Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 1

Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 1

تفسیر حضرت مسیح موعودؑ (جلد ۱)

Chapter: 1
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام


Book Content

Page 1

تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد اوّل سورة الفاتحة

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے." ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی / سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مدمقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." ( اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶٬۵۵ - اردو تر جمه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلدیں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک

Page 3

کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہو گئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اوّل ایڈ یشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.-۲ حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.- اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین

Page 4

الـ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) الْحَمدُ لِلهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جولوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.(ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچه مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوٹی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.

Page 5

جون ۱۹۶۹ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے نے / مارچ ۱۹۸۰ء کو تحر یک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.

Page 6

i بسم الله الرحمن الرحیم نمبر شمار ام ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ نحمده و نصلی علی رسولہ الکریم مختصر فہرست مضامین جلد اوّل مضمون سورۃ فاتحہ کا پہلا نام فاتحۃ الکتاب اور اس کی وجہ سورۃ فاتحہ میں مسیح موعود کے زمانہ کی بشارت سورۃ فاتحہ کا دوسرا نام سورة الحمد سورۃ فاتحہ کا تیسرا نام ام القرآن سورۃ فاتحہ کا چوتھا نام ام الکتاب سورۃ فاتحہ کا پانچواں نام السبع المثانی سورۃ فاتحہ کے خواص سورۃ فاتحہ میں گلاب ایسی وجوہ بے نظیری گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ سے روحانی مناسبت سورۃ فاتحہ کے عجائبات ظاہری و باطنی سورۃ فاتحہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے.سورۃ فاتحہ کی ایک بزرگ خاصیت سورۃ فاتحہ کی خوبیوں کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا سورۃ فاتحہ کے بے نظیر ہونے پر بعض مزید دلائل سورۃ فاتحہ کی عظیم صفات کا ثبوت صفحہ 1 L ۹ ۱۲ ۱۲ ۱۳ ۱۶

Page 7

نمبر شمار ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ سورۃ فاتحہ کا ایک عظیم اثر سورۃ فاتحہ ایک معجزہ ہے.سورۃ فاتحہ تواتر کے نیچے ہے سورۃ فاتحہ میں منطقی رنگ سورۃ فاتحہ کی فضیلت آریوں کا رد سناتن دھرم کے عقائد کی تردید مضمون صفحہ ۱۹ 19 ۲۱ ۲۲ ۲۲ ۲۲ ۲۳ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۷ ۲۷ ۲۸ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱ ۳۳ ۳۴ اعمال اور مجاہدات کی ضرورت سورۃ فاتحہ دوزخ سے حفاظت کا ذریعہ سورۃ فاتحہ ہر علم اور معرفت پر محیط ہے سورۃ فاتحہ معرفت کا پھل دینے والا درخت سورۃ فاتحہ کا تنویر باطن میں دخل سورۃ فاتحہ مظہر انوار الہی ہے.سورۃ فاتحہ کی بلندشان سورۃ فاتحہ ایک حصن حصین ہے سورۃ فاتحہ کے فوائد اور خوبیاں اَن گنت ہیں سورۃ فاتحہ کے نماز میں لازمی طور پر پڑھنے کی حکمت دعائے سورۃ فاتحہ میں تمام بنی نوع انسان کو شامل کرنا چاہیے دعا میں سورۃ فاتحہ کے تکرار کا اثر ۳۵ سورۃ فاتحہ کی سات آیات سات مشہور ستاروں کے مقابل پر ۳۶ استعاذہ کا حکم اور اس کی حکمت

Page 8

صفحہ iii نمبر شمار مضمون ۳۷ اَعُوذُ باللہ میں لفظ الرّجیم میں دجال کے قتل کا ذکر ۳۸ رجم کے معنی ۳۹ دجال کے قتل کا زمانہ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ دجال صرف خدا کے فضل سے قتل ہوگا دجال سے مراد شخص واحد نہیں شیطان کا نام رجیم رکھنے میں حکمت سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ۴۴ آیت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی تشریح ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ آیت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا قرآن مجید میں تکرار اور بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کا پڑھا جانا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں بیان شدہ کامل صداقتیں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں بیان شدہ پہلی صداقت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں اللہ تعالیٰ کی دوصفات الرحمن اور الرحیم کا ذکر اور ان کا باہمی فرق صفت رحمانیت کا نزول بغیر سبقت عمل کے قرآن مجید کا نزول صفت رحمانیت کے ماتحت ہوا ہے خدا کے پاک کلام کا اترنا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جانا صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کلام الہی کے فیض سے مستفیض ہونا صفت رحیمیت کے تحت ہوتا ہے ۵۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں بیان شدہ دوسری صداقت ۵۴ دنیا کے سب مہمات صفت رحمانیت اور رحیمیت کے تحت ہورہے ہیں ل {{{ { { { { { { { { { ؟؟ ۳۷ ۳۹

Page 9

صفحہ ۴۲ ۴۲ ۴۳ ۴۳ } } ۴۶ ۴۷ ۴۹،۴۸ ۵۳ ۵۴ ۵۸ ۵۸ ۶۱ ۶۲ iv مضمون نمبر شمار قرآن شریف کے شروع میں صفت رحمانیت اور رحیمیت کے ذکر میں حکمت خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت سے استمداد کی ضرورت ۵۷ بعض اوقات استمداد کے لئے دعا قبول نہ کئے جانے میں حکمت ۵۸ بسم اللہ پر ایک اعتراض اور اس کا جواب ۵۹ บ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ ۷۲ صفت الرحمن کو صفت الرحیم پر مقدم کیوں کیا گیا ہے بسم اللہ میں اسم کا اشتقاق وسم سے اسم شے کی اصل حقیقت کے لئے بطور ظل کے ہوتا ہے صفت رحمانیت اور رحیمیت کا ما بہ الامتیاز اس سوال کا جواب کہ اللہ تعالیٰ نے بسم اللہ میں صرف اپنی دوصفات کا ذکر کیوں کیا ہے آنحضرت کی ذات میں ہر دو صفات رحمانیت اور رحیمیت کا اجتماع آنحضرت کا نام محمد صفت رحمانیت کے تحت اور احمد نام صفت رحیمیت کے تحت آنحضرت کے صحابہ رحمانی اور جلالی شان کی بنا پر اسم محمد کے مظہر سیح موعود اسم احمد کے مظہر اور جمالی شان رکھنے والے اللہ کا لفظ اسم جامد ہے صفت رحمانیت اور رحیمیت ذات الہی کے بھید کی مظہر ہیں پارسیوں کے فقرہ بنام ایزدبخشایندہ اور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میں عظیم فرق اللہ کا نام خدا تعالیٰ کے لئے اسم اعظم ہے اللہ کے لفظ کا اطلاق اس ہستی پر ہوتا ہے جو تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کا ملہ سے متصف ہے

Page 10

نمبر شمار ۷۳ ۷۴ ۷۵ 2Y مضمون الرحمان کے معنی بغیر کسی عمل کے خود بخو د عطا کرنے والا سناتن دھرم والے صفت رحمانیت کے منکر ہیں الرحیم کے معنی نیک عمل کے بدلہ میں نیک نتیجہ دینے والا رحم کی دو اقسام.رحمانیت اور رحیمیت ۷۷ رحیمیت دعا کو چاہتی ہے ZA ۷۹ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت میں ان لوگوں کے خیال کی تردید جو خدا تعالیٰ کو بلا مبادلہ عطا کرنے والا نہیں مانتے رحیمیت میں ان لوگوں کے خیال کی تغلیط جو اعمال کو لغو خیال کرتے ہیں آیت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کی تشریح لفظ حمد کے معنی حمد کے حقیقی معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں حمد کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ کہ اللہ تعالی کامل طور پر تعریف کیا گیا ہے اور کامل طور پر تعریف کرنے والا ہے لفظ حمد ، شکر اور مدح میں فرق ۸۵ قرآن مجید کو حمد سے شروع کرنے میں حکمت ΔΥ ۸۷ ۸۸ ۸۹ ۹۰ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ میں یہ اشارہ کہ ہمارا خدا کامل ہے اور تمام صفات کا ملہ اور محامد کا جامع ہے خدا تعالیٰ کے کمالات سے توجہ پھیر لینے کی وجہ سے مشرکین کی تباہی اَلْحَمْدُ لِلَّهِ میں یہ اشارہ کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے ردردو TATAN NELGAKAN T میں نصاری اور بت پرستوں کے عقائد کی تردید الْحَمدُ لِلهِ میں مسلمانوں کو ی تعلیم کہ ان کا معبود وہ ہے جس کے لئے صفحہ اے ۷۲ ۷۳ ۷۵ ۷۵ ۸۰ ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۲ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۶ ۸۷ ۸۸ ۸۸ سب حمد ہے ۸۹

Page 11

vi نمبر شمار 99191 ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ مضمون اَلْحَمْدُ لِلهِ میں اشارہ کہ کمال حسن اور کمال احسان اللہ تعالیٰ کی ذات میں کامل طور پر پائے جاتے ہیں بطور اصل الاصول کے خدا تعالیٰ کی ذات میں چار احسانی خوبیاں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ میں آنحضرت کے ناموں کی طرف ایماء الْحَمْدُ لِلہ میں توحید کی جامع تعلیم بجز اسلام دنیا میں کوئی مذہب نہیں جو خدا تعالیٰ کو جمیع رذائل سے منزہ اور تمام محامد کا ملہ سے متصف سمجھتا ہو 99191 ۹۶ لا ۹۸ ۹۹ : 1+1 ۱۰۲ الحمد لله کے مضمون میں جو صداقت پائی جاتی ہے وہ بجز مذہب اسلام کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی الْحَمْدُ لِلهِ میں مذاہب باطلہ کا رد رب کے لفظ کے سات معافی رب العالمین میں یہ اشارہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر گمراہی کے بعد ہدایت کا دور لے آتا ہے جب کوئی بندہ عبادات میں فنا ہو جاتا ہے تو وہ عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے عالم کے معنی جو مد بر بالا رادہ صانع پر دلالت کرے عالمین سے مراد پیدا کرنے والے خدا کے سوا سب مخلوقات خَالِقُ الْعَالَمِينَ کی بجائے رَبُّ الْعَلَمینَ کا لفظ اختیار کرنے میں حکمت ۱۰۴ رب العلمین میں یہ اشارہ کہ ظاہری ربوبیت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ روحانی ربوبیت بھی فرماتا ہے ۱۰۵ لفظ رَبُّ الْعَلَمِینَ میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی پہلی خوبی کی طرف اشارہ کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے صفحه ۹۱ ۹۴ ۹۵ ۹۵ ۹۹ 1+1 1+1 1+1 1+4 1+2 ۱۰۷ 1+2 1.2 ۱۰۸

Page 12

vii نمبر شمار ۱۰۶ مضمون رَبُّ الْعَلَمِینَ میں یہ اشارہ کہ اللہ تعالیٰ کا فیض کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ۱۰۷ رَبُّ الْعَلَمِینَ کے الفاظ میں آریہ لوگوں کے خیال کی تردید ۱۰۸ رَبُّ الْعَلَمِینَ میں یہ اشارہ کہ دنیا کے ہر عصر کے اندر خدا کی دی ہوئی طاقت ہی کام کر رہی ہے 1+9 11.۱۱۲ رَبِّ الْعَلَمِينَ ، الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں ترتیب طبعی ہے صفات اربعہ میں اللہ کے چار اقسام کے فیضان کی طرف اشارہ فیضان ائم، فیضان عام، فیضان خاص، فیضان اخص رب ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین امہات الصفات ہیں صفات اربعہ اللہ تعالیٰ کے اسم ذات سمیت پانچ سمندر ہیں جن سے 6 پانچ آیات إِيَّاكَ نَعْبُدُ ، إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صفحہ 11+ = ۱۱۵ ۱۱۵ ۱۲۲ ۱۲۴ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ، غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ فیض لیتی ہیں 99191 اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے ۱۲۹ تا بعد آنے والی آیات کا ان مذکورہ صفات سے لطیف تعلق صفت رحیمیت میں عیسائیوں کی تردید ربوبیت، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت خدا تعالیٰ کی ذاتی صفات ہیں صفات اربعہ کا حصر اس دنیا کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے صفات اربعہ اللہ تعالی کی باقی صفات کے لئے اصولی صفات ہیں عرش الہی اور اس پر اللہ تعالیٰ کے مستوی ہونے کا مطلب اَلْحَمْدُ لِلَّهِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تک کی آیات میں دہریوں ملحدوں اور نیچریوں کا رد رَبُّ الْعَلَمِینَ کی صفت سے لے کر ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک کی صفات میں چار عالی شان صداقتیں ۱۵۸ ۱۳۱ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۰ ۵۴ ۱۵۷ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۶ 112 ۱۱۸ ١١٩ ۱۲۰

Page 13

صفحہ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ ۱۵۹ ۱۵۹ 17.۱۶۲ ܬܙ ۱۷۰ ۱۷۳ ۱۷۵ 122 ۱۷۸ ۱۸۰ ۱۸۲ ۱۸۵ ۱۸۸ ۱۸۸ viii نمبر شمار ۱۲۱ مضمون پہلی صداقت.تمام محامد خدا ہی سے خاص ہیں ۱۲۲ دوسری صداقت.ہر جاندار کے قیام اور بقاء کے اسباب کسی عامل کے عمل کا نتیجہ نہیں ۱۳ تیسری صداقت سعی کرنے والوں کی سعی پر خدا تعالیٰ ثمرات مرتب کرتا ہے ۱۲۴ چوتھی صداقت کامل جزا سزا کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۱۲۵ سعادت عظمی اور شقاوت عظمی کیا چیز ہیں.۱۲۶ مذکورہ بالا چار صداقتوں کا مکمل اظہار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا ۱۲۷ عیسائیوں کے مذہب کا خلاصہ ۱۲۸ خدا تعالیٰ کی چہار صداقتوں رب ، رحمن ، رَحِيم ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے بارہ میں برہمو سماج والوں کا اعتقاد ۱۲۹ فیوض ربوبیت، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت میں مابہ الامتیاز اللہ تعالیٰ کا اپنی چار صفات کا اظہار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر ۱۳۱ یوم الدین میں مسیح موعود کے زمانہ کی طرف اشارہ ۱۳۲ امت محمدیہ کے آخری دور میں اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ کا اظہار ۱۳۳ صفات اربعہ کے متعلق ایک کشفی نکتہ ۱۳۴ جہاد بالسیف کی عدم ضرورت ۱۳۵ سورۃ فاتحہ میں بیان شدہ چار صفات میں پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ کے مظہر کامل تھے ۱۳۶ ۱۳۷ اسلام میں خدا کی ایسی صفات مانی گئی ہیں جن میں کوئی نقص نہیں نکالا جا سکتا مانی جاسکتا ۱۳۸ خدا تعالی کی چار صفات اس کی الوہیت کی مظہر اتم ہیں

Page 14

ix نمبر شمار مضمون ۱۳۹ عرش الہی کو چار فرشتوں کے اٹھانے کا مطلب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صفات الہی کا مظہر ہیں ۱۴۰ ۱۴۱ صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے اظہار کے نتیجہ میں صحابہ نے دنیا میں کامیابی حاصل کی ۱۴۲ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے ذریعہ اسلام جادہ اعتدال پر رہنے کی تعلیم دیتا ہے ۱۴۳ سورۃ فاتحہ میں آریوں اور سنا تنیوں کا رد ۱۴۴ سورۃ فاتحہ میں مذاہب باطلہ کا رد ۱۴۵ عبادت اور احکام الہی کی دو شاخیں اور ان کا بیان سورۃ فاتحہ میں عبادت کی محرک دو چیزیں حسن یا احسان اور ان کا بیان سورۃ فاتحہ میں ۱۴۷ سورۃ فاتحہ میں مذکور چاروں صفات خدا تعالیٰ کے جو د اور کرم پر مشتمل ہیں ۱۴۸ قرآن کریم کو الحمدُ للہ سے شروع کرنے میں حکمت ۱۴۹ سورۃ فاتحہ میں انسان کے لئے سبق ۱۵۰ انجیل کی دعا اور سورۃ فاتحہ کی دعا کا تقابل صفحہ ۱۸۹ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۳ ١٩٦ ۱۹۸ ۱۹۸ ۱۹۹ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۸ ۲۱۳ ۲۱۴ عرش الہی کی حقیقت اور سورۃ فاتحہ کے ذریعہ اس سے مخفی وجود کا ظہور ۱۵۱ ۱۵۲ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ کو اپنے اندر قائم کرے ۱۵۳ آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تشریح ۱۵۴ ايَّاكَ نَعْبُدُ کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم کرنے میں حکمت ۱۵۵ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں تدبیر اور دعا دونوں کو ملا دیا گیا ہے ۱۵۶ اور یہی اسلام ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین میں انسانی زندگی کے مقصد کا بیان

Page 15

صفح ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۸ ٢٢٠ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۲ ۲۲۴ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ X نمبر شمار مضمون ۱۵۷ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں عبادت سے مراد پرستش اور معرفت دونوں ہیں ۱۵۸ عبادت کے اصول کا خلاصہ ۱۵۹ عبادت کی حقیقت 17.۱۶۱ انسان تعبد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے ۱۶۲ گناہ سے بچنے کیلئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو بار بار پڑھنا چاہیے إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں ارشاد کہ تمام سعادت اللہ تعالیٰ کی ۱۶۳ صفات کی پیروی کرنے میں ہے ۱۶۴ ܬܪܙ ۱۶۶ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے الفاظ سے ریا کی بیماری کا علاج عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے سب سے افضل عبادت ۱۶۷ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنا دیتا ہے جو اس کی عبادت میں لگار ہے.۱۲۸ آخری زمانے کا احمد مسیح موعود ۱۶۹ جو شخص دعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے ۱۷۰ گناہ سے نفرت دعا اور تد بیر دونوں سے حاصل ہوتی ہے 121 مومن دعا اور تد بیر دونوں سے کام لیتا ہے ۱۷۲ حَى قَیوم کا تعلق إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے ساتھ ۱۷۳ نماز میں لذت پیدا کرنے کے لئے بار بار إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعین کا تکرار لازمی ہے و ۱۷۴ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں باطل معبودوں کی تردید اور مشرکوں کا رد ۱۷۵ توحید کی تین اقسام اور ان کے حصول کا ذریعہ

Page 16

صفحہ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۲ xi ☑ نمبر شمار استغفار کے معنی مضمون ۱۷۷ ایسی دعا کرو کہ اس کے ذریعہ ثابت ہو جاوے کہ اس کی ہستی برحق ہے ۱۷۸ قرآن شریف میں بڑے بڑے وعدے کن متقیوں سے کئے گئے ہیں ١٩ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَ کی تشریح ۱۸۰ ہدایت اور اس کی اقسام سورۃ فاتحہ میں یہ حکم کہ ہم انبیاء کی تمام ہدا یتیں طلب کریں ۱۸۱ ۱۸۲ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی تین اقسام ۲۳۳ ۱۸۳ خدا کی طرف سے ہدایت کے تین وسائل ۱۸۴ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہ اشارہ کہ ہدایت پانے کے قابل وہی ۱۸۵ ہے جس کی زبان ذکر الہی سے تر رہے صراط کے معنی ١٨٦ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں استقامت کی راہ مانگنے کاحکم اور استقامت کے معنی ۱۸۷ ہدایت حاصل کرنے کے مختلف طریق ۱۸۸ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں تین گروہوں یعنی منعم علیہم، یہود اور ۱۸۹ ۱۹۰ ١٩١ نصاری کا ذکر سورۃ فاتحہ بشارت دیتی ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں امت محمدیہ کے افراد کو پہلے لوگوں کے انعام دیئے جانے کی خوشخبری اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دعا انسان کو ہر کبھی سے نجات دیتی ہے ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۸ ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۹ ۲۵۲ ۲۵۲ ۲۵۵

Page 17

xii مضمون اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں رسولوں ،صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں کی راہ طلب کرنے کی ہدایت صفحه ۲۵۶ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۵۹ ۲۶۰ ۲۶۱ ۲۶۴ ۲۶۵ ۲۶۶ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۶۹ ۲۷۱ ۲۷۴ ۲۷۴ سب دعاؤں سے مقدم دعا طلب صراط مستقیم ہے نمبر شمار ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ صراط مستقیم تین قسم پر ( علمی عملی اور حالی) اور صراط مستقیم نعمت عظمیٰ اور ہر نعمت کی جڑ ہے ۱۹۷ صراط مستقیم کی حقیقت ۱۹۸ صراط مستقیم پر قائم رہنے کیلئے تین چیزیں.قرآن شریف ،سنت، حدیث ۱۹۹ اسلام کا نام استقامت ۲۰۰ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں چار مراتب کمال کے طلب کرنے کا ارشاد ۲۰۱ منعم علیہم سے مراد نبی ،صدیق، شہید اور صالح ۲۰۲ اَنْعَبَتَ عَلَيْهِمُ میں جماعت نبوی اور جماعت مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ال کی آیت بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کی راہ ہمیشہ کے لئے کھلی ہے ۲۰۴ اگر امت محمدیہ کو انبیاء علیہم السلام کے انعامات نہیں ملنے تھے تو اهْدِنَا القِرَاط...الخ کی دعا کیوں سکھائی گئی ۲۰۵ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہ دعا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے شرف مکالمہ ۰۶ ۲۰۷ حاصل ہو.علم کے تین مدارج علم الیقین ، عین الیقین حق الیقین امت محمدیہ کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسا انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے

Page 18

صفحہ ۲۷۷ ۲۷۸ ۲۷۹ ۲۷۹ ۲۸۰ ۲۸۲ ۲۸۲ ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۷ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۳ ۲۹۴ Xiii مضمون نمبر شمار ۲۰۸ امت محمدیہ کو ظلی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں ایسی چیز بھی مل سکتی ہے جو انبیاء کے افراد میں سے کسی ایک فردکو بھی حاصل نہیں ہوئی ۲۰۹ | صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَبْتَ عَلَيْهِمْ میں انعام سے مراد الہام اور کشف وغیرہ ۲۱۰ ۲۱۱ آسمانی علوم ہیں امت محمدیہ کے لئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے یقین اور محبت کے مقام پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء کا وقتا فوقتاً آتے رہنا ضروری ہے ۲۱۲ اگر انعام واکرام کا دروازہ بند تھا تو اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سکھانا بے فائدہ بن جاتی ہے ۱۳ ان عَلَيْهِمْ میں چار منعم علیہم گروہوں کا ذکر نبی ، صدیق ، شہید اور صالح مکالمہ الہیہ کا اگر انکار ہو تو اسلام ایک مردہ مذہب ہوگا ۲۱۵ نبوت کا دروازہ بند قرار دینے سے امت محمد یہ خیر الامت نہیں رہتی ۲۱ اللہ تعالیٰ سب کو ولی بنانا چاہتا ہے ۲۱۷ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيم میں مسیح موعود کی بعثت کی پیشگوئی اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا تعلیم کرنے میں انسان کو تین پہلو مد نظر ۲۱۸ ۲۱۹ رکھنے کا ارشاد اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں محمدی سلسلہ میں مسیح کے آنے کی پیشگوئی نجات محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے ۲۲۱ دعا صرف خدا کو راضی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ہونی چاہیے ۲۲۲ | اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو لواکمل اور اتم کر

Page 19

صفحه ۲۹۵ ٣٠١ ٣٠١ ۳۰۴ ۳۰۴ ۳۰۶ ۳۰۷ ۳۰۸ ٣٠٩ ۳۱۰ ۳۱۲ xiv نمبر شمار مضمون ٢٢٣ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں نفوس کو شرک کی باریک راہوں سے پاک کرنے کی طرف عظیم اشارہ ۲۲۴ | اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعانوع انسان کی عام ہمدردی کے لئے ہے ۲۲۵ قرآن مجید کی دعا اهدنا الصراط الخ اور انجیل کی دعا میں بین فرق ۲۲۶ سورۃ فاتحہ کے حقائق و دقائق ایک دفتر میں بھی ختم نہیں ہو سکتے ۲۲۷ | اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کا ماحصل یہی ہے کہ ہمیں نبیوں اور رسولوں کا مثیل بنا ۲۲۸ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کے قبول ہونے کا سورۃ بقرہ کے ابتدا میں اشارہ ٢٢٩ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں قبولیت دعا اور مقربین کے آثار کی طرف اشارہ ۲۳۰ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا دین اور دنیا کی ساری حاجتوں پر حاوی ہے دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب ہے کہ پہلے کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا میں امام الزمان کو قبول کرنے کی توفیق ملنے کی دعا ۲۳۳ | اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقیم کی دعا انبیاء کیوں مانگتے ہیں ۲۳۴ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ۲۳۵ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا ام الادعیہ ہے ۲۳۶ خدا تعالیٰ متقی کو ضائع نہیں کرتا ۲۳۷ مومن کے نفس کی تکمیل دوشر بتوں کے پینے سے ہوتی ہے شربت کا فوری اور شربت زنجبیلی

Page 20

صفحہ ۳۱۳ ۳۱۶ ۳۱۶ ۳۱۷ ۳۱۷ ٣٢١ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۲ ۳۲۲ ۳۲۶ ۳۲۸ ۳۲۹ ۳۳۰ ۳۳۴ ۳۳۵ XV نمبر شمار مضمون ۲۳۸ انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے دعا ایک اعلیٰ ہتھیار ہے جو ہر مشکل سے نجات کی راہ ہے ۲۳۹ ۲۴۰ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کرتے وقت تین لحاظ رکھنے ضروری ہیں ۲۴۱ انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں ۲۴۲ سورۃ فاتحہ میں تین قسم کی صداقتیں ۲۴۳ | اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ظلی سلسلہ پیغمبروں کا اس امت میں قائم کرنا چاہتا ہے ۲۴۴ سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی ۲۴۵ مغضوب علیہم سے مراد یہود اور الضالین سے مراد عیسائی ۲۴۶ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں اس بات کی طرف اشارہ کہ اس قوم میں بھی یہودی ضرور پیدا ہوں گے ۲۴۷ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھانے میں یہ راز کہ تم میں مسیح ثانی پیدا ہو گا ۲۴۸ مسیح موعود کے متعلق قرآن میں کہاں کہاں ذکر ہے ۲۴۹ سورة فاتحہ ام القرآن ۲۵۰ سورۃ فاتحہ میں تین گروہوں کا ذکر منعم علیہم مغضوب علیہم اور ضالین ۲۵۱ مغضوب علیہم کے نکلنے کے وقت خدا تعالیٰ نے زمین والوں کو تین طرح کی تاریکی میں پایا ۲۵۲ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں یہ اشارہ کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ یہود کی طرح اپنے مسیح کی تکفیر کرے گا ۲۵۳ مغضوب علیہم اور ضالین سے کون لوگ مراد ہیں

Page 21

xvi نمبر شمار مضمون ۲۵۴ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں اس بات کی طرف اشارہ کہ مسلمانوں کا معاملہ بھی آخری زمانہ میں اہل کتاب کا سا ہو جائے گا ۲۵۵ خداوند تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو موسوی امت کے بالکل بالمقابل پیدا کیا ہے ۲۵۶ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں یہ اشارہ کہ مسیح کا انکار کر کے ٹھوکر نہ کھانا ۲۵۷ الضالین میں یہ اشارہ کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عیسائیوں کا بہت زور ہوگا ۲۵۸ حدیث میں ہے کہ جب تم دجال کو دیکھو تو سورہ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو ۲۵۹ سورۃ فاتحہ میں صرف دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھلائی گئی ہے ۲۶۰ حدیث اور قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض علماء کو یہود ۲۶۱ سے نسبت سورۃ فاتحہ کا ضالین کے لفظ پر اختتام اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی ۲۶۲ قرآن شریف کی رو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدر تھا ۲۶۳ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا کو تعلیم کر کے سب مسلمانوں کو ڈرایا جانا ۲۶۴ احادیث میں مسیح موعود کے نازل ہونے کا ذکر ۲۶۵ قرآن مجید کے اول کو آخر کے ساتھ ایک تعلق ٢۶۶ الضَّانِينَ میں یہ اشارہ کر قتل دجال اور کسر صلیب کے لئے مسیح آئے گا ۲۶۷ سلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ سے مشابہت ۲۶۸ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص میں دو قسم کی صفات کی ضرورت صفحہ ۳۳۵ ۳۳۹ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۸ ۳۵۰ ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۴

Page 22

صفحہ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۷ ۳۶۰ ۳۶۴ ۳۶۹ ۳۷۲ ۳۷۲ ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۷۷ ۳۸۰ ۳۸۰ ۳۸۲ ۳۸۴ xvii نمبر شمار مضمون ۲۶۹ امت محمدیہ پر دو خوفناک زمانے.ابوبکر" کے عہد خلافت کا زمانہ اور دجالی فتنہ کا زمانہ ٢٧٠ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اس بات کی ترغیب کہ صحیح معرفت کے لئے دعا کی جائے ۲۷۱ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں خدائے پروردگار کے ساتھ ادب کا طریق اختیار کرنے کی طرف اشارہ ۲۷۲ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے قومی سبعیہ کی پیروی کرنے والے اور ضالین سے قومی بہیمیہ کی پیروی کرنے والے مراد ہیں ۲۷۳ قرآن شریف میں تین قوموں یا تین قسم کے لوگوں کا ذکر ۲۷۴ حیات مسیح کا عقیدہ عیسائیوں کی تمام گمراہیوں کی جڑ ہے ۲۷۵ ضالین سے مراد عیسائی پادری ۲۷۶ مغضوب علیہم اور ضالین کی سزا میں فرق ۲۷۷ سورۃ فاتحہ میں تین گزشتہ فرقوں کا ذکر ۲۷۸ سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں ۲۷۹ سورۃ فاتحہ نری تعلیم نہیں بلکہ اس میں ایک بڑی پیشگوئی ہے ۲۸۰ سورۃ فاتحہ میں تین فرقوں کے ذکر میں یہ حکمت کہ امت محمدیہ بھی ان قسموں میں سے ہر ایک قسم کی وارث ہوگی ۲۸۱ مغضوب علیہم اور ضالین میں فرق ۲۸۲ سورۃ فاتحہ جامع ہے تمام خیروں کی اور مانع ہے تمام مضرات کی ۲۸۳ سورۃ فاتحہ کی بعض مختصر تفاسیر ۲۸۴ سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے آخر میں الحمد کا لفظاً ومعنا تکرار کر کے دو احمدوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

Page 23

صفحہ ۳۸۴ ۳۹۳ ۳۹۴ ۳۹۵ ۳۹۶ ۳۹۶ ۳۹۶ ۳۹۸ ۴۰۶ ۴۰۶ ۴۰۸ ۴۰۹ ۴۱۰ ۴۱۱ xviii مضمون نمبر شمار ۲۸۵ ایک پیاری دعا سورۃ فاتحہ ۲۸۶ وید میں مذکور چار مجازی دیو تے چار مجازی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں ۲۸۷ سورۃ فاتحہ میں بیان شدہ دعا ہی نماز ہے ۲۸۸ سورۃ فاتحہ کا تفسیری ترجمہ ۲۸۹ سورۃ فاتحہ میں دعا کی برکتوں کی طرف اشارہ ۲۹۰ سورۃ فاتحہ میں اس بات کی طرف اشارہ کہ نیک بخت وہ ہے جس کے اندر دعا کے لئے غیر معمولی جوش ہو ۲۹۱ سورۃ فاتحہ میں اس بات کی طرف اشارہ کہ صفات باری تعالیٰ بندے کے ایمان کے مطابق اثر دکھاتی ہیں ۲۹۲ سورۃ فاتحہ کی دعا کا مسیح علیہ السلام کی دعا سے موازنہ ۲۹۳ سورۃ فاتحہ کے لطائف ۲۹۴ پہلا لطیفہ ۲۹۵ دوسر ا لطیفه ۲۹۶ تیسر الطیفه ۲۹۷ چوتھا لطیفہ ۲۹۸ پانچواں لطیفہ

Page 24

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفاتحة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سورۃ فاتحہ کا پہلا نام فاتحۃ الکتاب اور اس کی وجہ اعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَهَا جاننا چاہیئے کہ سورۃ فاتحہ کے بہت سے نام ہیں جن میں سے أَسْمَاءٌ كَبِيرَةٌ فَأَوَلُهَا فَاتِحَةُ پہلا نام فاتحة الكتاب ہے اور اس کا یہ نام اس لئے رکھا الْكِتَابِ وَ سُميت بِذَالِك لأَنَّهَا گیا ہے کہ قرآن مجید اسی سورۃ سے شروع ہوتا ہے.نماز يُفْتَتحُ بِهَا فِي الْمُصْحَفِ وَ فی میں بھی پہلے یہی سورۃ پڑھی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ سے جو الصَّلَاةِ وَ فِي مَوَاضِع الدُّعَاء من رب الارباب ہے دُعا کرتے وقت اسی (سورۃ ) سے ابتداء وَفِي رَّبِّ الْأَرْبَابِ وَعِنْدِى أَنها سُمیت کی جاتی ہے.اور میرے نز دیک اس سورۃ کو فاتحہ اس لئے بهَا لِمَا جَعَلَهَا اللهُ حَكَمًا لِلْقُرانِ وَ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کو قرآن کریم کے مضامین مُلِيَّ فِيْهَا مَا كَانَ فِيْهِ مِنْ أَخْبَارِ کے لئے حکم قرار دیا ہے.اور جو اخبار غیبیہ اور حقائق ومعارف وَمَعَارِفَ مِنَ اللهِ الْمَتَانِ وَ أَنَّهَا قرآن مجید میں احسان کرنے والے خدا کی طرف سے بیان جَامِعَةً لِكُل ما يختاجُ الْإِنْسَانُ کئے گئے ہیں وہ سب اس میں بھر دیئے گئے ہیں اور جن امور کا إِلَيْهِ فِي مَعْرِفَةِ الْمَبْدَءِ وَ الْمَعَادِ انسان کو مبدء و معاد ( دنیا اور آخرت) کے سلسلہ میں جاننا كَمِثْلِ الْإِسْتِدْلَالِ عَلى وُجُودِ ضروری ہے، وہ سب اس میں موجود ہیں.مثلاً وجود باری،

Page 25

سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الصَّانِعِ وَ ضُرُورَةِ النُّبُوَّةِ وَالْخِلَافَة في ضرورت نبوت اور مومن بندوں میں سلسلہ خلافت کے الْعِبَادِ وَ مِنْ أَعْظَمِ الْأَخْبَارِ وَ أَكْبَرِهَا قیام پر استدلال.اور اس سورۃ کی سب سے بڑی اور اہم أَنَّهَا تُبَيِّرُ بِزَمَانِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ و خبر یہ ہے کہ یہ سورۃ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ کی أَيَّامِ الْمَهْدِي الْمَعْهُوْدِ وَسَنَذْكُرُهُ في بشارت دیتی ہے اور اسے ہم خدائے ودود کی دی ہوئی مَقَامِه بِتَوْفِيقِ اللهِ الْوَدُودِ وَمِن توفیق سے اس کے محل پر بیان کریں گے.اسی طرح اس أَخْبَارِهَا أَنَّهَا تُبَيِّرُ بِحُمُرِ الدُّنْيَا سورۃ میں بیان شدہ خبروں میں سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ یہ الدنيَّةِ وَسَنَكْتُبُه بقوة من الخطرة سورۃ اس دنیا کی عمر بتاتی ہے اور ہم عنقریب اسے بھی اللہ کی الْأَحَدِيَّةِ.وَهَذِهِ هِيَ الْفَاتِحَةُ الَّتِي أَخْبَرَ دی ہوئی قوت سے لکھیں گے.یہ وہی سورۃ فاتحہ ہے جس کی بِهَا نَبِى مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.وَقَالَ رَأَيْتُ مَلَكًا خبر خدا تعالیٰ کے انبیاء میں سے ایک نبی نے دی.اس نبی قَوِيًّا نَازِلًا مِّنَ السَّمَاءِ وَ فِي يَدِهِ الْفَاتِحَةُ نے کہا کہ میں نے ایک قومی فرشتہ دیکھا جو آسمان سے اترا، عَلى صُورَةِ الْكِتَابِ الصَّغِيرِ فَوَقَعَ اس کے ہاتھ میں سورۃ فاتحہ ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل رجلُهُ الْيُمْنى عَلَى الْبَحْرِ وَالْيُسْرَى عَلَی میں تھی اور خدائے قادر کے حکم سے اس کا دایاں پاؤں التي يحكم الرّبِ الْقَدِيرِ وَصَرَخَ سمندر پر اور بایاں پاؤں خشکی پر پڑا اور وہ شیر کے غرانے الْبَرِ بِحُكْمِ بِصَوْتٍ عَظِيمٍ كَمَا يَزارُ الطير عام و کی مانند بلند آواز میں پکارا، اس کی آواز سے سات گرجیں ظَهَرَتِ الرُّعُوْدُ السَّبْعَةُ بِصَوْتِهِ وَكُلٌّ پیدا ہوئیں جن میں سے ہر ایک میں ایک مخصوص کلام مِنْهَا وُجِدَ فِيْهِ الْكَلَامُ.وَقِيلَ الحيم (جملہ ) سنائی دیا اور کہا گیا کہ ان گرجوں میں سے پیدا عَلى مَا تَكَلَّمَتْ بِهِ الرُّعُودُ وَلَا تَكْتُبُ ہونے والے کلمات کو سر بمہر کر دے اور انہیں مت لکھے.كَذَالِك قَالَ الرَّبُ الْوَدُوْدُ.وَالْمَلک خدائے مہربان نے ایسا ہی فرمایا ہے اور نازل ہونے النَّازِلُ أَقْسَمَ بِالْحَتى الَّذِي أَضَاءَ نُورُهُ والے فرشتہ نے اس زندہ خدا کی قسم کھا کر جس کے نور وَجْهَ الْبِحَارِ وَ الْبُلْدَانِ أَنْ لَّا يَكُونَ نے سمندروں اور آبادیوں کو روشن کیا ہے کہا کہ اس زَمَانٌ بَعْدَ ذَالِكَ الزَّمَانِ بِهَذَا الشَّأْنِ ( مسیح موعود ) کے زمانہ کے بعد اس شان ومرتبہ کا زمانہ وَقَدِ اتَّفَقَ الْمُفَثِرُونَ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ نہ آئے گا.اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ يَتَعَلَّقُ بِزَمَانِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ پیش گوئی مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.سواب وہ الرَّبَّانِي فَقَدْ جَاءَ الزَّمَانُ وَ ظَهَرَتِ زمانہ آ گیا ہے اور سورۃ فاتحہ کی سات آیات سے وہ سات

Page 26

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة الْأَصْوَاتُ السَّبْعَةُ مِنَ السَّبْعِ الْمَثَانِي آوازیں ظاہر ہوگئی ہیں اور یہ زمانہ نیکی اور ہدایت کے لحاظ وَهَذَا الزَّمَانُ لِلْخَيْرِ وَالرُّشْدِ كَاخِرِ سے آخری زمانہ ہے اور اس کے بعد کوئی زمانہ اس زمانہ کی الْأَزْمِنَةِ وَلَا يَأْتِي زَمَانٌ بَعْدَهُ كَمِثْلِهِ في شان و مرتبہ کا نہیں آئے گا اور جب ہم اس دنیا سے الْفَضْلِ وَالْمَرْتَبَةِ وَ إِنَّا إِذَا وَذَعْنَا رخصت ہو جائیں گے تو پھر ہمارے بعد قیامت تک کوئی الدُّنْيَا فَلَا مَسِيحَ بَعْدَنَا إِلى يَوْمِ اور مسیح نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی آسمان سے اترے گا اور الْقِيَامَةِ.وَلَا يَنْزِلُ أَحَدٌ مِنَ السَّمَاءِ وَلَا نہ ہی کوئی غار سے نکلے گا.سوائے اس موعو دلڑ کے کےجس يَخْرُجُ رَأْسٌ مِنَ الْمَغَارَةِ إِلَّا مَا سَبَقَ کے بارہ میں پہلے سے میرے رب کے کلام میں ذکر مِن رَّبِّي قَوْل فِي النُّدِيَّةِ * وَإِنَّ هَذَا هُوَ آچکا ہے.یہی بات سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الْحَقُ وَ قَد نَزَلَ مَنْ كَانَ نَازِلا تین جو ( مسیح موعود) آنے والا تھا وہ آ گیا ہے اور زمین و الخطرَةِ، وَتَشْهَدُ عَلَيْهِ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ آسمان اس پر گواہی دے رہے ہیں، لیکن تم اس گواہی کی وَلكِنَّكُمْ لا تَطَّلِعُونَ عَلى هذه طرف بالکل توجہ نہیں کرتے ، تم عنقریب وقت نکل الشَّهَادَةِ وَ سَتَذْكُرُونَنِي بَعْدَ الْوَقْتِ جانے کے بعد مجھے ضرور یاد کرو گے.سعادت مند وہی وَ السَّعِيْدُ مَنْ أَدْرَكَ الْوَقْتَ وَمَا أَضَاعَةَ شخص ہے جس نے اس وقت کو پایا اور اس کو غفلت میں ضائع نہ کیا.( ترجمہ از مرتب ) بِالْغَفْلَةِ (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷۰ تا ۷۳) | سورۃ فاتحہ کا دوسرا نام سورة الحمد إِنَّ لِلْفَاتِحَةِ أَسْمَاء أُخْرَى مِنْهَا سورۃ فاتحہ کے اور نام بھی ہیں جن میں سے ایک سورۃ سُوْرَةُ الْحَمْدِ مَا افْتُيحَ بِحَمْدِ رَبَّنَا الحمد بھی ہے کیونکہ یہ سورۃ ہمارے ربّ اعلیٰ کی حمد سے شروع ہوتی ہے.الأَعلى.سورۃ فاتحہ کا تیسرا نام ام القرآن وَ مِنْهَا أُمُّ الْقُرْآنِ بِمَا جَمَعَتْ اور سورۃ فاتحہ کا ایک نام ام القرآن بھی ہے کیونکہ وہ مَطالِبَهُ كُلَّهَا بِأَحْسَنِ الْبَيَانِ وَ تَا بَطَتْ تمام قرآنی مطالب پر احسن پیرایہ میں حاوی ہے اور اس وَتَأَبَّطَتْ * إِلَيْهِ إِشَارَةٌ فِي قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ (منه) ( ترجمہ ) اسی کی طرف اشارہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کہ مسیح موعود نکاح کرے گا اور اس کو اولا دی جائے گی.(منہ )

Page 27

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة كَصَدَفٍ دُرَرَ الْفُرْقَانِ وَ صَارَت نے سیپ کی طرح قرآن کریم کے جواہرات اور موتیوں کو اپنے عش لطيرِ الْعِرْفَانِ.فَإِنَّ الْقُرْآنَ اندر لیا ہوا ہے.اور یہ سورۃ علم و عرفان کے پرندوں کے لئے جَمَعَ عُلُومًا أَرْبَعَةً فِي الْهِدَايَاتِ گھونسلوں کی مانند بن گئی ہے.یاد رہے کہ قرآن کریم میں عِلْمُ الْمَبْدَهِ وَعِلْمَ الْمَعَادِ وَعِلْم انسانوں کی رہنمائی کے لئے چار مضا مین بیان کئے گئے ہیں.النُّبُوَّةِ وَعِلْم تَوحِيدِ الذَّاتِ وَ ا علم مبدء - ۲ - علم معاد.۳.علم نبوت.۴ علم توحید ذات و.الصَّفَاتِ وَلَا شَكَ أَنّ هذه صفات اور لاریب یہ چاروں علوم سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.اور الْأَرْبَعَةَ مَوْجُوْدَةٌ فِي الْفَائِحة و یہ علوم اکثر علمائے امت کے سینوں میں زندہ درگور کی حیثیت مَوْءُودَةٌ فِي صُدُورِ أَكثر عُلَمَاءِ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ سورۃ فاتحہ کو پڑھتے تو ہیں لیکن وہ ان کے الْأُمَّةِ.يَقْرَأُوْنَهَا وَهِيَ لَا تُجَاوِزُ حلق سے نیچے نہیں اترتی اور وہ اس کی ان سات نہروں کو پوری طرح مِنَ الْحَنَاجِرِ.لَا يُفَجِرُونَ أَنْهَارَهَا جاری نہیں کرتے ( تا وہ خود بھی اور دوسرے لوگ بھی ان سے السَّبْعَةَ بَلْ يَعِيْمُونَ كَالْفَاجِرٍ فائدہ اٹھائیں بلکہ وہ فاجر لوگوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں.) اعجاز مسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۷۵،۷۴) سورۃ فاتحہ کا چوتھا نام اُمّ الكتاب ( ترجمه از مرتب) اس کا نام ام الکتاب بھی ہے کیونکہ قرآن شریف کی تمام تعلیم کا اس میں خلاصہ اور عطر موجود ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۶، ۲۴۷) وَمِنَ الْمُمْكِنِ أَنْ يَكُونَ تَسْمِيَةُ هذه | سورة کا نام ام الکتاب رکھنے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ السُّورَةِ بِأَمِ الْكِتَابِ نَظرًا إلى غاية امور روحانیہ کے بارے میں اس میں کامل تعلیم موجود ہے، التَّعْلِيمِ فِي هَذَا الْبَابِ فَإِنَّ سُلُوكَ کیونکہ سالکوں کا سلوک اُس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب السَّالِكيْن لا يَتِمُّ إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَسْتَوْلِيَ تک کہ اُن کے دلوں پر ربوبیت کی عزت اور عبودیت کی عَلَى قُلُوبِهِم عِزَّةُ الرُّبُوبِيَّةِ وَ ذِلَّةُ ذلّت غالب نہ آ جائے.اس امر میں خدائے واحد و یگانہ کی الْعُبُودِيَّةِ.وَلَن تَجِدَ مُرْشِدًا في هَذَا الْأَمْرِ طرف سے نازل شدہ سورۃ فاتحہ جیسا رہنما اور کہیں نہیں پاؤ كَهْذِهِ السُّورَةِ مِنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ أَلَا گے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ اُس نے کس طرح الْحَمدُ لِلَّهِ تَرى كَيْفَ أَظْهَرَ عِزَّةَ اللهِ وَعَظمَتَهُ بِقَوْلِهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سے لے کر مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک کے

Page 28

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ إِلى مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ | الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی عزت اور عظمت کو ظاہر فرمایا ہے.ثُمَّ أَظْهَرَ ذِلَّةَ الْعَبْدِ وَهَوَانَهُ وَضُعُفَهُ پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ کر بندہ کے بِقَوْلِهِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ومن عجز اور کمزوری کو ظاہر کیا ہے.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس الْمُمْكِن أَن يَكُونَ تَسْمِيَةُ هَذِهِ السُّورَةِ بِه سورة كو ألم الکتاب اس امر کے پیش نظر کہا گیا ہو کہ اس نَظَرًا إلى ضُرُورَاتِ الْفِطْرَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ وَ میں انسانی فطرت کی سب ضرورتیں مدنظر ہیں اور انسانی إِشَارَةً إِلَى مَا تَقْتَضِي الطَّبَائِعُ بِالْكَسْبِ أَو طبائع کے سب تقاضوں کی طرف اشارہ ہے خواہ وہ کسب الْجَوَاذِبِ الْإِلَهِيَّةِ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ يُحِبُّ سے متعلق ہوں یا افضال الہیہ سے.کیونکہ انسان اپنے لِتَكْمِيْلِ نَفْسِهِ أَنْ تَحْصُلَ لَهُ عِلْمُ ذَاتِ نفس کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اللهِ وَصِفَاتِهِ وَأَفْعَالِهِ وَيُحِبُّ أَن تحصل له افعال کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے.اور یہ بھی چاہتا ہے کہ عِلْمُ مَرْضَاتِهِ بِوَسِيلَةِ أَحْكامِهِ التى اسے اس کے ان احکام کے وسیلہ سے اس کی خوشنودی تَنكَشِفُ حَقِيقَتُهَا بِأَقْوَالِهِ وَ كَذَالِكَ کا علم ہو جائے ، جن کی حقیقت اس کے اقوال سے ہی تَقْتَدِن رُوحَانِيَّتُهُ أَنْ تَأْخُذَ بِيَدِهِ الْعِنَايَةُ کھلتی ہے اور ایسا ہی اس کی روحانیت چاہتی ہے کہ الرَّبَّانِيَّةُ.وَ يَحْصُلَ بِإِعَانِتِهِ صَفَاءُ الْبَاطِنِ عنایت ربانی اس کی دستگیری کرے اور اس کی مدد سے وَالْأَنْوَارُ وَالْمُكَاشَفَاتُ الْإِلَهِيَّةِ وَ هَذِهِ اسے صفاء باطن اور انوار و مکاشفات الہیہ حاصل ہوں السُّورَةُ الكَرِيمَةُ مُلَهُ عَلى هذه اور یہ سورہ کریمہ ان سب مطالب پر مشتمل ہے بلکہ یہ الْمَطالِب بَلْ وَقَعَتْ بِحُسْنِ بَيَانِهَا وَقُوَّةِ سورة اپنے حسن بیان اور قوت تبیان سے دلوں کو موہ تبْيَانِهَا كَالْجَالِب.عجاز امسح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۷۵ تا۷۷ ) لینے والی ہے.(ترجمہ از مرتب ) سورۃ فاتحہ کا پانچواں نام السبع المثانی وَمِنْ أَسْمَاءِ هَذِهِ السُّورَةِ السَّبْعُ اس سورۃ کے ناموں میں سے ایک نام سبع مثانی ہے الْمَثَانِي وَسَبَبُ التَّسْمِيَةِ أَنَّهَا مُثلى اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کے دوحصے نِصْفُهَا شَنَآءُ الْعَبْدِ لِلرَّبِ وَنِصْفُهَا عَطَاءُ ہیں، اس کا ایک حصہ بندہ کی طرف سے خدا کی ثناء اور الرَّبِ لِلْعَبْدِ الْفَانِي.وَ قِيْلَ إِنَّهَا سُميت | دوسرا نصف فانی انسان کے لئے خدا تعالیٰ کی عطا اور

Page 29

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة الْمَقَانِي بِمَا أَنهَا مُسْتَفْنَاةٌ مِّن سَائِرِ | بخشش پر مشتمل ہے.بعض علماء کے نزدیک اس کا نام السبع الْكُتُبِ الإِلَهِيَّةِ.وَلَا يُوجَدُ مِثْلُهَا في المثانی اس لئے ہے کہ یہ سورۃ تمام کتب الہیہ میں امتیازی التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنجِيلِ وَلَا فِي الصُّحُفِ شان رکھتی ہے اور اس کی مانند کوئی سورۃ تو رات یا انجیل یا النَّبَوِيَّةِ وَ قِيْلَ أَنَهَا سُميت مَقاني دوسرے صحفِ انبیاء میں نہیں پائی جاتی اور بعض کا خیال ہے لأَنها سَبْعُ آيَاتٍ مِن الله الكَرِيمِ کہ اس کا نام مشانی اس لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایسی سات وَتَعْدِلُ قِرَاءَتُ كُلّ آيَةٍ مِنهَا قِرَاء آیات پر مشتمل ہے کہ ان میں سے ہر آیت کی قرآت قرآن شبع من الْقُرْآنِ الْعَظِيْمِ.وَ قِيْلَ عظیم کے ساتویں حصہ کی قرآت کے برابر ہے اور یہ بھی کہا سُمِيَتْ سَبْعًا إِشَارَةً إِلَى الْأَبْوَابِ گیا ہے کہ اس کا نام السبع المثانی اس بناء پر رکھا گیا ہے السَّبْعَةِ مِنَ الذِيرَانِ وَلِكُلّ مِنهَا کہ اس میں جہنم کے سات دروازوں کی طرف اشارہ ہے جُزْءٌ مَقْسُومٌ يَدْفَعُ شُوَاظَهَا بِإِذْنِ اللہ اور ان میں سے ہر ایک دروازہ کے لئے اس سورۃ کا ایک الرَّحْمَانِ فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَمُرّ سَالِمًا من حصہ مقرر ہے جو خدائے رحمان کے اذن سے جہنم کے سَبْعِ أَبْوَابِ السَّعِيرِ.فَعَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ شعلوں کو دُور کرتا ہے.پس جو شخص جہنم کے ان سات هذِهِ السَّبْعَ وَيَسْتَأْنِسَ بِهَا وَ يَطلب دروازوں سے محفوظ گزرنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ وہ اس الصَّبْرَ عَلَيْهَا مِنَ اللهِ القَدِيرِ وَكُلٌّ ما سورة کی ساتوں آیات کے حصار میں داخل ہو اور ان سے يُدْخِلُ في جَهَنَّمَ مِنَ الأخلاق دلی لگاؤر کھے اور ان پر عمل کرنے کے لئے خدائے قدیر سے وَالْأَعْمَالِ وَالْعَقَائِدِ فَهِيَ سَبْع استقلال طلب کرے اور تمام اخلاق، اعمال اور عقائد جو مُؤبِقَاتٌ مِنْ حَيْثُ الْأُصُولِ.وهذا؟ انسان کو جہنم میں داخل کرتے ہیں وہ اصولی طور پر سات سبع لدفع هذِهِ الشَّدَائِدِ.وَلَهَا أَسْمَاء مہلک امور ہیں اور سورت فاتحہ کی یہ سات آیات ایسی ہیں أُخْرَى فِي الْأَخْبَارٍ وَ كَفَاكَ هَذَا فَإِنَّهُ جوان مہلکات کی شدائد کو دفع کرتی ہیں.احادیث میں اس خَزِينَةُ الْأَسْرَارِ وَمَعَ ذَالِك حضر هذا سورۃ کے اور بھی کئی نام مذکور ہیں لیکن تیرے لئے اسی قدر التَّعْدَادِ إِشَارَةٌ إِلى سَلَوَاتِ الْمَبْدَهِ و بیان کا فی ہے کہ یہ الہی اسرار کا خزانہ ہے.علاوہ ازیں اس الْمَعَادِ.أَعْنِى أَنَّ ايَاتِهَا السَّبْعَ إِيْمَاء إِلى سورت کی آیات کا سات کی تعداد میں منحصر ہونا مبدء ومعاد عُمُرِ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا سَبْعَةُ آلَافٍ کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے میری مراد یہ ہے کہ اس کی و

Page 30

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 2 سورة الفاتحة وَلِكُلٍ مِنْهَا دَلَالَةٌ عَلى كَيْفِيَّةِ ايلاف | سات آیات دنیا کی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ سات وَالأَ لُفُ الْأَخِيرُ فِي الضَّلَالِ كَبِيرُ ہزار سال ہے اور ہر آیت ہزار سال کی کیفیت پر دلالت وَكَانَ هَذَا الْمُقَامُ يَقْتَضِى هذا کرتی ہے اور یہ کہ آخری ہزار سال گمراہی میں بڑھ کر ہو گا الإعْلَامَ كَمَا كَفَلَتِ الذِكْرَ إلى مَعَادٍ اور یہ مقام اسی طرح اظہار کا مقتضی تھا جس طرح یہ سورۃ من التناف شروع دنیا سے لے کر آخرت تک کے ذکر کی کفیل ہے.لے کر کے کی اعجاز مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۷۷ تا ۷۹) سورۃ فاتحہ کے خواص ( ترجمه از مرتب) واضح ہو کہ اگر کوئی کلام ان تمام چیزوں میں سے کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر اور اس کے دستِ قدرت کی صنعت ہیں کسی چیز سے مشابہت کھلی رکھتا ہو یعنی اس میں عجائبات ظاہری و باطنی ایسے طور پر جمع ہوں کہ جو مصنوعات الہیہ میں سے کسی شے میں جمع ہیں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ کلام ایسے مرتبہ پر واقع ہے کہ جس کی مثل بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں کیونکہ جس چیز کی نسبت بے نظیر اور صادر من اللہ ہونا عند الخواص والعوام ایک مسلم اور مقبول امر ہے جس میں کسی کو اختلاف و نزاع نہیں اس کی وجوہ بے نظیری میں کسی شے کی شراکت تامہ ثابت ہونا بلاشبہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ شے بھی بے نظیر ہی ہے مثلاً اگر کوئی چیز اس چیز سے بلکلی مطابق آجائے جو اپنے مقدار میں دس گز ہے تو اس کی نسبت بھی یہ علم صحیح قطعی مفید یقین جازم حاصل ہوگا کہ وہ بھی دس گز ہے.سورۃ فاتحہ میں گلاب ایسی وجوہ بےنظیری اب ہم ان مصنوعات الہیہ میں سے ایک لطیف مصنوع کو مثلاً گلاب کے پھول کو بطور مثال قرار دے کر اس کے وہ عجائبات ظاہری و باطنی لکھتے ہیں جن کی رو سے وہ ایسی اعلیٰ حالت پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کی نظیر بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں اور پھر اس بات کو ثابت کر کے دکھلائیں گے کہ ان سب عجائبات سے سورۃ فاتحہ کے عجائبات اور کمالات ہم وزن ہیں.بلکہ ان عجائبات کا پلہ بھاری ہے اور اس مثال کے اختیار کرنے کا موجب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اور دلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے

Page 31

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام Δ سورة الفاتحة سرخ سرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کر کے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سندر اور تر و تازہ اور خوشبودار ہیں جن کے اوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہو جاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں.اس مکاشفہ سے معلوم ہوا کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے.سوال یہی مناسبت کے لحاظ سے اس مثال کو اختیار کیا گیا اور مناسب معلوم ہوا کہ اوّل بطور مثال گلاب کے پھول کے عجائبات کو کہ جو اس کے ظاہر و باطن میں پائے جاتے ہیں لکھا جائے اور پھر بمقابلہ اس کے عجائبات کے سورۃ فاتحہ کے عجائبات ظاہری و باطنی قلمبند ہوں تا ناظرین با انصاف کو معلوم ہو کہ جو خوبیاں گلاب کے پھول میں ظاہر و باطناً پائی جاتی ہیں جن کے رو سے اس کی نظیر بنانا عادتنا محال سمجھا گیا ہے.اسی طور پر اور اس سے بہتر خوبیاں سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں اور تا اس مثال کے لکھنے سے اشارہ کشفی پر بھی عمل ہو جائے.پس جانا چاہئے کہ یہ امر ہر یک عاقل کے نزدیک بغیر کسی تر و داور توقف کے مسلم الثبوت ہے کہ گلاب کا پھول بھی مثل اور مصنوعات الہیہ کے ایسی عمدہ خوبیاں اپنی ذات میں جمع رکھتا ہے جن کی مثل بنانے پر انسان قادر نہیں اور وہ دوطور کی خوبیاں ہیں.ایک وہ کہ جو اس کی ظاہری صورت میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس کا رنگ نہایت خوشنما اور خوب ہے اور اس کی خوشبو نہایت دل آرام اور دلکش ہے اور اس کے ظاہر بدن میں نہایت درجہ کی ملائمت اور ترو تازگی اور نرمی اور نزاکت اور صفائی ہے اور دوسری وہ خوبیاں ہیں کہ جو باطنی طور پر حکیم مطلق نے اس میں ڈال رکھی ہیں یعنی وہ خواص کہ جو اس کے جو ہر میں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ مفرح اور مقوی قلب اور مسکن صفرا ہے اور تمام قومی اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور صفرا اور بلغم رقیق کا مسہل بھی ہے اور اسی طرح معدہ اور جگر اور گردہ اور امعا اور رحیم اور پھیپھڑہ کو بھی قوت بخشتا ہے اور خفقان حات اور غشی اور ضعف قلب کے لئے نہایت مفید ہے اور اسی طرح اور کئی امراض بدنی کو فائدہ مند ہے.پس انہیں دونوں طور کی خوبیوں کی وجہ سے اس کی نسبت اعتقاد کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مرتبہ کمال پر واقعہ ہے کہ ہرگز کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا پھول بنا دے کہ جو اس پھول کی طرح رنگ میں خوشنما اور خوشبو میں دلکش اور بدن میں نہایت ترو تازہ اور نرم اور نازک اور مصفا ہو اور باوجود اس کے باطنی

Page 32

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة طور پر تمام وہ خواص بھی رکھتا ہو جو گلاب کے پھول میں پائے جاتے ہیں.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیوں گلاب کے پھول کی نسبت ایسا اعتقاد کیا گیا کہ انسانی قوتیں اس کی نظیر بنانے سے عاجز ہیں اور کیوں جائز نہیں کہ کوئی انسان اس کی نظیر بنا سکے اور جو خوبیاں اس کی ظاہر و باطن میں پائی جاتی ہیں وہ مصنوعی پھول میں پیدا کر سکے.تو اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ایسا پھول بنانا عاد نا ممتنع ہے اور آج تک کوئی حکیم اور فیلسوف کسی ایسی ترکیب سے کسی قسم کی ادویہ کو ہم نہیں پہنچا سکا کہ جن کے باہم مخلوط اورممزوج کرنے سے ظاہر و باطن میں گلاب کے پھول کی سی صورت اور سیرت پیدا ہو جائے.اب سمجھنا چاہئے کہ یہی وجوہ بے نظیری کی سورۃ فاتحہ میں بلکہ قرآن شریف کے ہر یک حصہ اقل قلیل میں کہ جو چار آیت سے بھی کم ہو پائی جاتی ہیں.پہلے ظاہری صورت پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیسی رنگینی عبارت اور خوش بیانی اور جودت الفاظ اور کلام میں کمال سلاست اور نرمی اور روانگی اور آب و تاب اور لطافت وغیرہ لوازم حسن کلام اپنا کامل جلوہ دکھا رہے ہیں.ایسا جلوہ کہ جس پر زیادت متصور نہیں اور وحشت کلمات اور تعقید ترکیبات سے بکلی سالم اور بری ہے.ہر یک فقرہ اس کا نہایت فصیح اور بلیغ ہے اور ہر یک ترکیب اس کی اپنے اپنے موقعہ پر واقعہ ہے اور ہر یک قسم کا التزام جس سے حسن کلام بڑھتا ہے اور لطافت عبارت کھلتی ہے سب اس میں پایا جاتا ہے اور جس قدر حسن تقریر کے لئے بلاغت اور خوش بیانی کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ذہن میں آسکتا ہے وہ کامل طور پر اس میں موجود اور مشہور ہے اور جس قدر مطلب کے دل نشین کرنے کے لئے حسن بیان درکار ہے وہ سب اس میں مہیا اور موجود ہے اور باوجود اس بلاغت معانی اور التزام کمالیت حُسنِ بیان کے صدق اور راستی کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے.کوئی مبالغہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ کی ذرا آمیزش ہو.کوئی رنگینی عبارت اس قسم کی نہیں جس میں شاعروں کی طرح جھوٹ اور ہنرل اور فضول گوئی کی نجاست اور بد بو سے مدد لی گئی ہو.پس جیسے شاعروں کا کلام جھوٹ اور ہنرل اور فضول گوئی کی بدبو سے بھرا ہوا ہوتا ہے یہ کلام صداقت اور راستی کی لطیف خوشبو سے بھرا ہوا ہے اور پھر اس خوشبو کے ساتھ خوش بیانی اور جودت الفاظ اور رنگینی اور صفائی عبارت کو ایسا جمع کیا گیا ہے کہ جیسے گلاب کے پھول میں خوشبو کے ساتھ اس کی خوش رنگی اور صفائی بھی جمع ہوتی ہے.یہ خوبیاں تو باعتبار ظاہر کے ہیں اور باعتبار باطن کے اس میں یعنی سورۃ فاتحہ میں یہ خواص ہیں کہ وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے اور تحمیل قوت علمی اور عملی کے لئے بہت سا سامان اس میں موجود ہے اور بڑے بڑے بگاڑوں کی اصلاح کرتی ہے اور بڑے بڑے معارف اور دقائق اور لطائف کہ جو حکیموں اور فلسفیوں

Page 33

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة کی نظر سے چھپے رہے اس میں مذکور ہیں.سالک کے دل کو اس کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے اور بہت سی اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اور نہایت بار یک حقیقتیں کہ جو تکمیل نفس ناطقہ کے لئے ضروری ہیں.اس کے مبارک مضمون میں بھری ہوئی ہیں.اور ظاہر ہے کہ یہ کمالات بھی ایسے ہیں کہ گلاب کے پھول کے کمالات کی طرح ان میں بھی عادتنا ممتنع معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انسان کے کلام میں مجتمع ہو سکیں اور یہ امتناع نہ نظری بلکہ بدیہی ہے.کیونکہ جن دقائق و معارف عالیہ کو خدائے تعالیٰ نے عین ضرورت حقہ کے وقت اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں بیان فرما کر ظاہری اور باطنی خوبی کا کمال دکھلایا ہے اور بڑی نازک شرطوں کے ساتھ دونوں پہلوؤں ظاہر و باطن کو کمالیت کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچایا ہے.یعنی اول تو ایسے معارف عالیہ ضرور یہ لکھے ہیں کہ جن کے آثار پہلی تعلیموں سے مندرس اور محو ہو گئے تھے اور کسی حکیم یا فیلسوف نے بھی اُن معارف عالیہ پر قدم نہیں مارا تھا اور پھر ان معارف کو غیر ضروری اور فضول طور پر نہیں لکھا بلکہ ٹھیک ٹھیک اس وقت اور اس زمانہ میں ان کو بیان فرمایا جس وقت حالت موجودہ زمانہ کی اصلاح کے لئے ان کا بیان کرنا از بس ضروری تھا اور بغیر ان کے بیان کرنے کے زمانہ کی ہلاکت اور تباہی متصور تھی اور پھر وہ معارف عالیہ ناقص اور نا تمام طور پر نہیں لکھے گئے بلکہ کما و کیفا کامل درجہ پر واقعہ ہیں اور کسی عاقل کی عقل کوئی ایسی دینی صداقت پیش نہیں کر سکتی جو ان سے باہر رہ گئی ہو اور کسی باطل پرست کا کوئی ایسا وسوسہ نہیں جس کا ازالہ اس کلام میں موجود نہ ہو.ان تمام حقائق و دقائق کے التزام سے کہ جو دوسری طرف ضرورات حلقہ کے التزام کے ساتھ وابستہ ہیں فصاحت بلاغت کے ان اعلی کمالات کو ادا کرنا جن پر زیادت متصور نہ ہو.یہ تو نہایت بڑا کام ہے کہ جو بشری طاقتوں سے بہ بداہت نظر بلند تر ہے.مگر انسان تو ایسا بے ہنر ہے کہ اگر ادنی اور ناکارہ معاملات کو کہ جو حقائق عالیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتے کسی رنگین اور فصیح عبارت میں بہ التزام راست بیانی اور حق گوئی کے لکھنا چاہے تو یہ بھی اس کے لئے ممکن نہیں جیسا کہ یہ بات ہر عاقل کے نزدیک نہایت بد یہی ہے کہ اگر مثلاً ایک دوکاندار جو کامل درجہ کا شاعر اور انشا پرداز ہو، یہ چاہے کہ جو اپنی اس گفتگو کو جو ہر روز اسے رنگارنگ کے خریداروں اور معاملہ داروں کے ساتھ کرنی پڑتی ہے، کمال بلاغت اور رنگینی عبارت کے ساتھ کیا کرے اور پھر یہ بھی التزام رکھے کہ ہر محل اور ہر موقعہ میں جس قسم کی گفتگو کرنا ضروری ہے وہی کرے مثلاً جہاں کم بولنا مناسب ہے وہاں کم بولے اور جہاں بہت مغز زنی مصلحت ہے وہاں بہت گفتگو کرے اور جب اس میں اور اس کے خریدار میں کوئی بحث آ پڑے تو وہ طرز.

Page 34

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة تقریر اختیار کرے جس سے اس بحث کو اپنے مفید مطلب طے کر سکے.یا مثلاً ایک حاکم جس کا یہ کام ہے کہ فریقین اور گواہوں کے بیان کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرے اور ہر یک بیان پر جو جو واقعی اور ضروری طور پر جرح قدح کرنا چاہئے وہی کرے اور جیسا کہ تنقیح مقدمہ کے لئے شرط ہے اور تفتیش امر متنازعہ فیہ کے لئے قرین مصلحت ہے سوال کے موقعہ پر سوال اور جواب کے موقعہ پر جواب لکھے اور جہاں قانونی وجوہ کا بیان کرنا لازم ہو.ان کو درست طور پر حسب منشاء قانون بیان کرے اور جہاں واقعات کا بہ ترتیب تمام کھولنا واجب ہو.ان کو بہ پابندی ترتیب وصحت کھول دے اور پھر جو کچھ فی الواقعہ اپنی رائے اور بتائید اُس رائے کے وجو ہات ہیں ان کو بہ صحت تمام بیان کرے اور باوصف ان تمام التزامات کے فصاحت بلاغت کے اس اعلیٰ درجہ پر اس کا کلام ہو کہ اس سے بہتر کسی بشر کے لئے ممکن نہ ہو تو اس قسم کی بلاغت کو بانجام پہنچانا بہ ہداہت ان کے لئے محال ہے.سوانسانی فصاحتوں کا یہی حال ہے کہ بجر فضول اور غیر ضروری اور واہیات باتوں کے قدم ہی نہیں اٹھ سکتا.اور بغیر جھوٹ اور ہنرل کے اختیار کرنے کے کچھ بول ہی نہیں سکتے.اور اگر کچھ بولے بھی تو ادھورا.ناک ہے تو کان نہیں.کان ہیں تو آنکھ ندارد.سچ بولے تو فصاحت گئی.فصاحت کے پیچھے پڑے تو جھوٹ اور فضول گوئی کے انبار کے انبار جمع کرلئے.پیاز کی طرح سب پوست ہی پوست اور پیچ میں کچھ بھی نہیں.پس جس صورت میں عقل سلیم صریح حکم دیتی ہے کہ ناکارہ اور خفیف معاملات اور سید ھے سادھے واقعات کو بھی ضرورت حقہ اور راستی کے التزام سے رنگین اور بلیغ عبارت میں ادا کرنا ممکن نہیں تو پھر اس بات کا سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ معارف عالیہ کو ضرورت حلقہ کے التزام کے ساتھ نہایت رنگین اور فصیح عبارت میں جس سے اعلیٰ اور اصفی متصور نہ ہو بیان کرنا بالکل خارق عادت اور بشری طاقتوں سے بعید ہے اور جیسا کہ گلاب کے پھول کی طرح کوئی پھول کہ جو ظاہر و باطن میں اس سے مشابہ ہو بنانا عادتاً محال ہے.ایسا ہی یہ بھی محال ہے کیونکہ جب ادنی ادنیٰ امور میں تجربہ صحیحہ شہادت دیتا ہے اور فطرت سلیمہ قبول کرتی ہے کہ انسان اپنی کسی ضروری اور راست راست بات کو خواہ وہ بات کسی معاملہ خرید وفروخت سے متعلق ہو یا تحقیقات عدالت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہو.جب اس کو اصلح اور انسب طور پر بجالانا چاہے تو یہ بات غیر ممکن ہو جاتی ہے کہ اس کی عبارت خواہ نخواہ ہر محل میں موزوں اور منتقلی اور فصیح اور بلیغ بلکہ اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر ہو تو پھر ایسی تقریر کہ جو علاوہ التزام راستی اور صدق کے معارف اور حقائق عالیہ سے بھی بھری ہوئی اور ضرورت حلقہ کے رو سے صادر ہو اور تمام حقانی صداقتوں پر محیط ہو اور اپنے منصب اصلاح حالت موجودہ

Page 35

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة الفاتحة اور اتمام حجت اور الزام منکرین میں ایک ذرا فروگذاشت نہ کرتی ہو اور مناظرہ اور مباحثہ کے تمام پہلوؤں کی کماحقہ رعایت رکھتی ہو اور تمام ضروری دلائل اور ضروری براہین اور ضروری تعلیم اور ضروری سوال اور ضروری جواب پر مشتمل ہو کیونکر با وجود ان مشکلات پیچ در پیچ کے کہ جو پہلی صورت سے صد با درجہ زیادہ ہیں ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ کسی بشر کی تحریر میں جمع ہو سکتی ہے کہ وہ بلاغت بھی بے مثل و مانند ہو اور اُس مضمون کو اُس سے زیادہ فصیح عبارت میں بیان کرنا ممکن نہ ہو.سورۃ فاتحہ کی ایک بزرگ خاصیت یہ تو وہ وجوہ ہیں کہ جو سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایسے طور سے پائی جاتی ہیں جن کو گلاب کے پھول کی وجوہ بے نظیری سے بکلی مطابقت ہے.لیکن سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایک اور خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اسی کلام پاک سے خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو تو جہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلماتی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منتشرح کرتا ہے اور طالب حق کو حضرت احدیت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربان حضرت احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا.اور اس روحانی تاثیر کا ثبوت بھی ہم اس کتاب میں دے چکے ہیں اور اگر کوئی طالب حق ہو تو با لمواجہ ہم اس کی تسلی کر سکتے ہیں اور ہر وقت تازہ بتازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں.سورۃ فاتحہ کی خوبیوں کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکا اور نیز اس بات کو بخوبی یا درکھنا چاہئے کہ قرآن شریف کا اپنی کلام میں بے مثل و مانند ہونا صرف عقلی دلائل میں محصور نہیں بلکہ زمانہ دراز کا تجربہ صحیحہ بھی اس کا مؤید اور مصدق ہے.کیونکہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف برابر تیرہ سو برس سے اپنی تمام خوبیاں پیش کر کے هَلْ مِنْ مُعَارِض کا نقارہ بجارہا ہے اور تمام دنیا کو بآواز بلند کہ رہا ہے کہ وہ اپنی ظاہری صورت اور باطنی خواص میں بے مثل و مانند ہے اور کسی جن یا انس کو اس کے مقابلہ یا معارضہ کی طاقت نہیں.مگر پھر بھی کسی متنفس نے اس کے مقابلہ پر دم نہیں مارا بلکہ اس کی کم سے کم کسی سورۃ مثلاً سورۃ فاتحہ کی ظاہری و باطنی خوبیوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکا تو دیکھو اس سے زیادہ بدیہی اور کھلا گھلا معجزہ اور کیا ہو گا کہ عقلی طور پر بھی اس پاک کلام کا بشری طاقتوں سے بلند تر ہونا ثابت ہوتا

Page 36

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة الفاتحة ہے اور زمانہ دراز کا تجربہ بھی اس کے مرتبہ اعجاز پر گواہی دیتا ہے اور اگر کسی کو یہ دونوں طور کی گواہی کہ جو عقل اور تجربہ زمانہ دراز کے رو سے یہ پایہ ثبوت پہنچ چکی ہے نا منظور ہو اور اپنے علم اور ہنر پر نازاں ہو یا دنیا میں کسی ایسے بشر کی انشا پردازی کا قائل ہو کہ جو قرآن شریف کی طرح کوئی کلام بنا سکتا ہے تو ہم...کچھ بطور نمونہ حقائق دقائق سورۃ فاتحہ کے لکھتے ہیں اس کو چاہئے کہ ہم مقابلہ ان ظاہری و باطنی سورۃ فاتحہ کی خوبیوں کے کوئی اپنا کلام پیش کرے.برا این احمد یہ چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد اصلحه ۳۹۴ تا ۴۰۳ حاشیہ نمبر ۱۱) سورۃ فاتحہ کے بے نظیر ہونے پر بعض مزید دلائل سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح دو قسم کی خوبیاں کہ جو بے مثل و مانند ہیں پائی جاتی ہیں یعنی ایک ظاہری صورت میں خوبی اور ایک باطنی خوبی.ظاہری خوبی یہ کہ...اُس کی عبارت میں ایسی رنگینی اور آب و تاب اور نزاکت و لطافت و ملائمت اور بلاغت اور شیرینی اور روانگی اور حسن بیان اور حسن ترتیب پایا جاتا ہے کہ ان معانی کو اس سے بہتر یا اس سے مساوی کسی دوسری فصیح عبارت میں ادا کرناممکن نہیں اور اگر تمام دنیا کے انشا پرداز اور شاعر متفق ہو کر یہ چاہیں کہ اس مضمون کو لے کر اپنے طور سے کسی دوسری فصیح عبارت میں لکھیں کہ جو سورۃ فاتحہ کی عبارت سے مساوی یا اس سے بہتر ہو تو یہ بات بالکل محال اور ممتنع ہے کہ ایسی عبارت لکھ سکیں.کیونکہ تیرہ سو برس سے قرآن شریف تمام دنیا کے سامنے اپنی بے نظیری کا دعویٰ پیش کر رہا ہے اگر ممکن ہوتا تو البتہ کوئی مخالف اس کا معارضہ کر کے دکھلاتا.حالانکہ ایسے دعوی کے معارضہ نہ کرنے میں تمام مخالفین کی رُسوائی اور ذلت اور قرآن شریف کی شوکت اور عزات ثابت ہوتی ہے.پس چونکہ تیرہ سو برس سے اب تک کسی مخالف نے عبارت قرآنی کی مثل پیش نہیں کی تو اس قدر زمانہ دراز تک تمام مخالفین کا مثل پیش کرنے سے عاجز رہنا اور اپنی نسبت ان تمام رُسوائیوں اور ندامتوں اور لعنتوں کو روا رکھنا کہ جو جھوٹوں اور لا جواب رہنے والوں کی طرف عائد ہوتے ہیں صریح اس بات پر دلیل ہے کہ فی الحقیقت ان کی علمی طاقت مقابلہ سے عاجز رہی ہے اور اگر کوئی اس امر کو تسلیم نہ کرے تو یہ بار ثبوت اسی کی گردن پر ہے کہ وہ آپ یا کسی اپنے مددگار سے عبارت قرآن کی مثل بنوا کر پیش کرے.مثلاً سورۃ فاتحہ کے مضمون کو لے کر کوئی دوسری فصیح عبارت بنا کر دکھلاوے جو کمال بلاغت اور فصاحت میں اس کے برابر ہو سکے اور جب تک ایسا نہ کرے تب تک وہ ثبوت کہ جو مخالفین کے تیرہ سو برس خاموش اور لاجواب رہنے سے اہل حق کے ہاتھ میں ہے کسی طور سے ضعیف الاعتبار نہیں ہوسکتا.بلکہ مخالفین کے سینکڑوں برسوں کی خاموشی اور لا جواب رہنے نے

Page 37

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة الفاتحة اس کو وہ کامل مرتبہ ثبوت کا بخشا ہے کہ جو گلاب کے پھول وغیرہ کو وہ ثبوت بے نظیری کا حاصل نہیں.کیونکہ دنیا کے حکیموں اور صنعت کاروں کو کسی دوسری چیز میں اس طور پر معارضہ کے لئے کبھی ترغیب نہیں دی گئی اور نہ اس کی مثل بنانے سے عاجز رہنے کی حالت میں کبھی ان کو یہ خوف دلایا گیا کہ وہ طرح طرح کی تباہی اور ہلاکت میں ڈالے جائیں گے.پس ظاہر ہے کہ جس بداہت اور چمک اور دمک سے قرآن شریف کی بلاغت اور فصاحت کا انسانی طاقتوں سے بلند تر ہونا ثابت ہے اس طرح پر گلاب کی لطافت اور رنگینی وغیرہ کا بے مثل ہونا ہرگز ثابت نہیں.پس یہ تو سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف کی ظاہری خوبی کا بیان ہے جس میں اس کا بے مثل و مانند ہونا اور بشری طاقتوں سے برتر ہونا مخالفین کے عاجز رہنے سے یہ پایہ ثبوت پہنچ گیا ہے.اب ہم باطنی خوبیوں کو بھی دوہرا کر ذکر کرتے ہیں تا اچھی طرح غور کرنے والوں کے ذہن میں آجائیں.سو جاننا چاہئے کہ جیسا خداوند حکیم مطلق نے گلاب کے پھول میں بدن انسان کے لئے طرح طرح کے منافع رکھے ہیں کہ وہ دل کو قوت دیتا ہے اور قومی اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور کئی اور مرضوں کو مفید ہے.ایسا ہی خداوند کریم نے سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح روحانی مرضوں کے شفار کبھی ہے اور باطنی بیماریوں کا اس میں وہ علاج موجود ہے کہ جو اس کے غیر میں ہر گز نہیں پایا گیا.کیونکہ اس میں وہ کامل صداقتیں بھری ہوئی ہیں کہ جو روئے زمین سے نابود ہو گئی تھیں اور دنیا میں ان کا نام ونشان باقی نہیں رہا تھا.پس وہ پاک کلام فضول اور بے فائدہ طور پر دنیا میں نہیں آیا بلکہ وہ آسمانی نور اس وقت تجلی فرما ہوا جبکہ دنیا کو اس کی نہایت ضرورت تھی اور ان تعلیموں کو لایا جن کا دنیا میں پھیلا نا دنیا کی اصلاح کے لئے نہایت ضروری تھا.غرض جن پاک تعلیموں کی بغایت درجہ ضرورت تھی اور جن معارف حقائق کے شائع کرنے کی شدت سے حاجت تھی.انہیں ضروری اور لابدی اور حقانی صداقتوں کو عین ضرورت کے وقتوں میں اور ٹھیک ٹھیک حاجت کے موقعہ میں ایک بے مثل بلاغت اور فصاحت کے پیرایہ میں بیان فرمایا اور باوصف اس التزام کے جو کچھ گمراہوں کی ہدایت کے لئے اور حالت موجودہ کی اصلاح کے لئے بیان کرنا واجب تھا.اس سے ایک ڈرا ترک نہ کیا.اور جو کچھ غیر واجب اور فضول اور بیہودہ تھا اس کا کسی فقرہ میں کچھ دخل ہونا نہ پایا.غرض وہ انوار اور پاک صداقتیں باوصف اس شان عالی کے کہ جو ان کو بوجہ اعلیٰ درجہ کے معارف ہونے کے حاصل ہے.ایک نہایت درجہ کی عظمت اور برکت یہ رکھتے ہیں کہ وہ عبث اور فضول طور پر ظاہر نہیں کی گئیں بلکہ جن جن اقسام انواع کی ظلمت دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور جس جس قسم کا جہل اور فساد علمی اور عملی اور اعتقادی امور میں حالت

Page 38

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة الفاتحة زمانہ پر غالب آ گیا تھا اُس ہر یک قسم کے فساد کے مقابلہ پر پورے پورے زور سے ان سب ظلمتوں کو اٹھانے کے لئے اور روشنی کو پھیلانے کے لئے عین ضروری وقت پر بارانِ رحمت کی طرح ان صداقتوں کو دنیا میں ظاہر کیا گیا اور حقیقت میں وہ بارانِ رحمت ہی تھا کہ سخت پیاسوں کی جان رکھنے کے لئے آسمان سے اترا اور دنیا کی روحانی حیات اسی بات پر موقوف تھی کہ وہ آب حیات نازل ہو اور کوئی قطرہ اس کا ایسانہ تھا کہ کسی موجود الوقت بیماری کی دوا نہ ہو اور حالت موجودہ زمانہ نے صد ہا سال تک اپنی معمولی گمراہی پر رہ کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ان بیماریوں کے علاج کو خود بخود بغیر اترنے اس نور کے حاصل نہیں کر سکتا اور نہ اپنی ظلمت کو آپ اٹھا سکتا ہے.بلکہ ایک آسمانی نور کا محتاج ہے کہ جو اپنی سچائی کی شعاعوں سے دنیا کو روشن کرے اور ان کو دکھاوے جنہوں نے کبھی نہیں دیکھا اور ان کو سمجھاوے جنہوں نے کبھی نہیں سمجھا.اس آسمانی نور نے دنیا میں آکر صرف یہی کام نہیں کیا کہ ایسے معارف حقہ ضرور یہ پیش کئے جن کا صفحہ زمین پر نشان باقی نہیں رہا تھا بلکہ اپنے روحانی خاصہ کے زور سے ان جواہر حق اور حکمت کو بہت سے سینوں میں بھر دیا.اور بہت سے دلوں کو اپنے دلر با چہرہ کی طرف کھینچ لایا اور اپنی قومی تاثیر سے بہتوں کو علم اور عمل کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا.اب یہ دونوں قسم کی خوبیاں کہ جو سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں.کلام الہی کی بے نظیری ثابت کرنے کے لئے ایسے روشن دلائل ہیں کہ جیسی وہ خوبیاں جو گلاب کے پھول میں سب کے نزدیک انسانی طاقتوں سے اعلیٰ تسلیم کی گئی ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر یہ خوبیاں بدیہی طور پر عادت سے خارج اور طاقت انسانی سے باہر ہیں.اس شان کی خوبیاں گلاب کے پھول میں ہر گز نہیں پائی جاتیں.ان خوبیوں کی عظمت اور شوکت اور بے نظیری اس وقت کھلتی ہے جب انسان سب کو من حیث الاجتماع اپنے خیال میں لاوے اور اس اجتماعی بیت پر غور اور تدبر سے نظر ڈالے.مثلاً اول اس بات کے تصور کرنے سے کہ ایک کلام کی عبارت ایسے اعلیٰ درجہ کی فصیح اور بلیغ اور ملائم اور شیریں اور سلیس اور خوش طرز اور رنگین ہو کہ اگر کوئی انسان کوئی ایسی عبارت اپنی طرف سے بنانا چاہے کہ جو بتمام و کمال انہیں معانی پر مشتمل ہو کہ جو اس بلیغ کلام میں پائی جاتی ہیں تو ہر گز ممکن نہ ہو کہ وہ انسانی عبارت اس پایہ، بلاغت در نگینی کو پہنچ سکے.پھر ساتھ ہی یہ دوسرا تصور کرنے سے کہ اس عبارت کا مضمون ایسے حقائق دقائق پر مشتمل ہو کہ جو فی الحقیقت اعلیٰ درجہ کی صداقتیں ہوں اور کوئی فقرہ اور کوئی لفظ اور کوئی حرف ایسا نہ ہو کہ جو حکیمانہ بیان پر مبنی نہ ہو.پھر ساتھ ہی یہ تیسرا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ حالت موجودہ زمانہ کو ان کی نہایت ضرورت ہو.پھر ساتھ

Page 39

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة الفاتحة کاملہ پر ہی یہ چوتھا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی بے مثل و مانند ہوں کہ کسی حکیم یا فیلسوف کا پتہ نہ مل سکتا ہو کہ ان صداقتوں کو اپنی نظر اور فکر سے دریافت کرنے والا ہو چکا ہو.پھر ساتھ ہی یہ پانچواں تصور کرنے سے کہ جس زمانہ میں وہ صداقتیں ظاہر ہوئی ہوں ایک تازہ نعمت کی طرح ظاہر ہوئی ہوں اور اس زمانہ کے لوگ ان کے ظہور سے پہلے اس راہ راست سے بکی بے خبر ہوں.پھر ساتھ ہی یہ چھٹا تصور کرنے سے کہ اُس کلام میں ایک آسمانی برکت بھی ثابت ہو کہ جو اس کی متابعت سے طالب حق کو خداوند کریم کے ساتھ ایک سچا پیوند اور ایک حقیقی اُنس پیدا ہو جائے اور وہ انوار اس میں چمکنے لگیں کہ جو مردان خدا میں چمکنے چاہئیں.یہ کل مجموعی ایک ایسی حالت میں معلوم ہوتا ہے کہ عقل سلیم بلا توقف و تر و د حکم دیتی ہے کہ بشری کلام کا ان تمام مراتب پر مشتمل ہونا ممتنع اور محال اور خارقِ عادت ہے اور بلاشبہ ان تمام فضائل ظاہری و باطنی کو بہ نظر یکجائی دیکھنے سے ایک رُعب ناک حالت ان میں پائی جاتی ہے کہ جو عقلمند کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اس کل مجموعی کا انسانی طاقتوں سے انجام پذیر ہونا عقل اور قیاس سے باہر ہے اور ایسی رعب ناک حالت گلاب کے پھول میں ہرگز پائی نہیں جاتی کیونکہ قرآن شریف میں یہ خصوصیت زیادہ ہے کہ اس کی صفات مذکورہ کہ جو بے نظیری کا مدار ہیں نہایت بدیہی الثبوت ہیں اور اسی وجہ سے جب معارض کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک حرف بھی ایسے موقعہ پر نہیں رکھا گیا کہ جو حکمت اور مصلحت سے دور ہو اور اُس کا ایک فقرہ بھی ایسا نہیں کہ جو زمانہ کی اصلاح کے لئے اشد ضروری نہ ہو.اور پھر بلاغت کا یہ کمال کہ ہر گز ممکن ہی نہیں کہ اس کی ایک سطر کی عبارت تبدیل کر کے بجائے اس کے کوئی دوسری عبارت لکھ سکیں.تو ان بدیہی کمالات کے مشاہدہ کرنے سے معارض کے دل پر ایک بزرگ رعب پڑ جاتا ہے.( براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۰۳ تا ۴۰۹ حاشیہ نمبر ۱۱) سورۃ فاتحہ کی عظیم صفات کا ثبوت کوئی نادان.....شاید باعث نادانی سوال کرے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ ساری خوبیاں سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں متحقق اور ثابت ہیں.سو واضح ہو کہ اس بات کا یہی ثبوت ہے کہ جنہوں نے قرآن شریف کے بے مثل کمالات پر غور کی اور اس کی عبارت کو ایسے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر پایا کہ اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہ گئے اور پھر اس کے دقائق و حقائق کو ایسے مرتبہ عالیہ پر دیکھا کہ تمام زمانہ میں اس کی نظیر نظر نہ آئی اور اس میں وہ تاثیرات عجیبہ مشاہدہ کیں کہ جو انسانی کلمات میں ہر گز نہیں ہوا کرتیں

Page 40

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷ سورة الفاتحة اور پھر اس میں یہ صفت پاک دیکھی کہ وہ بطور ہنرل اور فضول گوئی کے نازل نہیں ہوا بلکہ عین ضرورت حقہ کے وقت نازل ہوا تو انہوں نے ان تمام کمالات کے مشاہدہ کرنے سے بے اختیار اس کی بے مثل عظمت کو تسلیم کر لیا اور ان میں سے جو لوگ بباعث شقاوت از کی نعمت ایمان سے محروم رہے ان کے دلوں پر بھی اس قدر ہیبت اور رعب اس بے مثل کلام کا پڑا کہ انہوں نے بھی مبہوت اور سراسیمہ ہوکر یہ کہا کہ یہ تو سحر مین ہے.اور پھر منصف کو اس بات سے بھی قرآن شریف کے بے مثل و مانند ہونے پر ایک قوی دلیل ملتی ہے اور روشن ثبوت ہاتھ میں آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ مخالفین کو تیرہ سو برس سے خود قرآن شریف مقابلہ کرنے کی سخت غیرت دلاتا ہے اور لاجواب رہ کر مخالفت اور انکار کرنے والوں کا نام شریر اور پلید اور لعنتی اور جہنمی رکھتا ہے.مگر پھر بھی مخالفین نے نامردوں اور محنتوں کی طرح کمال بے شرمی اور بے حیائی سے اس تمام ذلت اور بے آبروئی اور بے عزتی کو اپنے لئے منظور کیا اور یہ روا رکھا کہ ان کا نام جھوٹا اور ذلیل اور بے حیا اور خبیث اور پلید اور شریر اور بے ایمان اور جہنمی رکھا جاوے مگر ایک قلیل المقدار سورۃ کا مقابلہ نہ کر سکے اور نہ ان خوبیوں اور صفتوں اور عظمتوں اور صداقتوں میں کچھ نقص نکال سکے کہ جن کو کلام الہی نے پیش کیا ہے.حالانکہ ہمارے مخالفین پر در حالت انکار لازم تھا اور اب بھی لازم ہے کہ اگر وہ اپنے کفر اور بے ایمانی کو چھوڑ نا نہیں چاہتے تو وہ قرآن شریف کی کسی سورۃ کی نظیر پیش کریں اور کوئی ایسا کلام بطور معارضہ ہمارے سامنے لاویں کہ جس میں یہ تمام ظاہری و باطنی خوبیاں پائی جاتی ہوں کہ جو قرآن شریف کی ہر یک اقل قلیل سورۃ میں پائی جاتی ہیں یعنی عبارت اس کی ایسی اعلیٰ درجہ کی بلاغت پر با وصف التزام راستی اور صداقت اور باوصف التزام ضرورت حقہ کے واقعہ ہو کہ ہر گز کسی بشر کے لئے ممکن نہ ہو کہ وہ معانی کسی دوسری ایسی ہی فصیح عبارت میں لا سکے اور مضمون اُس کا نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقتوں پر مشتمل ہو اور پھر وہ صداقتیں بھی ایسی ہوں کہ فضول پر طور پر نہ لکھی گئی ہوں بلکہ کمال درجہ کی ضرورت نے ان کا لکھنا واجب کیا ہو اور نیز وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ قبل ان کے ظہور کے تمام دنیا ان سے بے خبر ہو اور ان کا ظہور ایک نئی نعمت کی طرح ہو اور پھر ان تمام خوبیوں کے ساتھ ایک یہ روحانی خاصہ بھی ان میں موجود ہو کہ قرآن شریف کی طرح ان میں وہ صریح تاثیریں بھی پائی جائیں جن کا ثبوت ہم نے اس کتاب میں دے دیا ہے اور ہر وقت طالب حق کے لئے تازہ سے تازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں اور جب تک کوئی معارض ایسی نظیر پیش نہ کرے تب تک اسی کا عاجز رہنا قرآن شریف کی بے نظیری کو ثابت کرتا ہے.اور یہ وجوہ بے نظیری قرآن شریف کی جو اس جگہ لکھی گئی یہ تو ہم نے بطور تنزل

Page 41

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام IA سورة الفاتحة اور کفایت شعاری کے لکھی ہیں اور اگر ہم قرآن شریف کی ان تمام دوسری خوبیوں کو بھی کہ جو اس میں پائی جاتی ہیں نظیر طلب کرنے کے لئے لازمی شرط ٹھہر اویں مثلاً اپنے مخالفوں کو یہ کہیں کہ جیسا قرآن شریف تمام حقائق اور معارف دینی پر محیط اور مشتمل ہے اور کوئی دینی صداقت اس سے باہر نہیں اور جیسا وہ صدہا امور غیبیہ اور پیشگوئیوں پر احاطہ رکھتا ہے اور پیشگوئیاں بھی ایسی قادرانہ کہ جن میں اپنی عزت اور دشمن کی ذلت اور اپنا اقبال اور دشمن کا ادبار اور اپنی فتح اور دشمن کی شکست پائی جاتی ہے.یہ تمام خوبیاں بھی ہمراہ متذکرہ بالا خوبیوں کے اپنے معارضانہ کلام میں پیش کر کے دکھلاویں تو اس شرط سے ان کو تباہی پر تباہی اور موت پر موت آوے گی.مگر چونکہ جس قدر پہلے اس سے قرآن شریف کی خوبیاں لکھی گئی ہیں وہی دشمن کو رباطن کے ملزم اور لاجواب اور عاجز کرنے کے لئے کافی ہیں اور انہیں سے ہمارے مخالفوں پر وہ حالت وارد ہوگی جس سے مردوں سے پر لے پار ہو جائیں گے.اس لئے قرآن شریف کی تمام خوبیوں کو نظیر طلب کرنے کے لئے پیش کرنا غیر ضروری ہے اور نیز تمام خوبیوں کے لکھنے سے کتاب میں بھی بہت سا طول ہوجائے گا.سواسی قدر قتل موڈی کے لئے کافی ہتھیار سمجھ کر پیش کیا گیا.اب با وصف اس کے کہ بتامتر رعایت و تخفیف قرآن شریف کی کسی آقال قلیل سورۃ کی نظیر مخالفوں سے طلب کی جاتی ہے مگر پھر بھی ہر ایک باخبر آدمی پر ظاہر ہے کہ مخالفین با وجود سخت حرص اور شدت عناد اور پرلے درجہ کی مخالفت اور عداوت کے مقابلہ اور معارضہ سے قدیم سے عاجز رہے ہیں اور اب بھی عاجز ہیں اور کسی کو دم مارنے کی جگہ نہیں اور باوجود اس بات کے کہ اس مقابلہ سے ان کا عاجز رہنا ان کو ذلیل بناتا ہے، جہنمی ٹھہراتا ہے، کافر اور بے ایمان کا ان کو لقب دیتا ہے، بے حیا اور بے شرم ان کا نام رکھتا ہے.مگر مُردہ کی طرح ان کے مونہہ سے کوئی آواز نہیں نکلتی.پس لا جواب رہنے کی ساری ذلتوں کو قبول کرنا اور تمام ذلیل ناموں کو اپنے لئے روا رکھنا اور تمام قسم کی بے حیائی اور بے شرمی کی خس و خاشاک کو اپنے سر پر اٹھا لینا اس بات پر نہایت روشن دلیل ہے کہ ان ذلیل چمگادڑوں کی اس آفتاب حقیقت کے آگے کچھ پیش نہیں جاتی.پس جبکہ اُس آفتاب صداقت کی اس قدر تیز شعائیں چاروں طرف سے چھوٹ رہی ہیں کہ ان کے سامنے ہمارے دشمن خفاش سیرت اندھے ہورہے ہیں تو اس صورت میں یہ بالکل مکابرہ اور سخت جہالت ہے کہ گلاب کے پھول کی خوبیوں کو کہ جو بہ نسبت قرآنی خوبیوں کے ضعیف اور کمزور اور قلیل الثبوت ہیں اس مرتبہ بے نظیری پر سمجھا جائے کہ انسانی قوتیں ان کی مثل بنانے سے عاجز ہیں مگران اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو کہ جو کئی درجہ گلاب کے پھول کی ظاہری و باطنی خوبیوں سے افضل و بہتر اور قومی الثبوت

Page 42

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹ سورة الفاتحة ہیں ایسا خیال کیا جائے کہ گویا انسان ان کی نظیر بنانے پر قادر ہے.حالانکہ جس حالت میں انسان میں یہ قدرت نہیں پائی جاتی کہ ایک گلاب کے پھول کی جو صرف ایک ساعت تر و تازہ اور خوشنما نظر آتا ہے اور دوسری ساعت میں نہایت افسردہ اور پژمردہ اور بدنما ہو جاتا ہے اور اس کا وہ لطیف رنگ اُڑ جاتا ہے اور اس کے بات ایک دوسرے سے الگ ہو کر گر پڑتے ہیں نظیر بنا سکے تو پھر ایسے حقیقی پھول کا مقابلہ کیونکر ہو سکے جس کے لئے مالک ازلی نے بہار جاوداں رکھی ہے اور جس کو ہمیشہ بادخزاں کے صدمات سے محفوظ رکھا ہے اور جس کی طراوت اور ملائمت اور حسن اور نزاکت میں کبھی فرق نہیں آتا اور کبھی افسردگی اور پژمردگی اس کی ذات بابرکات میں راہ نہیں پاتی بلکہ جس قدر پرانا ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی تازگی اور طراوت زیادہ سے زیادہ کھلتی جاتی ہے اور اس کے عجائبات زیادہ سے زیادہ منکشف ہوتے جاتے ہیں اور اس کے حقائق دقائق لوگوں پر بکثرت ظاہر ہوتے جاتے ہیں تو پھر ایسے حقیقی پھول کے اعلیٰ درجہ کے فضائل اور مراتب سے انکار کرنا پرلے درجہ کی کور باطنی ہے یا نہیں.بہر حال اگر کوئی ایسا ہی نابینا ہو کہ جو اپنی اس کور باطنی سے ان خوبیوں کی شان عظیم کو نہ سمجھتا ہوتو یہ بار ثبوت اسی نادان کی گردن پر ہے کہ جو کچھ ہم نے بے نظیری کلام الہی کا ثبوت دیا ہے اور جس قدر ہم نے وجوہ متفرقہ سے اس پاک کلام کا انسانی طاقتوں سے بلند تر ہونا بہ پایہ ثبوت پہنچایا ہے ان سب فضائل قرآنی کی نظیر پیش کرے اور کسی انسان کے کلام میں ایسے ہی کمالات ظاہری و باطنی دکھلاوے جن کا کلام الہی میں پایا جانا ہم نے ثابت کر دیا ہے.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۰۹ تا ۴۱۴ حاشیہ نمبر۱۱) سورۃ فاتحہ کا ایک عظیم اثر فاتحہ فتح کرنے کو بھی کہتے ہیں.مومن کو مومن اور کافر کو کا فربنا دیتی ہے یعنی دونوں میں ایک امتیاز پیدا کر دیتی ہے اور دل کو کھولتی ، سینہ میں ایک انشراح پیدا کرتی ہے.اس لئے سورہ فاتحہ کو بہت پڑھنا چاہئے اور اس اقام جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ نمبر ۱۹۰۰ صفحه ۲،۱) دُعا پر خوب غور کرنا ضروری ہے.سورۃ فاتحہ ایک معجزہ ہے سورۃ فاتحہ تو ایک معجزہ ہے اس میں امر بھی ہے، نہی بھی ہے، پیشگوئیاں بھی ہیں.قرآن شریف تو ایک بہت بڑا سمندر ہے.کوئی بات اگر نکالنی ہو تو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ میں بہت غور کرے کیونکہ یہ ام الکتاب ہے.اس کے بطن سے قرآن کریم کے مضامین نکلتے ہیں.

Page 43

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة سورۃ فاتحہ تواتر کے نیچے ہے قرآن شریف کا تو ایک نکتہ نکتہ تواتر کے نیچے ہے مگر سورۃ فاتحہ بہت ہی بڑے تواتر سے ثابت ہے.ہر روز ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے.سورۃ فاتحہ میں منطقی رنگ منطقی لوگ تعریف کرتے وقت فصل جنس وغیرہ تقسیم کیا کرتے ہیں جیسے کہتے ہیں الْإِنْسَانُ حَيَوَانُ ناطق سورۃ فاتحہ میں یہ رنگ بھی موجود ہے.الحمدُ للہ کہا.پھر اس کے آگے رَبِّ الْعلمين اس کی فصل واقع ہوئی الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ اس کی حد ہوگئی.اس سے بڑھ کر اور کوئی تعریف نہیں ہے..! الکام جلد ۵ نمبر ۵ مؤرخہ ۱۰ر فروری ۱۹۰۱ صفحه ۱۲) سورہ فاتحہ کی فضیلت سورہ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے جیسے فرما يا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعلميین یعنی ساری خوبیاں اس خدا کے لئے سزاوار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے.الرحمن وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے.الرحيم اعمال کا پھل دینے والا ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ جزا سزا کے دن کا مالک.ان چار صفتوں میں کل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے.آریوں کا رڈ بعض لوگ اس بات سے منکر ہیں کہ خدا ہی تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ہے.وہ کہتے ہیں کہ جیو یعنی ارواح اور پر مانو یعنی ذرات خود بخود ہیں اور جیسے پر میشر آپ ہی آپ چلا آتا ہے ویسے ہی وہ بھی آپ ہی آپ چلے آتے ہیں اور ارواح اور اُن کی کل طاقتیں، گن اور خواص جن پر دفتروں کے دفتر لکھے گئے خود بخود ہیں اور باوجود اس کے کہ ان میں قوت اتصال اور قوت انفصال خود بخود پائی جاتی ہے وہ آپس میں میل ملاپ کرنے کے لئے ایک پر میشر کے محتاج ہیں.غرض یہ وہ فرقہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رب العلمین کہہ کر اشارہ کیا ہے.سناتن دھرم کے عقائد کی تردید دوسرا فرقہ وہ ہے جس کی طرف الر حمن کے لفظ میں اشارہ ہے اور یہ فرقہ سناتن دھرم والوں کا ہے گو وہ

Page 44

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة الفاتحة مانتے ہیں کہ پر میشر سے ہی سب کچھ نکلا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ خدا کا فضل کوئی چیز نہیں وہ کرموں کا ہی پھل دی ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی مرد بنا ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر کوئی عورت بنی ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر ضروری اشیاء حیوانات نباتات وغیرہ بنے ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے کرموں کی وجہ سے.الغرض یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن سے منکر ہیں.وہ خدا جس نے زمین سورج ، چاند ستارے وغیرہ پیدا کئے اور ہوا پیدا کی تا کہ ہم سانس لے سکیں اور ایک دوسرے کی آواز سن سکیں اور روشنی کے لیے سورج چاند وغیرہ اشیاء پیدا کیں اور اس وقت پیدا کیں جب کہ ابھی سانس لینے والوں کا وجود اور نام ونشان بھی نہ تھا.تو کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہی اعمال کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے؟ کیا کوئی اپنے اعمال کا دم مارسکتا ہے؟ کیا کوئی دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ سورج چاند ستارے ہوا وغیرہ میرے اپنے عملوں کا پھل ہے؟ غرض خدا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کرتی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کوشش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں مانتے.اعمال اور مجاہدات کی ضرورت اس کے بعد خدا تعالیٰ کی صفت الرحیم کا بیان ہے یعنی محنتوں کوششوں اور اعمال پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا.یہ صفت اس فرقہ کو رڈ کرتی ہے جو اعمال کا بالکل لغو خیال کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا تو روزے کیا ؟ اگر غَفُورُ الرَّحِیم نے اپنا فضل کیا تو بہشت میں جائیں گے نہیں تو جہنم میں اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتاں کر کے ولی تو ہم نے کچھ تھوڑا ہی بننا ہے.کچھ کہتا کیتا نہ کیتا نہ سہی.الغرض الرحیم کہہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا رد کرتا ہے اور بتایا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظورنظر ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فرمایا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت :٧٠) یعنی جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں.جتنے اولیاء اور انبیاء اور بزرگ لوگ گزرے ہیں انہوں نے خدا کی راہ میں جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدا نے اپنے دروازے ان پر کھول دیئے.لیکن وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی اس صفت کو نہیں مانتے.عموماً انکا یہی مقولہ ہوتا ہے کہ میاں ہماری کوششوں میں کیا پڑا ہے جو کچھ تقدیر میں پہلے روز سے لکھا ہے وہ تو ہو کر

Page 45

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة الفاتحة رہے گا.ہماری محنتوں کی کوئی ضرورت نہیں جو ہونا ہے وہ آپ ہی ہو جائے گا.اور شاید چوروں اور ڈاکوؤں اور دیگر بد معاشوں کا اندر ہی اندر یہی مذہب ہوتا ہوگا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ا مورخه ۲/جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۴ تا ۶) دوزخ سے حفاظت کا ذریعہ سورہ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں.پس ہر ایک آیت گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۷ ارفروری ۱۹۰۱ صفحہ ۷ ) سورۃ فاتحہ ہر علم اور ہر معرفت پر محیط ہے فَالْحَقُ أَنَّ الْفَاتِحَة أَحَاطَتْ كُلّ عِلْمٍ | پس حق بات یہی ہے کہ سورت فاتحہ ہر علم اور معرفت پر وَمَعْرِفَةٍ وَاشْتَمَلَتْ عَلى كُلِ دَقِيقَةِ حق محیط ہے وہ سچائی اور حکمت کے تمام نکات پر مشتمل ہے اور وَحِكْمَةٍ وَهِيَ تُجِيبُ كُلّ سَائِلٍ وتُذيب یہ ہر سائل کے سوال کا جواب دیتی اور ہر حملہ آور دشمن کو تباہ كُلَّ عَدُةٍ صَائِلٍ وَيُطْعِمُ كُلَّ نَزِيْلٍ إِلَى کرتی ہے.نیز ہر مسافر کو جو مہمان نوازی چاہتا ہے کھلاتی التَّضَيُّفِ مَآئِلٍ وَ يَسْقِي الْوَارِدِينَ وَ اور آنے اور جانے والوں کو پلاتی ہے.بے شک وہ ہر شبہ الصَّادِرِينَ وَلَا شَكَ أَنَها تُزِيْلُ كُلّ کو جو نا کامی کی حد تک پہنچانے والا ہو زائل کر دیتی ہے شَءٍ خَيَّبَ وَ تُجِيحُ كُلَّ هَةٍ شَيَّبَ اور ہر غم کو جس نے بوڑھا کر دیا ہو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہے وَتُعِيْدُ كُلّ هَدَةٍ تَغَيَّبَ وَتُعْجِلُ كُلّ اور ہر گم شده را ہنما کو ( راہ راست پر ) واپس لاتی ہے اور خَصِيمٍ لَّيْب وَ يُبيرُ الظَّالِبِينَ.وَلاَ ہر خطرناک دشمن کو شرمندہ کرتی ہے.طالبان ہدایت کو مُعالج كَمِثْلِهِ لِسْمِ الذُّنُوبِ وَزَيْعِ الْقُلُوبِ بشارت دیتی ہے.گناہوں کے زہر اور دلوں کی کبھی کے وَهُوَ الْمُوْصِلُ إِلَى الْحَقِّ وَالْيَقِينِ لیے اس جیسا کوئی اور معالج نہیں اور وہ حق اور یقین تک کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد کے صفحہ ۱۴۵) پہنچانے والی ہے.( ترجمہ از مرتب) معرفت کا پھل دینے والا درخت إِنَّهَا شَجَرَةٌ طَيِّبَةٌ تُؤْتِي كُلّ حِينٍ أُكُلا فاتحہ ایک ایسا پاکیزہ درخت ہے جو ہر وقت معرفت کے مِنَ الْمَعْرِفَةِ وَيُروى مِن تَأْسِ الْحَق وَالْحِكْمَةِ پھل دیتا ہے اور حق و حکمت کے جام سے سیراب کرتا ہے.

Page 46

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة الفاتحة فَمَن فَتَحَ بَابَ قَلْبِهِ لِقَبُولِ نُورِهَا | جب کوئی شخص اپنے دل کے دروازہ کو اس کا نور قبول کرنے فَيَدْخُلُ فِيهِ نُورُهَا وَ يَطَّلِعُ عَلی کے لئے کھول دیتا ہے تو اس کا نور اس میں داخل ہو جاتا ہے اور مَسْتُورِهَا وَ مَنْ غَلَّقَ الْبَابَ فَدَعَا وہ اس سورۃ کے پوشیدہ اسرار سے آگاہ ہو جاتا ہے اور جو شخص ظُلْمَتَهُ إِلَيْهِ بِفِعْلِهِ وَ رَأَى القباب و تحق اس دروازہ کو بند کرتا ہے وہ خود ہی اپنے فعل سے اپنی گمراہی کو دعوت دیتا ہے اور اپنی تباہی کا مشاہدہ کرتا ہے اور ہلاک بِالْهَالِكِينَ کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۴۶،۱۴۵) | ہونے والوں کے ساتھ جاملتا ہے.( ترجمہ از مرتب ) سورۃ فاتحہ کا تنویر باطن میں دخل ایک خاصہ روحانی سورہ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور سے اپنی نماز میں اس کو ورد کر لینا اور اس کی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کر لینا تنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے.یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اور بشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدء فیوض کے فیوض انسان پر وارد ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور قبولیت الہی کے انوار اس پر احاطہ کر لیتے ہیں.یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطبات الہیہ سے سرفراز ہو جاتا ہے اور کشوف صادقہ اور الہامات واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لا ریبی اور استجابت ادعیہ اور کشف مغیبات اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی (براہین احمدیہ چہار تص.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۶ تا ۶۲۹ حاشیہ نمبر ۱۱) جاتی.سورۃ فاتحہ مظہر انوارالہی ہے یہ عاجز اپنے ذاتی تجربہ سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورہ فاتحہ مظہر انوار الہی ہے.اس قدر عجائبات.کہ اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدرومنزلت معلوم ہوتا ہے.اس ہا سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشف مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صد با اخبار غیبیه قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہر یک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رویا صادقہ یاد ہے کہ جواب تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہو چکی ہیں.اور دوسو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسے نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی

Page 47

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة الفاتحة طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزام ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنی پر توہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑ جائے تو ایک دفعہ حُبّ دنیا سے قطع تعلق کر کے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہو جائے.اسی طرح بذریعہ الہامات صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہوگئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسول کریم مخاطبات حضرت احدیت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے.خداوند کریم نے اسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علوم لدنیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پر کر دیا ہے اور بار ہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(براہین احمدیہ چہار ص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴۲ تا ۶ ۶۴ حاشیہ نمبر۱۱) سورۃ فاتحہ کی بلندشان جس قدر میں نے اب تک لطائف و معارف و خواص سورۃ فاتحہ لکھے ہیں وہ بدیہی طور پر بے مثل و مانند ہیں مثلاً جو شخص ذرا منصف بن کر اول آن صداقتوں کے اعلیٰ مرتبہ پر غور کرے جو کہ سورۃ فاتحہ میں جمع ہیں اور پھر ان لطائف اور نکات پر نظر ڈالے جن پر سورہ ممدوحہ مشتمل ہے اور پھر حسن بیان اور ایجاز کلام کو مشاہدہ کرے کہ کیسے معافی کثیرہ کو الفاظ قلیلہ میں بھرا ہوا ہے اور پھر عبارت کو دیکھیے کہ کیسی آب و تاب رکھتی ہے اور کس قدر روانگی اور صفائی اور ملائمت اس میں پائی جاتی ہے کہ گویا ایک نہایت مصفی اور شفاف پانی ہے کہ بہتا ہوا چلا جاتا ہے اور پھر اُس کی روحانی تا شیروں کو دل میں سوچے کہ جو بطور خارق عادت دلوں کو ظلمات بشریت سے صاف کر کے موردِ انوار حضرت الوہیت بناتی ہیں جن کو ہم اس کتاب کے ہر موقعہ پر ثابت کرتے چلے جاتے ہیں تو اُس پر قرآنِ شریف کی شانِ بلند جس سے انسانی طاقتیں مقابلہ نہیں کر سکتیں ایسی وضاحت سے کھل سکتی ہے جس پر زیادت متصور نہیں.(براہین احمدیہ چہار صص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۱،۶۵۰ حاشیہ نمبر۱۱)

Page 48

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 6 ۲۵ سورۃ فاتحہ ایک حصن حصین ہے سورة الفاتحة إِنَّ الْفَاتِحَةَ حِضْنَ حَصِيْن وَنُورٌ مُّبِين سورۃ فاتحہ ایک محفوظ قلعہ، نور مبین اور استاد و مددگار وَمُعَلِّمُ وَمُعِينَ وَإِنَّهَا يُحْصِنُ * أحكام ہے اور یہ احکام قرآنیہ کو بڑے اہتمام سے کمی بیشی سے الْقُرْآنِ مِن الزِّيَادَةِ وَالتُقصَانِ محفوظ رکھتی ہے جس طرح سرحدوں کی حفاظت کی جاتی كَتَحْصِينِ الشُّعُورِ بِأَمْرَارِ الْأُمُورِ وَمَثَلُهَا ہے اور اس کی مثال اس اونٹنی کی ہے جس کی پیٹھ پر تیری كَمَثَلِ نَاقَةٍ تَحْمِلُ كُلَّ مَا تَحْتَاجُ إِلَيْهِ ضرورت کی ہر چیز لدی ہوئی ہو اور وہ اپنے سوار کو وَتُوْصِل إلى دِيَارِ الْحِبْ مَنْ رَكِبَ عَلَيْهِ دیار محبوب تک پہنچا دے.نیز اس پر ہر قسم کا زاد راہ نفقہ وَقَدْ حُمِلَ عَلَيْهَا مِنْ كُلِّ نَوعِ الْأَزْوَادِ وَ اور لباس و پوشاک لدی ہوئی ہو.یا پھر اس کی مثال اس التَّفَقَاتِ وَ القِيَابِ وَ الْكِسَوَاتِ أَو چھوٹے سے حوض کی ہے جس میں بہت سا پانی ہو گویا کہ مَثَلُهَا كَمَثَلِ بِرَكَةٍ صَغِيرٍ فِيْهَا مَاءً وہ متعدد دریاؤں کا منبع ہے، یا وہ ایک عظیم دریا کی گذرگاہ غَزِيرٌ كَانَهَا تَجْمَعُ بِمَارٍ أَوْ مُجْرَى قَلَهُنَّم ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس سورہ کریمہ کے فوائد اور زَخَارٍ.وَإِلى أَرى أَن فَوَائِدَ هَذِهِ السُّورَةِ خوبیاں اَن گنت ہیں اور ان کا شمار انسانی طاقت میں الكَرِيمَةِ وَنَفَاَيْسَهَا لَا تُعَدُّ وَ لَا تُخصی نہیں خواہ کوئی اس خواہش کی تکمیل میں اپنی عمر گزار وَلَيْسَ فِي وُسْعِ الْإِنْسَانِ أَنْ تُحْصِيهَا وَإِنْ دے.گمراہ اور بد بخت لوگوں نے اپنی جہالت اور کند ذہنی أَنْقَد عُمرًا في هَذَا الْهَوَى وَإِنَّ أَهْلَ الْغَي کی بناء پر اس کی صحیح قدر نہیں کی.انھوں نے اسے پڑھا تو والشَّقَاوَةِ مَا قَدَرُوهَا حَتَّى قَدْرِهَا مِن سہی لیکن باوجود بار بار پڑھنے کے وہ اس کی خوبی اور الْجَهْلِ وَالْعَبَاوَةِ وَقَرَأُوْهَا فَمَا رَأَوا خوبصورتی کو نہ پاسکے.یہ سورت منکروں پر شدت سے طلَاوَعَهَا مَعَ تَكْرَارِ الخِلاَوَةِ وَإِنَّهَا سُورَةٌ حملہ کرنے والی اور صحت مند دلوں پر سرعت سے اثر قَوِيُّ الصَّوْلِ عَلَى الْكَفَرَةِ سَرِيعُ الْأَثْرِ کرنے والی ہے.ہر وہ شخص جس نے اس پر ایک پر لکھنے وہ عَلَى الْأَفْئِدَةِ السَّلِيْمَةِ وَمَنْ تَأَمَّلَهَا تَأْقُل والے کی طرح نظر ڈالی اور چمکتے ہوئے چراغ کی مانند الْمُنتَقِ.وَدَانَاهَا بِفِكْرِ منیر کالْمِصْبَاح روشن فکر کے ساتھ اس کے قریب ہوا اس نے اس کو الْمُتَّقِدِ أَلْفَاهَا نُورَ الْأَبْصَارِ وَمِفْتَاحَ آنکھوں کا نور اور اسرار کی کلید پایا.بلاشک وشبہ یہی الْأَسْرَارِ وَإِنَّهُ الْحَقُ بِلا رَيْبٍ وَلَا رَجُم بات حق ہے اور نہ یہ کوئی ظنی بات ہے.اگر تمہیں کوئی سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.درست " تحصن" ہے(ناشر )

Page 49

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة الفاتحة بِالْغَيْبِ وَإِن كُنتَ فِي شَءٍ فَقُمْ | شک ہو تو اُٹھو اور خود اس کا تجربہ کرلو اور ماندگی وسستی کو وَجَرَّبْ وَاتْرُكِ اللُّغُوبَ وَالْأَيْنَ وَلَا چھوڑ دو اور یہ سوال نہ کرو کہ یہ کیسے اور کہاں ہوسکتا ہے.تَسْأَلُ عَنْ كَيْفَ وَأَيْنَ وَمِنْ عَجَائِب اس سورت کے عجائبات میں سے یہ بات بھی ہے کہ اس نے هذِهِ السُّورَةِ أَتَهَا عَزَّفَ الله بِتَعْرِیف اللہ تعالی کی تعریف ایسے الفاظ میں بیان کی ہے کہ اس سے لَّيْسَ فِي وُسْعٍ بَشَرٍ أَن يَزِيدَ عَلَيْهِ زیاده بیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں.ہم دُعا کرتے فَتَدْعُو الله أَن يُفْتَحَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان اس قَوْمِنَا بِالْفَاتِحَةِ.وَإِنَّا تَوَكَّلْنَا عَلَيْهِ.سورۃ فاتحہ کے ذریعہ فیصلہ کر دے.ہمارا اسی پر توکل ہے.آمین یا رب العالمین.( ترجمه از مرتب ) أَمِيْنِ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۷۹ تا ۸۱) سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دُعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دُعا نماز ہی میں ہوتی ہے.چنانچہ اس دُعا کو اللہ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إلى آخِرِ یعنی دُعا سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جاوے.جس سے اللہ تعالیٰ کے لئے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو.اس لئے فرمایا اَلْحَمدُ لِلہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں.رَبِّ الْعَالَمِينَ سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا.اگر مخمن جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے.الرَّحِيْمِ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہر بدلہ اسی کے ہاتھ میں ہے.نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو ملِكِ يَوْمِ الدّین تسلیم کرتا ہے.دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے.اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے.ان کی اطاعت ضروری ہے مگر ان کو خدا ہرگز نہ بناؤ.انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو.پھر یہ کہو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.اهْدِنَا الخراط الْمُسْتَقِيمَ - الخ ہم کو سیدھی راہ دکھا.یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کئے اور وہ نبیوں،صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے.اس دُعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے.ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے.(الحکم نمبر ۲۳ جلد ۶ مؤرخه ۲۴ جون ۱۹۰۲ صفحه ۲) جمع السورۃ کی مناسبت سے عرفت آنا چاہیئے.غالباً سہو کتابت ہے.(ناشر) دو

Page 50

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ دُعائے سورۃ فاتحہ میں تمام بنی نوع انسان کو شامل کرنا چاہیے سورة الفاتحة اس سورہ میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں (۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے (۲) تمام مسلمانوں کو (۳) تیسرے ان حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشا خدا تعالیٰ کا ہے.مکتوب حضرت مسیح موعود بنام شیخ غلام نبی صاحب مندرجه احکام نمبر ۰ ۲۱۰۲ جلد ۲۰ مورخہ ۲۸ جولائی.۷ راگست ۱۹۳۷، صفحہ ۳) دعا میں سورت فاتحہ کے تکرار کا اثر نماز میں سورۃ فاتحہ کی دعا کا تکرار نہایت مؤثر چیز ہے کیسی ہی بے ذوقی و بے مرگی ہو.اس عمل کو برابر جاری رکھنا چاہئے یعنی بھی تکرار آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا اور بھی تکرار آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا اور سجدہ میں بائی يَا فَيُوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ - الحکم نمبر جلد ۲ مؤرخه ۲۰ فروری ۱۸۹۸ صفحه ۹) سورۃ فاتحہ کا ورد نماز میں بہتر ہے.بہتر ہے کہ نماز تہجد میں اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَتَ عَلَيْهِمْ کا بدلی توجه و خضوع و خشوع تکرار کریں اور اپنے دل کو نزول انوار الہیہ کے لئے پیش کریں اور کبھی تکرار آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا کیا کریں.ان دونوں آیتوں کا تکرار انشاء اللہ القدیر تنویر قلب وتزکیہ نفس کا موجب ہوگا.الحکم نمبر ۲۳ جلد ۷ مؤرخہ ۲۴ جون ۱۹۰۳ صفحه ۳) ثُمَّ اعْلَمْ آنْ آيَاتِ هَذهِ السُّورَةِ الْفَاتِحَةِ) واضح رہے کہ اس سورت (فاتحہ) کی آیات سات سَبْع وَالنُّجُومُ سَبْعٌ فَقَدْ حَاذَا كُلُّ وَاحِدٍ ہیں اور مشہور ستارے بھی سات ہیں.ان آیات میں سے مِنْهَا تَجَمَّا لِيَكُونَ كُلُّهَا لِلشَّيْطن رجما ہر آیت ایک ستارے کے مقابل پر ہے تا وہ سب کی سب رَجُمًا.رجسٹر محاورات العرب تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام) شیطان کے لئے رجم کا موجب ہوں.( ترجمہ از مرتب) قرآن شریف میں چار سورتیں ہیں جو بہت پڑھی جاتی ہیں.اُن میں مسیح موعود اور اس کی جماعت کا ذکر ہے.(۱) سورۃ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اس میں ہمارے دعوے کا ثبوت ہے.جیسا کہ اس تفسیر میں ثابت کیا جائے گا.(۲) سورہ جمعہ جس میں اُخَرِينَ مِنْهُم مسیح موعود کی جماعت کے متعلق ہے یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے.(۳) سورہ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے.اس کی پہلی اور پچھلی دس ۱۰ آیتوں میں دجال کا ذکر ہے.(۴) آخری سورت قرآن کی جس میں دجال کا نام خناس رکھا گیا ہے.یہ وہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجال کے واسطے آیا ہے.یعنی محاش wna.ایسا ہی قرآن شریف کے اور مقامات میں بھی بہت ذکر ہے..الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱)

Page 51

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة الفاتحة أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ استعاذہ کا حکم اور اس کی حکمت اے اعْلَمُ يَا طالب الْعِرْفَانِ أَنَّهُ مَنْ ا طالب معرفت جان لو کہ جب کوئی شخص سورۃ فاتحہ طَالِبَ أَحَلَّ نَفْسَهُ فَحَلَ تِلاوَةِ الْفَاتِحَةِ اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگے تو اس پر لازم ہے وَالْفُرْقَانِ فَعَلَيْهِ أَن يَسْتَعِيْنَ مِن كه وه أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پڑھے جیسا کہ الشَّيْطَانِ كَمَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ فَإِنَّ قرآن کریم میں حکم ہے.کیونکہ کبھی شیطان خدا تعالیٰ کی الشَّيْطَانَ قَدْ يَدْخُلُ حمى الحضرة رکھ میں چوروں کی طرح داخل ہو جاتا ہے اور اس حرم کے كَالسَّارِقِينَ وَ يَدْخُلُ الْحَرَمَ الْعَاصِم اندر آ جاتا ہے جو معصومین کا محافظ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے لِلْمَعْصُوْمِينَ.فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يُنغِي عِبَادَة ارادہ فرمایا کہ وہ سورۃ فاتحہ اور قرآن مجید کی تلاوت کے مِنْ صَوْلِ الْخَنَّاسِ عِنْدَ قِرَائَةِ الفَاتِحَةِ و وقت اپنے بندوں کو شیطان کے حملہ سے بچائے ، اُسے كَلَامِ رَبِّ النَّاسِ وَيَدْفَعُهُ بِحَرْبَةٍ مِنْهُ اپنے حربہ سے پسپا کرے، اس کے سر پر تبر رکھے اور وَيَضَعُ الْفَأْسَ فِي الرَّأْسِ وَ يُخلّص غافلوں کو غفلت سے نجات دے.پس اس نے شیطان کو الْغَافِلِينَ مِنَ النُّعَاسِ فَعَلَّمَ كَلِمَةً مِّنْهُ دھتکارنے کے لئے جو قیامت تک راندہ درگاہ ہے اپنے لِطَرْدِ الشَّيْطَانِ الْمَدْحُورٍ إلى يَوْمِ ہاں سے بندوں کو ایک بات سکھائی اور اس مخفی امر یعنی تعوذ النُّشُورِ.وَكَانَ سِر هَذَا الْأَمْرِ الْمَسْتُورٍ میں یہ راز ہے کہ شیطان قدیم سے انسان کا دشمن ہے اور أَنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ عَادَى الْإِنْسَانَ مِن وہ اسے پوشیدہ اور اچانک طور پر ہلاک اور برباد کرنا چاہتا الدُّهُورِ.وَكَانَ يُرِيدُ إهلا گه مِن طَرِیق ہے.اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چیز انسان الإخْفَاءِ وَالدُّمُورِ.وَكَانَ أَحَبُّ الْأَشْيَاءِ کو تباہ کرنا ہی ہے اس لئے اس نے اپنے نفس پر یہ لازم کر إِلَيْهِ تَدْمِيرُ الْإِنْسَانِ وَلِذَالِكَ الْزَم لیا ہے کہ وہ ہر اُس امر کی طرف کان لگائے رکھے جو نَفْسَهُ أَنْ تُصْغِي إِلى كُلِّ أَمْرٍ يَنْزِلُ خدائے رحمان کی طرف سے لوگوں کو جنت کی طرف مِنَ الرَّحْمَنِ لِدَعْوَةِ النَّاس إلى بلانے کے لئے نازل ہوتا ہے اور وہ اپنی تمام تر کوشش الْجِنَانِ وَيَبْلُلُ جَهْدَهُ لِلْإِضْلالِ | گمراہی اور فتنہ کے پھیلانے میں خرچ کرے.پس اللہ تعالیٰ

Page 52

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة الفاتحة وَالْإِفْتِنَانِ فَقَدَّدَ الله لَهُ الْخَيْبَةَ نے انبیاء کی بعثت کے ذریعہ اس کے لئے ناکامی اور تلخیاں وَالْقَوَارِعَ بِبَعْثِ الْأَنْبِيَاءِ وَمَا قَتَلَهُ مقدر کر رکھی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُسے ( شروع میں ) قتل تو بَلْ أَنْظُرَهُ إِلى يَوْمٍ تُبْعَثُ فِيهِ الْمَوْٹی نہیں کیا بلکہ اُسے اس وقت تک مہلت دے دی جب بإِذْنِ الله ذى الْعِزَّةِ وَالْعَلَاءِ.وَبَشِّرَ مُردے خدا تعالی بزرگ و برتر کی اجازت سے دوبارہ زندہ بِقَتْلِهِ فى قَوْلِهِ الشَّيْطَانِ الرَّحِيْمِ کئے جائیں گے اور اس نے تعوذ میں الشیطان الرجیم فَتِلْكَ هِيَ الْكَلِمَةُ التي تُقرَأُ قَبْلَ کے الفاظ رکھ کر اس کے قتل کی خبر دی ہے.پس یہی وہ کلمہ قَوْلِهِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ہے جو بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سے قبل پڑھا جاتا ہے.لفظ الرّجیم میں دجال کے قتل کا ذکر وَهَذَا الرَّجِيْمُ هُوَ الَّذِي وَرَدَ فِيهِ اور یہ رجیم وہی ہے جس کے حق میں ایک خاص وعید آئی الْوَعِيْدُ أَعْنِي الدَّجَالَ الَّذِي يَقْتُلُهُ ہے.اس سے میری مراد وہ دجال ہے جسے مسیح موعود ( قاتل المَسِيحُ الميد.وَ الرَّمُ الْقَتْلُ كَمَا (قال) ہلاک کرے گا اور رجیم کے معنے قتل کے ہیں.جیسا طرح به في كُتُبِ اللَّسَانِ الْعَرَبِيَّةِ کہ عربی زبان کی کتب لغت میں اس کی تصریح کی گئی ہے.فَالرَّحِيمُ هُوَ النَّاجِلُ الَّذِي يُغَالُ في پس رجیم وہی دجل کرنے والا ہے جو آئندہ زمانہ میں ہلاک زَمَانِ مِّنَ الْأَزْمِنَةِ الْأُتِيَةِ وَعُدُ مِّن کیا جائے گا.یہ اس خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو اپنے بندوں کا اللهِ الَّذِي يَكُولُ عَلَى أَهْلِهِ وَلَا تَبْدِيلَ لحاظ رکھتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے الفاظ اٹل ہوتے ہیں.پس لِلعَلِيمِ الْإِلَهِيَّةِ.فَهَذِهِ بَشَارَةٌ لِلْمُسْلِمِينَ خدائے رحیم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے یہ بشارت من اللهِ الرَّحِيْمِ وَإِيْمَاهُ إِلَى أَنَّهُ ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت دجال کو يُقتل الدجال في وقتٍ كَمَا هُوَ ہلاک کیا جائے گا جیسا کہ لفظ رجیم سے واضح ہے.المفهوم من لقط الرجيم.اشعار رجم کے معنی وَ مَعْنَى الرَّجُمِ فِي هَذَا الْمُقَامِ (1) اس مقام میں رجم کے معنے جیسا کہ مجھے مخلوق کے كَمَا عُلِّمْتُ مِنْ رَّبِّ الْأَنَامِ رب کی طرف سے علم دیا گیا ہے.هُوَ الْإِعْضَالُ إِغْضَالُ اللقامِ (۲) وہ کمینوں کو عاجز کرنا اور ایسے دشمنوں کو لا جواب وَإِسْحَاتُ الْعِدَا كَهْفِ الظُّلام ا کرنا ہے جو اندھیرے کی پناہ گاہ ہیں.

Page 53

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة وَضَرْبٌ تَخْتَلِي أَصْلَ الْخِصَامِ (۳) اور ایسی ضرب لگانا ہے جو خصومت کو جڑ سے وَلَا نَعْنِى بِهِ ضَرْبَ الْحُسَامِ اکھیڑ دے ہماری مراد اس سے تلوار کی ضرب نہیں.دجال کے قتل کا زمانہ وَقَد أَلَى زَمَانٌ تَهْلِكُ فِيهِ الأَبَاطِيلُ اب وہ زمانہ آ گیا ہے جس میں باطل ہلاک ہو جائے گا وَلَا تَبْقَى النُّورُ وَالظَّلامُ.وَتَفْتَى الملل اور جھوٹ اور اندھیرا باقی نہیں رہے گا.تمام مذاہب كُلُهَا إِلَّا الْإِسْلَام وَ تملاً الأَرْضُ سوائے اسلام کے مٹ جائیں گے اور زمین انصاف، قِسْطَا وَعَدُلًا وَ نُورًا كَمَا كَانَتْ مُلِئَتْ عدل اور نور سے بھر جائے گی جیسا کہ وہ پہلے ظلم ، کفر ، تعدی ظُلْمًا وَكُفْرًا وَجَوْرًا وَزُورًا، فَهُنَاكَ اور جھوٹ سے پرتھی.پس اس وقت اس گروہ دجال کو جس تُقتَلُ مَنْ سَبَقَ الْوَعِيْدُ لِتَمِيرِهِ وَلَا کی ہلاکت کا وعدہ پہلے سے دیا گیا ہے قتل کیا جائے گا.اس نَعْنِي مِنَ الْقَتْلِ إِلَّا كَسْرِ قُوتِهِ وَتَنْجِيَّةَ جدل سے ہماری مراد صرف اس کی طاقت توڑ دینے اور اس کے قیدیوں کو آزاد کر دینے سے ہے.چکا تھا.أسيره.فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ الَّذِي يُقَالُ لَهُ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ جسے شیطان رجیم کہتے ہیں الشَّيْطَانُ الرَّحِيمُ هُوَ الرّجالُ اس سے وہی دجال لتیم ، خناس قدیم مراد ہے جس کا قتل کیا اللَّيْيْمُ.وَالْخَنَّاسُ الْقَدِيمُ وَكَانَ قَتْلُهُ جانا ایک موعود امر تھا اور ایسا اہم امر تھا جو پہلے ہی مقدر ہو أَمْرًا مَّوْعُودًا وَخَطَبًا مَعْهُودًا وَلِذَالِكَ أَلْزَمَ اللهُ كَافَةَ أَهْلِ الْمِلَّةِ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا أَنْ يَقْرَأُوْا لَفَظَ الرَّجِيمِ قَبْلَ قِرَائَةِ کہ وہ سورۃ فاتحہ اور بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھنے الْفَاتِحَةِ وَقَبْلَ الْبَسْمَلَةِ لِيَتَذَكَّرَ سے قبل اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ پڑھیں تا کہ الْقَارِي أَنَّ وَقْتَ الدَّجَّالِ لَا يُجَاوِزُ پڑھنے والے کے ذہن نشین رہے کہ دجال کا زمانہ اس قوم وَقتَ قَوْمٍ ذُكِرُوا في آخر آية فمن هذہ کے زمانہ سے تجاوز نہیں کرے گا جس کا ذکر ان سات الْآيَاتِ السَّبْعَةِ، وَكَانَ قَدَرُ اللهِ كُتِب آیتوں میں سے آخری آیت میں کیا گیا ہے اور اللہ کی یہ مِنْ بَدِهِ الْأَوَانِ أَنَّهُ يُقْتَلُ الرَّحِيمُ تقدير ابتدائے زمانہ سے مقر تھی کہ مذکور شیطان رجیم الْمَذْكُورُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ وَيَسْتَرِيح | آخری زمانہ میں قتل ہوگا اور لوگ اس زہریلے اثر دھا کے ،

Page 54

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱ سورة الفاتحة الْعِبَادُ مِنْ تَدغِ هَذَا الشُّعْبَانِ فَالْيَوْمَ ڈسنے سے امان پا جائیں گے.پس اب زمانہ اپنے وَصَلَ الزَّمَانُ إِلَى آخِرِ الدَّاخِرَةِ وَانْتَهى انتہائی دور میں پہنچ گیا ہے اور دنیا کی عمر سبع مثانی کی عُمُرُ الدُّنْيَا كَالسَّبْعِ الْمَقَانِي إِلَى السَّابِعَةِ سات آیات کی طرح شمسی اور قمری حساب سے ساتویں من الألُوفِ الشَّمْسِيَّةِ وَالْقَمَرِيَّةِ الْيَوْمَ ہزار سال میں پہنچ گئی ہے.آج یہ شیطان رجیم ایسے گروہ تَجَلَّ الرَّحِيمُ في مَظْهَر هُوَ لَهُ الْحَلَلِ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو اس کے لئے بروزی الْبُرُوزِيَّةِ وَالحديمَ أَمْرُ الْغَيِّ عَلى قَوْمٍ لباس کی حیثیت رکھتا ہے اور گمراہی اس قوم پر ختم ہوگئی اخْتُتِمَ عَلَيْهِ أَخِرُ كَلِم الْفَاتِحَةِ وَلا ہے جس کا ذکر سورۃ فاتحہ کے آخری الفاظ میں آیا ہے اور يَفْهَمُ هَذَا الرَّمْنَ إِلَّا ذُو الْقَرِيعَةِ الْوَفَادَةِ اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو روشن طبع ہو.دقبال صرف خدا کے فضل سے قتل ہوگا وَلَا يُقْتَلُ الدَّجَّالُ إِلَّا بِالْحَرُبَةِ اور یہ دجال صرف آسمانی حربہ سے ہی ہلاک کیا السَّمَاوِيَّةِ.أَى بِفَضْل من الله لا بالطاقة جائے گا یعنی بشری طاقت سے نہیں بلکہ خدا تعالی کے الْبَشَرِيَّةِ.فَلَا حَرْبَ وَ لَا ضَرْبَ وَلَكِن فضل سے ہی قتل ہوگا.پس نہ کوئی لڑائی ہوگی نہ مار پیٹ.أَمْرٌ تَازِلُ مِنَ الْحَطرَةِ الْأَحَدِيَّةِ وَكَانَ هذا بلکہ یہ ایک ایسا امر ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے وقوع الدَّجَّالُ يَبْعَثُ بَعْضَ نَرَارِيهِ في كُلِ مِائَةٍ پذیر ہوگا اور یہ دجال (شیطان) ہر صدی میں اپنی مِن مِينَ لِيُضِلُّ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُوَخِدِينَ ذریت میں سے بعض کو مقرر کرتا رہا تا مومنوں ، وَالصَّالِحِيْنَ وَالْقَائِمِينَ عَلَى الْحَقِّ موحدوں ، نیکوکاروں ،حق پر قائم لوگوں اور اس کے وَالظَّالِبِينَ وَيَهُ مَبَانِيَ الدِّينِ وَيَجْعَل طالبوں کو گمراہ کرے طالبوں کو گمراہ کرے اور دین کی عمارتوں کو گرا دے اور صُحُفَ اللَّهِ عِضِيْنَ وَكَانَ وَعَد فمن الله أنه الله تعالی کی کتب کو پارہ پارہ کر دے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ مِّنَ أَنَّهُ يُقتل في آخِرِ الزَّمَانِ وَيَغْلِبُ الصَّلاحُ تھا کہ وہ دجال آخری زمانہ میں قتل کیا جائے گا اور نیکی ہر عَلَى الطَّلَاحِ وَالطُغْيَانِ.وَتُبَتِّلُ الْأَرْضُ قسم کی خرابی اور سرکشی پر غالب آجائے گی اور زمین بدل دی جائے گی اور اکثر لوگ خدائے رحمان کی طرف وَ يَتُوبُ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَى الرَّحْمَنِ وَ تُشْرِقُ الْأَرْضُ بِنُورِ رَيْهَا.وَ تَخَرُجُ رجوع کرلیں گے.زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور قلوب شیطانی تاریکیوں سے باہر آجائیں الْقُلُوبُ مِنْ ظُلُمَاتِ الشَّيْطَانِ فَهَذَا هُوَ

Page 55

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة الفاتحة مَوْتُ الْبَاطِلِ وَمَوْتُ الدَّجَّالِ وَقَتْلُ هَذَا گے.یہی باطل کی موت ، دقبال کی موت اور اس بڑے الشُّعْبَانِ.اثر دبا کا قتل ہے.دجال سے مراد شخص واحد نہیں.أَمْ يَقُولُونَ إِنَّهُ رَجُلٌ يُقْتَلُ فِي وَقت کیا لوگ کہتے ہیں کہ دجال ایک شخص ہے جو کسی زمانہ مِنَ كَلَّا من الأَوْقَاتِ عَلا بَلْ هُوَ شَيْطَانٌ رَّجِيْمٌ میں قتل کیا جائے گا ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنبال تو وہ مردود أبو الشَّيْئَاتِ يُرجم في آخِرِ الزَّمَانِ بإزالة شیطان ہے جو بدیوں کا سرچشمہ ہے اسے آخری زمانہ میں الْجَهَلَاتِ وَ اسْتيْصَالِ الْخَز عَبِیلَاتِ جہالتوں کے دُور کرنے اور بدیوں کو مٹانے کے ذریعہ قتل کیا وَعَد حَقٌّ مِنَ اللهِ الرَّحِيمِ.كَمَا أُشِيْرَ في جائے گا.یہ خدائے رحیم کا سچا وعدہ ہے جیسا کہ خدا کے قَوْلِهِ: "الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ * فَقَد تَمَّت الفاظ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ * میں اس کی طرف اشارہ کیا كَلِمَةُ رَبَّنَا صِدْقًا وَعَدْلًا في هذه الأيام گیا ہے.پس ہمارے پروردگار کی پیشگوئی راستی و عدل وَنَظَرَ اللهُ إِلَى الْإِسْلامِ بَعْدَ مَا عَدَّتْ بِہ سے اس زمانہ میں پوری ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کی الْبَلايَا وَالْاَلَامُ، فَأَنْزَلَ مَسِيحَهُ لِقَتْل طرف نظر کرم فرمائی بعد اس کے کہ اس پر مصائب و تکالیف وارد ہوئیں.پس اللہ تعالی نے اپنے مسیح کو اس خناس شیطان کے قتل اور اس جھگڑے کے چکانے کیلئے نازل کیا.الْخَنَّاسِ وَقَطع هذَا الْخِصَامِ.شیطان کا نام رجیم رکھنے میں حکمت وَمَا سُمي الشَّيْطَانُ رَحِيمًا إِلَّا عَلى اور شیطان کا نام رجیم بطور پیشگوئی رکھا گیا ہے طَرِيقِ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ فَإِنَّ الرَّجُمَ هُوَ الْقَتْلُ کیونکہ رجم کے معنے بلاشک وشبہ قتل کرنے کے ہیں اور مِنْ غَيْرِ الرَّيْبِ.وَلَمَّا كَانَ الْقَدَرُ قَدْ جَری جب مقدر یوں تھا کہ یہ دجال خدائے ذوالجلال کے مسیح في قَتْلِ هَذَا الدَّجَّالِ عِنْدَ نُزُولِ مسیح کے نازل ہونے کے زمانہ میں قتل کیا جائے گا.لہذا مَسِيحِ الله ذى الجَلالِ أَخَبَرَ اللهُ مِنْ قَبْلِ هَذِهِ الله تعالى نے اس واقعہ سے قبل ہی ان لوگوں کی تسلی الْوَاقِعَةِ تَسْلِيَةً وَ تَبْشِيرًا لِّقَوْمٍ تَخَافُونَ اور بشارت کے لئے جو گمراہی کے زمانہ سے ڈرتے أَيَّامَ الضَّلال (اجبار اسح، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۸۹۳۸۱) | ہیں خبر دے دی.(ترجمہ از مرتب ) آل عمران: ۳۷ اور النحل: ۹۹)

Page 56

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ) سورة الفاتحة اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ ترجمہ : خدا جس کا نام اللہ ہے تمام اقسام تعریفوں کا مستحق ہے.اور ہر ایک تعریف اُسی کی شان کے لائق ہے کیونکہ وہ ربّ العالمین ہے.وہ رحمان ہے، وہ رحیم ہے، وہ مالک یوم الدین ہے.ہم (اے صفات کاملہ والے ) تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں.ہمیں وہ سیدھی راہ دکھلا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے.اور ان راہوں سے بچا جو اُن لوگوں کی راہیں ہیں جن پر تیرا غضب طاعون وغیر ہ عذابوں سے دنیا ہی میں وارد ہوا اور نیز اُن لوگوں کی راہوں سے بچا کہ جن پر اگر چہ دنیا میں کوئی عذاب وارد نہیں ہوا.مگر اُخروی نجات کی راہ سے وہ دور جا پڑے ہیں اور آخر عذاب میں گرفتار ہوں گے.(ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۶) بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ یہ آیت سورۃ ممدوحہ کی آیتوں میں سے پہلی آیت ہے اور قرآن شریف کی دوسری سورتوں پر بھی لکھی گئی ہے اور ایک اور جگہ بھی قرآن شریف میں یہ آیت آئی ہے اور جس قدر تکرار اس آیت کا قرآن شریف میں بکثرت پایا جاتا ہے اور کسی آیت میں اس قدر تکرار نہیں پایا جاتا.اور چونکہ اسلام میں یہ سنت ٹھہر گئی ہے کہ ہر یک کام کے ابتدا میں جس میں خیر اور برکت مطلوب ہو بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں اس لئے یہ آیت دشمنوں اور دوستوں اور چھوٹوں اور بڑوں میں شہرت پاگئی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تمام قرآنی آیات سے بے خبر مطلق ہو.تب بھی امید قوی ہے کہ اس آیت سے ہر گز اس کو بے خبری نہیں ہوگی.اب یہ آیت جن کامل صداقتوں پر مشتمل ہے ان کو بھی سن لینا چاہئے سو منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتہ معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربانی کے رو سے ذات مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور منزہ بن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے.اس اسم اعظم کی سورۃ فاتحہ

Page 57

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة الفاتحة بہت سی صفات میں سے جو دو صفتیں بسم اللہ میں بیان کی گئی ہیں یعنی صفت رحمانیت ورحیمیت انہیں دو صفتوں کے تقاضا سے کلام الہی کا نزول اور اس کے انوار و برکات کا صدور ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے پاک کلام کا دنیا میں اترنا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جاتا یہ صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کی کیفیت (جیسا کہ آگے بھی تفصیل سے لکھا جائے گا) یہ ہے کہ وہ صفت بغیر سبقت عمل کسی عامل کے محض مجود اور بخشش الہی کے جوش سے ظہور میں آتی ہے جیسا خدا نے سورج اور چاند اور پانی اور ہوا وغیرہ کو بندوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے.یہ تمام جود اور بخشش صفت رحمانیت کے رو سے ہے.اور کوئی شخص دعوی نہیں کرسکتا کہ یہ چیزیں میرے کس عمل کی پاداش میں بنائی گئی ہیں.اسی طرح خدا کا کلام بھی کہ جو بندوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے اتر اوہ بھی اس صفت کے رو سے اترا ہے.اور کوئی ایسا متنفس نہیں کہ یہ دعویٰ کر سکے کہ میرے کسی عمل یا مجاہدہ یا کسی پاک باطنی کے اجر میں خدا کا پاک کلام کہ جو اس کی شریعت پر مشتمل ہے نازل ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر چہ طہارت اور پاک باطنی کا دم مارنے والے اور زہد اور عبادت میں زندگی بسر کرنے والے اب تک ہزاروں لوگ گزرے ہیں لیکن خدا کا پاک اور کامل کلام کہ جو اُس کے فرائض اور احکام کو دنیا میں لایا اور اس کے ارادوں سے خلق اللہ کو مطلع کیا انہیں خاص وقتوں میں نازل ہوا ہے کہ جب اس کے نازل ہونے کی ضرورت تھی.ہاں یہ ضرور ہے کہ خدا کا پاک کلام انہیں لوگوں پر نازل ہو کہ جو تقدس اور پاک باطنی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہوں.کیونکہ پاک کو پلید سے کچھ میل اور مناسبت نہیں لیکن یہ ہرگز ضرور نہیں کہ ہر جگہ تقدس اور پاک باطنی کلام الہی کے نازل ہونے کو مستلزم ہو بلکہ خدائے تعالیٰ کی حقانی شریعت اور تعلیم کا نازل ہونا ضرورات حقہ سے وابستہ ہے.پس جس جگہ ضرورات حقہ پیدا ہو گئیں اور زمانہ کی اصلاح کے لئے واجب معلوم ہوا کہ کلام الہی نازل ہو اسی زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا اور کسی دوسرے زمانہ میں گولاکھوں آدمی تقوی اور طہارت کی صفت سے متصف ہوں اور کوکیسی ہی تقدس اور پاک باطنی رکھتے ہوں ان پر خدا کا وہ کامل کلام ہرگز نازل نہیں ہوتا کہ جو شریعت حقانی پر مشتمل ہو.ہاں مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت کے بعض پاک باطنوں سے ہو جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت کہ جب حکمت الہیہ کے نزدیک ان مکالمات اور مخاطبات کے لئے کوئی ضرورت حقہ پیدا ہو.اور ان دونوں طور کی ضرورتوں میں فرق یہ ہے کہ شریعت حقانی کا نازل ہونا اس ضرورت کے وقت پیش آتا ہے کہ جب دنیا کے لوگ باعث ضلالت اور گمراہی کے جادہ استقامت سے منحرف ہو گئے ہوں اور اُن کے

Page 58

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة الفاتحة راہ راست پر لانے کے لئے ایک نئی شریعت کی حاجت ہو کہ جو ان کی آفات موجودہ کا بخوبی تدارک کر سکے اور ان کی تاریکی اور ظلمت کو اپنے کامل اور شافی بیان کے نور سے بکلی اٹھا سکے اور جس طور کا علاج حالت فاسدہ زمانہ کے لئے درکار ہے وہ علاج اپنے پر زور بیان سے کر سکے.لیکن جو مکالمات و مخاطبات اولیاء اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں ان کے لئے غالباً اس ضرورت عظمی کا پیش آنا ضروری نہیں بلکہ بسا اوقات صرف اسی قدران مکالمات سے مطلب ہوتا ہے کہ تاولی کے نفس کو کسی مصیبت اور محنت کے وقت صبر اور استقامت کے لباس سے متلی کیا جائے یا کسی غم اور حزن کے غلبہ میں کوئی بشارت اس کو دی جائے مگر وہ کامل اور پاک کلام خدائے تعالیٰ کا کہ جو نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے وہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے اس ضرورتِ حقہ کے پیش آنے پر نزول فرماتا ہے کہ جب خلق اللہ کو اس کے نزول کی بشدت حاجت ہو.غرض کلام الہی کے نازل ہونے کا اصل موجب ضرورت حقہ ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب تمام رات کا اندھیر ہو جاتا ہے اور کچھ ٹور باقی نہیں رہتا تو اسی وقت تم سمجھ جاتے ہو کہ اب ماہ نو کی آمدنزدیک ہے.اسی طرح جب گمراہی کی ظلمت سخت طور پر دنیا پر غالب آجاتی ہے تو عقل سلیم اس روحانی چاند کے نکلنے کو بہت نزدیک سمجھتی ہے.ایسا ہی جب امساک باراں سے لوگوں کا حال تباہ ہو جاتا ہے تو اس وقت عنظمند لوگ بارانِ رحمت کا نازل ہونا بہت قریب خیال کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے اپنے جسمانی قانون میں بھی بعض مہینے برسات کے لئے مقرر کر رکھے ہیں یعنی وہ مہینے جن میں فی الحقیقت مخلوق اللہ کو بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور ان مہینوں میں جو مینہ برستا ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ خاص ان مہینوں میں لوگ زیادہ نیکی کرتے ہیں اور دوسرے مہینوں میں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں.بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ وہ مہینے ہیں جن میں زمینداروں کو بارش کی ضرورت ہے اور جن میں بارش کا ہو جانا تمام سال کی سرسبزی کا موجب ہے ایسا ہی کلام الہی کا نزول فرمانا کسی شخص کی طہارت اور تقویٰ کے بہت سے نہیں ہے یعنی علت موجبہ اُس کلام کے نزول کی یہ نہیں ہو سکتی کہ کوئی شخص غایت درجہ کا مقدس اور پاک باطن تھا یا راستی کا بھوکا اور پیاسا تھا بلکہ جیسا کہ ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کتب آسمانی کے نزول کا اصلی موجب ضرورت حلقہ ہے یعنی وہ ظلمت اور تاریکی کہ جو دنیا پر طاری ہو کر ایک آسمانی نور کو چاہتی ہے کہ تاوہ نور نازل ہو کر اس تاریکی کو دور کرے اور اسی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے.اِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر: ٢) يه ليلة القدر اگر چہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ

Page 59

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة الفاتحة دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلتہ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان ٹور کے نزول کو چاہتی تھی اور اُسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کر کے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں.سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہو گئی اور دنیا نے اس سے ایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی.پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلتی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کر کے دکھلا دیا.وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مرچکی تھی اور بڑ اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہو چکا تھا پس اس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ب اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ( الحديد : ۱۸) یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے.اب اس بات کو بخوبی یا درکھنا چاہئے کہ یہ نزول قرآن شریف کا کہ جو زمین کے زندہ کرنے کے لئے ہوا یہ صفت رحمانیت کے جوش سے ہوا.وہی صفت ہے کہ جو بھی جسمانی طور پر جوش مار کر قحط زدوں کی خبر لیتی ہے اور باران رحمت خشک زمین پر برساتی ہے اور وہی صفت کبھی روحانی طور پر جوش مارکران بھوکوں اور پیاسوں کی حالت پر رحم کرتی ہے کہ جو ضلالت اور گمراہی کی موت تک پہنچ جاتے ہیں اور حق اور صداقت کی غذا کہ جو روحانی زندگی کا موجب ہے ان کے پاس نہیں رہتی.پس رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمت کاملہ کے تقاضا سے روحانی غذا کو بھی ضرورت حقہ کے وقت مہیا کر دیتا ہے.ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حقہ کے کتاب آسمانی نازل ہو جایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلا ضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی وجہ سے لازمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا رہے بلکہ خدا کی کتاب اسی وقت نازل ہوتی ہے جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ہے

Page 60

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة الفاتحة ضرورت پیش آ جائے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ وحی اللہ کے نزول کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی رحمانیت ہے کسی عامل کا عمل نہیں اور یہ ایک بزرگ صداقت ہے جس سے ہمارے مخالف برہمو وغیرہ بے خبر ہیں.پھر بعد اس کے سمجھنا چاہئے کہ کسی فرد انسانی کا کلام الہی کے فیض سے فی الحقیقت مستفیض ہو جانا اور اس کی برکات اور انوار سے متمتع ہو کر منزل مقصود تک پہنچنا اور اپنی سعی اور کوشش کے ثمرہ کو حاصل کرنا یہ صفت رحیمیت کی تائید سے وقوع میں آتا ہے.اور اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے بعد ذکر صفت رحمانیت کے صفت رحیمیت کو بیان فرمایا تا معلوم ہو کہ کلام الہی کی تاثیر میں جو نفوس انسانیہ میں ہوتی ہیں یہ صفت رحیمیت کا اثر ہے.جس قدر کوئی اعراض صوری و معنوی سے پاک ہو جاتا ہے.جس قدر کسی کے دل میں خلوص اور صدق پیدا ہوتا ہے جس قدر کوئی جدوجہد سے متابعت اختیار کرتا ہے.اسی قدر کلام الہی کی تاثیر اس کے دل پر ہوتی ہے اور اسی قدر وہ اس کے انوار سے متمتع ہوتا ہے اور علامات خاصہ مقبولانِ الہی کی اس میں پیدا ہو جاتی ہیں.دوسری صداقت کہ جو بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ میں موقع ہے یہ ہے کہ یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رشد کے پیدا کر دیتا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے جدوجہد پر ثمراتِ حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل ان کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کر کے دیکھو تو ظاہر ہوگا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں.خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہورہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا.سو وہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہیں اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا اور وہ اسباب کسی عمل کی پاداش میں نہیں دیئے جاتے بلکہ تفضل اور احسان کی راہ سے عطا ہوتے ہیں جیسے نبیوں کا آنا، کتابوں کا نازل ہونا ، بارشوں کا ہونا ،سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ کا اپنے اپنے کاموں میں لگے رہنا اور خود انسان کا طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ مشرف ہو کر اس دنیا میں آنا اور

Page 61

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸ سورة الفاتحة تندرستی اور امن اور فرصت اور ایک کافی مدت تک عمر پا نا یہ وہ سب امور ہیں کہ جو صفت رحمانیت کے تقاضا سے ظہور میں آتے ہیں.اسی طرح خدا کی رحیمیت تب ظہور کرتی ہے کہ جب انسان سب تو فیقوں کو پا کر خداداد قوتوں کو کسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتا ہے.اور جہاں تک اپنا زور اور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتا ہے تو اس وقت عادت الہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کوششوں پر ثمرات حسنه مترتب کرتا ہے.پس یہ اس کی سراسر رحیمیت ہے کہ جو انسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے.اب جاننا چاہئے کہ آیت ممدوحہ کی تعلیم سے مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف کے شروع کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی ذات جامع صفات کاملہ کی رحمانیت اور رحیمیت سے استمداد اور برکت طلب کی جائے.صفت رحمانیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحمانیت کی وجہ سے اس سب اسباب کو محض لطف اور احسان سے میسر کر دے کہ جو کلام الہی کی متابعت میں جدو جہد کرنے سے پہلے درکار ہیں جیسے عمر کا وفا کرنا ، فرصت اور فراغت کا حاصل ہونا، وقت صفا میسر آ جانا، طاقتوں اور قوتوں کا قائم ہونا، کوئی ایسا امر پیش نہ آ جانا کہ جو آسائش اور امن میں خلل ڈالے، کوئی ایسا مانع نہ آ پڑنا کہ جو دل کو متوجہ ہونے سے روک دے.غرض ہر طرح سے توفیق عطا کئے جانا یہ سب امور صفت رحمانیت سے حاصل ہوتے ہیں.اور صفت رحیمیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحیمیت کی وجہ سے انسان کی کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرے اور انسان کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچاوے اور اس کی سعی اور جدو جہد کے بعد اس کے کام میں برکت ڈالے.پس اس طور پر خدائے تعالیٰ کی دونوں صفتوں رحمانیت اور رحیمیت سے کلام الہی کے شروع کرنے کے وقت بلکہ ہر یک ذیشان کام کے ابتدا میں تبرک اور استمداد چاہنا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جس سے انسان کو حقیقت توحید کی حاصل ہوتی ہے اور اپنے جاہل اور بے خبری اور نادانی اور گمراہی اور عاجزی اور خواری پر یقین کامل ہو کر مبدء فیض کی عظمت اور جلال پر نظر جا ٹھہرتی ہے اور اپنے تئیں بکلی مفلس اور مسکین اور پیچ اور ناچیز سمجھ کر خداوند قادر مطلق سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی برکتیں طلب کرتا ہے.اور اگر چہ خدائے تعالی کی یہ صفتیں خود بخود اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں مگر اس حکیم مطلق نے قدیم سے انسان کے لئے یہ قانون قدرت مقرر کر دیا ہے کہ اس کی دُعا اور استمداد کو کامیابی میں بہت سا دخل ہے جو لوگ اپنی مہمات میں دلی صدق سے دُعا مانگتے ہیں اور ان کی دُعا پورے پورے اخلاص تک پہنچ

Page 62

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة الفاتحة جاتی ہے تو ضرور فیضانِ الہی ان کی مشکل کشائی کی طرف توجہ کرتا ہے.ہر یک انسان جو اپنی کمزوریوں پر نگاہ کرتا ہے اور اپنے قصوروں کو دیکھتا ہے وہ کسی کام پر آزادی اور خود بینی سے ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ سچی عبودیت اس کو یہ سمجھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کہ جو متصرف مطلق ہے اس سے مدد طلب کرنی چاہئے یہ سچی عبودیت کا جوش ہر یک ایسے دل میں پایا جاتا ہے کہ جو اپنی فطرتی سادگی پر قائم ہے اور اپنی کمزوری پر اطلاع رکھتا ہے.پس صادق آدمی جس کی روح میں کسی قسم کے غرور اور عجب نے جگہ نہیں پکڑی اور جو اپنے کمزور اور پیچ اور بے حقیقت وجود پر خوب واقف ہے اور اپنے تئیں کسی کام کے انجام دینے کے لائق نہیں پاتا اور اپنے نفس میں کچھ قوت اور طاقت نہیں دیکھتا جب کسی کام کو شروع کرتا ہے تو بلا تصنع اس کی کمز ور روح آسمانی قوت کی خواستگار ہوتی ہے اور ہر وقت اس کو خدا کی مقتدر ہستی اپنے سارے کمال و جلال کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہر یک کام کے انجام کے لئے مدار دکھلائی دیتی ہے.پس وہ بلا ساختہ اپنا ناقص اور ناکارہ زور ظاہر کرنے سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کی دُعا سے امداد الہی چاہتا ہے پس اس انکسار اور فروتنی کی وجہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خدا کی قوت سے قوت اور خدا کی طاقت سے طاقت اور خدا کے علم سے علم پاوے اور اپنی مرادات میں کامیابی حاصل کرے.اس بات کے ثبوت کے واسطے کسی منطق یا فلسفہ کے دلائل پر از تکلف درکار نہیں ہیں بلکہ ہر یک انسان کی روح میں اس کے سمجھنے کی استعداد موجود ہے اور عارف صادق کے اپنے ذاتی تجارب اس کی صحت پر بہ تو اتر شہادت دیتے ہیں.بندہ کا خدا سے امداد چاہنا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو صرف بیہودہ اور بناوٹ ہو یا جو صرف بے اصل خیالات پر مبنی ہو اور کوئی معقول نتیجہ اس پر مترتب نہ ہو بلکہ خداوند کریم کہ جو فی الحقیقت قیوم عالم ہے اور جس کے سہارے پر سچ مچ اس عالم کی کشتی چل رہی ہے.اس کی عادت قدیمہ کے رو سے یہ صداقت قدیم سے چلی آتی ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں حقیر اور ذلیل سمجھ کر اپنے کاموں میں اس کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اس کے نام سے اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں تو وہ ان کو اپنا سہارا دیتا ہے.جب وہ ٹھیک ٹھیک اپنی عاجزی اور عبودیت سے رو بخدا ہو جاتے ہیں تو اس کی تائید میں ان کے شامل حال ہو جاتی ہیں.غرض ہر ایک شاندار کام کے شروع میں اس مبدء فیوض کے نام سے مدد چاہنا کہ جو رحمان ورحیم ہے ایک نہایت ادب اور عبودیت اور نیستی اور فقر کا طریقہ ہے.اور ایسا ضروری طریقہ ہے کہ جس سے تو حید فی الاعمال کا پہلا زینہ شروع ہوتا ہے جس کے التزام سے انسان بچوں کی سی عاجزی اختیار کر کے ان نخوتوں سے پاک ہو جاتا ہے کہ جو دنیا کے مغرور دانشمندوں کے دلوں میں بھری

Page 63

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة ہوتی ہیں اور پھر اپنی کمزوری اور امداد الہی پر یقین کامل کر کے اس معرفت سے حصہ پالیتا ہے کہ جو خاص اہل اللہ کو دی جاتی ہے اور بلاشبہ جس قدر انسان اس طریقہ کو لازم پکڑتا ہے، جس قدر اس پر عمل کرنا اپنا فرض ٹھہرالیتا ہے، جس قدر اس کے چھوڑنے میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے اسی قدر اس کی توحید صاف ہوتی ہے اور اسی قدر عجب اور خود بینی کی آلائشوں سے پاک ہوتا جاتا ہے اور اس قدر تکلف اور بناوٹ کی سیاہی اس کے چہرہ پر سے اُٹھ جاتی ہے اور سادگی اور بھولا پین کا نور اس کے مونہہ پر چمکنے لگتا ہے.پس یہ وہ صداقت ہے کہ جو رفتہ رفتہ انسان کو فنافی اللہ کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے.یہاں تک کہ وہ دیکھتا ہے کہ میرا کچھ بھی اپنا نہیں بلکہ سب کچھ میں خدا سے پاتا ہوں.جہاں کہیں یہ طریق کسی نے اختیار کیا وہیں توحید کی خوشبو پہلی دفعہ میں ہی اس کو پہنچنے لگتی ہے اور دل اور دماغ کا معطر ہونا شروع ہوتا جاتا ہے بشرطیکہ قوت شامہ میں کچھ فساد نہ ہو.غرض اس صداقت کے التزام میں طالب صادق کو اپنے بیچ اور بے حقیقت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے اور اللہ جلّ شانہ کے متصرف مطلق اور مبدء فیوض ہونے پر شہادت دینی پڑتی ہے.اور یہ دونوں ایسے امر ہیں کہ جو حق کے طالبوں کا مقصود ہے اور مرتبہ و فنا کے حاصل کرنے کے لئے ایک ضروری شرط ہے.اس ضروری شرط کے سمجھنے کے لئے یہی مثال کافی ہے کہ بارش اگر چہ عالمگیر ہونگر تا ہم اس پر پڑتی ہے کہ جو بارش کے موقعہ پر آکھڑا ہوتا ہے.اسی طرح جو لوگ طلب کرتے ہیں وہی پاتے ہیں اور جو ڈھونڈتے ہیں انہیں کو ملتا ہے.جو لوگ کسی کام کے شروع کرنے کے وقت اپنے ہنر یا عقل یا طاقت پر بھروسا رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ پر بھروسہ نہیں رکھتے وہ اس ذات قادر مطلق کا کہ جو اپنی قیومی کے ساتھ تمام عالم پر محیط ہے کچھ قدر شاخت نہیں کرتے اور ان کا ایمان اس خشک ٹہنی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو اپنے شاداب اور سرسبز درخت سے کچھ علاقہ نہیں رہا اور جو ایسی خشک ہوگئی ہے کہ اپنے درخت کی تازگی اور پھول اور پھل سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کر سکتی صرف ظاہری جوڑ ہے جو ذراسی جنبش ہوا سے یا کسی اور شخص کے ہلانے سے ٹوٹ سکتا ہے.پس ایسا ہی خشک فلسفیوں کا ایمان ہے کہ جو قیوم عالم کے سہارے پر نظر نہیں رکھتے اور اس مبدء فیوض کو جس کا نام اللہ ہے ہر یک طرفہ العین کے لئے اور ہر حال میں اپنا محتاج الیہ قرار نہیں دیتے.پس یہ لوگ حقیقی توحید سے ایسے دور پڑے ہوئے ہیں جیسے نور سے ظلمت دور ہے.انہیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ اپنے تئیں پیچ اور لاشئے سمجھ کر قادر مطلق کی طاقت عظمی کے نیچے آپڑنا عبودیت کے مراتب کی آخری حد ہے اور توحید کا انتہائی مقام ہے جس سے فنا اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے اور انسان اپنے نفس اور اس کے ارادوں سے بالکل کھویا جاتا ہے اور سچے

Page 64

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة الفاتحة دل سے خدا کے تصرف پر ایمان لاتا ہے.اس جگہ ان خشک فلسفیوں کے اس مقولہ کو بھی کچھ چیز نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو کہتے ہیں کہ کسی کام کے شروع کرنے میں استمداد الہی کی کیا حاجت ہے.خدا نے ہماری فطرت میں پہلے سے طاقتیں ڈال رکھی ہیں.پس ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے پھر دوبارہ خدا سے طاقت مانگنا تحصیل حاصل ہے.کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بے شک یہ بات سچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے بعض افعال کے بجالانے کے لئے کچھ کچھ ہم کو طاقتیں بھی دی ہیں مگر پھر بھی اس قیوم عالم کی حکومت ہمارے سر پر سے دور نہیں ہوئی اور وہ ہم سے الگ نہیں ہوا اور اپنے سہارے سے ہم کو جدا کرنا نہیں چاہا اور اپنے فیوض غیر متناہی ا سے ہم کو محروم کرنا روا نہیں رکھا.جو کچھ ہم کو اس نے دیا ہے وہ ایک امر محدود ہے.اور جو کچھ اس سے مانگا جاتا ہے اس کی نہایت نہیں.علاوہ اس کے جو کام ہماری طاقت سے باہر ہیں ان کے حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی ہم کو طاقت نہیں دی گئی.اب اگر غور کر کے دیکھو اور ذرا پوری فلسفیت کو کام میں لاؤ تو ظاہر ہوگا کہ کامل طور پر کوئی بھی طاقت ہم کو حاصل نہیں مثلاً ہماری بدنی طاقتیں ہماری تندرستی پر موقوف ہیں اور ہماری تندرستی بہت سے ایسے اسباب پر موقوف ہے کہ کچھ ان میں سے سماوی اور کچھ ارضی ہیں اور وہ سب کی سب ہماری طاقت سے بالکل باہر ہیں اور یہ تو ہم نے ایک موٹی سی بات عام لوگوں کی سمجھ کے موافق کہی ہے لیکن جس قدر در حقیقت وہ قیوم عالم اپنی علت العلک ہونے کی وجہ سے ہمارے ظاہر اور ہمارے باطن اور ہمارے اوّل اور ہمارے آخر اور ہمارے فوق اور ہمارے تحت اور ہمارے یمین اور ہمارے لیسار اور ہمارے دل اور ہماری جان اور ہماری روح کی تمام طاقتوں پر احاطہ کر رہا ہے وہ ایک ایسا مسئلہ دقیق ہے جس کے گنہ تک عقول بشر یہ پہنچ ہی نہیں سکتیں اور اس کے سمجھانے کی اس جگہ ضرورت بھی نہیں.کیونکہ جس قدر ہم نے او پر لکھا ہے وہی مخالف کے الزام اور افہام کے لئے کافی ہے.غرض قیوم عالم کے فیوض حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ اپنی ساری قوت اور زور اور طاقت سے اپنا بچاؤ طلب کیا جائے اور یہ طریق کچھ نیا طریق نہیں ہے بلکہ یہ وہی طریق ہے جو قدیم سے بنی آدم کی فطرت کے ساتھ لگا چلا آتا ہے.جو شخص عبودیت کے طریقہ پر چلنا چاہتا ہے وہ اس طریق کو اختیار کرتا ہے اور جو شخص خدا کے فیوض کا طالب ہے وہ اسی راستے پر قدم مارتا ہے.اور جو شخص مور درحمت ہونا چاہتا ہے وہ انہیں قوانین قدیمہ کی تعمیل کرتا ہے.یہ قوانین کچھ نئے نہیں ہیں.یہ عیسائیوں کے خدا کی طرح کچھ مستحدث بات نہیں.بلکہ خدا کا یہ ایک قانون محکم ہے کہ جو قدیم سے بندھا ہوا چلا آتا ہے اور سنت اللہ ہے کہ جو ہمیشہ سے جاری ہے جس کی سچائی کثرت تجارب سے ہر یک

Page 65

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة الفاتحة طالب صادق پر روشن ہے اور کیونکر روشن نہ ہو.ہر عاقل سمجھ سکتا ہے کہ ہم لوگ کس حالت ضعف اور ناتوانی میں پڑے ہوئے ہیں اور بغیر خدا کی مددوں کے کیسے سکتے اور ناکارہ ہیں.اگر ایک ذات متصرف مطلق ہر لحظہ اور ہر دم ہماری خبر گیراں نہ ہو.اور پھر اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہماری کارسازی نہ کرے تو ہمارے سارے کام تباہ ہو جائیں.بلکہ ہم آپ ہی فنا کا راستہ لیں.پس اپنے کاموں کو خصوصا آسمانی کتاب کو کہ جو سب امور عظیمہ سے اُدق اور الطف ہے.خداوند قادر مطلق کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے بہ نیت تبرک و استمداد شروع کرنا ایک ایسی بدیہی صداقت ہے کہ بلا اختیار ہم اس کی طرف کھینچے جاتے ہیں کیوں کہ فی الحقیقت ہر یک برکت اسی راہ سے آتی ہے کہ وہ ذات جو متصرف مطلق اور علت العلل اور تمام فیوض کا مبدء ہے جس کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ ہے خود متوجہ ہوکر اوّل اپنی صفت رحمانیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ قبل از سعی درکار ہے اس کو محض اپنے تفضل اور احسان سے بغیر توسط اعمل کے ظہور میں لاوے.پھر جب وہ صفت رحمانیت کی اپنے کام کو بہ تمام و کمال کر چکے اور انسان تو فیق پا کر اپنی قوتوں کے ذریعہ سے محنت اور کوشش کا حق بجالا وے تو پھر دوسرا کام اللہ تعالیٰ کا یہ ہے کہ اپنی صفت رحیمیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ بندہ نے محنت اور کوشش کی ہے اس پر نیک ثمرہ مترتب کرے اور اس کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچا کر گوہر مراد عطا فرما دے.اس صفت ثانی کی رو سے کہا گیا ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے پاتا ہے، جو مانگتا ہے اس کو دیا جاتا ہے، جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے یعنی خدائے تعالیٰ اپنی صفت رحیمیت سے کسی کی محنت اور کوشش کو ضائع ہونے نہیں دیتا اور آخر جوئندہ یا بندہ ہو جاتا ہے.غرض یہ صداقتیں ایسی بین الظہو ر ہیں کہ ہر ایک شخص خود تجربہ کر کے ان کی سچائی کو شناخت کر سکتا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں کہ بشرط کسی قدر عقلمندی کے یہ بدیہی صداقتیں اس پر چھپی رہیں.ہاں یہ بات ان عام لوگوں پر نہیں کھلتی کہ جو دلوں کی سختی اور غفلت کی وجہ سے صرف اسباب معتادہ پر ان کی نظر ٹھہری رہتی ہے اور جو ذات متصرف فی الاسباب ہے اس کے تصرفات لطیفہ پر ان کو علم حاصل نہیں ہوتا اور نہ ان کی عقل اس قدر وسیع ہوتی ہے کہ جو اس بات کو سوچ لیں کہ ہزار ہا بلکہ بے شمار ایسے اسباب سماوی و ارضی انسان کے ہر یک جسم کی آرائش کے لئے درکار ہیں جن کا بہم پہنچنا ہر گز انسان کے اختیار اور قدرت میں نہیں بلکہ ایک ہی ذات متجمع صفات کاملہ ہے کہ جو تمام اسباب کو آسمانوں کے اوپر سے زمینوں کے نیچے تک پیدا کرتا ہے اور ان پر بہر طور تصرف اور قدرت رکھتا ہے، مگر جو لوگ عقلمند ہیں وہ اس بات کو بلاتر ڈو بلکہ بدیہی طور پر سمجھتے ہیں اور جو ان سے بھی اعلیٰ اور ا

Page 66

۴۳ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب تجربہ ہیں وہ اس مسئلہ میں حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن یہ شبہ کرنا کہ یہ استعانت بعض اوقات کیوں بے فائدہ اور غیر مفید ہوتی ہے اور کیوں خدا کی رحمانیت و رحیمیت ہر ایک وقت استعانت میں تجلی نہیں فرماتی.پس یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط فہمی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ان دعاؤں کو کہ جو خلوص کے ساتھ کی جائیں ضرور سنتا ہے اور جس طرح مناسب ہو مدد چاہنے والوں کے لئے مدد بھی کرتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی استمداد اور دعا میں خلوص نہیں ہوتا نہ انسان دلی عاجزی کے ساتھ امداد الہی چاہتا ہے اور نہ اس کی روحانی حالت درست ہوتی ہے بلکہ اس کے ہونٹوں میں دُعا اور اس کے دل میں غفلت یا ریا ہوتی ہے.یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا اس کی دُعا کو سن تو لیتا ہے اور اس کے لئے جو کچھ اپنی حکمت کاملہ کے رو سے مناسب اور اصلح دیکھتا ہے عطا بھی فرماتا ہے لیکن نادان انسان خدا کی ان الطاف خفیہ کو شناخت نہیں کرتا اور باعث اپنے جہل اور بے خبری کے شکوہ اور شکایت شروع کر دیتا ہے.اور اس آیت کے مضمون کو نہیں سمجھتا عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَ هُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَانْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرة : ۲۱۷) یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بڑی سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بڑی ہو اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اب ہماری اس تمام تقریر سے واضح ہے کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ کس قدر عالی شان صداقت ہے جس میں حقیقی توحید اور عبودیت اور خلوص میں ترقی کرنے کا نہایت عمدہ سامان موجود ہے جس کی نظیر کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی.اور اگر کسی کے زعم میں پائی جاتی ہے تو وہ اس صداقت کو معہ تمام دوسری صداقتوں کے جو ہم نیچے لکھتے ہیں نکال کر پیش کرے.ج بسم اللہ پر ایک اعتراض اور اس کا جواب اس جگہ بعض کوتاہ اندیش اور نادان دشمنوں نے ایک اعتراض بھی بسم اللہ کی بلاغت پر کیا ہے.ان معترضین میں سے ایک صاحب تو پادری عماد الدین نام ہیں.جس نے اپنی کتاب ہدایت المسلمین میں اعتراض مندرجہ ذیل لکھا ہے.دوسرے صاحب باوانرائن سنگھ نام وکیل امرتسری ہیں جنہوں نے پادری کے اعتراض کو سچ سمجھ کر اپنے دلی عناد کے تقاضا کی وجہ سے وہی پوچ اعتراض اپنے رسالہ ود یا پر کا شک میں درج کر دیا ہے سو ہم اس اعتراض کو معہ جواب اس کے لکھنا مناسب سمجھتے ہیں تا منصفین کو معلوم ہو کہ فرط تعصب نے ہمارے مخالفین کو کس درجہ کی کور باطنی اور نا بینائی تک پہنچادیا ہے کہ جو نہایت درجہ کی روشنی ہے وہ ان کو

Page 67

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة الفاتحة تاریکی دکھائی دیتی ہے اور جو اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے وہ اس کو بد بو تصور کرتے ہیں.سواب جاننا چاہئے کہ جو اعتراض بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی بلاغت پر مذکورہ بالا لوگوں نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ الرّحمٰنِ الرَّحِيمِ جو بِسْمِ اللہ میں واقع ہے یہ فصیح طرز پر نہیں.اگر رحیم الرحمن ہوتا تو یہ فصیح اور صحیح طر تھی کیونکہ خدا کا نام رحمان باعتبار اس رحمت کے ہے کہ جو اکثر اور عام ہے اور رحیم کا لفظ بہ نسبت رحمان کے اس رحمت کے لئے آتا ہے کہ جو قلیل اور خاص ہے.اور بلاغت کا کام یہ ہے کہ قلت سے کثرت کی طرف انتقال ہو نہ یہ کہ کثرت سے قلت کی طرف.یہ اعتراض ہے کہ ان دونوں صاحبوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کلام پر کیا ہے جس کلام کی بلاغت کو عرب کے تمام اہلِ زبان جن میں بڑے بڑے شاعر بھی تھے باوجو دسخت مخالفت کے تسلیم کر چکے ہیں بلکہ بڑے بڑے معاند اس کلام کی شان عظیم سے نہایت درجہ تعجب میں پڑ گئے اور اکثر ان میں سے کہ جو صحیح اور تبلیغ کلام کے اسلوب کو بخوبی جانتے پہچاننے والے اور مذاق سخن سے عارف اور با انصاف تھے وہ طرز قرآنی کو طاقت انسانی سے باہر دیکھ کر ایک معجزہ عظیم یقین کر کے ایمان لے آئے جن کی شہادتیں جابجا قرآن شریف میں درج ہیں اور جو لوگ سخت کور باطن تھے اگر چہ وہ ایمان نہ لائے مگر سراسیمگی اور حیرانی کی حالت میں ان کو بھی کہنا پڑا کہ یہ سحر عظیم ہے جس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا چنانچہ ان کا یہ بیان بھی فرقان مجید کے کئی مقام میں موجود ہے.اب اسی کلام معجز نظام پر ایسے لوگ اعتراض کرنے لگے جن میں سے ایک تو وہ شخص ہے جس کو دو سطر میں عربی کی بھی صحیح اور بلیغ طور پر لکھنے کا ملکہ نہیں اور اگر کسی اہل زبان سے بات چیت کرنے کا اتفاق ہوا تو بجز ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط اور غلط فقروں کے کچھ بول نہ سکے اور اگر کسی کو شک ہو تو امتحان کر کے دیکھ لے اور دوسرا وہ شخص ہے جو علم عربی سے بکلی بے بہرہ بلکہ فارسی بھی اچھی طرح نہیں جانتا.اور افسوس کہ عیسائی مقدم الذکر کو یہ بھی خبر نہیں کہ یورپ کے اہل علم کہ جو اس کے بزرگ اور پیشرو ہیں جن کا بورٹ صاحب وغیرہ انگریزوں نے ذکر کیا ہے وہ خود قرآن شریف کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے قائل ہیں اور پھر دانا کو زیادہ تر اس بات پر غور کرنی چاہئے کہ جب ایک کتاب جو خود ایک اہل زبان پر ہی نازل ہوئی ہے اور اس کی کمال بلاغت پر تمام اہلِ زبان بلکہ سبعہ معلقہ کے شعراء جیسے اتفاق کر چکے ہیں تو کیا ایسا مسلم الثبوت کلام کسی نادان اجنبی و ژولیدہ زبان والے کے انکار سے جو کہ لیاقت فن سخن سے محض بے نصیب اور توغل علوم عربیہ سے بالکل بے بہرہ بلکہ کسی ادنی عربی آدمی کے مقابلہ پر بولنے سے عاجز ہے قابل اعتراض ٹھہر سکتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کرتے ہیں خود اپنی نادانی دکھلاتے ہیں اور یہ نہیں سہو کتابت ہے صحیح پورٹ ( جان ڈیون پورٹ JOHNDAVENPORT) ہے.ناشر )

