Tafseer-e-Kabeer Volume 8

Tafseer-e-Kabeer Volume 8

تفسیر کبیر (جلد ۸)

Chapters: 21-24
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

سُوْرَۃُ الْاَنْبِیَآءِ مَکِّیَّةٌ سورۃ انبیاء.یہ سورۃ مکی ہے.۱؎ وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَةِ مِاْئَةٌ وَّ ثَلَا ثَ عَشْرَةَ اٰیَةً وَّ سَبْعَةُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو تیرہ آیات ہیں.اور سات رکوع ہیں.۱؎ یہ سورۃ بلاخلاف مکی ہے.صر ف امام سیوطیؒ نے ساتویں آیت کو مدنی قرار دیا ہے (اتقان ) وہیری کے نزدیک یہ سورۃ نویں سال نبوت کی معلوم ہوتی ہے.کیونکہ اس میں کفار کی مخالفتوں کا ذکر ہے.یہ دلیل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ چونکہ سورئہ رحمٰن میں بحیرہ قلزم اور بحیرہ احمر کے ملائے جانے کا ذکر ہے اور بڑے بڑے جہازوںکے چلنے کا ذکر ہے اور یہ امور انیسویں صدی کے آخر میںہوئے ہیں اس لئے یہ سورۃ انیسویں صدی کے آخر میںنازل ہوئی ہے.انسان جب تعصب اور بددیانتی پر اتر آتا ہے تو وہ ایسی ایسی احمقانہ باتیں ہی کیا کرتاہے.وہیری کے لئے کیسا آسان راہ موجود تھاکہ صحابہ ؓ جن کے زمانہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی انہوں نے شہادت دی ہے کہ یہ سورۃ ۵ ؁ نبوت سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور انہوں نے اسے حفظ کرلیا تھا.اس لئے یہ سورۃ ۵ ؁ نبوی سے پہلے کی نازل شدہ ہے مگر چونکہ ریورنڈ وہیری یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ قرآن کریم غیر الہامی کتاب ہے اس لئے ان کے لئے یہ امر ماننا مشکل تھا کہ بعض باتیںاس میں وقت سے پہلے پیشگوئی کے طور پر بیان کی گئی تھیں.حقیقت یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق کہ سورئہ کہف.مریم.طٰہٰ اور انبیاء ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ ہیںجن کو انہوں نے اپنے اسلام کے شروع زمانہ میںیاد کیا تھا.(بخاری کتاب التفسیرسورة الانبیاء) اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں.یہ سورتیں بہر حال ابتدائی زمانہ کی ہیںاور چونکہ سورئہ مریم ہجرت حبشہ کے شروع میںنجاشی کے دربار میںپڑھی گئی تھی.اور ہجرت حبشہ ۵ ؁ نبوی کے شروع میں ہوئی تھی اس لئے یہ سورتیں پہلے چار سال کے اندر کی ہیںپس سورئہ انبیاء ۵ نبوی کے ابتداء سے پہلے نازل ہوئی تھی اور وہیری کادعویٰ سراسر لغو اور بے دلیل ہے.ترتیب سورۃ.سورۃ الانبیاء کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ سورۃسورئہ طٰہٰ کے بعد آتی ہے اور اس کا قریبی تعلق سورئہ طٰہٰ سے یہ ہے کہ سورئہ طٰہٰ کے آخر میں یہ مضمون تھاکہ کفار پر عذاب تو آئے گا مگر حجت تمام کرنے کے بعد.اس لئے صبر سے کام لو اپنے وقت پر ضرور منکرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عذاب آکر رہے گا.اس مضمون کے تسلسل میں

Page 6

سورئہ انبیاء کے شروع میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگوںکےحساب کا وقت قریب آگیا ہے لیکن وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیںاور برابر انکار کئے جاتے ہیں.گویا عذاب کی خبر کے متعلق جو کچھ سورئہ طٰہٰ کے آخر میںکہا گیا تھا اسے سورئہ انبیاء میں جاری رکھا گیا ہے.یہ تو اس کا قریبی تعلق ہے پچھلی کئی سورتوں کے تسلسل کے لحاظ سے اس کاتعلق پچھلی سورتوں سے یہ ہے کہ سورئہ مریم میںحضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کیا گیا تھا کہ ان کے متعلق مسیحیوں کو غلطی لگی ہے کہ (۱) انہیں خدائی صفات دے دی ہیں.(۲) ان کے ذریعہ سے شریعت کو منسوخ قرار دیاہے اور شریعت کو لعنت قرار دیا ہے (۳) اور نجات کو توبہ اور عمل صالحہ کی جگہ کفارہ سے وابستہ کردیاہے.یہ غلطیاں ان کو حق سے دور لے گئی ہیں.طٰہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کرکے ان دعووں کی نقلی تردید کی اور بتایا کہ مسیحی سلسلہ تو موسوی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.مگر موسیٰ کے حالا ت ان سب دعووں کی تردید کرتے ہیں اس کا سارا فخر تو شریعت لانے میںتھا.اگر شریعت ایک لعنت ہے تو موسیٰ کا وجود قابل نفرت ہونا چاہیے نہ کہ قابل فخر پھر حضرت آدم ؑ کا ذکر کرکے گناہ کی تھیوری کو اس کی جڑ تک پہنچاکر اس امر کی تردید کی گئی کہ گناہ ورثہ کے ذریعہ سے قائم ہوا ہے اور پھر بتایا کہ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزائیں ملتی ہیں اگر گنا ہ سے بچنا ممکن ہے تو پھر سزا کیسی ؟ پھر تو سزا آنی ہی نہیںچاہیے نبی سزا کوپکا کرنے کی جگہ اس کے امکان کو گھٹانے کے لئے آتے ہیں.پس اگر شریعت لعنت ہے تو نبی سزا کے امکان کو گھٹاتانہیں بڑھاتا ہے.سورئہ انبیا ء میںاسی مضمون کو لمباکر کے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک نہیںدو نہیںآدم ؑسے لے کر مسیح ؑ تک اور پھر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام دشمنان انبیاء کو سزاملتی رہی ہے.اگر گناہ ورثہ میں ملاہے.اگر اس سے بچنے کی انسان میںتوفیق نہیں تو ایسا کیوں ہوا ؟ پس مسیح ؑکے آنے سے پہلے بعض اشخاص کابرگزیدہ ہونا اور بعض کاسزا پانا بتاتاہے کہ ورثہ کے گناہ کا عقیدہ محض ایک ڈھکو نسلہ ہے.خلاصہء مضامین عذاب آرہاہے مگر یہ لوگ مختلف بہانوں سے اپنے نفس کو تسلی دے رہے ہیں.(آیت ۲) کوئی بھی نیا پیغام لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے نہیں آتا کہ یہ لوگ اس سے تمسخر نہ کرتے ہوں.یعنی سب انبیاء نے لوگوں کو ہدایت کے لئے بلایا ہے اگر گناہ ورثہ میںملا ہے تو ہدایت کی طرف بلانے کے معنے ہی کیا ہوئے؟ کفار بے سوچے سمجھے انبیاء پر اعتراض کرتے رہے ہیں.مثلا ً یہ کہ یہ تمہارے جیسا انسان ہے (حالانکہ ہادی کااپنے مخاطبین جیسا انسان ہونا ہی ضروری ہے یہ آیت بھی ابن اللہ ہونے کے عقیدہ کو رد کرتی ہے) اس کی باتیں بڑی دلکش ہیںتم بڑے عقلمند ہو تم اس کے دھوکا میںکیوں آؤ گے.ہمارا نبی اس کے جواب میںکہتاہے کہ میں کیا جواب دے سکتاہوں.خدائے سمیع و علیم خود جواب دےگا.(آیت ۳تا۵)

