک استعارہ ہے جس سے یہ جتلا نا منظور ہے کہ زمین و آسمان سب خدا کے تصرف میں ہیں اور ان سب سے اس کا مقام دور تر ہے اور اس کی عظمت نا پیدا کنار ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۸ حاشیه ) وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ وہ نہایت بزرگ اور صاحب عظمت ہے.(ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۲۲۱) من لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا ۖ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ یعنی یہ دین کوئی بات جبر سے منوانا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک بات کے دلائل پیش کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۳) پس نواب صدیق حسن خان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ مہدی کے زمانہ میں جبر کر کے لوگوں کو مسلمان کیا جائے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : لا إِكْرَاةَ في التانِ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے ہاں ! عیسائی لوگ ایک زمانہ میں جبر آلوگوں کو عیسائی بناتے تھے مگر اسلام جب سے ظاہر ہوا وہ جبر کے مخالف ہے.جبران لوگوں کا کام ہے جن کے پاس آسمانی نشان نہیں مگر اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے.کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات اُن کے مرنے کے ساتھ ہی مرگئے مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں.مگر کہاں ہیں وہ پادری یا یہودی یا اور قومیں جوان نشانوں کے مقابل پرنشان دکھلا سکتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۲۸ سورة البقرة ہیں؟ ہر گز نہیں ! ہرگز نہیں !! ہر گز نہیں !! اگر چہ کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ، ایک نشان بھی دکھلا نہیں سکتے.کیونکہ ان کے مصنوعی خدا ہیں، بچے خدا کے وہ پیر نہیں ہیں.اسلام معجزات کا سمندر ہے اس نے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ اس کو جبر کی کچھ ضرورت ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲ ۲ صفحه ۴۶۹،۴۶۸ ) ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے: لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ اور جیسا کہ فرماتا ہے: آفَانتَ تُكْرِهُ النَّاسَ (یونس : ١٠٠) - ( مجموعہ اشتہارات ،جلد دوم صفحه ۲۱۹) اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا.اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تریمر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعتِ معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہو جائیں گے.کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب ، قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ : لا اکراہ فی الذین یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں.کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو.ہاں! جب دشمنوں کی بدی حد سے گذرگئی اور دین اسلام کے مٹادینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الہی نے تقاضا کیا کہ جولوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی.اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر بچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے.لیکن ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں.یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان سے صدق اور وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس وفادار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفاداری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی
۴۲۹ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آسکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو.غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں ؛ (۱) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری، (۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون ، (۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے.کیونکہ مکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے.(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۲،۱۱) قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا.ا (ستاره قیصریه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۲۱٬۱۲۰) تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دُنیا میں پھیلا ہے.پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۷ حاشیه ) یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانہ کے نیم مثلا فی الفور کہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اُٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں.مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہوگی کہ یہ جبر اور تعری کا الزام اُس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے که: لا إكراه في التانينِ یعنی دین میں جبر نہیں چاہیئے بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملہ سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے اور جولوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۵۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۳۰ سورة البقرة لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین کو جبر سے شائع نہیں کرنا چاہیے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۹) جس کتاب میں یہ آیت اب تک موجود ہے کہ : لا إكراه في الدِّينِ یعنی دین کے معاملہ میں زبر دستی نہیں کرنی چاہئے.کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے؟ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۲) جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبر مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے.قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے؟ بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے : لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین میں جبر نہیں ہے پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیوں کر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے جزیہ بھی قبول نہ کرے گا یہ تعلیم قرآن شریف کی کس مقام اور کس سیپارہ اور کس سورہ میں ہے؟ سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبراً شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سزا تھیں یعنی اُن لوگوں کو سزادینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ (الحج: ٢٠) یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے.اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبرا روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی پھر یہ عیسی مسیح اور مہدی صاحب کیسے ہوں گے جو آتے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ کسی اہل کتاب سے بھی جز یہ قبول نہیں کریں گے اور آیت : حقی يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَغِرُونَ ( القوية : ٢٩) کو بھی منسوخ کر دیں گے یہ دین اسلام کے کیسے حامی
۴۳۱ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے کہ آتے ہی قرآن کی ان آیتوں کو بھی منسوخ کر دیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اس قدر انقلاب سے پھر بھی ختم نبوت میں حرج نہیں آئے گا.اس زمانہ میں جو تیرہ سو برس عہد نبوت کو گزر گئے اور خود اسلام اندرونی طور پر تہتر فرقوں پر پھیل گیا.بچے مسیح کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ دلائل کے ساتھ دلوں پر فتح پاوے نہ تلوار کے ساتھ اور صلیبی عقیدہ کو واقعی اور سچے ثبوت کے ساتھ توڑ دے نہ یہ کہ اُن صلیوں کو توڑتا پھرے جو چاندی یا سونے یا پیتل یا لکڑی سے بنائی جاتی ہیں.اگر تم جبر کرو گے تو تمہارا جبر اس بات پر کافی دلیل ہے کہ تمہارے پاس اپنی سچائی پر کوئی دلیل نہیں، ہر یک نادان اور ظالم طبع جب دلیل سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر تلوار یا بندوق کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے مگر ایسا مذہب ہر گز ! ہر گز ! خدا تعالی کی طرف سے نہیں ہو سکتا جو صرف تلوار کے سہارے سے پھیل سکتا ہے نہ کسی اور طریق سے.اگر تم ایسے جہاد سے باز نہیں آسکتے اور اس پر غصہ میں آکر راستبازوں کا نام بھی دجال اور ملحد رکھتے ہو تو ہم ان دو فقروں پر اس تقریر کو ختم کرتے ہیں: قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ لا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (الكافرون : ۳۰۲) اندرونی تفرقہ اور پھوٹ کے زمانہ میں تمہارا فرضی مسیح اور فرضی مہدی کس کس پر تلوار چلائے گا ؟ کیا سنیوں کے نزدیک شیعہ اس لائق نہیں کہ اُن پر تلوار اُٹھائی جائے ؟ اور شیعوں کے نزدیک سنتی اس لائق نہیں کہ ان سب کو تلوار سے نیست و نابود کیا جاوے؟ پس جب کہ تمہارے اندرونی فرقے ہی تمہارے عقیدہ کی رو سے مستوجب سزا ہیں تو تم کس کس سے جہاد کرو گے؟ مگر یاد رکھو کہ خدا تلوار کا محتاج نہیں وہ اپنے دین کو آسمانی نشانوں کے ساتھ زمین پر پھیلائے گا اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۳ تا ۷۶ ) اگر کہو کہ عربوں کے لئے یہی حکم تھا کہ جبراً مسلمان کئے جائیں، یہ خیال قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ تمام عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا پہنچایا تھا اور بہت سے صحابہ مردوں اور عورتوں کو قتل کر دیا تھا اور بقیہ السیف کو وطن سے نکال دیا تھا اس لئے وہ تمام لوگ جو مرتکب جرم قتل یا معین اس جرم کے تھے وہ سب خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنی خونریزی کے عوض میں خونریزی کے لائق ہو چکے تھے ان کی نسبت بطور قصاص اصل حکم قتل کا تھا مگر ارحم الراحمین کی طرف سے یہ رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے مسلمان ہو جائے تو اُس کا گزشتہ جرم جس کی وجہ سے وہ قابل سزائے موت ہے بخش دیا جائے گا.پس کہاں یہ صورت رحم اور کہاں جبر.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۴ حاشیہ) یعنی دین میں جبر نہیں چاہئے.( مجموعہ اشتہارات، جلد اصفحه ۴۶۰ حاشیه)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۲ سورة البقرة یعنی دین کو جبر سے شائع نہیں کرنا چاہیئے.