Page 68

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة الفاتحة سمجھتے کہ اہلِ زبان کی شہادت کے برخلاف اور بڑے بڑے نامی شاعروں کی گواہی کے مخالف کوئی نکتہ چینی کرنا حقیقت میں اپنی جہالت اور خر فطرتی دکھلانا ہے.بھلا عمادالدین پادری کسی عربی آدمی کے مقابلہ پر کسی دینی یا دنیوی معاملہ میں ذرا ایک آدھ گھنٹہ تک ہم کو بول کر تو دکھاوے تا اول یہی لوگوں پر کھلے کہ اس کو سیدھی سادھی اور با محاورہ اہل عرب کے مذاق پر بات چیت کرنی آتی ہے یا نہیں.کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ اس کو ہر گز نہیں آتی اور ہم یہ یقین تمام جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی عربی آدمی کو اس کے سامنے بولنے کے لئے پیش کریں تو وہ عربوں کی طرح اور ان کے مذاق پر ایک چھوٹا سا قصہ بھی بیان نہ کر سکے اور جہالت کے کیچڑ میں پھنسا رہ جائے اور اگر شک ہے تو اس کو قسم ہے کہ آزما کر دیکھ لے.اور ہم خود اس بات کے ذمہ دار ہیں که اگر پادری عمادالدین صاحب ہم سے درخواست کریں تو ہم کوئی عربی آدمی بہم پہنچا کر کسی مقررہ تاریخ پر ایک جلسہ کریں گے جس میں چند لائق ہندو ہوں گے اور چند مولوی مسلمان بھی ہوں گے اور عماد الدین صاحب پر لازم ہوگا کہ وہ بھی چند عیسائی بھائی اپنے ساتھ لے آویں اور پھر سب حاضرین کے رو بر واول عمادالدین صاحب کوئی قصہ جو اسی وقت ان کو بتلایا جائے گا عربی زبان میں بیان کریں.اور پھر وہی قصہ وہ عربی صاحب کہ جو مقابل پر حاضر ہوں گے اپنی زبان میں بیان فرماویں.پھر اگر منصفوں نے یہ رائے دے دی کہ عماد الدین صاحب نے ٹھیک ٹھیک عربوں کے مذاق پر عمدہ اور لطیف تقریر کی ہے تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ ان کا اہل زبان پر نکتہ چینی کرنا کچھ جائے تعجب نہیں بلکہ اسی وقت پچاس رو پید نقد بطور انعام ان کو دیئے جائیں گے لیکن اگر اس وقت عمادالدین صاحب بجائے فصیح اور بلیغ تقریر کے اپنے ژولیدہ اور غلط بیان کی بدبو پھیلانے لگے یا اپنی رُسوائی اور نالیاقتی سے ڈر کر کسی اخبار کے ذریعہ سے یہ اطلاع بھی نہ دی کہ میں ایسے مقابلہ کے لئے حاضر ہوں تو پھر ہم بجز اس کے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَذِ بِین کہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں.اور یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ اگر عماد الدین صاحب تولد ثانی بھی پاویں تب بھی وہ کسی اہل زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.پھر جس حالت میں وہ عربوں کے سامنے بھی بول نہیں سکتے اور فی الفور گونگا بننے کے لئے طیار ہیں تو پھر ان عیسائیوں اور آریوں کی ایسی سمجھ پر ہزار حیف اور دو ہزار لعنت ہے کہ جو ایسے نادان کی تالیف پر اعتماد کر کے اس بے مثل کتاب کی بلاغت پر اعتراض کرتے ہیں کہ جس نے سید العرب پر نازل ہو کر عرب کے تمام فصیحوں اور بلیغوں سے اپنی عظمت شان کا اقرار کرایا.اور جس کے نازل ہونے سے سبعہ معلقہ مکہ کے دروازہ پر سے اتارا گیا اور معلّقہ مذکورہ کے شاعروں میں سے جو شاعر اس وقت بقید حیات تھا وہ

Page 69

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة الفاتحة بلا توقف اس کتاب پر ایمان لایا.پھر دوسرا افسوس یہ کہ اس نادان عیسائی کو اب تک یہ بھی خبر نہیں کہ بلاغت حقیقی اس امر میں محدود نہیں کہ قلیل کو کثیر پر ہر جگہ اور ہر محل میں خواہ نخواہ مقدم رکھا جائے بلکہ اصل قاعدہ بلاغت کا یہ ہے کہ اپنے کلام کو واقعی صورت اور مناسب وقت کا آئینہ بنایا جاوے سو اس جگہ بھی رحمان کو رحیم پر مقدم کرنے میں کلام کو واقعی صورت اور ترتیب کا آئینہ بنایا گیا ہے چنانچہ اس ترتیب طبعی کا مفصل ذکر ابھی سورۃ فاتحہ کی آئندہ آیتوں میں آوے گا.( براہین احمدیہ چہار ص.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۱۴ تا ۴۳۵ حاشیہ نمبر۱۱) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ 66 وولگا اعْلَمُ وَهَبَ لكَ اللهُ عِلْم اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اسماء کا علم عطا فرمائے اور اپنی رضاء أَسْمَائِهِ.وَهَدَاكَ إِلى طُرُقِ مَرَضَاتِهِ اور خوشنودی کی راہوں اور طریقوں پر چلائے.جان لیں کہ وَ سُبُلِ رِضَائِهِ.أَنَّ الْإِمَ مُتَل اسم کا لفظ ( جو بِسْمِ اللہ میں آیا ہے ) وستم سے مشتق ہے من الوشم الذى هُوَ أَثر التي في اور وشم عربی زبان میں داغ دینے کے نشان کو کہتے ہیں.اللَّسَانِ الْعَرَبِيَّةِ يُقَالُ اتَّسَم چنانچہ لغت عرب میں اِتَّسَمَ الرَّجُلُ اُس وقت کہتے ہیں جب الرَّجُلُ إِذَا جَعَلَ لِنَفْسِهِ سِمَةً يُعْرَفُ کوئی شخص اپنے لئے کوئی ایسی علامت مقرر کر لے جس سے وہ يها ويُميّز بها عند العامة وَ مِنْهُ پہچانا جا سکے اور عوام الناس اُسے دوسرے اشخاص سے الگ سمجھ سمَتُ الْبَعِيرِ وَ وِسَامُهُ عِنْدَ أَھل سکیں اور اہل زبان کے نزدیک وستم کے لفظ سے ہی سمه اللّسَانِ وَهُوَ مَا وُسمَ بِهِ الْبَعِيرُ مِنَ الْبَعِيرِ اور وِسَامُ الْبَعِيم مشتق ہے.جس کے معنے اونٹ پر داغ ضُرُوبِ الصُّورِ لِيُعِينَ لِلْعِرْفَانِ.وَ دے کر کوئی شکل بنانے کے ہیں تا وہ شکل اُس کی شناخت میں مِنْهُ مَا يُقَالُ إِنِّي تَوَسَمْتُ فِيْهِ الْخَير ممہ ہو.اور اس لفظ وسم سے اہلِ عرب کا یہ محاورہ ہے اتي وَمَا رَأَيْتُ الطَّيْرِ أَي تَفَرَّسْتُ فَمَا تَوَتَمْتُ فِيهِ الْخَيْرَ وَمَا رَأَيْتُ الطَّيْرِ یعنی میں نے اس کے رَأَيْتُ سِمَةَ شَرَ في مُحَيَّاهُ وَ لا اثر چہرے پر غور کیا اور اس پر کوئی شر کی علامت نہ دیکھی اور نہ ہی خُبْتٍ فِي مَحْيَاهُ وَ مِنْهُ الْوَسْمِيُّ الَّذِی میں نے اس کی زندگی میں بدی کا کوئی نشان پایا.پھر اسی لفظ هُوَ أَوّلُ مَظرٍ مِنْ أَمْطَارِ الرّبيع.وَسُم سے وسمی کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی موسم بہار کی پہلی لأَنَّه يَسِمُ الْأَرْضَ إِذا نزل بارش کے ہیں کیونکہ جب وہ برستی ہے تو زمین پر پانی بہنے کے كَالْيَتَابِيْعِ وَيُقَالُ أَرْضٌ مَوْسُوْمَةٌ | نشان بناتی ہے جیسے چشمے اپنے بہنے سے نشان بناتے ہیں.اسی

Page 70

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة الفاتحة إِذَا أَصَابَهَا الْوَسْمِيُّ فِي إِيَّانِهِ وَسَكَنَ طرح آرْضٌ مَوْسُومَةٌ زمین کو اُس وقت کہتے ہیں جب قُلُوبَ الْكُفَّارِ بِجَريَانِهِ.وَ مِنْهُ مَوسم الحج اس پر موسم بہار کی پہلی بارش بروقت بر سے اور بہہ کر وَالسُّوقِ وَجَمِيعُ مَوَاسِيم الاجتماع لانها کسانوں کے دلوں کو تسکین دے.پھر اسی لفظ و ستم سے مَعَالِمُ يُجْتَمَعُ إِلَيْهَا لِنَوْعِ غَرَضٍ مِن مَوْسِم نکلا ہے جیسے مَوْسِمُ الْحَج ہے اور مَوْسِمُ السُّوقِ الْأَنْوَاعِ وَمِنْهُ الْمِيْسمُ الَّذِي يُطلقُ اور دوسرے مراسم ہیں.کیونکہ یہ ایسے مواقع ہیں جن عَلَى الْحُسْنِ وَالْجَمَالِ وَيُسْتَعْمَلُ فِي نِسَاء میں کسی نہ کسی مقصد کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور ذَاتِ مَلَاحَةٍ في أكثر الْأَحْوَالِ وَقَدْ مِبْسَم کا لفظ بھی وستم سے ہی مشتق ہے جس کا اطلاق ثَبَتَ مِنْ تَتَبُّع كَلامِ الْعَرَبِ حسن و جمال پر ہوتا ہے اور اکثر حالتوں میں خوبصورت وَدَوَاوِيْبِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا لَا يَسْتَعْمِلُونَ عورتوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے.عربی زبان اور هذَا اللَّفْظَ كَثِيرًا إِلَّا فِي مَوَارِدِ الْخَيْرِ مِنْ عرب شعراء کے دیوانوں کی چھان بین کرنے سے یہ دُنْيَاهُمْ وَدِيْهِمْ وَأَنتَ تَعْلَمُ أَنَّ اسم بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہ اس لفظ کو زیادہ تر خیر کے مواقع القىء عِندَ الْعَامَّةِ مَا يُعْرَف به ذالك پر ہی استعمال کرتے تھے ، خواہ وہ دنیا کی خیر ہو یا دین کی الشَّى وَأَمَّا عِندَ الخَوَاضِ وَأَهْل اور آپ جانتے ہیں کہ عوام الناس کے نزدیک کسی چیز کا الْمَعْرِفَةِ.فَالْاِسْمُ لأَصْلِ الْحَقِيقَةِ القبى اسم وہ ہوتا ہے جس سے وہ چیز پہچانی جاتی ہے لیکن خواص بَلْ لَاشَكَ أَنّ الأَسْمَاء الْمَنْسُوبَةَ إِلَى اور اہل علم کے نزدیک اسم شے کی اصل حقیقت کے لئے بطور الْمُسَمَّيَاتِ مِنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ.قد ظل کے ہے بلکہ یہ امر یقینی ہے کہ اشیاء کے جو نام اللہ تعالیٰ نَزَلَتْ مِنْهَا مَنْزِلَةَ الصُّورِ التَّوْعِيَّةِ کی طرف سے ہیں یہ تمام نام ان چیزوں کے لئے ان کی وَصَارَتْ كُوكُنَاتٍ يَطيُورِ الْمَعَانِي و نوعی صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ نام معانی اور علوم الْعُلُومِ الْحِكْميَّةِ.وَكَذَالِك اسم الله و حکمیہ کے پرندوں کے لئے بمنزلہ گھونسلوں کے ہیں.اور الرَّحْمَنِ وَ الرَّحِيمِ في هذه الآية اس بابرکت آیت میں اللہ، رحمان اور رحیم ناموں کا یہی الْمُبَارَكَةِ فَإِنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهَا يَدُل على حال ہے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے خصائص اور خَصَائِصِهِ وَهُوِيَّتِهِ الْمَكْتُوْمَةِ اپنی مخفی ماہیت پر دلالت کرتا ہے.والله اسم لِلذَّاتِ الإِلَهِيَّةِ الْجَامِعَةِ اور اللہ اُس ذاتِ الہی کا نام ہے جو تمام کمالات کی جامع

Page 71

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة الفاتحة لِجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْكَمَالِ وَالرَّحْمنُ وَ الرَّحِيمُ ہے اور اس جگہ الر حمن اور الرحیم دونوں اس بات يدلان على تحققِ هَاتَينِ الصَّفَتَيْنِ لِهَذَا پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ کے لئے الْاِسْمِ الْمُسْتَجمع لِكُلِ نَوعِ الْجَمَالِ وَ الْجَلالِ ثابت ہیں جو ہر قسم کے جمال اور جلال کا جامع ہے.ثُمَّ لِلرَّحْمَنِ مَعْلى خَاضٌ يَخْتَصُّ بِهِ وَلَا پھر لفظ الرحمن کے ایک اپنے بھی خاص معنی ہیں جو يُوجَدُ فِي الرَّحِيْمِ.وَهُوَ أَنَّهُ مُفِيْضٌ يَوُجُوْدِ الرَّحِيم کے لفظ میں نہیں پائے جاتے اور وہ یہ ہیں کہ الْإِنْسَانِ وَغَيْرِهِ مِنَ الْحَيَوَانَاتِ بِإِذْنِ الله اذنِ الہی سے صفت الرحمن کا فیضان انسان اور الكَرِيمِ بِحَسَبِ مَا اقْتَضَى الْحِكْمُ الإلهيَّةُ دوسرے حیوانات کو قدیم زمانہ سے حکمتِ الہیہ کے مِنَ الْقَدِيمِ وَبِحَسَبِ تَحَوُّلِ الْقَوَابِلِ لَا اقتضاء اور جو ہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتارہا ہے.بِحَسَبِ تَسْوِيَةِ التَّقْسِيمِ وَلَيْسَ فِي هذه نہ کہ مساوی تقسیم کے طور پر اور اس صفت رحمانیت میں الصَّفَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ دَخُلُ كَسْبٍ وَعَمَلٍ وَسَعْيِ انسانوں یا حیوانوں کے قولی کے کسب اور عمل اور کوشش کا منَ الْقُوَى الإِنْسَانِيَّةِ أو الحَيَوَانِيَّةِ بَلْ هِيَ کوئی دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خالص احسان ہے جس مِنَةٌ مِنَ اللهِ خَاصَّةٌ مَّا سَبَقَهَا عَمَلُ عَامِلٍ سے پہلے کسی کا کچھ عمل بھی موجود نہیں ہوتا اور یہ خدا تعالیٰ وَرَحْمَتُهُ مِنْ لَّدُنْهُ عَامَّةٌ مَّامَشَهَا أَثَرُ سَعْيِ کی طرف سے ایک عام رحمت ہے جس میں ناقص یا مِّنْ نَاقِصٍ أَوْ كَامِلٍ کامل شخص کی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا.فَالْحَاصِلُ أَنَّ فَيُضَانَ الصَّفَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ حاصل کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا فیضان کسی لَيْسَ هُوَ نَتِيجَةَ عَمَلٍ وَلَا ثَمَرَةَ اسْتِحْقَاقِ عمل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی استحقاق کا ثمرہ ہے بلکہ یہ بَلْ هُوَ فَضْلُ مِنَ اللهِ مِنْ غَيْرِ اطَاعَةٍ أَو ایک خاص فضل ایزدی ہے جس میں فرمانبرداری شِقَاقٍ وَيَنْزِلُ هَذَا الْفَيْضُ دَائِمًا بِمَشِيَّةٍ یا نا فرمانی کا دخل نہیں اور یہ فیضان ہمیشہ خدا تعالیٰ کی من اللهِ وَ إِرَادَةٍ مِنْ غَيْرِ شَرْطِ إِطَاعَةٍ مثیت اور ارادہ کے ماتحت نازل ہوتا ہے.اس میں وَعِبَادَةٍ وَ تُهَاةٍ وزَهَادَةٍ وَكَانَ بِنَاءُ هَذَا کسی اطاعت، عبادت، تقومی اور زہد کی شرط نہیں.الْفَيْضِ قَبْلَ وُجُودِ الْخَلِيقَةِ وَقَبْلَ اس فیض کی بنا مخلوق کی پیدائش، اس کے اعمال، اس کی أَعْمَالِهِمْ.وَقَبْلَ جَهْدِهِمْ وَقَبْلَ سُؤَالِهِمْ کوشش اور اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی رکھی گئی فَلِأَجْلِ ذَالِكَ تُوجَدُ آثَارُ هَذَا الْفَيْضِ قَبْلَ ہے.اس لئے اس فیض کے آثار انسان اور حیوان کے

Page 72

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كُلّ شَيْءٍ ۴۹ سورة الفاتحة أَثَارِ وُجُودِ الْإِنْسَانِ وَالْحَيَوَانِ وَ إِنْ كَانَ وجود میں آنے سے پہلے ہی پائے جاتے ہیں اگر چہ یہ فیض سَارِيا فى جميع مَرَاتِبِ الْوُجُودِ وَالزَّمَانِ تمام مراتب وجود اور زمان و مکان اور حالت طاعت و عصیان وَالْمَكَانِ وَالطَّاعَةِ وَالْعِصْيَانِ أَلا ترى میں جاری و ساری رہتا ہے.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ أَنَّ رَحْمَانِيَّةَ اللهِ تَعَالَى وَسِعَت الصَّالِحِين خدا تعالیٰ کی رحمانیت نیکو کاروں اور ظالموں سب پر وَالظَّالِمِينَ.وَتَرَى قَتَرَهُ وَشَمْسَهُ يَطلُعان وسیع ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا چاند اور اس کا عَلَى الطَّائِعِينَ وَالْعَاصِينَ.وَإِنَّهُ أَعْطى سورج اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کبھی پر چڑھتا ہے.خَلْقَهُ وَ كَفَّلَ أَمْرَ كُلِّهِمْ اور خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال قومی کے أَجْمَعِينَ وَمَا مِن دَآبَةٍ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نے ان سب کے معاملات کا وَلَوْ كَانَ فِي السَّمَوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِينَ وَ ذمہ لیا ہے اور کوئی بھی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے إِنَّهُ خَلَقَ لَهُمُ الْأَشْجَارَ وَأَخْرَجَ مِنْهَا ذمہ ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں.اُسی نے ان العمارَ وَالزَّهْرَ وَ الرَّيَاحِينَ وَ إِنَّهَا رَحْمَةٌ کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں سے پھل پھول هَيَّأَهَا اللهُ لِلنُّفُوسِ قَبْلَ أَن تَبْرَأَهَا وَإِنَّ اور خوشبوئیں پیدا کیں اور یہ ایسی رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ فِيْهَا تَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ.وَ قَدْ أُعْطِي هَذِهِ نے انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے لئے مہیا فرمایا.النِّعَمُ مِنْ غَيْرِ الْعَمَلِ وَ مِنْ غَيْرِ اس میں متقیوں کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہے.یہ نعمتیں الْإِسْتِحْقَاقِ مِنَ اللهِ الرَّاحِم الخلاق بغیر کسی عمل اور بغیر کسی حق کے اس بے حد مہربان اور عظیم وَمِنْهَا نَعْمَاءُ أُخْرَى مِنْ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ خالقِ عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہیں.اور اس عالی بارگاہ وَهِيَ خَارِجَةٌ مِّنَ الْإِحْصَاءِ - كَمِثْلِ خَلْقِ سے ایسی ہی اور بھی بہت سی نعمتیں بخشی گئی ہیں جو شمار سے أَسْبَابِ الصَّحَةِ وَ أَنْوَاعِ الْحَيَلِ وَ الدَّوَاءِ باہر ہیں.مثلاً صحت قائم رکھنے کے ذرائع پیدا کرنا اور ہر لِكُلِ نَوع مِنَ الدَّاءِ.وَإِرْسَالِ الرُّسُلِ بیماری کے لئے علاج اور دواؤں کا پیدا کرنا.رسولوں کا وَإِنْزَالِ الْكُتُبِ عَلى الأَنْبِيَاءِ.وهذه مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا یہ سب كُلُهَا رَحْمَانِيَّةٌ مِنْ رَّبِّنَا أَرْحَمُ الرُّحَمَاء ہمارے رب ارحم الراحمین کی رحمانیت ہے.یہ خالص فضل وَفَضْلُ بَحْتُ لَّيْسَ مِنْ عَمَلِ عَامِلٍ وَلَا ہے جو کسی کام کرنے والے کے کام یا گریہ وزاری یا دُعا من التطرُعِ وَالدُّعَاءِ وَأَمَّا الرَّحِيْمِيَّةُ کے نتیجہ میں نہیں ہے.لیکن رحیمیت وہ فیض الہی ہے جو وہ

Page 73

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة فَهِيَ فَيْضٌ اَخَصُّ مِنْ فُيُوْضِ الصَّفَةِ صفتِ رحمانیت کے فیوض سے خاص تر ہے.یہ فیضان الرَّحْمَانِيَّةِ وَ مَخصوصةٌ بِتَكْبِيْلِ التَّوْعِ نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے الْبَشَرِي وَ اِكْمَالِ الْخِلْقَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ کے لئے مخصوص ہے لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے وَلكِن بِشَرْطِ السَّعي وَ الْعَمَلِ الصَّالح کوشش کرنا عمل صالح بجالانا اور جذبات نفسانیہ کو ترک وَتَرْكِ الْجَذَبَاتِ النَّفْسَانِيَّةِ بَل لا تنزل کرنا شرط ہے.یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی هذِهِ الرَّحْمَةُ حَقَّ نُزُولِهَا إِلَّا بَعْدَ الْجَهْدِ جب تک اعمال بجالانے میں پوری کوشش نہ کی جائے الْبَلِيغِ فِي الْأَعْمَالِ وَبَعْدَ تَزْكِيَةِ النَّفْسِ اور جب تک تزکیہ نفس نہ ہو اور ریا کوگلی طور پر ترک وَتَكْمِيْلِ الْإِخْلَاصِ بِاخْرَاجِ بَقَايَا الرِّيَاءِ کر کے خلوص کامل اور طہارت قلب حاصل نہ ہو اور جب وَتَطْهِيرِ الْبَالِ وَبَعْدَ ايْقَارِ الْمَوْتِ تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی لِابْتِغَاءِ مَرَضَاتِ اللهِ ذِي الْجَلَالِ فَطوبى خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے.پس مبارک ہیں وہ لِمَنْ أَصَابَهُ حَظِّ مِنْ هَذِهِ النِّعَمِ بَلْ هُوَ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے حصہ ملا.بلکہ وہی اصل انسان الْإِنْسَانُ وَغَيْرُهُ كَالنَّعَمِ ہیں اور باقی لوگ تو چار پائیوں کی مانند ہیں.وَهُهُنَا سُوَالٌ عُضَالٌ نَكْتُبُهُ في یہاں ایک مشکل سوال ہے جسے ہم اس جگہ مع جواب الْكِتَابِ مَعَ الْجَوَابِ لِيُفَكِّرَ فِيْهِ مَنْ كَانَ لکھتے ہیں تا کہ عقلمند اس میں غور و فکر کر سکیں اور وہ سوال یہ مِنْ أُولِي الْأَلْبَابِ وَهُوَ أَنَّ اللهَ اخْتَارَ مِنْ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میں جَمِيعِ صِفَاتِهِ صِفَتَي الرَّحْمَانِ وَ الرَّحِيمِ اپنی تمام صفات میں سے صرف دوصفات الر حمن اور فِي الْبَسْمَلَةِ وَمَا ذَكَرَ صِفَةً أُخْرَى فِي هَذِهِ الرَّحِيم کو ہی اختیار کیا ہے اور کسی اور صفت کا اس الْآيَةِ مَعَ أَنَّ اسْمَهُ الْأَعْظَمَ يَسْتَحِقُ جَمِيعَ آیت میں ذکر نہیں کیا.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم (یعنی مَا هُوَ مِنَ الصَّفَاتِ الْعَامِلَةِ كَمَا هِيَ الله ) تمام ان صفات کا ملہ کا مستحق ہے جو مقدس صحیفوں مل كورةٌ في الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ ثُمَّ اِن میں مذکور ہیں.پھر کثرت صفات تلاوت کے وقت كفرَة الصَّفَاتِ تَسْتَلْزِمُ كَثرة البرکات کثرت برکات کو مستلزم ہے.پس بسم اللہ کی آیت کریمہ عِنْدَ التَّلَاوَةِ فَالْبَسْمَلَهُ أَحَقُ وَ أَوْلى اللہ کی کثرت صفات کے بیان کے مقام اور مرتبہ کی زیادہ بِهَذَا الْمَقَامِ وَالْمَرْتَبَةِ.وَقَد نُرِبَ لَهَا | حقدار اور سزاوار ہے اور حدیث نبوی میں ہرا ہم کام

Page 74

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة الفاتحة عِنْدَ كُلِّ أَمْرٍ ذِى بَالٍ كَمَا جَاءَ في شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحسن قرار دیا گیا ہے الْأَحَادِيثِ النَّبَوِيَّةِ.وَإِنَّهَا أَكثرُ ورُدا نیز یہ آیت مسلمانوں کی زبانوں پر اکثر جاری رہتی ہے.عَلى أَلْسُنِ أَهلِ الْمِلَّةِ وَأَكثرُ تَكْرَارًا في اور خدائے عزیز کی کتاب قرآن کریم میں بڑی کثرت كِتَابِ الله ذى الْعِزَّةِ.فَبِأَتِي حِكْمَةٍ و سے دہرائی گئی ہے.تو پھر کس حکمت اور مصلحت کے ماتحت مَصْلِحَةٍ لَّمْ يُكتب صِقَاتٌ أُخرى مع اس مبارک آیت میں خدا تعالی کی دوسری صفات درج هذِهِ الْآيَةِ الْمُتَبَرَكَةِ نہیں کی گئیں.فَالْجَوَاب أَنَّ اللهَ أَرَادَ فى هذا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ الْمُقَامِ أَنْ يَذْكُر مَعَ اسمِهِ الْأَعْظم ارادہ فرمایا کہ اپنے اسم اعظم کے ساتھ انہی دو صفات کا صِفَتَيْنِ هُمَا خُلاصَةُ جَمیع صِفَاتِهِ ذکر کرے جو اس کی تمام صفات عظیمہ کا پورا پورا خلاصہ الْعَظِيْمَةِ عَلَى الْوَجْهِ التَّامِ وَ هُمَا ہیں.اور وہ دونوں صفات الرحمن اور الرَّحِیم ہیں.الرَّحْمَنُ وَ الرَّحِيمُ كَمَا يَهدِى إِلَيْهِ چنانچه معقل سلیم بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتی ہے.کیونکہ الْعَقْلُ السَّلِيمُ فَإِنَّ اللهَ تَجَلَّى عَلى خدا تعالیٰ نے اس دنیا پر کبھی بطور محبوب اور کبھی بطور محبّ هَذَا الْعَالَمِ تَارَةٌ بِالْمَحْبُوبِيَّةِ وَ مَرَّةً تحلق فرمائی ہے اور اس نے ان دونوں صفات کو ایسی روشنی بِالْمُحِبّيَّةِ وَ جَعَلَ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ بنایا ہے جو آفتاب ربوبیت سے عبودیت کی زمین پر نازل ضِيَاءٌ يَنْزِلُ مِن شَمس الرُّبُوبِيَّةِ عَلی ہوتی ہے.پس بھی تو خدا تعالیٰ محبوب بن جاتا ہے اور بندہ أَرْضِ الْعَبُوْدِيَّةِ فَقَدْ يَكُونُ الرَّبُّ اس محبوب کا محب اور کبھی بندہ محبوب بن جاتا ہے اور خدا مَحْبُوبًا وَالْعَبْدُ مُحِيًّا لِذَالِكَ الْمَحْبُوب تعالیٰ اس کا محب ہوتا ہے اور بندہ کو مطلوب کی طرح بنا لیتا وَقَد يَكُونُ الْعَبْدُ مَحْبُوبًا وَالرَّبُّ مُحِبالہ ہے.اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسانی فطرت جس وَجَاعِلُهُ كَالْمَطْلُوبِ وَلَا شَكٍّ أَنَّ میں محبت ، دوستی اور سوز دل ودیعت کیا گیا ہے چاہتی ہے الْفِطْرَةَ الْإِنْسَانِيَّةَ الَّتِي فُطِرَتْ عَلَى کہ اس کا کوئی محبوب ہو جو اسے اپنی تجلیات جمالیہ اور الْمَحَبَّةِ وَالْخَلةِ وَلَوْعَةِ الْبَالِ تَفْتَدِى أَن نعمتوں اور عطایا سے اپنی طرف کھینچے اور یہ کہ اس کا کوئی يَكُونَ لَهَا مَحْبُوبًا تَجنبها إلى وجهه ایسا غم خوار دوست ہو جو خوف اور پریشان حالی کے وقت تَجْزِبُهَا وَجْهِهِ يتَجَلِّيَاتِ الْجَمَالِ وَالنِعَمِ وَالتَّوَالِ اس کا ساتھ دے وہ اس کے اعمال کو ضائع ہونے سے

Page 75

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲ سورة الفاتحة بَيْنَ مِنْ وَأَنْ يَكُونَ لَهُ مُحِيًّا مُوَاسِيَّا يَتَدَارَكُ عِنْدَ بچائے اور اس کی امیدوں کو پورا کرے پس خدا تعالیٰ الْأَهْوَالِ وَتَشَثْتِ الْأَحْوَالِ وَ يحفظها مِن نے ارادہ کیا کہ جو کچھ انسان کی فطرت تقاضا کرتی ضَيْعَةِ الْأَعْمَالِ وَ يُوْصِلُهَا إِلَى الْأَمَالِ ہے وہ اسے عطا کرے اور اپنی وسیع بخشش کے طفیل فَأَرَادَ اللهُ أَن يُعْطِيَهَا مَا اقْتَضَعُهَا وَيُتِمَّ اس پر اپنی نعمتوں کو پورا کرے.سو اُس نے اپنی عَلَيْهَا نِعَمَهُ بِجُودِهِ الْعَمِيمِ.فَتَجَلَّى عَلَيْهَا انہی دو صفات الرمحمن اور الرحیم کے ساتھ اس پر تحلی فرمائی.يصِفَتَيْهِ الرَّحْمَنِ وَالرَّحِيْمِ.وَلا رَيْبَ أَنَّ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ هُمَا الوُصْلَةُ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں صفات بين الربوبيَّةِ وَالْعُبُودِيَّةِ وَ بِمَا يَتِه دَائِرَةُ ربوبیت اور عبودیت کے درمیان ایک واسطہ ہیں اور السُّلُوكِ وَالْمَعَارِفِ الْإِنْسَانِيَّةِ.فَكُلُّ صِفَةٍ انہی دونوں کے ذریعہ انسانی معرفت اور سلوک کا دائرہ بَعْدَهُمَا دَاخِلَةٌ في أَلْوَارِهِمَا وَقَطرَةٌ من مکمل ہوتا ہے.ان دونوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی باقی يُحَارِهِما ثُمَّ إِنَّ ذَات الله تَعَالى كَمَا تمام صفات انہی دو صفتوں کے انوار میں شامل ہیں اقْتَضَتْ لِنَفْسِهَا أَنْ تَكُونَ لِنَوْعِ الْإِنْسَانِ اور ان سمندروں کا ایک قطرہ ہیں.پھر اللہ تعالی کی مَحْبُوبَةً وَ مُحِيَّةً كَذَالِكَ اقْتَضَتْ لِعِبَادِهِ ذات نے جس طرح اپنے لئے چاہا ہے کہ وہ نوع انسان الْكُمْلِ أَن يَكُونُوا لِبَنی نوعِهِمْ كَسِفْلِ کے لئے محبوب اور محب بنے اسی طرح اُس نے اپنے ذَاتِهِ خُلُقًا وَ سِيْرَةً وَ يَجْعَلُوا هَاتَيْنِ کامل بندوں کے لئے چاہا کہ وہ بھی دوسرے بنی نوع الصَّفَتَيْنِ لِأَنْفُسِهِمْ لِبَاسًا وَ كِسْوَةً انسان کے لئے اپنے اخلاق اور سیرت کے لحاظ سے ليَتَخَلَّقَ الْعُبُودِيَّةُ بِأَخْلَاقِ الرُّبُوبِيَّةِ وَلَا اس کی ذات والا صفات کا پرتو ہوں اور ان دونوں يَبْقَى نَقُصُّ فِي النَّشَأَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ فَخَلَقَ صفات کو اپنا لباس اور پوشش بنا لیں تا عبودیت النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ مَظهَرَ ربوبیت کے اخلاق کا جامہ پہن لے.اور انسان کے صِفَتِهِ الرَّحْمَانِ وَ بَعْضَهُمْ مَظْهَرَ صِفَتِهِ (روحانی) نشوونما میں کوئی نقص باقی نہ رہ جائے.پس الرَّحِيْمِ.لِيَكُونُوا مَحْبُوبِينَ وَ مُنِينَ وَ اُس نے انبیاء اور مرسلین کو پیدا کیا اور ان میں سے يُعَاشِرُوا بِالتَّعَابَبِ بِفَضْلِهِ الْعَظِيْمِ.بعض کو اپنی صفت رحمانیت کا اور بعض کو اپنی صفت فَأَعْطَى بَعْضَهُمْ حَظًّا وَافِرًا مِّنْ صِفَةِ رحیمیت کا مظہر بنایا تا کہ وہ محبوب بھی ہوں اور محبت بھی |

Page 76

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳ سورة الفاتحة الْمَحْبُوبِيَّةِ وَ بَعْضًا أَخَرَ حَظًّا كَثِيرًا اور اس کے فضلِ عظیم کے ساتھ آپس میں محبت سے زندگی بسر مِنْ صِفَةِ الْمُحِبْيَّةِ وَ كَذَالِك أَرَادَ کریں اُس نے ان میں سے بعض کو محبوبیت کی صفت سے بِفَضْلِهِ الْعَمِيمِ وَجُوْدِهِ الْقَدِيمِ وَلَمَّا حصّہ وافر عطا فر مایا اور بعض دوسروں کو صفت محبیت کا بہت جَاءَنَ وَ زَمَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَسَيِّدِنَا ساحصّہ دیا.اور اسی کا خدا تعالیٰ نے اپنے وسیع فضل اور دائمی مُحَمَّدٍ سَيْدِ الْمُرْسَلِينَ.أَرَادَ هُوَ سُبْحَانَهُ کرم سے ارادہ فرمایا.اور جب ہمارے آقا سید المرسلین و أَن تَجْمَعَ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ في نفيس خاتم النبيين محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا تو اللہ تعالی کی پاک وَاحِدَةٍ فَجَمَعَهُمَا فِي نَفْسِهِ عَلَيْهِ أَلْفُ ذات نے ارادہ فرمایا کہ ان دونوں صفات کو ایک ہی شخصیت أَلْفِ صَلوة و تَحِيَّةٍ فَلِذَالِك ذكر میں جمع کر دے.چنانچہ اس نے آنحضرت کی ذات میں الفَصِيصًا صِفَةَ الْمَحْبُوبِيَّةِ وَ الْمُحِبْيَّة ( آپ پر ہزاروں ہزار درود اور سلام ہو) یہ دونوں صفات جمع عَلى رَأْس هَذِهِ السُّورَةِ لِيَكُونَ إِشَارَةٌ کردیں یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے شروع إلى هذِهِ الْإِرَادَةِ.وَسلمى نَبِيِّنَا مُحَمداو میں صفت محبوبیت اور صفت محبیت کا خاص طور پر ذکر کیا أَحْمَدَ كَمَا سَلمى نَفْسَهُ الرَّحْمَانَ وَ ہے تا اس سے خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کی طرف اشارہ ہو اور الرَّحِيْمَ في هَذِهِ الْآيَةِ.فَهَذِهِ إِشَارَةٌ اُس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد اور احمد رکھا.إلى أَنه لا جَامِعَ لَهُمَا عَلَى الطَّرِيقَةِ جیسا کہ اس نے اس آیت میں اپنا نام الر حمن اور الرّحِیم القليَّةِ إِلَّا وُجُودُ سَيّدِنَا خَيْرِ الْبَرِيَّةِ رکھا.پس یہ بات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان دونوں وَقَدْ عَرَفتَ أَنَّ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ صفات کا ہمارے آقا فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور أَكْبَرُ الصَّفَاتِ مِنْ صِفَاتِ الْحَضْرَةِ کوئی جامع وجود نہیں.اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ دونوں الْأَحَدِيَّةِ بَلْ هُمَالُبُ اللُّبَابِ و صفات خدا تعالیٰ کی صفات میں سے سب سے بڑی صفات حَقِيقَةُ الْحَقَائِقِ لِجَميعِ أَسْمَائِهِ ہیں بلکہ یہ اس کے تمام صفاتی ناموں کے خلاصوں کا خلاصہ الصَّفَاتِيَّةِ.وَهُمَا مِعْيَارُ كَمَالِ كُلِّ مَن اور حقیقتوں کی نچوڑ ہیں.یہ ہر اس شخص کے کمال کا معیار ہیں اسْتَكْمَلَ وَ تَخَلَّقَ بِالْأَخْلَاقِ الْإِلَهِيَّةِ جو کمال کا طالب ہے اور اخلاق الہیہ کا رنگ اختیار کرتا ہے.وَمَا أُعْطِيَ نَصِيبًا كَامِلاً مِّنهُمَا إِلَّا پھر ان دونوں صفات میں سے کامل حصہ صرف ہمارے نَبِيُّنَا خَاتَمُ سِلْسِلَةِ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُ | نبی سلسلہ نبوت کے خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیا گیا ہے

Page 77

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة الفاتحة أُعْطِيَ اسْمَيْنِ كَمِثْلِ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ.کیونکہ آپ کو پروردگار دو عالم کے فضل سے ان دونوں صفات اَوَّلُهُمَا مُحَمَّد و القاني احمد مِن فَضْلِ رَبِّ کی طرح دو نام دیئے گئے ہیں جن میں سے پہلا محمد ہے الْكَوْنَين.أما مُحَمَّد فَقَدِ از تلی رِدَاءَ اور دوسرا احمد.پس اسم محمد نے صفت الرحمن کی چادر پہنی صِفَةِ الرَّحْمَنِ.وَتَجَلى في محلّلِ الْجَلالِ و اور جلال اور محبوبیت کے لباس میں جلوہ گر ہوا اور اپنی نیکی الْمَحْبُوبِيَّةِ وَحُمَّدَ لِي مِنْهُ وَ الْإِحْسَانِ وَ اور احسان کی بناء پر بار بار تعریف بھی کیا گیا.اور اسم احمد لِبِرِّ أَمَّا أَحْمَدُ فَتَجَل في حُلَّةِ الرَّحِيمِيَّةِ وَ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے جو مومنوں کی مدد اور نصرت کا الْمُحِبّيَّةِ وَالْجَمَالِيَّةِ فَضْلًا مِّنَ اللهِ الَّذِی متولی ہے رحیمیت ،محبیت اور جمال کے لباس میں تحلی يَتَوَلَّى الْمُؤْمِنِينَ بِالْعَوْنِ وَ النُّصْرَةِ فرمائی.پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں نام فَصَارَ اسْتمَا نَبِيَّنَا بِحِذَاءِ صِفَتَى رَبِّنَا (محمد اور احمد ) ہمارے ربّ محسن کی دونوں صفتوں الْمَتَانِ كَصُورٍ مُنْعَكِسَةٍ تُظهِرُهَا مِرَاتَانِ (الرحمان الرحيم ) کے مقابلہ میں منعکسہ صورتوں کی طرح مُتَقَابِلَتَانِ.وَتَفْصِيلُ ذَالِكَ أَنَّ حَقِيقَةً ہیں جن کو دو مقابل کے آئینے ظاہر کرتے ہیں اس کی صِفَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ عِندَ أَهْلِ الْعِرْفَانِ هِی تفصیل یوں ہے کہ اہل عرفان کے نزدیک اس صفت إِفَاضَةُ الْخَيْرِ لِكُلِّ ذِی رُوحِ مِنَ الْإِنْسَانِ رحمانیت کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ذی روح کو انسان ہو یا وَغَيْرِ الْإِنْسَانِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ سَابِقٍ بَل غیر انسان بغیر کسی سابقہ عمل کے محض احسان کے طور پر فیض خَالِصًا عَلَى سَبِيلِ الْاِمْتِنَانِ وَلَا شَكَ پہنچایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں اور نہ کسی اختلاف کی وَلَا خِلَافَ أَنَّ مِثْلَ هَذِهِ الْمِئَةِ الْخَالِصَةِ گنجائش ہے کہ اس قسم کا خالص احسان جو مخلوق میں سے کسی الَّتِي لَيْسَتْ جَزَاءُ عَمَلِ عَامِلٍ مِّنَ کام کرنے والے کے کسی کام کا صلہ نہ ہوں، مومنوں کے دلوں الْبَرِيَّةِ هِى تجذب قُلُوبَ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى کو ثناء ، مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے.لہذا وہ خلوص قلب الشّتَاءِ وَالْمَدحِ وَالْمَحْمَدَةِ.فَيَحْمَدُونَ اور صحت نیت سے اپنے محسن کی حمد و ثناء کرتے ہیں.اس الْمُحْسِنَ وَيُذْلُونَ عَلَيْهِ بِخُلُوصِ الْقُلُوبِ طرح بغیر کسی وہم کے جو شک وشبہ میں ڈالے خدائے رحمان وَصِيَّةِ النِّيَّةِ فَيَكُونُ الرَّحْمَانُ مُحَمَّدًا يقيناً قابل تعریف بن جاتا ہے کیونکہ ایسے انعام کرنے والی يَقِيْنَا مِنْ غَيْرِ وَهُم يَجُرُّ إِلَى الريْبَةِ فَإِنَّ ہستی جو لوگوں پر بغیر ان کے کسی حق کے طرح طرح کے الْمُنْعِمَ الَّذِي يُحْسِنُ إِلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ احسان کرے اُس ہستی کی ہر وہ شخص حمد کرے گا جس پر

Page 78

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة حَقِّ بِأَنْوَاعِ النِّعْمَةِ يَحْمَدُهُ كُلُّ مَنْ أَنْعِمَ انعام و اکرام کیا جاتا ہے اور یہ بات انسانی فطرت کا خاصہ عَلَيْهِ وَهُذَا مِنْ خَوَاتِ النَّشْأَةِ ہے پھر جب اتمام نعمت کے باعث حمد اپنے کمال کو پہنچ الْإِنْسَانِيَّةِ ثُمَّ إِذَا كَمُلَ الْحَمْدُ بِكَمَالِ جائے تو وہ کامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے اور ایسا محسن الْإِنْعَامِ جَنَّبَ ذَالِكَ إِلَى الْحُبِ الشَّامِ اپنے محبوں کی نظر میں بہت قابل تعریف اور محبوب بن جاتا فَيَكُونُ الْمُحْسِنُ مُحَمَّدًا وَمَحْبُوبًا في أَعْيُن ہے اور یہ صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے.پس آپ عقلمندوں کی الْمُحِتِينَ فَهَذَا مَالُ صِفَةِ الرَّحْمَانِ طرح ان باتوں پر غور کیجئے.اب اس بیان سے ہر صاحب فَفَكَّرْ كَالْعَاقِلِينَ.وَقَدْ ظَهَرَ مِن هذا عرفان پر واضح ہو گیا ہے کہ الرحمن بہت حمد کیا گیا ہے الْمَقَامِ لِكُلِ مَنْ لَهُ عِرْفَانُ أَنَّ الرَّحْمٰن اور ( کامل ) حمد کیا گیا اگر محمن ہے بلاشبہ ان دونوں کا نتیجہ مُحَمَّدٌ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّحْمَانٌ وَلَا شَكَ أَنَّ ایک ہی ہے اور اس سچائی سے ناواقف ہی اس کا انکار کرنے مَالُهُمَا وَاحِدٌ.وَقَدْ جَهَلَ الْحَقِّ مَنْ هُوَ والا ہے.لیکن صفت رحیمیت کی حقیقت اور اس کی مخفی جَاحِدٌ، وَأَمَّا حَقِيقَةُ صِفَةِ الرَّحِيميّة روحانی کیفیت یہ ہے کہ اہل مسجد کے اعمال پر انعام و برکت وَمَا أُخْفِى فِيهَا مِنَ الْكَيْفِيَّةِ الرُّوحَانِيَّةِ کا افاضہ ہو نہ کہ گر جا والوں پر.اور مخلص کام کرنے والوں فَهِيَ إِفَاضَةُ إِنْعَامِ وَ خَيْرٍ عَلَى عَمَلٍ مِن کے اعمال کی تعمیل کی جائے اور تلافی کرنے والوں اور أَهْلِ مَسْجِدٍ لَّا مِنْ أَهْلِ دَيْرٍ وَ تَكْمِيلُ معاونوں اور مددگاروں کی طرح ان کی کوتاہیوں کا تدارک عَمَلِ الْعَامِلِينَ الْمُخْلِصِينَ وَ جَبْرُ کیا جائے.بلاشبہ یہ افاضہ (بندوں پر ) خدائے رحیم کی نُقْصَانِهِمْ كَالْمُتَلَافِينَ وَ الْمُعِيْنِینَ وَ طرف سے ان کی تعریف کے حکم میں ہے کیونکہ وہ اس النَّاصِرِينَ وَلَا شَكَ أَنَّ هَذِهِ الْإِفَاضَةَ في طرح کی رحمت کسی عمل کرنے والے پر اُسی وقت نازل حُكْمِ الْحَمْدِ مِنَ اللهِ الرَّحِيمِ فَإِنَّهُ لا کرتا ہے جب کہ بندہ صیح طریق پر اس کی تعریف کرتا ہے يُنزِلُ هَذِهِ الرَّحْمَةَ عَلَى عَامِلٍ إِلَّا بَعْدَ مَا اور خدا تعالیٰ اس کے عمل پر راضی ہوتا ہے اور اسے حَمِدَهُ عَلَى تَهْجِهِ الْقَوِيْمِ.وَرَضِيَ بِهِ عَمَلاً اپنے وسیع فضل کا مستحق پاتا ہے.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ورَاةَ مُسْتَحِقًا للفضل العبيمِ أَلا ترى خدا تعالی کافروں ، مشرکوں ، ریا کاروں اور متکبر وں کے أَنَّهُ لَا يَقْبَلُ عَمَلَ الْكَافِرِينَ وَالْمُشْرِكِينَ اعمال قبول نہیں کرتا بلکہ ان کے عملوں کو ضائع کر دیتا ہے اور وَالْمُرَائِينَ وَالْمُتَكَبْرِينَ بَلْ يُخيط نہ تو اپنی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور نہ مددفرماتا ہے

Page 79

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۶ سورة الفاتحة بِنُصْرَةٍ.أَعْمَالَهُمْ وَلَا يَهدِيهِمْ إِلَيْهِ وَلَا بلکہ انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور اس میں کوئی شک يَنْصُرُهُمْ بَلْ يَتْرُكُهُمْ كَالْمَخْذُولِین نہیں کہ وہ کسی کی طرف اپنی صفت رحیمیت کے ساتھ متوجہ فَلا شَكَ أَنَّهُ لا يَتُوبُ إِلى أَحَدٍ نہیں ہوتا اور نہ کسی کے عمل کو اپنی نصرت اور اعانت سے پایہ بِالرَّحِيمِيَّةِ وَلَا يُكَتِلُ عَمَلَهُ بِنضرة تحمیل تک پہنچاتا ہے بجز اس کے کہ بندہ عملاً خدا سے راضی مِنْهُ وَالْإِعَانَةِ إِلَّا بَعْدَ مَا رَضِی بِهِ فِعلاً ہو اور اس کی ایسی حمد کرے جو نزول رحمت کو مستلزم ہو.پھر و حَمِدَهُ عَمْدًا يَسْتَلْزِمُ نُزُولَ الرَّحْمَةِ جب مخاصین کے اعمال کے کامل ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف ثُمَّ إِذَا كَبُلَ الْحَمدُ مِنَ اللهِ بِكَمَالِ سے ان کی حمد کمال کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ احمد بن جاتا ہے اور أَعْمَالِ الْمُخْلِصِينَ فَيَكُونُ اللهُ أَحْمَدَ وَ بندہ محمد بن جاتا ہے.پس پاک ہے اللہ جو سب سے پہلا محمد الْعَبْدُ مُحَمَّدًا فَسُبْحَانَ الله أَوّل اور سب سے پہلا احمد ہے.اور اُس وقت وہ بندہ جو اپنے عمل الْمُحَمَّدِيْنَ وَ الْأَحْمَدِينَ وَ عِنْدَ ذَالِكَ میں مخلص ہو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب بن جاتا ہے کیونکہ يَكُونُ الْعَبْدُ الْمُخْلِصُ في العَمَلِ مَحْبُوبًا اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے اس کی تعریف کرتا ہے اور وہ کسی کی في الْحَضْرَةِ.فَإِنَّ اللهَ يَحْمَدُهُ مِنْ عَرشه تعريف صرف اسی وقت فرماتا ہے جب اُسے اُس سے محبت وَهُوَ لَا يَحْمَدُ أَحَدًا إِلَّا بَعْدَ الْمَحَبَّةِ.ہو جائے.فَحَاصِلُ الْكَلَامِ آنَ كَمَال خلاصہ کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا کمال اللہ تعالیٰ کو الرَّحْمَانِيَّةِ يَجْعَلُ اللهَ مُحَمَّدًا وَمَحْبُوبًا محمد اور محبوب بنا دیتا ہے اور بندہ کو احمد بنا دیتا ہے.اور ایسا وَيَجْعَلُ الْعَبْدَ أَحْمَدَ وَمُحِبًا يَسْتَقْرِى محبّ جو ہر دم اپنے محبوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے.صفتِ مَطلُوبًا وَكَمَالُ الرَّحِيمِيَّةِ يَجْعَلُ الله رحیمیت کا کمال اللہ تعالیٰ کو احمد (بندے کی تعریف کرنے أَحْمَدَ وَ مُحِنا وَيَجْعَلُ الْعَبْدَ مُحَمَّدًا و والا ) اور محب بناتا ہے اور بندہ کو محمد ( قابل تعریف ) اور حِنَّا وَسَتَعْرِفُ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ شَأْنَ محبوب بناتا ہے.اے مخاطب اس بیان سے تو ہمارے امام نَبِيْنَا الْإِمَامِ الْهُمَامِ فَإِنَّ الله سماه تمام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو معلوم کر سکتا ہے کیونکہ مُحَمّدًا وَأَحْمَدَ وَ ما سلمى بمَا عِيسَى وَلَا اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور یہ دونوں نام كَلِما وَ أَشْرَكَهُ فِي صِفَتَيْهِ الرَّحْمَانِ وَ حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو نہیں دیئے اور خدا نے الرَّحِيمِ مَا كَانَ فَضْلُهُ عَلَيْهِ عَظِيمًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ان دو صفات رحمن اور رحیم

Page 80

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة الفاتحة وَمَا ذَكَرَ هَاتَيْنِ الصَّفَتَيْنِ فِي الْبَسْمَلَةِ میں (ظلی طور پر ) شریک کیا ہے کیونکہ آپ پر اس کا بڑافضل إِلَّا لِيَعْرِفَ النَّاسُ أَنَّهُمَا لِله كَالا نم تھا اور اُس نے ان دونوں صفات کو بسم اللہ میں صرف اس لئے الْأَعْظَمِ وَلِلنَّبِيِّي مِن حَضْرَتِہ بیان کیا ہے تا لوگ سمجھ لیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کے لئے كَالْخِلْعَةِ فَسَمَّاهُ اللهُ مُحَمَّدًا إِشَارَةٌ إلى اسم اعظم کے طور پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مَا فِيْهِ مِنْ صِفَةِ الْمَحْبُوبِيَّةِ.وَسَمادُ بارگاہِ ایزدی سے خلعت کے طور پر ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے أَحْمَدَ إِيْمَاء إِلى مَا فِيْهِ مِنْ صِفَةِ آپ کا نام محمد رکھا تا کہ اُس سے آپ کی صفت محبوبیت کی طرف الْمُحِثِيَّةِ أَمَّا مُحَمَّدٌ فَلِأَجْلِ أَنَّ رَجُلًا اشارہ کرے اور آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ آپ کی صفتِ لا يَحْمَدُهُ الْحَامِدُونَ حَمَّدًا كَثِيرًا إِلَّا محبّیت کی طرف اشارہ ہو.محمد نام اس لئے ہے کہ لوگ کسی بَعْدَ أَنْ يَكُونَ ذَالِكَ الرَّجُلُ مَحْبُوبا و شخص کی زیادہ تعریف تبھی کرتے ہیں جب وہ ان کے نزدیک أَمَّا أَحْمَدُ فَلِأَجْلِ أَنَّ حَامِدًا لَا يَحْمَدُ محبوب ہو اور احمد نام اس لئے ہے کہ کوئی شخص کسی کی زیادہ أَحَدًا بِحَمْلٍ كَاثِرِ إِلَّا الَّذِي يُحِبُّه و تعریف نہیں کرتا بجز اس شخص کے جس سے وہ محبت کرتا اور اُسے يَجْعَلُهُ مَطْلُوبًا فَلَا شَكَ أَنَّ اسْمَ مُحمد مطلوب بنا لیتا ہو.اور یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ اسم محمد میں مُحَمَّدٍ يُوجَدُ فِيْهِ مَعْنَى الْمَحْبُوبِيَّةِ بدلالة بدلالت التزامی محبوبیت کے معنے پائے جاتے ہیں اسی طرح الْإِلْتِزَامِ.وَ كَذَالِكَ يُوجَدُ فِي اسْمِ اسم احمد میں خدا تعالیٰ صاحب فضل و انعام کی طرف سے أَحْمَدَ مَعْنَى الْمُحِبّيَّةِ مِنَ اللهِ ذِی معنے محبّیت پائے جاتے ہیں.پس بلاشبہ ہمارے نبی اکرم الْأَفْضَالِ وَالْإِنْعَامِ وَ لَا رَيْبَ أَن صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس لئے محمد رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ نَبِيَّنَا سُمَّى مُحَمَّدًا لَمَّا أَرَادَ اللهُ أَن فرمایا تھا کہ آپ کو اپنی نگاہ میں بھی اور صالح لوگوں کی نظر میں تَجْعَلَهُ مَحْبُوبًا في أَعْيُنِهِ وَ أَعْيُنِ بھی محبوب بنائے.اور ایسا ہی آپ کا نام احمد اس لئے رکھا کہ الصَّالِحِيْنَ.وَكَذَالِكَ سَماهُ أَحْمَدَ لَهَا الله تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی ذات اور مومن أَرَادَ سُبْحَانَهُ أَنْ تَجْعَلَهُ مُحِب ذَاتِهِ وَ مسلمانوں سے محبت کرنے والے ہوں.پس آپ ایک پہلو مُحِبَّ الْمُؤْمِنِينَ الْمُسْلِمِينَ.فَهُوَ مُحَمَّد سے محمد ہیں اور ایک پہلو سے احمد ہیں.اور ان دونوں ناموں بِشَأْنٍ وَ أَحْمَدُ بِشَأْنٍ وَاخْتَضَ أَحَدُ هَذَيْنِ میں سے ( ظہور کامل کے لحاظ سے ) ایک نام کو ایک زمانہ سے الْإِسْمَيْنِ بِزَمَانٍ وَ الْآخَرُ بِزَمَانٍ - مخصوص کیا گیا اور دوسرے نام کو دوسرے زمانہ سے.

Page 81

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸ سورة الفاتحة 66 دو وَقَد أَشَارَ إِلَيْهِ سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ دَنَا اور اللہ تعالیٰ نے آیت دَنَا فَتَدَلی اور آیت قَابَ فَتَدَى وَفِي قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدلی“ قَوْسَيْنِ اَوْ ادنی میں اسی ( محبوبیت اور محبیت کے ثُمَّ لَمَّا كَانَ يُظَنُّ أَنَّ اخْتِصاص هذا مضمون ) کی طرف اشارہ کیا ہے.پھر چونکہ یہ گمان پیدا ہو النّي الْمُطَاعِ السَّادِ بِندِهِ الْمَحَامِل سکتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لوگوں کے مطاع اور مِنْ رَّبِّ الْعِبَادِ يَجْرُّ إِلَى الشركِ كَمَا عُبِدَ اللہ تعالیٰ کے بہت عبادت گزار ہیں پروردگار عالم کا ان دو عِيسَى لِهَذَا الْإِعْتِقَادِ أَرَادَ الله أَن يُورقهما صفات سے متصف کرنا لوگوں کو شرک کی طرف مائل کر سکتا الْأُمَّةَ الْمَرْحُوْمَةَ عَلَى الطَّرِيقَةِ الظَّليَّةِ ہے.جیسا کہ ایسے ہی اعتقاد کی بنا پر حضرت عیسی کو معبود بنالیا لِيَكُونَا لِلأمة كالبَرَكَاتِ الْمُتَعَدِّيَّةِ وَ گیا.سو اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ وہ امت مرحومہ کو بھی (علی لِيَزُولَ وَ هُمُ اشْتِرَاكِ عَبْد خَاصٌ في حسب مراتب) ظلی طور پر ان دونوں صفات کا وارث الصِّفَاتِ الْإِلَهِيَّةِ.فَجَعَلَ الصَّحَابَةَ و بنادے.تا یہ دونوں نام اُمت کیلئے برکات جاریہ کا موجب مَنْ تَبِعَهُمْ مَظْهَرَ اسْمِ مُحَمَّدِ بِالشُّؤُونِ نہیں اور تا صفات الہیہ میں کسی خاص بندہ کے شریک ہونے الرَّحْمَادِيَّةِ الْجَلَالِيَّةِ وَجَعَلَ لَهُمْ غَلَبَةٌ کا وہم بھی دور ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ و نَصَرَهُمْ بِالْعِنَايَاتِ الْمُتَوَالِيَةِ وَ اور بعد آنے والے مسلمانوں کو رحمانی اور جلالی شان کی بنا پر جَعَلَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ مَظهَرَ اسم أحمد اسم محمد کا مظہر بنایا اور انہیں غلبہ عطا فرمایا.اور متواتر عنایات وَبَعْتَه بِالشُّؤُونِ الرَّحِيمِيَّةِ الْجَمَالِية و سے ان کی مدد کی اور مسیح موعود کو اسم احمد کا مظہر بنایا اور اُسے كتب في قَلْبِهِ الرَّحْمَةَ وَالتَّعَتُنَ وَهَنَّبَهُ رحیمی اور جمالی صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کے بِالْأَخْلَاقِ الْفَاضِلَةِ الْعَالِيَةِ.فَذَالِك دل میں رحمت اور شفقت رکھ دی اور اسے بلند اخلاق فاضلہ هُوَ الْمَهْدِى الْمَعْهُودُ الّذينى فيه کے ساتھ آراستہ کیا.اور وہی مہدی معہود ہے جس کے يَختَصِمُونَ.وَقَدْ رَأَوُا الْآيَاتِ ثُمَّ لَا بارے میں لوگ جھگڑتے ہیں اور جس کی صداقت کے يَهْتَدُونَ وَ يُصِرُونَ عَلَى الْبَاطِلِ وَ إِلَى نشانات دیکھ کر بھی سچائی کو قبول نہیں کرتے اور باطل پر الْحَقِ لَا يَرْجِعُونَ.وَذَالِكَ هُوَ الْمَسِيحُ اصرار کرتے ہیں اور حق کی طرف رجوع نہیں کرتے یہ الْمَوْعُودُ وَلكِنَّهُمْ لا يَعْرِفُونَ وَ وہی مسیح موعود ہے لیکن لوگ اسے نہیں پہچانتے اور ظاہری يَنظُرُونَ إِلَيْهِ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ فَإِنَّ آنکھوں سے تو اسے دیکھتے ہیں لیکن بصیرت کی آنکھ النجم : ١٠٠٩

Page 82

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ سورة الفاتحة ا اسم عيسى و اسم أحمد مُتَّحِدَانِ فِي الْهُويَّةِ سے نہیں دیکھتے کیونکہ اسم عیسی اور اسم احمد اپنی ماہیت وَ مُتَوَافِقَانِ في الطَّبِيعَةِ.وَ يَدُلَّانِ عَلَی میں ایک ہی ہیں اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے الْجَمَالِ وَتَرْك الْقِتَالَ مِنْ حَيْثُ الكَيْفِيَّةِ سے مطابقت رکھتے ہیں اور اپنی کیفیت کے لحاظ سے یہ وَأَمَّا اسْمُ مُحَمَّدٍ فَهُوَ اسْمُ الْقَهْرِ وَالْجَلالِ نام جمال اور ترک ققال پر دلالت کرتے ہیں لیکن اسم محمد وَكِلَاهُمَا لِلرَّحْمَانِ وَالرَّحِيمِ كَالا ظلالِ قہر اور جلال کا نام ہے اور یہ ہر دو نام محمد اور احمد رحمن ورحیم أَلَا تَرَى أَنَّ اسْمَ الرَّحْمنِ الَّذِي هُوَ مَنْبَعٌ کے لئے بطور ظلّ کے ہیں.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رحمن لِلْحَقِيقَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ يَقْتَضِي الْجَلَالَ كَمَا نام جو حقیقت محمدیہ کا منبع ہے.جلال کا ویسے ہی تقاضا کرتا يَفْتَين شَأْنَ الْمَحْبُوبِيَّةِ وَ مِن رَحْمَانِيَّتِهِ ہے جیسے کہ وہ شانِ محبوبیت کو چاہتا ہے اور یہ امر اللہ تعالیٰ تَعَالَى أَنَّهُ سَخَّرَ كُلَّ حَيَوَانٍ لِلْإِنْسَانِ مِن کی رحمانیت ہے کہ اس نے انسان کے لئے گائیوں ، الْبَقَرِ وَ الْمَعْرِ وَالْجِمَالِ وَالْبِغَالِ بکریوں ، اونٹوں ، خچروں ، بھیڑوں اور دوسرے تمام وَالطَّانِ.وَإِنَّهُ أَهْرَقَ دِمَاء كَثِيرَةٌ لحفظ جانوروں کو مسخر کر دیا.اور انسانی جان کی حفاظت کے نَفْسِ الْإِنْسَانِ وَمَا هُوَ إِلَّا أَمْرٌ جَلالی لئے بہت سے خون گرانے روا ر کھے.یہ امر صرف ایک وَنَتِيجَةُ رَحْمَانِيَّةِ الرَّحْمَانِ جلالی معاملہ اور خدائے رحمن کی رحمانیت کا ہی نتیجہ ہے.فَتَبَتَ أَنَّ الرَّحْمَانِيَّةَ يَقْتَدِى الْقَهْرَ پس ثابت ہوا کہ رحمانیت قہر اور جلال کا تقاضا کرتی وَالْجَلَالَ مَعَ ذَالِكَ هُوَ مِنَ الْمَحْبُوبِ لطف ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ محبوب کی طرف سے اُس شخص لِمَنْ أَرَادَ لَهُ النَّوَالَ.وَكَمْ مِّن دُودِ الْمِيَاهِ کے لئے جس پر وہ نوازش کرنا چاہے مہربانی بن جاتی ہے.وَ الْأَهْوِيَةِ تُقْتَلُ لِلْإِنْسَانِ.وَكَمْ مِّنَ (دیکھو) پانی اور ہوا کے بہت سے کیڑے انسان کی الْأَنْعَامِ تُذْبَحُ لِلنَّاسِ إِنْعَامًا مِنَ الرَّحْمَانِ خاطر مار دیئے جاتے ہیں بہت سے چوپائے انسان کے فَخَلاصَةُ الْكَلَامِ أَنَّ الصَّحَابَةُ كَانُوا لئے خدائے رحمن کی طرف سے بطور انعام ذبح کئے مَظَاهِرَ لِلْحَقِيقَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ الْجَلَالِيَّةِ.جاتے ہیں.اس خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام حقیقت وَلِذَالِكَ قَتَلُوا قَوْمًا كَانُوا السباع محمد یہ جلالیہ کے مظاہر تھے اسی لئے انہیں ان لوگوں کو قتل كَالسّبَاعِ وَ نَعَمِ الْبَادِيَةِ لِيُعَلِّصُوا قَوْمًا الخَرِيْنَ کرنا پڑا جو درندوں اور جنگلی چوپایوں کی طرح تھے تا کہ من سجن الضَّلَالَةِ وَالْعَوَايَةِ وَيَجْرُوهُمْ دوسرے لوگوں کو گمراہی اور کجروی کے قید خانہ سے نجات |

Page 83

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة إِلَى الصّلاحِ وَالْهِدَايَةِ.وَقَدْ عَرَفتَ أَنَّ دے کر صلاح و ہدایت کی طرف لے آئیں.آپ جان الْحَقِيقَةُ الْمُحَمَّدِيَّةَ هُوَ مَظْهَرُ الْحَقِيقَةِ چکے ہیں کہ حقیقت محمدیہ حقیقت رحمانیہ کی مظہر ہے.اور الرَّحْمَانِيةِ.وَلَا مُنَافَاةَ بَيْنَ الْجَلال جلال اور اس صفت احسان کے درمیان کوئی مغایرت نہیں وهذه الصفَةِ الْإِحْسَانِيَّةِ بَل بلکه صفت رحمانیت جلال اور ربانی دبدبہ کی مظہر کامل الرَّحْمَانِيَّةُ مَظْهَرٌ تَامّ لِلْجَلَالِ وَ الشَّطْوَةِ ہے.صفت رحمانیت کی حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں الرَّيَّانِيَّةِ.وَ هَلْ حَقِيْقَةُ الرَّحْمَانِيَّةِ إِلَّا کہ ادنی کو اعلیٰ کے لئے قربان کیا جائے.انسان اور اس قَتْلُ الَّذِي هُوَ أَدْنى لِلَّذِي هُوَ أَعْلى وَ کے علاوہ دوسری مخلوق کی پیدائش کے وقت سے خدائے كَذَالِكَ جَرَتْ عَادَةُ الرَّحْمنِ مُنْ خَلَقَ رحمن کی یہی سنت جاری ہے.کیا آپ کو معلوم نہیں کہ الْإِنْسَانَ وَ مَا وَرَآتَهُ مِنَ الْوَرى أَلَا اونٹوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے ان کے زخموں کے تَرى كَيْفَ تُقْتَلُ دُودُ جُرْحِ الْإِبِلِ يحفظ کیڑے کس طرح ہلاک کئے جاتے ہیں اور اونٹوں کو اس نُفُوسِ الْجَمَالِ وَتُقْتَلُ الْجِمَالُ لِيَنْتَفِعَ لئے ذبح کیا جاتا ہے تا لوگ ان کے گوشت اور چمڑوں النَّاسُ مِن لُحُومِهَا وَجُلُودِهَا وَيَتَّخِذُوا سے فائدہ اُٹھا ئیں اور زیب وزینت کے لئے ان کے مِنْ أَوْبَارِهَا ثِيَابَ الزِّينَةِ وَالْجَمَال بالوں سے لباس بنا ئیں.یہ سب کچھ نوع انسان اور وَهذِهِ كُلُّهَا مِنَ الرَّحْمَانِيَّةِ لحفظ سلسلة جنس حیوان کی حفاظت کے لئے صفت رحمانیت کے الْإِنْسَانِيَّةِ وَالْحَيَوَانِيَّةِ فَكَمَا أَن ذریعہ ہی کیا جارہا ہے.پس جس طرح رحمن محبوب ہے الرَّحْمَانَ مَحْبُوبٌ كَذَالِكَ هُوَ مَظْهَرُ ویسے ہی وہ مظہر جلال بھی ہے اور اس وصف میں اسم محمد الْجَلَالِ.وَ كَمِثْلِهِ اسْمُ مُحَمَّدٍ في هذا بھی اسی صفت رحمانیت کی مانند ہے پھر جب صحابہ کرام الْكَمَالِ.ثُمَّ لَمَّا وَرِثَ الْأَصْحَابُ انتم خدائے بخشندہ کی طرف سے اسم محمد کے وارث ہوئے اور اسم مُحَمَّدٍ مِنَ اللهِ الْوَهَّابِ وَأَظْهَرُوا جَلَالَ انہوں نے جلال الہی کو ظاہر کیا اور ظالموں کو چوپایوں اور الله وَقَتَلُوا الظَّالِمِینَ الأَنْعَامِ وَ مویشیوں کی طرح قتل کیا اسی طرح مسیح موعود اسم احمد کا الدَّوَآتِ كَذَالِكَ وَرِكَ الْمَسِيحُ وارث ہوا جو مظہر رحیمیت و جمال ہے اور اللہ تعالی نے یہ الْمَوْعُودُ اسْمَ أَحْمَدَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ نام اس کے لئے اور اس کے متبعین کے لئے جو اس کی آل الرَّحِيمِيَّةِ وَالْجَمَالِ وَاخْتَارَ لَهُ اللهُ هذا کی طرح بن گئے اختیار کیا.پس مسیح موعود ا پنی جماعت

Page 84

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۱ سورة الفاتحة الْاِسْمَ وَلِمَنْ تَبِعَهُ وَصَارَ لَهُ كَالالِ سمیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی صفت رحیمیت اور فَالْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَعَ جَمَاعَتِهِ مَظهَرُ مِن احمدیت کا مظہر ہے.تا خدا کا قول وَالخَرِينَ مِنْهُمُ " دو ،، الله لِصِفَةِ الرَّحِيمِيَّةِ وَالْأَحْمَدِيَّةِ لِيَتِم (الجمعة: (۴) پورا ہو ( یعنی صحابہ جیسی ایک اور قوم بھی ہے قَوْلُهُ وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَلَا رَاذَ جو ابھی ان سے نہیں ملی ) اور الہی ارادوں کو پورا ہونے لِلإِرَادَاتِ الرَّبَّانِيَّةِ وَ لِيَتِم حَقِيقَةُ سے کوئی نہیں روک سکتا.نیز رسول مقبول صلی اللہ علیہ الْمَظَاهِرِ النَّبَوِيَّةِ وَهُذَا هُوَ وَجْهُ وسلم کے مظاہر پیدا ہونے کی حقیقت پوری طرح واضح تخصيص صِفَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ ہو جائے.صفت رحمانیت ورحیمیت کو بسم اللہ کے ساتھ بِالْبَسْمَلَةِ لِيَدُلُّ عَلَى استمنى مُحَمَّدٍ وَأَحْمَد و وابستہ کرنے کی یہی وجہ ہے تا وہ محمد واحمد دونوں ناموں مَظَاهِرِهِمَا الأَتِيَةِ أَعْنِي الصَّحَابَةُ پر اور ان دونوں کے آئندہ آنے والے مظاہر پر وَمَسِيحَ اللهِ الَّذِي كَانَ آتِيَا فِي حُلّل دلالت کرے یعنی صحابہ اور مسیح موعود پر جو رحیمیت اور الرَّحِيْمِيَّةِ وَالْأَحْمَدِيَّةِ.ثُمَّ نُكَرِّرُ خُلاصَةَ احمدیت کے لباس میں آنے والے تھے.اب ہم الْكَلَامِ في تَفْسِيرِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کی تفسیر کا خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں.الرَّحِيمِ 66 وو.فَاعْلَمْ أَنَّ اسم الله اسم جَامِدٌ لا پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ اسم جامد ہے اور اس کے يَعْلَمُ مَعْنَاهُ إِلَّا الْخَبِيرُ الْعَلِيمُ وَ قَد معنے سوائے خدائے خبیر و علیم کے اور کوئی نہیں جانتا.اور أَخْبَرَ عَزَّ اسْمُهُ بِحَقِيقَةِ هَذَا الاسم في هذه الله تعالى عزّ اسمه نے اس آیت میں اس اسم کی حقیقت الْآيَةِ وَأَشَارَ إِلى أَنَّهُ ذَاتٌ مُتَّصِفَةٌ بتائی ہے اور اشارہ کیا ہے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے بِالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ أَنى مُتَّصِفَةٌ جو رحمانیت اور رحیمیت کی صفات سے متصف ہے یعنی بِرَحْمَةِ الاِمْتِنَانِ وَ رَحْمَةٍ مُقيَّدَةٍ بِالْحَالَةِ (بلا استحقاق) احسان والی رحمت اور ایمانی حالت سے الْإِيْمَانِيَّةِ وَهَاتَانِ رَحْمَتَانِ كَمَاءٍ أَضفى وابستہ رحمت ہر دور حمتوں سے (وہ ذات ) منصف ہے.وَغِذَاءٍ أحْلى مِنْ مَنْبَعِ الرُّبُوبِيَّةِ وَكُلُّ ما یہ دونوں رحمتیں صاف پانی اور شیر میں غذا کی مانند ہیں جو هُوَ دُونَهُمَا مِن صِفَاتٍ فَهُوَ كَشُعَبِ لِهذِهِ ربوبیت کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور ان دونوں کے علاوہ الصِّفَاتِ وَالْأَصْلُ رَحْمَانِيَّةٌ وَرَحِيْمِيَّةٌ و باقی تمام صفات ان دو صفات کے لئے بمنزلہ شاخوں کے الجمعة : ۴

Page 85

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ سورة الفاتحة هُمَا مَظْهَرُ سِرِ الذَّاتِ ثُمَّ أُعْطِيَ مِنْهُمَا ہیں اور اصل رحمانیت اور رحیمیت ہی ہے اور یہ دونوں نَصِيبٌ كَامِل لِنَبِيْنَا إمَامِ النهج صفات ذات الہی کے بھید کی مظہر ہیں.پھر ان دونوں الْقَوِيْمِ.فَجُعِلَ اسْمُهُ مُحَمَّدًا ظِلَّ الرَّحْمَانِ صفات سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو صراط مستقیم وَ اسْمُهُ أَحْمَدَ ظِلَّ الرَّحِيْمِ وَالسّر فِيْهِ کے امام ہیں کامل حصہ عطا کیا گیا.پس آپ کا نام محمد بطور أَنَّ الْإِنْسَانَ الْكَامِلَ لَا يَكُونُ كَامِلاً إِلَّا رحمان کے ظل کے اور احمد نام بطور رحیم کے ظلّ کے رکھا بَعْدَ التَّخَلْقِ بِالْأَخْلَاقِ الْإِلَهِيَّةِ وَ گیا.اور اس میں یہ راز ہے کہ کامل انسان الہی اخلاق اور صِفَاتِ الرُّبُوَبِيَّةِ.وَقَد عَلِمْتَ أَنَّ أَمْرَ ربانی صفات کے رنگ میں رنگین ہونے کے بعد ہی کامل الصَّفَاتِ كُلِّهَا تَؤُولُ إِلَى الرَّحْمَتَيْنِ ہوتا ہے اور آپ جان چکے ہیں کہ تمام صفات کا مال یہی دو اللَّتَيْنِ سَمَّيْنَاهُمَا بِالرّحمانية و رحمتیں ہیں.جن کا نام ہم نے رحمانیت اور رحیمیت رکھا الرَّحِيمِيَّةِ وَعَلِمْتَ أَنَّ الرَّحْمَانِيَّةَ رَحْمَةٌ ہے.پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ رحمانیت ایک عام رحمت مطلَقَةٌ عَلى سَبِيْلِ الْاِمْتِنَانِ وَيَرِدُ ہے جو بطور احسان ہوتی ہے اور اس کا فیضان ہر مومن ، کافر فَيْضَاتُهَا عَلى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكَافِرٍ بَلْ كُلّ بلکہ ہر نوع حیوان کو پہنچتا ہے لیکن رحیمیت خدائے أَحْسَنُ نَوعِ الْحَيَوَانِ وَأَمَّا الرَّحِيمِيَّةُ فَهِيَ رَحْمَةُ الخَالِقِينَ کی طرف سے ایک رحمت ہے جو جانوروں اور وجُوبِيَّةٌ مِّنَ اللهِ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ کافروں کے علاوہ بالضر ور صرف مومنوں سے مختص ہے.پس وَجَبَتْ لِلْمُؤْمِنِينَ خَاصَّةٌ مِّن دُونِ لازم ہوا کہ انسان کامل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حَيَوَانَاتٍ أُخْرَى وَ الْكَافِرِينَ فَلَزِمَ أَن دونوں صفات کے مظہر ہوتے.اسی لئے پروردگار عالم کی تَكُونَ الْإِنْسَانُ الْعَامِلُ أَغْنِي مُحَمَّدًا طرف سے آپ کا نام محمد اور احمد رکھا گیا.اللہ تعالیٰ آپ مَظْهَرَ هَاتَيْنِ الصِّفَتَيْنِ.فَلِذَالِك سختی کی شان میں فرماتا ہے:.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ مُحَمَّدًا وَأَحْمَدَ مِن رَّبّ الْكَوْنَيْنِ وَقَالَ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ اللهُ في شَأْيه "لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُ مِن بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ * اس آیت میں اللہ تعالیٰ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ نے عَزِيزٌ اور حَرِیض کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ تَحِدُه ،،، ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فضل عظیم التوبة : ۱۲۸.ترجمہ (اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے.تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لیے خیر کا بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ بہت محبت کرنے والا اور کرم کرنے والا ہے.* -

Page 86

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة الفاتحة 6669 فَأَشَارَ اللهُ في قَوْلِهِ عَزِيدٌ وَ فِي قَوْلِهِ سے اس کی صفت رحمان کے مظہر ہیں کیونکہ آپ کا وجود حَرِيض " إِلى أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلامُ مَظْهَرُ مبارک سب جہانوں کے لئے رحمت ہے.بنی نوع | صِفَتِهِ الرَّحْمَانِ بِفَضْلِهِ الْعَظِيمِ لِأَنَّهُ ،انسان، حیوانات، کافروں ، مومنوں سبھی کے لئے.پھر رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ كُلِهِمْ وَلِتَوْعِ الْإِنْسَانِ فرمايا بِالْمُؤْمِنِينَ رَسُوفٌ رَّحِیم“ اور اس میں آپ کو وَ الْحَيَوَانِ وَأَهْلِ الْكُفْرِ وَ الْإِيْمَانِ ثُمَّ رحمان اور رحیم کے نام دیئے جیسا کہ کسی سمجھدار شخص سے قَالَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَسُوفٌ رَّحِیم پوشیدہ نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی اور فَجَعَلَهُ رَحْمَانًا وَ رَحِيمًا كَمَا لا يخفى على عظمت اور عزت کی وجہ سے آپ کو خُلُقٍ عَظِيمٍ * پر قرار الْفَهِيْمِ.وَحَمِدَهُ وَعَذَا إِلَيْهِ خُلُقًا عَظِيمًا دیا جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے.اگر آپ سوال کریں مِنَ التَّفخِيمِ وَالتَّكْرِيمِ كَمَا جَاءَ کہ آپ کا خلق عظیم کیا تھا تو ہم کہتے ہیں وہ رحمان اور رحیم فِي الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ.وَإِنْ سَأَلْتَ مَا ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ دونوں نور اس وقت عطا خُلُقُهُ الْعَظِيمُ فَتَقُولُ إِنَّهُ رَحْمَانُ کئے گئے تھے جبکہ آدم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھا.اور و رَحِيمُ وَمُيعٌ هُوَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ آپ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کے هذَيْنِ التَّوْرَيْنِ وَادَمَ بَيْنَ الْمَاءِ وَ گوشت پوست کا نام ونشان بھی نہ تھا.چونکہ اللہ تعالی خود الطينِ وَكَانَ هُوَ نَبِيًّا وَ مَا كَانَ لاتم نور ہے اس نے اور نور بھی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا.تب اُس أَثرٌ مِنَ الْوُجُودِ وَلَا مِنَ الْأَدِيمِ.وَكَانَ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو در یتیم ( یکتا اللهُ نُورًا فَقَضَى أَنْ تَخْلُقَ نُورًا فَخَلَقَ مُحَمَّدًا موتی کی طرح ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے دونوں الَّذِي هُوَ كَذَريَّتِيْمٍ وَأَشْرَكَ اسْميه في ناموں محمد اور احمد کو اپنی دونوں صفات رحمن و رحیم میں ( ظلی صِفَتَيْهِ فَفَاقَ كُلَّ مَنْ أَتَى اللهَ بِقَلْبِ طور پر شریک کیا.پس آپ ہر اس شخص پر سبقت لے گئے سَلِيمٍ وَ إِنَّهُمَا يَقلأ لأن في تعليم جو قلب سلیم لے کر درگاہ الہی میں حاضر ہوا.اور آپ کے الْقُرْآنِ الْحَكِيمِ.وَإِنَّ نَبِيِّنَا مُرَكَّب من یہ دونوں نام قرآن حکیم کی تعلیم میں درخشندہ ہیں اور تُورٍ مُوسى وَنُوْرِ عِيسَى كَمَاهُوَ مُرَكَّب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ کے نور اور حضرت من صِفَتَى رَبَّنَا الْأَغلى فاقتضى عیسی کے نور کے مرکب ہیں جیسا کہ آپ اللہ جل شانہ التركيب أَن يُعْطى له هَذَا الْمَقَامُ کی دونوں صفات سے ترکیب یافتہ ہیں.پس اسی ترکیب * القلم : ۵

Page 87

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ سورة الفاتحة الْغَرِيْبُ.فَلِأَجْلِ ذَالِك سلمان اللہ کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ لگا نہ مقام عطا ہو.اس لئے خدا تعالیٰ مُحَمَّدًا وَأَحْمَدَ فَإِنَّهُ وَرِثَ نُور نے آپ کا نام محمد بھی رکھا اور احمد بھی تو آپ خدا تعالیٰ کے الْجَلالِ وَ الْجَمَالِ وَ بِهِ تَفَرَّدَ وَ إِنَّهُ جمالی نور اور جلالی ٹور کے وارث بنے اور اس شان میں آپ أُعْفِي شَأْنَ الْمَحْبُوبِینَ وَ جَنَانَ منفرد ہیں اور آپ کو محبوبیت کی شان اور محنتوں والا دل بھی عطا الْمُحِبْينَ كَمَا هُوَ مِنْ صِفَتَى رَب کیا گیا.جیسا کہ محبوبیت اور محبیت رب العالمین کی صفات الْعَالَمِينَ.فَهُوَ خَيْرُ الْمَحْمُودِینَ وَ میں سے ہیں.پس آپ بہترین محمود اور بہترین حامد ہیں اور خَيْرُ الْحَامِدِينَ وَ أَشْرَكَهُ اللهُ في اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ان دونوں صفات میں (ظلی طور صِفَتَيْهِ وَ أَعْطَاهُ حَظًّا كَثِیرًا فمن پر) شریک کیا ہے اور اپنی ان دونوں رحمتوں سے آپ کو مِّنْ رَّحْمَتَيْهِ وَسَقَاهُ مِنْ عَيْنَيْهِ وَ حِصّہ وافر عطا فرمایا ہے اور اپنے ان دونوں چشموں سے آپ خَلَقَهُ بِيَدَيْهِ فَصَارَ كَقَارُورَةٍ فِيهَا کو سیراب کیا ہے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے آپ کو پیدا کیا رَاحٌ أَوْ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاح ہے (یعنی دست جمال و جلال سے ) پس آپ اس شیشہ کی وَكَمِثْلِ صِفَتَيْهِ أَنزَلَ عَلَيْهِ طرح ہو گئے جس میں (محبت الہی کی ) شراب ہے یا اس طاق الْفُرْقَانَ وَ جَمَّعَ فِيْهِ الْجَلال و کی مانند جس میں ایک عظیم الشان چراغ ہے.اور اللہ تعالیٰ الْجَمَالَ وَ رَكَّبَ الْبَيَانَ.وَ جَعَلَهُ نے اپنی ان دونوں صفتوں کی طرح آپ پر قرآن کریم سُلَالَةَ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ مِراةًاً نازل فرمایا اور اس میں جلال و جمال ہر دو کو جمع کیا اور اس يّرُؤْيَةِ وَجْهِهِ الْجَلِيلِ وَالْجَمِیلِ ثُمَّ کے بیان کو ان ہر دو صفات سے مرکب کیا اور اس میں أَعْطَى الْأُمَّةَ نَصِيبًا ممن كأس توریت اور انجیل ہر دو( کی تعلیم ) کا خلاصہ رکھ دیا.اور اللہ هَذَا الْكَرِيمِ.وَعَلَّمَهُمْ مِنْ أَنْفَاسِ تعالیٰ صاحب جلال و جمال کا چہرہ دیکھنے کے لئے قرآن کو هذَا الْمُتَعَلِّمِ مِنَ الْعَلِيمِ فَشرب آئینہ بنایا اور پھر اُمت کو بھی اس قرآن کریم کے پیالہ سے بَعْضُهُمْ مِنْ عَيْنٍ اسْمِ مُحَمَّدِ الَّتي حصہ عطا فرمایا.اور خدائے علیم کے اس عظیم شاگرد الْفَجَرَتْ مِنْ صِفَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ وَ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس قدسیہ سے انہیں تعلیم بَعْضُهُمُ اغْتَرَفُوا مِنْ يَنْبُوعِ اسّیم دی.پس ان میں سے بعض نے اسم محمد کے چشمہ سے پانی پیا أَحْمَدَ الَّذِي اشْتَمَلَ عَلَى الْحَقِيقَةِ | جو چشمه که صفت رحمانیت سے پھوٹا ہے اور بعض نے اسم احمد

Page 88

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة الرَّحِيمِيَّةِ وَكَانَ قَدَرًا مُقَدِّرًا مِّن کے چشمہ سے پیا جو حقیقت رحیمیت پر پر مشتمل ہے.اور الْإِبْتِدَاءِ وَ وَعْدًا مَّوْقُوتًا جَارِيًّا عَلى ابتدا سے یہی الہی تقدیر اور مقرر وعدہ تھا.جو انبیاء کی أَلْسُنِ الْأَنْبِيَاءِ.إِنَّ اسْمَ أَحْمد لا تتجلى زبانوں پر جاری تھا کہ صفت احمد کی کامل تجلی اس کے يتجلى تام في أَحَدٍ مِنَ الْوَارِثِينَ إِلا في وارثوں میں سے مسیح موعود کے سوا کسی پر نہ ہوگی جسے اللہ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ الَّذِي يَأْتي الله به تعالى ( اس دنیا میں ) جزا سزا کا دن طلوع ہونے اور مومنوں بِهِ عِنْدَ طُلُوعِ يَوْمِ الدِّينِ وَحَشر کے جمع کئے جانے کے وقت مبعوث فرمائے گا.اس دن الْمُؤْمِنِينَ وَيَرَى اللهُ الْمُسْلِمِينَ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کمزور اور اسلام کو اس بچے کی طرح كَالضُّعَفَاءِ وَالْإِسْلَام كَصَبِي نُبِ پائے گا جسے جنگل میں پھینک دیا گیا ہو.تب ان کے لئے بِالْعَرَاءِ.فَيَفْعَلُ لَهُمْ أَفَعَالا تین اپنے ہاں سے بہت سے کام بروئے کار لائے گا اور ان کی لَّدُنْهُ وَيَنْزِلُ لَهُمْ مِنَ السَّمَاءِ فَهُنَاكَ خاطر خود آسمان سے اتر آئے گا.اس وقت زمین پر بھی تَكُونُ لَهُ السَّلْطَنَةُ فِي الْأَرْضِ كَمَا هِی ویسے ہی اس کی (روحانی) بادشاہت قائم ہو جائے گی جیسا في الْأَفْلَاكِ وَعَهْلِكَ الْأَبَاطِيْلُ مِن کہ آسمانوں پر ہے (لوگوں کی گردنیں اڑائے بغیر تمام غَيْرِ ضَرْبِ الْأَعْتَاقِ وَ تَنقطع باطل مٹ جائیں گے اور (کفر کے) سب ذرائع کٹ الْأَسْبَابُ كُلُهَا وَ تُرْجَعُ الْأُمُورُ إِلى جائیں گے.اور تمام امور بادشاہوں کے بادشاہ (خدا مَالِكِ الْأَمْلاكِ وَعْدٌ مِّنَ اللهِ حَق تعالیٰ کی طرف لوٹائے جائیں گے.یہ اللہ کا سچا وعدہ اسی كَمِثْلِ وَعْدٍ تَمَّ في آخِرِ زَمَنِ بینی وعدہ کی مانند ہے جو بنی اسرائیل کے آخری زمانہ میں پورا إِسْرَائِيلَ إِذْ بُعِكَ فِيْهِمْ عِيسَی بْنُ ہوا جب ان میں حضرت عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے مَرْيَمَ فَأَشَاعَ الدِّيْنَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَقْتُلَ اور آپ نے خدا تعالیٰ کے نافرمانوں کو قتل کئے بغیر دین مَنْ عَصَى الرَّبَّ الْجَلِيْلَ.وَكَانَ في قَدَر کی اشاعت کی.عالم الغیب اور عالی مرتبہ خداوند کی تقدیر الله الْعَلِي الْعَلِيمِ.أَنْ تَجْعَلَ آخِرَ هَذِهِ میں یہی تھا کہ وہ اس امت محمدیہ کے سلسلہ کے آخری حصہ کو السّلْسِلَةِ كَاخِرِ خُلَفَاءِ الْكَلِيْم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلفاء کے آخری حصہ کی طرح فَلِأَجْلِ ذَالِكَ جَعَلَ خَاتِمَةَ أَمْرِهَا بنائے اس لئے اس (انت) کے انجام کو انسانی مددگاروں یہاں زمانہ مسیح موعود کو یوم حشر قرار دیا گیا ہے.(مترجم)

Page 89

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۶ سورة الفاتحة وو مُسْتَغْنِيَةً مِّنْ نَصْرِ النَّاصِرِينَ کی مدد سے مستغنی رکھا اور اُسے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ “ وَمَظْهَرًا لِحَقِيقَةِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ كَمَا کی حقیقت کے اظہار کا ذریعہ بنا دیا.جیسا کہ آئندہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی تفسیر آ رہی ہے.يَأْتِي تَفْسِيرُهُ بَعْدَ حِينٍ.وَمِن تَتِمَّةِ هَذَا الْكَلَامِ أَن نَبِيَّنا اس کلام کا تتمہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے نبی خیر البشر خَيْرَ الْأَنَامِ لَمَّا كَانَ خَاتَمَ الْأَنْبِيَاءِ وَ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء برگزیدوں کے برگزیدہ اور أَصْقَى الْأَصْفِيَاءِ وَ أَحَبَّ النَّاسِ إلى الله تعالی کی جناب میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب حَضْرَةِ الكِبْرِيَاءِ أَرَادَ اللهُ سُبْحَانَهُ أَن تجمع ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ فلی طور پر آپ فِيْهِ صِفَتَيْهِ الْعَظِيمَتَيْنِ عَلَى الطَّرِيقَةِ میں اپنی یہ دونوں بڑی صفات جمع کر دے.پس آپ کو القِليَّةِ.فَوَهَبَ لَهُ استمَ مُحَمَّد و احمد محمد اور احمد کے نام عطا کئے تا یہ دونوں نام صفت رحمانیت لِيَكُونَا كَالظَّلَّيْنِ لِلرَّحْمَانِيَّةِ وَ الرَّحِيمِيَّةِ اور صفت رحیمیت کے لئے بمنزلہ ظل کے ہوں.اسی لئے وَلِذَالِكَ أَشَارَ في قَوْلِهِ.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اس نے اپنے قول اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ايَّاكَ نَسْتَعِينُ إلى أَنَّ الْعَابِدَ الْعَامِل اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ کامل عبادت گزار کو يُعطى لَهُ صِفَاتُ رَبِّ الْعَالَمِينَ بَعْدَ أَن رب العالمین کی صفات عطا کی جاتی ہیں جبکہ وہ فنافی اللہ تَكُونَ مِنَ الْعَابِدِينَ الْقَانِينَ وَ قَدْ عابدوں کے مقام تک پہنچ جائے.اور آپ کو معلوم ہے عَلِمْتَ أَنَّ كُلَّ كَمَالٍ مِّن كَمَالَاتِ کہ اخلاق الہیہ کا ہر کمال اللہ تعالیٰ کے رحمان و رحیم الْأَخْلَاقِ الإلهية مُنْحَصِرُ فی گویم ہونے پر منحصر ہے.اس لئے اللہ تعالی نے ان دونوں رحمان و رحيما وَلِذَالِكَ خَضَهُما الله صفات کو بسم اللہ کے ساتھ مخصوص کر دیا.اور آپ کو یہ بھی بِالْبَسْمَلَةِ.وَعَلِمْتَ أَنَّ اسْمَ مُحَمَّدٍ وَ أَحمد معلوم ہو چکا ہے کہ محمد اور احمد نام " الرحمان الرحیم " کے قَدْ أُقِيمَا مَقَامَ الرَّحْمنِ وَالرَّحِيمِ وَ مظہر ہیں اور ہر کمال جو ان دونوں صفات الہیہ میں مخفی أُوْدِعَهُمَا كُلُّ كَمَالٍ كَانَ فَخَفِيًّا فِي هَاتَيْنِ تھا وہ علیم و حکیم خدا کی طرف سے ( محمد اور احمد کے ) دونوں الصَّفَتَيْنِ مِنَ اللهِ الْعَلِيْمِ الْحَکیم.فَلا ناموں میں ودیعت کر دیا گیا ہے پس بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے شَكَ أَنَّ اللهَ جَعَلَ هَذَيْنِ الإِسْمَيْنِ ظِلَّيْن ان دونوں ناموں (محمد اور احمد ) کو اپنی دونوں صفات لِصِفَتَيْهِ وَمَظْهَرَينِ لِسِيرَتَيْهِ لِيُرِى کے ظلل اور اپنی دونوں سیرتوں کے مظہر ٹھہرایا حَقِيْقَةَ الرَّحْمَانِيَّةِ وَ الرَّحِيمِيَّةِ في مراة ہے تاکہ رحمانیت اور رحیمیت کی حقیقت کو محمدیت اور

Page 90

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۷ سورة الفاتحة الْمُحَمَّدِيَّةِ وَالْأَحْمَدِيَّةِ.ثُمَّ لَمَّا كَانَ احمدیت کے آئینہ میں دکھائے.پھر جبکہ آنحضرت صلی كُمَّلُ أُمَّتِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ أَجْزَائِهِ الله علیہ وسلم کی امت کے کامل افراد جو آنحضرت کی الرُّوحَانِيَّةِ وَ كَالْجَوَارِحِ لِلْحَقِيقَةِ روحانیت کے اجزاء اور حقیقت نبویہ کے اعضاء کی طرح النّبَوِيَّةِ.أَرَادَ اللهُ لِإِبْقَاءِ أَثَارِ هَذَا النَّبِي ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اس نبی معصوم صلی اللہ الْمَعْصُومِ أَن يُوَزِقَهُمْ هَذَيْنِ الْإِسْمَينِ علیہ وسلم کے آثار کو باقی رکھنے کے لئے انہیں (امت کے كَمَا جَعَلَهُمْ وَرَثَاءَ الْعُلُومِ فَأَدْخَلَ کامل افراد کو بھی اسی طرح ان دونوں ناموں کا وارث الصَّحَابَةَ تَحْتَ ظِلِ اسمِ مُحَمَّدٍ الَّذِي هُوَ بنائے جیسے اس نے انہیں علوم نبویہ کا وارث بنایا ہے.پس مَظْهَرُ الْجَلَالِ.وَأَدْخَلَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ اُس نے صحابہ کو اسم محمد کے ظلت کی ذیل میں داخل کر دیا جو تَحْتَ اسْمِ أَحْمَدَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ الْجَمَالِ.اسم کے جلال کا مظہر ہے اور مسیح موعود کو اسم احمد کے ذیل وَمَا وَجَدَ هولاء هذهِ الدَّوْلَةِ إِلَّا میں داخل کر دیا جو جمال کا مظہر ہے.اور ان سب نے اس بِالظَّليَّةِ فَإِذَن ما ثَمَّ شَرِيكَ عَلَى دولت کو محض ظلیت کے طور پر پایا ہے.پس حقیقت کی رُو الْحَقِيقَةِ.وَكَانَ غَرَضُ الله مِن تَقسیم سے اس مقام پر خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور ان دو هذَيْنِ الْإِسْمَيْنِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْأُمَّةِ ناموں کی تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہی تھی کہ وہ اُمت کو وَيَجْعَلَهُمْ فَرِيقَيْنِ فَجَعَلَ فَرِيقًا مِنْهُمْ تقسیم کرے اور اس کے دو گروہ کر دے.پس اس نے ان كَمِثْلِ مُوسى مَظْهَرِ الْجَلَالِ وَهُمْ صَحَابَةُ میں سے ایک گروہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام مظہر جلال کی مانند النَّبِيِّ الَّذِينَ تَصَلَّوا أَنْفُسَهُمْ لِلْقِتَالِ وَ بنایا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جنہوں جَعَلَ فَرِيقًا مِنْهُمْ كَمِثْلِ عِیسَی مَظهَرِ نے جہاد کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا اور ایک گروہ کو الْجَمَالِ وَ جَعَلَ قُلُوبَهُمْ لَيْنَةً وَأَوْدَعَ حضرت عیسی علیہ السلام مظہر جمال کی مانند بنایا اور ان کو دل السّلم صُدُورَهُمْ وَأَقَامَهُمْ عَلى أَحْسَن کا حلیم بنایا.ان کے سینوں میں مسلح جوئی ودیعت کی اور ان کو الْخِصَالِ وَ هُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ وَ اعلیٰ اخلاق پر قائم کیا اور امت کا یہ گروہ مسیح موعود اور اس کے الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ مِنَ النِّسَاءِ وَ الرِّجَالِ متعین ہیں خواہ مرد ہوں یا عورتیں.پس جو کچھ حضرت موسیٰ فَتَمَّ مَا قَالَ مُوسَى وَمَا فَاةَ بِكَلَام نے فرمایا تھا وہ بھی اور جو حضرت عیسی (علیہما السلام) نے عِيسَى وَتَمَّ وَعْدُ الرَّبِّ الْفَعَالِ فرمایا تھا وہ بھی پورا ہوا اور اس طرح خدائے قادر کا وعدہ

Page 91

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة الفاتحة فَإِنَّ مُوسَى أَخْبَرَ عَنْ صَحْبِ كَانُوا بھی پورا ہو گیا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اشدّآء مَظهَرَ اسْمِ مُحَمَّدٍ نَّبِيْنَا الْمُخْتَارِ عَلَى الْكَفَّار کہ کر ان صحابہ کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی جو وَصُوَرٌ جَلالِ اللهِ الْقَهَّارِ بِقَوْلِهِ ہمارے نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم محمد کے مظہر اور وو 66 أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ * وَإِنَّ عِیسٰی خدائے قہار کے جلال کا انعکاس تھے.اور حضرت عیسیٰ علیہ أَخْبَرَ عَنْ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ " * * وَعَن السلام نے صحابہ کے ایک دوسرے گروہ اور ان ابرار کے امام اور إمَامِ تِلْكَ الأَبْرَارٍ أَغْنِى الْمَسِيحَ کے متعلق اپنے قول گزرع الخرج شطہ میں اس روئیدگی کی الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ أَحْمَدَ الرَّاحِيمِ السَّارِ پیشگوئی فرمائی تھی جو کسانوں کو خوش کرتی ہے.یعنی اس مسیح وَمَنْبَعُ عَمَالِ اللهِ الرَّحِيْمِ الْغَفَّارِ کے متعلق جو رحم کرنے والے اور پردہ پوش ( اسم ) احمد کا مظہر اور وو 66 بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَعْتَهُ الَّذي هُوَ رحیم و غفار خدا کے جمال کا منبع ہے.پس موسیٰ و عیسی ہر دو نے مُعْجِبُ الْكُفَّارِ وَكُلٌّ مِّنْهُمَا أَخْبَرَ پیشگوئی میں ایسی صفات کی خبر دی تھی جو ان کی اپنی صفات يصِفَاتٍ تُنَاسِبُ صِفَاتَهُ الذَّاتِيَّة ذاتیہ سے مناسبت رکھتی ہیں.اور ہر ایک نے اس جماعت کو وَاخْتَارَ جَمَاعَةٌ تُشَابِهُ أَخْلاقُهُمْ ( پیشگوئی کے لئے چنا جن کے اخلاق اس کے اپنے پسندیدہ أَخْلَاقَهُ الْمَرْضِيَّةَ فَأَشَارَ مُوسى بِقَوْلِهِ اخلاق کے مشابہ تھے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اشداء على الكفار" إلى صَحَابَة الفاظ " أَشِدَّاءُ عَلَى الكفار میں ان صحابہ کی طرف اشارہ أَدْرَكُوا صُحْبَةً نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَأَرَوا فرمایا جنہوں نے ہمارے نبی اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شِدَّةً وَغِلْظَةً فِي الْمِضْمَارِ وَأَظْهَرُوا کی صحبت پائی اور انہوں نے جنگ کے میدانوں میں سختی جَلال الله بِالسَّيْفِ الْبَقَارِ وَصَارُوا و مضبوطی کا مظاہرہ کیا.اللہ تعالیٰ کے جلال کو سیف قاطع کے ظِلَّ اسْمِ مُحَمَّدٍ رَّسُولِ اللهِ الْقَهَّارِ ذریعہ ظاہر کیا اور خدائے قہار کے رسول کے اسم محمد کے ظل عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَأَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ بن گئے.آپ پر اللہ تعالیٰ ، اہل آسمان اور اہل زمین میں الْأَرْضِ مِنَ الْأَبْرَارِ وَالْأَخْيَار.وأشار سے راستبازوں اور نیکو کاروں کا صلوۃ اور سلام ہو.اور وَأَشَارَ عِيسَى بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطة" إلى حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے قول كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْهُ قَوْمٍ ” أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَ إِمَامِهِمِ سے آخَرِيْنَ مِنْهُمْ کی قوم اور ان کے امام مسیح کی طرف الفتح:٣٠ الجمعه : ۴

Page 92

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة الفاتحة الْمَسِيحِ بَلْ ذَكَرَ اسْمَهُ أَحْمَدَ بِالتَّصْرِيحِ اشارہ کیا بلکہ اس کے احمد نام کا صراحت سے ذکر کر وَأَشَارَ بِهذَا الْمَقَلِ الَّذِي جَاءَ فِي الْقُرْآنِ دیا.اور اس مثال سے جو قرآن کریم میں آئی ہے آپ الْمَجِيدِ إِلى أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ لَا يُظْهِرُ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسیح موعود کسی بہت إِلَّا كتبات لين لا كالشيء الغَلِيظ سخت چیز کی طرح نہیں بلکہ صرف نرم و نازک سبزہ کی الشَّدِيدِ ثُمَّ مِنْ عَجَائِبِ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ طرح ظاہر ہوگا.پھر یہ بھی قرآن کریم کے عجائبات میں أَنه ذَكَرَ اسْمَ أَحْمَد حِكَايَنَا عَنْ عِیسیٰ سے ہے کہ اس نے احمد نام کا ذکر حضرت عیسی علیہ السلام وَذَكَرَ اسْمَ مُحَمَّدٍ حِكَايَا عَنْ مُوسی سے نقل کیا اور محمد نام کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لِيَعْلَمَ الْقَارِئُ أَنَّ النَّبِيِّ الْجَلالِ أَغنى نقل کیا تا کہ پڑھنے والے کو معلوم ہو جائے کہ جلالی نبی مُوسَى اخْتَارَ اسْمَا تُشَابِهُ شَأْنَهُ أَغْنِى یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہ نام چنا جو ان کی اپنی مُحَمَّد الذي هُوَ اسْمُ الْجَلَالِ وَكَذَالِكَ شان کے مطابق ہے یعنی اسم محمد جو جلالی نام ہے اور اسی الحتار عِيسَى اسْمَ أَحْمَدَ الَّذى هُوَ اسْمُ طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے احمد نام بچنا جو جمالی الْجَمَالِ مَا كَانَ نَبِيًّا جَمَالِيًّا وَ مَا أَعْطى له نام ہے کیونکہ وہ خود جمالی نبی تھے اور انہیں شدت اور شَيْءٍ مِّنَ الْقَهْرِ وَالْقِتَالِ جنگ سے کوئی حصہ نہیں دیا گیا تھا.فَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا أَشَارَ إلى خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نبی مَثِيْلِهِ التَّامِ فَاحْفَظ هذِهِ النُّكْتَةَ فَإِنَّهَا نے اپنے اپنے کامل مثیل کی طرف اشارہ کیا پس (اے تُنْجِيكَ مِنَ الْأَوْهَامِ وَ تَكْشِفُ عَنْ مخاطب ) اس نکتہ کو یا درکھ کیونکہ یہ تجھے شکوک وشبہات سَاقِي الْجَلَالِ وَالْجَمَالِ وَتُرِی الْحَقِيقَة سے نجات دے گا اور جلال اور جمال کے دونوں پہلوؤں بَعْدَ رَفْعِ الْفَدَامِ وَ إِذَا قبلت هذا کو آشکار کرے گا اور پردہ اٹھا کر حقیقت کو واضح کر دے فَدَخَلْتَ في حِفْظ الله وكلاه من كل گا اور جب تو اس بیان کو قبول کر لے تو ہر وقبال (کے دَجَالٍ وَنَجَوْتَ مِنْ كُلِّ ضَلَالٍ.شر) سے خدا تعالیٰ کی حفظ وامان میں آ جائے گا اور ہر (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۸۹ تا ۱۲۸) | گمراہی سے نجات پا جائے گا.( ترجمہ از مرتب ) - سارے قرآن شریف کا خلاصہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے.اللہ تعالیٰ کی اصل صفات بھی جمالی ہیں اور اصل نام خدا بھی جمالی ہے.یہ تو کفار لوگ اپنی ہی کرتوتوں سے ایسے سامان بہم پہنچاتے ہیں کہ بعض وقت

Page 93

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة جلالی رنگ دکھا نا پڑتا ہے.اس وقت چونکہ اس کی ضرورت نہیں اس واسطے ہم جمالی رنگ میں آئے ہیں.احکم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخه ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) کتاب دساتیر مجوس میں یہ فقرات ہیں ” بنام ایزدبخشا ئندہ بخشائش گرمہربان دادگر “ جو بظاہر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ کے مشابہ ہیں لیکن جو لفظ رحمان اور رحیم میں پر حکمت فرق ہے وہ فرق ان لفظوں میں موجود نہیں اور جو اللہ کا اسم وسیع معنی رکھتا ہے وہ ایزد کے لفظ میں ہرگز پائے نہیں جاتے.لہذا یہ ترکیب پارسیوں کی بسم اللہ سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی غالباً یہ الفاظ پیچھے سے بطور سرقہ لکھے گئے ہیں.بہر حال یہ نقص دلالت کرتا ہے کہ یہ انسان کا قول ہے.( من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۰،۱۴۹ حاشیه در حاشیه ) اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مجمع ہے....کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں.لیکن جس کو وہ اللہ یا دہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۸) قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اُس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اُس کی ذات میں نہ ہو.قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جائیں.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۷) اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے.اللہ کا نام خدا تعالی کے لئے اسم اعظم ہے.اسماء اسما (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۶۸) (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۶۸) اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے.(احکم نمبر ۲ جلد ۷ مؤرخہ ۱۷ارجنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۷ ) قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منڈہ اور تمام صفات کا ملہ سے موصوف ہے.کیونکہ اللہ کالفظ اسی ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حسن کے یا بلحاظ احسان کے.پس وہ دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں.دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالی کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں اور یہی لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور اُن کی صفات کے مسئلہ کی پوری تردید کرتا ہے.(الحکم نمبر ۷ جلد ۷ مؤرخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲)

Page 94

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة بت پرست بھی وجودیوں کی طرح اپنے بتوں کی مظاہر ہی مانتے ہیں.قرآن شریف اس مذہب کی تردید کرتا ہے.وہ شروع ہی میں یہ کہتا ہے اَلْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اگر مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو رب العالمین نہ کہتا اب عالم تو خدا تعالیٰ میں داخل نہیں ہے کیونکہ عالم کے معنے ہیں مايُعْلَمُ بِہ اور خدا تعالیٰ کے لئے لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (الانعام : ۱۰۴).الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مؤرخه ۱۰ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۸.ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۳۰) قَد عَرَفْتَ أَنَّ اللَّهَ بِصِفَةِ الرَّحْمَنِ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالی اپنی صفت رحمانیت يُنَزِّلُ عَلَى كُلِّ عَبْدِمِّنَ الْإِنْسَانِ وَ کے نتیجہ میں ہر مخلوق پر وہ انسان ہو یا حیوان ، کافر ہو یا الْحَيَوَانِ وَالْكَافِرِ وَ اَهْلِ الْإِيْمَانِ انْوَاعِ مؤمن ہر قسم کے احسانات اور افضال ایسے عمل کے بغیر الْإِحْسَانِ وَ الْاِمْتِنَانِ بِغیر عمل نازل فرماتا ہے جو ان کو جزا دینے والے خدا کی بارگاہ میں يَجْعَلُهُمْ مُسْتَحِقِينَ في حَضْرَةِ الشَّيَانِ اذ انعامات کا مستحق بنا دے اور بلاشبہ اس طرز کا احسان لامكَ أَنَّ الْإِحْسَانَ عَلى هَذَا الْمِنْوَالِ احسان کرنے والے کو فورا محبوب بنادیتا ہے.پس ثابت يَجْعَلُ الْمُحْسِنَ مَحْبُوبًا فِي الْحَالِ فَقَبتَ أَنَّ ہوا کہ رحمانیت کے ماتحت فیض پہنچانا فیض حاصل کرنے الْإِفَاضَةَ عَلَى الطَّرِيقَةِ الرَّحْمَانِيَّةِ يُظهِرُ والوں کی نظروں میں شان محبوبیت کو نمایاں کر دیتا ہے فِي أَعْيُنِ الْمُسْتَفِيْضِيْنَ شَأْنَ الْمَحْبُوبِيَّةِ - ليکن صفت رحیمیت نے اپنے آپ کو شان محبیت کے وَأَمَّا صِفَةُ الرَّحِيمِيَّةِ فَقَدْ الْزَمَتْ نَفْسَهَا شَأْنَ الْمُحِبْيَّةِ فَإِنَّ اللهَ لا تتجلى * ساتھ لازم کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس فیضان کے ساتھ کسی عَلى أَحَدٍ بِهذَا الْقَيْضَانِ إِلَّا بَعْد أن تحبه مؤمن پر اسی وقت محلی فرماتا ہے.جب وہ اس سے محبت وَيَرْضَى بِهِ قَوْلًا وَ فِعْلًا مِنْ أَهْلِ الْإِيمَان کرنے لگے اور اس پر اپنے قول اور فعل سے اپنی (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۹۹ ۱۰۰ حاشیہ خوشنودی کا اظہار کرے.(ترجمہ از مرتب) قَالَ اللهُ تَعَالَى وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا الله تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.اے نبی ! ہم رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ * * " وَلَا يَسْتَقِيمُ هَذَا نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.آپ * * الْمَعْلى إلَّا فِي الرَّحْمَانِيَّةِ فَإِنَّ الرَّحِيمِيَّةَ كارحمة للعالمين ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی يَخْتَصُّ بِعَالَمٍ وَاحِدٍ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.درست ہوسکتا ہے.کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۸ حاشیہ) کی دنیا کے ساتھ ہی مخصوص ہے.(ترجمہ از مرتب) سہو کتابت ہے درست يتجلّی ہے (ناشر) ** (الانبیاء : ۱۰۸)

Page 95

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رحمان ۷۲ سورة الفاتحة پھر اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دُعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عمل عامل کے عطا ( پورا) کرتا ہے.مثلاً جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے قیام و بقاء کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں.پیدا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے.آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پانی، ہوا وغیرہ یہ تمام اشیاء جو اس نے انسان کے لئے بنائی ہیں یہ اس کی صفت رحمانیت ہی کے تقاضے ہیں.لیکن دوسرے مذہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کرسکتا ہے.الحکم نمبر ۱۷ جلدے مؤرخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۳) الرحمٰن ( ے بغیر کسی عمل کے خود بخو د عطاء کرنے والا.سناتن دھرم والے ان میں سے ہیں جو ایک رنگ میں مانتے ہیں کہ پر میٹر سے سب کچھ نکلا مگر ساتھ ہی کہتے ہیں کرموں کا نتیجہ ہوتا ہے.مرد بنا ہے تو کرموں کی وجہ سے عورت بنی ہے تو کرموں کے سبب.غرض گدھا، بندر، بلا جو کچھ ہوا کرموں سے.پس یہ لوگ صفت رحمانیت کے منکر ہیں.وہ خدا جس نے آدمیوں سے پہلے سورج وغیرہ پیدا کیا، سانس کے لئے ہوا پیدا کی ، نیز اس لئے کہ ایک دوسرے تک آواز پہنچے.جب یہ سب کچھ قبل از وجود پیدا کیا ہے تو پھر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے کرموں کی وجہ سے کیا ہے.یہ لوگ بھولے ہوئے اور کفر میں گرفتار ہیں.سچی بات یہی ہے کہ اللہ کا فضل ہے.کئی نعمتیں ایسی ہیں جن میں اعمال کا دخل نہیں اور کئی ایسی جن میں اعمال کا دخل ہے جیسے عابد، زاہد بندگی کرتے ہیں اور اس کا اجر ملتا ہے.البدر نمبر ا جلد۷ مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) رحمن کے معنے خدا کے کلام سے یہ ثابت ہوتے ہیں کہ جب وہ بغیر کسی عوض کے اور سوا کسی عمل کے رحمت کرتا اور اسباب مہیا کر دیتا ہے.مثلاً دیکھو خدا نے جب یہ نظام بنا رکھا ہے.سورج ہے، چاند ہے، اناج ہے، پانی ہے، ہوا ہے، ہمارے امراض کے دفعیہ کے لئے قسم قسم کی بوٹیاں ہیں.اب کوئی بتلا سکتا ہے کہ یہ اس کے کس عمل کا اجر ہیں.ہر ایک شخص جو عمیق فکر کرے.اس پر خدا کا رحمان ہونا ثابت ہوتا ہے.انسان کی زندگی و آسودگی کے لئے جو کچھ چاہئے تھا وہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مہیا کیا.جو کچھ آسمان میں ہے اور زمین میں اور پھر جو کچھ ہمارے وجود میں پایا جاتا ہے یہ سب اس کی رحمانیت کا نتیجہ ہیں.کیونکہ جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے.اس وقت جو کچھ اس کے انعام تھے وہ کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہو سکتے.تناسخ کا مسئلہ

Page 96

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۳ سورة الفاتحة یہیں سے رڈ ہو جاتا ہے.مگر میں اسے چھیڑنا نہیں چاہتا.غرض خدا کی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو کسی ترازو میں تول نہیں سکتے ضروری طور سے ماننا پڑتا ہے کہ خدا رحمان ہے.ہمارے اس ملک میں بہت قسم کے فرقے ہیں کہ جو کچھ انسان کو عطا کیا گیا وہ کسی گزشتہ کرم کا نتیجہ سمجھتے ہیں.سچ بات یہ ہے کہ جو کچھ ہے.یہ خدا کے فضل اور اس کی رحمانیت نے مہیا ( کیا ) ہے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میرے اعمال کا عوض ہے.البدر نمبر ۲۵ جلد ۷ مؤرخہ ۲۵ جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) فرمایا هو الرحمٰن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسر کرتا ہے.جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنادیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے.اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالی رحمن کہلاتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الرّحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے.اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۳) اللہ تعالیٰ کے دو نام ہیں ایک رحمن دوسرا رحیم.رحمن تو یہی ہے کہ فطرت عمدہ اور مناسب حال اہل اللہ کے عطا کرتا ہے اور رحیم یہ کہ جب یہ خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قومی سے کام لے تو اس پر نیک نتائج مترتب کر دیتا ہے.رحیمیت کے نیچے آ کر کوشش کرنا اس کا فرض ہو جاتا ہے.اس لئے فرمایا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا نَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.(العنكبوت: ٧٠) الحکم نمبر اول جلد ۷ مؤرخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۲) الرحمن وہی ہے جس کی رحمتیں بے بدلہ ہیں مثلاً انسان کا کیا عذر تھا اگر اللہ تعالیٰ اسے کتا بنادیتا تو کیا یہ کہ سکتا تھا کہ اے اللہ میر افلاں عمل نیک تھا اس کا بدلہ تونے نہیں دیا.الرحیم البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مؤرخہ ۳/ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶) اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک عمل کے بدلہ نیک نتیجہ دیتا ہے جیسا کہ نماز پڑھنے والا روزہ رکھنے والا صدقہ دینے والا دنیا میں بھی رحم پاوے گا اور آخرت میں بھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (القوية :۱۲۰) اور دوسری جگہ فرماتا ہے فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَةُ (الزلزال: ۹۰۸) یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جو کوئی ذرہ سی بھی بھلائی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے.البدر نمبر ۲۴ جلد ۲ مؤرخہ ۳ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۸۶)

Page 97

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رحیم ۷۴ سورة الفاتحة یعنی عملوں کی پاداش میں بدلا دینے والا.بعض لوگ ایسے ہیں ( خود انہی مسلمانوں میں بھی ) جو اعمال کو باطل قرار دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں نماز کیا روزہ کیا قسمت ہوئی تو بچ جائیں گے.یعنی جو کچھ ہونا ہے ہو جائے گا.ہم کیوں خواہ مخواہ تکلیف اُٹھا ئیں.یہ فرقہ بڑا بڑھا ہوا ہے.جاہل سے جاہل کا اعتقاد یہی ہے.قسمت پر چھوڑا ہوا ہے.کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی ولی بننا ہے جو یہ ریاضتیں کریں.مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا نام رحیم ہے جو صالح الاعمال ، عشق و محبت میں محو ہو جاتا ہے اس کے مدارج بلند کروں گا.جتنے اولیاء اور بڑے بڑے راست باز ہوئے ہیں ان سب نے پہلے ضرور مجاہدات کئے ہیں.جب جاکر ان پر یہ دروازہ کھلا.قرآن مجید میں ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنكبوت : ۷۰ ).جو بندہ یا بندہ.جس نے مجاہدات کئے اُسی نے پایا.پس یہ رحیم ان لوگوں کے رڈ میں ہے جو کہتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا.ہمیں عبادات کی کیا ضرورت ہے.غالباً چوروں ڈاکوؤں کا بھی یہی مذہب ہوتا ہے اور یہی خیالات وہ اندر ہی اندر رکھتے ہیں.( بدر نمبر ا جلد۷ مؤرخہ ۹ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) خدا نے اسی سورہ فاتحہ میں فرمایا کہ وہ رحیم ہے.یعنی کوششوں پر نیک نتیجہ مرتب کرتا ہے.مثلاً ایک کسان کاشتکاری کرتا ہے، آبپاشی کرتا ہے اب عادت اللہ جاری ہے وہ کسی کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ایک دانے کے عوض کئی دانے دیتا ہے.کسی پوشیدہ حکمت یا کاشت کار کی بد عملی کی وجہ سے فصل برباد ہو جائے تو یہ علیحدہ بات ہے.یہ شاذ ونا در کالمعدوم کا حکم رکھتی ہے.(بدرنمبر ۲۵ جلد ۷ مؤرخہ ۲۵/ جون ۱۹۰۸ صفحه ۳) رحمانیت کا مظہر تام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ محمد کے معنے ہیں بہت تعریف کیا گیا اور رحمان کے معنے ہیں بلا مزد، بن مانگے بلا تفریق مومن و کافر ( کو ) دینے والا.اور یہ صاف بات ہے کہ جو بن مانگے دے گا اس کی تعریف ضرور کی جاوے گی.پس محمد میں رحمانیت کی تجلی تھی اور اسم احمد میں رحیمیت کا ظہور تھا.کیونکہ رحیم کے معنے ہیں محنتوں اور کوششوں کو ضائع نہ کرنے والا اور احمد کے معنے ہیں تعریف کرنے والا.اور یہ بھی عام بات ہے کہ وہ شخص جو کسی کا عمدہ کام کرتا ہے وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اس کی محنت پر ایک بدلا دیتا ہے اور اُس کی تعریف کرتا ہے.اس لحاظ سے احمد میں رحیمیت کا ظہور ہے.پس اللہ محمد ( رحمان ) احمد ( رحیم) ہے.گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ان دو عظیم الشان صفات رحمانیت اور رحیمیت کے الحکم نمبر ۶ جلد ۵ مؤرخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۷)

Page 98

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة الفاتحة رحم دو قسم کا ہوتا ہے ایک رحمانیت دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے ہی شروع ہوا.مثلاً اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل اپنے علم قدیم سے دیکھ کر اس قسم کا زمین آسمان اور ارضی اور سماوی اشیاء ایسی پیدا کی ہیں جو سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں.اور ان سب اشیاء سے انسان ہی عام طور پر فائدہ اُٹھاتا ہے.بھیڑ، بکری اور دیگر حیوانات جبکہ بجائے خود انسان کے لئے مفید شے ہیں تو وہ کیا فائدہ اُٹھاتے ہیں؟ دیکھو جسمانی امور میں انسان کیسی کیسی لطیف اور اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے.اعلیٰ درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے.ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے.جسمانی طور پر جو حظوظ اور لذات انسان کو حاصل ہیں گو حیوان بھی اس میں شریک ہیں مگر انسان کو وہ : بدرجہ اعلیٰ حاصل ہیں اور روحانی لذات میں جانور شریک بھی نہیں ہیں.پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں.ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طور پر تقدمہ کی صورت میں عناصر وغیرہ اشیاء پیدا کیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں.اور یہ ہمارے وجود، خواہش اور دُعا سے پہلے ہیں جو رحمانیت کے تقاضے سے پیدا ہوئے.اور دوسری رحمت رحیمیت کی ہے.یعنی جب ہم دُعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے.غور کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ قانونِ قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دُعا کا تعلق ہے.بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں ہماری دُعا کا جو تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اُسے بھی بیان کروں.ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاتا ہے اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے بچہ دُعا کا نام بھی نہیں جانتا.لیکن اُس کی چیچنیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں ؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں.مگر بچہ کی چلا ہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچ لاتی ہے.تو کیا ہماری چینیں جب اللہ تعالیٰ کی حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں ؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے.مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دُعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے.مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن (۶) کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے.مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے.بچہ

Page 99

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۶ سورة الفاتحة کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دُعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے.رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں.پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اُسے مل نہیں سکتا.رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے جو ایسا نہیں کرتا وہ کا فرنعمت ہے ايَّاكَ نَعْبُدُ کے یہی معنے ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں.ان ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تو نے عطا کئے ہیں.دیکھو! یہ زبان جو عروق اور اعصاب سے خلق کی ہے.اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے.ایسی زبان دُعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے.اگر ہم دُعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو یہ ہماری تو شور بختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو ایک دفعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بیٹھتی ہے.یہاں تک کہ انسان گونگا ہو جاتا ہے.پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے.ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آجاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے.ایسا ہی قلب کا حال ہے.وہ جو خشوع و خضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہے.اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بیکار ہو جاتی ہیں.مجنونوں کو دیکھو کہ اُن کے قومی کیسے بیکار ہو جاتے ہیں.تو پس کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خداداد نعمتوں کی قدر کریں؟ اگر ان قومی کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کئے ہیں بیکار چھوڑ دیں تو لاریب ہم کا فرنعمت ہیں.پس یا درکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دُعا کرتے ہیں تو یہ دُعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ ہی سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لئے مفید اور کارآمد بنا سکیں گے؟ رحمت الہی نے دو قسم سے اپنی ابتدائی تقسیم کے لحاظ سے بنی آدم پر ظہور و بروز فرمایا ہے.اول وہ رحمت جو بغیر وجود عمل کسی عامل کے بندوں کے ساتھ شامل ہوئی جیسا کہ زمین اور آسمان اور شمس اور قمر اور ستارے اور پانی اور ہوا اور آگ اور وہ تمام نعمتیں جن پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے کیونکہ بلاشبہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے رحمت ہیں جو بغیر کسی استحقاق کے محض فضل اور احسان کے طور سے اس کو عطا ہوئے ہیں.اور یہ ایسا فیض خاص ہے جو انسان کے سوال کو بھی اس میں دخل نہیں بلکہ اس کے وجود سے بھی پہلے ہے اور یہ چیزیں ایسی بزرگ رحمت ہے جو انسان کی زندگی انہیں پر موقوف ہے.اور پھر باوصف اس کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں انسان کے کسی نیک عمل سے پیدا نہیں ہو ئیں بلکہ انسانی گناہ کا علم بھی جو خدا تعالیٰ کو پہلے سے تھا ان رحمتوں کے ظہور سے مانع نہیں ہوا اور کوئی اواگون کا قائل یا تناسخ کا ماننے والا گو کیسا ہی اپنے رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۵۰،۱۴۹)

Page 100

سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تعصب اور جہالت میں غرق ہو مگر یہ بات تو وہ منہ پر نہیں لا سکتا کہ یہ انسان ہی کے نیک کاموں کا پھل اور نتیجہ ہے کہ اس کے آرام کے لئے زمین پیدا کی گئی یا اس کی تاریکی دور کرنے کے لئے آفتاب اور ماہتاب بنایا گیا یا اس کے کسی نیک عمل کی جزا میں پانی اور اناج پیدا کیا گیا یا اس کے کسی زہد اور تقویٰ کے پاداش میں سانس لینے کے لئے ہوا بنائی گئی کیونکہ انسان کے وجود اور زندگی سے بھی پہلے یہ چیزیں موجود ہو چکی ہیں اور جب تک ان چیزوں کا وجود پہلے فرض نہ کر لیں تب تک انسان کے وجود کا خیال بھی ایک خیال محال ہے پھر کیونکر ممکن ہے کہ یہ چیزیں جن کی طرف انسان اپنے وجود اور حیات اور بقا کے لئے محتاج تھا وہ انسان کے بعد ظہور میں آئے ہوں پھر خود انسانی وجود جس احسن طور کے ساتھ ابتدا سے تیار کیا گیا ہے یہ تمام وہ باتیں ہیں جو انسان کی تکمیل سے پہلے ہیں اور یہی ایک خاص رحمت ہے جس میں انسان کے عمل اور عبادت اور مجاہدہ کو کچھ بھی دخل نہیں.دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتیب ہوتی ہے کہ جب وہ تضرع سے دُعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخم ریزی کرتا ہے تو رحمت الہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے رحمت الہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جو الہی سنوں میں داخل ہیں کوئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الہی ہمارے شامل حال ہو جاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سر سبز کر دیتی ہے یہ دونوں رحمتیں اس قسم کی ہیں کہ ہم ان کے بغیر جی ہی نہیں سکتے.کیا ان کے وجود میں کسی کو کلام ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اجلی بدیہیات میں سے ہیں جن کے ساتھ ہماری زندگی کا تمام نظام چل رہا ہے.پس جبکہ ثابت ہو گیا کہ ہماری تربیت اور تکمیل کے لئے دور حمتوں کے دو چشمے قادر کریم نے جاری کر رکھے ہیں اور وہ اس کی دو صفتیں ہیں جو ہمارے درخت وجود کی آبپاشی کے لئے دورنگوں میں ظاہر ہوئے ہیں تو اب دیکھنا چاہئے کہ وہ دو چشمے زبان عربی میں منعکس ہو کر کس کس نام سے پکارے گئے ہیں.پس واضح ہو کہ پہلے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان عربی میں خدا تعالیٰ کو رحمن کہتے ہیں اور دوسرے قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان موصوف میں اس کا نام رحیم ہے اس خوبی کے دکھلانے کے لئے ہم عربی خطبہ کے پہلی ہی سطر میں رحمان کا لفظ لائے ہیں.اب اس نمونہ سے دیکھ لو کہ چونکہ یہ رحم کی صفت اپنی ابتدائے تقسیم کے لحاظ سے الہی قانونِ قدرت کے دو قسم پر مشتمل تھی.لہذا اس کے لئے زبان عربی میں

Page 101

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ZA سورة الفاتحة دومفر دلفظ موجود ہیں اور یہ قاعدہ طالب حق کے لئے نہایت مفید ہوگا کہ ہمیشہ عربی کے باریک فرقوں کے پہچاننے کے لئے صفات اور افعال الہیہ کو جو صحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں معیار قرار دیا جائے اور ان کے اقسام کو جو قانونِ قدرت سے ظاہر ہوں عربی کے مفردات میں ڈھونڈا جائے اور جہاں کہیں عربی کے ایسے مترادف لفظوں کا باہمی فرق ظاہر کرنا مقصود ہو جو صفات یا افعال الہی کے متعلق ہیں تو صفات یا افعال الہی کی اس تقسیم کی طرف متوجہ ہوں جو نظام قانونِ قدرت دکھلا رہا ہے کیونکہ عربی کی اصل غرض الہیات کی خدمت ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی اصل غرض معرفت باری تعالی ہے اور ہر یک چیز جس غرض کے لئے پیدا کی گئی ہے اسی غرض کو سامنے رکھ کر اس کے عقدے کھل سکتے ہیں اور اس کے جو ہر معلوم ہو سکتے ہیں.(منن الرحمان.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۴۷ تا ۱۴۹ حاشیه ) رحم دو قسم کا ہوتا ہے اول رحمانیت دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے شروع ہوا مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہمارے وجود سے پیشتر ہی زمین و آسمان چاند و سورج اور دیگر اشیاء ارضی و سماوی پیدا کی ہیں جو سب کی سب ہمارے کام آنے والی ہیں اور کام آتی ہیں.دوسرے حیوانات بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر وہ جب کہ بجائے خود انسان ہی کے لئے مفید ہیں اور انسان ہی کے کام آتے ہیں تو گویا مجموعی طور پر انسان ہی ان سب سے فائدہ اُٹھانے والا ٹھہرا.دیکھو جسمانی امور میں کیسی اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے اعلیٰ درجہ کا گوشت انسان کے لئے ہے ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے.جسمانی طور پر تو کسی حد تک حیوان بھی شریک ہیں مگر روحانی لذت میں جانور شریک نہیں ہیں.پس یہ دو قسم کی رحمتیں ہیں ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے ہی عطا ہوئی ہیں اور دوسری وہ جو رحیمیت کی شان کے نمونے ہیں اور وہ دُعا کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور ان میں ایک فعل کی ضرورت ہوتی ہے.الحکم نمبر ۳۲ جلد ۵ مؤرخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۱ ء صفحه ۲، ۳) پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اُن پر ثمرات اور نتائج مترتب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ ست اور نکما ہو جاوے گا.یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی اور نیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ اس وقت کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا، تضرع اور اعمال صالح کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں

Page 102

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة الفاتحة اور تضیع اعمال سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے.رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دُعا، تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے.رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دُعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دُعا کو چاہتی ہے اور یہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اُٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے.یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رڈ کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذہب اباحت کی طرف مائل ہیں اور وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں.آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کب قائل ہوسکتا ہے؟ سید احمد خاں مرحوم نے بھی دُعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پر وہ فیض جو دُعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے اس سے محروم رکھا ہے.الحکم نمبر ۱۹ جلد۷ مؤرخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱) جب ہم خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ اپنے بندوں کے لئے مہیا کیا ہے یا کرتا ہے وہ دو قسم کی بخشش ہے.ایک تو اس کے وہ انعام اکرام ہیں جو انسانوں کے وجود سے بھی پہلے ہیں.اور ایک ذرہ انسانوں کے عمل کا اُن میں دخل نہیں جیسا کہ اُس نے انسانوں کے آرام کے لئے سورج، چاند، ستارے، زمین ، پانی ، ہوا، آگ وغیرہ چیزیں پیدا کی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ان چیزوں کو انسانوں کے وجود اور ان کے عملوں پر تقدم ہے اور انسان کا وجود ان کے وجود کے بعد ہے.یہ خدا تعالیٰ کی وہ رحمت کی قسم ہے جس کو قرآنی اصطلاح کی رُو سے رحمانیت کہتے ہیں یعنی ایسی جود وعطا جو بندہ کے اعمال کی پاداش میں نہیں بلکہ محض فضل کی راہ سے ہے.دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں رحیمیت کہتے ہیں.یعنی وہ انعام اکرام جو بنام نہاد پاداش اعمال حسنہ انسان کو عطا ہوتا ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸،۲۷) رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا.مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے.خدا کا رتم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے.(احکام جلد ۵ نمبر ۳۲ مؤرخه ۳۱ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا نام جو بغیر کسی عوض یا انسانی عمل محنت اور کوشش کے انسان کے شامل حال ہوتی ہے رحمانیت ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے نظام دنیا بنا دیا، سورج پیدا کیا، چاند بنایا، ستارے پیدا کئے ، ہوا، پانی،

Page 103

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة الفاتحة اناج بنائے.ہماری طرح طرح کی امراض کے واسطے شفا بخش دوائیں پیدا کیں غرض اسی طرح کے ہزاروں ہزار انعامات ایسے ہیں کہ بغیر ہمارے کسی عمل یا محنت و کوشش کے اُس نے محض اپنے فضل سے پیدا کر دیئے ہیں.اگر انسان ایک عمیق نظر سے دیکھے تو لاکھوں انعامات ایسے پائے گا.اور اس کو کوئی وجہ انکار کی نہ ملے گی اور ماننا ہی پڑے گا کہ وہ انعامات اور سامان راحت جو ہمارے وجود سے بھی پہلے کے ہیں.بھلا وہ ہمارے کس عمل کا نتیجہ ہیں دیکھو یہ زمین اور یہ آسمان اور ان میں تمام چیزیں اور خود ہماری بناوٹ اور وہ حالت کہ جب ہم ماؤں کے پیٹ میں تھے اور اس وقت کے قومی یہ سب ہمارے کس عمل کا نتیجہ ہیں.میں ان لوگوں کا یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا جو تناسخ کے قائل ہیں مگر ہاں اتنا بیان کئے بغیر رہ بھی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر اتنے لا تعداد اور انعام اور فضل ہیں کہ ان کو کسی تراز و میں وزن نہیں کر سکتے.بھلا کوئی بتا تو دے کہ یہ انعامات کہ چاند بنایا، سورج بنایا، زمین بنائی اور ہماری تمام ضروریات ہماری پیدائش سے بھی پہلے مہیا کر دیں یہ کل انعامات کس عمل کے ساتھ وزن کریں گے؟ پس ضروری طور سے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا رحمن ہے اور اس کے لاکھوں فضل ایسے بھی ہیں کہ جو محض اس کی رحمانیت کی وجہ سے ہمارے شامل حال ہیں اور اس کے وہ عطا یا ہمارے کسی گذشتہ عمل کا نتیجہ نہیں ہیں اور کہ جولوگ ان امور کو اپنے کسی گذشتہ عمل کا نتیجہ خیال کرتے ہیں وہ محض کو نہ اندیشی اور جہالت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں خدا کا فضل اور رحمانیت ہماری روحانی جسمانی تکمیل کی غرض سے ہے اور کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ میرے اعمال کا نتیجہ ہیں.الرَّحِیم.انسان کی سچی محنت اور کوشش کا بدلہ دیتا ہے ایک کسان سچی محنت اور کوشش کرتا ہے.اس کے مقابل میں یہ عادت اللہ ہے کہ وہ اس کی محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا اور بابرگ و بار کرتا ہے شاذ و نادر حکم عدم کا رکھتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مؤرخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ ء صفحه ۲) خدا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کرتی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کوشش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں مانتے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کی صفت الرحیم کا بیان ہے یعنی محنتوں کوششوں اور اعمال پر ثمرات حسنہ مترتب کرنے والا.یہ صفت اس فرقہ کو ر ڈ کرتی ہے جو اعمال کو بالکل لغو خیال کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا تو روزے کیا اگر غفور الرحیم نے اپنا فضل کیا تو بہشت میں جائیں گے نہیں تو جہنم میں.اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتاں کر

Page 104

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ سورة الفاتحة 199 کے ولی تو ہم نے کچھ تھوڑاہی بنا.کچھ کیتا کیتا نہ کیتا نہ سہی.غرض الرّحِیم کہہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا رڈ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے.وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظور نظر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے جیسے فرمایا وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنكبوت ۷۰) یعنی جو لوگ ہماری خاطر مجاہدات کرتے ہیں آخر ہم ان کو اپنا راستہ دکھا دیتے ہیں.جتنے اولیا، انبیاء اور بزرگ لوگ گزرے ہیں.انہوں نے خدا کی راہ (میں) جب بڑے بڑے مجاہدات کئے تو آخر خدا نے اپنے دروازے ان پر کھول دیئے.لیکن وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی اس صفت کو نہیں مانتے عموماً ان کا یہی مقولہ ہوتا ہے کہ میاں ہماری کوششوں میں کیا پڑا ہے.جو کچھ تقدیر میں پہلے روز سے لکھا ہے وہ تو ہوکر رہے گا.ہماری محنتوں کی کوئی ضرورت نہیں جو ہونا ہے وہ آپ ہی ہو جائے گا اور شاید چوروں اور ڈاکوؤں اور دیگر بد معاشوں کا اندر ہی اندر یہی مذہب ہوتا ہوگا.غرض یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے فعل دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جن میں اعمال کا کوئی دخل نہیں جیسے سورج چاند ہوا وغیرہ جو خدا تعالیٰ نے بغیر ہمارے کسی عمل کے ہمارے وجود میں آنے سے ہی پیشتر اپنی قدرت کاملہ سے تیار کر رکھے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جن میں اعمال کا دخل ہے.اور عابد زاہد اور پرہیز گار لوگ عبادت کرتے اور پھر اپنا اجر پاتے ہیں.احکام نمبر جلد ۱۲ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۶) اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الحمد لله - تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.......قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور تجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے.پس خلاصہ مطلب الحمد للہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں.اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے.

Page 105

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة الفاتحة وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں.اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے.مگر اللہ تعالیٰ بد قسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو.بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے.جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بکی (برائین احمد یه چهار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۶٬۴۳۵ حاشیہ نمبر ۱۱) منزہ ہے.اعْلَمُ أَنَّ الْحَمْدَ ثَنَاءُ عَلَى الْفِعْلِ | واضح ہو کہ حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف الْجَمِيْلِ لِمَنْ يَسْتَحِقُ الثَّنَاءِ وَمَدْحُ کے اچھے فعل پر کی جائے نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام لِمُنعِم أَنْعَمَ مِنَ الْإِرَادَةِ وَ أَحْسَنَ ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو.اور اپنی مشیت كَيْفَ شَاءَ.وَلَا يَتَحَقِّقُ حَقِيْقَةُ الْحَمْدِ کے مطابق احسان کیا ہو.اور حقیقت حمد کما حقہ صرف اسی كَمَا هُوَ حَقُهَا إِلَّا لِلَّذِي هُوَ مَبْدَءُ لجميع ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض وانوار کا مبدء ہو الْفُيُوْضِ وَالْأَنْوَارٍ.وَمُحْسِنُ عَلَى وَجْهِ اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور الْبَصِيرَةِ لَا مِنْ غَيْرِ الشُّعُورِ وَلَا مِن پر یا کسی مجبوری ہے.اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و الْإِضْطِرَارِ.فَلَا يُوجَدُ هَذَا الْمَعْلى إِلَّا في بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں.اور وہی محسن ہے اللهِ الْخَبِيْرِ الْبَصِيرِ.وَإِنَّهُ هُوَ الْمُحْسِنُ اور اوّل و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں.اور وَمِنْهُ الْمِنَنُ كُلُّهَا فِي الْأَوَّلِ وَالْأَخِيرِ سب تعریف اسی کے لئے ہے اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا وَلَهُ الْحَمْدُ فِي هَذِهِ الدَّارِ وَتِلْكَ الدَّارِ میں بھی اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا وَإِلَيْهِ يَرْجِعُ كُلُّ حَمدِ يُنْسَبُ إلى مرجع بھی وہی ہے.پھر یہ بھی یادر ہے کہ لفظ حمد جو اس آیت الْأَغْيَارِ ثُمَّ إِنَّ لَفَظَ الْحَمْدِ مَصْدَرٌ میں اللہ ذوالجلال کی طرف سے استعمال ہوا ہے مصدر ہے منينُ عَلَى الْمَعْلُومِ وَالْمَجْهُولِ جو بطور مبنی المعلوم اور منی مجہول ہے.یعنی فاعل اور مفعول وَلِلْفَاعِلِ وَ الْمَفْعُول مِن اللہ ڈی دونوں کے لئے ہے.اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ الْجَلَالِ.وَ مَعْنَاهُ أَنَّ اللهَ هُوَ مُحَمَّد وَ هُوَ کامل طور پر تعریف کیا گیا اور تعریف کرنے والا ہے.اور أَحْمَدُ عَلَى وَجْهِ الْكَمَالِ وَ الْقَرِينَةُ اس بیان پر دلالت کرنے والا قرینہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے الدَّالَةُ عَلَى هَذَا الْبَيَانِ أَنَّهُ تَعَالَى ذَكَر حمد کے بعد ایسی صفات کا ذکر فرمایا ہے جو اہل عرفان کے

Page 106

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة الفاتحة بَعْدَ الْحَمْدِ صِفَانًا تَسْتَلْزِمُ هَذَا الْمَعْلى نزدیک ان معنی کو مستلزم ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے لفظ حمدہ میں عِنْدَ أَهْلِ الْعِرْقَانِ وَاللهُ سُبْحَانَهُ أَوْمَاً ان صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو اس کے ازلی نور في لفظ الْحَمْدِ إِلى صِفَاتٍ تُوجَدُ فِی نُورِہ میں پائی جاتی ہیں.القديم.ثُمَّ فَسَّرَ الْحَمْدَ وَجَعَلَهُ مُخدِّرَةٌ پھر اس نے اس لفظ حمد کی تفسیر فرمائی ہے اور اسے ایک سَفَرَتْ عَنْ وَجْهِهَا عِنْدَ ذِكْرِ الرَّحْمَانِ ایسی پردہ نشین قرار دیا ہے جو رحمان اور رحیم کے ذکر پر اپنے وَالرَّحِيمِ فَإِنَّ الرَّحْمَانَ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ چہرہ سے نقاب اٹھاتی ہے کیونکہ رحمن کا لفظ اس امر پر الْحَمْدَ مَبْنِى عَلَى الْمَعْلُومِ وَالرَّحِيم دلالت کرتا ہے کہ لفظ حمد مصدر معروف ہے اور اسی طرح يَدُلُّ عَلَى الْمَجْهُولِ كَمَا لا يخفى على رحیم کا لفظ حمد کے مصدر مجہول ہونے پر دلالت کرتا ہے.جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں.( ترجمہ از مرتب ) أَهْلِ الْعُلُومِ.(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۱) الْحَمْدُ لِلهِ هُوَ القَتَاء بِالمَسَانِ عَلَى حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف الْجَمِيْلِ لِلْمُقْتَدِرِ النَّبِيْلِ عَلى قَصْدِ ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادہ سے و التَّبْجِيْلِ وَالْعَامِلُ التَّاةُ مِنْ افرادِہ زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد رب جلیل سے مخصوص مُخْتَصُّ بِالرَّبِ الْجَلِيلِ وَ كُلُّ حَمدٍ مِن ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ الْكَثِيرِ وَالْقَلِيْلِ يَرْجِعُ إِلى رَبَّنَا الَّذِي ربّ ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو و هُوَ هَادِقُ الضَّالِ وَ مُعِزُ اللَّلِيْلِ وَهُوَ عزت بخشنے والا ہے.اور وہ محمودوں کا محمود ہے ( یعنی وہ محمُودُ الْمَحْمُودِينَ وَ الشُّكْرِ يُفَارِقُ ہستیاں جو خود قابل حمدہ ہیں وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی الْحَمْد بِخَصُوصِيَّتِهِ بِالصّفاتِ الْمُتَعَدِيّةِ ہیں.اکثر علماء کے نزدیک لفظ شکر حمد سے اس پہلو میں عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ والمَدْحُ يُفَارِقُهُ في فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو مِيْلٍ غَيْرِ الخَتِيَارِي كَمَا لا يخفى على فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات الْبُلَغَاءِ وَالْأَدَبَاءِ الْمَاهِرِينَ میں مختلف ہے کہ مدح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے.اور یا مرضصیح و بلیغ علماء اور ماہر ادباء سے مخفی نہیں.

Page 107

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة الفاتحة وَإِنَّ اللهَ تَعَالَى افْتَتَحَ كِتَابَهُ بِالْحَمدِ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ لا بِالشُّكْرِ وَلَا بِالثَّنَاءِ لِأَنَّ الْحَمْدَ يُحِيطُ کہ شکر اور مدح سے کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم عَلَيْهِمَا بِالْاِسْتِيْفَاءِ وَقَد تَابَ مَنَابَهُمَا پر پوری طرح حاوی ہے.اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر مَعَ الزِيَادَةِ في الرِّفَاءِ وَ فی التزيين اس میں اصلاح ، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد وَالتَّحْسِيْنَ وَلاَنَ الْكُفَّارَ كَانُوا ہے.چونکہ کفار بلا وجہ اپنے بچوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ يَحْمَدُونَ طَوَاغِيْتَهُم بِغَيْرِ حَق ان کی مدح کے لئے حمد کے لفظ کو اختیار کرتے تھے اور یہ وَيُؤْثِرُونَ لَفَظَ الْحَمْدِ لِمَدحِهِمْ وَ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُمْ مَنْبَعُ الْمَوَاهِبِ سرچشمہ ہیں اور سنیوں میں سے ہیں.اسی طرح ان کے وَالْجَوَائِزِ وَمِنَ الْجَوَادِينَ.وكذالك مُردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے كَانَ مَوْتَاهُمْ يُحْمَدُونَ عِنْدَ تَعْدِیدِ وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی التَّوَادِبِ بَلْ فِي الْمَيَادِينِ وَ الْمَادِبِ طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رازق ، متوئی اور ضامن كَحَمْدِ الله الرّازِقِ الْمُتَوَلّى الضَّمِينِ اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے.اس لئے یہ (الحمد للہ ایسے فَهَذَا رَةٌ عَلَيْهِمْ وَعَلَى كُلِّ مَنْ أَشْرَكَ لوگوں اور دوسرے تمام مشرکوں کی تردید ہے اور فراست بالله وذكر لِلْمُتَوَسَمِينَ.وَفِي ذلِك يَلُوم سے کام لینے والوں کے لئے (اس میں نصیحت ہے.اور اللهُ تَعَالَى عَبَدَةَ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودَ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ بت پرستوں، یہودیوں، عیسائیوں وَالنّصَارَى وَكُلّ مَنْ كَانَ مِنَ اور دوسرے تمام مشرکوں کو سرزنش کرتا ہے.گویا وہ یہ کہتا ہے الْمُشْرِكِيْن فَكَأَنَّهُ يَقُولُ أَيُّهَا کہ اے مشرکو ! تم اپنے شرکاء کی کیوں حمد کرتے ہو اور اپنے الْمُشْرِكُونَ لِمْ تَحْمَدُونَ شُرَكَاءَكُمْ بزرگوں کی تعریف بڑھا چڑھا کر کیوں کرتے ہو؟ کیا وہ وَتُظُرُونَ كُبَرَاءَكُمْ أَهُمْ أَرْبَابكُمُ تمہارے رب ہیں جنہوں نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی الَّذِيْنَ رَبَّؤُكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ أَمْ هُمُ پرورش کی ہے یا وہ ایسے رحم کرنے والے ہیں جو تم پر ترس الرَّاحِممُونَ الَّذِيْنَ يَرْحَمُونَكُمْ وَيَرْثُونَ کھاتے ہیں اور تمہاری مصیبتوں کو دور کرتے ہیں اور بَلَاءَكُمْ وَيَدْفَعُونَ مَا سَاءكُمْ تمہارے دکھوں اور تکلیفوں کی روک تھام کرتے ہیں.یا جو وَضَرَاءَكُمْ وَيَحْفَظُونَ خَيْرًا جَاءَكُمْ بھلائی تمہیں مل چکی ہے اس کی حفاظت کرتے ہیں.یا

Page 108

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة الفاتحة وَيَرْحَضُونَ عَنْكُمْ قَشْفَ الشَّدَائِدِ مصائب کی میل کچیل تمہارے وجود سے دھوتے ہیں اور وَيُدَاوُونَ دَانَكُمْ أَمْ هُمْ مَالِكُ يَوْمِ تمہاری بیماری کا علاج کرتے ہیں.کیا وہ جزا سزا کے دن الدِّينِ.بَلِ اللهُ يُرَبِّي وَيَزعَمُ بِتَكْمِيْلِ کے مالک ہیں؟ نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خوشیوں الرَّفَاءِ وَعَطاءِ أَسْبَابِ الْاهْتِدَاءِ وَ کی تعمیل کرنے ، ہدایت کے اسباب مہیا کرنے ، دُعائیں اسْتِجَابَةِ الدُّعَاءِ وَالتَّنْجِيَّةِ مِن قبول کرنے اور دشمنوں سے نجات دینے کے ذریعہ تم پر رحم الْأَعْدَاءِ وَسَيُعْطِي أَجْرَ الْعَامِلِينَ فرماتا اور تمہاری پرورش کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو ضرور اجر عطا کرے گا.الصَّالِحِينَ وَهِيَ وَفي لفظ الْحَمْدِ إِشَارَةُ أُخرى وهي اور لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ أَنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالى يَقُولُ أَيُّهَا تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری الْعِبَادُ اعْرِفُونِي بِصِفَاتِي وَتَعَرَّفُونى صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے بِكَمَالاتي فَإِنِّي لَسْتُ كَالنَّاقِصِينَ بَلْ پہچانو.میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد کا مقام يَزِيدُ حَمدِى عَلى إظرَاءِ الْحَامِدِينَ.وَلَن انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اور تم تجد محامد لا في السَّمَوَاتِ وَلا في آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ الْأَرْضِينَ إِلَّا وَتَجِدُهَا في وَجْهِيَ وَاِن کے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں.اور اگر تم میری ارَدُتْ إِحْصَاءَ مَحَامِدِي فَلَن تُخصيها و قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو اِن فَكَّرْتَ بِهِق نفسك و كلفت فيها گے.اگر چہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں نَفْسِكَ وَ كَلَّفْتَ فِيْهَا كَالْمُسْتَغْرِقِينَ.فَانْظُرْ هَلْ تَرى مِن مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی حَمَّدٍ لَّا يُوجَدُ فِي ذَاتِي وَ هَلْ تَجِدُ مِن تکلیف اٹھاؤ.خوب سوچو! کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے كَمَالٍ بُعْدَ مِنِى وَمِنْ حَضْرَتي فَإِن جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو؟ کیا تمہیں ایسے کمال کا زَعَمْتَ كَذَالِكَ فَمَا عَرَفْتَنِي وَأَنتَ من سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو؟ اور اگر تم قَوْمٍ عَمِينَ بَلْ إِنَّنِي أُعْرَفُ بمَتحَامِدنی ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں وَ كَمَالَاتِي وَيُرَى وَابِلِى بِسُحُب برکاتی میں سے ہو.بلکہ یقیناً میں (اللہ تعالیٰ ) اپنی ستودہ صفات فَالَّذِينَ حَسِبُوني مُسْتَجْمِعَ جَمیع اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں اور میری موسلا دھار وس

Page 109

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة الفاتحة صِفَاتٍ كَامِلَةٍ وَ كَمَالَاتٍ شَامِلَةٍ وَمَا بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے.پس جن وَجَدُوا مِنْ كَمَالٍ وَمَا رَأَوْا مِنْ جَلالٍ لوگوں نے مجھے تمام صفات کا ملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین إلى جَوَلَانِ خَيَالٍ إِلَّا وَنَسَبُوهَا إِلَى کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی وَعَزَوْا إِلَى كُلَّ عَظْمَةٍ ظَهَرَتْ في انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آیا انہوں نے اُسے عُقُولِهِمْ وَ أَنْظَارِهِمْ وَكُلّ قُدرَةٍ میری طرف ہی نسبت دی.اور ہر عظمت جو ان کی عقلوں اور تَرَاءَتْ أَمَامَ أَفَكَارِهِمْ فَهُمْ قَوْمٌ نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جوان کے افکار کے يَمْشُونَ عَلَى طُرُقِ مَعْرِفَتِی وَ الْحَقُّ آئینہ میں انہیں دکھائی دی انہوں نے اسے میری طرف ہی مَعَهُمْ وَ أُولئِكَ مِنَ الْفَائِزِینَ منسوب کیا.پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں فَقُومُوا عَافَاكُمُ اللهُ وَاسْتَقْرُوا پر گامزن ہیں.حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے مَحَامِدَةُ عَزّ اسْمُهُ وَ انْظُرُوا وَأَمْعِنُوا والے ہیں.پس اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت سے رکھے.اُٹھو! فِيْهَا كَالأَلْيَاسِ وَ الْمُتَفَكِّرين خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور وَاسْتَنْفِضُوا وَاسْتَشِقُوا أَنْطَارَكُمْ دانشمندوں اور غور و فکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار إلى كُلّ جِهَةِ كَمَالٍ وَتَحَسَّسُوا مِنْهُ فِی اور امعان نظر سے کام لو.اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال قَيْضِ الْعَالَمِ وَ هُيْهِ كَمَا يَتَحَسَّسُ کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو.اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس ر الْحَرِيصُ أَمَانِيَّهُ بِشُتِهِ فَإِذَا وَجَدتُّمْ کے باطن میں اسے اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص كَمَالَهُ التَّامَ وَ رَيَّاهُ فَإِذَا هُوَ إِيَّاهُ وَ انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا هذَا سِرُّ لَّا يَبْدُو إِلَّا عَلَى ہے.پس جب تم اس کے کمال تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو الْمُسْتَرْشِدِينَ.فَذَالِكُمْ رَبُّكُمْ وَ پالو تو گویا تم نے اس کو پالیا اور یہ ایسا راز ہے جو صرف ہدایت مَوْلَاكُمُ الْعَامِلُ الْمُسْتَجْمعُ لِجَمیع کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے.پس یہ تمہارا رب اور تمہارا آقا الصَّفَاتِ الكَامِلَةِ وَالْمَحَامِدِ التَّامَةِ ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کا ملہ اور محامد کا جامع ہے.الشّامِلَةِ وَلَا يَعْرِفُهُ إِلَّا مَنْ تَدَبَّرَ في اس کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو سورۃ فاتحہ میں تدبر کرے اور الْفَاتِحَةِ وَاسْتَعَانَ بِقَلْبِ حَزِيْنِ وَإِنَّ درد مند دل کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد مانگے.وہ لوگ جو الَّذِينَ يُخْلِصُونَ مَعَ اللهِ نِيَّةَ الْعَقْدِ اللہ تعالیٰ سے عہد باندھتے وقت اپنی نیت کو خالص کر لیتے

Page 110

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة الفاتحة وَيُعْطُونَهُ صَفْقَةَ الْعَهْدِ وَيُطَهِّرُونَ ہیں اور اس سے عہد بیعت باندھتے ہیں اور اپنے نفوس کو أَنْفُسَهُمْ مِنَ الطِّغْنِ وَالْحِقْدِ تُفَتَّحُ ہر قسم کے بعض اور کینہ سے پاک کرتے ہیں ان پر اس عَلَيْهِمْ أَبْوَابُهَا فَإِذَا هُمْ مِنَ سورة کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ فوراً صاحب بصیرت بن جاتے ہیں.الْمُبْصِرِينَ وَ مَعَ ذَلِكَ فِيْهِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّهُ مَنْ اور اس کے ساتھ ہی الحمد للہ میں ایک یہ اشارہ بھی ہے هَلَكَ بِخُطَاهُ فِي أَمْرِ مَعْرِفَةِ اللهِ تَعَالى أَوِ کہ جو معرفت باری تعالیٰ کے معاملہ میں اپنے بد اعمال سے اتَّخَذَ إِلَهَا غَيْرَهُ فَقَدْ هَلَكَ مِن رَّفْضِ ہلاک ہوا یا اس کے سوا کسی اور کو معبود بنالیا تو سمجھو کہ وہ شخص رِعَايَةِ كَمَالَاتِهِ وَ تَرْكِ التَّأَتُقِ في خدا تعالیٰ کے کمالات کی طرف سے اپنی توجہ پھیر لینے ، اس عَجَائِبَاتِهِ وَالْغَفْلَةِ عَمَّا يَلِيقُ بِذَاتِهِ کے عجائبات کا نظارہ نہ کرنے اور جو امور اس کی شایانِ شان كَمَا هُوَ عَادَةُ الْمُبْطِلِينَ.اَلا تَنْظُرُ اِلَی ہیں ان سے باطل پرستوں کی طرح غفلت برتنے کے نتیجہ النَّصَارَى أَنَّهُمْ دُعُوا إِلَى التَّوْحِيدِ میں ہلاک ہو گیا.کیا تو نصاری کو نہیں دیکھتا کہ انہیں توحید کی فَمَا أَهْلَكَهُمْ إِلَّا هذه الْعِلَّهُ وَ سَولّت دعوت دی گئی تو انہیں اسی بیماری نے ہلاک کیا اور ان کے لَهُمُ النَّفْسُ الْمُضِلَّةُ وَالشَّهَوَةُ الْمُزلّة گمراہ کرنے والے نفس اور پھسلا دینے والی خواہشات نے آنِ الْخَذُوا عَبْدًا اِلهَا وَارْ تَضَعُوا عُقَارَ ان کے لئے ( یہ گمراہ کن ) خیال خوبصورت کر کے دکھا دیا الضَّلالَةِ وَالْجَهَالَةِ وَنَسُوا كَمَالَ اللہ اور انہوں نے ایک (عاجز ) بندے کو خدا بنالیا اور گمراہی اور تَعَالَى وَ مَا يَجِبُ لِذَاتِهِ وَنَحَنُوا لِلهِ جہالت کی شراب پی لی.اللہ تعالی کے کمال اور اس کی الْبَنَاتِ وَالْبَنِينَ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَمْعَنُوا صفات ذاتیہ کو بھول گئے اور اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں أَنْظَارَهُمْ فِي صِفَاتِ الله تعالى وما تراش لیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے شایان يَلِيقُ يليق له من الكَمَالَاتِ لَمَا أَخطاً شان کمالات پر گہری نظر ڈالتے تو ان کی عقل خطا نہ کرتی اور توتُهُهُمْ وَمَا كَانُوْا مِنَ الْهَالِكِین وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہو جاتے.پس یہاں اللہ فَأَشَارَ اللهُ تَعَالَى فَهُمَا أَنَّ الْقَانُون تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کی الْعَاصِمَ مِنَ الخطأ في مَعْرِفَةِ الْبَارِي عَزَّ معرفت کے بارہ میں غلطی سے بچانے والا قانون یہ ہے کہ اسْمُهُ إِمْعَانُ النَّظَرِ فِي كَمَالَاتِهِ وَتَتَبعُ اس کے کمالات میں پورا غور کیا جائے اور اس کی ذات کے فِي

Page 111

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٨٨ سورة الفاتحة صِفَاتٍ تَلِيْقُ بِذَاتِهِ وَ تَذَكُرُ مَا هُوَ لائق صفات کی جستجو کی جائے اور ان صفات کا ورد کیا جائے جو أَوْلى مِنْ جَدْوَى وَأَخرى من عدومی ہر مادی عطیہ سے بہتر اور ہر مدد سے مناسب تر ہیں اور اس نے وَ تَصَوُّرُ مَا أَثْبَتَ بِأَفعَالِهِ مِن قُوتِهِ اپنے کاموں سے جو صفات ثابت کی ہیں یعنی اس کی قوت اس وَ حَوْلِهِ وَ قَهره وطوله فاحفظہ کی طاقت اس کا غلبہ اور اس کی سخاوت کا تصور کیا جائے.پس وَلَا تَكُن مِنَ اللَّافِتِين اس بات کو یا درکھو اور لا پروا مت بنو.وَاعْلَمُ أَنَّ الرُّبُوبِيَّةَ كُلها لله اور جان لو کہ ربوبیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے.وَالرَّحْمَانِيةَ كُلَّهَا لِلَّهِ وَالرَّحِيْمِيَّةَ اور رحمانیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے.اور رحیمیت كُلَّهَا لِلهِ وَالْحُكْمَ في يَوْمِ الْمَجازاة ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور جزا سزا کے دن کامل كُلَّهُ لِلهِ فَإِيَّاكَ وَتَأْتِيكَ مِنْ مُطَاوَعَةِ حکومت اللہ کے لئے ہے پس اے مخاطب اپنے پرورش کنندہ مُرَبِّيكَ وَكُن مِّنَ الْمُسْلِمِینَ کی اطاعت سے انکار نہ کر اور مؤحد مسلمانوں میں سے بن جا.الْمُوَخِدِينَ.وَأَشَارَ فِي الْآيَةِ إلى أنه پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ تَعَالَى مُنَزِّهُ مِن تَجَدُّدِ صِفَةٍ وحُزُولِ (پہلی صفت کے زوال کے بعد ) کسی نئی صفت کو اختیار کرنے حَالَةٍ وَلُحُوقِ وَحْمَةٍ وَ حَوْرِ بَعْدَ گور اور اپنی شان کے تبدیل ہونے اور کسی عیب کے لاحق ہونے بَلْ قَد ثَبَتَ الْحَمْدُ لَهُ أَولا واخراو اور نقص کے بعد خوبی کے پانے سے پاک ہے.بلکہ اس کے ظَاهِرًا وَبَاطِنَّا إِلَى أَبَدِ الْآبِدِينَ وَ لئے اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ابدالآباد تک حمد ثابت ہے.مَنْ قَالَ خِلَافَ ذَلِكَ فَقَدِ احْرَورَفَ اور جو اس کے خلاف کہے وہ حق سے برگشتہ ہو کر کافروں میں وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِيْنَ سے ہو گیا.وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ رَدُّ عَلَی آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ یہ آیت نصار کی اور بت پرستوں النَّصَارَى وَعَبَدَةِ الْأَوْتَانِ فَإِنَّهُمْ لَا کی تردید کرتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق پوری طرح ادا نہیں يُوفُونَ اللهَ حَقَّهُ وَلَا يَرْجُونَ لَه بزقه کرتے اور اس کی روشنی کے پھیلنے کی امید نہیں رکھتے بلکہ اس بَلْ يُعْرِفُونَ عَلَيْهِ سِتَارَةَ الظُّلام پر اندھیرے کا پردہ پھیلا دیتے ہیں.اور اس کو دُکھوں کی وَيُلْقُونَهُ فِي سُبُلِ الأَلَامَ يُبْعِدُونَهُ راہوں میں ڈال دیتے ہیں.اور اس کو پورے کمال سے دور مِنَ الْكَمَالِ الثَّامِ وَيُشرِكُونَ پہ رکھتے ہیں.اور مخلوق میں سے ایک کثیر حصہ کو اس کا شریک

Page 112

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ سورة الفاتحة كَثِيرًا مِنَ الْمَخْلُوقِيْنَ فَهَذَا هُوَ الظَّنُ قرار دیتے ہیں.پس یہ ایسا غلط خیال ہے جس نے ان کو الَّذِي أَرْدَاهُمْ وَالتَّقْلِيدُ الَّذِي أَبَادَهُمْ ہلاک کر دیا ہے.اور وہ اندھی تقلید ہے جس نے ان کو برباد وَأَهْلَكَهُمْ بِمَا عَوَّلُوا عَلى أَقوالِ کر دیا ہے.مفتریوں کے اقوال پر بھروسہ کرنے نے ان کو الْمُفْتَرِينَ وَزَعَمُوا أَنَّهُمُ من بلاک کر دیا اور انہوں نے یہی سمجھ رکھا ہے کہ وہ بچے ہیں.الصَّادِقِينَ.وَقَالُوا إِنَّ هذه في الأثار اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں احادیث کی منتخب مدوّن کتابوں هَذِهِ الْمُنتَقَاةِ الْمُدَوَّنَةِ عَنِ الفِقَاتِ وَمَا میں ثقہ راویوں سے درج ہیں.انہوں نے اپنے آباء کے تَوَجَّهُوا إِلَى عَثْرِ أَبَاعِهِمْ وَجَهْلِ عُلَمَائِهِمْ ٹھوکریں کھانے اور اپنے علماء کے ناواقف ہونے اور ان وَ تَشْرِيفِهِمْ وَتَغْرِيْهِمْ مِنْ مراکز کے انبیاء کی تعلیموں کے مراکز سے مشرق و مغرب کی طرح تَعَالِيمِ النَّبِيِّينَ وَتَيُهِهِمْ فِي كُلّ وَادٍ دور اور ہر وادی میں حیران و پریشان بھٹکنے کی طرف توجہ هَائِمِينَ وَالْعَجَبُ مِنْ فَهْمِهِمْ وَ نہیں کی.اُن کے عقل و فہم پر تعجب ہے کہ وہ جانتے نہیں کہ عَقْلِهِمْ أَنَّهُمْ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ كَامِل نام اللہ تعالیٰ کی ذات پوری طرح کامل ہے اس میں کسی کمی یا لَّا يَجورُ فِيهِ نَفْصٌ وَشُنْعَةٌ وَشُحُوبٌ قباحت یا میلا پن یا فروگذاشت یا تغیر و تبدل کا کوئی جواز وَذُهُولٌ وَ تَغَيرُ وَحُؤُولٌ ثُمَّ يُجوزُونَ فِيهِ نہیں.پھر وہ اس میں بہت سی ایسی باتوں کو روا ر کھتے ہیں اور كَثِيرًا مِنْهَا وَيَنْسِبُونَ إِلَيْهِ كُلَّ شَقْوَةٍ اس کی طرف ہر بدبختی ، گھاٹے ، عیب اور نقصان کو منسوب وَخُسْرَانٍ وَعَيْبٍ وَنُقْصَانٍ وَ يُكَذِبُونَ کرتے ہیں اور اس بات کی خود ہی تکذیب کر رہے ہیں جس مَا كَانُوْا صَدَّقُوهُ أَوَّلًا وَيَهْدُونَ کی انہوں نے پہلے تصدیق کی تھی اور پاگلوں کی طرح بکواس کرتے رہتے ہیں.كَالْمَجَانِينَ.66 وفي لفظ الْحَمْدُ لِلَّهِ تَعْلِيمُ الْحَمدُ لِلهِ کے الفاظ میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی لِلْمُسلِمِينَ أَنَّهُمْ إِذَا سُئِلُوا وَقِيلَ لَهُمْ ہے کہ جب اُن سے سوال کیا جائے اور اُن سے پوچھا مَن إِلهُكُمْ فَوَجَبٌ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ جائے کہ اُن کا معبود کون ہے تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ تجيبه أَنَّ إِلهِي الَّذِى لَهُ الْحَمْدُ كُلُهُ وَمَا وہ یہ جواب دے کہ میرا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد مِن نَوعِ كَمَالٍ وَ قُدْرَةٍ إِلَّا وَلَهُ ثابت ہے اور کسی قسم کا کوئی کمال اور قدرت ایسی نہیں مگر وہ اس فَلَا تَكُن مِّنَ النَّاسِينَ وَلَوْ لاحَظ کے لئے ثابت ہے.پس تو بھولنے والوں میں سے نہ بن.