Page 7

اس کے بعد منکرایک قدم اور آگے بڑھتےہیںاور کہتے ہیںکہ بیہودہ خوابیںاسے نظر آتی ہیں بلکہ یہ سر تاپا جھوٹ بناتاہے اور اس جھوٹ کو شاعرانہ زبان میں پیش کرکے لوگوں کو دھوکا دیتاہے اسے چاہیے کہ پہلوںکی طرح عذاب لائے.فرماتا ہے کہ سب نبی انسان ہی تھے اس لئے اب بھی انسان ہی آیا چنانچہ پہلی کتب میںپڑھ کر دیکھ لو کہ پہلے رسول بھی انسان ہی تھے.ذرا پوچھ کر تو دیکھو.ہر اک کھانا کھاتاتھا اور آخر مرا (جن میںمسیح ؑ بھی شامل تھا ) اور پھر ان کے منکروں کو ہم نے تباہ کردیا.(آیت ۶ تا ۱۰) ان لوگوں کو یہ سوچناچاہیے کہ قرآن کریم ان پر کیا بوجھ ڈالتاہے.اس کے ذریعہ سے ان کی عزت کے سامان ہی پید اہوتے ہیں.(آیت ۱۱ ) اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سچائیوں کے منکر ہوتے ہیںعذاب ہی پاتے ہیں.(آیت ۱۲ تا ۱۶ ) کبھی یہ بھی ان لوگوں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ جیسی حکیم ہستی دنیا کو بلاغرض نہیںپیدا کر سکتی تھی یعنی صرف ایک کھلونے کے طور پر.لیکن کھلونا بھی تو کھیلنے والا اپنے پاس رکھتاہے نہ کہ دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے.جیسا کہ یہ دنیا انسانوں کے سپرد کردی گئی ہے.پس یاد رکھو کہ ہم حق کو باطل سے ٹکرا دیں گے اور باطل کو تباہ کر دیں گے.(آیت ۱۷تا ۱۹) زمین و آسمان پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے اور اس کے قریب جتنا کوئی ہو اتنا ہی وہ متواضع اور عبادت کی طرف راغب ہوتاہے.(آیت ۲۰،۲۱ ) جب ساری دنیا میںایک ہی قانون ہے تو شرک کا مسئلہ یہ لوگ کہاں سے نکالتے ہیںشرک سے تو اختلاف لازمی ہے اور تمام انبیا ء شرک کے خلاف تعلیم دیتے آئے ہیں پس دنیا بھر میںایک قانون کا ہونا ثابت کرتاہے کہ جو مشرکانہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیںان سے وہ پاک ہے (خدا تعالیٰ کی طرف شرک عیسائیت کی طرف سے اسی بنا پر منسوب کیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ گناہ معاف نہیںکر سکتا.اس کے لئے بیٹے کی قربانی کی ضرورت تھی لیکن اللہ تعالیٰ تو مالک کامل ہے اور مالک کامل پر عفو کرنے کی وجہ سے کوئی الزام نہیںآتا ) پھر فرماتا ہے کہ مسیحی لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی معبود ہیں جیسے روح القدس اور مسیح ؑ.یہ درست نہیں خداایک ہی ہے.اور یہ تعلیم میںہی نہیںدیتابلکہ مجھ سے پہلے جتنے رسول گذرے ہیں سب یہی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کیا ابراہیم ؑاور کیا اسحاق ؑاور کیا موسیٰ ؑبائیبل اس سے بھری پڑی ہے.(آیت ۲۲ تا۲۵ ) پہلے زمانوں میںبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت دینے والے انسان ہی آتے رہے ہیں.مسیح کی طرح خدا