( مجموعہ اشتہارات، جلد دوم صفحہ ۴۶۸) يَقُولُونَ لَا إِكْرَاةَ في الدِّينِ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے دین میں وَيَقْرَؤُونَ هَذِهِ الْآيَةَ في الكِتاب جبر و اکراہ نہیں ہے اور آیت لا اکراه في الدِّينِ کو الْمُبِينِ، ثُمَّ يَقُولُونَ قَوْلًا خَالَفَ قرآن مجید میں پڑھتے ہیں پھر بھی اس قول کی مخالفت کرتے ذَالِكَ وَيُصِرُوْنَ عَلَى أَنَّ مَهْدِيَهُمْ ہیں بلکہ اصرار کرتے ہیں کہ مہدی تلوار لے کر نکلیں گے اور يَخرُجُ بِالْحُسَامِ، وَلَا يُقْبَلُ إِلَّا جنگ کریں گے حتی کہ اسلام کے سوا کوئی اور چیز قبول نہیں کریں گے اور عدم قبول اسلام کی صورت میں سب کو تہ تیغ الْإِسْلَام ( مواهب الرحمن، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۰۳٬۳۰۲) کریں گے.( ترجمہ از مرتب ) ، یہ بات نہایت صاف اور سریع الفہم ہے کہ وہ کتاب جو حقیقت میں کتاب الہی ہے وہ انسانوں کی طبیعتوں پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتی اور ایسے امور مخالف عقل پیش نہیں کرتی جن کا قبول کرنا اکراہ اور جبر میں داخل ہو کیونکہ کوئی عقل صحیح تجویز نہیں کر سکتی جو دین میں اکراہ اور جبر جائز ہو اسی واسطے اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں فرمایا : لا إكراه في الدِّينِ - ( نور القرآن اوّل، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۲،۳۳۱) یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے.تحقیق ! ہدایت اور گمراہی میں کھلا کھلا فرق ظاہر ہو گیا ہے پھر جبر کی کیا حاجت ہے؟ تعجب ! کہ باوجود یکہ قرآن شریف میں اس قدر تصریح سے بیان فرمایا ہے کہ دین کے بارے میں جبر نہیں کرنا چاہئے پھر بھی جن کے دل بغض اور دشمنی سے سیاہ ہو رہے ہیں ناحق خدا کے کلام پر جبر کا الزام دیتے ہیں.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۲، ۲۳۳) میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے: لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں.تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا اور جبر کے کون سے سامان تھے ؟ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں اُن کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کردیں اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اُٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہر ایک قسم کی صعوبت اُٹھا کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض
۴۳۳ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوت اسلام کریں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ اُن کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لا إِلهَ إِلَّا الله کی آواز پہنچادیں؟ تم ایمانا کہو! کہ کیا یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟ نہیں! بلکہ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے (پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۹،۴۶۸) دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے.قرآن شریف میں ہرگز ہرگز جبر کی تعلیم نہیں ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۲) یا درکھو! مہدی کی نسبت جو حدیثیں ہیں جن میں لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا اور خونریزی کرے گا.ان کی نسبت خودان مولویوں نے لکھ دیا ہے کہ بہت سی حدیثیں ان میں موضوع ہیں اور قریباً سب کی سب مجروح ہیں.ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کہ مہدی آئے گا تو خون کرتا پھرے گا وہ دین کیا ہوا جس میں سوائے جنگ اور جدال کے اور کچھ نہ ہو.جہاد کے مسئلہ کو بھی ان ناواقفوں نے نہیں سمجھا.قرآن شریف تو کہتا ہے : لا اكراة في الدين تو کیا اگر مہدی آکر لڑائیاں کرے گا تو اِکرَاهَ فِي الدِّینِ جائز ہوگا اور قرآن شریف کے اس حکم کی بے حرمتی ہوگی.اُس کے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ وہ اسلام کو زندہ کرے یا یہ کہ اس کی تو ہین کرے.اگر دین میں لڑائیاں ہی ضروری ہوتی ہیں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ برس تک مکہ میں رہ کر کیوں نہ لڑے؟ ہر قسم کی تکلیف اُٹھاتے رہے اور پھر بھی آپ نے ابتداء نہیں کی اور ہمارا مذہب ہے کہ جبراً مسلمان ہر اور کرنے کے واسطے لڑائیاں ہر گز نہیں کی ہیں بلکہ وہ لڑائیاں خدا تعالیٰ کا ایک عذاب تھا اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے آپ کو سخت تکالیف دی تھیں اور مسلمانوں کا تعاقب کیا اور اُن کو تنگ کیا تھا.پس یہ ہر گز صحیح نہیں ہے کہ اسلام تلوار دکھاتا ہے، اسلام تو قرآن اور ہدایت پیش کرتا ہے.وہ مسلح اور امن لے کر آیا ہے اور دنیا میں کوئی ایسا مذ ہب نہیں جو اسلام کی طرح صلح پھیلاتا ہو.پس یہ غلط ہے کہ مہدی جنگ کرے گا ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں.بھلا اگر تلوار مار کر لوگوں کو ہلاک کر دیا اور اُن کے املاک لوٹ لئے تو اس سے فائدہ کیا ہوا؟ جس مہدی ہونے کا ہمارا دعویٰ ہے یہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے جیسے موسوی سلسلہ مسیح پر آ کر ختم ہوا اسی طرح خدا تعالیٰ نے ایک خاص مناسبت کی وجہ سے اس سلسلہ کو بھی ایک محمدی صحیح پر ختم کیا ہے اور مہدی نام اس کا اس لئے رکھا ہے کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے ہدایت پائے گا اور ایسے وقت میں آئے گا جبکہ دنیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۴ سورة البقرة سے نو ر و ہدایت اُٹھ گئے ہوں گے.پھر ایک لطیف تر بات ان دونوں سلسلوں کی مماثلت میں یہ ہے کہ جیسے مسیح موسوی موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی) میں آیا تھا یہاں بھی مسیح محمدی کی بعثت کا زمانہ چودھویں ہی صدی ہے اور جیسے مسیح موسوی یہودیوں کی سلطنت نہیں بلکہ رومیوں کی سلطنت میں پیدا ہوا تھا اسی طرح محمدی مسیح بھی مسلمانوں کی سلطنت میں نہیں بلکہ انگلش گورنمنٹ کی سلطنت میں پیدا ہوا ہے.غرض ہمارا ہر گز یہ مذہب نہیں ہے کہ مہدی آکر لڑائیاں کرتا پھرے گا اور خونریزی اُس کا کام ہوگا.احکام جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۸) میں سچ کہتا ہوں کہ اگر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ نہ پکڑ تا ساری قومیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں سزا پاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے تو یہاں تک بھی فرما دیا ہے کہ جولوگ قرآن سننے کے لئے آتے ہیں ان کو امن کی جگہ تک پہنچادیا جاوے خواہ وہ مخالف اور منکر ہی ہوں، اس لئے کہ اسلام میں جبر اور اکراہ نہیں جیسے فرمایا: لا إكراه في الدِّينِ - الحکم جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ / ا پریل ۱۹۰۲ صفحه ۴) وہ تمام لوگ آگاہ رہیں! جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے....انگلستان اور فرانس اور دیگر ممالک یورپ میں یہ الزام بڑی سختی سے اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ وہ جبر کے ساتھ پھیلا یا گیا ہے مگر افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام لا اکراہ فی الدین کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کیا وہ مذہب جو فتح پا کر بھی گرجے نہ گرانے کا حکم دیتا ہے کیا وہ جبر کر سکتا ہے؟ مگر اصل بات یہ ہے کہ ان ملانوں نے جو اسلام کے نادان دوست ہیں، یہ فساد ڈالا ہے.انہوں نے خود اسلام کی حقیقت کو سمجھا نہیں اور اپنے خیالی عقائد کی بنا پر دوسروں کو اعتراض کا موقعہ دیا.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخه ۳۰/اپریل ۱۹۰۲ء صفحه ۶) اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لئے کرتا ہے چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اس کے فتوحات دور دراز تک پہنچے اس لئے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا.حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے لا اکراه في الدايين يا اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے (کہ) اسلام جبر سے نہیں پھیلا اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو پیدا کیا اور اس کا کام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۵ سورة البقرة يضع الحرب رکھ کر دوسری طرف ليظهرة عَلَى الدِّينِ كُله (الصف : ۱۰) قرار دیا یعنی وہ اسلام کا غلبہ ملل با لکہ پر حجنت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ و جدال کو اُٹھا دے گا.وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳) اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنی ہے، اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہیں ہو سکتی.یہ اعتراض کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے تلوار اُٹھائی بالکل غلط ہے، تیرہ برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ صبر کرتے رہے پھر با وجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو.اور جو مشرک قو میں صلح اور امن کی خواست گار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے.جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح سے دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ پر لڑیں.ور نہ اگر تعصب ہوتا تو یہ حکم پہنچتا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ دین کی اشاعت کے واسطے جنگ کریں.لیکن ادھر حکم دیا کہ ( لا إكراه فی الدین یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ) اور ادھر جب غایت درجہ کی سختی اور ظلم مسلمانوں پر ہوئے تو پھر مقابلہ کا حکم دیا.البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۷۴ ) مذہبی امور میں آزادی ہونی چاہئے.اللہ تعالی فرماتا ہے: لا اكراه في الدِّينِ کہ دین میں کسی قسم کی زبر دستی نہیں ہے.اس قسم کا فقرہ انجیل میں کہیں بھی نہیں ہے.لڑائیوں کی اصل جڑھ کیا تھی ؟ اس کے سمجھنے میں ان لوگوں سے غلطی ہوئی ہے.اگر لڑائی کا ہی حکم تھا تو تیرہ برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو پھر ضائع ہی گئے کہ آپ نے آتے ہی تلوار نہ اُٹھائی، صرف لڑنے والوں کے ساتھ لڑائیوں کا حکم ہے.اسلام کا یہ اصول کبھی نہیں ہوا کہ خود ابتدائے جنگ کریں.لڑائی کا کیا سبب تھا اسے خود خدا نے بتلایا ہے کہ: ظلموا.خدا نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مظلوم ہیں تو اب اجازت دیتا ہے کہ تم بھی لڑو.یہ نہیں حکم دیا کہ اب وقت تلوار کا ہے تم زبردستی تلوار کے ذریعہ لوگوں کو مسلمان کرو.بلکہ یہ کہا کہ تم مظلوم ہو، اب مقابلہ کر و مظلوم کو تو ہر ایک قانون اجازت دیتا ہے کہ حفظ جان کے واسطے مقابلہ کرے.البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۲۳ و ۳۰/جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۳) یہ اعتراض کہ اگر جہاد اب جائز نہیں تو اسلام میں اول زمانہ میں کیوں تلوار سے کام لیا گیا ؟ یہ معترضین کی اپنی غلطی ہے جو باعث ناواقفیت پیدا ہوئی ہے.