Page 113

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٩٠ سورة الفاتحة الْمُشْرِكِينَ حَظِّ الْإِيْمَانِ وَ أَصَابَهُمْ طَل اگر مشرکوں پر ایمان کی کچھ بھی جھلک پڑ جاتی اور ان پر مِنَ الْعِرْفَانِ لَمَا طَاحَ بِهِمُ ظَنُّ السَّوْءِ عرفان کی ہلکی سی بارش بھی ہو جاتی تو انہیں قیوم عالمین پر بِالَّذِي هُوَ قَيُّومُ الْعَالَمِينَ وَلَكِنَّهُمْ بدظنی کرنا تباہ نہ کرتا.لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کو ایسے شخص : حَسِبُوهُ كَرَجُلٍ شَاءَ بَعْدَ الشَّبَابِ کی مانند سمجھ لیا جو جوانی کے بعد بوڑھا ہو گیا ہو اور اپنی وَاحْتَاجَ بَعْدَ صَمَدِيَّتِهِ إِلَى الْأَسْبَابِ و بے نیازی کے بعد محتاج ہو گیا ہو اس پر بڑھاپا اور لاغری وَقَعَتْ عَلَيْهِ شَدَائِدُ تُحول و تحول و کی مصیبتیں اور قحط کی سختیاں وارد ہوئی ہوں اور وہ مٹی قَشَفْ قُحُولُ وَوَقَعَ فِي الْأَتْرَابِ بَلْ قَرُبَ میں مل گیا بلکہ تباہی کے کنارے جالگا ہو اور بالکل محتاج مِنَ التَّبَابِ وَكَانَ مِنَ الْمُتْرَبِيْنَ ہو گیا ہو.( ترجمہ از مرتب ) (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۰۶ تا ۱۱۰) اس سورۃ کو اَلْحَمدُ لِلہ سے شروع کیا گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک حمد اور تعریف اس ذات کے لئے مسلم ہے جس کا نام اللہ ہے.اور اس فقرہ الحمد للہ سے اس لئے شروع کیا گیا کہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت رُوح کے جوش اور طبیعت کی کشش سے ہو اور ایسی کشش جو عشق اور محبت سے بھری ہوئی ہو ہر گز کسی کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ شخص ایسی کامل خوبیوں کا جامع ہے جن کے ملاحظہ سے بے اختیار دل تعریف کرنے لگتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے.ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اُس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے.اور قرآن شریف کا بڑا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اُس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اُس کی بندگی کریں.اس لئے پہلی سورۃ میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.سو اسی غرض سے اس سورۃ کو الْحَمدُ لِلہ سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے.اور قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اُس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں محسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت اُس کی ذات میں نہ ہو.قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں

Page 114

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة الفاتحة پائی جائیں.پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اُس میں پائی گئی تو حسن اس کا ظاہر ہے.اسی حُسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے.جیسا کہ فرمایا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ( النور :۳۶) یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے.ہر ایک نور اُسی کے نور کا پر توہ ہے.اور احسان کی خوبیاں اللہ تعالیٰ میں بہت ہیں جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں اور ان کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورہ فاتحہ میں رَبُّ العلمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہنچانا تمام عالموں میں جاری وساری ہے یعنی عالم سماوی اور عالم ارضی اور عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم جواہر اور عالم اعراض اور عالم حیوانات اور عالم نباتات اور عالم جمادات اور دوسرے تمام قسم کے عالم اس کی ربوبیت سے پرورش پارہے ہیں یہاں تک کہ خود انسان پر ابتدا نطفہ ہونے کی حالت سے یا اس سے پہلے بھی جو جو عالم موت تک یا دوسری زندگی کے زمانہ تک آتے ہیں وہ سب چشمہ ، ربوبیت سے فیض یافتہ ہیں.پس ربوبیت الہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح و اجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پرمشتمل ہے فیضانِ آعم سے موسوم ہے کیونکہ ہر ایک موجود اس سے فیض پاتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے ہاں البتہ ربوبیت الہی اگر چہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہنچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رَبُّ الْعَلَمِينَ ہے تا انسان کی اُمید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے.دوسری خوبی خدا تعالی کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضانِ عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اُس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اُس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں.پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان

Page 115

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة الفاتحة چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں.پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی.ہاں انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمن ہے.تیسری خوبی خدا تعالی کی جو تیسرے درجہ کا احسان ہے رحیمیت ہے جس کو سورہ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رُو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضیع اعمال سے ان کو محفوظ رکھتا ہے.یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیض خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے.دوسری چیزوں کو خدا نے دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پاسکتا ہے.دوسری چیزوں کو نطق عطا نہیں ہوا.پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دُعا کرنا اس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے اس طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دُعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے اور کوئی چیز اُس کے فیض سے باہر نہیں.برخلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے.اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دُعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دُعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دُعا کے کسی طرح مل نہیں سکتا.یہ سنت اللہ اور قانون الہی ہے جس میں مختلف جائز نہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے لئے ہمیشہ دُعا مانگتے رہے.توریت میں دیکھو کہ کتنی دفعہ

Page 116

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة الفاتحة بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کو ناراض کر کے عذاب کے قریب پہنچ گئے اور پھر کیونکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا اور تضرع اور سجدہ سے وہ عذاب ٹل گیا حالانکہ بار بار وعدہ بھی ہوتا رہا کہ میں ان کو ہلاک کروں گا.اب ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ دُعا محض لغوا مر نہیں ہے اور نہ صرف ایسی عبادت جس پر کسی قسم کا فیض نازل نہیں ہوتا.یہ ان لوگوں کے خیال ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کا وہ قدر نہیں کرتے جو حق قدر کرنے کا ہے اور نہ خدا کی کلام کو نظر عمیق سے سوچتے ہیں اور نہ قانونِ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دُعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے.اس کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے.اسی فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گو یا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے.مسئلہ شفاعت بھی صفت رحیمیت کی بناء پر ہے.خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے ہی تقاضا کیا کہ اچھے آدمی بُرے آدمیوں کی شفاعت کریں.چوتھا احسان خدا تعالی کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضانِ آحص سے موسوم کر سکتے ہیں مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں بیان فرمایا گیا ہے اور اس میں اور صفتِ رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دُعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انسان گورنمنٹ کا ایک قانون یاد کرنے میں محنت اور جدو جہد کر کے امتحان دے اور پھر اس میں پاس ہو جائے.پس رحیمیت کے اثر سے کسی کامیابی کے لئے استحقاق پیدا ہو جانا پاس ہو جانے سے مشابہ ہے اور پھر وہ چیز یا وہ مرتبہ میٹر آ جانا جس کے لئے پاس ہوا تھا اس حالت سے مشابہ انسان کے فیض پانے کی وہ حالت ہے جو پرتو و صفت مالکیت یوم الدین سے حاصل ہوتی ہے.ان دونوں صفتوں رحیمیت اور مالکیت یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ فیض رحیمیت خدا تعالیٰ کے رحم سے حاصل ہوتا ہے.اور فیض مالکیت یوم الدین خدا تعالی کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور مالکیت یوم الدین اگر چہ وسیع اور کامل طور پر عالم معاد میں متلی ہوگی مگر اس عالم میں بھی اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں تجلی کر رہی ہیں.ربوبیت عام طور پر ایک فیض کی بنا ڈالتی ہے اور رحمانیت اس فیض کو جانداروں میں گھلے طور پر دکھلاتی ہے اور رحیمیت ظاہر کرتی ہے کہ خط ممتد فیض کا انسان پر جا کر ختم ہو جاتا ہے اور انسان وہ جانور ہے جو فیض کو نہ صرف حال سے بلکہ منہ سے مانگتا ہے اور مالکیت یوم الدین فیض کا آخری شمرہ بخشتی ہے.یہ چاروں صفتیں دنیا میں ہی کام کر رہی ہیں مگر چونکہ دنیا کا

Page 117

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة الفاتحة دائرہ نہایت تنگ ہے اور نیز جہل اور بے خبری اور کم نظری انسان کے شاملِ حال ہے اس لئے یہ نہایت وسیع دائرے صفاتِ اربعہ کے اس عالم میں ایسے چھوٹے نظر آتے جیسے بڑے بڑے گولے ستاروں کے دُور سے صرف نقطے دکھائی دیتے ہیں.لیکن عالم معاد میں پورا نظارہ ان صفات اربعہ کا ہوگا.اس لئے حقیقی اور کامل طور پر یوم الدین وہی ہوگا جو عالم معاد ہے.اُس عالم میں ہر ایک صفت ان صفات اربعہ میں سے دو ہری طور پر اپنی شکل دکھائے گی یعنی ظاہری طور پر اور باطنی طور پر اس لئے اس وقت یہ چار صفتیں آٹھ صفتیں معلوم ہوں گی.اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا گیا ہے کہ اس دنیا میں چار فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھار ہے ہیں اور اُس دن آٹھ فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھائیں گے.یہ استعارہ کے طور پر کلام ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے مناسب حال ایک فرشتہ بھی پیدا کیا گیا ہے اس لئے چار صفات کے متعلق چار فرشتے بیان کئے گئے.اور جب آٹھ صفات کی تحلی ہو گی تو ان صفات کے ساتھ آٹھ فرشتے ہوں گے.اور چونکہ یہ صفات الوہیت کی ماہیت کو ایسا اپنے پر لئے ہوئے ہیں کہ گویا اُس کو اُٹھا رہے ہیں اس لئے استعارہ کے طور پر اُٹھانے کا لفظ بولا گیا ہے.ایسے استعارات لطیفہ خدا تعالی کی کلام میں بہت ہیں جن میں روحانیت کو جسمانی رنگ میں دکھایا گیا ہے.غرض خدا تعالیٰ میں یہ چار آصفات عظیمہ ہیں جن پر ہر ایک مسلمان کو ایمان لانا چاہیے اور جو شخص دُعا کے ثمرات اور فیوض سے انکار کرتا ہے گویا وہ بجائے چار صفتوں کے صرف تین صفتوں کو مانتا ہے.ایام اصبح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۷ تا ۲۵۲) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی تمام محامد اور تمام کمالات اور تمام تعریفیں اور تمام بزرگیاں اور خوبیاں جو مرتبہ جلیلہ خدائی کے لئے ضروری ہیں وہ سب اللہ جل شانہ کو حاصل اور اس کی ذات میں جمع ہیں جس کی ایجاد کے بغیر کوئی چیز موجود نہیں ہوئی اور وہ تمام عالمین کا رب اور پیدا کنندہ ہے.الصل سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱۹،۲۱۸) اَلْحَمْدُ لِلّه سے قرآن شریف اسی لئے شروع کیا گیا ہے تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی طرف الحکم نمبر ۶ جلد ۵ مؤرخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۷) ایما ہو.دو مظہر ہوئے.حمد ہی سے محمد اور احمد نکلا ہے صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے گویا حمد کے اور نکلا الحکم نمبر ۳ جلد ۵ مؤرخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۳، ۴) تمام محامد جو عالم میں موجود ہیں اور مصنوعات میں پائی جاتی ہیں.وہ حقیقت میں خدا کی ہی تعریفیں ہیں

Page 118

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة الفاتحة اور اسی کی طرف راجع ہیں کیونکہ جو خوبی مصنوع میں ہوتی ہے وہ حقیقت میں صانع کی ہی خوبی ہے یعنی آفتاب دنیا کو روشن نہیں کرتا حقیقت میں خدا ہی روشن کرتا ہے اور چاند رات کی تاریکی نہیں اٹھا تا حقیقت میں خدا ہی اٹھاتا ہے اور بادل پانی نہیں برساتا حقیقت میں خدا ہی برساتا ہے اسی طرح جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی بینائی ہے اور جو کان سنتے ہیں وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی شنوائی ہے اور جو عقل دریافت کرتی ہے وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی دریافت ہے اور جو کچھ آسمان کے اور زمین کے عناصر اوصاف جمیلہ دکھا رہے ہیں اور ایک خوبصورتی اور تر و تازگی جو مشہود ہورہی ہے حقیقت میں وہ اسی صانع کی صفت ہے جس نے کمال اپنی صفت کا ملہ سے ان چیزوں کو پایا ہے اور پھر بنانے پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے اس کے ساتھ ایک رحمت شامل رکھی ہے جس رحمت سے اس کا بقا اور وجود ہے اور پھر صرف اسی پر اختصار نہیں کیا بلکہ ایک چیز کو اپنے کمال اعلیٰ تک پہنچاتا ہے.جس سے قدر و قیمت اس شے کی کھل جاتی ہے پس حقیقت میں محسن اور منعم بھی وہی ہے اور جامع تمام خوبیوں کا بھی وہی ہے اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الحکم جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۲۴/جون ۱۹۰۴ صفحه ۱۵) سورۃ الفاتحہ پر جو قرآن شریف کا باریک نقشہ ہے اور ام الکتاب بھی جس کا نام ہے خوب غور کرو کہ اس میں اجمال کے ساتھ قرآن کریم کے تمام معارف درج ہیں چنانچہ الْحَمْدُ لِلَّهِ سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ تمام محامد اللہ ہی کے لئے ہیں اس میں یہ تعلیم ہے کہ تمام منافع اور تمدنی زندگی کی ساری بہبود گیاں اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں کیونکہ ہر قسم کی ستائش کا سزاوار جب کہ وہی ہے تو معطی حقیقی بھی وہی ہو سکتا ہے.ورنہ لازم آئے گا کہ کسی قسم کی تعریف و ستائش کا مستحق وہ نہیں بھی ہے جو کفر کی بات ہے پس اَلْحَمْدُ للہ میں کیسی تو حید کی جامع تعلیم پائی جاتی ہے جو انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کی عبودیت اور بالذات نفع رساں نہ ہونے کی طرف لے جاتی ہے اور واضح اور بین طور پر یہ ذہن نشین کرتی ہے کہ ہر نفع اور شود حقیقی اور ذاتی طور پر خدا تعالی کی ہی طرف سے آتا ہے کیونکہ تمام محامد اُسی کے لئے سزاوار ہیں.پس ہر نفع اور شود میں خدا تعالیٰ ہی کو مقدم کرو.اُس کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے اگر خلاف ہو تو اولاد بھی دشمن ہوسکتی ہے اور ہو جاتی ہے.الحکم نمبر ۳۲ جلد ۵ مؤرخه ۳۱ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۱) بجز اسلام دنیا میں کوئی بھی ایسا مذ ہب نہیں ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کو جمیع رزائل سے منزہ اور تمام محامد کا ملہ

Page 119

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة الفاتحة سے متصف سمجھتا ہو.عام ہندو اپنے دیوتاؤں کو کارخانہ ربوبیت میں شریک سمجھتے ہیں اور خدا کے کاموں میں ان کو مستقل طور پر دخیل قرار دیتے ہیں.بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خدا کے ارادوں کو بدلنے والے اور اس کی تقدیروں کو زیر زبر کرنے والے ہیں.اور نیز ہندو لوگ کئی انسانوں اور دوسرے جانوروں کی نسبت بلکہ بعض ناپاک اور نجاست خوار حیوانات یعنی خنزیر وغیرہ کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں ان کا پر میشر ایسی ایسی جونوں میں تولد پاکر ان تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے ملوث ہوتا رہا ہے کہ جو ان چیزوں کے عائد حال ہیں اور نیز انہیں چیزوں کی طرح بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ اور خوف اور غم اور بیماری اور موت اور ذلت اور رسوائی اور عاجزی اور ناتوانی کی آفات میں گرفتار ہوتا رہا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اعتقادات خدائے تعالی کی خوبیوں میں بٹہ لگاتے ہیں اور اس کے ازلی و ابدی جاہ و جلال کو گھٹاتے ہیں اور آریہ سماج والے جو ان کے مہذب بھائی نکلے ہیں جن کا یہ گمان ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک وید کی لکیر پر چلتے ہیں.وہ خدائے تعالیٰ کو خالقیت سے ہی جواب دیتے ہیں اور تمام روحوں کو اس کی ذات کامل کی طرح غیر مخلوق اور واجب الوجود اور موجود بوجود حقیقی قرار دیتے ہیں.حالانکہ عقل سلیم خدائے تعالیٰ کی نسبت صریح بی نقص سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کا مالک کہلا کر پھر کسی چیز کا رب اور خالق نہ ہو اور دنیا کی زندگی اس کے سہارے سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی وجوب کے رو سے ہو.اور جب عقل سلیم کے آگے یہ دونوں سوال پیش کئے جائیں کہ آیا خداوند قادر مطلق کے محامد تامہ کے لئے یہ بات اصلح اور انسب ہے کہ وہ آپ ہی اپنی قدرت کاملہ سے تمام موجودات کو منصہ ظہور میں لاکر ان سب کا رب اور خالق ہو اور تمام کا ئنات کا سلسلہ اسی کی ربوبیت تک ختم ہوتا ہو اور خالقیت کی صفت اور قدرت اس کی ذات کامل میں موجود ہو اور پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہو یا یہ باتیں اس کی شان کے لائق ہیں کہ جس قدر مخلوقات اس کے قبضہ و تصرف میں ہیں یہ چیزیں اس کی مخلوق نہیں ہیں اور نہ اس کے سہارے سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور نہ اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہیں اور نہ وہ ان کا خالق اور رب ہے اور نہ خالقیت کی صفت اور قدرت اس میں پائی جاتی ہے اور نہ پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہے.تو ہر گز عقل یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ جو دنیا کا مالک ہے وہ دنیا کا پیدا کنندہ نہیں اور ہزاروں پر حکمت صفتیں کہ جو روحوں اور جسموں میں پائی جاتی ہیں وہ خود بخود ہیں اور ان کا بنانے والا کوئی نہیں اور خدا جوان سب چیزوں کا مالک کہلاتا ہے وہ فرضی طور پر مالک ہے اور نہ یہ فتویٰ دیتی ہے کہ اس کو پیدا کرنے سے عاجز سمجھا جاوے یا نا طاقت اور ناقص ٹھہرایا جاوے یا پلیدی اور نجاست خواری کی -

Page 120

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة الفاتحة نالائق اور قبیح عادت کو اس کی طرف منسوب کیا جائے یا موت اور درد اور دکھ اور بے علمی اور جہالت کو اس پر روار کھا جائے.بلکہ صاف یہ شہادت دیتی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان تمام رذیلتوں اور نقصانوں سے پاک ہونا چاہئے اور اس میں کمال تام چاہئے اور کمال تام قدرت تام سے مشروط ہے اور جب خدائے تعالیٰ میں قدرت تام نہ رہی اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کر سکا اور نہ اپنی ذات کو ہر ایک قسم کے نقصان اور عیب سے بچا سکا تو اس میں کمال تام بھی نہ رہا.اور جب کمال تام نہ رہا تو محامد کاملہ سے وہ بے نصیب رہا.یہ ہندوؤں اور آریوں کا حال ہے اور جو کچھ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہر کر رہے ہیں.وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پوچھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم الشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتا رہا ہے آپ ہی کافی ہو آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو.بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ ان کو زندگی کے لئے درکار تھا وہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لایا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزار بانعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے پیدا کی ہوں اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کا لعدم کر کے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹے کا محتاج ہو جائے اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت نہیں جس نے باپ کی طرح نہ کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو بلکہ مرقس کے ۸ باب ۱۲ آیت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے رو بر وزندہ ہو جائے تو ہم ایمان لائیں گے.لیکن اس نے ان کو زندہ ہو کر نہ دکھلایا اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایک ذرہ ثبوت نہ دیا.اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے بلکہ اسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے ( دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا جیسا کہ آیت مذکورہ بالا

Page 121

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٩٨ سورة الفاتحة میں خود اس کا اقرار موجود ہے بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر ( بقول عیسائیوں ) وہ ذلت اور رُسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھر دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بدقسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں.اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بدر رو ہے پیدا ہو کر ہر یک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے اوپر وارد کر لیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بد نام کنندہ ملوث نہ ہوا اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدرتی اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کر لیا اور پھر در صورتیکہ وہ ا.عاجز بندہ کہ خواہ خواہ خدا کا بیٹا قرار دیا گیا بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا.اور اس کی تعلیم بھی ایک ناقص تعلیم تھی کہ جو موسیٰ کی شریعت کی ایک فرع تھی تو پھر کیونکر جائز ہے کہ خداوند قادر مطلق اور از لی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخر کار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہو گیا اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بہ یکبارگی کھودیا.میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو تجمع جمیع صفات کاملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے اور ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بیہودہ تعریفوں سے الگ کر لیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ لکھتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا.اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہر گز نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلی تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ عالم الغیب ہوں.نہ قادر ہوں.بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں.اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دُعا کی اور چاہتا تھا کہ دُعا اس کی قبول ہو جائے مگر اس کی وہ دُعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا.مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہوسکا کہ دو چارا نجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کر لیتا.غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دکھ اٹھا کر با قرار عیسائیوں کے مرگیا اور اس جہان

Page 122

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة الفاتحة سے اٹھایا گیا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئے.کیا وہ اس سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے اور کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہو کر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جور ہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہو سکتا ہے یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہو.تو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو.پس ا قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بخرہ پاتے اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی.کیونکہ یہ پانچوں حضرات روحانی اور جسمانی قوتوں میں اسی سے فیض یاب ہیں.عیسائیوں نے ابن مریم کی بے جا تعریفوں میں بہت سا افتر ابھی کیا.مگر پھر بھی اس کے نقصانوں کو چھپا نہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کر کے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا.یوں تو عیسائی اور یہودی اپنی عجیب کتابوں کے رو سے سب خدا کے بیٹے ہی ہیں بلکہ ایک آیت کے رو سے آپ ہی خدا ہیں.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت والے اپنے افترا اور اختراع میں ان سے اچھے رہے کیونکہ انہوں نے بدھ کو خدا ٹھہرا کر پھر ہر گز اس کے لئے یہ تجویز نہیں کیا کہ اس نے پلیدی اور ناپاکی کی راہ سے تولد پایا تھا یا کسی قسم کی نجاست کھائی تھی.بلکہ ان کا بدھ کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ وہ مونہہ کے راستہ سے پیدا ہوا تھا پر افسوس عیسائیوں نے بہت کی جعل سازیاں تو کیں مگر یہ جعلسازی نہ سو بھی کہ : مسیح کو بھی مونہہ کے راستہ سے ہی پیدا کرتے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے.اور نہ یہ سوبھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بکلی منافی ہے اس پر وارد نہ کرتے.اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خود بخود آیا ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں نہ دُعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے.میں صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں.ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال ڈالنا چاہئے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو عظیم الشان صداقت الحمد للہ کے مضمون میں ہے وہ بجز پاک اور مقدس مذہب اسلام کے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی لیکن اگر برہمو لوگ کہیں کہ صداقت مذکورہ بالا کے ہم قائل.

Page 123

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة ہیں تو جاننا چاہئے کہ وہ بھی اپنے اس بیان میں جھوٹے ہیں.کیونکہ ہم اسی مضمون میں لکھ چکے ہیں کہ برہمو لوگ خدائے تعالیٰ کے لئے گونگا اور غیر متکلم ہونا اور نطق پر ہرگز قادر نہ ہونا اور اپنے علوم کے القا اور الہام سے عاجز ہونا تجویز کرتے ہیں اور جو حقیقی اور کامل بادی میں صفات کا ملہ ہونی چاہئے.ان صفات سے اس کو خالی سمجھتے ہیں بلکہ اس قدر ایمان بھی انہیں نصیب نہیں کہ وہ خدائے تعالی کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ اپنی ہستی اور الوہیت کو اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے دنیا میں ظاہر کیا ہے.برخلاف اس کے وہ تو یہ کہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ ایک مُردہ یا ایک پتھر کی طرح کسی گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا.عقلمندوں نے آپ محنتیں کر کے اس کے وجود کا پتہ لگایا اور اس کی خدائی کو دنیا میں مشہور کیا.پس ظاہر ہے کہ وہ بھی مثل اپنے اور بھائیوں کے محامد کاملہ حضرت احدیت سے منکر ہیں.بلکہ جن تعریفوں سے اس کو یاد کرنا چاہئے وہ تمام تعریفیں اپنے نفس کی طرف منسوب کرتے ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۴۳۶ تا ۴ ۴۴ حاشیہ نمبر ۱) یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رڈ کرتا ہے.اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے.جس کا نمونہ اس سورہ فاتحہ میں دکھایا ہے کہ ایک ایک لفظ میں مذاہب باطلہ کی تردید کر دی ہے مثلاً فرمایا الحمدُ للهِ ساری تعریفیں خواہ وہ کسی قسم کی ہوں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سزا وار ہیں.اب اس لفظ کو کہہ کر یہ ثابت کیا کہ قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے.کیونکہ اللہ کا لفظ اسی ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں.اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ محسن کے یا بلحاظ احسان کے.پس وہ دونوں قسم کے ا کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں.دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالیٰ کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں.اور یہی لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری تردید کرتا ہے مثلاً عیسائیوں کو لو وہ جس کو اللہ مانتے ہیں وہ ایک عاجز ضعیف عورت کا بچہ ہے جس کا نام یسوع ہے جو معمولی بچوں کی طرح دکھ درد کے ساتھ ماں کے پیٹ سے نکلا اور عوارض میں مبتلا رہا.بھوک پیاس کی تکلیف سے بے چین رہا.اور سخت تکلیفیں اور دکھ اسے اُٹھانے پڑے.جس قدر ضعف اور کمزوریوں کے عوارض ہوتے ہیں ان کا شکار رہا.آخر یہودیوں کے ہاتھوں سے پیٹا گیا اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا.اب اس صورت کو جو یسوع کی (عیسائیوں نے جس کو خدا بنا رکھا ہے ) انجیل سے ظاہر ہوتی ہے کسی دانشمند کے سامنے پیش کرو.کیا وہ کہہ دے گا کہ بیشک اس میں تمام صفات کا ملہ پائی جاتی ہیں اور کوئی نقص

Page 124

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اوروون لله سورة الفاتحة اس میں نہیں؟ ہرگز نہیں.بلکہ انسانی کمزوریوں اور نقصوں کا پہلا اور کامل نمونہ اسے ماننا پڑے گا.تو ADATA NANGANGUAGE کہنے والا کب ایسے کمزور اور مصلوب ملعون کو خدا مان سکتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عیسائیوں کے بالمقابل ایسے خدا کی طرف بلاتا ہے جس میں کوئی نقص ہوسکتا ہی نہیں.پھر آریہ مذہب کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پر میشر وہ ہے جس نے ذات عالم اور ارواح عالم کو بنایا ہی نہیں بلکہ جیسے وہ ازلی ابدی ہے ویسے ہی ہمارے ذرات جسم وغیرہ بھی خدا کے بالمقابل اپنی ایک مستقل ہستی رکھنے والی چیزیں ہیں جو اپنے قیام اور بقا کے لئے اس کی محتاج نہیں ہیں بلکہ ایک طرح وہ اپنی خدائی چلانے کے واسطے ان چیزوں کا محتاج ہے وہ کسی چیز کا خالق نہیں اور پھر اس بات کا سمجھ لینا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جو خالق نہیں وہ مالک کیسے ہو سکتا ہے؟ اور ایسا ہی ان کا اعتقاد ہے کہ وہ رازق کریم وغیرہ کچھ بھی نہیں.کیونکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس کے کرموں کا پھل ملتا ہے اس سے زائد اسے کچھل سکتا ہی نہیں.اب بتاؤ اس قدر نقص جس خدا میں پیش کئے جاویں عقل سلیم کب اسے تسلیم کرنے کے لئے رضا مند ہو سکتی ہے؟ اسی طرح سے جس قدر مذاہب باطلہ دنیا میں موجود ہیں الْحَمدُ لِلہ کا جملہ خدا تعالیٰ کے متعلق ان کے کل غلط اور بیہودہ خیالات و معتقدات کی تردید کرتا ہے.(الحکم نمبر ۱۷ جلدے مؤرخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) رب.لسان العرب اور تاج العروس میں جو لغت کی نہایت معتبر کتا بیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں - مدبر - مربی قیمہ منعم متم.چنانچہ ر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں.مالک.سید ان سات معنوں میں سے تین معنی خدا تعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں منجملہ ان کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لاسکتا ہو اور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ قبضہ تامہ ہوا اور تصرف تمام اور حقوق تامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلم نہیں.من الرحمان.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۲، ۱۵۳ حاشیه ) أَشَارَ اللهُ سُبْحَانَهُ في قَوْلِهِ رَبِّ الله سبحانه تعالی نے اپنے قول رب العالمین میں الْعَلَمِينَ" إلى أَنَّهُ هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَني اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ وَمِنْهُ كُلُّمَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِينَ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے وَمِنَ الْعَالَمِينَ مَا يُوجَدُ فِي الْأَرْضِ مِن اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور 66

Page 125

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۲ سورة الفاتحة زُمَرِ الْمُهْتَدِينَ.وَطَوَائِفِ الْغَاوِيْنَ وَ | خطا کار گروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.الضَّائِينَ.فَقَدْ يَزِيدُ عَالَمُ الضَّلَالِ کبھی گمراہی ، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم وَالْكُفْرِ وَالْفِسْقِ وَ تَرْكِ الْإِعْتِدَالِ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور حَتَّى يُمْلأُ الْأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا وَ لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں.نہ وہ يَعْرُكَ النَّاسُ طُرُقَ اللهِ ذَا الْجَلالِ.لا عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے يَفْهَمُونَ حَقِيقَةَ الْعُبُودِيَّةِ وَ لَا ہیں.زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین يُؤَدُّونَ حَقَّ الرُّبُوْبِيَّةِ.فَيَصِيرُ الزَّمَانُ اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور كَاللَّيْلَةِ اللَّيْلَاءِ وَ يُدَاسُ الدِّينُ ”عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل تحت هذِهِ اللَّاوَاءِ.ثُمَّ يَأْتِي اللهُ بِعَالم دی جاتی ہے.اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے أخَرَ فَتَبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ اور لوگوں کو عارف ( شناسا) دل اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر وَيَنْزِلُ القَضَاءُ مُبَدَّلًا من السَّمَاءِ ادا کرنے کے لئے ناطق (گویا) زبانیں عطا ہوتی ہیں.پس.وَيُعْطَى لِلنَّاسِ قَلْبْ عَارِفُ وَلِسَان وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنا نَاطِقُ لَشُكْرِ النَّعْمَاءِ فَيَجْعَلُونَ لیتے ہیں.اور خوف اور امید کے ساتھ اس کی طرف آتے نُفُوسَهُمْ كَمَوْرٍ مُعَبدالحَضْرَةِ ہیں، ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیا کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور الْكِبْرِيَاءِ وَيَأْتُونَهُ خَوْفًا وَ رَجَاءا ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے بِطَرْفٍ مَّغْضُوضٍ مِنَ الْحَيَاء وَوَجْهِ ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو مقْبِل نَحْوَ قِبْلَةِ الْإِسْتِجْدَاءِ - وَهِمَةٍ دستک دے رہی ہوتی ہے.ایسے وقتوں میں ان لوگوں کی فِي الْعُبُودِيَّةِ قَارِعَةٍ ذُرُوَةَ الْعَلَاءِ سخت ضرورت ہوتی ہے جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ وَيَمْتَدُّ الْحَاجَةُ إِلَيْهِمْ إِذَانْعَبَى الأَمرُ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور إلى كَمَالِ الضَّلَالَةِ.وَصَارَ النَّاسُ چو پاؤں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اس وقت رحمت الہی اور كَسِبَاعٍ أَوْ نَعَمٍ مِنْ تَغَيرِ الْحَالَةِ.عنایت از لی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا فَعِند ذَالِك تَقْتَدِى الرَّحْمَةُ الإلهية جائے جو تاریکی کو دور کرے اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی وَالْعِنَايَةُ الْأَرْلِيَّةُ أَن تُخلق في السَّمَاءِ ہیں اور خیمے لگائے ہیں انہیں منہدم کر دے.تب خدائے

Page 126

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۳ سورة الفاتحة مَا يَدْفَعُ الظَّلامَ وَيَهْدِمُ مَا عَمَّر | رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے.تاکہ وہ إِبْلِيسُ وَأَقَامَ مِنَ الْأَبنِيَةِ وَالْخيَامِ.شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے اور یہ دونوں (رحمانی اور فَيَنْزِلُ إِمَامُ مِنَ الرَّحْمنِ لِيَذُبَّ شيطانى لشكر برسر پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جُنُودَ الشَّيْطَانِ وَلَمْ يَزَل هذہ جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں.یہاں تک کہ باطل کی الْجُنُودُ وَتِلْكَ الْجُدُودُ يَتَحَارَبَانِ.وَلَا گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما يَرَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَغْفِى لَهُ عَيْنَانِ حَتَّى دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں.پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب غُلَّ أَعْنَاقُ الْأَبَاطِيْلِ.وَانْعَدَمَ مَا اور ہدایت یافتہ کا مددگار رہتا ہے.ہدایت کے علم بلند کرتا يُرَى لَهَا نَوْعُ سَرَابِ من الدِّلِيلِ فَمَا ہے اور پر ہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا زَالَ الْإِمَامُ ظَاهِرًا عَلَى الْعِدا نامیرا ہوتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے کفر کے لمَنِ اهْتَدَى مُعْلِيًا مَّعَالِم الهدی سرغنوں کو قید کر دیا ہے.اور ان کی مشکیں کس دی ہیں اور اس مُحْيِيا مَوَاسِمَ الثلى حتى يَعْلَم نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی النَّاسُ أَنَّهُ أَسَرَ طَوَاغِيْتَ الكُفْرِ وَشَدَّ گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں.اور اس نے بدعات کی وَثَاقَهَا وَأَخَذَ سِبَاعَ الأَحاذِيْب وَغَل عمارتوں کو گرا دیا ہے اور ان کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے.أَعْنَاقَهَا وَهَدَم عِمَارَةَ الْبِدُعَاتِ اور اس نے ایمان کے کلمہ کو اکٹھا کر دیا ہے اور اس کے وَقَوَّضَ قِبَابَهَا وَجَمَعَ كَلِمَةَ الْإِيْمَانِ اسباب کو منظم کر دیا ہے.اس نے آسمانی سلطنت کو مضبوط کیا وَنَظَمَ أَسْبَابَهَا وَقَوَى السَّلْطَنَةَ ہے اور تمام رخنوں کو بند کر دیا ہے.اس نے اس (سلطنت ) السَّمَاوِيَّةَ وَسَلَّ الشُّغُورَ وَأَصْلَحَ شَأْنَهَا کی شان بہتر بنادی ہے اور اس کے معاملات کو درست کر دیا وَسَدَّدَ الْأُمُورٌ وَسَكَّنَ الْقُلُوب ہے.اور اس نے بیقرار دلوں کو تسکین دی ہے.جھوٹ الرّاجِفَةَ.وَبَكَّتَ الأَلْسِنَةَ الْمُرْجِفَةَ پھیلانے والی زبانوں کو خاموش کر دیا ہے اور تاریک دلوں کو وَأَنَارَ الْخَوَاطِرَ الْمُظْلِمَةَ وَجَدَّدَ الدولة روشن کر دیا ہے.اور بوسیدہ سلطنت کی تجدید کی ہے.خدائے الْمُخْلِقَةَ وَكَذَالِكَ يَفْعَلُ الله کارساز ایسا ہی کرتا رہتا ہے.یہاں تک کہ اندھیرا اور گمراہی الْفَغَالُ حَتَّى يَذْهَبَ الظَّلامُ جاتی رہتی ہے.اور اس وقت دشمن اپنی ایڑیوں پر پسپا ہو وَالضَّلَالُ.فَهُنَاكَ يَنكُصُ الْعِدَا عَلی جاتے ہیں.اور جو خیمے انہوں نے گاڑے ہوتے ہیں ان

Page 127

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة الفاتحة أَعْقَابِهِمْ وَيُنَكِّسُونَ مَا ضَرَبُوا مِن کو خود ہی ) سرنگوں کر دیتے ہیں.اور جو گر ہیں انہوں خِيَامِهِمْ وَيَحُلُونَ مَا أَرَبُوا مِنْ أَرَاجِم نے ڈالی ہوتی ہیں انہیں خود کھولتے ہیں.وَمِنْ أَشْرَفِ الْعَالَمِينَ وَأَنجب تمام جہانوں میں سب سے زیادہ عالی مرتبہ اور مخلوقات الْمَخْلُوقينَ وُجُودُ الْأَنْبِيَاءِ میں سے سب سے زیادہ حیرت انگیز وجود نبیوں اور رسولوں وَالْمُرْسَلِينَ وَ عِبَادَ الله الصالحین اور خدا کے نیک اور صدیق بندوں کا ہوتا ہے کیونکہ وہ الصَّدِيقِينَ فَإِنَّهُمْ فَاقُوا غَيْرَهُمْ في سب دوسرے لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں نیک صفات بَ الْمَكَارِهِ وَكَشْفِ الْمَظَالِمِ وَ کے پھیلانے اور ظلم وستم کے دور کرنے اور عادات کے تهذيب الأَخْلاقِ وَإِرَادَةِ الْخَيْرِ لِلأَنفس سنوارنے میں اور اپنوں اور بیگانوں کے لئے نیک ارادے وَالْأَفَاقِ.وَنَشْرِ الصَّلَاح وَالْخَيْرِ رکھنے میں راستبازی اور سلامتی کے پھیلانے میں بدی اور وَإجَاحَةِ الطَّلَاحِ وَالضَّيْرِ وَأَمْرِ تباہی کی جڑا کھاڑنے میں، نیکی کی تلقین کرنے اور بڑے الْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الثَّمَانِهِ - وَسَوقِ کاموں سے منع کرنے میں، بری خواہشات کو چوپاؤں کی الشَّهَوَاتِ كَالْبَهَائِمِ وَالتَّوَجُهِ إِلى رَبِّ طرح دستکارنے میں، پروردگار عالم کی طرف رخ کرنے الْعَبِيدِ.وَقَطع التَّعَلُّقِ مِنَ الطَّرِيفِ میں، نئے اور پرانے مال سے قطع تعلق کرنے میں پوری وَالتِّلِيْدِ وَ الْقِيَامِ عَلى طَاعَةِ الله بالقوة قوت اور مکمل تیاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم الْجَامِعَةِ وَالْعُدَّةِ الْكَامِلَةِ وَالضَّوْلِ عَلی رہنے میں جمع کر دہ پشکروں اور اکٹھی کی ہوئی جماعتوں کے ذَرَارِي الشَّيْطَانِ بِالْحُشُودِ الْمَجْمُوعَةِ وَ ساتھ شیطان کی ذریت پر حملہ کرنے میں محبوب کی خاطر الْجُمُوعِ الْمَحْشُودَةِ وَ تَرْكِ الدُّنْيَا دنیا کو ترک کرنے اس کے شاداب مقامات سے کنارہ کشی لِلْحَبِيْبِ وَالتَّبَاعُدِ عَن مغناها کرنے اور اس کے پانیوں اور چراگاہوں سے ترک وطن الْخَصِيبِ وَتَرْكِ مَالِهَا وَمَرْعَاهَا کرنے کی طرح الگ ہو جانے میں، اور بارگاہ الہی میں اپنی كَالْهِجْرَةِ وَالْقَاءِ الْجِرَانِ فِي الْحَضْرَةِ گردن جھکانے میں وہ دوسروں پر فوقیت لے جاتے ہیں.إِنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَتَمَطْمَضُ مُقْلَمُهُمْ یقینا یہ ایسی قوم ہے کہ ان کی آنکھوں میں نیند ایسی بالنوم.إلا في حب الله والدُّعَاءِ لِلْقَوْمِ حالت میں آتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں (محو ) وَ إِنَّ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنٍ أَهْلِهَا لَطِيفُ اور قوم کے لئے دُعا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں.

Page 128

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۵ سورة الفاتحة الْبُنْيَةِ مَلِيحُ الْحِلْيَةِ وَأَمَّا فِي | دنیا داروں کی نظر میں تو دنیا نہایت خوبصورت ہے اور خوش أَعْيُنِهِمْ فَهِيَ أَخْبَتُ مِنَ الْعَذِرَةِ رنگ ہے.لیکن نیک لوگوں کی نظروں میں وہ میلے سے بھی وَأَنْتَن عَنِ الْمَيْتَةِ.أَقْبَلُوا عَلَی اللہ زیادہ گندی اور مردار سے بھی زیادہ بد بودار ہوتی ہے.وہ اپنی كُلَّ الْإِقْبَالِ وَمَالُوْا إِلَيْهِ كُلَّ الْمَيْلِ ساری توجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صدق بِصِدْقٍ الْبَالِ وَكَمَا أَنَّ قَوَاعِد دل سے وہ اس کی طرف پوری طرح جھک جاتے ہیں.اور الْبَيْتِ مُقَدَّمَةٌ عَلى طاقي يُعقد جس طرح گھر کی بنیاد میں بنائے جانے والے طاقوں اور برآمدوں وَرُوَاقٍ يمهد.كَذَالِك هؤلاء الكرام پر تقدم رکھتی ہیں اسی طرح مذکورہ بزرگ ہستیاں اس دنیا میں ہر مُقَدَّمُونَ في هَذِهِ النَّارِ عَلى كُل طبقة طبقہ کے نیک لوگوں پر تقدم رکھتی ہیں اور مجھے ( کشفا ) دکھا یا گیا مِنْ طَبَقَاتِ الْأَخْيَارِ.وَأُرِيتُ أَنَّ ہے کہ زمین میں بھی اور بلند پایہ آسمانوں میں بھی ہمارے نبی أَكْمَلَهُمْ وَأَفَضَلَهُمْ وَأَعْرَفَهُمْ وَ محمد مصطفیٰ جن پر ہر قسم کی برکت ، رحمت اور سلامتی نازل ہوان أَعْلَيَهُمْ نَبِيُّنَا الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ سب سے اکمل اور افضل اور اعرف سب سے زیادہ علم رکھنے التَّحِيَّةُ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلام فی والے ہیں اور تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد بخت وہ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلى وَ إِنَّ لوگ ہیں جنہوں نے آپ پر زبان درازی کی اور نکتہ چینی اور أَشْقَى النَّاسِ قَوْم أَطَالُوا الألسنة عیب جوئی کرتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہوئے حالانکہ وہ الْأَلْسِنَةَ وَصَالُوا عَلَيْهِ بِالْهَمْزِ وَ تَجسس لوگ خدا تعالیٰ کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ نہیں.کئی ایسے سی الْعَيْبِ غَيْرَ مُطَّلِعِینَ عَلی سیز لوگ ہیں جن پر زمین میں تو لعنت کی جاتی ہے لیکن آسمان میں الْغَيْبِ وَكَمْ مِنْ مَّلْعُونِ فِي الْأَرْضِ اللہ تعالیٰ ان کی تعریف کرتا رہتا ہے.اور اسی طرح کئی لوگ يَحْمَدُهُ اللهُ في السَّمَاءِ.وَكَمْ تین ہیں جو اس دنیا میں تو صاحب عظمت سمجھے جاتے ہیں لیکن قیامت مُعَظَّم في هذِهِ النَّارِ يُقانُ في يَوْمِ کے دن وہ ذلیل ہوں گے.پھر اللہ پاک ذات نے اپنے قول الْجَزَاءِ ثُمَّ هُوَ سُبْحَانَهُ أَشَارَ في قَوْلِهِ ربّ العالمین میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے.رَبِّ الْعَلَمِينَ" إلى أنه تخالف حال اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کی حمد ہوتی ہے.اور پھر حمد کرنے شبي و أنه يُحْمَدُ في السَّمَاءِ وَ والے ہمیشہ اس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یا دخدا میں محور شَيْءٍ الْأَرْضِينَ.وَأَنَّ الْحَامِدِينَ كَانُوا عَلی ہتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اس کی تسبیح و تحمید

Page 129

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+7 سورة الفاتحة حَمْدِهِ دَائِمِينَ.وَعَلَى ذِكْرِهِمْ عَاكِفِينَ | کرتی رہتی ہے اور جب اس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُهُ وَيَحْمَدُهُ في كُلّ کا چولہ اتار پھینکتا ہے اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے حِينٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا انْسَلَخَ عَن اللہ تعالیٰ اور اس کی راہوں اور اس کی عبادات میں فنا ہو إرَادَاتِهِ وَتَجَرَّدَ عَنْ جَذَبَاتِهِ وَفَنا فی اللہ جاتا ہے اپنے اس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات وَفِي طَرُقِهِ وَعِبَادَاتِهِ عَرَفَ رَبَّهُ الَّذِی سے اس کی پرورش کی وہ اپنے تمام اوقات میں اس کی حمد ، رَبَّاهُ بِعِنَايَاتِهِ.حَمِدَهُ في سَائِرِ أَوْقَاتِه و کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے (وجود کے ) تمام أَحَبَّهُ بِجَمِيعِ قَلْبِهِ بَلْ بِجَمِيعِ ذَراتِهِ ذرات سے اس سے محبت کرتا ہے تو اس وقت وہ شخص فَعِندَ ذَالِكَ هُوَ عَالَم مِن الْعَالَمِينَ وَ عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے اس لئے اعلم العالمین لذالك سامي إبْرَاهِيمُ أُمَّةً في كِتَابِ کی کتاب (قرآن کریم ) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا أَعْلَمِ الْعَالِمِينَ.وَمِنَ الْعَالَمِينَ زَمَانُ نام اُمت رکھا گیا اور عالمین سے ایک عالم وہ بھی ہے جس أُرْسِلَ فِيْهِمْ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَ عَالَم میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے أَخَرُفِيْهِ يَأْتي اللهُ بِالخَرِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ گئے.ایک اور عالم وہ ہے جس میں اللہ تعالی اپنے طالبوں فِي آخِرِ الزَّمَانِ رَحْمَةً عَلَى الظَّالِبِينَ وَ پر رحم کر کے آخری زمانہ میں مومنوں کے ایک دوسرے إِلَيْهِ أَشَارَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى " لَهُ الْحَمْدُ فِی گروہ کو پیدا کرے گا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے الأولى وَ الْآخِرَةِ ، فَأَوْماً فِيهِ إِلَى أَحْمَدَيْنِ كلام " لَهُ الْحَمْدُ فِي الأولى وَ الْأَخِرَةِ " میں اشارہ فرمایا وَجَعَلَهُمَا مِنْ نَعْمَائِهِ الْكَاثِرَةِ فَالْأَوَّلُ ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمد وں کا ذکر مِنْهُمَا أَحْمَدُ الْمُصْطَفى وَ رَسُولَنَا فرما کر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے.ان الْمُجْتَبى وَالثَّانِي أَحْمَدُ أخرِ الزَّمَانِ میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمد مصطفیٰ اور رسول مجتبی الَّذِي سُمي مَسِيعًا وَ مَهْدِيَّا من الله صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرا احمد، احمد آخرالزمان ہے الْمَثَّانِ.وَقَدِ اسْتَنَبَطتُ هذهِ النُّكْتَةَ جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا مِنْ قَوْلِهِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “ ہے یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ فَلْيَتَدَبَّرُ مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبِرِينَ العلمین سے اخذ کیا ہے پس ہر غور وفکر کرنے والے کو غور (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۳۱ تا۱۳۹) کرنا چاہئے.( ترجمہ از مرتب ) ود القصص : ا

Page 130

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة الفاتحة الْعَالَمُ مَا يُعْلَمُ وَيُخْبَرُ عَنْهُ وَمَا يَدُلُّ عَالَم کے معنے ہیں جس کے متعلق علم اور خبر دی جا عَلَى الصَّائِعِ العَامِلِ الْوَاحِدِ المُدار سکے اور جو مدتم بالا رادہ کامل یگانہ صانع پر دلالت کرے.بِالْإِرَادَةِ يَلْتَحِصُ القَالِبَ إِلَى الْإِيْمَانِ بِهِ اور جو ( یعنی عالم ) اس ( یکتا ہستی) پر ایمان لانے کے لئے طلب حق کو مجبور کردے اور اس (طالب) کو وَيَنْصُّهُ إِلَى الْمُؤْمِنِينَ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۱۰) مومنوں ( کے گروہ) تک پہنچا دے.( ترجمہ از مرتب) وَعَرَفْتَ أَنَّ الْعَالَمِينَ عِبَارَةٌ عَنْ كُلِّ اور آپ جان چکے ہیں کہ عالمین سے مراد مخلوق کو مَوْجُوْدٍ سِوَى اللهِ خَالِقِ الْأَكَامِ سَوَاءٌ كَانَ پیدا کرنے والے خدا کے سوا ہر بستی ہے خواہ وہ عالم مِنْ عَالَمِ الْأَرْوَاحِ أَوْ مِنْ عَالَمِ الْأَجْسَامِ ارواح سے ہو عالم اجسام سے اور خواہ وہ زمینی مخلوق وَسَوَاءٌ كَانَ مِنْ تَخَلُوقِ الْأَرْضِ أَو تحالشمس سے ہو یا سورج چاند اور ان کے علاوہ دیگر اجرام کی وَالْقَمَرِ وَغَيْرِهِمَا مِنَ الْأَجْرَامِ فَكُلٌّ فِن مانند ( کوئی چیز ) ہو.پس تمام عالم جناب باری کی الْعَالَمِينَ دَاخِل تَحْتَ رُبُوَبِيَّةِ الْحَضْرَةِ.ربوبیت کے تحت داخل ہیں.( ترجمہ از مرتب ) اعجاز مسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۴۰،۱۳۹) یہاں خالق العالمین نہیں فرمایا بلکہ رب العالمین فرمایا اس لئے کہ بعض قو میں ربوبیت کی منکر ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم کو جو کچھ ملتا ہے ہمارے عملوں کے سبب سے ہی ملتا ہے مثلاً اگر دودھ ملتا ہے تو اگر ہم کوئی گناہ کر کے گائے یا بھینس وغیرہ کے جون میں نہ جاتے تو دودھ ہی نہ ہوتا.اور خلق چونکہ قطع برید کرنے کا نام ہے اس لئے اس موقعہ پر ربّ العالمین کو جو اس سے افضل تر ہے بیان فرمایا.(احکم جلد ۴ نمبر ۲۴۰ مؤرخہ ۱۰ارنومبر ۱۹۰۰ صفحه ۴) خدا تمام دنیا کا خدا ہے اور جس طرح اس نے ظاہر جسمانی ضروریات اور تربیت کے واسطے مواد اور سامان تمام قسم کی مخلوق کے واسطے بلا کسی امتیاز کے مشترکہ طور سے پیدا کئے ہیں.اور ہمارے اصول کے رو سے وہ رب العالمین ہے.اور اُس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانہ میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتا مصلح بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ( فاطر:۲۵) الحکم نمبر ۳۶ جلد ۱۲ مؤرخه ۲/جون ۱۹۰۸ء صفحه ۶) رب العالمین اس لئے بھی فرمایا تا کہ یہ ثابت کرے کہ وہ بسا ئط اور عالم امر کا بھی رب ہے کیونکہ بسیط چیزیں امر سے ہیں اور مرکب خلق سے ہے.منہ

Page 131

۱۰۸ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے لطیفہ سنایا کہ میں وحدت وجود کے مسئلہ کا قائل تھا اور شہودیوں کا سخت مخالف.جب میں پہلے پہلے حضرت اقدس مرزا صاحب کی خدمت میں پہنچا تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ:.ایک سمندر ہے جس سے سب شاخیں نکلتی ہیں مگر ہمیں شہودیوں والی بات درست معلوم ہوتی ہے.کیونکہ قرآن شریف کے شروع ہی میں جو کہا گیا ہے.اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمين عالمین کا رب تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رب اور ہے عالم اور ہے ورنہ اگر وحدت وجود والی بات صحیح ہوتی تو رَبُّ الْعَيْنِ کہا جاتا.( بدر جلدے نمبر ا ا مؤرخہ ۱۹ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۶) پھر اس کے بعد رب العالمین کا لفظ ہے.جیسا پہلے بیان کیا گیا ہے اللہ وہ ذات ( مستجمع ) جمیع صفات کاملہ ہے جو تمام نقائص سے منڈہ ہو اور حسن اور احسان کے اعلی نکتہ پر پہنچا ہوا ہو، تا کہ اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی عبادت کریں اس لئے پہلی خوبی احسان کی صفت رب العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے.جس کے ذریعہ سے کل مخلوق فیض ربوبیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے.مگر اس کے بالمقابل باقی سب مذہبوں نے جو اس وقت موجود ہیں.اس صفت کا بھی انکار کیا ہے.مثلاً آریہ جیسا ابھی بیان کیا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ سب اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور خدا کی ربوبیت سے وہ ہرگز ہرگز بہرہ ور نہیں ہے.کیونکہ جب وہ اپنی روحوں کا خالق ہی خدا کو نہیں مانتے اور ان کو اپنے بقاو قیام میں بالکل غیر محتاج سمجھتے ہیں.تو پھر اس صفت ربوبیت کا بھی انکار کرنا پڑا.ایسا ہی عیسائی بھی اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ وہ مسیح کو اپنا رب سمجھتے ہیں اور ربّنا المسیح ربنا المسیح کہتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جمیع مافی العالم کا رب نہیں مانتے بلکہ مسیح کو اس کے فیض ربوبیت سے باہر قرار دیتے ہیں اور خود ہی اس کو رب مانتے ہیں.اسی طرح پر عام ہندو بھی اس صداقت سے منکر ہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک چیز اور دوسری چیزوں کو رب مانتے ہیں.برہم سماج والے بھی ربوبیت تامہ کے منکر ہیں کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ کرنا تھا وہ سب یکبار کر دیا اور یہ ( کہ ) تمام عالم اور اس کی قوتیں جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں مستقل طور پر اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا.اور نہ کوئی ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اب معطل محض ہے.غرض جہاں تک مختلف مذاہب کو دیکھا جاوے اور ان کے

Page 132

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة الفاتحة اعتقادات کی پڑتال کی جاوے تو صاف طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے قائل نہیں ہیں.یہ خوبی جو اعلیٰ درجہ کی خوبی ہے اور جس کا مشاہدہ ہر آن ہو رہا ہے صرف اسلام ہی بتاتا ہے اور اس طرح پر اسی ایک لفظ کے ساتھ ان تمام غلط اور بے ہودہ اعتقادات کی بیخ کنی کرتا ہے جو اس صفت کے خلاف دوسرے مذاہب والوں نے خود بنالئے ہیں.(الحکم نمبر ۱۷ جلد ۷ مؤرخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے.عالم کے لفظ میں تمام مختلف قو میں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں.اور اس آیت سے جو قرآن شریف شروع کیا گیا یہ در حقیقت اُن قوموں کارڈ ہے جو خدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محدود رکھتے ہیں اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہی نہیں.اور گو یا خدا نے اُن کو پیدا کر کے پھر رڈی کی طرح پھینک دیا ہے.یا اُن کو بھول گیا ہے اور یا ( نعوذ باللہ ) وہ اس کے پیدا کردہ ہی نہیں.جیسا کہ مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کا اب تک یہی خیال ہے کہ جس قدر خدا کے نبی اور رسول آئے ہیں وہ صرف یہود کے خاندان سے آئے ہیں اور خدا دوسری قوموں سے کچھ ایسا ناراض رہا ہے کہ اُن کو گمراہی اور غفلت میں دیکھ کر پھر بھی اُن کی کچھ پروا نہیں کی.جیسا کہ انجیل میں بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ہوں.اس جگہ ہم ایک فرض محال کے طور پر کہتے ہیں کہ خدائی کا دعوی کر کے پھر ایسا تنگ خیالی کا کلمہ بڑے تعجب کی بات ہے کیا مسیح صرف اسرائیلیوں کا خدا تھا اور دوسری قوموں کا خدا نہ تھا جو ایسا کلمہ اُس کے منہ سے نکلا کہ مجھے دوسری قوموں کی اصلاح اور ہدایت سے کچھ غرض نہیں.غرض یہودیوں اور عیسائیوں کا یہی مذہب ہے کہ تمام نبی اور رسول انہیں کے خاندان سے آتے رہے ہیں اور انہیں کے خاندان میں خدا کی کتابیں اترتی رہی ہیں اور پھر بموجب عقیدہ عیسائیوں کے وہ سلسلہ الہام اور وحی کا حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم ہو گیا اور خدا کے الہام پر مہر لگ گئی.انہیں خیالات کے پابند آریہ صاحبان بھی پائے جاتے ہیں یعنی جیسے یہود اور عیسائی نبوت اور الہام کو اسرائیلی خاندان تک ہی محمد و در کھتے ہیں اور دوسری تمام قوموں کو الہام پانے کے فخر سے جواب دے رہے

Page 133

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام +11 سورة الفاتحة ہیں.یہی عقیدہ نوع انسان کی بد قسمتی سے آریہ صاحبان نے بھی اختیار کر رکھا ہے یعنی وہ بھی یہی اعتقا در کھتے ہیں کہ خدا کی وحی اور الہام کا سلسلہ آریہ ورت کی چار دیواری سے بھی باہر نہیں گیا.ہمیشہ اسی ملک سے چار رشی منتخب کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ وید ہی بار بار نازل ہوتا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی اس الہام کے لئے خاص کی گئی ہے.غرض یہ دونوں قو میں خدا کو رب العالمین نہیں سمجھتیں ورنہ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جس حالت میں خدا رب العالمین کہلاتا ہے نہ صرف رب اسرائیلیاں یا صرف رب آریاں تو وہ ایک خاص قوم سے کیوں ایسا دائمی تعلق پیدا کرتا ہے جس میں صریح طور پر طرف داری اور پکش پات پائی جاتی ہے.پس ان عقائد کے رڈ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اور جابجا اُس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا.اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال اُن کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے.جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے.وَ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ( فاطر :۲۵) که کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا.مو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے اور تمام فیضوں کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے.یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اُس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور ظاہر ہوامگر زمانہ دکھلا کر

Page 134

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام III سورة الفاتحة اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ پیغام صلح.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۰ تا ۴۴۲) کو بے نصیب ٹھہرایا.سب حمد اس اللہ کے لئے جو تمام دنیا کو پیدا کرنے والا ہے.اب بعض لوگ اس قسم کے ہیں جو خدا کے پیدا کرنے سے منکر ہیں.جیسے آریہ جیو (روح) پر کرتی (مادہ) کی نسبت کہتے ہیں کہ آپ سے آپ چلے آتے ہیں.جیسے پر میشر آپ سے آپ ہے ان کی کل طاقتیں بھی خود بخود ہیں پر میشر کا دخل نہیں.یہ وہ فرقہ تھا جس کی طرف اللہ نے رَبُّ العالمین سے اشارہ کیا اور ان کی تردید بھی کی.البد نمبر ا جلد۷ مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) خدا کا نام رَبُّ العلمينَ ہے.رب کے معنے پرورش کرنے والے کے ہیں.عالم روحانی وجسمانی کی وہی پرورش کرتا ہے.اگر اس نے ایسے قومی انسان میں نہ رکھے ہوتے تو انسان ان انعامات سے کہاں متمتع ہو سکتا.ایسا ہی روحانی ترقی بغیر اس کے فضل کے ناممکن ہے.(البدر نمبر ۲۵ جلد ۷ مؤرخہ ۲۵؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۳) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل میں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں.جب خدا تعالیٰ کی پرورش نہ ہوتو کوئی پرورش نہیں کر سکتا.دیکھو! جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار.....ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں.مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے.طاعون کے مرض کی طرف غور کرو.سب ڈاکٹر زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ ہوا.اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اسی کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے پھر فرماتا ہے الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور تمام پرورشیں تمام جہان پر اسی کی ہیں.99191 البدر نمبر ۲۴ جلد ۲ مؤرخہ ۳ جولائی ۱۹۰۳، صفحہ ۱۸۶) الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمين........یعنی تمام محامد اللہ کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے یعنی اس کی ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰۱) اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں یہ اسی کی طاقت زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے.وہی ہے جو

Page 135

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٢ سورة الفاتحة چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر ان کو منور کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے.وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنادیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے.اسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے.اسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے.یہ اسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اُٹھا رہی ہے مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں ؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگر چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل بن گیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں.اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی وعناصر ارضی بلکہ ذرہ ذرہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے یہ سب باعتبار اپنی مختلف خاصیتوں کے جو اُن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدا میں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا.نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی.ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو ڈ بلا نہیں کر دیتی.یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے جبکہ یہ بات طے ہو چکی اور خود قرآن شریف نے یہ علم ہمیں عطا کیا تو پھر میرے نزدیک ممکن ہے کہ وید نے جو کچھ آگ کی تعریف کی یا بہوا کی تعریف کی یا سورج کی مہما اور استت کی اس کا بھی یہی مقصد ہوگا کہ الہی طاقت ایسے شدید تعلق سے ان کے اندر کام کر رہی ہے کہ در حقیقت اس کے مقابل وہ سب اجرام بطور چھلکے کے ہیں اور وہ مغز ہے اور سب صفات اُسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اس لئے اسی کا نام آگ رکھنا چاہئے اور اسی کا نام پانی اور اس کا نام ہوا کیونکہ ان کے فعل ان کے فعل نہیں بلکہ یہ سب اس سے فعل ہیں اور ان کی طاقتیں ان کی طاقتیں نہیں بلکہ یہ سب اس کی طاقتیں ہیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی اس

Page 136

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۳ سورة الفاتحة آیت میں کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اسی کی طرف اشارہ ہے.یعنی مختلف رنگوں اور پیرایوں اور عالموں میں جو دنیا کا نظام قائم رکھنے کے لئے زمین آسمان کی چیزیں کام کر رہی ہیں یہ وہ نہیں کام کرتیں بلکہ خدائی طاقت ان کے نیچے کام کر رہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں بھی فرمایا صرح لممرد من قوارير (العمل: ۴۵) یعنی دنیا ایک شیش محل ہے جس کے شیشوں کے نیچے زور سے پانی چل رہا ہے اور نادان سمجھتا ہے کہ یہی شیشے پانی ہیں حالانکہ پانی ان کے نیچے ہے.اور جیسا کہ قرآن شریف میں ایک تیسری جگہ بھی فرمایا.حَمَلْتَهُمْ فِي الْبَر وَالْبَحْرِ (بنی اسرائیل: اے ) یعنی یہ خیال مت کرو کہ زمین تمہیں اُٹھاتی ہے یا کشتیاں دریا میں تمہیں اُٹھاتی ہیں بلکہ ہم خود تمہیں اٹھا رہے ہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۳ تا ۴۲۶) رَبُّ العلمينَ کیسا جامع کلمہ ہے.اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۲ حاشیہ) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۷۳) مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پر ہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے.جو شخص کسی کو اپنی جان وغیرہ کا مالک ٹھہراتا ہے تو وہ اقرار کرتا ہے کہ اپنی جان اور مال وغیرہ پر میرا کوئی حق نہیں اور میرا کچھ بھی نہیں سب مالک کا ہے.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳) ہر ایک بدی کی سزا دینا خدا کے اخلاق عفو اور درگزر کے برخلاف ہے کیونکہ وہ مالک ہے نہ صرف ایک مجسٹریٹ کی طرح جیسا کہ اُس نے قرآن شریف کی پہلی سورت میں ہی اپنا نام مالک رکھا ہے اور فرمایا کہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ یعنی خدا جزا سزا دینے کا مالک ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی مالک مالک نہیں کہلا سکتا جب تک دونوں پہلوؤں پر اس کو اختیار نہ ہو یعنی چاہے تو پکڑے اور چاہے تو چھوڑ دے.(چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴) قرآن شریف میں اس کا نام ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بھی ہے.ہوسکتا ہے کہ انسان خوش حال ہومگر ممکن ہے کہ پرند، چرند اس سے بھی زیادہ خوش حال ہوں.یہ دنیا ایک عالم امتحان ہے اس کے حل کرنے کے واسطے

Page 137

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورة الفاتحة سرا عائم ہے.اس دنیا میں جو تکالیف رکھی ہیں اس کا وعدہ ہے کہ آئندہ عالم میں خوشی دے گا.اگر اب بھی کوئی کہے کہ کیوں ایسا کیا اور ایسانہ کیا؟ اس کا یہ جواب ہے کہ وہ حکم اور مالکیت بھی تو رکھتا ہے.اُس نے جیسا چاہا کیا.کسی کو اس کے اس کام پر اعتراض کی گنجائش اور حق نہیں.الحکم نمبر ۳۵ جلد ۱۲ مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۵) (انسان) گناہ سے تو جلالی رنگ اور جیبت ہی سے بچ سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میں شَدِيدُ الْعَذَابِ ہے اور ملک یوم الدین ہے تو انسان پر ایک ہیبت سی طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچالے گی.الحکم نمبر ۴۵ جلد ۵ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) ملِكِ يَوْمِ الذين سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کو جزا سزا ہوگی بلکہ قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات کبری کا وقت ہے.مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے جس کی طرف آیت يَجْعَلُ لَكُمْ فُرقان (الانفال:۳۰) اشارہ کرتی ہے.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲) فرمایا کہ میں ملِكِ يَوْمِ الدین ہوں.جزا و سزا دینا اُس کے اختیار میں ہے اسی عالم سے جزا و سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے جو نقب زنی کرتا ہے شاید ایک دفعہ نہیں تو دوسری دفعہ دوسری دفعہ نہیں تو تیسری دفعہ ضرور پکڑا جاتا ہے یا کسی اور رنگ میں اسے سزا مل جاتی ہے ( یہ سزا کیا کم ہے کہ چور دولت کے لئے چوری کرتا ہے اور پھر بھی ہمیشہ مفلس اور غریب ذلیل رہتا ہے ) ہم نے اس عالم میں خوب غور کر کے دیکھ لیا کہ جو سرگرمی سے نیکی کرتا ہے تو نیک نتیجہ پانے سے خالی نہیں رہتا اور جو بدی کرتا ہے ضرور بدنتیجہ بھگت لیتا ہے دیکھو جو زنا کرتے ہیں اُن کو آتشک ہو جاتی ہے.شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے.کسی کی انتڑیوں میں پھوڑے نکل آتے ہیں.القصہ خدا کے اس قدر احسان ہیں کہ کس کی طاقت ہے جو ان احسانوں کو شمار کر سکے انسان جس قدر قوی لے کر آیا ہے وہ کس کا عطیہ ہیں.انسان اگر سوچ کر دیکھے تو سب قومی اللہ کی زیر قدرت ہیں چاہے تو ایک دم میں قلب کی حرکت موقوف ہو جائے اور انسان فورا ہلاک ہو جائے مگر مرنے کو کس کا دل چاہتا ہے.البدر نمبر ۲۵ جلدے مؤرخہ ۲۵ /جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) جولوگ قیامت کے منکر ہیں اس میں ان کا رڈ موجود ہے.اس کی تفصیل قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہے.اللہ تعالیٰ کی اس صفت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحیمیت میں دُعا اور عبادت کے ذریعہ کامیابی کی

Page 138

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ راہ پیدا ہوتی اور ایک حق ہوتا ہے مگر مالکیت یوم الدین وہ حق اور ثمر ہ عطا کرتی ہے.سورة الفاتحة الحکم نمبر ۱۹ جلد۷ مؤرخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ مالک ہے جزاء کے دن کا.دہریہ اس کے مخالف ہیں جو کہتے ہیں کوئی جزا سزا نہیں.صفت رحیمیت سے انکار کرنے والے تو پھر لا پرواہی سے عمل نہیں کرتے اور یہ خدا کے وجود سے منکر ہیں.اس لئے عمد اعمال صالحہ کی طرف توجہ نہیں دیتے.البدر نمبر اجلد۷ مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) اس جگہ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرما ئیں.یعنی ربّ العالمین.رحمان.رحيم - مالك يوم الدين.اور ان ہر چہار صفتوں میں سے رب العالمین کو سب سے مقدم رکھا اور پھر بعد اس کے صفت رحمان کو ذکر کیا.پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا.پھر سب کے اخیر صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کو لائے.پس سمجھنا چاہئے کہ یہ ترتیب خدائے تعالیٰ نے کیوں اختیار کی.اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبعی یہی ہے اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ مفتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا پر خدا کا چار طور پر فیضان پایا جاتا ہے.جو غور کرنے سے ہر یک عاقل اس کو سمجھ سکتا ہے.پہلا فیضان فیضان اہم ہے.یہ وہ فیضانِ مطلق ہے کہ جو بلا تمیز ذی روح و غیر ذی روح افلاک سے لے کر خاک تک تمام چیزوں پر علی الاتصال جاری ہے اور ہر یک چیز کا عدم سے صورت وجود پکڑنا اور پھر وجود کا حد کمال تک پہنچنا اسی فیضان کے ذریعہ سے ہے.اور کوئی چیز جاندار ہو یا غیر جاندار اس سے باہر نہیں.اسی سے وجود تمام ارواح و اجسام ظہور پذیر ہوا اور ہوتا ہے اور ہر یک چیز نے پرورش پائی اور پاتی ہے.یہی فیضان تمام کائنات کی جان ہے اگر ایک لمحہ منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے.اور اگر نہ ہوتا تو مخلوقات میں سے کچھ بھی نہ ہوتا.اس کا نام قرآن شریف میں ربوبیت ہے.اور اسی کی رو سے خدا کا نام رب العالمین ہے.جیسا کہ اس نے دوسری جگہ بھی فرمایا ہے وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَى : - ( الالعام : ۱۶۵ ) یعنی خدا ہر یک چیز کا ربّ ہے.اور کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت میں سے باہر نہیں سو خدا نے سورۃ فاتحہ میں سب صفات فیضانی میں سے پہلے صفت رب العالمین کو بیان فرمایا اور کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.یہ اس لئے کہا کہ سب فیضانی صفتوں میں سے تقدم طبعی صفت ربوبیت کو حاصل ہے یعنی ظہور کے رو سے بھی صفت مقدم الظہو راور تمام صفات فیضانی سے اہم ہے کیونکہ ہر یک چیز پر خواہ جاندار ہو خواہ غیر جاندارمشتمل ہے.الظہوراور پھر دوسرا قسم فیضان کا جو دوسرے مرتبہ پر واقعہ ہے فیضان عام ہے.اس میں اور فیضانِ ائم میں یہ فرق

Page 139

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 117 سورة الفاتحة ہے کہ فیضانِ اعم تو ایک عام ربوبیت ہے جس کے ذریعہ سے کل کائنات کا ظہور اور وجود ہے اور یہ فیضان جس کا نام فیضانِ عام ہے.یہ ایک خاص عنایت از لیہ ہے جو جانداروں کے حال پر مبذول ہے یعنی ذی روح چیزوں کی طرف حضرت باری کی جو ایک خاص توجہ ہے اس کا نام فیضانِ عام ہے.اور اس فیضان کی یہ تعریف ہے کہ یہ بلا استحقاق اور بغیر اس کے کہ کسی کا کچھ حق ہو سب ذی روحوں پر حسب حاجت ان کے جاری ہے.کسی سے عمل کا پاداش نہیں.اور اسی فیضان کی برکت سے ہر یک جاندار جیتا، جاگتا، کھاتا پیتا اور آفات سے محفوظ اور ضروریات سے متمتع نظر آتا ہے اور ہر یک ذی روح کے لئے تمام اسباب زندگی کے جو اس کے لئے یا اس کے نوع کے بقا کے لئے مطلوب ہیں میسر نظر آتے ہیں اور یہ سب آثار اسی فیضان کے ہیں کہ جو کچھ روحوں کو جسمانی تربیت کے لئے درکار ہے سب کچھ دیا گیا ہے اور ایسا ہی جن روحوں کو علاوہ جسمانی تربیت کے روحانی تربیت کی بھی ضرورت ہے یعنی روحانی ترقی کی استعدا در رکھتے ہیں.ان کے لئے قدیم سے عین ضرورتوں کے وقتوں میں کلام الہی نازل ہوتا رہا ہے.غرض اسی فیضانِ رحمانیت کے ذریعہ سے انسان اپنی کروڑ ہا ضروریات پر کامیاب ہے.سکونت کے لئے سطح زمین ، روشنی کے لئے چاند اور سورج، ، اور دم لینے کے لئے ہوا، پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے انواع اقسام کے رزق اور علاج امراض کے لئے لاکھوں طرح کی ادویہ اور پوشاک کے لئے طرح طرح کی پوشیدنی چیزیں اور ہدایت پانے کے لئے صحف ربانی موجود ہیں اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ تمام چیزیں میرے عملوں کی برکت سے پیدا ہوگئیں ہیں اور میں نے ہی کسی پہلے جنم میں کوئی نیک عمل کیا تھا جس کی پاداش میں یہ بے شمار نعمتیں خدا نے بنی آدم کو عنایت کیں.پس ثابت ہے کہ یہ فیضان جو ہزار ہا طور پر ذی روحوں کے آرام کے لئے ظہور پذیر ہو رہا ہے یہ عطیہ بلا استحقاق ہے جو کسی عمل کے عوض میں نہیں فقط ربانی رحمت کا ایک جوش ہے تاہر یک جاندار اپنے فطرتی مطلوب کو پہنچ جائے اور جو کچھ اس کی فطرت میں حاجتیں ڈالی گئیں وہ پوری ہو جا ئیں.پس اس فیضان میں عنایت از لیہ کا کام یہ ہے کہ انسان اور جمیع حیوانات کی ضروریات کا تعہد کرے اور ان کی بالیست اور نابالیست کی خبر رکھے تا وہ ضائع نہ ہو جائیں اور ان کی استعداد میں خیز کتمان میں نہ رہیں اور اس صفت فیضانی کا خدائے تعالیٰ کی ذات میں پایا جانا قانون قدرت کے ملاحظہ سے نہایت بدیہی طور پر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس میں کلام نہیں کہ جو کچھ چاند اور سورج اور زمین اور عناصر وغیرہ ضروریات دنیا میں پائی جاتی ہیں جن پر تمام ذی روحوں کی زندگی کا مدار ہے اسی فیضان کے اثر سے ظہور پذیر ہیں اور ہر یک متنفس

Page 140

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۷ سورة الفاتحة بلا تمیز انسان و حیوان و مومن و کافرونیک و بد حسب حاجت اپنے ان فیوض مذکورہ بالا سے مستفیض ہورہا ہے اور کوئی ذی روح اس سے محروم نہیں اور اس فیضان کا نام قرآن شریف میں رحمانیت ہے اور اسی کے رو سے خدا کا نام سورۃ فاتحہ میں بعد صفت رب العلمین رحمن آیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اکر خمن.اس صفت کی طرف قرآن شریف کے کئی ایک اور مقامات میں بھی اشارہ فرمایا گیا ہے.چچنانچہ 99911 919 منجملہ ان کے یہ ہے وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَن قَالُوا وَ مَا الرَّحْمَنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ تفورات تَبْرَكَ الَّذِى جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَ جَعَلَ فِيهَا سِرجًا وَ قَمَرًا منيران وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ الَيْلَ وَالنَّهَارِ خِلْفَةً لِمَنْ اَرَادَ أَنْ يَذَكَرَ اَوْ أَرَادَ شُكُورًا وَ عِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلمًا (الفرقان: ۶۱ تا ۶۴ ) یعنی جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمان کو سجدہ کرو تو وہ رحمان کے نام سے متنفر ہوکر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمان کیا چیز ہے ( پھر بطور جواب فرمایا ) رحمان وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں بُرج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کافر و مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.اسی رحمان نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائی جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھا دے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے.رحمان کے حقیقی پرستاروہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دُعا دیتے ہیں.اور تنشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمان بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمان کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک برے بھلے پر محیط ہو رہی ہے.جیسا ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ب عَذَابِي أَصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: ۱۵۷) یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر یک چیز کوگھیر رکھا ہے.اور پھر ایک اور موقعہ پر فرما یا قُلْ مَنْ يَحْلُوكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمنِ (الانبیاء : ۴۳) یعنی ان کافروں اور

Page 141

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة الفاتحة نافرمانوں کو کہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے یعنی اس کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا.پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اَو لَمْ يَرُوا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ طَفَةٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمٰنُ - الجز نمبر ۲۹ (الملك :۲۰) یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں رحمن ہی ہے کہ ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے کو یعنی فیضان رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہو رہا ہے کہ پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دوتین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں.اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے.اس جہت سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمان ہونے کی صفت بیان فرمائی تا ترتیب طبعی ان کی ملحوظ رہے.تیسری قسم فیضان کی فیضان خاص ہے اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بنادے اور اپنے نفس کو حجب ظلمانیہ سے باہر نکالے یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے بلکہ اس فیضان میں جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے.لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دُعا اور تفرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقع ہو شرط ہے اور اس فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے اور اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانونِ قدرت سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے.بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اور ہر یک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط به شرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے مؤخر ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اوّل صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے.پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی پس اسی ترتیب طبیعی کے لحاظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا الرّحمن الرّحیم اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات

Page 142

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٩ سورة الفاتحة پر قرآن شریف میں ذکر موجود ہے.جیسا ایک جگہ فرمایا ہے وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا (الاحزاب: ۴۴) یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمانداروں سے خاص ہے جس سے کافر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ گانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحمانا بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا ہے.اِنَّ رَحْمَتَ اللهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (الاعراف: ۵۷) یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے.اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (البقرة : ۲۱۹ ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے یعنی اس کا فیضانِ رحیمیت ضرور ان لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں.کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.عاشق که شد که بار بحالش نظر نه کرد اے خواجہ در دنیست وگر نه طبیب ہست وگرنه چوتھا قم فیضان کا فیضان احض ہے.یہ وہ فیضان ہے کہ جو صرف محنت اور سعی پر مترتب نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے ظہور اور بروز کے لئے اوّل شرط یہ ہے کہ یہ عالم اسباب کہ جو ایک تنگ و تاریک جگہ ہے.بکلی معدوم اور منعدم ہو جائے اور قدرت کاملہ حضرت احدیت کے بغیر آمیزش اسباب معتادہ کے بر ہنہ طور پر اپنا کامل چمکا را دکھلاوے کیونکہ اس آخری فیضان میں کہ جو تمام فیوض کا خاتمہ ہے جو کچھ پہلے فیضانوں کی نسبت عند العقل زیادتی اور کمالیت متصور ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیضان نہایت منکشف اور صاف طور پر ہو اور کوئی اشتباہ اور خفا اور نقص باقی نہ رہے.یعنی نہ مفیض کے بالا رادہ فیضان میں کوئی شبہ رہ جائے.اور نہ فیضان کے حقیقی فیضان اور رحمت خالصہ اور کاملہ ہونے میں کچھ جائے کلام ہو بلکہ جس مالک قدیم کی طرف سے فیض ہوا ہے اس کی فیاضی اور جزا ہی روز روشن کی طرح کھل جائے اور شخص فیض یاب کو بطور حق الیقین یہ امر مشہود اور محسوس ہو کہ حقیقت میں وہ مالک الملک ہی اپنے ارادہ اور توجہ اور قدرت خاص سے ایک نعمت عظمی اور لذت کبرگی اس کو عطا کر رہا ہے اور حقیقت میں اس کو اپنے اعمال صالحہ کی ایک کامل اور دائمی جزا کہ جو نہایت اصفی اور نہایت اعلیٰ اور نہایت مرغوب اور نہایت محبوب ہے مل رہی ہے.کسی قسم کا امتحان اور ابتلا

Page 143

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة نہیں ہے.اور ایسے فیضان اکمل اور اتم اور ابھی اور اعلیٰ اور اجلی سے متمتع ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بندہ اس عالم ناقص اور مکدر اور کثیف اور تنگ اور منقبض اور نا پائیدار مشتبہ الحال سے دوسرے عالم کی طرف انتقال کرے.کیونکہ یہ فیضان تجلیات عظمی کا مظہر ہے جن میں شرط ہے کہ محسن حقیقی کا جمال بطور عریاں اور بمرتبہ حق الیقین مشہود ہو.اور کوئی مرتبہ شہود اور ظہور اور یقین کا باقی نہ رہ جائے.اور کوئی پردہ اسباب معتادہ کا درمیان نہ ہو.اور ہر یک دقیقہ معرفت تامہ کا مکمن قوت سے حنیز فعل میں آجائے.اور نیز فیضان بھی ایسا منکشف اور معلوم الحقیقت ہو کہ اس کی نسبت آپ خدا نے یہ ظاہر کر دیا ہو کہ وہ ہر یک امتحان اور ابتلاء کی کدورت سے پاک ہے اور نیز اس فیضان میں وہ اعلیٰ اور اکمل درجہ کی لذتیں ہوں جن کی پاک اور کامل کیفیت انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہر یک روحانی اور بدنی قوت پر ایسا اکمل اور ابھی احاطہ رکھتی ہو کہ جس پر عقل اور خیالا اور وہم زیادت متصور نہ ہو.اور یہ عالم کہ جو ناقص الحقیقت اور مکد رالصورت اور ہالکتۃ الذات اور مشتبہ الکیفیت اور فضیق الظرف ہے.ان تجلیات عظمیٰ اور انوار اصفی اور عطیات دائمی کی برداشت نہیں کر سکتا.اور وہ اشعہ تامہ کاملہ دائمہ اس میں سمانہیں سکتے بلکہ اس کے ظہور کے لئے ایک دوسرا عالم درکار ہے کہ جو اسباب معتادہ کی ظلمت سے بکلی پاک اور منزہ اور ذات واحد قہار کی اقتدار کامل اور خالص کا مظہر ہے.ہاں اس فیضانِ اخص سے ان کامل انسانوں کو اسی زندگی میں کچھ حظ پہنچتا ہے کہ جو سچائی کی راہ پر کامل طور پر قدم مارتے ہیں اور اپنے نفس کے ارادوں اور خواہشوں سے الگ ہوکر بکلی خدا کی طرف جھک جاتے ہیں کیونکہ وہ مرنے سے پہلے مرتے ہیں اور اگر چہ بظاہرصورت اس عالم میں ہیں لیکن درحقیقت وہ دوسرے عالم میں سکونت رکھتے ہیں.پس چونکہ وہ اپنے دل کو اس دنیا کے اسباب سے منقطع کر لیتے ہیں اور عادات بشریت کو توڑ کر اور بیکبارگی غیر اللہ سے مونہہ پھیر کر وہ طریق جو خارقِ عادت ہے اختیار کر لیتے ہیں اس لئے خداوند کریم بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے اور بطور خارقِ عادت ان پر اپنے وہ انوار خاصہ ظاہر کرتا ہے کہ جو دوسروں پر بجز موت کے ظاہر نہیں ہو سکتے.غرض بباعث امور متذکرہ بالا وہ اس عالم میں بھی فیضان اخص کے نور سے کچھ حصہ پالیتے ہیں اور یہ فیضان ہر ایک فیض سے خاص تر اور خاتمہ تمام فیضانوں کا ہے.اور اس کو پانے والا سعادت عظمی کو پانچ جاتا ہے اور خوشحالی دائمی کو پالیتا ہے کہ جو تمام خوشیوں کا سرچشمہ ہے.اور جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہمیشہ کے دوزخ میں پڑا.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنا نام ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ بیان فرمایا ہے.دین کے لفظ پر الف لام

Page 144

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۱ سورة الفاتحة لانے سے یہ غرض ہے کہ تا یہ معنے ظاہر ہوں کہ جزا سے مراد وہ کامل جزا ہے جس کی تفصیل فرقانِ مجید میں مندرج ہے.اور وہ کامل جزا بجز تجلی مالکیت تامہ کے کہ جو ہدم بنیان اسباب کو مستلزم ہے ظہور میں نہیں آسکتی.چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے.لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المؤمن : ۱۷) یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھائے گی اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجر قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں.تب سارا آرام و سرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف و صریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی.تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہوگا کہ جو اس سعادت عظمیٰ کے پانے سے بے نصیب رہا ہو.اور اس جگہ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس روز راحت یا عذاب اور لذت یا درد جو کچھ بنی آدم کو پہنچے گا اس کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی ذات ہوگی اور مالک امر مجازات کا حقیقی طور پر وہی ہوگا یعنی اسی کا وصل یا فصل سعادت ابدی یا شقاوت ابدی کا موجب ٹھہرے گا.اس طرح پر کہ جولوگ اس کی ذات پر ایمان لائے تھے اور توحید اختیار کی تھی اور اس کی خالص محبت سے اپنے دلوں کو رنگین کر لیا تھا ان پر انوار رحمت اس ذات کامل کے صاف اور آشکار طور پر نازل ہوں گے.اور جن کو ایمان اور محبت الہیہ حاصل نہیں ہوئی وہ اس لذت اور راحت سے محروم رہیں گے اور عذاب الیم میں مبتلا ہو جا ئیں گے.یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے.اب ظاہر ہے کہ صفت رحمان کو صفت رحیم پر مقدم رکھنا نہایت ضروری اور مقتضائے بلاغتِ کاملہ ہے کیونکہ صحیفہء قدرت پر جب نظر ڈالی جائے تو پہلے پہل خدائے تعالی کی عام ربوبیت پر نظر پڑتی ہے.پھر اس کی رحمانیت پر.پھر اس کی رحیمیت پر.پھر اس کے ملک يَوْمِ الدِّينِ ہونے پر اور کمال بلاغت اس کا نام ہے کہ جو صحیفہ فطرت میں ترتیب ہو وہی ترتیب صحیفہ الہام میں بھی ملحوظ رہے.کیونکہ کلام میں ترتیب قدرتی کو منقلب کرنا گویا قانونِ قدرت کو منقلب کرنا ہے اور نظام طبیعی کو الٹا دینا ہے.کلام بلیغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ نظام کلام کا نظام طبعی کے ایسا مطابق ہو کہ گویا اس کی عکسی تصویر ہو.اور جو امر طبعاً اور وقوعاً مقدم ہو اس کو وضعاً بھی مقدم رکھا جائے.سو آیت موصوفہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے کہ باوجود کمال فصاحت اور خوش بیانی کے واقعی ترتیب کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور

Page 145

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۲ سورة الفاتحة وہی طرز بیان اختیار کی ہے جو کہ ہر یک صاحب نظر کو نظام عالم میں بدیہی طور پر نظر آرہی ہے.کیا یہ نہایت سیدھا راستہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے نعماء الہی صحیفہ، فطرت میں واقعہ ہیں اسی ترتیب سے صحیفہ الہام میں بھی واقعہ ہوں.سو ایسی عمدہ اور پر حکمت ترتیب پر اعتراض کرنا حقیقت میں انہیں اندھوں کا کام ہے جن کی بصیرت اور بصارت دونوں یکبارگی جاتی رہی ہیں.چشم بد اندیش که برکنده باد عیب نماید هنرش در نظر (براہین احمدیہ چہار حصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۴۴ تا ۴۵۷ حاشیه نمبر۱۱) سورہ فاتحہ میں اُس خدا کا نقشہ دکھایا گیا ہے جو قرآن شریف منوانا چاہتا ہے اور جس کو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.چنانچہ اُس کی چار صفات کو ترتیب وار بیان کیا ہے جو امہات الصفات کہلاتی ہیں جیسے سورہ فاتحہ اُمّ الکتاب ہے ویسے ہی جو صفات اللہ تعالیٰ کی اس میں بیان کی گئی ہیں وہ بھی اتم الصفات ہی ہیں اور وہ یہ ہیں رب العلمينَ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدين.ان صفات اربعہ پر غور کرنے سے خدا تعالیٰ کا گویا چہرہ نظر آ جاتا ہے.ربوبیت کا فیضان بہت ہی وسیع اور عام ہے اور اس میں کل مخلوق کی کل حالتوں میں تربیت اور اس کی تکمیل کے تکفل کی طرف اشارہ ہے.غور تو کرو جب انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سوچتا ہے تو اُس کی اُمید کس قدر وسیع ہو جاتی ہے اور پھر رحمانیت یہ ہے کہ بدوں کسی عمل عامل کے اُن اسباب کو مہیا کرتا ہے جو بقائے وجود کے لئے ضروری ہیں دیکھو چاند سورج ، ہوا، پانی وغیرہ بدوں ہماری دُعا اور التجا کے اور بغیر ہمارے کسی عمل اور فعل کے اُس نے ہمارے وجود کے بقا کے لئے کام میں لگا رکھے ہیں اور پھر رحیمیت یہ ہے کہ اعمال کو ضائع نہ کرے اور مُلِكِ يَوْمِ الدّین کا تقاضا یہ ہے کہ بامراد کر دے جیسے ایک شخص امتحان کے لئے بہت محنت سے طیاری کرتا ہے مگر امتحان میں دو چار نمبروں کی کمی رہ جاتی ہے تو دنیوی نظام اور سلسلہ میں تو اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کو گرا دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کی پردہ پوشی فرماتی ہے اور اس کو پاس کرا دیتی ہے.رحیمیت میں ایک قسم کی پردہ پوشی بھی ہوتی ہے عیسائیوں کا خدا ذرا بھی پردہ پوش نہیں ہے ورنہ کفارہ کی کیا ضرورت رہتی.ایسا ہی آریوں کا خدا نہ رب ہے نہ رحمان ہے کیونکہ وہ تو بلا مرد اور بلا عمل کچھ بھی کسی کو عطا نہیں کر سکتا.یہاں تک کہ ویدوں کے اصول کے موافق گناہ کرنا بھی ضروری معلوم دیتا ہے مثلاً ایک شخص کو اگر کسی اس کے عمل کے معاوضہ میں گائے کا دودھ دینا مطلوب ہے تو بالمقابل یہ بھی ضرور ہے کہ کوئی برہمنی (اگر یہ روایت صحیح ہو ) زنا کرے تا کہ اس فسق وپخش کے بدلہ میں وہ

Page 146

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ سورة الفاتحة گائے کی جون میں جائے اور اس عامل کو دودھ پلائے خواہ وہ اُس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو ،غرض جب تک ایسا سلسلہ نہ ہوگا کوئی عامل اپنے عمل کی جزا ویدک ایشر کے خزانہ سے پانہیں سکتا کیونکہ اس کا سارا سلسلہ جوڑ توڑ ہی سے چلتا ہے.مگر اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو جمیع محامد کا سزاوار ہے اس لئے معطی حقیقی ہے.وہ رحمن ہے بدوں عمل عامل کے اپنا فضل کرتا ہے.پھر مالکیت یوم الدین جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے بامراد کرتی ہے دنیا کی گورنمنٹ کبھی اس امر کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی کہ ہر ایک بی اے پاس کرنے والے کو ضرور نوکری دیگی.مگر خدا تعالیٰ کی گورنمنٹ کامل گورنمنٹ اور لا انتہا خزائن کی مالک ہے اُس کے حضور کوئی کمی نہیں.کوئی عمل کرنے والا ہو وہ سب کو فائز المرام کرتا ہے اور نیکیوں اور حسنات کے مقابلہ میں بعض ضعفوں اور سقموں کی پردہ پوشی بھی فرماتا ہے.وہ تو اب بھی ہے اور ستمی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کو ہزار ہا عیب اپنے بندوں کے معلوم ہوتے ہیں مگر وہ ظاہر نہیں کرتا.ہاں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بے باک ہو کر انسان اپنے عیبوں میں ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حیا اور پردہ پوشی سے نفع نہیں اُٹھاتا بلکہ دہریت کی رگ اُس میں زور پکڑتی جاتی ہے.تب خدا تعالیٰ کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ اس بے باک کو چھوڑا جائے اس لئے وہ ذلیل کیا جاتا ہے.....غرض میرا مطلب تو صرف یہ تھا کہ رحیمیت میں ایک خاصہ پردہ پوشی کا بھی ہے مگر اس پردہ پوشی سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی عمل ہو اور اس عمل کے متعلق اگر کوئی کمی یا نقص رہ جاوے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت سے اُس کی پردہ پوشی فرماتا ہے.رحمانیت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحمانیت میں فعل اور عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر رحیمیت میں فعل و عمل کو دخل ہے لیکن کمزوری بھی ساتھ ہی ہے.خدا کا رحم چاہتا ہے کہ پردہ پوشی کرے اسی طرح مالک یوم الدین وہ ہے کہ اصل مقصد کو پورا کرے.خوب یاد رکھو کہ یہ امہات الصفات روحانی طور پر خدا نما تصویر ہیں.ان پر غور کرتے ہی معاً خدا سامنے ہو جاتا ہے اور روح ایک لذت کے ساتھ اُچھل کر اُس کے سامنے سر بسجود ہو جاتی ہے چنانچہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ سے جو شروع کیا گیا تھا تو غائب کی صورت میں ذکر کیا ہے لیکن ان صفات اربعہ کے بیان کے بعد معا صورت بیان تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ ان صفات نے خدا کو سامنے حاضر کر دیا ہے اس لئے حق تھا اور فصاحت کا تقاضا تھا کہ اب غائب نہ رہے بلکہ حاضر کی صورت اختیار کی جاوے پس اس دائرہ کی تکمیل کے تقاضانے مخاطب کی طرف منہ پھیرا اور ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہا.الحکم نمبر ۲۳ جلد ۵ مؤرخه ۳۱ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱)

Page 147

۱۲۴ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَاعْلَمُ أَنَّ في ترتيب هذه واضح ہو کہ ان صفات الہیہ کی ترتیب میں اور بلاغت پائی الصِّفَاتِ بَلاغَةُ أُخْرَى نُرِيدُ أَن جاتی ہے جسے ہم (یہاں) بیان کرنا چاہتے ہیں.تا صاحب نَذْكُرَهَا لِتَكْتَحِل من شغل بصیرت لوگوں ) کی بینائی) کے سرمہ سے آپ کی آنکھیں بھی مِنْ ( الْمُتَبَفِرِينَ وَهُوَ أَنَّ الْآيَاتِ الَّتی روشن ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کے معا بعد رَضَعَ اللهُ بَعْدَهَا كُلُّهَا مَقْسُومَةٌ عَلى جو آیات سجائی ہیں وہ انہیں صفات پر منقسم ہیں.(یعنی ہر تِلْكَ الصَّفَاتِ بِرِعَايَةِ الْمُعَاذَاةِ آیت ایک خاص صفت سے متعلق ہے ) بلحاظ ایک دوسری کے وَوَضْعِ بَعْضِهَا تَحْتَ بَعْضٍ كَطَبَقَاتِ مقابل واقع ہونے کے اور آسمانوں اور زمینوں کے طبقات کی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِينَ.طرح ایک دوسری کے اوپر تلے رکھے جانے کے.وَتَفْصِيلُه أَنَّهُ تَعَالَى ذَكَر أَولا اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی ذات ذَاتَهُ وَ صِفَاهُ بِتَرْتِيبِ يُوجَدُ في اور صفات کا اسی ترتیب کے ساتھ ذکر کیا جو کائنات عالم میں الْعَالَمِينَ ثُمَّ ذَكَرَ كُلّ مَا هُوَ پائی جاتی ہے.پھر ان تمام امور کو جو بشریت کے مناسب حال يُنَاسِبُ الْبَشَرِيَّةَ بِتَرْتِيبِ يُشَاهَدُ ہیں اسی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جو خدائی قانون میں نظر آتی فى قَانُونِ اللهِ وَمَعَ ذلِك جَعَلَ كُلّ ہے.اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہر بشری صفت کو ایک الہی صِفَةٍ بَشَرِيَّةٍ تَحْتَ صِفَتِ الهِيَّةِ و صفت کے تحت رکھ دیا.اور ہر انسانی صفت کے لئے ایک جَعَلَ لِكُلّ صِفَةٍ إِنْسَانِيَّةٍ مشربا و صفت الہیہ کو گھاٹ یا پینے کا مقام قرار دیا جس سے وہ مستفیض سُفْيًا مِن صِفَةٍ إِلَهِيَّةٍ تَسْتَفِيضُ ہو.خدا تعالیٰ نے ان آیات میں ایک وضعی ترتیب کے مطابق مِنْهَا وَ أَرَى التَّقَابُلَ بَيْنَهُمَا آپس میں تقابل دکھایا ہے پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو بِتَرْتِيْب وَضْعِيَ يُوجَدُ فِي الْآيَاتِ بہترین ترتیب دینے والا ہے.اس مضمون کی مکمل تشریح یوں فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْمُرَتِّبِينَ وَ ہے کہ یہ صفات ( اللہ تعالی کے ) اسم ذات سمیت پانچ سمندر تشريحه التَّامُ أَنَّ الصَّفَاتِ مَعَ اسم ہیں.جن کا ذکر اس سورت کے شروع میں آیا ہے یعنی اللہ الذَّاتِ خَمْسَةُ أَبْحُرٍ قَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُهَا رَبَّ الْعَالَمِينَ - الرَّحْمَانَ - الرَّحِيمِ اور مَالِكِ يَوْمِ في صَدْرِ السُّورَةِ أَغْنِي اللهُ وَرَبِّ الدِّين - پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کے مطابق ان الْعَالَمِينَ وَالرَّحْمَنُ وَالرَّحِيم (سمندروں ) سے مستفیض ہونے والی آیات کا ذکر کیا ہے.اور

Page 148

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة الفاتحة ووو وَمُلِكَ يَوْمِ الدِّينِ فَجَعَلَ اللهُ كَمِثْلِهَا ان پانچ کو ان پانچ کے مقابل پر رکھا ہے.اور ہر فیض خَمْسَةٌ مِنَ الْمُعْتَرِفَاتِ مَا ذَكَرَ من بَعْدُ حاصل کرنے والی آیت ایک ایسی صفت سے مستفیض ہوتی وَقَابَلَ الْخَمْسَةَ بِالْخَمْسَةِ وَكُلُّ وَاحِدٍ من ہے جو اس کے مشابہ اور اس کے مقابل ہے.اور اس سے الْمُغْتَرِفَاتِ يَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ صِفَةٍ وه مطالب اخذ کرتی ہے جن پر وہ صفت حاوی ہے اور جو تُشَابِهُ وَ تُنَاوِحُهُ وَ تَأْخُذُ مِمَّا احْتَوَتْ عَلَى طالبانِ الہی کو بے حد پسندیدہ ہیں.مثلاً ان میں سے سب مَعَانٍ تَسُرُّ الْعَارِفِينَ مَثَلًا أَوَّلُهَا بَحْرُ سے پہلا سمندر اللہ (اسم ذات ) کا سمندر ہے.اس کے اسم الله تعالى وَتَخْتَرِفُ مِنْهُ مقابل اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا فقرہ ہے جو مقابل میں رکھی جانے جُمْلَةُ اِيَّاكَ نَعْبُدُ الَّتِي حَذَتْهُ وَ صَارَتْ والی اشیاء کی طرح ہو کر فیض حاصل کرتا ہے.اور عبادت کی كَالْمُحَاذِيْنَ.وَحَقِيْقَةُ التَّعَبدِ تَعْظِیمُ حقیقت ہے.پوری انکساری سے معبود کی تعظیم کرنا اور اس الْمَعْبُوْدِ بِالتَذَلُّلِ التَّامِ وَ الْاِحْتِذَآؤ کے نمونہ کو اختیار کرنا.اس کے رنگ سے رنگین ہونا اور يمِقَالِهِ وَ الْإِنْصِبَاغُ بِصِبْغِهِ وَالْخُرُوجُ فانی فی اللہ لوگوں کی طرح نفسانیت اور انانیت سے الگ مِنَ النَّفْسِ وَالْأَتَانِيَّةِ كَالْفَانِينَ وَسِرہ ہو جاتا.اس میں راز یہ ہے کہ انسان کو بیمار اور روگی اور أَنَّ الْعَبْد قَدْ خُلِقَ كَالْمَرِيضِ وَالْعَلِيْلِ پیاسے کے مثل پیدا کیا گیا ہے.اور اس کی شفا، اس کی وَالْعَطَشَانِ وَشِفَاؤُهُ وَتَسْكِينُ عُلَتِهِ و پیاس کی تسکین اور اس کے جگر کی سیرابی اللہ تعالیٰ کی عبادت إِرْوَاءُ كَبِدِهِ فِي مَاءِ عِبَادَةِ اللهِ فَلَا يَبْرَأُ کے پانی سے ہوتی ہے.وہ تبھی صحت مند اور سیراب ہوسکتا وَلَا يَرْتَوِى إِلَّا إِذَا يَثْنِي إِلَيْهِ انْصِبَابَهُ ہے.جب وہ اللہ کی طرف اپنا رخ موڑ لیتا ہے اور اس کے وَ يُفْرِطُ صَبَابَهُ وَ يَسْعَى إِلَيْهِ ساتھ اپنے عشق کو بڑھاتا ہے اور وہ اس (معبود حقیقی ) کی كَالْمُسْتَسْقِينَ.وَلَا يُطهِّرُ قَرِيحتَهُ وَلا طرف پانی کے طالبوں کی طرح دوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے يُليّدُ عَجَاجَتَهُ وَلَا يُحَلَّى مُجَاجَتَهُ إِلَّا ذِكرُ ذکر کے سوا کوئی چیز نہ تو اس کی فطرت کو پاک کر سکتی ہے نہ الله أَلا بذكر الله تَطْمَئِنُّ قُلُوبُ الَّذِينَ اس کے غبار خاطر کو مجتمع کرسکتی ہے.اور نہ اس کے منہ کا يَعْبُدُونَ اللهَ وَيَأْتُونَهُ مُسْلِمِينَ فَفِي آيَةٍ ذائقہ شیریں بنا سکتی ہے.سنو! اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان ايَّاكَ نَعْبُدُ إِقْرَارٌ لِمَعْبُودِيَّةِ الله الذينی ہی لوگوں کے دل مطمئن ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت هُوَ مُسْتَجْمِعُ بِجَمِيعِ صِفَاتِ الْعَامِلِيَّةِ کرتے ہیں اور اس کے حضور فرمانبردار بن کر آتے ہیں.و

Page 149

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ سورة الفاتحة وَلِذلِكَ وَقَعَتْ هَذِهِ الْجُمْلَةُ تَحْتَ | پس آیت مبارکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں اللہ تعالیٰ کی معبودیت کا مُجْمَلَةِ " الْحَمْدُ لِلَّهِ فَانْظُرْإِن كُنت اعتراف ہے جو تمام صفات کا ملہ کا جامع ہے اور اسی لئے یہ جملہ ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ الْحَمْدُ لِلهِ کے جملہ کے تحت ہے.پس تو غور کر! مِنَ النَّاظِرِينَ اگر تو غور کرنے والوں میں سے ہے.وَ ثَانِيهَا بَحْرُ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ ان میں سے دوسرا سمندر رَبُّ الْعَالَمِینَ کا ہے.اور اس وَتَعْتَرِفُ مِنهَا جُملة "إِيَّاكَ سے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا جملہ مستفیض ہوتا ہے کیونکہ بندہ جب یہ وو نَسْتَعِينُ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَمِعَ أَنَّ بات سنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کی پرورش کرتا ہے اور ایسا اللهَ يُرَبِّ الْعَالَمِينَ كُلَّهَا وَ مَا مِن کوئی عالم نہیں جس کا وہ مربی نہ ہو اور وہ (بندہ ) اپنے نفس کو بدی عَالَمٍ إِلَّا هُوَ مُرَبِّيْهِ وَ رَأَى نَفْسَهُ کا حکم دینے والا دیکھتا ہے تو وہ گریہ وزاری کرتا ہے اور مجبور ہوکر أَمَارَةٌ بِالسُّوءِ فَتَطَرَّعَ وَاضْطَرَّ وَ اس کے دروازہ کی طرف پناہ ڈھونڈتا ہے.اس کے دامن سے التجأ إلى بَابِهِ وَتَعَلَّقَ بِأَهْدَابِهِ وَ لپٹ جاتا ہے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی دَخَلَ في مَأْدَبِه برعَايَةِ آدابه (روحانی) ضیافت گاہ میں داخل ہو جاتا ہے تا وہ (پاک لِيُدْرِكَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ وَ يُحْسِنَ إِلَيْهِ وَ ذات) اپنی ربوبیت سے اس کی دستگیری کرے اور اس پر هُوَ خَيْرُ الْمُحْسِنِينَ فَإِنَّ الرُّبُوبِيَّةَ احسان فرمائے اور وہ بہترین احسان کرنے والا ہے.پس صِفَةٌ تُعْطِي كُلّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ربوبیت ایک ایسی صفت ہے جو ہر چیز کو اس کے وجود کے المَطلُوبَ لِوُجُودِه وَلَا يُغَادِرُه مناسب حال خلق عطا کرتی ہے.اور اس کو ناقص حالت میں نہیں رہنے دیتی.الناقصين.وَ ثَالِفُهَا بَحْرُ اسْمِ الرَّحْمنِ و ان میں سے تیسرا سمندر الرحمن ہے اور اس سے اھدنا تَغْتَرِفُ مِنْهُ جُمْلَةُ اهْدِنَا الخراط الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا جملہ سیراب ہوتا ہے تا انسان ہدایت اور 66 وو الْمُسْتَقِيمَ لِيَكُونَ الْعَبْدُ من رحمت پانے والوں میں ہو جائے کیونکہ صفت رحمانیت ہر اُس الْمُهْتَدِينَ الْمَرْحُوْمِینَ فَإِنَّ وجود کو جو صفت ربوبیت سے تربیت پاچکا ہے وہ سب کچھ مہیا الرَّحْمَانِيَّةَ تُعطى كُلَّ مَا يَحتاجُ کرتی ہے جس کی اسے حاجت ہو.پس یہ صفت تمام وسائل کو إِلَيْهِ الْوُجُودُ الَّذِي رُبّي مِنْ صِفَةِ | رحم پانے والے کے موافق بنا دیتی ہے اور ربوبیت کا نتیجہ وجود

Page 150

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة الفاتحة الرُّبُوبِيَّةِ.فَهَذِهِ الصَّفَةُ تَجْعَلُ الْأَسْبَابَ کو کامل قویٰ دینا اور ایسے طور پر پیدا کرنا ہے جو اس | مُوَافِقَةٌ لِلْمَرْحُوْمِ وَ أَثَرُ الرُّبُوَبِيَّةِ کے لائق حال اور مناسب ہے.اسی صفت کا اثر یہ ہے تَسْوِيَةُ الْوُجُودِ وَتَخلِيقُه كَمَا یلیی و کہ یہ ہر وجود کو اس کے عیوب کو چھپا دینے والا لباس يَنْبَغِى وَأَثَرُ هَذِهِ الصَّفَةِ أَنّها تُكسى ذلك پہناتی ہے.اسے زینت عطا کرتی ہے.اس کی الْوُجُودَ لِبَاسًا يُوَارِى سَواتَهُ وَعَجَب لَهُ آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہے.اس کے چہرہ کو دھوتی زِينَتَهُ وَ تَكْحُلُ عَيْنَهُ وَتَغْسِلُ وَجْهَهُ وَ ہے.اس کو سواری کے لئے گھوڑا دیتی ہے.اور اس کو تُعْطِي لَهُ فَرَسًا لِلرُّكُوبِ وَتُرِيْهِ طُرُقَ شاہسواروں کے طریق بتاتی ہے اور صفت ( رحمانیت ) الْفَارِسِينَ.وَمَرْتَبَعُهَا بَعْدَ الرُّبُوبِيَّةِ وَ کا درجہ ربوبیت کے بعد ہے وہ ہر چیز کو اس کے وجود کا هي تُعْطى كُلَّ شَنِي مَظْلُوبٌ وُجُودِه و مطلوب عطا کر کے اسے توفیق یافتہ لوگوں میں سے بنا تَجْعَلُهُ مِنَ الْمُوَفِّقِينَ.وَرَابِعُهَا بَحْرُ اسْمِ الرَّحِيمِ وَتَعْتَرِفُ ان میں سے چوتھا سمندر صفت الرحیم ہے اور اس مِنْهُ جُمْلَةُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ سے صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا جملہ مستفیض ہوتا ہے وو 66 دیتی ہے.عَلَيْهِمْ لِيَكُونَ الْعَبْدُ مِنَ الْمُنْعَمِينَ تا بنده خاص انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہو جائے.الْمَخْصُوصِينَ فَإِنَّ الرَّحِيمِيَّةَ صِفَةٌ کیونکہ رحیمیت ایسی صفت ہے جو ان انعامات خاصہ مدنِيَّةٌ إِلَى الْإِنْعَامَاتِ الخاصة التي لا تک پہنچا دیتی ہے جن میں فرمانبردار لوگوں کا کوئی الْخَاصَّةِ الَّتِي شَرِيكَ فِيهَا لِلْمُطِيعِینَ وَإِنْ كَانَ شریک نہیں ہوتا.گو ( اللہ تعالیٰ کا ) عام انعام انسانوں الْإِنْعَامُ الْعَامُ مُحِيطَةٌ بِكُلِّ شَيْءٍ مِن سے لے کر سانپوں ، اثر دباؤں تک کو اپنے احاطہ میں النَّاسِ إِلَى الْأَفَاعِى وَالتّذَيْنِ.لئے ہوئے ہے.وَخَامِسُهَا بَحْرُ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ“ ان میں سے پانچواں سمندر ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( کی وَتَخْتَرِفُ مِنْهُ جُمْلَةُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ صفت) ہے.اور اس سے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ فَإِنَّ غَضَبَ اللهِ الظَّالِينَ کا جملہ مستفیض ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے وَتَرَكَهُ فِي الضَّلَالَةِ لَا تَظْهَرُ حَقِيْقَتُهُ عَلَى غضب اور اس کے (انسان کو ) ضلالت اور گمراہی میں النَّاسِ عَلَى وَجْهِ الْعَامِلِ إِلَّا في يَوْمِ چھوڑ دینے کی حقیقت لوگوں پر مکمل طور پر جزا اور سزا کے وو 66

Page 151

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة الفاتحة الْمُجَازَاتِ الَّذِي يُجَالِيهِمُ اللهُ فِيهِ دن ہی ظاہر ہوگی.جس دن اللہ تعالیٰ اپنے غضب اور انعام بِغَضَبِهِ وَإِنْعَامِهِ وَيُجَالِحُهُمُ بتذلیل کے ساتھ جلوہ گر ہوگا.اور ان کو اپنی طرف سے ذلّت دے کر وَإِكْرَامِهِ وَيُجَلِى عَن نَّفْسِهِ إلى حد ما يا عزت دے کر ظاہر کر دے گا.اور اس حد تک اپنے آپ کو جَل كَمِثْلِهِ وَتَرَاءَى السَّابِقُونَ ظاہر کر دے گا کہ اس طرح بھی اپنے وجود کو ظاہر نہیں کیا ہو گا.كَفَرَس تُجَنِّى وَتَرَاءَتِ الْجَالِيَةُ بِغَیمِ اور (خدا کی راہ میں ) سبقت لے جانے والے یوں دکھائی الْمُبِينِ.وَفِيْهِ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا دیں گے جیسے میدان میں آگے بڑھا ہوا گھوڑا اور گناہگارا اپنی أَنَهُمْ كَانُوا مَوْرِدَ غَضَبِ اللهِ وَتَكَانُوا کھلی کھلی گمراہی میں نظر آئیں گے.اور اس دن منکروں پر قَوْمًا عَمِينَ وَ مَنْ كَانَ فِي هذة اغلى واضح ہو جائے گا کہ وہ در حقیقت غضب الہی کے مورد تھے اور فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى، وَلكِن عمي هذہ اندھے تھے اور جو اس دنیا میں اندھا رہے گا وہ آخرت میں الدُّنْيَا خَفِ وَيَتَبَيَّنُ فِي يَوْمِ الدِّينِ بھی اندھا ہوگا.لیکن اس دنیا کی نابینائی مخفی ہے اور جزا سزا فَالَّذِينَ أَبَوْا وَمَا تَبِعُوا هَدَی رَسُولِنَا کے دن وہ ظاہر ہو جائے گی.پس جن لوگوں نے انکار کیا اور وَنُورَ كِتَابِنَا وَكَانُوا لِطَوَاغِيْتِهِمُ ہمارے رسول کی ہدایت اور ہماری کتاب (قرآن مُتَّبِعِينَ فَسَوْفَ يَرَوْنَ غَضَبَ الله و کریم) کے نور کی پیروی نہ کی اور اپنے باطل معبودوں کی تَغَيُّظُ النَّارِ وَ زَفِيرَهَا وَيَرون اتباع کرتے رہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھیں ظُلْمَتَهُمْ وَضَلالَعَهُمْ بِالْأَعْيُنِ وَ گے.اور جہنم کے جوش اور اس کی خوفناک آواز کو سنیں يَجِدُونَ أَنْفُسَهُمْ كَالظَّالِعِ الْأَغوَرِ گے.اور اپنی گمراہی اور کجروی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں وَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَا گے.اپنے آپ کو لنگڑے کانے جیسے پائیں گے.اور جہنم كَانَ لَهُمْ أَحَدٌ مِّنَ الشَّافِعِینَ وَفی میں داخل ہوں گے.جہاں وہ لمبا عرصہ رہیں گے اور ان کا الْآيَةِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ اسْمَ مُلِكِ يَوْمِ کوئی شفیع نہیں ہوگا.اس آیت میں اس بات کی طرف بھی الدين ذُو الْجَهَتَيْنِ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ اشارہ ہے کہ (خدا کا ) اسم ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ دو پہلوؤں والا وَيَهْدِى مَنْ يَشَاءُ فَاسْأَلُوهُ آن ہے.وہ جسے چاہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا تَجْعَلَكُمْ مِّنَ الْمُهْتَدِينَ ہے.پس تم دُعا کرو کہ وہ تمہیں ہدایت یافتہ بنادے.هذا ما أردنا مِن بَيَانِ بَعْضِ یہی وہ امر ہے جس کو ہم بیان کرنا چاہتے تھے.یعنی اس

Page 152

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹ سورة الفاتحة نِكَاتِ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَطَائِفِهَا الْأَدَبِيَّةِ الَّتِي | آیت کے بعض نکات اور ادبی لطائف کو جو دیکھنے والوں هي لِلنَّاظِرِينَ كالآيَاتِ وَبَلاغها کے لئے روشن نشانوں کی طرح ہیں.اور اس کی حیران کن الرَّائِعَةِ الْمُبْتَكِرَةِ الْمُحْتَرَةِ الْمُحْتَوِيَةِ اچھوتی اور خوب آراستہ بلاغت کو جو کنایات کی خوبیوں ، على محاسنِ الكِتايَاتِ مَعَ دُرَرٍ حِكَمِيَّةٍ حکمت کے موتیوں اور دقائق الہیہ کے نادر معارف پر وَمَعَارِفَ نَادِرَةٍ مِّنْ دَقَائِقِ الْإِلَهِيَّاتِ حاوی ہے.تم اس بیان کی نظیر نہ تو پہلے لوگوں میں اور نہ فَلا تَجِدُ نَظِيرَهَا فِي الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ بعد میں آنے والے لوگوں میں دیکھو گے.بلاشبہ اس کی فَلَا شَكَ أَنَّ مُلَحَ أَدَبِهَا بَارِعَةٌ وَقَدَمَهَا عمده ادبی باتیں بے نظیر فضیلت کی حامل ہیں.اس کا قدم عَلى أَعْلَامِ الْعُلُومِ فَارِعَةٌ وَ هِيَ يُصْبِى علوم کے پہاڑوں سے بھی اونچا ہے اور وہ عارفوں کے دلوں قُلُوبَ الْعَارِفِينَ وَ قَدْ عَلِمْتَ ترتیب کو موہ لیتی ہے.اب تو نے ان پانچ سمندروں کی ترتیب کو خَمْسَةِ أَبْحُرِ الَّتِي تَجْرِى بَعْضُهَا تِلْوَ بَعْضٍ معلوم کر لیا ہے.جو ایک دوسرے کے پیچھے جاری ہیں.فَتَسَلَّمْهُ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ وَ أَمَّا پس تو انہیں قبول کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا اور اگر تو تَرْتِيبُ الْمُغْتَرِفَاتِ فَتَعْرِفُهُ بِتَرْتِيبِ فیض اُٹھانے والوں سے بنا چاہے تو فیض اٹھانے والے أَحُرِهَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُغْتَرِ فِيْنَ.جملوں کی ترتیب کو تو ان کے سمندروں کی ترتیب سے کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۱۶ تا ۱۱۹) پہچان لے گا.( ترجمہ از مرتب ) اس جگہ لف و نشر مرتب ہے.اوّل الحَمدُ للهِ الله مجمع جميع صفات کاملہ ہر ایک خوبی کو اپنے اندر رکھنے والا اور ہر ایک عیب اور نقص سے منزہ دوم ربّ العالمین ، سوم الرحمن، چهارم الرحيم ، پنجم ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ اب اس کے بعد جو درخواستیں ہیں وہ ان پانچوں کے ماتحت ہیں اب سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے.اياك اِيَّاكَ نَعْبُدُ یہ فقرہ الْحَمْدُ لِله کے مقابل ہے یعنی اے اللہ تو جو ساری صفات حمیدہ کا جامع ہے اور تمام بدیوں سے منزہ ہے تیری ہی عبادت کرتے ہیں مسلمان اس خدا کو جانتا ہے جس میں تمام خوبیاں جو انسانی ذہن میں آسکتی ہیں موجود ہیں اور اس سے بالا تر اور بالا تر ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ انسانی عقل اور فکر اور ذہن خدا تعالیٰ کی صفات کا احاطہ ہرگز ہرگز نہیں کر سکتے.ہاں تو مسلمان ایسے کامل الصفات خدا کو مانتا ہے تمام قو میں مجلسوں میں اپنے خدا کا ذکر کرتے ہوئے شرمندہ ہو جاتی ہیں اور انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے.مثلاً ہندوؤں کا خدا جو انہوں 6

Page 153

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة الفاتحة نے مانا ہے اور کہا ہے کہ ویدوں سے ایسے خدا ہی کا پتہ لگتا ہے جب اس کی نسبت وہ یہ ذکر کریں گے کہ اُس نے دنیا کا ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا اور نہ اُس نے روحوں کو پیدا کیا ہے تو کیا ایسے خدا کے ماننے والے کے لئے کوئی مقررہ سکتا ہے.جب اُسے کہا جائے کہ ایسا خدا اگر مر جائے تو کیا حرج ہے کیونکہ جب یہ اشیاء اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں اور قائم بالذات ہیں پھر خدا کی زندگی کی ان کی زندگی اور بقا کے لئے کیا ضرورت ہے جیسے ایک شخص اگر تیر چلائے اور وہ تیرا بھی جاہی رہا ہو کہ اس شخص کا دم نکل جائے تو بتاؤ کہ اس تیر کی حالت میں کیا فرق آئے گا ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ چلانے والے کے وجود کا محتاج نہیں ہے.اسی طرح پر ہندوؤں کے خدا کے لئے اگر یہ تجویز کیا جائے کہ وہ ایک وقت مرجاوے تو کوئی ہندو اُس کی موت کا نقصان نہیں بتا سکتا.مگر ہم خدا کے لئے ایسا تجویز نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ کے لفظ سے ہی پایا جاتا ہے کہ اُس میں کوئی نقص اور بدی نہ ہو.ایسا ہی جب کہ آریہ مانتا ہے کہ اجسام اور روحیں انادی ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارا یہ اعتقاد ہے پھر خدا کی ہستی کا ثبوت ہی کیا دے سکتے ہو؟ اگر کہو کہ اُس نے جوڑا جاڑا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ جب تم پر مانو اور پر کرتی کو قدیم سے مانتے ہو اور ان کے وجود کو قائم بالذات کہتے ہو تو پھر جوڑنا جاڑ نا توانی فعل ہے وہ جھڑ بھی سکتے ہیں اور ایسا ہی جب وہ یہ تعلیم بتاتے ہیں کہ خدا نے وید میں مثلاً یہ حکم دیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں اپنے خاوند سے بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو تو وہ کسی دوسرے سے ہم بستر ہوکر اولاد پیدا کرلے تو بتاؤ ایسے خدا کی نسبت کیا کہا جاوے گا؟ یا مثلاً یہ تعلیم پیش کی جائے کہ خدا کسی اپنے پریمی اور بھگت کو ہمیشہ کے لئے ملکتی یعنی نجات نہیں دے سکتا بلکہ مہا پر لے کے وقت اُس کو ضروری ہوتا ہے کہ مکتی یافتہ انسانوں کو پھر اسی تناسخ کے چکر میں ڈالے یا مثلاً خدا کی نسبت یہ کہنا کہ وہ کسی کو اپنے فضل وکرم سے کچھ بھی عطا نہیں کرسکتا بلکہ ہر ایک شخص کو وہی ملتا ہے جو اُس کے اعمال کے نتائج ہیں پھر ایسے خدا کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے غرض ایسا خدا ماننے والے کو سخت شرمندہ ہونا پڑے گا.ایسا ہی عیسائی بھی جب یہ پیش کریں گے کہ ہمارا خدا یسوع ہے اور پھر اُس کی نسبت وہ یہ بیان کریں گے کہ یہودیوں کے ہاتھوں سے اُس نے ماریں کھا ئیں شیطان اُسے آزما تا رہا.بھوک اور پیاس کا اثر اُس پر ہوتا رہا.آخر نا کامی کی حالت میں پھانسی پر چڑھایا گیا تو کون دانشمند ہو گا جو ایسے خدا کے ماننے کے لئے تیار ہوگا.غرض اسی طرح پر تمام قومیں اپنے مانے ہوئے خدا کا ذکر کرتی ہوئی شرمندہ ہوتی ہیں مگر مسلمان کبھی اپنے خدا کا ذکر کرتے ہوئے کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوتا کیونکہ جو خوبی اور عمدہ صفت ہے وہ اُن کے مانے

Page 154

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة ہوئے خدا میں موجود اور جو نقص اور بدی ہے اُس سے وہ منزہ ہے جیسا کہ سورۃ الفاتحہ میں اللہ کو تمام صفات حمیدہ کا موصوف قرار دیا ہے تو اَلْحَمدُ لِله کے مقابل میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے.اس کے بعد ہے رَبُّ الْعَلَمِينَ ربوبیت کا کام ہے تربیت اور تحمیل جیسے ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے اُس کو صاف کرتی ہے ہر قسم کے گند اور آلائش سے دور رکھتی ہے اور دودھ پلاتی ہے.دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ اُس کی مدد کرتی ہے اب اس کے مقابل میں یہاں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (ہے) پھر الرَّحْمنُ ہے جو بغیر خواہش بدوں درخواست اور بغیر اعمال کے اپنے فضل سے دیتا ہے اگر ہمارے وجود کی ساخت ایسی نہ ہوتی تو ہم سجدہ نہ کر سکتے اور رکوع نہ کر سکتے اس لئے ربوبیت کے مقابلہ میں اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فرمایا جیسے باغ کا نشو نما پانی کے بغیر نہیں ہوتا اسی طرح پر اگر خدا کے فیض کا پانی نہ پہنچے تو ہم نشو ونما نہیں پاسکتے درخت پانی کو چوستا ہے اس کی جڑوں میں دہانے اور سوراخ ہوتے ہیں.طبعی میں یہ مسئلہ ہے کہ درخت کی شاخیں پانی کو جذب کرتی ہیں اُن میں قوت جاذبہ ہے اسی طرح پر عبودیت میں ایک قوتِ جاذبہ ہوتی ہے جو خدا کے فیضان کو جذب کرتی ہے اور چوستی ہے پس الرحمن کے بالمقابل اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے یعنی اگر اس کی رحمانیت ہمارے شامل حال نہ ہوتی اگر یہ قومی اور طاقتیں تو نے عطا نہ کی ہوتیں تو ہم اس فیض سے کیونکر بہرہ ور ہو سکتے.دو (الحکم نمبر ۳۳ جلد ۵ مؤرخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۲) پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - الرَّحْمٰنُ کے بالمقابل ہے کیونکہ ہدایت پانا کسی کا حق تو نہیں ہے بلکہ محض رحمانیت الہی سے یہ فیض حاصل ہو سکتا ہے اور صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ الرَّحِيمُ کے بالمقابل ہے کیونکہ اس کا ورد کرنے والا رحیمیت کے چشمہ سے فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اے رحم خاص سے دُعاؤں کے قبول کرنے والے! ان رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ ہم کو دکھا جنہوں نے دُعا اور مجاہدات میں مصروف ہو کر تجھ سے انواع و اقسام کے معارف اور حقائق اور کشوف اور الہامات کا انعام پایا اور دائمی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ سے معرفت تامہ کو پہنچے.رحیمیت کے مفہوم میں نقصان کا تدارک کرنا لگا ہوا ہے.حدیث میں آیا ہے کہ اگر فضل نہ ہوتا تو نجات نہ ہوتی.ایسا ہی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ سے سوال کیا کہ یا حضرت! کیا آپ کا بھی یہی حال ہے آپ نے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ہاں.نادان اور احمق عیسائیوں نے اپنی نام نہیں اور نا واقعی کی وجہ سے اعتراض کئے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپ کی کمال عبودیت کا اظہار تھا.

Page 155

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲ سورة الفاتحة جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو جذب کر رہا تھا.ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے اور متعدد مرتبہ آزمایا ہے بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلیل کی حالت انتہا کو پہنچی ہے اور ہماری روح اس عبودیت اور فروتنی میں بہہ نکلتی ہے اور آستانہ حضرت واہب العطا یا پر پہنچ جاتی ہے تو ایک روشنی اور ٹور اوپر سے اُترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک نالی کے ذریعہ سے مصفا پانی دوسری نالی میں پہنچتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہنچی ہوئی نظر آتی ہے وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اُسی قدر آپ روح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤید اور منور ہیں.جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے یہاں تک کہ آپ کے انوار و برکات کا دائرہ اسی قدر وسیع ہے کہ ابد الآباد تک اسی کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہورہا ہے وہ آپ ہی کی اطاعت اور آپ ہی کے اتباع سے ملتا ہے.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: ۳۲) اور خدا تعالیٰ کے اس دعوی کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں اُن نشانات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو.غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کمال یہاں تک ہے کہ اگر کوئی بڑھیا بھی آپ کا ہاتھ پکڑتی تھی تو آپ کھڑے ہو جاتے تھے اور اُس کی باتوں کو نہایت توجہ سے سنتے اور جب تک کہ وہ خود آپ کو نہ چھوڑتی آپ نہ چھوڑتے تھے اور پھر غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے بالمقابل ہے.اس کا ورد کرنے والا چشمہ ملِكِ يَوْمِ الدین سے فیض یا تا ہے جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ اے جزا و سزا کے دن کے مالک! ہمیں اس سے بچا کہ یہودیوں کی طرح جو دنیا میں طاعون وغیرہ بلاؤں کا نشانہ ہوئے اور اُس کے غضب سے ہلاک ہو گئے یا نصاری کی طرح نجات کی راہ کھو بیٹھیں اس میں یہود کا نام مغضوب اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کی شامت اعمال سے دنیا میں بھی اُن پر عذاب آیا کیونکہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں اور راست بازوں کی تکذیب کی اور بہت سی تکلیفیں پہنچا ئیں اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہاں سورہ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ سے بچنے کی ہدایت فرمائی اور اس سورہ کو

Page 156

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورة الفاتحة الضَّالِّينَ پر ختم کیا یعنی ان کی راہ سے بھی بچنے کی ہدایت فرمائی تو اس میں کیا ستر تھا اس میں یہی راز تھا کہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک قسم کا زمانہ آنے والا ہے جب کہ یہود کی تتبع کرنے والے ظاہر پرستی کریں گے اور استعارات کو حقیقت پر حمل کر کے خدا کے راستباز کی تکذیب کے لئے اُٹھیں گے جیسا کہ یہود نے مسیح ابن مریم کی تکذیب کی تھی اور انہیں یہی مصیبت پیش آئی کہ اُنہوں نے اس کی تاویل پر ٹھٹھا کیا اور کہا کہ اگر خدا کا یہی مطلب تھا کہ ایلیا کا مثیل آئے گا تو کیوں خدا نے اپنی پیشگوئی میں اس کی صراحت نہ کی غرض اسی روش اور طریق پر اس وقت ہمارے مخالفوں نے بھی قدم مارا ہے اور میری تکذیب اور ایذاء دہی میں انہوں نے کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میرے قتل کے فتوے دیئے اور طرح طرح کے حیلوں اور مکروں سے مجھے ذلیل کرنا اور نابود کرنا چاہا.اگر خدا تعالیٰ کے فضل سے گورنمنٹ برطانیہ کا اس ملک میں راج نہ ہوتا تو یہ مدت سے میرے قتل سے دل خوش کر لیتے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ان کی ہر مراد میں نامراد کیا اور وہ جو اُس کا وعدہ تھا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ الناس ( المائدة : ۶۸) وہ پورا ہوا.غرض اس دُعا میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ) کا فرقہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی اس حالت کا پتہ دیتا ہے جو وہ مسیح موعود کے مقابل مخالفت اختیار کرے گا اور ایسا ہی الضالین سے مسیح موعود کے زمانہ کا پتہ لگتا ہے کہ اس وقت صلیبی فتنہ کا زور اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ جاوے گا اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلہ قائم کیا جاوے گا وہ مسیح موعود ہی کا سلسلہ ہوگا اور اسی لئے احادیث میں مسیح موعود کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کا سر الصلیب رکھا ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ ہر ایک مجدد فتن موجودہ کی اصلاح کے لئے آتا ہے اب اس وقت خدا کے لئے سوچو تو کیا معلوم نہ ہوگا کہ صلیبی نجات کی تائید میں قلم اور زبان سے وہ کام لیا گیا ہے کہ اگر صفحات عالم کوٹولا جائے تو باطل پرستی کی تائید میں یہ سرگرمی اور زمانہ میں ثابت نہ ہوگی اور جبکہ صلیبی فتنہ کے حامیوں کی تحریریں اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی ہیں اور توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت ، عزت اور حقانیت اور کتاب اللہ کے من جانب اللہ ہونے پر ظلم اور زور کی راہ سے حملے کئے گئے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کا سر الصلیب کو اُس وقت نازل کرے ؟؟؟ کیا خدا تعالیٰ اپنے وعدہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ ( الحجر :١٠ ) کو بھول گیا؟ یقیناً یا درکھو کہ خدا کے وعدے بچے ہیں.اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے.دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اس کو ضرور قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو

Page 157

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة الفاتحة ظاہر کرے گا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہو کر آیا ہوں چاہو تو قبول کرو چاہوتو رڈ کرو.الحکم نمبر ۳۴ جلد ۵ ، مورخه ۷ ار تمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲،۱) خدا تعالیٰ کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتیں ہیں جو اُم الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے اور وہ چاڑا صفتیں یہ ہیں.ربوبیت.رحمائیت.رحیمیت.مالکیت یوم الدین.(۱) ربوبیت اپنے فیضان کے لئے عدم محض یا مشابہ بالعدم کو چاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرایہ ، وجود پہنتے ہیں.(۲) رحمائیت اپنے فیضان کے لئے صرف عدم کو ہی چاہتی ہے.یعنی اُس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہو اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.(۳) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذو العقل کے منہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.(۴) مالکیت یوم الدین اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامن افلاس پھیلاتے ہیں اور سچ مچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکنیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چارالہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحمیت کی صفت ہے وہ دُعا کی تحریک کرتی ہے اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزا ہے کسی کا حق نہیں جو دعوے سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.اب خلاصہ کلام یہ کہ خدا تعالیٰ کی یہ چار صفتیں ہیں جو قرآنی تعلیم اور تحقیق عقل سے ثابت ہوتی ہیں اور منجملہ ان کے رحیمیت کی صفت ہے جو تقاضا کرتی ہے کہ کوئی انسان دعا کرے تا اس دعا پر فیوض الہی نازل ہوں.ہم نے براہین احمدیہ اور کرامات الصادقین میں بھی یہ ذکر لکھا ہے کہ کیونکر یہ چاروں صفتیں لغت و نشر مرتب کے طور پر سورہ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں اور کیونکر صحیفہ فطرت پر نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ اسی ترتیب سے جو سورہ فاتحہ میں ہے یہ چاروں صفتیں خدا کی فعلی کتاب قانونِ قدرت میں پائی جاتی ہیں.اب دعا سے انکار کرنا یا اس کو بے سود سمجھنا یا جذب فیوض کے لئے اس کو ایک محرک قرار نہ دینا گویا خدا تعالیٰ کی تیسری صفت سے جو رحیمیت ہے انکار کرنا ہے.مگر یہ انکار در پردہ دہر بات کی طرف ایک حرکت ہے کیونکہ

Page 158

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورة الفاتحة رحیمیت ہی ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعہ سے باقی تمام صفات پر یقین بڑھتا اور کمال تک پہنچتا ہے.وجہ یہ کہ جب ہم خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے ذریعہ سے اپنی دعاؤں اور تفرعات پر الہی فیضوں کو پاتے ہیں اور ہر ایک قسم کی مشکلات حل ہوتی ہیں تو ہمارا ایمان خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور رحمت اور دوسری صفات کی نسبت بھی حق الیقین تک پہنچتا ہے اور ہمیں چشم دید ماجرا کی طرح سمجھ آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ در حقیقت محمد اور شکر کا مستحق ہے اور در حقیقت اس کی ربوبیت اور رحمائیت اور دوسری صفات سب درست اور صحیح ہیں لیکن بغیر رحیمیت کے ثبوت کے دوسری صفات بھی مشتبہ رہتی ہیں.99191 لصد ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۲ تا ۲۴۴) واضح رہے کہ اللہ جل شانہ نے سورہ فاتحہ میں الحمد لله کے بعد ان صفات اربعہ کو چار سر چشمہ فیض قرار دے کر اس سورۃ کے مابعد کی آیتوں میں بطور لت و نشر مرتب ہر ایک چشمہ سے فیض مانگنے کی طرف اشارہ فرمایا ہے.چنانچہ ظاہر ہے کہ فقرہ الْحَمْدُ لِلهِ سے فقرہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک پانچ جُدا جدا امر ہیں.(۱) اَلْحَمْدُ لِلهِ (۲) دوسرے رَبُّ الْعَلَمِينَ (۳) تیسرے الرَّحْمَنُ (۴) چوتھے الرَّحِيمُ (۵) مَلِكِ يَوْمِ الدِّینِ اور مابعد کے پانچ فقرے ان پانچوں کے لحاظ سے بصورت لف ونشر مرتب ان کے مقابل پر واقع ہیں.جیسا کہ فقرہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ فقرہ الْحَمْدُ لِله کے مقابل پر ہے جس سے یہ اشارہ ہے کہ عبادت کے لائق وہی ذات کامل الصفات ہے جس کا نام اللہ ہے اور فقرہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ فقرہ رَبُّ الْعَلَمِينَ کے مقابل پر واقع ہے جس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ سر چشمہ ، ربوبیت سے جو ایک نہایت عام سر چشمہ ہے ہم مدد طلب کرتے ہیں کیونکہ بغیر خدا تعالیٰ کے فیض ربوبیت کے ظاہری یا باطنی طور پر نشو نما پانا یا کوئی پاک تبدیلی حاصل کرنا اور روحانی پیدائش سے حصہ لینا امر محال ہے.اور فقرہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ نقره الرحمن کے مقابل پر واقع ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا ورد کرنے والا الرحمن کے چشمہ سے فیض طلب کرتا ہے.کیونکہ ہدایت پانا کسی کا حق نہیں ہے بلکہ محض رحمانیت الہی سے یہ دولت حاصل ہوتی ہے.اور فقره صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فقره الرَّحِيمُ کے مقابل پر واقع ہے.اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا ورد کرنے والا چشمہ الرّحیم سے فیض طلب کرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے دعاؤں کو رحم خاص سے قبول کرنے والے ! ان رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی راہ ہمیں دکھلا جنہوں نے دُعا اور مجاہدات میں مصروف ہو کر تجھ سے انواع اقسام کے معارف اور حقائق اور کشوف اور الہامات کا انعام پایا اور دائگی دعا اور

Page 159

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة الفاتحة تضرع اور اعمال صالحہ سے معرفتِ تامہ تک پہنچ گئے.اور فقرہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فقره ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے مقابل پر واقع ہے اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَ کا ورد کرنے والا چشمہ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ سے فیض طلب کرتا ہے.اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اے جزا و سزا کے دن کے مالک ہمیں اس سزا سے بچا کہ ہم دنیا میں یہودیوں کی طرح طاعون وغیرہ بلاؤں میں تیرے غضب کی وجہ سے مبتلا ہوں یا نصاری کی طرح نجات کی راہ گم کر کے آخرت میں عذاب کے مستحق ہوں.اس آیت میں نصاریٰ کا نام ضالین اس لئے رکھا ہے کہ دنیا میں ان پر کوئی غضب الہی کا عذاب نازل نہیں ہوا صرف وہ لوگ اُخروی نجات کی راہ گم کر بیٹھے ہیں اور آخرت میں قابل مؤاخذہ ہیں.مگر یہود کا نام مغضوب علیہم اس واسطے رکھا ہے کہ یہود پر دنیا میں ہی اُن کی شامت اعمال سے بڑے بڑے عذاب نازل ہوئے ہیں.منجملہ اُن کے عذاب طاعون ہے چونکہ یہود نے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں اور راستباز بندوں کی صرف تکذیب نہیں کی بلکہ بہتوں کو ان میں سے قتل کیا یا قتل کا ارادہ کیا اور بد زبانی سے بھی بہت تکلیفیں پہنچاتے رہے اس لئے غیرتِ الہی نے بعض اوقات جوش میں آکر اُن کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا.بسا اوقات لاکھوں یہودی طاعون کے عذاب سے مارے گئے اور کئی دفعہ ہزاروں اُن میں سے قتل کئے گئے اور یا اسیر ہو کر دوسرے ملکوں میں نکالے گئے.غرض وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد ہمیشہ مغضوب علیہم رہے چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک ٹیڑھی قوم ہے اس لئے توریت میں اکثر دنیا کے عذابوں سے ان کو ڈرایا گیا تھا.غرض اُن پر ہولناک طور پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا رہا کیونکہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیتے تھے اسی وجہ سے دنیا میں ہی ان پر غضب بھڑکا تا وہ ان لوگوں کے لئے نمونہ عبرت ہوں کہ جو آئندہ کسی زمانہ میں خدا کے ماموروں اور راست باز بندوں کو عمداً دُکھ دیں اور اُن کو ستاویں اور اُن کے قتل کرنے یا ذلیل کرنے کے لئے بدا را دے دل میں رکھیں.سو اس دعا کے سکھلانے میں در پردہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ تم یہودیوں کے خُلق اور خو سے باز رہو اور اگر کوئی مامور من اللہ تم میں پیدا ہوتو یہودیوں کی طرح اُس کی ایذا اور توہین اور تکفیر میں جلدی نہ کرو.ایسا نہ ہو کہ تم بچے کو جھوٹا ٹھہرا کر اور پھر طرح طرح کے دُکھ اس کو دے کر اور بد زبانی سے اس کی آبروریزی کر کے یہودیوں کی طرح مورد غضب الہی ہو جاؤ لیکن افسوس کہ اس اُمت کے لوگ بھی ہمیشہ ٹھوکر کھاتے رہے اور انہوں نے بدقسمت یہودیوں کے قصوں سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی.ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۵۲ تا ۲۵۴)

Page 160

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۷ سورة الفاتحة ان آیات سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا جس نے اللہ کے نام سے قرآن میں اپنے تئیں ظاہر کیا وورب العالمین ہو کر مبدء ہے تمام فیضوں کا اور رحمان ہو کر معطی ہے تمام انعاموں کا.اور رحیم ہو کر قبول کرنے والا ہے تمام خودمند دعاؤں اور کوششوں کا اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہو کر بخشنے والا ہے کوششوں کے تمام آخری ثمرات کا.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۶ حاشیه ) رَبُّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.......یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا.رحمن رحیم اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۶،۳۷۵) فَاعْلَمْ أَنَّ هَذِهِ الصَّفَاتِ عُيُون واضح ہو کہ یہ چاروں ) صفات (یعنی رب العالمین، )صفات(یعنی ربُّ لِفُيُوْضِ الله الكامِلَةِ النَّازِلَةِ عَلى الرحمن الرحیم اور مالک یوم الدین ) اللہ تعالیٰ کے کامل فیوض أَهْلِ الْأَرْضِ وَ السَّمَاءِ وَ كُلُّ صِفَةٍ کے چشمے ہیں جو زمین و آسمان میں رہنے والوں پر نازل مَّنْبَعٌ لِقِسْمِ فَيْضِ بِتَرْتِيبِ أَوْدَعَ ہوئے اور ہر صفت ایک خاص قسم کے فیض کا منبع ہے ( اور یہ اللهُ أَثَارَهَا فِي الْعَالَمِ لِيُرِى تَوَافَقَ صفات) ایک ایسی ترتیب کے ساتھ ( بیان کی گئی ہیں ) جس قَوْلِهِ بِفِعْلِهِ وَ لِيَكُونَ آيَةٌ کے آثار خدا تعالیٰ نے (اس کا رخانہ ) عالم میں ودیعت کر لِلْمُتَفَكِرِينَ فَالْقِسْمُ الْأَوَّلُ مِن رکھے ہیں.تا وہ اپنے قول کا اپنے فعل سے تو افق دکھائے اور تا أَقْسَامِ الصِّفَاتِ الْفَيْضَانِيَّةِ صِفَةٌ غور و فکر کرنے والوں کے لئے یہ ایک نشان ہو.ان فیضانی يسَيْيْهَا رَبُّنَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَ هذه صفات کی اقسام میں سے پہلی قسم وہ صفت ہے جس کا نام ہمارا الصَّفَةُ أَوْسَعُ الصَّفَاتِ في الإفاضَة پروردگار رب العالمین رکھتا ہے اور یہ صفت فیض رسانی میں وَلَا بُدَّ مِن أَن تُسَمّى فَيْضاتها دوسری تمام صفات سے زیادہ وسیع ہے اسی لئے ضروری ہے فَيْضَانًا أَعَمَّ لأَنَّ صِفَةَ الرُّبُوبِيَّةِ قَد کہ ہم اس صفت کے فیضان کا نام فیضانِ اہم رکھیں.کیونکہ أَحَاطَتِ الْحَيَوَانَاتِ وَغَيْرَ الْحَيَوَانَاتِ صفت ربوبیت تمام حیوانوں اور غیر حیوانوں پر ہی حاوی نہیں بَلْ أَحَاطَتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِينَ بلکہ آسمانوں اور زمینوں پر محیط ہے اور اس کا فیضان ہر فیض فَيْضَاتُهَا أَعَمُّ مِنْ كُلِّ فَيْض ما سے زیادہ عام ہے جس نے نہ کسی انسان کو چھوڑا اور نہ کسی غَادَرَ إِنْسَانًا وَلَا حَيَوَانًا وَلَا شَجرًا ولا حیوان کو، نہ کسی درخت کو اور نہ کسی پتھر کو اور نہ کسی آسمان کو نہ

Page 161

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة الفاتحة حَجَرًا وَلَا سَمَاء وَلَا أَرْضًا بَلْ نَزَلَ مَاءُهُ | کسی زمین کو.بلکہ اس کی رحمت کا پانی ہر چیز پر نازل ہوا على كُلِّ شَيْءٍ فَأَحْيَاهُ وَ أَحَاطَ بِالْكَاتِنَاتِ اور اسے زندگی عطا کی.اس فیضان نے تمام کائنات کی كُلِّهَا ظَوَاهِرِهَا وَ بَوَاطِيبًا فَكُلُّ شَيْني آشکارہ اور پوشیدہ اشیاء کا احاطہ کر رکھا ہے.پس ہر چیز صَنِيْعَةٌ مِن الله الذى أغلى كُلّ شَبي أسى الله کی صنعت ہے.جس نے ہر چیز کو (اس کی شَيْءٍ اُسی خَلْقَهُ وَبَداً خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ضرورت کے مطابق ) بناوٹ دی.اور انسان کی پیدائش وَاسْمُ ذَلِكَ الْفَيْضِ رُبُوَبِيَّةٌ وَبِهِ يَنذُرُ الله کا آغاز گیلی مٹی سے کیا.اس فیضان کا نام ربوبیت ہے تَعَالَى بَذْرَ السَّعَادَةِ فِي كُلّ سَعِيدٍ وَعَلَيْهِ اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہر سعید انسان میں سعادت کی يَتَوَقَّفُ استثمار الخيرَاتِ وَبُرُوزُ مَادَّةٍ تخم ریزی کرتا ہے.نیکیوں کے ثمرات ، نیک بختی کا مادہ، اسْتِثْمَارِ السَّعَادَاتِ وَآثَارُ الْوَرُعِ وَالْحَزَامَةِ وَ پارسائی اور حزم وتقویٰ کے آثار اور ہر وہ خوبی جوصاحب الثَّقَاةِ وَكُلُّ مَا يُوجَدُ في السن رشد لوگوں میں پائی جاتی ہے اسی فیض ربوبیت پر موقوف وَكُلُّ شَقِي وَسَعِيدٍ وَطَيْبٍ وخَبِيْثٍ ہے.اور ہر بد بخت، نیک بخت، پاک نا پاک اپنا حصہ يَأْخُذُ حَظَةَ كَمَا شَاءَ رَبُّهُ فِي الْمَرْتَبَةِ پاتا ہے.جس طرح اس کے رب نے اپنے مرتبہ ربوبیت الرُّبُوبِيَّةِ فَهَذَا الْفَيْضُ يَجْعَلُ مَن يَشَاءُ میں اس کے لئے چاہا.پس یہ فیضان جسے چاہے انسان بنا إِنْسَانًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ حِمَارًا وَ يَجْعَلُ ما دیتا ہے.جسے چاہے گدھا بنا دیتا ہے.جس چیز کو چاہے پیتل يَشَاءُ نُحَاسًا وَيَجْعَلُ مَا يَشَاءُ ذَهَبًا وَمَا بنا دیتا ہے اور جسے چاہے سونا بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کسی کے كَانَ اللهُ مِنَ الْمَسْؤُولِينَ وَاعْلَمُ أَنَّ هَذَا سامنے جوابدہ نہیں.اور یہ بھی واضح ہو کہ یہ فیضان لگاتار الْقَيْضَ جَارٍ عَلَى الْاِتِّصَالِ پوجہ پورے کمال کے ساتھ جاری ہے اور اگر ایک لحظہ کے لئے الْكَمَالِ وَلَوْ فُرِضَ القِطَاعُه طَرْفَةَ عَيْنٍ بھی اس کا انقطاع فرض کر لیا جائے تو زمین و آسمان اور لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَا ان کی موجودات تباہ و برباد ہو جائیں لیکن یہ فیضان ہر فِيهِنَّ وَلكِنْ أَحَاطَ سَمِيعًا وَ مَرِيضًا تندرست اور مریض ، بلندی اور پستی ، درخت اور پتھر اور وَيَفَاعًا وَحَضِيْضًا وَشَجَرًا وَ حَجَرًا وَكُل ما جو کچھ دونوں جہانوں میں ہے سب پر محیط ہے.اللہ تعالیٰ فِي الْعَالَمِينَ.وَقَدَّمَ اللهُ هَذَا الْقَيْضَ في نے اپنی کتاب میں اس فیض کو سب سے پہلے اس لئے كِتَابِهِ وَضْعًا لِتَقَتُمِهِ فِي عَالَمِ أَسْبَابِه بیان فرمایا کہ عالم اسباب میں وہ طبعاً نقدم رکھتا ہے.پس

Page 162

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ سورة الفاتحة طَبْعًا فَلَيْسَ هَذَا التَّقْدِيمُ مَحدُودًا في | یہ ترتیب محض کلام کو سجانے اور سلاست وروانی کے پیش تَوْشِيَةِ الْكَلَامِ وَتَحْصُورًا في رِعَايَةِ الصَّفَاءِ نظر ہی نہیں بلکہ اس میں تو حکیمانہ بلاغت سے نظام الثَّامِ بَلْ هِيَ بَلاغَةُ حِكْمِيَّةُ لاِرائَةِ کائنات کو دکھانا مقصود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقوال اس النّظامِ مِنْ حَيْثُ إنّه تَعَالى جَعَلَ أَقْوَالہ کے ان افعال کے دکھانے کے لئے آئینہ ہیں جو اس کی مِرا ةٌ لِرُؤْيَةِ أَفْعَالِهِ الْمَوْجُوْدَة في طبقات مخلوق کے مختلف طبقات میں ( بلحاظ ترتیب ) موجود ہیں تا الْأَنَامِ لِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُ الْعَارِفِينَ اس سے عارفوں کے دل تستی پائیں.وَالْقِسْمُ القَالي من الصفاتِ ان صفات فیضانیہ کی دوسری قسم وہ صفت ہے جس کا الْفَيْضَانِيَّةِ صِفَةٌ يُسَيِّيهَا رَبُّنَا الرَّحْمنِ نام ہمارا پروردگار ” الرحمان“ رکھتا ہے.پس ضروری وَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ نُسَمّى فَيُضَانَهُ فَيُضَانًا عَامَّا ہے کہ ہم بھی اس فیضان کو فیضان عام اور رحمانیت کے وَرَحْمَانِيَّةٌ.وَلَهُ مَرْتَبَةٌ بَعْدَمَرْتَبَةِ الْفَيْضَانِ نام سے پکاریں.اس کا مرتبہ فیضان اعم ( ربوبیت ) الْأَعْةِ وَهُوَ أَخَصُّ مِنَ الْفَيْضَانِ الْأَوَّلِ وَ کے بعد ہے اور اس فیضان کا دائرہ عمل اُس پہلے فیضان لا يَنْتَفِعُ مِنْهُ إِلَّا ذَوُو الرُّوحِ مِنْ أَشْيَاء سے اخص ہے اور اس سے آسمان اور زمینوں کی صرف السَّمَاءِ وَالْأَرْضِينَ.وَإِنَّ اللهَ فِي وَقْتِ هَذَا جاندار اشیاء ہی نفع حاصل کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے الْفَيْضِ لَا يَنظُرُ الْإِسْتِحْفَاقَ وَالْعَمَلَ اس فیض کے وقت کسی خاص حق عمل یا شکر کو نہیں دیکھتا وَالشُّكْرَ بَلْ يُنَزِّلُهُ فَضْلاً مِّنْهُ عَلَى كُلّ ذِى بلکہ وہ محض اپنے فضل سے ہر ذی روح پر اس فیضان کو رُوحِ إِنْسَانًا كَانَ أَوْ حَيَوَانًا فَجَنُونًا كَانَ أَوْ جاری رکھتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا حیوان.دیوانہ ہویا عَاقِلاً مُؤْمِنًا كَانَ أَوْ كَافِرًا ويُنجى كُلّ رُوج عاقل ، مومن ہو یا کافر، اور ہر روح کو ہلاکت سے بچاتا مِنْ هَلَكَةٍ دَانَتْ مِنْهَا بَعْدَ مَا كَادَتْ ہوتی ہے جو اس کے قریب پہنچ چکی ہو اور وہ (روح) اس میں فِيهَا وَيُعْطِي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقًا يَنْفَعُهُ لِأَنَّ اللهَ گرنے ہی لگی ہو اور ہر شے کو ایسی شکل وصورت عطا کرتا جَوَادٌ بِالذَّاتِ وَلَيْسَ بِضَنِينِ.فَكُلُّ ما ہے جو اس کے لئے مفید ہو کیونکہ اللہ تعالی بالذات سخی ترى في السَّمَاءِ مِنَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ہے اور ہر گز بھیل نہیں اور جو کچھ تمہیں آسمان میں نظر آتا وَالنُّجُومِ وَالْمَطَرِ وَالْهَوَاءِ وَمَا تَرى في ہے مثلاً سورج ، چاند، ستارے، بارش اور ہوا اور جو کچھ الْأَرْضِ مِنَ الْأَنْهَارِ وَالْأَشْجَارِ وَ الْأَثْمَارِ وَ زمین میں نظر آ رہا ہے مثلاً نہریں ، درخت اور پھل،.

Page 163

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة الفاتحة الأَدويَةِ التَّافِعَةِ وَالْأَلْبَانِ السَّائِغَةِ | نفع مند دوائیں ، خوشگوار دودھ اور مصفا شہد، یہ وَالْعَسَلِ الْمُصَفى فَكُلُّهَا مِن رَّحْمَانِيَّتِهِ سب خدائے عزو جل کی رحمانیت سے ہیں نہ کسی عَزَّوَجَلَّ لَا مِنْ عَمَلِ الْعَامِلِينَ وَ إِلى عامل کے عمل کی وجہ سے.اس فیضان کی طرف اللہ هذَا الْقَيْضَانِ أَشَارَ اللهُ تَعَالَى فِي قَوْلِهِ تعالی نے اپنی ان آیات میں اشارہ فرمایا ہے.وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ - الرَّحْمٰنُ - عَلَمَ 15/199 661 وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ وَفِي قَوْلِهِ تعالى: " الرَّحْمٰنُ - عَلَمَ الْقُرْآنَ وَفِي قَوْلِهِ تَعَالَى " مَنْ يَكُوكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الْقُرْآنَ مَنْ يَكُوكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ - الرَّحْمَنِ" وَفِي قَوْلِهِ تَعَالَى "مَا يُمْسِكُهُنَّ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمٰنُ.یہ سب (آیات ) متقیوں إلا الرَّحْمنُ تَذْكِرَةً لِلْمُتَّقِينَ.کے لئے بطور یاد دہانی کے ہیں.وَلَوْ لَمْ يَكُن هَذَا الْفَيْضَانُ لَمَا كَانَ اگر یہ فیضان نہ ہوتا تو نہ کوئی پرندہ ہوا میں اُڑ سکتا نہ کوئی لِطَيْرٍ أَنْ يَطِيرَ فِي الْهَوَاءِ وَلَا لِحُوتٍ أَنْ مچھلی پانی میں سانس لے سکتی.اور ہر عیال دار کو اس کے مال يتَنَفَّسَ فِي الْمَاءِ وَ لَأَبَادَ كُلّ مُعِیلٍ کی قلت اور اولاد کی کثرت اور ہر تنگ دست کو اس کی روزی ضَفَفُهُ وَكُلَّ ذِي قَشَفٍ شَطَفُهُ وَمَا بَغِی کی تنگی ہلاک کر دیتی.اور اس کے ازالہ کی کوئی صورت باقی نہ سبيل لإماطتِهِ كَمَا لا يخفى عَلَى رہ جاتی.جیسا کہ واقف حال (لوگوں) پر ظاہر ہے.الْمُسْتَطلعين.أَلا ترى كَيْفَ يُحْيِي اللَّهُ الْأَرْضَ بَعْدَ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ زمین کے مرجانے کے مَوْتِهَا وَيُكَوِرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِرُ بعد اس کو کس طرح زندہ کرتا ہے اور رات کو دن پر اوڑھا النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دیتا ہے اور دن کو رات پر اوڑھا دیتا ہے اور اس نے سورج كُلٌّ تَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ في ذلك اور چاند کو خدمت پر لگا رکھا ہے (چنانچہ ) ہر ایک (ستارہ) لآيَاتِ رَحْمَانِيَّةِ لِلْمُتَدَبِرِينَ وَ جَعَلَ ایک معین میعاد تک اپنے مقررہ راستہ پر چلا جارہا لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيْهِ وَ النَّهَارَ ہے.اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی ۱.(الاعراف:۱۵۷) ترجمہ.اور میری رحمت ہر ایک چیز کو حاوی ہے..(الرحمن: ۳،۲) ترجمہ.(وہ) رحمن (خدا) ہی ہے جس نے قرآن سکھایا..(الانبیاء:۴۳) ترجمہ.رات یا دن کے وقت رحمن ( خدا ) کی گرفت سے تم کو کون بچا سکتا ہے.۴.(الملک: ۲۰) ترجمہ.رحمن (خدا) ہی ان کو روکتا ہے.

Page 164

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة الفاتحة مُبْصِرًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ | رحمانیت کے کھلے کھلے نشانات ہیں.پھر اس نے تمہارے لئے قَرَارًا وَ السَّمَاءَ بِنَاءٍ وصَوَّرَ كُم رات کو اس لئے بنایا ہے کہ تم اس میں آرام پاؤ اور دن کو روشن بنایا فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُم مِّن ہے اسی طرح اُس نے زمین کو تمہارے لئے جائے قیام بنایا ہے الطَّيِّبَاتِ فَذَ الكُمُ الرَّحْمنُ اور آسمان کو ایک مکان کی صورت میں ( حفاظت کے لئے بنایا ہے ) رَبُّكُمْ مُرَبِّى الْمَسَاكِينِ وَالَّذِينَ اور اس نے تمہیں صورتیں بخشیں اور تمہاری صورتوں کو اچھا بنایا.كَفَرُوا بِرَحْمَانِيَّتِهِ فَجَعَلُوا لِلهِ اور تم کو پاکیزہ رزق بخشا ہے.پس یہی رحمان تمہارا پروردگار ہے عَلَيهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا وَمَا قَدَرُوا جو مسکینوں کی پرورش کرنے والا ہے.جولوگ اس کی رحمانیت اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَ كَانُوا مِن کے منکر ہیں انہوں نے اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کو ایک کھلا کھلا ثبوت مہیا کر دیا ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا اندازہ اس طرح الْغَافِلِينَ الَّتِي نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا وہ غافل ہی رہے.أَلا يَرَوْنَ إِلَى الشَّمس الہی کیا وہ سورج کو نہیں دیکھتے جو مشرق سے مغرب کو چلا جارہا تَجْرِى مِنَ الْمَشْرِقِ إلى المغرب ہے.کیا اس کی پیدائش اور اس کی یہ حرکت ان کے کسی اپنے عمل کا أَكَانَ خَلْقُهَا وَجَزيهَا مِنْ عَمَلِهِمْ نتیجہ ہے؟ یا محض اس خدائے رحمان کے فضل سے ہے کہ جس کی أَوْ مِنْ تَفَضُّلِ الرَّحْمنِ الَّذي رحمانيت نیکوکاروں اور ظالموں پر ( یکساں ) حاوی ہے.اسی وَسِعَتْ رَحْمَانِيتُهُ الصَّالِحِينَ وَ طرح اللہ تعالیٰ پانی کو اس کی ضرورت کے وقتوں پر برساتا الظَّالِمِينَ.وَكَذَلِكَ يُنَزِّلُ اللهُ مَاءً في أَوْقَاتِهِ فَيُنْشِيءُ بِهِ زُرُوعًا وَ أَشْجَارًا فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ أَفَهَذِهِ أو ہے.اور اس کے ذریعہ کھیتیاں اور درخت اُگاتا ہے.جن میں بڑی کثرت سے پھل ( لگتے ) ہیں.کیا یہ (ساری) نعمتیں کسی کے کسی عمل کے نتیجہ میں ہیں یا اس خدا تعالیٰ کی خالص رحمانیت النَّعْمَاءُ مِنْ عَمَلِ عَامِلٍ رَحْمَانِيَّةٍ خَالِصَةٍ مِّنَ اللهِ تَعَالَی سے ہیں جس نے ہمیں سامان زیست کی تنگی سے نجات دی الذي نجانا مِن كُل اغتياص ہے.ہمیں ہر ضرورت میں ارتقا کے لئے ایک سیڑھی دی ہے اور الْمَعِيشَةِ وَ أَعْطَانَا سُلَّما تحل رسیاں بھی دی ہیں.جن کی ہمیں پانی حاصل کرنے کے لئے حَاجَةٍ أَحْتَاجُ فِيهَا إِلَى الْاِرْتِقَاءِ ضرورت پڑتی ہے.پس پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی وَ أَرْشِيَةً نَحْتَاجُ إلَيْهَا رحمانیت کے نتیجہ میں ہم پر انعام کیا.ورنہ ہمارا ایسا کوئی عمل

Page 165

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورة الفاتحة لِلْاِسْتِسْقَاءِ فَسُبْحَانَ اللهِ الَّذِي أَنْعَمَ | نہیں تھا، جو ہمیں اس کا مستحق بنا دیتا.بلکہ اس نے عَلَيْنَا بِرَحمَانِيَّتِهِ وَمَا كَانَ لَنَا مِنْ عَمَلِ اپنی نعمتیں ہماری پیدائش سے بھی پہلے پیدا کر رکھی نَّسْتَحِقُ بِهِ بَلْ خَلَقَ نَعْمَالَهُ قَبْلَ أَنْ نُخْلَقَ ہیں.پس خوب غور کرو کیا تمہیں اس شان کا کوئی فَانْظُرْ هَلْ تَرَى مِثْلَهُ فِي الْمُنْعِمِينَ.فَحَاصِلُ فیاض اور منعم کہیں نظر آتا ہے.حاصل کلام یہ کہ الكَلَامِ أَنَّ الرَّحْمَانِيَةَ رَحْمَةٌ عَامَةٌ لِنَوْعِ الْإِنْسَانِ وَالْحَيَوَانِ وَلِكُلِ ذِى رُوحِ وَكُلِّ رحمانیت بنی نوع انسان اور حیوان کے لئے اور ہر جاندار اور ہر پیدا شدہ جان کے لئے ایک عام رحمت نفيس منفُوسَةٍ مِنْ غَيْرِ إِرَادَةِ أَجْرٍ عَمَلٍ ومِنْ غَيْرِ لِحاظِ اسْتِحْقَاقِ عَبْدٍ بِصَلَاحِه ہے جو کسی عمل پر اجر دینے کے ارادہ کے بغیر نیز کسی شخص کے تقویٰ اور نیکی پر بطور حق کے نہیں.وَتَوَرعِه في الدني وَالْقِسْمُ الثَّالِثُ مِنَ الصَّفَاتِ فیضانى صفات میں سے تیسری قسم وہ صفت ہے الْقَيْضَانِيَّةِ صِفَةٌ تُسَمِيْهَا رَبُّنَا الرَّحِيمَ وَلا جس کا نام ہمارے پروردگار نے الرحیم رکھا ہے.اور بُدَّ مِن أَن نُسَمّى فَيْضَاءَهَا فَيْضانًا خَاضًا ضروری ہے کہ ہم اس فیضان کو فیضانِ خاص کے نام وَرَحِيْمِيَّةً مِنَ اللهِ الْكَرِيمِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ سے پکاریں اور یہ رحیمیت خدائے کریم کی طرف سے الصَّالِحَاتِ وَ يُشَمِّرُونَ وَلَا يَقْصُرُونَ وَ ان لوگوں کے لئے ہے جو نیک کام کرتے ہیں.ہر يَذْكُرُونَ وَلَا يَغْفُلُونَ وَ يُبْصِرُونَ وَلَا وقت نیک کاموں کے لئے تیار رہتے ہیں اور کوئی يَتَعَامَونَ وَيَسْتَعِدُّوْنَ لِيَوْمِ الرَّحِيْلِ کوتا ہی نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں کبھی وَيَتَّقُونَ سُخَطَ الرَّبِ الْجَلِيلِ وَيَبِيتُونَ غافل نہیں ہوتے.آنکھوں سے کام لیتے ہیں، لِرَيْهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا وَيُصْبِحُونَ صَائِمِينَ.اندھے نہیں بنتے.کوچ کے دن کے لئے تیار رہتے ہیں وَلَا يَنْسَوْنَ مَوْتَهُمْ وَرُجُوْعَهُمْ إِلَى مَوْلَهُمُ اور رب جلیل کی ناراضگی سے بچتے ہیں.اپنے ربّ الْحَقِّ بَلْ يَعْتَبِرُونَ يتغى يُسْمَعُ يَرْتَاعُونَ کے لئے سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں.دن کو لالفٍ يُفْقَدُ وَيَذْكُرُونَ مَنَايَاهُمْ مِنْ مَوْتِ روزہ رکھتے ہیں.اپنی موت اور اپنے مالک حقیقی کی الْأَحْبَابِ وَ يَهُولُهُمْ هَيْلُ التَّرَابِ عَلَى طرف واپس لوٹنے کو نہیں بھولتے.کسی کی موت کی خبر الْأَتْرَابِ فَيَلْتَاعُونَ وَيَتَنَبَّهُونَ وَ يُرِيْهِم سُن کر عبرت حاصل کرتے ہیں.کسی دوست کے گم ہو ہو

Page 166

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ سورة الفاتحة اخْتِرَاهُ الْأَحِبَّةِ مَوْتَ أَنْفُسِهِمْ | جانے پر کانپ اٹھتے ہیں.دوستوں کی موت سے اپنی موتوں کو فَيَتُوبُونَ إِلَى اللهِ وَهُمْ فین یاد کرتے ہیں.اپنے ہم عمر ساتھیوں پر مٹی ڈالنا انہیں خوف دلاتا الصَّالِحِينَ.فَلَعَلَّكَ فَهِمْتَ أَنَّ هَذَا ہے.پس وہ ان کے غم سے جلتے ہیں اور خود ہوشیار ہو جاتے الْفَيْضَانَ يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ عَلی ہیں.دوستوں کی مفارقت انہیں اپنی موت ( کا نظارہ) شَرِيطَةِ الْعَمَلِ وَ التَّوَرعِ وَ السَّمت دکھا دیتی ہے.پس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور الصَّالِحَةِ وَالتَّقْوَى وَ الْإِيْمَانِ وَلَا نیکو کار بن جاتے ہیں.اب شاید تم سمجھ گئے ہو گے کہ اس فیضان وُجُودَ لَهُ إِلَّا بَعْدَ وُجُودِ الْعَقلِ کا آسمان سے نازل ہونا عمل (صالح) پر ہیز گاری، راست وَالْفَهْمِ وَبَعْدَ وُجُودِ كِتَابِ الله روی، پارسائی اور ایمان کے ساتھ مشروط ہے اس فیض کا وجود تَعَالَى وَحُدُودِهِ وَأَحْكامِه وَكَذلِك عقل اور فہم کے وجود اور کتاب اللہ اور اس کی حدود اور احکام الْمَحْرُومُونَ مِنْ هَذِهِ النّعْمَةِ لاَ کے نازل ہونے کے بعد ممکن ہے.اسی طرح جو لوگ اس نعمت ، يَسْتَحِقُونَ عِتَابًا وَ مُؤَاخَذَةً من سے محروم ہیں وہ ان شرائط (کے پورا ہونے ) سے قبل کسی عتاب ل کسی مقاب یا مؤاخذہ کے مستحق نہیں ٹھہرتے.قَبْلِ هَذِهِ الشَّرَآئِطِ فَظَهَرَ أَنَّ الرَّحِيمِيَّةَ تَوہم لہذا ظاہر ہو گیا کہ رحیمیت کی صفت اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی لْكِتَابِ اللهِ وَتَعْلِيمِهِ وَتَفهِيْمِهِ فَلا تعلیم و تفہیم کی تو ام ہے.اور اس ( کتاب اللہ کے نزول ) سے قبل يُؤْخَذُ أَحَدٌ قَبْلَهُ وَلَا يُدْرِكُ أَحَدًا کسی پر گرفت نہیں ہوتی اور نہ کسی پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نہ عَطَبُ الْقَهْرِ إِلَّا بَعْد ظهور هذه نازل ہوتا ہے جب تک یہ رحیمیت ظاہر نہ ہو.کسی بد کار انسان الرَّحِيهِيَّةِ وَلَا يُسْأَلُ فَاسِقٌ عَن سے اس کی بدکاری کے متعلق مؤاخذہ اس کے بعد ہی ہوگا.پس فِسْقِهِ إِلَّا بَعْدَهَا فَخَذْ هَذَا الشر یہ بھید کی بات مجھ سے سمجھ لے اور یہ عیسائیوں کی زبر دست تردید ميني وَهُوَ رَةٌ عَلَى الْمُتَنَظِرِينَ فَإِنَّهُمْ ہے کیونکہ وہ تو آدم سے لے کر دنیا کے خاتمہ تک گناہ کی نیش زنی قَاتِلُونَ بِلَسْعِ الذَّنْبِ مِن ادم إلی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر انسان گنہ گار ہے خواہ اُسے خدا تعالیٰ انْقِطَاعِ الدُّنْيَا وَيَقُولُونَ إِن كُلّ کی کتاب پہنچی ہو اور اُسے عقل سلیم عطا ہوئی ہو یا وہ معذوروں عَبْدٍ مُنْذِبٌ سَوَاءٌ عَلَيْهِ بَلَغَہ میں سے ہو اور ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسیح علیہ السلام كتاب من الله تعالى وَأُعْطِىَ لَهُ ) کی صلیبی موت) پر ایمان لائے بغیر کسی کو نہیں بخشا اور ان کا یہ

Page 167

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة الفاتحة عَقُلْ سَلِيمٌ أَوْ كَانَ مِنَ الْمَعْذُورِينِ وَ بھی دعوی ہے کہ مسیح پر ایمان نہ لانے والے پر نجات کے زَعَمُوا أَنَّ اللهَ تَعَالَى لَا يَغْفِرُ أَحَدًا إِلَّا بَعْد دروازے بند ہیں.اور محض اعمال سے مغفرت تک پہنچنے إيْمَانِهِ بِالْمَسِيحِ وَ زَعَمُوا أَنَّ أَبْوَابَ کا کوئی امکان نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے اور النّجاة مُعْلَقَةً لِغَيْره وَ لا سَبِيلَ إلى عدل اس بات کا مقتضی ہے کہ جو بھی گنہ گار اور مجرم ہو الْمَغْفِرَةِ بِمُجَرَّدِ الْأَعْمَالِ فَإِنَّ اللهَ عَادِلٌ اس کو سزا دی جائے.پس جب اس بارہ میں کامل مایوسی وَالْعَدُلُ يَفْتَعِى أَنَّ يُعَذِّبَ مَنْ كَانَ واضح ہوگئی کہ لوگ اپنے اعمال کے ذریعہ ( گناہوں مُنْذِبًا وَ كَانَ مِنَ الْمُجْرِمِينَ فَلَمَّا سے) پاک ہو سکیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاکیزہ بیٹے کو بھیجا حَصْحَصَ الْيَأْسُ مِنْ أَنْ تَظهر النَّاسُ تا وہ لوگوں کے ( گناہ کے بوجھ اپنی گردن پر اُٹھالے بِأَعْمَالِهِمْ أَرْسَلَ اللهُ اللهُ الظَّاهِرَ لِيَزِر اور پھر صلیب دیا جائے.اور اس طرح لوگوں کو ان کے وِزْرَ النَّاسِ عَلى عُنُقِهِ ثُمَّ يُصَلُّبَ وَيُنَغِی ( گناہ کے بوجھوں سے نجات دلائے.پس خدا کا بیٹا النَّاسَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ فَجَاءَ الْإِبْنُ وَقُتِلَ آیا اور وہ خود قتل ہوا اور عیسائیوں نے نجات پائی اور وہ وَلَجَى النَّصَارَى فَدَخَلُوا في حدایق نجات کے باغیچوں میں خوش و خرم داخل ہو گئے.یہ ان کا النَّجَاةِ فَرِحِيْنَ.هَذِهِ عَقِيدَهُهُمْ وَلكن عقیدہ ہے لیکن جو شخص عقل کی آنکھ سے اس عقیدہ مَنْ تَقَدّهَا بِعَيْنِ الْمَعْقُولِ وَوَضَعَهَا عَلی کو پر کھے اور اسے تحقیقات کی کسوٹی پر کسے تو وہ اسے محض مخيَارِ التَّحْقِيقَاتِ سَلَكَهَا مَسْلَكَ غير معقول باتوں کا سلسلہ قرار دے گا.اگر تُو (اس عقیدہ الْهَدْيَانَاتِ.وَ إِنْ تَعْجَبْ فَمَا تَجِدُ أَعْجَب پر) تعجب کرے( تو بجا ہے ) کیونکہ تو ان کے اس دعویٰ مِن قَوْلِهِمْ هَذَا لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ الْعَدْلَ سے زیادہ عجیب بات اور کہیں نہیں پائے گا.وہ نہیں أَهَمُّ وَأَوْجَبْ مِنَ الرَّحيمِ فَمَن تَرَكَ جانتے کہ عدل ان معنی میں کہ بے گناہ کو سزا نہ دی المُذيب وَأَخَذَ الْمَعْصُومَ فَفَعَلَ فِعْلًا ما جائے ) رحم سے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے.پس جو بقى مِنْهُ عَنل ولا رحم وَمَا يَفْعَلُ مِثْل گناہگار کو چھوڑ دے اور بے گناہ کو سزا دے اس نے ایک ذلِك إِلَّا الَّذى هُوَ أَضَلُّ مِنَ الْمَجَانِينَ.ایسا فعل کیا جس سے نہ عدل باقی رہ گیا اور نہ رحم اور ایسا ثُمَّ إِذَا كَانَتِ الْمُؤَاخَذَاتُ مَشْرُوطَةٌ کام سوائے اس کے کوئی نہیں کر سکتا جو پاگلوں سے بھی گیا بِوَعْدِ اللهِ تَعَالَى وَوَعِيْدِهِ فَكَيْفَ يَجُوزُ گزرا ہو.پھر جبکہ مواخذہ خدا تعالیٰ کے وعدہ اور وعید کے

Page 168

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة الفاتحة تَعْذِيبَ أَحَدٍ قَبْلَ إِشَاعَةِ قَانُونِ | ساتھ مشروط ہے تو پھر ضابطہ احکام کی اشاعت اور اس کے الْأَحْكَامِ وَتَشْبِيْدِهِ وَكَيْفَ يَجُوزُ أَخُذُ استحکام سے قبل کسی کو سزا دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اور الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ عِندَ صُدُورِ پھر کسی معصیت کے سرزد ہونے پر پہلوں، پچھلوں کو گرفت مَعْصِيَةٍ مَّا سَبَقَهَا وَعِيْدُ عِندَ کرنا کس طرح جائز ہے.جبکہ اس سے پہلے یہ وعید موجود نہ ارْتِكَابِهَا وَمَا كَانَ أَحَدٌ عَلَيْهَا مِن ہو کہ مرتکب کو گرفت ہوگی حالانکہ اس سے پہلے اس کے معصیت ہونے پر کسی کو اطلاع نہ تھی.المطلعين.ر فَالْحَقُ أَنَّ الْعَدْلَ لا يُوجَدُ أَثَرَهُ إِلَّا سچی بات تو یہ ہے کہ عدل کا وجود پایا نہیں جاتا مگر خدا تعالیٰ بَعْدَ نُزُولِ كِتَابِ اللهِ وَ وَعْدِهِ وَوَعِيدِہ کی کتاب اس کے وعدہ اور اس کی وعید اس کے احکام اور اس وَ أَحْكامِه وَحُدُودِهِ وَ شَرَآيْطه و کی حدود اور اس کی شرائط کے نزول کے بعد.اور اللہ تعالیٰ کی إضَافَةُ الْعَدْلِ الْحَقِيقي إلى الله تعالى طرف عدل حقیقی کی اضافت قطعا خلاط اور بے بنیاد ہے.بَاطِلْ لَّا أَصْلَ لَهَا لأَنَّ الْعَدْلَ لا کیونکہ عدل کا تصورتب ہو سکتا ہے جب اس سے پہلے حقوق يُتَصَوَّرُ إِلَّا بَعْدَ تَصَوُّرِ الْحُقوقِ وَ کا تصور کیا جائے اور ان کے وجوب کو تسلیم کر لیا جائے مگر تَسْلِيْهِ وُجُوبِهَا وَلَيْسَ لِأَحَدٍ حَقٌّ عَلى رب العالمین پر تو کسی کا کوئی حق نہیں ہو سکتا.کیا تم نہیں دیکھتے رَبِّ الْعَالَمِينَ أَلا ترى أَن الله سحر کہ اُس نے ہر حیوان کو انسان کی خدمت میں لگایا ہوا ہے؟ كُلَّ حَيَوَانِ لِلإنْسَانِ وَأَبَاحَ دِمَاتَها اس کی ادنیٰ ضرورت کے لئے بھی اس کا خون بہانے کو جائز لأَدْنَى ضُرُورَتِهِ فَلَوْ كَانَ وُجُوبَ الْعَدْلِ رکھا ہے.اگر عدل کو بطور حق کے اللہ کے ذمہ واجب قرار دیا حَقًّا عَلَى اللهِ تَعَالَى لَمَا كَانَ لَهُ سَبِیل جائے تو پھر اس کے لئے ایسے احکام کے جاری کرنے کا کوئی لإِجْرَاءِ هَذِهِ الْأَحْكَامِ وَإِلَّا فَكَانَ مِن موقعہ نہیں تھا ورنہ اس کا شمار ظالموں میں ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ الْجَاثِرِينَ وَلكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ في اپنی بادشاہت میں جو چاہتا ہے کرتا ہے.وہ جسے چاہے مَلَكُوتِهِ يُعِزُّ مَنْ يَشَاءُ وَيُذِلُّ مَن عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے.جسے چاہے يَشَاءُ وَ يُحْيِي مَن يَشَاءُ وَ يُميتُ مَن زندہ رکھتا ہے اور جسے چاہے موت دیتا ہے جسے چاہے وہ بلند يَشَاءُ يَرْفَعُ مَن يَشَاءُ وَيَضَعُ مَن يَشَاءُ کرتا ہے اور جس کو چاہے پست کر دیتا ہے مگر حقوق کے وجود کا وَ وُجُوْدُ الْحُقُوقِ يَقْتَضِى خلاف ذلك تقاضا اس سے الٹ ہے بلکہ یہ تو اس کے ہاتھ کو باندھ دیتا

Page 169

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ سورة الفاتحة بَلْ يَجْعَلُ يَدَاهُ مَغْلُولَةً وَ أَنْتَ تَرى أَنَّ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ تمہارا مشاہدہ حقوق کے دعوی کو جھٹلاتا الْمُشَاهَدَةَ تُكَذِّبُهَا وَقَدْ خَلَقَ الله ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو مختلف درجوں میں خلُوقَهُ عَلى تَفَاوُتِ الْمَرَاتِبِ فَبَعْضُ پیدا کیا ہے.اس کی مخلوق میں سے کچھ تو گھوڑے اور مخلوقِهِ أَفَرَاسُ وَحَميرٌ وَبَعْضُۂ جمال گدھے ہیں.کچھ اونٹ اور اونٹنیاں ہیں.کچھ گتے اور ولُوقٌ وَكِلَابٌ وَ ذِيَابٌ وَ تُمورٌ وجَعَل بھیڑیئے ہیں اور چیتے ہیں.اس نے کچھ مخلوق کو تو کان اور لِبَعْضِ مَخلُوقِهِ سَمعًا وَبَصَرًا وَخَلَقَ آنکھیں دی ہیں.بعض کو بہرا پیدا کیا ہے اور بعض کو اندھا بَعْضَهُمْ هُما وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ عَمِينَ بنایا ہے پس کس جاندار کو یہ حق ہے کہ وہ کھڑا ہو اور اپنے فَلِأَي حَيَوَانٍ حَقٌّ أَنْ يَقُومَ وَيُخَاصِمَ رَبِّهُ رب سے جھگڑا کرے کہ اُس نے اُسے اس طرح کیوں أَنَّهُ لِمَ خَلَقَهُ كَذَا وَلَمْ يَخْلُقُهُ كَذَا نَعَمُ پیدا کیا ؟ اور اُس طرح کیوں پیدا نہیں کیا ؟ ہاں اللہ تعالیٰ كتب الله على نفسه حق الْعِبَادِ بَعْدَ نے کتابیں بھیجنے اور تبشیر و انذار مکمل کرنے کے بعد خود اپنے إنزال الكُتُبِ وَتَبْلِيغِ الْوَعْدِ وَالْوَعِيْدِ او پر بندوں کا حق قرار دے لیا ہے.اور اس نے عمل کرنے وَبَشَّرَ بِجَزَاءِ الْعَامِلِينَ فَمَن تَبِعَ كتابه والوں کو مناسب جزا کی بشارت دی ہے.پس جو شخص اس وَنَبِيَّة وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ کی کتاب اور اس کے نبی کی پیروی کرے اور اپنے آپ کو الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى وَمَنْ عَضَى رَبِّہ گری ہوئی خواہشات سے روکے رکھے تو یقینا جنت ہی اس وَأَحْكامَه وأَبي فَسَيَكُونُ مِن کا ٹھکانہ ہے لیکن جو شخص اپنے رب اور اس کے احکام کی الْمُعَذِّبِينَ فَلَمَّا كَانَ مِلَاكَ الْأَمْرِ نا فرمانی اور انکار کرے تو اس کو ضرور سزا ملے گی.پس جبکہ الوعد والوعيد لا الْعَدْلُ الْعَتِيْدُ الَّذِي وعده وعید پر ہی جزا کا مدار ہے نہ کہ کسی حقیقی عدل پر جو كَانَ وَاجِبًا عَلَى اللهِ الْوَحِيْدِ المُهَدِّمَ مِن خدائے وحید پر لازم قرار دیا جائے تو اس اصول سے هَذَا الأُصولِ المُبيفُ الْمُمَرِّدُ الَّذِی عیسائیوں کے اوہام سے تعمیر کردہ بلند و طویل عمارت دھڑام بَنَاهُ النَّصَارَى مِنْ أَوْهَامِهِمْ سے گر جاتی ہے.فَتَبتَ أَنَّ إِجَابَ الْعَدْلِ الْحَقِيقِي پس ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر عدل حقیقی عَلَى اللهِ تَعَالى خَيَالٌ فَاسِدٌ وَمَتَاعٌ واجب ٹھہرانا ایک فاسد خیال اور کھوئی جنس ہے.جسے كَاسِدٌ لَّا يَقْبَلُهُ إِلَّا مَن تحان من جاہلوں کے سوا اور کوئی قبول نہیں کر سکتا.اس (بحث) سے

Page 170

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة الفاتحة الْجَاهِلِينَ.وَمِنْ هُنَا نَجِدُ أَنَّ بِنَاءَ عَقِيدَةِ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کفارہ کے عقیدہ کی بنیاد خدا تعالیٰ الْكَفَّارَةِ عَلى عَبْلِ اللهِ بِنَاء فَاسِد علی کے عدل پر رکھنا بناء فاسد علی الفاسد ہے.پس اس بارہ فَاسِدٍ فَتَدَبَّرُ فِيْهِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ لِكُسر میں خوب غور کرو کیونکہ اگر تم مناظرین اسلام میں سے صَلِيبِ النَّصَارَى إِن كُنتَ مین ہو تو نصاری کی صلیب کو توڑنے کے لئے یہی چیز الْمُنَافِرِينَ وَاسْمُ هَذِهِ الصَّفَةِ في كِتَاب تمہارے لئے کافی ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب میں اس الله تَعَالَى رَحِيْمِيَّةٌ كَمَا قَالَ اللهُ تعالی فی صفت کا نام رحیمیت ہے.جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید كِتَابِهِ الْعَزِيزِ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا ، میں فرماتا ہے وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا اور پھر فرمایا وَقَالَ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ فَهَذَا وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیم.پس یہ فیضان صرف اس کے مستحق الْفَيْضَانُ لا يَتَوَجَّهُ إِلَّا إِلَى الْمُسْتَحِي وَلَا کی طرف ہی رُخ کرتا ہے اور صرف عمل کرنے والوں کا يطلب إلَّا عَامِلا وهذا هُوَ الْفَرْقُ بَيْنَ ہی متلاشی ہے.رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ وَالْقُرْآنُ مَمْلُو من اور قرآن کریم اس فرق کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے.نظاثِرِه ولكن كَفَاكَ هَذَا الْهَدْرُ إِن كُنتَ لیکن اس جگہ اتنا بیان ہی کافی ہے اگر تم منظمندوں میں منَ الْعَاقِلِينَ.66 66 سے ہو.الْقِسْمُ الرَّابِعُ مِنَ الْقَيْضَانِ فَيُضَان فیضان کی چوتھی قسم وہ فیضان ہے جسے ہم فیضانِ نُسَيْيْهِ فَيُضَانًا أَخَضُ وَ مَظهَرًا تامًا أخص يا مالكيت کے مظہر نام کے نام سے پکارتے لِلْمَالِكِيَّةِ وَهُوَ أَكْبَرُ الْفُيُوضِ وَأَعْلَاهَا وَ ہیں اور وہ فیوض میں سب سے بڑا سب سے اعلیٰ ، سب أَرْفَعُهَا وَأَتَتْهَا وَأَكْمَلُهَا وَمُنْتَبَاهَا وَ قمرة سے بلند، جامع ، سب سے زیادہ مکمل اور فیوض کا منتہی أَشْجَارِ الْعَالَمِينَ وَلَا يَظْهَرُ إِلَّا بَعْدَ هَدَم ہے.اور تمام جہانوں کے درختوں کا پھل بھی.اور اللہ عِمَارَاتِ هَذَا الْعَالَمِ الْحَقِيرِ الصَّغِيرِ و تعالیٰ کی طرف سے اس فیضان کا ظہور کامل اس حقیر اور دُرُوس اطلالِهِ وَآثَارِهِ وَشُحُوبِ سختیه صغیر عالم کی عمارتوں کے مسمار ہونے ، اس کے کھنڈروں سَحْنَتِهِ وَنُضُوبٍ مَاءِ وَجُدَتِهِ وَأُفُولِ تجيه اور نشانات کے مٹ جانے ، اس کے رنگ و روپ کے كَالْمُغَرِبِينَ وَهُوَ عَالَمٌ لَّطِيْف دَقَّتْ متغیر ہو جانے اور اس کے رخساروں کی آب و تاب أَسْرَارُهُ وَكَثُرَتْ أَنْوَارُهُ تِجَارُ فِيْهَا فَهُمُ زائل ہو جانے اور سب غروب ہونے والوں کی طرح ا.(الاحزاب: ۴۴) ترجمہ.اور وہ مومنوں پر بار بار رحم کرنے والا ہے ۲.(البقرۃ:۲۱۹) ترجمہ.اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.

