Language: UR
مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ
سُوْرَۃُ الْفُرْقَانِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ فرقان.یہ سورۃ مکی ہے وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ ثَمَانٍ وَّ سَبْعُوْنَ اٰیَۃً وَّ سِتَّۃُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ سمیت اس کی اٹھتر (۷۸) آیات ہیں اور چھ (۶)رکوع ہیں.۱؎ زمانۂ نزول ۱؎ یہ سورۃ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق مکی ہے اور ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے.تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اور قتادہ ؓ کے نزدیک اس میں سے تین آیتیں مدنی ہیں اور وہ آیتیں وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ سے لےکر وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا تک ہیں.یعنی آیات نمبر ۶۸، ۶۹،۷۰ اور ہمارے نزدیک آیات نمبر ۶۹،۷۰،۷۱.جن لوگوں نے ان آیات کو مدنی قرارد یا ہے اُن کے اس قول کا موجب صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان آیات میں قتل نفس اور بدکاری سے روکا گیا ہے اور ان لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ تمدن اور معاشرت اور سیاست کے متعلق تفصیلی ہدایات مدینہ منورہ میں ملی ہیں اس لئے یہ آیتیں مدنی ہیں مگر یہ کوئی دلیل نہیں.یہ تعلیم صحابہ ؓ کے اس وقت بھی زیر عمل تھی جب وہ مکہ میں رہتے تھے.صحابہ ؓ کا چال چلن اور اُن کا طریق صاف بتا تا ہے کہ یہ ہدایتیں اس وقت بھی اُن کے مدنظر رہتی تھیں.پس محض اس لئے کہ ان آیتوں میں قتل اور بدکاری سے روکا گیا ہے ان کو مدنی قرار دینا ہر گز معقول نہیں سمجھا جا سکتا.عیسائی مستشرقین نے بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے لیکن اُن کے نزدیک یہ سورۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے بالکل ابتدائی وقت کی ہے.( کمنٹری آن دی قرآن مصنفہ ریورنڈوہیری جلد ۳ ص ۲۰۷) مگر یہ بات بھی صحیح نہیں کیونکہ اُن کی بنیاد صرف اس خیال پر ہے کہ اس سورۃ میں کفار کی شدید مخالفت کا ذکر نہیں حالانکہ بعض مدنی سورتیں بھی ایسی ہیں جن میں کفار کا ذکر قریباً مفقود ہے.تو کیا ہم اس سے یہ نتیجہ نکالیں کہ مدینہ میں کفار کے ساتھ کوئی جنگ ہوئی ہی نہیں ؟ مضمون کے لحاظ سے بھی یہ سورۃ مکی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں خاص طور پر یہ امربیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مذہب کو قبول نہیں کریں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفار سے جھگڑا شروع ہو چکا تھا ( دیکھو آیت ۵۳ ) پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلے دو تین سال کی ناز ل شدہ سورتوں میں سے یہ سورۃ ہے.بخاریؒ اور مسلم ؒ کی روایت ہے اور مالکؒ اور شافعی ؒ اور ابن حبان ؒ اور بہیقی ؒ نے بھی حضرت عمرابن خطاب
سے روایت کی ہے کہ میں نے ایک دفعہ ہشام بن حکیم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۃ فرقان سنی.مگر وہ اس سورۃ کو اس طرح نہیں پڑھتے تھے جس طرح میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورۃ سنی تھی.قریب تھا کہ میں نماز میں ہی اُن پر حملہ کر دیتا مگر میں نے صبر کیا.جب انہوں نے سلام پھیر دیا تو میں نے اُن کی چادر پکڑ لی اور میں نے کہا آپ کو اس سورۃ کا پڑھنا کس نے سکھایا ہے.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے.میں نے جواب میںکہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرز پر نہیں پڑھایا جس طرز پر تم پڑھ رہے ہو.پھر میں اُن کو گھسیٹتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور میں نے کہا.یا رسول اللہ ! یہ اس طرح قرآن پڑھ رہے ہیں جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھایا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہشام ؓ ذرا پڑھ کر تو سنائو.چنانچہ ہشام ؓ نے اس طرح جس طرح میں نے اُن کو پڑھتے ہوئے سُنا تھا وہ سورۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنائی.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.یہ سورۃ اسی طرح نازل ہوئی ہے.پھر آپ ؐ نے فرمایا.عمرؓ تم پڑھو تو میں نے یہ سورۃ اُس طرح پڑھی جس طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنی سکھائی تھی.آپ نے فرمایا.یہ سورۃ اسی طرح نازل ہوئی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن سات طریق پر نازل ہوا ہے.جس طرح کسی کی زبان پر چڑھے وہ اُسی طرح پڑھ لیا کرے ( تفسیر فتح البیان سورۃ الفرقان ابتدائیہ.بخاری کتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرأتیں جن پر مستشرقین اور پادریوں نے اپنے اعتراضات کی بڑی بھاری بنیاد رکھی ہے.وہ درحقیقت صرف عرب کی مختلف اقوام کے لہجوں کا فرق تھا.اور اس قسم کے فرق عربی زبان میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں.کیونکہ عرب قوم مختلف آزاد زبانوں کے اندر گھری ہوئی تھی.عرب کا ایک پہلو حبشہ کے ساتھ ملتا تھا.دوسرا پہلو ایران کے ساتھ ملتا تھا.تیسرا پہلو یہودیوں اور آرامیوں کے ساتھ ملتا تھا او ر چوتھا پہلو ہندوستان کے ساتھ ملتا تھا.ایسے مختلف زبانوں میں گھرے ہوئے لوگوں کی زبان لازماً ان زبانوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی.چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ بعض عرب بعض حروف کو ادا کر سکتے تھے اور بعض دوسرے ان حروف کو ادا نہیں کر سکتے تھے.مثلاً بعض ’’ ر ‘‘ ادا کر سکتے تھے اور بعض ’’ ر ‘‘ کی جگہ ’’ل‘‘ ادا کرتے تھے.اور بعض دفعہ کسی لفظ کے ادا کرنے میں مشکل محسوس کر کے اس کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کر لیتے تھے.اگر ایک ادیب اپنی کتاب میں ان دونوں لفظوں کا پڑھنا جائز رکھے تو دونوں قوموںکے لئے اس کتاب کا پڑھنا آسان ہو جائےگا مگر دوسری صورت میں ایک حصہ قوم کو اس کا پڑھنا آسان ہوگا اور دوسرے حصہ قوم کو اس کا پڑھنا مشکل ہوگا اور اگر وہ اسے پڑھے گی بھی تو اپنے اختیار
سے پڑھے گی مصنف کی اجازت سے نہیں پڑھے گی.قرآن کریم نے اس مشکل کو یوں حل کیاکہ جتنے اختلافات تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم مقام حروف یا قائم مقام الفاظ تجویز کر دئیے جس کی وجہ سے تمام اقوام عرب آسانی کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے پر قادر ہو گئیں.یہ چونکہ ایک بالکل اچھوتا اور نیا طریق تھا اور قرآن کریم سے پہلے کسی کا ذہن ا س طرف نہیں گیا تھا اس لئے لوگوں پر شروع شروع میں یہ بات شاق گزرتی تھی.اور ہر فریق سمجھتا تھا کہ قرآن میرے قبیلہ کی زبان میں نازل ہواہے.دوسرا قبیلہ اگر لہجہ بدل کر یا حرف بدل کر کسی آیت کو پڑھتا ہے تو وہ گویا قرآن کریم میں تحریف کرتا ہے.اس لئے شروع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بار بار سمجھانی پڑی.جب لوگ سمجھ گئے تو ان کو معلوم ہو ا کہ یہ عیب نہیں.نہ معنوں میں اس سے کسی قسم کا تغیر پیدا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو معانی میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور ہر قوم کے پڑھنے کے لئے اس میں آسانی ہو جاتی ہے.ایک مشہور عربی ادیب نے لکھا ہے کہ ایک بادشاہ تھا جس نے اپنے دربار میں ایک ایسے شخص کو وزارت کا عہدہ سپرد کیا ہوا تھا جو اپنے لہجہ کے مختلف ہونے کی وجہ سے ’’ ر‘‘ نہیں بول سکتا تھا.مگر بادشاہ کو اُس کے اس نقص کا کوئی علم نہیں تھا.ایک دفعہ کسی نے بادشاہ کے پاس شکایت کی کہ آپ نے فلاں شخص کو اپنا وزیر مقرر کیا ہوا ہے مگر اُس کی تو یہ حالت ہے کہ وہ ’’ ر‘‘ بھی نہیں بول سکتا.اور اگر کوئی ایسا لفظ اُسے بولنا پڑے جس میں ’’ ر‘‘ آتی ہو تو وہ ’’ ر ‘‘ کی جگہ ’’ ل‘‘ پڑھ دیتا ہے.بادشاہ نے کہا کہ مجھے تو اس کے اس نقص کا کوئی علم نہیں.لیکن چونکہ تم نے شکایت کی ہے اس لئے اب میں اس کا ضرور امتحان لوںگا اور دیکھو ںگا کہ تمہاری بات کہاں تک درست ہے.چنانچہ اس نے وزیر کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ اپنے سیکرٹری کو یہ آرڈر لکھوائو کہ اَمَرَ اَمِیْرُ الْاُمَرَاءِ اَنْ یُّحْفَرَ الْبِئْرُ فِی الطَّرِیْقِ لِیَشْرِبَ مِنْہُ الْمَآءَ الصَّادِرُ وَالْوَارِدُ.یعنی شہنشاہ نے حکم دیا ہے کہ شاہی راستہ پر ایک کنواں کھودا جائے تاکہ سب آنے اور جانے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں.یہ فقرہ ایسا تھا جس میں اُس نے تمام ایسے الفاظ جمع کر دئیے تھے جن میں ’’ ر ‘‘ آتی ہے.لیکن وہ وزیر بڑا عالم اور ہوشیار تھا.اُس نے یہ حکم سنتے ہی فوراً اپنے سیکرٹری سے کہا کہ لکھو حَکَمَ حَاکِمُ الْحُکَّامِ اَنْ یُّقْلَبَ الْقَلِیْبُ فِی السَّبِیْلِ لِیَنْتَفِعَ مِنْہُ الصَّادِیْ وَالْبَادِیْ.یعنی تمام حکام کے حاکم اور سردار نے حکم دیا ہے کہ سبیل میں جو طریق کا ہم معنے تھا اور اس میں ’’ ر‘‘ نہیں آتی تھی.ایک قلیب کھودا جائے جو بئر کا ہم معنے ہے اور اس میں بھی ’’ ر‘‘ نہیں آتی بلکہ ’’
ل‘‘ آتا ہے تاکہ اس سے صادی اور بادی یعنی شہر میں آنے والے اور شہر سے جانے والے سب فائدہ اٹھا سکیں.اس جگہ بھی اس نے صادر اور وارد کی جگہ ایسے الفاظ استعمال کئے جو انہیں الفاظ کے ہم معنے تھے مگر ان میں بھی ’’ ر‘‘ نہیں آتی تھی.بادشاہ اس کی اس ہوشیاری سے بہت متاثر ہوا اور اُس نے شکایت کرنےوالے سے کہا کہ تم نے تو اس لئے شکایت کی تھی کہ میں اسے اس عہدہ سے برطرف کردوں مگر میری نگاہ میں تو اس کا درجہ اور بھی بڑھ گیا ہے.کیونکہ میری زبان سے سنتے ہی اس نے میرے فقرہ کو فوراً ایسے الفاظ میں بدل دیا جو مفہوم کے لحاظ سے میرے الفاظ کے عین مطابق تھے.اور ان میں ’’ ر ‘‘ بھی نہیں آتی تھی.اس بات نے تو ثابت کر دیا ہے کہ یہ شخص بڑا عالم ہے اور مجھے اس کی قدر کرنی چاہیے.اس مثال سے یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح وہ وزیر ’’ ر‘‘ نہیں بول سکتا تھا بلکہ ’’ ر‘‘ کی بجائے ’’ ل‘‘ بولنے پر مجبور تھا اسی طرح عرب کے مختلف قبائل میں لب و لہجہ کا اختلاف پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ بعض حروف کو پوری طرح ادا نہیں کر سکتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت دےکر ان تمام اختلافات کو مٹا دیا.اس طرح قرآن کریم ایک عالمگیر کتاب بن گئی جس کو مختلف لہجہ رکھنے والے عرب بھی آسانی سے پڑھ سکتے تھے اور وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ کتاب ہماری زبان میں ہی نازل ہوئی ہے.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فَاقْرَءُ وْا مَاتَیَسَّرَ مِنْہُ یعنی جو طریق تم پر آسان ہو اس کے مطابق پڑھو.اگر ان حروف کے بدلنے یا زیر زبر کے بدلنے سے معانی میں فرق پڑتا تو آپ یہ کیوں فرماتے کہ جس طریق پر پڑھنا تمہیں آسان ہو.اس طریق پرپڑ ھ لو.یہ فقرہ صاف بتا تا ہے کہ قرأتوں کا تعلق صرف تلفظ کے ساتھ ہے معانی کے ساتھ نہیں اور اگر کسی جگہ تلفظ سے کوئی وسعت بھی پیدا ہوتی ہے تو اصل معنوں میں فرق نہیں پڑتا.اصل حکم وہی رہتا ہے جو قرآن کریم دینا چاہتا ہے.ترتیب سُور اس سورۃ کا سورۂ نُور سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورۂ نور کے آخر میں اسلامی تنظیم کا ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ کچھ لوگ اس تنظیم کی حقیقت سے آگاہ نہیں اور کفر کے کھوکھلے نظام سے ڈرتے ہیں.لیکن اُن کا یہ ڈر اور ان کی یہ کمزوری انہیں بچائے گی نہیں بلکہ انہیں اور زیادہ تباہی میں دھکیل دے گی.اب اس سورۃ میں بتایا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ سب جہانوںکے لئے بطور نذیر آیا ہے اور یہ کہ جو لوگ اُس کی تعلیم کے خلاف چلیں گے وہ نیچر اور اس کے منشاء کے خلاف چلیں گے کیونکہ اس کی تعلیم قانونِ فطرت اور قانونِ نیچر کے مطابق ہے
پس اس کی خلاف ورزی ایک آسمانی حکم ہی کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ خود نیچر اور اس کے قوانین کی بھی مخالفت ہے اس لئے دنیا کے کسی مذہب کے پیرو اور کسی ملک کے رہنے والے قرآن کریم کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے.اور جب حالت یہ ہے تو یہ لوگ جو ڈر رہے ہیں صرف ایک خیالی اور وہمی بات سے ڈر رہے ہیں.حقیقت پر اُن کے ڈر کی بنیاد نہیں ہے.یہ تو ان دونوں سورتوں کا قریبی تعلق ہے.ساری سورۃ کے مضمون کے لحاظ سے اس سورۃ کا گذشتہ سورۃ کے مضمون سے یہ تعلق ہے کہ سورۂ نور میں قوم کی اخلاقی حالت کی درستی اور عائلی اور قومی تنظیم کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ کامیابی کے لئے عقائد اور افکار اور اخلاق کی اصلاح کے ساتھ قومی تنظیم پر خاص طور پر زور دینا چاہیے اور افراد کے حقوق پر قوم کے حقوق کو مقدم رکھنا چاہیے.اب اس سورۃ میں گو اسی مضمون کو جاری رکھا گیا ہے جو سورۂ نور میں بیان کیا گیا تھا.مگر زیادہ تر مضمون کے اس پہلو کی طرف توجہ کی گئی ہے کہ نیک اور بد کامقابلہ دنیا میں کس طرح چلتا ہے.گویا ایمانی ترقی اور کفر کی ترقی کا آپس میں مقابلہ کیا گیا ہے اور ان دونوں کو مقابل پر بہنے والے دو دریا قرار دیا گیا ہے اور مسیح موعود ؑ کے زمانہ تک کی اسلامی ترقی اورتنزل کا حال بیان کیا گیا ہے.اس طرح مسلمانوں کی ترقی کی خبروں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کی زمانی ترقی کی خبروں کو بھی شامل کر دیا ہے.خلاصۂ مضمون یہ قرآن دو پہلو رکھتا ہے.ماننے والوںکے لئے رحمت اور نہ ماننے والوںکے لئے تنبیہہ.کیونکہ اس کا نازل کرنےوالا زمین و آسمان کا مالک ہے.وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور کائنات کا ہر ذرہ اس کی پیدائش ہے اس لئے اس کاکلام نیچر کے مطابق ہے اور اس کا انکار اور اقرار محض ایک شریعت کا اقرار یا انکار نہیں بلکہ قانونِ نیچر کا اقرار و انکار بھی ہے کیونکہ جب دونوں کا خالق ایک ہے تو کلام الٰہی اور قانونِ نیچر دونوں مختلف نہیں ہو سکتے.( آیت ۱ تا ۴) قرآن کے مخالف جب قرآنی تعلیم کی بر تری کو دیکھتے ہیں تو مجبور ہو کر یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ کلام ایک شخص کا نہیں بلکہ بہتوں نے مل کر یہ کلام اس شخص کو بناد یا ہے.یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے صحائف کی چوری ہے.( آیت ۵،۶) لیکن ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کیونکہ انسانوں نے کلام بنایا ہو تو مافو ق الانسانیت باتیں اس میں نہیں چاہئیں اور اگر پہلی کتب کی نقل ہے تو ان کتب میں بھی وہ خوبیاں ہونی چاہئیں.( آیت ۷) بعض مخالف کہتے ہیں کہ یہ تو ایک انسان ہے.ہماری طرح کھاتا پیتا.لوگوں میں ملتا جلتا.خدا نے بھجوانا تھا
توفرشتہ کیوں نہ اُتارا.یا پھر اس کے ساتھ خزانہ کیوں نہ اُترا.یا اللہ تعالیٰ اُسے ایسے باغات دیتا جن میں سے یہ پھل کھاتا.اور بعض کہتے ہیں کہ ایک جھوٹے انسان کے پیچھے کیوں چل رہے ہو.ذرا دیکھو کس طرح بے جوڑ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور کسی ایک امر پر قائم نہیں رہتے.( آیت ۸تا ۱۰ ) خدا تعالیٰ تو اس سے بہتر باغات تجھے دے سکتا ہے اور دےگا.مگر یہ لوگ اس گھڑی کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اس کے منکر ہیں.لیکن جب وہ وقت آئےگا تو یہ پریشان ہو جائیں گے.( آیت ۱۱ تا ۱۵) یہ جیسا باغ مانگتے ہیں کیا ان باغوں سے اچھا ہے جو مسلمانوں کو ملنے والا ہے.( آیت ۱۶،۱۷) جب مابعدا لموت ان کےمعبودوں سے سوال کیا جائےگا تو وہ منکر ہو جائیں گے.( آیت ۱۸ تا ۲۰) ان کے اعتراض کیا وزن رکھتے ہیں.آخر ہر ایک قوم نبیوں کی مدعی ہے.کیا وہ انسان نہ تھے.اور انسانی ضروریات ان کے ساتھ نہ تھیں.ان کوبس یہ فخر ہے کہ عوام ان کے مؤید ہیں.اور یہ ان کو دھوکا دے سکتے ہیں.ورنہ ان کی باتیں محض بے سروپا ہیں.( آیت ۲۱) پھر کچھ لوگ ان میں سے کہتے ہیں کہ خود ہم پر فرشتے کیوں نہ اُترے یا خدا ہم سے کیوں نہ بولا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شان بہت بڑی سمجھتے ہیں حالانکہ ان کو فرشتے نظر آئیں گے تو ان کے اعمال کے مطابق عذاب ہی کے دن نظر آئیں گے لیکن مومن فرشتوں کو خوشی سے دیکھیں گے.( آیت ۲۲ تا ۲۵) فرماتا ہے ایک دن فرشتے ضرور اُتریں گے مگر وہ فیصلہ کا دن ہو گا.اور رسول لوگوں پر گواہی دے گا کہ قانونِ قدرت اور الٰہی تعلیم کا انہوں نے انکار کیا.( آیت ۲۶ تا۳۱) مگر یہ کوئی نئی بات نہیں سب نبیوں سے ایسا ہی ہوا.( آیت ۳۲) پھر بعض کہتے ہیں کہ یکدم قرآن کیوں نہ اُترا.یہ اعتراض جتنے چاہیں کریں ہمارے پاس ان کے جواب موجود ہیں بری بات یہ نہیں کہ اعتراض ہوں.بُری بات تو یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہو.( آیت ۳۳ تا ۳۵) تجھ سے پہلے کئی نبی آئے اور اُن کے دشمن ہلاک ہوئے.( آیت ۳۶ تا ۴۱) تجھ سے بھی یہ لوگ ہنسی کرتے ہیں.مگر ایسا ہونا ہی چاہیے کیونکہ اُن کے دل انسانیت سے خالی ہو چکے ہیں.( آیت ۴۲، ۴۵) کاش یہ دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ترقی دیتا ہے.پھر اُس پر زوال آجاتا ہے اور رات کے بعد دن کی سی
کیفیت بھی بعض قوموں پر آتی ہے پس کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے زوال اور مسلمانوں کی ترقی کا زمانہ آگیا ہے.( آیت ۴۶ تا ۵۰) قرآن ان کے سامنے صرف نصیحت کی بات پیش کرتا ہے کچھ ان سے مانگتا تو نہیں.پھر انکار پر اصرار کیوں.( آیت ۵۱) ان کو یہ صدمہ ہے کہ عرب میں کیوں نبی ہوا ؟ آخر نبی کہاں آتا ؟ کہ جسے سب قومیں مان لیتیں.کیا ہر قوم اور ہر ملک میں الگ الگ نبی ایک وقت میں آجاتے.مگر اس سے تو اختلاف بڑھتا.پس تو ان کی باتوں کو نہ دیکھ.قرآن کی تبلیغ کئے جا.( آیت ۵۲،۵۳) کیا وہ دیکھتے نہیں کہ خدا نے دو دریا چلا رکھے ہیں.ایک میٹھا اور ایک کڑوا.پھر وہ آپس میں ملتے نہیں.اسی طرح یہ دو تعلیمیں متوازی چلتی چلی جائینگی.اور لوگ میٹھے اور کڑوے کا فرق محسوس کرتے رہیں گے.( آیت ۵۴) کیا دیکھتے نہیں کہ انسان کی جسمانی پیدائش بھی پانی سے ہے.اسی طرح رُوحانی پیدائش بھی وحی کے پانی کی محتاج ہے.( آیت ۵۵) یہ تو شرک کے عادی ہیں اور تیرا کام ان کو سمجھانا اور مفت تبلیغ کرنا اور صرف خدا پر نظر رکھنا ہے.(آیت ۵۶ تا ۶۰) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ واحد خدا کی عبادت کرو جس کی وحدت پر کائنات گواہ ہے تو یہ انکار کرتے ہیں.(آیت ۶۱) حالانکہ دیکھتے نہیں کہ ایک جسمانی نظام ہے اور اس سے روشنی اور حیات ملتی ہے.اسی طرح نیکی اور بدی بھی آگے پیچھے آتی ہیں اور مومن دنیا میں ہمیشہ امن قائم کرتے آئے ہیں اور شرارتوں کا جواب دُعا سے دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے عبادت گذار رہتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اس سے دعائیں کرتے ہیں اور دنیا کی اصلاح کے لئے مال خرچ کرتے ہیں.لیکن نمائش نہیں کرتے.وہ شرک نہیں کرتے.قتل نہیں کرتے.زنا نہیں کرتے اور جو ایسا کرےگا اپنے انجام کو دیکھے گا.ہاں اسلام کا خدا تو بہ قبول کرتا ہے اور اس کا ثبوت نیکیوں کی توفیق ملنے سے ملتا ہے.( آیت ۶۲ تا ۷۲) اور مومن وہ ہوتے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے اور فضول باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور خدا تعالیٰ کی باتوں کو سن کر مرعوب ہوتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور صرف لیڈری نہیں چاہتے بلکہ نیک لوگوں کی لیڈری چاہتے ہیں.ان کو خدائی نعمتیں ملیں گی.جو دائمی ہوںگی.( آیت ۷۳ تا ۷۷)
یاد رکھو.خدا نے تم کو ایک خاص مقصدکے لئے پیدا کیا ہے.اگر تم اس مقصد کو پورا نہیں کروگے تو تم پر خدا رحم نہیں کرے گا.( آیت۷۸) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۰۰۱ (میں) اللہ( تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنےوالا (اور) بار بار رحم کرنےوا لا ہے.(پڑھتا ہوں ) تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے فرقان اپنے بندے پر اتارا ہے تاکہ وہ سب جہانوںکے لئے ہوشیار لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَاۙ۰۰۲ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کرنےوالا بنے.وہ( ذات) جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے.اور جس نے وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ کوئی بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے پھر اس خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا۰۰۳ کے لئے ایک اندازہ مقرر کیا ہے.حل لغات.تَبَارَکَ تَبَارَکَ اللّٰہُ تَعَالیٰ : تَقَدَّسَ وَتَنَزَّہَ.تبارک کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات تمام صفاتِ حسنہ کی جامع اور تمام کمزوریوں سے بالا ہے.(اقرب) اَلْفُرْقَانُ اَلْفُرْقَانُ کے معنے ہیں کُلُّ مَا فُرِقَ بِہٖ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ.ہر وہ امر جس کے ذریعہ سے حق اور باطل میں امتیاز ہو جائے ( اقرب ).مفردات امام راغبؒ میں ہے کہ وَالْفُرْقَانُ کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالیٰ لِفَرْقِہٖ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ فِی الْاِعْتِقَادِ وَالصِّدْقِ وَالْکَذِبِ.یعنی فرقان کا لفظ اللہ تعالیٰ کے کلام پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے
اعتقاداتِ حقّہ اور باطلہ کا علم ہو جاتا ہے اور اسی طرح یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ جھوٹی بات کون سی ہے اور سچّی کون سی.( مفردات ) اَلْعَالَمِیْن : العَالَمِیْن اَلْعَالَمُ کی جمع ہے اور اَلْعَالَمُ کے معنے ہیں اَلْخَلْقُ کُلُّہٗ.تمام مخلوق.وَکُلُّ صِنْفٍ مِنْ اَصْنَافِ الْخَلْقِ.نیز مخلوق کی ہر قسم پر عَالَم کا لفظ اطلاق پاتا ہے.وَقِیْلَ یَخْتَصُّ بِمَنْ یَّعْقِلُ.بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ لفظ صرف ایسی مخلوق کے لئے بولا جاتاہے جس میں عقل ہو جیسے انسان اور فرشتے وغیرہ جانوروں وغیرہ کے لئے.وَقَالَ بَعْضُھُمْ ھُوَ اِسْمٌ لِمَا یُعْلَمُ بِہٖ شَيْءٌ ثُمَّ سُمِّیَ بِہٖ مَایُعْلَمُ بِہِ الْخَالِقُ.بعض نے کہا ہے کہ یہ تخصیص درست نہیں کہ یہ لفظ صرف ذوی العقول کے لئے بولا جاتا ہے بلکہ یہ لفظ ہر اُس چیزکے لئے بولا جاتا ہے جس سے کسی دوسری چیز کا علم ہو جائے.پھر یہ لفظ ان چیزوںکے لئے مخصوص ہو گیا جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی ذات کا علم حاصل ہوتا ہے.(اَلْعَالَمِیْن کے متعلق مزید بحث کے لئے تفسیر کبیر جلد اوّل زیر آیت سورۃ الفاتحہ ۲ ملاحظہ فرمائیں ) اَلْعَالَمِیْنَ عَالَمٌ کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے.(مفردات امام راغب) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْنَ کے سوا اس کی جمع عَلَالِمُ یا عَوَالِمُ بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان سے صرف عَالَم یا یَاسَم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے.اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے خالق کا پتہ لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عَالَمٌ کی جمع عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْنَتب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو.مثلاً انسان، فرشتے وغیرہ.مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے.اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف.لغت کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے.قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے.قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ.قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ.قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ.قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ.قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْۤ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ.قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ.(الشعر اء:۲۴تا۲۹) اس آیت میں عَالَمِین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے.اسی طرح سورۃ حٰـمٓ سجدہ میں ہے.قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًا١ؕ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ.وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ١ؕ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ (حٰمٓ سجدہ :۱۰،۱۱) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے.
اَلْعَالَمِیْنَ کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ بھی تحریر فرماتے ہیں.اَنَّ الْعَالَمِیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھِمَا مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ ۱۳۹،۱۴۰) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں.اسی طرح سورج، چاند وغیرہ کی قسم کے اجرام فلکی.غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں.جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں.وہ مَا ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(القلم :۵۳) کی آیت سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں.کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَ اَنِّيْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ(البقرۃ :۴۸) اے یہود ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ.کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے.پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا.اور حق یہی ہے کہ عَالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہے.خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار.نَذِیْرًا: نذیر کے معنے اَلْاِنْذَارُ یعنی ڈرانے کے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں اَلْمُنْذِرُ.ڈرانے والا اَلرَّسُوْلُ رسول ( اقرب) قَدَّرَہٗ: قَدَّرَہُ عَلَی الشَّيْءِ کے معنے ہیں.جَعَلَہٗ قَادِرًا.اس کو کسی چیز پر قادر بنا دیا اور قَدَّرَ الشَّیْءَ بِالشَّیْءِ کے معنے ہوتے ہیں قَاسَہٗ بِہٖ وَجَعَلَہٗ عَلیٰ مِقْدَارِہٖ.کسی چیز کا صحیح اندازہ کیا اور اس کو اُس مقدار پر بنا یا جو درست اور صحیح تھی.نیز کہتے ہیں قَدَّرَ فُلَانٌ اور معنے ہوتے ہیں رَوَّی وَفَکَّرَفِیْ تَسْوِیَۃِ اَمْرِہٖ کہ اس نے اپنے مجوزہ کا م کے بارے میں غورو فکر کیا تاکہ اس کو مکمل طور پر بنا سکے.( اقرب ) تفسیر.ا س آیت میں توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والا خدا تمام خوبیوں کا جامع اور تمام عیبوں سے پاک ہے اور اس نے ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق و باطل میں تمیز کرکے رکھ دیتی ہے اور پھر اس نے یہ کتاب اپنے تمام بندوںکے لئے اتاری ہے خواہ وہ کسی درجہ ٔ عقل کے مالک ہوں یا کسی قسم کا رجحان رکھنے والے ہوں چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےنَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ کی جگہ عَلیٰ عِبَادِہٖ بھی پڑھا ہے ( تفسیر بحر محیط زیر آیت ھذا)جس میں انہی معنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
کہ خدائے پاک نے یہ فرقان جس سے حق و باطل میں فیصلہ کیا جاتا ہے اپنے مختلف طبیعتوں والے بندوں پر نازل کیا ہے.تاکہ یہ کتاب تمام مخلوق کے لئے ڈرانے والی ثابت ہو گویا یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے ہر فطرت کا آدمی فائدہ اٹھا سکتا اور ہر مذاق کا انسان نصیحت حاصل کر سکتا ہے.یہ بظاہر ایک مختصر سی آیت ہے جس سے سورۂ فرقان کا آغاز کیا گیا ہے لیکن اگر غور سے کام لیا جائے تو اس چھوٹی سے آیت میں ہی مسلمانوںکے لئے ایک وسیع اور مکمل لائحہ عمل بیان کر دیا گیا ہے.یوں تو کروڑوں مسلمان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن محض نام رکھ لینے سے کسی چیز کے اندر وہ حقیقت پیدا نہیں ہو جاتی جس حقیقت کا اصل چیز کے اندر پایا جانا ضروری ہوتا ہے.ہماری زبان کا یہ محاورہ تو نہیں مگر اردو زبان میں اسے عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ ؎ برعکس نہند نامِ زنگی کا فور (اردو لغت جلد دوم زیر لفظ برعکس صفحہ ۹۶۹ ترقی اردو بورڈ کراچی) یعنی فلاں بات ایسی ہی حقیقت کے خلاف ہے جیسے کسی حبشی کا نام کا فور رکھ دیا جائے.حالانکہ حبشی اپنی سیاہی میں بے مثل ہوتا ہے اور کافور اپنی سفیدی میں بے مثل ہوتا ہے.اسی طرح ہمارے ملک کا ایک شاعر کہتا ہے کہ دنیا بھی عجیب مقام ہے جس میں ہر ایک بات اُلٹی نظر آتی ہے.وہ کہتا ہے ؎ رنگی کو نارنگی کہیں بنے دودھ کو کھویا چلتی ہوئی کو گاڑی کہیں دیکھ کبیرا رویا یعنی نارنگی جو ایک خوش رنگ رکھتی ہے لوگ اس کو نارنگی کہتے ہیں جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کا کوئی رنگ نہیں.او ر دودھ جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اُسے کھویا کہتے ہیں حالانکہ کھوئی ہوئی چیز وہ ہوتی ہے جو ضائع ہو جائے.اسی طرح جو چیز چلتی ہے لوگ اُس کو گاڑی کہتے ہیں.حالانکہ گڑی ہوئی چیز وہ ہوتی ہے جو چل نہ سکے.کبیر کہتا ہے کہ دنیا کی یہ اُلٹی باتیں دیکھ کر میرے دل کو بہت دُکھ ہوا کہ یہ دنیا کتنی غیر معقول ہے کہ ہر چیز کا الٹا نام رکھتی ہے.کیا اس کی آنکھیں بھینگی ہو گئی ہیں کہ اُسے سیدھی چیز بھی اُلٹی نظر آتی ہے.اسی طرح جہاں تک نام کا سوال ہے کوئی نام رکھ لیا جائے خواہ وہ مسلمانوں والا ہو یا ہندوؤں والا ہو یا بدھوں والا ہو یا پارسیوں والا ہو اُس نام کی وجہ سے مذہب کی حقیقی رُوح انسان میں پیدا نہیں ہو جاتی.دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ہندو یا مسلمان یا بدھ یا پارسی کہتے ہیں لیکن اُن کی زندگی.اُن کے افکار اُن کے رہنے سہنے کی عادات اور اُن کے لباس کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیسائی ہیں.لیکن جب اُن کے نام معلوم
ہوں تب پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے.فلاں شخص ہندوؤں کے گھر میںپیدا ہوا ہے اور فلاں شخص بدھوں یا پارسیوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے.پس صرف نام کوئی حقیقت نہیں رکھتا اصل خوبی جو کسی چیز کی اہمیت کو بڑھانے والی ہوتی ہے وہ اس کی صفات ہوتی ہیں.ورنہ مٹی کا بنا ہوا کیلا بھی نام کے لحاظ سے کیلا ہی ہوتا ہے.مٹی کا بنا ہوا سیب بھی نام کے لحاظ سے سیب ہی ہوتا ہے.مٹی کا بنا ہوا آم بھی نام کے لحاظ سے آم ہی ہوتا ہے ان چیزوں کو صرف پھلوں کا نام دے دینے کی وجہ سے ان کے اندر پھلوں کی خاصیت پیدا نہیں ہو جاتی اور نہ ان چیزوں سے اس طرح فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے جس طرح حقیقی آم یا سیب یا کیلے سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے.غرض دنیا کو وہی چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اپنے نام کے مطابق اپنے اندر صفات بھی رکھتی ہو اگر اس کانام تریاق ہو تو وہ اپنے اندر تریاقی خاصیت رکھتی ہو اور اگر اس کانام شفا ہو تو وہ اپنے اندر شفائی اثرات رکھتی ہو.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہتَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ کہ بڑی برکتوں والا ہے وہ خدا جس نے حق اور باطل میں تمیز کرنے والا کلام اپنے بندے پر نازل کیا ہے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے پاک اور بے عیب ہونے کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے مگر ساتھ ہی بتا دیا کہ ہمارا یہ دعویٰ صرف منہ کا دعویٰ نہیں بلکہ اس کے اند ر کا مل صداقت پائی جاتی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ اس خدا نے فرقان نازل کیا ہے یعنی ایسا کلام نازل کیا ہے جس کا ایک ایک لفظ حق اور باطل میں تمیز کر کے دکھلا دیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ فلاں چیز مفید ہے اسے قبول کرو اور فلاں چیز مضر ہے اس سے بچو.عیسائیت کی تعلیم کو ہی دیکھ لو.وہ اپنی ظاہر ی شکل میں کتنی خوبصورت نظر آتی ہے.مسیح ؑ نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے ( متی باب ۵ آیت ۳۹) جب عیسائی مشنری کسی چوک میں کھڑے ہو کر انجیل کی یہ تعلیم بیان کرتا ہے تو کئی کمزور مسلمان بھی یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ سبحان اللہ ! کیسی اچھی تعلیم ہے لیکن جب ان الفاظ پرعمل کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ تعلیم بالکل بے کار ثابت ہوتی ہے.بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ خود مسیح بھی اپنی زندگی میں اس تعلیم پر عمل نہ کر سکا.چنانچہ وہی مسیح ؑ جس نے یہ کہا تھا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو.اُسی نے دوسرے موقعہ پر کہا کہ میں صلح کرانے نہیں آیا.میں تلوار چلانے آیا ہوں.( متی باب ۱۰ آیت ۳۴) بلکہ اُس نے اپنے حواریوں سے کہا کہ اگر تمہارے پاس تلواریں خریدنےکے لئے روپے نہیں تو اپنے کپڑ ے بیچ کربھی تلواریں خرید لو ( لوقاباب ۲۲ آیت ۳۶) غرض عیسائی دنیا نے اس تعلیم پر کبھی عمل نہیں کیا.لیکن قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ میں ایسا
امتیاز کر دیتا ہے کہ انسان کے لئے اُس کے مناسب حال طریق عمل بالکل واضح ہو جاتا ہے اور ہدایت اور گمراہی کی راہیں اس کے لئے روشن ہو جاتی ہیں سورۂ بقرہ میں بھی قرآن کریم کی ایک امتیازی خصوصیت اس کا فرقان ہونا بیان کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ ( البقرۃ:۱۸۶) یعنی رمضان کا مہینہ وہ مقدس اور بابرکت مہینہ ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے.وہ قرآن جو تمام انسانوںکے لئے ہدایت کا موجب ہے اور اپنے اندر ایسے کھلے دلائل رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن کریم فرقان بھی ہے یعنی ایسے نشانات پر بھی مشتمل ہے جو حق و باطل میں امتیاز کر دیتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتا ہے اُسے فرقان عطاء کیا جاتا ہے یعنی اُسے ایسے نشانات معجزات عطا کئے جاتے ہیں.جن کے ذریعہ حق و باطل میں امتیاز ہو جاتا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے نبیوں پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے نبیوں کو کتاب اور اس کے علاوہ فرقان ملا تھا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب ناز ل ہوئی وہی فرقان تھی.توراۃ اپنی سچائی کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دوسرے معجزات کی تائید کی محتاج تھی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الہامات دوسرے معجزات کی تصدیق کے محتا ج تھے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب اپنی ذات میں فرقان ہے.یعنی وہ ایک زندہ اور کامل کتاب ہے اور اگر دوسرے معجزات لوگوں کو بھول بھی جائیں تب بھی وہ اپنی سچائی کا ثبوت اپنے اندر رکھتی ہے اور حق و باطل میں امتیاز کر دیتی ہے.پھر فرماتا ہے.وہ خدا اس لئے بھی برکتوں والا ہے کہ اُس نے اپنا کلام ایک عبد پر اتارا ہے.یعنی اس ہستی پر جو اپنے آپ کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے تابع کر دیتی اور رات دن اس کے احکام کے پورا کرنے میں لگی رہتی ہے.یوں تو دنیا میں سینکڑوں لوگ قوم کی اصلاح کے مدعی ہوتے ہیں مگر جو باتیں وہ دوسروں سے کہتے ہیں اُن پر وہ خود عمل نہیں کرتے.وہ کہلاتے تو لیڈر اور راہنما ہیں لیکن اُن کا عمل اُن کی تعلیم کے خلاف ہوتا ہے اور اس طرح وہ دوسروںکے لئے ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں.لوگ جب ان کی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو اُسے قابلِ تعریف قرار دیتے ہیں.لیکن جب اُن کے اعمال کو دیکھتے ہیں تو اُن سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں یااُن کی منافقت اور بے ایمانی کو دیکھ کر یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہمیں بھی اس قسم کی منافقت اختیار کرنی چاہیے.لیکن خدا تعالیٰ کا نبی لوگوں کو جو تعلیم دیتا ہے اس کا نمونہ وہ اپنے وجود کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.نبی کے آنے سے پہلے بہت حد تک صداقتیں دنیا میں موجود ہوتی ہیں لیکن لوگ اپنے کمئی ایمان کی وجہ سے ان صداقتوں کو پسِ پشت ڈال رہے ہوتے
ہیں.نبی آکر کہتا ہے کہ سچ بولو اورد نیا کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ سچ بولو.نبی آکر کہتا ہے کہ چوری نہ کرو اوردنیا کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ چوری نہ کرو.نبی آکر کہتا ہے کہ ظلم نہ کرو.اور دنیا کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ ظلم نہ کرو لیکن اس کے باوجود دنیا کو پھر بھی نبیوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انبیاء اپنے نمونہ کے ذریعہ سے انہیں قابلِ عمل ثابت کرتے ہیں.لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ظلم نہ کرو لیکن جب ظلم کی تعریف کی طرف آتے ہیں تو ہر فعل کو اپنے لئے جائز قرار دے دیتے ہیں.لوگ منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولو لیکن جب موقعہ آئے تو خود جھوٹ بول لیتے ہیں.لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ کسی کا مال غصب نہ کرو.لیکن ضرورت پر خود دوسروں کا مال چھین کر کھا جاتے ہیں اور اُن کے نزدیک ان گناہوں کی تعریفیں بہت محدود ہو جاتی ہیں.نبی نہ صرف ان اعمال کی تعریفوں کو مکمل کرتے ہیں بلکہ اُن پر عمل کرکے بھی دکھا دیتے ہیں بیشک ان سے پہلے بھی لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ سچ بولنا چاہیے مگر اس کے باوجود وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اگر ان کو توجہ دلائی جائے کہ تم جھوٹ کیوں بولتے ہو تو کہتے ہیں سچ بولنے سے اس دنیا میں کام نہیں چلتا اور باوجود اس کے کہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ دھوکا بازی ایک بری چیز ہے پھر بھی وہ دھوکا بازی کرتے ہیں.اور اگر ان سے کہا جائے کہ تم دھوکا بازی کیوں کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے بغیر دنیا میں گذارہ ہی نہیں.اسی طرح وہ دنیا کے مال لوٹتے ہیں اور اگر اُن سے کہا جائے کہ تم لوگوں کے مال کیوں لوٹتے ہو.تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس کے بغیر دنیا میں کام ہی نہیں چلتا.دنیا میں ہر شخص بھیڑیا ہے.اگر وہ بکری کا گوشت نہیں کھائےگا تو زندہ کس طرح رہے گا.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی نسلیں یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ نیک باتیں صرف کہنے سے تعلق رکھتی ہیں ان پر عمل نہیں کیا جا سکتا.لیکن نبی دنیاکے لئے نمونہ بنتا ہے اور انہیں اُن سچائیوں اور اُن صداقتوں پر عمل کرکے دکھا دیتا ہے جن کو وہ ناقابلِ عمل تصّور کر رہے ہوتے ہیں.چنانچہ جو لوگ اس لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ اُن کے خیال میں سچ بولا ہی نہیں جا سکتا.اور جو لوگ اس لئے ظلم کرتے ہیں کہ اُن کے نزدیک رحم کیا ہی نہیں جا سکتا.انبیا ء کے نمونہ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ بھی ہمارے جیسا ایک انسان ہے جو سچ بولتا ہے کسی پر ظلم نہیںکرتا.کسی کا حق نہیں مارتا اور ہر قسم کی برائیوں سے اجتناب کرتا ہے تو ان کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں.اور وہ بھی نیکیوں پر عمل کرنےکے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پس انبیاء کی بعثت کی یہ دو اغراض ہو تی ہیں اوّل یہ کہ ان کے ذریعہ روحانی تعلیم کی علمی طور پر تکمیل ہوتی ہے.دوسرے وہ خود عمل کرکے اُس علم کی صحیح تشریح کر دیتے ہیں.بیشک لوگ نبی کی بعثت سے پہلے بھی یہی کہتے ہیں کہ سچ بولنا چاہیے مگر سچ کی تعریف بہت ناقص کرتے ہیں.وہ بیشک کہتے ہیں کہ کسی دوسرے پر ظلم نہیں کرنا چاہیے لیکن ظلم
کی تعریف غلط کرتے ہیں اس کے علاوہ ان کا عمل ان کی تعریف سے بھی ناقص ہوتا ہے.جس چیز کو وہ سچ کہتے ہیں اس پر بھی وہ عمل نہیں کرتے اور جس امر کو وہ ظلم کہتے ہیں اس سے بھی وہ نہیں بچتے.جب نبی آتا ہے تو وہ ہر قسم کی نیکی اور بدی کی ایک جامع اور مکمل تعریف اُن کے سامنے پیش کرتا ہے.اور پھر تمام احکام پر خود عمل کرکے دکھا تا ہے اور اس طرح اپنا نمونہ پیش کر کے لوگوں کے حوصلوں کو بلند کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ بہت برکت والا وہ خدا ہے جس نے ایسا کلام بھیجا جو تمام قسم کی باریکیاں بیان کرتا ہے اور حق و باطل میں امتیاز کر کے دکھا تا ہے.اور پھر بر کت والا وہ خدا ہے جس نے وہ برکت کسی ایسے انسان کے سپرد نہیں کی جو بد عمل ہو اور بجائے دین کی طرف راغب کرنے کے لوگوں کو دین سے بیگانہ کرنے والا ہو.بلکہ اُس نے وہ کتاب ایسے شخص کو دی جس نے اپنی ذات اور اپنی دنیوی زندگی پر موت وارد کی اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو اپنے نفس کے اندر داخل کر لیا.اور اپنے نیک نمونہ سے دنیا کو نیکی کی طرف کھینچ لایا.پھر اگر اس روایت کو مدنظر رکھا جائے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےنَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ کی جگہ عَلیٰ عِبَادِہٖ پڑھنے کی بھی اجازت دی تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے یہ فرقان اپنے تمام بندوںکے لئے نازل کیا ہے.خواہ وہ کسی قسم کی طبیعت اور رجحان رکھنے والے ہوں.یہ امر بھی اسلام کی صداقت اور اس کے عالمگیر مذہب ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.اسلام کی تعلیم پر غور کرکے دیکھ لو اُس نے اپنے تمام احکام میں ہر قسم کی طبائع کو مدنظر رکھا ہے تاکہ انسانی نفس پر کوئی ایسا بوجھ نہ پڑے جو اس کے لئے ملال کا موجب بن جائے.اُس نے روٹی کھانے میں بھی اعتدال کا حکم دیا ہے اور پانی پینے میں بھی اعتدال کا حکم دیا ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تم نماز پڑھو تو اس میں بھی اعتدال سے کام لو.روزہ رکھو تو اس میں بھی اعتدال سے کام لو.مال خرچ کرو تو اس میں بھی اعتدال سے کام لو حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے گھر تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے چھت کے ساتھ ایک رسّا لٹکایا ہوا ہے.آپ ؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ رسّہ کیسا ہے.آپ ؐ کو بتایا گیا کہ حضرت زینب ؓ جب نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لے لیتی ہیں.آپ نے فرمایا اسے اتار دو.یہ کوئی نماز نہیں جب نماز پڑھتے پڑھتے انسان تھک جائے تو اُسے چاہیے کہ آرام کرے.( بخاری کتاب التہجد با ب مایکرہ فی التشدید فی العبادۃ ) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ عہد کیا کہ میں ہر روز
روزہ رکھا کروںگا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع ملی تو آپ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا یہ جائز نہیں.اگر تمہیں بہت ہی شوق ہے تو ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن نہ رکھا کرو (بخاری کتاب الصوم باب صوم الدھر ).یہی اعتدال کا حکم باقی احکام میں بھی ہے.مثلاً اسلام اپنے مال کو خرچ کرنےکا بھی حکم دیتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ( بنی اسرائیل :۳۰)یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دو یعنی بخل سے کام لو اور نہ اپنا ہاتھ ایسا کھول دو کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تمہیں ملامت کریں اور تم آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے بھی محروم ہو جائو.غرض اسلام نے کوئی تعلیم ایسی نہیں دی جس کا برداشت کرنا انسانی فطرت کے لئے مشکل ہوبلکہ وہ ایک بیمار اور کمزورکے لئے بھی اُسی طرح قابلِ عمل ہے جس طرح ایک مضبوط اور طاقتور انسان کے لئے اسی طرح اُس کی تعلیم عورتوںکے لئے بھی قابلِ عمل ہے اور مردوںکے لئے بھی.بچوںکے لئے بھی قابلِ عمل ہے اور بوڑھوںکے لئے بھی.امیروںکے لئے بھی قابلِ عمل ہے اور غریبوںکے لئے بھی.اس کے دامانِ فیض سے دنیا کا کوئی متنفس محروم نہیں اور اس کے دائرہ ہدایت سے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی قوم با ہر نہیں جس طرح خدا تعالیٰ کا سورج ایک بادشاہ کے محلات پر بھی چمکتا ہے اور ایک غریب کی جھونپڑی کو بھی اپنے نور سے منور کرتا ہے اسی طرح اسلام کی روحانی تعلیم غریب اور امیر کو یکساں فوائد پہنچاتی اور ہر ایک کو خدا تعالیٰ کے قریب پہنچاتی ہے وہ چھوٹے اور بڑے اور غریب اور امیر اور عورت اور مرد اور مشرقی اور مغربی اور کمزور اور طاقتور اور حاکم اور رعایا اور آقا اور مزدور اور خاوند اور بیوی اور ماں باپ اور اولاد اور بائع اور مشتری اور ہمسائے اور مسافر سب کے لئے راحت اور امن اور ترقی کا پیغام ہے.وہ بنی نو ع انسان میں سے کسی گروہ کو اپنے خطاب سے محروم نہیں کرتا.وہ اگلی اور پچھلی تمام اقوام کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے جس طرح عالم الغیب خدا کی نظر پتھروں کے نیچے پڑے ہوئے ذروں پر بھی پڑتی ہے اور آسمان میں چمکنے والے ستاروں پر بھی اسی طرح اسلام کی تعلیم غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور انسانوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتی ہے.اور امیر سے امیر اور قوی سے قوی انسانوں کی احتیاجوں کا بھی خیال رکھتی ہے.وہ صرف گذشتہ مذاہب کی ایک نقل نہیں بلکہ وہ مذہب کی زنجیر کی آخری کڑی اور نظام روحانی کا سورج ہے.بیشک مذہب کے نام میں دنیا کے تمام مذاہب شریک ہیں اُسی طرح جس طرح کوئلہ اور ہیرا کاربن کے نام میں شریک ہیں.لیکن ہیرا ہیرا ہی ہے اور کوئلہ کوئلہ ہی ہے جس طرح پتھر کا نام کنکر یلے پتھر اور سنگِ مرمر دونوں پر بولا جاتا ہے لیکن کنکریلا پتھر کنکریلا پتھر ہی ہے اور سنگِ مرمر سنگِ مرمر ہی دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.
پھر فرماتا ہے لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا لِیَکُوْنَ میں چونکہ ضمیر تو ظاہر کی گئی ہے لیکن اس کا فاعل ظاہر نہیں کیا گیا.اس لئے ضمیر سے پہلے جتنی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن سب کی طرف اس کی ضمیر پھر سکتی ہے.لِیَکُوْنَ سے پہلے اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا تَبٰرَكَ الَّذِيْ اور قرآن کریم کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا نَزَّلَ الْفُرْقَانَ.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہے جیسا کہ فرمایا عَلٰى عَبْدِهٖ.پس چونکہ ضمیر سے پہلے ان تینوں وجودوں کا ذکر ہے اس لئے ان تینوں کی طرف لِیَکُوْنَ کی ضمیر پھر سکتی ہے اور معنے یہ بنتے ہیں کہ اُس نے یہ فرقان اس لئے نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا نذیر بن جائے یا قرآن کریم ساری دنیا کا نذیر بن جائے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے نذیر بن جائیں.اور چونکہ ان میں سے کوئی معنے بھی اس جگہ متعذر نہیں اس لئے یہ تینوں معنے ہی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں.قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ کئی مقامات پر صرف ضمائر سے کام لیتا ہے اور اس طرح ایک وسیع مضمون کو چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہے اگر یہاںلِیَکُوْنَ اللّٰہُ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا ہوتا تو دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا اور اگراللہ تعالیٰ فرماتا لِیَکُوْنَ الْفُرْقَانُ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا تو پھر بھی دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا.اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا.اور اگر اللہ تعالیٰ لِیَکُوْنَ عَبْدُہٗ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا فرماتا تو بھی دو تہائی مضمون ضائع ہو جاتا اور ایک تہائی مضمون رہ جاتا.اور اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ لِیَکُوْنَ اللّٰہُ وَالْفُرْقَانُ وَ رَسُوْلُہٗ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا تو اس طرح عبارت میں طوالت پیدا ہو جاتی اور پھر اگر یہی طریق ہر جگہ اختیار کیا جاتا تو قرآن کریم موجودہ حجم سے کئی گنا بڑا ہو جاتا.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ضمائر اور مصادر کو لا کر مضمون کی وسعت کو بھی برقرار رکھا ہے اور کلام میں اختصار بھی پیدا کر دیا ہے.ان ضمائر کو مدنظر رکھتے ہوئے لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا میں پہلا مضمون یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ساری دنیا کا خدا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ اس کی مشیت ساری دنیاکے لئے ہو اور وہ ساری دنیا کے لئے ہدایت اور رشد کا سامان پیدا کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میں مختلف علاقوں کی طرف علیٰحدہ علیٰحدہ انبیاء مبعوث ہوتے تھے اور چونکہ اُن کی تعلیم میں خاص خاص قوموں کو مخاطب کیا جاتا تھا.اس لئے جہاں اُن قوموں نے اس تعلیم کی راہنمائی میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا وہاں اُن میں آہستہ آہستہ یہ خیال بھی پیدا ہوگیا کہ خدا تعالیٰ صرف ہمارا ہی خدا ہے دوسری قوموں کا نہیں.ہاں قرآن کریم نے بائیبل کو اس الزام سے بچانے کی کوشش کی ہے.چنانچہ سورۂ شعراء میں جہاں موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر آتا ہے وہاں بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے یہی کہا کہفَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الشعراء :۱۷)
یعنی فرعون کے پاس جائو اور اُسے کہو کہ ہم رب العالمین خدا کے فرستادہ ہیں جو تمہاری اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں.اس پر فرعون نے سوال کیا کہ یہ رب العالمین کو ن ہے ؟ جس کی طرف سے مبعوث کئے جانے کا تم دعویٰ کر رہے ہو.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ (الشعراء:۲۵) رب العالمین خدا وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان پایا جاتا ہے اُن سب کا رب ہے بشرطیکہ تم اس پر ایمان اور یقین پیدا کرنے کی کوشش کرو.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے رب العالمین کے الفاظ ہی نکلوائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہی تعلیم دیتے تھے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے.مگر افسوس کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے یہ نکتہ بیان کر دیا تھا.پھر بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے خدا تعالیٰ کو رب العالمین قرار نہیں دیا.بلکہ مخصوص قوموں کا رب قرار دے دیا چنانچہ بائیبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں بار بار ’’ اسرائیل کا خدا ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.جو بتاتے ہیں کہ یہودیوں کے دل و دماغ پر یہی خیال غالب رہا کہ وہ خدا جسے بائیبل پیش کرتی ہے کسی اور قوم کا خدا نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہے.چنانچہ لکھا ہے.’’ خدا وند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے تجھے آج کے دن مجھ سے ملنے کو بھیجا.‘‘ ( ۱ سموئیل باب ۲۵ آیت ۳۲) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے ایک وارث بخشا کہ وہ میری ہی آنکھوں کے دیکھتے ہوئے آج میرے تخت پر بیٹھے.‘‘ ( ۱.سلاطین باب ۱ آیت ۴۸) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا ازل سے ابد تک مبارک ہو.‘‘ ( ا.تواریخ باب ۱۶ آیت ۳۶) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے مونہہ سے میرے باپ دائود سے کلام کیا.‘‘ ( ۲.تواریخ باب ۶ آیت ۴) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا مبارک ہو.‘‘ ( زبور باب ۷۲ آیت ۱۸) غرض بائیبل صرف بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی ہے لیکن قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لو اس میں ہر جگہ یہی لکھا ہوا نظر آئےگا کہ میں ساری دنیا کا خدا ہوں.میں جن و انس کا خدا ہوں اور میں تمام مخلوق کا رب ہوں خواہ کوئی مسلمان ہو یا ہندو ہو یا عیسائی ہو یا یہودی وغیرہ ہو.اس تعلیم کو پڑھ کر ایک یہودی کا دل بھی یہ محسوس کرنے لگے گا کہ اس کلام کا اتارنے والا خدا اُسی طرح میرا خدا ہے جس طرح وہ مسلمانوں کا خدا ہے.اگر ایک عیسائی قرآن کریم
پڑھے گا تو اس کا دل بھی یہی محسوس کرے گا کہ قرآن کریم کو بھیجنے والا خدا اُسی طرح میرا خدا ہے جس طرح وہ ایک مسلمان کا خدا ہے.اگر ایک ہندو قرآن کریم کو پڑھےگا تو اس کا دل بھی یہ محسوس کرے گا کہ اس کتاب کو بھیجنے والا خدا اسی طرح میرا خدا ہے جس طرح ایک مسلمان کا خدا ہے لیکن یہ بات کسی اور کتاب میں نظر نہیں آتی.اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےكُلًّا نُّمِدُّ هٰؤُلَآءِ وَ هٰؤُلَآءِ( بنی اسرائیل :۲۱) یعنی یہ خیال کر لینا کہ اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں کی مدد کرتا ہے.غلط ہے بلکہ وہ اس قوم کی بھی مدد کرتا ہے اور اس قوم کی بھی مدد کرتا ہے یعنی ساری اقوام کی مدد کرتا ہے.اور اس کی رحمت کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں بلکہ خواہ کوئی مومن ہو یا غیر مومن جو بھی اللہ تعالیٰ کے قوانین پر عمل کرکے ان سے فائدہ اٹھائےگاترقی کر جائےگا.چنانچہ دنیا میں ہمیں عملی رنگ میں یہی نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل دنیوی فوائد اور ترقیات کے رنگ میں عیسائیوں کو بھی پہنچ رہا ہے ہندوؤں کو بھی پہنچ رہا ہے.بُدھو ں کو بھی پہنچ رہا ہے.پارسیوں کو بھی پہنچ رہا ہے.یہودیوں کو بھی پہنچ رہا ہے.اور مسلمانوں کو بھی پہنچ رہا ہے.ہاں روحانی فیضان صرف اس قوم کو ملتا ہے جو روحانی طور پر اللہ تعالیٰ سے منسلک ہوتی ہے.لیکن دنیوی کوشش جو بھی کرے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے خواہ وہ مومن ہو یا غیر مومن.اس کے لئے مذہب اور ایمان کوئی شرط نہیں.اسی طرح ویدوں کو پڑھا جائے تو ان کے مطالعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نازل کرنےوالا خدا صرف ہندو قوم سے تعلق رکھتا ہے دوسری قوموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں.بلکہ وید کے ماننے والوں میں تو ویدوں کو اس حد تک ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا تھا کہ مَنُو جو تمام ہندو قوم آریہ اور سناتن دھرم کا تسلیم شدہ شارح قانون ہے لکھتا ہے کہ.’’ شودر اگر وید کو سُن لے تو راجہ سیسہ اور لاکھ سے اُس کے کان بھر دے.وید منتروں کا اچارن ( تلاوت ) کرنے پر اس کی زبان کٹوا دے.اور اگر وید کو پڑھ لے تو اس کا جسم ہی کاٹ دے.‘‘ ( گوتم سمرتی ادھیاے نمبر ۱۲) اسی طرح خود وید میں غیر قوموںکے لئے جو تعلیم موجود ہے.و ہ نہایت ہی خطرناک ہے.رِگ وید میں ویدک دھرم کے مخالفین کو کُتّا قرار دیتے ہوئے یہ بد دُعا کی گئی ہے کہ ’’ اے آگ دیوتا تُو ان برے کتّوں ( یعنی مخالفین ) کو دُور لے جاکر باندھ دے.‘‘ اتھروید میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو جکڑ کر ان کے گھروں کو لوٹ لینا چاہیے.لکھا ہے کہ
’’ اے وید ک دھرمی لوگو! تم چیتے جیسے بن کر اپنے مخالفین کو پھاڑ دو اور پھر ان کے کھانے تک کی چیزیں زبردستی اٹھا لو.‘‘ ( اتھروید کانڈ ۴ سوکت ۲۲ منتر ۷) اسی طرح وید میں چاند ، سورج ،آگ ،پانی اور اندؔ ر سے یہاں تک کہ گھاس ؔ سے بھی یہ دُعائیں کی گئی ہیں کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے.چنانچہ لکھا ہے ’’ اے آگ تو ہمارے مخالفوں کو جلا کر راکھ کر دے.‘‘ (یجر وید ادھیائے ۱۳ منتر ۱۲) ’’ اے اندر ! تو ہمارے مخالفوں کو چیر پھاڑ ڈال اور جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں انہیں تتر بتر کردے.‘‘ ( سام وید پارٹ دوم کانڈ ۹ سوکت ۲ منتر ۹) ’’ اے مخالو ! تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جائو.اس کے بعد پھر اندر دیوتا تمہارے چیدہ چیدہ لوگوں کو تباہ کر دے.‘‘ ( سام وید پارٹ دوم کانڈ ۹ سوکت ۳منتر ۹) ’’ اے دبھ گھاس ! تُو ہمارے مخالفوں کو جلا دے اور تباہ کر اور جس طرح تو پیدا ہوتے وقت زمین کو چیر کر باہر نکل آتا ہے ویسے ہی تو ہمارے مخالفوں کے سروں کو چیرتا ہوا اوپر کو نکل کر ان کو تباہ کرکے زمین پر گرا دے.‘‘ ( اتھروید کا نڈ ۱۹ سوکت ۲۸ منتر ۴) پھر ہندو دھرم میں یہ بھی تعلیم موجود ہے کہ غیر وید ک دھرمی لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی نہ کرو ( گوتم دھرم سوترا دھیائے ۵) اور اگر کوئی ویدوں پر اعتراض کرے تو اُسے ملک سے باہر نکال دو.یعنی اسے حبس دوام کی سزا دو.( ہندو دھرم شاستر ) اس تعلیم کے پڑھنے سے کسی انسان کے دل میں ویدک دھرم کے متعلق محبت کے جذبات پیدا نہیں ہو سکتے.اور نہ کوئی انسان ایسے مذہب کو اپنی نجات کا ضامن قرار دے سکتا ہے.یہی حال کنفیوشس ازم اور زرتشتی مذہب کا ہے.انہوں نے بھی کبھی ساری دنیا کو اپنا مخاطب نہیں سمجھا اور نہ ساری دنیا کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی.بلکہ جس طرح ہندو مذہب کے مطابق ہندوستان خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا ملک تھا.اسی طرح کنفیوشس ازم کے مطابق صرف چین آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا.اور زرتشتیوں کے نزدیک صرف ایران آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا.غرض تمام مذاہب خدا تعالیٰ کو صرف اپنی اپنی قوم کا خدا قرار دے رہے تھے اور وہ خدا جس کی ربوبیت کے فیضان سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے اس کی ربوبیت عالمین سے وہ ایک رنگ میں انکار کر رہے تھے.پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اپنے حقیقی حسن کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا اور خدا تعالیٰ کو رب العالمین کی شکل میں ظاہر کیا جاتا اور
بتایا جاتا کہ تمہارا خدا کسی ایک قوم یا ملک کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا کا خدا ہے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ میں وہ خدا ہوں جو ہندوؤں ، عیسائیوں ، آریوں ، دہریوں ، ایرانیوں اور یونانیوں سب کا خدا ہوں میں ہر ملک میں رہنے والوں کا خدا ہوں اور ہر زبان بولنے والوں کا خدا ہوں.میں گوروں کا بھی خدا ہوں اور کالوں کا بھی خدا ہوں.دنیا میں جس قدر اقوام ہیں ان سب کا خدا ہوں اور سارے ہی میرے بندے ہیں.اور میں نے سب کو بیدار اور ہو شیار کرنےکے لئے یہ کلام اتارا ہے یہ تعلیم جو قرآن کریم نے پیش کی ہے کتنی اچھی اور فطرت کے مطابق ہے.اس تعلیم کے پڑھنے سے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے نہایت گہرے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پہلی تعلیموں کو پڑھ کر دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جب تک دنیا اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک کے لوگوں سے جُدا تھے.اگر اس وقت ایسی تعلیم بھیجی جاتی جو تمام دنیا کے لئے ہوتی تو بہت سے ملک اس تعلیم سے محروم رہ جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں مختلف تعلیمیں نازل کیں.وہ تعلیمیں اپنے اپنے وقت میں کامل تھیں اور اُن کے ذریعے مختلف قومیں ہدایت پاتی رہیں لیکن بعد میں جب کہ میل جول کے ذرائع وسیع ہوگئے اور رسل و رسائل کے راستے کھل گئے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم نازل فرمائی جو تمام دنیاکے لئے تھی اور تمام دنیا کی ضرورتوں کا علاج اس میں موجود تھا.تمام مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ پری ہسٹارک PRE HISTORICزمانہ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے کا زمانہ ہے اور ہسٹارک HISTORIC زمانہ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کا زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ نے اِن رسل و رسائل کے ذرائع کو وسیع کر کے بتا دیا کہ اب لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا کا زمانہ آگیا ہے جس میں تمام دنیا کا نقطۂ مرکزی پر جمع ہو نا ضروری ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بہت برکتوں والا خدا ہوں.اور پھر اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے ایسی کتاب نازل کی ہے جو تمام دنیا کو ہدایت دینے والی ہے اور حق و باطل میں فرق کرکے دکھانے والی ہے او ر جو کلام ایک زمانہ میں نازل ہو کر ہر زمانہ کے لوگوںکے لئے ہدایت کا موجب ہو وہ یقیناً اُس کلام کے بھیجنے والے کی بڑائی اور عظمت پر دلالت کرتا ہے.چونکہ اس کتاب کے ذریعہ ہر زمانہ کے لوگوں نے ہدایت پانی تھی اس لئے ہر زمانہ کا نام عالم رکھا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کتاب قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کی ہدایت کا ایک یقینی اور قطعی ذریعہ ہے.پہلی کتابیں بے شک اپنے اپنے وقت میں ہدایت کا موجب تھیں لیکن وہ اپنے اندر عالمگیر تعلیم نہیں رکھتی تھیں.یعنی نہ تو تمام قوموںکے لئے تھیں نہ تمام زمانوںکے لئے تھیں.مگر اب دنیا ایسے مقام پر پہنچ گئی تھی کہ اس کے لئے ایک ہی نذیر کی ضرورت تھی.پس برکت والے خدا نے ایک بادلیل کتاب اپنے فرمانبردار اور اعلیٰ نمونہ پیش کرنے والے
بندہ پر اس لئے نازل کی ہے تاکہ وہ گورے اور کالے اور مغربی اور مشرقی سب کو ہو شیار کر دے اور ہر زمانہ میں ہوشیار کرتا چلا جائے یہی دعویٰ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ(سبا :۲۹) یعنی اے ہمارے رسول ! ہم نے تجھے ساری دنیا کی طرف بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں کیونکہ پہلے ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور جو تعلیم وہ لاتا تھا صرف اپنی قوم کے لئے لاتا تھا.چنانچہ ہندوستان میں اگر رام اور کرشن اوربُدھ حکومت کر رہے تھے تو ایران میں زرتشت حکومت کر رہے تھے.چین میں کنفیوشس حکومت کر رہے تھے.اسی طرح کوئی موسیٰ ؑ کی امت تھا تو کوئی عیسیٰ ؑ کی.مگر خدا نے کہا اب دنیا میں ایک ہی مذہب کی حکومت ہوگی اور ظاہر ی اور باطنی طور پر تمام دنیا ایک ہی جھنڈے کے نیچے ہوگی.گویا لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا فرما کر مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اسلام کے ظہور کی اصل غرض یہ ہے کہ دنیا کے سارے لوگوں کو خواہ وہ ہندو ہوں.عیسائی ہوں ، یہودی ہوں ، پارسی ہوں ،مجوسی ہوں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں بتایا جائے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایسا خدا ہے جو تمام دنیا کو اب ایک ہی کتاب اور ایک ہی رسول پر اکٹھا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اُن کا ایک ہی وقت میں ان سب مذاہب پر تبلیغی حملہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ برکتوں والا اُسی وقت ثابت ہو سکتا ہے.جبکہ مسلمان بھی اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ وہ برکتوں والا ہے اور اس کی خوبیوں اور کمالات کو تمام دنیا میں روشن کر دیں.آخر دین کے کاموںکے لئے اللہ تعالیٰ خود تو آسمان سے نہیں اُترتا اُس کے بندے ہی کام کیا کرتے ہیں.پس لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا تب ہی صحیح ثابت ہو سکتا ہے جب کہ تمام دنیا کو اس کا پیغام پہنچ جائے.اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے بہت دُور جا چکے ہیں پھر اس کے اطاعت گذار بندے بن جائیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے جب یہ کہا کہ قرآن کریم تمام دنیاکے لئے ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام قوموں کی طرف آئے ہیں تو انہوں نے اپنے عمل سے بھی اس بات کو سچا ثابت کر کے دکھا دیا اور ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا لیکن اب ہر قوم کو اور ہر جماعت کو اور ہر زبان بولنے والے کو اور ہر ملک کے رہنے والے کو تبلیغ نہیں پہنچے گی تو اس کی ذمہ داری ہماری جماعت پر ہوگی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اسی غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم اسلام کو تمام دنیا پر غالب کریں اور اللہ تعالیٰ کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیں.پس لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا میں جہاں قرآن کریم کی افضلیت کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس میں مسلمانوں کو تبلیغِ اسلام کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جس پر ان کی تمام کامیابیوں کا دارومدار ہے.لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کی دوسری ضمیر قرآن کریم کی طرف پھرتی ہے اور اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے
ہیں کہ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ ساری دنیاکے لئے نذیر ہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نذیر بننا ہمارا کام نہیں بلکہ قرآن کریم کا کام ہے.اور وہی لوگوںکے لئے نذیر بن سکتا ہے یا دوسرے الفاظ میںیوں سمجھ لو کہ ہم دنیا کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ قرآن کریم ہی دنیا کو ہدایت دے سکتا ہے.اگر ہمارے ذریعہ سے یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ سے دنیا کو ہدایت ملنی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ لِيَكُوْنُوْا لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا تاکہ تم تمام دنیاکے لئے نذیر بن جائو.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو اس لئے نازل فرمایا ہے تاکہ یہ قرآن تمام دنیاکے لئے نذیر ہو.پس اگر کوئی چیز دنیا کو بیدار کر سکتی ہے اور اگر کوئی کلام دنیا کو ڈرا سکتا ہے.تو وہ صرف قرآن کریم ہی ہے اور جب قرآن کریم ہی دنیا کو بیدار کر سکتا ہے اور وہی دنیا کی ہدایت کا موجب بن سکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر ایک نے قرآن کریم پڑھا ہے یا کیا اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش کی ہے ؟ اگر ہم نے قرآن کریم نہیں پڑھا اور اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش نہیں کی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلام کے سپاہی نہیں.کیونکہ ہم نے اس ہتھیار کی طرف توجہ نہیں کی جس کے ذریعہ سے یہ دنیا فتح ہو سکتی ہے.پس قرآن کریم کو نذیر قرار دے کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم قرآن کریم کو بار بار پڑھو اور اُسے سمجھنے اور پھیلانے کی کوشش کرو.یہاں تک کہ جب تم بولو تو تمہاری زبانوں سے قرآن کریم جاری ہو.اور جب تم لکھو تو تمہاری قلموں سے قرآن کریم جاری ہو.اور تمہارے خیالات اور تمہارے جذبات اور تمہاری خواہشات سب کی سب قرآن کریم کے تابع ہوں.جب تک تمہاری زبانوں سے قرآن کریم نہیں بولے گا اور جب تک تمہاری قلموں سے قرآن کریم نہیں نکلے گا اس وقت تک دنیا تمہارے ذریعہ سے ہدایت نہیں پا سکتی.لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کی تیسری ضمیر جیسا کہ میں نے بتا یا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے.پس اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ بہت برکتوں والا وہ خدا ہے جس نے فرقان کے نازل کرنےکے لئے ایسے انسان کو چنا جس کا ظاہر اور باطن ایک ہے اور تمام دنیاکے لئے مثال اور نمونہ کے طور پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس لئے چُنا ہے تاکہ وہ تمام دنیاکے لئے نذیر بن جائے.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مادی جسم کے ساتھ ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے.اس لئے آپ کو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے نذیر قرار دےکر مسلمانوں کو ا س طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تک تم میں سے ہر شخص چھوٹا محمد ؐ نہیں بن جاتا اور جب تک تم میں سے ہر فرد اس مقام پر کھڑا نہیں ہو جاتا کہ جب تم کو کوئی دیکھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر دیکھ لے اُس وقت تک تم دنیا کے انذار میں کامیاب نہیں ہو سکتے.تصویر کو دیکھ کر انسان دوسرے شخص کے معائب
بھی معلوم کر سکتا ہے اور محاسن بھی وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں یا بڑی.اس کا چہرہ کیسا ہے.اُس کا سر چھوٹا ہے یا بڑا.اس کے اعضاء کا تنا سب کیسا ہے ؟ اگر کوئی شخص تصویر کو دیکھ کر یہ کہے کہ اس کا سر چھوٹا ہے تو تم یہ نہیں کہو گے کہ یہ تو تصویر ہے اصل نہیں.اگر تم یہ جواب دو گے تو ہر شخص تمہیں پاگل سمجھے گا.کیونکہ تصویر اصل انسان کا انعکاس ہوتا ہے.اسی طرح اگر تم صحیح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر نہیں بنتے تو تم باقی دنیا کو اعتراض کرنےکا موقعہ دیتے ہو.لیکن اگر تم اپنی زندگیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بنا لو تو تم تمام دنیاکے لئے نذیر بن جائو گے اُس وقت یہ سوال ہی نہیں ہوگا کہ تم پڑھے ہوئے ہو یا اَن پڑھ ہو.لائق ہو یا نالائق ہو.بلکہ ہر حالت میں تم دنیا پر غالب آئو گے کیونکہ تمہارے وجود میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ لوگوں کو نظر آرہا ہو گا.پس اس آیت میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں جن کو مدنظر رکھے بغیر کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارا انذار ہر قوم کی طرف ہو.اور ہر عیسائی یہودی ہندو سکھ بدھ اور زرتشتی تمہارا مخاطب ہو.اور تم اللہ تعالیٰ کے اُن بندوں کو جو ہدایت کا راستہ بھول چکے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے آئو.اگر ایک ماں کے تین بچے گم ہو جائیں اور اُن میں سے دو کو تم واپس لے آئو اور تیسرے کو دھتکار دو تو اُن دو کے لانے سے وہ تم پر پوری طرح خوش نہیں ہوگی بلکہ وہ کہے گی کہ وہ تیسرا بچہ بھی مجھے اسی طرح پیارا ہے جس طرح یہ دونوں پیارے ہیں.اس لئے جائو اور اُسے بھی ڈھونڈنے کی کوشش کرو.اسی طرح اگر تم دنیا کی دو ارب آبادی میں سے ایک ارب ننانوے کروڑ ، ننانوے لاکھ ،ننانوے ہزار نو سو ننانوے کو بھی واپس لے آتے ہو لیکن ایک آدمی کو چھوڑ دیتے ہو اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے تو خدا تعالیٰ تم کو اس کے چھوڑ نے پر یہ کہے گا کہ وہ بھی تو میرا بندہ تھا تم نے اُسے واپس لانے کی کیوں کوشش نہیں کی.دوسری بات جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم تمہارے دلوں اور دماغوں پر حاوی ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کے لئے فتح مقدر ہے.جب تم اپنے وجود کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کردو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی فتح عطا فر مائےگا.تیسری بات اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب تک تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل نہیں کر تے اور آپ کے نقشِ قدم پر نہیں چلتے اور جب تک تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے محمد ؐ بننے کی کوشش نہیں کرتے اُس وقت تک تم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے.پھر فرماتا ہے الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ
شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا.یعنی لوگوں کی نجات اور اُن کی اُخروی فلاح و بہبودکے لئے یہ عظیم الشان کتاب نازل کرنے والا وہ خدا ہے جس کے قبضہ و تصرف میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا ہے اور نہ اُس کی بادشاہت میں کوئی شریک ہے.اُس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا ہے اور پھر ہر چیزکے لئے اُس نے ایک اندازہ بھی مقرر کیا ہے جو زبانِ حال سے پکا ر پکار کر کہہ رہا ہے کہ خدا بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر عیب اور نقص سے پا ک ہے.چونکہ اسلام ایک ایسا مذہب تھا جس نےلِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کے ماتحت دنیا کے ہر مذہب اور ہر قوم کو مخاطب کرنا تھا اس لئے لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اسلامی علماء کو دنیا کی تمام زبانیں سیکھنی چاہئیں.لیکن افسوس کہ سوائے کالجوں کے طالب علموں کے کوئی غیر زبان نہیں سیکھتا.اور وہ بھی صرف انگریزی سیکھتے ہیں جو ساری دنیا کی زبان نہیں.چاہیے کہ ہمارے علماء انگریزی ، فرانسیسی ،جرمنی ، روسی پرتگیزی ، ہسپانوی ،لاطینی اور دلندیزی وغیر ہ سب زبانیں جانتے ہوں اسی طرح سیام کی زبان اور جاپان کی زبان اور فلپائن کی زبان اور دوسرے تمام ممالک کی زبانیں اُن کو آتی ہوں تاکہ ہر جگہ وہ قرآن کریم کو پھیلا سکیں.ہمارے احمد ی مبلغین کو بھی اس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے.بعض مبلغ دس دس سال سے مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں وہاں کی زبان پوری طرح نہیں آئی.زبان کا سیکھنا قرآن کریم کے پھیلانےکے لئے نہایت ضروری ہے.جو مبلغ اس طرف توجہ نہیں کرتا وہ مبلّغ کہلانے کا مستحق ہی نہیں وہ اسلام کا ایک غدار سپاہی ہے عرب لوگ اسلام کی ترقی کے زمانہ میں دنیا کی ہر زبان جانتے تھے.پھر دنیا کے تمام مذاہب پر تبلیغی حملہ کرنے کے نتیجہ میں چونکہ لازمی طور پر مخالفت کا ایک طوفان اُمنڈ آنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نےلَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کہہ کر مخالفوں کو بھی بتا دیا کہ دیکھو تم اپنی طاقت پر گھمنڈ مت کرو.بیشک تمہارے ساتھ بڑے بڑے جتھے ہیں.بڑے بڑے ملک تمہارے ساتھ ہیں بڑی بڑی حکومتیں تمہاری تائید میں ہیں.لیکن آسمانوں اور زمین کی اصل حکومت خدا تعالیٰ کے قبضہ اور تصرف میں ہے.تمہارے پاس تو یہ حکومتیں محض ایک امانت کے طور پر ہیں اس لئے اگر تم نے اس امانت میں خیانت کی اور ہمارے اس پیغام کو ٹھکرا دیا تو یاد رکھو کہ زمین و آسمان کا خدا تمہارے اس انکار کو دیکھ کر خاموش نہیں رہےگا.بلکہ اس کی غیرت بھڑکےگی اور وہ تمہیں اس کی سزا دے گا.اورپھر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کہہ کر یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ ان کفار کے مظالم سے پریشان نہ ہونا.بیشک یہ تمہیں اپنے وطنوں سے بے وطن کر دیں گے تمہاری جائیدادیں چھین لیں گے.تمہارے مال اور املاک کو اپنے قبضہ میں لے لیں
گے مگر تمہاری یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیںگی بلکہ زمین وآسمان کا خدا تمہیں تخت و تاج کا وارث بنا دےگا اور اس طرح ساری دنیا پر ثابت ہو جائےگا کہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ خدا تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہی ہے جس نے اس عالمگیر انذار سے فائدہ اٹھانےوالوں کو بادشاہ بنا دیا اور بادشاہوں کو ان کے انکارکی سزا میں گدا بنا دیا.پھرالَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی ملکیت اور اس کا فیضان کسی ایک قوم یا ملک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ پر اس کی حکومت ہے اسی طرح ضروری تھا کہ کسی وقت تمام قوموں اور افراد کو ایک نقطۂ مرکزی پر جمع کرنے کا بھی سامان پیدا کیا جاتا تاکہ جس طرح زمین و آسمان کا خدا ایک ہے اسی طرح وہ ساری دنیا کو ایک روحانی نقطہ پر بھی جمع کر دے.اگر قرآن کریم دنیا میں نہ آتا اور وہ ساری دنیا کو مخاطب نہ کرتا تو ایک عالمگیر روحانی بادشاہت کا کبھی قیام نہ ہو سکتا.بیشک ابتدائی زمانوں میں جب آمدورفت کے ذرائع محدود تھے اور ایک ملک کی آواز دوسرے ملک میں نہیں پہنچ سکتی تھی ضروری تھا کہ مختلف ممالک اور مختلف اقوام میں اُس کے ہادی اور رہنما آتے تاکہ دُنیا کا کوئی خطہ اُس کی ہدایت سے محروم نہ رہتا مگر جب ممالک آباد ہونے شروع ہوئے اور آبادیوں کے فاصلے کم ہوتے چلے گئے اور نسلِ انسانی نے دماغی لحاظ سے بھی ارتقاء شروع کیا اور ذرائع آمدورفت میں بھی ترقی ہونے لگی.بیلوں کی جگہ گدھوں نے لے لی اور موٹروں اور ریلوں کی جگہ ہوائی جہازوں نے لے لی اور زمین کی طنابیں بالکل کھچ گئیں اور پھر ہوائی جہازوں نے ترقی کرتے کرتے ایسا مقام حاصل کر لیا کہ بارہ گھنٹہ میں ساری دنیا کا چکر لگ سکتا ہے.بلکہ تازہ اطلاع تو یہ ہے کہ اب ایک ایسا ہوائی جہاز بھی نکل آیا ہے جو ایک سیکنڈ میں پندرہ میل چل سکتا ہے گویا ایک منٹ میں نو سو میل اور ایک گھنٹہ میں ۵۴ ہزار میل اور بارہ گھنٹہ میں چھ لاکھ اڑ تالیس ہزار میل جس کے معنے یہ ہیں کہ بارہ گھنٹے میں وہ کئی دفعہ دنیا کا چکر لگا سکتا ہے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک عالمگیر بادشاہت کا قیام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فرما دیا.اگر قرآن نازل نہ ہوتا تو دنیا پر خدا تعالیٰ کی ملکیت اپنی پوری شان سے ظاہر نہ ہو سکتی.دریا کی شان اُسی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب پہاڑی نالے اس میں گِر کر اُسے ایک بحرِ ذخار کی صورت میں تبدیل کر دیں.موسیٰ ؑ اور عیسٰی ؑ اور زرتشت اور کرشن اور دوسرے تمام انبیاء چھوٹی چھوٹی نہریں تھیں جن میں سے کوئی نہر بنی اسرائیل کی سیرابی کے لئے جاری کی گئی تو کوئی ایران کی پیاس بجھانےکے لئے جاری کی گئی.کوئی ہندوستان کے لوگوں کی تشنہ لبی فرو کرنےکے لئے اُن کے ملک میں جاری کی گئی تو کوئی چین کی سرزمین میں وہاں کے باشندوں کی روحانی پیاس بجھانےکے لئے جاری کی گئی مگر ان تمام نالوں اور نہروں کا ایک عظیم الشان دریا میں مل جانا ضروری تھا تاکہ جس
طرح زمین و آسمان کی بادشاہت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اسی طرح ایک عالمگیر روحانی بادشاہت کا بھی نظارہ نظر آتا اور لوگوں کو رب العالمین خدا کے آستانہ کی طرف کھینچا جاتا.پس الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ درحقیقت دلیل ہے لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا کی اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول بلا وجہ نہیں بلکہ یہ الٰہی سکیم کا ایک اہم حصہ ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ تمام سابق شرائع کو منسوخ کر کے اب ایک ایسی شریعت نازل کرے جو تمام عالم کو ایک نقطۂ مرکزی پر جمع کرنے والی ہو اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ایسی سواریاں ایجاد ہو جائیںجو ساری دنیا کی طنابیں کھینچ لیں.چنانچہ قرآن کریم نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کا ذکر کر کے فرما دیا تھا کہ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ( النحل :۹) یعنی اللہ تعالیٰ آئندہ زمانہ میں ایسی سواریاں پیدا کرنے والا ہے جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں اور اس طرح دنیا کو ایک نقطۂ مرکزی پر جمع کرنے والا ہے مگر چونکہ یہ عالمگیر مذہب کا تصور اور خدائے واحد کی زمین و آسمان کے ذرّہ ذرّہ پر حکومت کا عقیدہ اُن مذاہب میں کھلبلی ڈالنے والا تھا جو ابنیت کے قائل تھے یا نبیوں کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی ان باطل مذاہب کے خیالات کی بھی تردید کی اور فرمایا وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا.خدا تعالیٰ کی آسمان اور زمین کے ذرّہ ذرّہ پر حکومت تو ہے مگر یہ خیال درست نہیں کہ اُس کا کوئی بیٹا ہے جو اُس کی مدد کرتا ہے بلکہ بیٹا ہونا تو الگ رہا وہ بیٹے کے مقام پر بھی کسی کو کھڑا نہیں کرتا یعنی اس حد تک بھی اس کو اپنے ساتھ مشابہت نہیں دیتا جس قدر کہ بیٹے کو اپنے باپ سے مشابہت ہو تی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائی حضرت مسیح ؑ کو خدا تعالیٰ کے بیٹے کی شکل میں پیش کرتے ہیں لیکن حضرت مسیح ؑ کی تاریخ اتنی مبہم ہے اور اس پر اتنے حجاب پڑے ہوئے ہیں کہ مسیحیت کی تعلیم کی صداقت عقلی طور پرقیاس میں بھی نہیں آسکتی سوائے اس کے کہ اس تعلیم کے مطابق عیسائیوں میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کو دیکھ کر اس تعلیم کی سچائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہو لیکن ایسے نمونے نہ عیسائی دنیا میں موجود ہیں اور نہ آئندہ پید اہو سکتے ہیں.مثلاً حضرت مسیح ؑ نے کہا تھا کہ ’’ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائےگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی.‘‘ ( متی باب ۱۷ آیت ۲۰) اب اگر عیسائیوں کے قول کے مطابق حضرت مسیح ؑ مردے زند ہ کیا کرتے تھے ( یوحنا باب ۱۱ آیت ۴۳، ۴۴) اور اُن کے دلوں میں مسیح ؑ پر ایک رائی کے برابر بھی ایمان پایا جاتا ہے تو اُن کا فرض ہے کہ وہ مسیح ؑ کی ابنیت ثابت
کرنےکے لئے مُردے زندہ کر کے دکھائیں.اور اگر مسیح ؑ بغیر کشتی اور جہاز کے پانی پر چلتے تھے (متی باب ۱۴ آیت ۲۵) توعیسائی بھی جہازوں کے بغیر سمندروں پر چل کر دکھائیں.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے جس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ نہ تو اُن کے دلوں میں حضرت مسیح ؑ پر کوئی ایمان ہے اور نہ وہ انجیلی تعلیم کی صداقت کا دنیا کے سامنے کوئی نمونہ پیش کر سکتے ہیں.پس ان کا یہ کہنا کہ مسیح ؑ خدا کا بیٹا تھا ایک زبانی دعوے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن اس کے علاوہ یہ امر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی شان کے بھی بالکل منافی ہے کیونکہ بیٹے کی ضرورت اُسی وقت تسلیم کی جاسکتی ہے جب خدا تعالیٰ کے لئے فنا کا امکان ہو لیکن اگر اس کے لئے فنا ہی نہیں تو ابنیت کا مسٔلہ کس طرح درست ہو سکتا ہے اس مادی عالم میں دیکھ لو کہ سورج اور چاند اور پہاڑ اور دریا وغیرہ کے ساتھ بیٹوں کا سلسلہ جاری نہیں کیاگیا.کیونکہ انہوں نے اپنی ضرورت کے پورا ہونے تک خود قائم رہنا ہے لیکن انسان چونکہ فانی وجود ہے اس لئے اسے بیوی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کی خواہش بھی اس کے دل میں پائی جاتی ہے.اور جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو لوگ اُسے مبارک باد دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُس کے نام کو قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا فرما دیا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی کوئی بات تسلیم نہیں کی جا سکتی اس لئے ایک زندہ اور حی و قیوم خدا کو تسلیم کرتے ہوئے کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا ایک نہایت ہی جاہلانہ اور خدا تعالیٰ کی ہتک کرنے والاعقیدہ ہے.پھر فرماتا ہے وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ ایک اور امتیاز اس کے اندر یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی بادشاہت میں اور کوئی شریک نہیں.دنیوی بادشاہوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ کہیں بادشاہوں کے خلاف ان کی بیگمات جوڑ توڑ کر رہی ہوتی ہے کہیں شہزادے اپنے باپ کا تخت حاصل کرنے کے لئےاسے قتل کرنے کے منصوبے سوچ رہےہوتے ہیں کہیں وزراء اور امراء اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہوتے ہیں اور موقعہ ملتے ہی وہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو فرقان نازل کیا اس میں اس نے بنی نوع انسان کو یہ خوشخبری دی کہ دیکھو کہ تمہارا خدا وہ ہے کہ جس کے قبضہ و تصرف میں زمین آسمان کا ذرہ ذرہ ہے اور پھر نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ اس کی مملکت میں کوئی اور شریک ہے کہ تمہیں ادھر بیٹے کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے ادھر بیگمات کی خوشامدیں کرنی پڑتیں.ادھر وزاء اور امراء کو خوش کرنے کے لئے کئی قسم کے پاپڑ پیلنے پڑتے.تمہارا خدا وحدہ لاشریک ہے اور اس کی محبت کسی اور کے ساتھ بٹی ہوئی نہیں نہ کوئی جابر حاکم اس کی بادشاہت میں شریک ہے کہ تمہیں اس کو خوش کرنے کا فکر ہو.تمہیں اکیلے اور واحد خدا کی پرستش کا حکم دیا گیا ہے.پس تمہارا سر ہر حالت میں اس کے آستانہ پر جھکا رہنا چاہیے اور اسی کی آواز پر لبیک کہنا تمہارا شعار ہونا چاہیے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی واحدانیت کے ثبوت
میں اس قانون کو پیش کرتا ہے جو ساری دنیا میں جاری ہے اور فرماتا ہے.وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور پھر اس کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے جس کے ماتحت وہ ترقی کرتی جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لواگر ہر چیز کا اللہ تعالیٰ پہلے سے ایک اندازہ مقرر نہ کرتا تو انسان کو نہ دنیا میں کوئی ترقی حاصل ہو سکتی اور نہ دینی معاملات میں وہ سکھ پا سکتا.ایک زمیندار جو گھر سے دانہ لے جا کر زمین میں ڈالتا ہے صرف اس لئے ڈالتا ہے کہ خدا نے یہ قانون مقرر کر دیا ہے کہ جب دانہ زمین میں ڈالا جائے تو اُس کے اُگنے سے کئی دانے پیدا ہو جائیں.لیکن اگر یہ قاعدہ مقرر نہ ہوتا بلکہ اس طرح ہوتا کہ زمیندار کو گندم کی ضرورت ہوتی اور وہ گندم بوتا تو کبھی تو گندم نکل آتی کبھی کیکر اُگ آتا اور کبھی انگور کی بیل نکل آتی.تو کچھ مدت کے بعد زمیندار اس بونے کے فعل کو لغو سمجھ کر بالکل چھوڑ دیتا اور اپنی محنت کو ضائع خیال کرتا.اسی طرح اب تو سنار کو یقین ہے کہ سونا جب آگ میں ڈالوں گا تو پگھل جائےگا اور پھر جس طرح چاہوںگا زیور بنا لوں گا.لیکن اگر ایسا نہ ہوتا بلکہ یہ ہوتا کہ سنار کو کوئی شخص کڑے بنانےکے لئے سونا دیتا اور جب وہ اسے پگھلاتا تو چاندی نکل آتی یا کوئی چاندی دیتا تو وہ پیتل نکل آتی کیونکہ کوئی قاعدہ مقرر نہ ہوتا تو کیا حالت ہوتی ؟ یہی کہ وہ اس کام سے آئندہ کے لئے توبہ کر لیتا.اسی طرح اگر لوہار لوہے کو گرم کر کے اس پر ہتھوڑا مارتا کہ اسے لمبا کرے تو وہ کبھی تو خود بن جاتا کبھی ہاون کی شکل اختیار کر لیتا.یا وہ کدال بناتا تو تلوار بن جاتی اور اُسے پولیس پکڑ لیتی کہ ہتھیار بنا نے کی اجازت تم کو کس نے دی ہے.یا اسی طرح ڈاکٹر بخار اتارنے کی دوائی دیتا اور اُس سے کھانسی ہو جاتی تو ڈاکٹروں کی کون سنتا.اب تو کسی کو کھانسی ہو تو ایک زمیندار بھی کہتا ہے کہ اسے بنفشہ پلائو کیونکہ تجربہ نے بتا دیا ہے کہ اس سے کھانسی کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر کوئی قانون مقرر نہ ہوتا بلکہ یہ ہوتا کہ کبھی بنفشہ پلانے سے کھانسی ہو جاتی اور کبھی بخار چڑھ جاتا.کبھی قبض ہو جاتی اور کبھی دست آجاتے.کبھی بھوک بند ہو جاتی اور کبھی زیادہ ہو جاتی تو کون بنفشہ پلاتا.بنفشہ تب ہی پلایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ قانون مقرر کر دیا ہے کہ اس سے فلاں قسم کی کھانسی کو فائدہ ہوگا.اسی طرح زمیندار تب ہی غلّہ گھر سے لا کر زمین میں ڈالتا ہے کہ اُسے یقین ہوتا ہے کہ گیہوں سے گیہوں پیدا ہوگا.اگراسے یہ یقین نہ ہوتا تو کبھی نہ ڈالتا.وہ کہتا نہ معلوم کیا پیدا ہو جائےگا میںکیوں اس غلہ کو ضائع کروں لیکن اب وہ اسی لئے مٹی کے نیچے بیسیوں من گندم کے دانوں کو دبا دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تقدیر مقرر کی ہوئی ہے کہ گندم سے گندم پیدا ہو اور ایک دانے سے سو دانے تک پیدا ہوں.بلکہ اس سے بھی زیادہ.اسی طرح روٹی کھانے سے پیٹ بھرتا ہے لیکن اگر ایسا ہوتا کہ کبھی ایک لقمہ سے پیٹ بھرجاتا اور کبھی انسان سارا دن روٹی کھاتا رہتا تب بھی پیٹ نہ بھرتا تو پھر کس کو ضرورت تھی کہ کھانا کھاتا اور کیوں روپیہ ضائع کرتا یا گھر میں آگ جلانے
سے کھانا پکایا جاتا ہے لیکن اگر یہ ہوتا کہ کبھی سارا دن پھلکا تو ے پر پڑا رہتا اور آگ جلتی رہتی لیکن وہ گیلے کا گیلا ہی رہتا.اور کبھی آٹا ڈالتے ہی جل جاتا اور کبھی سینک لگنے سے پھلکا پکنے لگتا اور کبھی موٹا ہو کر ڈبل روٹی بن جاتا تو کون پھلکے پکانے کی جرأت کرتا.اسی طرح کبھی ساگ کچا رہتا اور کبھی پک جاتا تو کون پکاتا.یا اب تو ہر شخص جانتا ہے کہ کھانڈ ڈالنے سے چیز میٹھی ہو جاتی ہے لیکن اگر ایسا ہوتا کہ کبھی کھانڈ ڈالنے سے چیز میٹھی ہو جاتی اور کبھی کڑوی ہو جاتی کبھی نمکین ہو جاتی اور کبھی کھٹی یا کسیلی ہو جاتی اور کبھی کسی اور مزے کی ہو جاتی تو کیا کوئی کھانڈ استعمال کر سکتا.غرض جس قدر کا رخانہ ٔ عالم چل رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ مسئلہ تقدیر ہے.خدا تعالیٰ نے قانون مقرر کر دیا ہے کہ میٹھا میٹھے کا مزا دے.تُرش تُرش کا مزا دے.آگ سے کھانا پکے ،روٹی سے پیٹ بھرے اور لوگوں نے تجربہ کر لیا ہے کہ یہ درست ہے.اس لئے وہ ان باتوںکے لئے روپیہ صرف کرتے اور محنت برداشت کرتے ہیں.اگر خواص الاشیاء پر انسان کا یقین نہ ہوتو وہ سب کو ششیں چھوڑ دے اور تمام کارخانہ ٔ عالم باطل ہو جائے.پھر یہی تقدیر ہستی باری تعالیٰ کا بھی ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ کوئی صنعت صانع کے بغیر نہیں بن سکتی ایک عمدہ تصویر کودیکھ کر فوراً خیال ہوتا ہے کہ یہ کسی بڑے مصّور نے بنائی ہے.ایک عمدہ تحریر کو دیکھ کر فوراً سمجھا جاتا ہے کہ کسی مشہور کاتب نے لکھی ہے اور جس قدر ربط بڑھتا چلا جائے اسی قدر اس کے بنانے یا لکھنے والے کی خوبی اور بڑائی ذہن نشین ہوتی جاتی ہے پھر کیونکر تصّور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی منظم دنیا خود بخود اور یونہی پیدا ہو گئی ہے.چنانچہ دیکھ لو جہاں انسان میں ترقی کرنے کے قویٰ موجود ہیں وہاں اُسے اپنے خیالات کو عملی صورت میں لانےکے لئے عقل دی گئی ہے اور اس کا جسم بھی اُس کے مطابق بنایا گیا ہے.چونکہ اُس نے محنت سے رزق کمانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسے قویٰ دئیے کہ جن سے چل پھر کر وہ اپنا رزق پیدا کر لے.درخت کا رزق اگر زمین میں رکھا تو اُسے جڑیں دیں کہ وہ اس کے اندر سے اپنا پیٹ بھرے.اگر شیر کی خوراک گوشت رکھی تو اُسے شکار مارنےکے لئے ناخن دئیے اور اگر گھوڑے اور بیل کے لئے گھاس کھانا مقدر کیا تو اُن کو ایسی گردن دی جو جھک کر گھاس پکڑ سکے.اور اگر اونٹ کے لئے درختوں کے پتے اور کانٹے مقرر کئے تو اس کی گردن بھی اونچی بنائی کیا یہ سب کارخانہ اتفاق سے ہوا ہے ؟ کیا اتفاق نے اس بات کو معلوم کر لیا تھا کہ اونٹ کو گردن لمبی دوں؟ اور شیر کو پنجے اور درخت کو جڑیں اور انسان کو ٹانگیں دوں ؟ کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ جو کام خود بخود ہو گیا اس میں اس قدر انتظام رکھا گیا ہو ؟ پھر اگر انسان کے لئے پھیپھڑا بنایا تو اس کے لئے ہوا بھی پیدا کی.اگر پانی پر اس کی زندگی کا مدار رکھا تو سورج کے ذریعے بادلوں کی معرفت اُسے پانی پہنچایا اور اگر آنکھیں دیں تو ان کے کار آمد بنانےکے لئے سورج کی روشنی بھی رکھی تاکہ وہ اس کے ذریعہ دیکھ
سکے.کان دئیے تو ساتھ اس کے خوبصورت آوازیں بھی پیدا کیں.زبان کے ساتھ ذائقہ دار چیزیں بھی عطا فرمائیں.ناک پیدا کیا تو خوشبو بھی مہیا کر دی.ممکن تھا کہ اتفاق انسان میں پھیپھڑا پیدا کر دیتا لیکن اس کے لئے ہوا کا سامان کیونکر پیدا ہو گیا.اور ممکن تھا کہ انسان کی آنکھیں پیدا ہو جاتیں لیکن یہ عجیب اتفاق تھا کہ جس نے کروڑوں میلوں پر جا کر ایک سورج بھی پیدا کر دیا تاکہ وہ اپنا کام کر سکیں.اگر ایک طرف اتفاق نے کان پیدا کر دئیے تھے تو کون سی طاقت تھی جس نے دوسری طرف آواز بھی پیدا کر دی.برفانی ممالک میں مان لیا کہ کتے یا ریچھ کو اتفاق نے پیدا کر دیا لیکن اس کا کیا سبب ہے کہ اُن کتوں یا ریچھوں کے بال اتنے لمبے بن گئے کہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں.اتفاق ہی نے ہزاروں بیماریاں پیدا کیں.اتفاق ہی نے اُن کے علاج بنا دئیے.اتفاق ہی نے بچھو بوٹی بنائی جس کے چھونے سے خارش ہو نے لگ جاتی ہے اور اسی نے اس کے ساتھ پالک کا پودا اُگا دیا کہ اس کا علاج ہو جائے دہریوں کا اتفاق بھی عجیب ہے کہ جن چیزوںکے لئے موت تجویز کی اُن کے ساتھ تو الد تناسل کا سلسلہ بھی قائم کر دیا.اور جن چیزوں کے ساتھ موت نہ تھی وہاں یہ سلسلہ ہی نہ رکھا.انسان نے چونکہ مرنا تھا اس لئے اس کے ساتھ توالد اورتناسل کا سلسلہ لگا دیا.لیکن سورج اور چاند اور زمین نہ نئے پیدا ہوتے اور نہ اگلے فنا ہوتے ہیں اس لئے اُن کے ساتھ یہ سلسلہ نہ رکھا.پھر کیا یہ انتظام کچھ کم تعجب انگیز ہے کہ زمین اور سورج میں چونکہ کشش ہے اس لئے ان کو ایک دوسرے سے اتنی دور رکھا کہ آپس میں ٹکرا نہ جائیں.کیا یہ باتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ ان سب چیزوں کا ایک خالق ہے جو نہ صرف علیم ہے بلکہ غیر محدود علم والا ہے اور اس کے قواعد ایسے منضبط ہیں کہ اُن میں کہیں بھی رخنہ نظر نہیں آتا.سلطنتوں میں ہزاروں مدّبر اُن کی درستی کے لئے دن رات لگے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اُن سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ جن سے سلطنتوں کو خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے.بلکہ بعض اوقات تو وہ بالکل تبا ہ ہو جاتی ہیں.لیکن اگر اس دنیا کا کاروبار صرف اتفاق پر ہے تو تعجب ہے کہ ہزاروں دانا دماغ تو غلطی کرتے ہیں لیکن یہ اتفاق غلطی نہیں کرتا.مگر سچی بات وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جس نے یہ تمام نظام جاری کیا ہوا ہے.چنانچہ جس طرف نظر دوڑا کر دیکھوتمہیں معلوم ہوگا کہ ہر ایک چیز اپنا مفوضہ کام کر رہی ہے اور یہی تقدیر ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زبر دست ثبوت ہے
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ اور ان لوگوں نے اس (یعنی خدا) کے سوا معبود بنا چھوڑے ہیں جو کچھ (بھی) پیدا نہیں کرتے حالانکہ وہ يُخْلَقُوْنَ وَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا خود پیدا کئے جاتے ہیں اور جو اپنی ذات کے لئے نہ کسی ضر ر پر قادر ہیں نہ نفع پر نہ موت کے مالک ہیں يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَيٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا۰۰۴ اور نہ زندگی کے اور نہ پھر جی اُٹھنے کے.حلّ لُغَات.نُشُوْرًا :نُشُورًا نَشَرَ کا مصدر ہے اور نَشَرَ اللّٰہُ الْمَوْتٰی کے معنے ہیں اَحْیَاھُمْ.اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زندہ کیا.پس نُشُوْرًا کے معنے ہوںگے موت کے بعد زندہ ہونا.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے کفار کی عقل تو ایسی ماری گئی ہے کہ انہوں نے خدا کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں.جو پیدا تو کچھ نہیں کرتے ہاں آپ پیدا کئے جاتے ہیں اور خود اپنی ذات کے لئے بھی ضر ر اور نفع کی کوئی طاقت نہیں رکھتے اور نہ موت اور زندگی اور دوبارہ جی اُٹھنا اُن کے ہاتھ میں ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معبود انِ باطلہ کی تردید میں بعض اور دلائل دئیے ہیں.فرماتا ہے کہ انہیں پہلی بات تو یہ سمجھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے لئے خالق ہونا ضروری ہے.مگر یہ لوگ جن کو معبود قرار دیتے ہیں اُ ن میں سے کسی کے متعلق بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ خالق تھا.عیسائیوں نے حضرت مسیح ؑ کی طرف اس قسم کے معجزات تو منسوب کر دئیے ہیں کہ وہ مُردے زندہ کر دیا کرتے تھے لیکن انہیں خالق قرار دینے کی عیسائیوں کو بھی جرأت نہیں ہوئی البتہ مسلمانوں میں سے بعض نادانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت مسیح ؑ پرندے پیدا کیا کرتے تھے حالانکہ اگر وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو پھر وہ پرندے ہیں کہاں ؟ اور آیا اُن کی نسل بھی چلی تھی یا نہیں ؟ اور اگر چلی تھی تو یہ کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں پرندے مسیح ؑ کے پیدا کردہ ہیں اور فلاں خدا کے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب ڈھکوسلے ہیں.ان معبودانِ باطلہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں.جس نے کوئی چیز پیدا کی ہو پس انہیں معبود قرار دینا اپنی حماقت اور نادانی کا ثبوت پیش کرنا ہے.دوسری دلیل اللہ تعالیٰ نے یہ دی کہ وہ نہ صرف خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں.یعنی وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور جن
میں اس قدر احتیاج الی الغیر پائی جاتی ہو کہ جب تک کوئی اور ہستی انہیں پیدا نہ کرتی وہ اس دنیا میں آبھی نہیں سکتے تھے.انہوں نے خدائی کیا کرنی ہے کیا خدا تعالیٰ کو بھی کوئی پیدا کیا کرتا ہے ؟ اور جب تمہیں نظر آتا ہے کہ جن ہستیوں کو یہ لوگ خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں.وہ سب کی سب مخلوق ہیں.حضرت مسیح ؑ بھی مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے.اور بہاء اللہ جن کو مدعی اُلوہیت قرار دیا جاتا ہے.وہ بھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اسی طرح وہ تمام پیر اور فقیر اور سجادہ نشین جن کی قبروں پر سجدہ کیا جاتا ہے وہ بھی اپنی اپنی مائوں کے پیٹ سے ہی پیدا ہوئے تو وہ خدا کس طرح ہوئے ؟ یا اُن کی قبروں پر سجدہ کرنا کس طرح جائز ہو گیا ؟ پھر ایک اور دلیل اللہ تعالیٰ اُن کے خلاف دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ جن کو تم معبود قرار دیتے ہو ان کی تو یہ حالت ہے کہ زندگی بھر نہ تو اُن میں یہ طاقت تھی کہ کسی دُکھ اور تکلیف سے اپنی خدائی کی وجہ سے بچ سکتے اور نہ اُن میں یہ طاقت تھی کہ بغیر خارجی ذرائع کی امداد کے کوئی نفع حاصل کر سکتے.اگر یہ دُکھوں سے بچتے تھے تو بیرونی ذرائع کی امداد سے اور اگر نفع حاصل کرتے تھے تو بیرونی اسباب کے ذریعہ.پھر جو لوگ اس قدر کمزور تھے کہ وہ بات بات میں دوسرے ذرائع اور اسباب کے محتاج تھے اُن کو خداقرار دینا کتنی کوتاہ عقلی اور نادانی کا ثبوت پیش کرنا ہے.حضرت مسیح ناصری کو ہی دیکھ لو اگر ضر ر سے بچنے کی اُن میں طاقت ہوتی تو دشمن انہیں صلیب پر کیوں چڑھاتا اور کیوں انہیں کہنا پڑتا کہ ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا ! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.‘‘ ( متی باب ۲۷ آیت ۴۶) اور اگر اپنے لئے وہ ہر قسم کا آرام اور فائدہ اپنے زورِبازو سے حاصل کر سکتے تھے تو جب شیطان انہیں جنگل میں آزمانےکے لئے لے گیا تو وہ چالیس دن بھوکے کیوں رہے اور کیوں انہوں نے یہ کہا کہ ’’ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہےگا بلکہ بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے.‘‘ ( متی باب ۴ آیت ۴) اگر اُن میں یہ طاقت تھی کہ وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے تو چالیس دن کا فاقہ انہیں کیوں برداشت کرنا پڑتا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایک کشف تھا جس کو عیسائیوں نے ظاہر پر محمول کر لیا.ورنہ اگر وہ حضرت مسیح ؑ کو واقعہ میں پہاڑ پر لے جاتاتو لوگوں کو شیطان بھی نظرآ تا اور اُن کا پہاڑ پر جانا بھی نظر آتا اور پھر حواری ان کو اکیلا کس طرح چھوڑ دیتے لازماً وہ بھی ساتھ جاتے.پس درحقیقت یہ ایک کشف یا خواب کا نظارہ تھا جس کو ظاہر پر محمول کر کے مضحکہ خیز بنا دیا گیا ہے.
اسی طرح حضرت مسیح ؑ نے ایک موقعہ پر کہا کہ ’’ لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں.‘‘ ( متی باب ۸ آیت ۲۰) اس فقرہ میں بھی حضرت مسیح ؑ نے اپنے عجز اور بیچارگی کا اقرار کیا ہے اور بتایا ہے کہ میرے لئے تو دنیا میں سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں اور جس شخص کی یہ کیفیت ہو.اس کے متعلق یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا تھا.پھر فرماتا ہے وَلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوۃً وَّلَا نُشُوْرًا.یہ لوگ نہ تو موت کے مالک ہیں نہ زندگی کے اور نہ پھر جی اٹھنے کے.موت و حیاۃ کے لحاظ سے اشیاء کے تین درجے ہی ہوتے ہیں (۱) عدم حیات یعنی موت (۲) حیات بالقوۃ یعنی حیات (۳) حیات بالفعل یعنی نشور.مگر چونکہ یہاں معبودانِ باطلہ کا رد کیا جارہا ہے اس لئے وَلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے تو کم ازکم موت سے ہی بچ جاتے مگر ان میں سے ہر معبو د کہلانے والا موت کا شکار ہوا اور عیسائیوں نے تو اپنے بنیادی عقیدوں میں ہی شامل کر لیا کہ مسیح ؑ تین دن مر کر جہنم میں رہا ( ۲.پطرس باب ۳ آیت ۱۸،۲۰و تفسیر بائیبل مصنفہ میتھیوپول جلد ۳ صفحہ ۹۱۱) پس جب موت کے زبردست ہاتھ سے بھی اُن کی روحیں آزاد نہیں تھیں تو وہ خدا کس طرح ہوئے.پھر ان کی زندگیوں کو دیکھوتو قدم قدم پر معلوم ہوگا کہ وہ ایک بالا قانون کے تابع تھے اور تمام بنی نوع انسان کی طرح کھانے پینے کے محتاج تھے.بیماریوں کا شکار ہوتے تھے.مشکلات میں مبتلا ہوتے تھے اور جب اُن کی زندگیاں بتارہی ہیں کہ انہوں نے اپنی تمام عمر احتیاج میں گذاری تو ان کو خدا قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے.یعنی نہ تو نفع کے حصول اور ضرر سے اجتناب پر ان کو کوئی قدرت حاصل تھی نہ موت کے پنجہ سے وہ چھوٹ سکا نہ زندگی کے ایک ایک لمحہ اور ثانیہ میں وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرر کر دہ قانون سے آزاد ہوئے بلکہ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائیں جائیں گے یعنی غیب پربھی ان کو کوئی دسترس حاصل نہیں جیسا کہ حضرت مسیح ؑ نے کہا کہ ’’اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا.نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ.(مرقس باب ۱۳ آیت ۳۲،۳۳) پس جب کہ کوئی ایک بات بھی ان میں خدائی کی نہیں پائی جاتی تو انہیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے مقابلہ میں
کھڑا کرناکیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ ا۟فْتَرٰىهُ وَ اور کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جھوٹ ہے جو اس نے بنالیا ہے اور اس کے بنانے پر ایک اور قوم نے اس کی اَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ۰۰۵ مدد کی ہے.پس ان لوگوں نے (یہ بات کہہ کر) بہت بڑا ظلم کیا ہے اور بہت بڑا جھوٹ بولا ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وَ قَالُوْۤا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ ( قرآن) تو پہلوں کی باتیں ہیں جو اس نے کسی سے لکھوالی ہیں اور اب وہ صبح شام اس کے سامنے پڑھ کر سُنائی جاتی بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا۰۰۶قُلْ اَنْزَلَهُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي ہیں( تاکہ وہ قرآن اچھی طرح لکھ لے) تو کہہ دے کہ اس( قرآن) کو تو اُس (خدا) نے اتارا ہے جو آسمانوں اور السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۷ زمین کے رازوں سے واقف ہے.وہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.اِفْکٌ.اَلْاِفْکُ : اَلْکِذْبُ یعنی افک کے معنے کذب اور جھوٹ کے ہیں ( اقرب) زُوْر : اَلزُّوْرُ.اَلْکِذْبُ.جھوٹ.اَلْبَاطِلُ باطل.(اقرب) اَسَاطِیْرُ.اَسَاطِیْرُاُسْطُوْرَۃٌ کی جمع ہے اور اُسْطُوْرَۃٌ کے معنے ہیں مَایُسْطَرُ جو چیز لکھی جاتی ہے.وَتُسْتَعْمَلُ فِی الْحَدِیْثِ لَا نِظَامَ لَہ‘ وَالْحِکَایَاتُ نیز اساطیر اُن باتوں کو بھی کہتے ہیں جو بے ترتیب ہوں اور قصے کہانیوں کو بھی کہتے ہیں.( اقرب) اِکْتَتَبَھَا.اِکْتَتَبَھَا اِکْتَتَبَ الْکِتَابَ کے معنے ہیں خَطَّہٗ کتاب کو لکھا.وَقِیْلَ اِسْتَمْلَا ہٗ بعض ماہرین لُغت نے کہا ہے کہ اِکْتَتَبَ کے معنے ہیں کسی سے کتاب کو لکھوایا.نیز اس کے معنے ہیں اَمَرَاَنْ یَّکْتُبَ لَہٗ.کسی کو حکم دیا کہ وہ اس کے لئے فلاں بات لکھ دے ( اقرب) پس اِکْتَتَبَھَا کے معنے ہوںگے اُس نے لکھ لیا ہے یا
کسی سے لکھوالیا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.کفار کہتے ہیں کہ قرآن ایک جھوٹی کتاب ہے اور محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اُس کے بنانے میں دوسرے لوگ امداد دیتے ہیں.ان کفار نے یہ اعتراض کر کے سخت ظلم کیا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور وہ اس اعتراض کو پکا کرنےکے لئے یوں دلیل دیتے ہیں کہ قرآن میں ہے کیا بس پُرانے لوگوں کی باتیں نقل کر دی گئی ہیں.محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ باتیں دوسروں سے لکھوا لیتے ہیں اور وہ صبح و شام اُن کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں.تاکہ اُن کو اچھی طرح یاد رہیں تو اُن سے کہہ کہ قرآن کو تو اس خدا نے اتارا ہے جو آسمان اور زمین کے رازوں کو جانتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے.اس آیت کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ چونکہ صبح و شام نمازکے لئے اور قرآن سیکھنےکے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوتے تھے.وہ نادان یہ خیال کرتے تھے کہ شاید اس جگہ جمع ہو کر بعض مسیحی غلام اپنی کتب کی باتیں ان کو بتاتے ہیں یا اُن سے لکھ کر صحابہ ؓ لے آتے ہیں اور پھر وہ صبح و شام حفظ کی جاتی ہیں.ان جاہلوں کی عقل میں صبح شام کی نمازیں تو آہی نہیں سکتی تھیں وہ اس اجتماع کو منصوبہ بازی کا وقت سمجھتے تھے.خود مجھے بھی اس بارہ میں ایک تجربہ ہوچکا ہے جس سے اس قسم کی بدگمانی کی حقیقت خوب معلوم ہو جاتی ہے.کئی سال کی بات ہے میں ایک دفعہ لاہو ر گیا تو مجھ سے آریوں کے مشہور لیڈر لالہ رام بھجدت صاحب ملنےکے لئے آئے ان کے ساتھ کچھ اور صاحبان بھی تھے.جن میں ’’ شیر پنجاب‘‘ جو سکھوں کا مشہور اخبار تھا اس کے ایڈیٹر صاحب بھی شامل تھے اتفاق سے اُسی دن میرا لیکچر تھا.وہ لیکچر سننےکے لئے ٹھہر گئے.مجھے سارا دن مختلف کا موں کی وجہ سے حوالے نکالنے کا موقعہ نہیں ملا تھا.اس لئے میں نے حافظ روشن علی ؓ صاحب مرحوم کو سٹیج پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں آپ کو مضمون بتا تا جائوںگا.آپ مجھے آیت کے الفاظ بتاتے جایا کریں.چنانچہ میں نے لیکچر شروع کیا اور جہاں کسی آیت سے استدلال کی ضرورت ہوتی.میں آہستہ سے ایک دولفظ آیت کے پڑھ دیتا یا مضمون بتا دیتا اور وہ ساری آیت پڑھ دیتے میں اُسے پڑھ کر جو استدلال کرنا ہوتا تھا اُسے بیان کر دیتا.دوسرے دن ’’ شیر پنجاب‘‘ میں ایک مضمون نکلا کہ کل ہم بھی امام جماعت احمدیہ کے لیکچر میں تھے.لیکچر اچھا تھا مگر ہم نے ذرا تجسس کیا اور سٹیج کے پچھلی طرف گئے تو معلو م ہوا کہ انہوں نے اپنے پیچھے ایک عالم چھپایا ہوا تھا.وہ مضمون بتاتا جاتا تھا اور مرزا صاحب اُسے دوہراتے جاتے تھے.واقف کار لوگوں میں کئی دن اس پر خوب ہنسی اڑتی رہی اور سردار صاحب سے بھی کسی نے جاکر ذکر کر دیا.وہ بہت شرمندہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ میں نے اپنی ہوشیاری سے اصل راز معلوم کر لیا ہے.
ایسی ہی ہوشیاری مکہ والوں نے دکھائی تھی.کام والے لوگوں کو صبح و شام ہی فرصت مل سکتی تھی وہ صبح اور شام کی نمازیں ادا کرنےکے لئے اور قرآن کریم پڑھنےکے لئے دارِ ارقم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو جاتے تھے.کفار کے بعض زیادہ عقلمند لوگ خیال کرتے تھے کہ ہم نے راز معلوم کر لیا ہے.یہ قرآن کی تصنیف کے لئے جمع ہو تے ہیں.عقلمند انسان کے لئے اس میں بھی ایک بڑا بھاری نشان ہے کیونکہ اس میں یہ اعتراف پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کوئی ایک شخص نہیں بنا سکتا.تبھی انہو ں نے اس کے بنانے میں مدد دینے والی ایک جماعت قرار دی جن میں سے اُن کے نزدیک بعض عقلی باتیں جمع کرتے تھے اور بعض پرانی کتب کی تعلیم جمع کرتے تھے.اب میں اس اعتراض کے وہ جواب بیان کرتا ہوں جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں.کفار کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اس کے دو پہلوئوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.(۱) اوّل یہ کہ جن غلاموں کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ قرآن کریم کے بنانے میں مدد دیتے ہیں.کیا وہ ایسا کر سکتے تھے ؟ (۲) دوسرے یہ کہ جس چیز کی نسبت کہا جاتا ہے کہ بعض غلاموں نے لکھوائی ہے کیا وہ انسانوں کی لکھوائی ہوئی ہو سکتی ہے ؟ پہلے سوال کا جواب قرآن کریم نے یہ دیا ہے کہ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا.یعنی یہ اعتراض نہایت ظالمانہ اور جھوٹا ہے.اس جواب میں ظُلْمًا وَّ زُوْرًا کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کفار کا یہ دعویٰ کہ قرآن کریم کے بنانے میں بعض اور لوگ مدد دے رہے ہیں خود اپنے آپ کو باطل ثابت کر رہا ہے کیونکہ جس مذہب کے لوگوں کی طرف بھی سکھا نےوالوں کو منسوب کیا جائے اُسی مذہب کی قرآن کریم تردید کر رہا ہے.اگر وہ یہ کہیں کہ سکھانےوالے عیسائی غلام تھے تو قرآن تو وہ کتاب ہے جو عیسائیت کی دھجیاں بکھیر رہی ہے.پھر یہ کس طرح مانا جا سکتا ہے کہ جس مذہب کے ماننے والوں نے آپ ؐ کو قرآن بنا کر دیا وہ خود اپنے مذہب کے خلاف آپ ؐ کو باتیں بتاتے رہے تھے.اسی طرح اگر کہو کہ یہودیوں نے آپ کو سکھا دیا تو یہودی مذہب کی تردید بھی قرآن کریم میں مکمل طور پر موجود ہے.غرض جس مذہب کی طرف بھی سکھانے والوں کو منسوب کیا جائے اُسی مذہب کی تردید قرآن کریم میں پائی جاتی ہے پس یہ دعویٰ خود اپنی ذات میں اپنے جھوٹا ہونے کا ایک کھلا اور نمایاں ثبوت ہے اس کو باطل ثابت کرنےکے لئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت ہی نہیں.حضرت مسیح ؑنے بھی انجیل میں اس دلیل کو استعمال کیا ہے چنانچہ جب یہودیوں نے آپ پر اعتراض کرتے
ہوئے کہا کہ یہ شخص بدروحوں کے سردار بعلز بول کی مدد سے بد روحوں کو نکالتا ہے تو حضرت مسیح ؑنے انہیں جواب دیا کہ ’’ اگر شیطان ہی نے شیطان کو نکالا تو وہ آپ اپنا مخالف ہوگیا.پھر اُس کی بادشاہی کیونکر قائم رہے گی ؟‘‘ ( متی باب ۱۳ آیت ۲۶) یعنی اگر میں شیطان کی مدد سے یہ کام کر رہا ہوں تو کیا شیطان نے مجھے اپنے خلاف ہی مدد دینی تھی ؟ اگر وہ مجھے کچھ سکھاتا تو کم از کم اُسے چاہیے تھا کہ اپنے خلاف نہ سکھاتا.مگر تمہارے نزدیک تو شیطان نے مجھے وہ کام سکھلا دیا جو خود اس کو تباہ کرنےوالا ہے.گویا شیطان آپ ہی اپنا دشمن ہوگیا.اسی طرح اگر عیسائی غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم بنا کر دیا کرتے تھے تو کیا انہوں نے اپنے مذہب پر ہی تبر رکھنا تھا.اور اسی کے خلاف تعلیم بنا بنا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی تھی ؟ پس یہ اعتراض خود اپنی ذات میں اپنے باطل ہونے کا اعلان کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد محض جھوٹ اور افتراء پر ہے.اسی طرح ظُلْمًا وَّ زُوْرًا کہہ کر اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر کوئی اور جماعت ایسی کتاب بنا سکتی تھی تو اُس نے یہ کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا کر کیوں دی.اُس نے یہ کتاب خود اپنی طرف کیوں نہ منسوب کر لی.پس دوسرے لوگوں پر ایسا اتہام لگانا بہت بڑا ظلم ہے.یعنی یہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ باوجود کامل ہونے کے انہوں نے اپنا کمال ایک گھٹیا قسم کے آدمی کو دے دیا.پھر ظُلْمًا وَّ زُوْرًا کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جن غلاموں کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھایا کرتے تھے وہ تو رات اور دن اسلام کی خاطر تکلیفیں اٹھاتے رہے بلکہ اُن میں سے کئی کفار کے مظالم سہتے سہتے شہید ہو گئے.پھر اُن کی نسبت یہ کیونکر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود قرآن بنا بنا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے.جو لوگ خود ایک جھوٹی تعلیم بنا کر پیش کرتے ہوں کیا وہ اس مفتریانہ کلام کی خاطر اس قدر قربانیاں کر سکتے ہیں ؟ جس قدر صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ نے کیں.پس یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جن غلاموں نے اپنے خونوں سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی اُنہی پر کفار یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قرآن بنا کر دیا.ان غلاموں نے اسلام کی خاطر جو جو تکالیف اٹھائیں اُن کا تو تصور کرکے بھی رونا آتا ہے.عرب میں غلاموں کو کوئی پوزیشن حاصل نہیں تھی.کوئی شہری حقوق انہیں حاصل نہیںتھے.آقا اُن کو مار ڈالتے تو اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے آقائوں کی ملکیت سمجھے جاتے تھے.اُس وقت کوئی قانون نہیں تھا جو اُن کی حفاظت کر سکتا.جب بعض غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو تپتی ریتوں پر انہیں لٹایا جاتا.
اُن کو پتھروں پر گھسیٹا جاتا.یہاں تک کہ اُن کے جسم چھل جاتے اور وہ شدید زخمی ہو جاتے جب کچھ عرصہ کے بعد اُن کے زخم مند مل ہو جاتے تو پھر دوبارہ اُن کو پتھروں پر گھسیٹتے اور یہ سلوک اُن سے متواتر جاری رکھا جاتا.حضرت بلال ؓ کے متعلق تاریخوں میں آتا ہے کہ آپ کا آقا آ پ کو پیٹھ کے بل لٹا کر جو تیوں سمیت آپ کے سینہ پر کو دا کرتا.اور کہتا کہو خدا کے سوا اور بھی بہت سے خدا ہیں اور اس پر بار بار اصرار کرتا.حضرت بلالؓ حبشی تھے اور اس وجہ سے عربی اچھی طرح بول نہیں سکتے تھے جب کفا ر زیادہ ظلم کرتے اور اصرار کرتے کہ آپ توحید کے خلاف کوئی بات کہیں تو آپ بڑے جوش سے کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ خدا ایک ہی ہے.خدا ایک ہی ہے اس پر کفار اُن پر اور بھی مظالم کرنے لگ جاتے خبابؓ بن الارت بھی ایک غلام تھے جو آہنگری کا کام کیا کرتے تھے وہ نہایت ابتدائی ایام میں آپ پر ایما ن لائے.لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے تھے حتی کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر اُن پر انہیں لٹادیتے اور اوپر سے چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تاکہ آپ کمر نہ ہلا سکیں.اُن کی مزدوری کا روپیہ جن لوگوں کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہوگئے.مگر باوجود ان مالی اور جانی نقصانوں کے وہ ایک منٹ کے لئے بھی متذبذب نہ ہوئے.اور ایمان پر ثابت قدم رہے آپ کی پیٹھ کے نشان آخر عمر تک قائم رہے.چنانچہ حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ایّام میں انہوں نے اپنے گذشتہ مصائب کا ذکر کیا تو انہوں نے اُسے پیٹھ دکھانے کو کہا.جب انہوں نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر ایسے سفید داغ تھے جیسا کہ برص کے داغ ہو تے ہیں.حضرت سمیہ ؓ ایک لونڈی تھیں.ابوجہل ان کو سخت دُکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں لیکن جب اُن کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی تو ایک دن ناراض ہو کر ابوجہل نے ان کی شرمگاہ میں نیز ہ مارا اور انہیں شہید کر دیا.حضرت عمار ؓ جو سمیہ ؓ کے بیٹے تھے انہیں بھی تپتی ریت پر لٹا یا جاتا اور انہیں سخت دکھ دیا جاتا.ایک غلام صہیب ؓ تھے جو روم سے پکڑے ہوئے آئے تھے یہ عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے جنہوں نے اُن کو آزاد کر دیا تھا.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ ؐکے لئے انہوں نے کئی قسم کی تکالیف اٹھائیں(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب زیر عنوان صہیب بن سنان الرومی).پھر ابو فکیہہؓ ایک غلام تھے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی ایّام میں ایمان لائے.انہیں بھی گرم ریت پر لٹایا جاتا.ایک دفعہ رسی باندھ کر انہیں کھینچا جا رہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گذرا.اُن کے آقا نے اس کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا یہ تمہارا خدا جارہا ہے.انہوں نے کہا میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے.اس پر اس ظالم نے اُن کا گلا گھونٹا اور پھر ایک بھاری پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیا جس سے اُن کی زبان باہر نکل آئی اور وہ بے ہوش ہو گئے.لوگوں نے سمجھا کہ وہ مر گئے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے.آخر
بہت دیر کے بعد انہیں ہوش آئی (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب زیر عنوان ابو فکیہہ مولیٰ بن عبد الدار).حضرت لبینہ ؓ ایک لونڈی تھیں وہ بھی نہایت ابتدائی ایّام میں اسلام لائیں.حضرت عمر ؓ اپنے اسلام لانے سے پہلے انہیں اسلام کی وجہ سے بڑی تکالیف دیا کرتے تھے مگر وہ بڑی مضبوطی سے اپنے ایمان پر قائم رہیں(السیرۃ الحلبیۃ باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم...وما لقی ھو و اصحابہ من الاذی...).زنیرہ ؓ بھی ایک لونڈی تھیں اور ابتدائی ایّام میں ہی ایمان لائی تھیں.ابوجہل نے مار مار کر اُن کی آنکھیں پھوڑ دیں.مگر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار نہ کیا.ابو جہل انہیں دیکھ کر غصّہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہو گئے ہیں کہ زنیرہ ؓ نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا.اسی طرح نہدیہ ؓ اور ام عبیس ؓ دو کنیزیں تھیں جو مکی زندگی میں اسلام لائیں.اور دونوں نے اسلام لانے کی وجہ سے بہت سخت مصائب برداشت کئے.عامر بن فہیرہ ؓ بھی ایک غلام تھے جنہیں حضرت ابوبکر ؓ نے آزاد کر دیا تھا.انہیں بھی اسلام لانے کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں.حمامہ ؓ حضرت بلال ؓ کی والدہ تھیں یہ بھی اسلام لائیں اور انہوں نے اسلام کی خاطر بڑی تکالیف اٹھائیں پھر بعض غلاموں کو مکہ والوں نے اس طرح بھی قتل کیا کہ اُن کی دونوں ٹانگیں دو اونٹوں سے باندھ دیتے اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا دیتے اور وہ کٹ کر ہلاک ہو جاتے (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ اطلع الغیب ام اتخذ عند الرحمان عھدا، السیرۃ الحلبیۃ باب استخفاءہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم...).اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والے ہوتے اور یہ غلام آپ کو قرآن بنا بنا کر دیا کرتے تو یہ لوگ یقیناً آپ کے دشمن ہوتے کہ آپ پر ایمان لا کر آپ کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے.کفار کے اس اعتراض کے ضمن میں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا یہ کلام ان غلاموں کا سکھا یا ہوا ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ جنہیں تم قصے کہتے ہو وہ قصے ہے ہی نہیں بلکہ پیشگوئیاں ہیں.اور ان کو بیان کرنے والا آسمانوں اور زمین کے غیبوں کو جاننے والا خدا ہے.جس نے اپنے غفور اور رحیم ہونے کے سبب سے تمہارے علاج کا سامان کیا ہے یعنی اسرارِ آسمانی اور اسرارِ زمینی دونوں کو اس کتاب میں کھول کر بیان کر دیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ کا معاملہ جو بندوں سے ہوتا ہے اس پر بھی اس میں پوری تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور مختلف مواقع پر بندے جن خیالات اور جذبات کا اظہار کیا کرتے ہیں اُن کا بھی اس میں مکمل ذکر ہے ،پھر جس تعلیم میں تمام قسم کی
فطرتوں کے راز بیان کر دئیے گئے ہیں خواہ وہ عرب میں ہوں یا ہندوستان میں ہوں.یا امریکہ میں ہوں یا یورپ میں ہوں اور ہر قسم کی فطری ضروریا ت کا سامان اس میں موجود ہے.ادھر خدا تعالیٰ کے وہ تمام قسم کے سلوک جو اس کے بندوں سے ہوتے ہیں چاہے وہ پہلے ہوئے ہوں یا آئندہ ہوںگے.ان سب کو اس میں بیان کیا گیا ہے.اس تعلیم کو ان تعلیمات کی نقل کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے.آخر کون سی سابق تعلیم ایسی ہے جس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں.پہلی کتابیں تو وہ تھیں جن کا دائرہ ہدایت بہت محدود تھا.وہ محدود الزمان اور محدود الاوقات تعلیمات تھیں اور پھر صرف ایک ایک علاقہ کے لئے تھیں.ساری دنیاکے لئے نہیں تھیں اس لئے ان کتب میں ہر فطرت کا لحاظ نہیں رکھا گیا.تورات میں صرف یہودی قوم کی اصلاح کو مدنظر رکھا گیا ہے باقی قوموں کو مدنظر نہیں رکھا گیا.اسی طرح اس میں سارے زمانوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا.مگر قرآن وہ کتاب ہے جو ساری قوموں اور سارے زمانوںکے لئے ہے.وہ یہودیوںکے لئے بھی ہے وہ عیسائیوںکے لئے بھی ہے.وہ مسلمانوںکے لئے بھی ہے.وہ ہندوؤںکے لئے بھی ہے.وہ یوروپین لوگوںکے لئے بھی ہے.وہ چینیوںکے لئے بھی ہے وہ جاپانیوںکے لئے بھی ہے.وہ وحشیوںکے لئے بھی ہے اور غیر وحشیوںکے لئے بھی ہے.غرض کوئی قوم ایسی نہیں جس کی ہدایت کے لئے قرآن نہ آیا ہو.اور کوئی زمانہ ایسا نہیں جس میں قرآن کی ضرورت سے انکار کیا جا سکتا ہو پھر جب قرآن کریم کی یہ شان ہے تو یہ لوگ کس طرح کہتے ہیں کہ یہ قرآن پہلی کتابوں کی نقل ہے.پُرانے لوگوں کے حالات تو تاریخ سے ہر ایک کو معلوم ہو جاتے ہیں.لیکن اس کتاب میں تو وہ اسرار اور پیشگوئیاں بھری ہوئی ہیں جن کو کوئی بندہ جان ہی نہیں سکتا.پھر اس علمِ غیب کو پُرانے لوگوں کے واقعات کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے.چنانچہ دیکھ لو اس زمانہ میں جبکہ اسلام ابھی مکّہ کی چار دیواری میں محدود تھا اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑی بڑی تکالیف دی جارہی تھیں اُن کو قتل کیا جا تا تھا.ان کو مارا پیٹا جا تا تھا.اُن کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا.اُن کی جائیدادیں اور مکان چھینے جاتے تھے اور جبکہ مکّہ والوں کے زمین کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ وہ تباہ ہو جائیںگے اور عنانِ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ آجائی گی اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وَ لَقَدْ جَآءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ.كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كُلِّهَا فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ.اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِ.اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ.بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ ( القمر :۴۲ تا ۴۷) یعنی ہم نے موسیٰ ؑ کے ذریعہ فرعون کو جو مصرکا بادشاہ تھا اور بنی اسرائیل پر ظلم کیا کرتا تھا ڈرایا کہ دیکھو ہمارے بندے کا مقابلہ نہ کرو ورنہ نقصان اٹھائو گے.مگر اُس نے پرواہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی بے اعتنائی اور تکذیب کی وجہ سے ہم نے اُس کو پکڑ لیا اور پھر
معمولی طور پر نہیں پکڑا بلکہ ایک غالب اور قادر کی حیثیت سے پکڑا.بعض لوگ گرفت تو کرتے ہیں مگر دشمن ان کی گرفت سے نکل جاتا ہے.لیکن فرماتا ہے ہماری گرفت ایسی تھی کہ ایک تو اس گرفت سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا اور دوسرے ہماری سزا ایسی تھی جس سے کوئی بچ نہیں سکتا تھا.اور پھر اس میں رحم کا جزو بھی پایا جاتا تھا کیونکہ مقتدر آدمی جو جانتا ہے کہ میں ہر وقت سزا دے سکتا ہوں کبھی ایسی سختی نہیں کرتا جو ناقابلِ برداشت ہو کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں پھر بھی عذاب دے سکتا ہوں.گورنمنٹیں سزا دیتی ہیں تو بعض لوگ ان سزائوں سے بچ بھی جاتے ہیں وہ پھانسی کی سزا دیتی ہیں تو بعض لوگ جیل والوں سے مل جاتے ہیں اور وہ انہیں زہر مہیا کر دیتے ہیں یا اپنے رشتہ داروں کے ذریعہ سے زہر منگوا لیتے ہیں اور وقت سے پہلے زہر کھا کر مر جاتے ہیں.دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب جرمنی کو شکست ہوئی اور گوئر نگ پکڑا گیا تو بڑی شان سے اعلان کیا گیا کہ ہم فلاں دن گوئرنگ کو پھانسی پر لٹکائیں گے اور سمجھا گیا کہ اس کا لوگوں پر بڑا اثر ہوگا.اور وہ سمجھیں گے کہ جرمن بڑے ذلیل ہوئے ہیں لیکن جب پھانسی دینےکے لئے وہ اس کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ مرا پڑا تھا.معلوم ہو اکہ کسی نہ کسی طرح جرمنوں نے اندر زہر پہنچا دیا.اور وہ کھا کر مر گیا (Encyclopedia of the Second World War p 172 underword Goring) تو انہوں نے پکڑا تو سہی مگر جو ارادہ تھا کہ ہم اُسے سزا دیں گے ا س میں وہ کامیاب نہ ہوئے گویا یہ اَخْذَ عَزِیْزٍ تو تھا مگر اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ نہیں تھا.یعنی پکڑ تو لیا مگر جس قسم کی سزاد ینا چاہتے تھے اُس میں ناکام ہو گئے.پھر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ سزا سے بھی پہلے نکل جاتے ہیں.جیل خانوں سے لوگ بھاگ جاتے ہیں ہتھکڑیاں لگنے سے پہلے فرار اختیار کر لیتے ہیں.اور پھر بعض دفعہ قریبًا ساری عمر نہیں پکڑے جاتے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی حکومتوں میں یہ دو باتیں ہوا کرتی ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مجرم بھاگ جاتا ہے لیکن ہم ایسا پکڑتے ہیں کہ وہ بھاگ نہیں سکتا.پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ پکڑ تو لیتی ہے مگر اُسے سزا نہیں دے سکتی.وہ پھانسی کی سزا تجویز کرتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا ہارٹ فیل ہو جاتا ہے اور وہ پھانسی دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن ہم نے اُسے اس طرح پکڑاکہ وہ بھاگ نہ سکا اور پھر جو سزا تجویز کی وہ اُسے مل کر رہی.اس ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِ اے مکّہ والو! تم بتائو تو سہی کہ وہ جو موسیٰ ؑ کے منکر تھے کیا تم اُن سے بہتر ہو.اگر موسیٰ ؑ کے منکروں کو سزائیں ملی تھیں تو تم کیا سمجھتے ہو.آیا یہ کہ تمہیں سزا نہیں دی جا سکتی یا یہ کہ خدائی کتابوں میں تمہارے متعلق کوئی ضمانت آئی ہوئی ہے کہ ہم مکہ والوں کو کچھ نہیں کہیں گے.بیشک خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ تو کیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کر ےگا.مگر اس نے یہ کہیں نہیں کہا
کہ وہ تم کو بھی سزا نہیں دے گا.اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم بڑا جتھا رکھتے ہیں اور ہم ان مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے.سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ بیشک ان کفار کی طرف سے حملے ہوںگے اور قوموں کی قومیں اکٹھی ہو جائیں گی اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ پر حملہ کریں گی.لیکن سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ اُن کے لشکر جو اکٹھے ہوںگے اُن کو شکست دی جائےگی وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ جائیں گے.پھر فرماتا ہے بَلِ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرُّ یہ جو تم پر تباہی کی گھڑی آئے گی یہ فرعون کی گھڑی سے بھی زیادہ خطرناک ہو گی.اب بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ فرعون کی گھڑی سب سے زیادہ خطرناک تھی کیونکہ وہ ڈوب گیا اور اس کی فوج تباہ ہوگئی.لیکن فرماتا ہے کہ تمہاری تباہی فرعون کی تباہی سے بھی زیادہ خوفناک ہو گی.چنانچہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو واقعہ میں کفّار مکہ کو فرعونیوں سے زیادہ سخت سزا ملی.موسیٰ ؑ کو اپنی زندگی میں مصر کا قبضہ نہیں ملا کیونکہ اُن کے پیروؤں نے کنعان پر حملہ کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو دشمن تھا.اس کو صرف شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پر قابض ہو گئے پس مکہ والوں کو موسیٰ ؑ کے دشمنوں سے زیادہ سخت سزا ملی کیونکہ وہ قومی طور پر محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت آگئے.اب بتائو کیا یہ خبر ایسی تھی جسے کوئی انسان اپنی طرف سے بنا کر پیش کر سکتا تھا.یا اسے پورا کرنے کی طاقت رکھتا تھا.یہ خبر ایسے وقت میں دی گئی تھی جبکہ مسلمان انتہائی کمزوری اور کسمپرسی کی حالت میں تھے اور ان پر عرب کے متحدہ حملہ کا کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا.مگر کئی سال پہلے عالم الغیب خدا کی طرف سے خبر دی گئی کہ ایک دن مسلمان اتنی طاقت پکڑ جائیں گے کہ کفار متحدہ طور پر ان کو مٹانے کے لئے جمع ہو جائیں گے لیکن اِدھر وہ جمع ہورہے ہوںگے اور اُدھر خدا اپنے رسول کی مددکے لئے دوڑا چلا آرہا ہوگا.اور جب دشمن وہاں پہنچے گا تو وہاں خدا موجود ہوگا جسے دیکھ کر وہ حواس باختہ ہو جائےگا.چنانچہ جنگِ احزاب میں دشمن کی چوبیس ہزار فوج مدینہ پر حملہ کرنےکے لئے جمع ہوئی جبکہ مسلمان صرف بارہ سو تھے.اور پھر ان بارہ سو میں سے بھی پانچ سو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے الگ کر لئے گئے تھے.او ر باقی صرف سات سو سپاہی رہ گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسی مدد کی کہ یہ چوبیس ہزار کا لشکر سات سو کے مقابلہ میں بھاگ گیا.اور خدا نے اپنے رسول کو فتح دی.اللہ تعالیٰ اسی قسم کے آسمانی اسرار اور پیشگوئیوں کو کفار کے اعتراض کے جواب میں پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا یہ کہنا کہ یہ کتاب خدا نے نازل نہیں کی.بلکہ بعض لوگوں نے مل کر بنا لی ہے بالکل جھوٹ ہے.کیونکہ اس کتاب میں ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کو کوئی انسانی دماغ وضع نہیں کرسکتا اور جن سے اس کا منجانب اللہ ہونا روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے.
پھر تعجب ہے کہ کفار نے یہ اعتراض تو کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سابق انبیاء اور اُن کی قوموں کے حالات عیسائی غلاموں سے لکھوا لیتے ہیں اور پھر وہ واقعات صبح شام اُن کے سامنے پڑھے جاتے ہیں تاکہ یا د رہیں مگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ اس زمانہ میں تورات اور انجیل کا کوئی عربی نسخہ بھی موجود تھا جس کی مدد سے یہ قرآن تیار کیا گیا.حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں بائیبل کے عربی ترجمہ کی طرف ابھی عیسائیوں کو کوئی توجہ ہی پیدا نہیں ہو ئی تھی.یہاں تک کہ مدینہ اور اس کے اردگر د جو یہودی قبائل آباد تھے اُن کے پاس بھی بائیبل کا کوئی عربی نسخہ نہیں تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کبھی کسی حوالہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے دریافت فرمایا کرتے تھے جو عبرانی زبان جانتے تھے(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ آل عمران باب قل فأتوا بالتوراۃ...) اور وہ عبرانی تورات کو دیکھ کر آپ کو جواب دیتے.یہ حقیقت ایسی روشن ہے کہ خود مسیحی مصنفوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے.چنانچہ ایک مشہور مسیحی مصنّف ڈاکٹر الیگزینڈر لکھتے ہیں کہ بائیبل کا پُرانے سے پُرانا عربی ترجمہ آٹھویں صدی سے اوپر نہیں جاتا (حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھٹی صدی میں پیدا ہوئے تھے ) THE TEXT AND CANNON OF THE NEW TESTMENT by Dr.ALEXANDER SOOTER page 74 & ENCYCLOPEDIA of RELIGION & ETHICS vol.9 p 481 by JAMES HASTINGS پس جبکہ اس وقت تک تورات اور انجیل کا کوئی عربی ترجمہ ہی نہیں ہو اتھا تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عیسائی غلام بائیبل سے پُرانے واقعات آپ کو سناتے تھے اور آپ انہیں یاد کر لیتے تھے.یہ تو اس اعتراض کا وہ جواب ہے جو قرآن کریم نے ان آیات میں بیان فرمایا لیکن اس کے علاوہ اصولی طور پر بھی قرآن کریم نے اس سوال کا جواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ان کفار کا یہ خیال درست ہے کہ کئی لوگوں نے مل کر یہ کتاب بنالی ہے تو وہ ایسی ہی خوبیاں رکھنے والی کوئی اور کتا ب بنا کر دکھا دیں.پھر دنیا پر خود بخود ظاہر ہو جائےگا کہ ان کا یہ دعویٰ درست ہے یا غلط کیونکہ جو کام چند آدمی مل کر کر سکتے ہیں ویسا ہی کام سو یا ہزار اور آدمی بھی مل کر کر سکتے ہیں.لیکن اگر وہ اس کتاب کی کوئی مثل تیار نہ کر سکیں تو ثابت ہو جائےگا کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل میں اس جواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ( بنی اسرائیل :۸۹)یعنی تو انہیں کہہ دے کہ اگر تمہارے چھوٹے بھی اور بڑے بھی اور عالم بھی اور جاہل بھی اور امیر بھی اور غریب بھی سب مل کر اس قرآن کی کوئی نظیر لانا چاہیں تو وہ اس کی نظیر کبھی تیار نہیں کر سکیں گے خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہو جائیں.اس
آیت میں بتا یا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ قرآن کریم کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو پھر کیوں وہ الٰہی خوبیوں جیسا کوئی اور کلام تیار کر کے نہیں دکھا دیتے.جس طرح قرآن کریم میں ہر ضروری دینی مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اور ایسا کلام تیار کروا دیں جس میں عبادات اور معاملات اور اخلاق اور اقتصاد اور سیاسیات وغیرہ کے متعلق بنی نوع انسان کے سامنے ایک جامع تعلیم پیش کی گئی ہو اور جس میں کسی ایک قوم یا طبقہ کا فائدہ ملحوظ نہ رکھا گیا ہو بلکہ تمام دنیا کی ضروریات اور اُن کے فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اُن کی دینی اور دنیوی بہبودی کے لئے ایک کامل اور بے عیب قانون پیش کیا گیا ہو.اگر وہ ایسا کر دیں تو پھر اُن کا یہ دعویٰ ثابت ہو جائےگا کہ اس قرآن کی تیاری میں اور لوگوں کا ہاتھ ہے.لیکن اگر وہ ایسا نہ کر سکیںاور قیامت تک نہیں کر سکیں گے تو پھر ثابت ہو جائےگا کہ انہوں نے جو کچھ کہا تھا غلط کہا تھا.چنانچہ دیکھ لو باوجود اس کے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ پر چودہ سو سال گذر چکے ہیں اور دنیا نے قرآن کریم کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی پھر بھی وہ آج تک اس قرآنی چیلنج کو قبول نہیں کر سکی اور اس طرح اپنے عجز اور بے چارگی سے وہ ثابت کر چکی ہے کہ یہ کلام انسانوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا نازل کر دہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی کوئی انسان طاقت نہیں رکھتا.وَ قَالُوْا مَالِهٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي اور وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ کھانا بھی کھاتا ہے اوربازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ کیوں نہ اس پر فرشتہ اتار ا گیا جو اس کے ساتھ کھڑا ہو کر لوگوں کو ہوشیار کرتا یا اس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا نَذِيْرًاۙ۰۰۸اَوْ يُلْقٰۤى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس کے پھل وہ کھاتا.اور ظالم کہتے ہیں کہ تم تو مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جس کو کھانا کھلایا جاتا ہے دیکھ!
مَّسْحُوْرًا۰۰۹اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یہ تیرے متعلق کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں اور وہ گمراہ ہو چکے ہیں يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ سَبِيْلًاؒ۰۰۱۰ پس ان کو کوئی (صحیح بات کہنے کا) رستہ نہیں ملتا.حلّ لُغَات.اَلْکَنْزُ.اَلْکَنْزُ اَلْمَالُ الْمَدْفُوْنُ فِیْ الْاَرْضِ.کَنْز اس مال کو کہتے ہیں جو زمین میں مدفون ہو.وَقِیْلَ اِسْمٌ لِلْمَالِ اِذَا اُحْرِزَفِیْ وِعَائٍ اور بعض ماہرین لُغت کہتے ہیں کہ کنز اُس مال کو کہتے ہیں جو کسی تھیلے وغیرہ میں جمع کیا گیا ہو.نیز اس کے معنے ہیں اَلذَّھَبُ : سونا اَلْفِضَّۃُ : چاندی.مَایُحْرَزُ فِیْہِ الْمَالُ کَالْمَخْزَنِ وَالصَّنْدُوْقِ صندوق یا اور ایسی اشیاء جن میں روپیہ وغیرہ محفوظ کیا جاتا ہے.(اقرب) مَسْحُوْر مسحور سَحَرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور سَحَرَہٗ کے معنے ہیں عَمِلَ لَہُ السِّحْرَ وَ خَدَعَہٗ.اُس پر جادو کیا اور اُس کو دھوکا دیا اور سَحَرَ عَنْہُ کے معنے ہیں تَبَا عَدَ.دور ہوگیا اور جب سَحَرَ فُلَانًا عَنِ الْاَمْرِ کہیں تو اس کے معنے ہوںگے صَرَفَہٗ اُس کو کسی بات سے روکے رکھا.( اقرب) مفردات میں ہے کہ سِحْر غذا کو بھی کہتے ہیں ( مفردات )پس مَسْحُوْر کے معنے ہوںگے ( ۱) جادو کیا ہوا (۲) دور کیا ہوا (۳) وہ شخص جس کو رشوت اور کھانےکے لئے غذا دی گئی ہو.تفسیر.فرماتا ہے.وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہو گیا کہ یہ کھانابھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.کیوں نہ اس پر کوئی فرشتہ اُترا.جو اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو ہوشیار کرتا پھرتا.یہ اکیلا کیوں ہے یا اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترا.یا اس کے ساتھ کوئی باغ کیوں نہ ہوا.جس میں سے یہ پھل کھاتا اور ظالم کہتے ہیں کہ اے مسلمانو !تم تو ایک ایسے انسان کے پیچھے چلتے ہو جس کو کھانا کھلایا جاتا ہے.فرماتا ہے.دیکھو یہ تیرے متعلق کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں یعنی کبھی تو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سچا رسول ہوتا تو کسی بہت بڑے باغ کا مالک ہوتا اور اس میں سے خوب پھل کھاتا پھر بے شک ہم ایمان لے آتے.حالانکہ اگر کھانا کھانا نبوت کے منافی ہے تو پھل اور میوے کھانا کسی نبی کی صداقت کا ثبوت کس طرح ہو گیا ؟ مگر چونکہ وہ کسی معقول
بنیاد پر اعتراض نہیں کرتے اس لئے کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں اور کبھی کچھ.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار مکہ کا یہ اعتراض کرنا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے بتا رہا ہے کہ مذہب اور رُوحانیت سے کلی بے گانگی کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو چکا تھا کہ جن لوگوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے وہ کھانے پینے کی ضروریات سے مستغنی ہو کر رات دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی مشغول رہتے ہیں.ہندو قوم میں بھی ہمیں یہی تخیل نظر آتا ہے چنانچہ اُن میں حضرت بدھ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ گیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھے اور سالہا سال بیٹھے رہے یہاں تک کہ ایک بانس کا درخت اُن کے نیچے سے نکلا اور اُن کے سر سے پار ہو گیا.مگر محویت کی وجہ سے اُن کو یہ پتہ ہی نہ چلا کہ یہ کیا ہو گیا ہے.گویا اُن کے نزدیک حضرت بدھ نے سالہا سال بغیر کچھ کھائے پیئے کے گذار دئیے.اسی قسم کے خیالات بد قسمتی سے مسلمانوں کے ایک طبقہ میں بھی پیدا ہو گئے ہیں.اور وہ بھی یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ بزرگ وہی ہوتا ہے جو حد درجہ غلیظ اور گندہ ہو.پاکیزہ اور طیب چیزیں استعمال نہ کرے.پلائو کھانے لگے تو تھوڑا سا پاخانہ بھی اُس میں ملا لے.بال کبھی نہ کٹوائے.دانتوں کی کبھی صفائی نہ کرے اور یہ تو ہّم اُن میں اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ مادر زاد ننگے فقیروں اور فاترالعقل انسانوں کو بھی بزرگ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں.آج بھی ہزاروں مسلمان ایسے ہیں جو اس قسم کے دیوانوں کو خدا رسیدہ سمجھتے اور اکلِ حلال اور نظافت کو بزرگی کے منافی سمجھتے ہیں.کہتے ہیں فلاں بزرگ ایک جگہ بیٹھے تو چالیس سال تک انہوں نے اپنا سر نہ اٹھایا اور زمین پر بیٹھے بیٹھے گڑھا پڑ گیا.بانیٔ سلسلہ احمدیہ بھی چونکہ نبوت کےمدعی تھے اس لئے آپ پر بھی کھانوں کے متعلق اعتراض کیا گیا.آپ بعض امراض کی وجہ سے مشک اور عنبر اور بادام روغن وغیرہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے.اور یہ بات اُن لوگوں کو عجیب معلوم ہوتی تھی جو ان چیزوں کا استعمال رُوحانیت کے منافی سمجھا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ایک دفعہ درس دے کر مسجد اقصیٰ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں ایک ہندو جو ریٹائرڈ ڈپٹی تھا اور جس کا مکان بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاترکے لئے خرید لیا گیا تھا.بڑے ادب کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.مولوی صاحب میں نے ایک بات پوچھنی ہے.آپ خفا تو نہیں ہوںگے آپ نے فرمایا.مجھے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے.آپ شوق سے دریافت فرمائیں وہ کہنے لگا.میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب مشک اور عنبر اور بادام روغن اور پلائو وغیرہ بھی کھا لیتے ہیں.کیا یہ ٹھیک ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے وہ یہ غیر متوقع جواب سن کر سخت حیران ہوا.اور کہنے لگا کیا فقیروںکے لئے بھی یہ چیزیں جائز ہیں ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہمارے مذہب میں فقراءکے لئے بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس جواب سے وہ سخت حیران ہوا اور اچھا کہہ کر چلا گیا.یہ تو
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جو تہذیب اور شرافت سے بات کرنے کے عادی تھے.ہمارے ایک دوست جو تیز زبان تھے اور امرتسر کے رہنے والے تھے اُن کو کوئی ہندو مجسٹریٹ مل گیا.اور کہنے لگا کیا ہے تمہارا مرزا ! تم کہتے ہووہ خدا کا مامور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے.ہم نے تو سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے.وہ کہنے لگے آپ مرزا صاحب کو چڑانےکے لئے پاخانہ کھایا کریں مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.غرض جس طرح موجودہ زمانہ میں اعلیٰ درجہ کی چیزوں کا کھانا پینا پہننا اور عطر وغیرہ لگانا بزرگی کے منافی سمجھا جاتا ہے اسی طرح اس زمانہ میں کفار نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عجیب رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے.اُن نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول تو اپنی قوم کا راہنما ہو تا ہے.اگر وہ کھانا نہیں کھائےگا تو اس کی امت کو یہ کیونکر پتہ لگے گا کہ کس طرح کھانا چاہیے اور کیا کیا کھانا چاہیے.اور کن کن چیزوں کو حرام سمجھنا چاہیے.کھانا انسانی تمدن اور معاشرت کا ایک اہم جزو ہے.اور اس کے متعلق ایک جامع تعلیم اور کامل نمونہ کا موجود ہونا ضروری تھا.سو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دنیاکے لئے اس بارہ میں بھی نمونہ بنایا اور آپ ؐ کے ذریعہ اُس نے وہ تعلیم دی جو آج بھی کھانے پینے کے معاملات میں بنی نوع انسان کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کے دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے اور جس سے اغماض کر کے کوئی انسان سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا.بازاروں میں چلنے پھرنے کا اعتراض بھی بتاتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شخص خدا رسیدہ ہونے کا مدعی ہو تو اس کی ضروریات کا خدا تعالیٰ کو خود متکفل ہو نا چاہیے اور عام لوگوں کی طرح اُسے سامانِ معیشت کی بہم رسانی کے لئے مادی اسباب اور وسائل کا محتاج نہیں ہونا چاہیے.یہ خیال بھی ایسا ہے جو بدقسمتی سے آج کل مسلمانوں کے ایک طبقہ کے اندر پایا جاتا ہے اور وہ کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے جنات اپنے قابو میں کئے ہوئے تھے اور وہ جب چاہتے تھے اُن کے ذریعہ بے موسم کے پھل منگوالیتے تھے.گویا انہیں خود کوئی جدوجہد اور کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی بلکہ کسی غیر مرئی مخلوق سے ہی وہ سب کا م لے لیا کرتے تھے.پھر انہی خیالات کا ایک نتیجہ توکل کا وہ غلط مفہوم بھی ہے جو مسلمانوں میں پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ توکل اس بات کا نا م ہے کہ انسان اسباب سے کام نہ لے اور خدا تعالیٰ پر کامل انحصار رکھے.غرض ایک رنگ میں یہ بھی وہی نظریہ ہے جو کفارِ مکہ کا تھا کہ خدارسیدہ وہی ہوتا ہے جو کھانے پینے کی ضروریات اور سامان معیشت کی فراہمی سے مستغنی ہو اور اس کے لئے غیب سے رزق مہیا ہو جاتا ہو.پھر کفار نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور کہا کہ اگر خدا نے اسے دنیا کی ہدایت کے لئے بھجوایا تھا تو وہ اُس کے ساتھ کوئی فرشتہ تو اتارتا.جس طرح مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ؑجب آسمان سے نازل ہوگا تو فرشتوں کے کندھوں
پر اُس نے ہاتھ رکھا ہوا ہو گا اور اُسے دیکھتے ہی سب دنیا سمجھ جائے گی کہ مسیح ؑ آگیا اور اُس پر ایمان لے آئےگی.پھر کہتے ہیں اگر فرشتہ نہیں اُترا تھا تو کم ازکم اس کے ساتھ کوئی خزانہ تو ہونا چاہیے تھا جسے دیکھ کر ہم بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتے مگر یہ تو دوسروں کو کچھ دینے کی بجائے اُن سے چندے مانگتا پھرتا ہے.ایسے رسول کو ہم کس طرح مان لیں.افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ کفار کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں نکلوا کر اُن کی غلطی واضح کی تھی پھر بھی مسلمانوں نے نہ سمجھا اور انہوں نے بھی آنے والے مسیح ؑ اور مہدی کے متعلق یہ نظریہ قائم کر لیا کہ وہ آتے ہی اس قدر مال لٹائے گا کہ کوئی شخص غریب نہیں رہے گا.گو یا زمین کے سب خزائن اُس کے قبضہ میں ہوںگے اور وہ مال و دولت کے انبار لوگوں میں تقسیم کرتا چلا جائے گا.پھر کفار نے کہا کہ اگر کوئی خزانہ اس پر نہیں اُترا تھا تو کم ازکم اسے کوئی باغ تو ملتا جس کے یہ پھل کھایا کرتا مگر اس کی تو یہ حالت ہے کہ مکہ اور طائف کے وہ سردار جو اس کے دشمن ہیں اُن کے پاس تو بڑے بڑے باغات ہیں اور اس کے پاس کوئی چھوٹا سا باغ بھی نہیں.یہ دلائل اُن لوگوں کے نزدیک اتنے وزنی تھے کہ وہ ان کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے پاس نہیں تو یہ شخص سچا کس طرح ہو گیا اور اس کے پیچھے چلنے والے ہدایت یافتہ کس طرح ہوگئے.یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ جو لوگ اسے مان رہے ہیں وہ نعوذباللہ اس کے دھوکا اور فریب میں آگئے ہیں اُن کے ان اعتراضات کا اگلی آیت میں جواب دیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ تم ان اعتراضا ت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کو روک نہیں سکتے.ایک دن آنے والا ہے جب تمہارے یہ تما م اعتراضات دھرے کے دھرے رہ جائیںگے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر غالب آجائیںگے.تَبٰرَكَ الَّذِيْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ بہت برکت والا ہے وہ خدا جو چاہے تو تیرے لئے ( اُن کے تجویز کردہ ) اُس باغ سے بہت بہتر باغات پیدا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ يَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا۰۰۱۱ کر دے جن (کے سایہ) میں نہریں بہتی ہوں اور تیرے لئے بڑے بڑے محل تیار کر دے.تفسیر.فرماتا ہے.بڑی برکت والا وہ خدا ہے جو اگر چاہے تو تجھے ان کے منہ مانگے باغ سے بہت بہتر باغات دے دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں.اور تجھے بڑے بڑے محلات کا مالک بنا دے.یعنی یہ تو تجھ سے ایک باغ مانگتے ہیں مگر ان نادانوں کو کیا معلوم کہ ہم نے تیرے لئے کیسے کیسے عظیم الشان باغات اور محلات مقدر کئے
ہوئے ہیں.یہ مسلمانوں کی آج کی بے بسی اور ان کی کمزوری کو دیکھ کر طعنہ زنی کر رہے ہیں مگر مستقبل اُن کی نظروں سے پوشیدہ ہے.اور وہ یہ نہیں جانتے کہ جن باغات پر اُن کا قبضہ ہے اور جن خزانوں پر انہیں ناز ہے.ایک دن آنے والا ہے کہ وہ اُن کے ہاتھو ں سے چھینے جائیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھیوں کو دے دئیے جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کیا اور محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سے اُس نے مسلمانوں کو بڑے بڑے باغات اور محلات عطا فرمائے.وہ طائف اور نخلہ کے باغوں کے بھی مالک ہوئے اور قیصرو کسریٰ کے خزانوں کے بھی مالک ہوئے اور ان ہیروں اور جواہرات کے ڈھیر اُن کے قبضہ میں آئے.اور یہ سب کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوا.چنانچہ غزوۂ احزاب میں جب مدینہ کی حفاظت کے لئے خندق کھودی جارہی تھی تو اچانک ایک پتھر ایسا آگیا جو باوجود کوشش کے صحابہ ؓ سے ٹوٹ نہ سکا.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور کدال ہاتھ میں لی اور زور سے اس پتھر پر ماری.پتھر میں سے روشنی کی ایک شعاع نکلی اور آپ نے بلند آواز سے فرمایا اَللّٰہُ اَکْبَر.آپ ؐ کے نعرہ تکبیر بلند کرنے پر صحابہ ؓ نے بھی زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا.پھر دوسری دفعہ آپ ؐ نے کدال ماری تو پھر اُس میں سے روشنی کی شعاع نکلی اور آپؐ نے پھر فرمایا اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اور صحابہ ؓ نے بھی بڑے جوش سے کہا اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اس کے بعد تیسری دفعہ آپ ؐ نے کدال ماری تو پھر اُس میں سے ایک شعا ع نکلی اور آپ ؐ نے فرمایا اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اور صحابہ ؓ نے بھی کہا اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اور وہ پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا.جب پتھر ٹوٹ چکا تو صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ ؐ نے کدال مارتے وقت تین دفعہ اللہ اکبر کیوں کہا تھا.آپ نے فرمایا.جب پہلی دفعہ پتھر میں سے روشنی نکلی تو مجھے کشفی حالت میں قیصرروم کے محلات دکھائے گئے اور اُن کی کنجیاں میرے سپرد کی گئیں.پھر دوسری دفعہ میں نے کدال ماری تو مجھے مدائن کے سفید محلات دکھائے گئے اور مملکت ِ فارس کی کُنجیاں مجھے دی گئیں.اس کے بعد تیسری دفعہ میں نے کدال ماری تو مجھے صنعاء کے دروازے دکھائے گئے اور مملکت ِیمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں.پس تم ان خدائی وعدوں پر ایمان لائو اور یقین رکھو کہ دشمن تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.وہ یقیناً مغلوب ہوگا اور خدا تعالیٰ تمہیں کامیابی و کامرانی عطا فرمائےگا.انہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس قدر فتوحات عطا فرمائیں کہ قیصرو کسریٰ جیسی عظیم الشان سلطنتوں کی انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اُن کے بڑے بڑے محلات اور باغات اور جواہرات اور بیش قیمت نوادرات مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے.انہی فتوحات کے نیتجہ میں ایک دفعہ کسریٰ شہنشاہ ایران کا رومال جو وہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا.
حضرت ابوہریرہ ؓ کو ایک دفعہ نزلہ کی شکایت تھی.انہیں کھانسی اٹھی تو انہوں نے کسریٰ شہنشاہ ایران کا رومال اپنی جیب سے نکا ل کر اُس میں تھوک دیا اور پھر بے اختیار کہنے لگے.بَخِ بَخِ ابوھریرہ ! یعنی واہ واہ ابوہریرہ تیری بھی کیا شان ہے.پا س بیٹھنے والوں نے جب اُن کا یہ فقرہ سنا تو چونکہ وہ لوگ حدیث العہد تھے انہوں نے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے.انہوں نے کہا ایک زمانہ مجھ پر ایسا گذرا ہے جب مجھے سات سات وقت کا فاقہ آجاتا تھا اور میں شدتِ بھوک کی وجہ سے بیہوش ہو جایا کرتا تھا.مگر لوگ غلطی سے یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ اس کے علاج کے طورپر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میرے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے حالانکہ مجھے بھوک کی شدت کی وجہ سے غشی ہو ا کرتی تھی نہ کہ کسی بیماری کی وجہ سے.مگر آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی برکت سے میری یہ حالت ہے کہ میں کسریٰ شہنشاہ ِ ایران کے رومال میں تھو ک رہا ہوں (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب ما ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم و حضّ علی اتّفاق اھل العلم وما اجتمع علیہ الحرمان).اسی طرح ہجرت کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو چونکہ مکہ والوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جو شخص محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گرفتار کر کے لے آئےگا اُسے سو اونٹنیاں انعام دی جائیںگی.اس لئے کئی لوگ آپ کی تلاش میں ادھر اُدھر نکل کھڑے ہوئے.اُنہی لوگوں میں سراقہ ؓبن مالک ایک بدوی رئیس بھی تھا جو انعام کے لالچ میں آپؐ کے پیچھے روانہ ہوا.اور جب اُس نے آپؐ کو دیکھ لیا تو وہ خوشی سے پھُولا نہ سمایا اور اُس نے سمجھا کہ اب میں آپؐ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائوں گا مگر اللہ تعالیٰ اُسے اپنا نشان دکھانا چاہتا تھا.جب وہ آگے بڑھا تو اچانک اُس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ زمین پر گر گیا.سراقہ ؓ جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ خود اپنا واقعہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو عرب کے قدیم دستور کے مطابق میں نے اپنے تیروں سے فال لی کہ مجھے آگے بڑھنا چاہیے یا نہیں.اور فال یہ نکلی کہ آگے نہیں بڑھنا چاہیے مگر انعام کی لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کے پیچھے دوڑا.جب میں آپ کے اورقریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور میں نیچے گِر گیا.اُس وقت میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پائوں اتنے دھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا میرے لئے مشکل ہو گیا.آخر میں نے سمجھ لیا کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے.چنانچہ میں یا تو آپؐ کو گرفتار کرنےکے لئے آیا تھا اور یا خود آپ ؐ کا عقیدت مند اور شکار بن کر نہایت ادب کے ساتھ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور میں نے عرض کیا کہ میں اس ارادہ کے ساتھ آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا ہے.اور واپس جا رہا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ
خدا آپ ؐ کے ساتھ ہے.جب سراقہ ؓ لوٹنے لگا تو معًا اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالاتِ زندگی آپ ؐ پر غیب سے ظاہر فرما دئیے.اور آپ ؐ نے اُسے فرمایا.سراقہ ! اُس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب شہنشاہ ایران کے سونے کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوںگے.سراقہ نے حیران ہو کر کہا.کسریٰ بن ہر مز شہنشاہ ایران کے.آپ ؐ نے فرمایاہاں ! وہ حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن کر واپس چلا آیا.مگر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کسریٰ کا دارالامارۃ مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا گیا.اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے جن میں وہ کڑے بھی تھے جو شہنشاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھوں میں پہنا کرتا تھا.اور جو ہیروں اور جواہرات سے لدے ہوئے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ کڑے رکھے گئے تو آپ کو فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی یاد آگئی.اور آپ نے فرمایا سراقہ کو بلائو.سراقہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کسریٰ کے کنگن لو اور اپنے ہاتھوں میں پہنو.سراقہ نے کہا اے امیر المومنین ! سونا پہننا تو مردوںکے لئے منع ہے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.مگر اس موقعہ کے لئے نہیں.خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دکھائے تھے اس لئے تمہیں کم سے کم ایک منٹ کے لئے یہ سونے کے کنگن پہننے پڑیں گے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہو ورنہ میں تمہیں سزا دوںگا.چنانچہ سراقہ نے وہ کنگن لے کر اپنے ہاتھوں میں ڈالے اور اس طرح مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا (اسد الغابۃ سراقۃ بن مالک ؓو السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرۃ الی المدینۃ).غرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ظاہر ی رنگ میں بھی عرب اور عراق اور شام اور ایران کے باغات اور اُن کے محلات کا مالک بنایا اور اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ تَبٰرَكَ الَّذِيْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۙ وَ يَجْعَلْ لَّكَ قُصُوْرًا.مگر چونکہ ہر ظاہر اپنے ساتھ ایک باطن بھی رکھتا ہے اس لئے جہاں اس آیت میں ظاہر ی باغات اور محلات کے عطا کئے جانے کی پیشگوئی تھی جو مسلمانوں کے عہد حکومت میں بڑی شان سے پوری ہوئی اور انہوں نے خود بھی اپنی ترقی کے دور میں بڑے بڑے باغات اور محلات بنائے جو اُن کی یاد گار کے طور پر آج بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں.وہاں اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی باغ عطا کئے جانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ تو تجھ سے وہ باغ مانگتے ہیں جو آج سرسبز و شاداب ہوتا ہے تو کل گل سڑ جاتا ہے.کبھی زمین کی خرابی کی وجہ سے وہ پھل نہیں دیتا کبھی پانی کی کمی اسے خشک کر دیتی ہے.کبھی بیماریاں اس کے پھلوں کو تباہ کر دیتی ہیں.کبھی ہوائیں اس کے پھولوں کو گِرا دیتی ہیں.لیکن ہم تجھے وہ باغات دینے والے ہیں جن کے
نیچے نہریں بہتی ہوںگی.یعنی وہ باغ کبھی خشک نہیں ہوںگے بلکہ ہمیشہ ہرے بھرے اور سرسبز و شاداب رہیں گے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو طراوت اور اُن کے دلوں کو راحت پہنچائیں گے.اور دنیا پر ہمیشہ کے لئے اسلام اور محمدر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی حقانیت کو ظاہر کرتے رہیں گے.چنانچہ اس بارہ میں جب قرآن کریم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل قرار دیا ہے جیسا کہ وہ سورۂ مزمل میں فرماتا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزمل :۱۶) یعنی اے مکہ والو! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح ایک رسول تم پر نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے موسیٰ ؑ کو فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل تھے اور امّتِ محمدیہ امتِ موسویہ کی مثیل ہے اور قرآن کریم کے مطالعہ سے معلو م ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دو باغ عطا فرمائے تھے جن میں سے ایک توموسوی باغ تھا اور ایک عیسوی.موسوی قوم کو جو باغات ملے اُن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا.كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَيْـًٔا١ۙ وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا ( الکھف:۳۳،۳۴)یعنی تم ان لوگوں کے سامنے دو آدمیوں ( یعنی مسلمانوں اور مسیحی اقوام ) کی حالت بیان کرو جن میں سے ایک یعنی موسیٰ ؑ کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے.اور انہیں ہم نے کھجوروں کے درختوں سے چاروں طرف سے گھیر لیا.لیکن ان دو باغات کے درمیان ہم نے کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی.چنانچہ موسوی باغ بھی خوب پھولاپھلا.اور عیسوی باغ بھی خوب پھولااور پھلا.لیکن درمیانی عرصہ میں جب کہ بخت نصر نے یہودیوں کو تباہ کر دیا اور ان کے معبد گرادئیے اور وہ انہیں قید کر کے اپنے ساتھ لے گیا اُن کی مثال ایک کھیتی کی سی ہوگئی جوغنم القوم کے چر جانے کے خطرہ میں ہوتی ہے یعنی دشمن قومیں حملہ کرکے اسے لُوٹ کھسوٹ سکتی ہیں.یہی سلسلہ امت محمدیہ میں بھی دہرانے کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیاتھا.چنانچہ آپ کو موسیٰ ؑ کا مثیل قرار دے کر اسی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ موسوی قوم کے حالات ایک رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیش آنے والے ہیں یعنی آپ کو بھی دو باغ ملیں گے.ایک باغ تو وہ ہوگا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بغیر کسی اور مامور کی مدد کے دنیا کو اپنا فیض پہنچائے گی.لیکن آخر میں جب مسلمان کمزور ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ موسوی سلسلہ کی طرح ایک محمدی مسیح ان میں بھیجے گا جس کی جماعت ایک دوسرے باغ کی حیثیت رکھے گی لیکن ہوگی وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت اور اُس کا باغ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ ہی کہلائے گا لیکن اس فرق سے کہ
موسوی سلسلہ کے دوسرے حصہ کی بنیاد جس مسیح سے پڑی تھی وہ مستقل نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ موسیٰ ؑ سے افضل ہیں اس لئے آپ ؐ کے دوسرے باغ کی بنیاد جس مسیح سے پڑے گی وہ امتی نبی ہوگا.یعنی وہ خو د بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوگا اور اُس کے ماننے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی ہوںگے.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ عطا کئے گئے.ایک باغ مسیح موعود کے ظہور سے پہلے زمانہ میں اور ایک باغ مسیح موعود کے ظہور کے بعد کے زمانہ میں.پھر پہلے زمانہ میں دنیوی لحاظ سے بھی وہی باغ آپ کو ملا جو موسیٰ ؑ کی امت کو ملا تھا.یعنی فلسطین اور کشمیر کا علاقہ اور یہ دونوں علاقے ایسے ہیں جو باغات کی کثرت کی وجہ سے مشہور ہیں.چنانچہ ۱۹۲۴ء میں جب میں یورپ گیا تو فلسطین میں بھی گیا تھا.میں ریل میں دمشق سے بیروت آیا.جب ہم بیروت کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ریل شہر کے اندر سے گذر رہی ہے اور ہر گھر میں باغیچے لگے ہوئے ہیں.اسی طرح دمشق میں مَیں نے دیکھا کہ گھر گھر میں نہریں جاری تھیں.اور ہر گھر میں باغ لگا ہوا تھا.یہی حال کشمیر کا ہے کہ وہاں چپے چپے پر باغ ہیں کچھ تو خود رُو ہیں.اور کچھ مغل بادشاہوں نے لگائے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کا مادی باغ کشمیر اس وقت ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین یہودیوں کے قبضہ میں ہے مگر اللہ تعالیٰ یہ دونوں باغ اپنے فضل سے پھر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو واپس دلائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یہ دونوں باغات رُوحانی طور پر بھی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مل جائیں گے یعنی اللہ تعالیٰ یہودی قوم کو بھی مسلمان بنا دےگا اور وہ محمدر سول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حلقہ بگوش ہو جائیں گے اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کو توپیں اور بندوقیں لے کر فلسطین پر حملہ کرنا پڑے یہودی خود آگے بڑھ کر بیت المقدس کے دروازے کھول دیں گے اور کہیں گے کہ اے مسلمانو ! ہم بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں.تم خوشی سے ہمارے پاس آئو اور مسیح موسوی کی امت بھی دوبارہ فتح کی جائےگی.اور اسلام لائےگی.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کا ایک حصہ بن جائے گی لطیفہ یہ ہے کہ دنیا میں اور لوگ باغ لگاتے رہے لیکن وہ باغ محمدر سول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کو مل گئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی کوشش اور جدوجہد سے یہودی بنائے اور اُن کوفلسطین میں بسایا لیکن خدا نے محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنا بنایا فلسطین دے دیا.پھر موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہجرت کر کے کشمیر آئی اور خدا تعالیٰ نے بنا بنایا کشمیر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دے دیا.اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگا لگایا باغ بھی محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہی مل گیا.چنانچہ دنیا کے کناروں تک احمدی مبلغ تبلیغ کر تے اور لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھوا کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملا تے ہیں.اُن میں
سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مَسِیْحِ مَوْعُوْد رَسُوْلُ اللّٰہِ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسیح موعود ؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے امتی ہیں.کوئی مستقل نبی نہیں بلکہ آپ کو مستقل نبی قرار دینا کفر ہے.گویا جو درخت بھی اُن کو ملتا ہے وہ لاکر محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے چمن میں لگا دیتے ہیں.موسیٰ ؑ کے باغ میں تو صرف ایک بڑا درخت پیدا ہو اتھا جس کا نام دائود تھا.مگر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چمن کا ایک درخت یعنی مسیح موعود ؑ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہی محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے چمن کا دائود نامی درخت نہیں بلکہ مجھ سے اور بھی کئی بیج نکلنے والے ہیں جن سے بہت سے دائو د پیدا ہوںگے اور اس طرح محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چمن میں ہزاروں دائودی شجر پیدا ہو جائیں گے.چنانچہ آپ نے فرمایا ؎ اک شجر ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے میں ہوا دائود اور جالوت ہے میرا شکار (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۳) یعنی میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے باغ کا ایک درخت ہوں.جو خود ہی دائود نہیں بلکہ میرے اندر جو پھل لگ رہے ہیں وہ بھی دائودی صفت کے ہیں.یعنی میں ہی دائود نہیں بلکہ میرے ماننے والے مریدوں میں سے بھی ہزاروں دائود پیدا ہوںگے.اسی طرح فرمایا ؎ میں کبھی آدم ؑ کبھی موسیٰ ؑکبھی یعقوبؑ ہوں نیز ابراہیم ؑ ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۳) اگر موسیٰ ؑ اور عیسٰی ؑ کو بنی اسرائیل کی تعداد پر فخر ہے تو میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار نسلیں عطا فرمائےگا.اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائےگا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی نمونہ اللہ تعالیٰ نے دکھایا اور اس نے لوگوں کے لگائے ہوئے درخت آپ ؐ کے چمن میں لا کر لگا دئیے.چنانچہ ابوجہل کے باغ کا درخت عکرمہ ؓ وہاں سے اکھیڑ کر آپ کے باغ میں لگا دیا گیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور دشمن ولیداور عاص بن وائل تھے.ولید کا بیٹا خالد تھا جو ولیدکے چمن سے کاٹ کر محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے چمن میں لگا دیا گیا.اور آج عالمِ اسلام خالد بن ولید جیسے بہادر جرنیل کے کارناموں پر فخر کرتا ہے وہ بوٹا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک شدید دشمن کا.لیکن اُس نے پھل محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں آکر دینا شروع کیا.اس سے پہلے وہ مکہ کے ایک نمبردار کا بیٹا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں لگنے کے بعد روم اور کسریٰ کے بادشاہ اس کے سائے میں بیٹھنے لگ گئے.پھر اس کے علاوہ آپؐ کے باغ کے کچھ درخت وہ تھے جو براہِ راست آپؐ نے لگائے.جیسے ابو بکر ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ اورعلی ؓ.حضرت ابوبکر ؓ یہ لوگ ایک کچی کوٹھری میں مدینہ میں بیٹھے ہوتے تھے لیکن قیصر اپنے محل میں ان کے نام سے کانپتا تھا.اور کسریٰ اپنے محل میں ہزاروں میل پر بیٹھا ہوا اُن سے لرزہ بر اندام رہتا تھا.اسی طرح محمد ی باغ میں ایک پودا حضرت حسن بصری ؒ کا لگا.ایک پودا حضرت جنیدؒ بغدادی کا لگا.ایک پودا حضرت سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کا لگا.ایک امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا ایک ابن قیّم رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت بہائو الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت معین الدین صاحب چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت سلیم چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت قطب الدین صاحب بختیار کا کی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت نظام الدین صاحب اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت داتا گنج بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت مجدد صاحب سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت خواجہ میر محمد ناصر رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.ایک حضرت سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا.اور سب سے آخر میں باغِ محمدی کی حفاظت کرنے والے درخت مسیح موعود علیہ السلام کا پودا لگا جس کو خود مسلمانوں نے بد قسمتی سے کاٹنا چاہا.تاکہ محمدی باغ میں دشمن گھس جائے اور اُسے تباہ کر دے.مگر وہ پودا اس شان کا تھا کہ اُس نے کہا ؎ اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بتر س کہ من شاخِ مثمرم (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۱) یعنی اے وہ شخص جو سو سو کلہاڑے لے کر میرے کاٹنےکے لئے دوڑا چلا آرہاہے تو میرے باغبان خدا سے ڈر کہ میں وہ شاخ ہوں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں.اگر تو مجھے کاٹے گا تو محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا پھل کٹ جائےگا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا باغ باڑ کے بغیر رہ جائے گا.پس تُو مجھے نہیں کاٹ رہا تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے باغ کو اجاڑ رہا ہے اور خدا کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ محمدؐ رسول اللہ
کا باغ اُجڑے وہ ضرور اس کی حفاظت کرےگا.چنانچہ آسمان سے اللہ تعالیٰ مسیح موعود ؑ کی حفاظت کے لئے اُترا اور باوجود اس کے کہ سب مولویوں نے اکٹھے ہو کر حملہ کیا.اللہ تعالیٰ سینہ سپر ہو کر کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا کہ میں محمدؐر سول اللہ کے باغ کو نہیں اُجڑ نے دوںگا.چنانچہ اُس نے تمام مخالفین کے حملوں کو ناکام کر دیا.غرض بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے مسیح موعود ؑ جیسا غلام محمد ؐرسول اللہ کو دیا.جس نے محمدؐرسول اللہ کا باغ جب اُجڑ کے کھیتی بننے لگا تھا تو پھر اُس کو ایک ہرے بھرے باغ کی شکل میں تبدیل کر دیا اور اس کے رکھوالوں کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیا تاکہ وہ ہر ملک میں جائیں.ہر قوم میں جائیں اور ہر جگہ پر جا کر وہاں سے عیسیٰ ؑ کے باغ کے پودوں کو نکال نکا ل کر محمد ؐرسول اللہ کے باغ میں لگائیں.اسی طرح موسیٰ ؑ کے پودوں کو اکھیڑاکھیڑ کے محمد ؐرسول اللہ کے باغ میں لگائیں.یہاں تک کہ دنیا کے چپّے چپّے میں محمد ؐرسول اللہ کے باغ لگ جائیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل جو پہلے زمانہ میں مسلمان نہیں ہوئے اس آخری موعود کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور یہودیت اور عیسائیت کا جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور صرف اسلام یا محمدیت ہی باقی رہے.پھر فرماتا ہے.وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا.اللہ تعالیٰ تجھے ایک نہیں بلکہ بہت سے قصر عطا فرما ئےگا.یعنی ایسے شاگرد تجھے ملیں گے جو اسلام کو دشمنوں کے حملوں سے بچاتے رہیں گے.اور اُس کے حُسن کو دنیا پر ظاہر کر تے رہیں گے تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوئے تو ایک مجذوب اُن کے جنازہ پر آیا اور یہ شعر پڑھ کر رونے لگ گیا کہ وَا اَسَفَا عَلیٰ فِرَاقِ قَوْمٖ ھُمُ الْمَصَابِیْحُ وَالْحُصُوْنُ وَالْمُدْنُ وَالْمُزْنُ وَالرَّوَاسِی وَالْخَیْرُ وَالْأَ مْنُ وَالسُّکُوْنُ لَمْ یَتَغَیَّرْ لَنَا اللَّیَالِی حَتّٰی تَوَفَّا ھُمُ الْمَنُوْنُ فَکُلُّ جَـمْرٍ لَنَا قُلُوْبٌ وَکُلُّ مَآئٍ لَنَا عُیُوْنٌ (تاریخ بغداد للخطیب بغدادی ذکر من اسمعہ الجنید) یعنی افسوس ہے کہ موت نے ہم سے وہ لوگ جدا کر دئیے جو تاریکیوں میں ہمارے لئے شمع ہدایت تھے اور مصیبتوں میں ہمارے لئے قلعوں کا کام دیتے تھے جو فیوض اور برکات کے جامع ہونے کے لحاظ سے ایک شہر کی حیثیت رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کے انوار اور اس کے روحانی انعامات کی ایک بارش تھے.وہ عزائم کی بلندی اور حوادث کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے میں ایک پہاڑ کی طرح تھے.اور دنیاکے لئے سراسر خیر اور امن اور سکون کا
موجب تھے.زمانہ نے ہمیں اسی وقت اپنے انقلاب کا شکار بنایا جب موت نے ان بابر کت وجودوں کو ہم سے جُدا کر دیا.اب ہمارا یہ حال ہے کہ دل اُن کی جدائی میں غم و اندوہ سے انگارے کی طرح جل رہے ہیں اور آنکھیں اُن کی یاد میں پانی بن کر بہ رہی ہیں.یہ اشعار بتاتے ہیں کہ مردِ کامل کو بھی ایک قلعہ یا محل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی حفاظت ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو تجھ سے دنیوی خزانے اور مادی محلات اور ظاہر ی شان و شوکت کے آثار طلب کرتے ہیں اور ہم نے تو تیرے لئے بڑے بڑے عالی شان محل تیار کر چھوڑے ہیں جو ا ن کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں.یعنی اعلیٰ درجہ کے رُوحانی شاگرد اور اولیا ء اللہ تیار کئے ہیں جن کی حفاظت میں مسلمان ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے مطابق ہر صدی میں ایسے صلحاء اور اولیا ء اور ابدال اور اقطاب اور مجددین کھڑے کئے جنہوں نے اسلام کو ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے حملوں سے بچایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لگائے ہوئے باغ کی ایک ادنیٰ چاکر اور غلام بن کر خدمت کی اور اُس کے پھولوں اور پھلوں کی حفاظت میں اپنی عمر یں بسر کر دیں.آج بھی ہر شہر اور ہر گائوں جس میں مسلمانوں کی آبادی ہے اس کے قبرستانوں میں کوئی نہ کوئی قبر کسی ایسے بزرگ یا ولی کی ضرور پائی جاتی ہے جس نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اپنے علاقہ میں قائم کی اور اسلامی برکات سے لوگوں کو روشناس کیا.اور یقیناً ایسے لوگوں کو اگر شمار کیا جائے تو اُن کی تعداد لاکھوں سے بھی متجاوز ہوجائےگی.اس کے مقابلہ میں دنیا کا اور کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے ماننے والے کسی ایسے شخص کو پیش کر سکیں جس نے اُن کے مذہب پر چل کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا ہو.یا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مذہب کی تجدید اور اس کی اشاعت کے لئے مبعوث ہوا ہو.یہ عملی نظارہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باقی تمام مذاہب کو ترک کر دیا ہے اور صرف اسلام سے ہی اپنی محبت اور تعلق کو مخصوص کر لیا ہے.اب وہی شخص اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے جو محمدی باغ کا خوشہ چین بنے اور اُسی شخص کے سپر د اصلاحِ خلق کا کام ہوتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنیٰ غلام بن کر آپ کے مقدس باغ کی رکھوالی کاکام کرے کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لگائے ہوئے باغ کے سوا باقی تمام باغ خشک ہو چکے ہیں جن کی حفاظت اور نگرانی کے لئے کسی باغبان کی ضرورت نہیں.ہر ا بھرا باغ اور ہر قسم کے پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت صرف محمدی باغ میں ہی پائے جاتے ہیں.جس کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ ہے کہ وہ ہمیشہ سرسبز و شاداب رہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف
سے نگرانوں اور محافظوں کا سلسلہ جاری رہے.بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ حق یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کا انکار کر رہے ہیں.اور ہم نے اُس کے لئے جو قیامت کا منکر ہو بھڑکنے والے بِالسَّاعَةِ سَعِيْرًاۚ۰۰۱۲اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ عذاب کا انتظام کر چھوڑا ہے.جب وہ (یعنی جہنم) اُن کو دور سے دیکھے گی تو وہ اُس کے جوش کی اور( آنےوالی) سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّ زَفِيْرًا۰۰۱۳وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا مصیبت کی آواز کو سنیں گے.اور جب وہ اُس (یعنی دوزخ) کے ایک تنگ حصہ میں مشکیں باندھے ضَيِّقًا مُّقَرَّنِيْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاؕ۰۰۱۴لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ہوئے پھینکے جائیں گے اور وہ اُس وقت موت کی آرزو کریں گے.(تب خدا کے فرشتے اُن سے کہیں گے ) ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِيْرًا۰۰۱۵ آج ایک موت کی آرزو نہ کرو بلکہ بار بار موت کی خواہش کرو (کیونکہ تم پر بار بار عذاب آنےوالے ہیں).حلّ لُغَات.زَفِیْرٌ.اَلزَّفِیْرُ: تَرَدُّ دُالنَّفَسِ حَتّٰی تَنْتَفِخَ الضُّلُوْعُ مِنْہُ یعنی سانس کے اندر جانے اور اُس سے پسلیوں کے پھولنے کو زفیر کہتے ہیں ( مفردات ) اَلزَّفِیْرُ: الدَّاھِیَۃُ.مصیبت.اَوَّلُ صَوْتِ الْحِمَارِ وَالشَّھِیْقُ اٰخِرُہٗ.نیز گدھے کی آواز کے ابتدائی حصہ کو زفیر کہتے ہیں اور آخری آواز کو شہیق کہتے ہیں ( اقرب ) مُقَرَّ نِیْنَ: مُقَرَّنِیْنَ قَرَّنَ سے اسم مفعول کا جمع کا صیغہ ہے.اور جب قُرِّنَتِ الْاُسَارٰی فِی الْـحِبَالِ کا فقرہ کہیں تو معنے یہ ہوتے ہیں کہ جُمِّعَتْ رسیوں میں قیدیوں کو باندھا گیا ( اقرب) پس مُقَرَّنِیْنَ کے معنے ہوںگے رسیوں میں باندھے ہوئے.ثُبُوْرًا.ثُبُوْرًا ثَبَرَ کا مصدر ہے اور ثَبَرَ ثُبُوْرًا کے معنے ہیں ھَلَکَ.وہ ہلاک ہو گیا اور جب ثَبَرَ اللّٰہُ زَیْدًا
کہیں تو اس کے معنے ہوںگے اَھْلَکَہٗ اِھْلَاکًا دَائِمًا لَا یَنْتَعِشُ بَعْدَہٗ کہ اللہ تعالیٰ نے زید کو اس طرح تباہ کیا کہ جس کے بعد اُس کے لئے اُٹھنے کا کوئی امکان نہ رہا.وَالنَّصْبُ فِیْ قَوْلِہٖ دَعَوْا ھُنَالِکَ ثُبُوْرًا عَلَی الْمَصْدَرِ کَاَنَّھُمْ قَالُوْا ثَبَرْنَا ثُبُوْرًا.اور آیت دَعَوْا ھُنَالِکَ ثُبُوْرًا میں ثُبُوْرًا پر نصب آئی ہے گویا اس سے پہلے فعل مخدوف ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ پکار یں گے کہ ہم پوری طرح ہلاک ہو گئے ہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ان لوگوں کو تو جزاء و سزا پر ایمان ہی نہیں ورنہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دیکھ کر آپ کی ترقی میں کسی قسم کا شبہ نہ کرتے.اب یہ لوگ آپ ؐکی ترقی دیکھیں گے تو اُن کے دل جلتے چلے جائیں گے.وہ دوزخ جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں تیار کی ہے جب وہ ان کو دُور سے دیکھے گی تو ان لوگوں کو نظر آجائےگا کہ اب اس دوزخ سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں.اس جگہ کہا تو یہ گیا ہے کہ جب دوزخ انہیں دُور سے دیکھے گی.مگر مراد یہ ہے کہ جب یہ لوگ اسے دُور سےدیکھیں گے.اس قسم کی زبان کو عربی میں تقلیبِ نسبت کہتے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ پرنالہ چلتا ہے حالانکہ پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پانی چلتا ہے.یا کہتے ہیں کہ سورج زمین کے گرد چکر کھا رہا ہے.حالانکہ سورج زمین کے گرد چکر نہیں کھا رہا بلکہ زمین سورج کے گرد چکر کھا رہی ہے.اسی طرح یہاں بھی تقلیبِ نسبت سے کام لیتے ہوئے کہا تو یہ گیا ہے کہ جب دوزخ اُن کو دور سے دیکھے گی لیکن مراد یہ ہے کہ جب وہ لوگ دوزخ کودور سے دیکھیں گے.یعنی جونہی اس دوزخ کے سامان پیدا ہوں گے تو اُن کو نظر آجائے گا کہ اب اس دوزخ سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں.اور جب وہ اس دوزخ میں ڈالے جائیں گے یعنی مسلمانوں کی ترقی کو دیکھ کر رنج و غم اور حسرت و افسوس کے دوزخ میں گریںگے تو اُس وقت اُن کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہوں گے یعنی اُن کی مقابلہ کی طاقت بالکل زائل ہو چکی ہوگی.اور وہ ملک کو اپنے لئے تنگ پائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی دوسرے ملک میں بھاگ جائیں.جیسے فتح مکہ کے بعد عکرمہ ؓ نے چاہا کہ وہ بھاگ کر حبشہ چلا جائے(طبری ذکر الخبر عن فتح مکۃ) لیکن فرماتا ہے انہیں بھاگنے کی بھی کوئی جگہ نہیں ملے گی.کیونکہ وہ جہاں جائیں گے مسلمانوں کو غلبہ میّسر آجائےگا.اُس وقت یہ لوگ دعائیں کریں گے کہ یاا للہ ہم کو موت دے دے تاکہ ہم مسلمانوں کی یہ ترقی نہ دیکھیں.تب آسمان کے فرشتے کہیں گے کہ ایک موت کا تو سوال ہی نہیں تم پر تو ہلاکت پر ہلاکت آنےوالی ہے.یعنی ابھی تو تم پر اور بھی عذاب آئیں گے اور تم ان کو دیکھ کر اور بھی گھبرائو گے کیونکہ اب الٰہی فیصلہ یہی ہے کہ مسلمان بڑھتے چلے جائیں گے اور تم کمزور ہی کمزور ہو تے چلے جائوگے.ان آیات میں ساعۃ کا لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ اور آپؐ کی کامیابی کے معنوں میں استعمال کیا
گیا ہے.کیونکہ تمام اولو العزم انبیاء دنیاکے لئے ایک قیامت ہوتے ہیں جو پُرانے نظام کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرتے ہیں اور سابق عمارات کو گِرا کر ایک نئی روحانی عمارت کھڑی کرتے ہیں.اُن کے زمانہ میں یوم القیامۃ کی یہ دونوں خصوصیات یعنی اہل زمانہ کی موت اور پھر ان کا دوبارہ احیاء اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں.چنانچہ ایک قیامت تو اُن کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی جماعت کو ترقی دیتا اُسے دنیا میں غلبہ عطا کر تا اور اُسے نئے سرے سے زندگی بخشتا ہے.اور ایک قیامت اُن کے ذریعہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے.گویا ایک طرف اگر اُن کے ذریعہ دنیا میں حشر بر پا ہو جاتا ہے اور مُردے زندہ ہونے لگتے ہیں تو دوسری طرف ہلاکت کا عذاب دنیا کے ایک حصے پر وارد ہو جاتا ہے.اور قیامت بھی دو ہی طرح وارد ہوگی.ایک حشر کے ذریعہ اور ایک ہلاکت کے ذریعہ.قیامت اسی کانام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ مر جائیں گے اور قیامت اسی کا نام ہے کہ ایک زمانہ میں سب لوگ زندہ ہو جائیں گے.پس قیامت کے دو حصے ہیں ایک لوگوں کا مر جانا اور ایک لوگوں کا زندہ ہو جانا.جب کبھی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آیا ہے یہ دونوں باتیں ظاہر ہوئی ہیں.اس کے ذریعہ کچھ لوگ مر بھی گئے ہیں اور اس کے ذریعہ کچھ لوگ زندہ بھی ہوئے ہیں.جو لوگ اس کے دشمن تھے وہ بحیثیت قوم تباہ کر دئیے گئے اور جو لوگ اس کے ساتھی تھے وہ بحیثیت قوم ترقی پاگئے.پس اس آیت میں ساعۃ سے مراد وہ دن ہے جس دن محمد رسول اللہ ْصلی اللہ علیہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کو شکست.جس دن دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ جو مکہ کی گلیوں میں بے یارو مددگار اور یکہ و تنہا پھرا کرتا تھا وہ تو بادشاہ ہو گیا اور وہ جو ملک کے بادشاہ تھے اس کے محکوم اور غلام بن گئے.پھر فرماتا ہے.وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی کامیابی کا انکار کرنے والوںکے لئے ہم نے ایک آگ تیار کی ہے جس کے شعلے انہیں ہر وقت بھسم کرتے رہیں گے.چنانچہ ایک آگ تو خدا تعالیٰ نے ان کے لئے اس طرح تیار کی کہ وہ رات اور دن جس مذہب کو مٹانےکے لئے کمر بستہ رہتے تھے اُس مذہب کو اُن کے بیٹوں اور بیٹیوں اور بھائیوں اور بہنوں نے قبول کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسلام مکہ کی چاردیواری سے نکل کر عرب کے اکناف میں پھیل گیا.اور پھر عرب سے نکل کر ساری دنیا کو اُس نے اپنے تسلط میں لے لیا.جب کفار کے اپنے بیٹے اور پوتے اسلام کی آغوش میں آکر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتے ہوںگے.تو اُن کے دل غم و غصہ کے جذبات سے کس طرح جل جل کر خاکستر ہوتے ہوںگے اور وہ کتنا بڑا عذاب محسوس کرتے ہوںگے.
پھر دوسری آگ خدا تعالیٰ نے اُن کے لئے اس طرح بھڑکائی کہ وہ اُن کے بڑے بڑے لیڈروں کو اپنی قدرت کے زبر دست ہاتھ سے اُن کے گھروں سے نکال کر بدر کے میدان میںلایا اور انہیں گنتی کے چند ناتجربہ کا ر اور غیر مسلح مسلمانوں کے ہاتھوں سے اس طرح مروایا کہ مکہ کے گھر گھر میں صف ِ ماتم بچھ گئی اور اُن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی.ابو جہل اُن کا بڑا مشہور جرنیل تھا مگر بدر کے میدان میں دو نو عمر انصاری لڑکو ں نے اُس پر ایسا تاک کر حملہ کیا کہ وہ زخموں سے نڈھال ہو کر گِر گیا اور کفار ایسے سراسیمہ ہوئے کہ وہ اپنے اس مشہور جرنیل کو خاک و خون میں تڑپتا چھوڑ کر مکہ کو بھاگ کھڑے ہوئے.حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ابو جہل ایک جگہ زخموں کی شدت کی وجہ سے کراہ رہا ہے.میں اُس کے پاس گیا اور میں نے کہا سنائو کیا حال ہے ؟ اُس نے کہا مجھے اپنی موت کا کوئی غم نہیں.سپاہی آخر مرا ہی کرتے ہیں.مجھے تو یہ غم ہے کہ مدینہ کے دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں سے میں مارا گیا اب تم صرف اتنا احسان کرو کہ تلوار سے میری گردن کاٹ دو تاکہ میری یہ تکلیف ختم ہو جائے.مگر دیکھنا میری گردن ذرا لمبی کاٹنا کیونکہ جرنیلوں کی گردن ہمیشہ لمبی کاٹی جاتی ہے.حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا میں تیری اس آخری حسرت کو بھی کبھی پورا نہیں ہونے دوںگا اور ٹھوڑی کے قریب سے تیری گردن کاٹوں گا.چنانچہ انہوں نے ٹھوڑی کے قریب تلوار رکھ کر اُس کا سر تن سے جُدا کر دیا (السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم باب غزوۃ بدر الکبریٰ).اب دیکھو یہ کتنی بڑی آگ تھی جو ابوجہل کو جلا کر راکھ کر رہی تھی کہ وہ مدینہ کے دو ناتجربہ کار اور نو عمر لڑکوں کے ہاتھوں مارا گیا.اور پھر مرتے وقت اُس نے جو آخری خواہش کی تھی وہ بھی پوری نہ ہوئی.اور ٹھوڑی کے پاس سے اُس کی گردن کاٹی گئی.پھر اس آگ نے صرف ابوجہل کو ہی خاکستر نہیں کیا بلکہ اُس کے شعلے مکہ کے گھر گھر پہنچے اور انہوں نے ہر کافر اوربت پرست کو اس آگ کا شکار بنا دیا.چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ شکست کھانے کے بعد مکہ والوں کی ایسی دردناک کیفیت ہو گئی کہ انہوں نے سمجھا کہ اگر آج ماتم کیا گیا تو مکہ کی تمام عزت خاک میں مل جائےگی پس عرب کے اُن لیڈروں نے جو زندہ تھے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ کوئی شخص بدر کے مقتولین کا ماتم نہ کرے اور اگر کوئی شخص ماتم کرے تو اسے قوم میں سے نکال دیا جائے اُس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اُس پر جرمانہ کیا جائے.عرب ایک قبائلی قوم تھی اور جو قبائلی قومیں ہوتی ہیں اُن میں قومی روح انتہا درجہ کی شدید ہوتی ہے.پس اس حکم کی خلاف ورزی اُن کے لئے ناممکن تھی.مائیں اپنے کلیجوں پر سل رکھ کر.باپ اپنے دلوں کو مسوس کر اور بچے اپنی
زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ گئے.اور اُن کے لبوں سے آہ بھی نہیں نکلتی تھی.کیونکہ اُن کی قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ آج رونا نہیں تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی خوش نہ ہوں.اور وہ یہ نہ کہیں کہ دیکھا ہم نے مکہ والوں کو کیسی شکست دی.مگر دل تو جل رہے تھے سینوں میں سے شعلے تو نکل رہے تھے.جگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے.وہ دروازے بند کر کے تاریک گوشوں میں بیٹھتے اور دبی ہوئی آوازوں کے ساتھ روتے تا کسی کو یہ پتہ نہ لگے کہ وہ رو رہا ہے.مگر یہ رونا اُن کی تسلی کا موجب نہیں تھا.کیونکہ انسان غم کے وقت دوسرے سے تسلی چاہتا ہے.بیوی چاہتی ہے کہ خاوند میرے دکھ پر افسوس کرے.باپ چاہتا ہے کہ بیٹا میرے غم میں حصہ لے اور بیٹا چاہتا ہے کہ باپ میرے غم میں حصہ لے.اسی طرح ہمسایہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ والے میرا غم بٹائیں اور اگر کوئی ایسا ماتم ہو جائے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر ہو تو اُس وقت سب لوگ چاہتے ہیںکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں اور اس طرح اپنے دکھ درد کو کم کریں.پس تنہائی کے گوشوں میں ان کا بیٹھ کر رونا اُن کی تسلی کا موجب نہیں تھا.مہینہ گذر گیا اور برابر یہ حکم نافذ رہا.اس عرصہ میں وہ آگ جو انہوں نے اپنے سینوں میں دبا رکھی تھی سلگتی رہی.آخر مہینہ کے بعد ایک دن ایک مسافر وہاں سے گذرا.اُس کی ایک اونٹنی تھی جو راہ میں ہی مر گئی وہ اُس اونٹنی کے غم میں چیخیں مار مار کر روتا جا رہا تھا.اور کہتا جا رہا تھا کہ ہائے میری اونٹنی مر گئی.ہائے میری اونٹنی مر گئی.تب مکہ کا ایک بوڑھا شخص جو اپنے مکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا ہوا تھا.اُس نے اپنے مکان کے دروازے کھول دئے اور بازار میں آکر اُس نے زور زور سے پیٹنا اور چلا چلا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی تو اجازت ہے مگر میرے دونوجوان بیٹے مارے گئے اور مجھے اُن پر رونے کی اجازت نہیں دی جاتی.یہ ایک نعرہ تھا جو اُس نے لگایا اور جس نے مکہ میں ایک شعلہ کا کام دیا.اس کے بعد نہ کسی کو قانون کا خیال رہا.نہ قوم اور برادر ی سے اخراج کی دھمکی کا خیال رہا.معًا مکہ کے گھروں کے تمام دروازے کھل گئے.اور چوکوں اور بازاروں میں عورتیں اور بچے پیٹنے لگ گئے (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر رویا عاتکة بنت عبد المطلب زیر عنوان نواح قریش علٰی قتلاھم).یہ کتنی بڑی آگ تھی جس نے محمد رسول اللہ ْصلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو اپنی لپٹ میں لے لیا اور اُس نے اُن کی تمام شوکت اور رعب اور دبدبہ کو خاک میں ملا دیا.پھر یہ آگ خدا تعالیٰ نے کفارکے لئے اس طرح بھی تیار کی کہ اُس نے اسلام کو ایک کامل اور جامع تعلیم دے کر بھیجا جس سے کفار بالکل محروم تھے.وہ جب اسلام کا اپنے مذاہب سے مقابلہ کرتے تو اُن کے دل جلتے.اور وہ کہتے کہ ہمارے مذہب میں کیا رکھا ہے.کاش یہی باتیں ہمارے مذہب میں بھی ہوتیں اور ہم بھی فخر سے اپنی گردن
اونچی کر سکتے.چنانچہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ واَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ والی آیت ہماری کتاب میں موجود ہوتی تو ہم اس آیت کے نزول کے دن کو اپنے لئے عید کا دن مقرر کرتے.حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی تھی دو عیدیں جمع تھیں.ایک جمعہ کا دن تھا اور دوسرے حج کا دن تھا ( ترمذی کتاب التفسیر القرآن سورة المائدة زیر آیت الیوم اکملت لکم...) اسی طرح حضرت عباسؓ کے متعلق روایت آتی ہے کہ اُن سے بھی کسی یہودی نے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اُترتی تو ہم اُس روز عید مناتے.حضرت ابن عباسؓ نے بھی اُس کو یہی جواب دیا کہ ہمارے لئے تو اس دن دو عیدیں جمع تھیں.(ترمذی کتاب التفسیر زیر آیت الیوم اکملت لکم دینکم....) غرض اسلامی تعلیم کی جامعیت کو دیکھ کر بھی اُن کے دل بغض و حسد کی آ گ سے جل جاتے اور وہ سوائے آہیں بھرنے اور حسرت و اندوہ کا شکار ہونے کے اور کوئی راہ نہ پاتے.یہی آگ اس زمانہ کے مخالفیں اسلام کو بھی جلاتی رہتی ہے.آج بھی ایک عیسائی کو اگر کوئی یہودی کہہ دے کہ کیا تیرا خدا وہی ہے جس کو ہم نے کانٹوں کا تاج پہنا یا اور اُسے ذلت کے ساتھ صلیب پر لٹکایا تو تم خود ہی اندازہ لگا ئو کہ اس کے دل میں کس قدر جلن پیدا ہو گی اور وہ کیسے دکھ اور عذاب میں گرفتار ہو جائےگا.اسی طرح جب بُت پرستوں پر اُن کے بتوں کی بے چارگی ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوق ہو کر بے جان بتوں کے آگے سر جھکا رہے ہیں.اسی طرح ایک مسلمان جب قرآن کریم پڑھتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُن پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے کلام سے فیضیاب فرماتا ہے تو اس کا دل اس خوشی سے اچھلنے لگتا ہے کہ اسلام پر چلنے سے میرا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائےگا.مگر ویدوں کا ماننے والا جب وید پڑھتا ہے اور اُسے معلوم ہوتا ہے کہ میرا خدا اب مجھ سے ہم کلام نہیں ہو سکتا تو اس کا دل اس صدمہ سے کڑھنے لگتا ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ وہ خدا جو وید کے رشیوںسے کلام کیا کرتا تھا اب مجھ سے کیوں کلام نہیں کرتا.کیا میں اس کا سوتیلا بیٹا ہوں کہ وہ رشیوں کے ساتھ تو بولا مگر میرے ساتھ نہیں بولتا.اسی طرح عیسائیوں میں کفارہ اور آریوں میں نیوگ کا مسئلہ بھی ایسے ہی مسائل میں سے ہیں جن پر بحث کے دوران میں وہ خود اپنے دلوں میں ایک ندامت اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور خواہ وہ زبان سے اقرار کریں یا نہ کریں اُن کے دل اسلامی تعلیم کی بر تری کو تسلیم کرتے ہیں.قرآن کریم نے ان کی انہی دلی کیفیات کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ( الحجر :۳) یعنی بہت دفعہ کفار بھی بڑی حسرت کے ساتھ کہا کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی ان مسائل کو ماننے والے ہوتے اور انہیں اس شرمندگی سے
نجات ملتی جو اب اُن کے گلے کا ہار بنی رہتی ہے.طلاق ، خلع ، نکاح بیوگان اور ورثہ وغیرہ مسائل میں جب مشکلات اُن کا احاطہ کرتی ہیں اور تمدنی خرابیاں اُن کو الجھنوں میں ڈالتی ہیں تو وہ اسلامی تعلیم کی فوقیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے.میور اسلام کا شدید ترین دشمن ہے مگر وہ بھی قرآن کریم اور بائیبل کا مقابلہ کرتے ہوئے ’’ لائف آف محمد ؐ ‘‘ میں ایک جگہ بڑی حسرت کے ساتھ لکھتا ہے کہ ’’ مسلمانوں کی بالکل پاک اور غیر تبدیل شدہ کتاب اور ہماری کتب کے مختلف نسخوں کے باہمی اختلاف کا آپس میں مقابلہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ دو ایسی چیزوں کا مقابلہ کیا جائے جن میں باہم کوئی بھی مشابہت نہ ہو.‘‘ ( لائف آف محمد ؐ مصنفہ سر ولیم میور ) غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انکار کرنے والوںکے لئے خدا تعالیٰ نے آگ کا عذاب تیار کیا ہوا ہے جس کے شعلے اُن کو ہر وقت جلاتے رہتے ہیں اور جب اسلام کو کوئی ترقی نصیب ہوتی ہے اُن کے دلوں کی یہ آگ اور بھی تیز ہوجا تی ہے.قُلْ اَذٰلِكَ خَيْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تو اُن سے کہہ دے کہ یہ( انجام) بہتر ہے یا دائمی جنت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے.وہ اُن کا (صحیح صحیح) بدلہ اور كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِيْرًا۰۰۱۶لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَآءُوْنَ آخری ٹھکانہ ہوگی.انہیں اس میں جو کچھ چاہیں گے ملےگا.وہ اُس میں ہمیشہ کے لئے بستے چلے جائیں گے.خٰلِدِيْنَ١ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا۰۰۱۷ یہ ایک وعدہ ہے جس کا پورا کرنا تیرے رب پر واجب ہے.تفسیر.فرماتا ہے تو ان کفار سے کہہ دے کہ کیا تمہارا یہ انجام بہتر ہے یا وہ جنت بہتر ہے جس کا ان متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے.یہ جنت اُن کی پوری جزاء اور ٹھکانہ ہو گی اور اس جنت میں وہ جو کچھ چاہیں گے اُن کو ملے گا اور وہ اُس میں رہتے چلے جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا وعدہ ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا.ہر شخص جو تاریخ اسلام سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہے جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کس شان سے پورا ہوا اور کس طرح چند سالوں
میں ہی عرب اور ایران اور روم اور مصر اور شام وغیرہ اسلامی ضرب کی تاب نہ لاکر سرنگوں ہوگئے اور فاقہ کش مزدور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی برکت سے دنیا کے بادشاہ بن گئے اور پھر انہوں نے وہ نظام قائم کر کے دکھلا دیا جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.ابتدائی ایّام میں تو مکہ کے بُت پرست مسلمانوں کو کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرنے دیتے تھے.انہیں چھپ چھپ کر نمازیں پڑھنی پڑتی تھیں اور مخفی طور پر ایک دوسرے سے تعلقات رکھنے پڑتے تھے.اسی طرح تعلیم اور تبلیغ کی انہیں کوئی آزادی میسر نہیں تھی.بلکہ اگر کوئی ہدایت کا طالب کبھی مکہ میں آجاتا تو اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکان تلاش کرنے میں بھی بڑی دقّت پیش آتی اور لوگ اُسے آپ کے گھر کا پتہ بھی نہ بتاتے.مگر پھر وہ وقت آیا کہ مسلمان دنیا کا حاکم اور بادشاہ بن گیا اور اُس کی طاقت سے بڑی بڑی حکومتیں لرزنے لگیں.اُس وقت جو کچھ وہ کرنا چاہتا تھا کسی کی مجال نہیں تھی کہ اُس میں رخنہ اندازی کر سکتا کیونکہ اُس زمانہ میں مسلمان ہی قوتِ فعال تھا اور مسلمان کی مٹی میں ہی دنیا کی طنابیں تھیں.مگر افسوس کہ بعد میں مسلمانوں نے اپنی بد اعمالی سے اس جنت کو کھو دیا اور وہ ذلیل اور رسوا ہو گئے.انہوں نے سمجھا کہ محض مسلمان کہلانے کی وجہ سے یہ جنت انہیں دائمی طور پر دے دی گئی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جہاں بھی جنت کا وعدہ کیا تھا وہاں ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اُسے مشروط کیا تھا.بلکہ یہاں بھی اُس نے كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔوْلًا فرما کر اس کے وعدہ ہونے پر پھر زور دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ہمارا یہ وعدہ تمہارے ایمان اور عمل کے ساتھ وابستہ ہے.اگر تمہارے اندر ایمان نہ رہا اور عمل صالح پر تم قائم نہ رہے تو یہ وعدہ بھی قائم نہیں رہے گا.اسی کی طرف تَبٰرَكَ الَّذِيْۤ اِنْ شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ میں اِنْ شَآ ئَ کے الفاظ رکھ کر اشارہ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی تھی کہ بے شک یہ جنت تمہیں ملے گی.مگر اس میں تمہارے کسی استحقاق یا زور ِ بازو کا دخل نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشئیت کا دخل ہوگا.یعنی اگر اس نے تمہارے اعمال کو اس انعام کے قابل سمجھا تو وہ تمہیںاس انعام سے سرفراز فرما دے گا اور اگر اُس نے تمہارے اعمال کو اس انعام کے قابل نہ سمجھا تو وہ یہ نعمت تم سے واپس لے لے گا.چنانچہ جب تک مسلمان ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا.اور وہ صدیوں دنیاپر حکمرانی کرتے رہے.لیکن جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بھُلا دیا اور عیش و عشرت میں مشغول ہوگئے اللہ تعالیٰ نے بھی اُن سے اپنا تعلق منقطع کر لیا اور انہیں ان جنات سے محروم کر دیا.پس اصل چیز جس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ایمان اور عمل صالح ہے.آج بھی اگر مسلمان اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور خدا اور اس کے رسول کی سچے دل سے پیروی کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان نعمتوں کا وارث کر
دےگا جن کے پہلے مسلمان وارث ہوئے.اور انہیں اس جنت میں داخل کر دےگا جس سے وہ اپنی نا فر مانیوں کی وجہ سے نکالے گئے تھے.وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ اور جب وہ ان کو اور اُن کے جھوٹے معبودوں کو اپنے حضور میں کھڑا کر ے گا اور پھر اُن سے کہے گا کیا تم نے ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا ؟ یا وہ آپ ہی سیدھے راستہ سے بھٹک گئے تھے.(تب) وہ جواب دیں گے تو السَّبِيْلَؕ۰۰۱۸قَالُوْا سُبْحٰنَكَ مَا كَانَ يَنْۢبَغِيْ لَنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ پاک ہے ہمیں کوئی حق نہ تھا کہ ہم تیرے سوا اور ہستیوں کو اپنا کار ساز بناتے لیکن تُو نے اُن لوگوں کو اور مِنْ دُوْنِكَ مِنْ اَوْلِيَآءَ وَ لٰكِنْ مَّتَّعْتَهُمْ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى ان کے باپ دادوں کو دنیوی متاع بخشے یہاں تک کہ انہوں نے تیری یاد کو تر ک کر دیا.اور ہلاک ہونےوالی نَسُوا الذِّكْرَ١ۚ وَ كَانُوْا قَوْمًۢا بُوْرًا۰۰۱۹فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ قوم بن گئے پس( کفار سے کہا جائےگا کہ دیکھ لو) ان جھوٹے معبودوں نے تمہاری باتوں کو جھٹلادیا ہے بِمَا تَقُوْلُوْنَ١ۙ فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ۠ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا١ۚ وَ پس آج تم نہ تو عذاب کو ہٹا سکتے ہو اور نہ کوئی مدد حاصل کر سکتے ہو اور جو کوئی تم میں سے ظالم ہے مَنْ يَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيْرًا۰۰۲۰ ہم اُسے بڑا عذاب پہنچائیں گے.حلّ لُغَات.بُوْرًا.اَلْبُوْرُ : اَلرَّجُلُ الْفَاسِدُ وَالْھَالِکُ لَا خَیْرَ فِیْہِ.ایسا آدمی جو خراب و خستہ ہو اور ہلاک ہونے والا ہو.یہ لفظ جمع اور مفرد دونوں کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے.یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اِمْرَأۃٌ بُوْرٌ
وَقَوْمٌ بُوْرٌ.یعنی ہلاک ہونے والی عورت اور ہلاک ہونے والی قوم ( اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے.کفار کو جب اُن کے معبودوں سمیت اٹھا یا جائے گا تو ان معبودوں سے پوچھا جائےگا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا وہ خود ہی گمراہ ہو گئے تھے ؟ وہ جواب میں کہیں گے کہ اے خدا تُو پاک ہے.ہماری کیا مجال تھی کہ ہم تیرے سوا اور معبود بنا لیتے.بات یہ ہے کہ تُو نے ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادوں کو دنیا کی نعماء سے متمتع کیا اور انہیں مال و دولت کی اس قدر فراوانی بخشی کہ انہوں نے تیری ہدایت بھلا دی اور برباد ہونے والی قوم بن گئے.پھر کہا جائےگا کہ اے مشرکو ! جو کچھ تم کہتے تھے اُس کو خود تمہارے معبودوں نے جھٹلادیا ہے.پس آج نہ تو تم اس عذاب سے بچ سکتے ہو اور نہ کسی قسم کی مدد حاصل کر سکتے ہو.اور ہمارے اس قاعدہ کو یاد رکھو کہ جو ظلم کرتا ہے اُسے سخت عذاب پہنچتا ہے.ان آیا ت میں جن معبودانِ باطلہ کا ذکر کیا گیا ہے اُن سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ فرستادے ہیں جن کو اُن کی اُمتوں نے بعد میں اپنی نادانی سے خدا تعالیٰ کا شریک قرار دے دیا اور وہ اُن کی پرستش کرنے لگ گئے.جیسے حضرت مسیح ناصری ہیں کہ وہ ساری عمر اپنے آپ کو ابن آدم کہتے رہے مگر عیسائیوں نے اُن کو خدا کا بیٹا بنا لیا اور اُن کی الوہیت کا عقیدہ دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا.اسی طرح ہندو حضرت رام اور کرشن کی پرستش کرتے ہیں.حالانکہ یہ دونوں بزرگ اللہ تعالیٰ کے مقدس فرستادے تھے جو ہندو قوم کی ہدایت کے لئے بھارت میں مبعوث ہوئے تھے.اسی گروہ میں حضرت سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں جن سے قادری طریق کے پیرو دعائیں مانگتے اور اُن کو مردوں کو زندہ کرنے والا قرار دیتے ہیں.اور اُن کے متعلق عجیب و غریب قصے اور حکایات جُہلا میں مشہور کرتے رہتے ہیں.کہتے ہیں کہ ان کے کسی مرید نے ایک دفعہ اُن کی دعوت کی اور مرغ پکا کر سامنے رکھا.جب وہ کھا چکے تو ایک ہمسائی آئی اور کہنے لگی حضور یہ تو میرا مرغ تھا جو اس طرف کو آگیا تھا اور اس شخص نے ذبح کر کے آپ کو کھلا دیا.اب میں کیا کروں.انہوں نے کہا گھبرانے کی کیا بات ہے.مرغ کی تمام ہڈیاں جمع کرو چنانچہ اُس کی ہڈیاں جمع کی گئیں اور انہو ں نے ہاتھ میں پکڑ کر اُن کو دبا یا تو وہ کُڑ کُڑ کرتا ہوا مرغ بن گیا اور وہ عورت اُسے اٹھا کر اپنے گھر لے گئی.اسی طرح کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے پاس اُن کا ایک مرید آیا اور کہنے لگا.حضور میرا بیٹا بیمار ہے.دُعا کریں کہ وہ اچھا ہو جائے.انہوں نے کہا بہت اچھا ! ہم دعا کریں گے وہ ٹھیک ہو جائےگا.مگر وہ مر گیا اس پر وہ پھر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا.حضورمیرا بیٹا تو مر گیا.کہنے لگے ہیں مر گیا ! اب عزرائیل میں بھی اتنی جرأت ہو گئی ہے کہ وہ میرے حکم کی خلاف ورزی کرے.انہوں نے اُس
وقت ڈنڈا اٹھایا اور آسمان کی طرف چڑھنا شروع کر دیا.عزرائیل آگے آگے بھاگا جا رہا تھا اور وہ ڈنڈا اٹھائے اُس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے.وہ آسمان میں داخل ہی ہونے لگا تھا کہ یہ اس کے پاس پہنچ گئے اور زور سے اُسے ڈنڈا مارا.جس سے وہ لنگڑا ہو گیا.اور رُوحوں کی تھیلی اس کے ہاتھ سے چھین کر اُس کا منہ کھول دیا.جس کے نتیجہ میں وہ تمام لوگ زندہ ہوگئے جن کی روحیں اس روز عزرائیل قبض کر کے لے آیا تھا.وہ روتا روتا خدا تعالیٰ کے پاس گیا اور کہنے لگا خدایا ! میں تو تیرے کام کے لئے گیا تھا مگر عبدالقادر جیلانی نے مجھے ڈنڈا مارا اور میرے ہاتھ سے روحوں کی تھیلی چھین کر اُس نے ساری روحوں کو آزاد کر دیا.اب میرا کام کیا رہ گیا ہے.میر ی جگہ کسی اور کو مقرر کر دیجئیے.پھر انہوں نے صرف وہی رُوح نہیں نکالی جو اُن کے مرید کے لڑکے کی تھی بلکہ جتنی روحیں میں نے آج نکالی تھیں وہ سب کی سب انہوں نے آزاد کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ نے جب یہ بات سُنی تو فرشتہ سے کہنے لگا چُپ چُپ اگر عبدالقادر جیلانی نے یہ بات سُن لی اور اُس نے اگلی پچھلی ساری رُوحیں آزاد کر دیں تب بھی میں نے کیا کر لینا ہے.اس قسم کے تما م شرکاء اور ان کی عبادت کرنےوالوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سامنے حاضر کرےگا.اور مجرموں پر حجت تمام کرنےکے لئے اُن سے سوال کرے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو اس شرک کی تعلیم دی تھی.وہ کہیں گے خدایا ! ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اُن سے وہ بات کہتے جس کے کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں تھا.ہم تو ان لوگوں کو صرف تیری پرستش کی تعلیم ہی دیتے رہے مگر جب ایک لمبازمانہ گذر گیا.تو یہ اس تعلیم کو بھول گئے اور انہوں نے ہمیں تیرا شریک قرار دے دیا.پس ہم ان کے عقائد سے بیزار ہیں.یہی بات انجیل میں حضرت مسیح ناصری ؑ نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ’’اُس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے کہ اے خداوند ! اے خداوند !کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بد رُوحوں کو نہیں نکالا.اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے ؟ اُس وقت میں اُن سے صاف کہہ د وں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی.اے بدکارو! میرے پاس سے چلے جائو.‘‘ ( متی باب ۷ آیت ۲۲،۲۳) اسی طرح لکھا ہے.’’ وہ شہر شہر اور گائوں گائوں تعلیم دیتا ہوا یروشلم کا سفر کر رہا تھا اور کسی شخص نے اُس سے پوچھا کہ اے خداوند ! کیا نجات پانے والے تھوڑے ہیں ؟ اُس نے اُن سے کہا.جانفشانی کرو کہ تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہتیرے داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور نہ ہو سکیں گے.
جب گھر کا مالک اُٹھ کر دروازہ بند کر چکا ہو اور تم باہر کھڑے دروازہ کھٹکھٹا کر یہ کہنا شروع کرو کہ اے خداوند ! ہمارے لئے کھو ل دے اور وہ جواب دے کہ میں تم کو نہیں جانتا کہ کہاں کے ہو.اُس وقت تم کہنا شروع کرو گے کہ ہم نے تو تیرے رُو برو کھایا پیا اور تُو نے ہمارے بازاروں میں تعلیم دی.مگر وہ کہےگا میں تم سے کہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا تم کہاں کے ہو.اے بد کارو ! تم سب مجھ سے دور ہو.وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا.‘‘ ( لوقا باب ۱۳ آیت ۲۲ تا ۲۸) ان حوالہ جات میں حضرت مسیح ؑ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ میرے نام کے پیچھے چلنے والے تو بہت لوگ ہیں مگر نجات حاصل کرنے والے تھوڑے ہیں.جب قیامت کا دن آئےگا اُس دن میں اُن سے صاف کہہ دوںگا کہ اے بدکارو! تم سب مجھ سے دور ہو جائو ،میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو.غرض جب مشرکین کے سامنے اُن کے معبود حقیقت حال کو ظاہر کردیں گے تو اُن پر اُن کے عقائد کا بطلان واضح ہو جائےگا اور وہ سمجھ لیں گے کہ انہوں نے ان ہستیوں کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دے کر بڑے بھاری گناہ کا ارتکاب کیا ہے.ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ قوموں پر جب ایک لمبا زمانہ گذر جاتا ہے اور زمانۂ نبوت سے اُن کا بُعد ہو جاتا ہے اور دنیوی نعماء اور مادی لذات میں اُن کا انہماک ہو جاتا ہے تو رفتہ رفتہ اُن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو نی شروع ہو جاتی ہیں.جن میں سے سب سے بڑی خرابی اعتقادی رنگ میں یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ غلّو سے کام لےکر اللہ تعالیٰ کے اُن فرستادوں کو جو دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے ہیں اس کا شریک قرار دینے لگ جاتے ہیں یہ شریک قرار دینا بعض دفعہ تو علانیہ طور پر ہوتا ہے.جیسے عیسائیوں نے حضرت مسیح ؑ کو خدا قرار دےکر یہ کہنا شروع کر دیا کہ باپ بھی ازلی ہے اور بیٹا بھی ازلی ہے.اوررُوح القدس بھی ازلی ہے اور بعض دفعہ وہ اپنے بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے اور اُن سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنا لیتے ہیں.اور اس طرح اُن بزرگوں کو شریک ِباری قرار دے دیتے ہیں.جیسے آج کل مسلمانوں میں بڑے بڑے بزرگوں کے مقابر پر ہر سال میلے لگتے اور ہزاروں مسلمان وہاں قبروں پر سجدے کرتے اور مُرادیں مانگتے ہیں.یہ تمام امو رشرک میں داخل ہیں جو خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والے ہیں.مومن کامل وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی سچی توحید پر ایمان رکھے اور ہر قسم کے مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچتا رہے.
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ اور تجھ سے پہلے ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے تھے وہ سب کے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے.الطَّعَامَ وَ يَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنا یا ہے ( یہ دیکھنےکے لئے ) کہ کیا تم( مسلمان) صبر لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًاؒ۰۰۲۱ کرتے ہو(یا نہیں) اور (اے مسلمان) تیرا رب (حالات کو) بہت دیکھنے والا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے تھے وہ سب کے سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے.اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لئے آزمائش کا موجب بنایا ہے.تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کیا تم صبر سے کا م لیتے ہو یا نہیں.اور اے رسول ! تیرا رب اپنے بندوں کے حالات کوخوب جانچ رہا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وہ انبیاء جن کو یہ لوگ اپنی نادانی سے اس کا شریک قرار دے رہے ہیں اُن کی اپنی حالت تو یہ تھی کہ وہ حوائج بشر یہّ سے مستغنی نہیں تھے.وہ اسی طرح کھانے پینے کے محتاج تھے جس طرح یہ لوگ محتاج ہیں اور وہ اسی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے اور اپنی ضروریات کی چیزیں وہاں سے خریدتے تھے جس طرح یہ لوگ خریدتے ہیں.پھر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ انہوں نے اپنے جیسے انسانوں کو خدا بنا لیا اور ان سے دعائیں کرنااپنا معمول بنا لیا.گویا بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کے اندر صمدیت کا پایا جانا ضروری ہے اور صمد اُس ہستی کو کہتے ہیں جو خود تو کسی کی محتاج نہ ہو مگر باقی سب اس کی محتاج ہوں.لیکن ان معبودانِ باطلہ کو دیکھ لو کہ یہ سب کے سب کھانے پینے کے محتاج تھے اور سب کے سب اپنے سامانِ معیشت کی فراہمی کے لئے دوسروں کے تعاون کے حاجت مند تھے.پھر ایسے لوگ جو خود ایک فانی جسم لے کر آئے اور موت کا شکار ہوگئے اور جن کی زندگیاں بتا رہی ہیں کہ وہ ایسے ہی ایک انسان تھے جیسے تم انسان ہو.ان کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دے دینا کہاں کی دانائی ہے.یہ لوگ بے شک خدا تعالیٰ کے فرستادہ تھے مگر ان کو شریک ِ باری قرار دینا بڑا بھاری گناہ ہے.اس زمانہ میں سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ہے جس نے حضرت مسیح ؑ کو خدا قرار دے کر دنیا کے ایک بڑے حصہ کو شرک میں مبتلا کر رکھا
ہے لیکن اگر اناجیل کو دیکھا جائے تو اُن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ بھی اُسی طرح کھانے پینے کے محتاج تھے جس طرح دوسرے لوگ محتاج تھے چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’ یسوع رُوح القد س سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا اور چالیس دن تک روح کی ہدایت سے بیابان میں پھرتا رہا اور ابلیس اُسے آزماتا رہا.ان دنوں میں اُس نے کچھ نہ کھا یا اور جب وہ دن پورے ہو گئے تو اُسے بھوک لگی.‘‘ ( لوقا باب ۴ آیت ۱،۲) اس جگہ عیسائیوں نے گو مبالغہ سے کام لیتے ہوئے یہ لکھ دیا ہے کہ یسوع مسیح نے چالیس دن تک کچھ نہ کھایا مگر بہر حال اتنی بات انہیں بھی تسلیم کرنی پڑی کہ چالیس دن کے بعد مسیح کو بھوک لگی اور اُس نے چاہا کہ اُسے کچھ کھانے کو ملے جس سے اس کی احتیاج ظاہر ہے.پھر لکھا ہے.’’ دوسرے دن جب وہ بیت عنیّا سے نکلے تو اُسے بھوک لگی اور وہ دُور سے انجیر کا درخت جس میں پتے تھے دیکھ کر گیا کہ شاید اُس میں کچھ پائے مگر جب اُس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا.اُس نے اُس سے کہا آئندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھائے اور اُس کے شاگردوں نے سُنا.‘‘ ( مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲ تا ۱۴ـ) اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح کو اسی طرح بھوک محسوس ہوتی تھی جس طرح دوسرے لوگوں کو محسوس ہوا کرتی ہے.بلکہ ایک دفعہ جب انہیں کھانے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو وہ انجیر کے ایک درخت کی طرف گئے کہ شاید مجھے انجیر یں ہی کھانےکے لئے مل جائیں.مگر بدقسمتی سے وہ یہ بات بھول گئے کہ آج کل انجیر کا موسم ہی نہیں اور وہاں سے وہ ناکام واپس گئے.مگر چونکہ بھوک کی وجہ سے انہیں تکلیف ہورہی تھی.انہیں اس ناکامی پر غصہ آگیا اور انہوں نے اس درخت کو یہ بد دعا دے دی کہ آئندہ کوئی شخص تجھ سے کبھی پھل نہ کھائے.یہ واقعہ بھی حضرت مسیح کی الوہیّت کو باطل ثابت کرتا ہے کیونکہ اس سے نہ صر ف اُن کا عام انسانوں کی طرح بھوک محسوس کرنا ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ علمِ غیب تو الگ رہا اتنی بات بھی نہیں جانتے تھے کہ کون سے موسم میں انجیر کا درخت پھل دیا کرتا ہے.اگر جانتے تو وہ ایسے موسم میں جب کہ انجیر کا درخت پھل ہی نہیں دیا کرتا ایک درخت کی طرف کیوں دوڑے جاتے ؟ پھر جب انہوں نے خود ایک غلطی کی تو اُس کے نتیجہ میں اُن کا درخت کو بددعا دینا بھی اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا.عیسائی تو خدا تعالیٰ کے عادل ہونے پر بڑا زور دیا کرتے ہیں مگر یہ عجیب انصاف ہے کہ غلطی تو انہوں نے خود کی اور بد دعا ایک درخت کو دے دی.پھر لکھا ہے
’’ جب وہ گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تھا توا یسا ہوا کہ بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار آکر یسوع اور اُس کے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے.فریسیوں نے یہ دیکھ کر اس کے شاگردوں سے کہا.تمہارا استاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے.‘‘ ( متی باب ۹ آیت ۱۰ ،۱۱) اس عبارت میں بھی حضرت مسیح کے کھانا کھانے کا وضاحتًا ذکر آتا ہے.پھر حضرت مسیح خود اپنے متعلق فرماتے ہیں.’’ ابن آدم کھاتا پیتا آیا.اوروہ کہتے ہیں دیکھو کھائو اور شرابی آدمی محصول لینے والوں اور گنہگار وں کا یار.مگر حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی.‘‘ ( متی باب ۱۱ آیت ۱۹) اسی طرح لکھا ہے ’’ جب شام ہوئی تو وہ بارہ شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا اور جب وہ کھا رہے تھے تو اُس نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک مجھے پکڑوائےگا.وہ بہت ہی دل گیر ہوئے اور ہر ایک اُس سے کہنے لگا.اے خدا وند ! کیا میں ہوں اُس نے جواب میں کہا.جس نے میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالا ہے وہی مجھے پکڑوائےگا.ابن آدم تو جیسا اُس کے حق میں لکھا ہے جاتا ہی ہے.لیکن اُس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابن آدم پکڑ وایا جاتا ہے.اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا ہوتا اس کے پکڑوانے والے یہوداہ نے جواب میں کہا.اے ربی ّ ! کیا میں ہوں ؟ اُس نے اُس سے کہا تُو نے خود کہہ دیا.جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور بر کت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا.لو کھائو یہ میرا بدن ہے.پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور اُن کو دے کر کہا.تم سب اس میں سے پیٔو کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروںکے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے.میں تم سے کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پیٔوںگا اُس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پیٔوں.‘‘ ( متی باب ۲۶ آیت ۲۰ تا ۲۹) یہ حوالہ بھی بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا کرتے تھے.بلکہ بعض دفعہ تو سالن کا ایک ہی پیالہ ہو تا جس میں وہ اور اُن کے شاگرد سب شریک ہوتے.اسی طرح واقعہ ٔ صلیب کے بعد جب حضرت مسیح ؑ اپنے شاگروں پر ظاہر ہوئے تو لکھا ہے.