انہیں معلوم نہیں کہ اسلام دین کے پھیلانے کے لئے ہرگز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۶ سورة البقرة جبر کی اجازت نہیں دیتا.دیکھو کیسی ممانعت قرآن میں موجود ہے کہ فرماتا ہے کہ : لا إكراه في الدِّينِ یعنی دین میں جبر نہیں کرنا چاہئے.اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُلمتِ إِلَى النُّوْرِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا ( گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۳۱) لا اَولِيتْهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلمتِ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ) ۲۵۸) خدا مومنوں کا کارساز ہے ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے.( براہینِ احمد یہ چہار خصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴۸) اللہ دوست دار ہے ان لوگوں کا جوایمان لائے اور ان کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷) خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کوریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پرواہ ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ سمجھنا بجز یقین کے ہرگز ممکن نہیں.اب بتلاؤ، اے مسلمان کہلانے والو! کہ ظلمات شک سے نوریقین کی طرف تم کیونکر پانچ سکتے ہو؟ یقین کا ذریعہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّوْرِ کا مصداق ہے.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷۰) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت نیکیاں کرنے سے انسان ولی بنتا ہے.یہ نادانی ہے مومن کو تو خدا نے اول ہی ولی بنایا ہے.جیسے کہ فرمایا ہے : اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا - ( البدرجلد ۴ نمبر ۳ مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۰۵، صفحہ ۳) یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی ہوتا ہے اور انہیں ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا ۚ قَالَ أَنَّى يُحْي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ تَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرُ إِلى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ وَانْظُرُ إِلى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرُ إِلَى
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۳۷ سورة البقرة الْعِظَامِ كَيْفَ نُنَشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ اَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٦٠ عزیز کے فوت ہونے اور پھر سو برس کے بعد زندہ ہونے کی جنت جو پیش کی گئی ہے یہ محنت مخالف کے یہ لئے کچھ مفید نہیں ہے کیونکہ ہر گز بیان نہیں کیا گیا کہ عزیز کو زندہ کر کے پھر دنیا کے دارالہجوم میں بھیجا گیا تا یہ فساد لازم آوے کہ وہ بہشت سے نکالا گیا بلکہ اگر ان آیات کو اُن کے ظاہری معانی پر محمول کیا جاوے تو صرف یہ ثابت ہوگا کہ خدائے تعالیٰ کے کرشمہ قدرت نے ایک لمحہ کے لئے عزیز کو زندہ کر کے دکھلا دیا تا اپنی قدرت پر اس کو یقین دلا دے.مگر وہ دنیا میں آنا صرف عارضی تھا اور دراصل عزیز بہشت میں ہی موجود تھا.جانا چاہئے ! کہ تمام انبیاء اور صدیق مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور ایک نورانی جسم بھی انہیں عطا کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی بیداری میں راستبازوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے.پھر اگر عزیز کو خدائے تعالیٰ نے اسی طرح زندہ کر دیا ہو تو تعجب کیا ہے؟ لیکن اس زندگی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ زندہ ہو کر بہشت سے خارج کئے گئے یہ عجب طور کی نادانی ہے بلکہ اس زندگی سے تو بہشت کی تجلی زیادہ تر بڑھ جاتی ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۸،۲۸۷) قرآن اور حدیث دونوں بالاتفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مر گیا پھر دنیا میں ہر گز نہیں آئے گا اور قرآن کریم أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبیاء :۹۶) کہہ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے اُن کو رخصت کرتا ہے.اور قصہ عزیر وغیرہ جو قرآن کریم میں ہے اس بات کے مخالف نہیں کیونکہ لغت میں موت بمعنی کوم اور غشی بھی آیا ہے، دیکھو! قاموس.اور جو عزیز کے قصہ میں ہڈیوں پر گوشت چڑھانے کا ذکر ہے وہ حقیقت میں ایک الگ بیان ہے جس میں یہ جتلانا منظور ہے کہ رحم میں خدائے تعالیٰ ایک مُردہ کو زندہ کرتا ہے اور اس کی ہڈیوں پر گوشت چڑھا تا ہے اور پھر اس میں جان ڈالتا ہے، ماسوا اس کے کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ عزیز دوبارہ زندہ ہو کر پھر بھی فوت ہوا.پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عزیز کی زندگی دوم، دنیوی زندگی نہیں تھی ورنہ بعد اس کے ضرور کہیں اس کی موت کا بھی ذکر ہوتا.ایسا ہی قرآن کریم میں جو بعض لوگوں کی دوبارہ زندگی لکھی ہے وہ بھی دنیوی زندگی نہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۹) مسیح علیہ السلام کی وفات کے منکر اپنے دلائل میں حضرت عزیز کی زندگی کا سوال پیش کرتے ہیں کہ وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۸ سورة البقرة سو برس مرکز پھر زندہ ہوا.مگر یادر ہے کہ یہ احیاء بعد لامانت ہے.اور احیاء کی کئی قسمیں ہیں ؛ اول یہ کہ کوئی آدمی مرنے کے بعد ایسے طور پر زندہ ہو جاوے کہ قبر پھٹ جاوے اور وہ اپنا بور یا بدھنا، استر بستر وغیرہ اُٹھا کر دنیا میں آجاوے.دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ایک نئی زندگی بخشے جیسے اہل اللہ کو ایک دوسری زندگی دی جاتی ہے جس طرح پر ایک شخص نے خدا سے ڈر کر کہا تھا کہ میری راکھ اڑا دی جاوے اس پر خدا تعالیٰ نے اُس کو زندہ کیا یہ راکھ کا اکٹھا کرنا بھی ایک جسمانی زندگی تھی مرنے کے بعد جو زندگی ملتی ہے وہاں تو راکھ کا اکٹھا کرنا نہیں ہے..بعض آدمی حجتہ اللہ ، آیات اللہ کہلاتے ہیں، بعض وجود ہی نشان ہوتے ہیں، بعض کے مرنے کے بعد نشان قائم رہتے ہیں.یہ بیان کرنا ضروری تھا کہ اس اعتراض کا منشا کیا ہے؟ جس راہ کو ہم نے اختیار کیا ہے اس کے خلاف ہے.ہمارے مخالفوں کا مسیح کی نسبت تو یہ اعتقاد ہے کہ وہ زندہ ہی آسمان پر گئے اور زندہ ہی واپس آئیں گے.عزیر کے قصہ سے اس کو کیا تعلق اور کیا مشابہت ہے؟ یہ مشابہت تو تب ہوتی اگر معترض کا یہ مذہب ہوتا کہ مسیح علیہ السلام قبر پھٹ کر نکلیں گے.جبکہ اُن کا یہ مذہب ہی نہیں تو پھر تعجب کی بات ہے کہ اس قصہ کو جو قیاس مع الفارق ہے کیوں پیش کرتے ہیں....غرض اس سلسلہ میں یعنی مسیح کے قصہ میں عزیر کا قصہ داخل کرنا خلط مبحث ہے.ہمارا یہ مذہب ہے کہ عزیر کے قصہ کو مسیح کے آنے نہ آنے سے کچھ تعلق نہیں ہے.ہاں! اگر رنگ سوال اور ہو تو اور بات ہے یعنی عزیر کیوں کر زندہ ہوا؟ ہم اس قسم کی حیات کے منکر ہیں اور سارا قرآن اول سے آخر تک منکر ہے.اللہ تعالیٰ نے جو تجویز بندوں کے لئے رکھی ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کے فرشتوں اُس کی کتابوں وغیرہ پر ایمان رکھ کر خا تمہ اس طرح پر ہوتا ہے کہ فرشتہ ملک الموت آ کر قبض روح کر لیتا ہے اور پھر اور واقعات پیش آتے ہیں.منکر نکیر آتے ہیں، اعمال آتے ہیں، پھر کھڑ کی نکالی جاتی ہے.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ موتی قیامت ہی کو اُٹھیں گے : والموتى يَبْعَثُهُمُ اللهُ (الانعام : ۳۷) معالم میں لکھا ہے کہ رجوع موٹی نہیں ہوتا.قرآن کریم کے دو حصے ہیں.کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں.بہ حیثیت ہدایت جو پیش کرتا ہے اُس کا منشا ہے کہ مان لو جیسے فرمایا: أَنْ تَصُومُوا خير لكم (البقرة: ۱۸۵)....قصوں کے حقائق بتانے خدا تعالیٰ کو ضرور نہیں ، اُن پر ایمان لاؤ اور ان کی تفاسیر حوالہ بخدا کرو....ہمارے مخالفوں میں اگر دیانت اور خدا ترسی ہو تو عزیر کا قصہ بیان کرتے وقت ضرور ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۹ سورة البقرة کہ وہ اُن آیات کو بھی ساتھ رکھیں جس میں لکھا ہے کہ مردے واپس نہیں آتے.پھر ہم بطریق تنزل ایک اور جواب دیتے ہیں.اس بات کو ہم نے بیان کر دیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ قصوں کے لئے اجمالی ایمان کافی ہے ہدایات میں چونکہ عملی رنگ لانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اُس کا سمجھنا ضروری ہے ماسوا اس کے یہ جو لکھا ہے کہ سو برس تک مردہ رہے.امات کے معنے آنکھ بھی آئے ہیں اور قوت نامیہ اور حسیہ کے زوال پر بھی موت کا لفظ قرآن کریم میں بولا گیا ہے.بہر حال ہم سونے کے معنے بھی اصحاب کہف کے قصہ کی طرح کر سکتے ہیں اصحاب کہف اور عزیر کے قصہ میں فرق اتنا ہے کہ اصحاب کہف کے قصہ میں ایک کتا ہے اور یہاں گدھا ہے اور نفس، کتے اور گدھے دونوں سے مشابہت رکھتا ہے.خدا نے یہودیوں کو گدھا بنایا ہے اور کتے کو بلغم کے قصہ میں بیان فرمایا ہے معلوم ہوتا ہے کہ نفس پیچھا نہیں چھوڑتا جو بیہوش ہوتا ہے،اُس کے ساتھ یا کتا ہوگا یا گدھا.غرض دوسرے طریق پر جس کا ہم نے ذکر کیا ہے آمات کے معنے آنام کرتے ہیں اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ سو برس چھوڑ کر کوئی دو لاکھ برس تک سویا رہے، ہماری بحث یہ ہے کہ روح ملک الموت لے جاوے پھر واپس دنیا میں نہیں آتی سونے میں بھی قبض روح تو ہوتا ہے مگر اُس کو ملک الموت نہیں لے جاتا.اور عرصہ دراز تک سوئے رہنا ایک ایسا امر ہے کہ اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا.ہندووں کی کتابوں میں دم سادھنے (حبس دم کرنے ) کی ترکیبیں لکھی ہوئی ہیں اور جوگ ابھیاس کی منزلوں میں دم سادھنا بھی ہے.ابھی تھوڑ ا عرصہ گزرا ہے کہ اخبارات میں لکھا تھا کہ ریل کی سڑک تیار ہوتی تھی تو ایک سادھو کی کٹیا نکلی.ایسا ہی اخبارات میں ایک لڑکے کی ہیں سال تک سوئے رہنے کی خبر گشت کر رہی تھی.غرض یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ایک آدمی سو سال تک سویا رہے.پھر یہ لفظ لَمْ يَتَسَنَهُ قابل غور ہے اور موجودہ زمانہ کے تجربہ پر لحاظ کرنے کے بعد لَم يَتَسَنَّة کی حقیقت سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے، ایک ثقہ آدمی لکھتا ہے کہ میں نے گوشت کھایا ہے جو میری پیدائش سے ۳۰ برس پہلے کا پکا ہوا تھا.ہوا نکال کر بند کر لیا گیا تھا.اب ولایت یورپ اور امریکہ سے ہر روز ہزاروں لاکھوں بوتلوں میں لَمْ يَتَسَنَهُ ،کھانے پکے پکائے چلے آتے ہیں.لم يتسلہ کا اثر تو ہندوؤں کے جوگ پر پڑتا ہے اور آج کل کی علمی بلند پروازیوں کی حقیقت کھولتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے سے درج ہے.