Page 171

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۸ سورة الفاتحة الْمُتَفَكِّرِيْنَ وَإِنْ قُلْتَ لِمَ قال الله | اس کے ستارہ کے غروب ہو جانے کے بعد ہوتا ہے.اور مالکیت تَعَالَى فِي هَذَا الْمَقَامِ مَالِكِ يَوْمِ ایک لطیف عالم ہے.جس کے اسرار نہایت دقیق ہیں اور اس الدِّينِ وَمَا قَالَ عَادِلٍ يَوْمِ الدین کے انوار بہت زیادہ ہیں.اس میں غور و فکر کرنے والوں کی عقل فَاعْلَمْ أَنَّ الشعر في ذلك أن العدل دنگ رہ جاتی ہے.اور اگر تم پوچھو کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ملک لا يَتَحَقِّقُ إِلَّا بَعْدَ تَحَقِّقِ الْحُقوقِ يَوْمِ الدِّينِ کیوں کہا اور عَادِلِ يَوْمِ الدِّينِ ( کیوں) نہیں وَلَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْ حَقٍ عَلَى اللهِ رَبّ کہا تو واضح ہو کہ اس میں بھید یہ ہے کہ عدل کا تصور اس وقت تک الْعَالَمِينَ.وَنَجَاةُ الْآخِرَةِ مَوْهَبَةٌ نہیں ہو سکتا جب تک حقوق کو تسلیم نہ کر لیا جائے اور جہانوں کے منَ اللهِ تَعَالَى لِلَّذِينَ آمَنُوا بِه و پروردگار خدا پر تو کسی کا کوئی حق نہیں اور آخرت کی نجات خدا سَارَعُوا إِلَى امْتِثَالِهِ وَتَقَبلِ أَحْكامِه تعالی کی طرف سے ان لوگوں کے لئے محض ایک عطیہ ہے جو اس وَ عِبَادَتِهِ وَ مَعْرِفَتِهِ بِسُرعة پر ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی اطاعت کرنے اور اس کے مُعْجِبَةٍ كَأَنَّهُمْ كَانُوا في نَجَاءِ احکام کو قبول کرنے ، اس کی عبادت کو بجالانے اور اس کی معرفت حَرَكَاتِهِمْ وَمَسَالح غَدَوا تہم حاصل کرنے کے لئے حیران کن تیزی سے قدم بڑھایا گویا وہ غَدَوَاتِهِمُ وَرَوْحَاتِهِمْ مُمْتَطِينَ عَلی هَوْجَاءَ اپنی حرکات کی تیزی میں اور صبح وشام کے سفروں میں تیز رفتار اور شِمِلَّةٍ وَ نُوْقٍ مُّشْعِلَّةٍ وَإِن لَّمْ تیز گام اونٹنیوں پر سوار تھے اور گو وہ اطاعت کے معاملہ کو پورے يُتِمُّوا أَمْرَ الْإِطَاعَةِ وَمَا عَبَدُوا کمال تک نہ پہنچا سکے اور نہ عبادت کا پورا حق ادا کر سکے ہوں اور حَقَّ الْعِبَادَةِ وَمَا عَرَفُوا حَقٌّ نہ ہی معرفت کی حقیقت کو پوری طرح پاسکے ہوں لیکن ان باتوں الْمَعْرِفَةِ وَلَكِن كَانُوا عَلَيْهَا حَرِيصِينَ کے حصول کے شدید خواہشمند رہے ہوں.اور اسی طرح وہ لوگ وَكَذَلِكَ الَّذِينَ عَصَوْا رَبَّهُمْ وَإِن جنہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی.اگر چہ ان کی بدبختی اپنی لَّمْ تَبْلُغَ شِقْوَتُهُمْ مَدَاهَا وَلكن انتہا کو نہیں پہنچی لیکن وہ اس ( بد بختی ) کی طرف تیزی سے بڑھتے كَانُوا إِلَيْهَا مُسَارِعِينَ وَكَانُوا رہے، بُرے عمل کرتے رہے اور بدی کرنے پر اپنی جرات میں يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ وَيَزِيدُونَ في ترقی کرتے گئے اور وہ ( ہدی کے کاموں سے ) رکنے والے نہ جَرَاءَاتِهِمْ وَمَا كَانُوا مِن تھے.پس (ایسے لوگوں میں سے ) ہر شخص اپنی اپنی نیت کے الْمُنْتَهِينَ.فَكُلُّ تَرى مَا كَانَ في مطابق اللہ تعالیٰ کی رحمت یا اس کا قہر دیکھے گا.پس جس نے اپنا نِيَّتِهِ رَحْمَةً مِّنَ اللهِ أَوْ قَهْرًا فَمَنْ رُخ ادھر پھیرا جدھر سے نسیم رحمت آرہی ہو تو وہ ضرور رحمت سے

Page 172

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة الفاتحة نَاوَحَ مَهَبٌ نَسِيمِ الرَّحْمَةِ فَسَيَجِدُ حَظًّا | اپنا حصہ پائے گا.اور اس میں رہتا چلا جائے گا.اور جو قہر مِنْهَا خَالِدًا فِيهَا وَمَنْ قَابَلَ صَرَاصِر کی تند ہواؤں کی زد میں آ گیا تو وہ ضرور اُن کے تھیڑے الْقَهْرِ فَسَيَقَعُ في صَدَمَاعِهَا وَمَا هَذَا إِلَّا کھائے گا اور یہ مالکیت ہی ہے عدل نہیں جو حقوق کا مقتضی الْمَالِكِيَّةُ لَا الْعَدُلُ الَّذِي يَقْتَضِى ہوتا ہے.پس تم خوب غور کرو اور دیکھو کہیں غافلوں میں الْحُقُوقَ فَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ _ شامل نہ ہو جانا.( ترجمہ از مرتب ) کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۱۰ تا ۱۱۶) ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ لِلَّهِ تَعَالَى صِفَاتٍ پھر واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ذاتی ہیں جو ذَاتِيَةً نَّاشِيَةً مِّنَ اقْتِضَاءِ ذَاتِهِ وَعَلَيْهَا اس کی ذات کے تقاضا سے پیدا ہونے والی ہیں اور اُنہیں مَدَارُ الْعَالَمِينَ كُلِّهَا وَهِيَ أَربع زُبُوبِيَّةٌ پر سب جہانوں کا مدار ہے اور وہ چار ہیں.ربوبیت'.وَرَحْمَانِيَةً وَرَحِيْمِيَّةً وَمَالِكِيَّةٌ كَمَا أَشَارَ رحمانیت - رحیمیت اور مالکیت.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس اللهُ تَعَالَى إِلَيْهَا في هَذِهِ السُّورَةِ وَقَالَ سورت میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے رپ رَبَّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ الْعَلَمِينَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَوْمِ الدِّينِ فَهَذِهِ الصَّفَاتُ الذَّاتِيَّةُ پس یہ ذاتی صفات ہر چیز پر سبقت رکھتی ہیں اور ہر چیز پر سَابِقَةٌ عَلى كُلِّ شَيني ومحيطةٌ بِكُلّ شَني محيط ہیں.تمام اشیاء کا وجود، ان کی استعداد یں، ان کی وَمُحِيْطَةٌ وَمِنْهَا وُجُودُ الْأَشْيَاءِ وَاسْتِعْدَادُهَا قابلیت اور ان کا اپنے کمالات کو پہنچنا انہیں (صفات ) کے.وَقَابِلِيعُها وَوُصُولُهَا إِلى كَمَالَاتِنَا وَأَمَّا ذریعہ سے ہے لیکن غضب کی صفت خدا کی ذاتی صفت صِفَةُ الْغَضَبِ فَلَيْسَتْ ذَا تِيَةٌ لِلهِ تَعَالَی نہیں ہے بلکہ وہ بعض موجودات کے مطلقا کمال قبول نہ بَلْ هِيَ نَاشِيَةٌ مِنْ عَدَمِ قَابِلِيَّةِ بَعْضٍ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح گمراہ الْأَعْيَانِ لِلْكَمَالِ الْمُطَلَقِ وَكَذَلِكَ ٹھہرانے کی صفت کا ظہور بھی گمراہ ہونے والوں میں کبھی صِفَةُ الْإِضْلَالِ لَا يَبْدُو إِلَّا بَعْدَ زَيْغ پیدا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے.لیکن صفات مذکورہ کا حصر الضَّالِّينَ وَأَمَّا حَضُرُ الصِّفَاتِ چار کے عدد میں اس عالم کو مد نظر رکھ کر ہے جس میں ان الْمَذْكُورَةِ فِي الْأَرْبَعِ فَنَظَرًا عَلَى الْعَالَمِ صفات کے آثار پائے جاتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ الَّذِي يُوجَدُ فِيْهِ أَثَارُهَا.أَلَا تَرَى أَنَّ عالَم سارے کا سارا بزبانِ حال ان (چاروں ) صفات کے

Page 173

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورة الفاتحة الْعَالَمَ كُلَّهُ يَشْهَدُ عَلى وُجُودِ هذه وجود پر شہادت دے رہا ہے اور یہ چاروں صفات اس الصِّفَاتِ بِلِسَانِ الْحَالِ وَقَدْ تَجَلَّتْ هذه طور سے جلوہ افروز ہیں کہ کوئی صاحب بصیرت ان میں الصَّفَاتُ بِنَحْوِ لَّا يَشُكُ فِيهَا بَصِيرٌ إِلَّا شک نہیں کر سکتا سوائے اس کے جواندھوں میں سے مَنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَمِينَ.وَهَذِهِ الصفات ہو اور یہ صفات اس دنیا کے اختتام تک چار ( کی تعداد أَرْبَعُ إِلَى الْقِرَاضِ الشَّاةِ الدُّنْيَوِيَّةِ ثُمَّ میں ہی رہیں گی.پھر ان ہی میں سے چار اور صفات تَتَجَلُّى الَّتِي تتجلى مِن تَحْيا أَرْبَعُ أُخْرَى اليني من جلوہ گر ہوں گی.جن کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے جہان شَأْتِهَا أَنَّهَا لَا تَظْهَرُ إِلَّا فِي الْعَالَمِ الْآخِرِ میں ہی ظاہر ہوں گی اور ان کی پہلی جلوہ گاہ رب کریم کا وَأَوَّلُ مَطالِعِهَا عَرْشُ الرَّبِ الكَرِيمِ عرش ہوگا.جو بھی غیر اللہ کے وجود سے آلودہ نہیں ہوا اور الَّذِي لَمْ يَتَدَنَّسُ بِوُجُودِ غَيْرِ الله تعالى وہ عرش پروردگار عالم کے انوار کا مظہر تام ہے.اور اس وَصَارَ مَظْهَرا تَأَمَّا لِأَنْوَارٍ رَب العالمین کے پائے چار ہیں.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت اور الْعَالَمِينَ وَقَوَائِمُهُ أَرْبَعٌ ذُبُوبِيَّةٌ وَرَحْمَانِيةٌ مالكيت یوم الدین.اور ظلی طور پر ان چاروں صفات کا وَرَحِيْمِيَّةٌ وَمَالِكِيَّةُ يَوْمِ الدِّينِ وَلَا مکمل طور پر جامع اللہ تعالیٰ کے عرش یا انسان کامل کے جَامِعَ لِهَذِهِ الْأَرْبَعِ عَلَى وَجْهِ الظَّلِيَّةِ إِلَّا دل کے سوا اور کوئی نہیں اور یہ ( چاروں ) صفات اللہ تعالی عَرْشُ اللهِ تَعَالَى وَقَلْبُ الْإِنْسَانِ الْعَامِلِ کی باقی صفات کے لئے اصولی صفات ہیں.اور وہ اس وَهْذِهِ الصَّفَاتُ أُمَّهَاتُ لِصِفَاتِ اللهِ كُلها عرش کے لئے بمنزلہ پایوں کے ہیں جس پر خدا تعالیٰ وَوَقَعَتْ كَقَوَائِمِ الْعَرْشِ الَّذِي اسْتَوَى مستوى (جلوه گر ) ہے اور خدا کے مستوی ہونے میں اللهُ عَلَيْهِ وَ فى لفظ الإِسْتِوَاءِ إِشَارَةٌ إلى ذات باری تعالیٰ کی صفات کے کامل انعکاس کی طرف هَذَا الْإِنْعِكَاسِ عَلَى الْوَجْهِ الْأَتَم اشارہ ہے جو بہترین خالق ہے.پھر عرش کا ہر پایہ ایک الْأَكْمَلِ مِنَ اللهِ الَّذِي هُوَ أَحْسَنُ فرشتہ تک پہنچتا ہے جسے وہ اُٹھائے ہوئے ہے اور اسی پایہ الْخَالِقِينَ.وَتَنْتَبِى كُلُّ قَائِمَةٍ مِنَ الْعَرْشِ کے متعلق امر کا انتظام کرتا ہے.وہ اس کی تجلیات کے إلى مَلَكٍ هُوَ حَامِلُهَا وَمُدَبِرُ أَمْرِهَا وَمَوْرِدُ پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے اور ان تجلیات کو بحصہ رسدی تَجَلْيَاتِهَا وَ قَاسِمُهَا عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں پر تقسیم کرتا ہے.وَ الْأَرْضِينَ.فَهَذَا مَعْنَى قَوْلِ اللهِ تَعَالٰی پس اللہ تعالیٰ کے قول وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمُ

Page 174

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة الفاتحة وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَوْمَئِذٍ ثَنِيَةُ کے یہی معنے ہیں.کیونکہ ملائکہ ان ثَنِيَةٌ * فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يَحْمِلُونَ صِفَانًا صفات الہیہ کو اُٹھائے ہوئے ہیں جو عرش کی حقیقت سے فِيهَا حَقِيقَةً عَرْشِيَّةٌ و الشير في ذلك أَن متعلق ہیں.اور اس میں بھید یہ ہے کہ عرش اس دنیا کی الْعَرْشَ لَيْسَ شَيْئًا مِنْ أَشْيَاءِ الدُّنْيَابَل چیزوں میں سے نہیں بلکہ وہ دنیا اور آخرت کے درمیان هُوَ بَرْزَخٌ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَبْدَاً برزخ اور رب العالمین، الرحمن الرحیم ، مالک یوم الدین کی قَديمُ لِلتَّجَلْيَاتِ الرَّيَّانِيَّةِ وَالرّحمانية و صفات کی تجلیات کا ازلی منبع ہے.تا احسانات الہیہ کا اظہار الرَّحِيمِيَّةِ وَ الْمَالِكِيَّةِ لإظهَارِ التَّفَضُّلات اور جزا سزا کی تکمیل ہو اور یہ عرش اللہ تعالیٰ کی صفات میں وَ تَكْمِيْلِ الْجَزَاءِ وَالدِّينِ.وَهُوَ دَاخِل في داخل ہے کیونکہ اللہ تعالی ازل سے صاحب عرش ہے اور صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى فَإِنَّهُ كَانَ ذَا الْعَرْشِ مِن اس کے ساتھ ازل میں کوئی اور چیز تھی.پس ان باتوں پر قَدِيْمٍ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْئ فَكُن من غور و فکر کرنے والوں میں سے ہنو.اور عرش کی حقیقت اور الْمُتَدَيْرِينَ وَحَقِيقَةُ الْعَرْشِ وَاسْتِوَاءِ اللہ تعالیٰ کا اس پر مستوی ہونا انہی اسرار میں سے ایک بہت الله عَلَيْهِ سِر عَظِيمٌ مِنْ أَسرار اللہ تعالی تو بڑا ستر ہے اور ایک بلیغ حکمت اور روحانی معنی پر مشتمل ہے حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ وَمَعْنِّى رُوحانی و سلامتی عَرْضًا اور اس کا نام عرش اس لئے رکھا گیا ہے تا اس جہان کے اہلِ لِتَفهِيْمِ عُقُولٍ هَذَا الْعَالَمِ وَ لِتَفْرِیب عقل کو اس کا مفہوم سمجھایا جائے اور اس بات کا سمجھنا ان کی الْأَمْرِ إِلَى اسْتِعْدَادَاتِهِمُ وَ هُوَ وَاسِطَةٌ في استعدادوں کے قریب کر دیا جائے.اور وہ (عرش) الہی وُصُوْلِ الْفَيْضِ الْإِنْهِنِ وَ التَّجَلِي الرَّحْمَانِي | فیض اور اللہ تعلی کی رمانی محلی کو ملائکہ تک پہنچانے میں مِنْ حَضْرَةِ الْحَقِّ إِلَى الْمَلائِكَةِ وَ مِن واسطہ ہے.اور اسی طرح ملائکہ سے رسولوں تک پہنچانے کا الْمَلائِكَةِ إِلَى الرُّسُلِ.وَلَا يَفْدَحُ فِي وَحْدَتِهِ تَعَالى تَكَثُرُ خدا کی توحید پر یہ بات حرف نہیں لاتی کہ اس کے قَوَابِلِ الْفَيْضِ بَلِ التَّكَثُرُ فَهُنَا يُوجِبُ فیض کو قبول کرنے والے اور آگے پہنچانے والے وجود الْبَرَكَاتِ لِبَنِي آدَمَ وَيُعِيْتُهُمْ عَلَى الْقُوَّةِ بکثرت ہوں.بلکہ اس مقام میں ( وسائط کی ) کثرت الرُّوْحَانِيَّةِ وَ يَنْصُرُهُمْ فِي الْمُجَاهَدَاتِ وَ بنی آدم کے لئے برکات کا موجب ہے اور روحانی قوت الرِّيَاضَاتِ الْمُوْجِبَةِ لِظُهُورِ الْمُنَاسَبَاتِ کے حصول میں ان کو مدددیتی ہے.اور انہیں ان مجاہدوں (الحاقة: ۱۸) ترجمہ.اور اس دن تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا رہے ہوں گے.E ذریعہ ہے.

Page 175

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة الفاتحة الَّتِي بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَصِلُونَ إِلَيْهِ مِنَ اور ریاضتوں میں مدد دیتی ہے جو ان مناسبتوں کے ظہور کا النُّفُوسِ كَنَفْسِ الْعَرْشِ وَالْعُقُولِ موجب بنتی ہیں جو بنی آدم اور نفوس عالیہ مثلاً نفس عرش اور الْمُجَرَّدَةِ إِلى أَن يَصِلُوا إلَى الْمَبْدَهِ عقول مجردہ میں موجود ہیں جن تک بنی آدم نے پہنچنا ہے.یہ الْأَوَّلِ وَعِلَّةِ الْعِلَلِ.ثُمَّ إِذَا أَعَانَ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ بنی آدم مہد اول اور علت السَّالِكَ الْجَنَّبَاتُ الْإِلهِيَّةُ وَالنَّسِيمُ عِلل ( ذات باری ) تک پہنچ جائیں.پھر جب الہی کشش اور الرَّحْمَانِيَّةُ فَيَقْطَعُ كَثِیرًا من نجیب اس کی رحمانیت کی ٹھنڈی ہوا سالک کی مدد کریں تو اللہ تعالیٰ وَيُنجِيْهِ مِنْ بُعْدِ الْمَقْصَدِ وَكَثْرَةِ اس کے بہت سے پر دے دور کر دیتا ہے اور اُسے مقصد کی عَقَبَاتِهِ وَافَاتِهِ وَيُنَورُهُ بِالنُّورِ الْإِلهِي دُوری سے اور بہت سی درمیانی روکوں اور آفات سے نجات وَيُدخِلُهُ فِي الْوَاصِلِينَ فَيَكُبُلُ لَهُ دے دیتا ہے.اور اُسے ( سالک کو ) الہی نور سے منور کر دیتا الْوُصُولُ وَالشُّهُودُ مَعَ رُؤْيَتِه ہے.اور زمرہ واصلین میں داخل کر دیتا ہے.اور ( راہ سلوک عَجَائِبَاتِ الْمَنَازِلِ وَ الْمَقَامَاتِ وَلا کی منزلوں اور مقامات کے عجائبات دیکھنے کے ساتھ ساتھ شُعُوْرٌ لِأَهْلِ الْعَقْلِ بِهِ الْمَعَارِفِ وہ وصالِ الہی اور دیدار الہی کے مرتبہ وصول و شہود کو پالیتا وَالنِّكَاتِ وَ لَا مَدْخَلَ لِلْعَقلِ فِیهِ وَ ہے.لیکن فلسفیوں کو ان معارف اور باریکیوں کا کچھ بھی پتہ الإطلاعُ بِأَمْقَالِ هَذِهِ الْمَعَانِي إِنما هُو نہیں اور نہ ہی محض عقل کو اس شعور میں کوئی دخل ہے.اور مِن مِشْكَاةِ النُّبُوَّةِ وَ الْوَلايَةِ وَمَا ایسے مطالب اور معانی پر آگہی صرف مشکوۃ نبوت اور شَمَتِ الْعَقْلَ رَائِحَتُهُ وَمَا كَانَ لِعَاقِلِ ولایت سے حاصل ہوتی ہے اور اس کی خوشبو عقل کو نہیں پہنچ أَن يَضَعَ الْقَدَمَ في هَذَا الْمَوْضِيع إلا سکی.اور نہ کسی عقلمند کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس مقام پر بجز يُجَذِّبَةٍ مِنْ جَذَبَاتِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - رب العالمین کی کسی کشش کے قدم مار سکے.وَإِذَا الْفَكَّتِ الْأَرْوَاحُ الطَّيِّبَةُ اور جب نیکوں کی پاک اور کامل روحیں ان مادی جسموں الْعَامِلَةُ مِنَ الْأَبْدَانِ وَ يَتَطَهَّرُونَ سے الگ ہو جاتی ہیں اور وہ مکمل طور پر ( گناہوں کی ) میل عَلَى وَجْهِ الْكَمَالِ مِنَ الْأَوسامح بچیل سے پاک ہو جاتے ہیں تو وہ فرشتوں کی وسائط سے وَالْأَخْرَانِ يُعْرَضُونَ عَلَی اللہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عرش کے نیچے اس کے حضور پیش کئے جاتے تَحْتَ الْعَرْشِ بِوَاسِطَةِ الْمَلَائِكَةِ ہیں تب وہ ایک نئے طور سے ربوبیت سے ایسا حصہ پاتے ہیں

Page 176

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة الفاتحة E فَيَأْخُذُونَ بِطَوْرٍ جَدِيدٍ حَظًّا مِنْ رُبُوبِيَّةٍ | جو پہلی ربوبیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور اسی طرح يُغَائِرُ رُبُوْبِيَّةً سَابِقَةً وَ حَظًّا مِن رَّحْمَانِيَّةٍ رحمانیت سے حصہ پاتے ہیں جو پہلی رحمانیت سے مختلف مُغَابِرَ رَحْمَانِيَّةٍ أَوْلى وَ حَقًّا مِن رَّحِيْمِيَّةٍ وَ ہوتا ہے پھر وہ رحیمیت اور مالکیت سے ایسا حصہ پاتے مَالِكِيَّةٍ مُغَابِرَ مَا كَانَ فِي الدُّنْيَا فَهُنَالِكَ ہیں جو دنیا میں ملنے والے حصہ سے مختلف ہوگا.اس تَكُونُ ثَمَانِيَ صِفَاتٍ تَحْمِلُهَا ثَمَانِيَةٌ مِّنْ وقت ان صفات کی تعداد آٹھ ہو جائے گی.جن کو اللہ ملَائِكَةِ الله بإِذْنِ أَحْسَنِ الْخَالِقِينَ فَإِنَّ تعالی کے آٹھ فرشتے احسن الخالقین کے اذن سے لِكُلِ صِفَةٍ مَّلَكَ مُوَكَّلْ قَد خُلِقَ لِتَوْزِيْعِ اُٹھائیں گے اور ہر ایک صفت کے لئے ایک فرشتہ مقرر تِلْكَ الصّفَةِ عَلى وَجْهِ القَدبِيرِ وَوَضْعِهَا في ہوگا.جو بڑے منظم طریق سے اس صفت ( کی برکات ) فَعَلِهَا وَ إِلَيْهِ إِشَارَةٌ في قَوْلِهِ تَعَالٰی کو بانٹنے اور اسے برمحل رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.فَالْمُديراتِ أَمْرًا * فَتَدَبَّرَ وَلَا تَكُن من اس کی طرف اللہ تعالیٰ کے کلام فَالْمُدَ بَرَاتِ اَمْرًا میں الْغَافِلِين.اشارہ ہے پس تو بھی غور کر اور غافلوں میں شامل نہ ہو.وَزِيَادَةُ الْمَلَائِكَةِ الْحَامِلِينَ في الأخرة آخرت میں ملائکہ حاملین عرش کی تعداد کی زیادتی الْآخِرَةِ لِزِيَادَةِ تَجَلِّيَاتٍ رَّبَّانِيَةٍ وَ رَحْمَانِيَّةٍ و خدا کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت کی رَحِيْمِيَّةٍ وَمَالِكِيَّةِ عِندَ زِيَادَةِ الْقَوَابِلِ تجلیات کی زیادتی کی وجہ سے ہے جبکہ فیض قبول کرنے فَإِنَّ النُّفُوسَ الْمُطْمَئِنَةَ بَعْدَ انْقِطَاعِهَا وَ والے زیادہ ہو جائیں گے.کیونکہ نفس مطمئنہ اس رُجُوعِهَا إِلَى الْعَالَمِ الثَّانِي وَ الزَّبِ دنیا سے تعلق توڑ کر دوسری دنیا اور رب کریم کی طرف الْكَرِيمِ تَتَرَقَى فِي اسْتِعْدَادَاهَا فَتَتَمَوجُ واپس لوٹنے کے بعد اپنی استعدادوں میں ترقی کرتے الرُّبُوبِيَّةُ وَالرَّحْمَانِيَّةُ وَالرَّحِيمِيَّةُ وَ ہیں پس ان کی قابلیتوں اور استعدادوں کے مطابق الْمَالِكِيَّةُ يَحْسَبِ قَابِلِيَّا بِهِمْ وَ (صفات البیہ ) ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت اسْتِعْدَادَاتِهِمْ كَمَا تَشْهَدُ عَلَيْهِ كُفُوفُ موجزن ہوتی ہیں.جیسا کہ عارف باللہ لوگوں کے الْعَارِفِينَ.وَإِن كُنتَ مِنَ الَّذِينَ أُغلى كشوف اس امر پر گواہ ہیں.اور اگر تم ان لوگوں میں لَهُمْ حَظِّ مِنَ الْقُرْآنِ فَتَجِدُ فِيْهِ كَثِيرًا من سے ہو جنہیں قرآن کریم کے فہم کا کچھ حصہ عطا کیا گیا مِثْلِ هَذَا الْبَيَانِ فَانْظُرُ بِالنَّظرِ الدَّقِيقِ ہے تو تمہیں بھی اس (کتاب مجید ) میں ایسے بہت.( ترجمہ ) پھر ( دنیا کا) کام ( چلانے ) کی تدبیروں میں لگ جاتی ہیں.النازعات:

Page 177

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ سورة الفاتحة لِتَجِد شَهَادَةَ هَذَا التَّحْقِيقِ مِن بيانات ملیں گے پس تم گہری نظر سے دیکھو تا تمہیں اللہ تعالیٰ كِتَابِ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پروردگار عالم کی کتاب سے (میری اس ) تحقیق کی تصدیق مل (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۸ تا ۱۳۱) جائے.( ترجمہ از مرتب ) ثُمَّ قَوْلُهُ تَعَالَى الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ پھر اللہ تعالیٰ کے کلام پاک الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ سے الْعَلَمِينَ إلى يَوْمِ الدِّينِ رَدُّ لَطِيفٌ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک کی آیات میں ایک لطیف پیرایہ میں عَلَى التَّهْرِيَّينَ وَالْمُلْحِدِينَ دہریوں ، ملحدوں اور نیچریوں کے خیالات کی تردید ہے جو وَالطَّبِيعِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ خدائے بزرگ و برتر کی صفات پر ایمان نہیں رکھتے اور کہتے يصِفَاتِ اللهِ الْمَجِيْدِ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ ہیں کہ وہ علتِ موجبہ کی طرح تو ہے لیکن وہ مدتم بالا رادہ كَعِلَّةٍ مُوْجِبَةٍ وَلَيْسَ بِالْمُدَذِر نہیں اور اس میں انعام کرنے والے اور فیاض لوگوں کی طرح الْمُرِيدِ وَ لَا يُوجَدُ فِيهِ إِرَادَةُ ارادہ نہیں پایا جاتا ( تو تردید میں ) گو یا اللہ تعالی یہ فرماتا ہے كَالْمُنْعِمِينَ وَالْمُعْطِينِ فَكَأَنَّهُ يَقُولُ کہ تم کس لئے مخلوقات کے پروردگار پر ایمان نہیں لاتے اور كَيْفَ لَا تُؤْمِنُونَ بِرَبِّ الْبَرِيَّةِ وَ اس کی بالا راده ربوبیت کا انکار کرتے ہو.حالانکہ وہی تو تمام تَكْفُرُونَ بِرَبُوبِيَّتِهِ الْإِرَادِيَّةِ وَ هُوَ جہانوں کی پرورش کرتا ہے اور وہ (سب کو ) اپنے احسانات الَّذِي يُرَى الْعَالَمِينَ وَيَعْمُرُ بِنَوَالِهِ وَ سے ڈھانپتا اور اپنی قدرت اور جلال کیساتھ آسمانوں يَحْفَظُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقُدْرَتِهِ اور زمین کی حفاظت فرماتا ہے.جولوگ اس کی اطاعت کرتے وَ جَلَالِهِ وَ يَعْرِفُ مَنْ أَطَاعَةَ وَ مَنْ ہیں ان کو بھی اور جو نافرمانی کرتے ہیں ان کو بھی خوب جانتا عَلَى فَيَغْفِرُ الْمَعَاصِيَ أَوْ يُؤَدِّبُ ہے.پس گناہگاروں کے گناہ معاف کر دیتا ہے یا سزا سے ان بِالْعَصَا وَ مَنْ جَاءَهُ مُطِيعًا فَلَهُ کی اصلاح کرتا ہے لیکن جو شخص فرمانبردار بن کر اس کے جَنَّتَانِ وَحَقَّتْ بِهِ فَرْحَتَانِ فَرحَةٌ پاس آئے.اس کے لئے دو جنتیں ہیں اور دوخوشیاں اس کا يُصِيبُهُ مِن اسْمِ الرَّحِيْمِ وَأُخرى احاطہ کر لیتی ہیں ایک خوشی تو اسے صفت رحیمیت سے ملتی ہے مِنَ الرَّحْمنِ القَدِيمِ فَيُجْذِی جَزَاء اور دوسری خوش رحمانیت کی قدیم صفت سے ملتی ہے.پس أَولى مِنَ اللهِ الْأَعْلى وَيُدْخَلُ في اسے اللہ بلند و برتر کی طرف سے پوری پوری جزا دی جاتی ہے.الْفَائِزِينَ وَلَا شَكَ أَن هذه اور وہ با مراد لوگوں میں داخل کر دیا جاتا ہے.لاریب یہ صفات

Page 178

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة الفاتحة الصَّفَاتِ تَجْعَلُ اللهَ مُسْتَحِقًا لِلْعِبَادَةِ | اللہ تعالیٰ کو عبادت کا مستحق اور سعادت کے انعامات مُعْطِيًا مِنْ عَطَايَا السَّعَادَةِ وَأَمَّا بخشنے والا قرار دیتی ہیں.لیکن صرف اس کی تقدیس کا التَّقْدِيسُ وَحْدَهُ كَمَا ذُكر في الإنجيل بيان جیسا کہ انجیل میں مذکور ہے روح میں عبادت کے فَلا يُحرك الرُّوحَ لِلْعِبَادَةِ بَلْ يَعْرُكُهَا لئے حرکت پیدا نہیں کرتا بلکہ اُسے سوئے ہوئے بیمار کی كَالنَّاثِمِ الْعَلِيْلِ طرح رہنے دیتا ہے.وَأَمَّا سر هذا التَّرْتِيبِ الَّذِى باقی اس بات کا راز که بزرگ و برتر خدا تعالیٰ نے اخْتَارَة فِي الْفَاتِحَةِ رَبُّنَا الْمَجِيْدُ ذُو سورۃ فاتحہ میں جس ترتیب کو اختیار کیا ہے اور دُعا اور عبادت الْمَجْدِ وَالْعِزَّةِ وَذَكَرَ الْمَحَامِلَ قَبْلَ کے ذکر سے پہلے اپنے محامد کے ذکر کو بیان فرمایا ہے سویوں ذِكْرِ الدُّعَاءِ وَالْعِبَادَةِ فَاعْلَمُ أَنَّهُ فَعَل جانا چاہئے کہ اس نے ایسا اس لئے کیا ہے تا بزرگ و برتر ذلك ليذكر عِبَادَةَ عَظمَةً صِفَاتِ ذاتِ باری دُعا سے قبل اپنے بندوں کو اپنی صفات کی شان الْبَارِى ذِي الْمَجْدِ وَ الْعَلَاءِ قَبْلَ یاد دلائے اور اس طرف اشارہ کرے کہ وہی حقیقی آقا ہے الدُّعَاءِ وَيُشير إلى أنّه هُوَ الْمَوْلى لا اس کے سوا نہ تو کوئی نعمتیں دینے والا ہے اور نہ اس کے سوارحم مُنْعِمَ إِلَّا هُوَ وَلَا رَاحِمَ إِلَّا هُوَ وَلَا کرنے والا اور جزا سزا دینے والا ہے.بندوں کو جو بھی مُجَازِيَ إِلَّا هُوَ وَ مِنْهُ يَأْتِي كُلُّ مَا يَأْتي انعام و اکرام ملتے ہیں وہ اُسی کی طرف سے آتے ہیں الْعِبَادَ مِنَ الْاَلَاءِ وَ النّعْمَاءِ - وَهذَا (سورة فاتحہ کی یہ ترتیب بہترین ہے اور روح کے لئے التَّرْتِيبُ أَحْسَنُ وَلِلرُّوحِ أَنْفَعُ فَإِنَّهُ بہت فائدہ بخش ہے.وہ سعید انسان پر خدائے رحیم کے يُظْهِرُ عَلَى السَّعِيدِ مِنَنَ اللهِ الرَّحِيْمِ احسانوں کو خوب ظاہر کرتی ہے.اور اُسے خدائے قدیر وکریم وَيَجْعَلُهُ مُسْتَعِدًا وَمُقْبِلًا عَلَى حَضْرَةِ کی بارگاہ میں آنے کے لئے تیار کرتی اور اس کی طرف الْقَدِيرِ الْكَرِيمِ وَيَظْهَرُ مِنْهُ تموج تام متوجہ کرتی ہے.اور اس ترتیب سے طالبان حق کی روحوں تَمَوجُ في أَرْوَاحِ الظُّلبَاءِ كَمَا لا يخفى عَلَى أَهْلِ میں پورا جوش پیدا ہوتا ہے جیسا کہ عظمندوں پر پوشیدہ الدّهَاءِ وَأَمَّا تَخصيص ذكر الربوبية نہیں لیکن ان چاروں صفات ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت وَالرَّحْمَانِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ في الدُّنْيَا اور مالكيت كا ذکر جن کا تعلق دنیا و آخرت سے ہے خاص طور وَالْآخِرَةِ فَلِأَجْلِ أَنّ هذهِ الصِّفَاتِ پر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ چاروں خدا کی تمام صفات کی

Page 179

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة الفاتحة الْأَرْبَعَةَ أُمَّهَاتُ لجميع الصَّفَاتِ اصل ہیں اور بلاشبہ کہ یہ چاروں صفات خدا کی باقی تمام الْمُؤَثِرَةِ الْمُقِيضَةِ وَلا شك أنها مؤثر اور مفیض صفات کے لئے بطور اصل کے ہیں.اور مُحَرَكَاتُ قَوِيَّةٌ لِقُلُوبِ الدَّاعِيْن.بلاشبہ یہ دعا کر نیوالوں کے دلوں میں زبردست تحریک پیدا کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۰) کرنے والی ہیں.( ترجمہ از مرتب ) فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَدَبَّرَ فِي جب انسان خدا تعالیٰ کی ان صفات کے بارہ میں غور صِفَاتٍ جَعَلَهَا اللهُ مُقَدَّمَةً لِدُعَاءِ کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورت فاتحہ کی دُعا کے شروع الْفَاتِحَةِ وَعَلِمَ أَتَهَا مُشْتَمِلَةٌ عَلی میں بیان فرمایا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے کمال اور صِفَاتٍ كَمَالِهِ وَنُعُوْتِ جَلالِهِ بِاِسْتِيفاء اس کے جلال کی تمام صفات اور تناؤں پر مشتمل ہے.اور ہر الإحاطةِ وَمُحَرَّكَةٌ لأَنْوَاعِ الشَّوْقِ قسم کے شوق اور محبت کے لئے محرک ہے اور یہ بھی جان وَالْمَحَبَّةِ وَعَلِمَ أَنَّ رَبِّه مَبْدَاً تجميع لیتا ہے کہ اس کا رب تمام فیوض کا سرچشمہ ، تمام بھلائیوں کا الْفُيُوضِ وَمَنبع تجميعِ الْخَيْرَاتِ وَدَافِع منبع ، تمام آفات کو دور کرنے والا اور ہر قسم کی جزا سزا کا تجميع الْآفَاتِ وَ مَالِكَ لِكُلِ انواع مالک ہے نیز یہ کہ مخلوق کی ) پیدائش اسی سے شروع ہوئی الْمَجَازَاتِ مِنْهُ يُبْدَأُ الْخَلْقُ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ ہے اور آخر کار تمام مخلوقات اسی کی طرف لوٹائی جائیں گی.كل المَخْلُوقَاتِ وَ هُوَ مُتَزَةٌ عَنِ الْعُيُوبِ اور وہ عیوب ونقائص اور برائیوں سے پاک ہے اور تمام وَالنَّقَائِصِ وَ السَّيِّئَاتِ وَمُسْتَجْمع صفات کمال اور ہر قسم کی خوبیاں اس میں پائی جاتی نِسَائِرِ صِفَاتِ الكَمَالِ وَأَنْوَاعِ ہیں.تب انسان لازما اللہ تعالیٰ کو ہی تمام ضرورتوں کو پورا الْحَسَنَاتِ فَلَا شَكَ أَنَّهُ يَحْسَبُهُ مُنْجِحَ کرنے والا اور تمام ہلاکتوں سے نجات دینے والا یقین کر جَمِيعِ الْحَاجَاتِ وَ مُنْجِيَّا مِنْ سَائِرِ لیتا ہے.اور اس کی رضا کی تلاش میں ہر قسم کے مصائب کو الْمُوْبِقَاتِ فَيُعَابِدُ فِي ابْتِغَاء مَرَضَاتِهِ برداشت کرتا ہے.چاہے وہ نشانہ پر بیٹھنے والے تیر سے قتل كُلَّ الْمَصَالِبِ وَلَوْ قُتِلَ بِالسَّهْمِ کیوں نہ کر دیا جائے رنج وغم اسے بے بس نہیں کر سکتے.الصَّالِبِ وَلَا يُعْجِرُهُ الْكُرُوبُ وَلَا اور نہ وہ جانتا ہے کہ تھکان کیا ہوتی ہے خدائے محبوب اسے يَدْرِى مَا اللُّغُوبُ وَيَجْزِبُهُ الْمَحْبُوبُ وَ اپنی طرف کھینچتا ہے اور بندہ جانتا ہے کہ وہی (اس کا) w

Page 180

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۷ سورة الفاتحة يَعْلَمُ أَنَّهُ هُوَ الْمَطْلُوبُ ويسر له مطلوب ہے.اپنے مالک کی رضا حاصل کرنے کے راستوں کی وَيَيُسَرُ لَهُ اسْتِقْرَاهُ الْمَسَالِكَ لِتَطلُّبِ مَرْضَاةِ تلاش اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے لہذا وہ اس کی (طرف الْمَالِكِ فَيُجَاهِدُ فِي سُبُلِهِ وَلَوْ صَارَ لے جانے والی راہوں میں پوری کوشش کرتا ہے خواہ وہ ہلاک كَالْهَالِكِ وَ لَا يَخْشَى هَوْلَ بَلاء وَ کیوں نہ ہو جائے.اور وہ کسی آزمائش کے خوف سے ڈرتا نہیں.يَنبَرِى لِكُلِ ابْتِلَاء وَلَا يَبْقَى له من بلکہ ہر ابتلا کے لئے سینہ سپر ہو جاتا ہے اور اس کے لئے اس کی دُونِ حُبِّهِ الْأَذْكَارُ وَ لَا تَسْتَهویه محبت کے تذکرہ کے سوا اور کوئی ذکر باقی نہیں رہتا.دوسرے الْأَفْكَارُ وَيَنْزِلُ مِن مَّطِيَّةِ الأَهْوَاءِ افکار اسے فریفتہ نہیں کرتے اور وہ خواہشات کی سواری سے اُتر لِيَمْتَطِي أَفْرَاسَ الرّضَاءِ وَ يَغْفِرُ پڑتا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے گھوڑوں پر سوار ہو اور وہ جستجو أَزِمَّةَ الْابْتِغَاءِ لِيَقْطَعَ الْمَسَافَةَ کی باتیں بنتا ہے تا وہ خدا کے حضور پہنچنے کے لئے دُور کی النَّاثِيَةَ لِحَضْرَةِ الكِبْرِيَاءِ وَيَظُلُّ أَبَدًا مسافت طے کرلے اور وہ ہمیشہ اس کے قرب میں رہتا ہے.اور لَّهُ مُدَانِيَا وَلَا تَجْعَل لَّهُ قَانِیا تین اپنے پیاروں میں سے کسی کو بھی اس کا ثانی نہیں بناتا اور اس کا الْأَحِبَّاءِ وَلَا يَعْتَوِرُ قَلْبُهُ بَيْنَ دل (خدا کے شریکوں ( یعنی معبودان باطلہ ) کے درمیان بھٹکتا الشُّرَكَاءِ وَيَقُولُ يَا رَبِّ تَسَلَّمْ قَلْبِی نہیں پھرتا.وہ یہی دعامانگتا رہتا ہے کہ اے میرے رب میرے وَ تَكْفِينِي لِجَنبِي وَ جَنبِی وَ لَن دل کو اپنے قبضہ میں محفوظ رکھ.مجھے اپنی طرف کھینچنے اور مائل کرنے تُصْبِيَنى حُسْنُ الْآخَرِينَ هذہ کے لئے تو کافی ہو جا اور کسی اور کا حسن مجھے بھی فریفتہ نہ کر سکے.نَتَائِجُ تَمْهِيْدِ دُعَاءِ الْفَاتِحَةِ یہ سب نتائج دُعائے فاتحہ کی عمدہ تمہید ہیں.( ترجمہ از مرتب ) (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۴۳) جو کچھ خدائے تعالیٰ نے سورۃ ممدوحہ میں رب العالمین کی صفت سے لے کر مالک یوم الدین تک بیان فرمایا ہے یہ حسب تصریحات قرآن شریف چار عالیشان صداقتیں ہیں جن کا اس جگہ کھول کر بیان کرنا قرین مصلحت ہے.پہلی صداقت یہ کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی عالم کے اشیا میں سے جو کچھ موجود ہے سب کا رب اور مالک خدا ہے.اور جو کچھ عالم میں نمودار ہو چکا ہے اور دیکھا جاتا ہے یا ٹولا جاتا ہے یا عقل اس پر محیط ہوسکتی ہے وہ سب چیزیں مخلوق ہی ہیں اور ہستی حقیقی بجز ایک ذات حضرت باری تعالیٰ

Page 181

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة الفاتحة کے اور کسی چیز کے لئے حاصل نہیں.غرض عالم بجميع اجزا ئہ مخلوق اور خدا کی پیدائش ہے اور کوئی چیز اجزائے عالم میں سے ایسی نہیں کہ جو خدا کی پیدائش نہ ہو.اور خدائے تعالیٰ اپنی ربوبیت تامہ کے ساتھ عالم کے ذرہ ذرہ پر متصرف اور حکمران ہے اور اس کی ربوبیت ہر وقت کام میں لگی ہوئی ہے.یہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ دنیا کو بنا کر اس کے انتظام سے الگ ہو بیٹھا ہے اور اسے نیچر کے قاعدہ کے ایسا سپر دکیا ہے کہ خود کسی کام میں دخل بھی نہیں دیتا.اور جیسے کوئی کل بعد بنائے جانے کے پھر بنانے والے سے بے علاقہ ہو جاتی ہے ایسا ہی مصنوعات صانع حقیقی سے بے علاقہ ہیں بلکہ وہ رب العالمین اپنی ربوبیت تامہ کی آب پاشی ہر وقت برابر تمام عالم پر کر رہا ہے اور اس کی ربوبیت کا مینہ بالا تصال تمام عالم پر نازل ہورہا ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں کہ اس کے رضح فیض سے خالی ہو بلکہ عالم کے بنانے کے بعد بھی اس مہدو فیوض کی فی الحقیقت بلا ایک ذرا تفاوت کے ایسی ہی حاجت ہے کہ گویا ابھی تک اس نے کچھ بھی نہیں بنایا اور جیسا دنیا اپنے وجود اور نمود کے لئے اس کی ربوبیت کی محتاج تھی ایسا ہی اپنے بقا اور قیام کے لئے اس کی ربوبیت کی حاجتمند ہے.وہی ہے جو ہر دم دنیا کو سنبھالے ہوئی ہے اور دنیا کا ہر ذرہ اسی سے تروتازہ ہے اور وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہر چیز کی ربوبیت کر رہا ہے یہ نہیں کہ بلا ارادہ کسی شے کے ربوبیت کا موجب ہو.غرض آیات قرآنی کی رو سے جن کا خلاصہ ہم بیان کر رہے ہیں اس صداقت کا یہ منشا ہے کہ ہر یک چیز کہ جو عالم میں پائی جاتی ہے وہ مخلوق ہے.اور اپنے تمام کمالات اور اپنے تمام حالات اور اپنے تمام اوقات میں خدائے تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے اور کوئی روحانی یا جسمانی ایسا کمال نہیں ہے جس کو کوئی مخلوق خود بخود اور بغیر ارادہ خاص اس متصرف مطلق کے حاصل کر سکتا ہو.اور نیز حسب توضیح اسی کلام پاک کے اس صداقت اور ایسا ہی دوسری صداقتوں میں یہ معنے بھی ملحوظ ہیں کہ ربّ العالمین وغیرہ صفتیں جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں یہ اسی کی ذات واحد لاشریک سے خاص ہیں اور کوئی دوسرا ان میں شریک نہیں.جیسا کہ اس سورۃ کے پہلے فقرہ میں یعنی الحمد للہ میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ تمام محامد خدا ہی سے خاص ہیں.دوسری صداقت رحمن ہے کہ جو بعد رب العالمین بیان فرمایا گیا.اور رحمن کے معنے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں یہ ہیں کہ جس قدر جاندار ہیں خواہ ذی شعور اور خواہ غیر ذی شعور اور خواہ نیک اور خواہ بد، ان سب کے قیام اور بقاء وجود اور بقائے نوع کے لئے اور ان کی تعمیل کے لئے خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت عامہ کے رو سے ہر یک قسم کے اسباب مطلوبہ میٹر کر دیئے ہیں اور ہمیشہ میٹر کرتا رہتا ہے اور یہ عطیہ محض ہے

Page 182

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۹ سورة الفاتحة کہ جو کسی عامل کے عمل پر موقوف نہیں.تیسری صداقت رحیم ہے کہ جو بعد رحمن کے مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ سعی کرنے والوں کی سعی پر بمقتضائے رحمت خاصہ ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے.تو بہ کرنے والوں کے گناہ بخشتا ہے.مانگنے والوں کو دیتا ہے.کھٹکھٹانے والوں کے لئے کھولتا ہے.چوتھی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے یعنی با کمال و کامل جزا سزا کہ جو ہر یک قسم کے امتحان و ابتلا اور توسط اسباب غفلت افتر ا سے منزہ ہے اور ہر یک کدورت اور کثافت اور ا شک اور شبہ اور نقصان سے پاک ہے اور تجلیات عظمی کا مظہر ہے.اس کا مالک بھی وہی اللہ قادر مطلق ہے اور وہ اس بات سے ہرگز عاجز نہیں کہ اپنی کامل جزا کو جو دن کی طرح روشن ہے ظہور میں لاوے.اور اس صداقتِ عظمیٰ کے ظاہر کرنے سے حضرت احدیت کا یہ مطلب ہے کہ تا ہر ایک نفس پر بطور حق الیقین امور مفصلہ ء ذیل کھل جائیں.اول یہ امر کہ جزا سزا ایک واقعی اور یقینی امر ہے کہ جو مالک حقیقی کی طرف سے اور اس کے ارادۂ خاص سے بندوں پر وارد ہوتا ہے اور ایسا گھل جانا دنیا میں ممکن نہیں کیونکہ اس عالم میں یہ بات عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی کہ جو کچھ خیر وشر وراحت و رنج پہنچ رہا ہے وہ کیوں پہنچ رہا ہے اور کس کے حکم و اختیار سے پہنچ رہا ہے.اور کسی کو ان میں سے یہ آواز نہیں آتی کہ وہ اپنی جزا پارہا ہے اور کسی پر بطور مشہود ومحسوس منکشف نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ بھگت رہا ہے حقیقت میں وہ اس کے عملوں کا بدلہ ہے.دوسرے اس صداقت میں اس امر کا کھلنا مطلوب ہے کہ اسباب عادیہ کچھ چیز نہیں ہیں اور فاعل حقیقی خدا ہے اور وہی ایک ذات عظمی ہے کہ جو جمیع فیوض کا مبدء اور ہر یک جزا سزا کا مالک ہے.تیسرے اس صداقت میں اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ سعادت عظمیٰ اور شقاوت عظمی کیا چیز ہے یعنی سعادت عظمیٰ وہ فوز عظیم کی حالت ہے کہ جب ٹور اور سرور اور لذت اور راحت انسان کے تمام ظاہر و باطن اور تن اور جان پر محیط ہو جائے اور کوئی عضو اور قوت اس سے باہر نہ رہے.اور شقاوت عظمی وہ عذاب الیم ہے کہ جو بباعث نافرمانی اور نا پا کی اور بعد اور ڈوری کے دلوں سے مشتعل ہو کر بدنوں پر مستولی ہو جائے اور تمام وجود فی النار والسقر معلوم ہو.اور یہ تجلیات عظمیٰ اس عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس تنگ اور منقبض اور مکدر عالم کو جور و پوش اسباب ہوکر ایک ناقص حالت میں پڑا ہے.ان کے ظہور کی برداشت نہیں.بلکہ اس عالم پر ابتلاء اور آزمائش غالب ہے.اور اس کی راحت اور رنج دونوں نا پائیدار اور ناقص ہیں.اور نیز اس عالم میں جو کچھ انسان پر وارد ہوتا

Page 183

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة الفاتحة ہے وہ زیر پردہ اسباب ہے.جس سے مالک الجزاء کا چہرہ مجوب اور مکتوم ہورہا ہے.اس لئے یہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الجزاء نہیں ہو سکتا بلکہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الدین یعنی یوم الجزاء وہ عالم ہوگا کہ جو اس عالم کے ختم ہونے کے بعد آوے گا اور وہی عالم تجلیات عظمی کا مظہر اور جلال اور جمال کے پوری ظہور کی جگہ ہے.اور چونکہ یہ عالم دنیوی اپنی اصل وضع کے رو سے دارالجزاء نہیں بلکہ دار الابتلاء ہے اس لئے جو کچھ عسر و یسر وراحت و تکلیف اور غم اور خوشی اس عالم میں لوگوں پر وارد ہوتی ہے اس کو خدائے تعالیٰ کے لطف یا قہر پر دلالت قطعی نہیں مثلاً کسی کا دولتمند ہو جانا اس بات پر دلالت قطعی نہیں کرتا کہ خدائے تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ کسی کا مفلس اور نادار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ اس پر ناراض ہے بلکہ یہ دونوں طور کے ابتلاء ہیں تا دولتمند کو اس کی دولت میں اور مفلس کو اس کی مفلسی میں جانچا جائے.یہ چار صداقتیں ہیں جن کا قرآن شریف میں مفصل بیان موجود ہے اور قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ ان صداقتوں کی تفصیل میں آیات قرآنی ایک دریا کی طرح بہتی ہوئی چلی جاتی ہیں اور اگر ہم اس جگہ مفصل منی طور پر ان تمام آیات کو لکھتے تو بہت سے اجزاء کتاب کے اس میں خرچ ہو جاتے سو ہم نے اس نظر سے کہ انشاء اللہ عنقریب براہین قرآنی کے موقعہ پر وہ تمام آیات یہ تفصیل لکھے جائیں گے ان تمہیدی مباحث میں صرف سورۃ فاتحہ کے قل و دل کلمات پر کفایت کی.اب بعد اس کے ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ چاروں صداقتیں کہ جو بین الثبوت اور بدیہی الصدق ہیں ایسے بے نظیر اور اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ یہ بات دلائل قطعیہ سے ثابت ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور فرمانے کے وقت یہ چاروں صداقتیں دنیا سے گم ہو چکی تھیں اور کوئی قوم پردہ زمین پر ایسی موجود نہیں تھی کہ جو بغیر آمیزش افراط یا تفریط کے ان صداقتوں کی پابند ہو.پھر جب قرآن شریف نازل ہوا تو اس کلام مقدس نے نئے سرے ان گمشدہ صداقتوں کو زاویہ گمنامی سے باہر نکالا اور گمراہوں کو ان کے حقانی وجود سے اطلاع دی اور دنیا میں ان کو پھیلایا اور ایک عالم کو ان کے نور سے منور کیا.لیکن اس بات کے ثبوت کے لئے کہ کیونکر تمام قو میں ان صداقتوں سے بے خبر اور نا واقف محض تھیں یہی ایک کافی دلیل ہے کہ اب بھی دنیا میں کوئی قوم بجز دین حق اسلام کی ٹھیک ٹھیک اور کامل طور پر ان صداقتوں پر قائم نہیں اور جو شخص کسی ایسی قوم کے وجود کا دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے.ماسوا اس کے قرآنی شہادت کہ جو ہر یک دوست و دشمن میں شائع ہونے کی وجہ سے ہر یک مخاصم پر حجت ہے اس بات کے لئے ثبوت کافی ہے اور وہ شہادتیں جابجا

Page 184

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة فرقان مجید میں بکثرت موجود ہیں اور خود کسی تاریخ دان اور واقف حقیقت کو اس سے بے خبری نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تک ہر ایک قوم کی ضلالت اور گمراہی کمال کے درجہ تک پہنچ چکی تھی اور کسی صداقت پر کامل طور پر ان کا قیام نہیں رہا تھا.چنانچہ اگر اوّل یہودیوں ہی کے حال پر نظر کریں تو ظاہر ہو گا کہ ان کو خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تامہ میں بہت سے شک اور شبہات پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے ایک ذات رب العالمین پر کفایت نہ کر کے صدہا ارباب متفرقہ اپنے لئے بنارکھے تھے یعنی مخلوق پرستی اور دیوتا پرستی کا بغایت درجہ ان میں بازار گرم تھا.جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال قرآن شریف میں بیان کر کے فرمایا ہے.اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِن دُونِ الله - (التوبة : ۳۱) یعنی یہودیوں نے اپنے مولویوں اور درویشوں کو کہ جو مخلوق اور غیر خدا ہیں اپنے رب اور قاضی الحاجات ٹھہرا ر کھے ہیں.اور نیز اکثروں کا یہودیوں میں سے بعض نیچریوں کی طرح یہ اعتقاد ہو گیا تھا کہ انتظام دنیا کا قوانین منضبطہ متعینہ پر چل رہا ہے.اور اس قانون میں مختارانہ تصرف کرنے سے خدائے تعالیٰ قاصر اور عاجز ہے.گویا اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں نہ اس قاعدہ کے برخلاف کچھ ایجاد کر سکتا ہے اور نہ فنا کر سکتا ہے بلکہ جب سے کہ اس نے اس عالم کا ایک خاص طور پر شیرازہ باندھ کر اس کی پیدائش سے فراغت پالی ہے تب سے یہ گل اپنے ہی پرزوں کی صلاحیت کی وجہ سے خود بخود چل رہی ہے اور رب العالمین کسی قسم کا تصرف اور دخل اس گل کے چلنے میں نہیں رکھتا.اور نہ اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی کے موافق اور اپنی خوشنوری ناخوشنودی کے رو سے اپنی ربوبیت کو بہ تفاوت مراتب ظاہر کرے یا اپنے ارادۂ خاص سے کسی طور کا تغییر اور تبدل کرے بلکہ یہودی لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور مجسم قرار دے کر عالم جسمانی کی طرح اور اس کا ایک جز سمجھتے ہیں.اور ان کی نظر ناقص میں یہ سمایا ہوا ہے کہ بہت سی باتیں کہ جو مخلوق پر جائز ہیں وہ خدا پر بھی جائز ہیں اور اس کو مِن كُلِ الوُجُوہِ منز ہ خیال نہیں کرتے.اور ان کی توریت میں جو محرف اور مبدل ہے خدائے تعالیٰ کی نسبت کئی طور کی بے ادبیاں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پیدائش کے ۳۲ باب میں لکھا ہے کہ خدائے تعالیٰ یعقوب سے تمام رات صبح یک کشتی لڑا گیا.اور اس پر غالب نہ ہوا اسی طرح برخلاف اس اصول کے کہ خدائے تعالیٰ ہر یک مافی العالمہ کا رب ہے.بعض مردوں کو انہوں نے خدا کے بیٹے قرار دے رکھا ہے اور کسی جگہ عورتوں کو خدا کی بیٹیاں لکھا گیا ہے اور کسی جگہ پیل میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم سب خدا ہی ہو.اور بیچ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے

Page 185

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ سورة الفاتحة معلوم کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے اور خدا کی بیٹیاں بلکہ خدا ہی بناتی ہے.تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ابن مریم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسرے بیٹوں سے کم نہ رہ جائے.اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ابن مریم کو ابن اللہ بنا کر کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ پہلے بے ایمانوں اور مشرکوں کے قدم پر قدم مارا ہے.غرض حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں کی یہ حالت تھی کہ مخلوق پرستی بدرجہ و غایت ان پر غالب آگئی تھی اور عقائد حقہ سے بہت دور جا پڑے تھے یہاں تک کہ بعض ان کے ہندوؤں کی طرح تناسخ کے بھی قائل تھے اور بعض جزا سزا کے قطعاً منکر تھے.اور بعض مجازات کو صرف دنیا میں محصور سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل نہ تھے.اور بعض یونانیوں کے نقش قدم پر چل کر مادہ اور روحوں کو قدیم اور غیر مخلوق خیال کرتے تھے.اور بعض دہریوں کی طرح روح کو فانی سمجھتے تھے اور بعض کا فلسفیوں کی طرح یہ مذہب تھا کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین اور مدبر بالا رادہ نہیں ہے.غرض مجذوم کے بدن کی طرح تمام خیالات ان کے فاسد ہو گئے تھے اور خدائے تعالیٰ کی صفات کامله ربوبیت ورحمانیت و رحیمیت اور ملِكِ يَوْمِ الدین ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے نہ ان صفتوں کو اس کی ذات سے مخصوص سمجھتے تھے اور نہ ان صفتوں کا کامل طور پر خدائے تعالیٰ میں پایا جانا یقین رکھتے تھے بلکہ بہت سی بدگمانیاں اور بے ایمانیاں اور آلودگیاں ان کے اعتقادوں میں بھر گئی تھیں اور توریت کی تعلیم کو انہوں نے نہایت بدشکل چیز کی طرح بنا کر شرک اور بدی کی بد بو کو پھیلا نا شروع کر رکھا تھا.پس وہ لوگ خدائے تعالیٰ کو جسمانی اور جسم قرار دینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک گرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں.یہ تو یہودیوں کا حال ہوا مگر افسوس کہ عیسائیوں نے تھوڑے ہی دنوں میں اس سے بدتر اپنا حال بنالیا.اور مذکورہ بالا صداقتوں میں سے کسی صداقت پر قائم نہ رہے اور جو خدا کی صفات کا ملہ تھی وہ سب ابن مریم پر تھاپ دی اور ان کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ جمیع مافی العالم کا رب نہیں ہے بلکہ مسیح اس کی ربوبیت سے باہر ہے بلکہ مسیح آپ ہی رب ہے.اور جو کچھ عالم میں پیدا ہوا وہ بزعم باطل ان کے بطور قاعدہ کلیہ مخلوق اور حادث نہیں بلکہ ابن مریم عالم کے اندر حدوث پا کر اور صریح مخلوق ہو کر پھر غیر مخلوق اور خدا کے برابر بلکہ آپ ہی خدا ہے.اور اس کی عجیب ذات میں ایک ایسا جو بہ ہے کہ باوجودحادث ہونے کے قدیم

Page 186

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ سورة الفاتحة ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے ایک واجب الوجود کے ماتحت اور اس کا محکوم ہے مگر پھر بھی آپ ہی واجب الوجود اور آزاد مطلق اور کسی کا ماتحت نہیں.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے عاجز اور ناتواں ہے مگر پھر بھی عیسائیوں کے بے بنیا د زعم میں قادر مطلق ہے اور عاجز نہیں.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے امور غیبیہ کے بارہ میں نادان محض ہے یہاں تک کہ قیامت کی بھی خبر نہیں کہ کب آئے گی مگر پھر بھی نصرانیوں کے خوش عقیدہ کے رو سے عالم الغیب ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے اور نیز صحف انبیاء کی گواہی سے ایک مسکین بندہ ہے مگر پھر بھی حضرات مسیحیوں کی نظر میں خدا ہے.اور باوجود اس کے کہ خود اپنے اقرار سے نیک اور بے گناہ نہیں ہے مگر پھر بھی عیسائیوں کے خیال میں نیک اور بے گناہ ہے.غرض عیسائی قوم بھی ایک عجیب قوم ہے جنہوں نے ضدین کو جمع کر دکھایا اور تناقض کو جائز سمجھ لیا.اور گوان کے اعتقاد کے قائم ہونے سے میسیج کا دروغ گو ہونا لازم آیا.مگر انہوں نے اپنے اعتقاد کو نہ چھوڑا.ایک ذلیل اور عاجز اور نا چیز بندہ کو رب العالمین قرار دیا.اور رب العالمین پر ہر طرح کی ذلت اور موت اور درد اور دکھ اور تجسم اور حلول اور تغیر اور تبدل اور حدوث اور تولّد کو روا رکھا ہے.نادانوں نے خدا کو بھی ایک کھیل بنالیا ہے.عیسائیوں پر کیا حصر ہے ان سے پہلے کئی عاجز بندے خدا قرار دیئے گئے ہیں.کوئی کہتا ہے رام چندر خدا ہے.کوئی کہتا ہے نہیں کرشن کی خدائی اس سے قوی تر ہے.اسی طرح کوئی بدھ کو کوئی کسی کو کوئی کسی کو خدا ٹھہراتا ہے ایسا ہی آخری زمانہ کے ان سادہ لوحوں نے بھی پہلے مشرکوں کی ریس کر کے ابن مریم کو بھی خدا اور خدا کا فرزند ٹھہرالیا.غرض عیسائی لوگ نہ خداوند حقیقی کو رب العالمین سمجھتے ہیں ندا سے رحمان اور رحیم خیال کرتے ہیں اور نہ جزا سزا اس کے ہاتھ میں یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے گمان میں حقیقی خدا کے وجود سے زمین اور آسمان خالی پڑا ہوا ہے اور جو کچھ ہے ابنِ مریم ہی ہے.اگر رب ہے تو وہی ہے.اگر رحمان ہے تو وہی ہے.اگر رحیم ہے تو وہی ہے.اگر مالک یوم الدین ہے تو وہی ہے.ایسا ہی عام ہندو اور آریہ بھی ان صداقتوں سے منحرف ہیں.کیونکہ ان میں سے جو آریہ ہیں وہ تو خدائے تعالی کو خالق ہی نہیں سمجھتے.اور اپنی روحوں کا رب اس کو قرار نہیں دیتے.اور جو ان میں سے بت پرست ہیں وہ صفت ربوبیت کو اس رب العالمین سے خاص نہیں سمجھتے اور تینتیس کروڑ دیوتار بوبیت کے کاروبار میں خدائے تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور یہ ہر دو فریق خدائے تعالیٰ کی رحمانیت کے بھی انکاری ہیں اور اپنے وید کے رو سے یہ اعتقادر کھتے ہیں کہ رحمانیت کی صفت ہرگز خدائے تعالیٰ میں نہیں پائی جاتی اور جو کچھ دنیا کے لئے خدا نے

Page 187

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة الفاتحة بنایا ہے یہ خود دنیا کے نیک عملوں کی وجہ سے خدا کو بنانا پڑا.ورنہ پر میشر خود اپنے ارادہ سے کسی سے نیکی نہیں کر سکتا اور نہ کبھی کی.اسی طرح خدائے تعالیٰ کو کامل طور پر رحیم بھی نہیں سمجھتے کیونکہ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ کوئی گنہگار خواہ کیسا ہی بچے دل سے تو بہ کرے اور خواہ وہ سالہا سال تفرع اور زاری اور اعمال صالح میں مشغول رہے خدا اس کے گناہوں کو جو اس سے صادر ہو چکے ہیں ہرگز نہیں بخشے گا جب تک وہ کئی لاکھ جونوں کو بھگت کر اپنی سزا نہ پالے.جب ہی کسی نے ایک گناہ کیا پھر نہ وہاں تو بہ کام آوے نہ بندگی نہ خوف الہی نہ عشق الہی نہ اور کوئی عمل صالح گویا وہ جیتے جی ہی مر گیا اور خدائے تعالیٰ کی رحیمیت سے بکلی ناامید ہو گیا.علی ہذا القیاس یہ لوگ یوم الجزاء پر جس کے رو سے خدائے تعالی مالک یوم الدین کہلاتا ہے صحیح طور پر ایمان نہیں رکھتے اور جن طریقوں متذکرہ بالا کے رو سے انسان اپنی سعادت عظمیٰ تک پہنچتا ہے یا شقاوت عظمی میں پڑتا ہے اس کامل سعادت اور شقاوت کے ظہور سے انکاری ہیں اور نجات اُخروی کو صرف ایک خیالی اور وہمی طور پر سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ نجات ابدی کے قائل ہی نہیں ہیں اور ان کا مقولہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ کے لئے نہ اس جگہ آرام ہے اور نہ اُس جگہ اور نیز ان کے زعم باطل میں دنیا بھی آخرت کی طرح ایک کامل دار الجزاء ہے.جس کو دنیا میں بہت سی دولت دی گئی وہ اس کے نیک عملوں کے عوض میں کہ جو کسی پہلے جنم میں اس نے کئے ہوں گے دی گئی ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسی دنیا میں اپنے نفس اتارہ کی خواہشوں کے پورا کرنے میں اس دولت کو خرچ کرے.لیکن ظاہر ہے کہ اسی جہان میں خدائے تعالیٰ کا کسی کو اس غرض سے دولت دینا کہ وہ اس دولت کو فی الحقیقت اپنے اعمال کی جزاء سمجھ کر کھانے پینے اور ہر طرح کی عیاشی کے لئے آلہ بناوے.یہ ایک ایسا نا جائز فعل ہے کہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا نہایت درجہ کی بے ادبی ہے کیونکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گو یا ہندوؤں کا پر میشر آپ ہی لوگوں کو بدفعلی اور پلیدی میں ڈالنا چاہتا ہے.اور قبل اس کے جو ان کا نفس پاک ہونفسانی لذات کے وسیع دروازے ان پر کھولتا ہے.اور پہلے جنموں کے نیک عملوں کا اجر ان کو یہ دیتا ہے کہ پچھلے جنم میں وہ ہر طرح کے اسباب تنتم پا کر اور نفس اتارہ کے پورے پورے تابع بن کر پھر تحت الثریٰ میں جا پڑیں اور ظاہر ہے کہ جس شخص کے خیال میں یہ بھرا ہوا ہے کہ میرے ہاتھ میں جس قدر دولت اور مال اور حشمت اور حکومت ہے یہ میرے ہی اعمال سابقہ کا بدلہ ہے وہ کیا کچھ نفس اتارہ کی پیروی نہیں کرے گا.لیکن اگر وہ یہ سمجھتا کہ دنیا دار الجزاء نہیں ہے بلکہ دارالا بتلاء ہے اور جو کچھ مجھ کو دیا گیا ہے وہ بطور ابتلاء اور آزمائش کے دیا گیا ہے تا یہ ظاہر کیا

Page 188

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة جاوے کہ میں کس طور پر اس میں تصرف کرتا ہوں.کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میری ملکیت یا میرا حق ہو تو ایسا سمجھنے سے وہ اپنی نجات اس بات میں دیکھتا کہ اپنا تمام مال نیک مصارف میں خرچ کرے اور نیز وہ غایت درجہ کا شکر بھی کرتا کیونکہ وہی شخص دلی اخلاص اور محبت سے شکر کر سکتا ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ میں نے مفت پایا اور بغیر کسی استحقاق کے مجھے کو ملا ہے.غرض آریا لوگوں کے نزدیک خدائے تعالیٰ نہ رب العالمین ہے نہ رحمان نہ رحیم اور نہ ابدی اور دائمی اور کامل جزا د ینے پر قادر ہے.اب ہم یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بر ہمو سماج والوں کا معارف مذکورہ بالا کی نسبت کیا حال ہے یعنی وہ ہر چہار صداقتیں کہ جو ابھی مذکور ہوئی ہیں.برہمو لوگ ان پر ثابت قدم ہیں یا نہیں.سو واضح ہو کہ برہمو لوگ ان چاروں صداقتوں پر جیسا کہ چاہئے ثبات اور قیام نہیں رکھتے بلکہ ان معارف عالیہ کے کامل مفہوم پر ان کو اطلاع ہی نہیں.اوّل خدا کا رب العالمین ہونا کہ جور بوبیت تامہ سے مراد ہے برہمولوگوں کی سمجھ اور عقل سے اب تک چھپا ہوا ہے اور وہ لوگ ربوبیت الہیہ کا دنیا پر اس سے زیادہ اثر نہیں سمجھتے کہ اس نے کسی وقت یہ تمام عالم معہ اس کی تمام قوتوں اور طاقتوں کے پیدا کیا ہے.لیکن اب وہ تمام قوتیں اور طاقتیں مستقل طور پر اپنے اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اور خدائے تعالیٰ کو قدرت نہیں ہے کہ ان میں کچھ تصرف کرے یا کچھ تغیر اور ا مبدل ظہور میں لاوے.اور ان کی زعم باطل میں قوانین نیچریہ کی مستحکم اور پائیدار بنیاد نے قادر مطلق کو معطل اور بیکار کی طرح کر دیا ہے اور ان میں تصرف کرنے کے لئے کوئی راہ اس پر کھلا نہیں اور ایسی کوئی بھی تدبیر اس کو یاد نہیں جس سے وہ مثلاً کسی مادہ جار کو اس کی تاثیر حرارت سے روک سکے یا کسی مادہ بارد کو اس کی برودت کے اثروں سے بند کر سکے یا آگ میں اس کی خاصیت احراق کی ظاہر نہ ہونے دے.اور اگر اس کو کوئی تدبیر یا د بھی ہے تو صرف انہیں حدود تک جن پر علم انسان کا محیط ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی جو کچھ محدود اور محصور طور پر کوائف و خواص عالم کے متعلق انسان نے دریافت کیا ہے اور جو کچھ تادمِ حال بشری تجارب کے احاطہ میں آچکا ہے یہیں تک خدا کی قدرتوں کی حد بست ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی قدرت تامہ اور ربوبیت عامہ کوئی کام نہیں کر سکتی گویا خدا کی قدرتیں اور حکمتیں ہمگی تمامی یہی ہیں جن کو انسان دریافت کر چکا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اعتقادر بوبیت تامہ اور قدرت کاملہ کے مفہوم سے بکلی منافی ہے.کیونکہ ربوبیت تامہ اور قدرت کاملہ وہ ہے کہ جو اس ذات غیر محدود کی طرح غیر محدود ہے اور کوئی انسانی قاعدہ اور قانون اس پر احاطہ نہیں کر سکتا.

Page 189

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة الفاتحة ے نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا جانا چاہئے کہ جو امر غیر محدود اور غیر محصور ہے وہ کسی قانون کے اندر آ ہی نہیں سکتا.کیونکہ جو چیز اوّل سے آخر تک قواعد معلومہ مفہومہ کے سلسلہ کے اندر داخل ہو اور کوئی جز اُس کا اس سلسلہ سے باہر نہ ہو اور نہ غیر معلوم اور نا مفہوم ہو تو وہ چیز محدود ہوتی ہے.اب اگر خدائے تعالیٰ کی قدرت کاملہ ور بوبیت تامہ کو قوانین محدودہ محصورہ میں ہی منحصر سمجھا جائے تو جس چیز کو غیر محدود تسلیم کیا گیا ہے اس کا محدود ہونا لازم آ جائے گا.پس بر ہمو سماج والوں کی یہی بھاری غلطی ہے کہ وہ خدائے تعالی کی غیر متناہی قدرتوں اور ر بوریوں کو اپنے تنگ اور منقبض تجارب کے دائرہ میں گھسیڑنا چاہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جو امور ایک قانون مشخص مقرر کے ، آجائیں ان کا مفہوم محدود ہونے کو لازم پڑا ہوا ہے.اور جو حکمتیں اور قدرتیں ذات غیر محدود میں پائی جاتی ہیں ان کا غیر محدود ہونا واجب ہے.کیا کوئی دانا کہ سکتا ہے کہ اس ذات قادر مطلق کو اس اس طور پر بنانا یاد ہے اور اس سے زیادہ نہیں.کیا اس کی غیر متناہی قدرتیں انسانی قیاس کے پیمانہ سے وزن کی جاسکتی ہیں یا اس کی قادرانہ اور غیر متناہی حکمتیں تصرف فی العالم سے کسی وقت عاجز ہو سکتی ہیں؟ بلا شبہ اس کا پرزور ہاتھ ذرہ ذرہ پر قابض ہے اور کسی مخلوق کا قیام اور بقا اپنی مستحکم پیدائش کے موجب سے نہیں بلکہ اسی کے سہارے اور آسرے سے ہے اور اس کی ربانی طاقتوں کے آگے بے شمار میدان قدرتوں کے پڑے ہیں.نہ اندرونی طور پر کسی جگہ انتہا ہے اور نہ بیرونی طور پر کوئی کنارہ ہے.جس طرح یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مشتعل آگ کی تیزی فرو کرنے کے لئے خارج میں کوئی ایسے اسباب پیدا کرے جن سے اس آگ کی تیزی جاتی رہے.اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اُس آگ کی خاصیت احراق دور کرنے کے لئے اُسی کے وجود میں کوئی ایسے اسباب پیدا کر دے جن سے خاصیت احراق دور ہو جائے کیونکہ اُس کی غیر متناہی حکمتوں اور قدرتوں کے آگے کوئی بات ان ہونی نہیں.اور جب ہم اُس کی حکمتوں اور قدرتوں کو غیر متناہی مان چکے تو ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اس بات کو بھی مان لیں کہ اس کی تمام حکمتوں اور قدرتوں پر ہم کو علم حاصل ہونا ممتنع اور محال ہے.سو ہم اس کی نا پیدا کنار حکمتوں اور قدرتوں کے لئے کوئی قانون نہیں بنا سکتے.اور جس چیز کی حدود ہمیں معلوم ہی نہیں اُس کی پیمائش کرنے سے ہم عاجز ہیں.ہم بنی آدم کی دنیا کا نہایت ہی تنگ اور چھوٹا سا دائرہ ہیں اور پھر اس دائرہ کا بھی پورا پورا ہمیں علم حاصل نہیں.پس اس صورت میں ہماری نہایت ہی کم ظرفی اور سفاہت ہے کہ ہم اس اقل قلیل پیمانہ سے خدائے تعالی کی غیر محدود حکمتوں اور قدرتوں کو ناپنے

Page 190

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 172 سورة الفاتحة لگیں.غرض خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تامہ اور قدرت کاملہ کہ جو ذرہ ذرہ کے وجود اور بقا کے لئے ہر دم اور ہر لحظہ آبپاشی کر رہی ہے اور جس کے عمیق در عمیق تصرفات تعداد اور شمار سے باہر ہیں اُس ربوبیت تامہ سے بر ہمو سماج والے منکر ہیں.ماسوا اس کے برہمو سماج والے ربوبیت الہیہ کو روحانی طور پر بھی تام اور کامل نہیں سمجھتے اور خدائے تعالیٰ کو اس قدرت سے عاجز اور درماندہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی ربوبیت تامہ کے تقاضا سے اپنا روشن اور لاریب فیہ کلام انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کرتا.اسی طرح وہ خدائے تعالیٰ کی رحمانیت پر بھی کامل طور پر ایمان نہیں لاتے.کیونکہ کامل رحمانیت یہ ہے کہ جس طرح خدائے تعالیٰ نے ابدان کی تکمیل اور تربیت کے لئے تمام اسباب اپنے خاص دست قدرت سے ظاہر فرمائے ہیں اور اس چند روزہ جسمانی آسائش کے لئے سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ صد با چیز میں اپنے ہاتھ سے بنادی ہیں اسی طرح اس نے روحانی تکمیل اور تربیت کے لئے اور اُس عالم کی آسائش کے لئے جس کی شقاوت اور سعادت ابدی اور دائی ہے روحانی نور یعنی اپنا پاک اور روشن کلام دنیا کے انجام کے لئے بھیجا ہو.اور جس علم کی مستعد روحوں کو ضرورت ہے وہ سب علم آپ عطا فرمایا ہو.اور جن شکوک اور شبہات میں اُن کی ہلاکت ہے ان سب شکوک سے آپ نجات بخشی ہولیکن اس کامل رحمانیت کو برہموسماج والے تسلیم نہیں کرتے.اور ان کے زعم میں گوخدا نے انسان کے شکم پر کرنے کے لئے ہر یک طرح کی مدد کی اور کوئی دقیقہ تائید کا اٹھا نہ رکھا مگر وہ مددروحانی تربیت میں نہ کر سکا.گو یا خدا نے روحانی تربیت کے بارے میں جو اصلی اور حقیقی تربیت تھی دانستہ دریغ کیا اور اُس کے لئے ایسے زبر دست اور قومی اور خاص اسباب پیدا نہ کئے جیسے اُس نے بدنی تربیت کے لئے پیدا کئے بلکہ انسان کو صرف اُسی کی عقل ناقص کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور کوئی ایسا کامل نورا اپنی طرف سے اُس کی عقل کی امداد کے لئے پیدا نہ کیا جس سے عقل کی پر غبار آنکھ روشن ہو کر سیدھا راستہ اختیار کرتی اور سہو اور غلطی کے مہلک خطرات سے بچ جاتی.ہوکر اسی طرح برہمو سماج والے خدائے تعالیٰ کی رحیمیت پر بھی کامل طور پر ایمان نہیں رکھتے.کیونکہ کامل رحیمیت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ مستعد روحوں کو اُن کے فطرتی جوشوں کے مطابق اور اُن کے پر جوش اخلاص کے اندازہ پر اور اُن کے صدق سے بھری ہوئی کوششوں کے مقدار پر معارف صافیہ غیر محجوبہ سے ان کو ملتب کرے اور جس قدر وہ اپنے دلوں کو کھولیں اُسی قدر اُن کے لئے آسمانی دروازے کھولے جائیں.اور جس قدر ان کی پیاس بڑھتی جائے اُسی قدر اُن کو پانی بھی دیا جائے یہاں تک کہ وہ حق الیقین کے شربت خوشگوار

Page 191

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة الفاتحة سے سیراب ہو جا ئیں اور شک اور شبہ کی موت سے بکلی نجات حاصل ہولیکن برہمو سماج والے اس صداقت سے انکاری ہیں اور بقول اُن کے انسان کچھ ایسا بد قسمت ہے کہ گو کیسا ہی دلبر حقیقی کے وصال کے لئے تڑپا کرے اور گو اُس کی آنکھوں سے دریا بہہ نکلے اور گو اس یار عزیز کے لئے خاک میں مل جائے مگر وہ ہر گز نہ ملے.اور ان کے نزدیک وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ جس کو اپنے طالبوں پر رحم ہی نہیں اور اپنے خاص نشانوں سے ڈھونڈھنے والوں کو تسلی نہیں بخشا اور اپنے دلبرانہ تجلیات سے دردمندوں کا کچھ علاج نہیں کرتا.بلکہ اُن کو انہیں کے خیالات میں آوارہ چھوڑتا ہے.اور اس سے زیادہ اُن کو کچھ بھی معرفت عطا نہیں کرتا کہ صرف اپنی انکلیں دوڑایا کریں اور اُنہیں انکلوں میں ہی ساری عمر کھو کر اپنی ظلمانی حالت میں ہی مر جائیں.مگر کیا یہ سچ ہے کہ خداوند کریم ایسا ہی سخت دل ہے یا ایسا ہی بے رحم اور بخیل ہے یا ایسا ہی کمزور اور ناتوان ہے کہ ڈھونڈنے والوں کو سراسیمہ اور حیران چھوڑتا ہے اور کھٹکانے والوں پر اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اور جو صدق سے اس کی طرف دوڑتے ہیں ان کی کمزوری پر رحم نہیں کرتا اور ان کا ہاتھ نہیں پکڑتا اور ان کچے طالبوں کو گڑھے میں گرنے دیتا ہے اور خود لطف فرما کر چند قدم آگے نہیں آتا اور اپنے جلوہ خاص سے مشکلات کے نا ا.لمبے قصہ کو کوتاہ نہیں کرتا.سُبْحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَصِفُونَ - 1199 اسی طرح بر ہمو سماج والے خدائے تعالیٰ کے مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہونے سے بھی بے خبر ہیں.کیونکہ یوم الجزاء کے مالک ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ملکیت تامہ کہ جو تجلیات عظمی پر موقوف سے ظہور میں آکر پھر اس ملکیت تامہ کی شان کے موافق پوری پوری جزا بندوں کو دی جائے.یعنی اول اُس مالک حقیقی کی ملکیت تامہ کا ثبوت ایسے کامل الظهور مرتبہ پر ہو جائے کہ تمام اسباب معتادہ بکی درمیان سے اٹھ جائیں اور زید و عمر کا دخل درمیان نہ رہے اور مالک واحد قہار کا وجود عریاں طور پر نظر آوے اور جب یہ معرفت کا ملہ اپنا جلوہ دکھا چکی تو پھر جزا بھی بطور کامل ظہور میں آوے یعنی من حیث الور ودبھی کامل ہو اور من حیث الوجود بھی.من حیث الورود اس طرح پر کہ ہر یک جزایاب کو جزا کے وارد ہونے کے ساتھ ہی یہ بات معلوم اور متحقق ہو کہ یہ فی الحقیقت اس کے اعمال کی جزا ہے اور نیز یہ بھی متحقق ہو کہ اس جزا کا وارد کننده فی الحقیقت کریم ہی ہے جو رب العالمین ہے کوئی دوسرا نہیں اور ان دونوں باتوں میں ایسا تحقیق ہو کہ کوئی اشتباہ درمیان نہ رہ جائے اور من حیث الوجود اس طرح پر کامل ہو کہ انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہر یک روحانی اور بدنی قوت پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو جائے.اور نیز دائگی اور لازوال اور غیر منقطع ہوتا وہ شخص جو نیکیوں میں سبقت لے گیا ہے اپنی اُس سعادت عظمی کو کہ جو تمام سعادتوں کا انتہائی اور

Page 192

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة الفاتحة مرتبہ ہے اور وہ شخص کہ جو بدیوں میں سبقت لے گیا ہے اپنی اُس شقاوت عظمی کو کہ جو تمام شقاوتوں کی آخری حد ہے پہنچ جائے اور تا ہر ایک فریق اس اعلیٰ درجہ کے مکافات کو پالے جو اس کے لئے ممکن ہے یعنی اس کامل اور دائی مکافات کو پالے کہ جو اس عالم بے بقا اور زوال پذیر میں جس کا تمام رنج و راحت موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے ہمنصہ ، ظہور نہیں آسکتی بلکہ اس کے کامل ظہور کے لئے مالک حقیقی نے اپنے لطف کامل اور قبر عظیم کے دکھلانے کی غرض سے یعنی جمالی و جلالی صفتوں کی پوری پوری بجلی ظاہر کرنے کے قصد سے ایک اور عالم جوابدی اور لازوال ہے مقررکر رکھا ہے تا خدائے تعالیٰ میں جو صفت مجازات ہے جس کا کامل طور پر اس منقبض اور فانی عالم میں ظہور نہیں ہو سکتا وہ اس ابدی اور وسیع عالم میں ظہور پذیر ہو جائے اور تا ان تجلیات تامہ اور کاملہ سے انسان اُس اعلیٰ درجہ کے شہود تمام تک بھی پہنچ جائے کہ جو اس کی بشری طاقتوں کے لئے حد امکان میں داخل ہے اور چونکہ اعلیٰ درجہ کی مکافات عند العقل اسی میں منحصر ہے کہ جو امر بطور جز اوارد ہے وہ انسان کے ظاہر و باطن و جسم و جان پر بتمام و کمال دائمی و لازمی طور پر محیط ہو جائے اور نیز اعلیٰ درجہ کا یقین مالک حقیقی کے وجود کی نسبت اسی بات پر موقوف ہے کہ وہ مالک حقیقی اسباب معتادہ کو بلکلی نیست و نابود کر کے عریاں طور پر جلوہ گر ہو.اس لئے یہ صداقت قصوئی جس سے مطلب انتہائی معرفت اور انتہائی مکافات ہے تب ہی متحقق ہوگی کہ جب وہ تمام باتیں مذکورہ بالا تحقیق ہو جائیں کہ جو عند العقل اس کی تعریف میں داخل ہیں کیونکہ انتہائی معرفت بجز اس کے عند العقل ممکن نہیں کہ مالک حقیقی کا جمال بطور حق الیقین مشہور ہو یعنی ظہور اور بروز تام ہوجس پر زیادت متصوّر نہ ہو.علیٰ ہذا القیاس انتہائی مکافات بھی بجز اس کے عند العقل غیر ممکن ہے کہ جیسے جسم اور جان دونوں دنیا کی زندگی میں مل کر فرمانبردار یا نا فرمان اور سرکش تھے ایسا ہی مکافات کے وقت وہ دونوں مور دانعام ہوں یا دونوں سزا میں پکڑے جائیں اور مکافات کا ملہ کا بحر مواج یکساں ظاہر و باطن پر اپنے احاطہ ء تام سے محیط اور مشتمل ہو جائے لیکن ہر ہمو سماج والے اس صداقت سے بھی انکاری ہیں.بلکہ اس صداقت قصویٰ کا وجود ان کے نزدیک متحقق ہی نہیں اور با عم ان کے انسان کی قسمت میں نہ انتہائی معرفت کا پانا مقدر ہے نہ انتہائی مکافات کا اور مکافات ان کے نزدیک فقط ایک خیالی پلاؤ ہے جو صرف اپنے ہی بے بنیاد تصورات سے پکایا جائے گا نہ حقیقی طور پر کوئی جزا خدائے تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر وارد ہوگی نہ کوئی سزا بلکہ خود تراشیدہ خیالات ہی خوش حالی یا بدحالی کے موجب ہو جائیں گے اور کوئی ایسا ظاہری و باطنی امر نہیں ہوگا کہ جو خاص خدائے تعالیٰ کے ارادہ سے نیک بندوں پر بصورت نعمت اور بد بندوں پر بصورت عذاب اترے گا.پس ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ امر مجازات کا خدا مالک ہے.اور وہی اپنے نیک بندوں پر اپنے خاص ارادہ سے

Page 193

۱۷۰ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خوشحالی اور لذت دائگی کا فیضان کرے گا.جس لذت کاملہ کو سعید لوگ نہ صرف باطنی طور پر بلکہ صور مشہودہ اور محسوسہ میں بھی مشاہدہ کریں گے اور قومی انسانیہ میں سے کوئی قوت ظاہری ہو یا باطنی اپنے مناسب حال لذت اٹھانے سے محروم نہیں رہے گی اور جسم اور جان دونوں راحت یا عذاب اخروی میں یعنی جیسی کہ صورت ہوشریک ہو جائیں گے.غرض برہمو سماج والوں کا اعتقاد بالکل اس صداقت کے برخلاف اور اس کے مفہوم کامل کے منافی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی کو ر باطنی سے نجات اُخروی کے جسمانی سامان کو کہ جو ظاہری قوتوں کے مناسب حال سعادت عظمی کی تکمیل کے لئے قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح عذاب اُخروی کے جسمانی سامان کو کہ جو ظاہری قوتوں کے مناسب حال شقاوت عظمی کی تکمیل کے لئے فرقان مجید میں مندرج ہے مورد اعتراض سمجھتے ہیں مگر ایسی سمجھ پر پتھر پڑیں کہ جو ایک بدیہی اور کامل صداقت کو عیب کی صورت میں تصور کیا جائے.افسوس یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ سعادت عظمی یا شقاوت عظمی کے پانے کے لئے یہی ایک طریق ہے کہ خدائے تعالیٰ توجہ خاص فرما کر امر مکافات کو کامل طور پر نازل کرے اور کامل طور پر نازل ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ مکافات تمام ظاہر و باطن پر مستولی ہو جائے اور کوئی ایسی ظاہری یا باطنی قوت باقی نہ رہے جس کو اس مکافات سے حصہ نہ پہنچا ہو یہ وہی مکافاتِ عظیمہ کا انتہائی مرتبہ ہے جس کو فرقان مجید نے دوسرے لفظوں میں بہشت اور دوزخ کے نام سے تعبیر کیا ہے اور اپنی کامل اور روشن کتاب میں بتلا دیا ہے کہ وہ بہشت اور دوزخ روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مکافات پر کامل طور پر مشتمل ہے اور ان دونوں قسموں کو کتاب ممدوح میں مفصل طور پر بیان فرما دیا ہے اور سعادت عظمی اور شقاوت عظمی کی حقیقت کو بخوبی کھول دیا ہے.مگر جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں اس صداقت قصوئی اور نیز دوسری گزشتہ بالا صداقتوں سے برہمو سماج والے نا آشنا محض ہیں.(براہین احمدیہ چہار قصص روحانی خزائن جلد اصفحہ ۴۵۷ تا ۵۲۴ حاشیه ۱۱) ثُمَّ إِنَّ فَيْضَ الرُّبُوَبِيَّةِ أَعَةُ وَأَكْمَل | پھر ربوبیت کا فیض ہر اس فیض سے جس کا دلوں میں وَأَتَه مِن كُلِّ فَيْضٍ يَتَصَوَّرُ فِي الْأَفْئِدَةِ تصور کیا جا سکے یا جس کا ذکر زبانوں پر جاری ہو زیادہ أَوْ يَجْرِى ذِكْرُهُ عَلَى الْأَلْسِنَةِ ثُمَّ بَعْدَه وسیع، زیادہ کامل اور زیادہ جامع ہے.پھر اس کے بعد فَيْضٌ عَامٌ وَقَد خُصَّ بِالنُّفُوسِ ایک فیض عام ہے اور وہ حیوانوں اور انسانوں سے مخصوص الْحَيَوَانِيَّةِ وَالْإِنْسَانِيَّةِ وَهُوَ فَيْضُ صِفَةِ ہے.اور وہ صفت رحمانیت کا فیض ہے.اور اللہ تعالیٰ نے

Page 194

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة الرَّحْمَانِيَّةِ.وَذَكَرَهُ اللهُ بِقَوْلِهِ الرَّحْمٰنِ اس کا ذکر اپنے قول الرحمن میں کیا ہے.اور اسے جمادی وَخَصَّهُ بِذَوِى الرُّوحِ مِنْ دُونِ الْأَجْسَامِ اور نباتی اجسام کو چھوڑ کر صرف جاندار چیزوں سے وابستہ الْجَمَادِيَّةِ وَالنَّبَاتِيَةِ ثُمَّ بُعْد ذالك کیا ہے.پھر اس کے بعد ایک فیض خاص ہے اور وہ ذَالِكَ فَيْضٌ خَاصٌ وَهُوَ فَيْضُ صِفَةِ صفت رحیمیت کا فیض ہے.اور یہ فیض صرف اسی انسان الرَّحِيمِيَّةِ وَلَا يَنْزِلُ هَذَا الْفَيْضُ إِلَّا پر نازل ہوتا ہے جو فیوض منتظرہ کے حاصل کرنے کے عَلَى النَّفْسِ الَّتى سخی سَعْيَهَا لِكَشب لئے اپنی پوری کوشش کرے.اس وجہ سے یہ فیض انہیں الْفُيُوضِ الْمُتَرَقِّبَةِ وَلِذَالِكَ يَختَصُّ لوگوں سے مخصوص ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور بِالَّذِينَ آمَنُوا وَأَطَاعُوا رَبّا گریما گیا انہوں نے رب کریم کی اطاعت کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے صُرِحَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى "وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ كلام وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِیما میں تصریح کر دی گئی حِيمًا ، فَثَبَتَ بِنَضِ الْقُرْآنِ أَنَّ ہے.پس نص قرآن سے ثابت ہوا کہ رحیمیت صرف الرَّحِيمِيَّةَ مَخصُوصَةٌ بِأَهلِ الْإِيْمَانِ وَأَمَّا ایمانداروں سے مخصوص ہے.مگر رحمانیت کا دائرہ الرَّحْمَانِيَّةُ فَقَدْ وَسِعَتْ كُلَّ حَيَوَانٍ من حیوانات میں سے ہر حیوان تک وسیع ہے.یہاں تک کہ الْحَيَوَانَاتِ حَتَّى إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ نَصِيبًا شیطان نے بھی پروردگار عالم کے حکم سے اس فیض مِّنْهَا بِأَمْرِ حَضْرَةِ رَبِّ الْكَاثِنَاتِ رحمانیت سے حصہ پایا.وَ حَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ الرَّحِيمِيَّةَ حاصل کلام یہ ہے کہ رحیمیت ان فیوض سے تعلق رکھتی تَتَعَلَّقُ بِفُيُوضٍ تَتَرَتِّبْ عَلَى الْأَعْمالِ ہے جو اعمال پر مترتب ہوتے ہیں.اور کافروں اور وَيَخْتَصُّ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ دُونِ الْكَافِرِينَ گمراہوں کو چھوڑ کر یہ صرف مومنوں سے خاص ہے.پھر وَأَهْلِ الضَّلَالِ.ثُمَّ بَعْدَ الرَّحِيمِيَّةِ فَيْضُ رحیمیت کے بعد ایک اور فیض ہے اور وہ جزائے کامل اور أخَرُ وَهُوَ فَيْضُ الْجَزَاءِ الْأَتَم وَالْمُكَانَاتِ بدلہ دینے کا فیض ہے اور نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں اور وَإبْصَالُ الصَّالِحِينَ إلى نتيجة اعمال حسنہ کے نتیجہ تک پہنچانے کا نام ہے.اسی کی طرف الصَّالِحَاتِ وَالْحَسَنَاتِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ عَزَّ اللہ تعالی نے اپنے کلام ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں اشارہ اسمه بِقَوْلِهِ "ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ " وَ إِنَّه فرمایا ہے.اور یہ فیض پروردگار عالم کی طرف سے آخری 66 (الاحزاب: ۴۴) ترجمہ.وہ مومنوں پر بار بار رحم کرنے والا ہے.

Page 195

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة الفاتحة أخَرُ الْفُيُوْضِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ وَمَا ذُكِرَ | فیض ہے.اور اس کے بعد سب عالموں سے زیادہ فَيْضٌ بَعْدَهُ في كِتَابِ اللهِ أَعْلَمِ الْعَالِمِينَ.و علم رکھنے والے خدا کی کتاب میں کسی اور فیض کا ذکر الْفَرْقُ فِي هَذَا الْفَيْضِ وَفَيْضِ الرَّحِيمِيَّةِ أَنَّ نہیں کیا گیا.اس فیض اور رحیمیت کے فیض میں یہ الرَّحِيمِيَّةَ تُبَلعُ السَّالِكَ إِلى مَقَامٍ هُوَ وَسِيْلَةُ فرق ہے کہ رحیمیت سالک کو اس مقام تک پہنچاتی النّعْمَةِ وَأَمَّا فَيْضُ الْمَالِكِيَّةِ بِالْمَجَازَاتِ ہے جو نعمت ملنے کا وسیلہ ہے باقی رہا جزا سزا کے فَهُوَ يُبَلِّغُ السَّالِك إلى نَفْسِ النِعْمَةِ وَإلى مالك كافيیض ، سو وہ سالک کو حقیقی نعمت اور آخری مُنْتَهَى الثَّمَرَاتِ وَغَايَةُ الْمُرَادَاتِ وَ أَقْصَى ثمرہ اور مرادوں کی انتہا اور مقاصد کی آخری حد تک الْمَقْصُودَاتِ.فَلَا خَفَاءَ أَنَّ هَذَا الْفَيْضَ هُوَ پہنچا دیتا ہے.پس ظاہر ہے کہ بارگاہ ایزدی کے أخرُ الْفُيوض مِن الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ وَلِلنّفاقِ فیوض میں سے یہ انتہائی فیض ہے اور انسانی پیدائش الْإِنْسَانِيَّةِ كَالْعِلَّةِ الْغَائِيَّةِ وَعَلَيْهِ يَتِمُّ کی علت غائی ہے.اور اسی پر تمام نعمتیں ختم ہو جاتی التعمُ كُلُّهَا وَتَسْتَكْمِلُ بِهِ دَائِرَةُ الْمَعْرِفَةِ ہیں.اور اس پر دائرہ معرفت اور دائرہ سلسلہ مکمل ہو وَدَائِرَةُ السّلْسِلَة.ألا ترى أَنَّ سِلْسِلَةٌ خُلَفَاءِ مُوسَى انْقَهَتْ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خلفائے موسیٰ کا سلسلہ 66 جاتا ہے.إلى نُكْتَةِ "ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ فَظَهَرَ عِيسَى مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے نکتہ پر ختم ہو گیا تھا.چنانچہ فِي آخِرِهَا وَ بُيْلَ الْجُورُ وَالظُّلْمُ بِالْعَدْلِ اس سلسلہ کے آخر میں حضرت عیسی آئے اور ظلم وجور وَالْإِحْسَانِ مِنْ غَيْرِ حَرْبٍ وَ مُحَارِبِينَ كَمَا کو بغیر کسی لڑائی اور لڑنے والوں کے عدل و احسان يُفْهَمُ مِنْ لَفْظِ الدِّينِ فَإِنَّهُ جَاءَ بِمَعْنَى الْحِلْمِ سے بدل دیا گیا.جیسا کہ الدین کے لفظ سے سمجھا وَالرِّفْقِ فِي لُغَةِ الْعَرْبِ وَ عِنْدَ أَدَبَائِهِمْ أَجْمَعِينَ جاتا ہے.کیونکہ لغت عرب اور اہلِ عرب کے سب فَاقْتَضَتْ مُمَاثَلَهُ نَبِيِّنَا بِمُوسَى الكَلِیمِ ادیبوں کے نزدیک یہ لفظ بردباری اور نرمی کے وَمُشَاءَبَةُ خُلَفَاءِ مُوسَى بِخُلَفَاءِ نَبِيَّنا معنوں میں آیا ہے.پس ہمارے نبی اکرم صلی اللہ الْكَرِيمِ.أَن يَظْهَرَ في أخرِ هَذِهِ السّلْسِلَةِ رَجُلٌ علیہ وسلم کی موسیٰ کلیم اللہ سے مماثلت اور خلفائے تُشَابِهُ الْمَسِيحَ وَيَدْعُو إِلَى الله بِالْحِلْمِ وَيَضَعُ موسی کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء سے الْحَرب وَيَقْرِبُ السَّيْفَ الْمُجِيْحَ فَيَحْشُرُ مشابہت نے چاہا کہ اس سلسلہ (محمدی) کے آخر

Page 196

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۳ سورة الفاتحة الناس بالآيَاتِ مِن الرّحمَانِ لَا | میں بھی کوئی ایسا مرد کامل پیدا ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل بِالسَّيْفِ وَ السّنَانِ فَيُشَابِه ہو اور وہ (لوگوں کو) نرمی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے.زَمَانُه زَمَانَ الْقِيَامَةِ وَ يَوْمَ جنگ کو موقوف کرے ، تباہی پھیلانے والی تلوار کو نیام میں کرے الدين والتهور.وَ يَمْلأُ الْأَرْضَ اور لوگوں کو تلوار اور نیزہ کی بجائے خدائے رحمان کے چمکتے نُورًا كَمَا مُلِقَتْ بِالْجَوْرِ وَ النُّورِ وَ ہوئے نشانوں سے ایک نئی زندگی عطا کرے.پس اس کا زمانہ قَدْ كَتَبَ اللهُ أَنَّهُ يُرِى نُمُوذَجَ يَوْمِ روز قیامت اور یوم جزا و حشر ونشر سے مشابہت رکھتا ہے.اور وہ الدِّينِ قَبْلَ يَوْمِ الدِّينِ وَ يَحْشُرُ زمین کو نور سے بھر دے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم اور النَّاسَ بَعْدَ مَوْتِ التَّقْوَى وَذَالِك جھوٹ سے بھری ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ وہ وَقْتُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَهُوَ حقیقی یوم الجزاء سے پہلے لوگوں کو اس کا نمونہ دکھائے اور تقویٰ زَمَانُ هَذَا الْمِسْكِينِ وَ اليْه کے مرجانے کے بعد لوگوں کو نئی زندگی بخشے اور یہی مسیح موعود کا أَشَارَ فِي ايَةِ يَوْمِ الدِّينِ فَلْيَتَدَبَّر زمانہ ہے.اور وہ ( در حقیقت) اس عاجز کا (ہی) زمانہ ہے.اور مَنْ كَانَ مِنَ الْمُتَدَبِرِينَ وَحَاصل اس کی طرف (اللہ تعالی نے ) آیت یوم الدین میں اشارہ کیا الْكَلَامِ أَنَّ فِي هَذِهِ الصِّفَاتِ الَّتی ہے پس تدبر کرنے والے اس بات میں تذ تر کریں.خُصَّتُ بِاللهِ ذِي الْفَضْلِ وَ اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ اُن صفات میں جو فضل و احسان کے الْإِحْسَانِ.حَقِيقَةٌ فَخَفِيَّةٌ وَ نَبَأَ مالک اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں ان میں خدا تعالی محسن حقیقی کی مَّكْتُومًا مِنَ اللهِ الْمَنَانِ وَهُوَ أَنَّهُ طرف سے ایک حقیقت مخفی ہے اور ایک پیشگوئی پوشیدہ ہے اور وہ تَعَالَى أَرَادَ بذِكْرِهَا أَن يُنْبِی یہ ہے کہ ان صفات کے بیان کرنے سے خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا رَسُولَهُ بِحَقِيقَةِ هَذِهِ الصَّفَاتِ کہ اپنے رسول ( مقبول ) کو ان صفات کی حقیقت سے آگاہ فَأَرى حَقِيْقَتَهَا بِأَنْوَاعِ کرے اور کئی قسم کی تائیدات کے ذریعہ ان کی حقیقت واضح التأْبِيدَاتِ.فَرَبي نَبِيَّة وصحابته کرے.پس اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے فَأَثْبَتَ بِهَا أَنَّهُ رَبُّ الْعَالمین صحابہ کی خاص رنگ میں ) تربیت فرمائی.اور اس کے ذریعہ ثُمَّ أَتَمَّ عَلَيْهِمْ نَعْمَانه ثابت کر دیا کہ وہ ربُّ العلمین ہے.پھر اپنی صفت رحمانیت بِرَحْمَـانِيَّتِهِ مِن غَيْرِ عَمَلِ کے ذریعہ جو بغیر کسی عامل کے عمل کے ظاہر ہوتی ہے ان پر اپنے |

Page 197

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة الفاتحة الْعَامِلِينَ فَأَثْبَتَ بِهَا أَنَّهُ أَرْحَمُ | انعامات کو انتہا ء تک پہنچایا اور اس فیض کے ذریعہ ثابت کر دیا الرَّاحِمِينَ ثُمَّ أَرَاهُمُ عِندَ عَمَلِهِمْ كرده اَرْحَمُ الرّاحِمین ہے.پھر اس نے اپنی صفت رحیمیت کہ وہ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ أَيَادِيَ حِمَايَتِهِ.وَأَيَّدَهُمْ کے ذریعہ ان کے عمل کے وقت میں انہیں اپنی حمایت کے بِرُوجِ مِنْهُ بِعِنَايَتِهِ.وَ وَهَبَ لَهُمْ ہاتھ دکھائے اور اپنی مہربانی سے روح القدس کے ساتھ ان نُفُوسًا مُطْمَئِئَةٌ و أَنْزَلَ عَلَيْهِمُ کی مدد کی.ان کو نفوس مطمئنہ عطا فرمائے اور ان پر دائمی سَكِيْنَةً دَائِمَةٌ.ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرِيَهُمُ سکینت نازل کی.پھر اس نے ارادہ کیا کہ انہیں اپنی صفت نُمُوذَجَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.فَوَهَبَ لَهُمُ مالک یوم الدین کا نمونہ بھی دکھائے تو اُس نے انہیں الْمُلْكَ وَ الْخِلَافَةَ وَ أَلْحَقَ أَعْدَاءَهُمْ حکومت اور خلافت بخشی اور ان کے دشمنوں کو ( پہلے ) ہلاک بِالْهَالِكِينَ.وَأَهْلَكَ الْكَافِرِينَ وَأَزْعَجَهُمْ ہونے والوں کے ساتھ ملا دیا.کافروں کو تباہ کر دیا اور انہیں إِزْعَاجًا ثُمَّ أَرى نَمُوذَجَ النُّشُورِ پوری طرح ملیا میٹ کر دیا.پھر اس نے حشر کا نمونہ دکھایا فَأَخْرَجَ مِنَ الْقُبُوْرِ إِخْرَاجًا فَدَخَلُوائی اور ( روحانی لحاظ سے) قبروں میں پڑے ہوئے لوگوں کو دِينِ اللهِ أَفَوَاجًا وَبَدَرُوا إِلَيْهِ فُرادی و باہر نکالا پس وہ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل أَزْوَاجًا فَرَأَى الصَّحَابَةُ أَمْوَاتًا يُلْفُون ہو گئے.اور اس کی طرف فرداً فرداً اور گروہ در گروہ دوڑ حَيَاةٌ و رَأَوْا بَعْدَ الْمَحْلِ مَاءًا أَجَاجًا و پڑے.پس صحابہ نے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا، اور سمى ذَالِكَ الزَّمَانُ يَوْمَ الدِّينِ لأَن امساک باراں کے بعد موسلا دھار بارش دیکھی اور اس الْحَقِّ حَصْحَصَ فِيْهِ وَدَخَلَ فِي الدِّينِ زمانہ کا نام يَوْمُ الدین رکھا گیا.کیونکہ اس (زمانہ ) میں أَفَوَاجُ مِنَ الْكَافِرِينَ.ثُمَّ أَرَادَ أَنْ تیری حق ظاہر ہو گیا اور کافروں میں سے فوج در فوج لوگ دین نموذج هذِهِ الصَّفَاتِ فِي آخِرِينَ مِنَ (اسلام) میں داخل ہوئے.پھر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اُمت الأمة.لِيَكُونَ أخِرُ الْمِلَّةِ كَبِقُلِ أَولِهَا (محمدیہ) کے آخری دور میں بھی ان صفات کا نمونہ دکھائے، في الْكَيْفِيَّةِ وَلِيَتِم أَمْرُ الْمُهَائِبَةِ تابلحاظ کیفیت ملت کا آخری حصہ پہلے حصہ کی طرح ہو بِالأُمَمِ السَّابِقَةِ كَمَا أُشِيْرَ إِلَيْهِ في هذه جائے اور تا گذشتہ اُمتوں کے ساتھ (اس اُمت کی ) مشابہت السُّورَةِ.أَغْلِى قَوْلَهُ صِرَاطَ الَّذِينَ پوری ہو جائے.جس کی طرف اس سورت میں اشارہ کیا گیا ہے أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.فَتَدَبَّرُ الفاظ هذه یعنی ارشاد باری تعالٰى صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 66

Page 198

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۵ سورة الفاتحة الآية.میں.پس اس آیت کے الفاظ پر غور کریں.وسلمى زَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ مسیح موعود کے زمانہ کا نام اس لئے بھی یوم الدین رکھا گیا يَوْمَ اللين.لأَنَّهُ زَمَانٌ يُخلی فی الدین کہ یہ ایسا زمانہ ہے جس میں دین کو زندہ کیا جائے گا اور لوگوں وَتُحْشَرُ النَّاسُ لِيُقْبلُوا بِالْيَقِين.ولا کو اس امر پر مجتمع کیا جائے گا کہ وہ ( دلی ) یقین کے ساتھ شَكَ وَلَا خِلَافَ أَنَّهُ رَبُّى زماننا هذا آگے بڑھیں.اور اس میں نہ کوئی شبہ ہے اور نہ ہی کسی بِأَنْوَاعِ التّرْبِيَةِ.وَأَرَانَا كَثِيرًا فین کو کچھ اختلاف (ہوسکتا ) ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس فُيُوْضِ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيْمِيَّةِ كَمَا زمانہ کی کئی طریق سے تربیت فرمائی ہے اور رحمانیت اور أَرَى السَّابِقِينَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ رحیمیت کے بہت سے فیوض ہمیں دکھائے ہیں جیسا کہ اس وَ أَرْبَابِ الْوَلَايَةِ وَالْخُلَّةِ وَ بَقِيَتِ نے پہلے نبیوں ، رسولوں ، ولیوں اور اپنے دوستوں کو دکھائے ۖ الضفّةُ الرَّابِعَةُ مِنْ هذِهِ الصَّفَاتِ تھے.ان صفات میں سے اب صرف چوتھی صفت باقی رہ أَعْنِي التَّجَنِي الَّذِي يُظْهَرُ فِي حُلَّةِ مَلِكٍ گئی.میری مراد اس سے خدا تعالیٰ کی وہ تھیلی ہے جس کا ظہور أَوْ مَالِكٍ في يَوْمِ الدِّينِ لِلْمُجازات بادشاہ یا مالک کے لباس میں جزا سزا دینے کے لئے یوم جزا فَجَعَلَهُ لِلْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ كَالْمُعْجِزَاتِ میں ہوگا.لہذا خدا تعالیٰ نے اس (تحتی ) کو مسیح موعود کے وَ جَعَلَهُ حَكَمًا وَ مَظْهَرًا لِلْحُكُومَ لئے معجزات کی طرح قرار دیا اور اُسے (مسیح موعود کو ) نیبی السَّمَاوِيَّةِ بتأييد تین الْغَيْبِ تائید اور چمکتے نشانوں کے ساتھ جگھ اور آسمانی حکومت کا وَالْآيَاتِ وَ سَتَعْلَمُ عِنْدَ تَفْسِيرِ نمائندہ بنایا.اے مخاطب! تجھے عنقریب اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ هَذِهِ الْحَقِيقَةَ وَ مَا تفسیر کے موقع پر اس حقیقت کا علم ہو جائے گا اور میں نے یہ قُلْتُ مِنْ عِنْدِ نَفْسِي بَلْ أُعْطِيتُ مِن باتیں اپنے پاس سے نہیں کہیں بلکہ یہ باریک نکات مجھے لَّدُنْ رَّبِّي هَذِهِ النِّكَاتِ التَّقِيقَة.اپنے رب کی طرف سے عطا کئے گئے ہیں.وَمَن تَدَبَّرَهَا حَتَّى التَّدَبُرِ وَفَكَّر في جو شخص ان ( نکات ) میں پورا تدبیر کرے گا اور ان هذِهِ الْآيَاتِ.عَلِمَ أَنَّ الله أَخْبَرَ فيها آیات میں غور و فکر سے کام لے گا اُسے معلوم ہو جائے گا کہ عَنِ الْمَسِيحِ وَمِنْ زَمَنِهِ الَّذِى هُوَ ان میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور اس کے زمانہ کے متعلق خبر زَمَنُ الْبَرَكَاتِ ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ دی ہے جو بڑا بابرکت ہے.پھر واضح رہے کہ یہ آیات گویا 66

Page 199

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام و سورة الفاتحة الْآيَاتِ قَدْ وَقَعَتْ كَحَةٍ مُعَرَّفَ لِلَّهِ خَالِقِ خدا تعالیٰ خالق کائنات کے لئے حد معترف کی طرح الْكَاثِنَاتِ وَ إِنْ كَانَ اللهُ تَعَالَى ذَاتُهُ عَنِ ہیں.اگر چہ خدا تعالیٰ کی ذات (درحقیقت) ہر قسم کی التَّحْدِيدَاتِ وَمِنْ هَذَا التَّعْلِيمِ وَ تحدید سے بالا ہے.اس تشریح سے کلمہ شہادت کے الْإِفَادَةِ.يَنْضِحُ مَعْنَى كَلِمَةِ الشَّهَادَةِ العِنى معنے بھی واضح ہو جاتے ہیں جس پر ایمان اور سعادت کا هِيَ مَنَاطُ الإِيمَانِ وَالسَّعَادَةِ وبطنه دارو مدار ہے.اور انہی صفات کی بنا پر اللہ تعالیٰ (اپنے الصَّفَاتِ اسْتَحَلّى اللهُ الطَّاعَةَ وَ خُصَّ بندوں کی اطاعت کا مستحق ہو گیا ہے.اور عبادت بِالْعِبَادَةِ فَإِنَّهُ يُنَزِّلُ هَذِهِ الْفُيُوضَ کے لئے مخصوص ہو گیا کیونکہ وہ ان فیوض کو ارادۂ نازل بِالْإِرَادَةِ فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ لَا إِلَهَ إِلَّا الله فرماتا ہے.پس جب تم لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہتے ہو تو فَمَعْنَاهُ عِندَ ذَوِى الْحَصَاتِ أَنَّ الْعِبَادَةَ لا عقلمندوں کے نزدیک اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ يجوز لأحَدٍ مِنَ الْمَعْبُودِينَ أَوِ الْمَعْبُودَاتِ دیوی دیوتاؤں میں سے کسی کی بھی عبادت جائز نہیں إِلَّا لِذَاتٍ غَيْرِ مُنرَكَةٍ مُّسْتَجيعَةٍ لهذه عبادت صرف اس ذات کی ہونی چاہئے جو ادراک الضِفَاتِ.أَغْنِي الرَّحْمَانِيَّةَ وَالرَّحِيمِيَّةَ سے بالا اور ان صفات کی جامع ہے.اس جگہ میری اللَّتَيْنِ هُمَا أَوَّلُ شَرْطٍ لِمَوْجُوْدٍ مُسْتَحِق مراد رحمانیت اور رحیمیت سے ہے جو کہ عبادتوں کے مستحق وجود کی پہلی شرط ہیں.لِلْعِبَادَات ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ اللهَ اسْم جَامِلٌ لَّا تُدْرَك پھر جان لو کہ اللہ اسم جامد ہے اور اس کی حقیقت حَقِيقَتُهُ لِأَنَّهُ اسْمُ النَّاتِ وَالذَّاتُ لَيْسَتْ کا ادراک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اسم ذات ہے.اور مِنَ الْمُدرَكَاتِ.وَكُلُّ مَا يُقَالُ فِي مَعْنَاهُ ذات ایسے امور میں سے نہیں جن کا ادراک ہو سکے.فَهُوَ مِنْ قَبِيْلِ الْأَبَاطِيْلِ وَالْخَزَعْبِيْلَاتِ لفظ الله و مشتق قرار دے کر جو معنے کئے جاتے ہیں وہ فَإِنَّ كُنْةَ الْبَارِي أَرْفَعُ مِنَ الْخيَالَاتِ سب جھوٹ اور محض خرافات ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی وَأَبْعُدَ مِنَ الْقِيَاسَاتِ.وَإِذَا قُلْتَ مُحَمَّدٌ گنه (حقیقت) کا پانا (تمام) خیالات سے بالا اور رَّسُولُ اللهِ فَمَعْنَاهُ أَنَّ مُحَمَّدًا مَّظْهَرُ صِفَاتِ قیاسات سے دور ہے.جب تم محمد رسول اللہ کہتے ہو تو هذِهِ الذَّاتِ وَخَلِيفَتُها في الكَمَالَاتِ اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ذات وَمُتَيَّمُ دَائِرَةِ الظُّليَّةِ وَخَاتَمُ الرِّسَالَاتِ باری کی صفات کے مظہر ہیں کمالات میں اس کے

Page 200

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 166 سورة الفاتحة فَحَاصِلُ مَا أُبْصِرُ وَأَرى أَنَّ نَبِيِّنَا خَيْرُ | جانشین ہیں اور دائرہ ظلمیت کو کامل کرنے والے اور سب الْوَرى قَدْ وَرِتَ صِفَتَى رَبَّنَا الْأَغلى رسالتوں کے خاتم ہیں.پس جو کچھ میں دیکھتا اور پاتا ہوں ثُمَّ وَرِثَ الصَّحَابَةُ الْحَقِيقَةُ اس کا ماحصل یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام الْمُحَمَّدِيَّةَ الْجَلَالِيَّةَ كَمَا عَرَفتَ قيما مخلوقات سے افضل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ان ہر دو صفتوں کے مَطَى وَقَدْ سُلْم سَيْفُهُمْ فی قطع وارث ہوئے پھر جیسا کہ آپ پہلے معلوم کر چکے ہیں صحابہ دَابِرٍ الْمُشْرِكِينَ وَ لَهُمْ ذِكْرٌ لا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالی حقیقت کے وارث بنے.اور يُنسى عِنْدَ عَبَدَةِ الْمَخْلُوقِينَ وَ مشرکوں کا قلع قمع کرنے میں ان کی تلوار کی دھاک مسلم ہے إِنَّهُمْ أَذَوْا حَتَّى صِفَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَ اور ان کی یاد ایسا امر ہے کہ مخلوق کے پجاری اسے بھلا نہیں أَذَاقُوْا كَثِيرًا مِنَ الْأَيْدِى الْحَربيّة.و سکتے.انہوں نے صفتِ محمدیت کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے بَقِيَتْ بَعْدَ ذَالِكَ صِفَةُ الأَحْمَدِيَّةِ اور انہوں نے بہتوں کو اپنے جنگی کارناموں کا مزا چکھایا.الَّتِي مُصَبَّغَةٌ بِالْأَلْوَانِ الْجَمَالِيَّةِ اب رہی صفت احمدیت جو جمالی رنگوں سے رنگین ہے اور مُحَرَّقَةٌ بِالذِيرَانِ الْمُحِيَّةِ.فَوَرِهَا عشق و محبت کی آگ سے سوختہ ہے.سو مسیح موعود اس صفت الْمَسِيحُ الَّذِي بُعِثَ فِي زَمَنِ انْقِطَاعِ (احمدیت ) کا وارث ہوا جو ذ رائع ( ترقی ) کے خاتمہ، دشمنوں الْأَسْبَابِ وَتَكَشرِ الْمِلَّةِ مِن کی کھلیوں سے ملت کی بربادی اور مددگاروں اور دوستوں کے الْأَنْيَابِ وَ فُقَدَانِ الْأَنْصَارِ وَ معدوم ہونے اور دشمنوں کے غلبہ اور مخالف جماعتوں کے حملہ الْأَحْبَابِ وَغَلَبَةِ الْأَعْدَاءِ وَ صَوْلِ کے وقت مبعوث کیا گیا تا اللہ تعالیٰ اندھیری راتوں کے بعد الْأَحْزَابِ لِيُرى اللهُ نَموذَجَ مَالِكِ اسلام کی قوت اور ( مسلمان ) سلاطین کے رعب کے مٹنے کے يَوْمِ الدِّينِ بَعْدَ لَيَالِي الظُّلام بعد اور ملت محمدیہ کے اپاہجوں کی مانند ہو جانے کے بعد اپنی وَبَعْدَ الهدّامِ قُوَّةِ الْإِسْلامِ وَسَطوَةِ مالكيت يَوْم الدین کا نمونہ دکھائے.پس آج ہمارا دین السلاطينِ وَ بَعْدَ كَوْنِ الْمِلَّةِ بے وطنوں کی طرح ہو گیا.اس کی حکومت سوائے آسمان کے كَالْمُسْتَضْعَفِينَ.فَالْيَوْمَ صَارَ دِینُنا اور کہیں باقی نہیں رہی (اس وقت کے ) اہل زمین نے اس کو كَالغُرَباءِ - وَمَابَقِيَتْ لَهُ سَلْطَنَةٌ إِلَّا نہیں پہنچانا.اور اسکے خلاف دشمنوں کی طرح اٹھ کھڑے فِي السَّمَاءِ - وَمَا عَرَفَهُ أَهْلُ الْأَرْضِ ہوئے ہیں.پس اس ضعف اور شان وشوکت کے مٹنے کے

Page 201

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۸ سورة الفاتحة فَقَامُوا عَلَيْهِ كَالْأَعْدَاءِ - فَأُرْسِلَ عِنْدَ | وقت خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ هذَا الضُّعْفِ وَذَهَابِ الشَّوْكَةِ عَبْد من مبعوث کیا گیا.تا وہ اس (روحانی پانی کے ) قحط زدہ الْعِبَادِ لِيَتَعَهَّدَ زَمَانًا مَّاحِلاً تعهد زمانہ کو بارش کی طرح سیراب کرے پس یہ وہی مسیح موعود الْعِهَادِ.وَ ذَالِكَ هُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ ہے جو اسلام کے ضعف کے وقت آیا ہے.تا اللہ تعالیٰ الَّذِي جَاءَ عِنْدَ ضُعْفِ الْإِسْلَامِ لِيُرى محض اپنے فضل سے لوگوں کو جب کہ وہ چو پایوں اللهُ نَمُوذَجَ الْحَشْرِ وَالْبَعْثِ وَالْقِيَامِ کی طرح ( روحانی ) موت مر چکے تھے حشر ونشر اور وَنَمُوذَجَ يَوْمِ الدِّينِ إِنْعَامًا مِّنْهُ بَعْد بعث بعد الموت.قیامت اور جزا سزا کے دن کا نمونہ مَوْتِ النَّاسِ كَالْأَنْعَامِ فَاعْلَمُ أَنَّ هَذَا دکھائے.پس جان لو کہ یہی زمانہ یوم الدین ہے اور تم الْيَوْمَ يَوْمُ الدِّينِ وَسَتَعْرِفُ صِدْقَنَا یقینا ہماری سچائی کو جان لو گے.اگر چہ کچھ وقت کے بعد ہی سہی.وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ وَهُهُنَا نُكْتَةٌ كَشْفِيَّةٌ لَّيْسَتْ مِن یہاں ایک کشفی نکتہ ہے جو پہلے کبھی نہیں سنا گیا.پس الْمَسْبُوعِ فَاسْمَعُ مُصْغِيًّا وَ عَلَيْكَ كان لگا کر اطمینان سے سنو اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بِالْمَوْدُوعِ وَهُوَ أَنَّه تَعَالى مَا الحتار نے یہاں اپنی ذات کے لئے چار صفات کو محض اس لئے لِنَفْسِهِ هُهُنَا أَرْبَعَةً مِّنَ الصَّفَاتِ إِلَّا اختیار کیا ہے کہ تاوہ اس دنیا میں ہی انسان کو ( یعنی دنیا ليرى نموذجها في هذِهِ الدُّنْيَا قَبْلَ کی موت سے پہلے ان صفات کا نمونہ دکھائے.پس وو الْمَمَاتِ فَأَشَارَ فِي قَوْلِهِ " لَهُ الْحَمْدُ فِي اُس نے اپنے کلام لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأَولَى وَالْآخِرَةِ مِیں الأولى وَ الْآخِرَةِ إِلى أَنَّ هَذَا النّمُوذَج اشاره فرمایا کہ یہ نمونہ آغاز اسلام میں بھی عطا کیا جائے گا.يُعْطَى لِصَدرِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ لِلآخَرِينَ مِنَ اور پھر اُمت کی خواری کے بعد اس کے آخری لوگوں کو الأُمَّةِ الدَّاخِرَةِ.وَكَذَالِكَ قَالَ فی مقام بھی (عطا کیا جائے گا ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور اخَرَ وَهُوَ أَصْدَقُ الْقَائِلِينَ "خلةٌ من جگہ (قرآن میں ) فرمایا ہے اور وہ بات کرنے والوں الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ فَقَسَم زَمَان میں سے سب سے زیادہ سچا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ الْهِدَايَةِ وَالْعَوْنِ وَالنُّفْرَةِ إِلى زَمَانٍ وَثُلَةٌ مِنَ الأخيرين پس اللہ تعالیٰ نے ہدایت، مدد وو - (القصص:۷۱) ترجمہ.ابتدائے آفرینش میں بھی وہی تعریف کا مستحق تھا اور آخرت میں بھی وہی تعریف کا مستحق ہوگا.(الواقعة: ۴۱،۴۰) ترجمہ (اصحاب الیمین کا ) یہ گروہ شروع میں ایمان لانے والے لوگوں میں بھی کثرت سے ہوگا اور آخر میں ایمان لانے والے لوگوں میں بھی کثرت سے ہوگا.

Page 202

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 129 سورة الفاتحة اتَّبَعُوهُمْ.نَبِيَّنَاصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ إِلَى | اور نصرت کے زمانہ کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم الزَّمَانِ الْآخِرِ الَّذِي هُوَ زَمَانُ مَسیح کے زمانہ پر اور اس آخری زمانہ پر جو اس اُمت کے هذِهِ الْمِلَّةِ.وَ كَذَالِكَ قَالَ وَاخَرِيْنَ مسیح کا زمانہ ہے تقسیم کر دیا.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ فَأَشَارَ إِلَى نے فرمایا ہے وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اس الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَ جَمَاعَتِهِ وَالَّذِيْنَ میں مسیح موعود، اس کی جماعت اور ان کے تابعین کی طرف اشارہ فرمایا ہے.فَقَبتَ بِنُصُوصٍ بَيْنَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ آن پس قرآن کریم کی نصوص بینہ سے ثابت ہوا کہ یہ هذِهِ الصَّفَاتِ قَد ظَهَرَتْ في زَمَن نَبينا صفات ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ثُمَّ تَظْهَرُ في آخِرِ الزَّمَانِ وَ هُوَ زَمَانٌ ظاہر ہوئیں.پھر آخری زمانہ میں بھی ظاہر ہوں گی.اور تَكْثُرُ فِيْهِ الْفِسْقُ وَالْفَسَادُ وَ يَقِلُّ آخری زمانہ ایسا زمانہ ہے جس میں بدکاری اور ہر قسم کی الصَّلاحُ وَ السَّدَادُ وَيُجَاحُ الإسلام خرابیاں بکثرت پھیل جائیں گی اور راستی اور راستبازی كَمَا تُجَاحُ التَّوْحَةُ وَ يَصِيرُ الْإِسْلام بہت ہی کم ہو جائے گی.اسلام کی ایسی بیخ کنی ہوگی جیسا كَسَلِيْمٍ لَدَعْتُهُ الْحَيَّةُ وَيَصِيرُ که درخت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جاتا ہے.اور اسلام الْمُسْلِمُونَ كَأَتَهُمُ الْمَيْتَةُ وَيُدَاسُ ایک ایسے شخص کی طرح ہو جائے گا جسے کسی سانپ نے الدين تَحْتَ الدَّوَاثِرِ الْهَائِلَةِ وَالتَّوَازِلِ ڈس لیا ہو.مسلمانوں کی یہ حالت ہو جائے گی کہ گویا کہ وہ النَّازِلَةِ السَّائِلَةِ وَ كَذَالِكَ تَرَوْنَ في مُردے ہیں اور (ان کا ) دین خوفناک حوادث اور دوسری هذَا الزَّمَانِ وَتُشَاهِدُوْنَ أَنْوَاعَ الْفِسْقِ متواتر نازل ہونے والی مصائب کے نیچے کچلا جائے گا اور وَ الْكُفْرِ وَاليِّركِ وَالطَّغْيَانِ وَتَرَوْنَ یہی حال تم اس زمانہ میں دیکھ رہے ہو.اور تم انواع واقسام كَيْفَ كَثْرَ الْمُفْسِدُونَ وَ قَل کے فسق ، کفر، شرک اور سرکشی کا مشاہدہ کر رہے ہو اور دیکھ الْمُصْلِحُونَ الْمُوَاسُونَ وَحَانَ لِلشَّرِيعَةِ رہے ہو کہ کس طرح مفسد زیادہ ہو گئے ہیں اور مصلح اور غم أَن تُعْدَمَ.وَانَ لِلْمِلَّةِ أَن تُكْتَمَ.وَ هَذا خوار کم ہو گئے ہیں.اور قریب ہے کہ شریعت نابود ہو بَلاءُ قَدْ ذَهَمَ ، وَعَنَاهُ قَدْ هَجَمَ.وَشَرِّ قَدْ جائے اور ملت پوشیدہ ہو جائے یہ ایسی مصیبت ہے نَجَمَ.وَ نَارُ أَحْرَقَتِ الْعَرَب وَالْعَجَمَ وَ جو نا گہاں وارد ہوئی ہے.ایسی بپتا ہے جوٹوٹ پڑی ہے.w : ( الجمعة : ۴) ترجمہ.اور اسی طرح ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اس کو بھیجے گا ) جو ابھی تک ان سے نہیں ملی.

Page 203

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة الفاتحة مَعَ ذَالِكَ لَيْسَ وَقْتُنَا وَقتَ الْجِهَادِ | ایسی بدی ہے جو یکدم پھوٹ پڑی ہے اور ایسی آگ ہے جس وَ لَا زَمَنَ الْمُرْهَفَاتِ الْحَدَادِ وَلا نے عرب و عجم کو جلا دیا ہے.بایں ہمہ ہمارا زمانہ جہاد کا زمانہ أَوَانَ ضَرْبِ الْأَعْنَاقِ وَ التَّقْرِيْنِ في نہیں اور نہ تیز تلواروں کا زمانہ ہے، نہ گردنیں مارنے اور الْأَصْفَادِ وَلَا زَمَانَ قَوْدِ أَهْلِ زنجیروں میں جکڑنے کا وقت ہے، نہ ہی گمراہوں کوز نجیروں اور الضَّلَالِ فِي السَّلَاسِلِ وَ الْأَغْلَالِ وَ طوقوں میں گھسیٹنے اور اُن پر قتل اور ہلاکت کے احکام جاری إِجْرَاءِ أَحْكامِ الْقَتْلِ وَ الْاِغْتِيَالِ کرنے کا زمانہ ہے.یہ زمانہ کافروں کے غلبہ اور ان کے عروج فَإِنَّ الْوَقْتَ وَقْتُ غَلَبَةِ الْكَافِرِينِ کا زمانہ ہے اور مسلمانوں پر اُن کے اعمال کی وجہ سے ذلّت وَإِقْبَالِهِمْ وَ ضُرِبَتِ اللَّهُ عَلَی مسلط کر دی گئی ہے.اب جہاد ( بالسیف ) کیوں کیا جائے الْمُسْلِمِينَ بِأَعْمَالِهِمْ.وَكَيْفَ الْجِهَادُ جب کہ اس زمانہ میں) نہ کسی کو نماز اور روزہ سے روکا جاتا وَلا يُمْنَعُ أَحَدٌ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّلوة.ہے نہ حج اور زکوۃ سے اور نہ پاک دامنی اور پرہیز گاری سے وَلَا الْحَج وَ الزَّكوة وَلَا مِنَ الْعِفَّةِ اور نہ ہی کسی کافر نے مسلمانوں کو مرتد کرنے یا انہیں ٹکڑے وَالتَّقَاةِ وَ مَا سَلَ كَافِرُ سَيْفًا عَلَى ٹکڑے کرنے کے لئے ان پر تلوار سونتی ہے.انصاف تو یہ ہے الْمُسْلِمِينَ لِيَرْتَدُّوا أَوْ يَجْعَلَهُمْ کہ تلوار کے مقابلہ میں تلوار اُٹھائی جائے اور قلموں کے مقابلہ عِضِينَ فَمِنَ الْعَدْلِ أَنْ يُسَلَّ میں قلمیں - ہم آج تلوار اور نیزے کے زخموں پر نہیں روتے.الْحُسَامُ بِالْحُسَامِ وَ الْأَقْلَامُ ہم تو ان کی زبانوں سے پھیلائی ہوئی مفتریات پر روتے بِالْأَقْلَامِ وَ إِنَّا لَا نَبْكِي عَلى جِراحَاتِ ہیں.اس زمانہ میں ) انہی مفتریات سے اللہ کے صحیفوں کو السَّيْفِ وَالسَّنَانِ وَإِثْمَا نَبكى على جھٹلایا گیا اور ان کے اسرار پر پردے ڈالے گئے.ملت أكاذيب اللّسَانِ فَبِالأَكاذيب (اسلامیہ) کی عمارت پر حملہ کیا گیا اور اس کے گھر کو مسمار کر دیا كذِبَتْ صُحُفُ الله و ألخفى استرارُهَا - گیا.پس یہ (ملت) ایک ایسے شہر کی مانند ہوگئی ہے جس کی وَصِيْلَ عَلَى عِمَارَةِ الْمِلَّةِ وَ هُدّم فصیلیں ٹوٹ گئی ہوں یا ایسے باغیچہ کی طرح ہے جس کے دَارُهَا فَصَارَت كَمَدِينَةٍ نُقِضَ درخت جلا دیئے گئے ہوں یا ایسے باغ کی مانند ہے جس کے أَسْوَارُهَا أَوْ حَدِيقَةٍ أُخْرِقَ پھول اور پھل برباد کر دیئے گئے ہوں اور اس کے شگوفے توڑ أَشْجَارُهَا أَوْ بُسْتَانِ أُتْلِفَ زَهْرُهَا کر پھینک دیئے گئے ہوں یا ایسے ملک کی مانند ہے جو کبھی بہت

Page 204

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة الفاتحة وَثِمَارُهَا وَسُقِطَ أَنْوَارُهَا أَوْ بَلْدَةٍ | برکتوں والا تھا لیکن اب اس کی نہریں خشک ہوچکی ہوں یا طَيِّبَةٍ غِيْضَ أَنهَارُهَا.أَوْ قُصُورٍ مُشَيَّدَةٍ ایسے مضبوط محلات کی مانند ہے جن کے نشان تک مٹا دیئے على آثَارُهَا وَ مَزَّقَهَا الْمُمَرِّقُونَ وَ گئے ہوں.برباد کرنے والوں نے انہیں پارہ پارہ کر دیا ہو اور قِيْلَ مَاتَتْ وَنَعَى النَّاعُونَ وَطُبعَت کہ دیا ہو کہ وہ (ملت) مرچکی ہے اور اس کی موت کی خبر دینے أَخْبَارُهَا وَأَشَاعَتْهَا الْمُشِيعُونَ وَ والوں نے اس کی موت کی خبر دے دی ہو.اس کے حالات لِكُلِ كَمَالِ زَوَالٌ وَلِكُلّ ترغرُع چھپ چکے ہوں اور شائع کرنے والوں نے انہیں شائع کر اضْمِحْلَال كَمَا تَرَى أَنَّ السَّيْلَ إِذَا دیا ہو.بے شک ہر کمال کے لئے زوال ہے اور ہر جوانی وَصَلَ إِلَى الْجَبَلِ الرَّاسِي وَقَفَ وَاللَّيْلَ نے (ایک دن) ڈھلنا ہے.جیسا کہ تمہیں معلوم ہے جب إِذَا بَلَغَ إِلَى الصُّبْحِ الْمُسْفِرِ الْكَشَفَ سیلاب کسی مقام پہاڑ تک پہنچتا ہے (وہیں ) رُک جاتا ہے ستحکم كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى " وَاليْلِ اِذا اور رات جب پو پھٹنے کے قریب پہنچتی ہے (اس کی تاریکی عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَس فَجَعَلَ خود بخود چھٹ جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاليْلِ دو 66 تَنَفَّسَ الصُّبْحِ كَأَمْرٍ لَّازِهِ بَعْدَ كَمَالِ إِذَا عَسْعَسَ وَ الصُّبْحِ إِذَا تَنَفَس پس اللہ تعالیٰ نے ظُلُمَاتِ اللَّيْلِ.وَكَذَالِكَ في قَوْلِهِ رات کے اندھیروں کی انتہا کے بعد صبح کے ظہور کو ایک يا رضُ ابْلَعِى ، جُعِلَ كَمَالُ السَّيْلِ لازمی امر قرار دیا ہے.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے قول دَلِيلٌ زَوَالِ السَّيْلِ فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَاَرْضُ ابْلَعِى سیلاب کے کمال کو سیلاب کے زوال کی يَرُذَ إِلَى الْمُؤْمِنِينَ أَيَّامَهُمُ الْأُولى علامت قرار دیا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ وَأَنْ يُرِيَهُمْ أَنَّهُ رَبُّهُمْ وَأَنَّهُ الرَّحْمن و مومنوں پر ان کا پہلا زمانہ لوٹا دے اور ان کو دکھائے کہ وہ الرَّحِيمُ وَمَالِكُ يَوْمٍ فِیهِ ان کا رب ہے اور یہ کہ وہ رحمان اور رحیم ہے اور اس دن کا يُجْزِى وَيُبْعَثُ فِيْهِ الْمَوْلى وَإِنَّكُمْ مالک ہے جب جزا سزا دی جائے گی اور اس میں مردوں تَرَوْنَ فِي هَذَا الزَّمَانِ رُبُوبِيَّةَ الله کو ( زندہ کر کے اٹھایا جائے گا.اس زمانہ میں تم محسن خدا ) الْمَنَانِ وَرَحْمَانِيَّتَ لِلْإِنْسَانِ کی ربوبیت اور انسانوں اور حیوانوں کے لئے اس کی ایسی وَالْحَيَوَانِ الَّتِي تَتَعَلَّى بِالأَبْدَانِ رحمانیت نمایاں دیکھ رہے ہو جو اجسام سے تعلق رکھتی ہے اور (التکویر:۱۹ ۱۸) ترجمہ.اور رات جب وہ خاتمہ کو پہنچ جاتی ہے اور صبح جب وہ روشن ہو جاتی ہے.(هود: ۴۵) ترجمہ.اے زمین تو (اب اپنے پانی کو نگل جا.

Page 205

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة الفاتحة وَتَرَوْنَ أَنَّهُ كَيْفَ خَلَقَ أَسْبَابًا جَدِيدَةً وَ | تم پاتے ہو کہ اس نے کس طرح نئے نئے ذرائع اور مفید وَسَائِلٌ مُفِيدَةً وَ صَنَائِعَ لَمْ يُرَ مِثْلُهَا قِيا وسائل پیدا کئے ہیں.ایسی صنعتیں جن کی مثال گذشتہ مطى وَعَجَائِبَ لَمْ يُوجَدُ مِثْلُهَا في زمانوں میں نہیں دیکھی گئی ایسے عجائبات ( پیدا کئے الْقُرُونِ الْأُولى.وَتَرَوْنَ تَجَدُّدًا فِي كُلما ہیں جن کا نمونہ قرونِ اولیٰ میں نہیں پایا جاتا اور تمہیں يَتَعَلَّقُ بِالْمُسَافِرِ وَاللَّيْلِ وَالْمُقِيمِ اس زمانہ کی تمام چیزوں میں ایک جدت دکھائی دے رہی وَابْنِ السَّبِيلِ وَ الصَّحِيحِ وَالْعَلِيْلِ ہے جو مسافر یا قیام پذیر، سکونتی یا پردیسی، تندرست یا وَالْمُحَارِبِ وَ الْمُصَالِحِ الْمُقِيلِ بیمار، جنگجو یا معاف کرنے والے صلح جو، قیام یا کوچ کی وَالْإِقَامَةِ وَالرَّحِيلِ وَ جَميعِ أَنْوَاعِ حالت اور تمام قسم کی نعمتوں اور مشکلات سے تعلق رکھتی النّعْمَاءِ وَالْعَرَاقِيلِ كَانَ الدُّنْيَا بُذلت ہے گویا آج دنیا مکمل طور پر بدل دی گئی ہے.بیشک یہ كُلَّ التَّبْدِيلِ.فَلَا شَكَ أَنَّهَا رُبُوبِيَّةٌ عظيم ربوبیت اور اعلی رحمانیت ( کا فیض ) ہے اسی طرح عُظمى وَ رَحْمَانِيَّةٌ كُبرى و كذالك تم دینی معاملات میں بھی ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت تَرَى الرُّبُوبِيَّةَ وَالرَّحْمَانِيَّةَ وَالرَّحِيمِيَّةَ في ( کے فیوض ) دیکھو گے.یقیناً علوم الہیہ کے طالبوں کے الأمور الدينية.وَقَد يُسرَ كُلٌّ أَمْرٍ لئے ہر بات آسان کر دی گئی ہے اور تبلیغ کا کام اور روحانی لطلَبَاءِ الْعُلُومِ الْإِلَهِيَّةِ وَ يُشِرَ أَمْرُ علوم کی اشاعت کا کام بھی آسان بنا دیا گیا ہے.اور ہر التَّبْلِيغِ وَ أَمْرُ إِشَاعَةِ الْعُلُومِ اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اور اس الرُّوحَانِيَّةِ.وَأُنْزِلَتِ الْآيَاتُ لِكُلِّ مَن کی بارگاہ سے اطمینان ( قلب ) کا متلاشی ہے کھلی کھلی يَعْبُدُ اللهَ وَيَبْتَغِي السَّكِينَةَ مِنَ الْحَضْرَةِ - نشانیاں اتاری گئی ہیں.چاند اور سورج کو رمضان کے وَالْكَسَفَ الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ في رَمَضَان و مہینہ میں گرہن لگ چکا ہے.اونٹنیاں بریکار کر دی گئی ہیں عُطِلَتِ الْعِشَارُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا إِلَّا اور سوائے شاذ و نادر کے ان سے تیز رفتاری کا کام نہیں لیا بِالقُدْرَةِ.وَسَوْفَ تَرَى الْمَرْكَبَ الْجَدِيدَ جاتا.کچھ عرصہ کے بعد تم مدینہ اور مکہ کے رستہ میں بھی نئی في سَبِيلِ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَأَيْد سواری دیکھ لو گے اور علماء اور طلباء کے لئے کتابوں کی الْعَالِمُونَ وَالظَّالِبُونَ بِكَثْرَةِ الكُتُب کثرت اور حصول علم اور معرفت کے بہت سے ذرائع مہیا وَأَنْوَاعِ أَسْبَابِ الْمَعْرِفَةِ وَعُمیر کئے گئے ہیں.مسجد میں آباد کی گئی ہیں اور عبادت گزاروں

Page 206

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ سورة الفاتحة الْمَسَاجِدُ وَ حُفظ السَّاجِدُ وَفُتِحَ | کی حفاظت کی گئی ہے اور امن اور دعوت وتبلیغ کے دروازے أَبْوَابُ الْأَمْنِ وَالتَّبْلِيغِ وَالدَّعْوَةِ.وَمَا کھل گئے ہیں اور یہ سب رحیمیت ہی کا فیضان ہے.پس ہم هُوَ إِلَّا فَيْضُ الرَّحِيمِيَّةِ فَوَجَبَ عَلَيْنَا پر واجب ہے کہ ہم گواہی دیں کہ یہ وہ وسائل و ذرائع ہیں أَن نَّشْهَدَ أَتَهَا وَسَائِلُ لَا يُوجَدُ نَظِيرُهَا جن کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں ملتی اور یہ ایسی توفیق اور فِي الْقُرُونِ الْأُولَى وَ أَنَّهُ تَوْفِيقُ و آسانی میسر آ گئی ہے جس کی نظیر نہ کبھی کانوں نے سُنی اور نہ تَيْسِيرٌ مَّا سَمِعَ نَظِيرَة أُذُنٌ و ما رأی ہی اس کا نمونہ آنکھوں نے کبھی دیکھا پس تم ہمارے ربّ مِثْلَهُ بَصَرُ فَانْظُرُ إِلى رَحِيْمِيَّةِ رَبَّنَا اعلیٰ کی رحیمیت ) کی شان ) ملاحظہ کرو.یہ اسی کی رحیمیت الْأَعْلى وَمِن رَحِيْمِيَّتِهِ أنا قند کا عَلى ( کی ہی برکت) ہے کہ ہمارے لئے ممکن ہو گیا ہے کہ چند أَن نَّطْبَعَ كُتُبَ دِينِنَا في أَيَّام ما كان دنوں میں ہی اپنے مذہب کی اس قدر کتا ہیں طبع کر دیں جو مِنْ قَبْلُ في وُسُعِ الْأَوَّلِينَ أَن يَكْتُبُوهَا اس سے قبل ہمارے بزرگ ( کئی ) سالوں میں بھی نہیں لکھ في أَعْوَامٍ وَإِنَّا نَقْدِرُ عَلى أَن تطلع على سکتے تھے.اور اب ہمیں یہ بھی مقدرت ہے کہ ہم دور دور أَخْبَارِ أَقْصَى الْأَرْضِ فِي سَاعَاتٍ * ؤ کے ملکوں کی خبریں (چند گھنٹوں میں معلوم کرلیں جن کا.مَا قَدَرَ عَلَيْهِ السَّابِقُونَ إِلَّا لِشق ** حصول ہم سے پہلے لوگوں کے لئے سالہا سال تک اپنی الْأَنْفُسِ وَبَذْلِ الْجُهْدِ إِلى سَنَوَاتٍ وَقَد جانوں کو مشقت میں ڈالنے اور بڑی کوشش کے بغیر ممکن نہیں فُتِحَ عَلَيْنَا فِي كُلِّ خَيْرٍ أَبْوَابُ الرُّبُوَبِيَّةِ ہو سکا.یقیناً ہر بھلائی کے ( حاصل کرنے کے لئے ) ہم پر وَالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ وَ كَثُرت ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت کے دروازے کھل گئے ہیں طرُقُهَا حَتَّى خَرَجَ إِحْصَانُهَا مِن الطاقة اور اس کے لئے اس قدر زیادہ راستے پیدا ہو گئے ہیں کہ ان الْبَشَرِيَّةِ وَأَيْنَ تَيَسَّرَ هُذَا لِلسَّابِقِيْنَ کا شمار انسانی طاقت سے باہر ہے.پہلے دعوت وتبلیغ کرنے مِنْ أَهْلِ التَّبْلِيغِ وَالدَّعْوَةِ وَ أَنَّ والوں کو یہ ( آسانیاں ) کہاں میسر تھیں؟ پس زمین ہماری الْأَرْضَ زُلْزِلَتْ لَنَا زِلْزَالًا فَأَخْرَجَتْ خاطر خوب جھنجھوڑی گئی ہے اور اس نے اپنے بوجھ ( یعنی أَثْقَالًا وَ فُجَرَتِ الْأَنْهَارُ وَ سُجّرَتِ خزانے باہر نکال پھینکے ہیں.نہریں جاری کی گئی ہیں.دریا ) الحاشية.كما قال الله تعالى يَوْمَن تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا (الزلزال: ۵) - منه ( ترجمہ: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.يَوْمَن تُحَيثُ أَخْبَارَهَا یعنی اس دن وہ (زمین) اپنی (ساری ہی پوشیدہ ) خبر میں بیان کر دے گی.) ** سہو کتابت ہے درست بشق الانفس ہے ( ناشر )

Page 207

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة الفاتحة الْبِحَارُ.وَجُدِدَتِ الْمَرَاكِبُ وَعُطِلَتِ | خشک کر دیئے گئے ہیں.نئی نئی سواریاں نکل آئی ہیں اور الْعِشَارُ وَإِنَّ السَّابِقِینَ مَا رَأَوْا كَمِثْلِ اونٹنیاں بیکار ہو گئی ہیں.ہمارے پہلوں نے ایسی نعمتیں مَا رَأَيْنَا مِنَ النَّعْمَاءِ وَفي كُلِ قَدَمٍ نِعْمَةٌ نہیں دیکھی تھیں جو ہم نے دیکھی ہیں.ہر قدم پر ایک - پرا وَقَد خَرَجَتْ مِنَ الْإِحْصَاءِ - وَمَعَ ذَالِكَ (نئی ) نعمت (موجود ) ہے اور یہ ( نعمتیں) حد شمار سے كَثُرَتْ مَوْتُ الْقُلُوبِ وَقَسَاوَةُ الْأَفْئِدَةِ باہر ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی دلوں کی موت اور ان کی سختی كَانَ النَّاسَ كُلَّهُمْ مَّاتُوا وَلَمْ يَبْقَ فِيهِم بہت بڑھ گئی ہے گویا کہ تمام لوگ مر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور رُوحُ الْمَعْرِفَةِ إِلَّا قَلِيلُ الَّذِي هُوَ کی شناخت کرنے کی روح ان میں باقی نہیں رہی سوائے كَالْمَعْدُومِ مِنَ التَّدْرَةِ وَ إِنَّا فَهِمْنا بما بہت کم لوگوں کے جو شاذ و نادر ہونے کی وجہ سے نہ ہونے ذَكَرْنَا مِن ظُهُورِ الصَّفَاتِ وتجلی کے برابر ہیں پس ان صفات کے ظہور سے جن کا ذکر ہم الرُّبُوبِيَّةِ وَالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ كَمِثْلِ پہلے کر چکے ہیں اور ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت کی الْآيَاتِ ثُمَّ مِن كَثْرَةِ الْأَمْوَاتِ وَمَوْتِ روشن نشانوں کی طرح تجلی سے اور پھر کثرت اموات اور النَّاسِ مِنْ سَمِ الضَّلالات آن يَوْمَ گمراہیوں کے زہر سے لوگوں کے مرنے سے ہم نے الْحَشْرِ وَالنَّشْرِ قَرِيبٌ بَلْ عَلَى الْبَابِ جان لیا ہے کہ حشر و نشر کا دن قریب ہے بلکہ دروازے پر كَمَا هُوَ ظَاهِرٌ مِن ظُهُورِ الْعَلَامَاتِ وَ ہے جیسا کہ ان علامات اور اسباب کے ظہور سے واضح ہو الْأَسْبَابِ فَإِنَّ الرُّبُوْبِيَّةَ وَالرَّحْمَانِيَّةَ وَ گیا ہے کہ کیونکہ ربوبیت ، رحمانیت اور رحیمیت سمندروں الرَّحِيمِيَّةَ تَمَوجَت كَتَمَوجِ الْبِحَارِ کے جوش مارنے کی طرح موجزن ہیں اور ظاہر ہو چکی ہیں وَظَهَرَتْ وَ تَوَاتَّرَتْ وَجَرَتْ كَالأَنْهَارِ اور پے در پے نازل ہورہی ہیں اور دریاؤں کی طرح فَلَا شَكَ أَنَّ وَقْتَ الْحَشْيرِ وَالنُّشُورِ قَد جاری ہیں.لہذا بلا شبہ اب حشر و نشر کا وقت آ گیا ہے.یہ أَثى وَقَد مَضَتْ هذهِ السُّنَّةُ فِي صَحَابَةِ خَيْر سنت اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ( کے وقت ) الْوَرى وَلَا شَكَ أَنَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمُ میں بھی ہو گزری ہے.پس بلا شبہ یہ زمانہ یوم الدین ہے الدِّينِ.وَيَوْمُ الْحَشْيرِ وَيَوْمُ مَالِكِيَّةِ رَبِّ يوم حشر ہے.آسمانوں کے رب کی مالکنیت اور اس السَّمَاءِ وَظُهُورِ أَثَارِهَا عَلى قُلُوبِ أَهْلِ ( مالکیت) کے آثار اہل زمین کے دلوں پر ظاہر ہونے کا الْأَرْضِينَ وَلَا شَكَ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ دن ہے اور ( اس امر میں بھی ) کوئی شک نہیں یہ زمانہ اس

Page 208

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة الفاتحة (ترجمه از مرتب) الْمَسِيحِ الْحَكَمِ مِنَ اللهِ أَحْكَمِ مسیح کا زمانہ ہے جو خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے حکم الْحَاكِمِينَ.وَ أَنَّهُ حَشْرُ بَعْدَ هَلَاكِ ہے اور لوگوں کی ہلاکت (روحانی) کے بعد ایک حشر کا وقت النَّاسِ وَقَد مَضَى نَمُوذَجه في زمن ہے.اور اس کا نمونہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اور عِيسَى وَزَمَنِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی گذر چکا فَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُن مِنَ الْغَافِلِينَ.ہے.پس تم بھی غور کرو اور غافلوں ( کی صف ) میں شامل نہ ہو.اعجاز امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۴۰ تا ۱۶۴) قرآن کریم نے جو سورہ فاتحہ کو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ اسماء سے شروع کیا تو اس میں کیا راز تھا؟ چونکہ بعض تو میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پھر اس کی صفات رہے.رحیم - مُلِكِ يَوْمِ الدین سے منکر تھیں اس لئے اس طرز کو لیا.یہ یا درکھو کہ جس نے قرآن کریم کے الفاظ اور فقرات کو جو قانونی ہیں ہاتھ میں نہیں لیا اُس نے قرآن کا قدر نہیں سمجھا.(الحکم جلد ۴ نمبر ۴۰ مؤرخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۰ صفحه ۴) سورۃ الفاتحہ میں جو خدا تعالیٰ کی یہ چار صفات بیان ہوئی ہیں کہ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ اگر چہ عام طور پر یہ صفات اس عالم پر تحجتی کرتی ہیں لیکن ان کے اندر حقیقت میں پیشگوئیاں ہیں جن پر کہ لوگ بہت کم توجہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں صفتوں کا نمونہ دکھایا کیونکہ کوئی حقیقت بغیر نمونہ کے سمجھ میں نہیں آ سکتی.رب العالمین کی صفت نے کس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نمونہ دکھایا آپ نے عین ضعف میں پرورش پائی کوئی موقع مدرسہ مکتب نہ تھا جہاں آپ اپنے روحانی اور دینی قومی کونشو ونما دے سکتے.کبھی کسی تعلیم یافتہ قوم سے ملنے کا موقع ہی نہ ملا.نہ کسی موٹی سوٹی تعلیم کا ہی موقع پایا اور نہ فلسفہ کے باریک اور دقیق علوم کے حاصل کرنے کی فرصت ملی.پھر دیکھو کہ باوجود ایسے مواقع کے نہ ملنے کے قرآن شریف ایک ایسی نعمت آپ کو دی گئی جس کے علوم عالیہ اور حقہ کے سامنے کسی اور علم کی ہستی ہی کچھ نہیں جو انسان ذراسی سمجھ اور فکر کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھے گا اُس کو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کے تمام فلسفے اور علوم اس کے سامنے بیچ ہیں اور سب حکیم اور فلاسفر اس سے بہت پیچھے رہ گئے.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مؤرخه ۱/۱۷اپریل ۱۹۰۰ء صفحه ۳) سورہ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان چاروں صفات کے مظہر کامل تھے.مثلاً پہلی صفت رَبِّ العلمین ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھی مظہر ہوئے جب

Page 209

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶ سورة الفاتحة کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء: ۱۰۸) جیسے رَبِّ الْعَلَمِينَ تمام ربوبیت کو چاہتا تھا اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات اور آپ کی ہدایت و تبلیغ گل دنیا اور گل عالموں کے لئے قرار پائی.پھر دوسری صفت رحمن کی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صفت کے بھی کامل مظہر ٹھہرے کیونکہ آپ کے فیوض و برکات کا کوئی بدل اور اجر نہیں.مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ من أجر (الفرقان: ۵۸) پھر آپ رحیمیت کے مظہر ہیں آپ نے اور آپ کے صحابہ نے جو محنتیں اسلام کے لئے کیں اور ان خدمات میں جو تکالیف اُٹھا ئیں وہ ضائع نہیں ہو ئیں بلکہ ان کا اجر دیا گیا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف میں رحیم کا لفظ بولا ہی گیا ہے پھر آپ مالکیت یوم الدین کے مظہر بھی ہیں اس کی کامل تجلی فتح مکہ کے دن ہوئی.ایسا کامل ظہور اللہ تعالیٰ کی ان صفات اربعہ کا جو اقد الصفات ہیں اور کسی نبی میں نہیں ہوا.احکم نمبر ۲۹ جلد۷ مؤرخہ ۱۰ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲۰) الحمد لله کا مظہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ظہوروں محمد اور احمد میں ہوا.اب نبی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن صفات اربعہ کو بیان کر کے صحابہ کرام کی تعریف میں پورا بھی کر دیا گو یا اللہ تعالیٰ فلی طور پر اپنی صفات دینا چاہتا ہے.اس لئے فنافی اللہ کے یہی معنے ہیں کہ انسان انہی صفات کے اندر آ جائے.اب دیکھو کہ ان صفات اربعہ کا عملی نمونہ صحابہ میں کیسا دکھایا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو مکہ کے لوگ ایسے تھے جیسے بچہ دودھ پینے کا محتاج ہوتا ہے.گویار بوبیت کے محتاج تھے وحشی اور درندوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے آ محضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی طرح دودھ پلا کر ان کی پرورش کی.پھر رحمانیت کا پر تو کیا وہ سامان دیئے کہ جن میں کوشش کو کوئی دخل نہ تھا.قرآن کریم جیسی نعمت اور رسول کریم جیسا نمونہ عطا فرمایا.پھر رحیمیت کا ظہور بھی دکھلایا کہ جو کوششیں کیں اُن پر نتیجے مترتب کئے ان کے ایمانوں کو قبول فرمایا.اور نصاریٰ کی طرح ضلالت میں نہ پڑنے دیا بلکہ ثابت قدمی اور استقلال عطا فرمایا.کوشش میں یہ برکت ہوتی ہے کہ خدا ثابت قدم کر دیتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کوئی مرتد نہ ہوا.دوسرے نبیوں کے احباب میں ہزاروں ہوتے تھے.حضرت مسیح کے تو ایک ہی دن میں پانسو مرتد ہو گئے.اور جن پر بڑا اعتبار اور وثوق تھا اُن میں سے ایک نے تو ۳۰ درہم لے کر پکڑوا دیا اور دوسرے نے تین بار لعنت کی.بات اصل میں یہ ہے کہ مرتی کے قویٰ کا اثر ہوتا ہے جس قدر مربی قوی التا ثیر اور کامل ہوگا ویسی ہی اس کی تربیت کا اثر مستحکم اور مضبوط ہوگا.

Page 210

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۷ سورة الفاتحة دو یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کے کامل اور سب سے بڑھ کر ہونے کا ایک اور ثبوت ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ گروہ میں وہ استقلال اور رسوخ تھا کہ وہ آپ کے لئے اپنی جان مال تک دینے سے دریغ نہ کرنے والے میدان میں ثابت ہوئے اور مسیح کے نقص کا یہ بدیہی ثبوت ہے کہ جو جماعت تیار کی وہی گرفتار کرانے اور جان سے مروانے اور لعنت کرنے والے ثابت ہوئے.غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیمیت کا اثر تھا کہ صحابہ میں ثبات قدم اور استقلال تھا.پھر ملک یوم الدین کا عملی ظہور صحابہ کی زندگی میں یہ ہوا کہ خدا نے ان میں اور ان کے غیروں میں فرقان رکھ دیا جو معرفت اور خدا کی محبت دنیا میں ان کو دی گئی یہ ان کی دنیا میں جز تھی.اب قصہ کوتاہ کرتا ہوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان صفات اربعہ کی تحلی چمکی.لیکن بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گذر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے چنانچہ فرمایا ہے اخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: ۴) یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے.منہم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہوگا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی.مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا.وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تربیت کے نیچے ہوں گے.اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے.جیسے ان صفات اربعہ کا ظہور اُن صحابہ میں ہوا تھا ویسے ہی ضروری ہے کہ اخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.الحکم نمبر ۳ جلد ۵ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۴) یہ چار صفتیں ہیں جو لفظی باتیں نہیں بلکہ اللہ نے تمام دنیا کا نظارہ دکھلایا ہے کہ دنیا میں کوئی خالقیت سے منکر ہے کوئی رحمانیت سے کوئی رحیمیت سے اور کوئی اس کے ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہونے سے اس قسم کا تفرقہ تمام مذاہب میں ہے مگر اسلام ہی ایسا پاک مذہب ہے جس نے سب صفات کا ملہ کو جمع کر دیا.پس یہ سورۃ جو اھم الکتاب کہلاتی ہے یہ پانچ وقت اسی لئے پڑھی جاتی ہے کہ لوگ سوچیں کہ اسلام نہایت مبارک مذہب ہے اور اس کی یہ تعلیم ہے.اسلام کا خدا نہ تو ایسا ہے کہ کسی کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ حضرت عیسی کو خدا بنایا گیا ہے نہ ایسا کہ وہ پیدا نہیں کر سکتا اور مکتی اس واسطے نہیں دیتا کہ آگے پھر بنائے کیا ؟ کیونکہ چند محدود روحیں ہیں جو آپ سے چلی آتی ہیں.انہیں کو بار بار دنیا میں لاتا ہے.اگر سب کو نجات دے تو پھر آگے کیا

Page 211

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرے گا؟ ۱۸۸ سورة الفاتحة اسلام میں خدا کی ایسی صفات مانی گئی ہیں کہ اگر تمام دنیا مل کر نقص نکالے تو نقص نکال نہ سکے.ہم کہتے ہیں کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں جب اس میں کئی ایک نقص ہیں تو پھر وہ کیونکر سب کی نگہبانی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے.خدا میں تو صفات کا ملہ پائی جانی چاہئیں اگر یہ نہ ہوں تو پھر اس پر کیا امید ہو سکتی ہے کہ کوئی ایسے معبود سے دُعا کیا کرے.ہمارا معبود تو صفات کا ملہ رکھتا ہے.پس اس سے دُعا مانگو ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا دے جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تو نے فضل کیا.الغرض اللہ تعالیٰ اپنی چار صفات بتلا کر تعلیم دیتا ہے کہ یوں دُعا مانگو.ان لوگوں کی راہ دکھا جن پر تیرا انعام و اکرام ہے.نہ کہ جن پر تیرا غضب ہے نہ ضالین کی.یہ قصہ کے طور پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ایسا ہو گا.پس فرمایا کہ جیسے پہلوں پر غضب ہوا اگر تم ایسا کرو گے تو تم پر بھی غضب ہوگا.یعنی تم بھی اگر خدا کی راہ میں مستقیم نہیں رہو گے تو تم پر بھی غضب آئے گا.( بدر نمبر جلدے مؤرخہ ۹ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۷،۶) - خدا تعالیٰ کے ان صفات رب.رحمن رحیم.مالک یوم الدین پر توجہ کی جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسا عجیب خدا ہے پھر جن کا رب ایسا ہو کیا وہ کبھی نامراد اور محروم رہ سکتا ہے؟ رب کے لفظ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دوسرے عالم میں بھی ربوبیت کام کرتی رہے گی.(البدر جلد ۳ نمبر ۴۴ ۴۵ مؤرخه ۲۴ نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعالِ الہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف اسم اللہ ٹھہرایا گیا ہے مثلاً کہا گیا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۶) خدا تعالی کی چار صفتیں ہیں جن سے ربوبیت کی پوری شوکت نظر آتی ہے اور کامل طور پر چہرہ اس ذات ابدی از لی کا دکھائی دیتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان ہر چہار صفتوں کو سورہ فاتحہ میں بیان کر کے اپنی ذات کو معبود قرار دینے کے لئے ان لفظوں سے لوگوں کو اقرار کرنے کی ہدایت دی ہے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَستَعینُ.یعنی اے وہ خدا جوان چار صفتوں سے موصوف ہے ہم خاص تیری ہی پرستش کرتے ہیں کیونکہ تیری ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحمانیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحیمیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری صفت مالکانہ جزا وسزا کی بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیرے اس حسن اور احسان میں بھی کوئی شریک نہیں اس لئے ہم تیری عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں کرتے.اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر اتم قرار دیا ہے اور اسی دو

Page 212

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة الفاتحة لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مرتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندر رکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور در حقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانہ کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اور اصولی طور پر کوئی فعل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں.پس یہ چار صفتیں خدا تعالیٰ کی پوری صورت دکھلاتی ہیں سو در حقیقت استوا علی العرش کے یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کر کے ظہور میں آ گئیں تو خدا تعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلتی ہو گئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے.ایک طرف شاہی ضرورتوں کے لئے طرح طرح کے سامان طیار ہونے کا حکم ہوتا ہے اور وہ فی الفور ہو جاتے ہیں اور وہی حقیقت ربوبیت عامہ ہیں.دوسری طرف خسروانہ فیض سے بغیر کسی عمل کے حاضرین کو جو دو سخاوت سے مالا مال کیا جاتا ہے.تیسری طرف جو لوگ خدمت کر رہے ہیں ان کو مناسب چیزوں سے اپنی خدمات کے انجام کے لئے مدددی جاتی ہے.چوتھی طرف جزا سزا کا دروازہ کھولا جاتا ہے کسی کی گردن ماری جاتی ہے اور کوئی آزاد کیا جاتا ہے.یہ چار صفتیں تخت نشینی کے ہمیشہ لازم حال ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ کا ان ہر چہار صفتوں کو دنیا پر نافذ کرنا گویا تخت پر بیٹھنا ہے جس کا نام عرش ہے.اب رہی یہ بات کہ اس کے کیا معنی ہیں کہ اس تخت کو چار فرشتے اُٹھا رہے ہیں.پس اس کا یہی جواب ہے کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے مؤکل ہیں جو دنیا پر یہ صفات خدا تعالیٰ کی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت چارستارے ہیں جو چار ربُّ النّوع کہلاتے ہیں جن کو وید میں دیوتا کے نام سے پکارا گیا ہے.پس وہ ان چاروں صفتوں کی حقیقت کو دنیا میں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھا رہے ہیں.بت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہر ہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں کو حاصل ہیں.اسی وجہ سے وید میں جابجا ان کی اسنت اور مہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں.پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھا رہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کر رہے ہیں اور عرش سے مراد لوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بیان کر دیا ہے.ہم ابھی

Page 213

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰ سورة الفاتحة لکھ چکے ہیں کہ ربّ کے معنے دیوتا ہے.پس قرآن شریف پہلے اسی سورۃ سے شروع ہوا ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رب العلمین یعنی وہ تمام مہما اور اُستت اُس خدا کی چاہئے جو تمام عالموں کا دیوتا ہے.وہی ہے جو ربُّ العلمین ہے اور رحمن العلمین ہے اور رَحِيمُ العلمین ہے.اور مالك جزاء العالمین ہے.اس کے برابر اور کوئی دیوتا نہیں کیونکہ قرآن شریف کے زمانہ میں دیوتا پرستی بہت شائع تھی اور یونانی ہر ایک دیوتے کا نام ربُّ النوع رکھتے تھے اور ربُّ النّوع کا لفظ آریہ ورت میں دیوتا کے نام سے موسوم تھا اس لئے پہلے خدا کا کلام ان جھوٹے دیوتاؤں کی طرف ہی متوجہ ہوا جیسا کہ اس نے فرمایا.الْحَمْدُ للهِ رَبّ العلمین یعنی وہ جو سب عالموں کا دیوتا ہے نہ صرف ایک یا دو عالم کا اسی کی پرستش اور حمد و ثنا چاہئے.دوسروں کی مہما اور اُستت کرنا غلطی ہے.اس صورت میں جو صفتیں بت پرستوں نے چار دیوتاؤں کے لئے مقرر کر رکھی تھیں.خدا تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ذات میں جمع کر دیا ہے اور صرف اپنی ذات کو ان صفات کا منبع ظاہر فرمایا بت پرست قدیم سے یہ بھی خیال کرتے تھے کہ خدا کی اصولی صفات یعنی جو اصل جڑ تمام صفات کی ہیں وہ صرف چار ہیں.پیدا کرنا پھر مناسب حال سامان عطا کرنا.پھر ترقی کے لئے عمل کرنے والوں کی مدد کرنا پھر آخر میں جزا سزا دینا اور وہ ان چار صفات کو چار دیوتاؤں کی طرف منسوب کرتے تھے.اسی بنا پر نوح کی قوم کے بھی چار ہی دیوتا تھے اور انہیں صفات کے لحاظ سے عرب کے بت پرستوں نے بھی لات.منات و عزمی اور سہل بنارکھے تھے.ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چار دیوتا بالا رادہ دنیا میں اپنے اپنے رنگوں میں پرورش کر رہے ہیں اور ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں خدا تک بھی یہی پہنچاتے ہیں.چنانچہ یہ مطلب آیت لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلفی (الزمر: ۴) سے ظاہر ہے.اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں وید بھی ان چاروں دیوتاؤں کی مہما اور اُستت کی ترغیب دیتا ہے اور وید میں اگر چہ اور دیوتاؤں کا بھی ذکر ہے لیکن اصولی دیوتے جن سے اور سب دیوتے پیدا ہوئے ہیں یا یوں کہو کہ ان کی شاخ ہیں وہ چارہی ہیں کیونکہ کام بھی چار ہی ہیں.پس قرآن شریف کی پہلی غرض یہی تھی کہ وید وغیرہ مذاہب کے دیوتاؤں کو نیست و نابود کرے اور ظاہر کرے کہ یہ لوگوں کی غلطیاں ہیں کہ اور اور چیزوں کو دیوتا یعنی رَبُّ النوع بنا رکھا تھا بلکہ یہ چار صفتیں خاص خدا تعالیٰ کی ہیں اور ان چار صفتوں کے عرش کو خادموں اور نوکروں کی طرح یہ بیجان دیوتے اُٹھا رہے ہیں چنا نچہ کسی نے کہا ہے " حمد را با تو نسبتی است درست بر در هر که رفت بردر تست

Page 214

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩١ سورة الفاتحة پس یہ اعتراض کہ جو آریہ صاحبان ہمیشہ سے کرتے ہیں یہ تو درحقیقت ان کے ویدوں پر اعتراض ہے کیونکہ مسلمان تو اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جو مخدوم ہے مگر آریہ صاحبان ان جھوٹے دیوتاؤں کو خدا سمجھ رہے ہیں جو خادموں اور نوکروں چاکروں کی طرح خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ کا عرش اپنے سر پر اٹھارہے ہیں بلکہ وہ تو چاکروں کے بھی چاکر ہیں کیونکہ ان پر اور طاقتیں بھی مسلط ہیں جو ملائک کے نام سے موسوم ہیں جو ان دیوتاؤں کی طاقتوں کو قائم رکھتے ہیں جن میں سے زبانِ شرع میں کسی کو جبرئیل کہتے ہیں اور کسی کو میکائیل اور کسی کو عزرائیل اور کسی کو اسرافیل اور سناتن دھرم والے اس قسم کے ملائک کے بھی قائل ہیں اور ان کا نام حجم رکھتے ہیں.(نسیم دعوت ،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۵ تا۴۶۰ حاشیه ) آنحضرت سالی یا سیستم صفات الہی کا مظہر ہیں میں نے سورۃ الفاتحہ ( جس کو اُٹھ الکتاب اور مثانی بھی کہتے ہیں اور جو قرآن شریف کی عکسی تصویر اور خلاصہ ہے ) کے صفات اربعہ میں دکھانا چاہا ہے کہ وہ چاروں نمونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ان صفات اربعہ کا نمونہ دکھا یا.گویا وہ صفات دعویٰ تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بطور دلیل کے ہے.چنانچہ ربوبیت کا آپ کے وجود میں کیسا ثبوت دیا کہ مکہ کے جنگلوں کا سرگردان اور دس برس تک حیران پھرنے والا جس کے لئے کوئی راہ کھلی نظر نہ آتی تھی ، اس کی تربیت کا کس کو خیال تھا ؟ کہ اسلام روئے زمین پر پھیل جاوے گا اور اس کے ماننے والے ۹۰ کروڑ تک پہنچیں گے.مگر آج دیکھو کہ دنیا کا کوئی آباد قطعہ ایسا نہیں جہاں مسلمان نہیں.پھر الرّحمٰن کی صفت کو دیکھو جس کا منشاء یہ ہے کہ عمل کے بدوں کامیابی اور ضرورتوں کے سامان بہم پہنچائے.کیسی رحمانیت تھی کہ آپ کے آنے سے پیشتر ہی استعداد میں پیدا کر دیں.عمر رضی اللہ عنہ بچوں کی طرح کھیلتا تھا.ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کافروں کے گھر میں پیدا ہوا تھا.اور ایسا ہی اور بہت سے صحابہ آپ کے ساتھ ہو گئے.گویا ان کو آپ کے لئے رحمانیت الہی نے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا اور اس قدر امور رحمانیت کے اسلام کے ساتھ ہیں کہ ہم ان کو مفصل بیان بھی نہیں کر سکتے.امیت رحمانیت کو چاہتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا (الجمعة: ۳) - رحمانیت کا منشا اس ضرب المثل سے خوب ظاہر ہے : کر دے کرا دے اور اُٹھانے والا ساتھ دے.“

Page 215

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة الفاتحة اور یہ ظہور اسلام کے ساتھ ہوا.اسلام گو یا خدا کی گود میں بچہ ہے.اس کا سارا کام کاج سنوار نے والا اور اس کے سارے لوازم بہم پہنچانے والا خود خدا ہے.کسی مخلوق کا بارا احسان اس کی گردن پر نہیں.اسی طرح رحیم جو محنتوں کو ضائع نہ کرے.اس کے خلاف یہ ہے کہ محنت کرتا رہے اور نا کام رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رحیمیت کا اظہار دیکھو کیسے واضح طور پر ہوا.کوئی ایسی لڑائی نہیں جس میں فتح نہ پائی ہو.تھوڑا کام کر کے بہت اجر پایا ہے.بجلی کے کوندنے کی طرح فتوحات چمکیں.فتوحات الشام، فتوحات المصر ہی دیکھو.صفحہ تاریخ میں کوئی ایسا انسان نہیں جس نے صحیح معنوں میں کامیابی پائی ہو جیسے کامیابیاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں.صحابہ نے دنیا میں کامیابی حاصل کی پھر ملِكِ يَوْمِ الدِّين جزا وسزا کا مالک ، اچھے کام کرنے والوں کو جزا دی جاوے.اگر چہ کامل طور پر یہ آخرت کے لیے ہے اور سب قو میں جزا و سزا کو آخرت ہی پر ڈالتی ہیں ، مگر خدا نے اس کا نمونہ اسلام کے لیے اس دُنیا میں رکھا.ابوبکر رضی اللہ عنہ جو دو پہر کی دھوپ میں گھر بار مال و متاع چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور جس ا نے ساری جائداد کو دیکھ کر کہہ دیا کہ بر باد شد، بر باد باشد.سب سے انقطاع کر کے ساتھ ہی ہولیا تھا.اُس نے یہ مزہ پایا کہ آپ کے بعد سب سے پہلا خلیفہ بلا فصل یہی ہوا.حضرت عمر جو صدق اخلاص سے بھر گئے تھے، اُنھوں نے یہ مزہ پایا کہ اُن کے بعد خلیفہ ثانی ہوئے.غرض اسی طرح پر ہر ایک صحابی نے پوری عزت پائی.قیصر و کسریٰ کے اموال اور شاہزادیاں اُن کے ہاتھ آئیں.لکھا ہے کہ ایک صحابی کسریٰ کے دربار میں گیا.ملا زمان کسری نے سونے چاندی کی کرسیاں بچھوادیں اور اپنی شان و شوکت دکھائی.اُس نے کہا کہ ہم اس مال کے ساتھ فریفتہ نہیں ہوئے.ہم کو تو وعدہ دیا گیا ہے کہ کسریٰ کے کڑے بھی ہمارے ہاتھ آجائیں گے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کڑے ایک صحابی کو پہنا دیے تا کہ وہ پیشگوئی پوری ہو.اسلام کا جادہ اعتدال مذہب اسلام چونکہ اعتدال پر واقع ہوا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تعلیم یہی دی ہے اور مغضوب اور ضاتین سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے.ایک سچا مسلمان نہ مغضوب ہوسکتا ہے نہ ضالین کے زمرہ میں شامل ہوسکتا ہے.مغضوب وہ قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کا غضب بھڑ کا.چونکہ وہ خود غضب کرنے والے تھے،اس لیے خدا کے غضب کو بھینچ لائے اور وہ یہودی ہیں.اور ضال سے مراد عیسائی ہیں.

Page 216

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۳ سورة الفاتحة غضب کی کیفیت قوت سبھی سے پیدا ہوتی ہے اور ضلالت وہمی قوت سے پیدا ہوتی ہے.اور وہمی قوت حد سے زیادہ محبت سے پیدا ہوتی ہے.بیجا محبت والا انسان بہک جاتا ہے حبك الشي يعمى ويصم - اس کا مبدء اور منشاء قوت وہمی ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ چادر کو بیل سمجھتا ہے اور رسی کو سانپ بناتا ہے.یہی وجہ ہے کہ کسی شاعر نے اپنا معشوق ایسا قرار نہیں دیا جو دوسروں سے بڑھ کر نہ ہو.ہر ایک کے واہمہ نے نئی تصویر ایجاد کی.قوت بہیمی میں جوش ہو کر انسان جادہ اعتدال سے نکل جاتا ہے.چنانچہ غضب کی حالت میں درندہ کا جوش بڑھ جاتا ہے.مثلاً کتا پہلے آہستہ آہستہ بھونکتا ہے پھر کوٹھا سر پر اٹھا لیتا ہے.آخر کار درندے طیش میں آ کر نو چتے اور پھاڑ کھاتے ہیں.یہود نے بھی اسی طرح ظلم و تعدی کی بُری عادتیں اختیار کیں اور غضب کو حدّ تک پہنچا دیا.آخر خود مغضوب ہو گئے.قوت وہمی کو جب استیلاء ہوتا ہے تو انسان رسی کو سانپ بنا تا اور درخت کو ہاتھی بتلاتا ہے.اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہوتی.یہ قوت عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے.اسی واسطے عیسائی مذہب اور بت پرستی کا بڑا سہارا عورتیں ہیں.غرض اسلام نے جادہ اعتدال پر رہنے کی تعلیم دی جس کا نام الصراط المستقیم ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مؤرخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۰ ء صفحه ۸،۷) سورۃ فاتحہ میں آریوں اور سنا تنیوں کا رد سورۃ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے.جیسے فرما یا اللہ تعالیٰ نے اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.یعنی ساری خوبیں اس خدا کے لئے سزاوار ہیں جو سارے جہانوں کو پیدا کرنے والا ہے.الر حمن.وہ بغیر اعمال کے پیدا کرنے والا ہے اور بغیر کسی عمل کے عنایت کرنے والا ہے.الرحیم.اعمال کا پھل دینے والا.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ - جزا سزا کے دن کا مالک ان چار صفتوں میں گل دنیا کے فرقوں کا بیان کیا گیا ہے.بعض لوگ اس بات سے منکر ہیں کہ خدا ہی تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ہے.وہ کہتے ہیں کہ جیو یعنی ارواح اور پر مانوں یعنی ذرات خود بخود ہیں اور جیسے پر میشر آپ ہی آپ چلا آتا ہے ویسے ہی وہ بھی آپ ہی آپ چلے آتے ہیں.اور ارواح اور ان کی کل طاقتیں گن اور خواص جن پر دفتروں کے دفتر لکھے گئے خود بخود ہیں اور ذرات عالم اور ان کی تمام قو تیں بھی خود بخود ہیں اور با وجود اس کے کہ ان میں قوت اتصال اور قوت انفصال خود بخود پائی جاتی ہے.وہ آپس میں ملاپ کرنے کے لئے ایک پر میشر کے محتاج ہیں.غرض یہ وہ فرقہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے رب العلمین کہ کر اشارہ کیا ہے.