Page 8

کا کوئی بیٹا نہیںآیا پھر مسیحی کس طرح کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک انسان کو اپنا بیٹا بنالیاہے.اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کیونکہ بیٹاایسی ہستیوں کے لئے ضروری ہوتاہے جنہوں نے مرجانا ہو لیکن اللہ تعالیٰ تو ہر عیب سے پاک ہے اور موت اس کے قریب بھی نہیںآتی اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے.اسی طرح بیٹے کی خواہش ان ہستیوں میں ہوتی ہے جن کو مدد گاروں کی ضرورت ہو.لیکن اللہ تعالیٰ کو کسی مدد گار کی ضرورت نہیں.وہ سب کام آپ ہی کرسکتاہے.وہ تو شروع دن سے اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو چن کر انہیںاپنی رسالت کے ساتھ عزت بخشا کرتاہے.اسی طرح اس نے مسیح کو چنا اور عزت بخشی.پس خدا تعالیٰ کے اس احسان کی بے قدری کرنا اور ایک بندے کو جس کو خدا نے عزت بخشی تھی اس کا بیٹا قرار دےکر اس کاہمسر بنادینا سخت ظلم ہے.(آیت۲۶ ،۲۷ ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے جتنے نبی آئے ہیں وہ تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلتے تھے درحقیقت مسیح بھی ایسا ہی تھا.صرف مسیحیوں نے مبالغہ کرکے اس کو دوسرے نبیوں کی صف سے باہر نکال دیا ہے.ورنہ وہ ایک برگزیدہ انسان تھا.( آیت ۲۸،۲۹) پھر فرماتا ہے مشرک تو جہنم کاعذاب پاتاہے تم اپنے بزرگوں کی طرف الٰہی صفات منسوب کرکے ان کو جہنمی کیوں بناتے ہو.(تعجب ہے کہ مسیحیوں نے اشارۃً نہیں بلکہ وضاحتاً اپنے عقیدہ کا یہ جزوبنالیا ہے کہ مسیح صلیب سے اتارے جانے کے بعد تین دن جہنم میں رہا.لیکن قرآن فرماتا ہے کہ مسیح جہنمی نہیںتھا وہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ اور بخشا ہواانسان تھا ایسے برگزیدہ انسان کو تین دن چھوڑ تین سیکنڈ کے لئے بھی جہنمی قرار دینا ایک ظلم عظیم ہے ).(آیت ۳۰) خدائی طریق یہ ہے کہ جب دنیا روحانیت سے محروم ہو جاتی ہے تو وہ آسمان سے رحمت کے دروازے کھول دیتاہے.اور الٰہی پانی سے دنیا میں ازسرنونیکی قائم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد آسمانی سلسلہ میں بڑے بڑے روحانی آدمی پیدا ہوتے رہتے ہیںجن کے ذریعہ سے نیکی کو قائم رکھا جاتاہے.اور اللہ تعالیٰ کی امداد سے یہ کارخانہ چلتاہے.او ررات اور دن دنیاپر آتے ہی رہتے ہیںکسی وقت سورج کام کرتاہے کسی وقت چاند.یہی روحانی عالم کاحال ہے نہ ایک سال نیکی نہ ایک سال بدی.پس یہ سلسلہ نیکی بدی اور تاریکی اور روشنی کادیکھ کر یہ خیال کرناکہ پیدائش عالم ناکام رہی ہے غلط ہے یہ سلسلہ تو طبعی ہے اور مادی دنیا بھی اس کے مطابق چل رہی ہے.پھر اس پراعتراض کیسا اوراس کی وجہ سے کفارہ وغیرہ عقائد نکالنے کی ضرورت کیاہے (یہ عقیدے اسی خیال کے ماتحت ہیں کہ گویانبوت کا سلسلہ ناکام رہا ہے حالانکہ خود مسیح کے بعد بھی دنیا کا وہی حال رہا ہےنہ نیکی بڑھی ہے نہ بدی گھٹی ہے.(آیت ۳۱،۳۴)

Page 9

تمام انبیاء فوت ہوئے مسیح ؑبھی فوت ہوا محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھی فوت ہوںگے مگر اس سے روحانی سلسلہ میں کوئی فرق نہیںآتا.جس طرح سورج کے ڈوبنے سے کوئی فرق نہیں آتا.ہر اک کا ایک کام ہوتاہے وہ کرتاہےاور چلاجاتاہے اصل زنجیر سارے عالم میں صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.(آیت ۳۵،۳۶) دشمن تجھ پرہنسی کرتے ہیںکہ ایک انسان اتنا دعویٰ کرتاہے حالانکہ سوال کلام کے لانے والے کانہیں سوال کلام کے بھیجنے والے کا ہے.اور وہ مرنے کے بعد بھی ان کو پکڑ سکتاہے اور پکڑےگا.(آیت۳۷) خدا تعالیٰ عذاب دینے میں ڈھیلاہے اس لئے لوگ غرور میں آجاتے ہیں.حالانکہ آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ اسلام غالب ہوگا.(آیت ۳۸تا ۴۵ ) جو کچھ میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ کی وحی سے کہتا ہوں.عذاب آکر رہےگا.اس وقت یہ لوگ پچھتا ئیںگے لیکن ہم عذاب دینے میںبھی ظلم نہیںکریںگے.ہر اک کے اعمال کے مطابق معاملہ کریںگے.(آیت ۴۶تا ۴۸ ) اس رسو ل سے پہلے موسیٰ آچکا ہے.اور اس نے بھی لوگوں کو نجات کی دعوت دی (اگر نجات مل نہ سکتی تھی تو ایسا کیوںکیا ؟ ).(آیت ۴۹،۵۰) مگر یہ ذکر اس سے زیادہ مکمل ہے اس میںسب اعلیٰ تعلیمیںجمع ہیں.(آیت ۵۱) موسیٰ ؑ سے پہلے ابراہیم ؑ آیا جس کی طرف مسیح اپنے سلسلہ کو منسوب کرتاہے مگر ابراہیم ؑنے بھی شرک سے لوگوں کوروکا اور اس نے زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا اللہ کو قرار دیا.(نہ یہ کہ کلام یعنی مسیح سے دنیاپیدا ہوئی) اور مشرکوں کی غلطی اس طر ح ثابت کی کہ اصنام کو نقصان پہنچ سکتاہے (اسی طرح مسیح کو پہنچا اور اسے پھانسی دی گئی ).(آیت ۵۲تا ۷۱ ) ہم نے ابراہیم ؑ کوچنا اور اسے ایک ملک کا وارث کردیا اورلوط ؑ جیسے لوگ اس پرایمان لائے اور اسحٰق ؑ جیسا بیٹااور یعقوب ؑ جیسا پوتااسے دیااور یہ لوگ نیک تھے.(یعنی کفارہ کی ضرورت ا نہیں پیش نہ آئی کفارہ کے رو سے تو ہر مسیحی ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ اور موسیٰ ؑسے بڑا ہونا چاہیے کیونکہ ہر عیسائی کو کفارہ کے ذریعہ سے نجات مل چکی ہے جو انہیںنہیں ملی ).(آیت۷۲تا۷۶) پھر نوح ؑ کو دیکھو اسے ہم نے نجات دی اور اس کے دشمنوںکوہلاک کیا.اگر ورثہ کاگناہ تھا تو وہ کیوںتباہ ہوئے ؟ (آیت ۷۷،۷۸) اسی طرح دائود ؑ و سلیمان ؑ کو ہم نے اعلیٰ مقام دیا.بغیر کفارہ کے ان کو یہ مقام کیوں ملا.چونکہ دائود سے مسیح ؑ