۴۴۰ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اصل بات یہ ہے کہ جیسے ہوا کے ایک خاص اثر سے کھانا مر جاتا ہے اسی طرح انسان پر بھی اُس کا اثر ہوتا ہے.اب اگر خاص ترکیب سے کھانے کو اس ہوا کے اثر سے محفوظ رکھ کر زندہ رکھا جاتا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے.ممکن ہے کہ آئندہ کسی زمانہ میں یہ حقیقت بھی کھل جائے کہ انسان پر کھانے کی طرح عمل ہو سکتا ہے.یہ علوم ہیں ان کے ماننے سے کوئی حرج لازم نہیں آتا.آج کل کی تحقیقات اور علمی تجربوں نے ایسے موزے بنالئے ہیں کہ انسان ان کو پہن کر دریا پر چل سکتا ہے اور ایسے کوٹ ایجاد ہو گئے ہیں کہ آگ یا بندوق کی گولی اُن پر اپنا اثر نہیں کر سکتی.اسی طرح سے کفر يَتَسَنَة کی حقیقت جو قرآن کریم کے اندر مرکوز ہے علمی طور پر بھی ثابت ہو جاوے تو کیا تعجب ہے؟ ہوا کا اثر کھانے کو تباہ کرتا ہے اور انسان کے لئے بھی ہوا کا بڑا تعلق ہے.ہوا کے دو حصے ہیں ایک قسم کی ہوا اندر جاتی ہے تو اندر تازگی پیدا ہوتی ہے دوسری دم کے ساتھ باہر آتی ہے جو جلی ہوئی متعفن ہوا ہوتی ہے.غرض اگر لَمْ يَتَسَنَّهُ والی بات نکل آوے تو ہمارا تو کچھ بھی حرج نہیں بلکہ جس قدر علوم طبعی پھیلتے جاتے ہیں اور پھیلیں گے اُسی قدر قرآن کریم کی عظمت اور خوبی ظاہر ہوگی.ہم تو آئے دن دیکھتے ہیں کہ ولایت کے پکے ہوئے شور بے اور گوشت ہندوستان میں آتے ہیں اور بگڑتے نہیں.ولایتی ادویات ہزاروں میل سے آتی ہیں اور مہینوں برسوں پڑی رہتی ہیں خراب نہیں ہوتی ہیں.مجھے ایک شخص نے بتلایا کہ اگر انڈے کو سرسوں کے تیل میں رکھ چھوڑیں تو نہیں بگڑتا.اس طرح پر ممکن ہے کہ انسان کے شباب اور طاقتوں پر بھی اثر پڑے بعض مسلمانوں نے بھی دم سادھنے کی کوشش کی ہے.خود میرے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا کہ میں دن میں دو بار سانس لیتا ہوں.یہ عملی شہادت ہے کہ ہوا کو سٹرنے میں دخل ہے.اس قسم کی ہوا سے جب بچا یا جاوے تو انسان کی عمر بڑھ جاوے تو حرج کیا ہے.اور عمر کا بڑھنا مان لیں تو کیا حرج ہے؟ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر حکمتیں ایجاد ہوتی ہیں یا تو طبعی طور پر خدا نے قاعدہ رکھا ہوا ہے یا عناصر کے نظام میں بات رکھی ہوتی ہے.کوئی محقق دیکھ کر بات نکال لیتا ہے.ہم کو اس پر کوئی بحث نہیں ہے.ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبیعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے قرآن کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہوگی.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۶ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۱ تا ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۱ سورة البقرة وَاذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَ لَمْ تُؤْمِنُ قَالَ بَلَى وَ لكِنْ لِيَطْبِنَ قَلْبِي قَالَ فَخُذُ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعَيًّا وَاعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حكيمة.یا درکھنا چاہئے ! کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے، یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب بتلا رہے ہیں کہ انسان میں جمیع کا ئنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف کھینچ لے.فتدبر ولا تغفل! (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۶) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آپ سے بھی بڑھی ہوئی تھی.یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ ارشاد ہوا : أَوَلَمْ تُؤْمِن کیا تو اس پر ایمان نہیں لاتا ؟ اگر چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا جواب یہی دیا کہ بلی ہاں ! میں ایمان لاتا ہوں مگر اطمینانِ قلب چاہتا ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا سوال نہ کیا اور نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت پڑی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے ہی سے ایمان کے انتہائی مرتبہ اطمینان اور عرفان پر پہنچے ہوئے تھے.اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدینی رَبّى فَأَحْسَنَ ادبی تو یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی ایک خوبی اس سے پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا : أَوَلَمْ تُؤْمِن تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس پر ایمان نہیں رکھتا بلکہ یہ کہا کہ ایمان تو رکھتا ہوں مگر اطمینان چاہتا ہوں.پس جب ایک شخص ایک شرطی اقتراح پیش کرے اور پھر یہ کہے کہ میں اطمینانِ قلب چاہتا ہوں تو وہ اس سے استدلال نہیں کر سکتا.کیونکہ شرطی اقتراح پیش کرنے والا تو ادنی درجہ بھی ایمان کا نہیں رکھتا بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب کے ( درمیانی ) مقام پر ہے اور تسلیم کرنے کو مشروط به اقتراح کرتا ہے پھر وہ کیوں کر کہہ سکتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۲ سورة البقرة کہ میں ابراہیم کی طرح اطمینان قلب چاہتا ہوں؟ ابراہیم نے تو ترقی ایمان چاہی ہے، انکار نہیں کیا اور پھر اقتراح بھی نہیں کیا بلکہ احیا ء موٹی کی کیفیت پوچھی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا ہے.یہ نہیں کہا کہ اس مردہ کو زندہ کر کے دکھا ، یا یوں کر! اور پھر اس کا جواب جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ بھی عجیب اور لطیف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار جانور لے یا ان کو اپنے ساتھ بلا لے.یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ ذبح کر لے کیونکہ اس میں ذبح کرنے کا لفظ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہلالے جیسے لوگ بٹیر یا تیتر یا بلکل کو پالتے ہیں اور اپنے ساتھ بلا لیتے ہیں پھر وہ اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں اور اُس کے بلانے پر آجاتے ہیں.اسی طرح پر حضرت ابراہیم کو احیاء امانت سے انکار تھا بلکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مردے خدا کی آواز کس طرح سنتے ہیں؟ اس سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ ہر چیز طبعاً اور فطرتا اللہ تعالیٰ کی مطیع اور تابع فرمان ہے.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۳) سوال : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو پوچھا: رَبِّ ارني كَيْفَ تُنِي الْمَولیٰ اس سے کیا غرض ہے؟ جواب : اس میں اللہ تعالی کا مطلب جس کو ستر الہی سمجھنا چاہئے یہ ہے کہ ہر ایک چیز میری آوازسنتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے پر کوئی شک پیدا نہیں ہوا کیونکہ ہم تو ہر روز دیکھتے ہیں کہ متعفن پانی اغذیہ میں سے جانور پیدا ہو جاتے ہیں.پیٹ میں بچہ پیدا ہو جاتا ہے کیا وہ پہلے مُردہ نہیں ہوتا ؟ پس واقعات سے انکار کرنے والا تو بڑا احمق ہوتا ہے.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اصل سر سے واقف ہونا چاہتے تھے.پس خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر ایک چیز میری آواز سنتی ہے جیسے پرندے تمہاری آواز سن کر دوڑے چلے آتے ہیں، اسی طرح ہر ایک چیز میری آواز سنتی اور میرے پاس دوڑی چلی آتی ہے یہاں تک کہ ادویہ اور اغذیہ جو انسان کے پیٹ میں جاتی ہیں اور ہر ذرہ ذرہ میری آواز سنتا ہے.پس یہاں اللہ تعالی ایمان اور معرفت کا یقین دلانا چاہتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق کو خالق سے ایک بار یک کشش ہوتی ہے جیسے کسی کا شعر ہے: کو همه را روئی در خدا دیدم و آن خدا برہمہ ترا دیدم....غرض اس قصے میں اللہ تعالیٰ کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہر ایک چیز اللہ تعالی کی تابع ہے اگر اس سے انکار کیا جاوے تو پھر تو خدا تعالیٰ کا وجود بھی ثابت نہیں ہو سکتا.اخیر میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز اور حکیم بیان کی ہے.یعنی اس کا غلبہ قہری ایسا ہے کہ ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر رہی ہے بلکہ جب خدا تعالیٰ کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۳ سورة البقرة قرب انسان حاصل کرتا ہے تو اس انسان کی طرف بھی ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے جس کا ثبوت سورۃ العادیات میں ہے.عزیز حکیم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غلبہ حکمت سے بھرا ہوا ہے ناحق کا دکھ نہیں ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹) مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةِ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ في كُلِّ سُنْبُلَةٍ مَائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ یعنی خدا کی راہ میں جو لوگ مال خرچ کرتے ہیں اُن کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتا ہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتا ہے تو گو وہ ایک ہی ہوتا ہے مگر خدا اس میں سے سات خوشے نکال سکتا ہے اور ہر ایک خوشہ میں سوڈا نے پیدا کر سکتا ہے یعنی اصل چیز سے زیادہ کر دینا یہ خدا کی قدرت میں داخل ہے اور در حقیقت ہم تمام لوگ خدا کی اسی قدرت سے ہی زندہ ہیں اور اگر خدا اپنی طرف سے کسی چیز کو زیادہ کرنے پر قادر نہ ہوتا تو تمام دنیا ہلاک ہو جاتی اور ایک جاندار بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۷۱،۱۷۰) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَ قُتِكُمْ بِالْمَنَّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانِ عَلَيْهِ تُرَابُ فَاَصَابَهُ وَابِلَ فَتَرَكَهُ صَلَدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ.یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے ، احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو.یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے.پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا.بلکہ ایک ریا کاری کی حرکت ہو جاتی ہے.غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ بھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۴) اپنی خیرات اور مروت کو احسان رکھنے اور دکھ دینے کے ساتھ باطل مت کرو یعنی اپنے ممنون منت کو کبھی یہ نہ جتلاؤ کہ ہم نے تجھے یہ دیا تھا اور نہ اس کو دکھ دو کیونکہ اس طرح تمہارا احسان باطل ہوگا اور نہ ایسا طریق
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۴ سورة البقرة پکڑو کہ تم اپنے مالوں کو ریا کاری کے ساتھ خرچ کرو.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۵۶) رونا دھونا اور صدقات، فرد قرار داد جرم کو بھی روی کر دیتے ہیں.اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے.یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے ہیں.علم تعبیر الرویا میں مال کلیجہ ہوتا ہے اسی لئے خیرات کرنا، جان دینا ہوتا ہے.انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے.اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھا یا جاوے.صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے.الحکم جلد ۲ نمبر ۲ مورخه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ء صفحه ۲) مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دُعا کا قائل ہو.احکم جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۲۶ را پریل ۱۸۹۹ صفحه ۶) بعض لوگ ایک بات منہ سے نکالتے ہیں اور پھر اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور گنہ گار ہوتے ہیں.صدقہ عمدہ وہ ہے.جواگر چہ قلیل ہومگر اس پر دوام ہو.( بدر جلد نمبر ۲۹ مورخه ۲۰ /اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) اس بات پر بھی غور کرو کہ صدقہ اور خیرات کیوں جاری ہے اور ہر قوم میں اس کا رواج ہے.فطرتا انسان مصیبت اور بلا کے وقت صدقہ دینا چاہتا ہے اور خیرات کرتا ہے.اور کہتے ہیں کہ بکرے دو، کپڑے دو، یہ دو، وہ دو! اگر اس کے ذریعہ سے ردّ بلا نہیں ہوتا تو پھر اضطراراً انسان کیوں ایسا کرتا ہے؟ نہیں! ردّ بلا ہوتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مذہب نہیں بلکہ یہودیوں، عیسائیوں اور ہندووں کا بھی یہ مذہب ہے اور میری سمجھ میں روئے زمین پر کوئی اس امر کا منکر ہی نہیں جبکہ یہ بات ہے تو صاف کھل گیا کہ وہ ارادہ الہی مل جاتا ہے.لا لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۷) اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَ أَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِ الثَّمَرَاتِ وَ اَصَابَهُ الْكِبَرُ وَ لَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا اعْصَارٌ فِيهِ نَارُ فَاحْتَرَقَتْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُم تَتَفَكَّرُونَ ہر ایک بسیط میں جو مرکبات کا اصل ہے گرویت یعنی گول ہونا مشاہدہ کرو گے.پانی کا قطرہ بھی گول شکل پر ظاہر ہوتا ہے اور تمام ستارے جو نظر آتے ہیں اُن کی شکل گول ہے اور ہوا کی شکل بھی گول ہے جیسا کہ ہوائی