’اُس نے ان سے کہا.کیا یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟انہوں نے اُسے بھُنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا.اُس نے لےکر اُن کے روبرو کھا یا.‘‘ ( لوقا باب ۲۴ آیت ۴۱تا۴۳) ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ؑ اسی طرح بھوک محسوس کرتے تھے جس طرح دوسرے لوگ بھوک محسوس کرتے ہیں.اور وہ اسی طرح کھانا کھاتے تھے جس طرح اُن کے شاگرد اور دوسرے تمام لوگ کھانا کھاتے تھے.بلکہ واقعۂ صلیب کے بعد انہوں نے خود شاگردوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کچھ کھانےکے لئے موجود ہے.اور جب انہوں نے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ پیش کیا تو انہوں نے سب شاگردوں کے سامنے وہ مچھلی کا قتلہ لے کر کھا لیا.پھر انجیل یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ بازاروں میں بھی جاتے تھے اور لوگوں کو دینی تعلیم دیتے تھے.چنانچہ ایک مقام پر وہ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ نجات قربانیوں اور عمل کے ساتھ وابستہ ہے فرماتے ہیں.’’ اُس وقت تم کہنا شروع کروگے کہ ہم نے تو تیرے روبرو کھایا پیا اور تُو نے ہمارے بازاروں میں تعلیم دی مگر وہ کہے گا میں تم سے کہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا تم کہاں کے ہو.اے بدکارو! تم سب مجھ سے دُور ہو.‘‘ ( لوقا باب ۱۳ آیت ۲۶،۲۷) اسی طرح لکھا ہے کہ ’’ وہ خواہ گائوں ،خواہ شہروں ، خواہ بستیوں میں جہاں کہیں جاتا تھا لوگ بیماروں کو بازاروں میں رکھ کر اُس کی منت کرتے تھے کہ وہ صر ف اُس کی پوشاک کا کنارہ چھولیں.اور جتنے چھوتے تھے شفا پاتے تھے.‘‘ ( مرقس باب ۶ آیت ۵۶) غرض حضرت مسیح ناصری ؑ جن کو الوہّیت میں خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیا جاتا ہے اُ ن کے متعلق اناجیل سے ثابت ہے کہ وہ اُسی طرح کھانے پینے کے محتاج تھے جس طرح دوسرے لوگ محتاج تھے اور وہ بھی اُسی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے تھے جس طرح دوسرے لوگ چلتے پھرتے تھے اور یہی حال دوسرے تمام انبیاء کا تھا.آدم ؑسے لے کر آج تک کوئی نبی بھی ایسا مبعوث نہیں ہوا جو کھانے پینے کا محتاج نہ ہو.پھر انہیں خدا قرار دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ اس کے علاوہ اِن آیات میں کفار کے اُس اعتراض کا بھی جواب دیا گیا ہے جو انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب پہلے انبیاء بھی کھانے پینے کے محتا ج تھے اور وہ بھی بازاروں میں چلتے پھرتے تھے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمہارا
یہ اعتراض کرنا درست نہیں ہو سکتا.اعتراض تب ہوتا جب دوسرے انبیاء و رُسُل کے خلاف کوئی نئی بات آپ میں پائی جاتی.لیکن جب آپ ؐ کا قدم اُسی نہج پر ہے جس پر پہلے انبیاء مبعوث ہوئے اور اُسی طریق پر آپؐ قدم زن ہیں جس طریق پر پہلے انبیاء چلے تو آپ پر اعتراض کرنا درحقیقت اس امر کا اظہار کرنا ہے کہ انہیں سلسلۂ نبوت پر ایمان ہی نہیں.مگر فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً.تمہیں دشمنوں کی مخالفت اور اُن کے اعتراضات سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ ہم نے ابتلائوں اور امتحانات کا سلسلہ بھی جاری کیا ہوا ہے جن کے ذریعہ ہم کھوٹے اور کھرے میں امتیاز کر دیتے ہیں.اور انبیاء کے زمانہ میں یہ امتحانات زیاد ہ تر اسی رنگ میں ہوتے ہیں کہ باپ کو بیٹے سے اور بیٹے کو باپ سے.خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے.بھائی کو بہن سے اور بہن کو بھائی سے جُدا ہونا پڑ تا ہے.اور اس طرح وہ ایک دوسرے کی ایمانی آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں.پھر یہ آزمائش صرف خاندانوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ قوم کی قوم کو اس دور میں سے گذرنا پڑتا ہے اور کفار مومنوںکے لئے اور مومن کفارکے لئے ابتلاء اور آزمائش کا ایک ذریعہ بن جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ پر ایمان لانے سے ادھر صحابہ ؓ کو آزمائشوں کی ایک آگ میں سے گذرنا پڑا اور اُدھر اُن کی مخالفت نے دشمنوں کی اندرونی خرابیوں کو بھی بے نقاب کر دیا.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے تو نہ ابوبکر ؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ کی خوبیاں دنیا پر ظاہر ہوتیں اور نہ ابوجہل اور عُتبہ اور شیبہ کی بدکرداریاں دنیا پر عیاں ہوتیں.یہ اسی ایمانی آزمائش کا نتیجہ تھا کہ اُس نے ایک طرف تو صحابہ ؓ کے اندرونی حسن کو ظاہر کر دیا اور دوسری طرف کفار کا مخفی کوڑھ لوگوں پر ظاہر ہو گیا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے تو دنیا میں یہی سمجھا جاتا کہ ابو الحکم مکہ کا ایک بہت بڑا مدبر اور سمجھدار رئیس تھا اور ابوبکر ؓ وہاں کا ایک دیانتدار اور بااخلاق تاجر تھا.جب مخالفت کی آگ بھڑکی تو اُس نے صحابہ ؓ کو کندن بنا دیا.اور کفار کا ملمع اتار کر ان کا پیتل ہونا لوگوں پر ظاہر کر دیا.غرض صحابہ ؓ کفارکے لئے اور کفار صحابہ ؓ کے لئے آزمائش کا ایک ذریعہ بن گئے.مگر فرماتا ہے ان آزمائشوں میں تمہارا صبر اور استقامت سے اپنے ایمان پر قائم رہنا ضروری ہے تاکہ تمہاری عظمت لوگوں پر ظاہر ہو اور یہ کبھی خیال نہ کرو کہ اگر ابتلا ء اسی طرح بڑھتے چلے گئے تو شاید تمہاری ہلاکت کا باعث بن جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حالا ت کو دیکھ رہا ہے.اس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ تم تو ان ابتلائوں سے گھبراتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ جو بصیر ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ابتلاء تمہاری طاقت کو کچلنے کا باعث نہیں بلکہ تمہیں اور بھی ترقی کی طرف لے جانے والے ہیں.یہی نکتہ مولانا روم ؒ نے اپنے اس شعر میں بیان فرمایا ہے کہ
؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیرِ آں گنج کرم بنہادہ است (مثنوی مولانا روم دفتر ششم ) یعنی ہر ابتلاء جو اللہ تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلوں پر آتا ہے اُس کے نیچے رحمتِ الٰہی کا ایک بہت بڑا خزانہ مخفی ہوتا ہے جو اُس کی ترقی کا باعث ہوتا ہے.چنانچہ دیکھ لو مکہ کے بڑےبڑے رئو سا ء نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسی کیسی اذیتّیں پہنچائیں مگر یہی اذّیتیں تھیں جنہوں نے سعید الفطرت لوگوں کی طبائع میں ہلچل مچا دی.اور وہ خون کے دریائوں میں گذرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ تک آپہنچے اور انہوں نے آپؐ کے آستانہ پر اپنے سرجھکا دئیے.اگر ابتلاء نہ آتے تو شاید اسلام کی آواز مکّہ کی چاردیواری سے بھی باہر نہ نکلتی.مگر ان ابتلائوں کی وجہ سے اُس کی آواز عرب کے کونہ کونہ میں گونجنے لگی اور پھر عرب سے نکل کر دنیا کے کناروں تک جا پہنچی پس ابتلا ء قومی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں.آج تک کوئی نبی بھی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس کی جماعت کو ابتلائوں اور آزمائشوں کے دَور میں سے نہ گذرنا پڑا ہو بلکہ قرآن کریم ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ( البقرۃ :۲۱۵) یعنی ان لوگوں کو اس قدر تکالیف پہنچیں کہ وہ سر سے پیر تک ہلادیئے گئے.یہاں تک کہ وقت کا رسول اور مومن بندے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے حضور گِر گئے اور انہوں نے دُعائیں کرنی شروع کر دیں کہ الٰہی تیری مدد کب نازل ہوگی.آخر خدا نے اُن کی پکار سُنی اور آسمان سے اُس کی مدد آگئی جس نے اُن کو غالب کر دیا.پس ابتلائوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ انہیں جماعتی ترقی کا ایک اہم ذریعہ سمجھنا چاہیے اور دُعائوں سے اور گر یہ و زاری سے اور نیک اور پاک اعمال سے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت کو جذب کرنا چاہیے.وَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا اور انہوں نے جو ہماری ملاقات کی امید نہیں کرتے کہہ دیا کہ کیوں ہم پر فرشتے نہیں اتارے گئے ؟یا ہم الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے ؟ انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا ہے اور سرکشی
عَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا۰۰۲۲يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰٓىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى میں بہت آگے نکل گئے ہیں.(کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ )جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے اُس دن مجرموں کو يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَ يَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۰۰۲۳ کوئی خوشخبری نہیں ملے گی اور( وہ گھبراکر) کہیں گے (ہم سے) پرے ہی رہو.اور ہم نے اُن کے ہر قسم کے عمل کی وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً طرف توجہ کی جو انہوں نے کیا تھا اور اُس کو ہو ا میں بکھیر کر اُڑائے ہوئے ذرات کی طرح کر دیا جنتی لوگ اُس دن مَّنْثُوْرًا۰۰۲۴اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَقَرًّا وَّ اَحْسَنُ مَقِيْلًا۰۰۲۵ ٹھکانہ کے لحاظ سے بھی اچھے ہوںگے اور خواب گاہوں کے لحاظ سے بھی وہ اعلیٰ مقام پر ہوںگے.حلّ لُغَات.حِـجْرًا مَّـحْجُوْرًا.حِـجْرًا مَـحْجُوْرًاحَجَرَہٗ کے معنے ہیں مَنَعَہٗ.اُس کو روک دیا ( اقرب) مفردات میں ہے کہ وَ یَقُوْلُوْنَ حِـجْرًا مَـحْجُوْرًا کَانَ الرَّجُلُ اِذَا لَقِیَ مَنْ یُّخَافُ یَقُوْلُ ذٰلِکَ یعنی حِـجْرًا مَّـحْجُوْرًا کا فقرہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی آدمی کسی سے ڈرتا ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ وہ اُسے نقصان پہنچائے گا.تو اس وقت وہ یہ فقرہ کہا کرتا تھا.جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کاش اُس کے اور اُس کو نقصان پہنچانے والے کے درمیان کوئی روک حائل ہو جائے.اسی طرح کفار بھی جب عذاب کے فرشتوں کو دیکھیں گے.تو وہ یہ فقرہ کہیں گے.اس خیال سے کہ شاید کوئی روک پیدا ہو جائے اور وہ عذاب سے بچ جائیں ( مفردات ) ھَبَاءٌ أَ لْھَبَاءُ اَلْغُبَارُ.غبار.اَوْیُشْبِہُ الدُّخَانَ وَھُوَ مَایَنْبَثُّ فِیْ ضَوْءِ لشَّمْسِ یا وہ چیز جو دھوئیں کی طرح سورج کی شعائوں میں اُڑتی نظر آتی ہے.اسی طرح ھَبَاءٌ کے معنے ہیں دُقَاقُ التُّرَابِ سَاطِعَۃً وَمَنْثُوْرَۃً عَلیٰ وَجْہِ الْاَرْضِ.وہ باریک مٹی جو زمین پر فضا میں بکھری ہوئی اُڑ رہی ہوتی ہے.( اقرب) مَقِیْلًا.مَقِیْلًا قَالَ ( یَقِیْلُ) کا مصدر ہے اور قَالَ کے معنے ہیں نَامَ فِی الْقَائِلَۃِ اَیْ نِصْفَ النَّھَارِ.دوپہر کے وقت سویا اور اُس نے آرام کیا.اسی طرح قَالَ کے معنے ہیں شَرِبَ فِیْ نِصْفِ النَّھَارِ دوپہر کے وقت تسکین نفس کے لئے کچھ پینے کی چیز استعمال کی ( اقرب) یَقِیْلُ قَالَ سے ظرفِ مکان بھی ہو سکتا ہے.اس صورت
میں اس کے معنے دوپہر کے وقت آرام کرنے کی جگہ کے ہوںگے.( مفردات و اقرب) تفسیر.ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی کوئی امید نہیں رکھتے یا جن کے دلوں میں ہماری سزا اور عذاب کا کوئی خوف نہیں ان کی بھی عجیب حالت ہے.کبھی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اُترتے اور کبھی یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم کو خدا کیوں نظر نہیں آتا.یہ بیوقوف اپنے آپ کو دیکھتے نہیں کہ کیسے گندےاور ناپاک ہیں.آخر انہوں نے اپنے آپ کو کیا سمجھ رکھا ہے کہ ایسے مطالبات کرتے رہتے ہیں.رِجَاء کے معنے عام طور پر امید کے ہوتے ہیں مگر رِجَاء کے ایک معنے ڈر اور خوف کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب ) اسی طرح لِقَاء کا لفظ جہاں ملاقات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے ایک معنے جنگ کے بھی ہوتے ہیں.پس لَا یَرْجُوْنَ لِقَآ ءَ نَا کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں.یہ بھی کہ وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے اور یہ بھی کہ جو لوگ ہماری سزا سے خوف نہیں کھاتے.چونکہ دنیا میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اگر کوئی امید دلائی جائے تو وہ بڑے شوق سے کام کرنےکے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو سزا کا خوف دلایا جائے تب وہ کام کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں.اس لئے لَا یَرْجُوْنَ لِقَآ ئَ نَا فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسم کی طبائع کوملحوظ رکھ لیا اور فرمایا کہ ان لوگوں نے ہمارے انعام اور برکات کے وعدوں سے کوئی فائدہ اٹھایا اورنہ عذاب کی خبروں سے اپنے اندر کوئی تبدیلی پیدا کی بلکہ برابر یہ لوگ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر خدا تعالیٰ کے فرشتے کیوں نہیں اُترتے یا ہمیں خدا تعالیٰ کی روئت کیوں نصیب نہیں ہوتی.اس جگہ جو لِقَا ء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مفسرین نے اس کے مختلف معنے کئے ہیں.بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی پرواہ نہیں کرتے.اور بعض نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رئویت کی اُمید نہیں رکھتے یا یہ کہ جزائے خیر کی اُمید نہیں رکھتے.لیکن درحقیقت لقاء ایک روحانی مقام ہے جو اسلام پر چلنے والوں کو حاصل ہوتا ہے.رؤیت کے معنے تو صرف اتنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھ لیا جو ایک عارضی چیز ہے لیکن لقاء کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا مل گیا اور ایک مستقل مقام کا نام ہے.اس لئے صوفیا ء کی اصطلاح کے مطابق رئو یت حال ہے اور لقاء ایک مستقل مقام ہے.اور یہی ایک چیز ہے جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں مابہ الامتیاز ہے.دوسرے مذاہب اپنے پیرئوں سے اللہ تعالیٰ کے وصال کا صرف وعدہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وصال قیامت کے دن ہوگا.مگر قرآن کریم اس نظریہ کو ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لقاء الٰہی کا مرتبہ اسی دنیا میں انسان کو حاصل ہو سکتا ہے بلکہ وہ اس پر اتنا زور دیتا ہے کہ فرماتا ہے.مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ
اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا ( بنی اسرائیل :۷۳) یعنی جو شخص اس دنیا میں خدا تعالیٰ کا عرفان نہیں رکھتا اور اس کو اپنے دل کی آنکھوں سے نہیں دیکھتا وہ آخرت میں بھی اُسے نہیں دیکھ سکے گا.اور سب سے بڑھ کر بھٹکا ہو ا ہوگا.اسی طرح فرماتا ہے.کَلَّا اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ( التطفیف :۱۰) یعنی کفار قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے آنے سے روکے جائیں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی روئت حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ دنیا میں اس سے محروم رہے تھے.اس کے مقابلہ میں مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ.اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ( القیامۃ :۲۳،۲۴)اُس دن خدا تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونے والے مومن بندوں کے مونہہ بڑے ہشاش بشاش اور خوبصورت ہوںگے اس لئے کہ وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوںگے.اسی طرح قرآن کریم لقائے الٰہی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ.اُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ( یونس :۸.۹) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی تڑپ اپنے دلوں میں نہیں رکھتے اور دنیا پر ہی راضی ہو کر بیٹھ گئے ہیں اور اس پر اُن کو اطمینان اور سکون حاصل ہو گیا ہے اور وہ لوگ جو ہمارے نشانوں سے غافل ہیں اُن کا ٹھکانہ اُن کے اعمال کے سبب سے جہنم ہوگا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام لقاء الٰہی کو روحانیت کی جان اور اسلام کا مغز قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب لقاء الٰہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے.انہیں ہم سزا دیں گے اور انہیں جہنم میں ڈالیں گے افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کے کلام اور الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور کوئی شخص امّت محمدیہ میں ایسا نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ کے حضور ایسا مقام حاصل کر سکے کہ خدا اُس سے بولنے لگ جائے.حالانکہ یہی ایک مسئلہ ہے جو اسلام کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت کرنے والا ہے.باقی مسائل کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب والے بھی کچھ نہ کچھ پیش کر دیتے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساحروں سے مقابلہ ہوا تو جادوگروں نے بھی مقابل میں رسّیاں ڈال دیں اور گو اس میں اُن کو ناکامی ہوئی مگر بہر حال انہوں نے مقابلہ کے لئے کچھ نہ کچھ تو پیش کر دیا.اسی طرح باقی مسائل کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب والے کچھ نہ کچھ باتیں پیش کر دیتے ہیں خواہ وہ غلط ہی ہوں مگر لقاء الٰہی ایک ایسی چیز ہے جس کے مقابل میں دوسرا کوئی مذہب کھڑا نہیں ہو سکتا.کیونکہ اگر وہ اس کا دعویٰ کریں تو اُن کو ماننا پڑ تا ہے کہ لقاء الٰہی اس دنیا میں بھی ہو سکتا ہے.جس کا ثبوت وہ اپنے مذہب سے پیش نہیں کر سکتے اس صورت میں اُن کو لازماً اسلام کی برتری تسلیم کرنی پڑتی ہے کیونکہ اسلام صرف لقاء الٰہی کا دعویٰ ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے.پس وہ اس
سے بچنےکے لئے لقا ء الٰہی کے سرے سے ہی منکر ہو جاتے ہیں اور اسلام کے اس مسئلہ کے مقابل میں اپنی طرف سے لقاء الٰہی کا جھوٹا دعویٰ بھی پیش کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے بلکہ کہہ دیتے ہیں کہ لقائے الٰہی نہ تمہارے ہاں ہے نہ ہمارے ہاں ہے.وہ یہ نہیں کہتے کہ لقائے الٰہی تمہارے مذہب میں نہیں اور ہمارے مذہب میں ہے.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا دعویٰ کیا تو وہ اُسے ثابت نہیں کر سکیں گے.یہ لقائے الٰہی کس طرح حاصل ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اصولی رنگ میں قرآن کریم میں یہ ہدایت دی ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِِ ( انشقاق:۷) یعنی اے انسان تیرے لئے اپنے رب سے ملنے کا راستہ تو ہر وقت کھلا ہے مگر شرط یہ ہے کہ تیری طرف سے کَدَح ہونا چاہیے.اور کدح اُس کام کو کہتے ہیں جو اتنی محنت سے کیا جائے جس کا اثر انسان کے جسم پر بھی محسوس ہونے لگے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا یا ہے کہ انسان کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ادھر وہ ایمان لایا تو اُدھر اُسے روحانیت میں کمال حاصل ہو جائےگا بلکہ اس کے لئے اُسے متواتر محنت اور جدوجہد کرنی پڑے گی.اور قربانیوں کی ایک آگ میں سے اُسے گذرنا پڑے گا تب اُسے لقاء الٰہی کی نعمت میسر آئے گی.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی بے باکی کی بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ لقاء الٰہی کے منکر ہیں.جس کی وجہ سے نہ تو اُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہےاور نہ اُس کے عذاب کا خوف پایا جاتا ہے اور پھر اُن کے ان مطالبات کا ذکر فرمایا ہے کہ اگر یہ سچا رسول ہے تو ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترتے یا ہم خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھ لیتے.اس سے پہلے وہ یہ اعتراض بھی کر چکے تھے کہ اگر یہ سچا رسول تھا تو چاہیے تھا کہ اس کے پاس کوئی بہت بڑا باغ ہوتا جس کے پھلوں اور میووں سے لدے ہوئے درخت اس کے دعویٰ کا ثبوت ہوتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے نزدیک صداقت کے دو ہی ثبوت ہوا کرتے ہیں.اوّل مادی غلبہ ، دوم سُنت اللہ کے خلاف محیر العقول کارنامے.چونکہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دونوں باتیں نظر نہیں آتی تھیں نہ مال و دولت اور خزانوں کے ڈھیر انہیں آپ کے پاس دکھائی دیتے تھے اور نہ سنت اللہ کے خلاف کوئی مافوق الانسانیت بات آپ میں دکھائی دیتی تھی اس لئے وہ آپ کے دعویٰ پر ہنسی اُڑاتے تھے.اللہ تعالیٰ اُن کے ان اعتراضات کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتا ہے لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا.ان اعتراضات کا اصل باعث یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں ان دونوں باتوں کو بہت بڑا اور ناممکن سمجھتے ہیں اور شرارتوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں.یعنی منہ سے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹ بول رہے ہیں اور قوم کے دشمن ہیں.لیکن اپنے
دلوں میں یہ خیال کرتے ہیں کہ قوم کو جس مقام تک پہنچانے کا یہ شخص مدعی ہے اُسے حاصل نہیں کیا جا سکتا.گویا بظاہر تو مخالفت کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس شخص نے قوم سے غداری کی ہے اور بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کا ڈھونگ رچا دیا ہے مگر مخالفت کی اصل وجہ اُن کے دلوں کی یہ کیفیت ہے کہ وہ ان دعووں کو ناقابلِ حصول سمجھتے ہیں اور اس مایوسی کی وجہ سے ان قربانیوںکے لئے جو آپ کے ساتھ مل کر کرنی پڑتی ہیں اپنے نفوس میں جرأت نہیں پاتے اور مخالفت پر آمادہ رہتے ہیں.پھر فرماتا ہے کہ فرشتوں کا یہ مطالبہ تو کرتے ہیں مگر ہمارے فرشتے یا تو الہام لایا کرتے ہیں.یا کفار پر عذاب نازل کیا کرتے ہیں.الہام کے تو یہ قابل نہیں اور جب عذاب آیا تو اس وقت یہی کہیں گے کہ خدایا اسے ٹلادے اور اس سے دُور بھاگنے کی کوشش کریں گے گویا اُس وقت فرشتوں کا آنا اُن کے لئے کسی برکت کا موجب نہیں ہوگا بلکہ تباہی اور بربادی کا موجب ہوگا اور ہمارا یہ عذاب بلاوجہ نہیں ہوگا.بلکہ اس لئے ہوگا کہ یہ لوگ صداقت کو دنیا سے مٹانا چاہتے ہیں جس میں ہم اُن کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے.چنانچہ جب بھی یہ لوگ صداقت پر حملہ کرنے کی طرف توجہ کریں گے ہم ان کو تباہ کر دیں گے اور انہیں ہوا میں بکھرے ہوئے ذرات کی طرح منتشر اور پراگندہ کردیں گے اور انہیں ایسا پیسیں گے کہ اُن کے دوست اور مددگار بھی اُن کو اکٹھا نہیں کر سکیں گے.اس کے مقابلہ میں مومنوں کو ہماری طرف سے اعلیٰ سے اعلیٰ ٹھکانے ملیں گے اور اُن کے قیلولہ کی جگہ بھی بڑی اچھی ہوگی.یعنی اُن کے صبح کے کام اُن کے دوپہر کے آرام کو بڑا خوشگوار بنا دیں گے اور اُن کی قربانیاں انہیں اور اُن کی آئندہ نسلوں کو ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی برکات اور نعماء سے متمتع کرتی رہیں گی.وَ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اور اُس دن (کو یاد کرو) جب آسمان پھٹ جائےگا اور بادل سر پر منڈلا رہے ہوںگے اور ملائکہ بار بار اُتارے تَنْزِيْلًا۰۰۲۶اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ١ؕ وَ كَانَ يَوْمًا جائیں گے.اُس دن بادشاہت سچ مچ رحمٰن (خدا) کے قبضہ میں نظر آئے گی.اور( یہ) دن کافروں پر بڑا سخت ہوگا.عَلَى الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا۰۰۲۷وَ يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا (اور) کہے گا.اے کاش! میں رسول کے ساتھ چل پڑتا.
يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۰۰۲۸يٰوَيْلَتٰى وائے بدبختی ! کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا.اُس نے مجھے خدا کے ذکر لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۰۰۲۹لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ سے غافل کر دیا جبکہ وہ( رسول کے ذریعہ سے) میرے پاس آیا تھا.بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ١ؕ وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۰۰۳۰ اور شیطان آخر انسان کو کو اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا ہے.حلّ لُغَات.خَذُوْلًا.خَذُوْلًاخَذَلَ سے ہے اور خَذَلَہٗکے معنے ہیں تَرَکَ نُصْرَتَہٗ وَاعَانَتَہٗ اُس کی اعانت اور مدد چھوڑ دی.پس خَذُوْلًا کے معنے ہوںگے مدد اور نصرت کو چھوڑ دینے والا.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.تم اُس دن کو یاد کرو جبکہ آسمان پھٹ جائےگا اور بادل ہی بادل ظاہر ہو جائیں گے.اور کفار کو عذاب دینےکے لئے کثرت سے فرشتے نازل کئے جائیں گے.اُس دن بادشاہت کافروں سے چھین کر خدا اپنے ہاتھ میں لے لےگا.اور وہ دن کافروںکے لئے بڑا سخت ہوگا اور کافر اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کہےگا کہ کاش میں محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہوتا.کاش ! میں فلاں شخص کو جو دشمنِ رسول تھا اپنا دوست نہ بناتا.اس کم بخت دوست نے خدا تعالیٰ کا پیغام آنے کے بعد مجھے اور بھی گمراہی میں دھکیل دیا.اور میرے لئے شیطان بن گیا.اور شیطان ہمیشہ وقت پر ساتھ چھوڑ دیا کرتا ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اُس عذاب کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو کفارکے لئے آسمان پر مقدر ہو چکا تھا چونکہ اُن کا مطالبہ تھا کہ اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر فرشتے کیوں نہیں اُتارے گئے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ فرشتے تمہاری سرکوبی کے لئے آسمان سے اتارے جائیں گے.مگر وہ دن تمہارے لئے خوشی کا موجب نہیں ہوگا بلکہ حسرت اور افسوس کا موجب ہوگا.آج تو تم بڑی بے باکی کے ساتھ کہتے ہو کہ وہ فرشتے کہاں ہیں جن کا روزانہ ذکر کیا جاتا ہے.ہم پر بھی اُتریں تو ہم جانیں کہ تم سچ کہتے ہو.مگر جب وہ نازل ہوئے تو اُس دن تم کہو گے کہ کاش ! ہم پر یہ دن نہ چڑھتا اور ہم اس کی آفات سے محفوظ رہتے.چنانچہ فرماتا ہے.يَوْمَ تَشَقَّقُ
السَّمَآءُ.ایک دن آنے والا ہے جبکہ آسمان پھٹ جائےگا.آسمان کے پھٹنے کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ عذاب نازل ہو جائے.گویا رحمت اور عذاب دونوںکے لئے آسمان پھٹ جانے کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوَ لَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ( الانبیاء :۳۱)یعنی کیا کفار اس امر پر غور نہیں کرتے کہ آسمان او ر زمین دونوں بند تھے.نہ آسمان سے برکاتِ الٰہیہ کا نزول ہو رہا تھا اور نہ زمین اپنی مخفی طاقتوں کو ظاہر کر رہی تھی مگر پھر ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر ان دونوں کو پھاڑ دیا.اور کلامِ الٰہی سے ہم نے ہر چیز کو زندہ کر دیا.اس جگہ آسمان کے پھٹنے سے رحمتِ الٰہی کی بارش بر سنا مراد ہے لیکن دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا.اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا(مریم :۹۱،۹۲) یعنی قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گِر جائیں اس لئے کہ عیسائیوں نے خدائے رحمٰن کا ایک بیٹا بنا لیا ہے.اس جگہ آسمان کے پھٹنے سے مراد آسمان سے بلائوں اور آفات کا نزول ہے یعنی قریب ہے کہ آسمان اپنی بلائوں اور آفات کا مُنہ ان کے لئے کھول دے اور انہیں خطرناک عذابوں سے گھیر لے اس لئے کہ انہوں نے ایک انسان کو خدائے رحمٰن کا بیٹا قرار دے دیا ہے.زیرِ تفسیر آیات میں بھیيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ سے مرا د عذابِ الٰہی کا نزول ہے کیونکہ اس کے معاً بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ كَانَ يَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا وہ دن کافروںکے لئے بڑا سخت ہوگا.اگر یہاں آسمان کے پھٹنے سے رحمتِ الٰہی کا نزول مُراد ہوتا تو کفار کی ناکامیوں اور اُن کی حسرتوں کا ذکر نہ کیا جاتا.اُس دن کی ایک بڑی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ اُس دن بادل ہی بادل ظاہر ہو جائیں گے یعنی آسمان سے خوب بارش برسے گی.اور دوسری علامت یہ بتائی کہ اُس دن اللہ تعالیٰ کے ملائکہ کفّار کو عذاب دینےکے لئے بڑی کثرت کے ساتھ اُتار ے جائیں گے اسی طرح یہ بھی بتا یا کہ اُس دن خدائے رحمٰن کی حکومت قائم ہو جائےگی اور کفّار اپنی ہلاکت اور بر بادی سے چیخ اٹھیں گے.یہ عذاب جیسا کہ تاریخی واقعات سے ظاہر ہے کفّار مکہ پر جنگِ بدر کی صورت میں آیا.جسے قرآن کریم نے یوم الفرقان بھی قرار دیا ہے ( انفال ع ۵) یہی وہ دن تھا جس میں اللہ تعالیٰ کفّار کے بڑے بڑے عمائد کو مکّہ سے نکال کر بدر کے میدان میں لایا.اور انہیں چند کمزور اور بے سامان مسلمانوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنا دیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عتبہ اور شیبہ اور ابوجہل اور عقبہ بن ابی معیط اور امیّہ بن خلف اور نضر بن حارث اور دوسرے تمام سردار ایک ایک کرکے بدر کے میدان میں آچکے ہیں تو آپ نے صحابہ ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ
ھٰذِہٖ مَکَّۃُ قَدْ اَلْقَتْ اِلَیْکُمْ أَفْلَاذَ کَبِدِھَا(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام رویا عاتکۃ بنت عبد المطلب) یعنی لو مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے نکا ل کر تمہاری طرف پھینک دئے ہیں.مگر چونکہ کفّار کا لشکر وادیٔ بدر میں مسلمانوں کے لشکر سے پہلے پہنچ چکا تھا.اس لئے اُس نے اپنے لئے ایسی جگہ منتخب کر لی جہاں پانی اور گھاس کی کثرت تھی اور جس کی زمین چکنی اور ہموار تھی اور مسلمانوں کو ریت کے ایک ٹیلے پر اُترنا پڑا.جہاں نہ تو پانی با فراط مل سکتا تھا اور نہ جانوروںکے لئے گھاس کا کوئی انتظام تھا.کفار نے پختہ زمین کا انتخاب اپنے لئے اس لئے کیا تھا کہ لڑائی کی صورت میں جنگی حرکات اُس میں آسانی سے ہو سکیں گی.اور مسلمانوںکے لئے ریتلا میدان اس لئے چھوڑا گیا تھا کہ جنگ کے وقت اُن کے پائوں ریت میں دھنس دھنس جائیں گے اور اُن کے لئے لڑنا مشکل ہو جائےگا.مگر وہ خدا جس نے یہ خبر دے رکھی تھی کہ يَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ اُس نے راتوں رات جنگ کا اس طرح پانسہ پلٹا کہ خوب بارش ہوئی.جس کے نتیجہ میں ایک تو مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر پانی جمع کر لیا اور پھر اُس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بارش کی وجہ سے ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان بن گیا اور کفار کا پختہ میدان پھسلویں زمین بن گیا.اور اُس کے سپاہیوں اور گھوڑوںکے لئے مسلمانوں کا جم کر مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تائیدکے لئے اپنے ملائکہ بھی نازل فرمائے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الہامًا بھی دے دی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ۠ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ( الانفال :۱۰)یعنی اُس وقت کو یا دکرو جبکہ تم اپنے رب سے التجائیں کرتے تھے کہ وہ تمہاری مددکے لئے آسمان سے اُترے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دُعائوں کو سُنا اور اُس نے تمہیں بشارت دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروںگا جن کا لشکر کے بعد لشکر بڑھ رہا ہوگا.چنانچہ مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے والے لشکر کی تعدا د بھی ایک ہزار تھی اور مسلمان صرف ۳۱۳ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کی خبر دی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی فرشتے تھے جو ہر انسان کے ساتھ مقرر ہوتے ہیں.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر کا کفار سے مقابلہ ہوا تو باوجود اس کے کہ صحابہ ؓ ۳۱۳ تھے اور پھر وہ نہتے اور ناتجربہ کار تھے اللہ تعالیٰ نے ہر کافر کے دل میں اُس فرشتے کے ذریعہ جو اُس پر مقرر تھا رعب ڈالنا شروع کیا کہ مقابلہ کیا تو مارے جائو گے.بلکہ بعض کفار کو جیسا کہ روایات سے ثابت ہے کشفی حالت میں یہ فرشتے نظر بھی آئے.چنانچہ جب بدر کی جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بھاگ نکلے تو بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم نے کیسی بزدلی دکھا ئی ہے.انہوں نے کہا تمہیں کیا پتہ اس جنگ میں سفید ابلق گھوڑوں پر کوئی عجیب قسم کی مخلوق سوار تھی.تلواریں اُن کے ہاتھ میں تھیں اور وہ
جس پر بھی تلوار چلاتے تھے وہ فورًا کٹ کردو ٹکڑے ہو جاتا تھا.پس ہمارا مقابلہ آدمیوں سے نہیں تھا بلکہ جنات سے تھا.چنانچہ باوجود کثرت اور سازو سامان کے وہ اس تائید الٰہی کی وجہ سے شکست کھا گئے.پھر فرشتوں کا نزول اس رنگ میں بھی ہوا کہ اِدھر لڑائی ہو رہی تھی اور اُدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور سجد ہ میں گِر کر دعائیں فرما رہے تھے.بہت دیر کے بعد آپ ؐ نے سجدہ سے اپنا سر اُٹھایا اور پھر خیمہ سے باہر تشریف لاکر آپؐ نے ریت اور کنکروں کی ایک مٹھی اُٹھائی اور انہیں زور سے کفار کی طرف پھینکا اور بڑے جوش سے فرمایا شَاھَتِ الْوُجُوْہُ یعنی دشمنوں کے مُنہ کا لے ہو گئے اور ساتھ ہی آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ یکدم حملہ کردو.آپ کا اُن کی طرف مٹھی بھر کنکر پھینکنا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس زور سے آندھی چلائی کہ کفار کی آنکھیں اور مُنہ ریت اور کنکروں سے بھر گئے.اور کفار کے لشکر میں بھاگڑ مچ گئی اور آن کی آن میں میدان صاف ہوگیا.آپؐ نے اُن کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر فرمایا.یہ فرشتوں کی فوج تھی جو خدا نے ہماری مددکے لئے نازل فرمائی تھی (بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر).خود قرآن کریم نے بھی ایک مقام پر اس نشان کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال :۱۸) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! جب بدر کے میدان میں کفار کی طرف تونے مٹھی بھر کنکر پھینکے تھے تو اُس وقت تُو نے کنکر نہیں پھینکے بلکہ ہم نے پھینکے تھے اور صحابہ ؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ(الانفال :۱۸) یعنی تم نے ان کفار کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو قتل کیا ہے.یعنی ظاہر میں تو تمہارے ہاتھوں نے تلوار چلائی اور ظاہر میں تمہارے ہاتھوں سے کفار اپنے کیفر کردار کو پہنچے مگر تم بھی جانتے ہو اور دنیا بھی جانتی ہے کہ تمہاری تلواروں میں یہ طاقت نہیں تھی کہ تم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے.تمہارا تجربہ ان سے کم تھا.تمہاری طاقت ان سے کم تھی.تمہارے سامان ان سے کم تھے.مگر اس کے باوجود جو تمہیں غلبہ نصیب ہوا اور تم نے کفار کے بڑے بڑے سرداروں کو خاک و خون میں لوٹا دیا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری پشت پر خدائی ہاتھ تھا اور اُس کے فرشتوں کی فوج تمہاری تائید میں نازل ہو رہی تھی.پھر فرماتا ہے.اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ اُس دن بادشاہت سچ مچ خدائے رحمٰن کے قبضہ میں نظر آئےگی کیونکہ اُس دن خدائے رحمٰن کی وہ بات پوری ہوئی جو اُس نے سالہا سال پہلے مکہ میںسنا دی تھی کہ لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ١ۙ۬ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ.نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (العلق : ۱۶، ۱۷) اگر یہ کفار اسلام کی مخالفت سے باز نہ آئے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کو جن کی پیشانی ہمیشہ خدائے واحد کے آستانہ پر جھکی رہتی ہے اسی طرح مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتےرہے تو وہ یاد رکھیں کہ ہم بھی ایک دن اُن کی جھوٹی اور خطا کار پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر نہایت سختی کے ساتھ گھسیٹیںگے.چنانچہ جب بدر کی جنگ ختم ہوئی تو
ابوجہل اور دوسرے سردارانِ قریش کو جو مسلمانوں کے ہاتھوں نہایت ذلّت کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے.سر کے بالوں سے گھسیٹ کر ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا اور لات ومناۃ اور ہبل کے پجاری خدائے واحد کی قہری تلوار کا نشانہ بن گئے.پھر فرماتا ہے.وَ كَانَ يَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا.یہ دن کفارکے لئے بڑا سخت اور عبرت ناک ہوگا.چنانچہ دیکھ لو ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ عتبہ اور شیبہ اور ولید حضرت حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے ہاتھوں خاک و خون میں تڑپنے لگے.اور پھر جنگ ختم ہوئی اور کفار میدان چھوڑ کر بھاگے تو ابوجہل نے مرتے وقت کس حسرت سے کہا کہ لَوْ غَیْرَ اَکَّارٍ قَتَلَنِیْ (بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکة بدراً)یعنی اے کاش میں کسی کسان کے ہاتھ سے قتل نہ ہوتا.ان الفاظ سے اُس کا اشارہ مدینہ کے اُن دو نوجوان لڑکوں کی طرف تھا جنہوں نے باز کی طرح اُس پر حملہ کیا اور جنگ کے شروع ہوتے ہی اُسے زخمی کر کے گِرا دیا.چونکہ مکہ والے انصار کو بہت ذلیل سمجھتے تھے کیونکہ ان کاکام صرف زراعت کرنا اور سبزی ترکاری بیچنا تھا.اس لئے جب ابوجہل دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا تو اُس نے بڑی حسرت سے کہا کہ کاش کسی معزز آدمی کے ہاتھ سے میری موت ہوتی مجھے صدمہ ہے کہ دو کسان لڑکوں نے مجھے مار ڈالا غرض کفارکے لئے یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے اُن کے تمام کبرو غرور کو خاک میں ملاد یا.اور یسعیاہ نبی کی اُس پیشگوئی کو بھی روزِ روشن کی طرح سچا ثابت کر دیا کہ ’’ عرب کے صحراء میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو ! پانی لے کے پیا سے کا استقبال کرنے آئو.اے تیماکی سرزمین کے باشندو ! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا کہ ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا.‘‘ ( یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷ ) اس پیشگوئی میں یسعیاہ نبی نے جنگ ِ بدر کی خبر دیتے ہوئے بتا یا تھا کہ ہجرت مدینہ پر ٹھیک ایک سال گذرنے پر عرب میں ایک ایسی جنگ ہوگی جس سے قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے میدان جنگ سے بھاگ کھڑ ے ہوںگے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کفار اپنے بڑے بڑے جر نیلوں کی لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے اور مسلمانوں کی تمام عر ب پر دھاک بیٹھ گئی.
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان تباہیوں کے اسباب اور بواعث کا ذکر کرتا ہے.اور فرماتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی وجہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے.وہ پہلے تو اپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ تا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہلَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا اے کاش ! میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا.اُس نے تو مجھے گمراہ کر دیا اسی وجہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو یہ خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْ ا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ( التوبۃ :۱۱۹) یعنی اے مومنو ! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو.حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردو پیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لئے اُن لوگوں کا انتخاب کر ے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوںگے اور جن کا مطمح نظر بلند ہو گا تو لازمًا وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دُور کر نے کی کوشش کرےگا اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اُس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی.لیکن اگر وہ برے ساتھیوںکا انتخاب کرے گا تو وہ اُسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے بلکہ اُسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہو ںگے.حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ ایک سکھ طالب علم نے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور آپ سے عقیدت اور اخلاص رکھتا تھا کہلا بھیجا کہ پہلے تو مجھے خدا تعالیٰ کی ہستی پر بڑا یقین تھا مگر اب کچھ عرصہ سے مجھے شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے ان شکوک کو دُور فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے کہلا بھیجا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی شخص دہریت کے خیالات اپنے اندر رکھتا ہے جس کا تم پر اثر پڑ رہا ہے.تم کالج میں جس جگہ بیٹھا کرتے ہو اُس جگہ کو بدل لو چنانچہ اُس نے اپنی سیٹ بدل لی اور کچھ دنوں کے بعد اُس کے خیالات کی خود بخود اصلاح ہو گئی (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۳۲۰ سورۃ القصص).اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ بُرے ساتھیوں کا انسان پر کتنا بُرا اثر پڑتا ہے.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی بری تحریک آپ کے قلبِ مطہر پر اثر انداز نہ ہو.لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ میں اَلذِّکْرِ سے مراد قرآن کریم ہے کیونکہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے عمل کے لئے نازل فرمایا ہے اور اس کا ایک نام الذکر بھی رکھا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الحجر :۱۰ ) ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن کریم کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے.اسی طرح فرماتا ہے وَھٰذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ اَنْزَلْنٰہُ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ (الانبیاء:۵۱) یہ قرآن ایک ایسا نصیحت نامہ ہے
جس میں تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں جمع کر دی گئی ہیں اور جس کو ہم نے اپنی خاص حکمتوں کے ماتحت نازل کیا ہے.کیا تم اس عظیم الشان کتاب کے منکر ہو ؟ پھر فرماتا ہے.وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ( الزخرف:۴۵ ) یہ قرآن تیرے اور تیری تمام قوم کے لئے شرف کا موجب ہے.یعنی جو لوگ اس کتاب پر عمل کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں بڑی عظمت اور بزرگی عطا فرمائےگا.اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ١ۚ وَ اِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ.لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ١ؕ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ ( حٰم السجد ۃ :۴۲،۴۳) وہ لوگ جنہوں نے اس ذکر یعنی قرآن کریم کا انکار کیا جبکہ وہ اُن کے پاس آیا حالانکہ وہ بڑی عزت والی کتاب ہے وہ اپنی تباہی کا اپنے ہاتھوں سامان کر رہے ہیں.یہ کتاب وہ ہے کہ نہ باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے اور بڑی حکمتوں اور تعریفوں والے خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے.ایسی عظیم الشان اور با برکت کتاب جو انسانیت کے لئے شرف کا باعث ہے اور جس کی پیش کردہ سچائیوں کو نہ سابق علوم غلط ثابت کر سکے ہیں اور نہ موجودہ زمانہ کے علوم اس کی کسی بات کو غلط قرار دے سکے ہیں.اس سے اگر کوئی شخص اعراض کرتا ہے تو وہ یقیناً اپنی ہلاکت اور بر بادی اپنے ہاتھوں مول لیتا ہے.یہ کتاب خدا تعالیٰ نے اس لئے نازل کی ہے کہ بنی نوع انسان اسے پڑھیں.اس کے علوم کو سیکھیں.اپنے اہل و عیال کو سکھائیں.اور پھر تمام دنیا میں اُسے پھیلاتے چلے جائیں.یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ پر خدائے واحد کی حکومت قائم ہو جائے اور اسود و احمر تک خدا تعالیٰ کا نام اور اس کا پیغام پہنچ جائے.جو لوگ اس کتاب کو اپنا دستور العمل بنا لیں گے وہ دنیا میں بھی سر بلند ہوں گے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث ہوںگے.مگر وہ لوگ جو اُسے پس پشت پھینک دیں گے وہ عذاب کے وقت اپنے بُرے ساتھیوں اور ہم نشینوں پر لعنتیں ڈالیں گے جو اُن کی گمراہی کا باعث ہے مگر اُس وقت نہ اُن کا افسوس ان کے کسی کام آئے گا اور نہ ان کا اپنے ساتھیوں پر لعنتیں ڈالنا انہیں کسی عذاب سے بچا سکے گا.کیونکہ اس کے نتیجہ کی ذمہ داری خود اُن پر ہوگی.کسی اور پر نہیں.
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ اور رسول نے کہا.اے میرے رب !میری قوم نے تو اس قرآ ن کو مَهْجُوْرًا۰۰۳۱ پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے.حلّ لُغَات.مَھْجُوْرًا مھجورًاھَجَرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور ھَجَرَہٗ کے معنے ہیں تَرَکَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْہُ اس کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا ( اقرب) مفردات میں ہے.اَلْھَجْرُ وَالْھِجْرَانُ مُفَارَقَۃُ الْاِنْسَانِ غَیْرَہٗ اِمَّا بِالْبَدَنِ أَوْ بِاللِّسَانِ اَوْ بِالْقَلْبِ کہ کسی سے انسان بدنی لحاظ سے علیحدہ ہو جائے اور مفارقت اختیار کرے یا اس سے کلام نہ کرے یا دلی لگائو اس کے ساتھ نہ رکھے تو اس وقت ھَجَرکا لفظ بولتے ہیں.وَقَوْلُہٗ تَعَالٰی اِنَّ قَوْمیِ اتَّخَذُوْ اھٰذَا لْقُراٰنَ مَھْجُوْرًا فَھٰذَا ھَجْرٌ بِا لْقَلْبِ اور آیت قرآنیہ میں جو آیا ہے کہ رسول اللہ فرمائیں گے کہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کا دلی لگائو اس کے ساتھ نہیں رہےگا.( مفردات ) تفسیر.فرماتا ہے.قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حضور افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ خدایا میری قوم نے تیرے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا.اور اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا.یہ ایک نہایت مختصر سا فقرہ ہے مگر اس میں ایسا درد بھرا ہوا ہے کہ یہ میرے سامنے کبھی نہیں آیا کہ میرا دل اس کو پڑھ کر کانپ نہ گیا ہو.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ اے میرے رب ! میری قوم نے قرآن کو بالکل ترک کر دیا حالانکہ یہ کہنا بھی کافی تھا.بلکہ فرماتے ہیں.اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا یہاں ھٰذَا کا لفظ بہت ہی درد اور افسوس کو ظاہر کر ر ہا ہے فرماتے ہیں.خدایا تُو نے میری قوم کو یہ ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی نعمت دی تھی اور ایسی بابرکت کتاب بخشی تھی کہ جس کی دنیا میں اور کوئی مثال نہ تھی.مگر میری قوم نے اس کو بھی چھوڑ دیا.دنیا میں دھیلے دمڑی کی چیز کو تو کوئی چھوڑ تا نہیں لیکن ایسے قرآن کو جس کے مقابل میں ساری دنیا کا مال و متاع بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا چھوڑ دیا گیا اور اسے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا گیا.اس جگہ قوم کے مصداق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے آپ کو نہ مانا.
مگر آج کل کے مسلمان بھی اس کے مخاطب ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتّی کہلانے کے باوجود قرآن کریم کو بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں.وہ قرآن جو اُن کی ہدایت کے لئے آیا تھا اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچانےکے لئے آیا ہے اُس کو آج کل اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ زندگی بھر تو قرآن کا ایک لفظ بھی اُن کے کانوں میں نہیں پڑتا لیکن جب کوئی مر جائے تو اُس کو قرآن سنا یا جاتا ہے حالانکہ مرنے پر سوال تو یہ ہونا ہے کہ بتائو تم نے اس پر کیا عمل کیا نہ یہ کہ مرنے کے بعد تمہاری قبر پر کتنی بار قرآن ختم کیا گیا.پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ ضرورت پڑے تو آٹھ آنے لے کر اُس کی جھوٹی قسم کھا لی جاتی ہے اور اس طرح اسے دوسروں کے حقوق دبانے کا ایک آلہ بنایا جاتا ہے.تیسرے اس طرح کہ مُلّاں اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.جب کوئی مرجاتا ہے تو اُس کے وارث قرآن لاتے ہیں کہ اس ذریعہ سے اس کےگناہ بخشوائیں.اور مُلّانے ایک حلقہ سا بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور قرآن ایک دوسرے کو پکڑ اتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے یہ تیری مِلک کی.اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ مُردہ کے گناہوں کا اسقاط ہو گیا مگر مردہ کے گناہوں کا کیا اسقاط ہونا ہےان ملانوں اور اس مردہ کے وارثوں کے ایمانوں کا اسقاط ہو جاتا ہے.پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ مُلانے آٹھ آٹھ آنے کے قرآن لے آتے ہیں اور جب کسی کے ہاں کوئی مر جاتا ہے اور وہ قرآن لینے آتا ہے تو اُسے بہت سی قیمت بتا دی جاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ یہ تو ایک روپیہ سے بھی کم قیمت کا ہے تو ملّاں صاحب کہتے ہیں.قرآن کیا سستے داموں بِک سکتا ہے.تھوڑی قیمت پر تو اس کا بیچنا منع ہے خود قرآن میں آتا ہے لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ( بقرہ :۴۲) کہ میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت مت لو.اس لئے اس کی تھوڑی قیمت نہیں لی جا سکتی.مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ قرآن نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ( النساء :۷۸ ) کہ دنیا کا سب مال و متاع ایک حقیر چیز ہے.پھر کسی دنیوی چیز کے بدلہ میں اسے بیچنا کس طرح جائز ہوا ؟ دراصل اس آیت میں ثَمَنًا قَلِیْلًا کے یہ معنے ہیں کہ دنیا کے بدلے اسے نہ بیچو.نہ یہ کہ تھوڑی قیمت نہ لو.پھر ایک استعمال اس کا یہ رہ گیا ہے کہ اسے عمدہ غلاف میں لپیٹ کر دیوار سے لٹکا دیتے ہیں.پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ جز دان میں ڈال کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں تاکہ عوام سمجھیں کہ بڑے بزرگ اور پارسا ہیں ہر وقت قرآن پاس رکھتے ہیں.غرض آج ’’ مسلمانان درگور و مسلمانی در کتاب ‘‘ والی بات نظر آتی ہے.اسلام کا نشان صرف قرآن کریم اور احادیث ِ صحیحہ اور کتبِ ائمہ میں ملتا ہے اس کا نشان لوگوں کی زندگیوں میں کہیں نہیں ملتا.پچھتّر فیصدی مسلمان نماز کے تارک ہیں.زکوٰۃ اوّل تو دیتے ہی نہیں اور جو دیتے ہیں اُن میں سے جو اپنی خوشی سے دیتے ہیں وہ شاید سو میں سے دو نکلیں.حج جن پر فرض ہے وہ اس کا نام نہیں لیتے اور جن کے لئے نہ صرف یہ کہ فرض
نہیں بلکہ بعض حالات میں ناجائز ہے وہ اپنی رسوائی اور اسلام کی بدنامی کرتے ہوئے حج کے لئے پہنچ جاتے ہیں.نماز کا ترجمہ تو عربی بولنے والے ممالک کے سوا شاید مسلمانوں میں دو چار فیصدی ہی جانتے ہوں مگر وہ بے معنی نما ز بھی جو لوگ پڑھتے ہیں اُسے اس طرح چٹی سمجھ کر پڑھتے ہیں کہ رکوع اور سجدے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اور نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا تو کفر ہی سمجھا جانے لگا ہے.روزہ اوّل تو کئی لوگ رکھتے ہی نہیں اور جو لوگ رکھتے ہیں وہ جھوٹ اور غیبت سے اُسے موجب ِ ثواب بنانے کی بجائے موجبِ عذاب بنا لیتے ہیں.ورثہ کے احکام پسِ پشت ڈالے جاتے ہیں.سود جس کا لینا خدا سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے علماء کی مدد سے ہزاروں حیلوں اور بہانوں کے ساتھ اس کی وہ تعریف کی گئی ہے کہ اب شاید ہی کوئی سود کی لعنت سے محفوظ ہو.اخلاقِ فاضلہ جو کسی وقت مسلمان کا ورثہ اور اُس کا حق سمجھے جاتے تھے اب مسلمانوں سے اس قدر دُور ہیں جس قدر کفر اسلام سے.کسی زمانے میں مسلمان کا قول نہ ٹلنے والی تحریر سمجھا جاتا تھا.اور اس کا وعدہ ایک نہ بدلنے والا قانون مگر آجکل مسلمان کی بات سے زیادہ اور کوئی غیر معتبر قول نہیں اور اس کے وعدے سے زیادہ اور کوئی بے حقیقت شے نظر نہیں آتی.یہ تباہی جو عملی اور اعتقادی لحاظ سے مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل کرنا ترک کر دیا.اگر وہ قرآن کریم پر عمل کرتے تو جس طرح صحابہ ؓ ساری دنیا پر غالب آگئے تھے.اسی طرح وہ بھی غالب آجاتے اور کفر اور شیطنت کا نشان تک دنیا سے مٹ جاتا.میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی بار ہا توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کے درس کا باقاعدہ انتظام کریں لیکن مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعتوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی حالانکہ قرآن کریم اپنے اندر اتنی برکات رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر کہیں گے کہ اے میرے خدا مجھے اپنی قوم کے افراد پر انتہائی افسوس ہے کہ میں نے تیرا محبت بھر ا پیغام اُن تک پہنچایا مگر بجائے اس کے کہ وہ تیرے پیغام کوسن کر شادی مرگ ہو جاتے.بجا ئے اس کے کہ وہ اسے سن کر ممنون ہوتے.بجائے اس کے کہ اسے سُن کر ان کے جسم کا ہرذرّہ اور اُن کے دل کی ہر تار کانپنے لگ جاتی.بجائے اس کے کہ وہ اس مژدۂ جانفرا کو سُن کر عقیدت اور اخلاص سے اپنے سرجھکا دیتے اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا انہوں نے تیرے پیغام کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور کہا کہ جائو ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے.بیشک اندھی دُنیا خدا تعالیٰ کے پیغام کے ساتھ یہی سلوک کرتی چلی آئی ہے مگر وہ دنیا جو یہ جانتی نہیں کہ خدا تعالیٰ کیا ہے اور اس کا رسول کتنی بڑی شان رکھتا ہے وہ جو کچھ کرتی ہے اُسے کرنے دو.میں اس مومن سے پوچھتا ہوں جو کہتا ہے کہ خدا ہے جو جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی کیا عظمت ہے.جو سمجھتا
ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندے کو مخاطب کرنا خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ایک عظیم الشان انعام ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سُنتا اور پھرا س کا جواب نہیں دیتا.اور اس پر عمل کرنےکے لئے اس کے دل میں کوئی ولولہ پیدا نہیں ہوتا.حالانکہ بسم اللہ کی ب سے لے کر و النَّاس کے س تک قرآن کریم کا ایک ایک کلمہ.اس کا ایک ایک لفظ اور اس کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بندےکے لئے سلام کا پیغام لے کر آیا ہے اور اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اگر اب بھی مسلمان خدا تعالیٰ کے پیغام کے جواب کے لئے تیار ہو جائیں اور اس کی اطاعت کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیں تو یقیناً اُن کی دنیا بدل سکتی ہے.وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ١ؕ وَ كَفٰى اور ہم نے اسی طرح مجرموں میں سے سب نبیوں کے دشمن بنائے ہیں اور تیرا رب ہدایت دینے اور بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّ نَصِيْرًا۰۰۳۲ مدد کرنے کے لحاظ سے (بالکل )کافی ہے.تفسیر.اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو ئی عجیب بات نہیں.آج تک دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس کی مخالفت نہ کی گئی ہو اور جس کو تباہ کرنےکے لئے دشمنانِ انبیاء نے ایڑی چوٹی کا زور نہ لگا یا ہو.مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہر قسم کی مخالفت کے باوجود آخر یہی نتیجہ نکلا کہ نبی اور اس کے ماننے والے جیتے اور مخالفت کرنے والے خواہ وہ کتنی بڑی طاقتوں کے مالک تھے تباہ اور بر باد ہوئے.یہ ایک ایسا کلیہ ہے جس کے خلاف ہمیں دنیا میں کوئی نظیر نظر نہیں آتی.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آدم ؑاپنے دشمنوں پر غالب نہ آیا ہو یا نوح ؑ نے اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی حاصل نہ کی ہو.یا ابراہیم ؑ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوا ہو.یا موسیٰ ؑنے فرعون پر غلبہ نہ پایا ہو.یا عیسیٰ ؑ نے یہود پر فتح حاصل نہ کی ہو یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کے باوجود فتح و ظفر نے آپ کے قدموں کو نہ چوما ہو.ان تمام انبیاء کے زمانہ میں شیطان نے اپنے پورے سازو سامان کے ساتھ خدائی جماعتوں پر حملہ کیا اور ہر قسم کے ذلیل ہتھیاروں سے اُس نے صداقت کو مٹانا چاہا مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نبی ہارا ہو اور شیطان جیتا ہو.بیشک نبیوں کو کہا گیا کہلَنُخْرِ جَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ( ابراہیم :۱۴) ہم یقیناً تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف لوٹ آئو
گے.بلکہ انہیں یہاں تک دھمکی دی گئی کہ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ۠ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ ( یٰس :۱۹)اگر تم نے اپنی تعلیم کو تر ک نہ کیا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے.اور تمہیں درد ناک عذاب پہنچائیں گے.مگر ان تمام دھمکیوں کے باوجود بلکہ ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا نے کے باوجود جب نتیجہ نکلا تو یہی دکھائی دیا کہ کفر زمین پر اوندھے منہ گِرا ہوا ہے اور صداقت اپنی کامیابی پر مُسکرا رہی ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی مخالفت خدا تعالیٰ کی اُن مخفی تدابیر میں سے ایک بڑی اہم تدبیر ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے پیغام کو وسعت دیتا اور اس کے حلقۂ اثر کو وسیع کرتا ہے.جب مخالفت کا طوفان اُمڈ آتا ہے تو لوگوں میں ایک تہلکہ مچ جاتا ہے اور سعید طبع لوگ غور کرنے لگ جاتے ہیں کہ آخر یہ شخص کیا کہتا ہے اور اس کی کیوں مخالفت کی جاتی ہے.اور جب وہ تحقیق کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے سینوں کو کھول دیتا ہے اور وہ بھی صداقت کا شکار ہو جاتے ہیں.پس مخالفت انبیاء کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچانے کا ایک زبردست ذریعہ ہے جس سے جھوٹے مدعیانِ ماموریت قطعی طور پر محروم ہوتے ہیں.یُوں تو وہ بھی عجیب و غریب دعوے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر لوگ اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.بلکہ وہ اُن کے دعووں کو ایک مجنونانہ بَڑ سے زیادہ کوئی وقعت نہیں دیتے.وہ بسا اوقات خود بھی چاہتے ہیں کہ لوگ اُن کی مخالفت کریں تاکہ ہر کہ و مہ کی زبان پر اُن کا نام ہو اور لوگوں میں اُن کا چرچا ہو.مگر کوئی اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا.اور وہ گوشۂ گمنامی میں کس مپر سی کی زندگی بسر کرتے ہیں.اور کسمپرسی کی حالت میں ہی گمنامی کی موت مر جاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی مامور مبعوث ہو تا ہے تو بڑے کیا اور چھوٹے کیا اور عالم کیا اور جاہل کیا اور مرد کیا اور عورتیں کیا اور طاقتور کیا اور کمزور کیا سب کے سب مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور ہر شخص جو اس پر تیر چلاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے مگر یہی مخالفت ایک دن سعید الفطرت انسانوں کو جھنجھوڑ کر انہیں کشاں کشاں اللہ تعالیٰ کے دروازہ کی طر ف لے آتی ہے.چنانچہ دیکھ لو مکّہ والوں کی شدید مخالفت ہی تھی جس نے حبشہ میںاسلام کا نام پہنچایا.اور پھر مکّہ والوں کی شدید مخالفت ہی تھی جس نے مدینہ منّورہ میں اسلام کا نام پہنچایا.پھر یہی مخالفت تھی جس کے نتیجہ میں خود مکّہ کے بڑے بڑے معاندین کے اپنے بیٹے اور بھائی اور رشتہ دار اسلام کی آغوش میں آگئے اور محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کرنے لگ گئے.باوجود اس کے کہ مکّہ والوں نے انہیں ہر قسم کی اذّیتوں کا تختۂ مشق بنایا انہیں پتھروں پر گھسیٹا گیا.انہیں تپتی ریت پر لٹایا گیا اُن کی عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں مارا گیا.اُن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈالی گئیں.انہیں اپنے وطن سے بے وطن کیا گیا.اُن کی ٹانگوں کو
اونٹوں سے باندھ کر اور پھر اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا کر انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا.لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود وہ پروانوں کی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد چکر لگاتے رہے اور آپ پر اپنی جانیں نچھاور کرتے رہے.پس گو شیطان صداقت کا ازلی دشمن ہے اور اُس کی کوشش ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ صداقت کا نشان تک دنیا سے مٹ جائے.مگر آخر شیطان ہی صداقت کی اشاعت کا ایک ہتھیار بن جا تا ہے.اوربھولے بھٹکے انسانوں کو آستانۂ الوہّیت کی طرف کھینچ لاتا ہے اس لئے جَعَلْنَا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس تدبیر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ لمّۂ شر ہم نے اپنی حکمت ِ کاملہ سے خود پیدا کیا ہے اور چونکہ یہ اعتراض پید ا ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کیا کہ ایک طرف تو وہ اپنے پیاروں کو مبعوث فرماتا ہے اور دوسری طرف دشمنوں کو اُن پر کُتّوں کی طرح مسلط کرد یتا ہے.اس لئے اس کا جواب یہ دیا کہ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّ نَصِيْرًا.تیرا رب لوگوں کو ہدایت دینے اور اپنے مامورین کی معجزانہ مدد کرنے کے لحاظ سے بڑا کافی ہے.یعنی بظاہر تو یہ مخالفتیںتمہیں قابلِ اعتراض نظر آتی ہیں لیکن انہی مخالفتوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا ہادی اور اُس کا نصیر ہونا ظاہر ہوتا ہے.جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے اور جب مخالفت بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیدات اور نصرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں جب کوئی دوست یہ ذکر کرتے کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے.جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت بھی بڑھتی ہے کیونکہ مخالفت کے نتیجہ میں کئی ناواقف لوگوں کو بھی سلسلہ سے واقفیت ہو جاتی ہے.اور پھر رفتہ رفتہ اُن کے دل میں سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ کتابیں پڑھتے ہیں تو صداقت اُن کے دلوں کو موہ لیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی بیعت کی.بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اُن سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی وہ بے ساختہ کہنے لگے.مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حیرت سے فرمایا وہ کس طرح ؟ وہ کہنے لگے میں مولوی صاحب کا اخبار اور اُن کی کتابیں پڑھا کرتا تھا.اور میں ہمیشہ دیکھتا کہ اُن میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلہ کی کتابیں دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے اور جب میںنے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہوگیا.تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الٰہی سلسلہ کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آجاتی ہے پھرد وسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے نشانات ظاہر ہونے لگ
جاتے ہیں.جب مخالفت اپنے انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو مومنوں کی عاجزانہ دُعائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت کو آسمان سے کھینچ لاتی ہیں.اور اُس کی قہری تجلی بڑ ے بڑے دشمنوں کو ہلاک کر دیتی ہے.فرعون جب اپنے لائو لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کے تعاقب میں چلا آرہاتھا تو صرف چند منٹ پہلے وہ سمجھتا تھا کہ میں کامیاب ہوگیا.اور بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ ہم مارے گئے بلکہ خود انہوں نے چلّا چلّا کر یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اِنَّ لَمُدْ رَکُوْنَ اے موسیٰ ؑ ! ہم تو پکڑے گئے.مگر موسیٰ ؑ جس کا اپنے خدا پر کامل ایمان تھا اُس نے کہا کَلَّا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ (الشعراء :۶۳) میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ میرے لئے اس بلائے عظیم سے نجات کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کر دےگا.چنانچہ تھوڑی ہی دیر کے بعد موسیٰ ؑ تو سمندر کے پار پہنچ چکے تھے اور فرعون اور اس کی فوجیں سمندر کی لہروں میں غوطے کھا رہی تھیں.غرض مخالفت بھی اشاعتِ ہدایت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالی کا ہادی اور اُس کا نصیر ہونا بڑ ی شان سے ظاہر ہوتا ہے.وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً اور کافروں نے کہا کیوںنہ قرآن اس (نبی) پر ایک ہی دفعہ نازل کر دیا گیا.اُن کا کہنا بھی ایک طرح ٹھیک ہے وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ لیکن ہم نے اس کو مختلف سورتوں اور وقتوں میں اس لئے اُتار اکہ ہم اس (قرآن) کے ذریعہ سے تیرے دل کو مضبوط تَرْتِيْلًا۰۰۳۳وَ لَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ کرتے رہیں اور ہم نے اس کو نہایت عمدہ بنایا ہے.اور (تیری تردیدکے لئے) وہ کوئی بات نہیں کہتے کہ ہم اس کے اَحْسَنَ تَفْسِيْرًاؕ۰۰۳۴ جواب میں ایک پختہ بات بیان نہیں کر دیتے اور اس کی اچھی سے اچھی توجیہہ نہیں کر دیتے.حلّ لُغَات.رَتَّلْنٰہُ :رَتَّلْنٰہُ رَتَّلَ الْکَلَامَ کے معنے ہیں اَحْسَنَ تَا لِیْفَہٗ اُس نے اپنے کلام یا مضمون کو نہایت عمدگی سے مرتب کیا اور رَتَّلَ الْقُراٰنَ کے معنے ہیں اُس نے قرآن کریم کی خوش آوازی سے تلاوت کی.پس رَتَّلْنٰہُ کے معنے ہوںگے ہم نے قرآن کریم کی ترتیب نہایت اعلیٰ درجہ کی رکھی ہے.
تفسیر.ان آیات میں کفار کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں ہوگیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حسب موقع خود تصنیف کرلیتے ہیں.فرماتا ہے یہ درست ہے واقعہ میں یہ قرآن ایک ہی دفعہ نہیں اُترا بلکہ آہستہ آہستہ ایک لمبی مدّت میں نازل ہوا ہے.مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس طریق سے تیرے دل کو ثبات بخشنا چاہتے ہیں.اور پھر ہم نے اس کی ترتیب بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی رکھی ہے.اسی طرح قرآن کریم کو آہستہ آہستہ نازل کرنے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ کوئی بات جو اعتراض کے طور پر یہ لوگ بیان کر دیتے ہیں تو ہم اس کے مقابلہ میں حق اور بہتر تفسیر قرآن کریم میں بیان کر دیتے ہیں.تعجب ہے کہ عیسائی مستشرقین اب بھی یہی اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا بتاتا ہے کہ یہ خدا کاکلا م نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف ہے.آخر خد ا کو کیا ضرورت تھی کہ اپنا کلام ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا اُسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنا کلام یکدم بھی نازل کر سکتا ہے.اس کا آہستہ آہستہ ایک کتاب کی صورت میں مرتب ہونا بتا تا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے جیسے حالات پیش آتے جاتے تھے ویسا ہی وہ اُن کا قرآن کریم میں ذکر کر دیتے تھے (A Comprehensive Commentary on the Quran by Wehry The Preliminary Discourse sec iii p 107,108 ).اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے کلام کے نزول کے لئے یہ طریق اس لئے اختیار کیا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں.گویا قرآن کریم کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو ثبات اور طاقت حاصل ہو.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے آہستہ آہستہ نازل ہونے سے آپ ؐ کے دل کی مضبوطی کس طرح ہو سکتی تھی سواس کے متعلق چند امور کا بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استدلال کرتے رہتے تو آپ ؐ کے دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی.جیسے کسی امر کے متعلق فوراً کلام الٰہی کے اترنے سے ہو سکتی ہے.چنانچہ دیکھ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جو لطف اس میں آتا ہوگا کہ آپ ؐ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق اُسی وقت وحی نازل ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا.وہ لطف ہمیں
اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے.آپ کوتو جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا اُس کے متعلق آپ ؐ پر کلام الٰہی نازل ہو جاتا اور اس طرح آپ کو معلوم ہو جاتا کہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ کا کیا منشاء ہے.اگر اجتہاد سے ہی آپ ؐ آیات ِ قرآنیہ کو کسی واقعہ پر چسپاں کرتے تو اس سے آپ ؐ کو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا.(۲) قرآ ن کریم کا آہستہ آہستہ نزول تثبیت ِ فؤاد کا ا س طرح بھی موجب بنا کہ جو کتاب ساری دنیا کے عمل کے لئے آئی ہو اُسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا.اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا نازل ہو جاتا تو اُسے وہی شخص حفظ کر سکتا جو اس کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتا.لیکن آہستہ آہستہ اُترنے کے نتیجہ میں سینکڑوں لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ اسے بھی حفظ کرتے گئے.اس طرح رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل اس یقین سے لبریز ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہو گی بلکہ قیامت تک محفوظ رہے گی.یہی وجہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے تھے.جنہیں قرآن کریم حفظ تھا.مگر اب اُس نسبت کے لحاظ سے کم ہوتے ہیں اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ اُسے ساتھ ساتھ یاد کرتے جاتے تھے.(۳) تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کے قلوب میں اچھی طرح راسخ نہیں ہو سکتا تھا.اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اُسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والے مسلمان نظر آتے ہیں اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا لیکن اگر کسی کو کوئی کتاب لکھ کر دے دی جائے کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ اس کے سامنے موجود نہ ہو تو وہ سو سال میں بھی اس پرعمل کرنا نہیں سیکھ سکتا پس قرآن کریم کی تعلیم کو قلوب میں راسخ کرنےکے لئے ضروری تھا کہ اُسے آہستہ آہستہ نازل کیا جا تا.ایک حکم پر جب لوگ عمل کرنا سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا دوسرے حکم پر عمل کرنا سیکھ جاتے تو تیسرا نازل ہوتااور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا.(۴) اگر ایک ہی وقت میں سارا قرآن نازل ہوتا تو اس کی ترتیب وہی رکھنی پڑتی جواب ہے.لیکن یہ ترتیب اس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی جس طرح ہمارے لئے اب وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا.اگر نمازوں او ر روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی تو وہ سمجھ میں ہی نہ آتے اس کے لئے پہلے اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اُس کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بتانا ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور وہ ایک ہی ہے
اور محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں.اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقعہ تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے مگر اب یہ ترتیب ضروری نہیں ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ماننے والی ایک بڑی بھاری جماعت موجود ہے.اب جو شخص بھی اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے اس لئے اُس کے لئے قرآن کریم کی اُسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے.پس قرآن کے ایک ہی دفعہ نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا کہ اُس کی موجودہ ترتیب اس زمانہ کے لوگوں کو سمجھ میں ہی نہ آسکتی مثلًا اگر سورۂ بقرہ شروع میں ہی نازل ہو جاتی تو ذٰلِکَ الْکِتَابُ کو کون مسلمان سمجھ سکتا.وہ تو یہ الفاظ سن کر حیران ہو جاتا اور کہتا کہ کتاب تو کوئی ہے ہی نہیں پھر اس میں کس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.لیکن قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کو ہر مسلمان اس وقت سمجھ سکتا تھا جس طرح آج ذٰلِکَ الْکِتَابُ کو ہر مسلمان سمجھتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ایک کامل کتاب اُس کے سامنے موجو دہے.(۵) اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو ایک حصہ میں دوسرے حصہ کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا تھا.مثلاً قرآن کریم میں یہ پیشگوئی تھی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر صحیح و سلامت لے جائیں گے.اگر ایک ہی دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے جا یا گیا تھا اُس وقت یہ نہ کہا جا سکتا کہ دیکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئے ہیں.یہ اُسی صورت میں کہا جا سکتا تھا جب پہلے ایک حصہ نازل ہوتا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح و سلامت لے جانے کی پیشگوئی ہوتی اور جب یہ پیشگوئی پوری ہوجاتی تو اُس وقت وہ حصہ اُترتا جس میں اس کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہوتا.(۶) میرے نزدیک ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر قرآن کریم اکٹھا نازل ہو جاتا تو مخالفین یہ کہہ سکتے تھے کہ کسی نے بنا کر یہ کتاب دے دی ہے.اب کچھ حصہ مکّہ میں نازل ہوا.کچھ مدینہ میں.مکہ والے اگر کہیں کہ کوئی شخص بنا کر دیتا ہے تو مدینہ میں کون بنا کر دیتا تھا.پھر قرآن سفر میں بھی نازل ہوا اور حضر میں بھی نازل ہوا.مجلس میں بھی نازل ہوا اور علیحدگی میں بھی نازل ہوا.دن کے اوقات میں بھی نازل ہوا اور رات کی تاریکیوں میں بھی نازل ہوا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے اس اعتراض کو باطل کر دیا کہ قرآن کریم کے بنانے میں دوسرے لوگوں کا ہاتھ ہے.اگر اکٹھی کتاب نازل ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص کتاب بنا کر دے گیا ہے جسے سُنا دیا جاتا ہے.مگر جب ہر موقعہ اور محل کے مطابق آیات اُتر تی رہیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقعہ پر کوئی نئی آیت بنا کر آپؐ کو دے دیتا ہے.پس قرآن کریم کا آہستہ آہستہ نازل ہونا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تثبیتِ فؤاد کا موجب ہوا
اور ہر دن جو آپؐ پر چڑھا اُس نے آ پ کے ایمان اور عرفان کو اور بھی بڑھا دیا.پھر فرماتا ہے.وَ رَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا ہم نے اس قرآن کی ترتیب بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی رکھی ہے یعنی نزولِ قرآن تو اس رنگ میں ہوا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لوگوںکے لئے ضروری تھا لیکن بعد کی دائمی ترتیب ہم نے اور طرح رکھی ہے تاکہ آنے والے لوگ اپنے حالات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھائیں.یہ ترتیب بھی اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان نے نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے خود نازل کیا ہے.اگر اس کتاب کی تصنیف میں کسی انسان کا دخل ہوتا تو وہ اس کی ایک ہی ترتیب رکھتا اور جس قسم کے حالات اُسے پیش آتے اُن کے مطابق وہ ایک کتاب تصنیف کرتا چلا جاتا مگر قرآن کریم چونکہ عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوا تھا اور قیامت تک آنے والے تمام لوگوںکے لئے ایک مستقل ہدایت نامہ تھا.اس لئے اُس نے اپنی حکمت ِ کاملہ کے ماتحت اس کے نزول کی ترتیب اور رنگ میں رکھی.اور اس کی تحریر کی ترتیب اَور رنگ میں رکھی.نزول کی ترتیب تو اُس زمانہ کے اوّلین مخاطبوں کے وساوس و شبہات کے ازالہ اور اُن کے مسائل کو حل کرنےکے لئے رکھی گئی.اور بعد کی ترتیب اُن لوگوںکے لئے رکھی گئی جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے کی وجہ سے مذہب سے بہت حد تک واقف ہونا تھا یا جن کے لئے مسلمانوں کی ایک قائم شدہ جماعت کو دیکھتے ہوئے وہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے جن مسائل پر شروع میں بحث کرنا ضروری تھا.مثلًا تمام محدث اور مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی آیت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ اِقْرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کی تھی(بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدءالوحی).حالانکہ موجودہ قرآن میں وہ سب سے آخری پارہ میں ہے اور آخری پارہ کے بھی آخری حصہ میں ہے اب کجا سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت اور کُجا قرآن کے سب سے آخری پارہ میں اور آخری پارہ کے بھی آخری حصہ میں اس کا رکھا جانا یہ بتاتا ہے کہ الٰہی حکمت کے ماتحت قرآن کریم کی دو ترتیبیں ضروری تھیں.ایک ترتیب تو وہ تھی جو ابتدائی مسلمانوں کے لحاظ سے اُن کے مناسب حال تھی.اور ایک ترتیب وہ تھی جو آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لحاظ سے جب قرآن مکمل ہو چکا تھا مناسب حال تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں صرف اِقْرَاْ کہا.اِقْرَاَالْکِتَابَ نہیں کہا کیونکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے اِقْرَأ فرمایا تھا اُس وقت کوئی کتاب موجود نہیں تھی مگر جب سورۂ بقرہ نازل ہوئی تو اُس وقت تک کتاب نازل ہو چکی تھی.اور بہت سی سورتیں مکّہ مکرمہ میں مکمل ہو چکی تھیں.خود اِقْرَاْ و الی سورۃ بھی نازل ہو چکی تھی.اور سورۃ بنی اسرائیل بھی نازل ہو چکی تھی اور سورۃ کہف ، مریم اور طٰہٰ وغیرہ بھی نازل ہو چکی تھیں.پس اُس وقت ذٰلِکَ الْکِتَابُ کہنا بالکل درست تھا اور لوگوں کی سمجھ میں
آسکتا تھا اس ترتیب کی دنیوی مثال یوں سمجھ لو کہ جیسے کھانا پکانےکے لئے باورچی کام شروع کرتے ہیں تو بعض دفعہ کھانے کی ترتیب کے لحاظ سے ایک چیز بعد میں آتی ہے.لیکن پکانے کے لحاظ سے باورچی اُس کو پہلے پکاتا ہے.اور کوئی چیز کھانے میں پہلے آتی ہے لیکن وہ اس کو بعد میں پکاتا ہے.اور اگر کوئی اعتراض کر ے کہ یہ چیزجو پہلے کھانی تھی تم نے بعد میں کیوں پکائی تو وہ جواب دےگا کہ یہ کھانی بے شک پہلے تھی لیکن اس کے پکانے میں پندرہ منٹ لگتے ہیں.اگر اسے پہلے ہی پکا لیا جاتا تو اس وقت تک یہ خراب اور باسی ہو جاتی.اور جو چیز بعد میں کھانی تھی بیشک وہ کھانی بعد تھی مگر اس کے پکانے میں اڑھائی تین گھنٹے لگتے ہیں.اگر اس کو پہلے نہ پکایا جاتا تو وہ کچی رہتی.پس اس کی ترتیب حکمت کے ماتحت ہوتی ہے.پکانے کی اور ترتیب ہوتی ہے اور کھانے کی اور ترتیب ہوتی ہے.جب وہ پکاتا ہے تو اس امر کو نہیں دیکھتا کہ پہلے کون سی چیز کھانی ہے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جلدی کون سی چیز پکے گی.جو جلدی پک جاتی ہے اُسے وہ بعد میں تیار کر لیتا ہے.اور جو دیر میں پکتی ہے اُسے وہ پہلے تیار کر نا شروع کرتا ہے.جو چیز دیر میں پکتی ہے اگر وہ اُسے دیر سے چڑھائےگا تو کھاتے وقت وہ چیز کچی ہوگی.پس وہ دیر سے پکنے والی چیز کو چولھے پر پہلے رکھ لےگا خواہ وہ آخر میں کھائی جانے والی ہو اور جلد ی پکنے والی چیز کو بعد میں تیار کرےگا خواہ وہ پہلے کھائی جانے والی ہو.اس مثال سے ظاہر ہے کہ بعض چیزوں کی استعمال میں اور ترتیب ہوتی ہے اور اُن کی تیاری میں اور ترتیب ہوتی ہے.یہی طریق دنیا کے ہر کام میں نظر آتا ہے.حکومتیں فوجیں تیار کرتی ہیں.ملک کی تنظیم کرتی ہیں.لوگوں کو تعلیم دلاتی ہیں.اُن کو مختلف فنون سکھلاتی ہیں تو بعض لوگ جنہوں نے پیچھے کام کرنا ہوتا ہے.اُن کی تیاری پہلے شروع کر دیتے ہیں.اور بعض لوگ جنہوں نے پہلے کام کرنا ہوتا ہے اُن کی تیاری بعد میں ہوتی ہے.مثلاً کسی کام کی ٹریننگ چھ ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے اور کسی کام کی ٹریننگ میں چار سال صرف ہو تے ہیں.اب خواہ ایک ہی وقت میں کام شروع ہونے والے ہوں تب بھی چار سال والے کی ٹریننگ پہلے رکھی جائےگی اور چھ ماہ والے کی بعد میں.یا مثلاً عمارتیں اور پُل بنانے میں دیر لگتی ہے اُن کو پہلے بنایا جائےگا اور ریل کی سڑکیں جو جلدی تیار کر لی جاتی ہیں اُن کو بعد میں رکھا جائےگا.فوجیں بعض دفعہ د س دس بیس بیس میل لمبی لائن ایک ہی دن میں بچھا دیتی ہیں.لیکن پُل بنانے پر بڑا وقت صرف ہوتا ہے اس لئے پلوں کا انتظام اور رنگ میں ہوگا اور ریلوں کا انتظام اور رنگ میں.یہی قرآن کریم کی ترتیب کا حال ہے.قرآن کریم میں جو مضامین اُس وقت کے لحاظ سے ضروری تھے جب وہ نازل ہو رہا تھا اُن کو خدا تعالیٰ نے پہلے رکھا کیونکہ اس وقت قرآن کریم ابھی اپنی مکمل صورت میں اُن کے سامنے نہیں تھا.انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ قرآن کیا ہوتا ہے.اسلام کیا ہوتا ہے.رسول کیا ہوتا ہے.وحی کیا ہوتی ہے.الہام کیا ہوتا
ہے.خدا تعالیٰ سے تعلق کیا ہوتا ہے.بلکہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ خدا کیا ہوتا ہے.اس لئے اُس وقت پہلے ایسے مسائل بیان کئے گئے جو بنیادی حیثیت رکھتے تھے.مگر جب وہ مسائل زیر بحث آگئے اور پندرہ بیس سال تک وہ لوگ قرآن کریم کی آیات اور اُس کی تعلیم سنتے رہے تو اُس کے بعد اُن کے ہاں جو اولاد پیدا ہوئی اُس نے اپنے ماں باپ سے یہ باتیںسننی شروع کردیں اور بچپن سے ہی اُس کے کانوں میں یہ ڈالا جانے لگا کہ خدا کیا ہوتا ہے.رسول کیا ہوتا ہے.الہام کیا ہوتا ہے.اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے کیوں مبعوث فرمایا.پس جب وہ بڑے ہوئے تو اُن کی ذہنیت اور قسم کی تھی.قرآن کریم جب نازل ہوا تو اُس وقت قرآن کریم کی بہت سی باتیں لوگو ںکے لئے بالکل نئی تھیں.لیکن آئندہ اولادکے لئے وہ باتیں پُرانی ہو چکی تھیں.مثلاً ایک مسلمان کے گھر میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے توجاہل سے جاہل مسلمان بھی اپنے بچے کو یہ ضرور سکھاتے ہیں کہ اگر کوئی تم سے پوچھے کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے تو تم کہو.خدا نے لیکن یہی سوال مکہ کے بڑے سے بڑے آدمی سے بھی کیا جاتا تو وہ حیرت میں پڑ جاتا کہ میں اس کا کیا جواب دوں کہ مجھے لات نے پیدا کیا ہے یا منات نے پیدا کیا ہے یا عزیٰ نے پیدا کیا ہے یا ھُبل نے پیدا کیا ہے.آخر میں کیا کہوں کہ مجھے کس نے پیدا کیا ہے.لیکن ایک مسلمان بچے کے لئے یہ بالکل معمولی بات ہے.اسی طرح قضاء و قدر کا مسئلہ ہے.اس کے تفصیلی مسائل اور چیز ہیں لیکن ایک مسلمان بچےکے لئے تقدیر کا سوال بالکل معمولی ہے اور وہ جانتا ہے کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ کرتا ہے.پس جہاں تک ایمان کا تعلق ہے یقیناً ہمارا بچہ اس سے زیادہ جانتا ہے جتنا ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ اور وائل جانتے تھے کیونکہ وہ یہ بحث کرتے تھے کہ بتا ئو تقدیر کیا ہے اور ہمارا بچہ چاہے جانے یا نہ جانے کہ تقدیر کیا ہوتی ہے بڑی دلیری سے کہتا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو خدا کی مرضی ہوتی ہے.گویا تقدیر پر اس کا ایمان ہوتا ہے چاہے تفصیلات سے وہ نا واقف ہو لیکن ابو جہل اور اُس کے ساتھیوں کو تو تقدیر کا لفظ بھی عجیب لگتا تھا وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ سارے کام ہمارے بُت کرتے ہیں یا ہم کرتے ہیں یا دیوی دیوتا اور جن بھوت اور پریت کام کرتے ہیں.وہ سمجھتے تھے کہ قرعہ ڈال کر بکرا کسی دیوی کے نام چڑھا دیا تو سب کام ہو گئے.لیکن ہمارا بچہ کہتا ہے کہ سب کام خدا تعالیٰ کرتا ہے.وہ اپنی ماں کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے اماں ! مجھے فلاں چیز لے دو تو وہ کہتی ہے بیٹا ! اللہ دے گا تو لے دوںگی.اور اس جواب سے اس کی تسلی ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک تقدیر ایک یقینی چیز ہے لیکن جب قرآن کریم نازل ہوا اُس وقت یہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ تھا.اور لوگ حیران ہوتے تھے کہ قرآن نے یہ کیا بات کہہ دی.اسی طرح توحید کو لے لو.توحید کے مسئلہ پر بڑا زور دیا گیا ہے.لیکن جب ابتداء میں یہ تعلیم نازل ہوئی تو مکہ کے لوگ حیران ہو تے تھے کہ یہ توحید
کیا چیز ہے.قرآن کریم میں اُن کے خیالات کا عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے.فرماتا ہے کافر کہتے تھے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عجیب انسان ہیں کہ انہوں نے سب معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک معبود بنا دیا ہے.گویا اُن کے نزدیک لات ،منات اور عزیٰ وغیرہ کا قیمہ بنا کر ایک خدا بنا دیا گیا تھا.اُن کے ذہن میں یہ آہی نہیں سکتا تھا کہ لات اور منات اور عزیٰ معبود ہیں ہی نہیں.وہ ایک خدا کے یہ معنے سمجھتے تھے کہ ان سب کو ملا کر ایک بنا دیا گیا ہے.چنانچہ وہ کہتے تھے اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ( ص :۶ )ہمارے بہت سے معبود تھے مگر اس نے ان سب کو ایک بنا دیا ہے.وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک خدا پیش کرتا ہے یا کہتا ہے کہ دنیا کا ایک ہی پیدا کرنے والا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس نے سارے معبودوں کو اکٹھا کر کے ایک بنا دیا ہے.گو یا اُن کے نزدیک توحید کا پیغام لات.منات اور عزیٰ کو کوٹ کاٹ کر ایک کر دینا تھا وہ حیران ہوتے تھے کہ یہ کیا تعلیم ہے.لیکن آج ہمارا چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی سمجھتا ہے کہ توحید کیا چیز ہے کیونکہ وہ لات ، منات اور عزیٰ کو جانتا ہی نہیں.وہ پیدائش سے ہی سمجھتا ہے کہ خدا ایک ہے.اور ایک چھوٹے بچےکے لئے بھی یہ اتنا حل شدہ مسئلہ ہے کہ اگر اُسے کہو کہ ایک نہیں بلکہ کئی خدا ہیں تو وہ ہنس پڑے گا کہ مجھے بیوقوف بناتے ہو.لیکن ابوجہل کے سامنے جب یہ بات پیش کی جاتی تھی کہ خدا ایک ہے تو وہ بھی ہنس پڑتا تھا.اور کہتا تھا کہ مجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے.گویا ہمارے بچہ کے نزدیک یہ کہنا کہ ایک سے زیادہ خدا ہیں اُسے بیوقوف بنانا ہے اور ابوجہل کے نزدیک یہ کہنا کہ زیادہ معبود نہیں بلکہ ایک ہی معبود ہے اسے بیوقوف بنانا تھا.تو بعد میں آنے والوںکے لئے ایک نئی ترتیب کی ضرورت ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے سورۂ فاتحہ رکھی.پھر سورۃ بقرہ رکھی پھر سورۃ اٰل عمران رکھی.پھر سورۃ النساء رکھی.غرض ترتیب ِ قرآن نہایت اہم حکمتوں پر مبنی ہے نزول کی ترتیب اُن لوگوں کے مطابق تھی جو اُس زمانہ میں تھے.اور موجودہ ترتیب آئندہ آنے والی نسلوں کی ضرورت کے مطابق ہے اور یہ اس کلام کے منجانب اللہ ہونے کا ایک بڑا بھاری ثبوت ہے.مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ ترتیب بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ہے.کسی او ر شخص نے آپ کے سوا قائم نہیں کی.لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً سے مسلمان مفسرین کو ایک یہ خیال بھی پیدا ہو ا ہے کہ شاید پہلے سب نبیوں پر جُمْلَۃً وَّ احِدَۃً کلام نازل ہوتا تھا.تبھی دشمنوں نے یہ اعتراض کیا ہے مگر انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ قرآ ن کریم میں یہ اعتراض کفارِ مکہ کی طرف سے نقل کیا گیا ہے اور کفار مکہ تو کسی کتاب کے قائل ہی نہ تھے کجا یہ کہ وہ اس بات کے قائل ہوں کہ سب پہلے کلام یکد م نازل ہوئے تھے.اگر یہود و نصاریٰ کی طرف سے یہ اعتراض
بیان کیا جاتا تب تو یہ شُبہ پیدا بھی ہو سکتا تھا.لیکن انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا.اس لئے اس اعتراض کی وجہ سے یہ قیاس کرنا کہ پہلے چونکہ یکدم کلام نازل ہوتا تھا اس لئے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا گیا کہ کیوں یہ ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا درست نہیں.اصل بات یہ ہے کہ اُن کے اعتراض کی بنا محض عقلی تھی.وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ نے کلام نازل کیا ہوتا تو یکدم کر دیتا کیونکہ وہ عالم الغیب ہے.کلام کے آہستہ آہستہ نازل ہونے کے یہ معنے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ نئے اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود ایک نیا کلام دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.اور چونکہ اُن کے اس اعتراض کی بناء محض عقلی تھی اس لئے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ پہلے نبیوں پر اکٹھا کلام نازل ہو جاتا تھا.لیکن بفرض محال اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ کفار مکہ ایسا کہتے تھے تو کیا اُن کے اس خیال کو ہم کوئی اہمیت دے سکتے ہیں.کیا وہ علومِ آسمانی کے ماہر تھے یا مذہبی تاریخ کا ان کو کوئی علم تھا کہ ہم ان کے اس اعتراض کو تاریخِ مذہب کے لحاظ سے کوئی اہمیت دیں ؟ اگر انہوں نے ایسا کہا تب بھی تاریخی لحاظ سے یہ بالکل غلط بات تھی جسے کوئی باخبر انسان درست نہیں سمجھ سکتا.میرے نزدیک اس غلطی کے پیدا ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت آتا ہے کہ انہیں طور پر الواح ملی تھیں ( اعراف ع ۱۷) مسلمان مفسرین چونکہ اسرائیلی کتب سے واقف نہ تھے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ الواح اور تورات ایک ہی شے ہیں.حالانکہ الواح صرف اُن احکام کا نام ہے جن کا خروج باب ۲۰ تا ۳۱ میں ذکر آتا ہے اور تورات اُن احکام کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام پر مشتمل ہے.اور پھر قرآن کریم نے یہ کہیں ذکر نہیں کیا کہ یہ احکام موسیٰ ؑ پر ایک ہی وقت میں نازل ہوئے تھے پس اوّل تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر مکمل تورات نہیں ملی اور پھر جو کچھ آپ پر نازل ہوا وہ بھی یکدم نازل نہیں ہوا بلکہ چالیس راتوں میں نازل ہوا.لیکن الواحِ موسیٰ ؑ کے علاوہ دوسرے نبیوں کی وحی کی نسبت تو کوئی ضعیف روایت بھی ایسی نہیں جس سے معلوم ہو کہ پہلے نبیوں پر کلامِ الٰہی یکدم نازل ہو جاتا تھا اور اگر بالفرض کوئی ایسی روایت بھی ہوتی تو ہم اُسے خلافِ عقل کہہ کر رّد کر دیتے.کیونکہ مکالمہ و مخاطبہ ٔ الٰہیہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے تعلق کو روشن کرتا ہے.کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ کسی نبی پر ایک ہی رات میں سب کلام نازل کر کے خدا تعالیٰ اُس سے دائمی طور پر اپنے کلام کا سلسلہ منقطع کر سکتا ہے ؟ اور اگر ایسا ہو تو کیا وہ نبی زندہ رہ سکتا ہے میں تو سمجھتا ہوں اگر ایک دن کلام کر کے خدا تعالیٰ اپنے انبیاء سے کلام کرنا بالکل بند کر دیتا تو دشمن تو ان کو مارنے میں پھر بھی ناکام رہتے لیکن یہ خدائی فعل اُن کو مارنے میں ضرور کامیاب ہو جاتا.حقیقت یہ ہے کہ ہر نبی کا کلام اُس کی زندگی کے مختلف حالات پر روشنی ڈالتا ہوا ایک لمبے عرصہ میں ختم ہوا کرتا ہے.وہ کلام ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی صفات کے تازہ ظہور پر روشنی
ڈالتا ہے اور دوسری طرف اُس کی تائید اور نصرت کا ثبوت ہوتا ہے.پھر تیسری طرف خود اُس نبی کے ایمان اور اس کے یقین کے مختلف نمونوں کو پیش کر کے اُس کے رُوحانی کمالات کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.اگر شروع میں ہی یکدم سارا کلام نازل ہو جائے تو اُس میں یہ باتیں جمع نہیں ہو سکتیں.اور اگر یہ باتیں کسی کلام میں جمع نہ ہوں تو وہ دنیا کی ہدایت اور رشد کا ذریعہ بھی نہیں بن سکتا.پس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء پر آہستہ آہستہ کلام نازل ہو تا کہ اُن کا تعلق باللہ زندگی کے ہر دور میں ظاہر ہوتا رہے.پھر علاوہ ان حکمتوں کے قرآن کریم کا آہستہ آہستہ نزول اس لحاظ سے بھی اس کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ یسعیاہ نبی کے کلام میں یہ پیشگوئی پائی جاتی تھی کہ آخری زمانہ کے نبی پر جو کلام نازل ہوگا وہ آہستہ آہستہ مختلف ٹکڑوں کی صور ت میں نازل ہوگا.چنانچہ انہوں نے پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا.’’ وہ کس کو دانش سکھائےگا.کس کو وعظ کرکے سمجھائےگا.کیا اُن کو جن کا دودھ چھڑایا گیا.جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے کیونکہ حکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون ہے.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں لیکن وہ بیگانہ لبوں اور اجنبی زبان سے لوگوں سے کلام کرےگا جن کو اس نے فرمایا یہ آرام ہے تم تھکے ماندوں کو آرام دو.اور یہ تازگی ہے پر وہ شنوا نہ ہوئے.پس خداوند کا کلام اُن کے لئے حکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون.تھورا یہاں تھوڑا وہاں ہوگا تاکہ وہ چلے جائیں اور پیچھے گریں.اور شکست کھائیں.اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوں.‘‘ ( یسعیا ہ باب ۲۸ آیت ۹ تا ۱۳) اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں اس قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم ہو گی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسی وقت مبعوث ہوئے جب زمانۂ نبوت پر ایک لمبا عرصہ گذر چکاتھا.اور بنی اسرائیل بھی جو اہل کتاب تھے الہام کے دودھ سے محروم ہو چکے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اُن کی اس روحانی پیاس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.کہيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّ لَا نَذِيْرٍ١ٞ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (المائدۃ:۲۰)یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو رسولوں کے ایک لمبے انقطاع کے بعد تم سے ہماری باتیں بیان کرتا ہے.تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا ہے نہ ڈرانے والا.سو تمہارے پاس ایک بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے.اور اللہ ہر ایک بات پر قادر ہے.اسی سلسلہ میں
اس پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں اس قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم ہو گی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسی وقت مبعوث ہوئے جب زمانۂ نبوت پر ایک لمبا عرصہ گذر چکاتھا.اور بنی اسرائیل بھی جو اہل کتاب تھے الہام کے دودھ سے محروم ہو چکے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اُن کی اس روحانی پیاس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.کہيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّ لَا نَذِيْرٍ١ٞ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (المائدۃ:۲۰)یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو رسولوں کے ایک لمبے انقطاع کے بعد تم سے ہماری باتیں بیان کرتا ہے.تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا ہے نہ ڈرانے والا.سو تمہارے پاس ایک بشارت دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے.اور اللہ ہر ایک بات پر قادر ہے.اسی سلسلہ میں ایک بڑی علامت اس پیشگوئی میں یہ بتائی گئی تھی کہ وہ کلام جو اس نبی پر نازل ہوگا یکدم نازل نہیں ہوگا.نہ کسی ایک شہر یا گائوں میں نازل ہوگا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُتریں گے.چنانچہ قرآن کریم بعینہٖ اسی طرح اُترا.کچھ مکہ میں نازل ہوا اور کچھ مدینہ میں کچھ سفر میں نازل ہوا اور کچھ حضر میں.یہاں تک کہ دشمنوں نے بھی یہ اعتراض کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں ہوا.تعجب ہے کہ یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کے باوجود مسیحی بھی آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کرتے رہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے.اَلَّذِيْنَ يُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ جو لوگ اپنے سرداروں سمیت جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے اُن کا مقام بہت بُرا ہوگا اور مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ سَبِيْلًاؒ۰۰۳۵ اُن کا رستہ بڑی گمراہی کا ہوگا.حلّ لُغَات.وُجُوْھِھِمْ : وجوھھم اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں نَفْسُ الشَّیْءِ یعنی کسی چیز کا اپنا وجود.اور جب اَلْوَجْہُ مِنَ الدَّھْرِ کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں اَوَّلُہٗ زمانہ کا ابتدائی حصہ.اسی طرح وَجْہٌ کے ایک معنے سَیِّدُ الْقَوْمِ یعنی قوم کے سردار کے بھی ہیں اور اس کے معنے اَلْجَاہُ یعنی عزت اَلْجِھَۃُ : جانب.مَایَتَوَ جَّہُ اِلَیْہِ الْاِنْسَانُ مِنْ عَمَلٍ وَغَیْرِہٖ انسانی مطمح نظرا ور عمل.اَلْقَصْدُ وَالنِّیَّۃُ : قصد اور نیت اور اَلْمَرْضَاۃُ یعنی رضا مندی کے بھی ہیں.(اقرب) تفسیر.وَجْہٌ کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے سردارِ قوم کے بھی ہوتے ہیں.پس يُحْشَرُوْنَ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ اِلٰى جَهَنَّمَ کے یہ معنے ہیں کہ قیامت کے دن کفار جہنم میں تو جائیں گے مگر اپنے سرداروں پر لعنتیں ڈالتے ہوئے اور انہیں بُرا بھلا کہتے ہوئے جائیں گے اور وہی لوگ جن کے لئے وہ اپنی جانیں قربان کیا کرتے تھے اور جن کے اشاروں پر وہ اپنا دین اور مذہب بھی فروخت کرنےکے لئے تیار رہتے تھے انہی سے وہ نفرت اور بے زاری کا اظہار کرنے لگ جائیں گے کیونکہ اُس وقت اُن پر حقیقت روشن ہو چکی ہوگی اور انہیں معلوم
فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِيْرًاؕ۰۰۳۷وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ ہے.پھر (جب وہ تبلیغ کر چکے) ہم نے اُن جھٹلانے والوں کو بالکل تباہ کرد یا.اور قومِ نوح ؑ کو بھی جب انہوں اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰيَةً١ؕ وَ اَعْتَدْنَا نے رسولوں کا انکار کیا ہم نے غرق کر دیااور ہم نے انہیں لوگوںکے لئے ایک نشان بنا دیا.اور ہم نے لِلظّٰلِمِيْنَ عَذَابًا اَلِيْمًاۚۖ۰۰۳۸وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ ظالموںکے لئے دردناک عذاب تیار کر چھوڑا ہے.اور عاد کو بھی اور ثمودکو بھی اور کنوئیں والے لوگوں کو بھی الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا۰۰۳۹وَ كُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ اور اُن کے درمیان اور بہت سی قوموں کو بھی (ہم نے تباہ کر دیا ).اور اُن میں سے ہر قوم کے لئے ہم نے الْاَمْثَالَ١ٞ وَ كُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيْرًا۰۰۴۰ حقیقت بیان کر دی اور( جب نہ سمجھے تو )سب کو ہلا ک کر دیا.حلّ لُغَات.دَمَّرْنَا ھُمْ.دَمَّرْنَاھُمْ دَمَّرَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور دَمَّرَ عَلَیْھِمْ کے معنے ہیںاَھْلَکَھُمْ.اُن کو ہلاک کردیا ( اقرب) پس دَمَّرْنَا ھُمْ کے معنے ہوںگے.ہم نے اُن کو ہلاک کر دیا.اَصْحَابَ الرَّسِّ.اَصْحَابَ الرَّسِّ اَلرَّسُّ کے معنے ہیں اَلْبِئرُ الْقَدِیْمَۃُ.پرانا کنواں ( اقرب ) مفردات میں ہے اَصْلُ الرَّسِّ اَلْأَثْرُ الْقَلِیْلُ الْمَوْجُوْدُ فِی الشَّیْءِ کسی چیز میں اگر کوئی بڑا نشان ہو اور پھر مٹتا مٹتا تھوڑا سارہ جائے تو اُس تھوڑے سے نشان کو رس کہتے ہیں ( مفردات ) أَصْحَابُ الرَّسِّ قِیْلَ ھُوَ وَاد ٍ بعض لوگوں کے نزدیک رسّ ایک وادی کا نام ہے ( مفردات ) پس اَصْحٰبُ الرَّسِّ کے معنے ہوں گے ( ۱) کنوئیں والے (۲) ایسی قوم جن کے نشان مٹتے مٹتے کچھ بقایا رہ گئے ہوں.(۳) وادی والے تَبَّرْنَا تَبَّرْنَا تَبَّرَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور تَبَّرَہٗ کے معنے ہیں اَھْلَکَہٗ وَدَمَّرَہٗ.اُس کو ہلاک و برباد کر دیا.کُلَّ شَیْءٍ: کَسَرْتَہٗ وَفَتَتَّہٗ فَقَدْ تَبَّرْتَہٗ.ہر وہ چیز جسے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اس کے متعلق تَبَّرَ کا لفظ بولتے ہیں ( اقرب ) پس تَبَّرْنَا کے معنے ہوںگے.ہم نے اُن کو کُلیۃً تباہ و برباد کر دیا.
تفسیر.اب بتاتا ہے کہ قیامت کے دن اپنے گناہوں کی دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے سے کوئی انسان اپنے جرم کی سزا سے نہیں بچ سکتا کیونکہ ابتدائے آفرنیش سے ہم لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء مبعوث کرتے رہے ہیں.اور اُن کی تائید میں اپنے نشانات بھی دکھاتے رہے ہیں اگر اس سلسلۂ رسالت سے لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے تو اُن کا یہ کہنا کہ ہمیں تو اپنے لیڈروں نے بہکا دیا تھا اُن کے جرم کو ہلکا نہیں کر سکتا.چنانچہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرماتا ہے جن کی شریعت یہودکے لئے قریبًا دو ہزار سال تک قابلِ عمل رہی.اور فرماتا ہے کہ دیکھو ہم نے موسیٰ ؑ کو تورات دی اور اُس کے ساتھ اُس کے بھائی ہارون ؑ کو اُس کا نائب بنایا.اور پھر ہم نے اُن دونوں کو کہا کہ تم فرعون اور اس کی قوم کے پا س جائو اور انہیں ہمارا پیغام پہنچائو.مگر فرعون اور اس کی قوم نے ہماری آیات کا انکار کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور موسیٰ ؑ کو غلبہ عطا کیا.اس جگہ وَجَعَلْنَا مَعَہٗ اَخَاہٗ ھَارُوْنَ وَزِیْرًا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی حیثیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک تابع کی تھی مگر بعض لوگ جو حقائق پر پوری طرح غور کر نے کے عادی نہیں اور صرف سطحی نظر سے قرآنی آیات کو دیکھتے ہیں انہو ں نے قرآ ن کریم کی بعض آیات سے یہ دھوکہ کھایا ہے کہ موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ دونوں صاحبِ کتاب اور صاحبِ اُمت نبی تھے.اُن کا صاحب اُمت ہونا تو وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں جس میں جدعون کے متعلق اُن کے زمانہ کے نبی نے خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اِنَّ اٰيَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ ( البقرۃ :۲۴۹) یعنی اُس کی حکومت کا نشان یہ ہے کہ تمہیں ایک تابوت ملے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین ہوگی اور اُس چیز کا بقیہ ہوگا جو موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کی آل نے اپنے پیچھے چھوڑا اور دونوں کا صاحبِ کتاب ہونا وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں کہ وَ اٰتَيْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِيْنَ(الصّفّت:۱۱۸) یعنی ہم نے ان دونوں کو ایک کامل کتاب دی جو تمام احکام کو کھول کھول کر بیان کرتی تھی.حالانکہ آل موسیٰ ؑ و آل ہارون ؑ کہنا دونوں کی الگ الگ جماعتوں کا کوئی ثبوت نہیں.ایک ہی جماعت آل موسیٰ ؑ بھی کہلا سکتی ہے اور آل ہارون ؑ بھی اور پھر آل سے مراد متعلقین بھی ہو سکتے ہیں.باقی رہا کتاب کا ذکر.سو کتاب تو یقیناً ہارون ؑ کو بھی ملی.لیکن کتاب ملنے کے یہ معنے نہیں کہ اُن کو کوئی مستقل کتاب ملی تھی بلکہ جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملی وہی حضر ت ہارون ؑ کے لئے بھی تھی جیسے وہ کتاب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی وہ ہمارے لئے بھی ہے.مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم اہل کتاب ہیں.اسی طرح ہارون ؑ بھی اہل کتاب تھے مگر اُن پر کتاب نازل نہیں ہوئی.
حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کے باہمی تعلقات کا علم قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہو جاتا ہے.اوّل قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون ؑ کو نبوت کے مقام پر فائز کرنے کے متعلق خود حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی تھی اور ان الفاظ میں کی تھی کہ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَھْلِیْ ھَارُوْنَ اَخِی اشْدُدْبِہٖ اَزْرِیْ وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ ( طٰہٰ:۳۰.۳۱)یعنی اےمیرے خدا! میرے اہل میں سے ایک میرا نائب مقرر کر.یعنی میرے بھائی ہارون کو اور اُس کے ذریعہ سے میری قوت بڑھا اور اُسے میرے امر میں شریک کر.ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسے نبی کے لئے دعا کر رہے ہیں جو اُن کا وزیر ہو اور جو اُن کی طاقت بڑھانے والا ہو.اور پھر صاف فرماتے ہیں کہ میرے امر میں اسے شریک کر.یعنی سلسلہ تو میرا ہی ہو گا اس کا نہیں ہوگا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ اس کام کو چلانے میں میرا مدد گار اور شریکِ کار ہو.کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو موسیٰ ؑ کی دُعا ہے.خدا تعالیٰ نے نہ معلوم اس کو قبول کیا یا نہ کیا.سو اس کا جواب بھی اسی سورۃ میں موجود ہے.کیونکہ ایک دو آیات چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا جواب بھی نقل ہے.جو یہ ہے کہ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤ لَکَ یَامُوْسیٰ (طٰہٰ:۳۷).یعنی اے موسیٰ ! تیری التجا قبول کی جاتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ ؑنے جو کچھ مانگا تھا وہی کچھ خدا نے ان کو دیا.اور حضرت ہارون ؑ کو وہی مقام ملا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے طلب کیا تھا.پس حضرت ہارون کی حیثیت باوجود ایک نبی ہونے کے اُن کے نائب اور اُن کے کام میں مددگار کی تھی نہ کہ کچھ اور.اور یہ امر ظاہر ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں مستقل نبی اور دوسرے نبی کا تابع نہیں ہو سکتا.یہ دونوں عہدے قطعی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں.اس مضمون پر ان تعلقات کی تفصیل سے بھی خوب روشنی پڑتی ہے جو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کے درمیان تھے اور جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے مثلاً سورۂ اعراف ع ۱۷ میں ہے وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَ خِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِی وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(الاعراف:۱۴۳).یعنی موسیٰ ؑ نے اپنے بھائی سے پہاڑ پر جاتے ہوئے کہا کہ تم میرے بعد میری قوم میں میرے نائب کی حیثیت سے کام کر و.اور اصلاح کو ہمیشہ مدنظر رکھو.اور شریروں کی باتیں نہ ماننا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ امت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اُمت قرار دیتے ہیں اور سرداری اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو اپنا خلیفہ مقرر کرتے ہیں.شاید یہ کہا جائے کہ حضرت ہارون ؑ اپنی قوم پر تو حاکم تھے ہی حضرت موسیٰ نے مزید یہ درخواست اُن سے کی ہے کہ میری قوم کے کام بھی میرے
پیچھے تم کر دینا.لیکن اوّل تو اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ الگ الگ قوموں کی طرف نبی تھے تو اکٹھے کیوں رہتے تھے ؟ دوسرے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان کی قومیں کس اصول پر مقرر تھیں.اگر تو ہارون ؑ کسی اور خاندان سے ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اپنی اپنی قوم اُن پر ایمان لائی تھی لیکن یہ دونوں تو بھائی تھے پھر موسیٰ ؑ کی قوم الگ کس اصول پر تھی اور حضرت ہارون ؑ کی کس اصول پر.کیا دن مقرر تھے کہ فلاں دن بیعت کرنےوا لا موسیٰ ؑ کی کتاب پر ایمان لائے اور فلاں دن بیعت کو آنےوالا ہارون ؑ کی کتاب پر ایمان لائے ؟ یا قومیں الگ الگ بانٹی ہوئی تھیں.یا یہ تھا کہ جو چاہے موسیٰ ؑ کی بیعت کر ے اور جو چاہے ہارون ؑ کی بیعت کرے.آخر ایک ماں کے دوبیٹے جو اکٹھے رہتے تھے اُن کی الگ الگ اُمتیں کس اصول پر بنائی گئی تھیں ؟ پھر یہ بھی سوال ہے کہ قرآن کریم یہ فرماتا ہے وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسیٰ مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلًا جَسَدً الَّہٗ خُوَارٌ (الاعراف :۱۴۹ ) یعنی موسیٰ ؑکے بعد موسیٰ ؑکی اُمت نے بچھڑا بنا لیا تھا.کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ حضرت ہارون کی اُمت نے بچھڑا نہیں بنایا تھاکیونکہ قرآن صرف قوم موسیٰ ؑ کے بگڑنے کا ذکر کرتا ہے ہارون ؑ کی امت کے بگڑنے کا ذکر نہیں کرتا.اور اگر یہ درست ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ حضرت ہارون ؑ نے اپنی قوم کا زیادہ خیال رکھا اور موسیٰ ؑ کی قوم کا چنداں خیال نہ کیا.پھر اس کے آگے ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ حضرت ہارون ؑپر ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ (الاعراف :۱۵۱) اے میری ماں کے بیٹے.قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور مجھے قتل کرنے لگے تھے.اگر حضرت ہارون ؑ کی الگ اُمت تھی تو سوال یہ ہے کہ وہ اُمت کہاں گئی ہوئی تھی اور کیوں اس نے ہارون ؑ کی اس موقعہ پر مدد نہ کی.کیونکہ اگر ہارونی امت الگ تھی تو قرآن کے الفاظ کے مطابق وہ نہیں بگڑی تھی بلکہ اپنے ایمان پر قائم رہی تھی.اس قابلِ اعتراض عقیدہ کی وجہ سے ایک اور مشکل بھی پیش آتی ہے جو یہ ہے کہ دوسری جگہ حضرت ہارون ؑ کا یہ قول نقل ہے کہ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ.قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى ( طٰہٰ :۹۱.۹۲) یعنی حضرت ہارون ؑنے حضرت موسیٰ ؑکے واپس آنے سے بھی پہلے اُن سے کہہ دیا تھا کہ اے میری قوم ! تم کو اس بچھڑے کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمٰن خدا ہے.پس میری اتباع کرو اور میرے حکم کو مانو.مگر قوم نے کہا کہ جب تک موسیٰ ؑہماری طرف واپس نہ آئے ہم برابر اس کی عبادت کرتے رہیں گے.ان آیات میں حضرت ہارون ؑ بگڑنے والی قوم کو اپنی قوم کہتے ہیں.اگر کہا جائے کہ یہ قول انہوں نے اپنی امت سے کہا تھا.تو پھر یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اُن کا جواب یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کے آنے تک ہم اس کام کو نہیں چھوڑ یں گے تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امت تو وہ ہارون ؑ کی تھی لیکن بات موسیٰ ؑ کی مانا کرتی تھی.
غرض اس عقیدہ کو قرآن کریم کی متعدد آیات رد کررہی ہیں اور حق یہی ہے کہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے تابع نبی تھے.حضرت موسیٰ کی قوم ہی ان کی قوم تھی اور اُن کی کوئی الگ جماعت نہ تھی نہ الگ احکام تھے نہ کم نہ زیادہ.حضرت موسیٰ ؑ کی مددکے لئے انہیں مقرر کیا گیا تھا اور آل ہارون ؑ سے یا تو اُن کے وہ رشتہ دار مُراد ہیں جو حضرت موسیٰ ؑ کے رشتہ دار نہ تھے مثلاً بیویوں یا بہوئوں کی طرف سے رشتہ دار.یا ایک ہی قوم مراد ہے.صرف دونوں کی اصلاحِ خلق کی خدمات کے اظہارکے لئے دونوں کا ذکر کر دیا گیا ہے.موسیٰ ؑ کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ موسیٰ سے اوپر چلو تو نوح ؑ کی قوم کی مثال دیکھ لو.وہ بھی موسیٰ ؑ کی طرح ہمارا ایک شرعی رسول تھا مگر جب اس کی قوم نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا تو ہم نے اس کو غرق کر دیا.اور اُسے لوگوںکے لئے ایک نشان بنا دیا.اس جگہ نوح ؑکے لئے رُسُل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ وہ صرف ایک رسو ل تھے اس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی ایک رسول کا بھی انکار کیا جائے تو چونکہ تمام انبیاء منہاجِ نبوت کے لحاظ سے ایک جیسے ہوتے ہیں اور جو دلائل کسی ایک نبی کی صداقت ثابت کرتے ہیں وہی دلائل دوسرے نبی کی صداقت بھی ثابت کرتے ہیں اس لئے ایک نبی کا انکار سب نبیوں کا انکار ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے وہ شخص جس نے آم کھایا ہوا ہو وہ آم دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ آم نہیں ہے بلکہ خربوزہ ہے.مگر جس نے آم نہ دیکھا ہو وہ اُسے دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ آم ہے.اسی طرح جو شخص انبیاء کی صداقت کو صحیح طور پر پہچانتا ہو اور اُن کے دلائل اور نشاناتِ صداقت سے آگاہ ہو.وہ جب بھی کسی سچے نبی کو دیکھے گا اُسے پہچان لے گا اور اُس پر ایمان لے آئےگا.لیکن جو شخص کہتا تو یہ ہے کہ میں سب نبیوں کو مانتا ہوں لیکن بعد میں آنے والے وہ کسی رسول کا انکار کر دیتا ہے وہ اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کر تا ہے کہ اُس نے کسی نبی کو بھی نہیں پہچانا تھا.پس اُس کا انکار کسی ایک رسول کا نہیں بلکہ تمام رسولوں کا انکار کہلاتا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ بعض اور قوموں کی ہلاکت کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے.ہم نے عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کو بھی ہلاک کیا اور اُن کے درمیان اور بھی بہت سی قومیں ہمارے عذاب کا نشانہ بنیں.ان میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے اپنے انبیاء کے ذریعہ حقیقت حال کو کھول کر بیان کر دیا تھا مگر جب انہوں نے سچائی کو مٹانا چاہا تو پہلی قوموں کی طرح ہم نے انہیں بھی تباہ کر دیا.عاد ایک بہت بڑی قوم تھی جو تمام شمالی اور جنوبی عرب پر قابض تھی.قرآن کریم نے عاد کا زمانہ قوم نوح ؑ کے بعد بتا یا ہے ( اعراف ع ۹) اور اس کی طاقت کو لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ( الفجر :۹) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اُن بلاد میں اُس جیسی طاقتور اور کوئی قوم نہیں تھی مگر اُس قوم نے بھی جب ہود ؑکا مقابلہ کیا
تو اللہ تعالیٰ نے اُسے تباہ کر دیا.یہی حال ثمود کا ہوا جس نے قوم عاد کی جگہ لی تھی.اس قوم کا مرکزی مقام حجر تھا جو مدینہ منوّرہ اور تبوک کے درمیان تھا.رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک پر تشریف لے گئے تو آپ تھوڑی دیر کے لئے اس مقام پر بھی ٹھہرے تھے مگر آپ نے صحابہ ؓ کو حکم دے دیا کہ کوئی شخص اس جگہ سے کنوئوں کا پانی استعمال نہ کرے.بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم تو اس پانی سے اپنے آٹے گوندھ چکے ہیں.آ پ نے فرمایا.وہ آٹا یہیں پھینک دو کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو چکا ہے ( بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ عزّوجل والی عاد اخاھم صالحًا) پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اصحاب الرس کو بھی ہلاک کیا.اصحٰب الرس کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے.لیکن اس آیت سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ قوم ثمود کے بعد ہوئی ہے کیونکہ وَقُرُوْنًا بَیْنَ ذٰلِکَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ترتیب مدنظر ہے اور بحرِ محیط نے بھی اسی کی تائید کی ہے.کیونکہ اُس میں حضرت ابن عبا س ؓ کا یہ قول لکھا ہے کہ یہ قوم ثمود کا حصہ تھی ( تفسیر بحر محیط زیر آیت وعاد وّ ثمود و اصحاب الرس) اور چونکہ ثمود عاد کا آخری حصہ تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ثمود کی قائم مقام تھی.اور نسلِ اسماعیل ؑ کے عرب میں پھیلنے سے پہلے یہ لوگ ہوئے ہیں.جب نسل اسماعیل ؑ عرب میں پھیل گئی تو پھر یہ لوگ فلسطین کی طرف چلے گئے جیسا کہ قدیم آثار سے پتہ چلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان گذشتہ اقوام کی مثالیں پیش کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے بد نتائج سے لوگوں کو ڈرایا ہے اور انہیں بتا یا ہے کہ اگر تم نے اصلاح نہ کی تو جو حال موسیٰ ؑ اور نوح ؑ اور ہود ؑ اور صالح ؑ کے جھٹلانے والوں کا ہوا وہی حال تمہارا ہوگا اور تم بھی اس صفحہ ٔ ہستی سے معدوم کر دئیے جائو گے.وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِيْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ اوریہ( مکہ کے کفار )اس بستی کے پاس سے گذر چکے ہیں جس پر ہم نے ایک تکلیف دہ بارش نازل کی تھی.يَكُوْنُوْا يَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ نُشُوْرًا۰۰۴۱وَ اِذَا کیا یہ اس( بستی کے نشانوں )کو نہیں دیکھتے.حقیقت یہ ہے کہ یہ دوبارہ اُٹھنے کی اُمید ہی نہیں رکھتے تھے.
َاَوْكَ اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ۠ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ اور جب وہ تجھے دیکھتے ہیں تو تجھے صرف ایک ہنسی ٹھٹھے کی چیز سمجھتے ہیں( اور کہتے ہیں) رَسُوْلًا۰۰۴۲اِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا کیا اللہ( تعالیٰ) نے اس شخص کو رسول بنا کر بھیجا ہے ! اگر ہم اپنے معبودوں پر قائم نہ رہتے تو یہ( شخص) تو ہم کو عَلَيْهَا١ؕ وَ سَوْفَ يَعْلَمُوْنَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ ان سے گمراہ کرنے ہی لگا تھا.اور جب یہ عذاب کو دیکھیں گے تو اُن کو ضرور حقیقت معلوم ہو جائے گی اَضَلُّ سَبِيْلًا۰۰۴۳ کہ کون اپنے طور و طریق میں زیادہ گمراہ تھا.تفسیر.اب فرماتا ہے کہ یہ مشرک اپنے سفروں میں اس بستی کے پاس سے گذر تے ہیں جس پر ہم نے تکلیف دہ بارش نازل کی تھی مگر پھر بھی وہ اس کو دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتے.اس جگہ قریہ سے مراد قوم لوط ؑ کی بستی ہے اور اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْئِ سے یہ مراد ہے کہ زلزلہ سے خدا تعالیٰ نے اُن کی زمین کو تہ و بالا کر دیا.جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَجَعَلْنَا عٰلِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ( الحجر :۷۵)یعنی ہم نے اُس کی اوپر والی سطح کو نچلی سطح بنا دیا اور اُن پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی.اَتَوْا عَلیَ الْقَرْیَۃِ.سے یہ مراد ہے کہ جب یہ لوگ اپنی تجارتی اغراض کے لئے حجاز سے شام جاتے ہیں تو عین راستہ پر انہیں قوم لوط ؑ کی بستی دکھائی دیتی ہے.اس بستی کی عبرتناک تباہی کو دیکھ کر چاہیے تھا کہ اُن کے دل لرز جاتے اور یہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو قبول کر لیتے.مگر یہ ایسے سخت دل لوگ ہیں کہ ان کھنڈرات کو دیکھنے کے باوجود کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تکذیب کرتے چلے جاتے ہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ اُن کے اس انکار کی وجہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے.بَلْ کَانُوْا لَایَرْجُوْنَ نُشُوْرًا.اس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو جزاو سزا پر کوئی ایمان نہیں اور اس وجہ سے یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے دعویٰ پر غور ہی نہیں کرتے.اگر ان کے دلوں میں آئندہ زندگی کا کوئی خوف پایا جاتا تو یہ لوگ تکبر اور سرکشی میں نہ بڑھتے.رِجَاء کے ایک معنے امید کے ہوتے ہیں لیکن اس کے ایک معنے ڈر کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب) بلکہ بحرِ محیط والوں نے تو لکھا ہے کہ تہامہ کے علاقہ میں یہ لفظ صرف ڈر کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے ( تفسیر بحرِ محیط زیر آیت ولقد اتوا علی القریۃ التی امطرت) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیوں کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور بعث بعد الموت کے عقیدے کا بھی بڑا دخل ہے اگر کسی کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے خالی ہو جائے اور حیات بعد الموت کا ڈراُس کے دل سے نکل جائے تو اُس کے اندر لا مذہبیت اور سرکشی پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے قدم کو ہدایت سے دُور لے جاتی ہے اور آخر اسے جہنم میں پہنچا کر رہتی ہے.فرماتا ہے یہی بے باکی اور سرکشی ہے جس کی بنا ء پر یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برابر ہنسی اور مذاق کرتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ اگر رسول بنا کر بھیجنا تھا تو کسی اور کو بھیجتا.مگر پھر جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبولیت اور آپ ؐ کی کشش اور جاذبیت کو دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کہ یہ جھوٹاتو ہے مگر ہےبڑا چالاک.کیونکہ قریب تھا کہ اگر ہم بھی صبرسے کام نہ لیتے یعنی اپنے عقائد پر مضبوطی سے نہ ڈٹے رہتے تو یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے منحرف کر دیتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل میں اتنا زورتھا کہ بڑ ے بڑے کفار بھی محسوس کرتے تھے کہ اُن کے پائوں کے نیچے سے زمین نکلی جارہی ہے.اور اب بُتوں کی حقانیت ثابت کرنا اُن کے بس کا روگ نہیں رہا.مگر پھر کِبر اُن کے راستہ میں حائل ہو جاتا اور وہ مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ یہ بڑا چالاک ہے اس کے پیچھے مت چلو.مگر فرماتا ہے جب ان پر عذاب آئےگا تب ان کو پتہ لگے گا کہ ہمارا رسول سچ کہتا تھا یا لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا.چنانچہ جس طرح موسیٰ ؑ اور نوح ؑ اور ہود ؑ اور صالح ؑ اور لوط ؑ کی قومیں تباہ ہوئیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ایک حصہ کو بھی مختلف جنگوں میں تباہ کر دیا گیا.اور جو باقی بچے وہ اُسی وقت اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہوئے جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر خدا تعالیٰ کی پناہ میں آگئے اور انہوں نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنا شروع کر دیا.
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ ( اے رسول )کیا تو نے اس شخص کا حال بھی معلوم کر لیا ہے جس نے اپنی خواہشات ِ نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا.وَكِيْلًاۙ۰۰۴۴اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ کیا تُو اُس شخص پر نگران ہے (کہ تو اُسے جبرًا گمراہی سے روکے )کیا تُو سمجھتا ہے کہ اُن میں سے اکثر سُنتے یا سمجھتے يَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًاؒ۰۰۴۵ ہیں ؟ وہ تو فقط جانوروں کی طرح ہیں بلکہ رویہ کے لحاظ سے اُن سے بھی بدتر.حلّ لُغَات.اَلْھَوٰی أَلْھَوَی کے معنے ہیں اَلْعِشْقُ یَکُوْنُ فِیْ الْخَیْرِ وَالشَّرِّ.کسی چیز کے حصول کی شدید تڑپ خواہ وہ چیز اچھی ہو یا بُری.اِرَادَۃُ النَّفْسِ نفس کی خواہش.أَلْمَھْوِیُّ مَحْمُوْدًا کَانَ اَوْ مَذْمُوْمًا ثُمَّ غَلَبَ عَلیٰ غَیْرِ الْمَحْمُوْدِ.مطلوب و مقصودخواہ وہ اچھا ہو یا بُرا.لیکن عام طور پر ھَوٰی کا لفظ ناپسندیدہ مقصد کے لئے بولا جاتا ہے.( اقر ب) تفسیر.اس آیت کے متعلق مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں قلب واقعہ ہوا ہے.یعنی اِتَّخَذَ کا مفعول اوّل جو اِلٰھَہٗہے یہ دراصل مفعولِ ثانی ہے اور ھَوَاہُ جو مفعولِ ثانی ہے یہ مفعولِ اوّل ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ کیا تو نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا ہے.ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کے نزدیک اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار کی یہ حالت ہے کہ جو کچھ اُن کا نفس انہیں کہتا ہے اُس کے پیچھے چل پڑتے ہیں.انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ خدا اور اُس کے رسول کے کیا احکام ہیں وہ صرف اپنی نفسانی خواہشات کے غلام ہیں.یعنی انہوں نے اپنی ہواو ہوس کو ہی اپنا معبود بنایا ہوا ہے.لیکن میرے نزدیک یہاں قلب نہیں بلکہ اسی طرح کلام ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اے رسول ! بتاتو سہی کہ جو شخص اپنے معبود کو اپنی خواہشات نفس کا درجہ دیتا ہو.یعنی جس طرح خواہشات پر انسان حکومت کرتا ہے اسی طرح وہ خدا پر حکومت کرنا چاہے تو ایسے شخص کو کون فائدہ پہنچا سکتا ہے.گویااِتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہٗ کا یہ مفہوم ہے کہ انہوں نے اپنے معبود کو وہی مقام دیا ہے جو ھَوٰی کو دیا جاتا ہے.اور اِلٰھَہٗ کو ھَوٰی انہوں نے اس طرح بنا لیا کہ جس طرح ھَوٰی پر انسان اقتدار رکھتا ہے اور جو بات اُس کی عقل میں آتی ہے یا اس کو مفید سمجھتا ہے اُسے قبول کر لیتا ہے اور جس بات کو وہ مضر سمجھتا ہے اُسے ردّ کر دیتا ہے.اسی
طرح یہ لوگ خدا تعالیٰ پربھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کا کلی طورپر تابع فرمان نہیں سمجھتے.بلکہ اگر خدا تعالیٰ کی کوئی بات اُن کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ بر ملا کہہ دیتے ہیں کہ خواہ یہ بات خدا نے کہی ہو ہم اسے ماننےکے لئے تیار نہیں کیونکہ ہماری عقل اور سمجھ میں نہیں آتی.یہ ایک ایسا نقص ہے جس میں آجکل کے مغرب زدہ نوجوان بڑی کثرت سے مبتلا ہیں.وہ بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع چلیں اور اپنے دلوں میں اُن کی عظمت محسوس کریں وہ خدا تعالیٰ پر بھی اپنی حکومت جتاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا حکم دینے کا مجاز نہیں جسے وہ خود اپنے لئے مفید نہ سمجھتے ہوں.چنانچہ اس بارہ میں مجھے ایک لطیف مثال یاد آئی.۱۹۴۷ء یا ۴۸ ء میں مَیں پشاور گیا وہاں ایک دوست نے میری دعوت کی جس میں بعض غیر احمدی فوجی افسر بھی مدعو تھے.میں نے دوران گفتگو میں ایک آیت پیش کی اس پر ایک بڑے فوجی افسر نے اعتراض کیا کہ یہ بات تو غلط ہے.میں نے کہا پہلے آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ آیت قرآن میں ہے یا نہیں پھر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ قرآن خدا کا کلام ہے یا نہیں اور اس آیت سے یہی معنے نکلتے ہیں جو میں نے کئے ہیں یا اور معنے نکلتے ہیں.انہو ں نے کہا یہ آیت بھی قرآن میں ہے اور قرآن خدا تعالیٰ کا کلام بھی ہے اور معنے بھی اس کے وہی ہیں جو آپ نے کئے ہیں.اس پر میں نے کہاتب یہ سوال نہیں کہ یہ آیت درست ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ خدازیادہ جانتا ہے یا آپ زیادہ جانتے ہیں.اس بات کو سن کر وہ خاموش ہو گئے اور ایک دو منٹ تک اُن کا چہرہ سُرخ رہا.اور خاموش بیٹھے رہے مگر چونکہ آدمی دیانتدار تھے اور سچی بات کہنا پسند کرتے تھے اس لئے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے سر اٹھایا.اور کہنے لگے کہ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ میں خدا سے زیادہ جانتاہوں.اس پر سب مجلس کے لوگ ہنس پڑے اور وہ اور بھی شرمندہ ہوئے.غرض کئی لوگ خدا تعالیٰ کو بھی اپنا تابع قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُسے ہمارے ذاتی یا قومی یا سیاسی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں.فرماتا ہے جو شخص اپنے کبر میں یہاں تک ترقی کر جائے اور اپنے معبود کو وہی مقام دینا شروع کر دے جو ہواو ہوس کودیا جاتا ہے تو ایسے انسان کو کون فائدہ پہنچاسکتا ہے.فائدہ تو صرف ایسے لوگ ہی اُٹھاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کو اپنا حاکم تصّور کر تے اور انانیت کو ہر پہلو سے کچل دیتے ہیں.جب وہ ایسا کرتے ہیں تب اُن میں خدا تعالیٰ کا وہ نور ظاہر ہوتا ہے جو انہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز کرد یتا ہے.پھر فرماتا ہے تمہیں ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ لوگ بھی دین کی باتیں سنتے اور سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں.بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جانور بھی اپنے محسن کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے آقا اور مالک کا تابع فرمان
رہتا ہے مگر یہ لوگ تو اپنے محسن کو چھوڑ کر بھاگے جا رہے ہیں اورا ُس کی عظمت سے ان کے دل خالی ہو چکے ہیں.ایسے لوگوں نے خدا تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے قرب سے کیا حصہ لینا ہے.اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ١ۚ وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ ( اے قرآن کے مخاطب) کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیرے رب نے کس طرح سایہ کو لمبا کیا ہے اور اگر وہ چاہتا تو سَاكِنًا١ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًاۙ۰۰۴۶ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اسے ایک جگہ ٹھہرا ہو ابنا دیتا.پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک گواہ بنا دیا پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا۰۰۴۷ اپنی طرف کھینچنا شروع کر تے ہیں.حلّ لُغَات.دَلِیْلًا.اَلدَّ لِیْلُ کے معنے ہیں اَلْمُرْشِدُ.راستہ دکھانے والا.مَابِہٖ یَقُوْمُ الْاِرْشَادُ جس کے ذریعہ سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے.اردو میں نشان بھی کہتے ہیں.( اقرب) تفسیر.فر ماتا ہے کیا تو نے اپنے رب کے اس احسان کو نہیں دیکھا کہ اُس نے کس طرح سائے کو لمبا کر دیا ہے.وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا اور اگر وہ چاہتا تو وہ اس کو ساکن بنا دیتا.ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک دلیل بنایا ہے.یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے پر ایک زبردست دلیل ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ظہور فرمایا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک برابر آپؐ کا سایہ کسی نہ کسی شکل میں ممتد ہوتا چلا جاتا ہے.آپ ؐ کی زندگی میں ایک ساعت بھی تو ایسی نہیں آئی کہ آپؐ نے ترقی کی طرف قدم نہ اٹھایا ہو.پہلے ہی دن جب آپؐ پر الہام نازل ہوا اور آپؐ اس بات سے گھبرائے کہ یہ کام میں کیونکر سرانجام دے سکوں گا.دلوں کا فتح کرنا کوئی معمولی بات نہیں تو آپ اُسی گھبراہٹ میں اپنے گھر تشریف لائے اوراپنی بیوی حضرت خدیجہ ؓ سے اس خدشہ کا اظہار فرمایا کہ اتنی بڑی ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈال دی ہے.اب میں کیا کروں.اس پر پہلا ہی جواب جو آپؐ کی بیوی نے آپ کو دیاوہ یہ تھا کہ کَلَّا وَاللّٰہِ
َایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا.آپ کسی قسم کا وہم اپنے دل میں پیدا نہ کریں.خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ذلیل یعنی ناکام نہیں کرے گا.گویا جس وقت آپ ؐنے اپنے خدشات کا اظہار فرمایا خدا تعالیٰ نے معًا آپؐ کے سایہ کو بڑھا دیا اور آپ ؐکی بیوی آپ ؐکے مذہب میں شامل ہو گئی.عورتیں بظاہر تردّد کرنے والی اور متشکک طبیعت کی ہوتی ہیں مگر حضرت خدیجہ ؓ نے آ پ ؐکی بات کو سُنتے ہی کہا کہ پہلا سایہ تو میں آپؐ کا بنتی ہوں.پس فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ.کیا دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں.پھر حضرت خدیجہ ؓ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.وہ عربوں میں سے یہودی اور اسرائیلی علوم کے ماہر تھے.جب حضرت خدیجہ ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے سامنے پیش کیا اور سارا واقعہ سُنایا تو انہوں نے کہا ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ نَزَّلَ اللّٰہُ عَلیٰ مُوْسیٰ ( بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ؐ) ان پر تو وہی فرشتہ اُترا ہے جو خدا تعالیٰ نے موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا.اس طرح ورقہ نے بھی بزبانِ حال کہا کہ میں بھی آپ کے سایہ میں شامل ہوتا ہوں.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ تم دیکھتے نہیں کہ ہم تمہارے سایہ کو کس طرح بڑھاتے چلے جاتے ہیں.پہلے ہی دن جب آپ دوسرے آدمی کے پاس پہنچے تو آپؐ کا سایہ اور لمبا ہوگیا.پھر جب گھر میں آکر اس بات کا ذکر میاں بیوی نے کیا تو ایک آزاد کردہ غلام کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا کہ مجھے بھی اپنے سائیوں میں شامل کر لیجئیے.جوانی کے قریب پہنچے ہوئے علی ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں بھی آپ کا سایہ بنتا ہوں.آپ ؐکے بچپن کے دوست حضرت ابو بکر ؓ نے جب یہ واقعہ سنا تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں بھی آپ پر ایمان لاتا ہوں.یہی وہ حقیقت ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ.دنیا میں نبیوں کی مخالفتیں تو ہوا ہی کرتی ہیں اور آپ کی بھی سخت مخالفت ہوئی.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی ایام میں ہی وہ لوگ جو آپ کے اردگر د رہتے تھے یا جن کی رائے کوئی اہمیت رکھتی تھی آپؐ کے ساتھ شامل ہو گئے.اور اس طرح آپؐ کا سایہ فوراً ہی ممتد ہو گیا.ایک دن بھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا نہیں گذرا کہ آپ کا سایہ لمبا نہ ہو اہو.یہ نہیں ہو اکہ آپ کے دعویٰ پر ایک دن گذر گیا ہو اور آپ کا کوئی تابع نہ ہوا ہو.دو دن گذر گئے ہوں اور آپ کا کوئی تابع نہ ہوا ہو یا مہینہ دو مہینے گزر گئے ہوں اور آپ ؐ کا کوئی تابع نہ ہوا ہو.بلکہ پہلے ہی دن جب آپ اللہ تعالیٰ کے الہام کا ذکر فرماتے ہیں تو فوراً آپ کا سایہ لمبا ہو جاتا ہے اور حضرت خدیجہ ؓ آپ پر ایمان لے آتی ہیں.پھر اُسی دن جب آپؐ چل کر باہر ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچتے ہیں
تو ورقہ بن نوفل آپؐ پر ایمان لے آتا ہے.گھر میں آپ نے بات کی تو حضرت علی ؓ اور زید ؓ ایمان لے آئے.اور پھر اُسی شام یا دوسری شام حضرت ابوبکر ؓ بھی آپ پر ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئے.گویا نہ صرف خدا تعالیٰ نے فوراً آپؐ کا سایہ پیدا کر دیا بلکہ وہ اس سایہ کو لمبا کرتا چلا گیا.پھر بڑھتے بڑھتے اور بھی کئی جماعتیں اس سایہ میں شامل ہونی شروع ہوئیں.مدینہ میں خبر پہنچی تو وہاں کے کئی افراد دوڑتے ہوئے آئے اور آپ پر ایمان لے آئے.حبشہ میں مسلمان گئے تو نجاشی نے اسلام قبول کر لیا.غرض قدم قدم پر آپ ؐ کا سایہ بڑھتا اور ترقی کرتا چلا گیا.پھر فرماتا ہے.وَ لَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا اگر خدا تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت تیرے شاملِ حال نہ ہوتی اور تو خدا تعالیٰ کا سچا رسول نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ تیرے سایہ کو بڑھانے اور اس کو ترقی دینے کی بجائے خدا تعالیٰ تیرے سایہ کو چھوٹا کر دیتا.پس کیا تو خدا تعالیٰ کی اس مدد کو نہیں دیکھتا کہ وہ تیرے سایہ کو لمبا کرتا چلا جاتا ہے اور کیا تیرے منکروں اور دشمنوں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہم کس طرح تیرے سایہ کو لمبا کرتے چلے جا رہے ہیں.پھر بعض سائے ایسے ہوتے ہیں جو اتفاقی حادثہ کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں اور گو وہ سائے بھی بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں لیکن جس قدر وہ سائے ممتد ہوتے چلے جاتے ہیں صاف ظاہر ہوتا جاتا ہے کہ دنیوی ذرائع اور مادی سامان ان کو لمبا کر نے میں کام کر رہے ہیں.الٰہی تائید اور نصرت کا اُن میں ہاتھ نہیں.مگر فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا تمہارا سایہ صرف لمبا ہی نہیں ہوا بلکہ ہم سورج کو بھی اس پر دلیل بنا رہے ہیں.یعنی ہر شخص کو نظر آرہا ہے کہ یہ سایہ مصنوعی ذرائع سے پیدا نہیں ہو ا.دنیا میں سایہ لیمپوں سے بھی بنایا جا سکتا ہے.ایک درخت کے پیچھے لمپ رکھ دو تو اس کا سایہ بن جائےگا.موم بتی جلا دو تب بھی سایہ بن جائےگا.مگر موم بتی اور لیمپ خدائی ذرائع نہیں انسانی ذرائع ہیں لیکن سورج ایک ایسی چیز ہے جو محض خدائی ذریعہ ہے.پس فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا.تیری ترقی الٰہی سامانوں اور نصرتوں کی وجہ سے ہے نہ کہ انسانی سامانوں اور مادی ذرائع کی وجہ سے.کیا دشمن اس بات کو دیکھتا نہیں کہ ایک طرف تیری ترقی پر ترقی ہو رہی ہے اور دوسری طرف تیری ترقی مادی سامانوں اور انسانی ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدائی ہاتھ تجھ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ تو ہمارا سچا رسول ہے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ ہم اس سایہ کو کھینچ لیں گے اور تین سو سال بعد اسلام پر رات آنے لگے گی.مگر اس کے بعد پھر دن چڑھےگا جس کی وَجَعَلَ النَّھَارَ نُشُوْرًا (الفرقان:۴۸)میں خبر دی گئی ہے.اور مسلمان سورج کے نئے طلوع کے ذریعہ سے بیدار ہونے لگیں گے.اس آیت کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں احمدیت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سایہ ہے.ہر شخص جو احمدیت میںہوتا ہےاور ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایما ن لاتا ہے وہ محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کو اور زیادہ ممتد کر دیتا ہے.اسی طرح ہر تائید سماوی اور ہر الٰہی نصرت جو ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ صاف طور پر اس حقیقت کو واضح کر رہی ہے کہ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا.یہ سب کچھ خدائی نصرت اور تائید سے ہو رہا ہے.انسانی سامانوں سے نہیں ہو رہا.آخر وہ کونسی چیز ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کی اتباع کی ہے.یا کون سا مسئلہ ہے جس کے متعلق رائج الوقت خیالات کی اصلاح کرنے کی آپ نے کوشش نہیں کی بیسیوں مسائل ہیں جن کے متعلق قرآنی تعلیم کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے موجودہ زمانہ کی رَو کے بالکل خلاف اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے اور لوگوں کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلایا ہے.موجودہ زمانہ میں اقتصادیات کی طرف لوگوں کا بہت بڑا رجحان ہے.چنانچہ کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ مذاہب کی آپس کی جنگ درحقیقت یو نہی ہے اصل جھگڑا روٹی کا ہے اس جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے تو مذاہب کی جنگ بالکل ختم ہو جائے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انشورنس اور سود کو منع کر کے بظاہر لوگوں کے لئے روٹی کے سامان بالکل بند کر دئیے ہیں (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۶۷،۱۶۸).اگر دنیا میں روٹی کا ہی جھگڑا ہوتا تو چاہیے تھا کہ اس تعلیم کی وجہ سے لوگ حضرت مرزا صاحب سے دُور بھاگتے اور کہتے کہ یہ شخص ہماری روٹی بند کرتا ہے.ہمیں سود سے منع کرتا ہے ہمیں انشورنس سے روکتا ہے.ہمیں ہر قسم کی ٹھگیوں اور دھوکا بازیوں سے مجتنب رہنے کی تعلیم دیتا ہے اور یہ چیز ایسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے.مگر ہوا یہ کہ اس تعلیم کے باوجود لاکھوں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کھنچے چلے آئے.دوسرے نمبر پر یہ زمانہ مذہبی آزادی کا ہے مسلمانوں کے قدیم سے قدیم خاندان بھی اسلامی ثقافت کو چھوڑتے چلے جاتے ہیں اور مذہب کے خلاف دنیا میں ایک عام روچل رہی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متبعین کو مذہب کی طرف توجہ دلائی.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں دوسروں سے زیادہ تعلیم ہے پھر بھی وہ لوگ مذہب کی طرف دوسروں سے زیادہ توجہ کر رہے ہیں اور جماعت کے لیڈر اُن کو اس میں زیادہ سے زیادہ پختہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.پھر یہ زمانہ سڑائیکوں کا ہے.جتھے بنا بنا کر حکومتوں کے خلاف کھڑے ہوجانا یا مالکوں اور کارخانہ داروں اور اُستادوں وغیرہ سے اپنے مطالبات منوانےکے لئے سڑائیک کر دینا ایک عام بات ہے.اور اسے اپنے مطالبات منوانےکے لئے ایک ضروری حربہ تصّور کیا جاتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سڑائیک سے بھی منع فرما دیا (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۱۷۲.۱۷۳).مگر باوجود اس کے ہماری جماعت میں کثرت سے طلباء اور گورنمنٹ
سروس کے نوجوان داخل ہوتے ہیں.حالانکہ سڑائیکوں میں طلبا ء اور نوجوانوں کا ہی زیادہ تر دخل ہوتا ہے.اسی طرح مزدور پیشہ لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں.حالانکہ بظاہر اُن کے مفاد کے خلاف حکم دیا گیا تھا.غرض فرماتا ہے ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا تمہاری ترقیات جس قدر ہوںگی انسانی تدابیر سے باہر ہوں گی اس کا یہ مطلب نہیں کہ مادی تدابیر نہیں کی جائیں گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ مادی تدابیر کے سامان بھی خدا تعالیٰ خود مہیا کرے گا تم نہیں کرو گے.پس محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ایک سایہ دار درخت بنایا ہے جو قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے ماتحت کہ اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ دنیا میں روز بروز بڑھتا چلا جائے گا.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے تو کیا خدا تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اس کو ساکن کر دیتا.اگر اس سایہ کے بڑھانے میں انسانی تدابیر کا م کر رہی ہوتیں خدا تعالیٰ کا اس سلسلہ میں کوئی دخل نہیں تھا تو چاہیے تھا کہ خدا تعالیٰ اس کو ترقی سے محروم کر دیتا.مگر فرماتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اس کو ساکن کرتا وہ اس پر دلیل بن گیا ہے اور اپنی نصرتوں اور تائیدات سے اس کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے.اور جس سلسلہ کو خدا تعالیٰ مٹاتا نہیں بلکہ بڑھارہا ہے اس کے سچا اور خدائی ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو جن شدید ترین دشمنوں نے مسلمانوں کو قتل کیا تھا یا جنہوں نے مسلمان شہدا ء کی ہتک کی تھی یا جنہوں نے انگیخت کرکے مسلمانوں کو شہید کیا تھا یا شہید کروایا تھا اُن میں سے بعض افراد کے متعلق اس موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے دیا کہ وہ جہاں بھی مل جائیں اُن کو قتل کر دیا جائے.انہی میں سے ایک ہندہ بھی تھی جب اُسے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کرنے کا حکم دےدیا ہے تو وہ عورتوں میں چھپی چھپی آپ کے پاس پہنچ گئی.جب عورتوں کی بیعت ہونے لگی تو وہ بھی اُن عورتوں کے ساتھ مل کر الفاظ بیعت دوہراتی چلی گئی.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اقرار کرو کہ ہم شرک نہیں کریں گی.اُس وقت ہندہ اپنی جو شیلی فطرت کے اُبھار کو روک نہ سکی اور جھٹ بول اُٹھی کہ یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی ؟ آپ اکیلے تھے اور ہم ایک زبر دست قوم تھے.آپ اکیلے نے توحید کی آواز بلند کی اور ہماری ساری قوم نے مل کر آپ کے مقابلہ میں بُتوں کی عظمت قائم کرنے کا تہیہ کیا.ہمارا اور آپ کا مقابلہ ہوا.اور اس مقابلہ میں ہم نے اپنا سارا زور صرف کر دیا مگر اس کے باوجود ہم گھٹتے چلے گئے اور آپ بڑھتے چلے گئے ہم ہارتے چلے گئے اور آپ جیتتے چلے گئے.اگر ہمارے بُتوں میں کچھ بھی طاقت ہوتی تو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ آپ
ہمارے مقابلہ میں جیت جاتے.آپ کا ہمارے مقابلہ میں اکیلے ہوتے ہوئے جیت جانا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارے بت بالکل بیکار ہیں اور خدا ئے واحد کی ہی اس دنیا پر حکومت ہے جس نے آپ کی مدد کی اور ہم سب کو آپ کے مقابلہ میں شکست دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہندہ ہے ؟ہندہ بھی جانتی تھی کہ اسلام کی حکومت صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہے.اُس نے کہا ہاں ہندہ ہوں.مگر مسلمان ہندہ.اب آپ کا وہ زور مجھ پر نہیں چل سکتا جو پہلے چل سکتا تھا.کیونکہ اسلام سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے (طبری سنۃ ۸ ذکر الخبر عن فتح المکۃ)تو الٰہی مدد کا ہونا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ شخص راستباز ہے.اور الٰہی مدد کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ باوجود دنیوی مخالفت کے ایک قوم بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوئی روک اُس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ مومن قوم کی پشت پر آجاتا ہے اور اس کے سایہ یعنی تصرف کو لمبا کر دیتا ہے.اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو سایہ ایک جگہ ٹکا رہتا.یعنی مومن دنیا میں کوئی ترقی نہ کرتے.پھر جس طرح سورج کے مقام کو دیکھ کر پتہ لگ جاتا ہے کہ سایہ کدھر جائےگا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی تائیدات کو دیکھ کر یہ پتہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کونسی قوم ترقی کرے گی.ہاں یہ الٰہی مدد ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی.ایک مدت کے بعد جب قوم خراب ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی پشت پناہی چھوڑ دیتا ہے اور وہ سایہ غائب ہو جاتا ہے.پس کوشش کرو کہ تمہارا خدا تمہیں اور تمہاری اولاد وں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ممتد سایہ بنا دے اور تمہیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کو ہمیشہ قائم رکھنے اور اُس کو آگے سے آگے بڑھانے کا موجب بنو.تاکہ شمس والی دلیل ہمیشہ قائم رہے اور تمہارے لئے الٰہی نصرتیں ظاہر ہوتی رہیں اور انسانی تدابیر تمہارے مقابلہ میںہمیشہ ناکام رہیں.وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ اور وہی( خدا) ہے جس نے رات کو تمہارے لئے لباس بنایا اور نیند کو آرام کا موجب جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا۰۰۴۸ اور دن کو پھیلنے اور ترقی کا ذریعہ.حلّ لُغَات.اَلسُّبَاتُ أَلسُّبَاتُکے معنے ہیں اَلدَّھْرُ.زمانہ.نیز اس کے معنے ہیں اَلنَّوْمُ.نیند وَقِیْلَ اِبْتِدَاؤُہُ فِی الرَّأسِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْقَلْبَ یعنی بعض ماہرین لُغت کہتے ہیں کہ سبات کا لفظ نیند کی ابتدائی
حالت کے متعلق استعمال کرتے ہیں جبکہ وہ دماغ پر حاوی ہو کر سارے جسم پر مستولی ہو جاتی ہے.وَقِیْلَ اَصْلُہٗ اَلرَّاحَۃُ.اور بعض ماہرین لُغت یہ کہتے ہیں کہ سبات کے اصل معنے راحت اور آرام کے ہیں.( اقرب ) تفسیر.اس میں بتا یا کہ رات اور دن کا تسلسل اور انسانی نیند بھی خدا تعالیٰ کے احسانات کا ایک ظہور ہیں.رات تو انسان کے لئے لباس کا کام دیتی ہے اور اُس کے بہت سے عیوب کو ڈھانپ لیتی ہے چنانچہ سوتے وقت کی کئی حالتیں ایسی ہوتی ہیں جو اگر دن کے وقت ظاہر ہوں تو لوگوں کو بہت معیوب دکھائی دیں.مگر رات کی تاریکی کی وجہ سے وہ دوسروں کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں.کیونکہ وہ خود بھی اُس وقت سو رہے ہوتے ہیں.اور اس طرح انسان کے کئی نقائص پر پردہ پڑارہتا ہے.اسی طرح نیند انسانی راحت اور آرام کا موجب بنتی ہے.اور جسم نئے سرے سے طاقتیں حاصل کر لیتا ہے.اگر نیند نہ آئے تو انسان چند دنوں میں ہی پاگل ہو جائے یہ نیند ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کی تمام طاقتیں برقرار رہتی ہیں اور وہ ہر صبح تازہ دم ہو کر اپنا کام شروع کر دیتا ہے.پھر فرماتا ہے وَجَعَلَ النَّھَارَ نُشُوْرًا اُس نے دن کو انسانوں کے اِدھر اُدھر پھیلانے کا ذریعہ بنایا ہے.چنانچہ وہ اس کی روشنی میں چاروں طرف دوڑے پھرتے اور اپنی معیشت کا سامان مہیا کر تے ہیں.یہی رات اور دن کا تسلسل ہمیں قومی زندگی میں بھی دکھائی دیتا ہے.کبھی قوموں پر لیل کا زمانہ آتا ہے اور کبھی نہار کا.زمانۂ لیل میں اُن کے تمام عیوب مخفی رہتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور مصلح کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک نیا دن چڑھتا ہے تو صرف دوسرے لوگوں کو ہی اُن کے عیوب نظر نہیں آتے بلکہ خود انہیں بھی اپنی خامیاں محسوس ہونے لگتی ہیں اور اُن کے اندر اصلاح کا ایک نیا جذبہ پیدا ہونے لگتا ہے.اور رفتہ رفتہ وہ بھی ترقی کر جاتے ہیں.وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ١ۚ اور وہ( خدا) ہی ہے جس نے ہوائوں کو اپنی رحمت سے پہلے بشارت دینے کے لئے بھیجا.اور ہم نے باد ل وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًاۙ۰۰۴۹لِّنُحْيِۧ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّ سے پاک (و صاف) پانی اتار ا ہے.تاکہ اس کے ذریعہ سے مردہ ملک کو زندہ کریں اور اسی طرح اُس (پانی) سے نُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِيَّ كَثِيْرًا۰۰۵۰وَ لَقَدْ اپنے پیدا کئے ہوئے چارپائیوں اور بہت سے انسانوں کو سیراب کریں.اور ہم نے اُس (پانی) کو اُن( یعنی انسانوں)
صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا١ۖٞ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا میں خوب پھیلا دیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں.لیکن لوگوں میں سے اکثر لوگ کفر کے سوا کسی بات پر راضی كُفُوْرًا۰۰۵۱وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًاٞۖ۰۰۵۲ نہیں ہوتے.اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ہوشیار کرنےوالا (نبی یا مامور) بھیج دیتے.پس تو کافروں کی بات فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا۰۰۵۳ نہ مان اور اس (یعنی قرآن) کے ذریعہ سے ان سے بڑا جہاد کر.تفسیر.فرماتا ہے وہ خدا ہی ہے جو بارشوں سے پہلے لوگوں کو بشارت دینےکے لئے ہوائیں بھیجتا ہے اور بادلوں سے پاک کرنے والا پانی نازل کرتا ہے.جس کے نتیجہ میں مردہ بستیاں بھی زندہ ہو جاتی ہیں.اور ہم اس پاکیزہ پانی سے جانوروں اور بہت سے انسانوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہ سب نصیحت کی باتیں ہیں جن کو ہم انسانوں کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ وہ ہدایت حاصل کریں.یعنی جسمانی پانی کو دیکھ کر وہ سمجھ لیں کہ خدا تعالیٰ نے روحانی پانی بھی اُتار اہوگا.لیکن لوگ جسمانی پانی کی تو قدر کرتے ہیں مگر روحانی پانی سے انکار کر دیتے ہیں.اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں اپنا رسول بھیج دیتے مگر ہم رسول صر ف ایک ہی بستی میں بھیجتے ہیں جہاں سے وہ سارے علاقہ میں تبلیغ کرتا ہے.پس اے ہمارے رسول ! تو کا فروں کی بات نہ مان اور اس قرآن کے ذریعہ اُن سے جہاد کبیر کر.ان آیات میں کلام الٰہی سے تشبیہہ دینےکے لئے پہلے پانی کا ذکر کیاگیا ہے.اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح جسمانی پانی کو لوگوں میں پھیلادیتے ہیں اور مردہ بستیوں کو اس کے ذریعہ زندہ کر دیتے ہیں.اسی طرح ہم نے قرآن کریم کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے مگر اکثر لوگ کفرانِ نعمت کرتے ہیں وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں مگر کلام الٰہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے ردّ کر دیتے ہیں.گویا وہ کوڑیوں پر تو جان دیتے ہیں مگر اشرفیاں قبول کرنےکے لئے تیار نہیں ہوتے اور یہ بالکل بچوں والی بات ہے.میں ایک دفعہ بمبیٔ گیا تو وہاں اُن دنوں عدالت میں ایک تازہ کیس چل رہا تھا جو اس طرح ہوا کہ کسی جوہری کے ساٹھ ہیرے جو کئی لاکھ روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گر گئے.اُس نے پولیس میں رپورٹ کر دی.پولیس نے تحقیقات کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا.جس سے کچھ ہیرے بھی بر آمد ہوگئے.جب اس سے پوچھا گیاکہ اُس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے تو اُس نے
بتا یا کہ میں بازار میں سے گذر رہا تھا کہ چند لڑکے ان ہیروں سے گولیاں کھیل رہے تھے.میں نے انہیں دو چار پیسے دےکر ہیرے لے لئے.بعد میں معلوم ہو اکہ اُس جوہری نے کسی موقعہ پر اپنی جیب میں سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پڑیہ میں تھے اُس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے.اور بچوں نے یہ سمجھا کہ یہ کھیلنے کی گولیاں ہیں حالانکہ وہ کئی لاکھ روپے کا مال تھا.یہی حال لوگوں کا ہے.وہ اُس پانی کی تو قدر کریں گے جو سڑ جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے.مگر جو پانی اُن کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے اور جو نہ صرف اس زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا او رانسان کی کایا پلٹ دیتا ہے اُس کو رّد کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے.لوگوں کی اسی کیفیت کا اللہ تعالیٰ ان زیر تفسیر آیا ت میں ذکر کرتا اور فرماتا ہے کہ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا.اکثر لوگ ہماری اس عظیم الشان نعمت کا کفر ہی کرتے ہیں.حالانکہ اگر ہم چاہتے تو دنیا کی ہر بستی میں نذیر بھیج دیتے.یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حجت تمام کرنا چاہتے تو بجائے اس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اُس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی ہر بستی میں ایک ایک نذیر بھیج دیتے مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا اس لئے کہ اگر سب لوگ کفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آجاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے.مگر اب ایسا نہیں ہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمام حجت ہوتی ہے اور اُس پر عذاب آتا ہے.پھر کچھ اور عرصہ گذرتا ہے تو ایران پر اتما م حجت کے بعد عذاب آجاتا ہے.اگر ہر بستی اور ہر گائوں میں اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے تو ہر بستی اور ہر گائوں پر وہ عذاب نازل ہوتا جو اَب براہ راست ایک حصۂ زمین کے مخالفوں پر نازل ہو تاہے.پس فرماتا ہے توان کافروں کی باتیں نہ مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سب دنیا کے ساتھ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد جس کے قریب جانے سے بھی آج کل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے.وہ اس جہاد سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے.اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہےکہ دشمن بہت طاقتور ہے مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے مسلمانو! بڑھو اور لڑو اور مسلمان کہتے ہیں کہ اے علماء کرام آپ آگے بڑھیں اور لڑیں کیونکہ آپ ہمارے لیڈر اور راہنماہیں.اور پھر دونوں اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں.حالانکہ خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگ سکتا.اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹو ٹ سکتی.تیرہ سو سال گذر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ اس تلوار کو توڑ دیں.اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی.یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.فرماتا ہے جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا.تلوار کا جہاد اور نفس کے ساتھ جہاد اور دوسرے اور جہاد سب چھوٹے ہیں.صرف قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے
بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے.یہ وہ تلوا ر ہے کہ جو شخص اس پر پڑے گا اس کا سر کاٹا جائےگا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائےگا یا اسلام کی غلامی اختیار کر کے زندہ جاوید ہو جائےگا.اگر تیرہ سو سال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا.آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دے کر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے.مگر کئی نادان مسلمان احمدیت پر حملہ کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں.اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعے پر حملہ کر رہا ہو تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہو سکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آجائیں.مگر غلیلے چلانے والا بجائے اس کے کہ اُن کا شکریہ ادا کرے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے یہ نادان بھی اپنی نادانی کی وجہ سے اس شخص کو جہاد کا منکر قرار دیتے ہیں جس نے اسلام کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچایا اور اپنے آپ کو صف اوّل کے مجاہدین میں شمار کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے عمر بھر میں کسی ایک شخص کو بھی اسلام میں داخل نہیں کیا ہوتا.نہ انہیں قرآن کریم کا کوئی علم ہوتا ہے وہ ہوش سنبھالنے سے لےکر بڈھے ہونے تک صرف اور نحو پڑھتے رہتے ہیں اور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں.انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا.اور نہ اس کے مطالب اور معانی پر کبھی غور کیا ہوتا ہے مگر اعتراض وہ اُس شخص پر کرتے ہیں جس کے نام سے بھی عیسائی پادریوں کا خون خشک ہوتا ہے.اور جس کے ادنیٰ اور معمولی درجہ کے غلاموں سے بھی وہ بحث کرنےکے لئے تیار نہیں ہوتے حقیقت یہ ہے کہ جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا مسلمانوں کی عملی سُستی اور بے چارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی.عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہو رہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنےکے لئے اُس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے.اسلام کے خادم اپالوجسٹس کی صفوںمیں کھڑے اُن اسلامی عقائدکے لئے جنہیں یورپ ناقابلِ قبول سمجھتا تھا معذزتیں پیش کر رہے تھے.اُس وقت بانئے سلسلہ احمدیہ نے ان طریقوں کے خلاف احتجاج کیا.اُس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں اُس کا ہر حکم حکمتوں سے پُر اور اُس کا ہر ارشاد صداقتوں سے معمور ہے.اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اُس کے قریب نہیں لے گئے.پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے.اُس وقت جبکہ یورپ کے اسلام لانے کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کرا کے یورپ میں تقسیم کرائے.اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت عطا فرمائی تو
آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے جو کسی وقت بھی چھوڑا نہیں جا سکتا.جس طرح نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں جن پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جن پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے.پہلے علماء نے عام طور پر یہ لکھا ہے کہ نماز اور روزہ اور زکوٰۃ مقدم ہیں.اس کے بعد حج ہے اور پھر جہاد ہے لیکن علامہ ابن رشد ؒ لکھتے ہیں کہ نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کے بعد جہاد ہے اور پھر حج ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے علماء کی بات زیادہ درست ہے کیونکہ جو شخص نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ کا پابند نہیں اُس کے اندر جہاد کی روح ہی پیدا نہیں ہو سکتی.اور جس کے اندر جہاد کی روح پیدا نہ ہو اُس نے جہاد کیا کرنا ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ ہر مومن کے لئے نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ نہایت اہم چیزیں ہیں اور جب تک وہ ان کو پورا نہ کرے اس کے اندر اسلام کی روح پیدا نہیں ہو سکتی.اور اسلام کی روح پیدا ہونے کے بعد اُس کا فرض ہے کہ قرآن ہاتھ میں لے کر تمام غیر مسلم دنیا کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہو.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاد کے متعلق انفرادی طور پر مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے نہ کہ جماعتی طور پر.اور ہر مسلمان پر جہاد فرض کیا ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جہاد سے مراد جہاد بالقرآن ہے جہاد بالسیف نہیں کیونکہ جہاد بالسیف طاقت کے ساتھ ہو سکتا ہے اور طاقت جتھے کے ساتھ ہو سکتی ہے لیکن اگر ایک فرد بھی ایمان کامل رکھتا ہو تو اسلام اس کا فرض قرار دیتا ہے کہ وہ قرآن کے ساتھ جہاد کے لئے نکل کھڑا ہو.باقی لوگ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ آملیں گے مگر اُسے اُن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا.وہ اکیلے عیسائیوں اور پنڈتوں وغیرہ کے ساتھ جہادکے لئے نکل کھڑے ہوئے پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت بھی عطا فرما دی.اسی طرح آپ نے لوگوں کو یہ بھی بتا یا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو صورتیں مقررکی ہیں.ایک جنگ کے ایّام کے لئے اور ایک صلح کے ایّام کے لئے.جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا.تو اس وقت اُن کے لئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اُس وقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا.اُس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تاکہ اسلام جس طرح جنگ کے ایّام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے اور دونوں زمانے اُس کی روشنی پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوتِ عملیہ کمزور نہ ہو.مگر مسلمانوں
کی عملی طاقتیں چونکہ مفلوج ہو گئی تھیں اُن کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہیں کر نا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلۂ احمدیہ جہاد کے منکر ہیں.حالانکہ یہ سراسر بہتان اور جھوٹ تھا بانی سلسلہ ٔ احمدیہ جہاد کے منکر نہیں تھے بلکہ اُن کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکانِ اسلام کی طر ح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میںنہیں ہو سکتا اور چونکہ جماعت کا سُست ہو جانا اُس کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں.جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہو تو تلوار کا جہاد فرض ہوتا ہے اور جب لوہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے.غرض جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جا سکتا.کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ جہاد کرنا پڑےگا اور کبھی قرآن کے ذریعہ.یہ ایک عجیب اور پر لطف جنگ تھی کہ جو شخص جہا دکے لئے مسلمانوں کو بلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اُسے تو جہاد کا منکر کہا جاتا ہے اور جو لوگ نہ تلوار اُٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کے ذریعہ جہاد کرتے تھے انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا.مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا.اسلام حضرت زین العابدین ؒ کی طرح میدان کر بلا میں بے یارو مددگار پڑا تھا.مسلمان جہاد کی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنانِ اسلام کے لئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا.مگر آج ا س قدر لمبے عرصہ کے تجر بہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پروگرام جو بانی سلسلہ احمدیہ نے تجویز کیا تھا وہی درست تھا.ستر سال تک شور مچا نے کے باوجود مسلمان آج تک تلوار کا جہاد نہیں کر سکے.کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں سے کسی ایک کو بھی آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی.لیکن قرآن کریم کے ذریعہ جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح عطا فرمائی ہے.وہ لاکھوں آدمی ان مولویوں کی مخالفت کے باوجود غیر مذاہب والوں سے چھین کر لے آئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ہزار ہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشانِ اسلام بنا چکے ہیں.اور وہ جو ایک زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شدید دشمن تھے آج آپؐ پر درود او ر سلام بھیج رہے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تغیر جماعت احمدیہ کی تنظیم کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم ہم میں کیوں پیدا ہوئی اور کیوں دوسروں سے تنظیم کی توفیق چھین لی گئی.اس کی وجہ یہی ہے کہ قوتِ عملیہ پیدا کرنے کا صحیح نسخہ استعمال
نہیں کیا گیا.جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی جس قوم کو ہر وقت جہاد میں نہ لگا یا جائے وہ خاص مواقع پر بھی جہاد نہیں کر سکتی.پس اس معاملہ میں بھی فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی حاصل ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ جس نکتہ تک آپ کا دماغ پہنچا تھا دوسروں کا نہیں پہنچا.دنیا نے آپ کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی مگر آپ نے دنیا کے چیلنج کو قبول کیا اور فتح حاصل کی.اس جگہ یہ ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بانی سلسلہ ٔ احمدیہ نے جہاد کے متعلق اپنے جس عقیدہ کا اعلان فرمایا ہے اُس میں بانی سلسلہ احمدیہ منفرد نہیں بلکہ دیگر علماء ِ اسلام بھی اسی قسم کا مذہب رکھتے تھے.چنانچہ امام راغب ؒ اصفحانی اپنی کتاب مفردات راغب میں لکھتے ہیں.’’ اَلْجِھَادُ ثَلَاثَۃُ اَضْرُبٍ مُجَاھَدَ ۃُ الْعَدُوِّ الظَّاھِرِ وَمُجَاھَدَۃُ الشَّیْطَانِ وَمُجَاھَدَۃُ النَّفْسِ‘‘ ( مفردات ِ امام راغب ؒ زیر مادہ جھد ) یعنی جہاد تین قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ جہاد ہے جو اُس کھلے دشمن سے کیا جائے جو مسلمانوں سے لڑائی کرے اور ایک وہ جہاد ہے جو شیطان سے کیا جائے اور ایک وہ جہاد ہے جو اپنے نفس سے کیا جائے.مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی امیر جماعت اہل حدیث کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے بھی ۱۸۵۷ء کے غدر کو جس میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف تلوار چلائی تھی شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کر کے اُس میں شمولیت اور اُس کی معاونت کو معصیت قرار دیا ( رسالہ اشاعۃ السنّہ ماہ اکتوبر ۱۸۸۳ء جلد ۶ نمبر ۱۰ صفحہ ۲۸۸)سر سید احمد خان صاحب بھی لکھتے ہیں ’’ مسلمانوں کا بہت زور وں سے آپس میں سازش اور مشورہ کرنا اس ارادے سے کہ ہم باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے لوگوں پر جہاد کریں اور اُن کی حکومت سے آزاد ہو جائیں نہایت بے بنیاد بات ہے جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے.بیس تیس برس پیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کیا اور آدمیوں کو جہاد کی ترغیب دی.اُس وقت انہوں نے صاف بیان کیا کہ ہندوستان کے رہنے والے جو سر کار انگریز ی کے امن میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے.اس لئے ہزاروں آدمی جہاد ی ہر ایک ضلع ہندوستان میں جمع ہوئے اور سرکار کی عملداری میں کسی طرح فساد نہیں کیا اور غربی سرحد پنجاب پر جا کر لڑائی کی.‘‘ ( اسبابِ بغاوت ہند از سر سید احمد خان تالیف و تدوین سلیم الدین قریشی صفحہ ۳۱،۳۲ ) علامہ رشید رضا صاحب اپنی تفسیر المنار جلد ۱۰ مطبوعہ قاہرہ مصر صفحہ ۳۰۷ پر لکھتے ہیں : ’’ یورپین لوگ اور مشرقی عیسائیوں میں سے اُن کے مقلداور شاگر د یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہاد کے معنے یہ ہیں کہ مسلمان ہر اُس شخص
سے لڑے جو مسلمان نہیں تاکہ اس کو مجبور کرکے اسلام میں داخل کیا جائے خواہ غیر مسلموں نے اُس پر زیادتی نہ کی ہو اور اُن سے کسی قسم کی دشمنی نہ کی ہو.اور اُسے پڑھنے والے تجھ پر ان دلیلوں سے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں روشن ہوچکا ہوگا اور ان دلیلوں سے جو ہم آئندہ بیان کریں گے اور بھی روشن ہو جائےگا کہ اسلام پر غیر مسلموں کا یہ الزام سراسر جھوٹ اور افتراء ہے.‘‘ اسی طرح لکھتے ہیں : ’’ وہ تفصیل جو ہم نے او پر لکھی ہے اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جہاد بالسیف کے مسئلہ میں مسلمانوں کا اجماع صرف اس بات پر ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی قوم حملہ کرے تو اُس وقت یہ جہاد فرض ہوتا ہے اور اس وقت بھی اسی صورت میں فرض ہوتا ہےجبکہ امامِ واجب الاطاعت جنگِ عام کا حکم دے.لیکن اگر وہ صرف کچھ لوگوں کو اس لڑائی کا حکم دے تو صرف انہی لوگو ں پر یہ لڑائی فرض ہوگی باقی لوگوں پر فرض نہیں ہوگی.‘‘ ( تفسیر المنار سورۃ التوبۃ قولہ تعالیٰ قاتلوا الذین لا یومنون ) آج کل مودودی صاحب جہاد پر بہت زور دے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ علماء کے فتویٰ کے مطابق وہ کن لوگوں کو جہاد کی تلقین کر سکتے ہیں.اگر وہ واجب الاطاعت امام ہیں تو یقیناً اُن کا فتویٰ صرف مودودیوںکے لئے ہی قابلِ عمل ہو سکتا ہے دوسرے لوگوںکے لئے نہیں.مگر کوئی مودودی بتائے کہ کتنے مودودی تلوار لے کر غیر مسلموں سے لڑ رہے ہیں.اور اگر کوئی مودودی بھی ایسا نہیں کر رہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مودودیوں میں کوئی بھی صالح نہیں.پس مودودیوں کو صالح جماعت کہنا نادانی اور حماقت ہے.جو جماعت اپنے امیر کی بات بھی نہیں مانتی اور قرآن کی بات بھی نہیں مانتی اُسے صالح کون کہہ سکتا ہے.اور جو امیر باوجود واجب الاطاعت ہونے کے اور جہاد کو ضروری سمجھنے کے اپنے پیروؤں کو جہاد کا حکم نہیں دیتا اُس امیر کو بھی کوئی صالح نہیں کہہ سکتا.غرض بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو پچھلے علماء بھی تسلیم کر تے چلے آئے ہیں اور اگر آپ نے کسی جگہ اس کے متعلق نسخ یا حرام کا لفظ استعمال کیا ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں.ع دیںکے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحہ ۷۷) تو اس کے معنے محض اتنے ہی ہیں کہ وہ جہاد جو اس زمانہ میں جائز نہیں وہ حرام ہے.یہ معنے نہیں کہ جہاد ہر صورت میں حرام ہے.یہ امر کہ جہاں کہیں حرام یا منسوخ کا لفظ بانی سلسلہ احمدیہ نے لکھا ہے اس کے معنے حقیقی نسخ یعنی واقعی اور دائمی نسخ کے نہیں ہو سکتے.اسی بات سے ثابت ہے کہ آپ اپنے آپ کو امتّی کہتے ہیں اور اگر جہاد خدا اور اُس کے رسول کا مقرر کیا ہوا ہے تو کسی امتّی کو کیا حق ہے کہ وہ خدا اور اُس کے رسول ؐ کے کسی حکم کو منسو خ کر ے.
آپ نے اپنی کتب میں بار ہا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم ایک دائمی شریعت ہے جس کا ایک ایک لفظ قابلِ عمل ہے اور اُس کا کوئی حکم قیامت تک نہیں بدل سکتا.چنانچہ آپ ؑ تحریر فرماتے ہیں ’’ میری گردن اُس جُوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے.‘‘ ( اخبار عام لاہو ر ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۹۷) اور نسخ کے یہ محدود معنے کہ عارضی طور پر کسی شۓ کو روک دیا جائے عربی زبان میں عام مستعمل ہیں.چنانچہ مفردات راغب جیسی زبردست لُغت ِ قرآن میں لکھا ہے کہ : اَلنَّسْخُ اِزَالَۃُ شَیْءٍ بِشَیْءٍ یَتَعَقَّبُہٗ کَنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ وَالظِّلِّ الشَّمْسَ وَالشَّیْبِ الشَّبَابَ.یعنی نسخ کا لفظ سورج کے لئے بھی استعمال ہو تا ہے جبکہ وہ سائے کو دور کر دیتا ہے اور سائےکے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ سورج کو چُھپا دیتا ہے.اور بڑھاپےکے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جب کہ وہ جوانی کو دور کر دیتا ہے یعنی کبھی تو نسخ عارضی ازالہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ سورج کے سایہ کو مٹادینے کے متعلق جو عارضی ہوتا ہے اور کبھی مستقل ازالہ کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے بڑھاپے کے جوانی کو مٹا دینے کے متعلق جو کہ مستقل ہوتا ہے.چونکہ قرآن کریم ایک دائمی شریعت ہے اس لئے اس کے کسی حکم کے متعلق نسخ کے لفظ کا استعمال صرف التواء کے معنوں میں ہی ہے جیسا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے صاف لکھا ہے کہ ؎ فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے ؐ عیسیٰ مسیح ؑ جنگوں کا کر دے گا التوا (تحفہ گولڑویہ، ضمیمہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۸) آپ کے اس شعر سے پتہ لگتا ہے کہ آ پ نے جو کچھ بھی اس بارہ میں لکھا ہے وہ صرف التواء کے معنوں میں ہے.مستقل طور پر اس حکم کو منسوخ کرنے کے معنوں میں نہیں.اور اس عارضی التوا ء کے متعلق بھی آپ نے یہی تشریح فرمائی ہے کہ جہاد کے التواء کے متعلق میں نہیں کہہ رہا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے چنانچہ آپ کی ایک تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ہو سکتا ہے آئندہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کے لئے تلوار کی جنگ کی بھی ضرورت پیدا ہو جائے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’ ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح ؑ بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہر ی الفا ظ صادق آسکیں.کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیادرویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے ، ممکن ہے کہ کسی وقت اُن کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے.‘‘( ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۷،۱۹۸) پس بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو قرآن کریم نے دی ہے.اور آپ کے زمانہ میں جس جہاد کو ملتوی کیا گیا ہے وہ جہاد بالسیف ہے کیونکہ موجودہ زمانہ میں وہ حالات نہیں ہیں جن میں جہاد بالسیف ضروری ہوتا ہے لیکن جہاد بالسیف سے زیادہ تاکیدی حکم جہاد بالقرآن کا ہے جس میں آپ ساری عمر مشغول رہے اور جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا یعنی قرآن کریم کے ساتھ تم غیر مسلموں کا مقابلہ کر و اور یہی بڑا جہاد ہے.چنانچہ اس آیت کے ماتحت تفسیر روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۱۶۲ پر لکھا ہے.’’ اَیْ بِالْقُرْاٰنِ وَذٰلِکَ بِتِلَاوَۃٍ مَا فِیْہِ مِنْ الْبَرَاھِیْنِ وَالْقَوَارِعِ وَالزَّوَاجِرِ وَالْمَواعِظِ وَتَذْکِیْرِ اَحْوَالِ الْاُمَمِ الْمُکَذِّبَۃِ فَاِنَّ دَعْوَۃَ کُلِّ الْعَالَمِیْنَ عَلیَ الْوَجْہِ الْمَذْکُورِ جِھَادٌ کَبِیْرٌ.‘‘یعنی اس جگہ جہاد سے مراد قرآن کریم کے ذریعہ جہاد کرنا ہے اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جو براہین اور کفر کے خلاف باتیں ہیں اسی طرح جن خلافِ اخلاق امور پر زجر کیا گیا ہے اور جو جو نصائح کی گئی ہیں اُن سب کو پڑھا جائے اور نبیوں کی منکر اُمتوں کے احوال بیان کر کے لوگوں کو نصیحت کی جائے کیونکہ دنیا کے تمام انسانوں کو اسی طریق سے اسلام کی طرف بلانا ہی سب سے بڑا جہاد ہے.(تفسیر روح المعانی زیر آیت و جاھدھم بہ).غرض جہادکا لفظ جس کو عیسائیوں نے ہو اسمجھ رکھا ہے اصل میں تبلیغ کا ہی ایک نام ہے اور اصل جہاد تلوار کا جہاد نہیں بلکہ اصل جہاد وہ ہے جو قرآ ن کریم کے ذریعہ کیا جائے.یعنی جس جہاد میں دلائل استعمال کئے جائیں اور آسمانی نشانات و معجزات کے ذریعہ دلوں کو فتح کیا جائے.مگر افسوس کہ مسلمان صرف تلوار چلانے کانام جہاد سمجھتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہیں غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا.اگر مسلمان جہاد کی وہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اُس فعل کا نام ہے جو نیکی اور تقویٰ کے قیام کے لئے کیا جائے.اور جہاد جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اُسی طرح اصلاحِ نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ اسلام سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح مال و دولت کی قربانی سے بھی ہوتا ہے.اور ہر قسم کے جہاد کا الگ الگ
موقعہ ہے تو آج کا روزِبد انہیں نہ دیکھنا پڑتا.اگر مسلمان اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقعہ پر وہ جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا ہے دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں.اور تبلیغ کا جہاد شروع کر دیتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام مشرقی ممالک میں پھیل جاتا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تلوار کا جہاد دائمی طور پر ممنوع ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور سے اس جہاد کو شروع کر دیا اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی.اگر تلوار کا جہاد ہی ضروری تھا تو سوا ل یہ ہے کہ کیا ہر مسلمان نے تلوار اُٹھا کر کفار کا مقابلہ کیا ؟ اگر نہیں کیا تو احمدی تو خدا تعالیٰ کویہ جواب دے دیں گے کہ ہمارے نزدیک یہ جہاد بالسیف کا وقت نہیں تھا اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری غلطی اجتہادی تھی لیکن اُن کے مخالف مولوی کیا جواب دیں گے.کیا وہ یہ کہیں گے کہ اے خدا ! جہاد کا تو وقت تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ یہ جہاد کا وقت ہے اور ہم سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے لیکن اے ہمارے خدا ! ہم نے جہاد نہیں کیا کیونکہ ہمارے دل ڈرتے تھے.اور نہ ہم نے اُن لوگوں کو جہادکے لئے آگے بھجوایا جن کے دل نہیں ڈرتے تھے کیونکہ ہم ڈرتے تھے کہ ایسا کرنے سے بھی کفار ہم کو پکڑ لیں گے.اب اس امر کافیصلہ ہر منصف مزاج انسان خود کر سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں جوابوں میں سے کون سا جواب خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قبول ہے.حقیقت یہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کی اس تعریف سے نہ صرف آئندہ کے لئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور اُن کے لئے ترقی کا ایک عظیم الشان راستہ کھو ل دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گنا ہ سے بھی بچا لیا ہے.کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اُسے فرض سمجھ کر اس پر عمل نہیں کرتے تھے اور اس طرح اس احساسِ گناہ کی وجہ سے گنہگار بن رہے تھے.اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے اُن کے دلوں پر سے احساسِ گناہ کا زنگ اُترتا جائے گا اور وہ محسوس کریں گے کہ انہوں نے تلوار کا جہاد نہ کر کے خدا اور اُس کے رسول سے غّداری نہیں کی اور یہ کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے انہیں تبلیغ کی طرف توجہ دلا کر اُن پر بہت بڑا احسان کیا ہے.
وَ هُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو چلایا ہے جن میں سے ایک تو بہت میٹھا ہے اور دوسرا نمکین (اور) کڑوا ہے.وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ۚ وَ جَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا اور اُس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) ان دونوں کے درمیان ایک روک بنا دی ہے.اور ایسا سامان بنایا ہے کہ وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۰۰۵۴ وہ ایک دوسرے کو پرے رکھتے ہیں ملنے نہیںدیتے.حلّ لُغَات.مَرَجَ.مَرَجَ مَرَجَ اللّٰہُ الْبَحْرَیْنِ الْعَذْبَ وَالْمِلْحَ کے معنے ہیں خَلَطَھُمَا حَتّٰی الْتَقَیَا.دوسمندروں کو آپس میں ملایا.وَقِیْلَ خَلَّھُمَا لَایَلْتَبِسُ اَحْدَھُمَا بِالْاٰخَرِ.اور بعض عربی زبان کے ائمہ کہتے ہیں کہ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ کے معنے ہیں کہ دو سمندروں کو اس طور پر چلایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل نہیں سکتے.(اقرب) فُرَاتٌ : اَ لْفُرَاتُ اَ لْمَآءُ الْعَذْبُ جِدًّا.فُرات کے معنے نہایت شیریں پانی کے ہیں.اَوِ الَّذِیْ یَکْسِرُ الْعَطَشَ لِفَرْطِ عُذُوْبَتِہٖ.یا اُس پانی پر فرات کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو اپنی مٹھاس کی تیزی کی وجہ سے پیاس کی شدت اور تلخی کو ختم کرکے سکون دے دے.( اقرب) تفسیر.مَرَجَ کے معنے جیسا کہ اوپر بتا یا جا چکا ہے ملا دینے کے ہوتے ہیں.پس ھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کے یہ معنے ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دوسمندر دنیا میں ملا دئیے ہیں جن میں سے ایک تو اپنی خاصیت کے لحاظ سے انتہائی میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے اور دوسرا نمکین اور کڑوا ہے.مگر باوجود اس کے کہ دونوں سمندر ملا دئے گئے ہیں پھر بھی اُن دونوں کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے جو اُن دونوں کو جد ا جدا رکھتا ہے.دنیا میں قاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو اُن دونوں سے مختلف ہوتی ہے.جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں.میں ایسی چائے کو ہمیشہ منافق چائے کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پانی منافق نہیں ہوںگے بلکہ باوجود اس کے کہ وہ
دونوں ملے ہوئے ہوںگے اور بظاہر جب دو چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے مگر ہماری طر ف سے یہ اعلان ہو رہا ہوگا کہ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا.اے ملنے والو ! تمہارے ملنے کے یہ معنے نہیں کہ تم ایک دوسرے میں جذب ہو جائو بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے ماتحت جس طرح مادی پانی کی دو قسم کے ذخیرے بنائے ہیں.ایک ذخیرہ سمندر کے پانی کا بنایا ہے جو نمکین ہوتا ہے اور ایک ذخیرہ دریا کے پانی کا بنایا ہے جو میٹھا ہوتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اُس نے ایسی حدود قائم کر دی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو خراب نہیں کر سکتے.نہ کڑو ا سمندر میٹھے دریائوں کو خراب کر سکتا ہے اور نہ میٹھے دریا کڑو ے سمندر کی تلخی کو دُور کر سکتے ہیں.اسی طرح آسمانی تعلیم جو میٹھے پانی کے مشابہ ہوتی ہے اور کفر کی تعلیم جو نمکین پانی سے مشابہت رکھتی ہے ان دونوں میں ایک نمایاں اور بیّن امتیاز موجود ہوتا ہے اور ایک حدِّ فاصل ان دونوں کو جُدا جُدا رکھتی ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ کافر مومن نہیں بن سکتا یا مومن کافر نہیں بن سکتا.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ کفر ایمان کی شکل اختیار نہیں کر سکتا اور ایمان کفر کی شکل اختیار نہیں کر سکتا.اور ان دونوں میں اتنا نمایاں اور بیّن اختلاف ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ ایک ملک ایک شہر بلکہ ایک محلہ میں مومن بھی رہتے ہیں اور کافر بھی.وہ ایک دوسرے سے تعلقات بھی رکھتے ہیں اُن سے مل کر کام بھی کرتے ہیں اُن کی خوشی اور غمی میں شریک بھی ہوتے ہیں مگر ان تمام تعلقات کے باوجود رُوحانی نقطۂ نگاہ سے وہ آپس میں کلّی مغائرت رکھتے ہیں.اور جو میٹھے ثمرات ایک سچے مذہب پر چلنے والے انسان کو حاصل ہو رہے ہوتے ہیں دوسرا شخص اُن سے بالکل محروم ہوتا ہے.گو یا ایک برزخ ہے جو اُن دونوںکو جدا رکھتی ہے.ایک سچے مذہب کا پیرو اللہ تعالیٰ کے کلام اور اُس کے الہام سے مشرف ہوتا ہے.اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.اُس پر آسمانی علوم اور معارف کا انکشاف ہوتا ہے.مگر اُس کے پہلو میں بیٹھا ہوا ایک کافر انسان اس دنیا میں اندھوں کی طرح آتا اور اندھوں کی طرح ہی چلا جاتا ہے اور آبِ حیات کو زہر سمجھتے ہوئے اُس سے دُور رہتا ہے اور زہر کو تریاق سمجھتے ہوئے اُسے اپنے منہ سے لگائے رکھتا ہے.غرض کفر اور ایمان کا اس دنیا میں موجود رہنا خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہے.لیکن ان دونوں کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی گئی ہے جو کفر اور ایمان کے امتیاز کو نمایاں کر تی رہتی ہے.مگر کفر اور ایمان کے مقابلہ کے علاوہ اس میں مغربیت اور دجالیّت کے متعلق بھی پیشگوئی پائی جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف اشارہ کر دیا ہے.فرماتا ہے ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ اور اُجَاجٌ سے یا جوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف
اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذْبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے.اور حِجْرًا مَّحْجُوْرًا میں بتا دیا کہ گو تمہیں ان دونوں اقوام سے مل کر رہنا پڑےگا مگر ایسی حالت میں بھی تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں.تم مغربیت کی کبھی نقل نہ کرو اور باوجود اُن میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اَور ہو اور ہم اَور ہیں.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم کفار سے صاف طور پر کہہ دو کہ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ.وَلَآ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَٓااَعْبُدُ (الکا فرون :۳.۴) گو یا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ہمیشہ حائل رہنی چاہیے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اُس وقت سے لے کر قیامت تک دجالی فتنہ سے بڑا فتنہ اور کوئی نہیں ہوگا.( مشکوٰۃ المصابیح باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال ومسلم کتاب الفتن باب فی بقیة من احادیث الدجال) چنانچہ اس کی صداقت اس سے ظاہر ہے کہ پہلے زمانوں میں جو فتنے پیدا ہوئے تھے وہ صرف مقامی ہو تے تھے مثلاً ہندو ستان کا فتنہ مستقل ہوتا تھا اور وہ ایرانی فتنہ سے متاثر نہیں ہوتا تھا اور ایرانی فتنہ مستقل ہوتا تھا اور وہ یونانی فتنہ سے متاثر نہیں ہوتا تھا.اسی طرح مصری فتنہ مستقل ہوتا تھا جو یونانی اور ایرانی فتنوں سے متاثر نہیں ہوتا تھا.اس وجہ سے ان فتنوں کا دین پر متفقہ حملہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی تھی جیسے ایک ملک میں ڈاکو لوٹ مار کر رہے ہوں تو کچھ ایک طرف سے حملہ آور ہوں اور کچھ دوسری طرف سے.ڈاکوئوں سے ملک کاامن بیشک خطرہ میں پڑ جائےگا مگر حکومت تباہ نہیں ہوگی.حکومت ہمیشہ منظم طاقتوں سے تباہ ہوا کرتی ہے.لیکن موجودہ فتنہ کے زمانہ میں ریل اور تار او ر فون اور پریس کی ایجاد کی وجہ سے ایشیا افریقہ پر اثر انداز ہو رہا ہے اور افریقہ ایشیا پر اثر انداز ہو رہا ہے.یورپ امریکہ پر اثر ڈال رہا ہے اور امریکہ یورپ پر اثر ڈال رہا ہے.اس لئے مختلف ممالک میں جو مذہبی بے چینی پائی جاتی ہے وہ ساری دنیا میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے.پس پہلے فتنوں اور موجودہ فتنہ میں یہ فرق ہے کہ یہ فتنہ ایک عالمگیر فتنہ ہے.جاپان گو عیسائی نہیں مگر اس کے خیالات کی رویورپ کے تابع ہے.چین گو عیسائی نہیں مگر اُس کے خیالات یورپ کے تابع ہیں.اسی طرح ایران ، ترکستان اور عرب عیسائی نہیں ظاہر ًا مسلمان ممالک ہیں مگر اُن کے خیالا ت کی رو بھی یورپ کے تابع ہے.غرض موجودہ زمانہ میں تمام تحریکات ایک سلک میں پروئی ہوئی اور ایک نظام کے ماتحت نظر آتی ہیں جس سے اس فتنہ کی ہیبت بہت بڑھ گئی ہے.پہلے انسان یہ خیال کرتا تھا کہ ایرانی یا یونانی یوں کہتا ہے مگر اب یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا ہر معقول پسند انسان یوں کہتا ہے.پہلے اگر کسی کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ ایرانیوں کا یہ عقیدہ ہے تو سننے والا دل میں کہہ سکتا تھا کہ شاید باقی دنیا کا عقیدہ اس کے خلا ف ہو اس لئے وہ مرعوب نہیں ہوتا تھا اور عملاً بھی ایسا
ہی تھا یعنی ایک وقت میں ایک ہی بدی سارے عالم میں پھیلی ہوئی نہ تھی.کسی ملک میں کوئی بدی ہوتی تھی اور کسی ملک میں کوئی.اگر ہندوستان میں دہریت کی رَو تھی تو ایران میں بد عملی کی رو تھی.یونان میں فلسفہ کی رو تھی تو مصر میں مشرکانہ خیالات کی روتھی.پس اُن کے اعتراضات میں یکسانیت نہیں تھی اور مخالفت میں تنظیم نہیں پائی جاتی تھی.لیکن اس زمانہ میں تمام خیالات ایک ر و اور ایک ہی سلک کے ماتحت ہیں.جہاں سے بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے اس کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کو خدا سے دُور کر دیا جائے.اور مادیت کی طرف اُسے مائل کیا جائے ،چین ، جاپان ، سائبیریا ،ا یران ،ا فغانستان جہاں جائو وہاں یہی مرض دکھائی دےگا.ہر شخص دنیا کو دین پر مقدم کر رہا ہوگا.اور ہر شخص کی یہ کوشش ہو گی کہ دنیا سے خدا تعالیٰ کی محبت کو مٹا دیا جائے.یہ چیز پہلے کبھی ساری دنیا میں ایک وقت میں نہیں پائی جاتی تھی.دوسری چیز جو امتیازی رنگ رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے جتنے حملے ہوتے تھے وہ فلسفیانہ ہوتے تھے.اور فلسفہ کی نبیاد واہمہ اور خیال پر ہے.مگر اس وقت جتنے حملے ہوتے ہیں وہ سائنس کی بنا ء پر ہوتے ہیں اور سائنس کی بنیاد مشاہدہ پر ہے.فلسفیانہ اعتراضات کے جواب میں تو انسان بڑی دلیری سے کہہ سکتا ہے کہ یہ تمہارے ڈھکو سلے ہیں لیکن مشاہدہ پر بنیاد رکھتے ہوئے جب کوئی سوال پیش کیا جائے تو اس کا جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے.یہ کہنا کہ اس دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے مرنے کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ کس نے دیکھا کہ وہاں آرام و آسائش میّسر آسکے گی.ایک فلسفیانہ خیال ہے اور اسے سن کر ایک انسان متاثر تو ہو سکتا ہے مگر دوسرا شخص یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ یہ تو درست ہے کہ اگلے جہان کا ثواب اور عذاب کسی نے نہیں دیکھا لیکن اگلے جہان میں ثواب اور عذاب کا نہ ملنا بھی تو تم نے نہیں دیکھا.اس لئے دونوں نظریات سائنس کے لحاظ سے برا بر حیثیت رکھتے ہیں لیکن ذرات ِ عالم کی بناوٹ پر اپنے خیالات کی بنیاد رکھتے ہوئے اور یہ ثابت کر تے ہوئے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ ایک ایسی تنظیم کی صورت رکھتا ہے کہ کارخانۂ عالم خود بخود چلتا چلا جاتا ہے.جب کہا جائے کہ اس دنیا کو چلانےکے لئے کسی بیرونی ہستی کی ضرورت نہیں تو یہ سوال ایک نیا رنگ اختیار کر لیتا ہے جو پہلے وسوسہ میں نہیں تھا.پھر پہلے خدا تعالیٰ کے وجود کے خلاف صرف فلسفی کھڑے ہوا کرتے تھے.مگر اب علم النفس والے بھی کھڑے ہیں.علمِ طبقات الارض والے بھی کھڑے ہیں.علمِ ہئیت والے بھی کھڑے ہیں.غرض تمام علوم مشترکہ طور پر اسلام کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں اور یہ حملہ پہلے سے بہت زیادہ سخت ہے.پہلے یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ایک فلسفی نے خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کیا ہے نہ معلوم اُس کے قول میں سچائی بھی ہے یا نہیں.مگر اب یہ کہا جاتا ہے کہ جس رنگ میں بھی دیکھو یہی نتیجہ نکلے گا کہ نعوذ باللہ خدا نہیں.غرض آج کفر اپنے
تمام ہتھیار استعمال کر رہا ہے.اور یہ حملہ اپنی کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے بے مثال ہے پہلے حملوں میں آدمی کم ہوتے تھے اور پھر وہ متفرق طورپر حملہ کر تے تھے.ایرانی اور رنگ میں حملہ کرتا تھا اور جاپانی اور رنگ میں.مگر اب تمام دنیا متفقہ طور پر حملہ کرتی اور ایک ہی محاذ پر جنگ لڑتی ہے.پھر پہلے حملے فلسفہ تک محدود تھے مگر اب جتنے رائج الوقت علوم ہیں اُن سب کو استعمال کیا جاتا ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس فتنہ کے برابر دنیا کا اور کوئی فتنہ نہیں.آج دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی وجہ سے کوئی چیز بھی اسلام کی باقی نہیں رہی.نہ اس کے تمدنی احکام قائم ہیںنہ سیاسی احکام قائم ہیں نہ اقتصادی احکام قائم ہیں اور نہ شخصی احکام قائم ہیں.ہر چیز میں آج تبدیلی کر دی گئی ہے.پس جب تک اسے مٹانےکے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہوگی.جب تک ہمیں اس تہذیب ِ مغربی سے بغض نہ ہوگا.اتنا بغض کہ اس سے بڑ ھ کر ہمیں کسی اور چیز سے بغض نہ ہو اُس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ہم میں سے جو شخص بھی مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے وہ روحانی میدان کا اہل نہیں.جس تہذیب نے ہمارے مقدس آقا کی تصویر کو دنیا کے سامنے بھیانک رنگ میں پیش کیا ہے.جس تہذیب نے اسلامی تمدن کی شکل کو بدل دیا ہے جب تک اُس کی ایک ایک اینٹ کو ہم ریزہ ریزہ نہ کردیں کبھی چین اورا طمینان کی نیند نہیں سو سکتے.وہ لوگ جو یورپ کی نقالی کرتے اور مغربیت کی رَو میں بہتے چلے جاتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمارے تن بدن میں تو اُن کی ایک ایک چیز کو دیکھ کر آگ لگ جانی چاہیے کیونکہ اسلام اور مغربیت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.یا اسلامی ثقافت زندہ رہےگی یا مغربیت زندہ رہے گی.دونوں کی بنیاد یں متضاد اصول پر ہیں اور اُن کا ایک ہی جگہ جمع ہونا ناممکن ہے.مغربیت کی بنیاد ساری کی ساری دنیاوی لذّات اور عیش پر ستی پر ہے اور اسلام کی بنیاد کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی رضامندی.روحانیت اور اخلاق کی درستی پر ہے.اس لئے ان دونوں کا اجتماع ناممکن ہے.مگر یہ امر یاد رکھو کہ انگریز اور مغربیت میں فرق ہے.انگریز انسان ہیں اور ویسے ہی انسان ہیں جیسے ہم اور اس لحاظ سے انگریز ہدایت پاسکتے ہیں لیکن مغربیت ہدایت نہیں پا سکتی.وہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جب تک اُسے توڑا نہیں جائےگا دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا.یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم رکھنےکے لئے میں تحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو کبھی قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا طلب گار ہے وہ ضرور اُن سے الگ رہے گا.اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان نہ لائیں پھر بھی اُن کا فرض ہے کہ وہ مغربیت کی کبھی نقل نہ کریں.کیونکہ یہ مسیح موعود ؑ کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے.
مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے پہننے اور تمدن و معاشرت سے تعلق رکھنے والے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کر تا ہے.اسی طرح بعض احمدی نوجوان باوجود سمجھانے کے اس طرف جا رہے ہیں.یہ لوگ صرف نام کے احمدی ہیں.حقیقی احمدی نہیں مجھے یاد ہے.ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں.آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہوا ہو اور اُس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دئیے جائیں تو سارا دودھ خراب ہو جاتا ہے.مگر لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُسے دوسروں سے الگ رکھا جائے.اور ان کے بد اثرات سے اُسے بچا یا جائے آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے رُوحانی جنگ لڑنی ہے اگر اُن سے مغلوب اور اُن کی نقل کرنے والے لوگوں سے ہم مل جل کر رہیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہو جائیں گے اور ہم بھی جہاد قرآنی سے غافل ہو جائیں گے.پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے ہمیں دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہیے.تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغ اسلام کا ہے بھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں.اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے.اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسر ہیں وہ بھی سُست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے دشمنوں کا کیا مقابلہ کرنا ہے.جن دنوں ام طاہر ؓکی بیماری کے سلسلہ میں مَیں لاہور میں ٹھہرا ہو اتھا ایک روز رات کے دس بجے ایک غیر احمدی مولوی مجھ سے ملنےکے لئے آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی جماعت بڑی اچھی ہے اور اسلام کی بڑی بھاری خدمت کر رہی ہے.لیکن صرف ایک خرابی ہے جو نہیں ہونی چاہیے اور وہ یہ کہ آپ ہم سے نہیں ملتے نہ ہمارے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں اور نہ ہمیں رشتے دیتے ہیں.اگر یہ خرابی دُور ہو جائے تو پھر آپ کی جماعت سے بہتر اور کوئی جماعت نہیں.میں نے کہا مولوی صاحب یہ لوگ جن کی آپ تعریف کر رہے ہیں یہ آپ لوگوں میں سے ہی نکل کر آئے ہیں یا کہیں اور سے آئے ہیں جب یہ آپ لوگوں میں سے ہی نکل کر آئے ہیں اور مرزا صاحب کی تعلیم نے ان میں اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر دی ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ پھر یہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ویسے ہی بے عمل ہو جائیں جیسے وہ ہیں.وہ آدمی سمجھدار تھا کہنے لگا.اب میں سمجھ گیا ہوں.آپ مسلمانوں سے بالکل نہ ملئیے اور علیٰحدہ ہی رہئیے.اگر آپ کی جماعت کے لوگ پھر اُن سے جاملے تو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلانے کی جو جدو جہد آپ کی جماعت کر رہی ہے وہ بھی جاتی رہے گی.اور اسلام کی تبلیغ ختم ہو جائے گی.اب کم از کم کوئی
جماعت تو ہے جو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پھیلا رہی ہے.تو حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہےگا اور ایک برزخ ان دونوں کو جدا رکھے گا.قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ ذوالقرنین سے بعض قوموں نے درخواست کی کہ یا جوج و ماجوج نے ہمارے علاقوں میں بڑا فساد برپا کر رکھا ہے آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک روک بنا دیں تاکہ وہ ہم میں داخل ہوکر کوئی خرابی پیدا نہ کر سکیں.چونکہ اس زمانہ کے ذوالقرنین بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہیں اس لئے بالکل ممکن ہے کہ ذوالقرنین کے دیوار حائل کرنے سے مراد اس زمانہ میں مغربیت اور اسلام میں ہی دیوار حائل کرنا ہو اور دو قوموں سے مراد دو قسم کے جذبات اور قومی خیالات وافکار ہوں بہر حال ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربیت اور اسلام کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل کرد یں جس کے بعد مغربیت کے لئے ہمارے اندر داخل ہونے کا راستہ کھلا نہ رہے.اور اسلامی فوج ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہو جائے جس پر شیطان کا کوئی حملہ کار گر نہ ہو سکے.وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا١ؕ اور وہ( خدا) ہی ہے جس نے پانی سے انسان بنایا.پس اس کو کبھی تونسب بنایا ہے (یعنی شجر ہ ٔ آباء) اور کبھی صہر بنایا وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا۰۰۵۵ ہے ( یعنی شجرۂ سسرال ) اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے.تفسیر.فرماتا ہے.وہ خدا ہی ہے جس نے انسان کو پانی یعنی نطفہ سے پیدا کیا اور پھر اُسے ددھیال اور سسرال والا بنایا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن کی ترقی کا ایک بڑا بھاری ذریعہ آپس کے ازدواجی تعلقات کو قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے خاندانوں اور قوموں کے آپس میں گہرے روابط اور مضبوط تعلقات قائم ہوتے ہیں.ہمارے ملک میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ فلاں شیر و شکر ہو گئے.یعنی جس طرح کھانڈ دودھ میں ملا دی جائے تو دونوں چیزیں یکجان ہو جاتی ہیں اسی طرح انسان بھی آپس میں مل جاتے اور شیرو شکر ہو جاتے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانوں کو آپس میں ملانے والی ہے.اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ ذریعہ مردو عورت کی شادی ہے.اس کے ذریعہ ایک انسان دوسرے انسان سے مل جاتا ہے ایک قوم دوسری قوم سے مل جاتی ہے بلکہ ایک ملک دوسرے ملک سے مل جاتا ہے.
تفسیر.فرماتا ہے.وہ خدا ہی ہے جس نے انسان کو پانی یعنی نطفہ سے پیدا کیا اور پھر اُسے ددھیال اور سسرال والا بنایا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن کی ترقی کا ایک بڑا بھاری ذریعہ آپس کے ازدواجی تعلقات کو قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے خاندانوں اور قوموں کے آپس میں گہرے روابط اور مضبوط تعلقات قائم ہوتے ہیں.ہمارے ملک میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ فلاں شیر و شکر ہو گئے.یعنی جس طرح کھانڈ دودھ میں ملا دی جائے تو دونوں چیزیں یکجان ہو جاتی ہیں اسی طرح انسان بھی آپس میں مل جاتے اور شیرو شکر ہو جاتے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانوں کو آپس میں ملانے والی ہے.اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ ذریعہ مردو عورت کی شادی ہے.اس کے ذریعہ ایک انسان دوسرے انسان سے مل جاتا ہے ایک قوم دوسری قوم سے مل جاتی ہے بلکہ ایک ملک دوسرے ملک سے مل جاتا ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ اس تعلق کے ذریعہ ایک نئی نسل جاری کر دیتا ہے.ایک خاندان کے وہ پوتے پوتیاں ہوتے ہیں اور ایک خاندان کے وہ نواسے نواسیاں ہوتی ہیں.اور دونوں اس میں اپنی اپنی شکل دیکھ رہے ہوتے ہیں.ددھیال اور ننھیال میں تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں.اُن میں محبت پید ا ہو جاتی ہے اور گہرے روابط قائم ہو جاتے ہیں.غر ض اللہ تعالیٰ نے شادی کے ذریعہ قوموں اور ملکوں کو آپس میں ملا دیا ہے.اور اسی کے ذریعہ دنیا کو ترقی حاصل ہو تی ہے.دو مختلف خاندانوں کو اللہ تعالیٰ ایک وجود میں اکٹھا کر دیتا ہے.ایک خاندان جو بالکل علیٰحدہ ہوتا ہے دوسرے خاندان سے مل جاتا ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالیٰ اس قدر مضبوط کر دیتا ہے کہ بچہ کے نانا ، نانی اُسے نواسہ کہہ کر اس پر جان دیتے ہیں.اور دوسرے خاندان کے دادا ، دادی اسے پوتا ،پوتی کہہ کر اس پر جان دیتے ہیں.غرض ایک ہی وجود کے ذریعہ دو الگ الگ خاندان مل جاتے ہیں بلکہ قومیں اور ملک بھی مل جاتے ہیں.اسلام کی رُو سے ایک ہندو او ر ایک یہودی لڑکی کے ساتھ بھی نکاح ہو سکتا ہے اور گو یہ رواج آج کل نہیں ہے.لیکن اب بھی اگر ایک مسلمان مرد ہندو لڑکی سے یا یہودی لڑکی سے شادی کر لے تو ایک ہی وجود پر ایک طرف مسلمان اُسے پوتا کہہ کر جان دےگا تو دوسری طر ف ایک ہندو اُسے نواسہ کہہ کر جان دےگا.اور آپس کے اختلافات بہت حد تک دُور ہو جائیں گے.لیکن یہ بات تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے کثرت سے رائج کیا جائے.اور پھر بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے.مسلمانوں میں سے صرف اکبر نے اس پر عمل کیا.لیکن جب باقی مسلمانوں نے اس پر عمل نہ کیا تو اکبر کا کام بھی بیکار ہو کر رہ گیا اور بجائے فائدہ رساں ہونے کے مضر ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے ایک طرف تو خاندانوں میں وسعت پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف اُن کو جوڑ کر محدود کر تا ہے.پہلے شادی کے ذریعہ ایک نئی نسل پیدا ہوتی ہے لیکن جب وہ نسل پھیل جاتی ہے تو ایک دوسرے سے اجنبی ہونے لگ جاتی ہے.پھر اُس کو محدود کرنےکے لئے اور شادیاں کی جاتی ہیں اور وہ جو اجنبی ہونے لگ جاتے ہیں پھر قریبی رشتہ دار بن جاتے ہیں.گویا شادی کے ذریعہ ایک طرف تو وسعت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف تقیید پیدا ہوتی ہے اور یہ تعلق ایسا ہے جو شیر و شکر سے بڑھ کر ہے کیونکہ دودھ اور کھانڈ کے ملانے سے ایک طرف وسعت او ر دوسری طرف تقیید پیدا نہیں ہوتی.یہ وسعت اور تقیید اللہ تعالیٰ نے صرف شادی میں ہی رکھی ہے.اور اس احسان کی طرف اُس نے اس آیت میں توجہ دلائی ہے.اس کے بعد فرماتا ہے.وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا.اور تیرا رب بڑی طاقتیں اور قوتیں رکھنے والا ہے لیکن جس طرح اُ
اُس نے مادی دنیا میں نطفہ کے ذریعے اربوں ارب انسان پیدا کر دئیے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ جب کسی مقدس انسان پر اپنا کلام نازل کرکے اُسے دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرماتا ہے تو گو وہ بظاہر ایک حقیر وجود نظر آتا ہے اُسی طرح جس طرح نطفہ حقیر دکھائی دیتا ہے اور دنیا اُس کی ترقی کو ناممکن تصور کرتی ہے.مگر خدا تعالیٰ اسے اس قدر عظمت دیتا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں ہی کروڑوں انسان اُس کے دامن سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک نئی روحانی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ شاخ درشاخ ہو کر مختلف ممالک اور اکناف میں پھیل جاتی ہے.یہی سلوک اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فرمائےگا اور آپ کی تعلیم کو بھی ساری دنیا میں پھیلا دےگا.وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَ لَا اور وہ لوگ (یعنی کافر) اللہ (تعالیٰ) کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نفع دے سکتے ہیں يَضُرُّهُمْ١ؕ وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِيْرًا۰۰۵۶وَ مَاۤ اور نہ تکلیف پہنچا سکتے ہیں.اور کافر ہمیشہ اپنے رب کے (جاری کردہ سلسلوں کے )خلاف ہوتا ہے اور اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا۰۰۵۷ ہم نے تو تجھے صرف بشارت دینے والا اور ہوشیار کرنےوالا بنا یا ہے.حلّ لُغَات.ظَھِیْرٌ.ظَھِیْرٌکے معنے ہیں اَلْمُعِیْنَ مددگار و معاون ( اقر ب) تفسیر.اس میں بتا یا کہ بیشک آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کی تعلیم سن کر لوگ آپ کو تعجب اور انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر دلوں کو فتح کرنے والی تعلیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی ہے کیونکہ یہ لوگ ایسے بتوں کے آگے اپنے سر جھکا رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور انسانی عقل ایسے فعل سے بغاوت کر تی ہے جس کا نہ تو کوئی عملی زندگی میں فائد ہ ہو اور نہ اُسے چھوڑ نے سے نقصان ہو.اس لئے لازماً جب یہ لوگ سو چیں گے انہیں بتوں کی پرستش کو ترک کرنا پڑےگا اور اس وقت جو یہ لوگ اپنے پیدا کرنے والے خدا سے رو گردان ہو کر اُس کے خلاف باتیں بنا رہے ہیں تو محض شرارتاً ایسا کر رہے ہیں.ورنہ اُن کے دل بھی محسوس کر تے ہیں
کہ وہ اندھی تقلید کا شکار ہو چکے ہیں.اس کے مقابلہ میں محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے یعنی اس لئے مبعوث کیا ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائیں وہ ترقی کر جائیں اور جو انکار کریں وہ تباہ ہو جائیں.ایسے شخص کا یہ مشرک کیا مقابلہ کر سکتے ہیں جن کے بت نہ انہیں نفع پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ مخالفین کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہو ا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے دنیا کے بادشاہ بن گئے اوربتوں کے پرستار جنہوں نے آپ کا انکار کیا تھا اپنے بتوں کی عبادت سے نہ کوئی نفع حاصل کرسکے اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو کوئی نقصان پہنچا سکے.قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ تو اُن سے کہہ دے کہ میں تم سے اس (یعنی خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے) کا کوئی اجر نہیں مانگتا ہاں اگر کوئی شخص اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا۰۰۵۸ اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے رب کی طرف جانے والی راہ کو اختیار کر لے (وہی میرا بدلہ ہوگا).تفسیر.فرماتا ہے تو اُن لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے بدلہ میں کسی اجر کا طالب نہیں.میرا اجر تو صرف اتنا ہی ہے کہ اگر کسی شخص کا دل اسلام کی صداقت قبول کرنےکے لئے کھل جائے اور وہ اپنی مرضی سے اس راہ کو اختیار کرلے جو اُسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والی ہے تو وہ اسلام میں داخل ہو جائے اور اپنے رب کی رضا حاصل کر لے.یہ آیت اسلام کے اس بلند ترین نظریہ کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے کہ قبول مذہب کے بارہ میں ہر شخص کو آزادی ٔ رائے کا حق حاصل ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے قبول کرے.اس بارہ میں کسی پر جبر وتشدد کا روا رکھنا جائز نہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے اُس وقت عرب اور دوسرے ممالک کے لوگ مذہبی معاملات میں جبر و تشدد کو روا رکھنا بالکل جائز سمجھتے تھے لیکن قرآن کریم نے اس طریق عمل کو غلط قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ( البقرۃ :۲۵۷) یعنی دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہو نا چاہیے کیونکہ ہدایت اور گمراہی میں خدا تعالیٰ نے نمایاں فرق کر کے دکھا دیا ہے پس جو سمجھنا چاہے وہ دلیل سے سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہیں کر نا چاہیے.
اس آیت سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اسلام غیر مذاہب سے کس قدر رواداری کی تعلیم دیتا ہے اور مذہبی معاملات میں انہیں کس قدر آزادی عطا کرتا ہے.مگر افسوس ہے کہ اسلام کی اس روشن تعلیم کے ہوتے ہوئے یورپین مستشرقین نے انتہائی ظلم سے کام لیتے ہوئے بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ کا غیر مذاہب سے سلوک جبرو تشدد پر مبنی تھا اور آپ کا مذہب تلوار کا مذہب تھا (تفسیر القرآن الکریم ویری جلد اول صفحہ ۳۵۸).حالانکہ مذہبی رواداری پر اسلام نے اس قدر زور دیا ہے کہ جس کی نظیر کسی اور جگہ نہیں پائی جاتی.( ۱) آپ کی بعثت سے پہلے دنیا میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب تک غیر مذاہب والوں کو کلی طور پر جھوٹا ثابت نہ کر لیا جائے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوسکتی.مگر اسلام نے اس نظریہ کو غلط قرار دیا.چنانچہ اسلام جہاں اپنی خوبیوں کو پیش کرنےکا حکم دیتا ہے وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہایت واضح طور پر یہ بھی تعلیم دی ہے کہ کسی دوسرے کی خوبی کا انکار نہیں کرنا چاہیے.اور یہ بھی کہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہیں جن کا انکار کرنا سراسر ظلم ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰی عَلیٰ شَيْءٍ وَّقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ عَلیٰ شَيْءٍ وَّ ھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ( البقرۃ :۱۱۴) یعنی یہ کیسے ظلم کی بات ہے کہ عیسائی کہتے ہیں یہودیوں میں کوئی خوبی نہیں اور یہودی کہتے ہیں عیسائیوں میں کوئی خوبی نہیں حالانکہ وہ دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں.اور دونوں میں کچھ نہ کچھ خوبیاں پائی جاتی ہیں.یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ یہودی عیسائیوں کی خوبیوں کو تسلیم کرتے اور عیسائی یہودیوں کی خوبیوں کو تسلیم کرتے.نہ یہ کہ یہودی عیسائیوں کے متعلق کہنا شروع کردیتے کہ اُن میں کوئی خوبی نہیں اور عیسائی یہودیوں کے متعلق کہنا شروع کر دیتے کہ اُن میں کوئی خوبی نہیں بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ وہ دونوں ایک ہی کتاب کے حامل ہیں.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو یہ تعلیم دی کہ دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں کوئی خوبی ہی نہیں وہ اپنی نابینائی کا مظاہر ہ کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ اس کے ذریعہ آپ نے تمام اقوام کے دل رکھ لئے ہیں.کسی کے مذہب کے متعلق یہ کہنا کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں اس مذہب کے پیرؤوں کے لئے سخت تکلیف دہ بات ہوتی ہے پس اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصل پیش فرمایا کہ ہر قوم کی خوبی کو تسلیم کرو.اور اس طرح آپ نے دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب پر بہت بڑا احسان کیا.(۲)پھر آپ نے فرمایا کہ کسی مذہب کے پیرؤوں کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ اپنے مذہب کو دھوکا اور فریب سے مانتے ہیں بلکہ باوجود اس کے کہ پہلے مذاہب بگڑ چکے ہیں.اُن کے ماننے والوں میں سے اکثر انہیں دل سے سچا سمجھ
کر ہی مانتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق آتا ہے کہ اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر اُن کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی امانت رکھوا دیا جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کریں گے ( آل عمران ع ۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھ کر مانتے تھے.اسی طرح عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُن میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا ذکرسن کر رونے لگ جاتے ہیں اور خشیت سے اُن کے دل بھر جاتے ہیں ( المائدۃ ع ۱۱)کیا ایسے لوگ اپنے مذہب کو فریب سے ماننے والے ہو سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دے کر اپنی امت کو بتا یا ہے کہ انہیں دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے احساسات کا ہمیشہ احترام کرنا چاہیے کیونکہ خواہ وہ جھوٹے مذاہب کے پیرو ہوں مگر بہر حال وہ انہیں سچا سمجھ کر اُن کے پیچھے چل رہے ہیں.(۳) تیسرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی تمام اقوام کے متعلق اصولی طور پر یہ تعلیم دی کہ اُن میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء مبعوث ہوتے رہے ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا.وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذَیْرٌ (الفاطر :۲۵) یعنی دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا کوئی نبی نہ آیا ہو.اس تعلیم کے ذریعہ چونکہ سب اقوام کے نبیوں کے تقدس کو قبول کر لیا گیا ہے اس لئے وہ منافرت جو دائرہ ہدایت کو محدود کر نے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے دل سے دُور ہو جاتی ہے اور انسان عقیدۃً اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ سب مذاہب کی اصل سچائی پر مبنی ہے.اور مختلف مدارج میں ہدایت دوسرے مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے.کیونکہ اُن کی ابتداء خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی تھی.پس بندوں نے ان مذاہب کو خواہ کتنا بھی بگاڑ دیا ہو پھر بھی خدا تعالیٰ کی ہدایت میں سے کچھ نہ کچھ اُن کے پا س ضرور موجود ہے.اس لئے باوجود اختلاف کے مجھے اُن سے اتحاد رکھنا چاہیے اور انہیں محبت اور پیار کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے.(۴) چوتھی تعلیم آپ نے یہ دی کہ جب کسی قسم کی مذہبی بحث ہو تو جوش میں آکر گالیوں پر نہ اُتر آئو.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ( انعام :۱۰۹ ) یعنی جب تمہاری دوسری قوموں سے بحث ہو تو وہ ہستیاں جنہیں تم نہیں مانتے خواہ انہیں خدا کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہو.پھر بھی انہیں بُرا بھلا نہ کہو ورنہ وہ بھی اس خدا کو گالیاں دینے لگیں گے جسے تم مانتے ہو.اور اس طرح تم خدا تعالیٰ کو گالیاں دلوانے کا موجب ہو جائو گے جیسے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے باپ کو گالی نہ دے.صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے باپ کو گالیاں
دے.آپ نے فرمایا جب تم کسی کے باپ کو گالیاں دو گے تو وہ تمہارے باپ کو گالیاں دے گا اور اس طرح تم خود اپنے باپ کو گالیاںدلوانے والے سمجھے جائو گے (صحیح بخاری کتاب الادب باب لا یسب الرجل والدیہ).(۵) پانچویں ہدایت آپ نے یہ فرمائی کہ صرف مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہیں کرنا چاہیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس قوم سے مذہبی اختلاف ہو اُس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کرنا جائز ہوتا ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بالکل خلاف حکم دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکے ذریعہ اعلان فرمایا کہ وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا (البقرۃ :۱۹۱ ) یعنی تم جنگ تو کر سکتے ہو مگر صرف انہی سے جو تم پر حملہ آور ہوں.مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کبھی کسی پر حملہ نہ کرنا اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حربی غیر مسلموں کو بھی حریت ضمیر عطا کی اور بتا یا کہ خواہ کسی کا کوئی مذہب ہو.اُس کی وجہ سے کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ اُسے مارے یا نقصان پہنچائے.( ۶) چھٹا حق آپ نے غیر مسلم اقوام کا یہ قرار دیا کہ فرمایا خواہ کسی قوم سے عہد ہو تمہارا فرض ہے کہ تم اُسے قائم رکھو.لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہوئی ہے اور اس غلطی میں وہ مسلمان بھی مبتلا ہیں جو قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے کہ غیروں سے جو عہدہو اُسے توڑ دینا کوئی حرج کی بات نہیں ہوتی.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف حکم دیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَآىِٕنِيْنَ۠( الانفال :۵۹) کہ اگر کوئی قوم عہد توڑ دے تو اُسے بتا دینا چاہیے کہ تم نے عہد توڑ دیا ہے اب ہم پر بھی عہد کی پابندی نہیں یونہی اس پر حملہ نہیں کر دینا چاہیے.چنانچہ ابو سفیان جب صلح حدیبیہ کے بعد مکہ میں آیا اور اُس نے کہا کہ اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو سفیان تم نے یہ اعلان اپنی طرف سے کیا ہے.میں نے نہیں کیا.اور اس طرح اُسے بتا دیا کہ اب ہم تم پر حملہ کریں گے(السیرة النبویة لابن ہشام ذکر الاسباب الموجبة المسیر الی مکة و ذکر فتح مکة ).اس کے مقابلہ میں آج کل جب کسی ملک پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں چنانچہ اٹلی نے جب ٹر کی پر حملہ کیا تو اس حملہ سے تین دن پہلے یہ اعلان کیا گیا کہ ٹرکی کے ساتھ ہمارے آجکل ایسے اچھے تعلقات ہیں کہ اس قسم کے تعلقات پہلے کبھی نہیں ہوئے.یہ اعلان صرف اس لئے کیا گیا کہ ٹرکی غافل رہے اور اس پر اچانک حملہ کر دیا جائے.مگر ابو سفیان نے جب اعلان کیا تو اُس وقت رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر خاموش بھی رہتے تب بھی آپؐ پر کوئی ذمہ داری عائد نہ ہوتی.کیونکہ مکہ والے معاہدہ توڑ چکے تھے.مگر آپ
خاموش نہ رہے بلکہ فرمایا کہ یہ تمہارا اپنا اعلان ہے.ہمارا نہیں اس طرح اُسے اشارۃً بتا دیا کہ اب ہم حملہ کر نے والے ہیں.(۷) ساتویں.پھر آپ نے مسلم اور غیر مسلم کے تمدنی حقوق ایک جیسے قرار دیئے اور یہ بات ایسی ہے جو صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ہے.آپؐ سے پہلے یہودیوں میں یہ حکم تھا کہ تم اپنے بھائیوں یعنی یہودیوں سے سود نہ لو.دوسروں سے لے لیا کرو ( استثنا باب ۲۳ آیت ۱۹،۲۰ واحبار باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۳۷) مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سود نہ یہودیوں سے لو نہ عیسائیوں سے نہ مسلمانوں سے.غرض کسی سے بھی سود نہ لو.گو یا سب سے ایک سا سلوک کرنےکا حکم دیا ( بقرہ ع ۳۸) اس طرح رسول کریم ؐ نے تمدنی سلوک کے بارہ میں مسلم اور غیر مسلم کے امتیاز کو اڑا دیا (بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین اذ أعجبتکم).(۸) آٹھویں تعلیم آپ نے یہ دی کہ غلاموں کی آزادی میں بھی مسلم اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز روانہ رکھا جائے.چنانچہ جنگ حنین کے موقعہ پر سینکڑوں غلام جو پکڑے آئے.باوجود اس کے کہ وہ دشمن تھے آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا.(۹) نویں تعلیم غیر مسلموں کے متعلق آپ نے یہ دی کہ جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں مسلمانوں پر زیادہ بوجھ رکھا جائے اور دوسروں پر کم.چنانچہ اسلامی احکام کے ماتحت ضروری ہے کہ ( ۱) مسلمان لڑائی میں شامل ہوں ( ۲) عشر یعنی دسواں حصہ پیداوار کا دیں ( ۳) زکوٰۃ دیں لیکن غیر مسلموںکے لئے صرف 2 1/2روپیہ کے قریب فی کس ٹیکس رکھا گیا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے.او ر پھر لڑائی میں انہیں آزادی دی گئی ہے.سوائے اس کے کہ مسلمانوں سے اجازت لےکر اپنی خوشی سے وہ لڑائی میں شامل ہو جائیں (ابو داؤد کتاب الخراج والفی ء والامارة باب فی اخذ الجزیة ).غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے متعلق ایسی روا دارانہ تعلیم دی ہے جس کی مثال دنیا کا کوئی اور مذہب پیش نہیں کر سکتا.اب میں یہ بتا تا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مذاہب کے پیرؤوں کے متعلق عملی رنگ میں کیا نمونہ پیش کیا.سو اس بار ہ میں جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ (۱) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اقوام کے نیک انسانوں کا عملاً احترام کیا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ جب طے قبیلہ سے جنگ ہوئی تو کچھ مشرک بطور قیدی پکڑے آئے.اُن میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی.اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں میں کس کی بیٹی ہوں.آپؐ نے فرمایا کس کی بیٹی ہو.اُس نے کہا
میں اس شخص کی بیٹی ہوں جو مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آیا کرتا تھا.یعنی حاتم کی.وہ مسلمان نہ تھا لیکن چونکہ لوگوں سے اچھا سلوک کر تا تھا اس لئے اس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بیٹی کو آزاد کر دیا.اس کا بھائی گرفتاری کے خوف سے بھاگا پھرتا تھا.آ پ ؐنے اُسی وقت اُسے روپیہ اور سواری دے کر کہا کہ جا کر اپنے بھائی کو بھی لے آئو چنانچہ وہ گئی اور اُسے لے آئی.اُس پر اس سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا.اس طرح آپؐ نے اس کی سفارش پر اُس کی ساری قوم کی سزا کو بھی معاف کر دیا ( السیرۃ الحلبیۃ باب یذکر فیہ ما یتعلق بالوفود التی وفدت علیہ صلی اللہ علیہ وسلم وفود عدی بن الحاتم الطائی) اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر نہ صرف غیرمذاہب کے لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف کیا بلکہ اُن سے تعلق رکھنے والوں سے بھی حسنِ سلوک کیا.اور انہیں اپنے احسانات سے نوازا.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں جب طے قبیلہ بعض لوگوں کے اکسانے سے بغاوت میں شامل ہوگیا تو حاتم طائی کے بیٹے نے جو خود اسلام سے بھاگا پھر رہا تھا آکر اپنی قوم کو سمجھایا اور دوبارہ اُن کی بیعت کرائی.(طبری سنة ۱۱ ذکر بقیة الخبر عن غطفان ) (۲) دوسری مثال نصاریٰ نجران کا واقعہ ہے.نجران کے نصاریٰ کا ایک وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس الوہیت ِ مسیح ؑ کی تائید میں بحث کرنےکے لئے آیا مگر باوجود اس کے کہ وہ لوگ شرک کی تائیدکے لئے آئے تھے جب اُن کی عبادت کا وقت آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی ؐ میں ہی اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دے دی اور انہوں نے سب کے سامنے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام امر السید والعاقب و ذکر المباھلة) اس سلوک کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانیں لینےکے لئے اور اُن پر ظلم کرنےکے لئے آئے تھے ،جو جانیں لینےکے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں غیر مذاہب والوں کو عبادت کی اجازت دے سکتا ہے اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپؐ نے اٰخر المساجد فرمایا ہے.اور جس میں نماز پڑھنا دوسری مساجد کی نسبت بہت زیادہ قابل ثواب قرار دیا ہے (مسلم کتاب الحج باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدینة).اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے نبی کی موجودگی میں اور اُس نبی ؐ کی موجودگی میں جو خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنےکے لئے آیا تھا.نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرنا چاہتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کیا ہر ج ہے بیشک کر لو.آج بڑے بڑے رواداری کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ اپنی عبادت گاہوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کو عبادت کرنے دیں صرف ہماری جماعت کی ایک مثال ہے جس نے یہ نمونہ قائم کیا اور مسجد لنڈن کی بنیاد رکھتے ہوئے ہی
اعلان کر دیا کہ ’’ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں متوجہ ہوں.اورہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہر گز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ اُن قواعد کی پابندی کر ے جو اس کے منتظم اس کے انتظام کے لئے مقرر کریں.اور بشرطیکہ وہ اُن لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنےکے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں.‘‘ ( الفضل مورخہ ۲۰ نومبر ۹۲۴ا ء صفحہ ۵کالم نمبر ۱) مجھے یاد ہے ایک دفعہ قادیان میں آریوں کا جلسہ ہوا جس میں انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچا یا.جلسہ کے بعد اُن کے لیکچر ار مجھ سے ملنے آئے.میں نے اُن سے کہا کہ میں نے سُنا ہے آپ کو جگہ کے متعلق تکلیف ہوئی.آپ میرے پاس آتے میں اپنی مسجد میں انتظام کروا دیتا.وہ کہنے لگے کیا آپ اپنی مسجد میں اس کی اجازت دے دیتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کو اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دے دی تھی تو میں آپ کو مسجد میں لیکچر کی اجازت کیوں نہیں دے سکتا.اس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج لیکچر دے سکتا ہوں.میںنے کہا اجازت ہے.چنانچہ مسجد اقصیٰ میں اس کا لیکچر ہوا جس میں مَیں بھی شامل ہوا.اس کے بعد آریہ صاحبان کی موجود گی میں حافظ روشن علی ؓ صاحب مرحوم نے اُن کے اعتراضات کے جواب دیئے.اس کا ایسا اثر ہوا کہ اُن کا جلسہ ہی بند ہو گیا اور شاید بارہ تیرہ سال کے بعد اُن کا دوبارہ جلسہ ہو ا.غرض اسلام غیر مذاہب کے متعلق جس روادارانہ تعلیم کا حامل ہے.اُس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا.(۳) غیر مذاہب سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلو ک کی تیسری مثال یہ ہے کہ آپ اپنے ہمسائیوں سے خواہ وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے ہوں اچھا سلوک کر نے کا حکم دیتے تھے اور اس کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ صحابہ ؓ ہر وقت اس کی پابندی ملحوظ رکھتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ ایک دفعہ گھر میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کہیں سے اُن کے ہاں گوشت آیا ہوا ہے.انہوں نے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا یہودی ہمسائے کو گوشت بھیجا ہے یا نہیں.اور پھر آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دوہرایا کہ گھروالوں نے کہا.آپ اس طرح کیوں کہتے ہیں انہوں نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سُنا ہے کہ جبرائیل نے اتنی دفعہ مجھے ہمسایہ کے حق کی تاکید کی کہ میں نے سمجھا شاید اسے وراثت میں شریک کر دیا جائےگا.یہ عملی سلوک تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو آپ نے غیر مذاہب کے لوگوں سے روا رکھا.آپ غیر مذاہب والوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے کسی یہودی نے کہہ دیا کہ
مجھے موسیٰ ؑ کی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی ہے.اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اُسے تھپڑ مارد یا.جب اس واقعہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ نے حضرت ابوبکر ؓ جیسے انسان کو زجر کی(بخاری کتاب الانبیاء باب وفاة موسیٰ و ذکرہ بعد).غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ ؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسی طرز سے کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ جیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے اور آپ اسے طمانچہ مار بیٹھتے ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا.اُسے حق ہے کہ جو چاہے عقیدہ رکھے.(۴) آپ کے حسنِ سلوک کی چوتھی مثال یہ ہے کہ فتح خیبر کے موقعہ پر ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور اُس نے گوشت میں زہر ملا دیا.آپ نے صرف ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اس میں زہر ہے اور آپ نے کھانے سے ہاتھ اُٹھالیا.اس کے بعد آپ نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا کہ اس کھانے میں تو زہر ہے.اُس نے کہا آپ کو کس نے بتلایا.آپ کے ہاتھ میں اُس وقت بکری کا دست تھا.آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایاکہ اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے.یہودن نے کہا میں نے یہ زہر اس لئے ملا یا تھا کہ اگر آپ واقعہ میں خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں تو آپ کو یہ بات معلوم ہو جائےگی اور اگر جھوٹے ہیں تُو دنیا کو آپ کے وجود سے نجات حاصل ہو جائےگی.مگر باوجود اس کے کہ اُس نے آپ کو زہر سے ہلاک کر نے کی کوشش کی اور باوجود اس کے کہ ایک صحابی ؓ اس زہر کی وجہ سے بعد میں فوت ہو گئے آپ نے اسے کوئی سزا نہ دی.یہ کتنا بڑا نیک سلوک ہے جو آپ نے ایک ایسی دشمن عورت سے کیا جس نے آپ کی اور آپ کے جاں نثار صحابہ ؓ کی جان لینے کی کوشش کی اور اس طرح اسلام کو بیخ و بن سے اکھیڑنا چاہا.(المواھب اللدنیة الجزء الثالث غزوة خیبر).(۵) آپ کے سلوک کی پانچویں مثال یہ ہے کہ جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو سپاہیوں کو خاص طور حکم دیتے کہ کسی قوم کی عبادتگاہیں نہ گرائی جائیں.اُن کے مذہبی پیشوائوں کو نہ مارا جائے.عورتوں پر اور بوڑھوں پر اور بچوں پر حملہ نہ کیا جائے (بخاری کتاب الجھاد باب تحریم قتل النساء والصبیان فی الحرب).رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے یہ رواج تھا کہ پادریوں اور راہبوں کو مارڈالا جاتا تھا (تواریخ مسیحی کلیسیا ۳۳ سے ۶۰۰ م ص ۱۵۶.۱۸۱).مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قطعی طور پر روک دیا.اگر آپ دوسرے مذاہب کے ایسے ہی دشمن ہوتے جیسے مخالفین آپ کو قرار دیتے ہیں تو کیا آپ یہ حکم دیتے کہ ان مذاہب کے رہنمائوں کو چھوڑ دیا جائے؟ آپ تو یہ کہتے کہ سب سے پہلے ان کو مارا جائے مگر آپ نے فرمایا.جو تلوار لے کر حملہ کرتا ہے اُسے تو بے شک
ایسا شخص تھا جسے ان لوگوں نے کوئی ذاتی دُکھ نہیں دیا تھا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو اُن لوگوں کی غداری کی وجہ سے حملہ آور ہوئے تھے اور اُن دشمنوں پر حملہ کرنے گئے تھے جنہوں نے قریباً ربع صدی تک مسلمانوں پر ظلم کئے تھے.جنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مکی زندگی کے تیرہ سال سے ہر منٹ بلکہ ہر سیکنڈ میں مارنے اور ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے بعد سات سال تک دو سو میل دُور جا کر وہ آپ کی تباہی کی کوشش کرتے رہے تھے مگر ان تمام مظالم کے باوجود جب آپ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے عفو و کرم کا وہ نمونہ دکھایا جس کے مقابلہ میں ابراہیم لنکن کا نمونہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.آپ نے مکّہ والوں کو جمع کیا اور اُن سے پوچھا کہ بتائو اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے.اگراُس وقت اُن کے جسموں کا قیمہ بھی کر دیا جاتا.تو میں سمجھتا ہوں یہ اُن کے جرموں کے مقابلہ میں کافی سزا نہ تھی.مگر جب انہوں نے کہا کہ ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا تو آپ نے فرمایا لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ جائو تمہیں معاف کیا جاتا ہے اور تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جاتی.یہ وہ خاتمہ ہے جو اس عظیم الشان جنگ کا ہوا.جو آپ ؐ کے اور آپ کے دشمنوں کے درمیان بیس سال تک جاری رہی.کیا اس نمونہ کے ہوتے ہوئے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں پر ظلم کیا اور انہیں تلوار کے زور سے اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کی.تعصب یا جہالت سے اعتراض کرنا اور بات ہے ورنہ جو شخص حقائق پر غور کرنے کا عادی ہو وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرنے والا اور کوئی شخص نہیں گذرا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت یو سف ؑ نے بھی اپنے بھائیوں کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہا تھا.مگر یوسف ؑ کے سامنے اُن کے اپنے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے اُن کے ماں باپ موجود تھے.مگر وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے آپ کے عزیزوں اور بھائیوں کے قاتل تھے.حضرت حمزہ ؓ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے.حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کا باعث کون لوگ تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیٹی کو مارنے والے کون لوگ تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں.اور خاوند نے اس خیال سے کہ اسلام کی عداوت کی وجہ سے لوگ انہیں مکّہ میں تنگ کرتے ہیں مدینہ روانہ کر دیا تھا مگر کفّار نے راستہ میں انہیں سواری سے گِرا دیا جس سے اسقاط ہو گیا.اور اسی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوگئی.حضرت یوسف ؑ کے سامنے کون سے جذبات تھے.سوائے اس کے کہ اُن کے بھائیوں نے ان کو وطن سے نکال دیا تھا.مگر یہاں تو یہ حالت تھی کہ ابوطالب کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے
کہہ رہی تھی کہ یہ لوگ میرے قاتل ہیں جس نے تیری خاطر سالہا سال اپنی قوم کا مقابلہ کیا.عالمِ خیال میں حضرت خدیجہ ؓ آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ میں نے اپنا مال و دولت اور اپنا آرام و آسائش سب کچھ آپ کے لئے قربان کر دیا تھا.اب یہ لوگ جو میرے قاتل ہیں آپ کے سامنے کھڑے ہیں.حضرت حمزہ ؓ کھڑے کہہ رہے تھے کہ انہی میں سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری لاش کی بے حرمتی کی اور میرے جگر اور کلیجہ کو باہر نکال کر پھینک دیا تھا.آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں ایک عورت پر ہاتھ اُٹھا تے ہوئے شرم نہ آئی او ر ایسی حالت میں مجھ پر حملہ کیا جبکہ میں حاملہ تھی اور مجھے ایسا نقصان پہنچایا جس کے بعد میری وفات ہو گئی.(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب باب زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)پھر وہ سینکڑوں صحابہ ؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز تھے اور جن میں سے ایسے لوگ بھی تھے کہ جب اُن میں سے ایک کو کفار نے پکڑ ا اور قتل کرنے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ کیا تم یہ پسند نہ کرو گے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد ؐ(صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں.اور تم آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو.اُس نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں آرام سے اپنے گھر میں بیٹھا رہوں.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں میں مدینہ میں چلتے ہوئے کانٹا تک چبھے (السیرة النبویة لابن ہشام الجزء الثالث ذکر یوم الرجیع، مقتل ابن الدثنۃ و مثل من وفائہ للرسول).ایسے عزیز صحابہ ؓ کو دُکھ دے دے کر مار ا گیا.اُن کی رو حیں اس وقت عالمِ خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمارے قاتل ہیں.اب ان سے ہمارا انتقام لیا جائے.مگر باوجود ان سب جذبات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو یہی کہا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.جائو آج تم سے کوئی باز پرس نہیں کی جائےگی.اتنے بڑے نمونہ کو دیکھتے ہوئے بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام اپنے دشمنوں سے رواداری کی تعلیم نہیں دیتا تو اُس سے زیادہ نابینا اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا.اسلام کی ایسی روادارانہ تعلیم کا ہی یہ اثر تھا کہ اسلامی ملکوں میں اسلامی حکومتوں کے ماتحت غیر اقوام کے لوگ بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں اسلام ایک جنگی انتشار کی حالت میں سے گذر رہا تھا اور ابھی ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی جس میں تمام اقوام مل کر بس جانے کا فیصلہ کر تیں اس لئے بعض سیاسی حقوق کامل طور پر غیر مسلموں کو نہیں دئیے جا سکتے تھے مگر باوجود اس کے جہاں جہاں ممکن تھا اُن کو سرداری کے حقوق دئیے گئے ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مقنا کو جو خط لکھا اُس میں صاف طور پر یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ لَیْسَ عَلَیْکُمْ اَمِیْرٌ
اسلام کی ایسی روادارانہ تعلیم کا ہی یہ اثر تھا کہ اسلامی ملکوں میں اسلامی حکومتوں کے ماتحت غیر اقوام کے لوگ بڑے بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں اسلام ایک جنگی انتشار کی حالت میں سے گذر رہا تھا اور ابھی ایسی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی جس میں تمام اقوام مل کر بس جانے کا فیصلہ کر تیں اس لئے بعض سیاسی حقوق کامل طور پر غیر مسلموں کو نہیں دئیے جا سکتے تھے مگر باوجود اس کے جہاں جہاں ممکن تھا اُن کو سرداری کے حقوق دئیے گئے ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مقنا کو جو خط لکھا اُس میں صاف طور پر یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ لَیْسَ عَلَیْکُمْ اَمِیْرٌ اِلَّا مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ مِنْ اَھْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ( مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ ،معاھدتہ صلی اللہ علیہ وسلم مع اھل مقنا صفحہ ۳۶) یعنی تمہاری قوم میں گورنر یا تم میں سے ہوگا یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ہوگا.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم فرماتے ہیں کہ کسی علاقہ کا گورنر غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ میں بھی حالانکہ ابھی ملک میں پُرامن طور پر ساری قومیں نہیں بسی تھیں ان حقوق کو تسلیم کیا جاتا تھا.چنانچہ علامہ شبلی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.’’ حضرت عمر ؓ نے صیغہ ٔ جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کے لئے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی.یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قید نہ تھی.والنٹیرٔ فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے.فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے.‘‘ ( الفاروق ازشبلی نعمانی حصہ دوم زیر عنوان صیغہ ٔ فوج صفحہ ۲۵۱) اسی طرح لکھتے ہیں : ’’ یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے.چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانسو آدمی شریک جنگ تھے.اورجب عمرو بن العاص نے فسطاط آباد کیا تو یہ جداگانہ محلے میں آباد کئے گئے.یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ خالی نہ تھا چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے.‘‘ ( الفاروق حصہ دوم صفحہ ۲۵۱زیر عنوان صیغہ ٔ فوج) اسی طرح تاریخ سے ثابت ہے کہ غیر اقوام کے افراد کو جنگی افسر بھی مقرر کیا جاتا تھا.چنانچہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایرانیوں کو بھی فوجی افسر مقرر کیا گیا.اُن میں سے بعض کے نام بھی تاریخ میں موجود ہیں.علامہ شبلی نے چھ فوجی افسروں کے نام یہ لکھے ہیں.’’ سیاہ ؔ.خسروؔ.شہریارؔ.شیرویہ ؔ.شہرویہ ؔ.افرودین ‘‘ ( الفاروق حصہ دوم صفحہ ۲۵۱زیر عنوان صیغہ ٔ فوج) ان افسروں کو تنخواہیں بھی سرکاری خزانہ سے ملتی تھیں PAY ROLLمیں اُن کا نام تھا.چاروں خلفاء کے بعد حضرت معاویہ ؓ کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے کہ اُن کے زمانہ میں ایک عیسائی ابن آثال نامی وزیر خزانہ تھا.( تاریخ عرب مصنفہ پر وفیسر ہٹی پارٹiiiباب xviiصفحہ ۱۹۶)عباسی خلافت کے زمانہ میں باقاعدہ منظم حکومت قائم کی گئی اور مختلف قوموں اور علاقوں کے نمائندوں کی ایک کونسل آف سٹیٹس مقرر کی گئی.اس کونسل آف سٹیٹ میں عیسائی یہودی صابی اور زرتشتی بھی شامل تھے A SHORT HISTORY OF THE SARACENS by Ameer Ali p.274-275
اس زمانہ میں ایک عیسائی وزیر جنگ بھی مقرر کیا گیا.چنانچہ عباسی خلیفہ معتضد کا وزیر جنگ ایک عیسائی تھا جس کا نام صابی تھا ( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی ایڈیشن پنجم پارٹ iiiصفحہ ۳۵۵) عباسی خلیفہ المتقی کا بھی ایک عیسائی وزیر تنوخی نام کا تھا ( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی ایڈیشن پنجم صفحہ ۳۵۵) بو لیہہ خاندان کے ایک بادشاہ عضدالدولہ کا بھی ایک عیسائی وزیر نسربن ہارون تھا.( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی صفحہ ۳۵۵) سپین کی حکومت کے متعلق بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ اُس میں قاضی القضاۃ تک کا عہدہ بھی غیر مذاہب والوں کو دیا جاتا تھا.چنانچہ عبدالرحمٰن ثالث بادشاہ سپین کے بیٹے الحکم ثانی کے زمانہ میں ایک عیسائی ولید بن خیزدران کو قرطبہ میں حکومت کا جج مقرر کیا گیا ( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی ایڈیشن پنجم پارٹ iiiباب xxxviii صفحہ ۵۲۹.۵۳۰) اسی طرح عبدالرحمٰن ثالث بادشاہ سپین کا ایک یہودی وزیر تھا جس کا نام رِبی حسدی شپروت تھا ( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی پارٹiii باب xiصفحہ ۵۷۷) اسی طرح تاریخ سے معلو م ہوتا ہے کہ سپین میں بھی ایک کونسل آف سٹیٹ مقرر کی گئی تھی جس کے ممبر غیر مسلم بھی ہوتے تھے.چنانچہ ایک عیسائی GOMEZ SON OF ANTONYبھی اس کونسل آف سٹیٹ کا ممبر تھا اور بادشاہ عبدالرحمٰن ثالث نے ایک بڑی سیاسی میٹنگ میں جس کے لئے تمام سپینش بشپ بلائے گئے تھے اپنی بیماری کی وجہ سے اس کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجا اور اُسے ریذیڈنٹ مقرر کیا.A SHORT HISTORY OF THE SARACENS by Ameer Ali chapter xxvi p.448 اسی طرح سموئل بن عارف ایک عیسائی اسلامی حکومت غرناطہ میں وزیر مقرر کیا گیا ( اخبار اندلس جلد سوم صفحہ ۱۴۶).سکاٹس کی ’’ تاریخ اندلس ‘‘ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب بادشاہوں کو کوئی اہم سفارت بھیجنی ہوتی تھی تو وہ مقتدر یہودیوں کو بھیجا کرتے تھے ( اخبار اندلس جلد سوم ترجمہ ازخلیل الرحمٰن صاحب صفحہ ۱۴۵).مصر کی فاطمی حکومت میں بھی غیر مسلموں کو بڑے بڑے درجے دئیے جاتے تھے.چنانچہ فاطمی بادشاہ العزیز کے زمانہ میں ایک عیسائی عیسیٰ بن نستور کو وزیر بنا یا گیا ( تاریخ عرب مصنفہ پروفیسر ہٹی ایڈیشن پنجم باب xiiiصفحہ ۶۲۰) اسی طرح تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے فاطمی بادشاہوں کے وزراء عیسائی اور یہودی ہوا کرتے تھے.A SHORT HISTORY OF THE SARACENS by Ameer Ali chapter xxvi p.413 ہندوستان میں سب سے زیادہ بدنام اور نگ زیب ہے لیکن اورنگ زیب کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں کسی قسم کا امتیاز اور فرق کرنا جائز نہیں سمجھتا تھا.او ر دلیل یہی دیا کرتا تھا کہ قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ (الکافرون:۷).چنانچہ ایک دفعہ اس کے پاس درخواست کی گئی کہ ذِمیوں کو کلیدی
عہدوں سے الگ کیا جائے.اس پر اُس نے جواب دیا کہ مذہب کا دنیوی معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور اس قسم کے معاملات میں تعصّب کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے.پھر اُس نے یہ آیت پڑھی کہ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ.پھر اُس نے کہا کہ اگر ہم اس درخواست کو تسلیم کریں تو پھر ہمیں تمام راجوں اور اُن کی رعایا کو قتل کر دینا چاہیے.PREACHING OF ISLAM by Sir THOMAS ARNOLD P.214 ANECDOTS OF AURANG ZEB by Sir JADHNAND CIRCAR P.97-100 اسی طرح عالمگیر کے ایک فرمان کا یہ فقرہ ہے کہ ’’ حکومت کے عہدے قابلیت کے اصول پر دئے جائیں.کسی اور خیال کے ماتحت نہ دئے جائیں.‘ ‘ PREACHING OF ISLAM by Sir THOMAS ARNOLD P.214 پھرمغلیہ حکومت کے متعلق ایک اور مصنف لکھتا ہے کہ ’’ بنگال کا حکومتی مذہب اسلام ہے.لیکن ملازمتوں کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں سو ہندو ہے اور تمام سرکاری عہدے اور اعتبار کی جگہیں دونوں قوموں سے چُنی جاتی ہیں.‘‘ A NEW ACCOUNT Of THE EAST INDIES Vol.2 p.14 اور یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ مغلیہ حکومت نے ہندو کمانڈر انچیف تک مقرر کئے.چنانچہ جرنیل مان سنگھ.جسونت سنگھ اور جے سنگھ مشہور مثالیں ہیں (اورنگزیب از رشید اختر ندوی ).مسلمانوں کا غیر مسلموں سے یہ روا دارانہ سلوک اتنا نمایاں تھا کہ خود غیر مسلموں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے.چنانچہ مشہور عیسائی مؤرخ جرجی زیدان لکھتا ہے.’’ مسلمانوں کے نہایت تیزی کے ساتھ علمی ترقی کرنے کا ایک زبر دست سبب یہ بھی تھا کہ خلفاء اسلام ہر قوم اور ہر مذہب کے علماء کے بہت بڑے قدر دان تھے اور ہمیشہ اُن کو انعام و اکرام سے مالا مال کرتے رہتے تھے.اُن کے مذہب ، اُن کی قومیت اور اُن کے نسب کا کچھ خیال نہیں کرتے تھے اُن میں نصرانی.یہودی.صابی.سامری اور مجوسی غرض ہر مذہب و ملت کے لوگ تھے خلفاء ان کے ساتھ نہایت عزت اور عظمت کا برتائو کرتے تھے.اور غیر مسلموں کو وہی آزادی اور درجہ حاصل تھا جو مسلمان امراء یا حکام کو حاصل ہوتا تھا.‘‘ ( تاریخ التمدن الاسلامی جلد ۳ الکتب التی ترجمت فی النھضة العباسیة زیر عنوان محاسبۃ الخلفاء وللعلماء غیر المسلمین صفحہ ۱۹۴)
ان حوالہ جات سے یہ امر واضح ہے کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ کسی قسم کی ناواجب سختی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہ اُن کے تمام حقوق کا خیال رکھتا اور اُن پر ہر قسم کے ظلم کو ناجائز قرار دیتا ہے.تاریخ میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کافر کو قتل کر دیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور فرمایا ذمیوں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے.( نصب الرأیہ فی تخریج احادیث الہدایہ کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص ) اسی بنا ء پر امام یوسف نے کتاب الخراج میں اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ عہدنبوی ؐ اور زمانۂ خلافت راشدہ میں ایک مسلمان اور ذمی کادرجہ تعزیرات اور دیوانی قانون کے لحاظ سے بالکل یکساں تھا.اور دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا تھا.( کتاب الخراج صفحہ ۱۰۸)ایک دفعہ خیبر کے یہودیوں کی شرارتوں سے تنگ آکر بعض مسلمانوں نے اُن کے کچھ جانور لوٹ لئے اور اُن کے باغوں کے پھل توڑ لئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت نہیں دی کہ تم رضامندی حاصل کئے بغیر اہل کتاب کے گھروں میں گھس جائو.اسی طرح تمہارے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ تم اُن کی عورتوں کو مارو یا اُن کے باغوں کے پھل توڑ و.( ابوداؤد کتاب الخراج باب فی تعشیر اھل الذمة اذا اختلفوا بالتجارۃ ).ایک دفعہ بعض صحابہ ؓ نے سفر کی حالت میں جبکہ انہیں بھوک کی تکلیف تھی کفار کی چند بکریاں پکڑلیں.اور ذبح کرکے اُن کا گوشت پکانا شروع کردیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ہانڈیاں اُلٹ دیں اور فرمایا کہ لوٹ کی ہر چیز مردار سے بدتر ہے.( بخاری کتاب الجھاد باب ما یکرہ من ذبح الابل والغنم فی المغانم ) ایک دفعہ مشرکین کے چند بچے لشکر کی لپٹ میں آکر ہلاک ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بڑا صدمہ ہوا.اور آپ نے فرمایا.مشرکین کے بچے بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں.اس لئے خبردار بچوں کو قتل مت کرو.خبردار بچوں کو قتل مت کرو.( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۰۲ حدیث الاسود بن سریعؓ).ممکن ہے اس موقعہ پر کسی شخص کے دل میں سوال پیدا ہو کہ اگر اسلام غیر مذاہب کے متعلق ایسی ہی روادارانہ تعلیم کا حامل ہے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدنی زندگی میں کفار کے مقابلہ میں تلوار کیوں اٹھائی.سو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بیشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانی پڑی مگر آپ کا یہ تلوار اٹھانا محض دفاعی طور پر تھا.جب عرب کے کفار نے تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا اور برابر تیرہ سال تک وہ ہر قسم کے مظالم سے کام لے کر مسلمانوں کو اُن کے دین اور مذہب سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہے تو آخر
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ اب ان کفار کے مظالم کا جنہوں نے تلوار سے اسلام کو مٹانا چاہا ہے تلوار سے ہی جواب دیا جائے تاکہ دین اور مذہب کی اشاعت کے راستہ میں انہوں نے جو روکیں پیدا کر رکھی ہیں وہ دُور ہوں.پس یہ جنگیں محض دفاعی اور دشمن کے ظالمانہ حملوں کے جواب میں تھیں.چنانچہ اسلام نے صاف طور پر کہہ دیا کہ تم صرف اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور اُس وقت تک لڑو جب تک وہ تم سے لڑتے ہیں ( البقرۃ ع ۲۵) اور دفاع کے طور پر تلوار چلانا ہر گز ناپسندیدہ نہیں ہو سکتا.اگر اسلام تلوار سے پھیلا تھا تو تلوار چلانے والے اُس کے پاس کہاں سے آگئے تھے.اور جس مذہب نے ایسے تلوار چلانے والے پیدا کر لئے تھے کہ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے سارے ملک کی مخالفت کے باوجود اس کو دنیا میں قائم کر دیا اُس مذہب کے لئے کیا یہ مشکل تھا کہ وہ دلائل کے زور سے دوسرے لوگوں سے بھی اپنی صداقت منوا لیتا.مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ عیسائی مستشرق جو اسلام کو تلوار کا مذہب قرار دیتے ہیں خود اُن کی اپنی کتابوں میں کیا تعلیم دی گئی ہے اور اُن کے مسلمہ انبیاء اس اصل کے ماتحت کہاں تک راستباز اور صادق سمجھے جا سکتے ہیں.تورات جس کے متعلق مسیح ؑ نے کہا تھا کہ اس کا ایک شوشہ تک نہیں بدل سکتا ( متی باب ۵ آیت ۱۸) اُس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ اگر کسی شہر کے باشندے تجھ سے لڑائی کریں تو ’’ تُو اُس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر.مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سار ا لوٹ اپنے لئے لے اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو.اسی طرح سے تُو اُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کیجئیو.لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑ یو.بلکہ تُو اُن کو حرم کیجئیو.حِتّی اور اموری اور کنعانی اور فزاری اور جوّی اور یبوسی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے حکم کیا ہے تاکہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو انہو ں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جائو.‘‘ ( استثنا باب۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸) مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ ؑنے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یشوع اور دائود او ر دوسرے انبیاء نے اس
تعلیم پر متواتر عمل کیا.یہودی اور عیسائی ان کو خدا کا نبی سمجھتے ہیں اور تورات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں.موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیح ؑظاہر ہوئے.اُن کی یہ تعلیم تھی کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا.بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے ( متی باب ۵ آیت ۳۹) اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعویٰ کیا کرتی ہے کہ مسیح ؑ نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں.مثلًا انجیل میں لکھا ہے.’’ یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں.صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں.‘‘ ( متی باب ۱۰ آیت ۳۴) اسی طرح لکھا ہے کہ اُس نے کہا : ’’ جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے.‘‘ ( لوقا باب ۲۲ آیت ۳۶) یہ آخری دو تعلیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں اگر مسیح جنگ کروانےکے لئے آیا تھا تو پھر ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنے تھے ؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی تعلیمیں متضاد ہیں یا ان دونوں تعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھر ا کر اُس کی کوئی تاویل کرنی پڑے گی.ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابلِ عمل ہے یا نہیں.سوال یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا.جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیر قوموں سے جنگیں کیں.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آگئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنےوالوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے.اس کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کا پابند تھا.کرسچن سویلزیشن اس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا ر کا نام ہے ورنہ اس لفظ کے حقیقی معنے اب کوئی باقی نہیں رہے.جب دو قومیں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریقِ کار ہی کر سچن سویلزیشن ہے.حالانکہ کرسچن سویلزیشن کوئی چیزہی نہیں ایک غلط لفظ ہے جس کے کوئی بھی معنے نہیں.مگر بہر حال مسیح کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائےگی.پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ تم اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدو.‘‘ اور یہ کہ’’ میں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں.‘‘یہ اصل قانون ہے اور ’’ تو ایک
گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے.‘‘ یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحتاً اختیار کیا گیا تھا اور یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا.چنانچہ بعض پادری اس کی یہی تاویل کرتے ہیں.دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیح ؑ کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہو سکتا.کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسیٰ اور یشوع اور دائود کو خدا کا برگزیدہ قراد دیتی ہے.بلکہ خو دعیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی تھیں انہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہا جاتا ہے.لیکن اسلام ان دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے.وہ نہ تو موسیٰ ؑ کی طرح یہ کہتا ہے کہ تُو جارحانہ طورپر کسی ملک میں گھس جااور اس قوم کو تہ تیغ کر دے اور نہ وہ اس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگ ِ بلند تو یہ کہتا ہے کہ ’’ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طر ف پھیر دے ‘‘ اور اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار خرید لو.بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو امن اور صلح کے قیام کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تو کسی پر حملہ نہ کر.لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اُس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو.تب تُو اُس حملے کا جواب دے.اب بتائو کہ کیا یہ ظالمانہ تعلیم ہے یا یہی وہ تعلیم ہے جس پر عمل کر کے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے.اس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا.آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اُٹھاتے رہے لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی.جب مدینہ میں آپ ؐ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے.اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں.مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے وضاحتًا ہدایت دےدی کہ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبَّ الْمُعْتَدِیْنَ( البقرۃ :۱۹۱) یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کر و.اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.پھر فرمایا قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِيْنَ.وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ١ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ( الانفال :۳۹.۴۰)یعنی اے محمد رسول اللہ اگر یہ لوگ
لیکن اسلام ان دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے.وہ نہ تو موسیٰ ؑ کی طرح یہ کہتا ہے کہ تُو جارحانہ طورپر کسی ملک میں گھس جااور اس قوم کو تہ تیغ کر دے اور نہ وہ اس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگ ِ بلند تو یہ کہتا ہے کہ ’’ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طر ف پھیر دے ‘‘ اور اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار خرید لو.بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو امن اور صلح کے قیام کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تو کسی پر حملہ نہ کر.لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اُس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو.تب تُو اُس حملے کا جواب دے.اب بتائو کہ کیا یہ ظالمانہ تعلیم ہے یا یہی وہ تعلیم ہے جس پر عمل کر کے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے.اس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا.آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اُٹھاتے رہے لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی.جب مدینہ میں آپ ؐ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے.اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں.مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے وضاحتًا ہدایت دےدی کہ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبَّ الْمُعْتَدِیْنَ( البقرۃ :۱۹۱) یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں محض اللہ تعالیٰ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کر و.اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.پھر فرمایا قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِيْنَ.وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ١ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ( الانفال :۳۹.۴۰)یعنی اے محمد رسول اللہ اگر یہ لوگ اب بھی لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائےگا.لیکن اگر وہ لڑائی سے باز نہ آئیں اور با ر بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام ان کے سامنے ہیں.ان کا انجام بھی وہی ہوگا اور اے مسلمانو ! تم اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ دنیا سے مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ نہ جائے.اور دین کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے سپر د نہ کر دیا جائے.پھر اگر یہ لوگ ان باتوں سے باز آجائیں تو محض اس وجہ سے اُن سے جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا.تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے اُن کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہو سکتی.پھر فرمایايٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ٞ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا(النسا ء :۹۵) یعنی اے مومنو ! جب تم خدا کی خاطر لڑائی کرنے کے لئے باہر نکلو تو اس بات کی اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے.اور اگر کوئی شخص تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تُو دھوکا دیتا ہے.اور ہمیں امید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں سمجھے جائو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پائو گے.پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خدا کے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے.تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ کسی شخص کا مار دینا اصل مقصود نہیں.تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے.تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی.پس مارنے میں جلد ی مت کرو بلکہ حقیقتِ حال کی تحقیق کیا کرو.اور یاد رکھو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے.اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرنی چاہیے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے یا نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو.پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اس کے سامنے مقابلہ کے لئے آئو.اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے.ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مامون اور محفوظ ہیں بلکہ اس کی بات کو قبول کر لو اور یہ سمجھو کہ اگر پہلے اس کا ایسا ارادہ بھی تھا تو ممکن ہے بعد میں اُس میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو.کیونکہ تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.