Page 217

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورة الفاتحة دوسرا فرقہ وہ ہے جس کی طرف الرحمن کے لفظ میں اشارہ ہے.اور یہ فرقہ سناتن دھرم والوں کا ہے.گو وہ مانتے ہیں کہ پر میشر سے ہی سب کچھ نکلا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ خدا کا فضل کوئی چیز نہیں وہ کرموں کا ہی پھل دیتا ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی مرد بنا ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر کوئی عورت بنی ہے تو وہ بھی اپنے اعمال سے اور اگر ضروری اشیاء حیوانات نباتات وغیرہ بنے ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے کرموں کی وجہ سے.الغرض یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان سے منکر ہیں.وہ خدا جس نے زمین سورج چاند ستارے وغیرہ پیدا کئے اور ہوا پیدا کی تاہم سانس لے سکیں اور ایک دوسرے کی آواز سن سکیں اور روشنی کے لئے سورج چاند وغیرہ اشیاء پیدا کیں اور اس وقت پیدا کیں جب کہ ابھی سانس لینے والوں کا وجود اور نام ونشان بھی نہ تھا تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہی اعمال کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے.کیا کوئی اپنے اعمال کا دم مارسکتا ہے.کیا کوئی دعوی کر سکتا ہے کہ یہ سورج چاند ستارے ہوا وغیرہ میرے اپنے عملوں کا پھل ہے غرض خدا کی صفت رحمانیت اس فرقہ کی تردید کرتی ہے جو خدا کو بلا مبادلہ یعنی بغیر ہماری کسی محنت اور کوشش کے بعض اشیاء کے عنایت کرنے والا نہیں جانتے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کی صفت الرحیم کا بیان ہے یعنی محنتوں کوششوں اور اعمال پر ثمرات حسنہ مترتب کرنے والا.یہ صفت اس فرقہ کا رو کرتی ہے جو اعمال کو بالکل لغو خیال کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں نماز کیا تو روزے کیا اگر غفور الرحیم نے اپنا فضل کیا تو بہشت میں جائیں گے نہیں تو جہنم میں.اور کبھی کبھی یہ لوگ اس قسم کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ میاں عبادتاں کر کے ولی تو ہم نے کچھ تھوڑا ہی بنا.کچھ کیتا کیتا نہ کیتا نہ سہی.غرض الرّحیم کہ کر خدا ایسے ہی لوگوں کا رڈ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو محنت کرتا ہے اور خدا کے عشق اور محبت میں محو ہو جاتا ہے.وہ دوسروں سے ممتاز اور خدا کا منظورِ نظر ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی خود دستگیری کرتا ہے....اب تین فرقوں کی بابت تو تم سن چکے ہو.یعنی ایک فرقہ تو وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو رب نہیں سمجھتا اور ذرہ ذرہ کو اس کا شریک ٹھہراتا ہے اور مانتا ہے کہ ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طاقت سے باہر ہے اور جیسے خدا خود بخود ہے ویسے ہی وہ بھی خود بخود ہے.اس لئے رب العالمین کہہ کر اس فرقہ کی تردید کی گئی ہے.دوسرا فرقہ وہ ہے.جو سمجھتا ہے کہ خدا اپنے فضل سے کچھ نہیں دے سکتا.جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے اور ملے گا وہ ہمارے اپنے کرموں کا پھل ہے اور ہو گا.اس لئے لفظ رحمن کے ساتھ اس کارڈ کیا گیا ہے اور اس کے بعد

Page 218

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة الفاتحة آتا ہے.الرحیم کہہ کر اس فرقہ کی تردید کی گئی ہے (جو ) اعمال کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں اب ان تین فرقوں کا بیان کر کے فرمایا یعنی جزا سزا کے دن کا مالک اور اِس سے اُس گروہ کی تردید مطلوب ہے جو کہ جزا سزا کا قائل نہیں.کیونکہ ایسا ایک فرقہ بھی دنیا میں موجود ہے جو جزا سزا کا منکر ہے.جو خدا کو رحیم نہیں مانتے ان کو تو بے پرواہ بھی کہہ سکتے ہیں مگر جو مالک یوم الدین والی صفت کو نہیں مانتے وہ تو خدا کی ہستی سے بھی منکر ہوتے ہیں اور جب خدا کی ہستی ہی نہیں جانتے تو پھر جزا سزا کس طرح ما نہیں.غرض ان چار صفات کو بیان کر کے خدا فرماتا ہے کہ اے مسلما نو تم کہو کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.یعنی اے چار صفتوں والے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور اس کام کے لئے مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں.اور یہ جو حدیث شریف میں آیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو چار فرشتوں نے اُٹھایا ہوا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کی ان چاروں صفات کا ظہور موجود ہے.اور اگر یہ چار نہ ہوں یا چاروں میں سے ایک نہ ہو تو پھر خدا کی خدائی میں نقص لازم الحکم جلد ۱۲ نمبر امورخه ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲/۵) قرآن شریف کی پہلی آیت ہی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جسم اور جسمانی ہونے سے پاک ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمینَ یعنے خدا ہی کو سب تعریف اور حمد اور مدح ہے وہ کیسا ہے! تمام عالموں کا ربّ ہے جس کی ربوبیت ہر یک عالم کے شامل حال ہے.اب ظاہر ہے کہ عالم ان چیزوں کا نام ہے جو معلوم الحدود ہونے کی وجہ سے ایک صانع محد و پر دلالت کریں اور لفظ عالم کا اسی معلوم الحدود ہونے سے مشتق کیا گیا ہے اور جو چیز معلوم الحدود ہے وہ یا تو جسم اور جسمانی ہوگی اور یا روحانی طور پر کسی حد تک اپنی طاقت رکھتی ہوگی.جیسی انسان کی روح.گھوڑے کی روح.گدھے کی روح وغیرہ وغیرہ حدود مقررہ تک طاقتیں رکھتی ہیں.پس یہ سب عالم میں داخل ہیں اور وہ جو ان سب کا پیدا کنندہ اور ان سے برتر ہے وہ خدا ہے.اب غور سے دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں نہ صرف یہ ظاہر کیا کہ وہ جسم اور جسمانی ہونے سے برتر ہے بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ یہ تمام چیزیں معلوم الحدود ہونے کی وجہ سے ایک خالق کو چاہتی ہیں جو حدود اور قیود سے پاک ہے.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ آریوں کی عقل کو کس قدر تعصب نے مارلیا ہے کہ جو مضمون قرآن شریف کی پہلی آیت سے ہی نکلتا ہے اس پر بھی نظر نہیں کی اور علمیت کا یہ حال کہ یہ بھی خبر نہیں کہ عالم کسے کہتے ہیں حالانکہ عالم ایک ایسا لفظ ہے جو ہر یک فلسفی اور حکیم اس کے یہی معنے لیتا ہے اور قرآن شریف کی عام اصطلاح میں اوّل سے اخیر تک یہی معنے اس کے لئے گئے.اور دنیا کی تمام پابند الہامی کتابوں کے بجز یہ لفظ غالباً سہو کا تب سے لکھنارہ گیا ہے.(مرتب)

Page 219

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١٩٦ سورة الفاتحة نرے اندھوں کے یہی معنے لیتے ہیں.سو اس فاش غلطی سے آریوں کی دماغی روشنی کی حقیقت کھل گئی.( شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۷،۳۹۶) سورۃ فاتحہ میں مذاہب باطلہ کا رڈ اللہ تعالیٰ نے الحمد شریف میں اپنی صفات کا ملہ کا بیان کر کے اُن تمام مذاہب باطلہ کا رد کیا ہے.جو عام طور پر دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.یہ سورت جو اھم الکتاب کہلاتی ہے.اسی واسطے پانچوں وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے کہ اس میں مذہب اسلام کی تعلیم موجود ہے اور قرآن مجید کا ایک قسم کا خلاصہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفات بیان کر کے ایک نظارہ دکھانا چاہا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام نہایت ہی مبارک مذہب ہے جو اس خدا کی طرف رہبری کرتا ہے جو نہ تو عیسائیوں کے خدا کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ ایسا ہے کہ آریوں کے پر میشر کی طرح مکتی دینے پر ہی قادر نہ ہو.اور جھوٹے طور پر کہ دیتا ہے کہ عمل محدود ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اس میں نجات دینے کی طاقت ہی نہیں کیونکہ روحیں تو اس کی بنائی ہوئی نہیں.جیسے وہ آپ خود بخود ہے ویسے ہی ارواح بھی خود بخود ہیں.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اور روحیں پیدا کر لے اس لئے یہ سوچ کر کہ اگر ہمیشہ کے لئے کسی روح کو مکتی دی جاوے تو آہستہ آہستہ وہ وقت آ جاوے گا کہ تمام روحیں مکتی یافتہ ہو کر میرے قبضہ سے نکل جائیں گی جس سے میرا تمام بنا بنایا کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا.اس لئے وہ بہانہ کے طور پر ایک گناہ ان کے ذمہ رکھ لیتا ہے اور اس دور کو چلائے جاتا ہے لیکن اسلام کا خدا ایسا قدوس اور قادر خدا ہے کہ اگر تمام دنیا مل کر اس میں کوئی نقص نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتی.ہمارا خدا تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے.وہ ہر ایک نقص اور عیب سے مبرا ہے کیونکہ جس میں کوئی نقص ہو.وہ خدا کیوں کر ہو سکتا ہے اور اس سے ہم دُعائیں کس طرح مانگ سکتے ہیں اور اس پر امیدیں کیا رکھ سکتے ہیں وہ تو خود ناقص ہے نہ کہ کامل.لیکن اسلام نے وہ قادر اور ہر ایک عیب سے پاک خدا پیش کیا ہے جس سے ہم دُعائیں مانگ سکتے ہیں اور بڑی بڑی امید میں پوری کر سکتے ہیں.اسی واسطے اس نے اسی سورہ فاتحہ میں دُعا سکھائی ہے کہ تم لوگ مجھ سے دُعا مانگا کرو.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی یا الہی ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے بڑے بڑے فضل اور انعام ہوئے اور یہ دعا اس واسطے سکھائی کہ تا تم لوگ صرف اس بات پر ہی نہ بیٹھ رہو کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں بلکہ اس طرح سے اعمال بجالاؤ کہ ان انعاموں کو حاصل کرسکو جو خدا کے مقرب بندوں پر ہوا کرتے ہیں.احکام نمبر ۲ جلد ۱۲ مورخه ۶ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲، ۳)

Page 220

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة الفاتحة اگر خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو ہر گز ممکن نہیں کہ اس خدا کی مہر بانیوں اور احسانوں کا شمار کر سکیں.اس کے انعامات ہر دو روحانی اور جسمانی رنگ میں محیط ہیں اور جیسا کہ وہ سورہ فاتحہ میں جو کہ سب سے پہلی سورہ ہے اور تمام قرآن شریف اسی کی شرح اور تفسیر ہے اور وہ پنچ وقت نمازوں میں بار بار پڑھی جاتی ہے اس کا نام ہے رب العالمین یعنی ہر حالت میں اور ہر جگہ پر اسی کی ربوبیت سے انسان زندگی اور ترقی پاتا ہے اور اگر نظر عمیق سے دیکھا جاوے تو حقیقت میں انسانی زندگی کا بقا اور آسودگی اور آرام راحت و چین اسی صفت الہی سے وابستہ ہے اگر اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کا استعمال نہ کرے اور دنیا سے اپنی رحمانیت کا سایہ اُٹھالے تو دنیا تباہ ہو جاوے.اللہ کی ایک صفت ربّ ہے یعنی پرورش کرنے والا اور تربیت کرنے والا کیا روحانی اور کیا جسمانی دونوں قسم کے قومی اللہ تعالیٰ نے ہی انسان میں رکھے ہیں.اگر قومی ہی نہ رکھے ہوتے.تو انسان ترقی ہی کیسے کر سکتا.جسمانی ترقیات کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم اور انعام کے گیت گانے چاہئیں کہ اس نے قومی رکھے اور پھر ان میں ترقی کرنے کی طاقت بھی فطر تا رکھ دی.مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا.ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے.ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے ایک روز نہ پکڑا جاوے گا دو روز نہ پکڑا جائے گا آخر ایک دن پکڑا جائے گا اور زندان میں جائے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا.یہی حال زانی ، شراب خور اور طرح طرح کے فسق و فجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شان ستاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے.آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے.اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے.اس طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرمانبرداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے.تو خدا ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا.اور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور باردار ہو کر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونہ کے طور پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے.غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق فاجر شراب خور اور زانی ہیں ان کو خدا کا اور روزہ جزا کا خیال آنا تو در کنار اس دنیا میں ہی اپنی صحت، تندرستی، عافیت اور اعلیٰ قومی کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں.سل، دق ، سکتہ اور رعشہ اور اور خطرناک امراض ان کے شامل حال ہو کر مرنے سے پہلے ہی مر رہتے اور آخر کار بے وقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں.الحکم نمبر ۴۱ جلد ۱۲ مؤرخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۲) سورۃ فاتحہ میں پہلے اَلحَمدُ لِلهِ کہا گیا ہے پھر بتایا ہے کہ رَبِّ الْعَلَمِینَ ہے الرحمن ہے یعنی بغیر اعمال

Page 221

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۸ سورة الفاتحة کے رحمت کرتا ہے پھر وہ الرّحِیمِ ہے یعنی اس کی رحمت ایسی ہے کہ کوشش پر بھی ثمرات مرتب کرتا ہے.ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے جزا وسزا اس کے ہاتھ میں ہے ان تعریفوں سے لازم آیا کہ بڑا خدا جورب رحمن رحیم ہے وہ حاضر ناظر ہے اس لئے اب دُعا کے وقت یہ کہا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پھر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعامانگے.سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی جن پر تیرے انعام واکرام ہوئے گو یا جو تیری مقبول راہ ہے اور جس پر چل کر تیرے تلطف کا یقین ہے ان لوگوں کی نہیں جن پر کوئی فیض اور فضل مرتب نہیں ہوتا بلکہ مغضوب بنادیتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) احکام الہی کی دوشاخیں عبادت اور احکام الہی کی دو شاخیں ہیں.تعظیم لامر اللہ اور ہمدردی مخلوق.میں سوچتا تھا کہ قرآن شریف میں تو کثرت کے ساتھ اور بڑی وضاحت سے ان مراتب کو بیان کیا گیا ہے مگر سورۃ فاتحہ میں ان دونوں شقوں کو کس طرح بیان کیا گیا ہے.میں سوچتا ہی تھا کہ فی الفور میرے دل میں یہ بات آئی کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے.یعنی ساری صفتیں اور تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جو رب العالمین ہے یعنی ہر عالم میں، نطفہ میں، مضغہ وغیرہ میں سارے عالموں کا رب ہے پھر رحمان ہے پھر رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے.اب اس کے بعد ایاک نعبد جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت یوم الدین کے صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہئے کیونکہ کمال عابد انسان کا یہی ہے کہ تخلقوا بأخلاق اللہ میں رنگین ہو جاوے پس اس صورت میں یہ دونوں امر بڑی وضاحت اور صفائی سے بیان ہوئے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۹ مؤرخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۳) محبت کی محترک دو ہی چیزیں ہیں حسن یا احسان اور خدا تعالیٰ کی احسانی صفات کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں پایا جاتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کيونکہ ظاہر ہے کہ احسان کامل اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو محض نابود سے پیدا کرے اور پھر ہمیشہ اس کی ربوبیت ان کے شاملِ حال ہو اور وہی ہر ایک چیز کا آپ سہارا ہو اور پھر اس کی تمام قسم کی رحمتیں اس کے بندوں کے لئے ظہور میں آئی ہوں اور اس کا احسان بے انتہا ہو.جس کا کوئی شمار نہ کر سکے.سوایسے احسانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار جتلایا ہے.جیسا کہ ایک اور جگہ فرماتا ہے.وَ اِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا (ابراهیم: ۳۵) یعنی اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہر گز گن نہ سکو گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۷، ۴۱۸)

Page 222

۱۹۹ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ DOWNLOAD جس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ جل شانہ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علت العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے.دوسری یہ کہ وہ رحمان بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور ان کے مقاصد کو کمال تک پہنچاتا ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اس کے ہاتھ میں ہے جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے.چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزا دیوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میسر کرے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۶،۱۲۵) اس (اللہ تعالی) کے صفاتی نام جو اصل الاصول تمام صفاتی ناموں کے ہیں چار ہیں اور چاروں مجود اور کرم پر مشتمل ہیں.یعنی وہی نام جو سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیتوں میں مذکور ہیں یعنی رب العالمین اور رحمان اور رحیم اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ یعنی مالک یوم جزا.ان ہر چہار صفات میں خدائے تعالی کی طرف سے انسانوں کے لئے سراسر نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے.یعنی پیدا کرنا پرورش کرنا جس کا نام ربوبیت ہے اور بے استحقاق آرام کے اسباب مہیا کرنا جس کا نام رحمانیت ہے.اور تقویٰ اور خدا ترسی اور ایمان پر انسان کے لئے وہ اسباب مہیا کرنا جو آئندہ دیکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھیں جس کا نام رحیمیت ہے.اور اعمال صالحہ کے بجالانے پر جو عبادت اور صوم اور صلوۃ اور بنی نوع کی ہمدردی اور صدقہ اور ایثار وغیرہ ہے وہ مقام صالح عطا کرنا جو دائمی سرور اور راحت اور خوشحالی کا مقام ہے جس کا نام جزاء خیر از طرف مالک یوم الجزاء ہے.سو خدا نے ان ہر چہار صفات میں سے کسی صفت میں بھی انسان کے لئے بدی کا ارادہ نہیں کیا سراسر خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا ہے لیکن جو شخص اپنی بدکاریوں اور بے اعتدالیوں سے ان صفات کے پر ٹوہ کے نیچے سے اپنے تیں باہر کرے اور فطرت کو بدل ڈالے اس کے حق میں اس کی شامت اعمال کی وجہ سے وہ صفات بجائے خیر کے شر کا حکم پیدا کر لیتے ہیں چنانچہ ربوبیت کا ارادہ فنا اور اعدام کے ارادہ کے ساتھ مبدل ہو جاتا ہے اور رحمانیت کا ارادہ غضب اور شخط کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور رحیمیت کا ارادہ انتظام اور سخت گیری کے رنگ میں جوش مارتا ہے اور جزاء خیر کا ارادہ سزا اور تعذیب کی صورت میں اپنا ہولناک چہرہ دکھاتا ہے.سو یہ تبدیلی خدا کی صفات میں انسان کی اپنی حالت کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.غرض چونکہ سزا دینا یا سزا کا وعدہ کرنا خدائے تعالیٰ کی ان صفات میں داخل نہیں جو اُم الصفات ہیں کیونکہ دراصل اس نے انسان کے لئے نیکی کا ارادہ کیا ہے اس لئے خدا کا وعید بھی جب تک انسان زندہ ہے

Page 223

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۰ سورة الفاتحة اور اپنی تبدیلی کرنے پر قادر ہے فیصلہ ناطقہ نہیں ہے.لہذا اس کے برخلاف کرنا کذب یا عہد شکنی میں داخل نہیں.اور گو بظاہر کوئی وعید شروط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر ارادہ الہی میں شروط ہوتی ہیں بجز ایسے الہام کے جس میں ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شرور نہیں ہیں.پس ایسی صورت میں موقطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پا جاتا.ہے یہ نکتہ معارف الہیہ سے نہایت قابل قدر اور جلیل الشان نکتہ ہے جو سورہ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے.فتد ہو.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۸ تا ه ا حاشیه ) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ غرض یہ پاک تعلیم جو اسلام کی ریگا نہ خصوصیت اور مایہ ناز تعلیم ہے ورے ٹھہرتی ہی نہیں جب تک نمازی کو سچا اور یک رنگ مومن نہ بناوے.اس دارالکدورت میں ہر شخص کو راحت اور طمانیت کی تلاش ہے کسی نے اس تلاش میں کسی چیز سے پنجہ مارا ہے کسی نے کسی شے سے.بڑے بڑے فلاسفروں نے اس پر خامہ فرسائی کی ہے اور وہ باتیں زور طبع سے بتائی ہیں جن پر عمل کرنے سے خوشحالی ہو سکتی ہے مگر عبث اور بے سود.بہتیرے ان راندہ لوگوں میں ایسے ہوئے ہیں جو بڑی تلخ کامی کے ساتھ اس دنیا سے اُٹھے.بعضوں نے خود کشی کا کڑوا پیالہ پیا اور بہتوں کی زندگی کے مختلف لمحے اضطراب اور جزع فزع سے معمور نظر آتے ہیں.حقیقت میں ایک ہی چیز ہے اور صرف ایک ہی چیز ہے جو زندگی کے کجدار و مریز میں پوری استقامت اور سکینت اور طمانیت بخش سکتی ہے وہ ہے خدا تعالیٰ اور اُس کی صفات پر کامل اور لذیذ ایمان.اور اسی ایمان عرفان آمیز کا عملی اظہار ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الحکم جلد ۴ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۰ صفحه ۲) آسمانی پیدائش کا پہلا دن وہ ہوتا ہے جب شیطانی زندگی پر موت وارد ہوتی ہے اور روحانی زندگی کا تولد ہوتا ہے جیسے بچہ کا تولد ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں اسی تولد کی طرف ایما فرمایا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ یہ چاروں صفات اللہ تعالیٰ کی بیان کی گئی ہیں یعنی وہ خدا اللہ جس میں تمام محامد پائے جاتے ہیں کوئی خوبی سوچ اور خیال میں نہیں آ سکتی جو اللہ تعالی میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ انسان کبھی بھی اُن محامد اور خوبیوں کو جو اللہ کریم میں پائی جاتی ہیں کبھی بھی شمار نہیں کر سکتا.جو خدا اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہی کامل اور سچا خدا ہے اور اسی لئے قرآن کو اَلْحَمْدُ لِلہ سے شروع فرمایا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ا مؤرخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۴) میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ سے

Page 224

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورة الفاتحة یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے اندر لے یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ساری صفتیں سزاوار ہیں جو رَبُّ العلمین ہے یعنی ہر عالم میں نطفہ میں مضغہ وغیرہ سارے عالموں میں غرض ہر عالم میں پھر رحمن ہے پھر رحیم ہے اور مُلِكِ يَوْمِ الدين ہے.اب اِيَّاكَ نَعْبُدُ جو کہتا ہے تو گویا اس عبادت میں وہی ربوبیت رحمانیت رحیمیت مالکیت صفات کا پر تو انسان کو اپنے اندر لینا چاہئے کمال عابد انسان کا یہ ہے کہ تَخَلَّفُوا بِأَخْلاقِ اللہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگین ہو جاوے جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جائے نہ تھکے نہ ہارے.اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت الہی کی طرف اسے لئے جاتا ہے.اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُون کی ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مؤرخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۱ صفحه ۴) سورہ فاتحہ میں انسان کے لئے سبق سورہ فاتحہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رب العلمین بیان کی ہے جس میں تمام مخلوقات شامل ہے.اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کا میدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ تمام چرند پرند اور گل مخلوق اس میں آجاوے.پھر دوسری صفت رحمن کی بیان کی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہئے اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے.غرض اس سورہ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بند ہ کو حصہ لینا چاہئے.اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اُس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہئے.اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں.اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئی حق ہے تو اُس کو پورا کرنا چاہئے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مؤرخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱) انجیل کی دُعا اور سورہ فاتحہ کی دُعا کا تقابل انجیل کی دُعا ہے جو انسانوں کو خدا کی رحمت سے نومید کرتی ہے اور اس کی ربوبیت اور افاضہ اور جزا سزا سے عیسائیوں کو بے باک کرتی ہے اور اس کو زمین پر مدد دینے کے قابل نہیں جانتی جب تک اس کی بادشاہت زمین پر نہ آوے لیکن اس کے مقابل پر جو دُعا خدا نے مسلمانوں کو قرآن میں سکھلائی ہے وہ اس

Page 225

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٢ سورة الفاتحة بات کو پیش کرتی ہے کہ زمین پر خدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بے کار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدددینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا ہے وہ دُعا یہ ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ ي - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ـ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.آمین.ترجمہ.وہ خدا ہی ہے جو تمام تعریفوں کا مستحق ہے یعنی اس کی بادشاہت میں کوئی نقص نہیں اور اس کی خوبیوں کے لئے کوئی ایسی حالت منتظرہ باقی نہیں جو آج نہیں مگر کل حاصل ہوگی اور اس کی بادشاہت کے لوازم میں سے کوئی چیز بے کار نہیں تمام عالموں کی پرورش کر رہا ہے بغیر عوض اعمال کے رحمت کرتا ہے اور نیز بعوض اعمال رحمت کرتا ہے جزا سز ا وقت مقرر پر دیتا ہے اُسی کی ہم عبادت کرتے ہیں اور اُسی سے ہم مدد چاہتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ ہمیں تمام نعمتوں کی راہیں دکھلا اور غضب کی راہوں اور ضلالت کی راہوں سے دور رکھ.یہ دُعا جوسورۃ فاتحہ میں ہے انجیل کی دُعا سے بالکل نقیض ہے کیونکہ انجیل میں زمین پر خدا کی موجودہ بادشاہت ہونے سے انکار کیا گیا ہے پس انجیل کے رو سے نہ زمین پر خدا کی ربوبیت کچھ کام کر رہی ہے نہ رحمانیت نہ رحیمیت نه قدرت جزا سزا کیونکہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آئی.مگر سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت موجود ہے اس لئے سورۃ فاتحہ میں تمام لوازم بادشاہت کے بیان کئے گئے ہیں ظاہر ہے کہ بادشاہ میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ لوگوں کی پرورش پر قدرت رکھتا ہو سوسورۃ فاتحہ میں رَبِّ الْعَالَمین کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا گیا ہے.پھر دوسری صفت بادشاہ کی یہ چاہئے کہ جو کچھ اُس کی رعایا کو اپنی آبادی کے لئے ضروری سامان کی حاجت ہے وہ بغیر عوض ان کی خدمات کے خود رحم خسروانہ سے بجالا وے سو الرحمن کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کر دیا ہے.تیسری صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جن کاموں کو اپنی کوشش سے رعایا انجام تک نہ پہنچا سکے ان کے انجام کے لئے مناسب طور پر مدد دے.سو الرّحیم کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا ہے چوتھی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جزا و سزا پر قادر ہوتا سیاست مدنی کے کام میں خلل نہ پڑے سو مالک یوم الدین کے لفظ سے اس صفت کو ظاہر کر دیا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ سورۃ موصوفہ بالا نے تمام وہ لوازم بادشاہت پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت اور بادشاہی تصرفات موجود ہیں چنانچہ اُس کی ربوبیت بھی موجود اور رحمانیت بھی موجود اور رحیمیت بھی موجود اور سلسلہ امداد بھی موجود اور سلسلہ سزا بھی موجود.غرض جو کچھ بادشاہت کے لوازم میں سے ہوتا ہے زمین پر سب کچھ خدا کا موجود ہے اور ایک ذرہ بھی اُس کے حکم سے باہر نہیں ہر ایک جزا اس

Page 226

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٣ سورة الفاتحة کے ہاتھ میں ہے ہر ایک رحمت اُس کے ہاتھ میں ہے مگر انجیل یہ دعا سکھلاتی ہے کہ ابھی خدا کی بادشاہت تم میں نہیں آئی اُس کے آنے کے لئے خدا سے دعا مانگا کرو تا وہ آجائے یعنی ابھی تک ان کا خداز مین کا مالک اور بادشاہ نہیں اس لئے ایسے خدا سے کیا امید ہو سکتی ہے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸ تا ۴۰) ہمارے خدائے عزوجل نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا نام اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ رب العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے خواہ اجسام خواہ ارواح اُن سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے.اور تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲،۴۱) سورۃ فاتحہ کی دعا ہمیں سکھلاتی ہے کہ خدا کو زمین پر ہر وقت وہی اقتدار حاصل ہے جیسا کہ اور عالموں پر اقتدار حاصل ہے اور سورۃ فاتحہ کے سر پر خدا کے اُن کامل اقتداری صفات کا ذکر ہے جو دنیا میں کسی دوسری کتاب نے ایسی صفائی سے ذکر نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رحمان ہے وہ رحیم ہے وہ مَالِكِ يَوْمِ الدّین ہے پھر اس سے دعا مانگنے کی تعلیم کی ہے اور دعا جو مانگی گئی ہے وہ مسیح کی تعلیم کردہ دعا کی طرح صرف ہر روزہ روٹی کی درخواست نہیں بلکہ جو جو انسانی فطرت کو ازل سے استعداد بخشی گئی ہے اور اس کو پیاس لگا دی گئی ہے وہ دعا سکھلائی گئی ہے اور وہ یہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ( فاتحہ : ۷،۶) یعنی اے ان کامل صفتوں کے مالک اور ایسے فیاض کہ ذرہ ذرہ تجھ سے پرورش پاتا ہے اور تیری رحمانیت اور رحیمیت اور قدرت جزا سزا سے تمتع اٹھاتا ہے تو ہمیں گزشتہ راست بازوں کا وارث بنا اور ہر ایک نعمت جو ان کو دی ہے ہمیں بھی دے اور ہمیں بچا کہ ہم نافرمان ہوکر مورد غضب نہ ہو جا ئیں اور ہمیں بچا کہ ہم تیری مدد سے بے نصیب رہ کر گمراہ نہ ہو جاویں.آمین 99171 (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳، ۴۴) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ اس میں اللہ تعالی کی چار صفات جو اُم الصفات ہیں بیان فرمایا ہے.رب العالمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرہ ذرہ کی ربوبیت کر رہا ہے.عالم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو.ارواح، اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسبِ حال اس کی پرورش کرتا ہے جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں روح کی سیری اور تسلی کے لئے معارف اور حقائق

Page 227

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة الفاتحة وہی عطا فرماتا ہے.پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمان ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں.پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لئے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں اور پھر وہ اللہ رحیم ہے.یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے پھر ملِكِ يَوْمِ الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزا کا مالک ہے.اس قدر صفات اللہ کے بیان کے بعد اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دُعا کی تحریک کی ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ روح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دُعا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے اس لئے اس کے بعد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقیم کی ہدایت فرمائی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دُعا کی بہت بڑی ضرورت ہے اسلئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو.الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مؤرخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ ء صفحه ۲، ۳) خدا کی اصلی اخلاقی صفات چارہی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہیں.(۱) رب العالمین.سب کا پالنے والا (۲) رحمان.بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخو د رحمت کرنے والا (۳) رحیم.کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا.(۴) اپنے بندوں کی عدالت اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۴۷) کرنے والا.عرش الہی کی حقیقت اور سورہ فاتحہ کے ذریعہ اس کے مخفی وجود کا ظہور خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اُس کی صفت تنڑہ اُس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اُس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے.جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اُس کو دریافت کر سکے تب اُس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.جودُ نیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اُس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے (۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اُس نے بغیر پاداش اعمال بیشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اوّل تو صفت رحمائیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور

Page 228

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الفاتحة میں لاتا ہے اور اس طرح پر اُن کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۴) چوتھی صفت مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے یہ بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اُس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہوجائیں گے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) اگر کوئی کہے کہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور یہاں ہی دوزخ بہشت ہو گا ہم نہیں مان سکتے.اس کی صفت ملِكِ یوم الدین کے خلاف ہے اور اسکے خلاف جانھیرتا ہے فَرِيق فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِير - (الشورى : ٨) الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مؤرخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے کا فرض جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہو جائے اُس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ میں پنج وقت اپنی نماز میں یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا رب العالمین ہے اور خدارحمن ہے اور خدا رحیم ہے اور خدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے.یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے.ورنہ وہ اس دُعا میں کہ اسی سورۃ میں پنج وقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی اے ان چار صفتوں والے اللہ ! میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تو ہی مجھے پسند آیا ہے سراسر جھوٹا ہے.کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مرتی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کا دعوی کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اس الہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کرلے تا اپنے محبت کے رنگ میں آ جائے.ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعوی ہے کہ میں خدا کے نقش قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خلق بھی اپنے اندر پیدا کرتا ہے.ایسا ہی خدا کی رحیمیت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لئے مدد کرنا.یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدائی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتا ہے.ایسا ہی خدا کا انصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے.یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ

Page 229

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ سورة الفاتحة جیسا کہ وہ خدا کے لئے ان چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لئے بھی یہی پسند کرے لہذا خدا نے سورۃ فاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۹،۵۱۸) ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.چھٹی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے صاحب صفات کا ملہ اور مبدء فیوض اربعہ ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور پرستش وغیرہ ضرورتوں اور حاجتوں میں مدد بھی تجھ سے ہی چاہتے ہیں یعنی خالصاً معبود ہمارا تو ہی ہے اور تیرے تک پہنچنے کے لئے کوئی اور دیوتا ہم اپنا ذریعہ قرار نہیں دیتے نہ کسی انسان کو ، نہ کسی بہت کو ، نہ اپنی عقل اور علم کو کچھ حقیقت سمجھتے ہیں اور اپناذ نہ کو، نہ اورعلا ہر بات میں تیری ذات قادر مطلق سے مدد چاہتے ہیں.یہ صداقت بھی ہمارے مخالفین کی نظر سے چھپی ہوئی ہے چنانچہ ظاہر ہے کہ بت پرست لوگ بجز ذات واحد خدائے تعالیٰ کے اور اور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں اور آریہ سماج والے اپنی روحانی طاقتوں کو غیر مخلوق سمجھ کر ان کے زور سے مکتی حاصل کرنا چاہتے ہیں.برہمو سماج والے الہام کی روشنی سے مونہہ پھیر کر اپنی عقل کو ایک دیوی قرار دے بیٹھے ہیں جو کہ ان کے زعم باطل میں خدا تک پہنچانے میں اختیار کلی رکھتی ہے اور سب الہی اسرار پر محیط اور متصرف ہے سو وہ لوگ بجائے خدا کی پرستش اور استمداد کے اس سے ااِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا خطاب کر رہے ہیں اور شرک خفی میں گرفتار اور مبتلا ہیں اور جب منع کیا جائے تو کہتے ہیں عقل عطیات الہیہ سے ہے اور اسی غرض سے دی گئی ہے کہ تا انسان اپنی معاش اور مہمات میں اس کو استعمال میں لاوے.پس عطیہ الہیہ کا استعمال میں لانا شرک نہیں بن سکتا سو واضح ہو کہ یہ ان کی غلطی ہے اور بار ہا یہ امر معرض بیان میں آلیا ہے کہ جس یقین کامل اور جن معارف حقہ پر ہماری نجات موقوف ہے ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے عقل ذریعہ نہیں بن سکتی.ہاں ان معارف کے حاصل کرنے کے بعد ان کی صداقت اور سچائی کوسمجھ سکتی ہے لیکن وہ انکشاف صحیح اور کامل فقط اس پاک اور صاف روشنی سے ہوتا ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی ذات میں موجود ہے اور عقل کی دود آمیز اور ناقص روشنی جو انسان میں موجود ہے اس جگہ عاجز ہے.سوشرک اس طرح لازم آتا ہے کہ برہمو سماج والے خدا کے اس روشن کلام سے کہ جو انکشاف صحیح اور کامل کا مدار ہے مونہ پھیر کر اور اس سے بکلی بے نیازی ظاہر کر کے اپنی ہی عقل ناقص کو رہبر مطلق ٹھہراتے ہیں اور بنائے کار بناتے ہیں.سو ان کا دل بیمار اس دھوکہ میں پڑا ہوا ہے کہ جس منزل عالی تک الہی قوتیں اور ربانی تجلیات پہنچا سکتے ہیں اس منزل تک ان کی اپنی ہی عقل پہنچا دے گی.

Page 230

سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہوگا کہ اپنی عقل کی طاقت کو ربانی طاقت کے مساوی بلکہ اس سے عمدہ تر خیال کر رہے ہیں.سود یکھئے وہی بات بیچ نکلی یا نہیں کہ وہ بجائے خدا کے عقل سے إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پکار رہے ہیں عیسائیوں کا حال بیان کرنا کچھ ضرورت ہی نہیں.سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرات عیسائی بجائے اس کے کہ خداوند تعالیٰ کی خالص طور پر پرستش کریں مسیح کی پرستش میں مشغول ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے کاروبار میں خدا سے مدد چاہیں مسیح سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور ان کی زبانوں پر ہر وقت رَبُّنَا الْمَسِيحَ : رَبَّنَا الْمَسِیح: جاری ہے.سو وہ لوگ مضمون ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر عمل کرنے سے محروم اور راندہ درگاہ الہی ہیں.(براہین احمد یہ چہار ص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۵ تا۵۳۲ حاشیہ نمبر ۱) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں فاصلہ نہیں ہے.البتہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں تقدم زمانی ہے کیونکہ جس حال میں اپنی رحمانیت سے بغیر ہماری دُعا اور درخواست کے ہمیں انسان بنایا اور انواع و اقسام کی قوتیں اور نعمتیں عطا فرمائیں.اُس وقت ہماری دُعانہ تھی.اس وقت خدا کا فضل تھا.اور یہی تقدم ہے.ވ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۴۹،۱۴۸.نیز دیکھیں الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تیری ہی عبادت کرتے ہیں.اور تجھ سے ہی امداد چاہتے ہیں.ايَّاك نَسْتَعِينُ پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو تقدم اس لئے ہے کہ انسان دُعا کے وقت تمام قوی سے کام لے کر خدائے تعالیٰ کی طرف آتا ہے.یہ ایک بے ادبی اور گستاخی ہے کہ قومی سے کام نہ لے کر اور قانونِ قدرت کے قواعد سے کام نہ لے کر آوے مثلاً کسان اگر تخم ریزی کرنے سے پہلے ہی یہ دُعا کرے کہ الہی اس کھیت کو ہرا بھرا کر! اور پھل پھول لا.تو یہ شوخی اور ٹھٹھا ہے.اسی کو خدا کا امتحان اور آزمائش کہتے ہیں جس سے منع کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خدا کومت آزماؤ.جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے مائندہ مانگنے کے قصہ میں اس امر کو بوضاحت بیان کیا ہے.اس پر غور کرو اور سوچو ! یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دُعا نہیں کرتا بلکہ خدائے تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.اس لئے دُعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے.اور یہی معنی اس دُعا کے ہیں.پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد، اعمال میں نظر کرے.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے.وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دُعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے.وہ نادان سوچیں کہ دُعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جو دوسرے اسباب کو پیدا کر دیتا ہے اور ایاک نعبد کا تقدم اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر جو کلمہ دعائیہ ہے.اس امر کی خاص تشریح کر رہا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۵)

Page 231

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة الفاتحة قَدَّمَ اللهُ عَزَوَجَلَّ قَوْلَهُ ايَّاكَ | اللہ تعالیٰ نے جملہ ايَّاكَ نَعْبُدُ کو جملہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے 66 66 نَعْبُدُ عَلى قَوْلِهِ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" پہلے رکھا ہے اور اس میں (بندہ کے ) توفیق مانگنے سے بھی پہلے إِشَارَةً إِلى تَفَضُلَا تِهِ الرَّحْمَانِيَّةِ مِنْ اس ذات باری ) کی (صفت) رحمانیت کے فیوض کی طرف قَبْلِ الْإِسْتِعَانَةِ فَكَأَنَّ الْعَبْدَ يَشْكُرُ اشارہ ہے گویا کہ بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور کہتا ہے.رَبَّهُ وَيَقُولُ يَا رَبِّ إِنِّي أَشْكُرُكَ عَلى اے میرے پروردگار میں تیری ان نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتا نُعَمَائِكَ الَّتِي أَعْطَيْتَنِي مِن قَبْلِ ہوں جو تو نے میری دُعا، میری درخواست ، میرے عمل، میری دُعَائِ وَمَسْأَلَتِي وَ عَمَلِي وَ جَهْدِی و کوشش اور جو ( تیری ) اس ربوبیت اور رحمانیت سے جو سوال وَ اسْتِعَانَتِي بِالرُّبُوَبِيَّةِ وَ الرَّحْمَانِيَّةِ کرنے والوں کے سوال پر سبقت رکھتی ہے.میری استعانت الَّتِي سَبَقَتْ سُؤْلَ السَّائِلِينَ ثُمَّ سے پیشتر تو نے مجھے عطا کر رکھی ہیں.پھر میں تجھ سے ہی ( ہر قسم أَطْلُبُ مِنْكَ قُوَةً وَ صَلَاحًا وَ فَلَاحًا کی قوت ، راستی، خوشحالی اور کامیابی اور اُن مقاصد کے حاصل و فَوْزًا وَ مَقَاصِدَ الَّتِي لَا تُغطى إِلَّا ہونے کے لئے التجا کرتا ہوں جو درخواست کرنے ، مدد مانگنے اور بعد القلب والاستعانة والدُّعَاءِ دُعا کرنے پر ہی عطا کی جاتی ہیں اور تو بہترین عطا کرنے والا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُعْطِينَ وَ في هذه ہے.اور ان آیات میں ان نعمتوں پر شکر کرنے کی ترغیب ہے الْآيَاتِ حَتَّ عَلى شُكْرِ مَا تُغطى و جو تجھے دی جاتی ہیں اور جن چیزوں کی تجھے تمنا ہو ان کے لئے الدُّعَاءِ بِالصَّبْرِ فِيمَا تَتَمَى وَ فَرطِ صبر کے ساتھ دُعا کرنے اور کامل اور اعلیٰ چیزوں کی طرف شوق اللَّهَج إلى ما هُوَ أَنه وَأَعْلى لِتَكُونَ بڑھانے کی ترغیب ہے ) تا ئم بھی مستقل شکر کرنے والوں اور مِنَ الشَّاكِرِينَ الصَّابِرِين.وفيها صبر کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ.پھر ان (آیات) میں ترغیب حَثُ عَلى نَفْيِ الْحَوْلِ وَ الْقُوَّةِ وَ دی گئی ہے.بندے کے اپنی طرف ہمت اور قوت کی نسبت کی الاستطرَاحِ بَيْنَ يَدَى سُبحانه نفی کرنے کی اور (اس سے ) آس لگا کر اور امید رکھ کر ہمیشہ مُتَرَقِّبًا منتظرًا مديما للسوال و سوال، دُعا، عاجزی اور حمد کرتے ہوئے (اپنے آپ کو اللہ الدُّعَاءِ والتضرع والثَّنَاءِ وَ سبحانہ کے سامنے ڈال دینے کی اور خوف اور امید کے ساتھ الْاِفْتِقَارِ مَعَ الْخَوْفِ وَ الرِّجَاءِ اس شیر خوار بچہ کی مانند جو دایہ کی گود میں ہو ( اپنے آپ کو اللہ كَالطِفْلِ الرَّضِيع في يد الظن و تعالیٰ کا محتاج سمجھنے کی ترغیب ہے ) اور تمام مخلوق سے اور يَدِ ) (

Page 232

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الفاتحة الْمَوْتِ عَنِ الْخَلْقِ وَ عَنْ كُلِّ مَا هُوَ فِي | زمین کی سب چیزوں سے موت ( یعنی پوری لاتعلقی ) کی.اسی الْأَرْضِينَ.وَفِيْهَا حَقٌّ عَلَى اقرار و طرح ان (آیات ) میں اس امر کا اقرار اور اعتراف کرنے کی اعْتِرَافٍ بِأَنَّنَا الضُّعَفَاءِ لَا نَعْبُدُكَ ترغیب دلائی گئی ہے کہ ہم تو بہت کمزور ہیں.تیری دی ہوئی إِلَّا بِكَ وَ لَا نَتَحَسَّسُ مِنْكَ إِلَّا توفیق کے بغیر تیری عبادت نہیں کر سکتے اور تیری مدد کے بغیر ہم يعونك.يك نَعْمَلُ وَ بِك تتحرك و تیری رضا کی راہوں کی تلاش نہیں کر سکتے.ہم تیری مدد سے إِلَيْكَ نَسْعَى كَالقَوَاكِلٍ مُتَعَزِقِيْنَ وَ کام کرتے ہیں اور تیری مدد سے حرکت کرتے ہیں اور ہم تیری كَالْعُشّاقِ مُتَلَظِيْنَ.وَفِيهَا حَةٌ عَلَى طرف جلن کے ساتھ ان عورتوں کی طرح جو اپنے بچوں کی الْخُرُوجِ مِنَ الْاخْتِيَالِ وَ الزَّهْوِ و موت کے غم میں گھل رہی ہوتی ہیں اور ان عاشقوں کی طرح جو الْإِعْتِصَامِ بِقُوَّةِ اللهِ تَعَالی و محبت میں جل رہے ہوتے ہیں تیری طرف دوڑتے ہیں.حَوْلِهِ عِندَ اعْتِيَاصِ الأمورو پھر ان آیات میں کبر اور غرور کو چھوڑنے کی نیز معاملات کے هجُوْمِ الْمُشْكِلاتِ وَالنُّحولِ پیچیدہ ہونے اور مشکلات کے گھیر لینے پر محض اللہ تعالیٰ کی في الْمُنْكَسِرِينَ.كَأَنَّهُ تَعَالَى شَأْنُه (طرف سے ملنے والی ) طاقت اور قوت پر بھروسہ کرنے کی اور يَقُولُ يَا عِبَادِ احْسَبُوا أَنْفُسَكُمْ منکسر المزاج لوگوں میں شامل ہونے کی ترغیب ہے ) گویا ( كَالْمَيَّتِينَ وَبِاللهِ اعْتَضَدُوا كُلّ کہ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو اپنے آپ کو حِينٍ فَلَا يَزْدَهِ الشَّابُ مِنْكُمُ مُردوں کی طرح سمجھو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے قوت حاصل بِقُوَّتِهِ وَلَا يَتَخَضَرُ الشَّيْحُ بِهِرَاوَتِه کرو.پس تم میں سے نہ کوئی جوان اپنی قوت پر اتر ائے اور نہ وَلا يَفْرَحُ الْكَيْسُ بِدَهَائِهِ وَلَا يَفقُ کوئی بوڑھا اپنی لاٹھی پر بھروسہ کرے اور نہ کوئی عظمندا اپنی عقل الْفَقِيهُ بِصِحَّةِ عِلْبِهِ وَجَوْدَةٍ فھیم و پر ناز کرے اور نہ کوئی فقیہ اپنے علم کی صحت اور اپنی سمجھ اور اپنی ذَكَائِهِ وَلَا يَتَكى الْمُلْهَمُ عَلَی الْهَامِهِ دانائی کی عمدگی ہی پر اعتبار کرے اور نہ کوئی ملہم اپنے الہام یا وَ كَشْفِهِ وَخُلُوصِ دُعَائِهِ فَإِنَّ الله اپنے کشف یا اپنی دعاؤں کے خلوص پر تکیہ کرے کیونکہ اللہ جو يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ وَيَطْرُدُ مَن يَشَاءُ وَ چاہتا ہے کرتا ہے جس کو چاہے دھتکار دیتا ہے اور جس کو چاہے يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي الْمَخْصُوصِينَ وَ اپنے خاص بندوں میں داخل کر لیتا ہے.اور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ في جُمْلَةِ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ إِشَارَةٌ إِلى میں نفسِ اتارہ کی شرانگیزی کی شدت کی طرف اشارہ ہے جو 66

Page 233

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة الفاتحة عَظْمَةِ شَرِ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ التي تسعى | نیکیوں کی طرف راغب ہونے سے یوں بھاگتا ہے.جیسے كَالْعَشَارَةِ فَكَأْتَها أَفعى شَرهَا قَدْ طَم ان سدھی اونی سوار کو اپنے اوپر بیٹھنے نہیں دیتی.اور بھاگتی ہے.فَجَعَلَ كُلَّ سَلِيمٍ كَعَظم إِذَا رَقَ و یا وہ ایک اثر دہا کی طرح ہے جس کا نتز بہت بڑھ گیا ہے اور تَرَاهَا تَنفُفُ السَّمَّ أَوْ هِيَ ضِر غام تما اس نے ہر ڈسے ہوئے کو بوسیدہ ہڈی کی طرح بنا دیا ہے اور تو يَنكُلُ إِنْ هَم وَلَا حَوْلَ وَلا قُوَّةً وَلا دیکھ رہا ہے کہ وہ زہر پھونک رہا ہے یا وہ شیر ( کی طرح) ہے كَسْبَ وَلَا لَقَ إِلَّا بِاللهِ الَّذِي هُوَ يَرجُم کہ اگر حملہ کرے تو پیچھے نہیں ہٹتا.کوئی طاقت ، قوت، کمائی، اندوختہ ( کار آمد نہیں سوائے اس خدا تعالی کی مدد کے جو الشَّيَاطِينَ وَهِيَ شیطانوں کو ہلاک کرتا ہے.وَ فِي تَقْدِيمِ تَعْبُدُ عَلى نَسْتَعِينُ اور نَعْبُدُ کو نَسْتَعِین سے پہلے رکھنے میں اور بھی کئی نکات نِكَاتُ أُخْرَى فَتَكْتُبْ لِلَّذِينَ هُمْ ہیں جنہیں ہم ان لوگوں کے لئے یہاں لکھتے ہیں جو سارنگیوں مَشْغُوفُونَ بِآيَاتِ الْمَعَانِي لا برات کی رُوں رُوں پر نہیں بلکہ قرآنی آیات مثانی (سورۃ فاتحہ ) الْمَقَالِي وَيَسْعَوْنَ إِلَيْهَا شَائِقِيْنَ وَھی سے شغف رکھتے ہیں.اور مشتاقوں کی طرح ان کی طرف لپکتے أَنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ يُعَلِّمُ عِبَادَهُ دُعَاء ہیں اور وہ ( نکات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک فِيْهِ سَعَادَهُهُمْ فَيَقُولُ يَا عِبَادِ سَلُونی ایسی دعا سکھاتا ہے جس میں ان کی خوش بختی ہے اور کہتا ہے بِالْإِنْكِسَارِ وَالْعُبُودِيَّةِ وَقُولُوا رَبَّنَا اے میرے بندو! مجھ سے عاجزی اور عبودیت کے ساتھ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلكِن بِالْمُعَانَاةِ وَالتَّكلف سوال کرو اور کہو اے ہمارے رب! ايَّاكَ نَعْبُدُ ( ہم تیری وَ التَّحَثُمِ وَتَفْرِقَةِ الْخَاطِرِ وَ ہی عبادت کرتے ہیں لیکن بڑی ریاضت، تکلیف، تمويهَاتِ الْخَنَّاسِ وَبِالرَّوِيَّةِ النَّاضِبَةِ شرمساری، پریشان خیالی اور شیطانی وسوسہ اندازی اور وَالْأَوْهَامِ النَّاصِبَةِ وَ الخيالات خشک افکار اور تباہ کن اوہام اور تاریک خیالات کے ساتھ ہم الْمُظْلِمَةِ كَمَاءٍ مُكَتَرٍ مِنْ سَيْلٍ أَوْ سیلاب کے گدلے پانی کی مانند ہیں یا رات کو لکڑیاں اکٹھا كَعَاطِب لَيْلٍ وَإِن نَتَّبِعُ إِلَّا ظنا و ما کرنے والے کی طرح ہیں اور ہم صرف گمان کی پیروی کر رہے نَحْنُ مُسْتَيْقِنِينَ ہیں.ہمیں یقین حاصل نہیں.وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ يَعْنِي نَسْتَعِيْنُكَ (اور پھر ) وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہو.یعنی ہم تجھ سے ہی مدد

Page 234

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام L ٢١١ سورة الفاتحة لِلذَّوقِ والشَّوْقِ وَالْحُضُورِ وَالإِيمَانِ مانگتے ہیں ذوق ، شوق حضور قلب، بھر پور ایمان ( ملنے ) کے الْمَوْفُورِ وَ التَّلْبِيَّةِ الرُّوحَانِيَّةِ وَ لئے ، روحانی طور پر ( تیرے احکام پر ) لبیک کہنے (کے لئے) السُّرُورِ وَالتَّوْرِةِ لِتَوْشِيحِ الْقَلْبِ سرور اور نور کے لئے ) اور معارف کے زیورات اور مسرت يحْيِي الْمَعَارِفِ وَحُلّلِ الْحُبُورِ کے لباسوں کے ساتھ دل کو آراستہ کرنے کے لئے ( تجھ سے ہی لِتَكُونَ بِفَضْلِكَ مِن سَباقِين مدد طلب کرتے ہیں تا ہم تیرے فضل کے ساتھ یقین کے فِي عَرَصَاتِ الْيَقِينِ وَإِلَى مُنْتَهی میدانوں میں سبقت لے جانے والے بن جائیں اور اپنے الْمَارِبِ وَاصِلِينَ وَفي بِحارِ الْحَقائق مقاصد کی انتہا کو پہنچ جائیں اور حقائق کے دریاؤں پر وارد ہو مُتَوَرِّدِينَ وَفِي قَوْلِهِ تَعَالَى ايَّاكَ جائیں.پھر اللہ تعالیٰ کے الفاظ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں ایک اور نَعْبُل تنبيه أَخَرُ وَهُوَ أَنَّهُ يُرغَبُ فِيْهِ اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس (آیت ) میں اپنے بندوں کو عِبَادَهُ إِلى أَن يَبْذُلُوا في مُطَاوَعَتِہ اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی جُهْدَ الْمُسْتَطِيعِ وَيَقُومُوا مُلبِينَ فِي ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر كُل حِينٍ تَلْبِيَّةَ الْمُطِبْع فَكَانَ وقت لبیک لبیک کہتے ہوئے (اس کے حضور ) کھڑے رہیں الْعِبَادَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّا لَا تَأْلُوا في گویا کہ یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم الْمُجَاهَدَاتِ وَفِي امْتِقَالِك وَابْتِغَاء مجاہدات کرنے ، تیرے احکام کے بجالانے اور تیری خوشنودی الْمَرَضَاةِ وَلكِن نَسْتَعِينُكَ چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہے لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے وَنَسْتَكْفى بك الاميتان بِالْعُجب و ہیں اور تعجب اوریا میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور الرِّيَاءِ وَ نَسْتَوْهِبْ مِنْك توفيقاً ہم تجھ سے ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری قَائِدًا إِلَى الرُّشْدِ وَالرّضَاءِ وَ إِنَّا خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور ثَابِتُونَ عَلى طَاعَتِكَ وَ عِبَادَتِك تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں.پس تو ہمیں اپنے اطاعت فَاكْتُبْنَا فِي الْمُطَاوِعِيْنَ گزار بندوں میں لکھ لے.وَهُنَا إشَارَةٌ أُخرى وهي أن اور یہاں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بندہ کہتا ہے کہ الْعَبْد يَقُولُ يَا رَبِّ إِنَّا خَضَضْنَاك اے میرے رب ! ہم نے تجھے معبودیت کے ساتھ مخصوص کر رکھا مَعْبُودِيَّتِكَ وَ أَثَرْنَاكَ عَلَى كُل ما ہے اور تیرے سوا جو کچھ بھی ہے اس پر تجھے ترجیح دی ہے پس ہم

Page 235

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة الفاتحة w سوَاكَ فَلا نَعْبُدُ شَيْئًا إِلَّا تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد وَجْهَكَ وَإِنَّا مِنَ الْمُوَحِدِينَ وَ اور یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں.اس آیت میں خدائے عزّ وجلّ اخْتَارَ عَزَّ وَ جَلَّ لَفَظَ الْمُتَعلّم نے متکلم مع الغیر کا صیغہ اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مَعَ الْغَيْرِ إِشَارَةٌ إلى أَنَّ الدُّعَاء اختیار فرمایا ہے کہ یہ دُعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دُعا لجميع الإخْوَانِ لَا لِنَفْس الداعی کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں (اللہ نے) وَ حَثَّ فِيهِ عَلى مُسَالَمَةِ مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اور یہ الْمُسْلِمِينَ وَاتِحَادِهِمْ وَوَدَادِهِمْ کہ دُعا کرنے والا اپنے آپ کو اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی وَ عَلَى أَنْ يَعْنُوَ الدَّاعِى نَفْسَهُ طرح مشقت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے لِنُصْحِ أَخِيهِ كَمَا يَعْنُو لِنُصْحِ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے.اور اس کی (یعنی اپنے بھائی کی ) ذَاتِهِ وَيَهْتَمُّ وَ يَخْلَقُ لِحَاجَاتِه ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین كَمَا يَنتَم وَيَقْلَقُ لِنَفْسِهِ وَلَا ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے.اور وہ اپنے اور يُفَرِّقُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ وَيَكُونُ اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے.اور پورے دل سے اس له بِكُلِ الْقَلْبِ مِنَ النَّائین کا خیر خواہ بن جائے گو یا اللہ تعالی تاکیدی حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے فَكَأَنَّهُ تَعَالَى يُوْمِي وَ يَقُولُ یا اے میرے بندو! بھائیوں اور محبتوں کے (ایک دوسرے کو ) تحائف عِبَادِ تَهادُوا بِالدُّعَاءِ تہادی دینے کی طرح دُعا کا تحفہ دیا کرو اور انہیں شامل کرنے کے لئے ) اپنی الْإِخْوَانِ وَالْمُحِبْينَ.وَ تَنَاتَّقُوا دُعاؤں کا دائرہ وسیع کرو اور اپنی نیتوں میں وسعت پیدا کرو.اپنے دَعَوَاتِكُمْ وَتَبَاقَعُوا بِيَّاتِكُمْ نیک ارادوں میں اپنے بھائیوں کے لئے بھی گنجائش پیدا کرو اور وَكُونُوا فِي الْمَحَبَّةِ كَالْإِخْوَانِ باہم محبت کرنے میں بھائیوں ، باپوں اور بیٹیوں کی طرح بن جاؤ.وَالأباء والبنين.كرامات الصَّادِقِين ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۱۹ تا۱۲۲) ( ترجمه از مرتب) اللہ جل شانہ نے آیہ کریمہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو مقدم رکھا تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ جو کچھ عملی اور علمی طور پر ہم کو پہلے تو فیق دی گئی ہے چاہئے کہ ہم اس کو بجالا و میں اور پھر جو ہمارے علم اور طاقت سے باہر ہو اس میں خدا تعالیٰ سے امداد چاہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۲)

Page 236

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۳ سورة الفاتحة ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اے خدا! تو جو چار صفتوں کا مالک ہے تیری پرستش کرتے ہیں.انسان کو چاہئے کہ اللہ کو چار صفتوں سے متصف مان کر صرف اقرار تک محدود نہ رکھے بلکہ عملی طور سے اس بات کو ثابت کرےکہ وہ واقعی اللہ کو پنارب مانتا ہے.اس کی ربوبیت کو اپنے عملوں سے ثابت کرے.دیکھو جوخدا کو خدا نہ مانے وہ سب کچھ کرے گا.چوری زنا بھی کرے گا جب تک عملی رنگ نہ ہو تو نہ مومن کہلا سکتا ہے نہ وہ فیض پاتا ہے جو اگلے مقربوں اور راستبازوں پر ہوا.ایمان خدا کا ایک فضل ہے جب آتا ہے تو وہ شخص عملی طور پر فاسقانہ کام نہیں کرتا.در اصل زبانی حساب انسان کو نجات نہیں دے سکتا.البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مؤرخه ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۶) تد بیر اور دعا دونوں ( کو) باہم ملا دینا اسلام ہے اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تد بیر کرے جو تد بیر کا حق ہے اور اس قدر دُعا کرے جو دُعا کا حق ہے.اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورہ فاتحہ میں ان دونوں باتوں کو مدنظر رکھ کر فرمایا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ اى اصل تد بیر کو بتاتا ہے اور مقدم اسی کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایت اسباب اور تدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دُعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مد نظر رکھے.مومن جب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معا اس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اُس کا فضل اور کرم نہ ہو.اس لئے وہ معا کہتا ہے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا.الحکم جلد ۸ نمبر ۵ مؤرخه ۱۰ فروری ۱۹۰۴، صفحه ۲) اس سورۃ میں جس کا نام خاتم الکتاب اور اُمّ الکتاب بھی ہے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ انسانی زندگی کا کیا مقصد ہے اور اس کے حصول کی کیا راہ ہے؟ ايَّاكَ نَعْبُدُ گویا انسانی فطرت کا اصل تقاضا اور منشاء ہے اور وہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کے بغیر پورا نہیں ہوتا ہے لیکن إِيَّاكَ نَعْبُدُ کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم کر کے یہ بتایا ہے کہ پہلے ضروری ہے کہ جہاں تک انسان کی اپنی طاقت، ہمت اور سمجھ میں ہو خدا تعالیٰ کی رضامندی کی راہوں کے اختیار کرنے میں سعی اور مجاہدہ کرے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں سے پورا کام لے اور اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ سے اس کی تکمیل اور نتیجہ خیز ہونے کے لئے دُعا الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مورخه ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۴ء صفحه ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵) ايَّاكَ نَعْبُدُ میں اگر چہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ کو اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر تقدم ہے لیکن پھر بھی اگر غور کیا جاوے تو کرے.

Page 237

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة الفاتحة معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے سبقت کی ہوئی ہے ايَّاكَ نَعْبُدُ بھی کسی قوت نے کہلوایا ہے اور وہ قوت جو پوشیدہ ہی پوشیدہ اِتناكَ نَعْبُدُ کا اقرار کراتی ہے کہاں سے آئی کیا خدا تعالیٰ نے ہی وہ عطا نہیں فرمائی ہے؟ بیشک وہ خدا تعالیٰ کا ہی عطیہ ہے جو اس نے محض رحمانیت سے عطا فرمائی ہے.اس کی تحریک اور توفیق سے یہ ايَّاكَ نَعْبُدُ بھی کہتا ہے اس پہلو سے اگر غور کریں تو اس کو تاخر ہے اور دوسرے پہلو سے اس کو تقدم ہے یعنی جب یہ قوت اس کو اس بات کی طرف لاتی ہے تو یہ تاثر ہو گیا اور بصورت اوّل تقدم.اسی طرح ہر سلسلہ نبوت کی فلاسفی کا خلاصہ یا مفہوم ہے.(الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مؤرخہ ۱۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) خداوند کریم نے پہلی سورہ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس جگہ عبادت سے مراد پرستش اور معرفت دونوں ہیں اور دونوں میں بندہ کا عجز ظاہر کیا گیا ہے.دو الحکم جلد ۳ نمبر ۳۳ مؤرخه ۳۰/جون ۱۸۹۹ء صفحه ۳) عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اسی کی عظمت اور اسی کی ربوبیت کا خیال رکھے.اوعیہ ماثورہ اور دوسری دُعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت تو بہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے پکا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے.اور یہی ساری نماز کا خلاصہ ہے اور یہ سارا سورہ فاتحہ میں ہی آجاتا ہے.دیکھو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اپنی کمزوریوں کا اظہار کیا گیا ہے اور امداد کے لئے خدا تعالیٰ سے ہی درخواست کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی مدد اور نصرت طلب کی گئی ہے.اور پھر اس کے بعد نبیوں اور رسولوں کی راہ پر چلنے کی دُعا مانگی گئی ہے اور ان انعامات کو حاصل کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہے جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے اس دنیا پر ظاہر ہوئے ہیں اور جو انہیں کی اتباع اور انہیں کے طریقہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتے ہیں.اور پھر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگی گئی ہے کہ ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے تیرے رسولوں اور نبیوں کا انکار کیا اور شوخی اور شرارت سے کام لیا اور اس جہان میں ہی ان پر غضب نازل ہوا.یا جنہوں نے دنیا کو ہی اپنا اصلی مقصود سمجھ لیا اور راہ راست کو چھوڑ دیا.(الحکم جلد نمبر ۳۸ مؤرخہ ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱) انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پر ستار الہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.

Page 238

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورة الفاتحة دو اول خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اُس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کیسا تھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو؟ اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا.اُس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے.خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اُسی پر توکل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے.....یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے.تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵،۵۴) خدا نے جو انسان کو بنایا اور اُس کے لئے شریعت اور حدود اور قوانین مقرر کئے تو اس سے یہ غرض نہیں کہ انسان کو نجات حاصل ہو بلکہ انسان تو تعبدِ ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے.سواُس کے تدین سے یہی غرض تعبدِ ابدی ہے.ہاں اس غرض کا نتیجہ ضرور یہ نجات ہے جس کا حصول اصل مقصود کے حصول پر موقوف ہے.اور شریعت اور احکام سے یہ غرض بھی نہیں کہ انسان گناہوں سے پاک ہو کیونکہ گناہوں سے پاک ہونا بھی اصل مقصود کا ایک نتیجہ لازمی ہے.سو جب انسان تعبد اور اطاعت کا طریق اختیار کرتا ہے تو بالضرور گناہ سے دور رہ کر پاک ہو جاتا ہے.اور جب گناہ سے پاک ہو جاتا ہے تو گناہ کے پھلوں سے نجات پاتا ہے.سوطریق نجات یہ ہے کہ صدق اور ثبات کے ساتھ اس مبدء انوار کے سامنے کھڑے ہونا جہاں سے نور کی کرنیں اُترتی ہیں اور وہ کھڑا ہونا دوسرے لفظوں میں استقامت کے نام سے موسوم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ (هود: ۱۱۳) اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس مبدء انوار کے سامنے کھڑا ہو گا اس پرنور کی کرنیں پڑیں گی اور نور کے اُترنے سے وہ ظلمت دور ہوگی جس کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے.یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ کوئی ظلمت بغیر نور کے اُترنے کے دور نہیں ہو سکتی خدا تعالیٰ نور کو کروڑہا کوس سے نیچے اُتارتا ہے تا ظلمت

Page 239

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۶ سورة الفاتحة کو دور کرے.نور کے سامنے ظلمت نہیں ٹھہر سکتی.لیکن اگر یہ سوال ہو کہ کس وقت انسان کو کہا جائے گا کہ مبدء انوار کے سامنے کھڑا ہو گیا اس کا جواب یہ ہے کہ صرف اس وقت کہا جاوے گا کہ جب اپنی زندگی کے ا تمام پہلوؤں میں حق کی طرف آجاوے اور سچائی سے پیار کرنے لگے.اور گناہ اس کو پیارا معلوم نہ ہو بلکہ نہایت کراہت کی نظر سے اس کو دیکھے اور اس دشمن سے مخلصی پانے کے لئے خدا سے مدد چاہے.تب خدائے رحمن و رحیم اس کی مدد کرتا ہے اور اپنی طرف سے نور نازل کر کے اس کو اس ظلمت سے نجات بخشتا ہے اور یہ دُعا اسی لئے تعلیم کی گئی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یعنی ہم اس بلا میں تجھ سے اعانت چاہتے ہیں ہمیں اس راہ پر کھڑا کر جہاں تیرے انعام کی کرنیں اُترتی ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مؤرخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۶) استعانت کے متعلق یہ بات یاد رکھنا چاہئے.کہ اصل استمداد کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی پر قرآن کریم نے زور دیا ہے.چنانچہ فرمایا کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پہلے صفات الہی رہ.رحمان.دو رحیم.مالک یوم الدین کا اظہار فرمایا.پھر سکھایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ که یعنی عبادت بھی تیری کرتے ہیں اور استمداد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ اصل حق استمداد کا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے.کسی انسان حیوان - چرند پرند غرضیکہ کسی مخلوق کے لئے نہ آسمان پر نہ زمین پر یہ حق نہیں ہے.مگر ہاں دوسرے درجہ پر خلقی طور سے یہ حق اہل اللہ اور مردان خدا کو دیا گیا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مؤرخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۵) اللہ تعالیٰ کے گناہ سے بچنے کے لئے یہ آیت ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ جو لوگ اپنے ربّ کے آگے انکسار سے دُعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہو جاتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۲۱۷) جسے دعا کی توفیق دی جاوے گی.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بیچ جاوے گا.ظاہری تدا بیر صفائی وغیرہ کی منع نہیں ہیں.بلکہ بر تو کل زانوئے اشتر بہ ہند.پر عمل کرنا چاہیے جیسا کر ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے معلوم ہوتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحه ۶)

Page 240

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ سورة الفاتحة وو اعْلَمُ أَنَّ قَوْلَهُ تَعَالَى إِيَّاكَ نَعْبُدُ و واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کلام إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ 66 إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ السَّعَادَةَ نَسْتَعِينُ اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمام کی تمام كُلِّهَا فِي اقْتِدَاءِ صِفَاتِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - سعادت خدائے رب العالمین کی صفات کی پیروی کرنے وَحَقِيقَةُ الْعِبَادَةِ الْإِنْصِبَاغُ بِصِبْغ میں ہے اور عبادت کی حقیقت معبود کے رنگ میں رنگین الْمَعْبُودِ وَهُوَ عِندَ أَهْلِ الْحَقِي كَمَالُ ہونا ہے.اور راستبازوں کے نزدیک کمال سعادت یہی السّعُودِ فَإِنَّ الْعَبْدَ لَا يَكُونُ عَبْدًا في ہے.چنانچہ خدا شناس بزرگوں کے نزدیک بندہ در حقیقت الْحَقِيقَةِ عِنْدَ ذَوِى الْعِرْفَانِ إِلَّا بَعْدَ أَنْ اسی وقت عبد کہلا سکتا ہے جب اس کی صفات خدائے تَصِيرَ صِفَاتُه أظلال صِفاتِ الرَّحْمن رحمان کی صفات کا پرتو بن جائیں.پس عبودیت کی فَمِنْ أَمَارَاتِ الْعُبُودِيَّةِ أَنْ تَتَوَلَّد نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ انسان میں بھی فِيْهِ رُبُوَبِيَّةٌ كَرُبُوبِيَّةِ حَضْرَةِ الْعِزَّةِ حضرت العزت کے رنگ کی ربوبیت پیدا ہو جائے اور وَكَذَلِكَ الرَّحْمَانِيَةُ وَالرَّحِيمِيَّةُ وَصِفَةُ اس طرح بطور ظليت اس میں رحمانیت، رحیمیت اور الْمَجَازاتِ أَظلالاً لِصِفَاتِ الحضرة مالکیت یوم الدین کی صفات حضرت احدیت پیدا ہو الْأَحَدِيَّةِ.وَهَذَا هُوَ القِرَاطُ الْمُسْتَقِيْمُ جائیں.یہی وہ صراط مستقیم ہے جس کے متعلق ہمیں حکم دیا الَّذِي أُمِرُنَا يتطلبة والشرعَةُ الَّتى گیا ہے کہ ہم اسے طلب کریں اور یہی وہ راستہ ہے جس أُوصِيْنَا لِنَرْقُبَهَا مِنْ كَرِيمٍ ذِی الْفَضْلِ کے متعلق ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ کھلے کھلے فضل والے خدا سے اس (کے ملنے ) کی امید رکھیں.الْمُبِينِ ثُمَّ لَمَّا كَانَ الْمَانِعَ مِنْ تَحْصِيلِ تِلْكَ پھر چونکہ ان درجات کے حصول میں بڑی روک الرجاتِ الرِّيَاءُ الَّذِي يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ ریا کاری ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے اور تکبر ہے جو بدترین وَالْكِبْرُ الَّذِى هُوَ رَأْسُ السَّيِّئَاتِ بدی ہے اور گمراہی ہے جو سعادت کی راہوں سے دور لے وَالضَّلَالُ الَّذِي يُبْعِدُ عَنْ طُرُقِ جاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے (اپنے ) کمزور بندوں پر السَّعَادَاتِ أَشَارَ إلى دَوَاءِ هَذِهِ الْعِلَلِ رحم فرماتے ہوئے جو خطا کاریوں پر آمادہ ہو سکتا ہے اور الْمُهْلِكَاتِ رَحْمَةً مِّنْهُ عَلَى الضُّعَفَاءِ اپنی راہ میں قدم مارنے والوں پر ترس کھا کر ان مہلک الْمُسْتَعِدِينَ لِلْخَطِيَّاتِ وَتَرحما علی بیماریوں کی دواء کی طرف اشارہ فرمایا پس اُس نے حکم

Page 241

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ سورة الفاتحة 66 66 وو ,, ,, ،، 66 السَّالِكِينَ.فَأَمَرَ أَنْ يَقُولَ النَّاسُ إِيَّاكَ | دیا کہ لوگ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہا کریں تا وہ ریا کی بیماری سے نَعْبُدُ لِيَسْتَخْلِصُوا مِنْ مَرَضِ الرِّيَاءِ نجات پائیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنے کا حکم دیا تا وہ کبر وَأَمَرَ أَنْ يَقُولُوا إِيَاكَ نَسْتَعِينُ“ اور غرور سے بچ جائیں پھر اس نے اهْدِنَا کہنے کا حکم دیا تا لِيَسْتَخْلِصُوا مِنْ مَّرَضِ الكبر والخيلاء وہ گمراہیوں اور خواہشات نفسانی سے چھٹکارا پائیں.پس وَأَمَرَ أَنْ يَقُولُوا اهْدِنَا لِيَسْتَخْلِصُوا اس کا قول إِيَّاكَ نَعْبُدُ خلوص اور عبودیت قائمہ کے مِنَ الضَّلالَاتِ وَالْأَهْوَاءِ فَقَوْلُهُ إِيَّاكَ حصول کی ترغیب ہے.اور اس کا کلام إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ نَعْبُدُ حَقٌّ عَلى تَحْصِيلِ الْخُلُوص قوت ، ثابت قدمی، استقامت کے طلب کرنے کی طرف وَالْعُبُودِيَّةِ الثَّامَةِ وَقَوْلُهُ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “ اشارہ کرتا ہے.اور اس کا کلام اهْدِنَا الصِّرَاط اشارہ إشَارَةٌ إلى طَلَبِ الْقُوَّةِ وَالثَّبَاتِ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم اور ہدایت طلب کی وَالْإِسْتِقَامَةِ وَقَوْلُهُ اهْدِنَا الخراط جائے جو وہ از راہ مہربانی بطور اکرام انسان کو عطا کرتا إشَارَةٌ إلى طَلَب عِلْمٍ مِنْ عِنْدِهِ وَهِدَايَةٍ ہے.پس ان آیات کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا راہ سلوک من لَّدُنْهُ لطفا مِنْهُ عَلى وَجْهِ الْكَرَامَةِ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ نجات کا وسیلہ فَحَاصِلُ الآيَاتِ أَنْ أَمْرَ السُّلُوكِ لا يُتَهُمُ بن سکتا ہے جب تک انتہائی اخلاص، انتہائی کوشش اور أَبَدًا وَلَا يَكُونُ وَسِيْلَةٌ لِلتَّجَاةِ إِلَّا بَعْدَ ہدایات کے سمجھنے کی پوری اہلیت حاصل نہ ہو جائے بلکہ كَمَالِ الْإِخْلَاصِ وَ كَمَالِ الْجَهْدِ وَ كَمَالِ جب تک کسی خادم میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ فَهْمِ الْهِدَايَاتِ بَلْ كُلُّ خَادِمٍ لَّا يَكُونُ در حقیقت خدمات کے قابل نہیں ہوتا.مثلاً اگر کوئی خادم صَالِحًا لِلْخِدَمَاتِ إِلَّا بَعْدَ تَحقق هذهِ مخلص بھی ہے اور دیانت، نیک نیتی اور پاک دامنی کی الصِّفَاتِ.مَقَلًا إِن كَانَ خَادِمُ مُخلِصًا و صفات سے متصف بھی ہے لیکن وہ ست بے ہمت اور مَوْصُوْفًا بِأَوْصَافِ الْأَمَانَةِ وَ الْخُلُوص و ( بیکار بیٹھے رہنے والوں میں سے ہے یا ہر وقت لیٹے الْعِفَّةِ وَلكِنْ كَانَ مِنَ الْكُسَالَى وَالْوَانِينَ رہنے اور سوئے رہنے والے غافل شخص کی طرح ہے اور الْقَاعِدِينَ وَ كَالضُّجَعَةِ النُّومَةِ لا من وه خادم جو کوشش ، جدو جہد اور ہمت کرنے والوں میں أَهْلِ الشَّعْرِ وَالْجَهْدِ وَ الْجِلِ وَالْقُوَّةِ فَلا سے نہ ہو تو بلا شبہ وہ اپنے مالک پر ایک بوجھ ہی ہوگا.اور شَكَ أَنَّهُ كَلٌّ عَلى مَوْلَاهُ وَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ اپنے آقا کی ہدایت کی پیروی نہیں کر سکے گا.اور اس کے

Page 242

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة الفاتحة يَتَّبِعَ هُدَاهُ وَيَكُونَ مِنَ الْمُطَاوِعِينَ | فرمانبرداروں میں شمار نہ ہو سکے گا.ایک اور خادم جو نیک وَخَادِمُ أَخَرُ مُخلِصْ أَمِينٌ و مَع ذلك نیت اور دیانت دار بھی ہو اور ساتھ ہی محنتی بھی ہو اور مُجَاهِدٌ وَلَيْسَ بِقَاعِد كالآخرين و لكنه دوسروں کی طرح بیٹھے رہنے والا نہ ہو لیکن بے وقوف ہو اور جَهُولٌ لَّا يَفْهَمُ هِدَايَاتِ مَخدُومِهِ و آقا کی ہدایت کو نہ سمجھ سکتا ہو اور گمراہوں کی طرح بار بار يُخلى ذَاتَ مِرَارٍ كَالضَّالِّينَ فَمن غلطیاں کرتا ہو، اپنی جہالت کی وجہ سے کئی دفعہ ممنوع جَهْلِهِ رُبَّمَا يَجْتَرِهُ عَلَى الْمَسْمُنوعات و کاموں پر جرات کر بیٹھتا ہو، اپنے آپ کو خطرے کے يُوقِعُ نَفْسَهُ فِي الْمُخَاطرات و مقامات اور ممنوع جگہوں میں ڈال دیتا ہو اور انتہائی بے وقوفی الْمَحْظُورَاتِ وَيَبْعُدُ عَنْ مَرْضَاةِ المَولی کی بناء پر آقا کی خوشنودی حاصل نہ کرسکتا ہو اور بسا اوقات مِنْ جَهْلٍ جَاذِبِ مِنَ الْجَهَلَاتِ وَرُبما وہ اپنے مالک کی عمدہ عمدہ چیزوں کو، اس کے موتیوں کو اور يُضِيعُ نَفَأَيْسَ الْمَوْلى وَدُرَرَة وَجَوَاهِرَةُ اس کے جواہرات کو اپنی کمال بے وقوفی ، نادانی اور نا سمجھی کی مِنْ كَمَالِ جَهْلِهِ وَحَمْقِهِ وَسُوءِ فَهْیه و وجہ سے ضائع کر دیتا ہو اور اپنی بدحواسی کی وجہ سے اشیاء کو يَضَعُ الْأَشْيَاء في غَيْرِ حَلْهَا مِن زَيْع ان کی اصل جگہ کے علاوہ کہیں اور جگہ رکھ دیتا ہو تو ایسا خادم وَهْبِهِ فَهَذَا الْخَادِمُ أَيْضًا لَّا يَسْتَطِيعُ بھی آقا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتا.اور اس کی نادانی أَنْ يَسْتَحْصِلَ مَرْضَاتِ الْمَخْدُومِ اسے ہر بار اپنے مالک کی نظروں سے گرا دیتی ہے.پس وہ وَيُسْقِطَه جَهْلُهُ كُلَّ مَرَّةٍ عَنْ أَعْيُنٍ ذلیل و محروم انسان کی طرح روتا رہتا ہے اور اس طرح مَوْلَاهُ فَيَبْكِي كَالْمَوْقُومِ وَ كَذلِك ہمیشہ ایک قابل ملامت ملعون انسان کی مانند زندگی کے دن يَعِيشُ دَائِمًا كَالْمَلْعُوْنِ الْمَلُوْمِ وَلَا پورے کرتا ہے.وہ کبھی قابلِ تعریف لوگوں میں شامل نہیں يَكُونُ مِنَ الْمَمْدُوحِينَ.بَلْ يَدَاهُ الْمَوْلى ہو سکتا.بلکہ اس کا مالک اسے ( ہمیشہ ) منحوس جیسا سمجھتا كَالْمَنْحُوْسِ الَّذِي لَا يَأْتِي بِخَيْرٍ فِي سَيْرٍ ہے.جو اپنی بھاگ دوڑ سے کبھی بھی کسی بھلائی ( کی خبر ) ويُخْرِبُ يُفْعَتَه وَ رِحَالَه وأَمْوَالَهُ في كُل نہیں لاتا.وہ ( خادم ) اس کی زمینوں ، اس کے مکانات اور اس کے اموال کو ہر وقت برباد کرتا رہتا ہے.وَأَمَّا الْخَادِمُ الْمُبَارَكَ وَالْعَبْدُ لیکن مبارک خادم اور متبرک بندہ وہ ہوتا ہے جو اپنے حِينٍ الْمُتَبَرَكَ الَّذِي يُرْضى مَوْلاهُ وَلَا يَتْرُكُ | مالک کو راضی رکھتا ہے اور اس کی ہدایت کے کسی نکتہ کو نظر

Page 243

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ سورة الفاتحة نُكْتَةً مِّنْ هُدَاهُ وَيَسْمَعُ مَرْحَبَاهُ فَهُوَ | انداز نہیں کرتا.مالک کی طرف سے خوش آمدید سنتا ہے تو یہی الَّذِي يَجْمَعُ فِي نَفْسِهِ هَذِهِ الثَّلَاثَ (ایسا شخص ہے جو اپنی ذات میں ان تین ( صفات ) کو کامل سَوِيًّا وَلَا يُؤْذِى مَوْلَاهُ بِفِيَانَةٍ وَحَلٍ طور پر جمع کرتا ہے اور اپنے آقا کو اپنی بددیانتی اور بے انصافی وَلَا يُطخطِعُهُ بِكَسَلِ أَوْ جَهْلِ فَيَصِيرُ سے دکھ نہیں دیتا اور نہ اُسے کا بلی یا نادانی سے برباد کرتا ہے اور عَبْدًا مَّرْضِيًّا.فَهَذِهِ هِيَ الْأَفراط وہ ایک پسندیدہ عبد بن جاتا ہے.پس یہی تین شرائط ہیں ان الثَّلاثَةُ لِلَّذِينَ يَسْلُكُونَ سُبُل تم لوگوں کے لئے جو پورے طالب ہدایت ہو کر اپنے ربّ وو 66 66 مُسْتَرْشِدِينَ وَفِي إِيَّاكَ نَعْبُدُ " ( تک پہنچنے ) کے راستوں پر چلتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں إشَارَةٌ إِلَى الشَّرْطِ الأَوَّلِ وَ إِلَى پہلی شرط کی طرف اشارہ ہے اور دوسری شرط کی طرف اتاك الشَّرْطِ القَالي في "إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ نَسْتَعِيْنُ میں اور تیسری شرط کی طرف اهْدِنَا الصِّرَاط میں وَإِلَى الثَّالِثِ في "اهْدِنَا الصِّرَاط " اشارہ ہے.پس سعادت انہی لوگوں کے لئے ہے جو ان فَطوبى لِلَّذِينَ جَمَعُوا هذهِ الغُلات تینوں (صفات) کو اپنے اندر جمع کر لیں اور کامل ہو کر اپنے وَرَجَعُوا إِلى رَهِمْ كَامِلِينَ وَتَأْذَبُوا مَعَ رب کی طرف لوٹیں.وہ اپنے رب کے ساتھ پورے ادب ريمُ بِكُلِ الْأَدَبِ وَسَلَكُوا بِكُلِ کا لحاظ رکھتے ہیں اور منازل سلوک ہر شرط کے مطابق بغیر شَرِيطَةٍ غَيْرَ قَاصِرِينَ فَأُوليك کسی کوتاہی کے طے کرتے ہیں.پس یہی وہ لوگ ہیں جن الَّذِيْنَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ سے خدا تعالیٰ راضی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہیں.وہ وَدَخَلُوا حَظِيرَةَ الْقُدسِ امِنینَ وَ بارگاہ قدس میں امن کے ساتھ داخل ہو گئے ہیں.پس چونکہ لَمَّا كَانَتْ هَذِهِ الشَّرَائِطُ أَهَمَّ الْأُمُورِ یہ شرائط اس شخص کے لئے اہم امور میں سے تھے جونور کی لِلَّذِي قَصَد سُبُلَ النُّورِ جَعَلَهَا الله راہوں کا قصد کرتا ہے اس لئے حکیم خدا نے ان ( شرائط ) کو الْحَكِيمُ مِنْ أَجْزَاءِ الدُّعَاء ليقدر دعا کے حصے بنا دیا ہے.تا ہر سالک عقلمندوں کی طرح غور و فکر السَّالِك كَالعُقَلَاءِ وَ لِيَسْتَبِينَ کرے اور خیانت کرنے والوں کی راہ بھی پوری طرح واضح سَبِيلُ الْخَائِنِينَ کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۴۶ تا ۱۴۸) ہو جائے.( ترجمہ از مرتب ) اعْلَمُ أَنَّ حَقِيقَةُ الْعِبَادَةِ الَّتِي واضح ہو کہ اس عبادت کی حقیقت جسے اللہ تعالیٰ اپنے

Page 244

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة الفاتحة ( يَقْبَلُهَا الْمَوْلَى بِاِمْتِنَانِه هِيَ التَّذَ تُل | کرم و احسان سے قبول فرماتا ہے وہ درحقیقت چند امور پر التام برُؤيَةِ عَظمَتِهِ وَ عُلُو شَايه مشتمل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی بلند و بالا شَأْنِهِ وَالشَّنَآءُ عَلَيْهِ بِمُشَاهَدَةِ مِدَيهِ وَأَنواع شان کو دیکھ کر مکمل فروتنی اختیار کرنا نیز اس کی مہربانیاں اور إحْسَانِهِ.وَإِيْقَارُه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مَحَبَّةِ قسم قسم کے احسان دیکھ کر اس کی حمد و ثنا کرنا، اس کی ذات حَضْرَتِهِ وَتَصَورٍ مَحَامِد وَجَمَالِهِ و سے محبت رکھتے ہوئے اور اس کی خوبیوں جمال اور ٹور کا لَمَعَانِهِ.وَتَطْهِيرُ الْجَنَانِ مِن وَسَاوِس تصور کرتے ہوئے اسے ہر چیز پر ترجیح دینا اور اس کی جنت الْجَنَّةِ نَظُرًا إِلى جِنانِهِ.وَ مِنْ أَفَضَلِ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو شیطانوں کے وسوسوں الْعِبَادَاتِ أَنْ يَكُونَ الْإِنْسَانُ مُحَافِظا سے پاک کرنا ہے.اور سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي أَوَائِلِ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں ان کے اول وقت أوْقَاتِهَا.وَأَنْ تَجْهَدَ لِلْحُضُورِ وَ التَّوْقِ پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھتا ہو وَالشَّوْقِ وَتَحْصِيْلِ بَرَكَاتِهَا مُوَاظِبا اور حضور قلب ، ذوق ، شوق اور عبادت کی برکات کے حصول عَلى أَدَاءِ مَفْرُوضَاعِهَا وَمَسْنُونَاتِهَا.میں پوری طرح کوشاں رہے کیونکہ نماز ایک ایسی سواری فَإِنَّ الصَّلاةَ مَرْكَبُ يُوصِلُ الْعَبْدَ إلى ہے جو بندہ کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے.اس کے ذریعہ رَبِّ الْعِبَادِ فَيَصِلُ بها إلى مَقَامٍ لَّا (انسان) ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں گھوڑوں کی يَصِلُ إِلَيْهِ عَلَى صَهَوَاتِ الْجيّادِ پیٹھوں پر بیٹھ کر ) نہ پہنچ سکتا.اور نماز کا شکار ( ثمرات) وَصَيْدُهَا لَا يُصَادُ بِالهَامِ.ویڈھا لا تیروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا اس کا راز قلموں سے ظاہر يَظْهَرُ بِالْأَقْلَامِ وَمَنِ الْعَزَمَ هذه نہیں ہو سکتا ہے اور جس شخص نے اس طریق کو لازم پکڑا اس اور الطريقة.فَقَدْ بَلَغَ الْحَقِّ وَ الْحَقِيقَةُ وَ نے حق اور حقیقت کو پالیا اور اس محبوب تک پہنچ گیا جو غیب أَلْقَى الْحِبَّ الَّذِي هُوَ في مُجبِ الْغَيْبِ وَ کے پردوں میں ہے اور شک وشبہ سے نجات حاصل کر لی.نَجَا مِنَ الشَّكِ وَالرَّيْبِ.فَتَرَى أَيَّامه پس تو دیکھے گا کہ اس کے دن روشن ہیں اس کی باتیں موتیوں غُرَرًا وَ كَلَامَهُ دُرّرًا وَ وَجْهَهُ بُنڈا کی مانند ہیں اور اس کا چہرہ چودھویں کا چاند ہے.اس کا وَمَقَامَهُ صَدْرًا وَ مَنْ ذَلَّ لِلهِ في مقام صدر نشینی ہے جو شخص نماز میں اللہ تعالیٰ کے لئے صَلَوَاتِهِ أَذَلَّ اللهُ لَهُ الْمُلُوكَ وَيَجْعَلُ عاجزی سے جھلکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے بادشاہوں کو جھکا -

Page 245

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 66 66 وو ۲۲۲ سورة الفاتحة مَالِكًا هَذَا الْمَعْلُوكَ ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ اللهَ | دیتا ہے اور اس مملوک بندہ کو مالک بنادیتا ہے.نیز سمجھ لیجئے حَمد ذَاتَه أَولا في قَوْلِهِ الحَمدُ للورت کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے الفاظ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الْعَلَمِيْنَ ثُمَّ حَقَّ النّاسَ عَلَی میں اپنی حمد بیان فرمائی.پھر اپنے کلام إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ الْعِبَادَةِ بِقَوْلِهِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں لوگوں کو عبادت کی ترغیب دی.پس نَسْتَعِينُ.فَفِي هَذِهِ إِشَارَةٌ إِلى أَن اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت عبادت الْعَابِدَ فِي الْحَقِيقَةِ.هُوَ الذي يَحْمَدُه گزاروہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حمد اس طور پر کرے جو حد کے حَتَّى الْمَحْمَدَةِ فَحَاصِل هَذَا الدُّعَاءِ کرنے کا حق ہے.پس اس دُعا اور درخواست کا ماحصل یہ وَالْمَسْأَلَةِ أَنْ تَجْعَلَ اللهُ أَحْمَدَ كُلّ مَنْ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنا دیتا ہے جو(اس تَصَلَّى لِلْعِبَادَةِ.وَعَلى هَذَا كَانَ مِن کی عبادت میں لگا ر ہے اس بنا پر ضروری تھا کہ اس اُمت الْوَاجِبَاتِ أَنْ يَكُونَ أَحْمَدُ في اخر هذہ کے آخر میں بھی کوئی احمد ظاہر ہو اس پہلے احمد کے نقش قدم پر الْأُمَّةِ عَلى قَدّمِ أَحْمَدَ الأَولِ الَّذينى جو سرور کائنات ( حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تا معلوم هُوَ سَيْدُ الكَاتِنَاتِ لِيُفْهَمَ اُن ہو جائے کہ دُعاؤں کو قبول فرمانے والی بارگاہ سے اس دُعا الدُّعَاءَ اسْتَجِيْبَ مِنْ حَضْرَةِ فاتحہ کو قبولیت کا شرف حاصل ہے اور تا کہ اس (احمد) کا مُسْتَجِيْبِ الدَّعَوَاتِ.وَلِيَكُونَ ظُهُورُهُ ظہور قبولیت دعا کے لئے بطور نشانات کے ہو.یہی وہ مسیح لِلْإِسْتِجَابَةِ كَالْعَلَامَاتِ فَهَذَا هُوَ ہے جس کا آخری زمانہ میں ظہور کا وعدہ سورۃ فاتحہ میں بھی الْمَسِيحُ الَّذِي كَانَ وَعْدُ ظُهُورِها في اخر اور قرآن کریم میں بھی لکھا ہوا ہے.پھر اس آیت میں یہ الزَّمَانِ مَكْتُوبًا فِي الْفَاتِحَةِ وَفِي الْقُرْآنِ.اشارہ بھی ہے کہ کسی بندہ کے لئے ممکن نہیں کہ اس وحدہ ثُمَّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ إشَارَةٌ إِلى أَنَّ الْعَبْدَلًا لاشریک کی بارگاہ سے توفیق پانے کے بغیر عبادت کا حق ادا يُمْكِنُهُ الْإِنْيَانُ بِالْعُبُودِيَّةِ إِلَّا بِتَوْفِيقِ کرے اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص مِنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ وَ مِنْ فُرُوعِ سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح الْعِبَادَةِ أَنْ تُحِبَّ مَنْ يُعَادِيكَ كَمَا اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم تُحِبُّ نَفْسَكَ وَ بَنِيكَ وَأَنْ تَكُونَ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی مُقِيلًا لِلْعَثَرَاتِ مُتَجَاوِزًا عَنِ خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک اور.

Page 246

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ سورة الفاتحة الْهَفَوَاتِ وَ تَعِيْشَ تَقِيًّا نَقِيًّا سَلِيم نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی القَلبِ طيب الذَّاتِ وَوَفِيًّا صَفِيًّا ملاها گزارو.اور تم بُری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا عَنْ ذَمَائِمِ الْعَادَاتِ وَأَنْ تَكُونَ وُجُودًا زندگی بسر کرو.اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلا تکلف و تصنع نافِعًا لِخَلْقِ اللهِ بِخَاطِيَّةِ الْفِطْرَةِ بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ.اور یہ کہ تم تبَعْضِ التَّبَاتَاتِ مِنْ غَيْرِ التَّكَلُفَاتِ اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو.اور نہ وَالتَّصَتُعَاتِ وَأَن لَّا تُؤْذِى أَخَيَّك بكير کسی بات سے اس (کے دل) کو زخمی کرو.بلکہ تم پر مِنْكَ وَلَا تَجْرَحَهُ بِكَلِمَةٍ مِّنَ الْكَلِمَاتِ بَل واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے عَلَيْكَ أَن تُجيب الْآخَ الْمُغْضَبَ بِتَوَاضُع جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو وَلَا تُحَقِّرَهُ فِي الْمُخَاطَبَاتِ وَتَمُوتَ قَبْلَ اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار أَن تَمُوْتَ وَتَحْسِبَ نَفْسَكَ مِنَ الْأَمْوَاتِ کرلو اور جو کوئی ( ملنے کے لئے ) تمہارے پاس آئے وَتُعَظمَ كُلَّ مَنْ جَاءَكَ وَلَوْ جَاءَكَ في اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ الأحمار لا في الْخَللِ وَالْكِسَوَاتِ وَتُسَلَّمَ نے جوڑوں اور عمد و لباس میں.اور تم ہر شخص کو السلام علیکم عَلى مَنْ تَعْرِفُهُ وَ عَلى مَنْ لَّا تَعْرِفُهُ وَ کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو.اور (لوگوں کی غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو.تَقُومُ مُتَصَدِيَّا لِلْمُوَاسَاتِ.اعجاز اسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۶۵ تا ۱۶۹) دو (ترجمه از مرتب) فرماتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی یہ دعا کرو کہ ہم تیری پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ان تمام ہاتوں میں مدد چاہتے ہیں سو یہ تمام اشارے نیستی اور تذلیل کی طرف ہیں.تا انسان اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۱۲) ہر یک کام دینی ہو یا دنیوی اُس میں استمداد سے پہلے اپنی خدا داد طاقت اور ہمت کا خرچ کرنا ضروری ہے اور پھر اس فعل کی تکمیل کے لئے مددطلب کرنا.خدا نے ہم کو ہماری ہر روزہ عبادت میں بھی یہی تعلیم دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہیں نہ یہ کہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَ إِيَّاكَ نَعْبُدُ (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۳۸،۱۳۷) انسان کا ظہور ایک خالق کو چاہتا تھا اور ایک قیوم کو، تا خالق اس کو پیدا کرے اور قیوم اس کو بگڑنے سے محفوظ رکھے.سودہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا

Page 247

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة الفاتحة کام ہمیشہ کے لئے ہے.اسی لئے دائگی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے.پس استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے کرتے رہنے کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی دو اس آیت میں ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں.عصمت انبیاء علیہم السلام.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۷۲ ) دیکھو اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے.اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دور ہو جاتا.اس لئے ساتھ ہی اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تعلیم دیدی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا.اور پھر ایاكَ أَعْبُدُ یا ايَّاكَ أَسْتَعِينُ نہیں کہا اس لئے کہ اس میں نفس کے تقدم کی بو آتی تھی.اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے.تقومی والا کل انسانوں کو لیتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مؤرخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۴) جو شخص دُعا اور کوشش سے مانگتا ہے وہ متقی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یا د رکھو کہ جو شخص پوری فہم اور عقل اور زور سے تلاش نہیں کرتا وہ خدا کے نزدیک ڈھونڈنے والا نہیں قرار پاتا اور اس طرح سے امتحان کرنے والا ہمیشہ محروم رہتا ہے لیکن اگر وہ کوششوں کے ساتھ دُعا بھی کرتا ہے اور پھر اُسے کوئی لغزش ہوتی ہے تو خدا اُسے بچاتا ہے اور جو آسانی تن کے ساتھ دروازہ پر آتا ہے اور امتحان لیتا ہے تو خدا کو اس کی پرواہ نہیں ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۴) دو اس سے بڑھ کر کوئی نعمت انسان کے لئے نہیں ہے کہ اُسے گناہ سے نفرت ہو اور خدا تعالیٰ خود اُسے معاصی سے بچا لیوے مگر یہ بات نری تدبیر یا نری دُعا سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ دونوں سے مل کر حاصل ہوگی جیسے کہ خدا تعالیٰ نے تعلیم دی ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ قوی خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کئے ہیں اُن سے پورا کام لے کر پھر وہ انجام کو خدا کے سپر د کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ جہاں تک تو نے مجھے توفیق عطا کی تھی اس حد تک تو میں نے اس سے کام لے لیا یہ ايَّاكَ نَعْبُدُ دو وو کے معنے ہیں اور پھر ايَّاكَ نَسْتَعِينُ کہ کر خدا سے امداد چاہتا ہے کہ باقی مرحلوں کے لئے میں تجھ سے استمداد طلب کرتا ہوں.وہ بہت نادان ہے جو کہ خدا کے عطا کئے ہوئے قومی سے تو کام نہیں لیتا اور صرف دعا

Page 248

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورة الفاتحة دو سے مدد چاہتا ہے ایسا ما شخص کامیابی کا منہ کس طرح دیکھے گا.(البدرجلد ۳ نمبر ۹ مؤرخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) مومن.....تد بیر اور دعا دونوں سے کام لیتا ہے.پوری تدبیر کرتا ہے اور پھر معاملہ خدا پر چھوڑ کر دُعا کرتا ہے اور یہی تعلیم قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ میں دی گئی ہے چنانچہ فرمایا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَستَعینُ جو شخص اپنے قومی سے کام نہیں لیتا ہے وہ نہ صرف اپنے قومی کو ضائع کرتا اور ان کی بے حرمتی کرتا ہے بلکہ وہ گناہ کرتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر۷ مؤرخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیوں کے ساتھ ہیں وہ ایسے متقیوں کا ذکر ہے جنہوں نے تقوی کو وہاں تک نبھا یا جہاں تک اُن کی طاقت تھی.بشریت کے قومی نے جہاں تک اُن کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتی کہ اُن کی طاقتیں ہار گئیں اور پھر خدا سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ اياك نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے ظاہر ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی آگے چلنے کے لئے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخہ ۱۰ر جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۱۰) انسان میں نیکی کا خیال ضرور ہے.پس اس خیال کے واسطے اس کو امداد الہی کی بہت ضرورت ہے.اسی لئے پنج وقتہ نماز میں سورہ فاتحہ کے پڑھنے کا حکم دیا.اُس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ فرمایا.اور پھر إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی عبادت بھی تیری ہی کرتے ہیں اور مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی ہر نیک کام میں قومی ، تدابیر، جد و جہد سے کام لیں یہ اشارہ ہے تعبد کی طرف.کیونکہ جو شخص نری دُعا کرتا ہے اور جدو جہد نہیں کرتا وہ بہر یاب نہیں ہوتا جیسے کسان بیج بو کر اگر جد و جہد نہ کرے تو پھل کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے؟ اور یہ سنت اللہ ہے اگر بیج بو کر صرف دُعا کرتے ہیں تو ضرور محروم رہیں گے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مؤرخہ ۱۰ تا۱۷ارنومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۶) جولوگ اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھے رہنے کا نام خدا پر بھروسہ ہے اسباب سے کام لینا اور خدا تعالیٰ کے پہ عطا کردہ قومی کو کام میں لگانا یہ بھی خدا تعالیٰ کی قدر ہے جو لوگ ان قومی سے کام نہیں لیتے اور منہ سے کہتے ہیں کہ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں وہ بھی جھوٹے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی قدر نہیں کرتے خدا تعالیٰ کو آزماتے ہیں.اور اس کی عطا کی ہوئی قوتوں اور طاقتوں کو لغو قرار دیتے ہیں اور اس طرح پر اس کے حضور شوخی اور گستاخی

Page 249

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة الفاتحة کرتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے مفہوم سے دور جا پڑتے ہیں.اس پر عمل نہیں کرتے اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا ظہور چاہتے ہیں.یہ مناسب نہیں جہاں تک ممکن اور طاقت ہو رعایت اسباب کرے لیکن ان اسباب کو اپنا معبود اور مشکل کشا قرار نہ دے بلکہ کام لے کر پھر تفویض الی اللہ کرے اور اس بات پر سجدات شکر بجالائے کہ اسی خدا نے وہ قومی اور طاقتیں اس کو عطا فرمائی ہیں.( الحکم جلد 4 نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ ۱۷ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے یہی معنے ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اُن ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تو نے عطا کئے ہیں.دیکھو ! یہ زبان جو عروق اور اعصاب سے خلق کی ہے اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے.ایسی زبان دُعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے اگر ہم دُعا کا کام زبان سے بھی نہ لیں تو یہ ہماری شور بختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو یک دفعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہاں تک کہ انسان گونگا ہو جاتا ہے پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے.ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آجاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے.ایسا ہی قلب کا حال ہے وہ جو خشوع و خضوع کی حالت رکھی ہے.اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہیں.اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بریکار ہو جاتی ہیں.مجنونوں کو دیکھو کہ اُن کے قومی کیسے بیکار ہو جاتے ہیں تو پس کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خداداد نعمتوں کی قدر کریں؟ اگر ان قومی کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کئے ہیں بریکار چھوڑ دیں تو لاریب ہم کا فرنعمت ہیں.پس یا درکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دُعا کرتے ہیں تو یہ دُعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ ہی سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لئے مفید اور کارآمد بنا سکیں گے؟ پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ یہ بتلا رہا ہے کہ اے رب العالمین ! تیرے پہلے عطیہ کو بھی ہم نے بیکار اور برباد نہیں کیا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ انسان خدائے تعالیٰ سے سچی بصیرت مانگے کیونکہ اگر اس کا فضل اور کرم دستگیری نہ کرے تو عاجز انسان ایسی تاریکی اور اندھکر میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ دُعا ہی نہیں کر سکتا.پس جب تک انسان خدا کے اُس فضل کو جو رحمانیت کے فیضان سے اُسے پہنچا ہے کام میں لا کر دُعانہ مانگے کوئی نتیجہ بہتر نہیں نکال سکتا.میں نے عرصہ ہوا انگریزی قانون میں یہ دیکھا تھا کہ تقاوی کے لئے پہلے کچھ سامان دکھانا ضروری ہوتا ہے.اسی طرح سے قانونِ قدرت کی طرف دیکھو کہ جو کچھ ہم کو پہلے ملا ہے اُس سے کیا بنایا ؟ اگر عقل و ہوش آنکھ کان رکھتے ہوئے نہیں بہکے ہو اور حمق اور دیوانگی کی طرف نہیں گئے تو دُعا کرو.اور بھی فیض الہی ملے گا ور نہ محرومی اور بدقسمتی کے لچھن ہیں.

Page 250

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورة الفاتحة بسا اوقات ہمارے دوستوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا.وہ دیکھیں گے کہ کوئی بھی بات نادانوں میں ایسی نہیں جو حکیم خدا کی طرف منسوب ہو سکے.حکمت کے معنے کیا ہیں؟ وَضْعُ الشَّيْءٍ فِي مَحَلَّه.مگر ان میں دیکھو گے کہ کوئی فعل اور حکم بھی اس کا مصداق نظر نہیں آتا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر جب ہم پر غور نظر کرتے ہیں تو اشارۃ النص کے طور پر پتہ لگتا ہے کہ بظاہر تو اس سے دُعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ صراط المستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے.لیکن اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اُس کے سر پر بتلا رہا ہے کہ اُس سے فائدہ اُٹھاویں.یعنی راہ راست کے منازل کے لئے قوائے سلیم سے کام لے کر استعانت الہی کو مانگنا چاہئے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ ء صفحه ۱۵۱،۱۵۰) جب انسان ايَّاكَ نَعْبُدُ کہہ کر صدق اور وفاداری کے ساتھ قدم اُٹھاتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک بڑی نہر صدق کی کھول دیتا ہے جو اس کے قلب پر آ کر گرتی ہے اور اسے صدق سے بھر دیتی ہے وہ اپنی طرف سے بضاعة مزجاة لاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی گراں قدر جنس اس کو عطا کرتا ہے.اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مقام میں انسان یہاں تک قدم مارے کہ وہ صدق اس کے لئے ایک خارق عادت نشان ہو.اس پر اس قدر معارف اور حقائق کا دریا کھلتا ہے اور ایسی قوت دی جاتی ہے کہ ہر شخص کی طاقت نہیں ہے کہ اس کا مقابلہ کرے.الخام جلد 4 نمبر ۷ مؤرخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق إِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کر دیتا ہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جو جھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتا ہے اور عہد کر لیتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا نہ جھوٹی گواہی دوں گا.اور جذ بہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹی کلام نہ کروں گا.نہ لغو طور پر نہ کسب خیر کے لئے نہ دفع شر کے لئے یعنی کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا.جب اس حد تک وعدہ کرتا ہے تو گویا ايَّاكَ نَعْبُدُ پر وہ ایک خاص عمل کرتا ہے اور وہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ سے آگے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے.خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض اور صدق اور راستی کا چشمہ ہے اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا.احکم جلد ۹ نمبر ۱۳ مؤرخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں الْحَيُّ اور الْقَيُّوم - الْحَقُّ کے معنے ہیں خود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا.القیوم خود قائم اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث.ہر ایک چیز

Page 251

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ سورة الفاتحة کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے پس حتی کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ ہے اور الْقَيُّوم چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا دو جاوے اس کو اِيَّاكَ نَسْتَعِین کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے.(الحکم جلد 4 نمبر ۱۰ مؤرخہ ۱۷/ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵) دو ايَّاكَ نَعْبُدُ سے صاف پایا جاتا ہے کہ کچھ نہیں چاہتے تیری عبادت کرتے ہیں اور ايَّاكَ نَسْتَعِينُ سے دُعا کرتے ہیں گویا اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں ادعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ٦١) اور لَنَبْلُوَنَّكُمُ ވ ވ (البقرة: ۱۵۶) کو ملایا ہے نَعبُدُ تو یہی ہے کہ بھلائی برائی کا خیال نہ رہے سلب اُمید وامانی ہو.اور اتیاك ملا اِيَّاكَ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مؤرخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۴) نستعین میں دُعا کی تعلیم ہے.ވ ايَّاكَ نَعْبُدُ میں جہاں الرب الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین کے حسن و احسان کی طرف سے تحریک ہوتی ہے وہاں انسان کی عاجزی اور بے کسی بھی ساتھ ہی محرک ہوتی ہے اور وہ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہہ اٹھتا ہے.دو الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۳) إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں تقویٰ ہی کی تعلیم ہے اس سے بڑھ کر کون متقی ہوسکتا ہے جو عبادت کر کے پھر استعانت چاہتا ہے.الخام جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں لذت نہیں آتی مگر میں بتلاتا ہوں کہ بار بار پڑھے اور کثرت کے ساتھ پڑھے تقویٰ کے ابتدائی درجہ میں قبض شروع ہو جاتی ہے اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ خدا کے پاس ایاک نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ كا تکرار کیا جائے.شیطان کشفی حالت میں چور یا قزاق دکھایا جاتا ہے اس کا استغاثہ جناب الہی میں کرے کہ یہ قزاق لگا ہوا ہے.تیرے ہی دامن کو پنجہ مارتے ہیں جو اس استغاثہ میں لگ جاتے ہیں اور تھکتے ہی نہیں وہ ایک قوت اور طاقت پاتے ہیں جس سے شیطان ہلاک ہو جاتا ہے.مگر اس قوت کے حصول اور استغاثہ کے پیش کرنے کے واسطے ایک صدق اور سوز کی ضرورت ہے.اور یہ چور کے تصور سے پیدا ہو گا جو ساتھ لگا ہوا ہے وہ گو یا ننگا کرنا چاہتا ہے اور آدم والا ابتلاء لا نا چاہتا ہے.اس تصور سے روح چلا کر بول اُٹھے گی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - الحكم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرحمہ کے ار فروری ۱۹۰۱ صفحه ۲) ۱۷ نمازوں میں اِنيَاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا تکرار بہت کرو.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ خدا کے فضل اور گم شدہ متاع کو واپس لاتا ہے.اقام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۲) فقره إياكَ نَعْبُدُ تمام باطل معبودوں کی تردید کرتا ہے اور مشرکین کا رڈ اس میں موجود ہے.کیونکہ پہلے دو اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کو بیان فرمایا ہے اُس سے مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی صفات کا ملہ

Page 252

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۹ سورة الفاتحة والے خدا جورب العالمین رحمن رحیم مالک یوم الدین ہے تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں.یہ ہر چہارصفات جوائم الصفات کہلاتی ہیں معبودانِ باطلہ میں کہاں پائی جاتی ہیں جو لوگ پتھروں یا درختوں یا حیوانات اور اور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ان میں ان صفات کو ثابت نہیں کر سکتے.اور اسی طرح اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں ان لوگوں کا رڈ ہے جو دُعا اور اُس کی قبولیت کے منکر ہیں.(الحکم جلدے نمبر ۱۹ مؤرخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲،۱) انسان کو چاہئے کہ ہر وقت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دُعا پر کار بند ر ہے اور اُسی سے توفیق طلب کرے.ایسا کرنے سے انسان خدا کی تجلیات کا مظہر بھی بن سکتا ہے.چاند جب آفتاب کے مقابل میں ہوتا ہے تو اُسے نور ملتا ہے مگر جوں جوں اُس سے کنارہ کشی کرتا ہے توں توں اندھیرا ہوتا جاتا ہے.یہی حال ہے انسان کا جب تک اُس کے دروازہ پر گرار ہے اور اپنے آپ کو اُس کا محتاج خیال کرتا رہے تب تک اللہ تعالیٰ اُسے اُٹھا تا اور نوازتا ہے ورنہ جب وہ اپنی قوت بازو پر بھروسا کرتا ہے تو وہ ذلیل کیا جاتا ہے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ (التوبة : ۱۱۹) بھی اسی واسطے فرمایا گیا ہے.(الحکم جلدے نمبر ۹ مؤرخہ ۱۰/ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳) توحید تین قسم کی ہے ایک توحید علمی کہ جو تصحیح عقائد سے حاصل ہوتی ہے.دوسری توحید عملی کہ جو قویٰ اخلاقی کو خدا کے راستہ میں کرنے سے یعنی فنافی اخلاق اللہ سے حاصل ہوتی ہے.تیسری توحید حالی جو اپنے ہی نفس کا حال اچھا بنانے سے حاصل ہوتی ہے یعنی نفس کو کمال تزکیہ کے مرتبہ تک پہنچانا اور غیر اللہ سے صحن قلب کو بالکل خالی کرنا.اور نابود اور بے نمود ہو جانا یہ تو حید بوجہ کامل تب میسر آتی ہے کہ جب جذ بہ الہی انسان کو پکڑے اور بالکل اپنے نفس سے نابود کر دے اور بجر فضل الہی کے نہ یہ علم سے حاصل ہوسکتی ہے اور نہ عمل سے.اسی کے لئے عابدین مخلصین کی زبان پر نعرہ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہے.(احکام جلد ۹ نمبر ۳۳ مؤرخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) استغفار کے یہ معنے ہیں کہ انسانی قومی جو کرتوت کر رہے ہیں ان کا افراط و تفریط یعنی بے محل استعمال نافرمانی ہوتا ہے تو خدا کا لطف و کرم مانگنا کہ تو رحم کر اور ان کے استعمال کی افراط و تفریط سے محفوظ رکھ یعنی اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرنی ہے.مسیح بھی خدا تعالیٰ کی مدد کے محتاج تھے.اگر کوئی اس طرح نہیں سمجھتا تو وہ مسلمان نہیں.بڑا فنا فی اللہ وہ ہے جو کہ ہر آن خدا کی امداد چاہتا ہے جیسے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ دو البدر جلد نمبر ۲ مؤرخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۳) انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے.حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے.انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے.اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا

Page 253

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة الفاتحة دو سمجھتا ہے اس وقت وہ دہر یہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے.وہ مجھے دیکھتا ہے.ور نہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا.تقویٰ سے سب شئے ہے.قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے.ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگر یہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرات نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے.البدر جلد نمبر ۷ مؤرخہ ۱۳ / دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۱) ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے کیونکہ اگر دعا کے قبول کرنے والے کا پتہ نہ لگے تو جیسے لکڑی کو گھن لگ کر وہ بکتی ہو جاتی ہے ویسے ہی انسان پکار پکار کر تھک کر آخرد ہر یہ ہو جاتا ہے ایسی دعا چاہیئے کہ اس کے ذریعہ ثابت ہو جاوے کہ اس کی ہستی بر حق ہے جب اس کو یہ پتہ لگ جاوے گا تو اس وقت وہ اصل میں صاف ہو گا.یہ بات اگر چہ بہت مشکل نظر آتی ہے لیکن اصل میں مشکل بھی نہیں ہے بشرطیکہ تد بیر اور دُعا دونوں سے کام لیوے جیسے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے معنوں میں (ابھی تھوڑے دن ہوئے ) بتلا یا گیا ہے نماز پوری پڑھو.صدقہ اور خیرات دو تو پوری نیست سے دو کہ خدا راضی ہو جاوے اور توفیق طلب کرتے رہو کہ ریا کاری عُجب وغیرہ زہریلے اثر جس سے ثواب اور اجر باطل ہوتا ہے دور ہو جاویں اور دل اخلاص سے بھر جاوے.خدا پر بدظنی نہ کرو وہ تمہارے لیے ان کا موں کو آسان کر سکتا ہے وہ رحیم کریم ہے.با کریماں کا رہا دشوار نیست.اگر پیچھے لگے رہو گے تو اسے رحم آہی جائے گا.البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مؤرخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۸) قرآن شریف میں جو بڑے بڑے وعدے متقیوں کے ساتھ ہیں وہ ایسے متقیوں کا ذکر ہے جنہوں نے تقوی کو وہاں تک نبھایا جہاں تک ان کی طاقت تھی.بشریت کے قومی نے جہاں تک ان کا ساتھ دیا برابر تقویٰ پر قائم رہے حتی کہ ان کی طاقتیں ہار گئیں اور پھر خدا تعالیٰ سے انہوں نے اور طاقت طلب کی جیسے کہ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے ظاہر ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی اپنی طاقت تک تو ہم نے کام کیا اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ايَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی آگے چلنے کے لئے اور نئی طاقت تجھ سے طلب کرتے ہیں جیسے کہ دو دو حافظ نے کہا ہے.ما بداں منزل عالی نتوانیم رسید ہاں اگر لطف شما پیش نہد گامے چند ( البدر جلد ۳ نمبر ۲۲، ۲۳ مورخه ۸ تا۶ ارجون ۱۹۰۴ء صفحه ۲)

Page 254

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ ) 66 أَمَّا الْهِدَايَةُ الَّتِي قَد أُمِرُنَا لِطَلَبِهَا فِي | جس ہدایت کے طلب کرنے کا ہمیں سورۃ فاتحہ میں حکم الْفَاتِحَةِ فَهُوَ افْتِدَاء مَحَامِد ذَاتِ اللہ و دیا گیا ہے وہ ذات باری کی خوبیوں اور اس کی چاروں صِفَاتِهِ الْأَرْبَعَةِ وَإِلى هَذَا يُشِيرُ اللَّامُ (مذکورہ صفات کی پیروی کرنا ہے اور اسی کی طرف وہ الف الَّذِي مَوْجُودٌ فِي اهْدِنَا القيراط لام اشارہ کر رہا ہے جو اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں الْمُسْتَقِيمَ وَ يَعْرِفُهُ مَنْ أَعْطَاهُ اللهُ موجود ہے.اس بات کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ الْقَهْمَ السَّلِيْمَ.وَلَا شَكَ أَنَّ هَذِهِ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہو اور کچھ شک نہیں کہ یہ چاروں الصَّفَاتِ أُمَّهَاتُ الصَّفَاتِ وَهِيَ كَافِيَةٌ صفات (باقی تمام صفات کے لئے بطور اصل کے ہیں اور لتظهير النَّاسِ مِنَ الْهَنَاتِ وَ أَنواع یہ لوگوں کو قابل نفرت باتوں اور قسم قسم کی برائیوں سے السَّيِّئَاتِ فَلَا يُؤْمِنُ بِهَا عَبْدُ إِلَّا بَعْدَ پاک کرنے کے لئے کافی ہیں.پس کوئی بندہ اُس وقت تک أَنْ يَأْخُذُ مِن كُلِ صِفَةٍ حَقِّهُ وَ يَتَخَلَّقَ ان پر ایمان نہیں لاتا جب تک کہ وہ ان میں سے ہر صفت بِأَخْلاقِ رَبِّ الْكَائِنَاتِ فَمَنِ اسْتَفَاضَ سے اپنا حصہ نہ لے لے اور پروردگار عالم کے اخلاق کو ، مِنْهَا فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ بَابٌ عَظِيمٌ من اختیار نہ کر لے.پس جو کوئی بھی ان سے فائدہ اٹھاتا ہے مَعْرِفَةِ الرَّبّ الْمَحْبُوبِ وتتجلى له اُس پر محبوب رب کی معرفت کا ایک عظیم دروازہ کھولا جاتا عَظَمتُه فَتَحْصُلُ الآمَانَةُ وَالتَّنَقُرُ مِن ہے اور اس ( ربّ ) کی عظمت اس کے لئے جلوہ گر ہو جاتی الذُّنُوبِ وَالسَّكَيْنَةُ وَالْإِخْبَاتُ وَ ہے.پس (اسے) اللہ تعالیٰ کے اذن سے جوسالکین کی الْاِمْتِقَالُ الْحَقِيقِيُّ وَالْخَشْيَةُ وَالْأُنْسُ تربیت کرنے والا ہے رجوع الی اللہ، گناہوں سے نفرت، وَالشَّوقُ وَالشَّوقُ وَ الْمَوَاجِيدُ سکینت ، تواضع حقیقی اطاعت، خشیت،انس، ذوق وشوق.الصَّحِيحَةُ وَالْمَحَبَّةُ النَّاتِيَّةُ الْمُفْدِيَةُ صحیح وجدانی کیفیات اور فنا فی اللہ ) کرنے والی اور ( گناہوں الْمُحْرِقَةُ بِإِذْنِ اللَّهِ مُرَبِّي السَّالِكِينَ کو بھسم کر ڈالنے والی ذاتی محبت حاصل ہو جاتی ہے.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۴۵) ( ترجمه از مرتب) وَكَذَلِكَ عَلَّمَ اللهُ عِبَادَهُ دُعَاءَ اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اِهْدِنَا

Page 255

وو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 66 ۲۳۲ سورة الفاتحة اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ | الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.کی دُعا سکھائی ہے.اور یہ الضَّالِينَ وَ مَعْلُوهُ أَنَّ مِن بات واضح ہے کہ ہدایت کی اقسام میں کشف، الہام، أَنْوَاعِ الْهِدَايَةِ كَفَفْ وَ الْهَامُ وَرُؤْيَا رویائے صالحہ، مکالمات و مخاطبات اور محمد حمیت شامل ہیں صَالِحَةٌ و مُعَالَمَاتٌ وَمُخاطبات تاکہ ان کے ذریعہ قرآن کریم کے اسرار کھلیں اور یقین وَتَحْدِيث لِيَنكَشِفَ بِهَا غَوَامِضُ بڑھے.ان آسمانی فیوض کے سوا انعام کے اور کوئی معنے نہیں.الْقُرْآنِ وَيَزْدَادَ الْيَقِينُ، بَلْ لَّا مَعْنی کیونکہ یہ چیزیں اُن سالکوں کا اصل مقصد ہیں جو چاہتے ہیں لِلإنْعَامِ مِنْ غَيْرِ هَذِهِ الْفُيُوضِ کہ اُن پر معرفتِ الہی کے دقائق کھلیں اور وہ اپنے رب کو السَّمَاوِيَّةِ، فَإِنَّهَا أَصْلُ الْمَقَاصِدِ اِسی دنیا میں پہچان لیں.محبت اور ایمان میں ترقی کریں لِلسَّالِكِينَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَن اور دنیا سے منہ موڑ کر اپنے محبوب کا وصال حاصل کر لیں.تَنْكَشِفَ عَلَيْهِمْ دَقَائِقُ الْمَعْرِفَةِ، اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب وَيَعْرِفُوا رَبَّهُم في هذه الدُّنْيَا.دلائی ہے کہ وہ اس کی بارگاہ سے یہ انعام طلب کیا کریں وَيَزْدَادُوا حُنَّا وَ إِيْمَانًا وَيَصِلُوا کیونکہ وہ (اللہ) ان کے دلوں میں وصال اور یقین اور مَحْبُوبَهُم مُّتَبَتِلِينَ فَلِأُجْلِ ذلِك معرفت کے حصول کی جو پیاس ہے اُسے خوب جانتا ہے پس حَقَّ اللهُ عِبَادَهُ عَلى أَن يَطْلُبُوا هَذَا اُس نے ان پر رحم کیا اور اپنے طالبوں کے لئے ہر قسم کی الْإِنْعَامَ مِنْ حَضْرَتِهِ ، فَإِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا معرفت تیار کی.پھر ان ( طالبوں ) کو حکم دیا کہ وہ صبح و شام يما في قُلُوبِهِمْ مِنْ عَطش الوِصالِ وَ اور رات اور دن معرفت طلب کرتے رہیں اور اُس نے الْيَقِينِ وَ الْمَعْرِفَةِ، فَرَحِمَهُمْ وَأَعَدَّ كُل انہیں یہ حکم بھی دیا جب وہ خود ان نعمتوں کے عطا کرنے پر مَعْرِفَةٍ لِلطَّالِبِينَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ راضی تھا.بلکہ اس بات کا فیصلہ کر لیا تھا کہ انہیں ان لِيَطْلُبُوهَا فِي الصَّبَاحِ وَالْمَسَاءِ (نعمتوں) میں سے ( کچھ حصہ ضرور ) دیا جائے گا اور انہیں وَاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمَا أَمَرَهُمْ إِلَّا ان نبیوں کا وارث بنانا مقدر کیا جنہیں ان سے پہلے براہِ بَعْدَمَا رَضِيَ بِإِعْطَاءِ هَذِهِ النَّعْمَاء بَلْ راست ہدایت کی ہر نعمت دی گئی تھی.پس دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ بَعْدَمَا قَدَّرَ لَهُمْ أَن يُرْزَقُوا مِنْهَا، وَ نے ہم پر کتنا احسان کیا ہے اور ہمیں ام الکتاب (یعنی سورة بَعْدَمَا جَعَلَهُمْ وَرَشَاءَ الْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ | فاتحہ ) میں حکم دیا ہے کہ ہم اس سورۃ میں انبیاء کی تمام

Page 256

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۳ سورة الفاتحة أُوتُوا مِنْ قَبْلِهِمْ كُلَّ نِعْمَةِ الْهِدَايَةِ عَلَى | بدايتيں طلب کریں تا کہ ہم پر بھی وہ تمام امور طَرِيقِ الْإِصَالَةِ فَانْظُرُ كَيْفَ مَنَّ الله منکشف کر دے جو ان(نبیوں) پر منکشف کئے عَلَيْنَا وَ أَمَرَنَا فِي أُمِ الْكِتَابِ لِنَظُلُبَ فِيهِ تھے.لیکن یہ سب کچھ متابعت اور ظلیت کے طور پر هِدَايَاتِ الْأَنْبِيَاءِ كُلَّهَا، لِيَكْشِفَ عَلَيْنَا كُلّ اور استعدادوں اور ہمتوں کے اندازہ کے مطابق مَا كَشَفَ عَلَيْهِمْ، وَلكِن بالاتباع و الظلية) ہے.پس اگر ہم ( سچ سچ ) ہدایت کے خواہشمند ہیں وَ عَلَى قَدَرِ ظُرُوْفِ الْاِسْتِعْدَادَاتِ وَ الْهِمَمِ.تو پھر ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ر ڈ کریں فَكَيْفَ نَرُدُّ نِعْمَةَ اللهِ الَّتِي أُعِدَّتْ لَنَا إِن كُنا جو ہمارے لئے تیار کی گئی ہے اور ہم اللہ آصدَقُی طلَبَاءَ الْهِدَايَةِ وَ كَيْفَ نُنْكِرُهَا بَعْدَمَا الصَّادِقِينَ (خدا) کی طرف سے اطلاع دیئے أُخْبِرْنَا عَنْ أَصْدَقِ الصَّادِقِينَ جانے کے بعد کس طرح اس نعمت کا انکار کریں.حمامة البشراری، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۹۹) (ترجمه از مرتب) إنَّ تَعْلِيمَ كِتَابِ اللهِ الْأَحْكَمِ وَ رَسُوْلِ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مُنْقَسِمًا عَلَى کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی.پہلی یہ کہ وحشیوں کو ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ الْأَوَّلُ أَنْ يَجْعَلَ الْوُحُوشَ أُناسا انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس اُن و يُعَلّمَهُمْ أدَابَ الإِنْسَانِيَّةِ وَيَدَبَ لَهُمْ کو عطا کئے جائیں اور دوسری یہ کہ انسانیت سے مَدَارِكَ وَحَوَاسًا وَالثَّانِي أَنْ تَجْعَلَهُمْ بَعْدَ ترقی دے کر اخلاق کاملہ کے درجے تک اُن کو الْإِنْسَانِيَّةِ أَلْمَلُ النَّاسِ في مَحَاسِنِ الْأَخْلاقِ پہنچایا جائے اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے وَالثَّالِثُ أَن يُرْفَعَهُمْ مِن مَّقَامِ الْأَخْلَاقِ إلى أن كو اُٹھا کر محبت الہی کے مرتبہ تک پہنچایا جائے ذرى مَرْتَبَةِ حُبّ الْخَلاقِ، وَيُوْصِلَ إلى مَنْزِلِ اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا (اور الْقُرْبِ وَالرِّضَاءِ وَالْمَعِيَّةِ وَالْفَنَاءِ گدازش اور محویت کے مقام اُن کو عطا ہوں وَالثَّوْبَانِ وَالْمَحْوِيَّةِ، أَغننى إلى مَقَامٍ يَنْعَدِمُ یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی فِيْه أَثَرُ الْوُجُودِ وَالاخْتِيَارِ، وَيَبْقَى اللهُ وَحْدَہ نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ كَمَا هُوَ يَبْقَى بَعْدَ فَنَاءِ هَذَا الْعَالَمِ بِذَاتِهِ اس عالم کے فنا کے بعد ا اپنی ذات قہار کے ساتھ الْقَهَّارِ باقی رہے گا.

Page 257

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۴ سورة الفاتحة فَهَذِهِ آخِرُ الْمَقَامَاتِ لِلسَّالِكِينَ وَ پس یہ سالکوں کے لئے کیا مرد اور کیا عورت آخری الصَّالِحَاتِ، وَ إِلَيْهِ تَنتَبِى مَطايا مقام ہے اور ریاضتوں کے تمام مرکب اسی پر جا کر ٹھہر الرِّيَاضَاتِ، وَ فِيهِ يَخْتَتِمُ سُلُوك جاتے ہیں اور اسی میں اولیاء کے ولایتوں کے سلوک ختم الوَلَايَاتِ وَهُوَ الْمُرَادُ مِنَ الْإِسْتِقَامَةِ في ہوتے ہیں.اور وہ استقامت جس کا ذکر سورۃ فاتحہ کی دعا دُعَاءِ سُورَةِ الْفَاتِحَةِ، وَكُلَّ مَا يَتَضَرَّهُ مِن میں ہے اس سے مراد یہی مرتبہ سلوک ہے.اور نفس اتارہ أَهْوَاءِ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ فَتَذُوبُ في هذا کی جس قدر ہوا و ہوس بھڑکتی ہے وہ اسی مقام میں خدائے الْمَقَامِ بِحُكْمِ اللهِ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْعِزَّةِ، ذوالجبروت والعزت کے حکم سے گداز ہوتی ہے.پس قتفتح البلدة كُلُّهَا وَلَا تَبْقَى الضَّوْضَاةُ تمام شہر فتح ہو جاتا ہے اور ہوا و ہوس کے عوام کا شور باقی لِعَامَّةِ الْأَهْوَاء وَيُقَالُ لِمَنِ الْمُلْكُ نہیں رہتا اور کہا جاتا ہے کہ آج کس کا ملک ہے اور یہ الْيَوْمَ لِلَّهِ ذِي الْمَجْدِ وَالْكِبْرِيَاءِ جواب ہوتا ہے کہ خدائے ذوالحجد والکبر یا کا.نجم الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۴ تا ۳۶) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی راہ یا یوں کہو کہ ہدایت کے اسباب اور وسائل تین ہیں.یعنی ایک یہ کہ کوئی گم گشتہ محض خدا کی کتاب کے ذریعہ سے ہدایت یاب ہو جائے اور دوسرے یہ کہ اگر خدا تعالیٰ کی کتاب سے اچھی طرح سمجھ نہ سکے تو عقلی شہادتوں کی روشنی اس کو راہ دکھلاوے.اور تیسرے یہ کہ اگر عقلی شہادتوں سے بھی مطمئن نہ ہو سکے تو آسمانی نشان اس کو اطمینان بخشیں.یہ تین طریق ہیں جو بندوں کے مطمئن کرنے کے لئے قدیم سے عادۃ اللہ میں داخل ہیں یعنی ایک سلسلہ کتب ایمانیہ جو سماع اور نقل کے رنگ میں عام لوگوں تک پہنچتا ہے جن کی خبروں اور ہدایتوں پر ایمان لانا ہر ایک مومن کا فرض ہے اور ان کا مخزن اتم اور اکمل قرآن شریف ہے.دوسرا سلسلہ معقولات کا جس کا منبع اور ماخذ دلائل عقلیہ ہیں.تیسرا سلسلہ آسمانی نشانوں کا جس کا سر چشمہ نبیوں کے بعد ہمیشہ امام الزمان اور مجد والوقت ہوتا ہے.اصل وارث ان نشانوں کے انبیاء علیہم السلام ہیں.پھر جب ان کے معجزات اور نشان مدت مدید کے بعد منقول کے رنگ میں ہو کر ضعیف التاثیر ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے قدم پر کسی اور کو پیدا کرتا ہے تا پیچھے آنے والوں کے لئے نبوت کے عجائب کرشمے بطور منقول ہو کر مردہ اور بے اثر نہ ہو جائیں.بلکہ وہ لوگ بھی بذات خود نشانوں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں.(کتاب البریۃ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹)

Page 258

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ سورة الفاتحة وَ فِي هَذِهِ السُّورَةِ يُعَلِّمُ اللهُ تَعَالَى اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندوں کو تعلیم عِبَادَهُ الْمُسْلِمِينَ فَكَأَنَّهُ يَقُولُ يَا عِبَادِ دیتا ہے.پس گویا وہ فرماتا ہے اے میرے بندو! تم نے إنَّكُمْ رَأَيْتُمُ الْيَهُود و النصاری یہود و نصاری کو دیکھ لیا ہے تم اُن جیسے اعمال کرنے سے فَاجْتَنِبُوا شِبْهَ أَعْمَالِهِمْ وَ اعْتَصِمُوا اجتناب کرو اور دُعا اور استعانت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو بحَبْلِ الدُّعَاءِ وَ الْإِسْتِعَانَةِ وَلَا تَنْسَوُا اور یہود کی مانند اللہ کی نعمتوں کومت بھلاؤ ورنہ اُس کا نَعْمَاءَ اللهِ كَالْيَهُودِ فَيَجِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبُة غضب تم پر نازل ہوگا.اور تم سچے علوم اور دُعا کومت وَلَا تَتْرُكُوا الْعُلُوْمَ الصَّادِقَةَ وَالدُّعَاء وَ چھوڑو اور نصاری کی طرح طلب ہدایت میں سُست نہ ہو لَا تَهِدُوا مِنْ طَلَبِ الْهِدَايَةِ كَالنَّصَارَی جاؤ.ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے.اور ہدایت کے طلب کرنے فَتَكُونُوا مِنَ الصَّانِينَ.وَحَثَّ عَلی طلب کی ترغیب دی اس بات کی) طرف اشارہ کرتے ہوئے الْهِدَايَةِ إشَارَةً إِلى أَنَّ الثَّبَات عَلَى کہ ہدایت پر ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا اور الْهِدَايَةِ لَا يَكُونُ إِلَّا بِدَوامِ الدُّعَاءِ وَ گریہ وزاری میں دوام کے بغیر ممکن نہیں.مزید برآں اس التَّضَرُّع في خطرَةِ اللهِ وَمَعَ ذَلِكَ إِشَارَةٌ طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ إلى أَنَّ الْهَدَايَةَ أَمْرٌ مِن لَّدَيْهِ وَ الْعَبْدُ لا کی طرف سے ہی ملتی ) ہے اور جب تک کہ خدا تعالی خود يَهْتَدِى أَبَدًا مِنْ غَيْرِ أَن يَهْدِيَهُ اللهُ بندہ کی رہنمائی نہ کرے اور اسے ہدایت یافتہ لوگوں میں وَيُدخِلَهُ فِي الْمَهْدِيَّين.داخل نہ کر دے وہ ہر گز ہدایت نہیں پاسکتا.وَإِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْهِدَايَةَ غَيْرُ پھر اس (امر کی ) طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت کی مُتَنَاهِيَةٍ وَتَرَبُّى النُّفُوسِ إِلَيْهَا بِسُلَّم کوئی انتہاء نہیں اور انسان دعاؤں کی سیڑھی کے ذریعہ ہی الدَّعَوَاتِ وَ مَنْ تَرَكَ الدُّعَاء فَأَضَاعَ اس تک پہنچ سکتے ہیں اور جس شخص نے دعا کو چھوڑ دیا اس سُلَّمَه فَإِنَّمَا الْحَرِى بِالْاهْتِدَاءِ مَنْ كَانَ نے اپنی سیڑھی کھو دی.یقینا ہدایت پانے کے قابل وہی رطب النِّسَانِ بِالدُّعَاءِ وَ ذِكْرِرَيْهِ وَكَانَ ہے جس کی زبان ذکر الہی اور دعا سے تر رہے اور وہ اس پر عَلَيْهِ مِنَ الْمُدَاوِمِينَ وَ مَنْ تَرَكَ دوام اختیار کرنے والوں میں سے ہو اور جس کسی نے بھی دعا الدُّعَاء وَادَّعَى الْاِهْتِدَاء فَعَسَى أَن يَتَزَيَّنَ کو چھوڑ کر ہدایت یافتہ ہونے کا دعویٰ کیا تو قریب ہے کہ وہ لِلنَّاسِ بِمَا لَيْسَ فِیهِ وَ يَقَعَ فِي هُوَةِ | لوگوں کی خاطر ایسی چیزوں سے اپنے آپ کو آراستہ ظاہر

Page 259

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۶ سورة الفاتحة الشركِ وَالرِّيَاءِ وَيَخْرُجَ مِنْ جَمَاعَةِ | کرے جو اس میں نہیں ( پائی جاتیں ) اور وہ شرک اور ریا کاری الْمُخْلِصِينَ وَالْمُخْلِصُ يَر فى يوما کے گڑھے میں گر جائے اور مخلصوں کی جماعت سے نکل جائے فَيَوْمًا حَتَّى يَصِيرَ مُخلصًا بفتح اور مخلص بنده دن بدن ترقی کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مخلص بِفَتْحِ اللام و عقب لَهُ الْعِنَايَة سيرًا يَكُونُ ( بفتح لام بمعنی برگزیده) بن جاتا ہے اور ( باری تعالی) کی عنایت بَيْنَ اللهِ وَبَيْنَهُ وَ يَدْخُلُ في اسے ایک ایسا راز عطا کرتی ہے جو صرف خدا اور اس کے الْمَحْبُوبِينَ وَ يَتَنَزَّلُ مَنْزِلَةَ درمیان ہی ہوتا ہے اور وہ محبوبوں کے زمرہ میں داخل ہو جاتا الْمَقْبُولِينَ وَالْعَبْدُ لَا يَبْلُغُ حَقِيقَةً ہے اور مقبول بندوں کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور کوئی بندہ ایمان الْإِيْمَانِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَفْهَمَ حَقِيقَةَ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اخلاص کی حقیقت کو الإخلاص وَيَقُوْمَ عَلَيْهَا وَلَا يَكُونُ سمجھ نہ لے.اس پر قائم نہ ہو جائے (اسی طرح وہ ) مخلص نہیں مُخلِصًا وَعِندَهُ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ بن سکتا جب تک اس کے نزدیک زمین میں ایسی چیز موجود ہو شَيْءٍ يَتَّكِأُ عَلَيْهِ اَوْ يَخَافُهُ أَوْ يحسبه جس پر بھروسہ کرتا ہو یا وہ اس سے ڈرتا ہو یا اسے منجملہ مِنَ النَّاصِرِينَ دوسرے مددگاروں کے گمان کرتا ہو.وَ لا يَنْجُو أَحَدٌ مِّنْ غَوَائِلِ کوئی شخص نفس کی ہلاکتوں اور شرارتوں سے نجات حاصل النَّفْسِ وَ شُرُورِهَا إِلَّا بَعْدَ أَنْ نہیں کر سکتا جب تک اس کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے يَتَقَبَّلَهُ اللهُ بِإِخْلاصِهِ وَ يَعْصِمَه قبول نہ کرلے اور اپنے فضل ، طاقت اور قوت سے اس کی حفاظت بِفَضْلِهِ وَ حَوْلِهِ وَ قُوتِهِ وَيُذِيقَهُ مِن نہ کرے اور اسے روحانی لوگوں کی شراب نہ چکھائے کیونکہ وہ شَرَابِ الرُّوحَانِتِينَ لأَنَّهَا خَبِيقَةٌ (یعنی نفسِ اتارہ) پلید ہے اور وہ اپنی پلیدی میں انتہا کو پہنچا ہوا وَقَدِ انْتَهَتُ إلى غاية الخبث و ہے اور ہلاکت خیز اور گمراہ گن بری خواہشات کے نشو و نما پانے کا صَارَتْ مَنْشَأَ الْأَهْوِيَةِ الْمُضِلَّةِ محل ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ الرَّدِيَّةِ الْمُرْدِيَةِ فَعَلَّمَ اللهُ تَعَالٰی دُعائیں کرتے ہوئے اور اس (نفس) کی برائیوں اور آفات عِبَادَةَ أَنْ تَفِرُوا إِلَيْهِ بِالدُّعَاءِ عَائِنا سے پناہ مانگتے ہوئے اس ( خدا تعالی ) کی طرف دوڑے چلے مِنْ شُرُوْرِهَا وَ دَوَاهِيْهَا لِيُدخِلَهُمْ آئیں تا کہ وہ انہیں محفوظ لوگوں کے گروہ میں داخل کر دے.یقین فِي زُمَرِ الْمَحْفُوظِینَ وَ إِنَّ مَثَلَ جانیں کہ نفس کے جذبات کی مثال تیز بخاروں کی مانند ہے.پس

Page 260

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة الفاتحة G جَذَبَاتِ النَّفْسِ كَمَقلِ الْحُمَّيَاتِ الْحَادَةِ | جس طرح ان بخاروں کے دوران ( مختلف قسم کے ) خوفناک فَكَمَا تَجِدُ عِنْدَ تِلْكَ الْحُمَّيَاتِ أَعْرَاضًا اور شدید عوارض پائے جاتے ہیں مثلاً تپ لرزہ.سردی هَايِلَةً مُشْتَدَّةً مِّثْلَ النَّافِضِ وَ الْبَرْدِ کپکپاہٹ یا مثلاً بے انتہاء پسینہ، بہت زیادہ نکسیر، سخت وَالْفُشَعْرِيرَةِ وَ مِثْلَ الْعَرَقِ الكَثِير تے کمزور کر دینے والے اسہال، نا قابل برداشت پیاس، وَالرُّعَافِ الْمُفْرِطِ وَالْقَيْءِ الْعَدِيفِ یا مثلاً زیادہ نیند لگا تار بے خوابی ، زبان کا کھردرا پن ، منہ وَالْإِسْهَالِ الْمُضْعِفِ وَ الْعَطَشِ الَّذِئ لا سوکھنا یا مثلا لگا تار چھینکیں سخت سر درد، متواتر کھانسی ، بھوک يُطاقُ وَمِثْلَ السُّبَاتِ الكَثِيرِ وَالْأَرقِ کی بندش اور نیکی وغیرہ جو بخار کے مریضوں کی علامات ہیں اللَّازِمِ وَخُشُونَةِ اللّسَانِ وَفَحْل الْقَمِ وَ اس طرح نفس کے جذبات اور علامات ہیں جس کے مواد جوش مِثْلَ الْعُطَاسِ المُلح و الضُّدَاعِ الصَّعْب مارتے رہتے ہیں اور اس کی موجیں ٹھاٹھیں مارتی رہتی ہیں اس و السُّعَالِ الْمُتَوَاتِر و سُقُوطِ الشَّهْوَةِ وَ کے عوارض چکر لگاتے رہتے ہیں اس کی گائیں ڈکارتی رہتی الْفُوَاقِ وَ غَيْرِهَا مِن علامات ہیں اس کے قیدی ہلاک ہوتے رہتے ہیں اور بہت ہی کم لوگ الْمَحْمُوْمِينَ.كَذلِك لِلنَّفْسِ جَذبات و ہیں جو اس نفس سے) بچے رہتے ہیں.پس ہدایت کا طلب عَلَامَاتٌ مَّوَاذْهَا تَفُورُ وَأَمْوَاجُهَا تَمُورُ وَ کرنا کسی حاذق طبیب کی طرف رجوع کرنے اور اپنے آپ کو إعْرَاضُهَا تَدُورُ وَبَقَرَاتُهَا تَخُورُ وَ أَسِيرُهَا معالجوں کے سامنے ڈال دینے کی طرح ہے اور اپنے بندوں يَبُورُ وَ قَلْ مَنْ كَانَ مِنَ النَّاجِيْنِ فَطَلَب کے لئے جس انعام کی طرف اللہ تعالی نے اشارہ کیا ہے وہ الْهِدَايَةِ كَمِثْلِ الرُّجُوع إلى الطبيب بندے کا دنیا سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح جھک الْحَاذق و الاستخراج بَيْنَ يَدَيِ جانا محبت الہی میں سرگرم ہونا اور اس کی طرف سے ہمیشہ الْمُعَالِمِينَ وَ الْإِنْعَامُ الَّذِي أَشَارَ الله سعادت دیا جانا اور اپنی سعادت مندی کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے إِلَيْهِ لِعِبَادِهِ هُوَ تَبَقُلُ الْعَبْدِ إِلى الله و اور اللہ تعالیٰ کا اس کی طرف اپنی برکات، الہامات اور قبولیت دعا إِحْمَاءُ وَدَادِهِ وَ دَوَاهُ إِسْعَادِهِ وَ رُجُوعُ الله سے رجوع کرنا اور اسے اپنے جلیل القدر لوگوں میں سے جلیل إِلَيْهِ بِبَرَكَاتِهِ وَ الْهَامَاتِهِ وَ اسْتِجَابَاتِه و القدر بنانا اور اسے اپنے زیر حفاظت بندوں میں داخل کر لینا جَعْلُه طَوْدًا مِنْ أَطْوَادِهِ وَ إِدْحَالُهُ في عِبَادِہ ہے.اور (اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح) الْمَحْفُوظِيْنَ وَ قَوْلِهِ يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ * کا حکم جاری (الانبياء:۷۰) ترجمہ.اے آگ تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جا.

Page 261

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورة الفاتحة سَلمًا عَلَى إِبْراهِيمَ وَ جَعْلُهُ مِنَ | کرنا اور اسے اپنے پاک اور مقدس بندوں میں شامل کر لینا ہے.الطَّيِّبِينَ الظَّاهِرِينَ فَهَذَا هُوَ الشفاء من حتی پس یہ اُس کے لئے گناہوں کے بخار سے شفاء اور موافق الْمَعَاصِي وَ الْعِلَاجُ بِأَوْفَقِ الْأَدْوِيَةِ وَ دواؤں اور غذاؤں سے علاج اور ایسی لطیف تدبیر ہے جسے الْأَغْنِيَةِ وَالتَّدْبِيرُ اللطيف الذي لا خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا.يَعْلَمُهُ إِلَّا رَبُّ الْعَالَمِينَ.(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۴، ۱۲۵) (ترجمه از مرتب) چتراط لغت عرب میں ایسی راہ کو کہتے ہیں.جو سیدھی ہو یعنی تمام اجزاء اس کے وضع استقامت پر واقع ہوں اور ایک دوسرے کی نسبت عین محاذات پر ( ہوں).(الحکم جلد 4 نمبر ۵ مورخه ۱۰ر فروری ۱۹۰۵ صفحه ۴) وَ قِيلَ إِنَّ الطريق لا يُسمى اور کہتے ہیں کہ صاحب دل اور روشن ضمیر لوگوں کے صِرَاطًا عِنْدَ قَوْمٍ ذَوِى قَلْب وَنُور نزدیک طریق (راستہ) کو اس وقت تک صراط کا نام نہیں دیا حَتَّى يَتَضَمَّن خَمْسَةَ أُمُورٍ مِن أُمورِ جا سکتا جب تک کہ وہ امور دین میں سے پانچ امور پر مشتمل نہ الدِّينِ وَفِي الاسْتِقَامَةُ وَالْإِيْصَالُ ہو اور وہ یہ ہیں (۱) استقامت (۲) یقینی طور پر مقصود تک إِلَى الْمَقْصُودِ بِالْيَقِينِ وَقُرْب الطَّرِيقِ پہنچانا (۳) اُس کا نزدیک ترین(راہ) ہونا(۴) گزرنے وَسَعَتُه لِلْمَازِينَ وَتَعْيِينَةٌ طَرِيقًا والوں کے لئے اس کا وسیع ہونا اور (۵) سالکوں کی نگاہ میں لِلْمَقْصُوْدِ فِي أَعْيُنِ السَّالِكيْن وَ هُوَ مقصود تک پہنچنے کے لئے اس راستہ کا متعین کیا جانا.اور چتراط تَارَةً يُضَافُ إِلى اللهِ إِذْ هُوَ شَرْعُهُ وَهُوَ کا لفظ بھی تو خدا تعالیٰ کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اُس سوى سُبُلِهِ لِلْمَاشِينَ.وَتَارَةٌ يُضَافُ کی شریعت ہے اور وہ چلنے والوں کے لئے ہموار راستہ ہے.اور إِلَى الْعِبَادِ لِكَوْنِهِمْ أَهْلَ السُّلُوكِ وَ کبھی اسے بندوں کی طرف مضاف کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس پر چلنے والے اور گزرنے والے اور اسے عبور کرنے والے ہیں.الْمَآرِينَ عَلَيْهَا وَالْعَابِرِينَ کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۳۷) (ترجمه از مرتب) استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو

Page 262

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ سورة الفاتحة - معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے.اس وقت نامردی نہ دکھلا دیں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہو جائیں.موت پر راضی ہو جا ئیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلّی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جا ئیں اور ہر چہ بادا باد کہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء وقدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہر گز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صد یقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے.اسی کی طرف اللہ جلّ شانہ اس دُعا میں اشارہ فرماتا ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ہمارے خدا! ہمیں استقامت کی راہ دکھلا.وہی راہ جس پر تیرا انعام و اکرام مترتب ہوتا ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف: ۱۲۷) اے خدا ! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آجائے.اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ربّ کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا.کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محب بلا کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو ناچیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے.اس کے حق میں اللہ جل شانه فرماتا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَ اللهُ رَسُوْ بِالْعِبَادِ (البقرة : ۲۰۸) یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مور د ہیں.غرض وہ استقامت

Page 263

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.سورة الفاتحة اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۹ تا ۴۲۱) استقامت.....وہی ہے جس کو صوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں.یعنی روح ، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مر جائیں.بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں.....نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے.ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے.اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں.اللہ تعالی نے اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ الا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (حم السجدۃ: ۳۱) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آ گئے اور اس کے اسم اعظم استقامت کے نیچے جب بیضہ و بشریت رکھا گیا پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن اُن کو نہیں رہتا.میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے مثلاً ڈور بین کے اجزا کو اگر جُدا جُدا کر کے اُن کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وَضْعُ الشَّيء في محله کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ بیت طبعی کا نام استقامت ہے.پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی.دُعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو؟ جب یہ حالت ہو جائے تو اس وقت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن: ۶۱ ) کا مزا آ جاتا ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۵ تا ۳۷ منقول از ٹریکٹ بعنوان حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود ایک خط مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی) اعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ خَزِينَة واضح رہے کہ یہ آیات لطیف نکات سے پرخزانہ ہیں اور تمَمْلُوةٌ مِنَ البُكَاتِ.وَمُحمةٌ باهِرَةً مخالف مردوں اور مخالف عورتوں کے خلاف روشن دلیل ہیں.عَلَى الْمُخَالِفِينَ وَ الْمُخَالِفَاتِ وَ ہم عنقریب ان کا تصریحات کے ساتھ ذکر کریں گے اور ہم

Page 264

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة الفاتحة سَنَذْكُرُهَا بِالتَّصْرِيحَاتِ وَ نُرِيك ما تمہیں وہ دلائل اور پینات دکھا ئیں گے جو ہمیں خدا تعالیٰ أَراكا اللهُ مِنَ الدَّلائلِ وَ الْبَيِّنَاتِ نے دکھائے ہیں.پس تم مجھ سے ان آیات کی تفسیر سنو فَاسْمَعْ مِن تَفْسِيرهَا لَعَلَّ الله يُنجيك تا اللہ تعالیٰ تمہیں باطل خیالات سے نجات عطا کرے.مِنَ الْخَزَعْبِيْلَاتِ.أَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى " اهْدِنَا كلام الى اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے معنی یہ ہیں کہ القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ فَمَعْنَاهُ أَركا النيج (اے ہمارے پروردگار ) ہمیں سیدھا رستہ دکھا اور ہمیں الْقَوِيْمَ وَثَيْتُنَا عَلَى طَرِيقٍ يُؤْصِلُ إِلى اس راستہ پر قائم رکھ جو تیری جناب تک پہنچا تا ہو اور تیری حَضْرَتِكَ وَيُنَعِى مِنْ عُقُوبَتِكَ ثُمَّ سزا سے بچاتا ہو.پھر واضح ہو کہ صوفیوں کے نزدیک اعْلَمُ أَنَّ لِتَحْصِيْلِ الْهِدَايَةِ طُرُقًا عِنْدَ ہدایت کے حصول کے کئی طریق ہیں جو کتاب ( الہی ) اور الصُّوفِيَّةِ مُسْتَخْرَجَةً مِنَ الْكِتَابِ و سنت (رسول) سے اخذ کئے گئے ہیں ان میں سے پہلا السُّنَّةِ.أَحَدُهَا طَلَبُ الْمَعْرِفَةِ بِاللَّلِيْلِ طریق دلیل اور برہان کے ساتھ خدا کی معرفت طلب کرنا وَالْحُجَّةِ.وَالثَّانِي نَصْفِيَّةُ الْبَاطِنِ بِأَنْوَاعِ ہے.دوسرا طریق مختلف قسم کی ریاضتوں کے ذریعہ اپنے الرِّيَاضَةِ.وَالثَّالِفُ الْاِنْقِطاعُ إلى الله باطن کو صاف کرنا ہے اور تیسرا (طریق) ہے سب سے وَصَفَاءُ الْمَحَبَّةِ.وَ طَلَبُ الْمَدَدِ مِن کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رُخ کرنا اور اُس سے اپنی محبت الْحَضْرَةِ بِالْمُوَافَقَةِ التَّامَةِ وَ ينفي کو خالص کرنا اور اس کی صفات سے پوری موافقت پیدا التَّفْرِقَةِ وَبِالتَّوْبَةِ إِلَى الله و الابتهال و کر کے اور خدا سے علیحدگی ترک کر کے تو یہ زاری ، دُعا اور الدُّعَاءِ وَعَقْدِ الْهِمَّة عقد ہمت کے ساتھ بارگاہ ایزدی سے مدد طلب کرنا ہے.ثُمَّ لَمَّا كَانَ طَرِيق طَلَبِ الْهِدَايَةِ وَ پھر چونکہ تلاش ہدایت اور تصفیہ نفس کا طریق ائمہ اور التَّصْفِيَّةِ لَا يَكْفِى لِلْوُصُولِ مِنْ غَيْرِ اُمت کے ہدایت یافتہ لوگوں کے وسیلہ کے بغیر وصول الی اللہ تَوَسُّلِ الْأَئِمَّةِ وَ الْمَهْدِيِّينَ مِنَ الْأُمَّةِ مَا کے لئے کافی نہیں اس لئے خدا تعالیٰ محض اس قدر ( یعنی رَضِيَ اللهُ سُبْحَانَهُ عَلى هَذَا الْقَدَرِ مِنَ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيم تک ) دعا سکھانے پر راضی نہ ہوا تَعْلِيمِ الدُّعَاءِ.بَل حَقَّ بِقَوْلِهِ صِرَاطَ بلکہ اس نے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہہ کر ان الَّذِيْنَ عَلى تَحمُّسِ الْمُرْشِدِین و مرشدوں اور بادیوں کی تلاش کی ترغیب دلائی جو صاف الْهَادِينَ مِنْ أَهْلِ الْإِجْتِهَادِ وَ الْاِصْطِفَاءِ | باطن اور اجتہاد کرنے والے لوگوں میں سے ہادی اور

Page 265

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة الفاتحة مِنَ الْمُرْسَلِينَ وَالْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُمْ | راہنما ہیں یعنی رسولوں اور نبیوں کی.کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں قَوْمُ أَثَرُوا دَارَ الْحَقِّ عَلی دَارِ النُّورِ نے جھوٹ اور فریب یعنی دار دنیا پر دار الحق (آخرت) کو تر جیح وَ الْغُرُورِ وَجُذِبُوا بِجبَالِ الْمَحَبة دی.اور اللہ تعالیٰ کی طرف جو نور کا سمندر ہے محبت کی تاروں کے إلى الله تخرِ النُّورِ وَأُخْرِجُوا يوخي ساتھ کھینچے گئے اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کی کشش کے ذریعہ بَحْرِ بِوَحْيِ من الله وَ جَلْبٍ مِنْهُ مِنْ أَرْضِ باطل کی سرزمین سے نکالے گئے اور وہ نبوت سے قبل خوبصورت الْبَاطِلِ وَ كَانُوا قَبْلَ النُّبُوَّةِ مگر بے زیور عورت کی طرح تھے اب وہ خدا تعالیٰ کے بلائے كَالْجَمِيْلَةِ الْعَاطِلِ.لَا يَنْطِقُونَ إِلَّا بغیر نہیں بولتے اور وہ اُسی ( چیز ) کو پسند کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ بإنطاقِ الْمَوْلى وَ لَا يُؤْثِرُونَ إِلَّا کے نزدیک بہترین ہو اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں الَّذِي هُوَ عِندَهُ الْأَوْلى يَسْعَون کہ لوگوں کو شریعت ربانی کے پابند بنادیں اور فرزندان شریعت كُل الشغي لِيَجْعَلُوا النَّاسَ أَهْلًا کی نگہداشت کرنے کے لئے اس شفیق ماں کی طرح نگرانی لِلشَّرِيعَةِ الرَّبَّانِيَّةِ.وَيَقُومُونَ عَلی کرتے ہیں جو خاوند کے مرنے کے بعد محض بچوں کی خاطر دوسری وَلَدِهَا كَالْحَانِيَةِ وَ يُغطى لَهُمْ شادی نہ کرے اور انہیں ایسی قوت بیا نیہ دی جاتی ہے جو بہروں بَيَانُ يُسْمِعُ الصُمَّ وَ يُنْزِلُ کو قوتِ شنوائی بخشتی اور پہاڑی بکروں کو اُتارلاتی ہے اور الْعُصْمَ وَ جَنَانٌ تجنب بِعَقْدِ ایسا دل عطا کیا جاتا ہے جو اپنے عزم کی پختگی سے قوموں اور الْهِمَّةِ الْأُمَمَ.إذَا تَكَلَّمُوا فَلا جماعتوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے.جب وہ بات کرتے ہیں يَرْمُونَ إِلَّا صَالِبًا وَ إِذَا تَوَجَّهُوا تو اُن کا تیر خطا نہیں جاتا اور جب توجہ کرتے ہیں تو نامراد فَيُحْيُونَ مَيْتًا خَآيْبًا يَسْعَونَ أَن مردوں کو بھی زندہ کر دیتے ہیں.وہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو يَنقُلُوا النَّاسُ مِنَ الْخَطيَّات الی گناہوں سے نکال کر نیکیوں کی طرف اور ممنوع کاموں سے اچھے الْحَسَنَاتِ وَ مِنَ الْمَنْبِيَّات إلى کاموں کی طرف اور جہالتوں سے ذہانت اور عقلمندی کی طرف الصَّالِحَاتِ وَ مِنَ الْجَهَلَاتِ إِلَى اور فسق و معصیت سے عفت اور پرہیز گاری کی طرف لے الزَّزَانَةِ وَالْحَصَاتِ وَ مِنَ الْفِسْقِ جائیں.جو شخص اُن کا انکار کرے تو وہ ایک ایسی نعمت کو ضائع کر وَ الْمَعْصِيَةِ إِلَى الْعِفَّةِ وَالتُقاتِ دیتا ہے جو ( ذات باری کی طرف سے ) اس کے سامنے پیش کی وَمَنْ أَنْكَرَهُمْ فَقَدْ ضَيَّعَ نِعْمَةً گئی ہے.وہ بھلائی کے چشمہ سے اور اپنی دونوں آنکھوں کی

Page 266

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورة الفاتحة عُرِضَتْ عَلَيْهِ.وَ بَعُدَ مِنْ عَيْنِ الْخَير و بینائی سے دُور ہو گیا اور ( انبیاء و مرسلین سے ) یہ قطع تعلق رشتہ عَنْ نُّورِ عَيْنَيْهِ.وَإِنَّ هَذَا القَطعَ أَكْبَرُ داروں اور قبیلہ سے قطع تعلق کرنے سے بھی بڑا ہے.یہ لوگ من قطع الرّحيمِ وَ الْعَشِيرَةِ وَ إِنَّهُمْ جنت کے پھل ہوتے ہیں.پس اس شخص پر افسوس ہے جو قمَرَاتُ الْجَنَّةِ فَوَيْلٌ لِلَّذِي تَرَكَهُمْ وَ انہیں چھوڑ کر صرف کھانے پینے والی چیزوں کی طرف مائل ہو مَالَ إِلَى الْمِيرَةِ وَ إِنَّهُمْ نُورُ اللهِ وَ جائے.وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا ایک نور ہیں اور ان کے ذریعہ يُعطى مهم نُورٌ لِلْقُلُوبِ وَتِرْيَاقُ لِسَم (لوگوں کے دلوں کو روشنی اور گناہوں کے زہر کے لئے الذُّنُوبِ.وَسَكِيْدَةُ عِنْدَ الاحْتِضَارِ و تریاق دیا جاتا ہے اور جان کندنی اور غرغرہ کے وقت سکینت الْغَرْغَرَةِ.وَثَبَاتُ عِنْدَ الرَّحْلَةِ وَتَرْكِ اور رحلت اور اس حقیر دنیا کو ترک کرنے کے وقت ثبات عطا هَذِهِ الدُّنْيَا الدنيّة.کیا جاتا ہے.أَتَظُنُّ أَن يَكُونَ الْغَيْرُ كَمِفلِ هذہ کیا تو خیال کرتا ہے کہ کوئی اور بھی اس صاحب شرف الْفِئَةِ الكَرِيمَةِ كَلَّا وَالَّذِى أَخْرَجَ جماعت جیسا ہو سکتا ہے؟ مجھے اس ذات کی قسم جس نے گٹھلی الْعَذَقَ مِنَ الْجَريمَةِ.وَلِذَالِكَ عَلَّمَ الله سے کھجور کا درخت پیدا کیا (اس جماعت جیسا) ہرگز هذَا الدُّعَاء مِنْ غَايَةِ الرَّحْمَةِ وَأَمَرَ نہیں ( ہو سکتا ) اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی انتہائی رحمت سے الْمُسْلِمِينَ أَن يَطْلُبُوا صِرَاطَ الَّذِينَ یہ دعا سکھائی اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خدا تعالیٰ سے اُن أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ لوگوں کا راستہ طلب کریں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے وَالْمُرْسَلِينَ مِنَ الْحَضْرَةِ.وَقَدْ ظَهَرَ یعنی نبیوں اور رسولوں کا راستہ.اس آیت سے ہر اُس شخص پر اور راستہ.مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ عَلى كُلِّ مَنْ لَّهُ حَظ جسے سمجھ بوجھ کا کچھ حصہ ملا ہے واضح ہو جاتا ہے کہ اس امت مِنَ القِرَايَةِ.أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ بُعِفت کو نبیوں کے قدم پر قائم کیا گیا ہے اور ایسا کوئی نبی نہیں جس کا عَلى قَدمِ الْأَنْبِيَاءِ.وَإِن مِن نَّبِي إلا له مثيل أس أمّت میں نہ پایا جاتا ہو.اگر یہ مشابہت اور مَغِيل فى هؤلاء.وَلَوْلَا هَذِهِ الْمُضَاهَاةُ مماثلت نہ ہوتی تو پہلوں جیسے کمال کا طلب کرنا بھی عبث وَالسَّوَاءُ لَبَطَلَ طَلَبُ كَمَال ٹھہرتا اور دُعا بھی باطل ہو جاتی.پس اللہ تعالیٰ جس نے ہم السَّابِقِيْنَ وَبَطَلَ الدُّعَاءُ فَالله الذى سب کو نماز پڑھتے وقت اور صبح کے وقت اور شام کے وقت أَمَرَنَا أَجْمَعِينَ أَنْ نَقُولَ اِهْدِنَا اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور

Page 267

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة الفاتحة القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ مُصَلِّينَ وَ مُمْسِيْن و یه که منعم علیہ گروہ یعنی نبیوں اور رسولوں کا راستہ مُصْبِحِيْنَ.وَأَنْ تَطْلُبَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَم طلب کرتے رہیں.اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس نے شروع عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الْمُرْسَلِينَ أَشَارَ سے ہی مقدر کر رکھا ہے کہ بعض نیک لوگوں کو نبیوں کے إلَى أَنَّهُ قَد قَدَّرَ مِنَ الْإِبْتِدَاءِ أَنْ يَبْعَثَ في نقش قدم پر اس امت میں مبعوث کرتا رہے گا اور هذِهِ الْأُمَّةِ بَعْضَ الضُّلَحَاءِ عَلى قَدَم اُنہیں اس طرح خلیفہ بنادیگا جیسا کہ اُس نے اس سے الْأَنْبِيَاءِ أَن يُسْتَخْلِفَهُمْ كَمَا اسْتَخْلَفَ پہلے بنی اسرائیل سے خلفاء بنائے تھے اور یقیناً یہی الَّذِينَ مِن قَبْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَإِنَّ (بات) حق ہے.پس تو فضول جھگڑے اور قیل وقال هذَا لَهُوَ الْحَقُ فَاتُرُكِ الْجَعَلَ الفُضُول چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس امت میں وَالْأَقَاوِيْلَ.وَكَانَ غَرَضُ اللهِ أَنْ يَجْمَعَ في مختلف کمالات اور گوناگوں اخلاق جمع کر دے.پس هذِهِ الْأُمَّةِ كَمَالَاتٍ مُتَفَرِّقَةٌ و أَلخَلَاقًا اللہ کی اس قدیم سنت نے تقاضا کیا کہ وہ یہ دعا سکھائے مُتَبَيّدَةٌ فَاقْتَضَتْ سُنَّتُهُ الْقَدِيمَةُ أَن اور پھر اس کے بعد جو چاہے وہ کر دکھائے.قرآن کریم يُعَلِّمَ هذَا الدُّعَاء.ثُمَّ يَفْعَلُ مَا شَاء وَقَدْ میں اس اُمت کا نام خیر الامم (یعنی بہترین اُمت) سامي هذِهِ الْأُمَّةُ خَيْرَ الْأُمَمِ فِي الْقُرْآنِ وَلَا رکھا گیا ہے اور خیر اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ عمل، يَحْصُلُ خَيْرٌ إِلَّا بِزِيَادَةِ الْعَمَلِ وَ الْإِيْمَانِ ایمان، علم اور عرفان میں اضافہ ہو اور خدائے رحمان کی وَالْعِلْمِ وَالْعِرْفَانِ وَابْتِغَاء مَرَضَاتِ الله خوشنودی طلب کی جائے.اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الرَّحْمَنِ.وَكَذَالِكَ وَعَدَ الَّذِينَ آمَنُوا اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَتهُم فی کئے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اُنہیں اپنے فضل اور عنایت الْأَرْضِ بِالْفَضْلِ وَالْعِنَايَاتِ كَما سے اس دنیا میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ مِنْ أَهْلِ ان سے قبل نیکوکاروں اور متقیوں کوخلیفہ بنایا تھا.پس الصَّلاحِ وَالثَّقَاةِ.فَتَبَتَ مِن الْقُرْآنِ أَنَّ قرآن کریم سے ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں میں روز الخُلَفَاء مِنَ الْمُسْلِمِينَ إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.قيامت تك خلفاء آتے رہیں گے اور یہ کہ آسمان سے وَ انَّهُ لَن يَأْتِي أَحَدٌ مِنَ السَّمَاءِ بَلْ يُبْعَثُونَ کوئی نہیں آئے گا یہ سب لوگ اس امت سے مبعوث مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ کئے جائیں گے.

Page 268

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة الفاتحة وَمَا لَكَ لَا تُؤْمِنُ بِبَيَانِ الْفُرْقَانِ | تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قرآن کریم کے بیان پر أَتَرَكتَ كِتَابَ اللهِ أمْ ما بَقِيَ فِيْك ذَرَّةٌ ایمان نہیں لاتے.کیا تم نے خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا مِنَ الْعِرْفَانِ.وَقَد قَالَ اللهُ " مِنكُمُ “ ہے یا تم میں عرفان کا ذرہ باقی نہیں رہا.اللہ تعالیٰ نے وَمَا قَالَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَاكَ مِنْكُمْ کا لفظ استعمال کیا ہے.من بنی اسرائیل نہیں هذا إن كُنتَ تَبْغِي الحق و تطلب کیا.اگر تم حق کے طالب اور دلیل کے خواہش مند ہو تو تمہیں اتنا بیان ہی کافی ہے.السّليل.66 وو وو 66 أَيُّهَا الْمِسْكِينُ اقْرَءِ الْقُرْآنَ وَلَا تَمْشِ اے مسکین! انسان قرآن پڑھ اور مغروروں کی كَالْمَغْرُورٍ.وَلَا تَبْعُدُ مِنْ نُّورِ الْحَقِّ لِئَلَّا طرح اکڑ کر نہ چل اور خدا کے ٹور سے دُور مت ہو يَشْكُو مِنْكَ إِلَى الْحَضْرَةِ سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ تاسورۃ فاتحہ اور سورۃ نور بارگاہ ایزدی میں تیری شکایت وَسُوْرَةُ النُّورِ اتَّقِ اللهَ ثُمَّ اتَّقِ اللهَ وَلَا نہ کریں.اللہ تعالیٰ سے ڈر.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تَكُنْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِآيَاتِ النُّورِ وَالْفَاتِحَةِ.تعالی سے ڈر اور سورہ نور اور سورہ فاتحہ کی آیات کا لِكَى لَا يَقُوْمَ عَلَيْكَ شَاهِدَانِ في الحَضْرَةِ اوّلین منکر نہ بن تا کہ یہ تیرے خلاف بارگاہ ایزدی میں وَ أَنْتَ تَقْرَأُ قَوْلَهُ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا دو گواہ بن کر کھڑے نہ ہوں.اور تو خدا کا قول وعد مِنْكُمْ ، وَتَقْرَأُ قَوْلَهُ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُم بھی پڑھتا ہے اور اُس کا قول فَفَكِّرُ في قَوْلِهِ مِنكُمْ " في سُورَةِ النُّوْرِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ بھی پڑھتا ہے.پس تو سورہ ٹور میں وَالْرُكِ الظَّالِمِينَ وَ ظَلَهُمْ أَلَمْ يَأْن لك خدا تعالیٰ کے لفظ منكخ میں غور کر اور ظالموں اور اُن أَن تَعْلَمَ عِندَ قِرَاءَةِ هَذِهِ الْآيَاتِ أَن الله کے اوہام کو چھوڑ دے.کیا تیرے لئے ابھی یہ وقت نہیں قَدْ جَعَلَ الْخُلَفَاءَ كُلَّهُمْ مِنْ هذه الأمة آیا کہ تو ان آیات کو پڑھ کر یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے بِالْعِنَايَاتِ.فَكَيْفَ يَأْتِي الْمَسِيحُ اپنے فضل سے تمام کے تمام خلفاء کو اسی اُمت میں سے الْمَوْعُوْدُ مِنَ السَّمَاوَاتِ اليْسَ بنانا مقدر کیا ہے تو پھر مسیح موعود کس طرح آسمانوں سے الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ عِندَكَ مِنَ الْخُلَفَاءِ اُترے گا.کیا تمہارے نزدیک مسیح موعود خلفاء میں شامل فَكَيْفَ تَحْسَبُهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ مِن نہیں.پھر تم مسیح موعود کو بنی اسرائیل اور بنی اسرائیل کے (النور:۵۶) ترجمہ: اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں سے وعدہ کیا ہے.(النور: ۵۶) ترجمہ: انہیں خلیفہ بنائے گا.

Page 269

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۶ سورة الفاتحة تِلْكَ الْأَنْبِيَاءِ أَتَترُكُ الْقُرْآنَ وَ فِي | نبیوں میں سے کیوں گمان کرتے ہو.کیا تم قرآن کریم کو الْقُرْآنِ كُلُّ الشَّفَاءِ أَوْ تَغَلَّبَتْ عَلَيْكَ چھوڑتے ہو حالانکہ ہر قسم کی شفاء قرآن کریم میں ہے.شِقْوَتُكَ فَتَتْرُكُ مُتَعَمِّدًا طَرِیق کیا تم پر تمہاری بد بختی غالب آ گئی ہے اور تم عمد اہدایت الْاِهْتِدَاءِ.أَلا تَرى قَوْله تَعَالَى "گیا کا رستہ ترک کر رہے ہو.کیا تم اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم في هذه كے الفاظ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کو نہیں السُّورَةِ.فَوَجَبْ أَن يَكُونَ الْمَسِيحُ الآتي دیکھتے.پس ضروری ہوا کہ آنے والا مسیح اسی اُمت میں مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ.لَا مِنْ غَيْرِهِم بالظرورة سے ہو نہ کہ اُمت کے باہر سے.کیونکہ گیا کا لفظ بِالضُّرُورَةِ فَإِنَّ لَفَظَ كَمَا" يَأْتِي لِلْمُشَاءَبَةِ وَ مشابہت اور مماثلت کے لئے آتا ہے اور مشابہت کسی الْمُمَاثَلَةِ.وَالْمُشَابَهَةُ تَقْتَضَى قَلِيلاً من قدر مغائرت کو چاہتی ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ الْمُغَايَرَةِ.وَلَا يَكُونُ شَيْئ مُقابِة نَفْسِه کوئی چیز اپنے آپ کے مشابہ نہیں ہوا کرتی.پس قطعی كَمَا هُوَ مِنَ الْبَدِيهِيَّاتِ.فَقَبَت بنص نص سے ثابت ہو گیا کہ جس عیسی کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ قَطَعِي أَنَّ عِيسَى الْمُنْتَظَرَ مِنْ هَذِهِ اِس اُمت میں سے ہے اور یہ بات یقینی اور شبہات سے الْأُمَّةِ وَهَذَا يَقِينِي وَمُنَزَةٌ عَنِ الشُّبُهَاتِ پاک ہے یہ قرآن کریم کا فرمودہ ہے اور عالم لوگ اسے هذا ما قَالَ الْقُرْآنُ وَيَعْلَمُهُ الْعَالِمُونَ خوب جانتے ہیں.پس اس کے بعد تم کونسی بات مانو فَبِأَي حَدِيثٍ بَعْدَهُ تُؤْمِنُونَ وَقَدْ گے؟ اور قرآن کریم نے تو کہہ دیا ہے کہ عیسی اللہ تعالیٰ قَالَ الْقُرْآنُ إِنَّ عِيسی تہی اللہ قد کے نبی فوت ہو گئے ہیں.پس تم خدا تعالیٰ کے قول فلا مَاتَ فَفَكَّرْ فِي قَوْلِهِ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي تَوَفَّيْتَنِي (المائدہ:۱۱۸) میں غور کرو اور مُردوں کو زندہ وَلَا تُخيِ الْأَمْوَات وَلَا تَنْصُرِ النَّصَارَى قرار نہ دو اور اس طرح فضول باتوں اور بیہودہ کہانیوں بِالْأَبَاطِيْلِ وَ الْخُزَعْبِیلَاتِ وَفِتَلُهُمْ سے عیسائیوں کی مدد نہ کرو.ان کے فتنے پہلے ہی کچھ کم لَيْسَتْ بِقَلِيْلَةٍ فَلَا تَزِدْهَا بِالْجَهَلَاتِ وَإِنْ نہیں ہیں.تم اپنی نادانیوں سے ان میں اضافہ نہ کرو.كُنتَ تُحِبُّ حَيَاةَ نَبِي فَا مِن بِحَيَاةِ نَبِيِّنَا اگر تمہیں کسی نبی کا زندہ رہنا پسند ہو تو تم ہمارے نبی خَيْرِ الْكَائِنَاتِ وَمَا لَكَ أَنك تحسب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر ایمان لے آؤ مَيْتًا مَنْ كَانَ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمینَ وَ تَعْتَقِدُ اور تمہیں کیا ( ہو گیا) ہے کہ تم رحمۃ للعالمین کو تو فوت شدہ (النور:۵۶) ترجمہ : جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا.66

Page 270

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة الفاتحة أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ مِنَ الْأَحْيَاء بَلْ مِن | خیال کرتے ہو اور ابن مریم کے متعلق تمہارا عقیدہ ہے کہ وو 66 الْمُحْيِينَ أَنْظُرُ إِلَى النُّوْرِ " ثُمَّ انظر وہ زندوں بلکہ دوسروں کو ) زندہ کرنے والوں میں سے إلَى الْفَاتِحَةِ " ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ لِيَرْجِعَ ہے.تم سورۃ نور کو دیکھو اور پھر سورۃ فاتحہ پر غور کرو.پھر الْبَصَرُ بِالدَّلَائِلِ الْقَاطِعَةِ.أَلَسْتَ تَقْرَأُ نظر دوڑاؤ تا وہ دلائل قاطعہ لے کر آئے.کیا تم اس صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ" في هذه سورت میں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (کے الفاظ ) السُّورَةِ.فَأَنى تُؤفَكَ بَعْدَ هَذَا أَتنسى نہیں پڑھتے تو پھر اس کے بعد تم کدھر بہک رہے ہو؟ کیا دُعَاءَكَ أَوْ تَقْرَأُ بِالْغَفْلَةِ.فَإِنَّكَ سَأَلْتَ تم اپنی دُعا کو بھول جاتے ہو؟ یا اس کو غفلت کی حالت میں عَن ربك في هذا الدُّعَاءِ وَالْمَسْأَلَةِ.أَنْ لَا پڑھتے ہو؟ تم نے تو اس دُعا اور التجاء میں اللہ تعالیٰ سے یہ يُغَادِرَ نَبِيًّا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا وَيَبْعَثَ مانگا تھا کہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایسا کوئی نبی نہ مَثِيْلَهُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَيْحَكَ أَنَسِيتَ رہنے دے مگر اُس کا مثیل اِس اُمت میں مبعوث دُعاء ك بهذه الشرعَةِ مَعَ أَنَّكَ تَفْرَأه في فرمائے.تم پر افسوس ! کیا تم نے اپنی دُعا کو اتنی جلدی بھلا الْأَوْقَاتِ الْخَمْسَةِ عجبت منك كُلّ دیا.باوجود اس کے کہ تم پانچ وقت یہ دعا پڑھتے ہو.مجھے الْعَجَبِ أَهْذَا دُعَاؤُكَ وَ تِلْكَ ار آؤ تو تم پر انتہائی تعجب ہے کہ یہ تمہاری دُعا ہے اور یہ تمہارے أنْظُرْ إِلَى الْفَاتِحَةِ وَانْظُرُ إِلى سُورَةِ التَّوْرِ خیالات ہیں.ذرا ( سورۃ ) فاتحہ کی طرف دیکھو اور پھر مِنَ الْفُرْقَانِ وَ أَى شَاهِدٍ يُقْبَلُ بَعْدَ فرقانِ مجید کی سورۃ نور پر بھی غور کرو.قرآن کی شہادت شَهَادَةِ الْقُرْآنِ.فَلَا تَكُنْ كَالَّذِی سری کے بعد اور کسی گواہ ( کی گواہی قبول کی جائے گی.تم إِيجَاسَ خَوْفِ الله وَاسْتَشْعَارَهُ وَ اُس شخص کی طرح مت بنو جس نے خدا کے خوف کا ظاہری تَسَرْبَل لِبَاسَ الْوَقَاحَةِ وَشِعَارَهُ اور باطنی احساس ترک کر دیا بلکہ بے حیائی کو اپنا لباس اور أَنثرُكَ كِتَابَ اللهِ لِقَوْمٍ تَرَكُوا الطريق اپنا شعار بنا لیا ہو.کیا تم اُن لوگوں کی خاطر اللہ تعالیٰ کی وَمَا كَتَلُوا التَّحْقِيق وَ التَّعْمِيق.وَإِنَّ کتاب کو چھوڑ دو گے جنہوں نے سیدھا راستہ ترک کر دیا طَرِيقَهُمْ لَا يُؤْصِلُ إِلَى الْمَطْلُوبِ وَقَدْ اور اپنی تحقیق اور غور وفکر کو مکمل نہ کیا.ان کا راستہ مطلوب خَالَفَ التَّوْحِيْدَ وَسُبُلَ اللهِ الْمَحْبُوبِ تک نہیں پہنچاتا بلکہ وہ توحید اور خدائے محبوب کی راہوں فَلَا تَحْسَبُ وَغَرًا دَمِنًا وَ إِن دَفَعَهُ كَثِیر کے خلاف ہے.پس تو سخت (راستہ) کو نرم خیال نہ کر.

Page 271

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وو ۲۴۸ سورة الفاتحة مِنَ الْخطَا وَإِنِ اهْتَدَتْ إِلَيْهَا أَبَابِیلُ | اگر چہ بظاہر قدموں کی کثرت نے اُسے بالکل ہموار کر دیا ہو مِنَ الْقَطَا فَإِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدی اور اگرچہ بھٹ تیتر پرندوں کی قطاروں کی قطار میں اُس کی وَإِنَّ الْقُرْآن شَهِدَ عَلى مَوْتِ الْمَسِيحَ طرف گئی ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہدایت ہی (اصل) وَ أَدْخَلَهُ فِي الْأَمْوَاتِ بِالْبَيَانِ الطَّرِيحِ ہدایت ہے اور قرآنِ کریم نے مسیح کی موت پر شہادت دی مَا لَكَ مَا تُفَكَّرُ في قَوْلِهِ فَلَمَّا ہے اور واضح بیان میں اسے مردوں میں داخل قرار دیا مَا تَوَفَّيْتَنِي " وَلَى قَوْلِهِ قَدْ خَلَتْ مِنْ ہے تمہیں کیا ہو گیا) ہے کہ تم خدا کے الفاظ فلما توفیتنی قَبْلِهِ الرُّسُلُ " وَمَا لَك لا تختار اور پھر اُس کے قول قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ میں غور سَبِيلَ الْفُرْقَانِ وَسَرَّكَ السُّبُلُ نہیں کرتے اور تمہیں کیا ( ہو گیا ) ہے کہ تم قرآن کریم کے وَقَد قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فيها راستہ کو اختیار نہیں کرتے اور دوسرے راستے تمہیں بھلے لگتے تَمُوتُونَ ، فَمَا لَكُمْ لَا تُفَكَّرُونَ ہیں اور اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا وَقَالَ لَكُمْ فِيْهَا مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلى تَمُوتُونَ پس تم کیوں نہیں سوچتے ؟ پھر اللہ تعالی نے فرمایا حِيْنٍ فَكَيْفَ صَارَ مُسْتَقَرُّ عِیسٰی فِی ہے کہ تمہارے لئے ایک مقررہ وقت تک اسی زمین میں السَّمَاءِ أَوْ عَرْشَ رَبّ الْعَالَمِينَ إِن جائے رہائش اور سامان معیشت مقدر ہے.پھر کیونکر حضرت هَذَا إِلَّا كَذِبٌ مُّبِينٌ.وَ قَالَ سُبْحَانَهُ عیسی کا ٹھکانہ آسمان میں یا عرش رب العالمین پر ہو گیا.یہ تو آمَوَاتٌ غَيْرُ احياء " " فَكَيْفَ ایک واضح جھوٹ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے آمُوَاتٌ غَيْرُ تَحْسَبُونَ عِيسَى مِنَ الْأَحْيَاءِ الحَيَاء احياء فرمایا ہے پھر حضرت عیسی کو کس طرح زندہ خیال الْحَيَاءَ يَا عِبَادَ الرَّحْمنِ الْقُرْآن کرتے ہو؟ اے بندگانِ خدا! باز آؤ باز آؤ.قرآن کو الْقُرْآنَ فَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تَتْرُكُوا (لازم پکڑو ) قرآن کو لازم پکڑو ) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو الْفُرْقَانَ إِنَّهُ كِتَابٌ يُسْأَلُ عَنْهُ اور قرآن کو مت چھوڑو.یہ ایسی کتاب ہے جس کے متعلق إِنْسٌ وَجَانٌ وَ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ انسانوں اور جنوں (سب سے ) باز پرس ہوگی اور تم نماز الفاتحة في الصَّلَاةِ.فَفَكِّرُوا فِيهَا میں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہو.پس اے عظمند و! اس میں خوب يَا ذوى الحَصاة.غور کرو.( المائدة : ۱۸۸) ترجمہ: جب تو نے میری روح قبض کرلی.۲ (ال عمران: ۱۴۵) ترجمہ : اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.(الاعراف: ۲۶) ترجمہ: اسی میں تم زندہ رہو گے اور اسی میں تم مرو گے.۴.(النحل : ۲۲) ترجمہ: وہ سب مُردے ہیں نہ کہ زندہ.