۴۴۵ سورة البقرة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام گولے جن کو عربی میں اعصار کہتے ہیں یعنی بگولے جو کسی شند ہوا کے وقت مدو رشکل میں زمین پر چکر کھاتے پھرتے ہیں ہواؤں کی کرویت ثابت کرتے ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۱۹ حاشیه ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيْبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَ لَسْتُم بِأَخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُخْضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اے ایمان والو ! تم ان مالوں میں سے لوگوں کو بطریق سخاوت یا احسان یا صدقہ وغیرہ دو جو تمہاری پاک کمائی ہے.یعنی جس میں چوری یا رشوت یا خیانت یا نین کا مال یا ظلم کے روپیہ کی آمیزش نہیں اور یہ قصد تمہارے دل سے دور ر ہے کہ ناپاک مال لوگوں کو دو.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۵۶) يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۖ وَمَا يَذَكَرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ.یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت عنایت کرتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو بہت سا مال دیا گیا.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۹۹،۴۹۸) یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا.سو یہ علوم ومعارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پرمشتمل ہونے کی وجہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دیئے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقہ اُن کے نفس، آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں.اور تائیدات پر مکہ البہ ہر یک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان ان کے لئے میسر کر دیتی ہیں جس سے بیان ان کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقعہ ہوتی ہے.( براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۳۳، ۵۳۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یعنی خدائے تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی.پس دیکھنا چاہئے کہ ان آیات میں مسلمانوں کو کس قدر علم و حکمت حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے.سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۹۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۶ سورة البقرة آسمانی مال جو خدائے تعالیٰ کے خاص بندوں کو ملتا ہے جس کو وہ دنیا میں تقسیم کرتے ہیں.دنیا کا درہم ودینار نہیں بلکہ حکمت و معرفت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے کہ : يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَنْ يُوتَ الحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كَثِيرًا.خیر مال کو کہتے ہیں.سو پاک مال حکمت ہی ہے جس کی طرف حدیث نبوی میں بھی اشارہ ہے کہ: اما انا قاسم وَاللَّهُ هُوَ الْمُعْطِی.یہی مال ہے جو سیح موعود کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۱، ۴۴۲) اس جگہ حکمت سے مراد علم قرآن ہے.سو ایسے لوگ وحی خاص کے ذریعہ سے علم اور بصیرت کی راہ سے مطلع کئے جاتے ہیں اور صحیح اور موضوع میں اس خاص طور کے قاعدہ سے تمیز کر لیتے ہیں.گو عوام اور علماء ظواہر کو اس کی طرف راہ نہیں.یعنی جس کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی.حکمت سے مراد علم ، عظمت ذات وصفات باری ہے.اور خیر کثیر سے مراد اسلام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے : هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (یونس : ۵۹).پھر ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے.قُلْ رَبّ زِدْنِي عِلْمًا (طه : ۱۱۵) یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم (110:2 مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۳) کامل بخش اور پھر دوسری جگہ فرمایا.وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (الانعام : ۱۶۴) ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے.اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جل شائہ فرماتا ہے: وَعَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء : (١٣) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کئے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضانِ الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا.غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگر چہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم و صلوۃ اور دُعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری عزاسمہ، وسیلۃ الوسائل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۷ سورة البقرة اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفتِ الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلوٰۃ بجالا وے یا دُعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اس کے بنین و بنات ہیں اور ابتدا اس معرفت کی پر توہ اسم رحمانیت سے، ہے نہ کسی عمل سے، نہ کسی دُعا سے، بلکہ بلاعلت فیضان سے، صرف ایک موهبت ہے: يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَيُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ مَگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حسن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام محن سینہ کو اس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس معرفت تامہ کے درجہ پر پہنچ کر اسلام صرف لفظی اسلام نہیں رہتا بلکہ وہ تمام حقیقت اس کی جو ہم بیان کر چکے ہیں، حاصل ہو جاتی ہے اور انسانی روح نہایت انکسار سے حضرت احدیت میں اپنا سر رکھ دیتی ہے تب دونوں طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ جو میرا سو تیرا ہے.یعنی بندہ کی روح بھی بولتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ یا الہی! جو میرا ہے سو تیرا ہے.اور خدا تعالیٰ بھی بولتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ اے میرے بندے! جو کچھ زمین و آسمان وغیرہ میرے ساتھ ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے: قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا - (الزمر: ۵۴) - (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۶ تا ۱۹۰) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کا نام مال رکھا ہے اور حکمت کا نام بھی مال رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: يُؤتي الحِكْمَةَ مَنْ تَشَاءُ : وَمَن يُؤتَ الحِمَة فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كَثِيرًا - مفتر لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں مالاً كثيرا.لغت میں خیر کے معنے مال کے لکھے ہیں اور ایک اور حدیث میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بڑی دعوت کی اور ہر ایک قسم کا کھانا پکا یا تو بعض کھانا کھانے کے لئے آئے انہوں نے کھانا کھا کر حظ اُٹھایا اور بعض نے اس دعوت سے انکار کیا وہ بے نصیب رہے.اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پلاؤ اور قورمہ وغیرہ پکا یا تھا یا روحانی کھانے تھے.اصل بات یہ ہے کہ انبیاء اکثر روحانی امور کو طرح طرح کے پیرایوں میں بیان فرمایا کرتے ہیں اور نفسانی آدمی ان کو جسمانی امور کی طرف لے جاتے ہیں.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ میچ آکر درہم و دینار بہت سے تقسیم کرے گا کہ علماء وغیرہ کے گھر سونے چاندی سے بھر جائیں گے لیکن اس کا کہاں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۴۸ سورة البقرة جو روحانی طور پر بھو کے پیاسے ہوں گے اُن کی اسی طور سے پوری حاجت براری کرے گا.پس اگر یہ تذکرہ کسی اور جگہ نہیں تو یقیناً یا درکھو کہ یہ وہی تذکرہ ہے جو استعارہ کے رنگ پر بیان کیا گیا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۷ مورخه ۲۳ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۳) رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۶) علوم ہیں ہی کیا ؟ صرف خواص الاشیاء ہی کا تو نام ہے.سیارہ، ستارہ، نباتات کی تاثیریں اگر نہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم پر ایمان لانا انسان کے لئے مشکل ہو جاتا یہ ایک یقینی امر ہے کہ ہمارے علم کی بنیاد ، خواص الا شیاء ہے.اس سے یہ غرض ہے کہ ہم حکمت سیکھیں ، علوم کا نام حکمت بھی رکھا ہے چنانچہ فرمایا : وَمَنْ وَمَن يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا - قرآن شریف کو خدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے چنانچہ فرمایا: وَمَن يُوتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كَثِيرًا - پس قرآن شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے.خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھا ہے.دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۷) جسے نصیحت کرنی ہوا سے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرا یہ میں دوست بنا دیتی ہے پس جادِ لَهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ١٣٦) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے : يُؤْتي الحكمة الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) انسان اصل میں انسان سے لیا گیا ہے یعنی جس میں دو حقیقی اُنس ہوں؛ ایک اللہ تعالیٰ سے دوسرا اپنی نوع کی ہمدردی سے، جب یہ دونو اُنس اس میں پیدا ہو جاویں اُس وقت انسان کہلاتا ہے اور یہی وہ بات ہے جو انسانیت کا مغز کہلاتی ہے اور اسی مقام پر انسان اُولُوا الانتباب کہلاتا ہے.جب تک یہ نہیں کچھ بھی نہیں.ہزار دعوی کرو اور دکھاؤ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے نبی اور فرشتوں کے نزدیک بیچ ہے.مَنْ يَشَاءُ -..الحکم جلد ۵ نمبر ۱ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (۲۷۲) اگر تم ظاہر کر و خیرات کو تو وہ اچھا ہے اور اگر تم خیرات کو چھپاؤ تو وہ بہت ہی اچھا ہے.ایسی خیرات تمہاری بُرائیاں دور کرے گی.برائین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۱۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۹ سورة البقرة الَّذِينَ يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُم عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) (۲۷۵ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر.پوشیدہ اس لئے کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے کہ تا دوسروں کو ترغیب دیں.انجیل میں کہا گیا ہے کہ تم اپنے نیک کاموں کو لوگوں کے سامنے دکھلانے کے لئے نہ کر ونگر قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ تم حسب مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجالا ؤ جب کہ تم دیکھو کہ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کے لئے بہتر ہے اور بعض اعمال دکھلا کر بھی کر وجب کہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے تا تمہیں دو بدلے ملیں اور تا کمز ور لوگ کہ جو ایک نیکی کے کام پر جرات نہیں کر سکتے وہ بھی تمہاری پیروی سے اُس نیک کام کو کر لیں.غرض خدا نے جو اپنے کلام میں فرمایا: سِرًّا وَ عَلَانِيَةً یعنی پوشیدہ بھی خیرات کرو اور دکھلا دکھلا کر بھی.ان احکام کی حکمت اُس نے خود فرما دی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھاؤ بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو کیونکہ ہر ایک جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۱، ۳۲) جیسا کہ تم بعض اپنے نیک اعمال کو پوشیدہ کرتے ہو ایسا ہی بعض اوقات ان کو لوگوں پر ظاہر کرو تا لوگ تمہارے نمونہ پر چلیں کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ نمونہ دیکھ کر اس میں قوت پیدا ہوتی ہے.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۳۵۱،۳۵۰ مکتوب نمبر ۱۲ بنام حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی ) الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبُوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطنُ مِنَ الْمَسَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرَّبُوا وَ اَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَ حَرَّمَ الرَّبوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُةٌ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ يَرْحَقُ اللَّهُ الرَّبوا وَيُرْبِي الصَّدَقَتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَادٍ أَثِيمٍ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحتِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكَوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۰ سورة البقرة عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِن الربوا إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ 29 رَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (۲۸۰) ایک شخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنگ کا سُود اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معاملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا: کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جب تک کہ اس کے سارے پہلوؤں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کئے جاویں.ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے.اللہ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کئے ہیں.مسلمان کو چاہئے کہ ان کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے.ایمان صراط مستقیم سے وابستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے مثلاً اگر دنیا میں سور کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کیا مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے؟ ہاں! اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لئے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے تب ہم فمن اضطر غَيْرَ بَا وَلَا عَادٍ (البقرة : ۱۷۳) کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر ہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے.ہم فی الحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں.ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے.ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم تو جہ نہیں کر سکتے.اگر ہم بڑے عالیشان دینی مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنی کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں.پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا ؟ الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۲ صفحہ۱۱) ایک نے سوال کیا کہ ضرورت پر شودی روپیہ لے کر تجارت وغیرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا : حرام ہے.ہاں! اگر کسی دوست اور تعارف کی جگہ سے روپیہ لیا جاوے اور کوئی وعدہ اُس کو زیادہ دینے کا نہ ہو، نہ اُس کے دل میں زیادہ لینے کا خیال ہو پھر اگر مقروض اصل سے کچھ زیادہ دے دے تو وہ سود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۱ سورة البقرة هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: ۶۱) ہے.اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر ضرورت سخت ہو اور سوائے شود کے کام نہ چل سکے تو پھر ؟ اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی خرمت مومنوں کے واسطے مقرر کی ہے اور مومن وہ ہوتا ہے جو ایمان پر قائم ہوا اللہ تعالیٰ اس کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اسلام میں کروڑ ہا ایسے آدمی گزرے ہیں جنہوں نے نہ عودلیا نہ دیا آخر ان کے حوائج بھی پورے ہوتے رہے کہ نہ؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ لو نہ دو، جو ایسا کرتا ہے وہ گویا خدا کے ساتھ لڑائی کی تیاری کرتا ہے ایمان ہو تو اس کا صلہ خدا بخشتا ہے.ایمان بڑی بابرکت ث ہے: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرة : ۱۰۷) اگر اُسے خیال ہو کہ پھر کیا کرے تو کیا خدا کا حکم بھی بیکار ہے اُس کی قدرت بہت بڑی ہے.سود تو کوئی شے ہی نہیں ہے اگر اللہ تعالی کا حکم ہوتا کہ زمین کا پانی نہ پیا کرو تو وہ ہمیشہ بارش کا پانی آسمان سے دیا کرتا، اسی طرح ضرورت پر وہ خود ایسی راہ نکال ہی دیتا ہے کہ جس سے اس کی نافرمانی بھی نہ ہو.تب تک ایمان میں میل کچیل ہوتا ہے ، تب تک یہ ضعف اور کمزوری ہے.کوئی گناہ چھوٹ نہیں سکتا جب تک خدا نہ چھڑاوے.ورنہ انسان تو ہر ایک گناہ پر یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ ہم چھوڑ نہیں سکتے اگر چھوڑیں تو گزارہ نہیں چلتا.دوکانداروں ، عطاروں کو دیکھا جاوے کہ پرانا مال سالہا سال تک بیچتے ہیں دھوکا دیتے ہیں، ملازم پیشہ لوگ رشوت خوری کرتے ہیں اور سب یہ عذر کرتے ہیں کہ گزارہ نہیں چلتا ان سب کو اگر اکٹھا کر کے نتیجہ نکالا جاوے تو پھر یہ نکلتا ہے کہ خدا کی کتاب پر عمل ہی نہ کرو کیونکہ گزارہ نہیں چلتا حالانکہ مومن کے لئے خدا خود سہولت کر دیتا ہے یہ تمام راست بازوں کا مجرب علاج ہے کہ مصیبت اور صعوبت میں خدا خود راہ نکال دیتا ہے.لوگ خدا کی قدر نہیں کرتے ، جیسے بھروسہ ان کو حرام کے دروازے پر ہے ویسا خدا پر نہیں ہے.خدا پر ایمان ، یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ اگر قدر ہو تو جی چاہے کہ جیسے اور عجیب نسخہ مخفی رکھنا چاہتے ہیں ویسے ہی اسے بھی مخفی رکھا جاوے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۷۵) ہمارے نزدیک شودی روپیہ لینا اور دینا دونوں حرام ہیں.مومن وہ ہوتے ہیں جو اپنے ایمان پر قائم ہوں اللہ تعالیٰ اُن کا خود متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے....عذر رکھ کر معصیت میں مبتلا ہونا یہ سفلی عذر ہے جو شیطان سے آتا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرے تو سب کچھ ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۵۲ سورة البقرة ہے......غرض مومن کو خدا تعالیٰ ایسی مشکلات میں نہیں ڈالتا.جو پڑتا ہے وہ اپنی ہی کمزوری کی وجہ سے پڑتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶،۵) ایک صاحب نے سوال کیا کہ ریلوے میں جو لوگ ملازم ہوتے ہیں ان کی تنخواہ میں سے ار(ایک آنہ ) فی روپیہ کاٹ کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ رو پید یا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ زائد روپیہ بھی وہ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے.فرمایا کہ شرع میں سود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے.یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ خود کہلاوے گا.لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ خود سے باہر ہے چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں.اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ خود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے.پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگی وقت اُسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ) دے دیا ہو.یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو.خواہش کے برخلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ خود میں داخل نہیں ہے.البدرجلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۵) عود کی تعریف یہ ہے کہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے روپیہ قرض دیا جاوے یہ تعریف جہاں صادق آتی ہے وہ سود ہے.لیکن جبکہ محکمہ ریلوے کے ملازم خود وہ روپیہ سود کے لالچ سے نہیں دیتے بلکہ جبر وضع کیا جاتا ہے تو یہ سود کی تعریف میں داخل نہیں ہے.اور خود جو کچھ وہ روپیہ زائد دے دیتے ہیں وہ داخل سود نہیں ہے.غرض یہ خود دیکھ سکتے ہو کہ آیا یہ روپیہ خود لینے کے لئے تم خود دیتے ہو یا وہ خود وضع کرتے ہیں اور بلا طلب اپنے طور پر دیتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۶) ایک صاحب نے بیان کیا کہ سید احمد خان صاحب نے لکھا ہے: اضْعَافًا مُضَاعَفًا کی ممانعت ہے.فرمایا: کہ یہ بات غلط ہے کہ شود در شود کی ممانعت کی گئی ہے اور شود جائز رکھا ہے شریعت کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے.یہ فقرہ اس قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ گناہ در گناہ مت کرتے جاؤ.اس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گناہ ضرور کرو.اس قسم کا روپیہ جو کہ گورنمنٹ سے ملتا ہے وہ اسی حالت میں سُود ہوگا جبکہ لینے والا اسی خواہش سے روپیہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۳ دیتا ہے کہ مجھ کو شود ملے ورنہ گورنمنٹ جو اپنی طرف سے احسانا دیوے وہ سود میں داخل نہیں ہے.سورة البقرة (البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخه ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۷۵) انشیو رنس اور بیمہ پر سوال کیا گیا فرمایا.کہ سُود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے.قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی ، دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے.دوسرے ان تمام سوالوں میں اس امر کا خیال بھی رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ بہت کھوج نکال نکال کر مسائل نہ پوچھنے چاہئیں.مثلاً اب کوئی دعوت کھانے جاوے تو اب اسی خیال میں لگ جاوے کہ کسی وقت حرام کا پیسہ ان کے گھر آیا ہو گا پھر اس طرح تو آخر کار دعوتوں کا کھانا ہی بند ہو جاوے گا.خدا کا نام ستار بھی ہے ورنہ دنیا میں عام طور پر راست باز کم ہوتے ہیں، مستور الحال بہت ہوتے ہیں یہ بھی قرآن میں لکھا ہے : وَلا تَجَسَّسُوا (الحجرات : ۱۳) یعنی تجسس مت کیا کرو ورنہ اس طرح تم مشقت میں البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۷۶ ) پڑوگے.سود کی بابت پوچھا گیا کہ بعض مجبور یاں لاحق حال ہو جاتی ہیں.فرمایا: اس کا فتویٰ ہم نہیں دے سکتے.یہ بہر حال ناجائز ہے.ایک طرح کا سُود اسلام میں جائز ہے یہ کہ قرض دیتے وقت کوئی شرط وغیرہ کسی قسم کی نہ ہو اور مقروض جب قرضہ ادا کرے تو مروت کے طور پر اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دیوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے.اگر دس روپیہ قرض لئے تو ادائیگی کے وقت ایک سو تک دے دیا کرتے.خود حرام وہی ہے جس میں عہد معاہدہ اور شرائط اول ہی کر لی البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۴ ء صفحه ۸) جاویں.بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ سُود لینے کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا.ایسے لوگ کیوں کر متقی کہلا سکتے ہیں خدا تعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۵) حضرت حکیم نورالدین صاحب نے ایک مسئلہ حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس میں بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے.ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لئے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں.لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آ وے وہ امانت رہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۴ سورة البقرة سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سوروپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا.یہ اس غرض سے یہاں فتوی دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو ان کو سال کے بعد ملے گا اگر شود نہ ہو تو شراکت کر لی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا: کہ چونکہ انہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے.اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے.دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں.لہذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو ان کو وہ دیتا ہے خود نہیں ہے اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں.سود کا لفظ تو اُس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں لیا جاتا ہے.اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروز بر ہو گئے ہیں، کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ خود کا موجود ہے.اس لئے اس وقت نئے البدر جلد ۳ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه یکم و ۸ /نومبر ۱۹۰۴ صفحه ۸) اجتہاد کی ضرورت ہے.بینک کے سود کے متعلق فرمایا: ، ہمارا یہی مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہی ہمارے دل میں ڈالا ہے کہ ایسا روپیہ اشاعت دین کے کام میں خرچ کیا جاوے.یہ بالکل سچ ہے کہ مود حرام ہے لیکن اپنے نفس کے واسطے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں جو چیز جاتی ہے وہ حرام نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ حرمت اشیاء کی انسان کے لئے ہے نہ اللہ تعالیٰ کے واسطے.پس شود اپنے نفس کے لئے ، بیوی بچوں، احباب رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لئے بالکل حرام ہے.لیکن اگر یہ روپیہ اگر خالصہ اشاعت دین کے لئے خرچ ہو تو ہرج نہیں ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اسلام بہت کمزور ہو گیا ہے اور پھر اس پر دوسری مصیبت یہ ہے کہ لوگ زکوۃ بھی نہیں دیتے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دو مصیبتیں واقع ہورہی ہیں اور دو حرمتیں روا رکھی گئی ہیں ؛ اول یہ کہ زکوۃ جس کے دینے کا حکم تھا وہ دیتے نہیں اور شود جس کے لینے سے منع کیا تھا وہ لیتے ہیں.یعنی جو خدا تعالیٰ کا حق تھا وہ تو دیا نہیں اور جو اپنا حق نہ تھا اسے لیا گیا.جب ایسی حالت ہو رہی ہے اور اسلام خطرناک ضعف میں مبتلا ہے تو میں یہی فتویٰ دیتا ہوں کہ ایسے سودوں کی رقمیں جو بنک سے ملتا ہے یک مشت اشاعت دین میں خرچ کرنی چاہئیں.میں نے جو فتویٰ دیا ہے وہ عام ہے ورنہ شود کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں مگر اس ضعف اسلام کے زمانہ میں جبکہ مالی ترقی کے ذریعہ پیدا نہیں ہوئے اور مسلمان تو جہ نہیں کرتے ایسا رو پیدا اسلام کے کام میں لگنا حرام نہیں ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۵ سورة البقرة قرآن شریف کے مفہوم کے موافق جو حرمت ہے وہ یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کے لئے اگر خرچ ہو تو حرام ہے یہ بھی یادرکھو! جیسے سود اپنے لئے درست نہیں، کسی اور کو اس کا دینا بھی درست نہیں.