تم بھی پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو.اس قسم کے واضح احکام کی موجودگی میں اسلام پر یہ الزام لگانا کہ وہ غیر مسلموں سے روادارانہ سلوک کا حامی نہیں اور یہ کہ وہ تلوار کے زور سے دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنا جائز سمجھتا ہے دشمنانِ اسلام کی انتہائی جسارت اور اُن کی نا انصافی کا بد ترین مظاہر ہ ہے.وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ١ؕ وَ اور تو اُس پر توکل کر جو زندہ ہے (اور سب کو زندہ رکھتا ہے) کبھی نہیں مرتا.اور اُس کی تعریف کے ساتھ ساتھ اُس کی تسبیح كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرَا۰۰۵۹ا۟لَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بھی کر اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب واقف ہے.وہ( خدا) جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى درمیان ہے ان سب کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے پھر وہ مضبوطی سے عرش پر قائم ہو گیا وہ رحمٰن ہے پس جب بھی الْعَرْشِ١ۛۚ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا۰۰۶۰ (اے انسان) تو اس کے متعلق کوئی سوال کرے تو خبیر سے سوال کر جو بہت با خبر ہے (اور ٹھیک ٹھیک جواب دے سکتا ہے ).تفسیر.فرماتا ہے.تمہیں چاہیے کہ تم صرف اُس خدا پر توکل کرو جو زندہ ہے اور جس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی.اور اُس کی تعریف کے ساتھ ساتھ اُسکی تسبیح کرو.اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارا خدا اپنے بندوں کی کمزوریوں کو خوب جانتا ہے.افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں توکل کے لفظ کا بڑا غلط استعمال ہو رہا ہے.توکل کے معنے ہوتے ہیں انسان اپنے معاملہ کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے سپر د کردے اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرنے کے یہ معنے ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق چلے جس کی طرف سَبِّحْ بِحَمْدِہٖ میں اشارہ کیا گیا ہے.اور لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ توکل کے یہ معنے نہیں کہ انسان اُن ذرائع کو استعمال نہ کرے جو خدا تعالیٰ نے کسی کام کی کامیابی کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرےگا تو وہ قانونِ قدرت کو لغو قرار دینے والا ہوگا.اُس کی تعریف کرنے والا نہیں
ہوگا.اور اگر وہ اُن اسباب پر کلی انحصار کرے گا جو اس عالم میں پائے جاتے ہیں تب بھی وہ توکل کے خلاف چلےگا کیونکہ اُس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ حمد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرے اور اللہ تعالیٰ کو ہی ہر قسم کے نقائص اور کمزوریوں سے منزہ سمجھے.اپنے متعلق یہ کبھی تصور بھی نہ کرے کہ وہ کسی چیز پر کامل اقتدار رکھتا ہے اور جو چاہے کر سکتا ہے ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور ہر قسم کی تعریف اور تحمید کا بھی وہی مستحق ہے.پس انسان کا کام یہ ہے کہ وہ توکل کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین سے بھی کام لے اور اُن کے مطابق چلے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہاتھ دئیے ہیں پائوں دئیے ہیں دماغ دیا ہے اور دنیوی سامان بھی عطا فرمائے ہیں ایسی صورت میں اپنے آپ کو خدا کے سپر د کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ خدا نے جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اُس کو ہم استعمال کریں.پس توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو دیا ہے اس کو ہم زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور پھر جو کمی رہ جائے وہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیں.اور یقین رکھیں کہ خدا اس کمی کو آپ پورا کرے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر صحابہ ؓ کی ایک ترتیب قائم کی اُن کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا.انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دُعائیں کرنے لگ گئے.یہ نہیں کیا کہ صحابہ ؓ کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور آپ اکیلے وہاں بیٹھ کر دُعائیں کرنے لگ جاتے بلکہ پہلے آپ صحابہ ؓ کو لےکر مقامِ جنگ پر پہنچے.پھر اُن کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں فرمائیں اس کے بعد عرشہ پر بیٹھ گئے اور دُعائیں کرنی شروع کر دیں یہ توکل ہے جو اختیار کرنا چاہیے.ہر وہ شخص جو اُن سامانوں سے کام نہیں لیتا جو خدا تعالیٰ نے اس کو بخشے ہیں اور کہتا ہے کہ میں اپنا کام خدا پر چھوڑ تا ہوں وہ جھوٹا ہے وہ خدا سے تمسخر کرتا ہے اور ہر وہ شخص جو سامانوں سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب فلاں کام میں ہی کروںگا وہ بھی جھوٹا ہے کیونکہ وہ اپنے کاموں میں خدا تعالیٰ کا دخل تسلیم نہیں کرتا.کام آسان ہوں یا مشکل آخراُن کی کنجی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے ایک بات میں نے بار ہا سنی ہے.آپ ترکیہ کے سلطان عبدالحمید خان کا جو معزول ہو گئے تھے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبدالحمید خان کی ایک بات مجھے بڑی ہی پسند ہے.جب یونان سے جنگ کا سوال اُٹھا تو وزراء نے بہت سے عذرات پیش کر دئیے.دراصل سلطان عبدالحمید کا منشاء تھا کہ جنگ ہو مگر وزراء کا منشا ء نہیں تھا.اس لئے انہوں نے بہت سے عذرات پیش کئے.آخر انہوں نے کہا جنگ کے لئے یہ چیز بھی تیار ہے اور وہ چیز بھی تیار ہے لیکن کسی اہم چیز کا ذکر کرکے کہہ دیا کہ فلاں امر کا انتظام نہیں ہے.مثلاً یوں سمجھ لو کہ انہوں نے کہا ( اور غالباً یہی کہا ہوگا ) کہ تمام یورپین طاقتیں اس وقت اس بات پر متحد ہیں کہ
یونان کی امداد کریں اور اس کا ہمارے پا س کوئی علاج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب وزراء نے اپنا مشورہ پیش کیا اور مشکلات بتائیں اور کہا کہ فلاں چیز کا انتظام نہیں تو سلطان عبدالحمید نے جواب دیا کہ کوئی خانہ تو خداکے لئے بھی چھوڑنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سلطان عبدالحمید کے اس فقرہ سے بہت ہی لطف اٹھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس کی یہ بات بہت ہی پسند ہے.تو مومن کے لئے اپنی کوششوں میں سے ایک خانہ خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑنا ضروری ہوتا ہے.درحقیقت سچی بات یہ ہے کہ مومن کبھی بھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا بلکہ دراصل کوئی شخص بھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا جب وہ کہہ سکے کہ اب کوئی رستہ کمزوری کا باقی نہیں رہا.اور اگر کوئی انسان کہے کہ میں اپنا کام ایسا مکمل کر لوں کہ اس میں کوئی رخنہ اور سوراخ باقی نہ رہے تو یہ حماقت ہوگی.مگر اُسی طرح یہ بھی حماقت ہے کہ انسان اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے.اس وقت یوروپین قومیں پہلی حماقت میں مبتلا ہیں اور مسلمان دوسری حماقت میں.وہ ایک مکان بناتی ہیں اُس کو دروازے لگاتی ہیں.اُ س پر چھت ڈالتی ہیں اور اُسے پوری طرح مضبوط کر نے کے بعد کہہ دیتی ہیں کہ اب اسے آگ بھی نہیں لگ سکتی.اسے زلزلہ بھی نہیںگرا سکتا.اور مسلمان اپنے مکان کے لئے صرف آٹھ فٹ کی ایک دیوار کھڑی کر تا ہے نہ اس کی چاردیواری مکمل کرتا ہے نہ اُس پر چھت ڈالتا ہے.نہ دروازے اور کھڑکیاں لگاتا ہے اور اُسے چھوڑ کر چلا آتا ہے اور جب پوچھو تو کہہ دیتا ہے کہ بس خدا کے توکل پر میں نے ایک دیوار کھڑی کر دی ہے.مگر یہ توکل نہیں یہ سستی اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پہلے اپنے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر خدا تعالیٰ پر توکل کرو (جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب نمبر ۶۰حدیث نمبر ۲۵۱۷ ).یعنی جہاں تک تم کا م کر سکتے ہو کرو لیکن جب تمہارے ہاتھ شل ہو جائیں اور تمہارے تمام سامان ختم ہو جائیں.اس وقت تم سجدے میں گِر جائو اور اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو اور اُس پر توکل کرو.گویا جب تم ساری تدابیر اختیار کر لو اور تمہاری عقل کہتی ہو کہ اب کوئی چیز باقی نہیں رہی اور دنیا کے علوم کہتے ہوں کہ جتنے علاج ممکن تھے وہ سب ہو چکے.جب فراست کہتی ہو کہ اب کوئی رخنہ باقی نہیں رہا اور جب تجربہ کہتا ہو کہ اب کوئی سقم نہیں رہا.اُس وقت تم کہو کہ اس کام میں ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ ہے جسے خد ا پورا کرے گا.گویا ایک توکل علمی ہوتا ہے اور ایک عملی.عملی توکل وہ ہے جب تمہاری عقل اور دنیا کی عقل.اور تمہارا تجربہ اور دنیا کا تجربہ متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیتا ہو کہ اب کام مکمل ہو گیا.اس وقت تم کہو کہ یہ ممکن نہیں ضرور اس میں کوئی رخنہ ہے جسے خدا تعالیٰ پورا کرے گا.اور عملی توکل یہ ہے کہ جتنے ذرائع حصولِ مقصد کے خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں.تم ان سب ذرائع کو اختیار کرو.جتنی قربانی ممکن ہے وہ سب قربانی پیش کرو.لیکن اگر اُس کا م کی تکمیل کے لئے بعض
اور سامانوں کی بھی ضرورت ہو جن کا مہیا کرنا تمہاری استطاعت میں نہ ہو اور دنیا سمجھے کہ تم رہ گئے ہو.اُس وقت تمہارا دل مطمئن ہو اور مایوسی تمہارے قریب بھی نہ پھٹکے.تم اپنی قلیل پونجی خرچ کرتے جائو اور اپنے خون کا آخری قطرہ بہاتے جائو اور یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تم کو کبھی نہیں چھوڑےگا اور تم اُس کے فضل سے کامیاب ہو کر رہو گے.غرض ایک وہ توکل ہے جب تمہار ا علم اور تجربہ یہ کہتا ہو کہ اب کوئی رخنہ باقی نہیں رہا اور تم یہ کہو کہ رخنہ ہے اور ضرور ہے.اور ایک وہ توکل ہے جب تم سمجھو کہ کامیابی کی کوئی صورت نہیں اور رخنے ہی رخنے نظر آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ اس کام کو کر کے رہے گا.خواہ چھت بھی نہ رہے اور دیواریں بھی گِر پڑیں.غرض ایک توکل کمزوری کی حالت میں ہوتا ہے اور ایک توکل قوت کی حالت میں ہوتا ہے جو توکل قوت کی حالت میں ہوتا ہےاگر وہ صحیح ہو تو وہی اصل توکل ہے مگر دنیا میں عام طورپر جب لوگ کسی کام کو شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے ہی یہ کام کرنا ہے اور ہم اس کو کرکے رہیں گے.صرف سامان چاہیے اور جب سامانوں کے حصول کے لئے انہیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے تو ہمتیں ہارکر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام خدا پر چھوڑ تے ہیں.حالانکہ توکل ان دونوں حالتوں میں انسان کو الٹ راستے پر چلاتا ہے.جب کام مکمل ہو جائے تو توکّل کہتا ہے یہ مکمل نہیں.اورجب ہر قسم کی کوششوں اور تمام ذرائع کو استعمال کرنے کے بعد بھی کوئی کام مکمل نہ ہو.تو توکل کہتا ہے تم سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مکمل ہو جائے گا.گویا توکل ہماری عقل کے بالکل خلاف فتویٰ دیتا ہے.جب عقل کہتی ہے کہ سامان مکمل نہیں تباہی کے سامان بڑی سرعت سے ہو رہے ہیں تو توکّل کہتا ہے کہ تم خدا کی طرف دیکھو تمہارا خدا محی بھی ہے اور جب عقل کہتی ہے کہ اب تباہی کی کوئی صورت نہیں کامیابی کے سب سامان ہمیں حاصل ہیں تو توکّل کہتا ہے کہ تم ڈرو کیونکہ خد ا صرف محي نہیں بلکہ مُمیت بھی ہے.گویا عقل جب سب کام کر لیتی ہے تو توکّل کہتا ہے خدا تعالیٰ کی صفتِ مُمیت کو نہ بھولو.اور جب ہمارے سب سامان رہ جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب موت اور تباہی آگئی اور مایوسی ہی مایو سی چاروں طرف دکھائی دیتی ہے تو توکّل کہتا ہے کیا خدا محي نہیں ؟ پس توکّل کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں تک خدا نے تم کو طاقتیں دی ہیں اُن کو پورا استعمال کرو اور اس کے بعد صوفی سے زیادہ خدا پر اعتبار کرو اور کہو کہ جو کمی رہ گئی ہے وہ خد ا آپ پوری کرے گا.اور پھر خواہ انتہائی مایوسی کا عالم ہو تم ڈٹ کر بیٹھ جائو اور کہو کہ ہمارا خدا ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور میں حضرت ابو بکر ؓ سے فرمایا کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ( التوبۃ :۴۰) ہمارا کام یہ تھا کہ دشمن سے بچ کر نکل آتے سو نکل آئے.اَب دشمن ہمارے سر پر آپہنچاہے تو یہ خدا کا کام ہے کہ وہ ہمیں بچائے.سو ڈرنے کی کوئی بات نہیں.خدا ہمارے
ساتھ ہے.یہ وہ توکّل ہے جس کی اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے یعنی پورے سامان استعمال کرو اور اُس کے بعد خدا تعالیٰ پر کا مل یقین رکھو اور چاہے کچھ ہوجائے یہ سمجھ لو کہ خدا ہمیں نہیں چھوڑےگا مگر ہمارے ہاں بد قسمتی سے یہ طریق رائج ہے کہ جب ہمارے کسی کام کا صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم اسے اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اور کہتے ہیں ہم نے تو محنت کی تھی لیکن اُس کا نتیجہ نکالنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں تھا.اگر اُس نے نہیں نکالا تو اُس میں ہمارا کیا اختیار ہے.اس طرح ہم اپنی کمزوریو ں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کا نام اتنا غلط استعمال کیا ہے کہ انہوں نے دین کی کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی کسی زمانہ میں جب مسلمان کہتے تھے کہ اس گھر میں خدا ہی خدا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس گھر میں خدا تعالیٰ کی برکت پائی جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی حکومت اس گھر میں ہے لیکن آج کل جب لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں اللہ ہی اللہ ہے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس گھر میں کوئی چیز نہیں.گویا جن الفاظ کو خدا تعالیٰ کی حکومت اور اس کی طاقت اور قوت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا انہیں اب نفی اور صفر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے.یہی معاملہ ہم نے توکّل سے کیا ہے.ہم ایک کام کرتے ہیں اور جب اس کے لئے غلط طریق اختیار کرتے ہیں.اُس کے لئے کمزور محنت کرتے ہیں یا اُس سے قطعی غفلت کا معاملہ کرتے ہیں اور لازمًا اُس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے تو اس کا الزام خدا تعالیٰ کو دے دیتے ہیں.اور کہتے ہیں اس کا موجب خدا ہے.ہم نے تو اپنا پورا زور لگا دیا تھا اور مقدور بھر محنت بھی کی تھی.لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارا بیڑہ غرق کر دیا.گویا نعوذ باللہ ہر اچھا کام ہم سے سرزد ہوتا ہے اور بیڑہ غرق کرنا خدا تعالیٰ کے ذمے ہے.اور اگر وہ بیڑہ غرق کرنےوالا نہیں بلکہ بیڑہ تیرانے والا ہے تو بیڑہ غرق ہم کرتے ہیں اور اپنی نادانیوں اور غفلتوں پر پردہ ڈالنےکے لئے اُسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.اگر واقعہ میں ہم محنت کریں اور قربانی سے کام لیں اور خدا تعالیٰ پر توکّل بھی رکھیں تو ممکن نہیں کہ اس کا اعلیٰ نتیجہ پیدا نہ ہو.اور اگر ہمارے کسی کام کا اعلیٰ نتیجہ نہیں نکلتا تو ہمارا بیڑہ خدا تعالیٰ نے غرق نہیں کیا بلکہ ہم نے خود کیا ہے.اگر مسلمان اس نکتہ کو سمجھ لیں اور اُن کے اعمال کے جو اچھے نتائج نکلیں وہ انہیں اپنی طرف نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور ناکامی کو اپنی طرف منسوب کریں تو ان کی کایا پلٹ جائے.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ (الشعراء:۸۱) کہ جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا دیتا ہے یعنی بیماری میری طرف سے آتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے.اس میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر نیک بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا کرو.اور ہر بری بات اپنی طرف منسوب کیا کرو.جب تک تمہارے اندر
ابراہیم ؑ والا ایمان پیدا نہیں ہوتا اور جب تک تمہارے اندر وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ والا احساس پیدا نہیں ہوتا.جب تک تم یہ نہیں سمجھتے کہ جب بھی کوئی کمزوری آئے گی وہ ہماری طرف سے ہوگی.اور جب ہم میں قوت اور طاقت پیدا ہوگی تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی اُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے.لیکن جب تم اپنے اندر یہ تغیر پیدا کر لو گے تو تمہارے اند ر کام کا ایک زبر دست میلان پیدا ہو جائےگا اور تمہیں کامیابی ہی کامیابی حاصل ہو تی چلی جائےگی.اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف اِذَا مَرِضْتُ کہہ دیتے تو پھر مایوسی ہی مایوسی ہوتی اوراگر فَھُوَ یَشْفِیْنِ کہہ دیتے تو اُمید ہی امید ہوتی اور یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں ،جب تک کسی کا ایمان خوف اور رجاء کے درمیان نہ ہو.اُس کے کسی کام کا صحیح نتیجہ نہیں نکلتا.اسی لئے آپ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اٹھنے کا موقع بھی دیا ہے اور گرِنے کا موقع بھی دیا ہے.اگر میں پوری محنت نہیں کروںگا تو میں گِروں گا اور اگر میں پوری محنت کروںگا اور اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ پر توکّل کروںگا تو میں جیتوں گا.پس آپ نے یہ دونوں باتیں بیان کرکے واضح کر دیا کہ انسان کے لئے محنت اور توکّل دونوں چیزیں ضروری ہیں.اگر ہم محنت نہیں کریں گے تو ہمارے کام خراب ہوںگے.اور اگر ہم توکّل نہیںکریں گے تب بھی ہم کامیاب نہیں ہوںگے.گویا خدا تعالیٰ انسان کی محنت کی تکمیل کرتا ہے.اُس کا قائم مقام نہیں ہوتا.اگر وہ انسان کی محنت کا قائم مقام ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات کہ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ غلط ہوتی.مگر آپ نےاِذَا مَرِضْتُ کہہ کر بتا یا ہے کہ اگر میں بیمار ہو نے والے افعال کروں تو خدا تعالیٰ مجھے بیمار ہونے سے نہیں روکتا.اورھُوَ یَشْفِیْنِ کہہ کر بتا یا کہ میں خود بخود کامل شفا حاصل نہیں کر سکتا.کامل شفا دینے والی خدا تعالیٰ کی ہی ذات ہے.اور یہی ترقی اور کامیابی کی کلید ہے.جب تک کوئی قوم اس گُر کو نہیں سمجھتی وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتی.یورپ اور امریکہ کیوں ترقی کر رہے ہیں وہ اسی لئے ترقی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس اصول کا ایک حصہ پورا کر دیا ہے.اور ہم ناکام اس لئے ہو رہے ہیں کہ ہم نے اس کے دونوں حصوں کو گِرا دیا ہے.اگر کسی زمیندار کے پاس ایک بیل ہو تو وہ ہل چلالیتا ہے.لیکن دونوں بیل ہی نہ ہوں تو ہل نہیں چلا سکتا.اسی طرح اگر کسی کے پاس ایک ہی گھوڑا ہو تو فٹن نہ سہی وہ ایکہ چلا سکتا ہے لیکن جس کے پاس ایک گھوڑا بھی نہ ہو تو وہ ایکہ بھی نہیں چلا سکتا.اسی طرح یورپ نے توکّل کرنا بیشک چھوڑ دیا ہے لیکن چونکہ اُس نے محنت والا حصہ پورا کر دیا ہے اس لئے وہ ترقی کر رہا ہے اور ہم نے دونوں حصوں کو ترک کر دیا ہے اس لئے ہم ناکام رہتے ہیں.پھر جب ہم کوئی کام کرتے ہیں اور اُس میں ناکام ہو تے ہیں تو اس ناکامی کو ہم اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو محنت کی تھی مگر خدا تعالیٰ نے کامیاب نہیں کیا.اور اگر کچھ مل جاتا ہے تو ہم اس کامیابی کو اپنی طرف منسوب کر لیتے
ہیں.جیسے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض بیوقوف انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب انہیں کوئی ترقی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہمارے علم اور طاقت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے.اگر ہم علم اور سمجھ والے نہ ہوتے تو یہ ترقی کس طرح حاصل ہوتی ( زمر ع ۵) اور جب کوئی ناکامی ہوتی ہے تو اُسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ( سورۂ فجر ع ۱ ) گویا وہ ہر عیب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر تے ہیں اور ہر خوبی اپنی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اگر وہ اپنا رویّہ بدل لیں تو اُن میں کام کی رغبت اور محنت کی عادت اور چستی پیدا ہو جائے گی اور انہیں صحیح توکّل نصیب ہو جائےگا اور جسے صحیح توکّل نصیب ہو جاتا ہے اُس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں رہتا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہےالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِیعنی تمہار ا خدا وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ وقتوں میں پیدا کیا.اور پھر وہ عرش پر قرار فرما ہوا.عرش جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کوئی مادی شۓ نہیں ہے.اور نہ ہی وہ کوئی روحانی شۓ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ پھر وہ عرش پر قائم ہوگیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ ( الشوری :۱۲) کا مصداق ہے یعنی اس کے سوا جو کچھ ہے وہ اس کی مانند نہیں بلکہ اور قسم کا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا کسی مادی بلکہ رُوحانی شئے پر قائم ہونا بھی اُس کی شان کے خلاف ہے.بلکہ قائم ہونے کا لفظ بھی اُس کی نسبت تمثیلی طور پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے.نہ کہ عام معنوں کے لحاظ سے.پس جبکہ مادی یا روحانی اشیاء پر اس کا قرار پانا ممکن نہیں تو عرش بھی کوئی مادی یا روحانی شۓ نہیں ہو سکتا.بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی ہی شۓ ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق رکھتی ہو اور چونکہ ذات ِ باری سے تعلق رکھنے والی شۓ صفاتِ الٰہیہ ہی ہیں.اس لئے عرش سے مراد صفات ِ الٰہیہ کا کوئی خاص ظہور ہی ہو سکتا ہے نہ کہ کچھ اور.اور جب قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف کسی تجسم کی نسبت کو جائز ہی قرار نہیں دیتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کی طرف یہ امر منسوب کر ے کہ وہ ایک مجسّم عرش پر بیٹھا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو طرح ظاہر ہوتی ہیں.ایک تنزیہی طور پر جس پرعرش کا لفظ دلالت کرتا ہے اور ایک تشبیہی طور پر جس پر خدا تعالیٰ کی ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کا تفصیلی ظہور دلالت کرتا ہے.تنزیہی صفات خدا تعالیٰ کی اصل صفات ہیں اور تشبیہی صفات اُن سے بطور تنزل جاری ہوتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ تشبیہی صفات سے ناواقف آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق کئی شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں.مثلاً رب کی صفت پر یہ شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ محتاج ہے کہ بندوں کو اُس نے پیدا کیا ہے اور اُن کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ اس کی
عبادت کر سکیں.یہ اعتراض آج کل کے نو تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے اور پرانے ہندو فلسفہ دانوں کی طرف سے بہت اٹھایا جاتا ہے.اسی طرح صفت رب کے گِرد گھومنے والی دوسر ی صفات پر بھی لوگوں کو شبہات پیدا ہو تے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان تشبیہی صفات سے جو جلوہ انسان کو نظر آتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی اصل شان کو ظاہر کرنے والا نہیں ہوتا.بلکہ انسان کی قابلیت کے مطابق وہ صفات ڈھل جاتی ہیں.جس طرح ایک کمزور آنکھ والا جو تیز روشنی کو نہیں دیکھ سکتا رنگ دار شیشے کی عینک لگا لیتا ہے اور اُس رنگ دار شیشے کے لگانے سے اُسے روشنی بہت ہلکی نظر آنے لگتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفاتِ تنزیہیہ کو تشبیہیہ کے رنگ دار شیشہ میں سے انسان کو دکھایا جاتا ہے تاکہ اُس کی آنکھیں اُس کو دیکھ سکیں.اور صفات الٰہیہ کے جلوہ کی شدت اُس کی روحانی بینائی کو ضائع نہ کر دے.مگر جس طرح عقلمند انسان روشنی کی قوت کا اندازہ اُس روشنی پر نہیں کرتا جو رنگ دار شیشہ میں سے نظر آتی ہے.اسی طرح سمجھ دار انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کے اس ظہور پر معترض نہیں ہو سکتا جو انسانی کمزوری کو مدّنظر رکھتے ہوئے تنزل اور تشبیہہ کی صورت اختیار کرتا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے ظہور کی ضرورت کیا ہے کیونکہ ایسا ظہور یقیناً انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے.رنگ دار عینک گو روشنی کو کمزور کرکے دکھاتی ہے مگر بہر حال روشنی کے فوائد سے انسان کو متمتع کرتی ہے اور اُس کی ضرورت یا اس کے فائدہ کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اگر اسے پھینک دیا جائے تو یقیناً یا تو آنکھیں جاتی رہیں گی اور یا آنکھوں کو بند رکھ کر انسان روشنی کے فوائد سے محروم ہو جائےگا.غرض انسان کو اللہ تعالیٰ کے جلوہ سے آشنا کرنےکے لئے اور صفاتِ الٰہیہ سے اس کی قابلیت کے مطابق اُسے واقف کرانےکے لئے اُس کی آنکھ پر تشبیہہ کی عینک لگا دی جاتی ہے جس میں سے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان بھی حاصل کرتا ہے اور اس کی روحانی آنکھ اس صدمہ سے بھی محفوظ ہو جاتی ہے جو اس جلوہ کی وجہ سے ہوتا ہے جو آنکھ کی بینائی کو پراگندہ تو کر دیتا ہے لیکن اسے کوئی علم نہیں بخشتا ہاں چونکہ تشبیہہ کی عینک سے انسان کو حقیقت کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی تھیں اس لئے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ ( الشوری :۱۲) فرما کر اللہ تعالیٰ کی اصل شان کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اب وہ رحمٰن وغیرہ کے الفاظ سے جو تم کو دھوکا لگ سکتا ہے اُس سے بچنا چاہیے کیونکہ وہ خالی رب نہیں بلکہ وہ رَبُّ الْعَرْشِ ہے.اُس کی ربوبیت وہ ہے جس کا ایک نقطہ مخلوق سے ملتا ہے اور دوسرا نقطہ عرش سے وابستہ ہے پس اُس کی ربو بیت کو انسانی ربوبیت پر قیاس نہیں کرنا چاہیے اور ماں باپ کی طرح احتیاج اور ضرورت کی بحثوں میں اُس کی ربوبیت کو نہیں الجھا نا چاہیے.جو بات تم کو دیکھنی چاہیے وہ صرف یہ ہے کہ آیا واقعہ میں اس عالم کا کوئی رب ہے یا نہیں.اور اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ ہے تو پھر اُس کی کُنہہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ عرش سے آنے والی حقیقت کو فرش کا
انسان کس طرح معلوم کر سکتا ہے.جب ایک سچائی ثابت ہو جائے تو پھر اُس کا مان لینا ہی انسان کا کام ہے.اُس کا یہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا مطالبہ کرے کہ مجھے یہ بھی سمجھا یا جائے کہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت کہاں سے پیدا ہو ئی اور کس طرح پیدا ہوئی ؟ غرض عرش خدا تعالیٰ کی صفاتِ تنزیہہ کا نام ہے جو ازلی اور غیر متبدل ہیں اور جن میں کوئی مخلوق اس سے ایک ذرہ بھربھی مشابہت نہیں رکھتی سوائے اس کے کہ صفاتِ تشبیہہ کے ذریعہ سے ان کا علم حاصل کیا جائے اگر صفاتِ تشبیہہ نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کے کامل الصفات ہونے کا کسی قسم کا ادراک بھی خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہوتا ہمیں حاصل نہ ہو سکتا.عرش کی اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ اس سے مراد صفاتِ تنزیہہ کا مجموعی نظام ہےجس کے لئے صفاتِ تشبیہہ بطور حامل کے ہوتی ہیں ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ کے یہ معنے ہوئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق مکمل کر لی تو اس کی صفاتِ تنز یہہ کامل طور پرظاہر ہونے لگ گئیں اور چونکہ صفات تنزیہیہ صفاتِ تشبیہیہ کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اس لئے ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِکا یہ مطلب ہو اکہ عرش یعنی صفاتِ تنزیہیہ کے مرکز کے تابع جس قدر صفاتِ تشبیہیہ ہیں وہ سب اپنے اپنے کام میں لگ گئیں.اس میں روحا نی طور پر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے ذریعہ چونکہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کر دی گئی ہے اس لئے اب خدا بھی عرش پر قرار فرما ہو گیا ہے یعنی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کسی ایک صفت کے ذریعہ نہیں کرےگا بلکہ اُس کی وہ تمام صفات جو صفات تنزیہیہ کے تابع ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں کام کرنے لگیں گی.کیونکہ اُس نے اپنے خد ا پر سچا تو کّل کیا ہے اور اُس کا پیش کر دہ خدا زندہ ہے جس پر کسی زمانہ میں بھی موت وارد نہیں ہو سکتی.اس لئے محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ہر زمانہ میں تائید ہوتی چلی جائےگی اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی سچائی کو ظاہر کرتی رہیں گی.پھر فرماتا ہے اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا وہ رحمٰن خدا ہے جس نے اپنی صفتِ رحمانیت کے ماتحت تمہیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا اور تمہارے لئے اُس نے زمین و آسمان اور سورج اور چاند وغیرہ پیدا کر دئے اور اگر ان تمام نعمتوں کے باوجود اس کی صفتِ رحمٰن کے متعلق تمہارے دلوں میں پھر بھی کوئی سوال پیدا ہو تو اُس سے پوچھو جو خبیر ہے.یہفَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا اپنی بناوٹ کے لحاظ سے ایسا ہی فقرہ ہے جیسے عربی زبان میں کہتے ہیں کہ لَقِیْتُ بِزَیْدٍ اَسَدًا میں زید کی شکل میں ایک شیر سے ملا یعنی زید اپنی شجاعت اور دلیری کے لحاظ سے ایک شیر تھا.یا کہتے ہیں لَقِیْتُ بِزَیْدِ الْبَحْرَ میں نے زید کی شکل میں ایک سمندر پایا.یعنی زید اپنے جودوکر م میں ایک سمندر تھا.اسی طرح
فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا میں ہٖ کی ضمیر لفظ رحمٰن کی طرف جاتی ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تو رحمٰن سے سوال کر وہ رحمٰن جو بڑا خبیر ہے اور تمام حقائق کو جاننے والا ہے یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے اس وسیع نظا مِ کائنات کو دیکھ کر بھی جو ساری دنیا میں جاری ہے اور خدا تعالیٰ کے رحمٰن ہونے پر شاہد ہے یہ بات نہیں سمجھتے کہ جس طرح اُس نے مادی دنیا میں اپنی صفتِ رحمانیت کا اتنا بڑ اکرشمہ دکھا یا ہے اسی طرح اُس نے روحانی دنیا میں بھی اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے کوئی انتظام جاری کیا ہوگا.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تم پر منکشف نہیں ہوتی تو پھر تم اُسی خدا سے پوچھو جو خبیر ہے یعنی اس کے دروازہ کو کھٹکھٹا ئو اور اس کے حضور گڑ گڑائو اور دُعائیں کرو.وہ تمہارے حالِ زار پر رحم کرےگا اور تم پر اپنے فضل سے اصل حقیقت کا کسی نہ کسی رنگ میں انکشاف فرما دے گا لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جگہفَسْـَٔلْ بِهٖ میں ب عن کے معنوں میں استعمال ہوئی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ (المعارج:۲) میں ب عن کے معنوں میں استعمال کی گئی ہے اورفَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا کے وہ یہ معنے لیتے ہیں کہ فَسْـَٔلْ عَنْہُ خَبِيْرًا.یعنی اس کے بارہ میں خبیر سے دریافت کر.انہوں نے کہا ہے کہ چونکہ اس سے پہلےخَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اور إِسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ کا ذکر آتا ہے اور زمین و آسمان کی پیدائش اور استواءعلی العرش کی تفاصیل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اس لئے فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا کے یہ معنے ہیں کہ ان امور کی تفاصیل کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے ہی دریافت کرو اس کے سوا اِن باتوں کو اَور کوئی نہیں جانتا.لیکن بعض نے کہا ہے کہ اس جگہ خبیرسے ایسا شخص مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اُس کی صفات کا پورا پورا علم رکھنے والا ہو اور انہوں نے اس سے جبرائیل اور اہل کتاب اور علماء وغیرہ مراد لئے ہیں.میرے نزدیک اگر عن کے معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس جگہ خبیر سے کوئی اور شخص مراد لیا جائے تو پھر خبیر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں.جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی صفاتِ کاملہ کا وحی کے ذریعہ سے علم دیا تھا.چونکہ کفارِ مکہ کلام الٰہی کے منکر تھے اور کلامِ الٰہی وہ نعمت ہے جو بغیر کسی عمل کے ملتی ہے اور صفتِ رحمٰن کے تابع ہے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کو ان معنوں میں رحمٰن تسلیم نہیں کرتے تھے جن معنوں میں اسلام اسےرحمٰن قرار دیتا ہے اور چونکہ صفتِ رحمٰن اُن کے عقائد کے ردّ میں استعمال کی جاتی تھی اور انہیں بار بار کہا جاتا تھا کہ تمہیں خدا نے پتھروں کا مالک بنایا تھا.تمہیں خدا نے کائنات ِ عالم کے ذرّہ ذرّہ پر حکمران بنایا تھا اور یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے محض اپنی صفتِ رحمانیت کے ماتحت تمہارے لئے مہیا کیں مگر تم نے انہی پتھر وں سے بنے ہوئے بتوں کے آگے اپنے سر جھکانے شروع کر دئیے اور خدا تعالیٰ کے رحمٰن ہونے کا انکار کر دیا اس لئے طبعی طور پر اُن کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ رحمٰن کیا چیز ہے.سو اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے ان عظیم الشان احسانات سے
آنکھیں بند کر رہے ہو جو صفتِ رحمانیت کے ماتحت اُس نے ساری دنیا پر کئے ہیں اور کلامِ الٰہی کی ضرورت بھی تسلیم نہیں کرتے جو صفتِ رحمانیت کے ماتحت نازل ہوا ہے تو اُس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے حضور جھکو اور اُس سے دعائیں کرو کہ وہ تم پراسلام اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت روشن کر دے.اور توحید کی عظمت تم پر ظاہر کر دے.اور اگر تم خلوصِ دل سے اُس کی طرف رجوع کرو گے اور دعائوں سے اُس کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرو گے تو خدا تعالیٰ کسی نہ کسی ذریعہ سے تمہارے دل کے تاریک گوشوں کو بھی اپنے نور سے منور کر دےگااور تم پر اُس روحانی سورج کی حقیقت کو واضح کر دےگا جو اُس نے اس مادی دنیا کی تاریکیوں کو دُور کرنےکے لئے روشن کیا ہے.اور دوسرا علاج یہ ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائو اور اُنہی سے اپنی عقدہ کشائی چاہو.اگرتم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا وجود خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے ظہور کا ایک زندہ ثبوت ہے اور آپ کی پیدائش سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لےکر دعویٰ ٔ نبوت تک اور پھر دعویٰ نبوت سے لے کر آپ کے یوم وصال تک خدا تعالیٰ نے آپ پر اس قدر احسانات کئے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر ایک شدید سے شدید مخالف کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے رحمٰن ہونے کا اقرار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا.قرآن کریم نے اپنے ان بیشمار انعامات کا ایک مقام پر چند نہایت ہی مختصر الفاظ میں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى.وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى.وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰى ( الضحٰی :۷.۸)یعنی اے محمد رسول اللہ کیا خدا نے تجھے یتیم پا کر اپنے زیر سایہ جگہ نہیں دی اور کیا ایسا نہیں ہو اکہ جب اُس نے تجھے خدا تعالیٰ کی محبت اور اپنی قوم کی اصلاح کے غم میں سر گرداں پایا تو اُس نے تجھے صحیح راستہ بتا دیا.اور جب اُس نے تجھے کثیر العیال پایا تو اپنے فضل سے تجھے غنی کر دیا.ان آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اجمالی رنگ میں نقشہ کھینچا گیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ کے والد محترم فوت ہوگئے اور آپ پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہوگئے (السیرة الحلبیةباب وفاة والدہ صلی اللہ علیہ وسلم).مگر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور آپ کے پیدا ہوتے ہی آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے دل میںا ُس نے آپ کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کا اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونا برداشت نہیں کر سکتے تھے اور بڑے ناز اور محبت کے ساتھ آپ کی پرورش فرماتے رہے (السیرۃ الحلبیۃ باب وفاة امہ صلی اللہ علیہ وسلم والسیرة النبویة لابن ہشام وفاة آمنة وحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع جدہ).اسی طرح جب آپ کے لئے دودھ پلانے والی دایہ کی تلاش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت آگے
بڑھی اور وہ حلیمہ کو آپ کے دروازہ پر کھینچ لائی.حلیمہ ایک غریب عورت تھی جسے مکہ کا کوئی خاندان اپنا بچہ سپرد کرنےکے لئے تیار نہ تھا.مگر اللہ تعالیٰ نےاُس کی غربت اور بےبسی کو دیکھ کر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا لعل بے بہا اُس کی گود میں ڈال دیا.اور پھر اس کے دل میں بھی آپ کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ اگر آپ ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوجاتے تو وہ اپنے بچوں کو ڈانٹتی کہ تم اسے کیوں چھوڑ آئے ہو.پھر عبدالمطلب فوت ہوئے تو خدا تعالیٰ کی رحمانیت نے ابو طالب جیسا چچا آپ کو دے دیا جس نے انتہائی تکلیف دہ گھڑیوں میں بھی آپ کا ساتھ دیا او ر قوم کی دھمکیوں کے باوجود آپ کو نہ چھوڑا.جوان ہوئے تو خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت نے حضرت خدیجہ ؓ کے دل میں آپ کی نیکیوں کو دیکھ کر آپ کی محبت پیدا کر دی اور انہوں نے خود آپ کو شادی کا پیغام بھجوایا (السیرة النبویۃ لابن ہشام حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة ؓ).دوستوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت نے ابو بکر ؓ جیسے وفا شعار دوست آپ کو مہیا کر دئیے.پھر جب قوم کی گِری ہوئی حالت کو دیکھ کر آپ کا دل بیتاب ہوا اور حرا میں آپ نے اپنی سجدہ گاہ کو آنسوئوں سے تر کر دیا تو خدائے رحمٰن کی نگاہِ انتخاب نے آپ کو چُنا اور اُس نے دنیا کی ڈوبتی نائو کو بچانےکے لئے آپ کوآسمانی کشتی بان مقرر کردیا.اسی طرح جب آپ کو قومی امور کی سرانجام دہی کے لئے مال کی ضرورت محسوس ہوئی تو خدا ئے رحمٰن نے حضرت خدیجہ ؓ کے دل میں تحریک کی اور انہوں نے اپنی تمام جائیداد آپ کے سپر د فرما دی اور پھر روحانی اور جسمانی طور پر خدا تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحمانیت کے ماتحت آپ کے دائرہ فیوض کو اتنا وسیع کیا کہ لاکھوں لوگوں نے آپ کے چشمۂ فیض سے اپنی روحانی پیا س بجھا ئی اور لاکھوں لوگ آپ کی غلامی کی بر کت سے شتربانی سے جہاں بانی تک جا پہنچے.اسی طرح قرآن کریم کا نزول جو ایک دائمی شریعت ہے خود اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کے رحمٰن ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے.کیونکہ کلام ِ الٰہی بندوں کی کسی نیکی کے بدلہ میں نازل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے نتیجہ میں بطور احسان نازل ہوتا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمٰن :۲.۳) یعنی قرآن سکھلانے والا خدا رحمانیت کی صفت رکھتا ہے.اگر وہ رحمٰن نہ ہوتا تو قرآن جیسی نعمت ایک جسمانی بندے پر کبھی نازل نہ ہوتی.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے ظہور کا ایک زندہ گواہ ہے اور آپؐ پر نازل ہونے والا کلام بھی خدا تعالیٰ کے رحمٰن ہونے پر شاہد ہے.پس اگر خدائے رحمٰن کی رحمانیت کے بارہ میں کسی کے دل میں کوئی سوال پیدا ہو تو اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ پر نازل ہونے والے کلام پر تدبّر کرنا چاہیے.اگر وہ غور کرےگا تو جس طرح کائنات عالم کا ایک ایک ذرّہ خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت پر
شاہد ہے.اسی طرح اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ورق اور آپؐ پر نازل ہونےوالے کلام کی ایک ایک آیت خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا ایک زندہ گواہ نظر آئےگی.پھر امتِ محمدیہ کے وہ تمام صلحاء اور اولیاء اور ابدال اور اقطاب اور مجدّدین و مصلحین وغیرہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ تعالیٰ کی بیشمار برکات اور اُس کے تفضلات کا مشاہدہ کیا اور جو اپنے اپنے دائرہ میں ایک چھوٹے محمدؐ بن گئے.اُن کا اپنا وجود بھی خدا تعالیٰ کے رحمٰن ہونےکا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کیونکہ انہوں نے جو کچھ پایا اپنے زور بازو سے نہیں پایا بلکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اُس بحرِ نا پیدا کنار سے پایا جسے خدا نے اس پیاسی دنیا کی سیرابی کے لئے محض اپنے فضل سے جاری کیا ہے.اسی حقیقت کو بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے اس شعر میں نہایت لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے کہ ؎ ایں چشمہ ٔ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطرۂ زبحرِ کمالِ محمد ؐ است (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۹۷ اشتہارنمبر ۲۰ ) یعنی یہ چشمہ ٔ فیض جس سے میں لاکھوں بندگانِ خدا کو سیراب کر رہا ہوں یہ میرا چشمہ نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے سمندر کا ایک حقیر قطرہ ہے جسے میں پیاسی دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں.پس وہ روحانی وجود جن کے ذریعہ دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا میں ہی شامل ہیں.کیونکہ اُن کو دیکھ کر بھی خدا تعالیٰ کی رحمانیت کو بھولنے والے اُس کے رحمٰن ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ١ۗ اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کے سامنے سجدہ میں گِر جائو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اس کے اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًاؒؑ۰۰۶۱ آگے سجدہ کریں جس (کے آگے سجدہ کرنے) کا تو حکم دیتا ہے ؟ اور یہ بات ان کو نفرت میں اور بھی بڑھا دیتی ہے.حل لغات.نُفُوْرًا.نُفُوْرًا نَفَرَ کا مصدر ہے اور نَفَرَتِ الدَّآبَّۃُ کے معنے ہیں جَزِعَتْ وَتَبَاعَدَتْ گھبرا کر اور ڈر کر جانور دُور بھاگ گیا.اور جب نَفَرَ الْقَوْمُ کہیں تو معنے ہوں گے لوگ بکھر گئے اور جب نَفَرَ الْقَوْمُ عَنْ کَذَا کا فقرہ استعمال کریں تواُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اَعْرَضُوْا وَصَدُّوْا.لوگوں نے کسی بات سے
اعراض کیا.اور وہ اُس کو قبول کرنے سے رُک گئے.( اقرب ) تفسیر.اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے رحمٰن اُس کی ایک مشہور صفت ہے جس کا قرآن کریم میں بار بار ذکر آتا ہے اور رحمٰن اُس ہستی کو کہا جاتا ہے جو بلا مبادلہ اور ہماری کوشش اور سعی کے بغیر ہم پر احسان کرتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ نے سورج چاند اور تمام نظام شمسی و قمری وغیرہ پیدا کئے ہیں جن کی پیدائش میں ہمارے کسی عمل کا دخل نہیں.اسی طرح شریعت کے ذریعے ہمیں جو ہدایت میسر آتی ہے یہ بھی صفتِ رحمانیت سے ہی تعلق رکھتی ہے.ہمارے کسی عمل کے بدلہ میں ہمیں نہیں ملی بلکہ شریعت آتی ہی اُس وقت ہے جب دنیا بدعمل ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کو چھوڑ بیٹھتی ہے.رحمٰن کے ان معنوں کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ ( ۱) اہل عرب نے کبھی بھی سوائے اللہ کے رحمٰن کا لفظ بطور صفت بغیر قید کے کسی پر استعمال نہیں کیا.دوسروںکے لئے اوّل تو اس لفظ کا استعمال ہی نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کے بعد جس سے صاف ظاہر ہے کہ ضد سے ایسا کیا گیا ہے.مگر اُس وقت بھی مطلقًا اس لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا.بلکہ اضافت کے ذریعہ سے اُسے مقید کر دیا گیا ہے.جیسا کہ مسیلمہ کذاب کے ماننے والے اُسے رحمٰنِ یمامہ کہتے تھے.مگر ان لوگوں کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ خالی رحمٰن کا لفظ بغیر اضافت کے اس کے لئے استعمال کریں.یا رحمٰن کا لفظ اس کے لئے استعمال کریں جس کے معنے ہیں سب مخلوق کا رحمٰن.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عربی زبان اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دے سکتی ( لسان العرب).عربی زبان کی یہ خصوصیت بتاتی ہے کہ اس لفظ میں ایک ایسی رحمت کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ظاہر نہیں ہوسکتی اور وہ قسم بلا مبادلہ رحم کرنا ہی ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا باقی مخلوق کا رحم یا ماضی کا احسان اتارنےکے لئے ہوتا ہے یا حاضر یا مستقبل کی امیدوں پر مبنی ہوتا ہے.اور اگر احسان کرنے والے کی نیت بدلہ کی نہ بھی ہو تب بھی بدلہ اُسے ضرور مل جاتا ہے.چنانچہ انسان جس قدر رحم کرتے ہیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا.یا تو اُس میں رضاء الٰہی مدّنظر ہوتی ہے اور اس میں بھی بدلہ کی صورت موجود ہوتی ہے اور یا پھر تمدن کے قیام کا خیا ل غالب ہوتا ہے اور وہ بھی بدلہ کے خیال پر مشتمل ہے.اور اگر یہ خیال نہ بھی ہو تب بھی انسان اپنی نیکی کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں حاصل کر لیتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان خالص احسان ہوتا ہے.
(۲) عربی زبان کے ماہروں کے کلام میں بھی ان معنوں کی طرف اشارات ملتے ہیں.چنانچہ بو علی فارسی جو امامِ نحو کہلاتے ہیں اور عربی زبان کے بہت بڑے ماہر گذرے ہیں وہ کہتے ہیں.اَلرَّحْمٰنُ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوَاعِ الرَّحْمَۃِ یَخْتَصُّ بِہِ اللّٰہ تَعَالیٰ وَالرَّحِیْمُ اِنَّمَا ھُوَ فِیْ جِھَۃِ الْمُؤ مِنِیْنَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَکَانَ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَحِیْمًا ( فتح البیان جلد اوّل تفسیر سورۃ الفاتحۃ، بسم اللہ الرحمن الرحیم) یعنی رحمٰن عام ہے اور سب قسم کی رحمتیں اُس میں شامل ہیں.لیکن رحیم کی صفت کا ظہور مومنوں کے بار ے میں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مومنوں کے بارہ میں رحیم ہے.(۳)احادیث سے بھی ان معنوں کو صداقت کا ثبوت ملتا ہے.چنانچہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ؐ فرماتے تھے.اَنَا الرَّحْمٰنُ خَلَقْتُ الرَّحْم وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِنْ اِسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہٗ ( ترمذی ابواب البر و الصلۃ باب ماجا ء فی قطیعۃ الرحم) یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں رحمٰن ہوں میں نے رحم پیدا کیا ہے اور اپنے نام سے اس کا نام نکالا ہے پس جو رحم کے تعلقات کو جوڑے وہ مجھ سے تعلقات کو جوڑتا ہے اور جو اُسے قطع کر ے وہ میرے تعلق کو قطع کرتا ہے.اس حدیث سے بھی رحمٰن کے معنوں کی وضاحت ہوتی ہے کیونکہ رحمی تعلقات سب سے زیادہ رحمانیت سے مشابہت رکھتے ہیں.جیسے ماں کی اپنے بچہ سے محبت بالکل طبعی ہوتی ہے اور گو وہ بعض رنگ میں بچہ سے فائدہ بھی اُٹھاتی ہے مگرا س کے بچہ سے سلوک میں کسی بدلہ کا کوئی احساس نہیں ہوتا.پس ماں اور بچہ کے تعلقات کا رحمانیت سے نکلا ہوا ہونا بتا تا ہے کہ رحمانیت بلا مبادلہ سلوک کا نام ہے.(۴) پھر قواعد ِ زبان سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رحمٰن فعلان کے وزن پر ہے اور عربی زبان میں جو لفظ اس وزن پر آتے ہیں وہ پھیلائو.وسعت اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں.اور رَحِیْمٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر ہے.اور فعیل کا لفظ بار بار وقوع پر دلالت کرتا ہے.پس رحمٰن کے معنے ہیں.نہایت ہی وسیع رحمت والا جس کی رحمت میں لاتعداد افراد شامل ہیں اور جس کی رحمت سے دنیا کی کوئی چیز باہر نہیں.اُس کی رحمت صرف عمل کرنے والے کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتی.بلکہ اس کا تعلق سب مخلوقات سے ہے.مومن، کافر ،جاندار ، غیر جاندار سب اس کی رحمانیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.رحمانیت کی صفت کی اہمیت اُس سے ظاہر ہے کہ انسان جب بھی کسی نئے مقام پر پہنچتا ہے اُسے بعض نئی چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے بلکہ انسان کے سوا دوسری تمام چیزوں کی ترقی بھی تدریجی ہے اور ہر مرحلہ پر بعض نئے سامانوں کی احتیاج ہوتی ہے.پہاڑوں کے سلسلہ کو ہی دیکھ لو کہ وہ یکدم اونچے نہیں ہوتے
بلکہ آہستہ آہستہ بلند ہو تے جاتے ہیں.پہلے زمین پر صرف نشیب و فراز نظر آتا ہے پھر معمولی پتھر آتے ہیں اس کے بعد چھوٹے چھوٹے ٹیلے.پھر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ان کے بعد ان سے اونچی پہاڑیاں اور پھر پہاڑ آجاتے ہیں.یہی حال سبزیوں اور ترکاریوں کا ہے.اگر دیکھا جائے تو اُن کی ترقی میں بھی کئی مدارج نظر آئیں گے.پہلے بیج بویا جاتا ہے پھر وہ پھوٹتا ہے اور روئیدگی ظاہر ہوتی ہے.اس کے بعد وہ جڑ پکڑتا ہے اور بڑھتا ہے.حتّٰی کہ کونپل نکل آتی ہے.گویا اس کے بڑھنے کے بھی مختلف مدارج ہیں.غرض تمام چیزوں کے مختلف مدارج ہوتے ہیں اور ہر درجے پر اس چیز کو نئے سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے.انسان کی بھی یہی حالت ہے کہ وہ ترقی کے ایک درجہ کو حاصل کر لیتا ہے تو اُسے اُس سے اگلے مقام کے لئے نئے سامانوں کی حاجت ہوتی ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے نرم غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اُسے ماں کی چھاتیوں سے ملتی ہے.جب ذرا طاقت پکڑ جاتا ہے اور ٹھوس غذا کا محتاج ہوتا ہے تو اس کے دانت نکل آتے ہیں.پھر اور بڑا ہوتا ہے اور نسل کے پیدا کرنے کے قابل ہوتا ہے تو اُس کے لئے خدا تعالیٰ نے جوڑا مہیا کیا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح آنکھ کھلتی ہے تو سورج موجود ہوتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ تمام چیزوں کو دیکھ سکے.پھر آنکھ کے لئے ضروری تھا کہ خوبصورت اشیاء ہوں تاکہ اُس میں طراوت پیدا ہو.اس کے لئے اُس نے حسین مناظر.خوبصورت انسان.رنگ رنگ کے پھول مختلف قسم کی سبزیاں ، عجیب و غریب درخت ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں اور سینکڑوں چرند اور پرند پیدا کر دئے.پھر اُس نے کان دئیے تو ساتھ ہی آوازیں بھی پیدا کردیں.مگر ان آوازوں میں بھی بے شمار فرق رکھ دئیے.اگر سب کی آواز ایک جیسی ہوتی تو امتیاز کرنا مشکل ہوتا.مگر گھوڑے اور گدھے کی آوازسن کر انسان فوراً امتیاز کر لیتا ہے کہ گھوڑا ہنہنا رہا ہے یا گدھا رینگتا ہے.پھر ہر انسان کی آواز میں کچھ نہ کچھ فرق رکھ دیا جس سے ہر شخص دوسرے کی آواز سے ہی اُسے پہچان لیتا ہے.اسی طرح اُس نے چھونے کی طاقت دی تو ساتھ ہی چھونےکے لئے چیزیں بھی پیدا کردیں.پھر ان چیزوں میں سے بھی کسی کو نرم بنا یا اور کسی کو سخت.کوئی پھسلنی بنائی اور کوئی کھردری.پھر نرمی اور سختی میں ہزاروں قسم کے فرق رکھ دئیے.ہم ریشم پر ہاتھ رکھتے ہیں تو اُس میں اور قسم کی ملائمت ہوتی ہے.ربڑ پر ہاتھ رکھتے ہیں تو اُس میں اور قسم کی ملائمت ہوتی ہے اور ہماری چھونے کی طاقت دونوں میں فوراً ایک امتیاز قائم کر لیتی ہے.غرض جس چیز پر بھی نگاہ ڈالی جائے اُس کی صرف ایک کڑی معلوم نہیں ہوتی بلکہ کڑیوں کا ایک لمبا سلسلہ نظر آتا ہے.اور ہر کڑی کے مکمل ہونے پر ایک نئی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لئے پہلے سے سامان تیار ہوتا ہے.اور اَلرَّحْمٰن کے معنوں میں یہی مفہوم شامل ہے کہ وہ ہر چیز کی ترقی کے سلسلہ میں ہر کڑی پر جن سامانوں
کی ضرورت ہوتی ہے پہلے سے مہیا کر دیتا ہے.ہر نئی منزل پر جو ضرورتیں ہوتی ہیں خواہ وہ مادیات کی قسم کی ہوں یا روحانیات کی قسم کی.خواہ علمی ہوں سب کے لئے ضرورت کے مطابق پہلے سے سامان تیار کر دیتا ہے.سائینس کے ذریعہ اب یہ ایک نئی بات معلو م ہوئی ہے کہ دماغ ایک کوٹھڑی کی طرح ہے جس میں تمام باتیں جو انسان اپنے حواس سے معلوم کرتا ہے جمع رہتی ہیں.یہ کوٹھڑیاں یعنی سیلز اگر کسی وقت ختم ہو جائیں تو دماغ میں اَور زیادتی ہو جاتی ہے.یہ نئی تحقیق نہایت لطیف مثال رحمانیت کی مہیا کرتی ہے.کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کی ہر منزل پر آئندہ ترقی کے لئے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے اور ممکن نہیں کہ صحیح ضرورت ہو اور سامان موجود نہ ہو.بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ رَحْمٰن کا لفظ معرب ہے یعنی کسی دوسری زبان سے عربی میں منتقل کیا گیا ہے اور مبرد جیسے ادیب نے بھی اس غلطی کا ارتکاب کیا ہے.چنانچہ ابن الانباری نے زاھر میں مبّرد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رحمٰن عبرانی لفظ ہے عربی نہیں (ابن کثیر سورۃ الفاتحۃ).مگر یہ قول بالبداہت غلط ہے کیونکہ رحمٰن عبرانی کا لفظ نہیں بلکہ عربی میں قبل از بعثتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے شعراء کے کلام میں بھی اس لفظ کا استعمال پایا جاتا تھا.چنانچہ سلامت بن جندب الطہوری کا شعر ہے؎ عَجِلْتُمْ عَلَیْنَا اِذْ عَجِلْنَا عَلَیْکُمْ وَمَا یَشَإِ الرَّحْمٰنُ یَعْقِدْ وَ یُطْلِقِ یعنی جب ہم نے تمہاری طرف جلدی کی تو تم نے ہماری طرف جلدی کی اور جو کچھ رحمٰن چاہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے.( تفسیر ابن کثیر ) اصل بات یہ ہے کہ لفظ رحمٰن کی نسبت یہ شبہ کہ یہ لفظ عربی نہیں قرآن کریم کی ہی اس آیت کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے کہ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ١ۗ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا.یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ رحمٰن کو ن ہے ؟ کیا تم جسے حکم دوہم اُسے سجدہ کرنے لگ جائیں گے ؟ اور یہ بات انہیں نفرت میں اور بھی بڑھا دیتی ہے.اس آیت سے بعض لوگوں نے دھوکا کھایا ہے کہ شاید لفظ رحمٰن عربی نہیں.اس لئے عرب کے لوگ رحمٰن کا لفظ نہ سمجھ سکے.اس غلط فہمی کو بخاری کی اس روایت سے مزید تقویت ہوئی کہ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھنے کا حکم دیا تو کفار کے نمائندوں نے کہا کہ لَا نَعْرِفُ الرَّحْمٰنَ وَلَا الرَّحِیْمَ.یعنی ہم نہ رحمٰن کو پہچانتے ہیں اور نہ رحیم کو.پس یہ نہ لکھو لیکن اس حدیث کے الفاظ ہی بتاتے ہیں کہ کفار کو رحمٰن کا لفظ جاننے سے انکار نہ تھا.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رحیم کو بھی نہیں جانتے.حالانکہ
رَحِیْم کا لفظ تو سب کے نزدیک عربی ہے.پس رحیم کے انکار سے صاف ظاہر ہے کہ اُن کو ان لفظوں کے عربی ہونے سے انکار نہیں تھا بلکہ اس امر پر اعتراض تھا کہ معاہدہ کو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے کیوں شروع کیا گیا ہے.عرب لوگ صرف بِسْمِ اللّٰہِ کہتے تھےاوررَحْمٰنِ رَحِیْم کی زیادتی کو اسلامی بدعت سمجھتے تھے.اس وجہ سے انہوں نے ان دونوں لفظوں کے اضافہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنا چاہا کہ اس طرح ہم پر اسلا م کو ہماری غفلت میں مسلّط کر رہے ہیں.اب رہا یہ سوال کہ سورۂ فرقان کی اس آیت میں جو اِن لوگوں نے رحمٰن کے نہ جاننے کا ذکر کیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امر قرآن کریم سے ثابت ہے کہ عرب لوگ اس لفظ سے واقف تھے.چنانچہ سورۂ زخرف میں کفار کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰھُمْ ( الزخرف :۲۱ ) اگر رحمٰن چاہتا تو ہم بت پرستی نہ کرتے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے.اور اس سے واقف تھے.پس اس کی موجودگی میں سورۂ فرقان کی اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ گو کفاررحمٰن لفظ سے آگاہ تھے مگر بوجہ آسمانی علم سے عدم واقفیت کے وہ اس کے باریک معنوں سے ناواقف تھے جو اسلام نے پیش کئے ہیں.یعنی بلا مبادلہ رحم کرنے والا اور چونکہ یہ معنے اُن کے عقائد کے خلاف تھے اس لئے وہ چڑ کر کہہ دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ رحمٰن کیا ہوتا ہے.اوراس سے اُن کی یہ مراد نہیں ہوتی تھی کہ ہم اس لفظ کو نہیں جانتے بلکہ یہ مراد ہوتی تھی کہ ہم ان معنوں کے مطابق کسی کو رحمٰن ماننےکے لئے تیار نہیں ہیں.غرض کفار کا اعتراض لفظ رحمٰن پر نہیں تھا بلکہ اُس اصطلاح پر تھا جو قرآن کریم نے رحمٰن کے ذریعہ پیش کی تھی.جو عربوں میں رائج نہ تھی.جیسے صلوٰۃ عربی زبان کا لفظ ہے مگر اصطلاحی صلوٰۃ قرآن کریم نے ہی پیش کی ہے.اس کے متعلق بھی کفار کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ صلوٰۃ کیا ہوتی ہے.پس ان لوگوں کا اعتراض درحقیقت اصطلاح پر تھا اور انہوں نے یہ کہا کہ اس کا جو مطلب قرآن پیش کرتا ہے اُس کو ہم نہیں مانتے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ ( ابراہیم :۵) یعنی ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں ہی وحی دے کر بھیجا ہے.مگر سورۂ ہود میں آتا ہے.یَا شُعَیْبُ مَا نَفَقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ ( ہود :۹۲) یعنی کفار نے کہا کہ اے شعیب ؓ ہماری سمجھ میں تیری اکثر باتیں نہیں آتیں.اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت شعیب ؓ کسی ایسی زبان میں باتیں کرتے تھے جسے وہ لوگ نہیں جانتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو دینی باتیں وہ بیان کرتے تھے انہیں وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے.اسی طرح رحمٰن کا لفظ تو وہ بولا کرتے تھے مگر قرآن کریم نے رحمٰن اس ہستی کو قرار دیا ہے جو بغیر محنت کے انعام دیتی ہے اور یہ بات وہ لوگ نہیں
مانتے تھے کیونکہ اس کے ماننے سے اُن کا شرک باطل ہو جاتا تھا.اب بھی عیسائی رحمٰن کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ اس کے جو معنے قرآن کریم نے پیش کئے ہیں اُن سے عیسائیت کا کفارہ ردّ ہو جاتا ہے.اور ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوریوں کو بخش دیتا ہے اور یہ کفارہ کے خلاف ہے.لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ عیسائی رحمٰن کا لفظ نہیں جانتے بلکہ یہ ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے قائل نہیں جو قرآن نے پیش کی ہے.چنانچہ وہ اپنی کتابوں سے پہلے کبھی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نہیں لکھتے بلکہ بِسْمِ اللّٰہِ الرحیم یا بسم اللہ الہادی الجواد وغیرہ الفاظ لکھتے ہیں.تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِيْهَا بر کت والی ہے وہ ہستی جس نے آسمان میں ستاروں کے ٹھہرنے کے مقام بنائے ہیں اور اُس میں چمکتا ہوا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِيْرًا۰۰۶۲وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ چراغ بنایا ہے اور نُور دینے والا چاند بنایا ہے.وہی ہے جس نے رات کو اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا۰۰۶۳ آنے والا بنایا ہے اُس شخص کے (فائدہ کے) لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکرگزار بندہ بننا چاہے.حلّ لُغَات.بُرُوْجُ.البُرُوْجُ اَلْبُرْجُ کی جمع ہے اور اَلْبُرْجُ کے معنے ہیں اَلرُّکْنُ وَالْحِصْنُ قلعہ ،نیز محل کو بُرج کہتے ہیں ( اقرب ) اسی طرح آسمان میں ستاروں کی منازل مختصہ کو بھی بروج کہتے ہیں.( مفردات) صاحب بحرِ محیط مشہور لُغوی ابو صالح کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ بُرج کے معنے بڑے ستارہ کے بھی ہوتے ہیں (تفسیر بحر محیط زیر آیت تبارک الذی...).اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ اُس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے بنائے ہیں.اَلسِّرَاجُ.اَلسِّرَاجُ دِئیے کو کہتے ہیں جو رات کو جلایا جاتا ہے.نیز سورج کو سراج کہتے ہیں کیونکہ وہ دن کو روشن کرتا ہے.( اقرب ) خِلْفَۃٌ.خِلْفَۃٌ.اَلْخِلْفَۃُ یُقَالُ فِیْ اَنْ یُخْلِفَ کُلَّ وَاحِدٍ الْاٰخَرَ.یعنی خِلْفَۃٌ کے معنے ایک دوسرے کے
پیچھے آنے کے ہیں ( مفردات ) نیز عرب کہتے ہیں.لَہٗ وَلَدَانِ خِلْفَانِ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اَحَدُھُمَا طَوِیْلٌ وَالْاٰخَرُ قَصِیْرٌ اَوْ اَحَدُھُمَا اَبْیَضُ وَ الْاٰخَرُ اَسْوَدُ.یعنی اس کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک لمبے قد کا اور دوسرا چھوٹے قد کا ہے یا یہ کہ ایک سفید ہے اور دوسرا سیاہ.پس خِلْفَۃً کے معنے ہوںگے ( ۱) ایک دوسرے کے بعد آنے والے ( ۲) بڑا چھوٹا یا سفید و سیاہ.تفسیر.فرماتا ہے تم کہتے ہو رحمٰن کیا چیز ہے رحمٰن تو وہ ہے جس نے آسمانوں میں ستاروں کے ٹھہرنے کے مقام بنائے ہیں اور اُس میں چمکتا ہوا سورج اور روشن چاند بنایا ہے.اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ان لوگوں کے فائدہ کے لئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیں یا اللہ تعالیٰ کے شکر گذار بندے بننا چاہیں آگے پیچھے آنے والا بنایا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو اس امر کی طرف توجہ دالائی ہے کہ جس خدا نے انسانی جسم کی پرورش کے لئے سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور پانی اور آگ اور خاک اور ہزاروں قسم کی غذائیں تیار کی ہیں یہ کس طرح ممکن ہے کہ اُس نے انسان کی ہدایت کے لئے کوئی آسمانی ہدایت نامہ نہ اتارا ہو.کیونکہ یہ تو معمولی عقل کے آدمی کا بھی کام نہیں کہ ادنیٰ ضرورت کو پورا کرے اور اعلیٰ ضرورتوں کو نظر انداز کر دے.پھر اللہ تعالیٰ کب ایسا فعل کر سکتا ہے.جب اس کی رحمانیت نے انسانی آنکھ کے لئے روشنی اور کان کے لئے آواز اور ناک کے لئے خوشبو اور زبان کے لئے مختلف ذائقے پیدا کئے ہیں تو یقیناً اُس نے عقل کے لئے بھی ایک ہدایت نامہ ارسال کیا ہوگا تاکہ انسانی عقل حیرت اور شبہ میں ہی عمر نہ گذار دے بلکہ یقین اور اطمینان کے مقام پر کھڑی ہو کر زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کر سکے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دنیوی زندگی کے لئے سورج اور چاند کی ضرورت ہے اسی طرح روحانی زندگی کے لئے ایک روحانی سورج اور چاند کی ضرورت ہے.اگر وہ نہ ہوں تو انسان پر روحانی موت آجائے اور وہ باوجود کھانے اور پینے کے بھوکا اور پیا سا ہو اور باوجود بصارت کے اندھا ہو اور باوجود قوتِ شنوائی کے بہرہ ہو اور باوجود زندہ ہونے کے اس پر ایک موت طاری ہو.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااسْتَجِیْبُوْ الِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ( الانفال :۲۵)یعنی اے مومنو! خدا اور رسول کی آواز کو سنو اور قبول کرو.جبکہ وہ تم کو زندہ کرنےکے لئے بُلائے.گویا باوجود اس کے کہ صحابہ ؓ کرام زندہ تھے اور کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے تھے پھر بھی خدا نے اُن کو حکم دیا کہ جب تم کو زندہ کرنےکے لئے بلایا جائے تو تم سرتابی نہ کرو.جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک جسمانی اور ایک روحانی.جسمانی موت تو وہ ہے جس میں
انسان کی روح جسم خاکی سے جدا ہو جاتی ہے.اور روحانی موت وہ ہے جب کہ انسان خدا تعالیٰ سے تعلق توڑ بیٹھتا ہے.پس جس طرح اس جسمانی زندگی کو قائم رکھنےکے لئے کنویں کھو دے جاتے ہیں اور نہریں نکالی جاتی ہیں اور مختلف قسم کے اناج بوئے جاتے ہیں اور باغ لگائے جاتے ہیں.ویسے ہی روحانی زندگی کو قائم رکھنےکے لئے ضروری ہے کہ روحانی پانی اور روحانی غذا سے اس کو قائم رکھا جائے.اور جیسا کہ ایک کسان اپنی کھیتی کو پکانےکے لئے اس کو پانی دیتا ہے اور سورج اور چاند کی روشنی سے اُس کو فائدہ پہنچاتا ہے ویسے ہی انسانوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی کے پانی سے اپنے دل کی کھیتی کو سیراب کریں اور خدا تعالیٰ کے جلوے اور اس کے نبیوں کی روشنی کے پرتو سے اُس کو پکائیں تاکہ اُن کی روحانی زندگی قائم رہ سکے.غرض انسان کو ظاہر ی سورج اور چاند کی مثال دے کر اُس باطنی انتظام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جس سے اُس کی روحانی زندگی قائم رہتی ہے.اسی طرح رات اور دن کے آگے پیچھے آنے کی مثال سے بھی یہی سکھا یا گیا ہے کہ جیسے ظاہر ی سورج ایک وقت چڑھتا ہے اور دن کی روشنی تمام دنیا میں پھیلا دیتا اور تاریکی کو نور سے بدل دیتا ہے اور تمام پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کردیتا ہے اور اس کے چڑھنے کے بعد بُری اور بھلی اور پاک اور ناپاک چیزوں میں فرق کرنا آسان ہو جاتا ہے اور انسان اطمینانِ قلب کے ساتھ اپنے دنیاوی کاموں میں مشغول ہو جاتاہے اور اپنی آئندہ زندگی کے لئے سامان مہیا کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور حتی الوسع اُ س کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح جب روحانی آفتاب اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور قلو ب کی سر زمین پر روشنی پھیلا دیتا ہے اور بدیوں کی ظلمت کو نیکیوں کے نور سے بدل دیتا ہے اور وہ گناہ جو انسان میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں اُن کو ظاہر کر دیتا ہے اور طرح طرح کی بُرائیاں اور خُبث اور گند اور بیماریاں جو انسان کے روحانی وجود کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہیں اُن سے اُس کو پاک کرتا ہے او ر شفا دیتا ہے تواُس وقت اُس میں بُرے بھلے کے پرکھنے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اپنے خلوص دل اور صحت ِ نیّت کے ساتھ اپنی روحانی زندگی کی بہتری کے لئے کوشاں ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کر لیتا ہے.پس وہ کام جو کہ مادی سورج اس زمین پر طلوع ہو کر کرتا ہے اُس سے بڑھ کر روحانی سورج سے ظہور میں آتا ہے کیونکہ یہ تو صرف اس چند روز ہ زندگی کے لئے سامان مہیا کرتا ہے اور وہ دائمی زندگی کے لئے توشہ جمع کر دیتا ہے اور انسان کو خدا سے ملا دیتا ہے.اسی طرح جب رات پڑتی ہے تو تمام دنیا میں اندھیر ا چھا جاتا ہے اور اُس وقت انسان اپنے سب دنیوی کا روبار کو چھوڑ کر آرام کرنےکے لئے لیٹ جاتا ہے اور ایسی غفلت کی نیند اُس پر طاری ہو جاتی ہے کہ اس کو دنیاو مافیہا کی کچھ بھی خبر نہیں رہتی.اسی طرح جب روحانی زندگی پر رات کا تاریک زمانہ آتا ہے تو اکثر انسان دین کو چھوڑ کر دُنیا کی غفلت میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اور وہ لوگ جو
کچھ کام کرنا چاہتے ہیں وہ مامور من اللہ سے استفادہ کرنے والے لوگوں سے جو کہ چاند اور ستاروں کی مانند ہوتے ہیں فائدہ اُٹھاتے اور اس روشنی کے منتظر رہتے ہیں جو کہ رات کے بعد پیدا ہو نے والی ہوتی ہے اور یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا کے مطابق دعائوں اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ان آیات میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اس ظاہر ی نظام کو دیکھ کر اُس روحانی نظام کی طرف توجہ کرے جس سے دائمی زندگی وابستہ ہے.چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا.یعنی یہ باتیں اس لئے بیان کی گئی ہیں تاکہ انسان اُن سے نصیحت حاصل کرے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اُس نے صرف جسمانی طورپر ہی اُس کی دست گیری نہیں کی بلکہ روحانی طور پر بھی اُس کے لئے امن و آسائش کے سامان مہیا کئے ہیں.لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا یا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ ہوتے ہیںجن کی نیکی کا پہلو اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ شیطانی راہوں پر چلتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں انتباہ کیا جائے اور برے افعال سے بچنے کی نصیحت کی جائے اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو گو اس روشنی اور نُور سے محروم ہوتے ہیں جو مذہب کی اتباع میں انسان کو حاصل ہوتا ہے.مگر اُن کے اندر جذبۂ شکر گذاری پایا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نعماء اور اُس کی عطا کردہ قوتوں کا غلط استعمال نہیں کرتے بلکہ اُن سے خود بھی فائدہ اٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.گویا ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو نیکی اور اخلاق سے حصہ نہیں رکھتے اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو نیکی اور اخلاق سے حصہ رکھتے ہیں اور چونکہ لیل و نہار کے آنے جانے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ کبھی خدا کے نبی اور رسول دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اور کبھی تاریکی اور ظلمت کا دَور دَورہ ہوتا ہے.اس لئے لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا.میں بتا یاکہ روحانی رات اوردن کے یکے بعد دیگر ے آنے جانے میں کیا حکمت ہے.ہم کیوں رات کے بعد دن لاتے ہیں اور کیوں روحانی تاریکی کے بعد آفتابِ ہدایت روشن کرتے ہیں.فرماتا ہے ہماری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ گنہگار ہوں.اُن کو اس سلسلہ رسالت کے ذریعہ نیک بنا دیا جائے.اور جو لوگ فطری نیکی کے مقام پر کھڑے ہوں انہیں خدا کا کلام اور الہام اس سے بھی اعلیٰ مقام یعنی مقامِ شکر کی طرف لے جائے.گویا لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا.میں دو قسم کے مدارج رکھنے والے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے.ایک تو اُن کا جو نصیحت کی بات سن کر اپنے نقائص دور کر لیتے ہیں اور دوسرے ان کا جو صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ ترقی کرتے کرتے اللہ تعالیٰ کے احسانات اور
اُس کے انعامات کو دیکھ کر ہر وقت اُس کے ثناء خواں اور اُس کے انعامات کے شکر گذار رہتے ہیں.لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا میں ہر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے.پس عیسائیوں کا یہ نظریہ کہ انسان فطرتی طور پر گنہگار ہے غلط ہے.اگر پیدائشی لحاظ سے ہر انسان ناپاک ہو تا تو بدوں کو نیکی کی طرف اور نیکوں کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقام کی طرف نہ لایا جا سکتا.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظامِ عالم کا قیام تو ایک ایسی چیز ہے جس سے کفار بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں پھر لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا.میں صرف دوگروہوں کی تخصیص کیوں کی گئی ہے.سو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ یعنی اگر تُو نے نہ آنا ہوتا تو میں زمین و آسمان بھی پیدا نہ کرتا.اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں یہ کفارکے لئے نہیں بلکہ اصل مقصود وہ مومن ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہیں.کفار صرف ضمنی طور پر ان اشیاء سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ہم کسی دوست کی دعوت کریں تو نوکر کو بھی اس دعوت سے حصہ مل جاتا ہے.اسی طرح یہ نظامِ ارضی اور سماوی سب مومنوںکے لئے بنایا گیا ہے مگر چونکہ بنی نوع انسان میں سے ہی کچھ کافر بن جاتے ہیں اس لئے توابع کے طور پر وہ بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں.ورنہ ان کی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا( الفرقان :۴۵)وہ لوگ چوپائیوں کی طرح ہیں بلکہ چوپائیوں سے بھی بدتر ہیں.پس وہ اگر فائدہ اٹھاتے ہیں تو اُس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے آقا گھوڑے پر کہیں جاتا ہے تو اُس کا گھوڑا بھی چارہ کھا لیتا ہے.ورنہ زمین و آسمان کی اصل پیدائش اسی کے لئے ہے جو اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَاَوْاَرَادَ شُکُوْرًا.کا مصداق ہے.وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا اور رحمٰن کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں (یعنی تکبر کے ساتھ نہیں چلتے) اور جب خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۰۰۶۴وَ الَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ جاہل لوگ اُن سے مخاطب ہوتے ہیں (یعنی جہالت کی باتیں کرتے ہیں) تو وہ( لڑتے نہیں بلکہ )کہتے ہیں کہ ہم تو
لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا۰۰۶۵وَ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ تمہارے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو اپنے رب کے لئے راتیں سجدوں میں کھڑے ہو کر عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ۰۰۶۶اِنَّهَا گذار دیتے ہیں.اور وہ ( یعنی رحمٰن کے بندے) کہتے ہیں.اے ہمارے رب ہم سے جہنم کا عذاب ٹلا دے سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۰۰۶۷ اُس کا عذاب ایک بہت بڑی تباہی ہے.وہ (دوزخ) عارضی ٹھکانہ کے طورپر بھی بری ہے اور مستقل ٹھکانہ کے طورپر بھی (بری ہے).حلّ لُغَات.ھَوْنًا.ھَوْنًا ھَانَ کا مصدر ہے اور ھَانَ عَلَیْہِ الْاَمْرُ کے معنے ہیں لَانَ وَ سَھُلَ کسی کے لئے کوئی امر آسان ہو گیا اور اَلْھَوْنُ کے معنے ہیں اَلسَّکِیْنَۃُ وَالْوَقَارُ.سکینت اور وقار.( اقرب) یَبِیْتُوْنَ.یَبِیْتُوْنَ یَبِیْتُ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور بَاتَ ( یَبِیْتُ)کے معنے ہیں أَدْرَکَہٗ اللَّیْلُ نَامَ اَوْلَمْ یَنَمْ.اُس پر رات آگئی اور اُس نے وہ وقت گذا را خواہ سوتے ہوئے خواہ جاگتے ہوئے.وَقَالَ الْفَرَّاءُ سَھَرَ اللَّیْلَ کُلَّہٗ فِیْ طَا عَۃٍ أَوْمَعْصِیَۃٍ.فرّاء جو عربی لغت کے ماہر گذرے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بَاتَ کے معنے ہیں اُس نے ساری رات خدا تعالیٰ کی اطاعت یا معصیت میں جاگ کر گذاری وَمِنْہُ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اور قرآن مجید کی آیت یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ میں یہی معنے مراد ہیں کہ مومن خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات جاگ کر گذارتے ہیں ( اقرب) غَرَامًا.غرامًا.اَلْغَرَامُ.اَلشَّرُّ الدَّائِمُ یعنی غرام کے معنے دائمی تکلیف اور مصیبت کے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں اَلْھَلَاکُ.ہلاکت.اَلْعَذَابُ.دُکھ تکلیف ( اقرب) تفسیر.ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے عِبَادُ الرَّحْمٰن کی تعریف بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ ان میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں.یوں تو بہت لوگ ہیں جو بڑے شوق سے اپنے لڑکوں کا نام عبدالرحمٰن رکھتے ہیں اور بہت ہیں کہ جب اُن سے پوچھا جائے کہ کون ہو تو بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ صرف نام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں یا حقیقت اورا صلیت کے لحاظ سے بھی اُس کے بندے ہیں.آخر اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے کے لحاظ سے تو تما م کافر اور منافق بھی خدا تعالیٰ کے بندے ہی ہیں.مگر پھر اُنہی
بندوں کو خدا تعالیٰ نے اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ( الاعراف :۱۸۰) قرار دے کر چوپائیوں سے بھی بدتر قرار دیا ہے.انہی بندوں میں سے بعض کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ بندر اور سُؤ ر بن گئے ( المائدۃ ع ۹) پھر انہی بندوں میں سے بعض کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ شَرُّ الْبَرِیَّۃ یعنی تما م مخلوق سے بدتر ہیں (البَیِّنَۃ ع ۱) اس سے معلوم ہوا کہ صرف نام کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا بندہ کہلانا کسی انسان کے لئے باعث فخر نہیں ہو سکتا.اگر صرف بندہ کہلانے سے کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بن سکتاتو خدا تعالیٰ نفسِ مطمٔنہ رکھنے والے کو کیوں فرماتا کہ فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۳۰.۳۱)یعنی آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا.آ اور میری جنت میں داخل ہو جا.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عباد میں داخل ہونا ایک بہت بلند مقام ہے جو نفسِ مطمٔنہ رکھنے والوں کو حاصل ہوتا ہے.ورنہ جہاں تک اُن کی پیدائش کا سوال ہے وہ پہلے بھی اللہ تعالیٰ ہی کے بندے تھے اور خدا تعالیٰ ہی اُن کا رازق اور مالک تھا.پھر فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ جو فرمایا تو معلوم ہوا کہ خدا کا بندہ ہونا دو رنگ میں ہوتا ہے.ایک لحاظ سے تو تمام انسان خدا تعالیٰ ہی کے بندے ہیں لیکن ایک لحاظ سے بعض اُس کے بند ے ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے.جو لوگ اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں وہ تواُ س کے بندے کہلاتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ خدا کے بندے نہیں کہلاتے بلکہ شیطان کے یا اپنے نفس کے بندے ہوتے ہیں.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے کچھ صفات بیان فرمائی ہیں اور بتا یا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نفس بندے کن صفات کے حامل ہوتے ہیں.مگر اس جگہ بجائے عِبَادُ اللّٰہِ کہنے کے اللہ تعالیٰ نے عِبَادُ الرَّحْمٰن کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کیونکہ کفار کی طرف سے بار بار یہ سوال ہوتا تھا کہ رحمٰن کو ن ہے ؟ سو اللہ تعالیٰ نے پہلے تو انہیں اپنی صفتِ رحمانیت کے ثبوت میں زمین و آسمان اور سورج اور چاند اور ستاروں وغیرہ کی طرف توجہ دلائی اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا وجود اُن کے سامنے پیش کیا جو صفتِ رحمانیت کے ایک کامل مظہر تھے.اب اللہ تعالیٰ انہیں بتا تا ہے کہ اگر یہ شواہد بھی تمہاری آنکھیں کھولنےکے لئے کافی نہیں اور تمہیں خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا جلوہ نظر نہیں آتا تو تم خدا تعالیٰ کے اُن بندوں کو دیکھ لو جو اس کی رحمانیت کے چلتے پھرتے مجسّمہ ہیں.یعنی جس طرح سورج زمین کو اپنی شعاعوں سے منور کرتا اور ہر قسم کی تاریکیوں کو دُور کرتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں وہ آپ کے فیضِ صحبت کی برکت سے دنیا کو ہر قسم کی علمی اور عقلی روشنی بہم پہنچا رہے ہیں اور انہیں اخلاق اور مذہب اور روحانیت کے میدان میں ہلاکت اور بر بادی کے گڑھوں سے بچاتے ہوئے ترقی اور کامیابی کی راہیں دکھا رہے ہیں اور جس طرح چاند سورج سے نور اخذ کرتا اور زمین پر اپنی فرحت بخش روشنی پھیلا دیتا ہے.اسی طرح یہ لوگ خدا تعالیٰ سے وحی و الہام کانور پا کر دنیا کو اپنی اُن
برکات سے متمتع کر رہے ہیں جن کا منبع انسانی عقل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تازہ الہام ہے.اور جس طرح رات لوگوں کے لئے آرام اور سکون کا موجب ہوتی ہے اسی طرح یہ لوگ غریبوں کے ہمدرد.مسکینوں کے ملجاء اور بیوائوں اوریتامیٰ کے ماوٰی ہیں اور دنیا سے ہر قسم کے جھگڑوں اور فسادات کو مٹا کر ایک عالمگیر امن کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور جس طرح آسمان سے اس مادی دُنیا پر بارشیں نازل ہوتی اور پیاسی زمینیں سیراب ہو جاتی ہیں.اسی طرح یہ لوگ علم و عرفان کی ایک بارش ہیں جس سے دنیا میں ایک نیا انقلاب پیدا ہو رہا ہے اور جس طرح بارش سے پھل اور پھول اور میوے اور طرح طرح کی غذائیں پیدا ہوتی ہیں.اسی طرح اُن کے ذریعہ نئے نئے علوم دنیا میں ایجاد ہو رہے ہیں.اور جس طرح زمین ہر ایک کے لئے فرش کا کام دیتی ہے.اسی طرح ان کا دامنِ فیض بھی دنیا کی ہر قوم کے لئے وسیع ہے اور ہر مشرقی اور مغربی اور عربی اور عجمی کے لئے اُ ن کی محبت بھری گود کھلی ہے.غرض یہ لوگ خدا ئے رحمٰن کی صفتِ رحمانیت کا ایک زندہ ثبوت ہیں.یہ پانی کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف بہتے اور ہوائوں کی طرح اس کی طرف اُڑتے اور مشکلات اور حوادث میں زمین کی طرح ثابت قدم رہتے اور آگ کی طرح ہر قسم کی شیطنت کو جلاتے اور پہاڑوں کی طرح دنیا کی حفاظت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں پس اُن کو دیکھ کر بھی خدائے رحمٰن کی رحمانیت انسان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ان عباد الرحمٰن کی علامات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلی علامت یہ بیان فرماتا ہے کہ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وہ زمین پر بڑے سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں.اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وہ اپنی دنیوی زندگی بڑے اعتدال کے ساتھ بسر کرتے ہیں.یعنی نہ تو بے جاغضب اور تیزی سے کام لے کر لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ سُستی اور جمود کا شکار ہو کر اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی سے غافل ہو جاتے ہیں بلکہ جس طرح آسمان کا وجود زمینی قوتوں کے نشوونماکے لئے ضروری ہوتا ہے اسی طرح اُن کا وجود لوگوں کی ترقی اور اُن کی فلاح و بہبود کا موجب بنتا ہے اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب نہیں بنتا.وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا اور جب جاہل لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی حرکات سے جوش دلائیں اور کوئی جھگڑا اور فساد کھڑا کریں تو وہ طیش میں آکر ناجائز اور اوچھے ہتھیار وں پر نہیں اُترآتے بلکہ ایسی حالت میں بھی اُن کی سلامتی ہی چاہتے ہیں یعنی ایسے ذرائع استعمال میں لاتے ہیں جن سے اُن کی اصلاح ہو جائے.اور دنیا میں امن اور سلامتی کا دَور دَورہ ہو.مگر ان معنوں کے علاوہ اس میں ایک اور مضمون بھی بیان کیا گیا ہے.جس کی طرف عام طور پر بہت کم توجہ کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جب غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا تو اُس وقت اُن میں کیا کیا صفات پائی جائیںگی.یہی حکمت ہے جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے اس جگہ یَمْشُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ نہیں فرمایا بلکہ یَمْشُوْنَ
عَلَی الْاَرْضِ فرمایا ہے.اگر صرف چلنے کا ذکر ہوتاتو یَمْشُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ کافی تھا مگر اس جگہ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ کہہ کر عَلیٰ کو استعلاء کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انہیں دنیا پر غلبہ حاصل ہو گا اور وہ پورے اقتدار کے ساتھ ایک غالب اور فاتح قوم کے افراد کی طرح چلیں گے گویا اُن کا چلنا عام لوگوں کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اقتدار اور غلبہ اُن کے ساتھ ہوگا اور وہ ایسے مقام پر کھڑے ہوںگے کہ لوگوں کو اپنی طاقت سے کچل سکیں.یہ ایسا ہی فقرہ ہے جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ایک نملہ نے کہا کہيٰۤاَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ( النمل :۱۹)یعنی اے نملہ قوم سے تعلق رکھنے والو.اپنے اپنے گھروں میں چلے جائو.ایسا نہ ہوکہ سلیمان ؑ اور اُس کے طوفانی لشکر تمہارے حالات سے بے خبر ہونے کی وجہ سے تمہیں اپنے پیروں کے نیچے مسل دیں.اگر خالی چلنے کا یہاں ذکر ہوتا تو یَمْشُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ کہنا کافی تھا.لیکن عَلیٰ کا صلہ لاکر ایک دوسرا مفہوم پیدا کر دیا گیا ہے کہ وہ ایسی طاقت رکھیں گے کہ دنیا کو اپنے پائوں کے نیچے روند سکیں.مگر جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ نہایت احتیاط کے ساتھ چلتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ کوئی قوم اُن کے ذریعہ کچلی جائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ان آیات میں مسلمانوں کے متعلق بیان فرماتا ہے کہ جب وہ دنیا پر غالب آئیں گے تو اس امر کی خاص احتیاط رکھیں گے کہ کوئی قوم اُن کے پائوں کے نیچے روندی نہ جائے.گویا اُن کے اندر یہ طاقت تو ہوگی کہ وہ دنیا کو روند ڈالیں مگر چونکہ وہ نیک اور پار سا ہوںگے اس لئے يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا کا مصداق ہوںگے.یعنی وہ اس طرز پر چلیں گے کہ ہر وقت یہ امر اُن کے مدنظر رہےگا کہ کسی فرد یا قوم کو اُن کے ہاتھوں کو ئی ناجائز تکلیف نہ پہنچے.اس کے بعد وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ حاکم انسان دوسرے کو دکھ دے سکتا ہے.اور بالعموم حکام کی عادت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ جب اُن کے سامنے کوئی گُستاخانہ کلام کرے تو وہ کہتے ہیں ہم تمہاری اچھی طرح خبر لیں گے اور تمہیں بتائیں گے کہ تمہاری اس گستاخی کی کیا سزا ہے.مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہوگی کہ حکومت اور طاقت اور غلبہ اور رعب کے باوجود جب اُن سے کوئی خطابِ جہالت کرے گا تو وہ مسکراتے ہوئے کہہ دیں گے کہ ہم کچھ بُرا نہیں مناتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک یہودی آیا اور اُس نے آپ سے کسی قرض کا نہایت سختی سے مطالبہ کیا.صحابہ ؓ یہ حالت دیکھ کر غصّہ سے بیتاب ہوگئے اور انہوں نے اپنی تلواریں سونت لیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا.جانے دو جس کا حق ہوتا ہے وہ دوسرے پر سختی کر ہی
بیٹھتا ہے(بخاری کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الدّیُون).اسی طرح ایک اَور شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ آپ نے جو اموال کی تقسیم کی ہے اُس میں انصاف سے کام نہیں لیا.حضرت عمر ؓ تلوارلے کر کھڑے ہو گئے تاکہ اس کا سراُڑا دیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اور اسے کچھ نہ کہو(مسند احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ).غرض وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مومنوں کو جب غلبہ حاصل ہو گا تو ایسی حالت میں بھی وہ کسی کے خطابِ جہالت پر بُرا نہیں منائیں گے بلکہ اُن کی سلامتی اورتحفظ حقوق کو مدنظر رکھیں گے.اور درحقیقت غلبہ کے وقت ہی انسان کے اعلیٰ اخلاق کا پتہ چلتا ہے ورنہ کمزوری کی حالت میں کسی کا مار کھا لینا تو ستِر بی بی از بے چادری والی بات ہوتی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مار نہ کھائے تو کیا کرے اُس کے اندر مقابلہ کی طاقت تو ہے ہی نہیں.لیکن جب کوئی شخص طاقت رکھتے ہوئے عفو سے کام لیتا ہے اور سزا دینے کی طاقت رکھتے ہوئے کچھ نہیں کہتا تو اُس وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ فی الواقعہ وہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا مالک ہے.پھر فرماتا ہے.وَ الَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا.وہ لوگ اپنی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ و قیام کرتے ہوئے گذار دیتے ہیں.اس میں جہاں عباد الرحمٰن کی یہ خصوصیت بتا ئی گئی ہے کہ وہ مصائب اور مشکلات کے اوقات میں جو رات کی تاریکیوں سے مشابہت رکھتے ہیں دُعائوں اور گریہ و زاری سے کام لیتے اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہتے ہیں.وہاں اس میں تہجد کی ادائیگی بھی عباد الرحمٰن کا شعارقرار دیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اُن کی راتیں خراٹے بھرتے ہوئے نہیں گذرتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کی محبت اور عبادت میں گذرتی ہیں.وہ جسمانی تاریکی کو دیکھ کر ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن پر روحانی تاریکی بھی نہ آجائے اور وہ دعائوں اور استغفار اور انابت سے خدا تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے نماز تہجد کی اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا (المزمل :۷) یعنی رات کا اٹھنا انسانی نفس کو مسلنے میں سب سے زیادہ کا میاب نسخہ ہے اور رات کو خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گِرے رہنے والوں کی روحانیت ایسی کامل ہوجاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سچ کے عادی ہو جاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجد کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ آپ بعض دفعہ رات کو اُٹھ کر چکر لگاتے اور دیکھتے کہ کون کون تہجد پڑھ رہا ہے.ایک دفعہ مجلس میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ذکر آگیا کہ وہ بڑی خوبیوں کے مالک ہیں.آپ نے فرمایا ہاں بڑا اچھا ہے بشرطیکہ تہجد بھی پڑھے (صحیح بخاری کتاب التہجد باب فضل من تعارّ من اللیل فصلّٰی).معلوم ہوتا ہے اُن دنوں حضرت
عبد اللہ بن عمر ؓ تہجد پڑھنے میں سُستی کر تے ہوںگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ذریعہ سے انہیں توجہ دلائی کہ وہ اپنی اس سُستی کو دُور کریں.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اُسی دن سے تہجد کی نماز میں باقاعدگی اختیار کر لی.ایک دفعہ رات کے وقت آپ اپنے داماد حضرت علی ؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے گھر گئے اور باتوں باتوں میں دریافت فرمایا کہ کیا تم تہجد بھی پڑھا کرتے ہو.حضرت علی ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت کسی وقت آنکھ نہیں کھلتی تو نماز رہ جاتی ہے.آپ اُسی وقت اُٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور بار بار فرماتے وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرُشَیْءٍ جَدَلًا ( بخاری کتاب التہجد باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی قیام اللیل والنوافل من غیر ایجاب) یعنی انسان اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے مختلف قسم کی تاویلیں کر کرکے اپنے قصور پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے.آپ کا مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اس طرح اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر رات کو میاں کی آنکھ کھلے اور وہ تہجد کے لئے اُٹھے تو اپنی بیوی کو بھی تہجد کے لئے جگائے.اور اگر وہ نہ اٹھے تو اُس کے مُنہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے اور اگر بیوی کی آنکھ کھل جائے اور اس کا میاں جگانے کے باوجود نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے.(سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب الحث علی قیام اللیل).آپؐ تہجد کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کرتے تھے کہ آپ ؐ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصّہ میں اپنے بندوں کے قریب آجاتا ہے اور اُن کی دعائوں کو دن کی نسبت بہت زیادہ قبول فرماتا ہے.(بخاری کتاب التہجد باب الدعافی الصلاة من آخر اللیل).آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا یا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اُس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سُنتا ہے اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے.اُس کے ہاتھ ہو جاتاہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پائوں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع).اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رات کا اُٹھنا انسان کو اللہ تعالیٰ کے کس قدر قریب کر دیتا ہے.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں تہجد پڑھنے کی عادت بہت کم ہو گئی ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمٰن کی یہ ایک خاص خوبی بیان کی ہے کہ وہ اپنی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ و قیام میں گذار دیتے ہیں.مگر چونکہ یہ آیات مسلمانوں کے دَور حکومت کی امتیازی خصوصیات کی بھی حامل ہیں اس لئے يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جب دنیا پر غلبہ حاصل ہو گا تو وہ عیش و عشرت میں منہمک نہیں ہوںگے بلکہ اُن کی راتیں خدا تعالیٰ
کے حضور سجدہ و قیام کرتے ہوئے گذریں گی.چنانچہ جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مسلمانوں کی اس امتیازی خصوصیت کا بھی نہایت واضح طور پر علم حاصل ہوتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب روم کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی ہوئی تو رومی جرنیل نے اپنا ایک وفد مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینےکے لئے بھیجا اور اُس نے کہا کہ تم مسلمانوں کے لشکر کو جا کر دیکھو اور پھر واپس آکر بتا ئو کہ اُن کی کیاکیفیت ہے وہ وفد اسلامی لشکر کا جائز ہ لے کر واپس گیا تو اُس نے کہا ہم مسلمانوں کو دیکھ آئے ہیں.وہ ہمارے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی جن ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا کہ وہ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو تہجد پڑھنےکے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.ہمارے سپاہی جو دن بھر کے تھکے ماندے ہو تے ہیں وہ تو رات کو شرابیں پیتے اور ناچ گانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور جب اِن کا موں سے فارغ ہوتے ہیں تو آرام سے سو جاتے ہیں.مگر وہ لوگ کوئی عجیب مخلوق ہیں کہ دن کولڑتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اُس کا ذکر کرتے ہیں (البدایة والنھایة الجزء وقعة الیرموک).ایسے لوگوں سے لڑنا بے فائدہ ہے.چنانچہ دیکھ لو.اس ذکر الٰہی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی آسمان سے اُن کی مددکے لئے اُترا اور اُس نے انہیں بڑی بڑی طاقتور حکومتوں پر غالب کر دیا.عرب کی ساری آبادی ایک لاکھ اسّی ہزار تھی مگر انہوں نے روم جیسے ملک سے ٹکر لے لی جس کی بیس کروڑ آبادی تھی.پھر انہوں نے کسریٰ کے ملک پر حملہ کر دیا اور اس کی آبادی بھی بیس تیس کروڑ تھی.گویا پچاس کروڑ کی آبادی رکھنے والے ممالک پر ایک لاکھ اسی ہزار کی آبادی رکھنے والےملک کا ایک حصّہ حملہ آور ہوا.اور پھر یہ ملک اتنے طاقتور تھے کہ ہندوستان بھی اُن کے ماتحت تھا.چین بھی اُن کے ماتحت تھا.اسی طرح ٹرکی.آرمینیا.عراق او ر عرب کے اوپر کے ممالک یعنی فلسطین اور مصر وغیرہ بھی اُن کے ماتحت تھے.مگر باوجود اتنی کثرت کے مٹھی بھر مسلمان نکلے تو انہوں نے ان لوگوں کا صفایا کر دیا اور بارہ سال کے عرصہ میں اُن کی فوجیں قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرائیں.یہ فتوحات جو مسلمانوں کو حاصل ہوئیں صرف ذکر الٰہی اوريَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا کا نتیجہ تھیں.لیکن جب مسلمان بگڑ گئے اور انہوں نے ذکر الٰہی میں اپنی راتیں بسر کرنے کی بجائے رنگ رلیوں اور ناچ گانوں میں راتیں بسر کرنی شروع کر دیں.جب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسحاق موسوی بڑا اچھا گانے والا ہے.فلاں کنچنی خوب ناچتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تباہی کے لئے ہلاکو خاں کو بغداد پر مسلّط کر دیا اور اُس نے ایک دن میں اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا اور شاہی خاندان کی کوئی عورت ایسی نہ چھوڑی جس کے ساتھ بدکاری نہ کی گئی ہو.اُس وقت مسلمان ایک بزرگ کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ دُعا کریں بغداد تباہی سے بچ جائے.انہوں نے کہا میں کیا دُعاکروں میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا
ہوں اللہ تعالیٰ کے فرشتے مجھے یہ آوازیں دیتے سنائی دیتے ہیں کہ اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ (تاریخ ابن خلدون مجلد ۳ صفحہ ۵۳۷)یعنی اے کافر و! ان فاجر و فاسق مسلمانوں کو خوب مارو.چنانچہ بغداد تباہ ہو گیا.اور عباسی حکومت کا خاتمہ ہوگیا.حالانکہ ایک زمانہ میں اُن کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ رومی حکومت کے لشکر کو جو ساٹھ ہزار کی تعداد میں تھا مسلمانوں کے صرف ساٹھ آدمیوں نے شکست دے دی تھی اور اُن کے ساٹھ میں سے بھی صرف بارہ تیرہ شہید ہوئے اور بیس کے قریب خطرناک زخمی ہوئے باقی سب خیریت کے ساتھ واپس آگئے (فتوح الشام للواقدی زیر عنوان وقعة الیرموک ).یہ تائید مسلمانوں کو صرف اس لئے حاصل ہوئی کہ وہ طاقت اور غلبہ کو اپنی عیاشی کا ذریعہ نہیں بناتے تھے بلکہ ہر قسم کی طاقت اور ہر قسم کا غلبہ حاصل کرنے کے باوجود اُن کی زبانیں ذکر الٰہی سے تر رہتی تھیں اور اُن کی راتیں خدا تعالیٰ کے حضور قیام اور سجود میں گذر جاتی تھیں.دنیا میں بڑی بڑی فاتح اقوام گذری ہیں مگر ہمیں کسی قوم کی تاریخ میں یہ مثال نظر نہیں آئےگی کہ وہ اتنے خدا ترس ہوں کہ ان کی تلوار کسی عورت کسی بچے کسی بوڑھے اور کسی دینی شغف رکھنے والے انسان پر نہ اٹھتی ہو.اُن کی تلوار کسی ایک انسان کا بھی ناجائز طور پر خون نہ بہاتی ہو اور راتوں کو وہ خدا تعالیٰ کے حضور روتے اور گڑ گڑاتے ہوں.یہ عظیم الشان خوبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ میں ہی پائی جاتی تھی.جن کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور بلند کردار کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے کفار کو بتا یا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تمہارے ہی ملک اور تمہارے ہی شہر کے رہنے والے تھے اور تمہارے ہی ساتھ انہوں نے اپنی عمروں کا بیشتر حصہ بسر کیا مگر تم بھی جانتے ہو اور باقی سب لوگ بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ نہ اُن میں يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا والی بات پائی جاتی تھی اور نہ اُن میں يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا والی کیفیت پائی جاتی تھی بلکہ اس کے بر عکس ظلم و ستم اُن کا شیوہ تھا.اور شراب خوری اور عیاشی میں انہماک اُن کا رات دن کا شغل تھا مگر جب انہوں نے خدائے رحمٰن کے کلام کو قبول کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلے تو اُن کی دنیا بھی بدل گئی اور اُن کی اخلاقی اور روحانی حالت میں بھی ایک تغّیر عظیم واقع ہو گیا.اگر یہ خدائے رحمٰن کے کلام کو قبول کرنے کی برکت نہیں تو بتائو اُن میں یہ خوبیاں کہاں سے پیدا ہوئیں اور کس چیز نے انہیں ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا مالک بنا دیا.پھر عباد الرحمٰن کی ایک اور علامت یہ بتائی کہ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا.اِنَّھَا سَآ ئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا.یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے یہ دُعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! عذاب ِ جہنم کو ہم سے دُور رکھ.کیونکہ اُس کا عذاب ایک بہت بڑی تباہی ہے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے.خواہ
وہ عارضی وقت کے لئے ہو یا مستقل وقت کے لئے.اس جگہ جہنم سے گو اخروی جہنم بھی مراد ہے جس سے ہر سچّا مومن اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہے مگر دنیوی نقطہ نگاہ سے ہر وہ امر جو انسان کے لئے دکھ اور تکلیف کا موجب ہو اور جس سے اس کی جان و مال یا عزت اور آبرو کو خطرہ ہو اور جو اُسے قوم اور ملک کی نظروں میں گرانے اور ذلیل کرنے والا ہو وہ بھی اس کے لئے جہنم کا ہی رنگ رکھتا ہے.دراصل جہنم جَھَنَ اور جَھَمَ سے مرکب ہے.جَھَنَ کے معنے کسی چیز کے قریب ہونے کے ہوتے ہیں اور جَھَمَ کے معنے منہ کے بگڑ جانے کے ہیں.پس جہنم کے لفظ کا اطلاق ہر ایسی چیز پر ہو سکتا ہے جس کی طرف انسان پہلے تو بڑے شوق اور حرص کے ساتھ بڑھے مگر جب وہ اس کے قریب پہنچے تو اُس کا منہ بگڑ جائے اور وہ گھبرانے لگ جائے اس نام میں درحقیقت جہنمی افعا ل کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان پہلے تو عیاشیوں اور بدکاریوں کو بڑا اچھا فعل سمجھتا اور اُن کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ اُن بدیوں میں ملوّث ہو جاتا ہے اور اُن کا بُرا انجام آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو اس کا مونہہ بگڑ جاتا ہے اور وہ رونے اور چیخیں مارنے لگ جاتا ہے.اور کہتا ہے کہ میں نے تو بڑی غلطی کی.ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس آیت میں عباد الرحمٰن کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعائیں کرتے رہتے ہیں کہ الٰہی ہمیں ہر ایسے کام سے بچائیو جو ہمیں دنیا و آخرت میں ذلیل کر نے والا ہو.تو ہمیں افلاس اور تنگدستی کے جہنم سے بچا.ہمیں جہالت اور کم علمی کے جہنم سے بچا.ہمیں بداخلاقی اور عیاشی کے جہنم سے بچا.ہمیں دنیا داری اور ہوس پرستی کے جہنم سے بچا.ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کی خرابی کے جہنم سے بچا.ہمیں کفر اورشیطنت کے جہنم سے بچا.ہمیں لامذہبیت اور اباحت کے جہنم سے بچا.ہمیں منافقت اور بے ایمانی کے جہنم سے بچا.ہمیں خودسری اور جھوٹ اور ظلم اورتعدی کے جھنم سے بچا.ہمیں اپنی محبت اور رضا سے دوری کے جہنم سے بچا.کیونکہ خواہ یہ بُرائیاں ہم میں عارضی طور پر پیدا ہوں یا مستقل طور پر بہر حال ان کا پیدا ہونا ہمارے لئے تباہی اور رسوائی کا باعث ہے.ہم چاہتے ہیں کہ مستقل طور پر ان خرابیوں کا پیدا ہونا تو الگ رہا ہم میں عارضی اور وقتی طور پر بھی یہ خرابیاں پیدا نہ ہوں اور ہمیشہ ہمارا قدم صراطِ مستقیم پر قائم رہے.گویا وہی دُعا جوسورئہ فاتحہ میں غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ کے الفاظ میں سکھائی گئی ہے اس جگہ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ کے الفاظ میں دہرادی گئی ہے.اور اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ بندوں کی یہ علامت بتا ئی گئی ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں دنیا پر غلبہ حاصل ہو تا ہے پھر بھی قومی تنزل کا خوف ہر وقت اُن کو آستانہ ٔ ایزدی پر جُھکائے رکھتا ہے اور وہ رات دن دُعائیں کرتے رہتے ہیں کہ الٰہی ہم میں اور ہماری آئندہ نسلوں میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوتاکہ وہ جنت جو تُو نے
ہ محض اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے اور کوئی ابلیس سانپ کی شکل اختیار کرکے ہماری ایڑی کو نہ کاٹ لے.اگر مسلمان اپنے غلبہ کے اوقات میں اس قرآنی دُعا کو ہمیشہ یاد رکھتے اور ہر کامیابی کے حصول پر قومی تنزل کے خطرات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تو اللہ تعالیٰ اُن پر دائمی طور پر اپنا فضل نازل کرتا اور ہمیشہ اُن کا قدم ترقی کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا رہتا.مگر اِن معنوں کے علاوہ اس آیت میں اُخروی جہنم کے عذاب سے بھی بچنے کی دُعا سکھلائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم عارضی رہائش کے لحاظ سے بھی بہت بُرا ٹھکانا ہے اور مستقل رہائش کے لحاظ سے بھی بہت برا ٹھکانہ ہے.ان الفاظ میں قرآن کریم کی یہ تعلیم بیان کی گئی ہے کہ دوزخ غیر محدود نہیں ہوگی کیونکہ دوزخ کو مستقر قرار دیا گیا ہے جس کے معنے عارضی قرار گاہ کے ہوتے ہیں او رچونکہ اس جگہ یہ کہا گیا ہے کہ دوزخ خواہ عارضی ہو یا مستقل بڑی تکلیف دہ جگہ ہے اس لئے ان الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دوزخ کا تھوڑا عذاب بھی سزا دینےکے لئے کافی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اُسے لمبا کیا جائے یا اُسے مستقل بنا دیا جائے.قرآن کریم نے اس مضمون کو بعض اور مقامات پر بھی نہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے.مثلاً فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( الذاریات :۵۷) یعنی میں نے جن و انس کو صرف اس غرض کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں.اور جب انسان کو پیدا ہی اس غرض کے لئے کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عبد بنے تو اگر وہ دائمی طور پر دوزخ میں رکھا جائے تو وہ اس غرض کو پورا ہی نہیں کر سکتا اور پیدائشِ عالم کا مقصد بالکل فوت ہو جاتا ہے.اس مضمون کی مزید تشریح اس آیت سے ہوتی ہے کہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ( الفجر :۳۰،۳۱) یعنی اللہ تعالیٰ نفسِ مطمٔنہ رکھنے والوں سے فرمائےگا کہ آئو اور میرے بندوں میں شامل ہو جائو.آئو اور میری جنّت میں داخل ہو جائو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبدکا مقام جنت ہے.اور جب ہر انسان عبد بننےکے لئے پیدا کیا گیا ہے تو لازمًا ہر انسان کے متعلق ہمیں تسلیم کرنا پڑےگا کہ وہ جنت میں جائےگا.پس دوزخ ایک عارضی قرار گاہ ہے مستقل مقام نہیں.پھر فرماتا ہے وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ ( انبیاء :۴۸) یعنی قیامت کے دن ہم ایسے تول کے سامان پیدا کر یں گے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذرا سا بھی ظلم نہیں کیاجائے گا اور اگر کسی نے رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی نیکی یا بدی کی ہوگی تو ہم اُس کو بھی لے آئیں گے.اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں.اب اگر کوئی شخص بدیوں کی کثرت کی وجہ سے جہنم میں چلا جائے اور پھر ابدالاباد تک اُسی میں رہے تو اُسے اپنی نیکیوں کا بدلہ
نہیں مل سکتا.پس ضروری ہے کہ اس کی سزا ایک دن ختم ہو تاکہ اس کی نیکیوں کی اُسے جزا دی جائے.ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ ( القارعۃ :۹.۱۰) یعنی جس کی نیکیاں کم ہوںگی اُس کی ماں ہاویہ ہوگی یعنی جس طرح بچہ رحم مادر میں ایک معّین عرصہ تک رہتا ہے اور پھر اُس کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے.اسی طرح جب دوزخیوں کی سزا کی میعاد ختم ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ انہیں باہر لے آئےگا.اور اپنی جنّت میں داخل کر دے گا.اسی طرح فرماتا ہے.فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّ شَهِيْقٌ.خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ.وَ اَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ( ھود:۱۰۷ تا ۱۰۹)یعنی جو لوگ بدبخت ثابت ہو ں گے وہ آگ میں داخل کئے جائیں گے.اُس میں کسی وقت تو اُن کے غم سے لمبے لمبے سانس نکل رہے ہوںگے اور کسی وقت رو رَو کر ہچکی بندھ جائے گی.وہ اُس میں اُس وقت تک رہتے چلے جائیں گے جب تک کہ آسمان اور زمین قائم ہیں سوائے اس کے کہ تیرا رب کچھ اور ارادہ کرے اور تیرا رب اپنے ارادہ کو پورا کرنے والا ہے.اور جو لوگ خوش نصیب ہوں گے وہ جنت میں داخل کئے جائیں گے.اور وہ اُس وقت تک اُس میں رہتے چلے جائیںگے جب تک کہ آسمان اور زمین قائم ہیں.سوائے اس کے کہ تیرا رب کچھ اور چاہے مگریہ ایسی عطا ہو گی جو کبھی کاٹی نہیں جائےگی.اس آیت میں جہنمیوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اُن کو جہنم سے نکا ل سکتے ہیں اور ہمارے ارادہ میں کون حائل ہو سکتا ہے لیکن مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم اگر چاہیں تو اُن کو بھی جنت سے نکا ل سکتے ہیں مگر ہم نے یہی چاہا ہے کہ اُن کے انعام کو کبھی ختم نہ کیا جائے.اس مقابلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب ایک دن منقطع ہونے والا ہے کیونکہ دوزخیوں کو جہنم سے نکلنے کی امیددلائی گئی ہے.لیکن جنتیوں کو کہا گیا ہے کہ انہیں غیر مقطوع یعنی نہ ختم ہونے والے انعام سے نوازا جائےگا.پھر فرماتا ہےعَذَابِيْۤ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ( الاعراف :۱۵۷) میں اپنا عذاب جس کو چاہتا ہوں پہنچاتا ہوں مگر میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے اور جب اس کی رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے تو ضروری ہے کہ دوزخ بھی ایک د ن اُس کی رحمت کے سایہ تلے آجائے اور دوزخیوں کو اُس میں سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَاْتِیْ عَلیٰ جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ
وَ نَسِیْمُ الصَّبَا تُحَرِّ کُ اَبْوَابَـھَا ( تفسیر معالم التنزیل جلد ۳ صفحہ ۲۴۳ زیر آیت و اما الذین سعدوا..)یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئےگا کہ اُس میں کوئی شخص نہیں ہو گا اور ہوا اُس کے دروازے کھٹکھٹا ئےگی.یعنی وہ کھلے ہوںگے اور دوزخ کے اندر کوئی قیدی نہیں رہے گا.غرض اسلامی تعلیم کے ماتحت جزائے نیک تو دائمی ہوگی مگر دوزخ کا عذاب دائمی نہیں وہ بیشک ایک بھیانک اور تکلیف دہ چیز ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کی محبت جوش میں آئے گی اور وہ گنہگار وں کو بھی اپنے سایۂ رحمت میں لے آئے گی.اس جگہ ایک شبہ کا ازالہ کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا ھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ (البقرۃ :۱۶۸) یعنی دوزخی دوزخ کی آگ سے ہر گز نہیں نکل سکیں گے.اس آیت سے یہ دھوکا ہر گز نہیں کھانا چاہیے کہ اس میں تو لکھا ہے کہ دوزخ میں سے کوئی نہیں نکلےگا.کیونکہ اس میں اُن کے اپنے زور سے نکلنے کی نفی کی گئی ہے خدا تعالیٰ کے فضل کی نفی نہیں کی گئی.پس اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ دوزخی اپنے زو ر سے اُس میں سے نہیں نکل سکیں گے.ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک دن نکال دئیے جائیں گے.وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ كَانَ اور وہ (اللہ کے بندے) ایسے ہوتے ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی سے کام نہیں لیتے اور نہ بخل بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۰۰۶۸ کرتے ہیں.اور اُن کا( خرچ) اِن دونوں حالتوں کے درمیان درمیا ن ہوتا ہے.حلّ لُغَات.لَمْ یُسْرِفُوْا : لم یسرفوا اَسْرَفَ سے مضارع یُسْرِفُ بنتا ہے اور لَمْ یُسْرِفُوْا اس سے جمع مذکر غائب منفی کا صیغہ ہے اور اَسْرَفَ مَالَہٗکے معنے ہوتے ہیں.بَذَّرَہٗ وَقِیْلَ اَنْفَقَہٗ فِیْ غَیْرِ طَاعَۃٍ.اُس نے مال کو خرچ کیا اور ماہرین لُغت کہتے ہیں کہ اسراف کا لفظ اُس وقت بولیں گے جب اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی اطاعت کے خلاف مال خرچ کیا جائے نیز اُس کے معنے ہیں جَاوَزَالْحَدَّفِیْہِ وَاَفْرَطَ مال کے خرچ کرنے میں حد سے بڑھ گیا.اَخْطَاءَ.اُس نے مال کے خرچ کرنے میں غلطی کی یعنی غلط جگہ پر خرچ کیا.جَھِلَ یا مال کے خرچ میں نادانی سے کام لیا ( اقرب ) پس لَمْ یُسْرِفُوْا کے معنے ہوںگے ( ۱) وہ اپنے اموال خدا تعالیٰ کی
اطاعت کے خلاف خرچ نہیں کرتے ( ۲) یا جہاں جہاں جتنا خرچ کرنا چاہیے اتنا خرچ کرنے میں جائز حد سے زیادہ خرچ نہیں کرتے (۳) یا مال غلط جگہ خرچ نہیں کرتے.لَمْ یَقْتُرُوْا.لَمْ یَقْتُرُوْاقَتَرَ ( یَقْتِرُ ) عَلٰی عِیَالِہٖ کے معنے ہیں ضَیَّقَ عَلَیْھِمْ فِی النَّفَقَۃِ.اُس نے اہل و اعیال کو خرچ دینے میں تنگی اور بخل سے کام لیا اور جب قَتَرَالشَّیْءَ کہیں تو معنے ہوںگے ضَمَّ بَعْضَہٗ اِلیٰ بَعْضٍ کہ کسی چیز کے مختلف حصّوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر جمع کیا.اور جب قَتَرَ الْاَمْرَ کہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ لَازَمَہٗ یعنی اس معاملہ سے چمٹا رہا.اور قَتَرَ مَابَیْنَ الْاَمْرَیْنِ کے معنے ہوتے ہیں قَدَّرَہٗ وَخَمَّنَہٗ دو معاملوں کا اندازہ اور تخمینہ کیا ( اقرب) لَمْ یَقْتُرُوْا.یَقْتُرُ سے نفی کا صیغہ ہے اس لئے اس کے معنے ہوںگے (۱) وہ اپنے رشتہ داروں اور اقارب پر اپنے مال خرچ کرنے میں تنگی نہیں کرتے.(۲) وہ مال جمع نہیں کرتے بلکہ موقعہ او رمحل پر خرچ کرتے ہیں ( ۳) وہ مالوں کے ساتھ چمٹے نہیں رہتے.قَوَامًا : قوامًا اَلْقَوَامُ : اَلْاِعْتَدَالُ یعنی قوام کے معنے میانہ روی کے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں مَا یُعَاشُ بِہٖ.وہ چیز جس کے ذریعہ سے زندگی گذاری جائے ( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے رحمٰن کے بندوں کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو دو باتیں اُن کے مدّنظر رہتی ہیں.اوّل یہ کہ وہ اسراف سے کام نہیں لیتے اور دوسرے وہ بخل نہیں کرتے.اسراف کا مرض اس زمانہ میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آجکل مسلمان کی تعریف اور علامت ہی یہی سمجھی گئی ہے کہ جو کچھ اُس کے پاس ہو وہ سب خرچ کر دے اور اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھے.گویا قرآن کریم تو کہتا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جو اسراف نہ کرے اور آج کل کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سچا مسلمان وہ ہوتا ہے جو سب کچھ بیچ کر کھا جائے.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کو اپنے باپ کی بہت سی دولت مل گئی.اُس نے اپنے دوستوں اور آشنائوں کو بلا کر پوچھا کہ مجھے دولت خرچ کرنے کا کوئی طریق بتائو.کسی نے کچھ بتایا اور کسی نے کچھ لیکن اسے کوئی پسند نہ آیا.ایک دن وہ بازار سے گذر رہا تھا کہ بزاز کی دوکان سے کپڑے پھاڑنے کی آواز آئی جو اُسے پسند آگئی اور اُس نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ میرے سامنے روزانہ کپڑے کے تھان لالاکر پھاڑا کرو.چنانچہ روزانہ اُس نے کپڑوں کے تھان پھڑوانے شروع کر دئیے اور صبح سے شام تک اُس کا یہی شغل رہتا کہ لوگ بیٹھے تھا ن پھاڑ رہے ہیں اور وہ چر چر کی آواز سُن کر خوش ہو رہا ہے.اب خرچ کرنے کو تو اُس نے بھی اپنا روپیہ خرچ کیا مگر یہ کیسانامعقول خرچ تھا.اس طرح
تو اگر کسی کے پاس کروڑوں روپیہ بھی ہو تو وہ سب کچھ خرچ کرکے کنگال اور نادار بن سکتا ہے.قرآن کریم نے وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَمَّا (الفجر :۲۰) میں کفّار کو اُن کے اس نقص کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں اپنے باپ دادا سے مال ملا.مگر بجائے اس کے کہ تم اُسے ترقی دیتے تم نے اس دولت کو اپنے ذاتی عیش و آرام کے لئے تباہ کر نا شروع کردیا جس کی وجہ سے تمہاری عملی قوتیں بیکار ہو گئیں اور تم تنزل اور انحطاط کا شکار ہو گئے.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرما یا کرتے تھے کہ روپیہ کمانا آسان ہوتا ہے مگر اُسے خرچ کرنا بہت مشکل ہوتاہے اور حقیقتًا یہ بالکل درست ہے.دنیا میں بہت لوگ ہیں جو روپیہ کماتے ہیں لیکن چونکہ انہیں خرچ کرنا نہیں آتا اس لئے وہ ہمیشہ مالی مشکلات میں مبتلا رہتے ہیں.اور بہت ہیں جو کم کماتے ہیں مگر چونکہ انہیں روپیہ خرچ کرنا آتا ہے.اس لئے وہ تھوڑے روپیہ میں بھی آسانی سے اپنا گذارہ کر لیتے ہیں.بہر حال اسلام نے عبا دالرحمٰن کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انہیں زمین پر غلبہ عطا فرماتا ہے تو وہ خزائن الارض کی تقسیم میں کسی قسم کے اسراف یا بخل سے کام نہیں لیتے.یعنی نہ تو قومی روپیہ کو اس طرف غلق میں بند کرکے رکھتے ہیں کہ قومی و ملکی ترقیات میں روک واقعہ ہو جائے اور عوام کو شکایت کا موقعہ پیدا ہو جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں ایسا ہی نمونہ دکھایا.آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہ بھی بنایا اور لاکھوں روپیہ کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے.مگر آپ نے کبھی اُن کے خرچ کرنے میں اسراف سے کام نہیں لیا اور نہ ہی کسی جگہ بخل سے کام لے کر حقدار کو اس کے حق سے محروم کیا.آپ قومی اموال کی تقسیم اور اُن کے خرچ کرنے میں اس قدر محتاط واقعہ ہوئے تھے کہ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ بعض جنگی قیدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو حضرت فاطمہؓ کو ا س کا علم ہوا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئیں مگر انہوں نے آپ کو گھر پر نہ پایا.چونکہ وہ اُس وقت زیادہ انتظار نہیں کر سکتی تھیں اس لئے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو میری طرف سے آپ کو عرض کیا جائے کہ چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوںپر آبلے اُٹھ آئے ہیں.اگر جنگی قیدیوں میں سے کوئی قیدی مجھے بھی عطا فرما دیا جائے اور وہ آٹا پیس دیا کرے تو مجھے سہولت ہو جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے یہ تمام واقعہ آپ کی خدمت میں عرض کر دیا.رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا بیٹی کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتائوں جو اُس چیز سے جو آج تم نے مانگی ہے بہت بہتر اور بڑی برکت والی ہے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا.جب تم سونے لگو تو ۳۳ دفعہ سبحان اللہ.۳۳ دفعہ الحمد اللہ اور ۳۴
دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو.(بخاری کتاب النفقات باب عمل المرأۃ فی بیت زوجھا ) یہ واقعہ جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اُس دَور سے تعلق رکھتا ہے جبکہ آپ بادشاہ بن چکے تھے بتاتا ہے کہ گو آپ اپنی بیٹی کو جنگی قیدی عطا فرما سکتے تھے کیونکہ آپ نے بہر حال اُن کو صحابہ ؓ میں ہی تقسیم کرنا تھا اور حضرت علی ؓ کا ویسا ہی حق تھا جیسے باقی صحابہ ؓ کا مگرآپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ کوئی جنگی قیدی اپنے خاندان میں تقسیم کریں تا ایسا نہ ہو کہ آنے والے بادشاہ آپ کے اس نمونہ سے غلط نتائج اخذ کرکے دوسروں کے اموال اپنے لئے جائز سمجھ لیں.بیشک وہ اموال جن میں خدا تعالیٰ نے آپ کا اور آپ کے رشتہ داروں کا حق مقرر فرمایا تھا اُن میں سے آپ ضرورت پر خود بھی خرچ فرما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دے دیتے تھے.مگر جب تک کوئی چیز آپ کے حصہ میں نہ آجائے اُس وقت تک باوجود ایک بااقتدار بادشاہ ہونے کے ایک جَوکے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز آپ اپنے عزیز سے عزیز رشتہ دار کو بھی نہیں دیتے تھے.اور ایک لمحہ کے لئے بھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ قومی روپیہ ضائع ہو یا کسی ایسی جگہ خرچ ہو جو ناجائز ہو.ایک دفعہ صدقہ کی کچھ کھجوریں آئیں اور حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ جو اُس وقت چھوٹے بچے تھے اُن کھجوروں سے کھیلنے لگے.کھیلتے کھیلتے اُن میں سے کسی نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی.اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی نظر جا پڑی.آپ نے فورًا اُس کے منہ سے انگلی ڈال کر کھجور نکال لی اور فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ غرباء کا حق ہے.آلِ محمد ؐ غرباء کا مال نہیں کھایا کرتی.(بخاری کتاب الزکاۃ باب اخذ صدقۃ التمر عند صرام النخل).اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قومی اموال کی کس سختی کے ساتھ محافظت فرمایا کرتے تھے اور اُس کے خرچ میں کتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے.یہی کیفیت خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی جاری رہی اور انہوں نے بھی قیصرو کسریٰ سے زیادہ طاقت رکھنے کے باوجود سرکاری اموال کو کبھی بے جا خرچ نہیں کیا.بلکہ ایک ایک پیسہ اور ایک ایک پائی کی حفاظت کی اور اگر کسی جگہ انہوں نے روپیہ کا بے جا خرچ دیکھا تو بڑی سختی سے اُس کو روکا اور افسروں کو معزول کر نے سے بھی دریغ نہیں کیا.تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اپنے زمانہ ٔ خلافت میں بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ بعض صحابہ ؓ نے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہیں.ریشمی کپڑوں سے مراد وہ کپڑے ہیں جن میں کسی قدر ریشم ہوتا ہے ورنہ خالص ریشم کے کپڑے تو سوائے کسی بیماری کے مردوں کو پہننے ممنوع ہیں.آپ اُن لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم اب ایسے آسائش پسند ہو گئے ہو کہ ریشمی کپڑے پہنتے ہو.اس پر اُن میں سے
ایک شخص نے اپنی قمیص اٹھا کر دکھائی تو معلوم ہوا کہ اُس نے نیچے موٹی اون کا سخت کُرتہ پہنا ہو اتھا.اُس نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا کہ ہم نے ریشمی کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ ہم ان کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس لئے پہنے ہیں کہ اس ملک کے لوگ بچپن سے ایسے امراء دیکھنے کے عادی ہیں جو نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے.پس ہم نے بھی اپنے لباسوں کو صرف ملکی سیاست کے طور پر بدلا ہے ورنہ ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں.صحابہ ؓ کے اس عمل سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں بھی کبھی اسراف سے کام نہیں لیا اور اگر کسی مقام پر اُن سے کوئی لغزش بھی ہوئی تو خلفا ء نے اُن کو ڈانٹا اور انہیں نصیحت کی کہ وہ اموال کے خرچ میں افراط و تفریط سے بچیں اور سادگی اختیار کریں.اس زمانہ میں زیادہ تر شادی بیاہ کے موقعہ پر لوگ اپنی ناک رکھنےکے لئے زیورات وغیرہ پر طاقت سے زیادہ روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.جو انجام کار اُن کے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہوتا کیونکہ انہیں دوسروں سے قرض لینا پڑتا ہے جس کی ادائیگی انہیں مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے.اگر کسی کے پاس وافر روپیہ موجود ہو تو اُس کے لئے شادی بیاہ پر مناسب حد تک خر چ کرنا منع نہیں لیکن جس کے پاس نقد روپیہ موجود نہیں وہ اگر ناک رکھنےکے لئے قرض لے کر روپیہ خرچ کرےگا تو اس کا یہ فعل اسراف میں شامل ہو گا.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں.مثلًا اگر ایک شخص کی آمد دو چار ہزار روپیہ ماہوار ہے اور وہ پندرہ بیس روپے گز کا کپڑا پہنتا ہے یا پانچ سات سوٹ تیار کرا لیتا ہے تو اُس کے مالی حالات کے مطابق اسے ہم اسراف نہیں کہیں گے.لیکن اگر خدا نخواستہ اُس کی بیوی بچے بیمار ہو جائیں اور وہ ایسے ڈاکٹروں سے علاج کروائے جو قیمتی ادویات استعمال کر وائیں اور ہزار میں سے پانچ سات سو روپیہ ا س کا دوائوں پر ہی خرچ ہو جائے اور اس کے باوجود وہ اپنے کھانے پینے اور پہننے کے اخراجات میں کوئی کمی نہ کرے تو پھر اس کا یہی فعل اسراف بن جائےگا حالانکہ عام حالا ت میں یہ اسراف میں شامل نہیں تھا.اسی طرح جب بھی کسی خرچ کے مقابلہ میں دوسری ضروریا ت بڑھ جائیں تو اُس وقت پہلے خرچ کو اُسی شکل میں قائم رکھنا جس شکل میں پہلے تھا اسراف میں شامل ہو جائےگا.مثلاً اس زمانہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے ہمیں کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے.مختلف ممالک اور اکناف سے آوازیں آرہی ہیں کہ ہماری طرف ایسے لوگ بھیجے جائیں جو ہمیں اسلام کی تعلیم سکھائیں.ایسا لٹریچر بھیجا جائے جو ہمارے شبہات کا ازالہ کرے.اگر اس وقت ہماری جماعت کا کوئی فرد اپنے کھانے اور پینے اور پہننے کے اخراجات میں تخفیف نہیں کرتا اور زیاد ہ سے زیادہ روپیہ اسلام کی اشاعت کے لئے نہیں دیتا تو گو عام حالات میں اُس کا اچھا کھانا پینا اور پہننا اسراف میں شامل نہ ہو مگر موجودہ زمانہ میں اس کا ا پنے کھانے پینے اور پہننے پر زیادہ خرچ کرنا یقیناً اسراف میں شامل ہوگا.یہی وجہ ہے کہ میں
نے جماعت میں تحریک ِ جدید جاری کی اور اسے ہدایت کی کہ وہ ایک کھانا کھائے.جن لوگوں کے پا س کپڑوں کے چند جوڑے موجود ہوں وہ اُن کے خراب ہونے تک محض شوق پورا کرنےکے لئے نئے جوڑے نہ بنوایا کریں.جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنوایا کرتے ہوں وہ نصف یا تین چوتھا ئی یا 4/5پر آجائیں.عورتیں اپنے اوپر یہ پابندی عائد کریں کہ وہ محض پسند پر کپڑا نہیں خریدیں گی بلکہ ضرورت پر کپڑا لیں گی.اور گو ٹہ کناری اور فیتہ وغیرہ نہیں خریدیں گی نہ نئے نئے زیورات پر اپنا روپیہ بر باد کریں گی.اسی طرح میں نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ اپنا سارا زور لگائیں کہ روپوؤں کا کام پیسوں میں ہو اور جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ بغیر قیمتی دوا کے استعمال کے مریض کی جان کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اُس وقت تک قیمتی ادویات پر روپیہ خرچ نہ کروائیں.وہ اپنے دماغ پر زور دے کر ایسے نسخے لکھیں جو سستے داموں تیار ہو سکیں.اور پیٹنٹ ادویہّ استعمال کراکے نئی نئی دوائوں کے تجربہ پر اپنے ملک کا روپیہ ضائع نہ کریں لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹروں نے میری یہ بات نہیں مانی اور مجھے اپنی ساری خلافت کی زندگی میں تلخ ترین تجربہ احمدی ڈاکٹروں کا ہوا ہے.ولیمہ کے متعلق بھی میں نے ہدایت دی کہ اس موقعہ پر صرف چند دوستوں کو بُلا لینا کافی ہوتا ہے زیادہ لوگوں کو بُلا کر اپنا روپیہ ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی کافی ہے کہ لوگ اپنا اپنا کھانا لا کر ولیمہ والے گھر میں بیٹھ کر کھا لیں اور ایک آدمی کا کھانا اُس گھر والے کی طرف سے بھی ہو جائے.یہ ہدایات میں نے اسی لئے دیں کہ اس زمانہ میں اسلام کو مالی قربانیوں کی ضرورت ہے.اگر کھانے پینے پہننے اور آسائش و زیبائش کے کاموں پر ہی سارا روپیہ خرچ کر دیا جائےگا تو اسلام کی ضروریا ت کہاں سے پوری ہوںگی.حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر وقت ایک قسم کی قربانی کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ مختلف حالات میں مختلف قسم کی قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر ؓ ایک خاص جنگ کے وقت اپنا سارا اور حضرت عمر ؓ اپنا آدھا مال پیش نہ کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بیسیوںجنگیں ہوئی ہیں مگر حضرت ابوبکر ؓ نے ہر جنگ کے موقعہ پر اپنا سارا مال اور حضرت عمر ؓ نے اپنا آدھا مال نہیں دیا.صرف ایک جنگ کے موقعہ پر حضر ت عمر ؓ کو یہ خیال آیا کہ آج زیادہ قربانی کا موقعہ ہے.میں حضرت ابوبکر ؓ سے بڑھ جائوں اور اس خیال کے آنے پر وہ اپنا آدھا مال لے کر آگئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اس سے پہلے کبھی اپنا آدھا مال بھی نہیں دیا تھا.ورنہ حضرت عمر ؓ کو یہ کس طرح خیال آسکتا تھا کہ میں اپنا آدھامال دے کر حضرت ابوبکر ؓ سے بڑھ جائو ںگا لیکن حضرت ابوبکر ؓ اس موقعہ کی نزاکت کو دیکھ کر اپنا سار امال دینے کا فیصلہ کر چکےتھے چنانچہ جب وہ اپنا سارا مال لےکر گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اُن کے گھر کی حالت سے واقف تھے اسے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ ابوبکر ؓ
کنجوس مکھی چوس ‘‘ جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص ایسا بخیل ہے کہ اگر مکھی بھی اُس کے کھانے میں گِر پڑے تو یہ اُس کو بھی چوس لیتا ہے.لیکن کنجوسی بعض نہایت معمولی اور چھوٹے چھوٹے امور کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اگر ماں باپ بچپن میں ہی کوشش کریں تو وہ اپنی آئندہ نسل کو بخل کے مرض سے بچا سکتے ہیں.بُخل کا مرض ایک تو اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی فقیر دروازہ پر آتا ہے اور وہ خیرات مانگتا ہے تو بجائے اس کے کہ اُسے ملاطفت کے ساتھ کچھ دے کر رخصت کر دیا جائے بعض لوگ غصّہ سے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اسے کچھ نہ دیا جائے.یہ خود کمائے اور کھائے.چھوٹے بچے اُن کی بات سنتے ہیں تو اُن میں بھی بُخل کی عادت پید ا ہو جاتی ہے.اسی طرح جن بچوں کو بچپن میں اجابت روکنے کی عادت ہوتی ہے اُن میں بھی بڑے ہو کر بُخل کا مرض پیدا ہو جاتا ہے.جب وہ سمجھ دار ہو جاتے ہیں تو گو وہ اس عادت کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں مگر بچپن کی اس عادت کا اُن کے اخلاق پر یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر جائز مصارف میں بھی اپنا مال خرچ نہیں کرتے اور اُسے روک کر بیٹھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود بھی ہر قسم کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں اور اپنوں اور بے گانوں کی نگاہ میں بھی انہیں کوئی عزّت حاصل نہیں ہوتی.چنانچہ قرآن کریم نے بُخل کا ایک بہت بڑا نقصان یہی بیان کیا ہے کہ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ ( محمدؐ:۳۹) یعنی جو شخص بُخل کرتا ہے اُس کا نقصان خود اُسی کو ہوتا ہے کیونکہ بُخل کی وجہ سے نہ تو وہ اچھا کھانا کھاتا ہے نہ اچھا لباس پہنتا ہے.نہ رہائش کے لئے کوئی مکان بنانے پر آمادہ ہوتا ہے ،نہ بیمار ہونے پر دوائوں کے لئے روپیہ خرچ کرتا ہے.نہ مصیبت میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے کام آتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی تکلیف میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے حلقہ میں بھی اُسے کسی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا.اسی طرح جب وہ قومی کاموںکے لئے روپیہ صرف نہیں کرتا تو قوم بھی اُسے ذلیل سمجھنے لگ جاتی ہے.لیکن خدائے رحمٰن کے بندے ان تمام عیوب سے پاک ہوتے ہیں.وہ نہ تو اپنے روپیہ کو معصیت کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں نہ غلط طورپر خرچ کرتے ہیں اور نہ خرچ میں جائز حدود سے تجاوز اختیار کرتے ہیں جو اسراف کی مختلف شکلیں ہیں اور نہ اپنے مالوں کو اس طرح روک کر بیٹھ جاتے ہیں کہ دولت کی ہوس میں اپنے فرائض اور واجبات کو بھی ترک کر دیں.بلکہ اُن کا روّیہ ہمیشہ میانہ روی کا ہوتا ہے اور افراط و تفریط کا عیب اُن میں نہیں پایا جاتا.
وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ اور وہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ (تعالیٰ) کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے.اور نہ کسی جان کو جسے اللہ( تعالیٰ) النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ نے حفاظت بخشی ہو قتل کرتے ہیں سوائے ( شرعی ) حق کے.اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کا م کرےگا وہ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًاۙ۰۰۶۹يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ اپنے گناہ کی جزا کو دیکھ لےگا.قیامت کے دن اُس کے لئے عذاب زیادہ کیا جائےگا اور وہ اُس میں ذِلّت الْقِيٰمَةِ وَ يَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًاۗۖ۰۰۷۰اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ کے ساتھ رہتا چلا جائےگا سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور ایمان کے مطابق عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ عمل کئے.پس یہ لوگ ایسے ہوںگے کہ اللہ (تعالیٰ) اُن کی بدیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا.حَسَنٰتٍ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۷۱وَ مَنْ تَابَ وَ اور اللہ (تعالیٰ) بڑا بخشنے والا مہربان ہے.اور جو توبہ کرے اور اُس کے مطابق عمل کرے تو وہ شخص عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا۰۰۷۲ حقیقی طور پر اللہ( تعالیٰ) کی طرف جھکتا ہے.حلّ لُغَات.اَلْاَثَامُ.أَ لْأَثَامُ: جَزَآءُ الْاِثْمِ یعنی اثام کے معنے گناہ کی سزا کے ہوتے ہیں.(اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے.رحمٰن کے بندوں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ شرک نہیں کرتے.اور کسی ایسی جان کو قتل نہیں کرتے جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے.ہاں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ طریق پر قتل کرنا پڑے تو ایسا کر دیتے ہیں.جیسے جہاد میں یا قاتل کو اُس کے قتل کی سزا دینےکے لئے یہ علامات بھی ہمیں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ کی زندگیوں میں نہایت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں.انہوں نے توحید کی اشاعت کے لئے وہ وہ قربانیاں پیش کیں کہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں ان کا ذکر پڑھ کر انسانی قلب لرز جاتا ہے.وہ خدائے واحد ویگانہ پر ایمان لانے کی وجہ سے قتل کئے گئے.اُن کے اموال چھین لئے گئے.اُن کی عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی.انہیں اپنے وطن سے بے وطن کیا گیا.انہیں تپتی ریت پر لٹا یا گیا.اُن کے سینوں پر بڑے بڑے بھاری پتھر رکھ کر اُن پر جوتوں سمیت کودا گیا اور انہیں لات ومنات اور عزیٰ کی پرستش پر مجبور کیا گیا مگر وہ لوگ خدا تعالیٰ کے عشق میں کچھ ایسے سرشار تھے کہ اُن کی زبانوں سے اگر کوئی فقرہ نکلا تو صرف یہی کہ خدا ایک ہے.خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفّار مکہ نے یہاں تک پیشکش کی کہ ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر نےکے لئے تیار ہیں صرف اتنا مطالبہ آپ منظور کر لیں کہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہیں.مگر اتنی بڑی پیشکش کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے مطالبہ کو نہایت حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور ایک لمحہ کے لئے بھی یہ برداشت نہ کیا کہ خدائے واحد کی توحید میں کوئی خلل واقع ہو.بلکہ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا.پھر آپ کی آنکھوں کے سامنے محض توحید کو تسلیم کرنے کے جُرم میں آپ کے عزیز ترین صحابہ ؓ پر بڑے بڑے مظالم توڑے گئے خود آپ کو اور آپ کے خاندان کو اُن کے پیہم مظالم کا تختہ ٔ مشق بننا پڑا.مگر آپ نے ان تمام تکالیف کے باوجود دنیا کی ہر اُس قوم سے لڑائی کی جو توحید کی دشمن تھی.آپ نے مشرکین مکہ کا بھی مقابلہ کیا جو سینکڑوں بتوں کے پجاری تھے.آپ نے عیسائیوں کا بھی مقابلہ کیا جو مسیح ناصری کو ابن اللہ کہتے تھے.آپ نے یہود کا بھی مقابلہ کیا جو عزیر کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے آپ نے مجو سیوں کا بھی مقابلہ کیا جو آگ کے پجاری تھے اور آخرعرب میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں توحید کو غالب کرکے دکھا دیا اور بتوں کے پرستاروں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لا ڈالا.پھر جب آپؐ کی وفات کا وقت آیا تو حدیثوں میں آتا ہے کہ آپؐ کرب واضطراب کے ساتھ کبھی ایک کروٹ بدلتے اور کبھی دوسری اور بار بار فرماتے خدا تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ وقول اللہ تعالیٰ....) اس طرح آپ نے صحابہ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ دیکھنا میری قبر کو کبھی سجدہ گاہ نہ بنانا.دیکھنا میرے بشر ہونے کے مقام کو کبھی فراموش نہ کرنا.چنانچہ آپ کی اسی تعلیم اور تعہدکا یہ نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے ہر شہر اور ہر گائوں اور ہر قریہ میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکیوں میں پانچ مرتبہ یہ آواز بلند ہوتی سُنائی دیتی ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا للّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچّے رسول ہیں.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ نے توحید کا جھنڈا اتنی مضبوطی سے بلند کیا کہ وہ آج تک اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں لہرارہا اور کفار کے سینوں میں ناسُور ڈال رہا ہے.پس عبا دالرحمٰن کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ شرک کے کبھی قریب نہیں جاتے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو زمین پر پھیلانےکے لئے ہر قسم کی جائز کوششیں عمل میں لاتے رہتے ہیں کیونکہ شرک خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے بالکل منافی ہے.اسی طرح عباد الرحمٰن کی ایک اور علامت یہ بتائی کہ وہ کسی کو ناجائز طور پر قتل نہیں کرتے.یہ علامت بھی اپنی پوری شان کے ساتھ ہمیں صحابہ ؓ کے مقدس وجود میں جلوہ گر دکھائی دیتی ہے.وہ اس حکم پر اتنی سختی سے عمل کرتے تھے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایسی اقوام سے برسر پیکار رہے جو بزورِ شمشیر اُن سے اپنا مذہب بدلوانا چاہتی تھیں.پھر بھی اُن کی تلوار صرف اُن افراد پر اُٹھتی تھی جو عملاً جنگ میں شامل ہوں کسی عورت کسی بچے کسی بوڑھے کسی راہب اور کسی پنڈت یا پادری پر نہیں اٹھتی تھی.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام صرف لڑنے والے افراد سے جنگ کرنا جائز قرارد یتا ہے دوسرے افراد کو قتل کرنا خوا ہ وہ دشمن قوم سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں جائز قرار نہیں دیتا.آج دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں جو اپنے آپ کو عدل و انصاف کا علمبردار قرار دیتی ہیں اور جن کا وجود امنِ عالم کے قیام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اُن کی یہ کیفیت ہے کہ وہ دشمن اقوام کو ہمیشہ ایٹمی ہتھیا ر وں سے ہلاک کرنے کی دھمکی دیتی رہتی ہیں بلکہ عملاً گذشتہ جنگِ عظیم میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ جاپانی مردوں اور عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اسے امنِ عالم کے قیام کے لئے ایک بڑا بھاری کارنامہ قرار دے کر اسے سراہا گیا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں کہیں ایسا ظلم دکھائی نہیں دیتا کہ برسرِ پیکار ہونے کی حالت میں بھی انہوں نے بے گناہ مردوں اور عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کیا ہو.مگر یہ لاکھوں افراد کے ناجائز خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے تو عدل و انصاف کے مجسمہ کہلاتے ہیں اور وہ مسلمان جنہوں نے اپنے پائوں تلے کبھی ایک چیونٹی کو بھی نہیں مسلا تھا انہیں یہ لوگ ڈاکو اور لٹیرا قرار دیتے ہیں.ع بہ بیں تفاوت راہ از کجا است تابہ کُجا پھر فرماتا ہے عباد الرحمٰن کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ زنا نہیں کرتے.اور جو کوئی ایسا کرے وہ اپنے وبال کو اس دنیا میں طرح طرح کی بیماریوں یا بدنامیوں کے ذریعہ دیکھ لےگا.اور اگلے جہان میں جو اس کو عذاب ملےگا وہ بہت زیادہ ہوگا.اور پھر وہاں بھی عذاب کے علاوہ بڑی بھاری رسوائی ہو گی.ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے زنا
کی حرمت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِيْلًا ( بنی اسرائیل:۳۳)یعنی تم زنا کے قریب بھی نہ جائو کیونکہ وہ یقیناً ایک کھلی بے حیائی اور نہایت بُرا راستہ ہے.یعنی اوّل تو اس سے دل میں ناپاکی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جرم کا احساس اور چوری کا خیال دل میں پید ا ہوتا ہے اور دوسرے یہ اُس مقصود کے حصول کے لئے جس کے لئے عورت اور مرد کے تعلقات قائم کئے جاتے ہیں ایک غلط راستہ ہے.کیونکہ شہوت کی اصل غرض بقائے نسل کی غرض پورا کرنا ہے اور ناجائز تعلقات سے اصل غرض بر باد ہو جاتی ہے کیونکہ نسل محفوظ نہیں رہتی یا مشتبہ ہو جاتی ہے.پس اس راستہ سے اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکتا اور اگر کبھی حاصل بھی ہو جائے تو سیدھے راستہ کو ترک کر کے ٹیڑھا راستہ اختیار کرنا کو نسی عقلمندی ہے ہاں جو توبہ کریں گے اور رسمی ایمان کی بجائے حقیقی ایمان اپنے اندر پیدا کرلیں گے اور ایمان کے مناسبِ حال عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی بد نامیوں کو نیک نامیوں سے اُن کی ذلت کو عزت سے اور اُن کے دکھوں کو انعام سے بدل دےگا.کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنےوا لا ہے.اور جو شخص توبہ کرے اور اس کے مناسبِ حال عمل کرے تو اس کی یہ علامت نہیں کہ وہ صرف منہ سے توبہ کرے بلکہ اس کی علامت یہ ہے کہ اس شخص کا دل خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا چلا جائے.ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی مغفرت کے لئے توبہ پر زور دیا ہے اور ایمان اور عمل صالح کا حصول اس کے بغیر ناممکن قرار دیا ہے.مگر دنیا میں بہت لوگ ہیں جو توبہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ صرف منہ سے یہ کہہ دینے سے کہ ’’ میری توبہ ‘‘ توبہ مکمل ہو جاتی ہے.حالانکہ اس کے لئے سات امور کا ہونا ضروری ہے اور جب تک وہ سارے کے سارے موجود نہ ہوں اُس وقت تک توبہ کبھی بھی صحیح معنوں میں توبہ نہیں کہلا سکتی چنانچہ توبہ کے لئے پہلی شرط تو یہ ہے کہ انسان اپنے گذشتہ گناہوں کو یاد کرکے اور اُن کو اپنے سامنے لاکر اس قدر نادم ہو کہ گویا پسینہ پسینہ ہو جائے.دوسری شرط یہ ہے کہ پچھلے فرائض جس قدر رہ چکے ہیں اُن میں سے جن کو ادا کیا جاسکے اُن کو ادا کرنے کی کوشش کرے.مثلاً اگر صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود اُس نے حج نہیں کیا تھا تو اَب حج کرلے یا اگر زکوٰۃ نہیں دی تھی تو ساری عمر کو جانے دے اُسی سال کی زکوٰۃ دے دے.تیسری شرط یہ ہے کہ پچھلے گناہوں میں سے جن کا ازالہ ممکن ہو اُن کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے.مثلاًا گر کسی کی بھینس چُرا کر اُس نے اپنے گھر رکھی ہوئی ہو تو اُسے واپس کردے.چوتھی شرط یہ ہے کہ جس شخص کو کوئی دکھ پہنچا یا ہو اُس کے دُکھ کا ازالہ کرنے کے علاوہ اُس سے معافی طلب کرے.یہ ایک باریک رُوحانی مسئلہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندوں کے گناہوں کی معافی کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اُن کے متعلق بندوں سے ہی معافی طلب کی جائے اور اگر وہ معاف کردیں تو پھر
خدا تعالیٰ اُن کا مواخذہ نہیں کرتا.شبلی ؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں وہ خلافت ِ عباسیہ کے دَور میں کسی علاقہ کے گورنر تھے.ایک دفعہ وہ کسی کام کے سلسلہ میں بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے بغداد آئے.انہی دنوں ایک بہت بڑا جرنیل ایران کی مہم میں کامیابی حاصل کرکے واپس آیا اور بادشاہ نے اُس کے اعزاز میں دربار خاص منعقد کیا اور فیصلہ کیا کہ بھرے دربار میں اُسے خلعتِ فاخرہ دی جائے اور اُس کی عزت افزائی کی جائے.اتفاق سے اس روز اُسے نزلہ کی شکایت تھی جب اُسے خلعت دیا گیا اور دربار میں چاروں طرف سے اُس پر پھو ل برسا ئے جانے لگے تو اُسے چھینک آگئی اور ناک سے پانی بہ پڑا.اُس نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر رومال موجود نہیں تھا.یہ دیکھ کر اُس نے گھبراہٹ میں اُسی خلعت سے اپنی ناک پونچھ لی.بادشاہ نے اُسے دیکھ لیااور اُس نے سخت غضبناک ہو کر حکم دیا کہ اس شخص نے ہمارے خلعت کی ناقدری کی ہے اُس کا خلعت اتار لو اور اسے دربار سے نکال دو.چنانچہ اُس کا خلعت اُتار لیا گیا اور اُسے ذلت کے ساتھ دربار سے نکال دیا گیا.شبلی ؒ جو یہ تمام نظارہ دیکھ رہے تھے یکدم اُن کی چیخ نکلی اور انہوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا.بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ رونے کا کون سا مقام ہے ناراض تو میں جرنیل پر ہوا ہوں تم خواہ نخواہ کیوں روتے ہو.وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے حضور میرا استعفیٰ منظور فرمائیں ،بادشاہ نے پھر کہا یہ استعفیٰ کا کون ساموقعہ ہے.انہوں نے کہا بادشاہ سلامت یہ شخص آج سے دو سال پہلے ایک خطرناک مہم پر روانہ کیا گیا تھا.یہ رات اور دن دشمن کے مقابلہ میں رہا.ہر روز موت اس کے سر پر منڈلا تی تھی اور ہر رات اس کی بیوی بیوگی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے سوتی تھی.یہ گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن رہا.جنگلوں میں دھکے کھاتا رہا.مصائب اور آلام بر داشت کرتا رہا اور آخر فتح یاب ہو کر واپس آیا.آپ نے اس کی آمد کی خوشی میں یہ دربار منعقد کیا اور اُسے چند گز کپڑا خلعت کے طورپر عطا فرمایا.مگر صرف اس لئے کہ اُس نے اُس خلعت سے اپنی ناک پونچھ لی آپ اتنے غضبناک ہوئے کہ آپ نے اُسے دربار سے باہر نکال دیا.اور اس کا خلعت چھین لیا.میں اس نظارہ کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ جب چند گز کپڑے کی آپ ہتک برداشت نہیں کر سکے تو میرا خدا جس نے مجھے کروڑوں کروڑ نعمتیں عطا فرمائی ہوئی ہیں اور جس کی نعمتوں کی میں روزانہ ہتک کرتا ہوں وہ قیامت کے دن مجھ سے کیا سلوک کرےگا.میں اب اس ملازمت سے باز آیا.میر ااستعفیٰ قبول کیجئیے.میں اب اپنی بقیہ عمر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی بسر کروںگا.چنانچہ وہ استعفیٰ دے کر چلے گئے.اور پھر اپنے گناہوں کی معافی کے لئے مختلف بزرگوں کے پاس گئے مگر وہ اتنے ظالم مشہور تھے کہ کسی نے اُن کی بیعت لینے کی جرأت نہ کی.آخر وہ حضرت جنید ؒ کے پاس پہنچے.انہوں نے فرمایا.تمہاری توبہ قبول ہو سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے تم اُس شہر میں واپس جائو
جہاں تم گورنر رہے تھے اور ایک ایک دروازہ پر پہنچ کر لوگوں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور جب سب لوگوں سے معافی لے چکو تو پھر میرے پاس آئو.چنانچہ وہ اس علاقہ میں گئے اور انہوں نے گھر گھر پھر کر لوگوں سے معافیاں لینی شروع کیں.پہلے تو لوگ سمجھے کہ یہ رسمی طور پر معافی مانگ رہے ہیں.مگر جب انہوں نے دیکھا کہ شبلی ؒ معافی بھی مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بھی بہاتے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ آج اس شخص کے دل پر بھی خدائے رحمٰن کی حکومت قائم ہوگئی ہے.چنانچہ پھر تو یہ کیفیت ہوئی کہ جب وہ معافی مانگتے تو لوگ کہتے آپ ہمیں کیوں شرمندہ کرتے ہیں آپ تو ہمارے قابلِ احترام بزرگ ہیں.غرض اس طرح انہوں نے گھر گھر پھر کر معافی حاصل کی اور پھر وہ حضرت جنید ؒ کے پاس آئے.حضرت جنید ؒ نے جب دیکھا کہ انہوں نے سچے طور پر توبہ کر لی ہے تو انہوں نے اُس کی بیعت قبول کی اور پھر اُن کی تربیت میں انہوں نے اتنی بڑی ترقی کی کہ آج شبلی ؒ بھی اولیاء امّت میں سے سمجھے جاتے ہیں (تذکرۃ الاولیاء از سید رئیس احمد صفحہ ۳۴.۳۵ ذکر ابو بکرشبلی).پس توبہ کی ایک ضروری شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو کوئی دکھ پہنچا یا ہو اور اُن کی رضا حاصل کرنا ممکن ہو اُن سے معافی طلب کی جائے.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے وہ انسان کی بڑی بڑی برائیوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے.اس لئے انسان کو چاہیے کہ اپنی ستاری آپ بھی کرے اور وہ گناہ جن کو خدا تعالیٰ نے چُھپا رکھا ہو اُن کو خود ظاہر نہ کرے مثلاً کسی کی چوری کی ہو تو اُسے یہ نہیں چاہیے کہ خود جاکر اُسے بتلا ئے کہ میں نے تمہاری چوری کی تھی.ایسا کرنا بجائے خود گناہ ہوگا.ہاں بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو اَور لوگوں کو بھی معلوم ہوتے ہیں.مثلاً اگر وہ کسی کو گالی دیتا ہے یا کسی کو پیٹنے لگ جاتا ہے تو اُس کا اَوروں کو بھی علم ہوتا ہے.ایسے گناہوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور جن لوگوں کو دُکھ پہنچایا گیا ہو اُن سے معافی طلب کرنی چاہیے.پانچویں شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو اُس نے نقصان پہنچا یا ہو اُن سے مقدور بھر احسان کرے اور اگر کچھ نہیں کر سکتا تو اُن کے لئے دعا ہی کرے.اولیا کرام نے بھی لکھا ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کا مال ناجائز طورپر لیا ہو اور اُس کے اد ا کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ خدا تعالیٰ سے دُعا کرے کہ الٰہی مجھے تو اس کا مال دینے کی طاقت نہیں تو اپنے پاس سے ہی اسے دیدے اور اس کمی کو پورا فرما دے.چھٹی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرے اور فیصلہ کرے کہ اب میں کوئی گناہ نہیں کروںگا.ساتویں شرط یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نیکی کی طرف رغبت دلانا شروع کر دے.اور اپنے دل کو پاکیزہ
بنانے کی کوشش کرے تاکہ آئندہ ہر قسم کے نیک کاموں میں وہ دلی شوق سے حصہ لے سکے.یہ سات باتیں توبہ کے لئے ضروری ہیں.جب تک یہ تمام شرائط نہ پائی جائیں کو ئی توبہ مکمل نہیں کہلا سکتی.بعض لوگ توبہ کے مسٔلہ کے متعلق اپنی نادانی سے یہ خیال کر تے ہیں کہ توبہ کا دروازہ کھولنے سے بدی کا دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے.اور بجائے اخلاق میں ترقی کرنے کے انسان بد اخلاقی کے ارتکاب پر اور بھی دلیر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جب چاہوں گا توبہ کر لوںگا اور خدا سے صلح کر لوںگا.لیکن یہ خیال بالکل غلط اور توبہ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.’’جب چاہوں گا تو بہ کرلوںگا ‘‘ کا خیال کبھی ایک عقلمند انسان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ اُسے کیا معلوم ہے کہ میں کب مروںگا.اگر اچانک موت آجائے تو توبہ کس وقت کرے گا.علاوہ ازیں توبہ کی حقیقت کو یہ لوگ نہیں سمجھتے.توبہ کوئی آسان امر نہیں اور نہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے توبہ کرلے.کیونکہ توبہ اُس عظیم الشان تغّیر کا نام ہے جو انسان کے قلب کے اندر پیدا ہو کر اس کو بالکل گداز کر دیتا اور اُس کی ماہیت کو ہی بدل ڈالتا ہے.توبہ کے معنے جیسا کہ اوپر بتا یا جا چکا ہے اپنے پچھلے گناہوں پر شدید مذامت کا اظہار کرنے اور آئندہ کے لئے پورے طور پر خدا تعالیٰ سے صلح کرلینے اور اپنی اصلاح کا پختہ عہد کر لینے کے ہیں.اب یہ حالت یکدم کس طرح پیدا ہو سکتی ہے.یہ حالت تو ایک لمبی کوشش اور محنت کے نتیجہ میں پیدا ہوگی.ہاں شاذو نادر کے طور پر یکدم بھی پیدا ہو سکتی ہے مگر جب بھی ایسا ہوگا کسی عظیم الشان تغّیر کی وجہ سے ہوگا جو آتش فشاں مادہ کی طرح اُس کی ہستی کو ہی بالکل بدل دے.اور ایسے تغیرات بھی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہیں.پس توبہ کی وجہ سے کوئی شخص گناہ پر دلیر نہیں ہو سکتا.بلکہ توبہ اصلاح کا حقیقی علاج اور مایوسی کو دُور کرنے کا ایک زبر دست ذریعہ ہے جو انسان کو کو شش اور ہمت پر اکساتا ہے.اوریہ دھوکا کہ توبہ گناہ پر اکساتی ہے محض عربی زبان کی ناواقفیت اور اس خیال کے نتیجہ میں پیدا ہو ا ہے کہ توبہ اس امر کا نام ہے کہ انسان کہہ دے کہ یا اللہ میرے گناہ معاف کر حالانکہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام توبہ نہیں استغفار ہے.توبہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کو نہیں کہتے بلکہ گناہوں کی معافی سچی توبہ کا صحیح نتیجہ ہوتا ہے.اور اس دروازہ کو کھول کر اسلام نے انسانی روح کو مایوسی کا شکار ہونے سے بچا لیا ہے بلکہ اُس کے لئے لامتناہی ترقیات کا دروازہ کھول دیا ہے کیونکہ جب انسان کو معلوم ہوجائے کہ اُس کے لئے ترقی کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی پاکیزگی حاصل کر سکتا اور خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے تو وہ ہمت نہیں ہارتا اور اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہتا ہے اور آخر وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اُس کی روح ہر قسم کی سفلی آلائشوں سے پاک ہو کر عالم بالا کی طر ف پرواز کرنے لگتی ہے.
وَ الَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا اور وہ لوگ بھی (اللہ کے بندے ہیں )جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے اور جب لغو باتوں کے پاس سے گذرتے ہیں تو كِرَامًا۰۰۷۳ بزرگانہ طورپر (بغیر اُن میں شامل ہونے کے )گذر جاتے ہیں.حلّ لُغَات.اَلزُّوْرُ.اَلزُّوْرُ: اَلْکِذْبُ.زور کے معنے جھوٹ کے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں الشِرْکُ بِا للّٰہِ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا.مَجْلِسُ الْغِنَائِ : گانے کی مجلس مَایَعْبَدُمِنْ دُوْنِ اللّٰہِ.اللہ کے سوا معبودانِ باطلہ جن کی عبادت کی جاتی ہے.اَلْقُوَّۃُ.طاقت.لِیْنُ الْثَوْبِ : کپڑے کی نرمی.اسی طرح زُور کے ایک معنے عقل کے بھی ہیں.( اقرب) کِرَامٌ.کِرَامٌ کَرِیْمٌ کی جمع ہے اور اَلْکَرِیْمُ کے معنے ہیں ذُوالْکَرَمِ : عزت والا قِیْلَ الْکَرِیْمُ قَدْ یُطْلَقُ عَلَی الْجَوَادِ الْکَثِیْرِ النَّفْعِ.بعض ائمہ لُغت کہتے ہیں کہ کریم کا لفظ سخی اور نفع رساں شخص کے لئے بولا جاتا ہے.وَقَدْ یُطْلَقُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ عَلیٰ اَحْسَنِہٖ کَمَا قِیْلَ اَلْکَرِیْمُ صِفَۃٌ مَا یُرْضَیْ وَیُحْمَدُ فِیْ بَا بِہٖ.نیز کریم کا لفظ ہر اس وجودکے لئے بولا جاتا ہے جو کسی نوع میں سے اعلیٰ درجہ کا ہو.اسی طرح کریم کا لفظ ہر اُس چیز کی حقیقت کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو اپنی نوع میں اعلیٰ درجہ کی ہو اور ہر شخص کو پسند آئے.چنانچہ کہتے ہیں رِزْقٌ کَرِیْمٌ یعنی اعلیٰ درجہ کا اورا تنا کثیر رزق جو پسند کیا جائے.نیز کہتے ہیں قَوْلٌ کَرِیْمٌ اور اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نرم اور عمدہ بات اسی طرح کہتے ہیں کِتَابٌ کَرِیْمٌ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی کتاب جو اپنے الفاظ ، معانی اور فوائد میں بے نظیر اور اعلیٰ درجہ کی ہو.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.رحمٰن کے بندوں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ زُور کے ساتھ گواہی نہیں دیتے زُور کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے جھوٹ کے بھی ہیں.پس اس لحاظ سے لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ کے معنے یہ ہیں کہ لَا یَشْھَدُوْنَ بِالزُّوْرِ یا لَا یَشْھَدُوْنَ شَھَادَۃَ الزُّوْرِ.یعنی عباد الرحمٰن کی ایک یہ علامت ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے.حقیقت یہ ہے کہ توحید کے بعد سب سے بڑی نیکی اور سب سے بڑا مشکل کام جو اس دنیا میں انسان کے
سامنے پیش آتا ہے وہ سچائی ہی ہے.ہزاروں انسان ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رحم کرنے والے بھی ہوتے ہیں.انصاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں لیکن جب انہیں گواہی دینی پڑے اور وہ یہ دیکھیں کہ اُس کے نتیجہ میں اُن کی اپنی ذات کو یا اُن کے کسی رشتہ دار اور دوست کو نقصان پہنچے گا تو وہ اس میں کچھ نہ کچھ ضرور تبدیلی کردیں گے.اور یہ مرض اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بڑی دلیری کے ساتھ قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے جھوٹ کو سچ کیوں نہیں مانا جاتا.عدالتوں میں پہلے یہ رواج تھا کہ گواہ کے ہاتھ میں قرآن کریم دے کر اُس سے قسم لیتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں جو وعید نازل ہوئے ہیں انہیں مدّنظر رکھتے ہوئے میں قسم کھاتا ہوں اور اگر میری قسم جھوٹی ہو تو مذکورہ وعید اور سزائیں مجھے ملیں.لیکن اُن گواہوں میں سے کئی ایسے ہوتے تھے جو قسم کھا کر بھی جھوٹ بولتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے اور ای.اے.سی تھے.وہ اپنا تجربہ سنایا کرتے تھے کہ جتنے جوش سے کوئی شخص قرآن کریم ہاتھ میں لے کر میرے سامنے گواہی دیتا تھا.میرے تجربہ میں اُتنا ہی وہ جھوٹا ہوتا تھا.وہ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا اچھا واقف تھا اُس کا مقدمہ میرے سامنے پیش ہوا.وہ کہنے لگا مجھے کوئی اور تاریخ دی جائے کیونکہ جو گواہ میں نے پیش کرنے تھے وہ فلاں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.میں نے ہنس کر کہا میں تو تمہیں بڑا عقلمند اور ہوشیار آدمی سمجھا کرتا تھا.لیکن اب میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ تم بڑے بے وقوف ہو.وہ کہنے لگا کیوں.میں نے کہا گواہوںکے لئے جگہ اور وقت کی کیا ضرورت ہے.اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو روپیہ اٹھنی دے کر بعض آدمی گواہی کے لئے لے آئو.چنانچہ وہ باہر چلا گیا اور عملی طور پر تھوڑی دیر کے بعد ہی کچھ گواہ لے آیا.گواہی لیتے وقت میں ہنستا بھی جائوں اور اُن سے مذاق بھی کرتا جائوں.وہ لوگ قرآن کریم سر پر رکھ کر اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واقعہ یوں ہوا ہے حالانکہ تھوڑی دیر ہوئی میں نے خود مدعی کو اس غرض کے لئے باہر بھیجا تھا کہ وہ کچھ دے دلا کر چند گواہ لے آئے.جب وہ گواہی دے چکے تو میں نے انہیں پکڑا اور اُن سے کہا کہ تم بڑے کذاب ہو.تمہیں واقعہ کا کچھ بھی علم نہیں لیکن محض چند ٹکوں کی وجہ سے تم اتنا جھوٹ بول رہے ہو کہ قرآن کریم کی بھی پروا نہیں کرتے.جس قوم کے افراد کی یہ حالت ہو اُس کا یہ شور مچا نا کہ ہم جیتتے کیوں نہیں بالکل غلط بات ہے.دنیا میں وہی قومیں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت اور راستبازی ہوتی ہے.میں عیسائی دنیا کو دیکھتا ہوں کہ انہوں نے مشق کے ساتھ اپنے اندر سچائی کی اتنی عادت پیدا کر لی ہے کہ جہاں حکومت کی خاطر وہ ہر قسم کا جھوٹ بول لیتے ہیں وہاں جب ذاتیات کا سوال آتا ہے تو وہ جھوٹ نہیں بولتے.لوگ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کی ترقی سائینس کی
وجہ سے ہوئی ہے حالانکہ اُن کی ترقی نہ سائینس کی وجہ سے ہوئی ہے اور نہ گولہ بارود کی وجہ سے ہوئی ہے بلکہ اُن کی ترقی محض اخلاق کی وجہ سے ہوئی ہے.انگریزی عدالتوں میں چلے جائو اور وہاں اُن کے واقعات دیکھو.جج پوچھتا ہے تم نے یہ جرم کیا ہے وہ کہتا ہے ہاں کیا ہے.پھر پوچھتا ہے تم فلاں جگہ پر تھے.وہ کہتا ہے جی ہاں تھا.ہماری عدالت میں چلے جائو.چور کو پولیس والے عین سیندھ کے اوپر سے پکڑ کر لاتے ہیں اور جج پوچھتا ہے تم وہاں تھے تو وہ کہتا ہے.میں تو اس محلہ میں تھا ہی نہیں.وہ پوچھتا ہے تم کہاں تھے.وہ کہتا ہے میں تو فلاں شہر میں تھا.پھر وہ پوچھتا ہے ارے پولیس نے تم کو وہاں سے نہیں پکڑا.وہ کہتا ہے جھوٹ ہے.ان کو مجھ سے فلاں پرانی عداوت تھی اس کی وجہ سے یہ مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں.غرض شروع سے لےکر آخر تک جھوٹ ہی جھوٹ چلتا ہے اور وہاں گو مجرم اپنے بچائو کی بھی کوشش کرتا ہے.ٹرِک TRICKبھی کرتا ہے.لیکن غیر ضروری ٹرِک TRICKنہیں کرتا.اور یہاں غیر ضروری جھوٹ بولا جاتا ہے.مثلاً چوری کے ساتھ اس امر کا کوئی تعلق نہیں کہ اُس نے اُس وقت کا لا کوٹ پہنا ہوا تھا یا لال لیکن اگر وہ کہیں گے کہ کالا کوٹ پہنا ہوا تھا تو یہ کہےگا نہیں میں نے تو لال پہنا ہوا تھا.یا مثلاً وہ کہہ دیں گے کہ تمہارے ہاتھ میں چھڑی تھی اب اس کا چوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن یہ کہے گا.نہیں میرے ہاتھ میں چھڑی نہیں تھی.میرے ہاتھ میں قرآن تھا.غرض یہ غیر ضروری جھوٹ جس کا مقدمہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی یہ بولتا ہے اور ہر بات میں اُن کی تردید کرتا چلا جائےگا اور کہے گا یہ نہیں تھا وہ تھا.لیکن یورپ میں چلے جائو.سو میں سے ننانوے باتیں ملزم مان لےگا.کوئی ایک اپنی جان بچانےکے لئے ٹرِک TRICKبھی کر جائےگا لیکن باقی سب باتوں کے متعلق کہے گا کہ ٹھیک ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کا کچھ نہ کچھ باعث آجکل کی اخلاقی حالت بھی ہے.جن لوگوں کے سامنے آج کل مقدمات پیش ہوتے ہیں وہ سچ کی قیمت نہیں سمجھتے وہ خیال کر تے ہیں کہ اس نے جتنا سچ بولا ہے مجبوراً بولا ہے ورنہ اور سچ ابھی اس کے پیچھے ہے.مثلاً ایک شخص نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا.وہ کہتا ہے میں نے تھپڑ اس لئے مارا تھا کہ مجھے اشتعال آگیا تھا.لیکن اب بجائے اس کے کہ جج اس کی قدر کرے اور کہے کہ اس نے سچ بولا ہے وہ کہتا ہے کہ اس نے ضرور پانچ تھپڑ مارے ہوںگے.صرف ایک تھپڑ کا اس نے اقرار کیا ہے.غرض جھوٹ دنیا میں اتنا سرائت کر گیا ہے کہ کیا جج اور کیا وکیل اور کیا دوسرے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ کوئی شخص سو فیصدی بھی سچ بول سکتا ہے.چونکہ اُن کا اپنا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ اُن کے دوست اور رشتہ دار جھوٹ بولتے ہیں اس لئے اگر ان کے سامنے کوئی سچ بولے تو اس کی بھی قدر نہیں کی جاتی.وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ لوگ ضرور بولتے ہیں اس لئے اس نے بھی کچھ نہ کچھ جھوٹ ضرور بولاہوگا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سچ بولنے والا گھبرا جاتا ہے اور گھبرا کر وہ خو د بھی جھوٹ
بولنے لگ جاتا ہے.لیکن مومن کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے گرد و پیش کے لوگ کیا کہتے ہیں.بلکہ اُسے یہ دیکھنا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے.آخر ایمان کے کچھ نہ کچھ معنے تو ہو نے چاہئیں.جب ایک شخص ایمان کی وجہ سے ساری دُنیا سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے فساد مول لیتا ہے تو اس کے کچھ معنے تو ہونے چاہئیں.اور ایمان کے کم سے کم معنے یہ ہیں کہ ایک انسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے خدا دوسری چیزوں سے مقدم ہے.اب جن چیزوں کو وہ مؤخر قرار دیتا ہے اگر اُن کو مقدم کرنے لگ جائے تو اس کا ایمان کہاں باقی رہا.ایک طرف خدا کہتا ہے کہ سچ بولو اور دوسری طرف اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ جھوٹ بولو.چاہے وہ منہ سے کہیں یا عمل سے دنیا میں دونوں طریق ہوتے ہیں.کبھی انسان دوسرے کو کہتا ہے کہ جھوٹ بولو اور کبھی دوسرا جھوٹ بولتا ہے تو اُسے منع نہیں کرتا.اور اس طرح جھوٹ کی تائید کرنے والا بن جاتا ہے.بہرحال خدا کا منشاء یہ ہے کہ ہم سچ بولیں.اب اگر ہم جھوٹ بولیں اور سچائی کو چھپائیں تو ہماری نگاہ میں خدا کی کوئی قدر نہ رہی.یایوں کہو کہ ہم خدا کی بادشاہت کو قائم کرنے کی بجائے شیطان کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے والے بن جائیں گے.خدا کی بادشاہت تو اسی صورت میں قائم ہو سکتی ہے جب سچی گواہی دیتے وقت انسان نہ اپنے با پ سے ڈرے نہ اپنے بیٹے سے ڈرے نہ ماں سے ڈرے نہ بھائی سے ڈرے نہ دوست سے ڈرے اور نہ کسی اور رشتہ دار سے ڈرے.ایک باپ اگر جھوٹ کی جرأت کرتا ہے تو اسی لئے کہ وہ سمجھتا ہے میر ا بیٹا میری تائید کرےگا یا میری بیوی میری تائید کر ے گی لیکن اگر عدالت میں معاملہ پیش ہو اور بیٹا کہے کہ یہ ہیں تو میرے باپ لیکن انہوں نے یہ بات کی ہے.بیوی کہے کہ یہ ہیں تو میرے خاوند لیکن انہوں نے یہ بات کی ہے.تو دوسرے ہی دن وہ جھوٹ چھوڑ دےگا.وہ اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے اس کے افعال پر پردہ پڑا رہےگا.بھائی اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ دوسرا بھائی اُس کی ہاں میں ہاں ملا دےگا.بیٹا اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا باپ میری تائید کرے گا.خاوند اس لئے جھوٹ بولتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میری بیوی میرے عیب کو چھپائےگی.اور میری تصدیق کرےگی بیوی اگر جھوٹ بولتی ہے تو اس لئے کہ وہ سمجھتی ہے میرا خاوند میرا ساتھ دے گا.لیکن اگر وہ سچے مسلمان ہوں تو باپ کے خلاف بیٹا گواہی دینے کے لئے کھڑا ہو جائےگا اور خاوند کے خلاف بیوی گواہی دینےکے لئے کھڑی ہو جائےگی اور وہ بالکل گھبرا جائےگا.اور کہےگا ایسی حالت میں میرا جھوٹ بولنا بے فائدہ ہے اور اس روح کا اپنے اندر قائم کرنا کوئی بڑی بات نہیں.اگر ہر بچہ ہر بوڑھا ہر جوان ہر مرد اور ہر عورت یہ عہد کرلے کہ میں نے سچ بولنا ہے چاہے اس کے نتیجہ میں مَیں کسی مقدمہ میں پھنس جائوں یا پھانسی پر چڑھ جائوں تو تھوڑے دنوں میں ہی تم اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر محسوس کرنے لگو گے.یہ مت خیال کرو کہ سچ بولنے پر پھانسی
ملتی ہے.جو شخص سچ بولنے والا ہو وہ ایسے کام ہی نہیں کرتا جن کے نتیجہ میں اُسے پھانسی ملے لیکن جھوٹ بولنے والا سمجھتا ہے کہ اگر میں نے جھوٹ بولا تو شاید بچ جائوں اس لئے وہ دلیری سے ایسے افعال میں مبتلا ہو جاتا ہے جن کا نتیجہ بعض دفعہ نہایت خطرناک ہوتا ہے اور یا پھر سچ بولنے والا اُس وقت پھانسی چڑھتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اب میرا مذہبی فرض ہے کہ میں اپنی جان پیش کردوں.پھر وہ دلیری کے ساتھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بے شک پھانسی دے دو.غرض سچائی ایک بڑی اہمیت رکھنے والی چیز ہے.انبیاء نے اس پر خاص زور دیا ہے اور انسانی اخلاق کا یہ ایک بنیادی حصہ ہے.مگر آج کل سیاسی اور قومی مفاد کی خاطر جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا.بلکہ اُسے ایک نہایت ضروری چیز قرار دیا جاتا ہے.حالانکہ جھوٹ فطرت کے خلاف ہے جھوٹ اس چیز کا نام ہے کہ کان نے جو کچھ سنا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ میں نے نہیں سنا.آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہو اُس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ میں نے نہیں دیکھا.ہاتھ نے ایک چیز اٹھائی ہو لیکن انسان یہ کہہ دے کہ میرے ہاتھ نے فلاں چیز نہیں اٹھائی.ایک شخص کے پائوں ایک طر ف چلیں لیکن وہ کہہ دے کہ میرے پائوں اس طر ف نہیں چلے.گویا انسان غیر کی نہیں اپنی تردید کرتا ہے.اور اس سے زیادہ فطرت کے خلاف اور کیا چیز ہو گی.شبہ اس چیز میں ہو سکتا ہے جس میں قیاس کا دخل ہو.حواسِ خمسہ کے افعال پر شبہ نہیں کیا جاسکتا.اور حواسِ خمسہ کے افعال کے خلاف بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں.جو شخص حواسِ خمسہ کی تردید کرتا ہے وہ گویا اپنی زبان ، ہاتھ ، پائوں ، ناک اور کان کی تردید کرتا ہے اور پھر وہ اس میں سب سے زیادہ لذت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف آپ گواہی دے رہا ہے.ایک انسان کے ہاتھ ایک چیز کو پکڑ تے ہیں اور وہ کہتا ہے میں نے فلاں چیز نہیں پکڑی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کہتا ہے تم نے فلاں چیز نہیں پکڑی.ایک چیز اس کی زبان چکھتی ہے لیکن وہ کہتا ہے میں نے فلا ں چیز نہیں چکھی.تواس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں چکھی یا اس کے کان ایک بات سنتے ہیں اور وہ اس کا انکار کردیتا ہے.تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کانوں سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں بات نہیں سُنی.اب یہ کتنی مضحکہ خیز اور عجیب بات ہے مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور موقعہ آنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں.اور اگر ایک جھوٹ بولے تو دوسرا اس کی تائید کرنے لگ جاتا ہے.قاضی کے سامنے معاملہ جائےگا تو بیٹا کہےگا کہ میرا باپ تو وہاں تھا ہی نہیں وہ تو فلاں جگہ تھا.حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہوتا ہے.اسی طرح عورتوں میں بھی جھوٹ کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے بلکہ اُن میں جھوٹ کی عادت مردوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے وقت عورتوں
سے یہ عہد لیا کرتے تھے کہ ہم جھوٹے اتہام نہیں باندھیں گی (ممتحنہ ع ۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب عورتوں میں اتہام لگانے کی عام عادت تھی پھر اُن کے جھوٹ بولنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ بچوں کو بھی اس کی عادت پڑ جاتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہماری ماں جھوٹ بولتی ہے تو ہم کیوں نہ بولیں.اور پھر وہ ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں کہ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ،کہتے ہیں دو دوست آپس میں اکٹھے ہوئے تو اُن میں سے ایک نے کہا کہ اپنے اپنے خاندان کی کوئی بات سُنائو.اس پر ایک کہنے لگا کہ اب تو وہ بات نہیں رہی ہم تو بڑے رئیس ہوا کرتے تھے چنانچہ ہمارے نانا کا اتنا بڑا طویلہ تھا کہ جب قحط پڑا کرتا تو سارے شہر کے جانور اُس کے ایک کونے میں سما جاتے تھے.دوسرا کہنے لگا ہمارے نانا جان کے پاس ایک ایسا بانس تھا کہ جب کبھی بارش نہ ہوتی تو وہ بانس سے بادلوں کو چھید کر بارش برسا لیتے.دوسرے کو غصّہ آگیا کہنے لگا تمہارے نانا جان یہ بانس رکھا کہاں کرتے تھے وہ کہنے لگا تمہارے ناناجان کے طویلہ میں.اور کہاں ؟ اب دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو اُن دونوں نے بولا اسی طرح میں نے ایک دفعہ قصّہ پڑھا کہ ایک انگریز کی لڑکی سکول میں داخل ہوئی.ادھر سے ایک حلوائی کی لڑکی بھی داخل ہوئی.ایک نے دوسری سے پوچھا کہ تم کون ہو.تو حلوائی کی لڑکی کہنے لگی کہ میرے ابّا ڈپٹی ہیں.دوسری کہنے لگی کہ میرے ابّا بڑے بینکر ہیں.ساہو کار ہ کا م ہے اور بیسیوں ہمارے مکان ہیں.ایک دفعہ اُس نے اپنی سہیلی کی دعوت کر دی.اب بینکر کی لڑکی کے ہاں نوکر تو تھے نہیں.اُس نے اپنے بھائی بہنوں کو نوکر بنایا.پیسٹری رکھی.بازار سے چائے کے برتن منگوائے اور جب ڈپٹی کی لڑکی آئی تو دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں.ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک ہمسائی آئی جب اس کی نظر دوسری لڑکی پر پڑی تو کہنے لگی یہ تو ہمارے انگریز بھائی کی لڑکی ہے.حلوائی کی لڑکی کہنے لگی یہ تو بینکر کی لڑکی ہے.وہ کہنے لگی بالکل غلط ہے یہ تو ہمارے محلہ کی فلاں انگریز کی لڑکی ہے اب یہ پاکھنڈ صرف اس لئے بنایا گیا کہ وہ اس کو امیر سمجھے اور یہ اُس کو.مگر یاد رکھو سچ کے یہ معنے بھی نہیں کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ تم لوگوں میں بیان کرتے پھرو قرآن کریم نے بعض باتوں کے بیان کرنے سے انسان کو روکا ہے.پس اگر کوئی شخص اُن اُمور کو بیان کرتا ہے تو وہ سچ نہیں بولتا بلکہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے.سچ کے معنے صرف یہ ہیں کہ اگر تم کوئی بات کہو تو ضرور سچ کہو.یہ نہیں کہ تم وہ بات ضرور کہو.مثلاً اگر کوئی چور تمہارے پاس راز لینے کے لئے آتا ہے تو تم اس سے کہہ سکتے ہو کہ میں نہیں بتاتا.جائو نکل جائو.یہ جھوٹ نہیں ہو گا لیکن یہ ضرور جھوٹ ہوگا کہ تم اُسے اصل جگہ چھپا کر دوسری جگہ بتا دو.اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا عیب دیکھتا اور اُسے ہر جگہ بیان کرتا پھرتا ہے تو یہ بھی سچ نہیں بلکہ اپنے بغض و کینہ کا اظہار اور غیبت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا کسی کے متعلق سچی بات کا
بیان کرنا بھی غیبت ہے ؟ آپؐ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے ورنہ اگر وہ سچی بات نہ ہوتو اس کا بیان کرنا غیبت نہیں بلکہ جھوٹ ہے.(ترمذی ابواب البر و الصلۃ باب ما جاء فی الغیبة).پس سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسروں کی کمزوریوں کو ہر جگہ بیان کرتے پھر و.بلکہ سچ بولنے کے یہ معنے ہیں کہ جب قاضی کے سامنے شہادت کا موقعہ آئے تو بغیر اس بات کا خیال کئے کہ سچا واقعہ بیان کرنے سے تمہارے دوست یا بھائی یا باپ یا بیوی پر کوئی الزام آئےگا.تم ہر سوال کا جواب سچ سچ دےدو یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ گواہی صرف قاضی لے کیونکہ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں شریعت کہتی ہے کہ گواہی نہ لو.اَب اگر گواہی لینے والا قاضی نہ ہو تو ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کے پوچھنے کی شریعت نے اُسے اجازت نہیں دی اور اس طرح فتنہ پھیل جائے.پس سچ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم دیکھو اُسے ضرور بیان کرو اور نہ سچ کے یہ معنے ہیں کہ تم جو کچھ دیکھو اُسے ہر ایک کے سامنے بیان کرو.اگر غیر قاضی تم سے سوال کرتا ہے تو تم کہہ دو میں نہیں بتا تا.اسی طرح اگر تم کسی شخص کو کوئی جرم کرتے دیکھتے ہو تو تمہارا اُس پر پردہ ڈال دینا سچ کے خلاف نہیں تمہارا سچ کے خلاف فعل اس وقت متصور ہوگا جب قاضی یا قائم مقام قاضی جسے شریعت نے اپنے دائرہ میں گواہی لینے کا حق دیا ہے.تم سے دریافت کرے اور تم سچ نہ بولو لیکن اگر وہ تمہیں گواہی کے لئے نہ بلائے تو خواہ وہ بات درست ہی ہو اُس کا چھپانا سچ کے خلاف نہیں بلکہ اس طرح تم صلح پسند بنتے ہو.اور فتنہ و فساد سے اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو محفوظ رکھتے ہو.(۲ )زُور کے دوسرے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے عقل کے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ رحمٰن کے بندے عقل سے گواہی نہیں دیتے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے عقلی سے گواہی دیتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ واقعات کے مطابق گواہی دیتے ہیں قیاسی گواہی نہیں دیتے.(۳) زُور کے تیسرے معنے طاقت کے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ رحمٰن کے بندے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں غریب آدمی کو ذلیل کرنے کے لئے گواہی نہیں دیتے.(۴) زُور کے چوتھے معنے شرک کے ہیں.اس لحاظ سے وَالَّذِیْنَ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ کے یہ معنے ہوںگے کہ رحمٰن کے بندے شرک کی مجالس میں نہیں جاتے.(۵) زُورکے پانچویں معنے مَجْلِسُ الْغِنَائِ یعنی گانے بجانے کی مجلس کے ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رحمٰن کے بند ے گانے بجانے کی مجلس میں نہیں جاتے تاکہ اُس کے زہریلے اثرات سے وہ محفوظ رہیں اور خدا تعالیٰ سے غافل ہو کر ہوا وہوس کے پیچھے نہ چل پڑیں اسی بناء پر میں نے اپنی جماعت کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ
سینما نہ دیکھا کرے.کیونکہ اس میں بھی گانا بجانا ہوتا ہے جو انسانی قلب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غافل کر دیتا ہے پہلے یہ چیز تھیٔٹر میں ہو ا کرتی تھی لیکن جب سے ٹاکی نکل آئی ہے سینما میں بھی یہ چیزیں آگئی ہیں بلکہ تھیٔٹر سے زیادہ وسیع پیمانہ پر آئی ہیں.کیونکہ تھیٔٹر کا صرف ایک شو ہوتا تھا جس میں بڑے بڑے ماہرِفن گویّوں کو بلانا بہت بڑے اخراجات کا متقاضی ہوتا تھا جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور پھر ایک شو صرف ایک جگہ ہی دکھایا جا سکتا تھا.مگر اب ایک شو سے ہزاروں فلمیں تیار کر کے سارے ملک میں پھیلا دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ماہرِ فن گویّوں اور موسیقاروں کو بلایا جاتا ہے.اس لئے تھیٔٹر سے سینما کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہکاتا ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس واضح ہدایت کو بھلا دیا اور وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں رنگ رلیوں میں مشغول ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا.خلافت ِ عباسیہ تباہ ہوئی تو محض گانے بجانے کی وجہ سے.ہلاکو خاں اپنے لائو لشکر کے ساتھ منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہو ابغداد کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا اور مستعصم باللہ ناچ گانے میں مشغول تھا اور بار بارکہتا تھا کہ تم گانے والیوں کو بلائو.بغداد پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا.جو حملہ کرےگا وہ خود تباہ ہو جائےگا لیکن ہلاکو خاں نے پہنچتے ہی سب سے پہلے بادشاہ کو قتل کر وایا پھر اُس کے ولی عہد کو قتل کیا اور پھر بغداد پر حملہ کرکے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اٹھارہ لاکھ آدمی قتل کر دئیے (الفخری زیر عنوان آخر الخلفاء الدھین خلافة المستعصم باللہ و تاریخ العرب الجزء الثانی صفحہ ۵۸۱.۵۸۲).اسی طرح مغلیہ حکومت کی تباہی بھی گانے بجانے کی وجہ سے ہی ہوئی.’’ محمد شاہ رنگیلے ‘‘ کو رنگیلا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گانے بجانے کا بہت شوقین تھا.بہادر شاہ جو ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ تھا وہ بھی اسی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوا.انگریزوں کی فوجیں کلکتہ سے بڑھ رہی تھیں.الٰہ آباد سے بڑھ رہی تھیں کانپور سے بڑھ رہی تھیں.میرٹھ سے بڑھ رہی تھیں.سہارنپور سے بڑھ رہی تھیں اور بادشا ہ کے دربار میں گانا بجانا ہو رہا تھا.آخر انگریزوں نے اُس کے بارہ بیٹوں کے سرکاٹ کر اور خوان میں لگا کر اُس کی طرف بھیجے اور کہا کہ یہ آپ کا تحفہ ہے(بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد باب ۴۱ شاہی خاندان کی بپیتا صفحہ ۸۳۸.۸۳۹).اندلس کی حکومت بھی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر کی حکومت بھی گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی.مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اُس وقت گانے بجانے میں ہی مشغول تھا مگر اتنی بڑی تباہی دیکھنے کے با وجود مسلمانوں کو اب بھی یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجانا سُنیں اور وہ اپنی تاریخ سے کوئی عبرت حاصل نہیں کر تے.حالانکہ قرآن کریم نے وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ میں بتا دیا ہے کہ اگر مسلمان عبادالرحمٰن
بننا چاہتے ہیں تو اُن کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ گانے بجانے کی مجالس کو ترک کریں.اور خدائے واحد سے لو لگائیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے.اور اگر نہیں کریں گے تو اس کے تباہ کن نتائج سے وہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے.پھر فرماتا ہے.وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا.عباد الرحمٰن کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ جب وہ لغو باتوں کے پاس سے گذرتے ہیں تو دنیوی لذّات سے متاثر ہو کر اُن میں شامل نہیں ہو جاتے.جیسے مسیح ؑکی امت ذکر الٰہی کو بھول کر ناچ گانے اور موسیقی میں مشغول ہو گئی بلکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُن میں شامل ہوئے بغیر بزرگانہ طورپر وہاں سے گذر جاتے ہیں اور دنیوی لذّات پر رضا ء الٰہی کو مقدم رکھتے ہیں.میرے نزدیک موجودہ زمانہ میں جو لغویات پائی جاتی ہیں اُن میں سب سے مقدم سینما ہے جو قومی اخلاق کے لئے ایک نہایت ہی مہلک اور تباہ کن چیز ہے اور تمدنی لحاظ سے بھی ملکی امن کے لئے خطرہ کا موجب ہے.میں نے کچھ عرصہ ہوا فرانس کے متعلق پڑھا کہ وہاں کئی گائوں صرف اس لئے ویران ہو گئے کہ لوگ سینما کے شوق میں گائوں چھوڑ چھوڑ کر شہروں میں آکر آباد ہو گئے تھے.اور گورنمنٹ کو فکر پڑ گئی کہ اس رَو کو کس طرح روکا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس کا بُرے طور پر استعمال کرکے اس زمانہ میں اسے انتہائی طور پر نقصان رساں اور تباہ کن بنادیا گیا ہے.ورنہ اگر کوئی شخص ہمالیہ پہاڑ کے نظاروں کی فلم تیار کر ے اور وہاں کی برف اور درخت اور چشمے وغیرہ لوگوں کو دکھائے جائیں.اُس کی چٹانوں اور غاروں اور چوٹیوں کا نظارہ پیش کیا جائے اور اس میں کسی قسم کا باجا یا گانا نہ ہو.تو چونکہ یہ چیز علمی ترقی کا موجب ہوگی اس لئے یہ جائز ہوگی.اسی طرح اگر کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی ہو یا تعلیمی ہو اور اُس میں گانے بجانے یا تماشہ کا شائبہ تک نہ ہوتو اس کے دیکھنے کی بھی ہم اجازت دے دیں گے.اسی طرح تربیتی یا جنگی اداروں کی طرف سے جو خالص علمی تصاویر آتی ہیں جن میں جنگلوں دریائوں کے نظارے یا کارخانوں کے نقشے یا لڑائی کے مختلف مناظرہوتے ہیں وہ بھی دیکھے جا سکتے ہیں.کیونکہ ان کے دیکھنے سے علمی ترقی ہوتی ہے یا بعض صنعتی یا زرعی تصویریں ہوتی ہیں جن میں کسانوں کو کھیتی باڑی کے طریق سکھائے جاتے ہیں.فصلوں کو تباہ کرنے والی بیماریوں کے علاج بتائے جاتے ہیں.زراعت کے نئے نئے آلات سے روشناس کیا جاتا ہے.عمدہ بیج اور اُن کی پیداوار دکھائی جاتی ہے.ایسی چیزیں لغو میں شامل نہیں کیونکہ اُن کے دیکھنے سے علمی لحاظ سے انسان کو ایک نئی روشنی حاصل ہو تی ہے اور اس کا تجربہ ترقی کرتا ہے اور وہ بھی اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت کو زمانہ کی دوڑ کے ساتھ ساتھ بڑھانے اور ترقی دینے کے وسائل اختیار کر سکتا ہے لیکن جھوٹی فلم خواہ جغرافیائی ہو خواہ تاریخی ناجائز ہے.مثلاً نپولین کی جنگوں کی کوئی شخص فلم بنائے تو یہ جھوٹی ہو گی اور با وجود نام نہاد
تاریخی فلم ہونے کے ناجائز ہوگی.جغرافیائی اور تاریخی فلم سے مراد محض سچی فلم ہے جھوٹی فلم مراد نہیں.بہرحال سینما کی وہ فلمیں جو آجکل تمام بڑے بڑے شہروں میں دکھائی جاتی ہیں اور جن میں ناچ بھی ہوتا ہے اور گانا بجانا بھی ہوتا ہے یہ ایک بد ترین لعنت ہے جس نے سینکڑوں شریف گھرانوں کے لوگوں کو گویّا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے.میں چونکہ ادبی رسائل وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مضامین میں عموماً ایک تمسخر ہوتا ہے اور اُن کے اخلاق اور اُن کا مذاق ایسا گندہ ہوتا ہے کہ حیرت آتی ہے.سینما والوں کی غرض تو محض روپیہ کمانا ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کو اخلاق سکھانا.اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ایسے لغو اور بے ہودہ افسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفا جب ان کو دیکھنے جاتے ہیں تو اُن کا اپنا مذاق بھی بگڑ تا ہے اور اُن کے بچوں اور عورتوں کا بھی مذاق بگڑ جاتا ہے جن کو وہ سینما دکھانےکے لئے ساتھ لے جاتے ہیں یا جن کو واپس آکر وہاں کے قصّے سُناتے ہیں.غرض سینما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اگر میری طرف سے ممانعت نہ ہوتی تب بھی ہر سچے اور مخلص مومن کی روح اس سے اجتناب کر تی.بعض احمدی پوچھتے ہیں کہ انگریزی فلموں میں تو کوئی لغوبات نہیں ہوتی.اُن کو دیکھنے کی اجازت دی جائے.حالانکہ کوئی انگریزی فلم ایسی نہیں ہوتی جس میں گانا بجانا نہ ہو اور گانا بجانا اسلام میں سخت منع ہے اور قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کا بند ہ ہی نہیں بن سکتا جب تک وہ گانے بجانے کی مجلسوں سے الگ نہ ہو.دوسری چیز جو لغویات میں امتیازی مقام رکھتی ہے قمار بازی ہے.آجکل قمار بازی یورپ اور امریکہ کے لوگوں کا نہ صرف محبوب مشغلہ ہے بلکہ اُن کے تمدن کا ایک جزو لاینفک ہوگیا ہے.زندگی کے ہر شعبہ میںجوئے کا کسی نہ کسی صور ت میں دخل ہے.معمولی طریق کا جؤا تو مجا لسِ طعام کے بعد اُن کا ایک معمول ہے.لیکن اس کے علاوہ لاٹریوں کی وہ کثر ت ہے کہ یوں کہنا چاہیے کہ تجارت کا کام بھی ایک چوتھائی حصہ جوئے کی نظر ہورہا ہے.ادنیٰ سے لےکر اعلیٰ تک سب لوگ جُؤا کھیلتے ہیں.اور کبھی کبھی نہیں قریباً روزانہ اور جوئے کی کلبیں شائد سب کلبوں سے زیادہ امیر ہیں.اٹلی کی کلب مانٹی کارلو میں جو امراء کے جوئے کا مقام ہے بعض اوقات ایک ایک دن میں کروڑوں روپیہ بعض لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر بعض دوسرے ہاتھوں میں چلا جا تا ہے.غرض اس قدر جوئے کی کثرت ہے کہ یہ کہنا نا درست نہ ہوگا کہ تمدنِ جدید میں سے جوئے کو نکا ل کر اس قدر عظیم الشان خلاء پیدا ہو جاتا ہے کہ اُسے کسی اور چیز سے پر نہیں کیا جا سکتا.حالانکہ جٔوا ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس کا عادی انسان بعض دفعہ آدھ گھنٹہ کے جُؤا کی خاطر
اپنی ساری جائیداد بر باد کر دیتا ہے.اور اگر جیتتا ہے تو اور ہزاروں گھروں کی بر بادی کا موجب بن کر.پھر جوئے باز میں روپیہ کو لُٹانے کی عادت لازمی طورپر پیدا ہو جاتی ہے.شاید ہی کوئی جوئے باز ایسا ہوگا جو اپنے روپیہ کو سنبھال کر رکھتا ہو.بالعموم سارے جوئے باز بے پر واہی سے اپنا مال لٹا دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ روپیہ کمانےکے لئے انہیں زیادہ جد و جہد نہیں کرنی پڑے گی.گویا ایک طر ف تو وہ دوسرے لوگوں کو بر باد کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے مال سے بھی صحیح رنگ میں فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ روپیہ کمانے کے لئے انہیں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی.پھر جٔوا عقل اور فکر کو بھی کمزور کر دیتا ہے اور جوئے باز ہار جیت کے خیال سے ایسی چیزوں کے تباہ کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے جنہیں کوئی دوسرا عقلمند تباہ کرنےکے لئے تیار نہیں ہوتا.پُرانے زمانہ کی ہندو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت کرشن ؑ کے پھوپھی زاد بھائی یدھشٹر نے اپنی بیوی تک جوئے میں ہار دی تھی.پس یہ ایک لغو چیز ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے.تیسری چیز جو موجودہ زمانہ کے لحاظ سے لغو میں شامل ہے وہ ناچ ہے.انگریزوں میں کسی زمانہ میں ناچ بہت بُرا سمجھا جاتا تھا.مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے اسے اختیار کرنا شروع کر دیا.پہلے عورت اور مرد صرف ہاتھ پکڑ کر ناچتے تھے.پھر سینہ کی طرف سینہ کر کے ناچنے لگے پھر یہ سلسلہ اَور بڑھا اور درمیانی فاصلہ تین انگشت تک آگیا.اب بہت جگہ پر یہ بھی اڑ گیا ہے.قرآن کریم نے وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ( نور:۳۲) میں عورتوں کے لئے اپنے پیروں کو اس طرح زمین پر مار کر چلنے سے بھی منع فرمایا ہے جس سے اُن کی زینت کا اظہار ہو.اور ناچ میں تو زینت کے اخفاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس ناچ بھی مال اور اخلاق کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے.دنیا میں ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کنچنیوں کے ایک ایک ناچ پر اپنی ساری جائیدا دیں دے دیتے ہیں.ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ڈوموں کے لطیفوں پر اپنے قیمتی اموال لٹا دیتے ہیں.پس گانے کی طرح ہر قسم کا ناچ بھی ایک لعنت ہے.جس سے نوجوانوں کے اخلاق بگڑتے اور قوم کے اموال تباہ ہوتے ہیں.چوتھی چیز جو لغویات میں شامل ہے اور جس کا ترک کرنا نہایت ضروری ہے وہ حقّہ ہے.لوگ پہلے تو اس کو اس لئے شروع کرتے ہیں کہ اس سے قبض کھل جاتی ہے.مگر پھر اُن کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ پاخانہ میں بیٹھ کر تین تین دفعہ چلمیں بھرواتے ہیں تب انہیں اجابت ہوتی ہے.پھر حقہ پینے والوں کو ہمیشہ گلے اور سینہ کی خرابی اور کھانسی کا عارضہ لاحق رہتا ہے کیونکہ جو چیز جسم کو سُن کر دیتی ہے وہ آخر میں اعصاب کو ڈھیلا اور کمزور کر دیتی ہے اور کئی امراض کا موجب بن جاتی ہے مگر اس زمانہ میں حُقّہ اور سگریٹ کا اس قدر رواج ہے کہ اکثر نوجوان بلکہ بچے بھی اس
میں مبتلا دیکھے جاتے ہیں.مگر چونکہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے اس لئے رفتہ رفتہ وہ اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر ضرورت محسوس ہونے پر انہیں حقہ یا سگریٹ یا نسوار وغیرہ نہ ملے تو وہ پاگلوں کی طرح دوڑے پھرتے ہیں.مجھے یاد ہے ہم ایک دفعہ پہاڑ پر جارہے تھے تو میرے ساتھیوں میں ایک احمدی پٹھان بھی تھے جنہیں نسوار کھانے کی عادت تھی مگر بد قسمتی سے وہ اپنی ڈبیا گھر میں بھول آئے تھے.راستہ میں ایک کشمیری مزدور آرہا تھا جس نے اپنے کندھے پر لکڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں وہ اُسے دیکھتے ہی نہایت لجاجت کے ساتھ کہنے لگے اے بھائی کشمیری.اے بھائی کشمیری جی.اے بھائی جی.آپ کے پا س نسوار ہے مجھے یہ بات سُن کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنی گردن بھی نیچی نہیں کرتا تھا آج نشہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اُتر آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آپ کی ملاقات کے لئے آتے تھے اُن میں سے بعض لوگ حُقّہ کے بھی عادی ہوتے تھے.اُن دنوں قادیان میں اور تو کسی جگہ حُقّہ نہیں ہوتا تھا صرف ہمارے ایک تایا کے پاس ہوا کرتا تھا جو سخت دہریہ اور دین سے بے تعلق تھے.مگر حقہ کی عادت کی وجہ سے وہ اُن کے پاس بھی چلے جاتے اور انہیں مجبوراً اُن کی باتیں سُننی پڑتیں.ہمارے یہ تایا دین سے ایسے بے تعلق تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز بھی پڑھی ہے.وہ کہنے لگے میں تو بچپن سے ہی بڑا سلیم الطبع واقعہ ہوا ہوں.میں چھوٹی عمر میں ہی جب دیکھتا کہ لوگوں نےسرنیچے اور سرین اوپر کئے ہوئے ہیں.تو میں ہنستا کہ یہ کیسے بے وقوف لوگ ہیں اور اَب تو میَں بہت سمجھدار ہوں.میں نے نماز کیا پڑھنی ہے ایک دوست نے سُنایا کہ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں حقہ پینےکے لئے چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے واپس آگیا.کسی دوست نے پوچھا کہ کیا بات ہے وہ کہنے لگا کہ میں اپنے آپ کو اس لئے بُرا بھلا کہہ رہا ہوں کہ محض حقہ کی عادت کی وجہ سے مجھے اس کے پاس جانا پڑا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف باتیں سُننی پڑیں.اگر مجھے یہ بری عادت نہ ہوتی تو میں اس کے پاس کیوں جاتا اور اپنے آقا کے خلاف اس کے منہ سے کیوں باتیں سُنتا.غرض حقہ بھی لغویات میں شامل ہے جس کو چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے.اور اگر کوئی شخص خود نہ چھوڑ سکے تو اُسے کم از کم یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ اُس کی اگلی نسل اس بدی سے محفوظ رہے اور اُس کی عمر کے خاتمہ کے ساتھ اس لغو فعل کا بھی اُس کے خاندان میں خاتمہ ہو جائے.پھر لغویات میں بے کار بیٹھ کر گپیں ہانکنا اور دوسروں سے بے تعلق باتیں پوچھتے رہنا بھی شامل ہے.ہمارے ملک میں یہ ایک عام نقص ہے کہ مرد بھی اور عورتیں بھی دوسروں سے ایسی باتیں پوچھتے ہیں جن کا اُن کی ذات کے
ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.مثلاً عورت بلاوجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہے کہ یہ کپڑا کتنے کا لیا.یہ زیور کہاں سے بنوایا اور جب تک اُس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کرلے اُسے چین ہی نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی اور عورت نے اُس کی طرف توجہ نہ کی.اُس نے تنگ آکر اپنے گھر کو آگ لگا دی.لوگوں نے پوچھا کہ کچھ بچا بھی ہے.اُس نے انگوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوائے اس انگوٹھی کے اور کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے کہا بہن تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی یہ تو بہت خوبصورت ہے.وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم پہلے پوچھ لیتیں تو میر ا گھر کیوں جلتا.اسی طرح مرد السلام علیکم کہنے کے بعد ہی پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو ؟ کہاں جائو گے ؟ کیا کام ہے ؟ آمدنی کیا ہے ؟ کتنے بچے ہیں ؟ شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ ؟ حالانکہ اُس کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.انگریزوں میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے بلاوجہ پوچھیں کہ کہاں ملازم ہو ؟ تعلیم کتنی ہے ؟ تنخواہ کیا ملتی ہے ؟ وہ کبھی کرید کرید کر دوسرے کے غیر متعلق حالات معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے.مگر ہمارے ہاں اس کو بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے.حالانکہ جن لوگوں کو بڑی بڑی باتوں کا خیال ہوتا ہے انہیں چھوٹی باتوں کی طرف توجہ کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی.اگر لوگوں کو دین کا فکر ہو اور انہیں معلوم ہو کہ اسلام آج کن مصیبتوں میں گھِرا ہواہے اور اس کی اشاعت کے لئے کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے تو انہیں لغو کاموں اور لغو باتوں کا خیا ل بھی پیدا نہ ہو.اگر کسی کے گھر میں آگ لگ جائے تو وہ بیٹھ کر گپیں مارنے نہیں لگ جاتا بلکہ دیوانہ وار دوڑتا اور آگ کو بُجھانے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح اگر مسلمان غور کریں اور اُن کی روحانی آنکھ کھلی ہو تو انہیں معلوم ہو کہ آج کفر اور ایمان کی ایک بڑی بھاری جنگ لڑی جارہی ہے.شیطان اپنے تمام ہتھیاروںسمیت میدان میں اُترا ہو اہے اور رحمٰن خدا کا لشکر بھی کفر کی سرکوبی کے لئے کھڑا ہے اور دونوں لشکروں میں وہ آخری جنگ جاری ہے جس میں ابلیس کا سرہمیشہ کے لئے کچلا جائےگا اگر ایسے نازک وقت میں بھی انہوں نے لغویات کو ترک نہ کیا اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش نہ کی تو اُن سے زیادہ بد قسمت اَور کون ہوگا.
وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ اور وہ لوگ بھی کہ اُن کے رب کی آیات جب انہیں یاد دلائی جائیں تو اُن سے بہروں اور اندھوں کا عُمْيَانًا۰۰۷۴ معاملہ نہیں کرتے.حلّ لُغَات.یَخِرُّوْا : یَخِرُّوْا خَرَّکے معنے ہوتے ہیں سَقَطَ سُقُوْطًا یُسْمَعُ مِنْہُ خَرِیْرٌ.ایسے طورپر گرنا کہ اُس سے آوازسُنائی دے وَالْخَرِیْرُ یُقَالُ لِصَوْتِ الْمَآئِ وَالرِّیْحِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّا یَسْقُطُ مِنْ عُلُوٍّ ٍّ اور خریر اُس آواز کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے اوپر سے گِرنے سے یا ہوا اور پانی کے چلنے سے پیدا ہو.وَقَوْلُہٗ خَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا فَاسْتِعْمَالُ الْخَرِّ تَنْبِیْۃٌ عَلٰی اجْتِمَاعِ أَمْرَیْنِ.اَلسُّقُوْطِ وَحُصُوْلِ الصَّوْتِ مِنْھُمْ بِالتَّسْبِیْحِ.اور قرآن کریم میں جو خَرُّوْا سُجَّدًا کے الفاظ آتے ہیں تو اس سے دو باتوں کی طرف اشارہ ہے.اوّل گِرنا دوم تسبیح کرنے کی وجہ سے آواز کا پیدا ہونا ( مفردات )اور خَرَّعَلَیْنَاقَوْمٌ مِنْ بَنِی فُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں ھَجَمُوْا عَلَیْنَا مِنْ مَکَانٍ لَایُعْرَفُ قوم نے کسی نامعلوم جگہ کی طرف سے حملہ کر دیا ہے ( اقرب) عُمْیَانًا : عُمْیَانٌ اَعْمٰی کی جمع ہے اور اَعْمٰی کے معنے اندھے کے ہیں ( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے رحمٰن کے بندوں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ جب اُن کے سامنے اُن کے رب کی آیات کا ذکر کیا جائے تو وہ اُن کی طرف بہرے اور اندھے ہو کر توجہ نہیں کرتے بلکہ کان اور آنکھیں کھول کر آیاتِ الٰہیہ کو سُنتے اور روحانی بصیرت کے ساتھ اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اس آیت کے متعلق علامہ ابو حیان صاحبِ بحرِ محیط لکھتے ہیں کہ لَمْ یَخِرُّوْا میں جو نفی استعمال کی گئی ہے اُس کا تعلق صُمًّا وَّ عُمْیَانًا کے ساتھ ہے.یَخِرُّوْا کے ساتھ نہیں ہے.اور یہ طریق کلام عربی زبان میں عام مستعمل ہے مثلاً کہتے ہیں لَمْ یَخْرُجْ زَیْدٌ اِلیٰ الْحَرْبِ جَزْعًا یعنی زید جنگ کے لئے جزع فزع کرتے اور بُزدلی کا اظہار کرتے ہوئے نہیں نکلا.اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اِنَّمَا خَرَجَ جَرِیًّا وہ بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ نکلا ہے.اسی طرح اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ عباد الرحمٰن کو جب اللہ تعالیٰ کی آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ اُس کے حضور عاجزی اور مسکنت کے ساتھ نہیں گرتے بلکہ صرف بہرے اور اندھے ہونے کی حالت میں گرنے کی نفی کی گئی ہے اور مراد یہ
ہے کہ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا أَکَبُّوْا عَلَیْھَا حِرْصًا عَلیٰ اِسْتِمَا عِھَا وَاَقْبَلُوْا عَلَی الْمُذَکِّرِ بِھَا بِاٰذَانٍ وَاعِیَۃٍ وَاَعْیُنٍ رَاعِیَۃٍ بِخِلَافِ غَیْرِ ھِمْ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ وَأشبَاھِھِمْ.یعنی جب انہیں خدا تعالیٰ کی آیات یاد دلائی جائیں تو وہ اُن کے سُننے کے شوق میں اُن کی طرف جھکے چلے جاتے ہیں اور اُن نشانات کی طرف جن کے ذریعہ انہیں نصیحت کی جاتی ہے کان کھول کر اور اپنی آنکھوں کو کھلا رکھ کر توجہ کر تے ہیں.بخلاف کافروں اور منافقوں کے طریق کے جو بہرے کان اور اندھی آنکھیں رکھتے ہیں یعنی نہ تو وہ کسی نصیحت کی کسی بات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ کوئی نشان اُن کی بند آنکھوں کو کھولنے کا موجب بنتا ہے.یہ عباد الرحمٰن کی وہی خوبی ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ (السجدۃ :۱۶)یعنی ہماری آیتوں پر وہی لوگ سچا ایمان رکھتے ہیں کہ جب انہیں آیات الٰہیہ کے متعلق توجہ دلائی جائے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں اور تکبر سے کام نہیں لیتے.اس کے مقابلہ میں کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِذَا ذُكِّرُوْا لَا يَذْكُرُوْنَ.وَ اِذَا رَاَوْا اٰيَةً يَّسْتَسْخِرُوْنَ ( الصافات :۱۴.۱۵)کہ جب انہیں کوئی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ نصیحت حاصل نہیں کرتے اور جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو اُس کی ہنسی اُڑا تے ہیں.گویا وہ کانوں سے بھی بہرے ہوتے ہیں اور آنکھوں سے بھی اندھے ہوتے ہیں.نہ نصیحت کی بات سن کر وہ کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کا نشان دیکھ کر کوئی عبرت حاصل کرتے ہیں.غرض سچے مومنوں کی آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہیں اور اُن کے کان بھی کھلے ہوتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو پوری توجہ سے سُنتے ہیں اور پھر اُن سے فائدہ اٹھانےکے لئے اُسی وقت عمل پر آمادہ ہو جاتے ہیں.مگر ان معنوں کے علاوہ قرآن کریم کی اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ انہیں اندھا دھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.اَدْعُوْا اِلیٰ اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ( یوسف :۱۰۹) یعنی اے ہمارے رسول ! اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف علی وجہ البصیرت بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بنا پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں.اسی وجہ سے قرآن کریم نے بے دلیل ماننے والوں کو بار بار ملزم قرار دیا ہے جیسے سورۂ نجم میں فرماتا ہے.اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ ( النجم :۲۴) یعنی یہ تو صرف چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ
لئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی.یہ لوگ صرف اپنے اوہام کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنانِ اسلام پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ وہ اُن بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی شہادت ہوتی ہے نہ عقلی مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کی متعدد آیات میںاس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور برا ہین پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ وہم اور گمان پر.چنانچہ سورۂ احقاف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ١ؕ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ( الاحقاف :۵) یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سو ا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا اُن میں کوئی حقیقت بھی ہے ؟ اگرہے تو مجھے بتائو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے ؟ یا یہ ثابت کرو کہ آسمانی باد شاہت میں ان کا کوئی حصہ ہے.اگر تم سچے ہو تو اس کے لئے یا تو قرآن سے پہلے کسی آسمانی کتاب سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادا کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہی پیش کرو.یعنی تمہارے شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں.پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح فرماتا ہے اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ ( الروم :۳۶)یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی دلیل بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو.اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو.اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے.قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا١ؕ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ.قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ (الانعام :۱۴۹.۱۵۰) یعنی کفار سے کہہ دو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو.تمہارے پاس ہر گز کوئی دلیل نہیں بلکہ تم صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور ڈھکونسلے مار رہے ہو.پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طورپر موجود ہوتے ہیں.پس جو بات بلا ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی.اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ جَآ ئَ کُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْھَا (الانعام :۱۰۵) یعنی تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلے کھلے دلائل آچکے ہیں.اب جو شخص ان دلائل کو دیکھے گا وہ فائدہ اٹھا لےگا اور جو نہیں دیکھے گا وہ نقصان اٹھا ئےگا.ان آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیا ہے جس کی بصیرت پر نبیاد ہو اور جسے
کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں کے ساتھ اختیار کیا گیا ہو.اگر کوئی شخص بغیر تحقیق کے کسی بات کو مان لیتا ہے اور حقیقی شعور اسے حاصل نہیں ہوتا.تو قرآنی اصطلاح میں وہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود بھی اندھا اور بہرہ ہوتا ہے کیونکہ نہ تو اُسے دین پر ثبات حاصل ہوتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے قرب کی برکات سے اُسے کوئی حصہ ملتا ہے.اسی طرح لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ جب انہیں خدا تعالیٰ کی آیات یاد دلائی جائیں تو وہ اس کلام کے ذریعہ اُس طرح ٹھو کریں نہیں کھاتے جس طرح منافق اور کافر ٹھوکریں کھاتے ہیں.منافقوں کی تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ جب غزوۂ احزاب کے موقعہ پر عرب کے تمام قبائل مدینہ پر لشکر لے کر آگئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلَّا غُرُوْرًا ( احزاب :۱۳) یعنی خدا اور اس کے رسول نے ہم سے کامیابی کا ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا لیکن جب مومنوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو وہ اپنے ایمان اور یقین میں اَور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ ( احزاب :۲۳) یعنی یہ تو وہ لشکر ہیں جن کاا للہ اور اُس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اوراس کے رسول نےبالکل سچ کہا تھا.گویا خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر منافق تو ٹھوکر کھا گئے اور مومن اپنے ایمان اور اطاعت میں اور بھی بڑھ گئے.اسی طرح جب بھی کوئی نشان خدا تعالیٰ اپنے دین کی تائیدکے لئے ظاہر کرتا ہے تو منافق جو اپنے دلوں میں بغض و حسد کی آگ لئے ہوئے ہوتے ہیں وہ تو اُن نشانات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہنسی اور تمسخر میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اُن نشانات کی قدر و قیمت کو کم کرنےکے لئے ہاتھ پائوں مارتے ہیں لیکن مومنوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ خدائی نشانات کے ظہور پر اپنے دل کے کانوں کو اس طرح کھول دیتے ہیں کہ الٰہی نور اُن میں پہلے سے بھی زیادہ زور سے داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور اپنی روحانی بینائی میں ایسی تیزی پیدا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس کی محبت کے میدان میں وہ پہلے سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.منافقوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںایک اور مقام پر وضاحتًا فرمایا ہے کہ.اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ ( محمد :۲۴)یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اُس نے اُن کے کانوں کو بہرہ اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے.یعنی باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے نشانات بارش کی طرح بر س رہے ہیں اور قرآن کریم کے ذریعہ دنیا کو زندہ کیا جا رہا ہے.بدی کی جگہ نیکی نے اور فسق و فجور کی جگہ تقویٰ و طہارت نے اور ظلم و ستم کی جگہ عدالت و انصاف نے اور بے مروّتی کی جگہ وفا اور اخلاص نے لے لی ہے پھر بھی یہ منافق اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی روحانی آنکھیں بند ہیں اور ان کے روحانی کان بھی بند ہیں.اگر ان کے کان
کھلے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی آیات پر تدبر کر کے یہ لوگ ہدایت پا سکتے تھے.اور اگر ان کی آنکھیں کھلی ہوتیں تو یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور نشانات دیکھ کر اپنی شرارتوں سے توبہ کر سکتے تھے.مگر ان لوگوں نے ہدایت کے ان دونوں راستوں کو بند کر رکھا ہے.اس لئے مسلمانوں میں شامل ہونے کے باوجود ان لوگوں پر خدا تعالیٰ کی لعنت بر س رہی ہے بڑے سے بڑا نشان بھی ان کے سامنے ظاہر ہو تو وہ اس طرح پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں کہ گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی اور اپنی منافقت میں اَور بھی بڑھ جاتے ہیں.مگر مومنوں کی یہ کیفیت نہیں ہوتی.اُن کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے حضور اُس کے نشانات دیکھ کر جھک جاتی ہیں اور ان کے کان خدا تعالیٰ کی باتیں سُننےکے لئے ہمہ تن تیار رہتے ہیں.اسلام کی طرف سے جب بھی کوئی آواز اٹھتی ہے وہ اُسے بہر ے کانوں کے ساتھ نہیں سُنتے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی بیتابی سے خدائی ہدایت کے منتظر تھے.اور جب ان کی آنکھیں کسی نشان کو دیکھتی ہیں تو وہ اس سے مونہہ نہیں پھیرتے بلکہ اس نشان کو اپنے دل میں جگہ دیتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے انہیں اپنے نشانات کے ذریعہ اپنی ہستی کا ثبوت دیا.غرض سچا مومن خدا تعالیٰ کی آیات کے ظہور پر اَور بھی خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے.مگر کافر اور منافق اپنے کفر اور نفاق میں ترقی کر جاتا اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ آیات الٰہیہ سے صرف قرآنی آیات یا اللہ تعالیٰ کے نشانات ہی مراد نہیں بلکہ وہ تمام ربّانی علماء اور مصلحینِ امت جن کا کام خدا تعالیٰ کی بھولی بھٹکی مخلوق کو راہِ راست پر لانا اور انہیں صراطِ مستقیم پر قائم کرنا ہے اُن کا وجود بھی آیات الٰہیہ میں ہی شامل ہے.جیسے قرآن کریم نے حضرت مسیح ناصری ؑ اور اُن کی والدہ حضرت مریم صدیقہ ؑ کے متعلق فرمایا.وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ اٰیَۃً ( مومنون :۵۱) کہ ہم نے مسیح ناصری ؑ اور اُن کی والدہ کو دنیاکے لئے ایک آیت بنا دیا تھا اور یَخِرُّوْا کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے صرف جھکنے اور گرنے کے نہیں بلکہ حملہ کرنے کے بھی ہیں.پس وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ غلبہ اور اقتدار کی حالت میں بھی عباد الرحمٰن کو جب اللہ تعالیٰ کے کسی مامور یامصلح یا مجدد کے ذریعہ اُن کی خامیوں کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اندھے اور بہرے ہو کر اُن پر حملہ نہیں کر دیتے جیسے بد قسمتی سے بعض مسلمان باد شاہوں نے اولیاء اُمت سے ناروا سلوک کیا اور اُن پر بڑے بڑے مظالم توڑے بلکہ وہ فوراً اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے کہ فوج اور طاقت ہمارے ہاتھ میں ہے.اوریہ ہمیں نصیحت کرنے والا ایک معمولی فرد
ہے بلکہ وہ اس نقطۂ نگاہ سے اُس کی آواز پر کان دھرتے ہیں کہ یہ ہمارے خدا کا ایلچی ہے اور اگر ہم نے اس کی آواز پر کان نہ دھرا تو ہماری دنیا بھی تباہ ہوگی اور ہماری عاقبت بھی برباد ہو گی.گویا دنیا کے بادشاہ ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کے پا ک بندے اُس کے در کے بھکاری اور اُس کی آواز پر لبیک کہنے والے ہوتے ہیں اور کِبر اور رعونت کا کوئی شائبہ تک اُن کے دلوں میں نہیں پایا جاتا.وَ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيّٰتِنَا اور وہ لوگ بھی (رحمٰن کے بندے ہیں) جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو ہماری بیویوں کی قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۰۰۷۵اُولٰٓىِٕكَ يُجْزَوْنَ طر ف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.یہ وہ لوگ ہیں جن کو الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ يُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلٰمًاۙ۰۰۷۶ اُن کے نیکی پر قائم رہنے کی وجہ سے( بہشت میں) بالا خانے دئیے جائیں گے اور ان کو اُس میں دُعائیں دی جائیں خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۰۰۷۷ گی اور سلامتی کے پیغام پہنچائے جائیں گے وہ اُن میں رہتے چلے جائیں گے.وہ( یعنی جنت) عارضی قرار گاہ کے طور پر بھی بڑی اچھی ہے اور مستقل قرار گاہ کے طور پر بھی (بڑی اچھی ہے ).حلّ لُغَات.اَلْاِمَامُ.الْاِمَامُ مَنْ یُؤتَمُّ بِہٖ ای یُقْتَدٰی بِہٖ.یعنی امام اس شخص کو کہتے ہیں جس کی پیروی کی جائے ( اقرب) اَلْغُرْفَۃُ.الغُرْفَۃُ اَلْعِلِّیَّۃُ.غرفہ کے معنے عمارت کے اوپر کے حصہ یعنی بالا خانہ کے ہوتے ہیں ( اقرب ) نیز اس کے معنے ہیں اَلسَّمَآئُ السَّابِعَۃُ.ساتواں آسمان ( اقرب) صَبَرُوْ ا.صَبَرُوْاصَبْرٌ کے معنے ہیں تَرْکُ الشَّکْوٰی مِنْ أَلَمِ الْبَلْوَی لِغَیْرِ اللہِ لَا اِلَی اللہِ.یعنی مصیبت کا شکوی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہ کرنا.فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُفِی کَشَفِ الضُّرِّعَنْہُ لَا یُقْدَحُ فِیْ صَبْرِہٖ.اگر بندہ اپنی رفع مصیبت کے لئے خدا تعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو یہ امر اس کے صبر کے منافی نہیں سمجھا جا سکتا.
کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے.وَصَبَرَ الرَّجُلُ عَلَی الْاَمْرِ نَقِیْضُ جَزِعَ أَیْ جَرَؤَ شَجُعَ وَتَجَلَّدَ اور صبر جزع فزع کرنے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہیں جرأت اور ہمت دکھائی.اور صَبَرَ عَنِ الشَّیْءِ کے معنے ہیں اَمْسَکَ عَنْہُ کسی چیز سے رُکا رہا.اور جب صَبَرَ کا مفعول دَآبَّۃ کا لفظ ہوتو اس کے معنے ہوتے ہیں حَبَسَھَا بِلَا عَلَفٍ جانور کو چارہ نہ دیا.اور صَبَرْتُ نَفْسِیْ عَلَی کَذَا کے معنے ہوتے ہیں حَبَسْتُھَا میں نے فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی.گویا جب صبر کا صلہ علیٰ آئے تو اس کے معنے کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب ا س کا صلہ عن ہو تو اس کے معنے کسی چیز سے رُکنے یا کسی کو اُس سے روک دینے کے ہوتے ہیں ( اقرب).تاج العروس میں لکھا ہے کہ مصنف بصائر کے نزدیک صَبْرٌ کے لغوی معنے روکنے اور رُکنے کے ہیں.اورجب ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے صبر کیا تو اس کے معنے ہوتے ہیں حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّکْوٰی وَحَبْسُ الجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِیْشِ.یعنی جزع فزع سے رُکنا.زبان سے شکوہ نہ کرنا اور اپنے اعضاء سے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ ہونے دینا.پس صبر کے معنے برائیوں سے رُکے رہنے اور نیکیوں پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ہیں.ا سی طرح صبر کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی تکلیف پر جزع فزع کا اظہار نہ کیا جائے.نہ زبان سے نہ اعضاء و جوارح سے اور نہ کسی اور طریق سے.تفسیر.پھر فرماتا ہے.رحمٰن کے بندوں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ دُعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور ِ اقتدار میں اس دُعا کو بھی نظر انداز کردیا اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت سے غافل ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک کرکے تمام حکومتیں اُن کے قبضہ سے نکل گئیں اور اغیار نے اُن کے ملکوں پر قبضہ کر لیا.اگر مسلمان اپنے دورِ حکومت میں اُن بلند اخلاق کے حامل رہتے جن کا اس سورۃ میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ رات اور دن اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے رہتے کہ خدایا ہمیں ایسی اولاد عطا فرما جو ہماری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک کا موجب ہو.اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کی نیک تربیت سے کبھی غافل نہ ہوتے تو وہ نالائق بادشاہ امتِ محمدیہ ؐ میں کیوں پیدا ہوتے جنہوں نے تخت و تاج کو اپنی عیاشیوں کی نذر کر دیا.اور وہ حکومتیں جو اُن کے آبائو اجداد نے بڑی بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کی تھیں اُن کو اپنی بد کرداریوں سے ضائع کردیا.یہ تنزل مسلمانوں پر اس لئے آیا کہ وہ عباد الرحمٰن کے فرائض بھولتے چلے گئے اور جب انہوں نے خدا تعالیٰ کو بھُلا دیا تو خدا بھی انہیں بھول گیا.اور اُس نے انہیں تاج و تخت سے محروم کر دیا بیشک یہ جو کچھ ہوا نہایت افسوسناک ہے لیکن اگر آئندہ کے لئے ہی مسلمان
عبرت حاصل کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کی طرف توجہ کریں اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہیں کہ وہ ان کی زندگی میں بھی اور اُن کی موت کے بعد بھی اُن کی نسلوں کو نیکی پر قائم رکھے اور ہمیشہ اُن کاوجود اُن کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب بنے تو اب بھی وہ اپنی کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں.پس انہیں اپنی ہمتوں کو بلند کرنا چاہیے اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتا یا ہے کہ مومن چھوٹی چھوٹی باتو ں پر راضی نہیں ہوتا بلکہ وہ لیڈر اور امام بننے کی دُعا کرتا ہے.مگر کن کا امام ؟ متقیوں کا امام ، غیر متقیوں کا نہیں.ممکن ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہر شخص کس طرح لیڈر اور امام بن سکتا ہے.سو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مرد کوشش کرے کہ میری بیوی دین سے واقف ہو.نماز روزہ کی پابند ہو.دینی کاموں میں حصّہ لینے والی ہو بچوں کی نیک تربیت کرنے والی ہو تو مرد امام ہوگا اور بیوی ماموم.اسی طرح اگر ماں اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کرے تو وہ امام ہوگی اور اولاد ماموم.اور اولاد کے نیک کام بھی اس کی طرف منسوب کئے جائیں گے.عورت قبر میں سو رہی ہو گی مگر جب اس کے بچے صبح کی نمازپڑھیں گے تو فرشتے لکھ رہے ہوںگے کہ اس بی بی نے صبح کی نماز پڑھی.اسی طرح اگر اُس نے اپنی اولاد کو تہجد کی عادت ڈالی ہوگی تو فرشتے لکھ رہے ہوںگے کہ اُس نے تہجد کی نماز پڑھی.یہی حال مردوں کا ہے وہ بھی جتنے لوگوں کی ہدایت کا موجب بنیں گے اُن سب کے نیک اعمال کے ثواب میں وہ بھی شریک ہوںگے.اس طرح وہ امام ہوںگے اور دوسرے لوگ ماموم.غرض اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہمیشہ اپنی آئندہ نسل کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے دُعائیں کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ نورِ ایمان جو اُن کے دلوں میں پا یا جاتا ہے صر ف اُن کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور کوئی زمانہ بھی ایسا نہ آئے جس میں اُن کی اولاد یا اُن کے متبع اور شاگرد دنیا داری کی طرف مائل ہو جائیں اور خدا اور رسول کے احکام پر دنیا کو مقدم کر لیں.قرآن کریم نے حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی ایک بڑی خوبی یہ بیان فرمائی ہے کہ کَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ ( مریم :۵۶) یعنی وہ اپنے بیوی بچوں اور رشتہ دار وں کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کیا کرتے تھے تاکہ خدائے واحد کی حکومت دنیا میں ہمیشہ قائم رہے.اور ہمیشہ کے لئے نماز اور زکوٰۃ کا سلسلہ جاری رہے.اور یہی ہر مومن کا کام ہے اور اس کا فرض ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کی نیک تربیت سے کبھی غافل نہ ہو وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں بھی کرتا رہے اور خود اُن کا معلم بنے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ ہمیشہ اسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرتے رہیں.فرماتا ہے اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْ ا جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے اس قسم کے نیک کام کریں گے اور
کوشش کریں گے کہ اُن کی آئندہ نسل نیک ہو اور وہ رات دن اُن کے لئے دعائیں کرتے رہیں گے قیامت کے دن ہم اُن کو اُن کے صبر کرنے کی وجہ سے یعنی اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے نفس کو بدیوں سے روکا اور اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کی اور آئندہ نسل کو نیکی پر قائم کیا اونچے سے اونچے مقامات دیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں سلامتی کے پیغام پہنچیں گے اور یہ پیغام صرف ایک دفعہ پہنچ کر ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ دائمی طور پر پہنچتے چلے جائیں گے.گویا جس طرح دنیا میں انہوں نے اپنے بچوں کو جھوٹ سے اور فریب سے اور گالیوں سے او ر چغل خوری سے اور خیانت سے اور ظلم سے اور فساد سے اور خونریزی سے اور چوری سے اور بہتان سے اور استہزاء سے اور سُستی سے اور ناواجب طرفداری سے اور لغویات میں حصّہ لینے سے اور اسی طرح اور ہزار وں کی قسم کی بدیوں سے روکا اور سلامتی پھیلائی اسی طرح جب وہ جنت میں جا ئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرما ئے گا کہ یہ وہ بندے ہیں جن سے میرے بندے دنیا میں امن میں رہے.اس لئے جائو اور انہیں دارالسلام میںداخل کر دو جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے.پھرغُرْفَۃ کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے ساتویں آسمان کے بھی ہیں.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ عباد الرحمٰن جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عمر بسر کی.جو دن کے اوقات میں بھی احکامِ الٰہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ و قیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے رہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائےگا یعنی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رکھے جائیں گے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر ہی ہیں ( مسند احمد بن حنبل حدیث مالک بن صعصعۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الاخلاق من قسم الاقوال) اس کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلیٰ السَّمَآئِ السَّابِعَۃِ ( کنزالعمال جلد ۲ صفحہ ۲۵ایڈیشن اول، ترمذی ابواب البر و الصلۃ باب ما جاء فی التواضع) کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے ساتویں آسمان میں جگہ دیتا ہے چونکہ ان لوگوں نے خدا کے لئے ھون اور تذلل اختیار کیا ہو گا اس لئے خدا تعالیٰ بھی انہیں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائےگا اور انہیں منازلِ قرب میں سے سب سے اونچی منزل عطا کی جائےگی.مگر چونکہ ان آیات کا تعلق مسلمانوں کے اس دَور کے ساتھ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا پر حکومت اور غلبہ عطا فرمانا تھا اس لئے اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْ ا فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ خدائے رحمٰن کے وہ پاک بندے جو دنیا پر حکمرانی کرتے وقت اخلاقِ فاضلہ کا ایک مجسم نمونہ ہو ںگے.جو اپنے نشۂ حکومت میں کمزور اور
ناطاقت ممالک پر حملہ نہیں کریں گے.اُن کے حقوق کو سلب نہیں کریں گے اور اپنی راتیں بجائے شراب اور ناچ گانے میں بسر کرنے کے عبادت اور ذکر الٰہی اور دعائوں میں بسر کریں گے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے رہیں گے کہ وہ انہیں تنزل کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے.انہیں بد اعمالیوں کے جہنم سے بچائے.انہیں دین سے غفلت اور لاپرواہی اور خدا تعالیٰ سے دُوری اور اُس سے بے تعلقی کے جہنم سے بچائے.اور جو اپنی حکومت کے دوران میں کسی قسم کے اسراف سے کام نہیں لیں گے اور قوم کا روپیہ اپنی عیاشیوں میں صرف نہیں کریں گے.نہ قومی روپیہ کے خرچ کرنے میں کس قسم کے بخل سے کام لیں گے یعنی نہ تو وہ روپیہ کا بے محل استعمال کریں گے اور نہ ایسا ہو گا کہ وہ روپیہ تو جمع کرتے رہیں اور قوم بھوک اور افلاس کا شکار رہے اور وہ اس کی ترقی کے لئے سکول اور کالج اور کنوئیں اور شفا خانے اور کارخانے اور ڈاکخانے وغیرہ جاری نہ کریں.اسی طرح وہ لوگ جو اپنے دور حکومت میں اس بات کی سختی سے نگرانی رکھیں گے کہ توحید کا قیام ہو اور اسلام کی تبلیغ اور اُس کی اشاعت کاکام وسیع پیمانہ پر جاری رہے اور وہ لوگ جو اپنی حکومت کے بل بوتے پر ناجائز خون نہیں بہائیں گے نہ زنا کاری کے قریب جائیں گے نہ بالا افسروں کی خوشامد اور اُن کی چاپلوسی کے لئے جھوٹی گواہیاں دیں.نہ سینما اور شراب اور جؤا اور حقّہ اور دوسری منشیات اور لغویات کے قریب جائیں گے.اسی طرح وہ لوگ جو اپنی طاقت کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کا نام آنے پر لرزجائیں گے.اور انہیں جب بھی خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی نصیحت کی جائےگی تو وہ اُسے توجہ سے سُنیں گے اور اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ لوگ جو ہمیشہ یہ دُعائیں کرتے رہیں گے کہ الٰہی تو نے ہمیں اپنے فضل سے حکومت تو عطا فر ما دی ہے.اب ایسا فضل فرما کہ ہماری آئندہ نسل بھی حکومت کی اہل رہے اور وہ بھی تیرے نام کو بلند کرنے والی اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہو.تو اللہ تعالیٰ ایسے پاکباز لوگوں کی ان اعلیٰ درجہ کی نیکیوں اور دعائوں کو کبھی ضائع نہیں کرےگا.بلکہ انہیں اپنے فضل سے ایسا غلبہ عطا فرمائےگا کہ ساری دنیا اُن کے زیر نگیں ہو جائےگی اور دنیا کا کونہ کونہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کے نام سے گونج اُٹھے گا.
قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ ( اے رسول) توُ ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا (اور استغفار) فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًاؒ۰۰۷۸ نہ ہو.پس جبکہ تم نے پیغامِ الٰہی کو جھٹلادیا تو (اب) اس کا عذاب( تم سے) چمٹا چلا جائےگا.حلّ لُغَات.مَایَعْبَؤُ ا.مَایَعْبَؤُا عَبَأَ سے منفی کا صیغہ ہے اور عَبَأَ لَہٗ کے معنے ہیں قَصَدَ لَہٗ.اُس کا قصد کیا.اسی طرح کہتے ہیں مَاعَبَأْتُ بِہٖ شَیْئًا اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ لَمْ أَعُدَّہُ شَیْئًا میں اُس کو کسی گنتی میں نہیں لاتا.نیز کہتے ہیں مَا أَعْبَأُ بِہٖ اور اُس کے معنے ہوتے ہیں.مَاکَانَ لَہٗ عِنْدِیْ وَزْنٌ وَلَا قَدْرٌ کہ اُس کی میرے ہا ں کوئی قدر او ر عزت نہیں.اسی طرح اس کے معنے ہیں مَا اُبَالِیْ.یعنی میں اُس کی پروا ہ نہیں کرتا ( اقرب) لِزَامٌ لِزَامٌ کے معنے ہیں اَلْمَوْتُ.موت.اَلْحِسَابُ.حساب.اَلْمُلَازِمُ جِدًّا.سختی سے چمٹ جانےوالا.اَلْفَصْلُ فِی الْقَضِیَّۃِ.مقدمہ کا فیصلہ ( اقرب).تفسیر.عباد الرحمٰن کی علامات بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول تُو ان لوگوں کو میر ی طرف سے سنا دے کہ اگر تم میرے ایسے بندے بنو جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تب تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تم عزت کے مستحق سمجھے جائو گے لیکن اگر تمہاری طرف سے دعا اور استغفار کا سلسلہ جاری نہ رہے اور تم خدا تعالیٰ کے حضور جھکنا اور عجزو انکسار اختیار کرنا اپنا شعار نہ بنائو تو تمہار ا رب تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے.مَا يَعْبَؤُا بِكُمْمیں مَا نافیہ بھی ہو سکتا ہے اور استفہامیہ بھی.مفہوم دونوں کا ایک ہی رہےگا مگر طرزِ کلام بدل جائےگی.اگر مَا نافیہ ہو تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اے ہمارے رسول کہہ دے کہ اگر تم دُعا سے کام نہیں لو گے اور خشوع و خضوع اختیار نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرےگا اور اگر مَا استفہامیہ قرار دیا جائے تو اس آیت کے معنے یوں ہوںگے کہ اے ہمارے رسول ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر تم دعائیں نہیں کرو گے اور تضرع سے کام نہیں لو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے.یعنی اُس کو تمہاری ضرورت ہی کیا ہے.وہ تو خود مستغنی ہے اور سب کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے.یعنی صمد ہے.حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر اپنی ہستی پر غور کرے تو وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اُس کی کوئی اختیاج
نہیں بلکہ خود اُسے اللہ تعالیٰ کی ہر آن اور ہر لمحہ احتیاج ہے.لیکن بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارا نماز پڑھنا یا ہمارا صدقہ دینا یا ہمارا زکوٰۃ ادا کرنا یا ہمارا حج کرنا نعوذ بااللہ خدا تعالیٰ پر کوئی احسان ہے.اسی وجہ سے جب وہ کسی مصیبت میں گرفتا ر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں.معلوم نہیں خدا نے ہمیں کیوں مصیبت میں ڈالا.ہم تو نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور اسی طرح دوسرے مذہبی احکام پر بھی عمل کرتے ہیں گویا وہ اپنے دل میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُن سے بد سلوکی کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی شخص کا بیٹا مر گیا اور اُس کا ایک دوست تعزیت کے لئے اُس کے پا س گیا تو وہ چیخ مار کر روپڑا اور کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا بھاری ظلم کیا ہے گویا نعوذباللہ اُس کا کوئی حق خدا تعالیٰ نے مار لیا تھا.جس کا اُسے شکوہ پیدا ہو ا.مگرسوچنا چاہیے کہ وہ کون سا حق ہے جو بندہ نے خدا تعالیٰ پر قائم کیا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نماز اور روزہ اور زکوٰۃ اور حج اور تقویٰ و طہارت پر فخر کیا کرتے ہیں وہ تو کسی تکلیف کے موقعہ پر چلا اُٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا.لیکن ہندوستان کا وہ مشہور شاعر جو دین سے بالکل ناواقف تھا ایک سچائی کی گھڑی میں باوجود شراب کا عادی ہونے کے کہہ اٹھا کہ ؎ جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو ا (دیوان غالب صفحہ ۱۵۰) غور کرنا چاہیے کہ جو چیز بھی انسان کے پاس سے جاتی ہے وہ آئی کہاں سے تھی ؟ ذرا اپنی حیثیت کو تو دیکھو وہ کونسی چیز ہے جسے اپنی کہہ سکتے ہو.انسان کہتا ہے میری بیوی ہے.مگر وہ کہاں سے آئی ؟ بچے جنہیں اپنا کہا جاتا ہے کہاں سے آئے ہیں.اسی طرح مکان زمین اور سب ضروری اشیاء جنہیں اپنی سمجھا جاتا ہے کہاں سے آتی ہیں.اگر ان چیزوں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو بآسانی معلوم ہو جائےگا.کہ یہ چیزیں انسان کی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موہبت اور عطیہ ہیں اور عطیہ دینے والے کا حق ہے کہ وہ جب چاہے واپس لے لے بلکہ عطیہ بھی اُسے کہتے ہیں جو کبھی واپس نہ لیا جائے.مگر دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ آخراُس سے لیا جاتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں انسان کو حقیقی عطیہ بھی نہیں ملتا.بلکہ تمام اشیاء عاریتًا استعمال کے لئے دی جاتی ہیں.اور اس طرح چیز دینے والے کا حق ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے واپس لے لے.
اسی حقیقت کو بیان کرنےکے لئے ایک عر ب شاعر کہتا ہے.أَنْتَ الَّذِیْ وَلَدَتْکَ اُمُّکَ بَاکِیًا وَالنَّاسُ حَوْلَکَ یَضْحَکُوْنَ سُرُوْرًا فَاحْرِصْ عَلٰی عَمَلٍ تَکُوْنُ اِذَا بَکَوْا فِیْ وَقْتِ مَوْتِکَ ضَاحِکًا مَسْرُوْرًا یعنی توُ وہی تو ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو تُو رو رہا تھا کیونکہ ہر بچہ پیدا ہونے کے بعد روتا ہے.اور تیر ے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ہنس رہے تھے کہ لڑکا پیدا ہوا ہے.پس اب تُو ایسے اعمال کے لئے جدوجہد کر کہ جب تُو مرنے لگے تو تُو ہنس رہا ہو کہ میں اپنے خدا سے نیک بدلے لینے کے لئے جارہا ہوں اور تیرے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ رو رہے ہوں کہ ایسا اچھا انسان ہم سے چھینا جا رہا ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہےمَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ.تم اپنی ہستی کو کیا سمجھتے ہو ؟ آخر انسان ہے کیا چیز کہ خدا تعالیٰ اُس کی پرواہ کرے.اگر خدا تعالیٰ انسان کو خود ہی بطور احسان اپنی طرف بلانے کا سامان نہ کرتا اور اُسے فرش سے اٹھا کر عرش تک نہ پہنچا دیتا تو اپنی ذات میں وہ کیا حقیقت رکھتا تھا کہ اُس کی طرف توجہ کی جاتی.یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہی ہے جس نے انسان کو اٹھایا اور اُسے ترقی عطا فرمائی.چنانچہ لَوْلَا دُعَآءُ کُمْ کے ایک معنے یہی ہیں کہ لَوْلَا دُعَآ ؤُہٗ اِیَّاکُمْ اِلیٰ طَاعَتِہٖ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے یہ لازم نہ کر لیا ہوتا کہ میں اپنے بندوں کو پکاروں گا اور اُن کی ترقی کے سامان کروںگا تو تم ایک مشتِ خاک سے زیادہ کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے یہ محض خدا تعالیٰ کا احسان ہی ہے کہ وہ دنیا کی گمراہی پر اپنا کوئی مامور اور مصلح کھڑا کرتا اور بھٹکتی ہوئی مخلوق کو پھر راہِ راست کی طرف لے آتا ہے.وہ اُس کے ذریعہ گِری ہوئی قوموں کو عزت دیتا اور گمنامی میں زندگی بسر کرنے والوں کو دنیا کا معلم اور بادشاہ بنا دیتا ہے.اگر اُس نے تمہارے لئے اپنا کلام نازل نہ کرنا ہوتا تو وہ تمہاری اس قدر خاطر و مدارات کیوں کرتا اور تمہارے لئے زمین و آسمان کیوں بناتا.پھر تو تمہاری طرف اُسے اس قدر توجہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.یہ محض اُس کا احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنی طرف بلا کر تمہارے لئے عزت کے سامان پیدا کرتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو.آپ تمام جہان سے منقطع ہو کر ایک گوشۂ گمنامی میں پڑے تھے اور غارِ حرا میں عبا دتیں کیا کرتے تھے.آپ نے وہ تمام ذرائع جو دنیوی ترقی کے حصول کے ہیں ترک کر رکھے تھے مگر آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اُس نے کہا اُٹھ خدا تجھے بلاتا ہے.اور پھر اُس گوشہ گمنامی سے نکال کر
اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کا بادشاہ بنا دیا اور ایسی ترقی عطا کی کہ مذہب اور سیاست اور تمدن اور معاشرت سب پر آپ کا رنگ چھا گیا.حتّٰی کہ آپ کے غلام یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کئے بغیر اور لیباریٹریز میں تجربات کرنے کے بغیر ہی ہر فن میں دنیا کے استاد بن گئے اور جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا تمام دنیا سے آگے بڑھ گئے.اگر یہ خدا کی موہبت نہیں تو اور کیا چیز ہے ؟ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دفعہ ایک اشرفی دی اور فرمایا کہ قربانی کے لئے بکری لے آئو.میں نے سوچا کہ مدینہ میں تو اس رقم میں ایک ہی بکری ملے گی مگر کسی گائوں سے دو مل جائیں گی اس لئے میں نے ایک گائوں سے ایک اشرفی میں دو بکریاں خرید لیں.جب واپس آیا تو مدینہ میں کسی نے پوچھا کہ کیا بکری فروخت کرو گے میں نے کہا.ہاں؟ اور ایک بکری ایک اشرفی میں اُس کے پاس فروخت کر دی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر میں نے بکری بھی پیش کر دی اور اشرفی بھی.اور آپ کے دریافت فرمانے پر مَیں نے یہ تمام واقعہ عرض کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور آپ نے مجھے دُعاد ی آپ کی اس دُعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجودیہ کہ عرب ایرانیوں اور رومیوں جیسے تاجر نہ تھے پھر بھی وہ صحابی ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس دعا کے طفیل میری یہ کیفیت ہوگئی کہ اگر میں نے مٹی بھی خریدی تو وہ سونے کے بھائو بک گئی.لوگ زبر دستی اپنا روپیہ میرے پاس تجارت کے لئے چھوڑ جاتے تھے اور میں لینے سے انکار کرتا رہتا تھا.یہ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ کی صداقت ہی کا ایک کرشمہ تھا ورنہ اس میں اپنے کسی ہنر یا محنت کا دخل نہ تھا.یہ خدا تعالیٰ کی اپنی آواز تھی جس کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ ہی آپ کے وابستگانِ دامن بھی بڑھتے چلے گئے.جیسے اگر کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اُس کا کوٹ اور پاجامہ اور دوسرے کپڑے بھی ساتھ ہی سوار ہو جاتے ہیں.پھر صحابہ ؓ نے یہاں تک ترقی کی کہ قیصر وکسریٰ کے خزائن مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور وہ بڑے بڑے ملکو ں کے بادشاہ بن گئے.یہ بھی لَوْلَا دُعَآ ؤُکُمْ کی صداقت کا ہی ظہور تھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ہوئی اور پھر جب آپ بڑھے تو آپ کے وابستگانِ دامن بھی ساتھ ہی ترقی کر گئے.یہی حکمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِ قِیْنَ ( التوبۃ :۱۱۹) کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ جب صادقین کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پھاٹک کھلتا ہے تو ساتھ ہی اُن کی معّیت اختیار کرنے والے بھی داخل ہو جاتے ہیں.پھر لَوْلَا دُعَآ ؤُکُمْ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ لو لا تضر عکم الیہ یعنی اگر تم اس کو نہ پکارو.اور اُس کے حضور گریہ وبکانہ کرو اور عجز اور انکسار کے ساتھ اُس کے آگے جھک کر یہ نہ کہو کہ الٰہی ہمارا تو کوئی حق نہیں اگر تو ہم پر
حسان کر دے تو تیری ذرہ نوازی ہے تو اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پروا ہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی جان اور اُس کا خلاصہ اور اس کی رُوح اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف دُعا ہی ہے.مگر دُعا اس امر کا نام نہیں کہ انسان صرف مونہہ سے ایک بات کہہ دے اور سمجھ لے کہ دُعا ہوگئی.دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پگھل جانےکا نام ہے دُعا ایک موت اختیار کرنےکا نام ہے.دُعا تذلل اور انکسار کا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے.جو شخص صرف رسمی طور پر مونہہ سے چند الفاظ دہراتا چلا جاتا ہے اور تذلّل اور انکسار کی حالت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی.جس کا دل اور دماغ اور جس کے جسم کا ہر ذرّہ دُعا کے وقت محبت کی بجلیوں سے تھرتھرا نہیں رہا ہوتا وہ دُعا سے تمسخر کرتا ہے.وہ اپنا وقت ضائع کر کے خدا تعالیٰ کا غضب مول لیتا ہے.پس ایسی دُعا مت کرو جو تمہارے گلے سے نکل رہی ہو اور تمہارے اندر اس کے مقابل پر کوئی کیفیت پیدا نہ ہو.وہ دعانہیں بلکہ الٰہی قہر کو بھڑکانے کا ایک شیطانی آلہ ہے.جب تم دُعا کرو تو تمہارا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے جلال کا شاہد ہو تمہارے دماغ کا ہر گوشہ اس کی قدرتوں کو منعکس کر رہا ہو.اور تمہارے دل کی ہر کیفیت اس کی عنایتوں کا لطف اٹھارہی ہو.تب اور صرف تب تم دُعا کرنے والے سمجھے جا سکتے ہو.یہ کیفیت پیدا ہونی بظاہر مشکل نظر آتی ہے مگرجس شخص کے ایمان کی بنیادعشقِ الٰہی پر ہو.اس کے لئے اس سے زیادہ آسان اور کوئی شیٔ نہیں بلکہ اُس کی طبیعت کا یہ کیفیت ایک خاصہ بن جاتی ہے اور وہ ہر وقت اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے.ایسے انسان کو یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ الگ جا کر اور مصّلیٰ پر بیٹھ کر دُعائیں کرے بلکہ وہ خلوت و جلوت میں دُعا کر رہا ہوتا ہے.اور جب اُ س کی زبان پر اَور اَور کلام جاری ہوتے ہیں اور اس کی آنکھوں کے آگے اَور اَور نظارے پھر رہے ہوتے ہیں اُس کی رُوح اپنے مالک و خالق کے عتبۂ رحمت پر گِری ہوئی اپنے لئے اور ساری دنیا کے لئے طلب گار رحمت ہو رہی ہوتی ہے.مگر فرماتا ہے فَقَدْ کَذَّ بْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا.چونکہ تم پہلے ہی خدا تعالیٰ کے پیغام کو ردّ کر چکے ہو اس لئے اب اس تکذیب کا وبال تمہارے سر پر پڑے گا.اور اس کا عذاب تمہارے ساتھ چپک جائے گا.یعنی وہ لمبا ہوتا چلا جائےگا اور تم خود بھی اس دنیا میں ذلیل ہوگے اور تمہاری آئندہ نسلیں بھی ہر قسم کی برکتوں سے محروم رہیں گی.یہ کتنا خطرناک وعید اور انذار ہے.کاش دنیا کے لوگ اس بات کو سمجھیں کاش وہ اپنی عاقبت برباد نہ کریں.کاش وہ اپنی اصلاح کریں.کاش وہ خدا کی باتوں کی طرف توجہ کریں تاکہ واحد ویگانہ خدا اُن کی پرواہ کرنے لگے اور وہ اُن کے دلوں کو پاک کرکے پھر اپنی محبت کی گود میں بٹھالے.وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
سُوْرَۃُ الشُّعَرَآءِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ شعراء یہ سورۃ مکّی ہے.وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ مِائَتَانِ وَثَمَانٍ وَّعِشْرُوْنَ اٰیَۃً وَّاَحَدَ عَشَرَ رُکُوْعًا اور بسم اللہ سمیت اس کی دو سو اٹھائیس (۲۲۸) آیتیں ہیں.اور گیارہ رکوع ہیں زمانہء نزول سورئہ شعراء اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے مگر مقاتل کہتے ہیں کہ اس میں کچھ آیتیں مدنی بھی ہیں.جیسا کہ وہ آیت جس میں شعراء کا ذکر ہے (آیت ۲۲۵) اسی طرح وہ آیت جس میں ذکر ہے کہ کیا ا ن کے لئے یہ نشان کم ہے کہ علماء بنی اسرائیل بھی اس قرآن کو پہنچانتے ہیں یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن انبیا ء بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے (آیت ۱۹۸) ابن عباسؓ اور قتادہؓ کا قول ہے کہ اس میں سے صرف چار آیتیں مدنی ہیں باقی سب سورۃ مکی ہے اور وہ چار آیتیں وہ ہیں جووَ الشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ سے آخر تک چلتی ہیں.(آیت ۲۲۵تا ۲۲۸)(تفسیر القرطبی سورۃ الشعراء ابتدائیہ)لیکن اس قسم کی موشگافی کی وجہ یا تو یہ ہو ا کرتی ہے کہ بعض مضامین کو مفسرین مدینہ یا مکہ کے مناسب حال سمجھ لیتے ہیں یا کسی ایسے واقعہ کو جو ان آیات سے مناسبت رکھتا ہے اپنے قیاس کا موجب بنا لیتے ہیں.ورنہ بلا کسی خاص دلیل یا تاریخی گواہی کے یہ تفریق پیدا کرنا درست نہیں.مثلاً مقاتل نے اَوَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ (آیت ۱۹۸)کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ اس میں علماء بنی اسرائیل کا ذکر ہے حالانکہ سورئہ مریم قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے(تفسیر القرطبی سورۃ مریم ابتدائیہ) اور وہ ساری کی ساری عیسائیت اور یہودیت کے ذکرسے پُر ہے.اسی طرح سورئہ طٰہٰ قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے (تفسیر القرطبی سورۃ طٰہٰ ابتدائیہ) مگر وہ بھی بنی اسرائیل کے ذکر سے پرہے.اور ابن عباس ؓاور ان کے دو شاگردوںنے آخری آیتوں کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ ان میں شعراء کا ذکر ہے.اور شعر پر زور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ء مدنی میں دیا گیا تھا.اس سے پہلے مسلمانوں میں شاعر نہ تھے اور ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ شاعر محض تُک بند ہوتے ہیں سوائے نیک شاعروں کے.مگر یہ استدلال درست نہیں کیونکہ بغیر کسی واقعہ کے بھی تو اصول بیان کئے جاتے ہیں.اگر اسی طرح دلائل قائم کئے جائیں تو شاید ارسطوکی کتب اور سقراط کی کتب سے اس کے عجیب و غریب سوانح زندگی تیا ر کرلئے جائیں.آخر انسان واقعات سے جُدا ہو کر بھی تو سوچتا ہے پھر اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ یہ سمجھ لے
کہ اگر قرآن خدا کا کلام نہیں تو بھی اس میں جاری واقعات سے الگ ہو کر بھی کوئی مضمون آسکتا ہے.سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ غلطی ابتدا میں خود مسلمانوں کو لگی ہے پھر مسیحیوں نے اُسے اُچھالا ہے.مگر جس نے بھی غور کیا ہے باوجود دشمن کے اس استدلال کی غلطی کو سمجھ گیا ہے.چنانچہ ریورنڈ وہیری نے اپنی تفسیر میں اس قسم کے استدلال کو غلط قرار دیا ہے.اور اس سورۃ کو یقینی طور پر مکی قرار دیا ہے (تفسیر القرآن از وہیری جلد ۳ صفحہ ۱۹،۲۰ سورۃ الشعراء ابتدائیہ) پس اس قسم کا اجتہاد قطعاً درست نہیں ہو سکتا خواہ مسلمان ایسا کریں یا عیسائی کریں.سورتوں کا زمانہ ہم صرف تاریخی شواہد سے متعین کرسکتے ہیں.اور وہ بھی محض اس حد تک کہ فلاں سورۃ یا اس کا معتدبہ حصہ فلاں زمانہ میں اترا ہے.اس سے زیادہ باتیں جو قیاس سے معلوم کی جائیں ہمیں غلطی کی طرف لے جاسکتی ہیں.لیکن ان سے فائدہ کوئی نہیں ہو سکتا.ترتیب سور سورۃ الفرقان کے آخر میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ خیا ل مت کرو کہ اللہ تعالیٰ اس نظام کو تباہ کردے گا جو اس وقت دیر سے قائم شدہ مذہبوں کے ذریعہ سے دنیا میں جار ی ہے بلکہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اپنی آواز پر لبیک کہنے اور اپنے اخلاق کو ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا اگر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کوایسے انسان یا اس کے نظام کے قائم رکھنے کی ضرورت کیا ہے.اور اُسے اس کے تباہ کرنے کا غم کیوں ہو ؟اب اس سورۃ میں یہ بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی محبت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی وجہ سے اس پیش نظر خطرہ سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجائے تباہی کے اگر انسان کو بچا لیا جائے تو اچھا ہے.یہ بے شک ان کی محبت کا ثبوت ہے لیکن خدا تعالیٰ کی سکیم کے مطابق نہیں.کیونکہ خدائی سکیم یہ ہے کہ انسان کو علم وعرفان دے کر اس امر کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنی کوشش سے خدا تعالیٰ کے قرب کا راستہ تلاش کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے طبعی نتائج بھگتے.اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا توا نسان ایک مشین تو بن جاتا مگر خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا ہوا وجود نہ ہوتا.پس باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی اور محبت اور شدید خواہش کے انسان کو خدائی سکیم کے مطابق چلنا ہوگا.اس کے بغیر وہ حقیقی نجات نہیں پاسکتا.اس سورۃ سے مسیحیوں اور یہودیوں سے خطاب جو سورئہ یونس سے شروع تھا اُس کا رُخ بدل کر پھر مسلمانوں کی طرف کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے مقطعات میں تبدیلی کی گئی ہے.اس سورۃ کا نام شعراء اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس سورۃ کا مضمون بتاتا ہے کہ انسانی ترقی قول اور عمل میں یک رنگی سے ہی حاصل ہوتی ہے اور وہ لوگ جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں شعراء کی طرح وہ کامیاب نہیں
ہوتے.گویا بتایا کہ اس زمانہ میں صرف مسلمان ہی ایسے ہوںگے جن کا قول و فعل یکساں ہوگا.اس لئے وہی جیتیں گے.دوسرے لوگ مثالی طور پر شعراء کی طرح ہیں.یعنی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل کم ہے اس وجہ سے وہ مسلمانوں کے مقابل پر نہیں جیت سکتے.سورۃ شعرآء کے مضامین کا خلاصہ اس سورۃ کے شروع میں بتایاگیاہے کہ اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالی کی ا ن تین صفات کی تشریح کی گئی ہے.(۱) لطیف (۲)سمیعاور(۳)مجید.یعنی اللہ تعالیٰ کے مخفی سے مخفی رازوں کے واقف ہونے ،دعائوں کے سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اس کی اعلیٰ شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبرثابت نہیں ہوتا اِس سورۃ میں روشنی ڈالی گئی ہے اوراس کے دلائل دئیے گئے ہیں.(آیت ۱و۲) یہ کتاب اپنے دعاوی کے دلائل خود دیتی ہے.کسی اَورکی مدد اوروکالت کی محتاج نہیں ہے(آیت ۳) پچھلی سورتو ںمیں جوکفارکی تباہی کی خبردی گئی تھی اورکہاگیاتھا کہ خداان پر رحم نہیں کرے گا.اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفار کی خیر خواہی کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچی ہے مگریہ غم بیکار ہے.کیونکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ جبراً ہی مومن بناسکتا ہے اوراس کاکوئی فائدہ نہیں ہے(آیت ۴ و۵) ذاتی طور پر یہ لوگ حقا ئق کے ماننے سے دور ہوچکے ہیں اورہرسچائی پر ہنسی اُڑاتے ہیں.(آیت ۶و۷) دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرضرورت کے سامان پیدا کئے ہیں اورقسم قسم کے جوڑے بنا ئے ہیں پھر کیو ں خدائی سلسلہ میں بھی جوڑے نہ ہوں.یعنی مثیل موسیٰ ؑ اورمثیلِ عیسیٰ ؑ پیدانہ ہوں.اگرایسا ہوتو قابل اعتراض امرنہیں بلکہ خداتعالی کی طاقت اور اُس کی رحمت ہی کا ثبوت ملتا ہے(آیت ۸تا ۱۰) کیا یہ لوگ موسیٰ ؑکو نہیں دیکھتے کہ خدا نے اُسے فرعون کی طرف بھیجا.اور اُس نے جانے سے بھی پہلے اپنے مُلکیوں کی سنگدلی سے خوف کیااورچاہاکہ عذر سن کر اُسے معا ف کیاجا ئے اورہارون کو مقرر کردیاجائے.لیکن خدا تعالیٰ نے اُس کا عذر نہ سنا کیونکہ وہی سب سے بہتر وجود اس کام کے لئے تھا ہاں ہارون کو اس کے ساتھ ملادیا.اورفرمایا کہ جا کر فرعون کو ہماراپیغام سنادو.ہم تمہارے ساتھ ہوں گے اور اس سے کہہ دوکہ وہ بنی اسرائیل کو ملک سے نکلنے دے.(آیت ۱۱تا۱۸) فرعون نے اس پر سابق احسان جتائے اوراس کی زند گی پر کچھ اعتراضات کئے.اور اُسے احسان فراموش قرار دیا.موسیٰ ؑ نے ا ِس کے جوا ب دیئے اورکہا کہ ا گر مَیں ایسا ہو تاتو خدا مجھے اپنی رسالت کے لئے کیوں چن
لیتا.(آیت ۱۹تا۲۲) اورپھر کہا کہ تیرے احسان مجھ پر اس جرم کے مقا بل کیا ہیں کہ تُو نے میری ساری قوم کو غلام بنارکھا ہے (آیت ۲۳) فرعون نے شرمندہ ہوکربات بدلی اورخدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق سوالات شروع کردیئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیئے.آخر تنگ آکر اُس نے دھمکی دی کہ میرے سواکو ئی اورمعبودمانا توقید کردوں گا.موسیٰ ؑ نے کہا.خداکے شواہد تود یکھ.اُس نے کہا.اگرکچھ شواہد ہیں تولا.اِ س پرموسیٰ ؑ نے اپناعصاپھینکا جوفرعون کو ایک اژدہا نظر آیا.اورموسیٰ ؑ نے اپناہاتھ بغل سے نکالا تو و ہ چمک رہاتھا.فرعو ن نے اِن امورکو سحر قرار دیا.اورقوم کو بھڑکایا کہ یہ سیا سی فضیلت چاہتا ہے.انہوں نے ساحروں سے مقابلہ کروانے کامشورہ دیا.سا حر بلوائے گئے تو وہ مغلوب ہوئے اورموسیٰ ؑ پر ایما ن لے آئے.(آیت ۲۴تا ۵۲) اِ س پر ہم نے موسیٰ ؑکو اپنی قوم ا س ملک سے نکال لے جانے کاحکم دیا.(آیت ۵۳) فرعون نے قوم کو غیرت دلائی.پیچھا کیا لیکن برباد ہوااورجونعمتیں اُسے حاصل تھیں ویسی ہی نعمتیں موسیٰ ؑ کو عطاکرنے کی خدا نے تدبیر کی (چنانچہ شام کاعلاقہ مصر سے بالکل مشابہ کہاجاسکتاہے بلکہ وہ علاقہ مصرسے بھی بہترہے)(آیت ۵۴تا ۶۰) فرعون اپنے لشکروں سمیت آگے بڑھا توموسیٰ ؑ کی قوم ڈری.مگر موسیٰ ؑنے تسلی دی.پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر موسیٰ ؑ کو سمندر میں سے خشک نکال کر لے گیا اورفرعون کو غرق کردیا.(آیت ۶۱ تا ۶۹) پھر ابراہیم ؑکو دیکھ.ا س نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ خدا تعالیٰ سنتا ہے اور تمہارے بت سنتے نہیں اوربے طاقت ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ کچھ ہو ہم اپنے با پ دادا کے مذہب کو نہیںچھو ڑ سکتے.ابراہیمؑ نے کہا کہ و ہ سب حق کے خلاف تھے لیکن مَیں تو اُسی خدا کومانتا ہوں جو فعّال ہے اوردنیا کے کاموں میں اس کا دخل جاری ہے.اُس کی طرف سے ہدایت بھی آتی رہتی ہے.جسمانی رزق بھی آتا رہتا ہے.شفابھی آتی رہتی ہے.موت کے بعد حیات بھی آتی رہتی ہے اورمرنے کے بعد بھی اُسی پرامیدیں ہیں (آیت ۷۰تا۹۰) اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی ہوئی ہے کہ وہ نیکوں کی مدد کرتا ہے اوربدوں کوسزادیتا ہے.مجر م لو گ پہلے تو اکڑتے ہیں.لیکن پھر منت و سماجت پر اُتر آتے ہیں.یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے باد شاہ اور رحمٰن ہو نے پر دلالت کرتی ہیں (آیت ۹۱تا ۱۰۵) پھر نوح ؑ کو دیکھو.اُس نے بھی خدا تعالیٰ کی طر ف سے مبعوث ہونے کادعویٰ کیا.نیکی کی تعلیم دی.اوربغیر
کوئی بدلہ لئے خدمت کرنی چاہی.لیکن لوگوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ اس کے ماننے والے ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں یہ کیونکر جیت سکتے ہیں.مگرنوح ؑنے کہا کہ ادنیٰ اوراعلیٰ کا معیار اعمال صالحہ پر ہے.نہ کہ قوم اورحکومت پر.(آیت ۱۰۶ تا۱۱۶) مخالفوں نے بجائے جواب کے دھمکیاں دینی شروع کردیں.اِ س پرانہوںنے خدا سے فیصلہ چاہا.اور مخالفوں کے دنیوی سامان سب دھرے کے دھرے رہ گئے.اور وہی ہواجو خدا نے چاہاتھا (آیت ۱۱۷تا۱۲۳) پھر عاد کے رسول ہود ؑآئے.اُن سے بھی اِسی طرح ہوا.انہوں نے بھی قوم کو توجہ دلائی کہ ظاہری شان و شوکت سے قوم زندہ نہیں رہتی باطنی اخلاق سے زندہ رہتی ہے.اوروہ تم میں مفقود ہیں.انہوں نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی لوگ کہتے رہے ہیں.مگر کسی کا کچھ نہیں بگڑا.مگرآخر وہ بھی پکڑے گئے.(آیت ۱۲۴تا۱۴۱) پھر ثمودکی قو م کی طرف صالح ؑآئے.انہوں نے بھی بے بدلہ خدمت کا اعلان کیا اوربتایاکہ ظاہر ی شان وشوکت روحانی طاقت کے بغیر تباہی کی طرف لے جاتی ہے.مگرقوم نے انکارکیا کہ اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کیوں کریں.آخر وہ بھی پکڑے گئے.(آیت ۱۴۲ تا ۱۶۰) اِسی طرح لوط ؑ آئے اوران کی قوم کے ساتھ بھی اِسی طرح کامعاملہ گذرا.وہ اخلاقی بدیوں کاشکار تھے.(آیت ۱۶۱تا ۱۷۶) پھر اصحاب الایکہ کا زمانہ آیا.ا ن کے نبی شعیبؑ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا.اوران کے مخالف پکڑے گئے وہ تجارتی بددیانتی کا شکا ر تھے.(آیت ۱۷۷تا۱۹۲) یہ قرآن بھی خدائی کلام ہے اوراپنی دلیلیں خود دیتاہے.پہلے نبیوں نے اس کی پیشگوئیاں کی ہیں اور بنی اسرائیل کے علما ء بھی اپنی کتب کے ذریعہ سے اس کی صداقت جانتے ہیں.پھر وہ اپنی پہلی مخاطب قوم کی زبان میں آیا ہے.اگر غیر زبا ن ہوتی تووہ اُسے سمجھ نہ سکتے مگر اب غور نہ کرنے کی کیا وجہ ہے.وجہ وہی ہے جو پہلے نبیوں کی قوموں کے نہ ماننے کی تھی.یہ عذا ب کے منتظر ہیں مگر جب وہ آیا تو اُنہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں سچے ہیں توان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا آنا اصلاح نہ کرنے والوں کے لئے عذا ب کااعلان ہے.(آیت ۱۹۳تا ۲۱۰) لو گ ا س کی تعلیم کو دیکھیں کہ کیا اس میں شیطا ن کی تائید ہے ؟ اگر نہیں توشیطان نے خدا کی تائید کیوں کرنی تھی اوروہ اعلیٰ پُرمعارف کلام کس طرح کرسکتا تھا اِس میں تونبیوں والی باتیں ہیں اورنبیوں والی باتوں کو شیطان سن ہی
نہیں سکتا.پس اے ہمارے رسولؐ! خدائے واحد کی تبلیغ کرتاچلا جا.اورسب سے پہلے اپنی قوم کو تبلیغ کر.اورجو ایمان لائیں ان کی تربیت کر اورجونافرمانی کریں اُن سے برأت ظاہر کر اورعزیز و رحیم خدا پر توکل کر.وہ تجھے دیکھتا ہے اورتجھ کو طاقتور بنانے والا ہے.عنقریب مسلمانوں کا بکھرے ہوئے ہونا دورہوجائے گا.اوروہ ایسی جگہ پر جائیں گے جہاں اُنہیں اکٹھارہنے کاموقعہ ملے گا.اوروہ خدائے واحد کی عبادت آزادی سے کریں گے.کیونکہ وہ فریادیں سننے والا ہے.شیطان توان لوگوںپر اُترتے ہیں جوجھوٹے اورگنہگار ہو ں.وہ آسمانی باتیں سننے کے لئے کان رکھتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہیں.اورشعراء کی پیروی آوار ہ گرد لوگ کرتے ہیں.جنہیں صرف زبان کا چسکہ ہوتا ہے.عمل نہ اُستاد کریں نہ شاگرد.لیکن مومن توعبادت گذار اورسچ کے مبلّغ ہوتے ہیں.وہ سچ کی وجہ سے تکلیفیں بھگتتے ہیں اورمجبورہوکر جواباً ہاتھ اُٹھاتے ہیں.لیکن ان کے سچاہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کمزور ہوتے ہوئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آجاتے ہیں.(آیت ۲۱۱تا۲۲۸)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں)اللہ (تعالیٰ) کانام لے کر جو بے حدکرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کر نے والا ہے (پڑھتا ہو ں) طٰسٓمّٓ۰۰۲تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۰۰۳ طاہرؔ(اور)سمیعؔ (اور)مجید (خدا اِس سورۃ کا نازل کرنے والا ہے) یہ آیتیں اس کتا ب کی ہیں جو (اپنے مضامین لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۰۰۴ کو )کھول کر بیان کرتی ہے.شاید تُو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے.حلّ لُغَات.مُبِیْنٌ مُبِیْنٌ اَبَانَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے اوراَبَانَ لازم اورمتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے.یعنی کبھی اِس کے معنے ظاہر کرنے کے ہوتے ہیں اور کبھی ظاہر ہونے کے ہوتے ہیں.چنانچہ اقرب الموارد میں لکھا ہے.اَبَانَ الشَّیْءُ اِتَّضَحَ یعنی اَبَانَ الشَّیْئُ کے معنے ہوتے ہیں فلاں چیز ظاہر ہوگئی اوراَبَانَ فُلَانٌ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں اَوْضَحَہٗ کسی بات کو خوب واضح اورنمایاں کیا.(اقرب الموارد) بَاخِعٌ باخع بَخَعَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے.اوربَخَعَ بِالشَّاۃ کے معنے ہیں بَلَغَ بِذَبْحِھَا الْقَفَا.بکری کی گردن پر چھری چلاتے اور اُسے ذبح کرتے ہوئے کوئی شخص اس کی گردن کے آخری حصہ تک اپنی چُھری لے گیا (اقرب) نیز اَلْبَخَعُ بَخَعَ کامصد رہے.اوراس کے معنے ہیں قَتْلُ النَّفْسِ غَمًّا اپنے نفس کو غم کی وجہ سے ہلاک کردینا.(مفردات) تفسیر.طٰسٓمٓ جو حروف مقطعات میں سے ہیں اِن میں سے ط لطیف کا سؔسمیع کا اورمؔ مجید کاقائم مقام ہے.گویا اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے محسنِ عظیم ہونے اُس کے مخفی سے مخفی رازوں سے واقف ہونے.اپنے بندوں کی دعائیں سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اُس کی اعلیٰ اوربلند شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبر ثابت نہیں ہوتا روشنی ڈالی گئی ہے.اوراس کے دلائل دیئے گئے ہیں.(مقطّعات کی تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر سورۃ یونس) اسلام کو دوسرے مذاہب پر جو امتیاز ی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ
اسلام نے صفات الٰہیہ کا ایک ایسامکمل نقشہ پیش کیا ہے جوپہلی الہامی کتب میں سے کسی کتا ب میں بھی نہیں پایاجاتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کی ہستی کو پیش کرنے کاسوال ہے دنیا کی ہرالہامی کتا ب نے اُس کے وجود کو پیش کیا ہے اوراس پر ایمان لانے کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے.کیونکہ مذہب کانقطئہ مرکزی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوراگر کوئی مذہب اللہ تعالیٰ کو ہی پیش نہ کرے تو اُس کاوجود اورعدم برابر ہو جاتا ہے.مگریہ کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں کیا صفات رکھتا ہے یااپنے بندوں سے وہ کس رنگ میں تعلقات رکھتا اوران سے سلوک کرتاہے.اِن امور پران کتب میں کوئی تفصیلی روشنی نہیں ڈالی گئی.صرف یہ کہہ دینا کہ ہماراخدامحبت ہے(یوحنا باب ۴ آیت ۸) یا ہمارا خدا بڑا دیالو اورکرپالو ہے اُس کی صفاتِ حسنہ کا کوئی حقیقی اورصحیح نقشہ نہیں کہلاسکتا.بلکہ اس قسم کی صفات کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا دنیوی خیالات اوررجحانات کابھی نتیجہ کہلاسکتاہے.مثلاً جب دیکھا کہ لو گ رحم کرنا پسند کرتے ہیں توکہہ دیا کہ خدا تعالیٰ بھی بڑارحم کرنے والا ہے یاجب دیکھا کہ لوگ حسنِ سلوک کو بڑااچھا وصف سمجھتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے متعلق بھی کہہ دیا کہ وہ بڑاکرپالو ہے.پس محض چند صفات کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ پہلے مذاہب نے اس مسئلہ پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالی ہے.پھر اگر بعض صفات کا ان کتب میں ذکر موجو د بھی ہے تو ان صفات کی تشریح ان میں موجود نہیں اور نہ ہی صفات الٰہیہ کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ ایک جرمن نو مسلم نے مجھ سے کوئی سوال کیا ہے جس کے جواب میںمَیں نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیش کی ہیں جن میں سے ایک ربّ بھی ہے.اس پر اُس جرمن نو مسلم نے کہا کہ ان صفات کا ذکر تو بائیبل میں بھی آتا ہے.اس فقرہ کے دونوں معنے ہوسکتے تھے.یہ بھی کہ چونکہ بائیبل میں بھی بعض صفات کا ذکر ہے اس لئے یہ دلائل عیسائیوں پر بھی اثر کرسکتے ہیں اور یہ معنے بھی ہوسکتے تھے کہ گویا قرآن کریم بائیبل کی نقل کرتا ہے.میں نے ان دونوں معنوں کا خیال کر کے دل میں سوچا کہ یہ نو مسلم ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیم با ئیبل سے ملتی جلتی ہے پھر اس کی فضیلت کیا ہوئی ؟ اس خیال کے پیدا ہونے پر میںنے بڑے جوش سے ان کے سامنے تقریر شروع کی کہ بائیبل میں جو یہ صفات آئی ہیں ان سے قرآنی صفات کو امتیا ز حاصل ہے.بائیبل میں محض رسمی ناموں کے طور پر وہ صفات بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم نے ان صفات کی باریکیوں کو بیان کیا ہے اور ان مضامین میں وسعت پید اکی ہے اور ان کے راز بیان کئے ہیں.چنانچہ میں نے کہا.دیکھو ربّ کا لفظ ہے بائیبل نے بھی خدا تعالیٰ کو پیدا کرنے والا یا پالنے والا کہا ہے یا زمین و آسمان کا خالق کہا ہے.لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم سورئہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ کو ربُّ الْعَالَمِیْنَ
کے طور پر پیش کرتاہے اور لفظ ربّ اور لفظ عالمین دونوں اپنے اندر امتیازی شان رکھتے ہیں.ربّ صرف اسی مضمون پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ پیدا کرنے والا ہے اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب طور پر انسان کی باریک در باریک قوتوں اور طاقتوںکو درجہ بدرجہ اور مناسبِ حال ترقی دیتا چلا جاتا ہے.اور عالمین کا لفظ محض زمین اور آسمان پر دلالت نہیں کرتا بلکہ زمین و آسمان کے علاوہ مختلف اصناف کی مختلف کیفیتوں پر بھی دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پہلی کتب میں بالکل بیان نہیں ہوا.مثلاً عالمین میں جہاں یہ مراد ہے کہ اس جہان کا بھی ربّ ہےاگلے جہان کا بھی ربّ ہے.آسمانو ں کا بھی ربّ ہے اور زمینوں کا بھی ربّ ہے.وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عالمِ اجسام اور عالمِ ارواح اور عالمِ نساء اور عالمِ رجال اور پھر عالم فکر اور عالمِ شعوراور عالمِ تصور اور عالمِ تقدیراور عالمِ عقل ان سب کا بھی وہ ربّ ہے یعنی وہ صرف روٹی ہی مہیا نہیں کرتا.وہ صرف انہی چیزوں کو مہیا نہیں کرتا جو جسموں کو پالنے والی ہیں بلکہ وہ ارواح کے پالنے کا بھی سامان کرتاہے اورپھر مختلف تقاضے جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ہرایک کی نشوونما کے لئے اس نے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے.چنانچہ اس قسم کے مضمون پر میں تفصیلی لیکچر ان کے سامنے دے رہا ہوں اور خود مجھے بھی نہایت لذت اور سرور حاصل ہورہا ہے اور میں محسو س کرتا ہوں کہ ایک نیا مضمون اورنئی کیفیت میرے اندر پید اہو رہی ہے.یہی لیکچر دیتے دیتے میری آنکھ کھل گئی.غرض اول تو ان کتب میں صفات الٰہیہ پر نہایت اجمالی رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان جلوہ گر نہیں ہوتی.اور پھر جن صفات کا ذکر کیاگیا ہے ان کی بھی تشریح نہیں کی گئی اور نہ ہی صفات الٰہیہ کے باہمی ربط اور تعلق کو واضح کیا گیا ہے.لیکن اسلام نے اس بارہ میں ایک جامع تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر دو قسم کی جلوہ گری رکھتی ہیں.اس کا ایک جلوہ تو صفات ؔتنزیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو ان تمام قسم کی کثافتوں سے جو مادیّات میں پائی جاتی اور مخلوقات میں دکھائی دیتی ہیں منزّہ اور پا ک ٹھہراتا ہے.اور ایک جلوہ صفاتِ تشبیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے یعنی ایسی صفات کی شکل میں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ نظر آتی ہیں چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا نقطئہ مرکزی ہے وہ اَحَدٌ یعنی اپنی ذات میںاکیلا اور منفرد ہے.وہ الصَّمَدُ یعنی ایسی ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں مگر وہ کسی کا محتاج نہیں.وہ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے.یعنی نہ تو اس سے آگے کوئی اولادپیداہوتی ہے اورنہ وہ خود کسی کی اولاد میں سے ہے.و ہ لَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُواً اَحَدٌ ہے.یعنی
نہ توکوئی متوازی طاقت ا س کے ساتھ موجود ہے اورنہ اس کے بالمقابل کوئی اورطاقت موجود ہے.وہ اول و آخر ہے.یعنی تمام اشیاء کی علّت العلل ہے.اورسب کی سب مخلوق اسی کی طرف لوٹتی ہے.وہ قدیر ہے یعنی ہراس بات پر قادر ہے جس کاوہ ارادہ کرتا ہے.وہ اَلْحَیُّ ہے یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والااوردوسروں کوزندہ رکھنے والا ہے.وہ اَلْقَیُّوْمُ ہے یعنی اپنی ذا ت میں قائم اورسب کوقائم رکھنے والا ہے.و ہ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے یعنی سب جہانوںکوپیداکرنے والا اوران کو پالنے والا ہے.وہ اَلرَّحْمٰنُ ہے یعنی بنی نوع انسان کو جس قدر ضروریات پیش آنے والی تھیں ان تمام ضروریات کو اس نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی محض اپنے فضل اورانعام کے طور پرمہیاکردیاہے.وہ اَلرَّحِیْمُ ہے یعنی تمام محنتوں اورکوششوں کے اعلیٰ نتائج پیداکرنے والا ہے.وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے.یعنی ان نتائج کے علاوہ جو اس کی طرف سے طبعی قانون کے ماتحت نکلتے رہتے ہیں اُس نے ہر کام کی ایک انتہامقرر کی ہے.جہاں پہنچ کر اس کاآخری فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اورنیک انسان اپنے کاموںکا اچھا بدلہ اوربُراانسان اپنی برائیو ں کی سزاپالیتا ہے.مگر یہ بدلے اورجزائیں اللہ تعالیٰ کی مالکیّت کے ماتحت ہوتی ہیں.یعنی وہ صرف سزا ہی نہیں دیتا بلکہ اگر چاہتا ہے تواپنے بندوں کو معاف بھی کردیتا ہے.وہ عَلِیْمٌ ہے.یعنی ایک ایک ذرّہ کا اس کو علم ہے.بلکہ انسانی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے.وہ سَمِیْعٌ ہے.یعنی لوگوں کی دعائوں اوران کی التجائوں کو سننے والا ہے.وہ قھّار ہے یعنی ہرایک چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے.وہ جبّار ہے یعنی ہرفساد کی اصلاح کرتا ہے.وہ وھاب ہے یعنی بندوں کو اپنے انعامات سے وافرحصہ دیتا ہے.وہ غَفُوْر ہے یعنی لوگوں کی خطائوں سے چشم پوشی کرتاہے.وہ مُھَیْمِن ہے یعنی ہرایک چیز کامحافظ اورنگران ہے.وہ اَلسَّلام ہے یعنی لوگوں کوسلامتی دینے والا ہے.وہ اَلقَابِض ہے یعنی ہرایک چیز کو ایک حد کے اندر رکھنے والا ہے.وہ اَلبَاسِط ہے یعنی کشائش اورفراخی پیداکرنے والا ہے.و ہ اَلرَّافِع ہے یعنی پستی سے بلندی تک پہنچانے والا ہے.وہ اَلْحَفِیْظ ہے یعنی مخلوق کی حفاظت کرنے والا ہے.وہ اَلمُتَکَلِّم ہے یعنی لوگوں سے کلام کرنے والا اوران پر اپنے الہامات نازل کرنے والا ہے.غرض اسلام ایک کامل الصفات خدادنیا کے سامنے پیش کرتاہے.وہ عیسائیت کی طرح صرف یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوجاتا کہ خدامحبت ہے.نہ تورات کی طرح صرف چندصفات بیان کرنے پر اکتفاکرتا ہے بلکہ اس نے ان تمام صفات کا تفصیلاً ذکر کیاہے جن کاانسانی پیدائش کے ساتھ تعلق ہے.گویاسب آسمانی ڈیپارٹمنٹس کو اس نے ننگا کرکے دکھادیاہے جو اُس کے مِنَ السَّمَاء ہونے کاثبوت ہے.
پھر اسلام نے صرف صفات الٰہیہ کا ایک جامع نقشہ پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ا س نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تواس کا طریق یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے یعنی اس کی صفات کی نقل کرنے کی کوشش کرو.وہ فرماتا ہے.وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ(الاعراف :۱۲)یعنی ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں صورت بخشی اورپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم ؑکی اطاعت کرو.اِ س پر فرشتوں نے تو آدم ؑکی اطاعت کی مگر ابلیس نے نہ کی.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی دوپیدائشیں ہیں.ایک بشری اورایک روحانی.بشری پیدائش کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ہم نے تم کو پیدا کیا.یعنی تمہیں ایک ذی حیات وجود بنایا اور پیدائش روحانی کے متعلق فرمایا.ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ پھر ہم نے تمہاری ایک روحانی شکل بنائی جس کے ذریعہ تم دوسری مخلوق سے ممتاز طور پر پہچانے جاتے ہو.اسی کی طرف بائیبل میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ ’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا.‘‘ (پیدائش باب ۱آیت ۲۷) لیکن بائیبل نے جوالفاظ استعمال کئےہیں ان سے خدا تعالیٰ کے جسمانی ہونے کادھوکا لگتاہے.لیکن قرآن کریم نے جوالفاظ استعمال کئے ہیں ان سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں صورت سے روحانی شکل مراد ہے جسمانی نہیں.کیونکہ جسمانی پیدائش کا اس سے پہلے ذکر کیاجاچکا ہے.پس صَوَّرنٰکم کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمہارے اندر صفات الٰہیہ کاحامل بننے کی قابلیت پیداکی یعنی پہلے توہم نے انسان کی جسمانی خلق کی.اس کے ناک ،کان ، ہاتھ اورپائوں وغیرہ بنائے اورپھر ہم نے اس کے دماغ کی ایسی تربیت کی اور اس کی قوتوں کا اس طرح ارتقاء شروع کیا کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہوگیا اوراس کے اندر ان کے اظہار کی اہلیّت پیداہوگئی.اس کے بعد ہم نے ملائکہ سے کہا کہ اب تم اس انسان کو سجدہ کرو.چونکہ قرآن کریم میں اس بات پر بڑازور دیاگیا ہے کہ سجدہ خدا تعالیٰ کے سوااور کسی کے لئے جائز نہیں اس لئے اس سجدہ سے مجازی سجدہ ہی مراد ہے.اوراس کے معنی اطاعت اورفرمانبردار ی کے ہیں.مگر مجازی سجدہ بھی تو مجازی خداکے سامنے ہی ہوسکتا ہے.اسی لئے فرمایاکہ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَکہ پہلے توہم نے تمہار ے اندر خدائی صفات پیداکیں اورجب تم خدائی صفات کو جذب کرنے اوران کا اظہار کرنے کے قابل ہوگئے توپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدئہ حقیقی توبہرحال میرے سواکسی اَورکے سامنے ناجائز ہے لیکن ہم تم کو ایک مجازی سجدہ کاحکم دینے لگے ہیںاوراس مجازی سجدہ کے لئے ایک مجازی خدا کی ضرورت تھی.سووہ مجازی خدا وہ انسان ہے جس کے اند رالٰہی صفات پائی جائیں.
لیکن اگراسْجُدُوْا سے ہرانسان کے آگے سجدہ کرنا مراد لیاجائے تواس کے معنے یہ بنیں گے کہ وہ چوری کرے توتم بھی چوری میں اس کی مدد کرو.و ہ ڈاکہ مارے توتم بھی ڈاکہ مارو.وہ قتل کرے توتم بھی قتل کرو.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.سجدہ بہرحال اسی آد م کے آگے ہو سکتا ہے جوکبھی چوری نہیں کرسکتا.کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا.کبھی فریب نہیں کرسکتا.کبھی شرک نہیں کرسکتا.کبھی بددیانتی نہیں کرسکتا.کبھی ظلم نہیں کرسکتا.اور کبھی کسی اور خرابی میں مبتلانہیں ہوسکتا اور چونکہ وہ خود ان صفات کاحامل ہوگا جوملائکہ کی صفات سے بڑی ہیں اس لئے اگر ایسے آدم کی اطاعت کی جائے تویہ بالکل درست ہوگا.جوشخص خدائی صفات کامظہر ہوگا ملائکہ کی کیاطاقت ہے کہ وہ اس کے خلاف چلیں.اس کے متعلق تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں.پس ہرشخص کے اند ر خدا تعالیٰ نے یہ طاقت پیداکی ہے کہ وہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بن سکے.اوراگر وہ اپنے اندر صفات ِ الٰہیہ پیداکرلے توپھر ملائکہ کو حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کی مدد کریں.اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ اس کے کسی بندے کی مقبولیت دنیا میں پھیلے تووہ ملائکہ کو حکم دیتا ہے اوروہ اس کی مقبولیت دنیا میں پھیلانا شروع کردیتے ہیں.( بخاری کتاب بدء الخلق ،باب ذکر الملائکة صلوات اللہ علیھم) پس ہرانسان کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیداکرلے.اورجب وہ صفات الٰہیہ اپنے اند ر پیداکرلیتا ہے توفرشتوںکو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلیں کیونکہ وہ ایک خدانما وجود بن جاتا ہے اوراس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے.دنیامیں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہرچیز دوسری چیز کے مشابہ بن کر ہی اُس سے پیوست ہوسکتی ہے ورنہ نہیں.مثلاً لکڑی کے ساتھ ہم لوہے اورچمڑے کوتو پیوست کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں ٹھو س ہونے کی مشابہت پائی جاتی ہے مگر لکڑی کے ساتھ ہم ہوایا پانی کو پیوست نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں مشابہت نہیں پائی جاتی.اسی طرح جوچیزیں روحانی ہوتی ہیں ان میں بھی مشارکت کاپایاجاناضروری ہوتاہے.پس خدا سے ملنے کے لئے ضروری ہے کہ بندے اورخدامیں روحانی مشارکت ہو اوروہ مشارکت یہی ہے کہ انسان اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرے.جب کوئی شخص اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرلیتا ہے تو و ہ اپنے اند رالوہیت کارنگ پیداکرلیتا ہے اورجب اس کے اندر الوہیت کارنگ آجائے تواس کا خدا تعالیٰ سے اتصال اسی طرح ممکن ہو جاتا ہے جیسے لکڑی کالوہے سے.اورگووہ خدانہیں بن جاتامگرخدانماضرور ہو جاتا ہے.جیسے لکڑی لوہانہیں بن سکتی یالوہالکڑی نہیں بن سکتامگر وہ آپس میں جڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں.پس خدا تعالیٰ سے اتصال اوراس کے قرب کے لئے ضروری ہوتاہے کہ انسان اپنے اندر صفات الٰہیہ پیداکر ے اوراس کی محبت کو اپنے اندر جذب کرے.پھر جس
طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اسی طرح محبت الٰہی اسے خدا تعالیٰ کی طرف کھینچنے لگ جاتی ہے.یہ تعلیم جو اسلام نے دنیاکے سامنے پیش کی ہے اتنی اہم ہے کہ اگر اس کے مطابق ہرانسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنانے کی کوشش کرے تویقیناً اس دنیا کانقشہ پلٹ جائے اورہرانسان نیکی کے ایسے بلند مقام پر کھڑاہوجائے کہ جس سے اس کاقد م کبھی منحرف نہ کیاجاسکے.یہی حقیقت ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بھی بتائی گئی تھی.مَیں نے دیکھا کہ مَیں تقریر کررہاہوں اور میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے.میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں سے کہتا ہوں کہ دیکھو انسان کادل خدا تعالیٰ نے ایک آئینہ کی مانند بنایاہے.جس طرح انسان آئینہ میں اپنا حسن دیکھتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنا حسن انسان کے آئینہء قلب میں دیکھناچاہتاہے.پس اگر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے والاہو تو خدا تعالیٰ بھی اس د ل کی قدر کرتا اور اُسے ایک قیمتی متاع قرار دیتا ہے.لیکن اگر انسان کا دل میلا اورداغدار ہو.اوراس میں سے خدا تعالیٰ کا چہر ہ نظر نہ آئے یانظرتو آتا ہو لیکن غلط طور پر آتا ہو تو خدا تعالیٰ بھی ایسے دل کو پرے پھینک دیتا ہے.اورجب مَیں نے یہ الفاظ کہے تووہ آئینہ جو میرے ہاتھ میں تھا اُسے مَیں نے زورسے زمین پر دے مارااورکہا کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ بھی اُٹھا کر اسی طرح دے مارتاہے اوروہ چُور چُور ہو جاتا ہے(روزنامہ الفضل ۱۳/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲).اِس رؤیا میںیہی نکتہ بتایاگیاہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کانور ظاہر کرے.اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی صفات کاظہور ہو.پس ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے دائرہ میں ربّ بھی ہو رحـمٰنبھی ہو، رحیم بھی ہو.مالک یوم الدین بھی ہو.جبار بھی ہو.ستّار بھی ہو.غفّار بھی ہو.علیم بھی ہو.شکور بھی ہو.حمید بھی ہو.مجید بھی ہو.ودودبھی ہو.غرض خدا تعالیٰ کی ساری صفات کو وہ ظاہر کرنے والاہو جن کے متعلق مشہورتویہ ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں وہ اِس سے بھی زیادہ(بخاری کتاب الشروط باب ما یجوز من الاشراط).اگر وہ ایساکرتا ہے تووہ اپنے مقصد حیات کو پوراکرلیتا ہے اوراگر اس کے آئینہء قلب میں خدائی صفات کا انعکاس نہیں ہوتا تووہ ایک ٹوٹاہوابرتن ہے جوکسی کام نہیں آتا یاایک میلا اورداغدار شیشہ ہے جس سے خدا تعالیٰ کا چہر ہ نظر نہیں آسکتا.اورجس طرح کو ئی انسان میلا اورداغدار شیشہ اپنے پاس نہیں رکھتا اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ایساآئینہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا جس کی غرض تویہ تھی کہ وہ خدانمائی کاآلہ بنے مگر میلاہونے کی وجہ سے وہ خدائی حسن کو ظاہر نہیں کرسکتا.غرض اسلام صفات الٰہیہ پر خصوصیت سے زوردیتااوربنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہارا
تمام حسن اس امر پر منحصر ہے کہ تم صفات الٰہیہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگین کرنے کی کوشش کرو.اوراس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جتنا جتنا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیداکرتاچلاجائے گا اُتنا ہی وہ اعلیٰ اخلاق کاحامل ہوگا اور اُسی نسبت سے اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا.گویااسلام نیکی اوربدی کی تعریف ایک جدید زاویہء نگاہ سے پیش کرتا ہے اوراعلیٰ اخلاق کی بنیاد صفات الٰہیہ کے انعکاس پر رکھتا ہے.یہ نظریہ جو اسلام نے پیش کیاہے اتنا اہم ہے کہ اگرغور سے کام لیاجائے تواس نے مذہبی دنیا میں ایک انقلاب پیداکردیاہے اوراس نے نیکی اوربدی کی تعریف ہی بدل دی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو گہرے غور و فکر کے عاد ی نہیں صرف اتنا ہی دیکھا کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں کام کرنے کوہماراجی چاہتا ہے اس لئے ہم وہ کام کریں گے یافلاں کام کرنے کو چونکہ ہمارا جی نہیں چاہتا اس لئے ہم و ہ کام نہیں کریں گے.ایسے لوگوںکے نزدیک اچھے کام کی تعریف صرف یہی ہوتی ہے کہ جس کے کرنے پر ان کا جی چاہے اوربُرے کام کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ جس کے کرنے کو ان کاجی نہ چاہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تعریف بالکل غلط ہے کیونکہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں جن کا جی کسی کام کے کرنے کو آج توچاہتا ہے مگر کل نہیں چاہتا.یاآج تو ایک شخص چاہنے والی بات کو نہیں چاہتا مگر کل وہ اُسے چاہنے لگتاہے.اوراگر اس سے کوئی شخص سوال کرے کہ تمہارےاُس وقت چاہنے اوراب نہ چاہنے یااُس وقت نہ چاہنے اوراب چاہنے کی کیاوجہ ہے تو وہ کہہ دیتاہے کہ اُس وقت میرے حالات اَورتھے اوراب اَورہیں.یابسا اوقات و ہ کہہ دیتاہے کہ جب میں نہیں چاہتا تھا تواُس وقت میں غلطی کررہاتھا اوراب جبکہ چاہنے لگاہوں تودرست کررہاہوں.مگر اس کی یہ بات بھی قطعی نہیں کہلاسکتی.کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل وہ پھر اپنی چاہی ہوئی چیز سے نفرت کرنے لگ جائے پھر اگر کسی شخص کاکسی کام کو چاہنا ہی نیکی ہوسکتی ہے توفرض کرو زید چاہتا ہے کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اوروہ اُسے قتل کردیتاہے توکیابکر اس لئے خاموش ہوجائے گا کہ وہ اِس کام کو چاہتا تھا ؟ یاکسی شخص کاملازم کام میں سستی کرتاہے توکیا اس کاآقا ملاز م کے یہ کہنے پر کہ اس کام کا تعلق میری مرضی کے ساتھ ہے خاموش ہوجائے گا ؟اگر کسی شخص کاکسی کام کوچاہنا ہی نیکی ہو سکتا ہے توبکر کااپنے باپ کے قاتل کے خلاف مقدمہ دائر کرنا بے انصافی ہوگا.اِ سی طرح آقاکااپنے ملازم کو اس کی سستی پرسزادینا ظلم ہوگا.کیونکہ زید چاہتا تھا کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اورملازم چاہتاتھا کہ وہ کام میں سستی کرے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جوخود نیکی اوربدی کے متعلق ایک فارمولاتجویز کرتا ہے اورکہتا ہے کہ جس چیز کو انسان کا جی چاہے وہ نیکی ہے.اورجس کو نہ چاہے وہ بدی.اُسی شخص کے باپ کو جب کو ئی شخص قتل کردیتا ہے تووہ سخت غصہ میں آجاتاہے اورکہتاہے میں اس سے بدلہ لے کررہوں گا.حالانکہ چاہیے تھا کہ جب اس کے باپ
کاقاتل اُسی کے مجوزہ فارمولاپرعمل کررہاتھا تووہ خوش ہوتا کہ اُس نے نیکی کی ہے.اِسی طرح ملازم کے سستی کرنے پر اوریہ کہہ دینے پر کہ میراجی چاہتا تھا کہ مَیں سستی کروں وہ خاموش ہوجاتا بلکہ خوش ہوتا کہ وہ نیکی کے راستہ پر گامزن ہے.مگر ایساکبھی نہیں ہوتا.پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف درست نہیں.پھر بعض لوگوں نے اس تعریف سے ذرااَورترقی کی ہے اورکہا ہے کہ جس کام کو سوسائٹی چاہتی ہے و ہ نیک ہے اورجس کام کو سوسائٹی نہیں چاہتی و ہ بد ہے.مگر اس تعریف پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوسوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے.اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے.یاسکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکا کھایا جائے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے.اِسی طرح یوروپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے.لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب نہ پی جائے.اب جبکہ ہندوسوسائٹی یہ چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے کیونکہ ایساکرنا سخت گناہ ہے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے کیونکہ اُس کاکھانا ہمارے مذہب میں جائز ہے.سِکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکاکھایاجائے لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے کیونکہ جھٹکاکھاناحرام ہے.یورپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے.لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب بالکل نہ پی جائے کیونکہ اس کاپینا حرام ہے.توہم کون سی سوسائٹی کی خواہش کے مطابق فیصلہ کریں گے آیا ہم مسلمان سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یاسِکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یا ہندوسوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یایورپین سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے.اگر ہم ہندوسوسائٹی کے چاہنے کےمطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ گائے کھانا سخت جرم ہے تومسلمان کہے گا گائے کھانا جائز ہے.اگر ہم سکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریںکہ جھٹکاکھاناچاہیے تو ایک مسلمان کہے گا جھٹکا کھانا حرام ہے.اگر ہم یورپین سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے کہ شراب پینی چاہیے تومسلمان کہے گا شراب پینا حرام ہے.غرض ہمیں کوئی ایک سوسائٹی بھی ایسی نظر نہیں آتی جس کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کردیاجائے تواس پر باقی تمام سوسائٹیاں متفق ہوجائیں.ہزاروں ہزار نیکی اورعیب کی باتیں ایسی ہیں جن میں لوگوں کے اندر شدید اختلاف پایا جاتا ہے.ایک سوسائٹی ایک کام کو بہت بڑی نیکی قرار دیتی ہے تودوسری سوسائٹی اس کو بہت بڑاجرم قرار دیتی ہے یاایک سوسائٹی ایک کام کو سخت گناہ سمجھتی ہے تودوسری سوسائٹی اسی کام کو عین ثواب سمجھتی ہے.یورپین لوگ شراب کو بہت اچھا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں.آیا ہم شراب پینے کو یورپ کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں یااسلام کے معیار کے مطابق بدی قراردیں.ایک یورپین کسی مسلمان کو شراب کاگلاس پیش کرتا ہے
اورمسلمان اس کے پینے سے انکار کرتا ہے توکیا ہم یورپ کے معیار کے مطابق مسلمان کے شراب پینے سے انکارکو بدتہذیبی قراردیں گے یااسلام کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں گے.آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان سوسائٹی کی بات مانیں اورعیسائی سوسائٹی کی بات کو ردّ کردیں.یاعیسائی سوسائٹی کی بات مانیں اورمسلمان سوسائٹی کی بات ردّکردیں.پھر بعض لوگوں نےایک اورقدم اٹھایاہے.وہ کہتے ہیں نیکی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ اچھا کہیں اوربدی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ براکہیں.مگریہ تعریف بھی کوئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی.کیونکہ دنیا کی اکثریت کو اسی صورت میں نیکی اوربدی کی شناخت کاصحیح معیار قرا ردیا جاسکتا ہے جب خود اکثریت ہمیشہ ایک بات پر قائم رہے.لیکن ہمیں توہرزمانہ اورہرملک بلکہ قوم کی اکثریت کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں.ایسی صورت میں دنیا کی اکثریت کو نیکی اوربدی کی شناخت کامعیار کس طرح قرار دیاجاسکتا ہے.پھر اگر اس تعریف کو درست سمجھاجائے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر اکثریت کہتی ہوکہ خدا کوئی نہیں تو اُس وقت خدا تعالیٰ کاانکار کرنا نیکی ہوگا.اوراگر اکثریت کہتی ہوکہ خداہے تو خدا کوماننا نیکی ہوگا.لیکن دوسرے وقت وہی اکثریت ہستی باری تعالیٰ کی قائل ہوجائےتوپھر خدا تعالیٰ پر ایمان لانا نیکی قرار پائے گا اوراس کاانکار کرنا بدی قرار پائے گا.گویا اکثریت کے عقائد بدلنے کے ساتھ نیکی اوربدی کی تعیین بھی مختلف ہوتی چلی جائے گی پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف بھی کو ئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی و ہ عمل ہے جس سے سب سے زیادہ خوشی حاصل ہو.اوربدی وہ عمل ہے جو اُنہی حالات میں اُتنی خوشی پیدانہ کرے.مگریہ تعریف بھی صحیح نہیں کیونکہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ اگرایک شخص کو ڈاکہ مارکر سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہو.تواس کے لئے ڈاکہ مارناہی سب سے بڑی نیکی ہوگا حالانکہ اِسے کوئی بھی درست تسلیم نہیں کرتا.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہوتی ہے جس کادنیاکے سب سے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے.لیکن اس تعریف کو صحیح سمجھاجائے توماننا پڑے گا کہ اگر فرانس بلجیم پر حملہ کرکے اُسے لوٹ لے توجائز ہوگا کیونکہ فرانس کے باشندے بلجیم کے باشندوں سے بہت زیاد ہ ہیں بیشک بلجیم کے تھوڑے سے لوگوںکو نقصان پہنچے گا لیکن چونکہ فرانس کے بہت زیادہ لوگوں کوفائدہ پہنچتاہے اس لئے ان کا بلجیم پر حملہ کرکے وہاں کے مال و متاع کو لوٹ کر لے جانا نیکی ہو گا.اسی طرح جو قوم بھی اکثریت میں ہو.اس تعریف کے ماتحت اس کے لئے جائز ہوگا کہ و ہ اقلیت کو لوٹ لے اورکہے کہ یہ نیکی ہے.اورجب کوئی سوال کرے کہ یہ نیکی کس طرح ہوئی تو وہ کہہ دے کہ دیکھ لوکتابوں میں اسی طرح لکھا ہے کہ
نیکی وہی ہے جس کادنیا کے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے.اس کے مقابلہ میںاگر اقلیت رکھنے والی قومیں اکثریت پر حملہ کریں اوران کے مال و اسباب لوٹناچاہیں توان کا یہ فعل بدی کہلائے گا.کیونکہ اس طرح تھوڑوں کو فائدہ پہنچتا ہے اوربہتوں کو نقصان پہنچتا ہے.پھر بعضوں نے کہا ہے کہ جس چیز کازیادہ سے زیادہ اورلمبے عرصہ تک فائد ہ پہنچے وہ نیکی ہے.مگراس تعریف کے ماننے سے بھی یہ لازم آتا ہے کہ اگر کوئی قوم سوسال تک لوٹ مار کرتی ہے تووہ کم نیکی کرتی ہے اوراگر وہ دوسوسال تک لوٹ مارکرتی تو یہ زیادہ نیکی ہوتی.پھر بعض لوگ کہتے ہیں نیکی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو زیادہ نفع پہنچے اوربدی و ہ ہے جس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچے.مگر اس پر بھی یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر جھوٹ بولنے سے کسی کی ذات کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہو تواس تعریف کے ماتحت جھوٹ بولنا بھی اُس کے لئے نیکی ہوگا.حالانکہ اسے کوئی بھی درست نہیں سمجھتا.پھر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نیکی اوربدی کی فطرت پر بنیاد رکھنی چاہیے.یعنی جس چیز کو فطرت نیک کہے وہ نیکی ہے اورجس چیز کو فطرت بد کہے وہ بدی ہے.یہ تعریف ایک حد تک تو درست ہے.مگرکلّی طور پر نہیں.میں نے بار ہا ایک مثال بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایاکرتےتھے کہ ایک چور کو میں نے سمجھانا شروع کیا کہ چوری بہت بُرا فعل ہے.تمہیں محنت کرکے حلا ل کی کمائی کھانی چاہیے.اُس نے کہا.مولوی صاحب ہم چوری کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں اورہمیں فلاں فلاں دشواریوں اوردِقتوں کاسامنا ہوتا ہے.اس لئے یہ فعل ہمارے لئے بالکل جائز ہے.آخر جب چور کو کہاگیا کہ اگر تم کچھ چُرایا ہواسونا سنار کے پاس لے جائو اوراس کے پاس رکھ کر.دوچار دنوں کے بعد اس سے واپس مانگو اوروہ دینے سے انکار کردے تو پھر کیا ہو ؟ اس پر وہ چو ر کہنے لگا کہ کیاایسا بھی کوئی خبیث ہوسکتا ہے جودوسرے کامال کھاجائے.پس بے شک انسانی فطرت بعض باتوں کے متعلق بولتی توہے مگر محدود حد تک.کیونکہ انسانی فطرت بسا اوقات بُرے ماحول کے نتیجے میں مسخ بھی ہوجاتی ہے.اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ پھر نیکی کس چیز کانام ہے اوربدی کس چیز کانام ہے.کیانیکی وہ ہوگی جس کومذہب نیکی قراردیتا ہے اوربدی وہ ہوگی جس کو مذہب بدی قرار دیتا ہے.لیکن اگر یہ درست ہوتوسوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے مذہب کی نیکی نیکی کہلائے گی اورکون سے مذہب کی بدی بدی کہلائے گی.اوریہ سوال ایساہے کہ اس کاحل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ دنیا میں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں.اوران کی تجویز کردہ نیکیوں اوربدیوں میں آپس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے.ایک مذہب ایک کام کو نیکی قرا دیتا ہے تودوسرامذہب اُسی کام کو بدی قرا ردیتا ہے.
اس لئے اس تعریف سے بھی ہمیں نیکی اوربدی کاحقیقی علم حاصل نہیں ہوسکتا.پھر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بغیر کسی حکمت کے صرف شریعت کے روکنے کی وجہ سے گناہ ہوتی ہے توشریعت کا یہ فعل لغو قرا رپاتا ہے.اوراگر بُرائی کی وجہ سے بُری ہوتی ہے تو پھر یہ دلیل نہ ہوئی کہ جس سے شریعت روکے وہ بری ہے بلکہ یہ ہوئی کہ جوبُری شے ہو اُس سے شریعت روکتی ہے اورپھر اس حکم یانہی کو اُس حکمت کی طرف منسوب کرنا پڑے گا.صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے.اورجس کاحکم دے وہ نیکی ہے.اسلام ان تمام نظریات کے خلاف دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کی موافقت اختیار کرنانیکی ہے اوراس کی صفات کے خلاف کا م کرنا بُرائی ہے.چنانچہ وہ اس بارہ میں مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً(البقرۃ:۱۳۹)یعنی اے مومنو !تم اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرو.اوراللہ تعالیٰ سے بہتراَورکون ہے جس کارنگ اختیارکیا جاسکے یعنی جس طرح خدا ربُّ العالمین ہے.و ہ الرَّحمٰن اور اَلرَّحِیْم ہے.وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے اسی طرح تم بھی کوشش کرو کہ تم اُس کی ربوبیتِ عالمین کے مظہر بن جائو.تم اس کی رحمانیت کے مظہر بن جائو.اُس کی رحیمیّت کے مظہر بن جائو.اس کی مَالِکِیَّتِ یَومِ الدِّیْن کے مظہر بن جائو.اسی طرح کوشش کرو کہ تم بھی ایک قسم کے سَتَّار بن جائو.ایک قسم کے غَفَّار بن جائو.ایک قسم کے قَھَّار بن جائو.ایک قسم کے حَمِیْد بن جائو.ایک قسم کے مَجِیْد بن جائو.ایک قسم کے شَکُوْر بن جائو.ایک قسم کے وَدُوْد بن جائو.تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ایک رنگ کی مشارکت حاصل ہوجائے اور تم صفات الٰہیہ کے مظہر بن کر اخلاق کااعلیٰ مقام حاصل کرلو.پس اسلام کے نزدیک حقیقی خو بی وہ ہے جوحسنِ ازلی کے نقشہ میں ہو اورگناہ یاعیب ہر اس فعل کانام ہے جوصفات الٰہیہ کے منافی ہو.اور چونکہ انسان کو خدا تعالیٰ کی صفات کامظہر بننے کی طاقت دی گئی ہے.یادوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو.کہ خداتعالی اصل ہے اورانسان اس کی تصویر ہے.اس لئے تصویر کا حسن اسی میں ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو.اوراس کا عیب یہ ہے کہ وہ اصل کے خلاف ہو پس انسان جو عمل بھی ایساکرتا ہے جواسے خدا تعالیٰ کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اورجو عمل اسے خداتعالی کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے.گویانیکی کی حقیقی تعریف اسلام نے یہ پیش کی ہے کہ نیکی اس عمل یاخیال کانام ہےجوخداتعالی سے جو ایک کامل اوربے عیب ذات ہے مشابہت پیداکرتا ہو.اوربدی اُس فعل یاخیال کا نام ہے جو اس کامل اوربے عیب ذات کی پسندیدگی یافعل کے خلاف ہو.
بیشک ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کو ہی نہیں مانتا.اس صورت میں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس کو خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق دلائل دیں.لیکن خدا تعالیٰ کی ہستی ثابت کردینے کے بعد اخلاقِ صحیحہ کی پہچان کا صحیح معیار یہی ہوگا.کہ جو کام الٰہی صفات کے مطابق ہو و ہ اچھا ہے اورجو کام الٰہی صفات کے خلاف ہو و ہ بُرا ہے.کیونکہ وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ہرعیب سے پاک ہے اورہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ہے.اس تعریف کی تعیین کے بعد ہمارے لئے اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیئہ کی شناخت کچھ بھی مشکل نہیں رہتی کیونکہ جب ایک ماڈل مل جائے تو خیالی تصویر کی ضرورت نہیں رہتی.ہم اس بات کو روز روشن کی طرح ثابت کرسکتے ہیں.کہ اپنے اندر ہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ایک ایسی ہستی موجود ہے جس کے نمونہ پر چل کر انسانی افعال درست ہوسکتے ہیں اوروہ ہستی اتنی حسین ہے کہ اس کی نقل کرکے انسانی افعال بھی حسین ہوسکتے ہیں.پس اگر خدا تعالیٰ کی کو ئی ہستی ہے اورضرورہے اوروہ اپنے اندر تمام قسم کی صفات حسنہ رکھتی ہے.توجوبھی اس ہستی کے افعال کی نقل کرے گا اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیداکر نے کے قابل ہوجائے گا.پس اخلاق فاضلہ وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات اوراس کے افعال کی نقل کر کے حاصل کئے جائیں اوراخلاق سیئہ وہ ہیں جو اسے خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے سے دور لے جائیں.کیونکہ اصل منبع اور مبدء خدا ہے اور انسان درحقیقت اس کی ایک تصویر ہے پس جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات کی نقل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کے اندر اخلاقِ فاضلہ آتے چلے جائیں گے اور جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات سے دور رہے گا اُتنا ہی زیادہ وہ اخلاقِ فاضلہ سے بھی دور ہوتا چلا جائے گا یہی حکمت ہے جس کی بنا ء پر اسلامؔ نے صفات الٰہیہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور باربار اُن کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اگر ایک طرف یہ صفات اُس کے وجود کا ثبوت ہوںتو دوسری طرف انسان اُن کا مظہر بن کر ایک خدانما وجودبن جائے.جس کے اندر حُسن ہی حُسن ہو اور کوئی عیب اور نقص اس میں دکھائی نہ دے.سورۃ الشعراء کی ابتدا ء بھی اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ذکر سے کی گئی ہے جن میں سے پہلی صفت جس کی طرف اِس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے صفتِ لطیف ؔ ہے.لطیف کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے لُغت میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِعِبَادِہٖ أَ لْمُحْسِنُ اِلیٰ خَلْقِہٖ بِاِ یْصَاَلِ الْمَنَافِعِ اِلَیْھِمْ بِرِفْقٍ وَلُطْفٍ اَوِالعَالِمُ بِخَفَایَاالْاُمُورِ وَدَقَائِقِھَا(اقرب الموارد)یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے جب لطیف کالفظ استعمال ہوتواس کے دومعنے ہوتے ہیں.اول یہ کہ وہ لوگوں کی خبر گیری کرنے والا اورمحبت اوراحسان کے ساتھ ان کا نفع پہنچانے والا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنی مخلوق کی مخفی سے مخفی باتوں کو جاننے
والا اوران کی تمام حاجات اورضروریات کاعلم رکھنے والا ہے.ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر نظام عالم پر نگاہ دوڑائی جائے توہمیں یہ دونوں باتیں اپنے پورے کمال کے ساتھ دنیا میںدکھائی دیتی ہیں.اوراس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعہ میں ایک لطیف ہستی ہے جس نے اپنی مخلوق کو فائدہ پہنچانے اوراس کی زند گی کوبرقرار رکھنے کے لئے اِ س قسم کی نعمتوں سے اسے نوازاہے.اوراس کی بقاء کے لئے اتنے بڑے سامان پیداکئے ہیں کہ کو ئی شخص اگر ساری عمر بھی ان نعمتوں کاشکر اداکرتارہے تب بھی وہ پور ی طرح شکر ادانہیں کرسکتا.چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ آسمان پر لاکھو ں میل دور سور ج اورچا نداورستارے اس کے بندوں کے لئے رات دن اپنے کام میں مشغو ل ہیں.اورزمین الگ اپنے کام میں مصروف ہے.انسان تھوڑا سابیج ڈال کر اپنے گھر چلاآتاہے مگر تھوڑے ہی عر صہ میں اس چند سیر بیج کے بد لے ہزاروں من غلہ وہ اپنے گھر لے جاتا ہے.وہ اپنے گھر میں آرام سے سورہاہوتا ہے اورزمین اس کے کام میں مصروف ہوتی ہے اورا س کے لئے غلہ اُگارہی ہوتی ہے.سبزی اُگارہی ہوتی ہے اورانواع و اقسام کے پھل اورپھو ل پیداکررہی ہوتی ہے.یہ سویا ہوااُٹھ کر آتا ہے اوراپنی ضرورت کے مطابق اُگااُگایا اورپکا پکایا پھل لے کر چلا جاتا ہے.اسی طرح انسانی جسم پر نگاہ ڈالو.کا ن ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر یہ بھی خدا کی عطا ہے.ہواکی لہریں جن کے ذریعہ سے ان میں آواز پہنچتی ہے وہ بھی خدا کی پیداکی ہوئی ہیں.گلے کے پردے جن سے آوا ز نکلتی ہے وہ بھی خداکے پیداکئے ہو ئے ہیں.ایک اچھا گویّا انہی پردوں کے ذریعہ سے گاتاہے جو خدا نے دیئے ہیں مگر لو گ کہتے ہیں فلاں گویّا کتنا اچھا ہے.یا لو گ کہتے ہیں فلاں شخص کا حافظہ کتنا تیز ہے.مگر اس کے حافظہ والی جگہ یعنی دماغ بھی خدا نے بنایاہے.دماغ کے اند رجو سیلز ہوتے ہیں و ہ بھی خدا نے بنائے ہیں.اسی طرح انسان نما ز پڑھتا ہے توزبان جس سے وہ الفاظ اداکر تا ہے خدا تعالیٰ کی پیداکردہ ہوتی ہے.جس مقام پر وہ ان الفاظ کو محفوظ رکھتا ہے یعنی دماغ وہ بھی خدا نے بنایا ہے.وہ رکوع کرتاہے یا سجدہ کرتا ہے یاقیام کرتاہے توا س کے لئے وہ جتنی قوتوں سے کام لیتا ہے وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کی پیداکردہ ہوتی ہیں.انسان کا ان کی پیدائش میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا.اسی طرح اگر وہ زکوٰۃ دیتاہے توزکوۃ کاروپیہ خدا تعالیٰ کادیا ہواہوتا ہے.جن طاقتوں سے اس نے روپیہ کمایا تھا وہ بھی خداتعالی کی دی ہوئی تھیں.جس ہاتھ سے ا س نے زکوٰۃ دی و ہ بھی خدا کادیاہواتھا.پھر انسان روزہ رکھتا ہے تواس میں بھی اس کاکیا ہے اگر خدا نے اس کے اند راتنی طاقت نہ رکھی ہو تی کہ وہ دس بار ہ یا پندر ہ گھنٹے بھوکا رہ سکے تووہ کس طرح روزہ رکھ سکتا تھا.پس اگر وہ روز ہ رکھتا ہے تووہ بھی خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کے نتیجہ میں ہی رکھتا ہے.اپنے زوراور بل پر نہیں رکھتا.یامثلاً ایک لوہار اپنے پیشہ سے شہرت حاصل کرتا
ہے تووہ اپنے پیشہ میں جس قد رچیز یں استعمال کرتا ہے سب خدا تعالیٰ ہی کی عطا ہوتی ہیں.لوہے کو خدا نے پہلے پیدا کیا ہواہے.کوئلہ اس نے پہلے سے پیدا کررکھا ہے.آگ جس پر وہ لو ہے کو گر م کرتاہے خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے.اعصاب جن سے وہ کام لیتا ہے خدا تعالیٰ کے عطاکردہ ہیں.غرض جتنی چیز وں سے وہ کام لیتا ہے سب خدا کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں.اس کااپنا صرف اراد ہ ہی ہوتا ہے اَورکچھ نہیں ہوتا.لیکن اتنے بڑے انعامات کے باوجود کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے.اوراس وقت و ہ ایسا ناشکر ا بن جاتا ہے کہ اسے کو ئی بھی نعمت دکھائی نہیں دیتی.کوئی بھی فضل نظر نہیں آتا.کسی رحمت سے بھی اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کاجذبہ پیدا نہیں ہوتا.ہم نے بڑے بڑے مالداروں کو دیکھا ہے.وہ موٹروں میں پھرتے ہیں.دس دس کھانے ان کے دسترخوانوں پر موجو د ہوتے ہیں.مگر جب کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں توکہتے ہیں.یہ بھی خراب ہے وہ بھی خراب ہے کھانے کاکو ئی مزہ ہی نہیں آتا.اس کے مقابلہ میں غریب آدمی کو دیکھو کہ و ہ روٹی کا سوکھا ٹکڑا کس مزے سے کھاتا ہے اورکس طرح وہی سوکھاٹکڑا اسے دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ لذیذ معلوم ہوتاہے.مجھے یا د ہے.میری دوتین سال کی عمر تھی کہ میری آنکھیں دُکھنے آگئیں.ڈاکٹروں نے ایسی حالت میں مجھے روٹی کھلانی منع کردی.ایک دن صبح کے وقت مجھے آنکھوں میں سخت تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ صبح کے وقت رات بھر آنکھ بند رہنے کی وجہ سے پانی اندربھر جاتا ہے اورآنکھوں میں درد ہوتاہے.اوراس کی وجہ سے لازمی طور پر بچہ رونے لگ جاتا ہے.بہرحال آنکھیں دُکھنے کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوئی اورمیں نے روناشروع کردیا.ہمارے گھر کی ایک خادمہ نے یہ دیکھ کر مجھے اُٹھالیا اورپچکارنا شروع کردیا.اس وقت وہ روٹی کاایک باسی ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے ہوئے بڑے مزے سے کھاتی جاتی تھی.اورساتھ ساتھ مجھے پچکارتی جاتی تھی.مجھے ساری عمر میں کبھی کسی کھانے کا اتنا مزہ نہیں آیا جتنا مجھے اس باسی ٹکڑہ کی خوشبوکا محسوس ہوا.کیونکہ وہ اپنے دل کے اطمینا ن کی وجہ سے اس باسی ٹکڑہ میں بھی اتنا لطف محسوس کررہی تھی کہ اس نے وہ لطف اورو ہ لذت کااحساس میرے اند ر بھی پیداکردیا.حالانکہ وہ بغیر کسی سالن کے اوربغیرکسی ایسی چیز کے کھارہی تھی جو اس ٹکڑے کو نرم کردے.مگر جس مزے سے وہ کھارہی تھی اورجس طرح وہ مچاکے ماررہی تھی.و ہ مچاکے محسوس کراتے تھے کہ اس کے نزدیک دنیا کاسب سے بڑاکھانا وہی ہے.لطیفہ یہ ہے کہ تین چار سال کے بعد ایک دفعہ اماں جانؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاراکس چیز کو دل چاہتا ہے تومیری طبیعت پر اس کااتنا اثر تھاکہ میں نے کہا.میر اجی چاہتا ہے کہ میں باسی روٹی کھائوں.توجب انسان قناعت سے کام لے اور شکر
گذاری کے جذبات کے ساتھ ہر چیز کو دیکھے تواسے معمولی سے معمولی چیز بھی دنیا کی اعلیٰ ترین نعمت دکھائی دینے لگتی ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بڑی نیک اورعبادت گذار تھی.میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ مائی مجھے کو ئی خدمت بتائو.میں چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو اس کو پوراکرکے ثواب حاصل کروں.وہ کہنے لگی.اللہ کادیاسب کچھ ہے.مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں.میں نے پھر اصرار کیا اورکہا کہ کچھ توبتائو.میری بڑی خواہش ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں.وہ کہنے لگی.نور الدینؓ! مجھے اَور کیا چاہیے.کھانے کے لئے روٹی اوراوڑھنے کے لئے لحاف کی ضرورت ہو تی ہے اللہ تعالیٰ مجھے دوروٹیاں بجھوادیتاہے.ایک میں کھالیتی ہو ںاورایک میرابیٹاکھالیتا ہے.اورایک لحاف ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹاسورہتے ہیں.میں ایک پہلو پر سوئے ہو ئے تھک جاتی ہوں تو کہتی ہوں.بیٹا!اپنا پہلو بد ل لے اورمیں دوسرے پہلوپر لیٹ جاتی ہوں.اس کاایک پہلو تھک جاتاہے توو ہ مجھے کہتاہے اورمیں اپنا پہلو بدل لیتی ہوں.بس بڑے مزے سے عمر گذر رہی ہے.اَور کسی چیز کی کیا ضرورت ہے.میں نے پھر اصرار کیا.توکہنے لگی اچھا.اگر تم بہت ہی اصرار کرتے ہو توپھر مجھے ایک موٹے حرفوںوالا قرآن لادو.میر ی نظر اب کمزورہوگئی ہے اورباریک حروف نظر نہیں آتے.موٹے حرفوں والا قرآ ن مل جائے تومیں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں گی.اب ایک طرف اس بڑھیا کی حالت کو دیکھو اوردوسری طرف اس امر کو سوچو.کہ اب اگر کوئی چار سوروپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے.پانچ سو روپیہ ماہوار کما تا ہے تو و ہ بھی بے چین ہے.دوہزار روپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے.حالانکہ مال حاصل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود راحت اورچین ہوتاہے.اوراگر یہی حاصل نہ ہوتو روپیہ لے کرکسی نے کیا کرنا ہے لیکن اگر انسان اپنے دل میں شکر گذاری کا جذبہ پیداکر ے تواسے عالم کاذرہ ذرہ اپنا محسن دکھا ئی دیتا ہے.اور چونکہ عالم کا ہرذرہ خدا تعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اس لئے اسے خداہی اپنا محسن حقیقی نظر آتا ہے.حضرت مرزامظہر جان جانا ن ؒ دلی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں.ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں لڈّو بہت پسند تھے.دِلّی میں بالا ئی کے لڈو بنتے ہیںجو بہت لذیز ہو تے ہیں.ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کو ئی شخص بالا ئی کے دولڈو ان کے پا س ہدیۃً لایا.ان کے ایک شاگر د غلام علی شاہ بھی ا س وقت پا س ہی بیٹھے ہو ئے تھے انہوں نے وہ دونوں لڈو ان کو دے دیئے.بالائی کے لڈو بہت چھو ٹے چھو ٹے ہوتے ہیں اخروٹ کے برابر بلکہ اس سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ ہی وہ دونوں لڈو اُٹھا ئے اورمونہہ میں ڈال لئے.جب وہ کھا چکے تو حضر ت مرزا مظہر جان جانانؒ نے ان کی طرف دیکھا اورفرمایا.میاں غلام علی !معلوم
ہوتا ہے تم کو لڈو کھانے نہیں آتے.و ہ اس وقت تو خاموش ہو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد ا ن سے کہنے لگے.حضور مجھے لڈوکھانے سکھا دیجئے.حضرت مرزامظہر جان جانانؒ نے کہا کہ اگر اب کسی دن لڈو آئیں تومجھے بتانا.میں تمہیں لڈوکھانا سکھادوں گا.کچھ دنوں کے بعد پھر کو ئی شخص ان کے لئے بالائی کے لڈو لایا.میاں غلام علی صاحب کہنے لگے.حضور!آپ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہواہے کہ میں تمہیں لڈو کھانا سکھادوں گا.آ ج اتفاقاً پھر لڈو آگئے ہیں.آپ مجھے بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں.انہوں نے اپنا رومال نکالا.اوراس پر وہ لڈو رکھ کر ایک لڈو سے ذرہ ساٹکڑہ توڑکر اپنے منہ میں ڈالااورسبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے.پھر فرمانے لگے.واہ مظہر جان جاناںؒ تجھ پر تیرے رب کاکتنا بڑافضل ہے.یہ کہہ کر پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے اوراپنے شاگرد کو مخاطب کر کے فرمایا.میاں غلام علی! یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنتاہے.انہوں نے چیزوں کے نام گنانے شروع کردیئے کہ اس میں کچھ بالائی ہے کچھ میٹھاہے.کچھ میدہ ہے.یہ سن کر انہوں نے پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنا شروع کردیا اورفرمایا.میاں غلام علی! تمہیں پتا ہے یہ میٹھا جو اس لڈو میں پڑا ہے کس طرح بنا.انہوں نے بتایا کہ زمیندار نے پہلے گنا بویا.پھر بیلنے میں اس کو بیلا.پھر رس تیار ہو ئی اوراس سے شکر بنائی گئی.حضرت مظہر جان جانان ؒ فرمانے لگے.دیکھو وہ زمیندار جس نےنیشکر کو بویاتھاو ہ کس طرح اپنے بیوی بچوں کو چھو ڑکر راتوںکو اُٹھ اٹھ کر اپنے کھیتو ں میں گیا اس نے ہل چلایا.کھیتوںکو پانی دیا اورایک لمبے عرصہ تک محنت و مشقت برداشت کرتارہا.صرف ا س لئے کہ مظہر جان جانانؒ ایک لڈو کھالے.یہ کہہ کر وہ پھر اللہ تعالی کی تسبیح و تحمیدمیں مشغول ہوگئے.اورتھو ڑی دیر بعد فرمانے لگے.چھ ماہ زمیندار اپنے کھیت کو پانی دیتا رہا.پھر کس محنت سے اس نے نیشکر کو بیلا.اس سے رس نکالی اورپھر آگ جلا کر کتنی دفعہ وہ اس دنیا کے دوزخ میں گیا.محض اس لئے کہ مظہر جان جاناںؒ ایک لڈو کھالے.اس کے بعد انہوں نے اسی طرح میدہ اوربالائی کے متعلق تفاصیل بیان کرنی شروع کردیں.کہ کس طرح ہزاروںآدمی دن رات ان کاموں میں مشغول رہے.انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کی.انہوں نے اپنے آرام کو نہ دیکھا انہوں نے اپنی آسائش کو نظر انداز کردیا.اوریہ سارے کام خدا تعالیٰ نے ان سے محض اس لئے کرائے کہ مظہر جان جانان ایک لڈو کھالے.یہ کہہ کر ان پر پھر ربودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اوروہ سبحان اللہ ! سبحان اللہ کہنے لگ گئے.اتنے میں عصر کا وقت آگیا اوروہ اٹھ کر نماز کے لئے چلے گئے.اورلڈو اسی طرح پڑارہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہم نے دیکھا ہے.آپ کا یہ طریق تھا کہ جب آپ روٹی کھاتے توروٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر اپنے منہ میں ڈال لیتے اوراس وقت تک کہ دانت اس کو چباسکیں اچھی طرح چباتے
رہتے.آپ کی عادت بڑالقمہ لینے کی نہیں تھی بلکہ آپ ہمیشہ چھوٹا لقمہ لیتے اورجہاں ا س پہلےلقمہ کو دیر تک چباتے رہتے وہاں روٹی کاایک اَور ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ میں ملتے جاتے اورساتھ ہی سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے.کچھ دیر کے بعد اس میں سے کوئی ٹکڑہ سالن لگا کر منہ میں ڈال لیتے اورروٹی کے باقی ٹکڑے دسترخوان پر پڑے رہتے دیکھنے والے بعض دفعہ کہا کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام روٹی کے ٹکڑوں میں سے حلال اورحرام ذرّے الگ الگ کرتے ہیں اور چونکہ روٹی کے بہت سے ٹکڑے آپ کے دسترخوان پر جمع ہوجاتے تھے اس لئے جب آپ کھانے سے فارغ ہوجاتے تولو گ تبرّک کے طور پر ان ٹکڑوں کو آپس میں تقسیم کرلیاکرتے تھے.تواللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوربرکتیں اتنی وسیع ہیںکہ اگر انسان غور کرے اورسوچے تواسے معلوم ہو کہ ہرقدم جو انسان اٹھا تاہے.ہرلمحہ جو انسانی زندگی پر گذرتاہے.ہرساعت جو اس پر آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اوراس کی بے انتہاء برکات کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اورپھر اگر انسان اورزیادہ غور کرے تواسے معلوم ہوکہ ساراجہان اس کی خدمت میں لگا ہواہے.اوردن رات اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے وہ حصہ پارہا ہے.ہرہاتھ جو وہ لمباکرتاہے.ہرآنکھ جو وہ جھپکتا ہے.ہرآوازجو وہ سنتاہے.ہر تھوک جو وہ نگلتاہے اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کے احسان کا ہی نتیجہ ہے.ورنہ خودانسان میں یہ کہاں طاقت تھی کہ وہ ایساکرسکتا.اگرڈاکٹر ہائیڈروکلورک ایسڈ پلا پلا کرانسان کی قوت ہضم کو درست کرتے تو وہ چند دنوں کے اند ر اند رمرجاتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند ر ایک ایسی مشین لگادی ہے کہ جونہی کو ئی غذااستعمال میں آتی ہے و ہ مختلف قسم کی تبدیلیوں کے بعد اسے انسانی خو ن میں شامل کردیتی ہے.اورپھر خو ن اس غذا کو لے کر فوراً دل میں پہنچتا ہے جہاں اس کی صفائی کے لئے اسے پھیپھڑوں میں سے گذاراجاتاہے.پھر صاف شدہ خون د ل کے بائیں حصہ میں آ نے کے بعد ایک بڑی رگ کے ذریعہ دل سے باہر نکلتاہے جو آگے چل کر دوحصوں میں منقسم ہوجاتی ہے.ایک حصہ سرکی طر ف خو ن لے جاتاہے اوردوسرا حصہ دل کے مقام سے نچلے حصہ کی طرف خو ن لے جاتاہے.اوراس طرح ہرعضو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کرلیتا ہے.مثلاً دماغ کے وہ اعلیٰ حصے جو عقل اورشعور کے مرکزہیںوہ اس سے اپنی غذالے لیتے ہیں اور جسم کے مختلف اعضاء کو حرکت میں لانے والے مراکز اپنی غذالے لیتے ہیں.اسی طرح آنکھ،کان ،ناک ،زبان اور دوسرے اعضاء اپنی غذالے لیتے ہیں.غرض ایک عظیم الشان نظام ہے جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند رجاری کیاہواہے.لوگ کارخانے دیکھتے ہیں توتعجب کرتے ہیں.چکیّوںکو دیکھتے ہیں توحیران ہوجاتے ہیں.کہ یہ کس طرح
آٹاپیس رہی ہیں.مگرانہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان تمام مشینوں سے ایک بڑی مشین اللہ تعالیٰ نے خود انسانی جسم کے اندر پیداکررکھی ہے.جو پیس بھی رہی ہے.جوصاف بھی کررہی ہے.جوطاقت بھی پہنچا رہی ہے.جس طرح بعض مشینیں ایسی ہوتی ہیں جومیدہ الگ نکالتی جاتی ہیں اورسبوس الگ نکالتی جاتی ہیں اسی طرح انسانی جسم میں اللہ تعالیٰ نے جو مشین بنارکھی ہے ان میں سے کوئی خون صالح پیداکرتی ہے.کو ئی عقل کو طاقت دیتی ہے.کوئی سمع کو طاقت دیتی ہے.کوئی بصر کو طاقت دیتی ہے.کوئی قوت گویائی کو طاقت دیتی ہے.غرض ایک نظام ہے جو انسان کے اندر د ن رات کام کررہاہے.اوربیسیوں چیزیں ہیں جو اس سے پیداہوتی ہیں.ان میں سے کو ئی انسانی حِس کو طاقت دیتی ہے.کوئی قوت شامہ کو طاقت دیتی ہے.کوئی اعصاب کو طاقت دیتی ہے.اسی طرح انسانی دماغ میں مختلف قسم کے ڈیپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں.اتنے بڑے ڈیپارٹمنٹ دنیوی گورنمنٹوں میں بھی نہیں ہوتے جتنے انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں.مگرانسان کو احساس بھی نہیں ہوتاکہ مجھ پراللہ تعالیٰ کے کیاکیا احسانات ہورہے ہیں.وہ اندھے کی طرح گذ ر جاتاہے اوراس کادل اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہمیشہ خالی رہتاہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ کھاناکھاتے تو بسم اللہ پڑھتے.کھاناکھاچکتے تواللہ تعالیٰ کی حمد کرتے.اسی طرح کپڑے پہنتے تو خدا تعالیٰ کی حمد کرتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہی کیاتھے بہت معمولی اورسادہ کپڑے ہواکرتے تھے.آج کل ململیں اورلٹھے اور کئی قسم کے آرام دہ کپڑے لوگ پہنتے ہیں.اوران کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے شکر کاکوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا.وہ مومن کہلاتے ہیں وہ خدااوراس کے رسول ؐ کوماننے والے کہلاتے ہیں مگرانہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ خدا کاوہ رسول جس کے متعلق یہ کہاگیاتھا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (فوائد المجموعة مصنفہ علّامہ شوکانی صفحہ ۱۱۶ و موضوعات کبیرصفحہ ۷۰ )اسے اپنے پہننے کے لئے جو کپڑے نصیب ہوئے ان سے ہزاروں گنازیادہ اعلیٰ اورزیادہ آرام دہ کپڑے آج ہرادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کو نصیب ہیں.مگر حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اوراس کے شکر کے جواعلیٰ ترین جذبات معمولی کپڑے پہن کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا ہوتے تھے وہ آج ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہوتے.یہ تمنااورخواہش پیدا نہیں ہوتی کہ کاش یہ نعمتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتیں کیونکہ ان نعمتوں کے اصل مستحق آپؐ ہی تھے.حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اورکہنے لگا.میں سیّد ہوں.میری بیٹی کی شادی ہے.آپ اس موقعہ پر میری کچھ مدد کریں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ یو ں تو بڑے مخیّر تھے مگرطبیعت کا رجحا ن ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہوجاتا ہے.آپ نے فرمایا.میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ
ساراسامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کو دیاتھا.وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا.آپ میری ناک کاٹناچاہتے ہیں.حضر ت خلیفہ او ل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک سے بھی بڑی ہے.تمہاری عزت تو سیّد ہونے میں ہے.پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہوسکتی ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ آج ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی دنیوی نعمتوں کے لحاظ سے اس سے زیادہ نعمتیں رکھتا ہے جتنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پائیں مگرا س کا دل محبت کے جذبات سے خالی ہوتاہے.وہ ہزاروں گنا زیادہ نعمتیں دیکھ کر بھی اپنے رب کا شکریہ ادانہیں کرتا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خدا تعالیٰ کے شکر کے جذبات اس قسم کے پائے جاتے تھے کہ آسمان سے جب بارش برستی تووہ زمیندار جس کی کھیتیاں اس بارش سے تیار ہوتیں خاموشی کے ساتھ گذر جاتا.اسے پانی جمع کرتے ہوئے کبھی خیال بھی نہ آتا کہ یہ کہاں سے آگیاہے.وہ شہر جن میں کنوئیں نہیں ہوتے اورجہاں کے رہنے والے بارش پر تالابو ں میں پانی جمع کرلیتے ہیں تاکہ سال بھر ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں وہ بھی اپنے لئے اوراپنے جانوروں کے لئے پانی جمع کرتے مگران کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدانہ ہوتاکہ ان کے رب نے ان پر یہ کتنا بڑا احسان کیاہے کہ وہ سورج کی شعاعوں کے ذریعے سمندروں کا پانی بخارات کی صورت میں تبدیل کرتا اورپھر ہوائوں کے ذریعے ان کے ملک میں لاکر برسادیتاہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے نہ تالاب تھے نہ کھیتیاں تھیں نہ جانور تھے بارش آتی توآپؐ کمرہ سے نکل کر باہر صحن میں آجاتے.اپنی زبان باہر نکال لیتے اورجب اس پر پانی کا قطرہ گرتا توآپؐفرماتے.یہ میرے رب کاتاز ہ احسان ہے.یہ محبت اورپیار کاکیسا دلفریب رنگ ہے.لوگ پلائو اورزردہ کھا کربھی خدا تعالیٰ کی محبت کاجوش اپنے دلوں میں نہیں پاتے اوراس کے فضلوں کے شکر گذار نہیں ہوتے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے محبت اس پایہ کی تھی کہ آپؐ اپنی زبان باہر نکال کر اس پر بارش کا قطرہ لیتے اورخدا تعالیٰ کی اس تازہ نعمت کاشکر اداکرتے.اسی وجہ سے قرآن کریم میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اداکرو.اوراس کے احسانات کوہمیشہ یا د رکھو.جب انسان ہر چیز کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتا اوراس کی نعمتوں کی قدر کرتاہے تواسے ایک ایسی سیڑھی مل جاتی ہے جو اسے خدا تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے.نہ شیطان اس کی راہ میں روک بنتا ہے اورنہ اس کا نفس اسے نیچے گراسکتا ہے.وہ اس سیڑھی پر چڑھتے ہوئے سیدھا خدا تک پہنچ جاتا ہے.کیونکہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ دیکھ کر شکر کامادہ پیداہو جاتا ہے جواسے اوپر ہی اوپر لے جاتا ہے نیچے
گرنے سے اسے کلی طورپر محفوظ کردیتا ہے.لطیف کے دوسرے معنے جیساکہ اوپر بتایاجاچکا ہے اَلْعَالِمُ بِخَفایَا الاُمُورِ وَدَقَائِقِھَا کے ہیں.یعنی ایسی ہستی جو تمام امور کے مخفی درمخفی پہلوئوں کو جاننے والی اورکائنات عالم کے تمام اسرار اورغوامض کاعلم رکھنے والی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ اشار ہ کیا گیاہے کہ انسان کی نگاہ اپنے تمام علوم اورایجادات کے باوجود صرف ظاہر تک محدود رہتی ہے.ا ن امور کے پس پشت جو اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان غیب کام کررہاہوتاہے اورجو باریک د رباریک حکمتیں ان میں مخفی ہوتی ہیں ان سے وہ آگاہ نہیں ہوتا اوراگر کائنات عالم کے رموز اوراسرار اس پر منکشف ہوتے ہیں تواسی وقت جب اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ لطیف کے ماتحت اسے اپنے حقائق سے آشناکرتااوراخفاء کے پردوں کو اس کی آنکھوں سے دور کرتاہے.اسی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے یہ کہہ دے کہ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ(الاعراف : ۱۸۹)یعنی اگر میں غیب کا واقف ہوتاتوبھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتااورمجھے کبھی کو ئی تکلیف نہ پہنچتی.درحقیت اگر غور سے کام لیا جائے تواللہ تعالیٰ نے علم غیب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر انسان کے لئے دوبرکتیں پیداکردی ہیں.ایک برکت تو پر دئہ غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے اورایک برکت کشف غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے.پردئہ غیب کی وجہ سے جو برکت اسے حاصل ہے وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی ساری زندگی جدوجہدسے تعلق رکھتی ہے اورجدوجہد کی ساری بنیاد ہی غیب پرہے.اگر غیب کا پردہ حائل نہ ہو تو سعی و عمل کاتمام سلسلہ ختم ہوجائے.مثلاً بچوں کو ان کے والدین سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں.اوروہ بھی اگر محنتی اورذہین ہو ںتووہ سمجھتے ہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دنیا میں عزت حاصل کرلیں گے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ جب ان کا امتحان قریب آتا ہے توان میں سے بعض لڑکے بیماریوں یااچانک حادثات کی وجہ سے وفات پاجاتے ہیں.اب اگر خدا تعالیٰ نے علم غیب اپنے ہاتھ میں نہ رکھا ہوتا اورایک طالب علم کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوتا کہ میں نے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر مرجانا ہے.تووہ اسی وقت سے مغموم رہنا شروع کردیتا.اوراس کے والدین بھی رونے پیٹنے لگ جاتے اوروہ اپنی عمر کو بالکل ضائع کردیتا.لیکن پردئہ غیب کے حائل ہونے کی وجہ سے وہ برابر محنت کرتا چلا جاتاہے.اورگوبعد میں آکر وہ فوت ہو جاتاہے مگر جس طرح ایک ٹوٹنے والے ستارے کی روشنی سے بھی کئی بھولے بھٹکے مسافر راہ پالیتے ا ورکئی گڑھوں میں گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں.اسی طرح وہ دوسرے لڑکوں کے لئے ایسی روشنی چھو ڑجاتاہے جو ان کی ترقی کاموجب بن جاتی ہے.کیونکہ کئی لڑکے ایسے تھے جن کے سامنے اگر
لطیف کے دوسرے معنے جیساکہ اوپر بتایاجاچکا ہے اَلْعَالِمُ بِخَفایَا الاُمُورِ وَدَقَائِقِھَا کے ہیں.یعنی ایسی ہستی جو تمام امور کے مخفی درمخفی پہلوئوں کو جاننے والی اورکائنات عالم کے تمام اسرار اورغوامض کاعلم رکھنے والی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ اشار ہ کیا گیاہے کہ انسان کی نگاہ اپنے تمام علوم اورایجادات کے باوجود صرف ظاہر تک محدود رہتی ہے.ا ن امور کے پس پشت جو اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان غیب کام کررہاہوتاہے اورجو باریک د رباریک حکمتیں ان میں مخفی ہوتی ہیں ان سے وہ آگاہ نہیں ہوتا اوراگر کائنات عالم کے رموز اوراسرار اس پر منکشف ہوتے ہیں تواسی وقت جب اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ لطیف کے ماتحت اسے اپنے حقائق سے آشناکرتااوراخفاء کے پردوں کو اس کی آنکھوں سے دور کرتاہے.اسی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے یہ کہہ دے کہ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ(الاعراف : ۱۸۹)یعنی اگر میں غیب کا واقف ہوتاتوبھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتااورمجھے کبھی کو ئی تکلیف نہ پہنچتی.درحقیت اگر غور سے کام لیا جائے تواللہ تعالیٰ نے علم غیب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر انسان کے لئے دوبرکتیں پیداکردی ہیں.ایک برکت تو پر دئہ غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے اورایک برکت کشف غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے.پردئہ غیب کی وجہ سے جو برکت اسے حاصل ہے وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی ساری زندگی جدوجہدسے تعلق رکھتی ہے اورجدوجہد کی ساری بنیاد ہی غیب پرہے.اگر غیب کا پردہ حائل نہ ہو تو سعی و عمل کاتمام سلسلہ ختم ہوجائے.مثلاً بچوں کو ان کے والدین سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں.اوروہ بھی اگر محنتی اورذہین ہو ںتووہ سمجھتے ہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دنیا میں عزت حاصل کرلیں گے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ جب ان کا امتحان قریب آتا ہے توان میں سے بعض لڑکے بیماریوں یااچانک حادثات کی وجہ سے وفات پاجاتے ہیں.اب اگر خدا تعالیٰ نے علم غیب اپنے ہاتھ میں نہ رکھا ہوتا اورایک طالب علم کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوتا کہ میں نے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر مرجانا ہے.تووہ اسی وقت سے مغموم رہنا شروع کردیتا.اوراس کے والدین بھی رونے پیٹنے لگ جاتے اوروہ اپنی عمر کو بالکل ضائع کردیتا.لیکن پردئہ غیب کے حائل ہونے کی وجہ سے وہ برابر محنت کرتا چلا جاتاہے.اورگوبعد میں آکر وہ فوت ہو جاتاہے مگر جس طرح ایک ٹوٹنے والے ستارے کی روشنی سے بھی کئی بھولے بھٹکے مسافر راہ پالیتے ا ورکئی گڑھوں میں گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں.اسی طرح وہ دوسرے لڑکوں کے لئے ایسی روشنی چھو ڑجاتاہے جو ان کی ترقی کاموجب بن جاتی ہے.کیونکہ کئی لڑکے ایسے تھے جن کے سامنے اگر اس کاوجود نہ ہوتا.تووہ کبھی محنت نہ کرتے.انہوں نے اگر محنت کی تواسی لئے کہ اس لڑکے کی محنت اورذہانت کو دیکھ کران کے دلوں میں بھی رشک پیداہوا.اورانہوں نے بھی تعلیم میں دلچسپی لینی شروع کردی اوررفتہ رفتہ وہ ترقی کرگئے.اسی طرح انسان اپنے دوستوں اوررشتہ داروں میں پھر تاہے.جن میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی دوستی خود غرضانہ ہوتی ہے.یاو ہ اپنے دل میں اس کے خلاف کئی قسم کے منصوبے سوچتے رہتے ہیں.یا اس کے رشتہ دار بظاہر اس سے محبت کرتے ہیں.لیکن وہ اپنے دلوں میں اس کے بد خواہ ہوتے ہیں.اگر پردئہ غیب حائل نہ ہوتا اور انسان کو پتہ لگ جاتا کہ میرافلاںدوست اپنے دل میں میرے متعلق اس قسم کے خیالات رکھتاہے یامیرافلاں رشتہ دارمیرابدخواہ ہے تو ایک قیامت برپاہوجاتی.جس گھر میں دیکھو لڑائی ہورہی ہوتی.ایک کہہ رہاہوتا کہ تم نے میرے خلاف فلاں فلاں بات کیوں سوچی تھی.اوردوسراکہہ رہاہوتاکہ تمہارے دل میں میرے خلاف اس قسم کے خیالات کیوں آرہے تھے.بیوی خاوند سے ناراض ہوتی اورخاوند بیوی سے ناراض ہوتا.اورامن اورسکون دنیا سے اٹھ جاتا.پس پردئہ غیب جو اللہ تعالیٰ نے حائل کررکھا ہے یہ اس کی ایک بڑی رحمت ہے.پھر اگر پردئہ غیب نہ ہوتا تولڑائیوں میں تمام دنیا تباہ ہو کررہ جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اَلْحَربُ خُدْعَۃٌ ( ترمذی ابواب الجہاد، باب ما جاء فی الرخصۃ فی الکذب )یعنی لڑائی لڑنے کاساراکمال اس میں ہے کہ سب باتیں پردئہ اخفاء میں رہیں اورلڑنے والے اپنی سیاست اورتدبیر پر اعتماد کریں.لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورجنگوں میں ایک طرف والوں کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارادشمن اس وقت فلاں جگہ پر ہے تووہ اپنی توپوں کا منہ عین اسی طرف کردیتے جدھر دشمن ہوتا.اسی طرح دوسری طرف سے بھی توپوں کے گولے عین اسی جگہ آکر گرتے.جہاں دشمن موجود ہوتا اوراس طرح کوئی متنفس بھی نہ بچ سکتا.اب توایساہوتاہے کہ اگر ایک لاکھ فوج میدان میں جاتی ہے تواس میں سے چند ہزار مرجاتے ہیں اورباقی فوج صحیح وسلامت رہتی ہے.لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورفریقین کو ایک دوسرے کے حالات کاعلم ہوجاتا.تونشانہ عین دشمن پر بیٹھتا اورکو ئی شخص بھی محفوظ نہ ر ہ سکتا.اسی طرح سائینس کی ترقی اورعلوم جدیدہ کے انکشاف کی بنیاد بھی غیب پر ہی ہے.اگر ہرچیز ظاہر ہوتی تو سعی و عمل اورایجادات کاتمام سلسلہ ختم ہوجاتا اورانسان ایک ناکارہ وجو د بن کر رہ جاتا.غرض دنیاکے تمام کاروبار غیب پر چل رہے ہیں اگر غیب نہ رہے تودنیا کاتمام کارخانہ بھی ختم ہوجائے.اسی طرح روحانی عالم میں جزاء و سزا کی بنیاد بھی پردئہ غیب پر رکھی گئی ہے.اگرپردئہ غیب ہٹادیاجائے تونہ نیکی قابل جزا سمجھی جائے اورنہ بدی سے اجتناب قابل ثواب سمجھا جائے.
ہم ایک دفعہ لکھنؤ گئے.وہاں ایک سرحدی مولوی عبدالکریم تھا.جو ہماری جماعت کاشدید مخالف تھا.اس نے ہمار ے آنے کے بعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا.وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام دِلّی گئے وہاں ہمار ے ایک رشتہ دار کے ماموں مرزاحیرت دہلوی تھے.انہیں ایک دن شرارت سوجھی اوروہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آگئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہو ںاورمجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیاہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں.ورنہ آپ کو سخت نقصان ہو گا.حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تواس کی طرف توجہ نہ کی.مگر جب بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کو ن شخص ہے توو ہ وہاں سے بھاگ گئے.اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خدا کانبی بنا پھر تا ہے مگروہ دلّی گیا تومرزاحیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا.وہ کوٹھے پر بیٹھا ہواتھا.(حالانکہ یہ بات بالکل جھو ٹ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نیچے دالان میں بیٹھے ہوئے تھے ) جب اس نے سنا کہ انسپکٹرپولیس آیا ہے تووہ ایساگھبرایاکہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کاپیر پھسلااوروہ مونہہ کے بل زمین پر آگرا.لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگا ئے اورہنستے رہے.لیکن اسی رات مولوی عبدالکریم کو خدا تعالیٰ نے پکڑ لیا.وہ اپنے مکان کی چھت پر سویاہواتھا.کہ رات کو وہ کسی کام کے لئے اٹھا اور چونکہ اس چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اورنیندسے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں اس کاایک پائوں چھت سے باہر جاپڑا اور وہ دھڑم سے نیچے آگرا(حیات احمد جلد ۳ جزء اول صفحہ ۲۷۴،۲۷۵).اورگرتے ہی مرگیا.اب دیکھو اگر اس کو غیب کاپردہ نہ ہونے کی صورت میں پتہ ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزاملے گی تووہ کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتا گوایساایمان اس کے کسی کام نہ آتا.کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا توایمان کاکیافائد ہ.ایمان تو وہی کارآمد ہو سکتا ہے جوغیب کی حالت میں ہو.ثواب یا عذاب سامنے نظر آنے پر توہر کوئی ایما ن لاسکتا ہے.حضرت ابو بکر ؓ جب ایمان لائے تو یہ سمجھ کرایمان لائے تھے کہ مجھے دین کے راستہ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی اوراپنی جان دینی پڑے گی اوراگر پرد ئہ غیب نہ ہوتا.اوران کوپہلے سے معلوم ہوتاکہ ان کے لئے انعامات مقد رہیں اوروہ ان انعامات کی لالچ میں ایمان لے آتے توان کاایمان کہاں رہتا.اسی طرح حضرت عمرؓ جب ایمان لائے تو ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنیں گے.بلکہ وہ تواس ارادہ سے نکلے تھے کہ میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں گا.مگر جب اپنی بہن سے انہوں نے قرآن کریم کے چند اوراق لے کر پڑھے توان پر حق کھل گیا.اوروہ ایمان لے آئے اوران حالات
میں ایمان لائے کہ وہ جانتے تھے کہ مجھے مسلمان ہوکراب اپنی جان قربان کرنی پڑے گی (السیرة النبویة لابن ہشام جزء اول اسلام عمرؓ).اسی طرح حضرت عثمانؓ ایک خاموش طبع انسان تھے مگر ان کی قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عزت بخشی کہ صلح حدیبیہ کے وقت تمام صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ یارسول اللہ!اگر ہم میں سے کو ئی شخص مکہ میں جانے کے قابل ہے تووہ عثمانؓ ہی ہیں.چنانچہ حضرت عثمانؓ مکہ گئے اور چونکہ ان کی رشتہ داری مکہ میں بہت زیادہ تھی.رؤساء نے ان سے کہا کہ آپ کعبہ کا طواف کرلیں مگر حضرت عثمانؓ نے انکار کردیا.اورکہا کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہیں کریں گے میں بھی نہیں کروں گا.حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں سے بات چیت کرتے ہوئے دیر ہوگئی اوراندھیراہونے لگا.تومسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیاگیاہے.اسی لئے وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی.تو آپؐ نے تمام صحابہؓ کو جمع کیا اوران سب سے بیعت لی وہ ایک ہی بیعت تھی جو آپ نے موت کے نام پر لی.اس بیعت کے موقعہ پر آپؐ نے صحابہ سے یہ اقرار لیا کہ ہم دشمن کے مقابلہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے ہم سب کے سب مارے جائیں.جب سب صحابہؓ بیعت کرچکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا.اس وقت عثمانؓ یہاں نہیں ہے.اورممکن ہے وہ ماراگیاہو.لیکن چونکہ اس کے زندہ ہونے کابھی امکان ہے اس لئے (آپ نے اپنادوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا)میں عثمانؓ کی جگہ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے رکھتا ہوں.(تاریخ الخمیس بیعۃ الرضوان و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام امر الحدیبیۃ....و ذکر بیعۃ الرضوان) اب دیکھو عثمانؓ کے لئے یہ کتنا بڑا اعزاز تھا.اس کے مقابلہ میں اگران کی ہزار سالہ زندگی بھی قربان ہوجاتی تو ہیچ تھی.لیکن اگر حضر ت عثمانؓ کو پتہ ہوتا کہ مجھے یہ اعزاز ملنے والا ہے اور میرے لئے فلاں فلاں انعامات مقدر ہیں اوروہ محض ان انعامات کا لالچ کرتے ہوئے ایمان لے آتے تو ان کے ایمان کی کیا حقیقت رہ جاتی.اسی طرح حضرت علیؓ جب ایمان لائے تووہ ابھی بچے ہی تھے اوروہ بھی یہ سمجھ کرایمان لائے تھے کہ مجھے اسلام کے لئے ہرقسم کے مصائب برداشت کرنے پڑیں گے یہاں تک کہ اگر جان قربان کرنے کا وقت آیا تو مجھے اپنی جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنی پڑے گی.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ابتدائی ایام میں ایک دعوت کی جس میں بنو عبدالمطلب کو بلایا.تاکہ ان تک پیغام حق پہنچایاجائے.چنانچہ آپؐ کے بہت سے رشتہ دار اس دعوت میں شریک ہوئے.جب سب لو گ کھاناکھاچکے تو آپؐ نے کھڑے
ہوکر تقریر کرنا چاہی.مگر ابو لہب نے ا ن سب لو گوںکو منتشر کردیا اوروہ آپ ؐکی بات سنے بغیر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے.آپؐ بہت حیران ہوئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو دعوت کھاکر بھی بات نہیں سنتے.مگر آپؐ مایوس نہیں ہوئے بلکہ آپؐ نے حضرت علی ؓسے فرمایاکہ دوبارہ ان کی دعوت کی جائے.چنانچہ دوبارہ ان سب کو کھانے پر مدعوکیا گیا.جب وہ سیر ہو کر کھا چکے تو آپؐ کھڑے ہوئے اورفرمایاکہ دیکھو اللہ تعالیٰ کایہ تم پر کتنا بڑااحسان ہے کہ اس نے اپنا نبی تمہارے اند ربھیجا ہے.میں تمہیں خدا کی طرف بلاتاہوں.اگر تم میری بات مانوگے تو تم دینی اوردنیوی نعماء کے وارث قرار پائو گے.کیاتم میں سے کوئی ہے جو اس کام میں میرامددگار بنے ؟یہ سن کر ساری مجلس پر سناٹے کی سی حالت طاری ہوگئی مگر یکلخت ایک کونے سے ایک نوعمر بچہ اُٹھااوراس نے کہا کہ گومیں ایک کمزورترین فرد ہوں اورعمر میں سب سے چھوٹاہوں مگر میں آپ کاساتھ دوں گا.یہ بچے حضرت علیؓ تھے جنہوں نے اس وقت اسلام کی تائید کااعلان کیا( السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر اول الناس ایمانا بہ صلی اللہ علیہ وسلم).اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو یہ عظیم الشان قربانی کرنے کی توفیق عطافرمائی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لئے رات کے وقت اپنے گھر سے نکلنا چاہا.توآپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جائو تاکہ کفار اگر جھانک کردیکھیں توانہیں یہ دکھائی دیتا رہے کہ کو ئی شخص بستر پر سورہاہے اوروہ تعاقب کے لئے ادھر ادھر نہ نکل کھڑے ہوں.اس وقت حضرت علیؓ نے یہ نہیں کہا کہ یارسول اللہ.مکان کے اردگرد تو قریش کے چنیدہ نوجوان ہاتھ میں تلواریں لئے کھڑے ہیںاگرصبح کو انہیں معلوم ہواکہ آپ کہیں باہر تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ مجھ پر حملہ کرکے مجھے قتل کردیں گے.بلکہ و ہ بڑ ے اطمینان کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے اورآپؐ نے اپنی چادر ان پر ڈال دی.جب صبح ہوئی اورقریش نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت علیؓ آپؐ کے بستر سے اٹھے ہیں.تووہ اپنی ناکامی پر دانت پیس کر رہ گئے.اور انہوں نے حضرت علی ؓ کو پکڑ کر مارا پیٹا.مگر اس سے کیا بن سکتا تھا.خدائی نوشتے پورے ہوچکے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلامتی کے ساتھ مکہ سے باہر جاچکے تھے (السیرة الحلبیة باب عرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفسہ علی القبائل من العرب ان یحموہ و یناصروہ...).اُس وقت حضرت علیؓ کو کیا معلوم تھا کہ مجھے اس ایمان کے بدلے میں کیا ملنے والا ہے.ہاں اللہ تعا لیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں صرف حضرت علیؓ ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علی کی اولاد بھی عزت پائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ پر پہلا فضل تو یہ کیا کہ اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بخشا اور دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے اُن پر یہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اُ ن کے لئے اتنی محبت پیدا کی کہ
آپؐ نے بارہا اُن کی تعریف فرمائی.جب حضرت علیؓ بڑی عمر کو پہنچے ہوں گے تو اُن کواللہ تعالیٰ کے یہ فضل دیکھ کر کتنا فخر محسوس ہوتا ہوگا.اور اُن کو کتنی راحت ہوتی ہوگی.پھر ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے.تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا.حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ !کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ چلے ہیں.آپؐ نے فرمایا.اَلَا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ (ترمذی ابواب المناقب باب مناقب علیؓ) یعنی اے علی ؓ !کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارونؑ کو موسیٰ سے تھی.یعنی ہارون ؑ کو بھی توموسیؑ اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے تھے.پھر کیا ہارون کی عزت کم ہوگئی تھی.اب دیکھویہ اعزاز جو حضرت علیؓ کو حاصل ہوا.اس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں کیا چیز تھیں.اسی طرح اس امت کے اکثر اولیاء ؔ اور صوفیا ء حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہی تھے.اور پھر ان کے ذریعے خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے معجزات ظاہر کئے کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک واقعہ سنا ہوا ہے.کہ ہارو ن الرشید نے امام موسیٰؔ رضا ؒ کو کسی وجہ سے قید کردیا.اور اُن کے ہاتھو ں اور پائوں میں رسیّاں باندھ دی گئیں.اُس زمانہ میں سپرنگ دار گدیلے تو نہ تھے.عام روئی کے گدیلے ہوتے تھے.ہارون الرشید اپنے محل میں آرام دہ گدیلوں پر سویا ہوا تھا کہ اُس نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.اور آپؐ کے چہرہ پر غضب کے آثار ہیں.آپؐ نے فرمایا.ہارون الرشید! تم ہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو.مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم تو آرام دہ گدیلوں پر گہری نیند سور ہے ہو.اور ہمارا بچہ شدّت گرما میں ہاتھ پائوں بندھے ہوئے قید خانہ کے اندر پڑا ہے یہ نظارہ دیکھ کر ہارون الرشید بیتاب ہو کر اُٹھ بیٹھا.اور ایک کمانڈر کو ساتھ لے کر اُسی جیل خانہ میں گیا اور اپنے ہاتھ سے اُن کے ہاتھوں اور پائوں کی رسیا ں کھولیں.انہوں نے ہارونؔ الرشید سے کہا.آپ تو اتنے مخالف تھے اب کیا بات ہوئی کہ خود چل کر یہاں آگئے.ہارونؔ الرشید نے اپنا خواب سنایا اور کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں.میں اصل حقیقت کو نہ جانتا تھا.اب دیکھو اس زمانہ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں کتنا بڑا فاصلہ تھا.ہم نے کئی بادشاہوں کی اولادوں کو دیکھا ہے کہ وہ دربدر دھکے کھاتی پھرتی ہیں میں نےخود دلّی میں ایک سقّہ دیکھا جو شاہانِ مغلیہ کی اولاد میں سے تھا.وہ لوگوں کو پانی پلاتا پھرتا تھا مگر اُس میں اتنی حیا ضرور تھی کہ مانگتا کچھ نہ تھا.دوسری طرف حضرت علی ؓ کی اولاد کو دیکھو کہ اتنی پشتیں گزرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ ایک بادشاہ کو رئویا میں ڈراتا ہے.اور اُن سے حُسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے.اگر حضرت علیؓ کو اس اعزاز کا پتہ ہوتا اور اُن کو غیب کا علم حاصل ہوتا اور وہ
محض اس عزت افزائی کے لئے اسلام قبول کرتے تو ان کا ایمان صرف سودا اور دوکانداری رہ جاتا.کسی انعام کا موجب نہ بنتا.(ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۵ صفحہ ۴۹۳) اِسی طرح حضرت خدیجہؓ جب ایمان لائیں تو اُن کو کیا معلوم تھا کہ اس ایمان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئےکیاکچھ برکات مقدّر کر رکھی ہیں.بیشک انہوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے اپنا تمام مال قربان کردیا.یہاں تک کہ وہ مکہ کی متمول ترین عورت ہوتے ہوئے غربت اور تنگدستی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبورہوگئیں.اور پھر شعب ابی طالب میں متواتر تین سال تک انہوںنے ایسی ایسی تکالیف برداشت کیںکہ اُنہی کے نتیجہ میں آپ وہاں سے نکلتے ہی انتقال فرماگئیں(السیرة النبویة لابن ہشام حدیث تزویج رسول اللہ ؐ خدیجة ؓوخبر الصحیفة،ووفاۃ ابی طالب و خدیجۃؓ)مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو ایسا نوازا کہ آج تک عالمِ اسلام اُن کا نام عزت اور ادب کے ساتھ لے رہا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈالی کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے داماد ابو العاص جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے قید ہوکر آئے تو آپ ؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے جو ابھی مکہ میں ہی تھیںاُن کے فدیہ کے طور پر اپنے گلے کا ہار اتارکر بھیج دیا.یہ وہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ ؐ کو حضرت خدیجہؓ یادآگئیں.اور آپ ؐ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے.پھر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا.اگر تم چاہو تو خدیجہؓ کی یہ یادگار اُن کی بیٹی کے پاس محفوظ رہے (السیرة النبویۃ لابن ہشام ذکر رؤیا عاتکۃ بنت عبد المطلب).اِسی طرح حضرت خدیجہؓ کی وفات کے کئی سال بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے گھر میں تشریف رکھتے تھے.کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہؓ آپؐ سے ملنے کے لئے آئیں اور دروازے پرکھڑے ہوکر انہوں نے کہا.کیا میں اندر آسکتی ہوں.ہالہؓ کی آواز چونکہ اپنی بہن حضرت خدیجہؓ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی.اس لئے اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت خدیجہ ؓ کی یاد تازہ ہوگئی.آپؐ بے تاب ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا.آہ میرے خدا!یہ تو خدیجہؓ کی آواز معلوم ہوتی ہے (بخاری کتاب مناقب الانصار باب تزویج النبی ؐخدیجةو فضلھا ؓ).پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایسا احسان کیا کہ ابراہیم ؓ کے سوا جو حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پید اہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہی پیدا ہوئی (اسد الغابة کتاب النساء حرف میم ماریہ القبطیۃ).چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے آپ کے تین لڑکے
اورچار لڑکیاں پیداہوئیں.لڑکے توسب کے سب بچپن میں ہی وفات پاگئے.مگرحضرت زینبؓ حضرت رقیّہؓ،حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ چاروں لڑکیاں زندہ رہیں.اوراسلام میں داخل ہوئیں (اسد الغابۃ کتاب النساء حرف الخاء خدیجۃؓ).حضرت امام حسنؓ اور امام حسین ؓ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے بطن سے ہی پیداہوئے تھے جوحضرت خدیجہؓ کی صاحبزادی تھیں.اورانہی کی اولاد آج سادات کہلاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے انہیں اوران کی تمام نسل کو اپنے غیر معمولی انعامات سے نوازا.لیکن اگر حضرت خدیجہؓ کویہ معلوم ہوتا کہ انہیں ایک دن یہ اعزاز حاصل ہونے والا ہے کہ تمام عالمِ اسلام انہیں اُم المومنین کہے گا اورقیامت تک ان کی نسل کو معز ز اورمکرم قرار دیاجائے گا اوروہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ محض اس عزت اورمقام کے حصول کے لئے ایمان لاتیں توان کاایمان لاناان کے کس کام آتا.اسی طرح ابوجہل جو سمجھتا تھا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوںکو مارڈالوں گا اوراسلام کو مٹادوں گا.اگر اس کو یہ علم ہوتا کہ اس کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اوردنیا میں اس کانام لعنت کے ساتھ لیا جائے گا بلکہ خود اس کابیٹا اسلام میں داخل ہوجائے گا اوروہ اسلام کے لئے دشمنوں سے لڑتا ہواماراجائے گا تووہ کبھی اسلام کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کرتا.غرض اگرپردئہ غیب حائل نہ ہوتا تونہ ابوبکر ؓ ابو بکر ؓ ہوسکتا.نہ ابو جہل ابو جہل بن سکتا.لیکن جہاںد ینی اوردنیوی کاروبار پردئہ غیب کی وجہ سے چل رہاہے وہاں مومنوںکے ایمان کی ترقی انکشافِ غیب سے تعلق رکھتی ہے.جب انبیا ء دنیا میں آتے اورلوگوں کو غیب کی خبریں سناتے ہیں اورپھر مخالف حالات میں ان کی بتائی ہوئی خبریں پوری ہوجاتی ہیں تودلوں میںایک نیا ایمان پیدا ہو جاتا ہے اورخدا تعالیٰ کی ہستی اس طرح عریاں ہوکر لوگوں کے سامنے آجاتی ہے کہ اس کے وجود کاکوئی دیانتدار انسان انکار نہیں کرسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اورغیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہوگیا.جس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہ اختیارکرنا شروع کردیا.اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبراکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کودعا کے لئے خط لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریرفرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تومسجد تم کو مل جائے گی.مگر دوسری طرف جج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اورآخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا.مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا توا س نےنوکر سے کہا.مجھے بوٹ پہنادو.نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا
ابھی پہنا ہی رہاتھا.کہ کھٹ کی آواز آئی.اس نے اوپر دیکھا.توجج کا ہارٹ فیل ہوچکا تھا.اس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیاگیا.اوراس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کردیا.جودوستوں کے لئے ایک بہت بڑانشان ثابت ہوا.اوران کے ایمان آسمان تک جاپہنچے(اصحاب احمد جلد ۴ صفحہ ۲۳ تا ۲۵).غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواترغیب کی خبریں دیتا ہے.جن کے پوراہونے پر مومنوں کے ایمان اَور بھی ترقی کرجاتے ہیں.یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کے دل اس قدر مضبوط ہوگئے کہ اورلو گ توموت کو دیکھ کر روتے ہیں.مگر صحابہؓ میں سے کسی کو جب خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کاموقعہ ملتا تووہ خوشی سے اچھل پڑتا.اورکہتا فُزْتُ وَربِّ الْکَعْبَۃِ.ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا.آخریہ روح ان کے اند رکہا ں سے آگئی تھی.یہ وہی روح تھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں بتابتا کر مومنوں کے اند ر بھر دی تھی.اگر ان پر انکشافِ غیب نہ ہوتاتووہ ا س اعلیٰ مقام پر کبھی کھڑ ے نہ ہوسکتے جس پر مسلمان پہنچے.پس یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ بنی نوع انسان کے لئے منفعت بخش ہیں.غیب بھی اپنی جگہ فائدہ مندہے اورانکشافِ غیب بھی اپنی جگہ نفع رساں ہے.ساری لذتیں غیب کے ساتھ ہیں اورساری روحانیت کشفِ غیب کے ساتھ وابستہ ہے.خدا تعالیٰ کی دوسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ ا س کی صفت سمیع ہے.اَلسَّمِیْعُ کے معنے ہیں کہ وہ لوگوں کی دعائیں سنتا اورانہیں نرالے طور پر قبول کرتاہے اوریہ کہ اس کے سوانہ زندہ آدمی دوسروں کی دعائیں سن سکتے ہیںاور نہ مردہ.صرف خداہی ہے جو لوگوں کی دعائیں سنتا اوران کو قبول فرماتا ہے.چنانچہ دیکھ لو.کوئی یورپ میں دعامانگ رہاہوتاہے.کوئی ایشیا میں دعا مانگ رہاہوتاہے.کوئی چین میں مانگ رہاہوتاہے.کوئی جاپان میں مانگ رہاہوتاہے.کوئی روس میں مانگ رہاہوتا ہے.کوئی مصر ،شام اورفلسطین میں مانگ رہاہوتاہے.مگر خداان سب کی دعائیں سن رہاہوتا ہے.پس اس صفت کے ذریعے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہاراخداوہ ہے جو تمہاری دعائوں کو سننے والااور تمہار ی تمام ضروریات اورحاجات میں کام آنے والا ہے تمہیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے.تمہارافرض ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے حضور جھکو.اوراس سے دعاکرو.اس کے لئے کسی مال کی ضرور ت نہیں.کسی ہنر کی ضرورت نہیں.کسی طاقت اورقوت کی ضرورت نہیں.اگر کسی کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہوں یاکوئی شخص اتنا نحیف اورکمزور ہوچکا ہوکہ وہ چارپائی سے اٹھ کر نماز کی حرکات بھی ادانہ کرسکے.تب بھی و ہ دعاکرسکتا ہے.کیونکہ دعاان چیز وںکی محتا ج نہیں.وہ بیشک لیٹا رہے اوراللہ تعالیٰ سے
دعاکرتاچلا جائے.بلکہ اگر اس کی زبان پر فالج گراہواہے اوروہ دعا کے لئے اپنی زبان بھی نہیں ہلا سکتا.توو ہ دماغ میں ہی دعائیہ فقرات کو دوہراتا رہے اوراگر اس کادماغ بھی کام کرنے سے رہ جائے توپھر اس کا زمانہ عمل ختم ہو جاتا ہے.لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اورانسانیت کی حدود سے وہ ادھر ادھر نہیں ہوتا اس وقت تک ایک معذور سے معذور انسان بھی اس میں حصہ لے سکتاہے یہاں تک کہ وہ گونگا جس کی زبا ن نہیں وہ بہرہ جس کے کان نہیں.وہ مفلوج جس کے جسم کی حِس ماری گئی ہو.اوروہ گوشت کا لو تھڑہ بن کر چارپائی پر پڑاہواہووہ بھی اسی جو ش و خروش سے اپنے رب سے دعاکرسکتاہے جس طرح ایک تندرست اورطاقتور انسان.غرض دعاایک ایسی چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اوربڑوں اورامیروں اورغریبوں کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیاہے.اوردعاہی وہ ہتھیا رہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اَمَنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَادَعَاہُ(النمل :۶۳) وہ کون سی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بیتا ب ہو جاتی اور دوڑ کر اس کے پاس آجاتی ہے.فرمایا.وہ میں ہوں.پس یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتو ر ہے بیشک نماز بھی ایک ضروری چیز ہے.روزہ بھی ایک ضروری چیز ہے.زکوٰۃ بھی ایک ضروری چیز ہے.حج بھی ایک ضروری چیز ہے.جہاد بھی ایک ضروری چیز ہے.مگر دعاوہ عمل ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مجھے سچے دل سے پکا رے تومیں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتاہوں.چنانچہ وہ فرماتا ہے.وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ(البقرۃ: ۱۸۷).یعنی جب کبھی میرے بندے انسانی خدائوں سے ناامید ہوکر پوچھیں کہ ہماراآسمانی خداکہاں ہے.ہم پر تو فرعون نے اورنمرود نے اورشدّاد نے اتنا تصرف کرلیا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اورکس طرح ان کے مصائب اور آفات سے رہائی حاصل کریں توتُوانہیں کہہ دے کہ تمہیں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں.اِنِّیْ قَرِیْبٌ میں خود تمہارے قریب آیاہواہوں.اگرتمہاراباپ تمہارے کام آسکتا.یاتمہاراچچا تمہاری مدد کرسکتا.یاتمہارااَورکوئی رشتہ دار تمہارے قریب ہوتا توتمہیں دوڑ کر اس کے پاس جانا پڑتا.مگر اب تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں.میں خود تمہارے قریب آیا ہواہوں.پس تمہاری فریاد سنی جانے میں کوئی وقت نہیں لگ سکتا.دنیا میں توتمہیں مدد حاصل کرنے کے لئے اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کے پاس جانا پڑتا ہے.مگر میں توآپ دوڑ کر تمہارے قریب آچکا ہوں پھر تمہیں کیا مشکل پیش آسکتی ہے.یہ پیغام جو اسلام نے دنیا کے ہرفرد کو دیاہے اتنا اہم اوراس قدر عظیم الشان انقلاب پیداکرنے والا ہے کہ اس کی موجودگی میں دنیا کا کوئی دکھ انسان کو پریشان نہیں کرسکتا.دشمن خواہ آسمان سے بھی اونچے چلے جائیں اگر کو ئی
شخص سچے دل سے اپنے رب کو پکا رے تواللہ تعالیٰ آسمان سے اپنا ہاتھ بڑھا کر ان کی گر دنیں مروڑ سکتا ہے.بیشک وہ چھا ن چھان کر پانی پئیں.بیشک و ہ رات اوردن پرہیز کرتے رہیں اگر خدا تعالیٰ ان کی ہلاکت کافیصلہ فرمادے تووہ ہیضہ یا طاعون یا انفلوئنزاکے کیڑوں کو بھی حکم دے سکتا ہے کہ تم اتنی تعداد میں فلاں شخص کے اندر داخل ہوجائو.کہ دنیا کی کو ئی دوائی اس پر اثر نہ کرسکے اوروہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوجائے اورمیرامومن بندہ خوش ہوجائے کہ میں نے اس کی مدد کی ہے.ایک بزرگ کاواقعہ لکھا ہے کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانے بجانے کا شغل رکھتے تھے.انہوں نے کئی دفعہ سمجھا یا کہ لوگوں کی نیندیں اورنمازیں خراب ہوتی ہیں تم اس شغل کو ترک کردو.مگر وہ نہ مانے.جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کاتہیہ نہ کرلیں.انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کرلیا.جب اس بزرگ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا اِنہوں نے اپنی حفاظت کے لئے فوج بلالی ہے توہم بھی رات کے تیروں سےان کامقابلہ کریں گے.معلوم ہوتاہے ان لوگوںکے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی.جونہی ان لوگوں کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے.وہ دوڑتے ہوئے اس بزرگ کے پاس آئے اورکہنے لگے.ان تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں.ہم اپنے شغل سے باز آئے.پس دعاایک ایساہتھیا رہے کہ اگر کوئی شخص کامل یقین اورپختہ ایمان کے ساتھ اس سے کام لے توبظاہر ناممکن نظر آنے والی باتیں بھی اس کے لئے ممکن ہوجاتی ہیں.مجھے یادہے ایک دفعہ میں دریا پر گیا.بھائی عبدالرحیم صاحب جو بچپن میں میرے استاد رہے ہیں اور کچھ اَور دوست میرے ساتھ کشتی میں سوارتھے.جب ہم کشتی میں بیٹھے ہو ئے دریا کی سیر کررہے تھے تومیرے لڑکے ناصر احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان!اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی توبڑامزہ آتا.میں نے کہا.لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں میں خواجہ خضر کی حکومت ہے.اگر خواجہ خضر کو ئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں توتمہاری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے.جب میں نے یہ فقرہ کہا تو بھائی عبدالرحیم صاحب جھنجھلا کرکہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں اس بچے کی عقل ماری جا ئے گی میں نے کہا.ہمارے خدامیں توسب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھجوادے.میں نے یہ فقرہ ابھی ختم ہی کیا تھا کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اورایک بڑی سی مچھلی کود کر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا دیکھ لیجئے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کردی.اورہمارے دل میں جو خواہش پیداہوئی تھی و ہ اس نے پوری کردی.خواجہ خضر بے شک وفات پاچکے ہوں مگرہماراخداجو ہماراخالق اورمالک ہے اور سَمِیْعُ الدُّعَا ہے و ہ توزندہ ہے اوروہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے اس نے اس خواہش کودیکھا اورمیر ی بات کو پوراکردیا.
اسی طرح ایک دفعہ بڑی تپش کے بعد بارش آئی جس کمرہ میں مَیں رہتاتھا.اس کی کھڑکی میں نے کھولی اوربارش کا نظارہ دیکھنے لگا.چونکہ بڑی دیر کے بعد بارش آئی تھی.اس لئے مجھے اس بارش کا بڑا مزہ آیا.مگر اس روز مجھے پیچش کی شکایت تھی.میںا بھی بارش کانظارہ دیکھ ہی رہاتھا کہ مجھے اجابت محسوس ہوئی.جب میں جانے لگا تو بےساختہ میرے منہ سے نکلا کہ خدایا!توایسا فضل فرماکہ خواہ درمیانی عرصہ میں یہ بارش بند ہوجائے جب میں واپس آئوں توپھر بار ش شروع ہوجائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جو نہی میں گیا.بارش بند ہوگئی.اورجب میں کمر ہ میں واپس آیا اورمیں نے دوبارہ کھڑکی کھولی تو یکدم بارش شروع ہوگئی جو آدھ گھنٹہ یاپون گھنٹہ تک جاری رہی.اب دیکھو بار ش میرے اختیار میں نہیں تھی مگر خداتعالی نے ایسا فضل کیاکہ ادھر میں کمرہ میں پہنچا اوراُدھر بارش شروع ہوگئی.اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک جماعت نے بڑے اصرارسے مجھے اپنے پاس بلایا.جب میں واپس آرہاتھا تو چلتے چلتے کسی آئندہ خرچ کے خیال سے میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالاتو ایک روپیہ کم تھا.اس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی.کہ اللہ میاں مجھے ایک روپیہ بھیجیں.ابھی میرے دل سے یہ دعانکل ہی رہی تھی کہ قریب کے گائوں سے ایک آدمی ہماری طرف آتا دکھائی دیا.جماعت کے دوست جلدی سے حفاظت کے لئے میرے اردگرد جمع ہوگئے.میں نے کہا کیا ہوا.کہنے لگے یہ ہمارے سلسلہ کا شدید دشمن ہے اوراحمدیوں پر اکثر حملے کرتا رہتاہے.ہم آپ کے گرد اس لئے کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.جب ہم اس گائوں کے قریب پہنچے تو وہ دوڑتا ہواآیا اور میرے ساتھیوں کو دھکا دے کرآگے بڑھا اورپھر اس نے ادب کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھایااورایک روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ کرچلا گیا.میں نے کہا.آپ لو گ توکہتے تھے یہ مارنے آیاہے اوراس نے تو ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا ہے.پھر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے دل میں خیال آیا تھا کہ خدامجھے ایک روپیہ بھیجے.سوخدا نے اس شخص کو بھیج دیااور اس نے مجھے ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا.غرض انسان کو اگر خدا تعالیٰ پر کامل یقین ہو تو وہ اس کے لئے بڑے بڑے نشانا ت ظاہر کردیتا ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں میں سے ایک امت کے تین آدمی ایک دفعہ ایک طوفان میں پھنس گئے اورو ہ اس طوفان سے پناہ لینے کے لئے ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے.اتفاقاً زور کی جو آندھی آئی توپتھر کی ایک بڑی بھاری سِل لڑھک کر اس غار کے منہ کے آگے آگئی اورنکلنے کاراستہ بند ہوگیا.وہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لئے پہاڑ کی غار میں گئے تھے مگر اس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے.اس جنگل میں جبکہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں محبوس تھے کو ئی آدمی ایسانہ تھا جو انہیں اس مصیبت سے نجا ت دلاتا.وہ سخت گھبرائے اورجب انہیں اپنی نجات کی
کوئی صورت دکھائی نہ دی.تو ایک شخص کو دعاکی تحریک ہوئی اوراس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آئو ہم نے اپنی عمر میں جو سب سے زیادہ نیکی کاکام کیا ہے اس کاواسطہ دے کر خدا تعالیٰ سے کہیں کہ وہ اس پتھر کو ہٹا دے.تب ان میں سے ایک نے کہا کہ اے خدا!تجھے معلوم ہے کہ ایک مزدورمیرے پاس آیااس نے میری مزدوری کی اورپھر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے اجر ت لیتا چلا گیا.میں نے اس کی اجرت کے پیسوں سے تجارت شروع کی اوراس میں سے نفع اٹھاتے ہوئے ایک بکر ی خریدی اس بکری سے اور بکریاں پیداہوئیں یہاںتک کہ سینکڑوں بکریوں اور بھیڑوں کا گلہ میرے پاس ہوگیا.وہ کئی سال کے بعد میرے پاس آیااورکہنے لگا میری اٹھنی رہتی ہے وہ مجھے دی جائے.میں اسے اپنے ساتھ لے گیا.اورسینکڑوں بکریوںاوربھیڑوں کا گلّہ اسے دکھا کرکہا یہ تیری امانت ہے اسے لے جا.وہ کہنے لگا.مجھ سے کیوں مذاق کرتے ہو.میری صرف اٹھنی رہتی تھی وہ مجھے دےدو.میں نے اسے کہا.اس اٹھنی سے ہی میں نے تجارت شروع کی تھی اوراب اس قدر بھیڑیں اوربکریاں ہوگئی ہیں.وہ کہنے لگا.پھر تو یہ میری نہ ہوئیں.تمہاری ہوئیں.میں نے اسے کہا.نہیں میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے تجارت کی تھی.تب وہ نہایت ہی حیران ہو ا.مگر میرے مجبور کرنے پر وہ بھیڑوں اوربکریوں کے گلّوں کو ہانک کر اپنے گھر لے گیا.اے خدا!اگر میں نے یہ کام تیری رضااور خوشنودی کے لئے کیاتھا توتُو مجھ پر رحم فرما اوریہ پتھر راستہ سے ہٹا دے.اس دعا کے نتیجہ میں زورسے آندھی کا ایک طوفان اٹھا اورو ہ پتھر ذراسالڑھک گیا.مگر ابھی ان کے نکلنے کا راستہ نہ بنا.تب دوسرے نے کہا.اے خدا توجانتا ہے کہ مجھے ایک لڑکی سے جو میری رشتہ دار تھی بڑی محبت تھی مگر وہ کسی طرح میرے قابو نہیں آتی تھی.ایک دفعہ ملک میں شدید قحط پڑا.اوروہ او راس کے رشتہ داربھوکے مرنے لگے.آخر مجبور ہوکر وہ لڑکی میرے پاس مدد کے لئے آئی.میں نے اسے کہا کہ میں تمہاری مدد کے لئے تو تیارہوں مگر پہلے تم میرے ساتھ ہمبستری کر و.وہ مجبوراً اس کام کے لئے رضامند ہوگئی.جب میں اس کے قریب گیا.تو اس لڑکی نے کہا.میں تمہیں خدا کاواسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے گناہ میں مبتلا مت کر.یہ سنتے ہی میں الگ ہوگیا.اورمیں نے کہا.اب تو نے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے میں اسی کی رضا کے لئے اس کام کو ترک کرتاہوں.چنانچہ وہ لڑکی اُٹھی اور اپنے گھر چلی گئی اور میں نے روپیہ بھی اسے دے دیا.اے خدا!اگر میں نے یہ کام محض تیری رضااور خو شنودی کے لئے کیا تھا تو تُو اس پتھر کو ہما رے راستہ سے ہٹا دے.تب پھر زور سے ایک طوفان اٹھا اورپتھر تھوڑاسا اورسرک گیا.مگر راستہ پھر بھی نہ بنا کیونکہ چٹان بہت بڑی تھی اور ابھی وہ اتنی نہیں لڑھکی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بن جاتا.تب تیسرا شخص خدا تعالیٰ کے حضورجھکا اوراس نے کہا اے خداتجھے معلوم ہے کہ میں بکریاںچرایا کرتاہوں اور دودھ پر
میرا گزارا ہے.ایک دن مجھے بکریاں چراتے چراتے دیر ہوگئی اورمیں جلدی گھر نہ پہنچ سکا.میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے او ربچے چھوٹے چھوٹے.جب میں گھر پہنچا تو میرے ماں باپ سوچکے تھے او ربیوی بچے جاگ رہے تھے اور بھو ک کی وجہ سے میراانتظار کررہے تھے.جب میں پہنچا تو انہوں نے کہالائوہمیں دودھ پلائو.تاکہ ہم دودھ پی کر سوجائیں.مگر میں نے کہا جب تک میرے ماں باپ دودھ نہ پی لیں.کسی اورکودودھ نہیں دے سکتا.چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ بھر ااو راپنے والدین کی پائنیتی کے پاس کھڑاہوگیا.میری بیوی زاری کرتی رہی اور میرے بچے چیختے رہے.مگر میں نے ان کی چیخ و پکا رکی کوئی پروا نہ کی.اور دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا.یہاں تک کہ صبح ہوگئی اس وقت میرے والدین اٹھے تومیں نے انہیں دودھ پلا یا اور پھر اپنی بیوی اور بچوں کودودھ پلایا.اے خدا! اگر میرایہ کام محض تیری رضا اورخوشنودی کے لئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض اس میں نہ تھی توتومجھ پر رحم فرمااوراس پتھر کو راستہ سے ہٹادے.تب پھر زورکاطوفان اٹھااورپتھر لڑھک کر نیچے گر گیا.اوروہ تینوں شخص غار سے باہر نکل آئے.(ریاض الصالحین باب الاخلاص والنیۃ و بخاری کتاب الاجارۃ باب من استأجراجیرا افترک أجرہ ) غر ض دعاایک بہت بڑا ہتھیا رہے جوہرمصیبت میں انسان کے کام آتا اور اسے ہرقسم کی مشکلا ت سے رہائی عطاکرتا ہے.اتنے بڑے ہتھیار کے ہوتے ہوئے بڑاہی نادان وہ شخص ہے جو مصیبت کے آنے پر کسی اورکی طرف بھاگے اور اس سے مدد مانگے.سچا مومن وہی ہے جو اپنی ہرضرورت خدا تعالیٰ سے مانگے.یہاں تک کہ اسے اگر اپنی جوتی کے لئے تسمہ کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے.اوراس امر پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہرضرورت کو پوراکرنے پر قادر ہے اوروہ اسے اپنے دروازے سے کبھی خائب و خاسر واپس نہیں لوٹائے گا.جب مومن کے اند ریہ کیفیت پیداہوجائے تووہ سب دنیا کو بھول جاتا اور صرف اللہ تعالی کو ہی اپنا حقیقی کار ساز سمجھتاہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک دوست مولوی امام الدین صاحب جو گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے اورقاضی اکمل صاحب کے والد تھے اوراب فوت ہوچکے ہیں وہ صوفی منش آدمی تھے.اورمجھے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ روحانی مقام احمدیت میں ہمیںنصیب نہیں ہوسکاجس کے متعلق ہم بہت کچھ سنا کرتے تھے میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ وہ کیا مقام تھا جس کا آپ ذکر سنا کرتے تھے.کہنے لگے ہمارے پیر صاحب کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری صحبت میں چند دن رہے اسے ہم عرش پر سجد ہ کراسکتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے.میں احمدیت کو اپنی پہلی حالت سے بالا تو تسلیم کرتا ہوں مگر وہ نظارہ مجھے احمدیت
میں نظر نہیں آتا.میں نے ان کو ایک لطیفہ سنایاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک صوفی طرز کے پیر نے جب سنا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی ہے تواس نے اپنے ایک مریدکے ذریعہ مجھے کہلا بھیجا کہ مرزا صاحب کو مان کر اوران کی بیعت کرکے کیا حاصل ہوسکتا ہے.اگر آپ میری بیعت کرلیں تو مجھے اتنا کمال حاصل ہے کہ میں آپ کا پہلا سجدہ ہی عرش پر کروادوں.جب اس کے مرید نے مجھے صوفی کا یہ پیغام سنایا تومیں نے کہلا بھیجا کہ مجھے عرش پر سجدہ کرنے سے جوتیاں نہ پڑیں گی.خدا تعالیٰ کہے گا میں نے زمین پر سجدہ کرنے کاحکم دے رکھا ہے اور تو آسمان پر سجدہ کرنے آگیاہے.اس پر مولوی امام الدین صاحب مرحوم کہنے لگے یہ تو ٹھیک ہے مگرا س سے میری تسلی نہیں ہوئی.غرض و ہ جب بھی مجھ سے ملتے اسی قسم کی بات کرتے اورمیں کسی نہ کسی رنگ میں ان کو جواب دیاکرتا مگر ان کے دل کی خلش دور نہ ہوتی.آخر ایک دن میں نے ان سے کہا مولوی صاحب کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ نظر آجائے اوراسے اتنے کمالات حاصل ہوجائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے عرش پر سجدہ کرنے لگ جائے.توایسے آدمی کی کیا حالت ہوتی ہے ایسے آدمی کاکفیل خود خدا تعالیٰ ہو جاتاہے اوراسے بندوں کی کوئی احتیاج نہیں رہتی بلکہ وہ جوکچھ مانگتا ہے خدا تعالیٰ ہی سے مانگتا ہے اورچاہے بندے اس کی مدد کریں لیکن اس کی حالت یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَاءِ کی سی ہوتی ہے.اور جو لوگ اس کی مدد کرتے ہیں وہ خود محتاج ہوتے ہیں اسی بات کے کہ اس کی مددکریں.وہ اس بات کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی مدد کرے.ایسے شخص کو کچھ دینے والا سمجھ رہاہوتاہے کہ میں اس کی مدد کررہاہوں.مگرلینے والا سمجھ رہاہوتا ہے کہ میں اس سے لے کر اس پر احسان کررہاہوں.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دینے والا زید ہو یا بکر.اسے خدا تعالیٰ نے ہی میری ضرورتوںکو پوراکرنے کے لئے بھیجا ہے.میں کسی زید یا بکر کا ہرگز محتا ج نہیں.ایسے شخص کو چاہے کسی ذریعہ سے کوئی چیز پہنچے وہ سمجھتا یہی ہے کہ یہ خدا نے مجھے بھیجی ہے.اب آپ بتائیں کہ کیا آپ کے پیر صاحب کو بھی یہ مقام حاصل تھا.کہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام ضروریات کو پوراکرتاہو؟جب میں نے ان سے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہوگئے اورکہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیاہوں.ہمارے پیرصاحب جو کہتے تھے کہ ہم یو ں نظارے دکھاتے ہیں اورعرش پر سجد ہ کرادیتے ہیں.جب کبھی فصل وغیرہ کا موقعہ آتاتوزمینداروں کے پاس جاتے ان سے کہتے کہ ہمارابھی خیال رکھنا.اب میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ اگر فی الواقعہ ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق ہوتا توکسی بندے سے کیوں کہتے کہ میرابھی خیال رکھنا.غرض خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لینے والے کے سامنے صرف خدا تعالیٰ کی ہی ذات رہتی ہے اوروہ اسی سے اپنی ہرضرورت طلب کرتااوراسی کو حقیقی
کارساز سمجھتاہے.مگرجہاں ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہمیشہ دعائیں مانگتا رہے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ وہ لالچ اورحرص کے جذبات سے کلیۃً بالا رہے اور کبھی خدا تعالیٰ کا شکوہ اپنی زبان پر نہ لائے.اللہ تعالیٰ مومنوںکو اس بارہ میںنصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ١ؕ وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى( طٰہٰ : ۱۳۲) یعنی تم اپنی گردن لمبی کرکرکے یہ نہ دیکھا کرو کہ فلاں کو جوکچھ ملا ہے وہ مجھے کیوں نہیں ملا.تمہیں کیا پتہ کہ اس چیز کاملنا تمہارے لئے فائدہ بخش تھا یانہیں.اگر وہی کچھ تمہیں مل جاتا توممکن تھا تم تکلیف میں پڑ جاتے.بیشک اگر کسی کے پاس د س ارب روپیہ بھی موجود ہو تووہ یہ دعاکرسکتا ہے کہ خدایا میں تیرے مزید فضلوں کا محتاج ہو ںلیکن اگر کسی کے پاس صرف دس روپے ہوں اور وہ ہروقت کُڑھتارہے اور ایک بے چینی اوراضطراب اس میں پایاجائے اوروہ کہے کہ فلاں کے پاس تو سوروپیہ ہے اور میرے پاس صرف دس روپے ہیں اوروہ خدا تعالیٰ کا شکوہ کرتا پھرے تویہ درست نہیں ہوگا.پس بے شک اللہ تعالیٰ کے فضلوں اوراس کے انعاموں کو طلب کرو.مگر ہمیشہ یہ عادت ڈالو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں جس مقام پر رکھا ہے اس مقام کے متعلق تمہارے دل میں کبھی خفگی پیدانہ ہو.اور تم یہ نہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں گرایاہواہے اور تمہاراغیرتم سے اچھا ہے.مثنوی رومی والوں نے ایک حکایت لکھی ہے.وہ لکھتے ہیں ایک سپیراتھا جس نے ایک ایساسانپ پکڑا جو کسی اورسپیرے کے پاس نہیں تھا.وہ سانپ اس نے نہایت سنبھال کر رکھا ہواتھا اس کے دوست آشنا آتے تووہ بڑے شوق سے وہ سانپ ان کو دکھا تا.ایک دن جووہ صبح کو اٹھا تواس نے دیکھا کہ گھڑے میں سے سانپ نکل گیا ہے.اتفاقاًاس کا ڈھکنا کھلا رہ گیااورسانپ نکل گیا.اب اسے بڑی گھبراہٹ ہوئی اوراس نے خدا تعالیٰ کے حضور رونا اورچلانا شروع کردیا.کہ خدایامیراسانپ مجھے مل جائے.خدایا میراسانپ مجھے مل جائے.گھنٹہ دوگھنٹہ دعاکرنے کے بعد وہ گھڑ ے کامنہ کھول کر دیکھتاکہ سانپ اس میں واپس آگیاہے یا نہیں.مگر سانپ کہاں آتا.وہ پھر دعامیں مشغول ہوجاتا اسی طرح وہ ساراد ن اورساری رات دعاکرتارہا.جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اوراس نے اسے آکر کہا کہ فلاں گھر میں چلئے وہاں ایک نئی قسم کے سانپ نے ایک شخص کوکاٹا ہے اوروہ مرگیا ہے.سب سپیرے وہاں جمع ہیں سانپ پکڑاہواہے اورآپ کو بھی بلایا گیاہے تاکہ آپ اس سانپ کو دیکھ لیں.جب وہ گیا اوراس نے سانپ دیکھا تووہ وہی تھا جواس کے گھر سے بھاگاتھا اورجس کے لئے چوبیس گھنٹے سے دعائیںکررہاتھا.معلوم ہوتا ہے اس کے اندر کوئی نیکی تھی جو اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی.سانپ اس کے گھر سے بھا گا اور دوسرے گھر میں چلا گیا.دوسرا شخص یہ
سمجھ کر کہ یہ نئی قسم کاسانپ ہے اسے پکڑنے لگا توسانپ نے اسے ڈسا اور وہ مر گیا جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ پھر اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ میں گر گیااورکہنے لگا خدایا میں توسمجھتاتھاکہ تونے میری دعانہیں سنی.مگر درحقیقت تونے میری دعاسن لی تھی اوراس کانہ ملنا ہی میرے لئے مفید اوربابر کت تھا (مثنوی مولانا روم دفتر دوم صفحہ ۱ ۳،مارگیر).تو ہزاروں دفعہ انسان ایسی خواہشیں کرتاہے جو مضر ہوتی ہیں.اولادیں ہی بعض دفعہ ایسی گندی نکلتی ہیں کہ وہ انسان کے لئے بدنامی کاباعث بن جاتی ہیں اوران کو دیکھ دیکھ کر روتا ہے.آخر اتنا توسوچوکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی جب شادی ہوئی ہوگی تو وہ بھی دعاکرتے ہوں گے کہ اللہ میاں ہمیں اپنے فضل سے بیٹا دے.مگر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بھی ایک غریب گھرانے کی تھیں اورآپ ؐکے والد بھی کوئی مالدارآدمی نہیں تھے.ان کی شادی بہت معمولی سرمایہ سے ہوئی ہوگی.اورصرف چند آدمی ہوں گے جو اس شادی میں شریک ہوئے ہوں گے لیکن اس کے مقابلہ میں ابو جہل کے باپ کی جب شادی ہوئی ہوگی توکس دھوم دھڑکے سے ہوئی ہوگی اورکس طرح سات سات آٹھ آٹھ دن تک اونٹ ذبح کرکرکے مکہ والوں کی ضیافتیں کی گئی ہوں گی.لیکن اس دھوم دھڑکے کی شادی سے ابو جہل پیدا ہوااوراس چپ چپاتے کی شادی سے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے.بظاہر ابوجہل کے باپ کی شادی پردنیا کہتی ہو گی کہ کیا برکت والا گھر ہے.او رمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی شادی پر دنیا کو رحم آتا ہوگا اورلوگ کہتے ہوں گے کہ کیسا غریب گھرانہ ہے.مگر اس وقت کسی کے واہمہ اورگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جسے’’ یہ برکت والا گھر ‘‘سمجھا جاتاہے وہ عرب کو تباہ کرکے رکھ د ے گا اورجس کو قابل رحم سمجھاجاتاہے ان کی شادی کے نتیجہ میں وہ وجود پیدا ہونے والا ہے جو نہ صرف عرب کو تباہی سے بچانے والاہو گا بلکہ وہ ساری دنیا کے لئے رحمت اوربرکت کا موجب ہوگا.غرض کوئی انسان نہیں جانتا کہ وہ جو کچھ اپنے لئے مانگ رہاہے وہ اس کے لئے مفید بھی ہوگا یانہیں.اس بات کاعلم صرف خدا تعالیٰ کو ہی ہوتا ہے اورجب انسان اس قدر محدود علم رکھنے والا ہے تووہ خدا تعالیٰ کے کسی سلوک کو یااس کی کسی عطاکردہ نعمت کو براکیوں سمجھے.بیشک وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح یہ بھی کہے الٰہی تیری طرف سے جوبھی خیر نازل ہو اس کا میں محتاج ہوں.(القصص:۲۵)اگروہ دس کروڑ دے توتم کہو الٰہی میں دس ارب کا محتاج ہوں لیکن یہ نہ کہو کہ مجھ پر کتنی سختی ہوئی ہے کتنا ظلم ہواہے کتنی تکلیف میں میں مبتلاہو ں.کیونکہ اس طرح خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے جوجائز نہیں.تیسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ مجید کی صفت ہے.مجید کے معنے یہ ہیں کہ
خداتعالی بڑی بزرگی اورشان رکھنے والا ہے.قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ کی اس صفت کی طرف ان الفاظ میں بھی اشار ہ فرمایا ہے کہ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ(الرحمن :۳۰)یعنی تمہاراخداوہ ہے جو ہروقت ایک نئی شان میں جلوہ گرہوتاہے اورہمیشہ اپنے ایسے نشانات ظاہرکرتا ہے جن سے ا س کی اعلیٰ و ارفع شان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیز کو دوبارہ دیکھنا انسان کو کوئی خاص لطف نہیں دیتا.انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جدت کامادہ رکھا ہواہے اوروہ چاہتا ہے کہ نئے نئے جلوے اس کے سامنے ظاہر ہوں.جب ریل گاڑی جاری ہو ئی توشروع شروع میں لوگ اسے عجوبہ سمجھتے ہوئے اس پر پھولوں کے ہار ڈالتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ختم ہو گیا.پھر ہوائی جہاز اوردوسری سواریاں نکلیں.توان کی طرف متوجہ ہوگئے.غرض فطرت انسانی کو ہمیشہ نئی چیزوں سے لطف آتاہے اوروہ نئی نئی چیزوں سے تسلی پاتی ہے.کیونکہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے تو ایک نئی امید اس کے اندر پیداہوجاتی ہے.اوروہ سمجھتا ہے کہ شاید کوئی نیا جلو ہ مجھے نظر آنے لگا ہے.اسی فطرت کے تقاضہ کو پوراکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسم بدلتے ہیں اورنئے نئے پھل پیدا ہوتے ہیں.اورانسان بھی کبھی اپنے لباس میں تغیر کرتاہے کبھی مکا ن میں اور کبھی نئے نئے کھانے تیار کرتاہے کیونکہ نئی چیز سے انسانی فطرت تسکین پاتی اورایک لطیف حظ محسوس کرتی ہے.اسی فطری تقاضا کے مطابق مجھے قرآن پڑھ کر بھی بڑامزہ آتا ہے.لیکن جب کبھی رات کو خدا تعالیٰ میرے کان میں کوئی بات کہتاہے توکچھ نہ پوچھو کہ اس کا کیا مزہ ہوتا ہے.کیونکہ وہ ایک نئی چیز ہوتی ہے جو دل کو لذت او رسرور سے بھر دیتی ہے.غرض اسلام بتا تا ہے کہ تمہاراخدامجید ہے اوروہ ہمیشہ اپنی ایسی قدرتیں ظاہر کرتا ہے جن سے اس کی اعلیٰ شان اورمجد کااظہار ہوتاہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو کسریٰ نے یہودیوں کی انگیخت پر گورنریمن کو آرڈ ربھجوایا.کہ عرب میں جو ایک نیا مدعی نبوت پیداہواہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھجوادیاجائے.گورنر یمن نے آپ ؐکی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھجوادیئے اورانہیں کہا کہ میری طرف سے انہیں پیغام دےدیا جائے کہ مجھے تومعلوم نہیں کہ آپ کاکیا قصور ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ آجائیں.ورنہ ممکن ہے کسریٰ کی فوجیں عرب پر دھاوابول دیں اورساراملک ایک مصیبت میں گرفتارہوجائے.جب وہ پیغامبر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ کواپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا توآپؐ نے فرمایا ٹھہرومیں تمہیں پھر جواب دوں گا.چنانچہ وہ دودن ٹھہرے اورپھر حاضر ہوئے.آپؐ نے فرمایاایک دن اورٹھہر جائو.تیسرے دن جب وہ آپ سے ملے تو آپؐ نے فرمایا.جائو اپنے گورنرسے کہہ دوکہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے.وہ سخت حیران ہوئے کہ آپؐ نے یہ کیا بات کہی ہے اورانہوں نے پھر آ پ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی.مگر آپ نے
فرمایا میں نے تمیں جواب دےدیا ہے.جائو اوراپنے گورنرسے یہ بات کہہ دو.چنانچہ انہوں نے واپس جاکر گورنرسے یہی بات کہہ دی.گورنر یمن نے یہ بات سنی تو وہ کہنے لگا کہ یاتویہ شخص پاگل ہے اوریا پھر خدا کاسچا نبی ہے.ہم چند دن انتظارکرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ اس کی یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے یانہیں.چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یمن کی بندر گاہ پر ایک جہاز لنگر انداز ہوا.اوراس میں سے ایک سفیر اُترا.جو گورنر یمن کے نام ایک سربمہر لفافہ لایا.گورنر یمن نے لفافہ دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشا ہ کی مہر تھی.اس نے وہ مہر دیکھتے ہی اپنے درباریوںسے کہا کہ عرب کے نبی کی بات سچ معلوم ہوتی ہے.پھر اس نے خط کھولا تو وہ کسریٰ کے بیٹے شیرویہ کا تھا اوراس کا مضمون یہ تھا کہ ہماراباپ سخت ظالم تھا اوراس نے تمام ملک میں تباہی مچا رکھی تھی میں نے اسے فلاں رات قتل کردیا ہے اوراب میں اس کی جگہ تخت حکومت پر بیٹھا ہوں.تمہارافرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے تمام لوگوں سے میری اطاعت کا اقرار لو اورمجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ اس نے جوسفاکیاں کی تھیںان میں سے ایک یہ بھی سفاکی تھی کہ اس نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کرکے میرے پا س بھجوادیاجائے.ہم اس حکم کو بھی منسوخ کرتے ہیں.(طبری ذکر خروج رسل رسول اللہ الی الملوک ).اب دیکھو کسریٰ نے چاہاکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتارکرکے آپ کو سزادے اوراس طرح دنیا میں آپ کو ذلیل کرے مگرمجید خدا نے آپ کی بزرگی اورعظمت کو اوربھی دوبالا کردیا اورکسریٰ کو اس کے اپنے بیٹے کے ہاتھو ں قتل کروادیا.اسی طرح حضرت نظام الدین صاحب اولیاءؒجودِلّی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں.ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کامخالف ہوگیا.وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جارہاتھا.اس نے کہا کہ جب میں واپس آئوں گا تو انہیں سزادوں گا.ان کے مریدوں نے یہ بات سنی توبڑے گھبرائے اورانہوں نے شاہ صاحب سے آکر کہا کہ حضورجو لوگ شاہی دربار میں رسوخ رکھتے ہیں اگر ان کی ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہوجائے تو بہتر ہوگا.آپ نے فرمایا.ہنوز دِلّی دوراست.ابھی تواس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اورپھر دشمن سے جنگ کرنی ہے ابھی سے کسی فکر کی کیا ضرورت ہے.اس وقت تووہ دلی میں موجود ہے اورلڑائی کے لئے گیا بھی نہیں.پھر آٹھ دس دن اَورگذرگئے.تومرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے.اورکہا.حضور اب تو آٹھ دس دن گذر چکے ہیں اوربادشاہ لڑائی کے لئے جاچکا ہے.اب توکو ئی علاج سوچنا چاہیے.مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دوراست.آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اس کے متعلق خبر آگئی کہ اس میںبادشاہ کو فتح حاصل ہوگئی ہے اور وہ واپس آرہاہے.مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اوربادشاہ کی واپسی کی خبر دی.مگر آپ نے پھر یہی
جواب دیاکہ ہنوز دلی دور است.ابھی تو وہ دوچار سومیل کے فاصلہ پر ہے.ابھی کسی فکرکی کیاضرورت ہے.جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تووہ پھر آئے اورانہوں نے کہا کہ اب تو و ہ بہت قریب آگیا ہے.آپ نے فرمایا.ہنوز دلی دور است.جب و ہ اورزیادہ قریب آگیا اوردوتین منزل تک پہنچ گیا توپھر آ پ کے مرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دو ر است.آخر ایک دن پتہ لگا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیل کے باہر ٹھہر گئی ہیں.ان کے مرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اورکہا.حضور اب تو وہ دلی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے.آپ نے فرمایا.ہنوز دلی دور است.ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے.اندرتوداخل نہیں ہواکہ ہمیں گھبراہٹ ہو.اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اورشاہانہ جشن منایا ہزاروں لو گ اس دعوت اوررقص و سرود کی محفل میں شریک ہوئے.ولی عہد نے اس دعو ت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا.چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لئے اچانک چھت نیچے آگری.اورباد شاہ اوراس کے رفقاء سب د ب کر ہلا ک ہوگئے.صبح جب بادشاہ کی موت کی خبر آئی.توانہوں نے کہا.کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہنوز دلی دور است(مشاہیر اسلام ‘‘شائع کردہ ادارہ صو فی صفحہ ۱۵،۱۶ و تذکرۃ الاولیا ء حصہ دوم مصنفہ رئیس احمد جعفری صفحہ ۳۴۲).غرض ہمار اخدا بڑی بزر گ شان رکھنے والا ہے اورجو بھی اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے و ہ اپنی اپنی روحانیت اور درجہ کے مطابق بزرگی حاصل کرلیتا ہے.اورجس طرح خدا تعالیٰ کی شان اورعظمت پر حملہ کرنے والاسزاپاتا ہے اسی طرح و ہ لو گ جو خدا تعالیٰ کے مقربین پر حملہ کرتے ہیں وہ بھی اپنے کئے کی سزاپائے بغیر نہیں رہتے.دنیا میں ہزارہا انبیاء گذرے ہیں جن میں سے اکثر کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں.ان کے جسم ہزاروں من مٹی کے نیچے مدفون ہیں اوران کی اپنی قائم کردہ جماعتیں بھی دنیا میں موجود نہیں.مگرچونکہ وہ ایک خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے کھڑے ہوئے تھے اس لئے خدا نے انہیں ایسی بزرگی عطا فرمائی کہ آج بھی اگران کی کوئی ہتک کرتاہے تو خدا آسمان سے ان کی مدد کے لئے دوڑاچلا آتا ہے اوران کی عزت او ر شہرت پر لگایا جا نے والاہرداغ مٹاکر رکھ دیتا ہے.غرض طٰسٓمٓ میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات لطیف ،سمیع اورمجید کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اوربتایا گیا ہے کہ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ کے عالم اسرار ہونے اس کے محسن عظیم ہونے اوراس کے سمیع الدُّعاہونے اوراس کے صاحب عظمت و جبروت ہونے پر روشنی ڈالی گئی ہے اوران صفات کو واقعات کے رنگ میں ثابت کیاگیا ہے.چنانچہ اس کے ثبوت میں پہلی بات ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ یہ آیات ایک ایسی کتاب کی ہیں جو ہرایک حقیقت کو خو ب کھول کر بیان کرنے والی ہے اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کتاب کو
نازل کرنے والاخداانسان کی تمام ضروریات کو جانتااوراس کی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں مبین کالفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہواہے( الزخرف:۳۰ والدخان:۱۴).نور کے متعلق بھی استعما ل ہواہے (النساء:۱۷۵).فضل کے متعلق بھی استعمال ہواہے (النمل:۱۷).حق کے متعلق بھی استعمال ہواہے (النور:۲۶).اسی طرح اور کئی چیز وں کے متعلق بھی استعمال ہواہے.مگرکسی الہامی صحیفہ کے متعلق سوائے قرآن کریم کے مبین کا لفظ استعمال نہیں ہوا.حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے متعلق صرف ایک د فعہ یہ مضمون بیان ہواہے مگر وہاں مستبین کالفظ استعمال کیاگیاہے نہ کہ مبین کا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاٰتَیْنَھُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ( اَلصّٰفّٰت :۱۱۸)ہم نے موسیٰ ؑ اورہارونؑ دونوں کو ایک کامل کتاب دی جس میں تمام احکام بیان کئے گئے تھے.اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم دونوں مضمونوں میں فرق کرتاہے.قرآن کریم میں یہ لفظ اس کی نسبت بارہ دفعہ استعمال ہواہے.دس دفعہ کتا ب کے ساتھ اوردودفعہ قرآن کے لفظ کے ساتھ.پس ایک جگہ مستبین اوردوسری جگہ مبین کالفظ استعمال کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ایک جگہ وضاحت اوردوسری جگہ وضاحت اور ایضاح کی طرف اشارہ کرنامقصودہے.کیونکہ اِستبان کے معنے واضح ہو جانے کے ہیں اوراَبَانَ کے معنے واضح ہونے کے بھی ہیں اورواضح کردینے کے بھی ہیں.پس قرآن کریم کے متعلق مبین کالفظ استعمال فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کودوسری کتب پر یہ ایک زائد فضیلت حاصل ہے.کہ وہ نہ صرف خو د اپنے مطالب کے لحاظ سے واضح ہے اورایسی صداقتیں بیان کرتاہے جوایک ثابت شدہ حقیقت ہوتی ہیں بلکہ وہ موضح بھی ہے یعنی وہ دوسری الہامی کتب کی صداقتوں کو بھی واضح کرتاہے.اوریہ ایک ایسی فضیلت قرآن کریم کو حاصل ہے جس میں اس کے ساتھ اورکوئی کتاب شریک نہیں باقی جس قدر الہامی کتب ہیں ان کا صرف اس قد رکام تھا کہ وہ اپنے مطالب کو واضح کردیتیں اوراپنے مدعاکوظاہر کردیتیں.کیونکہ وہ صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تھیںان کواس سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ باقی کتب جھو ٹی ثابت ہوتی ہیں یا سچی.باقی انبیاء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں یا سچے.باقی قومیں خدا تعالیٰ کے نور کی وارث ثابت ہوتی ہیں یامحروم ثابت ہوتی ہیں.وہ صرف اپنے ذکر کولے لیتی تھیں یااپنے حلقہ اوردائرہ تک محدود رہتی تھیں لیکن قرآن کریم چونکہ سب اقوام کو ایک نقطہ مرکزی پر جمع کرنے کے لئے آیا ہے وہ نہ صرف بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے تمام احکام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتاہے اوران کے ہر گوشہ کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ وہ پہلی کتابو ںکی حقیقت کو بھی ظاہرکرتاہے اورپہلے نبیوں پر عائد شدہ الزاموںکو دور کرتاہے اورپہلی
کتب کی کوتاہیوں کو دلائل کے ذریعہ اعتراضات سے پاک کرتاہے.مثلاً انسانی فطرت کے ارتقاء کی طرف اشارہ کرکے یالوگوں کی دست اندازی کی طر ف اشارہ کرکے یالوگوںکے استنباط کو غلط بتاکر.غرض وہ پہلے نبیوں پہلی کتب اورپہلی اقوام کی خوبیوں کو بھی واضح کرتاہے اوران پر عائد ہونے والے اعتراضات کو بھی ردّ کرتاہے اس طرح و ہ گویامستبین کے مقام سے نکل کر مبین کے مقام تک پہنچ جا تاہے.اس کی مثال کے طور پر دیکھ لو بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کرکنعان کی طرف آئے توبائیبل بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمرکے لڑنے کے قابل مردوں کی تعداد بارھویں قبیلہ کو چھو ڑکر جن کی گنتی نہیں کی گئی چھ لاکھ تین ہزار پانچ سو پچا س تھی (گنتی باب ۲ آیت ۳۲ تا ۴۶).اگر بارھویں قبیلہ کا بھی اندازہ کرلیا جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ فوجی خدمات سرانجا م دینے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے.اگرعورتوں بچوں اور بوڑھو ںکی تعداد معلوم کرنے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گناکرلیں کیونکہ عام طورپر چھ سے دس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل سمجھی جاتی ہے تویہ تعداد ساٹھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے.مگرعقل اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ ہوں.کیونکہ اول تواتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میں نکل ہی نہیں سکتے تھے جتنے قلیل عر صہ میں وہ نکلے دوسرے یردنؔپارکی بستی جس میں وہ آکر بسے ہیں اس قدر آبادی کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی تھی.اب بھی فلسطین کی آبادی پندرہ لاکھ ہے.حالانکہ اب یہودیوں نے امریکہ کی مدد سے اسے آباد کیاہے.پس اس ملک میں جو پہلے سے آباد تھا.ساٹھ لاکھ آدمیوں کاآکر بس جانا بالکل خلاف عقل بات ہے.پس بائیبل بنی اسرائیل کی جو تعداد بتاتی ہے.وہ عقلی لحاظ سے کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی مگر قرآن کریم نے آکر بتایاکہ یہ با ت غلط ہے.وہ لو گ صرف چند ہزار تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَ رَ الْمَوْتِ.(البقرۃ:۲۴۴)یعنی کیا تجھے ان لوگوں کاحال معلوم نہیں جواپنے گھروں سے موت کے ڈ رسے نکلے جبکہ وہ چند ہزار تھے.پس بائیبل نے تویہ بتایا کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکلے تھے.لیکن قرآن کریم نے اس غلطی کی اصلاح کی اوربتایاکہ وہ لاکھوں نہیں بلکہ ہزاروں تھے.اسی طرح حضرت سلیمانؑ خدا تعالیٰ کے ایک مقدس نبی تھے مگر بائیبل نے ان پر شرک کا الزام لگادیااورکہا کہ ’’جب سلیمان بُڈھا ہوگیا تواس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے ساتھ کامل نہ رہا.‘‘ ( ۱.سلاطین باب ۱۱آیت ۴) پھر لکھا ہے.
’’ خداوند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا.‘‘ پھر یہ شرک سلیمانؑ نے ایسی حالت میں کیا جبکہ خدا تعالیٰ نے ’’دوباردکھائی دے کر اُس کو اس بات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے.پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا.‘‘ (۱.سلاطین باب۱۱ آیت ۹,۱۰) گویا سلیمانؑ نعوذ باللہ اتنا خطرناک کافر تھا کہ دودفعہ خدا اُس پر ظاہر ہوا اور دودفعہ اُس نے ظاہر ہو کر کہا.کہ دیکھنا غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا.مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حسن کو دیکھ کر ایسا فریفتہ ہوا کہ اس نے غیر معبودوں کے لئے مندر بنائے اور ان کے آگے سجدہ کرنے لگ گیا مگر قرآن کریم نے آکر بتایا کہ وَمَاکَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا( البقرۃ :۱۰۳)سلیمان نے کفر کی کوئی بات نہیںکی بلکہ اس پر الزام لگانے والے اوراسے کافر اور مشرک قرار دینے والے خود کافر اور بے ایمان تھے چنانچہ تاریخی شہادتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ جو قرآن نے بات کہی ہے وہی ٹھیک ہے اور بائیبل کی بات غلط ہے.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا ببلیکامیں لکھا ہے.’’یہ بات توصحیح ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی.لیکن نہ تو انہوں نے ان سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتائوں کی عبادت کو کبھی خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایاتھا.آپ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے انکار کاکبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے.‘‘ (زیر لفظ SOLOMON) گویا تاریخ نے تسلیم کرلیا کہ بے شک حضرت سلیمان علیہ السلام کی کئی بیویاںتھیں کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے بت خانے بنائے اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بت کو سجدہ کیاہو.اب دیکھو بائیبل توکہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتاہے کہ نہیں کئے اور آج کایہودی محقق اور آج کا عیسائی محقق بھی کہتاہے کہ بائیبل جھوٹ کہتی ہے سچی بات وہی ہے جو قرآن کہہ رہاہے.پھر بائیبل میں حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑابنا کردیا اور انہیں شرک کی راہ پر چلایا.چنانچہ بائیبل میںلکھا ہے.’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تووہ ہارون کے پاس جمع ہوکراس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتا بنادے.جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جوہم کوملک مصر سے نکال کرلایاکیاہوگیا ہارون نے ان سے کہا.تمہاری
بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کرمیرے پاس لے آئو.چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کران کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی.تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کرلایا‘‘ (خروج باب ۳۲آیت ۱تا۴) مگر قرآن نے آکر بتایاکہ یہ بالکل غلط بات ہے.حضرت ہارون ؑ نے اپنی قوم کو شرک سے بڑی سختی کے ساتھ روکاتھا اور کہاتھا کہ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ(طٰہٰ :۹۱) یعنی اے میری قوم اس بچھڑے کے ذریعہ تمہاراایمان خراب کردیا گیاہے اور تمہارا رب تو رحمان ہے اور یہ ایک ذلیل اور بیجان بچھڑا ہے.پس تم میری فرمانبرداری کرو.اور میرے پیچھے چلوسامری کے پیچھے نہ چلوجس نے تمہیں اس شرک کی طرف مائل کیا ہے.غرض بائیبل نے خدا تعالیٰ کے ایک مقدس نبی ہارون ؑ کو داغدار قرار دیا مگر قرآن کریم جو مبین کے مقام پر ہے اس نے آکر بتایا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے خدا تعالیٰ کافرستادہ ہارون ؑ اپنی قوم کو ہمیشہ توحید کا ہی وعظ کرتا رہا.یہ قوم کی بدبختی تھی کہ وہ سامری کے پیچھے چل پڑی اور اُس نے ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام پربھی یہودیوں اور عیسائیوں نے بعض خطرناک قسم کےالزامات لگائے تھے جن کی قرآن کریم نے بڑے زور سے تردید کی اور بتایا کہ وہ تمام الزامات دشمنوں کا افتراء ہیں.مثلاً یہود کہتے تھے کہ آپ کی پیدائش نعوذ باللہ بدکاری کے نتیجہ میں ہوئی تھی.یعنی یوسفؔ کے نطفہ سے بغیر شادی کے آپ پیدا ہوئے ( انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد۵ صفحہ ۱۰۲زیر لفظ CELSUS )اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ ایک رومی سپاہی سپنیتھراؔ کے بیٹے تھے جن کا حضرت مریم صدیقہ سے ناجائز تعلق تھا ( جیوش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ JESUS) مگر قرآن کریم نے حضرت مریم ؓ کو اس الزام سے پاک ٹھہرایا اور یہ اعلان فرما دیا کہ وَالَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوْ حِنَا وَجَعَلْنَا ھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء : ۹۲)یعنی مریم صدیقہؓ نے جو حضرت مسیح ؑ کی والدہ مطہرہ تھیں اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا.اور اُن کو جو حمل ہوا وہ ناجائز نہیں تھا بلکہ ایک پاک روح تھی جو اُن کے اندرہم نے داخل کی اور ہم نے اُس کو اور اُس کے بیٹے عیسیٰ ؑ کو تمام دُنیا کے لئے ایک نشان بنا دیا.
اِسی طرح عیسائی آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ صلیب پر لٹک کر لعنتی موت مرے.چنانچہ عہدنامہ جدید میں پولوس کہتا ہے :.’’مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ لعنتی ہے.‘‘ (گلتیوں باب ۳آیت ۱۳) گویا عیسائیوں نے خدا تعالیٰ کے ایک مقرب کو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ملعون قرار دے دیا.مگر قرآن کریم نے اس الزام کو بھی ردّ کیا اور خود حضرت مسیح ؑکی زبان سے ان الفاظ میں تردید کی کہ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم : ۳۴)یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری پیدائش حرامکار ی کے نتیجہ میں تھی وہ غلط کہتے ہیں.کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں لعنتی موت مراوہ بھی غلط کہیں گے.کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوگی اور لعنت کی موت سے میں بچایاجائوں گا.اورجو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اُٹھا کر تین دن جہنم میں پڑارہا.وہ بھی غلط کہیں گے کیونکہ میری دوبارہ حیات بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہوگی.غرض قرآن کریم ان تمام اعتراضات کو ردّکرتاہے جو بائیبل میں لوگوں کی دست اندازی کی وجہ سے شامل ہوچکے تھے.اوراپنے فرستادوں کوایک بے عیب شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتاہے.اسی قسم کے الزامات ہندوئوں نے بھی اپنے بعض رشیوں اوراوتاروں پر لگائے ہیں.مثلاً حضرت کرشن کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی والد ہ نے انہیں کہا کہ ’’بیٹا !نولاکھ گائیں میرے یہاں دودھ دینے والی ہیں جتنا دودھ ماکھن چاہیے کھایااورلٹایا کرو.دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اورچُرانے مت جایاکرو.‘‘ (مھا رشی وید بیاس شریمد بھاگوت پُران اسکندھ نمبر۱۰ نمبر۸؍۱۰ ) گویا حضرت کرشن نعوذ باللہ مکھن چُراچُراکر کھا یا کرتے تھے حالانکہ ان کے اپنے گھر میں نولاکھ گائے تھی.اسی طرح لکھا ہے کہ وہ غیرعورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہاکرتے تھے اورایک عورت کاخاص طور پر نام لے کر لکھا ہے کہ حضرت کرشن نے رات کے وقت اسے جگاکرکہا کہ ’’اے سندری!نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگار دان (یعنی دادِ عیش)دے.‘‘ (برہم دی درت پران کرشن جنم کھنڈ نمبر ۴ ادھیائے نمبر ۷۲)
مگرقرآن کریم نے حضر ت کرشن اوراسی طرح اَورکئی انبیاء کاجن کے نام تک صفحہ ء تاریخ میںمحفوظ نہیں اجمالی طورپر ذکر کرکے فرما دیا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ(الانعام :۹۱)یعنی یہ سارے کے سارے وہ لو گ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی.یعنی یہ سب کے سب منعم علیہ گروہ میں شامل تھے اورخدا تعالیٰ کے فضلوں اوراس کی تائیدات کے مورد تھے.پس اب تمہاراکام یہی ہے کہ تم انہی لوگوں کے راستہ پرچلو اورانہی کی تقلید کرو.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا اورہرالزام کورد کرتاہے جوان پر لگایا گیا.خواہ وہ الزام منافقوں کی طرف سے لگایاگیاہو یا مخالفوں کی طرف سے.وہ ان کے حسین چہر ہ پر سے ہرقسم کی گردوغبارکو دور کرتا اوران کی نورانیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتاہے اوریہ قرآن کریم کااتنا بڑا احسان ہے کہ جس کی نظیر دنیا کی اَورکوئی کتاب پیش نہیں کرسکتی.پھرقرآن کریم نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو اس طرح بھی ظا ہرکیا کہ اس نے دنیاکے ہرنبی کی عزت کوقائم کیا اوران کی صداقت پر ایمان لانا ضروری قراردیا.اس میںکوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے جس ملک کے حالات سے بھی واقفیت حاصل کی جائے اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کے ماننے والے ہیں.مگروہ ساری بزرگی صر ف اپنے اپنے بزرگوں تک محدود سمجھتے ہیں.ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن اور حضرت رامچندر جی کو خدا تعالیٰ کا اوتار مانتے ہیں توساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوااَورکسی ملک میں کوئی اوتار نہیں ہوا.اسی طرح عیسائی اوریہودی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے تھے باقی سب جھوٹے ہیں.لیکن قرآن کریم نے بتایاکہ اِنْ مِنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَانَذِیْرٌ( فاطر: ۲۵)دنیا کی کو ئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا کوئی مصلح اورہادی مبعوث نہ ہواہو.چنانچہ جب ہم مختلف اقوام پر نظر دوڑاتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ و ہ سب کی سب اس بات کی قائل ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کاکوئی نہ کوئی مصلح آیاتھا.ہم ہندوئوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں حضرت کرشن اور حضرت رامچندر جی کاوجود دکھائی دیتاہے.ہم عیسائیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود نظرآتا ہے.ہم یہودیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے کئی انبیاء نظر آتے ہیں.غرض دنیا کا کوئی خطہ ایسانہیں جس میں کوئی نبی نہ آیا ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسے عرب کا خداہے ویسے ہی وہ ہندوستان اورچین اورشام اورمصر اورایران وغیرہ کابھی خداہے.اس نے ساری دنیاکے لئے سورج اورچاند اورستارے سب ایک جیسے بنائے ہیں.ایک ہی زمین سب کے لئے بنائی ہے.پھر جب اس نے سب لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کو پوراکیاہے توروحانی ضرورتوںکو وہ کس طرح نظر انداز کرسکتا تھا جبکہ روح کی
حفاظت جسم سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسم فانی ہے اورروح غیر فانی.چنانچہ ایک مسلمان جب اس آیت کو پڑھتاہے تواس کے دل میں تصدیق کی خواہش پیداہوتی ہے.وہ ہندوئوں کے پاس جاتا ہے اورڈرتے ڈرتے ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو ئی نبی آیا تھا.وہ کہتے ہیں ہاں حضر ت کرشن اور حضرت رامچند رجی اللہ تعالیٰ کا کلام لے کر آئے تھے وہ اپنے وقت کے اوتار تھے.یہ سن کر اس کا چہرہ بشاشت سے کھل جاتاہے اوروہ کہتا ہے الحمدللہ! یہ بات سچی ثابت ہوگئی کہ ہرقوم میں نبی آئے ہیں.پھر وہ چین میں جاتا ہے.اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتاہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو ئی نبی آیاہے تووہ کنفیوشس کا نام لیتے ہیں.اس پر اس کادل اَور بھی زیادہ مسرور ہوجا تاہے کہ الحمد للہ! چین میں بھی اللہ تعالیٰ کانبی آیا ہے.پھر وہ ایران میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس بھی کوئی نبی آیا ہے تووہ حضرت زرتشت کانام لیتے ہیں.یہ سن کر وہ خوشی سے اپنے جامہ میں پھولانہیں سماتا.اورکہتاہے کہ اب تو یہ با ت اوربھی پختہ ہوگئی.پھر وہ یونان میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے دریافت کرتاہے کہ تمہارے پاس بھی کو ئی اللہ کا پیغام لے کر آیا ہے.تووہ کہتے ہیں.ہاں ہمارے ملک میں سقراط اس بات کا دعویدار تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتاہے.اس پر وہ اورزیادہ مسرو ر ہوتاہے اورکہتاہے الحمدللہ میراقرآن یہاں بھی سچاثابت ہوا.غرض و ہ جس ملک میں بھی جاتاہے اس کی گردن فخر سے اونچی ہوجاتی ہے.اور اس کادل اس لذت اورسرورسے بھرجاتاہے کہ میری کتاب میں جوکچھ کہاگیاتھا وہ حرف بحر ف درست ثابت ہوا.لیکن ایک عیسائی ایک ہندواورایک یہودی جس ملک میں بھی جاتاہے.ا س کامنہ غم سے کالاہو جاتا ہے.وہ مڈل ایسٹ میں جاتاہے اورسنتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی ہیں تواس کا د ل جل جاتاہے.برمامیں جاتا ہے اورسنتا ہے کہ بدھا نبی ہے تووہ رونے لگ جاتاہے.ہندوستان میں سنتا ہے کہ کرشن نبی ہے تواس پر جنون سوارہو جاتا ہے.یونان میں جاتاہے اوراسے پتہ لگتاہے کہ اس ملک میں سقراط گذراہے تووہ چیخیں مارنے لگ جاتاہے.غرض وہ جس ملک میں بھی جاتاہے اس پر مصیبت آجاتی ہے.مگرایک مسلمان جس ملک میں بھی جاتاہے اسے خوشی پر خوشی نصیب ہوتی ہے اورہرملک میں یہ تعلیم اس کی سربلندی اورسُرخروئی کاموجب ہوتی ہے.غرض یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے.لیکن اس چھوٹی سی آیت کو ہی لے کر ساری دنیا میں پھر جائو.کسی بزرگ کی بڑائی سن کر تمہارے دل میں انقباض پیدا نہیں ہوگا اور تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے یہ تعلیم پیش کرکے باقی تمام الہامی کتب پر اپنی فضیلت کو ثابت کردیاہے.پھر خود انسانی وجود جو اللہ تعالیٰ کی وحی کا مہبط اوراس کے انوار وبرکات کامورد تھا اس کے متعلق بھی بعض مذاہب نے یہ غلط نظریہ پیش کیا کہ وہ طبعاً میلان گناہ رکھتاہے.اوراس کی وجہ
اللہ تعالیٰ کی وہ نافرمانی ہے جو آدم اورحوّانے کی اور جس کی بنا پر وہ فطرتی طورپر گناہگارپیداہوا.اسی طرح بعض دوسرے مذاہب نے یہ کہناشروع کردیا کہ انسان اپنی تمام کوششوں کے باوجود کبھی پاک نہیں ہوسکتا.اوراس کی روح کو بار بار مختلف قسم کی جُونوں کے چکر میں ڈالاجا تاہے.اول الذکر نظریہ ہمیں عیسائیت کی طرف سے(رومیوں باب ۵ آیت ۱۲) اورثانی الذکر ہندومذہب کی طر ف سے پیش کیا گیا (انوار حقیقت مترجم ستیارتھ پرکاش باب ۹ صفحہ ۲۴۷.۲۴۸).اوردونوں نے انسانی فطرت کو گندہ اورناپاک قرار دیا.اوراس کااتنا پروپیگنڈاکیا گیاکہ وہ انسان جو اس لئے پیدا کیا گیا تھاکہ اسے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہو اوراپنے اندر اعلیٰ اخلاق اور روحانیت پیداکرکے اللہ تعالیٰ کے کلام اوراس کے الہام کا مورد ہو اس کادل مایوسی کا شکار ہوگیا اوراس نے سمجھا کہ جب میرے لئے ترقی کے تمام راستے بند ہیں اورجب مجھے فطری طورپرگندہ اورناپاک ٹھہرایاگیاہے توپاکیزگی اورتقدس کاتصورمیرے لئے ناممکن ہے.کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو بات متواتر اس کے کان میں ڈالی جائے آہستہ آہستہ وہ اس پر اثر کرناشروع کردیتی ہے.اگرکسی کو متواتر کہا جائے کہ تم بہت ہی بیوقوف اورجاہل ہو تووہ رفتہ رفتہ اپنی عقل کو کھو بیٹھتاہے.اگرکسی کو کہا جائے کہ وہ چو ر کابیٹاہے توآہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دل پر ایساراسخ ہوجائےگا کہ جب کبھی اس کے دل میں لالچ پیدا ہوگااور کسی کامال ہتھیانے کاارادہ کرے گا تووہ اپنے ارادہ کو روک نہیں سکے گا بلکہ کہے گاکہ دنیا توپہلے ہی مجھے چورکابیٹا کہہ رہی ہے اوریہی جذبات نسلاً میرے اندر پائے جاتے ہیں.اب میںان کاموںسے کس طرح رک سکتاہوں.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے امورکوسختی سے ناپسند فرمایااورانہیں قومی ہلاکت اوربربادی کا اصل باعث قراردیاہے.کیونکہ انسانی ذہنیت اس قسم کی ہے کہ جب اس پر کوئی اثر ڈالا جائے اوراس کے خیالات کسی خاص طرف مائل کئے جائیں توآہستہ آہستہ وہ ان اثرات کو قبول کرلیتا ہے.سائیکالوجی یاعلم النفس کی ابتداء درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم کے ذریعہ ہی ہوئی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اِذَاقَالَ الرَّجُلُ ھَلَکَ النَّاسُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ(مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب النھی عن قول ھَلَکَ النَّاسُ)یعنی جب کوئی شخص یہ کہتا پھرتاہے کہ قوم برباد ہوگئی قوم برباد ہوگئی تودرحقیقت اس کی بربادی کا موجب وہی بنتاہے.کیونکہ جب متواترکسی قوم کے کان میں یہ ڈالاجائے گا کہ وہ ہلاک ہوچکی ہے تولوگوں میں قوت مقاومت باقی نہیں رہےگی.اوراس کاتنزل شروع ہوجائے گا.عیسائیت نے دنیا کو یہ تعلیم دی کہ آدمؑ نے گناہ کیا جو ورثہ میں اس کی اولاد کو بھی ملا.اب دنیا اگر گناہ سے بچنابھی چاہے تونہیں بچ سکتی.اس عقیدے کے ہوتے ہوئے ایک عیسائی کے لئے یہ کتنا مشکل ہے کہ وہ گناہ کا خیال
آنے پر اس کامقابلہ کرے وہ تو کہے گاکہ میں گناہ کاکیا مقابلہ کروں.میں تواس سے بچ ہی نہیںسکتا اورجب وہ گناہ کا مقابلہ کرنے سے گریز کرے گا تولازماً گناہ میں مبتلاہوجائے گا.مگرقرآن کریم نے بتایاکہ انسان کو فطرت صحیحہ عطا کی گئی ہے.اورخواہ وہ کیسی ہی حالت میں ہو اگر وہ کوشش کرے تو وہ ترقی کر کے اللہ تعالی کاقرب حاصل کرسکتاہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات : ۵۷)یعنی میں نے جنوں اورانسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکہ میں نے آد م ؑ کو اس لئے پیدا کیا تھا کہ وہ میری عبادت کرے بلکہ فرماتا ہے مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ چاہے فرمانبرداری کی طبیعت رکھنے والے انسان ہوںچاہے ناری فطرت رکھنے والے وجود ہوں دونوں کو میں نے عبادت اوراپنے قرب کے لئے پیدا کیاہے.انس ان لوگوںکو کہتے ہیں جواپنے اندر فرمانبرداری اوراطاعت کاماد ہ رکھتے ہیں.اورجنّ ان لو گوں کو کہتے ہیں جن پر پر دہ پڑاہو اہوتاہے.یعنی جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑ جاتاہے.اوروہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتے ہیں.قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جنّی طبیعت والے نار سے پیداکئے گئے ہیں.گویاناری طبیعت والا انسان جو گناہ کی طرف مائل ہوتاہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے بھی میں نے عبادت کے لئے پیدا کیاہے کیونکہ اس کی ناری طبیعت طبیعتِ ثانیہ ہوتی ہے طبیعت اولیٰ نہیں ہوتی.درحقیقت طبیعتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک طبیعت اولیٰ جو فطرت میں رکھ دی گئی ہے اورایک طبیعت ِ ثانیہ جو ماحول کے اثرات کے ماتحت پیداہوتی ہے اورطبیعت اولیٰ پر غالب آجاتی ہے.اسی لئے اس قسم کی طبیعت رکھنے والے کو جنّ کہتے ہیں.جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی اصل فطرت پر پردہ پڑاہواہے اورجب ہم اسے جنّ کہتے ہیں توہمارے مدنظر یہ مفہوم ہوتاہے کہ اس کی فطرت اولیٰ نظر نہیں آتی.اور چونکہ اس کی فطرت اولیٰ نظر نہیں آتی اس لئے وہ جنّ کہلاتاہے.پس فرماتا ہے.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ سے محجو ب ہوتے ہیں اورجنّات میں شامل ہوتے ہیں اوروہ لو گ جو اپنی طبیعت میں نیکی رکھتے ہیں دونوںکو ہم نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے.جب لوگ ایک لمبے عرصہ تک نیکی کو قائم رکھتے اوراللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں تووہ انس کہلاتے ہیں اورجب وہ نبی کی تعلیم سے غافل ہوجاتے ہیں تووہ جنّ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت صحیحہ ایسی مخفی ہوجاتی ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ہماری جماعت کاقیام کیوں ہواتھا.اورہمارے نظام کی غرض کیاتھی یا نبی نے ہمیں کیا تعلیم دی تھی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ وہ جنّات ہوں یاانسان یعنی خواہ ایسے لوگ ہوں جن کے دلوں میں محبت الٰہی کی چنگاری سُلگ رہی ہواورخواہ ایسے لوگ ہوں جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑاہواہوفطرت ثانیہ غالب آچکی ہو اورسمجھاجاتاہوکہ ان کی طبیعت ثانیہ ہی
اصل فطرت ہے دونوں کو ہم نے عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص کو ہم کیا سمجھائیں ا س میں تونیکی کامادہ ہے ہی نہیں.بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑامتعصب ہے وہ ہدایت پا ہی نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم ایسامت کہو.اس کی طبیعت اولیٰ نیکی کی طرف مائل ہے.یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اس کی طبیعت ثانیہ کو دیکھتے ہواورایک نتیجہ اخذ کرلیتے ہو.ہم نے توسب کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے.اگر کسی کی فطرت صحیحہ پرپردہ پڑاہواہے تویہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص نیل کے مٹکے میں پڑے تووہ نیلا ہو جاتا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ آدمی نہیں رہا.یابعض لوگ ریچھ کی کھال پہن لیتے ہیں اوردیکھنے والے ڈرنے اوربھاگنے لگ جاتے ہیں.حالانکہ وہ انسان ہوتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرتیں ماحول کی خرابی کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہیں اوران کی ظاہری شکل جنّات والی ہوجاتی ہے.چنانچہ وہ لوگ بھی جو غیر مرئی جنات کے قائل ہیں اورہم پر یہ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ یہ لو گ جنّوں کے قائل نہیں وہ بھی بعض دفعہ ایسے انسانوںکو جن کی فطرت پرپردہ پڑچکاہوتاہے جنّ کہنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ وہ شخص جس کے اخلا ق بگڑے ہوئے ہوں اسے دیکھتے ہیں توکہتے ہیں یہ بھیڑیاہے جس سے ان کایہ مطلب نہیں ہوتا.کہ وہ حقیقی معنوں میں بھیڑیاہے بلکہ یہ مطلب ہوتاہے کہ اس پر بھیڑیے والی خصلت غالب آگئی ہے.اسی طرح کسی کے متعلق کہتے ہیں یہ توسانپ ہے.یعنی سانپ کی طرح لوگوںکو ڈستا پھرتاہے.یابچھو ہے یعنی بچھو کی طرح لوگوںکو ڈنگ مارتا ہے.توبعض دفعہ فطرت ثانیہ فطرت اولیٰ پر غالب آجاتی ہے کہ یہ پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ا س شخص کی انسانیت کہاں ہے.لیکن جب اس کی فطرت صحیحہ بول اٹھتی ہے تب پتہ لگتاہے کہ اس کے اندرنیکی پائی جاتی ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے.مگرپھر ان میں کیسی تبدیلی پیداہوئی.نہ صرف ان کی اصلاح ہوئی بلکہ وہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ ان کا پہچاننابھی مشکل ہوگیا.حضرت عمرؓ جو اسلام اورمسلمانوںکے خلاف لٹھ لئے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانانصیب ہواتوان میں ایسی تبدیلی پیداہوئی کہ دنیاکے فائدہ کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے.اوردن رات اسلام کی خدمت میں مصروف ہوگئے.یہی حال عکر مہؓ کا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا.توعکرمہؓ اس بغض کی وجہ سے جواسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھامکہ چھو ڑ کرچلاگیا اوراس نے کہا.میں اس ملک میں بھی نہیں رہ سکتا جس میں ایساشخص موجود ہو.اس کے مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کردیاتھا کہ اسے معافی نہیں دی جاسکتی وہ جہاں مل جائے اسے قتل کردیاجائے.آخر اس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی.
اوراس نے کہا.یارسول اللہ!آپؐ بڑے رحیم و کریم ہیں.آپ نے کتنے ہی لوگوںکومعاف کردیا ہے اگر عکرمہؓ کو بھی آپ معاف فرما دیں تواس میں آپ کاکیاحرج ہے.پھر اس نے کہا.یارسول اللہ ! کیا یہ بہتر ہے کہ عکرمہؓ کسی غیر ملک میں ذلیل ہوکر رہے یایہ بہتر ہے کہ وہ آپ کے ملک میں آپ کی رعایابن کر رہے اورآپ کاعفو اس کے سرکو نیچا رکھے.آپ کو اس کی یہ بات پسند آئی.اورآپؐ نے فرمایا.ہم نے عکرمہؓ کو معاف کردیا.یہ سن کر اس کی بیوی اسی وقت اٹھی اوراپنے خاوند کی تلاش میں چل پڑی.وہ اس وقت حبشہ جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ چکا تھا.اس کی بیوی اس کے پاس گئی اوراس نے کہا.تم کہاں جارہے ہو.واپس میرے ساتھ چلو.میں نے تمہارے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تھی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں معاف فرما دیاہے.عکرمہؓ یہ سن کر حیران ہوا.اوراس نے کہا.مجھے کس طرح معافی مل سکتی ہے میں نے توبڑے بڑے سخت مظالم کئے ہوئے ہیں.اس نے کہا.تمہیں ان کے وسعت حوصلہ کاکیاعلم؟ میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ میں تمہارے لئے معافی کی منظور ی لے چکی ہوں.تم واپس میرے ساتھ چلو.عکرمہؓ کشتی سے اترے اورواپس آگئے.واپسی پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورانہوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! میری بیوی میرے پاس آئی تھی اوراس نے کہا تھاکہ میںنے تمہارے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے لی ہے.کیایہ سچ ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں!بالکل سچ ہے.ہم نے تمہیں معاف کردیاہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم نے تمہیں سچے دل سے معاف کردیا ہے تواس نے عر ض کیاکہ کیا میں کافر ہونے کی حالت میں مکہ میں رہ سکتا ہوں.آپؐ نے فرمایا.ہاں تم رہ سکتے ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوراس کے باپ ابوجہل کے متواتراورشدید ترین مظالم کے باوجود اسے معاف فرما دیا اورمعافی بھی اس رنگ میں دی کہ خواہ وہ اسلام نہ لائے اسے مکہ میں آزادانہ رنگ میں رہنے کی اجازت ہوگی تواس کی طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہواکہ اس نے کہا.یارسول اللہ! میں آپ پر ایمان لاتاہوں کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ اس قسم کی معافی سوائے خداکے راستباز انسان کے اَورکوئی نہیں دے سکتا(السیرۃالنبویۃ لابن ہشام ذکر الاسباب الموجبة المسیر الی المکة...و اسد الغابة عکرمۃ بن ابی جھل).پھریاتو اس کے دل میں اتنا بغض تھا کہ وہ ا س ملک میں بھی رہنانہیں چاہتاتھا جس میں رسول کریم صلی اللہ تھے اوریاپھر اس کے دل میں اتنا تغیر پیداہواکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکرمہؓ ہم نے تمہیں معاف ہی نہیں کیا بلکہ ہم تمہیں انعام بھی دینا چاہتے ہیں مانگوجوکچھ مانگنا چاہتے ہو.تووہ عکرمہؓ جو اتنا دنیادار تھا اس کے اندر فوراً ہی اتنی تبدیلی پیداہوگئی کہ اس نے کہا کہ یارسول اللہ! میں سوائے اس کے اَورکچھ نہیں
مانگتا کہ آپ میرے لئے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے (کتاب المغازی للواقدی جلد ۲ صفحہ ۸۵۱ تا ۸۵۵).اب کُجایہ کہ وہ مکہ سے بھاگ جاتاہے اورکجایہ کہ مسلمان ہوتاہے اوریکدم اس میں ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے کہ وہ سب مخالفانہ خیالات کو بھول جاتاہے.پھر یہی عکرمہؓ تھا کہ یاتورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لئے لڑائیاں کیاکرتاتھا اوریا پھر اسلام میں اس کی فدائیت یہاں تک پہنچ گئی کہ غزوئہ یرموک میں جب بہت سے صحابہؓ مارے گئے توعکرمہؓ اورچنداورنوجوانوں نے مل کر حضرت ابوعبیدہؓسے جوکمانڈرانچیف تھے کہاکہ ہم سے صحابہؓ کی موت نہیں دیکھی جاسکتی.اگریہ لوگ مارے گئے تواسلام کی اشاعت کون کرے گا.آپ ہمیں اجاز ت دیں کہ ہم چند نوجوان اپنی جانوں کو قربان کرکے عیسائی کمانڈرپرحملہ کرکے اسے ماردیں اورلڑائی ختم ہوجائے.ابوعبیدہؓ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے.دس لاکھ لشکر کے مقابلہ میں میں تمہیں کس طرح بھیج سکتاہوں.اس میں توتمہاری یقینی ہلاکت ہے.مگر آخر دوسرے لوگوں نے کہا کہ جب یہ لوگ قربانی کرناچاہتے ہیں توانہیں قربانی کی اجازت دےدیں.اور چونکہ ا س جنگ میں بہت سے صحابہؓ مارے جاچکے تھے ابوعبیدہؓ نے آخر اجازت دے دی.چنانچہ عکرمہؓ اورچنددوسرے نوجوانوں نے ملکر قلبِ لشکر پر حملہ کیااوروہاں تک پہنچ گئے جہاں ان کا کمانڈرماہان تھا.و ہ اس قدر گھبرایاکہ تخت سے اتر کر بھاگ پڑا.اوراس کے بھاگتے ہی فوج میں بھاگڑ مچ گئی اورلڑائی کاپانسہ پلٹ گیا.مگر اس جدوجہد میں وہ قریباً سب کے سب شہید ہوگئے.اسی جنگ کاواقعہ ہے کہ عکرمہؓ زخموں کی شدت اورپیاس کی و جہ سے تڑپ رہے تھے کہ ان کے پاس سے ایک سپاہی گذراجس کے پاس پانی کی ایک چھاگل تھی.اس نے جب انہیں تڑپتے دیکھا تووہ قریب آیا.اوراس نے پوچھا کیا آپ کو پیا س لگی ہے.انہوں نے کہا.ہاں.اس نے اپنی چھاگل اس کے منہ کے قریب کی تاکہ آپ پانی پی لیں.مگرابھی عکر مہؓ نے چھاگل کومنہ نہیں لگایاتھا کہ ان کی نظر فضل بن عباسؓ پرپڑی جوان کے قریب ہی پیاس سے تڑپ رہے تھے انہوں نے کہا.فضل مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم اسے پانی پلائو.وہ فضل کے پاس پہنچا توانہوں نے اپنے قریب ایک اورمسلما ن کو تڑپتے دیکھا انہوں نے کہا وہ مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم پہلے اسے پانی پلائو.وہ تیسرے کے پاس پہنچا تواس نے چوتھے کی طرف اشارہ کردیا.اورچوتھے کے پاس پہنچا تواس نے پانچویں کی طرف اشارہ کردیا.تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سات آدمی تھے اورساتوں ہی تڑپ رہے تھے مگر ہر ایک نے یہی کہا کہ مجھے پانی نہ پلائو بلکہ میرے ساتھی کو پلائو.جب وہ آخری آدمی کے پاس پہنچا تووہ مر چکا تھا.اورجب وہ واپس مڑاتواس نے دیکھا کہ باقی چھ بھی فوت ہوچکے تھے.اب دیکھو یہ کتنی بڑی قربانی ہے جوعکرمہؓ نے کی.حالانکہ وہ اسلام کے شدید ترین دشمن تھے.پس یہ
کہہ دینا کہ فلاںکو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی بہت بڑی غلطی ہے.اللہ تعالیٰ جب ہدایت دیناچاہتاہے توآناًفاناً دے دیتاہے.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: ۵۷)اللہ تعالیٰ نے ہرایک کو ہدایت اوراپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے.پس بڑاہی مایوس وہ انسان ہے جواللہ تعالیٰ کی اس رحمت کی ناقدری کرے اورسمجھے کہ انسان تو پیدائشی طورپر گنہگار پیدا کیا گیاہے ا س لئے و ہ پاکیزگی اورتقدس اختیار ہی نہیں کرسکتا.اسلام بتاتاہے کہ یہ نظریہ قطعی طورپرغلط ہے انسان فطرتی طورپر پاکیزہ قویٰ لے کر آیا ہے.اوراللہ تعالیٰ نے ہرایک کو اپنے قرب کے لئے پیدا کیا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا.(الشمس:۸تا ۱۱)یعنی ہم انسانی نفس کو اس امر پر شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے منزّہ پیدا کیاہے اوراس کی فطرت میں نیکی اوربدی کی شناخت کی قوت رکھی ہے.چنانچہ جوشخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اورجو شخص اس جبلّی پاکیزگی کو خراب کردیتاہے وہ ناکام ہو جاتا ہے.غرض اسلام انسان کواس مایوسی کاشکار نہیں ہونے دیتا جس کاشکار اسے دوسرے مذاہب بناتے ہیں بلکہ وہ اس کی روح میں بلند پروازی کی طاقت پیداکرتااوراسے فرش سے اٹھا کر عرش تک لے جاتاہے.پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ اس نے ہزاروں ایسی صداقتیں بیان فرمائی ہیں جن کا پہلی الہامی کتب میں کہیں ذکر تک نہیں.مثلاً قرآن کریم جو موسیٰ ؑ اورفرعون کے قریباً بائیس سوسال کے بعد نازل ہواہے اس میں یہ لکھا ہے کہ فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کے وقت فرعون توبے شک ڈوب گیا تھا.مگراس کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی.تاکہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اورنصیحت کا باعث بنے (یونس آیت ۹۳) چنانچہ اب جوپرانی ممیاں نکلی ہیں توان میں فرعونِ موسیٰ ؑ کی ممی بھی نکلی ہے.جومصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے جسے میں نے بھی اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے.اب دیکھویہ قرآن کریم کے کتاب مبین ہونے پر کتنی زبردست شہادت ہے کہ بائیبل جو اس زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون ڈوباتھا.اس میں توکہیں یہ ذکرنہیں کہ فرعون کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی.مگر قرآن کریم نے بائیس سوسال بعد نازل ہوکر اس سچائی کو بیان کردیا اورپھر اس سچائی کے بیان کرنے کے چودہ سوسال بعد زمین میں سے فرعون موسیٰ ؑ کی ممی نکل آئی.اوراس طرح ثابت ہوگیاکہ قرآن حقیقتاً ا س خدائے بلندو برتر کاکلام ہے جوتمام اسرار کوجاننے والااور تمام غیبوں سے آگاہ ہے.
پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ وہ اپنے دعاوی کے ثبوت کے لئے بیرونی دلائل کا محتاج نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنے دعاوی کے دلائل بھی مہیا کرتاہے برخلاف دوسری الہامی کتابوں کے کہ وہ دعویٰ تو کرتی ہیں مگران کے دلائل نہیں دیتیں.چنانچہ تورات کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو.انجیل کو پڑھ جائو.ویدکو پڑھ جائو.بس یہ معلوم ہوگاکہ فرض کرلیاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اوراس کی ذات میں شک کی گنجائش نہیں.اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پاسکتا.زیادہ سے زیادہ اگر کچھ بیان ہواہے تومعجزات پر انحصار کرلیا گیاہے اوراس طرح اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیا د ہے بالکل مہمل چھوڑ دیاگیاہے.ا س کے مقابل پرقرآن کریم کودیکھو.وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتاہے بلکہ اس کا ثبوت بھی دیتاہے اورنہ صرف اس کاثبوت دیتاہے.بلکہ اس کی سب صفات کاثبوت دیتاہے اوراس طرح وہ ایک نیا اصل دنیا کے سامنے پیش کرتاہے جویہ ہے کہ جس قدر صفات الٰہیہ بندہ کے تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبو ت بھی ضروری ہے.ورنہ خداتعالی کاوجود تو ثابت ہو گا.مگر اس کی صفات کاوجود ثابت نہیں ہوگا.اس بارہ میں مثال کے طورپر یہ آیت لے لو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ.(الانعام : ۱۰۴)یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ انسانی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں ہا ں وہ خود اس کی نظروں تک پہنچتا اوراپنی طاقت اورقوت کے اظہار سے اوراپنی صفات کے جلوہ سے اپنا وجود اس پرظاہر کرتاہے اوروہ بڑالطیف اورخبیر ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ اس کانظر نہ آنا اس کے وجود کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کی صفات میں سے ہے کہ وہ نظر نہیں آتا.لیکن وہ خود اپنے نشانات کے ذریعہ سے اپنے آپ کوظاہر کرتاہے اوربندوں کی نگہداشت رکھتاہے اوران کی تمام جسمانی اور روحانی ضرورتوںکو پوراکرتاہے اوریہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ و ہ ہے لیکن لطیف.گویااللہ تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس کے وجو دکو ظاہرکرتی ہیں.مثلاً خبرداررہنا اورادنیٰ سے ادنیٰ تغیرکو بھی غائب نہ ہونے دینا.یہ کام ایک لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہوسکتا.یعنی ایسی ہستی کے بغیر جو موجودات کے ہرذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو.پس خبیر کی صفت لطیف کے لئے بمنزلہ جوڑے کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس کابھی ظہور ہوتاہے یاان دونوں کاآپس میں روح اور جسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہوتودوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اوردوسری نہ ہوتو پہلی صفت بھی ثابت نہیں.اگر خبیر کی صفت وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ سے ثابت نہ ہوتی تو لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا.اس کے مقابلہ میں اگر لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ثابت نہ ہوتا یعنی اس کالطیف ہونا توخبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ جو
وجود کامل اتصال نہیں رکھتا و ہ خبیر بھی نہیں ہوسکتا.غرض قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ اس نے صرف دعویٰ کرنے پرہی اکتفانہیں کیا بلکہ وہ جوکچھ کہتاہے اس کے دلائل بھی دیتاہے.تاکہ بنی نوع انسان ان احکام پر عمل صرف ایک چٹّی اوربوجھ سمجھ کرنہ کریں بلکہ اس بشاشت اوریقین کے ساتھ کریں کہ انہیں جوکچھ کہاگیاہے ان کے اپنے فائدہ اورترقی کے لئے کہاگیاہے.پھرقرآ ن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ وہ تمام امور جو احکام یااخلاق یااعتقادات وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اس کتا ب میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردیاگیاہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قرب اوراس کی محبت کے حصول کے لئے جس قدر امور کی ضرورت ہے ان سب کواس کتاب میں واضح کردیاگیاہے.گویا قرآ ن کریم ایک جامع کتاب ہے جس میں توحید ،نبوت، دعا،قضاوقدر،بعث بعد الموت اورمعا دوغیرہ کے متعلق پوری تفصیل موجود ہے جبکہ دوسری کتب نے ان امورضروریہ سے قریباً خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراگر ان میں کچھ ہے تو اس قدر ناکافی ہے کہ گویاکچھ نہیں کہا.اسی طرح نبی اوراس کے فرائض اورنبوت اوراس کی حقیقت کے متعلق بائیبل اوروید اورــژند وغیرہ کتب بالکل خامو ش ہیں.قرآن کریم نے وجودِ باری تعالیٰ کے ثبوت اوراس کی صفات پر بھی بحث کی ہے.انسان کی روحانی طاقتوں پر بھی بحث کی ہے.ان روحانی امور کوبھی بیان کیا ہے جوانسان کی روحانی طاقتوں کی تکمیل اورامداد کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح اس نے انسانی زندگی کے قال پر بھی روشنی ڈالی ہے اوراس کے ثبوت پیش کئے ہیں اورپھر اس نے ان تمام امو رمیں نہ صرف علمی طورپر ایک نئی روشنی بخشی ہے بلکہ عملاً بھی اس نے ایسے انسان پیداکئے ہیں جنہوں نے قرآن کریم پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کاوصال حاصل کرلیا اوران کی روحانی طاقتیں اپنی تکمیل کو پہنچ گئیں.غرض قرآن کریم تمام سابق کتبِ الٰہیہ پر اپنے مبین ہونے کے لحاظ سے ایسی نمایاں فوقیت رکھتاہے کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں قرآنی حسن انسانی آنکھوں کو خیرہ کئے بغیر نہیں رہتا.پھرقرآن کریم کو دوسری الہا می کتب پر صرف انہی امور میں فضیلت حاصل نہیں جواس میں دوسری کتابوں سے زائد پائے جاتے ہیں یاجن میں اس نے دوسرے مذاہب کی خامیوںاوران کی کوتاہیوں کی اصلاح کی ہے بلکہ جن احکام میں اس کی پہلی کتب سے مشابہت دکھائی دیتی ہے ان میں بھی قرآن کریم نے ان سے بہتر اورجامع تعلیم دنیا کےسامنے پیش کی ہے مثلاً اگر ان کتابوں میں کھاناکھانے کاکوئی طریق بیان کیا گیاہے تواس کابھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیاہے اوراگر ان میں کپڑا پہننے کاکوئی طریق بتایا گیاہے.توقرآن کریم نے ان سے بھی بہتر اوراعلیٰ طریق کپڑے پہننے کادنیا کے سامنے پیش کیاہے.غرض کوئی معمولی سے معمولی بات بھی ایسی نہیں
جس میں قرآن کریم نے ان کتابوں سے زیادہ جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اپنی تعلیم پیش نہ کی ہو اورجس میں اس نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو ظاہرنہ کیاہو.مثال کے طور پر میں اس وقت امن عالم کامسئلہ لے لیتاہوں.امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ سے کوشش کرتی چلی آئی ہے چنانچہ یا تودنیا بیرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے اوریاجب بیرونی امن کے لئے جدوجہد نہیں کررہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہوچکی ہوتی ہے تواندرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے.چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اورعالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں توان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتاہے کہ اَورتوہمیں سب کچھ میسر ہے مگر دل کاامن نصیب نہیں.پس امن صرف بیرونی ہی نہیں ہوتا بلکہ دل کابھی ہوتاہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اس وقت تک ظاہر ی امن بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل دنیا کے تمام لو گ امن کے خواہشمند ہیں.لیکن امن ان کو میسر نہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مختلف الانواع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو.اس وقت تک سب لو گ مطمئن نہیں ہوسکتے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں.ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں.ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں.ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اورایک دوسرے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں.ان متضاد خواہشو ں اورمتضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.اسلام بتاتاہے کہ ایسے متضاد اورمخالف خیالات کی موجود گی میں تبھی امن قائم ہو سکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو.جو امن دینے کاارادہ رکھتی ہو.اگریہ بات نہ ہوتو کبھی امن میسر نہیں آسکتا.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذراادھر ادھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہولہان ہوجاتے ہیں.کسی کے گلے پر زخم ہوتاہے کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں.کسی کی آنکھ سوجی ہوئی ہوتی ہے.مگرجب ماں باپ آتے ہیں توا ن کے سامنے ایسی نرم شکلیں بناکر بیٹھ جاتے ہیں کہ گویا وہ لڑائی جھگڑے کوجانتے ہی نہیں.اس لئے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں.پس درحقیقت امن اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے.جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جوامن کی متمنی ہو اور جودوسروںکوامن دیناچاہتی ہو.اورایسے قوانین نافذکرناچاہتی ہو جوامن دینے والے ہوں.اور وہی شخص حقیقی امن دینے والاقرار پاسکتاہے جواس ہستی کی طرف لوگوں کوبلائے.یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اورآپ ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہواکہ خدا تعالیٰ کے ناموں
میں سے ایک نام امن دینے والابھی ہے.چنانچہ سورئہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جونام گنائے گئے ہیں ان میںسے ایک نام یہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ( الحشر :۲۴) اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) تُولوگوں کوتوجہ دلااس خدا کی طرف جو بادشاہ ہے پاک ہے اوراَلسَّلَام یعنی دنیا کوامن دینے والا اور تمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے.یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یافساد کریں.بلکہ وہ امن شکن کو سزادیتے اورامن قائم رکھنے والے بچے سے پیارکرتے ہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی ایک خداہے وہ دیکھ رہاہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں.تمہارے ارادے مختلف ہیں.تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں.تمہاری خواہشیں مختلف ہیں.اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہوکر امن شکن حالات پرتیار ہوجاتے ہو.مگریاد رکھو خدایسی باتوںکو پسند نہیں کرتا.وہ سلام ہے.جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اس وقت تک و ہ اس کامحبوب نہیں ہوسکتا.ہرشخص سمجھ سکتاہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدا نہیں کردیاکرتی.کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں ہوتی.چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں.دولت بڑی اچھی چیز ہے توا س کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ میرے لئے اور میرے دوستوں کے لئے دولت بڑی اچھی چیز ہے اور جب وہ کہتے ہیں صحت بڑی اچھی چیز ہے تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہوتے کہ میرے دشمن کی صحت اچھی چیزہے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لئےصحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق توانسان یہی چاہتاہے کہ وہ نادار اورکمزور ہو.اسی طرح جب لو گ عزت و رتبہ کے متمنی ہوتے ہیں توہرشخص کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے.پس جب دنیاکایہ حال ہے توخالی امن کی خواہش بھی فساد کاموجب ہوسکتی ہے کیونکہ جولوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ ا س رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اوران کی قوم کو امن حاصل رہے.ورنہ دشمن کے لئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹادیں.اب اگر اسی اصل کو رائج کردیاجائے تودنیا میں جوبھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوںکا امن ہوگا.ساری دنیاکانہیں ہوگا.اورجو ساری دنیا کاامن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلاسکتا.حقیقی امن تبھی پیداہو سکتا ہے جب انسان کو یہ معلوم ہوکہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جومیرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے ملکو ں کے لئے امن چاہتی ہے اوراگر میں صرف اپنے لئے یاصرف اپنی قوم کے لئے یاصرف اپنے ملک کے لئے امن کامتمنی ہوں تواس صورت میں مجھے اس کی مدد اس کی نصرت اوراس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی.جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہوجائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.پس اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ
کہہ کر قرآن کریم نے انسانی ارادوں کو پاک و صاف کردیا.اوریہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اس وقت تک کام بھی درست نہیں ہوسکتا.دنیا میں اس وقت جتنے فساد اورلڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں.وہ منہ سے جوباتیں کرتے ہیں ان کے مطابق ان کی خواہشات نہیں اوران کی خواہشا ت کے مطابق ان کے اقوال اورافعال نہیں.آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کامطلب صرف یہ ہوتاہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تویہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف سے جنگ کی ابتداہو تو یہ کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی.اوریہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے.وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارافائدہ ہے ہم ان باتوں پر عمل کریں گے مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تواسے رد کردیں گے.مگر قرآن کریم میں جوخدا تعالیٰ کے نام بتائے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ سب کا خداہے کسی ایک کانہیں.اوریہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کولاسکتاہے کہ دنیا کاایک خداہے جویہ چاہتاہے کہ سب لوگ امن سے رہیں.جب ہمارایہ عقیدہ ہوگا تواس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہوں گی.بلکہ دنیا کو عام نفع پہنچانے والی ہوں گی اس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتاہے یانقصان بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ سار ی دنیا پر اس کاکیا اثر ہے.یوں تودنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے.لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایساکرنے کی جرأت اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر میں نے ایساکیا تو ایک بالا ہستی مجھے کچل کر رکھ دے گی.جیسے ایک بچہ دوسرے کاکھلونا چھین لیتا ہے تووہ اپنے لئے امن حاصل کرلیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کاامن بھی چھیناجاتاہے.اورایک توخوش ہورہاہوتاہے اوردوسرارورہاہوتاہے.ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیںگے ؟وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے.بلکہ جس بچہ نے کھلوناچھیناہوگا اس کاکھلونا واپس لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے.اورجب و ہ ایساکرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جودوسرے کے امن کو برباد کرکے حاصل کیا جاتا ہے وہ کبھی قائم رہنے والانہیں ہوتا.حقیقی امن وہی ہوتاہے جوایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیاہو.غرض حقیقی امن اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ایک بالاہستی تسلیم نہ کی جائے اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی پیش کیاہے اوراس نے کہا ہے کہ اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ.اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتاہے.کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی
کاپتہ مل گیا.توانسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیداہوجاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کاکوئی سامان بھی کیاہے یانہیں.کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیںکیا تویہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تواس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ بجائے امن کے فساد پیداکردیں.پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں کرسکتی جب تک ایک بالاہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جوامن قائم کرنے میں ممد اورمعاون ہوں.کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو توانسان باوجود اس آرزو کے کہ و ہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا.پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تومعلوم ہولیکن اس خواہش کو پوراکرنے کاطریق معلوم نہ ہو.تب بھی ہماراامن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اورطریق اختیار کریں اوراس کا منشاء کو ئی اورطریق اختیار کرناہو.پس ہمارے امن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ و ہ بالاہستی ہمیں کوئی ایساذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والاہو.سوا س غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اوریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایساذریعہ بتایاہے یانہیں توسورئہ بقرہ میں اس کا جواب نظر آتاہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا(البقر ۃ:۱۲۶)یعنی یہ جو آسمان پر سلام خدا کی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جودنیا کوامن دینے والاہوتا.سوہم نے بیت اللہ کومدرسہ بنایا.یہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہوں گے اورامن کاسبق سیکھیں گے.پس ہمارے خدا نے صرف خواہش ہی نہیں کی.صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کروورنہ میں تم کو سزادوں گا.بلکہ اس دنیا میں اس نے امن کاایک مرکز بھی قائم کردیا اوروہ خانہ کعبہ ہے.فرماتا ہے.یہاں لوگ آئیں گے اورا س مدرسہ سے لوگ امن کاسبق سیکھیں گے.پھریہ کہ اس مدرسہ کی تعلیم کیا ہوگی.اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے خبر پاکر اعلان فرما دیا کہ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ ( المائدۃ : ۱۶.۱۷) یعنی اے لوگو!تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے.تم کو یہ پتہ نہیں تھاکہ تم اپنے خدا کی مرضی کو کس طرح پوراکرسکتے ہو.اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنادیاہے.مگرخالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتابیں نہ ہوں.پس فرمایا قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ.خدا کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آیا ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اوراس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے.ایسی کتاب جو ہرقسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے.پس خدا تعالیٰ نے اسلام کے لئے امن کا مدرسہ بھی قائم کردیا.امن کاکورس بھی مقرر کردیا
اورمدّرسِ امن بھی بھیج دیا.مدرّسِ امن محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اورامن کاکورس وہ کتاب ہے جو یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ کی مصداق ہے.جوشخص خدا کی رضاحاصل کرناچاہتاہے.اسے چاہیے کہ اس کتاب کو پڑھے اس میں جس قدر سبق ہیں و ہ سُبُلَ السَّلَامِ یعنی سلامتی کے راستے ہیں.اورکوئی ایک حکم بھی ایسانہیں جس پر عمل کرکے انسانی امن برباد ہوسکے.ایک بالاہستی کاوجودہی ہمارے ارادوں کو درست کرتاہے.مدرسہ کاقیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتاہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات اس کتا ب کی عملی تفسیر ہے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہو سکتا ہے.اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرناچاہتاہے کس کے لئے ہے؟اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے.قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی(النمل:۶۰)یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو کہہ دے الحمدللہ سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے دنیا میں امن قائم کر دیا اور انسان کی تڑپ اور فکر کو دور کر دیا اور کہو وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی وہ بندے جو خدا تعالیٰ کے پسندیدہ ہوجائیں اوراپنے آپ کو اس کی راہ میں فداکردیں ان کے لئے بھی امن پیداہوجائے گا اوروہ بھی باامن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے.یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایاکہ تما م لو گ جوآپ کی اتباع کرنے والے اورآپ کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہیں ان کے لئے کامل امن ہے اوروہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے.پھر سوال پیدا ہوتاتھا کہ جب خدا سلام ہے تواس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آناچاہیے.نہ کہ بعض کے لئے.کیونکہ اگر خالی اپنوں کے لئے امن ہوتو یہ کو ئی کامل امن نہیں کہلاسکتا.اس کابھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتاہے.فرماتا ہے.وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ.فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(الزخرف: ۸۹.۹۰)یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی تعلیم لے کرآئے ہیں جوساروں کے لئے ہی امن کاموجب ہے اورہرشخص کے لئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے.مگرافسوس کہ لوگ اس کو نہیںسمجھتے.بلکہ و ہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اورفساد کرتے ہیں جوان کے لئے نوید اورخوشخبری ہے یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوبھی یہ کہناپڑاکہ خدایامیں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کرآیا تھا مگر اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ یہ قوم جس کے لئے میں امن کاپیغام لایاتھا یہ تومجھے بھی امن نہیں دے رہی اٰمَنَ کے معنے ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور اٰمَنَ کے معنے امن دینے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَمیں اسی امر کا ذکر ہے
کہ ہمارانبی ہم سے پکار پکارکرکہتاہے کہ خدایا باوجود یکہ میں اپنی قوم کے لئے امن کاپیغام لایاتھا وہ اس کی قدر کرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو بالکل برباد کردیا.مگرفرمایا.فَاصْفَحْ عَنْھُمْ.ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابھی ان لوگوںکوتیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لئے وہ غصہ میں آجاتے اورتیری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں توان سے درگذر کر.کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لئے ہی بھیجا ہے وَقُلْ سَلَامٌ.اورجب تجھ پریہ لوگ حملہ کریں اورتجھے ستائیں توتویہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایاہوں فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ عنقریب دنیا کومعلوم ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دنیا کے لئے امن لایا تھا.لڑائی نہیں لایاتھا.گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لائے وہ صرف مومنوں کے لئے ہی امن نہ رہا.بلکہ سب کے لئے امن ہوگیا.پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہی نہیں بلکہ تمام مومنوںکو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان :۶۴) وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کونہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑناشروع کردیتے ہیں.تومومن کہتے ہیں کہ ہم توتمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہمارابُراہی کیوں نہ چاہو.جب دشمن کہتاہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کررہے ہو.تووہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اوربیہودہ باتیں نہیں.بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں.گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ہی نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی ہے.اورصرف مومنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے.پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ سلامتی عارضی ہے یامستقل.کیونکہ یہ توہم نے ماناکہ السَّلام خدا سے امن لاکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دنیا کو دیا.مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کامریض جب ٹھنڈاپانی پیتاہے تواسے بڑاآرام محسوس ہوتاہے.مگردومنٹ کے بعدیکدم اس کابخار تیز ہو جاتا ہے.اورکہتاہے ’’آگ لگ گئی ‘‘پھر برف پیتاہے.اورسمجھتاہے کہ آرام آگیا مگریکدم پھر اسے بے چینی شروع ہوجاتی ہے.پس سوال ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوامن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے :وَ اللّٰهُ يَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ(یونس : ۲۶)کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ ہی کے لئے نہیں.بلکہ وہ ایک ایساامن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتاچلاجاتاہے اورجواس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ
دیتاہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویایہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے.اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے اس کے حال میں امن ہے کیونکہ ایک مدرسئہ امن جاری ہوگیاہے اورایک مدرّسِ امن خدا تعالیٰ نے بھیج کر امن کاکورس بھی مقررکردیا.اورعملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کردی جو اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا کی مصداق ہے.پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اوراس کے حاضر میں بھی امن ہے.پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے.کیونکہ وَ اللّٰهُ يَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ مرنے کے بعدوہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا.جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی.پس یہ ساری زنجیر مکمل ہوگئی اورکوئی جزو تشنئہ تکمیل نہ رہا.اس کے بعدقیام امن کے ذرائع کاسوال آتا ہے.سواس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتااور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرماتا ہے کہ وَکَیْفَ اَخَافُ مَآاَشْرَکْتُمْ وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا.فَاَ یُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ.اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.(الانعام : ۸۲) یعنی میرے دل کاامن ان بتوں کودیکھ کر کس طر ح برباد ہوجائے جن کو تم خدائے واحدکا شریک قراردے رہے ہو.وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طورپر مطمئن ہو.خطرہ تمہارے ارد گرد ہے.پس اگر تم عدمِ علم اورجہالت کے باوجود مطمئن ہو اور تمہاراعدم علم تم کوامن دے سکتاہے توتم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا.فَاَ یُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ تم بتائوان دونوں میں سے کس کو امن حاصل ہوگا؟اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اورعقل و خرد سے کام لو تو تم سمجھ سکتے ہوکہ کو ن مامون ہے اورکون غیر مامون.اس جگہ امن کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوعظیم الشان گُر بیان کئے ہیں.اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا.کیونکہ جب تک توحید قائم نہ ہوگی اس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی.شرک کاصرف اتنا ہی مفہوم نہیں کہ کوئی ایک کی بجائے تین خدائوں کا قائل ہو.بلکہ جب باریک در باریک رنگ میں شرک شروع ہوتاہے توکئی قسم کا شرک نظر آ نے لگ جاتاہے.اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس حالت میں امن اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوسکتا جب تک لوگوں کے اند رحقیقی مواخات پیدانہ ہو اورحقیقی مواخات ایک خداکے بغیر نہیں ہوسکتی.دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہوجاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرادادافلاں عظمت کا مالک تھا اوردوسراکہتاہے میراداداایساتھا.مگر کبھی تم نے بھائیوںکو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اور تم نہیں.اسی طرح جب دنیا میں توحید کامل ہوگی.تبھی
اس قسم کی لڑائیاںبند ہوں گی پس اخوت و مساوات کاجوسبق توحید سے حاصل ہوتاہے اَورکسی طرح حاصل نہیں ہوسکتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق دشمن بھی یہ ا قرار کرتاہے کہ اخوت کا جو سبق آپؐ نے دیا اور کسی نے نہیں دیا(MOHAMAD AND TEACHINGS OF QURAN p 114).حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کاسبق الگ کرکے نہیں دیابلکہ آپ نے اصل میں توحید کاسبق دیاجس کالازمی نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں میں اخوت پیداہوگئی.مثلاً جب مَیں نماز میں کہوں اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سب تعریف اسی اللہ کی ہے جوعیسائیوں کا بھی رب ہے.ہندوئوں کا بھی رب ہے یہودیوںکا بھی رب ہے.تومیرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہوسکتی ہے.جبکہ میں رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے لفظ کے نیچے تمام قوموں اور تمام نسلوں کو لے آتاہوں.میں جب نماز میں اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتا ہوں تو تودوسرے الفاظ میں میںیہ کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْمَذَاھِبِ کُلِّھَا.یعنی میں ا س خدا کی تعریف کرتاہوں جو تمام مذاہب کارب ہے.اسی طرح جب میں اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتا ہوں تو ا س کے معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْاَقْوَامِ کُلِّھَا یعنی میں اس خدا کی تعریف کرتاہوں جوتمام اقوام کا رب ہے اسی طرح جب مَیں اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتا ہوں تواس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْبِلَادِ کُلِّھَا یعنی میں اس خدا کی تعریف کرتاہوں جو تمام ملکوں کارب ہے.اورجب کہ میں تمام اقوام.تما م ملکوںاور تمام لوگوں میں حسن تسلیم کروںگا تویہ ممکن ہی نہیں کہ میں ان سے عداوت رکھ سکوں.پس اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں بتادیاگیاہے کہ اگر حقیقی توحید قائم ہواوررب العالمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تویہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اور ایک طر ف تووہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اوردوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اورتعریف بھی کرے.دوسرانکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایا ہے کہ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتاہے.جب انسان فطرتی مذہب کو چھو ڑکررسم و رواج کے پیچھے چل پڑتا ہے.اگرانسان طبعی اورفطرتی باتوں پر قائم رہے توکبھی لڑائیاں اورجھگڑے نہ ہوں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسلام دین فطرت ہے اورحقیقت یہی ہے کہ جو دین فطرت ہو گا.وہی دنیا میں امن قائم کرسکے گا اور وہی مذہب امن پھیلاسکے گا جس کاایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں ہو.آخر یہ ہوکس طرح سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس تعلیم کی طرف بلائے جس کا جواب ہماری فطرت میں نہیں اورجس کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدا نے ہمارے دماغ اورہمارے ذہن میں نہیں رکھا.پس فرمایامَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا تم کہہ دو کہ تم ان تعلیمو ں کے پیچھے چل
رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور میں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتاہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں.اب جوںجوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گااس کادل پکار اُٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتاب ہے و ہ بالکل سچی ہے.کیونکہ ا س کادوسرانسخہ میرے ذہن میں بھی ہے.اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آجائے گی اورایک ہی خیال پر متحد ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں امن قائم ہوجائے گا.اب ایک اورسوال باقی ر ہ جاتاہے اوروہ یہ کہ بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدرّسِ امن ہیں.بےشک آپؐ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کردیا بے شک امن کا کورس خدا نے مقرر کردیا.بیشک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اورجسے دیکھ کر انسانی فطرت پکار اٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے.مگر کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کابھی جواب دیتا اورفرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(البقرة : ۲۵۲)کہ بیشک امن ایک قیمتی چیز ہے.بے شک ا س کی تعلیم خدا نے انسانی دماغ میں رکھی ہے.مگرکبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہو جاتا ہے اورانسانی عقیدے مرکز سے اتنے پر ے ہٹ جاتے ہیں.کہ وہ امن سے بالکل دورجاپڑتے ہیں.اورنہ صرف امن سے دورجا پڑتے ہیں بلکہ حرّیتِ ضمیر کوبھی باطل کرناچاہتے ہیں.فرماتا ہے ایسی حالت میں امن کے قیام اوراس کو وسعت دینے کے لئے ضروری ہوتاہے کہ جو شرارتی ہیں ان کامقابلہ کیاجائے پس وہ جنگ امن ہٹانے کے لئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کے لئے ہوگی.جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سڑ گل جائے تو فیس خرچ کرکے بھی انسان ڈاکٹرسے کہتاہے کہ اس عضو کو کاٹ دو.اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیداہوجاتے ہیں جو سرطان اورکینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں.اورضروری ہوتاہے کہ ان کا اپریشن کیا جائے تاو ہ باقی حصہ قوم کو بھی گند ہ اورناپاک نہ کردیں.پس فرمایا وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ.اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوںکو دور نہ کرتا تو لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ.بجائے امن قائم ہونے کے فساد بڑھ جاتا.جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حکم دیاجاتاہے.اسی طرح فرمایا.بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوںکو اجازت دیتے اورانہیں کہتے ہیں جائو اورلاٹھی چار ج کرو اس لئے کہ لَفَسَدَتِ الْاَرْضُ اگر لاٹھی چارج نہ کیاجاتا.توساری دنیا کاامن برباد ہوجاتا.وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ لیکن اللہ تعالیٰ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دیناچاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو باامن دیکھنے کاخواہشمند ہے.اور چونکہ ان لوگوں سے دنیا کاامن برباد ہوتاہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے.تاساری دنیا میں امن قائم ہو.بیشک اس
کے نتیجہ میں خود ان لوگوںکا امن مٹ جائے گا.مگر دنیا میں ہمیشہ مواز نہ کیا جاتاہے.جب ایک بڑافائدہ چھوٹے فائدہ سے ٹکرا جائے تو اس وقت بڑے فائدے کولے لیاجاتا اورچھو ٹے فائدہ کو قربان کردیاجاتاہے.اسی طرح کثیر حصہء دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اوراس وقت تک اسے نہیں چھوڑاجاتا جب تک وہ خلاف امن حرکات سے باز نہ آجائے.یہ ایک مختصر ساڈھا نچہ اس تعلیم کاہے جو اسلا م نے قیام امن کے سلسلہ میں دی.اس سے ہرشخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام نے کس جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیاہے جبکہ باقی مذاہب اس مسئلہ پر بالکل خاموش ہیں اورانہوں نے نسل انسانی کی کوئی راہنمائی نہیں کی.صرف یہ کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے توتم اپنادوسراگال بھی اس کی طرف پھیر دو.اگر کو ئی شخص تم سے قمیص مانگے تواسے چوغہ بھی اتار دو.اگر کوئی شخص تمہیں ایک کوس بیگار میں لے جاناچاہے توتم دوکوس چلے جائو.(متی باب ۵آیت ۳۹تا ۴۱)بین الاقوامی مشکلات کاکوئی حل نہیں کہلا سکتا.اورنہ عیسائیت اوریہودیت صرف اس تعلیم پر عمل کرکے کبھی دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے.بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس تعلیم پر عمل امن نہیں بلکہ بد امنی پیداکرنے کاموجب ہے.اگر کوئی شخص ایک کوس پر اپنے گھر کاسامان لے جاناچاہتاہے.اورایک مزدورکو وہ زبردستی پکڑ لیتا ہے تومسیحیت کہتی ہے کہ اے مزدور پکڑاجااورمقابلہ نہ کر.مگرجب اس کاگھر آجا ئے تووہاں ٹھہر نہیں بلکہ ایک کوس اورآگے چلا جا.اب بتائو اس تعلیم پر عمل کرکے کس کو امن ملا.دوسرے شخص کو خود اسباب اٹھاکرواپس لاناپڑے گا اورمزدورکو ایک کوس زائد بوجھ اٹھا ناپڑے گا.گویا دونوںکو بدامنی ملی.امن نہ ملا.امن صرف اسی تعلیم پر عمل کرکے قائم ہو سکتا ہے جو اسلام نے پیش کی ہے.کیونکہ اسلام ایک کتاب مبین پیش کرتاہے جواپنے تمام احکام پر بالتفصیل روشنی ڈالنے والی ہے اورجس کامقابلہ نہ تورات کرسکتی ہے نہ انجیل کرسکتی ہے.نہ ژند واوستاکرسکتے ہیں اورنہ دنیا کی کو ئی اورکتاب یاصحیفہ کرسکتاہے.کِتَابٌ مُّبِیْن کے ذکر میں اس امر کابیان کردینا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی شناخت کاانحصار صرف ظاہری دلائل اوربراہین پرہی نہیں رکھا بلکہ اس نے کتاب مبین کی سچائی کے لئے ایک اَورکتاب بھی تیار کی ہوئی ہے جسے قرآنی اصطلاح میں کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ کہاجاتاہے.کتاب مکنون کی مثال اس پانی کی سی ہے جوزمین کے اند رمخفی ہوتاہے اورکتاب مبین کی مثال نہروں،دریائوں اورچشموں کے پانی کی سی ہے جو ظاہر ہوتاہے.جس طرح نہروں اوردریائو ں یا بادلوں کے پانی کی وجہ سے کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتا
ہے.اسی طرح کتا ب مبین کی آمدپر کتاب مکنون بھی اپنے خزانے اگلنے لگتی ہے.اورجب کتاب مبین کاپانی برسنا بند ہوجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے.کتاب مکنون سے مراد فطرت صحیحہ اورضمیر ہے اورکتاب مبین خدا تعالیٰ کاتازہ الہام ہے.اورکتاب مبین کی سچائی کاثبوت یہ ہوتاہے کہ وہ کتاب مکنون کے مطابق ہو گویا اصل میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی کل کے ہیں جسے کتاب مطلق کہنا چاہیے اورجب کتاب مکنون اورکتاب مبین کااتحاد ہوجائے توسمجھ لینا چاہیے کہ وہ کتاب مبین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.گویاکہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوںکو دھوکے سے بچانے کے لئے اپنی کتاب کا ایک ٹکڑا ان کے دلوں اوردماغوں میں بھی رکھ دیاہے.تاکہ جو کتاب اس کے مطابق ہو وہ اس کی سمجھی جائے اورجو اس کے مطابق نہ ہو وہ جھوٹی قرار پائے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ۱۹۲۴ء میں مَیں جب ولایت سے واپس آرہاتھاتوجہاز کا ایک انجینئر مجھے علیحدگی میں لے گیا.اورکہنے لگاآپ کے ولایت جانے کے لئے تبلیغ تو ایک بہانہ ہے آپ کسی اَوراہم کام کو سرانجام دینے کے لئے گئے ہوں گے.میںنے کہا.ہم تو صرف تبلیغ کے لئے ہی گئے تھے اس کے علاوہ اورکوئی کام ہمارے مدنظر نہ تھا.مگر چونکہ اس کے دل میں یہی جم چکاتھا کہ کسی اورکام کے لئے گئے تھے اورتبلیغ کو آڑ بنالیاتھا وہ کہنے لگا کہ آپ توانگریزوں کے خلاف کسی قسم کی کوشش کرنے گئے ہوں گے اورآپ کا یہ ظاہر کرنا کہ ہم تبلیغ کے لئے گئے تھے ایک بہانہ ہے.میں نے پھر اسے وہی جواب دیاکہ تبلیغ کے سواہمار اکو ئی اورمدعانہ تھا.مگر وہ اپنی دھن میں یہی کہتا رہا کہ تبلیغ تو صرف بہانہ ہے.اس کے بعد وہ کہنے لگا.میں اپنی خدمات آپ کے پیش کرتاہوں.آپ میرے سپر دکوئی کام کریں.اوراگرآپ نے اپنے نمائندوںکو کسی قسم کی مخفی ہدایات پہنچانی ہوں تومیں اس کا م کوبخوبی سرانجام دے سکوں گا اوربڑی حفاظت سے ان تک پہنچا دیاکروں گا.اس کے بعداس نے مزید اعتبار جمانے کے لئے ایک وزیٹنگ کارڈ VISITING CARD نکالااوراس کے دوٹکڑے پھاڑ کرکہا.جب آپ مجھے اس قسم کی ہدایات پرمشتمل خط بھیجیں تووزیٹنگ کارڈ کا نصف حصہ اس کے ساتھ مجھے بھیج دیں اوردوسرانصف حصہ اپنے اس نمائندہ کو جس کو وہ خط پہنچاناہوبھیجدیاکریں وہ نمائندہ جب وہ نصف وزیٹنگ کار ڈ دکھا کر مجھ سے آپ کے مخفی خط کا مطالبہ کرے گا تومیں اس کے نصف وزیٹنگ کارڈ کو اپنے والے نصف کے ساتھ ملاکر دیکھ لوں گا.اوراگر وہ دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے تومیں سمجھ جائو ں گا کہ یہ خط اسی کو دینا ہے.پھر اس نے مثال دی کہ فرض کرو میں آپ کا خط لے کر وینس میں پہنچا اوروہاں دیکھا کہ ایک ہندوستانی شخص میرے انتظار میں کھڑا ہے وہ جب اپنی جیب سے وہ نصف کارڈ نکال کر مجھے دکھائے گا تومیں اپنے وزیٹنگ کارڈ سے ملا کردیکھو ں گا.اگر مل گیاتو آپ کا خط اس کو پہنچا دوں گا.یہ مثال تو اس انجینئر نے اپنی اس غلط فہمی کی بناپر
دی تھی کہ ہم انگریزوں کے خلاف کسی قسم کی سازش کرنے گئے تھے.لیکن اتنی بات بالکل درست ہے کہ جب کسی کارڈ کے دوحصے آپس میں فٹ آجائیں تواس کارڈ کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں رہی.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کا ایک حصہ انسان کے ضمیر میں رکھ دیاہے اورجب وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں توکتاب مبین کی صداقت بالکل واضح ہوجاتی ہے.مگرجس طرح بارش نہ ہونے پر کنوئوں کے پانی بھی سوکھنے لگتے ہیں.اسی طرح کتاب مکنون اس وقت تک کام دیتی ہے جب تک کتاب مبین کاپانی برستارہے.جب فترۃ کا زمانہ آجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے.گویادونوں کی مثال دودوستوں اورمحبّوں کی سی ہے کہ جب ایک قریب آتاہے تو دوسرابھی قریب آجاتاہے اورجب ایک دور چلاجاتاہے تودوسرابھی دورچلاجاتاہے.جب کتاب مکنون کسی شخص کی اپنی جِلاکی وجہ سے نمایاں ہونے لگتی ہے اوراس کامالک اپنی ذکاوت کی وجہ سے اس کے مطابق اعمال کرکے اسے اورزیادہ مصفّٰی کر دیتاہے تو معاً کتاب مبین یعنی الہام الٰہی اس پر نازل ہونے لگتاہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ( النور: ۳۶)یعنی فطرت مبارکہ محمدیہ ایسی مصفّٰی اورپاکیز ہ تھی کہ قریب تھاکہ خود بخود بغیر آگ کے جل اٹھتی یعنی بغیر اس کے کہ آسمانی آگ اس کو چھوتی وہ آپ ہی آپ دقائق اورمعرفت کو پالیتی.کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب اس اندرونی تیل میں التہاب پیدا ہونے لگے توآسمانی آگ کووہ خود بخود جذب کرلیتا ہے.غرض ان دونوں کتابوں کا عجیب جوڑ ہے کہ ایک کے قریب ہونے سے دوسری بھی قریب ہوجاتی ہے.فطرت صحیح ہوتی ہے تووہ الہام کو کھینچ لیتی ہے اورالہام کی روشنی کسی کو نصیب ہوجائے.تواس کی فطرت کے صحیح جذبات ابھر آتے ہیں.اوردونوں میں لازم و ملزوم والی لذت پیدا ہوجاتی ہے.اسی طرح جب کتاب مکنون مٹ جائے توکتاب مبین بھی نصیب نہیں ہوتی اورجب کتاب مبین سے انسان محروم ہوجائے توکتا ب مکنون بھی مٹ جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ایمان کامل کبھی خالی فطرت کے غورسے حاصل نہیں ہوسکتا.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کامل ہوتو الہام کامل اس سے جداہی نہیں رہ سکتا.وہ فوراً اس پر اسی طرح آگرتاہے جس طرح وائرلیس کے صحیح آلہ پر خود بخود خبر گرنے لگتی ہے یاجوازبِ بجلی پر بجلی.غرض الہام اورفطر ت صحیحہ ایک جوہرکے دوٹکڑے ہیں اوران کو الگ الگ سمجھنا سخت نادانی اوربے وقوفی ہے.فطرت صحیحہ اورجذبات متناسب کے نتیجہ میں ہی عشق الٰہی کی آگ بھڑکاکرتی ہے جوکلام کوکھینچ لیتی ہے اوروصال کو آسان کردیتی ہے.پس صحیح اورآسمانی کلام وہی ہو سکتا ہے جس کو فطرت صحیحہ اورجذبات سے کامل اتصال ہو اور بجائے جذبات کومارنے کے وہ ان کو صحیح طورپرابھارے اورفطرت صحیحہ اس کی تصدیق کرے کہ ہاں یہ کلام میرے
جسم کادوسراٹکڑہ ہے اورفوراًاس کی طرف لپک پڑے.اس کے مقابلہ میں جو کلام فطرت صحیحہ کو مارنے کی کوشش کرتاہے و ہ یقیناً کتاب مکنون کے مخالف چلتاہے اورخواہ منہ اس کی کس قدر ہی تصدیق کریں دل اس پر مطمئن نہیں ہوسکتے اوروہ ضرور اپنے مقصد کے پوراکرنے میں ناکام رہتاہے.کیونکہ وہ نصف دھڑ کی طرح ہے یامجرّد نرہے کہ جو بغیر مادہ کے بچہ نہیں دے سکتا.غرض قرآن کریم کویہ ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے کہ وہ کتاب مبین بھی ہے اورفطرت صحیحہ انسانیہ میں بھی یہ کتاب موجود ہے.یعنی اس کاکوئی حکم انسانی فطرت کے مغائر نہیں.لیکن چونکہ بغیر آسمانی مدد کے فطرت صحیحہ کے باریک خزائن کا بھی اظہار نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ تعالیٰ کتاب مبین اتارتاہے تاکہ اس کے ذریعہ سے کتاب مکنون کاظہور ہو.اورکتاب مکنون کے ذریعہ سے کتاب مبین کی لوگوںکو شناخت ہو.اسی حقیقت کو صلحاء نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ یعنی دقائق فطرت کو سمجھنے سے ہی انسان کو خداملتاہے.مگریہ فقرہ ناقص ہے اورشعرکاصرف ایک مصرعہ ہے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایاہے کہ عرفانِ نفس سے خداملتاہے لیکن خدا تعالیٰ کے کلام کے بغیر عرفان نفس بھی حاصل نہیں ہوتا.گویاانسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھی کتاب مبین کا محتاج ہے اوریہ دونوں چیز یں ایک دوسرے سے وابستہ اورپیوستہ ہیں.پھر فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ اے محمدؐ رسول اللہ!یہ عظیم الشان کلام جو ہم نے تجھ پر نازل کیاہے اسے لوگوں تک پہنچانے اورانہیں اس لازوال دولت سے متمتع کرنے کے لئے تیرے دل میں بنی نوع انسان کی ہدایت کی اتنی شدید تڑپ پائی جاتی ہے کہ شاید تواپنی جان کو اسی غم میں ہلاک کرلے گا کہ کیوں یہ لوگ اس کتاب مبین پر ایما ن نہیں لاتے جوان کی دنیوی اوراُخروی بہبود کے لئے نازل کی گئی ہے اورجس میں ان کی تمام روحانی اور جسمانی ترقیات کے راز مضمر ہیں.بَخَعَ کے معنے ہوتے ہیں.اس طرح چھری پھیر ی کہ گردن کے پچھلے حصے تک پہنچ گئی.گویاذبح کرنے میں مبالغہ اورسختی سے کام لیا.ان معنوں کومد نظر رکھتے ہوئے ا س آیت میں یہ اشارہ کیاگیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہے تھے.اوران کے ہدایت نہ پانے کو اس طرح محسوس کررہے تھے جس طرح جوش سے بھرا ہوا انسان آگے سے چھری پھیرنا شروع کرتاہے توگردن کے پچھلے حصہ تک کا ٹ جاتاہے.دنیا میں اب تک ہزاروں انبیاء گذرے ہیں.مگر بنی نوع انسان کی محبت کایہ مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوااور کسی کو نصیب نہیں ہوا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جہاں ایک طرف عقل و خرد کی بہترین مثال ہے وہاں اس کے ذریعہ جذبات کابھی نہایت پاکیز ہ طورپر ظہور ہواہے اوریہ جذباتی تمثال حقیقتاً اس نہایت لطیف شعر کا مصداق
ہے کہ ؎ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدئہ عالم دوامِ ما (دیوان حافظ شیرازی فارسی صفحہ ۸) دنیا میں خالی عقل نے کبھی زندگی نہیں پائی.زندگی ہمیشہ عشق نے پائی ہے.جذبات نے پائی ہے.دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر اورعاشق گذرے ہیں لیکن جو حکومت عشاق نے لوگوں کے دلوں پر کی وہ فلاسفروں کو حاصل نہیںہوئی.انبیاء میں حقیقی عشق کی جومثالیں ہیں انہیں نظر اندا زکردو اورمجاز ی عشق ہی کو لے لو.کتنے آدمی ہیں جو ارسطویاافلاطون کی باتوںکو جانتے ہیں یاان کانام بھی جانتے ہیں.مگر کتنے ہیں جومجنوں اورلیلیٰ کو جانتے ہیں اورکتنے ہیں جوان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کوئی شہر یا قصبہ ایسانہ ہوگا جہاں شاعرنہ ہوں اوریہ شاعرکون ہیں.لیلیٰ اورمجنوں کے شاگرد.اوران میں سے ان شاعروں کو الگ کرکے جن کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں علیحدہ کردیاہے اورجودین کی خدمت یاخدا تعالیٰ کویاد کرنے کے لئے شعرلکھتے ہیں.باقی تما م وہی ہیں جو لیلیٰ مجنوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں.اگرچہ وہ لیلیٰ اورمجنوں نہیں ہوتے لیکن تم جس وقت ان کا کلام سنو گے توایسامعلوم ہوگا گویاانہوں نے کبھی کھاناہی نہیں کھایا.کبھی تکیہ سے سر نہیں اٹھایا کہ ساری رات ان کی آنکھیں نہ کھلی رہی ہوں اوران کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں.جگر اوردل ان کے جسم میں ہے ہی نہیں.مدتیں ہوئیں کچھ خون بن کر اور کچھ پانی بن کر بہہ چکا ہے اوروہ جیتا جاگتا وجود جوتمہارے سامنے بیٹھاہوگاکئی دفعہ مرااور دفن ہوچکا اوراس کے معشوق نے آکر اس کی قبر کو ٹھکرادیا.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ لیلیٰ اورمجنوں کو بھی عشق میں پیچھے چھوڑناچاہتا ہے.توجتنے دلوں پر عشق نے قبضہ کیاہے عقل نے نہیں کیا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عقل کے میدان میں ہی اپنی برتری ثابت نہیں کی بلکہ جذبات کے میدان میں بھی و ہ سب عاشقوں سے آگے بڑ ھ گیاحتیّٰ کہ کوئی بھی عاشق عشق میں اس کامقابلہ نہیں کرسکتا.خدا تعالیٰ کے عشق کو جانے دو کیونکہ وہ تمام لوگوںکی رسائی سے بالاہوتاہے.انسانی عشق کو لے لو.مجنوں کیا تھا ایک عورت کاعاشق تھا اس کاعشق باغرض تھا وہ اس سے متمتّع ہوناچاہتا تھا.اس کے حسن سے فائدہ اٹھاناچاہتاتھا مگراس کے مقابلہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق جو دنیا سے تھا وہ کسی فائدہ کی غرض سے نہ تھا.تمتّع کے خیال سے نہ تھا اورپھر وہ ایک دوسے نہیںدوستوں اور پیاروں سے نہیں حسینوں سے نہیں بلکہ سب سے تھا اور بدصورتوں سے اَوربھی زیادہ تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ.
اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم)شاید تواپنی جان کو ہلاک کردے گا ان خوبصورتوں کے لئے نہیں جنہوں نے ابو بکرؓ اورعمرؓ کی طرح ایمان لاکر اپنے چہروںکو منورکرلیاتھا بلکہ ان بدصورت اوربھونڈی شکل کے لوگوں کے لئے جنہیں دیکھ کر گھِن آتی تھی.جنہیں دیکھ کر روحانی شخص کو متلی ہونے لگتی تھی جیسے عتبہ اورشیبہ اورابوجہل وغیرہ توان کے عشق میں مراجاتاتھا کہ کیوں ان کو فائدہ نہیں پہنچاسکتا.مجنوں کاعشق اس کے مقابلہ میں کیاہے.اس نے اس سے محبت کی جس کی شکل اسے پسندتھی.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق ان لوگوں سے بھی تھا جن کی روحانی شکل آپ کوناپسند تھی.پھر اس کاعشق کسی ایک سے نہیں ساری دنیا سے وابستہ تھا.صرف اس زمانہ کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ آئندہ زمانوں سے بھی جیسا کہ فرمایا.وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّایَلْحَقُوْابِھِمْ (الجمعة: ۴)یعنی محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانانہیں چاہتابلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اپنے دامن فیض کو ممتد کرناچاہتاہے.پس غور کرو جذباتی دنیا میں اس کاوجود کتنا عظیم الشان ہے.ا س کے عشق کی انتہا ہی نہیں.وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ سلگاتاہے.پھراس سے آسمانوں کی طرف پرواز کرتاہے اوراس کی روح خداکے آستانہ پر گرجاتی ہے اوراس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے چنگاری لیتی ہے گویامحدود محبت غیر محدود محبت کو کھینچتی ہے اورپھر دنیا میں آتی ہے اوربعینہٖ اسی طرح جس طرح مشرق سے نکل کر آفتاب کی شعاعیں روئے زمین پرپھیلنی شروع ہوجاتی ہیں اس کی محبت بھی پھیلتی ہے.مشرق و مغرب.گورے اور کالے.خوبصورت اور بدصورت سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے.پھر وہ مکان کی حدبندیوںکو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے اورصدیوں کے بعد صدیاں گذر تی ہیں مگر وہ محبت ختم نہیں ہوتی اورنہ ہوگی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی صف لپیٹ دے.اور بنی نوع انسان کو دنیا سے اٹھالے.یوں توہرنیک بندے پر محبت کے ایام کبھی کبھی آتے ہیں.حضرت نظام الدین ؒصاحب اولیاء کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں ایک خوبصورت لڑکا گذرا.آپ نے آگے بڑھ کر اس کامنہ چوم لیا.اس پر شاگردوں نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کردیا کہ شاید اس میں جلوئہ الٰہی ہو.ایک شاگرد جو آپ کے خاص منظور نظر تھے انہوںنے ایسانہ کیا.باقیوں نے ا س پر چہ مگوئیاں شروع کردیں.آگے چلے تو ایک بھٹیاری بھٹی میں آگ جلارہی تھی اورپتوں کی آگ کے شعلے نکل رہے تھے جوایک خوبصورت نظارہ پیش کررہے تھے.آپ کھڑے ہوکر اسے دیکھتے رہے پھرجھکے اورشعلے کو بوسہ دیا.اس وقت ا س شاگرد نے بھی شعلہ کو چوما.جس نے لڑکے کو نہیں چوماتھا.لیکن باقی شاگرد کھڑ ے رہے او رکسی کو جرأت نہ ہوئی.اس پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے
خوبصورت بچے کو چوما تھا کیونکہ چھوٹابچہ سب کوپیارالگتاہے.حالانکہ خواجہ صاحب ؒ کواس میں خدا کاجلوہ نظر آیاتھا.اس لئے انہوں نے اسے چوما تھا.لیکن مجھے چونکہ نظر نہ آیا.اس لئے میں نے نہ چوما.اب اس آگ میں مجھے خدا کا جلوہ نظر آیا اورمیں نے اسے چوم لیا اوریہاں آپ کی اتباع کی.لیکن وہاں میری آنکھیں نہ کھلیں اس لئے نہ کی.لیکن تم نے ہواوہوس کے ماتحت بچہ کو چوماتھاتووقتی طورپر ہر بزرگ پرایساوقت آتاہے کہ بنی نوع انسان کی محبت سے وہ لبریز ہو جاتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وقتی نہ تھی اورآپ کی روح اور جسم کا ایک حصہ تھی جس کا پتہ اس سے لگتاہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت آیا توآپ کی زبان پر یہ الفا ظ تھے.کہ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَیٰ اِتَّخَذُوْاقُبُوْرَاَنْبِیَاءِھُمْ مَسَاجِدَ.(مسلم کتاب المساجدباب النھی عن بناء المسجد علی القبور) یعنی خدایہود اورنصاریٰ پرلعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.گویاآپ کے دل میں تڑپ تھی کہ یہود اورنصاریٰ کیو ں اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں اورپھر اپنے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسانہ کریں.گویاسکرات موت کے وقت بھی آپؐ کے اند رمسلمانوںاورکفار دونوں کی محبت کاجلوہ تھا.ایک طرف یہود اور نصاریٰ کو شرک سے بچانے کا درد تھا.دوسر ی طرف یہ درد تھا کہ یہی غلطی میرے ماننے والے بھی نہ کریں.غرض آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لئے ہمدردی رکھتے تھے.احادیث میں آتاہے کہ پہلے زمانوں میں خدا تعالیٰ کادین قبول کرنے والوں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیاجاتاتھا اوروہ اُف تک نہیں کرتے تھے.(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة فی الاسلام).لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سال نہیں دوسال نہیں تین سال نہیں دس سال نہیں متواتر وفات تک آرے چلتے رہے اورآپؐ نے اس قد ردکھ اٹھائے کہ زمین و آسمان کے خدا کو یہ کہنا پڑاکہ توتواس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہاہے کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر سب گنہگاروں کا کفار ہ اداکردیاتھا(رومیوں باب ۵ آیت ۲ تا ۸).مگر مسیح کوتوساری عمر میں صرف وہی ایک واقعہ پیش آیا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں لوگوں کے لئے صلیب پر چڑھے اورآپ نے ان کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں موتیں قبول کیں.یہی وجہ ہے کہ وہ الفاظ جو اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں نہ نوح ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں.نہ ابراہیمؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں.نہ موسیٰ ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں.نہ دائود ؑ اورسلیمانؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں.نہ عیسیٰ ؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں.صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ا ستعمال کئے گئے ہیں.کیونکہ دنیا کی اصلاح اوران کی
ہدایت کاجوغم آپ کوتھا وہ دنیا میں اَورکسی نبی کو نہیں تھا.چنانچہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں توہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتاہے اورہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جوآپ کی اس عظیم الشان محبت اورشفقت کاثبو ت ہیںجو آپ کوبنی نوع انسان سے تھی.چنانچہ آپ کو خدائے واحد کاپیغام پہنچانے کے لئے سالہاسال تک ایسی تکالیف میں سے گذرناپڑا کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں.ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپؐ کی آنکھیں سرخ ہوکر باہرنکل پڑیں.حضرت ابوبکرؓ نے سناتو وہ دوڑے ہوئے آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورآپ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا خدا کاخوف کرو.کیاتم ایک شخص پر اس لئے ظلم کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ خدامیرارب ہے (بخاری کتاب المناقب مناقب ابی بکرؓ).ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک چٹان پر بیٹھے کچھ گہری فکر میںتھے کہ اچانک ابو جہل آنکلا.اوراس نے آتے ہی آپؐ کو تھپڑ مارا اورپھر گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کردیں.آپؐ نے تھپڑ بھی کھالیا اورگالیاں بھی سنتے رہے مگر آپ نے زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا.جب وہ گالیاں دے کر چلا گیا توآپ خاموشی سے اٹھے اوراپنے گھر تشریف لے گئے.حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی اپنے گھر میں سے دروازہ میں کھڑی یہ سارانظارہ دیکھ رہی تھی.حمزہؓ اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے وہ سپاہی آدمی تھے اورسارادن شکار میں لگے رہتے تھے اورشام کے وقت اپنے گھر آتے تھے اس روز بھی وہ شام کے وقت سینہ تان کر بڑے زورزورسے پیر مارتے اورہاتھ میں تیر کما ن پکڑے اوپچی بنے ہوئے گھر میں داخل ہوئے.وہ لونڈی گھر کی پرانی خادمہ تھی اورپرانے نوکر بھی رشتہ داروں کی طرح ہوتے ہیں.صبح سے وہ اپنا غصہ دبائے بیٹھی تھی جب اس نے حمزہؓ کودیکھا توبڑے جوش سے کہنے لگی.تمہیں شرم نہیں آتی تیر کمان لئے جانو رمارتے پھرتے ہو.تمہیں پتہ ہے کہ صبح تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیاہوا؟حمزہؓ نے کہا.کیاہوا؟اس نے کہا.میں درواز ہ میں کھڑی تھی.تمہارابھتیجاسامنے پتھر پر آرام سے بیٹھاتھا اور کچھ سوچ رہاتھا کہ اتنے میں ابو جہل آیا اوراس نے پہلے تو اس کو تھپڑ مارا.اورپھر بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کردیں.پھر اس نے اپنے زنانہ انداز میں کہا.اس نے ابو جہل کو کچھ بھی تونہیں کہاتھا.کوئی بات اس نے نہیں کی تھی جس کی وجہ سے ابوجہل کو غصہ آتا.مگر پھر بھی وہ گالیاں دیتاگیا اوردیتاگیا.اور تمہارابھتیجاچپ کرکے سامنے کی طرف دیکھتارہا.اوراس نے ان کاکوئی جواب نہ دیا.ایک عورت اورپھر خادمہ کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہؓ کی غیرت جوش میں آئی اورخانہ کعبہ کی طرف چل پڑے.رؤساء مکہ کاطریق تھا کہ شام کے وقت وہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنی بڑائیاں بیان کرتے اورلوگ
ان کی تعریف کرتے.تمام رؤساء بیٹھے ہوئے تھے اورابوجہل بھی ان میں موجود تھا کہ حمزہؓ گئے اورانہوں نے وہی کمان جو ان کے ہاتھ میں تھی.ابوجہل کے منہ پر ماری اورکہا میں نے سناہے تم نے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کومارابھی ہے اورگالیاںبھی دی ہیں اورمیں نے سناہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے کوئی لفظ تم کونہیں کہاتھا جس کے بدلہ میں تم گالیاں دیتے.پھر حمزہؓ نے کہا تم بہادر بنے پھر تے ہو.اورجو چپ کرجاتاہے اس پر ظلم اورتعدّی کرتے ہو.اب میں نے سارے مکہ کے سامنے تمہیں ماراہے اگر تم میں ہمت ہے تومجھے مار کردیکھو.مکہ کے نوجوان حمزہؓ کو پکڑنے کے لئے اٹھے.مگرابو جہل پر ان کاایسارعب طاری ہواکہ اس نے کہاجانے دو.صبح مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہوگئی تھی.(السیرۃ الحلبیہ باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم......) ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میںنماز پڑھ رہے تھے.جب آپ سجدہ میں گئے توبعض شریروں نے آپؐ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لاکر رکھ دی اور چونکہ وہ بڑی بھاری تھی آپ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکے.حضرت فاطمہ ؓ کو اس بات کاعلم ہواتووہ روتی ہوئی آئیں.اورانہوں نے آپؐ کی پیٹھ پرسے اوجھری ہٹائی(بخاری کتاب الوضوء باب اذاألقیٰ علی ظہر المصلّی قذراوجیفۃ لم تفسد علیہ صلوٰتہٗ) ایک دفعہ آپؐ بازار سے گذر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپؐ کے گرد ہوگئی اوررستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی.کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتاہے کہ میں نبی ہوں.آپؐ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے.باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں.جن میں بکریوں اوراونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں.( السیرة الحلبیة باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ فی دارالارقم)جب آپ نماز پڑھتے توآپؐ کے اوپر گردوغبار ڈالی جاتی.حتیّٰ کہ مجبور ہوکر آپؐ کو چٹان میں سے نکلے ہو ئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی.(الطبری جلد ۲ صفحہ ۳۴۳)مگر اس کے باوجود آپ خدائے واحدکانام بلند کرتے چلے گئے اوران لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہے.جب مکہ والوں نے دیکھا کہ ہمارے یہ مظالم بھی اس شخص کے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں کرسکے تو انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کا کلّی طورپر مقاطعہ کردیا.اور انہیں شعب ابی طالب میں محصور کردیا.اور فیصلہ کیا کہ کوئی شخص ان کے پاس سودا فروخت نہ کرے اور نہ ان سے لین دین کرے اور برابر تین سال تک انہوں نے آپ کا مقاطعہ جاری رکھا.ان ایا م میںصحابہؓ کو ایسی تکلیف سے اپنے دن بسر کرنے پڑے کہ بعض دفعہ وہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے اور بعض دفعہ انہیں کھجور کی گھٹلیاں کھانی پڑیںاور یہ سلسلہ صرف چند دن یا چند ہفتے یا چند مہینے جاری نہیں رہا بلکہ تین سال تک جاری رہا.تین سال کے بعد مکہ کے چند
شرفاء کے دل میں اس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس معاہدہ کو توڑ کر محصورین کو باہر نکا ل لیا.مگر ان تین سالہ لمبے مظالم کا یہ نتیجہ نکلا کہ تھوڑے دنوں کےبعد ہی آپ کی وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا کیونکہ اس لمبے مقاطعہ نے ان کی صحت پر بُرا اثر ڈالاتھا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس مقدس خاتون کے بیسیوں غلام تھے اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھانا کھایا کرتی تھیں.بڑھاپے میں جب انہیں کئی کئی فاقے کرنے پڑے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے یا کھجور کی گھٹلیاں تو اس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا.چنانچہ اس تکلیف کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا اورپھر چند دن اور گذرے کہ حضرت ابو طالب بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے(السیرة الحلبیة باب اجتماع المشرکین علی منابذة بنی ہاشم و باب الھجرة الثانیة الی الحبشة و باب ذکر وفات عمّہ ابی طالب و زوجتہ خدیجةؓ) مگر اتنے لمبے ظلم کے باوجود آپؐ نے شعب ابی طالب سے اپنا قدم باہر رکھتے ہی فیصلہ کیا کہ اگر مکہ کے لوگ خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں تو مکہ سے باہر رہنے والوںکو مجھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا چاہیے شاید ان میں کوئی سعید روح ہو جو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہے اور اُسے قبول کر کے اس کی برکات کی وارث ہو.چنانچہ آپ طائف تشریف لے گئے جو مکہ سےقریباً ساٹھ میل کےفاصلہ پر ایک مشہور شہر ہے اور لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا.مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سنتے اور اُسے قبول کرتے انہوںنے لڑکوںکو اکسایا اور انہوں نے پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھرائو شروع کردیا.آپؐ کے پائوں پتھروں کی بوچھاڑ سے لہولہان ہوگئے اور حضرت زیدؓ بھی جو آپ کے ساتھ تھے آپؐ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے.مگروہ برابر کئی میل تک آپ کو پتھر مارتے چلے گئے.آپ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کے لئے ٹھہرے تو جسمِ اطہر سے خون پونچھتے اور ساتھ ہی فرماتے.اے میرے ربـ! یہ لوگ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں تُو انہیں معاف فرما.راستہ میں مکہ کے ایک سردار کا باغ تھا.آپ وہاں ذرا سستانے کے لئے ٹھہر گئے.اُس نے جب آپؐ کے کپڑوں کو خون سے لت پت دیکھا تو اُس کے دل میں درد پیدا ہوااور اُس نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اُسے انگو رکے چند خوشے دیئے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زیدؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا.وہ دو آدمی جو درخت کے نیچے بیٹھے ہیں.اُن کے پاس جائو.اور انہیں یہ انگور کھلائو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زخموں سے چُور چُور تھے اور بہت دیر تک دشمن کے آگے بھاگے آئے تھے.لیکن اِدھر یہ غلام آپ کے پاس پہنچا اوراُدھر آپ نے اس غلام کو مخا طب کرتے ہو ئے فرمایا.تم کہاں کے رہنے والے ہو.اس نے جواب دیا.میں نینواکارہنے والا ہوں.آپ نے
فرمایا.اچھا !تم میرے بھائی یونس ؑکے وطن کے ہو.آپؐ کایہ فقرہ سن کر اس غلا م کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ عر ب کا باشند ہ ہونے کے باوجود نینواکے رہنے والے یونس ؑ کو اپنا بھائی تصور کرتاہے.اس نے آ پ سے پوچھا آپ کاکیاحال ہے اورلوگوں نے آپ سے ایساسلوک کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا.تم تو یونسؑ کے ملک کے ہو تم جانتے ہوکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مصلح دنیا میں آتے ہیں ان سے ایسا ہی سلوک کیاجا تاہے.میں نے ان لوگوںکاکچھ نہیں بگاڑا.میں نے صرف اتنا ہی کہا تھاکہ تم ایک خدا کی طرف آئو اوربتوں کی پرستش نہ کرو.اورمیں تمہیں بھی یہی بات کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی باتوں پر عمل کرو.و ہ غلام عیسائی تھا.اسے آپ کی باتیں سن کر یقین ہو گیا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.چنانچہ جس طرح انجیل میں حضرت مسیح ؑ کے متعلق آتاہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اوراس نے آنسوئوںسے آپ کے پائو ں دھونے شروع کردئیے اوربالوں سے آپ کے پائوں کی مٹی کو صاف کیا (لوقا باب ۷ آیت ۳۸) اسی طرح وہ غلام بھی آپ کے قدموں میں گرگیا اورا س نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے پائوں کی مٹی اورخو ن صاف کرنا شروع کردیا.اورمحبت سے آپ کے ہاتھو ںکو بوسہ دیا.جب وہ واپس گیا تو با غ کے مالک نے اسے ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا کیا.مگر اس کا دل کھل چکا تھا.اور وہ آپؐ پر ایمان لاچکا تھا.اوراب کوئی مخالفت اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے علیحدہ نہیں کرسکتی تھی(السیرة الحلبیة ذکر خروج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی الطائف).بنی نو ع انسان کے لئے یہ کیسی عظیم الشان تڑپ ہے جو آپؐ کے سینہ و دل میں پائی جاتی تھی.ہم دیکھتے ہیں کہ حضر ت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے کہا.اے استاد !مجھے بھی وہ تعلیم سناجو تو اپنی قوم کو دیتا ہے.مگرانہوں نے کہا.میرے پاس تیرے لئے کچھ نہیں.یہ تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لئے ہے جو میرے بیٹے ہیں.اوربیٹوں کی روٹی میں کتوں کے آگے کیسے پھینک سکتاہوں (متی باب ۱۵آیت ۲۲ تا۲۶)مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جو آپ کی قوم کانہ تھا.ایسے وقت میں آیا جب آپ زخموں سے چو رچُورتھے اورخون سے لت پت دور تک دشمن کے آگے آگے بھاگے چلے آئے تھے.اورایک ایسی جگہ پر آیا جو آپ کے دشمن کی تھی.اور ذراسی تبلیغ کرنے سے بھی ایک بڑی آفت آسکتی تھی.وہ آتاہے او رخو د بھی نہیں کہتاکہ مجھے تبلیغ کرو.مگر اسے دیکھتے ہی آپؐ تبلیغ کرنا شروع کردیتے ہیں.کیونکہ آپؐ کے لئے عر ب اورغیر عرب برابر تھے.آپؐ کے دکھ اورآپؐ کی تکالیف صرف عرب قوم کے لئے ہی نہیں تھیں.بلکہ کالے گورے.عربی ،مصری ،ہندوستانی سب کے لئے تھیں اورآپ اپنی ایک ایک حر کت میں اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ لو گوں کو ہدایت میسرآجائے اوروہ خدائے واحد
کے آستانہ کی طرف لوٹ آئیں.آپ کایہ سفر جو آپ کی قربانی اورایثار کاایک زندہ نمونہ ہے سرولیم میو رکو بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکا.اوراسے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ.‘‘ میں یہ الفاظ لکھنے پر مجبو رہونا پڑا کہ ’’ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے طائف کے سفر میں ایک شاندار شجاعانہ رنگ پایا جاتاہے.اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اوراسے دھتکار دیا خداکے نام پر بہاد ری کے ساتھ نینواؔ کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پر ست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا.یہ امر اس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلّی طورپر خدا کی طرف سے سمجھتاتھا ایک بہت بڑی روشنی ڈالتاہے.‘‘ (Life of Muhammad pg.117) سفر طائف سے واپسی پر مکہ والوں نے پھر ایذادہی اوراستہزاء کے د روازے کھول دیئے.مگرآپ محبت اورپیار سے مکہ والوںکو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے.لوگ بھاگتے تو آپؐ ان کے پیچھے جاتے.و ہ منہ پھیرتے تو آپ پھر بھی باتیں سناتے.آخر ان کے متواتر مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن ،و ہ وطن جس میں تیرہ سال تک آپؐ تبلیغ ہدایت کرتے رہے تھے.اورجس کے رہنے والوں کو آپ نے سب سے پہلے خطاب کیاتھا رات کے وقت چھوڑنا پڑا اورچھپتے چھپاتے آپ مدینہ پہنچے مگر دشمن نے وہاں بھی آ پ کاپیچھا نہ چھوڑا اورمتواتر مدینہ پر حملے ہوتے رہے.ایک سوبیس کے قریب وہ لڑائیاںہیںجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ کو لڑنی پڑیںاوران میں سینکڑو ں صحابہؓ اورآپؐ کے عزیزترین رشتہ دار مارے گئے.مگرآپؐ نے خدائے واحد کانام بلند کرنے کے سلسلہ میں کبھی کسی مصیبت کوایک پرِکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھا.آپ صبح بھی اورشام بھی اوردن کے اوقات میں بھی اوررات کی تاریکیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کاپیغام لوگوں کو پہنچاتے چلے گئے اوراس بار ہ میں نہ آپ نے جانی قربانی سے دریغ کیا.نہ مالی قربانی سے دریغ کیا نہ جذبات اور احساسات کی قربانی سے دریغ کیا اور نہ عزیزوںاوررشتہ داروں کی قربانی سے دریغ کیا.آپ کی دوبیٹیاں ابولہب کے دوبیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم ترک نہیں کریں گے تومیں اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپؐ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوادوں گا.مگر آپؐ نے پروا نہ کی اوراس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہہ کر آپ کی دونوں بیٹیوںکو طلاق دلوادی.(اسد الغابۃ رقیۃ بنت رسول اللہ ؐ)پھر ہر خطرے کے مقام پر دشمن کا اولین نشانہ صرف آپؐ کا وجود ہوتاتھا.مگر جب بھی کو ئی موقعہ آیاآپ نے اس بہادری سے اس خطرے کی آگ میں اپنے آپ کو پھینکا کہ یوں معلوم ہوتاتھاکہ آپؐ اپنی جان کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھتے تھے.غزوئہ اُحد کے موقعہ پر ایک پتھر آپؐ کے خود پرآلگا اوراس کے کیل آپؐ
کے سر میں گھس گئے اورآپؐ بے ہوش ہوکر ان صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپؐ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراس کے بعد کچھ اورصحابہؓ کی لاشیں آپؐ کے جسم اطہر پر جاگریں اورلوگوں نے یہ سمجھا کہ آپؐ مارے جاچکے ہیں.مگرجب آپؐ کو گڑھے سے نکالاگیا.اورآپؐ کو ہوش آیاتوآپؐ نے یہ خیال ہی نہ کیاکہ دشمن نے مجھے زخمی کیاہے.میرے دانت توڑدیئے ہیں اور میرے عزیزوں اوررشتہ داروں اوردوستوںکوشہید کردیاہے بلکہ آپ نے ہوش میںآتے ہی دعاکی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُونَ (مسلم کتاب الجہاد باب غزوة احد).اے میرے رب!یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے توان کو بخش دے اوران کے گناہوںکومعاف فرمادے.اسی طرح طائف میں جب آپ کو پتھروں سے لہولہان کیاگیا اورآپ وہاں سے دوڑتے چلے آرہے تھے تواحادیث میں لکھا ہے کہ یکدم آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اورپہاڑوں کافرشتہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا.اوراس نے کہاکہ اگر آپ چاہیں توطائف والوںپر ابھی ان کے پہلو کے دونوں پہاڑ اُلٹادیئے جائیں.مگرآپ نے فرمایا.ایسانہ کرنا.ان لوگوں نے جوکچھ کیا ہے جہالت اورلاعلمی کی وجہ سے کیاہے.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی نسل میں سے وہ لو گ پیداکرے گا جو اسلام کے خدمت گذار ہوں گے.(بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احد کم آمین....) چنانچہ واقعات بتاتے ہیں.کہ باوجود اس کے کہ دشمنوں نے آپ کو مجنون بھی کہا.کاہن بھی کہا.ساحر بھی کہا کذاب بھی کہا اورہر رنگ میں انہوں نے آپ کے مشن کو مٹاناچاہا.مگرآخر انہی میں سے ایسی سعید روحیں نکل آئیں جنہوں نے دلیری سے صداقت کو قبول کرلیا اوراپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر وہ دیوانہ وار اسلام کی اشاعت کے لئے نکل کھڑے ہوئے اورتھوڑے عرصہ میں ہی انہوں نے چہار دانگِ عالم کو اسلامی نو رسے منورکردیا.غرض لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے مثال شفقت اورمحبت کا ذکر کیا گیاہے جوآپ کو بنی نوع انسان سے تھی اوربتایا گیاہے کہ آپؐ ان کی ہدایت کے لئے رات اوردن اس قدر جدوجہد فرماتے اوراتنی دعائیں کرتے تھے کہ قریب تھا کہ آپ اس غم سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیتے آپ کو نہ اپنے کھانے کی پرواہ تھی نہ پینے کی پرواہ تھی.نہ نیند اورآرام کی پرواہ تھی.آپ لوگوں کوہلاکت کے گڑھوں سے بچانے اورانہیں نجات اورسلامتی کا راہ دکھانے کے لئے راتوںکو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضورگریہ وزاری کرتے اوراتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپ کے پائوں متورم ہوجاتے(بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی اللیل ).گویاجس طرح جوش کی حالت میں بعض دفعہ انسان بکرے پرچھری چلاتے ہوئے اس چھری کو گردن کے آخر ی
حصہ تک پہنچا دیتاہے اورقریب ہوتاہے کہ اگرذراسابھی اور زورلگ جائے.تواس کی گردن کٹ کر پرے جا پڑے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی تھی.اوراگرآپ کی جان بچی تواس کے یہ معنے نہیں کہ آپ نے کوئی کمی کی تھی بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی حفاظت فرمائی ورنہ آپؐ نے اپنی جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ امتیازی خصوصیت جواللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے اس میں مومنوں کے لئے بھی بڑابھاری سبق ہے اورانہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم ترقی کرناچاہتے ہو تواپنی قربانیوںکواس حد تک پہنچائو کہ دشمن کی نظر میں تووہ صریح خود کشی ہو.مگر تم جانتے ہو کہ و ہ خود کشی نہیں بلکہ اسی میں تمہاری ابدی حیات کاراز مضمر ہے.قرآن کریم میں جنگ اُحد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں علم ہوتاکہ لڑائی ہوگی توہم ضرور ساتھ دیتے (آل عمران آیت ۱۶۸) اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں علم نہیں تھا کہ لڑ ائی ہو گی بلکہ بات یہ ہے کہ انہوں نے مشورہ دیاتھاکہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں.اوراس پر دوروز بحث ہوتی رہی.پس منافق باہر نکل کر لڑنے کو خود کشی قراردیتے تھے اورجب وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہمیں لڑائی کاعلم ہوتاتوہم ضرور جاتے تواس کامطلب یہ ہوتاکہ ہم تواسے لڑائی نہیں بلکہ خود کشی سمجھتے تھے.اس لئے شامل نہ ہوئے.تواللہ تعالیٰ اپنی مومن جماعت کے سپر د ہمیشہ ایسے کام کرتاہے جنہیں لو گ خودکشی سمجھتے ہیں.ان جماعتوںسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اپنے اموال اپنے اوقات اور اپنی عزت و آبروغرض سب کچھ قربان کردینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ پاگل ہیں جواتنی بڑی قربانیاں کررہے ہیں اورمنافق بھی کہتے ہیں کہ یہ بیوقوف لوگ ہیں جو ہمیں بھی بیوقوف بناناچاہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح قربانی کروجس طرح ہم کررہے ہیں.غرض منافق بھی اورمخالف بھی سب اسے ہلاکت سمجھتے ہیں مگر مومن جانتے ہیں کہ یہ ہلاکت نہیں بلکہ زندگی کو قائم رکھنے کاذریعہ ہے.پس لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَمیں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بے مثال خصوصیت اورآپ کی شفقت علیٰ خلق اللہ کاایک بے نظیر نمونہ ہی پیش نہیں کیاگیا بلکہ مومنوںکویہ نصیحت بھی کی گئی ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تو اپنی قربانیوںکو اس حد تک پہنچا دو کہ دوست اوردشمن کی نگاہ میں تمہاری گردن کٹنے کے قریب پہنچ جائے اورہرشخص یہ سمجھے کہ تم موت کے منہ میں جارہے ہو.یہی وہ مقام ہے جو روحانی جماعتوںکوحاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر انہیں ابدی حیات حاصل نہیں ہوسکتی.
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ اگر ہم چاہیں توآسمان سے ان پرایک ایسانشان اتاردیں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں لَهَا خٰضِعِيْنَ۰۰۵وَ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ جھکی کی جھکی رہ جائیں.اوررحمٰن کی طرف سے کبھی کوئی نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لو گ اعراض نہ کرتے مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ۰۰۶فَقَدْ كَذَّبُوْا ہوں.سو(چونکہ)انہوں نے (خدا تعالیٰ کی آیتوںکو)جھٹلایاہے اس کے نتیجہ میں ان کے استہزاء کی فَسَيَاْتِيْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۷ حقیقت ضرور ان پر کھل جائے گی.حلّ لُغَات.اَعْنَاقٌ.اَعْنَاقٌ عُنْقٌ کی جمع ہے اور اَلْعُنُقُ کے معنے گردن کے ہیں.اسی طرح اس کے معنے ہیں الرُّؤَسَآءُ سردارانِ قوم.اَلْجَمَاعَۃُ مِنَ النَّاسِ لوگوں کی جماعت (اقرب) خَاضِعِیْنَ.خَاضِعِیْنَ خَاضِعٌ کی جمع ہے جو خَضَعَ سے اسم فاعل ہے اورخَضَعَ لَہٗ کے معنے ہیں اِنْقَادَ مطیع ہوگیا.پس خَاضِعٌ کے معنے ہوں گے جھکنے والا، مطیع ہونے والا.(اقرب) مُحْدَثٍ.مُحْدَثٍ کے معنے ہیں نَقِیْضُ الْقَدِیْمِ یعنی نیا(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.اگرہم چاہیں توآسمان سے ہم ان پر ایساعذاب نازل کریں کہ جس کی وجہ سے مجبورہوکر ان کی گردنیں جھک جائیں.اوریہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے لگ جائیں.لیکن اگرہم ایساکریں توپھران کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتاکیونکہ ایمان اسی حالت میں انسان کے لئے فائدہ بخش ثابت ہو سکتا ہے جب خیر اورشر دونوں مخفی ہوں.جو چیز کھلے طورپر نظر آرہی ہو اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام میسر نہیں آیاکرتا.جیسے سورج ایک خیر رکھنے والی چیز ہے اوراس کاوجود قطعی طور پر ظاہر ہے.لیکن سورج کے وجود کو تسلیم کرلینا انسان کوکسی انعام کامستحق نہیں ٹھہراسکتا.اوراگر کوئی کہے کہ جب تمہیں محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لانے سے انعا م ملے گا توہمیں سورج پر ایمان لانے سے کیوں انعام نہیں مل سکتا.توہم اسے یہی کہیں گے
کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم چونکہ جستجو اورجدوجہد اورقربانی کے نتیجہ میں ہوتاہے.اس لئے آپ پرایمان لانا انسان کو اللہ تعالیٰ کے روحانی انعامات کامستحق بنادیتاہے مگر سورج پر ایمان لانے کے لئے چونکہ کسی جدوجہد جستجواورقربانی کی ضرورت نہیں ہوتی اوراس کی حقیقت کلی طورپر ظاہر ہوتی ہے اس لئے اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام نہیں مل سکتااوراگر اس جواب پر بھی کو ئی شخص یہ اعتراض کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں توآ پ کے ماننے والوںکو قربانیاں کرنی پڑیں جس کی وجہ سے وہ انعام کے مستحق ہوئے مگر آپؐ کے بعد والوںکوتوکوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی اورپھر انہیں انعام کامستحق کیوں قراردیاجاتاہے تواس کا جواب یہ ہے کہ بےشک نسلی مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی مگرانہیں اپنے ایمان کوقائم رکھنے کے لئے ہروقت قربانی سے کام لینا پڑتا ہے.کیونکہ اسلام کےہرحکم کے بارہ میں ان کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ہم اس پر کیوںعمل کریں اوراس کیوں کے جواب کے لئے انہیں نماز اورروزہ اورحج اورزکوٰۃ کے تمام پہلوئوں پر غور کرناپڑتا ہے اورپھر ان احکام پر عمل کرنے کے لئے انہیں ہروقت قربانی اورجدوجہد کے دور میں سے گذرنا پڑتا ہے.پس قربانیوں سے کوئی مسلمان بھی مستثنی نہیں.صحابہؓ نے ایمان لانے کے لئے قربانیاں کی تھیں اوربعد میں آنے والے مسلمانوںکو اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیںپس چونکہ روحانی انعامات کاحصول قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات ظاہر نہیں کرتا جو اتنے کھلے اورواضح ہوں کہ شدید سے شدید معاند بھی ان کو دیکھ کر سر جھکادیں اورایمان لانے کے لئے دوڑ پڑیں اوران کے لئے انکارکرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے.کیونکہ اگرایساہوتو پھر ان کاایمان لانا ایک قسم کے جبر کا نتیجہ ہوگا اوراللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتاکہ لو گ کسی جبر کے نتیجہ میں ایمان قبول کریں اوراس طرح اپنے انعامات کو باطل کردیں.مگر افسوس ہے کہ ا تنی واضح آیت کی موجودگی میں بھی مسلمانوں نے جبر اورقدرؔ کے مسئلہ پر بحثیں شروع کردیں اوریہ نظر یہ قائم کرلیا کہ اللہ تعالیٰ بھی بعض باتوں میں جبرسے کام لیتا ہے.چنانچہ آج بھی جب کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ تمہاری مشکلات کاکیا باعث ہے تو وہ ایک سرد آہ کھینچ کرکہہ دے گاکہ ’’ہماری قسمت ‘‘وہ یہ نہیں کہے گاکہ چونکہ ہمارے اند ر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں اورہم نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اورخدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہدایات پر چلنا چھوڑ دیاہے اس لئے ہم پر مصائب آرہے ہیں بلکہ وہ یہ کہہ کر کہ ’’ہماری قسمت‘‘اس کی ساری ذمہ داری خدا تعالیٰ پر ڈال دے گا.حالانکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے جبر ہی کرناہوتا تووہ نیکی اورہدایت پر جبر کرتااور ایسے نشانات نازل کرتا جن سے بڑے بڑے
کفار کی گردنیں جھک جاتیں اوروہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے.مگر اللہ تعالیٰ ایسانہیں کرتا.وہ نشانات تونازل کرتاہے مگران میں ایک قسم کااخفاء بھی رکھتاہے تاکہ جو لوگ ایمان لائیں وہ اپنی اپنی کوشش اورجدوجہد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پائیں.افسوس ہے کہ مسلمانوں میں نشانات الٰہیہ کے متعلق ایسی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی مولویوں نے جلسہ کیا.اس جلسہ میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے بڑ ے جوش کے ساتھ تقریر کی اورکہا.مرزا صاحب نبی بنے پھر تے ہیں.مرزا صاحب کے معجزے بھی کوئی معجزے ہیں.معجزہ تویہ ہوتاہے کہ سید عبدالقاد رصاحب جیلانی ؒکے پاس کو ئی شخص مرغ پکا کر لایا.آپ نے کھاکر اس سے کہا.تم نے مجھ پراحسان کیاہے مگر ہم تمہیں بھی احسان کا بدلہ دینا چاہتے ہیں اوریہ کہہ کر انہوں نے مرغ کی ہڈیاں لیں اورہاتھ میں پکڑ کرانہیں زور سے دبایا تووہی مرغ کُڑکُڑکُڑکُڑ کرکے اپنی اصلی حالت پر آگیا.اس قسم کے قصے مسلمانوں میں اس لئے آئے کہ انہوںنے معجزات کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کو نظر انداز کردیا.اوریہ نہ سمجھا کہ اگر ایسے معجزات ظاہر ہو ں توپھر کو ن شخص ہے جوکسی نبی کاانکار کرسکتاہے اوراگرایسے معجزات کے ظہو ر کے بعد کوئی شخص ایمان لاتاہے توکون کہہ سکتاہے کہ اس نے ایمان لاکرکوئی قربانی کی ہے اوروہ کسی انعام کامستحق ہے.پس اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات نازل نہیں کرتا جوایسے کھلے اورواضح ہوں کہ انہیں دیکھ کرکفار کی بھی گردنیں جھک جائیں اوروہ ایمان لے آئیں.کیونکہ اگر ایساہوتو یہ ایک قسم کا جبر ہوگیا اوراللہ تعالیٰ قبول ہدایت کے بارہ میں کسی قسم کا جبر روانہیں رکھتا.پھرفرماتا ہے.وَ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ جب بھی رحمٰن خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام آیاہے لوگوں نے ہمیشہ اس کاانکارکیاہے.پھر یہ لوگ کس طرح اس پیغام کو قبول کرسکتے ہیں.اس جگہ خدائی پیغام کو ان معنوں میں نیا نہیں کہا گیاکہ ہرنبی کو ئی نئی شریعت لاتاہے بلکہ ان معنوں میں اسے نیاقرار دیاگیاہے کہ وہ پیغام دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہوتاہے.دنیا اس کو بھول چکی ہوتی ہے اوروہ اس سے ایسی غافل اوربیگانہ ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اس کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے پھر بھی وہ اسے ایک نئی چیز سمجھنے لگتی ہے اوراس سے ڈر کر دو ربھاگنے لگتی ہے.انہی معنوں میںاللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر پہلی کتب الہامیہ کو بھی حدیث قرار دیاہے اورقرآن کریم کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ (الزمر : ۲۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے بڑی شان اورطاقت اورقوت کے ساتھ اس کتاب کو اتار اہے جو احسن الحدیث ہے یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے.پس ہرنبی جو دنیا میں ظاہر ہوا.وہ دنیا کے لئے ایک نیا پیغام لایا بعض انبیاء توان
معنوں میں نیا پیغا م لائے کہ وہ ایک ہدایت جدیدہ لے کر آئے اورکثیر انبیاء ان معنوں میں نیا پیغام لائے کہ انہوں نے وہ پرانی شراب جس کا سرچشمہ الٰہی نور تھا نئے برتنوں میں لوگوں کے سامنے پیش کی.مگر کبھی ایسانہیں ہواکہ خدا تعالیٰ کا کوئی پیغامبر آیا ہو اوردنیا نے اس کے پیغام سے اعراض نہ کیا ہو.یااسے مختلف قسم کے مصائب اورآلام کا نشانہ نہ بنایاہو.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیاکو ایسے رنگ میں چلایاہے کہ عام طورپر یہ اس کے عام قواعد کے ماتحت کا م کرتی رہتی ہے.اوربظاہر خدا کاہاتھ اس کے کاموں میں نظر نہیں آتا.جب سے یہ کائنات پیداہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کوایک چکر دے دیاہے اوریہ زمین سورج کے گرد اورچاند زمین کے گرد چکر کھا رہاہے.اورپھر ساری کائنات شمسی مل کر ایک غیر معلوم جہت کی طر ف چلی جارہی ہے.بظاہر دیکھنے والایہ خیال کرتاہے کہ یہ اتفاقی حادثہ ہے اوراس دنیا کوپیداکرنے والااورچلانے والاکوئی نہیں.کیونکہ ایک قانون ہے جوچل رہاہے.مثلاً ایک ایساشخص جس نے گھڑی نہیں دیکھی اگر وہ ایسے گھر میں آجائے.جہاں کوئی آدمی موجود نہ ہو اور ہفتہ بھر کی کنجی سے چلنے والی گھڑی چل رہی ہو تو وہ گھڑی کو دیکھ کر یہی سمجھے گاکہ یہ آپ ہی آپ چل رہی ہے.اسے چلانے والا کوئی نہیں.جب تک وہ وقت نہ آجا ئے کہ جب گھڑی کو کنجی دی جاتی ہے یاجب تک وہ وقت نہ آجائے کہ جب وہ گھڑی کھڑی ہوجائے.درمیانی عرصہ سے وہ یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ کسی اَورنے اس کو کنجی دی ہے.اوروہ چل رہی ہے.اسی طرح دنیا کوچلانے والے نے لاکھوں کروڑوں سال پہلے اس کو کنجی د ے دی.اوریہ چل رہی ہے.جس طرح گھڑی کو دیکھ کرانسان یہ سمجھتاہے کہ وہ آپ ہی آپ چل رہی ہے سوائے اس کے کہ وہ واقف ہو.اسی طرح دنیا کو دیکھ کر ایک ناواقف انسان یہ سمجھتاہے کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے.لیکن اس قانون کے علاوہ کبھی کبھی خدا تعالیٰ اپنی خدائی ثابت کرنے کے لئے بعض خاص باتیں بھی ظاہر کیا کرتاہے جن سے پتہ لگ جاتاہے کہ اس دنیا کاایک خالق اورمالک ہے.جیسے گھڑی چل رہی ہوتو ایک ناواقف آدمی تویہ سمجھے گا کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے کسی اَورکا اس پرتصر ف نہیں.لیکن مالک آتاہے.اسے چابی دیتاہے اورپھر اسے رکھ دیتاہے.تواس کو دیکھ کر وہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ گھڑی کسی اَورکے ذریعہ چل رہی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کبھی کبھی اپنی خاص صفات کے ذریعہ اپنے وجود کو ظاہر کرتاہے.اوراس کی صفات کا یہ ظہور اس کے رسولوں اورمصلحین کے ذریعہ ہوتاہے.لیکن یہ صاف بات ہے کہ جب خدااس دنیا میں دخل دے گا.تواس کی کوئی وجہ ہوگی اوروہ وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں.وہ اس کو بھلابیٹھتے ہیں.اوراس کے احکام پر ہنسی اڑاتے ہیں اس وقت خدا تعالیٰ ان کو یاددلانے کے لئے اپناکوئی ماموراور مرسل بھیجتاہے.جب وہ مامو را ورمرسل دنیا میں آتاہے تووہ زمانہ وہی ہوتاہے.
جب لوگ خدا تعالیٰ کو بھول چکے ہوتے ہیں.اورجوشخص کسی چیز کو بھول چکاہو اس کو اس کی طر ف توجہ دلاناکوئی آسان کام نہیں ہوتا.کیونکہ اس نے بھول کر کوئی اورراستہ اختیار کیاہواہوتاہے اوریہ آنے والا اس کے روز مرہ اورمعمول کے راستہ سے ہٹاکر اسے دوسری طرف لے جاناچاہتاہے.اورجوشخص کسی چیز کاعادی ہوچکاہو اس سے ہٹانے والا دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجاتاہے.مثلاًہمارے ملک میں بعض عادتیں راسخ ہوچکی ہیں.ہندوستان کی عورتیں پان کھاتی ہیں.اب پان کازندگی کے کسی شعبہ سے تعلق نہیں.پان کے ذریعہ علم حاصل نہیں ہوتا.پان کے ذریعہ روپیہ حاصل نہیں ہوتا.لیکن باوجود اس کے اگر کوئی کہے کہ پان چھوڑ دو تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی اوراصرار کریں گی کہ ہم پان کو نہیں چھو ڑسکتیں.بلکہ پان توالگ رہاچھوٹی سے چھوٹی رسم کوبھی اگر چھڑانے کی کو شش کی جائے تو لوگ مخالفت کرتے ہیں.مثلاًگائوں کی عورتیں اپنے سرکو گھی لگاتی ہیں شہر کی عورتیں سرمیں تیل لگاتی ہیں.یورپ کی عورتیں تیل بھی پسند نہیں کرتیں وہ ایک قسم کالوشن استعمال کرتی ہیں.اب سرکو گھی لگانا زندگی کاکوئی جزو نہیں.اگرزندگی کاجزو ہوتاتو تیل سے کس طرح گذارہ ہوجاتا.اگر تیل زندگی کاجزوہوتاتو خالی لوشن سے کس طرح گذارہ ہوجاتا.دنیاکے ایک حصے کا تیل چھوڑ دینا اور دوسرے حصہ کا گھی چھوڑ دینااورتیسرے حصہ کا تیل اورگھی دونوںکو چھوڑدینا بتاتاہے کہ ان چیزوںکوانسان چھوڑ سکتاہے.لیکن باوجود غیر ضروری چیزیں ہونے کے اگر تم گائوں کی عورتوں سے گھی چھڑواناچاہوتوتمہیں سالہاسال لگ جائیں گے.وہ کہیں گی کہ اگر ہم گھی لگاناچھوڑ دیں توہمیں سردرد ہو جاتا ہے.زکام ہو جاتا ہے اوروہ تمہاری مخالفت کریں گی اورسمجھیں گی کہ تم ان کے راستہ میں روک بن رہے ہو.غرض چھوٹی سے چھوٹی عادت کاچھڑانابھی آسان کام نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والا مصلح توساری دنیا کو پلٹ دینے کے لئے آتاہے.وہ ان کے طورطریق سے انہیں باز رکھنے کی کوشش کرتاہے.پھراس کی کس طرح مخالفت نہ ہو.چنانچہ جب بھی کوئی مصلح آتاہے لوگ اس کی باتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں.مذاق کرتے ہیں.اسے مارتے پیٹتے ہیں.اس کے ساتھیوںکو مارتے پیٹتے ہیں.اوریہ چیز برابراورمتواترچلتی چلی جاتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومکہ والے اس وقت کئی کئی معبود مانتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہناشروع کیا کہ اللہ ایک ہے توقرآن کریم میں لکھا ہے کہ مکہ والوںکویہ عجیب بات معلوم ہوئی اورانہوں نے اس پر ہنسی اڑانی شروع کردی.و ہ ایک دوسرے سے ملتے توکہتے.بتائو لات خداہے یانہیں.وہ کہتا.کیوں نہیں.پھروہ کہتا.اچھا مناۃ خداہے یانہیں.وہ کہتا.یقیناً ہے.پھر وہ کہتا.اچھا عزّیٰ خداہے یانہیں.وہ کہتا.ضرور ہے.اس پر وہ ایک عجیب انداز میں قہقہہ مار کر کہتاکہ تم نے سنا یہ شخص کیا کہتاہے.اس نے اتنے خدائوں کوایک
خدابنادیاہے.وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح عورتیں چٹنی بناتی ہیں.توکچھ نمک لیتی ہیں.کچھ مرچیں لیتی ہیں.کچھ پودینہ لیتی ہیں اوران سب کوپیس کر چٹنی بنا لیتی ہیں.اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لات، مناۃ،عزّیٰ وغیرہ کو کوٹ پیس کر ایک خدابنادیاہے.قرآن کریم میں لکھا ہے کہ وہ تعجب سے یہ کہاکرتے تھے کہ اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا(ص : ۶)یعنی ہمارے بہت سے جوخداتھے ان کوتوڑ مروڑ کر اس نے ایک خدابنادیاہے.یہ خیال کہ یہ خداہیںہی نہیں ان کے ذہن میں آہی نہیں سکتاتھا.جب ان کے سامنے کوئی شخص کہتاکہ ایک خداہے تو وہ سمجھتے تھے کہ ایک خداکے معنے یہ ہیں کہ اس نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک چٹنی سی بنادی ہے اورجب وہ اس بات کو پیش کرتے توسارے لوگ ہنس پڑتے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل سمجھتے.لیکن اب اگر یہی بات کسی مسلمان کے سامنے بیان کروتووہ بھی ہنس پڑے گا کیونکہ اب اسے ایک خدا پر یقین پیداہوچکا ہے.اوراس کایہ خیال پختہ ہوگیاہے.تو جس جس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی طرف سے کوئی بات پیش کی جاتی ہے چونکہ لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے اس لئے وہ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام آئے توآپ کے خلاف دھوکا اورفریب سے کام لیاگیا.اورآخر آپ کوانہوں نے اس مقام سے نکلنے پرمجبور کردیا جوان کا مولد و مسکن تھااورجس میں و ہ خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.حضرت نوح علیہ السلام آئے توانہیں بھی مختلف رنگ میں اذیتیں پہنچائی گئیں.اورانہیں بھی اپنے ملک سے ہجرت کرنی پڑی.حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے.توآپ کوآگ میں ڈالا گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے توآپ کو اورآپ کے ساتھیوں کوایک لمبے عرصہ تک فرعون کے مظالم کاتختہ ء مشق بننا پڑا.اورجیساکہ حدیثوں سے معلوم ہوتاہے.بنی اسرائیل میں سے بعض کے سروں پر آرے رکھ کر ان کوچیر دیاگیا.حضرت مسیح علیہ السلام آئے تو دشمنوں نے آپ کوصلیب پر لٹکا دیااورآپ کے خلفاء اور حواریوں میں سے بھی بعض کوقتل کیااوربعض کو صلیب پر لٹکایا.پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیاتو آپ کو بھی شدید سے شدید مشکلا ت کاسامنا کرناپڑا.کئی صحابہؓ قتل کئے گئے.بعض کامثلہ کیاگیا بعض کو اس طرح شہید کیا گیاکہ دواونٹو ںسے ان کی دوٹانگیں باندھ کر ان اونٹوں کو مختلف جہات میں دوڑایا گیا.اوراس طرح ان کو چیر کر دوٹکڑے کردیاگیا.بعض صحابہؓ کوتپتی ریت پر لٹایا گیا.بعض کو سخت پتھروں والی زمین پر گھسیٹاگیا.بعض کے سینوں پر جوتیوں سمیت ناچاگیا.عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رمار کر ان کوماراگیا.(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ اطلع الغیب، اسد الغابۃ :حمزۃ وخباب بن الارت ، اسد الغابۃ تحت بلال بن رباح وعمار بن یاسر و خباب بن الارت ،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر عدوان
المشرکین علی المستضعفین ،الکامل فی التاریخ لابن اثیرذکر تعذیب المسلمین)غرض وہ تمام قسم کی مصیبتیں اوراذیتیں جو مختلف انبیاء کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے ان کو دیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوگئیں.اورآپ کے پیغام کو قبول کرنے سے اعراض اختیار کرلیاگیا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر بھی ہوا.اورآپ کو ہررنگ میں کچلنے اورنابود کرنے کی کوشش کی گئی.کیونکہ آپ دنیاکی طرف جو پیغام لائے وہ ان کے فرسودہ خیالات کے منافی تھا.اوران کے اند رایک نیا تغیر پیداکرنے والاتھا.بانیء سلسلہ احمدیہ نے جب دعویٰ کیا تواس وقت لوگوں میں یہ احساس تھا کہ مسیح ناصریؑ دوبارہ دنیامیں آئیں گے اوروہ غیر مسلموں کے سب اموال لوٹ کر مسلمانوںکے حوالے کردیں گے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتے ہی اعلان فرما دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں.اب بظاہر یہ کوئی عجیب بات نہیں.ہرشخص جو دنیا میں پیدا ہوتاہے وہ ایک دن مرتاہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی طرح آئے اورفوت ہو گئے.لیکن مسلمانوں نے اپنے دلوں میں مسیح ؑ کی آمد ثانی کے متعلق جو تصورات قائم کررکھے تھے ان کو اس تعلیم سے شدید صدمہ پہنچا.اورانہوں نے کہا.اس کامطلب یہ ہواکہ عیسائیوں کوکوئی نہیں مارے گا.اس کامطلب یہ ہواکہ ہندوئوں کو کوئی نہیں مارے گا.اس کامطلب یہ ہواکہ سکھوںکوکوئی نہیں مارے گا.اس کامطلب یہ ہواکہ مسلمان ویسے ہی کمزوررہیں گے جیسے پہلے تھے.سوائے اس کے کہ وہ اپنے زورسے آگے نکلنے کی کوشش کریں.اس کامطلب یہ ہواکہ یورپ اورامریکہ کی دولت مسلمانوںمیں تقسیم نہیں ہوگی.غرض اس تعلیم سے حضرت مسیح ؑ پرہی موت نہ آئی بلکہ خود مسلمان بھی زندہ درگورہوگئے.وہ لو گ جو پہلے گھرو ں میں بیٹھے دولتوں کے منتظر تھے سمجھتے تھے کہ امریکہ کے پریزیڈنٹ کاسارامال فلاں کو مل جائے گا اورراک فیلر کامال فلاںکو مل جائے گا ان کی توساری امیدیں ختم ہوگئیں اوروہ گویا جیتے جی مرگئے.اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سے چیز نظرآتی ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے قوم کے خیالات کواتنادھکادیاکہ جس کاصدمہ مسلمانوں سے برداشت نہ ہوسکااوروہ مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے.پہلے جب مسلمانوں سے کہا جاتا تھاکہ کام کروتووہ کہتے تھے ہم نے کام کرکے کیالیناہے.مسیح جب آئے گاتووہ کافروں کا مال لوٹ کر ہمارے گھروں میں ڈال دے گا.حضر ت مرزا صاحبؑ کے آنے سے ان کی سب امیدوں پر پانی پھر گیاکیونکہ حضرت مرزا صاحبؑ نے آکر ان سے یہ کہاکہ جوکچھ کرناہے تم نے کرناہے.تم نے ہی لڑناہے.تم نے ہی مرناہے اور تم نے ہی اپنی ترقی کے لئے آپ جدوجہدکرنی ہے.گویاجوچیز انہیں پہلے بیٹھے بٹھائے حاصل ہونے کی توقع تھی اس کے متعلق انہیں محنت اورقربانی اورجدوجہد کاراستہ دکھایاگیا اورانہیں بتایا گیا کہ تم غلط خیالات میں مبتلاہوکراپنی قیمتی زندگی کو ضائع
کررہے ہو.اس پر ان کا غصہ میں مبتلا ہونااوران کاحضرت مرزا صاحبؑ کی مخالفت کے لئے کھڑاہوجاناایک بالکل طبعی بات تھی.یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کو کہہ دے کہ آج تمہارے گھر کے تما م افراد کاکھانا ہمارے ہاں ہے لیکن جب کھانے کا وقت آئے تواسے پتہ لگے کہ اسے دھوکادیاگیاہے کھانا وغیرہ کسی نے تیار نہیں کیا اب ایسے موقعہ پراگروہ غصہ میں نہ آئے تو کیاکرے کیونکہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی.بچے رورہے ہوں گے اورادھر یہ حالت ہوگی کہ ابھی گھرمیں آٹاگوندھاجارہاہوگا.آگ جلائی جارہی ہوگی.اورسب کہہ رہے ہوں گے کہ یہ کیا مصیبت آگئی.اب کھانا کب تیار ہوگا.اورکب کھائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے درحقیقت ایسا ہی ہوا.مسلمانوں کوکہاگیاتھا کہ تمہاری خدا تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے.تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں.آسمان سے مسیح ؑآئے گا اوروہ دنیا کی دولتیں لوٹ کر تمہارے گھروں میں بھر دے گا اوروہ اطمینان اور آرام کے ساتھ بیٹھے تھے.سمجھتے تھے کہ نہ ہمیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہے.نہ روپیہ کمانے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہد اورقربانی کی ضرورت ہے.مسیح آئے گا اورہم اس کے آتے ہی بامِ عروج پر جاپہنچیں گے.ا س عقیدہ کے نتیجہ میں جب وہ علم سے محروم ہوگئے.ترقیات سے محروم ہوگئے.عزت سے محروم ہوگئے.شہرت سے محروم ہوگئے.پستی اورذلت اورنکبت ان پرپوری طرح چھا گئی توحضرت مرزا صاحب ؑ نے آکر کہاکہ جو کچھ بنے گا اپنے کام سے بنے گا.کسی دوسرے پرامید رکھنا بالکل غلط ہے.تم کوایک وقت کی روٹی نہ ملنے سے جتناصدمہ پہنچتاہے اس سے کتنا زیادہ صدمہ ان لوگوں کو ہوا ہوگا.تم تصور توکرو کہ اگر کوئی تم سے مذاق کرے کہ رات کوتمہاراہمارے ہاں کھاناہوگا اورعین وقت پر جب تمہارے بچے بھوک سے بلبلارہے ہو ں.تمہیں معلوم ہوکہ تمہارے ساتھ مذاق کیاگیاہے اوراس وقت تمہیں کھاناپکانے کی فکر ہو توجتناغصہ تمہارے دل میں اس وقت پیداہو سکتا ہے اس سے لاکھوں گنازیادہ غصہ مسلمانوںکو پیداہواکیونکہ ان کا اوران کی نسلوں کا انحصارہی اس لوٹ پر تھا جومسیح نے کرنی تھی.پھر ایک چیز نہیںبیسیوں چیزیں ہیں جومسلمانوں میں جھگڑے کاباعث بنی ہوئی تھیں.کہیں رفع یدین پر جھگڑاتھا.کہیں آمین بالجہر کہنے پر جھگڑاتھا.کہیں تشہد میں انگلی اٹھانے یانہ اٹھانے پرجھگڑاتھا.کہیں نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے یاناف کے نیچے باندھنے پر جھگڑاتھا.حضرت مرزا صاحبؑ نے ان تما م جھگڑوں کو ختم کردیا اورکہاکہ ان باتوں پر لڑنا جھگڑنا فضول ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قوم کو جوش دلانے کے لئے آمین اونچی بھی کہی ہے اور کبھی نیچی بھی کہی ہے.کبھی فوجی روح قائم کرنے کے لئے آپؐ نےاپنے ہاتھ سینہ پر باندھے اور کبھی انکسار اورتذلل کی حالت میں آپؐ نے ناف کے نیچے بھی باندھ لئے.کبھی تشہد کے وقت آپ نے ا نگلی اٹھائی اور کبھی نہیں اٹھائی.تشہد میں انگلی
اٹھانے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے ہاتھ سے بھی اس بات کا اقرا رکرتاہے کہ خداایک ہے.مگریہ دونوں طرح جائز ہے.خواہ کوئی انگلی اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعض عربوں کو دیکھ کرکہ ابھی ان میں پوری طرح توحید نہیں آئی تشہد میں انگلی اٹھانے کاحکم دے دیا.مگر بعض دفعہ آپؐ نے انگلی نہیں بھی اٹھائی.جوشخص توحید کے عقیدہ پر پختگی کے ساتھ قائم ہوگیاہے اگر وہ انگلی نہ اٹھائے تب بھی کوئی حرج نہیں.مگراس مسئلہ پر اتنا زوردیاگیا کہ بعض لوگوں کی محض ا س وجہ سے انگلیاں توڑ دی گئیں کہ انہوں نے تشہد میں انگلی کیوں اٹھائی ہے.پھر قرآن کے متعلق مسلمانوں میں یہ غلط خیال قائم تھاکہ اس کی کئی آیا ت منسوخ ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحبؑ نے آکر کہہ دیاکہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی منسوخ نہیں.بِسْمِ اللہِ سے لے کر وَالنَّاسِ کے س تک ایک ایک حرف اورایک ایک زبراورایک ایک زیر قابل عمل ہے.اب بجائے اس کے کہ مسلمان شکرگذار ہوتے کہ آپ ؐنے ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی ہے جوقرآنی حسن کو نمایاں کرنے والی ہے.چونکہ یہ تعلیم ان کے خیالات کے خلاف تھی انہوں نے آ پ کی مخالفت شروع کردی اورعلماء نے ہندوستان کے ایک سرے سے لیکر اس کے دوسرے سرے تک آپؑ کے خلاف ایک طوفان بےتمیزی برپاکردیا اورآپ کو کافر اورمرتداورزندیق اورواجب القتل قراردیاگیا.(اشاعة السنة جلد ۱۴نمبر ۱صفحہ ۵ ، جلد ۱۴نمبر ۱۰صفحہ ۲۹۸ وجلد ۱۵ نمبر ۷ صفحہ ۱۴۱) غرض تاریخ کا ہر دور وَ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ کی سچائی پرشہادت دے رہاہے.جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغامبر قوم کی زندگی کا پیغام لے کر آیا ہمیشہ اس پر ہنسی اڑائی گئی.اسے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اوراس کے پیغام سے اعراض کیاگیا.اس جگہ بھی اللہ تعالیٰ اسی اعراض کا ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَيَاْتِيْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ چونکہ یہ لوگ صداقت کو جھٹلاچکے ہیں اس لئے اب عنقریب ان کے پا س ان امور کے متعلق جن پر یہ ہنسی اڑایاکرتے تھے ہماری عظیم الشان خبریں پوری ہوکر آجائیں گی.اورانہیں معلوم ہوجائے گا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کیسی خطرناک چیزہے.اس جگہ سزائوں کوخبریں اس لئے کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فرقان کے آخر میں کفار کو تنبیہ کی تھی کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے حضور دعااورگریہ و زاری سے کام نہیں لو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے توان پرعذاب نازل ہوگا اوروہ تباہ کردیئے جائیں گے.پس چونکہ سورئہ فرقان کے آخر میں انہیں عذاب کی خبر دی گئی تھی جس پر کفار نے ہنسی اڑائی اورانہوںنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے اعراض
تفسیر.فرماتا ہے.کیاانہوں نے کبھی غور نہیں کیا.کہ زمین میں ہم نے کس طرح قسم قسم کی اعلیٰ ترکاریاں اورپھل وغیرہ پیداکئے ہیں اگر وہ اس پر غور کرتے توان کومعلوم ہوجاتاکہ دین کے معاملہ میںبھی خداایسا ہی کرے گا.اوراعلیٰ روحانی نعمتیں بھیجے گا جوروح کی غذابنیں گی.اوراعلیٰ قسم کے انسان پیداکرے گا جوایک د وسرے کے ہمدرد اورخیرخواہ ہوںگے.اورگویہ لوگ ابھی خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے مگر تیرارب بڑاغالب اوررحم کرنے والا ہے وہ ضرور ایسی تدبیرکرےگاجس سے دنیا پر اس کی بادشاہت قائم ہوجائے گی.اوراس کے رحم کا لمبا سلسلہ انسانوں کے لئے جاری ہوجائے گا.مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍمیں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تمام نباتات نر ومادہ کی حیثیت رکھتی ہیں.یعنی ان میں کچھ نر پودے ہوتے ہیں اور کچھ مادہ.اور جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب فصل پیدا ہوتی ہے اسی لئے ماہرین زراعت کہا کرتے ہیں کہ باغوں میں شہد کی مکھّیاں رکھنی چاہئیں کیونکہ وہ نر درخت پر بیٹھ کر اُس سے نرکا نطفہ لیتی ہیں.اور مادہ درخت پر جا کر رکھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے اُسے خوب پھل آتا ہے.عرب لوگ کھجو رکے متعلق اس حقیقت کو جانتے تھے اوروہ نراورماد ہ درختوں کو آپس میں ملایاکرتے تھے.مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کاعلم نہیں تھا.ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کے نردرختوںکو مادہ کھجوروں سے ملارہے ہیں.آ پ نے فرمایاکیاکرتے ہو.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم تونرکومادہ پرڈالتے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو.آپ نے فرمایا.اس کاکیافائدہ جو پھل پیداہوناہے وہ توہوناہی ہے.انہوں نے یہ سن کر چھوڑ دیامگرنتیجہ یہ ہواکہ ان کی فصل ماری گئی.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے عرض کیا.یارسول اللہ!ہماری توفصل اچھی نہیں ہوئی.آپؐ نے فرمایا.کیوں.انہوںنے کہا.آپؐ نے جوفرمایاتھا کہ نر کا مادہ مادینہ کھجور پرنہ ڈالو.آپؐ نے فرمایا.میں توتمہاری طرح کاایک انسان ہو ں یہ علم توتم جانتے ہو.مجھے معلوم نہیں.اس لئے تم وہی کچھ کروجسے علمی لحاظ سے تم صحیح سمجھتے ہو.(مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قالہ شرعًا) غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں ذاتی طورپر کوئی علم نہیں تھا.مگراللہ تعالیٰ نے بتایاکہ تمام نباتات آپس میں جوڑا جوڑا ہیں.بلکہ سورئہ ذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (الذاریا ت :۵۰) یعنی نرومادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہرچیز میں ہیں.جمادات میں بھی ہیں.نباتات میں بھی ہیں.حیوانات میں بھی ہیں.اوراب توبعض سائینسدان اس تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نرومادہ کے قائل ہوگئے ہیں.ایک سائینسدان کی کتاب میں میں نے پڑھاکہ ٹین بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک
ٹین نرہوتاہے اورایک مادہ ہوتاہے اوروہ بھی ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرکے ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں.مگرخدا تعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتاہے اورفرماتا ہے کہ ہم نے ہرچیز کاجوڑا بنایاہے اورچیز کے لفظ میں نباتات بھی آجاتی ہے.حیوانات بھی آجاتے ہیں.جمادات بھی آجاتے ہیں.بلکہ اس سے بڑھ کر ذرّات عالم اورمجموعہ ء ذرات عالم بھی آجاتے ہیں اورجب خدا تعالیٰ نے یہ کہاکہ ہم نے ہرچیز کو جوڑابنایاہے تواس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے سواباقی ہرچیز کاجوڑاہے اورکوئی چیز اپنے جوڑے کے بغیر صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی.جس طرح مادی دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے.اسی طرح روحانی دنیامیں انسانی روح خدا تعالیٰ کے فضل اوراس کی رحمت کا جوڑا ہے اورجب تک الٰہی فضل انسانی روح سے آکر نہ ملے اس وقت تک روحانی نسل کاسلسلہ قائم نہیں ہوسکتا.مجھے یادہے.میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں امرتسر میں ہوں وہاں ملکہ کاایک بت تھا جو سنگ مرمر کا بناہواتھااوراس کے ارد گرد ایک چبوترہ تھا اوروہ بھی سنگ مر مرکابناہواتھا.اورچبوترے پر چڑھنے کے لئے سنگ مرمرکی ہی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں.میں نے رؤیامیں دیکھاکہ ان سیڑھیوں پرتین چار سال کا ایک بچہ کھڑاہے جو نہایت حسین اورصاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہے اورآسمان کی طرف دیکھ رہاہے.رؤیامیں میں سمجھتاہوں کہ یہ مسیح ؑ ہے.تھوڑی دیر کے بعد آسمان پھٹااوراس میں سے ایک چیز زمین کی طرف اڑتی ہوئی نظر آئی.وہ خوبصورت رنگو ں والے لباس میں لپٹی ہوئی تھی.اوراس کے پَر تھے جن سے وہ اڑتی ہوئی آرہی تھی.میں رؤیا میں سمجھتاہوں کہ یہ حضرت مریم ؑ ہیں نیچے آکر جیسے مرغی اپنے پَر پھیلا کر بچوںکو اپنے پَروں کے نیچے لے لیتی ہے.اسی طرح اس نے بچہ پراپنے پَر رکھ دیئے.اورجب اس نے ایساکیا تومیری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.LOVE CREATES LOVE یعنی محبت محبت پیداکرتی ہے.(الفضل ۱۵ ؍ مارچ ۱۹۳۰ صفحہ ۹)جب میری آنکھ کھلی تومیں نے سمجھا کہ مریم جو رؤیامیں مجھے بطور ماں دکھائی گئی ہے اس سے مراد خدا تعالیٰ کی محبت ہے اوربچہ جو مسیح کی شکل میں دکھایاگیا و ہ روح کی خداتعالی کی طرف انابت اور جھکنے کاتمثّل تھا.جب انسانی روح خدا تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے تواس کے نتیجہ میں ایک روحانی وجودپیدا ہوتاہے جوخدا تعالیٰ کوایسا ہی پیاراہوتاہے جیسے ماں کو اس کابچہ.کیونکہ خدا تعالیٰ جسم کے ساتھ پیار نہیں کرتا.و ہ وجود جس کے ساتھ خدا تعالیٰ پیار کرتاہے.و ہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ مل کر پیدا ہوتاہے.اوراس کے لئے خدا بمنزلہ ماں بن جاتاہے.یہی سبق اللہ تعالیٰ نے کفار کو دیاہے.اورفرمایا ہے کہ کیا وہ زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں کیسے
کیسے خوبصورت جوڑے پیداکردیئے ہیں پھر کیا وہ اس نظار ہ کو دیکھتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے کہ جس طر ح مادی دنیا میں ہم نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے اسی طرح ان کی روح بھی اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے ایک جوڑے کی محتاج ہے اوریہ جوڑاخدا تعالیٰ کی رحمت سے مل کر مکمل ہوتاہے.پس اگروہ اپنی روحانی نسل کو جاری کرناچاہتے ہیں توانہیں اس خدائی رحمت کے ہاتھ کو تھام لیناچاہیے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں اس کی طرف سے بلندہواہے ورنہ جس طرح ایک بانجھ عورت اولاد سے محروم رہتی ہے.اسی طرح وہ ان روحانی نعماء سے محروم رہیں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لٹائے جارہے ہیں.وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۙ۰۰۱۱ اور(یادکر)جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکاراتھا (اورکہاتھا) کہ ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم کے پاس جا.قَوْمَ فِرْعَوْنَ١ؕ اَلَا يَتَّقُوْنَ۰۰۱۲قَالَ رَبِّ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ (اوران سے کہہ کہ) کیا وہ تقویٰ نہیں کرتے؟ اس نے (جواب میں )کہا.اے میرے رب يُّكَذِّبُوْنِؕ۰۰۱۳وَ يَضِيْقُ صَدْرِيْ وَ لَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ میں ڈرتاہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں.اورمیراسینہ تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ۰۰۱۴وَ لَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ (اچھی طرح) چلتی نہیں پس (میرے ساتھ)ہارونؑ کو بھی مبعوث کر.اور(یہ بات بھی ہے کہ)ان يَّقْتُلُوْنِۚ۰۰۱۵قَالَ كَلَّا١ۚ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ (لوگوں)کامیرے خلاف ایک الزام بھی ہے اورمیں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں.فرمایا.ہرگز نہیں.مُّسْتَمِعُوْنَ۰۰۱۶فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ پس (ہماراحکم سن کر )تم دونوں ہماری آیتیں لیکر (چلے )جائو.ہم (تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ) ساتھ ہوں
الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۱۷اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ۰۰۱۸ گے اور(تمہاری دعائوں کو )سنتے رہیں گے.پس فرعون کے پاس جائو اوراسے کہو کہ ہم رب العالمین(خدا)کے بھیجے ہوئے ہیں.(اس حکم کے ساتھ )کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے.حل لغات.ذَنْبٌ.ذَنْبٌ یُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَسْتَوْخَمُ عُقْبَاہُ (مفردات ) یعنی ہر وہ فعل جس کانتیجہ خراب ہو ذنب کہلاتاہے.تفسیر.فرماتا ہے.اس وقت کو یاد کروجب تمہارے رب نے موسیٰ ؑ کو پکارا اوراسے کہاکہ تُو ظالم قوم یعنی فرعونیوں کی قوم کے پاس جااور اُسے کہہ کہ کیا وہ تقویٰ اختیار نہیں کریں گے ؟ اس پر موسیٰ نے کہا.اے میرے رب! میرے جانے کاکیا فائدہ وہ تومجھے جھٹلادیں گے.علاوہ ازیں میراسینہ ان کے آنے والے سلوک کا تصور کر کے تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان اس ڈر سے بند ہوتی چلی جاتی ہے کہ وہ انکار سے کام لیں گے.پس تو اپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج.نیز وہ مجھ پر گناہ کا الزام بھی عائد کرتے ہیں.سومیں ڈرتاہوںکہ کہیں وہ میری بات سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ان کی مجال نہیں کہ وہ ایسا کرسکیں.لیکن چونکہ تونے ایک خواہش کااظہار کیا ہے ہم ہارون ؑکو بھی مبعوث کرتے ہیں.سوتم دونوں ہمارے نشان لے کر جائو.بڑانشان تویہی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہاری دعائیں سنتے رہیں گے اورفرعون اوراس کے ساتھی تمہار اکچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے.سوتم دونوں فرعون کے پا س جائو اور اسے کہو کہ ہم رب العالمین خدا کی طرف سے تمہاری طرف رسول بن کر آئے ہیں تم ہمارے پیغام کو قبول کرو.اوربنی اسرائیل کو غلامی سے نجا ت دے کر ہمارے ساتھ روانہ کردو.یہ واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس خدا نے فرعون کی قوم کے لئے ہدایت کاسامان مہیا کیاتھا.و ہ مکہ والوں کے لئے کیوں ہدایت کاسامان مہیا نہ کرتا.فرعون کی قوم کے لئے تو کسی پہلے نبی کی دعاموجود نہیں تھی لیکن مکہ والوں کے لئے تو ابراہیم ؑ کی یہ دعاموجود تھی.کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ(البقرۃ: ۱۳۰)یعنی اے ہمارے رب! توان لوگوں میںاپنا ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے انہیں کتاب اورحکمت سکھائے اوران کا تزکیہء نفوس کرے.توبڑاغالب اورحکمت والا ہے.پس اگر بغیر کسی دعا کے اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی ہدایت کے لئے موسیٰ کو مبعوث فرما دیاتواتنی بڑی دعاکی موجودگی میں جبکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ وعدہ تھا کہ وہ اپنے انعامات کی بارش نسل اسمٰعیل ؑ
پر برسائے گا اوراسے بھی ایک بڑی قوم بنائے گا.(پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ )کیوں ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ اپنابرگزیدہ کھڑانہ کرتا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاآنا لوگوں کے لئے کسی حیرت کاموجب نہیں بننا چاہیے.حیرت تب ہوتی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا کوئی سامان پیدانہ ہوتا اورابراہیمی دعا رائیگاں چلی جاتی.پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکا ذکر فرماکر یہود کوبھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم موسیٰ ؑ کی کتاب پر ایما ن رکھتے ہو.تمہیں معلوم ہے کہ تورات میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ ’’ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ ساایک نبی برپاکروں گا اورجوکچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا.اورایساہوگاکہ جوکوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں اس کاحساب اس سے لوںگا.‘‘ (استثنا باب۱۸ آیت ۱۸،۱۹) کیااس پیشگوئی کے مطابق یہ ضروری نہیں تھا کہ موسیٰ ؑ کے بعد بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل میں سے ایک ایسانبی آتا جوموسیٰ ؑکامثیل ہوتا.یعنی جس طرح وہ صاحب شریعت نبی تھا اسی طرح آنے والا رسول بھی صاحب شریعت ہوتا.پھر تورات میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ وہ جب بھی خدا کاکلام سنائے گاتوکہے گاکہ میں خدا کانام لے کر تمہیں یہ کلام سناتاہوں چنانچہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع ہوتی ہو.ہرسورۃ سے پہلے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا ہواہوتاہے جوہریہودی اورعیسائی کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم کیوں اس نبی کو نہیں مانتے جوموسیٰ ؑکی پیشگوئی کے مطابق جب خدا تعالیٰ کا کلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کانام لے کر یہ کلام سناتاہوں اورپھر بھی اس کو کوئی سزانہیں ملتی.غرض موسیٰ ؑکا ذکر مکہ والوں کو دعائے ابراہیمی کی طرف اوریہودیوںاورعیسائیوں کو تورات کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلانے کے لئے کیاگیاہے اور کہا گیاہے کہ وہ اس دعااورپیشگوئی کی عظمت کو سمجھیں اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب کااسی طرح نشانہ نہ بنیں جس طرح فرعون موسیٰ ؑکاانکار کرکے نشانہ بنا.اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ.قَوْمَ فِرْعَوْنَمیں یہ بتایاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کی طرف بھجوایاگیا تو آپ کا بڑاکام یہی تھاکہ بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات دلائیں.اورفرعون کو سمجھائیں کہ وہ اس الٰہی منشاء میں روک نہ بنے.اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دے.چنانچہ جب بنی اسرائیل مصر سے چلے گئے توپھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوںسے کوئی واسطہ نہ رہا بلکہ ان کی تمام ترتوجہ بنی اسرائیل کی
طرف ہی مبذول رہی جن کی ہدایت اورترقی کے لئے وہ مبعوث کئے گئے تھے.مگرچونکہ بنی اسرائیل اہل مصر سے مل جل کررہتے تھے اوربنی اسرائیل کو الگ مخاطب کرنے اوران کے اند رایک نئی مذہبی روح پیداکرنے کی ا س وقت کو ئی صورت نہیں تھی اس لئے ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اوراس کی قوم کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں شریک کرلیا.اورآپ نے فرعون اوراس کی قوم کو بڑی بھار ی تبلیغ کی اورمتواتر کئی نشانات کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی.مگر بنی اسرائیل کے مصر سے چلے جانے کے بعد آپ کامصریوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہ رہا.کیونکہ آپ اصولی طور پر صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے ہی مبعوث ہوئے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی اورآپ ؐمدینہ تشریف لے گئے تومکہ والوں سے آپ کاتعلق منقطع نہیں ہوابلکہ آپ برابران کی ہدایت کے لئے کوشش فرماتے رہے.جوآپ ؐکے درجہ اورمقام کی بلندی کا ایک بہت بڑاثبوت ہے.اَلَایَتَّقُوْنَ میں بتایا گیاہے کہ انبیاء کی بعثت کی اہم غرض تقویٰ کاقیام ہوتی ہے.مگربالعموم لوگ غلطی سے نیکی اور تقویٰ کو ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی تووہ نیک کام ہوتاہے جوہم کرچکے ہیںیاکررہے ہیں.اورتقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑاہوجائے کہ اس کے دل میں آئندہ جوجذبات بھی پیداہو ں وہ نیک اورپاک ہوں.کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گو ان کا ظہور دما غ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتاہے.سائینسدان اس امر پر بحثیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع دماغ ہے دل نہیں اوریہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کاجیساکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اوررؤیاو کشوف سے پتہ چلتاہے دل سے تعلق ہے ہاں دما غ چونکہ منبت اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اوردل کے علوم مخفیّہ سے مستفیض ہونا اس کاکام ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیا ۃ کا مقام دل کو قرار دیاہے دماغ کو نہیں.اور روح کا سب سے گہراتعلق اس عضو سے ہو سکتا ہے جوانسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتاہو اورجس کاکام سب سے نمایاںہو.اوروہ اہم کام دل کاہی ہے.دماغ کانہیں.دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بندہونے سے کلّی طورپر انسان پرموت وارد ہوجاتی ہے.لیکن دماغ میں اگر فتور پیداہوجائے توگواس وجہ سے کہ دما غ کاکام علوم قلبیہ کو محسوس کرناہے علوم پردہ میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان پر موت بھی وا رد ہوجائے.غرض دماغ خادم ہے اوردل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل کرتاہے.لیکن خواہ فلسفیوں کے تتّبع میں کوئی شخص تدبراورتفکر اوراخلاق فاضلہ کاتمام مدار دماغ پررکھے یایہ کہے کہ انسانی عقل اورمعرفت کاسرچشمہ دل ہے.اور دماغ کو علوم اورمعارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اوردماغ کی بجائے جذبات اورافکار کالفظ استعمال کرے.
بہرحال کوئی بھی صورت ہو انسان کے لئے دوچیزوں کی صفائی نہایت ضروری ہے ،ان میں سے ایک فکر ہے اور دوسری جذبات لطیفہ ہیں.افکارکی صفائی جسے عربی میں تنویرکہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے.تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندرایسانورپیداہوجائے جس کی وجہ سے ہمیشہ صحیح خیالات پیدا ہوتے رہیں.جس طرح ایک تندرستی تویہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اس وقت تندرست ہوں.اورایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آئندہ بھی تندرست رہے.اسی طرح تنویر فکر کی وہ درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیداہوں درست ہی ہوں.اورتنویر کے جومعنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنے دل کی نسبت سے ہیں.یعنی جس طرح فعلاً صحیح خیال کاپیداہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کاپیداہوجاناکہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیدا ہوتے رہیں تنویر ہے.اسی طرح تقویٰ صرف ایک یاچند نیکیوں کانام نہیں بلکہ انسان کاایسے مقام پر کھڑاہوجاناتقویٰ کہلاتاہے کہ اس کے اند رجوجذبات بھی پیداہوں وہ ہمیشہ نیک اورپاک ہوں.اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میراشیطان مسلمان ہوگیاہے(مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان).یعنی میرے دل میں جوخیال بھی پیدا ہوتاہے نیک ہی ہوتاہے برانہیں ہوتا.غرض افکار کے لئے تنویر اورجذبات کے لئے تقویٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور انسان بدی کے حملہ سے اسی وقت محفوظ ہوتاہے جب کسی انسان کو تنویر افکار بھی حاصل ہواورتقویٰ قلب بھی حاصل ہو.پس اَلَا یَتَّقُوْنَ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قومِ فرعون کی طرف تقوی اللہ کا پیغام لے کر گئے تھے.اور آپ کی بعثت کا بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی دعائوں اور تبلیغ اور نصائح کے نتیجہ میں ان کی ایسی اصلاح کردیں کہ نہ صرف ان کے افکار اور ان کے جذبات میں درستی پید اہوجائے بلکہ ان کے اندر ایسا ملکہ پید ا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ان کے دماغ میں کوئی خیا ل پید ا ہووہ صحیح ہو.اور جب بھی ان کے دلوں میں کوئی جذبات پید ا ہوں وہ پاکیزہ ہوں.یہی چیز ہے جس پر تمام انبیاء زور دیتے چلے آئے ہیں.اور اسلام نے بھی اس کی طرف باربار توجہ دلائی ہے.کیونکہ روحانی علوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں.اگر کسی شخص کا دل پاک نہ ہو تو وہ الٰہی فیضان سے محروم رہتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا توانہوںنے عرض کیا کہ رَبِّ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ.اے میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں.اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سنت قدیم کا علم نہیں تھا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہوتاہے تو دنیا ا س کا انکار کیا کرتی ہے بلکہ ان کا خوف اس وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ تمام قومیں اپنے اپنے زمانہ میں انبیاء کا
انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں.پس ان کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اگر ان لوگوں نے بھی انکار کیا تو یہ بھی خدائی گرفت میں آجائیں گے.اور یہ چیز ایسی ہے جو انبیا ء کے لئے سخت دکھ کا موجب ہوتی ہے پس انہوں نے فرعون کی طاقت اورا س کے مظالم پر نظر دوڑاتے ہوئے اس امکانی خطرہ کا اظہار کیا کہ وہ اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے تکذیب پر کمر بستہ ہو جائےگا اوراپنے اس تلخ انجام کو اپنے قریب کرلے گا جو ہمیشہ سے منکرین انبیاء کا ہوتا چلاآیا ہے.چنانچہ آیت کا اگلا ٹکڑا ان معنوں کی تائید کرتاہے.وہ فرماتے ہیں وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ.اے میرے رب! میرا سینہ تنگی محسوس کرتاہے.یعنی ان کے ہدایت کو ردّکردینے کے خیال سے میری یہ کیفیت ہے کہ میراسینہ تنگ ہورہاہے اورمیرادم گھٹ رہاہے.ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس محبت کی طرف اشار ہ فرمایا ہے جوانہیں اپنی قوم سے تھی اوربتایاہے کہ ان کاسینہ اپنی قوم کے کفراورفسق کاتصور کرکے تنگی محسوس کرتاتھا اوروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قوم الٰہی پیغام کا انکار کرکے اس کےعذاب کی مستحق ہو.مگر اس بارہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاہے کہ رَبِّ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ اے میرے رب !میں ڈرتاہوں کہ وہ کہیں میری تکذیب نہ کردیں.مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ(الانعام :۳۴) یعنی ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ یہ مخالف لوگ کہتے ہیں.اس سے تجھے بڑاسخت غم پہنچتاہے کیونکہ یہ تجھ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کاانکار کرتے ہیں.اس آیت میں بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کویہ فکر نہیں تھا کہ قوم ان کی تکذیب کررہی ہے بلکہ آپ اگر غمزدہ تھے تواس لئے کہ قوم خدا تعالیٰ کی آیات کاانکار کررہی ہے.گویا آپ کاغم اپنی ذات کے لئے نہیں تھا.بلکہ آپ کاغم محض اس وجہ سے تھا کہ قوم خدا تعالیٰ کو ردّکررہی ہے اورہرشخص سمجھ سکتاہے کہ ان دونوں نظریوں میں کتنا بڑافرق ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تویہ ڈر تھاکہ قوم میری تکذیب کرے گی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم تھا کہ قوم خدا کاانکار کررہی ہے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تواپنی قوم سے صرف اتنی محبت تھی کہ اپنی قوم کے کفر کودیکھ کر ان کاسینہ تنگی محسوس کرتاتھا مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی قوم کے کفرکا اتنا درد تھاکہ صدمہ کے مارے آپ ؐکی جان نکلی جارہی تھی.جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء:۴)یعنی ان لوگوںکے ایمان نہ لانے اورکافررہنے کا ہمارے رسول کو اس قدر صدمہ ہے کہ گویا اس کی گردن پر تلوار رکھ کرکسی نے ایک سرے سے
لے کر دوسرے سرے تک اسے کاٹ دیاہے.جب لوگوں کے ایمان نہ لانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر افسوس تھا توان کاکفرکی حالت میں مرجانا آپؐ پر کس قد رگراں گذرتاہوگا؟ جوشخص صرف اس بات سے ہی صدمہ محسوس کرتاہو کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لایا اس کے دل پر اس وقت کیا گذرتی ہوگی جب اسے یہ معلوم ہوتا ہوگا کہ اب کفر پر اس کاخاتمہ بھی ہوگیاہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ دنیامیں ہمیشہ بڑی چیزوں پر چھوٹی چیزوں کو قربان کیا جاتا ہے مگراللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزورانسانیت پراپنے پیداکئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جوہروں کو قربان کیا.آدم ؑاپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جوہر تھا.مگراللہ تعالیٰ نے ان کمزورلوگوں کے لئے جنہوں نے شیطان کا ساتھ دیا آدم ؑ کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا.حضرت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے قیمتی وجود تھے.مگراللہ تعالیٰ نے ان ازلی شقیوں اوران بدبخت وجودوں کے لئے جو ہدایت سے محرومی اختیار کرچکے تھے حضرت نوح علیہ السلام کی جان کو قربان کرادیا.حضر ت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کو کمزور اورناقص انسانوں کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کرب وبلامیں مبتلاکیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی سے قیمتی وجود تھے مگر وہ بنی اسرائیل جو خداکے لئے صرف اس قربانی کے مالک تھے کہ انہوںنے کہہ دیا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(المائدۃ :۲۵) اے موسیٰ! تواورتیرارب دونوں جائو اور ان سے جنگ کرو.ہم توبہرحال اسی جگہ بیٹھے رہیں گے.اس بزدل اورنشانات سے آنکھیں بندکرلینے والی قوم کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی ترین وجودوں میں سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ وہ سانپ اورسانپوں کے بچے ہیں (متی باب ۲۳آیت ۳۳)ان کی زندگی کو بھینٹ چڑھادیا.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پاک اوراعلیٰ وجود اس دنیا میں کون آیا کہ جس کے متعلق ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایاکہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (فوائدالمجموعہ مصنفہ علّامہ شوکانی کتاب الفضائل باب فضائل النبی ؐ) اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تجھے پیدانہ کرنا ہوتاتومیں زمین وآسمان کو بھی پیدانہ کرتا مگر وہ وجود جس کی خاطر بنی نوع انسان پیداکئے گئے.ابوجہل ،عتبہ اورشیبہ کی ہدایت اوربھلائی کے لئے اس کو ایک ایسی صلیب پر لٹکادیا جولوگوں کو تو نظرنہیں آئی مگرخدا تعالیٰ جس کی نظر میں ہر عیب بھی ظاہر ہے وہ اس صلیب کے متعلق فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )شایدکہ غم کی چھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے
تیری گردن کے آخری تسموںکوبھی کاٹ دے گی اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے.غرض جہاں تک قربانی اورمحبت کاسوال ہے دنیا کے ہرنبی نے اپنی قوم کے لئے قربانیاں کیں.اورہرنبی اپنی قوم کے کفر اورنفاق کو دیکھ دیکھ کر پریشان حال رہا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورپہلے انبیاء میں یہ فرق ہے کہ پہلے انبیاء کے سینہ میں تواپنی قوم کا کفردیکھ کرصرف تنگی محسوس ہوتی تھی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کاکفردیکھ کر ایساغم ہوتاتھا کہ قریب تھا کہ آپ اس غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلا ک کرلیتے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاکہ رَبِّ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ملاکہ جااوردنیا کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا توآپؐ نے فوراً اپنی بیوی کو خبر دی اورپھر بعد میں اپنی ساری قوم کو خبر دی اوریہ نہیں کہا کہ قوم میری تکذیب کرے گی بلکہ آپؐ نے دلیری سے خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہااور کسی ڈراورخوف کا اظہار نہیں کیا.یہ امربتاتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند تھا.اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اوربات کی اورفرمایا لَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ اے میرے رب ! میری تو زبان ہی نہیں چلتی.مگرخدا تعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی موسیٰ ؑجنہیں یہ خوف تھاکہ میں فرعون کے دربا رمیں کس طرح بات کرسکوں گا اورجنہوں نے حضرت ہارو ن علیہ السلام کی یہ خوبی بیان کی تھی کہ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا (القصص : ۳۵) وہ بات کرنے میں مجھ سے بہت زیادہ فصیح ہیں جب فرعون کے سامنے جاتے ہیں توحضرت ہارون ؑ کو ایک فقرہ بھی بولنے نہیں دیتے.اورخود ہی اس کے تمام سوالات کے جواب دیتے چلے جاتے ہیں.اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یقیناً فصیح البیان تھے اوران کی زبان میں جیساکہ پرانے مفسرین خیال کرتے ہیں کوئی خلقی نقص نہیں تھا (تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت ربّ اشرح لی صدری)صرف اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ کو فصاحت بیان میں حضرت ہارون علیہ السلام سے کم درجہ پر سمجھتے تھے.مگرجب اللہ تعالیٰ نے رسالت کا کام آپ کے سپر د کیا اورفرعون کے دربار میں آپ تشریف لے گئے.تووہاںآ پ کی فصاحت اورآ پ کے دلائل کی مضبوطی کی ایسی دھاک بیٹھی کہ فرعون جھنجلااٹھا اوراس نے سمجھا کہ اب مقابلہ کے لئے کوئی اجتماعی پروگرام مرتب کرنا چاہیے ورنہ یہ لوگوں کو برگشتہ کردے گا.ہم نے اپنی جماعت میں بھی دیکھا ہے کہ جب کو ئی شخص اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتاہے توباوجود اس کے کہ وہ ان پڑھ اورجاہل ہوتاہے احمدی ہوتے ہی اس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ بڑے بڑے مولوی اس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اورکترانے لگ جاتے ہیں.اس کی عقل پہلے سے تیز ہوجاتی ہے اوراس کی بحث
کرنے کی قابلیت غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے جس سے صاف پتہ لگتاہے کہ ان کا علم اپنانہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا عطا کیاہواہوتاہے جو ہرموقعہ پر ان کی تائید کرتا اورانہیںوقت پرایسی ایسی باتیں سمجھادیتاہے کہ حیرت آتی ہے.قادیان میں ایک شخص ’’پیرا‘‘ہواکرتاتھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا خادم تھا وہ اتنی موٹی عقل کاآدمی تھا کہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتاتھاکہ احمدیت کیاہے.لیکن اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ساتھ ایک ذاتی لگائو تھا.کہیں اس کو گنٹھیا کی بیماری ہوگئی.و ہ پہاڑی آدمی تھا اس کے رشتہ داروں کو بعض لوگوں نے کہا کہ یہاں ا س کاعلاج نہیں ہوسکے گا اسے کہیں میدانوں میں لے جائو.چنانچہ وہ اسے گورداسپورلے آئے.مگرچونکہ وہ سب غریب آدمی تھے اورایسے لوگوںکو روٹی بھی کھلانی پڑتی ہے اوردوائی بھی دینی پڑتی ہے اس لئے کوئی شخص علاج کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتاتھا.آخر کسی نے ان کو بتایاکہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جو بڑے خدا پرست ہیں.وہ معالج اورحکیم بھی ہیں ان کے پاس لے جائو وہ اس کی خبر گیری بھی کریں گے اوردوابھی دیں گے.چنانچہ اس کے رشتہ دار اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس لے آئے اوراسے وہاں چھوڑ کر کھسک گئے.حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اورآہستہ آہستہ اسے آرام آناشروع ہوگیا.جب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہواکہ اب وہ اچھا ہوگیاہے اورکام کاج کرسکتاہے.تودوسری سردیوں میں پھر اس کے رشتہ دار آئے اورانہوں نے کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑے.مگرمعلوم ہوتاہے اس کے قلب میں نیکی تھی.جب انہوں نے اسے کہا کہ ہم تجھے لینے کے لئے آئے ہیں توکہنے لگا.تم بے شک میرے رشتہ دارہو مگر تم مجھے چھوڑ کرچلے گئے تھے.اس لئے اب توجس نے میراعلاج کیا اورجس کی وجہ سے میں اچھا ہوا.میرارشتہ دار وہی ہے میں اسے چھوڑ کرنہیں جاسکتا.وہ ڈیوڑھی پر پڑارہتاتھا اورجومہمان آتاتھا اس کی خدمت کرتاتھا.اسی طرح گھرکامعمولی کام کاج بھی کردیاکرتاتھا.اس کی عقل کایہ حال تھاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسے بڑامجبور کیاکرتے تھے کہ وہ نماز پڑھے مگر وہ یہی جواب دیتاتھاکہ مجھے نماز نہیں آتی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بھی بڑاجوش تھا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے دروازے پر بیٹھارہتاہے اورنمازیں نہیں پڑھتا لوگ اسے دیکھیںگے تو اعتراض کریں گے اس لئے آپ اسے بار بار نماز پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے مگر وہ جواب دیتا مجھے نماز یاد ہی نہیں ہوتی.آخر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے تنگ آکر اسے فرمایا کہ نماز نہیں آتی توسبحان اللہ سبحان اللہ ہی کہہ لیا کرو.چنانچہ اس کے بعد وہ کبھی ساتویں آٹھویں دن نماز میں شامل ہوجاتاتھا.اورسبحان اللہ سبحان اللہ کہتا رہتاتھا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک دن اس خیال سے کہ شاید انعام کے لالچ سے اسے نماز پڑھنے کی عادت ہوجائے.اسے فرمایا.پیرے اگرتم ایک
دن پانچوں نمازیں وقت پر پڑھو اورایک نماز کابھی ناغہ نہ کرو.تومیں تمہیں دوروپے انعام دوں گا دوروپے اس زمانہ میں اس کے لئے بڑابھاری انعام تھا.وہ کہنے لگا.آج ضرور میں پانچوں نمازیں پڑھوں گا.شاید عشاء کا وقت تھا جب اس نے نماز شروع کی صبح ہوئی توپھر بھی اس نے ہمت کرکے نماز پڑ ھ لی.ظہر اورعصرمیں بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہوگیا.صرف مغرب کی نماز رہتی تھی.ان دنوں چونکہ مہمان تھوڑے ہواکرتے تھے اس لئے ان کا کھاناہمارے گھر تیارہواکرتاتھا.اورمغرب کے وقت ان کاکھاناگھرسے جایاکرتاتھا.اتفاق ایساہواکہ اس دن مغرب کی نماز نسبتاً دیر سے ہوئی.اورکھانالے جانےکا وقت ہوگیا.جوعورت اند رسے کھانا لایاکرتی تھی اس نے پیرے کو آواز دی کہ پیرے کھانا تیار ہے.مہمانوں کے لئے لے جائو.مگرپیرامسجد میں تھا.اوراس وقت نماز ہورہی تھی.لیکن بلانے والی عورت کو اس کاعلم نہ تھا.اس نے دوچار آوازیں دیں مگرپیراوہاں ہوتا تو جواب دیتا.آخراس نے زورسے آواز دی کہ پیریاکھانالے جانہیں تومیں تیری شکایت کروں گی.یہ آواز چونکہ اس نے زور سے دی تھی.اس لئے پیرے نے بھی سن لی.جس پر اس نے نماز میں ہی جواب دیاکہ ’’ ٹھہرجا!التحیات پڑھ لواںتے آنداں.‘‘یعنی ٹھہرجائو.ابھی تشہّد پڑھ کرآتاہوں.گویا عین آخری تشہد میں و ہ بول پڑا اوراس طرح اس نے اپنے دوروپے کھودیئے.تووہ بہت ہی موٹی عقل کا آدمی تھا.اتنی موٹی عقل کاکہ وہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے دال میں مٹی کاتیل ڈال کر کھالیا کرتاتھا اورجب لوگ کہتے کہ تم مٹی کا تیل کیوں ڈالتے ہو.توکہتا.اس میں کیاحرج ہے.سرسوں کاتیل نہ ڈالاتو مٹی کا تیل ڈال لیا.اس وقت قادیان میں نہ تا رگھر تھا.اورنہ ریل آیاکرتی تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی تاردینے کی ضرورت پیش آتی یاکوئی ریلوے پارسل منگوانا ہوتا توآپ ؑبٹالے کسی آدمی کو بھجوادیاکرتے تھے اور کبھی کبھی پیرے کو بھی اس غرض کے لئے بھیج دیتے تھے.ان دنوں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی جو سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین مخالفوں میں سے تھے اسٹیشن پرجایاکرتے تھے اورجب کسی نوواردمسلمان کو اترتے دیکھتے تواسے پوچھتے کہ وہ کہاں جاناچاہتاہے اورجب کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ قادیان جاناچاہتاہے تواسے ورغلانے کی کوشش کرتے اورکہتے کہ یہیں سے واپس چلے جائو.قادیان میں جاکر تمہاراایمان خراب ہوجائے گا.ایک دن انہیں اورکوئی شکار نہ ملاتو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا.وہ اس دن کوئی تاردینے یا کوئی بلٹی لینے کے لئے بٹالے گیاہواتھا.مولوی محمد حسین صاحب اسے کہنے لگے.پیرے تیراتوایمان خراب ہوگیاہے.مرزا صاحب کافر اوردجال ہیں تواپنی عاقبت ان کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتاہے.پیراان کی باتیں سنتا رہا.جب وہ اپنا جوش نکال چکے توانہوں نے اپنی باتوں کی پیرے سے بھی تصدیق کروانی چاہی اورانہوں
نے اس سے پوچھا کہ بتائو میری باتیں کیسی ہیں.پیرا کہنے لگا.مولوی صاحب.میں توان پڑ ھ اورجاہل ہوں.مجھے نہ کوئی علم ہے اورنہ میں مسئلے سمجھ سکتاہوں.لیکن ایک بات ہے جو میں بھی سمجھ سکتاہوں اوروہ یہ کہ میں سالہاسال سے بلٹیاں لینے اورتاریں دینے کے لئے یہاں آتاہوں اورمیں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پرآآکر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں.آپ کی اب تک شایداس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گھِس گئی ہوں گی.مگرپھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا.اورمرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں پھر بھی لوگ ان کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں.آخر کوئی بات توہے جس کی وجہ سے یہ فرق ہے.اب دیکھو !یہ کیسالطیف اورصحیح جواب ہے.وہ فی الحقیقت دینی مسائل کونہیں سمجھ سکتا تھا اوروہ نہیں جانتا تھا کہ دلائل کیا ہوتے ہیں.مگر فطرت کے لگائو اورمحبت کی وجہ سے اس نے فوراً سمجھ لیاکہ یہ شخص بہر حال جھوٹ بول رہاہے.تواللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتاہے کہ انسان کی عقل دنگ ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے پاس سارے سامان ہیں.اورجس چیز کی کمی ہووہ اس کے پاس موجود ہوتی ہے.عقل کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے جرأت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے سخاوت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے.صحت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے.عزت کی کمی ہو تو اس کے پاس موجود ہے.مال کی کمی ہوتو وہ اس کے پا س موجود ہے.غرض ہرچیز کے خزانے اس کے پا س موجود ہیں.اوروہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتاہے کہ انسان حیران ہوجاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آتھم کے مباحثہ میں ہم نے جونظار ہ دیکھا اس سے پہلے توہماری عقلیں دنگ ہوگئیں اورپھر ہمارے ایمان آسمان پر پہنچ گئے.فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آگئے اورانہوں نے دیکھا کہ ہماراکوئی دائو نہیں چلاتوچند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملاکرانہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے، کچھ بہرے کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلالئے اورانہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا لیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے توجھٹ انہوں نے ان اندھوں بہروں اور لولوں لنگڑوں کونکال کر آ پؑ کے سامنے پیش کردیا.اورکہا زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے آپ کہتے ہیں میں مسیح ناصر ی کامثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیاکرتے تھے بہروں کو کان بخشاکرتے تھے اورلولوں لنگڑوں کے ہاتھ پائوں درست کردیاکرتے تھے.ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چند اندھے ، بہرے اورلولے لنگڑے اکٹھے کردیئے ہیں.اگر آپ فی الواقعہ مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کرکے دکھادیجئے.حضرت خلیفہ اول ؓ فرماتے تھے کہ ہم لوگوںکے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اورگوہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یوںہی ہے
مگر اس خیال سے گھبراگئے کہ آج لوگوں کو ہنسی اورٹھٹھے کاموقعہ مل جائے گا.مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ کو دیکھا توآپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی یاگھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.جب وہ بات ختم کرچکے تو آپ نے فرمایا دیکھئے پاد ری صاحب میں جس مسیح کے مثیل ہونے کادعویٰ کرتاہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں، بہروں اورلولوں لنگڑوںکواچھا نہیں کیاکرتاتھا مگرآپ کایہ عقیدہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں جسمانی بہروں، جسمانی لولوں اور جسمانی لنگڑوں کو اچھاکیاکرتاتھا اورآپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی برابر بھی ایمان ہو اور تم کسی پہاڑ سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تووہ چلاجائے گا (متی باب ۱۷ آیت ۲۰ و لوقا باب ۱۷ آیت ۶).اوراگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے توو ہ اچھے ہوجائیں گے (مرقس باب ۱۶ آیت ۱۸).پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہوسکتا میں تووہ معجزے دکھا سکتاہوں جو میرے آقاحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے آپ ان معجزوں کامطالبہ کریں تومیں دکھانے کے لئے تیار ہوں.باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتادیاہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اند رایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھاسکتاہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے.سوآپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچا لیااوران اندھوں ،بہروں، لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھاکردیا اب یہ اندھے بہرے لولے اورلنگڑے موجود ہیں اگرآپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے توان کو اچھاکرکے دکھادیجئے.آپ فرماتے تھے اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولوں لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کرالگ کرنے لگ گئے.تواللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہرموقعہ پر عزت بخشتا ہے.اوران کوایسے ایسے جواب سمجھاتاہے جن کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکارہ جاتاہے.قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جودنیا کامشہورترین پادری اورامریکہ کارہنے والاتھا.وہ وہاںکے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹربھی تھا.اوریوں بھی ساری دنیاکی عیسائی تبلیغی سوسائیٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتاتھا.اس نے قادیان کابھی ذکر سناہواتھا.جب وہ ہندوستان میں آیا تواورمقامات کودیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا اس کے ساتھ ایک اورپادری گارڈن نامی بھی تھا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے.انہوںنے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے.مگرپادری آخر پادری ہوتاہے نیش زنی سے باز نہیں رہ سکتا.ان دنوں قادیان میں ابھی ٹائون کمیٹی نہیں بنی تھی.اورگلیوں میں بہت گند پڑارہتاتھا.پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کرکہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اورنئے مسیح کے گائوں کی صفائی بھی دیکھ لی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کرکہنے لگے.پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اوریہ اس کی صفائی کانمونہ ہے.
نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی.اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اورذلیل ہوگیا.پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ میںآپ سے ملناچاہتاہوں میری طبیعت کچھ خراب تھی.میں نے جواب دیاکہ پادری صاحب بتائیں کہ وہ مجھے کیوں ملناچاہتے ہیں.انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتاہوں.مگرپہلے نہیں بتاسکتا.خیر میں نے ان کو بلالیا.وہ بھی آگئے اورپادری گارڈن صاحب بھی آگئے.ایک دودوست اوربھی موجودتھے.پادری زویمر صاحب کہنے لگے میں ایک دوسوال کرناچاہتاہوں.میں نے کہافرمائیے.کہنے لگے اسلام کاعقیدہ تناسخ کے متعلق کیاہے ؟ آیاوہ اس مسئلہ کومانتاہے یاانکار کرتاہے.جونہی اس نے یہ سوال کیامعاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیاکہ اس کا اس سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جومسیح موعود کومسیح ناصری کابروز اوران کا مثیل کہتے ہو.توآیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصر ی کی روح ان میں آگئی ہے.اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا.اورتناسخ کاعقید ہ قرآن کریم کے خلاف ہے چنانچہ میں نے انہیں ہنس کر کہا.پادر ی صاحب آپ کوغلطی لگ گئی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کامثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اور روحانیت کے رنگ میں رنگین ہوکر آئے ہیں.میں نے جب یہ جواب دیا تواس کارنگ فق ہوگیااورکہنے لگاآپ کو کس نے بتایا کہ میں نے یہ سوال کرناتھا.میں نے کہا آپ یہ بتائیں کہ آیا آپ کااس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں؟ کہنے لگا.ہاں میرامنشاء تویہی دریافت کرناتھا.میں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تواحمدی مرزا صاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں.پھر میں نے کہا اچھا آپ دوسراسوال پیش کریں.کہنے لگا.میرا دوسراسوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہیے یعنے اس کو اپنا کام سرانجا م دینے کے لئے کس قسم کا مقام چاہیے.جونہی اس نے یہ دوسراسوال کیا.معاً دوبارہ خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کامنشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹاساگائوں ہے یہ دنیاکامرکز کیسے بن سکتاہے.اوراس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے.اگر حضرت مرزا صاحب کی بعثت کامقصدساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے توآپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہیے تھا جہاں ساری دنیامیں آواز پہنچ سکتی ہو.نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹا سا گائوں ہے اس میں آپ کو بھیج دیاجاتا.غرض اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اورمیں نے پھر اسے مسکراکر کہا.پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑاکوئی شہر ہو وہاں نبی آسکتاہے.حضرت مسیح ناصری جس گائوں میں ظاہرہوئے تھے اس کانام ناصر ہ تھا اورناصر ہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی.میرے اس جواب پر پھراس کارنگ فق ہوگیا.اوروہ حیران ہواکہ میں نے اس کی اسی بات کا جواب دےدیا
جو درحقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی.اس کے بعد اس نے تیسراسوال کیا جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا.بہرحال اس نے تین سوال کئے اورتینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کرکے مجھے بتادیاکہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیاہے اورباوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اورسوال کرتاتھا پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کااصل منشاء مجھ پرظاہر کردیتا.اوروہ بالکل لاجواب ہوگیا.تواللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اوراس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتاہے.اوریہ تصرف صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوتاہے بندوں کے اختیارمیں نہیں ہوتا.ایک دفعہ ایک کج بحث ملا مسجد میں مجھےملا.اورکہنے لگامجھے مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے.میں نے کہا قرآن موجود ہے ساراقرآن مرزا صاحب کی صداقت کاثبوت ہے.کہنے لگا کون سی آیت.میں نے کہا قرآ ن کی ہر آیت مرزا صاحب کی صداقت کاثبوت ہے.اب یہ توصحیح ہے کہ قرآن کی ہرآیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہوسکتی ہے.مگر بعض آیات ایسی ہیں کہ ان کاسمجھا نا اوریہ بتاناکہ کس رنگ میں اس سے نبی کی صداقت کاثبوت نکلتاہے بہت مشکل ہوتاہے.فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کاواقعہ بیا ن ہو تواب گواس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے مگروہ ایسارنگ ہوتاہے جوعام طبائع کی سمجھ سے بالاہوتاہے.مگر مجھے اس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرماکر اس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوجائے گی.خیر وہ اصرا رکرتارہا کہ آپ کوئی آیت بتائیں.مگر میں یہ کہوں کہ آپ کوئی آیت پڑھ دیں.اسی سے میں حضرت مرزا صاحبؑ کی صداقت ثابت کردوں گا.آخر اس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ (البقرۃ : ۹)میں نے سمجھ لیاکہ یہ اللہ تعالیٰ کاہی تصرف ہے کہ اس نے اس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا.یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے.مسلمانوں کے متعلق ہے یاغیر مسلمانوں کے متعلق.اس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں اورروزے رکھتے ہیں حج کرتے ہیں اورخدااوراس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں توان کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے.جب اس نے یہ آیت پڑھی تومیں نے اس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے.اس نے کہا.مسلمانوں کے متعلق.میں نے کہاتوپھریہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ خراب ہوجاتے ہیں.وہ منہ سے توکہتے ہیں ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے.اورقرآن یہ بتاتاہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ دینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کاثبوت نہ دے.اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں توکیا خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گایانہیں بھیجے گا؟دلوں
کوتسلی دینا تو خدا کاکام ہے مگر اس کی زبان بندہوگئی اوروہ اس کاکوئی جواب نہ دے سکااوراس بات کامیرے دل میں پہلے ہی یقین تھا کہ جو آیت اس کے منہ سے نکلے گی وہ وہی ہوگی جس سے اس کی زبان بند ہوجائے گی توعلم بھی خداکے اختیار میں ہے.جرأت بھی خداکے اختیار میں ہے.عزت بھی خداکے اختیار میں ہے اورطاقت بھی خداکے اختیا رمیں ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میں فرعون کے دربار میں کہاں بول سکوں گا.مگر جب وقت آیاتواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ فرعون دنگ رہ گیا اوراسے دلائل کے میدان میں موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دینے پڑے.اس موقعہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جویہ فرمایاکہ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ تُواپنا پیغام ہارونؑ کی طرف بھیج.اس سے یہ مراد نہیںکہ تومجھے مبعوث نہ کر بلکہ جیساکہ سورئہ طٰہٰ سے معلوم ہوتاہے.انہوں نے یہ دعاکی تھی کہ وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ.هٰرُوْنَ اَخِي.اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِيْ.وَ اَشْرِكْهُ فِيْۤ اَمْرِيْ (طٰہٰ : ۳۰تا۳۳)یعنی اے میرے خدا! میرے اہل میں سے ہارون کو جو میرابھائی ہے میرانائب تجویز کر اوراس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط فرما اوراسے میرے کام میں شریک کر.پس اَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَکے یہ معنے ہیں کہ میرے علاوہ اس کی طرف بھی کلام بھیج اوراسے بھی میرے ساتھ مبعوث فرما.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی مقدس انسان کو نبوت کا مقام عطا کیا جاتا ہے تووہ انکسار کی وجہ سے گھبراتاہے اورخیال کرتاہے کہ ایسانہ ہومیں اس عظیم الشان ذمہ واری کو پوری طرح ادانہ کرسکوں.اوراس میں میری طرف سے کوئی خامی اورنقص رہ جائے.یہی طریق تما م انبیاء کاہے اوراسی طریق سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کام لیااورکہہ دیاکہ ہارون کو بھی میرے ساتھ شامل کردیجئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ابتداء میں انکسار سے کام لیا اور جب فرشتے نے کہا اِقْرَئْ یعنی پڑھ.توآپؐ نے یہی فرمایا کہ مَااَنَا بِقَارِیٍء.(بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) میں توپڑھے لکھے آدمیوں میں سے نہیں ہوں.اس وجہ سے میں نے کیاکام کرناہے.اوراسی بناء پر ابتدائی ایام میں آپ کو شدید گھبراہٹ رہی.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی متواتر تائیدات نے آپ کوایسے مقام پر کھڑاکردیا کہ آپؐ نے سمجھ لیا اب میرافرض ہے کہ میں آگے کی طرف بڑھتاچلاجائوںاور کسی مشکل کی پروا نہ کروں مگرآپ کاعرفان چونکہ موسوی عرفان سے بہت زیادہ تھا اس لئے آپ نے یہ نہیںکہاکہ مجھے کوئی مددگار دیاجائے.بلکہ آپ ؐاکیلے ہی ا س بوجھ کواٹھانے کے لئے تیار ہوگئے.حالانکہ آپؐ کے سپر دجوکام تھا وہ موسیٰ ؑکے کام سے بہت بڑاتھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے جومتمدن تھی اورمتمدن لوگوں کودینی علوم
سکھانا.ان میں نظام قائم کرنا اوران کے اند رجماعتی روح پیداکرنا نسبتاً آسان ہوتاہے مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم کی طرف آئے تھے جوتمدن اورتہذیب سے بالکل ناآشنا تھی.یہاں تک کہ اطاعت جو دنیامیں مہذب قومو ں کاشعارسمجھا جاتاہے وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی چنانچہ عرب کی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمروابن ہند تھا.اس نے ایک علاقہ پر جو شام اورعراق کی طر ف تھا اپنی حکومت قائم کی.اورعرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کرلی کہ اسے یہ خیال پیداہواکہ ساراعرب میری بات مانتاہے.ایک دن درباریوں سے ا س نے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیاعرب میں کوئی ایساشخص بھی ہے جو میری بات ماننے سے انکار کرسکے.و ہ اس بات کوخوب سمجھتا تھا کہ عرب کے لوگ اطاعت کرنانہیں جانتے.مگراس نے خیال کیاکہ مجھے ایسارعب حاصل ہوگیاہے کہ اب عرب کاکوئی شخص کم از کم میری بات ماننے سے انکار نہیں کرسکتا.انہوں نے کہا.ایک شخص عمر و ابن کلثوم ہے.جو اپنے قبیلہ کاسردار ہے.ہمارے خیا ل میں وہ ایساشخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا.اس نے کہا.بہت اچھا میں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اسے بلواتاہوں.چنانچہ بادشاہ نے عمر وابن کلثوم کو دعوت دی اوراسے خط لکھاکہ آپ یہا ں تشریف لائیں آپ سے ملنے کو جی چاہتاہے.چنانچہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوںکو لے کر آگیا.جیسے عرب کادستورتھا بادشاہ اس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہراہواتھا.وہیں اس نے آکر اپنے خیمے لگادیئے.اس نے عمروابن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی والدہ اور دوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا.چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کوبھی لے آیا.عمروابن ہندنے اپنی والدہ سے کہا کہ کام کرتے کرتے عمر و ابن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹاساکام لے کردیکھنا تاپتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیاحالت ہے.چنانچہ جب وہ کھاناکھانے بیٹھے تو عرب کے دستورکے مطابق گووہ بادشاہ کہلاتاتھا مگر اس کی ماں خود کھانا تقسیم کرنے بیٹھ گئی.اپنے بیٹے کے لئے بھی اورعمروابن کلثوم کے لئے بھی.گویاعمروابن ہندکی والدہ اس وقت عملاً عمروابن کلثوم اوراس کے دوسرے عزیزوں کاکام کررہی تھی پس ایسے وقت میں عمرو ابن کلثوم کی ماںکا کسی کام میں ہاتھ بٹانا ہرگز اس کی ہتک کاموجب نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کررہی تھی تواس کام میں عمر و ابن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹاناکوئی ایسی بات نہیں تھی جو اس کی شان اورعزت کے منافی ہوتی.مگرواقعہ کیاہوتاہے.کھاناتقسیم کرتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑاتھا.عمرو ابن ہند کی والدہ کھاناتقسیم کرتے کرتے اسے کہنے لگی.بی بی ذراوہ تھال توسِرکاکر ادھرکردینا.اسے بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس سے زیادہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے کہے.مگرتاریخوں میں لکھاہے کہ جونہی اس نے عمرو ابن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی.وہ کھڑی ہوگئی اوراس نے زورسے پکار ناشروع کردیا کہ
’ او ابن کلثوم ! تیری ماںکی ہتک ہوگئی ہے ‘‘ عمروابن کلثوم اس وقت بادشاہ کے ساتھ کھاناکھارہاتھا اورشاہی اعزاز کی وجہ سے وہ اپنے ہتھیار خیمہ میں ہی چھوڑ آیاتھا.مگرجونہی اس نے اپنی ماں کی اس آوازکوسنا.اس نے اپنی ماں سے جاکر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے.گھبراکر کھڑاہوگیا اورادھر اُدھر دیکھنے لگ گیا.خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی.ا س نے اُچک کر تلوار کو میان سے نکالااور بادشاہ کو قتل کردیا.پھر باہر نکل کراس نے اپنے قبیلہ والوں سے کہا.بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو.چنانچہ اس کا سب مال و متاع لوٹ کر وہ اپنے وطن کی طرف واپس چلا گیا.(تاریخ الادب العربی للزّیات، عمرو بن کلثوم صفحہ ۶۴و الشعرو الشعراء عمرو بن کلثوم).ایسی اُجڈاوروحشی قوم کی طر ف جو بالکل بے راہ رَو تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے.اورپھر موسیٰ ؑکی طرح آپؐ کادائرہ ہدایت صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ آپؐ کے سپرد تمام دنیا کو دین واحد پرجمع کرنے اورانہیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر لاڈالنے کاکام کیاگیا.مگراتناعظیم الشان کام سپرد ہونے کے باوجود آپؐ نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! میرے رشتہ داروں یا دوستوں میں سے کوئی ساتھی میرے ساتھ کردے.بلکہ آپ حکم ملتے ہی کھڑے ہوگئے اورکہا کہ بہت اچھااورکام شروع کردیا.گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اپنی انفرادیت پر پورابھروسہ نہ کرتے ہوئے ایک ساتھی کا مطالبہ کیا.اوراگرچہ ایک ساتھی مل جانے سے اجتماعیت نہیں ہوجاتی لیکن تاہم اتنی ڈھارس ضرور ہوجاتی ہے کہ میں اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ایک اورساتھی بھی ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انفرادیت کے کمال کا مظاہرہ کیا اور اس بات کی کوئی پروا نہ کی کہ دنیا آپؐ سے کیا سلوک کرتی ہے.بہرحال موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارونؑ کو اپنامددگار مقررکرنے کی درخواست کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی.مگر وہی موسیٰ ؑ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے سامنے یہ عذر کیاتھاکہ میری توزبان نہیں چلتی جب فرعون کے دربارمیں گئے.تواللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی قو ت بیانیہ عطافرمائی کہ آپ خود ہی فرعون کے تمام سوالات کے جوابات دیتے چلے گئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کو بولنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر جب انصا راورمہاجرین میں خلافت کے متعلق اختلاف پیدا ہوا.اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ وغیر ہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے توحضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقعہ پر تقریرکرنے کے لئے اپنے ذہن میں ایک بہت بڑامضمون تیار کیا ہواتھا.اورمیراارادہ تھاکہ میں جاتے ہی ایسی تقریر کروں گا کہ تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہوجائیں گے اوروہ اس بات پر مجبور ہوجائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں.مگرجب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع کردی.میں
نے اپنے دل میں کہا کہ انہوںنے بھلا کیابیان کرناہے مگرخدا کی قسم جتنی باتیںمیں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کردیں بلکہ ان کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے.تب میں نے سمجھا کہ میں ابوبکر ؓ کامقابلہ نہیں کرسکتا.(صحیح بخاری کتابالحدود باب رجم الحبلٰی فی الزنی اذا احصنت و مسند احمد حدیث الثقیفة و البدایة و النھایة فصل فی ذکر امور مھمة وقعت بعد وفاتہ و قبل دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم قصة ثقیفة بنی ساعدة).اسی طرح حضر ت موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے کہ مجھ سے فرعون کے دربارمیں کہاں بولاجائے گا.مگرجب وہاں پہنچے تواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو ایک لفظ تک نہ بولنا پڑا اوراس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے انتخاب کی عظمت کو ظاہر کردیا.اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اور عذر کیا اورکہا.کہ وَ لَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ وہ لوگ مجھ پر ایک گناہ کاالزام لگاتے ہیں.سومیں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں.اس کے یہ معنے نہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے ڈرتے تھے بلکہ انہیں اس بات کا خوف تھاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ فرعون مجھے جاتے ہی گرفتار کرلے اوراس وجہ سے کہ میرے ہاتھ سے ایک قبطی ماراجاچکاہے میرے قتل کے احکام صادر کردے اورخدا تعالیٰ کا پیغام اسے نہ پہنچ سکے.گویاانہیں اپنی موت کا غم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں انہیں اپنے فرائض کی بجاآوری سے پہلے ہی قتل نہ کردیاجائے اوراس طرح اس مشن کو نقصان نہ پہنچے جو خدا تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا.ورنہ انبیاء خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے نہیں ڈرتے.بیشک جہاں تک نبیوں کاوجود ان کی امت کے مقابلہ میں ہوتاہے وہ بہت بڑی حیثیت رکھتے ہیں.اتنی بڑی حیثیت کہ اگر ساری دنیا کی جانیں بھی ایک نبی کی جان بچانے کے لئے قربان کرنی پڑیں تووہ قربان کی جاسکتی ہیں.مگرجہاںتک صداقت کاسوال ہے نبی بھی اسی طرح صداقت کا خادم ہوتاہے جس طرح اس کاعام پیرو صداقت کاخادم ہوتاہے اگر کسی سلسلہء روحانیہ کے پہلے اورآخری نبی کے علاوہ کہ جن پر سلسلہ کا انحصارہوتاہے کوئی اورنبی ماراجاتاہے یاجلاوطن کردیاجاتاہے لیکن اس کی پیش کردہ صداقت دنیاسے نہیں مٹتی تواس کاماراجانایا وطن سے بے وطن ہوجانا ہرگزقا بل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ نبی کے مقابلہ میں صداقت حاکم ہوتی ہے او رنبی خادم.جس طرح نبی کے مقابلہ میں امت خادم ہوتی ہے اورنبی حاکم.جس طرح نبی کے مقابلہ میں اگر ساری دنیا بھی تباہ کردی جائے تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کا پیغام دنیا تک پہنچ جائے توپھر بے شک نبی شہید ہوجائے.اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا.کیونکہ وہ اس غرض کے لئے آیاتھا کہ صداقت دنیا میں پھیلائے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خدشہ کا اظہار اپنی موت کے خوف سے نہیں کیا
بلکہ اس لئے کیا کہ کہیں صداقت دنیاسے مٹ نہ جائے.اورخدا تعالیٰ کاپیغام پہنچانے سے پہلے ہی وہ اس کے ظلم و استبداد کا شکار نہ ہوجائیں.وَ لَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے جویہ فعل سرزد ہواتھا محض ایک اتفاقی حادثہ تھا.جو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں آپ کومجرم بنانے والانہیں تھا.کیونکہ ذَنْبٌ ہر ایسے فعل کو کہتے ہیں جس کانتیجہ خراب نکلے خواہ شرعی نقطہ نگاہ سے وہ انسان کو مجرم بنانے والانہ ہو (مفردا ت) مگراس سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام کا فرق ظاہرہو جاتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان کی بعثت سے پہلے ایک الزام لگایاگیاخواہ وہ جھوٹاہی تھا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بعثت سے پہلے بھی تمام لوگ امین اورصدوق کہتے اورآپ کی نیکی اورانصاف اوردیانتداری کے قائل تھے.بہرحال یہ حادثہ چونکہ ایسا تھا جس میں فرعونی قوم کا ایک آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ماراگیاتھااورفرعون کے وزراء نے آپ کو قتلِ عمد کا مرتکب قرار دے کرچاہاتھاکہ آپ کو قتل کردیاجائے جس کے نتیجہ میں آ پ کومصر سے بھا گ کر مدین میں پناہ گزین رہنا پڑا اس لئے آپ نے اس فعل کو ذنب قرار دیا.اوراس خدشہ کااظہار فرمایاکہ ایسانہ ہو کہ وہ میرے اس فعل کی بناپر مجھے جاتے ہی گرفتارکرلیں اورمجھے قتل کردیں.یہ واقعہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت شہر میں پھر رہے تھے کہ انہوںنے دوآدمیوںکو آپس میں لڑتے اور دست وگریبان ہوتے دیکھا.ان میں سے ایک ان کی قوم کا فرد تھا اورایک ان کی دشمن یعنی فرعونی قوم کافردتھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ان کی قوم کے آدمی نے انہیں آواز دی اوراپنی مدد کے لئے بلایا.حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے اورانہوںنے مخالف شخص کو ایک مکّامارا.مکّایاتواسے زیادہ زور سے ماراگیایااس شخص کا دل اورجگرکمزورتھااورمکا اس کے دل اورجگرپر لگا.بہرحال اس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ گرگیا اوراس کی جان نکل گئی دوسرے دن و ہ صبح کے وقت پھر شہر کی گشت کے لئے نکلے.تواچانک کیادیکھتے ہیں کہ وہی شخص جو کل ان سے مدد مانگ رہاتھا آج پھر کسی اورسے لڑ رہاہے اورموسیٰ ؑ کو اپنی مددکے لئے بلارہاہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ کل بھی یہی شخص لڑرہاتھا اورآج بھی یہی لڑرہاہے توسمجھا کہ یہ کوئی جوشیلا آد می معلوم ہوتاہے ورنہ وجہ کیاہے کہ ہرشخص اسی کو مارنے کے لئے اٹھ کھڑاہو.چنانچہ آپ نے اسے کہا کہ دوسرے شخص کاقصورتوہوگا.مگرتم بھی بہت جوشیلے معلوم ہوتے ہو.اس کے بعد انہوں نے چاہاکہ آگے بڑھ کر دوسرے شخص کامقابلہ کریں.مگراس نے سمجھا کہ چونکہ ابھی انہوں نے مجھے ڈانٹاہے اس لئے شاید یہ مجھے ہی مارنے کے لئے آگے بڑھے ہیں.چنانچہ اس نے بے سوچے سمجھے
چلّاچلّاکر کہنا شروع کردیاکہ اے موسی! کیا تویہ چاہتاہے کہ جس طرح کل تونے ایک شخص کوماراتھا اسی طرح مجھے بھی مار دے.اس کے اس شورسے ارد گردکے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ کل جو آدمی ماراگیاہے و ہ موسیٰ ؑ نے ہی ماراتھا.اور چونکہ مقتول فرعونی قوم کاآدمی تھا.اس لئے یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تمام قوم میں ایک جوش پیداہوگیا.یہاں تک کہ یہ خبر ذمہ دار افسروں تک پہنچ گئی اورانہوں نے متفقہ طورپر فیصلہ کیاکہ موسیٰ ؑ کو قتل کردیا جائے.اس پر انہی سرداران قوم میں سے ایک شخص جودرپردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخلصانہ تعلقات رکھتاتھا دوڑاہواآیااوراس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ سرداران قوم تیرے قتل کامشورہ کررہے ہیں اس لئے میر ی نصیحت یہ ہے کہ فوراً اس شہر سے نکل جائو.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر سے نکلے اور کئی منزلیں طے کرنے کے بعد مدین میں جانکلے.پس وَ لَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا اوراس خدشہ کااظہار کیاکہ وہ لو گ اس واقعہ کی بناپر مجھے قتل نہ کردیں.اس سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہر ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تواللہ تعالیٰ سے اپنی حفاظت کا وعدہ لیا.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کچھ بولے کھڑے ہوگئے اورآپؐ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کی تکلیف کی پروا نہ کی.بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس خدشہ کااظہار کیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا.ایساہرگز نہیں ہوسکتا.تم دونوں ہمارے نشانات کے ساتھ فرعون کے پاس جائو اوریاد رکھو کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اورہمیشہ تمہاری دعائوں کو سنتے رہیں گے.جب بھی تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تم میرے حضورجھکواوردعائیںکرو.میں اسی وقت تمہاری مدد کے لئے دوڑاچلاآئوں گا تمہاراکام یہ ہے کہ تم فرعون کے پاس جائو اوراس سے کہوکہ ہم رب العالمین خداکے رسول ہیں.اورہم اس لئے آئے ہیں کہ توبنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزادکرکے ہمارے ساتھ روانہ کر دے.اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں موسیٰ ؑ اورہارون ؑ دوکا ذکر ہے مگرآگے یہ فرمایاگیاہے کہ ہم دونوں رب العالمین کی طرف سے رسول ہیں.حالانکہ دوآدمیوں کے لئے رَسُوْلاَنِ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے رسول کالفظ استعمال نہیں کیاجاتا.ا س کا جواب یہ ہے کہ عرب لوگ کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَائِ رَسُولِیْ وَوَکِیْلِیْ یعنی یہ دویاسب کے سب میرے رسول اوروکیل ہیں (فتح البیان زیر آیت فاتیا فرعون فقولا...)اسی طرح قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ یہ محاور ہ استعمال کیا گیاہے چنانچہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام بتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعراء :۷۸)یعنی یہ سب کے سب رب العالمین کے سوامیرے دشمن ہیں حالانکہ عام عربی قواعد کے لحاظ سے یہ
کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب میرے اعداء ہیں مگراللہ تعالیٰ نے یہاں اَعْدَائَ کالفظ نہیں بلکہ عَدُوٌّ کالفظ رکھا ہے جومفرد ہے.پس اس آیت پر نہ عربی زبان کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اورنہ محاورئہ قرآن کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہو سکتا ہے.اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَمیں اَنْ تفسیری بھی ہو سکتا ہے اور اَنْ مصدری بھی ہو سکتا ہے.مصدری ہونے کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نَحْنُ مُرْسَلُوْنَ لِنُرْسِلَ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ہم خدا تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے رسول بناکربھیجے گئے ہیں.اس موقعہ پر قرآن کریم اوربائیبل کے ایک اختلاف کا ذکردینابھی ضروری معلوم ہوتاہے.بائیبل میں لکھا ہے.کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ ’’تُو اسرائیلی بزرگوں کو ساتھ لے کر مصر کے بادشاہ کے پاس جانا اوراس سے کہنا کہ خداوند عبرانیوں کے خدا کی ہم سے ملاقات ہوئی اب تُو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خداکے لئے قربانی کریں.‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱۸) گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے ایک رنگ میں حضرت موسیٰ ؑ اورہارون ؑ کو دھوکا کی تعلیم دی.اورکہا کہ فرعون کو اگر صاف طور پر کہہ دیاگیا کہ ہم بنی اسرائیل کو اس ملک سے نکال کر لے جاناچاہتے ہیں تووہ اس کی اجازت نہیں دے گا.اس دھوکا اورفریب سے اس سے اجازت حاصل کی جائے کہ ہم اپنے خداکے لئے قربانی کرناچاہتے ہیں اس لئے ہمیں مصر سے نکلنے کی اجازت دی جائے.جب وہ اس کی اجازت دےدے تو اس بہانہ سے تمام بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر مصر سے نکل آنا.لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ یہ بات غلط ہے.ہم نے موسیٰ ؑ اورہاورن ؑ کو صاف طور پرکہہ دیاتھا کہ فرعون سے جاتے ہی یہ مطالبہ کرنا کہ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیاجائے کیونکہ اب ان پرمظالم کی انتہاہوچکی ہے.کسی دھوکا اورفریب کی ہم نے انہیں تعلیم نہیں دی تھی.اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ کے الفاظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مختص القوم نبی تھے جو صرف بنی اسرائیل کو غلامی کی ان زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے آئے تھے جن میں وہ سینکڑوں سال سے جکڑے چلے آتے تھے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت عطافرمائی کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نہیں بلکہ تمام دنیا کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًاوَّنَذِیْرًا(السبا: ۲۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کے لئے بشیر
اورنذیر بناکربھیجاہے.اس میں عربی اورغیر عربی یامشرقی اورمغربی کا کو ئی امتیاز نہیں.دنیا کے ہرشخص کا خواہ وہ کسی ملک کارہنے والاہو اورخواہ وہ کوئی زبان بولنے والا ہو.فرض ہے کہ وہ تیرے پیغام کو قبول کرے اورتیری ہدایات کے تابع چلے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے ملک میں پیداہوئے تھے جو تمام دنیا سے منقطع تھا.وہ ملک تمدن کے لحاظ سے بھی کمزور تھا.علمی لحاظ سے بھی کمزور تھااورسیاسی لحاظ سے بھی کمزور تھا.اس کمزور ترین ملک میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کمزورترین انسان تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ سے کہا کہ ہم نے تجھے تمام دنیاکی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا ہے.اگرہم اس فقرہ کی صحیح ترجمانی کریں توا س کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا.اے میرے رسول! توکہہ دے کہ میں کینیڈا کی ہدایت کے لئے آیا ہوں جس کو تم جانتے بھی نہیں.میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کی ہدایت کے لئے بھیجاگیاہوں جو ابھی آباد بھی نہیں ہوئیں.مجھے خدا تعالیٰ نے برازیل، کیوبا، بولیویا، چلّی،کولمبیااورمیکسیکو کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا ہے جنہیں ابھی کوئی جانتابھی نہیں اوربالکل ویران پڑے ہیں اور کسی آئندہ زمانہ میں آباد ہوںگے.میں جاپا ن اورفلپائن کی اصلاح کے لئے بھیجا گیاہوں جن کو کوئی نہیںجانتا بلکہ میں ان ملکوںکی ہدایت کے لئے بھی مامو رکیاگیاہوں جوابھی دریافت بھی نہیں ہوئے.غرض اس آیت کو پھیلاکر دیکھا جائے توانسان محو حیرت ہو جاتا ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس دعویٰ کو پوراکرنے کے کون سے سامان تھے.آپ کے پاس کون سے ہوائی جہاز تھے کہ جن کے ذریعہ آپؐ امریکہ جاتے.کینیڈا جاتے.برازیل، کولمبیا اوربولیویاجاتے.پھر آپ کے پاس وہ کون سے ذرائع تھے کہ جن سے آپ اپنی تعلیم کو اپنی وفات کے بعد بھی ممتد کئے جاتے جب تک وہ ملک دریافت نہ ہوتے آپؐ وہاں جاہی کیسے سکتے تھے.لوگ بات کرتے ہیں توان کے بیٹے بھول جاتے ہیں اوراگر بیٹے یاد رکھتے ہیں تو پوتے بھول جاتے ہیں.اگر پوتے یاد رکھتے ہیں تو پڑپوتے بھول جاتے ہیں.مگر یہ ملک تو اس وقت دریافت بھی نہیں ہوئے تھے.آپؐ کی وفات کے نوسوسال بعد امریکہ دریافت ہوا.لیکن فرض کرو.اس وقت امریکہ دریافت بھی ہواہوتا توآپ ؐکے پاس کون سی گارنٹی تھی کہ آپ کا دعویٰ پوراہوجائے گا.ہمیں تویہی نظر آتاہے کہ لوگ اپنے بچے قربان کرتے ہیں اپنے بھائی قربان کرتے ہیں اپنا عیش اورآرام قربان کرتے ہیں.بعض ناجائز باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں.بعض جائز اوراچھی باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان کے نتائج بہت محدود ہوتے ہیں اوران محدود نتائج کا بھی کوئی ذمہ وار نہیں ہوتا.مگر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجس طرح دعویٰ تمام دنیاسے نرالاتھا.اسی طرح آپ ؐ کا بدلہ بھی
نرالاتھاچنانچہ باوجود اس کے کہ آپؐ کے پاس کوئی ایسے سامان نہیں تھے جن سے آپ اپنا پیغام دنیاکے تمام ممالک تک پہنچا سکتے.پھر بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو ابیض و اسود اوراحمر و اصفر سب میں قبولیت بخشی اورآپ کادین مختلف قوموں اورملکوں میں پھیلنا شروع ہوا.یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا.چنانچہ آج چین میں کروڑوں مسلمان ہیں.انڈونیشیا میں نوے فیصدی مسلمان ہیں.انڈین یونین میں پچیس تیس فیصدی مسلمان ہیں.پھر افغانستا ن،ایران ،برما ،شام ،فلسطین ،ایبے سینیا ،وسطی افریقہ،شمالی و جنوبی افریقہ ،مغربی و مشرقی افریقہ ،امریکہ ، ایشیا اوریورپ کے بہت سے علاقوں میں لاکھوں کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں.غر ض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نمایا ں امتیاز حاصل ہے کہ آپ تمام دنیاکی طر ف مبعوث کئے گئے جبکہ موسیٰ ؑ صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے.چونکہ بنی اسرائیل کی غلامی کااصل باعث فرعون کا پنجہء استبداد تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون او راس کی قوم کی طرف موسیٰ کو بھجوایا اوراسے توجہ دلائی کہ بنی اسرائیل کی مظلومیت کی پکار ہمارے عرش تک پہنچ چکی ہے اب تمہارے لئے سوائے اس کے اورکوئی راستہ نہیں کہ تم اپنے فولادی پنجہ کی گرفت کو ڈھیلا کردو اوربنی اسرائیل کو آزاد کردو ورنہ خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تلواریں لے کراتریں گے اوروہ تمہیں اس جرم کی عبرتناک سزادیں گے.قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّ لَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ اس (فرعون ) نے کہا (اے موسیٰ)کیاہم نے تجھ کو اس وقت نہیں پالا جبکہ توابھی بچہ تھا.اورتونے ہم میں سِنِيْنَۙ۰۰۱۹وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ اپنی عمرکے بہت سے سال گذارے ہیں.اورتونے وہ کام بھی کیاہے جو تو کرچکا ہے.اورتُو(ہمارے احسانوں الْكٰفِرِيْنَ۰۰۲۰قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّيْنَؕ۰۰۲۱ کا)ناشکر گذار ہے.(موسیٰ نے )کہا وہ کام(جس کا تونے اشارہ کیاہے)میں نے اس وقت کیاتھا جبکہ میں فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّ اپنی قوم کی محبت میں سرشار تھا.پس جب مجھے تم سے ڈر محسوس ہواتومیں تم سے بھاگ کر چلاگیا.اس پرمیرے
جَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۰۰۲۲وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ رب نے مجھے حکم (یعنی عہدئہ نبوت)عطافرمایا اورمجھے رسولوں میں سے (ایک رسول )بنادیا.اوریہ(بچپن میں عَبَّدْتَّ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ۰۰۲۳ مجھے پالنے کی )نعمت جس کا تم احسان جتاتے ہو کیایہ اس بات کے مقابل میں پیش کی جاتی ہے کہ تم نے بنی اسرائیل کی ساری قوم کو غلام بنا چھوڑاہے.تفسیر.فرماتا ہے.جب فرعون نے موسٰی اور ہارونؑ کا یہ پیغام سنا.تونہایت ڈھٹائی سے کہنے لگا.اے موسیٰ! وہ دن بھول گئے جب ہم تجھے پالا کرتے تھے.اور جب کہ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گذارے.اب تجھے بھی باتیں کرنی آگئی ہیں اور توجو ہمارے ٹکڑوں پر پلا ہے.اب ہمیں ہی نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے.یہ الفاظ اس نے موسٰی کی تحقیر کے لئے اسی طرح کہے جس طرح فقیہیوں اورفریسیوں نے جب مسیح ؑ کو کوچوں اور بازاروں میں تبلیغ کرتے اور خدائے واحد کا نام بلند کرتے دیکھا تو انہوںنے کہا: ’’ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں.اور اُس کی ماں کانام مریم اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شمعون اور یہودہ نہیں.اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں.پھر یہ سب کچھ اس میں کہاں سے آیا.اور انہوں نے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائی.‘‘ (متی باب ۱۳آیت ۵۵تا۵۷) جس طرح فریسیوں کے لئے یہ بات حیرت کا موجب تھی کہ یہ شخص جو ایک بڑھئی کا بیٹا ہے اور جس کی تمام بہنیں ہمارے ہاں بیاہی ہوئی ہیں ہمیں وعظ اور نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے.اسی طرح فرعون کے لئے بھی یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ موسیٰ جسے اس کی ماں نے ہم سے ڈرتے ہوئے سمندر کی طوفانی موجوں میں پھینک دیا تھا اورجسے بچا کر ہم نے اپنے گھروں میں رکھا اور اس کی پرورش کی وہی ہمارے ٹکڑے کھانے کے بعد آج نعوذ باللہ ایسا طوطا چشم نکلا ہے کہ میری طاقت اور عظمت کا اس نے ذرا بھی پاس نہیں کیا اورا س نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں اس کی غلامی اختیار کروں.فرعون اس وقت موسٰی کی ابتدائی حالت اور اپنے موجودہ عروج کو دیکھ رہاتھا.مگر وہ اس بات کو بھول گیا کہ بعض دفعہ ایک چھوٹا سا بیج بویا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ نشونما پاتے پاتے اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ دنیا حیران ہوجاتی ہے.اور بعض دفعہ ایک چیز ابتداء میں نہایت اہم نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام اتنا چھوٹا ہوتا
ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنی اہمیت اورعظمت کیوں دے دی گئی تھی.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل قریباً ہم عمر تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایسی حالت میںہوئی کہ آپؐ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے.اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو پھر بھی وہ کوئی مالدار آدمی نہیںتھے.آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی امیر لوگوں میں سے نہ تھے اور گو آپ آسودہ حال ضرور تھے لیکن چونکہ آپ ایک سخی آدمی تھے.اس لئے آخری عمر میں آپ کی دولت بہت کم ہوگئی تھی.پس اول تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان کوئی امیر خاندان نہیں تھا دوسرے آپ خصوصیت سے غریبانہ حالت میں پیدا ہوئے.آپ ؐ کے والد آپؐ کی پید ائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے.پس آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ نے کیا خوشی کی ہوگی.آپ کی والدہ کے پاس کچھ تھا ہی نہیں.لوگ تو دنیا کو دیکھتے ہیں.مال اور دولت کو دیکھتے ہیں.جہاں روپیہ ہوتا ہے وہاں جمع ہو جاتے ہیں مگر آپ کی والدہ کے پا س روپیہ نہیں تھا.شاید آپ کے قریبی رشتہ دار مبارکباد دینے کے لئے آگئے ہوں.مگر دوسرے لوگوں نے آپ کی پیدائش کوکوئی اہمیت نہیں دی.لیکن ابو جہل کاباپ مالدا رتھا.جب وہ پیداہواہوگا اس کے ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی.ابوجہل کانام ابوالحکم تھا یعنی حکمتوں کاباپ.عقلمند دانا اورمدبّر.لیکن بعد میں اس نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی اورحماقت کا اظہار کیا تو مسلمانوں نے اس کانام ابوجہل رکھ دیا.ابوجہل کے ماں باپ چونکہ مالدارتھے.اس لئے جب وہ پیداہواہوگا.توہرشخص جس کی ضروریات ان سے وابستہ ہوں گی ان کے گھر پہنچا ہوگا اوراس کی پیدائش پر مبارکباد دی ہوگی اورکہا ہوگا ہماراملک کتنا ہی خوش قسمت ہے جس میں اس جیسابچہ پیداہوا.اس کے چہر ہ سے ہی معلوم ہوتاہے کہ اس کے اقبال کا ستارہ کتنا بلند ہے.غرض ا س کی تعریف میں لوگوں نے ہزاروں مبالغے کئے ہوں گے معلوم نہیں ا س کی پیدائش پر کتنے اونٹ ذبح کرکے دعوتیں کی گئی ہوں گی.خوشی میں دفیں بجائی گئی ہوں گی.عورتوں نے گیت گائے ہو ںگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر آپ کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ایک غریب کے ہاں بچہ پیداہواہے جو خود بخود ختم ہوجائے گا.لیکن ابو جہل کی پیدائش پر اس کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ سمجھتے ہوں گے کہ آج ایک رئیس پیداہواہے.نہ معلوم بڑا ہوکر یہ کیا کچھ کرے گا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء بظاہر ایک اد نیٰ رنگ میں ہوئی لیکن انتہاکیا ہوئی ؟ وہی بچہ جس کو دائیاں لینے کے لئے تیار نہیں تھیں.جس کی پیدائش پر مکہ والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیاتھا جب فوت ہواتوعرب کی تاریخ میں ہی نہیں ساری دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی حیثیت رکھتا تھا.گویاآپ پر یہ الٰہی نوشتہ اپنی پوری شان کے ساتھ صادق آیا کہ
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ناپسند کیا وہی کونے کاسراہوا.‘‘ (مرقس باب۱۲ آیت ۱۰و لوقاباب ۲۰آیت ۱۷) سارے عرب قبائل آپ کے زیر سایہ تھے جو آپ سے پہلے کسی بادشاہ کے مطیع نہیں ہوئے تھے.پھر بادشاہوں کو جوظاہری عظمت حاصل ہوتی ہے اس کی وجہ سے ڈر کے مارے لوگ ان کی بڑائیاں بیان کرتے ہیں لیکن دل میں انہیں ہزاروں ہزار گالیاں دیتے ہیں.بادشاہ جب مرجاتے ہیں توبے شک ان کی موت سے ملک کوصدمہ بھی ہوتاہے لیکن لوگ یہی کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اگر مر گیاہے تو کو ئی دوسر اشخص بادشاہ بن جائے گا اوروہ وہی کام شروع کردے گا جو پہلا بادشاہ کرتاتھا.انگریزی میں ایک مثل ہے KING NEVER DIES ( 3000 proverbs by Same Philips p.87 under word KING ) یعنی بادشاہ کبھی نہیں مرتے.ایک بادشاہ مرجاتاہے تودوسراکھڑاہو جاتا ہے اورپہلے بادشاہ اور دوسرے بادشاہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا.اگر قوم بیدار ہوتی ہے تودوسرے بادشاہ کے وقت میں بھی وہ ترقی کرتی چلی جاتی ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا.آپ کی وفات کو تمام عر ب نے جو اس وقت آپؐ کی خوبیوں ،اہمیت اورعظمت کا قائل ہوچکا تھا ایک انسان کی موت خیال نہیں کیا.ملک کی موت خیال نہیں کیا.بلکہ دنیا کی موت خیال کیا.چنانچہ حسان بن ثابتؓ نے آپ کی وفات پر جو شعر کہے وہ یہ ہیں کہ ؎ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ أُحَاذِرُ (دیوان حسان بن ثابت صفحہ ۳۰۸) یعنی اے محمدؐ رسو ل اللہ!آپ تو میری آنکھوں کی پتلی تھے آپ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں.اب کوئی شخص مرتاپھرے مجھے اس سے کیا.میں تو آپ ؐکے متعلق ہی ڈرتاتھا.یہ وہ جذبہء عقیدت تھا جو آپ کے متعلق صحابہؓ میں پایا جاتاتھا.حسان بن ثابت ؓ نے ایک شاعرانہ کلام ہی نہیں کہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ تمام عرب نے حسان بن ثابتؓ کے ان شعروں کو اپنے ہی جذبات کا اظہار خیال کیا.گویا عرب کی آواز حسان بن ثابتؓ کی زبان پر جاری ہوگئی.تاریخ کہتی ہے کہ ہفتوں تک مدینہ، مکہ اور دوسرے مسلمان شہروں والے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بازاروں میں چلتے ہوئے اوراپنے کاروبار کرتے ہوئے یہی شعر پڑھتے تھے کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیَّ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ أُحَاذِرُ لیکن ابو جہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کرکے لوگوں میں گوشت تقسیم کیاگیا تھا جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضاگونج اٹھی تھی.بد رکی لڑائی میں جب ماراجاتاہے تو پندرہ پندرہ سال کے دوانصار ی چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جنگ کے بعد جب لو گ واپس جارہے تھے.تومیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لئے چلا گیا.آپ بھی مکہ ہی کےتھے اس لئے ابوجہل آپ کو اچھی طرح جانتاتھا.آپ فرماتے ہیں کہ میں میدان جنگ میں پھر ہی رہاتھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ابو جہل زخمی پڑاکراہ رہاہے.جب میںاس کے پاس پہنچا تواس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اب بچتانظر نہیں آتا تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے.تم بھی مکہ والے ہو میں یہ خواہش کرتاہوں کہ تم مجھے مار دوتامیری تکلیف دور ہوجائے لیکن تم جانتے ہوکہ میں عرب کا سردار ہوں اورعرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کرکے کاٹی جاتی ہیں اوریہ مقتو ل کی سرداری کی علامت ہوتی ہے.میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کرکے کاٹنا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی گردن ٹھوڑ ی سے کا ٹ دی اورکہا کہ تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی(بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل ،السیرة الحلبیة ذکر مغازیہ باب غزوۃ بدر الکبری).اب انجام کے لحاظ سے دیکھوتوابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی.جس کی گر دن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہاکرتی تھی.وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اوراس کی یہ آخری حسر ت بھی پوری نہ ہوئی.پھرچونکہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں گڑھے کھوداکرتے تھے اورمسلمانوںکو پتھروں پر گھسیٹتے تھے اورآپؐ کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایک دن ان کفارکو بھی بالوں سے پکڑ پکڑ کرگھسیٹاجائے گا(العلق:۱۶،۱۷ )اس لئے بد ر کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیاکہ کفار کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں گرادیاجائے.آپؐ کے اس حکم کے مطابق صحابہؓ نے کفار کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ( السیرة النبویۃ لابن ہشام ذکر رؤیا عاتکة بنت عبد المطلب).غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورابوجہل دونوں کی پیدائش اوروفات کو دیکھا جائے تومعلوم ہوتاہے کہ پیدائش کے وقت جو ناقابل التفات نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ سید عرب بنا.لیکن جو سید عرب نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ نہایت ہی ذلیل وجو د ثابت ہوا.غرض بعض دفعہ ایک چیز کی ابتداء اورہوتی ہے اورانتہا اور.
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی جب پیداہوئے توآپ کے ماں باپ نے آپ کی پیدائش پر خوشی کی ہوگی.مگر جب آپ کی عمر بڑی ہوگئی اورآپ کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیداہوگئی توآپ کے والدآپ کی اس حالت کو دیکھ کرآہیں بھراکرتے تھے کہ ہمارایہ بیٹاکسی کام کے قابل نہیں.مجھے ایک سکھ نے بتایاکہ ہم دوبھائی تھے ہمارے والد صاحب بڑے مرزا صاحب (یعنی مرزا غلام مرتضیٰ صاحب) کے پاس آیاکرتے تھے.اورہم بھی بسا اوقات ان کے ساتھ آجایاکرتے تھے ایک دفعہ مرزا صاحب نے ہمارے والد صاحب سے کہا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام )کے پاس آتے جاتے ہیں تم ان سے کہوکہ اسےجا کرسمجھائیں.ہم دونوں جب آپ کے پا س جانے کے لئے تیار ہوگئے تومرزا صاحب نے کہا کہ غلام احمد (علیہ السلام )کو باہر جاکرکہنا کہ تمہارے والد کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتاہے کہ اس کاچھوٹالڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا.اسے کہوکہ میری زندگی میں ہی کوئی کام کرلے.میں کوشش کررہاہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے میں مرگیا توپھر سارے ذرائع بند ہوجائیں گے.اس سکھ نے بتایا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کے پاس گئے اورکہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کابہت خیال رکھتے ہیں.انہیں یہ دیکھ کر کہ آپ کچھ کام نہیں کرتے بہت دکھ ہوتاہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مرگیا توغلام احمد کاکیا بنے گا.آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے.آپ کے والد صاحب اس وقت کپو رتھلہ میں کوشش کررہے تھے اورکپور تھلہ کی ریاست نے آپ کو ریاست کاافسر تعلیم مقررکرنے کا فیصلہ کرلیا تھا.وہ سکھ کہنے لگا کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے آپ کچھ کام کرلیں توآپ نے فرمایا والد صاحب تویونہی غم کرتے رہتے ہیں انہیں میر ے مستقبل کاکیوں فکر ہے میں نے توجس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے.ہم واپس آگئے اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے آکر ساری بات کہہ دی.مرزا صاحب نے فرمایاکہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے توٹھیک کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بولاکرتا.یہ آپؑ کی ابتداء تھی اورپھرابھی توانتہانہیں ہوئی لیکن جوعارضی انتہانظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپ پر قربان ہونے والا موجود تھا.آپ خو دفرماتے ہیں ؎ لُفَاظَاتُ المَوَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۶)
ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیئے جاتے تھے اورآج میرایہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خاندانوںکوپال رہاہوں.آپ کی ابتداء کتنی چھوٹی تھی مگرآپ کی انتہا ایسی ہوئی کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تھے لنگر میں روزانہ دواڑھائی سوآدمی کھاناکھاتے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھائی کے برابر کے شریک تھے.لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام کرے وہ تو جائیداد میں شریک سمجھاجاتاہے اورجوکام نہیں کرتا وہ جائیداد میں شریک نہیں سمجھاجاتااوریہ دستورابھی تک چلا آتاہے.لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اس کاجائیداد میں کیا حصہ ہو سکتا ہے.آپ کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتااورآپ اپنی بھاوجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تووہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھاپی رہاہے.کام کاج توکوئی کرتانہیں.اس پر آپ اپنا کھانااس مہمان کو کھلادیتے اورخود فاقہ کرلیتے یا چنے چباکر گذارہ کرلیتے.خدا کی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں.غر ض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اس کی ابتداء بڑی نظر نہیں آیاکرتی لیکن اس کی انتہاپر دنیا حیران ہوجاتی ہے.فرعون نے بھی موسٰی کو ان کی ابتدائی کسمپرسی کا حوالہ دیا اورکہاکہ تم مجھےنصیحت کیاکرسکتے ہو.تمہاری توخود ہمارے خاندان نے پرورش کی ہے.حالانکہ دنیا میں کبھی کسی چیز کی ابتداء کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی انتہاپر نظر ڈالی جاتی ہے.بڑ کے بیج کو دیکھ کر اگر کوئی شخص اسے بے حقیقت خیال کرتاہے تووہ نادان ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کروہ نادان ہے جو اپنی آنکھوں سے بڑ کے درخت کا اس قدر پھیلائو دیکھے کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایہ تلے آرام کررہے ہوںاورپھر بھی وہ اس کے سایہ میں بیٹھنے سے انکار کردے محض اس لئے کہ اس کا بیج کسی زمانہ میں ایساحقیر تھا کہ ہواکاایک معمولی جھونکا بھی اسے پرے پھینک دیتاہے.بہرحال فرعون نے ایسی ہی حماقت کی اورموسیٰ ؑ کو اس بات کاطعنہ دیاکہ تُو ہمارے گھروں میں پلتارہاہے.وہ اس بات کو بھول گیاکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں کو دشمنوں کے زیرسایہ ہی ترقی عطا کیاکرتاہے.حضرت مسیح ناصریؑ نے روماکی حکومت کے سایہ تلے پرورش پائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں ثقیف قوم میں پرورش پائی جس نے ابرہہ کو خانہ کعبہ گرانے کے لئے راہنمادیئے تھے(السیرة النبویة لابن ہشام امر الفیل وقصّة النسأة).گویا وہی قوم جس نے خانہ کعبہ کوگرانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کے زیر سایہ اس مقدس انسان کو جگہ دی جودعائے ابراہیمی کا مصداق اورخانہ کعبہ کا مقصودتھا.اسی طرح خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو
حبشہ کی عیسائی حکومت کے سایہ تلے پناہ دی حالانکہ اسی حکومت کے ایک گورنر ابرہہ نے بیت اللہ پرحملہ کیاتھا.موجودہ زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے پھر اسی تدبیر سے کام لیااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں کے زیر سایہ رکھاحالانکہ آپ عیسائیت کی بیخ کنی کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے.نادان لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں.مگروہ نہیں دیکھتے کہ کیا خدا نے موسیٰ ؑ کو فرعون کے زیر سایہ نہیں رکھا.کیاخدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو ایک عیسائی حکومت کے زیرسایہ نہیں رکھا.کیاخود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ثقیف قوم کے زیرسایہ نہیں رکھا.پھراگران کاوہاں پرورش پانا قابل اعتراض امر نہیں توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاانگریزوں کے زیر سایہ ترقی کرنا کس طرح قابل اعتراض ہوگیا.یہ تواللہ تعالیٰ کا نشان ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو خود ان کے دشمنوں کے زیرسایہ رکھ کر ترقی عطافرماتا ہے اوراس طرح دنیا پرثابت کردیتاہے کہ اس کے ارادوں کوکوئی شخص روک نہیں سکتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ہی غو ر کرکے دیکھ لو کجا یہ کہ فرعون نے حکم دے دیاتھا کہ بنی اسرائیل کاکوئی بچہ زندہ نہ رہے اورکجایہ کہ تصرف الٰہی کے ماتحت اس نے خو د اپنے گھرمیںحضر ت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی.گویاوہی جس کی خاطر بچے مارے جاتے تھے اس کی چھاتیوں پر چڑھ کرموسیٰ ؑبڑھا اورپھولااورپھلا اورآخراسی موسیٰ ؑکی مخالفت نے فرعون کو تباہ و برباد کردیا کیونکہ حضرت موسیٰ ؑکی والدہ نے خدا تعالیٰ کی بات پر اعتبار کرکے اپنے بچے کو دریامیں ڈال دیاتھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والد ہ نے کئی قسم کی احتیاطوں کے ساتھ ان کو دریا میں ڈالا مگر کون ہے جو اس سے سوگنازیادہ احتیاط کرکے بھی اپنے بچہ کو دریامیں پھینکنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے.انہوں نے خدا کاحکم پوراکرنے کے لئے اس موت کو قبول کرلیا.جس کانتیجہ یہ ہواکہ خدا نے موسیٰ ؑکو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا اوروہ جس کے متعلق خطرہ تھاکہ دریا کی لہروں میں وہ کہیں غرق نہ ہوجائے خدا اسے بچاکر فرعون کے گھر میں لے گیا.اوراس کی روٹیا ںکھاکھاکر اوراس کے گھر کادودھ پی پی کر اوراسی کے کندھوں پرچڑھ چڑھ کراس نے تربیت حاصل کی.اورآخرایک دن وہ تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے بچاکرلے آیا.اورفرعون اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا.اسی پرورش کا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طعنہ دیااورپھر کہا کہ وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ.اس دوران میں تجھ سے وہ فعل بھی سرزد ہواجس کا تجھے خوب علم ہے یعنی قبطی قوم کا ایک آدمی تیرے ہاتھ سے ماراگیااورتویقیناًناشکروں میں سے ہے.اس جگہ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ سے مراد یہ نہیں کہ توکافروں میں سے ہے.بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ توسخت ناشکرانکلاکہ تونے ایک محسن قوم کاآدمی مارڈالا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ پہلے تمام حالات پرغورکرو اورپھر
الزام لگا ئو بے شک یہ فعل مجھ سے سرزد ہواہے مگر فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّيْنَ مجھ سے یہ فعل ایسی حالت میں سرزد ہوا تھا جبکہ میں اپنی قوم کی محبت میں سرشارتھا یعنی جب میں نے دیکھا کہ ایک دشمن قوم کا فرد میری قوم کے ایک آدمی کو بلاوجہ ماررہاہے تومجھے اپنی مظلوم قوم کے ایک فرد کی حمایت میں جوش آگیا اورمیں نے ظالم کامقابلہ کیاجس کے نتیجہ میں وہ نادانستہ طورپر ہلاک ہوگیا.یہ واقعہ جس کی طر ف فرعون نے اشار ہ کیا وہی ہے جس کااوپر ذکر کیاجاچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک رات ایک قبطی کو دیکھا کہ وہ ایک اسرائیلی سے لڑرہاہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس سے گذرے تواسرائیلی نے حضرت موسیٰ ؑکو دیکھ کرانہیں اپنی مدد کے لئے پکارا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی سمجھا کہ اگر میں نے اسرائیلی کی مدد نہ کی تووہ ماراجائے گا چنانچہ انہوں نے آگے بڑھ کر قبطی کو ایک گھونسامارا.اب یاتوجوش کی حالت میں وہ گھونسازیادہ زور سے مار بیٹھے یااس کادل کمزور تھا گھونساکے لگتے ہی وہ مرگیا.اس واقعہ کافرعون انہیں طعنہ دیتاہے اورکہتاہے کہ ہم نے توتجھے بچوں کی طرح پالااورتونے ہمارے ہی آدمی کو ماردیا.اورناشکری کا نمونہ دکھایا.حضر ت موسیٰ علیہ السلام اسے جواب دیتے ہیں کہ پہلے سب حالات پر غور کر و اورپھر الزام لگائو.یہ تودرست ہے کہ میرے ہاتھ سے ایک آدمی ماراگیا لیکن سوال یہ نہیں کہ آدمی ماراگیایانہیں.سوال یہ ہے کہ آیامیرااسے مارنے کا ارادہ تھایانہیں.اگرحالات سے یہ ظاہرہوتاہے کہ یہ واقعہ ایساتھا جس میں فوری مدد کی ضرورت تھی.توایسی حالت میں اگرمیں نے اپنی قوم کے ایک مظلوم فرد کی مدد کی توگو اتفاقی طورپر ایک آدمی مربھی گیا.لیکن پھر بھی میں قصوروار کس طرح ہوا.میراقصور توتب ہوتا جب میں جانتے بوجھتے ہوئے محض قتل کرنے کی نیت سے اس پر حملہ کرتا.مگر جبکہ میراارادہ اسے قتل کرنے کا تھا ہی نہیں تواگر نادانستہ طور پر ایک آدمی مرگیا تویہ بات مجھے مجرم بنانے والی کس طرح ہوگئی.مگر بہرحال چونکہ میں نے ایک مظلوم قوم کے فرد کی حمایت کی تھی.اورحاکم قوم کاایک فردماراگیا تھااس لئے مجھے ڈرپیداہواکہ میرے معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیاجائے گااورمجھے سزادینے کی کوشش کی جائے گی.چنانچہ میں تمہارے ملک کوچھوڑ کربھاگ گیا مگر میرے رب نے جو میرے دلی خیالات کوجانتاتھا.مجھے بر ی قرار دیا اورمجھے شریعت عطافرمائی اورمجھے اپنارسول بناکرکھڑاکردیا.باقی رہاوہ احسان جو توجتارہاہے کہ ہم نے تجھے پالا.سوکیا یہ احسان اس جرم کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت رکھتاہے کہ تم نے اپنے باپ رعمسیس ثانی کے زمانہ سے سارے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا ہے اور تم انہیں بے گار میں پکڑ کر ان سے بڑے بڑے مشقت طلب کام لیتے ہو.اوران پرایسے ایسے مظالم ڈھاتے ہو جونہایت شرمناک ہیں اگر اتنے لمبے عرصہ تک ایک قوم کے مردوں
یہ واقعہ جس کی طر ف فرعون نے اشار ہ کیا وہی ہے جس کااوپر ذکر کیاجاچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک رات ایک قبطی کو دیکھا کہ وہ ایک اسرائیلی سے لڑرہاہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس سے گذرے تواسرائیلی نے حضرت موسیٰ ؑکو دیکھ کرانہیں اپنی مدد کے لئے پکارا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی سمجھا کہ اگر میں نے اسرائیلی کی مدد نہ کی تووہ ماراجائے گا چنانچہ انہوں نے آگے بڑھ کر قبطی کو ایک گھونسامارا.اب یاتوجوش کی حالت میں وہ گھونسازیادہ زور سے مار بیٹھے یااس کادل کمزور تھا گھونساکے لگتے ہی وہ مرگیا.اس واقعہ کافرعون انہیں طعنہ دیتاہے اورکہتاہے کہ ہم نے توتجھے بچوں کی طرح پالااورتونے ہمارے ہی آدمی کو ماردیا.اورناشکری کا نمونہ دکھایا.حضر ت موسیٰ علیہ السلام اسے جواب دیتے ہیں کہ پہلے سب حالات پر غور کر و اورپھر الزام لگائو.یہ تودرست ہے کہ میرے ہاتھ سے ایک آدمی ماراگیا لیکن سوال یہ نہیں کہ آدمی ماراگیایانہیں.سوال یہ ہے کہ آیامیرااسے مارنے کا ارادہ تھایانہیں.اگرحالات سے یہ ظاہرہوتاہے کہ یہ واقعہ ایساتھا جس میں فوری مدد کی ضرورت تھی.توایسی حالت میں اگرمیں نے اپنی قوم کے ایک مظلوم فرد کی مدد کی توگو اتفاقی طورپر ایک آدمی مربھی گیا.لیکن پھر بھی میں قصوروار کس طرح ہوا.میراقصور توتب ہوتا جب میں جانتے بوجھتے ہوئے محض قتل کرنے کی نیت سے اس پر حملہ کرتا.مگر جبکہ میراارادہ اسے قتل کرنے کا تھا ہی نہیں تواگر نادانستہ طور پر ایک آدمی مرگیا تویہ بات مجھے مجرم بنانے والی کس طرح ہوگئی.مگر بہرحال چونکہ میں نے ایک مظلوم قوم کے فرد کی حمایت کی تھی.اورحاکم قوم کاایک فردماراگیا تھااس لئے مجھے ڈرپیداہواکہ میرے معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیاجائے گااورمجھے سزادینے کی کوشش کی جائے گی.چنانچہ میں تمہارے ملک کوچھوڑ کربھاگ گیا مگر میرے رب نے جو میرے دلی خیالات کوجانتاتھا.مجھے بر ی قرار دیا اورمجھے شریعت عطافرمائی اورمجھے اپنارسول بناکرکھڑاکردیا.باقی رہاوہ احسان جو توجتارہاہے کہ ہم نے تجھے پالا.سوکیا یہ احسان اس جرم کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت رکھتاہے کہ تم نے اپنے باپ رعمسیس ثانی کے زمانہ سے سارے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا ہے اور تم انہیں بے گار میں پکڑ کر ان سے بڑے بڑے مشقت طلب کام لیتے ہو.اوران پرایسے ایسے مظالم ڈھاتے ہو جونہایت شرمناک ہیں اگر اتنے لمبے عرصہ تک ایک قوم کے مردوں اور عورتوں اور بچوںسے ظالمانہ خدمت لینے کے بعد اس قوم کا ایک بچہ تم نے پال دیا توکیا غضب کیا.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس فرعون نےپالا تھا اُس کا نا م رعمسیسؔ تھا (خروج باب ۱ آیت ۸ تا ۱۷).مگر دعوی نبوت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس فرعون کے پا س جانا پڑا وہ اُس کا بیٹا منفتاحؔ تھا ( JEWISH ENCYCLOPEDIA زیرلفظ Merneptah ).چونکہ وہ بچپن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھروں میں پرورش پاتے دیکھتا رہا تھا اور جانتا تھا کہ اس کے باپ نے کس محبت کےساتھ موسیٰ ؑکی پرورش کی اس لئے اس نے اپنے باپ کے اس سلوک کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا کیا ہم نے تجھے اپنے گھروں میں نہیں پالا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اُسی رعمسیس ؔ کے ان مظالم کا ذکر شروع کردیا جو وہ اپنی زندگی میں بنی اسرائیل پر ڈھاتا رہا.یہاں تک کہ اس نے حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بھی لڑکا پیدا ہو اُسے مار ڈالا جائے.اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے.رعمسیس ؔ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منفتاحؔ تخت نشین ہوا اور اُس نے بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بنی اسرائیل پر عرصہ حیات تنگ کردیا.آخر جب ان کی دردناک چیخ وپکا رنے عرشِ الٰہی کو ہلادیا تو اس نے ان اسیروں کی رستگاری کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے.مگر بجائے اس کے کہ فرعون اس ظلم سے باز آتا اور بنی اسرائیل کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیتا اُس نے موسیٰ ؑ پر طعنہ زنی شروع کردی کہ تُو تو ہمارے ٹکڑوں پر پلتا رہا ہے.اور اب تو ہی ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ سب کچھ درست ہے.مگر کیا یہ اس ظلم کے جواز کی کوئی دلیل ہے جو بنی اسرائیل پر کیا جارہا ہے اگر مجھے پالا تو کیا اس کے نتیجہ میں تمہارے لئے یہ جائز ہوگیا کہ تم ساری قوم کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھو.اور خدا تعالیٰ کے ان بندوں کو جو تمہاری طرح اس دنیا میں آئے ذلّت اور بیچارگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرو.قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۲۴قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ اس پر فرعون نے (شرمندہ ہوکر اور بات پھیرنے کے لئے ) کہا.یہ رب العالمین کون ہے؟(جس کی طرف الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ۰۰۲۵قَالَ لِمَنْ سے آنا تم بیان کرتے ہو.)(موسیٰ نے ) کہا آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا ربّ.
حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ۰۰۲۶قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ اگر تم میں یقین کرنے کی خواہش ہے.اس پر اس (فرعون) نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا.کیاتم سنتے نہیں الْاَوَّلِيْنَ۰۰۲۷قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْۤ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ (کہ موسیٰ کیا کہتاہے) (موسیٰ ؑ نے اپنے پہلے بیان کی تشریح کرتے ہوئے )جواب دیا.وہی جو تمہارا بھی رب ہے لَمَجْنُوْنٌ۰۰۲۸ ،اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا بھی رب تھا.(اس پر فرعون) بولا.(اے لوگو!) تمہارا وہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور پاگل ہے.تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کویہ جواب دیا تو اس نے کھسیانے ہو کر کلام کا موضوع ہی بدل دیا.اور کہنے لگا.اچھا ان باتوں کو جا نے دو.تم یہ بتائو کہ تم جو کہہ رہے ہو کہ میں رب العالمین خدا کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں تو یہ رب العالمین خدا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا.رب العالمین وہ خدا ہے جو آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کا ربّ ہے اگر تم یقین لانے والوں میں سے بنو.تو یہ دلیل تمہارے لئے بڑی کافی ہے.فرعون اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہنے لگا.سُنتے ہو یہ کیسی بیو قوفی کی باتیں کرتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا.اگر آسمان اورزمین کے بنانے والے کو تم نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہی دلیل سمجھ لو کہ تمہاری اور تمہارے گذشتہ باپ دادوں کی بھی تو کسی نے پرورش کی تھی.وہ رب العالمین خدا ہے.فرعون اس دلیل کی طاقت سے جھنجھلا اٹھا اور گالیوں پر اُتر آیا.اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا.یہ شخص جو تمہاری طرف رسول ہو کر آنے کا دعویٰ کرتا ہے یقیناً پاگل ہے.اس کا مطلب جیسا کہ سورئہ نازعات سے ظاہر ہے یہ تھا کہ اے فرعونیو ! تمہارا رب تو میں ہوں.یہ موسٰی رب العالمین خداکہاں سے لے آیا ہے اور چونکہ میں اس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہوں اور اس کے باوجود یہ اپنے عقیدے پر قائم رہا ہے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ اس کے دماغ میں کچھ نقص ہے جو اپنے دعویٰ پر اس قدر اصرار کررہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آج تک دنیامیں خدا تعالیٰ کا کوئی بھی نبی نہیں آیا جسے اس کے مخالفوں نے پاگل نہ کہاہوکیونکہ جس طرح مجنون انسان اپنی انتہائی طاقت استعمال کردیتا ہے اور اُسے اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی ہر قسم کے ڈر اور خوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر
اس طاقت کو پہنچانا شروع کردیتے ہیں جو خدا تعالیٰ نےان کے سپرد کی ہوتی ہے اور انہیں اپنے انجام کا کوئی خوف نہیں ہوتا.نادان انسان جو ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے وہ انہیں جب اپنے مقصد کے لئے ایسے جوش سے کام کرتا دیکھتا ہے جو بظاہر عقل کے خلاف ہوتا ہے تو انہیں پاگل کہنا شروع کردیتا ہے.علم النفس کے ماہرین نے بھی جنون کی مختلف کیفیات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب جنون پیدا ہوتا ہے تو انسان اپنے گردوپیش کے تمام حالات کو بھلا دیتا ہے اور اپنے کام کے متعلق اس میں اس قدر انہماک پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کی پرواہ ہی نہیں کرتا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت جو اُستانی تھی پاگل ہوگئی.درمیان میںکبھی کبھی اس کی حالت درست بھی ہو جایاکرتی تھی.ایک دفعہ عورتوں میں درس ہورہاتھا اور وہ بھی درس میں شامل تھی کہ یکدم اس عورت کو جنون کا دورہ ہوا اور کھڑکی میں سے کود کر نیچے گرنے لگی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر اسے پکڑ لیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی وفات کے دوچار ماہ بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نہیں گرے تھے.اور آپ میں اتنی طاقت تھی کہ بعض دفعہ آپ اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اسے ٹیڑھا کرکے دکھادے.آپ نے اٹھ کر اس عورت کوپکڑ لیا.لیکن باوجود سارا زور لگانے کے وہ دُبلی پتلی عورت آپ کے ہاتھو ں سے نکلی جاتی تھی.اس پر آپ نے عورتوں کو آواز دی کہ یہ تو گرنے لگی ہے میری مدد کیلئے آئو.پھرپانچ سات عورتوں نے آپ کے ساتھ مل کر اسے باندھا حالانکہ عقل اور ہوش کے زمانہ میں اس کو سترہ اٹھارہ سال کا بچہ بھی پکڑ سکتا تھا.اس کی وجہ یہی ہے کہ عقلمند انسان سمجھتاہے کہ اگر ایک خاص حد سے زیادہ اُس نے اپنی طاقتوں کو استعمال کیا تو اُسے نقصان پہنچے گا لیکن پاگل کا دماغ اُسے حد سے زیادہ طاقت خرچ کرنے سے نہیں روکتا.یہی وجہ ہے کہ پاگلوں میں بہت زیادہ طاقت آجاتی ہے اور ایک ایک پاگل کو آٹھ آٹھ دس دس آدمی مل کر پکڑتے ہیں.تب وہ قابو میں رہتاہے پس چونکہ پاگلوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بسا اوقات ایسے جوش سے کام کرتے ہیں جو عقل کے خلاف ہوتا ہے.اس لئے جب لوگ اللہ تعالیٰ کے نبیوںکو دیکھتے ہیں کہ وہ زمانہ کی رو کے بالکل خلاف آواز اٹھا رہے ہیںاور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہیں کسی قسم کی ہلاکت اور تباہی کی پروا نہیں تو وہ سمجھتے ہیںیہ لوگ پاگل ہیں اگر عقلمند ہوتے تو رائے عامہ کے خلاف اپنی آواز کیوںبلند کرتے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے مکہ والوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ایک خدا کی پرستش کرو تو عرب کے لوگ جولاتؔ اور مناۃؔ اور عزّیٰؔ کے پرستارتھے ان کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص تو پاگل ہے جواتنے خدائوں کو ایک
خدا قراردے رہاہے.خدا تو کئی ہیں مگر یہ شخص کہتا ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے.پس ان کی نگاہ میں آپ کی یہ بات نعوذباللہ ایک پاگلانہ بڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اس لئے بھی پاگل کہتی کہ آپؐ فرماتے تھے.شراب نہ پیو.جُوا نہ کھیلو.اوردوسروں کے مال نہ لوٹو.عرب کے لوگ کہتے تھے.یہ کیسا آدمی ہے جو شراب سے منع کرتا ہے جو زندگی کا سرور ہے اورجُوا کھیلنے اور مال لوٹنے سے منع کرتا ہے جو ایک فائدہ مند کام ہے.اس کی یہ باتیں تو پاگلوں والی باتیں ہیں.اسی طرح وہ کہا کرتے کہ محمد رسول اللہ کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا دو.اپنے مالوںکو خدا کی راہ میں خرچ کروتو تمہیں ثواب ملے گا.یہ تو پاگلوں والی بات ہے.حضرت شعیبؑ جب لوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ لوٹو.اپنے مال کو ناجائز کاموں میں صرف نہ کرو.تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہوگیا ہے.اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے.اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں نے پاگل کہا.جب آپ نے وفات مسیح ؑ کا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب ۱۳۰۰سال سے یہ مسئلہ امت محمدیہ کے اکابر پیش کرتے چلے آرہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہوگئے.لوگوں کو اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جیسے طبیب بھی قائل تھے.اورجن کانام حکیم اللہ دین تھا اوربھیرہ کے رہنے والے تھے ایک دفعہ ان کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اورنہایت مخلص احمد ی تھے گئے.اورانہیںکچھ تبلیغ کی.وہ باتیں سن کرکہنے لگے.میاں تم مجھے کیاتبلیغ کرتے ہو تم بھلاجانتے ہی کیا ہو اورمجھے تم نے کیا سمجھاناہے مرزا صاحب کے متعلق توجومجھے عقیدت ہے اس کادسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقید ت نہیں ہوگی.مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خو ش ہوئے اورانہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں.اس لئے انہوں نے کہا.ا س بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اورمیں خوش ہوں گااگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اَوربھی سنوں.وہ کہنے لگے.آجکل کے جاہل نوجوان بات کی تہ تک نہیں پہنچتے اوریونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.اب تم آگئے ہو مجھے وفات مسیح کامسئلہ سمجھانے.حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اس
مسئلہ کو پیش کرنے میں حکمت کیاہے؟ وہ کہنے لگے.آپ ہی فرمائیے.انہوں نے کہا سنو!اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی.تیرہ سوسال میں بھلا کوئی مسلمان کابچہ تھا جس نے ایسی کتا ب لکھی ہو.مرزا صاحب نے ا س میں ایسے ایسے علوم بھر دیئے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتا ب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ اسلام کے لئے ایک دیوار تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا.لیکن مولوی ایسے احمق اوربے وقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ اداکرتے اورزانوئے ادب تہ کرکے آپ سے کہتے کہ آئندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے اُلٹا آپ پر کفر کافتویٰ لگادیا اوراسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سوسال میں اَور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیّت جتانے لگ گئے.اورسمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں.اس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہیے تھا اورآیا.چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا.اچھا تم بڑے عالم بنے پھر تے ہو اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تودیکھ لو کہ حیات مسیح کاعقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے اتنا ثابت ہےکہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتاہے.لیکن میں قرآن سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کرکے دکھاتاہوں.اگر تم میں ہمت ہے تو اس کاردّکرو.چنانچہ انہوں نے مولویوںکوان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کامسئلہ پیش کردیا اورقرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے.اب مولوی چاہے سارازور لگالیں.چاہے ان کی زبانیں گھِس جائیں اورقلمیں ٹوٹ جائیں.سارے ہندوستان کے مولو ی مل کربھی مرزا صاحب کے دلائل کامقابلہ نہیں کرسکتے.مرزا صاحب نے انہیں ایساپکڑاہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی.اب اس کا ایک ہی علاج ہے اوروہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفرکا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے.ہمیں معاف کیاجائے.پھر دیکھ لیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیات مسیح ثابت کرکے دکھاتے ہیں یانہیں؟ اس سے انداز ہ لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت حیات مسیح کاعقیدہ کتنا یقینی سمجھاجاتاتھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتبار اوراعتماد رکھتے ہوئے آ پ کو اسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتاتھاکہ حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیںبلکہ وہ کہتے تھے کہ یہ محض مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کہتے ہیںورنہ حیاتِ مسیح کا مسئلہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.جب آپ پر اعتماد رکھنے اور آپ کواسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھنے والوں کی یہ کیفیت تھی تو دوسرے لوگ جو آپ کو اسلام کا دشمن قرار دیتے تھے وہ اس مسئلہ کی وجہ سے اگر
آپ کو پاگل نہ کہتے تو کیا کہتے.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ اب جہاد کی شکل بدل گئی ہے اب لٹریچر اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام پھیلانے کا زمانہ ہے تو مسلمان حیران ہوئے کہ کیا اس طرح اسلام دنیا پر غالب آسکتا ہے.اُن کے نزدیک تو ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ غیر مسلموں کو قتل کردیا جائے.پس جب انہوں نےسنا کہ ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اسلام کی ترقی غیر مسلموں کو قتل کرنے سے نہیں بلکہ اپنی جانوں کو اسلام کی راہ میں قربان کرنے سے وابستہ ہے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب پاگل ہیں جو ایسے خلاف عقل مسائل دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں یہی حربہ فرعون نے بھی استعمال کیا.اور جب اس نے دیکھا کہ وہ دلائل کے میدان میں پورا نہیں اتر رہا تو اُس نے کہا یہ تو پاگل ہے جو ایسی احمقانہ باتیں کررہا ہے.قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ (موسیٰ نے سمجھ لیا کہ وہ بات ٹلانہ چاہتاہے اور)کہا(رب العالمین )وہی ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور تَعْقِلُوْنَ۰۰۲۹قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مغرب کا بھی (رب ہے) اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (ان کا بھی رب ہے ) بشرطیکہ تم عقل سے کام لو.مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ۰۰۳۰قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِيْنٍۚ۰۰۳۱ (اس پر فرعون نے طیش میں آکر )کہااگر میرے سوا تو نے کوئی اور معبود بنایا تو میں تجھے قید کردوں گا.اُس قَالَ فَاْتِ بِهٖۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۰۰۳۲فَاَلْقٰى عَصَاهُ (یعنی موسیٰ )نے کہا.کیا اُس صور ت میں بھی کہ میں کوئی (حقیقتِ حال کو ) کھول دینے والی چیز تیرے پاس فَاِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌۚۖ۰۰۳۳وَّ نَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِيَ بَيْضَآءُ لے آئو ں(یعنی معجزہ) اس پر اُس (یعنی فرعون )نے کہا.اگر تو سچا ہے تو لے بھی آ.پس اُس (یعنی موسیٰ) نے اپنا
لِلنّٰظِرِيْنَؒ۰۰۳۴ عصازمین پر دھر دیا تو اچانک (اہلِ فرعون نے دیکھاکہ ) وہ ایک صاف صا ف نظر آنے والا اژدہاہے اور اُس نے اپنا ہاتھ (اپنی بغل سے ) نکالا تو سب دیکھنے والوں نے اچانک دیکھا کہ وہ بالکل سفید ہے.حلّ لُغَات.ثُعْبَانٌ.ثُعْبَانٌ:ضَرْبٌ مِّنَ الْحَیَّاتِ طِوَالٌ.یعنی ثُعْبَانٌ سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کا سانپ ہوتا ہے جو خاصا لمبا ہوتا ہے.(اقرب) نَزَعَ.نَزَعَ یَدَہٗ کے معنے ہیں اَخْرَجَھَا مِنْ جَیْبِہٖ ہاتھ کو اپنے گریبان سے نکالا (اقرب) تفسیر.فرعون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تو آپ سمجھ گئے کہ اب یہ مجھے اصل موضوع سے دوسری طرف پھیرنا چاہتاہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت عالمین پر جو گفتگو شروع ہے وہ ذاتیا ت میں الجھ کر رہ جائے اور میں اس مضمون کو ترک کرکے اس امر پر بحث شروع کردوں کہ مجھے مجنون کیوں کہاگیا ہے.میرے اندر تو کوئی جنون والی بات نہیں پائی جاتی.پس آپ نے مناسب سمجھا کہ اُس کی اس گالی کا اُسے کوئی جواب نہ دیںاور اصل موضوع کو جاری رکھیں.چنانچہ آپ نے فرمایا.رب العالمین خدا وہ ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے.یعنی تُو تو صرف مصریوں کا رب ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ کہ مصر کی دنیا کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے.مشرق ومغرب میں سینکڑوں ملک مصر سے کئی کئی گُنا بڑے موجود ہیں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرعون مصر والوں کو پال رہا ہے تو وہ لوگ جو مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان رہتے ہیں ان کو کون پالتا ہے بہر حال جو ساری دنیا کو پالتا ہے وہی رب العالمین ہے.فرعون رب العالمین نہیں ہوسکتا.کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو مصریوں اور قبطیوں کا خدا کہتا ہے.اس پر فرعون کے غصہ کا پارہ بہت ہی چڑھ گیا اور موسیٰ ؑسے کہنے لگا کہ یا تو سیدھی طرح مجھے خدا قرار دو ورنہ میں تجھے قید کردوں گا.اور پھر تجھے پتا لگے گا کہ تیری اس گستاخی کی کیا سزا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی جو موسٰی کو آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کرنا چاہتاتھا خدا تعالیٰ نے اسے بحیرئہ قلزم کی طوفانی موجوں میں ایسا قید کیا کہ وہ اپنے تمام لائولشکر اور مددگاروں کے باوجود اس قید سے رہا نہ ہوسکا.جب اُس نے قید کرنے کی دھمکی دی.تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا اگر میں کوئی ایسی دلیل لائوں جو میری بات کو بالکل واضح کردے تو کیا پھر بھی تم قید کرو گے ؟ فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ چلو اس وقت تو بحث سے جان چھوٹی آئندہ دیکھا جائے گا اور کہنے لگا کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی
دلیل پیش کرو.اس پر موسٰی نے اپنا سونٹا زمین پر ڈال دیا تو لوگوں کو اچانک یہ نظر آنے لگا کہ وہ ایک اژدھا ہے جو صاف صاف نظر آرہا ہے.اس کے بعد موسٰی نے اپنے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا.تو وہ دیکھنے والوں کو چمکتا ہوا نظر آنے لگا.اس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن جانا اور آپ کے ہاتھ کا لوگوں کو چمکتا ہوا نظر آنا درحقیقت ایک کشفی نظارہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی دکھا دیا.اور رئویاو کشوف کے متعلق یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس کی انبیاء اور اولیاء کی تاریخ میں کثر ت سے مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض دفعہ کشفی نظارے ایسے وسیع کردیئے جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کوبھی نظر آنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں انشقاقِ قمر کا جو معجزہ ظاہر ہو اوہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو وسیع کردیا گیا.اور نہ صرف مکہ کے کچھ لوگوں کو نظرآیا(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ وانشق القمر )بلکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہندوستان کے ایک راجہ کو بھی نظر آگیا اور وہ مسلمان ہوگیا.(تاریخ فرشتہ اُردوجلد ۲صفحہ ۴۹۱مقالہ ۱۱) مفسرین نے چونکہ اس حقیقت کو نہیں سمجھا اس لئے ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ چاند واقعہ میں جسمانی طور پر پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا تھا حالانکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سونٹا تھا تو سونٹا ہی مگر فرعون اور اس کے درباریوں کو وہ ایک اژدہا کی شکل میںدکھایا گیا.اسی طرح چاند تو اپنی جگہ پر ہی رہا تھا مگر کشف میں یہ دکھایا گیا کہ وہ پھٹ گیا ہے.اور جس طرح ہر خواب اور کشف تعبیر طلب ہوتا ہے اسی طرح اس کشف کی بھی یہ تعبیر تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تغیر رونماہونے والا ہے اُس کا وقت اب آچکا ہے اور کفا رکی حکومت عرب سے مٹ جائے گی.چنانچہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُوَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر:۲) یعنی عرب کی تباہی قریب آگئی ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ساعت کے قریب آنے اور چاند کے پھٹنے میںتعلق تھا.مگر ظاہری طور پر چاند کے پھٹنے کا ساعت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے.اگر ساعت سے اس کا تعلق ہوتا تو چاہیے تھا کہ قیامت بھی آجاتی مگر چاند کے پھٹنے پر تو تیرہ سو سال کا عرصہ گذرچکا ہے اور قیامت ابھی تک آئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ساعت قریب آگئی ہے اورا س کی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے پس معلوم ہوا کہ شق کے جو معنے عام طور پرکئے جاتے ہیںوہ بھی غلط ہیں اور ساعت کے جو معنے لئے جاتے ہیں وہ بھی درست نہیں.دراصل قرآن کریم میں انبیاء کی بعثت اوران کی ترقی اور غلبہ کے زمانہ اور ان کے مخالفین کی تباہی کے زمانہ کو ساعت کہاجاتا ہے.اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ محمدرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ساعت آنی تھی اور آپ کے ذریعہ جو تغیر رونما ہونا تھا اس کا وقت اب آگیا ہے اورا س کی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے.یہ علامت اس لئے بتائی گئی کہ عربوں میں قمر سے مراد عرب کی حکومت ہوا کرتی تھی.چنانچہ حضرت صفیہؓ جو ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور بعد میں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں.انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ان کی گو د میںچاند آگرا ہے.وہ کہتی ہیں جب میں نے اپنے باپ کو یہ خواب سنائی تو اُس نے میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے(الاصابۃ، کتاب النساء، حرف الصاد، صفیۃ).اس لئے پتہ لگتا ہے کہ عرب کے لوگ قمر سے مراد عرب کی حکومت لیتے تھے.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طور پر یہ نظارہ دکھا یا گیاکہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ہے.تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اب کفارِ عرب کی تباہی کا وقت آ پہنچا ہے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐکے صحابہ پر ایک لمبے عرصے سے مظالم ڈھائے جا رہے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ اب اسلام کی ترقی کا زمانہ آگیا ہے.اور یہ نظارہ نہ صرف آپؐ کو دکھایا گیا بلکہ کفار کو بھی اس نظارہ میں شامل کرلیاگیا.تاکہ وہ بھی اس بات کو سمجھ لیں کہ اب کفر کے مٹنے کے دن آگئے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’سُرمہ چشم آریہ‘‘ میں اس معجزہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رئویا وکشوف کے دائرہ کی اس وسعت کو تسلیم کیا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ ’’یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کی قوت قدسیہ کے اثر سے دیکھنے والوں کو کشفی آنکھیں عطا کی گئی ہوں.اور جو انشقاق قرب قیامت میں پیش آنے والا ہے اُس کی صورت ان کی آنکھوں کے سامنے لائی گئی ہو.کیونکہ یہ بات محقق ہے کہ مقربین کی کشفی قوتیں اپنی شدت حد ت کی وجہ سے دوسروں پر بھی اثر ڈال دیتی ہیں.اس کے نمونے ارباب مکاشفات کے قصوں میں بہت پائے جاتے ہیں بعض اکابر نے اپنے وجود کو ایک وقت اورایک آن میں مختلف ملکوں اور مکانوں میں دکھلا دیا ہے.باذن اللہ تعالیٰ‘‘ (سُرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۷.۲۷۸) اسی طرح فرماتے ہیں کہ : ’’صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کنہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے.بعض اوقات صاحبِ کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بیشمار حجابوں
کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے.بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہٖ تعالیٰ اس کی آواز بھی سن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوتی ہے.بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گذشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ہر یک نیک بخت روح یابدبخت روح کے ساتھ کشفِ قبور کے طور پر ہو سکتی ہے.چنانچہ خود اس میں مولّف رسالہ ہذا صاحبِ تجربہ ہے اور یہ امر ہندوئوں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحبِ کشف اپنی توجہ اور قوت تاثر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صدہا کوسوں کے فاصلہ کے باذنہٖ تعالیٰ عالم بیدار ی میں ظاہر ہوجاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا.اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دوجگہ ہونا محال ہے.سووہ محال اس عالمِ ثالث میںممکن الوقوع ہوجاتا ہے.‘‘ (حاشیہ سُرمہ چشم آریہ ،روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ۱۷۸) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اور بھی ایسے کشوف ہوئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کوبھی شریک کرلیا.مثلاً حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک اجنبی شخص جس پر سفر کے کوئی آثار معلوم نہیں ہوتے تھے آیا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا.اور پھر اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ایمان کی کیا تعریف ہے؟اسلام کے کون کون سے ارکان ہیں ؟ احسا ن کس مقام کا نام ہے؟ قیامت کی کیاکیا نشانیاں ہیں ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے.جب وہ چلا گیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ یہ جبریل تھا جو تمہیں دینی مسائل سکھانے کیلئے آیا تھا.(ترمذی ابواب الایمان باب ما جاء فی وصف جبریل للنبی صلی اللہ علیہ وسلم الایمان و اسلام) اب یہ بھی ایک کشف تھا جس کے دائرہ کو اتنا وسیع کردیا گیا کہ صحابہؓ نے بھی جبریل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے دیکھ لیا.اِسی طرح جنگِ بدر کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تائید کےلئے جو ملائکہ نازل فرمائے.وہ کشفی حالت میں جہاں بعض صحابہؓ کو دکھائی دیئے وہاں کفار نے بھی اُن کو دیکھا اور پھر انہوں نے اپنی مجالس میں بھی اس کا حیرت کےساتھ ذکر کیا.(تفسیر ابن جریر زیر آیت اذ تقول للمؤمنین...وتفسیر فتح البیان زیر آیت اذتقول للمومنین) اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بچپن میں اپنی دائی حلیمہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے تو روایات
میں ذکر آتا ہے کہ آپ کا ایک رضائی بھائی ایک دن دوڑتا ہوا اپنے والدین کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے بھائی (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کسی نے حملہ کردیا ہے.حلیمہ جلدی سے باہر گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں.حلیمہ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا تھا ؟آپؐ نے فرمایا.ابھی تین آدمی آئے تھے.جنہوں نے میرا سینہ چیرا اور میرے دل کودھوکر اندر رکھ دیا اور پھر چلے گئے (السیرة النبویة لابن ہشام ولادة رسول اللہ و رضاعتہ) اب یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیکھا.اور حلیمہ کے بیٹے نے بھی اس نظارے کو دیکھ لیا ورنہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ کسی کے دل کی صفائی کے لئے ظاہری چیرپھاڑ کے محتاج نہیں ہوتے.اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سورہے تھے.جب آپؐ تہجد کے لئے اٹھے اور وضو فرمانے لگے تو مجھے آواز آئی کہ آپؐ فرمارہے ہیں لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.اس کے بعد آپؐ نے فرمایا.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.وہ کہتی ہیں.جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو میںنے کہا.یا رسول اللہ !کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپ اس سے باتیں کررہے تھے؟آپ نے فرمایا.ہاں میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہؔ کا ایک وفد پیش ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہ شور مچاتے چلے آرہے ہیں کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں.مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی.اور رات کے وقت ہم پر حملہ کرکے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدہ میںتھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کردیا.اب ہم تیری مد د حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں جب کشفی طور پر مجھے وہ وفد نظر آیا تو میں نے لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں.میں تمہاری مدد کےلئے حاضر ہوں.میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں.پھر میں نے کہا.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.تجھے مدد دی جائے گی.تجھے مدد دی جائے گی.تجھے مدد دی جائے گی(السیرة الحلبیة فتح مکة شرفھا اللہ).ا ب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کشفی نظارہ دیکھ رہے ہیں اور کشفی حالت میں ہی آپ لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ کہتے ہیں اورپھر تین دفعہ نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ کہتے ہیں.اور یہ آواز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بھی سن لیتی ہیں.اور وہ آپ سے دریافت فرماتی ہیں کہ کیا کوئی آدمی تھا جس سےآپ باتیں کررہے تھے.اور آپؐ فرماتے ہیں.یہ ایک کشفی نظارہ تھا.یہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشفی حالت میں بعض دفعہ دوسرے لوگ بھی شریک کرلئے جاتے ہیں.اب گو حضرت میمونہ ؓ نے وہ وفد نہیں دیکھا.مگر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب سن لیا جو آپؐ نے کشفی حالت میں خزاعہؔ کے وفد کو دیا تھا.اورپھر چند دن بعد ایسا ہی
وقوع پذیر ہوگیا.پھر یہ واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نہیں ہوئے بلکہ بعد میں بھی اللہ تعالیٰ ایسے نشانات ظاہر کرتا رہاہے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ خطبہ پڑھا رہے تھے کہ خطبہ پڑھاتے پڑھاتے آپ نے بلند آواز سے فرمایا.یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ.اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو.اور یہ فقرہ آپ نے دو تین مرتبہ دہرایا وہ لوگ جو خطبہ سن رہے تھے.سخت حیران ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے یہ کیا کہہ دیا ہے بلکہ بعض منافقوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمرؓ پاگل ہوگیا ہے کہ اُس نے خطبہ پڑھتے پڑھتے یہ بے جوڑ بات کہہ دی کہ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ اے ساریہ تو پہاڑ کے دامن میں چلا جا.جب لوگو ں میں چہ میگوئیا ں ہونی شروع ہوئیں تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لوگ آپ کے متعلق مختلف قسم کی باتیں کررہے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ آپ نے آج خطبہ میں یہ کیا کہہ دیا کہ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ.آپ نے فرمایا.میں خطبہ پڑھ رہا تھا کہ کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور عراق کی سرزمین میرے سامنے آگئی اور میںنے دیکھا کہ ساریہ جو اسلامی جرنیل ہے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن فوج سے برسرِ پیکار ہے مگر دشمن فوج کا پلّہ بھاری ہے اور قریب ہے کہ اسلامی فوج شکست کھاجائے.میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو چونکہ اُس وقت میدانِ جنگ کا سب نقشہ میری آنکھوں کے سامنے تھا.میں نے بلند آواز سے ساریہ ؔسے کہا کہ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو تاکہ تم دشمن کے حملہ سے بچ سکو.چند دن کے بعد میدانِ جنگ سے حضرت عمر ؓ کوساریہؔکا خط پہنچا.تواس میں لکھا تھا کہ جمعہ کے دن صبح کی نماز کے وقت ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی.اور ہم اُن سے لڑتے چلے گئے یہاں تک کہ جمعہ کی نماز کا وقت آگیا.اُس وقت اچانک ہمارے کانوں میں آپ کی یہ آواز آئی کہ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ اور ہم فوراًمیدان چھوڑ کر پہاڑ کی طرف آگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی اور دشمن شکست کھاگیا.(تاریخ الخمیس کرامۃ عمررضی اللہ عنہ) اب دیکھو اسلامی افواج مدینہ سے سینکڑوں میل دور ہیں.اور حضرت عمرؓ مدینہ میں بیٹھے ہیں.مگر جب آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی تو نہ صرف آپ کی آواز کو اُن لوگوں نے سنا جو اُس وقت خطبہ میں شریک تھے بلکہ سینکڑوں میل دور عراق کی سرزمین میں ساریہ اور اُس کے سپاہیوں نے بھی سن لی اور انہوںنے فوراً اس کی تعمیل کی جس کے نتیجہ میں اسلامی فوج تباہی سے بچ گئی اور دشمن شکست کھا گیا.یہ مثال اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے ثابت کرتی ہے کہ بعض دفعہ کشوف کے دائرہ کو ایسا وسیع کردیا جاتا ہے
کہ سینکڑوں میل دور رہنے والے بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں.اسی طرح امت محمدیہ میں جو اولیاء گذرے ہیں ان میں سے ایک بزرگ کے متعلق لکھا کہ وہ ہر روز تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے ایک رات جب کہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا.دعا کرنے کے بعد ان کو ایک الہام ہوا جو اس مرید نے بھی سن لیا مگر ادب کی وجہ سے وہ خاموش رہا دوسرے دن وہ پھر تہجد کے لئے اٹھے اور انہوں نے دعائیں کیں تو پھر ان پر وہی الہام نازل ہوا جو پہلے دن نازل ہوا تھا اور یہ الہام بھی ان کے مرید نے سن لیا مگر پھر بھی وہ خاموش رہا تیسرے دن وہ دعا کے لئے اٹھے اور نماز سے فارغ ہوئے تو پھر انہیں وہی الہام ہو ا جو ان کے مرید نے بھی سن لیا اور وہ کہنے لگا حضور میں برابرتین دن سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز آپ پر یہ الہام نازل ہوتاہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیںکروں گا مگر آپ برابر دعاکئے جاتے ہیں آپ کو تو چاہیے کہ اب دعائیں کرنا چھوڑ دیں جب خدا تعالیٰ قبول کرنا نہیں چاہتا تو اتنا زور دینے کا کیا فائدہ ؟ انہوں نے کہا تو تو صرف تین دن یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے مجھے تو تیس سال سے برابر یہ الہام ہورہا ہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے مایو س نہیں ہو ا کیوں کہ بندے کا کام دعا مانگتے چلے جانا ہے مایوس ہونا مومن کاکام نہیں لکھا ہے کہ دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے ان پر الہام نازل کیا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میںجس قدر بھی دعائیں کی تھیں وہ سب میں نے قبو ل کرلی ہیں انہو ں نے اپنے اس مرید کو بلایا اور کہا.دیکھو اگر میں تمہاری بات مان کر دعائیں کرنا ترک کردیتا تو میں اللہ تعالیٰ کے کتنے بڑے فضلوں سے محروم ہو جاتا.اوراس وقت محروم ہوتا جب کہ میںکامیابی کے دروازے پر پہنچ چکا تھا.اب دیکھو ایک بزرگ کو الہام ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے دائرہ کو اتنا وسیع کردیتا ہے کہ ان کا ایک مرید بھی الہام کی آواز سن لیتا ہے اور برابر تین دن تک سنتا رہتا ہے.موجودہ زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سرخی کے چھینٹوں والا کشف دکھایا گیا.تو سرخی کے چھینٹے نہ صرف آپ کی قمیص پر پائے گئے بلکہ ایک قطرہ میاں عبداللہ صاحب سنوریؓکی ٹوپی پر بھی آگرا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نشان میں ان کو بھی شریک کرلیا(چشمہ ء معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۳۲،۴۳۳).اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںمجھے بتایا گیا کہ آج رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشاعت کےلئے اپنے الہامات لکھ کر دیئے تواتفاقاً آپ کو یہ الہام لکھنا یاد نہ رہا.میں نےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کہا کہ مجھے تو آج رات ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً مگر
آپ نے جو الہامات لکھے ہیں ان میں اس کا کہیں ذکر نہیں.آپ نے فرمایا.ٹھیک ہے مجھے یہ الہام ہو اتھا.مگر لکھنا یاد نہیں رہا پھر آپ اندر سے اپنے الہامات کی کاپی اٹھا لائے اور مجھے فرمایا کہ دیکھو اس میں میں نے یہ الہام درج کیا ہوا ہے.اس کے بعد آپ نے اس الہام کو بھی اخبار میں شائع کرو ا دیا.اب دیکھو ادھر ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ مجھے بھی بتا دیتا ہے کہ ان الفاظ میں آپ پر الہام نازل ہوا ہے اور صبح معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل درست تھی.غرض رئویا و کشوف میں بعض دفعہ ساتھ رہنے والے بھی شریک کرلیئے جاتے ہیں.اور یہ چیز ایسی قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اوروہ حضرت مسیح ؑ کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں بھی کرسکتا ہے اور ان کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.‘‘ (تحفہ قیصر یہ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۷۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن کر نظر آنا بھی ایسے ہی کشوف میں سے تھا جس کا دائرہ وسیع کردیا گیا اور فرعون اور اس کے ساتھیوں نے مو سٰی کا عصا ایک بہت بڑے اژدہا کی صورت میں دیکھا جسے دیکھ کر وہ ڈرے اور ان کے دلوں پر لرزہ طاری ہو گیا.یہ نظارہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک غریب شخص جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرض تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابو جہل نے میر ا اتنا روپیہ دینا ہے مگر باربار تقاضوں کے باوجود وہ میرا روپیہ مجھے نہیں دیتا.آپؐ اس بارہ میں میری مدد کریں.اور مجھے اس سے روپیہ دلوادیں.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے ایک ایسی مجلس میں شریک رہ چکے تھے جس کا ہر ممبر یہ حلف اٹھاتا تھا کہ میں مظلوموں کی مدد کروں گا.اور حقدار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کروں گا.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوراً اس کے ساتھ ابو جہل کے مکان کی طرف چل پڑے حالانکہ اس زمانہ میں مکہ میں آپ ؐ کی شدید مخالفت تھی اور گلی کوچوں میں آپ ؐ کا اکیلے پھرنا خطرہ سے خالی نہیں تھا مگر آپ ؐ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑے اور ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا.وہ باہر آیا.تو آپ نے فرمایا.تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے.اس نے کہا.
ہاں ! آپؐ نے فرمایا.پھر اِسے لادو.وہ چپکے سے اندر گیا اور اس نے روپیہ لاکر دے دیا.جب یہ خبر مکہ کے لوگوں نے سنی تو انہوں نے ابوجہل کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ تم ہمیں تو کہتے ہو کہ محمدؐ رسول اللہ کی کوئی بات نہ مانو مگر خود اتنا ڈرگئے کہ اس کے کہنے پر تم چپکے سے اند رگئے اور روپیہ لاکر اس کے حوالے کردیا.وہ کہنے لگا.تمہیں کیا معلوم کہ میرے ساتھ کیا واقعہ ہوا جب میں نے دروازہ کھولا اور مجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نظر آئے.تو میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں اور بائیں دو مست اونٹ کھڑے ہیں اور وہ ایسے جوش میں ہیں کہ میں نے سمجھا اگر اس وقت میں نے ذرابھی انکار کیا تو یہ دونوں اونٹ مجھے نوچ کر کھا جائیں گے.چنانچہ میں نے اپنی سلامتی اسی میں دیکھی کہ فوراً روپیہ لاکر پیش کردوں.یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو ابوجہل کو دکھائی دیا.ورنہ ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں کوئی دیوانے اونٹ نہیں تھے (السیرۃالنبویة لابن ہشام امر الاراشی الذی باع ابا جھل ابلہ).اِسی طرح ایک دفعہ ایک ہندوجو لاہور کے کسی دفتر میں اکائونٹنٹ تھا اور علمِ توجہ کا بڑا ماہر تھا کسی برات کے ساتھ اس نیت اور ارادہ سے قادیان آیا کہ میںمرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا.تو وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے.اور لوگوں میں ان کی بڑی سبکی ہوگی.یہ واقعہ اس ہندو نے خود لاہور کے ایک احمدی دوست میاں عبدا لعزیز صاحب مغل کو سنایا تھا جس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں عبد العزیز صاحب کو اپنی ایک کتاب دی اور فر مایا کہ یہ فلاں ہندو کو دے دینا.انہوں نے اُسے کتاب پہنچا کر پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو یہ کتا ب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے.اس پر اس ہندو نے یہ سارا واقعہ سنایا اور کہاکہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ فوراًتانگے کے پیچھے پیچھے بھاگا آئے گا.حالانکہ نہ وہ میر ا واقف ہوگا اور نہ میں اسے جانتا ہوں گا.پھر اس نے کہا.کہ میں نے آریوں اورہندوئوں سے حضرت مرزا صاحب کے خلاف بہت سی باتیں سنی ہوئی تھیں جن کی بناء پر میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا.اور اُن کے مریدوں کے سامنے ان کی سبکی کروں گا.چنانچہ میں ایک شادی کے سلسلہ میں قادیان گیا اور مرزا صاحب کی مجلس میں بھی چلا گیا مرزا صاحب اُس وقت کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کررہے تھے.میں نے دروازے میں بیٹھ کر اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی.مگر اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا.میں نے سمجھا کہ اِن کی قوتِ ارادی زیادہ قوی ہے.چنانچہ میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی.مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا.اور وہ اُسی طرح باتوں میں مشغول رہے.تب میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی بہت زیادہ مضبوط ہے اور میں نے اپنی ساری توجہ اُن پر صرف کردی.میں ابھی توجہ
کرہی رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کچھ فاصلہ پر ایک شیر بیٹھا ہے میں اُسے دیکھ کر کانپ گیا.لیکن میں نے اپنے دل کو ملامت کی کہ تو کیسے وہم میں مبتلا ہوگیا ہے.یہاں بھلا شیر کا کیا کام ہے اور میں نے پھر توجہ کرنی شروع کردی.اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میرے قریب آگیا ہے اُسے دیکھ کر میرا جسم پھر کانپ اٹھا.مگر میں نے اپنے آپ کو سنبھالااور پھر توجہ ڈالنی شروع کردی جب میں نےاپنا پورا زور لگا دیا تو اچانک میں نے کیا دیکھا کہ وہی شیر کود کر مجھ پر حملہ آور ہوا ہے اور ڈر کے مارے زور سے میری چیخ نکل گئی اور میں جلد ی سے اپنی جوتی لے کر نیچے بھاگا.میری آواز سن کر حضرت مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا کہ دیکھنا یہ کون شخص بھاگا ہے اور اسے کیا ہوا ہے.چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے آیا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے آپکڑا میں چونکہ اس وقت سخت حواس باختہ تھا.اِس لئے میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے جانے دو.میرے حواس اس وقت درست نہیں ہیں.چنانچہ مجھے چھوڑ دیا گیا.بعد میں اس نے یہ تمام واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی ہے.میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا.آپ بڑے خدا رسیدہ اور بزرگ انسان ہیں.آپ میری اس غلطی کو معاف فرماویں.میاں عبدالعزیز صاحب مغل سنایا کرتے تھے کہ میں نے اس ہندو سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں وہ تم سے بڑھ کرہیں.وہ کہنے لگا.ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا.کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو اس وقت باتوں میں مشغول تھے اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوتِ ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے اور وہ خدارسیدہ انسان ہیں.(سیرۃ المہدی صفحہ ۵۵،۵۶ جدید ایڈیشن) چنانچہ یہ ہندو جب تک زندہ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بڑا معتقد رہا اور ہمیشہ آپ سے خط و کتا بت رکھتا تھا.اسی طرح ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ وہ پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.تو عبداللہ آتھم کے دل پر اس پیشگوئی کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اُسے قسم قسم کے خوفناک نظارے نظر آنے شروع ہوگئے.ایک دفعہ امرتسر میں اسے ایک خطرناک سانپ دکھائی دیا.جس کی اس کے دل پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر لدھیانہ اپنے داماد کے پاس بھاگ گیا.مگر وہاں پہنچ کر بھی اسے سکون نہ ملا.بلکہ اُس نے دیکھا کہ بعض آدمی جنہوںنے اپنے ہاتھوں میں نیزے پکڑے ہوئے ہیں اُس کو قتل کرنے کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور کوٹھی کے احاطہ کے اندر آپہنچے ہیں.اس پر وہ پھر گھبرایا اور دوڑ کر اپنے دوسرے داماد کے پاس فیروز پور چلا گیا.مگر وہاں
بھی اُسے ایسے ہی حملہ آور دکھائی دیئے جو بندوقوں اور تلواروں سے مسلح تھے غرض پندرہ ماہ اس نے سخت بے چینی اور اضطراب میں بسر کئے اور گھبرا کر ادھر اُدھر دوڑتا رہا.یہ نظارے جو آتھم کو دکھائے گئے درحقیقت کشفی رنگ ہی رکھتے تھے.ورنہ اگر کوئی جسمانی سانپ ہوتا تو عبداللہ آتھم اُسے آسانی کے ساتھ مار سکتا تھا.اِسی طرح اگر انسان حملہ آور ہوتے تو وہ آسانی سے گرفتار کئے جاسکتے تھے.مگر یہ چیز تو ایسی تھی جو صرف آتھم کودکھائی دی.اور اُس نے خود ان واقعات کو بیان کیا(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۸،۹).غرض جس طرح ابوجہل کودومست اونٹ دکھائی دیئے اور لاہور کے ہندو دوست کوایک شیر حملہ کرتاہوادکھائی دیا.اور عبداللہ آتھم کوسانپ اور تلواروںاور نیزوں وغیرہ سے مسلّح افراد دکھائی دئیے.اسی طرح فرعون مصر کوموسٰی کا عصا ایک اژدہا کی صورت میں نظرآیا جسے دیکھ کر وہ کانپ گیااور گو اس نے اسے ایک جسمانی سانپ ہی سمجھا مگر درحقیقت اس کی تعبیر یہ تھی کہ موسیٰ کی جماعت ایک دن فرعون اور اس کے تمام لائو لشکر کو اژدہا بن کر کھا جائےگی اور وہی بنی اسرائیل جن کو وہ موسیٰ ؑکے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار نہیں ایک دن اس کی تباہی اور بربادی کاباعث بن جائیں گے اور موسٰی کوغلبہ حاصل ہوجائے گا.تعطیرالانام میں بھی لکھاہے کہ مَنْ رَأَی اَنَّہٗ مَلِکَ ثُعْبَانًا فَاِنَّہُ یُصِیْبُ سُلْطَانًا عَظِیْـمًایعنی اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ کوئی بڑااژدہا اس کے قبضے میں آگیاہے تواس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اسے بہت بڑاغلبہ حاصل ہوگا.پس یہ کشف موسٰی او ر اس کی جماعت کے غلبہ اورفرعون اور اس کی قوم کی تباہی کی خبر اپنے اندر رکھتاتھا.اسی طرح اس کشف میں فرعون کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کاموسٰی کے ہاتھ میں ہی رہنا ضروری ہے ورنہ اگر یہ تمہارے پاس رہی توتمہارے اخلاق و اطوار ہی ان پر اثر انداز ہوں گے مگر پھر یہ انسان نہیں رہیںگے بلکہ سانپ بن جائیں گے.اور جس طرح سانپ سفلی زمین کی مٹی کھاتاہے.اسی طرح وہ بھی زمین کے کیڑے بن جائیں گے ایک مضبوط اور مستعد جماعت کی شکل اختیار نہیں کرسکیں گے.مگر فرعون نے اس کشفی نظارہ کی حقیقت کو نہ سمجھا اور یہ خیال کرلیاکہ موسٰی کوئی بڑا جادوگر ہے.جس نے اپنے جادو کے زور سے سونٹے کو سانپ کی شکل میں تبدیل کردیاہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عصائے موسٰی کے سانپ بن جانے کے متعلق قرآن کریم نے تین الفاظ استعمال کئے ہیں.اوّل ثعبان.دوم حیّۃ.سوم جانّ.ثعبان کالفظ تو سورۃ اعراف ع ۱۳اورسورۃ شعراء کی زیر تفسیرآیت میں استعمال ہواہے.حیّۃ کالفظ سورۃ طٰہٰ کے پہلے رکوع میں استعمال ہواہے.اور جانّ کالفظ سورۃ نمل ع۱ اور سورئہ قصص ع۴ میں استعمال ہواہے.دشمنان اسلام اپنی نادانی سے یہ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ ایک ہی امر کے متعلق
قرآن کریم نے اتنے مختلف الفاظ کیوں استعمال کئے ہیں.اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں اختلاف پایا جاتا ہے.مگریہ اعتراض قلّتِ تدبر کانتیجہ ہے.اگر وہ غور کرتے توانہیں اس میں کوئی اختلاف نظر نہ آتا.حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے دربار میں جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپناعصاپھینکااور وہ اژدہا بن کر نظرآنے لگا.تو اس واقعہ کے متعلق قرآن کریم نے ہرمقام پرصرف ثُعْبَان کالفظ استعمال کیاہے کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا.پس اس بارہ میںاختلاف کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.باقی رہا حَیَّۃٌ اور جَآنٌّ کے الفاظ کا استعمال سویہ دونوں الفا ظ اس موقعہ پراستعمال کئے گئے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کواپنے کلام سے نوازا اورانہیں فرعون کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی.اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے موسیٰ ؑ اپنا سونٹاپھینک.انہوں نے سونٹا پھینکاتو قرآن کریم میںلکھا ہے کہ فَاِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعٰى(طٰہٰ:۲۱)موسیٰ نے کیادیکھا کہ وہ ایک سانپ ہے جو دوڑرہا ہے حَیَّۃ کالفظ چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے سانپوں کے لئے استعمال ہوتاہے.لیکن سورئہ نمل اور قصص میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے کہ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ يُعَقِّبْ (النمل :۱۱) جب موسیٰ ؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی ہل رہی ہے گویاکہ وہ ایک چھوٹا سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کربھاگا اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا.سورئہ قصص رکوع۴میں بھی یہی ا لفاظ استعمال کئے گئے ہیں پس اگراعتراض ہو سکتا ہے تو صرف اس پر کہ ایک ہی واقعہ کے متعلق ایک جگہ حیّۃ اور دوسری جگہ جانّ کالفظ کیوںاستعمال کیاگیاہے.ثُعْبَانٌ کا لفظ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے الگ موقعہ پر استعمال ہوا ہے اس لئے ثُعْبَانٌ کے بارہ میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا.سوال صرف یہ ہوسکتا ہے کہ حَیَّۃٌ کو دوسرے مقام پر جَآنٌ کیوں کہا گیا ہے سو یا د رکھنا چاہیے کہ سورئہ نمل اور قصص دونوں مقامات پر قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ وہ جَآنٌ تھا بلکہ یہ کہا ہے کہتَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وہ اس طرح ہلتا تھا جس طرح چھوٹا سانپ ہلتا تھا.گویا تھا وہ بڑ اسانپ ہی مگر وہ ہلتا اس طرح تیزی سے تھا جیسے چھوٹا سانپ ہلا کرتا ہے.پس قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں اُن کا آپس میںکوئی تضاد نہیں.جہاں قرآن کریم نے جانّؔ کا لفظ استعمال کیا ہے وہا ں اس سانپ کی صرف تیزی کا ذکر ہے اور یہ بتا نا مقصود ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا تو وہ چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑنے لگ پڑا وہاں اس کی شکل کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ چھوٹا تھا یا بڑا بلکہ یہ بتانا مدّنظر ہے کہ چھوٹے سانپ کی طرح اُس میںتیزی پائی جاتی تھی.لیکن جہاں ثُعْبَانٌ کا لفظ آیا ہے وہ آیات دیکھی جائیں تو صاف معلوم ہوگا کہ وہ واقعہ فرعون کے سامنے ہوا ہے اور فرعون کو چونکہ ڈرانا مقصود تھا.اِس لئے اُسے ثُعْبَانٌ کی شکل میں سونٹا دکھائی دیا.پس قرآنی آیات
میںجو تضادسمجھا جاتا ہے.وہ حقیقتاً کوئی تضاد نہیں محض قلّتِ تدبّر یا لغتِ عرب سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں.دوسراؔ نشان جو اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ انہیں بالکل سفید اور چمکتا ہوا دکھائی دیا.یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو فرعونیوں کو دکھایا گیا.اور جس میں ایک تو اس طرف اشارہ تھا کہ اے فرعونیو! تم مسمریزم جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ سفید رنگ نیکی اور پاکیزگی اور طہارتِ قلب کی علامت ہوا کرتا ہے پس موسیٰ ؑ کے ہاتھ کا سفید نظر آنا بتا رہا ہے کہ یہ شخص پاک اور بے عیب ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس میں کسی جھوٹ اور افتراء کی آمیزش نہیں.اگر اس کا ہاتھ سیاہ دکھائی دیتا تو یہ اُس کی سیاہی قلب اور باطنی تاریکی کا ثبوت ہوتا.مگر تم دیکھ رہے ہو کہ اس کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہے اور اس کی شعاعیں تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں.پس تم اپنے علم کی بناء پر بھی سمجھ سکتے ہو کہ یہ شخص پاکباز ہے اور تمہارا فرض ہے کہ یہ جو کچھ کہے تم اسے تسلیم کرو.اسی طرح موسیٰ کا روشن ہاتھ اس تغیر کا بھی حامل تھا کہ اس شخص کے ہاتھ پر بڑے بھاری تغیرات مقدر ہیں مگر وہ تغیرات کسی ظلم اور تشدّد کے نتیجہ میں نہیں ہوںگے.نہ مکر اور فریب اور جھوٹ اور جعلسازی اُن میں کام کررہی ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی معجزانہ نصرت اس کا باعث ہوگی جس کو موسیٰ ؑکی دعائیں جذب کریں گی اور وہ روحانی سلسلہ جس کی اس کے ہاتھ سے بنیاد رکھی جارہی ہے ایک دن دنیا کو اپنے انوار سے روشن کردے گا.گویا جس طرح سورج اور چاند کے طلوع سے تاریکی غائب ہوجاتی ہے.اسی طرح موسیٰ ؑ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کے جو نشانات ظاہر ہوں گے.اُن سے وہ ظلمت اور تاریکی دُور ہوجائے گی جو لوگوں کے قلوب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور شیطان کی جگہ رحمٰن کی حکومت قائم ہوجائے گی.پھرموسیٰ ؑکے اس کشف میں آپ ؑ کی قوم کی پاکیزگی اور طہارت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا تھا کیونکہ ہاتھ کی تعبیر میں جہاں بھائی بیٹے اور رشتہ دار وغیرہ مراد ہوتے ہیں(تعطیر الانام ) وہاں یَدْ سے قوم بھی مراد ہوتی ہے کیونکہ قوم کے افراد بھی ایک دوسرے کی تقویت اور سہارے کا موجب ہوتے ہیں اور مشکلات میں وہ دوسروں کے کام آتے ہیں.پس کشفی طور پر آپ کے ہاتھ کا روشن اور بے عیب دکھایا جانا اس تعبیر کا بھی حامل تھا کہ آج تو بنی اسرائیل میں کئی قسم کے عیوب دکھائی دے رہے ہیں لیکن جب یہ قوم میرے ہاتھ پر جمع ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کے اندر ایسا نور پیدا کردے گا کہ یہ بھولے بھٹکوں کی راہنما بن جائے گی اور اخلاق اور روحانیت میں اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل کرلے گی.
یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعاعیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آجائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس نشان کو ظاہر پر محمول کرلیتے ہیں.اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک کشفی واقعہ ہے تو اس قسم کے وساوس بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتے موسیٰ ؑ کا زمانہ تو بہت دور کی بات ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشانات دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہری شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اُس کے روحانی کیف سے لذت اندوزہوئے.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپؑ نے تقریر فرمائی.ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اُس تقریر میں موجو د تھے.وہ کہتے ہیں.دورانِ تقریر میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرسے نُور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جارہا تھا.اُس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.میں نے انہیں کہا.دیکھو وہ کیا چیز ہے.انہوں نے دیکھا.تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے.اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی.(الفضل ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۴ ءصفحہ ۲ کالم ۲) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چھ ماہ متواتر روزے رکھے تو آپ نے اُن روزوں کے روحانی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا : ’’ اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی.اور علاوہ اس کے انوارِ روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز وسُرخ ایسے دلکش اور دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقتِ تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے.اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ اُن کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتاتھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی.جیسا کہ اُن کو دیکھ کر دل اور رُوح کو لذّت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خد ااور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے.یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا.اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی.یہ روحانی امور ہیںکہ دنیا اُن کو نہیں پہچان سکتی.کیونکہ وہ دنیا کی
آنکھوں سے بہت دور ہیں.لیکن دنیا میںایسے بھی ہیں جن کو اِن امور سے خبر ملتی ہے.‘‘ (کتاب البریّہ حاشیہ ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۸ ،۱۹۹) اسی طرح آپؑ نےایک دفعہ فرمایا کہ: ’’میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اورپھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں.اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصّہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں‘‘.(الحکم مؤرخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ ء صفحہ۷) اسی طرح ایک دفعہ آپؑ کو رؤیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.اور آپؑ نے دیکھا کہ جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں.اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سورج کی طرح چمک رہی ہے.(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۲۷۴ تا ۲۷۶) پھرجلسہ اعظم مذاہب لاہور میں ابھی آپؑ کا مضمون نہیں پڑھا گیا تھا کہ آپؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ ’’میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نورِ ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا.اور میرے ہاتھ پر بھی اس کی روشنی پڑی.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۶۱۵) غرض اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اصلاحِ خلق کے لئے مبعوث فرماتا ہے وہ انہیں اپنے انوار اور تجلیات کا جلوہ گاہ بناتا ہے اور یہ نور بعض دفعہ ظاہر ی طور پر متمثل ہوکر دوسرے لوگوں کو بھی نظر آجاتا ہے تاکہ سعید الفطرت انسان اس سے فائدہ اٹھائیں اور وہ اپنے قلوب میں تغیر پیدا کریں.خو د مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا نور بعض دفعہ تمثل طور پردکھا ئی دیا ہے چنانچہ ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء کا واقعہ ہے کہ مجھے بخار ہوگیا اور ساتھ ہی مجھے اپنی ران میں شدید درد ہونے لگا.چونکہ اُن دنوں طاعون سے بعض اموات ہورہی تھیں مجھے وہم ہوا کہ کہیں یہ طاعون ہی نہ ہو.چنانچہ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے.اسی اثنا میںجب کہ میری آنکھیں کھلی تھیں میں درودیوار کو دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنے کمرہ کی تمام چیزیں نظر آرہی تھیں.میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا ہے اور آسمان کی طرف چھت پھاڑ کر جا رہا ہے.نہ اس کی کوئی ابتداء معلوم ہوتی ہے اورنہ انتہا.اس کے بعد میں نے
دیکھا کہ اس نور میں سےایک ہاتھ نکلا ہے جس میں ایک سفید چینی کا پیالہ ہے اور اس پیالہ میں دودھ بھرا ہوا ہے.اس ہاتھ نے وہ پیا لہ مجھے پکڑا دیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا.جب میں وہ دودھ پی چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو کوئی درد ہے اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا ہوں.اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے.اسی طرح بعض دفعہ دوسروں کے جسم سے ایسی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جن سے اُن کے اندرونی خیالات بے نقاب ہو جاتے ہیںاور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ سچے مومن ہیں یا نہیں.میں نے کئی دفعہ دیکھا ہےکہ ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میر ی روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کرلیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے.اسی طرح کئی ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر میں بڑے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں.ہاتھ چومتے ہیں.مگر اُن کے ہاتھ چومنے پر مجھے ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا انہوں نے ہاتھ کو نجاست لگا دی ہے اور ان کی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا وہ گالیاں دے رہے ہیں.کیونکہ قلوب کے اسرار بعض دفعہ توا للہ تعالیٰ اس طرح ظاہر کردیتا ہے کہ خود انسان کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیںجو اس کی قلبی کیفیت کا آئینہ دار ہوتی ہیں اور کبھی اس کے اندر سے باریک شعاعیں نکل کردوسروں کے قلوب پر پڑتی ہیں.اور وہ چیز جسے وہ مخفی سمجھ رہا ہوتا ہے دوسرے پر ظاہر ہوجاتی ہیں.کیونکہ خدا کے بندوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی نظر باوجود انسانی ہونے کے لوگوں کے دلوں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ چیز جو دنیا کے لئے پوشیدہ ہوتی ہے ان کے لئے ظاہر ہوجاتی ہے مگر چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری کی چادر اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کے عیب کو چھپا لیتے ہیں.وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کے دل کا خیال اُن پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نہیں چاہتا کہ اُس کی ستّاری کی چادر کو اُٹھا دیا جائے.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ ایک بہائی عورت آئی اور مختلف مسائل پر مجھ سے گفتگو کرتی رہی.مگر اس پر کوئی اثرنہیں ہوتاتھا.ایک دن اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم سے کوئی چیز نکل کراس کے ساتھ ٹکراجاتی ہے لیکن آگے نہیں گذرتی.آخر میں نے دعاکی تومیں نے دیکھا کہ وہ چیز جوا س کے ساتھ ٹکراتی تھی آگے نکلنے لگی ہے.اس کانتیجہ یہ ہوا کہ یاتو وہ بڑے جوش سے باتیں کررہی تھی اور یاپھریکدم گھبرا گئی اور اس نے بحث بند کردی او ر کہنے لگی کہ میرا بچہ بیمار ہے اس لئے میںجاتی ہوں حالانکہ وہ اچھّا بھلاتھا.غرض انبیاء اور اولیاء کے جسم سے مختلف قسم کی شعائیں نکلتی رہتی ہیںجو ان کے روحانی درجہ اور مقام کے مطابق مختلف رنگ کی ہوتی ہیں مگر یہ شعائیں مادی آنکھ سے دکھائی نہیںدیتیں بلکہ ان کے دیکھنے کے لئے کشفی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جوا للہ تعالیٰ کے فضل سے ہی میسر آسکتی ہے.یہی نور تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے
نکلا.اور الٰہی تصرف کے ماتحت فرعون او راس کے درباریوں نے بھی دیکھ لیا.مگر چونکہ وہ روحانی علوم سے بے بہرہ تھے انہوں نے اتنے بڑے نشان کو دیکھ کر بھی موسیٰ ؑ کی عظمت اور اس کے تقدس کو نہ پہچانا اور یہ خیال کرلیا کہ موسیٰ ؑ نے اپنے جادو کے زور سے ایسا کرلیاہے بہرحال موسیٰ ؑ کے ہاتھ پرخدا تعالیٰ نے اپنے جلا ل او رجمال کااظہار کیااور سانپ کی شکل میں اسے انذاری اور یدبیضاء کی شکل میں تبشیری نشان دکھایا.مگر بائیبل نے عصا کاسانپ بن جاناتوتسلیم کیاہے اگرچہ وہ ا س نشان کوموسیٰ ؑ کی طرف نہیں بلکہ ہارون ؑ کی طر ف منسوب کرتی ہے مگرموسیٰ ؑ کے دربار میں یدبیضاء والے معجزہ کے دکھائے جانے کا اس نے ذکرتک نہیںکیا اور یہ اس کی ایک بہت بڑی فروگذاشت تھی جس کا قرآن کریم نے ازالہ کیا.بلکہ خو د بائیبل کی ایک اندرونی شہادت سے بھی ثابت ہے کہ فرعون کے دربار میں یدبیضاء والا نشان بھی ضرور دکھایا گیا تھا.اور وہ شہادت یہ ہے کہ جب موسیٰ ؑ کو خدا تعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کاحکم دیا تو اس وقت بائیبل بھی تسلیم کرتی ہے کہ ’’ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے.اُ س نے کہا.لاٹھی ! پھر اُس نے کہا کہ اِسے زمین پر ڈال دے اُس نے اسے زمین پر ڈالا تو وہ سانپ بن گئی اور موسیٰ اُس کے سامنے سے بھاگا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۲,۳) اِسی طرح لکھا کہ ’’پھر خداوند نے اُسے یہ بھی کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر ڈھانک لے.اُس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اُسے ڈھانک لیا اور جب اُس نے اسے نکال کردیکھا.تو اُس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا.(خروج باب۴آیت ۶) اس حوالہ میں اوّل تو حضرت موسیٰ ؑکے ہاتھ کی سفیدی کوڑھ کی طرف منسوب کی گئی ہے جو ایک نہایت ہی شرمناک بات ہے موسٰی خدا تعالیٰ کا ایک مقدس نبی تھا.اور وہ مقام جہاں اس وقت موسیٰ ؑخدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوا تجلیاتِ الٰہیہ کا مرکز تھا.ایسے مقدس مقا م پرموسیٰ ؑجیسے مقدس نبی سے خدا تعالیٰ کا ہمکلام ہونا تو ایک بہت بڑا انعام تھا اور وہ الٰہی برکات اور اس کے فیوض کا وقت تھا.ایسے بابرکت وقت میں خدا تعالیٰ کا یہ عذاب کیسے نازل ہوسکتا تھا کہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ کو کوڑھ ہوجاتا.یقیناً موسیٰ ؑ کے ہاتھ کو کوڑھ نہیںہوا.بلکہ کسی بدبخت یہودی کادل روحانی کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوا اور اس نے یہ عیب حضرت موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طٰہٰ:۲۳)کے الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کا
نتیجہ نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان کے طور پر عطا کی گئی تھی.بہرحال ان دونوں معجزات کا ذکر کرنے کے بعد بائیبل میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اوریوں ہوگا کہ اگر وہ تیرا یقین نہ کریں اور پہلے معجزہ ( یعنی لاٹھی کے سانپ بن جانے )کے معجزہ کو بھی نہ مانے تو وہ دوسرے معجزہ (یعنی ہاتھ کی سفید ی اور چمک )کے سبب سے یقین کریں گے.‘‘ (خروج باب۴ آیت ۸) اب اگر لاٹھی کو سانپ کی شکل میں دیکھ کر فرعون ایمان لے آتا تو ہم تسلیم کرسکتے تھے کہ اسے دوسرا معجزہ دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.لیکن جب وہ ایمان ہی نہ لایا تو بائیبل کے خود اپنے بیان کے مطابق ضروری تھا کہ موسیٰ ؑاُسے یدِ بیضاء والا معجزہ بھی دکھاتے.اور اگر وہ پھر بھی ایمان نہ لاتا تو اور معجزات دکھاتے جن کا بائیبل میں بھی ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ان کو بیا ن کیا ہے.پس بائیبل کا ایک طرف یہ کہنا کہ اگر فرعو ن پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لایا تو پھر دوسرا معجزہ اُسے دکھایا جائے بتا تا ہے کہ فرعون کے سامنے یہ دونوں معجزے دکھائے گئے تھے.مگر بائیبل چونکہ انسانی دست برُد کاشکار رہی ہے اس لئے اس نے اس معجزہ کا ذکر تو کردیا اور دوسرے معجزہ کے دکھائے جانے کا کوئی ذکر نہ کیا.لیکن خود اس کی اندرونی شہادت بتا رہی ہے کہ فرعون کے دربار میں یہ دونوں معجزات دکھانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا تھا.پس صحیح بات وہی ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے اور بائیبل نے جو کچھ کہا ہے وہ خو د بائیبل کی اپنی شہادت سے ہی غلط ثابت ہوتا ہے.باقی رہا بائیبل کا یہ کہنا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰ ؑنے نہیں بلکہ ہارونؑ نے عصا پھینکا تھا.(خروج باب۷ آیت ۱۰) یہ بھی بائیبل کی غلط بیانی ہے کیونکہ خود بائیبل خروج باب ۴ میں تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہارونؑ سے نہیں بلکہ موسیٰ ؑنے کہاتھا کہ ’’یہ تیرے ہاتھ میں کیاہے.اُس نے کہا لاٹھی !پھر اُ س نے کہا کہ اِسے زمین پر ڈال دے.اُس نے اُسے زمین پر ڈالا اور وہ سانپ بن گئی.اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا.تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہاتھ بڑھاکر اس کی دم پکڑ لے.اُس نے ہاتھ بڑھایا اور اُسے پکڑ لیا.وہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی بن گیا.‘‘ (خروج باب۴ آیت ۲,۴) پھر یہ بات بھی خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے ہی کہی تھی کہ اگر وہ پہلے معجزہ کو نہ مانیں تو ’’وہ دوسرے معجزہ کے سبب سے یقین کریں گے.‘‘(خروج باب ۴ آیت ۸)
پس جب کہ تمام گفتگو موسیٰ ؑ سے ہی ہوتی رہی اور موسیٰ ؑکی لاٹھی ہی سانپ بنی اور موسیٰ ؑکو ہی یہ کہاگیا کہ اگر فرعون اور اس کے درباری پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لائے تو دوسرے معجزہ کو دیکھ کر ایمان لے آئیںگے تویہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰ ؑکی بجائے ہارون اپنا عصا پھینک دیتے.پس یہ بات بھی بائیبل کی اندرونی شہادت سے باطل قرار پاتی ہے اور صحیح بات وہی ثابت ہوتی ہے جو قرآ ن کریم نے کہی.بہر حال یہ دو بڑے بھاری نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکے ہاتھ پر ظاہر کئے.مگر اس امر کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ حقیقتاً یہ ایک بہت بڑا نشان تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا اور وہ سانپ بن گیا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا مارا اور دریا پھٹ گیا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا مارااور چٹان سے پانی بہہ نکلا پھر بھی اس صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موسیٰ ؑکے عصا کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوعصا عطا فرمایا وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ موسیٰ کے عصا سے بحیرہ قلزم کا پھٹنا یا اُ ن کے عصا سے پتھر کی چٹانوں سے پانی بہہ نکلنا یا خود اُن کے عصا کا سانپ بن کر لوگوں کو دکھائی دینا اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.موسیٰ ؑ کاعصا بیشک بڑے بھاری نشانات کا حامل تھا مگر آج دنیا میں کہیں موسوی عصاکا نشان نہیں.وہ عصا موسیٰ ؑکے ہاتھ میں رہا اور موسیٰ ؑکی وفات کے ساتھ ہی اس کی نشان نمائی کامعجزہ ختم ہوگیا مگر محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عصا عطافرمایا جس پر انسانوں کی موت اور زمانہ کی گردشیں کوئی اثر نہیںکرسکتیں.جسے دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتیں بھی توڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں.اس عصاکو نہ کوئی زمینی کیڑا کھانے کی طاقت رکھتاہے اور نہ کوئی آسمانی صاعقہ اسے صفحہ ہستی سے معدوم کرسکتاہے.وہ عصاجو آج بھی کفر کے سر کو پاش پاش کررہاہے اور قیامت تک شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں اور اس کی رسیو ںکو نگلتا چلاجائے گا.قرآن کریم ہے جومحمد رسو ل اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا.اور مسلمانوں سے کہاگیاکہ جَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا (الفرقان :۵۳)اے مسلمانوتم قرآن کریم کو اپنے ہاتھ میںلو اور ا س کے ذریعہ کفّار سے جہاد کبیر کرو.گویاقرآن کریم ایک کتاب ہی نہیں بلکہ وہ ایک کامیاب ہتھیار بھی ہے جس سے کفر و شیطنت کی پھیلائی ہوئی ظلمتوں کامقابلہ کیاجاسکتاہے اور بہ کہہ کربتایاکہ یہ قرآن بنی نوع انسان کامقصد بھی ہے اور ایصال مقصد کاذریعہ بھی ہے.یعنی روحانی دلائل و براہین کے لئے یہ کسی دوسرے کی وکالت کا محتاج نہیں بلکہ خود ہی اپنے دعاوی کے دلائل بھی دیتاہے اور اس طر ح بنی نوع انسان کے عقلی اور فکری معیار کو بھی بلند کرتاچلاجاتاہے.غرض قرآن وہ عظمت و شوکت اپنے اند ر رکھتاہے کہ اس کے ذریعہ تو پ و تفنگ کے بغیر بھی دنیاکو فتح کیاجاسکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب دوسرے مسلمانوں میں بھی بیداری اور قربانی کی روح
پیدا ہو رہی ہے لیکن قربانی کی وہ روح انہیں توپ وتفنگ کی طر ف لے جاتی ہے.بے شک موجودہ دور کا مسلمان آج سے سو یاپچاس سال قبل کے مسلمانوں کی نسبت زیادہ بیدار ہے لیکن وہ توپوں اور تلواروں کی طرف بھاگ رہاہے.وہ حسرت سے ایٹم بم بنانے والوں کی طر ف دیکھ رہاہے اور اس امید میں ہے کہ وہ اسے بھی صدقہ کے طور پر کچھ ہتھیار دے دیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ تمہاری توپ قرآن ہے.تمہاری رائفل قرآن ہے.تمہاری بندوق قرآن ہے تمہاراپستول قرآن ہے قرآن وہ ہتھیار ہے جس سے تم نے دنیا کاسر کچلنا ہے پس تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیںہو کہ انگلستان تمہیںتوپیں دے.تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیں ہوکہ امریکہ تم پر مہربان ہو اور ایک دو ایٹم بم دے دے.یا فرانس اورجرمن تمہیں کیمیاوی چیزیں پیدا کر کے دے بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم قرآن کریم لو اور دنیا کو فتح کرلو.قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا کر کے اس کو خدا کی طرف لے جاتی ہے اور انسان کی جتنی طبعی اور روحانی ضرورتیں ہیں ان سب کو پوراکرتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ (بنی اسرائیل:۰ ۹)ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر اور چکر دے دے کر اور نئے نئے اسلوب سے اور نئی نئی طرز سے تمام قسم کی فطرتوں کے لئے مضامین بیان کردیئے ہیں.دنیامیں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جو کسی تعلیم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں.ایک یہ کہ ہر قسم کے مضامین اس میں بیان ہوں.اور دوسرے یہ کہ مختلف طبقات میں سے ہر طبقہ کےلئے اس میں مضامین بیان ہوں اور یہ دونوں خصوصیتیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں گویا کوئی انسان نہیں رہا جو قرآن کریم کا مخاطب نہ ہو اور کوئی بات نہیں رہی جو قرآن نے بیان نہ کی ہو.جب ہر بات اس میںبیان کردی گئی ہے اور ہر قسم کے لوگوں کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر اس میں تعلیم نازل کردی گئی ہے.توپھر بنی نوع انسان کو اپنے خدا کی محبت او را س کا پیا رکیوں حاصل نہ ہو.بیشک پرانے زمانہ میں موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑاور دوسرے نبیوں کو خدا ملا اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں.لیکن ہمارا دل اس سے تسلی نہیں پاتا.ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو.اور زندہ کتا ب وہی کہلا سکتی ہے جوزندہ خدا سے ہمار ا تعلق پیدا کردے.اگر وہ ہمیں خدا سے نہیں ملاتی تو اس کتا ب کا وجود اور عدم ہمارے لئے برابر ہوجاتا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی روحانی ضرورتوںکے پوراکرنے کے سامان اس کتاب میں رکھ دیئے ہیں پس جو بھی سچے دل سے اس پر عمل کرے گا وہ اپنے خدا کو پالے گا.اسی طرح فرماتا ہے وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ(الانعام : ۲۰)اے محمد رسول اللہ تو لوگوںسے کہہ دے کہ یہ قرآن میری طرف اس لئے وحی کیا گیا ہے
کہ میں اس کے ذریعہ سے تمہیں بھی فائدہ پہنچائوں اور وہ تمام لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے ان کو بھی فائدہ پہنچائوں.ایک طرف قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہےکہ اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں اور ہر قسم کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس نے یہ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی یہ قرآ ن ہے اس کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہ اسی لئے نازل کیا گیا ہے کہ وہ سب لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے اُن کو فائدہ پہنچائے.پس قرآن کریم ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیاگیا.موسیٰ ؑکا عصاتو صرف تھوڑی دیر کےلئے فرعونیوں کو سانپ کی شکل میں نظر آیا تھا جس سے کچھ دیر کے لئے ان کے جسموںپر لرزہ بھی طاری ہوا مگر قرآن وہ کتاب ہے جو آج تک انذار کا کام کررہی ہےاور پھر اس کا انذار کسی ایک قوم یا ایک ملک سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام اقوام اور دنیا کے تمام ممالک اس کے دائرہ انذارمیں شامل ہیں اور پھر اس کے انذار کی وسعت زمانوں کی قیود سے بھی بالا ہے.قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں قرآن دشمنانِ اسلام کے لئے ایک نذیر مبین کا کا م نہ کررہا ہویا اس کے انذاری نشانات ان کی شان و شوکت کو مٹا کر اسلام کو غلبہ دینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں.پھرموسیٰ ؑکا عصا صرف موسیٰ ؑکے ہاتھ میں ہی نشان دکھا سکتا تھا مگر قرآن جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے ایک زندہ کتاب تھی اسی طرح آج سچے اورمخلص مومن کےلئے بھی وہ ایک زندہ کتاب ہے.اور جس طرح وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حقائق و معارف کی کان میں سے لاتعداد ہیرے اور جواہر پیش کرتی تھی اسی طرح وہ امت محمدیہ کے ہر مخلص فرد کو اس کے ایمان اور اخلاص کے مطابق اپنے معارف سے حصہ دیتی او راپنے علوم سے بہرہ ورکرتی ہے.کیونکہ اس کا نزول اس ہستی کی طرف سے ہے جسے غیب کا علم ہے اور جو انسان کے خیالات اور جذبات اور افکار کو جانتی ہے.دنیا میں کوئی انسان خواہ اس کا تجربہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو تمام افراد کے تما م افکار تمام جذبات اور تمام خیالات کا واقف نہیں ہوسکتا تمام انسانوں کے جذبات افکار اور ان کے خیالات کو وہی ذات سمجھ سکتی ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہ قرآن کریم میںبولتی ہے اور ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز اس میں سے لے جاتا ہے.دنیا میں کسی کو کھدر کی ضرورت ہوتی ہے کسی کو لٹھے کی ضرورت ہوتی ہے.کسی کوزربفت وکمخواب کی ضرورت ہوتی ہے.کسی کو سرد یا گرم سوٹ یا ریشمی کپڑوں کی مختلف اقسام کی ضرورت ہوتی ہے.جب کوئی شخص اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے خرید کر دکان سے باہر نکلتا ہے تو اس کی گھٹڑی میںسے ہر قسم کے کپڑے نہیں مل سکتے ہرقسم کے کپڑے صرف دکان سے ہی مل سکتے ہیںجوشہر یا گائوںکے لوگوںکی ضروریات کے لئے قائم ہوتی ہے.ایک عالم کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک کپڑا خریدنے والا.اور ایک بہت بڑے عالم کی مثال ایسی ہوتی ہے
جیسے ایک بہت بڑا امیر جو اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق دکان سے مختلف قسم کے کپڑے ایک بڑی مقدار میں خریدتا ہے.تم اس امیر شخص کی گھٹڑی میں کپڑے کی بہت سی اقسام دیکھو گے تم اس میں لٹھّے کے تھان دیکھو گے.تم زربفت و کمخواب دیکھو گے.تم کوٹوں کے کپڑے دیکھو گے.لیکن پھر بھی کپڑے کی بیسیوں اقسام ایسی رہ جائیں گی جو تمہیں اس گھٹڑی میں نظر نہیں آئیں گی حالانکہ وہ ہزاروں روپے کا کپڑا خرید کر لایا ہوگا.اسی طرح جو شخص قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے.اس کا علم خواہ کتنا تھوڑا ہو وہ اگر قرآن کریم کےساتھ موانست رکھتا ہے تو اس کا دماغ اپنی ضرورت کے مطابق قرآ ن کریم سے چیزیں لے لیتا ہے.کیونکہ قرآن کریم کی مثال دنیاکی سی ہے جس کے جنگلوں میں تم جاتے ہو اور اپنی ضرورت کے مطابق کوئی نہ کوئی درخت کاٹ لاتے ہو.لیکن اس کے اندر پائی جانے والی دھاتوں کی اصلیت تمہیں معلوم نہیں ہوتی.اسی طرح قرآنی علوم کو سمجھنے والے افراد قرآن کے سمجھنے میں دوسروں کے ممد تو ہوسکتے ہیں.لیکن قرآن کریم کے قائم مقام نہیں ہو سکتے.قرآن کریم کا قائم مقام قرآن کریم ہی ہے.بڑے سےبڑا مفسر بلکہ ایک نبی بھی اس کا مؤید ،معین اور ناصر تو ہے اس کا قائم مقام نہیں.حتی کہ وہ وجود جو خود قرآن تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا.وہ زمین جس میں یورینیم پائی جاتی ہے جس سے ایٹم بنتا ہے وہ ساری چیزوں کو نہیںجانتی.وہ ماں بھی بچے کو پوری طرح نہیں جانتی جس نے نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھا ہو.قرآن قرآ ن ہی ہے.اور انسان انسان ہی ہے.ہر موقعہ.ہر ضرورت ،ہر جذبہ اور ہر فکر کی تبدیلی پر قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے ایک نیا روپ بدلتا ہے.وہ ہر متلاشی کے لئے نیا روپ بدلتا ہے.وہ ہر شخص کے لئے نیا دروازہ کھولتا ہے جو اسے حاصل کرنا چاہتاہے.پس قرآن کریم کے ساتھ محبت اورپیار کرو اور اس پر غور اور فکر کی عادت ڈالو.اس کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوسکتی ہے اورنہ صحیح اسلامی روح پیدا ہوسکتی ہے.بانی سلسلہ احمدیہؑ نے قرآن کریم کی اسی فضیلت کا اپنے ایک شعر میں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ؎ پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ ؑکا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا (براہین احمدیہ حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۰۵) یعنی پہلے ہم نے یہ سمجھا کہ جس طرح موسیٰ ؑکا عصا ساحروں کے سانپ نگل گیا تھا.اسی طرح قرآن کریم بھی اپنے دلائل وبراہین اور معجزات ونشانات کے ذریعہ سے دشمنانِ اسلام کے پھیلائے ہوئے جالوں کو تارتار کر دیتا ہے اور اس لحاظ سے اسے موسیٰ ؑکے عصا کےساتھ مشابہت ہے لیکن جب ہم نےزیادہ غور کیا اور قرآن کریم کے
مطالب پر گہری نگاہ ڈالی تو ہمیں نظر آیا کہ قرآن کریم موسیٰ ؑکے عصا سے لاکھوں گُنا بڑھ کر ہے کیونکہ موسیٰ ؑکے عصا سے تو صرف ساحروں کا بھانڈا پھوٹا اور اُن کے سانپ فنا ہوئے مگر قرآن کریم نہ صرف دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے ہروقت ایک چوکس اور ہوشیار جرنیل کی طرح اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے بلکہ اُس کا ایک ایک لفظ مُردوں کو زندہ کرنے والا اور اُن کے اندر زندگی کی تازہ روح پھونکنے والا ہے گویا موسوی عصا نے صرف اتنا کام کیا کہ دشمن کا سرپاش پاش کردیا.اور اُسے روحانی لحاظ سے موت کے گھاٹ اتار دیا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا قرآن صرف دشمنوں کو ہلاک ہی نہیںکرتا بلکہ اُن کو ازسر نو زندہ کرکے خدا تعالیٰ کا مقرب بھی بنا دیتا ہے.اور وہ صرف دفع شر کی ہی خاصیت اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ ایصالِ خیر کا پہلو بھی اس میں بدرجہ کمال پایا جاتا ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی اپنے اندر طاقت رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ(الانفال : ۲۵)یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تمہیں زندہ کرنے کے لئے آواز دے تو تم اُس کی آواز پر فوراًلبیک کہا کرو.یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کریم مُردوں کو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے بے شک اُس کی تعلیم پر عمل کرکے اندھے آنکھیں پا سکتے ہیں.بہرے شنوا ہوسکتے ہیں.لنگڑے لولے چل پھر سکتے ہیں.مگر اس سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میںیہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کر کے مُردے بھی زندہ ہوسکتے ہیں اور اُن میں بھی ایک نئی روحانی حیات پیدا ہوجاتی ہے.یہی روح تھی جس نے عرب کی سرزمین میں ایک انقلاب پیدا کردیا.اور وہ لوگ جو اصنام واجماد کے آگے سربسجود رہا کرتے تھے اور ہرقسم کے فواحش کے ارتکاب میں ایک لذت اور سرور محسوس کیا کرتے تھے خدائے واحد کے ایسے پرستار ہوئے کہ انہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح اُس کی راہ میں اپنے سر کٹوادیئے اور خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے گئے.پس موسیٰ ؑ کا عصا اس عظیم الشان انعام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کیا گیا.اورجو آج بھی دشمنانِ دین کےلئے ایک برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے.دوسراؔ نشان جو فرعون کے دربا ر میں دکھایا گیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ انہیں بالکل نورانی اور سفید دکھائی دیا یہ نشان بھی بے شک بہت بڑا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقدس اور ان کی اعلیٰ شان کو ظاہر کرتا ہے.اوران برکات پر روشنی ڈالتا ہے جن کا ان کے ہاتھ پر ظہور مقدر تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہلو میں بھی ایک نمایا ں فضیلت عطا فرمائی.چنانچہ موسیٰ ؑکا تو صرف ہاتھ سفید دکھائی دیا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپا ایک نورِ مجسم قرار دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خوشخبری دیتے
ہوئے فرمایا کہ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا (النساء :۱۷۵)یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک کھلی دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک نہایت روشن نور نازل کیا ہے.اسی طرح فرمایا کہ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنْ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ.(المائدۃ : ۱۶)تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتا ب آچکی ہے.پس موسیٰ کے تو صرف ایک ہاتھ سے نورانی شعاعیں نکلتی دکھائی دی تھیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپانور کا ایک پیکر بنایا.اور یہ فرق اس لئے تھا کہ موسیٰ ؑنے صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کا کام سرانجام دینا تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا.اس لئے موسیٰ ؑکا تو صرف ایک ہاتھ نور کی شکل میں دکھائی دیا.مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ نے سر سے پیر تک نور ہی نور قرار دے دیا.پھر موسیٰ ؑکا ہاتھ بیشک نورانی دکھائی دیا مگر بہرحال وہ موسیٰ ؑکاہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (الفتح : ۱۱) یعنی وہ لوگ جو تیر ی بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں اوران کے ہاتھ پر تیرا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کاہاتھ ہوتاہے.بظاہر انہیں وہ ہاتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتاہے اسی طرح غزوہ بدر میںجب آپ ؐ نے کفار کی طرف کنکروں کی مُٹھی پھینکی اور اس کے ساتھ ایک طوفانِ باد اٹھا جس نے کفا ر کی آنکھوں کو اندھا کردیا.تو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال :۱۸)اے محمدرسول اللہ !جب تو نے کفار کی طرف کنکر پھینکے تھے تو تونے نہیں بلکہ خوداللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے.پس موسیٰ ؑکا ہاتھ خواہ کس قدر نورانی نظر آیا.بہرحال وہ موسیٰ ؑکا ہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دے دیا.پھر اگر ہاتھ کی سفید ی سے یہ اشارہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو روحانی لحاط سے بڑی پاکیزگی عطافرمائے گا.اور وہ دین کے لئے بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے تو اس پہلو کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنمایاں فضیلت عطافرمائی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اُسے کنعان کا ملک بنا دیا جائے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کرمصر سے چل پڑے اور جب وہ ملک سامنے آگیا تو آپ نے اپنی قوم سے کہا کہ جائو اورلڑائی کرکے اس ملک پر قبضہ کرلو.حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کرلیا کہ خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ
کیا ہوا ہے.اس لئے وہ خود ہی اس وعدہ کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دے گا.اگر ہم نے ہی اس ملک کو فتح کرنا تھا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ.چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ(المائدۃ :۲۵) کہ اے موسیٰ! تو اور تیرا رب دونوں جائو او ردشمنوں سے لڑو.ہم تو یہیں بیٹھیں گے جب تم ملک فتح کرکے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے.اللہ تعالیٰ کو اس قوم کی یہ بات سخت ناگوار گذری اور اس نے کہا کہ اب چالیس سال تک تم اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے چالیس سال تک تم جنگلوں میں بھٹکتے پھرو.پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نئی نسل کو اس امر کی توفیق دے گا کہ وہ اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک میں داخل ہوں.اور خد اتعالیٰ کے انعامات کے مورد ہوں.غرض موسیٰ ؑکو وہ قوم ملی جس نے خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود کہ اسے فرعون کی غلامی سے آزادی ملی اسے اور اس کی آئندہ نسلوں کو فرعونیوں کے لئے اینٹیں بنانے اور لکڑیاں کاٹنے اور ہر ذلیل سے ذلیل کام کرنے سے نجات ملی پھر بھی موسیٰ ؑکا حکم ماننے سے انکار کردیا.اور جب انہیں کہا گیا کہ اٹھو اور اس عظیم الشان ملک پر قبضہ کرلو جس پر عاد قوم حکمران ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم سے یہ کام نہیں ہوسکتا.تو اور تیرا رب دونوں جائو اور دشمنوں سے لڑتے پھرو.جب دشمن مرگیا اور ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری جانوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا تو ہم اس ملک کی حکومت سنبھال لیں گے لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ صحابہؓ عطا فرمائے جنہوںنے موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح کسی ایک مقام پر بھی یہ نہیںکہا کہ ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ آپؐ کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے.اور آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے.اور انہوں نے ہر نازک سے نازک مقام پر اپنی فدائیت اور جاں نثاری کو ثابت کردیا.تاریخوں میں لکھا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کےساتھ شام کی طرف سے آرہا ہے اور راستہ میں تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا چلا آتاہے.قافلہ کا راستہ بھی مدینہ کے پاس سے گذرتا تھا اور گو ایسا قریب تو نہیں تھا مگر مکہ کی نسبت مدینہ سے زیادہ قریب تھا.تمام قبائل جو مدینہ کے گرد رہتے تھے وہ شام سے آنے والے قافلہ سے ملتے اور تجارتی چیزوں کا آپس میں تبادلہ کرتے تھے.اس لئے شام سے جو قافلہ آتا اس کے تعلقات مدینہ کے تمام قبائل سے ہوجاتے تھے اور چونکہ اس قافلہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو اکساتے اور اشتعال دلاتے تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ علم ہوا کہ ابو سفیان قافلہ کو لےکر مدینہ کے پاس سےگذررہا ہے اوریہ بھی معلوم ہواکہ مکہ والے بھی اس خیال سے کہ قافلہ پر مدینہ والے حملہ نہ کریں کچھ لشکر لے کرنکلے ہیں تو آپؐ نے اپنے دوستوں سے
مشورہ لیا کہ اگر ہم مدینہ میں بیٹھے رہے تو دشمن دلیر ہوجائے گا.ہمیں آگے چلنا چاہیے تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم اس سے ڈرتے ہیں.چنانچہ آپؐ صحابہؓ کی ایک جماعت کو لے کرمدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور بدر کے مقام پر پہنچے.الٰہی اشارات سے آپ کو معلوم ہوچکاتھا کہ مکہ سے ایک لشکر آرہا ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ ہوگا.لیکن آپؐ کو یہ اجازت نہیںتھی کہ آپؐ اس خبر کو ظاہر کریں.نتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ سے بہت کم لوگ آپ کے ساتھ گئے.کیونکہ وہ اسے لڑائی نہیںسمجھتے تھے بلکہ صرف جرأت کے اظہار کا ایک موقعہ سمجھتے تھے.بدر کے مقام کے قریب جا کر آپؐ نے مناسب سمجھا کہ اب یہ بات ظاہر کردی جائے چنانچہ آپؐ نے لوگوں کو جمع کیا.اور فرمایا.اے لوگو!مجھے خدا نے کہا ہے کہ دشمن کا لشکر قریب آگیا ہے اور بجائے اس کے کہ قافلہ سے لڑائی ہو شاید اسی سے لڑائی ہوجائے.تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ مہاجرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے کہا.یارسول اللہ !ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں.لیکن انصار خاموش رہے.وہ اس لئے خاموش رہے کہ جو فوج آرہی تھی اس میں مہاجرین کے بھائی بہنوئی.سالے.چچے اور تائے وغیرہ اور اسی طرح اور قریبی رشتہ دار تھے.انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہم نے کہا.ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو مہاجرین سمجھیں گے کہ ہمیں ان کے رشتہ داروں سے لڑنے کا شوق ہے پس ان کی دلجوئی اور مہمانوں کی عزت کی وجہ سے سب انصار خاموش رہے.مہاجرین یکے بعد دیگرے اٹھتے اور اٹھ اٹھ کر قربانی کی رغبت ایثار اور فدائیت کے جوش کا اظہار کرتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابیؓکی تقریر کے بعد فرماتے.کہ اے لوگو!مجھے مشورہ دو.جب متواترآپ ؐنے یہ بات دہرائی تو ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے کہا.یارسول اللہ !آپ کو مشورہ تو دیا جارہاہے.لیکن باوجود مشورہ پیش کئے جانے کے آپؐ یہی فرماتے ہیں کہ اے لوگو مشورہ دو.شاید آپؐ کی مراد لوگوں سے ہم انصار ہیں کہ ہم بھی مشورہ دیں.ورنہ مشورہ تو آپؐ کو مل ہی رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا.ٹھیک ہے.میری یہی مراد تھی اس صحابی نے کہا.یارسول اللہ ! ہم نے آپؐ سے مکہ میں ایک معاہدہ کیا تھا اور اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہواتو ہم ہر طرح اس کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر اگر لڑائی ہوئی تو ہم اس معاہدہ کے پابند نہیں ہوںگے.کیونکہ ہمارے اندراتنی طاقت نہیںکہ سارے عرب سے لڑ سکیں.شاید آپؐ جو باربار ہم سےمشورہ چاہتے ہیںتو آپؐ کا اشارہ اس معاہد ہ کی طرف ہے.آپ ؐنے فرمایا.ٹھیک ہے اس انصاری نے یہ بات سن کر بڑے جوش سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ!جب آپؐ سے ہم نے مکہ میں وہ معاہد ہ کیا تھااس وقت تک آپؐ کا مقام ہم پر پوری طرح روشن نہیں ہوا تھا.صرف ایک محدود روشنی ہمیں ملی تھی اور ہم شرطیں باندھنے میںکوئی
حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن یارسول اللہ ! اس کے بعد حقیقت اسلام ہم پر پوری طرح کھل چکی ہے اور آپ کی صداقت کو ہم نے پوری طرح پرکھ لیا ہے.اس صداقت کے روشن ہوجانے اور پرکھنے کے بعد کیا اب بھی کوئی شرط باقی رہ سکتی ہے.اب تو شرطوں کا سوال ہی نہیں یا رسول اللہ ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ تم اپنے گھوڑوں اور سواریوں کو سمندر میںڈال دو تو ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے اور یارسول اللہ! اگر یہاں جنگ ہوئی تو دشمن گو طاقت ور ہے اور تعدا د میں بہت زیادہ ہے.مگر ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.آگے بھی لڑیں گے اورپیچھے بھی لڑیں گے.اورخدا کی قسم ! دشمن آپ ؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.(بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ اذ تستغیثون ربکم...) یہ وہ نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا اور پھر منہ کی باتوں تک ہی انہوں نے اپنے جذبہ اخلاص کو محدود نہیںرکھا بلکہ عملی رنگ میں بھی وہ رات اور دن اسلام کے لئے قربانیاں کرتے رہے اور انہوں نے ایسی جاںنثاری کا نمونہ دکھایا کہ سر ولیم میور ’’لائف آف محمد ‘‘میں غزوئہ احزاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس جنگ میں کفارکا اتنا بڑا لشکر جمع ہوا تھا کہ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا شکست کھا جانا بالکل یقینی امر تھا.مگر اتنے بڑے لشکر کے باوجود کفار کوجو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ کفارسے ایک سیاسی غلطی ہوئی.اور وہ یہ کہ جب وہ خندق پار کر کے آگے آ جاتے تو وہ اپنی بیوقوفی سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے تھے مگر محمد رسول اللہ کے صحابہؓ آپ پر اتنے فدا تھے کہ جب وہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا منشاء یہ ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کریںتو مرد عورتیں اور بچے پاگلوں کی طرح دشمن کے لشکر کے سامنے آجاتے تھے اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہوجاتا تھا اگر وہ یہ بیوقوفی نہ کرتے کہ محمدؐرسول اللہ کے خیمہ کی طرف رجوع کرتے تو ممکن ہے ان کو احزاب میں فتح ہوجاتی.غرض صحابہ نے اپنے عشق کا جو نمونہ دکھایا موسیٰ ؑ کی جماعت کا نمونہ اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیںرکھتا.پس محمد ؐرسول اللہ کا ید بیضاء موسیٰ ؑکے ید بیضاء سے افضل ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا قرآنی موسیٰ ؑکے عصا پر ہر لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے.
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌۙ۰۰۳۵يُّرِيْدُ اَنْ اِس پر فرعون نے اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہا یہ تو کوئی بڑا واقف کار جادوگر ہے یہ چاہتا ہے کہ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ١ۖۗ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ۰۰۳۶قَالُوْۤا اپنے جادو کے ذریعہ سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے.پس بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو.انہوں نے کہا.اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِي الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِيْنَۙ۰۰۳۷يَاْتُوْكَ اس کو اور اس کے بھا ئی کو (کچھ دن) ڈھیل دے.اور مختلف شہروں کی طرف آدمی بھجوا جو (قابل آدمیوں کو) بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ۰۰۳۸فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ جمع کرسکیں.(اور)ہر بڑے جادو گر اور بڑے جاننے والے کو تیرے پاس لے آئیں.اس پر سب جادوگر ایک مَّعْلُوْمٍۙ۰۰۳۹وَّ قِيْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَۙ۰۰۴۰ معلوم دن پر جمع کئے گئے.اور لوگوں سے کہاگیا.کیا تم سب (ایک مقصد پر) اکٹھے ہونے کے لئے تیا رہو لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ۰۰۴۱ (کہ نہیں).تاکہ اگر جادو گر غالب ہوجائیں تو ہم اُن کے کہنے پر چلیں.حلّ لُغَات.اَرْجِہْ.اَرْجَہَ الْاَمْرَکے معنے ہیں اَخَّرَہٗ عَنْ وَقْتِہٖ کسی معاملہ کو اس کے وقت سے پیچھے ہٹادیا (اقرب )اَرْجِہْ امر کاصیغہ ہے اس لئے اس کے معنے ہوں گے.پیچھے ہٹادے.یعنی ڈھیل دے دے.میقا ت.میقات مطلق وقت کوبھی کہتے ہیں.اور اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے مقرر کیاجائے نیز اس کے معنے ہیں اَلْمَوْعِدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہُ وَقْتٌ وہ وعدہ جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیاجائے.وَقَدْ یُسْتَعَارُ لِلْمَوْضِعِ الَّذِیْ جُعِلَ وَقْتًالِلشَّیْ ءِاور کبھی اس جگہ کو بھی میقات کہہ دیتے ہیں جو کسی کام کے سر انجام دینے کے لئے مقرر کی جائے (اقرب) تفسیر.جب فرعون نے موسوی عصا اور ید بیضاء کا نشان دیکھا توچونکہ وہ دینی علوم سے بے بہرہ تھا اُس
نے یہ نہ سمجھا کہ یہ ایک کشف ہے جس میں اردگردکے لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے بلکہ سمجھا کہ شاید یہ کوئی جادو گر ہے جو اپنے فن میں بڑا مشّاق ہے اور چونکہ جادو گر روحانی آدمی نہیں ہوتا اس لئے خیال کرلیا کہ ضرور اس جادو کے پیچھے کوئی غرض ہوگی اور وہ غرض اُس نے یہ نکالی کہ یہ ہم کو اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے اس بیوقوف نے یہ نہ سوچا کہ تھوڑی ہی دیر پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام اُس سے کہہ چکے تھے کہ میں تیرے پا س اس لئے آیا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تو جو شخص بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنے کی خواہش کرتا ہے وہ قبطیوں کو جو اس کی مخالف قوم تھے مصر سے نکالنے کا کس طرح ارادہ کرسکتا ہے ؟ یہ دونو ں باتیں تو متضاد ہیں.اگر بنی اسرائیل نکل جاتے تو قبطیوں کے پائوں اور بھی مضبوط ہوجاتے.بنی اسرائیل کے نکالنے کی خواہش سے قبطیوں کے نکالنے کا ذکر کہاں سے نکلا؟ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے درباریوں کے ہوش کچھ ٹھکانے تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ بادشاہ بے تکی باتیں کررہاہے موسیٰ ؑ کی باتوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو نکالنا چاہتا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ قبطیوں یعنی قوم فرعون کو نکالنا چاہتا ہے اس لئے انہوں نے کہا اس کو اور اس کے بھائی کو ابھی ڈھیل دیجیئے.اور اردگرد آدمی بھیجئے کہ وہ تمام بڑے بڑے ساحروں کو جمع کرلیں.اگر یہ واقعہ میں ساحر ہے نبی نہیں تو یہ اُن سے ہار جائے گا.اور اس کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا چنانچہ لوگوں کو اعلان کر کے جمع کیا گیا او ر انہیںکہہ دیا گیا کہ اگر ساحر غالب رہے تو ہم اُن کے پیچھے چل پڑیں گے.یہ فقرہ بتارہا ہے کہ کفار کی ذہنیت کیسی پست ہوتی ہے.چونکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی خشیت سے بالکل خالی ہوتے ہیںاس لئے وہ نبی کو ماننے کے لئے تو کسی صور ت میں بھی تیا ر نہیں ہوتے.لیکن ان کا مخالف تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلے تواُس کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں قومِ فرعون کی اسی افسوسناک ذہنیت کا قرآن کریم نے ایک اور مقام پر ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ.اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيْدٍ.(ھود:۹۷،۹۸)یعنی ہم نے موسیٰ ؑکو ہر قسم کے نشانات اور روشن دلائل دے کر فرعون اور اس کی قوم کے بڑے بڑے عمائد کی طرف بھیجا لیکن بجائے اس کے کہ لوگ موسیٰ ؑ کی پیروی کرتے انہوں نے فرعون کی پیروی کی.حالانکہ فرعون کی جو تعلیم تھی وہ صحیح راستہ دکھانے والی نہ تھی.لیکن پھر بھی جو گمراہی کی طرف لے جانے والا تھا اس کی بات تو انہوں نے مان لی او ر جو ہدایت کی طرف لے جانے والا تھا اس کی بات نہ مانی.بدقسمتی سے یہی طریق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے.جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو آپ نے جو تعلیم دی وہ بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی کے مقام تک پہنچانے والی تھی مگر آپؐ کےوطن کے لوگوں نے ا س کا
انکار کردیا اور پہلے تو ابوجہل کے پیچھے چلے جو فرعون کا ایک روحانی قائم مقام تھا اور اس کی ہر گندی اور فساد پھیلانے والی تعلیم کو انہوں نے قبول کرلیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو رد کردیا آپ کے بعد بھی یہی ہوا.حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو صحابہؓ آپ پر ایمان لے آئے مگر سارے عرب نے بغاوت کردی اور انہوں نے وہی طریق اختیا رکیا جو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا اور اس وقت کے فراعنہ کے پیچھے چل پڑے.اس وقت کے فرعون مسیلمہ کذاب.اسودعنسی اور سجاح ؔوغیرہ تھے جنہوں نے جھوٹے طورپر نبوت کا دعویٰ کردیا اور لوگ ان کے متّبع ہوگئے.مگر جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جانشین تھا اور لوگوں کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے والا تھا اس کو چھوڑ دیا(البدایة و النھایة کتاب تاریخ الاسلام الاول من الحوادث....سنة احدی عشرة من الھجرة ).پھر آپؐ کے بعد حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا.تب بھی یہی ہوا.حضرت عمر ؓ اپنی وفات کے قریب حج کےلئے گئے تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ عمرؓ مر جائیں گے تو ہم فلاں کو خلیفہ بنائیں گے.اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے.پھر اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے ماتحت حضرت عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن سبا جیسے لوگوں نے فتنا کھڑا کردیا.یہ شخص بھی مصری تھا جیسا کہ فرعون مصری تھا اور لوگوں نے اس کی بات ماننی شروع کردی(تاریخ الطبری سنة خمس و ثلاثین ذکر مسیر من سار الی ذی خشب...).ان کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے.تب بھی لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا پہلے تو حضرت علیؓ کو خلیفہ بننے پر مجبور کیا گیااور پھر ایک چھوٹا سا عذر کرکے کہ معاویہؓ سے صلح کیوں کی انہیں لوگوں نے جنہوں نے آپ کو خلافت کےلئے کھڑا کیا تھا بغاو ت کردی اور خوارج کے نام سے الگ ہوگئے.اورانہوں نے دو صدیوں تک اسلام میں وہ تہلکہ مچایاکہ لوگوں کاا من بالکل برباد ہوگیا.اسی طرح جب رسول کریم ﷺ کی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گذرگیا اور امت محمدیہ میں مختلف اولیاء پیدا ہوئے.تب بھی یہی ہوا کہ لوگوں نے ان کی نہ سنی بلکہ ان کے دشمنوں کی سنی جو اپنے وقت کے فرعون تھے اور ان کے پیچھے چل پڑے.چنانچہ حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ ، حضرت قطب الدین صاحب بختیار کاکی ؒ،حضرت نظام الدین صاحب اولیاء ؒ اور حضرت خواجہ فریدالدین صاحب گنج شکر ؒ وغیرہ کی بھی مخالفت ہوئی.حضرت سید احمد صاحب سرہندی ؒ آئے تو لوگوں نے جہانگیر کے کان بھرنے شروع کردیئے کہ یہ شخص حکومت کاباغی ہے اسے جلدی سنبھالیں ورنہ سخت فتنہ پیداہوجائے گا.چنانچہ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا.مگر پھر بعض لوگوں نے انہیں سمجھایاکہ یہ بزرگ انسان ہے اسے رہاکردو.چنانچہ اس نے دانائی سے کام لے کرا نہیںرہاکردیا.غرض جب سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور خلفاء کاسلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی چلی آئی ہے.
یہی مخالفت کا جذبہ فرعون اور اس کی قوم کے اکابر کے دل و دماغ پربھی حاوی تھا.چنانچہ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا.مگر انہیں یہ کہنے کی توفیق نہ ملی کہ اگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں موسیٰ ؑ غالب آگیا تو ہم موسیٰ ؑ کے پیچھے چل پڑیںگے اور اس کی بات مان لیں گے.بلکہ انہوں نے اگر لوگوں کے کان میں کوئی بات ڈالی تو صرف یہی کہ اگر جادوگر غالب آگئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیںگے.حالانکہ مقابلہ میں اس بات کابھی امکان تھا کہ موسیٰ ؑ جیت جاتے اور جادوگر ہار جاتے مگر باوجود اس کے کہ دونوں پہلو ان کے سامنے موجود تھے اور وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگرجادوگر غالب آگئے تو ہم جادوگروں کی بات مان لیںگے اور اگرموسیٰ ؑ غالب آیاتو ہم موسیٰ ؑکی بات مان لیں گے.انہوں نے صرف اتناکہاکہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیں گے اور اس طرح انہوں نے اپنے دلوں کے بغض اورعنادکا اظہار کردیا.اور بتادیاکہ انہیں صداقت سے کوئی غرض نہیں.وہ صرف فرعون کی خوشنودی حاصل کرناچاہتے ہیںاور اسی غرض کےلئے وہ اس مقابلہ کاانتظار کررہے ہیں.حضر ت موسیٰ ؑ جیسے عظیم الشان نبی کے مقابلہ میں ان کاساحروں کو بلانایہ بھی بتاتاہے کہ انبیاء کی ابتدائی حالت کتنی کمزور ہوتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور آپ فرعون کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے تھے مگر وہ انہیں اتناحقیر سمجھتاتھا کہ ان کے مقابلہ کے لئے اس نے مداریوں کو بلاکرکھڑاکردیا.مگر کجا وہ حالت اورکجا یہ کہ آج حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کو دنیامیں اتنی طاقت حاصل ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس کی ناراضگی سے ڈرتی ہیں.آج امریکہ جیسی طاقت ان کی پیٹھ پر ہے اور فلسطین میں ان کی حکومت قائم ہے لیکن اس وقت اتنی کمزوری کی حالت تھی کہ فرعون مداریوں کوبلاکر آپ کے مقابلہ پرکھڑاکردیتاہے.آج اگر ہندویا عیسائی کسی مسلمان عالم کے مقابل پر بھی مداری کھڑا کردیں تو تمام لوگ شور مچانا شروع کردیں گے کہ ان کی ہتک کی گئی ہے.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاس خیال سے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کو اسی راہ سے ہدایت دے دے مقابلہ سے انکار نہ کیا.اور مداریوں کے مقابلہ میں بھی کھڑے ہونے کے لئے تیار ہوگئے.لیکن اب اگر وہی فرعو ن دوبارہ زندہ کیاجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک بندر سے بھی زیاد ہ ذلیل سمجھے اور یہ دیکھ کرحیران ہوکہ اس کی نسل کاتو دنیامیں کہیں نشان بھی نظر نہیں آتا اور موسیٰ ؑکی قوم فلسطین پر حکومت کررہی ہے.
فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا پس جب جادو گر آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہاکہ اگر ہم غالب ہوئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا ؟ نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ۰۰۴۲قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۠۰۰۴۳ (فرعون نے) کہا.ہاں ،بلکہ اس صورت میں تم دربار میں مقربین میںجگہ پائو گے.تفسیر.جب جادوگرآ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا ؟اس آیت سے نبی اور غیر نبی کی طبیعت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی باتیں جو اوپرگذر چکی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنا اور ساری دنیا کو پالنے والا صرف خدا تعالیٰ کوقرار دیتے تھے کسی بندے پر اپنی نگاہ نہیں رکھتے تھے.لیکن جو مداری فرعون نے ان کے مقابلہ کے لئے جمع کئے تھے ان کی نظریں اتنی نیچی اور ان کے حوصلے اتنے پست تھے کہ بادشاہ کے دربار میںآتے ہی بول پڑے کہ حضور اگر ہم جیت گئے تو کیا کوئی انعام بھی ملے گا یا نہیں.یہی مضمون سورئہ اعراف میں بھی بیان کیاگیا ہے لیکن وہاں طر ز کلام بدل دی گئی ہے.وہاں یہ الفا ظ آتے ہیں کہ اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ (الاعراف :۱۱۴) اگر ہم غالب آئے تو ہم کو ضرور اجر ملے گا.مگر یہاں یہ کہاگیا ہے کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا یانہیں.گویابظاہر دونوں میں اختلاف دکھائی دیتاہے لیکن اگر غور کیاجائے تو ان دونوں آیتو ں میںکوئی حقیقی اختلاف نہیں.بے شک یہاں سوالیہ فقرہ استعمال کیاگیاہے.مگر اس سوالیہ فقرہ کے یہ معنےنہیں کہ ان کو اجر ملنے کے متعلق کوئی شبہ تھا بلکہ بعض دفعہ سوالیہ فقرہ توقع کے لئے بھی استعمال ہوتاہے.یعنی مطلب تو یہ ہوتاہے کہ ضرور ملے گا مگر کہنے والاکہتا یہ ہے کہ کیاکچھ ملے گابھی ؟پس سورئہ اعرا ف اور سورئہ شعراء کی آیتوں میں کوئی تضاد نہیں.مداریوں کے انعام کی خواہش ظاہر کرنے پر فرعون نے کہا.ہاں ہاں انعام تو ملے گااور اس کے علاوہ تم میرے مقرب بھی ہوجائو گے.
قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۰۰۴۴فَاَلْقَوْا اس پر موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو تدبیر تم نے کرنی ہےکرلو.اس پر انہوں نے حِبَالَهُمْ وَ عِصِيَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ نے اپنی رسیّاں اور اپنے سونٹے (میدان میں نکال کر) رکھ دیئے اور کہا.فرعون کے اقبال کی قسم الْغٰلِبُوْنَ۰۰۴۵ ہم ضرور غالب آئیں گے.تفسیر.جب فرعون اور آنے والے ساحروں میں بات چیت ہوچکی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ میرے مقابلہ میں پھینکنا ہے پھینکو.اس جگہ بھی سورئہ اعراف سے ایک اختلاف دکھائی دیتا ہے جس کا ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتاہے.اور وہ یہ کہ سورئہ اعراف میں یہ لکھا ہے کہ مداریوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِ مّآ اَنْ نَکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(الاعراف :۱۱۶) یعنی پہلے آپ پھینکیں گے یا ہم پھینکیں.حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے کہا پہلے تم پھینکو.لیکن اس آیت میں مداریوں کے سوال کا کوئی ذکر ہی نہیں.صر ف حضرت موسیٰ ؑ کا قول درج ہے کہ تم نے جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو.لیکن یہ بھی کوئی اختلاف نہیں بلکہ اس موقعہ کے مناسب یہی کلام تھا.درحقیقت سورئہ اعراف میں مداریوں کا یہ یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم کو ضرور اجر ملے گا.اس یقین کے مطابق انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ پہلے آپ پھینکیں گے یا پہلے ہم پھینکیں.لیکن سورئہ شعراء میں وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں توقع کا پہلو غالب ہے یقین کا پہلو اتنا نمایاں نہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے کلام کی مناسبت کے لحاظ سے مداریوں کاسوال حذف کردیا اور صرف حضرت موسیٰ ؑ کا قول نقل کردیا.کہ میری نسبت پھر دیکھا جائے گا پہلے تم اپنی امید پوری کرلو.اور جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو.چنانچہ مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے اور فرعون کو خوش کرنے کے لئے کہا کہ فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے.یہ الفاظ جو مداریوں کی زبان سے قرآن کریم میں استعمال کئے گئے ہیں قرآن کریم کی سچائی اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر زبردست شاہد ہیں.عیسائی پادری ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب ہے.ہم تو ان کے اس اعتراض کو غلط سمجھتے ہیں اور یقین
رکھتے ہیں.کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو گذشتہ اور موجودہ اور آئندہ آنے والے زمانوں کے تمام حالات کو خوب جانتا ہے لیکن اگر دشمن کے قول کے مطابق قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی کلام قرار دیاجائے تب بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا ادبی کمال انتہا کو پہنچا ہواتھا اور آپ کے معلومات کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیںتھا کیونکہ قرآن کریم کہتاہے کہ جب فرعون نے مصر کے جادوگروں کوموسیٰ ؑ کے مقابلہ کےلئے بلایا تو اُس وقت انہوں نے کرتب دکھاتے وقت یہ الفاظ کہے کہ بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغَا لِبُوْنَ.فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب آئیں گے.اور یہ فقرات ایسے ہیں جو عربوں کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں آسکتے تھے.کیونکہ عرب میں کوئی مداری نہیں تھے جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فقرہ سن کر سمجھ لیتے کہ مداری کرتب دکھاتے وقت ہمیشہ اس قسم کے الفاظ کہا کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہواہے انہیں سوچنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جہاں مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا نام ونشان تک نہ تھا.پھر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتایا.میں نے عرب کی تاریخ کا بڑا گہرامطالعہ کیا ہے.اس کی تاریخ سے یہی پتا چلتا ہے کہ عرب لوگ شعروشاعری کے بڑے دلدادہ تھے اور گلہ بانی کرنا ان کا پیشہ تھا لیکن مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا ان کی تاریخ میں کہیں ذکر نہیں آتا.وہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں پائے جاتے تھے مگر ان ممالک میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گئے ہی نہیں.پھر آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوگیا کہ مداری جب کھیل دکھاتے ہیں تو وہ یہ فقرہ کہتے ہیں.میں نے خود بعض مداریوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ کھیل شروع کرتے ہیں تو دیکھنے والوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیںکہ آپ کے اقبال سے ایسا ہوجائے گا.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مداریوں نے کہا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ.فرعون کے اقبال کی قسم.لیکن عرب کی تاریخ میں کوئی محاورہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا.جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ہم یہ کام فلاں کے اقبال سے شروع کرتے ہیں.پس یہ فقرہ صاف بتاتا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے.لیکن اگر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا بلکہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنا لیا تھا تب بھی یہ آپؐ کا اتنا بڑا کمال ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی.کیونکہ یہ بعینہٖ اسی رنگ کا فقرہ ہے جو مداری اب بھی کہتے ہیں.مگر یہ کتنی ہنسی کی بات ہے کہ ایک طرف تو وہ خدا تعالیٰ کے نبی پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یقیناً غالب آ جائیں گے اور دوسری طرف جس کی خاطر تماشا دکھا رہے ہیں اُس کی تعریف کرتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے اقبال سے ایسا ہو جائے گا تاکہ کچھ زیادہ پیسے مل جائیں.
فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَۚۖ۰۰۴۶ تب موسیٰ نے بھی اپنا عصا دے مارا.تو اچانک وہ ان کے جھوٹوں کو ملیامیٹ کرنے لگا.تب جادوگر(خدا کے فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَۙ۰۰۴۷قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۴۸ سامنے) سجدہ میں گرا دیئے گئے.(اور) انہوں نے کہا ہم رب العالمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ۰۰۴۹قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ ایمان لاتے ہیں.اس پر وہ (یعنی فرعون جھنجھلا کر) بولا کہ کیا میرے حکم دینے سے پہلے تم ایمان لے آئے ہو.لَكُمْ١ۚ اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ١ۚ فَلَسَوْفَ یہ (شخص )یقیناً تمہارا کوئی سردار ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے.پس عنقریب تم (اپنا انجام) تَعْلَمُوْنَ١ؕ۬ لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ معلوم کرلو گے میں تمہارے ہاتھو ں اور پیروں کو (اپنی) خلاف ورزی کی وجہ سے کا ٹ دوں گا اور تم لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَۚ۰۰۵۰قَالُوْا لَا ضَيْرَ١ٞ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا.انہوں نے کہا (اس میں) کوئی حرج نہیں.آخر کار ہم اپنے ربّ کی طرف ہی مُنْقَلِبُوْنَۚ۰۰۵۱اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰيٰنَاۤ اَنْ لوٹ کر جانے والے ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ربّ ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کردے گا كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَؒ۰۰۵۲ کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے.حلّ لُغَات.تَلْقَفُ.تَلْقَفُ لَقِفَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور لَقِفَ الشَّیءَ کے معنے ہوتے ہیں تَنَاوَلَہٗ بِسُرْ عَۃٍ اس کو جلدی سے پکڑ لیا(اقرب) پس تَلْقَفُ کے معنے ہوںگے جو کام جادوگر کر
رہے تھے اُس کو جلدی جلدی ملیامیٹ کرنے لگا.خِلَافٍ.خِلَافٌ کے معنے مخالفت کے بھی ہیں.او ر اس کے معنے یہ بھی ہیں کہ دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں.(اقرب) ضَیْرَ: اَلضَّیْرُ کے معنے اَلْمَضَرَّۃُ کے ہیں یعنی نقصان.(مفردات ) تفسیر.جب مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے توموسیٰ ؑ نے بھی اپنا عصا اُٹھا کر دے مارا.اور چونکہ ان رسیّوں اور سونٹوں میں انہوں نے پارہ بھر رکھا تھا جس سے وہ ہلتی تھیں.اس لئے جب موسیٰ ؑ کاسونٹا اُن کو زور سے لگا تو اُن میں سوراخ ہوگئے اور ان کا سارا فریب کھل گیا.گویا تمثیلی زبان میںموسیٰ ؑ کا سونٹا اُن کے فریب کو کھا گیا.جس پر مداری جو اپنی حقیقت کو خوب جانتے تھے.سجدے میں گر گئے اور چلا اٹھے کہ ہم رب العالمین خدا پر جوموسیٰ ؑ اور ہارونؑ کا خدا ہے ایمان لاتے ہیں ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ موسیٰ ؑ نبی ہے اور ہم محض مداری ہیں.اس جگہ اُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَکے الفاظ فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جادوگروں کی یہ شکست ایسی نمایاں تھی کہ انہیں یوں محسوس ہوا کہ گویا کسی خفیہ طاقت نے ان کے پاؤں تلے سے زمین نکال لی ہے اور وہ خدا کے سامنے سجدہ میں گرا دیئے گئے اور انہوں نے بلند آواز سے اس امر کا اقرار کیا کہ ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اورموسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کی اتباع کرتے ہیں.اس پر فرعون غصہ میں آگیا اور اس نے کہاکہ کیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ہو.معلوم ہوتا ہے یہ تمہار ا سردار ہے جس نے تم کو مداریوں کا فن سکھایا ہے.پس تم جلدی ہی اپنے اس فعل کا نتیجہ دیکھ لو گے.گویا اتنی جلد ی وہ بھول گیا کہ ابھی تو میں ان کو خدا کے ایک نبی کے مقابلہ میں کھڑا کررہاتھا اور ان کو اپنامقرب بنانے کی پیش کش کررہا تھا اور ابھی ان کو اتنا ذلیل قرار دے رہا ہوں کہ جو چاہوں ان کو سزاد ے لوں.چنانچہ بولا کہ چونکہ تم میرے مخالف چل پڑے ہو.اس لئے اس جرم کی وجہ سے میں تمہارے ہاتھ اور پیر کاٹ دوں گا اور پھر تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا.تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو.مگر وہ پیسے لے کر تماشا دکھا نے والے مداری اب مومن بن چکے تھے.وہ فرعون جیسے لوگوں کی دھمکیوں سے کب مرعوب ہوسکتے تھے انہوں نے جھٹ کہا.اس میںکوئی حرج نہیں ہم نے ایک دن اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے اگر تمہارے ہاتھ سے مارے گئے تو کون سی بڑی بات ہے اگرتم نے ہم کو مارا تو ہمارا فائدہ ہی ہے.دین کی خاطر دکھ اٹھانے کی وجہ سے ہمارا رب ہمارے گناہ معاف
کردے گا کیونکہ ہم ایسے برے ماحول میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے نبی پر ایمان لائے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی انسان کو خدا نظرنہیں آتا دنیاکی مصیبتیں اسے پہاڑ اور اس کے ابتلاء اسے بے کنار سمند ر نظر آتے ہیں.مگر جب خدا نظر آجاتا ہے تو اس کی نگاہ میں ساری چیزیں ہیچ ہوجاتی ہیں.تب ایک ہی چیز اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پوراہو اور خدا کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں نہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیںاور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں.وہ ہنستا ہوا جاتا اوراپنی قربانی پیش کرکے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے.ہماری جماعت کے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ؓ ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے.مگر جب بادشاہ نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھیں مولوی صاحب میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے اور میں آپ کو رہا کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر یوں ہی چھوڑ دوںتو مولوی میرے مخالف ہوجائیں گے.آپ صرف اتنا کریں کہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ قادیانی ہیں تو آپ خواہ دل میں کچھ عقائد رکھیں زبان سے کہہ دیں کہ میں قادیانی نہیں ہوں اس طرح میں آپ کو آسانی سے چھوڑ سکوں گا.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ؓ صاحب نے کہا.بادشاہ تمہیں جان کی قیمت معلوم ہوتی ہو گی.مجھے تو اس کی کوئی قیمت معلوم نہیںہوتی اور میں تو یہ قربانی پیش کرنے کے لئے ہی تمہارے پاس آیا ہوں.مجھے تو پہلے ہی کہا گیا تھا کہ میں احمدیت کا اظہار نہ کروں مگر میں نےانکار کردیا.دراصل وہ گورنر جس کے سامنے وہ پہلی دفعہ پیش ہوئے.وہ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھا.جب آپ اس سے ملے تو اس نے بھی کہا.کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں.ورنہ آپ کی جان خطرہ میں پڑجائے گی.صاحبزادہ صاحبؓ نے کہا.تمہاری ہتھکڑیاں کہاں ہیں لائو اور میرے ہاتھو ں میں پہنائو.مجھے تو آج رات خدا نے بتا یا ہے کہ مجھے سونے کے کنگن ڈالے جائیں گے.پس میں اپنی موت سے نہیں ڈرتا.میں تو قوم کی نجات کے لئے اپنی جان پیش کرنا چاہتاہوں.پھر جب انہیں پتھرائوکیا گیا.تو اس وقت بھی ان کے دل میں اپنی قوم کا کوئی کینہ اور بغض نہیں تھا.بلکہ سنگسارکرنے سے پہلے جب انہیں گاڑنے لگے.اور گاڑتے اس لئے ہیں کہ پتھر و ں کے ڈر سے انسان بھاگ نہ جائے تو صاحبزادہ صاحب ؓنے کہا کہ میں بھاگتا تو نہیں.مجھے گاڑنے کی کیا ضرورت ہے.پھر جب اُن پر پتھر پڑنے لگے تو دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ صاحبزادہ صاحبؓ بلند آوازسے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اے میرے رب!میری قوم پر رحم کر.کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کررہی ہے (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۹ تا ۶۰).یہ وہ شاندار نمونے ہیں جو قوموں کو زندہ کیا کرتے ہیں.بیشک اُن میں کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں مگر نوجوان جب اس قسم کے نمونہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کیسا اچھا انجام تھا آؤ ہم بھی ایسی ہی قربانی
کریں اور وہ بھی آگ اور خون کے دریا میں چھلانگیں لگا دیتے ہیں.یہی حکمت ہے جس کی بناء پر انجیل میں روحانی بادشاہت کو انگور کے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے (لوقاباب ۲۰آیت ۹تا۱۸).کیونکہ انگور کی بیل ہی ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سرسبز وشاداب کرنے کے لئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے پس اس مثال میں اسی طرف اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو تازہ کرنے کے لئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اس باغ کی جڑوں میں گرا کر اسے پھر زندہ اور سرسبزو شاداب کیا جائے گا.چنانچہ روحانی سلسلوں کی ایک لمبی تاریخ اس صداقت کو واضح کرتی ہے.آج تک کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی جماعت شدید ترین مصائب میں سے نہ گزری ہو.ان کو گرفتار کیا گیا.اُن کو قتل کیا گیا.اُن کو پھانسی پر لٹکایا گیا اُن کو تلواروں سے شہید کیا گیا.مگر ان تمام تکالیف کے باوجود صداقت دنیا پر ہمیشہ غالب آئی.حضرت داؤدؑ کے بعد بخت نصر نے بیت المقدس کی ساری عمارتیں تہہ و بالا کردی تھیں اور مسجد اقصیٰ کا نشان تک بھی اُس نے نہ چھوڑا تھا (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ Nebuchadnezzar).مگر ان باتوں سے کیا ہوا.بات تو وہ تھی جوموسیٰ ؑ لایا.مگرموسیٰ ؑ کی لائی ہوئی بات آ ج تک دنیا نہیں مٹا سکی.ان کی عزت آج بھی دنیا میں قائم ہے اور آج بھی ان کے ناموں پر اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں.آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبر دار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے.اس کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے لیکن یہ لوگ جو انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزاردی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو اُن کی بادشاہتیں اپنی دنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دنیوی بادشاہوں سے کم تھیں.لیکن آج جب کہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا.اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبردست سے زبردست بادشاہ بھی بے ادبی سے اُ ن کا نام لے تو وہ ذلّت و رسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت کی چھری کو خوشی سے اپنی گردنوں پر پھروالیا اور وہ خدا کے برّے قرار پائے گویا جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہوجانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسان ہوجاتا ہے اسی طرح جو لوگ خدا کے برے بن کر قربان ہوجاتے ہیں وہ بھی خدا میں شامل ہو جاتے ہیں.اور ابدی بادشاہت اُن کو عطا کی جاتی ہے.موسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے ساحروں نے بھی قربانی کا یہی شاندار نمونہ دکھایا.اور انہوں نے فرعون سے کہہ دیا کہ ہمارے دل اب نُور ایمان سے منور ہو چکے ہیں اب تیری کوئی بھی تکلیف ہمیں جادئہ حق سے منحرف نہیں کرسکتی.یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے اوریہی قربانی کی رُوح ہے جو قوموں کو دنیا پر غالب کیا کرتی ہے.
وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْۤ اِنَّكُمْ اور ہم نےموسیٰ ؑ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا.تمہارا پیچھا کیا جائے گا.اس مُّتَّبَعُوْنَ۰۰۵۳فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِيْنَۚ۰۰۵۴ پر فرعون نے شہروں کی طرف جمع کرنے والے آدمی بھجوائے.(یہ کہتے ہوئے کہ ) یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل ) اِنَّ هٰؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَۙ۰۰۵۵وَ اِنَّهُمْ لَنَا تو ایک تھوڑی سی جماعت ہیں.باوجود اس کے وہ ہم کو غصہ دلا رہے ہیں.اور ہم ایک (بڑی) جماعت ہیں لَغَآىِٕظُوْنَۙ۰۰۵۶وَ اِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَؕ۰۰۵۷ جوبہت محتاط ہیں (پس ہمیں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے ).حلّ لُغَات.اَسْرِ.أَسْرِاَسْرٰی سے امر کا صیغہ ہے.اور اَسْرٰی سَرَی سے باب افعال کا ماضی کا صیغہ ہے.سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ.یعنی وہ رات کے اکثر حصہ میں چلتا رہا.اور اَسْرٰی کے معنے سَرَی کی طرح ہی ہیں.لیکن بعض ائمہ لُغت نے کہاہے کہ اَسْرٰی لِاَوَّلِ اللَّیْلِ وَسَرَی لِاٰخَرِ اللَّیْلِ.رات کے ابتدائی حصہ میں چلنے کے لئے اَسْرٰی کا فعل استعمال کیا جاتا ہے اور رات کے آخری حصہ میں چلنے کے لئے سَرَی کا (اقرب) پس اَسْرِ بِعِبَادِیْ کے معنے ہوںگے (۱) رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر چل.(۲) یا رات کے ابتدائی حصہ میں لے کر چل.شِرْ ذِمَۃٌ.اَلشِّرْذِمَۃُ: اَلْجَمَاعَۃُ الْقَلِیْلَۃُ مِنَ النَّاسِ.لوگوں کی تھوڑی سی جماعت (اقرب) حٰذِرُوْنَ.حٰذِرُوْنَ حَاذِرٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور حَاذِرٌ کے معنے ہوتے ہیں اَلْمُتَأَھِّبُ.اَلْمُسَتَعِدُّّ چوکس اور تیار.(اقرب) تفسیر.اِس آیت میں اَسْرِ کا لفظ آتا ہے جو سَرٰی سے نکلا ہے اور سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ فلاں شخص رات کا اکثر حصہ چلتا رہا.اور جب اَسْرَی الرَّجُلُ اِسْرَاءً کہیں تو اس کے معنے بھی سَرٰی کی طرح ہی رات کو چلنے کے ہوتے ہیں.لیکن بعض لغویوں نے کہا ہے کہ اَسْرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات
کے پہلے حصہ میں چلا.اور سَرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات کے پچھلے حصہ میں چلا.اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب فرعون کافی ڈرگیا ہے.اُس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں.اب خدا کا نام لے کر رات کے وقت اپنی قوم کو نکال کر لے جاؤ.ہاں ہوشیار رہنا کیونکہ فرعون اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعون نے سب شہروں میں ڈھنڈورچی بھیج دیئے اور یہ اعلان کرا دیا کہ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ہمیں غصہ دلا رہی ہے حالانکہ ہم سب ایک بڑی جماعت ہیں جو ہرقسم کا سازو سامان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے اقلیت سے ڈر جائیں اور اُسے کچلنے کے لئے تیار نہ ہوجائیں.یہی وہ عیب ہے جو ہر نبی کے زمانہ میں اُس کے دشمنوں میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں ڈنڈے سے سیدھا کریں گے.مثل مشہورہے کہ کوئی بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہاتھا کہ ایک بکری کا بچہ آیا اور اُس نے بھی پانی پینا شروع کردیا.بکری کا بچہ دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے چاہا کہ اُسے کھالے.انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے.انسان دلیل دیتا ہے.لیکن ایک حیوان دلیل نہیں دیتا.مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے اِس لئے یہاں بھیڑیے سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑیے کے سے خصائل رکھتا ہو اور بکری کے بچہ سے مراد وہ آدمی ہے جو اس کے خصائل رکھتا ہو بہرحال بھیڑیے کویہ لالچ پیدا ہوا.کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھالے.چنانچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا.تجھے شرم نہیں آتی کہ تو میرا پانی گدلا کررہا ہے بکری کے بچہ نے کہا.سرکار یہ کون سی بات ہے آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اوپر ہیں اور میں نیچے ہوں.آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جارہا ہے.بھڑیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپّڑ مارا اور اُسے ماردیا اورکہا نالائق آگے سے جواب دیتا ہے.یہی حالت حق کے مخالفوں کی ہوتی ہے.وہ یہ نہیں سوچتے کہ سچائی کیا چیز ہے.وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اکثریت ہماری طرف ہے اور ہم اکثر یت کے بل بوتے پر جو کچھ چاہیں کرسکتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعرہ ہائے تکبیر میں انہوں نے کہا.میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں.مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریقِ فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں.کلکتہ تک بیسیوں اسٹیشن ہیں.ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں انہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے اورپھول مجھ پر برسائے جاتے ہیں یا ان پر.کلکتہ تک جاتے ہوئے اس بات کا فیصلہ
ہوجائے گا کہ مسلمان کس کی تائید میں ہیں.جماعت کے دوست گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے.اور انہوں نے کہا.لوگوں پر بہت برا اثر ہوا ہے اور وہ اِس وقت سخت جوش میں ہیں.شام کو میری تقریر تھی.میں نے کہا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ سچا کون ہے.صرف فرق یہ ہے کہ انہوں نے نتیجہ ازخود نکال لیا ہے ورنہ اگر نتیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے نکلا ہوا ہے توپھر ہمارے لئے اچھا ہے.میں نے کہا.مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ تک چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں اور اس سے مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھُول پڑیں گے وہ سچا ہوگا.حالانکہ نتیجہ نکالنا ان کا کام نہیں تھا ہم سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل گزرچکے ہیں.مولوی صاحب خود بتادیں کہ مکہ میں پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو.اور پھول ابوجہل کو پڑ اکرتے تھے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو.اور اگر پتھررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھول ابوجہل پر برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہوگا اور جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہوگا.غرض کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ہر قسم کے مظالم پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں.لیکن جس طرح کثرت دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل ماردیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک عاشقِ صاد ق کے اندر کبریائی پیدا کردیتا ہے.مگر وہ کبریائی کے نشہ میں آکر مارتا نہیں بلکہ مرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو کثر ت والوں نے ہمیشہ تھوڑی تعداد والوں کو اپنے غرور میں آکر مارا ہے لیکن عاشقوںنے ہمیشہ اپنے معشوقوں کے لئے جانیں دی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی حقیقت کی طرف اپنےاس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ ؎ در کوئے تو اگر سرِ عُشاق را زنند اوّل کسے کہ لافِ تعشق زند منم (آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۸) یعنی اگر تیرے کوچہ میں جانے والوں کے متعلق یہ حکم ہوجائے کہ ہر شخص جو عاشقی کا دعویٰ کرے گا اُسے قتل کردیا جائے گا تو گو عشق کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کوئی شخص دعویٰ کرے یا نہ کرے عاشق عاشق ہی ہوتا ہے.لیکن اگر یہ اعلان ہوجائے کہ جو بھی عشق کا دعویٰ کرے گا اس کا سر قلم کردیا جائے گا تو سب سے پہلا شخص جو عشق کا
دعویٰ کرے گا اور کہے گاکہ میں عاشق ہوں وہ میں ہوں گا.حقیقت یہ ہے کہ عاشق اور مسلمان دو متضاد چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے یہ دو نام ہیں مگر عاشق سے میری مراد ہوس پرست عاشق نہیں بلکہ ایک سچا اور کامل مسلمان مراد ہے.وہ مصائب کو صرف برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ اگر اس پر مصائب نہ آئیںتو وہ اپنے اندر ایک بے کلی سی محسوس کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں میرا محبوب مجھ سے خفا تو نہیں ہوگیا.مصائب سے بھاگنا ایک منافق کا کام ہے اور مصائب کو برداشت کرنا صرف مسلمان کا خاصہ نہیں بلکہ ایک کافر بھی اس میں شریک ہوسکتا ہے.لیکن سچا مسلمان وہ ہے جو نہ صرف مصائب کو برداشت کرتا ہے بلکہ مشکلات کے دور کو اپنی روحانی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے.اور اگر اس دور میں التواء واقعہ ہو جائے.تووہ گھبراتا ہے کہ کہیں میرے ایمان میں تو کوئی نقص نہیں آگیا کہ میرا رب میرے ایمان کو دنیا پر ظاہر کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کررہا.پس بیشک اکثریت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مومنوں پر ظلم کرتی رہے وہ اسے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ مجرموں کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے.اور اکثریت کے بل بوتے پر ظلم کرنے والے اپنے جرائم کی پاداش میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ فتح کرکے آئے تو آپؐ نے اُن کفار سے جو رات دن آپؐ پر اور آپؐ کے صحابہ ؓ پر شدید ترین مظالم کرتے رہتے تھے پوچھا کہ اے مکہ والو !بتاؤ اب میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟آپ کا مطلب یہی تھا کہ تم جو ننانوے فیصدی ہونے کے گھمنڈ میں یہ کہا کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حیثیت ہے.اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں بول سکے.اب اُس کے سامنے تم اکثریت کے دعوے دار پیش ہو رہے ہو.مگر اس دن وہ ایسے سٹپٹائے کہ انہوں نے کہا.ہم آپؐسے اُسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.چنانچہ آپؐ نے اُ ن سب کو معاف فرما دیا.(زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، دخول النبی و المسلمین مکة).یہی اکثریت کا گھمنڈ فرعون کے دماغ میں بھی جاگزین تھا.بلکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے ہمیشہ دو قسم کی حکومتیں پائی جاتی رہی ہیں.ایک عقل اورسمجھ سے کام لینے والی اور دوسری زور اور طاقت سے کام لینے والی.ہر زمانہ کے محاورے الگ الگ ہوتے ہیں.آج کل جو حکومت عقل اور سمجھ سے کام لے اس کو جمہوریت کہتے ہیں.اورجو حکومت زور اور تشدد اور طاقت سے کام لے اس کو ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں.یا بعض دفعہ ہٹلر ازم بھی کہہ دیتے ہیں.مگر نام خواہ کچھ ہی ہو جب سے دنیا بنی ہے یہ دونوں طاقتیں کام کررہی ہیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ کام شروع ہوا اور اب تک جاری ہے.قرآ ن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے.ایک کی اللہ تعالیٰ نے
قربانی قبول کرلی اور دوسرے کی ردّ کردی.ایک کے پیچھے اخلاص اور تقویٰ تھا اس لئے اس کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی کے پیچھے چونکہ اخلاص اور تقویٰ نہیں تھا اس لئے وہ رد ہوئی.اب دانائی تو یہ تھی کہ دوسرا شخص جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی وہ اپنے اند رتقویٰ.عجز اور انکسار پید اکرتا اور سمجھتا کہ اس کی قربانی خدا تعالیٰ نے رد کی ہے اس کے بھائی کی وجہ سے رد ّ نہیں ہوئی مگر وہ لٹھ لے کر اپنے بھائی کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا.مگر اس کے بھائی نے دلیل والا طریق اختیار کیا اور کہا کہ قربانی قبول کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اگر تجھے اس بات پر غصہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تیری قربانی قبول کیوں نہیں کی تو اس میں میرا کیا قصور ہے.میں تو اپنے آپ کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہوں.یہ فطرت پرانے زمانہ کی تھی اس وقت نہ ڈکٹیٹرشپ کے الفاظ تھے نہ جمہوریت کے مگر وہ رو ح موجو دتھی جس سے یہ دونوں چیز یں پیدا ہوتی ہیں.یہ روح جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں یا دنیا پید اہوئی ہے متوازی چلی آرہی ہے.دنیا میں ایک طبقہ ایسا چلا آیا ہے جو ہمیشہ حق و انصاف کا قائل ہوتا ہے اور دوسرا اپنے زور اور طاقت پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بہرحال ہم نے اپنی مرضی پوری کرنی ہے.اگر لوگ ہماری مرضی کے مطابق نہیں چلیںگے تو ہم حکومت جتھہ اور طاقت سے دوسروں کو سیدھا کردیں گے اور اپنی مرضی چلائیں گے.انبیاء کی جماعتیں چونکہ ابتداء میں ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو ان کی تعداد اتنی قلیل ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض انبیاء کو صر ف ایک ایک شخص نے مانا.(بخاری کتاب الطب باب مَنْ لَّمْ یَرْقِ).اس لئے ہر شخص ان پر مذاق اڑاتا ہے اور ان کے دعووںکو ایک مجنونانہ بڑسے زیادہ حقیقت نہیں دیتا.فرعون نے بھی اسی گھمنڈ میں شہربشہر اپنے ڈھنڈورچی بھیجے اور ان سے کہا کہ جاؤ اورلوگوں کو یہ کہہ کر اشتعال دلائو کہ بنی اسرائیل جو ایک حقیر سی جماعت ہیں ہمیں اشتعال دلا رہے ہیں حالانکہ ہم ایک بڑی زبردست اکثریت ہیںاور پھر بڑے محتاط اور دور اندیش اور ہر قسم کے سازو سامان اور اسلحہ سے لیس ہیں.ہمار افرض ہے کہ ہم اُن لوگوں کو سختی سے کچل دیں اوران پر ترقی کے تمام دروازے بند کردیں.فَاَخْرَجْنٰهُمْ۠ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍۙ۰۰۵۸وَّ كُنُوْزٍ وَّ مَقَامٍ تب ہم نے اُن (یعنی فرعون اور اُس کی جماعت )کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور عزت والے ملک سے كَرِيْمٍۙ۰۰۵۹كَذٰلِكَ١ؕ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ۰۰۶۰ نکال دیا (یعنی محروم کردیا)ایسا ہی ہوا.اور ہم نے اُن (چیزوں)کا وارث بنی اسرائیل کو کردیا.پھر صبح
فَاَتْبَعُوْهُمْ۠ مُّشْرِقِيْنَ۰۰۶۱فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ کے وقت وہ (یعنی فرعون اور اُس کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل کو روکنے کےلئے )اُن کے پیچھے چل پڑے.مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَۚ۰۰۶۲قَالَ كَلَّا١ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ پھر جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے سامنے ہوئے توموسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے کہا.ہم تو پکڑے گئے.سَيَهْدِيْنِ۰۰۶۳ (موسیٰ نے ) جواب دیا.ہرگز ایسا نہیں ہوگا.میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے کامیابی کا راستہ دکھا ئے گا.حلّ لُغَات.کُنُوْزٌ.کُنُوْزٌکَنْزٌ کی جمع ہے اور اَلْکَنْزُ کے معنے ہیں وہ مال جو کسی جگہ میں محفوظ ہو.اِسی طرح اس کے معنے ہیں الذَّھَبُ سونا.اَلْفِضَّۃُ.چاندی.مَایُحْرَزُفِیْہِ الْمَالُ کَالْمَخْزَنِ وَالصَّنْدُوْقِ.وہ صندوق یا الماری جس میں مال محفوظ کیا جائے اُس کو بھی کَنْزٌ کہتے ہیں (اقرب) مُشْرِقِیْنَ.مُشْرِقِیْنَ مُشْرِقٌ سے جمع کا صیغہ ہے جو اَشْرَقَ سے اسم فاعل ہے اور اَشْرَقَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں دَخَلَ فِیْ شُرُوْقِ الشَّمْسِ.کسی جگہ اُس وقت داخل ہوا جب کہ سورج نکل رہاتھا (اقرب)پس مُشْرِقٌ کے معنے ہیں کسی جگہ صبح کے وقت داخل ہونے والا.تفسیر.فرعون کو چونکہ اپنی کثر تِ تعداد اور طاقت پر غرور تھا اور وہ بنی اسرائیل کو بالکل حقیر سمجھتا تھا.اس لئے جب موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکلے تو فرعون کو بھی پتا لگ گیا.اور وہ اپنالاؤ لشکر جمع کرکےموسیٰ ؑ کے پیچھے چلا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نے ایسا کیا تو ہم نے بھی فرعون اور اس کی جماعت کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور عزت والے ملک میں سے نکال دیا اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث کردیا.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ خود وہاں سے نکلے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اُن کو نکالا.حالانکہ بظاہر واقعہ یہ تھا کہ وہ خود وہاں سے نکلے تھے.درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ موسیٰ ؑ کے آنے اور اُ ن کے نکلنے کی وجہ سے باہر نکلا تھا اورموسیٰ ؑ کو بھیجنا اور بنی اسرائیل کو نکالنے کا حکم دینا خدا تعالیٰ کا کام تھا اس لئے بالواسطہ طور پر خدا تعالیٰ ہی فرعون اور اس لشکر کو نکالنے کا موجب بنا اور خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیا اور بتایا کہ گو وہ خود نکلا تھا مگر چونکہ یہ تحریک ہماری طرف سے تھی اور ہم نے ہی موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے نکالنے کا حکم
دیا تھا اس لئے ہم ہی فرعون اور اس کے لشکر کو نکالنے والے بن گئے.اور آخر ان نعمتوں کا ہم نے بنی اسرائیل کو وارث بنادیا.اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَسے یہ مراد نہیں کہ انہی باغوںاور انہی چشموں اور انہی خزانوں کا وارث بنادیا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اسی قسم کے باغوں اور چشموں اور خزانوں کا فلسطین میں وارث بنادیا.یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر پر غلبہ حاصل ہوگیا تھا.اس خیال کی نہ قرآنِ کریم سے تصدیق ہوتی ہے اور نہ بائیبل سے.قرآنِ کریم اور بائیبل دونوں سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک بیابانوں میں پھرتے رہے اور آخر چالیس سال کے بعد انہیںکنعان پر قبضہ ملا.پس اَوْرَثْنٰهَا سے ملک مصر مراد نہیں بلکہ وہ جگہ مراد ہے جہاں انہیں سب چیزیں میسر آگئیں.یعنی فلسطین کا ملک.جو اپنے باغات اور چشموں میں مصر کے بالکل مشابہ ہے.فَاَتْبَعُوْهُمْ۠ مُّشْرِقِيْنَ سے ظاہر ہے کہ سورج نکلتے وقت فرعون کا لشکر اُن کے پیچھے چلا تھا.کیونکہ فرعون نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا تھا.اورموسیٰ ؑ پہلے سےتیار تھے.پس موسیٰ ؑ پہلے نکل گئے اور فرعون پیچھے نکلا مگر جاتے جاتے جب لشکر فرعون اورموسیٰ ؑ کے ساتھیوں کا آمنا سامنا ہوا توموسیٰ ؑ کے ساتھی جو صدیوں سے فرعون کے غلام چلے آرہے تھے ڈر گئے اور شور مچانے لگے کہ اےموسیٰ ؑ! ہم تو مارے گئے اور پکڑے گئے.اس پرموسیٰ ؑ نے کہا کہ ایسا گمان مت کرو.اُس لشکر کے ساتھ فرعون ہے اور میرے لشکر کے ساتھ خدا ہے اور خدا تعالیٰ یقیناً ہمیں پار لے جائے گا.خدا تعالیٰ پر توکل کا یہ ایک نہایت ہی شاندار نمونہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دکھایا مگر اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتہائی خطرات میں چاروں طرف سے گھرے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر جس کامل یقین اور ایمان کا مظاہرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیںدکھائی دیتا ہے وہ اس واقعہ سے کہیں زیادہ شاندار اور ایمان افزا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت ؔ کا حکم ملا تو آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے ساتھ لے کر جبلِ ثور کی طرف تشریف لے گئے جو مکہ سے کوئی چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے اور اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے.صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تووہ فوراًآپ کی تلاش میں نکل کھڑ ے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترس رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبلِ ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہیں تو یہیں ہیں.اس
سے آگے اور کہیں نشان نہیں ملتا اُس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا.اور غار کا منہ تنگ نہیں تھا.جس کے اند ر جھانکنا مشکل ہومگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے حضرت ابو بکر ؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تھا تو یہ کہ یا رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکْرٍ اِثْنَانِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا ابو بکر ؓ خاموش رہو ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں (بخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ الی المدینۃ و مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر و السیرة الحلبیة باب الھجرۃ الی المدینۃ ).چنانچہ ایسا ہی ہوا.باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر تک پہنچ چکا تھا پھر بھی اُسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑبڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا.غرض اس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے گھبرا کر یہ کہا کہ اےموسیٰ ؑ! ہم پکڑے گئے.گویا انہوں نے اپنے ساتھ موسیٰ ؑ کو بھی لپیٹ لیا.اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل نے آپؐ کے ساتھی پر بھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ اُس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگروہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ ایسا خیال بھی مت کرو ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور بھی ہستی ہے اور وہ ہمار اخدا ہے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے نکلے تو وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے جسے بائیبل نے اپنی شاعرانہ زبان میں لاکھوں بنا دیا ہے (خروج باب ۱۲ آیت ۳۷،۳۸)مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا.اور گو وہ ایک آدمی بھی اپنے ایمان کے لحاظ سے سوالاکھ پربھاری تھا مگر بہر حال وہ فردِ واحد ہی تھا کوئی بڑی بھاری جمعیت اُس کے ساتھ نہیں تھی.پھرموسیٰ ؑ اور اُس کے ساتھیوں کے سامنے بھاگنے کے لئے ایک کھلا راستہ تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ محصور ہو ئے اس میں سے نکلنے کا اورکوئی راستہ نہ تھا مگر باوجود اس کےکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا اور باوجود اس کے کہ دشمن سے بھاگنے کا آپؐ کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا اور پھر آپؐ بالکل نہتے تھے آپؐ نے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور فرمایا.ابو بکر ؓ ! غم مت کرو.
اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ: ۴۰)یقیناً ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو صرف یہ کہا کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ.میرا رب میرے ساتھ ہے.وہ یقیناً مجھے کامیابی کا راستہ دکھائے گا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فرماکر حضرت ابو بکر ؓ کو بھی اپنے وجود میں مدغم کرلیا اور فرمایا کہ جس طرح مجھے خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہے اِسی طرح تمہیں بھی خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہے.اس لئے گھبراہٹ اور تشویش کی ضرورت نہیں.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ فرعون نے جب موسیٰ ؑ کا تعاقب کیا تو اُس نےموسیٰ ؑ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ لیا.لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں مکّہ والے نکلے تو خد انے اُن کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور نہ صرف وہ رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ نے میں کامیاب نہ ہوسکے.بلکہ انہیں اپنی آنکھو ں سے بھی دیکھنے کی خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت نہ دی.اور اس طرح کلّی طور پر خدا تعالیٰ نے اُن کو خائب و خاسر کیا.اور اگر کسی شخص نے آپ ؐ کو دیکھ بھی لیا جیسا کہ سراقہؔ نے آپ ؐ کو مدینہ جاتے وقت دیکھ لیا تھا تو خدا تعالیٰ نے اُسے اُس وقت تک واپس نہیں آنے دیا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپؐ کی صداقت کا نشان اُس نے نہیں دیکھ لیا.گویا دشمن صرف ایک مقام پر آپؐ کو دیکھنے میں کامیاب ہوا مگر اُس مقام پر بھی وہ دشمن کی کامیابی نہیں تھی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی تھی کیونکہ دشمن نے آپؐ کو گھائل نہیں کیا بلکہ آپؐ نے دشمن کو گھائل کیا اور پیشتر اس کے کہ وہ واپس لوٹتا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپؐ کی عظمت کا قائل ہوچکا تھا گو اسلام میں وہ فتح مکّہ کے موقعہ پر داخل ہوا.(الاصابۃ حرف سین، سراقہ بن مالک ) فَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ١ؕ تب ہم نےموسیٰ ؑ کی طرف وحی کی کہ اپنے سونٹے کو سمندر پر مار.جس پر (سمندر) پھٹ گیا.فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِۚ۰۰۶۴وَ اَزْلَفْنَا اور اُس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح نظر آنے لگا.اور اُس وقت ہم دوسرے گروہ ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَۚ۰۰۶۵وَ اَنْجَيْنَا مُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗۤ (یعنی فرعون کے گروہ ) کو قریب لے آئے.اورموسیٰ ؑ اور اُس کے ساتھیوں کو نجات دی.
اَجْمَعِيْنَۚ۰۰۶۶ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَؕ۰۰۶۷اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اور دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کردیا.اس(واقعہ) میں ایک بڑا نشان ہے.لیکن لَاٰيَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۶۸وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ اِن (منکروں ) میں سے اکثر مانتے نہیں.اور تیرا رب یقیناً الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۶۹ غالب (اور ) بارباررحم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.اِنْفَلَقَ.اِنْفَلَقَ کے معنے ہیں اِنْشَقَّ.پھٹ گیا (اقرب) فِرْقٌ.اَلْفِرْقُ کے معنے ہیں اَلطَّائِفَۃُ مِنَ الشَّیْءِ الْمُتَفَرِّ قِ.یعنی فِرْقٌ متفرق چیز کے ایک حصہ کو کہتے ہیں.(لسان) اَلطَّوْدُ.الطَّوْدُ اَلْجَبَلُ الْعَظِیْمُ.یعنی طود عربی میں بڑے پہاڑ کو کہتے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں اَلْمُشْرِفُ مِنَ الرَّمَلِ.ریت کا ٹیلہ.اَلْھَضْبَۃُ چھوٹی سی پہاڑی جو زمین پر پھیلی ہوئی ہو(اقرب) اَ زْلَفَنَا.أَ زْلَفْنَا اَ زْلَفَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور اَ زْلَفَہٗ کے معنے ہیں قرَّبَہٗ.اُ س کو قریب کیا جَمَّعَہٗ : اُس کو جمع کیا (اقرب) پس اَ زْلَفْنَا کے معنے ہوںگے ہم نے قریب کیا یا جمع کیا.تفسیر.فرماتا ہے ہم نےموسیٰ ؑ کو وحی کی کہ اپناسونٹا سمندرپرمار.جب اس نے سونٹا ماراتوسمندرپھٹ گیا.اور ہرٹکڑا یعنی سمندر کی طرف کا پانی بھی اور خشکی کی طرف کاپانی بھی جو جھیلوں کی شکل میں تھاایک اونچے ٹیلے کے طور پر نظر آنے لگ گیا.اس وقت ہم نے لشکر ِ فرعون کو قریب کردیا.تب موسیٰ ؑ اور اس کے ساتھی تو سمندر اور جھیلوں کے درمیان کی ریت پر سے آرام کے ساتھ گذر گئے مگر فرعون کے لشکر میں گھبراہٹ پیداہوئی اور ان کی گاڑیوں کے پہیے ریت میں پھنسنے لگ گئے نتیجہ یہ ہوا کہ گاڑیاں نکالتے ہوئے مدّ کا وقت آگیا اور وہ سب کے سب غرق ہوگئے.بائیبل میں اس معجزہ کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے ’’پھرموسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایااور خداوند نے رات بھر تندپوربی آندھی چلاکر
اور سمندر کو پیچھے ہٹاکراسے خشک زمین بنادیااو رپانی دو حصے ہوگیااور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا.اور مصریوں نے تعاقب کیااور فرعون کے سب گھوڑے اور رتھ اور سوار ان کے پیچھے پیچھے سمندر کے بیچ میں چلے گئے.اور رات کے پچھلے پہر خداوند نے آگ اور بادل کے ستون میں سےمصریوں کے لشکر پر نظرکی اور ان کے لشکر کو گھبرادیااور ا س نے ان کے رتھو ں کے پہیوں کو نکال ڈالا.سو ان کاچلانامشکل ہوگیا.تب مصری کہنے لگے آئو ہم اسرائیلیوں کے سامنے سے بھاگیں کیونکہ خداوند اُن کی طرف سے مصریوں کے ساتھ جنگ کرتاہے.اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے.اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری اُلٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہہ و بالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوڑا.پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میںسے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیوار کی طرح رہا.سو خداوند نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے اِس طرح بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کو سمند ر کے کنارے مرے ہوئے پڑے دیکھا اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اُس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے.‘‘ (خروج باب ۴ اآیت ۲۱ تا ۳۱) پرانے مفسرین نے اس موقع پر بعض عجیب و غریب قصے بیان کئے ہیں.چنانچہ وہ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب سونٹا مارا تو سمندر بارہ جگہ سے پھٹ گیا.تاکہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اس میں سے علیحدہ علیحدہ گزرجائیں.(تفسیر فتح البیان زیر آیت ھذا)پھر بعض نے اور زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے.اور لکھا ہے کہ چونکہ ہر فریق کے درمیان پانی کی ایک دیوار حائل تھی اور بنی اسرائیل ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھیں گے اُس وقت تک ہم ایک قدم بھی آگے نہیں چلیں گے.اس پرموسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی.
اور انہیں حکم ملا کہ پانی کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان میں اپنا سونٹا داخل کرو.چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا.اور تمام دیواروں میں چوڑے چوڑے سوراخ ہوگئے اور وہ سب کے سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگ گئے بلکہ ایک دوسرے کی باتیں بھی سننے لگے اور ہنسی خوشی سمندر میں سے گزرگئے.(کشّاف زیر آیات وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ) مفسرین نے یہ قصہ اپنی عجوبہ پسند طبیعت کی تسکین کے لئے تو بیان کردیا مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سونٹا کس قدر لمبا تھا کہ وہ بارہ راستے جن پر سے یہود نے گزرنا تھا ان کی دیواروں میں اس سونٹے نے اپنے ایک ہی وار سے سوراخ کردیئے.اور پھر انہوں نے اس سوال پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ جن بنی اسرائیل میں باہم اِس قدر محبت پائی جاتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سمندر میںسے گزرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے وہ ایک ہی راستہ سے کیوں نہ گزرگئے.اور اُن کے لئے الگ الگ راستے کیوں تجویز کئے گئے.ایک طرف اُن کا ایسے پُر خطر وقت میں بھی جب کہ فرعون ان کے تعاقب میں تھا الگ الگ راستوں سے جانا اور دوسری طرف اُن میں اس قدر محبت کا پایا جانا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر ایک قدم بھی اٹھانا گوارہ نہ کریں بالکل متضاد بیانات ہیں جو اس قصہ کے بنانے والے کے افتراء کو ظاہر کررہے ہیں.حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا.چنانچہ اِدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمندر پر سونٹا مار ا اُدھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہوگیا لیکن جب فرعون کا لشکر پہنچا تو اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا اکثر حصّہ طے کرچکے تھے.فرعون نے اُن کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اپنی رتھیںسمندر میں ڈال دیں.مگر سمندر کی ریت اُس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی اُس کی رتھوں کے پہیئے ریت میں پھنسنے لگے.جن کو نکالتے نکالتے اِس قدر دیر ہوگئی کہ مدّ کا وقت آگیا.اور فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ وہیں غرق ہوگیا.فَانْفَلَقَ کا لفظ بھی اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ اِنْفَلَقَ کے معنے جُدا ہوجانے کے ہیںاور سمندر کے جدا ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ وہ کنارہ سے ہٹ گیا تھا اور اُس کی وجہ سے جو خشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گزرگئے.اُس وقت بنی اسرائیل کے ایک طرف سمندر تھا اور دوسری طرف وہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں تھیں جو سمندر کے کنارے واقعہ تھیں اور وہ درمیان میں سے گزرنے والوں کو ریت کے اونچے ٹیلے کی طرح اُٹھی ہوئی نظر آتی تھیں.اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً.وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّ حِیْمُ.اس واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طاقت اور اس کی عظمت کا ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے مگر افسوس ہے کہ اتنے بڑے نشانات کو دیکھنے کے باوجود لوگوں کی آنکھیں بند رہتی ہیںاور وہ
خدا تعالیٰ کے انبیاء پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے.جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آتا ہے اکثریت اس کا انکار کردیتی ہے اوربہت تھوڑے لوگ اس پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کرتے ہیںحالانکہ چاہیے یہ تھا کہ اتنے بڑے نشانات کے بعد اکثریت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتی اور صرف شاذو نادر کے طور پر ہی چند ایسے لوگ رہ جاتے جو اس کی آواز پر لبیک نہ کہتے مگر یہ کتنے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے نشانات بھی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا موجب نہیںبنتے اور وہ مخالفت اور انکار پر ہی کمر بستہ رہتے ہیں.مگر اُن کے انکار کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تیرا رب بڑاغالب اور باربار رحم کرنے والا ہے.یعنی وہ اپنے نبیوں کو غالب کرکے اپنے عزیز ہونے کا ثبوت دیتاہے اور لوگوں کے استہزاء اور انکار کے باوجود دنیا میں نئی خرابیاں پیدا ہونے پر پھر اپنے رسول بھیج کر اپنے رحیم ہونے کا ثبوت دیتا ہے.عربی زبان کے قواعد کے مطابق رحیم کے وزن پر جو الفاظ آتے ہیں اُن کے معانی میں لمبائی اور تواتر پایا جاتا ہے.پس صفت رحیم کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی سنّت کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ جب بھی دنیا میں خرابی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کے لئے اپنا کوئی مامور مبعوث فرما دیتا ہے جو پھر بھُولے بھٹکے بندوں کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کردیتا ہے چنانچہ دیکھ لو آج تک دنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جو اپنے دشمنوں پر غالب نہ آیا ہو.اور کبھی ایسا نہیں ہو اکہ دنیا میں خرابی پیدا ہوئی ہو اور خدا تعالیٰ نے اُس کی اصلاح کا سامان نہ کیا ہو.آدمؑ آیا تو لوگوںنے اُس کی مخالفت کی.مگر آدم ؑ کی مخالفت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اب میں اپنا کوئی نبی نہیں بھیجوں گا بلکہ اُس نے نوح ؑکو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھجوادیا.نوح ؑ کی بھی لوگوں نے شدید مخالفت کی.مگرا س مخالفت کو دیکھتے ہوئے جب پھر اُس کے بندے گمراہ ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو لوگوں کی ہدایت کےلئے کھڑا کردیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی شدید مخالفت ہوئی.یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا مگراتنی مخالفت کے باوجود خدا تعالیٰ جو رحیم تھا اُس نے پھرموسیٰ ؑ کو لوگوں کی ہدایت کےلئے کھڑا کردیا اور پھر اُن کی اُمت میں سینکڑوں انبیاء مبعوث کئے جن میں سے بعض قتل بھی کئے گئے.مگر لوگوں کی اتنی عداوت کے باوجود جب پھر تمام دنیا میں گمراہی پھیل گئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرما دیا.غرض اللہ تعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کا ہمیں ہر زمانہ میں ثبوت ملتا ہے.ہر زمانہ میں خدا اور اس کا رسول غالب رہے.جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلۃ : ۲۲) یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب رہیںگے.اور پھر ہر زمانہ میں اس کے رحیم
ہونے کا بھی ثبوت ملتا رہا یعنی باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس کے پیاروں کی شدید مخالفت کی پھر بھی وہ باربار لوگوں کی ہدایت کا سامان کرتا رہا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے عزیزؔاور رحیم ؔ ہونے کی صفات کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ اس واقعہ نے ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے عزیز ہونے کو ظاہر کردیا اور باوجود اس کے کہ موسیٰ ؑ کی فرعون کے لائو لشکر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی پھر بھی موسیٰ ؑ غالب آیا اور فرعون تباہ ہوگیا اور دوسری طرف اس واقعہ نے خدا تعالیٰ کے رحیم ہونے کو بھی ثابت کردیا.کیونکہ باوجود اس کے کہ موسیٰ ؑ کی اتنی شدید مخالفت ہوئی پھر بھی خدا تعالیٰ نے اپنے رسولوں کا سلسلہ منقطع نہ کیا.بلکہ جب پھر اس کے بندے روحانی بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے تو اُس نے اُن کی اصلاح کےلئے اپنے رسولوں کو کھڑا کردیا.وَ اتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَۘ۰۰۷۰اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا اور ان کو ابرا ہیم ؑ کا واقعہ پڑھ کرسُنا.جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت تَعْبُدُوْنَ۰۰۷۱قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيْنَ۰۰۷۲ کرتے ہو؟انہوں نے کہا ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں.اور اُن کے آگے بیٹھے رہتے ہیں.اِس پر اُس (یعنی قَالَ هَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ۠ اِذْ تَدْعُوْنَۙ۰۰۷۳اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ۠ اَوْ ابراہیم ؑ) نے کہا کہ کیا جب تم ان کو بلاتے ہوتو وہ تمہاری (اس )پکار کو سُنتے ہیں؟یا تمہیں کوئی نفع پہنچاتے یا يَضُرُّوْنَ۰۰۷۴قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۰۰۷۵ ضرر دیتے ہیں ؟انہوں نے کہا.ایسا تو نہیں لیکن ہم اپنے بڑوں کو ایسا ہی کرتے دیکھتے آئے ہیں.حلّ لُغَات.أَصْنَامٌ.أَصْنَامٌ صَنَمٌ کی جمع ہے.اور صَنَمٌ کے معنے ہیں صُوْرَۃٌ اَوْتِمْثَالُ اِنْسَانٍ اَوْحَیَوَانٍ یُتَّخَذُ لِلْعِبَادَۃِ.انسان یا حیوان کا وہ مجسمہ جو عبادت کیلئے بنایا جاتا ہے.اَوْکُلُّ مَاعُبِدَمِنْ دُوْنِ اللّٰہِ.یا اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جائے اس کو بھی صنم کہتے ہیں (اقرب) مفردات میں ہے.بَلْ کُلُّ مَا یَشْغِلُ عَنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ یُقَالُ لَہٗ صَنَمٌ.ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرنے اور اس کے احکام کی تعمیل میں روک بنے وہ صنم کہلاتاہے.
عَاکِفِیْنَ.عَاکِفِیْنَ عَکَفَ سے اسم فاعل مذکر کاصیغہ عَاکِفٌ آتا ہے.اور عَاکِفُوْنَ اورعَاکِفِیْنَ سے اسم جمع کا صیغہ ہے.عَکَفَ کے معنے ہیں.کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کی طرف متوجہ ہونا اور ا س کےساتھ رہنا (مفردات) پس عَاکِفٌ کے معنے ہوںگے.کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کے پاس بیٹھنے والا اور اُس کے پاس رہنے والا.تفسیر.فرماتا ہے.اب تو خدا تعالیٰ کے عزیزؔ اور رحیمؔ ہونے کے ثبوت میں ان کو ابراہیم ؑ کا واقعہ سناجس نے اپنی قوم کو توحید کی تعلیم دی اور بتوں کی پرستش سے اُسے روکا.حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بُت پرست بلکہ بُت ساز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور چلڈیا کے ایک شہر اُورکسدیم کے رہنے والے تھے.ان کے خاندان کے لوگوں کا گزارہ ہی بتوں کے چڑھاووں اور بت فروشی پر تھا.والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے.اور چچا کی آغوش میں انہوں نے پرورش پائی تھی جس نے اُن کے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ آپ کو بھی بت فروشی کے کام پرلگا دیا حقیقت سے نا آشنا چچا کو یہ معلوم نہ تھاکہ جس دل کو خالق کون و مکاں چُن چکا ہے اُس میں بتوں کےلئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی.پہلے ہی دن ایک امیر گاہک جو اپنی عمر کی انتہائی منزلیں طے کر رہاتھا اور تھا بھی مالدار بت خریدنے کےلئے آیا.بت فروش چچا کے بیٹے خوش ہوئے کہ آج اچھی قیمت پر سودا ہوگا.بوڑھے امیر نے ایک اچھا سا بت چُنا اور قیمت دینے ہی لگا تھا کہ اُس بچہ کی توجہ اس گاہک کی طرف ہوئی.اور اُس نے سوال کیا.میاں بوڑھے.تم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو.تم اِس چیز کو کیا کرو گے ؟ اُس نے جواب دیا کہ گھر لے جائوں گا اور ایک صاف اورمطہر جگہ میں رکھ کر اُس کی عبادت کروں گا.یہ سعید بچہ اس خیال پر اپنے جذبات کو نہ روک سکا.اور پوچھا.تمہاری عمر کیا ہوگی.اُس نے اپنی عمر بتائی اوراس بچہ نے نہایت حقارت آمیز ہنسی ہنس کر کہا کہ تم اتنے بڑے ہو اور یہ بت تو ابھی چند دن ہوئے میرے چچا نے بنوایا ہے کیا تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے شرم نہ آئے گی.نہ معلوم اس بوڑھے کے دل پر توحید کی کوئی چنگاری گری یا نہ گری لیکن اُس وقت اُس بت کا خریدنا اُس کےلئے مشکل ہوگیا.اور وہ بت وہیں پھینک کر واپس چلا گیا.اس طرح ایک اچھے گاہک کو ہاتھ سے جاتادیکھ کر بھائی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہ ؔ کو اطلاع دی جس نے اس بچہ کی خو ب خبر لی(Jewish Encyclopedia زیر لفظ ABRAHAM).یہ پہلی تکلیف تھی جواس پاکباز ہستی نے توحید کے لئے اٹھائی مگر باوجود چھوٹی عمر اور کم سنی کے زمانہ کے یہ سزا جوشِ توحید کو سرد کرنے کی بجائے اُسے اور بھی بھڑکانے کا موجب ہوئی.سزا نے فکر کا دروازہ کھولا اورفکر نے عرفان کی کھڑکیاں کھول دیں.یہاں تک کہ بچپن کی
طبعی سعادت جوانی کاپختہ عقیدہ بن گئی.اور آخر اللہ تعالیٰ کا نور ذہنی نورپر گرکر الہام کی روشنی پیدا کرنے کاموجب ہوگیا.اور خدا تعالیٰ ے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے نبوت کے مقام پر سرفراز فرما دیا.چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام خاندان کا گزارہ ہی بتوں کی فروخت پرتھا اور تارہؔ خود بت پرست تھا جیسا کہ بائیبل کی کتاب یشوعؔ باب ۲۴آیت ۲سے ثابت ہوتا ہے اس لئے اُن کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ہیں اور ہمارا گزارہ ہی اس پر ہے.اگر تم نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہوجائے گا.مگر آپ نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتاہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا.اس جواب کی اہمیت کااندازہ ہرشخص نہیں کرسکتاصرف وہی کرسکتاہے جسے قربانی کرنے کاموقع ملاہو.آج جب کہ منظم حکومتیں دنیامیں موجود ہیں اس پرامن زمانہ میں بھی میں نے دیکھاہے کہ بعض لوگوں پر جب صداقت کھل جاتی ہے تووہ مجھے لکھتے ہیںکہ اگر ہم احمدی ہوجائیںتو ہمارے گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی ؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیں ہیں سوائے معمولی تکالیف کے.اچھے اچھے تعلیم یافتہ بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی گذارہ کاکیاانتظام ہوگا؟لیکن حضرت ابراہیم ؑ جو یتیم ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شکستہ دل تھے اورجن کاپہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھااپنے چچاکے ہاں اوراس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟بلکہ بلا سوچے بہادرانہ طو ر پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کوانسان خود گھڑتے ہیں ان کومیں سجدہ نہیں کرسکتا.بعینہ اسی قسم کاواقعہ رسول کریم ﷺ کوبھی پیش آیا.جب ایک لمبے عرصہ تک آپؐ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہل مکہ آپؐ کو اور آپ کے صحابہ ؓ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کرلینے سے مایوس ہوگئے تو مکہ کے رئوساء آپ ؐ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بری طرح ذلیل کیاہے ہم اس پر سختی کرسکتے تھے مگر ہمیں آپ کا لحاظ تھا.اس لئے ہم نے اس سے وہ سلوک نہ کیاجس کا وہ مستحق تھا.مگراب یہ بات ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کرآپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ کرے اور تبلیغ میں نرمی کاپہلورکھے اور اگروہ آپ کے کہنے سے اتنابھی کرنے کے لئے تیارنہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کرلیں اور ہم پر اس کامعاملہ چھوڑدیں.اور اگر آپ اس کے لئے
بھی تیار نہیںہیںتو گو ہمارے دلوں میں آپ کابہت ادب ہے اور آپ کے خاندان کوفضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیاہے کہ ہم صبرنہیں کرسکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلّق کرنا پڑے گا.ابوطالب مومن نہ تھے اور ایمان کے بعد جو بہادری انسانی قلب میں پیداہوجاتی ہے اس سے محروم تھے.وہ رئیس تھے اور ان کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھوبیٹھنے کاخطرہ ان کے سامنے تھا.سارامکّہ ان کو سلام کرتاتھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کاساتھ نہ چھوڑنے کایہ نتیجہ ہوسکتاتھا.کہ کوئی ان کو منہ بھی نہ لگاتا.اوریہ کوئی معمولی بات نہ تھی.اس قسم کی عزتوں کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کردیتے ہیں او ر ایک ایک سلام کے لئے مراکرتے ہیں.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سنایاکرتے تھے کہ جب آپ تعلیم سے فارغ ہوکرنئے نئے بھیرہ میں آئے تو بعض مولویوں نے شورمچانا شروع کردیاکہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کردی.اس وقت اس علاقہ میںایک معزز پیر صاحب تھے جن کا بھیرہ اور اس کے نواح میں بہت اثر تھا.فتویٰ کفر شائع کرنے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کردیں.باقی مولویوں سے تو حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے دوست نہ ڈرتے تھے مگران پیر صاحب کے متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائےگا اس لئے آپ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پا س پہنچے اورکہا.سناہے مولوی لوگ آ پ سے فتویٰ لینے آئے تھے.پیرصاحب نے کہاکہ ہاں آئے تھے او ر جوباتیں وہ کہتے تھے ٹھیک ہیں اورمیراارادہ ہے کہ فتویٰ دے دوں.اس پر اس دوست نے کہاکہ آ پ تو پیر ہیں اور سب نے آپ کو سلام کرناہے.نورالدین خواہ کچھ ہو.آپ کوسلام تو ضرور کرتاہے اور اگر آپ نے فتویٰ دے دیاتو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے.اس پرپیر صاحب گھبراگئے اورکہنے لگے.بھلا ہم پیروں کافتووں سے کیاتعلق.آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں.اس دوست نے آ کرحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں اس طرح کرآیاہوں اور اب پیرصاحب چاہیں گے کہ آپ ان کوسلام کریں.آپ نے فرمایاہماراکیاحرج ہے کردیںگے.چنانچہ وہ دوست پھر پیرصاحب کے پاس گئے.اور پیرصاحب سے کہاکہ مولوی صاحب کہتے ہیںکہ پیرصاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے.اس پرپیرصاحب بہت خو ش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھاہم فلاں روز اس طرف سے گذریںگے.مولوی صاحب سے کہنا کہ ضرورسلام کریں.چنانچہ پیرصاحب مولوی صاحب ؓ کے مطب کے سامنے سے گذر ے اور حضرت مولوی صاحب ؓ نے اپنے دوستوں سمیت باہرنکل کران کوسلام کیا.پیرصاحب نے گھوڑا کھڑاکرلیااور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے
لگے کہ دیکھوہمارے پاس مولوی لوگ فتویٰ کے لئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کردیاکہ ہم کو ان باتوں سے کیاتعلق ہے.ہمیں سب نے سلام کرناہوا.یہ واقعہ شہر میں پھیل گیااور پیرصاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہوگئے اور مخالفت کازور ٹوٹ گیا.غرض ابوطالب کے لئے یہ بڑاامتحان تھا.وہ سارے شہر میں مکرّم سمجھے جاتے تھے اور ایسامعلوم ہوتاتھا کہ اب ان کی عزّت جاتی رہے گی.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو بلوایااور کہاکہ اے میرے بھتیجے میں سمجھتاہوں کہ توجو کچھ کرتاہے سچ سمجھ کرکرتاہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایاہے مگراب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہاہے کہ یاتو اپنے بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اوریاپھر اس سے قطع تعلق کرلواور اگرمیںایسانہ کروں توقوم میرے ساتھ قطع تعلق کرلے گی اور تُو جانتاہے کہ قوم کامقابلہ مشکل ہوتاہے.اب تو بتاتیری کیارائے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس وقت یہ بات سنی.آپ ؐ کی آنکھوں میںآنسو بھرآئے اورآپ ؐ نے فرمایا.اے میرے چچا.میرے دل میں آپ کابڑاادب ہے.مگرسچائی کے مقابلہ میں میں آپ کی بات ماننے کو تیارنہیں ہوں.اگردشمن میرے دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لاکرکھڑاکردیںتب بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیںکروں گا.اور توحیدکی اشاعت سے بازنہیںرہوں گا.میںآپ کے لئے ہرقربانی کرنے کو تیارہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیںمان سکتا.آپ مجھے میرے حال پر چھوڑدیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں.میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے.اس پرباوجود اس کے کہ ابوطالب کے لئے قوم کاچھوڑنا مشکل تھا اس دلیرانہ جواب کوسن کران پرایسااثر ہواکہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میںتجھے نہیں چھوڑوں گا(السیرة النبویۃ لابن ہشام مباداة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ وما کان منھم).ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں لگاسکتے جو تاریخ سے ناوقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کونہیںجانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کاپتہ چلتاہے اور یہ معلوم ہوتاہے کہ انہیںاپنی قوم سے کتنی محبت تھی.جب ان کی وفات کا وقت قریب آیاتوچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان سے بہت ہی محبت تھی.ان کی قربانیوںاور حسن سلوک کی وجہ سے آپ ؐ کو اس بات سے سخت دکھ ہوا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں.آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیںاورکہتے کہ اے چچا اب موت کا وقت قریب ہے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَدٌّرَسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجیئے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے بہت اصرار کیا.آپ ؐ پر رقّت طاری تھی.اورآپ ؐ باربار کہتے تھے کہ اے چچا ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خداکے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کرلیاتھالیکن ابوطالب نے آخر میںیہی جواب دیاکہ میںاپنی قوم کے
دین کو نہیں چھوڑسکتا(السیرة الحلبیة ذکر وفاة عمہ ابی طالب و زوجتہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة).گویاان کواپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیرجنت میںبھی جانانہ چاہتے تھے.مگر اپنی قوم سے اس قد ر محبت رکھنے والے شخص پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بہادرانہ جواب کایہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیاکہ اچھااگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑدے میںتم کونہیںچھوڑوںگا.جو زیفس مشہور یہودی مؤرخ پُرانی کتب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ابراہیم ؑ پہلے آدمی تھے جنہوں نے دلیری سے خدا کے خالق ہونے اور ایک ہونے کا اعلان کیا.اور کہا کہ سب ستارے خدا کے قبضہ میں ہیںاور اُسی کے حکم کے ماتحت حرکت کرتے ہیں.چونکہ اُن کی قوم ستارہ پرست تھی اُن کی ستارہ پرستی کی مخالفت نے چلڈ نیز کا غصہ بھڑکادیا اور اُن کو اپنا ملک چھوڑ کرکنعان جانا پڑا.کہتے ہیں کہ جب آپ چودہ برس کے تھے تو ستاروں اور بتوں کی پرستش سے بچنے کے لئے آپ نے اپنے باپ کو چھوڑدیا اور خدا سے دُعا کی کہ وہ اُن کو انسانوں کی غلطیوں سے بچائے.یہ بھی لکھا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ نے زراعت کے بعض عمدہ طریق ایجاد کئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہ کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگوں سے ڈرتا تھا اور اُس نے ان کو خاموش رہنے کو کہا.جب حضرت ابراہیم ؑ کے بھائی بھی اُن کے مخالف ہوگئے تو انہوںنے بت خانہ کو آگ لگا دی اور اُن کے بچانے کی کوشش میں اُن کا بھائی ہاران جل مرا(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکڑی کے بت تھے.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تلوار سے اُن کو کاٹ دیا تھا) لکھا ہے کہ نئے سال کے چاند کو ایک دفعہ دیکھ رہے تھے تاکہ آئندہ سال کی فراخی کو معلوم کریں کہ ان کو الہام ہوا کہ خدا کی مرضی کے مقابلہ میں ستاروں کااثر کیا حقیقت رکھتا ہے.آخر بہت دُعاؤں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا.تاکہ اعلیٰ صداقتوں کو دنیا میں قائم کریں.بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سال کی عمر میں ان کو سچا علم ملا.بعض میں دس اور بعض میں چالیس لکھا ہے.فلسطینی ربّیوں کے لٹریچر میں آپ کے متعلق بہت سی تفاصیل دی گئی ہیں اور آپ کے زمانہ کے بادشاہ کا نام نمرودؔ بتایاگیا ہے اور چاند ستاروں کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ تارہؔ نے نمرود ؔ سے ڈر کر جو اُن کے بیٹے کو مارنا چاہتا تھا (کیونکہ نجومیوں نے اُسے بتایا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو تیری حکومت کو تباہ کردے گا ) تین سال تک حضرت ابراہیم ؑ کوچھپائے رکھا.جب وہ بھورے سے باہر نکلے تو سورج کو دیکھ کر انہوں نے خدا سمجھا.جب سورج ڈوبا تو چاند کو خدا اور ستاروں کو اس کا نوکر سمجھا.جب صبح ہوئی تو دونوں سے انکار کرکے کہا کہ خدا کوئی اور ہو گا.اس پر ابراہیم ؑ نے باپ سے پوچھا.آسمان و زمین کس نے پید ا کئے ہیں.اُس نے جواب میں کہا کہ یہ بت جو سامنے ہے یہ ہمار ا
خدا ہے.ابراہیم ؑ نے کہا کہ میں اسے نذر چڑھائوں گا.اور عمدہ کھانا پکواکر اس کو دیا اُس نے نہ کھایا تو اور اچھا کھانا پکوا کر سامنے رکھا جب پھر بھی اس نے نہ کھا یا اور نہ کوئی جواب دیا تو آگ سے اس کو اور دوسرے بتوں کو جلا دیا جب تارہؔ واپس آیا تو اُس نے پوچھا.ان کو کس نے جلایا ہے.انہوں نے کہا.بڑا چھوٹوں پر ناراض ہوگیا.اور غصہ میں اُس نے ان کو جلا دیا.باپ نے کہا.بیوقوف جو نہ سنے نہ دیکھے نہ چل سکے.وہ یہ کام کس طرح کر سکتا تھا.انہوں نے کہا.پھر تم زندہ خدا کو چھوڑ کر اِن کے پیچھے کیوں چل پڑے ہو.ایک دن ایک عورت کھانے کی کوئی چیز نذر لائی.ابراہیم ؑ نے کہا.اِن کے منہ ہیں پر بولتے نہیں.آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں.کان ہیں مگر سنتے نہیں.ہاتھ ہیں مگر پکڑ نہیں سکتے.اِن کے بنانے والوں اور ان پر اعتبار کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو.یہ کہہ کرآپ نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا.اور پھر انہیں جلا دیا.اِس پر آپ نمرودؔ کے سامنے پیش کئے گئے.اُس نے ان کو کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ میں خدا اور دنیا کا حاکم ہوں.آپ نے جواب دیا.اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے توکیوں سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق کی طرف نہیں چڑھاتا.اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے تو بتا میرے دل میں اس وقت کیا ہے اور میرا آئندہ کیا حال ہوگا؟ نمرودکی زبان بند ہوگئی اور وہ حیران رہ گیا.اور ابراہیم ؑ نے اپنی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ تُو کونسؔ کا بیٹا ہے اور اُسی کی طرح ایک فانی وجود ہے تواپنے باپ کو موت سے نہیں بچا سکا.اور نہ تُو خود اس سے بچ سکتا ہے.یہ بھی لکھا ہے کہ نمرودؔ نے کہا.آگ کو پوج.ابراہیم ؑ نے کہا.پانی کو کیوں نہیں وہ تو اُسے بجھا دیتا ہے.اُس نے کہا.بہتر اُسی کو سہی.انہوں نے کہا.بادلوں کو کیوں نہیں جو پانی سے پُر ہوتے ہیں.اُس نے کہا.اُنہی کو سہی.انہوں نے کہا.ہوا ان کو بھی اڑا دیتی ہے اُس نے کہا اُس کوپوج.انہوں نے کہا.انسان اس کے صدمہ سے بھی بچ جاتا ہے اور مکانوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے.اس نے کہا پھر میں انسانوں کا بادشاہ ہوں.مجھے پوج.انہوں نے کہا.اگر تو خدا ہے تو پھر سورج کو مغرب کی طرف سے نکال کردکھا.اس پر نمرود ؔ نے ابراہیم ؑ کے جلانے کا حکم دے دیا.ایک لکڑیوں کا انبار پانچ گز مربع جمع کیا گیا اور اُس کو آگ لگائی گئی اور ابراہیم ؑ کو اُ س میں ڈالا گیا.اِسی کی طرف پیدائش باب۱۵ آیت ۷ میں اشارہ ہے.بعض نسخوں میں اس جگہ لکھا ہے کہ ’’ تجھے کسدیوں کی آگ سے نکال لایا.‘‘ (جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظABRAHAM) چیلڈنیز میں سورج کی پرستش خاص طور پر کی جاتی تھی (نیلسن انسائیکلو پیڈیا ببلونیا ) چیلڈ نیز کا خدا MENODACK نامی تھا جو سورج کی شعاع یادن کی روشنی سمجھا جاتاتھا.اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بنی نوع انسان کو نفع پہنچاتا ہے.اس کا نام بعل یعنی آقا بھی تھا.اِس کے علاوہ اُن کا ایک بت شمسؔ تھا یعنی سورج دیوتا.ایک سینؔ تھا یعنی چاند دیوتا.
ایک نیبوؔ یعنی نبی دیوتا یا معلم تھا.(نیلسنز انسائیکلوپیڈیا بیبلونیا کے ماتحت) اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے انہی واقعات کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگرموسیٰ ؑ اور فرعون کے واقعات سے بھی یہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے تو پھر تو ان کے سامنے ابراہیم ؑکے واقعات بیان کر کیونکہ ابراہیم ؑ وہ نبی ہے جس کی عزت مکہ والوں کے قلوب میں جاگزیں ہے.اور خصوصیت کے ساتھ ان کے سامنے وہ واقعہ بیان کرجبکہ اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی عباد ت کرتے ہو؟ چونکہ ان کی قوم نے سورج اور چاند اور ستاروں کے نام پر کئی قسم کے بت بنائے ہوئے تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے.اس لئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ ہم تو بت پوجتے ہیں.اور سارا دن اُن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا.اچھا جب تم ان کو پکارتے ہوتو کیا اُن کی طرف سے کوئی جواب بھی ملتا ہے جس سے پتہ لگے کہ انہوں نے تمہاری دعائیں سن لی ہیں یا نفع اور ضرر کی شکل میں کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے ؟ یعنی اگر وہ واقعہ میں اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیںتو جس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کی دعائیں سنتا ہے اسی طرح ان بتوں کوبھی تمہاری دعائیں سننی چاہئیں.اور جس طرح خدا اپنے بندوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچاتا اور اُن کےلئے رحمت اور برکت کے سامان پیدا کرتا ہے اسی طرح ان بتوںکے اندر بھی یہ طاقت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو فائدہ پہنچائیں اور جو لوگ ان کا انکار کریں انہیں تباہ کردیں.مگر کیا یہ بت ایسا کرسکتے ہیں؟ کیا یہ تمہاری باتوں کا جواب دیتے ہیں ؟ یا کیاان میں طاقت ہے کہ وہ تمہاری کسی تکلیف کو دور کرسکیں یا تمہیں کوئی نفع پہنچا سکیں.اگر ان میں کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی تو پھر تم ایسے بتوںکی پرستش کر رہے ہو جونہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ نفع اور ضرر کی اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے ہیں.یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ ایک صحابیؓ کہتے ہیں.مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک صرف اس لئے ہوئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو عرب کے دستور کے مطابق میں نے پتھر کا ایک چھوٹا سا بت اپنے ساتھ رکھ لیا تاکہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے.ایک دفعہ جب کہ میں ایک جنگل میں سے گزر رہاتھا مجھے کوئی ضروری کام پیش آ گیا.میں نے اپنا اسباب وہیں رکھا اور بت کو پاس بٹھا کر کہا کہ حضور میں تھوڑی دیر کے لئے باہر جارہا ہوں آپ مہربانی فرما کر میرے سامان کی حفاظت کریں.جب میں واپس آیا تو ایک گیدڑ ٹانگ اٹھا کر اُس بت پر پیشاب کررہا تھا یہ دیکھ کر میرے دل میں ایک آگ لگ گئی اور میں نے کہا کہ جو بت گیدڑ کے پیشاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکا اُس نے میرے اسباب کی کیا حفاظت کرنی ہے چنانچہ میں نے اُس بت کو وہیں پھینکا اور واپس آکر مسلمان ہوگیا.
اِسی طرح ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں کہ مجھے توحید کی اس طرح سمجھ آئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو میںنے اپنے ساتھ آٹے کاایک بت بنا کر رکھ لیا.اتفاق ایسا ہوا کہ راستہ میں ہمارا آٹا ختم ہوگیا اور بھوک نے ہمیں بے قرار کردیا.ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کوئی اور چیز مل جائے تو ہم گذارہ کرسکیںمگر ہمیںکوئی چیز نہ ملی جب بھوک نے ہمیں سخت تنگ کیاتو ہم نے اسی بت کو کوٹ کاٹ کر آٹا گوندھ لیااور روٹی پکاکرکھاگئے.جب ہم خوب سیر ہوچکے تو مجھے اپنے آپ پر ہنسی آئی کہ میں بھی کیسا احمق ہوں کہ جس وجود کو میں کوٹ کاٹ کر ہضم بھی کرگیااس کومیںاپناخدا اور حاجت روا سمجھتارہاہوں.چنانچہ اس کاردّعمل یہ ہوا کہ سفر سے واپس آتے ہی میںمسلمان ہوگیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کے اسی عجز اور بے چارگی کی طرف توجہ دلائی اور ان سے پوچھا کہ بتائو.کیایہ تمہیںکوئی نفع دیتے ہیں یاتمہارے دشمنوں کوضرر پہنچاسکتے ہیں؟حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے شرمندہ ہوکرکہاکہ نتیجہ توکچھ نہیںنکلتا.لیکن ہم نے اپنے باپ دادوں کودیکھاہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے.اس لئے ہم نے بھی بتوں کی پرستش شروع کردی.ان کایہ جواب بالکل ایسا ہی تھاجیسے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ ایک لطیفہ سنایاکرتے تھے کہ ایک بادشاہ کے دربارمیںصفائی کرنے کے لئے ایک خاکروبہ اور ایک خاکروب آیاکرتاتھا.اس خاکروب اور خاکروبہ نے سؤر پال رکھے تھے.اتفاقاً سؤر کاایک بچہ مرگیا.پالے ہوئے جانور سے بھی انسان کومحبت ہوجاتی ہے چاہے وہ سؤر ہی ہویاکوئی اور جانور.ان کے لئے سؤر کابچہ ایسا ہی تھاجیسے ہمارے لئے گھوڑا یاکوئی اور جانور.دربارکی صفائی کرتے ہوئے خاکروبہ کواس سؤر کے بچے کاخیال آگیا اور وہ دربار کی ایک دیوار کے ساتھ اپناسر رکھ کررونے لگ گئی.اتنے میںدربار کاایک چپڑاسی آیااور اس نے خاکروبہ کو روتے دیکھ کریہ خیال کیاکہ خدانخواستہ اندر کوئی حادثہ ہوگیاہے.مجھے پتہ نہیں لگا.اگر کسی نے مجھے دیکھ لیاکہ میں رو نہیں رہا تو مجھ پر بے وفائی کا شبہ کرلیا جائے گا اس لئے وہ بھی رونے لگ گیا.پھر ایک چوبدار آیا.اُس نے جو دیکھا کہ یہ دونوں رو رہے ہیں تو سمجھا کہ ضرور کوئی واقعہ ہوا ہے جس کا مجھے پتانہیں لگا.اگر کوئی شخص آگیا اور اس نے دیکھ لیا کہ میں رو نہیں رہا تو وہ خیال کرے گا کہ مجھے بادشاہ سے کوئی تعلق نہیں.یہ خیال کرکے وہ بھی مصنوعی طور پر رونے لگ گیا پھر کلرک آئے انہوں نے بھی ان لوگوں کو دیکھ کر رونا شروع کردیا.پھر چھوٹے افسر آئے.درباری آئے.وزراء آئے.انہوں نے خیال کیا کہ ہمارا تو کام تھا کہ ہم ہر وقت خبر رکھیں لیکن ہمیں اس حادثہ کا کوئی علم نہیں ہوا.ضرور کوئی بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ رو رہے ہیں.اگر ہم نہ روئے تو ہم پر بے وفائی کا شبہ کر لیاجائے گا.یہ خیال کرکے وہ بھی رونے لگ پڑے.اور بڑے آدمیوں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر رومال رکھ کر رونا شروع کردیا.اتنے میں ایک بڑا وزیر آیا وہ کچھ عقلمند
تھا وہ رویا نہیں.اُس نے پاس والے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا بات ہوئی ہے.اُس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں میرے پاس والے وزیر رو رہے تھے اس لئے میں بھی رونے لگ گیا.اُس نے کہا.اُس سے پوچھو کیا بات ہے.جب اُس سے پوچھا گیا.تو اُس نے کہا.مجھے تو علم نہیں.میرے ساتھ والا وزیر رو رہا تھا آخر بات خاکروبہ تک پہنچی.اس سے دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میر اسؤر کا بچہ مرگیا تھا.مجھے وہ یاد آگیا تو میں نے رونا شروع کردیا.جس طرح ایک خاکروبہ کوروتے دیکھ کر سارا دربار رونے لگ گیا تھا حالانکہ بات کچھ بھی نہیں تھی اِسی طرح انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو دیکھا تھا کہ وہ اِن بتوں کی پرستش کرتے ہیں.جب ہم نے دیکھا کہ وہ اِن بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے اور سجدے کرتے ہیں تو ہم بھی ہاتھ جوڑنے اور سجدہ کرنے لگ گئے.قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ۰۰۷۶اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ اُس نے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے چلے آئے ہو.تم بھی اور تمہارے الْاَقْدَمُوْنَٞۖ۰۰۷۷فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۷۸ پُرانے باپ دادے بھی.وہ سب کے سب ربّ العالمین کے سوا میر ی تباہی چاہتے ہیں.جس (ربّ العالمین) الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِۙ۰۰۷۹وَ الَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَ نے مجھے پید اکیا ہے اور (اس کے نتیجہ میں) وہ مجھے ہدایت بھی دےگا.اور جس کی صفت یہ ہے کہ يَسْقِيْنِۙ۰۰۸۰وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ۪ۙ۰۰۸۱وَ الَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ وہی مجھے کھانا کھلاتا اور وہی مجھے پانی پلاتا ہے.اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے.ثُمَّ يُحْيِيْنِۙ۰۰۸۲وَ الَّذِيْۤ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ اور جو مجھے مارے گا اورپھر زندہ کرے گا.اور وہ ایسا ہے کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ
يَوْمَ الدِّيْنِؕ۰۰۸۳ جزا سزا کے وقت مجھے معاف کردے گا.حلّ لُغَات.اَلدِّیْنُ.اَلدِّیْنُ کے معنے ہیں اَلْجَزَاءُ وَالْمُکَافَأَ ۃُ.بدلہ.اَلْحِسَابُ.محاسبہ.اَلْقَضَاءُ.فیصلہ (اقرب) تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جو اب دیا کہ تم مجھے اِن معبودوں کی حالت تو بتائوجن کی تم پرستش کرتے چلے آئے ہو.یعنی تم بھی اور تمہارے پہلے باپ دادا بھی.تمہارے یہ سب معبود میرے دشمن ہیں سوائے ربّ العالمین خدا کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے.اگر یہ بُت اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے.تو کیا یہ سب مل کرمجھ اکیلے پر غالب نہ آجاتے اور مجھے تباہ و برباد نہ کردیتے ؟ اس جگہ عَدُوٌّ مفرد استعمال ہوا ہے جو ھُمْ کی خبر کے طور پر آیا ہے.حالانکہ چاہیے تھا کہ اَعَدَاءٌ کا لفظ استعمال کیا جاتا جو جمع ہے.سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کبھی مبتداء کوجمع اور خبر کو مفرد لے آتے ہیں.چنانچہ اس سورۃ کے شروع میں ہی آتا ہے کہ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.یعنی اےموسیٰ ؑ اور ہارونؑ !فرعون سے کہنا کہ ہم دونوں اپنے ربّ کے رسول ہیں حالانکہ موسیٰ ؑ اور ہارون ؑدو نبی تھے.اور بظاہر اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ کہنا چاہیے تھا.مگر وہاں رَسُوْلَا رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ عربی زبان میں یہ طریقِ کلام رائج ہے.چنانچہ عربی میں کہتے ہیں.ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَآئِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ (فتح البیان زیر آیت فَأتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا.....)یعنی یہ دونوں میرے رسول اور وکیل ہیںاور یہ سب میرے رسول اور وکیل ہیں حالانکہ ھٰذَانِ کے بعد رَسُوْلَا ئِی آنا چاہیے تھا یعنی یہ دونوں میرے رسول ہیں اور ھٰؤُلَآئِ کے بعد رُسُلِیْ آنا چاہیے تھا.کہ یہ سب میرے رسول ہیں.مگر تثنیہ کی خبر میں بھی واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا اور جمع کی خبر میں بھی واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا.پس یہ ایک مروّجہ عربی کا طریق ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا.فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ کے متعلق بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ یہاں پتھر کے بے جان بُتوں کو دشمن کیوں کہاگیا ہے.مفسرین نے اس سوال کایہ جواب دیا ہے کہ یہاں قلب نسبت سے کام لیا گیا ہے.یعنی جس طرح ہماری زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ پرنالہ چلتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ پرنالہ نہیں چلتابلکہ پانی چلتا ہے اسی طرح یہاں کہا تویہ گیا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ میں اِن کا دشمن ہوں.چنانچہ فرّاءؔ نے
یہی معنے کئے ہیں اور ان الفاظ کو مقلوب قرار دیا ہے.لیکن میرے نزدیک اس جگہ مخالفوں کے عقیدہ پر تعریض کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تم تو سمجھتے ہو کہ وہ معبود ہیں مگر میں ان کی عبادت نہیں کرتا اِس لئے لازماً وہ میرے دشمن ہوں گے سوائے ربّ العالمین خدا کے جس کی میں عبادت کرتا ہوں.پس اب ہم دیکھ لیں گے کہ ربّ العالمین خدا میری مدد کرکے مجھے بچاتا ہے یا تمہارے معبود میری دشمنی کرکے مجھے ہلاک کرتے ہیں.اگر ان بتوں میں بھی کوئی طاقت ہے تو چاہیے کہ یہ مجھے ہلاک کردیں.لیکن وہ ایسا کبھی نہیںکرسکتے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بالکل بے بس ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں.چنانچہ نتیجہ نے بتادیا کہ ربّ العالمین خد انے ابراہیم ؑ کو بچا لیا اور اُس کی قوم کے معبود اُس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے.اِسی طرح اس پیشگوئی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے تھے وہ کامیاب ہوگئے اور اُن کے دشمن تباہ ہوگئے.پھر ربّ العالمین کے الفاظ استعمال فرما کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ میں جس خدا پر ایمان رکھتا ہوں وہ ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مگر تمہارے معبودوں میں تو جان ہی نہیں انہوںنے کسی کی مدد کیا کرنی ہے؟ بے شک ربّ العالمین کے معنوں میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمارا خدا انسانوںکا بھی خدا ہے اور جانوروں کا بھی خدا ہے او رکیڑوں مکوڑوں کابھی خدا ہے اسی طرح وہ عربوں کا بھی خدا ہے اور ایرانیوں کا بھی خدا ہے اور ہندوستانیوں کا بھی خدا ہے.لیکن ربّ العالمین میں جن جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ہوسکتے ہیں.پس اس کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ میںجس خدا کو پیش کرتا ہوں وہ ایک زندہ خدا ہے.وہ آدم ؑ کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداتھا.وہ نوح ؑ کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اوروہ میرے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداہے اور بعد میں آنے والوں کا بھی خدا ہوگا.اور جو خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور نوح علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اورہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہوگا.صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک زندہ خدا ہے اگر وہ زندہ خدا نہ ہوتا تو ہرزمانہ کے لوگوں کا کس طرح خدا ہوسکتا.پس رب العالمین کہہ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ میرا خدا ایک زندہ خدا ہے جس سے ہر زمانہ کے لوگ ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیںجیسے پہلے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں مگر تمہارے بت نہ پہلے لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں.تم اپنے سارے معبودوں کو میری تباہی کےلئے اکٹھا کرلو اور ان کے آگے رو رو کر دعائیں کرو.پھر دیکھو کہ میرا رب العالمین خدا جیتتا ہے یا تمہارے بت فتح حاصل کرتے ہیں.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ جس طرح ایک چھوٹا بچہ جب اکیلا گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور گلی
کے اوباش اور شریر لڑکے اُس کو دق کرنے کےلئے اُس پر حملہ کرتے ہیں تو اُن کی آواز سن کر اُس لڑکے کی ماں بیتاب ہوکر اپنے گھر سے باہر نکل آتی ہے اسی طرح میرا رب العالمین خدا میرے ساتھ ہے.تم میری کتنی بھی مخالفت کرو اور مجھے کچلنے کےلئے خواہ انتہائی طاقت صرف کردو یہ کبھی نہیںہوسکتا کہ میرا خدا مجھے چھوڑ دے اور تمہارے بت خدائے واحد پر غالب آجائیں.دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ.دنیا کے بڑے سے بڑے مدبّر.دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں.اُن کی تکلیفوںکے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں جو بعض دفعہ کامیاب ہوتے ہیںاور بعض دفعہ ناکام.مگر جب کسی مومن کو تکلیف دی جاتی ہے تو خدائے واحد خود آسمان سے اتر آتا ہے اور وہ لڑنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے.اور یہ ایک بہترین انعام ہے جو کسی قوم یا فرد کو حاصل ہو سکتا ہے یہی انعام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا.یہی انعام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا.یہی انعام ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا.اور یہی انعام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا کہ ایک زندہ خدا اور طاقتور خدا ان کے ساتھ تھا.اور جب بھی دشمن حملہ آور ہوتا تھا خدا آسمان سے اتر کر اُن کےساتھ کھڑا ہوجاتا تھااور وہ ان کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کرتا تھا اور اس کایہ پیار اتنی قیمتی چیز تھا کہ اگر جائز ہوتا تو انسان تمنا کرتا کہ لوگ میری اور بھی دشمنی کریں تاکہ میرے خدا کی محبت میرے لئے اور زیادہ جوش مارے مگراسلام نے ایسی خواہش سے منع کردیا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَا تَتَمَنُّوْالِقَآءَ الْعَدُوِّ (بخاری کتاب التمنی باب کراھیة تمنی لقاء العدو) اے مومنو! تم کبھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہ کرو.آخر ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس فقرہ کے معنے کیا ہیں؟ کون ہے جو دشمن کے حملہ کی تمنا کیا کرتا ہے.ظاہر ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے.جہاں تک مرنے کا تعلق ہے جہاں تک تکالیف کا تعلق ہے کوئی شخص بھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہیں کر سکتا.مگر مسلمان ایسی حالت میں تھے کہ ان کے دل اسی نکتہ کے ماتحت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے بعض دفعہ خواہش کرسکتے تھے کہ کاش ہمار ا دشمن ہم پر حملہ کرے تاکہ ہمارا خدا پھرہماری مدد کےلئے ہمارے پاس آجائے.پس صر ف یہی وجہ تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مسلمانو! جب دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو خدا تمہارے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اوریہ بات تمہیں اتنی لذیذ معلوم ہوتی ہے اور تمہیں اس میںاتنا مزا آتا ہے کہ جب دشمن حملہ چھوڑ دیتا ہے تو تم کہتے ہو.کاش ہمار ا دشمن ہم پر پھر حملہ کرے.تاہمارا خدا پھر ہمارے پاس آجائے.مگر یہ خواہش جہاں تک عشق کا سوال ہے وہاں تک تو درست ہے لیکن الٰہی حکمتوں اور منشاء کے خلاف ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے ادب کے لحاظ سے
ایسی خواہشات مت کیاکروہاں جب دشمن تم پر خود بخود حملہ کردے گا اور تمہارا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہوگا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہیں چھوڑ دے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ دائمی سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی بھی مدد کرتاہے اور ان لوگوں کی تائید کےلئے بھی اپنے نشانات دکھاتا ہے جو اُن رسولوں پر ایمان لاتے ہیں.پسفَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی اسی سنت قدیم کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارے یہ سب بت جن کے سامنے تم اپنی ناکیں رگڑتے ہو میرے دشمن ہیں اگر ان میں کوئی طاقت ہے تومیرے رب العالمین خدا کے مقابلہ میں جو ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مجھے نقصا ن پہنچا کردکھائیں.یقیناً تمہارے بت ناکام رہیں گے اور میرا رب العالمین خدا ہمیشہ میرا ساتھ دے گا.اسی طرح رب العالمین کے الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی مخفی تھی کہ یہ دین آخر ایک عالمگیر صور ت اختیار کرلے گا.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سےایسا نبی مبعوث ہوگا جو ساری دنیا کی طرف ہوگااورجس کی فیض رسانی کے دائرہ سے کوئی متنفس بھی باہر نہیں رہے گا.پھر فرماتے ہیں.اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ رب العالمین خداوہ ہے جس نے مجھے پید کیا ہے اور اُس کے نتیجہ میں لازماً وہ تمام خطرات اور حوادث سے بچاتے ہوئے مجھے منزل مقصود پر پہنچائے گا.اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے پیدا کرے اور ایک مقصدِ عظیم کےلئے کھڑا کرے اور پھر اپنی محبت کا ہاتھ پیچھے ہٹا لے اورمجھے حوادث کا شکار ہونے دے.اس کی صفت خلق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کامیابی بھی اسی کی طرف سے آئے کیونکہ جوہستی اپنے معرضِ وجود میں آنے کےلئے دوسرے کی محتاج ہے وہ ترقی کے وسائل اور ذرائع بھی خود بخود مہیا نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لئے بھی وہ اپنے خالق کی ہی محتاج ہوگی.اس کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے میں اگر کوئی مکان بنائوں تو جب تک میں اس میں دروازے نہ لگائوں.جب تک میں اس میں کھڑکیاں نہ رکھوں.جب تک میں اس میں طاقچے اورر روشندان نہ بنائوں اُس وقت تک اس مکان میں نہ دروازہ لگ سکتا ہے نہ کھڑکی لگ سکتی ہے نہ طاقچہ اور روشندان بن سکتا ہے.کیونکہ وہ میرا مکان ہے اور میں نے ہی اُسے بنایا ہے.اسی طرح جب انسان کو رب العالمین خدا نے پیدا کیا ہے تو رب العالمین خدا ہی جب تک اس کی مادی اور روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کرے اُس وقت تک وہ جسمانی اور روحانی طور پر کیسے ترقی کرسکتا ہے.ان الفاظ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اپنی قوم کو اپنے غلبہ اور ترقی کی خبر دی ہے اور اپنے اس یقین محکم کا اظہار کیا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.بیشک میرا چچا مجھے چھوڑ دے میرے بھائی مجھے چھوڑ دیں میرے دوست مجھ سے الگ
ہوجائیں میری قوم مجھ سے کنار ہ کرلے پھر بھی رب العالمین خدا جس کے کنار عاطفت میں میںنے اپنی زندگی بسر کی ہے اور جس کی گود میں میں نے پرورش پائی ہے مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.اور ہمیشہ مجھے عزت اور کامیابی اور غلبہ بخشے گا.وہاں آپ نے اپنی قوم کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرنا چاہیے اور اپنی زندگی کو رائیگاں نہیںکھونا چاہیے.آخر اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ اُسے کسی اور ہستی نے پیدا کیا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ انہیں کیوں پیدا کیا گیا ہے.وہ دنیا کی رعنائیوں اور دلچسپیوں میں کچھ ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ اُن کے دلوں میںاور اورسوالات توپیدا ہوتے رہتے ہیںمگر اُن کے دلوں میں اگر سوال پیدا نہیں ہوتا تو صرف یہی کہ وہ کیوں پید اکئے گئے ہیں.ہم نے دیکھا ہے بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسے جنگلوں میں جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی اور ایسے پہاڑوں میں جہاں انسان کا پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شاذو ونادر ہی کوئی انسان وہاں پہنچ سکتا ہے نہایت دلکش اور خوبصورت پھول کیوں پیدا کئے گئے ہیں.پھر ہزاروں قسم کے کیڑے برسات کے موسم میں نکلتے ہیں اُن کے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی.اِسی طرح سمندروںمیں جھینگر اور دوسرے بعض بدشکل سمندری جانور پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہے.پھر قسم قسم کی جڑی بوٹیوں کو اتنی کثرت سے کیوں اگایا گیا ہے.اور زمین پر رینگنے والے کیڑے سانپ اور کنکھجورا وغیرہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں.غرض سمندر اور زمین پر اور ہوا میں ہزار ہا ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق انسان سوال کرتا ہے کہ وہ کیوں پیداکی گئی ہیں.دشوار گزار پہاڑوں میں جہاں انسا ن بڑی مشکل سے پہنچتا ہے بعض اوقات نہایت خوبصورت پھولوں کا نظارہ انسان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مقام پر اس قسم کے خوبصورت پھو ل پیدا کرنے کی کیا غرض تھی.غرض اس قسم کے ہزاروں سوالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیںاور ہرشخص اپنی اپنی عقل کے مطابق ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے.مثلاً کہتا ہے کہ زہریلے کیڑوں یعنی سانپ وغیرہ کے زہروںسے اب بہت سی دوائیں تیا رہورہی ہیں جو نہایت سریع الاثر ثابت ہوئی ہیں.یا یہ کہ دشوار گزار مقامات پریہ خوش کن نظارے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ جو لوگ تکلیف.مشقت اور محنت برداشت کرسکیںوہی ان نظاروں کو دیکھیں.ان سوالات اور جوابات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان ا س بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دُنیا میں ہر چیز کے پیدا ہونے کی کوئی وجہ اور غرض ہونی چاہیے مگر انسان کوکبھی یہ بھی خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں پید اکیا ہے.اور میرے پیدا کرنے کی غرض وغایت کیا ہے.وہ اور چیزوں کے پیدا کرنے کی غرض وغایت معلوم کرنے کا بہت شوق رکھتا ہے لیکن اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں کیوں پید اکیا گیا اور میں اس غرض کو پورا بھی کررہا ہوں یا نہیں.اور اگر میں پیدا نہ کیا
جاتااور اگر میرا وجود نہ ہوتا تو دنیا کو کیا نقصا ن ہوتا.دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی ہوئی نہ ہوئی برا بر ہوتی ہے کیونکہ انہیں نہ اپنی زندگی کی غرض و غایت کا علم ہوتا ہے اور نہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر تمام لوگ اس سوال پر غور کریں تو اُن میں سستی اور غفلت اور کام کو ادھورا چھوڑنے کی عادت نہ رہے اور وہ ہر قسم کی قربانیوں سے کام لے کر اپنی روحانی ترقی کےلئے کوشش کریں.آخر غور کرو.دنیا میں کتنے لوگ ہٹلر.نپولینؔاور تیمورؔ بن سکتے ہیں نہ ساری دنیا ہٹلربن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا نپولین ؔبن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا تیمورؔ بن سکتی ہے.کیونکہ دنیوی ترقی کا میدا ن بہت تنگ ہے.لیکن ایک مید ان ایسابھی ہے جہاں ہر انسان اپنے آپ کو نمایاں کرسکتاہے اور جتنا جی چاہے ترقی کر سکتا ہے اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اور کسی کا راستہ روکے بغیر ترقی کرسکتا ہے اور وہ خدا رسیدہ بننے کا میدان ہے.اس میںکسی کے بڑھنے سے کسی دوسرے کا نقصان نہیں اور پھر ہر پیشہ اور ہر درجہ کا انسان خدا رسیدہ بن سکتا ہے.ایک بادشاہ اور اس کا بیٹا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک فقیر بے نوا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک نائی اور دھوبی بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ ایک اقلیم میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے.مگر اولیاء اللہ کا مقام وہ ہے کہ اقلیم تو کیا ایک گھر میںبلکہ ایک گھر تو کیا ایک کمرہ میں بھی دس اولیاء اللہ رہ سکتے ہیں.اور اس میں کسی کا نقصان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے راستے اتنے وسیع ہیں کہ ان میں کبھی تنگی پیدا نہیں ہوسکتی.جس طرح سمندر میں سے چڑیا چونچ بھر کر پانی لے جائے تو اس سے سمند ر کے پانی میںکوئی کمی نہیں آتی اسی طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق کا حال ہے یہ اتنا وسیع خزانہ ہے کہ جس میں کمی کا کوئی امکان نہیں.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی اتنی محبت حاصل ہوئی کہ جس کی مثال باقی انبیا ء میں نہیں ملتی مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے پاس ابو بکر ؓاور عمرؓ اور عثمانؓا ور علیؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کو دینے کے لئے بھی محبت موجود تھی اور تمام صحابہؓ نے بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی.پس ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ ہماری پیدائش کی غرض کیا ہے.پیدائش کی اصل غرض جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا پیار ا بن جائے.جب وہ یہ مقام حاصل کرلیتا ہے تو دنیا بے شک مٹ جائے خدا تعالیٰ کے رجسٹر سے اس کا نام کبھی نہیں مٹ سکتا.وہ گدڑی میں پڑا ہوا بھی خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے اور اتنا بڑا بن سکتا ہے کہ دنیاکی بڑائیا ں اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوجائیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنی قوم کو اسی بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں نصیحت کی ہے کہ تم اپنی پیدائش کے مقصد پر غورکرو اوراللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا جو سامان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائو ورنہ تمہاری زندگی بیکار چلی جائے گی اور تم اپنے ہاتھوںاپنی قبر کھود نے والے قرار پائو گے.
پھر فرماتے ہیں وَ الَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَ يَسْقِيْنِرب العالمین خدا ہی ہے جو مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا ہے ورنہ نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے.نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے.نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے.نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے.نہ گوشت میرا پیدا کیا ہوا ہے.نہ ترکاریاں میں نے پیدا کی ہیں.یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں.بڑے سے بڑے خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا.لیکن گندم.پانی.ترکاری.گوشت.نمک.مرچ اور مونگ وغیرہ ہزاروں پشتوں سے بھی پہلے کی ہیں.پھر یہ انسان کی کس طرح ہوگئیں ہم اگر کھاتے ہیں تو اس لئے کہ خدا نے ہمیں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی ہے.ورنہ ہم میں طاقت نہیں تھی کہ یہ چیزیں خود مہیا کرسکتے.اسی طرح جب ہم پانی پیتے ہیں اور اس بات پر غور کرتے ہیںکہ یہ پانی ہمیں کس طرح ملا تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی خدا تعالیٰ نے ہی زمین کی تہوں میں رکھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار فرماتا ہے کہ اگر ہم اس پانی کو کھینچ لیں تو تم پانی کہاں سے لائو.اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ ہم میں کوئی طاقت نہیں کہ ہم پانی مہیا کر سکیں.یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے یہ تمام ضروری اشیا ء ہمیں مہیا کردی ہیں.اگر تھوڑی دیر ہی ہمیں پانی نہ ملے تو ہمیں سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.چنانچہ جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں لوگ ایسی ایسی چیزیں پیتے ہیں جن کو ہمارے علاقے میں پانی نہیں کہہ سکتے.مثلاً سندھ اور بلوچستا ن کے بعض علاقے ایسے ہیں.جہاں لوگ کیچڑ پیتے ہیں.لیکن ہمارے ملک والے ایسا نہیں کرسکتے.یہ الگ بات ہے کہ انہیں کوئی مشکل پیش آجائے.تووہ بھی اس قسم کا پانی پی لیں.ورنہ عام حالات میں ہمارے ہاں اسے پانی نہیں سمجھاجاتا.غرض کھانے اور پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مہیا نہ کی ہو.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کا وجود مخفی ہے اور وہ پس پردہ احسان کرتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ اُس کے احسانات بہت زیادہ ہیں لوگ انہیں محسوس نہیں کرتے.ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہے.اور بچہ اپنی عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ ماں اس پر احسان کرتی ہے اور اپنا خون اُسے چوساتی ہے حالانکہ یہ قربانی کا جذبہ ماں نے خود پیدا نہیں کیا.یہ جذبہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھا گیا تھا.چنانچہ دیکھ لو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گُڑیاں بناتی ہیں اوران سے کھیلتی ہیں.یہ وہی بچہ پالنے کا جذبہ ہوتا ہے جوان کے اندر پایا جاتا ہے.ان کے اندر یہ حِس خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہے خواہ وہ عقل کے ماتحت ایسا کرتی ہیں یا بے عقلی کے ماتحت ایسا کرتی ہیں.بہرحال عورت کے اندر خدا تعالیٰ نے اولاد سے محبت کرنے کا مادہ رکھا ہے.اوریہ وہ چیز ہے جو ماں نے خود اپنے اندر پیدا نہیں کی بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھ دی گئی تھی.اور جب یہ مادہ ماں کی پیدائش سے پہلے کا اس کے اندر پایا جاتا ہے تو پھر یہ اس کا پیدا کیا ہوا نہ ہوا.اب یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مادہ ماں کا پیدا کیا ہوا نہیں توآخر یہ مادہ ماں کے اندر کس نے پیدا کیا ہے.بہرحال وہ کوئی اور ہستی ہے.اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ہستی جس نے سب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اسی نے یہ مادہ ماں کے اندر رکھا ہے.مگرہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں سے محبت کرتا ہے خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتا اس لئے کہ خدا تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا.جب اس کی ماں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کے دل میں اولاد کی خواہش اور محبت پیدا کررہے تھے تو اس نے اس نظارہ کو دیکھا نہیںتھا.اس نے صر ف اتنا ہی دیکھا کہ ماں اسے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلا رہی ہے خواہ وہ فاقہ ہی کررہی ہو اور بھوک کی وجہ سے نڈھال ہورہی ہو.وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہو.اُس کا گوشت گھل گیا ہواور ہڈیاں نکل آئی ہوں.لیکن ادھر بچہ رؤیا اُدھرماں نے اپنے سوکھے ہوئے پستان اس کے منہ میں دے دیئے.خواہ پستانوں میں دودھ کا کوئی قطرہ ہو یا نہ ہو.ما ں کے اندر یہ جذبہ کس ہستی نے پید ا کیاہے وہ بچہ کو نظر نہیں آتی.اس لئے وہ اس سے محبت نہیں کرتا.ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہوئی اسے نظر آتی ہے اس لئے وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.انسان کھانا کھاتا ہے جس شخص نے اسے گندم دی اور اس نے اس سے روٹی بنائی وہ اس کا شکریہ اد اکرتاہے یا جس کی نوکری کر کے اس نے پیسے کمائے اور ان سے اس نے گندم خریدی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے.جس ماں اور بیوی نے اسے روٹی پکا کر کھلائی وہ ان کا شکریہ اد اکرتاہے.لیکن جس نے گندم بنائی.جس نے نمک بنایا جس نے پانی بنایا وہ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا اس لئے کہ گندم مہیا کرنے والا یا ملازمت دینے والا اسے نظر آتا تھا.ماں اسے نظر آتی تھی کہ وہ گرمی کے دنوں میں آگ کے آگے بیٹھی روٹی پکا رہی ہے یا سردی میں جب وہ خودلحاف سے باہر نہیں نکلتا وہ صحن میں بیٹھی اس کے لئے ناشتہ تیا رکر رہی ہے چونکہ وہ اسے نظر آتی ہے اس لئے اس کے اندر احساسِ شکریہ پیدا ہوجاتا ہے.لیکن چونکہ اسے اس احسان کا اصلی بانی نظر نہیںآتا اس لئے اسے یہ خیال نہیں آتا کہ دراصل یہ احسان کسی اور ذات نے کیا ہے.ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے.واللہ اعلم وہ سچاہے یا عام حالات میں وہ خود بنا لیا گیا ہے.جب ہمارے ملک پر انگریز حاکم تھے.لوگوں میں انہیں خوش کرنے کےلئے ڈالیاں پیش کرنے کا رواج تھا.بعد میں اگرچہ یہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ افسروں کو ڈالیاں پیش نہ کی جائیں لیکن حکام اور روسائے شہر کو جب موقعہ ملتا اوروہ انگریز افسروں کو ملنے کے لئے جاتے تو ان میں سے بعض ہوشیار لوگ ڈالیاں بھی لے جاتے تھے.کہتے ہیں کہ ایک انگریز افسر کو ایک ای.اے.سی اور ایک تحصیلدار ملنے کے لئے گئے ای.اے.سی ڈالی بھی ساتھ لے گیا.یہ تو سارے جانتے ہیں کہ ای.اے.سی بڑا ہوتا ہے اور تحصیلدار چھوٹا ہوتاہے.کئی علاقوں کا چارج ہی ای.اے.سی کے پاس
ہوتا ہے.اور تحصیلدار اس کے ماتحت ہوتاہے.پس جب وہ دونوں ملاقات کے لئے گئے تو اتفاقاً انگریز افسر کے پاس ملاقات کا وقت تھوڑا تھا اس لئے بجائے اس کے کہ وہ دونوں کو الگ الگ بلاتا.اس نے کہلا بھیجا کہ دونوں آجائو.جب ای.اے.سی ڈالی کو اٹھانے لگا تو تحصیلدار نے آگے بڑھ کر ڈالی اٹھا لی.اور کہا حضور ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ تکلیف کیوں کریں.چنانچہ تحصیلدار نے ڈالی اٹھائی اور بڑے آرام سے اندر جاکر انگریز افسر کے سامنے رکھ دی اور یہ نہ کہا کہ یہ ڈالی ای.اے.سی نے پیش کی ہے.وہ انگریز افسر اسی اثر کے ماتحت کہ ڈالی تحصیلدار نے پیش کی ہے ای.اے.سی کی طرف پیٹھ کر کے اور تحصیلدار کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور اس سے حالات پوچھنے لگا.ای.اے.سی دل ہی دل میں کُڑھ رہا تھا.لیکن وہ کیا کرسکتا تھا.برابر دو گھنٹے تک انگریز افسر تحصیلدار سے باتیں کرتا رہا.اور اس نے ای.اے.سی کو پوچھا تک نہیں.ملاقات سے فارغ ہوکر جب باہر آئے تو ای.اے.سی نے غصہ نکالنا شروع کیا کہ تم نے کیوں یہ حرکت کی.تحصیلدار نے کہا.حضور یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ آپ میرے سامنے بوجھ اٹھاتے.اب ڈالی تو ای.اے.سی لایا تھا.لیکن چونکہ وہ ڈالی تحصیلدا رنے انگریز افسر کے آگے رکھی تھی اس لئے وہ اس پر مہربان ہوگیا.یہی حال انسان کا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ڈالی آتی ہے.لیکن ماں باپ.بیوی بچہ.بہن یا بھائی وہ ڈالی اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اصل ڈالی پیش کرنے والے وہی ہیں حالانکہ ان کے پیچھے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے.اسلام ؔ نے انسان کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ حقیقی محسن خدا تعالیٰ ہی ہے یہ ترکیب رکھ دی کہ جب تم کھانا کھائو.یا پانی پیو تو اس کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو.اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کھانا تمہارے سامنے رکھا تو ماںنے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے.یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بیوی نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو تمہارےبھائی نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے.اور جب انسان کو پتہ لگ جاتا ہے اور باربار یہ مضمون اس کے سامنے دہرایا جاتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے.وہی ہمیں کھانا دیتا ہے وہی ہمیں پانی دیتا ہے.وہی ہمیں پہننے کو کپڑا مہیا کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی طرف دل مائل ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اصل احسان خدا تعالیٰ کا ہے.جس نے ہمیں کھانے پینے کو دیا.اور جب وہی محسنِ حقیقی ہے.تو انسان کی یہ کتنی بڑی نادانی ہے کہ وہ محسنِ حقیقی کو تو چھوڑ دیتا ہے اور ان لوگوں کے آگے جھکنا شروع کردیتا ہے جن کو اس نے صرف ایک درمیانی واسطہ بنایا ہے.گویا وہ شاخ پر تو ہاتھ مارتا ہے او رتنے کو نظر انداز کر دیتا
ہے ایسا انسان یقیناً اپنی روحانی ترقی کا راستہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے.پھر فرماتے ہیں وَاِذَامَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا بخشتا ہے آپ نے اس جگہ مَرِضْتُ میں مرض کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اورشفا کو خدا تعالیٰ کی طرف.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کےلئے پیدا کی ہیں.جب انسان ان کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس وقت وہ بیمار ہوجاتا ہے یا نقصان اٹھاتا ہے اورجب انسان پھر اس کا کسی رنگ میں ازالہ کردیتا ہے اور علاج کرتا ہے تو شفا پاجاتا ہے.اس لئے مرض تو انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف.دنیا میں جتنی مصیبتیں اور بلائیں انسان پر وارد ہوتی ہیں ان پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے آتی ہیں.اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو انسان ان مصائب اور بلائوں سے بچ سکتا ہے.مثلاً بیماری ہے.یہ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جن سے ان کے اعضائے انہضام بگڑتے ہیں یا وہ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو اپنے وجود میں تو نقصان دہ نہیں ہوتیں.مگر اعتدال سے زیادہ استعمال کرلینے کی وجہ سے یا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے وہ بیمار ہوجاتے ہیں.مثلاً خربوزہ ہے.جہاں تک خربوزے کا سوال ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.لیکن اسی نعمت کو اگر اعتدال سے زیادہ استعمال کیا جائے تو مصیبت بن جاتی ہے اور بیماری پیدا ہوتی ہے.یا آم ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمت ہے.لیکن حد سے زیادہ کھا لینے سے نقصان ہوتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی نعمتیں ہیں ان کو ایک حد کے اندر استعمال کیا جائے تو فائدہ مند ہیں اورجب حد سے تجاوز کیا جائے تو بیماری پیدا ہوجاتی ہے.مثلاً بینگن اور کریلے گرم ہوتے ہیں.اگر یہ حد کے اندر کھائے جائیں تو نعمت ہیں لیکن حد سے زیادہ کھائے جائیں تو بینگن سے بواسیر اور کریلوں سے پیچش وغیرہ ہوجاتی ہے.اسی طرح گنّاہے.اگر اس کا استعمال حد کے اندر کیا جائے تو نہایت فائدہ مند ہے.لیکن اگر زیادہ استعمال کیا جائے تو پیشاب کی بعض امراض لاحق ہوجاتی ہیں.اب جہاں تک گنّے کا سوال ہے وہ بیماری پیدا نہیں کرتا.بیماری پیدا کرنے والی چیز گنّے کا حد سے زیادہ استعمال ہے.ورنہ شوگر انسانی جسم کےلئے نہایت ضروری چیزہے.گلوکوز کو ہی دیکھ لو یہ شوگر ہی ہے.لیکن ڈاکٹر جب مریضوں کو گلوکوز کاانجیکشن کرتے ہیں تو ان کی چھُوٹی ہوئی نبضیں بھی چل پڑتی ہیں.پہلے زمانہ میں لوگ ناواقفیت سے ذیابیطس کا علاج کرتے ہوئے شکر کو بالکل ختم کردیتے تھے حالانکہ ان کا باقی رہناضروری ہوتا تھا.نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ کئی لوگ جن کی شوگر بالکل ختم کردی جاتی تھی ان کاہارٹ فیل ہوجاتاتھا.آج کل بھی انسولین کا ٹیکہ کرتے وقت ڈاکٹروں کو یہ ہدایت ہوتی ہے کہ اگر مریض کے قلب پر اس کا اثر ہو تو فوراً
اسے گلوکوز کا ٹیکہ کردو.اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو مریض سنبھل جاتا ہے.پس جتنی بیماریاں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.اگر ان نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو کبھی بیماری پید انہ ہو.خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے لوہا پید اکیا ہے.جب تک اس کا صحیح استعمال کیا جائے یہ نہایت فائدہ مندچیز ہے اور ہر قسم کی مشینریاں اس سے تیا رہوتی ہیں جو انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں.لیکن جب ا س کا غلط استعمال کیا جائے تو یہی چیز نقصان دہ ہوجاتی ہے.مجھے اپنا بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ ہمارے مکانوں کی تعمیر کیلئے سیالکوٹ سے ترکھان آئے ہوئے تھے.میں ان کو کام کرتے دیکھتا.اور جب وہ تیشہ چلاتے تو میرے دل میں بھی شوق پیدا ہوتا کہ میں اس کو چلاکر دیکھوں.وہ تو روزی کمانے کے لئے کام کرتے تھے مگر میں سمجھتا تھا کہ ان کو اس فعل میں مزا آتا ہے اور میں اپنے دل میںکہتا تھا کہ میں کیوں نہ یہ مزا اٹھائوں.میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ تیشہ چلاکر دیکھو ں لیکن وہ مجھے ہاتھ نہ لگانے دیتے تھے اور کہتے تھے.زخمی ہو جائو گے.مگر میں ان کے منع کرنے سے سمجھتا تھا کہ وہ مجھے اس مزے سے محروم رکھنا چاہتے ہیں.آخر ایک دن میر ا دائو چل گیا وہ لوگ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گئے ہوئے تھے اور ان کے ہتھیار وہیں پڑے تھے.میں نے تیشہ اٹھایا اور چلانا شروع کردیا.مگر پہلی ہی چوٹ لگائی تھی کہ تیشہ میرے ہاتھ پر آلگا اور میں زخمی ہوگیا.چنانچہ اس زخم کا نشان اب تک موجو د ہے.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے تیشہ اس لئے نہیں بنایا تھا کہ انسان زخمی ہو مگر اس کے غلط استعمال نے میرے ہاتھ کو زخمی کردیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کے لئے ہیں.لیکن ان کے غلط استعمال سے اسے نقصان ہوتا ہے.مثلاًلڑائی میں دوسرے پر تلوار یا خنجر سے حملہ کیا جاتا ہے جس سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے لوہا اس لئے بنایا تھا کہ دوسرے کے سر پر مارا جائے.اگر اسی لوہے کو بجائے انسانوں پر استعمال کرنے کے اس سے چاقو اور چھریاں بنائی جائیں اور ان سے ترکاریاں وغیرہ کاٹنے کا کام لیا جائے یا اس کی کلہاڑیاں بنائی جائیں جن سے درخت کاٹے جائیں یا اس سے ہل چلانے والے اوزار بنائے جائیں اور اس کی مشینریاں تیار کی جائیں تو یہ ایک نہایت ہی مفید چیز ہے.لیکن اگر اسی لوہے کو دوسرے کے سر پر مارا جائے تو اس کا سر پھٹ جائے گا.پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا اچھا استعمال کیا جائے تو وہ نقصان پہنچائے.نقصان پہنچانے والی چیز ان نعمتوں کا برا استعمال ہوتا ہے نہ کہ خود وہ نعمتیں.مثلاً سانپ اور بچھو کا زہر نہایت خطرناک چیز ہے.مگر ہومیو پیتھک والوں نے کئی قسم کے امراض کے علاج میں اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور اسے نہایت مفید پایا ہے.جن مریضوں کے ناخن پھٹ جاتے ہیںان کو سانپ کا زہر
ہومیو پیتھک دوا کی صور ت میں دے دو تو فوراً آرام آجائے گا.اسی طرح سنکھیا ہے.اس کے کھانے سے لوگ مرتے بھی ہیں لیکن دیکھنا تو یہ چاہیے کہ اس کے کھانے سے کتنے لوگ مرتے ہیں اور کتنے زندہ ہوتے ہیں.اگر اندازہ لگایا جائے تو سال میں ہزار دو ہزار آدمی سنکھیا کھانے سے مرتے ہیں.لیکن جو لوگ اس سے شفا پاتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں تک ہے.پرانے ملیریا کے مریض پر جب کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو وہ سنکھیا کی قلیل مقدار سے ٹھیک ہوجاتا ہے.اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے امراض کےلئے یہ مفید ہے.اسی طرح کچلہ ہے.یہ بھی زہر ہے اس کے کھانے سے کئی لوگ مرجاتے ہیں.لیکن لاکھوںلاکھ انسان اس سے بچتے بھی ہیں.اسی طرح بہت بڑی تباہی والی چیز افیون ہے.لیکن اس کی تباہی کے مقابلہ میں اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اطباء کا قول ہے کہ طب کی آدھی دوائیں ایسی ہیں جن میں افیون استعمال ہوتی ہے اور اس کا اتنافائدہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے (اخبار الفضل قادیان ۱۹؍ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۲).جب انسان کو بےچینی اور بے کلی ہوتی ہے.جب انسان کی نیند اڑ جاتی ہے.جب انسان درد سے نڈھال ہوکر خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کو مارفیاکا ٹیکہ لگاتے ہیں.جس سے اسے فوراً آرام ہوجاتا ہے پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں نقصان دینے والی ہو.نقصان دینے والی چیز صر ف غلط استعمال ہے جو انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کو اپنی طرف اور شفا کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے مگر ہمارے ملک میں ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے جب کسی کام میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے.میں نے تو پورا زور لگا دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کردیا.گویا وہ خوبی کو اپنی طرف اور برائی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی بڑی بھاری ہتک ہے جو ہمارے ملک میں کی جاتی ہے حالانکہ سچے مومن کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب اس کے کام کا اچھا نتیجہ نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کردیا.او راگر خراب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھتا ہے.اور کہتا ہے میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہوں.ورنہ خدا تعالیٰ نے تو میرے لئے برکت اورر حمت ہی کے سامان کئے تھے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اسی کو ملتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح عیب اپنی طرف اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے.میرے اس بندہ نے چونکہ عیب اپنی طرف اور خوبی میری طرف منسوب کی ہے.اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے پوری طرح کامیاب کروں تاکہ تمام خوبیاں میری طرف ہی منسوب ہوں.لیکن جب وہ ایسا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کو تمام خرابیوںکا ذمہ وار قرار دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے.
پھر فرماتے ہیں وَ الَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِ میرا خدا وہ ہے جو مجھے مارے گا اور پھر مجھے زندہ کرےگا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات مُحْیِ اورمُمِیْت کا ذکر کیا گیا ہے.یعنی وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.اس کے زندہ کرنے کا ثبوت تو وہ ہزاروں لاکھوں بچے ہیں جو روزانہ دنیا میں پید اہوتے ہیں.اور ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں سے گزر کر بڑھتے ہیں کہ اگر کسی بالا ہستی کاتصرف نہ ہو تو ان کے بڑھنے کی کوئی صور ت ہی نہیں ہوسکتی.ایک جانور کا بچہ صر ف چند دن میں ہی اپنی ضرورتوںکوخود بخود پورا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے چڑیوںکے بچے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ میں اڑنے لگ جاتے ہیں.مرغیوں کے بچے تین چار ہفتہ میں اپنی ضرورتوں کو پور اکرنے لگ جاتے ہیں.چوپایوں کے بچے پیدا ہوتے ہی تھوڑی دیر میں اچھلنے کودنے لگ جاتے ہیں مگرانسان کا بچہ چھ سا ت مہینے بلکہ بعض دفعہ نو نو ماہ تک گودی میں اٹھائے رکھنے کے قابل ہوتا ہے.اور بعض اوقات تو سات آٹھ بلکہ نو مہینہ تک وہ گھٹنوں کے بل چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا.پھر اس کی غذا جس سے وہ پرورش پاسکتا ہے اُس کی ما ں کی چھاتیوں میں ہوتی ہے.کہیں دو تین سال میں جاکر وہ دانت نکالتا ہے.بیشک ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو چھ یا سات مہینہ میں ہی اپنے دانت نکال لیتے ہیں یا نکالنے شروع کردیتے ہیں مگر بالعموم ایسے دانت جن سے بچہ کسی قدر غذا حاصل کرسکتا ہے وہ ڈیڑھ دو بلکہ اڑھائی سال کے بعد مکمل ہوتے ہیں اتنے لمبے عرصہ تک اپنی جان کو جو کھوں میں ڈال کر ایک عورت جو اپنے بچہ کی خدمت کرتی ہے یہ بغیر اس کے کبھی ممکن ہی نہیں تھا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پرورش کا خیال اور بچہ کی محبت پیدا نہ کردی جاتی.یہ مت خیال کرو کہ صرف ماں ہونا ہی اس محبت کا موجب ہوسکتا ہے.کیونکہ ماں کے جذبات اس کے اپنے اختیار کی چیز نہیں اور اختیاری چیز ہی کسی انسان کی طرف منسوب کی جاسکتی ہے جو چیز کسی انسان کے اختیار کی نہیں وہ اُس کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے وہ تو لازماً کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرنی پڑے گی.اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہی ہے جس نے ماں کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کی اور اسے پیدائش اور پرورش کی تکالیف برداشت کرنے کی طاقت دی چنانچہ سالہا سال تک وہ اپنے بچوں کو پالتی رہتی ہے پہلے نو ماہ تو وہ اپنے بچہ کو پیٹ میں اٹھاتی ہے.پھر دو سال اسے گود میں اٹھاتی ہے.گویا اوسطاً اڑھائی سال تک ماں اپنے بچہ کی ہی ہورہتی ہے تب کہیں وہ پرورش پاتا ہے.مگر اس کے بعد وہ فارغ نہیں ہو جاتی بلکہ بالعموم اسی وقت ایک دوسرے بچہ کی آمد شروع ہو جاتی ہےاور اس طرح اپنی زندگی کا بہترین حصہ عورت اپنے بچوں کی پرورش میں لگا دیتی ہے.پس یہ جذبہ محبت جو ہر عورت کے دل میں اپنے بچوں کے متعلق پایا جاتاہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کیا گیا ہے.ورنہ اتنی
محنت کی برداشت انسانی عقل کے ماتحت نہیں ہوسکتی تھی.اگر خدا تعالیٰ یہ جذبات ماں کے دل میں پید انہ کرتا تو آہستہ آہستہ فلسفہ اور عقل کے ماتحت یا تو انسان اولاد پیدا کرنا ہی بند کردیتے اور یاپھر ان کی پرورش کی طرف سے اپنی توجہ کلیتہً ہٹالیتے.پھر خدا تعالیٰ کے مُمِیْت ہونے کا نظارہ بھی روزانہ نظر آتا ہے.بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں آدمی روزانہ مرتے ہیں.چنانچہ کسی سڑک پر چلے جائو.تمہیں جنازے گزرتے دکھائی دیںگے.چھوٹے قصبات میںبھی پانچویں دسویں کوئی نہ کوئی موت ہوتی رہتی ہے چھوٹے گائوں میں بھی سال میں دوتین موتیں ہوجاتی ہیں.پس موت کا یہ نظارہ بھی ہمیں کثرت سے دنیا میں نظر آتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی یہ دونوںصفات کہ وہ محیؔ بھی ہے اور ممیت ؔ بھی ہے اس رنگ میں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ کوئی ان کا انکار نہیںکر سکتا.حیات انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہے اور موت لوگوں کے لئے رنج کا موجب ہوتی ہے.دشمن کی بھی لاش پڑی ہوئی ہو تو سوائے کسی شقی القلب انسان کے دوسرے انسانوں کے دلوں میں رحم کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.بیس بیس تیس تیس سال کی دشمنیاں اس وقت دلوں سے نکل جاتی ہیں اور دشمن کی لاش دیکھ کر انسان کے دل میں سے اس وقت دعا ہی نکلتی ہے.یا اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کےلئے دل میں رحم اورہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ جودن اس پر آیا ہے وہ مجھ پر بھی آنے والا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو عالم الغیب ہے یہ دونوں مواقع نہ کلی طور پر خوشی کا موجب ہوتے ہیں اور نہ کلی طور پر غم کا موجب ہوتے ہیں.جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اور عزیز سمجھتے ہیں کہ ایک نیا چاند دنیا میں نکلا ہے ایک رحمت کا نیا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے حالانکہ بسا اوقات پیدا ہونے والی روح دنیا کے لئے کئی قسم کے مصائب اور دکھوں کا موجب ہوتی ہے.اس کے رشتہ دار تو اس کی پیدائش پر تو خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کی پیدائش سے غمگین ہو رہے ہوتے ہیں.غرض پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی کا.کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر زیادہ.لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کےلئے رونا ممکن ہوتو آنسو بہاتے یا دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں.اور کسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیںفرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں.یہی حال موت کا ہے.موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت رنج محسوس کرتے ہیں.ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی بچے خوش نہیں ہوتے کہ ہماراباپ
ڈاکو تھا.قاتل تھا.فتنہ وفساد پھیلاتا تھا.اچھا ہوا کہ وہ مرگیا بلکہ ان کی اسی طرح چیخیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے سےبڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کےلئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے سےبڑے مصلح کی وفات کو بلکہ شائد اس سے زیادہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دورِ حکومت میں امن قائم ہوا تھا.اور وہ طوائف الملوکی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو ان کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو او رمسلمان بھی عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہوجائیںگے.اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہو اتھا اور ہر شخص کے آنسو رواں تھے.جن کے زیادہ گہرے تعلقات تھے وہ چیخیں مار رہے تھے.فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے قریب سے گزرا اور اس نے جب دیکھا کہ ہر شخص ماتم کر رہا ہے تو اس نے کسی سے پوچھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے.جس کو دیکھو رو رہا ہے اس نے کہا.تمہیں پتہ نہیں.مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہوگئے ہیں.وہ بڑی حیرت کا اظہار کرکے کہنے لگا.اچھا! رنجیت سنگھ مرگیا ہے اور اس پر لوگ رورہے ہیں.پھر کہنے لگا.’’ باپو ہوراں جیہے مرگئے تے رنجیت سنگھ بچار اکس شماروچ‘‘.یعنی جب میرے باپ جیسا آدمی مرگیا تو رنجیت سنگھ بھلاکس شمار میں تھا.اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہوا تھا.مگر چونکہ اس چوہڑے کا جو تعلق اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا.اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی تھی.اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوئے ہیں.مثلاً ہلاکو خاں بڑا ظالم مشہور ہے.مگر جب ہلاکو خاں مرا ہوگا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کو دوسروں کی بیویوں اور بچوں سے کم صدمہ ہوا ہوگا.یقیناًانہیں ہلاکو خاں کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہوا ہوگا.جیسے نوشیروان عادل کی وفات پر اس کے بیوی بچوں کو ہوا تھا.حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خان ظلم کی وجہ سے مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوا ہوگا.بلکہ ممکن ہے ہلاکو خاں کے بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیرواں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوا ہو.مگر آسمان پر یہ بات نہیں جس طرح پیدائش پر دنیا میں سارے بندے خوش ہوتے ہیں گو کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیںاور کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیںمگر آسمان پریہ بات نہیں.وہاںکسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیاجاتا ہے اور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیاجاتا ہے.اسی طرح موت کا حال ہے.موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں گو کسی کی موت پر تھوڑے لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر
آسمان پر یہ بات نہیں.وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہارکیا جاتا اور کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.پھر یہ جذبہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طورپر تقسیم ہوجاتا ہے اور فرشتوںکا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب ہوجاتی ہے.یعنی فرشتے صر ف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور ان کارنج ملا جلا ہوتاہے.مثلاً جب کوئی بدقسمت اور گنہگار انسان مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہواہوتاہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی.اور وہ رنج بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولا کو راضی کرنے سے پہلے وہ شخص مرگیا.اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میںان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہو ا ہوتاہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منارہے ہوتے ہیں.موت کیا ہے؟موت اس دنیا سے اگلے جہان میں جانے کا ایک دروازہ ہے.جس طرح کوئی مصلح یا محسن انسان کسی شہر میں داخل ہوتاہے تووہاں کے رہنے والے خوشی مناتے ہیں.لیکن جب وہاں سے نکلتا ہے تو وہ رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر آگے جب کسی دوسرے شہر میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کے رہنے والے خوشی محسوس کرتے ہیں.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنیدہ لوگ جو اپنی نیکی اور تقویٰ اورمقامِ قرب میں ملائکہ سے بڑھ کر بلکہ ملائکہ کو سبق دینے والے ہوتے ہیں (جیساکہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے) وفات پاجاتے ہیں تودنیا کے لوگ تو ان کی وفات پر رنج کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پرغمگین ہوتے ہیں کہ وہ اپنا دور ختم کرکے اگلے جہان چلے گئے.مگر فرشتے اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ملک میں آگئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب مدینہ میںکہرام پڑا ہواتھا.جنت کے لوگوں میںکتنی خوشی منائی جارہی ہوگی.لوگ خدا اور اس کے فرشتوں کی زبان سے سنتے ہوںگے کہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ دنیا میں پیدا ہوچکا ہے اور وہ بہت بلند روحانی مقامات رکھتا ہے.ان باتوں کو سن سن کر جنتیوں کے دلوں میں کتنی خواہش پیدا ہوتی ہوگی اور وہ کس طرح اس بات کے تصور سے خوش ہوتے ہوںگے کہ کبھی یہ مبارک انسان ہم میں بھی آئے گا.پس جب فرشتوں نے آپ کی روح قبض کی ہوگی اور جب جنتیوں کو پتہ لگا ہو گا کہ اب ان کی سالہا سال کی امیدیں برآنے لگی ہیں تو انہوں نے کیسی خوشی ظاہر کی ہوگی.مگر بہرحال یہ آسمانی بات ہے زمین پریہی ہوتا ہے کہ موت پر رنج کا اظہار کیا جاتاہے جس طرح خدا تعالیٰ کی یہ دو صفات ہمیں دنیا میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں.اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے لئے ولادت کا موجب بنتے ہیں یا اس کی حیا ت کا موجب ہوتے رہتے ہیں مثلاً ماں باپ ہی ہیں وہ نئی نسلیں دنیامیں لاتے ہیں.ڈاکٹراور اطباء ہیں وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں.اسی طرح قومی خدمات
کرنے والے لوگ ہیں.جو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں.کہیں آگ لگ جائے تو بجھاتے ہیں.اسی طرح اور کئی واقعات اور حادثات جو رونما ہوتے رہتے ہیںان میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.یہ لوگ خدا کی صفت محیؔ کے مورد ہوتے ہیں.اوراس کا ایک نمونہ ہوتے ہیں.لیکن کئی لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہیاں اور بربادیاں اور ہلاکتیں لاتے رہیں.کہیں ان کی وجہ سے قتل ہورہے ہوتے ہیں.کہیں فساد ہورہے ہوتے ہیں.کہیں غارت گری کے واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں.یہ لوگ خدا تعالیٰ کی صفت ممیت ؔ کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کی ہر صفت کی نقل کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہو.خدا بیشک مُمِیْت ؔ ہے مگر یہ نہیںہوسکتا کہ ایک قاتل کسی کو بلاوجہ قتل کردے تووہ یہ کہے کہ میں نے چونکہ فلاں شخص کو قتل کرکے خدا تعالیٰ کی صفت ممیت ؔ کا اپنے آپ کو مظہر ثابت کیا ہے اس لئے میں بڑا مقرب ہوں.اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا کیونکہ بندے کو جن حالات میں ممیت ؔ بننے کا حق حاصل ہے ان حالات میں اگر وہ ممیت ؔ بنتاہے تب تو وہ بے شک خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے.لیکن اگر ان حالات میں ممیتؔ نہیں بنتا تووہ مقرب نہیں ہوسکتا.اسی طرح ولادت خدا تعالیٰ کی احیاء کی صفت ہے مگر ناجائز ولادت کا موجب خدا تعالیٰ کی صفتِ محیؔ سے نسبت دےکر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں کہہ سکتا.صرف وہی شخص خدا تعالیٰ کی صفت محیؔ یا ممیت ؔ کو پوراکرنے والا قرار پاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتا ئے ہوئے قوانین کے ماتحت ان صفات کا مظہر بنتاہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت محی بنتاہے تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا اس صفت میں مظہر بن سکتاہے.اسی طرح اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفت ممیت کا مظہر اس رنگ میں بنتاہے جو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہو.تو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوسکتا ہے ورنہ نہیں.چنانچہ دیکھ لو جس وقت جہاد ہوتاہے.دونوں فریق ایک ساکام کررہے ہوتے ہیں.وہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے اور یہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے.کافر مومن کومارتا ہے اور مومن کافر کو مارتاہے.پس بظاہر ان دونوں کا فعل یکساں ہوتاہے مگر جب کافر کی تلوار سے ایک مومن گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ جاتاہے اور فرشتے اس کافر پر لعنتیں ڈالتیں ہیں.لیکن جب کسی مومن کی تلوار سے ایک کافر گرتاہے تو فرشتے خوش ہوتے ہیں اور مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل کرتے ہیں.حالانکہ فعل ایک ہوتا ہے مقام ایک ہوتاہے اور ذریعہ قتل ایک ہوتاہے.مگر ایک کے فعل پر تو برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دوسرے کے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنتیں اور ملامتیں نازل ہوتی ہیں.پس اپنی ذات میں ممیت ؔ ہونا یا محیؔ ہونا کوئی اچھی یا بری بات نہیں.اگر محیؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتو اچھا ہوتاہے.اگر ممیت ؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتواچھا ہوتاہے لیکن اگرممیت ؔ یامحیؔ ہونا
خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہو تو یہی بات بری بن جاتی ہے.پس اسلام یہ سکھاتا ہےکہ اپنے کاموںکو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.اور اس بات سے عبرت حاصل کرو کہ دنیا میں لوگ محی ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں اور ممیت ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں.کئی ایسے ہیں جو احیاء ؔ کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں اور کئی ایسے ہیں جو اماتت کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں.لیکن مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ محی بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیاجاتا ہے اور ممیت بنتاہے تب بھی اس پررحم کیا جاتاہے.وہ قتل کرتا ہے تب بھی اسے ثواب ملتاہے اور پیدائش کا موجب بنتا ہے تب بھی اسے ثواب حاصل ہوتاہے.پس ایسے انسان بننے کی کوشش کرو تاکہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں تمہیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی ایجاد کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیںپریشان ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کا کوئی توڑ پیدا ہو تاکہ دنیا اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ ہوسکے.لیکن دوسری طرف اگر ہم غور کریں تو ہمیں نظرآتاہے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمیشہ ایٹم بم گراتا رہتاہے او رہرسال دنیامیں پچاس ساٹھ لاکھ انسان مرجاتے ہیں.بلکہ جب کبھی وبائیں پڑتی ہیں توا س سے بھی زیادہ انسان مرجاتے ہیں.اورکروڑ ڈیڑھ کروڑ تک یہ تعداد جاپہنچتی ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کے اس فعل سے دنیامیں کبھی گھبراہٹ پیدا نہیںہوئی.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جہاں اپنے ایٹم بم (یعنی طبعی موت)سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کومارتاہے وہاں اتنی ہی تعداد کو پیدا بھی کردیتاہے.اور اس کے پاس اگر مارنے کی طاقت ہے تو زندہ کرنے کی طاقت بھی موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ باوجو دلاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے سالانہ مرنے کے لوگوں میںگھبراہٹ کے آثار پیدا نہیںہوتے.وہ جانتے ہیںکہ ہمارا خدا مُحْیٖ بھی ہے اور ممیت بھی ہے.وہ مارنابھی جانتاہے او ر پیدا کرنابھی جاتناہے.مگر ا ب ایٹم بم یااسی قسم کی اور ایجادات کے ذریعہ موت ایسے لوگوں کے قبضہ میںآئی ہے جو صرف مارناہی جانتے ہیں جلانانہیں جانتے.اسی لئے لوگ ایسی چیزوں سے گھبرا اٹھتے ہیں.ورنہ دنیامیں لو گ یوں بھی تو مرتے رہتے ہیں لیکن کسی کو گھبراہٹ نہیںہوتی.کسی عزیز رشتہ دار کے مرنے پر اس کے لواحقین دوچار روزتک رو دھوکرچپ ہوجاتے ہیں اور تھوڑا عرصہ ہی گذرتاہے کہ اسی گھر میں جہاں سے تھوڑا عرصہ پہلے ماتم اور چیخ و پکار کی آوازیں آتی تھیں ڈھول اور باجے بج رہے ہوتے ہیں او ر کسی خوشی کی تقریب کاانتظام ہورہاہوتاہے.غرض عزیز سے عزیز وجود کے مرنے پربھی اس کے متعلقین میںجو گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے جو تھوڑے دنوں تک بالکل مفقود ہوجاتی ہے.مگر
دیکھ لو ایٹم بم سے دنیا کتنی گھبرائی ہوئی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کے ساتھ موت تو واقع ہوسکتی ہے مگر پیدائش کا کوئی انتظام نہیں.اگر اس کیساتھ پیدائش کا بھی انتظام ہوتا تو اتنی گھبراہٹ کبھی نہ ہوسکتی.ہندوئوں میں ایک فرقہ ہے جس میں شامل ہونے والے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہماؔ جی پیدا کرتے ہیں اورشِوجی ؔ مارتے ہیں.کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں برہماجیؔ کے مندر نہیں ہیں اور شِوجیؔ کے بہت سے مندر ہیں.برہماجیؔ کا سارے ہندوستان میں صرف ایک مندر ہے.کہتے ہیں اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے ایک راجہ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی.اس راجہ نے اپنے وزراء سے مشورہ کیا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی کیا کرنا چاہیے.وزراء نے مشورہ دیا کہ آپ برہما کی پرستش کریں لڑکا پیدا ہوگا.راجہ نے پرستش شروع کردی اور ساتھ ہی نذر نیاز بھی مانی اور کہا اے برہما! اگر میرے گھر میں بیٹا ہوا تو میں اپنے راج میں سب لوگوں سے صرف تیری ہی پرستش کروائوں گا اور شِوجیؔ کی پرستش چھڑادوںگا.تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہوا.اور اس نے شِوجی ؔ کی پرستش سے تمام رعایا کو منع کردیا اور برہما ؔ جی کی پرستش شروع کرادی.کوئی عقلمند راجہ اسے آکر ملا اور اس نے کہا کہ تمہارا جتنا کام برہماؔ جی کے ساتھ تھا وہ تو پورا ہوگیا اوربیٹا پیدا ہوگیا.اس لئے بہتر ہے کہ اب شوجیؔ مہاراج کی پوجا کی جائے تاکہ وہ غصہ میں آکر لڑکے کی جان نہ نکال لے.راجہ نے اس بات کو سمجھ لیا اور کہا اچھا آئندہ شوجیؔ کی پرستش کی جایا کرے تاکہ میرا لڑکا زندہ رہے.چنانچہ شوجیؔ کی پوجا شروع ہوگئی اور برہماؔ جی کو بھلا دیا گیا.لڑکا جب بڑا ہوا تو اس نے کسی کی زبانی یہ سارا واقعہ سنا کہ مجھے برہماجیؔ مہاراج نے پیدا کیا تھا اور اب میرے والد نے برہماجیؔ کو چھوڑ کر شوجیؔ کی پوجا شروع کردی ہے.اس لڑکے کے اندر اخلاقی جرأت تھی.اس نے سوچا کہ احسان کرنے والے کے احسان کی قدر ہونی چاہیے تھی.اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ میں تو برہماجیؔ کی ہی پوجا کروںگا.جب راجہ نے اپنے بیٹے کا یہ رویہ دیکھا تو اس کو فکر ہوا کہ اگر میرے لڑکے نے برہما جی کی پوجا کی توشوجی ناراض ہوجائیں گے اور اس کی جان نکال لیں گے.چنانچہ راجہ نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا کہ برہماجیؔ کی پوجا چھوڑ دو.لڑکے نے کہا.میں برہماجیؔ کا احسان فراموش نہیں ہوسکتا.کچھ مدت باپ بیٹے کا اسی طرح جھگڑا چلتا رہا.جب کسی کے دل میں ضد پیدا ہوجاتی ہے تو وہ روکنے سے اور بھی بڑھتی ہے.بیٹے کے دل میں بھی ضد بڑھتی گئی اور باپ کے دل میں بھی بڑھتی گئی.آخر باپ نے ناراض ہوکر کہا.اے شوجی! اس کی جان نکال لے.شوجیؔ نے لڑکے کی جان نکال لی.اس پر برہماجیؔ شوجی ؔ پر سخت ناراض ہوئے اور کہا اس کی جان کیوں نکالی گئی ہے.اورانہوں نے پھر اس کو زندہ کردیا مگر شوجی نے دوبارہ اس کی جان نکال لی اور برہماجی نے پھر اس کو زندہ کردیا.اس طرح دیوتائوں میںلڑائی شروع ہوگئی.یہ تو ہندئوں کاعقیدہ ہے.
مگر درحقیقت با ت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اندر دو طاقتیں ہیں.ایک طاقت مارتی ہے اور دوسری پیداکرتی ہے.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کومارنے کی طاقت تو دے دی ہے مگر پیداکرنے کی طاقت نہیں دی.یہی وجہ ہے کہ دنیاگھبرااٹھی ہے اورجن ممالک کے پاس ایٹم بم نہیںہیںوہ ہروقت سہمے ہوئے اور خوفزدہ رہتے ہیںاور دنیاکے کونے کونے سے آوازیںآتی رہتی ہیںکہ ایٹم بم کولڑائی میںاستعمال نہ کیاجائے مگر میںسمجھتاہوں کہ ایٹم بم دنیاکو توجہ دلاتاہے کہ انسانوںکے ہاتھ میںآئی ہوئی طاقت کس قدر تباہ کن اور ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے اور انسان اس طاقت کو کس طرح بے موقع او ر بے محل استعمال کرکے ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کوتباہ و برباد کردیتاہے اور پھر اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بھی کوشش کرتاہے کہ کسی طرح اس کواور بھی زیادہ مہلک بنائوں تاکہ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر تباہی مچاسکے اور زیادہ سے زیادہ انسانوں کو تھوڑ ے سے تھوڑے وقت میںموت کے گھاٹ اتاراجاسکے.حالانکہ یہی چیز اگر جائزطریق سے برمحل اور باموقعہ استعمال کی جائے تو بنی نوع انسا ن کے لئے حددرجہ مفید ہوسکتی ہے.بہرحال اس گھبراہٹ کاعلاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس خدا کی طرف رجوع کیاجائے جومارنابھی جانتاہے اورجِلانابھی جانتاہے.اس کے پاس یہ دونوں طاقتیں موجود ہیں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے کہ ہمار ا خدامحیی بھی ہے اور ممیت بھی ہے.پس اسی کے ساتھ تعلق رکھناچاہیے جولاکھوں کومارتاہے مگر کسی کے دل میںگھبراہٹ پیدا نہیںہوتی.کسی گھر میںایک آدمی مرجاتاہے تو اس کے لواحقین دوچار دن تک اس پر رو دھو کرخاموش ہوجاتے ہیں.مگر تھوڑے دن نہیں گذرتے کہ اسی گھر میںکوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو مبارک مبارک کے الفاظ کہے جارہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ خداکے اختیا ر میں ہے.اس لئے ہمیں بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے.اور اسی پر بھروسہ رکھناچاہیے.انسان کی طاقتیں صرف سطحی ہوتی ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کامنشاء اس دنیاکوقائم رکھنے کاہے.اس وقت تک ایٹم بم کچھ نہیںکرسکتا.بلکہ خداان سب مارنے والوں کوبھی مارسکتاہے اور ایسے سامان بھی پیداکرسکتاہے جن سے یہ ایٹم بم سب بے کار ہوکررہ جائیں.پس انسان کو ان تمام باتوں سے بے نیاز ہوکرروحانیت کی طرف متوجہ ہوناچاہیے اورصرف خدا تعالیٰ کی پرستش کرنی چاہیے.جوممیت تو ہے مگر ساتھ ہی محیی بھی ہے یعنی گووہ مارتابھی ہے مگر پھر وہ زندہ بھی کرے گا.اوراس طرح موت کے بعد بھی اس کی طر ف سے خیر ہی خیر آئے گی.موت کا ایک عارضی زمانہ ہوگااور آخر میں انسان کے لئے صرف حیات ہی حیات رہ جائے گی.پھرفرماتے ہیں وَ الَّذِيْۤ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ میرا رب وہ ہے جس کے متعلق مجھے امید ہے کہ وہ نتائج کے ظہور کے وقت میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنافضل میرے شاملِ حال رکھےگا اور مجھے
کامیابی اور کامرانی عطافرمائے گا.اس آیت میں جوغفر کالفظ استعمال کیاگیاہے اس کے معنے صرف گناہوں کی معافی کے نہیں بلکہ کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے بھی ہیں.چنانچہ عربی زبان میں جب غَفَرَ الشَّیْءَ غَفْرًا کہیںتو اس کے معنے ہوتے ہیں.سَتَرَہکسی چیز کو ڈھانپ دیا.اور جب غَفَرَ الْمَتَاعَ فِیْ الْوِعَائِ کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیںاَدْخَلَہٗ وَسَتَرَہٗ سامان کو کسی ٹرنک یاتھیلے میں بندکرکے محفوظ کردیا.اور جب کسی کے متعلق غَفَرَاللّٰہُ ذَنْبَہٗ کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے ہوتے ہیںغَطَّی عَلَیْہِ وَعَفَاعَنْہ.خدا تعالیٰ نے اس کے قصو ر کوڈھانپ دیااور اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا(اقرب )اسی طرح خَطِیْئَۃٌ کالفظ إِثْمٌ کے مقابلہ میںاپنے اندر عمومیت رکھتاہے یعنی إِثْمٌ کالفظ توصرف ایسے قصور کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو عمداً اور اراداۃً کیا جائے لیکن خطیئۃ کا لفظ ان بشری کمزوریوں کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے جن میںارادہ کاکوئی دخل نہیں ہوتا.اسی طرح یَوْمٌ کالفظ صرف دن کے معنوںمیںاستعمال نہیں ہوتا بلکہ وقت اور زمانہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے.چنانچہ قرآ ن کریم میں بعض جگہ یومٌ کالفظ ایک ہزار سال(سورۃ السجدۃ ع ۱) کے لئےاور بعض جگہ پچاس ہزار سال(سورۃ المعارج ع ۱) کے لئے استعمال کیاگیاہے محاورئہ عرب میںبھی یَوْمٌ زمانہ اور وقت کے معنوں میںاستعمال ہوتاہے چنانچہ ایک شاعر کہتاہے ؎ یَوْمَاہٗ یَوْمُ نَدًی وَ یَوْمُ طِعَانٖ (لسان العرب و تاج العروس) یعنی اس شخص کے دو ہی یوم ہیں.ایک سخاوت کرنے کایوم اور ایک نیزہ مارنے کایوم.اس جگہ یوم وقت کے معنوں میںاستعمال کیاگیاہے اور شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس کی زندگی کے کام صرف دو حصوں میں تقسیم ہیں.اس کاکچھ وقت تو سخاو ت کے کاموں میں خرچ ہوتاہے اور کچھ وقت لڑائی میںبسر ہوتاہے.اسی طرح ایک حدیث میں آتاہے کہ تِلْکَ اَ یَّامُ الْھَرْجِ (ابو داؤد کتاب الفتن والملاحم باب النھی عن السعی فی الفتنۃ)یہ فتنہ کے ایام ہیں اور مراد یہ ہے کہ یہ فتنہ کے اوقات ہیں.اس جگہ بھی یوم وقت اور زمانہ کے معنوں میں استعمال ہواہے.باقی رہادین کالفظ سو اس کے بھی عربی زبان میں کئی معانی ہیں.دین کالفظ اطاعت کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے.جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے.قضا اورفیصلہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے.ملّت کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے.حساب کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے.
غلبہ اور تفوق کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.حکومت اور بادشاہت کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.تدبیرکے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.عادت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.طریق عبادت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے.پرہیزگاری کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.حال کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.بلند شان کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.سیرۃ کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے.(اقرب و لسان)پس یَوْمُ الدِّیْنِ کے معنی صرف قیامت کے نہیں کہ اس دعاکو آخری جزاء سزا کے دن کے لئے مخصوص سمجھاجائے بلکہ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکاہے دین کے ایک معنے جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے بھی ہوتے ہیں.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے رب پر امید ہے کہ جب میرے اعمال کانتیجہ نکلے گاتو وہ میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنی رحمت میرے شامل حال رکھےگا.اورمجھے اپنے مقصدمیں کامیابی عطافرمائے گا.وہ لوگ جو روحانیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں یہ خیال کرلیتے ہیں کہ انسان اسی صور ت میں مغفرت کا طلبگار ہوتاہے جب کہ وہ گناہ آلود زندگی بسر کررہا ہو.مگر یہ خیال ان کی عربی زبان سے کلی ناواقفیت اور روحانی کوچہ سے قطعی طور پر نا آشنا ہونے کا ثبوت ہے حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ خدا اسے اپنے نور سے حصہ عطا فرمائے.اسے اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے جس طرح انسانی آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر بیکار ہے اور انسانی کان ہوا کے توسط کے بغیر دوسرے کی آواز سننے کی طاقت نہیں رکھتے.اسی طرح ہر انسان خواہ وہ خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو خدائی طاقت اور اس کی مدد کا محتاج ہوتا ہے.اسی لئے اسلام نے سکھایا ہے کہ ہر انسان پانچ وقت نماز کی ہر رکعت میں خدا تعالیٰ سے یہ کہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی اے خدا !ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں مگر یہ کام ایسا ہے جس میںصرف ہماری کوشش اور ارادہ ہمیں کامیاب نہیں کرسکتا بلکہ اس میں کامیابی صر ف اسی صور ت میں ممکن ہے جب ہماری کوشش کے ساتھ تیری مد د بھی شامل ہوجائے.جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی.تب کوئی نتیجہ پیدا ہوگا ورنہ محض ہماری کوشش کوئی نتیجہ پیدا نہیںکرسکتی.انہی معنوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی طاقت کے مطابق تو خدا تعالیٰ کی توحید پھیلانے کے لئے رات اور دن جدوجہد کررہاہوںمگر میری یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے میں اسی سے مدد کا طلب گارہوں.اورمیں امید رکھتا ہوں کہ جب ان کوششوں کے نتائج کا ظہور ہوگا تو اس وقت اللہ تعالیٰ میری حقیر کوششو ں میں برکت پیدا فرمائے گا اور اگر کوئی خامی بشریت کی وجہ سے میرے کاموں میںرہ بھی گئی تو اس کمی کو اللہ تعالیٰ کا فضل پورا فرما دے گا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے گا.
پھر جیساکہ اوپر بتایا جاچکا ہے دین کے ایک معنے غلبہ کے بھی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے وَ الَّذِيْۤ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِکے یہ معنے ہوں گے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ روحانیہ کی ترقی کے زمانہ میں بھی جس کی ترویج میرے ہاتھ سے ہو رہی ہے میر ی بشری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے سامان پیدا فرمائے گا کہ جن کے نتیجہ میںتبلیغ اور تربیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے دین کی کشتی ہر قسم کے حوادث کے تھپیڑوں سے بچتی ہوئی ساحلِ مراد پر کامیابی سے پہنچ جائے گی.حقیقت یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کا غلبہ جہاں اپنے اندر بڑی بھاری بشارت رکھتاہے.وہاں یہ غلبہ اپنے اندر ایک انذارکا پہلو بھی لئے ہوئے ہوتاہے کیونکہ اس وقت ہزاروں ہزار لوگ سلسلہ روحانیہ میں شامل ہوجاتے ہیں.اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کےلئے کسی قسم کی تکلیف برداشت نہیں کی ہوتی اور پھر وہ مذہبی تعلیم سے بھی بہت حد تک ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ان کے اندر کئی قسم کے بگاڑ پید اجاتے ہیں.وہ منہ سے تو بے شک ہر قسم کے عقائد کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کا عمل اپنے دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتا اوروہ دین میں داخل ہوتے ہوئے بھی دین کی عائد کردہ پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں.اور اس طرح قومی تنزل کا بیج پرورش پانے لگتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی معرفت کی آنکھ سے اس بیج کو دیکھا اور انہوں نے اس کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی شروع کردیں اورساتھ ہی اس امید کا بھی اظہار کیا کہ میرا رب میراساتھ دےگا.اور وہ میر ی اس بشری کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ کوئی ایک انسان ہزاروں لوگوں کی تربیت نہیں کرسکتا اپنے فضل سے خود ہی ایسے سامان پیدا فرمادے گا کہ جن کے نتیجہ میں آنے والوں کی تربیت ہوتی رہے اور وہ اخلاص اور فدائیت کی روح کےساتھ اس کے دین کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں.رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَۙ۰۰۸۴وَ اجْعَلْ اے میرے رب! مجھے صحیح تعلیم عطا کر.اور نیکوں میں شامل کر.اور بعد میں آنے والے لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَۙ۰۰۸۵وَ اجْعَلْنِيْ مِنْ وَّرَثَةِ لوگوں میں ایک ہمیشہ قائم رہنے والی تعریف مجھے بخش.اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.
جَنَّةِ النَّعِيْمِۙ۰۰۸۶وَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَۙ۰۰۸۷ اور میرے باپ کو معاف کردے وہ بھٹک جانے والوں میںسے تھا.اورجس دن لوگ زندہ وَ لَا تُخْزِنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَۙ۰۰۸۸يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا کرکے اٹھائے جائیں مجھے اس دن رسو انہ کیجیئو.جس دن کہ نہ مال نفع دے گا نہ بیٹے (نفع دیں گے ).ہاں بَنُوْنَۙ۰۰۸۹اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍؕ۰۰۹۰ (وہی نفع پائے گا ) جواللہ (تعالیٰ) کے پاس ایک تندرست دل لے کرآئے گا.حلّ لُغَات.اَلْحُکْمُ: اَلْحُکْمُ بِالشَّیْءِ کے معنے ہیں اَنْ تَقْضِیَ بِاَنَّہٗ کَذَا اَوْلَیْسَ بِکَذَا سَوَاءً اَلْزَمْتَ ذٰلِکَ غَیْرَکَ اَوْلَمْ تُلْزِمْہُ یعنی کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ اس کی صحیح صور ت کیا ہے.خواہ وہ بات دوسروں پر واجب کی جائے یا نہ کی جائے.وَالْحُکْمُ اَعَمُّ مِنَ الْحِکْمَۃِ فَکُلُّ حِکْمَۃٍ حُکْمٌ.یعنی عربی زبان میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیںایک حُکْم ہے اور دوسرا اَلْحِکْمَۃُ ہے اور حُکْمُ کالفظ عام ہے اس لئے اس کے ماتحت حکمت کے سارے معنے آجاتے ہیں (مفردات) اَلْحِکْمَۃُکے معنے ہیں اِصَابَۃُ الْحَقِّ بِالْعِلْمِ وَ الْعَقْلِ یعنی درست بات کوعلم اور عقل سے معلوم کرلینااو ر پالینا (مفردات) اقرب الموارد میںہے.اَلْحِکْمَۃُ.اَلْعَدْلُ وَ الْعِلْمُ وَالْحِلْمُ وَالنُّبُوَّۃُ.یعنی حکمت کے معنے انصاف.علم.بردباری اور نبوت کے ہیں.اسی طرح اس کے معنے ہیں مَایَمْنَعُ مِنَ الْجَھْلِ ہر وہ بات جوجہالت سے روکے.وَقِیْلَ کُلُّ کَلاَمٍ مُوَافِقِ الْحَقِّ ہر وہ بات جو حق کے مطابق ہو اس کوبھی حکمت کہتے ہیں.وَقِیْلَ وَضْعُ الشَّیءِ فِیْ مَوْضِعِہِ وَصَوَابُ الْاَمَرِوَسِدَادُہُ.اوربعض ماہرین لغت کہتے ہیںکہ کسی چیزکابرمحل استعمال حکمت کہلاتا ہے.(اقرب) لِسَانَ صِدْقٍ:لِسَانَ صِدْقٍمفردات میں ہے کہ یُعَبَّرُعَنْ کُلِّ فعْلٍ فَاضِلٍ ظَاھِرًا وَبَاطِنًا بِالصِّدْقِ ہروہ امرجوظاہری اور باطنی لحاظ سے اعلیٰ درجہ کاہواس کے ساتھ صدق کالفظ استعمال کیا جاتا ہے.اور یہ جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعاآتی ہے کہ وَاجْعَلْ لِّی لِسَانَ صِدْقٍ اس سے یہ مراد ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ایسابنائے کہ آنے
والی نسلیں جوہمارا ذکرخیر کریں تو وہ درست ہو اور خلاف واقعہ نہ ہو (مفردات)اقرب الموارد میں ہے کہ لِسَانُ الصِّدْقِ اچھے ذکر کو کہتے ہیں.سَلِیْمٌ.سَلِیْمٌ السَّلَامَۃُ کے معنی ہیں اَلتَعَرِّیْ مِنَ الاٰفَاتِ الظَّاھِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ.ظاہری اور باطنی ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہونا(مفردات)پس قلب ٍسلیم کے معنے ہوںگے.ایسا دل جو ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہو.تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ اللہ تعالیٰ پر ایک بہت بڑی امید کااظہار کیاتھا.اس لئے آپ نے سمجھا کہ اب میرا فرض ہے کہ میں خود بھی اس کے آستانہ پر جھک جائوں اور اس سے دعا کروں کہ وہ میری اس خواہش کی تکمیل کے سامان پیدافرمائے اور مجھے ایسی توفیق بخشے کہ میں اس کے پیغام کو احسن طریق پر لوگوں کو پہنچاتا چلا جائوں.چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی کہ اے میرے رب !مجھے حکم عطافرمااور مجھے نیک اور پاک لوگوں میں شامل کردے.حُکم کے اصل معنے جیسا کہ امام راغب ؒ نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں لکھا ہے اصلاح کی خاطر کسی کام سے روکنے کے ہوتے ہیں.اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حَکَمَةٌ کہتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعہ جانور کو روکا جاتا ہے.اور اَلْحُکْمُ بِالشَّیْ ءِکے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کس طرح سر انجام دیا جائے خواہ وہ بات دوسروں پر واجب کی جائے یا نہ کی جائے.لیکن اس کے ساتھ ہی حکم کا لفظ صرف کسی فیصلہ پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اس بات پر بھی دلالت کیا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی معقول وجہ کام کر رہی ہے.چنانچہ اسی سے حکمت کا لفظ نکلا ہے جس کے معنے فلسفہ کے ہیں.پس حکم کا لفظ صرف زور اور طاقت کے ساتھ کوئی بات منوانے کے لئے نہیں آتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اہم مقصد کام کر رہا ہے اور اس پر عمل کر نے میں خو د انسان کا اپنا فائدہ ہے بلا سوچے سمجھے محض اپنی حکومت جتانے کے لئے کوئی حکم نہیں دیا گیا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت کا اہم مقصد خدا تعالیٰ کی وحید پھیلانا ہے.اور اس مقصد کے حصول میں اسی صورت میں کامیابی ہو سکتی تھی.جبکہ آپ کی ہر بات حکمت کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اور وہ دلوں کی گہرائیوں میں اتر جانے والی ہو.اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے الٰہی ! تو مجھے ایسی تعلیم عطا فرما جس کی کوئی بات حکمت کے خلاف نہ ہو تاکہ لوگ اس کو بشاشت قلب کے ساتھ قبول کریں اور اشاعت ہدایت کے راستے کھلتے چلے جائیں.مفسرین میں سے بعض نے اس جگہ حکم سے نبوت اور رسالت مراد لی ہے.بعض نے کہا ہے کہ اس جگہ حکم سے علم و فہم مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کی معرفت مراد ہے اور بعض نے کہا
ہے کہ اس جگہ حکم سے مراد لوگوں کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کر نے کی طاقت ہے.یہ تمام توجیہات صرف اس وجہ سے کی گئی ہیں کہ مفسرین نے سیاق کلام کو مدنظر نہیں رکھا اور جو کچھ کسی کے ذہن میں آیا و ہ اس نے معنے کر دیئے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں حکم کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے.بعض جگہ حکم کا لفظ حکومت اور غلبہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ (الجاثیۃ:۱۷)ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت بخشی تھی.اسی طرح فرماتا ہے.مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ (آل عمران:۸۰).کسی انسان کے یہ شایان شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ یہ کہنے لگ جائے کہ تم خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ.بعض جگہ حکم کا لفظ فیصلہ کرنے کی فراست کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ.وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا(یوسف:۲۳).جب وہ اپنی قوت اور مضبوطی کی عمر کو پہنچا تو ہم نے اسے فیصلہ کرنے کی فراست بخشی اور اپنے پاس سے علم عطا فرمایا.بعض جگہ حکم کا لفظ صرف فیصلہ کے معنوں میں بھی استعمال ہواہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ(مائدۃ:۵۱)کیا یہ لوگ کلام الٰہی کے نازل ہونے سے پہلے کے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں ؟یا فرماتا ہے اَلَا لَهُ الْحُكْمُ١۫ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ(انعام:۶۳)اچھی طرح سن لو کہ فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے اور وہ حساب لینے والوں میں سے سب سے جلدی حساب لینے والا ہے.بعض جگہ حکم کا لفظ احکام الٰہیہ اور تعلیم مذہبی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ كَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ (مائدۃ:۴۴)وہ لوگ تجھے کس طرح حَکم بنا سکتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جو خود ان کے نزدیک احکام الٰہی اور مذہبی تعلیم پر مشتمل ہے.بعض جگہ حُکم کا لفظ عہدہ نبوت کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ(شعراء:۲۲)اللہ تعالیٰ نے مجھے حُکم یعنی عہدہ نبوت عطا فرمایا.اور مجھے رسولوں میں سے ایک رسول بنا دیا.غرض حُکم کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے.اس جگہ سیاق کلام بتا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل اور دماغ پر یہ بات حاوی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے وہ
بخیر و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچے اور کوئی ایسی خرابی نہ پیدا ہو جو اس روحانی عمارت کو متزلزل کرنےو الی ہو جس کی بنیادوں کو استوار کرنے لئے مجھے کھڑا کیا گیا ہے.اور چونکہ یہ کام الٰہی مدد کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا اس لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی کہ الٰہی تو خود مجھے غلبہ عطا فرما.تو خود مجھے دینی معاملات میں صحیح فیصلہ کرنے کی فراست عطا فرما اور خود مجھے ان احکام کے نفاذ کی طاقت بخش جن کو قبول کرنے کے لئے فطرت صحیحہ خود بخود دوڑتی چلی آئے.گویا تیرے احکام کو لوگ قبول تو کریں مگر ڈنڈے کے زور سے نہیں بلکہ اس لئے کہ خود ان کی عقل اور ان کی فطرت ان احکام کی عظمت اور برتری کو تسلیم کرتی ہو.وَ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَاور اے میرے رب! مجھے نیک اور پاک لوگوں میں شامل فرما.اس دعا میں یہ بات غور کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی کے منہ سے جس کی نجات اور جس کا قرب یقینی ہے یہ دعا جاری ہوئی ہے اگر تو کسی ایسے شخص کی زبان پر یہ دعا جاری ہو تی جس کی نجات اور جس کا قرب غیر یقینی ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ اس نے یہ دعا اپنی نجات اور اپنے قرب کے لئے مانگی ہے کیونکہ اس کی نجات یا قرب یقینی نہیں تھا مگر انبیاء کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی نجات غیر یقینی ہے.اگر انبیاء کی نجات یقینی نہ ہواور اگر انبیاء کا قرب یقینی نہ ہو تو پھر دنیا میں کسی کی نجات اور کسی کا قرب بھی یقینی نہیں ہو سکتا.بلکہ اللہ تعالیٰ کے مامور اور اس کے مرسل تو وہ لوگ ہیں جو اپنے دعویٰ سے پہلے ہی نجات یافتہ ہوتے ہیں.اگر وہ نجات یافتہ نہ ہوں تو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے وہ کس طرح کھڑے ہو سکتے ہیں.ان کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی نجات کے لئے کھڑا ہو نا بتاتا ہے کہ وہ پہلے ہی نجات یافتہ ہوتے ہیں.اور جب انبیاء کی یہ حالت ہوتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے تو سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو دنیا کا راہنما بنا کر بھیجا گیا جس کے متعلق لوگوں کو یہ کہا گیا کہ اگر تم نجات حاصل کر نا چاہتے ہو تو اس کی اقتداء کرو.اس نے یہ دعا کیوں کی کہ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ مجھےصالحین کے ساتھ شامل کیجیو.کیا اس دعا کے یہ معنے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ صالحین میں سے نہیں تھے یا اس کا کوئی اور مفہوم ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ بعض دفعہ لفظ تو ایک ہی ہوتا ہے مگرمواقع اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے دوسری جگہ اس کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے اس کی موٹی مثال یوں سمجھ لو کہ عام طور پر جس قدو قامت کو میانہ قرار دیا جاتا ہے بعض ممالک میں اس کو چھوٹا یا لمبا سمجھا جاتا ہے.مثلاً ناروے کے لوگ انگلستان اور دوسرے کئی ممالک کے باشندوں سے بہت لمبے ہوتے ہیں.ایک دفعہ ناروے کی دو پادری عورتیں سیر و سیاحت کی غرض سے ہندوستان میں آئیں تو وہ دونوں اتنی لمبی تھیں کہ عام آدمیوں سے وہ ڈیڑھ دیڑھ بالشت اونچی تھیں.اب یہ تو نہیں تھا کہ ناروے والوں نے سارے ملک میں سے چھانٹ کر انہی دو عورتوں کو بھیجا تھا تاکہ ان کی قد کی لمبائی کا دوسروں پر اثر
ہو.بلکہ ناروے کی ساری آبادی ہی لمبے قد والی ہے پس لمبائی کا معیار ناروے میں جاکر بالکل بدل جائے گا.مثلاً ایک شخص جس کا قد پانچ فٹ چھ انچ ہو و ہ ہمارے ہاں میانہ قد والا کہلائے گا لیکن نیپا ل کے علاقہ میں وہ لمبا کہلائے گا اور ناروے میں جاکر وہ ٹھگنا کہلائے گا.اسی طرح رنگ کو لے لو.ہمارے ہاں جس آدمی کا رنگ ذرا سا بھی اجلا ہو اس کو گورا کہنے لگ جاتے ہیں مگر انگلستان والے اس کو کالا کہیں گے.اور پھر وہی شخص جب حبشیوں میں جائے گا تو اس کو سفید کہا جائے گا.بلکہ حبشیوں میں تو جس شخص کو ہم سانولے رنگ والا کہتے ہیں اسے بھی سفید رنگ والا کہا جاتا ہے.ہمارے سابق مبلغ افریقہ مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کا رنگ سفید نہیں تھا بلکہ گندم گو ںتھا.مگر جب وہ افریقہ گئےتو وہاں ان کو حبشی لوگ سفید رنگ والا کہتے تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں بزرگوں کی یہ پیشگوئیاں موجود ہیں کہ جب ہمارے ملک میں سفید رنگ والا مبلغ آئے گا تو بہت زیادہ ترقی ہو گی.پس جس طرح رنگ اور قد کے معنے مختلف علاقوں میں بدلتے رہتے ہیں اسی طرح صالح کے معنے بھی مختلف حالات میں بدل جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًا(نساء:۷۰)میں صالحیت کو سب سے ادنیٰ مقام قرار دیا ہے اور دوسری طرف حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کے متعلق فرماتا ہے کہ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ (تحریم:۱۱)وہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے نکاح میں تھیں.حالانکہ نوح ؑاور لوط ؑ دونوں نبی تھے.اسی طرح حضرت اسحاق ؑاور حضرت یعقوبؑ کے متعلق فرماتا ہے وَّ کُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِیْنَ (انبیاء:۷۳) ہم نے ان سب کو صالح بنایا.حالانکہ حضرت اسحاق ؑاور حضرت یعقوبؑ بھی نبی تھے.پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (آل عمران:۴۰) وہ صالحین میں سے نبوت کا مقام حاصل کرے گا.اسی طرح حضرت مسیح کے متعلق آتا ہے کہ یُکَلِّمُ النَّاسِ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا وَّ مِنَ الصَّلِحِیْنَ (آل عمران :۴۷) وہ چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلا م کرے گا اور بڑی عمر میں بھی اور صالحین میں سے ہوگا.حالانکہ حضرت مسیح ناصری ؑخدا تعالیٰ کے نبی تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صالح کے لفظ کا استعمال مختلف معانی رکھتا ہے جب ایک عام فرد یہ دعا کرے گا کہ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اے خدا مجھے صالحیت کا مقام رکھنے والوں میں شامل فرما.اور جب ایک صالح شخص یہ دعا مانگے گا کہ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ شہداء کی معیت کا خواہش مند ہے اور جب ایک شہید یہ دعا مانگے گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ صدیقوں میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہے.اور جب ایک صدیق یہ دعا مانگے گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے سے بالا درجہ
کے صدیقوں یا بنیوں کی معیت کا خواہشمند ہے.اور جب ایک نبی یہ دعا مانگے گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے مقام سے بالا مقام رکھنے والے انبیاء کی معیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہے گویا ہر جگہ اس کے معنے بدلتے چلے جائیں گے.جب صالح کا لفظ ایک عام فرد کے لئے استعمال ہوگا تو اس کے اور معنے ہوں گے.اور جب صالح کا لفظ شہید اور صدیق کے لئے استعمال ہو گا تو اس کے اور معنے ہوں گے.اور جب ایک نبی کے لئے استعمال ہوگا تو اس کے اور معنے ہوں گے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے قرآن کریم میں ایک طرف تو اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو فرماتا ہے کہ تم مت کہو ہم ایمان لے آئے ہیں.تم صرف اتنا کہو کہ اَسْلَمْنَا (الحجرات:۱۵) ہم نے اسلام قبول کر لیا ہے لیکن دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(البقرۃ:۱۳۲)جب اس کے رب نے اسے کہا کہ ہماری فرمانبرداری اختیار کر تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو پہلے ہی رب العالمین کی فرمانبرداری اختیار کر چکا ہوں.گویا ایک جگہ تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایمان کا ابتدائی قدم قرار دیا ہے اور دوسری جگہ اسلام کو ایمان اور معرفت کا انتہائی قدم قرار دیا ہے اسی طرح ایک لحاظ سے تو سارے انسان ہی خدا تعالیٰ کے عبدہیں مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی عبد اللہ کا لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے ( سورۃ جن آیت ۲۰ )اور صوفیاء کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ناموں میں سے سب سے بڑا نام آپؐ کا عبد اللہ ہی ہے.اب یوں تو سب انسانوں کو خواہ وہ مومن ہوں یا کافر عبد اللہ کہا جائے گا.کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے لیکن جب یہ لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہوگا تو اس کے معنے عام معنوں سے مختلف ہوں گے اور اس سے مراد یہ ہوگی کہ صرف آپؐ ہی ایک ایسے وجود ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبودیت کو اپنے انتہائی کمال تک پہنچا دیا ہے.اسی طرح ایک صالحیت کا مقام تو وہ ہے جو صدیقیت اور شہادت سے بھی نیچے ہے.اور ایک صالحیت کا مقام وہ ہے جس کے لئے انبیاء بھی دعائیں کرتے ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مدارج ہیں اور انسان کسی مقام پر بھی کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے تمام مدارج کو طے کر لیا ہے.پس وہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ ترقی دے اور انہیں ان لوگوں کی معیت عطا کرے جنہیں ان سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ا س کا قرب حاصل ہے.آخر معراج کی رات جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انبیاء سے ملاقات کی تو وہ تمام انبیاء ایک ہی آسمان پر تو نہیں تھے بلکہ ان میں کوئی پہلے آسمان پر تھا کوئی دوسرے آسمان پر تھا.کوئی تیسرے آسمان پر تھا کوئی چوتھے آسمان پر تھا.کوئی پانچویں آسمان پر تھا کوئی چھٹے آسمان پر تھا اور کوئی ساتویں آسمان پر تھا.پس چونکہ انبیاء میں
بھی مدارج کا بڑا بھاری فرق ہے اس لئے جب ایک نبی یہ دعا کرے گا کہ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ اس صالحیت کے مقام کے لئے دعا کر رہا ہے جو شہاد ت سے بھی نیچے ہے.بلکہ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ ان لوگوں کی معیت کے لئے دعا کر رہا ہے جو اس سے بالا مقام رکھنے والے ہیں.اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر محدود مراتب ہیں اور جب کسی شخص کو ایک مقام حاصل ہوجائے گا تو اس سے اگلے مقام کے حصول کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جائے گی.اور جب وہ بھی اسے حاصل ہو جائے گا تو پھر اس سے اگلے مقام کی تڑپ اس کے دل میں پیدا ہو جائے گی اس لئے اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَکی دعا بھی ہمیشہ جاری رہے گی.اور کبھی کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا جب وہ اس دعا سے مستغنی ہوسکے.درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگ کر دنیا کو ایک بہت بڑا سبق سکھایا ہے.آپ نے بتایا ہے کہ کسی شخص کو خواہ کتنا بلند مقام حاصل ہو چکا ہو یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے ترقی کے تمام مدارج کو طے کر لیا ہے کیونکہ جب بھی یہ خیال اس کے دل میں پیدا ہو گا وہ تنزل کی طرف گرنا شروع ہو جائے گا.قوموں کی تباہی اوران کے ادبار کی بڑی وجہ یہی ہوا کرتی ہے کہ بعض دفعہ افراد یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے ترقی کے تمام مدارج طے کر لئے ہیں جب یہ وسوسہ ان کے دلوں میں جاگزیں ہو جاتا ہے تو وہ تنزل کا شکار ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو ایسا متحرک بنایا ہے کہ کوئی ذرہ ایسا نہیں جو حرکت نہ کر رہا ہو.کسی کی حرکت دائرہ کی صورت میں ہوتی ہے اور کسی کی حرکت آگے کی طرف ہو تی ہے.بہرحال کوئی ذرہ ایسا نہیں جو متحرک نہ ہو.خدا تعالیٰ نے انسانی زندگی کا مرکز قلب بنایا ہے.اور وہ بھی ہر وقت حرکت کرتا رہتا ہے.اگر اس کی حرکت سکون سے بدل جائے تو اسی وقت انسانی زندگی ختم ہو جائے یہی حالت ایمان کی ہے.اور اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایمان کی ترقی یا اس کے تنزل کا ذکر کرتے ہوئے قلب انسانی کی مثال دی ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک مضغہ ہے اگر وہ درست رہے تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے (بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراء لدینہ)جسمانیات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کے قلب میں خرابی پیدا ہو جائے تو وہ تمام خرابیوں سے زیادہ پریشان کن ہوتی ہے.نہ اسے کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا اچھا لگتا ہے.ہر وقت گھبراہٹ اور اداسی اور غم اس پر چھایا رہتا ہے.اورگو وہ زندہ ہوتا ہے مگر اس کی حالت مردوں سے بدتر ہوتی ہے.اسی طرح جب روحانی لحاظ سے کسی کے قلب میں فتورواقع ہو جائے تو اس کی وہ قوت ممیزہ جو نیکی اور بدی میں فرق کرنے والی ہوتی ہے ماری جاتی ہے.اور اس کی حالت گرتے گرتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ حیوانوں سے
بھی بدتر ہو جاتا ہے پس ضروری ہے کہ انسان اپنی کسی حالت پر بھی قانع اور مطمئن نہ ہو بلکہ وہ ہمیشہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے مقام کی طرف ترقی کرنے کی کوشش کرتا رہے.غرض یہ دعا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے اس لئے نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی نجات میں کوئی شبہ تھا.بلکہ اس لئے بیان کی گئی ہے کہ مومنوں کو روحانی مدارج کے طے کرتے وقت یہ امر ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ کسی مقام کو انتہائی مقام نہ سمجھ لیں اور کسی مقام پر پہنچ کر وہ یہ خیال نہ کر لیں کہ اب ہمیں گرنے کا کوئی خطرہ نہیں.اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ دعا نہ مانگتے تو لوگ یہ خیال کر لیتے کہ ہمیں بھی کسی ایسی دعا کی ضرورت نہیں اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اس مقام پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر وقت عبادت الٰہی میںبسر ہوتا ہے وہ رات اور دن سوتے اور جاگتے اٹھتے اور بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے عشق اور اس کی محبت میں مخمور رہتے ہیں اس کا ذکر ان کی زبانوں پر جاری رہتا ہے اور اس کے نام کو بلند کرنے کے لئے ان کی زندگی کا ہر لمحہ اور ان کے جسم کا ہر ذرہ مصروف ہوتا ہے لیکن باوجود اس حالت کے ان کو بھی حکم ہو تا ہے کہ جاؤ اور نمازیں پڑھو.اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر وہ نمازیں نہ پڑھیں تو وہ لوگ جو انبیاء کے نمونہ کو دیکھ کر عمل کر نے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی نمازوں کو چھوڑ دیں اسی لئے کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جسے عبادات سے فارغ کیا گیا ہو.ہر نبی کو عباد ت کرنی پڑتی ہے ویسی ہی عبادت جیسی اور لوگ کر تے ہیں حالانکہ ان کا ہر لمحہ عبادت میں گزر رہا ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہی دیکھ لو.آپ ؐ صرف پانچ نمازیں ہی نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ آپ کی زندگی کی ہر گھڑی عبادت الٰہی میں گذرتی تھی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ آپ ؐکے متعلق فرماتا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(الانعام:۱۶۳)یعنی اے محمد ؐرسول اللہ ! لوگوں سے کہہ دے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ میں صرف پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہوں بلکہ میری عبادت بھی اور میری قربانیاں بھی اور میری زندگی کی حرکات بھی اور میری موت بھی سب خدا کے لئے ہے میرا کوئی وقت ایسا نہیں جو خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کی محبت اور اس کے ذکر میں نہ گزرتا ہو بلکہ میری موت بھی خدا کی عبادت ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات پانے لگے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں اس وقت بھی آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی (بخاری کتاب المغازی باب اخر ما تکلم بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)میرا وہ رفیق جو عر ش بیٹھا ہے میں اب اس کے پاس جانا چاہتا ہوں.پس آپؐ کا پانچ نمازیں پڑھنا درحقیقت ہماری ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہی تھا.ورنہ اگر آپؐ نمازیں نہ پڑھتے تو جیسے جھوٹے صوفیاء کی عادت ہوتی ہے کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی
ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں نماز روزہ کی ضرورت نہیں.میں ایک دفعہ جمعہ کی نماز پڑھا کر فارغ ہوا تو ایک صوفی منش آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا میں ایک سوال کر نا چاہتا ہوں.میں نے کہا فرمائیے؟کہنے لگا.اگر کوئی شخص دریا میں سفر کر تے کرتے کنارہ پر پہنچ جائے تو اس کے بعد وہ کشتی میں ہی بیٹھا رہے یا نیچے اتر جائے.جب اس نے یہ سوال کیا معاً اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے سوال کا مقصد سمجھا دیا.دراصل یہ صوفیا ء کا ایک دھوکہ ہے جس میں وہ عام طور پر مبتلا پائے جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی حیثیت سواریوں کی سی ہے.یہ سواریاں ہمیں اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچانے کے لئے ہیں.اگر کوئی شخص اپنے محبوب کے دروازہ تک پہنچ کر سواریوں پر بیٹھا رہے اور نیچے نہ اترے تو وہ اول درجہ کا گستاخ سمجھا جاتا ہے.اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لے تو اسے نماز روزہ کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ خدا کے دروازہ تک پہنچ گیا.غرض جب اس نے یہ سوال کیا معاً اللہ تعالیٰ نے یہ تمام بات مجھ پر کھول دی اور میں نے اسے کہا اگر تو وہ دریا ایسا ہے جو کنارے والا ہے تو بے شک جب کنارہ آئے وہ کشتی سے اتر جائے لیکن اگر وہ دریا غیر محدود ہے اور اس کا کوئی کنارہ ہی نہیں تو وہ یاد رکھے کہ جس جگہ وہ نیچے اترے گا.اسی جگہ وہ ڈوب جائے گا.اب آپ بتائیں کہ جس دریا کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ محدود ہے یا غیر محدود.کہنے لگا ہے تو غیر محدود میں نے کہا تو پھر غیر محدود دریا میں انسان جس جگہ بھی نیچے اتر ے گا اسی جگہ ڈوب جائے گا.اس کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ کشتی پر سوار رہے.غرض ہم اس خدا کی طرف جا رہے ہیں جو غیر محدود ہے.یہ دنیا تو چند سالوں کی ہے مگر ہمیں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اس دنیا کے بعد پھر ایک زندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور اسی وجہ سے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جنتیوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو غیر منقطع ہوں گی.پس جبکہ ہم ایک غیر محدود دریا کے شناور ہیں اور ہمارا مقصد اس خدا کے قرب میں بڑھنا ہے جو ازلی ابدی ہے تو ا س کے بعد ہمارا کسی حالت پر مطمئن ہو کر کھڑا ہوجانا کس طرح درست ہو سکتا ہے اگر ہم کھڑے ہو جائیں تو یقیناً تباہ ہو جائیں.مگر بجائے اس کے کہ لوگ اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے قرب الٰہی کی منازل کے حصول کے لئے اپنے قدموں کو تیز تر کردیں اور اپنی قربانیوں اور ایثا راور خدمت خلق اور اعلیٰ اخلاق اور نیک نمونہ اور غرباء پروری اور خدمت قرآن اور اشاعت اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ اس قسم کی سطحی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں کہ ایک نبی نے یہ کیوں دعا کی کہ الٰہی مجھے صالحین میں شامل کر.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سارے صلحاء آخر ایک جگہ پر تو نہیں ہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہنچے وہاں حضرت ابوہریرہؓ نہیں پہنچے.اور جہاں ابو ہریرہ ؓپہنچے وہاں آج کل کے مسلمان نہیں پہنچے.پس اَلْحِقْنِیْ
بِالصّٰلِحِیْنَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمہیں ہر وقت یہ دعا مانگنی چاہیے کہ تمہیں سارے صالحین کی مصاحبت حاصل ہو.پہلے ایک صالح کی مصاحبت حاصل ہو تو تمہارے دل میں دوسرے صالح سے ملنے کی خواہش پیدا ہو جائے دوسرے صالح سے ملو تو تیسرے صالح کے مقام تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہو جائے.تیسرے صالح کے مقام تک پہنچو تو چوتھے صالح کے مقام تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہو جائے اور یہ خواہش اسی طرح بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تک پہنچ جاؤ.جو تمام صالحین میں سے سب سے بلند اور سب سے بالا اور سب سے ارفع مقام پر فائز ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے اندر بھی یہی رنگ پایا جاتا تھا اور آپؐ بھی خدا تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مراتب کے حصول کے لئے ہمیشہ اپنے قدم کو تیز رکھتے تھے آج کل بعض نادان ایسے ہیں کہ دوچار دن کی نمازوں کے بعد ہی یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ انہوں نے قرب کے انتہائی مقامات کو طے کر لیا ہے.وہ خدا کو ایک چھوٹی سی چیز سمجھ لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کی ہستی ایسی عظیم الشان ہے کہ بڑے سے بڑے انبیاء بھی اس کے قرب میں جس قدر بڑھ جائیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے قرب کے سب مقامات کو طے کر لیا ہے.بلکہ وہ جتنا زیادہ اس کے قرب میں بڑھتے ہیں اتنا ہی وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں اور اس کی طاقتوں میں اور اس کی قدرتوں میںوسعت پاتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے قرب کا ابھی ایک غیر متناہی میدان پڑا ہے جس کو انہوں نے طے کر نا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ بڑھاپےکی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس قدر گریہ و زاری کرتے اس قدر گڑگڑاتے اور اس قدر تضرع اور عاجزی سے دعائیں کرتے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور عبادت میں کھڑے کھڑے آپ ؐکے پاؤں سوج جاتے.یہ دیکھ کر آپؐ کی بیویوں کے دلوں میں رحم پیدا ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں.آخر ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ ہی دی کہ یا رسول اللہ !جب آپؐ کے اگلے پچھلے سب گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر چکا ہے تو آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں اور کیوں اتنی مشقت برداشت کر تے ہیں ؟آپ نے فرمایا اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا(تفسیر در منثور زیر آیت انا فتحنا لک فتحا مبینا و بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی حتی ترم قدماہ)تم کہتی ہو کہ خدا نے مجھ پر یہ فضل کیا کہ میرے اگلے پچھلے سب گناہوں کو معاف کر دیا اور جب حالت یہ ہے تو کیا میرا فرض نہیں کہ میں خدا تعالیٰ کے اس فضل کا شکریہ ادا کروں.اور اس وجہ سے کہ اس نے
مجھ پر یہ انعام کیا ہے میں اس کی دوسروں سے بھی زیادہ عبادت بجا لاؤں.جب اس نے مجھ پر اتنے بڑے فضل کئے ہیں تو مجھے دوسروں سے زیادہ شکریہ بھی تو ادا کرنا چاہیے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرتے رہے.اور یہی سبق ہے جو دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے.اگر لوگ اس سبق کو یاد رکھیں تو ان کی روحانیت کبھی مردہ نہ ہو اور شیطان ان پر کبھی تسلط اور غلبہ نہ پائے.پھر فرماتے ہیںوَ اجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ اے خدا ! بعد میں آنے والے لوگوں میں تو مجھے ایک قائم رہنے والی اور ظاہر و باطن طور پر اچھی تعریف مجھے بخش.عربی زبان میں جب صدق کی طرف کوئی لفظ مضاف ہو تو اس کے مفہوم میں دوام اور ظاہر و باطن کی خوبی کے معنے پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ مفردات امام راغبؒ میں لکھا ہے.اَلصِّدْقُ یُعَبَّرُ عَنْ کُلِّ فِعْلٍ فَاضِلٍ ظَاھِرًا وَ بَاطِنًا بِالصِّدْقِ فَیُضَافُ اِلَیْہِ ذَلِکَ الْفِعْلُ الَّذِیْ یُوْصَفُ بِہٖ یعنی صدق سے مراد ہر وہ فعل ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں خوبی رکھتا ہو اور جس فعل کی صدق کو صفت بنانا ہو اس کو صدق کی طرف مضاف کردیتے ہیں.پس اس دعا کے معنےیہ ہیں کہ اے میرے خدا !تو آخری زمانہ کے لوگوں کے دلوں میںمیرے لئے دعا کی تحریک پیدا کر دے لیکن وہ دعا عارضی نہ ہو.بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو اور پھر وہ تعریف صرف لوگوں کی زبانوں پر ہی نہ ہو بلکہ واقعہ میں میرے نیک کام دنیا میں قائم رہیں اور اس طرح مجھے ظاہری اور باطنی طور پر اچھی تعریف حاصل ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف مسلمانوں نے پورا کیا ہے.ممکن ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے اور پوتے آپ کے لئے دعا کرتے ہوں لیکن بہت سی نسلیں گزر جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روحانی اور جسمانی اولاد ان کو بھول گئی لیکن مسلمان ہیں جو تیرہ سو سال سے برابر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے دعا کرتے چلے آرہے ہیں اور قیامت تک دعا کرتے چلے جائیں گے چنانچہ ہر نمازی ہر تشہد کے آخر میں یہ کہتا ہے کہ اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللَّھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ محُمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ یعنی اے اللہ ! تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح فضل نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر فضل نازل فرمایا گویا ہم خدا تعالیٰ کی اس محبت پر انتہاء درجہ کا اعتماد رکھتے ہیں جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کی اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے انتہاء درجہ کا پیار کیا تھا.لیکن بعض لوگ جو حقائق سے نا آشنا ہوتے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے ساتھ نسبت دینے میں آپ کی ہتک خیال کرتے ہیں.اور یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل تھےتو اللہ تعالیٰ نے درود میں اپنی برکات اور انعامات کے نزول کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کیوں مثال دی سو اس بارہ میں ایک نکتہ یاد رکھنا چاہیے جس سے یہ سوال بالکل حل ہو جاتا ہے دنیا میں اگر ایک شخص سنگترے کا درخت لگائے تو سنگترہ اپنی ذات میں کچھ خاصیتیں رکھتا ہے.مثلاً یہ کہ وہ ایک خاص حد تک اونچا ہو سکتا ہے ،ایک خاص حد تک پھیل سکتا ہے اور ایک خاص حد تک پھل دے سکتا ہے.اعلیٰ درجہ کا سنگترہ پندرہ بیس فٹ تک اونچا ہو تا ہے.پس اگر وہ سنگترہ بیس فٹ تک اونچا ہوجائےتو سارےلوگ کہیں گے کہ سنگترہ اپنے کمال کو پہنچ گیا.اگر ایک سنگترہ پچیس فٹ کے گھیر میں پھیل سکتا ہے اور وہ اتنا پھیل جاتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ اس سنگترے نے کمال کر دیا اگر ایک سنگترہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار پھل دے سکتا ہے اور وہ ایک ہزار پھل دے دیتا ہے تو ہم کہیں گے اس سنگترے نے کمال کر دیا لیکن اس کے مقابل میں بڑ کا درخت لے لو.بڑ کا درخت دو سو فٹ تک اوراونچا ہو جاتا ہے اور عا م درخت اسی نوے فٹ کے ہوتے ہیں.اب اگر کوئی شخص بڑ لگائے اور وہ پچیس فٹ کا ہوجائے.یا اگر اس کا پھیلاؤ ڈیڑھ دو سو فٹ ہو سکتا ہے اور اس کا پھیلاؤ بیس پچیس فٹ ہو جائے اور کوئی کہہ دے کہ اس نے کمال کر دیا تو ہم اس کو بیوقوف کہیں گے.یا فرض کر و کسی نے بیر کا درخت لگایا بیر کا درخت ایک ہزار نہیں بلکہ بیس ہزار کے قریب پھل دیتا ہے.اب اگر بڑ کا درخت پچیس فٹ اونچا ہو جائے اور پچیس فٹ اس کا گھیر ہو جائے.اور بیر کا درخت ایک ہزار بیر دے اور کوئی کہے کہ چونکہ بڑ کا پھیلاؤ سنگترے جتنا اور بیر کو پھل بھی سنگترے جتنا لگا ہے اس لئے انہوں نے تو کمال کر دیا ہے تو ہم کہیں گے یہ احمقانہ بات ہے یہ چیز ان درختوں کے کمال کا ثبوت نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ درخت ناقص ہیں.پس ہرکمال نسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے مثلاً ہم نے سنگترہ لگایا اور خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ سنگترہ جتنا اونچے سے اونچا ہو سکتا تھا ہو گیا.جتنا زیادہ سے زیادہ پھیل سکتا تھا پھیل گیا اور جتنا زیادہ سے زیادہ پھل دے سکتا تھا اتنا پھل اس نے دے دیا.پھر ہم نے آم کا درخت لگایا.اب اگر آم کا درخت لگاتے ہوئے ہم کہیں گے کہ اے خدا ! تو اس میں ایسی ہی برکت دے جیسے سنگترے میں دی تھی.تو کوئی شخص اس کے یہ معنے نہیں کرے گا کہ اے خدا ! اس کو بیس فٹ اونچا کردے.اسی طرح کوئی اس کے یہ معنے نہیں کرے گا کہ خدا تعالیٰ اس کا گھیر پچیس فٹ کر دے اور کوئی شخص اس کے یہ معنے نہیں کرے گا کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک ہزار پھل لگا دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اے خدا ! جتنا زیادہ سے زیادہ آم کا درخت پھیل سکتا ہے تو اسے پھیلا دے اور جتنا زیادہ سے زیادہ آم کا درخت اونچا ہو سکتا ہے اتنا ہی اسے اونچا کردے اور جتنا زیادہ سے زیادہ آم
کا درخت پھل دے سکتا ہے اتنا اسے پھل لگا دے.تاکہ جس طرح وہ سنگترہ اپنی جنس میں کمال کو پہنچ گیا تھا اسی طرح یہ بھی اپنی جنس میں کمال کو پہنچ جائے.تو اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح قومی نبیوں میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں کمال کو پہنچ گئے تھے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو جمیع عالم کی طرف نبی ہیں اور ایک الگ جنس ہیں اس میں وہ اپنے کمال کو پہنچ جائیں.جیسے سنگترہ اور ہے اور بڑ یا آم اور.جب ہم کہیں گے کہ سنگترہ کی طرح آم اپنے کمال کو پہنچ جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ وہ ایک ہزار پھل دے بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آم آٹھ دس ہزار پھل دے.اسی طرح جب ہم یہ کہیں گے کہ سنگترے کی طرح بڑ اپنے کمال کو پہنچ جائے تو اس کایہ مطلب نہیں ہو گا کہ وہ بیس پچیس فٹ اونچا ہوجائے بلکہ یہ مطلب ہوگا کہ وہ دو سو فٹ اونچا ہو جائے.تو در حقیقت درود کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح ابراہیم ؑاپنی جنس میں کمال درجہ کا وجود تھا.اسی طرح اے خدا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جو جمیع عالم کی طرف نبی ہیں ان کی جنس کے لحاظ سے جو سب سے بڑا درجہ ہے انہیں عطا کر یعنی اس کو جتنا بڑا ہوناچاہیے اتنے بڑے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو جائیں اور اس کا جتنا پھیلاؤ ہو نا چاہیے اتنا پھیلاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہو جائے.اور جتنا اسےپھل لگنا چاہیے اتنا پھل ان کو لگ جائے.گویا درود میں ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا جس طرح ابراہیم ؑ اپنی محدود جنس میں کمال کو پہنچا ہےاسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا میں اپنے کمال کو پہنچ جائیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی نے ایک بکری لی.اور اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ اس نے ڈیڑھ سیر دودھ دینا شروع کر دیا اور دو بچے ششماہی دینے شروع کر دیئے اس کے بعد جب کوئی شخص گائے لے گا.تو وہ کہے گا اے خدا جس طرح تو نے فلاں کی بکری میں برکت ڈالی تھی اسی طرح میری گائے میں بھی برکت ڈال دے.اب کیا اس کا یہ مطلب ہو گا کہ یہ گائے ڈیڑھ سیر دودھ دینے لگ جائے.اور ہر چھٹے مہینے دو بچے دے دے.کبھی کسی گائے نے ایسا نہیں کیا.اچھی گائے کبھی بھی ڈیڑھ سیر دودھ نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی گائے چھ ماہ میں دو بچے دیتی ہے.بلکہ اس کی دعا کا مفہوم یہ ہوگا کہ جس طرح فلاں بکری بکریوں میں اچھی ثابت ہو ئی ہے اسی طرح یہ گائے گائیوں میں اچھی ثابت ہو تو اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ کے یہی معنی ہیں کہ جس طرح ابراہیم ؑ اپنی قسم کے لوگوں میں سے انتہائی درجہ کے کمال کو پہنچ گئے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کام کے لحاظ سے کمال کو پہنچ جائیں.ابراہیم ؑ بنی اسرائیل کے لئے تھے جس طرح انہوں نے بنی اسرائیل میں اپنا کمال دکھایا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
ساری دنیا میں کمال دکھائیںتو اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ کے معنے ہم یہ کریں گے کہ اے خدا جس طرح تو نے ابراہیم ؑ کو بنی اسرائیل کے لئے برکت دی جو دنیا کا ہزارواں حصہ ہے اسی طرح تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جو ساری دنیا کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور جو بنی اسرائیل سے ایک ہزار گنا بڑی ہے ابراہیم ؑ سے ہزار گنا زیادہ برکت دے.کَمَا کا لفظ بعض اوقات نسبتی معنوں میں بھی بول لیا جاتا ہے جیسے میں نے مثال دی ہے اگر کسی شخص کے پاس بکری ہو جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہو تو جب کوئی زمیندار گائے خریدے گا تو وہ کہے گا اے خدا جس طرح تونے فلاں کی بکری میں برکت دی تھی اسی طرح تو میری گائے میں بھی برکت دے.اب اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ گائے چھ ماہ میں دو بچے دے یا ڈیڑھ سیر دودھ دے گائے اگر اچھی ہو گی تو سات آٹھ سیر دودھ دے گی.اور اگر بھینس لےگا اور وہ دعا کرے گا کہ جس طرح فلاں بکری میں برکت ڈالی تھی اسی طرح اس میں بھی برکت ڈال تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھے ایسی بھینس دے جو چودہ پندرہ سیر دودھ دینے والی ہو.غرض الفاظ تو ویسے ہی بولے جائیں گے لیکن چونکہ جنس علیحدہ علیحدہ ہوگی اس لئے معنے بھی الگ الگ ہو جائیں گے حضرت ابراہیم ؑ کی جنس الگ تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی الگ.آپ کی قوم دو چار لاکھ تھی دنیا میں یہودی اس وقت ڈیڑھ دو کروڑ کی تعداد میں ہیں لیکن ساری دنیا کی آبادی دو ارب سے بھی زیادہ ہے.گویایہودی دنیا کی آباد ی کا سوواں حصہ ہے اس لحاظ سے اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ کے معنے یہ ہوں گے کہ اے اللہ ! جس طرح تو نے ابراہیم ؑکو یہودی قوم کے لئے برکت دی اسی طرح تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم ؑسے سو گنا زیادہ برکت دے.اگر دس ارب روپیہ یہود کو دیا تو اسی نسبت سے امت محمدیہ کو سو گنا زیادہ مال دے.پس یہاں کَمَاکے معنے زیادتی کے ہیں برابری کے نہیں کیونکہ جنس الگ ہے.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کے لئے مبعوث ہوتے تو پھر ویسے ہی معنے لئے جاتے کیونکہ بکری کی بکری سے نسبت ہوتی ہے اور گائے کی گائے سے نسبت ہوتی ہے.غرض کَمَا کا مفہوم برابری کا نہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح ابراہیم ؑاپنی جنس میں کامل وجود بنا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جنس میں کامل وجود بنیں.آخر ساری دنیا کی طرف آنے والے نبی کو جو درجہ ملنا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام تو وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے تھے.جس طرح ایک جمعدار اگر اپنے ماتحتوں پر جو کہ پندرہ بیس ہوتے ہیں اچھی طرح کنٹرول رکھتا ہے اور ایک کمانڈر دو تین لاکھ فوج کی کمان کرتا ہے تو وہ دونوں برابرنہیں ہو سکتے.