Page 10

کاشجرہ ملایا جاتاہے اس لئے ان کا خاص طور پرذکر کیا.(آیت ۷۹تا ۸۳) پھر ایوب ؑ کو دیکھو.اس کی عبادت اس کے کام آئی اس کے مصائب مسیح ؑ سے بڑھ کر تھے اگر خدا کی راہ میںتکلیف اٹھانا فائدہ دیتاہے تو اسے سب سے بڑا ہونا چاہیے تھا پھر اسماعیل ؑ ،ادریس ؑ او ر ذوالکفل ؑ یہ سب لوگ خدا کی راہ میں قربانی کرنے والے تھے.آخر ایک ہی صابر کو یہ درجہ ابنیت کاکیوں دیا جاتاہے ؟ (آیت ۸۴تا ۸۷) پھر ذوالنون ؑ کو دیکھو جس سے مسیح اپنی مشابہت بتاتاہے.اس نے بھی تو تکالیف اٹھائیں وہ کیوں کفارہ کا موجب نہ بنا.(آیت۸۸و۸۹ ) پھر زکریا ؑ کو لو اور اس کے بیٹے کو.زکریا جو نیکی پرقائم اور اس کابیٹابھی انجیل کی رو سے نیک اور خدا کی راہ میں مرنے والا تھا.وہ کیوںکفارہ کاموجب نہ بنے ان کے بعد مریم ؑ اور مسیح ؑ آئے ان کا ذکر بے شک دنیامیںپھیلے گامگر بہرحال ان لوگوںسے ان کے حالات مختلف نہیں.پیدائش مسیح ؑ اگر غیر معمولی تھی تو پیدائش یحییٰ ؑ بھی غیر معمولی تھی.(ایک کے ساتھ باپ کا اور ایک کے ساتھ ماں کا ذکر کیاہے.تا دونوںکی معذوری ظاہر ہو.بیوی کے علاج کابھی ذکر کیا ہے نیک دونوں تھے.مصائب دونوں نے برداشت کئے.پھریحییٰ ؑ کیوںنہ کفارہ کا موجب ہوا ؟ (آیت ۹۰تا ۹۲) یہ سب کے سب انسان ایک قسم کی طاقتوں والے تھے.او ر ایک ہی قانون کے تابع تھے.اور سب میری طرف توجہ دلاتے تھے.پس اب نیاطریق اختیار نہ کرو.(آیت ۹۳ ) مگر تعجب ہے کہ لوگ تفرقہ کرتے ہیں.اور مجرب آزمودہ راستہ کوچھوڑ تے ہیں.حالانکہ ہمارا طریق شروع سے ایک ہے جونیک ہوگااس سے نیک سلوک ہوگا.(آیت ۹۴ ،۹۵) ہماری یہ سنت ہے کہ جب کوئی قوم ہلاک ہوتی ہے تو اسے دوبارہ اٹھنے کاموقعہ نہیں ملتا لیکن یاجوج ماجوج کے وقت ایساہوگا (جو مسیحی ہوں گے جن کا ذکر ہے) جب وہ سب طرف سے دنیاپر چھاجائیںگے تواس کے بعد دنیامیں ایک نئی روچلے گی.اور یاجوج ماجوج پر عذاب نازل ہوگا اور وہ سب سامان جن پر ان کو غرور ہوگا تباہ ہوجائیںگے اس وقت مومن عذاب سے بچائے جائیںگے.مگر کفر کانظام لپیٹ دیا جائےگا اور اس کے بعد پھرمومن فلسطین کے مالک ہوجائیںگے.(آیت ۹۶ تا ۱۰۷) اے محمد! رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) تو رحمت کے طور پر آیاہے تاکہ کفارہ کی لعنت سے بچا کر توبہ کادروازہ کھولے.تو توحید کااعلان کر اور منکروں کوہوشیار کر.تیری قوم بھی فلسطین سے نکالی جائےگی پس تو ابھی سے دعا

Page 11

کردے کہ اے خدا! اس طرح اسلام اور یہودیت کے معاملہ میںشبہ پیداہو جاتا ہے تو ایسا فیصلہ کر کہ اسلام کی سچائی ظاہر ہوجائےاور پھر اس ملک میںمسلمانوںکا غلبہ ہوجائے.(آیت ۱۰۸تا ۱۱۳) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ (تعالیٰ) کانام لے کر جوبے حد کرم کرنےوالا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے(پڑھتاہوں ) اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ لوگوں کے حساب لینے کا وقت قریب پہنچ چکاہے مگر وہ (پھر بھی) غفلت میں(پڑے ہوئے) ہیںاور مُّعْرِضُوْنَۚ۰۰۲ اعراض کرتے جارہے ہیں.حل لغات.اقترب.اِقْتَرَبَ الْوَعْدُ کے معنے ہیں قَرُب.وعدہ کے پوراہونے کا وقت آگیا.(اقرب) تفسیر.مغربی مصنفین کا خیال ہے کہ سورۃ انبیا ء نویں سال میں نازل ہوئی ہے مسلمان مفسرین چونکہ تُک مارنے کے عادی نہیںانہوں نے اسے مکی قرار دیا ہے.اگر مغربی مصنفین کے اس دعویٰ کو تسلیم کرلیا جائے کہ یہ سورۃ نویں یادسویں سال نبوت میں نازل ہوئی ہے تو اس کے معنے یہ ہیںکہ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مکہ سے ہجرت کا وقت قریب آرہا ہے جس کے نتیجہ میںمکہ والوں کی تباہی کے سامان پیدا ہو جائیںگے دوسرے اس میںمدینہ میں اسلام کے پھیلنے کی طرف بھی اشارہ ہوگا جہاں محمدؐرسول اللہ کی فتح کی بنیاد رکھی گئی تھی تعجب ہے کہ عیسائی مستشرقین جیسے ہوشیار لوگ آپ ہی اپنے جال میں پھنس گئے اور انہوں نے اس سورۃ کے نزول کی تاریخ ایسی مقرر کر دی جو ہجرت اور مدینہ میںاسلام پھیلنے کے قریب کے زمانہ کی تھی اور اس طرح تسلیم کر لیا کہ قرآن کریم خدائی کتاب ہے اور اس میں غیب کی اہم خبریں بتائی گئی ہیں جن خبروں کے مطابق عرب جیسے وسیع ملک پر چند سال میں ایک چھوٹی سی قوم غالب آگئی اور مکہ جو ابتدائے عالم سے کبھی فتح نہیںہوا تھااس قوم کے ہاتھوں فتح ہوگیا.اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ میں ڈرایا جارہا ہے کہ عذاب آنے والا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتاہے کہ