ہاں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ایسے مال کا دینا درست ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ وہ صرف اشاعت اسلام میں خرچ ہو.اس کی ایسی مثال ہے جیسے جہاد ہورہا ہو اور گولی بارود کسی فاسق فاجر کے ہاں ہو اس وقت محض اس خیال سے رُک جانا کہ یہ گولی بارود مال حرام ہے ٹھیک نہیں.بلکہ مناسب یہی ہوگا کہ اس کو خرچ کیا جاوے.اس وقت تلوار کا جہاد تو باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسی گورنمنٹ دی ہے جس نے ہر ایک قسم کی مذہبی آزادی عطا کی ہے.اب قلم کا جہاد باقی ہے اس لئے اشاعت دین میں ہم اس کو خرچ کر سکتے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) ہمارا مذ ہب یہ ہے کہ شود کاروپیہ بالکل حرام ہے کہ کوئی شخص اُسے اپنے نفس پر خرچ کرے اور کسی قسم کے بھی ذاتی مصارف میں خرچ کرے یا اپنے بال بچے کو دے یا کسی فقیر مسکین کو دے کسی ہمسایہ کو دے یا مسافر کو دے سب حرام ہے.خود کے روپیہ کا لینا اور خرچ کرنا گناہ ہے.( بدر جلد نمبر ۲۶ مورخه ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴) شود کاروپیہ تصرف ذاتی کے واسطے نا جائز ہے.لیکن خدا کے واسطے کوئی شے حرام نہیں.خدا کے کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ حرام نہیں ہے.اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ گولی بارود کا چلانا کیسا ہی ناجائز اور گناہ ہو.لیکن جو شخص اُسے ایک جانی دشمن پر مقابلہ کے واسطے نہیں چلا تا وہ قریب ہے کہ خود ہلاک ہو جائے.کیا خدا نے نہیں فرمایا کہ تین دن کے بھوکے کے واسطے سور بھی حرام نہیں بلکہ حلال ہے؟ پس سُود کا مال اگر ہم خدا کے لئے لگا ئیں تو پھر کیوں کر گناہ ہو سکتا ہے اس میں مخلوق کا حصہ نہیں.لیکن اعلائے کلمہ اسلام میں اور اسلام کی جان بچانے کے لئے اس کا خرچ کرنا ہم اطمینان اور شبح قلب سے کہتے ہیں کہ یہ بھی فَلا اِلهَ عَلَيْهِ (البقرۃ:۱۷۴) میں داخل ہے.یہ ایک استثناء ہے.اشاعتِ اسلام کے واسطے ہزاروں حاجتیں ایسی پڑتی ہیں جن میں مال کی ضرورت ہے.( بدر جلد نمبر ۲۶ مورخه ۲۹ رستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۴) اشاعت اسلام کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اور اس پر اگر وہ روپیہ جو بنکوں کے سود سے آتا ہے خرچ کیا جاوے تو جائز ہے کیونکہ وہ خالص خدا کے لئے ہے.خدا تعالیٰ کے لئے وہ حرام نہیں ہے جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ کسی جگہ کا ستہ و بارود ہو وہ جہاد میں خرچ کرنا جائز ہے.یہ ایسی باتیں ہیں کہ بلا تکلف سمجھ میں آجاتی ہیں کیونکہ بالکل صاف ہیں.اللہ تعالیٰ نے سور کو حرام کیا ہے لیکن بایں ہمہ فرماتا ہے : فَمَنِ اضْطَر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۵۶ سورة البقرة غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ( البقرة : ۱۷۴ ) - جب اضطراری حالت میں محض اپنی جان بچانے کی خاطر سور کا کھانا جائز ہے تو کیا ایسی حالت میں کہ اسلام کی حالت بہت ضعیف ہوگئی ہے اور اس کی جان پر آبنی ہے، اس کی جان بچانے کے لئے محض اعلائے کلمہ اسلام کے لئے سُود کا روپیہ خرچ نہیں ہوسکتا ؟ میرے نزدیک یقینا خرچ ہو سکتا ہے اور خرچ کرنا چاہئے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) میرا مذہب جس پر خدا نے مجھے قائم کیا ہے اور جو قرآن شریف کا مفہوم ہے وہ یہ ہے کہ اپنے نفس، عیال، اطفال، دوست عزیز کے واسطے اس خود کو مباح نہیں کر سکتے بلکہ یہ پلید ہے.اور اس کا گناہ (استعمال ) حرام ہے.لیکن اس ضعفِ اسلام کے زمانہ میں جبکہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہئے.جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان کیا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے.اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جاوے.ایسے موقع پر شود کا روپیہ لگانا جائز ہے کیونکہ ہر ایک مال خدا کا ہے اور اس طرح پر وہ خدا کے ہاتھ میں جائے گا.مگر بایں ہمہ اضطرار کی حالت میں ایسا ہوگا اور بغیر اضطرار یہ بھی جائز نہیں....ہمارا منشاء صرف یہ ہے کہ اضطراری حالت میں جب خنزیر کھانے کی اجازت نفسانی ضرورتوں کے واسطے جائز ہے تو اسلام کی ہمدردی کے واسطے اگر انسان دین کو ہلاکت سے بچانے کے واسطے خود کے روپے کو خرچ کرلے تو کیا قباحت ہے؟ یہ اجازت مختص المقام اور مختص الزمان ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ کے واسطے اس پر عمل کیا جائے.جب اسلام کی نازک حالت نہ رہے تو پھر اس ضرورت کے واسطے بھی شود لینا ویسا ہی حرام ہے کیونکہ در اصل شود کا عام حکم تو حرمت ہی ہے.( بدر جلد نمبر ۲۶ مورخه ۲۹ ستمبر ۱۹۰۵ ء صفحه ۴) ایک صاحب کا ایک خط حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا کہ جب بنکوں کے سُود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کی حالت کو مد نظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے تو اضطرار کا اصول چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی ، قومی ہلکی تجارتی وغیرہ اضطرارت بھی پیدا ہوکر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں.فرمایا: اس طرح سے لوگ حرام خوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں.ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بہ سبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے بلکہ اشاعتِ اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہونا بتلایا گیا ہے.وہ بھی اُس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے رو پیل نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۷ سورة البقرة سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں.باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات سو ان کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے شود بالکل حرام ہے.وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آوے تو توپ بندوقوں کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے.جو شخص اللہ کے حکم کو توڑتا ہے اسے سزا ملتی ہے.خدا تعالیٰ نے پہلے فرما دیا کہ اگر شود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو لڑائی کا اعلان ہے.خدا کی لڑائی یہی ہے کہ ایسے لوگوں پر عذاب بھیج دیتا ہے.پس یہ مفلسی ( بدر جلد نمبر ۵ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۸ ء صفحه ۷) ( بدر جلدے نمبر ۵ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۸ صفحه ۶،۵) بطور عذاب اور اپنے کئے کا پھل ہے.اس شخص نے کہا کیا کریں مجبوری سے سودی قرضہ لیا جاتا ہے.فرمایا: جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنادیتا ہے.افسوس ! کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خدا تعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بنا تا کہ وہ سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.یادرکھو! جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ مور دینا اور لینا ہے.کس قدر نقصان دہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا.معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو.مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں.طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا.بعد ازاں ولیمہ سنت ہے.سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے.انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا.بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لئے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے.دیکھو! سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے؟ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ؟ سور کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے : فَمَن اضْطَرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ (البقرۃ : ۱۷۴) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے.مگر سُود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرَّبوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِه - اگر شود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اُسے حاجت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۸ سورة البقرة ہی نہیں پڑتی.مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بد عملیوں کا نتیجہ ہے.ہندو اگر یہ گناہ کرتے ہیں تو مالدار ہو جاتے ہیں.مسلمان یہ گناہ کرتے ہیں تو تباہ ہو جاتے ہیں : خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ (الحج : ۱۲) کے مصداق.پس کیا ضروری نہیں کہ مسلمان اس سے باز آئیں.انسان کو چاہئے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مد نظر رکھے تا کہ سودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سود اصل سے بڑھ جاتا ہے.ابھی کل ایک شخص کا خط آیا تھا کہ ہزار روپیہ دے چکا ہوں ابھی پانچ چھ سو باقی ہے پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں.مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ ؟ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ شود دینے پر راضی ہے پس وہاں سے ڈگری جاری ہو جاتی ہے.اس سے یہ بہتر تھا کہ مسلمان اتفاق کرتے اور کوئی فنڈ جمع کر کے تجارتی طور پر اُسے فروغ دیتے تا کہ کسی بھائی کو سود پر قرضہ لینے کی حاجت نہ ہوتی بلکہ اسی مجلس سے ہر صاحب ضرورت اپنی حاجت روائی کر لیتا اور میعاد مقررہ پر واپس دے دیتا.(بدرجلدے نمبر ۵ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۸ صفحه ۶) دیکھو جو حرام پر جلدی نہیں دوڑتا بلکہ اس سے بچتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے لئے حلال کا ذریعہ نکال دیتا ہے : مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق: ۳).جو سود دینے اور ایسے حرام کاموں سے بچے خدا تعالیٰ اس کے لئے کوئی سبیل بنا دے گا.ایک کی نیکی اور نیک خیال کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے، کوئی اپنی جگہ پر استقلال رکھے تو سود خوار بھی مفت دینے پر راضی ہو جاتے ہیں.( بدرجلدے نمبر ۵ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۸ صفحه ۶).....وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا.....جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکا رمت کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) b وَإِنْ كُنْتُمُ عَلى سَفَرٍ وَ لَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِحْنَّ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ آمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِ الَّذِى اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهُ وَليَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّكَ أَثِمَّ قَلْبُهُ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ٢٨٤ ہمارے نزدیک رہن جبکہ نفع ونقصان کا ذمہ دار ہو جاتا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵۹ سورة البقرة موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں.گزشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہوگئی تو حکام زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کرتے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جاتا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں.پس چونکہ حکام وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طرح یہ رہن بھی جائز رہا کیونکہ کبھی فصل ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو دونوں صورتوں میں مرتین نفع و نقصان کا ذمہ دار ہے.پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے.آج کل گورنمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہوتا ہے تو ایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے.جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑارہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مرتہن فائدہ اٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا.پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا: زیور ہو، کچھ ہو جب کہ انتفاع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں؟ اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس کی زکوۃ بھی اس کے ذمہ ہے.زیور کی زکوۃ بھی فرض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوة ڈیڑھ سور و پی دیا ہے.پس اگر زیور استعمال کرتا ہے تو اس کی زکوۃ دے.اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے.الحکم جلد نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ /اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱) وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ، وَمَن يَكْتُهَا فَائَةَ أَثِم قلبه اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اُس قَلْبُهُ کومت کا دل گنہگار ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) دل کی مثال ایک بڑی نہر کی سی ہے جس میں سے اور چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں جن کو شوا کہتے ہیں یا را جابا کہتے ہیں.دل کی نہر میں سے بھی چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں مثلاً زبان وغیرہ.اگر چھوٹی نہر یعنی سوے کا پانی خراب اور گندہ اور میلا ہو تو قیاس کیا جاتا ہے کہ بڑی نہر کا پانی خراب ہے.پس اگر کسی کو دیکھو کہ اُس کی زبان یا دست و پا وغیرہ میں سے کوئی عضو نا پاک ہے تو سمجھو کہ اُس کا دل بھی ایسا ہی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۳) أمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَبِكَتِهِ وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قف ۴۶۰ قف سورة البقرة كُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ ۲۸۶) یعنی رسول اور اُس کے ساتھ کے مومن اس کتاب پر ایمان لائے ہیں جو اُن پر نازل کی گئی اور ہر ایک خدا پر ایمان لایا اور اس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر اور اُن کا یہ اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے اس طرح پر کہ بعض کو قبول کریں اور بعض کو رڈ کردیں بلکہ ہم سب کو قبول کرتے ہیں.ہم نے سنا اور ایمان لائے.اے خدا! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی ہماری بازگشت ہے.ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف ان تمام نبیوں کا مانا جن کی قبولیت دنیا میں پھیل چکی ہے مسلمانوں کا فرض ٹھہراتا ہے اور قرآن شریف کی رُو سے اُن نبیوں کی سچائی کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ دنیا کے ایک بڑے حصہ نے اُن کو قبول کیا اور ہر ایک قدم میں خدا کی مدد اور نصرت اُن کے شامل حال ہوگئی.خدا کی شان اس سے بلند تر ہے کہ وہ کروڑ ہا انسانوں کو اُس شخص کا سچا تابع اور جان شار کرے جس کو وہ جانتا ہے کہ خدا پر افترا کرتا ہے اور دنیا کو دھوکا دیتا ہے اور دروغ گو ہے اور اگر کاذب کو ایسی ہی عزت دی جائے جیسا کہ صادق کو تو امان اُٹھ جاتا ہے اور امر نبوت صادقہ مشتبہ ہو جاتا ہے.پس یہ اصول نہایت صحیح اور سچا ہے کہ جن نبیوں کو قبولیت دی جاتی ہے اور ہر ایک قدم میں حمایت اور نصرت الہی اُن کے شامل حال ہو جاتی ہے وہ ہرگز جھوٹے ہوا نہیں کرتے.ہاں ! ممکن ہے کہ پیچھے آنے والے اُن کے نوشتوں میں تحریف تبدیل کر دیں اور اپنی نفسانی تفسیروں سے اُن کے مطالب کو الٹا دیں بلکہ پرانی کتابوں کے لئے یہ بھی ایک لازمی امر ہے کہ مختلف خیالات کے آدمی اپنے خیال کے طور پر اُن کے معنی کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ وہی معنے جزو کتاب کی سمجھے جاتے ہیں اور پھر انہیں مختلف خیالات کی کشش کی وجہ سے کئی فرقے ہو جاتے ہیں اور ہر ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے مخالف معنی کرتا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۷۸،۳۷۷) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأَنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى وقفة الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۱ سورة البقرة وقفة وقفة لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (FAL لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا یعنی خدا تعالیٰ انسانی نفوس کو ان کی وسعت علمی سے زیادہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے تکلیف نہیں دیتا اور وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے تا اس کے حکم تکلیف مالا يطاق میں داخل نہ ہوں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۲) ہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں، اخلاق میں ، عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں پس اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہرگز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے : لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶) جس پر خدا تعالی کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بنا ظاہر پر ہے ) اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اُس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت : لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا قابل مؤاخذہ نہیں ہوگا.ہاں! ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اُس کی نسبت نجات کا حکم دیں اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے، ہمیں اس میں دخل نہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۶) ہم کو عقل سے بھی کام لینا چاہئے کیونکہ انسان عقل کی وجہ سے مکلف ہے.کوئی آدمی بھی خلاف عقل باتوں کے ماننے پر مجبور نہیں ہو سکتا.قومی کی برداشت اور حوصلہ سے بڑھ کر کسی قسم کی شرعی تکلیف نہیں اٹھوائی گئی: لَا يُحَلِفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.اس آیت سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام ایسے نہیں جن کی بجا آوری کوئی کر ہی نہ سکے.اور نہ شرائع و احکام خدائے تعالیٰ نے دنیا میں اس لئے نازل کئے کہ اپنی بڑی فصاحت و بلاغت اور ایجادی قانونی طاقت اور چیستان طرازی کا فخر انسان پر ظاہر کرے اور یوں پہلے ہی سے اپنی جگہ ٹھان رکھا تھا کہ کہاں بیہودہ ضعیف انسان؟ اور کہاں کا ان حکموں پر عمل درآمد؟ خدا تعالیٰ اس سے برتر اور پاک ہے کہ ایسا لغو فعل کرے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۷۰،۶۹) شرائط پر پابند ہونا باعتبار استطاعت ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۸۱ مکتوب ۴۹ بنام حضرت خلیفہ اوّل)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۲ سورة البقرة ہم قرآن شریف ہی کی تعلیم دینے کو آئے ہیں.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف تو اس لئے بھیجا ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے اس میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا کسی کو مجبور کرتا ہے.(احکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحہ ۷) قابلیت فراست سے ظاہر ہوتی ہے.خدا نے کچھ چھپایا ہے اور کچھ ظاہر کیا ہے اگر بالکل ظاہر کرتا تو ایمان کا ثواب جاتا رہتا اور اگر بالکل چھپاتا تو سارے مذاہب تاریکی میں دبے رہتے اور کوئی بات قابل اطمینان نہ ہو سکتی اور آج کوئی مذہب والا دوسرے کو نہ کہ سکتا کہ تو غلطی پر ہے اور نہ مواخذہ کا اصول قائم رہ سکتا تھا کیونکہ یہ تکلیف مالا طاق تھی.مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا الحکم جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵) جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے اور وہ ودیعت خواب ہے اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہوتو وہ کیوں کر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے؟ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ : لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.اس لئے یہ مادہ اُس نے سب میں رکھ دیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱/اگست ۱۹۰۲ صفحه ۶) شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے : لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۸) سوال : اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دو من چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟ جواب : لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہئے.خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہئے.اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کرے گا.اور مچھروں کی چر بی تو کوئی مہر ہی نہیں، یہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا میں داخل ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶،۵ وملفوظات جلد ۳ صفحه ۴۰۴) حواس باطنی میں جس طرح اس وقت فرق آجاتا ہے، حواس ظاہری میں بھی معمر ہو کر بہت کچھ فتور پیدا ہو جاتا ہے.بعض اندھے ہو جاتے ہیں بہرہ ہو جاتے ہیں چلنے پھرنے سے عاری ہو جاتے ہیں اور قسم قسم کی مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.غرض یہ زمانہ بھی بڑا ہی رڈی زمانہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی زمانہ ہے جو ان دونوں کے بیچ کا زمانہ ہے.یعنی شباب کا جب انسان کوئی کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت قوئی میں نشو نما ہوتا ہے اور طاقتیں آتی ہیں.لیکن یہی زمانہ ہے جبکہ نفس امارہ ساتھ ہوتا ہے اور وہ اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۳ سورة البقرة.پر مختلف رنگوں میں حملے کرتا ہے اور اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے، یہی زمانہ ہے جو مؤاخذہ کا زمانہ ہے.اور خاتمہ بالخیر کے لئے کچھ کرنے کے دن بھی یہی ہیں لیکن ایسی آفتوں میں گھرا ہوا ہے کہ اگر بڑی سعی نہ کی جاوے تو یہی زمانہ ہے جو جہنم میں لے جائے گا اور شقی بنادے گا.ہاں ! اگر عمدگی اور ہوشیاری اور پوری احتیاط کے ساتھ اس زمانہ کو بسر کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے کیونکہ ابتدائی زمانہ تو بے خبری اور غفلت کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ نہ کرے گا جیسا کہ خود اس نے فرمایا : لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - الحکم جلد ۹ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) قرآن شریف میں لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا آیا ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں ہے.جس میں پڑ کر انسان اپنا ہاتھ سکھا لے یا اپنی دوسری قوتوں کو بریکار چھوڑ دے یا اور قسم قسم کی تکالیف شدیدہ میں اپنی جان کو ڈالے.عبادت کے لئے دکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رکے جو عبادت کی لذت کو دور کرنے والے ہیں.اور ان سے رُکنے میں اولاً ایسی ضرور تکلیف محسوس ہوگی اور خدا تعالیٰ کی ناراضا مندیوں سے پر ہیز کرے مثلاً ایک چور ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ چوری چھوڑے، بدکار ہے تو بدکاری اور بدنظری چھوڑے، اسی طرح نشوں کا عادی ہے تو ان سے پر ہیز کرے.اب جب وہ اپنی محبوب اشیاء کو ترک کرے گا تو ضروری ہے کہ اول اول سخت تکلیف اٹھا وے مگر رفته رفته اگر استقلال سے وہ اس پر قائم رہے گا تو دیکھ لے گا کہ ان بدیوں کے چھوڑنے میں جو تکلیف اس کو محسوس ہوتی ہے.وہ تکلیف اب ایک لذت کا رنگ اختیار کرتی جاتی ہے کیونکہ ان بدیوں کے بالمقابل نیکیاں آتی جائیں گی اور ان کے نیک نتائج جو سکھ دینے والے ہیں وہ بھی ساتھ ہی آئیں گے.یہاں تک کہ وہ اپنے ہر قول وفعل میں جب خدا تعالی ہی کی رضا کو مقدم کرلے گا اور اس کی ہر حرکت و سکون اللہ ہی کے امر کے نیچے ہوگی تو صاف اور بین طور پر وہ دیکھے گا کہ پورے اطمینان اور سکینت کا مزہ لے رہا ہے.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ : لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۳۶) اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتا ہے اور ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آجاتا ہے.یا درکھو! کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خدا کی نظر میں مکر وہ اور اس کے منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہے یہاں تک کہ کامل نیازمندی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶۴ سورة البقرة کے ساتھ آستانہ الوہیت پر بے اختیار ہو کر گر پڑتی ہے، یہ طریق ہے عبادت میں لذت حاصل کرنے کا.( الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱ ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۹۸) لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ اُس کے لئے جو اُس نے کام اچھے کئے اور اُس پر جو اُس نے جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱) برے کام کئے.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَانَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ وقفة قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ الخ.یعنی اے ہمارے خدا! نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں مت پکڑ جن کو ہم بھول گئے اور بوجہ نسیان ادا نہ کر سکے اور نہ اُن بد کاموں پر ہم سے مواخذہ کر جن کا ارتکاب ہم نے عمد ا نہیں کیا بلکہ سمجھ کی غلطی واقع ہوگئی اور ہم سے وہ بوجھ مت اُٹھوا جس کو ہم اُٹھا نہیں سکتے اور ہمیں معاف کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہم پر رحم فرما.لا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا یہ جو امر فوق الطاقت اور نا قابل برداشت ہو جاوے اس سے خدا بھی الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۴) در گذر کرتا ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۵)