Page 272

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة الفاتحة 66 أَلَا تَجِدُونَ فِيهَا آيَةً صِرَاطَ الَّذِينَ | کیا تم اس میں آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ - فَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نہیں پاتے ؟ پس تم اُن لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جو اپنی فَقَدُوا نُورَ عَيْنَيْهِمْ وَذَهَبَ بمَا لَدَيْهِمْ دونوں آنکھوں کی روشنی کھو بیٹھے ہیں اور اُن کے پاس جو وَيْحَكُمْ وَهَلْ بَعْدَ الْفُرْقَانِ دَلِيْلٌ أَوْ بَقِيَ کچھ تھا وہ سب اُن سے جاتا رہا.تم پر افسوس! کیا قرآن إلى مَقَرٍ مِنْ سَبِيلٍ أَيَقْبَلُ عَقْلُكُمْ أَنْ کریم کے بعد بھی اور کوئی دلیل ہے؟ یا گریز کا کوئی رستہ يُبَيِّرَ رَبُّنَا فِي هَذَا الدُّعَاءِ بِأَنَّهُ يَبْعَثُ باقی رہ جاتا ہے؟ کیا تمہاری عقل قبول کرتی ہے کہ اللہ الأئمة مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِمَنْ يُرِيدُ طَرِيق تعالی ہمیں اس دُعا میں بشارت دے کہ وہ اُن لوگوں کے الْاِهْتِدَاءِ.الَّذِينَ يَكُونُونَ كَمِثْلِ لئے جو ہدایت کی راہ کے طالب ہیں اسی امت میں سے أَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْإِجْتِبَاءِ وَ ایسے ائمہ کو مبعوث کرے گا جو پسندیدہ اور برگزیدہ ہونے الْاِصْطِفَاءِ وَيَأْمُرُنَا أَن نَّدْعُوَ أَن تَكُونَ کے لحاظ سے بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے اور كَأَنبِيَاء بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تَكُونَ ہمیں حکم دے کہ ہم یہ دُعا کریں کہ ہم بنی اسرائیل کے كَاشْقِيَاء بَنِي إِسْرَائِيلَ ثُمَّ بَعد هذا نبیوں کی مانند ہو جائیں اور بنی اسرائیل کے بد بختوں کی يَدُعُنَا وَيُلْقِينَا في وهَادِ الْحِرْمَانِ طرح نہ ہوں اور پھر اس کے بعد ہمیں دھکے دے کر محرومی وَيُرْسِلُ إِلَيْنَا رَسُولًا مِنْ بَنِي إِسْرائیل کے گڑھے میں پھینک دے.وہ ہماری طرف بنی اسرائیل وَيَنْسى وَعْدَهُ كُلّ النِّسْيَانِ وَهَلْ هَذَا میں سے ایک رسول بھیج دے اور اپنا وعدہ پوری طرح إِلَّا الْمَكِيْدَةُ الَّتِي لا يُنسَبُ إِلَى الله بھول جائے.یہ ایسی فریب دہی ہے جو ہرگز خدائے محسن الْمَتَانِ وَإِنَّ اللهَ قَد ذَكَرَ في هذهِ السُّورَةِ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ثَلَاثَةَ أَحْزَابٍ مِنَ الَّذِينَ أَنْعَمَ عَلَيْهِمْ وَ تین گروہوں کا ذکر کیا ہے یعنی منعم علیهم ، یہود اور الْيَهُودِوَ النَّصْرَانِيين.وَرَغْبَنَا في الحزب نصاری کا.اور ہمیں ان میں سے پہلے گروہ میں شامل ہونے الْأَوَّلِ مِنْهَا وَنَهَى عَنِ الْأَخَرَيْنِ بَل کی ترغیب دی ہے اور باقی دونوں گروہوں میں شامل ہونے حَقَنَا عَلَى الدُّعَاءِ وَالتَّضرع والانتقال سے روکا ہے.بلکہ ہمیں دُعا، عاجزی اور انکساری کی ترغیب لِتَكُونَ مِنَ الْمُنعَمِ عَلَيْهِمُ لَا مِن دی ہے تا کہ ہم منعم علیہم (گروہ میں) سے ہو الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَأَهْلِ الضَّلَالِ جائیں نہ کہ مغضوب علیہم اور ضالین میں سے.

Page 273

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۰ سورة الفاتحة وَالَّذِي أَنْزَلَ الْمَطَرَ مِنَ الْغَمَامِ اور اُس ذات کی قسم جس نے بادلوں سے بارش اُتاری اور وَأَخْرَجَ الثَّمَرَ مِنَ الْأَكْمَامِ لَقَدْ ظَهَرَ شگوفوں سے پھل نکالے.اس آیت سے حق ظاہر ہو گیا ہے الْحَقُّ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ.وَلَا يَشْكُ فِيْهِ اور جس کو ذرہ بھر بھی سمجھ عطا کی گئی ہے وہ اس بارہ میں کوئی مَنْ أُعْطِيَ لَهُ ذَرَّةٌ مِّنَ الدِّرَايَةِ وَإِنَّ شک نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ نے پوری وضاحت سے ( یہ الله قَد مَن عَلَيْنَا بِالتّضريح امور ) کھول کر ہم پر بہت احسان کیا ہے اور ہم سے غور و فکر وَالْإِظْهَارِ وَ أَمَاطَ عَنَّا وَعُشَاء کی مشقت کو دور کر دیا ہے.پس جولوگ سانپ کے زبان الْإِفْتِكَارِ فَوَجَبَ عَلَى الَّذِينَ ہلانے کی طرح زبان ہلاتے ہیں اور ( شکار کو ) جھانکنے والے يُنَضُنِضُونَ نَضْنَضَةَ الصَّلِ باز کے غصہ سے دیکھنے کی طرح غضبناک ہو کر دیکھتے ہیں اُن وَيُحَمْلِقُوْنَ حَمَلَقَةَ الْبَازِي الْمُطِلِ آن پر واجب ہے کہ اس انعام سے منہ نہ پھیر میں اور چوپایوں کی لَّا يُعْرِضُوا عَنْ هَذَا الْإِنْعَامِ وَلا طرح نہ ہو جائیں.اور میرے دل میں یہ بات خوب بیٹھ گئی يَكُونُوا كَالْأَنْعَامِ.وَقَدْ عَلِقَ بِقَلْبِي أَنَّ ہے کہ سورت فاتحہ دُعا کرنے والوں کے زخموں کا علاج کرتی الْفَاتِحَةَ تَأْسُو أَجْرَاحَهُمْ وَ تُرِيْضُ ہے اور اُن کے (روحانی) بازوؤں پر پر لگاتی ہے اور قرآن جَنَاحَهُمْ وَ مَا مِنْ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ کی کوئی سورت ایسی نہیں جو انہیں اس اعتقاد (حیات مسیح) إِلَّا هِيَ تُكَذِّبُهُمْ فِي هَذَا الْاِعْتِقَادِ کے بارے میں جھوٹا قرار نہ دیتی ہو.پس اللہ تعالیٰ کی اس فَاقْرَ مَا شِئْتَ مِنْ كِتاب الله يُرِيك کتاب کو جہاں سے چاہو پڑھ لو.وہ تمہیں صدق وسداد کا راستہ ہی دکھائے گی.طريق الصدقِ والسَّدَادِ 66 أَلا ترى أَنَّ سُوْرَةٌ للي إسرائيل " کیا تم نہیں دیکھتے کہ سورت بنی اسرائیل مسیح کو اس بات بَنِي إِسْرَائِيلَ يَمْتَعُ الْمَسِيحَ أَن يَز فى في السَّمَاءِ وَأَنَّ سے روکتی ہے کہ وہ آسمان میں چڑھ جائے اور یہ کہ سورۃ " آلَ عِمْرَانَ " تَعِدُدُ أَنَّ اللهَ مُتَوَفِّيْهِ وَ آل عمران مسیح سے وعدہ کرتی ہے کہ خدا اُسے وفات دے كافِلُهُ إِلَى الْأَمْوَاتِ مِنَ الْأَحْيَاءِ ثُمَّ گا اور اُسے زندوں سے مردوں کی طرف منتقل کرنے والا إنَّ الْمَآيْدَةَ تَبْسُطُ لَهُ مَآئِدَةَ الْوَفَاةِ ہے.پھر یہ کہ سورۃ مائدہ اس کے لئے موت کا دسترخوان فَاقْرَأَ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي إِن كُنتَ في بچھاتی ہے.اگر تمہیں شبہات ہوں تو فَلَمَّا توقيتني ( والی الشُّبُهَاتِ ثُمَّ إِنَّ الزُّمَر يَجْعَلُهُ آیت) پڑھ لو.پھر سورۃ زُمرا سے ایسے گروہ میں شامل کرتی وو 66

Page 274

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة الفاتحة مِنْ زُمَرٍ لَّا يَعُودُونَ إِلَى الدُّنْيَا السَّنِيَّةِ وَ ہے جو اس حقیر دنیا میں واپس نہیں آئیں گے.اگر تم إِنْ شِئْتَ فَاقْرَأَ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا چاہو تو فَيُسِلُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ پڑھ لو اور الْمَوْتَ ، وَاعْلَمُ أَنَّ الرُّجُوعَ حَرَام بَعْدَ معلوم کرلو کہ موت کے بعد (اس دنیا کی طرف ) لوٹنا الْمَنِيَّةِ وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكَهَا اللهُ أَنْ حرام ہے اور اُس بستی کا جسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے تُبْعَثَ قَبْلَ يَوْمِ النُّشُورِ وَأَمَّا الْإِحْيَاءُ قیامت سے پہلے زندہ اُٹھایا جانا حرام ہے.لیکن معجزہ يطَرِيقِ الْمُعْجِزَةِ فَلَيْسَ فِيهِ الرُّجُوعُ إِلَى کے طور پر زندہ ہونے کا مطلب اس دنیا کی طرف لوٹنا الدُّنْيَا الَّتِي هِيَ مَقَامُ الظُّلْمِ وَالنُّورِ ثُمَّ نہیں جو ظلم اور فریب کا گھر ہے.پھر جب مسیح کی موت إِذَا ثَبَتَ مَوْتُ الْمَسِيحِ بِالنَّضِ الطَّرِيح نص صریح سے ثابت ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے فصیح بیان فَأَزَالَ اللهُ وَهُم نُزولِهِ مِنَ السَّمَاءِ بِالْبَيَانِ میں اُس کے آسمان سے اترنے کے وہم کا ازالہ کر دیا.الْفَصِيحِ وَأَشَارَ فِي سُورَةِ النُّورِ وَ الْفَاتِحَةِ اور سورۃ نور اور سورۃ فاتحہ میں اشارہ کیا کہ یہ امت ظلمی أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ يَرِثُ أَنْبِيَاءَ بَنِي إِسْرَائِيلَ طور پر بنی اسرائیل کے انبیاء کی وارث ہوگی تو یہ بات عَلَى الطَّرِيقَةِ الظَّلْيَّةِ.فَوَجَبَ أَن يَأْتي في اخير لازم ہوگئی کہ آخری زمانہ میں اس امت میں بھی مسیح الزَّمَانِ مَسِيحُ مِنْ هذِهِ الْأُمَّةِ كَمَا أَتى آئے گا جس طرح عیسی بن مریم موسوی سلسلہ کے آخر عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فِي آخِرِ السّلسِلةِ میں آئے تھے.کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت محمد الْمُؤسَوِيَّةِ فَإِنَّ مُوسَى وَمُحَمَّدًا عَلَيْهِمَا (صلى الله علیه وسلم) ہر دو پر خدائے رحمان کا درود اور صَلَوَاتُ الرَّحْمنِ مُتَمَائِلَانِ بِنَضِ الْفُرْقَانِ اسلام ہو ، قرآنی نص کے رُو سے ایک دوسرے کے وَ إِنَّ سِلْسِلَة هذِهِ الْخِلافَةِ تُقابِهُ سِلْسِلَة مثیل ہیں اور اس خلافت کا سلسلہ اس سلسلہ خلافت تِلْكَ الْخِلَافَةِ.كَمَا هِيَ مَلْكُورَةٌ فِي الْقُرْآنِ سے مشابہت رکھتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اس وَفِيهَا لا يَختَلِفُ اثْنَانِ وَ قَدِ الختتمت سلسلہ کا ذکر موجود ہے اور اس بارہ میں کوئی دو آدمی مِنَاتُ سِلْسِلَةِ خُلَفَاءِ مُوسى عَلى عِيسى مختلف نہیں اور خلفاء موسٹی کے سلسلہ کی صدیاں چودھویں كَمِثْلِ عِدَّةِ أَيَّامِ الْبَدْرِ.فَكَانَ مِنَ الْوَاجِبِ کے چاند کی گنتی کے مطابق حضرت عیسی پر ختم ہو گئیں أَنْ يَظْهَرَ مَسِيحُ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي مُدَّةٍ هِيَ پس ضروری تھا کہ اس اُمت کا مسیح اسی قدر عرصہ میں كَمِثْلِ هَذَا الْقَدْرِ.وَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ الْقُرْآنُ في (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) ظاہر ہو اور اس (الزمر:۴۳) ترجمہ: جس کی موت کا حکم جاری کر چکا ہوتا ہے اس کی روح کورو کے رکھتا ہے.

Page 275

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة الفاتحة قَوْلِهِ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ اَنْتُمْ اَذِلة کی طرف قرآن مجید نے آیت کریمہ وَ لَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ وإن القران ذُو الْوُجُوهِ كَمَا لا يخفى عَلَى بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِلَّةٌ میں اشارہ کیا ہے اور جیسا کہ جلیل القدر الْعُلَمَاءِ الْأَجِلَّةِ.فَالْمَعْنَى الثَّانِي لِهَذِهِ عالموں پر مخفی نہیں قرآن کریم ذوالوجوہ ہے.سو اس جگہ اس الْآيَةِ فِي هَذَا الْمَقَامِ اَنَّ اللهَ يَنْصُرُ آیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان صدیوں کے الْمُؤْمِنِينَ بِظُهُورِ الْمَسِيحِ إِلى مِنِينَ | اختتام پر جن کی گنتی بدر کامل کے دنوں کے مشابہ ہے مسیح تُشَابِهُ عِدَّتُهَا أَيَّامَ الْبَلدِ التَّام موعود کے ظہور سے مومنوں کی مدد فرمائے گا.درآنحالیکہ وَالْمُؤْمِنُوْنَ أَذِلَّةٌ فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ.فانظر مومن اس زمانہ میں حقیر ہوں گے.پس اس آیت کو دیکھو إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ كَيْفَ تُشير إلى ضُعْفِ کس طرح ترقی کے بعد اسلام کے ضعیف ہو جانے کی طرف الْإِسْلَامِ ثُمَّ تُشِيرُ إلى گونِ خِلالِہ اشارہ کرتی ہے.پھر یہی آیت خدائے علیم و خبیر کی طرف بَدْرًا فِي أَجَلٍ مُّسَمًّى مِّنَ اللهِ الْعَلامِ سے مقرر کردہ مدت میں ہلالِ اسلام کے بدر بن جانے کی كَمَا هُوَ مَشْهُومُ من لفظ الْبَدْرِ طرف اشارہ کرتی ہے.جیسا کہ آیت میں لفظ بدر سے سمجھا فالحمد لله على هذا الافضَالِ جاتا ہے.پس اس فضل اور انعام پر خدا تعالی کے لئے ہی وَالْإِنْعَامِ وَ حَاصِل مَا قُلْنَا في هذا سب تعریفیں ہیں.اس بارہ میں ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے الْبَابِ أَنَّ الْفَاتِحَةُ تُبهر یکون اس کا ماحصل یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ بشارت دیتی ہے کہ مسیح موعود الْمَسِيحِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَضْلًا مِّنْ اِس اُمت میں سے ہوگا اور یہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے بطور رَّبِّ الْأَرْبَابِ فَقَدْ بُشر نَا مِنَ الْفَاتِحَةِ فضل و احسان ہوگا.پس سورت فاتحہ کے ذریعہ ہمیں خوشخبری بِأَمَةٍ مِنَا هُمْ كَانْبِيَاءِ بَنی اسرائیل دی گئی ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل کی مانند ہم میں ائمہ تو ہوں وَمَا بُهرْنَا بِنُزولِ نَبِي مِن السَّمَاءِ کے لیکن آسمان سے کسی نبی کے نازل ہونے کی ہمیں کوئی فَتَدَبَّرُ هَذَا التَّلِيْلَ.وَقَدْ سَمِعْتَ مِن بشارت نہیں دی گئی.پس اس دلیل پر پورا غور کرو.اور تم قبل قَبْلُ أَنَّ سُورَةَ النُّورِ قَدْ بَشرتنا از میں من چکے ہو کہ سورت نور نے ہمیں حضرت موسیٰ کلیم اللہ بِسِلْسِلَةِ خُلَفَاءٍ تُشَابِه سِلْسِلَةَ خُلَفَاءِ کے خلفاء کے سلسلہ کی مانند ایک سلسلہ خلفاء کی بشارت دی الْعَلِيْمِ.وَكَيْفَ تَتِمُّ الْمُشَاءَبَةُ مِن ہے.پس یہ مشابہت کس طرح پوری ہو گی سوائے اس کے کہ دُوْنٍ أَن يَظهَرَ مَسِيحُ كَمَسِيحِ سِلْسِلَة سلسله موسى كکلیم اللہ کے مسیح کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (آل عمران (۱۲۴) ترجمہ: اور اس پہلے بدر کی جنگ میں جبکہ تم حقیر تھے اللہ یقینا نہیں مدد دے چکا ہے.

Page 276

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة الفاتحة الْكَلِيْمِ فِي آخِرِ سِلْسِلَةِ النَّبِيِّ الكَرِيمِ کے سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح ظاہر ہو.وَإِنَّا آمَنَّا بِهَذَا الْوَعْدِ فَإِنَّهُ مِن رَّب ہمارا اس وعدہ پر ایمان ہے کیونکہ یہ وعدہ رب عباد کی الْعِبَادِ وَإِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ و طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا.اس الْعَجَبُ مِنَ الْقَوْمِ أَنَّهُمْ مَّا نَظَرُوا إِلى قوم پر تعجب ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے وعدہ کی وَعْدِ حَضْرَةِ الْكِبْرِيَاءِ.وَهَلْ يُونى وَيُنْجَزُ طرف دھیان نہیں کیا اور خدائی وعدہ تو اہل ہوتا ہے اور إِلَّا الْوَعْدُ فَلْيَنظُرُوا بِالتَّقْوَى وَالْحَيَاء - ضرور پورا ہو جاتا ہے پس چاہئے کہ خوف خدا اور حیاء کے وَ هَلْ فى فِرْعَةِ الْإِنْصَافِ أَنْ يُنَزِّلَ ساتھ دیکھیں کہ آیا یہ قانون عدل ہے کہ مسیح آسمان سے الْمَسِيحُ مِنَ السَّمَاءِ وَيُخلَفَ وَعْدُ مُماثلة نازل کیا جائے اور سلسلہ ہائے خلفاء کی مشابہت کے سِلْسِلَة الإِستخلافِي وَإِن تَشَابة وعدہ کی خلاف ورزی کی جائے حالانکہ مفتیور خدا کے حکم السّلْسِلَتَيْنِ قَد وَجَبْ بِحُكْمِ اللهِ الْغَيُّور سے ان دونوں سلسلوں کی مشابہت واجب قرار پا چکی كَمَا هُوَ مَفْهُوْمٌ مِنْ لَّفْظِ كَمَا فی ہے جیسا کہ سورۃ نور کی آیت استخلاف کے لفظ گما سے سُورَةِ النُّورِ سمجھا جاتا ہے.( ترجمہ از مرتب) اعجاز اسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۷۰ تا ۱۸۹) وَحَاصِلُ الْكَلَامِ أَنَّ الله تعالى يُبيرُ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لأُمَّةِ تبيْنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی اُمّت کو خوشخبری دیتا ہے گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اے فَكَأَنَّهُ يَقُولُ يَا عِبَادِ إِنَّكُمْ خُلِقْتُم میرے بندو! تم پہلے انعام یافتہ لوگوں کی طبیعتوں پر پیدا عَلى طَبَائِعِ المُنْعَمِنَ السَّابِقِین کئے گئے ہو اور تم میں اُن کی استعداد میں رکھی گئی ہیں پس وَ فِيْكُمُ اسْتِعْدَادَانَهُمْ فَلَا تُضَيَّعُوا تم ان استعدادوں کو ضائع نہ کرو اور کمالات حاصل کرنے الْاِسْتِعْدَادَاتِ وَ جَاهِدُوا لِتَحْصِيلِ کے لئے مجاہدات کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی سخی اور الكَمَالَاتِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ جَوَادٌ كَرِيمٌ کریم ہے اور وہ بخیل اور کنجوس نہیں اور یہاں سے نزول وَلَيْسَ بِبَخِيْلٍ ضَنِينٍ وَمِنْ هُنَا يُفهَمُ مسیح کا وہ راز سمجھا جا سکتا ہے جس کے بارہ میں لوگ ر نُزولِ الْمَسِيحِ الَّذِى يَخْتَصِمُ النَّاسُ جھگڑتے ہیں کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے فِيْهِ فَإِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللهِ إِذَا اقْتَدَی ایک بندہ ہدایت یافتہ لوگوں کے طریق کی پیروی کرے

Page 277

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورة الفاتحة هُدَى الْمُهْتَدِينَ وَتَّبِعَ سُنَنَ الْعَامِلِينَ اور کامل لوگوں کے طریقوں کا متبع ہو اور ہدایت یافتہ لوگوں وَ تَأَهَبَ لِلْإِنْصِباغ يصبعُ الْمَهْدِنِین کے رنگ سے رنگین ہونے کے لئے تیار ہو اور اپنے تمام وَعَطَفَ إِلَيْهِمُ يُجَمِيعِ إِرَادَتِهِ وَقُوتِه ارادوں اور قوت اور دل سے اُن کی طرف مائل ہو اور وَجَنَانِهِ وَأَذَى شَرْطَ السُّلُوكِ بحسب حتی الامکان سلوک کے شرائط ادا کرے اور اپنے اقوال کو إمْكَانِهِ وَشَفَعَ الْأَقْوَالَ بالاعتمال اعمال سے اور قال کو حال سے مطابق کرے اور ان لوگوں وَالْمَقَالَ بِالْحَالِ وَدَخَلَ فِي الَّذِينَ میں داخل ہو جائے جو خدائے قادر ذوالجلال کی طرف سے يَتَعَاطَوْنَ كَأْسَ الْمَحَبَّةِ لِلْقَادِرِ ذی محبت کا پیالہ لیتے ہیں اور ذکر اللہ کے چقماق سے تضرع اور الْجَلالِ وَيَفْتَدِحُونَ زَنَادَ ذِكْرِ الله عاجزی کے ذریعہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور رونے والوں بالقصرع والابيهال وَيَبْكُونَ مَعَ کے ساتھ روتے ہیں تب (بندہ کے اس مقام پر پہنچنے پر ) بِالتَضَرُّعِ وَالْابْتِهَالِ الْبَاكِينَ فَهُنَالِكَ يَفُورُ بَحْرُ رَحْمَةِ الله اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سمندر جوش مارتا ہے تا اُس شخص کو تمام لِيُظْهِرَهُ مِنَ الْأَوْسَاحُ وَالْأَخْرَانِ قسم کی روحانی میل کچیل سے پاک کرے اور تا اُسے وَلِتُرْوِيَة بإفَاضَةِ القَتَانِ ثُمَّ يَأْخُذُ موسلا دھار (روحانی) بارش کے فیضان سے سیراب کرے.يَدَةَ وَيُرْقِيهِ إِلى أَعْلى مراتب الانتقاء پھر وہ اُس کی دستگیری کرتا ہے اور اُسے ارتقاء اور عرفان کے وَالْعِرْفَانِ وَيُدْخِلُهُ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ اعلیٰ مراتب پر پہنچاتا ہے اور اُس کو اُن لوگوں میں داخل کر قَبْلِهِ مِنَ الفُلَحَاءِ وَالْأَوْلِيَاء وَالرُّسُلِ دیتا ہے جو صالحین ، اولیاء ، رسولوں اور نبیوں میں سے اُس وَالنَّبِيِّينَ فَيُعْطَى كَمَالاً كَمِغل سے پہلے گزر چکے ہیں.پس اُسے اُن کے کمالات کی طرح كَمَالِهِمْ وَجَمَالًا كَمِثْلِ جَمَالِهِمْ کمال اور اُن کے جمال کی طرح جمال اور اُن کے جلال کی وَجَلَالًا كَمِثْلِ جَلَالِهِمْ طرح جلال عطا کیا جاتا ہے.وَ قُلْ يَقْتَدِى الزَّمَانُ وَالْمَصْلَحَةُ اور کبھی زمانہ اور مصلحت اس امر کی مقتضی ہوتی ہے کہ ایسا أَنْ يُرْسَلَ هَذَا الرَّجُلُ عَلَى قَدَمٍ نَبِي شخص ایک خاص نبی کے قدم پر بھیجا جائے پھر ا سے اُس نبی خَاضٍ فَيُعْطى لَهُ عِلْمًا كَعِلْبِهِ وَعَقلاً کا سا علم، اور اُس کی عقل کی سی عقل ، اور اس کے نور کا سانور، كَعَقْلِهِ وَنُورًا كَنُورِهِ وَاسْما کاشمہ اور اُس کے نام کا سا نام دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُن دونوں وَيَجْعَلُ اللهُ أَرْوَاحَهُمَا كَمَرَايَا مُتَقَابَلَةٍ کی روحوں کو اُن آئینوں کی طرح بنا دیتا ہے جو آمنے سامنے

Page 278

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة الفاتحة فَيَكُونُ النَّبِيُّ كَالأَصْلِ وَالْوَلِيُّ ہوں.پس نبی اصل کی طرح ہوتا ہے اور ولی ظلّ کی طرح.كَالظَّلِ مِنْ مَّرْتَبَتِهِ يَأْخُذُ وَمِنْ وہ اس کے مرتبہ سے (حصّہ ) لیتا ہے اور اُس کی روحانیت سے مرتبہ لیتا رُوحَانِيَّتِهِ يَسْتَفِيدُ حَتَّى يرتفع استفادہ کرتا ہے.یہاں تک کہ اُن کے درمیان امتیاز اور مِنْهُمَا الامتيارُ وَالْغَيْرِيَّةُ وَتَردُ غیریت اُٹھ جاتے ہیں اور پہلے (اصل) کے احکام دوسرے أَحْكَامُ الْأَوَّلِ عَلَى الْآخِرِ وَيَصِيرَانِ ( ظل ) پر وارد ہو جاتے ہیں تب وہ دونوں اللہ اور ملاء اعلی كَشَينِي وَاحِدٍ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ مَلاهِ کے نزدیک ایک شئی کی طرح ہو جاتے ہیں اور دوسرے پر الْأَعْلَى وَيَنْزِلُ عَلَى الْآخِرِ إِرَادَةُ الله و اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور اللہ کا اُسے ایک جہت کی طرف پھرانا اور تَصْرِيفُهُ إِلَى جِهَةٍ وَأَمْرُهُ وَنَهيه بعد اس کا امر اور اُس کی نہی پہلے (اصل) کی روح پر عبور کرنے کے عُبُورِه عَلَى رُوحِ الْأَوَّلِ وَهُذَا سِر من بعد اُس دوسرے (ظل) پر اُترتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے أَسْرَارِ اللهِ تَعَالَى لَا يَفْهَمُهُ إِلَّا مَنْ كَانَ اسرار میں سے ایسا ستر ہے جس کو سوائے روحانی لوگوں کے اور کوئی نہیں سمجھتا.( ترجمہ از مرتب) مِنَ الرُّوحَانِيّين کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۲۷) فَالْحَاصِلُ أَنَّ دُعَاءَ امی کا پس خلاصہ یہ ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا 66 القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ يُنْجِی انسان کو ہر بجی سے نجات دیتی ہے اور اُس پر دین قویم کو واضح الْإِنْسَانَ مِنْ كُلِّ أَوْدٍ وَيُظْهِرُ عَلَيْهِ کرتی ہے اور اُس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں الدِّيْنَ الْقَوِيْمَ وَ يُخْرِجُهُ مِن بَيْت بھرے باغات میں لے جاتی ہے.اور جو شخص بھی اس دُعا قَفْرٍ إِلى رِيَاضِ القَمَرِ وَ الرَّيَاحِيْنِ وَ میں زیادہ آہ وزاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو خیر و برکت مَنْ زَادَ فِيْهِ إِلْحَاحًا زَادَهُ اللهُ صَلَاحًا میں بڑھاتا ہے.دُعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت والتَّبِيُّون أنَسُوا مِنْهُ أُنْسَ الرّحْمنِ حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی دُعا کو فَمَا فَارَقُوا الدُّعَاءَ طَرْفَةَ عَيْنٍ إلى نہ چھوڑا اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس دُعا سے لا پرواہ آخِرِ الزَّمَانِ وَمَا كَانَ لِأَحَدٍ أَنْ يَكُونَ ہو، یا اس مقصد سے منہ پھیر لے خواہ وہ نبی ہو یا رسولوں میں غَنِيًّا عَنْ هَذِهِ الدَّعْوَةِ وَلَا مُعْرِضًا سے.کیونکہ رُشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے عَنْ هَذِهِ الْمَنِيَّةِ نَبِيًّا أَوْ كَانَ مِن بلکہ وہ بے انتہاء ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں ان تک نہیں پہنچے

Page 279

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة الفاتحة الْمُرْسَلِينَ فَإِنَّ مَرَاتِ الرُّشْدِ وَالْهِدَايَةِ سکتیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا لا تَتِمُّ أَبَدًا بَلْ هِيَ إِلى غَيْرِ البَايَةِ وَ لا سکھائی اور اسے نماز کا مدار ٹھہرایا تا لوگ اس کی تَبْلُغُهَا أَنْظارُ الدّرَايَةِ فَلِذلِك عَلَّمَ الله ہدایت سے فائدہ اُٹھا ئیں اور اس کے ذریعہ توحید کو تَعَالَى هَذَا الدُّعَاءَ لِعِبَادِهِ وَ جَعَلَهُ مَدَارَ مکمل کریں اور ( خدا تعالیٰ کے ) وعدوں کو یادرکھیں الصَّلَاةِ لِيَتَمَتَّعُوا بِرَشَادِہ وَلِيَكْبِلَ النَّاسُ اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں.اس دُعا کے بِهِ التَّوْحِيد وَ لِيَذْكُرُوا الْمَوَاعِيدَ و کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام لِيَسْتَخْلِصُوا مِنْ شِرْكِ الْمُشْرِكِينَ وَ مِن مراتب پر حاوی ہے اور ہر فرد پر بھی حاوی ہے.وہ كَمَالَاتِ هَذَا الدُّعَاءِ أَنَّهُ يَعُمُّ كُلّ مَرَاتِبِ ایک غیر محدود دعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہاء النَّاسِ وَكُلَّ فَرْدٍ مِنْ أَفَرَادِ الْأُنَاسِ وَهُوَ نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یا کنارہ ہے.پس دُعَاء غَيْرُ مَحْدُودٍ لَّا حَدَّ لَهُ وَلَا انْتِهَاءَ وَلَا مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف ہندوں کی طرح غَاىَ وَلَا أَرْجَاءَ فَطوبى لِلَّذِيْنَ يُدَاوِمُوْنَ اِس دُعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں زخمی دلوں کے عَلَيْهِ بِقَلْبٍ دَافِي الْفُرْح وَ بِرُوچ صَابِرَةٍ عَلَى ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے الْجُرْح وَ نَفْسٍ مُّطْمَئِنَّةٍ كَعِبَادِ اللہ ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوس الْعَارِفِينَ.مُطْمَئِنّہ کے ساتھ.وَإِنَّهُ دُعَاء تَضَمَّن كُلَّ خَيْرٍ وَسَلَامَةٍ یہ وہ دُعا ہے جو ہر خیر ،سلامتی ، پختگی اور استقامت وَسَدَادٍ وَاسْتِقَامَةٍ وَفِيْهِ بَهَارَاتٌ من الله پر مشتمل ہے اور اس دُعا میں رب العالمین کی طرف مِّنَ سے بڑی بشارتیں ہیں.( ترجمہ از مرتب ) رَبِّ الْعَالَمِينَ کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۳۶ ، ۱۳۷ ) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - الرحمن کے بالمقابل ہے کیونکہ ہدایت پانا کسی کا حق تو نہیں ہے بلکہ محض رحمانیت الہی سے یہ فیض حاصل ہو سکتا ہے اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ الرَّحِيْمِ کے بالمقابل ہے کیونکہ اس کا ورد کرنے والا رحیمیت کے چشمہ سے فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اے رحم خاص سے دُعاؤں کے قبول کرنے والے ان رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ ہم کو دکھا جنہوں نے دُعا اور مجاہدات میں مصروف ہو کر تجھ سے انواع و اقسام کے معارف اور حقائق اور کشوف اور الہامات کا

Page 280

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة الفاتحة انعام پایا اور دائی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ سے معرفت تامہ کو پہنچے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۴ مؤرخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) ساتویں صداقت جو سورہ فاتحہ میں درج ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اُس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی بھی نہیں.اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہر یک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہر ارکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے وسائل ہیں وہ حاصل کئے جائیں اور جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خود بخود حاصل ہو جاتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ان راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یونہی مطلب حاصل ہو جائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ ہر یک مقصد کے حصول کے لئے ایک مقرری طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقہ مقررہ پر قدم نہیں مارتا تب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا.پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دُعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراط مستقیم ہے.جو شخص صراط مستقیم کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اس کی کچھ پرواہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کجر و آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالم ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمت الہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اول صراط مستقیم کو طلب کر پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا.سو سب دعاؤں سے مقدم دُعا جس کی طالب حق کو اشد ضرورت ہے طلب صراط مستقیم ہے.اب ظاہر ہے کہ ہمارے مخالفین اس صداقت پر قدم مارنے سے بھی محروم ہیں.عیسائی لوگ تو اپنی ہر دعا میں روٹی ہی مانگا کرتے ہیں.اور اگر کھا پی کر اور پیٹ بھر کر بھی گرجا میں آویں پھر بھی جھوٹ موٹ اپنے تئیں بھو کے ظاہر کر کے روٹی مانگتے رہتے ہیں گویا ان کا مطلوب اعظم روٹی ہی ہے وبس.آریہ سماج والے اور دوسرے ان کے بت پرست بھائی اپنی دعاؤں میں جنم مرن سے بچنے کے لئے یعنی اواگون سے جو اُن کے زعم باطل میں ٹھیک اور درست ہے طرح طرح کے اشلوک پڑھا کرتے ہیں اور صراط مستقیم کو خدا سے نہیں مانگتے.علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ نے تو اس جگہ جمع کا لفظ بیان کر کے اس بات کی

Page 281

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ سورة الفاتحة طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی انسان ہدایت طلب کرنے اور انعام الہی پانے سے ممنوع نہیں ہے مگر بموجب اصول آریا سماج کے ہدایت طلب کرنا گنہگار کے لئے نا جائز ہے اور خدا اس کو ضرور سزا دے گا اور ہدایت پانا نہ پانا اس کے لئے برابر ہے.برہمو سماج والوں کا دعاؤں پر کچھ ایسا اعتقاد یہی نہیں وہ ہر وقت اپنی عقل کے گھمنڈ میں رہتے ہیں اور نیز ان کا یہ بھی مقولہ ہے کہ کسی خاص دعا کو بندگی اور عبادت کے لئے خاص کرنا ضروری نہیں.انسان کو اختیار ہے جو چاہے دعا مانگے مگر یہ ان کی سراسر نادانی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر چہ جزوی حاجات صد با انسان کو لگی ہوئی ہیں مگر حاجت اعظم جس کا دن رات اور ہر یک دم فکر کرنا چاہئے صرف ایک ہی ہے یعنی یہ کہ انسان ان طرح طرح کے حجب ظلمانیہ سے نجات پاکر معرفت کامل کے درجہ تک پہنچ جائے اور کسی طرح کی نابینائی اور کور باطنی اور بے مہری اور بے وفائی باقی نہ رہے بلکہ خدا کو کامل طور پر شناخت کر کے اور اس کی خالص محبت سے پر ہو کر مرتبہ وصال الہی کا جس میں اس کی سعادت تامہ ہے پالیوے.یہی ایک دعا ہے جس کی انسان کو سخت حاجت ہے اور جس پر اس کی ساری سعادت موقوف ہے سو اس کے حصول کا سیدھا راستہ یہی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کہے کیونکہ انسان کے لئے ہر یک مطلب کے پانے کا یہی ایک طریق ہے کہ جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب حاصل ہوتا ہے ان راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے اور وہی راستہ اختیار کرے کہ جو سیدھا منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور بے راہیوں کو چھوڑ دے اور یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ ہر شے کے حصول کے لئے خدا نے اپنے قانونِ قدرت میں صرف ایک ہی راستہ ایسا رکھا ہے جس کو سیدھا کہنا چاہئے اور جب تک ٹھیک ٹھیک وہی راستہ اختیار نہ کیا جائے ممکن نہیں کہ وہ چیز حاصل ہو سکے جس طرح خدا کے تمام قواعد قدیم سے مقرر اور منضبط ہیں ایسا ہی نجات اور سعادت اُخروی کی تحصیل کے لئے ایک خاص طریق مقرر ہے جو مستقیم اور سیدھا ہے.سودعا میں وضع استقامت یہی ہے کہ اسی طریق مستقیم کو خدا سے مانگا جائے.( براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۳۲ تا ۵۴۵ حاشیه نمبر۱۱) حقیقی نیکی پر قدم مارنا صراط مستقیم ہے اور اسی کا نام توسط اور اعتدال ہے کیونکہ تو حید فعلی جو مقصود بالذات ہے وہ اس سے حاصل ہوتی ہے اور جو شخص اس نیکی کے حاصل کرنے میں مسائل رہے وہ درجہ تفریط میں ہے اور جو شخص اس سے آگے بڑھے وہ افراط میں پڑتا ہے ہر جگہ رحم کرنا افراط ہے کیونکہ محل کے ساتھ بے محل کا پیوند کر دینا اصل پر زیادتی ہے اور یہی افراط ہے اور کسی جگہ بھی رحم نہ کرنا یہ تفریط ہے کیونکہ اس میں محل بھی فوت کر دیا اور یہی تفریط ہے وضع شی کا اپنے محل پر کرنا یہ توسط اور اعتدال ہے کہ جو صراط مستقیم سے موسوم ہے

Page 282

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة الفاتحة جس کی تحصیل کے لئے کوشش کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض کیا گیا ہے اور اُس کی دُعا ہر نماز میں بھی مقرر ہوئی ہے جو صراط مستقیم کو مانگتا ر ہے کیونکہ یہ امر اس کو توحید پر قائم کرنے والا ہے کیونکہ صراط مستقیم پر ہونا خدا کی صفت ہے علاوہ اس کے صراط مستقیم کی حقیقت حق اور حکمت ہے.پس اگر وہ حق اور حکمت خدا کے بندوں کے ساتھ بجالایا جائے تو اُس کا نام حقیقی نیکی ہے اور اگر خدا کے ساتھ بجالایا جائے تو اُس کا نام اخلاص اور احسان ہے اور اگر اپنے نفس کے ساتھ ہو تو اُس کا نام تزکیہ نفس ہے اور صراط مستقیم ایسا لفظ ہے کہ جس میں حقیقی نیکی اور اخلاص باللہ اور تزکیہ نفس تینوں شامل ہیں.اب اس جگہ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے.علمی اور عملی اور حالی اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہیں.علمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے اور عملی میں اُن حقوق کو بجالانا.مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اُس کو ایک سمجھنا اور اُس کو مبداء تمام فیوض کا اور جامع تمام خوبیوں کا مرجع اور ماب ہر ایک چیز کا اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع تمام صفات کا ملہ ہونا اور قابل عبود بیت ہونا اسی میں محصور رکھنا یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے.اور عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اُس کی طاعت اخلاص سے بجالانا اور طاعت میں اُس کا کوئی شریک نہ کرنا اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دُعا مانگنا اور اُسی پر نظر رکھنا اور اُسی کی محبت میں کھوئے جانا یہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے.پر اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو اُن کو اپنا بنی نوع خیال کرنا اور اُن کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل پیچ اور نا چیز خیال کرنا کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو اُن کا وجود پیچ اور نا چیز ہے اور سب فانی ہیں یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک کی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے.اور عملی صراط مستقیم یہ ہے (کہ) حقیقی نیکی بجالانا یعنی وہ امر جو حقیقت میں اُن کے حق میں اصلح اور راست ہے بجالانا.یہ توحید عملی ہے کیونکہ موحد کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں.اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں جیسے عجب اور ریا اور تکبر اور حقد اور حسد اور غرور اور حرص اور بخل اور غفلت اور ظلم اُن سب سے مطلع ہونا اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی اُن کو اخلاق رذیلہ جاننا یہ علمی صراط مستقیم ہے اور یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے.

Page 283

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة الفاتحة اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے اُن اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت تخلی عن رذائل اور تحلی بالفضائل سے متصف ہونا یہ عملی صراط مستقیم ہے یہ توحید حالی ہے کیونکہ موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیر اللہ کے دخل سے خالی کرے اور تا اُس کو فنافی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو.اور اُس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک فرق باریک ہے اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے.اور ایک بامعنی شرف ہے خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے.لیکن حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متفق ہوتی ہے کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے اور شرط خدمت کی ادا ہو جائے غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادائے خدمت میں ہے اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہوسکتا ہے لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہو سکتا.اسی لئے فرمایا گیا جو رہبانیت اسلام میں نہیں.اب جاننا چاہئے جو صراط مستقیم علمی اور عملی سے غرض اصلی توحید علمی اور توحید عملی ہے یعنی وہ تو حید جو بذریعہ علم کے حاصل ہو اور وہ تو حید جو بذریعہ عمل کے حاصل ہو.پس یا درکھنا چاہئے جو قرآن شریف میں بجز تو حید کے اور کوئی مقصود اصلی قرار نہیں دیا گیا اور باقی سب اُس کے وسائل ہیں.( الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مؤرخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳، ۴) گناہ سے تو جلالی رنگ اور ہیبت ہی سے بیچ سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میں شدید العذاب ہے اور ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے تو انسان پر ایک ہیبت سی طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچالے گی اور جمال نیکیوں کی طرف جذب کرتا ہے جب کہ یہ معلوم ہو جائے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے تو بے اختیار ہو کر دل اس کی طرف کھینچا جائے گا اور ایک سرور اور لذت کے ساتھ نیکیوں کا صدور ہونے لگے گا.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) وَفِي الْآيَةِ إشَارَةٌ أُخْرَى وَهِيَ أَنَّ الخراط اس آیت میں ایک اور اشارہ ہے کہ صراط مستقیم الْمُسْتَقِيمَ هُوَ اعْمَةُ الْعُظمى وَرَأْسُ كُل نعمت عظمیٰ ہے اور ہر نعمت کی جڑ ہے اور ہر عطا کا نِعْمَةٍ وَبَابُ كُلِّ مَا يُعْطَى وَيَنْتَابُ الْعَبْدَ دروازہ ہے اور جب بندہ کو یہ بڑی حکومت اور نہ مٹنے نِعَمُ اللهِ مِّنْ أُعْطِيَ لَهُ هَذِهِ الرَّوَلَةُ الكُبرى والی بادشاہت عطا کی جاتی ہے تو اُس پر اللہ کی نعمتیں

Page 284

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۱ پے در پے نازل ہوتی ہیں.سورة الفاتحة وَمُلْكَ لَّا يَبْلى وَمَنْ تَأَهَبَ لِهَذِهِ النِّعْمَةِ وَوُفِّقَ اور جو اس نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور لِلقَبَاتِ عَلَيْهَا فَقَد دعى إلى كُلِ انواع اس پر ثابت قدمی کی توفیق پالے تو وہ ہر قسم کی ہدایت کی الْهُدى وَرَأَى الْعَيْشَ النَّضِيرَ وَالنُّور طرف بلایا گیا.اور اندھیری راتوں کے بعد اُس نے خوشگوار المنير بَعْدَ لَيَالِي الدُّجى تجاه الله من زندگی اور روشن کرنے والے ٹور کو پالیا ہے.اللہ تعالیٰ اُسے كُلِ الْهَفَوَاتِ قَبْلَ الْقَوَاتِ وَأَدْخَلَهُ في ضياع سے قبل ہر قسم کی لغزش سے نجات دیتا ہے.نافرمانوں زُمَرِ الثَّقَاةِ بَعْدَ مُقَانَاةِ الْعُصاةِ وَأَرَادُ کے اختلاط کے باوجود اللہ تعالیٰ اُسے متقیوں کے زمرہ میں سُبُلَ الَّذِينَ أَنْعَمَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ داخل کر دیتا ہے اور اُسے منعم علیہم کی راہیں دکھاتا ہے نہ کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ مغضوب علیہم اور گمراہوں (کے راستے ).صراط مستقیم کی وَأَمَّا حَقِيقَةُ الخِرَاطِ الْمُسْتَلِيمِ الَّتِنی حقیقت جو دین قویم کے مد نظر ہے وہ یہ ہے کہ جب بندہ أُريدَتْ في الدِّينِ الْقَوِيمِ فَهِيَ أَنَّ اپنے فضل و احسان والے خدا سے محبت کرنے لگے.اُس کی الْعَبْدَ إِذَا أَحَبَّ رَبَّهُ الْمَتَان وَحان رضا پر راضی رہے.اپنی رُوح اور دل اُس کے سپرد کر دے رَاضِيَّا بِمَرْضَاتِهِ وَفَوَّضَ إِلَيْهِ الرُّوحَ اور اپنے آپ کو اُس خدا کو سونپ دے جس نے انسان کو پیدا وَالْجَمَانَ وَأَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ الَّذی خلق کیا ہے.اُس کے علاوہ کسی اور سے دُعا نہ کرے.اُسی سے الْإِنْسَانَ وَمَا دَعَا إِلَّا إِيَّاهُ وَصَافَاهُ خاص محبت رکھے.اُسی سے مناجات کرے اور اُسی سے وَنَاجَاهُ وَسَأَلَهُ الرَّحْمَةَ وَالْحَنَانِ وَتَنَبَّه رحمت و شفقت مانگے.اپنی بے ہوشی سے ہوش میں مِنْ غَشْيهِ وَاسْتَقَامَ في مَشْیہ وَخَشِی آجائے.اپنی چال سیدھی کرے اور خدائے رحمان سے الرّحمن وَشَغَفَهُ اللهُ حُبًّا وَأَعَانَ وَقَوَى ڈرے.محبت الہی اُس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر الْيَقِينَ وَالْإِيْمَانَ فَمَالَ الْعَبْدُ إِلَى رَبِّهِ جائے.اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرے اور اُس کے یقین اور بِكُلِ قَلْبِهِ وَ إليه وَعَقْلِهِ وَجَوَارِحِه ایمان کو پختہ کرے.تب بندہ اپنے پورے دل، اپنی وَأَرْضِهِ وَحَقْلِهِ وَأَعْرَضَ عما سواه و خواہشات، اپنی عقل، اپنے اعضاء اور اپنی زمین اور کھیتی مَا بَقِيَ لَهُ إِلَّا رَبُّهُ وَ مَا تَبِعَ إِلَّا هَوَاهُ باڑی سب کے ساتھ کھلی طور پر اپنے رب کی طرف مائل ہو وَجَاءَهُ بِقَلْب فَارِغ عَنْ غَيْرِهِ وَمَا جاتا ہے اور اس کے سوا سب سے منہ موڑ لیتا ہے.اُس کی نگاہ

Page 285

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۲ سورة الفاتحة قَصَدَ إِلَّا اللَّهَ فِي سُبُلِ سَيْرِہ وَتَابَ میں اپنے رب کے سوا اور کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا.وہ اپنے مِنْ كُلِ إِدْلَالٍ وَ اغْتِرَارٍ مال و ذینی محبوب ہی کی پیروی کرتا ہے.اپنے دل کو غیروں سے خالی کر مَالٍ وَ حَضَرَ حَضْرَةَ الرّب کے اُس کے حضور حاضر ہو جاتا ہے اور اپنے راہ سلوک میں اللہ تعالیٰ كَالْمَسَاكِينِ وَ وَذَرَ الْعَاجِلَةَ وَ کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور وہ مال اور صاحب مال پر أَلْفَاهَا وَ أَحَبَّ الْآخِرَةَ وَابْتَغَاهَا و کسی قسم کا ناز کرنے یا ان سے دھوکا کھانے سے تائب ہو جاتا تَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَ كَانَ لِلَّهِ وَ فَلى في ہے.اور بارگاہ رب العزت میں مسکینوں کی طرح حاضر ہو جاتا اللهِ وَ سَعَى إِلَى اللهِ كَالْعَاشِقِین ہے.وہ دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور اس سے الگ ہو جاتا ہے اور فَهَذَا هُوَ الطراط الْمُسْتَقِيْمُ الَّذِيني آخرت سے محبت کرتا ہے اور اُسے ہی چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ پر هُوَ مُنْتَهى سَيْرِ السَّالِكيْن و مقصد توکل کرتا ہے اور اُسی کا ہی ہو رہتا ہے خدا میں ہی فنا ہو جاتا ہے الظَّالِبِينَ الْعَابِدِينَ وَ هَذَا هُوَ اور عاشقوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑ تا آتا ہے پس یہی النُّورُ الَّذى لا يَحِلُّ الرَّحْمَةُ إِلَّا بَعْد وہ صراط مستقیم ہے جو سالکوں کے سلوک کی انتہاء ہے اور طالبوں جُلُولِهِ وَلَا يَخصُلُ الْفَلاحُ إِلَّا بَعْدَ اور عابدوں کا آخری مقصود ہے اور یہی وہ نور ہے کہ جس کے حُصُولِهِ وَهَذَا هُوَ الْمِفْتَاحُ الذين اترنے کے بغیر رحمت الہی نازل نہیں ہوا کرتی اور اس کے يُنَاجِي السَّالِكَ مِنْهُ بِذَاتِ الصُّدُورِ حصول کے بغیر کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.یہ وہ کلید وَ تُفْتَحُ عَلَيْهِ أَبْوَابُ الْفِرَاسَةِ وَ ہے جس کے ذریعہ سالک راہ اپنے سینے کی باتیں رب کے حضور يُجْعَلُ مُحَدَّنَا مِنَ اللهِ الْغَفُوْرِ وَ مَن مناجات میں ذکر کرتا ہے.اور اس پر فراست کے دروازے تاجى رَبَّهُ ذَاتَ بُكْرَةٍ بهذا الدُّعَاءِ کھولے جاتے ہیں اور خدائے بخشندہ کی طرف سے اُسے بالإخلاص و إفخاض النيَّة و تحدث قرار دیا جاتا ہے.اور جو شخص صبح کے وقت اخلاص، وَ إِلْحَاضِ رِعَايَةِ شَرَائِطِ الإِيْقَاءِ وَالْوَفَاءِ خالص نیست ، پرہیز گاری اور وفاداری کی شرائط کی پابندی سے فَلَا شَكَ أَنَّه يحل محل الأَصْفِيَاءِ پوشیدہ طور پر خدا تعالٰی سے یہ دُعا مانگے تو بلاشبہ وہ برگزیدہ وَالْأَحِبَّاءِ وَالْمُقَرَّبِينَ وَمَن تَأَوَّہ لوگوں ، خدا کے محنتوں اور مقتربوں کا مقام حاصل کر لیتا ہے اور جو اهَةَ الثَّعْلَانِ في حَضْرَةِ الرَّبِ شخص گم کردہ اولاد والے کی طرح خدائے محسن کی جناب میں الْمَتَانِ وَطَلَبَ اسْتِجَابَةٌ هذا آہیں بھرے اور خدائے رحمان سے عاجزی، انکساری کرتے

Page 286

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة الفاتحة الدُّعَاءِ مِنَ اللهِ الرَّحْمٰنِ خَاشِعًا | ہوئے جبکہ اُس کی آنکھیں بہہ رہی ہوں اس دُعا کی قبولیت کی مُبْتَهِلًا و عَيْنَاهُ تَنْرِقانِ التجا کرے تو اُس کی دُعا قبول کر لی جاتی ہے اور اُسے عزات والی فَيُسْتَجَابُ دُعَاؤُهُ وَيُكْرَمُ مَنْوَاهُ جگہ ملتی ہے.اُس کو اُس کے مناسب حال ہدایت دی جاتی وَيُعْطى له هُدَاهُ وَتُقَوَى لَهُ عَقِيدته ہے.اس کا عقیدہ یا قوت کی مانند روشن دلائل سے پختہ کیا جاتا بِالآئِلِ الْمُنِيرَةِ كَالْيَاقُوتِ وَ ہے اُس کا دل جو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور تھا مضبوط يُقَوَى لَهُ قَلْبُهُ الَّذِي كَانَ أَوْهَنَ مِن کیا جاتا ہے.اُسے وسعت اخلاق اور تقویٰ کی باریک راہوں بَيْتِ الْعَنْكَبوتِ وَيُوَفَّقُ لِتَوْسِعَةِ کی توفیق دی جاتی ہے.اور وہ روحانی لوگوں کی مہمانی اور ربانی الشَّرْعِ وَدَقَالِقِ الْوَرعِ فَيُدعى إلى لوگوں کی عمدہ چیزوں کی طرف بلایا جاتا ہے.وہ ہر حال میں قرَى الرُّوحَانِيَّينَ وَ مَطائِب مغلوب خواہش پر غالب رہتا ہے اور اپنی خواہش نفس کو الرَّيَّانِيِّينَ وَ يَكُونُ في كُلِ حَالِ شریعت کی نگرانی میں جدھر چاہے ہانکتا ہے جیسے ایک بہادر غَالِبًا عَلَى هَوَى مَغْلُوبِ وَيَقُودُهُ ترین سوار مطیع ترین سواری پر سوار ہوکر اسے ہانکتا ہو.وہ دنیا کو برعَايَةِ الشَّرْعِ حَيْثُ يَشَاءُ كأشجع نہیں چاہتا.نہ اُس کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا رَاكِبٍ عَلَى أَخْوَعِ مَرْكُوبٍ وَلَا يَبْغِی ہے.نہ دنیا کے بچھڑے کو سجدہ کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کا متونی الدُّنْيَا وَلا يَتَعَلى لأَجْلِهَا وَ لَا يَسْجُدُ ہو جاتا ہے اور وہی صالح بندوں کا متولی ہوا کرتا ہے.اس کا لِعِجْلِهَا وَيَتَوَلَّاهُ اللهُ وَ هُوَ يَتَوَلَّى نفس مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ (نفس) اُس کے لئے ہلاک الصَّالِحِينَ.وَتَكُونَ نَفْسُهُ مُطْمَئِئَةً و کنندہ اور گمراہ گن کی طرح نہیں رہتا.اور اوپر سے شکار پر لا تَبْقَى كَالْمُبِيْدِ الْمُضِلِ وَ لا جھانکنے والے باز کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دنیا کی طرف تُحَمْلِقُ حَمْلَقَةَ الْبَازِ الْمُطِلِ وَيَری نہیں دیکھتا.ایسا شخص اپنے سلوک کے مقاصد کوسخیوں کی طرح مَقَاصِدَ سُلُوكِهِ كَالْكِرَامِ وَلَا تَكُونُ ظاہر دیکھتا ہے.اس کی (فیاضی کے ) بادل خشک بادلوں کی سُحُبُه كَالْجَهَامِ بَلْ يُشْرِبُ كُلّ جین طرح نہیں ہوتے.بلکہ وہ ہر وقت دوسروں کو صاف جاری پانی حِينٍ مِنْ مَاءٍ مَّعِينٍ وَحَقَّ اللهُ عِبَادَہ پلاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ عَلى أَنْ يَسْأَلُوهُ إدَامَةَ ذلِكَ الْمَقَامِ اُس سے ان کے اس مقام پر دوام ، ثابت قدمی اور اس مقصد وَالتَّعَبتَ عَلَيْهِ وَ الوصول إلى هذا تک پہنچنے کے لئے التجا کیا کریں.کیونکہ وہ ایک بہت ہی بلند يظهر ان بالدلائل شمس

Page 287

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة الفاتحة 60 الْمَرَامِ لِأَنَّهُ مَقَامُ رَّفِيعُ وَمَرَامٌ مَّنِيعٌ مقام ہے اور مشکل سے حاصل ہونے والا مقصد ہے جو لَّا يَحْضُلُ لِأَحَدٍ إِلَّا بِفَضْلِ رَبِّهِ لَا يَجُهْدِ صرف فضل الہی سے ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے نہ کہ نفس کی نَفْسِهِ فَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ يَضْطَرَّ الْعَبْدُ کوشش سے.پس ضروری ہے کہ بندہ اس نعمت کو حاصل لِتَحْصِيْلِ هَذِهِ النِعْمَةِ إِلى حَضْرَةِ الْعِزَّةِ کرنے کے لئے بڑے اضطرار سے بارگاہ ایزدی کی طرف وَيَسْأَلُهُ إِنْجَاحَ هذِهِ الْمُنْيَةِ بِالْقِيَامِ و بڑھے اور اُس سے اس آرزو میں کامیابی کے لئے قیام، رکوع الرُّكُوعِ وَ السَّجْدَةِ وَ التَّمَرُّغ عَلی تُرب اور سجدہ کرتے ہوئے سوالیوں اور مجبوروں کی طرح ذلت کی الْمَذَلَّةِ بَاسِطًا ذَيْلَ الرّاحَةِ وَمُتَعَزِضًا خاک میں لتھڑ کر ہاتھوں کی ہتھیلیاں پھیلا پھیلا کر بخشش مانگتے لِلْإِسْتِمَاحَةِ كَالسَّائِلِينَ الْمُضْطَرِينَ | ہوئے التجائیں کرتار ہے.( ترجمہ از مرتب ) کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۵) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیں تو آخر اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.دعا کامل تب ہوتی ہے کہ ہر قسم کی خیر کی جامع ہو اور ہر شر سے بچا وے پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں ساری خیر جمع ہیں اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں سب شروں حتی کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالا تفاق یہودی اور الضالین سے نصاری مراد ہیں اب اگر اس میں کوئی رمز اور حقیقت نہ تھی تو اس دُعا کی تعلیم سے کیا غرض تھی؟ اور پھر ایسی تاکید کہ اس دُعا کے بدوں نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اس کا پڑھا جانا ضروری قرار دیا بھید اس میں یہی تھا کہ یہ ہمارے زمانہ کی طرف ایما ہے.اس وقت صراط مستقیم یہی ہے جو ہماری راہ ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخہ ۷ ارفروری ۱۹۰۱ صفحہ ۷ ) صراط مستقیم...یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں (۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور فن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲) دوسری سنت اور اس جگہ ہم اہل حدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں.یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم

Page 288

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة الفاتحة سے عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں (۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مراد ہمارے وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اتنا ہی تم سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ.یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے.اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی در حقیقت خدا کے لئے ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قومی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہو گا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑ کی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آ جاتی ہیں ایسا ہی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اُس کو منور کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھودیتا ہے.تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے.تب کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی.اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَ أَضَلُّ سَبِيلًا (بنی اسرائیل : ۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھار ہا اور خدا کے دیکھنے کا اس کو نور نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۴۵،۳۴۴) بیشک الہام صحیح اور سچے کے لئے یہی شرط لازمی ہے کہ اس کے مقامات مجملہ کی تفصیل بھی اسی الہام کے ذریعہ سے کی جائے جیسا کہ قرآن کریم میں یعنی سورہ فاتحہ میں یہ آیت ہے.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اب اس آیت میں جو اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کا لفظ ہے یہ ایک مجمل لفظ تھا اور تشریح

Page 289

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة الفاتحة طلب تھا تو خدا تعالیٰ نے دوسرے مقام میں خود اس کی تشریح کر دی اور فرمایا کہ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَم اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ (النِّسَاءِ :۷۰) جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۱۵) چار مراتب کمال ہیں جن کو طلب کرنا ہر ایک ایماندار کا فرض ہے اور جو شخص ان سے بکلی محروم ہے وہ ایمان سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کے لئے یہی دُعا مقرر کی ہے کہ وہ ان ہر چہار کمالات کو طلب کرتے رہیں.اور وہ دُعا یہ ہے اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور قرآن شریف کے دوسرے مقام میں اس آیت کی تشریح کی گئی ہے اور ظاہر فرمایا گیا ہے کہ منعم علیہم سے مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالحین ہیں.اور انسان کامل ان ہر چہار کمالات کا مجموعہ اپنے اندر رکھتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۲۳) انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام ہوا.یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.ہماری جماعت یادر کھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے.اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسانِ کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مد نظر رہے اس آیت میں چار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجا ہے.اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دُعا مانگنے اور خلق انسانی کے حق کو ادا کرے گا اور ان استعدادوں اور قومی کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اس کو دی گئی ہیں.اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف کے بعض حصہ دوسرے کی تفسیر اور شرح ہیں ایک جگہ ایک امر بطریق اجمال بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ وہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے.پس اس جگہ جو یہ فرما یا صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ.تو یہ بطریق اجمال ہے لیکن دوسرے مقام پر منعم علیہم کی خود ہی تفسیر کر دی ہے مِنَ النَّيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں.نبی.صدیق.شہدا اور صالح - انبیاء علیہم السلام میں چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں کیونکہ یہ

Page 290

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة الفاتحة اعلیٰ کمال ہے.ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لئے جہاں مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھایا ہے کوشش کرے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۶،۵).نفور سے قرآن کریم و دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورہ میں اللہ تعالیٰ نے دُعا کی تعلیم دی ہے.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ دُعا تب ہی جامع ہو سکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو.پس اس دُعا میں تمام بہترین منافع جو ہو سکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اُس سے بچنے کی دُعا ہے میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ منعم علیہ چار قسم کے لوگ ہیں.اوّل نبی ، دوم صدیق ، سوم شہید، چہارم صالحین.پس اس دُعا میں گویا ان چاروں گروہوں کے کمالات کی طلب ہے نبیوں کا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے فَلا يُظهرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدَّانِ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رسول (الجن : ۲۸،۲۷) یعنی خدا تعالیٰ کے غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتی ہیں ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے.جو لوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتا ہے.اور یہ بہت بڑا عظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مرسلوں کا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی معجز نہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مؤرخه ۱۷/ مارچ۱۹۰۱ ء صفحه ۳) حسب منطوق آیت ثُمَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (الواقعة:۴۱،۴۰) خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو بہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروہ اولین و گروه آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے اور چونکہ حکم کثرت مقدار اور کمال صفائی انوار پر ہوتا ہے اس لئے اس سورۃ میں اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنی جماعت کے اور مسیح موعود معہ اپنی جماعت کے.خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتدا سے اس اُمت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورہ فاتحہ کے فقرہ لعنت عَلَيْهِمْ میں اشارہ ہے (۱) ایک اولین جو جماعتِ نبوی ہے (۲) دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے., (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۶،۲۲۵)

Page 291

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة الفاتحة اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ نے اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں.نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء.اس دُعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پاؤ اس کے سایہ صحبت میں آجاؤ اور اس سے فیض حاصل کرو.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱۲ ) قَالَ اللهُ جَلّ شَأْنه "فلةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ الله جل شانہ نے فرمایا ہے.ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ * وَحَثَّ عِبَادَهُ عَلَى وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ اور اپنے بندوں کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ دُعَاءِ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کرنے کی الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فَمَا مَعْنَى الدُّعَاءِ ترغیب دی ہے.اگر ہم نے محروم ہی رہنا تھا تو دُعا لَوْ كُنَّا مِنَ الْمَحْرُومِينَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ سکھانے کے کیا معنی؟ اور تمہیں معلوم ہے کہ انعام یافتہ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ أَوَّلًا هُمُ لوگوں میں سے سب سے پہلے نبی اور رسول ہی ہیں اور الأَنبِيَاء وَالرُّسُلُ وَمَا كَانَ الْإِنْعَامُ مِن قِسْمِ دِرْهَمٍ وَدِينَارٍ بَلْ مِنْ قِسْمِ عُلُوْمٍ وَمَعَارِفَ وَنُزُولِ بَرَكَاتٍ وَأَنْوَارٍ كَمَا نزولِ برکات و انوار کی قسم کا ہے جیسا کہ عارف لوگوں کے نزدیک یہ بات طے شدہ ہے.یہ انعام درہم و دینار کی قسم کا نہیں بلکہ علوم و معارف اور تَقَرَّرَ عِنْدَ الْعَارِفِينَ وَ إِذَا أُمِرْنَا بِهذهِ الدُّعَاءِ فِي كُل اور جب ہمیں ہر نماز میں یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو صَلَاةٍ فَمَا أَمَرَنَا رَبُّنَا إِلَّا لِيُسْتَجَابَ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم محض اس لئے دیا ہے کہ دُعَاؤُنَا وَنُعْطَى مَا أُعْطِيَ مِنَ الْإِنْعَامَاتِ ہماری دعا قبول کی جائے اور ہمیں بھی وہی انعامات دیئے لِلْمُرْسَلِينَ.وَقَدْ بَشَرَنَا عَزَّ اسْمُهُ بِعَطاء جائیں جو انعامات رسولوں کو عطا کئے گئے تھے اور اللہ عز ائمہ إِنْعَامَاتٍ أَنْعَمَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ نے ہمیں ان انعامات کے دیئے جانے کی بشارت دی ہے جو مِن قَبْلِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ وَارِثِينَ اُس نے ہم سے پہلے انبیاء اور رسولوں کو دیئے تھے اور ہمیں فَكَيْفَ تَكْفُرُ بِالهِ الْإِنْعَامَاتِ ان کا وارث ٹھہرایا ہے.پس ہم کس طرح ان انعامات کا انکار وَتَكُونُ كَقَوْمٍ عَمِيْنَ وَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ کریں اور اندھے لوگوں کی طرح ہو جائیں.اور یہ کیسے الواقعة : ۴۱،۴۰) ترجمہ.(اصحاب الیمین) یہ گروہ شروع میں ایمان لانے والے لوگوں میں سے بھی بکثرت ہوگا اور آخر میں ایمان لانے والے لوگوں میں سے بھی بکثرت ہوگا.

Page 292

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۹ سورة الفاتحة يُخْلِفَ اللهُ مَوَاعِيْدَةَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا | ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پکے وعدے کرنے کے بعد ان کی خلاف ورزی کرے اور ہمیں نامرادوں میں سے کر دے.وَيَجْعَلنَا مِنَ الْمُخَيَّبِينَ - أَنْتَ تَعْلَمُ يَا أَخِي أَنَّ سَرَاةَ الْمُنْعَمِيْنَ اے بھائی تمہیں معلوم ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کے عَلَيْهِمْ هُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالرُّسُلُ وَقَدْ بَشَرکا سرخیل انبیاء اور رسول ہیں اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے اللهُ بِعَطاء هُدَاهُمْ وَبَصِيرَ مُ الْكَامِلَةِ انہیں کی ہدایت اور انہیں کی کامل بصیرت دیئے جانے التي لا تَحْصُلُ إِلَّا بَعْدَ مُعالَمَةِ الله تعالی کی بشارت دی ہے جو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ ومخاطبہ پانے یا رُؤْيَةِ آيَاتِهِ - عَفَا اللهُ عَنْكَ كَيْفَ اس کے نشانات کو دیکھنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ زَعَمْتَ أَنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ مَحْرُومُوْنَ مِن تجھے معاف کرے ! تو نے یہ کیسے خیال کر لیا کہ اولیاء اللہ ممُكالَمَةِ اللهِ وَ مُخَاطَبَاتِهِ وَ لَيْسُوا مِنَ اللہ تعالیٰ کے مکالمہ و مخاطبہ سے محروم ہیں اور اُن لوگوں میں شامل نہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے؟ الْمُكَّلَّمين ( ترجمه از مرتب) (تحفة بغداد، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۶،۱۵) ہم نماز میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اِس سے یہی مطلب ہے کہ خدا سے ہم اپنے ترقی ایمان اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے چار قسم کے نشان چار کمال کے رنگ میں چاہتے ہیں.نبیوں کا کمال.صدیقوں کا کمال.شہیدوں کا کمال.صلحاء کا کمال.سونبی کا خاص کمال یہ ہے کہ خدا سے ایسا علم غیب پاوے جو بطور نشان کے ہو.اور صدیق کا کمال یہ ہے کہ صدق کے خزانہ پر ایسے کامل طور پر قبضہ کرے یعنی ایسے اکمل طور پر کتاب اللہ کی سچائیاں اُس کو معلوم ہو جائیں کہ وہ بوجہ خارق عادت ہونے کے نشان کی صورت پر ہوں.اور اُس صدیق کے صدق پر گواہی دیں اور شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوت ایمانی اور قوتِ اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے اور مرد صالح کا کمال یہ ہے کہ ایسا ہر ایک قسم کے فساد سے دُور ہو جائے اور مجسم صلاح بن جائے کہ وہ کامل صلاحیت اس کی خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان مانی جائے.سو یہ چاروں قسم کے کمال جو ہم پانچ وقت خدا تعالیٰ سے نماز میں مانگتے ہیں یہ دوسرے لفظوں میں ہم خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان طلب کرتے ہیں اور جس میں یہ طلب نہیں اُس میں ایمان بھی نہیں.ہماری نماز کی حقیقت یہی طلب ہے جو ہم چار رنگوں میں پنج وقت خدا تعالیٰ سے چار نشان

Page 293

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة الفاتحة مانگتے ہیں اور اس طرح پر زمین پر خدا تعالیٰ کی تقدیس چاہتے ہیں تاہماری زندگی انکار اور شک اور غفلت کی زندگی ہو کر زمین کو پلید نہ کرے اور ہر ایک شخص خدا تعالیٰ کی تقدیس تبھی کر سکتا ہے کہ جب وہ یہ چاروں قسم کے نشان خدا تعالیٰ سے مانگتا ر ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۶،۵۱۵) غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.ان کمالات میں سے جو منعم علیہم کو دیئے جاتے ہیں پہلا کمال نبوت کا کمال ہے جو بہت ہی اعلیٰ مقام پر واقع ہے ہمیں افسوس ہے کہ وہ الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کمال کی حقیقت بیان کر سکیں.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر کوئی چیز اعلیٰ ہو اس کے بیان کرنے کے واسطے اسی قدر الفاظ کمزور ہوتے ہیں اور نبوت تو ایسا مقام ہے کہ انسان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے تو پھر یہ کیونکر بیان ہو سکے.(الحکم جلد ۹ نمبر۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۶) خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والا اور اُس کے عشق میں گم شدہ قوم نبیوں کی ان جھوٹے اور فانی عاشقوں کے عشق سے کہیں بڑھ کر اپنے اندر جوش رکھتے ہیں.کیونکہ وہ خدا وہ ہے جو جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے یہاں تک کہ اس سے زیادہ توجہ کرتا ہے خدا کی طرف آنے والا اگر معمولی چال سے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.پس ایسے خدا کی طرف جس کی توجہ ہو جاوے اور وہ اس کی محبت میں کھویا جاوے وہ محبت اور عشق الہی کی آگ ان امانی اور نفسانی خیالات کو جلا دیتی ہے پھر ان کے اندر روح ناطق ہو جاتی ہے اور پاک نطق جو ادھر سے شروع ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا نطق ہوتا ہے دوسرے رنگ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دُعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو جواب دیتا ہے.پس یہ ایک کمال نبوت ہے اور انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں رکھا گیا ہے.اس لئے جب انسان اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا مانگے تو اس کے ساتھ ہی یہ امر پیش نظر رہے کہ اس کمال نبوت کو حاصل کرے.الحکم جلد 4 نمبر ۱۳ مؤرخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۵) دوسرا کمال العمتَ عَلَيْهِمُ میں صدیقوں کا کمال ہے.اس کمال کے حاصل ہونے پر قرآن شریف

Page 294

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة الفاتحة کے حقائق اور معارف کھلتے ہیں.لیکن یہ فضل اور فیض بھی الہی تائید سے آتا ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور فضل کے بغیر ایک انگلی کا ہلانا بھی مشکل ہے.ہاں یہ انسان کا فرض ہے کہ سعی اور مجاہدہ کرے جہاں تک اس سے ممکن ہے اور اس کی توفیق بھی خدا تعالیٰ ہی سے چاہے.کبھی اس سے مایوس نہ ہو کیونکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود بھی فرمایا.لَا يَا يُعَسُ مِن روح الله إِلا الْقَوْمُ الكَفِرُونَ (يوسف: ۸۸) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر نا امید ہوتے ہیں.نا امیدی بہت ہی بُری چیز ہے.اصل میں نا امید وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے یہ خوب یا درکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع کیا ہے اور فرمایا اِنَّ بَعْضَ الظَّلِنِ اثْه - (الحجرات: ۱۳) الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مؤرخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲) خدا کا قرب اور نزدیکی بھی اور زندگی بھی انعام ( انْعَمْتَ عَلَيہمہ ) میں شامل ہے.مخالفین اس انعام میں میسیج کو تو شامل کرتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے نصیب رکھتے ہیں.کیوں ان کو اس عقیدہ سے شرم نہیں آتی اور لمبی زندگی اس طرح انعام میں شمار ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ واماما يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد : ١٨) احکام جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ر فروری ۱۹۰۵ صفحه ۵) افسوس ان لوگوں کی عقلوں کو کیا ہوا یہ کیوں نہیں سمجھتے کیا قرآن میں جو اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہا گیا تھا یہ یونہی ایک بے معنی اور بے مطلب بات تھی اور نرا ایک قصہ ہی قصہ ہے؟ کیا وہ انعام کچھ نہ تھا خدا نے نراد ھو کا ہی دیا ہے اور وہ اپنے بچے طالبوں اور صادقوں کو بدنصیب ہی رکھنا چاہتا ہے؟ کس قدر ظلم ہے اگر یہ خدا کی نسبت قرار دیا جاوے کہ وہ نری لفاظی ہی سے کام لیتا ہے.حقیقت یہ نہیں ہے یہ ان لوگوں کی اپنی خیالی باتیں ہیں قرآن شریف در حقیقت انسان کو اُن مراتب اور اعلیٰ مدارج پر پہنچانا چاہتا ہے جو انعم عَلَيْهِمْ کے مصداق لوگوں کو دیئے گئے تھے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوتا جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود نہ ہوں.ہمارا یہ مذہب ہر گز نہیں ہے کہ آریوں کی طرح کوئی خدا کا پریمی اور بھگت کتنی ہی دُعائیں کرے اور رو رو کر اپنی جان کھوئے اور اُس کا کوئی نتیجہ نہ ہو.اسلام خشک مذہب نہیں ہے.اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے نشانات اس کے ساتھ ہیں پیچھے رہے ہوئے نہیں ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۶ مؤرخه ۳۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳) اگر یہی سچ ہے کہ خدا تعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ بکلی وہ راہیں 121

Page 295

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ سورة الفاتحة بند ہیں تو خدا تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہوگا گویا وہ جیتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغز اور بات نہیں اور اگر شیعہ لوگ اس عقیدہ کو سچ مانتے ہیں تو پھر کیوں پنجوقت نماز میں یہ دُعا پڑھتے ہیں اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کیونکہ اس دُعا کے تو یہی معنی ہیں کہ اے خدائے قادر! ہم کو وہ راہ اپنے قرب کا عنایت کر جو تو نے نبیوں اور اماموں اور صدیقوں اور شہیدوں کو عنایت کیا تھا پس یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے ہیں ہزار اشتہار مختلف دیا روا مصار میں بھیجا ہے.اگر یہ برکت نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت ہی کیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۹ مؤرخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس جگہ تمام مفسر قائل ہیں کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی ہدایت سے غرض تشتبه بالانبیاء ہے جو اصل حقیقت اتباع ہے.....خدا نے انبیاء علیہم السلام کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ تا دنیا میں اُن کے مثیل قائم کرے اگر یہ بات نہیں تو پھر نبوت لغو ٹھہرتی ہے.نبی اس لئے نہیں آتے کہ اُن کی پرستش کی جائے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ لوگ اُن کے نمونے پر چلیں اور اُن سے تشبہ حاصل کریں اور اُن میں فنا ہو کر گویا وہی بن جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران :۳۲) پس خدا جس سے محبت کرے گا کون سی نعمت ہے جو اُس سے اٹھارکھے گا اور اتباع سے مراد بھی مرتبہ و فنا ہے جو مثیل کے درجے تک پہنچاتا ہے.اور یہ مسئلہ سب کا مانا ہوا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرے گا مگر وہی جو جاہل سفیہ یا ملحد بے دین ہوگا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۱، ۴۱۲) انبیاء من حيث انطلق باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ خلقی طور پر ہر ایک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اس ظلمی وجود کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اهْدِنَا القِرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے خدا ہمارے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کے لئے اس دعا میں حکم ہے وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور

Page 296

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة الفاتحة تائید سماوی اور قبولیت اور معرفتِ تامہ کاملہ اور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس اُمت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اول اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کر لیا.پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس اُمت کو خلقی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیاء کا وجود خلقی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دُعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنكبوت:٧٠) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے ط کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۱، ۳۵۲) کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی الہی اگر چہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں.گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس دُعا میں اُس انعام کی اُمید دلائی گئی ہے جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اُن تمام انعامات میں سے بزرگ تر انعام وحی یقینی کا انعام ہے کیونکہ گفتار الہی قائمقام دیدار الہی ہے کیونکہ اسی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.پس اگر کسی کو اس اُمت میں سے وحی یقینی نصیب ہی نہیں اور وہ اس بات پر جرات ہی نہیں کر سکتا کہ اپنی وحی کو قطعی طور پر مثل انبیاء علیہم السلام کے یقینی سمجھے اور نہ اس کی ایسی وحی ہو کہ انبیاء کی طرح اس کے ترک متابعت اور ترک عمل پر یقینی طور پر دنیا کا ضرر متصور ہو سکے تو ایسی دعا سکھلانا محض دھوکا ہو گا.کیونکہ اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمتَ عَلَيْهِمْ انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اس اُمت کو بھی شریک کرے تو اس نے کیوں یہ دُعا سکھلائی اور ایک ناشدنی امر کے لئے دُعا کرنے کی ترغیب کیوں دی ؟ پس اگر یہ دعا سکھلانا یقین اور معرفت کا انعام دینے کی نیت سے نہیں بلکہ محض لفظوں سے خوش کرنا ہے پس اسی سے فیصلہ ہو گیا کہ یہ اُمت اپنے نصیبوں میں سب اُمتوں سے گری ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کی مرضی نہیں ہے کہ اس امت کو یقینی چشمہ کا پانی پلا کر نجات دے بلکہ وہ ان کو شکوک اور شبہات کے ورطہ میں چھوڑ کر ہلاک کرنا چاہتا ہے لیکن

Page 297

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة الفاتحة یادر ہے کہ ضرور ان انعامات میں جو نبیوں کو دیئے گئے اس اُمت کے لئے حصہ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے کامل افراد کی فطرتوں میں یہ حصہ نہ ہوتا تو ان کے دلوں میں یہ خواہش نہ پائی جاتی کہ وہ خدا شناسی کے درجہ میں حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائیں اور ان انعامات سے سب سے بڑھ کر یقینی مخاطبات اور مکالمات کا انعام ہے جس سے انسان اپنی خداشناسی میں پوری ترقی کرتا ہے گویا ایک طور سے خدا تعالی کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی ہستی پر رؤیت کے رنگ میں ایمان لاتا ہے.( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۸۸،۴۸۷) سورہ فاتحہ میں جو قرآن کے شروع میں ہی ہے اللہ تعالیٰ مومن کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ دُعا مانگیں.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ یعنی ہمیں وہ راہ سیدھی بتلا اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام و فضل ہے.یہ اس لئے سکھائی گئی ہے کہ انسان عالی ہمت ہو کر اس سے خالق کا منشاء سمجھے اور وہ یہ ہے کہ یہ اُمت بہائم کی طرح زندگی بسر نہ کرے بلکہ اس کے تمام پردے کھل جاویں.جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ولایت بارہ اماموں کے بعد ختم ہوگئی.برخلاف اس کے اس دُعا سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کی منشاء کے مطابق ہے تو وہ اُن مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور اصفیاء کو حاصل ہوتے ہیں.اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قومی ملے ہیں جنہوں نے نشو نما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے.ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں اُس کے قومی ترقی نہیں کر سکتے.عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیاء کے حالات سنتا ہے تو چاہتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے.اُس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اُسے بہ تدریج اُن نعماء کا علم الیقین ،عین الیقین اور حق الیقین ہو جاوے.علم کے تین مدارج ہیں.علم الیقین.عین الیقین حق الیقین.مثلاً ایک جگہ سے دھواں نکلتا دیکھ کر آگ کا یقین کر لینا علم الیقین ہے.لیکن خود آنکھ سے آگ کا دیکھنا عین الیقین ہے.ان سے بڑھ کر درجہ حق الیقین کا ہے یعنی آگ میں ہاتھ ڈال کر جلن اور حرقت سے یقین کر لینا کہ آگ موجود ہے.پس کیسا وہ شخص بدقسمت ہے.جس کو تینوں میں سے کوئی درجہ حاصل نہیں.اس آیت کے مطابق جس پر اللہ کا فضل نہیں وہ کورانہ تقلید میں پھنسا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ( العنكبوت : ٧٠) جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اُس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے.یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دُعا ہے کہ وو

Page 298

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة الفاتحة اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دُعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی اُن لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اُٹھا یا جاوے چنانچہ فرمایا.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى ( بنی اسرائیل : ۷۳ ) کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہے.جس کی منشاء یہ ہے کہ اُس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں.آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی تیاری اسی جہان میں ہوگی.پس کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے؟ اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے.ایک شخص کو رانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو گیا ہو مسلمان کہلاتا ہے.دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے ہاں پیدا ہو کر عیسائی ہو گیا.یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی.اُس کی ا دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے.خدا اور رسول کی ہتک کرنے والوں میں اُس کا گزر ہوتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں.اُس میں محبت دین نہیں.والا محبت والا اپنے محبوب کے برخلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے کہ میں تو دینے کو تیار ہوں اگر تو لینے کو تیار ہے.پس یہ دُعا کرنا ہی اُس ہدایت کو لینے کی تیاری ہے اس دُعا کے بعد سورہ بقرہ کے شروع میں ہی جو ھدی للْمُتَّقِينَ کہا گیا.تو گویا خدا تعالیٰ نے دینے کی تیاری کی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۹،۳۸) اگر نبی کے صرف یہ معنے کئے جائیں کہ اللہ جل شانہ اس سے مکالمہ و مخاطبہ رکھتا ہے اور بعض اسرار غیب کے اُس پر ظاہر کرتا ہے تو اگر ایک امتی ایسا نبی ہو جائے تو اس میں حرج کیا ہے خصوصاً جب کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ یہ اُمید دلائی ہے کہ ایک امتی شرف مکالمہ الہیہ سے مشرف ہوسکتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے اولیاء سے مکالمات اور مخاطبات ہوتے ہیں بلکہ اس نعمت کے حاصل کرنے کے لئے سورہ فاتحہ میں جو پنج وقت فریضہ نماز میں پڑھی جاتی ہے یہی دعا سکھلائی گئی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو کسی امتی کو اس نعمت کے حاصل ہونے سے کیوں انکار کیا جاتا ہے.کیا سورۃ فاتحہ میں وہ نعمت جو خدا تعالی سے مانگی گئی ہے جو نبیوں کو دی گئی تھی وہ درہم و دینار ہیں.ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کی نعمت ملی تھی جس کے ذریعہ سے اُن کی معرفت حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گئی تھی سدو

Page 299

سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور گفتار کی تجلی دیدار کے قائم مقام ہو گئی تھی.پس یہ جو دعا کی جاتی ہے کہ اے خداوند وہ راہ ہمیں دکھا جس سے ہم بھی اُس نعمت کے وارث ہو جائیں اس کے بجز اس کے اور کیا معنے ہیں کہ ہمیں بھی شرف مکالمہ اور مخاطبه بخش بعض جاہل اس جگہ کہتے ہیں کہ اس دُعا کے صرف یہ معنے ہیں کہ ہمارے ایمان قومی کر اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرما اور وہ کام ہم سے کرا جس سے تو راضی ہو جائے.مگر یہ نادان نہیں جانتے کہ ایمان کا قومی ہونا یا اعمال صالحہ کا بجالانا اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق قدم اٹھانا یہ تمام باتیں معرفتِ کاملہ کا نتیجہ ہیں.جس دل کو خدا تعالیٰ کی معرفت میں سے کچھ حصہ نہیں ملا وہ دل ایمان قومی اور اعمال صالحہ سے بھی بے نصیب ہے.معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے.اور معرفت سے ہی خدا تعالیٰ کی محبت دل میں جوش مارتی ہے......اب چونکہ تمام مدار خوف اور محبت کا معرفت پر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف بھی پورے طور پر اس وقت انسان جھک سکتا ہے جب کہ اس کی معرفت ہو.اوّل اُس کے وجود کا پتہ لگے اور پھر اُس کی خوبیاں اور اُس کی کامل قدرتیں ظاہر ہوں اور اس قسم کی معرفت کب میسر آ سکتی ہے بجز اس کے کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور پھر اعلام الہی سے اس بات پر یقین آ جائے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا قادر ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.سو اصلی نعمت ( جس پر قوت ایمان اور اعمالِ صالحہ موقوف ہیں ) خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کے ذریعہ سے اول اُس کا پتہ لگتا ہے اور پھر اُس کی قدرتوں سے اطلاع ملتی ہے اور پھر اس اطلاع کے موافق انسان ان قدرتوں کو چشم خود دیکھ لیتا ہے.یہی وہ نعمت ہے جو انبیاء علیہم السلام کو دی گئی تھی اور پھر اس اُمت کو حکم ہوا کہ اس نعمت کو تم مجھ سے مانگو کہ میں تمہیں بھی دوں گا.....خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ یہی تو ایک جڑ ہے معرفت کی اور تمام برکات کا سر چشمہ ہے اگر اس امت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو سعادت کے تمام دروازے بند ہوتے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم جلد ۲۱ صفحه ۳۰۷ تا ۳۰۹) یہ ضرور یا درکھو کہ اس اُمت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پا چکے پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ ( الجن : ۲۸۰۲۷ ) سے ظاہر ہے پس مصفی غیب

Page 300

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة الفاتحة پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہوا اور آیت اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ گواہی دیتی ہے کہ اس مصفی غیب سے یہ امت محروم نہیں اور مصفی غیب حسب منطوق آیت نبوت اور رسالت کو چاہتا ہے اور وہ طریق براہ راست بند ہے اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس موہبت کے لئے محض بروز اور ظلمیت اور فنافی الرسول کا دروازہ کھلا ہے.ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) ثُمَّ انظر إلى قَوْلِهِ تَعَالى وَدُعَائِهِ | پھر اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کی اُس دعا پر غور کرو جو الَّذِئ عَلَّمَنَا اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اُس نے ہمیں سکھلائی ہوئی ہے یعنی اهْدِنَا القِرَاط صِراطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، فَإِذَا أُمِرْنَا الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اس میں ہمیں أَن تَفْتَدِى الْأَنْبِيَاءَ كُلَّهُمْ ونطلب من حکم دیا گیا ہے کہ ہم سب نبیوں کی پیروی کریں اور اللہ وَنَظُلُبَ مِنَ اللهِ كَمَالَاتِهِمْ، وَلَمَّا كَانَتْ كَمَالَاتُ تعالیٰ سے اُن کے کمالات طلب کریں اور جب نبیوں کے الْأَنْبِيَاءِ كَأَجْزَاءٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَأُمِرْنَا أَن كمالات متفرق اجزا کی مانند ہیں اور ہمیں ان سب کے تطْلُبَهَا كُلَّهَا وَنَجْمَعَ مَجمُوعَةٌ تِلْكَ طلب کرنے اور ان سب اجزاء کا مجموعہ اپنے نفوس میں جمع الْأَجْزَاءِ فِي أَنْفُسِنَا ، فَلَزِمَ أَن تَحْصُلَ لَنَا کرنے کا حکم دیا گیا.پس لازم ہوا کہ ہمیں ظلی طور پر رسول شَيْئ بِالظَّليَّةِ وَمُتَابَعَةِ رَسُولِ الله صَلَّی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں ایسی چیز بھی مل سکتی ہے اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَحْصُلُ لِفَرْدٍ فَرْدٍ جو انبیاء کے افراد میں سے کسی ایک فرد کو بھی حاصل نہیں من الأَنْبِيَاءِ وَقَدِ اتَّفَقَ عُلَمَاء الْإِسْلَام ہوئی.اور علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ کبھی کسی غیر أَنه قد يُوجَدُ فَضِيلَةٌ جُزئِيَّةٌ في غَيْرِ نبي نبی میں وہ جزئی فضیلت بھی پائی جاسکتی ہے جو نبی میں نہیں پائی جاتی.( ترجمہ از مرتب ) لَّا تُوْجَدُ فِي نَبِي حمامة البشرای، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۹۵،۲۹۴) إِنَّ الْمُعْجِزَاتِ تَفْتَضِي الْكَرَامَاتِ معجزات چاہتے ہیں کرامات کو تا کہ اُن کا نشان قیامت لِيَبْقَى أَثَرُهَا إِلى يَوْمِ الدِّينِ وَإِنَّ الَّذِينَ تک باقی رہے اور اپنے نبی علیہ السلام کے وارثوں کو بطور w وَرِثُوا نَبِيَّهُمْ يُعْطَوْنَ مِنْ نِعَمِهِ عَلَى ظلیت کے آپ کی نعمتیں مرحمت ہوتی ہیں.اور اگر یہ قاعدہ الطَّرِيقَةِ الظُّلَّيَّةِ.وَلَوْلَا ذُلِكَ لَبَطَلَتْ جاری نہ رہتا تو نبوت کے فیض بالکل باطل ہو جاتے.اس فُيُوْضُ النُّبُوَّةِ فَإِنَّهُمْ كَأَثَرِ لِعَيْنِ لئے کہ یہ وارث نقش ہوتے ہیں اُس اصل کے جو گز رچکی

Page 301

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ سورة الفاتحة انْقَطى وَ كَعَكْسِ لِصُورَةٍ فِي الْمِراةِ ہوتی ہے اور گویا عکس ہوتے ہیں ایک صورت کے جو شیشہ يُرى وَإِنَّهُمُ اكْتَعَلُوا بِرُودِ الْفَنَاءِ وَ میں نظر آتا ہے.ان لوگوں نے فنا کی سلائیوں سے سرمہ از تحلُوا مِنْ فِنَاءِ الرِّيَاءِ فَمَا بَقِيَتْ شَیئ آنکھ میں ڈالا ہوتا ہے اور ریا کاری کے آنگن سے کوچ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَظَهَرَتْ صُورَةُ خَاتَمِ کر چکے ہوتے ہیں.اس طرح پر ان کا اپنا تو کچھ بھی رہا الْأَنْبِيَاءِ.فَكُلُّ مَا تَرَوْنَ مِنْهُم مِن نہیں ہوتا اور خاتم الانبیاء کی صورت ہی نمودار ہو جاتی أَفْعَالٍ خَارِقَةٍ لِلْعَادَةِ أَوْ أَقْوَالٍ ہے.سو ان لوگوں سے جو کچھ خارق عادت افعال یا اقوال مُقابِبَةٍ بِالصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ فَلَيْسَت پاک نوشتوں سے مشابہ تم دیکھتے ہو وہ ان کی طرف سے هِيَ مِنْهُمْ بَلْ مِنْ سَيِّدِنَا خَيْرِ الْبَرِيَّةِ نہیں بلکہ وہ حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لكن في الْحَلَلِ الظَّليَّةِ.وَإِن كُنتُمْ في طرف سے ہوتے ہیں.ہاں وہ ظلیت کے لباسوں میں رَيْبٍ مِنْ هَذَا الشَّأْنِ لِأَوْلِيَاء ہوتے ہیں اور تمہیں اولیاء الرحمان کی نسبت ایسی بزرگی الرَّحْمَانِ فَاقْرَءُوا آيَةً صِرَاطَ الَّذِيْنَ اور شان میں شک ہے تو پڑھ لو آیت صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کو غور اور فکر سے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ بِالْإِمْعَانِ الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۷۵،۲۷۴) راست ملتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے حق کے طالبوں کو کامل معرفت دینے کا ارادہ فرمایا ہے تو ضرور اس نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ کا طریق کھلا رکھا ہے.اس بارے میں اللہ جل شانہ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے اهْدِنَا القيراط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے خدا ہمیں وہ استقامت کی راہ بتلا جو راہ اُن لوگوں کی ہے جن پر تیرا انعام ہوا ہے اس جگہ انعام سے مراد الہام اور کشف وغیرہ آسمانی علوم ہیں جو انسان کو براہِ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۶، ۴۳۷) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں رسولوں اور نبیوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا انعام اور اکرام ہوا ہے.اب اس آیت سے کہ جو پنج وقت نماز میں پڑھی جاتی ہے ظاہر ہے کہ خدا کا روحانی انعام جو معرفت اور محبت الہی ہے صرف رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے نہ کسی اور ذریعہ سے.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۵،۱۳۴) چونکہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تمام انبیاء کے ہیں اس لئے اُس نے

Page 302

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۹ سورة الفاتحة ہماری پنج وقتہ نماز میں ہمیں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ہمارے خدا! ہم سے پہلے جس قدر نبی اور رسول اور صدیق اور شہید گذر چکے ہیں اُن سب کے کمالات ہم میں جمع کر.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۶) یعنی اے ہمارے خدا! ہمیں وہ سیدھی راہ دکھلا جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیر افضل اور انعام ہوا.اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہی فضل اور انعام جو تمام نبیوں اور صدیقوں پر پہلے ہو چکا ہے وہ ہم پر بھی کر اور کسی یہ فضل سے ہمیں محروم نہ رکھ.یہ آیت اس اُمت کو اس قدر عظیم الشان اُمید دلاتی ہے جس میں گذشتہ اُمتیں شریک نہیں ہیں.کیونکہ تمام انبیاء کے متفرق کمالات تھے اور متفرق طور پر اُن پر فضل اور انعام ہوا.اب اس اُمت کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ اُن تمام متفرق کمالات کو مجھ سے طلب کرو.پس ظاہر ہے کہ جب متفرق روووو کمالات ایک جگہ جمع ہو جائیں گے تو وہ مجموعہ متفرق کی نسبت بہت بڑھ جائے گا.اسی بنا پر کہا گیا کہ کنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : 111) یعنی تم اپنے کمالات کے رُو سے سب اُمتوں سے بہتر ہو.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۱٬۳۸۰) یادرکھنا چاہئے کہ اس اُمت کے لئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے.اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ کے لئے جو دعا سکھائی تو ان میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الہی ہی کا کمال تھا اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی اسی کے تم بھی خواہاں رہو.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۷ مؤرخہ ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۴) خدا کی کلام کوغور سے پڑھو کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے.وہ وہی امر تم سے چاہتا ہے جس کے بارہ میں سورہ فاتحہ میں تمہیں دعا سکھلائی گئی ہے.یعنی یہ دُعا کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عليهم پس جب کہ خدا تمہیں یہ تاکید کرتا ہے کہ پنج وقت یہ دعا کرو کہ وہ نعمتیں جو نبیوں اور رسولوں کے پاس ہیں وہ تمہیں بھی ملیں.پس تم بغیر نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ کے وہ نعمتیں کیونکر پا سکتے ہو؟ لہذا ضرور ہوا کہ تمہیں یقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقت آتے رہیں جن سے تم وہ

Page 303

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة الفاتحة (لیکچرسیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۷) نعمتیں پاؤ.بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ دعا سکھلائی اور یہ امید دی کہ اهدنا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ہمیں اپنی ان نعمتوں کی راہ دکھلا جو پہلوں کو دکھلائی گئی.جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو رڈ مت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں.کیا اُس نے بنی اسرائیل کا ملک اور بنی اسرائیل کا بیت مقدس تمہیں عطا نہیں کیا جو آج تک تمہارے قبضہ میں ہے.پس اے ست اعتقاد واور کمزور ہمتو! کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تمہارے خدا نے جسمانی طور پر تو بنی اسرائیل کے تمام املاک کا تمہیں قائم مقام کر دیا مگر روحانی طور پر تمہیں قائم مقام نہ کر سکا بلکہ خدا کا تمہاری نسبت اِن سے زیادہ فیض رسانی کا ارادہ ہے خدا نے اُن کے روحانی جسمانی متاع و مال کا تمہیں وارث بنایا مگر تمہارا وارث کوئی دوسرا نہ ہوگا جب تک کہ قیامت آ جاوے.خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الہیہ سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا جو پہلوں کو دی گئیں....سوتم صدق اور راستی اور تقویٰ اور محبت ذاتیہ الہیہ میں ترقی کرو اور اپنا کام یہی سمجھو جب تک زندگی ہے.پھر خدا تم میں سے جس کی نسبت چاہے گا اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے بھی مشرف کرے گا.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸،۲۷) جب تک انسان ان دونوں صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا مومن کامل ہی کی تعریف میں تو اَنْعَت عَلَيْهِمْ فرمایا گیا ہے.اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سے کچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں انعمت عَلَيْهِمُ میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے گئے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الہیہ کہلاتے ہیں.- الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مؤرخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۳) اللہ تعالیٰ کا انتقال نبوت سے یہی منشاء تھا کہ وہ اپنا فضل و کمال دکھانا چاہتا تھا جو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا.اسی کی طرف اشارہ ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں.یعنی اے اللہ ہم پر وہ انعام و اکرام کر جو پہلے نبیوں اور صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین پر تو نے کئے ہیں ہم پر بھی کر.اگر خدا تعالیٰ یہ انعام و اکرام کر ہی نہیں سکتا تھا اور ان کا دروازہ بند ہو چکا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی؟ اسرائیلیوں پر تو یہ دروازہ بند ہو چکا تھا اگر یہاں بھی بند ہو گیا تو پھر کیا فائدہ ہوا؟ اور کس بات

Page 304

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة الفاتحة میں بنی اسرائیل پر اس اُمت کو فخر ہوا.جو خود اندھا ہے وہ دوسرے اندھے پر کیا فخر کر سکتا ہے؟ اگر وحی، الہام، خوارق یہودیوں پر بند ہو چکے ہیں تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ دروازہ کسی جگہ جا کر کھلا بھی یا نہیں.ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ نہیں ہم پر بھی یہ دروازہ بند ہے یہ کیسی بدنصیبی ہے پانچ وقت اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا کرتے ہیں اور اس پر بھی کچھ نہیں ملتا ! تعجب !! اللہ تعالیٰ کا خود ایسی دُعا تعلیم کرنا تو یہ معنے رکھتا ہے کہ میں تم پر انعام واکرام کرنے کے لئے تیار ہوں جیسے کسی حاکم کے سامنے پانچ امیدوار ہوں اور وہ ان میں سے ایک کو کہے کہ تم یہاں حاضر ہو تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس کو ضرور کام دیا جاویگا.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم کی اور پانچ وقت یہ پڑھی جاتی ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ اس کا کچھ بھی اثر اور نتیجہ نہیں ہوتا ؟ کیا یہ قرآن شریف کی ہتک اور اسلام کی ہتک نہیں ؟ میرے اور ان کے درمیان یہی امر در اصل متنازعہ فیہ ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی برکات اور تاثیرات جیسے پہلے تھیں ویسے ہی اب بھی ہیں وہ خدا اپنے تصرفات اب بھی دکھاتا ہے اور کلام کرتا ہے مگر یہ اس کے مقابلہ میں کہتے ہیں کہ اب یہ دروازہ بند ہو چکا ہے اور خدا تعالی خاموش ہو گیا وہ کسی سے کلام نہیں الحکم جلد ۹ نمبر ۳۸ مؤرخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۶،۵) کرتا.ہر یک مسلمان پانچ وقت اپنی نماز میں یہ دُعا پڑھتا ہے کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمتَ عَلَيْهِمْ اور خدائے تعالیٰ نے آپ فرما دیا ہے کہ صراط مستقیم نبیوں کی راہ ، صدیقوں کی راہ، شہیدوں کی راہ ہے پھر ہم سخت نادان ہوں گے اگر ہم ان راہوں کے طلب گار نہ ہوں جن کی طلب کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور فلسفیوں کے پیچھے بھٹکتے پھریں.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۴۶،۲۴۵ حاشیه ) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسی سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے.اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے.میں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے.کفر خود تمہارے اندر ہے.اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو ایسا کفر مُنہ پر نہ لاتے.خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو.اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۵،۳۵۴) ایک بندہ خدا کا عیسی نام جس کو عبرانی میں یسوع کہتے ہیں تیس برس تک موسیٰ رسول اللہ کی شریعت کی پیروی

Page 305

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة الفاتحة کر کے خدا کا مقرب بنا اور مرتبہ نبوت پایا.اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص بجائے تین برس کے پچاسن برس بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے تب بھی وہ مرتبہ نہیں پاسکتا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کوئی کمال نہیں بخش سکتی اور نہیں خیال کرتے کہ اس صورت میں لازم آتا ہے کہ خدا کا یہ دُعا سکھلانا کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ایک دھوکا دینا ہے.(چشم مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۱، ۳۸۲ حاشیه ) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ طلب کی گئی ہے اور میں نے کئی مرتبہ یہ بات بیان کی ہے کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبی ، صدیق ، شہید، صالح.پس جب کہ ایک مومن یہ دعا مانگتا ہے تو اُن کے اخلاق اور عادات اور علوم کی درخواست کرتا ہے.اس پر اگر ان چار گروہوں کے اخلاق حاصل نہیں کرتا تو یہ دُعا اُس کے حق میں بے ثمر ہوگی اور وہ بے جان لفظ بولنے والا حیوان ہے یہ چار طبقے ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے علوم عالیہ اور مراتب عظیمہ حاصل کئے ہیں.القام جلد ۶ نمبر ۲۶ مؤرخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) اللہ تعالیٰ نے جو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا تعلیم کی ہے اور ہر رکعت نماز میں پڑھی جاتی ہے اگر یہ نعمت کسی کو ملنے والی ہی نہ تھی تو اس دعا کی تعلیم کی کیا ضرورت تھی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۲ مؤرخه ۲۴ رنومبر ۱۹۰۲ صفحه ۵) مکالمہ الہی کا اگر انکار ہو تو پھر اسلام ایک مردہ مذہب ہوگا.اگر یہ دروازہ بھی بند ہے تو اس اُمت پر قہر ہوا خیر الامم نہ ہوئی.اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دُعا بے سود ٹھہری.تعجب ہے کہ یہود تو سیامت بن جاوے اور مسیح دوسروں سے آوے.الحکم جلدے نمبر ۵ مؤرخہ ۷ رفروری ۱۹۰۳ صفحه ۱۴) نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہل اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی اُمت پر ہے اور اھدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا ایک بڑا دھوکہ ہوگی.اور اس کی تعلیم کا کیا فائدہ ہوا گویا یہ عبث تعلیم خدا نے دی.البدر جلد ۲ نمبر ۶ مؤرخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۴۲) بھلا اگر خدا تعالیٰ نے اس اُمت کو اس شرف سے محروم ہی رکھنا تھا تو یہ دُعا ہی کیوں سکھائی اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس دعا سے تو صاف نکلتا ہے کہ یا الہی ہمیں پہلے منعم علیہم لوگوں کی راہ پر چلا اور جو اُن کو الہامات ملے ہمیں بھی وہ انعامات عطا فرما.اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کون تھے.خدا نے خود ہی

Page 306

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ سورة الفاتحة فرما دیا ہے کہ نبی ، صدیق، شہید، صالح لوگ تھے اور اُن کا برابر انعام یہی الہام اور وحی کا نزول تھا.بھلا اگر خدا نے اس دعا کا سا نتیجہ جو ہے اُس سے محروم ہی رکھنا تھا تو پھر کیوں ایسی دعا سکھائی.( الحکم جلد نمبر ۱۴ مؤرخه ۱۷ ۱۷ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۵) نبوت کے معنے مکالمہ کے ہیں جو غیب کی خبر دیوے وہ نبی ہے اگر آئندہ نبوت کو باطل قرار دو گے تو پھر یہ اُمت خیر الامت نہ رہے گی بلکہ کالانعام ہوگی اور سورہ فاتحہ کی تعلیم جس میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہے بے سود ٹھہرے گی کیونکہ انعام اور اکرام تو خدا کا اب کسی پر ہونا نہیں تو پھر دُعا کا فائدہ کیا ہوا اور نعوذ باللہ یہ مانا پڑا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں قدسی قوت ہی نہ تھی.البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مؤرخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۹) اگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کو بند کر دیا ہے اور قفل لگا دیا ہے تو پھر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا تعلیم کرنے کی کیا ضرورت تھی.یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک شخص کی مشکیں باندھ دی جاویں اور پھر اس کو ماریں کہ تو اب چل کر کیوں نہیں دکھاتا.بھلا وہ کس طرح چل سکتا ہے.فیوض اور برکات کے دروازے تو خود بند کر دیئے.اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا ہر روز ہر نماز میں کئی مرتبہ مانگا کرو.اگر قانون قدرت یہ رکھا تھا کہ آپ کے بعد منجزات اور برکات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا اور کوئی فیض اور برکت کسی کو ملنا ہی نہیں تھی تو پھر اس دعا سے کیا مطلب؟ اگر اس دعا کا کوئی اور نتیجہ نہیں تو پھر نصاریٰ کی تعلیم کے آثار اور نتائج اور اس تعلیم کے آثار اور نتائج میں کیا فرق ہوا لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلا سکو گے مگر اب وہ بجوتی بھی سیدھی نہیں کر سکتے.لکھا ہے کہ میرے جیسے معجزات دکھاؤ گے مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا.لکھا ہے کہ زہریں کھالو گے تو اثر نہ کریں گی مگر اب سانپ ڈستے اور کتے کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دُعا کا نہیں دکھا سکتے.ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اُس میں زندگی کی روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ انہوں نے نبی کا طریق چھوڑ دیا.اب اگر ہم بھی یہ اقرار کر لیں کہ اب نشانات اور خوارق نہیں ہوتے اور یہ دعا جو سکھائی گئی ہے اس کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں تو کیا اُس کے یہ معنے نہیں ہونگے کہ یہ اعمال معاذ اللہ بے فائدہ ہیں؟ نہیں خدا تعالیٰ جو دانا اور

Page 307

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة الفاتحة حکمت والا ہے وہ نبوت کی تاثیرات کو قائم رکھتا ہے اور اب بھی اس نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۳،۲) اس امر کی سچائی پر گواہ ہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور تعلیم کرتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور اس کے یہی معنے ہیں کہ یا الہی قرب اور محبت اور معرفت کا ہمیں وہ راہ عنایت کر جو تو نے تمام نبیوں اور مقدسوں اور معصوموں کو عنایت فرمایا ہے پس اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ میں بخل نہیں.پس جبکہ انسان ظلی طور پر نبیوں کے مراتب تک پہنچ جاتا ہے تو اس کو اہل بیت یا امام حسین کے مرتبہ تک پہنچنے سے کونسی بات سد راہ ہے اگر ابواب قرب اور محبت و معرفت کے کھلے نہ ہوتے اور صرف حضرت علی یا امام حسین یا چند دوسرے اہلِ بیت ( پر ) ہرسہ کمالات ختم ہو کر آئندہ کو محکم قفل اُن پر لگ جاتا تو اس صورت میں اسلام اسلام نہ تھا اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پڑھنا عبث ہو جا تا خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے بخل نہیں رکھتا جو ڈھونڈے گا پائے گا.البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۳) خدا اپنی قدرتوں میں کمزور نہیں وہ یقین دلانے کے لئے ایسے خارق عادت طریقے اختیار کر لیتا ہے کہ انسان جیسے آفتاب کو دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ یہ آفتاب ہے ایسا ہی خدا کے کلام کو پہچان لیتا ہے کیا ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیک خدا تعالی اس بات پر قادر تھا کہ اپنی پاک وحی کے ذریعے سے حق کے طالبوں کو سر چشمہ، یقین تک پہنچا دے مگر پھر بعد اس کے اس فیضان پر قادر نہ رہایا قادر تو تھا مگر دانستہ اس اُمت غیر مرحومہ کے ساتھ بخل کیا اور اس دُعا کو بھول گیا جو آپ ہی سکھلائی تھی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - ( البدر جلد ۳ نمبر ۵ مؤرخہ یکم فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) اللہ تعالیٰ تو سب کو ولی کہتا ہے اور سب کو ولی بنانا چاہتا ہے اس لئے وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی ہدایت کرتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ تم منعم علیہ گروہ کی مانند ہو جاؤ.جو کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہو سکتا وہ اللہ تعالیٰ پر بخل کی تہمت لگاتا ہے اور اس لئے یہ کلمہ کفر ہے.(احکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مؤرخہ ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵، صفحه ۱) یا درکھو کہ خدا کے فیوض بے انتہا ہیں جو اُن کو محدود کرتا ہے وہ اصل میں خدا کو محدود کرتا ہے اور اس کی کلام کو عبث قرار دیتا ہے وہی بتلاوے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں جب وہ اُنہی کمالات اور انعامات کو طلب کرتا ہے جو کہ سابقین پر ہوئے تو اب اُن کو محدود کیسے مانتا ہے اگر وہ محدود ہیں اور بقول شیعہ بارہ امام تک ہی رہے تو پھر سورہ فاتحہ کو نماز میں کیوں پڑھتا ہے؟ وہ تو اُس کے عقیدہ کے

Page 308

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ سورة الفاتحة خلاف تعلیم کر رہی ہے اور خدا کوملزم گردانتی ہے کہ ایک طرف تو وہ خود ہی کمالات کو بارہ امام تک ختم کرتا ہے اور پھر لوگوں کو قیامت تک اُن کے طلب کرنے کی تعلیم دیتا ہے.دیکھو مایوس ہونا مومن کی شان نہیں ہوتی اور ترقیات اور مراتب قرب کی کوئی حد بست نہیں ہے یہ بڑی غلطی ہے کہ کسی فرد خاص پر ایک بات قائم کر دی جاوے.البدر جلد ۳ نمبر ۲۲، ۲۳ مورخه ۸ تا ۱۶ رجون ۱۹۰۴ ء صفحه ۳) جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور آتا ہے وہ خالی نہیں جاتا.پاکیزہ قلب ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تعلیم اور تاکید بے فائدہ ہو جاتی ہے اگر وہ انعام اکرام اب کسی کو ملنے ہی نہیں ہیں تو پھر پانچ وقت اس دُعا کے مانگنے کی کیا حاجت ہے؟ یہ بڑی غلطی ہے جو مسلمانوں میں پھیل گئی ہے.حالانکہ یہی تو اسلام کا حسن اور خوبی تھی کہ اس کے برکات اور فیوض اور اس کی پاک تعلیم کے ثمرات تازہ بتازہ بہت مل سکتے ہیں.تمام صوفیوں اور ا کا برانِ اُمت کا یہی مذہب ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ کامل متبع ہوتا ہی نہیں جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتا ہو.اور حقیقت میں یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ کامل اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لازم ہے کہ اس کے ثمرات اپنے اندر پیدا کرے جب ایک شخص کامل اطاعت کرتا ہے اور گو اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں محو اور فنا ہوکر گم ہو جاتا ہے اس وقت اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سامنے رکھا ہوا ہو.اور تمام و کمال عکس اس میں پڑے.میں کبھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکات اور ان تاثیرات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ملتی ہیں محدود نہیں کر سکتا بلکہ ایسا خیال کرنا کفر سمجھتا ہوں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مؤرخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) جبکہ بہر صورت ثابت ہے کہ خضر کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم یقینی اور قطعی دیا گیا تھا.تو پھر کیوں کوئی شخص مسلمان کہلا کر اور قرآن شریف پر ایمان لا کر اس بات سے منکر ر ہے کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ میں سے باطنی کمالات میں خضر کی مانند نہیں ہو سکتا.بلاشبہ ہو سکتا ہے.بلکہ خدائے کی قیوم اس بات پر قادر ہے کہ امت مرحومہ محمدیہ کے افراد خاصہ کو اس سے بھی بہتر و زیادہ تر باطنی نعمتیں عطا فرما دے اَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرة : ۱۰۷) کیا اس خداوند کریم نے آپ ہی اس امت کو یہ دعا تعلیم نہیں فرمائی اھدنا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلدا صفحه ۲۹۵ حاشیه در حاشیه نمبرا)

Page 309

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ سورة الفاتحة یہ تعلیم دے کر کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ تمام سچے طالبوں کو خوشخبری دی کہ وہ اپنے رسول مقبول کی تبعیت سے اس علم ظاہری اور باطنی تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو ہالا صالت خدا کے نبیوں کو دیا گیا.انہیں معنوں کر کے تو علماء وارث الانبیاء کہلاتے ہیں اور اگر باطنی علم کا ورثہ ان کو نہیں مل سکتا تو پھر وہ وارث کیونکر اور کیسے ہوئے.( براہین احمدیہ چہار قصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۶، حاشیه درحاشیه نمبرا) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پس یہ آیت صاف کہہ رہی ہے کہ اس اُمت کے بعض افراد کو گذشتہ نبیوں کا کمال دیا جائے گا اور نیز یہ کہ گذشتہ کفار کی عادات بھی بعض منکروں کو دی جائیں گی اور بڑی شدومد سے آئندہ نسلوں کی گذشتہ لوگوں سے مشابہتیں ظاہر ہو جائیں گی.چنانچہ بعینہ یہودیوں کی طرح یہودی پیدا ہو جائیں گے اور ایسا ہی نبیوں کا کامل نمونہ بھی نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۲، ۳۸۳ حاشیه ) ظاہر ہوگا.اگر یہ کہا جائے کہ اس اُمت پر قیامت تک دروازہ مکالمہ مخاطبہ اور وحی الہی کا بند ہے تو پھر اس صورت میں کوئی امتی نبی کیونکر کہلا سکتا ہے کیونکہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ خدا اس سے ہمکلام ہو تو اس کا یہ جواب ہے کہ اس اُمت پر یہ دروازہ ہرگز بند نہیں ہے اور اگر اس اُمت پر یہ دروازہ بند ہوتا تو یہ امت ایک مردہ امت ہوتی اور خدا تعالیٰ سے دُور اور مجبور ہوتی.اور اگر یہ دروازہ اس اُمت پر بند ہوتا تو کیوں قرآن میں یہ دُعا سکھلائی جاتی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۵۳) یا درکھنا چاہئے کہ جو مذہب آئندہ کمالات کے دروازے بند کرتا ہے وہ مذہب انسانی ترقی کا دشمن ہے.قرآن شریف کی رُو سے انسان کی بھاری دعا یہی ہے کہ وہ روحانی ترقیات کا خواہاں ہو.غور سے پڑھنا چاہئے اس آیت کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - الحکم جلد ۲ نمبر ۳۸ مؤرخه ۸ /دسمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۳) یہ اسلام پر بھی ایک داغ ہے کہ بنی اسرائیل میں تو ایسے یقینی الہام ہوتے تھے جن کی وجہ سے حضرت موسیٰ کی ماں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں ڈال دیا اور اس الہام کی سچائی میں کچھ شک نہ کیا اور ظنی نہ سمجھا.اور خضر نے ایک بچہ کوقتل بھی کر دیا.مگر اس اُمت مرحومہ کو وہ مرتبہ بھی نہ ملا جو بنی اسرائیل کی عورتوں کو

Page 310

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ سورة الفاتحة مل گیا.پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیهِمْ.کیا انہیں ظنی الہاموں کا نام انعام ہے جو شیطان اور رحمن میں مشترک ہیں.جائے شرم !! تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۳) نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کے مکالمہ مخاطبہ کا اُس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا......اور جب کہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو.اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے.جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران : ۱۱۱) اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اُن کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی.اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا.روووو الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱، ۳۱۲) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ.......اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصّہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۴ حاشیه ) چھٹی آیت اس سورۃ کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو.تخته گوار و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۴ حاشیه ) اعْلَمُ أَنَّ فِي ايَةِ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تَبْشِيرُ واضح ہو کہ آیت اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں مومنوں کے لئے لِلْمُؤْمِنِينَ وَإِشَارَةٌ إِلى أَنَّ اللهَ اَعَدَّلَهُمُ ایک خوشخبری ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ كُلَّمَا أعْطَى لِلْانْبِيَاءِ السَّابِقِيْنَ وَلِذَالِك نے ان کے لئے وہ سب کچھ تیار کر رکھا ہے جو اس نے

Page 311

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة الفاتحة عَلَّمَ هذَا الدُّعَاءَ لِيَكُونَ بِشَارَةً گذشتہ نبیوں کو دیا تھا اور اسی لئے اس نے یہ دعا سکھائی تا للظَّالِبِينَ.فَلَزِمَ مِنْ ذَالِك أن تختيم طالبوں کے لئے خوش خبری ہو.پس اس سے لازم آیا کہ سلْسِلَةُ الخُلَفَاءِ الْمُحَمَّدِيَّةِ عَلَى مَثِيْلِ محمدی خلفاء کا سلسلہ مثیل عیسی پر ختم ہوتا موسوی سلسلہ کے عِيسَى لِيَتِمَّ الْمُمَاثَله بالسلسلة ساتھ (اس کی مماثلت مکمل ہو جائے اور کریم جب وعدہ الْمُوْسَوِيَّةِ وَالْكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفَى کرتا ہے تو اسے پورا کیا کرتا ہے.( ترجمہ از مرتب ) اعجاز اسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۷۰ حاشیه ) وَاللهِ لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ الَّذِي هُوَ أَهْلُ اور خدا کی قسم قرآن شریف میں جو تمام اختلافوں کا الْفَصْلِ وَالْقَضَاءِ إِلَّا خَيْرُ ظُهُورٍ خَاتَمِ فیصلہ کرنے والا ہے کہیں ذکر نہیں ہے کہ خاتم الخلفاء سلسلہ الْخُلَفَاءِ مِنْ أُمَّةِ خَيْرِ الْوَرى فَلَا تَففُوا محمدیہ کا موسوی سلسلہ سے آئے گا.اس کی پیروی مت کرو کہ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَ قَدْ أَعْطِيتُم کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ہے بلکہ برخلاف اس کے تم کو فِيْهِ مِنَ الْهُدَى وَلَا تُخْرِجُوا مِن دلیل دی گئی.اور کلمات متفرقہ اپنے منہ سے نہ نکالو کہ وہ أفْوَاهِكُمْ كَلِمَاتٍ شَلّى الَّتى لَيْسَت بی کلمات اس تیر کی طرح ہیں جو اندھیرے میں چلایا جائے اور إِلَّا كَسَهْم في الظُّلُمَاتِ يُزى وَإِنَّ هَذَا یہ وعدہ جو مذکور ہوا سچا وعدہ ہے اور تم کو کوئی دھوکا نہ دے.الْوَعْدَ وَعْدٌ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمْ ما اور سورہ فاتحہ میں دوسری بار اس وعدہ کی طرف اشارہ فرمایا تَسْمَعُونَ مِنْ أَهْلِ الْهَوَى وَقَد اشير اليْهِ ہے اور یہ آیت سورہ فاتحہ یعنی صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ فِي الْفَاتِحَةِ مَرَّةً أُخْرَى وَ تَقْرَءُونَ في عَلَيْهِمُ اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں.پھر حیلہ و بہا نہ اختیار الصَّلوةِ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ کرتے ہیں اور حجت الہی کے رفع دفع کے لئے مشورے تَسْتَفْرُونَ سُبُلَ الْإِنْكَارِ ولیرون کرتے ہیں تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ کو اپنے النّجوى مَالَكُمْ تَدُوسُونَ قَول الله تحت پیروں میں روندتے ہو.کیا ایک دن تم نہیں مرو گے یا الْأَقْدَامِ أَلَا تَمُوتُونَ أَو تُترَكُونَ سُدی کوئی تم کو نہیں پوچھے گا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه، ۱۰۹، ۱۱۰) اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہو سکتا تو پھر اس کے کیا معنی ہیں کہ اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ - ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹) قرآن شریف بھی سلسلہ موسویہ کے بالمقابل ایک سلسلہ قائم کرتا ہے.اسی کی طرف علاوہ اور آیات

Page 312

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ سورة الفاتحة دو قرآنی کے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بھی اشارہ کرتا ہے.یعنی جو پہلے نبیوں کو دیا گیا ہے ہم کو بھی عطا کر.الحکم جلدے نمبر ۸ مؤرخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴) نیکوں کے اور بدوں کے بروز ہوتے ہیں نیکوں کے بروز میں جو موعود ہے وہ ایک ہی ہے یعنی مسیح موعود ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انيكا الطيراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے نیکوں کا بروز اور ضَالِينَ سے عیسائیوں کا بروز اور مغضوب سے یہودیوں کا بروز مراد ہے اور یہ عالم بروزی صفت میں پیدا کیا گیا ہے جیسے پہلے نیک یا بد گزرے ہیں ان کے رنگ اور صفات کے لوگ اب بھی ہیں خدا تعالیٰ ان اخلاق اور صفات کو ضائع نہیں کرتا ان کے رنگ میں اور آ جاتے ہیں جب یہ امر ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ابرار اور اخیار اپنے اپنے وقت پر ہوتے رہیں گے.اور یہ سلسلہ قیامت تک چلا جاوے گا جب یہ سلسلہ ختم ہو جاوے گا تو دنیا کا بھی خاتمہ ہے لیکن وہ موعود جس کے سپر عظیم الشان کام ہے وہ ایک ہی ہے کیونکہ جس کا وہ بروز ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی ایک ہی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) خدا تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ وہ اس فریق کی راہ خدا تعالیٰ سے طلب کرتے رہیں جو منعم علیہم کا فریق ہے اور منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعماء حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروه ہیں.ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کے لئے مربی بے واسطہ تھے.اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے.(تحفہ گولز و یه ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۴) منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور

Page 313

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة الفاتحة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.دو احکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مؤرخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) انسان کا اعلیٰ درجہ وہی نفس مطمئنہ ہے جس پر میں نے گفتگو شروع کی ہے اسی حالت میں اور تمام حالتوں سے ایسے لوازم ہو جاتے ہیں کہ عام تعلق الہی سے بڑھ کر خاص تعلق ہو جاتا ہے جو زمینی اور سطحی نہیں ہوتا بلکہ علوی اور سماوی تعلق ہوتا ہے.مطلب یہ ہے کہ یہ اطمینان جس کو فلاح اور استقامت بھی کہتے ہیں.اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اسی راہ کی دعا تعلیم کی گئی ہے اور یہ استقامت کی راہ اُن لوگوں کی راہ ہے جو منعم علیہم ہیں.اللہ تعالیٰ کے افضال واکرام کے مورد ہیں.منعم علیہم کی راہ کو خاص طور پر بیان کرنے سے یہ مطلب تھا کہ استقامت کی راہیں مختلف ہیں.مگر وہ استقامت جو کامیابی اور فلاح کی راہوں کا نام ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی راہیں ہیں.اس میں ایک اور اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں وہ دعا انسان کی زبان ، قلب اور فعل سے ہوتی ہے.اور جب انسان خدا سے نیک ہونے کی دعا کرے تو اُسے شرم آتی ہے.مگر یہی ایک دعا ہے جو ان مشکلات کو دور کر دیتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۴۴، ۱۴۵) یہ ضروری امر ہے کہ پہلے قومی کو ان کے فطرتی کاموں پر لگاؤ تو اور بھی ملے گا.ہمارا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جہاں تک عملی طاقتوں سے کام لیا جاوے اللہ تعالیٰ اس پر برکت نازل کرتا ہے.مطلب یہی ہے کہ اوّل عقائد ، اخلاق، اعمال کو درست کرو.پھر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا مانگو تو اس کا اثر کامل طور پر ظاہر رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ صفحه ۱۴۶) ہوگا.دو وو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لحاظ رکھیں.کیونکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کو ايَّاكَ نَسْتَعِينُ پر مقدم رکھا ہے.پس پہلے عملی طور پر شکریہ کرنا چاہئے اور یہی مطلب اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ میں رکھا ہے.یعنی دُعا سے پہلے اسباب ظاہری کی رعایت اور نگہداشت ضروری طور پر کی جاوے.اور پھر دُعا کی طرف رجوع ہو.اولاً عقائد، اخلاق اور عادات کی اصلاح ہو.پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ......اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا تعلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ انسان تین پہلو ضرور مد نظر رکھے.اول اخلاقی حالت.دوم حالت عقائد.سوم اعمال کی حالت.مجموعی طور پر یوں کہو کہ انسان خدا داد قوتوں کے ذریعے سے اپنے حال کی اصلاح کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے.یہ مطلب نہیں کہ اصلاح کی صورت میں دُعا نہ کرے نہیں.اُس وقت بھی مانگتا ر ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۸)

Page 314

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة الفاتحة دوو نماز میں بالخصوص دعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں دلی آہوں سے، دلی تضرعات سے، دلی خضوع سے، بچے دلی جوش سے حضرت احدیت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ اور عاجز اور لا چار سمجھ کر اور حضرت احدیت کو قادر مطلق اور رحیم کریم یقین کر کے رابطہ محبت اور قرب کے لئے دُعا کرنی چاہئے.اس جناب میں خشک ہونٹوں کی دُعا قابل پذیرائی نہیں.فیضان سماوی کے لئے سخت بیقراری اور جوش و گریہ وزاری شرط ہے.اور نیز استعداد قریبہ پیدا کرنے کے لئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلی خالی اور پاک کر لینا چاہئے.کسی کا حسد اور حقد دل میں نہ رہے.بیداری بھی پاک باطنی کے ساتھ ہو اور خواب بھی.بے مغز با تیں سب فضول ہیں اور جو عمل روح کی روشنی سے نہیں وہ تاریکی اور ظلمت ہے.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۷،۲۶ مؤرخہ ۶، ۱۳ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۷) خاکساری اور نیستی کو اسی قادر مطلق سے طلب کرنا چاہئے اهْدِنَا القِيرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں جو مانگا گیا ہے وہ بھی خاکساری اور نیستی ہے.(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۸۱) نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴) اصل حقیقت اور اصل سرچشمہ نجات کا محبت ذاتی ہے جو وصالِ الہی تک پہنچاتی ہے.وجہ یہ کہ کوئی محب اپنے محبوب سے جدا نہیں رہ سکتا.اور چونکہ خدا خود نور ہے اس لئے اس کی محبت سے نور نجات پیدا ہو جاتا ہے اور وہ محبت جو انسان کی فطرت میں ہے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی انسان کی محبت ذاتی میں ایک خارق عادت جوش بخشتی ہے.اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے ایک فنا کی صورت پیدا ہو کر بقا باللہ کا نور پیدا ہو جاتا ہے.اور یہ بات کہ دونوں محبتوں کا باہم ملنا ضروری طور پر اس

Page 315

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة الفاتحة نتیجہ کو پیدا کرتا ہے کہ ایسے انسان کا انجام فنافی اللہ ہو اور خاکستر کی طرح یہ وجود ہوکر ( جو حجاب ہے ) سراسر عشق الہی میں روح غرق ہو جائے اس کی مثال وہ حالت ہے کہ جب انسان پر آسمان سے صاعقہ پڑتی ہے تو اس آگ کی کشش سے انسان کے بدن کی اندرونی آگ یکدفعہ باہر آ جاتی ہے تو اس کا نتیجہ جسمانی فنا ہوتا ہے پس دراصل یہ روحانی موت بھی اسی طرح دو قسم کی آگ کو چاہتی ہے.ایک آسمانی آگ اور ایک اندرونی آگ اور دونوں کے ملنے سے وہ فنا پیدا ہو جاتی ہے جس کے بغیر سلوک تمام نہیں ہوسکتا.یہی فتاوہ چیز ہے جس پر سالکوں کا سلوک ختم ہو جاتا ہے.اور جو انسانی مجاہدات کی آخری حد ہے.اسی فنا کے بعد فضل اور موجبت کے طور پر مرتبہ بقا کا انسان کو حاصل ہوتا ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.صِراط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مرتبہ ملا انعام کے طور پر ملا.یعنی محض فضل سے نہ کسی عمل کا اجر.اور یہ عشق الہی کا آخری نتیجہ ہے.جس سے ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوتی ہے اور موت سے نجات ہوتی ہے.چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۵،۳۶۴) نجات کے متعلق جو عقیدہ قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نجات نہ تو صوم سے ہے نہ صلوۃ سے نہ زکوۃ اور صدقات سے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے جس کو دُعا حاصل کرتی ہے اس لئے اھدنا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا سب سے اول تعلیم فرمائی ہے.کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے جس سے اعمال صالحہ کی توفیق ملتی ہے کیونکہ جب انسان کی دُعا جو بچے دل اور خلوص نیت سے ہو.قبول ہوتی ہے تو پھر نیکی اور اُس کے شرائط ساتھ خود ہی مرتب ہو جاتے ہیں.(الحکم جلدے نمبر ۳۰ مؤرخه ۱۷ راگست ۱۹۰۳ صفحه ۱۱،۱۰) قرآن شریف سے جو عقیدہ نجات کے بارے میں استنباط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نجات نہ تو صوم سے ہے نہ صلوۃ سے نہ زکوۃ اور نہ صدقات سے بلکہ محض دُعا اور خدا کے فضل سے ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے دُعا اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم تعلیم فرمائی ہے کہ جب وہ قبول ہو کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتی ہے اعمال صالحہ اس کے ساتھ شرائط ہیں مگر لوازم میں سے نہیں یعنی جب انسان کی دُعا قبول ہوتی ہے تو اُس کے ساتھ تمام شرائط خود ہی مرتب ہوتی ہیں ورنہ اگر اعمال پر نجات کا مدار رکھا جائے تو یہ بار یک شرک ہے اور اس سے ثابت ہوگا کہ انسان خود بخو دنجات پاسکتا ہے کیونکہ اعمال تو انسان کے اختیاری امور ہیں اور انسان خود بخو دا سے بجالاتے ہیں.....دُعا جب تمام شرائط کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ فضل کو جذب کرتی ہے اور فضل کے بعد

Page 316

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۳ سورة الفاتحة شرائط خود بخود پورے ہوتے جاتے ہیں اسلامی نجات یہی ہے.( البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مؤرخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۲۷) دنیا کے لئے جو دُعا کی جاتی ہے وہ جہنم ہے.دُعا صرف خدا کو راضی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ہونی چاہئے باقی جتنی دُعائیں ہیں وہ خود اس کے اندر آجاتی ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ بڑی دُعا ہے صراط مستقیم گویا خدا کو شناخت کرتا ہے اور انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کل گناہوں سے بچتا ہے اور صالحین میں داخل ہوتا ہے اگر ایک آدمی با خدا ہو تو سات پشت تک خدا تعالیٰ اس کی اولاد کی خبر گیری کرتا ہے.....دعا ایسی کرنی چاہئے کہ نفسِ اتارہ گداز ہو کر نفسِ مطمئنہ کی طرف آجاوے اگر وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (جیسے کے معنے مذکور ہوئے ) طلب کرتا رہے گا تو دوسری جو اُسے ضرورتیں ہیں جن کے لئے وہ دُعا چاہتا ہے وہ خدا خود پوری کر دے گا.البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۵،۴) اصل گناہ شرک ہے اور جو کوئی شرک سے یعنی مال اور رزق اور علم اور عقل اور اعمال اور نفس اور بہت اور شیطان اور دوسرے معبودوں سے بیزار ہو کر صرف خدا ہی کو اپنا خدا جانے اور اُس کے فضل کا منتظر رہے تو وہ بیشک رستگار ہو کر جنت میں جائے گا.لیکن وہ آدمی کہ ان شرکوں میں سے کسی شرک میں گرفتار ہے تو زندان ستر میں محبوس ہوگا اور مکر وہ لباس میں رہے گا یہاں تک کہ اس پر فضل ہو.اب یہ مقام بڑا نازک اور نہایت دقیق اور لغزش کی جگہ ہے اور تھوڑے ہیں جو رستگار ہوتے ہیں اب سنئے کہ جو جو مقامات واسطہ دفع اس شرک وارد ہیں اول سورہ فاتحہ میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور پرستش اور تقرب میں مدد بھی تجھ ہی سے مانگتے ہیں اس اعتقاد سے وہ سب شرک جاتے رہے اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تو آپ ہم کو سیدھا راستہ بتلا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اُن کا راستہ جن پر تیر افضل ہوا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین اور بچا ہم کو اُن کے راستہ سے جن پر تیرا غضب ہے اور اُن سے جو راہ راست پر قائم نہیں رہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۵) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - الجزو نمبر ا.یعنی اے باری تعالیٰ ہم پر وہ صراط مستقیم ظاہر کر جو تو نے ان تمام اہل کمال لوگوں پر ظاہر کیا جن پر تیرا فضل اور کرم تھا چونکہ اہل کمال لوگوں کا صراط مستقیم یہی ہے کہ وہ علی وجہ البصیرت حقائق کو معلوم کرتے ہیں نہ اندھوں کی طرح.پس اس دُعا کا ماحصل تو یہی ہوا کہ خداوند اوہ تمام علوم حقہ اور معارف صحیحہ اور اسرار عمیقہ اور حقائق دقیقہ جو دنیا کے تمام اہل کمال لوگوں کو متفرق طور پر وقتا فوقتا تو عنایت کرتا رہا ہے اب وہ سب ہم میں جمع کر.سود یکھئے کہ اس دُعا

Page 317

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ میں بھی علم اور حکمت ہی خدا سے چاہتی ہے اور وہ علم مانگا ہے جو تمام دنیا میں متفرق تھا.سورة الفاتحة (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۰۲ تا ۵۰۵) قانونِ قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے اسی لئے اُس نے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا تعلیم فرمائی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا منشا اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دُعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر.ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر تو اشارۃ النص کے طور پر اس سے دُعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے لیکن اس کے سر پر ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ اياك نستعين بتا رہا ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھا ئیں یعنی صراط مستقیم کے منازل کے لئے قومی سلیم سے کام لے کر استعانت الہی کو مانگنا چاہئے پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے جو اس کو چھوڑتا ہے وہ کافر نعمت ہے دیکھو! یہ زبان جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور عروق و اعصاب سے اس کو بنایا ہے اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے ایسی زبان دُعا کے لئے عطا کی جو قلب کے خیالات اور ارادوں تک کو ظاہر کر سکے اگر ہم دُعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو ہماری شور بختی ہے.بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تو وہ یک دفعہ ہی کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہ رحیمیت ہے ایسا ہی قلب میں خشوع و خضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں ودیعت کی ہیں پس یا درکھو اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دُعا کرتے ہیں تو یہ دُعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہوگی کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے سے کیا نفع اٹھا ئیں گے اس لئے اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ بتا رہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بریکار اور برباد نہیں ، کیا.یادرکھورحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اٹھانے کے قابل بنادے.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو ادعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (المؤمن :۶۱) فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے مانگنا انسانی خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالی کا جو نہیں مانتا وہ ظالم ہے......اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر اور پھر یہ کہہ کر کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور بھی صراحت کر دی کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے.اور مغضوب گروہ کی راہ سے بیچا جن پر بد اعمالیوں کی وجہ سے عذاب الہی آگیا اور الضالین کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھا کہ تیری حمایت کے بدوں بھٹکتے پھریں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مؤرخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۲،۱)

Page 318

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۵ سورة الفاتحة یہ دُعا اس واسطے سکھائی کہ تاتم لوگ صرف اس بات پر ہی نہ بیٹھ رہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.بلکہ اس طرح سے اعمال بجالاؤ کہ ان انعاموں کو حاصل کر سکو جو خدا کے مقرب بندوں پر ہوا کرتے ہیں.بعض لوگ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور دوسرے ارکان اسلام بھی بجا لاتے ہیں مگر خدا کی نصرت اور مردان کے شامل حال نہیں ہوتی.اور ان کے اخلاق اور عادات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عبادتیں بھی رسمی عبادتیں ہیں حقیقت کچھ بھی نہیں.کیونکہ احکام الہی کا بجا لا نا تو ایک بیچ کی طرح ہوتا ہے جس کا اثر روح اور وجود دونوں پر پڑتا ہے ایک شخص جو کھیت کی آبپاشی کرتا اور بڑی محنت سے اس میں بیج بوتا ہے اگر ایک دو ماہ تک اس میں انگوری نہ نکلے تو ماننا پڑتا ہے کہ پیچ خراب ہے یہی حال عبادات کا ہے اگر ایک شخص خدا کو وحدہ لاشریک سمجھتا ہے نمازیں پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور بظاہر نظر احکام الہی کو حتی الوسع بجالاتا ہے لیکن خدا کی طرف سے کوئی خاص مدد اس کے شاملِ حال نہیں ہوتی تو ماننا پڑتا ہے کہ جو بیچ وہ بو رہا ہے وہی خراب ہے.(احکام جلد ۱۲ نمبر ۲ مؤرخه ۶ رجنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ فِي آيَةِ اهْدِنَا الصِّرَاط پھر جان لو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی آیت میں نفوس کو شرک کی إِشَارَةٌ عَظِيمَةٌ إلى تَزْكِيَةِ النُّفُوسِ مِن باریک راہوں سے پاک کرنے اور ان راہوں کے دَقَائِقِ الشركِ وَاسْتِيْصَالِ أَسْبَابِهَا و اسباب کو مٹانے کی طرف عظیم اشارہ ( پایا جاتا) ہے.لأَجْلِ ذَلِكَ رَغْبَ اللهُ فِي الْآيَةِ فِي تَحْصِيلِ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے (لوگوں کو ) اس آیت میں نبیوں كَمَالَاتِ الْأَنْبِيَاءِ وَ اسْتِفْتَاحِ أَبْوَابِهَا کے کمالات کے حاصل کرنے اور ان ( کمالات ) کے فَإِنَّ أَكْثَرَ الشَّرْكِ قَدْ جَاءَ فِي الدُّنْيَا مِن دروازوں کو کھولے جانے کی استدعا کی ترغیب دی ہے تاب إظراءِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْلِيَاء وَ إِنَّ کیونکہ زیادہ تر شرک نبیوں اور ولیوں کے متعلق الَّذِيْنَ حَسِبُوا نَبِيَّهُمْ وَحِيْدًا فَرِيْدا و غلو کرنے کی وجہ سے دنیا میں آیا ہے اور جن لوگوں نے وَحْدَهُ لا شَريكَ لَه كَذَاتِ حَضْرَةِ اپنے نبی کو ایسا یکتا اور منفرد اور ایسا وحدہ لاشریک گمان الْكِبْرِيَاءِ فَكَانَ مَالُ أَمْرِهِمْ أَنَّهُمُ اتَّخَذُوهُ کیا جیسے ذات ربّ العزت ہے اُن کا مال کار یہ ہوا کہ إلهَا بَعْدَ مُدَّةٍ وَ هَكَذَا فَسَدَتْ قُلُوبُ انہوں نے کچھ مدت کے بعد اسی نبی کو معبود بنالیا.اسی النَّصَارَى مِنَ الْإِطْرَاءِ وَالْاعْتِدَاءِ.فالله طرح ( حضرت عیسیٰ کی تعریف میں مبالغہ آرائی کر

Page 319

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سورة الفاتحة يُشِيرُ في هَذِهِ الْآيَةِ إلى هذِهِ الْمَفْسَدَةِ اور حد سے بڑھنے کی وجہ سے عیسائیوں کے دل بگڑ گئے.وَالْغَوَايَةِ وَ يُوْمِي إِلى أَنَّ الْمُنعَمِينَ مِن چنانچہ اللہ تعالی اس آیت میں ہی فساد اور گمراہی الْمُرْسَلِينَ وَالنّبيين وَالْمُعَدَّثِينَ انّما کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس طرف بھی اشارہ فرماتا يُبْعَثُونَ لِيَصْطَبِغَ النَّاسُ بِصِبْغِ تِلْكَ ہے کہ (اللہ تعالیٰ سے ) انعام پانے والے لوگ یعنی الْكِرَامِ لَا أَن يَعْبُدُوهُمْ وَ يَتَّخِذُوهُمْ رسول، نبی اور محدث اس لئے مبعوث کئے جاتے ہیں کہ الِهَةً كَالْأَصْنَامِ فَالْغَرَضُ مِنْ إِرْسَال لوگ ان بزرگ ہستیوں کے رنگ میں رنگین ہوں.نہ اس تِلْكَ النُّفُوسِ الْمُهَنَّبَةِ نَوى الصِّفَاتِ لئے کہ وہ اُن کی عبادت کرنے لگیں اور انہیں بتوں کی طرح الْمُطَهَّرَةِ أَنْ يَكُونَ كُلُّ مُتَّبِع قَرِيعَ تِلْكَ معبود بنا لیں.پس ان با اخلاق پاکیزہ صفات والی ہستیوں الصِّفَاتِ لَا قَارِعَ الْجَهةِ عَلى هذہ کو دنیا میں بھیجنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ( ان کا ) ہر مشبع ان الصَّفَاةِ.فَأَوْلَى اللهُ في هذِهِ الْآيَةِ لِأُولى صفات سے متصف ہو نہ یہ کہ انہیں کو پتھر کا بت بنا کر اُس الْفَهْمِ وَالرِّدَايَةِ إِلى أَن كَمَالَاتِ پر ماتھا رگڑنے والا ہو.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں النَّبِيِّينَ لَيْسَت كَمَالَاتِ رَبِّ سمجھ بوجھ اور عقل رکھنے والوں کو اشارہ فرمایا ہے کہ نبیوں الْعَالَمِينَ وَأَنَّ اللهَ أَحَدٌ صَمَدٌ وَحِيْدٌ لَّا کے کمالات پروردگار عالم کے کمالات کی طرح نہیں شَرِيكَ لَهُ فِي ذَاتِهِ وَلَا فِي صِفَاتِهِ وَأَمَّا ہوتے.اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا، بے نیاز الْأَنْبِيَاء فَلَيْسُوا كَذلِك بَلْ جَعَلَ الله اور یگانہ ہے.اُس کی ذات اور صفات میں اُس کا کوئی لَهُمْ وَارِثِينَ مِنَ الْمُتَّبِعِينَ الصَّادِقِينَ شریک نہیں.لیکن نبی ایسے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ اُن فَأُمَّتُهُمْ وَرَثَاؤُهُمْ يَجِدُونَ مَا وَجَدَ کے بچے متبعین میں سے اُن کے وارث بنا تا ہے.پس اُن أَنْبِيَاؤُهُمْ إِن كَانُوا لَهُمْ مُتَّبِعِيْنَ.وَإلى كى امت اُن کی وارث ہوتی ہے.وہ سب کچھ پاتے ہیں جو هذَا أَشَارَ في قَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَّ قُلْ اِن اُن کے نبیوں کو ملا ہو بشرطیکہ وہ اُن کے پورے پورے متبع كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى يُحبنكُمُ نہیں.اور اس کی طرف اللہ تعالی نے آیت قُلْ إِنْ ود اللهُ * فَانْظُرْ كَيْفَ جَعَلَ الْأُمَّةَ أَحِبَّاءَ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ * میں اشارہ (آل عمران: ۳۲) ترجمہ.تو کہہ کہ (اے لوگو ) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں ) وہ ( بھی ) تم سے محبت کرے گا.

Page 320

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۷ سورة الفاتحة اللهِ بِشَرْطِ اتَّبَاعِهِمْ وَاقْتِدَ آعِهِمْ بِسَيّدِ | فرمایا ہے.پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے افراد امت کو الْمَحْبُوبِينَ وَتَدُلُّ ايَةُ اِهْدِنَا الصِّرَاط اپنے محبوب قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ محبوبوں کے سردار (صلی الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کریں اور آپ کے نمونہ پر عَلَيْهِمْ أَن تُرَاتَ السَّابِقِينَ مِن چلیں.پھر آیت اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الْمُرْسَلِينَ وَالصَّدِيقِينَ حَقٌّ وَاجِبْ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيہم اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غَيْرُ مَجْدُودٍ وَمَفْرُوضٌ لِلَّاحِقِين من پہلے مرسلوں اور صدیقوں کی وراثت ایک لازمی اور نہ ختم الْمُؤْمِنِينَ الصَّالِحِينَ إلى يَوْمِ الدین ہونے والا حق ہے اور بعد میں آنے والے نیکو کارمومنوں وَهُمْ يَرِثُونَ الْأَنْبِيَاء وَيَجِدُونَ مَا کے لئے قیامت تک اس ورثہ کا ملنا ضروری ہے.پس وہ وَجَدُوا مِنْ إِنْعَامَاتِ اللهِ وَهَذَا هُوَ نبیوں کے وارث بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وہ سب الْحَق فَلَا تَكُن مِن الْمُمْتَرِين.انعامات پاتے ہیں جو نبیوں نے پائے اور یہی حق بات وَأَمَّا ير ذلِك الثَّوَارُثِ وَلِمَيَّةِ ہے.پس تو شک کرنے والوں میں ( شامل ) نہ ہو.الْمُوْرَثِ وَالْوَارِثِ فَتَنْكَشِفُ مِنْ تِلْكَ اس توارث کا راز اور مورث اور وارث بننے کا اصل الآية التي تُعلّمُ التَّوحِيد وَ تُعَظمُ سبب اس آیت سے منکشف ہوتا ہے جو تو حید سکھاتی اور اُس الرَّبِّ الْوَحِيدَ فَإِنَّ اللهَ الْمُعِينَ وَأَرْحَمَ واحد ولا شریک پروردگار کی عظمت بیان کرتی ہے کیونکہ الرَّاحِمِينَ إِذَا عَلَّمَ دَقَائِقِ التَّوْحِيدِ پوری مدد کرنے والے اور سب سے زیادہ رحم کرنے والے وَبَالَغَ فِي التَّلْقِيْنِ وَقَالَ إِيَّاكَ نَعْبُدُ و خدا نے جب توحید کی باریک راہیں سکھائیں اور اُن کی إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَأَرَادَ عِنْدَ هذا خوب تلقین کی اور فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اس التَّعْلِيمِ وَ التَّفْهِيْمِ أَنْ يَفْطَعَ عُرُوقَ تعليم وتفہیم سے اُس نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے خاص فضل القِرْكِ كُلَهَا فَضْلًا مِن لَّدُنْهُ وَ رَحْمَةٌ سے اور خَاتَمَ النَّبیین کی امت پر اپنی خاص رحمت النَّبِيِّين مِنْهُ عَلَى أُمَّةٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ لِيُنهِی فرماتے ہوئے شرک کی تمام رگیں کاٹ دے تا اس امت کو هذِهِ الْأُمَّةَ مِنْ آفَاتٍ وَرَدَتْ عَلَى ان آفات سے نجات دے جو پہلوں پر وارد ہوئی تھیں.الْمُتَقَدِمِينَ.فَعَلَّمَنَا دُعَاء مَّرَةٌ و پس اُس نے بطور اپنے کرم اور احسان کے ہمیں ایک دُعا سکھائی عَطَاءً وَجَعَلَنَا مِنْهُ مِنَ الْمُسْتَخْلَصِينَ اور اس کے ذریعہ ہمیں (اپنے) برگزیدہ بندوں میں شامل کر لیا.

Page 321

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة الفاتحة 66 فَنَحْنُ نَدْعُو بِتَعْلِيمِهِ وَ نَطْلُبُ مِنْهُ | پس ہم اُس کے سکھانے کے مطابق دُعا مانگتے ہیں اور اس بِتَفْهِيْمِهِ فَرِحِيْنَ بِرفْدِهِ مُفْصِحِین کے سمجھانے کے مطابق اُس سے طلب کرتے ہیں.اس حَمْدِهِ قَائِلِينَ: " اهْدِنَا الخراط حالت میں کہ ہم اُس کے انعام پر بہت خوش ہیں اور اُس کی الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ حمد بیان کرتے ہوئے ان الفاظ میں دُعا کرتے ہیں اهْدِنَا عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ الضَّانِيْنَ " وَنَحْنُ نَسْأَلُ اللهَ لَنَا فِي هَذَا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اور ہم اس دُعا الدُّعَاءِ كُلّ مَا أُعْطِيَ لِلْأَنْبِيَاءِ مِن میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے وہ تمام نعمتیں مانگتے ہیں جو نبیوں کو النّعْمَاءِ وَنَسْأَلُه أَن تَعْبُتَ كَالأَنْبِيَاءِ دی گئی تھیں اور اُس سے ہم یہ بھی مانگتے ہیں کہ ہم نبیوں کی طرح عَلَى القِرَاطِ وَنَتَجافى عَنِ الْاشْتِطَاطِ صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں اور اس راہ سے دُور نہ ہوں اور وَنَدْخُلَ مَعَهُمْ في مَربع حَظِيرَةِ ہر قسم کی ناپاکی اور پلیدی سے پاک ہو کر اور پروردگار عالم کی الْقُدْسِ مُتَطَهِّرِينَ مِن كُلّ أَنْوَاع بارگاہ کی طرف جلدی کرتے ہوئے ان ( نبیوں) کے ساتھ الرَّجْسِ وَ مُبَادِرِينَ إلى نَدى ربّ ہی حظيرة القدس کی منزل میں داخل ہو جائیں.پس یہ بات الْعَالَمِينَ.فَلَا يخفى أَنَّ اللهَ جَعَلنا في مخفی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس دُعا میں ہمیں نبیوں کے اظلال هذَا الدُّعَاءِ كَأَظلالِ الْأَنْبِيَاءِ وَ قرار دیا ہے اور ہمیں تمام ظاہر اور مخفی اور بندھی ہوئی اور مہر کی أَوْرَثَنَا وَأَعْطَانَا الْمَعْلُومَ وَ الْمَكْتُومَ ہوئی غرض ہر قسم کی برکتیں اور نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے وَ الْمَعُكُومَ وَ الْمَخْتُومَ وَ مِنْ كُلِ ہم نے اپنے مقدور بھر اُٹھالی ہیں اور اتنی لے آئے ہیں جو الْآلَاءِ وَالنَّعْمَاءِ فَاحْتَمَلُنَا مِنْهَا وقُرَنَا ہماری احتیاج کو دُور کر سکیں اور وادیاں (اپنی ) اپنی گنجائش و رَجَعْنَا مَا يَسُدُّ فَفَرَنَا وَ سَالَتْ کے مطابق نکلیں ( یعنی جتنے انعام کسی کے ظرف میں سما سکتے أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَأُخْلِلْنَا فَحَل تھے وہ اُسے مل گئے ) پس ہم کامیاب و کامران لوگوں کے الْفَايْرِينَ وَهَذَا هُوَ متر ارسال مقام اور مرتبہ پر اُتارے گئے.نبیوں کے بھیجنے اور رسولوں الْأَنْبِيَاءِ وَ بَعْدِ الْمُرْسَلِينَ وَ اور برگزیدہ لوگوں کی بعثت کا یہی راز ہے کہ ہم اُن بزرگ الْأَصْفِيَاءِ لِتُصَبَّعَ بِصِبْعُ الْكِرَامِ وَ لوگوں کے رنگ میں رنگین ہو جائیں اور اُن کے ساتھ اتحاد کی نَنْتَظِمَ فِي سِلْكِ الْإِلْتِيَامِ وَ نَرِثَ لڑی میں پروئے جائیں اور پہلے انعام یافتہ لوگوں اور

Page 322

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة الفاتحة الْأَوَّلِينَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ المُنْعَمِينَ | مقربان (بارگاہِ الوہیت ) کے وارث بن جائیں.وَمَعَ ذلِك قَد جَرَتْ سُنَّةُ الله انه اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب أَنَّهُ إِذَا أَعْلَى عَبْدًا كَمَالًا وَطَفِق الجهَّالُ وہ اپنے کسی بندہ کو کوئی کمال عطا کرتا ہے اور جاہل لوگ اپنی يَعْبُدُونَهُ ضَلَالًا وَيُشْرِكُونَهُ بِالآبِ گمراہی کی وجہ سے اس کی عبادت کرنے لگ جاتے ہیں اور الْكَرِيمِ عِزّةً وَ جَلَالًا بَلْ يَحْسَبُونَهُ اُسے عزت و جلال میں رب کریم کا شریک قرار دے دیتے رَبَّا فَقَالًا فَيَخْلُقُ اللهُ مِثْلَهُ وَيُسَمِّيهِ ہیں بلکہ اُسے رب فعّال خیال کرنے لگ جاتے ہیں تو اللہ بِتَسْمِيَتِهِ وَيَضَعُ كَمَالَاتِه في فطرته تعالی اس کا کوئی مثیل پیدا کر دیتا ہے اور اُس کا وہی نام رکھ وَكَذَلِكَ يَجْعَلُ لِغَيْرَتِهِ لِيُبطل ما دیتا ہے اور اُس کے کمالات بھی اُس ( مثیل ) کی فطرت میں خَطَرَ فِي قُلُوبِ الْمُشْرِكِينَ يَفْعَلُ مَا رکھ دیتا ہے اور وہ اپنی غیرت کی بنا پر ایسا کرتا ہے تا مشرکوں يَشَاءُ وَلَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ جن کے دلوں میں جو خیالات پیدا ہوئے انہیں غلط ثابت الْمَسْؤُولِينَ يَجْعَلُ مَن يَشَاءُ كَاللہ کردے.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو وہ کرتا ہے اُس کے الشايع للاعْتِدَاءِ أَو كَالنده متعلق وہ جواب دہ نہیں ہوتا حالانکہ دوسرے لوگ جواب دہ الْبَيْضَاءِ في اللَّمَعَانِ وَ الصَّفَاءِ ہوتے ہیں.وہ جس کو چاہتا ہے غذا کے لئے خوشگوار دودھ کی وَيَسُوقُ إِلَيْهِ شِربًا مِّنَ التَّسْنِيمِ مانند بنا دیتا ہے اور جسے چاہے چمک اور صفائی میں روشن وَيُضَيِّعُه بِالطِيبِ الْحَمِيمِ حَتَّی موتی کی طرح بنا دیتا ہے اور اُس تک تسنیم کا پانی پہنچا دیتا يُسْفِرَ عَنْ مَرْأَى وَسِيمٍ وَأَرَجِ ہے.اسے عطر میم کی خوشبو سے ممسوح کر دیتا ہے یہاں تک نَسِيْمٍ لِلنَّاظِرِينَ فَالحاصل أنَّه کہ دیکھنے والوں کے لئے اُس کے خوبصورت چہرہ اور خوشبو تَعَالَى أَشَارَ فِي هَذَا الدُّعَاءِ لِطلاب سے پردہ اُٹھا دیتا ہے.حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے الرَّشَادِ إِلَى رَحْمَتِهِ الْعَامَّةِ وَالْوَدَادِ اِس دُعا میں طالبانِ ہدایت کے لئے اپنی عام رحمت اور محبت فَكَأَنَّهُ قَالَ إِنَّنِي رَحِيْمٌ وَسِعَتْ کی طرف اشارہ فرمایا ہے گویا کہ اس نے یوں کہا ہے کہ میں رحمينى كُلَّ شَيْءٍ أَجْعَلُ بَعْضَ الْعِبَادِ رحیم ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے.میں وَارِنَّا لِبَعْضٍ مِنَ التَّفَضُّلِ وَ الْعَطَاءِ بعض بندوں کا بعض کو از راہ فضل وعطا وارث بنا تا ہوں تا کہ لِأَسُدَّ بَابَ الشِرْكِ الَّذِي يَشِيعُ مِنْ میں اُس شرک کا دروازہ بند کر دوں جو بعض برگزیدوں کے

Page 323

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة تخصيص الكَمَالَاتِ بِبَعْضِ أَفَرَادٍ من ساتھ بعض کمالات کے مخصوص کئے جانے کی وجہ سے الْأَصْفِياءِ.فَهَذَا هُوَ سِر هَذَا الدُّعَاءِ پھیل سکتا ہے.پس یہ ہے راز اُس دُعا کا.گویا کہ اللہ كَأَنَّهُ يُبَرُ النَّاسَ بِفَيْضٍ عَامٍ وَ عَطَاءٍ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک عام فیض اور ہمہ گیر بخشش کی شامِلٍ لأَنامِ وَ يَقُولُ إِنِّي فَيَاضٌ وَ رَبُّ بشارت دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں فیاض ہوں اور الْعَالَمِينَ وَ لَسْتُ كَبَخِيْلٍ وَ ضَنِينٍ.پروردگار عالم ہوں اور میں بخیل اور کنجوس نہیں ہوں.پس فَاذْكُرُوا بَيْتَ فَيْضِی وَ مَا ثَمَّ فَإِنَّ تم میرے فیض کے گھر کو اور جو کچھ وہاں ہے یا دکر و کیونکہ فَيْطِن قَدْ عَةً وَتَمَّ وَإِنَّ صِرَاطِی صِرَاط میرا فیض عام بھی ہے اور مفید بھی.اور میرا راستہ وہ راستہ قَدْ سُوّى وَ مُدَّ لِكُلِّ مَنْ نَهَضَ وَاخْتَدَّ ہے جو ہموار اور کشادہ کیا گیا ہے ہر اُس شخص کے لئے جو وَاسْتَعَدَّ وَ طَلَبَ كَالْمُجَاهِدِينَ وَهَذِهِ اُٹھے، توجہ کرے اور تیار ہو جائے اور مجاہدوں کی طرح نُكْتَةٌ عَظِيمَةٌ فِي ايَةِ اهْدِنَا القيراط تلاش کرنے لگے.آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں یہی عظیم نکتہ ہے یعنی شرک کا عَلَيْهِمْ وَهِيَ إزالة الشركِ وَسَدُّ أَبوابه ازالہ اور اُس کے دروازوں کو بند کرنا.پس سلامتی ہو اُن فَالسَّلَامُ عَلى قَوْمٍ اسْتَخْلَصُوا مِنْ هَذَا لوگوں پر جو اس شرک سے خلاصی پاگئے اور اُن پر بھی جو الشركِ وَعَلَى مَنْ لَّدَيْهِمْ وَعَلَى كُلِّ مَنْ اُن کے ساتھی ہیں اور اُن پر بھی جو طالبوں اور صادقوں تَبِعَهُمْ مِنَ الظَّالِبينَ الصَّادِقِينَ | میں سے ان کے متبع بن گئے ہیں.( ترجمہ از مرتب ) - کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۳۱ تا ۱۳۳) سورہ فاتحہ میں....مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دُعا میں مشغول رہیں بلکہ دُعا اهْدِنَا الصِّرَاط المُسْتَقِيمَ سکھلائی گئی ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ پنج وقت یہ دُعا کریں پھر کس قدر غلطی ہے کہ کوئی شخص دُعا کی رُوحانیت سے انکار کرے.قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ دُعا اپنے اندر ایک رُوحانیت رکھتی ہے اور دُعا سے ایک فیض نازل ہوتا ہے جو طرح طرح کے پیرایوں میں کامیابی کا ثمرہ بخشتا ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۵۹) یہ دُعا نوع انسان کی عام ہمدردی کے لئے ہے.کیونکہ دُعا کرنے میں تمام نوع انسان کو شامل کر لیا ہے اور سب کے لئے دُعا مانگی ہے کہ خدا دنیا کے دکھوں سے انہیں بچاوے اور آخرت کے ٹوٹے سے محفوظ رکھے

Page 324

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة اور سب کو سیدھی راہ پر لاوے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۵۹ حاشیه ) انجیل میں ایک اور نقص یہ ہے کہ اس نے یہ تعلیم کسی جگہ نہیں دی کہ عبادت کرنے کے وقت اعلی طریق عبادت یہی ہے کہ اغراض نفسانیہ کو درمیان سے اٹھادیا جاوے بلکہ اگر کچھ سکھلایا تو صرف روٹی مانگنے کے لئے دُعا سکھلائی.قرآن شریف نے تو ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.یعنی ہمیں اس راہ پر قائم کر جو نبیوں اور صدیقوں کی اور عاشقانِ الہی کی راہ ہے.مگر انجیل یہ سکھلاتی ہے کہ ہماری روزینہ کی روٹی آج ہمیں بخش.ہم نے تمام انجیل پڑھ کر دیکھی اس میں اس اعلی تعلیم کا نام ونشان نہیں ہے.( نور القرآن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۴۳) یہ بھی یادر ہے کہ سورۃ فاتحہ کے عظیم الشان مقاصد میں سے یہ دُعا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور جس طرح انجیل کی دُعا میں روٹی مانگی گئی ہے اس دُعا میں خدا تعالیٰ سے وہ تمام نعمتیں مانگی گئی ہیں جو پہلے رسولوں اور نبیوں کو دی گئی تھیں.یہ مقابلہ بھی قابل نظارہ ہے اور جس طرح حضرت مسیح کی دُعا قبول ہو کر عیسائیوں کو روٹی کا سامان بہت کچھ مل گیا ہے اسی طرح یہ قرآنی دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قبول ہو کر اختیار و ابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فرد انبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس اُمت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دُعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گو شخفی طور پر بہت سے اختیار و ابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس اُمت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل پر کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آ جائے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۳،۵۲) سورۃ فاتحہ میں اس قدر حقائق و دقایق و معارف جمع ہیں کہ اگر اُن سب کو لکھا جائے تو وہ باتیں ایک دفتر میں بھی ختم نہیں ہوسکتیں.اسی ایک حکیمانہ دعا کو دیکھئے کہ جو اس سورہ میں سکھائی گئی ہے یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ یہ دعا ایک ایسا مفہوم کی اپنے اندر رکھتی ہے جو تمام دین اور دنیا کے مقاصد کی یہی ایک کنجی ہے ہم کسی چیز کی حقیقت پر اطلاع نہیں پاسکتے اور نہ اُس کے فوائد سے منتفع ہو سکتے ہیں جب تک کہ ہمیں اس کے پانے کے لئے ایک مستقیم راہ نہ ملے دنیا کے جس قدر مشکل اور پیچیدہ امور ہیں خواہ وہ سلطنت اور وزارت کے ذمہ واریوں کے متعلق ہوں اور خواہ سپہ گری اور جنگ و جدال سے تعلق رکھتے ہوں اور خواہ طبعی اور ہیئت کے دقیق مسائل کے متعلق ہوں اور خواہ صناعت طب کے طریق تشخیص اور علاج کے متعلق اور خواہ تجارت

Page 325

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة اور زراعت کے متعلق ان تمام اُمور میں کامیابی ہونا مشکل اور غیر ممکن ہے جب تک کہ ان کے بارہ میں ایک مستقیم راہ نہ ملے کہ کس طور سے اس کام کو شروع کرنا چاہیئے اور ہر ایک عقلمند انسان مشکلات کے وقت میں یہی اپنا فرض سمجھتا ہے کہ اس مشکل سر بستہ کے بارے میں ایک لمبے وقت تک رات کو اور دن کو سوچتا رہے تا کہ اس مشکل کشائی کے لئے کوئی راہ نکل آوے اور ہر ایک صنعت اور ہر ایک ایجاد اور ہر ایک پیچیدہ اور الجھے ہوئے کام کو چلانا اس بات کو چاہتا ہے کہ اُس کام کے لئے راہ نکل آوے.پس دنیا اور دین کی اغراض کے لئے اصل دُعا راہ نکالنے کی دُعا ہے جب سیدھی راہ کسی امر کے متعلق ہاتھ میں آجائے تو یقیناً وہ امر بھی خدا کے فضل سے حاصل ہو جاتا ہے.خدا کی قدرت اور حکمت نے ہر ایک مدعا کے حصول کے لئے ایک راہ رکھی ہے مثلاً کسی بیمار کا ٹھیک ٹھیک علاج نہیں ہو سکتا جب تک اُس مرض کی حقیقت سمجھنے اور نسخہ کے تجویز کے لئے ایک ایسی راہ نہ نکل آوے کہ دل فتوی دے دے کہ اس راہ میں کامیابی ہوگی بلکہ کوئی انتظام دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس انتظام کے لئے ایک راہ پیدا نہ ہو.پس راہ کا طلب کرنا طالب مقصد کا فرض ہوا اور جیسا کہ دنیا کی کامیابی کا صحیح سلسلہ ہاتھ میں لینے کے لئے پہلے ایک راہ کی ضرورت ہے جس پر قدم رکھا جائے ایسا ہی خدا کا دوست اور مور دمحبت اور فضل بننے کے لئے قدیم سے ایک راہ کی ضرورت پائی گئی ہے اسی لئے دوسری سورۃ میں جو سورۃ البقر ہے جو اس سورۃ کے بعد ہے سورۃ کے شروع میں ہی فرمایا گیا ہے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ٣) یعنی انعام پانے کی یہ راہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں." (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۹،۵۸) یہ دُعا یعنی دُعا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ایک جامع دُعا ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مشکلات دینی اور دنیوی کے وقت میں اول جس چیز کی تلاش انسان کا فرض ہے وہ یہی ہے کہ اس امر کے حصول کے لئے وہ صراط مستقیم تلاش کرے یعنی کوئی ایسی صاف اور سیدھی راہ ڈھونڈے جس سے بآسانی اس مطلب تک پہنچ سکے.اور دل یقین سے بھر جائے شکوک سے نجات ہو لیکن انجیل کی ہدایت کے موافق روٹی مانگنے والا خدا جوئی کی راہ اختیار نہ کرے گا اُس کا مقصد تو روٹی ہے جب روٹی مل گئی تو پھر اس کو خدا سے کیا غرض یہی وجہ ہے کہ عیسائی صراط مستقیم سے گر گئے اور ایک نہایت قابل شرم عقیدہ جو انسان کو خدا بنانا ہے ان کے گلے پڑ گیا.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۰،۵۹) اسلام وہ مذہب ہے جس کے بچے پیروؤں کو خدا تعالیٰ نے تمام گذشتہ راستبازوں کا وارث ٹھہرایا ہے اور سورۃ فاتحہ میں راہِ راست کے لئے دُعا کی گئی اور دوسری سورۃ میں گویا وہ دعا قبول ہوکر راہ راست بتلائی گئی ہے.منہ

Page 326

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۳ سورة الفاتحة ان کی متفرق نعمتیں اس اُمتِ مرحومہ کو عطا کر دی ہیں.اور اس نے اس دُعا کو قبول کر لیا ہے جو قرآن شریف میں آپ سکھلائی تھی اور وہ یہ ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ.ہمیں وہ راہ دکھلا جو اُن راستبازوں کی راہ ہے جن پر تو نے ہر یک انعام اکرام کیا ہے.یعنی جنہوں نے تجھ سے ہر ایک قسم کی برکتیں پائی ہیں اور تیرے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوئے ہیں.اور تجھ سے دُعاؤں کی قبولیتیں حاصل کی ہیں اور تیری نصرت اور مدد اور راہ نمائی اُن کے شامل حال ہوئی ہے.اور ان لوگوں کی راہوں سے ہمیں بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تیری راہ کو چھوڑ کر اور اور راہوں کی طرف چلے گئے ہیں.یہ وہ دعا ہے جو نماز میں پانچ وقت پڑھی جاتی ہے اور یہ بتلا رہی ہے کہ اندھا ہونے کی حالت میں دنیا کی زندگی بھی ایک جہنم ہے اور پھر مرنا بھی ایک جہنم ہے اور درحقیقت خدا کا سچا تابع اور واقعی نجات پانے والا وہی ہوسکتا ہے جو خدا کو پہچان لے اور اُس کی ہستی پر کامل ایمان لے آوے اور وہی ہے جو گناہ کو چھوڑ سکتا ہے.اور خدا کی محبت میں محو ہو سکتا ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۱، ۱۶۲) قرآن شریف صاف یہی ہدایت فرماتا ہے اور ہمیں سورہ فاتحہ ام الکتاب میں مثیل بن جانے کی امید دیتا ہے اور ہمیں تاکید فرماتا ہے کہ پنج وقت تم میرے حضور میں کھڑے ہو کر اپنی نماز میں مجھ سے یہ دعا مانگو كه اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے میرے خداوند رحمن و رحیم ! ہمیں ایسی ! ہدایت بخش کہ ہم آدم صفی اللہ کے مثیل ہو جائیں، شیث نبی اللہ کے مثیل بن جائیں ، حضرت نوح آدم ثانی کے مثیل ہو جائیں ، ابراہیم خلیل اللہ کے مثیل ہو جائیں، موسیٰ کلیم اللہ کے مثیل ہو جائیں ہمیسی روح اللہ کے مثیل ہو جا ئیں اور جناب احمد مجتبی محمد مصطفی حبیب اللہ کے مثیل ہو جائیں اور دنیا کے ہر ایک صدیق و شہید کے مثیل ہو جا ئیں.(ازالہ اوہام حصہ اوّل.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۹) قرآن شریف اپنے زبر دست ثبوتوں کے ساتھ ہمارے دعوے کا مصدق اور ہمارے مخالفین کے اوہام باطلہ کی بیخ کنی کر رہا ہے اور وہ گزشتہ نبیوں کے واپس دنیا میں آنے کا دروازہ بند کرتا ہے اور بنی اسرائیل کے مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے.اس نے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.اس دُعا کا ماحصل کیا ہے.یہی تو ہے کہ ہمیں اے ہمارے خدا ! نبیوں اور رسولوں کا مثیل بنا.(ازالہ اوہام حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۹۰،۳۸۹) اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا سکھائی ہے تو اس طور پر نہیں کہ دُعا تو سکھا دی لیکن سامان کچھ نہیں.بلکہ جہاں دُعا سکھائی ہے وہاں سب کچھ موجود ہے چنانچہ اگلی سورت میں اس قبولیت کا اشارہ ہے جہاں فرمایا ذلك الكتب

Page 327

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة الفاتحة لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة : ۳) یہ ایسی دعوت ہے کہ دعوت کا سامان پہلے سے تیار ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۶ مؤرخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی تعلیم کی.اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اللہ ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما.وہ صراط مستقیم جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے انعام واکرام ہوئے.اس دُعا کے ساتھ ہی سورۃ البقر کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی ذلِكَ الكتبُ لا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ گویا روحیں دُعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دکھاتی ہے.اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے.ایک طرف دُعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵) هَذَا الدُّعَاء رَدُّ عَلى قَوْلِ الَّذِينَ یہ دعا اُن لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ يَقُولُونَ إِنَّ الْقَلَمَ قَد جَفّ بِمَا هُوَ كَائِن جو کچھ ہونے والا ہے اُس پر قلم خشک ہو چکا ہے.پس فَلا فَايْدَةَ في الدُّعَاءِ فالله تبارك اب دُعا کا کوئی فائدہ نہیں.سو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وَتَعَالَى يُبَشِّرُ عِبَادَةَ بِقُبُولِ الدُّعَاءِ بندوں کو قبولیت دعا کی بشارت دیتا ہے.گویا وہ کہتا ہے کہ فَكَأَنه يَقُولُ يَا عِبَادِ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ اے میرے بندو! تم مجھ سے دُعا کرو.میں تمہاری دُعا لَكُمْ وَإِنَّ فِي الدُّعَاءِ تَأْثِيرَاتٍ و قبول کروں گا.اور دُعا میں یقیناً تاخیر میں اور ( قضاء وقدر تَبْدِيلَاتٍ وَ الدُّعَاءِ الْمَقْبُولُ يُدْخِلُ کو بدلنے کی طاقتیں ہیں اور مقبول دُعا، دُعا کرنے الدَّاعِي فِي الْمُنْعَمِينَ والے کو انعام یافتہ گروہ میں داخل کر دیتی ہے.وَفِي الْآيَةِ إِشَارَةٌ إلى عَلامَاتٍ تُعرف اس آیت میں اُن علامتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن يهَا قُبُوْلِيَّةُ الدُّعَاءِ عَلى طَرِيقِ الْاِصْطِفَاء سے اصطفاء کے طریق پر قبولیت دعا کی شناخت ہوتی ہے اور وَإيْمَاء إلى أثَارِ الْمُقَبَّلين لأنَّ الإِنسان اس میں مقربین کے آثار کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ جب إِذَا أَحَبَّ الرَّحْمَنَ وَقَوَى الإِيمَانَ فَذَالِكَ انسان خدائے رحمان سے محبت کرتا ہے اور اپنے ایمان کو پختہ الْإِنْسَانُ وَ إِنْ كَانَ عَلَى حُسْنِ اعْتِقَادٍ في کر لیتا ہے تو وہی حقیقی انسان ہوتا ہے اور اگر چہ اُسے اپنی أَمْرِ اسْتِجَابَةِ دَعَوَا تِهِ دُعاؤں کی قبولیت کے بارہ میں پہلے بھی حسن اعتقاد ہو.