Page 12

جوشخص ابھی مانتا ہی نہیں اس پر افسوس کس بات کاکہ وہ غفلت میں پڑا ہوا ہے وہ تو یہ سن کر ہنسے گا کہ میں تو مانتاہی نہیںپھر مجھ پر افسوس کیسا ہورہا ہے ؟ اس کے متعلق یاد رکھناچاہیے کہ اقترب کے لفظ سے معلوم ہوتاہے کہ عذاب کے ابتدائی آثار ظاہر ہو رہے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو نہیں مانتے انہیںاتنا تو سوچنا چاہیے کہ اس عذاب سے بچنے کاکیا طریق ہے اور کیوں اس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.آخر اس کی کوئی وجہ تو ہونی چاہیے مگر چونکہ یہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور اتنا بھی نہیںسوچتے اس لئے معلوم ہو ا کہ یہ لوگ غفلت میںپڑے ہوئے ہیں.اس زمانہ میں بھی بعینہ یہی حالت ہے عذاب کے نشان پے درپے ظاہر ہو رہے ہیں.اطمینان قلب کسی کو بھی حاصل نہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیںدیکھتاکہ اس کی کیا وجہ ہے اور فتنہ و فساد کے اصل منبع کی طرف کوئی توجہ نہیںکی جاتی لوگ یہی چاہتے ہیںکہ جوتکلیف یا روک ہمارے سامنے ہے وہ کسی طرح ہٹ جائے.نتیجہ یہ ہے کہ وہ عذاب میںدن بدن زیادہ پھنس رہے ہیںاور جب تک وہ مصائب کے اصل منبع کو بند کرنے کی کوشش نہیں کریںگے.یہی حالت جاری رہے گی.مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کبھی کوئی نئی یاد دہانی نہیںآتی مگر وہ اسے سنتے بھی جاتے ہیںاو راس هُمْ يَلْعَبُوْنَۙ۰۰۳لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى ١ۖۗ سے ہنسی مذاق بھی کرتے جاتے ہیںان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ چپکے چپکے مشورے کرتے ہیں(او رکہتے ہیں)کہ (دیکھتے نہیں) یہ شخص تم جیسا ہی ایک بشر ہے پھر کیا تم اس کی السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۰۰۴ فریبانہ باتوں میں آتے ہو حالانکہ تم خوب سمجھتے ہو.حلّ لُغَات.اَلذِّکْرُ کے معنے ہیں التَّلَفُّظُ بِالشَّیْءِکسی چیز کاتلفظ کرنا.نیز اس کے معنے ہیں

Page 13

اِحْضَارُہٗ فِی الذِّھْنِ بِحَیْثُ لَا یَغِیْبُ عَنْہُ کہ ذہن میںکسی چیز کو اس طرح بار بار لایا جائے کہ وہ ذہن سے اتر نہ جائے ذِکْرٌ کے ایک معنے اَلصِّیْتُ کے بھی ہیںیعنی شہرت.نیز اس کے معنے ہیں الشَّرَفُ بزرگی.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّہُ لَذِکْرٌلَّکَ وَلِقَوْمِکَ کہ یہ کتاب تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف اور عزت کاموجب ہے.اسی طرح ذکر کے معنے ہیں اَلْکِتَابُ فِیْہِ تَفْصِیْلُ الدِّیْنِ وَ وَضْعُ الْمِلَلِ کہ وہ کتاب جس میںدین اور مذہب کی تفصیلات کا ذکر ہو اگر ذِکْرٌ مِّنَ الْقَوْلِ کا فقرہ بولیں تو معنے ہوںگے اَلصُّلْبُ الْمَتِیْنُ مضبوط اور پکی بات.(اقرب ) محدثٌ.مُحْدَثٌ کے معنے ہیں نَقِیْضُ الْقَدِیْمِ یعنی نیا.(اقرب) یَلْعَبُوْنَ.یَلْعَبُوْنَ لَعِبَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور لَعِبَ فِی الْاَمْرِوَالدِّیْنِ کے معنے ہیں اِسْتَخَفَّ بِہٖ اس نے دین کی باتوں کو معمولی سمجھا اور ان کو حقیر قرار دیا.(اقرب) لَاھِیَۃً.لَاھِیَۃً لَھِیَ سے ہے اور لَھِیَ عَنْہُ کے معنے ہوتے ہیں سَلَا وَ غَفَلَ وَ تَرَکَ ذِکْرَہُ وَ اَعْرَضَ عَنْہُ کسی چیز کو بھلا دیا اور اس سے غافل ہوگیا.اور اس کی یاد کو بھلا دیا اور اس سے ہٹ گیا.(اقرب) النجوٰی.اَلنَّجْوٰی کے معنے ہیںپوشیدہ بات کرنانیز اس کے معنے ہیںاَلسِّرُّبھید (اقرب) اَلسِّحْر.اَلسِّحْرُکے معنے ہیںکُلُّ مَالَطُفَ مَأْ خَذُہٗ وَ دَقَّ ہر وہ بات جس کا ماخذ لطیف اور دقیق ہو.اسی طرح اس کے معنے ہیں الْفَسَادُ فساد اِخْرَاجُ الْبَاطِلِ فِی صُوْرَۃِ الْحَقِّ غلط بات کا ایسے رنگ میں پیش کرنا کہ وہ صحیح اور درست نظر آئے وَاِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا قِیْلَ مَعْنَاہُ اَنَّہُ یَمْدَحُ الْاِنْسَانَ فَیَصْدُقُ فِیْہِ حَتّٰی یَصْرِفَ قُلُوْبَ السَّامِعِیْنَ اِلَیْہِ وَ یَذُمُّہٗ فَیَصْدُق فِیْہِ حَتّٰی یَصْرِفَ قُلُوْبَھُمْ اَیْضًا عَنْہُ یعنی جب کسی کلام کے متعلق یہ کہیںکہ وہ سحر ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ کلام کرنے والا جب کسی کی تعریف کرتاہے تو ایسے رنگ میںکرتاہے کہ لوگوں کے دلوں کو موہ لیتا ہے اور جب کسی کی مذمت کرتاہے تو ایسا طریق اختیار کرتاہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیںاور وہ اس کو سچاسمجھنے لگتے ہیں (اقرب) تفسیر.ان آیات میں بتایاگیاہے کہ مکہ والوں کا قرآن کریم کی باتوں کو حقیر سمجھنا اور اسلام سے ہنسی کھیل کرناکو ئی نئی بات نہیںدنیاکے تمام کفار ہمیشہ سے ہر نئے الہام کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور اسے سن کر ان کے دل خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیںہوئے بلکہ ہنسی مذاق کی طرف متوجہ رہے ہیں اور خداکے پیغام کو مٹانے کے لئے کافروں کے سردار ہمیشہ منصوبے کرتے رہے ہیں.انہیں یہ کبھی خیال نہیںآیا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ہم انسان