اگر ہم کہیں کہ جس طرح اس جمعدار نے پندرہ آدمیوں پر کنٹرول کر رکھا ہے ویسے ہی یہ کمانڈربھی کنٹرول رکھتا ہے تو اس ’’ویسے‘‘ کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ وہ پندرہ آدمیوں پر کنٹرول رکھنے والا دو تین لاکھ پر کنٹرول کر سکتا ہے.بہر حال کوئی عقلمند اس فقرہ کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں لے گا کہ جس طرح اس جمعدار نے اپنی جنس میں کمال پیدا کیا ہے اسی طرح کمانڈر اپنی جنس میں کمال پیدا کرے ویسے تو پندرہ آدمیوں پر کمان کرنے والے اور دو لاکھ آدمیوں پر کمان کرنے والے میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پندرہ آدمیوں پر کنٹرول کرنے والے کو اگرسو آدمی بھی دے دیئے جائیں تو وہ فیل ہو جائے گا لیکن تین لاکھ آدمیوں پر کنٹرول کرنے والا ایک وقت میں ہزار ہا جمعداروں پر کنٹرول کرلے گا.توجب ہم یہ دعا کرتے ہیں تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جس طرح تو نے ابراہیم ؑ کو اپنی جنس میں کمال عطا فرمایا اسی طرح تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جنس میں کمال عطا فرما.اور اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہتک نہیں ہوئی.بہر حال ابراہیم ؑکو اللہ تعالیٰ نے اپنی جنس میں بڑا کمال بخشا.اورایسا بخشا کہ اس جنس میں سے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اپنی ملکی ترقی کے لئے دو قسم کی پالیسیاں اختیار کیا کرتی ہیں ایک پالیسی ’’شارٹ ٹرم پالیسی‘‘ کہلاتی ہے اور ایک’’ لانگ ٹرن پالیسی‘‘ کہلاتی ہے یعنی ایک تو اس ملک کی موجودہ مشکلات کو دور کرنے کے لئے عارضی انتظام ہوتا ہے اور ایک اس ملک کے لئے لمبا پروگرام ہوتا ہے جس کا مقصد اس ملک کی حالت کو بہتر بنانا ہوتا ہے.دنیا میں کوئی گورنمنٹ اپنے ملک کو ایک دن میں اعلیٰ ترقی نہیں دے سکتی بلکہ اس کے لئے تیس پنتیس سال کی کوشش اور جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تیس پنتیس سال کی کوشش کے یہ معنے نہیں کہ اگر کسی حصہ ملک میں قحط پڑجائے تو حکومت کہے کہ ہم نے پروگرام بنا یا ہوا ہے کہ تیس سال کے بعد ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے اب چونکہ ہم اس طرف لگے ہوئے ہیں اس لئے ہم قحط زدہ لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے.اگر وہ مرتے ہیں تو مریں ایسے مواقع پر شارٹ ٹرن پالیسی کو اختیار کیا جا تاہے تا اچانک پیدا ہو نے والی باتیں اصل پروگرام میں مخل نہ ہوں.’’لانگ ٹرم پالیسی‘‘ یعنی ایسی پالیسی جس سے آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے پچھلی تکالیف کا ازالہ کیا جائے اس کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی قربانی بھی ابراہیم ؑکی قربانی سے بڑھ کر نہیں یعنی جو ’’لانگ ٹرم پالیسی‘‘ حضرت ابراہیم ؑنے اختیار کی کسی اور نے نہیں کی شارٹ ٹرن پالیسی یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئی ایسا آدمی نظر آئے جو بھوک سے مر رہا ہو اور وہ اس کے سامنے روٹی رکھ دے اور کہے کہ کھالو تو ہم اسے اچھا اور نیک آدمی کہیں گے اسی طرح اگر کوئی پیاسا ہو اور کوئی اس کے سامنے خالی پانی ہی نہیں بلکہ شربت رکھے اور کہے کہ پی لو تو ہم اسے اچھا اور نیک آدمی کہیں گے اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ہم اسے
ظالم کہتے ایسے کاموں کو ہم شارٹ ٹرن پالیسی کہتے ہیں اور اس قسم کی نیکیاںعام طور پر پائی جاتی ہیں مگر ایک نیکی وہ ہوتی ہے جو سارے لوگوں کے لئے ہوتی ہے اور جس سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے.جیسے مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے ایک بوڑھے کو ایک درخت لگاتے دیکھا جو اسی نوے سال کے بعد پھل لاتا تھا اور بہت آہستہ آہستہ اس کی ترقی ہوتی تھی.یہ حالت دیکھ کر وہ کسان کے پاس آیا اور کہنے لگا کیا تیری عقل ماری ہوئی ہے کہ تو ایسا درخت لگا رہا ہے جو اسّی سال کے بعد تجھے کوئی فائدہ پہنچائے گا کیا تو سمجھتا ہے کہ تو اسّی سال تک زندہ رہ سکے گا تیری توموت قریب ہے اگر تو زیادہ سے زیادہ بھی زندہ رہا تو آٹھ دس سال تک زندہ رہ سکے گا.پھر جب تجھے اس چیز سے کوئی فائدہ نہیں تو تو اسے کیوں لگا رہا ہے.کسان نے کہا آپ تو بادشاہ ہیں اور اس مرتبہ کے لحاظ سے آپ کو بڑا تجربہ کار ہونا چاہیے تھا آپ کو معلوم ہے کہ آدمی اٹھارہ بیس سال کا ہو کر کھیتی باڑی کا کام اچھی طرح سنبھال سکتا ہے اگر وہ اس وقت اس درخت کولگائے اور اسّی سال تک یعنی جب اس کی عمر سو سال کی ہو جائے انتظار کرتا رہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک وہ زندہ رہے گا.ان میں سے تو اکثر اس پھل کے آنے سے پہلے ہی مر چکے ہوں گے اور بہت ہی کم تعداد ایسی ہوگی جو اس سے فائدہ اٹھا سکے گی اگر ہمارے باپ دادا بھی اسی خیال سے درخت نہ لگاتے تو پھر یہ درخت دنیا میں ہوتا ہی نہ.ہر شخص کہتا کہ میں کیوں اس درخت کو لگاؤں جبکہ میں نے اس کا پھل کھانا ہی نہیں لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ انہوںنے پھل نہیں کھانا انہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کا پھل کھایا.اب ہم لگائیں گے تو ہماری اولادیں کھائیں گی.بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی اور اس نے کہا ’’زہ‘‘.زہ کے معنے ہیں واہ واہ.بادشاہ نے اپنے وزیر کو جو سفر میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا تھا ہدایت کی ہوئی تھی کہ جب میںکسی سے خوش ہو کر’’ زہ‘‘ کہا کروں تو تم اس شخص کو تین ہزار درہم یعنی ساڑھے سات سو روپیہ انعام دے دیا کرو.جس وقت بادشاہ نے کہا’’ زہ‘‘ تو وزیر نے اسی وقت تین ہزار درہم کی تھیلی کسان کو پکڑا دی.جب کسان کو تھیلی ملی تو اس نے پوچھا کہ یہ تھیلی مجھے کس لئے دی گئی ہے وزیر نے کہا کہ جب بادشاہ کسی بات پر خوش ہوکر ’’زہ‘‘ کہتا ہے تو اس وقت یہ تین ہزار درہم کی تھیلی اس شخص کو دے دی جاتی ہے.جس کی بات پر بادشاہ سلامت خوش ہو کر زہ کہتے ہیں.کسان نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا بادشاہ سلامت آپ فرما رہے تھے کہ تم ایسا درخت لگا رہے ہو جس کاپھل تم نے نہیں کھانا.بادشاہ سلامت لوگ یہ درخت لگاتے ہیں تو اسّی سال کے بعد اس کا پھل کھاتے ہیں گندم بوتے ہیں تو چھ ماہ بعد کاٹتے ہیںلیکن میں نے تو اپنا پھل دم نقد وصول کر لیا ہے اس پر بادشاہ نے پھر کہا’’ زہ‘‘.یعنی اس نے کیا ہی اچھی بات کہی ہے.وزیر نے جھٹ تین ہزار درہم کی دوسری تھیلی کسان کو دے دی.کسان دونوں تھیلیوں کو ہاتھ میں
پکڑ کر کہنے لگا بادشاہ سلامت پھلدار درخت سال میں ایک دفعہ پھل دیتے ہیں بعض درخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو سال میں دو دفعہ پھل دیتے ہیں پھر بعض ایسی فصلیں بھی ہوتی ہیں جو مہینہ دو مہینہ کے بعد کاٹی جاتی ہیں غرض کوئی فصل ایسی نہیں کہ جس دن اسے اگایا جائے اسی دن وہ پھل دے دے یا کسی قسم کا اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے.لیکن میں نے ایک منٹ میں دو دفعہ پھل کھا لیا ہے.بادشاہ نے کہا ’’زہ‘‘.اس پر وزیر نے جھٹ تیسری تھیلی کسان کو دے دی.اس کے بعد بادشاہ کہنے لگا کہ اس بوڑھے نے تو ہمیں لوٹ لینا ہے آگے چلو.اب دیکھو بوڑھے نے پھل کا درخت لگایا تاکہ آئندہ نسلیں کھائیںیہ ’’ لانگ ٹرم پالیسی‘‘ کہلاتی ہے لانگ ٹرم پالیسی میںلوگ بڑی بڑی قربانیاں کر تے ہیں وہ زمینیں خریدتے ہیں اس غرض سے کہ ہمارے بیٹوں کے کام آئیں اور وہ مشکلات میںنہ پھنسیں لیکن میں نے کسی زمیندار کو نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے پوتوں کے لئے زمینوں کا انتظام کیا ہو.اگر چہ یہ بھی ایک لانگ ٹرم پالیسی ہے کہ بیٹوں کے مفاد کے لئے زمین خریدی جائے.لیکن بڑے بڑے زمیندار بھی اپنےپوتوں کے لئے زمینیں نہیں خریدتے صرف بیٹوں کا خیال رکھتے ہیں.ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور اس کا اکثر حصہ زمینداروں کا ہے اور ان میں بڑے بڑے امیر زمیندار ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے اس غرض سے زمین خریدی ہو کہ پوتوں کے کام آئے پھر ہزاروں غیراحمدی ہندو اور عیسائی ہیں جو مجھ سے ملتے ہیں مشورہ کرتے ہیں اور دعاؤں کے لئے کہتے رہتےہیں اور میں ان کی حالت جانتا ہوں لیکن میں نےان میں سے بھی کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اس غرض سے زمین بڑھا رہا ہو یا مال جمع کر رہا ہو کہ اس کے پوتوں کے کام آسکے.ہر ایک اس لئے بڑھاتا ہے کہ اس کے بیٹے کے کام آسکے.پوتے کا کسی کو خیال ہی نہیں آتا.لیکن اس کے مقابل پر ابراہیم کی لانگ ٹرم پالیسی دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے آپ نے ایک بیٹے حضرت اسحاق ؑکو کہا کہ آباد ملک میں جاکر تبلیغ کرو.اور دوسرے بیٹے کو مکہ میں جو کہ وادی غیر ذی زرع تھی چھوڑ آئے.اس غرض سے کہ ڈیڑھ ہزار سال بعد جو قوم یہاں آباد ہو چکی ہوگی اس کو ایک رہبر کی ضرورت ہو گی اور اس وقت میری یہ نسل خدا تعالیٰ کا نام بلند کرےگی.اب دیکھو یہ کتنی بڑی لانگ ٹرم پالیسی ہے کہا جاتا ہے کہ دو دن کے بعد قبیلہ جرہم کے لوگ وہاں آکر آباد ہو گئے تھے لیکن وہ بھی کتنے ہوں گے زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ ہوں گے اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے.اور گو یہ لوگ وہاں آکر آباد بھی ہوگئے لیکن پھر بھی مکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانہ میں تو نہیں بنا بلکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد ڈیڑھ ہزار سال اس کو آباد ہوتے لگے.غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی غیرذی زرع میں اس لئے بٹھایا تا ڈیڑھ ہزار
سال بعد جب یہ جنگل آباد ہو تو اس وقت یہ نسل ان کو تبلیغ کرے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اشوک کے زمانہ میں یا بکر ماجیت کے زمانہ میں کوئی پنتھ یا ودوان یا سناتنی یا جینی اپنی اولاد کو سرگودھا بار یا منٹگمری بار میں اس لئے بساتا کہ کبھی نہ کبھی یہ علاقہ آباد ہو گا اور جب یہ علاقہ آباد ہو گا تو اس وقت یہ خدا کا نام لیں گے.یہ کتنی لانگ ٹرم پالیسی ہے دو ہی بیٹے ہیں ایک کوتو آباد علاقہ میںبھیج دیا تاکہ وہ وہاں تبلیغ کر ے اور دوسرے کو وادی غیر ذی رزع میں بٹھا دیا تاکہ جب وہ آباد ہو تو اس کی نسل وہاں تبلیغ کرے.اتنی لانگ ٹرم پالیسی میرے نزدیک نہ سیاسی لحاظ سے نہ تجارتی لحاظ سے نہ سائینس کے لحاظ سے نہ کسی قوم نے نہ کسی قبیلہ نے نہ کسی خاندان نے نہ کسی علمی گروہ نے اور نہ کسی فلسفی جماعت نے اختیار کی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبلیغ کے لئے اختیار کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے چند دنوں کا سوال نہ تھا.بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سالوں کا سوال تھا کسی کو علم نہیں تھا کہ عرب کب آباد ہو گا اور کتنی دیر تک ان کی اولاد کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تمام واقعہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ارادہ کے ساتھ الہام الٰہی بھی شامل تھا لیکن اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے کی قلبی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ہی اس کے مطابق الہام نازل فرماتا ہے اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی کیفیت ایسی نہ ہوتی اور ان کے جذبات ایسے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو کبھی اپنے بچے کو قربان کرنے کا حکم نہ دیتا.اگر ان کے دل میں یہ تڑپ نہ ہوتی کہ ان کا بچہ خدا کی راہ میں قربان ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ کبھی سامان پید انہ کرتا.اللہ تعالیٰ کا یہ سامان پیدا کرنا بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں یہ تڑپ موجود تھی اور اسی تڑپ کی وجہ سے ہم کہتے ہیں اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ جب ہم درود پڑھتے ہیں تو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جذبہ یاد آجاتا ہے اور ہمارے دلوں میںبھی یہ خواہش موجزن ہوتی ہے کہ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو اور کیا آبادیاں اور کیا ویرانے ہر جگہ اللہ اکبر کی آواز بلند ہو.ڈلہوزی سے قریباً بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے جس کو کھجیار کہتے ہیں اس میں ایک تالاب ہے اور اس تالاب میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو تیرتا پھرتا ہے.معلوم نہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی قدرت سےوہ حصہ زمین سے علیحدہ ہوگیا.اس جزیرہ میں گھاس اور مٹی کے سوا کچھ نہیں.وہ تالاب جس میں وہ جزیرہ تیرتا ہے قریباً دو سو فٹ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے اور وہ جزیرہ تیس پینتیس فٹ کے قریب لمبا چوڑا ہے اور ہوا کے چلنے سے ہلتا اور ایک طرف سے دوسری طرف چلا جاتا ہے.ہندوؤں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا کوئی خاص کرشمہ ہے وہاں ایک مندر ہے جو ایک سادھو کی یادگار کے طور پر بنایا گیا ہے اس سادھو کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس تالاب کی تہہ کا پتہ لگانے کے
لئے اسی سال تک رسی بٹ بٹ کر اس میں ڈالتا رہا.لیکن باوجود اسّی سال تک رسی بٹنے کے وہ رسی پانی کی تہہ رتک نہ پہنچی آخر اس سادھو نے ’’توہی پرمیشور ہے ‘‘کہہ کر تالاب میں چھلانگ لگا دی اور ڈوب گیا.ایک دفعہ ہم کھجیار گئے تو میں نے اپنےساتھیوں سے کہا کہ اس جزیرہ پر چڑھنا چاہیے چنانچہ میں نے ایک دوست سے کہا کہ ہمت کرو اور یہ جو تختے اور گیلیاں اردگرد پڑی ہیں اٹھا لاؤ تاکہ ان کے ذریعہ ہم جزیرہ کے زیادہ قریب ہو جائیں.اس وقت کوئی ہندو یا سرکاری افسر وہاں نہیں تھا جو ہمیں جزیرہ پر چڑھنے سے روکتا.ایک گیلی ہم نے تالاب میں ڈالی اور اس سے کہا کہ تم اس کے ساتھ چمٹ جاؤ ہم گیلی کو دھکا دیں گے اور تم جزیرے تک پہنچ جاؤگے اورساتھ چپو بھی دے دیا کہ اگر ضرورت ہو تو اس سے کام لے لینا.چنانچہ ہم نے گیلی کو دھکا دیا اور وہ دوست جزیرے تک پہنچ گئے اور اس کو آہستہ آہستہ ہمارے پاس لے آئے جب جزیرہ ہمارے پاس آگیا تو میں نے کہا یہ موقعہ ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرو.اس سے پہلے کسی نے اس پر اللہ کا نام بلند نہیں کیا چنانچہ ہم اس جزیرہ پر چڑھ گئے اور خوب اذانیں دیں.اس بات کا علم ہو نے کے بعد گورنمنٹ نے یہ قانون بنا دیا کہ کسی شخص کو اس جزیرہ کو کھینچنے یا اس پر چڑھنے کی اجازت نہیں.اب بے شک یہ قانون بن جائے لیکن ہم نے تو اس پر اذانیں دے دیں اور اللہ تعالیٰ کا نا م اس پر بلند کر دیا.جب ہم اذانیں دے رہے تھے تو مندر کا ایک پجاری آگیا چونکہ ہمیں روکنے کی اس میں جرأت نہ تھی اس لئے وہ ہمیں ڈرانے کے لئے کہنے لگا کہ اس جزیرہ پر ایک بہت بڑا سانپ رہتا ہے خطرہ ہےکہ آپ میں سے کسی کو کاٹ نہ کھائے.میں نے کہا سانپ کاٹتا ہے تو کاٹنے دو.مگر ہم اس پر اذانیں ضرور دیں گے کیونکہ مومن کے دل میں یہ تڑپ ہوتی ہے کہ میں وہاں اللہ کا نام بلند کروں جہاں کسی نے بھی نہیں کیا پس اپنے اندر ابراہیمی جذبہ پیدا کرو.اور جو ملک آباد ہیں ان میں تبلیغ کے لئے نکل جاؤ اور جو ملک غیر آباد میں وہاں اپنے بچوں کو بسا دو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد عرب میں بسا دی تاکہ جب بھی عرب آباد ہو تو ان کی اولاد ان میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے والی ہو.یہ گوبی ڈیزرٹ یا دوسرے غیر آباد علاقے جو آج بیابان اور ویران نظر آتے ہیں تم ایسے علاقوں کو آباد کرو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بجلی سے چلنے والی مشین یا کلیں ایسی نکال دے جن کے ذریعہ یہ علاقے بھی آباد ہو جائیں اور یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں کیونکہ باقی غیر آباد علاقے بھی تو پہلے اسی طرح ویران تھے پس جہاں امریکہ افریقہ انگلستان جرمن اٹلی اور دوسرے آباد ممالک میں ہمارے مبلغ جائیں وہاں ساتھ ہی ہمیں یہ بھی مدنظررکھنا چاہیے کہ گوبی جیسے ریگستانوں اور ہندوستان کے ریتلے علاقوں یا عرب کے غیر آباد علاقوں میں بھی ہم احمدیوں کو بسا دیں تاکہ جب بھی وہ علاقے آباد ہوں وہاں احمدیوں کی نسل موجود ہو جو ان میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کا نا م بلند
کرے.ابراہیمی طریق تو یہی ہے کہ جو ملک غیر آباد ہیں ان میں اپنے مبلغ بھیجو.اور جو ملک غیر آباد ہیں وہاں اپنی نسلیں بسا دو.یہ ایسا جذبہ ہے کہ اس کے ماتحت جو قدم بھی تم اٹھاؤ گے اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا اور تمہارے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو اس نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے کیا ہم دن رات کہتے ہیں اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ.کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَہم اسی لئے کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں یہ جذبہ تھا کہ اس کا ایک حصہ آبادیوں میں تبلیغ کرنے لگ گیا اور دوسرا حصہ ویرانوں میں جا بسا.اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی تبھی ان برکات کی وارث ہو سکتی ہے جب اس کاایک حصہ آبادیوں میں تبلیغ کرے اور سیدھی راہ سے برگشتہ لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف لائے اور دوسرا حصہ غیر آباد علاقوں میں جاکر رہائش اختیار کرے تاکہ جب وہ علاقے آباد ہوں تو کلمہ پڑھنے والے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ وہاں موجود ہوں اور دنیا کی تمام آبادیاں اور ویرانے سب اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج رہے ہوں.پھر فرماتے ہیں وَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ اے خدا ! تو میرے باپ کو بھی معاف کردے کیونکہ وہ ہدایت اور راستی کے طریق سے منحرف ہوجانے والے لوگوں میں سے تھا.اس جگہ اب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر اس سے مراد ان کا چچا ہے جو بت پرست تھا کیونکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور انہیں ان کے چچا نے پالا تھا (جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ ABRAHAM)جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش بھی آپ ؐکے والدین کی وفات کی وجہ سے آپ کے چچا حضرت ابو طالب نے کی تھی جو بت پرست تھے.اوراب کے لفظ کا چچا کے معنوں میں استعمال قرآنی محاورہ سے ثابت ہوتا ہے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت جب اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ بتاؤ تم میرے مرنے کے بعد کس کی عبادت کروگے تو انہوں نے جواب دیا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا (البقرۃ:۱۳۴) ہم اسی خدائے واحد کی پرستش کریں گے جس کی آپ بھی عبادت کرتے رہے ہیں اور آپ کے آباء حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیل ؑاوراسحٰق ؑبھی عبادت کرتے رہے ہیں اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی جو حضرت یعقوبؑ کےدادا تھے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بھی جو آپ کے چچا تھے اب قرار دیا گیا ہے.اسی طرح اس آیت میں گو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ وَاغْفِرْلِاَبِیْ مگر مراد ان کا چچا ہی ہے جو بت پرستی پر قائم رہا تھا.یہ دعا جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس لئے کی تھی کہ
پھر فرماتے ہیں وَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ اے خدا ! تو میرے باپ کو بھی معاف کردے کیونکہ وہ ہدایت اور راستی کے طریق سے منحرف ہوجانے والے لوگوں میں سے تھا.اس جگہ اب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر اس سے مراد ان کا چچا ہے جو بت پرست تھا کیونکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور انہیں ان کے چچا نے پالا تھا (جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ ABRAHAM)جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش بھی آپ ؐکے والدین کی وفات کی وجہ سے آپ کے چچا حضرت ابو طالب نے کی تھی جو بت پرست تھے.اوراب کے لفظ کا چچا کے معنوں میں استعمال قرآنی محاورہ سے ثابت ہوتا ہے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت جب اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ بتاؤ تم میرے مرنے کے بعد کس کی عبادت کروگے تو انہوں نے جواب دیا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا (البقرۃ:۱۳۴) ہم اسی خدائے واحد کی پرستش کریں گے جس کی آپ بھی عبادت کرتے رہے ہیں اور آپ کے آباء حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیل ؑاوراسحٰق ؑبھی عبادت کرتے رہے ہیں اس جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی جو حضرت یعقوبؑ کےدادا تھے اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بھی جو آپ کے چچا تھے اب قرار دیا گیا ہے.اسی طرح اس آیت میں گو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ وَاغْفِرْلِاَبِیْ مگر مراد ان کا چچا ہی ہے جو بت پرستی پر قائم رہا تھا.یہ دعا جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس لئے کی تھی کہ جب ان کے چچا نے انہیں دھمکی دی کہ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِيْ مَلِيًّا (مریم:۴۷) اے ابراہیم اگر تو بتوں کی مذمت سے باز نہیں آئے گا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا.اگر تو اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو کچھ دیر کے لئے میری نظروں سے اوجھل ہو جا تاکہ میں غصہ میں کچھ کر نہ بیٹھوں.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاکہ سَلٰمٌ عَلَيْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا (مریم:۴۸)اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے گو آپ اتنی سختی سے کام لے رہے ہیں لیکن پھر بھی میں آپ کے لئے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا کیونکہ وہ مجھ پر بہت ہی مہربان ہے پس چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں گے اس لئے انہوں نے اپنے وعدہ کے مطابق اللہ تعا لیٰ سے دعا کی کہ وَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ اے میرے خدا! میرے چچا کے گناہ کو معاف فرما دیں.وہ یقیناً گنہگاروں میں سے تھا مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ حقیقت کھل گئی کہ ان کا چچا توحید کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اپنی برأت کا اظہار کردیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےمَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا۠ لِلْمُشْرِكِيْنَ۠ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ.وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِيَّاهُ١ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ١ؕ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ(التوبۃ:۱۱۳،۱۱۴)یعنی نبی اور اس پر ایمان لانے والوں کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ مشرکوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ امر ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ توحید کا انکار کرنے کی وجہ سے دوزخی بن چکے ہیں (یعنی یا تو اللہ تعالیٰ ان کا دوزخی ہونا ان پر ظاہر کر دے یا وہ شرک کی حالت میں ہی مر جائیں اور اس طرح ان کی مشرکانہ موت سب کو نظر آجائے).ہاں ابراہیم ؑ کا اپنے چچا کے لئے استغفار صرف اس وجہ سے تھا کہ اس نے اپنے چچا سے ایک وعدہ کیا تھا مگر جب اس پر یہ امر کھل گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تو وہ اس سے کلی طور پر بیزار ہو گیا.ابراہیم یقیناً بڑا ہی درد مند دل رکھنے والا اور بردبار انسان تھا.اس جگہ اب سے چچا اس لئے بھی مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کریم ایک طرف تویہ بتاتا ہے کہ جب ان پر اپنے اب کے متعلق یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن تھا یعنی شرک کی حالت میں ہی اس کا انتقال ہو گیا تو وہ اس کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے پوری طرح دست بردار ہو گئے.مگر دوسری طرف قرآن کریم بتاتا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت انہوں نے یہ دعا کی کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ (ابراہیم:۴۲) یعنی اے ہمارے رب تو مجھے بھی اور میرے والدین کو بھی اور تمام مومنوں کو بھی قیامت کے دن اپنی مغفرت کے
دامن میں چھپا لیجیؤ.اور ہمارے گناہوں کو بخش دیجیئو.یہ ظاہر ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر انہوں نے اس وقت کی ہے جبکہ حضرت اسمعیل علیہ السلام جوان ہو چکے تھے اور چونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیلؑ اور حضرت اسحاق ؑ دونوں کی پیدائش آپ کے بڑھاپے کے زمانہ میں ہوئی ہے اس لئے رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ والی دعا آپ کی عمر کے آخری حصہ سے تعلق رکھتی ہے اوروَ اغْفِرْ لِاَبِيْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ والی دعا جو انہیں ترک کرنی پڑی اس سے پہلے کی ہے.اگر اب سے مراد ان کے باپ ہی ہوتے تو اس یقینی علم کے بعد کے وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن تھا بڑھاپے میں وہ اپنے والدین کی مغفرت کے لئے کیوں دعا کرتے.پس ان کا آخری عمر میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اپنے والدین کی مغفرت کے لئے دعا مانگنا بتاتا ہے کہ چونکہ ان کے والدین کا زمانہ فترت میں انتقال ہو چکا تھا اس لئے انہوں نے ان کی مغفرت کے لئے دعا کر دی.لیکن ان کے چچا نے چونکہ زمانہء نبوت پایا اور اسے توحید کی تبلیغ بھی کی گئی لیکن پھر بھی وہ اپنےشرک پر مصر رہا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے وعدہ سے دست بردار ہو گئے.اور یہ امر خود قرآن کریم سے ثابت ہے کہ انبیاء کی بعثت سے پہلے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں بوجہ اس کے کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوتی ان کا معاملہ ان لوگوں سے بالکل مختلف ہو تا ہے جن پر نبی کے زمانہ میںحجت تمام ہو چکی ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّ لَا نَذِيْرٍ١ٞ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (المائدۃ:۲۰)یعنی اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو سلسلہء رسالت کے ایک لمبے انقطاع کے بعد تمہیں ہمارے احکام خوب کھول کھول کر سنا رہا ہے تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اورہمیں چو کس اور ہوشیار کرنے والا کوئی نہیں آیا.اب دیکھ لو کہ تمہارے پاس ہمارا بشیر اور نذیر آچکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر اس امر پر جس کا وہ ارادہ کر ے پوری طرح قادر ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے عدم آگاہی کو ایک معقول عذر قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ چونکہ ایسا عذر لوگوں کے حق بجانب ہونے کی علامت ہو سکتی تھی اس لئے ہم نے ان کے عذر کو توڑ دیا.اور ان کی طرف اپنے انبیاء بھیج دئیے تاکہ وہ دنیا میں ہماری تعلیم پھیلائیں لوگوں پر حجت تمام کریں اور ان کو کسی قسم کے عذر کا موقع نہ ملے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خود یہ بات بھی تشریح طلب ہے کیونکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں کہ جب نبی آتا ہے صرف اسی وقت لوگوں پر حجت ہوتی ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس جس زمانہ میں نبی آئے ہیں اسی زمانہ کے لوگوں پر حجت تمام ہوئی ہے باقی لوگوں پر حجت تمام نہیں ہوئی.اگر یہ معنے تسلیم کر لیے جائیں تو اس طرح دنیا کا اکثر حصہ اتمام حجت کے دائرہ سے
باہر نکل جائے گا.کیونکہ ہزاروں سال کے لمبے عرصے میں چند زمانوں میں ہی نبی آئے ہیں درمیان میں بڑے بڑے وقفے نظر آتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث نہیںہوا.پس اگریہ معنے کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صرف اس زمانہ کے لوگوں پر ہی حجت ہوئی ہے جس زمانہ میں کوئی نبی آیا ہے.باقی سب دنیا کسی الزام کے نیچے نہیں آتی.پس یہ جو شبہ پیدا ہوتا ہے سب سے پہلے میں اسی کے متعلق بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف کسی نبی کی زندگی میں جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہی اتمام حجت کے نیچے آتے ہیں بلکہ جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ہر نبی کی حیات دو قسم کی ہوتی ہے.ایک اس کی حیات جسمانی ہوتی ہے اور ایک اس کی حیات فیضانی ہوتی ہے.ایک وہ زمانہ ہوتا ہےجب کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ دنیا میں زندہ ہوتا ہےاور ایک وہ زمانہ ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے فیضان کے ساتھ دنیا میں زندہ ہو تا ہےاور کسی نبی کے فیضان کے زمانہ کی زندگی لوگوں کے عذرات کے لحاظ سے ویسی ہی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ اس کی حیات جسمانی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کی زبان سے خدا تعالیٰ کا کلام سنا ہوتا ہے اور وہ اس کی قوت قدسیہ کے حال ہوتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول رسول ہی ہے اور اس کے اتباع ہی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک زندہ خدا لوگوں کو نظر آیا ہے اسی طرح ابوبکر ؓاور عمر ؓاور عثمان ؓاور علیؓ کے ذریعہ بھی لوگوں کو ایک زندہ خدا نظر آتا تھا اور پھر ویسا ہی زندہ خدا حضرت حسن بصریؒ، حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ ،حضرت جنید بغدادی ،ؒ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ،ؒ حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ، حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ ،اور سید عبد القادر صاحب جیلانی ؒ وغیرہ کے ذریعہ بھی نظر آتا تھا.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کے زندگی بخش اثرات کو برابر قائم رکھا اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کی زندگی جاری رہی.سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ کوئی چیز کتنی نظر آئی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز نظر آئی ہے یا نہیں آئی.اگر کوئی چیز نظر آجائے تو یہ سوا ل باقی نہیں رہتا کہ وہ چیز چھوٹی ہے یا بڑی.دنیا میں مختلف قسم کی گائیں ہوتی ہیں مختلف قسم کے گھوڑے ہوتے ہیں کوئی ادنیٰ قسم کے ہوتے ہیں اور کوئی اعلیٰ قسم کے ہوتے ہیں.اگر کوئی شخص کسی اعلیٰ درجہ کی گائے یا کسی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے کو دیکھ کر یہ کہے کہ مجھے جب تک ایسی ہی گائے یا ایسا ہی گھوڑا دکھائی نہ دے میں مان نہیں سکتا کہ دنیا میں کوئی گائے یا گھوڑا بھی موجود ہے تو یہ اس کی غلطی ہوگی.میں ایک دفعہ کپور تھلہ گیا تو وہاں میں نے مہاراجہ کی ایک گائے دیکھی جو تین ہزار روپیہ کی تھی اور جو ولایت سے منگوائی گئی تھی.اب اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے گائے نہیں دیکھی اور اس کا مطلب وہ یہ لے کہ
مہاراجہ کپور تھلہ کی جو تین ہزار روپیہ کی گائے ہے وہ میں نے نہیں دیکھی تو کوئی معقول انسان اس کی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا.اسی طرح ہم گھوڑوں کو دیکھتے ہیں تو وہ ٹٹو بھی ہوتے ہیں جو معمولی سی قیمت پر آجاتے ہیں اور وہ گھوڑے بھی ہوتے ہیں جو پچیس پچیس لاکھ روپیہ کو خریدے جاتے ہیں.اب اگر کوئی شخص پچیس لاکھ روپیہ والے گھوڑے کا ذکر سن کر کہے کہ میں نے کبھی گھوڑا نہیں دیکھا اور اس کا مطلب یہ ہو کہ میں نے پچیس لاکھ روپیہ قیمت والا گھوڑا نہیں دیکھا تو کوئی معقول انسان اس کی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا.اگر وہ ایک بیمار اور ضعیف اور کمزور گھوڑا بھی دیکھ لیتا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے گھوڑا نہیں دیکھا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی زندگی کا ثبوت کسی انسان کے ذریعہ سے مل جائے تو چاہے وہ اتنا روشن اور بین نہ ہو اورچاہے وہ اس فیضان کا ایک چھوٹا سا ظہور ہو بہرحا ل جب خدا کا عکس اس کے آئینہ قلب میں سے نظر آجائے اور دنیا اس کا انکار نہ کرسکے بلکہ اسے کہنا پڑے کہ میں نے خدا کو دیکھ لیا تو کسی کا یہ کہنا کہ جب تک مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرح خدا نظر نہیںآئے گا.میں تسلیم نہیں کروں گا درست نہیں ہوگا جب ایک چیز موجود ہو تو اس کا انکار واقعات کو جھٹلانا ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ کوئی چیز چھوٹی ہو اور کوئی بڑی.پس نبی کی جو حیات فیضانی ہوتی ہے اس میں جتنے لوگ ہوں سب پر حجت تمام ہو جاتی ہے کیونکہ نبی کے زیر سایہ اور زیر تعلیم لوگوں کے ذریعہ وہ ایسے نشانات دیکھتے ہیں جن سے زندہ خدا کا ثبوت مل جاتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں یہ سلسلہ ءفیوض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے طور پر جاری ہے کہ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوا.یہ سلسلہ ابتدائے اسلام سے جاری ہوااور حضرت سید احمد صاحب شہید بریلوی ؒ کے زمانہ تک برابر جاری رہا.اور ان کے اور ان کے اتباع کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کا ثبوت لوگوں کو ملتا رہا.ان پر الہامات کا نزول ہوتا تھا.وہ ان الہامات کو بیان کرتے تھے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوتا تھا.اور یہ تو صرف ہندوستان کا ذکر ہے.دنیا کے اور حصوں میں بھی مختلف مجددین مبعوث ہوئے اور وہ لوگوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنے.مجددین کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک ہی مجدد ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوتا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقہ میں اللہ تعالیٰ مجدّد پیدا کیاکرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدّد کو ہی ساری دنیا کا مجدّد سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکو ں میں مختلف مجدّدین کھڑے ہوں.حضرت سیّد احمد
صاحب بریلوی ؒ بھی بیشک مجدّد تھے.مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے.بلکہ صرف ہندوستان کے مجدّد تھے.اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدّد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی انہوں نے ایران کو کیا ہدایت دی ،انہوں نے افغانستان کو کیا ہدایت دی.ان ملکوں کی ہدایت کےلئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحبِ وحی اور صاحبِ الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی راہنمائی کا فرض سرانجام دیا پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدّد تھے اور یہ بھی اپنی جگہ مجدّد تھے.فرق صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدّد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا.ہندوستا ن میں آنے والے مجدّدین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اس ملک میں آئے جہاں مسیح موعود نے آنا تھا.اور اس طرح ان کا وجود حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بطور ارہاص تھا.ورنہ ہمار ا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجدّدین سے خالی رہی ہے ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدیدِ دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدّد ہے.ہرشخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدّد ہے.چاہے وہ روحانی مجدّد نہ ہو.جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اورنگ زیبؒ بھی مجدّد تھا.حالانکہ اورنگزیبؒ کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا.تو نبی کے فیوضِ روحانی کا زمانہ نبی کی زندگی میں ہی شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فترت کا زمانہ بہت قلیل رہ جاتاہے.گو بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن پر فترت کا زمانہ کسی قدر لمبا نظر آتا ہے مگر ان ممالک کے ارد گرد بھی روحانی فیوض کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر جاری تھا.جیسے عرب کا ملک ہے.اس پر فترت کا ایک لمبا دور آیا.گو بعض لوگ کہتے ہیں.اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بعض انبیاء ان میں مبعوث ہوئے.چنانچہ سنان بن خالد کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ بھی نبی تھے (البدایۃ و النھایۃ لدمشقی جزء الثانی فصل تفویض قصی امر الو ظائف لابنہ عبدالدار ،ذکر جماعۃ مشھورین فی الجاھلیۃوالسیرۃ الحلبیۃ باب یذکر فیہ ما یتعلق بالوفود)اور اگر اس کو تسلیم کیا جائے تو اس طرح عرب پر بھی زمانہء فترت زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا.لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ملک عرب پر فترت کا دور لمبے عرصہ تک رہا تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ عرب کے دائیں اور بائیں ایسے لوگ مبعوث ہوتے رہے تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتے اور نشانات کے ذریعہ اس کی ہستی کا ثبوت پیش کرتے.آخر یہ کوئی ضروری نہیں تھا کہ اہلِ عرب پر کسی ایسے نبی کے ذریعہ ہی اتمام حجت کی جاتی جو ان میں سے ہوتا.جب دائود ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا جب سلیمانؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا.جب عیسیٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھاجب یحییٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہا تھا.جب ذوالقرنین کے ذریعہ
جس سے مراد خورس شاہ ایران ہے ان پر خدا ظاہر ہورہا تھا اوریہ وہ لوگ تھے جنہوں نے الہام کا دعویٰ کیا.اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے تو اس کے بعد اگر عرب میں کچھ وقفہ بھی ہوا تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمیں پتہ نہیں شرک بری چیزہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ باربار ان انبیا ء کے ذریعہ پیش کیا جا چکا تھا.اوریہ انبیا ء وہ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے اور جن کے حالات اور جن کی تعلیم سے وہ لوگ بے خبر نہیں ہوسکتے تھے.اگر اس طرح ہم دیکھیں تو فترت کا زمانہ بہت ہی قلیل رہ جاتا ہے جب خدا کا نور کہیں نظر نہ آتا ہو.اہلِ عرب پر بیشک فترت کا کچھ لمبا زمانہ نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت کی وجہ سے اوردوسری طرف اہل عرب پر اس رحم کی وجہ سے کہ انہوں نے فترت کا ایک لمبا دور برداشت کیا تھا اپنے خاتم النبیین کو عربوں میں مبعوث فرما دیا اور اس طرح اس کمی کا ازالہ ہوگیا.بہرحال لوگوں کے خلافِ توحید اعمال اس وجہ سے معاف نہیںہوسکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اس عذر کو ہمیشہ توڑتا رہتاہے اور وہ انبیا ء کے ذریعہ لوگوں پر حجت قائم کردیتا ہے خواہ یہ حجت انبیا ء کی جسمانی زندگی میں ہو خواہ ان کی فیضانی زندگی میں ہو.لیکن وہ لوگ جو نہ تو انبیا ء کی جسمانی زندگی کے زمانہ میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ان کی فیضانی زندگی میں موجو د ہوتے ہیں ان کا معاملہ ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہوتا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوبارہ اپنا رسول بھیجے گا.اور پھر اس کی اطاعت کرنے والوں یا اس کا انکار کرنے والوں کو اپنے اپنے عمل کے مطابق جزاد ی جائے گی(تفسیر رُوح المعانی جلد ۴صفحہ ۴۹۶).اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کے زمانہ میں احکامِ الٰہی کی جو اہمیت ہوتی ہے وہ فترت کے زمانہ میں نہیں ہوتی.جب کسی نبی کی فیضانی زندگی بھی ختم ہو چکی ہو یا اس فیضانی زندگی میں کوئی وقفہ پڑ چکا ہو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ فیضانی موجودتھی مگر چونکہ کوئی ایسا بندہ موجو دنہیں تھا جو بنی نوع انسان پر آپؐ کی روحانیت کا پر تو ڈالتا اور آپؐ کا نور اپنے آئینہء قلب میں جذب کر کے اس کی شعاعوں سے دوسروں کو منور کرتا اس لئے امت محمدیہ پر بھی فترت کا زمانہ آگیا.مگر وہ فترت کا زمانہ بہت ہی تھوڑا تھا.آخر حضرت سید احمد صاحب شہید بریلوی ؒ کے وفات پاتے ہی ان کے تمام شاگرد تو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوگئے تھے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی فتر ت کا زمانہ شروع ہوگیا تھا.آپ کی شہادت ۶؍مئی ۱۸۳۱ء کو ہوئی ہے(سید احمد شہید از غلام رسول مہر صفحہ ۴۱۴ زیر عنوان کیفیت شہادت) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۸۶۴ء کے قریب الہامات شروع ہوگئے تھے اور ۱۸۷۲ء میں آپ ؑنے اسلام کی صداقت کے متعلق مضامین
مجددین کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک ہی مجدد ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوتا ہے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقہ میں اللہ تعالیٰ مجدّد پیدا کیاکرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدّد کو ہی ساری دنیا کا مجدّد سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکو ں میں مختلف مجدّدین کھڑے ہوں.حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی ؒ بھی بیشک مجدّد تھے.مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے.بلکہ صرف ہندوستان کے مجدّد تھے.اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدّد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی انہوں نے ایران کو کیا ہدایت دی ،انہوں نے افغانستان کو کیا ہدایت دی.ان ملکوں کی ہدایت کےلئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحبِ وحی اور صاحبِ الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی راہنمائی کا فرض سرانجام دیا پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدّد تھے اور یہ بھی اپنی جگہ مجدّد تھے.فرق صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدّد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا.ہندوستا ن میں آنے والے مجدّدین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اس ملک میں آئے جہاں مسیح موعود نے آنا تھا.اور اس طرح ان کا وجود حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بطور ارہاص تھا.ورنہ ہمار ا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجدّدین سے خالی رہی ہے ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدیدِ دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدّد ہے.ہرشخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدّد ہے.چاہے وہ روحانی مجدّد نہ ہو.جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اورنگ زیبؒ بھی مجدّد تھا.حالانکہ اورنگزیبؒ کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا.تو نبی کے فیوضِ روحانی کا زمانہ نبی کی زندگی میں ہی شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فترت کا زمانہ بہت قلیل رہ جاتاہے.گو بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن پر فترت کا زمانہ کسی قدر لمبا نظر آتا ہے مگر ان ممالک کے ارد گرد بھی روحانی فیوض کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر جاری تھا.جیسے عرب کا ملک ہے.اس پر فترت کا ایک لمبا دور آیا.گو بعض لوگ کہتے ہیں.اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بعض انبیاء ان میں مبعوث ہوئے.چنانچہ سنان بن خالد کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ بھی نبی تھے (البدایۃ و النھایۃ لدمشقی جزء الثانی فصل تفویض قصی امر الو ظائف لابنہ عبدالدار ،ذکر جماعۃ مشھورین فی الجاھلیۃوالسیرۃ الحلبیۃ باب یذکر فیہ ما یتعلق بالوفود)اور اگر اس کو تسلیم کیا جائے تو اس طرح عرب پر بھی زمانہء فترت زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا.لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ملک عرب پر فترت کا دور لمبے عرصہ تک رہا تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ عرب کے دائیں اور بائیں ایسے لوگ مبعوث ہوتے رہے تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتے اور نشانات کے ذریعہ اس کی ہستی کا ثبوت پیش کرتے.آخر یہ کوئی ضروری نہیں تھا کہ اہلِ عرب پر کسی ایسے نبی کے ذریعہ ہی اتمام حجت کی جاتی جو ان میں سے ہوتا.جب دائود ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا جب سلیمانؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا.جب عیسیٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھاجب یحییٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہا تھا.جب ذوالقرنین کے ذریعہ جس سے مراد خورس شاہ ایران ہے ان پر خدا ظاہر ہورہا تھا اوریہ وہ لوگ تھے جنہوں نے الہام کا دعویٰ کیا.اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے تو اس کے بعد اگر عرب میں کچھ وقفہ بھی ہوا تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمیں پتہ نہیں شرک بری چیزہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ باربار ان انبیا ء کے ذریعہ پیش کیا جا چکا تھا.اوریہ انبیا ء وہ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے اور جن کے حالات اور جن کی تعلیم سے وہ لوگ بے خبر نہیں ہوسکتے تھے.اگر اس طرح ہم دیکھیں تو فترت کا زمانہ بہت ہی قلیل رہ جاتا ہے جب خدا کا نور کہیں نظر نہ آتا ہو.اہلِ عرب پر بیشک فترت کا کچھ لمبا زمانہ نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت کی وجہ سے اوردوسری طرف اہل عرب پر اس رحم کی وجہ سے کہ انہوں نے فترت کا ایک لمبا دور برداشت کیا تھا اپنے خاتم النبیین کو عربوں میں مبعوث فرما دیا اور اس طرح اس کمی کا ازالہ ہوگیا.بہرحال لوگوں کے خلافِ توحید اعمال اس وجہ سے معاف نہیںہوسکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا.کیونکہ اللہ تعالیٰ اس عذر کو ہمیشہ توڑتا رہتاہے اور وہ انبیا ء کے ذریعہ لوگوں پر حجت قائم کردیتا ہے خواہ یہ حجت انبیا ء کی جسمانی زندگی میں ہو خواہ ان کی فیضانی زندگی میں ہو.لیکن وہ لوگ جو نہ تو انبیا ء کی جسمانی زندگی کے زمانہ میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ان کی فیضانی زندگی میں موجو د ہوتے ہیں ان کا معاملہ ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہوتا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوبارہ اپنا رسول بھیجے گا.اور پھر اس کی اطاعت کرنے والوں یا اس کا انکار کرنے والوں کو اپنے اپنے عمل کے مطابق جزاد ی جائے گی(تفسیر رُوح المعانی جلد ۴صفحہ ۴۹۶).اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کے زمانہ میں احکامِ الٰہی کی جو اہمیت ہوتی ہے وہ فترت کے زمانہ میں نہیں ہوتی.جب کسی نبی کی فیضانی زندگی بھی ختم ہو چکی ہو یا اس فیضانی زندگی میں کوئی وقفہ پڑ چکا ہو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ فیضانی موجودتھی مگر چونکہ کوئی ایسا بندہ موجو دنہیں تھا جو بنی نوع انسان پر آپؐ کی روحانیت کا پر تو ڈالتا اور آپؐ کا نور اپنے آئینہء قلب میں جذب کر کے اس کی شعاعوں سے دوسروں کو منور کرتا اس لئے امت محمدیہ پر بھی فترت کا زمانہ آگیا.مگر وہ فترت کا زمانہ بہت ہی تھوڑا تھا.آخر حضرت سید احمد صاحب شہید بریلوی ؒ کے وفات پاتے ہی ان کے تمام شاگرد تو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوگئے تھے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی فتر ت کا زمانہ شروع ہوگیا تھا.آپ کی شہادت ۶؍مئی ۱۸۳۱ء کو ہوئی ہے(سید احمد شہید از غلام رسول مہر صفحہ ۴۱۴ زیر عنوان کیفیت شہادت) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۸۶۴ء کے قریب الہامات شروع ہوگئے تھے اور ۱۸۷۲ء میں آپ ؑنے اسلام کی صداقت کے متعلق مضامین وغیرہ لکھنے شروع کردیئے تھے.(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ صفحہ ۷۱زیر عنوان اخبار پڑھنے کی عادت) گویا ابھی ایک انسانی عمر بھی نہیں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کردیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک نہایت ہی واضح اور کھلا ثبوت ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام میں فترت کا زمانہ نہایت قلیل ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو صرف نام کے طورپر ہوتا ہے ورنہ ادھر ایک زمانہ ختم ہوتا ہے اور اُدھر تھوڑے سے وقفہ کے بعد ایک اور دور شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان دنیا میں ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن جن انبیا ء کی فیضانی زندگی ختم ہوجائے اور ان کے بعد بھی فترت کا دور لمبا ہوجائے.اس دور میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں ان کے متعلق شرعی احکام بالکل اور رنگ اختیا ر کرلیتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا بالکل جائز ہوتی ہے.زیر تفسیر آیت میں جو مثال دی گئی ہے وہ ایک ایسے شخص کی ہے جو نبوت کے زمانہ میں تھا یعنی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا اور اس زمانہ میں زندہ موجود تھا.جب حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے توحید کی تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کی.پس ایسا انسان جس کے سامنے ایک نبی اپنی تعلیم پیش کرتا ہے اور وہ پھر بھی شرک پر اصرار کرتا ہے بلکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو بھی توحید سے پھرانے کی کو شش کرتا ہے اس کے متعلق یقیناً اور احکام ہوںگے.اور زمانہ فترت سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر اور احکام نافذ ہوںگے.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنے چچا کے متعلق تو مغفرت کی دعا واپس لے لی اور اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا مگر اپنے والدین کے متعلق انہوں نے بڑھاپے میں بھی دعا کی کیونکہ وہ زمانہ ء فترت میں انتقال کر چکے تھے.اور ان کے متعلق احکام ایک جداگانہ نوعیت کے حامل تھے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گذشتہ زمانہ میں جو مسلمان حیاتِ مسیح کے قائل رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کو بزرگ اور صالح قرار دیا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں اس عقیدہ کو آپؑ نے عیسائیت کی مضبوطی کا موجب قرار دیا ہے.کیونکہ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھاکہ یہ عقیدہ اسلام کے لئے کیسا خطرناک ہے مگر اب یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے.پس چونکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے والدین زمانہ ء فترت میں انتقال کر چکے تھے آپ نے ان کی مغفرت کی دعا کی.اور چونکہ ان کا چچا توحید کی تعلیم سننے کے باوجود اپنے شرک پر مصر رہا آپ نے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا.حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے اَب کا نام قرآن کریم میں اٰزَر بتایا گیا ہے (الانعام :۷۵)لیکن بائیبل کہتی ہے کہ اس کا نام تارا تھا (پیدائش باب ۱۱آیت ۲۷)عیسائی مستشرقین جو بائیبل کی ہر بات کو وحئی آسمانی سے کم نہیں سمجھتے
بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر قرار دے کر غلطی کی ہے.حالانکہ بائیبل نہ تو کوئی تاریخ کی کتاب ہے اور نہ ہی ہم پر حجّت ہے.اس کے اپنے بیانات اس قدر متضاد اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں اسے کسی طرح درست نہیں مانا جاسکتا.بائیبل میں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا جو نام لکھا ہے وہ لکھنے والے ان کے وقت میں موجود نہ تھے بلکہ سوادو سوسال بعد میں پیدا ہوئے.پھر ان کی بات تاریخی لحاظ سے کیونکر صحیح مانی جاسکتی ہے.اور بائیبل کے بیانات کی جو حالت ہے وہ اس ایک مثال سے ہی ظاہر ہے کہ بائیبل میں لکھا ہے.حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ مصر سے نکلے تھے ان کی تعداد چھ لاکھ سے اوپر تھی(گنتی باب ۱آیت ۴۶) اور یہ وہ لوگ تھے جو لڑائی کے قابل تھے.اس لحاظ سے گویا کُل مرد عورتیں اور بچے چوبیس پچیس لاکھ ہو گئے.مگر یہ بالکل ناممکن ہے کہ سوادو سو سال میں بنی اسرائیل کی تعداد اس قدر بڑھ جائے.زیادہ سے زیادہ یہ تعدادچار ہزار تک بڑھ سکتی ہے بشرطیکہ ان میں کوئی عورت بانجھ نہ ہو اور کوئی مرد نامرد نہ ہو.گویا اگر نسل کی انتہائی ترقی مدّنظر رکھی جائے جو دنیا میں کسی قوم کی نہیں ہوئی.اور یہ تسلیم کر لیں کہ ہر چالیس سال میں ان کی تعداد دگنی ہوجاتی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی تعداد چار ہزار ہونی چاہیے.مگربائیبل کہتی ہے کہ ان میں چھ لاکھ سے اوپر جوان لڑنے والے تھے.گویا اس وقت بنی اسرائیل کی تعدادچوبیس پچیس لاکھ کے قریب تھی.یہ بات حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی بیان کی جارہی ہے.مگر قرآن کریم دو ہزار سال کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی یہ بات ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ ’’وَھُمْ اُلُوْفٌ‘‘(البقرۃ:۲۴۴)وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے.اور یہ وہی تعداد ہے جو بنی اسرائیل کی زیادہ سے زیادہ نسل بڑھنے کے متعلق اندازہ لگا کر میں نے پیش کی ہے.پس جس کتاب کی یہ حالت ہواُسے تاریخی کتاب کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے.وہ تاریخ نہیں بلکہ قصوں اور کہانیوں کی کتاب ہے.اگر ہم اس کا احترام کرتے ہیں تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی.ورنہ اس میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اب اس کی کسی بات پر پورے طور پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا پھر تورات کہتی ہے کہ حضرت ہارونؑ نے شرک کیا (خروج باب ۳۲ آیت ۲ تا ۶).اور اپنے ہاتھ سے پرستش کے لئے بچھڑا بنایا.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت ہارونؑ نے شرک نہیں کیا(طہ:۹۱) بلکہ انہوں نے دوسروں کو روکنے کی کوشش کی اور یہی بات ایک نبی کی شایان شان ہے.غرض جبکہ بائیبل کی کئی باتیں تاریخی لحاظ سے غلط ہیں تو یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا بائیبل نے جو نام بتایا ہے وہ درست ہے اور قرآن کریم نے جو نام بتایا ہے وہ غلط ہے.اگر بائیبل کا
بیان کلی طور پر درست ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تاراؔ ہی ہوتا تو طالمود ؔ میں ان کے باپ کا نام زارا کیوں لکھا جاتا.اور جوزیفس جو مشہور یہودی مؤرخ ہے وہ اس کا نام آتھر یعنی آزر کیوں بتاتا (ترجمۃ القرآن از سیلؔ صفحہ۱۷۷،۱۷۸)یہ اختلاف جو خود یہودیوں کے اندر پایا جاتا ہے.اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے باپ کے نام کے متعلق اختلاف تھا.اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اسی لئے ہوا کہ وہ پہلی الہامی کتب کے پیدا کردہ اختلافات کو دور کرے اس لئے اس نے اس اختلاف کوبھی دور کردیا اور بتادیا کہ اس کا نام آذر ہی تھا.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تارا سے ہی قرآن کریم نے آزر بنا لیاہو.کیونکہ تؔ زؔ سے بدل جاتی ہے.اور قلب کے ذریعہ الف پہلے آجاتاہے معلوم ہوتا ہے عربوں کی زبان پر تارا کا لفظ نہیں چڑھتا تھا.انہوں نے تارا کو زارا بنا لیا اور پھر زارا سے آزر بن گیا.چونکہ قرآن کریم عموماً معرّب نام استعمال کرتا ہے.جیسے ابراہام کو ابراہیم.اور یسوع کو عیسیٰ اور یوحنا کو یحییٰ اور حنوک کو ادریس کہا گیا ہے.اسی طرح تاراکو زارا کہہ دیا گیا ہے.پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں.پھر سوال یہ ہے کہ ہم تو یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس جگہ اَب سے ان کا حقیقی باپ مراد ہے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ اَب کا لفظ چچا کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اسی لئے دوسرے مقام پر جب انہو ں نے اپنے والدین کے لئے دعا کی تو وہاں اَب کی بجائے والد کا لفظ استعمال کیا.پس جبکہ ہم آزر ان کے چچا کا نام سمجھتے ہیں تو بائیبل میں اگر ان کے باپ کا نام تارا آگیا ہے تواس سے قرآن کریم پر کیا اعتراض پڑ سکتا ہے.اگر بائیبل ان کے چچا کانام تارا بتا تی تب تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا.لیکن بائیبل تو ان کے حقیقی باپ کا نام تاراؔ بتا تی ہے اور قرآن کریم ان کے چچا کانام آزر ؔ بتاتا ہے ان دونوںکا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں کہ ایک نام کو دیکھ کر دوسرے نام پر اعتراض کردیا جائے.اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بائیبل حضرت سارا کو جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی تھیں تارہؔ کی بیٹی قرار دیتی ہے.(پیدائش باب ۲۰آیت ۱۲)اگر تارا کو ان کا حقیقی با پ سمجھا جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں.کہ آپ نے اپنی سگی بہن سے شادی کی حالانکہ بہن سے شادی کرنا ناجائز تھا.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دراصل وہ باپ نہیں بلکہ چچا تھا.مگر چونکہ ان کی پرورش اپنے چچا کے گھر میں ہی ہوئی تھی اس لئے لوگوں کو غلطی لگ گئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تاراؔ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا.اورپھر مؤرخین نے بھی اسے آپ کا باپ قرار دے دیا.اس مقام پر بھی طالمودؔ نے بائیبل کی اصلاح کی ہے اور بتایا ہے کہ حضرت ساراؔ ان کے بھائی کی بیٹی تھیں.ان کی حقیقی بہن نہیں تھیں پھر طالمود ؔ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو آذر نے تنگ آکر بادشاہ کے پا س اُ ن کی شکایت کی اور انہیں سزا دلوانے کی کوشش کی.اس فعل کی بھی عقلی لحاظ سے ایک باپ سے
جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو سارا انسانی جسم خراب ہو جاتا ہے.پھر فرمایا اَلآوَھِیَ الْقَلْبُ (بخاری کتاب الایمان باب فضل من إستبرألدینہ)سنو !وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے.بعض لوگوں نے خصوصاً اس زمانہ کے سائینسدانوں اور تشریح الابدان والوں نے کہا ہے کہ وہ چیز جو انسانی اعمال،افعال اور ارادوں اور خواہشات کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایک نظام کے نیچے لاتی ہے وہ دل نہیں بلکہ دماغ ہے.اور سائینس والوں سے ڈرکر بعض مسلمان علماء نے بھی قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تفسیر شروع کردی ہے جس سے یہ نکلتا ہے کہ قلب سے مراد قلبِ انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد محض وہ مقام ہے جو انسانی جسم پر حکومت کرتا ہے چاہے وہ دماغ ہی ہو.لیکن میرے نزدیک یہ توجیہہ محض ڈر کی وجہ سے کی گئی ہے.ورنہ جہاں تک قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے میرے نزدیک قلب سے مراد وہی چیز ہے جو سینہ میں ہوتی ہے اور اس چیز کو دماغ قراردینا محض دھینگا مُشتی ہے.بہرحال اس حدیث سے ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کی صفائی دل کی صفائی کے ساتھ وابستہ ہے.تم اپنے ہاتھو ں کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے.تم اپنے منہ کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے تم اپنے سر کی صفائی کر کے پاک نہیں ہو سکتے.کیونکہ پاکیزگی کا منبع دل ہے.لیکن اگر تم اپنے دل کی صفائی کرلو تو اللہ تعالیٰ کے حضور تم ایک مطمئن دل لے حاضر ہو گے.ہمار اخالق اور مالک جس نے مخلوق کو پاکیزگی کے حصول کےلئے پیدا کیا ہے اس کے نزدیک سب سے مقدم دلوں کی پاکیزگی ہی ہے.کیونکہ تقویٰ کا درخت صرف اسی زمین میں پرورش پاسکتا ہے جو پاک اور صاف ہو.ناپاک دل اس کی صفات کا جلوہ گاہ نہیں ہوسکتا اور نہ ناپاک ہاتھ اس کے عرش کے پائے کو چھو سکتے ہیں.وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَۙ۰۰۹۱وَ بُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ اور جس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی.اور گمراہوں کےلئے دوزخ پر سے پردے لِلْغٰوِيْنَۙ۰۰۹۲وَ قِيْلَ لَهُمْ اَيْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ۰۰۹۳ اٹھا دیئے جائیں گے.اور کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم اللہ کے سواکے عبادت کرتے تھے.مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَؕ۰۰۹۴ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟یا تمہارا بدلہ لے سکتے ہیں ؟پس اس وقت وہ (جھوٹے معبود اور کافر) اور گمراہ
فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَ الْغَاوٗنَۙ۰۰۹۵وَ جُنُوْدُ اِبْلِيْسَ اور ابلیس کے لشکر سارے کے سارے اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرادیئے جائیں گے.وہ آپس میں اَجْمَعُوْنَؕ۰۰۹۶قَالُوْا وَ هُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَۙ۰۰۹۷تَاللّٰهِ اِنْ جب کہ وہ اُس (یعنی جہنم) میں جھگڑ رہے ہوں گے کہیں گے.خدا کی قسم ہم کھلی کھلی گمراہی میں پڑے كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍۙ۰۰۹۸اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۹۹ ہوئے تھے.جب کہ ہم تم کورب العالمین خدا کے برابر درجہ دیتے تھے.اور ہم کو تو مجرموں نے ہی راستہ سے وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ۰۰۱۰۰فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَۙ۰۰۱۰۱ بھٹکا یا تھا.پس (آج) شفاعت کرنے والوں میںسے کوئی ہماری شفاعت نہیں کرتا.اور نہ ہمارا کوئی وَ لَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ۰۰۱۰۲فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ غمخوار دوست ہے.پس اگر ہمیں لوٹنے کی طاقت ہوتی تو ہم (لوٹ کر) ضرور مومنوں میں (شامل)ہوجاتے.الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۰۳اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ اس (واقعہ ) میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان (کافروں )میں سےاکثر ایمان ہی نہیں لاتے.مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۰۴وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۰۵ اور تیرا رب یقیناً غالب (اور )باربار رحم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.اُزْلِفَتْ.اُ زْلِفَتْ: اَ زْلَفَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور اَزْلَفَ کے معنے ہیں قَرَّبَہٗ.اس کو قریب کیا (اقرب) پس اُزْلِفَتِ لْجَنَّۃُ کے معنے ہوںگے.جنت قریب کردی جائے گی.بُرِّ زَتُ.بُرِّزَتْ :بَرَّزَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور بَرَّزَہٗ کے معنے ہیں اَظْہَرَہٗ وَبَیَّنَہٗ کسی چیز کو ظاہر اورواضح کردیا (اقرب) پس بُرِّزَتْ کے معنے ہوںگے ظاہر کر دی جائے گی
اَلْجَحِیْمُ.اَلْجَحِیْمُ اَلنَّارُ الشَّدِیْدَۃُ التَّاَجُّجِ.یعنی جحیم کے معنے سخت بھڑکنے والی آگ کے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں.کُلُّ نَارٍ عَظِیْمَۃٍ فِیْ مَھْوَاۃٍ فَھِیَ جَحِیْمٌ یعنی ہر وہ بڑی آگ جو گڑھے میں ہو.اَلْمَکَانُ الشَّدِیْدُ الْحَرِّ.سخت گرمی والی جگہ.اِسْمٌ مِنْ اَسْمَآئِ جَھَنَّمَ.جہنم کے ناموں میںسے ایک نام جحیم بھی ہے.(اقرب) کُبْکِبُوْا.کُبْکِبُوْاکَبْکَبَ سے جمع مذکر کا مجہول کا صیغہ ہے اور کَبْکَبَہٗ کے معنے ہیں قَلَبَہٗ وَصَرَعَہٗ.اس کو پچھاڑ دیا اور شکست دے دی.اور جب کَبْکَبَ الشَّیْءَ کہیں تو معنے ہوںگے رَمَاہُ فِیْ الْھُوَّۃِ.اس کو گڑھے میں پھینک دیا.(اقرب) پس کُبْکِبُوْا کے معنے ہوںگے.(۱)ان کوپچھاڑ دیا جائے گا.(۲)ان کو گڑھے میں پھینک دیا جائے گا.اَلْغَاوٗنَ.اَلْغَاوٗنَ اَلْغَاوِیْ کی جمع ہے جو غَوَیٰ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے.اور غَوَی الرَّجُلُ کے معنے ہیں.ضَلَّ گمراہ ہوگیا خَابَ.ناکا م ہوگیا.اِنْھَمَکَ فِی الْجَھْلِ.جہالت میں لگ گیا.ھَلَکَ.ہلاک ہوگیا.پس اَلْغَاوِیْ کے معنے ہوںگے گمراہ ہونے والا.ناکام ہونے والا.جہالت کے کاموں میں مشغول ہونے والا.ہلاک ہونے والا.(اقرب) جُنُوْدٌ.جُنُوْدٌ: جُنْدٌ کی جمع ہے اور اَلْجُنْدُ کے معنے ہیں اَلْعَسْکَرُ.لشکر.اَلْاَعْوَانُ.مددگار (اقرب) نُسَوِّیْکُمْ.نُسَوِّیْکُمْ: سَوَّیٰ سے فعل مضارع کا جمع متکلم کا صیغہ ہے اورسَوَّاہُ بِہٖ کے معنے ہیں عَدَّلَ.کسی کو کسی کے برابر قرار دیا (اقرب) پس اِذْ نُسَوِّیْکُمْ کے معنے ہوں گے جب ہم تم کو برابر قراردیتے تھے.حَمِیْمٍ.اَلْـحَمِیْمٌ: القَرِیْبُ الَّذِیْ تَھْتَمُّ بِاَمْرِہٖ.وہ قریبی جس کے کاموں کی سرانجام دہی کی فکر رہتی ہو.اَلصَّدِیْقُ دوست (اقرب) کَرَّۃً.کَرَّۃً کَرَّ سے مصدر ہے.اور کَرَّ کے معنے ہیں رَجَعَ.لوٹا (اقرب) پس کَرَّۃً کے معنے ہیں ایک دفعہ لوٹنا.تفسیر.فرماتا ہے.اس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی.یعنی متقی جوں جوں نیک کام کرتا چلاجاتا ہے نیکی اس پر آسان ہوتی جاتی ہے اور جنت اس کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے.میں نے بالعموم دیکھا ہے کہ جب کسی کو نیکی کی لذّت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھتا ہے اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نیکی اس کے لئے آسان سے آسان تر ہوجاتی ہے.پارٹیشن سے پہلے میں ایک دفعہ دہلی گیا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت تک ابھی وزیر نہیں بنے
تھے.ویسے وہ حکومت کی طرف سے ایک خاص مقدمہ کی پیروی کےلئے مقرر تھے.اُن دنوں ہندوستان کی حکومت نے انگلستان سے مالیات کے ایک ماہر کو منگوایا تھا تاکہ بعض اہم باتوں میں اس کا مشورہ لیا جاسکے.چوہدری صاحب نے اسے مجھ سے ملانے کے لئے دعوت دی.اور اس میں اور چیزوں کے علاوہ گلاب جامن یا رس گلے بھی رکھ دیئے.اس شخص کے لئے یہ بالکل ایک نئی چیز تھی وہ انہیں دیکھ کر گھبراگیا.مگر چوہدری صاحب نے کہا.اسے کھاکر دیکھو.چنانچہ اس نے ایک گلاب جامن یا رس گلا اُٹھا کر کھایا.چوہدری صاحب نے پھر ایک گلاب جامن یا رس گلا اسے دیا.اس نے پھر گریز کیا تو چوہدری صاحب نے ا س سے کہا کہ تم نے پہلا گلاب جامن یا رس گلا تو عجوبہ کے طور پر کھایا تھا.اب دوسرا گلاب جامن یا رس گلا اس کے مزے کی وجہ سے کھائو.میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے.انہوں نے بتا یا کہ انگریزی میں یہ محاورہ ہے کہ پہلی چیز عجوبہ کے طور پر ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی وجہ سے استعمال کی جاتی ہے.یہ تو ایک دنیوی ضرب المثل ہے لیکن میں نے روحانیات میں بھی دیکھا ہے کہ پہلے چسکہ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.پھر خود بخود عادت پڑجاتی ہے.ٹنکچرز جو الکوحل سے تیا ر ہوتی ہیں بچے اور جوان ا ن کے پینے سے گھبراتے ہیں لیکن یورپ میں لوگ شراب تک مزے لے لے کر پیتے ہیں.اور روکنے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتے.امریکہ میں جب شراب نوشی کے انسداد کے لئے قانون وضع کیا گیا تو ہزار ہا موتیں وہاں صرف اس وجہ سے واقع ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ پی لیتے.سالہاسال ایسا ہوتا رہا کہ چونکہ لوگوں کو پینے کےلئے شراب نہیں ملتی تھی اس لئے وہ سپرٹ پی لیتے تھے اور سپرٹ میں چونکہ زہریلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہوجاتے اور کئی مرجاتے.مگر پھر بھی وہ اپنی خواہش کو نہ روک سکتے.پس ہر چیز کے دومزے ہوتے ہیں ایک توا س کا ذاتی مزاہوتا ہے اور دوسرا مزا عادت کے نتیجہ میں ہوتاہے.ہمارے ملک میں لوگ پان میں زردہ کا استعمال کرتے ہیں.لیکن جس نے پہلے زردہ استعمال نہ کیا ہو وہ اگر زردہ کھا لے تو اس کے سر میں چکر آنے لگتاہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ مجھے نقرس کی تکلیف ہوئی.ایک دوست جو ہندوستا ن کے تھے انہوں نے کہا.آپ پان میں زردہ ڈال کر کھائیں.درد ہٹ جائے گی.میںنے کہا.میں نے تو زردہ کبھی نہیں کھایا.اس لئے اگر میں نے زردہ کھایا تو سرمیں چکر آجائے گا.انہوں نے کہا نہیں آپ استعمال تو کریں.چنانچہ انہوں نے پان میں زردہ ڈال کر مجھے دیا اورمیںنے کھا لیا.اس سے درد میں واقعہ میں کچھ کمی ہوگئی چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے پھر مجھے پان میں زردہ ڈال کردیا.غرض دو دن ہم سفر میںرہے اور دونوں دن وہ برابر مجھے پان میں زردہ ڈال کردیتے رہے.دودن کے بعد میں نے دیکھا کہ درد کی تکلیف کم ہونے لگی ہے تب میں نے اسے چھوڑ
دیا کہ کہیں اس کی عادت ہی نہ پڑجائے غرض بڑی تکلیف دہ اور بد مزہ چیزیں بھی اگر علاج کے طورپر استعمال کی جائیں توا ن کی عادت پڑ جاتی ہے اور اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں.اور جب ادنیٰ چیزوں کی عادت پڑ جاتی ہے تو دین کی قربانی کی عاد ت کیوں نہیں پڑ سکتی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کو ایک دفعہ قربانی کےلئے آگے لایا جائے اس کے بعد خود بخود اس کے اندر ذوق پیدا ہوجاتا ہے.اور اسے دین کے کاموں میں ایسی لذت آنے لگتی ہے کہ ان کو ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑنا اس کے لئے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے.جس طرح ایک انسان کو روٹی نہیں ملتی تو وہ چلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے کہ خدایا مجھے روٹی دے.اسی طرح اگر اسے اشاعت ِدین کی توفیق ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ممنون ہوتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے.اور اگر کسی وقت اسے دین کی خدمت کی توفیق نہیں ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتاہے کہ وہ اس کی کمزوری کو دور کرے اور اس کے اندر دینی خدمات بجا لانے کی زیادہ سے زیادہ طاقت پیدا کرے.اس طرح قدم بقدم نیکی اس پر آسان ہوتی جاتی ہے اور جنت اس کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے لیکن سچائی سے منحرف لوگوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ان کے لئے دینی قربانیاں جوایک مومن کے لئے بالکل آسان ہوتی ہیںآگ کے شعلوں کا سا رنگ اختیار کر لیتی ہیں.اور وہ ان سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں.گویا مومن تو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں.اور وہ آگ ان کے لئے گلزار بن جاتی ہے لیکن ایک منافق اور ایک گمراہ انسان کو وہی آگ جہنم کا ایندھن بنا دیتی ہے.کیونکہ اس وقت اس کی بے ایمانی پر جو پردہ پڑاہوتا ہے وہ اُٹھ جاتا ہے.اسی طرح اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَمیں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی.یعنی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کردے گا.کہ مذہبی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آنے لگ جائیںگی اور سائینس جو مذہب کی مخالفت کررہی ہوگی اس کی مخالفت آپ ہی آپ ختم ہوجائے گی اس طرح متقی لوگوں کے لئے جنت کا حصول بہت آسان ہوجائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے اور احرارِ یورپ میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ اپنے بلند بانگ دعا وی کو چھوڑ رہے ہیں.اور کچھ ان باتوں کو جو اس سے قبل انہیں غیر قدرتی نظر آتی تھیں قانون ِقدرت میں شامل کرکے مذہب کی طرف آرہے ہیں گویا دَنَافَتَدَلّٰی کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے.یعنی سائینس دان اوپر کی طرف چڑھ رہا ہے.اور علماء نے جو مبالغہ کا رنگ مذہب پر چڑھا دیا تھا وہ اتارا جارہا ہے.اور اس طرح دنیاخدائی باتوں کی تصدیق کے لئے تیار ہورہی ہے اور جنت ان کے قریب کی جارہی ہے.مگر ایسے زمانہ میں بھی جولوگ خدائی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کریںگےانہیں اپنےاعمال کی جواب دہی
کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا.تب ان سے کہا جائے گا کہ اَيْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ.مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ وہ تمہارے معبود کہاں ہیں جن کے آستانہ پر تم سر جھکاتے تھے اور جنہیں اپنا خدا سمجھا کرتے تھے.آج بتائوکہ کیا وہ تمہاری کچھ بھی مدد کر سکتے ہیں یا تمہارا بدلہ لینے کی کوئی طاقت رکھتے ہیں.جب وہ اپنی آنکھوں سے اس انجام کو دیکھ لیںگے تو وہ بھی اور ان کے معبود بھی اور تمام ابلیسی لشکر بھی دوزخ میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے.اور ان کی تمام عزتیں خاک میں مل جائیں گی.تب وہ آپس میں جھگڑنا شروع کردیں گے اور وہ لوگ جو دنیا میں اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید کرتے رہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر انہو ں نے کان نہ دھرا.وہ ان سے کہیں گے کہ خدا کی قسم ہم تو بڑی غلطی میں مبتلا رہے.جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے رہے اورہم نے تمہاری باتوں پر تو کان دھرا مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو منادی آیا.اس کی آواز کو ہم نے نہ سنا مگر پھر وہ اپنے دلوں کو تسلی دینے کے لئے کہیں گے.اس میں ہمار ا کیا قصور ہے.وَ مَاۤ اَضَلَّنَاۤ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ہمیں تو ان مجرموں نے ہی صحیح راستہ سے بھٹکایا ہے.اگر یہ لوگ ہماری راہ میں روک بن کر کھڑے نہ ہوجاتے تو آج یہ ہمار ا حشر کیوں ہوتا.یہ توہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے سب بوجھ اٹھالیںگے اور تمہیں جنت میں پہنچا دیں گے مگر آج یہ حالت ہے کہ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ نہ آج شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہماری شفاعت کرتا ہے اور نہ کوئی دوست اور غمخوار ہمیں اس مصیبت سے چھڑاتاہے.حضرت خلیفہء اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھی جو کسی پیر کی مرید تھی.وہ ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئی.تو میں نے کہا بہن تم احمدی کیوں نہیں ہوتیں.وہ کہنے لگی مجھے احمدی بننے کی کیا ضرورت ہے.میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کرلی ہے اور انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ اب تمہیں کسی نیکی کی ضرورت نہیں جو جی میں آئے کرو.تمہارے سب گناہ ہم نے اٹھا لئے.میں نے کہا.اب جب پیر صاحب سے ملوگی تو ان سے پوچھنا کہ قیامت کے دن جب ایک ایک شخص کو گناہوں کی وجہ سے جوتیا ں پڑنی ہیں تو کبھی آپ نے یہ بھی سوچاکہ آپ جنہوں نے اپنے سب مریدوں کے گناہ اٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جوتیا ں پڑیں گی.وہ کہنے لگی اچھا میں یہ بات ان سے ضرور دریافت کروں گی.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے پوچھا.کہ بہن پیر صاحب سے وہ بات پوچھی تھی.وہ کہنے لگی.ہاں میں نے پوچھی تھی مگر وہ تو انہوں نے فوراً حل کردی.میں نے کہا کس طرح ؟ کہنے لگی جب میں نے یہ سوال کیا تو پیر صاحب کہنے لگے.دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیںکہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے ہیںتوکہہ دینا کہ مجھے اس کا کچھ پتہ نہیں.یہ پیر صاحب کھڑے ہیں
ان سے پوچھو.اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے.تم اطمینان سے جنت میں چلی جانا.میں نے کہا.پیر صاحب! پھر آپ کا کیا بنےگا؟ کہنے لگے.جب وہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر کہوں گا کہ کر بلا میں ہمارے نانا امام حسین ؓنے جو قربانی کی تھی کیا وہ کافی نہیں تھی کہ آج پھر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ بتائو تم نے کیا کیا ؟اس پر فرشتے شرمندہ ہوکر ایک طرف ہوجائیں گے اورہم دگڑ دگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جائیں گے.اسی طرح دنیا میں روزانہ ہمیں یہ نظارہ نظرآتا ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کی خاطر جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے.وہ ان کےلئے ہر قسم کے دھوکا اور فریب اور جعلسازی سے کام لینے کے لئے تیا رہوجاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں.مگر قیامت کے دن نہ کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ اپنے سروں پر گناہوںکا بوجھ اٹھا لینے کا وعدہ کرنے والے کسی کو جہنم سے بچا سکیں گے بلکہ انہیں حسرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ اگر ہم میںیہ طاقت ہوتی کہ ہم دوبارہ دنیا میں لوٹ کر جاسکتے تو ہم تلافی مافات کرنے کےلئے تیارہیں مگر اس وقت ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکے گی.کیونکہ اس وقت عمل کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا.فرماتا ہے.ابراہیمؑ کے اس واقعہ میں بھی ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے کہ کس طرح ابراہیمؑ نے انتہائی کمزوری اور ضعف کی حالت میں بتوں کے خلاف آواز بلند کی.کس طرح اس کی قوم نے مخالفت کی اور آخر اسے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا.مگر آخر ابراہیم ؑ ہی فاتح ہوا.اور بت اس کی قوم کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے.مگر اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں سے اکثر لوگ دنیوی لذات میں ہی منہمک رہے.اور انہیں آپ پر ایمان لانے کی سعادت نصیب نہ ہوئی.لیکن فرماتا ہے.اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمْ.تیرا رب یقیناً بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے.یعنی بے شک ابراہیم علیہ السلام کی قوم کی اکثریت اس پر ایمان نہیں لائی مگر تیرا رب بڑا غالب اور مہربان ہے وہ ایک دن تیری قوم کی اکثریت کو تجھ پر ایمان لانے کی سعادت عطا فرمادے گا.اور انہیں ایک لمبے عرصہ تک اپنے انعامات سے متمتع فرماتا چلا جائے گا.چنانچہ فتح مکہ کے بعد ایسا ہی ہوا.آپؐ کی ساری قوم آپ پر ایما ن لے آئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس ایمان کی برکت سے انہیں سینکڑوں سال تک اپنے انعامات سے نوازا.اور انہیں ایک لمبا دور حکومت عطا فرمایا.
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠ۚۖ۰۰۱۰۶اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نوح ؑ کی قوم نے (اپنے)رسولوں کا انکار کیا.جب کہ ان سے ان کے نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۰۰۱۰۷اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ۰۰۱۰۸ بھائی نوح ؑ نے کہا.کیا تم تقویٰ نہیںکرتے ؟ میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۰۹وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ ہوکر آیا ہوں.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.اور میں اس (خدمت کے سلسلہ) میں کوئی اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۚ۰۰۱۱۰فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِؕ۰۰۱۱۱ اجر نہیں مانگتا.میرا بدلہ تو رب العالمین (خدا)کے ذمہ ہے.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری طاعت کرو.تفسیر.فرماتا ہے.نوح ؑ کی قوم نے بھی نوح ؑ کی جو کہ اس وقت سب رسولوں کا قائم مقام تھا تکذیب کی.نوح ؑ نے ان کو سمجھا یا مگر وہ نہ مانے اور یہ بھی بتایا کہ آخر میرے سمجھانے کی غرض کیا ہے.میں تم سے کچھ مانگتا تو نہیں.میری امید اور میرا توکل تو صرف رب العالمین خدا پر ہے.پس اللہ کا تقویٰ اختیا ر کرو اور میری اطاعت کرو.اَطِیْعُوْنِ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اطاعت اور شریعت پر عمل جُدا جُدا چیزیں ہیں.اہلِ قرآن کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن کی اطاعت کا حکم ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم نہیں.مگر حضرت نوح علیہ السلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ادنیٰ نبی تھے کہتے ہیں.وَاَطِیْعُوْنِ تم میری ذات کی اطاعت بھی کرو.تب تمہارا تقویٰ مکمل ہوگا.کیونکہ خدائی تعلق کا پہلا زینہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے جس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ تم چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکو.اسی طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والے وجودوںکو چھوڑ کر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرسکو مگر جس طرح کبھی کبھا ر ایسا بھی ہوتاہے کہ چھت پر بیٹھا ہوا انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی پر شیر یا ڈاکو نے حملہ کردیا ہے تو وہ رسی گرا کر اس کو اوپر کھینچ لیتا ہے.اسی طرح کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے.کہ خدا تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے لیکن وہ ایسے ماحول میں ہے کہ اسے انبیاء کی راہنمائی میسر نہیں آسکتی تو وہ خود اس کو اپنی طرف
کھینچ لیتا ہے.مگر ایسا بہت شاذ ہوتا ہے اور شاذ پرکسی قانون کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی.عام قانون یہی ہے کہ جو لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں انہی کے ذریعہ انسان کو روحانی ترقی ملتی ہے اور اس ترقی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان دنیوی محبتوںکو سرد کرکے ان کی محبت کو اپنے اوپر غالب کرلے.جب وہ ان کی محبت کو غالب کرلیتا ہے تو ان کی اطاعت کرنا اور ان کا نمونہ اختیارکرنا اس کےلئے آسان ہوجاتا ہے.اس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر ہے جس کی میں اقتداء کررہا ہوں.بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میر اباپ ہے اور اس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے.حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ اگر تم نجات حاصل کرنا چاہتے ہوتو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیارکرو.اور میری اطاعت کا جؤااپنی گردنوں پر رکھو کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے تمہاری ہدایت کےلئے مبعوث فرمایا ہے.قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ۰۰۱۱۲قَالَ وَ مَا انہوں (یعنی کافروں) نے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ نہایت حقیر لوگ تیرے متبع ہوئے ہیں.عِلْمِيْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَۚ۰۰۱۱۳اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰى رَبِّيْ اُ س نے کہا مجھے کہاں سے علم آیا ہے کہ ان کے اندر ونی اعمال کیسے ہیں.ان کا حساب کرنا تو میرے رب کے لَوْ تَشْعُرُوْنَۚ۰۰۱۱۴وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۱۵ ذمہ ہے.اگر تم سمجھو.اور جو شخص مومن ہوکر میرے پاس آتا ہے میرا کام نہیں کہ میں اسے دھتکاروں.اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌؕ۰۰۱۱۶ میں تو صرف ایک کھلا کھلا ہوشیا ر کرنےوالا انسان ہوں.تفسیر.اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر ہمیشہ یہ اعتراض ہوتا چلا آیا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا کہ اس کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں ہم اس کی بات کس طرح مان لیں.حضرت نوح علیہ السلام نے کیا ہی اچھا جواب دیا کہ ہدایت دینا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر اس نے ان کو ہدایت کے قابل سمجھا تو ہدایت دے دی.پس جب اس کے نزدیک ان کے عمل اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے سے ہیں تو میں ان کو کس طرح دھتکار سکتا
ہوں.آخر ان کا حساب تو خدا تعالیٰ کے ذمہ ہے.میرے ذمہ تونہیں.کاش تم عقل سے کام لو.اور جس کو خدا مومن بنا دے.اس کی تحقیر نہ کرو.اور اگر تم تحقیر کروبھی تو میں بہر حال اسے دھتکار نہیں سکتا کیونکہ اس کو خدا نے میرے حوالہ کیا ہے.میرا کام تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو بری باتوں سے روکوں.اس کے بعد جب خدا تعالیٰ کسی کو ہدایت دے دے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بری باتوں سے رک گیا ہے اور نہایت عزت والا انسان بن گیا ہے.اس کے بعد وہی معززہے تم لوگ معزز نہیں.اسلامی تاریخ میں اس کے متعلق ایک بڑا اچھا واقعہ آتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج کے لئے تشریف لے گئے تو حج کے بعدعید کے دن لوگ آپ کو ملنے کے لئے آئے.شروع میں مکہ کے رؤساء اور رئیسوں کے بیٹے آئے.اس کے بعد کچھ غلام آ ئے جو ابتدائے زمانہ میںاسلام لائے تھے.اُن کے آنے پر حضرت عمر ؓنے رؤساء کو پرے سرکنے کے لئے کہا اور اپنے پاس غلاموں کو بٹھا لیا.اس کے بعد کچھ اور نومسلم غلام آئے.حضرت عمرؓ نے پھران کو اپنے پاس بٹھا لیا.اور رؤساء کو پَرے سرکنے کا اشارہ کیا.اسی طرح متواتر ہوتا رہا.آخر شر مندہ ہو کر رؤساء کے لڑکے اُٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جاکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا آج تمہاری کیسی بے عزتی ہوئی ہے.اس پر ان میں ایک ہوشیار لڑکا بولا کہ اس میں قصور کس کا ہے.یہ غلام جن کو تم ذلیل سمجھتے ہو سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے.اور انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی ترقی کے لئے خرچ کر دیں جبکہ تمہارے باپ دادے اسلامؔاور محمدؔرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کررہے تھے.اب اسلام کی حکومت آئی ہے تو عزت انہی کو ملے گی.ہم کو نہیں ملے گی.باقی ساتھیوں نے کہا.تو پھر اس کا علاج کیا ہے.اس ذہین لڑکے نے کہا.چلو اس کا علاج حضرت عمر ؓسے ہی پوچھیں چنانچہ وہ پھرجمع ہو کر حضرت عمرؓکے پاس گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر بات سمجھ لی.اور کہا.اے نوجوانو.مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مکّہ میں کیا حیثیت ہے.مگر میں مجبور تھا.یہ لوگ جن کو میں نے آگے بٹھایا.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم بھی ان کو آگے بٹھایا کرتے تھے.اب میں ان کے درجہ میں فرق کس طرح کرسکتا تھا.ان نوجوانوں نے کہا.پھر اس کا کوئی علاج بھی ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ان کے خاندانوں کی عزت کو جانتے تھے اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ شمال کی طرف اونچا کردیا.جس کا مطلب یہ تھا کہ اب شام میں عیسائیوں سے جنگ ہورہی ہے.وہاں چلے جاؤاور اپنے باپ دادا کے گناہوں کا کفارہ اداکرو.چنانچہ وہ نوجوان خاموشی سے اُٹھ کر چلے گئے اور اسی وقت اونٹوں یا گھوڑوں پر سوار ہوکر شام چلے گئے اور اسلامی لشکر میں مل گئے اور وہیں کفار سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہ آیا.
سو عزت وہی ہوتی ہے جو خدا دے مال و دولت سے عزت نہیں ملتی.کافروں کا نبیوں پر ایمان لانے والوں کو اس لئے ذلیل سمجھنا کہ وہ غریب ہیں اول درجہ کی حماقت ہے جو نبی پر پہلے ایمان لاتے ہیں وہی سب سے زیادہ معزز ہوتے ہیں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ابو بکرؓ.علیؓ.زیدؓایمان لائے.مکہ کے صنادید کی موجودگی میں ابوبکر ؓ کو مسلمانوں نے خلیفہ تسلیم کیا.جس پر ان کے باپ نے بھی تعجب کیا.(البدایۃ والنھایۃ الجزء السابع فصل وقعۃ القادسیۃ ذکر من توفی فی ھذا العام....)مگر ابوجہلؔ.عتبہؔ.اور شیبہؔ کی عزت توابو بکرؓاورعلیؓکی جوتیوں کے برابر بھی نہیں.یہی بات حضرت نوح ؑنے اپنے مخالفین کے سامنے پیش کی اور کہا کہ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.بیشک یہ تمہیں حقیر نظر آتے ہیں.مگر مجھے کیا معلوم کہ ان کی وہ کون سی چُھپی نیکیاں تھیں جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کو یہ شرف بخشا کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے نبی کو قبول کرلیا.اور تمہاری وہ کون سی بداعمالیاں تھیں جو تمہاری راہ میں حائل ہوگئیں اورجنہوں نے تم سے نورِ بصیرت چھین لیا اور تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے سے محروم رہ گئے.اور جب ان کی نیکیوں کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ نے ان پر اتنا بڑا انعام نازل کیا ہے کہ انہیں ایک نبی کو ماننے کی سعادت حاصل ہوگئی ہے تو یہ لوگ ذلیل کس طرح ہوئے.ذلیل تو وہ لوگ ہیں جن کی بداعمالیوں نے انہیں اللہ تعالیٰ کے مامور کی شناخت سے محروم کردیا ہے.پھر فرمایا اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰى رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ.بیشک یہ آج غریب اور کنگال ہیں.کوئی مال اور جائداد ان کے پاس نہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ ایک دن انہیںبہت بڑی ترقی عطا کرے گا.کاش تم شعور سے کام لیتے.اور اس قسم کے بیہودہ عذرات سے کام لے کر خدائی ہدایت کو ٹھکرانے کے لئے تیا ر نہ ہوجاتے.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس مضمون کو مختلف مقامات میں مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے.کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ ہمارے مخالف شعور سے کام نہیں لیتے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ ہمارے مخالف علم سے کام نہیں لیتے.شعور اس حِس کو کہتے ہیں جو انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور علم اس حِسّ کو کہتے ہیں جو باہر سے آتی ہے.خواہ سن کر یا دیکھ کر یا چھو کر یا چکھ کر.مثلاً ہم چلے جارہے ہوتے ہیں کہ ہمیں ایک جنگل نظر آتا ہے جسے دیکھ کر ہمارا علم بڑھتا ہے.یہ علم باہر سے پیدا ہوتا ہے اندر سے نہیں.یا کسی شخص کو کوئی چیز چکھ کر جس ذائقہ کا پتہ لگتا ہے وہ علم کہلاتا ہے.اس کے مقابلہ میںبعض دفعہ ہم بیٹھے بیٹھے محسوس کرتے ہیں کہ ہماری کیا ضرورتیں ہیں.ہماری قوم کی کیا ضرورتیں ہیں.ہمارے بچوں کی کیا ضرورتیں ہیں.ہمارے خاندان کی کیا ضرورتیں ہیں.یہ چیز جب قدرتی طور پر آپ ہی آپ پید ا ہو تو اسے شعور کہتے ہیں.گویا انسان جب ان جبلی طاقتوںکو جو اللہ تعالیٰ نے خو د اس
کے اندر پیدا کی ہیں محسوس کرکے اپنے لئے ایک نیک راہ تجویز کرتا ہے.تو اسے شعور کہتے ہیں اور جب محنت کرکے انسان جب یہ سوچتا ہے کہ فلاں چیز میرے لئے فائدہ مند ہے یا نہیںتو اس کام کا نام فکر ہوتاہے.قرآن کریم نے اس کی طرف بھی بار بار توجہ دلائی ہے کیوں کہ یہ قوت بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے اسی کے ایک پہلو کا نام عقل بھی ہے.عقل اس قوت کو کہتے ہیں جو انسان کو علم ؔ.فکر ؔاور شعورؔ کے مطابق کا م کرنے کی توفیق بخشتی ہے.عقل ؔ کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ انسان سوچتا اور فیصلہ کرتا ہے کہ یہ چیز میرے لئے مضر ہے یا مفید.جب وہ فیصلہ کرے کہ فلاں چیز میرے لئے مضر ہے اور جب یہ حِسّ اسے بری چیز سے روک دے تو اسے عقل کہتے ہیں یعنی بدی کی طرف لےجانے والی چیز سے روکنے والی عقل ہے.اسی کی طرف قرآن کریم نے تفقّہ ؔ کے لفظ سے بھی توجہ دلائی ہے.تفقّہؔ کے معنے ہوتے ہیں.کسی چیز کی باریکی کو پا لینا.فرماتا ہے تمہارے سامنے کئے چیزیںآتی ہیں.مگر تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ان سے کیا نتیجہ نکلتا ہے.یوں دیکھنے میں ایک مرغا.ایک کتا اور ایک بلی انسان کے شریک ہیں پھر تمہارے دیکھنے اور ان کے دیکھنے میں کیا فرق ہے.وہ فرق یہی ہے کہ تم ایک چیز کو دیکھ کر نتیجہ نکال لیتے ہو.لیکن مرغا اور بلی اور کتا اسے دیکھ کر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتا.بلی اور کتا اگر ایک درخت دیکھتے ہیں تو انہیں اتنا ہی نظر آتا ہے کہ ایک لمبا سا ڈنڈا کھڑا ہے.لیکن انسان صرف یہی فیصلہ نہیں کرتا کہ یہ ایک درخت ہے بلکہ وہ یہ بھی فیصلہ کرتاہے کہ اسے پھل کیا لگتا ہے.کس موسم میں لگتا ہے اور کس موسم میں نہیں لگتا.وہ پھل غذا کے کام آتا ہے یا دوا کے کام آتا ہے یا اس درخت سے محض سائے کا کام لیا جاسکتا ہے.لیکن بکری ان باتوں کو نہیں جانتی.گیدڑ اتنا ہی جانتا ہے کتّا اتنا ہی جانتا ہے کہ دھوپ لگے تو درخت کے سائے میں بیٹھ جاؤ لیکن انسان کسی درخت کو دیکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی لکڑی مضبوط ہے اور وہ اسے کاٹ کر دروازے بنا لیتا ہے.کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ لکڑی بوجھ زیادہ اُٹھا سکتی ہے اس کے وہ شہتیر اور بالے بنا لیتا ہے.کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ اس کی لکڑی پانی کو زیادہ برداشت کرنے والی ہے اور وہ اس لکڑی کو ایسے مقامات پر استعمال کرتا ہے جہاں بارشیں زیادہ ہوں.کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ محض جلانے کے کام آسکتی ہے چنانچہ وہ اس کا ایندھن بنا لیتا ہے یا اسے کوئلہ کے لئے استعمال کرتا ہے.غرض لکڑی وہی ہے.جانور بھی اس کو دیکھتا ہے اور انسان بھی اس کو دیکھتا ہے.انسان اس کے کئی کئی استعمال نکال لیتا ہے لیکن جانور آدمؑ کے وقت سے صرف سایہ کے نیچے بیٹھنا جانتاہے اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا.پھر قرآن کریم نے ایک اور طرح بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس کا نام استنباط رکھا ہے.استنباط کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مختلف واقعات کو لے کر انسان ان سے ایک نتیجہ نکالتاہے.گویا وہ اپنی قوتِ فکر سے ایک نئی چیز اُگاتا
ہے.ایک شخص کو زیدنظر آتا ہے بکرنظر آتا ہے عمر نظر آتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ یہ سارے ایک پارٹی کے ہیں اور مختلف راستوں اور مختلف مقامات سے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں.تو وہ ان کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ انہوں نے ضرور کوئی سکیم بنائی تھی جس کےیہ ماتحت اکٹھے ہوئے ہیں.لیکن بکری اور کتا وغیرہ یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے وہ یہی دیکھیں گے کہ زیدآیا ہے یا بکر اور عمراور خالد آیا ہے.لیکن انسان یہ دیکھ کر کہ ایک پار ٹی کے آدمی مختلف راستوں سے ایک مقام پر اکٹھے ہوئے ہیںسمجھ جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے کوئی فیصلہ کیا ہؤا تھا.یادشمن کارروائی کرتاہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے کس طرح اسے زک دینی چاہیے.غرض قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم شعور سے کام لو.تم علم سے کام لو.تم فکر سے کام لو.تم عقل سے کام لو.تم تفقّہ سے کام لو.تم استنباط کی قوت سے کام لو اور وہ بار بار دشمنوں کو توجہ دلاتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا کہ تم شعور سے کام نہیں لیتے.تم علم سے کام نہیں لیتے.تم فکر سے کام نہیں لیتے.تم عقل سے کام نہیںلیتے.تم تفقّہ سے کام نہیں لیتے.تم استنباط سے کام نہیں لیتے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دشمنوں میں یہی فرق بتایا ہے.فرماتا ہے.قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؔ۫ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ(یوسف : ۱۰۹)اے محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ تمہارے اور میرے درمیان ایک فرق ہے تم بھی ایک عقیدہ پر ایمان رکھتے ہو اور میں بھی ایک ہی عقیدہ پر ایمان رکھتا ہوں.کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا ایک عقید ہ ہے اسی طرح ہمارا ایک عقیدہ ہے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچّا کہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے.ہم کیوںیہ سمجھیں کہ جو بات محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور جو ان کے دشمن کہتے ہیں وہ غلط ہے.بہر حال مکہ کا ایک آدمی کہہ سکتا تھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ ہماری بات مانی جائے.اس کی وجہ کیا ہے اور کیوں ہم آپ کی بات کو تسلیم کریں.اس کے کئی جواب ہوسکتے تھے جن میں سے ایک جواب قرآن کریم نے یہ دیا ہے کہ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ.تو مکہ والوں سے کہہ دے کہ تمہارے جھوٹے ہونے اور میرے سچے ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں اور میرے ساتھی ہر بات کو دلیل کے ساتھ مانتے ہیں اور تم بے دلیل مانتے ہو.تمہارا بلا دلیل ماننا بتاتا ہے کہ تم نے سوچا نہیں اور میرا بادلیل ماننا بتاتا ہے کہ میں نے سوچ کر مانا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو سوچ کر مانے گا وہ زیادہ حق پر ہوگا بہ نسبت اس شخص کے جو بلا سوچے سمجھے کسی بات کو تسلیم کرلیتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ بلا سوچے سمجھے کسی حق بات کو ہی کیوں نہ مان لے.کیونکہ کہ خواہ وہ حق پر ہو اللہ تعالیٰ اس سے یہ کہے گا کہ تمہیں کیونکر پتہ لگا تھا کہ یہ سچ ہے تم نے تو بلا سوچے سمجھے ہی یہ بات مانی تھی.
لیکن فرض کرو.ایک شخص غور کرکے ایک نتیجہ پر پہنچا ہو تو خواہ وہ غلط ہی ہو.لیکن چونکہ اس نے صحیح جدو جہد سے کام لیا ہو گا اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ثواب کا مستحق ہوگا.کیونکہ اپنی طرف سے اس نے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی تھی.چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو سوچ کر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو خواہ وہ غلط فیصلہ ہی دے تب بھی وہ ثواب کا مستحق ہوگا(بخاری کتاب الاعتصام، باب اجرالحاکم اذا اجتھد فاصاب اوأ خطا).بیشک فیصلہ غلط ہو گا.لیکن اس نے سوچ کر اپنی طرف سے پورا زور لگانے کے بعد دیا ہوگا.اس لئے خواہ وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے.اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہی کہے گا کہ اس نے اپنے فرض کو ادا کردیا.اس لئے وہ انعام کا مستحق ہو گا سزا کا نہیں.اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جس پر حجّت تمام نہیں ہوئی وہ دوزخ میں نہیں ڈالاجائے گا.کیونکہ اس کے لئے موقع ہی نہیں تھا کہ وہ سوچتا اور غور کرتا.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ دیوانہ شخص دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ وہ معذور تھا اور سوچ نہیں سکتا تھا.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ بچے جو چھوٹی عمر میں مر جائیں گے یا بڈھا جس کی عقل ماری گئی یا پہاڑوں پر رہنے والا شخص جس تک میری آواز نہیں پہنچی وہ دوزخ میں نہیں ڈالے جائیں گےاس لئے کہ ان کے لئے سوچنے کاموقعہ ہی نہیں تھا.پس سزا کا مستحق بھی وہی ہوتا ہے جسے سوچنے کا موقع ملے اور پھر وہ نہ سوچے اور انعام کا مستحق بھی وہی ہوتا ہےجوسوچ سمجھ کر کسی سچائی کو قبول کرے.رسمی اور آبائی مذ ہب یا رسمی اور آبائی طریقہ خدا تعالیٰ کو خوش کر نے کا نہیں ہوسکتا چنانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیں یہی قانون نظر آتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو.آپ نے اپنی قو م کو یہی نصیحت کی کہ ہر بات پر غور کرنے کی عادت ڈالو.اور صحابہ ؓکو بھی آپ یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ سوچو اورسمجھو اور پھر کسی بات کو مانو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمی طور پر صحابہؓ کو اتنی فضیلت حاصل ہوگئی کہ اُن کا ان پڑھ بھی لوگوں کے سامنے اس طرح دلائل دیتا کہ مخالفوں کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریںکیونکہ وہ جانتے تھے کہ دلائل کے میدان میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے.مثلاً شرک کی تعلیم ہے.ایک مکہ کا رہنے والا مشرک شرک کی یہ دلیل دیتا تھا کہ میرے ماں باپ نے ایسا کیا ہے.کیا وہ جھوٹے تھے.کیا ان میں عقل نہیں تھی.کیا ان میں تمیز نہیں تھی.سیدھی بات ہے کہ جب وہ کہیں گے کہ یہ لوگ ہمارے ماں باپ کو جاہل بتاتے ہیں تو نوجوانو ںکو جوش آجائے گااور وہ کہیں گے.اچھایہ ہمارے ماں باپ کو جھوٹا کہتے ہیں اوراس طرح وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ تم غور کرکے دیکھ لو.بتوںمیں کوئی بھی طاقت اور قوت ہے جب ان میں کوئی بھی طاقت نہیں توان کی پرستش کس لئے کی جاتی
ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مکھّی بھی اگر کھانا اُٹھاکر لے جائے تو یہ بُت اس سے چھین نہیں سکتے(الحج:۷۴) جب یہ اس قدر کمزور اوربے بس ہیں تو انہیں خدائی کا مقام دینا کون سی عقلمند ی ہے.اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص دلیل سے کسی بات کو تسلیم کرے گا اس کا مقابلہ وہ شخص نہیں کرسکتا جو بلادلیل اور بلا سوچے سمجھے ماننے کا عادی ہو بے دلیل ماننے والا بہر حال کسی نہ کسی جگہ جا کر رہ جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں بار بار آتا ہے کہ تفقّہ ؔسے کام لو عقل سے کام لو.فکر سے کام لو.شعورؔسے کام لو.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی جب کسی پر خوش ہوتے تو اس کے لئے یہی دعا فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو سوچنے کی عادت ڈالے.حضرت ابنِ عباسؓکہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے اندر تشریف لے گئے.میں لوٹا بھر کر باہر کھڑا رہا.جب آپ اندر سے نکلے.تو میں نے آگے بڑھ کر پانی پیش کیا اور وضو کرایا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم میرے اس فعل سے بہت خوش ہوئے اور آپؐنے فرمایا اَلَّھُمَّ فَقِّھْہُ فِیْ ا لدِّیْنِ(بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء).اے اللہ!تو اسے دین کو سوچنے اور مسائل میں غور کرنے کی توفیق بخش.اور یہی اصل کام ہو تا ہے کہ انسان سوچے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچے.یونہی کسی بات کے پیچھے چل پڑنا اور غورو فکر سے کام نہ لیناانسان کو اس کے اعلیٰ مقام سے گرادیتا ہے.اسلام کی اسی تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی جاتے لوگ حیران رہ جاتے کہ ان لوگوں کا بچہ بچہ علوم جانتا ہے اور بڑی بادلائل گفتگو کرتا ہے.اورپھر یہ سوچنے کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقع نہیں ہوتا تھا.کیونکہ وہ جو کچھ مانتے تھے.سمجھ کر مانتے تھے سوچ کرمانتے تھے اور ساری تشریحات کو مدِ نظر رکھ کر مانتے تھے اور پھر یہی وجہ تھی کہ مسلمان جان دیتا تھا تو لوگ حیران رہ جاتے تھے کہ یہ کس دلیری اور جرأت کے ساتھ اپنی جان دے رہے ہیں.ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میرے ایمان لانے کی وجہ ہی یہی ہوئی کہ میں نے ایک مسلمان کو اس جرأت کے ساتھ جان دیتے دیکھا کہ میں حیران رہ گیا.واقعہ یہ ہوا کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت دھوکا سے گھیر لی.اورپھر مزید دھوکا انہوں نے یہ دیا کہ انہوں نے ان گھرے ہوئے مسلمانوں سے یہ کہا کہ اگر تم پہاڑی سے نیچے اتر آئو تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے.جب وہ نیچے آئے تو انہوں نے حملہ کرکے ان میں سے اکثر کو شہید کردیا.وہ شخص جو اس واقعہ کو دیکھنے کے بعد ایمان لایا وہ کہتاہے کہ میں کسی اور قبیلہ کا تھا.لیکن ہم سمجھتے تھے کہ یہ مسلمان لوگ بے دین ہیںاورعربوں کے خلاف جذبات رکھتے ہیں.اور چونکہ ہمارے کانوں میں باربار یہ باتیں ڈالی جاتی تھیں کہ مسلمان عربوں کے دشمن ہیں.اس لئے میں بھی ان لوگوں کے ساتھ آکر شامل ہوگیا.اور مسلمانوں کا میں نے مقابلہ کیا اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک مسلمان کے سینہ میں نیزہ مارا.جوں ہی وہ
نیزہ اس کے سینہ سے پار گیا بے اختیار ا س کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئےکہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ خدائے کعبہ کی قسم! آج میں نے اپنا مقصد پالیا.او ر یہ کہتے ہوئے وہ گرا او رشہید ہوگیا.میں نے یہ الفاظ سنے.تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی.میں نے اپنے دل میں کہا.یہ بات کیاہے.کیا یہ شخص پاگل تھا کہ دشمن اسے نیزہ مارتا ہے.اور نیزہ بھی ایسی حالت میں مارتا ہے جب یہ اپنے وطن سے سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر ہے.اس وقت بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے اماں ! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے ابا! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے میری بیوی! وہ کہتا ہے تویہ کہ خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا.یہ کامیاب کہاں ہوا؟ یہ تو مرگیا تھا پھر اس نے یہ الفاظ کیوں کہے.معلوم ہوتا ہے یہ شخص پاگل تھا.یہ نہیں جانتا تھا کہ کامیابی کیا چیز ہے اور ناکامی کیا چیز؟ چنانچہ لڑائی کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا یہ کوئی پاگل تھا کہ جب اس پر حملہ کیا گیاتوبجائے اس کے کہ یہ کسی تکلیف کا اظہار کرتا اس نے کہا تو یہ کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا.وہ کہنے لگا.مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں.وہ مرنے میں کامیابی سمجھتے ہیں.جب اس نے یہ بات کہی تو میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہو ا اور میں نے کہا.تب ضرور کوئی بات ہے ورنہ اس طرح جان دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوسکتا.چنانچہ ایک دن میں چوری چھپے مدینہ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سنیں.تو میرا دل کھل گیا اور میں نے سمجھا کہ اصل میں یہی سچائی ہے.تب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مسلمان کیوں جان دیتا ہے.مسلمان اس لئے جان دیتا ہے کہ اسے روشنی نظرآجاتی ہے.اور جسے روشنی نظر آجائے اس کا مقابلہ وہ شخص کہاں کرسکتا ہے جسے تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے (بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجیع).غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے باربار مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تم سوچو اور سمجھو.درحقیقت بغیر اس کے ہمیں کسی دوسری قوم پر فضیلت حاصل ہی نہیں ہوسکتی اگر ہم خالی کہیں کہ تم قرآن مانو.اور مسلمان بنوتو ہندو کہیں گے ہندو بنو اور وید پڑھو.سکھ کہیں گے سکھ بنو اور گرنتھ پڑھو.عیسائی کہیں گے عیسائی بنو اور انجیل پڑھو.پھر ہم میںاور ان میں کیا فرق رہا.صرف ایک ہی فرق ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ہم سوچ کر مانیں اور سمجھ کر مانیں.جب ہم ہر بات کو سوچ کر اور سمجھ کر مانیں جب ہم ہر بات کو سوچ کر اور سمجھ کرماننے کے عادی ہوجائیں گے تو سچی کتاب والا اپنی کتاب پر زیادہ سے زیاد ہ مضبوط ہوتا چلا جائے گااور غلط تعلیم والا زیادہ سے زیادہ اپنی مذہبی تعلیم سے متنفر ہوتا چلا جائے گا.مثلاً ہم قرآن کریم پر غور کریں گے اور اس کی تعلیموں کو سوچیں گے تو زیادہ سے زیادہ اس میں سے دلائل نکلتے چلے آئیں گے اور ہمار ا ایمان زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا.لیکن ایک عیسائی عیسائیت پر جتنا بھی غور کرے گا اس کا ایمان کمزور ہوتا جائے گا.ایک یہودی جتنا جتناتورات پر غو ر کرے گا چونکہ وہ
محرف و مبدل ہو چکی ہے اس لئے اتنا ہی اس سے بدظن ہوتا چلا جائے گا.اسی طرح جتنا جتنا کوئی ویدوں پر غور کرے گا اتنا ہی وہ ویدوں سے بدظن ہوتا چلا جائے گا.گویا غوراور فکر کا یہ نتیجہ ہوگا کہ مسلمان اپنے ایمان میں مضبوط ہوتا چلا جائے گا اورہندو اور عیسائی اور موسائی اپنے ایمان میں متزلزل اور کمزور ہوتے چلے جائیں گے.پس سوچنا اور سمجھنا مذہب کو مضبوط کرتا اور ایمان کو تقویت دیتا ہے.دنیوی لحاظ سے بھی غور کرکے دیکھ لو ابتدائے اسلا م میں مسلمانوں نے سوچا اور علوم پر غور کیا تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے.آخر مسلمانوں سے پہلے عربی زبان موجود تھی.بلکہ عربوں کی یہ مادری زبان تھی مسلمانوں سے پہلے تاریخ موجود تھی لیکن باوجود اس کے انہوں نے اسلام سے پہلے کوئی بھی حرکت نہیں کی.لیکن اسلام کے بعد ان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ انہوں نے عربی مدوّن کی.لغتیں لکھیں.زبان عربی کے اصول اور قوائد وضع کئے.صرف و نحو کے اصول تجویز کئے.فقہ کے اصو ل تجویز کئے.تاریخ کے اصول مدوّن کئے.یہ فرق آخر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی تھی کہ ہربات پر سوچو اور غور کرو.جب انہوں نے سوچا تو وہ ہر میدان میں آگے نکل گئے.اور ان میں بڑے بڑے نحوی.بڑے بڑے صرفی.بڑے بڑے قاضی.بڑے بڑے مؤرخ اور بڑے بڑے جرنیل نظر آنے لگے.لیکن جب مسلمانوں نے سوچنا ترک کردیا اور یورپ نے سوچنا شروع کیا.تو مسلمان گر گئے اور یورپ کے لوگ کہیں سے کہیں نکل گئے.مسلمان جب ایک زندہ قوم تھے.وہ ہر چیز میں غور وفکر کرنے کے عادی تھے.اور اس چیز نے ان کے دماغوں کو ایسا روشن کردیا تھا کہ وہ بڑے بڑے جھگڑے نہایت خوش اسلوبی سے طے کرلیا کرتے تھے.یورپ میں بچوں کو جوریڈرز پڑھائی جاتی ہیں ان میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک واقعہ آتاہے.یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے ایک مسلمان جج تھے.انہوں نے قضا میں جس طرح ترقی کی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے پاس دوشخص لڑتے ہوئے آئے.ان میں سے ایک تیلی تھا.ا ور دوسر ا قصائی.جھگڑا یہ تھا کہ کچھ روپوں کے متعلق ان میں سے ایک کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں.اور دوسرا کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں.آخر انہوں نے اس کے فیصلہ کی ایک راہ نکالی.غور کرو وہ کتنی باریک بات تھی جو انہوں نے سوچی.انہوں نے سوچا کہ ان میں سے ایک قصائی ہے اور ایک تیلی.ان دونوں کے پاس کہیں سے اکٹھی دولت نہیں آسکتی.یہی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے روپیہ روپیہ لے کرجمع کیا ہو.مگر سوال یہ ہے کہ روپے کس کے ہیں.اس کے لئے انہوں نے پانی منگوایا اور اسے گرم کروایا.پھر وہ روپے اس پانی میں ڈال دیئے.یہ دیکھنے کے لئے کہ پانی پر کیا چیز آتی ہے.اگر تیل آیا تو روپے تیلی کے ہوں گے اوراگر چربی آ گئی تو روپے قصاب کے ہوں گے.چنانچہ جو نشان آیا.اس کے مطابق انہوں نے فیصلہ
کردیا.یہ سوچنے کا نتیجہ تھا کہ ان کے دماغ نے فوراً ایک راہ نکال لی اور اس کے مطابق انہوں نے اس جھگڑے کا فیصلہ کردیا.اس قسم کے ان کے اور بھی بہت سے فیصلے مشہور ہیں اور وہ آج تک یورپ کی ریڈرز میں بچوںکو پڑھائے جاتے ہیں.اور انہیں سگیشس قاضی یعنی عقلمند قاضی کہا جاتا ہے.کیونکہ وہ بہت جلد فیصلہ کردیتے تھے او ر فیصلہ نہایت صائب ہوتا تھا.مگر اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ انہیں سوچنے اور غور کرنے کی عادت تھی.حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کوفہ کے لوگ باربار شرارتیں کرتے تھے اور جو بھی گورنر مقرر ہوکر آتا اس کی شکایتیں کرنی شروع کردیتے اور آخر اسے بدلوا دیتے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ کوفہ کے گورنر کو باربار کیوں بدلتے ہیں.ان لوگوں کی تو عادت ہی یہی ہے کہ جو شخص بھی ان کا گورنر بن کرجائے اس کی شکایتیں کرنے لگ جاتے ہیں.حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک یہ لوگ گورنر بدلنے کےلئے کہتے چلے جائیں گے میں بھی بدلتا چلا جائوں گا تاکہ ان کا کوئی عذر باقی نہ رہے.آخر جب ان کی شکایتیں بہت بڑھ گئیں تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اب کی دفعہ میں ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جس کے متعلق مجال نہیں کہ کوفہ والے اُف بھی کرسکیں.چنانچہ انہوں نے ابن ؔ ابی لیلیٰ کو وہاں کا گورنر مقرر کر کے بھیجا.اس وقت ان کی عمر ۱۹سال کی تھی.کوفہ والوں کو جب پتہ لگا کہ اب ایک ایسا نوجوان ہمارا گورنر بن کرآیا ہے جس کی عمر صرف۱۹سال ہے تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اب ہم اس کا خوب مذاق اڑائیں گے اور اسے اچھی طرح شرمندہ اور ذلیل کریں گے.جب ان کے آنے کی وہاں اطلاع پہنچی تو انہوں نے بڑے بڑے آدمیوں کو اکٹھا کیا اور تجویز یہ کی کہ بوڑھو ں اور بڑی عمر والوں کا ایک وفد بنایا جائے.جو شہر سے باہر نکل کر گورنر کا استقبال کرے.اس وفد کے ساتھ عام لوگوں کا ایک بھاری ہجوم ہو.تمام شہر میں جلوس نکالا جائے اور جب گورنر صاحب تشریف لائیں تو تمسخر کے طور پر ان سے پوچھا جائے کہ جناب کی عمر کیا ہے ؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.بڑے بڑے بڈھے اور آزمودہ کار اورشہر کے رئیس ایک وفد کی صورت میں جمع ہوئے.ان کے ساتھ شہر کے ہزاروں آدمی ایک جلو س کی صور ت میں باہر نکلے تاکہ وہ ابن ؔ ابی لیلیٰ کا استقبال کریں.جب وہ قریب پہنچے تو ایک بہت بڈھا آدمی جس کو انہوں نے سکھایا ہوا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا.حضور آپ کی عمر کیا ہے ؟ ان کا خیال تھاکہ وہ جواب میں کہیں گے ۱۹سال اور اس پر سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ ۱۹سال کا نوجوان کوفہ جیسے شہر میں گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے.مگر ان کو سوچنے کی عادت تھی او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غور کرنے کا ایسا عادی بنا دیا تھا کہ ان کی نگاہ حقیقت تک فوراً پہنچ جاتی تھی.جب انہوں نے کہا.حضور آپ کی عمر ؟ تو وہ فوراً تاڑ گئے کہ ان کی غرض سوال کرنا نہیں بلکہ تمسخر اور استہزاء کرنا ہے چنانچہ انہوں
نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میری عمر ۱۹سال ہے.بلکہ کہا.جناب والا!جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ ؔبن زیدؓ کو شام کی فوج کا افسر بناکر بھیجا تھا.جس میں ابوبکرؓاور عمرؓجیسے انسان بھی شامل تھے تو جو عمر اس وقت اسامہ کی تھی اس سے ایک سال میں بڑاہوں.جب اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی فوج کا افسر بنا کر بھیجا ہے اس وقت ان کی عمر ۱۸سال کی تھی.یہ جواب سن کرانہوں نے فیصلہ کرلیا.کہ جب تک یہ شخص یہاں رہے اس وقت تک کوئی شرارت نہیں کرنی.چنانچہ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک قضاکی.مگر پھر کسی نے ان کے تبادلہ کی درخواست نہیں کی.توانسان کو ہمیشہ سوچنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر وہ ایسا نہ کرے تو اپنے مقام سے گر جاتا ہے.اب کُجا تو یہ حالت تھی کہ مسلمان ہر علم میں ترقی کررہے تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ جب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جو ہوناتھا ہوچکا اب علوم میں ترقی نہیں ہوسکتی تو وہ گر گئے.اورایسے گرے کہ اب دنیا کی علمی دوڑ میں غیر مذاہب کے لوگ تو آگے ہیں اور مسلمان پیچھے ہیں.اس کے مقابل میں یورپ نے کہا کہ اگر پہلوں نے ترقی کی تھی تو ہم کیوں ترقی نہیںکرسکتے.ہم بھی سوچیں گے اور غورکریں گے اور اس طرح اپنی ترقی کے لئے نئے سے نئے راستے نکالیں گے چنانچہ ان کے سوچنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے کئی قسم کی ایجادیں کرلیں.مثلاً وہ ریل جس پر تمام دنیا سفر کرتی ہے.یہ کس چیز کا نتیجہ ہے.یہ سوچنے اور غورکرنے کا ہی نتیجہ ہے ریل کے موجد نے دیکھا کہ ہنڈیا کو جب چولہے پر چڑھا یا جاتا ہے تو اس کاڈھکنا سٹیم کے زور سے اُچھلتا ہے اس پر غور کرکے اس کا دماغ اس طرف چلا گیا کہ سٹیم میں بہت بڑی طاقت ہے.اگر سٹیم کو بند رکھا جائے اور ہنڈیا کے نیچے پہئیے لگا دیئے جائیں تو وہ دوڑنے لگ جائے گی.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.ہنڈیا کے نیچے پہئیے لگائے سٹیم کو بند کیا اور وہ دوڑنے لگ گئی.اسی پر قیا س کرکے اس نے ریل ایجادکرلی.اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے ہنڈیا میں سے کبھی سٹیم نکلتے نہیں دیکھی گھروں میں روزانہ عورتیں کھانا پکاتی ہیں اور مرد روزانہ دیکھتے ہیں کہ سٹیم کے زور سے ہنڈیا کا ڈھکنا اچھل رہا ہے.مگر ان کا ذہن کبھی اس طر ف مائل نہیں ہوتا کہ وہ اس پر غور کریں اور سوچیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے.ریل کے موجد نے اسے دیکھا اور اس نےسوچ کر ایک ایسی چیز بنا لی جس سے آج ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے.اسی طرح اور کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن سے کچھ کا کچھ نتیجہ نکل آتا ہے کولمبسؔ کو دیکھو.اس نے مسلمانوں سے یہ سنا ہوا تھا کہ زمین گول ہے.حالانکہ علمِ ہیئت کی ترقی اس وقت اتنی نہیں ہوئی تھی.دراصل مسلمانوں نے چاند گرھن پر غور کرکے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے.کیونکہ چاند گرہن کے وقت اس پر ایک گو ل نشان ہوتا ہے.اس نشان سے مسلمانوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ زمین گول ہے.جب کولمبسؔ نے یہ سُنا کہ مسلمانوں کے علماء کا یہ
خیال ہے کہ زمین گول ہے توا س نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر زمین گول ہے تو میں سپین سے چلو ں گا اور ہندوستا ن پہنچ جائوں گا.چنانچہ اس نے پہلے بادشاہ اور پھر ملکہ کو تحریک کی کہ وہ اس کی امداد کریں.اور آخر وہ ہندوستان تو نہ پہنچا لیکن ہندوستان سے ایک زیادہ طاقتور ملک امریکہ اُسے مل گیا (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Columbus Christopher).یہ نتیجہ کس بات کا تھا ؟ اس بات کا کہ مسلمانوں کو سوچنے اورغور کرنے کی عادت تھی.انہوں نے پہلے سوچاکہ چاند گرہن کیوں لگتا ہے اور پھر انہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ چاند گرہن اس لئے لگتاہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین آجاتی ہے.پھر انہوں نے سوچا کہ گرہن کے وقت چاند پر گول نشان کیوں ہوتاہے ؟اس کا جواب ان کے دماغ نے یہ دیا کہ یہ گول نشان زمین کا ہے.اور یہ گول نشان ثابت کرتاہے کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے اور جب مسلمان علماء نے کہا کہ یہ زمین گول ہے.تو کولمبسؔ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جب میں سپین سے چلوںگا تو ساری دنیا کے گر دچکر لگالوں گا.کیونکہ گول چیز کے گرد چکر لگایا جاسکتا ہے.چپٹی ہوتو کنارہ پر آکر قدم رک جاتاہے.غرض چھوٹی چھوٹی چیزو ں پر غور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا ملک دریافت ہوگیا.اتنا بڑ املک کہ آج ساری دنیا امن کےلئے اس کی طرف دیکھ رہی ہے آج ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہماری حفاظت کا ذریعہ ہی یہی ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو.یہ عظیم الشان نتیجہ آخر کس طرح نکلا؟ اسی طرح کہ پہلے مسلمانوں نے چاند گرہن پر غور کیا پھر چاند گرہن سے یہ نتیجہ نکالا کہ زمین گول ہے اور کولمبسؔ نے زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر وہ گول ہے تو میں ساری دنیا کے گرد چکر لگا لوں گا.چنانچہ وہ چلا اور اس نے ایک نئی زمین دریافت کرلی جو اب اتنا بڑ املک بن گیا ہے کہ ساری دنیا کی راہنمائی کررہا ہے اگر مسلمان چاند کودیکھتے رہتے جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے.اگر مسلمان اس بات پر غور نہ کرتے کہ اس پر گرہن کے وقت گول دائرہ کیوں بن جاتا ہے.اگر کولمبسؔ یہ نہ سوچتا کہ زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ساری دنیا کا چکر لگایا جاسکتا ہے تو نہ امریکہ دریافت ہوتا.نہ موٹرکاریں ہوتیں نہ ہوائی جہاز نکلتے نہ بجلی ایجاد ہوتی نہ اتنی عظیم الشان طاقت دنیا پر رونما ہوتی کہ جس کے پیچھے آج انگریز اور فرانس بھی چلنے پر مجبورہیں.اسی طرح موجودہ زمانہ میں جتنی ایجادات ہیں وہ ساری کی ساری بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں.ایڈیسن جس نے فونو گراف اوربجلی وغیرہ کئی چیزیں ایجاد کی ہیں میں نے اس کی سوانح عمری پڑھی ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں نے جس قدر ایجاد یں کی ہیں یہ سب کی سب بعض چھوٹے چھوٹے مسائل پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں.پس سوچنا اور غور کرنا قومی ترقی کیلئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.جو قو میں بلا سوچے سمجھے صرف نعرے لگانا جانتی ہیں وہ کوئی کام نہیں کرسکتیں.وہ نعروں سے اس وقت کی فضا کو مشوّش کرسکتی ہیں.وہ نعروں سے کمزور
بچوں کو ڈرا سکتی ہیں.وہ نعروں سے کمزور عورتوں کے دلو ں کو دہلا سکتی ہیں.لیکن اگر وہ کوئی حقیقی کام کرسکتی ہیں تو صرف سوچ بچار سے اور صحیح نتائج کو اخذ کر کے.حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو شعور کی طرف توجہ دلائی.اور فرمایا کہ کاش اس قسم کے لغو اعتراضات کرنے کی بجائے تم حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور وہ مخفی حِسّ جو انسان کوا س کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اور جس کے نتیجہ میں فطرتِ صحیحہ بید ار ہوتی ہے اس سے کام لیتے ہوئے تم دوسروں پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے نفس پرغور کرتے کہ اس میں کیا کیا خامیاں ہیں اور بُرے بھلے کی تمیز کرنے کی طاقت پیدا کرتے.قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَؕ۰۰۱۱۷ انہوں (یعنی کافروں) نے کہا.اے نوح ؑ ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو سنگساروں میںشامل ہوجائے گا (یعنی ہم قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِۚۖ۰۰۱۱۸فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُمْ تجھے سنگسار کردیںگے ).اس پر اُ س (یعنی نوح ؑ ) نے کہا.اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلادیا ہے.فَتْحًا وَّ نَجِّنِيْ وَ مَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۱۹فَاَنْجَيْنٰهُ وَ پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک قطعی فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھی مومنوں کو (دشمن کے ) شر سے مَنْ مَّعَهٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۚ۰۰۱۲۰ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ بچالے.پس ہم نے اس کو اور جو اس کےساتھ ایمان لائے تھے ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ (شر سے)بچالیا.الْبٰقِيْنَؕ۰۰۱۲۱اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ پھر اس کے بعد جو باقی لوگ تھے ان کو غرق کردیا.اس میں ایک بہت بڑا نشان تھا مگر ان (یعنی کافروں) مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۲۲وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۲۳ میں سے اکثر ایمان لانے پر آمادہ نہیں تھے.اورتیر ا رب ہی غالب (اور) باربار کرم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْمَرْجُوْمِیْنَ.اَلْمَرْجُوْمِیْنَ اَلْمَرْجُوْمُ سے جمع کا صیغہ ہے.اور رَجَمَ سے اسم
مفعول ہے.اور رَجَمَہٗ کے معنے ہیں.رَمَا ہُ بِالْحِجَارَۃِ.اس کو پتھر مارے.قَتَلَہٗ.اس کو قتل کیا.قَذَفَہٗ.اس پر الزام لگایا.لَعَنَہٗ.اُس پر لعنت کی.شَتَمَہٗ.اس کو گالی دی.ھَجَرَہٗ.اُس کو جدا کردیا طَرَدَہٗ.اس کو دھتکاردیا (اقرب) اَلْمَشْحُوْنُ.اَلْمَشْحُوْنُ: شَحَنَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے.اور شَحَنَ السَّفِیْنَۃَ کے معنے ہیں مَلَأَ ھَا کشتی کو بھردیا (اقرب) پس اَلْمَشْحُوْنُ کے معنے ہوںگے.بھری ہوئی.تفسیر.حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفین نے جب دیکھا کہ وہ دلائل سے نوح ؑ کو مغلوب نہیں کرسکتے تو انہوں نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس ایک ہی علاج ہے.اگر تم اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے.آخر حضرت نوح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور جُھکے اور انہوں نے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا ہے.اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما.اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھ.چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کو سنا اور اس نے ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ انہیں اپنے دشمنوں کے شر سے بچا لیا.اور جو باقی لوگ رہ گئے.ان کو طوفان میں غرق کردیا.اس واقعہ میں بھی خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کی طاقت کا بڑ ابھاری نشان ہے.مگر پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہ لائے.لیکن ان کے ایمان نہ لانے کے باوجود تیرے رب کا عزیز اور رحیم ہونا ثابت ہوگیا.نوح ؑاپنے دشمنوں پر غالب آگیا اور نوح ؑ کے حقیر سمجھے جانے والے ساتھی دنیا کے سردار بن گئے.اس جگہ نوح ؑ کی کشتی کے متعلق اَلمَشْحُوْن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے بھری ہوئی کشتی کے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اگر کشتی پہلے ہی بھری ہوئی ہوتو اورلوگ اس میںسوار نہیں ہوسکتے.پھر بھری ہوئی کشتی میں نوح ؑ کے ساتھی کس طرح بیٹھ سکتے تھے ؟درحقیقت عربی زبان میں بعض دفعہ کسی چیز کو اس حالت کے مطابق نام دے دیتے ہیں جو اس پر بعد میں وارد ہونے والی ہو.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہٗ سَلْبُہٗ (ابو داؤد کتاب الجھاد باب فی السلب یعطی القاتل )یعنی جو شخص جہاد میں کسی مقتول کو قتل کردے اس کا مال و اسباب قتل کرنے والے کوہی ملے گا.اس حدیث میںآپ نے دوسرے کے متعلق قَتِیل کا لفظ استعمال فرمایا ہے.حالانکہ وہ بھی زندہ ہوتا ہے.اسی طرح چونکہ وہ کشتی حضرت نوح ؑ اور ان کی جماعت کے افراد سے بھرجانے والی تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیاکہ ہم نے انہیں ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ نجات دی.
كَذَّبَتْ عَادُ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠ۚۖ۰۰۱۲۴اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ (اسی طرح)عادؔ نے بھی رسولوں کا انکار کیا.جب کہ ان سے ان کے بھائی ہود ؑ نے کہا.اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۰۰۱۲۵اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ۰۰۱۲۶فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے.میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر ہوکر آیا ہوں.پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۲۷وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا اور میر ی اطاعت کرو.اور میں تم سے اس (خدمت) پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ صرف عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۲۸ رب العالمین خد اکے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے).تفسیر.ان آیات میں حضرت ہود ؑ کو پھرتمام رسولوں کا قائم مقام بتایا گیا ہے.اور رسول کی جگہ مرسلینؔ کا لفظ اس کےلئے استعمال کیا گیا کیونکہ ایک رسول کا انکار درحقیقت تمام رسولوں کا انکار ہوتاہے.فرماتا ہے.جس طرح نوح ؑ کو اس کی قوم نے جھٹلایا تھا.اسی طرح ہود ؑ کوبھی اس کی قوم عاد نے جھٹلایا.حالانکہ اس کےزمانہ میں بھی ہم نے یہی حکم دیا تھا.کہ علاوہ کلامِ الٰہی کی اطاعت کے خود ہود ؑ کی اطاعت بھی ضرور ی ہے جس کی طرف اَطِیْعُوْنِ میں اشارہ کیا گیا ہے.اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ۰۰۱۲۹وَ تَتَّخِذُوْنَ کیاتم ہر ٹیلہ پر فضول کام کرتے ہوئے عمارت بناتے ہو.اور تم بڑے بڑے محل بناتے ہو تاکہ تم ہمیشہ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ۰۰۱۳۰وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ قائم رہو.اورجب تم کسی کو پکڑتے ہو تو ظالموں کی طرح پکڑتے ہو.پس اللہ (تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو
جَبَّارِيْنَۚ۰۰۱۳۱فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۳۲وَ اتَّقُوا الَّذِيْۤ اور میر ی اطاعت کرو.پھر میں کہتا ہوں کہ اس (ذات) کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہاری ان چیزوں اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَۚ۰۰۱۳۳اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِيْنَۚۙ۰۰۱۳۴ سے مدد کی ہے جن کو تم جانتے ہو.اس نے تمہاری مدد کی ہے چارپائے اوربیٹے.اور باغ اور چشمے دے کر.وَ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍۚ۰۰۱۳۵اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍؕ۰۰۱۳۶ میں تم پر ایک بڑے دن کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتا ہوں.حلّ لُغَات.رِیْعٌ.اَلرِّیعُ کے معنے ہیں اَلتِّلُّ الْعَالِیْ.اونچا ٹیلہ.اَلطّرِیْقُ الْمُنْعَرَجُ فِی الْجَبَلِ.پہاڑ میں چڑھائی کا وہ راستہ جو چکر کھا کر جاتاہو.اَلْجَبَلُ الْمُرْتَفِعُ.بلند پہاڑ.وَقِیْلَ مَسِیْلُ الْوَادِیْ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ مُرْتَفِعٍ.اور بعض ائمہ لُغت کہتے ہیں کہ ریع ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں اونچی جگہ سے پانی آئے اور بہہ جائے (اقرب) تَعْبَثُوْنَ.تَعْبَثُوْنَ عَبَثَ سے فعل مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے.اور العَبَثُ (جو عَبَثَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں.اِرْتِکَابُ اَمْرٍ غَیْرُ مَعْلُوْمِ الْفَائِدَۃِ اَوْلَیْسَ فِیْہِ غَرَضٌ صَحِیْحٌ لِفَاعِلِہٖ.کسی ایسی بات کا کرنا جس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو.یا ایسا کام کرنا کہ جس کے کرنے والے کی غرض صحیح نہ ہو(اقرب) پس تَعْبَثُوْنَ کے معنے ہوںگے تم بے فائدہ کام کرتے ہو.مَصَانِعَ.مَصَانِعَ کے معنے ہیں.اَلْقُریٰ وَالْمَبَانِی مِنَ الْقُصُوْرِ وَالْحُصُوْنِ.بستیاں اور بڑی بڑی عمارات (اقرب) بَطَشْتُمْ.بَطَشْتُمْ بَطَشَ سے جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے.اور بَطَشَ کے معنے ہیں اَخَذَہٗ بِالْعَنْفِ.سختی سے پکڑا.وَتَنَاوَلَہٗ بِشِدَّ ۃٍ عِنْدَالصَّوْلَۃِ.حملہ کے وقت سختی سے پکڑا.(اقرب) پس بَطَشْتُمْ کے معنے ہوںگے تم سختی سے پکڑتے ہو.جَبَّارِیْنَ.جَبَّارِیْنَ جَبَّارٌ کی جمع ہے اور جَبَّارٌ کے معنے ہیں.کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ.متکبر اور سرکش
جَبَّارِیْنَ.جَبَّارِیْنَ جَبَّارٌ کی جمع ہے اور جَبَّارٌ کے معنے ہیں.کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ.متکبر اور سرکش شخص.(اقرب) تفسیر.قوم عاد جس کی طرف حضرت ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے فنِ تعمیر میں خا ص شغف رکھتی تھی کیوں کہ اس کی تہذیب کی بنیا د علم ہندسہ.کیمسٹری اور ہیئت پرتھی.اس تہذیب کے بانیوں کاخیال تھاکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مادی عالم میں سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں اسی طرح انسانی ترقی کے لئے اس نظام کی نقل کرنا ضروری ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ نظامِ شمسی پر غور کرکے اور اس کے راز معلوم کرکے ان کی اتباع کرے.جس طرح آرینؔ.رومنؔ اور ایرانی ثقافت نے متمدن دنیا پر ایک گہرااثر ڈالا.اور سابق نظاموںکی جگہ ایک نیا نظام قائم کردیا.اسی طرح بابلی تحریک جس کے بانی قوم عادسے تعلق رکھنے والے تھے اس نے بھی دنیا کے کلچر اور تہذیب پر نہایت گہرااثر ڈالا.اور گو اس تحریک کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر اپنی حکومت کو کھو بیٹھے اوراس کی جگہ دوسری اقوام نے لے لی.مگر ان کو شکست دینے والے ان کے فلسفہ سے آزاد نہ ہوسکے.یہ تحریک چونکہ انتہائی قدیم تحریک ہے اس لئے موجودہ زمانہ میں اس کے آثار بہت کم ملتے ہیں.لیکن جتنے آثار بھی ملتے ہیں وہ قرآنی بیانات کی صداقت اور اس کی عظمت کو روشن کردیتے ہیں.اس تہذیب کی بنیاد قوم عادکے ہاتھوں رکھی گئی تھی اور اس کو اپنے زمانہ میں اتنی طاقت حاصل تھی کہ ان کے بعد عرب میں کسی اور قوم کو اس قسم کی طاقت حاصل نہیں ہوئی.اس تہذیب بابلی کی علمبردار دو قومیں ہوئی ہیں.ایک وہ جسے عادِ اولیٰ کہتے ہیں.اور جو تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے ثمود ؔ جو بعد میں اس تہذیب کے حامل بنے اور جو اسی عاد ؔ کی ایک دوسری شاخ تھے.ان آیات میںا نہی پہلے عاد یعنی بانیان تہذیب بابلی کا ہی ذکر کیا گیا ہے.اور فرماتا ہے.ہودؑ نے اپنے زمانہ کی مشہور ترین طاقت یعنی قوم عاد سے مخاطب ہوکر کہا.کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو.اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کمیسٹری کے مرکز تیار کرتے ہواور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہو گے.جیسے یورپ اور روس کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی.اس جگہ جو مصانع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہی ہیں.پھر فرمایا وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ تمہارے اند راتنی طاقت پائی جاتی ہے.کہ جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اس کی تہذیب کو بالکل تباہ کردیتے ہو.اس کی جگہ اپنی تہذیب اور اپناتمدن قائم کردیتے ہو.جَبَّارٌ کے معنے ہوتے ہیں دوسرے کو نیچا کرکے اپنے آپ کواونچا کرنےوالا.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم دوسری اقوام کے تمدن اور تہذیب کوتباہ کرکے اپنے تمدن اور تہذیب کو دنیا میں قائم کرتے ہو.اسی طرح وَاِذَا بَطَشْتُمْ
بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ سے یہ استنباط بھی ہوسکتا ہے کہ آلات جنگ کی بعض حیرت انگیز ایجادات انہی کے زمانہ میں ہوئی ہیں.چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوں میں عمارتیں بنائی ہیں ان کو دیکھ کر بعض مؤرخین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنا میٹ ایجاد کرلیا تھا.ان معنوں کی روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامان جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ باقی اقوام کو تباہ کرکے اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کردیتے ہو غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر اور آلات جنگ کی ایجاد اوررصد گاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا.چنانچہ بابل کی حکومت کا جو بیان تورات میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی ہی تصدیق ہوتی ہے.بائیبل میں آتا ہے.’’اور انہوں نے کہا.آئو ہم اپنے واسطے ایک شہر بناویں اور ایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے.اور یہاں اپنا نام کریں.ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہوجائیں.اور خداوند اس شہر اور برج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اترا اور خدا وند نے کہا.دیکھ لوگ ایک ہیں اور ا ن سب کی ایک ہی بولی ہے.اب وَے یہ کرنے لگے سو وے جس کام کاارادہ رکھیں گے اس سے نہ رُک سکیں گے آئو ہم اتریں اور ان کی بولی میں اختلاف ڈالیں تاکہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں.‘‘ (پیدائش باب ۱۱آیت ۴تا۷) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی ان لوگوں کا بڑا کمال بلند و بالا عمارات بنانا تھا.کیونکہ تورات کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوںکے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل کے لوگوں نے ایک بلند عمارت بنانی شرو ع کی تاکہ وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پراگندگی سے بچ جائیں.لیکن اللہ تعالیٰ ان کی پراگندگی چاہتاتھا اس لئے اس نے ان کوا س ارادہ سے باز رکھنے کےلئے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا اور ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمارت کے بنانے میں ناکام رہے.جو وجہ اس حوالہ میں بتائی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی شہادت ضرور معلوم ہوجاتی ہے کہ اہلِ بابل اونچی عمارتیں بنانے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے.اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں.چنانچہ عرب میں اب بھی بعض نہایت پرانی عمارتیں ملتی ہیں جو بہت بڑی بڑی ہیں.بلکہ سفرِ یورپ کے دوران میں عدن سے چند میل کے فاصلہ پر میںنے خود بعض بڑی بڑی پرانی
اونچی عمارتیں دیکھی ہیںجو اونچے ٹیلوں پر بنی ہوئی تھیں اوران میں حوض وغیرہ بھی تھے.اور لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ عاد کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں.یورپ کے لوگ ایک زمانہ میں عاد کے وجود سے ہی انکار کیا کرتے تھے.اور کہا کرتے تھے کہ عادؔ نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر قریباً نصف صدی سے جب سے کہ عادؔ کے آثار ملے ہیں.وہ بھی ماننے لگ گئے ہیں کہ عاد ؔ نام کی ایک قوم ہوئی ہے.بلکہ مشہور عیسائی مؤرخ جرجی ؔ زیدان نے ’’العرب قبل الاسلام ‘‘ میںلکھا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفحوں کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیںکرسکیں جتنے معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کردیئے ہیں.قرآن کریم بتا تا ہے کہ یہ قوم حضرت نوح ؑ کی قوم کے معاً بعد گزری ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (الاعراف :۷۰)یعنی یاد کرو جب خدا نے تم کو نوح ؑ کی قوم کے بعد اس کا جانشین بنایا.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا جن کی پیشگوئیوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا جن سے موسوی سلسلہ کی ابتداء ہوئی.پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا.کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نوح ؑ کی شریعت کے پیرو تھے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ شِعَتِہٖ لَاِبْرَاھِیْمَ ( الصافات:۸۴)یعنی حضرت ابراہیم ؑ نوح ؑ کی جماعت میں سے ہی تھے.پس ابراہیم ؑ کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے سلسلہ کے بانی حضرت نوح ؑ کا ذکر فرما دیا.اور نوح ؑ کے ذکر کے معاً بعد ہود علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے.کیونکہ عاد ہی نے نوح ؑ کی قوم کی جگہ لی تھی.حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ تم بڑے بڑے ٹیلوں پر اونچی عمارتیں کھڑی کرتے ہو اوراپنی تہذیب اور تمدن کے قیام کے لئے دوسری اقوام کو ظالمانہ طور پر کچل دیتے ہو.مگر یہ سب باتیں عبث ہیںکیونکہ ان ظاہری نشانوں کے باوجود تمہارے نشان مٹ جائیں گے اور قائم صر ف تقویٰ رہے گا.تم بڑی بڑی فیکٹریاں اور صنعت گاہیں بناتے ہو اور سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی اور اپنی مالی ترقی کے گھمنڈ میں غریبوں پر ظلم کرتے ہو.مگر یہ جھوٹی عزت تمہارے کسی کام نہیں آئےگی.فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.وَ اتَّقُوا الَّذِيْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ.اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِيْنَ.وَ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ.اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ
وَ اتَّقُوا الَّذِيْۤ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ.اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِيْنَ.وَ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ.اِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ.فرمایا آخر یہ علم جس تم دنیا میں ترقی کر رہے ہو خدا تعالیٰ کے ہی دیئے ہوئے ہیں اور وہ سامان جن سے تم کام لیتے ہو وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے دیئے ہوئے ہیں.اسی طرح جانور بھی اور اولاد بھی اور باغات بھی.اور چشمے بھی سب اسی کی عطا ہیں.اگر تم اس کی طرف توجہ نہ کرو گے تو کسی دن یہ سب کچھ چھینا جائےگا.قَالُوْا سَوَآءٌ عَلَيْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ انہوں نے کہا تیرا وعظ کرنا یا نہ کرنا ہمارے لئے برابر ہے (کیونکہ جو باتیں ہم کرتے ہیں).وہ تو پہلے الْوٰعِظِيْنَۙ۰۰۱۳۷اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَۙ۰۰۱۳۸وَ مَا نَحْنُ زمانہ کے لوگوں سے رائج ہیں.اور ہم پر (کبھی) عذاب نہیں آئے گا.پس ان کافروں نے ان کو جھٹلادیا بِمُعَذَّبِيْنَۚ۰۰۱۳۹فَكَذَّبُوْهُ فَاَهْلَكْنٰهُمْ۠١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ اور ہم نے ان کو ہلاک کردیا.اس واقعہ میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان میںسے وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۴۰وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ اکثر مومنوں میں سے نہ بنے.اور تیر ارب یقیناً غالب الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۴۱ (اور) باربار رحم کرنے والا ہے.تفسیر.حضرت ہود علیہ السلام نے جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا.میاں ایسی نصیحتیں کرو یا نہ کرو ہم نے ماننا تو ہے ہی نہیں.پہلے زمانوں سے ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو کہتے تو رہے ہیں کہ زیادہ دولتیں نہ کمائو اور دولتوں کا گھمنڈ نہ کرو.مگر پھر بھی یہ دنیا کام کرتی ہی چلی آئی ہے.ہم کو کارخانے بنانے اور دولتیں کمانے پر کوئی عذاب نہیں ہوگا.اس لئے خواہ تم ہمیں تبلیغ کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یہ برابر ہے اور ہم کبھی تمہاری بات نہیں مان سکتے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی انسان سرکشی اور تمرد میں بڑھ جائے تو اسے نیکی کی طرف توجہ دلانا بڑ ا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے.لیکن اس مشکل کو تسلیم کرنے کے باوجود قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہی ہدایت دی ہے
کہ فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى (الاعلٰی :۱۰)تمہار اکام یہی ہے کہ تم نصیحت کرتے چلےجائو.کیونکہ نصیحت کرنا بہرحال دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے.پس خواہ کوئی کتنا ہی مخالف ہو.اس کے متعلق کبھی مایوسی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے.دل خدا تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہیں.تمہار ا کام یہ ہے کہ تم باربار خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کی باتیں لوگوں کے کانوں میں ڈالتے رہو.ایک دن یقیناً ایسا آجائے گا کہ ان کے دل کے زنگ دور ہوجائیں گے.اور وہ ہدایت کو خوشی سے قبول کر لیںگے.اولیاء کی کتب میں لکھا ہے کہ ایک شخص مسلمانوں کو سخت دکھ دیا کرتا تھا.اور باوجود سمجھانے کے باز نہیں آتا تھا.آخر کئی لوگوں نے تنگ آکر اس محلہ کو ہی چھوڑ دیا جس میں وہ رہتا تھا.ایک دفعہ ایک بزرگ حج کر رہے تھے کہ انہوں نے اسی شخص کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا.انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تُو کہاں؟ تیرا کام تو سارادن گانا بجانا اور شرابیں پینا تھا تو کعبہ کا طواف کرنے کے لئے کس طرح آگیا.وہ کہنے لگا.ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے.آپ لوگ مجھے قرآن بھی سناتے اور حدیثیں بھی بتاتے مگر میرے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا.ایک دن مجلس لگی ہوئی تھی.دوست احباب بیٹھےتھے شراب کی صراحیا ں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں کہ یکدم مجھے گلی میں سے ایک آواز آئی.کوئی اجنبی نامعلوم کون گلی میں سے گزررہا تھا اور قرآن کریم کی یہ آیت بڑی خوش الحانی سے پڑھتا جار ہا تھا کہ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ.کیا مومنوں پرا بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرجائیں.یہ آیت جونہی میرے کان میں پڑی مجھے یوں معلوم ہو ا کہ یہ آیت ابھی آسمان سے میرے لئے اُتری ہے.میرے آنسو جاری ہوگئے.میں نے مجلس برخواست کردی.گانے بجانے کے آلات توڑ دیئے توبہ کی اور حج کےلئے چل پڑا.تم نے سار ا قرآن مجھے سنادیامگر مجھ پر اثر نہ ہوا لیکن وقت ہوتا ہے.ایک آیت نے میری کایاپلٹ دی اور اب میں توبہ کرکے حج کرنے آیا ہوں.تو قلوب بعض دفعہ ایسے رنگ میں بدلتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے دوسری عورت کو مار ااور اس کا دانت توڑ دیا.اسلامی شریعت کی رو سے ضروری تھا کہ اُس عورت کا بھی قصاص کے طورپر دانت توڑا جاتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا.وہ عورت جس نے دانت توڑا تھا اس کی طرف سے حضرت انسؓ بطور وکیل پیش ہوئے.(بخاری کتاب التفسیر باب یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص البقرۃ:۱۷۹).اور انہوں نے کہا کہ بیشک قصاص کے طور پر اس کا بھی دانت توڑا جانا چاہیے مگر میں معافی کی درخواست کرتا ہوں اگر دوسر ا فریق معاف کردے تو یہ اس کا احسان ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسری عورت کے رشتہ داروں سے کہا کہ
بیشک شریعت نے تمہیں قصاص کا حق دیا ہے.لیکن اگر تم معاف کردو تو اچھا ہے.مگر دوسرے فریق پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ لوگ یہی کہتے چلے گئے کہ دانت کے بدلے جب تک دانت نہ توڑا جائے گا ہم نہیں ٹلیں گے.آخر حضرت ابوہریرہؓ کو جوش آگیا.اور انہوں نے کہا.خدا کی قسم میری رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا یہ الفاظ انہوں نے ایسے جوش سے کہے کہ وہ لوگ جو اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی نہیں مان رہے تھے.ڈرگئے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ !ہم نے معاف کیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے جسم غبار آلود ہوتے ہیں مگر جب وہ کسی معاملہ میں خد اتعالیٰ کی قسم کھالیں تو خدا تعالیٰ ان کے متعلق اپنی غیرت دکھلاتا اور اس با ت کو پورا کردیتا ہے جس کے لئے وہ قسم کھاتے ہیں.تو دیکھو حضر ت ابوہریرہ ؓ نے جب خدا کی قسم کھاکر یہ کہا کہ میری اس رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو وہ لوگ جو اس بارہ میں خود حضرت ابو ہریرہؓ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی ماننے کےلئے تیار نہیںتھے یکدم ان کی طبیعت بدل گئی.اور انہوں نے اپناحق چھوڑ دیا.پس مومنوں کو اس بات کی اہمیت سمجھنی چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھاتے رہنا چاہیے اور یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ دوسرے کی اصلاح نہیںہوسکتی.اور اگر بالفرض دوسرے کی اصلاح نہ بھی ہو تو کم سے کم جو شخص دوسرے کو سمجھائے گا اس کی اپنی اصلاح تو ہوجائے گی.بہرحال دوسرے کو سمجھانا فائدہ کے بغیر نہیںہوتا.پس وعظ و نصیحت کا سلسلہ اپنے اندر بھی جاری کرنا چاہیے اور غیروں میں بھی جاری کرنا چاہیے.جہاں دوست ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں ان کافرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں کہ سچ بولو.معاملات میں صفائی رکھو.گالی گلوچ سے کام نہ لو.جھگڑا نہ کرو.محبت اور پیار سے رہو.جب اس قسم کے وعظ و نصیحت کاسلسلہ بند ہوجائے تو نئی پود کئی قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے پرانے لوگ تو شیطان سے بہت سی لڑائیاں لڑچکے ہوتے ہیں.اور ان کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا ہوچکا ہوتا ہے.مگر نئی پود نے وہ لڑائی نہیں کی ہوتی اس لئے شیطان ان کے اندر آسانی سے داخل ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آدمؑ اور شیطان کاقصہ اسی لئے بیان کیا ہے کہ ذرا سی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا موجب ہوجاتی ہے.اگر آدمؑ جو شیطان کے ساتھ دیر سے جنگ کرتا چلا آرہاتھا.دھوکا کھا سکتا ہے تو جن سے شیطان کی ابھی جنگ ہی نہیں ہوئی وہ تو اس کے فریب میں بہت جلد آسکتے ہیں.آدمؑ اسی لئے شیطان کے دھوکا میں آیا کہ شیطان مذہب کا لبادہ اوڑھ کر آدمؑ کے سامنے آیا اور حضرت آدمؑ نے سمجھا کہ اب اس کی اصلاح ہو چکی ہے.چنانچہ انہوںنے اس کے ساتھ صلح کرلی.اور نتیجہ خراب نکلا.مگر جس شخص نے شیطان سے ابھی لڑائی شروع ہی نہیں کی.اس کے سامنے اگر شیطان بزرگ بن
کر آ جائے تووہ جلدی دھوکا کھا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کا اس قصہ کے بیان کرنے سے یہی منشاء ہے کہ جب آدمؑ شیطان کو دیکھ کر دھوکا کھا گیا تو وہ لوگ جو ابھی شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہی نہیںوہ اس کی طرف سے کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں.پس موجودہ اور آئندہ نسلوںکو شیطان کے حملوں سے بچانے کےلئے اسلام یہ نصیحت کرتاہے کہ تم اپنے اندر بھی وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھو اور بیرونی دنیا کو بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہو تاکہ شیطان ذریّتِ آدمؑ کو گمراہ کرنے سے ہمیشہ کےلئے مایوس ہوجائے.بہرحال عاد کی قوم نے ہودؑ کی نصیحتوں پر کوئی کان نہ دھرا اور اس کو جھٹلادیا.جس کایہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا.اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً.وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ.فرماتا ہے انہوں نے تو بڑے بڑے مکانات بنا کر اپنا نشان قائم کیا تھا مگر ہم نے ان کی بستیاں مٹا کر ایک نشان قائم کردیا.لیکن اس نشان کا ہود کی قوم کوکیا فائدہ پہنچا.وہ تباہ ہوگئی اور بعد میں آنے والوں کےلئے ایک عبرت کا نشان قائم کرگئی.كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَۚۖ۰۰۱۴۲اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا.جب کہ انہیں ان کے بھائی صالح ؑ نے کہا تھا کہ کیاتم تقویٰ نہیں کرتے ؟ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۰۰۱۴۳اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ۰۰۱۴۴فَاتَّقُوا میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس اللہ (تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۴۵وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اور میری اطاعت کرو.اور میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت طلب نہیں کرتا میری اُجرت تو اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۴۶اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَاۤ رب العالمین کے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے)کیا(تم خیال کرتے ہوکہ) جو کچھ اس (دنیا) میں ہے اٰمِنِيْنَۙ۰۰۱۴۷فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍۙ۰۰۱۴۸وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا تمہیں اسی میں ان کے ساتھ (زندگی بسر کرتے ہوئے ) چھوڑ دیا جائے گا.یعنی باغات اور چشموں میں.
هَضِيْمٌۚ۰۰۱۴۹وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَۚ۰۰۱۵۰ اور لہلہاتے کھیتوں میں اور کھجوروںمیں جن کے پھل بوجھ کی وجہ سے ٹوٹے جارہے ہوں.اور تم لوگ پہاڑ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۵۱وَ لَا تُطِيْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَۙ۰۰۱۵۲ کھودکھود کر (اپنی بڑائی پر) اِتراتے ہوئے گھر بناتے ہو.پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اور میری اطاعت کرو.الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَ لَا يُصْلِحُوْنَ۰۰۱۵۳ اور حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کی باتوں کو مت مانو.وہ لوگ جو ملک میں فساد کرتے ہیںاور اصلاح نہیں کرتے.حلّ لُغَات.طَلْعٌ.طَلْعٌ مِّنَ النَّخْلِ کے معنے ہیں شَیْءٌ یَخْرُجُ کَاَ نَّہٗ نَعْلَانِ مُطْبَقَانِ.کھجور کا خوشہ جس کے اندر پھل پیدا ہوتا ہے (اقرب) ھَضِیْمٌ.نَخْلٌ طَلْعُھَاھَضِیْمٌ دَاخِلٌ بَعْضُھَا فِیْ بَعْضٍ کَاَنَّمَا شُدِخَ.وہ خوشہ جس کا ایک حصہ دوسرے کے اندر داخل ہو(اقرب) تَنْحِتُوْنَ.تَنْحِتُوْنَ نَحَتَ سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَحَتَ الْحَجْرَ کے معنے ہیں سَوَّاہُ وَاَصْلَحَہٗ پتھر کو گھڑ کر ٹھیک کیا.اور نَحَتَ الْجَبَلَ کے معنے ہیں حَفَرَہٗ.پہاڑ کو کھودا (اقرب)پس تَنْحِتُوْنَ کے معنے ہوں گے.تم کھودتے ہو.فَارِھِیْنَ.فَارِھِیْنَ فَارِہٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلْفَارِہُ کے معنے ہیں اَلْحَاذِقُ بِالشَّیْ ءِ.کسی کام کا ماہر (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.عادکے بعد ثمود کی قوم آئی اور ان میں صالح ؑ نبی آیا.اس نے بھی اپنی قوم کو تقویٰ کی نصیحت کی.اور بتایاکہ میں تم سے اس تعلیم کے بدلہ میں کچھ مانگتا نہیں.میری مزدوری میرا خدا دے گا.تم جن مادی ترقیات پر خوش ہو وہ قائم نہیں رہیں گی.نہ یہ باغات رہیں گے.نہ چشمے.نہ کھیتیاں.نہ کھجوریں جن کے خوشے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں.تم لوگ بڑے فخر سے پہاڑ کھود کھودکر مکان بناتے ہو مگر عزت حاصل کرنے کا یہ طریق نہیں.عزت حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو اور جو لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں اُن کی فرمانبرداری مت کرو.اسی طرح وہ لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح
نہیں کرتے ان کے پیچھے مت رہو.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود عاد کی قائم مقام تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ (الاعراف :۷۵)یعنی اس وقت کو یادکرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں عاد کے بعد ان کا قائم مقام بنایا.فتوح اؔلشام کا مصنف ابواسمٰعیل لکھتا ہے کہ ثمود کی قوم بصریٰ سے لے کر جو شام کا ایک شہر ہے عدن تک پھیلی ہوئی تھی اور وہیں ان کی حکومت تھی.یونانی تاریخوںمیںبھی ثمود کا ذکر آتا ہے اور انہوں نے اس کا ذکر مسیح ؑ کے زمانہ کے قریب کیا ہے اور حجرکو اس کا مرکزی مقام بتایا ہے جو اس قوم کا دارالحکومت معلوم ہوتا ہے.یہ مقام مدینہ منّورہ اور تبوک کے درمیان تھا.اور اس علاقہ میں اس قوم کا بڑا زور تھا.اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِيْنَ.فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ.وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيْمٌسے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کا ملک چشموں اور باغات والا تھا.وہاں کھجوریں بھی اچھی قسم کی ہوتی تھیں اور زراعت بھی خوب ترقی پرتھی.اسی طرح وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو سنگ تراشی میں کمال حاصل تھا.چنانچہ پرانے آثار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے.حتّٰی کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب و غریب محل بنا لئے تھے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کے سوا اُن کے اور کسی قسم کے مکان نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے ان کی خاص عمارتوں کی طرف اشارہ ہے جس سے ان کے تمدن کی ترقی ظاہر ہوتی ہے.اسی طرح پہاڑ کھود کھود کر اپنی رہائش کے لئے مکانات اور شہر بنانے میں اس طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم سال کا کچھ حصہ پہاڑوں پر سیرو تفریح کے لئے بسر کرتی تھی مگر اس کے باوجود کسی کو ان کے ملک پرحملہ کرنے کی جرأت نہیںہوتی تھی.اس قوم نے بھی حضرت صالح ؑ کا انکار کیا اور ان کی باتوں پر کان نہ دھرا.چنانچہ حضرت صالح ؑ کے سمجھانے پر اس قوم نے جو جواب دیا اس کا قرآن کریم اگلی آیات میں ذکر فرماتا ہے.قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ۠ۚ۰۰۱۵۴مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ اس پر وہ (لو گ جو کافر تھے )بولے.تجھ کو صرف کھانا دیا جاتا ہے.تُو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے.مِّثْلُنَا١ۖۚ فَاْتِ بِاٰيَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۰۰۱۵۵قَالَ پس اگر تو سچاہے توکوئی نشان ظاہر کر.اُس نے کہا.یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن
هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ۰۰۱۵۶وَ لَا اس کے لئے گھاٹ پر پانی پینا مقرر ہے اور ایک دن تمہارے لئے گھاٹ سے تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۰۰۱۵۷ پانی لینا مقرر ہے.اور تم اس (اونٹنی) کو کوئی نقصان نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کوآپکڑے گا.فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَۙ۰۰۱۵۸فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ اِنَّ (یہ سن کربھی ) انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور (پھر) شرمندہ ہوگئے.تب ان کو فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۵۹وَ اِنَّ (موعود) عذاب نے آپکڑا.اس میں یقیناً ایک بہت بڑا نشان تھا.لیکن ان میں سے اکثر رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۶۰ مومنوں میں شریک نہ ہوئے.اور تیرا رب یقیناً غالب (اور) باربار رحم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.عَقَرُوْھَا.عَقَرَہٗ کے معنے ہیں جَرَحَہٗ.اُس کو زخمی کردیا.نَحَرَہٗ ا س کو ذبح کیا.اور جب اونٹ کے متعلق یہ لفظ استعمال کریں اور کہیں کہ عَقَرَالْاِبِلَ تو معنے ہوں گے قَطَعَ قَوَائِـمَھَا بِالسَّیْفِ اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں (اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہوں گے انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں.تفسیر.حضرت صالح علیہ السلام نے جب انہیں نصیحت کی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اے صالح ؑ ! ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھے کھانا دیا جارہا ہے.یعنی ہمیں تباہ کرنے کے لئے کوئی غیر حکومت تجھے رشوت دے رہی ہے.ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مخالف کہتے تھے کہ بعض اور لوگ اس کی مدد کررہے ہیں.اور بانی سلسلہ احمدیہ کے وقت میں بھی لوگ یہی کہتے تھے کہ انگریز ان کو روپیہ دے کر مسلمانوں کے خلا ف کھڑ اکررہے ہیں.مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا.آخر تجھے کیا لال لگے ہوئے ہیں تو ہمارے جیسا ایک آدمی ہی ہے نا.اگر ایسا نہیں اورتو واقعہ میں اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو جو نشان تیرے پاس ہے وہ لے آ.حضرت صالح علیہ السلام نے جواب
میںکہا کہ لو یہ میری اونٹنی ہے.چشمہ پر تم اکھٹے ہوتے ہوتو فساد ہوتا ہے.اب تمہارے امتحان کےلئے یہ نشان مقرر کیا جاتاہے کہ ایک دن یہ پانی پیئے گی اور ایک دن تم پانی پی لینا یعنی اپنے جانوروں کو پانی پلانا اور اپنے لئے بھی پانی لے لینا اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا اگر تم اس کے خلاف عمل کرو گے تو تم کو ایک بڑے دن کا عذاب پکڑلے گا.انہوں نے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے.مگر بعد میں شرمندہ ہوگئے.لوگ ان آیات سے اونٹنی کی خصوصیات نکالنا شروع کردیتے ہیں.بلکہ بعض مفسرین نے تو عجیب وغریب قصے بھی بیان کردئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ لوگ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو تب مانیں گے جب فلاں پہاڑ سے اونٹنی پید اکر دو.انہوں نے دعا کی تو پہاڑ میں سے اونٹنی نکل آئی اور پھر اسی وقت اس اونٹنی نے اپنے جیسا ایک بچہ بھی جن دیا.( تفسیر جلالین ودرمنثورسورۃ اعراف قولہ تعالیٰ والی مدین اخاھم شعیبا..الی قولہ تعالیٰ ولکن لا تحبون الناصحین)مگریہ سب لغو باتیں ہیں جن کا قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں.قرآن کریم اس اونٹنی کی پیدائش کو نشان قرار نہیں دیتا بلکہ اس کی آزادی کو نشان قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر کفار نے اس اونٹنی کو دکھ پہنچایا تووہ عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے.مگر اس لئے نہیں کہ وہ اونٹنی اپنی ذات میں کوئی اہمیت رکھتی تھی بلکہ اس لئے کہ حضرت صالح ؑ اس اونٹنی پر چڑھ کر سارے ملک میں تبلیغ کیا کرتے تھے.اُس زمانہ میں موٹر نہیں تھے نہ ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ ایجاد ہوئے تھے.سفر کا ذریعہ صر ف اونٹنی تھی جس پر سوا ر ہوکر حضرت صالح ؑ خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے.چونکہ مخالف ان کی اس تبلیغی تگ ودو کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے لازماً وہ آپ کے تبلیغی سفروں میں روک ڈالتے ہوں گے اور آپ کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتے ہوں گے.جب ان کی شوخیاں اور شرارتیں حد سے گزر گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ان کے لئے ایک نشان قرار دے دیا اور فرمایا کہ تم صالح کی اونٹنی کو اِدھر اُدھر پھرنے دواور اس کی تبلیغی مساعی میں روک مت بنو.ورنہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا مورد بن جائو گے انہوں نے اس انذار کو بھی ایک مجنونانہ بڑ خیال کیا اور تمرّد اور سرکشی سے کام لیتے ہوئے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے.جس کے معنے یہ تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چیلنج کیا اور کہا کہ ہم اپنے ملک میں تیرے نام کو بلند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے.جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ملک کے دروازے بند کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس ملک کے دروازے ان کے لئے بند کردیئے.اور اس نے انہیں اپنی قہری تلوار کا نشانہ بنا دیا.بیشک عذاب کو دیکھ کر آخر میں وہ شرمند بھی ہوئے.مگر اس وقت شرمندگی کا کیا فائدہ تھا.فرماتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً.وَمَا کَانَ اَکْثَرَھُمْ مُّوْمِنِیْنَ اس واقعہ میں بھی ایک بڑا بھاری نشان ہے جو آئندہ آنے والی نسلوںکو یہ سبق دیتا ہے
کہ الٰہی جماعتوں کے تبلیغی راستہ میں روڑے اٹکانا اور خدا تعالیٰ کے نام بلند کرنے کی اجازت نہ دینا قوموں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بنا دیتا ہے.مگریہ چیز تو بعد میںآنے والے لوگوں کے لئے صرف درس عبرت کا کام دے رہی ہے.خود اس قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہی مگر یہ قوم بھی اپنی ہلاکت اوربربادی سے خدا تعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کو ثابت کرگئی.اُس نے چاہا تھا کہ صالح ؑ مغلوب ہو مگر خدا اور اس کا رسول ہی غالب آئے.اورپھر اس نے چاہا تھا کہ صالح ؑ کی تبلیغی مساعی رنگ نہ لائیں اور خدا اور اس کے رسول کا نام دنیا میں نہ پھیلے مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے حضرت صالح ؑ کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالی اور ان کے انفاسِ قدسیہ سے ایک ایسی جماعت تیارہوگئی جس نے خدا تعالیٰ کے نور کی قندیلیں اپنے سینوں میں روشن کیں اور بھولی بھٹکی دنیا کے لئے ہادی اور راہنما بن گئی.كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠ۚۖ۰۰۱۶۱اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لوط ؑ کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا.جب کہ ان کے بھا ئی لوط نے کہا کہ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۰۰۱۶۲اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ۰۰۱۶۳فَاتَّقُوا میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس اللہ (تعالیٰ)کا تقویٰ اختیار کرو اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۶۴وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اور میری اطاعت کرو.اور میں اس (کام) کے بدلہ میں تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا.اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۶۵اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ میر ابدلہ تو صر ف ربّ العالمین کے ذمہ ہے.کیا تمام مخلوقات میں سے تم نے نروںکو اپنے لئے چُنا ہے.الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۱۶۶وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اور تم ان کو چھوڑتے ہو جن کو تمہارے ربّ نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پید ا کیا ہے (صرف یہی نہیں کہ تم ایسا
اَزْوَاجِكُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۰۰۱۶۷ فعل کرتے ہو).بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ )تم (انسانی فطرت کے ) تقاضوں کو ہرطرح توڑنے والی قوم ہو.تفسیر.فرماتا ہے.لوط ؑ کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا.اس جگہ بھی لوط ؑکےلئے مرسلین کا لفظ استعمال کیا گیاہے.جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوطؑ اپنے زمانہ میں باقی نبیوںکی طرح سب رسولوں کا قائم مقام تھا اور اس کا انکار درحقیقت سب نبیوںکا انکار تھا لوطؑ نے بھی اپنی قوم سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول امین کی حیثیت میں تمہاری طرف آیا ہوں.تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری سنو تاکہ تم نجات پائو.میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.میر ااجر صرف رب العالمین خد ا کے ذمہ ہے.میں تو اس لئے آیا ہوںکہ تمہیں برائیوں سے بچنے کی نصیحت کروں.اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف توجہ دلائوں.تم میں یہ ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے کہ تم مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہواور اللہ تعالیٰ نے تسکین جذبات اور باہمی مودّت و الفت کے قیام کے لئے جو مرد و عورت کے تعلقات کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کو پسِ پُشت ڈال رہے ہو.یہ چیز بتا رہی ہے کہ تم انسانی فطرت کے تقاضوں کو توڑنے والی قوم ہو.قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ۰۰۱۶۸ انہوں نے کہا.اے لوطؑ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو ملک بدر کئے جانے والوں میں شامل ہوجائے گا.اُس قَالَ اِنِّيْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِيْنَؕ۰۰۱۶۹رَبِّ نَجِّنِيْ وَ اَهْلِيْ (یعنی لوط ؑ ) نے کہا (بہرحال) میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں.اے میرے ربّ! مجھے اور مِمَّا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۷۰ میرے اہل کو ان کے اعمال سے نجات دے.حلّ لُغَات.قَالِیْنَ.قَالِیْنَ قَلٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور قَلٰی فُلَانًا کے معنے ہیں اَبْغَضہٗ وَکَرِھَہٗ غَایَہَ الْکَرَاھَۃِ فَتَرَکَہٗ.کسی کو ناپسند کیا اور ناپسندیدگی کے بناپر چھوڑ دیا.(اقرب)
تفسیر.انہوں نے لوطؑ کی نصیحتوں سے تنگ آکر اسے دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے اپنے ملک سے نکال دیں گے.لوطؑ نے کہا! بے شک نکال دو.میں تمہارے اعمال کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ خدایا مجھ کو اور میرے خاندان کو ان کے برے اعما ل سے بچا ئیو.اس آیت میں ایک تو یہ سبق دیا گیا ہے کہ عذاب ظاہری سے نجات مانگنی اتنی اہم نہیں جتنی کہ عملِ بد سے نجات مانگنی اہم ہے.اور دوسرا سبق یہ دیا گیا ہے کہ نفرت ہمیشہ برے اعمال سے رکھنی چاہیے نہ کہ گمراہ اور خطاکار انسان کو بھی قابلِ نفرت سمجھنا چاہیے.اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں یہ ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جس پر اسلا م نے خصوصیت سے زور دیا ہے اور بد اور بدی میں فرق کیا ہے.وہ یہ تو کہتا ہے کہ برائی کو دور کرو مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ برائی کو دور کرنے کے ساتھ ہی بد کو مٹا ڈالو.بلکہ وہ ان دونوں میں ایک حد قائم کرتا اور اس کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى(المائدۃ:۳)کسی قوم کی دشمنی تمہاری آنکھوں پر ایسا پردہ نہ ڈال دے کہ تم اس کے متعلق نا انصافی اور ظلم پر اُتر آئو.تمہارا کا م یہ ہے کہ تم اس کے متعلق بھی عدل و انصاف کی حدود کا خیال رکھو ورنہ تقویٰ کے مقام سے تم اپنے آپ کو گرانے والے ہوگے.گویا اسلام دشمن کی قابلِ نفرت حرکات سے تو بیزاری کی تعلیم دیتا ہے مگر دشمن کی دشمنی رکھنے سے منع کرتا ہے.پھر فرماتا ہے لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ(الممتحنۃ :۹) وہ لوگ جو تمہارے دین کے مخالف توہیں مگر تمہیں اپنے مظالم کا تختہ مشق بنا کرتمہیں جبراً اپنے دین سے منحرف کرنے کی کوشش نہیںکرتے.نہ تمہیں اپنے وطن سے بے وطن کرتے ہیں ان کےساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنے اور ان کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز نہیں روکتا تمہارا کام یہ ہے کہ تم ان سے نیکی کرو.اور ان کے معاملات میں بھی انصاف کا پورا پورا خیال رکھو.غرض اسلام بنی نو ع انسان کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر کسی فر د یا قوم کو تم تقویٰ و طہارت کے خلاف عمل کرتا دیکھو تو اس کے فعل سے تو نفرت کرو مگر اس فرد یا قوم کی خیر خواہی کا جذبہ اپنے دل سے کبھی مٹنے نہ دو.کیونکہ اگر یہ جذبہ مٹ گیا تو تم ان کی اصلاح سے بھی غافل ہوجائو گے.حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اسی اخلاقی کمال کا مظاہرہ کیا اور فرمایا کہ میں تمہاری اصلاح کے لئے تورات دن کوشش کررہا ہوں لیکن تمہارے گندے افعال سے مجھے شدید نفرت ہے.اس قدر نفرت کہ میں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتارہتا ہوں کہ وہ مجھےبھی اور میرے تمام جسمانی اور روحانی اہل کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے مگر تعجب ہے کہ وہی لوط ؑ جن کے اخلاقی کمال کی قرآن کریم نے اس قدر تعریف کی ہے اور جن کے متعلق اس نے
دوسری جگہ یہ خبر دی ہے کہ اَدْخَلْنٰہُ فِی رَحْمَتِنَا (الانبیاء :۷۶) ہم نے اُسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی.اس پر بائیبل یہ نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام لگاتی ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوںسے بدکاری کی.اور پھر ان لڑکیوں سے ناجائز بچے پید اہوئے (پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰تا ۳۸) مگر پھر وہی بائیبل جو ایک طرف تو حضرت لوط ؑ اور ان کی پاک دامن بیٹیوں پر بدکاری کا الزام لگاتی اور ان کے بطن سے ناجائز بچوں کی ولادت کا اشتہار دیتی ہے دوسری طرف یہ بھی لکھتی ہے کہ اس حرامکاری کے نتیجہ میں ایک بیٹا موآبؔ پیدا ہوا جو موآبیوں کا باپ بنا.اور دوسرابیٹا بن عمی پیدا ہوا جو بنی عمون کا باپ بنا.گویا ایک طرف تو وہ حضرت لوط ؑ اور ان کی بیٹیوں پر الزام لگاتی ہے اوردوسری طرف یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان بچوں پرایسا فضل کیا کہ وہ دوبڑے بڑے خاندانوںکے بانی قرار پائے اور خدا تعالیٰ نے ان سے ایک لمبا سلسلہ نسل جاری کر دیا.اگر حضرت لوط ؑ ایسے ہی اخلاق کے حامل ہوتے جس قسم کے اخلاق بائیبل ان کی طرف منسو ب کرتی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو ایسی ہی برکت دیتا جیسی بائیبل کے بیان کے مطابق انہیں دی گئی.پس بائیبل کا اپنا بیان جو خدا تعالیٰ کی ایک فعلی شہادت پر مشتمل ہے اس کے بیان کردہ الزام کو جھوٹا قرار دے رہا ہے.اور پھر قرآن کریم جو ایک کتاب مبین کی شکل میں نازل ہواتھا اُس نے کھلے لفظوں میں بتادیا کہ لوط ؑ ہمارے مقربین میں سے تھا اور وہ ان تمام گندے اور ناجائز افعال سے منّزہ تھا جن میں اس کی قوم گرفتا رتھی.بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے بھی دعائیں کرتا رہتا تھا کہ وہ اس کی مدد کرے.اور اسے اور اس کے اہل کو ان برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے.فَنَجَّيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اَجْمَعِيْنَۙ۰۰۱۷۱اِلَّا عَجُوْزًا فِي پس ہم نے اس کو.اور اس کے اہل کو سب ہی کو نجات دی.سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں الْغٰبِرِيْنَۚ۰۰۱۷۲ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَۚ۰۰۱۷۳وَ اَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ میں شامل ہوگئی.پھر(لوطؑ کو نجات دینے کے بعد) سب دوسروںکو ہم نے ہلاک کردیا.اور ہم نے مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ۰۰۱۷۴اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ وَ ان پر (پتھر وں کی) بارش برسائی.اور جن کو (خدا کی طرف سے) ہوشیا رکردیا جاتا ہے (لیکن پھر بھی باز
مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۷۵وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ نہیں آتے )ان پر برسائی جانے والی بارش بہت بری ہوتی ہے.اس واقعہ میں یقیناً ایک بڑ انشان تھا لیکن ان الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۷۶ (کفار) میں سے اکثر پھر بھی مومن نہ بنے.تیرا ربّ یقیناً وہ ہے جو غالب(اور) باربار کرم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.عَجُوْزًا.اَلْعَجُوْزُ اَلْمَرْأَۃُ الْمُسِنَّۃُ لِعَجْزِھَا عَنْ أَکْثَرِ الْاُمُوْرِ.بڑھیا عورت.اور بڑھیا عورت کو عجوز کا نام دینے میںیہ حکمت ہے کہ اکثر امور سر انجام دینے سے وہ عاجز ہوتی ہے.(اقرب) غَابِرِیْنَ.غَابِرِیْنَ غَبَرَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور غَبَرَ کے معنے ہیں.مَکَثَ وَبَقِیَ.ٹھہر گیا اور رہ پڑا (اقرب) نیز اَلْغِبْرُ کے معنے ہیں اَلْحِقْدُ.کینہ (اقرب)پس غَابِر کے معنے ہوں گے.پیچھے رہنے والا اور کینہ رکھنے والا.تفسیر.فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو سن کر اس کو اور اس کے تمام خاندان کو تو بچا لیا مگر اس کی بڑھیا بیوی عذاب کا شکار ہوگئی.کیونکہ وہ غابرین میں سے تھی.لُغت میں غِبْر کے ایک معنے اَلْحِقْدُ یعنی کینہ کے بھی لکھے ہیں (اقرب) پس غَابِرِیْن کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ حضرت لوط ؑ کی بیوی ان لوگوں میں سے تھی جو حضرت لوط ؑ کی تعلیم سے کینہ اور بغض رکھتے تھے.اور آپ کی مخالفت کے درپے رہتے تھے اس لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اُنہی لوگوں کے ساتھ شامل کر دی گئی.بائیبل نے اس مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ حضرت لوط ؑ کی بیوی بھی بچائے جانے والے لوگوں میں شامل تھی بلکہ لکھا ہے کہ فرشتوں نے اس کا اور اس کی جورو کا اور اس کی دونوں بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ ا کیونکہ خداوند کی مہربانی اس پر ہوئی اور اسے نکال کر شہر سے باہر پہنچا دیا.(پیدائش باب ۱۹ آیت ۱۶) مگر پھر بائیبل ہی بیان کرتی ہے کہ جاتی دفعہ اس نے پیچھے پھر کے دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی.(پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶) اوّل تو جیتے جاگتے انسان کا محض پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے نمک کا کھمبا بن جانا ایک ایسا امر ہے جو بائیبل کے معتقدین کے نزدیک توممکن ہے قابلِ تسلیم ہو.مگر کوئی اور شخص اس خوش اعتقادی کا قائل نہیں ہوسکتا.دوسرے جب اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی تھاکہ ان کی بیوی عذاب سے محفوظ رہے تو اسے نمک کا کھمبا کیوں بنا دیا اسی طرح جب خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس عورت نے دس بیس قدم کے بعد پھر تباہ ہونا ہے تو اسے پکڑ کر باہر نکالنے کے کیا معنے تھے؟بائیبل کے یہ متضاد بیانات بتا رہے ہیں کہ انسانی دست بُرد نے اس کی روایات کو انتہائی مخدوش بنا دیا ہے.
سچی بات وہی ہے جو قرآن کریم نےبیان کی کہ حضرت لوط ؑکی بیوی آپ کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتی تھی اسی لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئی.چنانچہ فرماتا ہے ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی (پتھروں کا ذکر سورئہ حجر ع ۵میں کیا گیا ہے)یعنی ایک سخت زلزلہ آیا جس سے ان کی زمین جو پتھریلی تھی پہلے نیچے سے اٹھ کر اوپر آئی اور پھر اوپر سے نیچے گری.اور بجائے پانی کے اوپر سے پتھر برسے جس سے وہ تباہ ہوگئے.شدید زلزلوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان سے زمین کے ٹکڑے اڑ کر پھروہیں آکر گرنے لگتے ہیں.فرماتا ہے.یہ بھی ایک نشان تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے.وہ قوم تو پھر بھی ایمان نہ لاسکی.بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی حارانؔ کے بیٹے تھے اور اُور سے جو عراق کا ایک قصبہ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہی ہجرت کرکے فلسطین کی طر ف چلے آئے تھے.اورپھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہو کر سدومؔ نامی ایک بستی میں رہنے لگے تھے.(پیدائش باب ۱۱ آیت ۲۷ و باب ۱۳ آیت ۱۲) اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر کرکے مکہ والوں کو توجہ دلائی کہ اگر تم بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو لوط ؑ کے دشمنوں جیسا سلوک تم سے بھی کیا جائے گا.چنانچہ جس طرح لوطؑ کی قوم پر پتھر برسے اسی طرح بدرؔ کی جنگ میں ان پر پتھر پڑے یعنی ایک نشان کے طور آندھی چلی جس کے نتیجہ میں کنکر اُڑاُڑ کر کفار کی آنکھوں میں گھس گئے اور وہ مقابلہ کی طاقت کھو بیٹھے.جس کے نتیجہ میں ان کے بڑے بڑے صنادید بدرؔ کے میدان میں ہی ہلاک ہوگئے.(تاریخ الخمیس غزوۃ بدر الکبریٰ)اور قریش کی عظمت اور ان کے دبدبہ کا خاتمہ ہوگیا پھر معنوی طور پر بھی ان سے یہی سلوک ہوا.چنانچہ جس طرح سدوم کی بستی کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا.اسی طرح کفارِ مکہ کی عزتیں خاک میں مل گئیں.ان کے بڑے بڑے خاندان تباہ ہوگئے اور وہی بچے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پناہ گزیں ہوئے.كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـَٔيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَۚۖ۰۰۱۷۷اِذْ قَالَ لَهُمْ بَن کے رہنے والوں نے بھی رسولوںکا انکار کیا تھا.جب کہ ان سے شعیبؑ نے کہا شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۰۰۱۷۸اِنِّيْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌۙ۰۰۱۷۹ کہ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے.میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر کی حیثیت سے آیا ہوں.
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوْنِۚ۰۰۱۸۰وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.اورمیں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا.اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۸۱ میرا بدلہ صرف رب العالمین (خدا) کے ذمہ ہے.تفسیر.قومِ لوط ؑ کے ذکر کے بعد اب اللہ تعالی ٰ اصحاب الائیکہ کا ذکر فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ اصحاب الایکہ نے بھی رسولوں کا انکار کیا تھا.اَیکہ کے معنے ایسے درخت کے ہوتے ہیں جس کی ٹہنیاں بہت پھیلی ہوئی ہوں یا اس جنگل کے ہوتے ہیں جس میں کثر ت سے بیریاں اور پیلو کے درخت اُگے ہوئے ہوں.اور اَیْکٌ اس کی جمع ہے.اسی طرح عربی زبان کا ایک یہ بھی محاورہ ہے کہ فُلَانٌ فَرْعٌ مِنْ اَیْکَۃِ الْمَجْدِ کہ فلاں شخص اَیْکَۃُ الْمَجد کی ایک شاخ ہے.یعنی اَیْکٌ اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو بھی کہتے ہیں(اقرب).پس اصحاب الایکہ کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیںکہ اس میں کسی ایسے علاقہ کا ذکر ہے جس جگہ کے لوگ اپنے آپ کو بڑ اخاندانی سمجھتے تھے اور چونکہ اگلی آیت یعنی اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ میں حضرت شعیبؑ کا ذکر ہے اور حضرت شعیبؑ مدین کے رہنے والے تھے جو عربوں کا ایک شہر ہے اور عرب اپنے آپ کو عبرانیوں سے زیادہ اچھی نسل کا سمجھتے تھے.اس لئے اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو اپنے آپ کوبڑے خاندان میں سے سمجھتی تھی اپنے رسولوں کا انکارکیا.اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو ایک گھنے جنگل کی مالک تھی اپنے رسولوں کا انکار کیا.دوسری جگہ قرآن کریم نے حضرت شعیبؑ کومدینؔکا رسول قراردیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ھود :۸۵)ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو رسول بناکر بھیجا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینؔ کے باشندے ہی اصحاب الایکہ کہلاتے تھے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعہ میں مدینؔ کے پاس کوئی ایسا جنگل تھا جس میں بیری اور پیلو کے درخت بکثر ت پائے جاتے ہوں.سواس بارہ میں ایک یونانی جغرافیہ نویس کے حوالہ سے مسٹربرینؔ نے اپنی کتاب ’’گولڈمائنز آف مدین‘‘ میں لکھا ہے کہ خلیج عقبہ کے پیچھے نباتات اور اشجار کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو انسانی قدوقامت کے برابرا ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے ہرنوں کے گلّے.جنگلی اونٹ اور بارہ سنگھے وہاں کثرت سے رہتے ہیں اسی طرح مویشی اور بھیڑوں کے گلّے بھی (ارض القرآن جلد دوم صفحہ ۲۳،۲۴ ) اس تاریخی
شہادت سے ظاہر ہے کہ مدینؔ کے پاس جو خلیج عقبہ کے سر پر واقع تھا ایک بڑا جنگل تھا جس میں قدِ آدم درخت تھے.اور پیلو اور جنگلی بیر قدآدم ہی ہوتے ہیں.وہاں جنگلی اونٹ رہتے تھے یہ بھی پیلو اور بیر کے درختوں کی موجودگی کا ثبوت ہے کیونکہ اونٹ اسی قسم کے درختوں پر گزارہ کرتے ہیں.مویشیوں اور بھیڑوں کے گلّوں کا ذکر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدینؔ کی قوم اسی جنگل میں اپنے جانور چرایا کرتی تھی.یہ قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدینؔ کی اولاد تھی جو ان کی بیوی قتورہؔ کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے (پیدائش باب ۲۵آیت ۱تا ۴)اور انہی کے نام پر مدین ؔ کہلائے اور پھر اسی نام پرانہوں نے ایک شہر بھی بسایا.قرآن کریم نے مدین قوم اور مدین ؔ شہر دونوں کا ذکر کیا ہے.چنانچہ قوم کے معنوں میں تو فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ہود:۸۵)یعنی مدین قوم کی طرف ہم نے انہی کے بھائی شعیبؑ کو مبعوث کیا.اور شہر کے معنوں میں سورئہ توبہ میں ذکر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُوْتَفِکٰتِ(التوبۃ :۷۰) یعنی کیا ان کو مدین شہر کے رہنے والوں اور ان بستیوں کی تباہی کی خبر نہیں پہنچی جو عذاب سے اُلٹا دی گئی تھی یعنی قوم لوط ؑ کی بستیاں.حضرت شعیب ؑ نے بھی اس قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.میں تمہاری طرف خدا تعالیٰ کے ایک رسول کی حیثیت سے آیا ہوں اور اپنے کام کے بدلہ میں تم سے کچھ مانگتا نہیں میر ا بدلہ ربّ العالمین خدا مجھے دے گا.اس آیت میں اور پہلی کئی آیتوں میں گزرچکا ہے کہ جب ہر پہلے رسول نےکہا کہ میری اطاعت کرو توساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.جس سے الٰہی حکومت اور دنیوی حکومت میں فرق معلوم ہوتا ہے.لوگ اطاعت کرو ا کے اجر لیا کرتے ہیں مگر ان آیات میں یہ مذکور ہے کہ میری اطاعت کرو.میں اس اطاعت کی وجہ سے تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.پس معلوم ہوا کہ آسمان کی طرف سے جس اطاعت کا حکم آتا ہے وہ جبری اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اطاعت کروانے والا درحقیقت بندوں کا خادم ہوتا ہے مگر چونکہ خادم ہمیشہ اجرت لیا کرتے ہیں اس لئے ہر رسول کے منہ سے یہ کہلوایا گیا کہ میرے اطاعت ایسے رنگ میں ہوگی کہ میں تمہاری خدمت تو کروں گا لیکن تم سے کوئی اجر نہیں لوںگا.گو بظاہر توتم میرے مطیع نظرآئو گے لیکن حقیقتاً میں تمہارا خادم ہوںگا.گو تمہاری اطاعت بھی نرالی ہوگی اور میری خدمت بھی نرالی ہوگی.تم بظاہر اطاعت کرتے ہوئے مجھ سے خدمت کروا ئو گے.اورمیں انتہادرجہ کی خدمت کرتے ہوئے بھی تم سے کوئی اجرت نہیں لوں گا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بلند مقام عطا فرمایا.اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّ
الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى( الشوریٰ :۲۴)یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس محبت اور پیار کے جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے کی جاتی ہے.مسلمانوں میں سے بعض لوگ غلطی سے اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ تم پر جومیرے احسانات ہیں ا ن کے بدلہ میں مَیں ذاتی طورپر تم سے کسی چیز کا خواہش مند نہیں ہاں میں تم سے صرف اتنی خواہش کرتاہوں کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا(قرطبی).مگر یہ معنے درست نہیں.کیونکہ اس صور ت میں آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ میں تم سے کوئی اوراجر نہیں مانگتا ہاںیہ اجرضرور مانگتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا حالانکہ قرآن کریم کی دوسری آیا ت میں وضاحتًا کہاگیا ہے کہ میں تم سے کوئی ایسا اجر نہیںمانگتا جس کا دنیا کیساتھ کوئی تعلق ہو.صرف یہ چاہتاہوں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائو.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو اللہ تعالیٰ سورئہ سباع ۶/۱۲میں یہاں تک فرماتا ہے کہ قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ (السبا:۴۸).یعنی اگر تمہارے خیال میں مَیں نے کوئی اجر تم سے مانگا ہے تووہ ہرگز نہ دینا اسے اپنے ہی گھر رکھو.اور ظاہر ہے کہ یہ کہنا کہ مجھ پر ایمان لائوا ورمیرے احکام کی اطاعت کرو یہ کوئی ایسی بات نہیںجس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فائدہ ہو.ایمان اور اطاعت تو بہرحا ل لوگوں کے اپنے فائدہ کی چیز ہے.پس اس جگہ جو اجر کا لفظ آیا ہے اور جس کے طلب کرنے کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ایسا ہی اجر ہوسکتا ہے جس کا جسمانی طورپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپ کے خاندان کو فائدہ پہنچ سکتا ہو.اورجہاں تک ایسے اجرکا تعلق ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی طور پر فائدہ پہنچ سکتا.اس کی نفی دوسری آیت میں جو اسی مفہوم میں آئی ہے موجو د ہے.پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ بغیر کسی استثنیٰ کے کہہ دیا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور ساتھ ہی دوسرے انبیاء نے بھی یہی کہا ہے کہ ہم کوئی اجر نہیں مانگتے تو اب اس آیت میں اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰىکے کوئی ایسے معنے کئے جائیں.جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق ہو تو یہ اوّل تو دوسری آیت کےخلاف ہوگا.دوسرے اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انبیاء سابقین پر فضیلت ثابت ہونے کی بجائے نقص ثابت ہوگا.کیونکہ یہی آیت اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء کے مونہہ سے بھی نکلواتا ہے.مگر وہاں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی اجر کی امید کے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کی.ان سے کسی معاوضہ کا تقاضا نہیں کیا.نہ اپنے لئے.نہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ ؐ نے نعوذ باللہ گو یہ تو کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر پہلے انبیاء کے طریق کے خلاف اتنا ضرور کہا
کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور ان سے محبت کیاکرنا.پس یہ بات ایسی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے والی اور آپؐ کے درجہ کو گھٹانے والی ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اِلَّا استثنیٰ ہے اور استثنیٰ جو نفی کے بعد آئے اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پہلے جملہ میں جس چیز کی نفی کی گئی تھی اس کے حکم سے بعد میںآنے والی شئے باہر ہے.مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پاس پانچ پانچ روپے کےنوٹوں کے سو ا اور کوئی نوٹ نہیں.تو اس کے یہ معنے ہوںگے کہ اس نے جو نوٹوں کی نفی کی تھی اس میں سے پانچ پانچ روپے کے نوٹوں پر وہ نفی اثر اندا ز نہیں.ان معنوں کے رُو سے اگر اَلْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى کے معنے رشتہ داروں کی محبت کے کئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنے کا اجر چاہتا ہوں اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی سخت تنقیص ہے.حقیقت یہ ہے کہ (۱)اگر مَوَدَّۃٌ کے معنے جسمانی رنگ میں نیک سلوک کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو! میں تم سے جسمانی طورپر نیک سلوک کی امید نہیں رکھتا مگر میرے رشتہ داروں سے جسمانی طور پر نیک سلوک کرتے رہنا اور(۲)اگر مودۃؔکے معنے روحانی تعلق کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو ! میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ مجھ سے روحانی تعلق رکھو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں سے روحانی تعلق رکھنا.ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنے غلط ہیں جسمانی سلوک کے معنے کرکے یہ مراد لینا کہ میرے رشتہ داروں سے جسمانی طورپر نیک سلوک کرناتوا س لئے غلط ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سوال کی نسبت ہوتی ہے اور دوسرے انبیاء سے بھی آپ ؐ کا درجہ گرجاتاہے.اور روحانی تعلق کے معنے کرنے سے تو یہ معنے بالکل کفر کے ہوجاتے ہیں.کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ مجھ سے روحانی تعلق نہ رکھو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی تعلق پیدا کرکے ہی ایمان حاصل ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی بیویوںاور اپنے بچوںا ور اپنے بھائیوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ تجھ سے پیا رنہیں کرتے اس وقت تک یہ مومن نہیں کہلا سکتے (سورئہ توبہ آیت ۲۴).پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ مجھ سے مؤدّت کرنی ضروری ہے اور ایسی ضروری ہے کہ تمہیں میری خاطر اگر اپنے ماں باپ کو چھوڑنا پڑے.اپنی بیویوںکو چھوڑنا پڑے.اپنے بچوں کو چھوڑنا پڑے اپنے بھائیوں کو چھوڑنا پڑے.اپنے دوستوں کو چھوڑنا پڑے تو ان سب کو چھوڑ دو.پس اس محبت کانہ صرف وجود ثابت ہے بلکہ قرآنِ کریم کی دوسری آیات سے اس قسم کی مؤدّت کا حکم ثابت ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اگرتم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی محبت نہیں رکھو گے جو دوسری تمام محبتوں پر غالب ہو تو اس وقت تک تم ایمان دار نہیں کہلا سکتے.پس یہ دونوں معنے باطل ہیں.
اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے الفاظ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں کیا جائے اور اس آیت کے معنے یہ کئے جائیں کہ میں تم سے کوئی دنیوی اجر نہیںمانگتا ہاں تم سےایک مطالبہ ضرور کرتا ہوں.اور وہ یہ کہ تم میرے ساتھ روحانی تعلق پید اکرو اور اس تعلق میںایسے اعلیٰ درجہ کے ثابت قدم نکلوکہ اس کی نظیر کسی دنیوی رشتے میں نہ مل سکے اور یہ معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بالکل شایاں ہیں.پس قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰىکے یہ معنے ہوئے کہ میں تم سے ایسے ہی تعلقاتِ محبت کا تقاضا کرتاہوں جیسے اعلیٰ درجہ کے قریب سے قریب رشتہ داروں کا آپس میں ہوتاہے.گویا وہ مودّت جو قریبی رشتہ داروں میں ہوتی ہے میں تم سے ایسی مودّت کا اپنے متعلق تقاضا کرتا ہوں.یہ وہی مضمون ہے جسے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى(النحل: ۹۱) فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے.ایتاء ذی القربیٰ سے اس جگہ یہی مراد ہے کہ تمہارا نیکیوں کی طرف ایسا طبعی میلان ہو جائے کہ تمہیں نیکی کا کام کرتے وقت یہ خیال ہی پیدا نہ ہو کہ تمہیں اس کے بدلہ میں کچھ ملے گا یانہیں.گویا تمہیں وہ مقام حاصل ہوجائے جو تمام دنیوی خیالات اور نتائج اور ثمرات کو نظر انداز کردینے والا ہو.پس اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى کے معنے یہ ہوئے کہ میں تم سے وہ محبت چاہتا ہوں جو ایک ماں اور بچہ کے درمیان ہوتی ہے.ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتے وقت یہ خیال نہیں کرتی کہ اس کے بدلہ میں مجھے کچھ ملے گا یا نہیں بلکہ وہ ایک فطری لگاؤ کے ماتحت اس سے پیار اور محبت رکھتی ہے.یہی حال بچے کا ہوتا ہے.ماں کی محبت اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کی ہوئی ہوتی ہےاور وہ اس سے ایک والہانہ تعلق رکھتا ہے یہی امر اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ تم مجھ سے ایسی ہی محبت کرو جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے.بلکہ دوسری آیت میں مومنوں سے اس سے بھی بڑھ کر مطالبہ کیا گیا ہے.اور فرمایا گیا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء سے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبت ہونی چاہیے.پس یہ کم سے کم مطالبہ ہے جو مومنوں سے کیا گیا ہے.اور اگر اس حد تک بھی کسی شخص کے دل میں محبت نہ پائی جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٔ ایمان میں جھوٹا ہے.پس لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى کے اصل معنے یہ ہیں کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.ہاں تمہاری اصلاح اور تمہاری ترقی کے لئے یہ چاہتاہوں کہ تمہیں میرے ساتھ ویسی ہی محبت ہو جیسے ذی القربیٰ میں ہوتی ہے.یعنی تمہیں یہ احساس ہی نہ رہے کہ اس کے بدلہ میں تمہیںملے گا کیا ؟بدلے اور اجر کا خیال تمہارے دل سے بالکل مٹ جائے.مفسرین نے اس جگہ قربیٰ کے معنے یہ کئے ہیں کہ وہ رستہ جس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو تا ہے اور
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى کی تشریح انہوں نے یہ کی ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر خدا تعا لیٰ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے.(قرطبی زیر آیت قل لا اسلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی...)مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ قربیٰ کے معنے لغت میں قرابت ِرحمی کے ہی ہوتے ہیں.قُرب کے معنے نہیں ہوتے.لُغت والے اَلْقُرْبَۃُ.اَلْقُرْبُ اوراَلْقُرْبیٰ میں فرق کرتے ہیں.گویا یہ لفظ ت ؔ کے ساتھ ی ؔ اور بغیرتؔ اور ی ؔ کے آتا ہے قرب کے معنے قُربِ مکانی کے ہوتے ہیں.لیکن جب قُربِ مکانی نہ ہو بلکہ درجہ کا قُرب مراد ہو تو اس کے لئے عربی زبان میں قربةٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور جب نہ مکانی قرب مراد ہو اور نہ درجہ کا قرب مراد ہو بلکہ رحمی تعلقات کے لحاظ سے کسی کا قُرب مراد ہو تو اس کے لئے قُرْبیٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.چنانچہ اَقْرَبَ الموارد میںلکھا ہے قِیْلَ اَلْقُرْبُ فِی الْمَکَانِ وَالْقُربیٰ فِی الرِّحْمِ وَالْقُرْبَۃُ فِی الْمَنْزِلَۃِ.پس چونکہ لغت اس میں فرق کرتی ہے اس لئے ہمیں قربیٰ کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو لغت کے بھی مطابق ہوں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کوئی اعتراض پیدا کرنے کا موجب نہ ہوں اور وہ معنی یہی ہیں کہ میں تم سے ایسی محبت کا تقاضا کرتا ہوں.جو ذی الْقُربیٰ سے کی جاتی ہے.یعنی وہ تعلق جو ماں کا اپنے بچے سے ہوتا ہے یا بچہ کا اپنی ماں سے ہوتا ہے یاباپ کا اپنے بیٹے سے ہوتا ہے یا بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے تم وہی تعلق میرے ساتھ پیدا کرو.اس تعلق میں کوئی مادی خواہش نہیں ہوتی بلکہ فطری لگائو کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت کی جاتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ چونکہ میں معلم ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ تمہیں دینی تعلیم سکھائوں اس لئے ضروری ہے کہ طبعی طور پر تمہارے اندریہ احساس پایا جائے کہ تمہیں میرے پیچھے چلنا چاہیے.پس تم ایسی ہی محبت کرو جیسے بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے تاکہ تمہیں سوچ سوچ کر میرے احکام کی اطاعت نہ کرنی پڑے بلکہ آپ ہی آپ میرے احکام کے پیچھے چل پڑو.گویا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے معنے یہ ہوئےکہ تم میرے ساتھ ویسی ہی محبت کرو جیسی بیٹا اپنے باپ سےیا بچہ اپنی ماںسے کرتاہے اور یہاں تک وہ اپنے ماں باپ کی نقل کرتاہے کہ اگر ہم غور کریں تو انسانی خد وخال اور حرکات میں بھی بیٹو ں اورباپوں اورمائوں اور لڑکیوں میں اتنی مشابہت پائی جاتی ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.بعض دفعہ باپ کو اپنا ہاتھ کسی خاص طرز پر ہلانے کی عادت ہوتی ہے تو بیٹا بھی اسی طرز پر اپنا ہاتھ ہلانے لگ جاتا ہے یا ماں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنکھ کو کسی خاص طریق پر حرکت دے تواس کی بیٹی بھی اسی طریق پر آنکھ کو حرکت دینے لگ جاتی ہے.یا اگر کسی شخص کو خاص طورپر لوچ اور لچک کے ساتھ بات کرنے کی عادت ہوتو بچے بھی اسی طرح لوچ اور لچک کے ساتھ باتیں کرتے ہیں یا باپ کے اندر اگر لکنت پائی جاتی ہو تو عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ بچوں میں بھی لکنت پیدا ہوجاتی
ہے تو بچو ں میں نقل کا ایسا مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو جس طرح کوئی کام کرتے دیکھتے ہیں اسی طرح خود بھی کرنے لگ جاتے ہیں پس اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُربیٰ میں اس امر کی طر ف اشارہ ہے کہ تم میرے ساتھ صرف ذہنی تعلق نہ رکھو صرف جذباتی تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو جیسےبچہ کا اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے جس طرح وہ اپنے ماں باپ کی خود بخود نقل کرنے لگ جاتاہے اسی طرح اگر تم مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہو تو میرے ساتھ صرف فکری تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو کہ تم اپنے افکار اور اپنے خیالات اور اپنے اعمال میں خود بخود میری نقل کرنے لگ جائو جیسے بچہ اپنے ماں باپ کی نقل کرتاہے.یہ چیز ایسی ہے جو واقعہ میں قابلِ تسلیم ہے کیونکہ آخرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جو ہر کام میں طبعی طورپر آپ کی نقل کرے گا.اگر یہ مادہ اس کے اندر نہیں ہوگا تو وہ آپؐ سے فائدہ کیا اٹھائے گا.ان معنوں سے آپؐ کی انبیائے سابقین پر فضیلت بھی ثابت ہوجاتی ہے اوروہ اعتراض بھی واقعہ نہیں ہوتا جو بعض لوگوں کے معنے تسلیم کرنے سے آپؐ پر عائد ہوتا ہے اس آیت کے غلطی سے جو معنے کئے جاتے ہیں وہ دوسرے نبیوں کے مقابلہ میں آپ کی تنقیص کرنے والے ہیں کیونکہ باقی نبی تواپنی امتوں سے یہی کہتے رہے کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے مگر ان کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر یہ کہہ دیا کہ بے شک تم مجھے کوئی اجر نہ دو مگر دیکھنا میرے بچوںاور میرے رشتہ داروں کا خیال رکھ لینا.لیکن یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی زیادہ مکمل ہے کیونکہ پہلے انبیاء نے صرف یہی کہا کہ ہم تم سے کوئی اجرنہیں مانگتے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں تم سے ایک اجر مانگتاہوں.مگر وہ اجر بھی ایسا ہے جس کا تمہاری ذات کو ہی فائدہ پہنچ سکتاہے اور وہ یہ کہ تم مجھ سے ایسا تعلق رکھوجیسے بچہ اپنی ماں سے رکھتاہے تاکہ تم رات اور دن میرے اعمال کی نقل کرتے رہو جو کچھ میں کہوں اس کی تم نقل کرو.اورجو کچھ میں کروں اس کی تم نقل کرو جس طرح ماں باپ ہندوستانی لباس پہنتے ہیں تو بچہ بھی ہندوستانی لباس پہننے لگ جاتاہے.ماں باپ جو زبان بولتے ہیں وہی زبان بچہ بھی بولنے لگ جاتاہے ماں باپ جو حرکات کرتے ہیں وہی حرکات بچہ بھی کرنے لگ جاتا ہے اسی طرح تم میری طرف دیکھو اور میری کامل طور پر اتباع کرو.تاکہ جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لئے مجھے ملی ہے وہ تمہاری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں سرایت کرجائے.یہ معنے ایسے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلے انبیا ء پر فضیلت اور برتری ثابت کرنے والے ہیں.پہلے انبیاء نے اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُربیٰ نہیںکہا.اس لحاظ سے ان کی تعلیم یقیناً اس درجہ کی نہیں تھی جس درجہ کی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی یہ معنے
جو میں نے اس آیت کے کئے ہیں ا ن کی تصدیق اسی آیت کا اگلاحصہ بھی کردیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ مَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا.جو شخص نیکی کا کوئی کام کرتا ہے ہم اس کی نیکی کو اس کےلئے اور زیادہ حسین بنا دیتے ہیں.اب اگر اس آیت کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں سے تعلقات ِمحبت رکھنا ہوتا تو مَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًاکے ذکر کا موقع ہی کیا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جو شخص نیکیوں میںحصہ لیتا ہے ہم اس کے حسن کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں.اب اس بات کا بھلا اس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا لیکن میں نے جو معنے کئے ہیں ان کے لحاظ سے یہ آیت بالکل صاف ہے.میں نے یہ معنے کئےہیںکہ تمہارا میرے ساتھ بچوں والا تعلق ہونا چاہیے.جس طرح بچہ بغیر فکر اور بغیر دلیل کے اپنے ماں باپ کی نقل کرتا ہے.اسی طرح تمہارافرض ہے کہ تم میری نقل کرو.اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ بچہ تو عقل کے بغیر نقل کرتاہے پس اگر ہم بھی بچوں کی طرح آپ کی نقل کرتے ہیں اور خود غور اور فکر سے کام نہیں لیتے تو یہ ایک ادنیٰ مقام ہے.انسان کو تو جو بات ماننی چاہیے وہ علیٰ وجہ البصیرت ماننی چاہیے نہ کہ اندھا دھند.اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ پہلا درجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا یہی ہوگا کہ تم ان کی ویسی ہی نقل کرو جیسے بچہ ماں باپ کی نقل کرتاہے مگر مَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا (الشوریٰ:۲۴)جو شخص آ پؐ کی نقل کرے گا.اعمال میں آپؐ کی نقل کرے گا جذبات میں آپ ؐکی نقل کرے گا اقوال میں آپؐ کی نقل کرے گا ،معاملات میں آپ کی نقل کرے گا اور اس طرح نیکیاں اپنے اندر پیدا کرتاچلا جائے گا تو گویہ اوپر کے مقام کی نسبت سے ایک ادنیٰ مقام ہوگا.مگر جوں جوں اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ یقین پیدا ہوتا چلا جائے گا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور وہ آپ کی کامل متابعت کرتارہے گا تو نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا ہم اسے رفتہ رفتہ ایک ایسے مقام پر پہنچا دیں گے کہ اسے اعمال کے متعلق ایک کامل بصیرت حاصل ہوجائے گی.گویا ہم اسے پہلے درجہ پر ہی نہیں رہنے دیں گے بلکہ براہ راست اس کے دل پر نُورِ نبوت نازل کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اورآپ ؐ کی کامل فرمانبرداری کے طفیل اسے بصیرت بھی عطا کردیں گے.پس نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا جو اس آیت کا اگلا حصہ ہے یہ بھی بتا رہا ہے کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ سے مراد دنیوی سلوک نہیں ورنہ نَزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے انبیاء بھی اپنی اپنی جگہوں پر لوگوں سے یہی کہتے ہوںگے کہ ہم تمہارے باپ ہیں.جیساکہ قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ ہر نبی مومنوں کا باپ ہوتا ہے اور وہ ان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے
ہوں گے کہ جیسے بچے اپنے ماں باپ کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ ہماری اطاعت کرو.لیکن جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے توا س وقت انہوں نے اس کے ساتھ یہ دوسرا فقرہ نہیں کہا جو قلوب میں ایک گدگدی پیدا کردیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتاہے توا س کےلئے سامان بھی پیدا کردیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لیا وہ کسی اور نبی سے نہیں لیا.اسی لئے آپؐ پر جو کلام نازل ہوا وہ بھی ایسا مکمل ہے کہ اس کی آیات کو پڑھتے ہوئے یو ں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہمارے دل کو پکڑ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ بھی لے لواور وہ بھی لے لو.اَوْفُوا الْكَيْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَۚ۰۰۱۸۲وَزِنُوْا (اے لوگو!)پیمانہ پورا (بھر کر)دیا کرو.اور (دوسروںکو) نقصان پہنچانے والے مت بنو.بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْمِۚ۰۰۱۸۳وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اور سیدھی ڈنڈی سے تولا کرو.اور لوگوںکو ان کی چیزیں (ان کے حق سے) کم نہ دیا کرو.اَشْيَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَۚ۰۰۱۸۴ اور ملک میں ہرگز فساد نہ کیاکرو.حلّ لُغَات.اَلْقِسْطَاسَ.القِسْطَاسُ اَلْمِیْزَانُ یعنی قسطاس کے معنے ترازو کے ہیں.وَاَقْوَمُ الْمَوَزِیْنِ.اور خاص طور پر اُس ترازو کے جو بالکل صحیح تول دیتاہو.(اقرب) تفسیر.حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم دوسروں کو پیمانہ پورا بھر کردیا کرو.اور لوگوں کو نقصان پہنچانے والے مت بنو.اور ترازوکی ڈنڈی بھی سیدھی رکھا کرو.اور انہیں جائز حق سے کم مت دیا کرو.اور ملک میں فتنہ وفساد سے کلی طور پر مجتنب رہو.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ تجارتی بددیانتی کا بھی بڑا زور تھا.چونکہ ان لوگوں کا گزارہ زیادہ ترتجارت پرتھا اس لئے وہ دھوکا اور فریب سے کام لینے لگ گئے.وہ اوّل تو
وزن میں کمی کردیتے تھے.جس کےلئے ممکن ہے انہوں نے مختلف قسم کے باٹ رکھے ہوئے ہوں.اشیاء لیتے وقت اور قسم کے بٹے استعمال کرتے ہوں اور دیتے وقت اور قسم کے بٹوں سے وزن کرتے ہوں.پھر وہ ڈنڈی مارنے میں بھی مہارت رکھتے تھے.اور ماپ اور تول دونوں میں لوگوں کو لوٹنے کی کوشش کرتے تھے.حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں تجارتی بددیانتی سے بازرکھنے کی کوشش کی.مگر وہ لوگ جنہیں حرام مال کھانے کی چاٹ لگ گئی تھی اس سے کب باز آنے والے تھے انہوں نے اور بھی اپنے ہاتھ رنگنے شروع کردیئے اور آخر وہ وقت آیا جب اُن کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آسمان سے عذاب کے فرشتے ان کی تباہی کے لئے نازل ہوگئے.افسوس ہے کہ یہ مرض اس زمانہ میں بھی بڑے زوروں پر ہے اور دیانت ہمارے ملک سے اس حد تک اٹھ چکی ہے کہ ہرشخص چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہولوٹے اور نقصان پہنچائے.گاہک چاہتے ہیں کہ دوکاندار کم قیمت وصول کریں.اور دوکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں میں تو سودا لینے نہیں جاتالیکن چونکہ سودے ہمارے گھروں میںآتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سودوں میں بالعموم دیانت سے کام نہیں لیاجاتا.آٹے میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور کھانڈ اور شکر میں بھی بہت کچھ میل اور گند ہوتاہے یہ دوچیزیں ایسی ہیں جو فوراً نظرآجاتی ہیں چنانچہ کھانڈ کے ہرچمچہ میں انسان اگر آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دے گی.جس سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ وزن زیا دہ کرنے کے لئے مٹی ملائی جاتی ہے.اسی طرح آٹے میں ریت اور مٹی ہوتی ہے.دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کر دیکھو تو فوراً اس سے کِرکِر کی آواز آنے لگے لگی.عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ اپنی صحت کا خیال نہیںرکھتے حالانکہ اگر وہ لقمہ چباچبا کر کھانے کی عادت رکھتے توا نہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ آٹا نہیں کھا رہے بلکہ گند کھا رہے ہیں.نوّے فی صدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کِر ک ہوتی ہے.ذرا اسے دانتوں کے نیچے دباؤتو کِر کِر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت کےلئے سخت مضر ہوتا ہے.پھر یہ دھوکہ بازی بھی ہے کہ دوکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے.بد دیانتی صرف اس چیز کا نام نہیں کہ تم کسی کا ناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس بات کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھالیتے ہو.اسی طرح بددیانتی صرف اس کا نام نہیں کہ تم ۹۵فی صدی آٹا اور ۵فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم ۹۸فیصدی آٹااور ۲فیصدی مٹی ملاتے ہو.یا ننانوے فیصدی آٹا اور ۱فیصدی مٹی ملاتے ہو یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹااورنصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصّہ آٹا اور ۱/۱۰۰۰ حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بددیانتی اور گندی عادت ہے جیسے۵فیصدی مٹی ملانا.نیکی اور بدی دل
سے تعلق رکھتی ہے.جس طرح اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا ہے اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھا جائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی ہے تو اسی طرح اگر کوئی شخص ۵ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ۱/۱۰۰۰ حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے.جس طرح نیکی کی جزا نیت پر ہے اور اسی طرح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ یہ نہیںدیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا.بلکہ وہ اخلاص دیکھتا ہے اور اس کے مطابق جزا دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے ۵ فی صدی ٹھگی کی ہے اور دوسرے نے آدھ فی صدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی ہے.۵ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے اور ۱/۱۰۰۰حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے تقدس اور نجاست کا دل سے تعلق ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی نیکی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے.ممکن ہے کسی جگہ دوکاندار خود اس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور باہر سے بے احتیاطی سے اس قسم کا ناقص مال لے آتے ہوں.لیکن اس صورت میں بھی وہ بری نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور خراس والے سے گندہ آٹا لے آتا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے اگر گندہ آٹا تھا تو وہ کیوں لایا.اُسے چاہیے تھا کہ وہ نہ لاتا.اور اگر وہ ناقص مال سمجھ کر سستا لے آیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ بلا واسطہ فائدہ اٹھاتا ہے.مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خریدتا تو اس کے ایک سو ایک روپے خرچ ہوتے.لیکن جس خراس والے سے اس نے خریدا اُسے سو روپے دینے پڑے تواس صور ت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے.پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سودا لاتا اور بیچتا ہے تب بھی وہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا.ولایت میں کئی چور ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اورپھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں.اب کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چورہیں.اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے.وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے.اسی طرح جب تم خراس سے ناقص آٹا لاتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ وہ خراب ہے تو تم ویسے ہی مجرم ہو جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا.پھر کئی لوگ بظاہر دیانت دار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوںکو صاف کرنے کے لئے زمین پر پھیلاتے ہیں تو اسے سمیٹتے وقت جب جھاڑو دیں گے تو پائو یا سیر کے قریب اس میں مٹی بھی ملا دیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانت دار ہیں حالانکہ وہ دیانت دار نہیں ہوتے.اسی
طرح بعض غلّہ فروش کمپنیوں کے ایجنٹ غلّہ خریدتے ہیں.تو اس میں باریک غبار ملادیتے ہیں.چونکہ لاکھوں کا غلّہ ہوتاہے اس لئے ان کی یہ چا لاکی چھپی رہتی ہے اور ہر ایک کو اس کا پتہ نہیں لگتا.بعض لوگ غلّے کو پانی کا چھینٹادے دیتے ہیں.تاکہ بوجھل ہو جائے.اسی طرح اگر کسی کو کچھ خریدنا ہوتا ہے تو کہتا ہے میں نے اتنا مال لیا مگر تم کچھ بھی رعایت نہیں کرتے اور اگر بیچنا ہوتا ہے تو کہتاہے کہ کیا تم ہمارا گھر ہی لوٹ کر لے جائو گے.اسی طرح بمبئی کے بعض تجار کی نسبت تو عجیب روایات سنی جاتی ہیں.کہتے ہیں کہ بعض تاجروں کے تین قسم کے باٹ ہوتے ہیں (۱)پورے وزن کے (۲)بھاری اور(۳)ہلکے.اور ان کے انہوں نے عجیب عجیب نام رکھے ہوئے ہیں.کسی کا نام سُبْحَانَ اللہِ رکھا ہواہوتا ہے.کسی کانام أَسْتَغْفِرُاللہ اور کسی کانام لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ.اور جس قسم کا کوئی آدمی دیکھتے ہیں اُسی طرز کا اس سے سلوک کرتے ہیں.اگر ہوشیا ر آدمی ہواتو اصل بٹہ نوکر کو لانے کاحکم دیا.اور وہ لفظ بول دیا جس سے اصل بٹوں کی طرف اشارہ ہوتاہے.کوئی سادہ لوح آیا تو چھوٹے بٹے منگوالئے.اسی طرح دھوکا باز عطاروں کا طریق ہے کہ علاقہ میں کوئی وباء شروع ہوجائےاور حکیم لکھنا شروع کردیتے ہیں کہ مریض کو عرق مکو اور عرق گائو زبان پلائو تو ایک دیانت دار عطار تو بعض دفعہ کہہ دے گا کہ میرے پاس عرق مکو اور عرق گائو زبا ن تیار نہیں.لیکن بددیانت عطار کہے گا.میرے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں.و ہ پانی لے گا بوتل میں بھر دے گا اور کہے گا یہ عرق مکو ہے.یہ عرق کا سنی ہے.یہ عرق گلا ب ہے.تم جو عرق بھی مانگو گے وہ اس کے پاس موجو د ہو گا.ہماری تاریخ طبّ کی کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک عبّاسی بادشاہ نے کہا.اب طبّ بڑی ترقی کررہی ہے.اس پر کسی نے کہا.طبّ ترقی کیسے کرسکتی ہے.جب تک دوائیں بیچنے والوں میں دیانت پیدا نہ ہو.طبیب چاہے کوئی نسخہ لکھے اس سے کیا فائدہ ہوگا.بادشاہ نے کہا.بغداد میں پانچ چھ سو دوکانیں ہیں.تم تجربہ کرلو.اس پر انہوں نے کسی دوائی کا مصنوعی نام رکھ لیا اور کہا.یہ دوا منگوا دو.وہ دواآنی شروع ہوئی.کسی دوا فروش نے ملٹھی بھیج دی اور کہہ دیا یہی وہ دوا ہے.کسی نے عناب بھیج دی اور کہہ دیا یہی وہ دوا ہے.غرض سب دوکانداروں نے یہی طریق اختیار کیا.صرف ایک دوکاندار ایسا نکلا جس نے کہا کہ میرے پاس یہ دوا نہیں.میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا.بادشاہ نے دریافت کیا کہ کس دوکاندا ر نے سچ بولا ہے.تو طبیبوں نے کہا.سب جھوٹ بولتے ہیں.سچا وہی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے یہ نام پہلے نہیں سنا.کیونکہ ہم نے مصنوعی نام رکھ کر یہ تجربہ کیا تھا.اس تجربہ کی وجہ سے مسلمان بادشاہوں نے دوا سازی کا بھی امتحان رکھا تھا اور دوائوں کی پہچان کے لئے سکول بنائے گئے تھے اور جو شخص وہ مخصوص امتحان پاس کر لیتا تھا صرف اس کو دوائی بیچنے کی اجازت دی جاتی تھی.عام لوگوں کو دوا فروشی کی اجازت
نہیں ہوتی تھی.کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مشک کا نافہ لاتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اس کے اندرا یک تولہ مشک ہے.اور اس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے دیں گے.پھر وہی نافہ جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں.اور جب تم آٹھ آنہ میںمشک کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مشک کانافہ آٹھ آنہ میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھوکہ خوردہ ہوتے ہو.کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑا ٹھگ وہی تھا جو تمہیں لوٹ کر لے گیا.وہ نافہ کے باہر تھوڑی سی مشک مل دیتے ہیں اوراندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں.کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں کے ملانے سے بالکل مشک کی سی شکل ہوجاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑا سستا سودا کیا ہے.میں نے آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ خرید لیا ہے.حالانکہ اس میں صرف کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت ایک روپیہ بھی نہیں ہوتی.اسی طرح ایک دفعہ میں کشمیر گیا.وہاں ایک قسم کی قالین بنتی ہے جو اونی کپڑے کاٹ کاٹ کر اور پھر ان کو سِی کر بناتے ہیں.اور اس کو گابھاؔ کہتے ہیں.ہمیں وہ دیکھ کر پسند آیا.چنانچہ میں نے بھی چاہا کہ یہاںسے دوچار خرید کر لے جائیں.اپنے گھروں میں تحفہ دیں گے.ایک شخص اسلام آباد میں اس کا م کے لئے اچھا مشہور تھا.میں نے اس کو جا کر کہا.کہ میں یہ قالین پنجاب میں تحفۃً لے جانا چاہتاہوں تم مجھے اچھے سے قالین بنا دو.اُس نے کہا.اچھا کچھ پیشگی دے دیں.چنانچہ ہم نے کچھ رقم اس کو پیشگی دے دی اور ہم آگے پہاڑ پر سیر کے لئے چلے گئے.میں نے اُسے یہ بھی کہا کہ دیکھنا میں جو اس کی لمبائی چوڑائی بتائوں گا وہ ٹھیک ہو.کیونکہ میں کمروں کے لحاظ سے لے رہا ہوں.اُس نے کہا.بالکل ٹھیک ہوں گے.جب وہ آئے تو مجھے دیکھتے ہی پتہ لگ گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیںاور پھر جو ماپ کر دیکھا تو ایک بالشت چوڑائی میں کمی تھی اور ایک بالشت لمبائی میںکمی تھی.میں نے اس کو کہا کہ یہ تم نے بڑی دھوکا بازی کی ہے کہ اس کو چھوٹا بنادیا ہے.اس پر اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ ’’میںمسلمان ہوں‘‘ ’’میں مسلمان ہوں.‘‘ میں نے کہا.مسلمان تو تم ہوئے.لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ تھا یا نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے قالین بنائوں گا.اور پھر دوچار آدمیوں کے سامنے یہ بات ہوئی تھی.میں نے ان آدمیوں سے کہا کہ بتائو تمہارے سامنے اس نے یہ وعدہ کیا تھا یا نہیں.انہوں نے کہا ہمارے سامنے وعدہ کیا تھا.اس پر میں نے اسے کہا
کہ دیکھو تم نے وعدہ کیا تھا.وہ اپنے کشمیری طریق پر کہنے لگا.’’جی میں مسلمان ہوندی.میں مسلمان ہوندی‘‘.میری عمر اس وقت کوئی اُنیس بیس سال کی تھی.مجھے اس پر غصہ چڑھے کہ یہ اپنا فعل اسلام کی طرف کیوں منسوب کرتا ہے یہ کہے میں نے ٹھگی کی ہے جانے دو.یہ کیوں کہتاہے کہ میرے مسلمان ہونے کے لحا ظ سے میرا حق تھا کہ میں ٹھگی کرتا.غرض میں اصرار کروں کہ اسے پورا کرو.اور وہ یہی کہتا جائے کہ میں مسلمان ہوں.میں مسلمان ہوں.گویا اسلام اتنا گر گیا ہے کہ اب یہ سمجھاجا تاہے کہ مسلمان اگر ٹھگی کرے تو یہ بھی اس کا ایک قسم کا جائز حق ہے.میں جب پہلی دفعہ کشمیر گیا تومجھے معلوم ہوا کہ کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی.ایک کروڑ روپیہ کی تجار ت کے یہ معنے ہیں کہ بیس پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا اور کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں.یہاں کے مال کا کوئی معیارنہیں.کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی.کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کردیںگے اور کبھی اس میں کھوٹ ملادیں گے.حالانکہ اگر وہ دیانت داری سے کام کرتے تو وہ ایک کروڑکی تجارت آج تین چار کروڑ روپیہ تک پہنچی ہوئی ہوتی.پہلے زمانہ میں تجارتیں بہت کم تھیں.تجارت میں زیادتی اسی زمانہ میں ہوئی ہے.پھر اگر اس زمانہ میں جب کہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہوسکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہوجاتی.مگر بجائے اس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا.پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سولہ لاکھ روپیہ تک آگئی.اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بددیانتی کرکے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تونتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ انہوں نے بددیانتی کی اس لئے تجارت میں نقصان ہوگیا انگریزوںکے کئی لوگ دشمن ہیں.مگر دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے.انگریزوں سے اتر کر امریکہ اور جرمن کے لوگ ہیں اور ان سے اتر کر اور ممالک کے لوگ ہیں.مگر ایشیا تجارت میں اتنا خطرناک طورپر بدنام ہے کہ کوئی قوم اس پر اعتبار نہیں کرتی.حالانکہ قومی ترقی ہمیشہ امانت اور دیانت داری کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے.اگر تمام مسلمان تاجر دیانتدار ہوں تو لوگ سودوکانوںکو چھوڑ کر بھی ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ان سے سودا اچھا ملتا ہے.لیکن اگر کوئی مسلمان دوکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھر مٹی ملادیتا ہے تو اس کے اندر وہ کون سے چیز ہوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف توجہ کریں گے.پس ہر شخص کو اس بات کا فیصلہ کرنا لینا چاہیے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے.اگر اس کا باپ دوکاندار ہے تو وہ اپنے باپ
سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا.اگر اس کے بھائی دوکاندار ہیں تو وہ اپنے بھائیوں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا.اگر اس کے دوست اور رشتہ دار دوکاندار ہیں تو وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا.اگر اس کی بیوی دوکان کرتی ہے تو وہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیںکرنے دوںگا.اور اگرتم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف کھڑا ہوجائوں گا.اگر ہر شخص اس بات کا تہیہ کر لے کہ میں نے بددیانتیوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے.اگر تمہار ا بھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے.اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اس وقت تک پنپ سکتی ہے.جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی بالا افسروں کے پاس رپورٹ نہیں کروگے.لیکن جب ان کو معلوم ہوجائے گا کہ تم ان کی محبت کی پرواہ نہیں کرو گے اور تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے بازنہ آئے تو تم ان کی رپورٹ کرو گے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیانتی کریں.باپ کہے گا بیٹا پچھلا قصور جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیںکروں گا.بھائی کہے گا پچھلا قصور معاف کرو آج سے میں باز آیا بیوی کہے گی.اب یہ قصور معاف کردو آئندہ میںایسی حرکت نہیں کروں گی.پس قوم کی اصلاح تمہارے ہاتھوں میں ہے.بیٹے کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے.باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے.بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے.بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے.اور ماں کی اصلاح بیٹوںکے ہاتھ میں ہے.اگر تم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر ساری قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے.لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا.تو تم اس پر پردہ ڈالو گے اور جھوٹ بولو گے توتم اس کو بھی تباہ کرتے ہواور آپ بھی تباہ ہوتے ہو.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت روپے سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ ایمان سے زندہ رہتی ہے اگر روپیہ ہی اصل چیز ہو تو یہودیوں ،عیسائیوں ،پارسیوں اور ہندوئوں کے پاس مسلمانوں سے بہت زیادہ روپیہ ہے.پھر خدا تعالیٰ نے ان کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا.اس لئے کہ ایما ن کا روپے سے کو ئی تعلق نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھی روپیہ دیتا ہے مگر وہ روپیہ یا تو انعام کے طور پر ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جائے.اور یا پھر آزمائش کے طورپر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس روپیہ کا کیسے استعمال کرتے ہیں.اگر تو روپیہ کے آنے سے انسان کا ایمان سلامت رہے تو وہ روپیہ اس کے لئے خیر اور
برکت کا موجب ہوتاہے لیکن اگر وہ روپیہ انسان کے ایمان کو باطل کردیتا ہے اوروہ بے ایمانوں جیسی چالاکیاں کرنے لگ جاتا ہے اور چوروں اور ٹھگوں کی طرح لوگوں کو لوٹتا ہے.مثلاً بلیک مارکیٹ شروع کردیتا ہے.مقررہ نرخ پر چیز فروخت نہیں کرتا بلکہ چیز کی موجودگی سے ہی انکار کردیتا ہے لیکن اگر اسے کوئی چوری چُھپے حسب منشاء دام دے دے تو وہ فوراًاُسے مہیا کردیتاہے تو وہ روپیہ اس کے لئے عذاب کا باعث بن جاتاہے.اس قسم کے ناجائز منافع خوروں کی ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیںکہ کسی حریص آدمی کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ سونے کا ایک انڈہ دیا کرتی تھی.اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو شاید یہ دو انڈے دینے لگ جائے.چنانچہ اس نے مرغی کو پکڑکر اس کا منہ کھول کر روزانہ اسے زیادہ سے زیادہ دانے کھلانے شروع کردیئے.اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ مرغی بیمار ہو کرمرگئی.اوروہ ایک انڈے سے بھی محروم ہوگیا.اس قسم کے ناجائز منافع خور بھی روپیہ جمع کرتے جاتے ہیں مگر ایک دن آتا ہے جب کسی نہ کسی رنگ میں انہیں اپنی اس بددیانتی کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے.فوری نقصان تو اس رنگ میں پہنچ جاتا ہے کہ جب وہ کسی شخص کو ایک سیر چیز دینے کی بجائے پندرہ چھٹانک دیتے ہیں اور وہ گھر جا کر اس کا وزن کرتا ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ دوکاندار نے اسے ایک چھٹانک چیز کم دی ہے تو وہ آئندہ کے لئے اس سے سودا لینا بند کردیتا ہے.اس طرح بظاہر تو اسے ایک چھٹانک کا نفع ہو اتھا لیکن اسے نقصان ہزار چھٹانک کا ہوگیا.کیونکہ وہ آئندہ کےلئے اس کی دوکان پر نہیں آئے گا.اور کسی دوسرے سے سودا خریدنا شروع کردے گا.یہ خیال کہ صرف بے ایمانی سے ہی روپیہ کمایا جاسکتا ہے اوَل درجہ کا احمقانہ خیال ہے.صحابہؓ کودیکھ لو وہ ہرامر میں دیانت کو ملحوظ رکھتے تھے.مگر اس زمانہ میں حضرت عبدا الرحمٰن بن عوفؓ کی وفا ت کے بعد ان کا بچا کھچا روپیہ دوکروڑ نکلا.حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ دین کے لئے بہت قربانی کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجو د ان کے پاس دوکروڑ روپیہ بچ گیا تھا.جو آج کل کے دو ارب کے برابر ہے.اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اوراس نے کہا کہ اس کی پانچ سو درم قیمت ہے.ایک صحابی ؓ نے اس گھوڑے کو دیکھا اور اسے پسند کیا اور کہا کہ میں یہ گھوڑا لیتا ہوں.مگر اس کی قیمت میں پانچ سو درم نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا.کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو.اس پر گھوڑ ا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دوہزار درہم دوںگا.ایک کہتا کہ تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا.
میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں.اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے.اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس کے کتنا اُلٹ نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے.وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گراتا تھا.اوریہاں یہ حال ہے کہ دودو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے.ضرور ت اس امر کی ہے کہ خریدار بھی دوکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دوکاندار بھی گاہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں.اور نہ ماپ اورتول میں انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں.حضرت شعیب علیہ السلام نےاپنی قوم کو تجارتی دیانت اختیار کرنےکی نصیحت کرنےکے بعد ایک اور نصیحت یہ فرمائی کہ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ تم زمین میں فسا د نہ کرو.اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس قوم میں قتل و غارت اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں بھی کثرت سے ہوتی رہتی تھیں.چونکہ یہ علاقہ عرب اور شام اور مصر کے راستوں پر تھا اور شام اور مصر کو جانے والے قافلے ان کے پاس سے گزراکرتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ لوگ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور بعض کو قتل بھی کردیا کرتے تھے.اِس قیاس کو مزید تقویت اس امر سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ یہ لوگ اصحاب الایکہ تھے.یعنی ان کے قبضہ میں ایک بہت بڑا جنگل تھا جس میں بیریاں اور پیلو کے درخت بڑی کثرت کےساتھ تھے اور ایسے جنگل میں ڈاکہ ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے.کیونکہ درختوں کے پیچھے انسان آسانی سے چھپ جاتا ہے.پس حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نصیحت کی کہ تم تجارتی معاملات میں بھی دیانت اختیار کرو اور چوری،ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کو بھی ترک کردو.وَ اتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِيْنَؕ۰۰۱۸۵ اور جس نے تم کو اور تم سے پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے اس کا تقویٰ اختیار کرو.حلّ لُغَات.جِبِلَّۃٌ.جِبِلَّۃٌ مفرداتِ امام راغب میں ہے.جِبِلًّا کَثِیْرًا ای جَمَاعَۃً یعنی جِبِلًّا کے معنے جماعت کے ہیں (مفردات) پس اَلْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ کے معنے ہوں گے پہلی جماعتیں.تفسیر.پھر فرمایا تم اس خدا سے ڈرو جس نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلی قوموں اور جماعتوں کو بھی پیدا کیا ہے یعنی آج تو تم اپنے ان افعال پر نازاں ہو.لیکن کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہی ناپسندیدہ حرکات کی وجہ سے تم
سے پہلے بھی کئی قومیں ہلاک ہوچکی ہیں.پھر کیوں تم ان کی ہلاکت اور بربادی سے سبق حاصل نہیں کرتے اور کیوں ان کے زوال کے اسباب پر غور کرکے اپنے اندر تغیّر پیدا کرنیکی کوشش نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ قومیں دنیا میں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں.اورجب سے دنیا چلی آرہی ہے اُسی وقت سے یہ سلسلہ بھی چلا آرہا ہے.ہزاروں قوموں کی تباہی اور ہزاروں قوموںکی ترقی پر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں مگر تاریخ کے تمام واقعات بحیثیت مجموعی انسانی زندگی کے واقعات کا سوواں حصہ بھی نہیں ہیں.وہ زمانہ جو تاریخی کہلاتا ہے اس سے بھی مدتوں پیشتر انسان دنیا میں موجود تھا.اورپھر جو زمانہ تاریخی کہلاتا ہے اس کا بھی اکثر حصہ ایسا ہے جس کی تاریخ محفوظ نہیں.مگر وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ ہے اور وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ نہیں ان دونوں قسم کے زمانوں میں ہزاروں قومیں بگڑتی اور بنتی چلی گئیں.ہزاروں قوموں نے پہلے بامِ رفعت تک رسائی حاصل کی اور پھر زوال پذیر ہوگئیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکا رنہیںکیا جاسکتا.یا یوں کہنا چاہیے کہ جس طرح انسانی پیدائش کا انکار نہیںکیا جاسکتا اور جس طرح انسانی موت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح قوموں کی پیدائش اور ان کی موت کا بھی انکار نہیں کیاجاسکتا.مگر جس طرح بنی نوع انسان ہر روز موت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود موت بھلادیتے ہیں.اسی طرح قومیں بھی دوسری قوموں کے تنزل کو دیکھنے کے باوجود اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں.قرآن کریم نے اس مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے.اور سورئہ فاتحہ سے لے کر سورئہ والناس تک سارا قرآن کریم ان بیانات سے بھر اپڑا ہے کہ قومی ترقی کے کیا گُر ہیں.بیشک اور بھی بہت سے مضامین قرآن کریم میںبیان کئے گئے ہیں.اس کے اندر عقلی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور علمی بھی.روحانی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیںاور جسمانی بھی.اقتصادی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور سیاسی بھی.غرض سینکڑوں اور ہزاروں مضامین اس کے اندر بیان ہوئے ہیں لیکن سورئہ فاتحہ کی ابتداء ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ اس میں قومی ترقی اور تنزل سے تعلق رکھنے والے تمام اصول بیان کردیئے گئے ہیں.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے چھوٹے چھوٹے چشموں سے دریا پھوٹتے ہیں تو ایک کوتاہ اندیش انسان چشمہ میں سے نکلتے ہوئے دریا کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگ جاتاہے کہ یہ چھوٹاسا نالہ چند گز یا چند فرلانگ تک جاکر ختم ہوجائےگا یا خشک ہوجائے گا کیونکہ اس کی آنکھ صرف چشمہ میں سے پھوٹتے ہوئے دریا کے اس پاٹ پر ہی ہوتی ہے جس پر سے وہ اگر چھلانگ مار کر اس کے پار جانا چاہے تو بڑی آسانی کے ساتھ جاسکتا ہے.لیکن جب وہ اس چھوٹی سی نالی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو وہ یہ دیکھ کرحیران ہوجاتا ہے کہ اب یہ نالی نالے کی صورت اختیار کررہی ہے.تھوڑی دور اور آگے جاکر وہ اور بھی متعجب ہوتا ہے کہ وہ نالہ ایک نہر کی شکل اختیار
کررہاہے.اور جب کچھ اورفاصلہ طے کرتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ وہی چھوٹی سی نالی جو چشمے میں سے دھیمے دھیمے پھوٹ رہی تھی اور جس پر سے چھلانگ لگا کر اس پار ہوجانا ذرا بھی مشکل نہ تھا وہ یہاں پہنچ کر ایک بہت بڑ ااور عظیم الشان دریا بن گیا ہے.دریائے جہلم جو پنجاب میں پہنچ کر ایک بہت بڑے دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اپنے دہانہ پر اتنا تنگ ہے کہ چند فٹ سے زیادہ نہیں.اس جگہ کھڑے ہوکر کوئی شخص یہ باور نہیں کرسکتا کہ یہ چشمے میں سے بہنے والا چھوٹا سا نالہ پنجاب کی لاکھوںایکڑ زمین کو سیراب کرےگا اور لوگ میلوں میل کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی مسافتوںکو طے کریں گے.اسی طرح سورئہ فاتحہ کی شروع ہونے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چشمہ میں سے نکلتے ہوئے نالہ کی لیکن آخر پر پہنچ کر اس کی مثال ایک بہت بڑے دریا کی سی ہوجاتی ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں جس مضمون کو چشمے سے نکلتے ہوئے ایک چھوٹے سے نالے کی طرح بیان کیا گیا ہے.اُسے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ تک پہنچ کر ایک عظیم الشان دریا کی طرح واضح کردیا گیا ہے.کوئی شخص اگر روحانی نابینا ہوتو الگ بات ہے ورنہ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ترقی اور تنزل کی تمام منزلیں اس چھوٹی سی سورۃ کے اندر واضح طورپر بیان کی گئی ہیں.اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں تو ترقی کا مضمون بیان ہوا ہے کہ اے اللہ ہمیں وہ راستہ دکھاجس پر چلنے والے انعام حاصل کرسکتے ہیں.اور ہمیں ان قوموں میںشامل فرما جن قوموں نے ترقی کی تھی.مگر آگے چل کر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں بتادیا کہ ہر وہ قوم جس نے ترقی کی وہ آخر کار گر پڑی مگر یہ دعا سکھا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں تنزل اور پستی سے بچنے کاایک گُر بھی بتا دیا ہے.مستقبل کے متعلق تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوگا.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا سکھا کر اس امر کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی گئی ہے کہ اگر مسلمان توجہ سمجھ اور عقل کو کام میںلائیں تو وہ تنزل سے بچ سکتے ہیں.پچھلے دورمیں تو مسلمان اس کی طرف سے توجہ ہٹا لینے کی وجہ سے نہ بچ سکے.لیکن اسلام کے لئے ایک نشأۃ ثانیہ کی بھی خبر دی گئی تھی.اور وہ زمانہ مسیح موعودؑ کی بعثت سے شروع ہونا تھا.پس یہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے مسلمان قوم اس پر عمل کرکے دوسری تمام اقوام سے لمبی عمر پاسکتی ہے.اور ضلالت سے بچ سکتی ہے.یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو دعا اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو سکھاتاہے اس پر اگر عمل کیا جائے تو وہ ہرگز ضائع نہیں جاتی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعدہ مضمر ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ سے مانگو گے تومیں تمہیں دے دوںگا.اور یہ خدا تعالیٰ کی شان سے بالکل بعید ہے کہ وہ خود اپنے بندوں کو ایک دعاسکھائے اور جب بندے اس دعا پر عمل کریں تو وہ انہیں نہ دے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ایک بہت بڑی چیز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسانوں کے وعدے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں.کوئی بادشاہ کوئی ڈپٹی کمشنر کوئی گورنر یا
کوئی اور ایسا ہی بڑا حاکم اگر کسی شخص کے ساتھ وعدہ کرے تو وہ شخص اپنے دل میں بڑا خوش ہوتا ہے اور سمجھتاہے کہ یہ لوگ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے حالانکہ یہ لوگ پیشتر اس کے کہ اپنے وعدہ کا ایفاء کریں مربھی سکتے ہیںاور یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیں کہ اب ہم اس وعدہ کو پورا نہیں کرسکتے.یاممکن ہے کہ وہ وعدہ کرتے وقت تو بااختیار ہوں لیکن وعدے کے ایفاء کے وقت ان سے تمام اختیارات چھِن چکے ہوں.یا کسی اور محکمہ میں تبدیل ہوگئے ہوں.مگر وہ خدا جو ازلی ابدی ہے وہ نہ بدلتاہے اور نہ مرتاہے اورنہ ہی اس پر کوئی ایسا وقت آسکتا ہے کہ اس سے اختیارات چھِن جائیں اس لئے ہمیں ایسے شخص سے ہزاروں گُنے زیادہ پُر امید ہونا چاہیے.اور ہمیں اس با ت میں ذرا بھی شک نہیں لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا ایفاء کرے گا.جب خدا تعالیٰ نے خودہمیں یہ دعا سکھائی ہے تو اس کے اندریہ وعدہ موجود ہے کہ وہ تنزل جو قوموں پر ان کے عروج کے بعد آتا ہے مسلمانوں کے اس دعا مانگنے کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جائے گا.اور ان کے عروج کے زمانہ کو لمبا کردیا جائے گا.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے.جو وَلَا الضَّآلِّیْنَ کی مدّ اور شدّ سے ایک عجیب استدلال کیا کرتے تھے.وہ بزرگ کہتے تھے کہ وَلَا الضَّآلِّیْنَمیں جو شدّکے بعد مدّ آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوںکا زمانہ بہت لمبا ہوگا (حقائق الفرقان تفسیر سورہ فاتحہ آیت ۷) مگر اس سے بھی بڑا نکتہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں یہ موجود ہے کہ اگرا للہ تعالیٰ نے اس دعا کو پورا ہی نہیں کرنا تھا تو اس دعا پر زور ہی کیوں دیا تھا.اللہ تعالیٰ کا اس دعا کو ہم سے باربار منگوانا بتاتا ہے کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا گروہ نہ آنا تھا تو یہ دعا مسلمانوں کوسکھائی ہی کیوں گئی تھی.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانا نہ تھا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا کیوں سکھائی.جیسے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ والی دعا سکھا کر بتا دیا کہ وہ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا ایک گروہ پیدا کرنا چاہتاہے اسی طرح غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا سکھا کر اس نے بتادیا ہے کہ اگر مسلمان اس پر عامل رہے تو ان کو مغضوب اور ضالین میں شامل ہونے سے بھی بچایا جائے گا اگر ضآلین کی مدّ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوںکو عروج کالمبا زمانہ نصیب ہوگا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے بدرجہ اتم یہ استنباط ہوتاہے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے بھی لمبا زمانہ دیا جائے گا اور ضآلین بننےسے بھی بچایا جائے گا.حدیثوں سے بیشک یہ معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے قریب دنیا میں اشرا ر ہی رہ جائیں گے (بخاری کتاب الفتن باب ظھور الفتن) مگر قرب قیامت کی تعیین کوئی شخص نہیں کرسکتا.او رخدا تعالیٰ ہی بہترجانتاہے کہ وہ کب آئے گی.کیونکہ قرآن کریم میں ایک ایک دن کو ایک ہزار اور پچاس ہزار سال کا بتایا گیاہے.اس طرح اگر دنیا کی عمر سات ہزار سال شمار کی جائے اور
ایک دن ایک ہزار سال کا شمار کیا جائے تو دنیا کی عمر ستر لاکھ سال بنتی ہے.اور اگر ایک دن پچاس ہزار سال کا شمار کیا جائے تو یہ عمر ۳۵کروڑ سال بنتی ہے.اور خدا کے دن تو اس سے بڑے ہوسکتے ہیںاس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی عمر کتنی ہے.ہم یہ تو مان لیتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے مگر اس کی حد بندی کس طرح کی جائے اس کا علم تو صر ف خدا تعالیٰ کو ہی ہے لوگوں کی بحثیں محض فلسفیانہ ہیں.اور فلسفیانہ بحثیں ہمیشہ عبث اور لاحاصل ہوتی ہیں.درحقیقت یہ سب باتیں جو آخری زمانہ کے متعلق بیان ہوئی ہیں استعارات سے پُر ہیں جن کی تفصیلا ت ہمیں خدا تعالیٰ پر چھوڑ دینی چا ہئیں.حقیقت یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تم قومی لحاظ سے خواہ کتنی بھی ترقی کرجائو تمہیں ہمیشہ یہ امر مدّ نظر رکھنا چاہیے کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی پھسلا تویا تو تم مغضوب علیہم میں شامل ہوجائو گے اور یاپھر ضآلین میں تمہارا شمار ہوجائے گا.اگر تم اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے اور ہمیشہ اس سے دعائیں کرتے رہو گے کہ وہ تمہارا قدم صراط مستقیم پر قائم رکھے تو اس کا فضل تمہارے شامل حال ہوگا اور وہ تمہیں تنزل اور انحطاط کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے گا.حضرت شعیب علیہ السلام نے اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلائی اور فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے پہلے بھی کئی قومیں گزری ہیں جنہیں اپنے اپنے زمانہ میں بڑی بڑی طاقت حاصل تھی مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو وہ تباہ و برباد کر دی گئیں.پھر تم کیوں اپنی چند روزہ زندگی میں تقوی اللہ سے کام نہیںلیتے اور مادّی لذات کے حصول کےلئے ناجائز ذرائع اور تدابیر اختیا ر کرتے ہو.قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ۠ۙ۰۰۱۸۶وَ مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ (اس پراس کی قوم نے )کہا.تُو تو ایسا (شخص) ہے جسے غذادی جاتی ہے.اور تُو صرف مِّثْلُنَا وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَۚ۰۰۱۸۷فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا ہماری طرح کا ایک انسان ہے اور ہم یقیناً تجھے کاذب سمجھتے ہیں.پس اگر تو سچا ہے تو ہم پر کوئی بادل کا ٹکڑ ا گرا.كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَؕ۰۰۱۸۸قَالَ (اس پر شعیبؑ نے )کہا.میرا ربّ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے.(مگر اس کے سمجھانے کے
رَبِّيْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰۱۸۹فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ باوجود) انہوں نے اس کو جھٹلایا.پس ان کو سایہ کے دن والے عذاب نے آپکڑ ا (یعنی گھنے اور يَوْمِ الظُّلَّةِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۰۰۱۹۰اِنَّ فِيْ دیر پا بادلوںکے عذاب نے) وہ یقیناً ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تھا.اس واقعہ میں ذٰلِكَ لَاٰيَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۹۱وَ اِنَّ رَبَّكَ ایک بڑا نشان تھا اور (اسے دیکھ کر بھی ) ان کافروں میں سے اکثر مومنوں میں شامل نہ ہوئے.لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۹۲ اور تیرا رب یقیناً غالب(اور) باربار کرم کرنے والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْمُسَحَّرِیْنَ.أَلْمُسَحَّرِیْنَ سَحَّرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور سَحَّرَہُ کے معنے ہیں اَعْطَاہٗ السَّحُوْرَ.اس کو غذادی (اقرب).مفردات میں ہے سَمُّوْا الْغِذَاءَ سِحْرًا مِنْ حَیْثُ اِنَّہُ یَدِقُّ وَ یَلْطُفُ تَاْثِیْرُہٗ.یعنی غذاکو عربی زبان میں سِحْر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی تاثیر جسم میں بہت باریک اور لطیف ہوتی ہے.پس مُسَحَّرِیْن کے معنے ہوں گے جن کو غذادی جائے.کِسَفًا.کِسَفًاکِسْفَۃٌ کی جمع ہے اور اَلْکِسْفَۃُ کےمعنے ہیں اَلْقِطْعَۃُمِنَ الشَّیْءِ کسی چیز کا ٹکڑا.(اقرب) اَلظُّلَّۃُ.الظُّلَّۃُ اَوَّلُ سَحَابَۃٍ تُظِلُّ.بادلوں میں سے پہلا بادل جو زمین پر سایہ ڈالتا ہے.(اقرب) عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ.سَحَابَۃٍ اَظَلَّتْھُمْ فَلَجَاؤُا اِلیٰ ظِلِّھَا فَا طْبَقَتْ عَلیْھِمْ وَ اَ ھْلَکَتْھُمْ.شعیبؑ کی قوم پر بادل آئے اور وہ قوم تو ان کو اچھا سمجھتی رہی.لیکن ان بادلوں نے ان کو برباد کردیا.اس کو قرآن مجید نے عَذَ ابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ سے تعبیر کیاہے (اقرب) تفسیر.حضرت شعیب علیہ السلام کی نصائح پر ان کی قوم نے جوجواب دیا وہ یہ تھا کہ تم نے جو ہم سے ٹکّر لی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی اور تمہیںاُکسارہا ہے اور تمہیں مالی مدد دے رہا ہے تاکہ تم ہمارے خلاف ایسی باتیں کرو اور ہماری طاقت کو کمزور کردو.
سَحَّرَ کے معنے عربی زبان میں کھانا دیئے جانے کے ہوتے ہیں.مگر استعارۃً انہوں نے یہ الفاظ مدد دیئے جانے معنوں میں استعمال کئے ہیں.اور مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ تجارتی قوم ہیںجو لوگ تجارت میں ہم سے بڑھ نہیں سکتے انہوں نے تجھ کو رشوت دی ہے کہ تو ہمیں ان طریقوں سے روک دے جن سے ہماری تجارت ترقی کررہی ہے.پھر انہوں نے کہا کہمَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا.آخر تو ہمارے جیسا ایک آدمی ہے اور کیا ہے وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ اور ہم تو تجھے یقیناً جھوٹا سمجھتے ہیں فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ.اگر تو سچا ہے تو آسمان سے ہم پر بادل کا کوئی ٹکڑا گرادے.یعنی اتنی شدید بارش ہو کہ بجائے اس کے کہ ہماری کھیتیوں اور باغات کا پھل بڑھے سارا ملک تباہ ہوجائے.ہم تو تیری سچائی کا صرف یہی ایک معیا رسمجھتے ہیں.حضرت شعیبؑ نے ان سے کہا.میرا رب تمہا رے اعمال کو خوب جانتا ہے اور وہ جس قسم کا سلوک چاہے گا تم سے کرے گا.مگر پھر بھی وہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے.آخر ان کو انہی کے میعار کے مطابق ایک سائے والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا.یعنی بادوباراں کا ایسا شدید طوفان آیا کہ جس نے ملک کو تباہ کردیا وہ عذاب ایک ہولناک دن کا عذاب تھااور اس نے بعد میں اس ملک کو آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک نشان بنادیا.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے اس عذاب کے متعلق ایک اور جگہ صَیْحَةٌ اور دوسری جگہ رَجْفَۃٌ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.چنانچہ سورئہ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ(ہود :۹۵)یعنی جب ہمارا عذاب آگیا.تو ہم نے شعیب ؑ اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنے فضل سے بچا لیا اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے ہوئے تباہ ہوگئے.اسی طرح سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ جٰثِمِيْنَ (العنکبوت :۳۸) یعنی انہوں نے شعیب ؑ کو جھٹلادیا جس کے نتیجہ میںایک ہلا دینے والے عذاب نے ان کو پکڑ لیا اور اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے.ان دونوں مقامات پر یہ امر بیان نہیں کیا گیا کہ آیا یہ عذاب ان پر زلزلہ کی شکل میں آیا یا کسی اور شکل میں.مگر سورئہ شعراء میں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کے متعلق وضاحت فرما دی کہ یہ عذاب ایک ہولناک بارش کی صور ت میں آیا تھا.جس کے نتیجہ میں وہ اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے.باقی رہا صَیْحَۃ یا رَجْفَۃ کے الفاظ کا استعمال.سو صَیْحَۃ کے معنے مطلق عذاب کے بھی ہیں اور صَیْحَۃ کے معنے ایسی تباہی کے بھی ہیں جو اچانک آجائے.
اور رَجْفَۃکے لفظ میں اس ہلا دینے والے منظر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انہیں اپنی بد اعمالی کی وجہ سے دیکھنا پڑا اور جس نے ان کی بنیادوںکو ہلا ڈالا.چنانچہ رَجَفَ الْاِنْسَانُ کے معنے ہوتے ہیں لَمْ یَسْتَقِرَّ لِخَوْفٍ عُرِضَ لَہٗ کہ کسی خوف کی وجہ سے اس کا قرار چھینا گیا.اور ایک جگہ آرام سے بیٹھنا اس کے لئے ناممکن ہوگیا اور رَجَفَ الرَّعْدُ کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَتْ ھَدْھَدَتُہٗ فِی السَّحَابِ (اقرب)بادلوں میں بڑے زورسے اس کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں پیدا ہوئیں.پس یہ الفاظ بھی اس تباہ کن بارش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس نے اچانک ان کے قرار کو چھین لیا.اور انہیں ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیا جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی.ہر شخص اپنے اپنے مکان میں محصور رہا.یہاںتک کہ ان کے مکانوںکی دیواریں چھتوں سمیت ان پر آگریں اور وہ زمین کے ساتھ چمٹے کے چمٹے رہ گئے.فرماتا ہے.شعیب ؑ کی قوم کی اکثریت بھی ایمان سے محروم رہی اور بہت تھوڑے لوگ اپنے زمانہ کے نبی پر ایمان لائے.مگر اے محمدؐ رسول اللہ ! اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تجھے کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ تیرا رب جس نے تجھے نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے اس عظیم الشان مقام تک پہنچایا ہے وہ بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے.بیشک موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور نوح ؑ اور ہود ؑ اور صالح ؑ اور لوطؑ اور شعیب ؑ پر ان کی قوم کی اکثریت ایمان نہیں لائی.مگر جس طرح تیری شان ان تمام نبیوں سے نرالی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا سلوک بھی تیرے ساتھ ان تمام نبیوں سے نرالاہے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ تیری قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہے.بلکہ ان کی شدید ترین مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کی اکثریت کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں تجھ پر ایمان لانے کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے گا.یہی حکمت ہے جس کی بناء پر باربار اس آیت کو دہرایا گیا ہےاور بار بار رَبَّکَ کے لفظ پر زور دیا گیا ہے.رَبَّکَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اپنی اس غیر معمولی ربوبیت کی طر ف اشارہ فرمایا ہے جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی.اور اس طرح بتایا کہ جس خدا نے بچپن سے تجھے اپنے کنار عاطفت میں رکھا اور تجھے قدم بقدم ترقی دیتے دیتے اس عالی شان مقام تک پہنچایا وہ اب تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے.وہ یقیناً تبلیغ ہدایت کے معاملہ میں بھی تجھ سے ممتاز سلوک کرے گا.اورتیری افضلیت کو باقی تمام انبیاء پر ثابت کردے گا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے جس غیر معمولی رنگ میں ربوبیت فرمائی اور جس طرح نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے آپؐ کو بلندیوں کے انتہا تک پہنچادیا اس کی نظیر دنیا کے اور کسی نبی
کی زندگی میں نظر نہیں آتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں ہی یتیم رہ گئے تھے.آپ ؐ کے والد محترم آپ ؐ کی پیدائش سے بھی پہلے اور آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کی پیدائش کے چند سال بعد ہی وفات پاگئی تھیں.اس کے بعد کچھ عرصہ آپ ؐ کو آپؐ کے دادا حضر ت عبدالمطلب نے اپنے پاس رکھا مگر جب وہ بھی وفات پاگئے تو آپؐ اپنے چچا ابوطالب کی کفالت میں آگئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ آپؐ کی پرورش کی اور ہر نازک سے نازک موقعہ پر انہوں نے آپؐ کا ساتھ دیا.مگر آپؐ کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا ہے جو ہمیشہ ہی میرے قلب کو مضطرب کردیا کرتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ آپؐ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپؐکی چچی آپؐ کو کچھ دیتی تو آپؐ لے لیتے.خو د مانگ کر نہیں لیتے تھے (السیرۃ الحلبیۃ وفاۃ عبد المطلب و کفالۃ عمّہ ابی طالب لہ ؐ).بالعموم اس واقعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار اور آپ کی متانت کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے مگرمیں تو جب بھی اس واقعہ کو پڑھتا ہوں میری طبیعت رقّت کے جذبات کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتی ہے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہیں تھا بلکہ بچپن کا زمانہ تھا اورآپؐ زیادہ سے زیادہ اس وقت آٹھ نو سال کی عمر کے تھے.اور آٹھ نو سالہ بچے کے متعلق یہ ثابت کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بڑا باوقار تھا خواہ آئندہ چل کر وہ نبی ہی بننے والا کیوں نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَو کَانَ نَبِیًّا کہ بچہ بچہ ہی ہے خواہ آئندہ زمانہ میں وہ نبی بننے والا ہو.میری طبیعت تو یہ واقعہ پڑھ کر اس خیال سے بے تاب ہوجاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچپن کی عمر میں بوجہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے( بعض بچے جو ذہین نہیں ہوتے وہ چچی اور ماںکا فرق کوئی زیادہ نہیں سمجھتے اوروہ اسی طرح چچی سے بھی لڑ جھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں مگر یہ محبت کا نتیجہ نہیںہوتا بلکہ ان کی عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ) یہ محسوس کرتے تھے کہ میں اس گھر سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگ سکتا.مجھ پر تو میرے چچا اور چچی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے محبت اور پیا ر سے مجھے اپنے پاس رکھ لیا ہے.پس کبھی بھی اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے میں بغیر اس کے کہ رقّت مجھ پر غلبہ نہ پالے آگے نہیں گزر سکتا.اور میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں کیا جذبات پیدا ہوتے ہوں گے.بعض دفعہ آپؐ کے چچا بھی موجو دہوتے اور چچا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی وہ ایسی تھی کہ باپ کی طرح ہی تھی.اسی وجہ سے بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے
ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں مثلاً مٹھائی تقسیم ہورہی ہے تو ایک کہتا ہے میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں دو ڈلیاں لوں گا.دوسرا کہتا ہے.اماں مجھے تو تُو نے کچھ بھی نہیں دیا.اسی طرح ہر بچہ اپنا اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونہ میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابوطالب ان کو بازوسے پکڑ لیتے اورکہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے پھر وہ آپؐ کولا کر اپنی بیوی کے پاس کھڑا کردیتے اور کہتے تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دراصل انہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپؐ سمجھتے تھے.میرااس گھر پر کوئی حق نہیں.اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے.مجھ پر یہ نکتہ اس وقت کھلا جب میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئیں اس وقت اخبار میں جومیں نےمضمون شائع کرایا تھا اس میں بھی اس واقعہ کا ذکر کردیا تھا.سارہ بیگم کی بچی کی جوتی ایک دفعہ پھٹ گئی.جس گھر میں مَیں نے اسے رکھا تھا انہوں نے نوکر کوکہا کہ بازار سے جا کر اس بچی کے لئے بوٹ لے آئو.چا ر پانچ سال اس کی عمرتھی وہ بوٹ لایا میں اس وقت صحن میں ایک طرف کھڑا تھا.میں نے دیکھا کہ اس نے بوٹو ں کے جوڑے اپنی گودی میں لے لئے اور خوشی سے کودی اور کہا.آہا میرے بوٹ آگئے.میرے بوٹ آگئے.مگر پھر میں نے دیکھا کہ یکدم اس کا چہرہ متغیر ہوگیا.اس نے زمین پر بوٹ رکھ دیئے اور حیران ہو کر کھڑی ہوگئی.اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا.ہائے اللہ ! اب میں یہ بوٹ دکھائوں کسے.تب میرے لئے یہ امر حل ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ بیٹھنا بھی اس قسم کا تھا یہ بچی ۲۹ ء میں پیدا ہوئی تھی اور ۳۳ ء کا یہ واقعہ ہے ایک چار سال کے بچے کے منہ سے یہ فقرہ مجھے عجیب قسم کا معلوم ہوا کہ حیران ہوکر اس نے بوٹ زمین پر رکھ دیئے اور کہا.ہائے اللہ !اب میں بوٹ دکھائوں کسے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علیحدہ بیٹھنا تھا.وہ بھی اسی رنگ کا تھا.اب یہ جذبات خواہ کتنے ہی بے چین کرنے والے ہوں اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کردیتا ہے تو پھر یہی غم کے جذبات جو دراصل کمزوری کے جذبات ہیں اسے کہیں کا کہیں پہنچادیتے ہیں.چنانچہ ایک طرف اس بچے کو دیکھو جو صحن کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے سارے بچے اس کے پاس سے کودتے ہوئے گزرجاتے ہیں اور اپنی والدہ کے پاس پہنچ کر کوئی اس کے کندھے پر چڑھ جاتا ہے کوئی اس کے دامن سے لپٹ جاتاہے.کوئی کہتا ہے اماں! میں فلاں چیز ایک نہیں دو لوں گا.کوئی کہتا فلاں کو کیوں زیادہ دیا میں بھی اتنا ہی لوں گا.غرض کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ.مگر وہ ایک گوشہ میں خاموش بیٹھا ہے سارے کا خیال اس کے دل میں نہیں آتا.اس کے دل میں آدھے کا خیال بھی نہیں آتا.اس کے دل میں چوتھے حصےکا خیال بھی نہیں آتا.اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ بیسویں حصہ
کا حقدار ہے.بلکہ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ میری چچی مجھے کچھ دیتی ہے یا نہیں.باقی تمام بچے چمٹ چمٹ کر مانگتے ہیں اصرار کر کے مانگتے ہیں مگر وہ ایک گوشہ میں کھڑے یہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں میراحصہ ہے ہی نہیں.میں اگر مانگوں تو کیوں مانگوں.اور اگر مانگوں تو کس سے مانگوں.لیکن خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی بسر کرنے کے بعد وہی بے کس اوریتیم جب فوت ہوتا ہے تو دنیا میں اس کے سوا کسی اور کا حصہ باقی نہیں رہتا.ساری ہی دنیا اس کی ہوجاتی ہے.اور دنیا ہی نہیں خالق کون ومکاں بھی کہتاہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (تفسیر روح المعانی للآ لوسی قولہ تعالیٰ رب السموت والارض وما بینھما..)اے محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی زمانہ تھا کہ تو یہ سمجھا کرتا تھا کہ مٹھائی کی ایک ڈلی.روٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی میں بھی تیرا حصہ نہیں اور تو گوشہ تنہائی میں بیٹھا یہ خیال کیا کرتا تھا کہ جن پر میر ا حق تھا وہ دنیا میں نہیں رہے.مگر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھے پتہ بھی ہے کہ تیری پیدائش سے بھی پہلے جب کہ ابھی کائناتِ عالم وجود میں نہیں آئی تھی.ہم نے اسے پیدا ہی تیری خاطر کیا تھا اور ہم نے اسی وقت سے یہ فیصلہ کیا ہواتھا کہ یہ تمام زمین و آسمان میںتیری خاطر بنائوں گا.اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.گویہ حدیث صوفیاء کی احادیث میں سے ہے ان احادیث میں سے نہیںجن کو محدثین صحیح قرار دیتے ہیں مگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام نے ثابت کردیا ہےکہ یہ سچی حدیث ہے.کیونکہ آپؑ کا بھی الہام ہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (تذکرہ صفحہ ۵۲۵و۴؍ مئی ۱۹۰۶ ء حقیقہ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۲)اب مقابلہ کرو اس کیفیت کا اس یتیم کا جو گوشہ تنہائی میں بیٹھا ہوا اپنے آپ کو کامل لاوارث سمجھتا تھا.جو مکہ کے ایک چھوٹے سے غریب گھر میں پیدا ہو ا.جوروٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی پر بھی اپنا حق نہیں سمجھتا تھا.وہی ایک دن مکہ میں داخل ہوتا ہے اور مکہ کے تمام بڑے بڑے سردارمجرموں کی طرح اس کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ پوچھتا ہے.بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے.گویا وہ جن کے گھر کی ایک دھجی پر بھی وہ اپنا تصرف نہیں سمجھتا تھا ان کے جسم کا تسمہ تسمہ اس کے قبضہ میں تھا اور وہ تمام سردار گردن ڈالے ہوئے اس کے سامنے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا.چنانچہ وہ یتیم جس سے دنیا نے حسنِ سلوک نہیں کیا تھا جسے دنیا نے غیر حقدار اورلاوارث قراردیا تھا.جب خدا نے اس کو طاقت دی تو اُس نے اُن سے یہ سلوک کیا کہ کہا لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ جائو تم پر کوئی گرفت نہیں.غرض یہ وہ شخص تھا جو اپنی وفات سے ستاون اٹھاون سال پہلے اپنے گھر کے صحن میں اس لئے خاموش کھڑا رہتا اور گھر کی مالکہ سے دوسرے بچوں کی طرح نہ چمٹتا کہ وہ سمجھتا تھا کہ میرا اس گھر میں کوئی حق نہیں.مگر پھر اس حالت
میں اتنا عظیم الشان تغیر آگیا کہ یا تو آپ ؐایک یتیم اور بے کس تھے اور یا پھر تمام دنیا کا سہار ا آپؐ ہی بن گئے اور تمام دنیا کی ماں آپؐ ہی بن گئے.وہی یتیم بچہ جو کسی وقت بے باپ اور بے ماں کے تھا.ایک وقت اس پر آیا جب وہ ساری دنیا کا باپ اور ساری دنیا کی ماں بن گیا.بلکہ وہی باپ نہیں بنا اس کی بیویاں بھی مومنوں کی مائیں بن گئیں.گویا ابوت صرف آپؐ تک محدود نہ رہی بلکہ آپؐ سے تعلق رکھنے والوں کی عظمت بھی آپؐ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی.غرض اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ میں اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الشان احسانات کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائے اور بتایا ہے کہ جس خدا نے تجھے اتنی عظیم الشان ترقی بخشی وہ اب بھی تجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.اور تجھے ساری دنیا پر غلبہ اور فتح عطا کرےگا.اور یہ غلبہ صرف ایک زمانہ تک محدود نہیں ہوگا.بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ بارباررحم کرنے والا ہے اسی طرح وہ بار بار تجھے غالب کرے گا.گویا ہر تاریکی کا دور جب بھی دور ہوگا دنیا دیکھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب حقانیت اپنی پوری شان کے ساتھ چمک رہا ہے.وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۹۳نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ اور یقیناً یہ (قرآن) ربّ العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے.اس کو لے کر ایک امانت دار کلام بردار فرشتہ الْاَمِيْنُۙ۰۰۱۹۴عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۰۰۱۹۵ (جبریل ؑ)تیرے دل پر اترا ہے.تاکہ تو ہوشیا ر کرنے والی جماعت میں شمار ہوجائے.(اس کو جبریل ؑ نے بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍؕ۰۰۱۹۶وَ اِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۱۹۷ خد اکے حکم سے ) کھول کر بیان کرنے والی عربی زبان میں اتار اہے.اور یقیناً اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی اَوَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا موجو د تھا.کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس (قرآن ) کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہنچانتے ہیں (یعنی سمجھتے ہیں کہ
بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَؕ۰۰۱۹۸ یہ قرآن انبیائے بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے ).حلّ لُغَات.زُبُرٌ.زَبُوْرٌ کی جمع ہے اور اَلزَّبُوْرُ کے معنے ہیں اَلْکِتٰبُ.کتاب (اقرب) تفسیر.حضرت موسیٰ ؑ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوح ؑ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد جو بعض مخصوص اقوام کی ہدایت کےلئے مبعوث ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز ل کیا گیا ہے یہ سب دنیا کو مخاطب کرکے ناز ل کیا گیا ہے.جب کہ پہلے کلام صرف بعض خاص خاص قوموں کی ہدایت کےلئے نازل ہوئے تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت تھے.یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے اور اس کلام کو رُوح الامین لے کر نازل ہوا ہے.کیونکہ پہلے نبیوں کے کلام میں کئی قسم کی خرابیاں واقع ہوگئی تھیںاور بندوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی.پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے محفوظ طور پر یہ کلام آپ پر نازل کیا.او رچونکہ کلام الٰہی کے پہنچانے کےلئے اس کا سمجھنا بھی ضروری تھا تاکہ لوگوں تک اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی خرابی واقع نہ ہو اس لئے وہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے اور یقیناً یہ کلام پہلی کتب میں بھی مذکور ہے.اس طرح بھی کہ ا س کے اصول ان میںپائے جاتے ہیں اور اس طرح بھی کہ ان کتابوں میں اس کی پیشگوئی موجود ہے.قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب پر جو فضیلتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ قرآن کریم سے پہلے ربّ العالمین کا خیال دنیا میں معین صورت میں موجود نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ہستی کو سب دنیا کاخالق ومالک مانتے تھے مگر چونکہ ان کی تعلیم قومی تھی اور مشرکین خاص طور پر اپنے اپنے خدا الگ پیش کرتے تھے اس لئے انسانی ذہن محدود خیالات کا مرجع رہتا تھا.اسی وجہ سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعراء:۲۴) اےموسیٰ ؑ یہ رب العالمین کو ن ہے جس کی طرف سے مبعوث کئے جانے کاتم دعویٰ کرتے ہو.اور پھر ڈوبتے وقت بھی اس نے کہاکہ میں ربّ بنی اسرائیل پر ایمان لاتا ہوں (یونس ع ۹)لیکن قرآن کریم نے اس خیال کو ایک معین صور ت میں پیش کیا او ر اس طرح اتحادِ بین الاقوام کی ایسی داغ بیل ڈال دی جو پہلی تعلیموں کے لحاظ سے ناممکن تھی.بائیبل پڑھ کر دیکھ لو.اس میں یہی دکھائی دے گا کہ ’’ خداوند بنی اسرائیل کا خدا مبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے ‘‘(۱.سموئیل باب ۲۵آیت ۳۲) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا
ابدالآباد مبارک ہو‘‘.(۱.تواریخ باب ۱۶آیت ۳۶) ’’ خداوند خدااسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائب کام کرتا ہے.‘‘ ( زبورباب ۷۲آیت ۱۸) لیکن قرآن کریم نے اس نقطہ نگاہ کو بالکل بدل دیا.اس نے خدا تعالیٰ کو رب العالمین کی شکل میں پیش کیا اور بتایا کہ وہ صرف افراد اور قوموں کا ہی خدا نہیں بلکہ سب مخلوق کا خدا ہے اس کی ابتداء ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَسے ہوئی ہے.یعنی خدا تعالیٰ جو سب جہانوں کا رب ہے اس کی برکات کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح جسمانی طور پر اس کے فیوض سب کو پہنچتے ہیں اسی طرح روحانی طور پر بھی اس نے اپنے فیض سے کسی کو محروم نہیںکیا.کفار کو اس خیال پر اس قدر حیرت ہوئی کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اَجَعَلَ الْاٰ لِھَةَ اِلٰھًا وَّاحِدًا (ص :۶) یعنی اس نے تو کئی خدائوں کوکوٹ کا ٹ کر ایک خدا بنا دیاہے.ان کے خیال میں یہ امر آہی نہیں سکتا تھا کہ اصل میں ایک ہی خدا ہے او رباقی سب مصنوعی خدا ہیں کیونکہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے یہی الفاظ سنتے تھے کہ ’’ہمار ا خدا اور تمہار ا خدا اور‘‘ گو توحید ان کے سامنے پیش کی جاتی تھی.مگر وہ توحید کا یہ مطلب نہیں لیتے تھے کہ سب کا خدا ایک ہے.بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ خد اتو ایک ہے مگر وہ بنی اسرائیل کایا مسیحیوں کا خدا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر ہم بغیر خدا کے ہیں.مگر اسلام نے بتایا کہ وہ مومن وکافر سب کا خدا ہے اورپھر وہ ایک ہی خدا ہے.یہ بیان اس صفائی کے ساتھ دنیا کے لئے بالکل نرالہ تھا.مگر یہ نرالہ پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دیا گیا اور پھر نرالے طور پر آپ کو ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ پہلے انبیاء صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس طرح آپ کے ذریعہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کا تصور دنیا میں قائم کیا گیا حالانکہ آپؐ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کے باقی دنیا سے کوئی تعلقات نہیں تھے.عرب باقی ساری دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا اور عرب کی دنیا صرف عرب تک ہی محدود تھی.اوراگر وہ دوسری قوموںکے متعلق کوئی خیال رکھتے بھی تھے تو صرف منافرت کا خیال تھا.عربوں میں تکبر اتنا زیادہ پایا جاتا تھا کہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان سے بڑا کوئی ہے ہی نہیں.صرف رومن اور ایرانی حکومتوں کی سیاسی برتری کو وہ تسلیم کرتے تھے گویا سیاسی نقطہ نگاہ سے تو وہ عرب کو ادنیٰ سمجھتے تھے لیکن قومی نقطہ نگاہ سے وہ باقی تمام دنیا کو ذلیل خیال کرتے تھے اور قومیت کا خیال آتے ہی وہ عرب کو باقی تمام قوموں سے بالا سمجھنے لگتے تھے.ہاں جب سیاست کا سوال آتا تو وہ رومن اور ایرانیوںکے درباروں میں جا کر رومی اور ایرانی بادشاہوں کو حضور کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے کیونکہ جب وہ ان کے درباروں میں جاتے تھے تو کچھ لینے کے لئے جاتے تھے.غرض نہ وہ جغرافیائی حیثیت سے ایک دنیا کے قائل تھے اور نہ قومی لحاظ سے ایک دنیا کے قائل تھے.پھر جو لوگ رومن اور ایرانی درباروں میں جاتے بھی تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی بالعموم ان میں وہی لوگ
یا افریقی ،انگریز ہو یا امریکن ہندوستانی ہو یا جاپانی ان ساروںکے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے.اور میری زندگی ان تمام قوموں کی فلاح و بہبود کےلئے وقف ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر بنی اسرائیل کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر اپنی قوم کےلئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ رہے مگر فلسطینیوں کے لئے.حضرت نوح علیہ السلام زندہ رہے مگر عراقیوں کے لئے.حضرت کرشن اور حضرت رامچندر علیہما السلام زندہ رہے.مگر ہندوستانیوں کیلئے.انہوں نے تکالیف بھی اٹھائیں اور مصائب بھی برداشت کئے مگر صرف بنی اسرائیل کےلئے یا صرف فلسطینیوں کے لئے یا صرف عراقیوں کے لئے یا صرف ہندوستانیوں کےلئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حکم سے فرماتے ہیں کہ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:۱۶۳)یعنی میںاگر تکالیف اوردکھ اٹھاتا ہوں تو صرف ایک قوم کےلئے نہیں بیشک میں عر ب قوم میں پیدا ہوا ہوں اور وہ میر ی پہلی مخاطب ہے لیکن میرے دکھ اور میرے مصائب ساری دنیا کےلئے ہیں.کیونکہ میں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور ایسے خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے جو ربّ العالمین یعنی سب جہانوں کی ربوبیّت کرنے والا ہے.میں صرف عرب قوم کا لیڈرنہیں ہوں.میں تو خدا تعالیٰ کا جو رب العالمین ہے بندہ ہوں اور اس کی خاطر میں نے اپنی ساری زندگی وقف کی ہوئی ہے.وہ اگر ربّ العٰلمین ہے اگر وہ سب جہانوں کی ربوبیّت کرتا ہے تو اس کا خادم ہونے کی حیثیت سے میری تکالیف اور دکھ کسی خاص قوم کے ساتھ کیوں مخصوص ہوں.میں نے خدا تعالیٰ کو ربّ العالمین سمجھ کر مانا ہے.ربِّ عرب یا ربِّ بنی اسرائیل سمجھ کر نہیں مانا.اور جب میں نے اسے ربّ العٰلَمِیْن سمجھ کر مانا ہے تو اس کی جتنی بھی مخلوق ہے سب کی خاطر مجھے اپنے اوپر تکالیف وارد کرنی چاہئیں.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں کثرت سے اس قسم کے احکام پائے جاتے ہیں کہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں.اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے.مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس جب ایک غیر قوم کی عورت نے آکر کہا کہ اے استاد تو مجھے بھی اس سچائی سے حصّہ دے جو تو بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرتا ہے تواس عورت کی خاطردکھ اور تکلیف اٹھانا تو الگ رہا.حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا.بیٹوں کی روٹی میں کُتّوں کے آگے کیسے پھینک دوں (متی باب ۱۵ آیت ۲۶).گویا ان کی نگاہ میں بنی اسرائیل تو خدا کے بیٹے تھے اور غیر قومیں کتّوں کی مانند تھیں.اس کے مقابلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں.ایسے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ابھی تعلیم مکمل نہیںہوئی تھی.جبکہ قرآن کریم کا ایک پارہ بھی پورا نازل نہیں ہؤا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدایت اور راستی کے متلاشی آتے
ہیں.ان میں سے کوئی یونانی ہوتا ہے جیسے سہیلؓ.کوئی حبشہ کا ہوتا ہے جیسے بلالؓ.کوئی ایران کا ہوتا ہے جیسے حضرت سلمانؓ.یہ لوگ آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی یہ خواہش پیش کرتے ہیںکہ ہمیں بھی اپنی تعلیم سنائیے.ان کے سوال کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیںفر ماتے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کی روٹی کُتّوں کے آگے نہیں پھینک سکتا.بلکہ آپؐ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عرب قوم ہے ویسے ہی یہ لوگ بھی ہیں.آپ فوراً انہیں تعلیم دینا شروع کر دیتے ہیں.بلکہ دینی تعلیم دینا تو الگ رہا یہاں تک ثابت ہے کہ دو بھائی تھے جو عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے یا بہت کم علم رکھتے تھے.وہ صرف بائیبل جانتے تھے اور لوہا کوٹا کرتے تھے.آپؐان دونوں بھائیوں کو اشاروں کے ساتھ تبلیغ کیا کرتے تھے.جب آپؐ وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں.وہ دونوں یونانی تھے اور آپ کی باتیں نہیں سمجھ سکتے تھے.لیکن آپؐ محبت کی وجہ سے وہاں کھڑے ہوجاتے اور ان کی باتیں سنتے.پھر آپؐ انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے.زبان تو وہ سمجھ نہیں سکتے تھے آپؐاشاروں سے انہیں تبلیغ کرتے.مثلاً اللّٰہ کا لفظ کہہ کر آسمان کی طرف اشارہ کردیا.آہستہ آہستہ ان دونوں کو آپؐ سے اُنس ہوتا گیا.اور بالآخر وہ دونوں ایمان لے آئے (القرطبی زیر آیت النحل: ۱۰۳) اسی طرح بلالؓحبشی تھے.اور حبشی غلام بنائے جاتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہوروذلیل ہو بلکہ آپؐ کے نزدیک سب قومیں یکساں طورپر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں آپ ؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے.یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں بھی آپ کا وہ عشق پیدا کردیا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے.پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عر بوں میں سے بھی قریش قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا.آپؐ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا.اگر آپؐ سے کسی قوم یا قبیلہ کو محبت ہونی چاہیے تھی تووہ بنو ہاشم کو ہونی چاہیے تھی.آپؐ سے کسی کومحبت ہونی چاہیے تھی تو قریش کو ہونی چاہیے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہیے تھی غیرقوموں کے دلوں میں جن کی حکومتوں کو آپؐ کے لشکر وں نے تباہ کردیا تھا جن کی قومی برتری کو اسلامی سلطنت نے بے کار کرکے رکھ دیا تھا محبت ہوہی کیسے سکتی ہے.انہیں تو آپؐ سے دشمنی ہونی چاہیے تھی.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے عشق کا یہ حال تھا کہ آپؐ کی وفات کے کئی سال بعدایک دن کچھ لوگ دمشق میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باتوں باتوں میں کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلال ؓ اذان دیا کرتے تھے.ہم چاہتے ہیں کہ پھر ان کی اذان سنیں.چنانچہ انہوں نے بلال ؓ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ سے شام
چلے گئے تھے اور پھر شام سے دمشق جا پہنچے تھے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا.لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے اذان دینا چھوڑ دیاہے.کیونکہ جب بھی میںاذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یہ بات میری برداشت سے باہر ہوجاتی ہے.حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق آئے ہوئے تھے.لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ بلالؓ سے کہیں کہ وہ اذان دیں.ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ پھر بلالؓ کی اذان سنیں.اور ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیںوہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے.حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے کہ آپ اذان دیں آپ نے فرمایا آپ خلیفہ وقت ہیں آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دےدیتا ہوں.لیکن میراد ل برداشت نہیں کرسکتا.حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بلند آواز سے اُسی رنگ میں اذان دی جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے.بلالؓ کی آواز جونہی فضا میں گونجی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کو یاد کرکے آپؐ کے صحابہؓ جو عرب کے باشندے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں.لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے جن سے عربوں نے خدمتیں لیں.جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا وہ اذان ختم کرتے ہی بے ہوش ہوگئے اور چند منٹ کےبعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی (اسد الغابة زیر لفظ بلال بن رباحؓ).یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر غیر قوموں کی گواہی تھی کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں.یہ گواہی تھی غیرقوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے انہیں اس یقین سے بھردیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کرسکتی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کی.پھر لوگ مرتے ہیں تو اپنی تکلیف اور دکھ کی وجہ سے انہیں دوسروں کا خیال تک نہیں آتا.کیونکہ وفات کے وقت غیر معمولی تکلیف ہوتی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جس شخص کو وفات کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی.میں خیال کرتی تھی کہ وہ گنہگار ہے.مگر جب میں نے آپؐ کی وفات دیکھی تو سمجھا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ آپؐ کی نزع کی حالت نہایت تکلیف دہ تھی (بخاری کتاب المرضی باب شدة المرض).وفات کے وقت مرنے والوں کو عموماً یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام اپنے عزیزوں اور
رشتہ داروں کو سنبھال جائیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری کی وجہ سے جب ایسی حالت کو پہنچےکہ آپ ؐ کے لئے چلنا بھی مشکل ہوگیا.تو ایک دن آپ سہار ا لے کر مسجد میں آئے اور صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور فرمایا.ہر ایک انسان آخری وقت میں کوئی نہ کوئی نصیحت کرتاہے.میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ غلام تمہاری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور تمہارے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرنا اور جو شخص یہ برداشت نہ کرسکتا ہوکہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے اسے چاہیے کہ انہیں آزاد کردے لیکن جو شخص ان سے کام لینا چاہتا ہو وہ جو کچھ خود کھائے وہی انہیں کھلائے جو خود پہنے وہی انہیں پہننے کو دے.جس حالت میں وہ خود رہے اسی حالت میں انہیں بھی رکھے.اور اگرتم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا تو اسے ان سے خدمت لینے کا بھی کوئی حق نہیں پھر فرمایا.اے میرے صحابہؓ !عورت پر بہت بڑا ظلم ہوتا رہا ہے.میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ تم عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو.ہمیں انبیا ء سابقین کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ کیسے فوت ہوئے.صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ جب آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تواگرچہ وہ ان کی وفات کا وقت نہیں تھا تاہم آپ نے آنکھیں کھول لیںاور حضرت مریم کو رنجیدہ کھڑے دیکھ کر آپ نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے بیٹے کے مصلوب ہوجانے کے بعد اپنے کسی ولی اور نگران کی عدم موجودگی پر افسوس کررہی ہیں.آپ نے اپنے حواری تھومسؔ سے کہا.گو جذبات کی وجہ سے آپ اپنا فقرہ مکمل نہ کرسکے کہ اے تھومسؔ یہ ہے تمہاری ماں اور اے عورت یہ ہے تمہارا بیٹا.جس کے یہ معنے تھے کہ میں تھومسؔپر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہارا بیٹا بناتا ہوں.اور اے تھومس ؔ میں تم پر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہاری ماں بناتا ہوں.یہ بڑا نیک جذبہ ہے جو حضرت مسیح ؑ کے دل میں پیدا ہوا.مگر اس شخص کی محبت کتنی بالا ہے جو وفات کے وقت اپنے اعزاء اور اقرباء کو بھول جائے اور غریب اور مظلوم کی ہمدردی میں اپنے آخری لمحات گزاردے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اگر کسی کا خیال کیا تو وہ صرف مظلوموں ،مقہوروں متروکوں اور ان بے بس اور بے کس لوگوں کا تھا جن کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں تھا.پھر عین وفات کا وقت آتا ہے تو آپؐ کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہوتا ہے کہ خدا یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا ہے(مسلم کتاب المساجد باب النھی عن بناء المساجد علی القبور) یہود اور نصاریٰ بھی موحّد تھے مگر ان میں سےجو قبروں کو سجدہ کرتے تھے.انہیں آپؐ نے حقارت سے دیکھا اور ان سے اظہارِ نفرت فرمایا.اس فقرے کے معنے درحقیقت یہ تھے کہ اے مسلمانو! تم کسی کو رَبّ العٰلمین نہ بنانا.ربّ العٰلمین صرف خدائے واحد ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے.پھرجب موت کا وقت اور قریب آتا
ہے تو اس وقت آپؐ کی زبا ن پر جو الفاظ جاری ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَ عْلٰی اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَعْلٰی (بخاری کتاب المغازی باب اخر ما تکلم بہ صلی اللہ علیہ وسلم )بے شک آپؐ نے یہاں رفیق کا لفظ استعمال فرمایا ہے مگر اَلْاَعْلٰی کا لفظ ربّ العٰلمین کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے.گویا رفیق کہہ کر آپ نے اپنے تعلق بِاللہ کی طرف اشارہ کیا.اور اَلْاَعْلٰی کہہ کر اس کے رَبُّ العٰلَمِیْن ہونے کی طرف اشارہ کیا.غرض رَبّ الْعٰلَمِیْن کا صحیح معنوں میں تصور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی دنیا میں قائم ہوا.چنانچہ اسی امر کی طرف زیرِ تفسیر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی اپنی قوم کی ہدایت کےلئے آئے تھے اور ان پر جو کلام نازل ہوئے وہ بھی مختص القوم اور مختص الزمان تھے مگر اب یہ کلام رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خد ا کی طرف سے دنیا کی تمام قوموں ،دنیا کے تمام ملکوں اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کےلئے نازل کیا گیاہے اور پھر اس کلام کو ایک بڑی خصوصیت یہ حاصل ہے کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنَ.عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ.روح الامین اس کلام کو لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار اور بیدا ر کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائے.عیسائی اس بات کو ہمیشہ بڑے فخر کے ساتھ پیش کیاکرتے ہیں کہ مسیح پر روح القدس نازل ہوا تھا.حالانکہ قرآن کریم نہ صرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر روح القدس نازل ہوا تھا بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر روح الامین نازل ہوتا ہے روح القد س کے نازل ہونے کا وہ ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ۠ (النحل:۱۰۳) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ تُو لوگوں سے کہہ دے کہ ا س کلام کو روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق و حکمت کے ساتھ اتارا ہے.تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں وہ ایمان پر ثبات بخشے.اسی طرح یہ کلام اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کے لئے مزید ہدایت اور انہیں بشارت دینے کے لئے اس نے نازل کیا ہے.پس یہ بالکل غلط ہے کہ روح القدس کا نزول صرف حضرت مسیح ؑ کے ساتھ مخصوص تھا قرآن کریم کو بھی روح القدس ہی لے کر نازل ہوا ہے.اور پہلے نبیوں پر بھی روح القدس ہی نازل ہوتارہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن کریم یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ہر فرشتہ ہی پاک اورمعصوم ہے اور اس لحاظ سے جو فرشتہ بھی کلام لے کر نازل ہو وہ روح القدس ہی کہلاتاہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ (التحریم :۷)یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جس بات کا بھی حکم دیا جائے اس کی نافرمانی کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیںہوتی بلکہ جو کچھ انہیں کہا جائے وہی کچھ وہ عمل کرتے ہیں.پس
روح القد س کا مفہوم درحقیقت فرشتہ کے لفظ میں ہی شامل ہے.لیکن قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ آپؐ پر روح الامین نازل ہوا.یعنی وہ فرشتہ نازل ہوا جس کے ذمہ یہ بھی فرض تھا کہ وہ قرآن کریم کو صحیح وسالم صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائے گویا قرآن کریم کے دونوں حصوں کی حفاظت کا انتظام کر دیا گیا.ایک طرف تو اس کے نزول میں کسی غلطی یا نسیان کا امکان باقی نہ رہا.کیونکہ روح الامین اسے لے کر نازل ہوا اور دوسری طرف نزول کے بعد مستقل طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرما دیا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر :۱۰) یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتار ا ہے اور ہم یقیناً اس کی حفاظت کریں گے.گویا قرآن کریم کے متعلق دونوں زمانوں میں حفاظت کا انتظام کرلیا گیا.لیکن انجیل کے دونوں زمانوں کے متعلق کوئی وعدہ نہیں.نہ تو انجیل میں کوئی ایسی آیت ہے جس میںیہ ذکر ہوکہ جب انجیل کی وحی آئی تو رستہ میں اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا.یا جب تک وہ حضرت مسیح ؑ کے دماغ میں رہی اور دنیا میں نہیں پھیلی اس وقت تک اس کی حفاظت کی گئی اور نہ کوئی ایسی آیت ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ جب مسیح ؑ نے وہ وحی لکھوا دی یا سنا دی تو اس کے بعد قیامت تک خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی.پس انجیل کی حفاظت کا ثبوت خود انجیل سے کوئی نہیں ملتا.لیکن قرآن کریم کی مکمل حفاظت کا ثبوت خود قرآن کریم سے ہی ملتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےقلبِ مطہّر پر وحی الٰہی کے نازل ہونے تک بلکہ جب تک وہ وحی دنیا میں شائع نہیں ہوئی اس وقت تک کی حفاظت کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے.اور دنیا میں شائع ہوجانے کے بعد اس کی حفاظت کا ثبوت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ سے ملتا ہے.گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی الٰہی کے نازل ہونے کےوقت سے لے کر قیامت تک قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ موجود ہے جس کے مشابہ وعدہ بھی انجیل میں کوئی موجود نہیں.غرض روح الامین میں یہ بتا یا گیا ہے کہ اس کلام کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے تاکہ پہلی کتب کی طرح اس میں کوئی بگاڑ پید انہ ہو.ورنہ ہر فرشتہ اپنی ذات میں امین ہی ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب کسی صفت کا خاص طورپر ذکر کیا جائے تو اس سے مراد اس کے خاص ظہور کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے مثلاً جہاں روح القد س کا لفظ استعمال کیا جائے وہاں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہوگا کہ یہ کلام اپنے اندر قدوسیت کی صفت رکھتا ہے اور یہ صفت سب نبیوں کے الہام میں مشترک طورپر پائی جاتی ہے.لیکن امین کی صفت سے جبریلؑ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ صرف آپؐ کے کلام کی حفاظت کی گئی جب کہ پہلی الہامی کتب انسانی دست بُرد کاشکار ہوچکی ہیں.
اس کے بعد فرماتا ہے کہ روح الامین نے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا ہے یعنی روح الامین کا فرض حفاظت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وحی تیرے دل پر نازل نہ ہوجائے تاکہ اس کے نتیجہ میں تو لوگوں تک اس وحی کو عمدگی سے پہنچا دے.اس جگہ وحی الٰہی کو قلب پر نازل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح کلامِ الٰہی لفظوں میں نازل ہوتا ہے اسی طرح نبی کے دل کو بھی ساتھ ساتھ تقویت دی جاتی ہے.گویا اللہ تعالیٰ کا کلام جس شخص پر نازل ہوتا ہے اسے ایک قلبی پاکیزگی اور استقامت بھی عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ اسے دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے.پس قلب پر نازل ہونے کے یہ معنے ہیںکہ وہ صرف پیغامبر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ کلام اس کے دل کے اندر جذب ہوجاتا ہے اوروہ اس کا جزو ہوجاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ شرعی اور غیر شرعی یا ظلّی وحی میں ایک فرق ہوتا ہے او ر وہ فرق یہ ہے کہ ہر شرعی وحی نبی کے قلب پر بھی نازل ہوتی ہے.چونکہ اس وحی کی متعلق یہ حکم ہوتا ہے کہ اس پر اَنَا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ کہو.اس لئے یہ قلب پر نازل ہوتی ہے اور جوں جوں نازل ہوتی ہے وہ ایمان کو مضبوط کرتی چلی جاتی ہے.بعض لوگوں نے اس آیت سے ایک غلطی کھائی ہے.خصوصاً بہائیوں کو اس سے غلطی لگی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں آجائے وہ وحی ہوتا ہے حالانکہ قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ (القیامۃ :۱۸)کہ تو زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کر.اس کے معنے یہ ہیں کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے.اصل میں یہ دوہری وحی ہوتی ہے.یہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے اور دل پر بھی اس کا نزول ہوتا ہے.لیکن دوسروں کوجووحی ہوتی ہے وہ بروزی اور ظلی طورپر ہوتی ہے اوراس قسم کی ہروحی قلب پر نازل نہیں ہوتی.وہ بعض دفعہ کان پر نازل ہوتی ہے.مثلاً انسان ایک کلام سنتاہے.اورکہتاہے مجھے یہ الہام ہواہے.یااس کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں اوروہ کہتاہے مجھے الہام ہواہے یافلاں کلام میری زبان پر جاری ہواہے.مگرتشریعی انبیاء کی جووحی ہوتی ہے یابعض اوقات ظلی اور بروزی انبیاء کی وحی بھی صرف کان اورزبان پر ہی نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک ہی وقت میں کان یازبان اوراس کے ساتھ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین جگہ نازل ہوتی ہے.ایک تووہ زبان یاکان پر نازل ہوتی ہے.دوسرے قلب پر نازل ہوتی ہے اورتیسرے دما غ پرنازل ہوتی ہے جیسے قرآن کریم میں آتاہے کہ یہ وحی کتاب مکنون میںہے یعنی یہ وحی ایک طرف تو اس قرآ ن میں نازل کی گئی ہے.اوردوسری طرف اسے انسانی فطرت کے اندررکھ دیاگیاہے پس تشریعی انبیاء کی وحی زبان یاکان پر نازل ہونے کے علاوہ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے اور میخ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے.یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ.عَلٰى قَلْبِكَ یعنی چونکہ یہ وحی تیرے قلب پر نازل ہوتی ہے اس لئے تیرے اندر اس وحی کے متعلق غیر معمولی استقامت پائی جاتی ہے.اور تُو کہتاہے کہ اگرتم سورج کو میرے دائیں اورچاند کو میرے بائیں لاکر بھی رکھ دو.اورپھر مجھ سے کہوکہ میں خدائے واحد کی توحید کی اشاعت کرنے سے رک جائو ں تومیں ایسانہیں کروں گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحی میرے دل پر نازل ہوئی ہے.اگر وہ میرے قلب پر نازل نہ ہوتی تومیں تمہاری باتوں کو بھی سنتا لیکن ا ب یہ سوال ہی باقی نہیں رہا کہ میں تمہاری بات سنوں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دل پر اپنی وحی نازل کی ہے اور میرے دل میں آہنی میخ کی طرح توحید کاعقیدہ راسخ کردیاہے.بہرحال جیساکہ میں نے بتایاہے بعض لوگوں نے اس آیت سے دھوکہ کھایاہے اوروہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں پیداہو وہ وحی ہوتاہے.حالانکہ وحی زبان اورکان پر بھی نازل ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ہی اس کا قلب پر بھی نزول ہوتاہے تاکہ اس کی تائید ہوجائے.لیکن بہاء اللہ ایک طرف تو اقرارکرتے تھے کہ مجھے لفظی وحی نہیںہوتی اوردوسری طرف ان کے دل میں جوخیالات بھی پیداہوں ان کو وہ الہام قرار دےدیتے تھے.یہی کیفیت گاندی جی کی تھی.وہ بھی بعض دفعہ اپنے خیالات کانام الہام رکھ لیاکرتے تھے.لیکن اس جگہ جس وحی کا ذکر ہے اس میں مقررہ الفاظ ہوتے ہیں جوتکرار کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں اورزبان یاکان کے علاوہ انسانی قلب پر بھی جاری ہوتے ہیں اوران میں اس قدر تکرار ہوتاہے کہ بعض دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ تک ایک ایک فقرہ کو دہرایاجاتاہے.پھر اگر قرآن کریم میں صرف یہی آیت ہوتی کہ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ.عَلٰى قَلْبِكَ توہمیں دھوکہ لگ سکتا تھا کہ شاید اس میں دل کے خیالات کو ہی وحی قراردیاگیاہے لیکن اس کے علاوہ بعض اورآیات بھی قرآن کریم میں آتی ہیں جن سے صراحتاً معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اورآپؐ کے کان پر بھی وحی نازل ہوتی تھی اوروہ وحی معیّن الفاظ میں ہوتی تھی.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ.اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ.فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ(القیامۃ :۱۷ تا ۱۹) یعنی اے محمدؐرسول اللہ ! تُو اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیاکر.اس قرآن کو جمع کر نا بھی ہمارے ذمہ ہے اوراس کا دنیا کو سنانا بھی ہماراکام ہے.پس جب ہم اسے پڑھ لیا کریں تواس کے بعد تُو بھی اسے پڑھ لیاکر.یہ آیت بتاتی ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی بڑی سرعت سے نازل ہوتی تھی اس لئے آپؐ جلدی جلدی اس کلام کو اپنی زبان سے دہرانے لگتے تھے تاکہ ان الفاظ پر قابو پاسکیں اوروہ آپؐ کے دما غ میں پوری طرح محفوظ رہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کوتسلی دی کہ ایساکرنے کی ضرورت
نہیں آپ پر جو کلام نازل کیا جارہاہے.یہ شریعتِ الٰہیہ کاحامل ہے اورشرعی الہام بھولانہیں کرتا.کیونکہ اگر وہ بھول جائے تو وحی متلوّ ہی ادھو ری رہ جائے.ہاں ہم یہ کلام پڑھ لیا کریں تواس کے بعد توبھی اسے پڑھ لیا کر.یہ آیت اس امر پر نصّ صریح ہے کہ قرآن کریم صر ف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہّر پر ہی نازل نہیں ہوتاتھا بلکہ وہ التزاماً آپ کو پڑھایابھی جاتاتھا اورپڑھایااسی صورت میں جاسکتاہے جب کہ وہ آپؐ پر معین الفاظ میں نازل ہوتا.اسی طرح قرآن کریم صراحتاً اس کلام کو کلام اللہ قرار دیتاہے جس سے نہ صرف اس وسوسہ کو دور کیاگیا ہے کہ نعوذ باللہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیالات پیدا ہوتے تھے انہی کو آپؐ وحی الٰہی قرار دےدیتے تھے.بلکہ کلام اللہ کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشار ہ کیاگیاہے کہ اس کتاب میں شروع سے لے کر آخر تک جو کچھ لکھا ہے یہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کاکلام ہے.اس میں کسی کے دل کے خیالا ت کا تو کیا ذکر ہے کوئی ایک لفظ بھی ایسانہیں جو کسی ا نسان کا بنایا ہواہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ(التوبۃ :۶)یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص پناہ مانگے.توتُواسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اورجو ساری کی ساری کلام اللہ ہے.پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن لے اورچاہے کہ اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس چلا جائے توچاہیے کہ اسے پو ری حفاظت کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچا دیاجائے جواس کےلئے امن کا مقام ہے.اسی طرح قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.(العلق:۲.۳)یعنی اے محمد ؐرسول اللہ! تواپنے رب کانام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیدا کیاہے.تُواپنے اس رب کانام لے کر پڑھ جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیاہے.یہ بھی بتاتاہے کہ قرآنی آیات معین الفاظ میں آپؐ پر نازل ہوتی تھیں جن کی آپ پو ری طرح تلاوت فرماسکتے تھے.پھر قرآن کریم کابار بار یہ فرماناکہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یا قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ یاقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ یا قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ یہ سب آیات وحیٔ الفاظ پر دلالت کرتی ہیں.اسی طرح حدیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بعض اوقات مجھ پر وحی صلصلۃ الجرس کی طرح آتی ہے اور صلصلۃ الجرس یعنی گھنٹی کی آواز کو کان کے ذریعہ سناجاتاہے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں وَاَحْیَانًایَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًافَیُکَلِّمُنِیْ فَاَعِی مایقُوْلُ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی)یعنی کبھی اللہ تعالیٰ کافرشتہ آدمی کی شکل میں متمثّل ہوکر میرے پاس آجاتاہے اوروہ مجھ سے کلام کرتاہے جسے میں اپنے دما غ میں محفوظ رکھ
لیتاہوں.اس سے معلوم ہوتاہے کہ وحی زبان اورکان اورآنکھوں پر بھی نازل ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا دل پر بھی نزول ہوتاہے.جس کی وجہ سے وہ شخص جس پر وحی نازل ہوتی ہے سب سے بڑامومن ہو جاتاہے کیونکہ اس کے کانوں اورزبان کے ساتھ ساتھ اس کے دل پر بھی وحی کا نزول ہوتاہے.اور چونکہ سارے عقائد اورخیالات دل سے ہی پیدا ہوتے ہیں اس لئے اگر دل پر وحی نازل ہوگئی تو یہ ساری چیز یں آپ ہی آپ درست ہوجاتی ہیں.غرض وحی کے کئی مراتب ہوتے ہیں.انبیائے تشریعی کی وحی اَوردرجہ کی ہوتی ہے اورانبیائے بروزی اورظلّی کی وحی اَور درجہ کی ہوتی ہے انبیائے بروزی اورظلّی وحی کو بھی بھول سکتے ہیں.انبیائے تشریعی شرعی وحی کو نہیں بھولتے.کیونکہ اگرشریعت ہی بھول جائے توا ن کی امت تباہ ہوجائے.اسی طرح انبیائے بروزی اورظلّی کی ایسی وحی بھی جو کسی پہلی وحی کی تفصیل بیان کرنے یا کسی خاص نکتہ معرفت کے بیان کرنے کے لئے آتی ہے وہ بھی نہیں بھولتی کیونکہ اس کے لئے بھی وہی قانون جاری ہے جوشرعی وحی کے لئے ہے اوراس کی بھی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے.اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ عام وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہوتی ہے مثلا اگر یہ وحی ہو کہ فلاں شخص مر جائے گا یا طاعون آجائے گی تو اس وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہو تی ہےکیونکہ اگر وہ اخبار غیبیہ جن پر خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اطلاع دیتاہے ساری کی ساری بھول جائیں تووہ لوگوںکو سنائی کیسے جاسکیں.لیکن بہرحال اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوتاجو تشریعی وحی کو حاصل ہوتاہے کہ اس کے ایک ایک لفظ اورایک ایک شعشہ کی حفاظت ہوتی ہے.پھر فرماتا ہے بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ اسے خدا تعالیٰ نے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مطالب کو خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے.درحقیقت کسی کلام کی حفاظت کا ایک یہ بھی پہلوہوتاہے کہ جوکلام نازل ہو اس کو سمجھنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے قرآن کریم کو حفاظت کے اس پہلو سے بھی نوازاہے اوراسے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مضمون کو آپ واضح کرتی ہے اورپھر وہ ہرقسم کے دلائل بھی اپنے اند ررکھتی ہے.مفرداتؔ راغب جو قرآنی لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں اَلْعَرَبِیُّ کے معنے اَلْمُفْصِحُ کے لکھے ہیں یعنی اپنے مدعاکو خوب صفائی اوروضاحت کے ساتھ بیان کرنے والا اوراَلْاِعْرَابُ کے معنے کھولنے اورواضح کرنے کے لکھے ہیں.پس بِلِسَانٍ عَرَبِیٍٍّّ میں تو یہ بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپناآخری شرعی کلام اس زبان میں نازل فرمایا ہے جومطالب کے اظہار کے لئے اپنے اندر پوراسامان رکھتی ہے اورہرمسئلہ پوری وضاحت اورتفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے او ر مُبین میں یہ بتایاکہ وہ صرف مقاصد کے اظہار پر ہی قدرت نہیں رکھتی بلکہ اپنے ساتھ دلائل
اوربراہین کابھی ذخیرہ رکھتی ہے.گویا قرآن کریم کا صرف عربی زبان میں ہونا معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عَرَبیٌّ مُبِیْنٌ ہونے میں معجزہ ہے.یعنی اس کی ایسی زبان ہے کہ اس کے اندر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اوربتایاگیاہے کہ ہم کیوں حکم دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کوکیوں منواتے ہیں فرشتوںکو کیوں منواتے ہیں.رسولوں کو کیوں منواتے ہیں.جھوٹ سے کیوں منع کرتے ہیں.سچ کی کیوں تائید کرتے ہیں ظلم سے کیوںروکتے ہیں.انصاف کی کیوں تائید کرتے ہیں.غرض یہ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن میں ہے اوراپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتاہے.جھوٹاآدمی بات تو کہہ دے گا مگر اس کی دلیل کہاں سے لائے گا.مگریہ کلام تو ایسی زبان میں نازل ہواہے جوعر بی ہی نہیں بلکہ مبین بھی ہے.یعنی جوبات بھی کہتی ہے اس کو کھول کر رکھ دیتی ہے اوراس کی معقولیت کےدلائل بھی دیتی ہے.پھر فرمایا وَ اِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ.قرآن کریم کو ایک اور فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے.اوران میں صراحتاً اس کے نزول کی خبر دی گئی ہے.بلکہ یہ بھی بتایاگیاہے کہ وہ کلام دنیا کوایک عربی نبی کی زبان سے سنایاجائے گا.چنانچہ مثال کے طور پر اس کے ثبوت میں یسعیاہ نبی کی ایک پیشگوئی کا ذکر کیا جاتا ہے.وہ اپنی کتاب کے اٹھائیسویں باب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.’’ وہ کس کو دانش سکھائے گا.کس کو وعظ کرکے سمجھائے گا.ان کو جن کا دودھ چھڑایاگیا جو چھاتیوں سے جداکئے گئے کیونکہ حکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون ہوتا جاتا.تھوڑا یہاں تھوڑاوہاں.وہ وحشی کے سے ہونٹوں اوراجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے ان سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے.تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیئو.اوریہ چین کی حالت ہے.پر وَے شنوانہ ہوئے.سوخدا کاکلام ان سے یہ ہو گاحکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون.تھوڑایہاں تھوڑاوہاں.تاکہ وَے چلے جاویں اورپچھاڑی گریں اور شکست کھا ئیں اور دام میں پھنسیں اورگرفتار وہویں.‘‘ (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹تا ۱۳) یسعیاہ نبی نے اس کلام میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ پھر لوگوں کی روحانی تشنگی اوربھوک کودور کرنے کے لئے آسمان سے اپنادودھ نازل فرمائے گا.مگر یہ دودھ اس قوم کو پلایاجائے گا جس کے افراد ایک لمبے عرصہ سے چھاتیوں سے جدارہ چکے ہوں گے.یعنی جن پر فترت کا ایک لمبا زمانہ آچکا ہوگا.اوراس کلام کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ یکدم نازل نہیں ہوگا اورنہ کسی ایک شہر اورمقام میں نازل ہوگا.بلکہ قانون پر قانون اورحکم پر
حکم مختلف مقامات میں نازل ہوگااورایک لمبے زمانہ میں اس الٰہی قانون کی تکمیل ہوگی.پھر اس کلام کاایک اَوروصف یہ ہوگا کہ وہ ایک اجنبی یعنی غیر زبان میں نازل ہوگا.اورآنے والا مقدس رسول وحشی کے سے ہونٹوں کے ساتھ گفتگو کرے گا.یہ وحشی کا لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی نبی ہونے کی طرف اشارہ کررہاہے کیونکہ بائیبل کی اصطلاح میں عربوں کے لئے وحشی کالفظ استعمال ہوتاہے.اسی بناء پر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی ’’وحشی ‘‘قرار دیاگیاہے.درحقیقت یہ لفظ اس تعصّب کے اظہار کے لئے بنواسرائیل نے اختیار کیاتھا جوان کے دلوں میں بنو اسماعیل کے متعلق پایا جاتا ہے.اگر وہ تعصب کا شکار نہ ہوتے توآسانی سے وہ عرب کالفاظ استعمال کرسکتے تھے.مگر انہوں نے اس لفظ کو اختیار کرنے کی بجائے پہلے اس کا ترجمہ کیا اورپھر ترجمہ کے لئے بھی وحشی کالفظ اختیار کرلیا.اس لفظ کا انتخاب اس بناء پر کیا گیا کہ عربی زبان میں ع ر ب کے معنے اپنے مافی الضمیرکوپوری عمدگی کے ساتھ بیان کرنے کے ہوتے ہیں اورعربوں کانام عرب بھی اسی لئے رکھا گیاتھا کہ وہ ادب کے دلدادہ اورنہایت فصیح و بلیغ کلام کرنے کے عادی تھے.مگرچونکہ وہ جنگلوں میں رہتے تھے اورخیموں میں ان کی زندگی کٹتی تھی ان کے مخالف انہیں خیموں اورجنگلوں میں رہنے والا کہنے کی بجائے وحشی کہنے لگ گئے.اوربائیبل نے بھی یہی طریق اختیارکیا.اسی وجہ سے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ’’وحشی کے سے ہونٹوںسے کلام کرے گا ‘‘ یعنی وہ عرب میں مبعوث ہو گا.اورعربی میںاس پر کلام الٰہی نازل ہوگا.چنانچہ اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے پہلےبِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ کے الفاظ لائے گئے ہیں اورپھر کہا گیاہے کہ تمہیں اس کلام کے قبول کرنے میں کسی قسم کے تردّد اورہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ تمہارے اپنے نبیوں کی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں(اس بار ہ میں تفصیلات کے شائق تفسیر کبیرسورئہ بقرہ آیت ۴۳ملاحظہ فرمائیں جہاں بائیبل کی ان پیشگوئیوں کاتفصیلی ذکرموجود ہے ).پھر فرمایا.اَوَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ.کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس قرآن کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہچانتے ہیں.یعنی بنی اسرائیل کے انبیاء نے جب اس قرآن کی خبر دی ہے.اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے گذر چکے تھے اوران کی بتائی ہوئی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم پر پوری اتر آئی ہیں توکیا قرآن کریم کے ما ننے کے لئے یہ نشان کافی نہیں.اس آیت سے ایک اورمسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے.اوروہ یہ کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ یعنی قرآن کریم کاپہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے.اورکتابیں ہمیشہ نبیوں پر ہی نازل
ہواکرتی ہیں.اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس کوجانتے ہیں.پس سیاقِ کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ علماء سے وہی لوگ مراد ہیں.جن پر زُبر نازل ہوئیں اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ (مکتوب امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم ص ۳۳مکتوب نمبر ۲۳۴)اس لئے ہم اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کاصرف یہی مفہوم ہے کہ اَنْبِیَآءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ یعنی جس قسم کے نبی بنی اسرائیل میں گذرے ہیں ویسے ہی نبی میری امت میں بھی آئیں گے.اس کے یہ معنے نہیں کہ صاحب شریعت نبی میری امت میں آسکتے ہیں.کیونکہ مشابہت کبھی تمام اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی چند ٍاجزاء پر.چونکہ قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا ذکر پہلے آچکا ہے اس لئے قرآن کریم کے بعد کسی نئی شریعت کا آنا توناممکن ہے.پس ایسے ہی انبیاء آسکتے ہیں جوبغیر شریعت کے ہوں اورحدیث بتاتی ہے کہ اس قسم کے انبیاء کا آنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرمایا ہے.ان آیات پر غور کرکے ہر شخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی صداقت اوراس کی عظمت اوراس کی ضرور ت پر کیساکامل اورلطیف مضمون بیان کیاگیا ہے.ان آیات میں بتایاگیا ہے کہ (۱)یہ وہ کتاب ہے جو خدا نے اتاری ہے.(۲)یہ وہ کتا ب ہے جو جبریل لایاہے.(۳)یہ وہ کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاک اورمقدس انسان کے دل پر اتاری گئی ہے.(۴) یہ وہ کتاب ہے جس کی غرض گمراہوں کو ہوشیا رکرنا اوران کو آئندہ زندگی میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا ہے (۵)یہ وہ کتاب ہے جس کا ذریعہ بیان عربی مبین ہے.(۶)یہ وہ کتاب ہے جس کی خبر پہلی کتب میں بھی موجود ہے.یایہ کہ اصولی تعلیم میں اس کی پہلی کتب کے ساتھ مشابہت ہے اس لئے اس کاانکار درحقیقت تمام مذاہب اور رسولوں کا انکارہے.اوراس پر ایما ن لانا انسان کو مجموعی طورپر ان تمام برکات اورانوارسے مستفیض کرتا ہے جن انوار اوربرکات سے انفرادی طور پر پہلے صرف ایک ایک قوم مستفیض ہواکرتی تھی بلکہ ذوق ایمان رکھنے والے کے لئے تو صرف یہی ایک نشان کافی ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل بھی اپنی پیشگوئیوں میں ذکر کرتے رہے ہیں.پھر اگر اتنے بڑے شواہد کی موجود گی میں بھی کوئی شخص اس کا انکار کرتاہے توسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ اس کی آنکھیں روحانی بینائی سے محروم ہوچکی ہیں.
وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَۙ۰۰۱۹۹فَقَرَاَهٗ عَلَيْهِمْ مَّا اوراگر ہم اس کو عجمیوں میں سے کسی پر اتارتے.اوروہ اس کو اِن (کفار )کے سامنے پڑھ کر سناتا تو كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِيْنَ۰۰۲۰۰كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ وہ کبھی بھی اس پر ایمان نہ لاتے.اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلو ں میں یہ (بات)داخل کرچھوڑی ہے.الْمُجْرِمِيْنَؕ۰۰۲۰۱لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ (پس )وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں.پس وہ (عذاب) الْاَلِيْمَۙ۰۰۲۰۲فَيَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَۙ۰۰۲۰۳ ان کی لاعلمی میں ان کے پاس اچانک آجائے گا.تب وہ کہیں گے کیا ہمیں ڈھیل مل سکے گی.سو(بتائو فَيَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَؕ۰۰۲۰۴اَفَبِعَذَابِنَا۠ کہ)کیایہی لو گ ہمارے عذاب کو جلدی مانگاکرتے تھے.پس کیا تجھے یقین نہیں ہے کہ اگر ہم ان کو يَسْتَعْجِلُوْنَ۠۰۰۲۰۵اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِيْنَۙ۰۰۲۰۶ سالوں تک فائدہ پہنچاتے جاتے.پھر ان کے پاس وہ (عذاب)آجاتا جس کاان سے وعدہ کیاجاتا ہے.ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَۙ۰۰۲۰۷مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا توجو کچھ بھی ان کو دیاگیاہے وہ ان سے اس (عذاب)کوٹلانہیں سکتاتھا.اورہم نے کسی بستی کو بغیر كَانُوْا يُمَتَّعُوْنَؕ۰۰۲۰۸وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا لَهَا اس کے کہ اس کی طرف نبی بھیجے ہوں ہلاک نہیں کیا.یہ اس لئے کیا گیا
مُنْذِرُوْنَ۰۰۲۰۹ذِكْرٰى ١ۛ۫ وَ مَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۰۰۲۱۰ کہ ان کو نصیحت پہنچ جائے.اورہم ظالم نہیں.حلّ لُغَات.اَلْاَعْجَمِیْنَ.أَلْاَعْجَمِیْنَ اَلْاَعْجَمُ کی جمع ہے.اوراَلْاَعْجَمُ کے معنے ہیں مَنْ لَا یُفْصِحُ وَلَایُبَیِّنُ کَلَامَہٗ وَاِنْ کانَ مِنَ الْعَرَبِ.وہ شخص جو اپنے مافی الضمیر کو عربی زبان میں پوری طرح کھول کر ادانہیں کرسکتا خواہ وہ شخص عرب کے علاقہ کاہو اورعربی جانتاہو.اسی طرح اَلْاَعْجَمُ کے معنے ہیں مَنْ لَیْسَ بَعَرَبِیٍّ وَاِنْ اَفْصَحَ بِالْعَجَمِیَّۃِ.وہ شخص جو عرب کے علاقہ کانہ ہو اورخواہ وہ اپنی زبان خوب فصاحت سے بولتاہو لیکن اس کو بھی اعجم ہی کہیں گے (اقرب) سَلَکْنٰہُ.سَلَکْنٰہُ سَلَکَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اور سَلَکَ الشَّیءَ فِی الشَّیءِ کے معنے ہیں اَدْخَلَہٗ فِیْہِ.کسی چیز کو کسی چیز میں داخل کیا.کَمَا تُسْلَکُ الیَدُ فِی الْجَیْبِ وَالْخَیْطُ فِیْ الْاِبْرَۃِ.جیسے ہاتھ جیب میں داخل کیا جاتا ہے یادھاگہ سوئی میں.(اقرب)پس سَلَکْنٰہُ کے معنے ہوں گے ہم نے اس کو داخل کیا.مُنْظَرُوْنَ.مُنْظَرُوْنَ مُنْظَرٌ کی جمع ہے جو اَنْظَرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے.اور اَنْظَرَہٗ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ اس کو مہلت دی (اقرب)پس مُنْظَرُوْنَ کے معنے ہوں گے مہلت دیئے ہوئے.تفسیر.اب فرماتا ہے کہ اگر ہم اس کلام کوکسی ا عجمی پر نازل کرتے اوروہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتاتویہ لو گ اس پر کبھی ایمان نہ لاتے.لغت عرب کے لحاظ سے اَعْجَم اس شخص کو کہتے ہیں جس کاکلام فصیح نہ ہو اوراپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح واضح نہ کرسکے.خواہ وہ شخص عرب ہی کیوں نہ ہو اوراعجم کا لفظ ایسے شخص کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جوعربی نہ ہو.خواہ عجمی زبان میں وہ بڑا فصیح ہو (اقرب) اس میں بتایاکہ اگر کلام کاحامل کو ئی غیر عربی شخص ہوتاتو یہ لوگ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک غیر قوم کا آدمی ہے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہم کو دھوکادے رہاہے یا نہیں دے رہا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اپنی قوم کے آدمی ہیں اوریہ لو گ آپؐ کے حالات کو خوب جانتے ہیں.پھر یہ کیوں فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا.جس نے ساری عمر انسانوں پر جھوٹ نہیں بولاوہ خدا پر کس طرح جھوٹ بول سکتاہے.اسی لئے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرمایاکہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس ع ۲)یعنی اے لوگو ! میں اپنی
زندگی کا ایک بیشترحصہ تم میں گذار چکاہوں کیااس کو دیکھتے ہوئے تم پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے اوریہ نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کی راستبازی اوردیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو وہ اب صداقت کے خلاف اتنا بڑا قدم کس طرح اٹھاسکتاہے کہ خدا تعالیٰ پر افتراکرنے لگ جائے.زیر تفسیر آیت میں بھی اسی نکتہ کی طرف کفار کو توجہ دلائی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود عربوںمیں سے ہیں اورہیں بھی مکہ کے رہنے والے.اگر انہوںنے کسی غیر ملک میں زندگی بسر کی ہوتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ گویہ شخص ہماری قوم کاہے مگررہاباہر ہے.اس لئے ہم اس کے حالات کو نہیں جانتے.اوریقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص سچاہے یاجھوٹا.لیکن اب توتمہارے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں.کیونکہ ایک تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تمہاری قوم میں سے آئے ہیں اور دوسرے انہوںنے اپنے بچپن اور جوانی کی عمر تم میں گذاری ہے اور تم لوگ ان کے اخلاق سے اچھی طرح واقف ہو.اور تم خود اس بات کے گواہ ہو کہ اس نے صداقت کے خلاف کبھی کو ئی قدم نہیں اٹھایا.بلکہ اس کی صداقت اوردیانت کایہ عالم ہے کہ تم لوگ اسے اپنی قوم کا سب سے بڑاراستباز اوردیانتدار انسان قراردیتے رہے ہو.ایسے حالات میں تم اس کو کس طرح جھوٹا قرار دے سکتے ہو.جبکہ اس کی صداقت کے خارجی ثبو ت بھی موجود ہیں اورپرانے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی اس پر صادق آرہی ہیں.مگرچونکہ ان تمام شواہدکو نظرانداز کرتے ہوئے اہل عرب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاناتھا اس لئے فرمایا.كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ.لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا انکار بتارہاہے کہ یہ صرف پہلی امتوںکے نقش قد م پر چل رہے ہیں.پہلی اُمتوں نے بھی موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اورنوح ؑ اورہود ؑ اورصالح ؑ اورلوط ؑ اورشعیبؑ کے نشانات دیکھنے کے باوجود اپنے نبیوںکاانکار کیاتھا.اسی طرح یہ لوگ کررہے ہیں.اوراس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ خدائی عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے.پھر بتایاکہ وہ عذاب توآکر رہے گا مگر فَيَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ وہ اچانک آئے گاجیسا کہ قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آرہی ہے اوراسی طرح پوشیدہ بڑھتے ہوئے آئے گا کہ ان کو پتہ نہیں لگے گا.چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کا واقعہ ایسا اچانک ہواکہ ابو سفیان جیسا جہاندیدہ سردار بھی حیران رہ گیا اور جب ا س نے مکہ کے اردگرد رات کی تاریکی میں دس ہزار سپاہیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے دیکھے توگھبراکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگاکہ یہ کیاہے کیا آسمان سے اچانک کو ئی لشکر اترآیاہے.کیونکہ عرب کی کسی قوم کااتنا بڑالشکر نہیں ہوسکتا.اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لینے شروع کردیئے کہ شاید فلاں ہومگر ابوسفیان ان کی ہربات کو ردّ کرتاچلا گیا اور کہنے لگا
نہیں نہیں عرب کی کسی قوم کا لشکر بھی اتنا بڑا نہیں.ابھی وہ یہ باتیں ہی کررہے تھے کہ اسلامی گار د جو پہرہ پر مقرر تھی پہنچ گئی اورانہوں نے ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا(بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی صلی اللہ علیہ وسلم الرایة یوم الفتح).پھر دیکھو کس طرح قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس عذاب کو دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے جبکہ پہلے نبیوںکی قوموں میں سے اکثر ان پرا یمان نہیں لائے اوراس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے عزیز اورحیم ہونے کا ثبوت دےدیا.پھر فرماتا ہے.فَيَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ.اَفَبِعَذَابِنَا۠ يَسْتَعْجِلُوْنَ.اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِيْنَ.ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ.مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَتَّعُوْنَ.یہ لوگ اپنی مجالس میں عذاب آنے میں دیر لگنے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ شاید ہماراحال پہلی امتوں جیسانہیںہوگا.شاید ہم کو ڈھیل دی جائے گی اورعذاب جلدی نہیں آئے گا.فرمایا.اس کے معنے تویہ ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہنسی اور تمسخر سے ہمارے غضب کو بھڑکاناچاہتے ہیں اورعذاب بہت جلدی لاناچاہتے ہیں.لیکن یہ اتنا توسوچیں کہ اگر ہم کچھ مد ت تک ان پر عذاب نہ بھی لائیں اوراس کے بعد ان پر عذاب آجائے توعذاب کے وقفہ کادرمیانی عرصہ ان کو کیافائدہ پہنچا سکتاہے.فائدہ توانہیں ہدایت سے ہی پہنچ سکتاہے مگر وہ ہدایت اختیار کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کررہے.پھر فرماتا ہے.وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ.ذِكْرٰى ١ۛ۫ وَ مَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ.ان لوگوںکو اتنا توسوچنا چاہئے کہ کیا کبھی ایساہواکہ ہم نے کسی بستی کو اتمام حجت کے بغیر ہلاک کردیاہو.ہرقوم پر جب بھی عذاب آیاتاریخی شہاد ت موجود ہے کہ اس سے پہلے ایک نبی آیا جس کی بڑی غرض یہی تھی کہ انہیں سمجھائے اوربدیوں سے باز رہنے کی نصیحت کرے.اگر بغیر اس انذار کے ہم ان لوگوں پر عذاب نازل کردیتے.توہم لوگوں کی نگاہ میں ظالم ٹھہرتے مگرہم ایسے نہیں ہیں.اورہم بغیر ہوشیار کرنے کے کسی قوم کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کیاکرتے.پس ان لوگوںکو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ان کی طرف ایک ہوشیا رکرنے والا انسان آگیاہے تواس کے انکار پر عذاب بھی ضرور آئے گا کیونکہ جس طرح ڈرانے والے کے بغیر عذاب نہیں آتا اسی طرح ڈرانے والے کے بعد اس کے انکار پر ضرورعذاب آتاہے کیونکہ اگر اس وقت عذاب نہ آئے توڈرانے والا جھوٹاقرا رپاتاہے.ذِکْرٰیکہہ کر بتایاکہ ڈرانے والے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ لو گ نصیحت حاصل کریں.یہ غرض نہیں ہوتی کہ لوگ تباہ ہوجائیں اسی لئے ڈرانے والے کے بعد بھی عذاب میں ڈھیل دی جاتی ہے.تاکہ جو لو گ ایمان لا سکتے ہوں وہ ایمان لے آئیں.اگر کسی نبی کی بعثت کے معاً بعد عذاب آجائے تونصیحت حاصل کرنے کاکوئی موقع نہیں رہتا.
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ۰۰۲۱۱وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لَهُمْ وَ مَا اورشیطان اس (قرآن )کولے کرنہیں اُترے.اورنہ یہ کام ان کے مطابق حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ؕ۰۰۲۱۲اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۠ؕ۰۰۲۱۳ رکھتے تھے.وہ یقینا(کلام الٰہی کے )سننے سے دور رکھے گئے ہیں.پس تُو اللہ(تعالیٰ)کے ساتھ کسی اَورکو فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ۠ۚ۰۰۲۱۴ معبود نہ پکار.ورنہ تُومبتلائے عذاب لوگوں میں سے ہوجائے گا.تفسیر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ایک اعتراض کی تردید فرمائی ہے.ان کا اعتراض یہ تھا کہ اس شخص کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اوراس کی طرف سے اس پر کلام نازل ہوتاہے.چنانچہ گوقرآن کریم نے ان کے اس اعتراض کو الفاظ کی شکل میں نقل نہیں کیا.لیکن اس اعتراض کی طرف قرآن کریم کے مختلف مقامات میں اشارات ضرو ر پائے جاتے ہیں.مثلا ً اللہ تعالیٰ سورئہ تکویر میں فرماتا ہے وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(التکویر :۲۶) یعنی اس رسول پر نازل ہونے والا کلام کسی دھتکارے ہوئے شیطان کا قول نہیں ہے.اسی طرح زیر تفسیر آیات میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ.شیطانوںنے اس کلام کونہیں اُتارا.اس سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے.افسوس ہے کہ بعض مسلمان مفسرین نے اس قول کو اَوربھی پکّاکردیا اورکفار کے ہاتھوں میں انہوں نے ایک خطر ناک ہتھیار دےدیا اوروہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورانہوں نے کہا کہ آپؐ کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں.اگرآپؐ دین میں کچھ نرمی کردیں توہم لوگ بھی آپ کے پاس آکر بیٹھا کریں.اس طرح دوسرے لوگ بھی آ پؐ کے پاس آنے لگیں گے.اتنے میں آپ نماز پڑھنے لگے جب آپؐ نے یہ آیت پڑھی کہ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى.وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى(النجم:۲۰.۲۱)کہ تم بھی ذرالات او رعزّٰی کاحال سنائو اور تیسرے مناۃ کابھی جو ان کے علاوہ ہے.توشیطان نے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیئے کہ تِلکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی.یعنی یہ لمبی گردنیں رکھنے والے بت بڑی اعلیٰ شان کے مالک ہیں اور ان کی
شفاعت کی یقینی طورپرامید کی جاسکتی ہے.کفار نے یہ بات سنی تووہ بڑے خوش ہوئے.چنانچہ جب آپؐ نے سورۃ ختم کی اورسجدہ کیا توسب کفار نے بھی آ پ کے ساتھ سجدہ کردیا.کیونکہ انہوںنے سمجھا کہ آپؐ نے دین میں نرمی کردی ہے (فتح البیان قولہ تعالیٰ وما ارسلنا من قبلک من رسول...).اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیاگیاہے کہ ابن حجر ؒ جیسے آدمی بھی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے.میں اس وقت اس کی تاویل میں نہیں پڑتاکیونکہ اس پر تفصیلی بحث سورئہ حج میں گذر چکی ہے.میں صرف یہ بتاناچاہتاہوں کہ کیا واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایساہوا.مجھے قاضی عیاض کایہ قول بے انتہا پسند ہے کہ بعض محدثین کی قلم سے شیطان نے یہ حدیث لکھوادی ہے.گویا اگر شیطان کا تسلط تسلیم ہی کرناہے تو کیوںنہ اس کا تسلط محدثین پر تسلیم کرلیاجائے.یہ توقاضی عیاض کا جواب ہے.قرآنی جواب یہ ہے کہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجیٰ کافقرہ جہاں جہاں بیان کیا جاتا ہے.اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے کہ اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى.تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى.اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ( النجم :۲۲ تا ۲۴)یعنی کیاتمہیں تو اپنے لئے بیٹے پسند ہیں اورخدا تعالیٰ کے لئے تم لڑکیاں تجویز کررہے ہو.یہ تقسیم تو نہایت ہی ناقص اورظالمانہ تقسیم ہے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان بتوں کی تائید کے لئے کوئی دلیل نازل نہیں کی.اب بتائو کہ کیا اس فرضی کلام کے بعد جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کوئی شخص ان آیتوں کو سن کر یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے اوراس پر کوئی بیوقوف سے بیوقو ف مشرک بھی سجدہ کرسکتاتھا.پس یہ آیات ہی بتارہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے جو بتوں کی تعریف میں بیان کئے جاتے ہیں.آخر کفار عربی توجانتے تھے.کیا وہ اتنابھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس سورۃ کے تولفظ لفظ میں شرک کی مذمت کی گئی ہے پھر یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ آپؐ نے اپنے دینی عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے.یہی مضمون زیر تفسیر آیات میں بیان کیاگیاہے.اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کا یہ الزام کہ اس شخص پر شیطان کلام نازل کرتاہے درست نہیں کیونکہ (الف)اس شخص کا اپنا چال چلن ایسااعلیٰ اورپاکیزہ ہے کہ ایسے آدمیوں کا شیطان سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا.( ب) پھر جو تعلیم اس پر نازل ہوئی ہے وہ ایسی مطہر اورپاک ہے کہ ناپاک شیطان اس تعلیم کو اتار ہی نہیں سکتا.آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ شیطان خو د اپنے خلاف تعلیم اتارے.پھر جبکہ اس کلام میں شیطان کے خلاف تعلیم ہے.تویہ کلام اس کی طرف سے کیسے نازل ہو سکتا ہے.(ج) اس کتاب میں آسمانی علوم
ہیں اوراس میںشیطانی کلام کا اس قد ر ردّ ہے کہ اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا بھی چاہیں تونہیں ملا سکتے کیونکہ کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی اورپھر وہ آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے کیونکہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ خدا تعالیٰ نے انہیں آسمان کی باتیں سننے سے محروم کیا ہواہے گویا آسمان پر جاکر باتیں سننا تو الگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی طاقت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی مگر عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیطان آسمان پر جاتاہے اوروہ ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کی باتوں کو سن کر زمین پر آجاتاہے اورپھر وہ اپنے چیلے چانٹوں کو وہ خبریں بتاتاپھر تاہے.حالانکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ شیطان آسمانی کلام سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتا.خداتو خداہے.اس دنیا کے معمولی معمولی بادشاہوں کے پاس پھٹکنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہیں ہوتی اوروہ ان کے قریب جانے سے لرزتے اورگھبراتے ہیں.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ زمین و آسمان کے خداکے راز شیطان اُچک کر لے آئے.اور وہ انہیں بگاڑ کر دنیا میں پھیلا نا شروع کردے.غرض قرآن کریم کفار کے اس الزام کی تردید کرتاہے اوربتاتاہے کہ شیاطین نے اس کلام کو نازل نہیں کیا اوریہ کام نہ ان کے مناسب حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے.یعنی قرآن کریم میں تو وہ وہ نصیحتیں ہیں جو شیطانی تعلیموں کے بالکل خلاف ہیں.پھر یہ کس طرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم نازل کردی.یہ دلیل حضرت مسیح ؑ نے بھی انجیل میں استعمال کی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ :.’’ پھر وہ ایک گونگی بدروح کو نکال رہاتھا.اورجب وہ بدروح نکل گئی توایساہواکہ گونگابولا اورلوگوں نے تعجب کیا.لیکن ان میں سے بعض نے کہا.یہ توبدروحوں کے سردار بعلز بول کی مددسے بدروحوں کو نکالتاہے.بعض اورلوگ آزمائش کے لئے اس سے آسمانی نشان طلب کرنے لگے.مگر اس نے ان کے خیالات کو جان کر ان سے کہا جس سلطنت میں پھو ٹ پڑے وہ ویران ہوجاتی ہے اورجس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہو جاتا ہے اوراگر شیطان بھی اپنا مخالف ہوجائے تو اس کی سلطنت کس طرح قائم رہے گی کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعلز بول کی مدد سے نکالتاہے.‘‘ (لوقا باب ۱۱آیت ۱۴تا۱۸) اسی طرح متی میں لکھاہے کہ حضرت مسیح ؑ نے ان سے کہا :.’’ اگرشیطان ہی نے شیطان کو نکالا تووہ آپ اپنا مخالف ہوگیا.پھر اس کی بادشاہی کس طرح قائم رہے گی.‘‘ (متی باب ۱۲ آیت ۲۶)
قرآن کریم بھی یہی دلیل مخالفوںکے سامنے پیش کرتاہے.اورانہیں توجہ دلاتاہے کہ اگرتمہارایہ اعتراض صحیح ہو کہ شیطان نے یہ کلام نازل کیا ہے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ شیطان نے اپنا بیڑہ آپ غرق کرلیا.کیونکہ اس کتاب کے لفظ لفظ میں شیطان کو دھتکاراگیاہے اوراس کی ایک ایک تعلیم میں اس پر پھٹکار ڈالی گئی ہے.اب یہ کس طرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف اتنا بڑامواد فراہم کردیا.یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے.اسی طرح وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ میں جو دلیل استعمال کی گئی ہے کہ اس قرآن میں توغیب کی خبریں ہیں اورغیب کی خبریں بیان کرنا شیطان کے اقتدار سے باہر ہے.اسے بھی انجیل میں استعمال کیاگیاہے اور حضرت مسیح ؑ نے واضح کیا ہے کہ علم غیب صرف خداتعالی کو حاصل ہے اورشیاطین تو الگ رہے فرشتے بھی اس کےرازوں سے آگاہ نہیں.چنانچہ ایک دفعہ حضرت مسیح ؑ نے جب اپنی آمد ثانی کی علامات بتائیں تواس کے ساتھ ہی آ پ نے اس امر کی بھی وضاحت فرما دی کہ گومیری یہ باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی.’’لیکن اس دن اوراس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا.نہ آسمان کے فرشتے.نہ بیٹا.مگر صرف باپ.جیسانوح کے دنوں میں ہواویساہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا.کیونکہ جس طرح طوفان کے پہلے سے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اوربیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوح کی کشتی میں داخل ہوا.اورجب تک طوفان آکر ان سب کو بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کاآناہوگا.‘‘ (لوقاباب ۲۴آیت ۳۶تا۴۰) غرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور بے عیب زندگی اورآپؐ کی تعلیم کا پاک اورمطہرہونااورپھر قرآن کریم میں آسمانی علوم اور غیب کی خبروں کا بکثرت اظہار اور شیاطین کا آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت ہی نہ رکھنا بتارہاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ الزام لگایاجارہاہے کہ آپؐ کے ساتھ شیطان کاتعلق ہے اور اس نے آپ پر یہ کلام نازل کردیاہے سراسرغلط اعتراض ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشیطان سے نہیں بلکہ خدا سے تعلق ہے اوراسی نے آپ پر یہ کلام نازل فرمایا ہے.پھر فرماتا ہے فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ.اے مسلمان!تُوخداکے سواکسی معبود سے دعانہ کر.کیونکہ فطرت صحیحہ کے راز صرف خدا سے مل سکتے ہیں.اورکوئی غیر اللہ اس میں تیری مدد نہیں کرسکتا.اگرتوفطرت صحیحہ کے راز معلوم کرنے کے لئے غیر اللہ کی طرف جائے گا تو فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ۠ اس کی طرف سے جوتعلیم تجھے ملے گی.اس کے نتیجہ میں تو دکھ ہی دکھ اٹھائے گا کوئی سکھ تجھے نصیب نہ ہوگا.
وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَۙ۰۰۲۱۵وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ اورتُو (سب سے پہلے)اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا.اورجوتیرے پاس مومن ہوکر آئیں ان لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۲۱۶فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّيْ کے لئے محبت کے بازو جھکادے پھر اگر و ہ تیری نافرمانی کربیٹھیں توکہہ دے کہ میں تمہارے عمل سے بیزارہوں بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ۰۰۲۱۷وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِۙ۰۰۲۱۸ اورغالب (اور) بار بار کرم کرنے والی ہستی پرتوکل کر.جو تجھے اس وقت بھی دیکھتاہے جب تو اکیلا نماز کے الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُۙ۰۰۲۱۹وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ۰۰۲۲۰ لئے کھڑاہوتاہے.اوراس وقت بھی جبکہ تُو (نماز باجماعت کے لئے )سجدہ کرنے والی جماعت میں اِدھر اُدھر پھر اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۰۰۲۲۱ رہاہوتاہے.یقیناً وہ (خداہی) بہت سننے والا (اور)بہت جاننے والا ہے.حلّ لُغَات.عَشِیْرَۃٌ.اَلْعَشِیْرُ الْقَبِیْلَۃُ وَالْقَرِیْبُ وَالصَّدِیْقُ وَزَوْجُ المَرْأَۃِ وَالمُعَاشِرُ.یعنی عَشِیْرَۃٌ کے معنے قبیلہ کے بھی ہوتے ہیں.دوست کے بھی ہوتے ہیں.خاوند کے بھی ہوتے ہیں اورہمسائے کے بھی ہوتے ہیں.(اقرب) اِخْفِضْ.اِخْفِضْ خَفَضَ یَخْفِضُ سے امر کاصیغہ ہے اور خَفَضَ کے معنے ہیں.نیچا کیا.اور وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُوْمِنِیْنَ کے معنے ہیں تَوَاضِعْ لَھُمْ.کہ مومنوں کے ساتھ خاکساری کے ساتھ پیش آ.اوران سے ملتارہ تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے.(اقرب) تَقَلُّبَکَ.تَقَلُّبٌ تَقَلَّبَ کامصدر ہے.اورتَقَلَّبَ عَلیٰ فِرَاشِہٖ کے معنے ہیں تَحَوَّلَ مِنْ جَانِبٍ اِلیٰ جانِبٍ.وہ اپنے بستر میں ایک طرف سے دوسری طرف ہوتارہا نیز جب یہ فقرہ کہیں کہ ھُوَ یَتَقَلَّبُ فِیْ اَعْمَالِ السُّلْطَانِ تومعنے ہوتے ہیںیَتَنَقَّلُ مِنْ عَمَلٍ اِلیٰ عَمَلٍ.یعنی وہ بادشاہ کے مختلف کاموں میں ادھر سے ادھر جاتاہے.(اقرب)
اَلتَّقَلُّبُ:اَلتَّصَرُّفُ یعنی تَقَلّبٌ کے معنے ادھر سے ادھر آنے جانے کے ہیں (مفردات) تفسیر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ.یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو دنیا کو ڈرا اوراسے بیدار اورہوشیار کر مگر پہلے اپنے رشتہ داروں اورقریبیوں کو ڈرا کیونکہ ان کا تجھ پر دوہراحق ہے.حقیقت یہ ہے کہ رشتہ داریاں دنیا میں بڑابھاری اثر رکھتی ہیں.اورتاریخ میں اس کے اثرات کی بعض حیرت انگیز مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب تبلیغ شروع کی اورکفار نے انتہائی طور پر ہررنگ میں اپنا اثر استعمال کرلیا اور کسی طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم اورحق کے اعلان کو نہ چھوڑا.تومکہ کے لوگ ابوطالب کے پاس آئے اورانہیں کہا کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجئے ورنہ ہم مجبور ہوجائیں گے کہ اس کے ساتھ آپ کا بھی بائیکاٹ کردیں.حضرت ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایااوران سے کہا کہ اے میرے بھتیجے آج تک میں نے تیراساتھ دیاہے مگرآج میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں.اورانہوں نے کہا ہے کہ ابو طالب ہم تیرابہت لحاظ کرتے رہے ہیں مگرآج ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگرتومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو نہیں چھوڑے گا اوراس کی حمایت بدستور کرتاچلاجائے گا توہم تیری سرداری سے بھی انکار کردیں گے.ابوطالب ایک غریب آدمی تھے.مگروہ ساراوقت اپنی قوم کی خدمت میں لگاتے تھے اس لئے ان کی ساری جائیداد ہی قوم کی محبت تھی.دنیاکے کچھ لوگ کمانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.اور کچھ قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.کمانے والے اپنا بدلہ روپیہ کی صورت میں لے لیتے ہیں.مگرخدمت کرنے والے اپنابدلہ قوم کی محبت کی صورت میں لیتے ہیں.ابو طالب چونکہ دن رات اپنی قوم کی خدمت میں مصروف رہتے تھے.اس لئے ان کی ساری کمائی ہی یہی تھی کہ وہ قوم کی خدمت کرتے تھے اورقوم انہیں سلام کرتی تھی اس لئے جب قوم کی طرف سے انہیں یہ نوٹس ملا توانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایااورکہا.اے میرے بیٹے میری قوم آج کہہ رہی ہے کہ اگر تُو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کونہیں چھوڑ سکتاتوپھر ہم بھی تجھ کو چھوڑ دیں گے.اس وقت یہ خیال کرکے کہ ساری عمر میں نے اپنی قوم کی خدمت میں لگادی تھی مگر آج بڑھاپے میں آکر وہی قوم مجھے چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئی ہے حضرت ابو طالب پر رقت طاری ہوئی اوران کی آنکھو ں میں آنسوآگئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی یہ دیکھ کرکہ میرے چچا باوجود اس کے کہ مسلمان نہیں ہمیشہ میری خدمت کرتے رہے ہیں اورہمیشہ انہوں نے میری تائید کی ہے اوراب میری خدمت اورمیری تائید کی وجہ سے ان کی ایک ہی قیمتی دولت جو ان کے پاس تھی یعنی قوم میں عزت وہ کھوئی جانے لگی ہے رقت طاری ہوگئی.آپ کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اور آپ نے بھرائی ہوئی آواز
میں کہا اے چچا جو پیغام میں لایاہوں و ہ خدا نے میرے سپرد کیا ہے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی کے کہنے پر میں اسے چھوڑ دوں.اے میرے چچا ! میں جانتاہوں کہ خداایک ہے لیکن میں اپنی قوم کی خاطر یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدایک نہیں.اگرمیری قوم سورج کو میرے دائیں اورچاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردے اوراتنا بڑانشان دکھائے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اورپھر کہے کہ اب بھی یہ مان جائو کہ دنیا کاپیداکرنے والا خداایک نہیں تب بھی میں ایسانہیں کرسکتا.اے میرے چچا ! میں آپ سے بھی یہ امید نہیں کرتا کہ آپ میری خاطر اتنی بڑی قربانی کریں.آپ نے جوخدمت کی ہے.میں اس کاممنون ہوں.لیکن آئندہ کے لئے میں یہ بوجھ آپ پر ڈالنا نہیں چاہتا.آپ بیشک میراساتھ چھوڑ دیں اوراپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو چھوڑ دیا ہے اوراب میں تمہارے ساتھ ہوں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اوریقین کے ساتھ یہ حیرت انگیز محبت ایک طرف تھی اوردوسری طرف وہ محبت کھڑی دیکھ رہی تھی جو ابو طالب کو اپنے بھتیجے کے ساتھ تھی.ابوطالب اس وقت ان دومحبتوں کے درمیان آگئے.یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے بھتیجے تھے مگرابو طالب نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر آپؐ سے محبت کی اوراپنے بیٹوں سے زیادہ آپ کی خبر گیری کی.پس ایک طرف و ہ محبت کھڑی تھی جو ابو طالب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور دوسری طرف بھتیجے کایہ یقین اورایمان تھا کہ میں نے جس صداقت کو قبول کیاہے میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.ان کی ایک آنکھ کے سامنے بیک وقت یہ دومحبتیں آکر کھڑی ہوگئیں اوردوسری آنکھ کے سامنے ان کے باپ عبدالمطلب کی روح آکر کھڑی ہوگئی جنہوں نے مرتے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ ابوطالب کے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے دیاتھا کہ ابوطالب اس کاباپ فوت ہوگیاہے اس کی ماں بھی فوت ہوگئی ہے.میں نے اس کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھ کر پالا ہے.اب میں مرنے لگاہوں اورمجھ کو تجھ پر یہ اعتبار ہے کہ تواس کام میں سستی اور کوتاہی نہیں کرے گا.میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی امانت تیرے سپرد کرتاہوں.غرض باپ کی روح ایک طرف کھڑی تھی اورصداقت کے فدائی اورسچائی پر جان دینے والے بھتیجے کی روح دوسری طرف کھڑی تھی مگر باوجود اسلام نہ لانے کے ابوطالب ان دومحبتوں کا مقابلہ نہ کرسکے اورانہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ اے میرے بیٹے !جائو! اورجس چیز کو سچا سمجھتے ہو پھیلائو.قوم کا مذہب تومیں نہیں چھوڑ سکتا.لیکن تیری خاطر اگر قوم مجھے چھوڑ دے تومیں تیرے لئے یہ قربانی بھی کروں گا.اورہمیشہ تیراساتھ دوں گا.تب قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا جائے اس اعلان پر بنو ہاشم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ایک وادی میں جوابو طالب کی ملکیت میں تھی چلے گئے.وادی سے مراد کوئی سبز وشاداب علاقہ یا وسیع زمین کا ٹکڑ ا نہیں بلکہ مکہ میں
بے پانی اوربے سبزی کے وادیاں ہوا کرتی ہیں گویا بے آب وگیاہ زمین کے کچھ ٹکڑے ہوتے ہیں.لیکن چونکہ ان میں کوئی کوئی جھاڑی بھی پائی جاتی ہے جس میں اونٹ وغیرہ چر لیتے ہیں اس لئے انہیں وادی کہہ دیا جاتا ہے.مکہ کے پاس ایک ایسی ہی وادی ابوطالب کی تھی.ابو طالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اور ان چند مسلمانوں کو لے کر جو اس وقت مکہ میں تھے اس وادی میں چلے گئے جب وہ اس وادی میں گئے تو وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ پر بعض دفعہ گالیاں دیا کرتے تھے وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے.وہ ہاشمی دشمن جو ابو جہل کو اُکسا اُکسا کر رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچایا کرتے تھے وہ بھی قومی عصبیت اور رشتہ داری کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس وادی میں محصور ہوگئے.اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتے (السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ ۳۷۵) تو رشتہ داری بڑا بھاری اثر رکھتی ہے.اور خونی تعلق کبھی کبھی ایسی قربانیاں بھی کروا لیتا ہے جو دوسرے حالات میں ناممکن نظر آتی ہیں.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے کونے کونے کے لوگوں کو ڈرا.لیکن پہلے اپنے عزیزوں کو ڈرا.اس لئے کہ ان کا تجھ پر دوہر احق ہے.ایک حق تو یہ ہے کہ باقی دنیا کی طرح یہ بھی تباہ ہو رہے ہیں اور ایک حق یہ ہے کہ یہ تیرے رشتہ دار ہیں اور ان کے باپ دادوں نے تیرے ساتھ کبھی حسن سلوک کیا تھا.انگریزی میں بھی مثل مشہور ہے کہ CHARITY BEGINS AT HOME یعنی صدقہ و خیرات پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے.اسی طرح وعظ و نصیحت کا سلسلہ بھی ہمیشہ گھر سے ہی شروع ہونا چاہیے.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی اس طرح تعمیل کی کہ آپ مکہ کے دستور کے مطابق کوہِ صفا پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے مختلف قبائل کو نام لے لے کر بلانا شروع کیا.پہلے آپؐ نے آلِ ؔغالب کوبلایا اور وہ مسجد حرام سے نکل کر کوہِ صفا کے دامن میں آگئے.اس وقت ابو لہب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آلِ ؔغالب تو آگئے ہیں آپ نے جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں مگرآپ نے ابولہب کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور لوئی قبیلہ کے افراد کو آپ نے آوا ز دی.وہ پہنچ گئے تو ابولہب نے پھر کہا کہ اب تو لوئی قبیلہ بھی آگیا ہے اب تو آپ بتائیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اس کی بات کو درخورِاعتناء نہ سمجھا اور آلِ مرّہ کو آواز دی.چنانچہ وہ بھی آگئے.پھر آپؐ نے آلِ کلاب اور آلِ قصّی کو بلایا.یہاں تک کہ سب لوگ جمع ہوگئے اور جولوگ خود نہ آسکے انہوں نے اپنا ایلچی بھیج دیا تاکہ وہ معلوم کر کے انہیں اطلاع
دے کہ آج انہیں کس غرض کے لئے جمع کیا گیا ہے.جب مکہ کے تمام قبائل قریش سمیت جمع ہوگئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب شروع کیا اور فرمایا.دیکھو اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیاتم میری اس بات کو مانوگے یا نہیں.انہوں نے کہا.کیوں نہیں ہم آپ کی بات ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ آپ کو راستباز پایا ہے مکہ کے حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطالبہ درحقیقت ایسا ہی تھا جیسے کسی ناممکن چیز کوممکن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ مکہ کے لوگوں کے جانوروادی میں چراکرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ ہے کہ اس میں کسی لشکر کا چھپ رہنا ناممکنات میں سے ہے.مگر ان لوگوں پر آپ کی راستبازی کا اس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا.خواہ ہماری آنکھیں اس بات کو تسلیم نہ کریں ہم آپ کی بات کو ضرور مانیں گے کیونکہ آپ کی راستبازی ہمارے نزدیک مسلّم ہے.جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یک زبان ہوکر اپنے اس یقین اور اعتماد کا کا اظہار کیا.تو آپ نے فرمایا لو سُنو! میں تمہیں ایک اہم خبر سناتا ہوں.اور وہ خبر یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے.پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو میر ی اتباع کرو.آپ کا یہ کہنا تھا کہ ابولہب جوش سے کہنے لگا کہ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْاَیَّامِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا.یعنی نعوذ باللہ تجھ پر ہلاکت ہو.اتنی سی بات کے لئے تُو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا.اور اسی طرح دوسرے لوگ ہنسی مذاق کرتے اور تمسخر اڑاتے ہوئے منتشر ہوگئے(بخاری کتا ب التفسیر زیرِ آیت و انذرعشیر تک الاقربین وتفسیر رازی زیرِآیت تبّت یداابی لھب وتبّ.وتفسیر رُوح المعانی زیرِ آیت سورۃلھب).مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی مخالفت اور تمسخر اور استہزاء کے باوجود اشاعت توحید کے کام کو جاری رکھا اور متواتر لوگوںکو پیغامِ حق پہنچاتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں میں سے ایسے لوگ پید اکر دیئے جنہوں نے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کردیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پر کچھ نہ کچھ بیداری کے اوقات بھی آتے ہیں.اور جب کسی پر بیداری کی گھڑی آتی ہے اور اس کے دل کی کھڑکی کھلتی ہے تو وہ سچائی کو قبول کرلیتا ہے.آخر وہ لوگ بھی تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے دن ایمان لائے.جیسے حضرت ابو بکرؓ.حضرت خدیجہؓ.حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ.اور وہ لوگ بھی تھے جو آپ پر کئی سال بعد ایمان لائے جیسے حضرت خالدبن ولیدؓ اور حضرت عمر وبن العاصؓ وغیرہ.بیشک خالد بن ولیدؓ میں پہلے سال بھی عقل موجو دتھی.لیکن فر ق یہ تھا کہ پہلے سا ل ان کے دل کی کھڑکی نہیں کھلی تھی.حضرت عمرو بن العاصؓ میں بھی عقل موجود تھی جو انہیں پہلے سال مسلمان بنا سکتی تھی لیکن ان کے دل کی کھڑکی بھی نہیں کھلی تھی.حضرت ابو بکرؓ.
فرض تھا کہ وہ بار بار اپنے رشتہ داروں سے ملتے اوران کی غلط فہمیوں کودور کرنےکی کوشش کرتے مگر ادھر وہ احمدی ہوتے ہیں اوراُدھر اپنے رشتہ داروں سے بچنا شروع کردیتے ہیں.تم اپنے آپ کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہو.تمہارے پاس ایمان ہے.تمہارے پاس زندہ صداقت ہے تمہارے پاس تازہ معجزات اورنشانات ہیں.تمہارے پاس خدائی تائید کے نشانات ہیں.تمہارے اندر تواتنی دلیری ہونی چاہیے کہ اگر تمہاراکو ئی چچاایساہے جس سے تم دس سال سے نہیں ملے.تواحمدی ہونے کے فوراً بعد اس کے پاس جائو اس سے اپنے تعلقات بڑھائو اور اُسے اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرو.اگر تم اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنا شروع کردو تومیں سمجھتاہوں کہ پچاس لاکھ احمدیوں کا رشتہ داراس ملک میں موجودہوگا.پس تمہیں غیروں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں تم اپنے پچا س لاکھ رشتہ داروں کے پا س جائواورحق ان پر واضح کرو.یہی کام اتنا بڑاہے کہ ایک لمبے عرصہ تک تمیں اسی کام سے فرصت نہیں مل سکتی.اور جب تم ان پچاس لاکھ کو احمدی بنالو گے توان پچا س لاکھ سے دوکروڑ اوررشتہ دار نکل آئیں گے جن کو سمجھانے کیلئے پھر تمہیں ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوگی.پس تم تبلیغ کا وہ طریق اختیار کرو جو قرآن کریم نے اس آیت میں بتایا ہے.جب تم اپنے رشتہ داروں سے ملو گے اوران کی غلط فہمیوں کودورکرنے کی کوشش کرو گے توتم دیکھو گے کہ ان میں سے ہزاروں ہزار سعید روحیں احمدیت کو قبول کرنے کے لئے دوڑتی چلی آئیں گی اوراگر احمدیت قبول نہیں کریں گی توکم از کم سلسلہ پر اعتراض کی آئندہ انہیں جرأت نہیں ہوگی.میں نے کئی دفعہ سنایاہے کہ جب میں حج کے لئے گیا تو میں مصر کے راستہ گیاتھا.اصل میں میری سکیم یہ تھی کہ میں مصر میں عربی تعلیم حاصل کروں گا اوراگلے سال حج کروں گا مگر اتفاقاً قاہرہ جانے سے پہلے میں پورٹ سعید میں ٹھہر گیا.اسی رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اگر تم نے حج کرنا ہے تو سب سے پہلے جہاز میں چلے جائو چنانچہ میں نے اسی وقت پتہ لیا اور تین چا ر دن کے بعد جو جہاز جانے والا تھا اس میں حج کے لئے سوار ہوگیا.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس کے بعد ایسے حالات پیداہوگئے کہ مصر کے لو گ ایک دوسال تک حج کے لئے نہ جا سکے.اس سفر میں میرے ساتھ دومسلمان اورایک ہندوبیرسٹر بھی تھے.ان کو کسی طرح پتہ لگ گیا کہ میں احمدی ہوں.چنانچہ انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کردی.مگر میں نے انہیں یہ پتہ نہ لگنے دیا کہ میں بانی ء سلسلہ احمدیہ کالڑکاہوں.آخر بڑھتے بڑھتے انہوں نے نہایت ناشائستہ اعتراضات شروع کردیئے.میں پھر بھی دلیل کے ساتھ ان کے اعتراضات کو ردّ کرتارہا.گیارہ دن میں ہم پورٹ سعید پہنچے.ہم نے اپنا بھاری سامان پورٹ سعید میں رکھوادیا جب میں گودام سے اپنا ٹرنک نکلواکر باہر نکلا.تواتفاقاً میرے
ٹرنک پر کسی نے مرزابشیر الدین محمود احمد SON OF THE FOUNDER OF THE AHMADIYYA MOVEMENT َلکھا ہو اتھا.میں جہاز کی سیڑھیوں سے اُتر رہاتھا کہ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں سرپٹ دوڑے میری طرف چلے آرہے ہیں.میں نے کہا کیا بات ہے کہنے لگے.معاف کیجئے ہم نے بڑی بیوقوفی کی.میں نے کہا کیا ہوا.کہنے لگے ہم آپ سے بڑی گستاخی سے باتیں کرتے رہے.اگر ہمیں پتہ لگ جاتا کہ آپ بانی ء سلسلہ احمدیہ کے فرزند ہیں توہم اپنے خیالات کے اظہار میں یہ ناشائستہ طریق کبھی اختیار نہ کرتے.میں نے کہا آپ جسمانی تعلق کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور میرے نزدیک روحانی تعلق زیادہ اہم ہوتاہے.بہرحال میں نے اس کا اظہار اس لئے نہیں ہونے دیاکہ میں چاہتا تھا کہ آپ کے دل میں جو اعتراضات ہیں وہ سامنے آجائیں.توجب مذہبی بات چیت کی جائے دوسراشخص بعض دفعہ غصہ بھی نکال لیتا ہے.برابھلابھی کہہ لیتا ہے.لیکن اگر دل میں خشیت پیداہوجائے توپھر وہ معذرت بھی کرنے لگتاہے.ہم نے کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جوسلسلہ کو شدید گالیاں دیاکرتے تھے.مگر پھر وہ اخلاص کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہوئے اورانہوں نے اپنے تعلقات کو آخر تک بڑی وفاداری سے نبھایا.تاریخوں میں آتاہے حضر ت عمر و بن العاصؓ جب وفات پانے لگے تو انتہائی کرب کی حالت میں رونے لگ گئے.ان کے لڑکے نے انہیں کہا کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی خدمت کی بڑی توفیق بخشی ہےاور اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہتر جزادے گا.انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھ پر دوزمانے گذرے ہیں.ایک زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان کا اتنا بغض میرے دل میں پایاجاتاتھا کہ میں نے انتہائی نفرت کی وجہ سے کبھی آنکھ اٹھا کرآپؐ کی شکل نہیں دیکھی.پھر خدا نے مجھے ہدایت دی اور میرے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت پیداہوگئی کہ فرطِ محبت او رعشق کی وجہ سے مجھے کبھی جرأت نہیں ہوئی کہ میںآنکھ اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ سکوں.چنانچہ اب اگرمجھ سے کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحلیہ پوچھے تو میں بتانہیں سکتا.لیکن آپؐ کی وفات کے بعد ہم سے کئی غلطیاں ہوئیں.میں ڈرتاہوں کہ ان غلطیوںکا خدا تعالیٰ کو کیاجوا ب دوں گا ؟(مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ) تودیکھو ایک ایساشخص جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا بغض تھاکہ وہ آنکھ اٹھاکربھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھتاتھا ایک دن اس کے دل میں اتنا عشق پیداہوگیاکہ پھر اس عشق کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکا.سرسری طورپر توانہوںنے آپؐ کو دیکھا ہوگا.لیکن پوری شکل دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں پڑی.پس لوگوں کی ہدایت سے مایو س مت ہو.او راس غر ض کے لئے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے پاس جائو.تمہارے
اپنے بھائی بہنیں سالے خسر اور دوسرے رشتہ دارموجود ہیں.تم ان کے پاس جائو اوران سے اپنے تعلقات کو وسیع کرو.پھر تم دیکھو گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ تمہاری تبلیغ میں برکت پیداکردیتاہے.مجھے یاد ہےمیں چھوٹاتھا اوراپنے ایک رشتہ کی نانی کے ہاں دِلّی میں ٹھہراہواتھا کہ ان کے ایک بھائی حیدرآباد دکن سے ان کے ملنے کے لئے آئے.انہوں نے ایک دن مجھے بلایا اورکہا.میاں تمہارا اور دوسرے مسلمانوں کا آپس میں کس بات پر اختلاف ہے.میں اس وقت زیادہ علمی باتیں تو جانتانہیں تھا.میں نے کہا.ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور دوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں.کہنے لگے.تم کس طرح کہتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.میں نے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ(آل عمران :۵۶).میں نے کہا دیکھئے اس میں صاف لکھا ہے کہ اے عیسیٰ ؑمیں تجھے وفات دوں گا اورپھر تجھے اپنی طرف اٹھا ئوں گا.پس وفات پہلے ہے اوررفع بعد میں.اس پر باوجود اس کے کہ وہ ستر سال کے بڈھے تھے.کہنے لگے تمہاری باتیں تو سب معقول ہیں.پھر مولوی کیوں مخالفت کرتے ہیں.ہماری نانی بڑی متعصّب تھیں وہ غصہ سے کہنے لگیں کہ آگے ہی لڑکے کا دماغ خراب ہے اوراب تم اس کو اَور خراب کررہے ہو.اب دیکھو وہ حیدرآباد دکن سے اپنی بہن کو ملنے آئے تھے اورمیں ایک چھوٹابچہ تھا.مگر محض اس وجہ سے کہ میں ان کی بہن کا نواسہ بلکہ پڑنواسہ تھا انہوں نے مجھ سے بات پوچھ لی.اگرایک چھوٹے بچے سے بات پوچھی جاسکتی ہے تواپنے جوان اوربالغ داما د سے اپنے خسر سے ،اپنی ساس سے ،اپنے چچا اورماموں سے کیوں دریافت نہیں کیاجاسکتا.اورجب و ہ تم سے کوئی بات دریافت کریں گے توان کی مثال اس شخص کی سی ہوجائے گی جوکمبل کو تو چھوڑناچاہتاتھا مگر کمبل اسے نہیں چھوڑتاتھا.کہتے ہیںکسی نہرکے کنارے دوشخص جارہے تھے سردی کاموسم تھا کہ ایک شخص نے نہر میں کمبل تیرتے دیکھا.وہ دراصل ریچھ تھا مگر اس نے غلطی سے اسے کمبل سمجھ لیا اس نے اپنے ساتھی سے کہاکہ میں نہر سے کمبل نکال لوں تم ذراٹھہرو.جب وہ نہر میں کودا اوراس نے کمبل پکڑناچاہا.توآپس کی رسہ کشی سے ریچھ کے ہاتھ پائو ں جو سردی کی وجہ سے سکڑے ہوئے تھے کھل گئے او راس نے آدمی کو پکڑ لیا.اب باہر والے نے آوازیں دینی شروع کیں کہ جلدی باہر نکلو سفر خراب ہورہاہے.اگرکمبل ہاتھ نہیں آتا تواسے چھوڑ و.اورباہر آجائو.وہ کہنے لگا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنے کے لئے تیا ر ہو ںمگرکمبل مجھے نہیں چھوڑتا.اسی طرح پہلے وہ تم سے پوچھیں گے کہ بتائیے.آپ کے کیا اعتقادات ہیں مگر اس کے بعد تمہارے لئے تبلیغ کا ایسارستہ کھل جائے گا کہ جس پر نہ شرعی طورپر کوئی اعتراض ہوگا اورنہ قانونی
طورپر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے جب وہ آپ سوال کریں گے تو کون سا مولوی انہیں کہہ سکتا ہےکہ ان کی بات نہ سنو.اگر کوئی کہے بھی توماں کہے گی یہ میرابچہ ہے میں اس سے ایک بات پوچھ رہی ہو ںتم بیچ میں دخل دینے والے کون ہوتے ہو.خسر کہے گا یہ میراداما د ہے میں نے اس سے ایک بات پوچھی ہے تم مجھے روکنے والے کون ہو.اور چونکہ حق تمہارے ساتھ ہے اس لئے آخری نتیجہ یہی ہوگاکہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس کا دل بھی کھول دے گا.اوراسے کھینچ کر صداقت کی طرف لے آئے گا.یہ امر یاد رکھو کہ تبلیغ کوئی وقتی چیز نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے ماننے والے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے اب اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ ایسے آدمی موجود رہیں گے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائیں گے اورجب حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانا قرآن کریم نے بھی ضروری قراردیاہے توجولوگ مسیح ؑ کو نہیں مانیں گے وہ قرآن کریم کو بھی نہیں مانیں گے.پس لازماً قیامت تک کچھ ایسے لوگ موجودرہیں گے جواسلام میں داخل نہیں ہوں گے اور اگر قیامت تک ایسے لوگ موجود رہیں گے جو اسلام میں داخل نہیں ہوں گےتوان کو منوانے کے لئے تبلیغ کی بھی ضرورت رہے گی.ہمارے ملک میں لڑکیاں ایک کھیل کھیلتی ہیں.اب تو وہ کھیل کھیلتے میں نے لڑکیوں کو نہیں دیکھا لیکن پہلے اس کھیل کا رواج زیادہ تھا.وہ کھیل اس طرح ہوتی ہے کہ پانچ چھ لڑکیاں ایک طرف کھڑی ہوجاتی ہیں اورپانچ چھ لڑکیاں دوسری طرف کھڑی ہوجاتی ہیں.ایک طرف کی لڑکیاں دوسری طرف کی لڑکیوں کے پاس آتی ہیں تووہ غالباً ان سے رشتہ مانگتی ہیں یاکوئی اورچیز مانگتی ہیں.بہرحال وہ سائل بن کرآتی ہیں اوراپناسوال پیش کرتی ہیں تودوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ہم نے نہیں دینا.اورجب و ہ کہتی ہیں نہیں دینا توکھیل شروع ہو جاتا ہے.ایک طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ’’نہیّوں دینا ‘‘اوردوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں.’’لَے کے رہنا ‘‘اوردیر تک یہ مشغلہ جاری رہتاہے دونوں فریق اپنی ضد پر مُصر رہتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کہتاہے کہ قیامت تک کچھ ایسےلوگ موجود رہیں گے جو کہیں گے ہم نے نہیں ماننا.پس تمہارابھی یہی کام ہے کہ تم کہو ہم نے منواکر چھوڑناہے.تمہارا ایمان اورجذبہ بہرحال چھوٹی بچیوں سے زیادہ ہوناچاہیے.تمہاری غیرت ان سے زیادہ ہونی چاہیے.اگران میں سے ایک فریق کہتاہے کہ ہم نے نہیں دیناتو دوسری لڑکیاں کہتی ہیں کہ ہم نے لے کر جاناہے.اسی طرح تمہارابھی یہ کام ہے کہ اگرکچھ ایسےلوگ ہوں جو کہیں ہم نے نہیں ماننا توتم کہو ہم نے منواکر چھوڑناہے اوراپنے اس عزم کو کبھی ترک نہیں کرنا.
میں نے دیکھا ہے لو گ عام طور پر یہ عذر کیا کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی یابھتیجے یا دوسرے رشتہ دار ہماری بات نہیں سنتے یاہماری تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخروہ بھی توکسی کے بھائی تھے.وہ بھی توکسی کے بھتیجے تھے.وہ بھی توکسی کے بھانجے تھے.وہ بھی توکسی کے داماد یاخاوند تھے.پھر اگرانہیںخدا تعالیٰ نے ہدایت دےدی توان کے رشتہ داروں کو کیوں ہدایت نہیں مل سکتی.اصل بات یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے رشتہ داروں اورقریبی دوستوںکو صحیح طورپر تبلیغ ہی نہیں کرتے.ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ان پر اثر نہ ہو.آخر ہررشتہ دار کااپنے رشتہ دار پر اورہردوست کااپنے دوست پر اورہربھائی کا اپنے بھائی پر حق ہوتاہے.دنیا میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہوسکتی جویہ کہے کہ میراخاوند خواہ جہنم میں چلاجائے مجھے اس کی پرواہ نہیں اورنہ کوئی خاوند ایساہو سکتا ہے جوکہے کہ خواہ میری بیوی جہنم میں چلی جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں.پس خاوند کا اپنی بیوی کو یابیوی کا اپنے خاوند کو حق بات پہنچانادراصل تبلیغ کرنانہیں بلکہ اپنے فرض کو اداکرنا ہے.اسی طرح بھائی کا اپنے بھائی کو حق پہنچانا تبلیغ کرنا نہیں کہلاسکتا بلکہ بھائی کا اپنے بھائی کوحق پہنچانا فرض ہے.اسی طرح دوست کا اپنے دوست کو حق پہنچانا تبلیغ نہیں بلکہ اس کا فرض ہے اوراگر و ہ اپنے اس فرض کو ادانہیں کرتا تووہ دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجائے گا.اوراس کادوست بھی اسے اپناخیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ قرارد ے گا کہ اس نے اسے سچائی سے محروم رکھا.اگر اس رنگ میں ہررشتہ دار اپنے رشتہ دار کو اورہردوست اپنے دوست کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے حق پہنچائے توتھوڑے عرصہ میں ہی لاکھوں افراد تک صداقت پہنچ سکتی ہے.پھر فرماتا ہے وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جولوگ تیری بات مان لیا کریں ان کے ساتھ ہمیشہ نیک برتائو کر تاکہ تیرے حسن سلوک کی وجہ سے وہ اوربھی زیادہ اسلام کے گرویدہ ہوجائیں اوران کی تربیت کا ہمیشہ خیال رکھ تاکہ ان کی طاقت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھایاجاسکے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دریانکلتے اوربہتے چلے جاتے ہیں لیکن نااہل قومیں ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے صرف اتنا نقصان اٹھاتی ہیں کہ دریا کی طغیانیوں سے ان کے دیہات غرق ہوجاتے یاان کی زمینیں بیکار اوربنجرہوجاتی ہیں یازیادہ سے زیادہ وہ لوگ اتنا فائدہ اٹھالیتے ہیں کہ دریائوں سے مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں.لیکن جو عقل مند اورذہین قومیں ہوتی ہیں وہ ان سے نہریں نکالتی اوربنجر زمینوں کو آباد کرتی ہیں اوراس طرح اربوں ارب روپیہ کماتی ہیں.اسی طرح اگر افراد کی صحیح تربیت کی جائے اوران کے اند رجذبہء قربانی پیدا کیاجائے توان کی طاقت سے اتنا فائدہ اٹھایاجاسکتاہے کہ قوم ترقی کے میدان میں کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے.درحقیقت پرانی نسل کی مثال
ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی چشمہ یا دریاکامنبع.لیکن نئی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک نالہ او راس سے ا گلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک چھوٹا دریا اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑا دریا.اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑاسمندر.چشمہ سے پانی پینے کے لئے ہمیں خود چشمہ پرجاناپڑتا ہے.لیکن نالہ جو ش و خروش سے گھروںکے پا س سے گذرتا ہے.اس کے پا س جانے کی ضرورت نہیں ہوتی.پھر جب وہ ایک چھوٹا دریابن جاتاہے توصرف یہی نہیں کہ وہ گھروں کے پاس بہتاہے بلکہ اورزیادہ پھیل کر وہ گھروں کے قریب آجاتاہے.پھر جب وہ چھو ٹادریا وسیع ہوتاہے تواوربھی زیاد ہ گھروں کے پاس سے گذرتاہے اوراس کے زمین میں جذب ہونے یا ریت میں غائب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا.وہ پہاڑیوں او رٹیلوں پر سے کودتے اورریتوں پر سے بہتے ہوئے سمندرکی طرف بڑھتاچلاجاتاہے اورجب وہ دریا سمندر بن جاتاہے.توساری زمینوں کے کنارے اس سے ملنے لگ جاتے ہیں اورکوئی حصہء زمین بھی ایسانہیں رہتاجو اس سے متصل نہ ہو.اسی طرح جب جماعت کے افراد کی صحیح تربیت کی جائے اوراگلی نسلوں میں قربانی اورایثار اورفدائیت کازیادہ سے زیادہ جذبہ پیدا کیاجائے تووہ دنیا میں امن کے قیام کا ایک بہت بڑاذریعہ ثابت ہوتے ہیں.دنیا کا ایٹم بم جو یورینیم دھات سے بننے والی ایک چیز ہے دنیا کی تباہی اوربربادی کاایک مہلک ہتھیا رہے لیکن افراد جماعت کی طاقت کو صحیح استعمال کرنا اور آئندہ نسل کے اندرجذبہء قربانی پیداکرنا اوراس کی صحیح تربیت کرنا قوموںکو زندہ رکھنے کا ایک حتمی اوریقینی ذریعہ ہوتاہے.کیونکہ اس طرح ہرفرد کے دل میں یہ احساس قائم رہتاہے کہ دنیا کو فتح کرنے اوراسلام کو دوسرے ادیان پرغالب کرنے کے لئے میری ذاتی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے.یہی نکتہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے.اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاہے کہ تیرے دوطریق ہونے چاہئیں.ایک مخالفین کے ساتھ اورایک موافقین کے ساتھ.مخالفین کے ساتھ توتیرایہ طریق ہوناچاہیے کہ تُوان کو ڈراجن میں تیرے رشتہ دار بھی شامل ہیں اورجو ایسے راستہ پر چل رہے ہیں.جوان کے لئے نقصان دہ ہے.لیکن اس کے علاوہ تیرادوسراکام یہ بھی ہے کہ تُو مومنوں کی تربیت کرے کیونکہ اب دنیا کی نجات انہی لوگوں کی صحیح تربیت پر منحصر ہے.ان میں سے کئی ایسے ہیں جوتیرے رشتہ دار نہیں مگر وہ تیراحکم مانتے اور تیری اطاعت کرتے ہیں.پس تُو لوگوںکوبتادے کہ تیرے رشتہ داروں میں سے جو کوئی تیرے خلاف چلے گا اور تیری باتیں نہیں مانے گا وہ سزاپائے گا اورجو تیرارشتہ دارتونہ ہوگا مگر تیری باتوں پر ایمان لے آئے گا وہ انعام پائے گا.یعنی تیرامنکر اگر قریبی بھی ہو گا توسزاپائے گا اورتیرامتبع اگر بعیدی بھی ہوگا توانعام پائے گا.ایسے ایمان لانے والوں کے لئے خواہ وہ قریبی ہوں یا بعیدی تُو اپنا
بازوجھکادے.گویا ایک طرف توتُوقریبی کو ڈراتارہ کہ اگر وہ ایمان نہ لائے توسزاملے گی اوردوسری طرف وہ بعیدی جو تیرے رشتہ دار تو نہیں مگرتجھ پر ایمان لے آئے ہیں جن میں سے بعض روم کے ہیں.بعض ایران کے ہیں.بعض حبشہ کے ہیں.بعض شام کے ہیں اوربعض قبائلِ عرب میں سے ہیں ان کی طرف تیری بہتر سے بہترتوجہ ہونی چاہیے.کیونکہ تیرے اصل رشتہ دار اب وہی ہیں.جولوگ تیرے قریبی رشتہ دار تو ہیں مگر تجھ پر ایمان نہیں لائے و ہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے تیرے رشتہ داروں میں سے نکل گئے ہیں اوراب تیرے اصل رشتہ دار وہی ہیں جو تجھ پر ایمان لائے ہیں اورتیری ہر بات کو مانتے اور تیری پیروی کرتے ہیں.آگے فرماتا ہے.فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ.یہاں عَصَوْکَ کے یہ معنے نہیں کہ اِنْ عَصَوْکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.بلکہ یہ عَصَوْکَ مخالفین کے لئے آیاہے.قرآن کریم کایہ عام قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی آیت میں دو باتوں کا ذکر ہو تو ان میں سے ایک فقرہ الگ گروہ کے لئے ہوتاہے اوردوسرافقرہ الگ گروہ کے لئے.یہاں جو عَصَوْکَ کا لفظ ہے اس کے معنے ہیں اِنْ عَصَوْکَ عَشِیْرَتُکَ یعنی تیرے رشتہ دار اگر باوجودڈ رانے کے بھی نہ مانیں اوراپنے پہلے راستہ پر ہی گامزن رہیں توتُو ان کو کہہ دے اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں.یعنی پھر تُو ان سے قطع تعلق کرلے اورکہہ دے کہ میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں.تم اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اور قریبی ہیں.اس لئے اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تب بھی ہم نجات پا جائیں گے.بے شک تم میرے رشتہ دار ہو.مگر نجات رشتہ دار ی اورقرابت پر موقو ف نہیں ہے.نجات کا راستہ صرف یہی ہے کہ تم میر ی پیروی کرو.ورنہ تم باوجود میرے ساتھ رشتہ داری او رقرابت رکھنے کے سزاپائو گے.یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا طریقہ ء تبلیغ ہے.جو قرآن کریم نے بتایاہے.اگر مسلمان اس پر عمل کر تے تو بڑی کامیابی کامنہ دیکھتے.جہاں جہاں اسلام پھیلے وہاں نئے ماننے والوں کو یہ سمجھاناچایئے کہ فوراً اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف جائو اور تبلیغ کے علاوہ ان سے نیک سلوک بھی کرو.اوراگر وہ تمہاری بات نہ سنیں تو ان سے ایک حد تک الگ ہو جائو تاکہ ان کے اند رندامت پیداہواور تم بھی ا ن کے بد اثر سے بچ جائو.جیسا کہ حضرت مسیح ؑ نے بھی اپنے حواریوںکو نصیحت کی کہ ’’ اگر کو ئی تم کو قبول نہ کرے.اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پائوں کی گرد جھاڑ دینا.‘‘ (متی باب ۱۰آیت ۱۴) اس کے بعد دوسرے گروہ یعنی مومنین کے متعلق فرمایا وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.یعنی
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تُواپنے بازو ان مومنوںپر جھکا دے جوتیری اتباع کرتے ہیں.بازو جھکانا عرب میں ایک محاورہ ہے اور یہ محاورہ جانوروں کی مناسبت سے لایا گیاہے.یہ دیکھا گیا ہے کہ جب تک جانوروں کے بچے کمزور ہوتے ہیں.اوراُڑنے کے قابل نہیں ہوتے یا اچھی طرح چل پھر نہیں سکتے جانوران پر اپنے پر پھیلائے رکھتے ہیں تاکہ بچوں کو چیل وغیرہ نہ لے جائے.انسان تو اپنے بچوں کو کپڑے پہنادیتے ہیں.مگرجانوروں کے پاس کپڑانہیں ہوتا اس لئے وہ بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپائے رکھتے ہیں.مرغیوں کو دیکھو.اگر بچوں والی مرغی کسی جگہ بیٹھی ہو اوراسے کوئی اٹھادے تواس کے پروں کے نیچے سے آٹھ دس بچے نکل کر دوڑ پڑتے ہیں.پس وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ کے یہ معنے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھے چاہیے کہ تواپنی تمام ترتوجہ مومنوں کی طرف رکھ اوران کی اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت کرنے کی کوشش کر.اب ظاہر ہےکہ یہ تربیت کاکام اورمومنین کو اعلیٰ مدارج تک لے جانے کاکام اس قسم کا تھا کہ اس میں تکالیف او رمشکلات پیش آنے کااحتمال ہوسکتاتھا.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ.الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ.وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ.اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ.انذار کاکام توصرف منہ سے ہوتاہے اورزبان سے ڈرادیناکافی ہوتاہے لیکن تربیت او راصلاح کاکام محنت طلب ہے اوریہ کام ایساہے جو کسی کے اپنے اختیار میں نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک باپ چاہتاہے کہ میرابیٹاجج بن جائے مگر وہ چٹھی رسان بھی نہیں بن سکتا.یاایک باپ چاہتاہے کہ اس کا بیٹاعالم دین بن جائے لیکن جب و ہ بڑاہوتاہے تو علم دین کی طرف اسے کوئی رغبت ہی نہیں ہوتی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک عالم دین جو صرف و نحو کے متبحر عالم تھے اورسارے ہندوستان میں ان کی علمیّت کا شہرہ تھا.وہ بہت سادہ طبع تھے اوراگر انہیں کوئی ایساشخص دیکھتا جو ان کو پہلے سے نہ جانتا تووہ یہی سمجھتا کہ یہ گھاس کاٹ کر آئے ہیں.ان کانام مولوی خان ملک صاحب تھا.وہ کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق خبر سن کر قادیان آئے اورآپ کی باتیں سن کر ایمان لے آئے.واپسی پر جب وہ لاہورپہنچے تو انہوں نے ارادہ کیاکہ مولوی غلام احمد صاحب سے ملتے چلیں.مولوی غلام احمد صاحب شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اوروہ مولوی خان ملک صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے.مولوی غلام احمد صاحب بھی بہت مشہور عالم تھے اور چونکہ لاہو رکے لوگ اچھے متموّل تھے اس لئے مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اورسینکڑوں طالبعلم ان کے پاس پڑھتے تھے.جب مولوی خان ملک صاحب شاہی مسجد میں پہنچے تووہاں کے طلباء کو تو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کس پایہ کے آدمی ہیں انہوں نے ان کے معمولی لباس اورظاہری صورت سے یہ اندازہ لگایاکہ یہ کو ئی معمولی آدمی ہیں.مولوی غلام احمد صاحب نے مولوی
خان ملک صاحب سے پوچھا.فرمائیے.کہاںسے تشریف لارہے ہیں.انہوں نے کہا.’’قادیان سے.‘‘انہوں نے حیران ہوکر پوچھا.‘‘قادیان سے ‘‘.انہوں نے کہا.ہاں قادیان سے.انہوں نے کہا.کیوں؟ کہنے لگے.مرزا صاحب کامرید ہونے کے لئے گیاتھا.انہوں نے کہا.آپ اتنے بڑے عالم ہیں آپ نے ان میں کیا خوبی دیکھی کہ ان کے مرید ہونے کے لئے چلے گئے.مولوی خان ملک صاحب نے پنجابی میں انہیں کہا کہ ’’ تُوں اپنا کم کر تینوں تے قَالَ یَقُوْلُ وی چنگی طرح نہیں آوندا.‘‘یعنی تُواپنا کام کر تجھے تو ابھی قَالَ یَقُوْلُ بھی اچھی طرح نہیں آتا.چونکہ مولوی غلام احمد صاحب بھی بڑے مشہور عالم تھے اس لئے جب مولوی خان ملک صاحب نے یہ الفاظ کہے تو مولوی غلام احمد صاحب کے شاگردوں کو سخت غصہ آیا اورانہوں نے مولوی خان ملک صاحب سے مخاطب ہوکر کہا.بڈھے تُونے یہ کیا بات کہی ہے.مولوی غلام احمد صاحب نے ان کو منع کیا اورکہا خاموش رہو کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے.غرض مولوی خان ملک صاحب مرحوم کو صرف و نحو پر اتنا عبور تھا اوروہ اپنے فن میں اتنے ماہر تھے کہ تمام ہندوستان میں ان کا شہرہ تھا اوران کی بعض تصانیف کے متعلق لو گ یہ سمجھتے تھے کہ ان کتب کا لکھنے والا چار پانچ سوسال پہلے کاکوئی عالم ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ان کا ایک واقعہ سنایاکرتے تھے.ان کے بڑے لڑکے کانام عبداللہ تھا.انہوں نے ایک دفعہ عبداللہ کے متعلق حضرت خلیفہ اولؓ سے شکایت کی کہ میرایہ لڑکا علم کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتا آپ اس کو سمجھائیں کہ اگرآج اس نے تعلیم حاصل نہ کی تو یہ نقصان اٹھائے گا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے عبداللہ کو بلوایااورکہا.تمہارے والد صاحب اپنے علمی پایہ کی وجہ سے سارے ہندوستان میں شہرت رکھتے ہیں تم کیوں نہیں پڑھتے.وہ کہنے لگا.میں پڑھتاتوہوں مگروہ مجھے پڑھاتے ہی نہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا.وہ تو میرے پاس شکایت لے کرآئے تھے کہ تم پڑھتے نہیں اور تم کہتے ہوکہ میں پڑھتاہوں اوروہ مجھے پڑھاتے نہیں.وہ کہنے لگا.بات دراصل یہ ہے کہ وہ مجھے عربی پڑھنے کے لئے کہتے ہیں اورمیں عربی پڑھنا نہیں چاہتا بلکہ میں انگریزی پڑھناچاہتاہوں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا.تم عربی کیوں پڑھنا نہیں چاہتے او رانگریزی کیوں پڑھناچاہتے ہو.و ہ کہنے لگا.بات یہ ہے کہ جب نئی نئی ریل آئی تو میں اوروالد صاحب ایک سفر پر گئے.اورآپ تو کہتے ہیں وہ بڑے عالم ہیں مگران کو اتنابھی پتہ نہ تھا کہ گاڑی میں فرسٹ اورسیکنڈ کلاس بھی ہوتی ہے.چنانچہ یہ اپنی گٹھڑی اٹھائے ہوئے فسٹ کلاس کےڈبہ میں گھس گئے.وہاں کوئی اینگلو انڈین ٹکٹ کلکٹرکھڑاتھا اس نے انہیں کہا.ہٹ بابا تیرایہاں کیاکام ہے.جب اینگلوانڈین نے ان کو جھڑکا تویہ پلیٹ فارم پر ہی بھاگ کھڑے ہوئے.میں ان کے پیچھے دوڑا.مگریہ اسٹیشن سے دورنکل گئے اورکوئی میل
بھر تک بھاگتے چلے گئے.آخر میںنے انہیں جاکر پکڑا اور پوچھا.آپ بھاگتے کیوں ہیں.کہنے لگے.مجھ سے غلطی ہوگئی تھی اس لئے خطرہ تھاکہ مجھے سرکاری آدمی پکڑ کرنہ لےجائیں.اس دن سے میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہوجائے میں نے عربی نہیں پڑھنی اور اگرپڑھنی ہے توانگریزی پڑھنی ہے.کیونکہ عربی کے اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود جب اس قدر جہالت رہتی ہے کہ گاڑی کے فرسٹ اورتھرڈ کلا س کے ڈبوں کی شناخت بھی نہیں ہو سکتی تواس علم کا فائدہ ہی کیاہے اس لئے اگر یہ مجھے پڑھاناچاہتے ہیں توانگریزی پڑھائیں عربی تومیں کبھی بھی نہیں پڑھوں گا.اب دیکھو اتنا اعلیٰ پایہ کے عالم و فاضل کا بیٹاباوجود باپ کی خواہش کے کہ وہ علم حاصل کرے دینی علم سے محروم رہ گیا.پس وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ تربیت اوراصلاح کاکام اتنا عظیم الشان ہے کہ یہ بہت زیادہ محنت چاہتاہے اوریہ کام ایساہے کہ جب تک تربیت اوراصلاح پانے والوں کے اندر جوش اوراخلاص اورفرمانبردار ی کامادہ موجود نہ ہو.اس کوسرانجام نہیں دیاجاسکتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں مخالفین منکرین اورغیر متبعین کے متعلق فرمایاکہفَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ.یعنی ان کو تو ڈرالیکن اگر وہ تیری بات نہ مانیں توتُوان سے کہہ دے کہ میں تمہارے اعمال کاذمہ وار نہیں ہوں وہاں مومنوں کے متعلق فرمایا وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ.الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ.وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ.اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ.درحقیقت اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجومومنوں کی خبرگیری اورتربیت کاحکم دیاتھا وہ پورا نہیں ہوسکتاتھا جب تک تین باتیں نہ ہوں.ایک تویہ کہ خدا تعالیٰ کی تائید ہو دوسرے یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اند ران کی تربیت کاکامل جذبہ موجود ہو اورتیسرے یہ کہ جن کی آپؐ تربیت اور خبرگیری کرناچاہتے تھے ان کے اند ر ماننے کاجذبہ موجود ہو.ان تینوں چیزوں کے متعلق فرماتا ہے (۱) وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ تواللہ پرتوکل کرکے اس کام کو شروع کردے وہ تیری ضرو رمددکرے گا.یعنی میں تیری مدد کروں گا.(۲)الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ تیرے اندر کیاروح کام کررہی ہے.یعنی تُو اپنے اندر یہ جذبہ رکھتاہے کہ ان کی تربیت کرے.آگے فرماتا ہے (۳)وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ.پھر تیسری بات بھی تجھے حاصل ہے یعنی تُو ان لوگوں میں پھرتاہے جوہررنگ میں تیری اطاعت اورفرمانبرداری کاجذبہ اپنے اندر رکھتے ہیں.یہ تین مشکلات تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیا ت میں ذکر کیا ہے.فرماتا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ کی تائید چاہتاہے.سومیں تیری مددکرنے کے لئے تیار ہوں.یہ کام تیرے اندردوسروں کی تربیت اوراصلاح کرنے کا جذبہ چاہتاہے.سووہ تیرے اندرموجود ہے.یہ کام ان لوگوں کے اندر جن کی تو تربیت اورخبرگیری کرناچاہتاہے کامل اطاعت او رفرمانبرداری کی
روح چاہتاہے سووہ ان کے اند رموجود ہے.اس لئے تجھے اس کام میں کسی قسم کی تکلیف کاسامنانہیں ہوسکتا.بعض مفسرین نے غلطی سے وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ.کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما م آباء مومن یعنی ساجد تھے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا.کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ وہ مجھے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت دےدے مگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی (مسند احمد بن حنبل : مسند ابی ھریرہؓ) اس سے معلوم ہوتاہے کہ مفسرین کایہ نظریہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباء مومن تھے درست نہیں.حضرت عبدالمطلب کے متعلق بھی جہاں توحید کی باتوں کا ذکر آتاہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ ایک دُبدبہ کی حالت میں تھے.کبھی توحیدکی طرف مائل ہوجاتے تھے اور کبھی شرک کی طرف.ان کا چاہِ زمزم کی تلاش کے وقت یہ نذر ماننا کہ اگرخداانہیں دس بچے دے گا اوروہ ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوں گے تووہ ان میں سے ایک کو قربان کردیں گے.اورپھر ہبل کے سامنے ان کا قرعہ اندازی کرنا بتارہاہے کہ توحید کاصحیح مقام انہوں نے نہیں سمجھا تھا.پس یہ کہنا کہ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ کے معنے یقینی اورحتمی طورپر یہی ہیں درست نہیں.اصل معنے یہ ہیںکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تعریف کرتاہے اورفرماتا ہے کہ تمہارارات دن ایسے لوگوں میں گذرہورہاہے جواللہ تعالیٰ کے پرستار اوراس کی عبادت کرنے والے ہیں.تقلّب کا لفظ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ تیری نظر بار بار اس معاملہ میں آسمان کی طرف اٹھتی ہے.پس تَقَلُّبٌ کے معنے کسی چیز کی طرف بار بار جانے کے ہوتے ہیں.اوریہ ایک حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقلّب صحابہؓمیں ہی تھا.کبھی جنگی مشاورت ہورہی ہوتی تھی اورجرنیل آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے.کبھی قضاء کے معاملات کافیصلہ ہورہاہوتاتھا اورقاضی اورتفقہہ رکھنے والے صحابہؓ آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے کبھی تصوّف کے دریابہائے جاتے تھے اورصوفیاء کاگروہ آپؐ کے اردگرد جمع ہوتاتھا.کبھی صدقہ و خیرات کا ذکر ہورہاہوتاتھا اورصدقہ و خیرات دینے والے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی اطاعت کانمونہ دکھانے والے ہرقسم کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے.جس قسم کے کام کی آپؐ کو ضرورت ہوتی تھی نہ صر ف اس کام کے ماہر آپ کے پاس موجو د تھے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اوردن رات اس کی پر ستش کرنے والے بھی تھے.اوررات دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے ہی لو گوں میں چکر لگارہتاتھا.تَقَلُّبٌ بھی یہی ہوتاہے کہ اِدھر اُدھر چکر کاٹنا.
اورآپؐ کا ادھر ادھر چکر کاٹنا صحابہ کی ذات کے لحاظ سے ہی تھا.پس تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے اعلیٰ درجہ کے ساتھی ملے ہوئے تھے کہ آپ جس طرف بھی منہ کرتے ادھر ساجد ہی ساجد نظر آتے تھے.جرنیلوں کی طرف منہ کرتے توآپ ؐکے پاس ساجد جرنیل تھے.قاضیوں کی طر ف منہ کرتے توآپؐ کے پاس ساجد قاضی تھے.مدرسوں کی طرف منہ کرتے توآپؐ کے پاس ساجد مدرس تھے.صوفیاء کی طرف منہ کرتے تو آپؐ کے پاس ساجد صوفیاء تھے.اقتصاد اور تمدن کے ماہرین کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد ماہرین اقتصاد اورساجد ماہر ین تمدن تھے.غرض جس طبقہ کی طرف بھی آپ منہ کرتے آپ کو ایسے لوگ مل جاتے جو اس فن کے بھی ماہرہوتے اوراللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورعبادت گذاربھی ہوتے.اسی احسان کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے اورفرمایا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے گردو پیش سب موحد ہی موحد ہیںاورتُو رات دن ان موحدین میں پھر تاہے.یہ ہماراکتنا بڑااحسان ہے کہ مکہ جیسی شرک کی سرزمین میں ہم نے موحد ہی موحد پیداکردیئے ہیں اوران لوگوں کو توحید پرعامل کردیاہے.جو ایک نہیں دونہیں سینکڑوں بتوں کی پوجاکرتے تھے.تُو دائیں جاتاہے توتجھے موحد نظرآتے ہیں.توبائیں جاتاہے تو تجھے موحد نظر آتے ہیں.توادھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں اورتو اُدھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں.غرض توجہاں بھی جاتاہے تجھے موحد نظر آتے ہیں.اورمکہ جیسی بستی میں جہاں رات دن بتوں کی پر ستش ہوتی تھی ہم نے تیرے ساتھ موحدین پیداکردیئے ہیں.پس تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَکاوہ مفہوم نہیں جومفسرین نے سمجھا ہے بلکہ ا س آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیاگیاہے جواس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا کہ اس نے آپؐ کے گرد ساجد ہی ساجد جمع کردیئے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض انبیاء کی بیویاں ان پر ایمان نہیں لائی تھیں.بعض کی اولاد نے ان کی نبوت کاانکار کردیاتھا.اور گو بیویوں یا اولاد کے انکار سے نبی کی شا ن میں کوئی فرق نہیںآتالیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں تو خدا تعالیٰ کے دین پرفدا.آپؐ کی اولاد تھی تووہ بھی دین پر قربان.آپؐ کے ساتھی تھے تووہ اسلام کے سچے عاشق.یہاں تک کہ سب تعلق رکھنے والوںکو اللہ تعالیٰ نے ساجد بنادیا.اوریہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اور کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم توجہاںکہیں جاتاہے موحدین اورساجدین میں پھر تاہے تیرے گھر میں توحید.تیرے دوستوں میں توحید.پھر تُو جدھر جاتاہے توحید کابیج بوتاجاتاہے اورتونے ہزاروں مشرکین کو ساجد بنادیاہے.اس جگہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک حوالہ پر بھی کچھ روشنی ڈالی
جائے.جس کا اسی آیت کے ساتھ تعلق ہے.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’تریاق القلوب ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’ ایک اورجگہ قرآن شریف میں فرماتا ہےوَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ.الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ.وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَیعنی خدا پر توکل کر جوغالب اور رحم کرنے والا ہے.وہی خداجو تجھے دیکھتاہے.جب تو دعااو ردعوت کے لئے کھڑاہوتاہے.وہی خداجوتجھے اس وقت دیکھتاتھا کہ جب توتخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلاآتاتھا.یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ کے پیٹ میں پڑا.’’ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۸۱) یہ حوالہ چونکہ بظاہر اوپر کی تشریح کے خلاف نظر آتاہے اس لئے یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ساجد کے لفظی معنے ایسے فرمانبردارکے ہوتے ہیں جو ہربات کو تسلیم کرتاہو اوربغاوت اورنشوز کے آثار اس میں نہ پائے جاتے ہوں.لیکن اگر ہم گہراغور کریں توساجد کالفظ دوجگہ استعمال ہو سکتا ہے ایک مومن ساجد کے لئے اورایک سوسائٹی کے ساجد کے لئے.مومن ساجد وہ ہو گاجو خدا تعالیٰ کی باتیں ماننے والا ہواو رخدا تعالیٰ کے قوانین سے بغاوت کرنے والا نہ ہو.اورسوسائٹی کاساجد وہ ہوگاجوسوسائٹی کی باتیں ماننے والا ہو اور سوسائٹی کے قوانین سے بغاوت کرنے والانہ ہو.اب ہم اس آیت کے معنوں کی طرف آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں.ایک بطن توقرآن کریم کایہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے سیاق و سباق کی تما م آیات کو دیکھاجاتاہے اوراس کے معنے سیاق و سباق کی آیات کومدنظر رکھ کرکئے جاتے ہیں.کیونکہ اگر سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھاجائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتاہے.پھر ایک بطن یہ ہے کہ معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں او رکچھ پیچھے آنے والی آیتوں کودیکھاجاتاہے اوران کے معنوں میں تطابق کا لحاظ رکھاجاتاہے.پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتاہے.پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں.پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے.اسی طرح اوربھی بعض بطن ہیں.یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطافرمایا ہے.بعض دفعہ ایک مضمون کاتعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتاہے اوربعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ.پھر ایک معنے کسی آیت کے منفرداًہوتے ہیں اورایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کرکئے جاتے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معنوں کی اس جگہ کیا صورت ہے.اس نقطئہ نگاہ سے اگر ہم غور
کریں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپؐ نے اس آیت کے معنے منفرداًلئے ہیں.سیاق و سباق کو نہیں لیا.آپ نے جس مضمون میں اس آیت کو بیان فرمایا ہے.وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اچھے اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں اور ان کی قوم ایسی اعلیٰ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس سے کراہت نہیں کرسکتا.کیونکہ اگروہ ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں جس کو اس شہر یا علاقہ یاملک کے لوگ ذلیل اورحقیر سمجھتے ہوں توان کا مانناطبائع پر گراں گذرتاہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت اورحکمت کے خلاف ہے کہ وہ حقیر قوموں میں سے نبیوں کو مبعوث کرکے لوگوںکو تکلیف مالایطاق میں ڈال دے.پس چونکہ ایسے خاندان سے کسی نبی یا رسول کامبعوث ہونا جو رذیل سمجھاجاتاہو طبائع کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے اوراس میں مشکلات پیش آتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبیوں اورماموروں کو شریف اور وجیہہ خاندانوں میں سے مبعوث کرتاچلاآیاہے تاکہ لوگوں کے قلوب میں ان کے خلا ف نفرت اورحقارت کے جذبات پیدانہ ہو ں.پس آپ نے اس آیت کے جو معنے لئے ہیں وہ منفردًالئے ہیں سیاق وسباق کے لحاظ سے نہیں لئے.آپ نے ان معنوں کو اس رنگ میں لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آباواجداد سوسائٹی کے ساجد تھے سوسائٹی سے بغاوت نہ کرتے تھے بلکہ اچھے شہری تھے اوروہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جن کو قوم حقیر،نافرمان یا غدارسمجھتی تھی.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توفرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہرنبی ہی ایساہوتاہے.اس طرح یہ معنے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں نہیں ہوں گے بلکہ سب نبیوں پر ہوجائیں گے.ان معنوں کے لحاظ سے یہاں ساجد کے معنے خدا تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے کے نہیں ہوسکتے.کیونکہ یہ تو مسلمہ امر ہے کہ بعض انبیاء کے آباء و اجداد ساجداً للہ نہ تھے.اس لئے لازماً اس کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ سوسائٹی کے ساجد اورسوسائٹی کے قوانین سے بغاوت نہ کرنے والے.ہرسوسائٹی کے اند ر شرافت کا ایک خاص معیار ہوتاہے.مثلاً شراب پینا ایک فعل ہے.اب فرض کرو ایک مسلمان بھی شراب پیتاہے اورایک انگریز بھی شراب پیتاہے.توجب مسلمان شراب پئے گا تو اسے اس کی سوسائٹی غیر شریف قراردے گی اورجب انگریز شراب پئے گا اسے اس کی سوسائٹی شریف کہے گی.غرض فعل ایک ہی ہے مگر جب اسے دوالگ الگ سوسائٹیوں کے معیار وں پر رکھاجائے گاتو ایک سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل گناہ بن جائے گااوراس کامرتکب سخت گناہگار قرار پائے گا اوردوسری سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل عین شرافت سمجھاجائے گا اوراس کامرتکب سوسائٹی کا فرمانبردار قرارپائے گا.پس شرافت کامعیار ہرسوسائٹی کے اپنے اپنے قوانین کے مطابق ہوتاہے.اس میں کوئی شبہ نہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد عرب کی سوسائٹی کے مطابق شریف تھے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ معیارِ اسلام کے مطابق ان میں نیکیاں نہیں پائی
جاتی تھیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے جومعنے لئے ہیں منفرداًلئے ہیں.سیاق وسباق کے لحاظ سے نہیںلئے.اورقرآن کریم کے ایک بطن کے لحاظ سے وہ بھی درست ہیں.اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں.اس لئے ایک ایک آیت کے کئی معنے کئے جاسکتے ہیں جو اپنے اپنے رنگ میں سب کے سب درست ہوں گے.ایک معنے منفرد آیت کے ہوتے ہیں.ایک معنے کئی آیتوں کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں.ایک معنے پوری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں.ایک معنے کئی سورتوں کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں.اورایک معنے سارے قرآن کریم کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں اوروہ سارے معنے ہی صحیح ہوتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اس آیت کے جو معنے کئے ہیں وہ انفرادی لحاظ سے کئے ہیں اورآپ نے یہ ثابت کیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد سوسائٹی میں شریف اور معزز سمجھے جاتے تھے اورسوسائٹی کے قوانین کے پابند تھے.گویاعرب کی سوسائٹی کے لحاظ سے جن خاندانوںکو شرفاء کے خاندان قرار دیاجاتاتھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان نہایت شریف تھا.چنانچہ اس فرق کو قرآن کریم نے بھی اتنا تسلیم کیاہے کہ اہل کتاب کے ہاتھ کا کھاناجائز قرار دیاہے اورمشرک کے ہاتھ کا کھاناناجائز قرار دیاہے.حالانکہ اہل کتاب شراب بھی پیتے ہیں اورسؤرکاگوشت بھی کھاتے ہیں اوران کے مقابلہ میں مشرکین میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جوسؤر نہیں کھاتے (یہاں مشرک کے معنے یہ ہیں کہ وہ جو کسی کتا ب کو ماننے والانہ ہو.یہ نہیں کہ جو اہل کتاب ہو وہ شرک کرتاہی نہیں.باریک معنوں کی روسے تواہل کتاب بھی مشرک ہوتے ہیں اوردہریہ بھی مشرک ہوتے ہیں.لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں مشرک کا اَورمفہوم ہے او رعرف عام میں مشرک کا اَور مفہوم ہے.قرآن کریم نے اہل کتاب ان کو قرار دیاہے جوکسی کتاب کے قوانین کو مانتے ہیں چاہے وہ ان قوانین پرعامل نہ ہوں.ان کاقوانین کو تسلیم کرنا ہی ان کو اہل کتاب کانام دینے کے لئے کافی ہے.جیسے بہت سے مسلمان بھی قرآن کریم کے احکام پر نہیں چلتے مگروہ کہلاتے مسلمان ہی ہیں)بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے کھانے کو اس لئے جائز قرار دیاہے کہ ان میں کسی کتاب کوماننے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ اخلاق ضرور ہوں گے اورہم ان پر یہ حسن ظنی کرسکتے ہیں کہ چونکہ اہل کتاب میں سے کسی بھی کتاب میں دھوکادیناجائز نہیںاس لئے یہ دھوکادےکر ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں کھلادیں گے جوہمارے مذہب کی روسے ناجائزہو.لیکن جو شخص خود کہتاہے کہ میں کسی قانون کاپابند نہیں توچاہے وہ شریف ہی کیوں نہ ہو ہم اس پر حسن ظنی نہیں کرسکتے.کیونکہ ہم یہ سمجھیں گے کہ چونکہ اس کے لئے کسی قانون کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے دھوکایافریب کرنے میں کوئی روک نہیں
ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ ہمارے ساتھ دھوکاکرجائے اورہمیں کوئی ایسی چیز کھلادے جو ہمارے مذہب میں ناجائزہو.پس قرآن کریم نے جو اہل کتاب کاذبیحہ کھانے کی اجازت دی ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ و ہ ایک قانون کے پابند ہیں.حالانکہ وہ سؤر کاگوشت بھی کھاتے ہیں.مگر مشرک کے ہاتھ کاکھانے کی صرف اس لئے اجازت نہیں دی کہ وہ کسی قانون کا پابند نہیں.اوراس کو دھوکایافریب دینے سے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے.ایک اہل کتاب چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق نہ ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت ہے.اورمشرک چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت نہیں.کیونکہ اہل کتاب کسی نہ کسی قانون کے پابند ہیں.یہودی تورات کو مانتے ہیں.عیسائی انجیل کومانتے ہیں اورہندوویدوں کو مانتے ہیں اوران سب کاقانون ا س امر پر متفق ہے کہ کسی کے ساتھ دھوکاکرناجائز نہیں ہے.اسی لئے شریعت اسلامیہ نے اہل کتاب کو دوسروں سے زائد حقوق دیئے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد چونکہ اچھے شہری تھے اورسوسائٹی کے قانون کے پابند تھے اس لئے انہیں ساجد کہاگیا.مگر وہ ساجداًللہ نہیں تھے بلکہ ملکی قانون کے ساجد تھے.اورشریف خاندان رکھتے تھے.اورانبیاء ہمیشہ شریف اوراعلیٰ خاندانوں میں سے ہی آتے ہیں.اگر کوئی نبی ادنیٰ اقوام میں سے آجائے (جو سنت اللہ کے خلاف ہے) تولوگ اس کو مان نہیںسکتے.وہ کہیں گے کہ اس کاخاندان اچھا نہیں ہے.یایہ غلام ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہی دیکھ لو.آپ غلام نہ تھے مگر چونکہ کچھ عرصہ آپ نے فرعون مصر کے گھر سے روٹی کھائی تھی اس لئے فرعون نے کہہ دیا کہ یہ وہی ہے جس کو ہم نے روٹیاں کھلا کھلا کر پالا ہے (الشعراء:۱۹).اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو.عیسائی آج تک آپؐ کے متعلق یہ طعنہ دیتے ہیں کہ آپ لونڈی کی نسل میں سے تھے.وہ لوگ حضر ت ہاجرہؓ کو لونڈی قرار دیتے ہیں(پیدائش باب ۱۶ آیت ۲).حالانکہ تورات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت ہاجرہؓ مصر کے بادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھیں.اوراس بادشاہ نے انہیں اخلاص کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں تحفۃً پیش کیاتھا مگر عیسائیوں نے صرف اس لئے کہ حضرت ہاجر ہؓ تحفۃً دی گئی تھیں ان کو لونڈی قرار دے دیا.غرض دشمن توہمیشہ تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتاہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اعلیٰ اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کومانتے ہوئے انقباض پیدانہ ہو.اسی لئے جب ہرقل قیصر روم نے ابوسفیان سے سوال کیا کہ یہ شخص (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)جو نبوت کادعویٰ کرتاہے.اس کا خاندان کیسا ہے توابوسفیان نے یہی جواب دیا کہ وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی).پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے
معنے سیاق و سباق کے تسلسل میں بیان نہیں فرمائے.بلکہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ نبی اپنی قوم میں شریف ہوتے ہیں.اورابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انبیاء آئے ہیں وہ سب کے سب معزز خاندانوں میں سے تھے.اچھے شہریوں اور قانون وقت کے ساتھ چلنے والوں اورسوسائٹی کے مفید ترین لوگوں کی اولادوں میں سے تھے اس لئے لوگ ان کی تحقیر و تذلیل نہ کرسکتے تھے بلکہ ان کا پو راادب اور احترام کرتے تھے.غرض اس آیت کے ایک معنے تو وہ ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے منفرداًکئے ہیں اور دوسرے معنے وہ ہیں جومیں نے سیاق وسباق کے تسلسل کے لحاظ سے بیان کئے ہیں.لیکن اس آیت کے ایک تیسرے معنے ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے بھی ہیں.اس سورۃ(الشعراء)میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آتاہے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آتاہے.پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرآتاہے.پھر حضرت صالح علیہ السلام کا ذکر آتاہے.پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آتاہے اور پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر آتاہے.ان سب انبیاء کا ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتا ہے.ان کے علاوہ بہت سے انبیاء ایسے بھی ہیں جن کے نام قرآن کریم میں نہیں آئے اوران کی تاریخ بھی محفوظ نہیں.قرآن کریم نے قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان کردیاہے کہ تمام انبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردیتے چلے آئے ہیں اورسب نے آپ کے متعلق پیشگوئیاں کیں.مگران میں سے بعض کی پیشگوئیاں تو محفوظ ہیں اورباقی انبیاء کی پیشگوئیاں محفوظ نہیں ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیاں موجود ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں تورات میں موجود ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں انجیل میں موجود ہیں یہ تو ایسے ہیں جن کی پیشگوئیاں ان کی کتابوں میں موجود ہیں.لیکن جن انبیاء کے نام قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے اورنہ ہی ان کی کوئی تاریخ موجود ہے.ان کی پیشگوئیاں بھی محفوظ نہیں ہیں.ان تمام انبیاء کاجن کے نا م میں نے اوپر بتائے ہیں ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کیا اس پر شیطان اتر سکتاہے اگر شیطان اترتا توان کے پاس اس بات کاکوئی ثبوت بھی ہوناچاہیے.آخر ان منکرین میں سےبعض ایسے لوگ بھی ہیں جوکسی نہ کسی نبی کو مانتے ہیں.ان میں عیسائی بھی ہیں یہودی بھی ہیں اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں.عیسائی حضرت عیسیٰؑ کومانتے ہیں.یہودی حضرت موسیٰ ؑ.نوح ؑ ابراہیم ؑ اورلوط ؑ کومانتے ہیں اور دوسرے کفار ہودؑ اورصالح ؑ کومانتے ہیں.ان سارے گروہوں میں سے مکہ والوں کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئیاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق موجود تھیں.عیسائیوں کے جدامجد موسیٰ کی پیشگوئیاں موجود تھیں.غرض اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
فرماتا ہےتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ.تیری صداقت کاایک بہت بڑاثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء تیری خبر دیتے چلے آئے ہیں.تَقَلُّبٌ کے معنے ہوتے ہیں چلنا پھرنا.یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو موسیٰ ؑ کے سامنے کشفی حالت میں موجود تھا.تُو ابراہیمؑ کے سامنے موجود تھا.تونوح ؑ کے سامنے موجود تھا.توہودؑ کے سامنے موجود تھا.توصالح ؑ کے سامنے موجود تھا.فرماتا ہے جب تو ان تمام انبیاء کے سامنے موجود تھا جن کو یہ لوگ اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہیں تویہ کس طرح تیرانکار کرسکتے اورکہہ سکتے ہیں کہ توراستبازوں میں سے نہیں ہے.ابراہیمؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا.اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبردی.موسیٰ ؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبر دی اورعیسیٰؑ نے تجھے دیکھا.اسی لئے اس نے تیر ی خبر دی اوران تمام نبیوں نے بتایاکہ اس شان کاایک نبی پیدا ہونے والا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان انکار کرنے والوں کے جتنے باپ دادے تھے.وہ تیرے متعلق گواہیاں دے چکے ہیں کہ اس اس شان کا ایک نبی آئے گا اس کومان لینا.اب یہ کس طرح تیرانکار کرسکتے ہیں اوراپنے بزرگوں کی شہادت کو ردّ کرسکتے ہیں.غرض ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ کے معنے ہیں.تَقَلَّبَکَ فِی الْاَنْبِیَائِ.یعنی ابراہیمؑ نے انگلی اٹھائی اورکہایہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)راستباز ہے.نوح ؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا.یہ راستباز ہے.موسیٰ ؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا.یہ راستباز ہے.عیسیٰ ؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا یہ راستباز ہے.ہود ؑ،صالح ؑ،لوط ؑ اورشعیبؑ نے انگلیاں اٹھائیں اورکہا یہ راستباز ہے.فرماتا ہے ان تما م انبیاء نے جن کو تم اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہو خبر دی تھی کہ یہ راستباز ہے.اب تم اس کا کس طرح انکار کرسکتے ہو؟ اس کے بعد فرماتا ہے اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ یقیناً وہ خداجس نے تجھے مبعوث کیاہے دعائوں کو قبول کرنے والا اوراپنے بندوں کے حالات کو جاننے والا ہے.اس سے بھی ظاہر ہے کہ پہلی آیت میں نمازوں اوردعائوں کاہی ذکر ہے.نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ دادوں کا.تبھی وہ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ دعائیں سننے والا اور جاننے والا ہے.یعنی تیری اور تیرے ساتھیوں کی دعائیں تعلیم اسلام کو مکمل سے مکمل ترکرتی چلی جاتی ہیں.اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ:۱۱۵) یعنی توہمیشہ اللہ سے یہ دعاکرتا رہ.کہ اے میرے رب !میرے علم کوبڑھا.چونکہ یہ قرآنی دعا ہے.اس لئے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی یہ دعانہیں مانگتے تھے بلکہ سارے مسلمان مانگتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تو اس دعاسے یہ ہوتی تھی کہ اے خدا!تومجھ پر قرآن کریم کو مکمل سے مکمل ترکرکے اتار اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ مراد ہوتی تھی کہ اے خدا !ہمارے رسول کے ذریعہ سے ہمیں کامل سے کامل تر شریعت عطافرما.
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُؕ۰۰۲۲۲تَنَزَّلُ عَلٰى کیا میں تجھے بتائوں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں ؟ (شیطان)ہرجھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں وہ اپنے کان كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍۙ۰۰۲۲۳يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ۰۰۲۲۴ (آسمان کی طرف )لگاتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.حلّ لُغَات.اَفَّاکٍ.اَفَّاکٌکے معنے ہیں اَلَّذِیْ یَصُدُّ النَّاسَ عَنِ الْحَقِّ بِبَاطِلِہٖ.وہ شخص جو لوگوںکو حق و صداقت کے قبول کرنے سے اپنے جھوٹ اور باطل طریقوں سے روکتاہے.(اقرب) تفسیر.پہلے تواللہ تعالیٰ نے یہ بتایاتھاکہ اس قرآن کو شیاطین نے نازل نہیں کیا اورنہ ان میں طاقت تھی کہ و ہ ایساکرسکتے.اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کے اس اعتراض کے جواب میں یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ شیاطین جن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں ان کی کیا علامات ہوتی ہیں.چنانچہ فرماتا ہے تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ.شیطان ہرجھوٹے گناہگار پر اترتاہے.یعنی شیطان کا تعلق تو اَفَّاک اور اَثِیْم کے سواکسی سے ہوہی نہیں سکتا.کیونکہ شیطان خود جھوٹ بولتاہے اوراس کانام شیطان ہی بتاتا ہے کہ وہ بڑاگناہگار ہوتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تونہ جھوٹا ہے اورنہ گناہگار پھر اس پر شیاطین کس طرح اترسکتے ہیں.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تووہ ہیں جن کی صداقت اورراستبازی کے تم بھی قائل ہو.چنانچہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا توچونکہ مکہ عرب کے لوگوں کا مرکز تھا.اورلوگ وہاں حج کرنے کے لئے آیاکرتے تھے.اس لئے چند سربرآوردہ لو گوں نے جمع ہوکر تجویز کی کہ اس سا ل جب باہر سے لوگ حج کرنے کے لئے آئیں گے تواگرہم ان کو آپؐ کے متعلق مختلف باتیں بتائیں گے تووہ ہماری رائے کو غلط سمجھیں گے.چاہیے کہ مل کر ایک فیصلہ کرلیا جائے اور وہی جواب انہیں دیاجائے.اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم کہہ دیاکریں گے کہ وہ جھوٹا ہے.جب اس نے یہ بات کہی.تواسی وقت ایک شدید دشمن النضر بن الحارث جو ش سے کھڑاہوگیا اورکہنے لگا.تم یہ کیا بات کر رہے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو توہم صادق اور امین کے طورپر پیش کیاکرتے تھے اس لئے اب اس کو کیسےجھوٹا کہیں گے.وہ لوگ تواس جواب سے ہمیں ملزم قرار دیں گے اور کہیں گے کہ تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو(شفاء للقاضی عیاض جلد اول صفحہ ۷۹) تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کے تم بھی قائل ہو
توپھر اسی منہ سے یہ کس طرح کہہ رہے ہوکہ اس پر شیطان کلام لے کر نازل ہوتاہے.شیطان تو جھوٹوںاور گنہگاروں پر نازل ہواکرتاہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامنہ جھوٹوں والانہیں بلکہ اس کا چالیس سالہ عمل اور کردار تمہارے سامنے ہے اور تم سب جانتے ہوکہ یہ شخص تم سب میں سے زیاد ہ راستباز تھا.پھر یہ کیسے تعجب کی بات ہے کہ تم شیطان کے نزول کے لئے اسی شخص کانام لے رہے ہو جو شیطان کاسب سے بڑادشمن ہے.پھر فرماتا ہے یُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ.وہ لوگ اپنے کان آسمان کی طرف لگائے رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.آسمان کی طرف اپنے کان لگائے رکھنے کے دومعنے ہیں.ایک معنے تویہ ہیں کہ وہ اس بات کی خواہش اور تمناکیاکرتے ہیں کہ ان پرالہام نازل ہو اورانہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں.اوروہ اپنی اس خواہش میں اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ آخر انہیں شیطانی الہام ہونے لگ جاتے ہیں.جس کی وجہ سے وہ خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کاموجب بنتے ہیں.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تویہ حالت ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کہے کہ مجھ پر کلام نازل کر خداخود اس پر کلام نازل کرتاہے اوروہ نفسانی رنگ میں کبھی یہ خواہش نہیں کرتا کہ خدااس پر کلام نازل کرے تاکہ وہ دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرے.ہاں جو کلام خود اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتاہے اس پر وہ اس کا شکر بجالاتاہے لیکن جو افّاک اوراثیم ہوتے ہیں ان کے دلوں میں ہروقت یہی خواہش موجز ن رہتی ہے کہ کسی طرح ان پر کلام نازل ہوجائے.وہ لو گ کہیں مسمریزم کرتے ہیں.کہیں ہیپناٹزم کاعمل کرتے ہیں اورکہیں وظیفے کرتے اورچلّے کاٹتے ہیں اوراس تمام جدوجہد سے ان کا مقصد صرف اتناہوتاہے کہ انہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام بھی فرمایاکرتے تھے کہ تم کبھی یہ خواہش نہ کرو کہ خدا تعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہو.ہاں اگرخدا تعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہوتاہے اور تم کو کوئی الہام ہوتاہے تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.تم اگراللہ تعالیٰ سے مانگناچاہتے ہو تواس کافضل مانگو.ہاں اگر کسی خاص موقعہ پر انسان استخار ہ کرکے خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کرے تواَوربات ہے.لیکن کلام الٰہی مانگنا اوراس کی خواہش کرنا تواس بات پردلالت کرتاہے کہ اس کے مدنظر صرف اپنی بڑائی کاخیال ہے خدا تعالیٰ کے قرب کی اسے کوئی خواہش نہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہامات کی خواہش رکھنے سے اپنی جماعت کوسختی سے منع فرمایا ہے.چنانچہ آپ اپنی جماعت کو اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ مکالمات الٰہیہ کی اپنے نفس سے خواہش نہیں ظاہرکرنی چاہیے.خواہش کرنے کے وقت
شیطان کو موقعہ ملتاہے اور ہلاک کرناچاہتاہے.بلکہ اپنا مدّعااورمقصود ہمیشہ یہ ہوناچاہیے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو اور اس کی مرضی کے موافق تقویٰ حاصل ہو.اور کچھ ایسے اعمالِ حسنہ میسر آجاویں کہ وہ راضی ہوجائے.پس جس وقت وہ راضی ہوگا تب اس وقت ایسے شخص کواپنے مکالمات سے مشرف کرنا اگر اس کی حکمت اورمصلحت تقاضاکرے گی تووہ خود عطاکردے گا.اصل مقصود ا س کو ہرگز نہیں ٹھہراناچاہیے کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے.بلکہ اصل مقصود یہی ہوناچاہیے کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الٰہی پر پابندی نصیب ہو اورتزکیہ نفس حاصل ہو.اورخدا تعالیٰ کی محبت اورعظمت دل میں بیٹھ جائے اورگناہ سے نفرت ہو.‘‘ (الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۷ ء ص ۷) اسی طرح فرماتے ہیں : ’’ وہ لو گ جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی نہیں رکھتے اورپھر خوابوں کی خواہش رکھتے ہیں اورالہامات کی طرف اپنا دل لگاتے ہیں ان کو حدیث النفس اوراضغاث احلام کے سوائے کچھ حاصل نہیں ہوتا.‘‘ (تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء مندرجہ اخبار بدر ۱۰؍جولائی ۱۹۰۷ء ص ۱۶) اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ آپ ؐپر کلام الٰہی نازل ہواتوآپ گھبراہٹ کی حالت میں اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓسے فرمایا کہ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ مجھے تواپنے نفس کے متعلق ڈرپیداہوگیاہے کہ نہ معلوم میں اس ذمہ واری کو ادابھی کرسکتاہوں یا نہیں.لیکن جوجھوٹے اورشیاطین کی پیروی کرنےوالے لوگ ہوتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ رمل اورنجوم کے ذریعہ اوراسی طرح اَور کئی قسم کے ذرائع سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کی را ت دن کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ لو گ ان کی بزرگی تسلیم کریں اور انہیں اپنا ملجاء و ماویٰ سمجھنے لگ جائیں.یُلْقُوْنَ السَّمْعَ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ شیطان کو شش توکرتے ہیں کہ خدائی باتوں کو سنیں.لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں وہ جھوٹ کو چھو ڑنہیں سکتے وہ خدا کی سنی ہوئی باتوں میں جھوٹ ملادیتے ہیں.اوراس طرح ان کافریب کھل جاتاہے یعنی جب وہ مسلمانوں سے قرآن کریم سنتے ہیں تواس میں غلط باتیں ملا کر لوگوںمیں مشہور کردیتے ہیں اورکہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے قرآن میں یہ یہ باتیں بیان ہوئی ہیں.حالانکہ وہ بالکل جھوٹ ہوتاہے.اس کایہ مطلب نہیں جیساکہ مفسرین نے لکھا ہے کہ شیاطین آسمان پر جاکر خدا تعالیٰ کی وحی کومعلوم کرلیتے ہیں
کیونکہ قرآن کریم کی روسے ایسانہیں ہوسکتا.جیسا کہ اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعَ لَمَعْزُوْلُوْنَ(الشعراء:۲۱۳)یعنی شیطان آسمانی باتوں کے سننے سے دوررکھے گئے ہیں.اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمْ لَھُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُھُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ(طور:۳۹)یعنی کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ وہ آسمان پر جاکر خدا تعالیٰ کی باتیں سن سکتے ہیں.اگر ان میں کوئی اس امر کامدعی ہے کہ وہ آسمان پرگیاتھا.اوراس نے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی تھیں تووہ اپنے دعوے کاثبوت پیش کرے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ آسمان کی باتیں سننا توالگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی اہلیت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی.اورجب یہ حقیقت ہے تو یُلْقُوْنَ السَّمْعَ کے یہ معنے کرنے کس طرح جائز ہوسکتے ہیں کہ وہ آسمان کی باتیں سننے کے لئے اپنے کان لگائے رکھتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ آسمان کی باتیں سننے کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن انسانوں سے خداتعالی کی باتیں سنتے ہیں.لیکن ان میں جھو ٹ ملا کر قرآن کریم کو بدنام کرنے کے لئے لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں اوراس طرح ان کا جھوٹ لوگوں پر واضح ہو جاتا ہے.پس اس کے یہ معنے نہیں کہ شیطان آسمان پر جاکر ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کی باتوں کوسن لیتا ہے اورپھر وہ زمین پر آجاتاہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جولوگ شیطان کے مثیل ہوتے ہیں اورجنہوں نے ابلیسی جامہ زیبِ تن کیاہواہوتاہے.وہ آسمانی باتوںکو ایسے رنگ میں بگاڑ کر دنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ایک فتنہ برپا ہو جاتا ہے اور کئی لوگ ان کے فریب میں آجاتے ہیں.گویا براہ راست کلام الٰہی کے سننے سے تووہ محروم ہی ہوتے ہیں.آسمانی کتابوں سے وہ جوکچھ آسمانی باتیں حاصل کرتے ہیں ان میں بھی اپنی عادت کے مطابق اپنے پاس سے جھوٹ ملادیتے ہیں.اوراس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی بیان فرمائی ہے کہ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا(الانعام :۱۱۳) یعنی اے ہمارے رسول !جس طرح تیرے زمانہ میں ہورہاہے.اسی طرح ہم نے ہرنبی کے زمانہ میں انسان شیطانوں اورجن شیطانوں کو چھوڑ رکھاتھا او روہ ایک دوسرے کودھوکا دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے تھے.یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ انبیاء کے دشمن جوبڑے لوگوں میں سے بھی ہوتے ہیں اورعوام الناس میں سے بھی ہوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے بلکہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو مسلمان علماء نے قرآن کریم کی تفاسیرلکھی ہیں.اور وہیریؔ اوربعض دوسرے مستشرقین نے بھی قرآن کریم کی تفاسیر لکھی ہیں.لیکن عیسائی پادریوں نے اپنی تفاسیر میں اسلام کو بدنام
کرنے کی پوری کوشش کی ہے.پس آسمانی باتیں سننے کے لئے کان تومومن بھی رکھتے ہیں اورکافر بھی.مگرمومن تواس لئے کان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کوسنیں اوراس پر عمل کریں.اورکفار اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ اس میں جھوٹ ملاکر لوگوںکو اورزیادہ گمراہ کریں اورانہیں خدااور اس کے رسول سے دوررکھنے کی کوشش کریں.پھر فرماتا ہے.وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ.ان میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں.اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ شیطان ہرجھوٹے گنہگار پرناز ل ہوتے ہیں اوریہاں فرماتا ہے کہ اَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ.ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.جب اکثر جھوٹے ہوتے ہیں تومعلوم ہواکہ سارے کے سارے جھوٹے نہیں ہوتے حالانکہ كُلُّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ کہہ کر ان میں سے ہرایک کو بلااستثناء جھوٹا کہاگیاتھا.سویاد رکھناچاہیے کہ اَکْثَرُھُمْ کے الفاظ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ کے متبعین کے لئے آئے ہیں یعنی اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ کے متبعین میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں.کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ افَّاکٍ اَثِیْم کے متبعین سارے کے سارے جھوٹے ہوں.ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض غلطی خوردہ ہوں اوروہ اپنے لیڈروں کو سچا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہوں.پس چونکہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جوجھوٹ کو سچ سمجھ کراختیار کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان کے تما م متبعین جھوٹے اورکذاب ہوتے ہیں.بلکہ فرمایا کہ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.ہاں ایک قلیل تعداد غلطی خوردہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے.وَ الشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ۰۰۲۲۵اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ اورشعراء کی جماعت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوتے ہیں.(اے مخاطب)کیا تیری سمجھ میں يَّهِيْمُوْنَۙ۰۰۲۲۶وَ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَۙ۰۰۲۲۷اِلَّا (اب تک)نہیں آیا کہ وہ (یعنی شعراء)توہروادی میں بے مقصود کے پھرتے ہیں.اوروہ ایسی باتیں کہتے ہیں الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ جو کرتے نہیں.سوائے (شاعروں میں سے )مومنوںاورنیک عمل کرنے والوں کے اوران کے جو اللہ(تعالیٰ)
انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا١ؕ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا کا (اپنے شعروں میں)کثرت سے ذکرکرتے ہیں اور(اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتداء نہیں کرتے بلکہ)مظلوم ہونے اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَؒ۰۰۲۲۸ کے بعد (جائز)بدلہ لیتے ہیں اوروہ لوگ جو ظالم ہیں ضرور جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر جاناہوگا.حلّ لُغَات.یَھِیْمُوْنَ.یَھِیْمُوْنَ ھَامَ سے مضارع جمع مذکرغائب کاصیغہ ہے اورھَامَ عَلٰی وَجْھِہٖ کے معنے ہیں ذَھَبَ مِنَ الْعِشْقِ اَوْ غَیْرِہٖ لَایَدْرِیْ اَیْنَ یَتَوَجَّہُ کہ اپنے عشق یا کسی اورمقصد کی خاطرادھر ادھر گھومتا پھرااور اس کومعلوم نہ ہواکہ وہ کدھر جارہاہے (اقرب) پس یَھِیْمُوْنَ کے معنے ہوں گے وہ سرگردان پھرتے ہیں.اِنْتَصَرُوْا.اِنْتَصَرُوْا اِنْتَصَرَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِنْتَصَرَ مِنْہُ کے معنے ہیں اِنْتَقَمَ مِنْہُ اس سے بدلہ لیا.اورجب اِنْتَصَرَ عَلَیْہِ کہیں تو معنے ہوتے ہیں اِسْتَظْھَرَ.اس پر غالب آگیا.وَامْتَنَعَ مِنْ ظُلْمِہٖ.اس کے ظلم سے محفوظ ہوگیا.(اقرب)پس اِنْتَصَرُوْا کے معنے ہیں.وہ انتقام لیتے ہیں.تفسیر.کفار مکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سن کر اپنے جن خیالات کااظہار کیاکرتے تھے قرآن کریم نے ان کا مختلف مقامات میں ذکر کیا ہے.اوربتایا ہے کہ وہ کبھی آپ کو مجنون کہنے لگ جاتے تھے.کبھی کہتے کہ اسے پریشان خوابیں آتی ہیں.جن کی وجہ سے یہ ایسا دعویٰ کربیٹھا ہے.کبھی کہتے یہ ساحر ہے.کبھی کہتے کہ یہ خود تو نیک بخت ہے.لیکن کسی اورنے اس پرجادو کردیاہے.گویا یہ ساحر نہیں بلکہ مسحو رہے.کبھی کہتے یہ کاہن ہے.کبھی کہتے کہ اسے کو ئی اورشخص باتیں سکھا دیتاہے یہ کلام اس کااپنا نہیں.کبھی کہتے کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے کبھی کہتے یہ مفتری اورکذاب ہے اور کبھی کہتے کہ یہ شاعر ہے.چنانچہ سورئہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ.(الانبیاء :۶) یعنی مخالف کہتے ہیں کہ یہ کلام تو پریشان خوابیں ہیں بلکہ پریشان خوابیں بھی نہیں اس نے دیدہ ودانستہ یہ باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں بلکہ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک شاعرانہ مزاج رکھنے والا آدمی ہے جس کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات اٹھتے رہتے ہیں اورجس طرح مشہور اورقادرالکلام شعراء کے اشعار میں بڑی بھاری فصاحت و بلاغت اوربلند پروازی پائی جاتی ہے.اسی طرح اس کاکلام بھی شاعرانہ فصاحت و بلاغت کاحامل ہے.
پس درحقیقت یہ بھی ایک شاعر ہے کوئی روحانی آدمی نہیں.اللہ تعالیٰ زیر تفسیر آیات میں کفار کے اس ادّعاکو بھی باطل ثابت کرتاہے.اورفرماتا ہے کہ تمہارایہ خیال بھی کلّی طورپر غلط ہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ شعراء پر ایسے لوگ ہی گرویدہ ہوتے ہیں جن کا تقویٰ اور روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.چونکہ شعراء اپنے شعروں میں عموماً عشق اور محبتِ نفسانیہ اورشہوانیہ کا ذکر کرتے ہیں.اس لئے ایسے ہی لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں جو خود بھی تقویٰ سے دور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض آوارہ نوجوانوں کو ان کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے ہیں اوربعض شاعروں کی غزلیں رنڈیا ںگاتی ہیں کیونکہ ان میں خدااوراس کے رسول کا کہیں ذکر نہیں ہوتا بلکہ عموماً ان کے ذریعہ نوجوانوں کے شہوانی جذبات کو تحریک دی جاتی ہے اورواعظ اور ناصح پر پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایسے ہی لوگوں میں مقبولیت ہوتی ہے جن کاروحانیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا.مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین توایسے ہیں جنہوں نے اپنی صداقت اوردیانت اور عفت اورپاکیزگی کا ایک بے مثال نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کررکھا ہے.ان کی راتیں قیام وسجود میں.اوران کے دن ذکر الٰہی اوراعلاء کلمئہ اسلام میں بسر ہوتے ہیں.پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ جس مقدس انسان کا دامن چھو کر ان کے اند ر ایسی پاکیزگی پیداہوئی ہے و ہ تمہارے بدعمل شاعروں کی طرح ایک ایساانسان ہے جو جذبات کو بھڑکا کر لوگوںکو اپنے ارد گرد جمع کررہاہے.اس کی جماعت کی پاکیزگی اوران کا تقویٰ و طہارت میں بے مثال نمونہ قائم کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہار ایہ ادّعا بالکل باطل ہے.اور تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سمجھنے میں سخت غلطی کھائی ہے.پھر فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ.کیاتم نہیں دیکھتے کہ شاعر مختلف طبائع کو خوش کرنے کے لئے کبھی اِدھر کی بات کردیتے ہیں کبھی اُدھر کی.ان کے سامنے کوئی خاص مقصد اورمدّعانہیں ہوتا بلکہ جو چیز بھی ان کے ذہن میں آجائے اسی کے متعلق وہ کچھ نہ کچھ کہنا شروع کردیتے ہیں.چنانچہ شاعروں کی کوئی غزل لے لو فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ کاتمہیں ان کی ہرغزل میںنظارہ نظر آجائے گا.ایک شعر میں تولکھا ہوگا.میں مر گیا.میرامعشوق مجھ سے بے وفائی کرتاہے.اورمیں اس کے ہجر میں اس کی بے التفاتی کی وجہ سے جاں بلب ہوں.مگرساتھ ہی اگلے شعر میں یہ لکھا ہوتاہے کہ مجھے اپنے معشوق کاوصال نصیب ہوا.میں جی اٹھا اورمیں زندہ ہوگیا.ساری غزل کا ایک شعر بھی دوسرے شعر سے جوڑ نہیں رکھتا.ایک شعر میں وہ کچھ اَور بیان کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے شعر میں وہ کہیں اَور نکل جاتے ہیں.ایک شعر میں تووہ کہتے ہیں.میں محبوب سے ملنے کی تیار ی کررہاہوں.اور دوسرے میں
ہیں ہائے مراجارہاہوں.غرض ان کی غزلوں کا ہرشعر دوسرے سے متناقض ہوتاہے اوران کی باتوں کا کو ئی سرپیر ہی نہیں ہوتا.کبھی ادھر کی کہتے ہیں کبھی اُدھر کی.کبھی کہتے ہیں میں اپنے محبوب کے عشق میں مرگیا حالانکہ وہ زندہ اپنے شعر سنارہے ہوتے ہیں.کبھی کہتے ہیں میں اپنے معشوق کے عشق میں سرگردان ہو ں.حالانکہ وہ اچھے بھلے دنیا کے کام کررہے ہوتے ہیں.کبھی کہتے ہیں معشوق ہروقت ہمارے دل میں ہے اوریہ بالکل جھوٹ ہوتاہے.کبھی کہتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کے لئے خون کے آنسو پی رہاہوں.حالانکہ وہ آرام سے زندگی بسرکررہے ہوتے ہیں.نہ مر رہے ہوتے ہیں نہ خون کے آنسو پی رہے ہوتے ہیں.ان کا مطلب صرف اتنا ہوتاہے کہ لوگوں کے جذبات کو ابھاراجائے چاہے وہ ابھارنا اچھے رنگ میں ہویابرے رنگ میں.کبھی وہ خوشی کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی غمی کی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ یعنی وہ ہرجنگل میں اورہروادی میں سرگردان پھرتے ہیں.ان کو کسی جگہ بھی جذبات کے ابھار نے کاسامان مل جائے چاہے کہیں سے ملے لے لیتے ہیں.وہ عاشقوںکوبھی خوش کرتے ہیں اورمعشوقوںکوبھی.وہ غریبوں کو بھی خوش کرتے ہیں اورامیروں کو بھی.و ہ مظلوموں کوبھی خو ش کرتے ہیں اورظالموں کوبھی.وہ غالب کو بھی خو ش کرتے ہیں اورمغلوب کو بھی.ان کو توہرکسی کی خوشی مطلوب ہوتی ہے چاہے ان کو اپنے شعروں میں کتنا بھی جھوٹ کیوں نہ بولنا پڑے.وہ چاہتے ہیں کہ کوئی غریب ہمارے شعر پڑھے یاامیر.ظالم پڑھے یامظلوم.عاشق پڑھے یا معشوق،غالب پڑھے یا مغلو ب سب کے سب خوش ہوجائیں چاہے ان کے اشعارحقیقت سے کتنے ہی دور ہوں.پس شعراء کامقصد اورمدعایہی ہو تاہے کہ ہر خاص و عام ان سے خو ش ہو جائے اوران کے شعروںکی داد دے.چنانچہ کبھی وہ کسی امیر کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اورمقصد یہ ہوتاہے کہ کچھ روپے مل جائیں یاکوئی وظیفہ مقرر ہوجائے ورنہ اس کی ذات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکاتھا ایک دفعہ چند لوگوںکو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا تواس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں.جب یہ کھاناکھانے لگیں گے تومیں بھی وہیں سے کھاناکھالوں گا.چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا.جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں جاپہنچے اورانہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنےشروع کردیئے.تب اسے پتہ لگاکہ یہ تو شاعر ہیں اوراپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں.چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی بار ی پر اٹھ کر قصیدہ سناناشروع کردیا.یہ اب سخت حیران ہواکہ میں کیا کروں.شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی.مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی.جب سب شاعر اپنے اپنے قصائد سناچکے اوربادشاہ سے انعام لے کر گھروں کوروانہ ہوگئے توبادشاہ اس سے مخاطب ہوااورکہنے لگا.اب آپ قصیدہ شروع
کریں وہ کہنے لگا حضور میں شاعرنہیں ہوں.بادشاہ نے پوچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں.وہ کہنے لگا.حضورمیں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکرآتاہے کہ وَ الشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ.شاعروں کے پیچھے غاوی آیاکرتے ہیں.وہ شاعر تھے اورمیں غاوی ہوں.بادشاہ کو اس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اس نے حکم دے دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیاجائے.اب یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے عموماً گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ شاعر کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبھی کچھ.ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا.کبھی ہزلیہ کلام سے لوگوں کو ہنساتے ہیں.کبھی شہادتِ امام حسینؓ کا واقعہ لکھ کر لوگوں کورُلاتے ہیں.کبھی مدحیہ قصائد پڑھتے ہیں اور کبھی اس کی ہجو کرناشروع کردیتے ہیں.غرض ہرجنگل میں سرگردان پھرتے ہیں.کوئی ایک مقصد اورمدعالے کر کھڑے نہیں ہوتے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تودنیا میں توحیدپھیلا نے کے لئے آیا ہے اوریہی ایک مقصد ہے جو رات اور دن اس کے دماغ پر حاوی رہتاہے اوراسی کے لئے وہ تکلیفیں اٹھارہاہے.پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہوکہ یہ ایک شاعر ہے.اگر شاعر ہوتاتو اس کا بھی کوئی مقصد نہ ہوتا.جدھر لوگوں کی اکثریت ہوتی ادھر ہی چل پڑتا اوران کو خو ش کرنے کی کوشش کرتا.مگر اس نے توسب دنیا کو اپنا مخا لف بنالیاہے اورہر ایک کو توحید کی طرف لانے کی کوشش کررہا ہے پھر یہ شاعر کس طرح ہوا؟ پھر فرماتا ہے وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَایَفْعَلُوْنَ شاعر وں میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ ان کا قول اَورہوتاہے اورفعل اَور.اوروہ جوکچھ منہ سے کہتے ہیں عملاً وہ ایسانہیں کرتے.یعنی اگر وہ اپنے اشعار میں لوگوںکو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں توخود شرابیں پیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتے ہیں توآپ نماز اور روزہ کے قریب بھی نہیں جاتے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوقول ہے وہی اس کا عمل ہے اورجو بات اس کے عمل میں ہے.وہی اس کی زبان پر ہے.پس تمہارایہ کہناکہ محمد رسول اللہ ؐ ایک شاعر ہے محض حقائق پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے.اگرتم غور کرو توتمہیں نظرآجائے گاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورشعراء کے کلام اوران کے کردا رمیں بُعد المشرقین پایا جاتاہے اوردونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے.پھر فرماتا ہے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا.ہاں ان شاعروںکو ہم مستثنٰی کرتے ہیں جومومن ہیں اورمناسب حال عمل کرتے ہیں.وہ اگرشعر کہتے ہیں توان کا شعر حقیقت پرمبنی ہوتاہے اوروہ وہی کچھ شعر میںکہتے ہیں جو عملی زندگی میں ان کے اندرپایا جاتا ہے.اس کی مثال کے طورپر ہم حضرت حسان بن ثابتؓ کے وہ اشعار پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
پرکہے.جب انہیں معلوم ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں توانہوں نے اپنے درد اورکرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیَّ النَّاظِرٗ مَنْ شَآءَ بَعْدَ کَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ (دیوان حسان بن ثابت الانصاری صفحہ ۳۰۸) یعنی اے محمد ؐرسول اللہ! تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئیں.اب خواہ کو ئی مرے.میراباپ مرے.میری ماں مرے.بیوی مرے.بھائی مرے.بیٹامرے.مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں مَیں تو تیری موت سے ہی ڈراکرتاتھا.حضر ت حسان بن ثابتؓ جنہوں نے یہ شعرکہے.وہ خو د بھی نیک تھے اور ان کے یہ اشعار بھی حقیقت پر مبنی تھے.پس یقیناً ایسے لوگ پہلے گروہ میں شامل نہیں.پھر فرمایا.ان کی عادت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کاکثرت سے ذکرکرتے ہیں.اورغیر مومن شاعر وں کی طرح صرف مونہہ سے یہ نہیں کہتے رہتے کہ ہم اپنے محبوب کے لئے یہ یہ قربانیاں کریں گے بلکہ جب دین کے بار ہ میں ان پر ظلم کیا جاتا ہے تووہ عملاً اس کا بدلہ لیتے ہیں اورثابت کردیتے ہیں کہ جس فدائیت کا انہوںنے اپنے شعروں میں ذکر کیاتھا عملاً بھی وہ فدائیت ان کے اند ر پائی جاتی ہے.مگراس کے ساتھ ہی ان کایہ رویہ نہیں ہوتاکہ وہ اپنے مخالف پر ظلم کریں بلکہ وہ ہمیشہ ظلم کے بعد بدلہ لیتے ہیں خودکسی دوسرے پر ظلم نہیں کرتے.اس آیت میں بھی اورقرآن کریم کی متعدد دوسری آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو لازمی قرار دیا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ منافق بھی زبان سے کہہ دیتاہے کہ میںا یمان لایاہوں یامیں خدا تعالیٰ اوراس کی شریعت کو مانتاہوں اورلوگ بھی اس کے اس ظاہری قول کے مطابق یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ مومن ہے.حالانکہ نہ تو وہ خود اپنے دل میں اسلام کو مان رہاہوتاہے اورنہ ہی خدا تعالیٰ اس کے اس ایمان کو تسلیم کرتاہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اورقسمیں کھا کھا کرکہتے ہیں کہ تُو اللہ کارسول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم بھی گواہی دیتے ہیںکہ تواللہ کارسول ہے.مگریہ لوگ جوکچھ کہتے ہیں صرف زبان سے ہی کہتے ہیںان کے دل میں ایمان نہیں(المنافقون:۲).اس کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دل میں تویہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان کی حقیقت کو پوری طرح جانتے ہیں.مگر واقعہ یہ ہوتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جاتے.اس کی مثال ایسی ہی ہے.جیسے بعض باتیں جواشاروں
میں کہی جاتی ہیں ان کے متعلق بعض دفعہ دوسر اسمجھتاہے کہ میں نے فلاں کے اشارے کو سمجھ لیاہے اوراشار ہ کرنے والا بھی سمجھتاہے کہ دوسرے نے میرااشارہ سمجھ لیا ہے.لیکن جب بات کھلتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے مطلب کو نہیں سمجھا تھا.لطیفہ مشہورہے کہ اکبربادشاہ کے دربار میں ایک دفعہ ایران کا کوئی صوفی آیا.اوراس نے کہا آپ اپنے علماء کوبلائیں میں ان سے کچھ سوال کرناچاہتاہوں.اکبر نے علماء کو بلوایا.جب وہ پہنچ گئے تواس صوفی نے اشارے کرنے شروع کردیئے.اکبرنے کہا یہ آپ کیاکررہے ہیں.کوئی بات کریں جس کی سمجھ بھی آسکے.صوفی نے کہا باتیں تو جہلا ء بھی کرلیتے ہیں.علماء کاکام توصرف اشارے سمجھنا ہے.اگریہ اشارے نہ سمجھ سکیں تو علماء کیسے ہوئے.آخر جب علماء ان اشاروں کو نہ سمجھ سکے توان کو مقابلہ سے عاجز سمجھا گیا.اورکہا گیا کہ یہ ہار گئے ہیں.اس پر ملّا ابوالحسن بن ابو محاسن جو ملّا دوپیازہ کے نام سے مشہور ہے اٹھا.اوراس نے کہا.میں اس صوفی کے ساتھ مقابلہ کرتاہوں.بادشاہ نے ایرانی صوفی سے کہا.اب کوئی سوال کرو.صوفی نے ہاتھ کی ایک انگلی دکھائی ملّا دوپیازہ نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھادیں.صوفی نے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر پنجہ دکھایا.اس کے جواب میں ملّا دوپیازہ نے مٹھی بند کرکے مکّا دکھا دیا.اس کے بعد صوفی نے زمین پر ایک گول دائرہ بنایا.اور ملّا دوپیازہ نے اس گول دائرہ کے درمیان ایک نقطہ لگادیا.اس پر وہ صوفی کہنے لگا.واقعی یہ شخص قابل ہے.اورمیں اس کے سامنے اب کوئی سوال نہیں کرسکتا.لوگوں نے صوفی سے پوچھا.کہ تمہارا انگلی دکھانے سے کیا مطلب تھا.اس نے کہا میرایہ مطلب تھاکہ اللہ ایک ہے اور ملّا دوپیازہ نے اس کا بالکل ٹھیک جواب دیا کہ اللہ تو ایک ہے مگر اس کے ساتھ اس کا رسول بھی ہے.پھر میں نے پانچ انگلیا ں دکھائیں جس سے میرایہ مطلب تھا کہ پنج تن ہی ہیں جن پر اسلام کی بنا ہے.اس کے جواب میں ملّا دوپیازہ نے کہا کہ واقعی پنج تن ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک ہی ہیں اوراس کے مکا دکھانے کا یہی مطلب تھا.پھر میں نے زمین پر گول دائرہ بنایا.جس کامطلب یہ تھاکہ زمین گول ہے.اس کے جواب میں ملّا دوپیازہ نے اس میں نقطہ لگاکر یہ کہا کہ زمین تو گول ہے مگر وہ اپنے محور کے گرد گھومتی ہے.جب ملّادوپیازہ سے پوچھا گیا کہ تم نے کیاسمجھا تھا.تواس نے کہا کہ جب صوفی نے ایک انگلی دکھائی تو میں یہ سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ میں تیری ایک آنکھ پھوڑ دوں گا.اس پر میں نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھا کرکہاکہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دوں گا.پھر اس نے پنجہ دکھا یاتومیں نے سمجھاکہ یہ مجھے کہتاہے کہ میں تیرے منہ پر تھپڑ ماروں گا.میں نے اس کے جواب میں کہاکہ میں تمہیں گھونسہ ماروں گا.پھر ا س نے زمین پر جب گول دائر ہ بنایا.تومیں نے سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ انسان کے لئے روٹی ضروری چیز ہے.اس پر میں نے درمیان میں نقطہ لگاکرکہا کہ صرف روٹی
سے کچھ نہیں بنتا ساتھ پیاز بھی ہونا چاہیے.اسی طرح ایک شخص زبان سے توکہہ دیتاہے کہ میں ایمان لایا اوروہ سمجھتابھی یہی ہے کہ میں ایمان کی حقیقت سے واقف ہوں مگروہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھ رہاہوتا.پس ایک ایمان تواس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص منافقانہ طورپر صرف زبان سے کہتاہے میں ایمان لے آیا اوراس کے قول کے مطابق لوگ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ایمان لے آیاہے مگرخدا تعالیٰ اس کے ایمان کی حقیقت کو اچھی طرح جانتاہے اوروہ منافق بھی اپنے دل میں کہتاہے کہ میں تمسخر کررہاہوں.لیکن دوسراایمان اس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص سمجھتاہے کہ میں اچھی طرح ایمان کی حقیقت کو سمجھتاہوں مگردراصل وہ کچھ بھی نہیں سمجھاہوتا.اس کے مقابلہ میں تیسری قسم کاایمان یہ ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت ایمان کو سمجھ جاتاہے اورلوگ بھی کہتے ہیں یہ ایما ندار ہے اوراللہ تعالیٰ بھی کہتاہے کہ یہ ایماند ار ہے.اس کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑزمین کے اندردو رتک چلی گئی ہو اور کسی قسم کی آندھیاں اس پر اثرانداز نہ ہوسکیں.پہلی قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے کوئی چھوٹاساپودااکھیڑ کرہاتھ میں پکڑاہواہو.اوراس کی جڑوں کا زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو.اوردوسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت بظاہر زمین میں لگاہواہو مگراس کی جڑیں بالکل زمین کی اوپروالی مٹی میں ہوں.اوروہ کسی کے ذراسے دھکے کے ساتھ ہی زمین پرآرہے اورتیسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے.جیسے ایک بڑاتناور درخت ہو.اوراس کی جڑیں بھی پاتال تک چلی گئی ہوں.یہی اصل ایمان ہے جوانسان کی نجات کاموجب بنتاہے اوراس ایمان کے ساتھ عمل صالح کاہونابھی ضروری ہے.لیکن یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ ہمارے ہاں جن باتوں کو نیک عمل کہتے ہیں یاانگریزی میںجنہیں گڈایکشنز ( GOOD ACTIONS) کہتے ہیں قرآن کریم انہیں عمل صالح قرار نہیں دیتا.سارے قرآن میں شاذونادر کے طور پر شایدہی کسی ایک مقام پر نیک عمل کے لئے خیر کالفظ استعمال ہواہو توہواہو.ورنہ قرآن کریم ہمیشہ عمل صالح کالفظ استعمال کرتاہے.اوراس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نیکی وہی ہے جومطابق حالات ہو.اوراگرحالات کے مطابق کوئی عمل نہ ہو تووہ عمل صالح نہیں کہلائے گا.مثلاً اگر لوگوںسے دریافت کیاجائے کہ نیک عمل کون سے ہیں تووہ کہیں گے.نماز ،روز ہ، زکوٰۃ،حج اورجہاد وغیرہ.حالانکہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتاہے کہ بعض نمازیں بری ہوتی ہیں.اسی طرح روزے اوربعض صدقہ و خیرات انسان کوثواب پہنچانے کی بجائے اسے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتے ہیں.پس معلوم ہواکہ خالی نماز نیک عمل نہیں.اگرخالی نماز نیک عمل ہوتا تو وَیْلٌ لِّلْمُصَّلِّیْنَ (الماعون:۵)کیوں آتا.اورکیوں اللہ تعالیٰ فرماتاکہ بعض نمازیں پڑھنے والے
جوریاء کے لئے پڑھتے ہیں جو اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کہیں یہ بڑے بزرگ ہیں.یہ بڑے زاہد اورعابد ہیں.ان پر ہمار ی لعنت ہوتی ہے.اسی طرح بعض روزے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاانسان کو مورد بنادیتے ہیں.مثلاً انسان عید کے دن روزہ رکھے توو ہ اسلامی نقطہ نگاہ سے شیطان بن جائے گا(بخاری کتاب الاضاحی ،باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی).یاحج ہے.اگر انسان ایسی حالت میں کرے جب اس میں حج کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں.یازکوٰۃایسی حالت میں دے جبکہ زکوٰۃ اس پر فرض نہ ہو تویہ اعمال صالح نہیں کہلا سکتے.عمل صالح وہی عمل ہے جو مطابق حالات او رموقع کے مناسب ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں ایمان کے ساتھ عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ کا ذکرکیاہے.لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز نجات دلائے گی.یاروزہ نجات دلائے گا.یاحج نجات دلائے گا یا زکوٰۃ نجات دلائے گی.حالانکہ نماز و ہ نجات دلاسکتی ہے جونماز پڑھنے کے موقعہ پر پڑھی جائے.اگرکسی وقت کفار سے جہادہورہاہو.لڑائی لڑی جارہی ہو.مسلمان مارے جارہے ہوں.کفار بڑھتے چلے آرہے ہوں اورکوئی شخص مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ جائے.توہم کہیں گے اس کی نماز کوئی نماز نہیں.اس وقت جہاد کاکام کرنے کا وقت تھا.مصلّٰی پر بیٹھ کر تسبیح پھیرنے کا وقت نہیں تھا.اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے وقت نماز نہ پڑھے اورکہے میں جہاد کے لئے چلاہو ں تو ہم کہیں گے وہ نماز سے بچنے کابہانہ تلاش کررہاہے غرض اپنی ذات میں نہ نماز نجات دلاسکتی ہے.نہ روزہ نہ زکوٰ ۃ نہ حج نہ جہاد.بلکہ جونیک کام بھی موقع اورمحل کے مطابق ہو وہی انسان کے کام آتاہے.مومنوں کی دوسری خصوصیت اس آیت میں بتائی گئی ہے کہ وَذَکَرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا.وہ اللہ تعالیٰ کابڑ ی کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں.چونکہ دنیا میں بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جوصرف اس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں.جب وہ اکیلے ذکر میں مشغول ہوں اوربعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جودوسروں کو ذکر کرتادیکھیں تب ان میں ذکر کرنے کاجوش پیدا ہوتاہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انفرادی اورجماعتی دونوں قسم کے ذکرنمازوں میں جمع کردیئے ہیں.چنانچہ ظہر اورعصر کی نمازیں اس طرح پڑھی جاتی ہیں کہ ہرشخص اپنا اپنا ذکرکررہاہوتاہے.امام اپنے طور پر خاموشی سے ذکرکررہاہوتاہے اورمقتدی خاموشی سے اپنے طورپر ذکرکررہے ہوتے ہیں.لیکن مغر ب عشاء اورفجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقررکردیا کہ جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۃ فاتحہ پڑھو.مگر جب و ہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو.غرض نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایساطریق رکھاہے کہ بعض جگہ لوگوں کوکلیتًہ امام کے تابع کردیاہے.امام کہتاہے اللہ اکبر تومقتدی بھی کہتاہے اللہ اکبر.امام رکوع میں جاتاہے.تومقتدی بھی رکوع میں
چلاجاتاہے.امام سجدہ میں جاتاہے تومقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتاہے.لیکن جوخاموشی کاحصہ ہوتاہے اس میں ہرشخص آزاد ہوتاہے.مقتدی کوئی دعامانگ رہاہوتاہے اورامام کوئی دعامانگ رہاہوتاہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کاعلاج کردیا.ان کابھی جو دوسروں کوذکرمیں مشغول دیکھ کر ذکرکرنے کی عادی ہوتی ہیں اوران کابھی جنہیں اس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب و ہ علیحدہ ہوں.چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعاکرتے وقت رقّت آتی ہی نہیں اوربعض ایسے ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں.ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں پہلے انہیں جوش نہیں آتا.لیکن دوسرے کی گریہ و زاری دیکھ کر انہیں بھی رونا آجاتاہے.لیکن کامل مومن وہ ہوتاہے کہ جب وہ علیحدہ بیٹھتاہے تب بھی خدا تعالیٰ کا ذکر کرتاہے اور جب مجلس میں بیٹھتاہے تب بھی اس کا ذکر کرتاہے.اسی وجہ سے اسلام نے انفرادی ذکر پر بھی بڑازوردیاہے اوراجتماعوں کے مواقع پر بھی ذکر ِ الٰہی پر زور دیاہے.چنانچہ مسلمان جب حج کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے.عیدین کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الٰہی ہوتا ہے.شادی اوربیاہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے.جنازہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے.گویاہرقسم کے اجتماعوں کوبابرکت بنانے کانسخہ اسلام نے یہی بتایاہے کہ ذکرالٰہی پر زوردیاجائے.اس کے مقابلہ میں انفرادی ذکر کی اہمیت بھی اسلام نے با ر باربتائی ہے.یہاں تک کہ کھانا کھاتے وقت.کھانے سے فارغ ہوتے وقت ،سوتے وقت جاگتے وقت.سفرپرجاتےوقت.سفرسے آتے وقت.غم کے وقت خوشی کے وقت.مسجد میں آتے وقت اورمسجد سے جاتے وقت.بلندی پرچڑھتے وقت اور بلندی سے اترتے وقت.اسی طرح آئینہ دیکھتے وقت.کپڑے بدلتے وقت.نیاچاند دیکھتے وقت.یہاں تک کہ بیوی کے پاس جاتے وقت بھی دعائوں اورذکر الٰہی کی تاکید کی ہے.اورپھر فرمایا ہے کہ ہرکام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیاکرو.ورنہ تمہاراکام بے برکت ہوجائے گا(ترمذی ابواب الاطعمۃ، ابواب الدعوات، ابو اب اللباس و بخاری کتاب الدعوات و کتاب الجہاد و السیر).اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ ہرنماز کے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللہِ تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلہِ اورچونتیس دفعہ اَللہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو.مگراسلام نے یہ بھی کہاہے کہ مومن کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے ہیں اوروہ صرف تینتیس یاچونتیس دفعہ تسبیح و تحمید کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ بات بات پر وہ اَلْحَمْدُ لِلہِ سُبْحَانَ اللہِ یا اَللہُ اَکْبَر کہتے رہتے ہیں.اوردرحقیقت اگرغورسے کام لیاجائے تویہ دونوں باتیں ہی ضروری تھیں.کیونکہ عشق میں انسان کی دونوں حالتیں ہوتی ہیں.عشق میں ایک حالت تووہ ہوتی ہے جب انسان اورکاموں سے فار غ ہوکر اپنے محبوب سے باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے
.اورعشق کی دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ اَورکاموں میں مشغول رہے اس کادل اپنے محبوب کی طرف ہی رہتاہے.پس عشق دونوں باتوں کا تقاضاکرتاہے.عشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کے لئے اورکاموں سے فار غ ہوجائے.اورعشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کا ہروقت ذکرکرتارہے.پس چونکہ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں اس لئے اسلام نے بعض جگہ تسبیح و تحمید کی ایک معین مقدار بھی مقررکردی اورپھر یہ بھی کہہ دیاکہ مومن صرف اس تعدا د پر انحصا رنہیں رکھتے بلکہ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اورہروقت ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے تررہتی ہیں.اس طرح یہ دونوں چیزیں مل کر ایک مومن کے عشق کو مکمل کرتی ہیں.اگراسے یہی خیال آتارہے کہ میں فلاں وقت میں ذکر کروں گا آگے پیچھے نہیں کروں گا تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے اوقات کو کلی طورپر خدا تعالیٰ کی یاد میں صرف کرنے کے لئے تیار نہیں.وہ اس بات کا منتظر رہتاہے کہ مقررہ وقت آئے تووہ ذکر کرے.حالانکہ مومن وہی ہے جو ہرحالت میں خدا تعالیٰ کو یاد رکھتاہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایاکرتے تھے کہ ’’ دست درکار و دل بایار ‘‘یعنی انسان کے ہاتھ تو کاموں میں مشغول ہونے چاہئیں لیکن اس کادل خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوناچاہیے.اسی طرح ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ میں کتنی دفعہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکیاکروں.توانہوں نے کہا کہ ’’ محبوب کانام لینا اورپھر گن گن کر ‘‘.تواصل ذکروہی ہے جو اَن گنت ہو.مگرایک معین وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کے لئے اورکاموں سے بالکل الگ ہو جاتا ہے.اور چونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معین رنگ میں بھی ذکر الٰہی کیاجائے اورغیر معین طورپربھی اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کیاجائے.اوراس کے فضلوں اوراحسانات کاباربار ذکرکیاجائے.تیسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مومنوں کی یہ بتائی ہے کہ وَانْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِ مَاظُلِمُوْا.وہ خود توکسی پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر کوئی دوسراان پر ظلم کرے تو پھر وہ پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ دلیری سے ظالم کامقابلہ کرتے ہیں.چونکہ یہ سورۃ مکی ہے جب کہ ابھی جہاد کا حکم نازل نہیں ہواتھااس لئے درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس وقت تومسلمان دشمن کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں لیکن مت سمجھو کہ دشمن کے یہ مظالم رائیگاں چلے جائیں گے.بلکہ ایک دن آئے گا کہ ہم انہی مظلوم اور بے کس بندوں کودشمن کے مقابلہ کی اجازت دےدیں گے.مگراس وقت بھی یہ اپنے دشمن پرکوئی ظلم نہیں کریں گے بلکہ صرف جائز حد تک اس کے مظالم کا انتقام لیں گے.اورپھر آخر میں سب سے بڑی دلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اللہ تعالیٰ یہ دیتاہے کہ وَ سَيَعْلَمُ
الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ.وہ لوگ جو ظلم کررہے ہیں عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیساہے یعنی اللہ تعالیٰ کے نبیوں اورشیطان کے بندوں میں یہ فرق ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہرامر پر قادرہے اپنے بندوں کی مدد کرتاہے.لیکن شیطان ایسانہیں کرسکتا.پس عنقریب خدا تعالیٰ اپنی مدد کو ظاہر کردے گا اوراسلام کے ظالم معترض دیکھ لیں گے کہ ان کاآخری ٹھکانہ کہاں ہے اوراس طرح دنیا کو پتہ لگ جائے گاکہ آیا وہ شیطان کے پیچھے چل رہے تھے یامسلمان شیطان کے پیچھے چل رہے تھے.