Page 328

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة الفاتحة ولكن الاعتقاد لَيْسَ كَعَيْنِ لیکن صرف اعتقاد عین الیقین کی طرح نہیں ہو سکتا الْيَقِينِ وَلَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ وَلَا کیونکہ سُنی سنائی بات مشاہدہ کی طرح نہیں ہوتی اور يَسْتَوِى حَالُ أُولى الْأَبْصَارِ وَالْعَمِينَ آنکھیں رکھنے والوں اور اندھوں کی حالت یکساں نہیں بَلْ مَن يَدرَبُ بِاسْتِجَابَةِ الدَّعَوَاتِ حَقٌّی ہوتی.بلکہ جس شخص کو دعاؤں کی قبولیت کا پورا تجربہ ہوا اور التَّدَرُّبِ وَكَانَ مَعَهُ أَثَرَ مِنَ الْمُشَاهَدَاتِ اس کے ساتھ ہی مشاہدات بھی ہو چکے ہوں ایسے شخص کو فَلَا يَبْقَى لَه شَكٍّ وَ لَارَيْبٌ في قُبُولِيَّةِ دُعاؤں کی قبولیت میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ سکتا اور جو الْأَدْعِيَةِ.وَالَّذِيْنَ يَشُكُونَ فِيْهَا فَسَبَبُهُ لوگ اس بارہ میں شک کرتے ہیں اس کا سبب اُن کی حِرْمَانَهُمْ مِنْ ذلِكَ الْحَظِ ثُمَّ قِلَّةُ قبولیت دعا کے حصہ سے محرومی ، اپنے پروردگار کی طرف الْتِقَاتِهِمْ إلى رئيمُ وَابْتِلَاعِهِمْ بِسِلْسِلَةِ اُن کی توجہ کی کمی اور اس سلسلہ، اسباب میں اُن کا اُنکچھ جانا أَسْبَابٍ تُوجَد في وَاقِعَاتِ الْفِطرَةِ ہے جو واقعات فطرت اور مظاہر قدرت میں پائے جاتے وَظُهُورَاتِ الْقُدْرَةِ فَمَا تَرَقَّتْ أَعْيُهُمْ ہیں.پس اُن کی نگاہیں ان موجودہ ماڈی اسباب سے جو فَوْقَ الْأَسْبَابِ الْمَادِيَّةِ الْمَوْجُوْدَةٍ أَمَامَ آنکھوں کے سامنے ہوں او پر نہیں اُٹھتیں.لہذا وہ اُن الْأَعْيُنِ فَاسْتَبْعَدُوا مَا لَمْ تُحط بها تمام امور کو مستبعد خیال کرتے ہیں جن پر اُن کی عقلیں ارَآؤُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ - حاوی نہ ہو سکیں اور وہ ہدایت پانے والے نہیں ہوتے.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۲) ( ترجمه از مرتب) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں آج کل کے مولویوں کا رڈ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا اور اُن برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے.یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو اب گویا بے اثر مانتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں کیونکہ اگر اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیں ہوسکتا جو منعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دُعا کے مانگنے سے فائدہ کیا ہوا ؟ مگر نہیں یہ ان لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں.خدا تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا دروازہ اب بھی اُسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے بغیر یہ دعویٰ کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے تو ایسا شخص جھوٹا اور کذاب ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۹ مؤرخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۲)

Page 329

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة وَفِي آيَةٍ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی آیت میں صحیح معرفت إشَارَةٌ وَحَثَّ عَلَى دُعَاءِ صِةِ الْمَعْرِفَةِ ( کے حصول کی دُعا کرنے کی طرف اشارہ اور ترغیب ہے گویا كَأَنَّهُ يُعَلِّمُنَا وَ يَقُولُ ادْعُوا الله أَن خدا ہمیں یہ سکھاتا ہے اور کہتا ہے (اے بندو!) تم مجھ سے دُعا يُرِيَكُمْ صِفَاتَهُ كَمَا هِيَ وَيَجْعَلَكُمْ کرو کہ میں تمہیں اپنی حقیقی صفات دکھلاؤں اور تمہیں شاکر مِنَ الشَّاكِرِينَ لأَنَّ الْأُمَمَ الْأُولى ما بندوں میں شامل کر لوں کیونکہ پہلی امتیں خدا تعالیٰ کی صفات، ضَلُّوا إِلَّا بَعْدَ كَوْنِهِمْ عُمْيًّا فِي مَعْرِفَةِ اُس کے انعامات اور اُس کی خوشنودی کی معرفت سے اندھا صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى وَ إِنْعَامَاتِهِ ہونے پر ہی گمراہ ہوئی ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی زندگی کے ایام وَمَرَضَاتِهِ فَكَانُوا يُفَانُوْنَ الْأَيَّام قیما ایسے کاموں میں گزارتے تھے جو اُن کے گناہوں کو بڑھاتے يَزِيدُ الْأَثَامَ فَحَلَّ غَضَبُ الله عَلَيْهِم تھے.پس اُن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور اُن پر ذلّت فَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّهُ وَكَانُوا مِن ڈال دی گئی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے.اسی الْهَالِكِينَ.وَإِلَيْهِ أَشَارَ الله تعالی فی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں قَوْلِهِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ.اشارہ کیا ہے.( ترجمہ از مرتب ) (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۲۳) اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دُعا دین اور دنیا کی ساری حاجتوں پر حاوی ہے.کیونکہ کسی امر میں جب تک صراط مستقیم نہ ملے کچھ نہیں بنتا.طبیب کو ، زراعت کرنے والے کو غرض ہر انسان کو ہر کام میں صراط مستقیم کی ضرورت ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲) بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دُعا ہے.جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے گا تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاویگا اور کامیاب ہو جاوے گا.اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراط مستقیم تلاش کرو اور دُعا کرو کہ یا الہی میں ایک تیرا گنہ گار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں.میری راہنمائی کر.ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دُعا کرتا ہے کیونکہ.اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اُس کو بھی شرم آجاوے گی.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مؤرخہ ۱۰ تا ۱۷ارنومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۶) تم ان مردوں کی طرف خیال مت کرو جو خود بھی مُردہ اور اسلام کو بھی مردہ بناتے ہیں یہ تو در حقیقت ایسا

Page 330

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة مذہب ہے کہ جس میں انسان ترقی کرتا ہوا فرشتوں سے مصافحہ جا کرتا ہے اور اگر یہ بات نہ تھی تو صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کیوں سکھایا ؟ اس میں صرف جسمانی اموال کی طلب نہیں کی گئی بلکہ روحانی انعام کی درخواست ہے.پس اگر تم نے ہمیشہ اندھا ہی رہنا ہے تو پھر تم مانگتے کیا ہو.یہ دعا فاتحہ ایسی جامع اور عجیب دُعا ہے کہ پہلے کبھی کسی نبی نے سکھلائی ہی نہیں.پس اگر یہ نرے الفاظ ہی الفاظ ہیں اور اس کو خدا نے منظور نہیں کرنا تو ایسے الفاظ خدا نے ہمیں کیوں سکھلائے.اگر تمہیں وہ مقام ملنا ہی نہیں تو ہم پانچ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں.خدا کی ذات میں بخل نہیں.اور نہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ اُن کی پوجا کی جاوے بلکہ اس لئے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل کے نیچے آجاویں گے.(احکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مؤرخہ ۱۰ تا۱۷ارنومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ ) دُعا تب ہی جامع ہو سکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مغفرتوں سے بچاتی ہو.پس اس دُعا میں تمام بہترین منافع جو ہو سکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دُعا میں مطلوب ہیں اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو بلاک کر دیتی ہے اُس سے بچنے کی دُعا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) اور وہ دو گروہ جو ان لوگوں کے مقابل پر بیان فرمائے گئے ہیں وہ مغضوب علیہم اور ضالین ہیں جن سے محفوظ رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اسی سورۃ فاتحہ میں دُعا مانگی گئی ہے.اور یہ دُعا جس وقت اکٹھی پڑھی جاتی ہے یعنی اس طرح پر کہا جاتا ہے کہ اے خدا ہمیں منعم علیہم میں داخل کر اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضالین سے بچا تو اُس وقت صاف سمجھ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں منعم علیہم میں سے ایک وہ فریق ہے جو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین کا ہم عصر ہے اور جبکہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد اس سورۃ میں بالیقین وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود سے انکار کرنے والے اور اس کی تکفیر اور تکذیب اور توہین کرنے والے ہیں تو بلا شبہ اُن کے مقابل پر منعم علیہم سے وہی لوگ اس جگہ مراد ر کھے گئے ہیں جو صدق دل سے مسیح موعود پر ایمان لانے والے اور اُس کی دل سے تعظیم کرنے والے اور اس کے انصار ہیں اور دُنیا کے سامنے اس کی گواہی دیتے ہیں.(تحفہ گولر و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۹،۲۲۸) آيت اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - یہ تمام آیتیں بتلا رہی ہیں کہ قیامت تک اختلاف رہے گا.منعم علیہم بھی رہیں گے.مغضوب علیہم

Page 331

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۸ سورة الفاتحة بھی رہیں گے.ہاں مللِ باطلہ دلیل کے رو سے ہلاک ہو جائیں گی.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۰ حاشیه در حاشیه ) قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہو کر چلیں یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالی یہ دعا سکھلاتا ہے : اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے.لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمت روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں.سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ.یا در ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی ، رسول ، محدث، مجد دسب داخل ہیں.مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کے لئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دیئے گئے.وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے.( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۵،۴۹۴) بعض کہتے ہیں کہ انبیاء اس دُعا کو کیوں مانگتے ہیں؟ ان کو معلوم نہیں وہ ترقیات کے لئے مانگتے تھے.چونکہ اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے اس کے فیضان وفضل بھی غیر منقطع ہیں اس لئے وہ ان غیر محدود فضلوں کے حاصل کرنے کے لئے اس دُعا کو مانگتے تھے.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہئے جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہو.مُرشد کے کسی حکم کا انکار نہ کرے اور اس کی دلیل نہ پوچھے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرمایا ہے کہ مُنْعَم علیہم کی راہ کے مقید رہیں.انسان چونکہ طبعاً آزادی کو چاہتا ہے پس حکم کر دیا کہ اس راہ کو اختیار کرے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مؤرخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۳،۲) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم سے پایا جاتا ہے کہ جب انسانی کوششیں تھک کر رہ جاتی ہیں تو آخر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ ء صفحہ ۷) سورہ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا.وہ کیا ہے؟ انْعَبَتَ عَلَيْهِمْ.الحکم جلد ۵ نمبر۷ مؤرخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۲)

Page 332

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة الفاتحة انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سکھ اور آرام ملے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی اور دوسرے لفظوں میں اس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) نماز کا مغز اور روح بھی دُعا ہی ہے جو سورہ فاتحہ میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں تو اس دُعا کے ذریعہ سے اس نور کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے اترتا اور دلوں کو یقین اور محبت سے منور کرتا ہے.اتمام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه (۲۴۱) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں منعم علیہ گروہ میں سے شہیدوں کا گروہ بھی ہے اور اس سے یہی مراد ہے کہ استقامت عطا ہو.جو جان تک دیدینے میں بھی قدم کو ہلنے نہ دے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۵ مؤرخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۱ صفحہ۱) اهْدِنَا الضراط میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہو جائیں.جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشود نما حاصل نہ کرے اُس کو پھول پھل نہیں لگ سکتے اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مُردہ ہدایت ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے.....اسی لئے اللہ تعالی نے سورہ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہہ کر ایک قید لگا دی ہے یعنی یہ راہ کوئی بے شمر اور حیران اور سرگردان کرنے والی راہ نہیں ہے بلکہ اس پر چل کر انسان با مراد اور کامیاب ہوتا ہے.ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۱ ء صفحه ۱) خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور منعم علیہ کی راہ ہی وہ اصل مقصود ہے جو انسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھا القام جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) جو شخص بیعت میں داخل ہوتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مقاصد کو مدِ نظر رکھے جو بیعت سے ہیں یہ امور کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جاوے اصل منشا اور مدعا سے دور ہیں.....خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے اور اُس کی کچھ بھی قدر اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں جس نے گو سارے انبیاء علیہم السلام کی زیارت کی ہو مگر وہ سچا اخلاص وفاداری اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان، خشیت اللہ اور تقویٰ اُس کے دل میں نہ ہو.پس یا درکھو کہ نری زیارتوں سے کچھ نہیں ہو تا خدا تعالیٰ نے

Page 333

۳۱۰ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو پہلی دعا سکھلائی ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہے اگر خدا تعالیٰ کا اصل مقصود زیارت ہوتا تو وہ اِهْدِنَا کی جگہ آرِنَا صُوَرَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلیہم کی دُعا تعلیم فرماتا.جونہیں کیا گیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں دیکھ لو کہ آپ نے بھی یہ خواہش نہیں کی کہ مجھے ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہو جاوے.گو آپ کو معراج میں سب کی زیارت بھی ہو گئی.پس یہ امر مقصود بالذات ہر گز نہیں ہونا چاہئے اصل مقصد کچی اتباع ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مؤرخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۸،۷) اپنا مدعا اور مقصود ہمیشہ یہ ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو اور اس کی مرضی کے موافق تقوی حاصل ہو اور کچھ ایسے اعمال حسنہ میتر آجاویں کہ وہ راضی ہو جائے.پس جس وقت وہ راضی ہوگا تب اُس وقت ایسے شخص کو اپنے مکالمات سے مشرف کرنا اگر اس کی حکمت اور مصلحت تقاضا کرے گی تو وہ خود عطا کر دے گا اصل مقصود اس کو ہرگز نہیں ٹھہرانا چاہئے کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے بلکہ اصل مقصود یہی ہونا چاہئے کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الہی پر پابندی نصیب ہو اور تزکیہ نفس حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت دل میں بیٹھ جائے اور گناہ سے نفرت ہو خدا تعالیٰ نے بھی یہی دعا سکھاتی ہے کہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پس اس جگہ خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہ دُعا کرو کہ ہمیں الہام ہو.بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم یہ دُعا کرو کہ راہ راست ہمیں نصیب ہو.ان لوگوں کے راہ جو آخر کا رخدا تعالیٰ کے انعام سے مشرف ہو گئے.بندہ کو اس سے کیا مطلب ہے کہ وہ الہام کا خواہش مند ہو اور نہ بندہ کی اس میں کچھ فضیلت ہے.بلکہ یہ تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے نہ بندہ کا عمل صالح تا اس پر اجر کی توقع ہو.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۲ مؤرخہ ۲۴ نومبر ۱۹۰۷ ء صفحہ ۷) نماز کا ( جو مومن کی معراج ہے ) مقصود یہی ہے کہ اس میں دُعا کی جاوے اور اسی لئے اُم الادعیہ اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دُعا مانگی جاتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) ہونا چاہئے اور شئے ہے اور ہے اور شئے ہے.اس ہے کا علم سوائے دُعا کے نہیں حاصل ہوتا.عقل سے کام لینے والے ہے کے علم کو نہیں پاسکتے اس لئے ہے خدارا بخدا تو اں شناخت - لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (الانعام : ١٠٣) کے یہی معنی ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جو ذریعے (اس نے ) بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ جیسی اور کوئی دُعا نہیں ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مؤرخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحہ ۷ )

Page 334

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١١ سورة الفاتحة وو رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۳۹،۳۸) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے.یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دُعا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دُعا کرے اور تمنار کھے کہ وہ بھی اُن لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اُٹھایا جاوے.خدائے تعالیٰ کا آواز دینا یہی ہے کہ درمیانی حجاب اُٹھ گیا اور بعد نہیں رہا.یہ متقی کا انتہائی درجہ ہوتا ہے جب وہ اطمینان اور راحت پاتا ہے.دوسرے مقام پر قرآن شریف نے اس اطمینان کا نام فلاح اور استقامت بھی رکھا ہے اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں اُسی استقامت یا اطمینان یا فلاح کی طرف لطیف اشارہ ہے اور خود مستقیم کا لفظ بتلا رہا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۳۷) ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں.اصل دُعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں.باقی دُعائیں خود بخو د قبول ہو جائیں گی.کیونکہ گناہ کے دور ہونے سے برکات آتی ہیں.یوں دُعا قبول نہیں ہوتی جو نری دنیا ہی کے واسطے ہو.اس لئے پہلے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے دُعائیں کرے اور وہ سب سے بڑھ كروما اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.جب یہ دُعا کرتا رہے گا تو وہ منعم علیہم کی جماعت میں داخل ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دریا میں غرق کر دیا ہے.ان لوگوں کے زمرہ میں جو منقطعین ہیں داخل ہوکر یہ وہ انعامات الہی حاصل کرے گا جیسی عادت اللہ ان سے جاری ہے.یہ کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک راستباز متقی کو رزق کی مار دے بلکہ وہ تو سات پشت تک بھی رحم کرتا ہے.قرآن شریف میں خضر و موسیٰ کا قصہ درج ہے کہ انہوں نے ایک خزانہ نکالا اس کی بابت کہا گیا کہ ابُوهُمَا صَالِحًا (الكهف : ۸۳) اس آیت میں ان کے والدین کا ذکر تو ہے لیکن یہ ذکر نہیں کہ وہ لڑکے خود کیسے تھے.باپ کے طفیل سے اس خزانہ کو محفوظ رکھا تھا اور اس لئے ان پر رحم کیا گیا.لڑکوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ستاری سے کام لیا.توریت اور ساری آسمانی کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالی متقی کو ضائع نہیں کرتا اس لئے ایسی دُعائیں کرنی چاہئیں جن سے نفس امارہ نفسِ مطمئنہ ہو جاوے اور اللہ تعالی راضی ہو جاوے پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعائیں مانگو کیونکہ اس کے قبول ہونے پر جو یہ خود مانگتا ہے خدا تعالیٰ

Page 335

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٢ سورة الفاتحة الحکم جلد ۸ نمبر۷ مؤرخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷ ) خود دیتا ہے.اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پر ہیز کرنا ہی کمال ہے تو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت ، صدق ، وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے.پس اس دُعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شیء ہے جب تک انسان اسے حاصل نہیں کرتا اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور منعم علیہ کے زمرہ میں نہیں آتا.اس سے آگے فرما یا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشر بتوں کے پینے سے ہوتی ہے.ایک شربت کا نام کا فوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے.کا فوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو.جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے اسی لئے اسے کافور کہتے ہیں.اسی طرح پر یہ کا فوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے.اور وہ مواد ر د یہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے.دوسرا شربت شربت زنجیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی (ہے) پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجبیلی شربت اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالین کا فوری شربت ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳مؤرخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۲) جب تک کسی کے پاس حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ نہیں ہے تب تک وہ مومن نہیں ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا تعلیم فرمائی ہے کہ انسان چوری زنا وغیرہ جیسے موٹے موٹے بُرے کاموں کو ترک کرنا ہی نیکی نہ جان لے بلکہ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ فرما کر بتلا دیا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شے ہے جب تک اسے حاصل نہ کرے گا تب تک نیک اور صالح نہیں کہلائے گا.دیکھو خدا تعالیٰ نے یہ دُعا نہیں سکھلائی کہ تو مجھے فاسقوں اور فاجروں میں داخل نہ کر اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ سکھلایا کہ انعام والوں میں داخل کر.اس کے آگے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ان آیات سے یہ مطلب ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ دو شربت پیتا ہے ایک شربت کا نام تو کا فوری ہے کہ

Page 336

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ سورة الفاتحة جس کے پینے سے اس کا نفس بدیوں سے سرد ہو جاتا ہے جیسے کافور میں ایک خاصہ ہے کہ وہ زہریلی مواد کو جذب کرتا ہے ایسے ہی اس کے اندر جوز ہر گناہ اور بدی کی ہوتی ہے وہ اس شربت کا فوری سے جذب ہو جاتی ہے اور دوسرا شربت زنجیلی شربت ہے جس سے انسان کو نیکی کی قوت حاصل ہوتی ہے.اس لئے قرآن شریف میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَ کی دُعا تعلیم فرمائی ہے جس میں دونوں شربت اللہ تعالیٰ سے طلب کئے گئے ہیں.البدر جلد ۴ نمبر ۲ مؤرخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراط مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے.جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا.یہ وہ دُعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے.اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے.ہماری جماعت یا در کھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رٹ دینا اصل مقصود نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسان کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مد نظر رہے اس آیت میں چار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجا ہے.اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دُعا مانگنے اور خلق انسانی کے حق کو ادا کریگا اور ان استعدادوں اور قومی کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اس کو دی گئی ہیں.....میں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے.اس راہ کو چھوڑ کر اور ایجاد کر نا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے.....غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے

Page 337

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة الفاتحة جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے.الحکم جلد 9 نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۶،۵) جیسا ہمارے علماء کا عقیدہ ہے کہ اب الہام کا دروازہ بند ہو گیا ہے.اگر یہ سچ ہوتا تو ایک عارف طالب تو زندہ ہی مر جاتا.خدا بخیل نہیں ہے.اس نے خود صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دُعا سکھائی ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ ان نعمتوں کا دروازہ کھلا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۸ مورخه ۳ /اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲) یقین جانو کہاللہ تعالی اس وقت تک راضی نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص اس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراط مستقیم پر نہ چلے.وہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات صفات کو شناخت کرے.اور ان راہوں اور ہدایتوں پر عمل درآمد کرے جو اس کی مرضی اور منشاء کے موافق ہیں.جب یہ ضروری بات ہے تو انسان کو چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرے.البدر جلد نمبر ۲۲ مؤرخه ۳۱ /اگست ۱۹۰۵ ء صفحه ۲) ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور بیچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا.یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو شخص یہ عبادت بجالاتا ہے تب تو اُس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے.حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اُس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیر پیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵٬۵۴) یا درکھو ایک پہلو پر جانے والے لوگ مشرک ہوتے ہیں.آخر خدا کی طرف قدم اٹھانے اور حقیقی طور پر اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ والی دُعا مانگنے کے یہی معنے تو ہیں کہ خدا یا وہ راہ دکھا جس سے تو راضی ہو اور جس پر چل کر نبی کا میاب اور بامراد ہوئے آخر جب نبیوں والی راہ پر چلنے کے لئے دُعا کی جاوے گی تو پھر ابتلاؤں اور آزمائشوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور ثابت قدمی کے واسطے خدا سے مدد طلب کرتے رہنا چاہئے.جو

Page 338

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة الفاتحة س یہ چاہتا ہے کہ صحت و عافیت بھی رہے مال و دولت میں بھی ترقی ہو اور ہر طرح کے عیش وعشرت کے سامان اور مالی اور جانی آرام بھی ہوں کوئی ابتلا بھی نہ آوے اور پھر یہ کہ خدا بھی راضی ہو جاوے وہ ابلہ ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.جن لوگوں پر خدا راضی ہوا ہے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے کہ وہ طرح طرح کے امتحانوں میں ڈالے گئے اور مختلف مصائب اور شدائد سے ان کا سامنا ہوا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۸ مؤرخہ ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے خدا کہ تو رب العالمین، رحمن ، رحیم اور خدا ، مالک یوم الدین ہے ہمیں وہ راہ دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا بے انتہا فضل ہوا.اور تیرے بڑے بڑے انعام اکرام ہوئے.مومن کو چاہئے کہ ان چار صفات والے خدا کا صرف زبانی اقرار ہی نہ کرے بلکہ اپنی ایسی حالت بناوے جس سے معلوم ہو کہ وہ صرف خدا کو ہی رب جانتا ہے.زید عمر کو نہیں جانتا.اور اس بات پر یقین رکھے کہ در حقیقت خدا ہی ایسا ہے جو عملوں کی جزا سزا دیتا ہے اور پوشیدہ سے پوشیدہ اور نہاں در نہاں گناہوں کو جانتا ہے.یادرکھو کہ صرف زبانی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک عملی حالت درست نہ ہو.جو شخص حقیقی طور پر خدا کو ہی اپنا رب اور مالک یوم الدین سمجھتا ہے.ممکن ہی نہیں کہ وہ چوری، بدکاری، قمار بازی یا دیگر افعال شنیعہ کا مرتکب ہو سکے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب چیزیں ہلاک کر دینے والی ہیں.اور ان پر عمل درآمد کرنا خدا تعالیٰ کے حکم کی صریح نافرمانی ہے.غرض انسان جب تک عملی طور پر ثابت نہ کر دیوے کہ وہ حقیقت میں خدا پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے.تب تک وہ فیوض اور برکات حاصل نہیں ہو سکتے.جو مقتر بوں کو ملا کرتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ا مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲- و الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲ مؤرخه ۶ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) قرآن شریف پڑھ کر دیکھ لو اس میں کہیں بھی ایسا نہیں ملے گا کہ خدا اس شخص پر بھی راضی ہوتا ہے جو اس کی رضا مندی کی راہوں سے غافل اور لا پرواہی کرنے والا ہو.خدا تعالیٰ نے اپنی رضامندی کی جو راہیں مقرر کر دی ہیں انہی کے اختیار کرنے سے وہ راضی ہوتا ہے.صاف طور سے اس نے یہ دعا سکھا دی ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ دیکھو انسان انسان سے خوش ہو کر اُس کو انعامات عطا کرتا ہے.تو کیا خدا اپنی رضا مندی کی راہوں پر چلنے والوں اور اُس کی تلاش کرنے والوں سے محبت نہیں کرے گا.مگر استعداد بھی ہو اُس کے فیوض کے لینے کی.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مؤرخه ۱/۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۲)

Page 339

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة غرض دُعا ہی ایک اعلیٰ ہتھیار ہے جو ہر مشکل سے نجات کی راہ ہے جہاں کوئی ہتھیار کارگر نہیں ہوسکتا وہاں دعا کے ذریعہ کامیابی ممکن اور یقینی ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے تمام شرائط اور لوازم مہیا و میتر ہوں.عمدہ دعا اهيتا القيرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.جس میں نہ کسی خاص مذہب کا نام ہے.اور نہ کوئی خاص پہلو اختیار کیا گیا ہے.انحام جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱/۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۴) یہ کیا دعا ہے کہ منہ سے تو اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے.فلاں چیز رہ گئی ہے.یہ کام یوں چاہئے تھا اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے.یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے.جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عملدرآمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے.(احکام جلد ۱۲ نمبر ۳مؤرخه ۱۰رجنوری ۱۹۰۸صفحه ۳) دُعا کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں دُعا سکھلائی ہے.یعنی انھی کا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم یعنی اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں.(۱) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے.(۲) تمام مسلمانوں کو (۳) تیسرے اُن حاضرین کو جو جماعت نماز میں داخل ہیں.پس اس طرح کی نیت سے کل نوع انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے.کیونکہ اس سے پہلے اسی سورت میں اُس نے اپنا نام رب العالمین رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں.پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے.اور یہ نام نوع انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے.اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مومنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ رحیم کا لفظ مومنوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ رکھا ہے.اور یہ نام جماعت موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے.کیونکہ یوم الدین وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی.سو اسی تفصیل کے لحاظ سے اهْدِنَا الفِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دُعا ہے.پس اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دُعا میں تمام نوع انسانی کی ہمدردی داخل ہے.اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو.الحکم جلد ۲ نمبر ۳۳ مؤرخه ۲۹/اکتوبر ۱۸۹۸ صفحه ۴) عادت اللہ اسی پر جاری ہے کہ جس کام کے لئے مصمم عزم کیا جاوے اُس کے انجام کے لئے طاقت مل جاتی ہے.سو مصم عزم اور عہد واثق سے اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور نماز میں اس دُعا کو پڑھنے میں کہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ الخ بہت خضوع اور خشوع سے زور لگانا چاہئے اور بار بار پڑھنا چاہئے.

Page 340

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ انسان بغیر عبادت کچھ چیز نہیں بلکہ جمیع جانوروں سے بدتر ہے اور شر البریہ ہے.سورة الفاتحة الحکم جلد ۴ نمبر ۲۴ مؤرخه ۳۰/ جون ۱۹۰۰ صفحه ۴) آٹھویں اور نویں اور دسویں صداقت جو سورۃ فاتحہ میں درج ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو ان سالکین کا راستہ بتلا جنہوں نے ایسی را ہیں اختیار کیں کہ جن سے اُن پر تیرا انعام وارد ہوا اور ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے لا پرواہی سے سیدھی راہ پر قدم مارنے کے لئے کوشش نہ کی اور اس باعث سے تیری تائید سے محروم رہ کر گمراہ رہے.یہ تین صداقتیں ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ بنی آدم اپنے اقوال اور افعال اور اعمال اور نیات کے رو سے تین قسم کے ہوتے ہیں.بعض بچے دل سے خدا کے طالب ہوتے ہیں اور صدق اور عاجزی سے خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں.پس خدا بھی ان کا طالب ہو جاتا ہے اور رحمت اور انعام کے ساتھ ان پر رجوع کرتا ہے.اس حالت کا نام انعام الہی ہے.اسی کی طرف آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا اور کہا صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ یعنی وہ لوگ ایسا صفا اور سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں جس سے فیضانِ رحمت الہی کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور باعث اس کے کہ ان میں اور خدا میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور بالکل رحمت الہی کے محاذی آپڑتے ہیں.اس جہت سے انوار فیضانِ الہی کے ان پر وارد ہوتے ہیں.دوسری قسم وہ لوگ ہیں کہ جو دیدہ و دانسته مخالفت کا طریق اختیار کر لیتے ہیں اور دشمنوں کی طرح خدا سے مونہہ پھیر لیتے ہیں سو خدا بھی ان سے منہ پھیر لیتا ہے اور رحمت کے ساتھ ان پر رجوع نہیں کرتا اس کا باعث یہی ہوتا ہے کہ وہ عداوت اور بیزاری اور غضب اور غیظ اور نارضامندی جو خدا کی نسبت ان کے دلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے وہی ان میں اور خدا میں حجاب ہو جاتی ہے اس حالت کا نام غضب الہی ہے.اس کی طرف خدائے تعالیٰ نے اشارہ فرما کر کہا.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ جو خدا سے لا پرواہ رہتے ہیں اور سعی اور کوشش سے اس کو طلب نہیں کرتے.خدا بھی اُن کے ساتھ لا پرواہی کرتا ہے اور ان کو اپناراستہ نہیں دکھلاتا.کیونکہ وہ لوگ راستہ طلب کرنے میں آپ سستی کرتے ہیں.اور اپنے تئیں اس فیض کے لائق نہیں بناتے کہ جو خدا کے قانون قدیم میں محنت اور کوشش کرنے والوں کے لئے مقرر ہے.اس حالت کا نام اصلالِ الہی ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے ان کو گمراہ کیا یعنی جبکہ انہوں نے ہدایت پانے کے طریقوں کو بجد و جہد طلب نہ کیا تو خدا نے یہ پابندی اپنے قانون قدیم کے ان کو ہدایت بھی نہ دی اور اپنی تائید سے محروم رکھا.اسی کی طرف

Page 341

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة الفاتحة اشارہ فرمایا اور کہا وَلَا الضَّالين.غرض ما حصل اور خلاصہ ان تینوں صداقتوں کا یہ ہے کہ جیسے انسان کی خدا کے ساتھ تین حالتیں ہیں ایسا ہی خدا بھی ہر یک حالت کے موافق ان کے ساتھ جُدا جُدا معاملہ کرتا ہے.جو لوگ اُس پر راضی ہوتے ہیں اور دلی محبت اور صدق سے اس کے خواہاں ہو جاتے ہیں خدا بھی ان پر راضی ہو جاتا ہے اور اپنی رضامندی کے انوار ان پر نازل کرتا ہے.اور جو لوگ اُس سے مونہہ پھیر لیتے ہیں اور عمداً مخالفت اختیار کرتے ہیں.خدا بھی مخالف کی طرح ان سے معاملہ کرتا ہے اور جو لوگ اس کی طلب میں سستی اور لا پروائی کرتے ہیں خدا بھی ان سے لا پروائی کرتا ہے اور ان کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے غرض جس طرح آئینہ میں انسان کو وہی شکل نظر آتی ہے کہ جو حقیقت میں شکل رکھتا ہے اسی طرح حضرت احدیت کہ جو ہر یک کدورت سے مصفی اور پاک ہے محبت والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے غضب والوں پر غضب ناک ہے، لا پرواہوں کے ساتھ لا پرواہی ،رُکنے والوں سے رک جاتا ہے اور جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے.چاہنے والوں کو چاہتا ہے اور نفرت کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے اور جس طرح آئینہ کے سامنے جو انداز اپنا بناؤ گے وہی انداز آئینہ میں بھی نظر آئے گا.ایسا ہی خداوند تعالیٰ کے روبرو جس انداز سے کوئی چلتا ہے وہی انداز خدا کی طرف سے اس کے لئے موجود ہے.اور جن لباسوں کو بندہ اپنے لئے آپ اختیار کر لیتا ہے وہی تخم بو یا ہوا اس کا اس کو دیا جاتا ہے.جب انسان ہر یک طرح کے حجابوں اور کدورتوں اور آلائشوں سے اپنے دل کو پاک کر لیتا ہے اور محسن سینہ اس کے کا مواد ر ڈ یہ ماسوائے اللہ سے بالکل خالی ہو جاتا ہے.تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے مکان کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھول دیتا ہے اور سورج کی کرنیں اس کے گھر کے اندر چلی آتی ہیں.لیکن جب بندہ ناراستی اور دروغ اور طرح طرح کی آلائشوں کو آپ اختیار کر لیتا ہے اور خدا کو حقیر چیز کی طرح خیال کر کے چھوڑ دیتا ہے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی روشنی کو نا پسند کر کے اور اس سے بغض رکھ کر اپنے گھر کے تمام دروازے بند کر دے تا ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے آفتاب کی شعاعیں اس کے گھر کے اندر آجائیں.اور جب انسان بباعث جذبات نفسانی یا ننگ و ناموس یا تقلید قوم وغیرہ طرح طرح کی غلطیوں اور آلائشوں میں گرفتار ہو اور سستی اور تکاسل اور لاپروائی سے ان آلائشوں سے پاک ہونے کے لئے کچھ سعی اور کوشش نہ کرے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے گھر کے دروازوں کو بند پاوے اور تمام گھر میں اندھیرا بھرا ہوا دیکھے اور پھر اُٹھ کر دروازوں کو نہ کھولے اور ہاتھ پاؤں تو ڑ کر بیٹھا ر ہے اور دل میں یہ کہے کہ

Page 342

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٩ سورة الفاتحة اب اس وقت کون اُٹھے اور کون اتنی تکلیف اٹھاوے.یہ تینوں مثالیں ان تینوں حالتوں کی ہیں جو انسان کے اپنے ہی فعل یا اپنی ہی شستی سے پیدا ہو جاتی ہیں جن میں سے پہلی حالت کا نام حسب تصریح گذشتہ کے انعام الہی اور دوسری حالت کا نام غضب الہی اور تیسری حالت کا نام اضلال الہی ہے ان تینوں صداقتوں سے بھی ہمارے مخالفین بے خبر ہیں.کیونکہ برہمو سماج والوں کو اس صداقت سے بالکل اطلاع نہیں ہے جس کے رو سے خدائے تعالیٰ سرکش اور غضب ناک بندوں کے ساتھ غضبناک کا معاملہ کرتا ہے.چنانچہ برہمو صاحبوں میں سے ایک صاحب نے اس بارہ میں انہیں دنوں میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں صاحب موصوف خدا کی کتابوں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں غضب کی صفت خدائے تعالیٰ کی طرف کیونکر منسوب کی گئی ہے کیا خدا ہماری کمزوریوں پر چڑاتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر صاحب راقم کو اس صداقت کی کچھ بھی خبر ہوتی تو کیوں وہ ناحق اپنے اوقات ضائع کر کے ایک ایسا رسالہ چھپواتے جس سے ان کی کم فہمی ہر یک پرکھل گئی ہے اور اُن کو باوجود دعوی عقل کے یہ بات سمجھ نہ آئی کہ خدا کا غضب بندہ کی حالت کا ایک عکس ہے جب انسان کسی مخالفانہ شر سے محجوب ہو جائے اور خدا سے دوسری طرف مونہہ پھیر لے تو کیا وہ اس لائق رہ سکتا ہے کہ جو بچے محبتوں اور صادقوں پر فیضان رحمت ہوتا ہے اس پر بھی وہی فیضان ہو جائے ؟ ہر گز نہیں بلکہ خدا کا قانونِ قدیم جو ابتدا سے چلا آیا ہے جس کو ہمیشہ راست باز اور صادق آدمی تجربہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی صحیح تجارب سے اس کی سچائیوں کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ یہی قانون ہے کہ جو شخص ظلماتی حجابوں سے نکل کر سیدھا خدائے تعالی کی طرف اپنے روح کا مونہہ پھیر کر اس کے آستانہ پر گر پڑتا ہے اس پر فیضان رحمت خاصہ ایزدی کا ہوتا ہے اور جو شخص اس طریق کے برخلاف کوئی دوسرا طریق اختیار کر لیتا ہے تو بالضرور جوامر رحمت کے برخلاف ہے یعنی غضب الہی اُس پر وارد ہو جاتا ہے اور غضب کی اصل حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص اس طریق مستقیم کو چھوڑ دیتا ہے کہ جو قانونِ الہی میں افاضہء رحمت الہی کا طریق ہے تو فیضانِ رحمت سے محروم رہ جاتا ہے.اس محرومی کی حالت کا نام غضب الہی ہے اور چونکہ انسان کی زندگی اور آرام اور راحت خدا کے فیض سے ہی ہے.اس جہت سے جو لوگ فیضانِ رحمت کے طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ خدا کی طرف سے اسی جہان میں یا دوسرے جہان میں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ جس کے شامل حال رحمت الہی نہیں ہے ضرور ہے کہ انواع اقسام کے عذاب روحانی و بدنی اس کی طرف مونہہ کریں اور چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمتِ خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو

Page 343

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۰ سورة الفاتحة رحمت کے طریق کو یعنی دُعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں.اس باعث سے جولوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار ہو جاتے ہیں اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸) فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (آل عمران : ۹۸) یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم دُعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے.اور آریہ سماج والے اور عیسائی بھی ان تینوں صداقتوں میں سے پہلی اور تیسری صداقت سے بے خبر ہیں.کوئی اُن میں سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سب لوگوں کو کیوں ہدایت نہیں دیتا.اور کوئی یہ اعتراض کر رہا ہے کہ خدا میں صفت اضلال کیونکر پائی جاتی ہے.جولوگ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی نسبت معترض ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہدایت الہی انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو ہدایت پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور ان راہوں پر چلتے ہیں جن راہوں پر چلنا فیضانِ رحمت کے لئے ضروری ہے اور جولوگ اضلالِ الہی کی نسبت معترض ہیں اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ خدائے تعالیٰ اپنے قواعد مقررہ کے ساتھ ہر یک انسان سے مناسب حال معاملہ کرتا ہے اور جو شخص سستی اور تکاسل سے اس کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے ایسے لوگوں کے بارہ میں قدیم سے اس کا یہی قاعدہ مقرر ہے کہ وہ اپنی تائید سے ان کو محروم رکھتا ہے اور انہیں کو اپنی راہیں دکھلاتا ہے جو ان راہوں کے لئے بدل و جان سعی کرتے ہیں.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لا پروائی سے مستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے.اس کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنکبوت :۷۰) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتے ہیں.اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ دس صداقتیں جو سورہ فاتحہ میں درج ہیں کس قدر عالی اور بے نظیر صداقتیں ہیں جن کے دریافت کرنے سے ہمارے تمام مخالفین قاصر رہے اور پھر دیکھنا چاہئے کہ کس ایجاز اور لطافت سے اقل قلیل عبارت میں ان کو خدائے تعالیٰ نے بھر دیا ہے اور پھر اس طرف خیال کرنا چاہئے کہ علاوہ ان سچائیوں کے اور اس کمال ایجاز کے دوسرے کیا کیا لطائف ہیں جو اس سورہ مبارکہ میں بھرے ہوئے ہیں اگر ہم اس جگہ ان سب لطائف کو بیان کریں تو یہ مضمون ایک دفتر بن جائے گا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۴۵ تا ۵۶۸ حاشیہ نمبر ۱۱) کیونکہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی اختیار نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالی اس کی مدد نہ کرے.وو

Page 344

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۱ سورة الفاتحة اپنے آپ کو ٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو.راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۶) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیم کی دُعا سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک فلقی سلسلہ پیغمبروں کا اس اُمت میں قائم کرنا چاہتا ہے.مگر جیسا کہ قرآن کریم میں سارے انبیاء کا ذکر نہیں اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کا ذکر کثرت سے ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اُمت میں بھی مثیل موسی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مثیل عیسی یعنی امام مہدی سب سے عظیم الشان اور خاص ذکر کے قابل ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مؤرخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۸) سوال ہوا کہ جولوگ آپ کو نہیں مانتے وہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے نیچے ہیں یا کہ نہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ میں تو میں اپنی جماعت کو بھی شامل نہیں کر سکتا جب تک کہ خدا کسی کو نہ کرے.جو کلمہ گو سچے دل سے قرآن پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو بشر طیکہ سمجھا یا جاوے وہ اپنا اجر پائے گا.جس قدر کوئی مانے گا اسی قدر ثواب پائے گا.جتنا انکار کرے گا اتنی ہی تکلیف اُٹھائے گا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۸) گناہ کی حالت میں انسان پستی اور ذلت میں ہوتا ہے اور جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے لیکن جب گناہوں پر موت آتی ہے تو وہ اس پستی کے گڑھے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جب تک اوپر چڑھنے کے لئے اسے زنجبیلی شربت نہ ملے.پس نیکیوں کی توفیق عطا ہونے پر وہ پھر اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے کہ اور یہ پہاڑی گھاٹیاں وہی ہیں جو صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ میں بیان ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور منعم علیہم کی راہ ہی وہ اصل مقصود ہے جو انسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۵ مؤرخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) سورۃ فاتحہ میں ایک مخفی پیشگوئی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسی کو کافر اور دجال کہہ کر مغضوب علیہم بن گئے بعض مسلمان بھی ایسے ہی بنیں گے.اسی لئے نیک لوگوں کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ وہ منعم علیہم میں سے حصہ لیں اور مغضوب علیہم نہ بنیں.سورۃ فاتحہ کا اعلیٰ مقصود مسیح موعود اور اس کی جماعت اور اسلامی یہودی اور اُن کی جماعت اور ضالین یعنی عیسائیوں کے زمانہ ترقی کی خبر ہے.سوکس قدر خوشی کی بات

Page 345

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ سورة الفاتحة ہے کہ وہ باتیں آج پوری ہوئیں.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۴، ۴۱۵) سورۃ فاتحہ میں خدا نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اس جگہ احادیث صحیحہ کے رُو سے بکمال تواتر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد بد کار اور فاسق یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر قرار دیا اور قتل کے درپے رہے اور اُس کی سخت توہین و تحقیر کی اور جن پر حضرت عیسی نے لعنت بھیجی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے اور الضّالین سے مراد عیسائیوں کا وہ گمراہ فرقہ ہے جنہوں نے حضرت عیسی کو خدا سمجھ لیا اور تثلیث کے قائل ہوئے اور خون صحیح پر نجات کا حصر رکھا اور ان کو زندہ خدا کے عرش پر بٹھا دیا.اب اس دُعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا یا ایسا فضل کر کہ ہم نہ تو وہ یہودی بن جائیں جنہوں نے مسیح کو کا فرقرار دیا تھا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے تھے اور نہ ہم سب کو خدا قرار دیں اور تثلیث کے قائل ہوں.چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں اِسی اُمت میں سے مسیح موعود آئے گا اور بعض یہودی صفت مسلمانوں میں سے اس کو کافر قرار دیں گے اور قتل کے درپے ہوں گے اور اس کی سخت توہین و تحقیر کریں گے اور نیز جانتا تھا کہ اس زمانہ میں تثلیث کا مذہب ترقی پر ہوگا اور بہت سے بد قسمت انسان عیسائی ہو جائیں گے اس لئے اُس نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی اور اس دُعا میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا جو لفظ ہے وہ بلند آواز سے کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اسلامی مسیح کی مخالفت کریں گے وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مغضُوبِ عَلَيْهِمْ ہوں گے جیسا کہ اسرائیلی مسیح کے مخالف مغضوب علیہم تھے.( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۹) ہم نے تو اس زمانہ میں یہود دیکھ لئے اور ہم ایمان لائے کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس قوم میں بھی مغضوب علیہم یہودی ضرور پیدا ہوں گے سو ہو گئے اور پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو گئی مگر کیا یہ اُمت کچھ ایسی ہی بد قسمت ہے کہ ان کی تقدیر میں یہود بنا ہی لکھا تھا اس فعل کو ہم خدائے کریم کی طرف کبھی منسوب نہیں کر سکتے کہ یہود مردود بننے کے لئے تو یہ اُمت اور مسیح بنی اسرائیل سے آوے ایسی کارروائی سے تو اس اُمت کی ناک کٹتی ہے اور اس خطاب کے لائق نہیں رہتی کہ اس کو امت مرحومہ کہا جاوے پس اس اُمت کا یہود بنا جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے سمجھا جاتا ہے اس بات کو چاہتا ہے کہ جو یہود مغضوب علیہم کے مقابل مسیح آیا تھا اس کا مثیل بھی

Page 346

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٢٣ سورة الفاتحة اس اُمت میں سے آوے اسی کی طرف تو اس آیت کا اشارہ ہے اِھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اعجاز احمدی نعیمه نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۰،۱۱۹) انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - خدا فرماتا ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ یعنی اے مسلمانوں تم خدا سے دُعا مانگتے رہو کہ یا الہی ہمیں ان لوگوں میں سے نہ بنانا جن پر اس دنیا میں ہی تیرا غضب نازل ہوا ہے.اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ دکھانا جو کہ راور است سے گمراہ ہو گئے ہیں.اور یہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یہ بطور قصہ یا کتھا کے بیان نہیں کیا.بلکہ وہ جانتا تھا کہ جس طرح پہلی قوموں نے بدکاریاں کیں اور نبیوں کی تکذیب اور تفسیق میں حد سے بڑھ گئیں.اسی طرح مسلمانوں پر بھی ایک وقت آئے گا جب کہ وہ فسق و فجور میں حد سے بڑھ جاویں گے اور جن کاموں سے اُن قوموں پر خدا کا غضب بھڑکا تھا.ویسے ہی کام مسلمان بھی کریں گے اور خدا کا غضب ان پر نازل ہوگا.تفسیروں اور احادیث والوں نے مغضوب سے یہود مراد لئے ہیں.کیونکہ یہود نے خدا تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ بہت ہنسی ٹھٹھا کیا تھا.اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خاص طور پر دکھ دیا تھا.اور نہایت درجہ کی شوخیاں اور بے باکیاں انہوں نے دکھائی تھیں.جن کا آخری نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اسی دنیا میں ہی خدا کا غضب ان پر نازل ہوا تھا.مگر اس جگہ خدا کے غضب سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ (معاذ اللہ ) خدا چڑ جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بہ سبب اپنے گناہوں کے نہایت درجہ کے پاک اور قدوس خدا سے دور ہو جاتا ہے یا مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ ایک شخص کسی ایسے حجرہ میں بیٹھا ہوا ہوجس کے چار دروازے ہوں.اگر وہ ان دروازوں کو کھولے گا تو دھوپ اور آفتاب کی روشنی اندر آتی رہے گی اور اگر وہ سب دروازے بند کر دے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روشنی کا آنا بند ہو جائے گا غرض یہ بات سچی ہے کہ جب انسان کوئی فعل کرتا ہے تو سنت اللہ اسی طرح سے ہے کہ اس فعل پر ایک فعل خدا کی طرف سے سرزد ہوتا ہے جیسے اس شخص نے اپنی بدقسمتی سے ، جب چاروں دروازے بند کر دیئے تھے تو اس پر خدا کا فعل یہ تھا کہ اس مکان میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا.غرض اس اندھیرا کرنے کا نام خدا کا غضب ہے.یہ مت سمجھو کہ خدا کا غضب بھی اسی طرح کا ہوتا ہے کہ جس.طرح سے انسان کا غضب ہوتا ہے کیونکہ خدا خدا ہے اور انسان انسان ہے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جس طرح سے ایک انسان کام کرتا ہے خدا بھی اسی طرح سے ہی کرتا ہے.مثلاً خدا سنتا ہے تو کیا اس کو سننے کے لئے انسان کی طرح ہوا کی ضرورت ہے اور کیا اس کا سننا بھی انسان کی طرح سے ہے کہ جس طرف ہوا کا رُخ

Page 347

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ سورة الفاتحة زیادہ ہوا اس طرف کی آواز کو زیادہ سن لیا.یا مثلاً دیکھتا ہے کہ جب تک سورج چاند چراغ وغیرہ کی روشنی نہ ہو انسان دیکھ نہیں سکتا.تو کیا خدا بھی روشنیوں کا محتاج ہے؟ غرض انسان کا دیکھنا اور رنگ کا ہے اور خدا کا اور رنگ کا ہے.اس کی حقیقت خدا کے سپرد کرنی چاہئے.آریہ وغیرہ جو اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کو غضب ناک کہا گیا ہے.یہ ان کی صریح غلطی ہے.ان کو چاہئے تھا کہ قرآن مجید کی دوسری جگہوں پر نظر کرتے.وہاں تو صاف طور پر لکھا ہے عن ابى أصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۚ وَ رَحْمَتِي وَسِعَتْ حل شنی و (الاعراف: ۱۵۷).خدا کی رحمت تو کل چیزوں کے شامل حال ہے.مگر ان کو دقت ہے تو یہ ہے کہ خدا کی رحمت کے تو وہ قائل ہی نہیں.ان کے مذہبی اصول کے بموجب اگر کوئی شخص بصد مشکل مکتی حاصل کر بھی لے تو آخر پھر وہاں سے بھی نکلنا ہی پڑے گا.غرض خوب یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کے کلام پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.جیسے خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے ویسے ہی اس کا کلام بھی ہر ایک قسم کی غلطی سے پاک ہوتا ہے.اور یہ جو فرمایا ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم تو اس سے یہ مراد ہے کہ یہود ایک قوم تھی جو توریت کو مانتی تھی.انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی بہت تکذیب کی تھی اور بڑی شوخی کے ساتھ ان سے پیش آئے تھے.یہاں تک کہ کئی بار ان کے قتل کا ارادہ بھی انہوں نے کیا تھا.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی فن کو کمال تک پہنچا دیتا ہے تو پھر وہ بڑا نامی گرامی اور مشہور ہو جاتا ہے اور جب بھی اس فن کا ذکر شروع ہوتا ہے تو پھر اسی کا نام ہی لیا جاتا ہے.مثلاً دنیا میں ہزاروں پہلوان ہوئے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں مگر رستم کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے.بلکہ اگر کسی کو پہلوانی کا خطاب بھی دیا جاتا ہے تو اسے بھی رستم ہند وغیرہ کر کے پکارا جاتا ہے یہی حال یہود کا ہے کوئی نبی نہیں گذرا جس سے انہوں نے شوخی نہیں کی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تو انہوں نے یہاں تک مخالفت کی کہ صلیب پر چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور ان کے مقابلہ پر ہر ایک شرارت سے کام لیا.ہاں اگر یہ سوال پیدا ہو کہ یہود نے تو انبیاء کے مقابل پر شوخیاں اور شرارتیں کی تھیں مگر اب تو سلسلہ نبوت ختم ہو چکا ہے.اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ والی دُعا کی کوئی ضرورت نہ تھی.اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں مسیح نازل ہوگا.اور مسلمان لوگ اس کی تکذیب کر کے یہود خصلت ہو جائیں گے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور قسم قسم کی شوخیوں اور شرارتوں میں ترقی کر جاویں گے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ والی دعا سکھائی ہے کہ اے مسلمانوں پنجگانہ نمازوں کی ہر ایک رکعت میں دُعا مانگتے رہو کہ یا الہی ہمیں ان کی راہ سے بچائے رکھیو.جن پر تیرا غضب اسی دنیا میں نازل ہوا

Page 348

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة الفاتحة تھا.اور جن کو تیرے مسیح کی مخالفت کرنے کے سبب سے طرح طرح کی آفات ارضی و سماوی کا ذائقہ چکھنا پڑا تھا سو جاننا چاہئے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اشارہ کرتی ہے.اور وہی خدا کا سچا مسیح ہے جو اس وقت تمہارے درمیان بول رہا ہے.یادرکھو کہ اللہ تعالی پچیس برس سے صبر کرتا رہا ہے.ان لوگوں نے کوئی دقیقہ میری مخالفت کا اٹھا نہیں رکھا ہر طرح سے شوخیاں کی گئیں طرح طرح کے الزام ہم پر لگائے گئے اور ان شوخیوں اور شرارتوں میں پوری سرگرمی سے کام لیا گیا.ہر پہلو سے میرے فنا اور معدوم کرنے کے لئے زور لگائے گئے اور ہمارے لئے طرح طرح کے کفر نامے تیار کئے گئے اور نصاری اور یہود سے بھی بدتر ہمیں سمجھا گیا.حالانکہ ہم کلمہ طیبہ لا إله إلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پر دل و جان سے یقین رکھتے تھے.قرآن شریف کو خدا تعالی کی سچی اور کامل کتاب سمجھتے تھے اور سچے دل سے اسے خاتم الکتب جانتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل سے خاتم النبیین سمجھتے تھے.وہی نمازیں تھیں وہی قبلہ تھا.اسی طرح سے ماہ رمضان کے روزے رکھتے تھے.حج اور زکوۃ میں بھی کوئی فرق نہ تھا.پھر معلوم نہیں کہ وہ کون سے وجوہات تھے جن کے سبب سے ہمیں یہود اور نصاری سے بھی بدتر ٹھہرایا گیا اور دن رات ہمیں گالیاں دینا موجب ثواب سمجھا گیا.آخر شرافت بھی تو کوئی چیز ہے اس طرح کا طریق تو وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کے ایمان مسلوب اور دل سیاہ ہو جاتے ہیں.غرض چونکہ خدا جانتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب کہ مسلمان یہود سیرت ہو جائیں گے.اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ والی دعا سکھا دی.اور پھر فرمایا وَلَا الضَّايِّينَ یعنی نہ ہی ان لوگوں کی راہ پر چلانا.جنہوں نے تیری سچی اور سیدھی راہ سے منہ موڑ لیا.اور یہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انجیل کے ذریعہ سے یہ تعلیم ملی تھی.کہ خدا کو ایک اور واحد لاشریک مانو.مگر انہوں نے اس تعلیم کو چھوڑ دیا اور ایک عورت کے بیٹے کو خدا بنالیا.کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِم تو بڑا سخت لفظ ہے اور ضالین نرم لفظ ہے.یہ نرم لفظ نہیں.بات یہ ہے کہ یہودیوں کا تھوڑا گناہ تھا وہ توریت کے پابند تھے اور اس کے حکموں پر چلتے تھے.گو وہ شوخیوں اور شرارتوں میں بہت بڑھ گئے تھے مگر وہ کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے سخت دشمن تھے اور سورہ فاتحہ میں ان کا نام جو پہلے آیا ہے تو وہ اس واسطے نہیں کہ ان کے گناہ زیادہ تھے بلکہ اس واسطے کہ اسی دنیا میں ہی ان کو سزادی گئی تھی اور اس کی مثال اس طرح پر ہے کہ ایک تحصیلدار انہیں کو جرمانہ کرتا ہے جن کا قصور اس کے اختیار سے باہر نہیں ہوتا.مثلاً فرض کرو کہ کسی بھاری سے بھاری گناہ پر وہ اپنی طرف سے ۲۰،۵۰ روپیہ جرمانہ کر سکتا

Page 349

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۶ سورة الفاتحة ہے لیکن اگر قصور وار زیادہ کا حقدار ہو تو پھر تحصیلدار یہ کہ کر کہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے اور کہ تمہاری سزا کا یہاں موقع نہیں کسی اعلیٰ افسر کے سپرد کرتا ہے اسی طرح یہودیوں کی شرارتیں اور شوخیاں اسی حد تک ہیں کہ ان کی سزا اسی دنیا میں دی جاسکتی تھی.لیکن ضالین کی سزا یہ دنیا برداشت نہیں کرسکتی.کیونکہ ان کا عقیدہ ایسا نفرتی عقیدہ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَ تَنشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُ الْجِبَالُ هَذَّاتِ أَنْ دَعَوُا لِلرَّحينِ وَلَدًا (مريم : ۹۱، ۹۲) یعنی یہ ایک ایسا بُرا کام ہے جس سے قریب ہے کہ زمین آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جا ئیں.غرض یہودیوں کی چونکہ سزا تھوڑی تھی اس لئے ان کو اسی جہان میں دی گئی اور عیسائیوں کی سزا اس قدر سخت ہے کہ یہ جہان اس کی برداشت نہیں کر سکتا اس لئے ان کی سزا کے واسطے دوسرا جہان مقرر ہے.اور پھر یہ بات بھی یادرکھنے والی ہے کہ یہ عیسائی صرف ضال ہی نہیں ہیں بلکہ مضل بھی ہیں.ان کا دن رات یہی پیشہ ہے کہ اوروں کو گمراہ کرتے پھریں.پچاس پچاس ہزار ساٹھ ساٹھ ہزار بلکہ لاکھوں پرچے ہر روز شائع کرتے ہیں اور اس باطل عقیدہ کی اشاعت کے لئے ہر طرح کے بہانے عمل میں لاتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲ مؤرخه ۶ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳، ۴) ایک شخص نے سوال کیا.بعض مخالف کہتے ہیں کہ ہم بھی تو اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہتے ہیں ہم کو یہودی اور مغضوب کیوں کہا جاتا ہے؟ فرمایا کہ یہودی بھی تو ہدایت اب تک طلب کر رہے ہیں اور اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ مانگ رہے ہیں اور توریت پڑھتے ہیں مگر گمراہ کیوں ہیں؟ الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹) عرب صاحب نے سوال کیا کہ مسیح موعود کے متعلق قرآن میں کہاں کہاں ذکر ہے.فرمایا.سورۃ فاتحہ، وو سورہ نور ، سورہ تحریم.سورہ فاتحہ میں تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.سورہ نور میں وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنكُم ( النور : (۵) اور سورہ تحریم میں جہاں مومنوں کی مثالیں بیان کی ہیں وہاں مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِي اَحْصَنَتُ فَرْجَهَا (التحريم : ۱۳) - الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۰).نماز کوئی ایسی ویسی شئے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شے ہے جس میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ الخ جیسی دُعا کی جاتی ہے.اس دُعا میں بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ بڑے کام کرتے ہیں ان پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب آتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مؤرخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹) اگر نبوت کا دروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاع فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست

Page 350

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۷ سورة الفاتحة ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے.گو یا اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ جو کہا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (ال عمران:11) یہ جھوٹ تھا نعوذ باللہ.اگر یہ معنے کئے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خیر الامتہ کی بجائے شر الامم ہوئی یہ اُمت جبکہ اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا تو یہ تو كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَالُ ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہئے نہ یہ کہ خیر الام.اور پھر سورۃ فاتحہ کی دعا بھی لغو جاتی ہے.اس میں جو لکھا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو مجھنا چاہئے کہ ان پہلوؤں کے پلاؤ زردے مانگنے کی دعا سکھائی ہے اور ان کی جسمانی لذات اور انعامات کے مورث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہر گز نہیں.اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ ہی کیا گیا جس سے اسلام کا علق الخام جلدے نمبر ۱۴ مؤرخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) ثابت ہووے.یہ وجودی سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں.افسوس کا مقام ہے کہ جس قدر گدیاں ہیں ان میں سے شاید ایک بھی ایسی نہیں ہوگی جو یہ مذہب نہ رکھتی ہو.سب سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا فرقہ جو قادری کہلاتا ہے وہ بھی وجودی ہو گئے ہیں حالانکہ سید عبدالقادر جیلانی وجودی نہ تھے.ان کا طرز عمل اور ان کی تصنیفات اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی عملی تصدیق دکھاتی ہیں.علماء صرف یہ سمجھتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صرف پڑھنے کے لیے ہے لیکن اس کے اثرات اور نتائج کچھ نہیں مگر وہ عملی طور پر دکھاتے ہیں کہ ان منعم علیہ لوگوں کے نمونے اس امت میں ہوتے ہیں.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ گوایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں.لیکن ہیں ضرور جو خدا تعالیٰ سے کامل محبت کرتے ہیں اور اسی دنیا میں رہ کر انقطاع اور سفر آخرت کی تیاری کرتے ہیں.یہ امور ایسے ہی لوگوں کے حصہ میں آئے ہیں.جیسے سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مؤرخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحه ۸) اگر وحی نہ ہو تو پھر اهدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کے کیا معنے ہوں گے.کیا یہاں انعام سے مراد گوشت پلا ؤ وغیرہ ہے یا کہ خلعت نبوت اور مکالمہ الہی وغیرہ جو کہ انبیاء کو عطا ہوتا رہا ہے.غرض کہ معرفت تا ئم انبیاء کو سوائے وحی کے حاصل نہیں ہو سکتی.جس غرض کے لئے انسان اسلام قبول کرتا ہے اس کا مغز یہی ہے کہ اس کے اتباع سے وحی ملے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مؤرخه ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۸)

Page 351

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۸ سورة الفاتحة آجکل دنیا کی عجیب حالت ہو رہی ہے.تم لوگ اچھی طرح سے نظر ڈال کر دیکھ لو.شہروں اور بازاروں میں جا کر دیکھ لو.لاکھوں اور کروڑوں آدمی ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر محض دنیا کی خاطر مارے مارے پھرتے ہیں.ایسے آدمی تھوڑے نکلیں گے جو دین کی غرض سے پھرتے ہوں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے تو یہی دعا سکھلائی تھی کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کہ یا الہی وہ راہ دکھا اور اسی راہ پر چلنے کی توفیق دے جس پر چلنے سے منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جاویں.الحکم جلد نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ صفحہ ۷) وَتَعْلَمُونَ أَنَّ الْفَاتِحَة ام الْكِتَابِ وَ تم جانتے ہو کہ سورہ فاتحہ ائم القرآن ہے جو کچھ حق آنها تَنطِقُ بِالْحَقِّ وَفِيهَا ذِكرُ اخْيَارِ أُمَّةٍ ہے وہی فرماتی ہے اور اس میں ان نیکوں کا ذکر ہے کہ خَلَتْ مِن قَبْلُ وَذِكْرُ شَرْهِمُ الَّذِينَ مسلمانوں سے پہلے گذرے ہیں اور ان بدوں کا بھی ذکر غَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ في هَذِهِ الدُّنْيَا وَذِكْرُ ہے جو مسلمانوں سے پہلے ہوئے ہیں اور خدا نے ان الَّذِيْنَ الحديمَتُ عَلَيْهِمْ هَذِهِ السُّورَةُ پر اسی دنیا میں غضب کیا اور ان کا بھی ذکر ہے کہ جن پر اعْنِي الظَّالِينَ.وَقَدْ اَقْرَرْتُمْ بِأَنَّهُمُ اس سورۃ کو ختم کیا گیا ہے یعنی فرقہ ضالین اور تم اقرار النَّصَارَى وَآخَرَ اللهُ ذِكْرَهُمْ في هذه کرتے ہو کہ وہ فرقہ ضالین نصاری ہی ہیں اور خدا نے السُّورَةِ لِيُعْلَمَ أَنَّ فِتْنَعَهُمْ أخِرُ الْفِتَنِ سب سے بعد اس سورۃ کے آخر میں ان کا ذکر کیا ہے تا کہ فَلَمْ يَبْقَ لِدَجَّالِكُمْ مَوْضِعُ قَدَم يا أولى جان لو کہ نصاریٰ کا فتنہ تمام فتنوں کے پیچھے ہے پس النهى وَاِنّ هذِهِ فِرَقٌ تَلكُ مِنْ أَهْلِ تمہارے دجال کے لئے قدم رکھنے کی جگہ نہیں رہی.اور الكتب وَكَذَالِك مِنْكُمْ قَلقٌ شَابَة یہ تین فرقے ہیں اہلِ کتاب کے اور اسی طرح تم میں بھی تین فرقے ہیں کہ بعض بعض کے مشابہ ہو گئے.بَعْضُكُمْ بَعْضَهُمْ وَضَاهَا.خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۱۷، ۱۱۸) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَقَدْ سَلَّى اللهُ تِلْكَ الْيَهُودَ الْمَغْضُوبَ خدا نے ان یہودیوں کا نام مغضوب علیہم رکھا اور عَلَيْهِمْ وَحَذَرَكُمْ فى أم الكتاب آن سورۃ فاتحہ میں تم کو اس بات سے ڈرایا کہ تم ان جیسے ہو جاؤ تَكُونُوا كَمِثْلِهِمْ وَ ذَكَرَكُمْ أَنَّهُمْ اور تم کو یاد دلایا کہ وہ طاعون سے ہلاک کئے گئے تمہیں أَهْلِكُوا بِالطَّاعُونِ فَمَا لَكُمْ تَنْسَوْنَ کیا ہو گیا کہ تم خدا کے حکموں کو بھول گئے اور اس سے وَصَايَا الله وَلَا تَتَّقُونَ رَبِّكُمْ وَلَا | نہیں ڈرتے خدا تعالیٰ کی کلام میں غور نہیں کرتے کہ

Page 352

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ سورة الفاتحة تَحْذَرُونَ وَلَا تُفَكَّرُونَ فِي قَوْلِ اللهِ غَيْرِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ فرما یا غیر اليهود نہیں فرمایا الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يَقُلْ غَيْرِ الْيَهُودِ کیونکہ اس میں اشارہ اس عذاب کی طرف ہے جو ان کو فَإِنَّهُ أَوْلَى فِي هَذِهِ إلى عَذَابِ أَصَابَهُمْ وَالی پہنچا اور جو تمہیں پہنچے گا اگر تم باز نہ آئے.پس کیا ممکن عَذَابٍ يُصِيبُكُمْ اِنْ لَّمْ تَنْعَبُوا فَهَلْ أَنْتُمْ ہے کہ تم بچے رہو ؟ اور یہ بڑی اطلاع ہے اور اس کے منتَهُونَ.وَإِنَّهُ لَبَأْعَظِيمُ وَقَدْ ظَهَرَتْ نشان ظاہر ہو گئے اور اس میں ان کے لئے نشان ہے جو آثَارُهُ وَإِنَّ فِي هَذَا لَايَةً لِقَوْمٍ يُفَكَّرُونَ فکر کرتے ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) - (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۴۸،۱۴۷) وَإِنَّ الْفَاتِحَةَ كَفَّتْ لِسَعِيْد يَطلُبُ الْحَقِّق اور فاتحہ کی سورۃ اس سعادت مند کے لئے جو حق وَلَا يَمُرُّ عَلَيْنَا كَالَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ فَإِنَّ تلاش کرتا ہے اور ہمارے سامنے سے متکبر کی طرح نہیں اللهَ ذَكَرَ فِيْهِ فِرَقًا ثَلَانَّا خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَهُمُ گزرتا کافی ہے کیونکہ خدا نے اس سورۃ میں تین فرقوں المُنْعَمُ عَلَيْهِمْ وَالْمَغْضُوبُ عَلَيْهِمْ وَ کا ذکر کیا ہے جو اگلے زمانہ میں گذرے اور وہ یہ ہیں الضَّالُونَ، ثُمَّ جَعَلَ هَذِهِ الْأُمَّةَ فِرْقَةً رَّابِعَةٌ.منعم علیہم اور مغضوب علیہم اور ضالین.وَأَوْمَا الْفَاتِحَةُ إلى أَنَّهُمْ وَرِثُوا تِلْكَ پھر اس اُمت کو چوتھا فرقہ قرار دیا اور فاتحہ میں اشارہ کیا الثَّلَاثَةَ، إِمَّامِنَ الْمُنْعَمِ عَلَيْهِمْ أَوْ مِن که دو ان تین فرقوں میں سے یا تو منعم علیہم کے الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، أَوْ مِنَ الَّذِينَ يَضِلُّونَ وَ وارث ہوں گے یامغضوب علیہم کے وارث ہوں يَنتَظَرُونَ، وَ أَمَرَ أَن يَسْأَلُ الْمُسْلِمُونَ کے یا ضالین کے وارث ہوں گے اور حکم دیا ہے کہ رَبَّهُمْ أَنْ تَجْعَلَهُمْ مِّنَ الْفِرْقَةِ الْأُولى وَلَا مسلمان اپنے رب سے چاہیں کہ ان کو پہلے فرقہ میں سے يَجْعَلَهُمْ مِنَ الَّذِيْنَ غَضِبَ عَلَيْهِمْ وَلَا مِن بنادے اور مغضوب علیہم اور ضالین میں سے نہ الصَّانِينَ الَّذِينَ يَعْبُدُونَ عِنسی و پرتیم بناوے جو عیسی کو پوجتے ہیں اور اپنے پروردگار کے يُشْرِكُونَ.وَكَانَ في هَذَا أَنباء ثلاث لِقَوْمٍ برابر بناتے ہیں اور اس میں ان کے لئے جو فراست سے يَتَفَرَّسُونَ فَلَمَّا جَاءَ وَقْتُ هَذِهِ الْأَنْبَاءِ کام لیتے ہیں اس میں تین پیشگوئیاں ہیں پس جب ان بَدَأَ اللَّهُ مِنَ الصَّانِيْنَ كَمَا أَنْتُمْ تَنْظُرُونَ پیشگوئیوں کا وقت پہنچ گیا خدا نے ضائین سے شروع کیا فَخَرَجَ النَّصَارَى مِنْ دَيْرِهِمْ بِقُوَّةٍ لَّا يَدَانِ جیسا کہ تم دیکھتے ہو پس نصاری ایسی قوت کے ساتھ اپنے

Page 353

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳ سورة الفاتحة لَهَا وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، وَزُلْزِلَتِ | گر جاؤں سے نکلے ہیں کہ کوئی ان کی برابری نہیں کر الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتْ أَثْقَالَهَا، وَتَنَظَرَ سکتا.اور وہ ہر ایک اونچائی پر سے دوڑتے ہیں اور فَوْجٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَمَا أَنْتُمْ تُشَاهِدُونَ زمین ملنے لگی اور اپنے سب بوجھ اُگل دیئے اور ثُمَّ جَاءَ وَقْتُ النَّبَأُ القَانِي أَغنى وقت مسلمانوں میں سے بہت سے نصرانی ہو گئے.پھر خُرُوجِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ كَمَا كَانَ الْوَعْدُ دوسری خبر کا وقت پہنچا یعنی مغضوب علیہم کے نکلنے الرَّبَّانِي فَصَارَ طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى کا وقت جیسا کہ خدا نے وعدہ فرمایا تھا پس مسلمانوں سِيرَةِ الْيَهُودِ الَّذِينَ غَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ، وَ کے ایک گروہ نے یہودیوں کی راہ اور نمونہ اختیار کر لیا صَارَتْ أَهْوَاؤُهُمْ كَأَهْوَائِهِمْ وَ ارَآؤُهُمْ جو خدا کے غضب کے نیچے تھے اور ان کی خواہشیں اور گار آنهمْ وَرِيَاؤُهُمْ كَرِيَاتِهِمْ وَ شَحْنَآؤُهُمْ ریا اور کینہ اور دشمنی اور سرکشی بالکل ان جیسی ہو گئی.كَشَحْنَائِهِمْ وَإِبَاؤُهُمْ كَابَاعِهِمْ يَكْذِبُونَ وَ جھوٹ بولتے ہیں اور تنبہ کاری کرتے ہیں اور ظلم اور يَفْسُقُونَ، وَيَظْلِمُونَ وَيَسْتَكْبِرُونَ وَيُحِبُّونَ تکبر کرتے ہیں اور ناحق خون کرنے کو دوست رکھتے أَن يَسْفِكُوا الدِّمَاء بِغَيْرِ حَتي ومُلِقَتْ ہیں اور ان کے نفس حرص اور طمع اور بخل اور حسد سے نُفُوسُهُمْ هُنا وبُخْلًا وَحَسَدًا، وَضُرِبَتْ بھر گئے ہیں اور وہ ذلیل ہو گئے ہیں نہ آسمان میں ان عَلَيْهِمُ اللِّلَّهُ فَهُمْ لا يُكْرَمُونَ فِي السَّمَاءِ کی عزّت ہے اور نہ زمین میں اور ہر ایک طرف سے وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمِنْ كُلِّ بَابِ يُطْرَدُونَ دھتکارے جاتے ہیں اور اسی طرح زمین ظلم اور جور وَكَذَالِكَ مُلِقَتِ الْأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا وَقَلّ سے بھر گئی اور نیک لوگ کم ہو گئے ایسے وقت میں الصَّالِحُونَ.فَنَظَرَ اللهُ إلَى الْأَرْضِ فَوَجَدَ خدا نے زمین کو دیکھا اور زمین والوں کو تین طرح کی أَهْلَهَا فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ظُلْمَتِ الْجَهْلِ وَ تاریکی میں پایا ایک جہالت کا اندھیرا دوسرے فسق کا ظُلْمَتِ الْفِسْقِ وَظُلْمَتِ الدَّاعِيْنَ إلى اندھیرا تیسرے ان لوگوں کا اندھیرا جو تثلیث اور التَّقْلِيثِ وَالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ فَتَدعو شیطان کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں پس فضل اور رحم فَضْلًا وَرُحَما وَعَدَهُ القَالِيقَ الَّذِي يَدْعُونَ لَهُ کر کے تیرے وعدہ کو یاد کیا جس کے لئے دُعا کرنے الدَّاعُونَ فَأَنْعَمَ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ بِإِرْسَالِ والے دُعا کرتے تھے پس مثیل عیسی کو بھیجنے سے اس مَثِيْلِ عِيسَى، وَهَلْ يُنْكِرُ بَعْدَهُ إِلَّا امت پر انعام کیا اور اس پر اندھوں کے سوا اور کوئی

Page 354

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام الْعَبُونَ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۶۰ تا ۱۶۵) ٣٣١ سورة الفاتحة انکار نہیں کرتا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) فَفَكِّرُوا فِي أُمِ الْكِتَابِ حَقَّ الْفِكْرِ لِمَ چاہیے کہ ام الکتاب میں خوب غور کرو کہ کیوں تم کو حَتَّركُمُ اللهُ أَن تَكُونُوا الْمَغْضُوبَ خدا نے اس سے ڈرایا کہ تم مغضوب علیہم ہو جاؤ.جان لو عَلَيْهِم مَّا لَكُمْ لا تُفَكِّرُونَ فَاعْلَمُوا أَنَّ کہ اس میں یہ راز تھا کہ خدا جانتا تھا کہ مسیح ثانی تم میں السّر فِيهِ أَنَّ اللهَ كَانَ يَعْلَمُ أَنَّهُ سَوْفَ پیدا ہوگا اور گویا وہ وہی ہوگا اور خدا جانتا تھا کہ ایک گروہ يُبْعَثُ فِيْكُمُ الْمَسِيحُ الثَّانِي كَأَنَّهُ هُوَ تم میں سے اس کو کافر اور جھوٹا کہے گا اسے گالیاں دیں وَكَانَ يَعْلَمُ أَنَّ حِزْبًا مِنكُمْ يُكَفِرُونَهُ وَ گے اور حقیر جائیں گے اور اس کے قتل کا ارادہ کریں گے يُكَذِّبُونَهُ وَيُحَقِّرُونَهُ وَيَشْتُمُونَهُ وَيُرِيدُونَ اور اس پر لعنت کریں گے.پس اس نے رحم کر کے اور أَن يَقْتُلُوهُ وَيَلْعَنُونَهُ فَعَلَّمَكُمْ هَذَا اس خبر کی طرف جو مقدر تھی اشارہ کے لئے یہ دعا تم کو الدُّعَاءَ رُحما عَلَيْكُمْ وَإِشَارَةً إِلى نَبَأَ قَدَّرَهُ سکھائی.پس تمہارا مسیح تمہارے پاس آ گیا.اب اگر تم فَقَدْ جَاءَكُمْ مَسِيحُكُمْ فَإِن لَّمْ تَنْعَبُوا ظلم سے باز نہ آئے تو ضرور پکڑے جاؤ گے اور اس فَسَوْفَ تُسْأَلُونَ وَثَبَتَ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ مقام سے ثابت ہوا کہ خدا کے نزدیک مغضوب علیہم أَنَّ الْمُرَادَ مِن الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ عِندَ اللہ سے وہ یہودی مراد ہیں جنہوں نے عیسی کے معاملہ میں الْعَلامِ هُمُ الْيَهُودُ الَّذِيْنَ فَرَّطوافِي أَمْرِ نا انصافی کی اور اس کو کافر کہا اور اس کو ستایا اور قرآن ا عِيسَى رَسُوْلِ اللهِ الرَّحْمٰنِ، وَكَفَرُوهُ وَاذَوْهُ میں اس کی زبان پر لعنت کئے گئے.اور اسی طرح تم وَلُعِنُوا عَلَى لِسَانِهِ فِي الْقُرْآنِ، وَكَذَالِكَ مَنْ میں سے وہ جو مسیح آخر الزمان کی تکفیر اور زبان سے اس شَابَهَهُمْ مِنْكُمْ بِتَكْفِيرِ مَسِيحِ آخرِ کی تکذیب اور ایذاء اور اس کے قتل کی آرزو کی وجہ سے الزَّمَانِ وَتَكْذِيبِهِ وَإِذَآئِهِ بِاللِّسَانِ، ان یہودیوں سے مشابہ ہو گئے اور ضالین سے مراد وَالثَّمَلِى لِقَتْلِهِ وَلَوْ بِالْبُهْتَانِ كَمَا أَنْتُمْ نصاری ہیں جو عیسی علیہ السلام کے بارہ میں حد سے گذر تَفْعَلُونَ وَالْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ الصَّالِينَ گئے اور کہا کہ مسیح ہی خدا ہے اور وہ تین میں سے ایک النّصَارَى الَّذِيْنَ أَفَرَطُوا فِي أَمْرِ عِيسى ہے ایسا کہ دونوں اس کے وجود میں موجود ہیں وَأَطراؤُهُ وَقَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ وَهُوَ اور أَنْعَمْتَ عَلَيہم سے وہ انبیاء اور بنی اسرائیل کے

Page 355

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۲ سورة الفاتحة ثَالِثُ ثَلَا ثَةٍ يَعْنِي الثَّالِثَ الَّذِي يُوجَدُ فِيهِ الثَّلَاثَةُ | آخری برگزیدے مراد ہیں جنہوں نے مسیح کی كَمَا هُمْ يَعْتَقِدُونَ.وَ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ أَنْعَمْتَ تصدیق کی اور اس کے بارہ میں کوئی کوتا ہی نہیں عَلَيْهِم هُمُ النّبِيُّون والأَخْيَارُ الْآخَرُونَ مِنْ بَنی کی اور باتوں سے اس مسیح کے حق میں زیادتی نہیں إسْرَائِيلَ الَّذِيْنَ صَدَّقُوا الْمَسِيحَ وَمَا فَرَّطُوا فِي کی اور اسی طرح مراد لفظ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے أَمْرِهِ وَمَا أَفَرَطُوا بِأَقَاوِيْلَ وَ كَذَالِكَ الْمُرَادُ عیسی مسیح ہے جس پر وہ سلسلہ ختم ہوا اور اس کے عِيسَى الْمَسِيحُ الَّذِي خُتِمَتْ عَلَيْهِ تِلْكَ وجود سے فیض کا چشمہ بند ہو گیا گویا کہ اس کا السّلْسِلَةُ وَانْتَقَلَتِ النُّبُوةُ وَ سُدَّ بِهِ مَجْرَى وجود اس انتقال کے لئے ایک نشانی یا حشر اور الْقَيْضِ كَأَنَّهُ الْعَرِمَةُ، وَ كَأَنَّهُ لِهَذَا الْإِنْتِقَالِ قیامت تھا اور اسی طرح انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے الْعَلَمُ وَالْعَلَامَة أو الحشر وَالْقِيَامَةُ، كَمَا أَنْتُمْ اس امت کے ابدالوں کا سلسلہ مراد ہے جنہوں تَعْلَمُونَ.وَكَذَالِكَ الْمُرَادُ مِنْ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فى نے صبح آخرالزمان کی تصدیق کی اور صدق دل هذِهِ الْآيَةِ هُوَ سِلْسِلَةُ أَبْدَالِ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِيْنَ سے اس کو قبول کیا یعنی اس مسیح کو جس پر یہ سلسلہ صَدَّقُوا مَسِيحَ آخِرَ الزَّمَانِ، وَ آمَنُوا بِهِ وَقَبِلُوهُ ختم ہوا اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے وہی مقصودِ | يصِدقِ القَوِيَّةِ وَالْجَنَانِ أَغْنِى الْمَسِيحَ الَّذى اعظم ہے کیونکہ مقابلہ اسی کا مقتضی ہے اور ترتیر حتِمَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ السّلْسِلَةُ، وَ هُوَ الْمَقْصُودُ کرنے والے اس کا انکار نہیں کر سکتے.(اور الْأَعْظَمُ مِنْ قَوْلِهِ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ كَمَا تَفْتَعِی پھر جب اس بات کا قطعی، یقینی ، صراحت اور الْمُقَاتِلَةُ وَلَا يُنْكِرُهُ الْمُتَدَبِرُونَ.فَإِنَّهُ إِذَا عُلِمَ تعیین کے ساتھ علم ہو گیا کہ ) مغضوب علیہم وہی بالقطع وَالْيَقِينِ وَالتَّفريح وَالتَّعْيِينِ أَنَّ سیہودی ہیں جنہوں نے مسیح کو کافر کہا اور اس کو الْمَغْضُوبٌ عَلَيْهِم هُمُ الْيَهُودُ الَّذِينَ كَفَرُوا ملعون جانا جیسا کہ الضَّالِّينَ کا لفظ اس پر الْمَسِيحَ وَحَسِبُوهُ مِنَ الْمَلْعُونِينَ كَمَا يَدُلُّ عَلَيْهِ دلالت کرتا ہے.اس لئے ترتیب ٹھیک نہیں فَرِيْنَةُ قَوْلِهِ الضَّانِيْنَ فَلَا يَسْتَقِيمُ التَّرْتِيْبُ وَلاَ بیختی اور قرآن کے کلام کا نظام درست نہیں يَحْسُنُ نِظَامُ كَلامِ الرَّحْمنِ إِلَّا بِأَنْ يُغلى من ہوتا سوائے اس کے کہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مَسِيحُ آخِرِ الزَّمَانِ فَإِنَّ رِعَايَةَ آخر زمانہ کا مسیح مراد لیا جائے کیونکہ قرآن الْمُقَابَلَةِ مِنْ سُنَنِ الْقُرْآنِ وَمِنْ أَهَةِ أُمُورِ شریف کی عادت ہے کہ مقابلہ کی رعایت رکھتا | و

Page 356

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۳ سورة الفاتحة الْبَلَاغَةِ وَحُسْنِ الْبَيَانِ، وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا ہے اور مقابلہ کی رعایت رکھنا اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور الْجَاهِلُونَ فَظَهَرَ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ بِالظُّهُورِ حسن بیان میں داخل ہے اور جاہل کے سوا کوئی اس معنے الْبَيْنِ الثَّاةِ أَنَّهُ مَن قَرَأَ هَذَا الدُّعَاء فی سے انکار نہیں کرتا.اس مقام سے اچھی طرح معلوم ہوا صَلَاتِهِ أَوْ خَارِجَ الصَّلَاةِ فَقَدْ سَأَلَ رَبِّه آن کہ جو کوئی نماز میں یا نماز سے باہر اس دعا کو پڑھتا ہے وہ يُدخِلَة فِي جَمَاعَةِ الْمَسِيحِ الَّذِي يُكَفِّرُهُ اپنے پروردگار سے سوال کرتا ہے کہ اس کو اس مسیح کی جماعت قَوْمُه وَ يُكَذِّبُونَهُ وَيُفَسّقُونَهُ وَيَحْسَبُونَهُ میں داخل فرما دے جس کو اس کی قوم کا فر کہے گی اور اس کی شَرِّ الْمَخْلُوقَاتِ وَيُسَمُونَهُ دَجَّالًا وَمُلْحِدًا تکذیب کرے گی اور اس کو سب مخلوقات سے بدتر سمجھے گی ضَالَّا كَمَا سَمَّى عِيسَى الْيَهُودُ الْمَلْعُونُ اور اس کا نام دجال اور ملحد اور گمراہ رکھے گی جیسا کہ یہود خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۹۰ تا ۱۹۸) ملعون نے عیسی کا نام رکھا تھا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) فَالَّذِينَ سَمَّاهُمُ اللهُ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ پس وہ لوگ جن کو خدا نے (سورۃ فاتحہ میں فى الْفَاتِحَةِ هُمُ الْيَهُودُ الَّذِينَ كَذَّبُوا مَغْضُوبِ عَلَيہم کہا ہے وہی یہودی ہیں جنہوں الْمَسِيحَ وَأَرَادُوا أَنْ يُصَلِّبُوهُ وَيَعْلَمُهُ نے مسیح کی تکذیب کی اور چاہا کہ اسے عولی دیں.اور الْعَالِمُونَ وَ إِنَّ لَفَظَ الضَّالِينَ الَّذِى وَقَعَ ضالین کا لفظ جو مغضوب علیہم کے بعد واقع ہوا ان معنوں بَعْد الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ قَرِيْنَةٌ قَطْعِيَّةٌ عَلى پر یقین قرینہ ہے.اس پر جاہل کے سوا کوئی شک نہیں هذَا الْمَعْلى وَلَا يَرْتَابُ فِيهِ إِلَّا الْجَاهِلُونَ لاتا کیونکہ ضالین وہ لوگ ہیں جنہوں نے عیسی کے فَإِنَّ الصَّالِينَ قَوْمُ أَفَرَطُوا فِي أَمْرِ عِیسٰی، بارہ میں افراط کیا.یہاں سے ثابت ہوا کہ مغضوب فَقَبَتَ مِنْ هَذَا أَنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ قَوْمٌ علیہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کی نسبت تفریط کی اور فَرَّطوا في أَمْرِهِ، وَهَذَانِ اسْمَانِ مُتَقَابِلَانِ یہ دو نام ایک دوسرے کے مقابل پر واقع ہوئے أَيُّهَا النَّاظِرُوْنَ ثُمَّ خَوَفَكُمُ اللهُ أَنْ ہیں.پھر خدا نے تم کو اس بات سے ڈرایا کہ تم ان کی تَكُونُوا كَبِفْلِهِمْ فَيَحِلَّ الْغَضَبُ عَلَيْكُمْ طرح ہو جاؤ اور انجام کا رویسا ہی غضب تم پر اترے كَمَا حَلَّ عَلى أَعْدَاءِ الْمَسِيحَ وَ مَسَّهُمْ جیسا کہ مسیح کے دشمنوں پر نازل ہوا اور وہ لعنت ان لغيّتُهُ الْمَذْكُورَة في القران خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۰۲ تا ۲۰۴) کے شامل حال ہوئی جس کا قرآن میں ذکر ہے.( ترجمہ اصل کتاب سے )

Page 357

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة الفاتحة وَ تَفْصِيلُ الْمَقَامِ أَنَّ اللهَ قَد أَلخَبر | اس مقام کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ خدا تعالیٰ عَنْ بَعْضِ الْيَهُودِ فِي السُّورَةِ الْفَاتِحَةِ سورۃ فاتحہ میں ان بعض یہودیوں کی نسبت اطلاع دیتا أَنَّهُمْ كَانُوا فَحَل غَضَب الله في زَمَن ہے جن پر عیسی بن صدیقہ کے زمانہ میں خدا کا غضب عِيسَى ابْنِ الصِّدِّيقَةِ، فَإِنَّهُمْ كَفَرُوہ ان پر نازل ہوا کیونکہ انہوں نے اس کو کافر کہا اور ستایا وَاذَوْهُ وَأَثَارُوا لَه كُلَّ نَوعِ الْفِتْنَةِ ثُمَّ اور ہر طرح کا فتنہ اٹھایا پھر خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ أَشَارَ إِلَى أَنَّ طَائِفَةً مِّنْكُمْ كَمِثْلِهِمْ تم میں سے ایک گروہ یہود کی طرح اپنے مسیح کی تکفیر يُكَفَرُونَ مَسِيحَهُمْ وَيُكَتِلُونَ جميع کرے گا اور ہر طرح کی مشابہت ان سے پیدا کر لیں أَنْحَاءِ الْمُشَاعِبَةِ، وَيَفْعَلُونَ بِهِ مَا تَكَانُوا گے اور ان کے ہاتھوں سے وہ سب کام ہوں گے جو يَفْعَلُونَ وَ أَنْتُمْ تَفْرَونَ آيَةً یہود نے کئے اور تم مغضوب علیہم کی آیت پڑھتے ہو پھر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَا تَلْتَفِتُونَ.اس کی طرف توجہ نہیں کرتے کیا خدا نے یوں ہی یہ سورۃ أَعَلَّمَكُمُ اللهُ هذه السُّورَةَ عَبَثًا كَوَضْع تم کو سکھلائی جیسا کہ کوئی کسی چیز کو بے ٹھکانے رکھ اللي في غَيْرِ فَحَلِهِ أَوْ كَتَبَها للكبر دے.یا اس سورۃ کو اس لئے اتارا کہ تم کو وہ گناہ یاد لِتَذْكِيرِ جَرِيمَةٍ تَرْتَكِبُونَهَا مَا لَكُمْ لَا تُمعِنُونَ دلائے جو تمہارے ہاتھ سے ہوگا.کیوں غور سے نہیں وَمَا غَضِبَ اللهُ عَلى تِلْكَ الْيَهُودِ إِلَّا لِمَا دیکھتے اور خدا ان یہودیوں پر عیسی کو کافر کہنے کے سبب كَفَرُوا رَسُوْلَهُ عِيسَى وَ كَذَّبُوهُ وَشَتَمُوهُ اور اس کی تکذیب اور اس کو گالیاں دینے کے سبب وَكَادُوا أَنْ يَقْتُلُوهُ مِنَ الْحَسَدِ وَالْهَوَى، غضبناک ہوا اور اس لئے بھی کہ وہ ہوا وحسد کے مارے وَقَدْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ قَدَرُ اللهِ أَنَّكُمْ چاہتے تھے کہ اس کو قتل کر دیں.خدا تعالیٰ کی تقدیر تَفْعَلُونَ يَمَسِيحِكُمْ كَمَا فَعَلَ الْيَهُودُ تمہارے حق میں اسی طرح جاری ہوئی ہے کہ تم اپنے مسیح سے وہی کرو جو یہود نے اپنے بیج سے کیا.مَسِيحِهم.خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۱۶،۲۱۵) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) ان لفظ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ قَد حَلى لفظ مغضوب عليهم، ضالین کے لفظ کے مقابل لَفَظَ الضَّايِّينَ أَغْنِي وَقَعَ ذَالِكَ بِحِذَاء هذا میں ہے یعنی وہ لفظ اس لفظ کے مقابل پڑا ہے.جیسا کہ كَمَا لَا يَخفى عَلَى الْمُبْصِرِينَ فَثَبَتَ دیکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں.پس قطع اور یقین سے ثابت

Page 358

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۵ سورة الفاتحة وو بالقطع وَالْيَقِينِ أَنَّ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ هُمُ ہو گیا کہ مغضوب علیہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے الَّذِينَ فَرَّطوا في أمْرٍ عِيسى بالتکفیر حضرت عیسی کے بارے میں تفریط کی اور کا فرقراردیا اور وَالْإِيدَاءِ وَالتَّوْهِينِ.كَمَا آنَ الصَّانِينَ دکھ دیا اور اہانت کی.اور ضالین سے وہ لوگ مراد ہیں هُمُ الَّذِينَ أَفَرَطُوا في آمرِه بِاتِّخاذه رَبَّ جنہوں نے حضرت عیسی کے بارے میں افراط کیا اور ان العالمين.کو خدا قرار دے دیا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۹۲، ۱۹۳ حاشیه ) ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ الله في هذه السُّورَةِ پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ اس مبارک سورۃ میں مومنوں الْمُبَارَكَةِ يُبَيِّنَ لِلْمُؤْمِنِينَ مَا كَانَ آخِرُ پر یہ واضح کرتا ہے کہ اہل کتاب کا کیا انجام ہوا اور فرماتا شَأْنٍ أَهْلِ الْكِتَابِ وَ يَقُولُ إِنَّ الْيَهُودَ ہے کہ یہودیوں نے اپنے اوپر (اللہ تعالیٰ کے ) انعامات عَصَوْا رَبَّهُمْ بَعْدَ مَا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ نازل ہونے اور (اس کے ) فضلوں کے پے در پئے الْإِنْعَامَاتُ وَتَوَاتَّرَتِ التَّفَضُّلاتُ اُترنے کے بعد اپنے پروردگار کی نافرمانی کی پس وہ فَصَارُوا قَوْمًا مَغْضُوبًا عَلَيْهِ وَالنَّصَاری ایک مغضوب علیہم قوم بن گئے.اور نصاری نے نَسُوا صِفَاتَ رَبَّهِمْ وَأَنْزَلُوهُ مَنْزِلَ الْعَبْدِ اپنے رب کی صفات کو بھلا دیا اور اُسے ایک کمزور اور الطَّعِيْفِ الْعَاجِزِ فَصَارُوا قَوْمًا ضَالِينَ عاجز بندہ قرار دے دیا پس وہ ایک گمراہ قوم بن گئے.وَفِي السُّورَةِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ أَمْرَ اور اس سورۃ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الْمُسْلِمِينَ سَيَؤُولُ إِلى أَمْرٍ أَهْلِ الْكِتَابِ مسلمانوں کا معاملہ بھی آخری زمانہ میں اہلِ کتاب کا سا ہو فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَيُشَاهُونَهُمْ فِي أَفَعَالِهِمْ جائے گا پس وہ اپنے افعال اور اعمال میں ان (اہلِ کتاب) وَأَعْمَالِهِمْ فَيُدْرِكَهُمُ اللهُ تَعَالَى بِفَضْلِ کے مشابہ ہو جائیں گے پھر (دوبارہ) اللہ تعالیٰ انہیں مِن لَّدُنْهُ وَإِنْعَامٍ مِنْ عِنْدِهِ وَ يَحْفَظُهُمْ اپنے خاص فضل اور اپنے انعام سے نوازے گا اور انہیں مِنَ الْإِنْحِرَافَاتِ السَّبُعِيَّةِ وَ الْبَهِيمِيَّةِ ہیمیت ، درندگی اور توہمات والی خرابیوں اور لغزشوں وَالْوَهْمِيَّةِ وَيُدْخِلُهُمْ فِي عِبَادِهِ الصَّالِحِينَ سے محفوظ رکھے گا اور انہیں اپنے صالح بندوں میں داخل کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۵) کرلے گا.(ترجمہ از مرتب)

Page 359

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ سورة الفاتحة جب انسان بدی سے پر ہیز کرتا ہے اور نیکیوں کے لئے اس کا دل تڑپتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دارالامان میں پہنچادیتا ہے اور فَادْخُلِي فِي عِبَادِی (الفجر :۳۰) کی آواز اسے آ جاتی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے ساتھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے.اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جو صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق ہیں اور روحانی وراثت سے جن کو حصہ ملتا ہے.میری بہشت میں داخل ہو جا.الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مؤرخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۲) اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی ذکر تھا کہ آخری زمانہ میں اکثر حصہ مسلمانوں کا یہودیوں سے مشابہت پیدا کر لے گا اور سورۃ فاتحہ میں بھی اسی کی طرف اشارہ تھا.کیونکہ اس میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے خدا ! ہمیں ایسے یہودی بننے سے محفوظ رکھ جو حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں تھے اور اُن کے مخالف تھے جن پر خدا تعالیٰ کا غضب اسی دنیا میں نازل ہوا تھا اور یہ عادت اللہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم کو کوئی حکم دیتا ہے یا ان کو کوئی دعا سکھلاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان میں سے اس گناہ کے مرتکب ہوں گے جس سے ان کو منع کیا گیا ہے.پس چونکہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے مراد وہ یہودی ہیں جو ملتِ موسوی کے آخری زمانہ میں یعنی حضرت مسیح کے وقت میں باعث نہ قبول کرنے حضرت مسیح کے مور د غضب الہی ہوئے تھے.اس لئے اس آیت میں سنت مذکورہ کے لحاظ سے یہ پیشگوئی ہے کہ اُمت محمدیہ کے آخری زمانہ میں بھی اسی اُمت میں سے مسیح موعود ظاہر ہوگا اور بعض مسلمان اس کی مخالفت کر کے ان یہودیوں سے مشابہت پیدا کرلیں گے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے.لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۵،۲۱۴) خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیدیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء اُن کے.اس اُمت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوں گے.اور اسی مفہوم کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں باتفاق کل مفترین مغضوب عليهم سے مراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا.اور احادیث صحیحہ میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِم سے مراد وہ یہود ہیں جو مور و تغضب الہی دنیا میں ہی ہوئے تھے.اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ ٹھہرانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی.پس یقینی اور قطعی طور پر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے

Page 360

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ سورة الفاتحة حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا.اب خدا تعالیٰ کا یہ دعا سکھلا نا کہ خدا یا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسی کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ایک عیسی پیدا ہونے والا ہے.ورنہ اس دُعا کی کیا ضرورت تھی.اور نیز جبکہ آیات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں بعض علماء مسلمان بالکل علماء یہود سے مشابہ ہو جائیں گے اور یہود بن جائیں گے.پھر یہ کہنا کہ ان یہودیوں کی اصلاح کے لئے اسرائیلی عیسی آسمان سے نازل ہوگا بالکل غیر معقول بات ہے کیونکہ اول تو باہر سے ایک نبی کے آنے سے مہر ختم نبوت ٹوٹتی ہے اور قرآن شریف صریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء پھہراتا ہے.ماسوا اس کے قرآن شریف کے رُو سے یہ امت خیر الام کہلاتی ہے.پس اس کی اس سے زیادہ بے عزباتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ امت ہو مگر عیسی باہر سے آوے.اگر یہ سچ ہے کہ کسی زمانہ میں اکثر علماء اس اُمت کے یہودی بن جائیں گے.یعنی یہود خصلت ہو جائیں گے.تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ان یہود کے درست کرنے کے لئے عیسی باہر سے نہیں آئے گا بلکہ جیسا کہ بعض افراد کا نام یہود رکھا گیا ہے.ایسا ہی اس کے مقابل پر ایک فرد کا نام عیسی بھی رکھا جائے گا.اس بات کا انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن اور حدیث دونوں نے بعض افراد اس اُمت کا نام یہود رکھا ہے.جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ علیم سے بھی ظاہر ہے.کیونکہ اگر بعض افراد اس اُمت کے یہودی بننے والے نہ ہوتے تو دُعا مذکورہ بالا ہرگز نہ سکھلائی جاتی.جب سے دنیا میں خدا کی کتابیں آتی ہیں.خدا تعالی کا ان میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی قوم کو ایک بات سے منع کرتا ہے کہ مثلاً تم زنانہ کرو، یا چوری نہ کرو، یا یہودی نہ بنو تو اس منع کے اندر یہ پیشگوئی مخفی ہوتی ہے کہ بعض ان میں سے ارتکاب ان جرائم کا کریں گے.دنیا میں کوئی شخص ایسی نظیر پیش نہیں کر سکتا کہ ایک جماعت یا ایک قوم کو خدا تعالیٰ نے کسی ناکردنی کام سے منع کیا ہو اور پھر وہ سب کے سب اس کام سے باز رہے ہوں بلکہ ضرور بعض اس کام کے مرتکب ہو جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں یہودیوں کو یہ حکم دیا کہ تم نے توریت کی تحریف نہ کرنا سو اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض یہود نے توریت کی تحریف کی.مگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ تم نے قرآن شریف کی تحریف نہ کرنا.بلکہ یہ فرمایا کہ انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر:۱۰) یعنی ہم نے ہی قرآن شریف کو اُتارا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.اسی وجہ سے قرآن شریف تحریف سے محفوظ رہا.غرض یہ قطعی اور یقینی اور مسلم سنت الہی ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کسی کتاب میں کسی قوم یا جماعت کو ایک برے کام سے

Page 361

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة الفاتحة منع کرتا ہے یا نیک کام کے لئے حکم فرماتا ہے تو اُس کے علم قدیم میں یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کے حکم کی مخالفت بھی کریں گے.پس خدا تعالیٰ کا سورہ فاتحہ میں یہ فرمانا کہ تم دُعا کیا کرو کہ تم وہ یہودی نہ بن جاؤ جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو شولی دینا چاہا تھا جس سے دنیا میں ہی اُن پر غضب الہی کی مار پڑی.اس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ مقدر تھا کہ بعض افراد اس اُمت کے جو علماء امت کہلائیں گے.اپنی شرارتوں اور تکذیب مسیح وقت کی وجہ سے یہودیوں کا جامہ پہن لیں گے ورنہ ایک افودُعا کے سکھلانے کی کچھ ضرورت نہ تھی.یہ تو ظاہر ہے کہ علماء اس اُمت کے اس طرح کے یہودی نہیں بن سکتے کہ وہ اسرائیل کے خاندان میں سے بن جائیں اور پھر اس عیسی بن مریم کو جو مدت سے اس دنیا سے گزر چکا ہے ٹولی دینا چاہیں کیونکہ اب اس زمانہ میں نہ وہ یہودی اس زمین پر موجود ہیں نہ وہ عیسی موجود ہے.پس ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایک آئندہ واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور یہ بتلانا منظور ہے کہ اس اُمت میں عیسی مسیح کے رنگ میں آخری زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہوگا اور اس کے وقت کے بعض علماء اسلام ان یہودی علماء کی طرح اس کو دُکھ دیں گے جو عیسی علیہ السلام کو دُکھ دیتے تھے اور ان کی شان میں بدگوئی کریں گے بلکہ احادیث صحیحہ سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی بننے کے یہ معنی ہیں کہ یہودیوں کے بداخلاق اور بد عادات علماء اسلام میں پیدا ہو جائیں گی اور گو بظاہر مسلمان کہلائیں گے مگر اُن کے دل مسخ ہو کر ان یہودیوں کے رنگ سے رنگین ہو جائیں گے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دکھ دے کر مورد غضب الہی ہوئے تھے پس جبکہ یہودی یہی لوگ بنیں گے جو مسلمان کہلاتے ہیں تو کیا یہ اس اُمتِ مرحومہ کی بے عزبتی نہیں کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ مقرر کئے جائیں مگر مسیح جو ان یہودیوں کو درست کرے گا وہ باہر سے آوے یہ تو قرآن شریف کے منشاء کے سراسر برخلاف ہے.قرآن شریف نے سلسلہ محمدیہ کو ہر ایک نیکی اور بدی میں سلسلہ موسویہ کے مقابل رکھا ہے نہ صرف بدی میں.ماسوا اس کے آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا صریح یہ منشاء ہے کہ وہ لوگ یہودی اس لئے کہلائیں گے کہ خدا کے مامور کو جو ان کی اصلاح کے لئے آئے گا بنظر تحقیر وانکار دیکھیں گے اور اس کی تکذیب کریں گے اور اس کوقتل کرنا چاہیں گے اور اپنے قومی تعصبیہ کو اس کی مخالفت میں بھڑ کا ئیں گے.اس لئے وہ آسمان پر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کہلائیں گے اُن یہودیوں کی مانند جو حضرت عیسی علیہ السلام کے مکذب تھے جس تکذیب کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا تھا کہ سخت طاعون یہود میں پڑی تھی اور بعد اس کے طیطوس رومی کے ہاتھ سے وہ نیست و نابود کئے گئے تھے.پس آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے ظاہر ہے کہ دنیا

Page 362

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة الفاتحة میں ہی کوئی غضب اُن پر نازل ہوگا کیونکہ آخرت کے غضب میں تو ہر ایک کا فرشریک ہے اور آخرت کے لحاظ سے تمام کا فر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہیں پھر کیا وجہ کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں خاص کر کے اُن یہودیوں کا نام مَغْضُوبِ عَلَیم رکھا جنہوں نے حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا تھا بلکہ اپنی دانست میں مولی دے چکے تھے.پس یادر ہے کہ ان یہودیوں کو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی خصوصیت اس لئے دی گئی کہ دنیا میں ہی اُن پر غضب الہی نازل ہوا تھا اور اسی بنا پر سورہ فاتحہ میں اس اُمت کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ خدایا ایسا کر کہ وہی یہودی ہم نہ بن جائیں.یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ جب اس اُمت کا مسیح مبعوث ہوگا تو اس کے مقابل پر وہ یہود بھی پیدا ہو جائیں گے جن پر اسی دنیا میں خدا کا غضب نازل ہوگا.پس اس دُعا کا یہ مطلب تھا کہ یہ مقدر ہے کہ تم میں سے بھی ایک مسیح پیدا ہو گا اور اس کے مقابل پر یہود پیدا ہوں گے جن پر دنیا میں ہی غضب نازل ہوگا.سو تم دُعا کرتے رہو کہ تم ایسے یہود نہ بن جاؤ.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یوں تو ہر ایک کا فرقیامت میں مور دغضب الہی ہے لیکن اس جگہ غضب سے مراد دنیا کا غضب ہے جو مجرموں کے سزا دینے کے لئے دنیا میں ہی نازل ہوتا ہے اور وہ یہودی....جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو دُکھ دیا تھا اور بموجب نص قرآن کریم ان کی زبان پر لعنتی کہلائے تھے.وہ وہی لوگ تھے جن پر دنیا میں ہی عذاب کی مار پڑی تھی یعنی اول سخت طاعون سے وہ ہلاک کئے گئے تھے اور پھر جو باقی رہ گئے تھے وہ طیطوس رومی کے ہاتھ سے سخت عذاب کے ساتھ ملک سے منتشر کئے گئے تھے.پس غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں یہی عظیم الشان پیشگوئی مخفی ہے کہ وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے یہودی کہلائیں گے وہ بھی ایک مسیح کی تکذیب کریں گے جو اُس پہلے مسیح کے رنگ پر آئے گا یعنی نہ وہ جہاد کرے گا اور نہ تلوار اُٹھائے گا بلکہ پاک تعلیم اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دین کو پھیلائے گا اور اس آخری مسیح کی تکذیب کے بعد بھی دنیا میں طاعون پھیلے گی اور وہ سب باتیں پوری ہوں گی جو ابتدا سے سب نبی کہتے چلے آئے ہیں.اور یہ وسوسہ کہ آخری زمانہ میں وہی مسیح ابن مریم دوبارہ دنیا میں آجائے گا.یہ تو قرآن شریف کے منشاء کے سراسر بر خلاف ہے جو شخص قرآن شریف کو ایک تقوی اور ایمان اور انصاف اور تدبر کی نظر سے دیکھے گا اُس پر روزِ روشن کی طرح کھل جائے گا کہ خدا وند قادر کریم نے اس امت محمدیہ کو موسوی اُمت کے بالکل بالمقابل پیدا کیا ہے.ان کی اچھی باتوں کے بالمقابل اچھی باتیں دی ہیں اور اُن کی بُری باتوں کے مقابل پر بری باتیں.اس اُمت میں بعض ایسے ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض

Page 363

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ سورة الفاتحة ایسے ہیں جو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ یہود سے مشابہت رکھتے ہیں.اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گھر ہے جس میں عمدہ عمدہ آراستہ کمرے موجود ہیں جو عالیشان اور مہذب لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہیں اور جس کے بعض حصے میں پاکخانے بھی ہیں اور بدر رو بھی اور گھر کے مالک نے چاہا کہ اس محل کے مقابل پر ایک اور محل بناوے کہ تا جو جو سامان اس پہلے محل میں تھا اس میں بھی موجود ہو.سو یہ دوسرا محل اسلام کا محل ہے اور پہلا حمل موسوی سلسلہ کا محل تھا.یہ دوسرا محل پہلے محل کا کسی بات میں محتاج نہیں.قرآن شریف توریت کا محتاج نہیں اور یہ اُمت کسی اسرائیلی نبی کی محتاج نہیں.ہر ایک کامل جو اس اُمت کے لئے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پرورش یافتہ ہے اور اس کی وحی محمدی وحی کی ظل ہے.یہی ایک نکتہ ہے جو سمجھنے کے لائق ہے.افسوس ! ہمارے مخالف حضرت عیسی کو دوبارہ لاتے ہیں.نہیں سمجھتے کہ مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کو خر مشابہت حاصل ہو نہ یہ ذلت کہ کوئی اسرائیلی نبی آوے تا امت اصلاح پاوے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳ تا ۱۷) با وجود ان تمام شہادتوں اور معجزات اور زبر دست نشانوں کے مولوی لوگ میری تکذیب کرتے ہیں اور ضرور تھا کہ ایسا ہی کرتے تا پیشگوئی آیت غیر الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی پوری ہو جاتی.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷) میں ایک فضل کی طرح اہل حق کے لئے آیا پر مجھ سے ٹھٹھا کیا گیا.اور مجھے کا فر اور دقبال ٹھہرایا گیا اور بے ایمانوں میں سے مجھے سمجھا گیا.اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے اندر مخفی ہے.کیونکہ خدا نے مُنْعَم عَلَیہم کا وعدہ کر کے اس آیت میں بتادیا ہے کہ اس اُمت میں وہ یہودی بھی ہوں گے جو یہود کے علماء سے مشابہ ہوں گے جنہوں نے حضرت عیسی کو سولی دینا چاہا اور جنہوں نے عیسی کو کافر اور دقبال اور ملحد قرار دیا تھا.اب سوچو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ تھا.اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود اس اُمت میں سے آنے والا ہے اس لئے اس کے زمانہ میں یہود کے رنگ کے لوگ بھی پیدا کئے جائیں گے جو اپنے زعم میں علماء کہلائیں گے.سو آج تمہارے ملک میں وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۵ ،۶۶) تقدیر الہی میں قرار پاچکا تھا کہ ایسے یہودی اس اُمت میں بھی پیدا ہوں گے.پس اس لئے میرا نام عیسی رکھا گیا جیسا کہ حضرت سیمی کا نام الیاس رکھا گیا تھا.چنانچہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں اس کی طرف

Page 364

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۱ سورة الفاتحة اشارہ ہے پس عیسی کی آمد کی پیشگوئی اس اُمت کے لئے ایسی ہی تھی جیسا کہ یہودیوں کے لئے حضرت یحیی کی آمد کی پیشگوئی.غرض یہ نمونہ قائم کرنے کے لئے میرا نام عیسی رکھا گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس عیسی کے مکذب جو اس اُمت میں ہونے والے تھے ان کا نام یہو درکھا گیا چنانچہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں انہیں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے.یعنی وہ یہودی جو اس اُمت کے عیسی سے منکر ہیں جو ان یہودیوں کے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کو قبول نہیں کیا تھا.پس اس طور سے کامل درجہ پر مشابہت ثابت ہوگئی کہ جس طرح وہ یہودی جو الیاس نبی کی دوبارہ آمد کے منتظر تھے حضرت عیسی پر محض اس عذر سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا ایمان نہ لائے.اسی طرح یہ لوگ اس اُمت کے عیسی پر محض اس عذر سے ایمان نہ لائے کہ وہ اسرائیلی ٹیسٹی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.پس ان یہودیوں میں جو حضرت عیسی پر ایمان نہیں لائے تھے اس وجہ سے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہیں آیا اور ان یہودیوں میں جو حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے منتظر ہیں مشابہت ثابت ہوگئی اور یہی خدا تعالیٰ کا مقصد تھا.اور جیسا کہ اسرائیلی یہودیوں اور ان یہودیوں میں مشابہت ثابت ہو گئی اسی طرح اسرائیلی عیسی اور اس عیسی میں جو میں ہوں مشابہت بدرجہ و کمال پہنچ گئی کیونکہ وہ عیسی اسی وجہ سے یہودیوں کی نظر سے رڈ کیا گیا کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا اسی طرح یہ عیسی جو میں ہوں ان یہودیوں کی نگاہ میں رڈ کیا گیا ہے کہ ایک نبی دوبارہ دنیا میں نہیں آیا.اور صاف ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو احادیث نبویہ اس اُمت کے یہودی ٹھہراتی ہیں جن کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ بھی اشارہ کرتی ہے وہ اصل یہودی نہیں ہیں بلکہ اس اُمت کے لوگ ہیں جن کا نام یہودی رکھا گیا ہے.اسی طرح وہ عیسیٰ بھی اصل میسی نہیں ہے جو بنی اسرائیل میں سے ایک نبی تھا بلکہ وہ بھی اسی اُمت میں سے ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور فضل سے بعید ہے جو اس امت کے شامل حال رکھتا ہے کہ وہ اس اُمت کو یہودی کا خطاب تو دے بلکہ ان یہودیوں کا خطاب دے جنہوں نے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی حجت پیش کر کے حضرت عیسی کو کافر اور کذاب ٹھہرایا تھا لیکن اس اُمت کے کسی فرد کو ٹھیسٹی کا خطاب نہ دے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ یہ اُمت خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ ایسی بدبخت اور بد قسمت ہے کہ اس کی نظر میں شریر اور نافرمان یہودیوں کا خطاب تو پا سکتی ہے مگر اس امت میں ایک فرد بھی ایسا نہیں کہ میسی کا خطاب پاوے پس یہی حکمت تھی کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے اس اُمت کے بعض افراد کا نام یہودی رکھ دیا اور دوسری طرف ایک فرد کا نام عیسی بھی رکھ دیا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۷ تا ۴۰۹)

Page 365

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة الفاتحة یہ نکتہ یادر رکھنے کے لائق ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جو آیا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ وہ اسی معرکہ کی طرف اشارہ ہے یعنی یہود نے خدا کے پاک اور مقدس نبی کو عمد امحض شرارت سے لعنتی ظہر ا کر خدا تعالیٰ کا غضب اپنے پر نازل کیا اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ٹھہرے حالانکہ اُن کو پتہ بھی لگ گیا تھا کہ حضرت مسیح قبر میں نہیں رہے اور وہ پیشگوئی اُن کی پوری ہوئی کہ یونس کی طرح میرا حال ہوگا یعنی زندہ ہی قبر میں جاؤں گا اور زندہ ہی نکلوں گا.اور نصاری کو حضرت مسیح سے محبت کرتے تھے مگر محض اپنی جہالت سے انہوں نے بھی لعنت کا داغ حضرت مسیح کے دل کی نسبت قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھا کہ لعنت کا مفہوم دل کی ناپاکی سے تعلق رکھتا ہے اور نبی کا دل کسی حالت میں ناپاک اور خدا کا دشمن اور اس سے بیزار نہیں ہوسکتا.پس اس سورۃ میں بطور اشارت مسلمانوں کو یہ سکھلایا گیا ہے کہ یہود کی طرح آنے والے مسیح موعود کی تکذیب میں جلدی نہ کریں اور حیلہ بازی کے فتوے طیار نہ کریں اور اس کا نام لعنتی نہ رکھیں.ورنہ وہی لعنت الٹ کر اُن پر پڑے گی.ایسا ہی عیسائیوں کی طرح نادان دوست نہ بنیں اور نا جائز صفات اپنے پیشوا کی طرف منسوب نہ کریں پس بلا شبہ اس سورۃ میں مخفی طور پر میرا ذکر ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں میری نسبت یہ ایک پیشگوئی ہے اور دُعا کے رنگ میں مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ایسا زمانہ تم پر بھی آئے گا اور تم بھی حیلہ جوئی سے مسیح موعود کو لعنتی ٹھہراؤ گے کیونکہ یہ بھی حدیث ہے کہ اگر یہودی سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان بھی داخل ہوں گے.یہ عجیب خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ قرآن شریف کی پہلی سورۃ میں ہی جس کو پنج وقت مسلمان پڑھتے ہیں میرے آنے کی نسبت پیشگوئی کر دی.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذَالِك (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۰ ۱۱۱۷ حاشیہ) چونکہ یہ امت مرحومہ ہے اور خدا نہیں چاہتا کہ ہلاک ہوں.اس لئے اُس نے یہ دُعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی سکھلا دی اور اس کو قرآن میں نازل کیا اور قرآن اسی سے شروع ہوا اور یہ دُعا مسلمانوں کی نمازوں میں داخل کر دی تا وہ کسی وقت سوچیں اور سمجھیں کہ کیوں ان کو یہود کی اس سیرت سے ڈرایا گیا جس سیرت کو یہود نے نہایت بُرے طور سے حضرت عیسی علیہ السلام پر ظاہر کیا تھا.یہ بات صاف طور پر سمجھ آتی ہے کہ اس دُعا میں جو سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے فرقہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مسلمانوں کا بظاہر کچھ بھی تعلق نہ تھا کیونکہ جبکہ قرآن شریف اور احادیث اور اتفاق علماء اسلام سے ثابت ہو گیا کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے یہود مراد ہیں اور یہود بھی وہ جنہوں نے حضرت مسیح کو بہت ستایا اور دُکھ دیا تھا اور ان کا نام کا فر اور لعنتی رکھا تھا

Page 366

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة الفاتحة اور اُن کے قتل کرنے میں کچھ فرق نہیں کیا تھا اور توہین کو اُن کی مستورات تک پہنچادیا تھا تو پھر مسلمانوں کو اس دُعا سے کیا تعلق تھا اور کیوں یہ دُعا ان کو سکھلائی گئی.اب معلوم ہوا کہ یہ تعلق تھا کہ اس جگہ بھی پہلے مسیح کی مانند ایک مسیح آنے والا تھا اور مقدر تھا کہ اُس کی بھی ویسی ہی تو ہین اور تکفیر ہو لہذا یہ دعا سکھلائی گئی جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اس گناہ سے محفوظ رکھ کہ ہم تیرے مسیح موعود کو دکھ دیں اور اُس پر کفر کا فتویٰ لکھیں اور اس کو سزا دلانے کے لئے عدالتوں کی طرف کھینچیں اور اس کی پاکدامن اہل بیت کی تو ہین کریں اور اُس پر طرح طرح کے بہتان لگا ئیں اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیں.غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ دعا اسی لئے سکھلائی گئی کہ تا قوم کو اس یادداشت کے پرچہ کی طرح جس کو ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں یا اپنی نشست گاہ کی دیوار پر لگاتے ہیں اس طرف توجہ دی جائے کہ تم میں بھی ایک مسیح موعود آنے والا ہے اور تم میں بھی وہ مادہ موجود ہے جو یہودیوں میں تھا.غرض اس آیت پر ایک محققانہ نظر کے ساتھ غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کے رنگ میں فرمائی گئی چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حسب وعدہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمُ ( النور : ۵۶) آخری خلیفہ اس اُمت کا حضرت عیسی علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا.اور ضرور ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح قوم کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے اور اس پر کفر کا فتویٰ لکھا جاوے اور اس کے قتل کے ارادے کئے جائیں اس لئے ترقم کے طور پر تمام مسلمانوں کو یہ دُعا سکھلائی کہ تم خدا سے پناہ چاہو کہ تم ان یہودیوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسوی سلسلہ کے مسیح موعود کو کا فرٹھہرایا تھا اور اس کی توہین کرتے تھے اور اُن کو گالیاں دیتے تھے اور اس دُعا میں صاف اشارہ ہے کہ تم پر بھی یہ وقت آنے والا ہے اور تم میں سے بھی بہتوں میں یہ مادہ موجود ہے.پس خبر دار ہو اور دُعا میں مشغول رہوتا ٹھوکر نہ کھاؤ.اور اس آیت کا دوسرا فقرہ جو العالمین ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں اے ہمارے پروردگار اس بات سے بھی بچا کہ ہم عیسائی بن جائیں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُس زمانہ میں جب کہ مسیح موعود ظاہر ہوگا عیسائیوں کا بہت زور ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت ایک سیلاب کی طرح زمین پر پھیلے گی.اور اس قدر طوفان ضلالت جوش مارے گا کہ بجز دُعا کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا اور تثلیث کے واعظ اس قدر مکر کا جال پھیلائیں گے کہ قریب ہوگا کہ راستبازوں کو بھی گمراہ کریں لہذا اس دُعا کو بھی پہلی دُعا کے ساتھ شامل کر دیا گیا.اور اسی ضلالت کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ جب تم دقبال کو دیکھو تو سورہ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۰۱ تا ۲۱۱)

Page 367

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة الفاتحة یا درکھو اور خوب یا درکھو کہ سورہ فاتحہ میں صرف دوفتنوں سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی ہے.(۱) اول یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کا فرقراردینا.اُس کی توہین کرنا.اُس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا.اُس کے قتل کا فتویٰ دینا.جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے (۲) دوسرے نصاری کے فتنے سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنہ و نصاری ایک سیل عظیم کی طرح ہوگا اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں.غرض اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس عاجز کی نسبت قرآن شریف نے اپنی پہلی سورۃ میں ہی گواہی دے دی اور نہ ثابت کرنا چاہئے کہ کن مغضوب علیہم سے اس سورۃ میں ڈرایا گیا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ حدیث اور قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض علماء کو یہود سے نسبت دی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جو سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ اور مسیح موعود تھے کا فرٹھہرایا تھا اور اُن کی سخت تو ہین کی تھی اور اُن کے پرائیویٹ امور میں افترائی طور پر نقص ظاہر کئے تھے.پس جبکہ یہی لفظ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ كا ان یہودیوں کے مثیلوں پر بولا گیا جن کا نام بوجہ تکفیر و توہین حضرت مسیح مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ رکھا گیا تھا.پس اس جگہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے پورے مفہوم کو پیش نظر رکھ کر جب سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ آنے والے مسیح موعود کی نسبت صاف اور صریح پیشگوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے پہلے مسیح کی طرح ایذا اُٹھائے گا.اور یہ دُعا کہ یا الہی ہمیں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہونے سے بچا.اس سے قطعی یقینی یہی معنے ہیں کہ ہمیں اس سے بچا کہ ہم تیرے مسیح موعود کو جو پہلے مسیح کا مثیل ہے ایذا نہ دیں اُس کو کافر نہ ٹھہرائیں.ان معنوں کے لئے یہ قرینہ کافی ہے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ صرف اُن یہودیوں کا نام ہے جنہوں نے حضرت مسیح کو ایذا دی تھی اور حدیثوں میں آخری زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا ہے یعنی وہ جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تکفیر وتوہین کی تھی.اور اس دُعا میں ہے کہ یا الہی ! ہمیں وہ فرقہ مت بنا جن کا نام مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ ہے.پس دُعا کے رنگ میں یہ ایک پیشگوئی ہے جود و خبر پر مشتمل ہے.ایک یہ کہ اس اُمت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہوگا.اور دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ بعض لوگ اس اُمت میں سے اُس کی بھی تکفیر اور توہین کریں گے اور وہ لوگ مورد نغضب الہی ہوں گے اور اس وقت کا نشان یہ ہے کہ فتنہ نصاری بھی اُن دنوں میں حد سے بڑھا ہوا ہوگا.جن کا نام ضالین ہے اور ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگر چہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے مگر اس غضب کے آثار قیامت کو

Page 368

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة الفاتحة ظاہر ہوں گے.اور اس جگہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر بوجہ تکفیر و توہین و ایذ اوارادہ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الہی نازل ہوگا.یہ میرے جانی دشمنوں کے لئے قرآن کی پیشگوئی ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۲، ۲۱۳) الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے وہ علماء یہودی مراد ہیں جنہوں نے شدت عداوت کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ بھی روا نہ رکھا کہ ان کو مومن قرار دیا جائے بلکہ کافر کہا اور واجب القتل قرار دیا.اور مَغْضُوبِ عَلَيْه وه شديد الغضب انسان ہوتا ہے جس کے غضب کے غلو پر دوسرے کو غضب آوے.اور یہ دونوں لفظ با ہم مقابل واقع ہیں.یعنی ضالین وہ ہیں جنہوں نے افراط محبت سے حضرت عیسی کو خدا بنایا اور الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ وہ یہودی ہیں جنہوں نے خدا کے مسیح کو افراط عداوت سے کافر قرار دیا.اس لئے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں ڈرایا گیا اور اشارہ کیا گیا کہ تمہیں یہ دونوں امتحان پیش آئیں گے.مسیح موعود آئے گا اور پہلے مسیح کی طرح اُس کی بھی تکفیر کی جائے گی اور ضالین یعنی عیسائیوں کا غلبہ بھی کمال کو پہنچ جائے گا جو حضرت عیسی کو خدا کہتے ہیں تم ان دونوں فتنوں سے اپنے تئیں بچاؤ اور بچنے کے لئے نمازوں میں دعائیں کرتے رہو.تحفه گوار و سیه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۹ حاشیه در حاشیه ) ضالین سے مراد صرف گمراہ نہیں بلکہ وہ عیسائی مراد ہیں جو افراط محبت کی وجہ سے حضرت عیسی کی شان میں غلو کرتے ہیں.کیونکہ ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سکنے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ اِنَّكَ لَفِي ضَلِكَ الْقَدِيمِ (يوسف : ٩٢ ) - (تحفہ گولر و سیہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۹ حاشیه در حاشیه ) ضاتین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے.یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.یہ سورۃ در حقیقت بڑے دقائق اور حقائق کی جامع ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں.اور اس سورۃ کی یہ دعا کہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِینَ یہ صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اس امت کے لئے ایک آنے والے گروہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے ظہور سے اور دوسرے گروہ ضالین کے غلبہ کے زمانہ میں ایک سخت ابتلا در پیش ہے جس سے بچنے کے لئے پانچ وقت دعا کرنی چاہئے.اور یہ دعا سورۃ فاتحہ کی اس طور پر سکھائی گئی کہ پہلے الْحَمْدُ لِلهِ سے مُلِكِ يَوْمِ اللین تک خدا کے محامد اور صفات جمالیہ اور جلالیہ 99191

Page 369

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة الفاتحة ظاہر فرمائے گئے تا دل بول اٹھے کہ وہی معبود ہے چنانچہ انسانی فطرت نے ان پاک صفات کا دلدادہ ہو کر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا اقرار کیا اور پھر اپنی کمزوری کو دیکھا تو اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہنا پڑا.اور پھر خدا سے مدد پا کر یہ دعا کی جو جمیع اقسام شر سے بچنے کے لئے اور جمیع اقسام خیر کو جمع کرنے کے لئے کافی و وافی ہے.یعنی یہ دعا کہ اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.آمین.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۴، ۲۸۵ حاشیه ) قرآن شریف کے رُو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدر تھا.(۱) اوّل مثیل موسیٰ کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ آیت إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المزمل:۱۲) سے ثابت ہے (۲) دوم خلفاء موسیٰ کے مثیلوں کا جن میں مثیل مسیح بھی داخل ہے جیسا کہ آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ( النور : ٥٦) سے ثابت ہے (۳) عام صحابہ کے مثیلوں کا جیسا کہ آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة : ۴) سے ثابت ہے (۴) چہارم اُن یہودیوں کے مثیلوں کا جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا اور ان کو قتل کرنے کے لئے فتوے دیئے اور اُن کی ایذا اور قتل کے لئے سعی کی جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ میں جو دُعا سکھائی گئی ہے اس سے صاف مترشح ہو رہا ہے (۵) پنجم یہودیوں کے بادشاہوں کے اُن مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دو بالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ باہم ملتے ہیں سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں :- یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت اسلام کے بادشاہوں کی نسبت قَالَ عَسى رَبِّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدْوَكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (الاعراف: ۱۳۰ ) كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس: ۱۵) (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۶) اگر یہ لوگ بھی کفر اور قتل کا فتویٰ نہ دیتے تو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا جو سورہ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے جو پیشگوئی کے رنگ میں تھی کیونکر پوری ہوتی کیونکہ سورہ فاتحہ میں جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا فقرہ ہے اس سے مراد جیسا کہ فتح الباری اور در منثور وغیرہ میں لکھا ہے یہودی ہیں.اور یہودیوں کا بڑا واقعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قریب تر زمانہ میں وقوع میں آیا وہ یہی واقعہ تھا جو انہوں نے

Page 370

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة الفاتحة حضرت عیسی علیہ السلام کو کا فر ٹھہرایا اور اس کو ملعون اور واجب القتل قرار دیا اور اس کی نسبت سخت درجہ پر غضب اور غصہ میں بھر گئے اس لئے وہ اپنے ہی غضب کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی نظر میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ٹھہرائے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے چھ سو برس بعد میں پیدا ہوئے.اب ظاہر ہے کہ آپ کی اُمت کو جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دُعا سورہ فاتحہ میں سکھلائی گئی اور تاکید کی گئی کہ پانچ وقت کی نماز اور تہجد اور اشراق اور دونوں عیدوں میں یہی دُعا پڑھا کریں اس میں کیا بھید تھا ؟ جس حالت میں ان یہودیوں کا زمانہ اسلام کے زمانہ سے پہلے مدت سے منقطع ہو چکا تھا تو یہ دُعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی اور کیوں اس دُعا میں ی تعلیم دی گئی کہ مسلمان لوگ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے پنجوقت پناہ مانگتے رہیں جو یہودیوں کا وہ فرقہ نہ بن جائیں جو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہیں؟ پس اِس دُعا سے صاف طور پر سمجھ آتا ہے کہ اس امت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہونے والا ہے اور ایک فرقہ مسلمانوں کے علماء کا اس کی تکفیر کرے گا اور اُس کے قتل کی نسبت فتویٰ دے گا.لہذا سورہ فاتحہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا کو تعلیم کر کے سب مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں کہ ان یہودیوں کی مشکل نہ بن جائیں جنہوں نے حضرت عیسی بن مریم پر کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور اُن پر قتل کا فتویٰ دیا تھا اور نیز ان کے پرائیویٹ اُمور میں دخل دے کر اُن کی ماں پر افترا کیا تھا اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں یہ سخت اور عادت مستمرہ ہے کہ جب وہ ایک گروہ کو کسی کام سے منع کرتا ہے یا اس کام سے بچنے کے لئے دعا سکھلاتا ہے تو اس کا اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ بعض اُن میں سے ضرور اس جرم کا ارتکاب کریں گے.لہذا اس اصول کے رو سے جو خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے صاف سمجھ آتا ہے جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا سکھلانے سے یہ مطلب تھا کہ ایک فرقہ مسلمانوں میں سے پورے طور پر یہودیوں کی پیروی کرے گا اور خدا کے مسیح کی تکفیر کر کے اور اس کی نسبت قتل کا فتویٰ لکھ کر اللہ تعالیٰ کو غضب میں لائے گا اور یہودیوں کی طرح مغضُوبِ عَلَيْهِمْ کا خطاب پائے گا.یہ ایسی صاف پیشگوئی ہے کہ جب تک انسان عمدا بے ایمانی پر کمر بستہ نہ ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا اور صرف قرآن نے ہی ایسے لوگوں کو یہودی نہیں بنایا بلکہ حدیث بھی یہی خطاب اُن کو دے رہی ہے اور صاف بتلا رہی ہے کہ یہودیوں کی طرح اس اُمت کے علماء بھی مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا ئیں گے اور مسیح موعود کے سخت دشمن اس زمانہ کے مولوی ہوں گے کیونکہ اس سے ان کی عالمانہ عزب تہیں جاتی رہیں گی.اور لوگوں کے رجوع میں فرق آجائے گا اور یہ حدیثیں اسلام میں بہت مشہور ہیں یہاں تک کہ فتوحات مکی میں بھی اس کا ذکر ہے کہ

Page 371

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة الفاتحة مسیح موعود جب نازل ہوگا تو اس کی یہی عزت کی جائے گی کہ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے گا اور ایک مولوی صاحب اٹھیں گے اور کہیں گے ان هذا الرجل غیر دیننا.یعنی یہ شخص کیسا مسیح موعود ہے اس شخص نے تو ہمارے دین کو بگاڑ دیا.یعنی یہ ہماری حدیثوں کے اعتقاد کو نہیں مانتا اور ہمارے پرانے عقیدوں کی مخالفت کرتا ہے.اور بعض حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اس اُمت کے بعض علماء یہودیوں کی سخت پیروی کریں گے یہاں تک کہ اگر کسی یہودی مولوی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہے تو وہ بھی اپنی ماں سے زنا کریں گے اور اگر کوئی یہودی فقیہ سوسمار کے سوراخ کے اندر گھسا ہے تو وہ بھی گھسیں گے.یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ انجیل اور قرآن شریف میں جہاں یہودیوں کا کچھ خراب حال بیان کیا ہے وہاں دنیا داروں اور عوام کا تذکرہ نہیں بلکہ ان کے مولوی اور فقیہ اور سردار کا ہن مراد ہیں جن کے ہاتھ میں کفر کے فتوے ہوتے ہیں اور جن کے وعظوں پر عوام افروختہ ہو جاتے ہیں.اسی واسطے قرآن شریف میں ایسے یہودیوں کی اس گدھے سے مثال دی ہے جو کتابوں سے لدا ہوا ہو.ظاہر ہے کہ عوام کو کتابوں سے کچھ سروکار نہیں.کتا ہیں تو مولوی لوگ رکھا کرتے ہیں.لہذا یہ بات یادر رکھنے کے لائق ہے کہ جہاں انجیل اور قرآن اور حدیث میں یہودیوں کا ذکر ہے وہاں ان کے مولوی اور علماء مراد ہیں.اور اسی طرح غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے لفظ سے عام مسلمان مراد نہیں ہیں.بلکہ اُن کے مولوی مراد ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۸ تا ۳۳۰) قرآن شریف کی پہلی ہی سورت میں جو اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضَالِينَ لوگوں میں سے نہ بننا.یعنی اے مسلمانوں تم یہود اور نصاری کے خصائل کو اختیار نہ کرنا.اس میں سے بھی ایک پیشگوئی نکلتی ہے کہ بعض مسلمان ایسا کریں گے.یعنی ایک زمانہ آوے گا کہ اُن میں سے بعض یہود اور نصاری کے خصائل اختیار کریں گے.کیونکہ حکم ہمیشہ ایسے امر کے متعلق دیا جاتا ہے جس کی خلاف ورزی کرنے والے بعض لوگ ہوتے ہیں.الحام جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۰) قرآن شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّانِيْنَ پر ختم کیا ہے.لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں تو دجال کا فتنہ ان کے ہاں عظیم الشان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ دنبال کا ذکر ہی بھول گیا ہو.نہیں بات اصل یہ ہے کہ دجال کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے.سورۃ فاتحہ میں جود وفتوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے.اوّل

Page 372

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة الفاتحة غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ - غَيْرِ الْمَغْضُوبِ سے مراد با تفاق جميع اہل اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت اُمت پر آنے والا ہے جب کہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے جب کہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے.جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا.غرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی تو ہین اور تکفیر سے ہم کو بیچا اور دوسرا عظیم الشان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے.جو وَلَا الضَّالِّينَ میں بیان فرمایا ہے.اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کے مقابل میں سورت تبت يدا ہے مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا.وَ إِذْ يَمُكْرُ بِكَ الَّذِى كَفَرَ - أَوْ قِدُ لِي يُهَا مَنْ لَعَلَّى أَطَلِعْ عَلَى إِلَهِ مُوسَى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ - تَبَّتْ يدا أبي لَهَبٍ وَ تَبَ - مَا كَانَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ فِيهَا إِلَّا خَائِفًا وَمَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللہ یعنی وہ زمانہ یاد کر جب کہ مظفر تجھے پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا.اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو کہے گا کہ میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اللہ ہونے کا مدعی ہے خدا اس کا معاون ہے یا نہیں اور میں تو اُسے جھوٹا خیال کرتا ہوں.ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس میں دخل دیتا مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا.وہ خدا کی طرف سے ہے.غرض سورت مثبت میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَلَا الضَّالین کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونوں کی تفسیر ہیں ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جب کہ مسیح موعود پر کفر کا فتوی لگا کر مَغْضُوبِ عَلیم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی.پس جیسے سورہ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے ان دونوں بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی تاکہ یہ بات ثابت ہو جاوے که اول بآخر نسبتی دارد......الضّالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قُلْ هُوَ اللہ ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی

Page 373

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرح ہیں......۳۵۰ سورة الفاتحة آخر سورۃ میں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورۃ فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا تھا ویسے ہی آخری سورۃ میں خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تا کہ خناس اور الضالین کا تعلق معلوم ہو......کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے ولا الضالین پر سورۃ فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورۃ فاتحہ کے انجام سے ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مؤرخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۵،۴) اگر کوئی ہم سے سیکھے تو سارا قرآن ہمارے ذکر سے بھرا ہوا ہے ابتدا ہی میں ہے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ اب ان سے کوئی پوچھے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ کونسا فرقہ تھا تمام فرقے اسلام کے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ یہودی تھے اور ادھر حدیث شریف میں ہے کہ میری اُمت یہودی ہو جاوے گی تو پھر بتلاؤ کہ اگر مسیح نہ ہوگا تو وہ یہودی کیسے بنیں گے.(البدرجلد نمبر ۹ مورخه ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶۸) سورہ فاتحہ میں صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ کر مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی.اور پھر اس سورہ میں مغضوب اور ضالین دو گروہوں کا ذکر کر کے یہ بھی بتا دیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس وقت ایک قوم مخالفت کرنے والی ہوگی جو مغضوب قوم یہودیوں کے نقش قدم پر چلے گی اور ضالین میں یہ اشارہ کیا کہ قتل دجال اور کسر صلیب کے لئے آئے گا.کیونکہ مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصاری بالاتفاق مراد ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مؤرخہ ۳۰/اپریل ۱۹۰۳ء صفحه ۲) مجھے مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ ان کے سامنے یہودیوں کی ایک نظیر پہلے سے موجود ہے اور پانچ وقت یہ اپنی نمازوں میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی بالاتفاق مانتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں.پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس راہ کو یہ کیوں اختیار کرتے ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مؤرخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۸) جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہود کی حالت تھی وہی حالت مسلمانوں کی موعود مسیح محمدی کے زمانہ ہو جائے گی.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین میں اسی کی طرف تو اشارہ ہے.خود مسلمانوں سے پوچھ لو کہ آخری زمانہ کے مسلمانوں اور علماء کا کیا حال لکھا ہے.یہی لکھا ہے کہ ایسے ہو الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مؤرخہ ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۲) جاویں گے.

Page 374

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۱ سورة الفاتحة سورۃ فاتحہ کا ذکر تھا آپ نے فرمایا کہ اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے اول منعم علیہم.دوم مغضوب.سوم ضالین.مغضوب سے مراد بالا تفاق یہود ہیں اور ضالین سے نصاری.اب تو سیدھی بات ہے کہ کوئی دانشمند باپ بھی اپنی اولاد کو وہ تعلیم نہیں دیتا جو اس کے لئے کام آنے والی نہ ہو پھر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کیونکر روا رکھ سکتے ہیں کہ اس نے ایسی دعا تعلیم کی جو پیش آنے والے امور نہ تھے ؟ نہیں بلکہ یہ امور سب واقعہ ہونے والے تھے مغضوب سے مراد یہود ہیں اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُمت کے بعض لوگ یہودی صفت ہو جائیں گے یہاں تک کہ ان سے تشبہ اختیار کریں گے کہ اگر یہودی نے ماں سے زنا کیا ہو تو وہ بھی کریں گے.اب وہ یہودی جو خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے اُن پر لعنت پڑی تھی.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں یہ سب واقعات پیش آئیں گے.وہ وقت اب آ گیا ہے.میری مخالفت میں یہ لوگ ان سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں رہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مؤرخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۸) وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے.خدا نے دُعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سکھلا کر اشارہ فرما دیا کہ وہ بروزی طور پر اس اُمت میں بھی آنے والے ہیں تا بروزی طور پر وہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اس اُمت میں بروزی طور پر آنے والا ہے بلکہ یہ فرما یا کہ تم نمازوں میں سورۃ فاتحہ کو ضروری طور پر پڑھو.یہ سکھلاتا ہے کہ مسیح موعود کا ضروری طور پر آنا مقدر ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں اس اُمت کے اشرار کو یہود سے نسبت دی گئی اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایسے شخص کو جو مریمی صفت سے محض خدا کے نفخ سے عیسوی صفت حاصل کرنے والا تھا اُس کا نام سورۃ تحریم میں ابن مریم رکھ دیا ہے کیونکہ فرمایا ہے کہ جبکہ مثالی مریم نے بھی تقویٰ اختیار کیا تو ہم نے اپنی طرف سے رُوح پھونک دی اس میں اشارہ تھا کہ مسیح ابن مریم میں کلمتہ اللہ ہونے کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ آخری مسیح بھی کلمتہ اللہ ہے اور روح اللہ بھی بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے جیسا کہ سورۃ تحریم اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ النور اور آیت كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (آل عمران:۱۱) سے سمجھا جاتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۸۴) غرض یہ سلسلہ موسوی سلسلہ سے کسی صورت میں کم نہ رہا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تو مماثلت اور مطابقت میں فرمایا کہ بدی کا حصہ بھی تم کو ویسے ہی ملے گا جیسے یہود کو ملا.اور اس سلسلہ کی

Page 375

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة الفاتحة نسبت بار بار ذکر ہوا کہ اخیر تک اس کی عظمت قائم رکھے گا سورۃ فاتحہ میں بھی اس کا ذکر ہے جب کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فرمایا.مغضوب سے مراد یہودی ہیں.اب قابل غور یہ امر ہے کہ یہودی کیسے مغضوب ہوئے.انہوں نے پیغمبروں کو نہ مانا اور حضرت عیسی کا انکار کیا تو ضرور تھا کہ اس اُمت میں بھی کوئی زمانہ ایسا ہوتا اور ایک مسیح آتا جس سے یہ لوگ انکار کرتے اور وہ مماثلت پوری ہوتی.ورنہ کوئی ہم کو بتائے کہ اگر اسلام پر ایسا زمانہ کوئی آنے والا ہی نہ تھا اور نہ کوئی مسیح آنا تھا پھر اس دُعائے فاتحہ کی تعلیم کا کیا فائدہ تھا.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹) کتاب اللہ کو کھول کر دیکھ لو وہ فیصلہ کرتی ہے پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورہ فاتحہ ہے جس کے بغیر نماز بھی نہیں ہو سکتی دیکھو اس میں کیا تعلیم دی ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے.مغضوب سے بالاتفاق یہودی مراد ہیں اور ضالین سے عیسائی.اگر اس اُمت میں یہ فتنہ اور فساد پیدا نہ ہونے والا تھا تو پھر اس دُعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو الدنجال کا تھا مگر یہ نہیں کہا وَلَا الدنجال کیا خدا تعالیٰ کو اس فتنہ کی خبر نہ تھی ؟ اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے ایک وقت اُمت پر ایسا آنے والا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس میں آجاوے گا اور یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیح کا انکار کیا تھا.پس یہاں جو فرمایا کہ یہودیوں سے بچنے کی دعا کرو.اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کر بیٹھنا اور ضالین یعنی نصاری کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ اُس وقت صلیبی فتنہ خطر ناک ہوگا.اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہو گا دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا.ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ اُس کا بھی نام لیا جاتا.الحاکم جلدے نمبر۷ مؤرخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۲) صرف قرآن کا ترجمہ اصل میں مفید نہیں جب تک اس کے ساتھ تفسیر نہ ہو مثلاً غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ کی نسبت کسی کو کیا سمجھ آ سکتا ہے کہ اس سے مراد یہود نصاری ہیں جب تک کہ کھول کر نہ جتلایا جاوے اور پھر یہ دعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی؟ اس کا یہی منشا تھا کہ جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح کا انکار کر کے خدا کا غضب کمایا.ایسے ہی آخری زمانہ میں اس اُمت نے بھی مسیح موعود کا انکار کر کے خدا کا

Page 376

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۳ سورة الفاتحة غضب کمانا تھا اسی لئے اوّل ہی ان کو بطور پیشگوئی کے اطلاع دی گئی کہ سعید روحیں اس وقت غضب سے بچ ہمیں البدر جلد ۲ نمبر ۴۲،۴۱ مورخه ۲۹/اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۲) اللہ تعالی نے ہم کو سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا نہ تو ہمیں مغضوب علیہم میں سے بنا ئیو اور نہ ضائعین میں سے.اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان ہر دو کا مرجع حضرت عیسی ہی ہیں.مغضوب علیہ وہ قوم ہے جس نے حضرت (عیسی) کے ساتھ عداوت کرنے اور اُن کو ہر طرح سے دکھ دینے میں غلو کیا اور ضالین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُن کے ساتھ محبت کرنے میں غلو کیا اور خدائی صفات اُن کو دے دیئے.صرف ان دونوں کی حالت سے بچنے کے واسطے ہم کو دعا سکھائی گئی ہے اگر د قال ان کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو یہ دعا اس طرح سے ہوتی کہ غیر المغضوب علیہم ولا الدجال.یہ ایک پیشگوئی ہے جو کہ اس زمانہ کے ہر دو قسم کے شر سے آگاہ کرنے کے واسطے مسلمانوں کو پہلے سے خبر دار کرتی ہے.یہ عیسائیوں کے مشن ہی ہیں جو کہ اس زمانہ میں ناخنوں تک زور لگا رہے ہیں کہ اسلام کو سطح دنیا سے نابود کر دیں اسلام کے واسطے یہ سخت مضر ہور ہے ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۲ مؤرخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۴) لَا شَكَ أَنَّ سَيْدَنَا سَيْدَ الْأَنَامِ وَا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آقا سرور صَدرَ الْإِسْلَامِ، كَانَ مَثِيْلَ مُوسٰی کائنات اور بانی اسلام حضرت موسی کے مثیل تھے.فَاقْتَضَتْ رِعَايَةُ الْمُقَابَلَةِ أَنْ يُبْعَتَ في اس تقابل کی مناسبت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ اس آخِرِ زَمَنِ الْأُمَّةِ مَثِيْلُ عِيسَى وَإِلَيْهِ امّت کے آخری زمانہ میں حضرت عیسی کا ایک مثیل أَشَارَ رَبُّنَا في الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ فَإن مبعوث ہو.اس کی طرف خدا تعالیٰ نے پاک صحیفوں شِئْتُمْ فَفَكِّرُوا فِي سُورَةِ النُّورِ وَ میں اشارہ فرمایا ہے.اگر تم چاہو تو سورہ نورسورہ تحریم اور سورہ فاتحہ میں غور کرو.التَّحْرِيمِ وَالْفَاتِحَة.هذَا مَا كَتَبَ رَبُّنَا الَّذِي لَا يَبْلُغُ یہ ہمارے رب کا نوشتہ ہے جس کو عالم لوگ از خود عِلْمَهُ الْعَالِمُونَ، فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَةُ نہیں جان سکتے.پھر تم اس کے بعد کس بات پر ایمان لاؤ گے.(ترجمہ از مرتب) تُؤْمِنُونَ ؟ (مواہب الرحمن، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) اس اُمت کے لئے سلسلہ موسوی کی مماثلت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ ایک مسیح آئے اور علاوہ بریں

Page 377

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۴ سورة الفاتحة چونکہ اس اُمت کے لئے یہ کہا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں وہ یہود کے ہمرنگ ہو جائے گی.چنانچہ بالا تفاق غَيْرِ الْمَغْضُوبِ میں مغضوب سے مراد یہود لی گئی ہے.پھر یہ یہودی تو اسی وقت ہوتے جب اُن کے سامنے بھی ایک عیسی پیش ہوتا اور اسی طرح پر یہ بھی انکار کر دیتے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنے والا عیسی آ گیا اور انہوں نے انکار کر دیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخ ۱۰/ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۴) یہ جو اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں فرمایا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اس میں ہم نے غور کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے شخص میں دو قسم کی صفات کی ضرورت ہے.اول تو عیسوی صفات اور دوسرے محمدی صفات کی کیونکہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد یہود اور الضالین سے مراد نصاری ہیں.جب یہود نے شرارت کی تھی تو حضرت عیسی ان کے واسطے آئے تھے جب نصاری کی شرارت زیادہ بڑھ گئی تو آنحضرت تشریف آور ہوئے تھے اور یہاں خدا تعالیٰ نے دونوں کا فتنہ جمع کیا اندرونی یہود اور بیرونی نصاری جن کے لئے آنے والا بھی آنحضرت کا کامل بروز اور حضرت عیسی کا پورا نقشہ ہونا چاہئے تھا.الحکم جلدے نمبر ۱۸ مؤرخہ ۱۷ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۲) قرآن شریف سے مستنبط ہوتا ہے کہ اس اُمت پر دو زمانے بہت خوفناک آئیں گے.ایک وہ زمانہ جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آیا.اور دوسرا وہ زمانہ جو دجالی فتنہ کا زمانہ ہے جو مسیح کے عہد میں آنے والا تھا جس سے پناہ مانگنے کے لئے اس آیت میں اشارہ ہے.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اور اسی زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی سورہ نور میں موجود ہے.وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم آمنا (النور : ۵۶) اس آیت کے معنے پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دین پر آخری زمانہ میں ایک زلزلہ آئے گا اور خوف پیدا ہو جائے گا کہ یہ دین ساری زمین پر سے گم نہ ہو جائے.تب خدا تعالی دوبارہ اس دین کو روئے زمین پر متمکن کر دے گا اور خوف کے بعد امن بخش دے گا.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۷) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد مولوی ہیں کیونکہ ایسی باتوں میں اول نشانہ مولوی ہی ہوا کرتے ہیں دنیا داروں کو تو دین سے تعلق ہی کم ہوتا ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳۱) یہود ایک قوم کا نام ہے جو حضرت موسیٰ کی اُمت کہلائی ان بدقسمتوں نے شوخیاں کی تھیں.سب نبیوں کو دکھ دیا.یہ قاعدے کی بات ہے کہ جو کسی بدی میں کمال تک پہنچتا ہے اور نامی ہو جاتا ہے تو پھر اس بدی میں

Page 378

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة اسی کا نام لیا جاتا ہے.ڈا کو تو کئی ہوئے مگر بعض ڈا کو خصوصیت سے مشہور ہیں.دیکھو ہزاروں پہلوان گذرے ہیں مگر رستم کا نام ہی مشہور ہے.یہ یہود چونکہ اول درجے کے شرارت کرنے والے تھے اور نبیوں کے سامنے شوخیاں کرتے.اس لئے ان کا نام مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ ہو گیا ہوں تو مغضوب علیہم اور بھی ہیں.( البدر جلدے نمبر ا مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) وَ فِي ايَةِ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ آيت الينا القيراط الْمُسْتَقِيمَ میں اشارہ ہے إشَارَةٌ وَحَقٌّ عَلى دُعَاءِ صِفَةِ الْمَعْرِفَةِ اور اس امر پر ترغیب دلائی گئی ہے کہ صحیح معرفت کے لئے كَأَنَّه يُعَلِّمُنَا وَيَقُولُ ادْعُوا الله أَن دعا کی جاوے گویا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرماتا يُرِيَكُمْ صِفَاتُه كَمَا هِيَ وَيَجْعَلَكُمْ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اپنی صفات کی ماہیت مِنَ الشَّاكِرِينَ لأَنَّ الْأُمَمَ الْأُولى ما تمہیں دکھائے اور تمہیں شکر گزار بندوں میں سے بناوے ضَلُّوا إِلَّا بَعْدَ كَوْنِهِمْ عُمْيَّا فِي مَعْرِفَةِ کیونکہ پہلی قو میں اللہ تعالیٰ کی صفات ، اُس کے انعامات صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى وَ إِنْعَامَاتِهِ اور اس کی خوشنودی کی معرفت سے اندھا ہونے کے بعد وَمَرْضَاتِهِ فَكَانُوا يُفَانُونَ الْأَيَّام فيما ہی گمراہ ہوئی ہیں.انہوں نے اپنی زندگی کے دن ایسے يَزِيدُ الْأَثَامَ فَحَلَّ غَضَبُ اللهِ عَلَيْهِمُ اعمال میں ضائع کر دیئے جن اعمال نے انہیں گناہوں میں فَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ اللَّهُ وَكَانُوا مِن اور بھی آگے بڑھا دیا.پس اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا اور الْهَالِكِينَ وَإِلَيْهِ أَشَارَ الله تعالى في ان پر خواری مسلط کر دی گئی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں قَوْلِهِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَسِيَائی شامل ہو گئے.اللہ تعالی نے اپنے کلام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ كَلَامِهِ يُعْلِمُ أَنَّ غَضَبَ اللهِ لَا يَتَوجه میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے.سیاق کلام سے معلوم ہوتا إِلَّا إِلى قَوْمٍ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب انہی لوگوں کا رُخ کرتا ہے جن پر قَبْلِ الْغَضَبِ فَالْمُرَادُ مِنَ الْمَغْضُوبِ اس غضب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوں.پس اس عَلَيْهِمْ فِي الْآيَةِ قَوْمٌ عَصَوْا فِي نَعْمَاءٍ آیت میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں وَالاءِ رَّزَقَهُمُ اللهُ خَاصَّةٌ وَاتَّبَعُوا نے ان نعمتوں اور برکتوں کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے الشَّهَوَاتِ وَنَسُوا الْمُنْعِم وَ حَقَّهُ خاص طور پر انہیں پر نازل فرمائی تھیں اس (کے احکام) کی وَكَانُوْا مِنَ الْكَافِرِينَ وَأَمَّا الضَّالُونَ نا فرمانی کی.اپنی خواہشات کی پیروی کی اور انعام کرنے

Page 379

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۶ سورة الفاتحة فَهُمْ قَوْمُ أَرَادُوا أَن يَسْلُكُوا مَسْلَكَ | والے خدا اور اس کے حق کو بھول گئے اور منکروں میں الصَّوَابِ وَلَكِن لَّمْ يَكُن مَّعَهُمْ مِّن شامل ہو گئے.اسی طرح ضالین سے وہ لوگ مراد ہیں الْعُلُومِ الصَّادِقَةِ وَ الْمَعَارِفِ الْمُنِيرَةِ جنہوں نے صحیح رستہ چلنے کا ارادہ تو کیا لیکن صحیح علوم ، روشن الْحَقِّةِ وَالْأَدْعِيَةِ الْعَاصِمَةِ الْمُوَفِقَةِ بَلْ اور حقیقی معارف اور محفوظ رکھنے والی اور توفیق بخشنے والی غَلَبَتْ عَلَيْهِمْ خَيَالاتٌ وَهُميَّةٌ فَرَكَنُوا دعائیں اُن کے شامل حال نہ ہوئیں.بلکہ اُن پر إِلَيْهَا وَ جَهِلُوا طَرِيقَهُمْ وَ أَخْطَأوا توہمات غالب آگئے اور وہ ان کی طرف جھک گئے.مَشْرَبَهُمْ مِنَ الْحَقِّ فَضَلُّوا وَمَا سَتَرَحُوا (اپنے صحیح راستوں سے بھٹک گئے اور بچے مشرب کو أَفَكَارَهُمْ فِي مَرَاعِى الْحَقِّ الْمُبِينِ وَ بھول گئے.پس وہ گمراہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے الْعَجَبُ مِنْ أَفَكَارِهِمْ وَ عُلُولِهِمْ وَ افکار کو واضح اور کھلی سچائی کی چراگاہوں میں نہیں چھوڑا.أَنْظَارِهِمْ أَنَّهُمْ جَوَّزُوا عَلَى اللهِ وَعَلَی اور ان کے افکار، ان کی عقلوں اور نظروں پر تعجب ہے کہ خَلْقِهِ مَا يَأْتِي مِنْهُ الْفِطْرَةُ الصَّحِيحَةُ انہوں نے خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق پر وہ کچھ جائز قرار وَالْإِغْرَاقَاتُ الْقَلْبِيَّةُ وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ دیدیا جس کو فطرتِ صحیحہ اور قلبی انوار ہرگز قبول نہیں الشَّرَائِعَ تَخدِمُ الطَّبَائِعَ وَالطَّبِيبُ کرتے.وہ نہیں جانتے کہ شریعتیں ( دراصل ) طبائع کی مُعِينَ لِلطَّبِيعَةِ لَا مُنَازِعٌ لَّهَا فَيَا حَسْرَةً (بطورِ علاج) خدمت کرتی ہیں اور طبیب طبیعت کا عَلَيْهِمْ مَا أَلْهَاهُمْ عَن صِرَاطِ معاون ہوتا ہے نہ اس کا مخالف.پس افسوس ہے کہ یہ لوگ صادقوں کی راہ سے کتنے غافل ہیں.الصَّادِقِينَ و في هذِهِ السُّورَةِ يُعَلِّمُ اللهُ تعالى اس سورت میں اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں کو عِبَادَهُ الْمُسْلِمِيْنِ فَكَأَنَّهُ يَقُولُ يَا عِبَادِ تعلیم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! تم نے إنَّكُم رَأَيْتُمُ الْيَهُود و النصاری یہود و نصاری کو دیکھ لیا ہے.پس تم ان جیسے اعمال فَاجْتَنِبُوا شِبُهُ أَعْمَالِهِمْ وَاعْتَصِمُوا کرنے سے اجتناب کرو اور دعا اور استعانت کے طریق بِحَبْلِ الدُّعَاءِ وَالاسْتِعَانَةِ وَلَا تَنْسَوُا کو مضبوطی سے پکڑو اور یہود کی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو نَعْمَاءَ اللهِ كَالْيَهُودِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبُه نہ بھولو.ورنہ تم پر خدا تعالی کا غضب نازل ہوگا.نیز تم وَلَا تَتْرُكُوا الْعُلُومَ الصَّادِقَةَ وَالدُّعَاء سچے علوم اور دُعا کو ترک نہ کرو اور ہدایت کی تلاش میں

Page 380

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة الفاتحة وَلَا تَهِنُوا مِنْ طَلَبِ الْهِدَايَةِ | عیسائیوں کی طرح سستی نہ کرو ورنہ تم بھی گمراہوں میں شامل كَالنَّصَارَى فَتَكُونُوا مِنَ الضَّالِّينَ ہو جاؤ گے.(ترجمہ از مرتب ) کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۳، ۱۲۴) و جمله غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے جملہ میں محسنِ ادب کی رعایت مُجملةُ إشَارَةٌ إِلى رِعَايَةِ حُسْنِ الآداب رکھنے اور خدائے پروردگار کے ساتھ ادب کا طریق اختیار وَالتَأْذُبِ مَعَ رَبّ الْأَرْبَابِ فَإِنَّ کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ دعا کرنے کے بھی کچھ آداب لِلدُّعَاءِ ادَابًا وَلَا يَعْرِفُهَا إِلَّا مَنْ كَانَ ہیں اور انہیں وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو ( اللہ تعالیٰ کی طرف) تَوَّابًا وَمَن لَّا يُبالي الأداب جھکنے والا ہو.جو شخص ان آداب کی پروا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اُس فَيَغْضِبُ اللهُ عَلَيْهِ إِذَا أَصَر عَلَى سے ناراض ہو جاتا ہے.جب وہ (اپنی) غفلت پر اصرار کرتا الْغَفْلَةِ وَمَا تَابَ فَلَا يرى مِن دُعَائِهِ ہے اور توبہ نہیں کرتا تو اُسے اپنی دعا سے ( اپنی بداعمالیوں کی ) إِلَّا الْعُقُوبَةَ وَالْعَذَابَ فَلِأُجْلِ ذلِك سزا اور عذاب کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا.اس لئے دعا میں قَلَ الْفَائِزُونَ فِى الدُّعَاءِ وَکُنر کامیابی حاصل کرنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور تکبر ، وَكَثُرَ الْهَالِكُونَ لِحُجُبِ الْعُجْبِ وَ الْغَفْلَةِ غفلت اور ریاء کے پردوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والے وَالرِّيَاءِ ، وَ إِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ جب دعا کرتے ہیں تو ساتھ يَدْعُونَ إِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُونَ وَإلى غیر ہی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور غیر اللہ کی طرف متوجہ الله مُتَوَجهُونَ بَلْ إلى زَيْدٍ وبگر ہوتے ہیں بلکہ زید و بکر کی طرف نگاہ امید رکھتے ہیں.پس اللہ يَنْظُرُونَ فَاللَّهُ لَا يَقْبَلُ دُعَاءَ تعالیٰ ایسے مشرکوں کی دعاؤں کو قبول نہیں کیا کرتا اور انہیں اپنے الْمُشْرِكِينَ وَ يَتْرُكُهُمْ فى بَيْد ام بیابانوں میں حیران و پریشان چھوڑے رکھتا ہے.البتہ اللہ تايهين وَ إِنَّ حَبْوَةَ اللهِ قَرِيب فین تعالی کے انعامات منکسر المزاج لوگوں کے بہت قریب ہیں.الْمُنْكَسِرِينَ وَلَيْسَ الدَّاعِى الذينی (لیکن) و شخص تو دعا کرنے والا نہیں ( کہلا سکتا ) ہے جو ( خدا يَنْظُرُ إِلَى أَطْرَافٍ وَ أَنْحَاءٍ وَيُخْتَلَبُ کے سوا) ادھر اُدھر دیکھتا رہتا ہے.ہر چمک اور روشنی سے دھوکا بِكُلِ بَرْقٍ وَضِيَا، وَيُرِيدُ أَن يُشرع کھا جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی آستین بھر لے خواہ بھوں كُمَّهُ وَلَوْ يَوَسَائِلِ الْأَصْنَامِ وَيَعْلُو کے وسیلہ سے ہی ہو.اور بھیک حاصل کرنے کے شوق میں

Page 381

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة الفاتحة كُل رَبوَةٍ رَّاغِبًا فِي حَبْوَةٍ وَيَبْغِى اونچی ( دشوار گزار ) جگہ پر پہنچتا ہے.وہ اپنے خیالی معشوق کو مَعْشُوقَ الْمَرَامِ وَلَوْ بِتَوَسُلِ اللّقامِ ڈھونڈتا ہے خواہ کمینوں اور بدکرداروں کے توسل سے ہی وَالْفَاسِقِينَ.بَلِ الدَّاعِی الصَّادِقُ هُوَ ہو.لیکن صحیح دعا کرنے والا وہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی الَّذِي يَعْبَقَلُ إِلَى اللهِ تَبْتِيلا و لا طرف پوری طرح منقطع ہو جاتا ہے اور اُس کے غیر سے کچھ يَسْأَلُ غَيْرَة فَتِيلًا و تجيني الله نہیں مانگتا اور متعدقتل اختیار کرنے والوں اور فرماں برداروں كَالْمُنقَطِعِينَ الْمُسْتَسْلِمِینَ وَ يَكُونُ کی طرح اللہ تعالی کی طرف آتا ہے.اس کی دوڑ خدا کی إلَى اللهِ سَيْرُهُ وَلَا يَعْبَأُ مَنْ هُوَ غَيْرُهُ طرف ہی ہوتی ہے اور وہ اُس کے غیر کی پروا نہیں کرتا.خواہ وَلَوْ كَانَ مِنَ الْمُلُوكِ وَالسَّلَاطِيْنِ وَ وہ کوئی بادشاہ ہو یا سلطان.اور جو شخص خدا تعالیٰ کے سوا کسی الَّذِى يَكُبُّ عَلى غَيْرِهِ وَلَا يَقصد الحق اور ( کی دہلیز پر جھکتا ہے اور راہ سلوک میں اللہ تعالیٰ کو مقصود فِي سَيْرِهِ فَهُوَ لَيْسَ مِنَ الدَّاعِین نہیں بناتا وہ خدا کو واحد مان کر دعا کرنے والوں سے نہیں الْمُوَعِدِينَ بَلْ كَزَامِلَةِ الشَّيَاطِينِ بلکہ شیطان کے ساتھیوں کی طرح ہے.پس اللہ تعالی اُس فَلَا يَنْظُرُ اللهُ إِلى طَلَاوَةِ كَلِمَاتِہ کے الفاظ کی رونق کی پروا نہیں کرتا بلکہ اُس کی نیتوں کی وَيَنظُرُ إِلى حُبْقَةِ نِيَّاتِهِ وَإِنَّمَا هُوَ عِندَ خباثتوں کو دیکھتا ہے اور ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنی اللهِ مَعَ حَلَاوَةِ لِسَانِهِ وَحُسْنِ بَيَانِه زبان کی مٹھاس اور طرز بیان کی خوبصورتی کے باوجود ایسے كَمِثْلِ رَوْبٍ مُّفَضَّضٍ أَوْ كَنِیفٍ گوبر کی طرح ہے جس پر چاندی کا ملمع کیا گیا ہو یا ایسے بیت مُبَيَّضٍ قَد أَمَدَتْ شَفَتَاهُ وَقَلْبُهُ مِن الخلاء کی طرح ہے جس پر سفیدی کی گئی ہو.اُس کے ہونٹ تو الْكَافِرِينَ.فَأُولئِكَ الَّذِينَ غَضِبَ الله مؤمن ہیں مگر وہ دل سے کافر ہے.پس یہی لوگ ہیں جن پر اللہ عَلَيْهِمْ وَهُمُ الْمُرَادُونَ مِنْ قَوْلِهِ تعالی کا غضب بھڑکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام مَغْضُوبِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ إِنَّهُمْ دُعُوا إِلى عَلَيْهِمُ سے وہی لوگ مراد ہیں.ان لوگوں کو حق کے راستوں سُبُلِ الْحَق فَتَرَكُوهَا بَعْدَ رُؤْتِعِباً کی طرف بلایا گیا لیکن اُنہوں نے ان راستوں کو دیکھ لینے وَتَخَيَّرُوا الْمَفَاسِدَ بَعْدَ اللهِ عَلی کے باوجود انہیں چھوڑ دیا اور بداعمالیوں کے مفاسد کو اُن کی خُبْتَتِهَا وَ انْطَلَقُوا ذَاتَ الشِّمَالِ وَمَا خباثت کو جاننے کے باوجود اختیار کر لیا.وہ بائیں طرف چل انْطَلَقُوا ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِنّهُم رَكَنُوا پڑے اور اُنہوں نے دائیں طرف رُخ نہ کیا.وہ جھوٹ کی

Page 382

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ سورة الفاتحة إِلَى الْمَيْنِ وَمَا بَقِيَ إِلَّا قِيْدُ رُفْحَيْنِ طرف ایسے مائل ہو گئے حتی کہ دو نیزہ بھر فرق بھی باقی نہ وَعَدِمُوا الْحَقِّ بَعْدَ مَا كَانُوا عَارِفِينَ رہا.اُنہوں نے حق کو جاننے کے باوجود اسے معدوم قرار وَأَمَّا الضَّالُونَ الَّذِينَ أُشِيْرَ إِلَيْهِمُ في دیدیا.لیکن وہ گمراہ لوگ جن کی طرف اللہ کے کلام قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ الضَّالِّينَ فَهُمُ الَّذِيْنَ الضّالین میں اشارہ ہے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اندھیری وَجَدُوا طَرِيقًا طَامِسا في لَيْلٍ دَامِیں رات میں لئے ہوئے راستہ کو پا تو لیا تھا لیکن وہ اس راستہ فَزَاغُوا عَنِ الْمَحَجَّةِ قَبْلَ ظُهُورِ الْحُجَّةِ کے خلاف کسی پختہ دلیل کے ظہور سے قبل ہی اس راستہ سے وَقَامُوا عَلَى الْبَاطِلِ غَافِلِينَ وَمَا كَانَ بھٹک گئے اور غافل ( ہو کر ) باطل پر قائم ہو گئے.انہیں ایسا مِصْبَاحُ يُؤْمِنُهُمُ الْعِقَارَ أَوْ يُبَيِّنُ لَهُمُ کوئی چراغ ( ہدایت ) نہ ملا جو انہیں لغزش سے محفوظ رکھتا الْأَثَارَ فَسَقَطُوا فِي هُوَةِ الضَّلَالِ غَيْرَ اور انہیں راہِ حق کے آثار دکھاتا.پس وہ نادانستہ گمراہی کے مُتَعَتِدِينَ وَلَوْ كَانُوا مِن الدَّاعِيْنَ گڑھے میں جا پڑے.اگر وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بِدُعَاءِ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تحفظهُمْ کی دعا کرنے والے ہوتے تو اُن کا پروردگار انہیں ضرور رَبُّهُم وَلأَرَاهُمُ الذِيْنَ الْقَوِيْمَ محفوظ رکھتا اور انہیں سچا دین دکھاتا اور انہیں ضلالت کے وَلَنَجَّاهُمْ مِنْ سُبُلِ الضَّلَالَةِ وَلَهَدَاهُمُ رستوں سے نجات دیتا اور اُن کی حق و حکمت اور عدل کے إلى طرق الحققِ وَ الْحِكْمَةِ وَالْعَدَالَة راستوں کی طرف راہنمائی کرتا تا وہ ( صحیح ) راستہ پالیتے لِيَجِدُوا الصِّرَاطَ غَيْرَ مَلُومِينَ وَلكِنَّهُمْ اِس طرح اُن پر کوئی ملامت نہ ہوتی.لیکن انہوں نے بادَرُوا إِلَى الْأَهْوَاءِ وَمَا دَعَوْا رَبَّهُمْ نفسانی خواہشات کی طرف جلد قدم بڑھایا اور ہدایت کے لئے لِلْاهْتِدَاءِ وَمَا كَانُوا خَائِفِينَ بَل لووُا اپنے پروردگار سے دعا نہ کی اور نہ ہی خدا تعالیٰ سے خائف رُؤُوسَهُمْ مُسْتَكْبِرِينَ وَ سَرت مُحميّا ہوئے بلکہ انہوں نے تکبر کرتے ہوئے اپنے سر پھیر لئے اور الْعُجْبِ فِيهِمُ فَرَفَضُوا الْحَقِّ لِهَفَوَاتِ خود بینی کا جوش اُن میں سرایت کر گیا.پس اُنہوں نے ان خَرَجَتْ مِنْ فِيهِم وَ لَفَظَتُهُمْ فضول باتوں کی وجہ سے جو اُن کے منہ سے نکلیں حق کو چھوڑ تَعَصُّبَاتُهُمْ إِلَى بَوَادِي الْهَالِكِينَ دیا اور ان کے تعصبات نے ان کو ہلاک ہونے والے کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ے صفحہ ۱۳۶،۱۳۵) لوگوں کے جنگلوں میں پھینک دیا.( ترجمہ از مرتب ) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِینَ.مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جو خدائے تعالیٰ کے مقابل پر

Page 383

سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قوت غضی کو استعمال کر کے قومی سبعیہ کی پیروی کرتے ہیں اور ضالین سے وہ مراد ہیں جو قوی بہیمیہ کی پیروی کرتے ہیں.اور میانہ طریق وہ ہے جس کو لفظ انْعَمتَ عَلَيْهِم سے یاد فرمایا ہے.غرض اس مبارک اُمت کے لئے قرآن شریف میں وسط کی ہدایت ہے.توریت میں خدائے تعالیٰ نے انتظامی امور پر زور دیا تھا اور انجیل میں عفو اور درگزریر زور دیا تھا اور اس اُمت کو موقع شناسی اور وسط کی تعلیم ملی.) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۷) مغضوب قوت سبھی کے نیچے ہے.یہود اس قوت کے ماتحت اور مغلوب رہے اور عیسائی قوت واہمہ کے نیچے.شرک اسی قوت واہمہ سے پیدا ہوتا ہے قوت سبھی والا تو افراط سے کام لیتا ہے کہ جہاں ڈرنے کا حق ہے وہاں بھی نہیں ڈرتا.اور قوت واہمہ کا مغلوب رشی کو سانپ سمجھ کر اس سے بھی ڈر جاتا ہے.پس عیسائی تو اس قدر گرے کہ انہوں نے ایک مردہ انسان کو خدا بنا لیا اور یہودی اتنے بڑھے کہ انہوں نے سرے ہی سے انکار کر دیا.اللہ تعالی نے قرآن شریف میں تین قوموں کا ذکر کیا ہے اور تین ہی قسم کے لوگ رکھے بھی ہیں.اول وہ جو اعتدال سے کام لینے والے ہیں یہ منعم علیہ گروہ ہوتا ہے ان کی راہ صراط مستقیم ہے.دوم افراط والی قوم اس کا نام مغضوب ہے.سوم تفریط سے کام لینے والے یہ ضالین ہیں.مغضوب کا لفظ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی پر غضب نہیں کرتا بلکہ خود انسان اپنے افعال بد سے اس غضب کو بھینچ لیتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مؤرخه ۱۰ فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۲) قرآن شریف میں وَلَا الضَّالین تو کہا اگر دجال کوئی الگ چیز تھی تو چاہئے تھا ولا الدجال بھی کہا ہوتا.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور وَلَا الضَّالین کے متعلق تمام مفتر متفق ہیں کہ ان سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں جب پانچ وقت نمازوں میں ان فتنوں سے بچنے کے لئے دعا تعلیم کی گئی ہے کہ الضالین سے نہ کرنا اور نہ مغضوب قوم میں سے بنانا تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑا اور اہم فتنہ یہی تھا.جو انھر الفتن کہنا الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مؤرخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) چاہئے..، مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں یہود نے اتنی ظاہر پرستی کی کہ باطنی احکام کا کچھ لحاظ نہ کیا اور نصاریٰ نے اتنی باطن پرستی کہ ظاہری احکام کا کچھ لحاظ نہ رکھا اور احکام الہی کو جو چراغ اور حقیقت نما تھے فضول سمجھ کر ترک کر دیا اور ہر ایک کے باطنی معنی کر لئے اور سمجھ لیا کہ میسیج میں وہ سب

Page 384

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۱ سورة الفاتحة پورے ہو گئے اس طرح گمراہ ہو گئے اور افراط تفریط میں پڑ گئے اور کلام مجید ان دونوں کو نقطہ اعتدال پر قائم کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۴) کلام اللہ میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِم نام یہودیوں کا ہے جنہوں نے صرف ظاہر پرستی شروع کر کے باطن کا انکار کیا اور لا الضالین نام نصاری کا ہے جنہوں نے ظاہر کا انکار کیا اور گمراہ ہو گئے کیونکہ ظاہر نمونہ اور چراغ ہے واسطے باطن کے.جو کوئی نمونہ چھوڑ دے وہ گمراہ ہو جاتا ہے سوسورہ فاتحہ میں یہی ظاہر ظاہرا فراط اور تفریط ان دونوں فرقوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آیا ہے.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۴) سورہ فاتحہ میں بار بار غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ مفسرین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد یہودی مولوی اور ضالین سے مراد نصاریٰ مولوی ہیں ان دونوں کا اکٹھا ذکر کرنے سے صریح اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص بروزی رنگ میں آنے والا ہے غیر المغضوب وہ لوگ تھے جو سیخ سے غیر سرکش ہوئے اور ضالین وہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سرکش ہوئے پس اس لئے اس آنے والے میں دونوں رنگ ہوئے.امت محمدیہ کو جو یہ دعا تعلیم کی تو معلوم ہوا کہ ان کے لئے یہ واقعہ پیش آنے والا ہے اور اس لئے یہ مقام جمع کر دیئے کہ وہ دونوں رنگ اپنے اندر رکھے گا.البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مؤرخہ ۱۵ مئی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۳۱) البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۸) جیسے شیشہ میں انسان کی شکل نظر آتی ہے حالانکہ وہ شکل بذات خود الگ قائم ہوتی ہے اس کا نام بروز ہے.اس کا سر سورہ فاتحہ میں ہی ہے جیسے کہ لکھا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تمام مفسروں نے مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاری لئے ہیں.سورہ فاتحہ میں پہلے حسن و احسان ہی کو دکھایا ہے اور اگر ان سے انسان اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تو پھر تیسری صورت غضب کی بھی ہے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہ کر ڈرایا ہے لیکن مبارک وہی شخص ہے جو اس کے حسن اور احسان سے فائدہ اُٹھاتا ہے.اور اُس کے احکام کی پیروی کرتا ہے اس سے خدا قریب ہو جاتا ہے اور دعاؤں کو سنتا ہے.(الحکم جلدے نمبر ۱۲ مؤرخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ سے مفترین یہود مراد لیتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جو بد اعمالی کرے گا پکڑا جائے گا اور خدا کے غضب میں آئے گا.اس میں یہود کی تخصیص نہیں.( بدر جلدے نمبر امؤرخہ ۹رجنوری۱۹۰۸ صفحہ ۷)

Page 385

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة الفاتحة ، ابرار اخیار کے بڑے گروہ جن کے ساتھ بد مذاہب کی آمیزش نہیں وہ دو ہی ہیں ایک پہلوں کی جماعت یعنی صحابہ کی جماعت جوزیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسری پچھلوں کی جماعت جو بوجہ تربیت روحانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا کہ آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ سے سمجھا جاتا ہے صحابہ کے رنگ میں ہیں.یہی دو جماعتیں اسلام میں حقیقی طور پر مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ ہیں اور خدائے تعالیٰ کا انعام اُن پر یہ ہے کہ اُن کو انواع اقسام کی غلطیوں اور بدعات سے نجات دی ہے اور ہر ایک قسم کے شرک سے ان کو پاک کیا ہے اور خالص اور روشن تو حید ان کو عطا فرمائی ہے جس میں نہ دجال کو خدا بنایا جاتا ہے اور نہ ابن مریم کو خدائی صفات کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے اور اپنے نشانوں سے اس جماعت کے ایمان کو قومی کیا ہے اور اپنے ہاتھ سے ان کو ایک پاک گروہ بنایا ہے ان میں سے جو لوگ خدا کا الہام پانے والے اور خدا کے خاص جذبہ سے اس کی طرف کھنچے ہوئے ہیں نبیوں کے رنگ میں ہیں اور جو لوگ اُن میں سے بذریعہ اپنے اعمال کے صدق اور اخلاص دکھلانے والے اور ذاتی محبت سے، بغیر کسی غرض کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں وہ صدیقوں کے رنگ میں ہیں اور جو لوگ اُن میں سے آخری نعمتوں کی امید پر دُکھ اُٹھانے والے اور جزا کے دن کا بچشم دل مشاہدہ کر کے جان کو تھیلی پر رکھنے والے ہیں وہ شہیدوں کے رنگ میں ہیں اور جولوگ اُن میں سے ہر ایک فساد سے باز رہنے والے ہیں وہ صلحاء کے رنگ میں ہیں اور یہی سچے مسلمان کا مقصود بالذات ہے کہ ان مقامات کو طلب کرے اور جب تک حاصل نہ ہوں تب تک طلب اور تلاش میں سست نہ ہو اور وہ دوگروہ جو ان لوگوں کے مقابل پر بیان فرمائے گئے ہیں وہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین ہیں جن سے محفوظ رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اسی سورۃ فاتحہ میں دُعامانگی گئی ہے.اور یہ دُعا جس وقت اکٹھی پڑھی جاتی ہے یعنی اس طرح پر کہا جاتا ہے کہ اے خدا ہمیں مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ میں داخل کر اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین سے بچا تو اُس وقت صاف سمجھ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ میں سے ایک وہ فریق ہے جو مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین کا ہم عصر ہے اور جبکہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد اس سورۃ میں بالیقین وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود سے انکار کرنے والے اور اس کی تکفیر اور تکذیب اور توہین کرنے والے ہیں تو بلاشبہ اُن کے مقابل پر مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ سے وہی لوگ اس جگہ مرا در کھے گئے ہیں جو صدق دل سے مسیح موعود پر ایمان لانے والے اور اُس کی دل سے تعظیم کرنے والے اور اس کے انصار ہیں اور دُنیا کے سامنے اس کی گواہی دیتے ہیں.رہے ضالین.پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 386

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ سورة الفاتحة شہادت اور تمام اکابر اسلام کی شہادت سے ضالین سے مراد عیسائی ہیں اور ضالین سے پناہ مانگنے کی دُعا بھی ایک پیشگوئی کے رنگ میں ہے کیونکہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا کچھ بھی زور نہ تھا بلکہ فارسیوں کی سلطنت بڑی قوت اور شوکت میں تھی.اور مذاہب میں سے تعداد کے لحاظ سے بدھ مذہب دنیا میں تمام مذاہب سے زیادہ بڑھا ہوا تھا اور مجوسیوں کا مذہب بھی بہت زور وجوش میں تھا اور ہندو بھی علاوہ قومی اتفاق کے بڑی شوکت اور سلطنت اور جمعیت رکھتے تھے اور چینی بھی اپنی تمام طاقتوں میں بھرے ہوئے تھے تو پھر اس جگہ طبعاً یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ تمام قدیم مذاہب جن کی بہت پرانی اور زبردست سلطنتیں تھیں اور جن کی حالتیں قومی اتفاق اور دولت اور طاقت اور قدامت اور دوسرے اسباب کی رو سے بہت ترقی پر تھیں اُن کے شر سے بچنے کے لئے کیوں دُعا نہیں سکھلائی ؟ اور عیسائی قوم جو اُس وقت نسبتی طور پر ایک کمزور قوم تھی کیوں اُن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی؟ اس سوال کا یہی جواب ہے جو بخوبی یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ مقدر تھا کہ یہ قوم روز بروز ترقی کرتی جائے گی یہاں تک کہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی اور اپنے مذہب میں داخل کرنے کے لئے ہر ایک تدبیر سے زور لگائیں گے اور کیا علمی سلسلہ کے رنگ میں اور کیا مالی ترغیبوں سے اور کیا اخلاق اور شیرینی کلام دکھلانے سے اور اور کیا دولت اور شوکت کی چمک سے اور کیا نفسانی شہوات اور اباحت اور بے قیدی کے ذرائع سے اور کیا نکتہ چینیوں اور اعتراضات کے ذریعہ سے اور کیا بیماروں اور ناداروں اور در ماندوں اور یتیموں کا متکفل بننے سے ناخنوں تک یہ کوشش کریں گے کہ کسی بدقسمت نادان یا لالچی یا شہوت پرست یا جاه طلب یا بیکس یا کسی بچہ بے پدرو مادر کو اپنے قبضہ میں لا کر اپنے مذہب میں داخل کریں سو اسلام کے لئے یہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ کبھی اسلام کی آنکھ نے اس کی نظیر نہیں دیکھی اور اسلام کے لئے یہ ایک عظیم الشان ابتلا تھا جس سے لاکھوں ی ( بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ میں المغضوب علیہم سے مراد یہود اور الضالین سے مراد نصاری ہیں.دیکھو کتاب در منثور صفحہ نمبر ۹ اور عبدالرزاق اور احمد نے اپنی مسند میں اور عبد بن حمید اور ابن جریر اور بغوی نے معجم الصحابہ میں اور ابن منذرا اور ابوالشیخ نے عبداللہ بن شقیق سے روایت کی ہے.قال أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِوَادِى الْقُرَى عَلَى فَرَسٍ لَّهُ وَ سَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْعَيْنِ فَقَالَ مَنِ الْمَغْضُوبُ عَلَيْهِمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ قَالَ الْيَهُودُ قَالَ فَمَنِ الضَّالُونَ.قَالَ النَّصَاری.یعنی کہا کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا جبکہ آپ وادی قریٰ میں گھوڑے پر سوار تھے کہ بنی عین میں سے ایک شخص نے آنحضرت سے سوال کیا کہ سورہ فاتحہ میں مغضوب علیہم سے کون مراد ہے فرمایا کہ یہود.پھر سوال کیا کہ ضالین سے کون مراد ہے فرمایا کہ نصاری.دُر منثور صفحہ نمبر ۱۷.منہ

Page 387

۳۶۴ سورة الفاتحة (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۷ تا ۲۳۰) تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انسانوں کے ہلاک ہو جانے کی امید تھی.اس لئے خدا نے سورہ فاتحہ میں جس سے قرآن کا افتتاح ہوتا ہے اس مہلک فتنہ سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی اور یادر ہے کہ قرآن شریف میں یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نظیر اور کوئی پیشگوئی نہیں.الْفَاتِحَةُ تَفْتَحُ عَلَيْكُمْ بَابَ الْهُدَى سورہ فاتحہ تمہارے لئے ہدایت کی راہ کھولتی ہے چنانچہ فَإِنَّ اللهَ بَدَءٌ فِيهَا مِنَ الْمَبْدَهِ وَجَعَلَ خدا تعالیٰ نے اس میں مبدء عالم سے ابتدا کیا ہے اور دنیا اخِرَ الْأَزْمِنَةِ زَمَنَ الظَّالِينَ وَانهُمْ کے اس سلسلہ کوضائین کے زمانہ پر ختم کیا ہے اور وہ نصاریٰ کا هُمُ النَّصَارَى كَمَا جَاءَ من نبينا گروہ ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں الْمُجْتَنِى فَأَيْنَ فِيهَا ذِكْرُ دَجَالِكُمْ آیا ہے اب بتاؤ تمہارے دجال کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کہاں ہے فَأَرُونَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ.اگر ہو تو قرآن میں ہمیں دکھلاؤ.( ترجمہ اصل کتاب سے ) خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۱۵) وَهُذَا الْمَقَامُ لَيْسَ كَمَقَامٍ تَمْرُ عَلَيْهِ یہ مقام ایسا نہیں کہ تو اس پر سے غافلوں کی طرح گزر كَغَافِلِينَ.بَلْ هُوَ الْمَنْبَعُ لِلْحَقِيقَةِ الْمَغْفِيَّة جائے بلکہ یہ اس مخفی حقیقت کا منبع ہے جس کی بناء پر نصاری کا التي سميت النَّصَارَى لَهَا الضَّالِّينَ.نام الضالين رکھا گیا.اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں وَلَقَد سَمَاهُمُ اللهُ بِهذا الاسم في سُورَةِ (عیسائیوں کو ) اس ( ضالین کے نام سے اس لئے موسوم الْفَاتِحَةِ لِيُشِيْرَ إِلى هذهِ الضَّلَالَةِ وَ کیا ہے تا وہ اُس گمراہی کی طرف اشارہ کرے (جس میں یہ لِيُشِيْرَ إِلَى أَنَّ عَقِيدَةَ حَيَاةِ الْمَسِيحِ أُم قوم مبتلا ہے ) نیز اس لئے بھی کہ تا وہ اس طرف اشارہ کرے ضَلَالَاتِهِمْ كَمِثْلِ أُمّ الْكِتَابِ مِن کہ حیات مسیح کا عقیدہ اُن کی تمام گمراہیوں کی جڑ ہے جیسا کہ الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ.فَإِنَّهُمْ لَوْ لَمْ يَرْفَعُودُ قرآن پاک میں سے ( یہ سورۃ فاتحہ ) اس کتاب کی اصل ہے.إلَى السَّمَاءِ يَجِسْمِهِ الْعُنْصُرِي لَمَا جَعَلُوهُ اگر وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو جسید عصری کے ساتھ آسمان مِنَ الْآلِهَةِ، وَمَا كَانَ لَهُمْ أَن يَرْجِعُوا پر نہ چڑھاتے تو وہ اسے معبود بھی نہ ٹھہرا سکتے اور ان کے لئے إِلَى التَّوْحِيدِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرْجِعُوا مِنْ ممکن نہیں کہ اس عقیدہ سے رجوع کئے بغیر توحید کی طرف هذِهِ الْعَقِيدَةِ.فَكَشَفَ اللهُ هَذِهِ الْعُقْدَةَ لوٹ سکیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحم کرتے ہوئے رُحْمَّا عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ أَثْبَتَ بِنُبُوتٍ اِس عقدہ کو کھول دیا اور واضح ثبوت کے ساتھ ثابت فرمایا بَيْنِ واضح أَنَّ عِيسَى مَا صُلب ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر قتل نہیں کیا گیا تھا