Page 14

ہیںبلکہ اس کلام کو انسان کی طرف منسوب کرکے یہی سمجھتے رہے ہیںکہ یہ تو ایک آدمی ہے اور ہم بڑی قوم ہیں یہ ہم سے بچ کر کہاں جاسکتاہے اور اس کی اعلیٰ تعلیم سے مجتنب رہنے کے لئے اپنی قوم کو سمجھاتے رہے اور کہتے رہے ہیںکہ اس کی دلفریب باتوں پرنہ جانا جب تمہاری تعداد زیادہ ہے اور یہ مدعی تمہارے مقابلے میںاکیلا ہے تو آخر تم ہی غالب آئو گے.لَاهِيَةً قُلُوْبُهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے نجوٰی کے معنے پوشیدہ بات کرنے کے ہیںپس نَجْوٰی جو خود مخفی ہوتاہے اس کے ساتھ اَسَرُّوا کا لفظ مبالغہ کے لئے لگایا گیا ہے یعنی ایسے خفیہ منصوبے کرتے ہیں جن کا لوگوں کو علم تک نہیں ہوتا پھر پبلک میںکہتے ہیں هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ کہ یہ تو ایک تمہارے جیسا انسان ہے کیا تم اس کے کلام کو جو سحر ہے سنتے ہو اور اسے قبول کرتے ہو حالانکہ تم کو علم ہے کہ یہ سب ملمع سازی کی باتیں ہیں.قٰلَ رَبِّيْ يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ٞ وَ هُوَ (ان باتوںکو سن کر محمدؐ رسول اللہ نے) کہا میرارب جانتاہے ان باتوں کو جو آسمان میں (کہی جاتی) ہیں اور (ان کو بھی) السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۰۰۵ جو زمین میں(کہی جاتی) ہیں اور وہ بڑا سننے والا (او ر)بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.فرماتا ہے عالم الغیب خدا کو کفار کے یہ ارادے پہلے سے معلوم تھے کہ وہ خفیہ منصوبے کریں گے اورپھر پروپیگنڈہ کرکے لوگوںکو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اس لئے اس نے اپنے الہام میں اور انسانی قلوب میںپہلے سے اس کاعلاج رکھ دیا ہے یہ تو رسولوں کو صرف ایک بشر سمجھتے ہیںلیکن یہ نہیںجانتے کہ رسولوں کے پیچھے ایک دعائیں سننے والا اور غیب کاجاننے والا خدا بھی ہے اس لئے خواہ یہ ان کے خلاف دنوں کو منصوبے کریں یا راتوں کو اور خواہ ان منصو بوں کو ظاہر کریں یاپوشیدہ رکھیں اللہ تعالیٰ ان کے منصوبوں کو توڑ کر رکھ دےگا.

Page 15

بَلْ قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۭ بَلِ افْتَرٰىهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ١ۖۚ بلکہ انہوں (یعنی مخالفوں) نے تو یہاں تک کہہ دیا ہےکہ (یہ کلام) تو پریشان خوابیں ہیں بلکہ (پریشان خوابیں بھی فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ۰۰۶ نہیں) اس نے دیدہ و دانستہ یہ باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں بلکہ وہ ایک شاعرانہ مزاج رکھنے والا آدمی ہے( جس کے دماغ میںطرح طرح کے خیالات اٹھتے رہتے ہیں)پس چاہیے کہ ہمارے پاس کوئی نشان لے آئے جس طرح کہ پہلے رسول نشانوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے.حلّ لُغَات.اضغاث.اَضْغَاثٌ اَلضِّغْثُ کی جمع ہے اور الضِّغْثُ کے معنے ہیں قَبْضَۃُ حَشِیْشٍ مُخْتَلِطَۃُ الرَّطْبِ بِالْیَابِسِگھاس کے مٹھی بھرتنکے جو خشک اور تر ملے جلے ہوںگے اور جب اَلضِّغْثُ مِنَ الْخَبْرِاَوِالْاَمْرِکہیں تو اس کے معنے ہوں گےمَاکَانَ مُخْتَلِطًا لَا حَقِیْقَۃَ لَہُ ایسی خبریں یا ایسی باتیں جو سچی اور جھوٹی ملی جلی ہوں اور ان کی کوئی حقیقت نہ ہو.أَحْلَام.أَحْلَامٌ حُلْمٌ کی جمع ہے اور حُلْمٌ کے معنے ہوتے ہیں و ہ خواب جو انسان سونے کی حالت میں دیکھتاہے لیکن عام طورپر پراگندہ خوابوں پر یہ لفظ بولاجاتاہے.(اقرب) اَضْغَاثُ.اَحْلَامٍ.کے معنے ہیں اَحْلَامٌ مُلْتَبِسَۃٌ لَا یَصِحُّ تَاْوِیْلُھَا لِاِخْتِلَاطِھَا کہ ایسی خوابیں جو پراگندہ خیالات کے ساتھ ملی ہوئی ہوں جن کی تعبیر اور تاویل کرنی درست نہ ہو.( اقرب) شَاعِرٌ.شَاعِرٌ شِعْرٌ سے نکلاہے ہر شخص جو شعر کہتاہے اس کو بھی شاعر کہتے ہیں اور وہ شخص جو انسانی شعور یعنی جذبات سے کھیلتاہے اس کو بھی شاعر کہہ لیتے ہیں.تفسیر.الہام کی تردید میںکفار کوئی ایسی بات تو پیش نہیںکرسکتے جس میں دلائل کے ذریعہ اس کو رد کیا گیا ہو.صرف یہ کہہ کر اپنے متبعین کو تسلی دے دیتے ہیں کہ تمہیں بھی تو کبھی کبھی پریشان خوابیں آجایا کرتی ہیں.اگر اس شخص کو آگئیں تو کونسی عجیب بات ہے.تم بھی تو کبھی کبھی جھوٹ بول لیا کرتے ہو.اگر اس نے جھوٹ بول لیا تو کون سی بات ہے تم بھی تو ضرورت کے موقعہ پر جذبات کو ابھارنے والی باتیں کرلیتے ہو.اس نے جذبات کو ابھارنے والی باتیںکرلیں تو کیا بات ہے یاپہلے تو وہ یہ کہتے ہیںکہ کچھ پریشان خوابیںاس نے دیکھی ہوںگی پھر اس سے بھی