Page 388

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۵ سورة الفاتحة وَمَا رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ.وَمَا كَانَ رَفْعُهُ أَمْرًا اور نہ انہیں آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تھا اور آپ کا رفع جَدِيدًا فَخَصُوصًا بِهِ بَلْ كَانَ رَفعَ الرُّوحِ کوئی انوکھی بات نہیں تھی جو آپ کے ساتھ ہی مخصوص ہو فَقَط كَمِثْلِ رَفْعِ الخَوَانِهِ من الأنبياء بلکہ وہ تو آپ کے بھائیوں یعنی دوسرے نبیوں کی طرح (الحد کی، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۶۲) صرف روح کا رفع تھا.( ترجمہ از مرتب ) ( قرآن ) سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ عیسائیت کے فتنہ سے خدا کی پناہ مانگیں جیسا کہ وَلَا الضالین کے معنی تمام مفسرین نے یہی کئے ہیں.(تئمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹۷) سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کا نام الضالین رکھا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگر چہ دنیا کے صد ہا فرقوں میں ضلالت موجود ہے مگر عیسائیوں کی ضلالت کمال تک پہنچ جائے گی گویا دنیا میں فرقہ ضالہ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۰) وہی ہے.اعْلَمْ أَسْعَدَكَ اللهُ أَنَّ اللهَ قَسمَ الْيَهُودَ جان لو! اللہ تعالیٰ آپ کو سعادت بخشے کہ اللہ تعالی نے | لو! وَالنَّصَارَى في هذِهِ السُّورَةِ عَلى ثَلاثَةِ اِس سورۃ میں یہود اور نصاری کو تین اقسام پر منقسم کیا ہے أقسامٍ فَرَغَبَنَا في قسم مِّنْهُمْ وَبَر به اور ہمیں ان میں سے ایک قسم میں شمولیت کی رغبت دلائی بِفَضْلٍ وَإِكْرَامٍ وَعَلَّمَنَا دُعَاء لِنَكُونَ ہے اور اپنے فضل اور کرم سے اس (کے حصول) کی كَمِثْلِ تِلْكَ الْكِرَامِ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ بشارت بھی دی ہے.نیز ہمیں ایک دعا سکھائی ہے تا ہم بھی وَالرُّسُلِ الْعِظَامِ وَبَلَى الْقِسْمَانِ اُن بزرگ نبیوں اور بڑے بڑے رسولوں کی طرح بن الْأَخَرَانِ وَهُمَا الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ مِّن جائیں اور باقی جو دوسری دو اقسام رہ گئیں مغضوب الْيَهُودِ وَ الضَّالُونَ مِنْ أَهْلِ الصُّلْبَانِ عليهم یعنی یہودی اور الضالین یعنی اہل صلیب ہیں.فَأَمَرَنَا أَنْ نَعُوذُ بِهِ مِنْ أَنْ نَلْحَقَ بِهِمُ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم اس بات مِنَ الشَّقَاوَةِ وَ الطُغْيَانِ فَظَهَرَ مِنْ هذِهِ سے اُس کی پناہ مانگیں کہ ہم بدبختی اور سرکشی میں کہیں اُن السُّورَةِ أَنَّ أَمْرَنَا قَدْ تُرِكَ بَيْنَ خَوْفٍ کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں پس اس سورۃ سے ظاہر ہوا وَرَجَاءٍ وَنَعْمَةٍ وَ بَلَاء - إِمَّا مُشَابَهَةٌ کہ ہمارا معاملہ خوف اور امید اور آسودگی اور آزمائش بِالْأَنْبِيَاءِ وَ إِمَّا شُرب تین تحلیس کے درمیان چھوڑ دیا گیا ہے یعنی یا تو نبیوں کی مانند بن الْأَشْقِيَاءِ فَاتَّقُوا اللهَ الَّذى عَظم جائیں اور یا بدبختوں کے پیالہ سے پیئیں.پس تم خدا

Page 389

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة الفاتحة وَعِيْدُهُ وَ جَلَّتْ مَوَاعِيْدُهُ وَمَنْ لَّمْ سے ڈرو جس کی وعید بہت بڑی ہے اور جس کے يَكُن عَلَى هُدَى الْأَنْبِيَاءِ مِنْ فَضْلِ الله وعدے عظیم الشان ہیں.پس جو شخص خدائے ودود الْوَدُوْدِ.فَقَدْ خِيْفَ عَلَيْهِ أَنْ يَكُونَ کے فضل سے نبیوں کی ہدایت پر قائم نہ ہوگا اُس کے كَالنَّصَارَى أَوِ الْيَهُودِ فَاشْتَنَتِ الْحَاجَةُ متعلق ڈر ہے کہ وہ نصاری یا یہود کی مانند ہو جائے.إلى نموذج النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لِيَدُفَعَ لہذا نبیوں اور رسولوں کے نمونہ کی شدید حاجت ہے تا نُورُهُمْ ظُلُمَاتِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اُن کا نُور مغضوب علیہم کی تاریکیوں اور ضالین وَشُبُهَاتِ الضَّالِّينَ وَلِذَالِكَ وَجَب کے شبہات کو دور کرے.اسی لئے اس زمانہ میں ظُهُورُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ فِي هَذَا الزَّمَانِ اُمت میں سے مسیح موعود کا ظہور واجب ہو گیا ہے مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِأَنَّ الضَّالِّينَ قَدْ كَثُرُوا کیونکہ ضالین کی بڑی کثرت ہوگئی ہے لہذا تقابل فَاقْتَضَتِ الْمَسِيحَ ضُرُورَةُ الْمُقَابَلَةِ کے لزوم نے مسیح موعود کے ظہور کا تقاضا کیا.تم خود فوج وَإِنَّكُمْ تَرَوْنَ أَفَوَاجًا مِّنَ الْقِسِيسِين در فوج پادریوں کو دیکھ رہے ہو جو الضالین ( کا الَّذِينَ هُمُ الضَّالُونَ فَأَيْنَ الْمَسِيحُ گروہ) ہیں.پھر اگر تمہیں کچھ سمجھ ہے تو ( سوچو کہ ) وہ الَّذِي يَنْقُهُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سیح موعود کہاں ہے جو اُن کا مقابلہ کرے؟ أَمَا ظَهَرَ أَثَرُ الدُّعَاءِ أَوْتْرِ كُتُمْ في کیا تمہاری دعا کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا؟ یا (بالفاظ اللَّيْلَةِ اللَّيْلَاءِ أَمْ عُلِّمْتُمْ دُعَاءَ صِرَاطَ دیگر ) تمہیں اندھیری رات میں چھوڑ دیا گیا ہے؟ کیا الَّذِينَ لِيَزِيدَ الْحَسْرَةُ وَ تَكُونُوا تمہیں صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا اسی لئے كَالْمَحْرُومِينَ.فَالْحَقِّ وَالْحَقِّ أَقُولُ إِنَّ اللہ سکھائی گئی تھی کہ تمہاری حسرت میں اضافہ ہو اور تم بے مَا قَسَمَ الْفِرْقَ عَلى ثَلَاثَةِ أَقسام في نصیب رہ جاؤ.حق بات یہ ہے اور حق بات ہی میں کہتا هذِهِ السُّورَةِ إِلَّا بَعْدَ أَنْ أَعَدَّ كُل نموذج ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں تین گروہوں میں تقسیم مِنهُم في هذِهِ الْأُمَّةِ.وَإِنَّكُمْ تَرَوْنَ كَثْرَةَ اُس وقت بیان فرمائی جبکہ اُس نے ان میں سے ہر ایک کا الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَكَرَةُ الضَّالِينَ نمونہ اس امت میں مقدر کر دیا تھا.اب تم مغضوب فَأَيْنَ الَّذِي جَاءَ عَلَى نَمُوذَجِ النَّبِيِّينَ وَ عليهم کی کثرت اور ضالین کی کثرت تو دیکھ رہے ہو الْمُرْسَلِينَ مِنَ السَّابِقِيْنَ مَا لَكُمْ لَا پھر وہ (بزرگ) کہاں ہے جو سابقہ نبیوں اور رسولوں کے

Page 390

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة تُفَكَّرُونَ فِي هَذَا وَ تَمرُّونَ غَافِلِينَ ثُمَّ | نمونہ پر آیا ہو.تمہیں کیا ( ہو گیا) ہے کہ تم اس بات پر غور اعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ قَد أَخْبَرَتْ عَن نہیں کرتے اور غافل گزر جاتے ہو.مزید برآں جان لو الْمَبْدَهِ وَالْمَعَادِ وَأَشَارَتْ إِلى قَوْمٍ هُمْ کہ اس سورۃ نے مبداء اور معاد ( ہر دو ) کی خبر دی ہے اور أخِرُ الْأَقْوَامِ وَمُنْتَهَى الْفَسَادِ فَإِنَّهَا اُس قوم کی طرف اشارہ کیا ہے جو قوموں میں سے آخری الحديمَت عَلَى الظَّالِينَ وَفِيهِ إِشَارَةٌ قوم ہے اور بد اعمالی کے لحاظ سے بھی انتہائی (مقام) پر لِلْمُتَدَيرِينَ فَإِنَّ الله ذكر هاتين ہے کیونکہ یہ سورۃ لفظ الضالین پر ختم ہوئی اور اس میں الْفِرْقَتَيْنِ فِي آخِرِ السُّورَةِ وَمَا ذَكَرَ تدبر کرنے والوں کے لئے اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الدَّجَّالَ الْمَعْهُودَ تَضريحا وَلَا بِالْإِشَارَةِ ان دونوں گروہوں کا سورۃ کے آخر میں ذکر کیا ہے.لیکن ہے.لیکن مَعَ أَنَّ الْمَقَامَ كَانَ يَقْتَضِى ذكر دجّال معہود کا نہ تصریحاً ذکر کیا ہے نہ اشارۃ.حالانکہ یہ الدَّجَالِ فَإِنَّ السُّورَةَ أَشَارَتْ في قَوْلِهَا مقام دجال کے ذکر کا مقتضی تھا.کیونکہ سورۃ فاتحہ نے الضَّالِينَ إلى آخِرِ الْفِتَنِ وَأَكْبَرِ الضَّالین کے لفظ سے آخری زمانہ کے فتنہ اور انتہائی خطرہ الْأَهْوَالِ.فَلَوْ كَانَتْ فِتْنَةُ الدَّجَّالِ فی کی طرف اشارہ کیا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں دجال کا عِلْمِ اللهِ أَكْبَرَ مِنْ هذِهِ الْفِتْنَةِ لختم فتن الضالین کے فتنہ سے بڑا تھا تو وہ اس سورۃ کو دجال السُّورَةَ عَلَيْهَا لا عَلى هَذِهِ الْفِرْقَةِ کے فتنہ کے ذکر پر ختم کرتا نہ کہ اس فرقه ضاله پر.پس تم فَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِكُمْ أَنَسِيَ أَصْلَ الْأَمْرِ اپنے دلوں میں غور کرو کیا ہمارا ذی شان پروردگار اصل رَبُّنَا ذُو الْجَلَالِ.وَذَكَرَ الظَّالِينَ في مَقامِ بات کو بھول گیا اور اس نے ایسی جگہ الضالین کا ذکر کر كَانَ وَاجِبًا فِيْهِ ذِكْرُ الرّجالِ وَإِن كَانَ دیا جہاں دجال معہود کا ذکر کرنا ضروری تھا.اگر معاملہ الْأَمْرُ كَمَا هُوَ زَعْمُ الْجُهَالِ لَقَالَ اللهُ فِی ناواقفوں کے خیال کے مطابق ایسا ہی ہوتا تو خدا تعالیٰ هَذَا الْمَقَامِ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا اس جگہ غیر المغضوب عليهم ولا الدجال فرماتا الرّجالِ وَ أَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ أَرَادَ في حالانکہ تم جانتے ہو کہ اس سورۃ سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا هذهِ السُّورَةِ أَنْ تَحتَ الْأُمَّةَ عَلَى طُرُق که امتِ مسلمہ کو انبیاء کے راستوں پر چلنے کی ترغیب النَّبِيِّينَ وَيُعَذِّرَهُمْ مِنْ طُرُقِ الْكَفَرَةِ دے اور اُن کو بد کردار کا فروں کے راستوں سے ڈرائے الْفَجَرَةِ فَذَكَرَ قَوْمًا أَكْمَلَ لَهُمْ عَطَانَهُ.تبھی تو اُس نے پہلے ایک ایسی قوم کا ذکر کیا جس پر اس

Page 391

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة الفاتحة وَأَتَمَّ نَعْمَاتُهُ وَوَعَدَ أَنَّهُ بَاعِثُ مِّن نے اپنی بخششوں کو مکمل کیا تھا اور اپنی نعمتوں کو انتہاء تک هذِهِ الْأُمَّةِ مَنْ هُوَ يُشَابِهُ النَّبِيِّينَ پہنچایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اس اُمت میں سے ایک شخص وَيُضَافِي الْمُرْسَلِينَ.ثُمَّ ذَكَرَ قَوْمًا اخر کو پیدا کرے گا جو نبیوں کے مشابہ اور رسولوں کی مانند أَخَرَ تركوا في الظُّلُمَاتِ.وَ جَعَل فِتْتَعَهُمْ ہوگا.پھر اس نے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو تاریکیوں میں اخِرَ الْفِتَنِ وَأَعْظَمَ الْآفَاتِ.وَأَمَرَ أَنْ چھوڑ دیئے گئے ہیں اور اُن کے فتنہ کو آخری فتنہ اور سب يَعُوذَ النَّاسُ كُلُّهُمْ بِهِ مِن هَذِهِ الْفِتَنِ سے بڑی آفت قرار دیا.اور اُس نے حکم فرمایا کہ قیامت إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.وَيَتَضَرَّعُوا لِدَفْعِهَا کے دن تک تمام لوگ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگا کریں فِي الصَّلَوَاتِ فِي أَوْقَاتِهَا الْخَمْسَةِ وَمَا اور اُن کے دُور ہونے کے لئے پانچوں وقت نمازوں أَشَارَ فِي هَذَا إِلَى الرّجالِ وَفِتْنَتِهِ میں آہ وزاری کیا کریں.لیکن اُس نے اس سورۃ میں دقبال الْعَظِيمَةِ فَأَن دَلِيْلٍ أَكْبَرُ مِنْ هَذَا عَلى اور اُس کے فتنہ عظیمہ کی طرف تو کوئی اشارہ نہ فرمایا.پس إِبْطَالِ هَذِهِ الْعَقِيدَةِ ثُمَّ مِنْ مُؤَيَّدَاتِ اِس عقیدہ کے باطل ہونے پر اس سے بڑی دلیل اور کونسی ہو هذَا الْبُرْهَانِ.أَنَّ الله ذكر النصارى في سکتی ہے.نیز اس دلیل کی تائیدی امور میں سے ایک یہ بات ذَكَرَ اخِرِ الْقُرْآنِ كَمَا ذَكَرَ فِي أَوَّلِ الْفُرْقَانِ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے آخر میں بھی ویسے فَفَكَّرْ فِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَفِي الْوَسواس ہی نصاری کا ذکر کیا ہے جیسے اس نے شروع میں ان کا ذکر الْخَنَّاسِ وَمَا هُمْ إِلَّا النَّصَارَى فَعُد فرمایا.پس لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ اور الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ مِنْ عُلَمَائِهِمْ بِرَبِّ النَّاسِ وَإِنَّ اللهَ میں غور کرو.یہ لوگ نصاری کے سوا اور کوئی نہیں.پس ان كَمَا خَتَمَ الْفَاتِحَة عَلَى الضَّالِّينَ کے پادریوں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگو.اللہ تعالیٰ نے جیسے كَذَالِكَ خَتَمَ الْقُرْآنَ عَلَى النَّفْرَانِينَ سورت فاتحہ کو الضالین (کے ذکر ) پر ختم کیا ہے اسی طرح وَإِنَّ الظَّالِينَ هُمُ النَّفَرَانِيُّونَ كَمَا اُس نے قرآن کریم کو نصاری (کے ذکر) پر ختم کیا ہے اور روى عَن نَّبِيِّنَا فِي اللَّهِ الْمَنْعُورِ وَفي الضَّالّين نصاری ہی ہیں جیسا کہ ڈر منشور اور فتح الباری میں فَتح الْبَارِى فَلَا تُعْرِضْ عَنِ الْقَوْلِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے.پس تم ایسی پختہ الثَّابِتِ الْمَشْهُورِ.وَمُسَلَّمِ الْجَمْهُورِ بات سے جو زبان زدِ خلائق ہے اور جو جمہور (مسلمانوں ) اعجاز مسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۹۰ تا۱۹۵) کے نزدیک مسلّم ہے منہ نہ موڑو.( ترجمہ از مرتب )

Page 392

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ سورة الفاتحة بتا دیں تو سہی کہ اس قوم کی جس کا فتنہ دجال سے بھی زیادہ ہے خبر کہاں دی گئی ہے.قرآن شریف نے تو اسی واسطے دجال کا نام نہیں لیا بلکہ وَلَا الضَّالین کہا.جس سے مراد یہی قوم نصاری ہے وَلَا الدجال کیوں نہ کہا.اصل امر یہی ہے کہ یہی وہ قوم ہے جس سے تمام انبیاء اپنی اپنی امت کو ڈراتے آئے ہیں.وَلَا الدَّجَال الحکم جلدے نمبر ۱۳ مؤرخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۳) وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں.اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے اس لئے سورہ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاریٰ کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دقبال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالی یہ فرما تاؤ لَا الضَّالِّينَ.یہ فرمانا چاہئے تھا کہ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۱) اس شیطان کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے.یہ بھوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جساسہ کے ذریعہ سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا.پھر قرونِ ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاء علیہم السلام کے اس بھوت نے رہائی پائی اور ہر روز اس کی طاقت بڑھتی گئی یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اُس نے خروج کیا اسی بھوت کا نام دجال ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے اخیر میں وَلَا الضَّالِّينَ کی دُعا میں ڈرایا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۵ حاشیه ) وہ دجال کہاں ہے؟ جس سے تم ڈراتے ہومگر لا الضالين والا دجبال دن بدن دنیا میں ترقی کر رہا ہے اور قریب ہے کہ آسمان وزمین اس کے فتنہ سے پھٹ جائیں.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹) خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ دجال جس سے ڈرایا گیا ہے وہ آخری زمانہ کے گمراہ پادری ہیں جنہوں نے حضرت عیسی کا طریق چھوڑ دیا ہے.کیونکہ اس نے سورہ محدوحہ میں یہی دعا سکھلائی ہے کہ ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ ایسے یہودی نہ بن جائیں جن پر حضرت عیسیٰ کی نافرمانی اور عداوت سے غضب نازل ہوا تھا اور نہ ایسے عیسائی بن جائیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کی تعلیم کو چھوڑ کر اس کو خدا بنا دیا تھا اور ایک ایسا جھوٹ اختیار کیا جو تمام جھوٹوں سے بڑھ کر ہے اور اس کی تائید میں حد سے زیادہ فریب اور مکر استعمال میں لائے.اس لئے آسمان پر ان کا نام دجال رکھا گیا اگر کوئی اور دقبال ہوتا تو اس آیت میں اس دجال

Page 393

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة سے پناہ مانگنی ضروری تھی یعنی سورۃ فاتحہ میں بجائے وَلَا الضَّالِّينَ کے ولا الدجال ہونا چاہیے تھا اور یہی معنی واقعات نے ظاہر کئے ہیں کیونکہ جس آخری فتنہ سے ڈرایا گیا تھا زمانہ نے اس فتنہ کو پیش کیا ہے جو تثلیث پر غلو کرنے کا فتنہ ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۳ حاشیه ) ان لوگوں نے مسیح کو نصف خدائی کا دعویدار بنا دیا ہے ایسا ہی انہوں نے دجال کی نسبت مان رکھا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا اور یہ کرے گا اور وہ کرے گا افسوس قرآن تو لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی تلوار سے تمام اُن باطل معبودوں کو قتل کرتا ہے جن میں خدائی صفات مانی جائیں پھر یہ دجال کہاں سے نکل آیا ہے.سورۃ فاتحہ میں یہودی اور عیسائی بننے سے بچنے کی دعا تو سکھلائی کیا دجال کا ذکر خدا کو یاد نہ رہا جو اتنابڑافتنہ تھا ؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ ء صفحه ۵) یہ جو میں نے ضالین کہا ہے تو اس سے مراد عیسائی اور پادری ہیں.انگریز اس سے مراد نہیں کیونکہ انگریز تو اکثر ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی انجیل پڑھی ہوئی نہیں ہوتی.ان پادریوں پر اسلام ایک بڑا بھاری صدمہ ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کو وہ مغلوب نہیں کر سکتے......یہ جو میں نے ضالین کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد یہی پادری لوگ ہیں جو نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ اوروں کو گمراہ کرنے میں بھی پوری ہمت اور کوشش سے کام لیتے ہیں.اور یہ جو حدیثوں میں دقبال کا ذکر آیا ہے تو اس سے مراد ضالین ہی ہیں اور اگر دجال کے معنے ضالین کے نہ لئے جاویں تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے ضالین کا ذکر تو قرآن شریف میں کر دیا بلکہ ان کے فتنہ تنظیم سے بچنے کے لئے دعا بھی سکھا دی مگر دجال کا ذکر تک بھی نہ کیا.حالانکہ وہ ایک ایسا عظیم فتنہ تھا جس سے لکھو کھا لوگ گمراہ ہو جاتے تھے.غرض سچی بات یہی ہے کہ دقبال اور ضالین ایک ہی گروہ کا نام ہے.جولوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور اس آخری زمانہ میں اپنے پورے زور پر ہیں اور ہر ایک طرح کے مکر اور فریب سے خلقت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے پھرتے ہیں.اور چونکہ دجال کے معنے بھی گمراہ کرنے والے کے ہیں.اسی واسطے احادیث میں یہ لفظ ضاتین کی بجائے بولا گیا ہے اور احادیث میں ضالین کی بجائے دجال کا لفظ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے.کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ لوگ اپنی طرف سے ایک دقبال بنالیں گے اور عجیب عجیب قسم کے خیالات اس کی طرف منسوب کریں گے کہ اس کے ایک ہاتھ میں بہشت ہوگا اور ایک ہاتھ میں دوزخ اور وہ خدائی کا بھی

Page 394

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة دعوی کرے گا اور نبوت کا بھی.اور اس کے ماتھے پر کا فرلکھا ہوا ہوگا اور اس کا ایک گدھا ہوگا.جس کے کانوں میں اس قدر فاصلہ ہوگا اور اس میں یہ یہ باتیں ہوں گی.اس لئے خدا فرماتا ہے کہ وہ دجالی گروہ ضالین کا ہی ہے جو طرح طرح کے پیرایوں میں لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور بڑے بڑے وعدے دے دے کر خدا تعالیٰ کی کتابوں میں تحریف تبدیل کرتے ہیں.اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کے حکموں سے بالکل روگردان کر رہے ہیں یہاں تک کہ سور جیسی گندی چیز کو بھی حلال خیال کر رہے ہیں حالانکہ توریت میں سور خاص طور پر حرام کیا گیا ہے اور خود مسیح نے بھی کہا ہے کہ سوروں کے آگے موتی مت ڈالو.اور ایسا ہی کفارہ جیسا گندہ مسئلہ ایجاد کر کے انہوں نے گناہوں کے لئے ایک وسیع میدان تیار کر دیا ہے.خواہ انسان کیسے ہی کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو مگر یسوع کو خدا یا خدا کا بیٹا سمجھنے سے وہ سب عیب جاتے رہیں گے.اور انسان نجات پا جائے گا اب بتلاؤ کیا یہ صاف سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی گمراہ کرنے والا گروہ ہے جس کو احادیث میں دجال اور قرآن کریم میں ضالین کر کے پکارا گیا ہے.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مؤرخہ ۱۰رجنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) قرآن نے اپنے اول میں بھی مغضوب علیہم اور ضالین کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جيسا كہ آيت لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولّد بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تاسیح موعود اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اُٹھے.(تحفہ گولڑو یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۲) اگر یہ اعتراض ہے کہ اب تو انبیاء کا سلسلہ بند ہو گیا اب کیوں ہمیں مغضوب علیہم بنایا جاتا ہے جب اس اُمت کے لئے خاتمہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی جانتا تھا کہ اس قوم میں بھی کئی یہودیوں کا رنگ دکھلائیں گے.وہ یہودی عیسی کو سولی دینا چاہتے تھے اسی طرح حدیث صحیح میں ہے کہ آخر یہ بھی یہودی ہوں گے اور خدا کی طرف سے جو آئے گا اس کی تکذیب کریں گے اور اس کے قتل کے منصوبے کرنا داخل ثواب سمجھیں گے.خدا کی باتیں بے معنی نہیں.یہ عذاب کے دن ہیں یا نہیں ؟ پچیس برس سے صبر کیا ان لوگوں نے تو اپنی طرف سے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا.میں نے ان کے کفر ناموں میں دیکھا کہ لکھتے ہیں اس کا کفر یہود و نصاری کے کفر سے بڑھ کر ہے.تعجب کی بات ہے کہ جولوگ کلمہ پڑھتے ہیں.قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تعظیم سے لیتے ہیں.جان تک فدا کرنے کو حاضر ہیں.کیا وہ ان سے بدتر ہیں جو ہر وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے رہتے ہیں.بجز اس کے

Page 395

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة الفاتحة جو مسلوب الایمان ہو جائے ایسا الزام نہیں دے سکتا اگر ان میں ایمان نہیں تو کیا شرافت بھی جاتی رہی.اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا تھا کہ ایسا فرقہ ہونے والا ہے.جو مسیح کی تکفیر اپنا ایمان سمجھے گا.اسی لئے اس دعا میں اس راہ سے بچنے کے لئے دعا سکھلائی.( بدر جلدے نمبر ا مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ولا الضالين ان کی راہ سے بچا جو گمراہ ہوئے یعنی سچی راہ کو چھوڑ دیا.اس راہ کو جس کی تعلیم انجیل میں ملی تھی کہ خدا کو واحد جانو.یہ تعلیم بالکل چھوڑ دی.دیکھو ان کو بتلایا گیا تھا کہ وہ خدا معبود ہے.جو حضرت عیسی کا بھی خدا ہے مگر اب یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہتے ہیں اور یہ کہ وہی جزا سزا کے مالک ہیں.( بدر جلدے نمبر ا مؤرخہ ۹ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) یہ نہ سمجھو کہ مغضوب علیہم ذرا سخت ہے.اور ضالین نرم.یہ بات نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہودی لوگوں کا ان ضالین سے تھوڑا گناہ تھاوہ تو رات کے پابند تھے.ہم نے ایک یہودی سے اس کے مذہب کی نسبت پوچھا تو اس نے کہا.ہمارا خدا کی نسبت وہی عقیدہ ہے جو قرآن میں ہے.ہم نے اب تک کسی انسان کو خدا نہیں بنایا.اس اعتبار سے تو یہ ضالین سے اچھے ہیں مگر شوخی شرارت میں ضالین سے بڑھ کر ہیں.پس اس لئے کہ انہیں دنیا میں سزا ملی ان کا ذکر پہلے آیا.ایک تحصیلدار کے پاس مقدمہ ہو اور اس نے اسے کچھ تھوڑا جرمانہ یا قید کرنا ہو تو سزا دے گا.اور اگر اس کی سزا اس کے اختیارات سے باہر ہو تو کسی دوسری عدالت کے سپرد کرتا ہے.یہودیوں کے اعمال ایسے تھے.کہ ان کی سزا اس دنیا میں بھی ہو سکتی تھی.مگر ضالین کا گناہ ان سے زیادہ ہے کہ مخلوق کو خدا بنالیا پس یہ آگے چل کر سزا پائیں گے یہ ایسے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَنَّا (مريم :۹۱) یعنی قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے زمین شق ہو اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاویں.یہودیوں کے بارے میں یہ نہ فرمایا.معمولی گناہ تھا.یہیں سزا دیدی اور ضالین کی سز ا سخت ہے اور سزا میں تفاوت ضرور ہوا کرتا ہے.ایک چور معمولی ہو تو اس کی سزا اور ہے اور ایک عادی مجرم چوروں کا استاد ہو تو اس کی اور.پادریوں نے اپنے بد عقیدے کو یہاں تک پھیلایا ہے کہ بعض اوقات ایک ایک پرچہ پچاس پچاس ہزار نکلتا ہے ایک ایسے مذہب کی تائید کے لئے جس کی بناحق کے نہایت خلاف اور ہر طرح سے مضر ہے.( بدر جلدے نمبر ا مؤرخہ ۹/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۸،۷) سورہ فاتحہ جس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں اس سورۃ میں تین گذشتہ فرقے پیش کئے ہیں ایک وہ جو اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق ہیں دوسرے مغضوب تیسرے ضالین.

Page 396

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۳ سورة الفاتحة مغضوب سے یہ مخصوصا مراد نہیں کہ قیامت میں ہی غضب ہوگا کیونکہ جو کتاب اللہ کو چھوڑتا اور احکام الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے ان سب پر غضب ہوگا.مغضوب سے مراد بالا تفاق یہود ہیں اور الضالین سے نصاریٰ اب اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ منعم علیہ فرقہ میں داخل ہونے اور باقی دو سے بچنے کے لئے دعا ہے.اور یہ سنت اللہ ٹھہری ہوئی ہے جب سے نبوت کی بنیاد ڈالی گئی ہے خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کر رکھا ہے کہ جب وہ کسی قوم کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو بعض اس کی تعمیل کرنے والے اور بعض خلاف ورزی کرنے والے ضرور ہوتے ہیں پس بعض منعم علیہ بعض مغضوب اور بعض ضالین ضرور ہوں گے.اب زمانہ بآواز بلند کہتا ہے کہ اس سورہ شریف کے موافق ترتیب آخر سے شروع ہو گئی ہے.آخری فرقہ نصاری کا رکھا ہے اب دیکھو کہ اس میں کس قدر لوگ داخل ہو گئے ہیں.ایک بشپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے کہ ۲۰۰۰۰۰۰ مسلمان مرتد ہو چکے ہیں اور یہ قوم جس زور شور کے ساتھ نکلی ہے اور جو جوطریق اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے اختیار کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان فتنہ نہیں ہے.اب دیکھو کہ تین باتوں میں سے ایک تو ظاہر ہو گئی پھر دوسری قوم مغضوب ہے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وقت بھی آ گیا اور وہ بھی پورا ہورہا ہے یہودیوں پر غضب الہی اس دنیا میں بھی بھر کا اور طاعون نے اُن کو تباہ کیا.اب اپنی بدکاریوں اور فسق و فجور کی وجہ سے طاعون بکثرت پھیل رہی ہے.کتمان حق سے وہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں نہیں ڈرتے.اب ان دونوں کے پورا ہونے سے تیسرے کا پتہ صاف ملتا ہے انسان کا قاعدہ ہے کہ جب چار میں سے تین معلوم ہوں تو چوتھی شے معلوم کر لیتا ہے اور اُس پر اُس کو اُمید ہو جاتی ہے نصاری میں لاکھوں داخل ہو گئے.مغضوب میں داخل ہوتے جاتے ہیں منعم علیہ کا نمونہ بھی اب خدا دکھانا چاہتا ہے جب کہ سورہ فاتحہ میں دعا تھی اور سورہ نور میں وعدہ کیا گیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورہ نور میں دعا قبول ہو گئی ہے.غرض اب تیسر ا حصہ منعم علیہ کا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو روشن طور پر ظاہر کر دے گا.اور یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جو ہو کر رہے گا مگر اللہ تعالیٰ انسان کو ثواب میں داخل کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ استحقاق جنت کا ثابت کر لیں جیسا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.خدا تعالیٰ اس بات پر قادر تھا کہ وہ صحابہ کے بدوں ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی فتوحات عطا فرماتا.مگر نہیں خدا نے صحابہ کو شامل کر لیا تا کہ وہ مقبول ٹھہریں اس سنت کے موافق یہ بات ہماری جماعت کو پیش آگئی ہے کہ بار بار تکلیف دی جاتی ہے اور چندے مانگے جاتے ہیں.(الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مؤرخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ صفحه ۷،۶)

Page 397

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ سورة الفاتحة سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں (۱) ایک یہ دعا کہ خدا تعالیٰ اُس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة: ۴).غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیہم کی جماعتیں ہیں اور انہیں کی طرف اشارہ ہے آیت صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں.ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت.دوسری وَ اخَرِينَ مِنْهُمُ کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے.پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دُعا پڑھو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے (۲) دوسری دُعا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دُ کھ دیں گے اور اس دُعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورة تبت یدا ابی لھب ہے (۳) تیسری دُعا وَلَا الضَّالِّينَ ہے اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ اخلاص ہے یعنی قُلْ هُوَ اللهُ أَحَده اللهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُه وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص : ۲ تا ۵) اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ محبت اور سورۃ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جبکہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.پس سورہ فاتحہ میں اُن تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستبلال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورہ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورہ ثبت اور سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دُعاؤں سے ہوا اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.اور یادر ہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصل بیان ہے اور سورہ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے.مثلاً سورہ فاتحہ میں دُعاؤ لا الضالین میں صرف دو لفظ میں سمجھایا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے دُعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان در پیش ہے جس کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پنچ وقت میں یہ دُعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز

Page 398

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ سورة الفاتحة ہو نہیں سکتی جیسا کہ حدیث لا صَلوةَ إِلَّا بِالْفَاتِحَةِ سے ظاہر ہوتا ہے.ظاہر ہے کہ دنیا میں ہزار ہامذہب پھیلے ہوئے ہیں جیسا کہ پارسی یعنی مجوسی اور براہمہ یعنی ہندو مذہب اور بدھ مذہب جو ایک بڑے حصہ دنیا پر قبضہ رکھتا ہے اور چینی مذہب جس میں کروڑ ہا لوگ داخل ہیں اور ایسا ہی تمام بت پرست جو تعداد میں سب مذہبوں سے زیادہ ہیں اور یہ تمام مذہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑے زور و جوش سے پھیلے ہوئے تھے اور عیسائی مذہب ان کے نزدیک ایسا تھا جیسا کہ ایک پہاڑ کے مقابل پر ایک تنگا.پھر کیا وجہ کہ سورۃ فاتحہ میں یہ دُعا نہیں سکھلائی کہ مثلاً خدا چینی مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا مجوسیوں کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا بدھ مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا آریہ مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا دوسرے بت پرستوں کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے بلکہ یہ فرمایا گیا کہ تم دُعا کرتے رہو کہ عیسائی مذہب کی ضلالتوں سے محفوظ رہو.اس میں کیا بھید ہے؟ اور عیسائی مذہب میں کونسا عظیم الشان فتنہ آئندہ کسی زمانہ میں پیدا ہونے والا تھا جس سے بچنے کے لئے زمین کے تمام مسلمانوں کو تاکید کی گئی.پس سمجھو اور یا درکھو کہ یہ دُعا خدا کے اُس علم کے مطابق ہے کہ جو اُس کو آخری زمانہ کی نسبت تھا.وہ جانتا تھا کہ یہ تمام مذہب بت پرستوں اور چینیوں اور پارسیوں اور ہندوؤں وغیرہ کے تنزل پر ہیں اور اُن کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں دکھلایا جائے گا جو اسلام کو خطرہ میں ڈالے مگر عیسائیت کے لئے وہ زمانہ آتا جاتا ہے کہ اُس کی حمایت میں بڑے بڑے جوش دکھلائے جائیں گے اور کروڑہا روپیہ سے اور ہر ایک تدبیر اور ہر ایک مکر اور حیلہ سے اُس کی ترقی کے لئے قدم اٹھایا جائے گا اور یہ تمنا کی جائے گی کہ تمام دنیا مسیح پرست ہو جائے تب وہ دن اسلام کے لئے سخت دن ہوں گے اور بڑے ابتلا کے دن ہوں گے.سواب یہ وہی فتنہ کا زمانہ ہے جس میں تم آج ہو.تیرہ سو برس کی پیشگوئی جو سورۃ فاتحہ میں تھی آج تم میں اور تمہارے ملک میں پوری ہوئی اور اس فتنہ کی جڑ مشرق ہی نکلا.اور جیسا کہ اس فتنہ کا ذکر قرآن کے ابتدا میں فرمایا گیا ایسا ہی قرآن شریف کے انتہا میں بھی ذکر فرما دیا تا یہ امر مؤکند ہو کر دلوں میں بیٹھ جائے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۷ تا ۲۲۰) سورۃ فاتحیری تعلیم ہی نہیں بلکہ اس میں ایک بڑی پیشگوئی بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا نے اپنی چاروں صفات ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، مالکیت یوم الدین یعنی اقتدار جزا و سزا کا ذکر کر کے اور اپنی عام قدرت کا ا اظہار فرما کر پھر اس کے بعد کی آیتوں میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ خدایا ایسا کر کہ گزشتہ راستباز نبیوں رسولوں کے ہم وارث ٹھہرائے جائیں ان کی راہ ہم پر کھولی جائے اُن کی نعمتیں ہم کو دی جائیں خدا یا ہمیں اس

Page 399

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة سے بچا کہ ہم اس قوم میں سے ہو جائیں جن پر دنیا میں ہی تیرا عذاب نازل ہوا یعنی یہود جو حضرت عیسی مسیح کے وقت میں تھی جو طاعون سے ہلاک کی گئی.خدایا ہمیں اس سے بچا کہ ہم اُس قوم میں سے ہو جائیں جن کے شامل حال تیری رہنمائی نہ ہوئی اور وہ گمراہ ہو گئی یعنی نصاری.اس دعا میں یہ پیشگوئی مخفی ہے کہ بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہوں گے کہ وہ اپنے صدق وصفا کی وجہ سے پہلے نبیوں کے وارث ہو جائیں گے اور نبوت اور رسالت کی نعمتیں پائیں گے اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ یہودی صفت ہو جائیں گے جن پر دنیا میں ہی عذاب نازل ہو گا اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ عیسائیت کا جامہ پہن لیں گے.کیونکہ خدا کے کلام میں یہ سنت مستمرہ ہے کہ جب ایک قوم کو ایک کام سے منع کیا جاتا ہے تو ضرور بعض ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے علم میں اس کام کے مرتکب ہونے والے ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نیکی اور سعادت کا حصہ لیتے ہیں ابتدائے دنیا سے اخیر تک جس قدر خدا نے کتا بیں بھیجیں اُن تمام کتابوں میں خدا تعالی کی یہ قدیم سنت ہے کہ جب وہ ایک قوم کو ایک کام سے منع کرتا ہے یا ایک کام کی رغبت دیتا ہے تو اس کے علم میں یہ مقدر ہوتا ہے کہ بعض اُس کام کو کریں گے اور بعض نہیں.پس یہ سورۃ پیشگوئی کر رہی ہے کہ کوئی فرد اس اُمت میں سے کامل طور پر نبیوں کے رنگ میں ظاہر ہوگا تا وہ پیشگوئی جو آیت صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے مستنبط ہوتی ہے وہ اکمل اور اتم طور پر پوری ہو جائے اور کوئی گروہ ان میں سے ان یہودیوں کے رنگ میں ظاہر ہو گا جن پر حضرت عیسی نے لعنت کی تھی اور وہ عذاب الہی میں مبتلا ہوئے تھے تا وہ پیشگوئی جو آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مستنبط ہوتی ہے ظہور پذیر ہو.اور کوئی گروہ ان میں سے عیسائیوں کے رنگ میں ہو جائے گا عیسائی بن جائے گا جو خدا کی رہنمائی سے بوجہ اپنی شراب خواری اور اباحت اور فسق و فجور کے بے نصیب ہو گئے تا وہ پیشگوئی جو آیت وَلَا الضَّالین سے مترشح ہو رہی ہے ظاہر ہو جائے.اور چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہے کہ آخری زمانہ میں ہزار ہا مسلمان کہلانے والے یہودی صفت ہو جائیں گے اور قرآن شریف کے کئی ایک مقامات میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے اور صد با مسلمانوں کا عیسائی ہو جانا یا عیسائیوں کی سی بے قید اور آزاد زندگی اختیار کرنا خود مشہود اور محسوس ہو رہا ہے بلکہ بہت سے لوگ مسلمان کہلانے والے ایسے ہیں کہ وہ عیسائیوں کی طرز معاشرت پسند کرتے ہیں اور مسلمان کہلا کر نماز روزہ اور حلال اور حرام کے احکام کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ دونوں فرقے یہودی صفت اور عیسائی صفت اس ملک میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں سو یہ دو پیشگوئیاں سورۃ فاتحہ کی تو تم پوری ہوتی دیکھ چکے ہو اور

Page 400

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة الفاتحة بچشم خود مشاہدہ کر چکے ہو کہ کس قدر مسلمان یہودی صفت اور کس قدر عیسائیوں کے لباس میں ہیں.تو اب تیسری پیشگوئی خود ماننے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسلمانوں نے یہودی عیسائی بننے سے یہود نصاری کی بدی کا حصہ لیا ایسا ہی اُن کا حق تھا کہ بعض افراد ان کے اُن مقدس لوگوں کے مرتبہ اور مقام سے بھی حصہ لیں جو بنی اسرائیل میں گزر چکے ہیں یہ خدائے تعالیٰ پر بدظنی ہے کہ اُس نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی بدی کا تو حصہ دار ٹھہرا دیا ہے یہاں تک کہ اُن کا نام یہود بھی رکھ دیا مگر اُن کے رسولوں اور نبیوں کے مراتب میں سے اس اُمت کو کوئی حصہ نہ دیا پھر یہ اُمت خیر الامم کس وجہ سے ہوئی؟ بلکہ شر الامم ہوئی کہ ہر ایک نمونہ شر کا ان کو ملا مگر نیکی کا نمونہ نہ ملا.کیا ضرور نہیں کہ اس اُمت میں بھی کوئی نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں نظر آ وے جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں کا وارث اور اُن کا ظل ہو؟ کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ اس اُمت میں اس زمانہ میں ہزار ہا یہودی صفت لوگ تو پیدا کرے اور ہزار ہا عیسائی مذہب میں داخل کرے مگر ایک شخص بھی ایسا ظاہر نہ کرے جو انبیائے گزشتہ کا وارث اور ان کی نعمت پانے والا ہوتا پیشگوئی جو آیت اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے مستنبط ہوتی ہے وہ بھی ایسی ہی پوری ہو جائے جیسا کہ یہودی اور عیسائی ہونے کی پیشگوئی پوری ہو گئی اور جس حالت میں اس اُمت کو ہزار ہائبرے نام دئے گئے ہیں اور قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود ہو جانا بھی ان کے نصیب میں ہے تو اس صورت میں خدا کے فضل کا خود یہ مقتضا ہونا چاہئے تھا کہ جیسے گزشتہ نصاری سے انہوں نے بُری چیزیں لیں اسی طرح وہ نیک چیز کے بھی وارث ہوں اسی لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں آیت اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ میں بشارت دی کہ اس اُمت کے بعض افراد انبیائے گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نرے یہود ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۸۲۴۵) وَمَا قَصَّ اللهُ عَلَيْنَا الْفِرَقَ الثَّلَاثَ في اور خدا نے فاتحہ میں تین فرقوں کا اس لئے ذکر کیا الْفَاتِحَةِ إِلَّا لِيُشِيْرَ إِلى أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ وَرِثَهُمْ ہے کہ تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ امت مذکورہ فِي كُلِّ قِسْمٍ مِنَ الْأَقْسَامِ الْمَذْكُورَةِ، فَقَدْ قسموں میں سے ہر ایک قسم کی وارث ہوگی.پس بلاشبہ ظَهَرَتْ هَذِهِ الْوَرَاثَةُ فِي مُسْلِمِی زَمَانِنَا الَّذِی یہ وراثت ہمارے زمانہ میں جو آخری زمانہ ہے ایسی هُوَ أَخِرُ الزَّمَانِ بِظُهُورٍ تَامَ، تَعْرِفُهَا كُلُّ نَفْسٍ ظہور تام سے مسلمانوں میں ظاہر ہوگئی ہے کہ ہر یک

Page 401

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة الفاتحة مِنْ غَيْرِ الْحَاجَةِ إِلَى الْإِمْعَانِ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى | نفس بغیر حاجت فکر کے اس کو پہچان رہا ہے.چنانچہ یہ الَّذِينَ يَنْظُرُونَ إِلَى مُسْلِمِی زَمَنِنَا هَذَا وَ إلى بات ان لوگوں پر مخفی نہیں جو ہمارے زمانہ کے مسلمانوں مَا يَعْمَلُونَ.وَلِكُلِ فِرْقَةٍ مِنْ هذه الورثاء اور ان کے کاموں کی طرف نظر کرتے ہیں اور ان تینوں الثَّلَاثِ دَرَجَاتٌ ثَلَاثٌ أَمَّا الَّذِینَ وَرِثُوا قسم کے وارثوں میں سے ہر ایک فرقہ وارثہ کے تین المُنْعَمَ عَلَيْهِمْ فَهُمْ رِجَالٌ مَّا وَجَدُوا درجے ہیں لیکن وہ جو منعم علیہم کے وارث حَظَّهُمْ مِنَ الْإِنْعَامِ إِلَّا قَلِيلًا مِنَ الْعَقَائِدِ ہوئے ان میں سے بعضوں نے انعام سے حصہ نہ پایا أَوِ الْأَحْكامِ وَهُمْ عَلَيْهِ يَقْنَعُوْنَ وَمِنْهُمْ مگر تھوڑا سا حصہ عقائد اور احکام میں سے ان کو ملا اور مُقْتَصِدُونَ وَإِنَّهُمْ وَقَفُوا عَلَى مَرْتَبَةِ اس پر انہوں نے قناعت کی اور بعض ان میں سے الْاِقْتِصَادِ وَمَا يَكْمُلُونَ، وَ مِنْهُمْ فَرد درمیانی چال والے ہیں اور وہ اسی اپنی چال پر کھڑے اجتَباهُ رَبُّهُ وَكَمَّلَهُ وَ جَعَلَهُ سَابِقا في ہو گئے اور تکمیل اور کمال کے درجے تک نہیں پہنچے اور الْخَيْرَاتِ وَهُوَ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَخصُّ ان میں سے ایک فرد ہے کہ خدا نے اس کو چنا اور امام بِالدَّرَجَاتِ، فَذَالِكَ الْمَخْصُوصُ هُوَ بنایا اور نیکیوں میں کامل کیا اور وہ چن لیتا ہے جس کو چاہتا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ الَّذِى ظَهَرَ فِي الْقَوْمِ وَ ہے اور درجوں سے مخصوص کرتا ہے پس وہی مخصوص وہی هُمْ لَا يَعْرِفُونَ وَ أَمَّا الَّذِينَ وَرِثُوا مسیح موعود ہے جو اس قوم میں ظاہر ہوا اور وہ نہیں پہچانتے الْمَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ مِن الْيَهُودِ فَمِنْهُمْ رِجَالٌ اور لیکن جو مغضوب علیہم کے وارث ہوئے ان مِن الْمُسْلِمِينَ شَاءَهُوهُمْ في تَرْكِ الْفَرَآئِضِ میں سے وہ مسلمان ہیں جو خدا کے احکام اور فرائض کے وَالْحُدُودِ، لَا يَصُومُونَ وَلَا يُصَلُّونَ، وَلَا ترک کرنے میں یہود سے مشابہ ہو گئے.نہ نماز پڑھتے يَذْكُرُونَ الْمَوْتَ وَلَا يُبَالُونَ، وَمِنْهُمْ قَوْمٌ ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں اور موت کو یاد نہیں کرتے اور الحل والدُّنْيَا مَعْبُودَهُمْ وَلَهَا في لَيْلِهِمْ بے خوف ہیں اور ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں وَ تَبَارِهِمْ يَعْمَلُونَ، وَمِنْهُمْ سَابِقُونَ فی نے دنیا کو اپنا معبود بنایا اور رات دن اسی کے لئے کام الرِّزَائِلِ وَأُولَبِكَ الَّذِيْنَ يَتَّخِذُونَ أَهْلَ الْحَق کرتے ہیں.اور ان میں سے ایسے لوگ ہیں کہ کمینی اور سُخْرِيًّا وَ عَلَيْهِمْ يَضْحَكُونَ وَيُعَادُونَهُمْ رذیل خصلتوں میں سب سے بڑھ گئے.یہی لوگ ہیں وَيُكَفِّرُوْنَهُمْ وَيَشْتُمُونَهُمْ، وَيَعْمَلُونَ رِيَاءَ جو اہلِ حق پر ٹھٹھے مارتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے

Page 402

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الفاتحة وَبَطَرًا وَلَا يُخْلِصُونَ وَيَصُولُونَ عَلى | ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور ریا اور دکھلاوے کے کام مسيح اللهِ وَحِزْبِهِ وَيَجْرُونَهُمْ إِلَى الْحُكام کرتے ہیں اور اخلاص نہیں رکھتے اور خدا کے مسیح پر اور اس وَفي كُلِّ طَرِيقٍ يَقْعُدُونَ، وَيَقُولُونَ کے گروہ پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو حاکموں کی طرف کھینچتے اقْتُلُوهُمْ فَإِنَّهُمْ كَافِرُونَ.وَإِذَا قِبْل ہیں اور ہر ایک راستے کے سرے پر ان کے ستانے کے لَهُمْ تَعَالَوْا إلى كَلامِ اللہ وَ اجْعَلُوهُ حَكَما لئے بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو مار ڈالو کیونکہ یہ کافر ہیں بَيْنَنَا وَبَيْتَكُمْ تَرى أَعْيُهُمْ تَحْمَرُ مِن اور جس وقت ان کو کہیں کہ خدا کے کلام کی طرف آؤ اور اس الْغَيْظِ وَ يَمُرُّونَ شَاتِمينَ وَهُمْ کو ہمارے اور اپنے درمیان حکم بناؤ تو ان کی آنکھیں غصہ مُشْتَعِلُونَ.وَكَأَيْن ممن أي الله رَأَوْهَا سے لال ہو جاتی ہیں اور گالیاں دیتے گزر جاتے ہیں بِأَعْيُنِهِمْ ثُمَّ يَمُرُونَ مُسْتَكْبِرِينَ كأَنهم بہتوں نے خدا کے نشانوں کو آنکھوں سے دیکھا پھر متکبرانہ لا يُبْصِرُونَ.وَنَبْذُوا كتاب الله وَرَآءَ گزر جاتے ہیں گویا اندھے ہیں.خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے ظُهُورِهِمْ ظُلْمًا وَعُلُوا، وَقَالُوا لَا ڈال دیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی دلیلوں کو نہ سنو اور اس تَسْمَعُوا دَلَائِلَة وَالْغَوْا فِيْهَا لَعَلَّكُمْ کے پڑھنے کے وقت شور ڈال دو تا غالب ہو جاؤ لیکن جو تَغْلِبُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ وَرِثُوا الضَّالِّينَ ضالین کے وارث ہوئے ان میں سے بعض نصاری کی فَمِنْهُمْ قَوْم أَحَبُّوا شِعَارُ النّصاری خوخصلت اور شعار کو دوست رکھتے ہیں اور اس طرف جھک وَسِيرَتَهُمْ وَ إِلَيْهَا يَميلُونَ وَتَجِدُهُمْ گئے.لباس ، کوٹ، پتلون، بوٹ اور طرز زندگی اور ساری يَرْغَبُونَ فِي حُلَلِهِمْ وَ قُمْصَانِهِمْ وَ عادتوں میں نصاریٰ کی نقل اتارتے ہیں اور ان عادتوں کے قَلانِسِهِمْ وَ نِعَالِهِمْ وَطَرْزِ مَعِيشَعِهِمْ مخالفوں پر بنتے ہیں اور نصاریٰ کی عورتوں کو اپنے نکاح میں وَجَمِيعِ خِصَالِهِمْ، وَ عَلَى مَنْ خَالَفَهَا لاتے ہیں اور ان سے عشق بازیاں کرتے ہیں.اور ان يَضْحَكُونَ وَيَتَزَوِّجُونَ نِسَاء مِنْ قَوْمِهِمْ میں سے کچھ لوگ) نصاری کے فلسفے کی طرف متوجہ وَعَلَيْهِنَّ يَعْشَقُوْنَ وَمِنْهُمْ قَوْمٌ مَّالُوا ہوئے جس کی ان شہروں میں انہوں نے اشاعت کی ہے إلَى الفَلْسَفَةِ الَّتِي أَشَاعُوهَا وَفي أَمْرِ الدِّينِ اور دین کے کاموں میں غفلت کرتے ہیں.بہت ہی يَتَسَاهَلُونَ.وَكَمْ فمَن كَلِم تَخْرُجُ مِن نامناسب باتیں بولتے ہیں اور خدا کے دین کی حقارت أَفْوَاهِهِمْ ، وَيُحَقِّرُوْنَ دِينَ الله وَلَا يُبَالُونَ کرتے ہیں اور خوف نہیں کرتے اور بعض ان میں سے

Page 403

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۰ سورة الفاتحة وَمِنْهُمْ قَوْمَ أَكْمَلُوا أَمْرَ الضَّلَالَةِ، وَارْتَدُّوا پکے گمراہ ہو گئے اور جہالت سے اسلام کے ساتھ دشمنی مِنَ الْإِسْلَامِ وَعَادَوْهُ مِنَ الْجَهَالَةِ، وَكَتَبُوا کرتے ہیں اور اسلام کے رڈ میں کتابیں لکھیں اور خدا كُتُبا فِي رَدّهِ، وَشَتَمُوا رَسُولَ اللهِ وَصَالُوا کے رسول کو بُرا کہا اور اس کی عزت پر حملہ کیا اور اس قسم عَلى عِرْضِهِ، وَتِلْكَ أَزْوَاجٌ فِي هَذَا الْمُلْكِ کے لوگ اس ملک میں کثرت سے ہیں اور وہ اس سے بَعْدَمَا كَانُوا يُسْلِمُون فَتَمَّ مَا أُشير إلَيْهِ پہلے مسلمان تھے.پس جس بات کا سورۃ فاتحہ میں اشارہ فِي الْفَاتِحَةِ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ تھا وہ ظاہر ہو گئی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.( ترجمہ اصل کتاب سے ) خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۶۶ تا ۱۷۳) سعید فرقہ جو کہ عذاب سے نجات پانے والا ہے وہ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ ہے.اور جو عذاب میں مبتلا ہونے والا ہے وہ مغضوب علیھم ہے.مغضوب علیہم اور ضالین میں وہی فرق ہے جو کہ ایک مریض محرقہ اور مدقوق میں ہوتا ہے کہ ایک جلدی ہلاک ہوتا ہے اور ایک آہستہ آہستہ ہلاکت تک پہنچتا ہے.مگر انجام کار دونوں ہلاک ہوتے ہیں کوئی آگے کوئی پیچھے.(البدر جلد نمبر امورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) بہترین دعا وہ ہوتی ہے جو جامع ہو تمام خیروں کی اور مانع ہو تمام مضرات کی اس لئے اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کی دعا میں آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کل منعم علیہم لوگوں کے انعامات کی حصول کی دعا ہے.اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین میں ہر قسم کی مضرتوں سے بچنے کی دعا ہے.چونکہ مغضوب سے مراد یہود اور ضالین سے مراد نصاری بالا تفاق ہے تو اس دعا کی تعلیم کا منشاء صاف ہے کہ یہودیوں نے جیسے بے جا عداوت کی تھی.مسیح موعود کے زمانہ میں مولوی لوگ بھی ویسا ہی کریں گے اور حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں.یہاں تک کہ وہ یہودیوں کے قدم بقدم چلیں گے.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مؤرخہ ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۳) خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں ہمیشہ آداب کو مد نظر رکھتے ہیں اسی لئے سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں دکھایا ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا.التخمین یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا اور الرحیم یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا ہے.مُلِكِ يَوْمِ التانين جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے چاہے رکھے چاہے مارے اور جزا و سزا آخر کی بھی ہے اور اس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے.جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو

Page 404

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة الفاتحة اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ رب ہے رحمان ہے رحیم ہے اب تک اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے اور پھر اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی بھی نہیں ہے.ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اُس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے پھر آگے صِرَاط الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ وہی صِرَاطَ الْمُسْتَقِیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں پھر غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا اور وَلَا الضَّالِّينَ اور نہ ان کی جو دور جا پڑے ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے تو جب تک اُسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کر سکتا اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے.اس مقام پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیوں ضرورت تھی وہ تو پیشتر ہی سے صراط مستقیم پر ہوتے ہیں.تلمیذ الرحمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ) وہ یہ دُعا ترقی مراتب اور درجات کے لئے طلب کرتے ہیں بلکہ یہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ تو آخرۃ میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے پاس درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے.( بدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۸،۲۷) اب جیسا کہ سورۃ فاتحہ میں تین گروہ کا ذکر ہے.ان تین کا ہی مزا چکھا دے گا.اس میں جو آخر تھے ، وہ مقدم ہو گئے یعنی ضالین.اسلام وہ تھا کہ ایک شخص مرتد ہوجاتا تو قیامت برپا ہو جاتی تھی، مگر اب بین لاکھ عیسائی ہو چکے ہیں اور خود نا پاک ہو کر پاک وجود کو گالیاں دی جاتی ہیں.پھر مغضوب کا نمونہ طاعون سے دکھایا جارہا ہے.اس کے بعد انْعَمتَ عَلَيْهِمْ کا گروہ ہوگا.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۱ ء صفحه ۵) انہوں نے (آجکل کے موحد کہلانے والے ) بجز خشک لفاظی کے اور کوئی فائدہ اسلام کو نہیں پہنچایا.اپنے طریق عمل سے اسلام کو مردہ مذہب ثابت کرنا چاہا ہے جبکہ یہ کہ دیا کہ اب کوئی ایسا مرد نہیں ہے جس کے ساتھ زندہ نشانات اسلام کی تائید میں ہوں.افسوس! ان لوگوں کی عقلوں کو کیا ہوا.یہ کیوں نہیں سمجھتے ؟ کیا قرآن میں جو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہا گیا تھا، یہ یونہی ایک بے معنی اور بے مطلب بات تھی اور نرا ایک قصہ ہی قصہ ہے؟ کیا وہ انعام کچھ نہ تھا؟ خدا نے نرا دھوکہ ہی دیا ہے؟ اور وہ

Page 405

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ سورة الفاتحة اپنے سچے طالبوں اور صادقوں کو بدنصیب ہی رکھنا چاہتا ہے؟ کس قدر ظلم ہے اگر یہ خدا کی نسبت قرار دیا جاوے کہ وہ نری لفاظی سے ہی کام لیتا ہے.حقیقت یہ نہیں ہے یہ ان لوگوں کی اپنی خیالی باتیں ہیں.قرآن شریف در حقیقت انسان کو ان مراتب اور اعلیٰ مدارج پر پہنچانا چاہتا ہے جو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق لوگوں کو دیئے گئے تھے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوتا جبکہ خدا تعالیٰ کے کلام کے زندہ ثبوت موجود نہ ہوں.ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں ہے کہ آریوں کی طرح کوئی خدا کا پریمی اور بھگت کتنی ہی دعائیں کرے اور رورو کر اپنی جان کھوئے اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو.اسلام خشک مذہب نہیں ہے.اسلام ہمیشہ ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے نشانات اس کے ساتھ ہیں.پیچھے رہے ہوئے نہیں ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۶ مؤرخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳) دنیا دار دنیا کے ہم وغم میں ایسا غرق ہوتا ہے کہ انجام کار اسے بھولے سے بھی خیال نہیں گزرتا اور جس طرح ایک خارش والا بس نہیں کرتا جب تک کہ خون نہ نکل آوے اسی طرح وہ بھی سیر نہیں ہوتا اور کتے کی طرح اپنا خون آپ پیتا ہے اور جانتا نہیں کہ دنیا کی زندگی چیز ہی کیا ہے.اسی واسطے اللہ کریم نے مسلمانوں کو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالین والی دعا سکھائی ہے کہ جو لوگ اسی دنیا کے کیڑے ہوتے ہیں اور اسی دنیا کی خاطر رسولوں اور نبیوں کا انکار کر دیتے ہیں اور پھر اسی دنیا میں ہی ان پر عذاب نازل ہوتا ہے ان میں شامل ہونے سے بچا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷) سورۃ فاتحہ کی بعض مختصر تفاسیر اعْلَمْ أَنَّ اللهَ تَعَالَى افتتح كتابة جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو شکر اور ثناء سے افْتَتَحَ بِالْحَمْدِ لَا بِالشُّكْرِ وَلَا بِالثَّنَاءِ.لان نہیں بلکہ حمد سے شروع کیا ہے کیونکہ حمد کا لفظ ان دونوں الْحَمد أَتَم وَأَكْمَلُ مِنْهُمَا وَ أَحَاطَهُمَا سے زیادہ مکمل اور جامع ہے اور ان دونوں پر پورے طور ، بِالْإِسْتيْفَاءِ.ثُمَّ ذَالِك رَدُّ عَلى عَبَدَةِ پر محیط ہے.پھر لفظ الحمد مخلوق کے پرستاروں اور بتوں الْمَخْلُوقِينَ وَالْأَوْثَانِ فَإِنَّهُمْ يَحْمَدُونَ کے پوجاریوں کی تردید ہے.کیونکہ وہ اپنے باطل طَوَاغِيْتَهُمْ وَيَنْسِبُونَ إِلَيْهَا صِفَاتِ معبودوں کی حمد کرتے ہیں.اور خدائے رحمان کی صفات الرَّحْمَنِ وَ فِي الْحَمْدِ إِشَارَةُ أُخرى.ان کی طرف منسوب کرتے ہیں.الحمد میں ایک اور وَهِيَ أَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَقُولُ اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 406

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۳ سورة الفاتحة أَيُّهَا الْعِبَادُ اعْرِفُونِي بِصِفَاتِي وَامِنُوا ني | اے میرے بندو! مجھے میری صفات کے ذریعہ پہچانو اور لِكَمَالَاتِي وَانْظُرُوا إِلَى السَّمَاوَاتِ میرے کمالات کی بناء پر مجھ پر ایمان لاؤ اور آسمانوں اور اور وَالْأَرْضِينَ.هَلْ تَجِدُونَ كَمِثْلِی رَب زمینوں پر غور کرو.کیا تم میرے جیسا کسی اور کو ربّ الْعَالَمِينَ وَأَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَمَالِك العالمین اور ارحم الراحمین اور مالک یوم الدین پاتے ہو.يَوْمِ الدِّينَ.وَمَعَ ذَالِكَ إشَارَةٌ إلى أَن مزید برآں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تمہارا معبود ایسا إلهَكُمْ إِلهُ جَمَعَ جَميعَ أَنْوَاعِ الْحَمْدِ في معبود ہے جس کی ذات ہر قسم کی حمد کی جامع ہے اور اپنی ذَاتِهِ.وَتَفَرَّدَ فِي سَائِرِ مَحَاسِنِه وصفاته تمام خوبیوں اور صفتوں میں منفرد اور یگانہ ہے.اس طرف وَإِشَارَةٌ إِلى أَنَّهُ تَعَالَى مُنَزَةٌ شَأْنُهُ عَنْ بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان ہر نقص ہر تغیر اور ہر عیب كُلِّ نَقْصٍ وَحُؤُوْلِ حَالَةٍ وَلُحُوقِ وَضَمَةٍ کے لاحق ہونے سے پاک ہے جو مخلوق میں پایا جاتا ہے كَالْمَخْلُوقِيْنَ بَلْ هُوَ الْكَامِل بلکہ وہ اپنی ذات میں قابل تعریف ہے اور وہ حد بندی الْمَحْمُودُ.وَلَا تُحِيْطَهُ الْحُدُودُ وَلَهُ سے بالا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بعثت الْحَمْدُ في الأولى وَ الْآخِرَةِ وَمِنَ الْأَزل اور پچھلی بعثت میں بلکہ ازل سے ابدالآباد تک سب تعریف إلى أَبَدِ الأبيين.ولذالك سمى اللهُ نَبِيَّة اس کے لئے ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا نام أَحْمَدَ وَكَذَالِكَ سلمی بِهِ الْمَسِيحَ احمد رکھا اور اسی طرح مسیح موعود کا بھی یہی نام رکھا تا اس الْمَوْعُودَ لِيُشير إلى مَا تَعَمَّدَ وَإِنَّ الله نے جو قصد کیا تھا اس کی طرف اشارہ فرمائے.اور اللہ كَتَبَ الْحَمْدَ عَلَى رَأْسِ الْفَاتِحَةِ ثُمَّ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ابتداء میں الحمد لکھا ہے پھر اس أَشَارَ إِلَى الْحَمْدِ فِي آخِرِ هذهِ السُّورَةِ فَإِنَّ سورت کے آخر میں بھی الحمد کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ اس أخرَهَا لَفْظُ الضَّالِّينَ.وَهُمُ النَّصَارَى کے آخر میں الضالین کا لفظ ہے اور وہ نصاریٰ ہیں جنہوں الَّذِينَ أَعْرَضُوا عَنْ حَمد الله و أعطوا نے خدا تعالیٰ کی حمد کرنے سے منہ موڑ لیا اور اس کا حق حَقَّهُ لِأَحَدٍ مِنَ الْمَخْلُوقِيْنَ فَإِنَّ حَقِيقَةً مخلوق کے ایک فرد کو دے دیا.کیونکہ گمراہی کی حقیقت یہ الضَّلالَةِ هِيَ تَرْك الْمَحْمُودِ الَّذِی ہے کہ اس قابل تعریف ہستی کو جو حمد وثنا کی مستحق ہے چھوڑ يَسْتَحِقُ الْحَمْدَ وَالثَّنَاءِ كَمَا فَعَلَ دیا جائے.جیسا کہ نصاری نے کیا ہے.انہوں نے اپنے النَّصَارَى وَنَحتُوا مِنْ عِنْدِهِمْ مَحْمُودًا پاس سے ایک اور قابلِ تعریف معبود بنالیا اور انہوں نے

Page 407

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة الفاتحة اخَرَ وَ بَالَغُوا فِي الْإِطْرَاءِ وَاتَّبَعُوا اس کی تعریف میں بڑا مبالغہ کیا ہے.انہوں نے اپنی الْأَهْوَاء وَ بَعُدُوا مِنْ عَيْنِ الْحَيَاةِ - خواہشات کی پیروی کی اور زندگی کے چشمہ سے دور نکل گئے وَهَلَكُوا كَمَا يملك الضال في اور اس طرح ہلاک ہو گئے جس طرح ایک راہ گم کردہ شخص بیابان میں ہلاک ہو جاتا ہے.الْمَوْمَاة وَإِنَّ الْيَهُودَ هَلَكُوا فِي أَوَّلِ أَمْرِهِمْ اور یہود تو اپنی ابتدا میں ہی ہلاک ہو گئے تھے اور وَبَاءُوا بِغَضَبٍ من الله الْقَهَّارِ.و خدائے قہار کے غضب کے مورد بن گئے تھے.نصاری چند النّصَارَى سَلَكُوا قَلِيلاً ثُمَّ ضَلُّوا قدم چلے پھر گمراہ ہو گئے اور روحانی پانی کھو دیا اور آخر کار وَفَقَدُوا الْمَاءَ فَمَاتُوا فِي فَلَاةٍ ممن لاچار ہو کر بیابانوں میں ہی مر گئے.پس خلاصہ بیان یہ ہے الْاِضْطِرَارِ فَحَاصِلُ هَذَا الْبَيَانِ أَنَّ کہ اللہ تعالیٰ نے دو احمد پیدا کئے (ایک ) اسلام کے ابتدائی الله خَلَقَ أَحْمَدَيْنِ في صَدْرِ الْإِسْلَامِ زمانہ میں اور (ایک ) آخری زمانہ میں.اور اللہ تعالی نے وَفِي آخِرِ الزَّمَانِ وَ أَشَارَ إِلَيْهِمَا اہل عرفان کے لئے سورۃ فاتحہ کے شروع میں اور اس کے يتَكْرَارٍ لفظ الْحَمْد فِي أَوَّلِ الْفَاتِحَةِ وفي آخر میں الحمد کا لفظا و معنا تکرار کر کے ان دونوں (احمدوں ) آخِرِهَا لِأَهْلِ الْعِرْفَانِ.وَفَعَلَ كَذَالِک کی طرف اشارہ فرمایا ہے.اور خدا نے ایسا عیسائیوں کی لِيَرُدَّ عَلَى النَّصْرَانِيِّينَ وَأَنْزَلَ أَحْمَدَینِ تردید کے لئے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے دو احمد آسمان سے مِنَ السَّمَاءِ لِيَكُونَا كَالْجِدَارَينِ لِحِمَايَةِ اتارے تا وہ دونوں پہلوں اور پچھلوں کی حمایت کے لئے دو الأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ.دیواروں کی طرح ہو جائیں.( ترجمہ از مرتب ) اعجاز امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۹۵ تا ۱۹۸) ہم اس حی و قیوم کومحض اپنی ہی تدبیروں سے ہر گز نہیں پاسکتے.بلکہ اس راہ میں صراط مستقیم صرف یہ ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی مع اپنی تمام قوتوں کے خدا تعالی کی راہ میں وقف کر کے پھر خدا کے وصال کے لئے دعا میں لگے رہیں تا خدا کو خدا ہی کے ذریعہ سے پاویں.ایک پیاری دعا اور سب سے زیادہ پیاری دُعا جو عین محل اور موقع سوال کا ہمیں سکھاتی ہے اور فطرت کے روحانی جوش کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتی ہے وہ دُعا ہے جو خدائے کریم نے اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورہ فاتحہ

Page 408

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة الفاتحة دو میں ہمیں سکھائی ہے اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ـ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.تمام پاک تعریفیں جو ہو سکتی ہیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے.الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ ـ وہی خدا جو ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے لئے رحمت کا سامان میسر کرنے والا ہے اور ہمارے اعمال کے بعد رحمت کے ساتھ جزا دینے والا ہے ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ.وہ خدا جو جزاء کے دن کا وہی ایک مالک ہے.کسی اور کو وہ دن نہیں سونپا گیا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے وہ جو ان تعریفوں کا جامع ہے ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں.اور ہم ہر ایک کام میں توفیق تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس جگہ ہم کے لفظ سے پرستش کا اقرار کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارے تمام قومی تیری پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے آستانہ پر جھکے ہوئے ہیں کیونکہ انسان باعتبار اپنے اندرونی قومی کے ایک جماعت اور ایک اُمت ہے اور اس طرح پر تمام قومی کا خدا کو سجدہ کرنا یہی وہ حالت ہے جس کو اسلام کہتے ہیں.اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اور اس پر ثابت قدم کر کے ان لوگوں کی راہ دکھلا جن پر تیرا انعام و اکرام ہے اور تیرے مورد فضل و کرم ہو گئے ہیں.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لا الضالین اور ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تجھ تک نہیں پہنچ سکے اور راہ کو بھول گئے.آمین.اے خدا! ایسا ہی کر.یہ آیات سمجھا رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے انعامات جو دوسرے لفظوں میں فیوض کہلاتے ہیں انہی پر نازل ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی خدا کی راہ میں قربانی دے کر اور اپنا تمام وجود اس کی راہ میں وقف کر کے اور اس کی رضا میں محو ہو کر پھر اس وجہ سے دعا میں لگے رہتے ہیں کہ تا جو کچھ انسان کو روحانی نعمتوں اور خدا کے قرب اور وصال اور اس کے مکالمات اور مخاطبات میں سے مل سکتا ہے وہ سب ان کو ملے اور اس دعا کے ساتھ اپنے تمام قومی سے عبادت بجالاتے ہیں اور گناہ سے پر ہیز کرتے اور آستانہ الہی پر پڑے رہتے ہیں اور جہاں تک ان کے لئے ممکن ہے اپنے تئیں بدی سے بچاتے ہیں اور غضب الہی کی راہوں سے دور رہتے ہیں.سو چونکہ وہ ایک اعلیٰ ہمت اور صدق کے ساتھ خدا کو ڈھونڈتے ہیں اس لئے اس کو پالیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی پاک معرفت کے پیالوں سے سیراب کئے جاتے ہیں.اس آیت میں جو استقامت کا ذکر فرمایا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچا اور کامل فیض جو روحانی عالم تک پہنچاتا ہے کامل استقامت سے وابستہ ہے اور کامل استقامت سے مراد ایک ایسی حالت صدق و وفا ہے جس کو کوئی امتحان ضرر نہ پہنچا سکے.یعنی ایسا پیوند ہو جس کو

Page 409

۳۸۶ سورة الفاتحة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ تلوار کاٹ سکے نہ آگ جلا سکے اور نہ کوئی دوسری آفت نقصان پہنچا سکے.عزیزوں کی موتیں اس سے علیحدہ نہ کر سکیں.پیاروں کی جدائی اس میں خلل انداز نہ ہو سکے.بے آبروئی کا خوف کچھ رعب نہ ڈال سکے.ہولناک دکھوں سے مارا جانا ایک ذرہ دل کو نہ ڈرا سکے.سو یہ دروازہ نہایت تنگ ہے.اور یہ راہ نہایت دشوار گزار ہے.کس قدر مشکل ہے.آہ ! صد آہ !! ( اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۲،۳۸۱) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے وہ تینوں ہی سورۃ فاتحہ میں بیان کر دی ہیں.اوّل.اللہ تعالیٰ نے اپنے حسن کو دکھایا ہے جبکہ جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو متصف کیا ہے یہ قاعدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلوں کو پینچتی ہے.جیسے موتی کی آب، گھوڑے کی خوبصورتی ، لباس کی چمک دمک غرض یہ حسن، پھولوں ، پتوں ، پتھروں ، حیوانات، نباتات، جمادات کسی چیز میں ہو.اس کا خاصہ ہے کہ بے اختیار دل کو کھینچتا ہے پس خدا تعالیٰ نے پہلا مرحلہ اپنی خدائی منوانے کا حسن کا رکھا ہے جب الْحَمْدُ لِلهِ فرمایا کہ جمیع اقسام حمد و ستائش اسی کے لئے سزاوار ہیں.پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتا ہے انسان جیسے حسن پر مائل ہوتا ہے ویسے ہی احسان پر بھی مائل ہوتا ہے اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ صفات کو بیان کر کے اپنے احسان کی طرف توجہ دلائی.لیکن اگر انسان کا مادہ ایسا ہی خراب ہو اور وہ حسن اور احسان سے بھی سمجھ نہ سکے تو پھر تیسرا ذریعہ سورۃ فاتحہ میں غیر المغضوب کہہ کر متنبہ کیا ہے.اعلیٰ درجہ کے لوگ تو حسن سے فائدہ اٹھاتے اور جوان سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں ان کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے یہودیوں کو مغضوب کہا ہے.اور ان پر طاعون ہی پڑی تھی.خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا.یا یوں کہو کہ طاعون کے عذاب شدید سے ڈرایا ہے.شیطان بے باک انسان پر ایسا سوار ہے کہ وہ سن لیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.اصل یہ ہے کہ جب تک جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر انہیں بالکل سرد نہ کر دے خدا تعالی پر ایمان لانا مشکل ہے.اقام جلد ۶ نمبر ۹ مؤرخه ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶،۵) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - الی آخر السورة یہ ساری باتیں چاہتی ہیں کہ کوئی رب ہے اور کوئی چیز مخلوق بھی ہے.پس ہم کو اپنی خدائی کا ثبوت دیں.خدا نے انسان کو مخلوق پیدا کیا ہے اور دنیا میں بھی مخلوق بنایا ہے.پھر ہم چاند سورج وغیرہ کو کس طرح خدا مان لیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مؤرخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۷)

Page 410

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ سورة الفاتحة بت پرستی اور عناصر پرستی کا مذہب اس ملک میں اس قدر قدیم ہے کہ محققانہ طور پر اس کا کوئی ابتدا ٹھہرانا مشکل ہے بجز اس کے کہ اس مذہب کو وید کے ساتھ ساتھ تسلیم کیا جائے مگر پھر بھی.....مجھے بعض قرآنی آیتوں پر نظر ڈال کر خیال آتا ہے کہ شاید اصل تعلیم وید کی عناصر پرستی سے پاک ہو اور عناصر کی مہما اور اُستت سے کچھ اور مطلب ہو مگر.....یہ میرا خیال اس وقت یقین کے مرتبہ تک پہنچے گا جبکہ وید کی پہچان یا ساتھ یاسر شرتیوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ان تمام عناصر اور اجرام فلکی کی پوجا سے جن کی مہما اور استت رگ وید میں موجود ہے صاف اور صریح لفظوں کے ساتھ منع کرتا ہے.وید کی شرتیوں کی وہ تاویل جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں قرآن شریف کی چند آیتوں پر غور کرنے سے میرے دل میں گزرتی ہے.پہلی آیت یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رب العلمین.یعنی ہر ایک حمد اور ثنا اس خدا کے لئے مسلم ہے جس کی تربیت ہر ایک عالم میں یعنی ہر ایک رنگ میں ہر ایک پیرا یہ میں اور ہر ایک فائدہ بخش صنعت الہی کے ذریعہ سے مشہود اور محسوس ہو رہی ہے یعنی جن جن متفرق وسیلوں پر اس دنیا کے لوگوں کی بقا اور عافیت اور تکمیل موقوف ہے دراصل ان کے پردہ میں ایک ہی پوشیدہ طاقت کام کر رہی ہے جس کا نام اللہ ہے.چنانچہ اس دنیا کے کاروبار کی تعمیل کے لئے ایک قسم کی تربیت سورج کر رہا ہے جو ایک حد تک انسان کے بدن کو گرمی پہنچا کر دوران خون کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جس سے انسان مرنے سے بچتا ہے اور اس کی آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے.پس حقیقی سورج جو حقیقی گرمی پہنچانے والا اور حقیقی روشنی عطا کرنے والا ہے وہ خدا ہے کیونکہ اسی کی طاقت کے سہارے سے یہ سورج بھی کام کر رہا ہے اور اس حقیقی سورج کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ دورانِ خون کے سلسلہ کو جاری رکھتا ہے جس پر جسمانی زندگی موقوف ہے.اس طرح پر کہ اس فعل کا آلہ انسان کے دل کو ٹھہراتا ہے اور آسمانی روشنی سے آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے بلکہ وہ روحانی زندگی کو نوع انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے منجملہ انسانوں کے ایک انسان کو اختیار کر لیتا ہے اور انسانی سلسلہ کے مجموعہ کے لئے جو ایک جسم کا حکم رکھتا ہے اس کو بطور دل کے قرار دے دیتا ہے اور اس کو روحانی زندگی کا خون نوع انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے ایک آلہ مقرر کر دیتا ہے.پس وہ طبعاً اس خدمت میں لگا رہتا ہے کہ ایک طرف سے لیتا اور پھر تمام مناسب اطراف میں تقسیم کر دیتا ہے اور جیسا کہ غیر حقیقی اور جسمانی سورج آنکھوں کو کامل روشنی پہنچاتا اور تمام نیک بد چیزیں ان پر کھول دیتا ہے.ایسا ہی یہ حقیقی سورج دل کی آنکھ کو معرفت کے بلند مینار

Page 411

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة الفاتحة تک پہنچا کر دن چڑھا دیتا ہے اور جیسا کہ وہ جسمانی سورج حقیقی سورج کے سہارے سے پھلوں کو پکاتا ہے اور ان میں شیرینی اور حلاوت ڈالتا اور عفونتوں کو دُور کرتا اور بہار کے موسم میں تمام درختوں کو ایک سبز چادر پہناتا اور خوشگوار پھلوں کی دولت سے ان کے دامن کو پُر کرتا اور پھر خریف میں اس کے برخلاف اثر ظاہر کرتا ہے اور تمام درختوں کے پتے گرا دیتا اور بدشکل بنا دیتا اور پھلوں سے محروم کرتا اور بالکل انہیں ننگے کر دیتا ہے بجز ان ہمیشہ بہار درختوں کے جن پر وہ ایسا اثر نہیں ڈالتا یہی کام اس حقیقی آفتاب کے ہیں جو سر چشمہ تمام روشنیوں اور فیضوں کا ہے وہ اپنی مختلف تجلیات سے مختلف طور کے اثر دکھاتا ہے ایک قسم کی تجلی سے وہ بہار پیدا کر دیتا ہے اور پھر دوسری قسم کی تجلی سے وہ خزاں لاتا ہے اور ایک تجلی سے وہ عارفوں کے لئے معرفت کی حلاوتیں پیدا کرتا ہے اور پھر ایک تجلی سے کفر اور فسق کا عفونت ناک مادہ دنیا سے دُور اور دفع کر دیتا ہے.پس اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ تمام کام جو یہ جسمانی آفتاب کر رہا ہے وہ سب کام اس حقیقی آفتاب کے ظلّ ہیں اور یہ نہیں کہ وہ صرف روحانی کام کرتا ہے بلکہ جس قدر اس جسمانی سورج کے کام ہیں وہ اس کے اپنے کام نہیں ہیں بلکہ در حقیقت اسی معبود حقیقی کی پوشیدہ طاقت اس کے اندر وہ تمام کام کر رہی ہے جیسا کہ اُسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف میں ایک ملکہ کا قبضہ لکھا ہے جو آفتاب پرست تھی اور اس کا نام بلقیس تھا اور وہ اپنے ملک کی بادشاہ تھی اور ایسا ہوا کہ اس وقت کے نبی نے اس کو دھمکی دے بھیجی کہ تجھے ہمارے پاس حاضر ہونا چاہئے ورنہ ہمارا لشکر تیرے پر چڑھائی کرے گا اور پھر تیری خیر نہیں ہوگی.پس وہ ڈرگئی اور اس نبی کے پاس حاضر ہونے کے لئے اپنے شہر سے روانہ ہوئی اور قبل اس کے کہ وہ حاضر ہو اس کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ایسا محل طیار کیا گیا جس پر نہایت مصفا شیشہ کا فرش تھا اور اس فرش کے نیچے نہر کی طرح ایک وسیع خندق طیار کی گئی تھی جس میں پانی بہتا تھا اور پانی میں مچھلیاں چلتی تھیں جب وہ ملکہ اس جگہ پہنچی تو اس کو حکم دیا گیا کہ محل کے اندر آ جا تب اس نے نزدیک جا کر دیکھا کہ پانی زور سے بہہ رہا ہے اور اس میں مچھلیاں ہیں.اس نظارہ سے اس پر یہ اثر ہوا کہ اُس نے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اُٹھا لیا کہ ایسا نہ ہو کہ پانی میں تر ہو جائے.تب اُس نبی نے اس ملکہ کو جس کا نام بلقیس تھا آواز دی کہ اے بلقیس تو کس غلطی میں گرفتار ہوگئی.یہ تو پانی نہیں ہے جس سے ڈر کر تو نے پاجامہ اوپر اٹھالیا.یہ تو شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے.اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے.قَالَ إِنَّه صرح مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِيرَ (العمل : ۴۵) یعنی اس نبی نے کہا کہ اے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو او پر کی سطح پر بطور فرش

Page 412

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة الفاتحة کے لگائے گئے ہیں اور پانی جو زور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان شیشوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی ہیں تب وہ سمجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیا ہے اور میں نے فی الحقیقت جہالت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی.تب وہ خدائے واحد لاشریک پر ایمان لائی اور اُس کی آنکھیں کھل گئیں اور اُس نے یقین کر لیا کہ وہ طاقت عظمیٰ جس کی پرستش کرنی چاہئے وہ تو اور ہے اور میں دھو کہ میں رہی اور سطحی چیز کو معبود ٹھہرایا اور اس نبی کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ دنیا ایک شیش محل ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور عناصر وغیرہ جو کچھ کام کر رہے ہیں.یہ دراصل ان کے کام نہیں یہ تو بطور شیشوں کے ہیں بلکہ ان کے نیچے ایک طاقت مخفی ہے جو خدا ہے.یہ سب اس کے کام ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر بلقیس نے سچے دل سے سورج کی پوجا سے توبہ کی اور سمجھ لیا کہ وہ طاقت ہی اور ہے کہ سورج وغیرہ سے کام کراتی ہے اور یہ تو صرف شیشے ہیں.یہ تو ہم نے سورج کا حال بیان کیا ایسا ہی چاند کا حال ہے.جن صفات کو چاند کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل خدا تعالیٰ کی صفات ہیں.وہ راتیں جو خوفناک تاریکی پیدا کرتی ہیں چاند ان کو روشن کرنے والا ہے جب وہ چمکتا ہے تو فی الفور اندھیری رات کی تاریکی اُٹھ جاتی ہے.کبھی وہ پہلے وقت سے ہی چھپکنا شروع کرتا ہے اور کبھی کچھ تاریکی کے بعد نکلتا ہے.یہ عجیب نظارہ ہوتا ہے کہ ایک طرف چاند چڑھا اور ایک طرف تاریکی کا نام و نشان نہ رہا.اسی طرح خدا بھی جب نہایت گندہ اور تار یک آدمیوں پر جو اس کی طرف جھکتے ہیں چمکتا ہے تو ان کو اسی طرح روشن کر دیتا ہے جیسا کہ چاند رات کو روشن کرتا ہے.اور کوئی انسان اپنی عمر کے پہلے زمانہ میں ہی اس چاند کی روشنی سے حصہ لیتا ہے اور کوئی نصف عمر میں اور کوئی آخری حصہ میں اور بعض بد بخت سلخ کی راتوں کی طرح ہوتے ہیں یعنی تمام عمران پر اندھیرا ہی چھائے رہتا ہے.اس حقیقی چاند سے حصہ لینا ان کو نصیب نہیں ہوتا.غرض کہ یہ سلسلہ چاند کی روشنی کا اس حقیقی چاند کی روشنی سے بہت مناسبت رکھتا ہے.ایسا ہی چاند پھلوں کو موٹا کرتا اور اُن میں طراوت ڈالتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو عبادت کر ؟ کے اپنے درخت وجود میں پھل تیار کرتے ہیں چاند کی طرح خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اس پھل کو موٹا اور تازہ بتازہ کر دیتی ہے اور یہی معنے رحیم کے لفظ میں مخفی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں خدا کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی طور پر چار قسم کی ربوبیت ایسی ہو رہی ہے جس سے نظامِ عالم وابستہ ہے.ایک آسمانی ربوبیت یعنی اکاش سے ہے جو جسمانی تربیت کا سرچشمہ ہے جس سے پانی برستا ہے اگر وہ پانی کچھ مدت نہ برسے تو جیسا کہ علم طبیعی میں ثابت کیا گیا ہے.کنوؤں کے پانی بھی خشک ہو

Page 413

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة الفاتحة جائیں یہ آسمانی ربوبیت یعنی اکاش کا پانی بھی دنیا کو زندہ کرتا ہے اور نابود کو بود کی حالت میں لاتا ہے.اس طور پر آسمان ایک پہلا ربّ القوع ہے جس سے پانی برستا ہے.جس کو وید میں اندر کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرّجع (الطارق: ۱۲) اس جگہ آسمان سے مراد وہ کرہ زمہریر ہے جس سے پانی برستا ہے اور اس آیت میں اس کرہ زمہریر کی قسم کھائی گئی جو مینہ برساتا ہے اور رجع کے معنی مینہ ہے اور خلاصہ معنی آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں وحی کا ثبوت دینے کے لئے آسمان کو گواہ لاتا ہوں جس سے پانی برستا ہے یعنی تمہاری روحانی حالت بھی ایک پانی کی محتاج ہے اور وہ آسمان سے ہی آتا ہے جیسا کہ تمہارا جسمانی پانی آسمان سے آتا ہے اگر وہ پانی نہ ہو تو تمہاری عقلوں کے پانی بھی خشک ہو جا ئیں.عقل بھی اُسی آسمانی پانی یعنی وحی الہی سے تازگی اور روشنی پاتی ہے.غرض جس خدمت میں آسمان لگا ہوا ہے یعنی پانی برسانے کی خدمت یہ کام آسمان کا خدا تعالیٰ کی پہلی صفت کا ایک ظلّ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ ابتداہر ایک چیز کا پانی سے ہے.انسان بھی پانی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور وید کی رُو سے پانی کا دیوتا اکاش ہے جس کو وید کی اصطلاح میں اندر کہتے ہیں مگر یہ سمجھنا غلطی ہے کہ یہ اندر کچھ چیز ہے بلکہ وہی پوشیدہ اور نہاں در نہاں طاقت عظمیٰ جس کا نام خدا ہے اس میں کام کر رہی ہے.اسی کو بیان کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میں یوں فرمایا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی مت خیال کرو کہ بجز خدا کے کوئی اور بھی رب ہے جو اپنی ربوبیت سے دنیا کی پرورش کر رہا ہے بلکہ وہی ایک خدا ہے جو تمہارا رب ہے.اس کی طاقت ہر ایک جگہ کام کرتی ہے.اس جگہ اس ترتیب کے لحاظ سے جو اس سورۃ میں ہے اندر دیوتا کارڈ ملحوظ ہے کیونکہ پہلی تربیت اس سے شروع ہوتی ہے.اسی کو دوسرے لفظوں میں آسمان یا اکاش کہتے ہیں.اسی وجہ سے دنیا کے لوگ تمام قضاء و قدر کو آسمان کی طرف منسوب کیا کرتے ہیں.اور بت پرستوں کے نزدیک بڑا رب النوع وہی ہے جو اندر کہلاتا ہے.پس اس جگہ اسی کا رڈ منظور ہے اور یہ جتلا نا مقصود ہے کہ حقیقی اندروہی اکیلا خدا ہے.اس کی طاقت ہے جو پانی برساتی ہے.آسمان کو رب العالمین کہنا حماقت ہے بلکہ رب العالمین وہی ہے جس کا نام اللہ ہے.غرض خدا تعالیٰ کی یہ پہلی ربوبیت ہے جس کو نادانوں نے اکاش یعنی اندر کی طرف منسوب کیا ہے.بات یہی ہے کہ اندھوں کو اکاش سے پانی برستا نظر آتا ہے مگر برسانے والی ایک اور طاقت ہے اور اس طور پر برسانا یہ جلوہ دکھلانا ہے کہ یہ بھی اس کی ایک صفت ہے.پس آسمان کی یہ ظاہری ربوبیت اس کی حقیقی ربوبیت

Page 414

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة الفاتحة کا ایک ظل ہے اور جو سامان رعد اور صاعقہ وغیرہ کا بادل میں ہوتا ہے.دراصل یہ سب اس کی صفات کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے.پھر دوسری ربوبیت خدا تعالیٰ کی جو زمین پر کام کر رہی ہے رحمانیت ہے.اس لفظ رحمان سے بت پرستوں کے مقابل پرسورج دیوتا کارڈ ملحوظ ہے کیونکہ بموجب بت پرستوں کے خیال کے جیسا کہ اکاش یعنی آسمان پانی کے ذریعہ سے چیزوں کو پیدا کرتا ہے.ایسا ہی سورج بہار کے ایام میں تمام درختوں کو لباس پہناتا ہے.گویا یہ اس کی وہ رحمت ہے جو کسی عمل پر مترتب نہیں.پس سورج جسمانی طور پر رحمانیت کا مظہر ہے کیونکہ وہ موسم بہار میں ننگے درختوں کو پتوں کی چادر پہناتا ہے اور اس وقت تک درختوں نے اپنے طور پر کوئی عمل نہیں کیا ہوتا یعنی کچھ بنایا نہیں ہوتا.تا بنائے ہوئے پر کچھ زیادہ کیا جائے بلکہ وہ خزاں کی غارت گری کے باعث محض نگے اور برہنہ کھڑے ہوتے ہیں پھر سورج کے پرتو و عاطفت سے ہر ایک درخت اپنے تئیں آراستہ کرنا شروع کر دیتا ہے آخر سورج کی مدد سے درختوں کا عمل اس حد تک پہنچتا ہے کہ وہ پھل بنا لیتے ہیں.پس جبکہ وہ پھل بنا کر اپنے عمل کو پورا کر چکتے ہیں تب چاندان پر اپنی رحیمیت کا سایہ ڈالتا ہے اور رحیم اس کو کہتے ہیں کہ عمل کرنے والے کو اس کی تعمیل عمل کے لئے مدد دے تا اس کا عمل نا تمام نہ رہ جاوے.پس چاند درختوں کے پھلوں کو یہ مدد دیتا ہے کہ ان کو موٹے کر دیتا ہے اور ان میں اپنی تاثیر سے رطوبت ڈالتا ہے چنانچہ علم طبعی میں یہ مسلم مسئلہ ہے کہ چاند کی روشنی میں باغبان لوگ اناروں کے پھٹنے کی آواز سنا کرتے ہیں.غرض استعارہ کے طور پر قمر جو نیز دوم ہے رحیم کے نام سے موسوم ہوا کیونکہ بڑا فعل اس کا یہی ہے جو موجود شدہ پھلوں کی مدد کرتا ہے اور موٹا اور تازہ کر دیتا ہے پھر جب وہ پھل طیار ہو جاتے اور اپنے کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو زمین ان کو اپنی مالکانہ حیثیت سے اپنی طرف گراتی ہے تا وہ اپنی جزاء سزا کو پہنچیں.پس اگر وہ عمدہ اور نفیس پھل ہیں تو زمین پر ان کی بڑی عزت ہوتی ہے اور وہ قابل قدر جگہوں میں رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ رڈی ہیں تو خراب جگہوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں اور یہ سزا جزا گویا زمین کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ جو خدا نے اس کی فطرت کو دے رکھی ہے کہ اچھے پھل کا قدر کرتی ہے اور بُرے پھل کو ذلیل جگہ رکھتی ہے.غرض وید میں بطور استعارہ کے یہ چار نام ہیں جو چار بڑے بڑے دیوتاؤں کو عطا ہوئے ہیں.اوّل اکاش یعنی آسمان جس کو اندر دیوتا بولتے ہیں وہ پانی کا داتا ہے اور قرآن شریف میں ہے کہ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيَّ (الانبیاء : ۳۱) یعنی ہر ایک چیز پانی سے ہی زندہ ہے.اس لئے یہ مجازی دیوتا یعنی

Page 415

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة الفاتحة اندر جس کو اکاش کہنا چاہئے سب مجازی دیوتاؤں سے بڑا ہے جس کی بغلوں میں سورج اور چاند پرورش پاتے ہیں یہ یہ نسبت اوروں کے ربوبیت عامہ کا دیوتا ہے بعد اس کے سورج دیوتا ہے جو رحمانیت کا مظہر ہے اس کی ربوبیت چاند سے زیادہ اور اکاش یعنی اندر دیوتا سے کم ہے.وہ کام جو اس کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بغیر موجودگی عمل کے درختوں پر اپنی عنایت اور کر پا ظاہر کرتا ہے کیونکہ درخت ننگ دھڑنگ کھڑے ہوتے ہیں اور خزاں کے مارے ہوئے ایسے ہوتے ہیں کہ گویا مردے ہیں جو زمین میں گاڑے گئے ہیں اور تہی دست فقیروں کی طرح ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں.پس سورج دیوتا بہار کے موسم میں موج میں آکر ان کو لباس بخشتا ہے اور ان کا دامن پھلوں اور پھولوں سے بھر دیتا ہے اور چند روز میں ان کے سر پر پھولوں کے سہرے باندھتا ہے اور سبز پتوں کی ریشمی قبا ان کو پہناتا ہے اور پھلوں کی دولت سے ان کو مال مال کر دیتا ہے اور اس طرح پر ایک شاندار نوشہ ان کو بنا دیتا ہے پس اس کی رحمانیت میں کیا شک رہا جو بغیر کسی سابق عمل کے ننگے درویشوں پر اس قدر کر پا اور مہربانی کرتا ہے.اس قسم کے استعارات وید میں بہت موجود ہیں کہ اول شاعرانہ طور پر معلوم ہوتے ہیں اور پھر ذرا غور کریں تو کوئی علمی چمک بھی ان میں دکھائی دیتی ہے.پھر سورج کے بعد وید کی رُو سے چاند دیوتا ہے کہ وہ کمزوروں کے عملوں کو دیکھ کر اپنی مدد سے ان کے اعمال انجام تک پہنچاتا ہے یعنی بہار کے موسم میں درخت پھل تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن اگر چاند نہ ہوتا تو یہ عمل ان کا ناقص رہ جاتا اور پھلوں میں تازگی اور فربہی اور طراوت ہر گز نہ آتی.پس چاند ان کے عمل کا متمم ہے اس لئے اس لائق ہوا کہ مجازی طور پر اس کو رحیم کہا جائے سووید اس کو رحیم قرار دیتا ہے سو استعارہ کے طور پر کچھ حرج نہیں.پھر چاند کے بعد دھرتی دیوتا ہے جس نے مسافروں کو جگہ دینے کے لئے اپنی پشت کو بہت وسیع کر رکھا ہے ہر ایک پھل درخت پر مسافر کی طرح ہوتا ہے آخر کار مستقل سکونت اس کی زمین پر ہوتی ہے اور زمین اپنے مالکانہ اختیارات سے جہاں چاہے اس کو اپنی پشت پر جگہ دیتی ہے اور جیسا کہ خدا نے قرآن شریف میں فرمایا.وَحَمَلْتَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ( بنی اسرائیل : 1 ) کہ ہم نے انسانوں کو زمین پر اور دریاؤں پر خود اُٹھایا.ایسا ہی زمین بھی ہر ایک چیز کو اُٹھاتی ہے اور ہر ایک خا کی چیز کی سکونت مستقل زمین میں ہے.وہ جس کو چاہے عزت کے مقام پر بٹھا وے اور جس کو چاہے ذلت کے مقام میں پھینک دے.پس اس طرح پر زمین کا نام ملِكِ يَوْمِ الدین ہوا یعنی استعارہ کے طور پر صحیفہ فطرت کے آئینہ میں یہ چاروں الہی

Page 416

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۳ سورة الفاتحة صفات نظر آتی ہیں.غرض اسی طرح خدا نے چاہا کہ اپنی صفات کو مجازی مظاہر میں بھی ظاہر کرے.تا طالب حق مثالوں کو پا کر اس کے دقیق دردقیق صفات پر اطمینان پکڑ لے.اب اس تمام تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ چار مجازی دیوتے جو وید میں مذکور ہیں.چار مجازی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں.چنانچہ اکاش مجازی طور پر ربوبیت گبری کی صفت اپنے اندر رکھتا ہے اور سورج رحمانیت کی صفت سے موصوف ہے اور چاند رحیمیت کی صفت سے حصہ دیا گیا ہے اور زمین ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کی صفت سے بہرہ یاب ہے اور یہ چاروں صفات مشہود و محسوس ہیں.انہی امور کی وجہ سے موٹی عقل والوں نے در حقیقت ان کو دیو تے قرار دیا ہے اور ان کو رب النوع اور قابل پرستش سمجھا ہے.پس ان لوگوں کے رڈ کے لئے خدا تعالی اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا.الصَّانِينَ - أمين.ترجمہ:.حمد اور اُسنت اور مہما اس بڑے رب کے لئے خاص ہے جس کا نام اللہ ہے جو رب العالمین ہے.اور رحمان العالمین ہے اور رحیم العالمین ہے.اور مالک جمیع عالم یوم الدین ہے یعنی یہ مرتبہ پرستش کا خدا کے لئے مخصوص ہے کہ اس کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جز اسرا کے لئے مالکیت ایک عالم اور ایک رنگ میں محدود نہیں بلکہ یہ صفات اس کی بے انتہا رنگوں میں ظاہر ہوتی ہیں کوئی ان کا انتہا نہیں پاسکتا اور آسمان اور سورج وغیرہ کی ربوبیتیں یعنی پرورشیں ایک خاص رنگ اور ایک خاص قسم میں محدود ہیں اور اس اپنے تنگ دائرہ سے آگے نہیں نکلتیں اس لئے ایسی چیزیں پرستش کے لائق نہیں.علاوہ اس کے ان کے یہ افعال بالا رادہ نہیں بلکہ ان سب کے نیچے الہی طاقت کام کر رہی ہے.پھر فرمایا کہ اے وہ سب کے ربّ کہ جو بے انتہا رنگوں میں اپنے یہ صفات ظاہر کرتا ہے.پرستش کے لائق تو ہی ہے اور سورج چاند وغیرہ پرستش کے لائق نہیں ہیں.اسی طرح دوسرے مقام میں فرمایا.لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا القَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ ( حم السجدة : ۳۸) یعنی نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے یہ تمام چیزیں سورج، چاند، آسمان، آگ، پانی وغیرہ پیدا کی ہیں.چاند اور سورج کا ذکر کر کے پھر بعد اس کے جمع کا صیغہ بیان کرنا اس غرض سے ہے کہ یہ گل چیزیں جن کی غیر قو میں پرستش کرتی ہیں.تم ہرگز ان کی

Page 417

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة الفاتحة پرستش مت کرو.پھر اس سورۃ میں یعنی سورۃ فاتحہ میں اس بات کا جواب ہے کہ جب اکاش اور سورج اور چاند اور آگ اور پانی وغیرہ کی پرستش سے منع کیا گیا تو پھر کونسا فائدہ اللہ کی پرستش میں ہے کہ جو ان چیزوں کی پرستش میں نہیں تو دُعا کے پیرایہ میں اس کا جواب دیا گیا کہ وہ خدا ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے تئیں آپ اپنے بندوں پر ظاہر کرتا ہے انسان صرف اپنی عقل سے اس کو شناخت نہیں کرتا بلکہ وہ قادر مطلق اپنی خاص تجلی سے اور اپنی زبر دست قدرتوں اور نشانوں سے اپنے تئیں شناخت کرواتا ہے.وہی ہے کہ جب غضب اور قہر اس کا دنیا پر بھڑکتا ہے تو اپنے پرستار بندوں کو اس غضب سے بچالیتا ہے وہی ہے جو انسان کی عقل کو روشن کر کے اور اس کو اپنے پاس سے معرفت عطا کر کے گمراہی سے نجات دیتا ہے اور گمراہ ہونے نہیں دیتا.یہ سورہ فاتحہ کا خلاصہ مطلب ہے جس کو پانچ وقت مسلمان نماز میں پڑھتے ہیں بلکہ دراصل اسی دُعا کا نام نماز ہے اور جب تک انسان اس دُعا کو درد دل کے ساتھ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نہ پڑھے اور اس سے وہ عقدہ کشائی نہ چاہے جس عقدہ کشائی کے لئے یہ دعا سکھلائی گئی ہے تب تک اس نے نماز نہیں پڑھی.اور اس نماز میں تین چیز میں سکھلائی گئی ہیں.اول خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کی توحید تا انسان چاند سورج اور دوسرے جھوٹے دیوتاؤں سے منہ پھیر کر صرف اسی بچے دیوتا کا ہو جائے اور اس کی روح سے یہ آواز نکلے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی میں تیرا ہی پرستار ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں اور دوسرے یہ سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنی دُعاؤں میں اپنے بھائیوں کو شریک کرے اور اس طرح پر بنی نوع کا حق ادا کر دے اس لئے دُعا میں اهْدِنَا کا لفظ آیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہم سب لوگوں کو اپنی سیدھی راہ دکھلا.یہ معنے نہیں کہ مجھے کو اپنی سیدھی راہ دکھا.پس اس طور کی دُعا سے جو جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے بنی نوع کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے اور تیسرے اس دُعا میں یہ سکھلانا مقصود ہے کہ ہماری حالت کو صرف خشک ایمان تک محدود نہ رکھ بلکہ وہ ہمیں روحانی نعمتیں عطا کر جو تو نے پہلے راستبازوں کو دی ہیں اور پھر کہا کہ یہ دُعا بھی کرو کہ ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن کو روحانی آنکھیں عطا نہیں ہوئیں آخر انہوں نے ایسے کام کئے جن سے اسی دنیا میں غضب ان پر نازل ہوا.اور یا اس دنیا میں غضب سے تو بچے مگر گمراہی کی موت سے مرے اور آخرت کے غضب میں گرفتار ہوئے.خلاصہ دُعا کا یہ ہے کہ جس کو خدا روحانی نعمتیں عطا نہ کرے اور دیکھنے والی آنکھیں نہ بخشے اور دل کو یقین اور معرفت سے نہ بھرے آخر وہ تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کی شوخیوں اور شرارتوں کی

Page 418

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة الفاتحة وجہ سے اسی دنیا میں اس پر غضب پڑتا ہے کیونکہ وہ پاکوں کے حق میں بدزبانی کرتا ہے اور کتوں کی طرح زبان نکالتا ہے.پس ہلاک کیا جاتا ہے جیسا کہ یہودا اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے ہلاک کئے گئے اور بار ہا طاعون کا عذاب ان پر نازل ہوا جس نے ان کی بیخ کنی کر دی اور یا اگر وہ دنیا میں شوخی اور شرارت نہ کرے اور بدزبانی اور شرارت کے منصوبے میں شریک نہ ہو تو اس کے عذاب کی جگہ عالم ثانی ہے جب اس دنیا سے وہ گزر جائے گا.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۰۸ تا ۴۲۰) (سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ) تمام تعریفیں اور تمام مدح اور تمام استت اور مہما خدا کے لئے مسلم اور مخصوص ہے جو تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ہے.کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جو اس کی پیدا کردہ نہیں اور اُس کی پرورش کردہ نہیں.وہ رحمن ہے یعنی وہ بغیر عوض اعمال کے اپنے تمام بندوں کو خواہ کا فر ہیں خواہ مومن اپنی نعمتیں دیتا ہے اور اُن کی آسائش اور آرام کے لئے بے شمار نعمتیں اُن کو عطا کر رکھی ہیں اور وہ رحیم ہے یعنی پہلے تو وہ اپنی رحمانیت سے جس میں انسان کی کوشش کا دخل نہیں ایسے قولی اور طاقتیں اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے جن سے نیک اعمال بجالا سکیں اور تکمیل اعمال کے لئے ہر ایک قسم کے اسباب مہیا کر دیتا ہے اور پھر جب اُس کی رحمانیت سے انسان اس لائق ہو جاتا ہے کہ اعمال نیک بجالا سکے تو ان اعمال کی جزا کے لئے خدا تعالیٰ کا نام رحیم ہے.اور جب انسان خدا تعالیٰ کی رحیمیت سے فیضیاب ہو کر اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس کی طرف سے ابدی انعام و اکرام پاوے تو اس ابدی انعام و اکرام کے دینے کے لئے خدا تعالیٰ کا نام مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے پھر بعد اس کے فرمایا کہ اے وہ خدا جو ان صفات کا تو جامع ہے ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور پرستش وغیرہ نیک امور میں تیری ہی مدد چاہتے ہیں.ہمیں سیدھی راہ دکھا.ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا انعام اکرام ہے.اور اُن لوگوں کی راہ سے بچا جو تیرے غضب کے نیچے ہیں ( یعنی ایسی شوخی اور شرارت کے کام کرتے ہیں جو اسی دنیا میں مورد غضب ہو جاتے ہیں ) اور ہمیں اُن لوگوں کی راہ سے بچا جو تیری راہ کو بھول گئے ہیں اور وہ راہیں اختیار کرتے ہیں جو تیری مرضی کے موافق نہیں.آمین.اب دیکھو کہ قرآن شریف کی یہ سورۃ جس کا نام سورۃ فاتحہ ہے کیسی توحید سے پر ہے جو کسی جگہ انسان کی طرف سے یہ دعویٰ نہیں کہ میں خود بخود ہوں اور خدا کا پیدا کردہ نہیں اور نہ یہ دعوی ہے کہ میرے اعمال اپنی قوت اور طاقت سے ہیں اور وید کی طرح اُس میں یہ دُعا نہیں کہ اے پر میشر ہمیں بہت سی گوئیں دے اور بہت سے گھوڑے دے اور بہت سالوٹ کا مال دے بلکہ یہ دُعا ہے کہ ہمیں وہ راہ دکھا جس راہ سے انسان

Page 419

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة الفاتحة تجھے پالیتا ہے اور تیرا روحانی انعام واکرام اسے نصیب ہوتا ہے اور تیرے غضب سے بچتا ہے اور گمراہی کی راہوں سے محفوظ رہتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۷،۲۰۶) وَ إِشَارَةٌ بَرَكَاتِ و في السُّورَةِ إشارة إلى بوگات اس سورۃ میں دعا کی برکتوں کی طرف اشارہ ہے اور اس الدُّعَاءِ وَ إلى أَنه كُلُّ خَيْرٍ يَنزِلُ مِن بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر بھلائی آسمان سے نازل ہوتی ہے السَّمَاءِ وَ إِلى أَنَّهُ مَنْ عَرَفَ الْحَقِّ اور پھر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص نے حق کو پہچان وَثَبَّتَ نَفْسَهُ عَلَى الْهُدَى وَتَهَذِّبَ لیا اور اپنے آپ کو ہدایت پر قائم کر لیا اور مہذب اور صالح بن وَصَلُحَ فَلَا يُضَيَّعُهُ اللهُ وَيُدْخِلُهُ فِی گیا تو اُسے اللہ تعالی ضائع نہیں کیا کرتا بلکہ اُسے اپنے عِبَادِهِ الْمُنْعَمِينَ وَالَّذِي عَلَى رَبَّهُ انعام یافتہ بندوں میں داخل کر لیتا ہے اور جو شخص اپنے رب کی فَيَكُونُ مِن الْهَالِكين.نافرمانی کرتا ہے وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو جاتا ہے.وَ فِي السُّورَةِ إِشَارَةٌ إلى أَنَّ پھر اس سورۃ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ السَّعِيْد هُوَ الَّذِي كَانَ فِيْهِ جَيْشُ نیک بخت وہ ہے جس کے اندر دعا کے لئے ایک غیر معمولی جوش الدُّعَاءِ لَا يَعْبَأُ وَلَا يَلْعَبُ وَ لا ہوتا ہے اور وہ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا نہ تھکتا ہے نہ تیوری چڑھاتا يَعْبِسُ وَ لَا يَيْأَسُ وَ يَفِقُ بِفَضْلِ ہے اور نہ وہ مایوس ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کے فضل پر بھروسہ رَبِّه إلى أَن تُدْرِكَهُ عِنَايَةُ الله رکھتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی عنایت اس کے شامل حال ہو فَيَكُونَ مِنَ الْفَائِزِيْنَ جاتی ہے اور وہ کامیاب ہونے والوں میں شامل ہو جاتا ہے.وَفِي السُّورَةِ إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ صِفَاتِ پھر اس سورت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اللهِ تَعَالَى مُؤَثِرَةٌ بِقَدَرٍ إِيْمَانِ الْعَبْدِ صفات باری تعالیٰ اس کے مطابق اثر دکھاتی ہیں جتنا بندہ کو ان بهَا وَإِذَا تَوَجَّهَ الْعَارِفُ إِلى صِفة لمن پر ایمان ہو اور جب کوئی عارف خدا تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى وَأَبَصَرَةَ بتصير صفت کی طرف توجہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھ رُوحِهِ وَامَن ثُمَّ امَن ثُمَّ امَن حَتَّی سے دیکھ لیتا ہے اور اس پر ایمان لے آتا ہے پھر ایمان لے آتا قلى فى إيمَانِهِ فَتَدْخُلُ رُوْحَانِيَّةُ هذه ہے.پھر ایمان لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ایمان میں فنا الصَّفَةِ فِي قَلْبِهِ وَتَأْخُذُهُ مِنْهُ فَيَری ہو جاتا ہے تو اس صفت کی روحانی تاثیر اس کے دل میں داخل ہو السَّالِكَ بَالَهُ فَارِغا مِنْ غَيْرِ الرَّحْمنِ جاتی ہے اور اس پر قبضہ کر لیتی ہے تب سالک مشاہدہ کرتا ہے کہ

Page 420

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ سورة الفاتحة وَقَلْبَهُ مُظمينا بالإيمَانِ وَعَيْشَہ اس کا سینہ غیر اللہ کی محبت سے خالی ہے اس کا دل ایمان سے مُطْمَئِنَّا حُلُوا بِذِكْرِ الْمَنَانِ وَيَكُونُ مِن مطمئن ہے اور اس کی زندگی محسن خدا کی یاد کی وجہ سے نہایت الْمُسْتَبْرِينَ فَتَتَعَلى تِلْكَ خوشگوار بن گئی ہے.پس وہ ہر لحاظ سے خوش و خرم ہو جاتا ہے پھر الصِّفَةُ لَهُ وَ تَسْتَوى عَلَيْهِ حَتَّی اس پر اس صفت کی مزید حجتی ہوتی ہے اور وہ اس پر چھا جاتی ہے يَكُونَ قَلب هذَا الْعَبْدِ عَرْشَ هذہ یہاں تک کہ ایسے بندہ کا دل اس صفت کا عرش بن جاتا ہے اور الصِّفَةِ وَ يَنصَبغَ الْقَلْبُ بِصِبْغِهَا نفسانیت کا رنگ بالکل دھل جانے اور بندہ کے فانی فی اللہ بَعْدَ ذَهَابِ الصَّبْغِ النَّفْسَانِيَّةِ ہونے کے بعد اس کا دل اس صفت کے رنگ میں خوب رنگین ہو وَبَعْدَ كَوْنِهِ مِنَ الْفَانِينَ جاتا ہے.فَإِنْ قُلْتَ مِنْ أَيْنَ عَلِمتَ أَنَّ هذه اگر تم کہو کہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ میں یہ الْإِشَارَةَ تُوجَدُ فِي الْفَاتِحَةِ فَاعْلَمُ أَنَّ اشارہ موجود ہے؟ تو تم جان لو کہ اس اشارہ پر اَلْحَمدُ لِلہ کے الفاظ لفظ الْحَمْدُ لِلهِ يَدُلُّ عَلَيْهِ فَإِنَّ الله دلالت کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( یہاں ) یہ نہیں کہا کہ تم تَعَالَى مَا قَالَ قُلْ الْحَمْدُ لِله بل کہو الْحَمْدُ لِلَّهِ بلکہ صرف الْحَمْدُ لِلهِ کہا گویا اس نے ہماری قَالَ الْحَمْدُ للهِ فَكَأَنَّهُ أَنْطق فطرتنا فطرت سے ( یہ فقرہ ) کہلوایا ہے اور جو چیز ہماری فطرت میں وَأَرَانَا مَا كَانَ مَخَفِيًّا في فطرتِنَا.پوشیدہ ہے وہ اس نے دکھا دی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ وَهَذِهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْإِنْسَانَ قَد خُلِقَ ہے کہ انسان فطرتِ اسلام پر پیدا کیا گیا ہے اور اس کی فطرت عَلى فِطْرَةِ الْإِسْلامِ وَأُدْخِلَ في فطريه میں یہ بات داخل کر دی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور أَنْ أَحْمَدَ اللهَ وَيَسْتَيْقِنَ أَنَّهُ رَبُّ یقین رکھے کہ وورب العالمین ہے، رحمان ہے، رحیم ہے اور الْعَالَمِينَ وَ رَحْمَن وَرَحِيمُ وَمَالِكَ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے اور یہ کہ وہ مدد مانگنے والے کی مدد کرتا اور یہ وہ يَوْمِ الدِّينِ.وَأَنَّهُ يُعِينُ الْمُسْتَعِینَ وَ ہے اور دعا کرنے والوں کو ہدایت دیتا ہے.پس اس جگہ سے يَهْدِى الدَّاعِيْنَ.فَقَبَتَ مِنْ هُنَا أَن ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی عبادت انسان کی الْعَبْد مَجبُول عَلى مَعْرِفَةِ رَبِّهِ وَ عِبَادَتِهِ فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور اس کے دل میں اس کی محبت وَقَدْ أُشرب في قَلْبِهِ مَحَبَّتُهُ فَتَظْهَرُ بھر دی گئی ہے پس یہ حالت پردوں کے اُٹھ جانے کے بعد ہی هذِهِ الْحَالَةُ بَعْدَ رَفع الحجب و تجرمنی ظاہر ہوتی ہے اور تب خدا تعالی کا ذکر زبان پر بے اختیار اور

Page 421

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة الفاتحة ذكر الله تعالى عَلَى اللّسَانِ مِن غَيْر بلا تکلف جاری ہو جاتا ہے معارف کا درخت پیدا ہو جاتا اخْتِيَارِ وَتَكَلُفٍ وَتَنْبُتُ شَجَرَةُ ہے اور پھل دینے لگتا ہے اور ہمیشہ تازہ بتاز و اپنا پھل دیتا الْمَعَارِفِ وَتُفْسِرُ وَ تُؤْتِ أُكُلَهُ كُلَّ حِينٍ رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کے کلام صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وفى قَوْلِهِ تَعَالَى صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ میں ایک اور اشارہ ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے بعد میں عَلَيْهِمْ إِشَارَةٌ أُخْرَى وَ هُوَ أَنَّ اللهَ تَعَالَى آنے والوں کو پہلے آنے والوں کے مشابہ پیدا کیا ہے خَلَقَ الْآخِرِينَ مُشَاكِلِينَ بِالْأَوَّلِينَ فَإِذَا پس جب کامل پیروی اور طبائع کی مناسبت کی وجہ سے اتَّصَلَتْ أَزْوَاجُهُمْ بِأَزْوَاجِهِمْ بِكَمَالِ اِن کی روحیں اُن کی روحوں سے اتصال پاتی ہیں تو وہ الْاِقْتِدَاءِ وَ مُنَاسَبَةِ الطَّبَائِعِ فَيَنْزِلُ خاص فيضان اُن کے دلوں سے ان کے دلوں پر نازل ہو الْفَيْضُ مِنْ قُلُوبِهِمْ إِلَى قُلُوبِهِمْ جاتا ہے.ثُمَّ إِذَا تَمَّ إِفْضَاءُ الْمُسْتَفِيْضِ إِلَى پھر جب فیض چاہنے والے کی رسائی فیض رساں تک الْمُفِيْضِ وَبَلَغَ الْأَمْرُ إِلى غَايَةِ الْوُصْلَةِ کامل ہو جاتی ہے اور باہمی تعلق کا معاملہ اپنی انتہاء کو پہنچ فَيَصِيرُ وُجُودُهُمَا كَشَيْءٍ وَاحِدٍ وَيَغِيبُ جاتا ہے تو ان دونوں کا وجود ایک ہی وجود کی مانند بن جاتا أَحَدُهُمَا فِي الْآخِرِ وَهَذِهِ الْحَالَةُ هِيَ الْمُعَبَّرُ ہے اور وہ ایک دوسرے میں غائب ہو جاتے ہیں.یہی وہ عَنها بالاتحادِ وَفِي هَذِهِ الْمَرْتَبَةِ يُسمى حالت ہے جسے اتحاد سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس مرتبہ میں السَّالِك فِي السَّمَاءِ تَسْمِيَةَ الْأَنْبِيَاءِ سالک کو آسمان میں نبیوں کا نام دیا جاتا ہے اس وجہ سے لِمُشَابَتِهِ إِيَّاهُمْ فى جَوْهَرِهِمْ وَطَبْعِهِمْ کہ طبیعت اور جوہر میں ان سے مشابہت رکھتا ہے.چنانچہ عارفوں پر ( یہ امر ) مخفی نہیں.( ترجمہ از مرتب ) كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْعَارِفِينَ کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۶،۱۲۵) وَالْأن ترى أَن تُوَازِنَ هَذَا الدُّعَاء اور اب ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی دُعا کا اس بِالدُّعَاءِ الَّذِى عَلَّمَهُ الْمَسِيحُ في الانجيل دُعا سے موازنہ کریں جو حضرت مسیح علیہ السلام نے انجیل ا الْإِنْجِيلِ لِيَتَبَيَّنَ لِكُلِّ مُنصِفٍ أَيُّهُمَا أُشفى لِلْعَلِيْلَ میں سکھائی ہے تاہر منصف پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ان وَأَدْرَأُ لِلْعَلِيْلِ وَ أَرْفَعُ شَأْناً وَأَتَهُ بُرْهَانَاً دونوں میں سے کونسی ( دعا کسی ) بیمارکو زیادہ شفاء دینے وَأَنْفَعُ لِلظَّالِبِينَ.فَاعْلَمْ أَنَّ فِي إِنْجِيلِ والى یا ( کسی ) پیاسے کی پیاس کوزیادہ بجھانے والی ہے یا

Page 422

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة الفاتحة لُوقَا قَدْ كُتِبَ فِي الْأَصْحَاحِ الْحَادِي عَشر | شان میں زیادہ بلند.دلیل کے لحاظ سے زیادہ مکمل اور أَنَّ الْمَسِيحَ عَلَّمَ الدُّعَاءَ هَكَذَا فَقَالَ طالبانِ حق کے لیے زیادہ نفع رساں ہے.اب جان لو کہ لَهُمْ يَعْنِي لِلْحَوَارِييْن مَتى صَلَّيْتُمْ فَقُولُوا انجیل لوقا بابا میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے حواریوں أبَانَا الَّذِي فِي السَّمَاوَاتِ لِيَتَقَدس استمال کو اس طرح کی دُعا سکھائی اور انہیں کہا: جب تم دُعا کرو تو لِيَأْتِ مَلَكُوتُكَ لِتَكُن مَّشِيَّتُكَ كَمَا في کہو اے ہمارے باپ جو آسمانوں پر ہے تیرے نام کی السَّمَاوَاتِ كَذَلِكَ عَلَى الْأَرْضِينَ خُبزَنَا تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے.تیری مراد جیسی كَفَافَنَا أَعْطِنَا كُلَّ يَوْمٍ وَاغْفِرُ لَنَا آسمانوں پر ہے زمینوں پر بھی بر آوے.ہماری روز کی خَطَايَانَا لِأَنَّنَا نَحْنُ أَيْضًا نَّغْفِرُ لِكُلِّ مَنْ روٹی ہر روز ہمیں دے اور ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ يُذْنِبُ إِلَيْنَا (يَعْنِي تَغْفِرُ لِلْمُذْنِبِينَ وَلَا ہم بھی اپنے تمام قصور واروں کا قصور بخشتے ہیں اور ہمیں تُدْخِلْنَا فِي تَجْرِبَةٍ لَكِنْ أَحْنَا مِنَ الشَّرِيرِ آزمائش میں نہ ڈال بلکہ ہم کو شریر سے بچا.“ هذَا دُعَاء عُلْمَ لِلْمَسِيحِيين.یہ دُعا ہے جو مسیحیوں کو سکھائی گئی.فَاعْلَمُ أَنَّهُ دُعَاءِ يُفَرِّط في الصَّفَاتِ معلوم رہے کہ یہ دُعار تبانی صفات کو گھٹا کر پیش کرتی الرَّانِيَّةِ وَكَذلِكَ مَا يُحِيطُ عَلى مَقاصِدِ ہے.نیز یہ دُعا فطرت انسانی کے تمام مقاصد پر بھی حاوی الْفِطْرَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ بَلْ يَزِيدُ سُوْرَةً نہیں بلکہ روحانی حسرت کی شدت کو اور بھی بڑھاتی ہے اور الْحَسْرَةِ الرُّوحَانِيَّةِ وَيُحَرِّكُ الْقُوى لطلب آخرت کی سعادتوں سے غافل کر کے نفسانی قومی کو فانی الْأَهْوَاءِ الْقَانِيَةِ وَالشَّهَوَاتِ الْمُتَفَانِيَةِ خواہشوں اور مادی آرزوؤں کے حصول پر ابھارتی ہے.مَعَ النُّهُوْلِ عَنْ سَعَادَاتِ يَوْمِ الدِّينِ اس دُعا کے تمام جملوں میں ایک فقرہ یہ ہے یعنی وَمِنْ جُمْلَةِ جُمَلِهِ فِقْرَةٌ أَغْنِي لِيَتَقَدَّس ” تیرا نام پاک مانا جائے.اب اپنی عقل اور فہم سے کام اسْمُكَ.فَانْظُرْ فِيهَا بِعَقْلِك وَفَهْبِكَ هَل لے کر اس پر غور کیجئے کہ آیا آپ اس دُعا کو اس کامل تَجِدُهُ حَرِيَّا بِشَأْنِ الْأَعْمَلِ الَّذِي لَيْسَتْ لَهُ ترین ذات کی شان کے شایان پاتے ہیں جس کے حَالَةٌ مُنتَظَرَةٌ مِنْ حَالَاتِ الكَمَالِ وَلَا مَرْتَبَةٌ کمالات کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں اور نہ اس مُّتَرَقِّبَةٌ مِنْ مَرَاتِبِ التَّقَدسِ وَالْجَلَالِ کے تقدس اور جلال کے مراتب میں سے کوئی مرتبہ قابل طبعة لندن ۱۸۷۲ ميلادية

Page 423

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰ سورة الفاتحة فَإِنَّ الْمَحَامِد وَ التَّقَسُّسَاتِ كُلَّهَا ثَابِتَةٌ | انتظار ہے.یقینا تمام تعریفیں اور پاکیز گیاں اس بارگاہ عزت الخطرَةِ الْعِزَّةِ وَلَا يُنتظر شيئ منها فی کے لئے ثابت ہیں.ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جس کا کسی الأَزْمِنَةِ الاتِيَةِ وَهَذَا هُوَ تَعْلِیمُ آئندہ زمانہ میں ملنے کا انتظار ہو.یہ قرآن کریم کی وہ تعلیم الْقُرْآنِ وَتَلْقِيْنِ كَلامِ اللهِ الرَّحْمٰنِ كَمَا ہے اور خدائے رحمان کے کلام کی تلقین ہے جس کے متعلق ہم مَرَّ كَلامُنَا في هَذَا الْبَيَانِ وَمَنْ أَقْبَلَ قبل از میں وضاحت کر چکے ہیں.اور جس شخص نے بھی قرآن عَلَى الْفُرْقَانِ الْمَجِيدِ وَفَهِمَهُ وَ تَدَبَّرَ و مجید کی طرف توجہ کی.اُسے سمجھا.اس میں تدبر سے کام لیا نظرَهُ بِالنَّظرِ الشَّدِيدِ فَيَنْكَشِفُ عَلَيْهِ اور اس پر صیح طور سے غور کیا اُس پر یہ بات منکشف ہو جائے گی أَنَّ الْفُرْقَانَ قَد أَكْمَلَ في هَذَا الأَمرِ کہ قرآن کریم نے اس معاملہ کو مکمل طور پر بیان کیا ہے اور اس الْبَيَان وَصَرَحَ بِأَنَّ لِلهِ كَمَالاً تاما بات کی تصریح کر دی ہے کہ ہر انتہائی کمال اللہ تعالیٰ کو حاصل وَكُلُّ كَمَالٍ ثَابِتٍ لَّهُ بِالْفِعْلِ وَلَيْسَ ہے اور اُس کے لئے ہر کمال بالفعل ثابت ہے اور اس میں کوئی فِيْهِ كَلَامُ وَتَجوِيزُ الْحَالَةِ الْمُنتَظَرَ له کلام نہیں اور اس کے لئے کسی حالت منتظرہ کا تجویز کرنا جَهَلْ وَظُلْمٌ وَاجْتِرَاهُ وَأَمَّا الْإِنجِيلُ جہالت، ظلم اور گناہ ہے.لیکن انجیل خدائے باری تعالیٰ کو فَيَجْعَلُ الْبَارِى عَزَّ اسمه محتاجا إلى حالت منتظرہ کا محتاج اور بعض گم شدہ اور غیر موجود کمالات کے الْحَالَةِ الْمُنتَظَرَةِ وَضَاجِرًا لِكَمَالات لئے بے چین قرار دیتی ہے.اور انجیل خدائی درخت کے کامل مفْفُوْدَةٍ غَيْرِ الْمَوْجُودَةٍ وَلَا يَقْبَلُ ہونے کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ اُس کے پھل کے پکنے کی صرف وُجُودَ كَمَالِ شَجَرَتِهِ بَلْ يُظهِرُ الْأَمَانِي آرزو ظاہر کرتی ہے.خدا کے بدر منور ہونے کی قائل نہیں بلکہ لا يُنَاعِ ثَمَرَتِهِ وَلَيْسَ قَائِلُ اسْتِنَارَةِ وہ اس کی قدر و منزلت کے بڑھنے کے زمانہ کی منتظر ہے گویا بَدْرِهِ بَلْ يَنْتَظِرُ زَمَانَ عُلُو قَدْرِهِ كَانَ انجیل کا خدا مرادوں کے بر نہ آنے کے رنج کی وجہ سے خاموش رَبَّ الْإِنجِيلِ وَادَم مِن فَقَدِ الْمُرَادَاتِ ہے اور اپنے ارادوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے.اس نے کتنی ہی وَعَاجِزٌ عَنْ إِمْضَاءِ الْإِرَادَاتِ وَكَمْ راتیں اپنے کمالات ( کے عروج کو پہنچنے ) کا انتظام کرتے من لَيْلَةٍ بَاءَهَا يَنتَظِرُ كَمَالات ہوئے اور حالات کے پلٹا کھانے کی اُمید میں گزار دیں یہاں وَيَتَرَقِّبُ تَغَيُّرَ حَالَاتٍ حَتَّى يَئِسَ مِن تک کہ وہ کامیابی کے ایام سے مایوس ہو گیا اور اپنے بندوں کی وہ أَيَّامٍ رَشَادِهِ وَ أَقْبَلَ عَلَى عِبَادِهِ لِيَتَمَنوا طرف متوجہ ہوا تا وہ اُس کی مراد بر آنے کی دعائیں کریں اور

Page 424

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ 1 سورة الفاتحة لَهُ حُصُولَ مُرَادِهِ وَ لِيَعْقِدُوا الْهِمَمَ | تا وہ اُس کے غم کے مٹنے اور اُس کے آشوب چشم کے علاج لِزَوَالِ كَمَدِهِ وَ عِلَاجِ رَمَدِهِ سُبْحَانَ رَبَّنَا کے لئے اپنی کمر ہمت باندھ لیں.پاک ہے ہمارا رب.إِنْ هَذَا إِلَّا بُهْتَانٌ مُّبِينٌ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا یہ کمزوری ) اس پر کھلا کھلا بہتان ہے.اس کا تو یہ عالم أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ مَا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ وہ ہو جائے اور لِلْبِلْبَالِ وَ رَبّ ذِي الْجَلالِ رَبّ صرف کہ دیتا ہے کہ وہ ہو جائے تو وہ ہو جاتی ہے.بھلا ربّ الْعَالَمِينَ ذوالجلال اور رب العالمین سے پریشانی کا کیا تعلق؟ ثُمَّ دُعَاءُ الْمَسِيحَ دُعَاء لَّا أَثَرَ فِيهِ پھر حضرت مسیح کی دُعا ایک ایسی دُعا ہے جس میں خدا مِنْ غَيْرِ التَّنْزِيْهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ إِنَّ اللهَ مُنَزَّة کو عیب سے پاک قرار دینے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں.گویا عَنِ الْكَذِبِ وَ التَّمْوِيهِ وَلكِن لَّا تُوجَدُ یہ دعا یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ جھوٹ اور بناوٹ سے تو فِيْهِ كَمَالَاتٌ أُخْرَى وَلَا مِنَ الصَّفَاتِ پاک ہے لیکن نہ اس میں کوئی اور کمالات پائے جاتے الثَّبُوتِيَّةِ أَثَرٌ أَحْلى فَإِنَّ التَّنْزِية ہیں اور نہ (اس میں ) مثبت صفات کا کوئی معمولی سا بھی وَالتَّقْدِيسَ مِنَ الصَّفَاتِ السَّلْبِيَّةِ كَمَا نشان ( پایا جاتا ہے کیونکہ عیوب سے پاک ہونا منفی لا يَخْفَى عَلَى ذَوِى الْمَعْرِفَةِ وَ الْبَصِيرَةِ وَ صفات میں سے ہے جیسا کہ صاحب معرفت اور بصیرت أَمَّا الصِّفَاتُ السَّلْبِيَّةُ فَهِيَ لَا تَقُومُ لوگوں پر مخفی نہیں اور منفی صفات مثبت صفات کا مرتبہ نہیں مَقَامَ الْإِثْبَاتِ كَمَا ثَبَتَ عِندَ الفِقَاتِ رکھتیں یہ حقیقت پختہ کارلوگوں کے نزدیک ثابت شدہ وَأَمَّا مَا عَلَّمَنَا الْقُرْآنُ مِن الدُّعَاءِ فَهُوَ ہے.لیکن قرآن کریم نے جو دعا ہمیں سکھائی ہے وہ ان يَشْتَمِلُ عَلى جَميعِ صِفَاتٍ كَامِلَةٍ تُوْجَدُ في تمام صفات کاملہ پر مشتمل ہے جو ذات الہی میں پائی جاتی ہیں.حضرة الكبرياء أَلَا تَرى إِلى قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کیا تم خدائے عزوجل کے کلامِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کو الدِّينِ كَيْفَ أَحاط صِفاتِ الله نہیں دیکھتے کہ کس طرح وہ تمام صفات الہیہ پر حاوی ہے جُموعَهَا وَتَأَبَطَ أَصْوَلَهَا وَ فُرُوْعَهَا وَأَشَارَ اور کس طرح اُس نے ان اصول اور فروع کو اپنے فِي الْحَمْدُ للهِ أَنَّ اللهَ ذَاتٌ لا تُخطی صِفَاتُه اندر سمیٹ لیا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ میں یہ اشارہ فرمایا کہ

Page 425

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة الفاتحة وَلَا تُعَدُّ كَمَالَاتُهُ وَ أَشَارَ فِي رَبِّ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کی نہ صفات شمار کی جاسکتی ہیں الْعَالَمِينَ أَنَّ وَيْلَ رُبُوَبِيَّتِهِ يَعُمُّ اور نہ اس کے کمالات گنے جا سکتے ہیں.رَبِّ الْعَالَمِينَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِينَ وَ الْجِسْمَانِتین میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی بارش و الرُّوْحَانِيِّينَ وَ أَشَارَ فِي الرَّحْمنِ آسمانوں اور زمینوں پر بلکہ تمام جسمانی و روحانی چیزوں پر عام پر الرَّحِيمِ أَنَّ الرَّحْمَةَ بِجَمِيعِ أَنْوَاعِهَا مِن ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر قسم کی الله الْقَيُّوْمِ الْقَدِيمِ وَالْخَلاقِ الْكَرِيمِ رحمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ( ملتی ) ہے جو قیوم وقدیم وَأَشَارَ فِي قَوْلِهِ يَوْمِ الدِّيْنِ أَنَّ مَالِكَ اور خلاق و کریم ہے اُس نے اپنے الفاظ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ الْمُجَازَاةِ هُوَ اللهُ لا غیره من میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جزا و سزا کا مالک صرف اللہ تعالیٰ الْمَخْلُوقِينَ وَ أَنَّ أَبْحْرَ الْمُجَازَاتِ ہی ہے اس کے سوا مخلوق میں سے اور کوئی مالک نہیں.اُس جَارِيَةٌ وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ كُلّ چین کی جزا کے سمندر جاری ہیں اور وہ ہر وقت بادلوں کی طرح حِينٍ وَكُلُّ مَا يَرَى عَبْدٌ مِنْ فَضْلِ الله وَ (فیض پہنچانے کے لئے ) گزر رہے ہیں اور بندہ اعمال صالحہ، إحْسَانَاتِهِ بَعْدَ أَعْمَالٍ صَالِحَة وَ صِدْقِهِ صدق اور اپنی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس وَصَدَقَاتِه فَإِنَّمَا هُوَ صَنِيْعَهُ مُجازاته کے احسانات میں سے جو کچھ بھی پاتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی فَفِي هَذِهِ الْمَحَامِدِ إِشَارَاتٌ رَّفِيعَةٌ جزا ( دینے والی صفت) کا احسان ہوتا ہے.(خدا کی ) ان عَالِيَةٌ ودَلَالَاتٌ لَطِيفَةٌ مُتَعَالِيَةٌ عَلى صفات حسنہ میں اس امر پر اعلیٰ وارفع اشارے اور لطیف اور كُلِ كَمَالٍ لِحَضْرَةِ اللهِ جَامِعِ كُلّ جَمال بلند پایہ دلائل ہیں کہ ہر کمال اللہ تعالیٰ کے لئے سزا وار وَجَلالٍ ثُمَّ مِنَ الْمَعْلُومِ أَنَّ اللَّام في ہے جو ہر جلال و جمال کا جامع ہے.پھر یہ تو ظاہر ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ لِلْإِسْتِغْرَاقِ فَهُوَ يُشِيرُ إِلى أَنَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ میں جو الف لام ہے وہ استغراق کے لئے ہے الْمَحَامِدَ كُلِّهَا لِله بالاستحقاق.وَأَنا اور اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سب صفات حسنہ بطور دُعَاءُ الْإِنْجِيلِ أَغْنِي لِيَتَقَدَّس اسمك “ حق کے اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (واجب) ہیں لیکن انجیل کی فَلَا يُشِيرُ إِلى كَمَالِ بَلْ يُخيرُ عَنْ یہ دعا کہ تیرا نام پاک ہو کسی کمال کی طرف اشارہ نہیں خَطَرَاتٍ زَوَالٍ وَيُظهِرُ الْأَمَانِع کرتی بلکہ زوال کا خدشہ پیدا کرتی اور اللہ تعالیٰ کے پاک لِتَقْدِيسِ الرَّحْمَنِ كَانَ التَّقَدُّسُ لَيْسَ ہونے کے لئے محض خواہشات کا اظہار کرتی ہے گویا اُسے 66

Page 426

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ سورة الفاتحة لَهُ بِحَاصِل إلى هذا الآنِ فَمَا هُذَا الدُّعَاء | ابھی تک تقدس حاصل نہیں.پس یہ دُعا ایک قسم کا بے معنی إِلَّا مِنْ نَّوْعِ الْهِنْيَانِ فَإِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّ الله کلام ہے اور کچھ نہیں کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ قُدُّوسٌ مِنَ الْأَزْلِ إِلَى الأَبَدِ كَمَا هُوَ جیسا کہ اُس کی شان احدیت و بے نیازی کے شایاں يليق بالأَحَدِ الصَّمَد فَهُوَ مُنَزَةٌ ومُقَدِّسُ ہے وہ ازل سے ابد تک ہمیشہ قدوس ہے اور وہ تمام مِن كُلِ التَّدَتُّسَاتِ في جَميعِ الْأَوْقَاتِ عیوب سے ہمیشہ ہمیش کے لئے ابدالآباد تک منزہ اور إلى أَبدِ الْأَبِدِينَ وَلَيْسَ مَخرُومًا وَمِن مقدس ہے.وہ نہ کسی خوبی سے محروم ہے اور نہ آئندہ کسی الْمُنتَظِرِينَ..بھلائی کے ملنے کا منتظر ہے......ثُمَّ الْإِنْجِيلُ يَذْكُرُ الله تعالى باشم پھر انجیل خدا تعالیٰ کا ذکر آب نام سے کرتی اور قرآن الْأَبِ وَالْقُرْآنِ يَذْكُرُهُ بِاسمِ الرَّبِ اس کا ذکر رب کے نام سے کرتا ہے اور ان دونوں ( الفاظ ) وَبَيْنَهُمَا يَونٌ بَعِيدٌ وَيَعْلَمُهُ مَنْ هُوَ زَکی میں بہت بڑا فرق ہے جسے ہر ذہین اور سعادت مند سمجھتا زَكَى وَسَعِيدٌ وَ إِن لَّمْ يَعْلَمُهُ مَنْ كَانَ مِنَ ہے اگر چہ نادان نہ سمجھیں کیونکہ آب (باپ ) کا لفظ اکثر الْجَاهِلِينَ.فَإِنَّ لَفظ الآب لفظ قَدْ كَفر مخلوقات کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کے اسْتِعْمَالُه في الْمَخْلُوقِينَ فَتَقْلُه إلى لئے استعمال کرنا ایک ایسا فعل ہے جس میں شرک کی بو پائی الرَّبِ تَعَالَى فِعْلُ فِيهِ رَائِحَةُ من جاتی ہے جو انسان کو ہلاک کرنے کے زیادہ قریب ہے جیسا الْإِشْرَاكِ وَهُوَ أَقْرَبُ لِلْإِهْلَاكِ كَمَا لاَ کہ تدبر کرنے والوں پر مخفی نہیں.( ترجمہ از مرتب ) يخفى عَلَى الْمُتَدبرين بِاسْمِ کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۳۷ تا ۱۴۰) وَاعْلَمُوا أَيُّهَا النَّاظِرُونَ وَالْعُلَمَاءُ اے دیکھنے والو اور اہل بصیرت علماء ! جان لو کہ الْمُسْتَبْصِرُونَ أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام حضرت عیسی علیہ السلام نے دعا سے پہلے ایک تمہید سکھائی عَلَّمَ تمهيدا قَبْلَ الدُّعَاءِ وَالْقُرْآنُ عَلَم ہے اور قرآن کریم نے ( بھی ) دعا سے قبل ایک تمہید سکھائی تمهيدا قَبْلَ الدُّعَاءِ وَالْفَرْقُ بَيْنَهُمَا ہے اور عقل مندوں کے نزدیک ان دونوں تمہیدوں میں ظَاهِرُ عَلى أَهْلِ النَّهَاءِ فَإِنَّ تَمهيد فرق ظاہر ہے کیونکہ قرآن کریم کی تمہید روح کو خدائے الْقُرْآنِ يُحرك الروحَ إِلى عِبَادَةِ الرَّحْمن رحمان کی عبادت کی تحریک کرتی ہے اور بندوں کو ترغیب يُحَرِّكُ

Page 427

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ سورة الفاتحة وَيُحَزِكُ الْعِبَادَ إِلَى أَنْ يَنْتَجِعُوا حَضْرَته | دیتی ہے کہ وہ خلوص نیت اور صفائی قلب سے بارگاہ ایزدی بِإِلْحَاضِ النِّيَّةِ وَ إِخْلَاصِ الْجَنَانِ کی تلاش میں لگ جائیں.نیز (یہ تمہید ) انہیں بتاتی ہے کہ وَيُظْهِرُ عَلَيْهِمْ أَنَّهُ عَيْنُ كُلّ رَحْمَةٍ خدا تعالیٰ تمام رحمتوں کا سرچشمہ اور تمام نوازشوں کا منبع ہے وَيَنْبُوعُ جَمِيعِ أَنْوَاعِ الْحَنَانِ و مخصوص اور رب، رحمان، رحیم اور دیان ( جزا سزا کا مالک) کے باسم الرب وَالرَّحْمنِ وَالرَّحِيْمِ ناموں سے مخصوص ہے.جن لوگوں کو ان صفات کا علم ہو جاتا وَالشَّيَانِ فَالَّذِينَ يَظْلِعُونَ عَلى هذهِ ہے وہ ان کے مالک (اللہ تعالیٰ ) سے جدا نہیں ہوتے خواہ وہ الصِّفَاتِ فَلَا يُزَايِلُونَ أَهْلَهَا وَلَوْ موت کے بیابانوں میں جاگریں بلکہ وہ اُس کی طرف سَقَطُوا فِي فَلَوَاتِ الْمَمَاتِ بَلْ يَسْعَوْنَ دوڑتے ہیں اور صدق قلب اور صحت نیت سے اُسی کے پاس إِلَيْهِ وَيُوَقِّنُونَ لَدَيْهِ بِصِدْقِ الْقَلْبِ ڈیرے جمالیتے ہیں.اس کی طرف اپنے گھوڑے دوڑاتے وصحة النِّيَّاتِ وَيَتَرَا كَضُونَ إِلَيْهِ ہیں.اُس کی طرف والہانہ بڑھتے ہیں.اُن کے اندر خَيْلَهُمْ وَيَسْعَوْنَ كَالْمَشُوقِ وَيَضْطَرِمُ (اپنے) معشوق کی محبت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے.ایسا فِيْهِمْ هَوَى الْمَعْشُوقِ فَلَا يُنَاقِشُ شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کے غلبہ کی وجہ سے دوسری خواہشات أَهْوَاء أُخْرَى عِنْدَ غَلَبَةِ هُوَی رَبِّ سے کوئی کش مکش نہیں رکھتا.پس ثابت ہوا کہ اس دعا کی تمہید الْعَالَمِينَ فَتَبَتَ أَن في تَمْهِيْدِ هذا میں عبادت کرنے والوں کے لئے ایک زبر دست تحریک الدُّعَاءِ تَحْرِيعا عَظِيمًا لِلْعَابِدِينَ......ہے.......ثُمَّ بَعد ذلِكَ نَنظُرُ إلى دُعَاء عَلَّمَهُ پھر اس کے بعد ہم اُس دعا پر غور کرتے ہیں جو عِيسَى وَإلى دُعَاء عَلَّمَهُ رَبُّنَا الأعلى حضرت عیسی علیہ السلام نے سکھائی اور اس دعا پر بھی جو ہمارے لِيَتَبَيَّنَ مَا هُوَ الْفَرْقُ بَيْنَهُمَا لِذي خدائے بزرگ و برتر نے سکھائی تا عقلمند پر واضح ہو جائے کہ الصَّالِحِينَ.النُّهى وَلِيَنْتَفِعَ بِهِ مَنْ تکان مین ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے اور تا جو کوئی بھی نیک لوگوں میں شامل ہے اس فرق سے فائدہ اُٹھائے.فَاعْلَمُ أَنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ پس جان لو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعا سکھلائی عَلَّمَ دُعَاءٌ يَتَزَرى عَلَيْهِ إِنْصَافُنَا أَغنى ہے یعنی یہ کہ " ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دیا کر ہمارا خُبْزَنَا كَفَافَنَا وَأَمَّا الْقُرْآنُ فَعَافَ ذکر انصاف اسے ناقص قرار دیتا ہے.اس کے برخلاف

Page 428

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة الفاتحة الْخَيْرِ وَالْمَاءِ فِي الدُّعَاءِ وَعَلَّمَنَا طَرِيقَ | قرآن کریم نے (اپنی) دعا میں روٹی اور پانی کا ذکر کرنا الرُّشْدِ وَ الْاهْتِدَاءِ وَ حَتَّ عَلى أَن ناپسند کیا ہے اور ہمیں رُشد و ہدایت کا طریق سکھایا ہے اور تَّقُول اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ وَ اس بات کی طرف ترغیب دی ہے کہ ہم اهْدِنَا الصِّرَاط تطلب منه الدين القويمَ وَنَعُوذُ بِهِ الْمُسْتَقِيمَ کہیں اور اللہ تعالیٰ سے دین قویم طلب کریں اور مِن طُرُقِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضالین کی راہوں سے اُس کی پناہ وَالصَّالِينَ وَ أَشَارَ إِلى أَنَّ رَاحَةً مانگیں.اِس دُعا میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ دنیا اور الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ تَابِعَةُ يُطلب آخرت کی راحت صحیح راہ کی تلاش اور مخلصانہ فرمانبرداری القِرَاطِ وَالخَلاصِ الطَّاعَةِ - پر منحصر ہے.فَانْظُرْ إِلَى دُعَاءِ الْإِنْجِيلِ وَ دُعَاءِ پس انجیل کی دُعا پر بھی نگاہ ڈالو اور قرآن کی دعا پر الْقُرْآنِ مِنَ الرَّبِ الْجَلِيلِ وَ كُنْ مِن بھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے ہے اور انصاف عِيسَى کرو.الْمُنصِفِينَ وَأَمَّا مَا جَاءَ في دُعَاءِ عِیسی حضرت عیسی علیہ السلام کی دعا میں استغفار کے متعلق جو تَرْغِيْبٌ في الإِسْتِغْفَارِ فَهُوَ تأکید ترغیب آئی ہے وہ بھی ( دراصل ) بے قراروں کی طرح صرف لِدُعَاءِ لدعاء طلبِ الْخَيْرِ أَهْلِ الْاضْطِرَارِ روٹی مانگنے کی دُعا کرنے کی تاکید ہی ہے تا اللہ تعالی رحم کرے لَعَلَّ اللهَ يَرْحَمُ وَ يُعْطِي خُبزًا كَثِيرًا اور اس اقرار ( گناہ) کے بدلہ میں بہت سی روٹیاں دیدے.عِندَ هَذَا الْإِقْرَارِ فَالْاِسْتِغْفَارُ پس ( ان کا استغفار بھی صرف روٹیاں مانگنے کی خاطر آہ وزاری تَضَرُّعُ لِطَلَبِ الرُّغْفَانِ وَأَصْلُ الْأَمْرِ ہے.اصل مقصد خدائے بخشندہ سے روٹی مانگنا ہی ہے.هُوَ طلب الخبر من الله الْمَنَانِ وَ (انجیل کی) اس دعا سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی کے اکثر يَعْمُتُ مِنْ هَذَا الدُّعَاءِ أَن أكثر امجد پیروکار ہمیشہ سے سونے چاندی کے ہی عاشق ہیں اور وہ سونے عِيسَى كَانُوا عُفَّاقَ الذَّهَبِ وَ چاندی کی خاطر خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں.چند سکوں کی اللُّجَيْنِ وَهَاجِرِى الْحَق لِلْحَجَرَيْنِ وَ خاطر دین کو بیچ ڈالتے ہیں اور چاندی سونے کے سکوں کو ہی بائعي الدِّينِ بِبَعْسٍ مِنَ الدَّرَاهِمِ وَ اپنے کپڑوں میں چھپائے پھرتے ہیں اور رحم کرنے والے مُخْتَبِنِي خُلاصَةِ النَّضِ وَتَارِ کی ذیل رب کے دامن کے تارک ہیں اس حال میں کہ مفسد و نافرمان

Page 429

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ سورة الفاتحة الرَّبِ الرَّاحِم وَالْعَاثِينَ عَاصِينَ | ہیں.انہیں اسی بات کا شوق دلایا گیا ہے کہ وہ لالچ کو اپنا وَحُبّب إلَيْهِم أَن يَتَّخِذُوا الظَّمَعَ شِرْعَةً طریق قرار دے لیں اور دنیا کی محبت کو اپنا مقصود بنالیں.وَحُبِّ الدُّنْيَا مُجعَةٌ فَاسْتَشرفي پس انا جیل کا گہرا مطالعہ کرو تا آپ ہمارے قول کی الأناجيل لِيَظهَرَ عَلَيْكَ صِدقُ ما قيل صداقت ظاہر ہو جائے اور اللہ جلشانہ سے ڈرو اور دوسری وَاتَّقِ الرَّبَّ الْجَلِيلَ وَدَعِ الْأَقَاوِيْلَ | باتوں کو چھوڑ دو.( ترجمہ از مرتب ) کرامات الصادقین، روحانی خزائن ، جلد ۷ صفحه ۱۴۲ تا ۱۴۴) سورۃ فاتحہ کے لطائف پھر اس طرف خیال کرنا چاہئے کہ علاوہ ان سچائیوں کے اور اس کمال ایجاز کے دوسرے کیا کیا لطائف ہیں جو اس سورہ مبارکہ میں بھرے ہوئے ہیں اگر ہم اس جگہ ان سب لطائف کو بیان کریں تو یہ مضمون ایک دفتر بن جائے گا صرف چند لطیفہ بطور نمونہ بیان کئے جاتے ہیں.اوّل یہ لطیفہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کا ایسا طریقہ حسنہ بتلایا ہے جس سے خوب تر طریقہ پیدا ہونا ممکن نہیں اور جس میں وہ تمام امور جمع ہیں جو دُعا میں دلی جوش پیدا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں.تفصیل اس کی یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے ضرور ہے کہ اُس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑبڑ ہے حقیقی دُعا نہیں.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہر ایک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے لئے اشد ضرورت ہے کہ دعا کرنے کے وقت جو امور د لی جوش کے محرک ہیں وہ اس کے خیال میں حاضر ہوں اور یہ بات ہر یک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک خدا کو کامل اور قادر اور جامع صفات کا ملہ خیال کر کے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتدا سے انتہا تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا.دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجز اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو امر ہیں جن سے دُعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور جو اور جوش دلانے کے لئے کامل ذریعہ ہیں وجہ یہ کہ انسان کی دُعا میں تب ہی جوش پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے تیں سراسر ضعیف اور نا تو ان اور مدد الہی کا محتاج دیکھتا ہے اور خدا کی نسبت نہایت قوی اعتقاد سے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بغایت درجہ کامل القدرت اور رب العالمین اور رحمان اور رحیم اور مالک امر مجازات ہے اور جو کچھ انسانی حاجتیں ہیں سب کا پورا کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے.سوسورۃ فاتحہ کے ابتدا میں جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان فرمایا گیا ہے کہ وہی ایک ذات ہے کہ جو تمام محامد کا ملہ سے متصف اور تمام خوبیوں کی جامع ہے

Page 430

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة الفاتحة دو اور وہی ایک ذات ہے جو تمام عالموں کی ربّ اور تمام رحمتوں کا چشمہ اور سب کو ان کے عملوں کا بدلہ دینے والی ہے.پس ان صفات کے بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بخوبی ظاہر فرما دیا کہ سب قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہر یک فیض اسی کی طرف سے ہے اور اپنی اس قدر عظمت بیان کی کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کا قاضی الحاجات اور ہر یک چیز کا علت العلل اور ہر یک فیض کا مبدء اپنی ذات کو ٹھہرایا جس میں یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر اور اس کی رحمت کے بدوں کسی زندہ کی زندگی اور آرام اور راحت ممکن نہیں اور پھر بندہ کو تذلیل کی تعلیم دی اور فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اس کے یہ معنے ہیں کہ اے مبدء تمام فیوض ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یعنی ہم عاجز ہیں آپ سے کچھ بھی نہیں کر سکتے جب تک تیری توفیق اور تائید شامل حال نہ ہو پس خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش دلانے کے لئے دو محترک بیان فرمائے ایک اپنی عظمت اور رحمت شاملہ دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا.اب جاننا چاہئے کہ یہی دومحرک ہیں جن کا دُعا کے وقت خیال میں لانا دُعا کرنے والوں کے لئے نہایت ضروری ہے جو لوگ دعا کی کیفیت سے کسی قدر چاشنی حاصل رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ بغیر پیش ہونے ان دونوں محرکوں کے دُعا ہو ہی نہیں سکتی اور بجز ان کے آتش شوق الہی دعا میں اپنے شعلوں کو بلند نہیں کرتے یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ جو شخص خدا کی عظمت اور رحمت اور قدرت کاملہ کو یاد نہیں رکھتا وہ کسی طرح سے خدا کی طرف رجوع نہیں کر سکتا اور جو شخص اپنی عاجزی اور درماندگی اور مسکینی کا اقراری نہیں اس کی روح اس مولی کریم کی طرف ہرگز جھک نہیں سکتی.غرض یہ ایسی صداقت ہے جس کے سمجھنے کے لئے کوئی عمیق فلسفہ درکار نہیں بلکہ جب خدا کی عظمت اور اپنی ذلت اور عاجزی متحقق طور پر دل میں منقش ہو تو وہ حالت خاصہ خود انسان کو سمجھا دیتی ہے کہ خالص دُعا کرنے کا وہی ذریعہ ہے سچے پرستار خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں انہیں دو چیزوں کا تصور دُعا کے لئے ضروری ہے یعنی اول اس بات کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہر یک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کا ملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں.دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید الہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا.اور بلا شبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دُعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو یکا یک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کر دیتے ہیں کہ ایک متکبران سے متاثر ہو کر روتا ہواز مین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.یہی گل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑ جاتی ہے.انہیں دو باتوں کے تصور سے ہر یک دل دُعا کرنے کی

Page 431

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة الفاتحة طرف کھینچا جاتا ہے.غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح رو بخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری ور امدادر بانی پر نظر پڑتی ہے اسی کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکدر ہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمی کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمت گل اور ہریک ہستی کا ستون اور ہر یک درد کا چارہ اور ہر یک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے آخر اس سے ایک صورت فنافی اللہ کی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے نہ اپنے نفس کی طرف نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اُس ہستی حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کا لعدم معلوم ہوتی ہے اس حالت کا نام خدا نے صراط مستقیم رکھا ہے جس کی طلب کے لئے بندہ کو تعلیم فرمایا اور کہا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی وہ راستہ فنا اور توحید اور محبت الہی کا جو آیات مذکورہ بالا سے مفہوم ہو رہا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور اپنے غیر سے بکلی منقطع کر.خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ نے دُعا میں جوش پیدا کرنے کے لئے وہ اسباب حقہ انسان کو عطا فرمائے کہ جو اس قدر دلی جوش پیدا کرتے ہیں کہ دعا کرنے والے کو خودی کے عالم سے بے خودی اور نیستی کے عالم میں پہنچا دیتے ہیں.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ بات ہر گز نہیں کہ سورۃ فاتحہ دعا کے کئی طریقوں میں سے ہدایت مانگنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ جیسا کہ دلائل مذکورہ بالا سے ثابت ہو چکا ہے درحقیقت صرف یہی ایک طریقہ ہے جس پر جوش دل سے دعا کا صادر ہونا موقوف ہے اور جس پر طبیعت انسانی بمقتضا اپنے فطرتی تقاضا کے چلنا چاہتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدا نے دوسرے امور میں قواعد مقررہ ٹھہرا ر کھے ہیں ایسا ہی دعا کے لئے بھی ایک قاعدہ خاص ہے اور وہ قاعدہ وہی محرک ہیں جو سورۃ فاتحہ میں لکھے گئے ہیں اور ممکن نہیں کہ جب تک وہ دونوں محرک کسی کے خیال میں نہ ہوں تب تک اس کی دعا میں جوش پیدا ہو سکے.سوطبعی راستہ دعا مانگنے کا وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ذکر ہو چکا ہے.پس سورہ ممدوحہ کے لطائف میں سے یہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ ہے کہ دعا کو معہ محرکات اس کے کے بیان کیا ہے فتدبر.پھر ایک دوسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کے لئے پورے پورے اسباب ترغیب بیان فرمائے ہیں کیونکہ ترغیب کامل جو معقول طور پر دی جائے ایک زبر دست کشش ہے اور حصر عقلی کے رو سے ترغیب کامل اس ترغیب کا نام ہے جس میں تین جو میں موجود ہوں.ایک یہ کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس کی ذاتی خوبی بیان کی جائے سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے.اخدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی ہم کو وہ راستہ بتلا جو اپنی ذات میں صفت استقامت اور راستی سے موصوف ہے جس

Page 432

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ سورة الفاتحة میں ذرا کجی نہیں سو اس آیت میں ذاتی خوبی اس راستہ کی بیان فرما کر اس کے حصول کے لئے ترغیب دی.دوسری جز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے فوائد بیان کئے جائیں.سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اس راستہ پر ہم کو چلا جس پر چلنے سے پہلے سالکوں پر انعام اور کرم ہو چکا ہے.سو اس آیت میں راستہ چلنے والوں کا کامیاب ہونا ذکر فرما کر اس راستہ کا شوق دلایا.تیسری جو ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے چھوڑنے والوں کی خرابی اور بدحالی بیان کی جائے.سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَ.یعنی ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے صراط مستقیم کو چھوڑا اور دوسری راہیں اختیار کیں اور نغضب الہی میں پڑے اور گمراہ ہوئے سو اس آیت میں اس سیدھا راستہ چھوڑنے پر جو ضر ر مترتب ہوتا ہے اس سے آگاہ کیا.غرض سورۃ فاتحہ میں ترغیب کی تینوں جزوں کو لطیف طور پر بیان کیا.ذاتی خوبی بھی بیان کی.فوائد بھی بیان کئے اور پھر اس راہ کے چھوڑنے والوں کی ناکامی اور بدحالی بھی بیان فرمائی تا ذاتی خوبی کوسن کر طبائع سلیمہ اُس کی طرف میل کریں اور فوائد پر اطلاع پا کر جو لوگ فوائد کے خواہاں ہیں ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو اور ترک کرنے کی خرابیاں معلوم کر کے اس وبال سے ڈریں جو کہ ترک کرنے پر عائد حال ہو گا.پس یہ بھی ایک کامل لطیفہ ہے جس کا التزام اس صورت میں کیا گیا.پھر تیسر ا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزام فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامد الہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دُعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں.ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لف و نشر مرتب کے بیان کیا ہے جس کا صفائی سے بیان کرنا با وجود در عایت تمام مدارج فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جولوگ سخن میں صاحب مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لف و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اول محامد الہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ رب العالمین ہے.رحمان ہے.رحیم ہے.لملِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہے.اور پھر بعد اس کے فقرات تعبد اور استعانت اور دُعا اور طلب جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کسی قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اُسی کے نیچے وہ فقرہ درج کیا.چنانچہ رب العلمین کے مقابلہ پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ لکھا.کیونکہ ربوبیت سے استحقاق عبادت شروع ہو جاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لکھنا نہایت موزوں اور مناسب ہے اور رحمان کے مقابلہ پر اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لکھا.کیونکہ بندہ کے لئے اعانت الہی جو تو فیق ވ

Page 433

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة الفاتحة عبادت اور ہر یک اس کے مطلوب میں ہوتی ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفت رحمانیت کا اثر ہے.پس استعانت کو صفت رحمانیت سے بشدت مناسبت ہے.اور رحیم کے مقابلہ پر اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو شمرہ مترتب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے.اور ملكِ يَوْمِ الدِّينِ کے مقابلہ پر صِرَاط الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ لکھا.کیونکہ امر مجازات ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے متعلق ہے.سو ایسا فقرہ جس میں طلب انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے رکھنا موزوں ہے.چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصد قرآنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.وَلَقَد أَتَيْنَكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (الحجر : ۸۸) یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے.ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اُس سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے.اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا.غرض قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ مدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے.اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کاملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے اور اُس کی ذات کے لئے جو کمال تام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے.سو یہ مقصد الْحَمدُ لِلہ میں بطور اجمال آ گیا.کیونکہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لئے ثابت ہیں جو مجمع جمیع کمالات اور مستحق جميع عبادات ہے.دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العالمین ہونا ظاہر کرتا ہے اور عالم کے ابتدا کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخل ہو چکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں ان کا کذب ثابت کرتا ہے.سو یہ مقصد رب العلمین میں بطور اجمال آ گیا.تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اُس کی رحمتِ عامہ کا بیان کرنا ہے.سو یہ مقصد لفظ رحمان میں بطور اجمال آ گیا.

Page 434

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة الفاتحة چوتھا مقصد قرآن شریف کا خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے.سو یہ مقصد لفظ رحیم میں آ گیا.پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرنا ہے.سو یہ مقصد لملكِ يَوْمِ الدِّينِ میں آ گیا.چھٹا مقصد قرآن شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق ردیہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے.سو یہ مقصد انياكَ نَعْبُدُ میں بطور اجمال آ گیا.ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہر ایک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام توفیق اور لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصول جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اس کی طرف اسے قرار دینا اور ان تمام امور میں اس سے مدد چاہنے کے لئے تاکید کرنا سو یہ مقصد ايَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بطور اجمال آ گیا.آٹھواں مقصد قرآن شریف کا صراط مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لئے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرع سے اس کو طلب کریں سو یہ مقصد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بطور اجمال کے آ گیا.نواں مقصد قرآن شریف کا اُن لوگوں کا طریق و خلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام و فضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں آگیا.دسواں مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا.یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑ گئے.تاحق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں.سو یہ مقصد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں بطور اجمال آ گیا ہے.یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں.سو یہ تمام مقاصد سورۂ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے.پانچواں لطیفہ سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ وہ اس اتم اور اکمل تعلیم پر مشتمل ہے کہ جو طالب حق کے لئے ضروری ہے.اور جو ترقیات قربت اور معرفت کے لئے کامل دستور العمل ہے.کیونکہ ترقیات قربت کا شروع اس نقطہ سیر سے ہے کہ جب سالک اپنے نفس پر ایک موت قبول کر کے اور سختی اور آزار کشی کو روا رکھ کر اُن تمام نفسانی خواہشوں سے خالصایله دست کش ہو جائے کہ جو اس میں اور اس کے مولیٰ کریم میں جدائی ڈالتے ہیں اور اس کے مونہہ کو خدا کی طرف سے پھیر کر اپنی نفسانی لذات اور جذبات اور عادات اور خیالات اور ارادات اور نیز مخلوق کی طرف پھیرتے ہیں اور اُن کے خوفوں اور امیدوں میں گرفتار کرتے ہیں اور ترقیات کا اوسط درجہ وہ ہے کہ جو جو ابتدائی درجہ میں نفس کشی کے لئے تکالیف اٹھائی جاتی ہیں اور حالت معتادہ کو چھوڑ کر طرح طرح کے دکھ سہنے پڑتے ہیں وہ سب آلام صورت انعام میں ظاہر ہو جا ئیں اور بجائے مشقت کے

Page 435

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة الفاتحة لذت اور بجائے رنج کے راحت اور بجائے تنگی کے انشراح اور بشاشت نمودار ہو.اور ترقیات کا اعلیٰ درجہ وہ ہے کہ سالک اس قدر خدا اور اس کے ارادوں اور خواہشوں سے اتحاد اور محبت اور یک جہتی پیدا کر لے کہ اس کا تمام اپنائین واثر جاتا رہے.اور ذات اور صفات الہیہ بلا شائبہ ظلمت اور بلا تو ہم حالیت و محلیت اس کے وجود آئینہ صفت میں منعکس ہو جائیں.اور فنا اتم کے آئینہ کے ذریعہ سے جس نے سالک میں اور اس کی نفسانی خواہشوں میں غایت درجہ کا بعد ڈال دیا ہے انعکاس ربانی ذات اور صفات کا نہایت صفائی سے دکھائی دے.اس تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں وجود یوں یا ویدانتیوں کے باطل خیال کی تائید ہو.کیونکہ انہوں نے خالق اور مخلوق میں جو ابدی امتیاز ہے شناخت نہیں کیا.اور اپنے کشوف مشتبہ کے دھوکہ سے کہ جو سلوک نا تمام کی حالت میں اکثر پیش آ جاتے ہیں یا جو سودا انگیز ریاضتوں کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سخت مغالطات کے بیچ میں پڑ گئے یا کسی نے سکر اور بے خودی کی حالت میں جو ایک قسم کا جنون ہے اس فرق کو نظر سے ساقط کر دیا کہ جو خدا کی روح اور انسان کی روح میں باعتبار طاقتوں اور قوتوں اور کمالات اور تقدسات کے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ قادر مطلق کہ جس کے علم قدیم سے ایک ذرہ مخفی نہیں اور جس کی طرف کوئی نقصان اور خسران عائد نہیں ہوسکتا اور جو ہر یک قسم کے جہل اور آلودگی اور ناتوانی اور غم اور حزن اور درد اور رنج اور گرفتاری سے پاک ہے وہ کیوں کر اس چیز کا عین ہو سکتا ہے کہ جو ان سب بلاؤں میں مبتلا ہے.کیا انسان جس کی روحانی ترقیات کے لئے اس قدر حالات منتظرہ ہیں جن کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا.وہ اُس ذات صاحب کمال تا م سے مشابہ یا اس کا عین ہو سکتا ہے جس کے لئے کوئی حالت منتظر و باقی نہیں؟ کیا جس کی ہستی فانی اور جس کی روح میں صریح مخلوقیت کے نقصان پائے جاتے ہیں.وہ باوجود اپنی تمام آلائشوں اور کمزوریوں اور ناپاکیوں اور عیبوں اور نقصانوں کے اس ذات جلیل الصفات سے برابر ہو سکتا ہے جو اپنی خوبیوں اور پاک صفتوں میں ازلی ابدی طور پر اتم اور اکمل ہے.سُبْحْنَةَ وَتَعَلى عَمَّا يَصِفُونَ (الانعام : ١٠١) بلکہ اس تیسرے قسم کی ترقی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کی محبت میں ایسا فانی اور مستبلک ہو جاتا ہے اور اس قدر ذات بے چون و بے چگون اپنی تمام صفات کاملہ کے ساتھ اُس سے قریب ہو جاتی ہے کہ الوہیت کے تجلیات اس کے نفسانی جذبات پر ایسے غالب آ جاتے ہیں اور ایسے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو اس کو اپنے نفسانی جذبات سے بلکہ ہر یک سے جو نفسانی جذبات کا تابع ہو مغائرت کلی اور عداوت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے اور اس میں اور قسم دویم کی ترقی میں فرق یہ ہے کہ گو قسم دویم میں بھی اپنے رب کی مرضی سے موافقت نامہ پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کا ایلام

Page 436

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۳ سورة الفاتحة بصورت انعام نظر آتا ہے.مگر ہنوز اس میں ایسا تعلق باللہ نہیں ہوتا کہ جو ماسوی اللہ کے ساتھ عداوت ذاتی پیدا ہو جانے کا موجب ہو اور جس سے محبت الہی صرف دل کا مقصد ہی نہ رہے بلکہ دل کی سرشت بھی ہو جائے.غرض قسم دویم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ کرنا اور اس کے غیر سے عداوت رکھنا سالک کا مقصد ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول سے وہ لذت پاتا ہے لیکن قسم سوم کی ترقی میں خدا سے موافقت نامہ اور اس کے غیر سے عداوت خود سالک کی سرشت ہو جاتی ہے جس سرشت کو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا.کیونکہ انفكاك الشيء عن نفسه محال ہے برخلاف قسم دوم کے کہ اُس میں انفکاک جائز ہے اور جب تک ولایت کسی ولی کی قسم سوم تک نہیں پہنچتی عارضی ہے اور خطرات سے امن میں نہیں.وجہ یہ کہ جب تک انسان کی سرشت میں خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت داخل نہیں.تب تک کچھ رگ وریشہ ظلم کا اس میں باقی ہے کیونکہ اُس نے حق ربوبیت کو جیسا کہ چاہئے تھا ادا نہیں کیا.اور لقاء تام حاصل کرنے سے ہنوز قاصر ہے.لیکن جب اس کی سرشت میں محبت الہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہوگئی یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہو گیا جن سے وہ سنتا ہے.اور اس کی آنکھیں ہو گیا جن سے وہ دیکھتا ہے.اور اس کا ہاتھ ہو گیا جس سے وہ پکڑتا ہے.اور اس کا پاؤں ہو گیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہر ایک خطرہ سے امن میں آ گیا.اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إيمَانَهُمْ يظلم أوليك لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ.(الانعام: ۸۳) اب سمجھنا چاہئے کہ یہ ترقیات ثلاثہ کہ جو تمام علوم و معارف کا اصل الاصول بلکہ تمام دین کا لب لباب ہے سورۃ فاتحہ میں تمام تر خوبی و رعایت ایجاز و خوش اسلوبی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ پہلی ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے اوّل قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ - کیونکہ ہر یک قسم کی کجی اور بے راہی سے باز آ کر اور بالکل رو بخدا ہو کر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھائی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یکلخت چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہو چکی ہے یکدفعہ ترک کرنا اور ہر یک ننگ اور ناموس اور عجب اور ریا سے مونہہ پھیر کر اور تمام ماسو اللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کر لینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے.اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑتا تب تک نیادانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے.اسی طرح روحانی پیدائش

Page 437

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ سورة الفاتحة کا جسم اس فنا سے طیار ہوتا ہے.جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو خلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فناء اتم حاصل ہو جاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے اور ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا اخر کا وقت آ جاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجہ خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہم کو راہ راست پر قائم کر اور ہر یک طور کی بجی اور بے راہی سے نجات بخش.اور یہ کامل استقامت اور راست روی جس کو طلب کرنے کا حکم ہے نہایت سخت کام ہے اور اول دفعہ میں اس کا حملہ سالک پر ایک شیر بہر کی طرح ہے جس کے سامنے موت نظر آتی ہے پس اگر مسالک ٹھہر گیا اور اُس موت کو قبول کر لیا تو پھر بعد اس کے کوئی اسے سخت موت نہیں اور خدا اس سے زیادہ تر کریم ہے کہ پھر اس کو یہ جلتا ہوا دوزخ دکھاوے.غرض یہ کامل استقامت وہ فنا ہے کہ جس سے کارخانہ وجود بندہ کو بکلی شکست پہنچتی ہے اور ہوا اور شہوت اور ارادت اور ہر یک خودروی کے فعل سے بیکبارگی دستکش ہونا پڑتا ہے اور یہ مرتبہ سیر و سلوک کے مراتب میں سے وہ مرتبہ ہے جس میں انسانی کوششوں کا بہت کچھ دخل ہے اور بشری مجاہدات کی بخوبی پیش رفت ہے اور اسی حد تک اولیاء اللہ کی کوششیں اور سالکین کی محنتیں ختم ہو جاتی ہیں اور پھر بعد اس کے خاص مواہب سماوی ہیں جن میں بشری کوششوں کو کچھ دخل نہیں بلکہ خود خدائے تعالی کی طرف سے عجائبات سماوی کی سیر کرانے کے لئے غیبی سواری اور آسمانی بزاق عطا ہوتا ہے.اور دوسری ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے دوسرا قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ.یعنی ہم کو ان لوگوں کا راہ دکھلا جن پر تیرا انعام اکرام ہے.اس جگہ واضح رہے کہ جولوگ منعم علیہم ہیں اور خدا سے ظاہری و باطنی نعمتیں پاتے ہیں شدائد سے خالی نہیں ہیں بلکہ اس دارالا بتلاء میں ایسی ایسی شدتیں اور صعوبتیں ان کو پہنچتی ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے کو پہنچتیں تو مدد ایمانی اس کی منقطع ہو جاتی.لیکن اس جہت سے اُن کا نام منعم علیہم رکھا گیا ہے کہ وہ باعث غلبہ محبت آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور ہر یک رنج یا راحت جو دوست حقیقی کی طرف سے اُن کو پہنچتی ہے بوجہ مستی عشق اس سے لذت اٹھاتے ہیں پس یہ ترقی فی القرب کی دوسری قسم ہے جس میں اپنے محبوب کے جمیع افعال سے لذت آتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچے انعام ہی انعام نظر آتا ہے اور اصل موجب اس حالت کا ایک محبت کامل اور تعلق صادق ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے ہو جاتا ہے اور یہ ایک موہبت خاص ہوتی ہے جس

Page 438

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة الفاتحة میں حیلہ اور تدبیر کو کچھ دخل نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے آتی ہے اور جب آتی ہے تو پھر سالک ایک دوسرا رنگ پکڑ لیتا ہے اور تمام بوجھ اس کے سر سے اتارے جاتے ہیں اور ہر یک ایلام انعام ہی معلوم ہوتا ہے اور شکوہ اور شکایت کا نشان نہیں ہوتا.پس یہ حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان بعد موت کے زندہ کیا گیا ہے کیونکہ ان تلخیوں سے بکلی نکل آتا ہے جو پہلے درجہ میں تھیں جن سے ہر ایک وقت موت کا سامنا معلوم ہوتا تھا مگر اب چاروں طرف سے انعام ہی انعام پاتا ہے اور اسی جہت سے اس کی حالت کے مناسب حال یہی تھا کہ اس کا نام منعم علیہ رکھا جاتا اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام بقا ہے کیونکہ سالک اس حالت میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہے کہ گویا وہ مرا ہوا تھا اور اب زندہ ہو گیا.اور اپنے نفس میں بڑی خوشحالی اور انشراح صدر دیکھتا ہے اور بشریت کے انقباض سب دور ہو جاتے ہیں اور الوہیت کے مربیانہ انوار نعمت کی طرح برستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اسی مرتبہ میں سالک پر ہر یک نعمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور عنایات الہیہ کامل طور پر متوجہ ہوتی ہیں اور اس مرتبہ کا نام سیر فی اللہ ہے.کیونکہ اس مرتبہ میں ربوبیت کے عجائبات سالک پر کھولے جاتے ہیں اور جور بانی نعمتیں دوسروں سے مخفی ہیں ان کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے کشوف صادقہ سے متمتع ہوتا ہے اور مخاطبات حضرت احدیت سے سرفرازی پاتا ہے.اور عالم ثانی کے باریک بھیدوں سے مطلع کیا جاتا ہے اور علوم اور معارف سے وافر حصہ دیا جاتا ہے.غرض ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہت کچھ اس کو عطا کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس درجہ و یقین کامل تک پہنچتا ہے کہ گو یا مد بر حقیقی کو چشم خود دیکھتا ہے.سواس طور کی اطلاع کامل جو اسرار سماوی میں اس کو بخشے جاتے ہیں.اس کا نام سیر فی اللہ ہے لیکن یہ وہ مرتبہ ہے جس میں محبت الہی انسان کو دی تو جاتی ہے لیکن بطریق طبعیت اس میں قائم نہیں کی جاتی یعنی اس کی سرشت میں داخل نہیں ہوتی.بلکہ اس میں محفوظ ہوتی ہے.اور تیسری ترقی جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے انتہائی قدم ہے.اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے.جو فرمایا ہے.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالين یہ وہ مرتبہ ہے جس میں انسان کو خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت سرشت میں داخل ہو جاتی ہے.اور بطریق طبعیت اس میں قیام پکڑتی ہے اور صاحب اس مرتبہ کا اخلاق الہیہ سے ایسا ہی بالطبع پیار کرتا ہے کہ جیسے وہ اخلاق حضرت احدیت میں محبوب ہیں اور محبت ذاتی حضرت خداوند کریم کی اس قدر اُس کے دل میں آمیزش کر جاتی ہے کہ اُس کے دل سے محبت الہی کا منفک ہونا ستحیل اور ممتنع ہوتا ہے.اور اگر اس کے دل کو اور اس کی جان کو بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں کے سخت صدمات کے بیچ میں دے کر کوفتہ کیا الصَّالِينَ

Page 439

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة الفاتحة جائے اور نچوڑا جائے تو بحر محبت الہیہ کے اور کچھ اس کے دل اور جان سے نہیں نکلتا.اسی کے درد سے لذت پاتا ہے.اور اُسی کو واقعی اور حقیقی طور پر اپنا دل آرام سمجھتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں تمام ترقیات قرب ختم ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے اس انتہائی کمال کو پہنچ جاتا ہے کہ جو فطرت بشری کے لئے مقدر ہے.یہ لطائف خمسہ ہیں کہ جو بطور نمونہ مشتے از خروارے ہم نے لکھے ہیں مگر عجائبات معنوی اس صورت میں اور نیز دوسرے حقائق و معارف اس قدر ہیں کہ اگر اُن کا عشر عشیر بھی لکھا جائے تو اس کے لکھنے کے لئے ایک بڑی کتاب چاہئے.اور جو اس سورہ مبارکہ میں خواص روحانی ہیں وہ بھی ایسے اعلیٰ و حیرت انگیز ہیں جن کو طالب حق دیکھ کر اس بات کے اقرار کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ قادر مطلق کا کلام ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۷ تا ۶۲۶ حاشیه ۱۱)

Page 439

Next Book →