Page 16

ڈرتے ہیں کہ کم از کم اس کو سچاتو مانا.پھر کہتے ہیں مفتری ہے مگر پھر اس دعویٰ کو بھی بڑاسمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیںکہ ایسے صادق کی نسبت لوگ یہ بات کس طر ح مانیںگے؟ چنانچہ پھر کہتے ہیں یہ یونہی تمسخر ہے جیسے شاعرباتیں بناتاہے.چونکہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام میں کوئی ایک شعر بھی نہیں اور قرآن کریم خود کہتاہے کہ یہ کلام کسی شاعر کا نہیں اس لئے یاد رکھنا چاہیے کہ جب قرآن کریم کے متعلق یا پہلے نبیوں کی نسبت شاعر کا لفظ آتاہے تو اس سے مراد عرف عام والا شاعر نہیں ہوتا بلکہ محض جذبات سے کھیلنے والا انسان ہوتاہے بانی سلسلہ احمدیہ بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے مگر وہ شاعر نہیں کہلا سکتے.وہ خود کہتے ہیں ؎ کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعایہی ہے.(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۹) زمیندار اخبار چالیس سال سے اس بات پر تمسخر اڑاتارہا ہے کہ مرزا صاحب شعر کہتے ہیں.حالانکہ نہ ان کے شعروں میںکوئی لطافت ہے نہ فصاحت اور نہ زباندانی کی جھلک(اخبار زمیندار ۴؍مارچ ۱۹۳۳؁.صفحہ ۳ کالم ۱،۲).غریب زمیندار تو یہ سمجھتا رہا کہ اس سے وہ مرزا صاحب کی تردید کر رہاہے.حالانکہ وہ اس ذریعہ سے احمدیوں کو یہ ہتھیا ر مہیا کر کے دے رہا تھا کہ باوجود کچھ موزوں کلام کہنے کے مرزا صاحب شاعرنہیںکہلا سکتے او ران کے ملہم ہونے پر کوئی اعتراض نہیںہوسکتا.فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کفار اپنے باپ دادوں کو آپ جھوٹاکہتے ہیں پہلے زمانوںکی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر نبی کو لوگوں نے کہا کہ یہ نشان نہیںلایا لیکن انہی لوگوں کی اولاد نے آگے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ میںاپنے باپ دادوںکوجھوٹاکہہ دیا اور یہ کہنے لگے کہ پہلے رسول تو آیات لایا کرتے تھے مگر محمد ؐرسول اللہ کوئی آیت نہیں لائے دیکھو خدا تعالیٰ کی تدبیر کیسی زبردست ہے جب پہلے نبیوں کے دشمن یہ کہتے تھے کہ لائو نشان دکھائو تو خدا کے فرشتے ان پر ہنستے ہوںگے کہ ٹھہر جائو ابھی تمہارے پوتے پڑپوتے تمہیںجھوٹاکہیںگے.چنانچہ اس کی ظاہری صورت یہ پیدا ہوگئی کہ وہی نبی جن کی قوم ان کو کہتی تھی کہ تم کوئی نشان کیوں نہیں لائے جب مرگئے تو ان کی قوم نے ان کی طرف مضحکہ خیز باتیں منسوب کردیں کبھی کہہ دیا وہ مردے زندہ کرتے تھے (لوقا باب ۷ آیت ۱۱ تا ۱۵)جیسا کہ مسیح کی قوم نے کہا کبھی کہہ دیا کہ جدھر ان کے پیر ہوتے تھے ادھر مقدس مقامات اپنی جگہ سے ہٹ کر پھر جاتے تھے جیسا کہ سکھوں نے کہہ دیا کہ جب باوانانک ؒ مکہ گئے تو جدھر ان

Page 17

کے پیر ہوتے تھے مکہ ادھر ہی ہوجاتا تھا(سب تو وڈی جنم ساکھی گرو نانک دیو جی بھائی بالا والی مترجم بھائی دیا رام) غرض یہ مضحکہ خیز باتیں تھیں جن کے فریب میںان کی اولاد آگئی اور جب انہوں نے یہ کہا کہ جس طر ح پہلے رسول آیتیں لاتے تھے موجودہ رسول بھی لائے تو ان کامطلب یہ تھا کہ جس طرح پہلے رسولوں کے مرنے کے بعد ہم نے ان کے معجزات کے متعلق کہانیاںبنالی تھیں ہماری کہانیوںکے مطابق نشان لائو.حالانکہ وہ رسول خداکے رسول تھے ان کافروںکے رسول نہیںتھے اور خدا تعالیٰ اپنی سنت آپ نہیںتوڑا کرتا.کیا کوئی احمق سے احمق بادشاہ بھی لوگوں نے دیکھا ہے جو اپنا قانون خود توڑنے لگ جائے ؟ مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا١ۚ اَفَهُمْ يُؤْمِنُوْنَ۰۰۷ ان سے پہلی بستیوں میں سے بھی جن کو ہم نے ہلاک کردیا تھاکوئی ایمان نہیںلایاتھا.تو پھرکیایہ ایمان لے آئیںگے ؟ حلّ لُغَات.قریۃ.قَرْیَۃٌ کے معنے شہراور بستی کے ہیںلیکن یہاں قریۃ سے اہل قریہ مراد ہیں یعنی بستی اور شہر کے رہنے والے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے جب پہلی قوموں پر ہلاکت آگئی تو کیا وہ لوگ ایمان لائے تھے.اب ان لوگوں کا بھی عذاب قریب ہے پھر یہ کس طرح ایمان لائیںگے.قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پراس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ صرف یونس ؑ کی قوم ایسی تھی جو عذاب کے آثار دیکھنے کے بعد ایمان لے آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی برکات سے نوازا.اس کے علاوہ اور کوئی قوم ایسی نہیںگذری جس نے عذاب کے آثار دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو.اور وقت کے نبی پر ایمان لے آئی ہو.چنانچہ وہ فرماتا ہے فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ(یونس:۹۹) یعنی یونسؑ کی قوم کے سوا کیوں کوئی اور قوم ایسی نہ ہوئی جو ایمان لاتی تو اس کاایمان لانا اسے نفع دیتا صرف یونسؑ کی قوم ایسی تھی کہ جب وہ ایمان لائی تو ہم نے دنیامیںاس سے رسواکن عذاب دور کردیا اور ان لوگو ں کو ایک لمبے عرصہ تک فائدہ پہنچایا.قرآن کریم کے یہ الفاظ صاف بتاتے ہیںکہ ان میںصرف ماضی کے ایک واقعہ کا ہی ذکر نہیںکیاگیا بلکہ اس خواہش کابھی اظہار کیاگیاہے کہ کیوں یونس ؑ کی قوم کی طرح اور اقوام بھی نہ ہوئیںجو ایمان لاکر نجات حاصل کرتیں.گویااللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کا دروازہ

Page 18

بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ کھلا رہتاہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح یونس ؑ کی قوم ایمان لائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب سے نجات دی اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بھی عذاب کے آنے کے بعد آپ پر ایمان لائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی برکات سے بہرہ ور فرمایا.صلح حدیبیہ کے بعد جب مکہ والوں کو انتہائی ذلت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھکنا پڑا اور خالد ؓ اور عمر وؓ بن العاص جیسے لوگ جنہوںنے بعد میں ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کیا اسلام لے آئے اور جب مسلمانوںکاجرار لشکر مکہ میںداخل ہوا اور مکہ کی حکومت تہ و بالا کردی گئی تو ہندہ جیسی دشمن اسلام عورت بھی ایمان لے آئی اور ابوجہل کا بیٹاعکرمہ بھی ایمان لے آیا یونس ؑ کے بعد صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ذات ہے جن کی قوم پر عذاب آیا مگر پھر بھی وہ ایمان لے آئی یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دم قدم کی برکت تھی ورنہ نہ یہ بات مسیح کو نصیب ہوئی نہ کسی اور نبی کو صرف یونس ؑ کو پہلے نبیوں میںسے اور محمد رسول للہ کو آخری نبیوں میں سے یہ بات نصیب ہوئی.صلی اللہ علیہ وسلم.یہ جو فرمایا کہ جب پہلے ایمان نہیں لائے تو کیایہ ایمان لے آئیںگے؟ اس سے یہ مرادنہیں کہ وہ ایمان نہیںلائیںگے.وہ تو لے آئے تھے.بلکہ اس میں ا ن کے اپنے خیالات کارد ہے اور یہ بتایا ہے کہ عقلی قاعدہ کے مطابق تو وہ ایمان نہیںلا سکتے تھے اتنے شدید ظلموں کے بعد اگر ایک قوم مغلوب ہوتی ہے تو اس کو ایمان نصیب نہیں ہوتا بلکہ اس کے مرد قتل کر دیے جاتے ہیںجیساکہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنے دشمن کنعانیوں کے ساتھ سلوک کرنےکا حکم دیا گیا.(استثنا باب ۲۰ آیت ۱۴ ) یہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ستودہ صفات تھی کہ موسیٰ ؑ اور پہلے نبیوں کے طریق کے خلاف ظالم اہل مکہ کو جب انہوںنے فتح کر لیا.تو یہ اعلان کردیاکہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ آج تم پر کسی قسم کی گرفت نہیں تم سب کو معاف کیا جاتا ہے.حتٰی کہ جب عکرمہ بن ابوجہل اپنی بیوی کے اصرار پر حبشہ کی طرف بھاگتے ہوئے لوٹ کر واپس آیا تو اس نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا.یا محمدؐ میری بیوی کہتی ہے آپ نے مجھے معاف کردیا ہے اور میںمکہ میںرہ سکتاہوں.کیا یہ ٹھیک ہے.آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے.عکرمہ نے کہا یامحمد ؐ آپ کا شکریہ مگر میں اپنامذہب بد لنے کے لئے تیار نہیں کیا اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بھی میںآپ کی مملکت میںرہ سکتاہوں؟ آپ نے فرمایاہاں.جب ا س نے یہ سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ میںگواہی دیتاہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیںعکرمہ حقیقت سے ناواقف تھا اس نے یہ سمجھاکہ اللہ کے رسول ہونے کی وجہ سے آپ نے مجھے معاف کیاہے حالانکہ موسیٰ ؑ بھی اللہ کے رسول تھے اور انہوںنے اپنی مد مقابل قوم کو فتح کرکے سب زن و مرد کو قتل

Page 19

کردیا تھا.عکرمہ ؓ کو تو یہ کہنا چاہیے تھاکہ میںگواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے.او ر اےمحمدؐ ! میںیہ بھی گواہی دیتاہوں کہ تیرانام ہی محمدؐ نہیں بلکہ تو وہ محمدؐ ہے جس کی سب نبیوں نے خبردی ہے اور جس کے رحم کے سب انبیاء گن گاتے رہے ہیں.وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْۤ اِلَيْهِمْ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے صرف بعض مردوں کو رسول بناکر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی کیاکرتے تھے.اگر تم (یہ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۸ بات) نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لو.تفسیر.اس میںبتایاگیاہے کہ تجھ سے پہلے رسول بھی کامل القوٰی انسان ہوتے تھے.ان میںاور دوسرے شریف مردوں میںیہی فرق ہوتاتھاکہ خدا ان کی طرف وحی کرتاتھا.اس جگہ دوسرے انبیاء کو بھی رجالًاکے الفاظ سے یاد کیا ہے یعنی کامل القویٰ لوگ.یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میںنہیں بلکہ اپنی قوم کے لوگوںکے مقابلہ پر ہے ہر نبی اپنی قوم کے لوگوںمیںسے اشرف اور اعلیٰ ہوتاہے.پھر فرماتا ہے جو تم سے پہلے اہل کتاب گذر چکے ہیں ان سے پوچھ لو کہ ان کی طرف بھی انسان رسول آئے ہیںیاخدا رسول آیا ہے.یہ آیت درحقیقت کفار کے اس اعتراض کا الزامی جواب ہے کہ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یعنی یہ تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے کیاتم اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہو؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی ہدایت کے لئے آدمی ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی نازل کیاکرتے تھے اگر تم کو معلوم نہ ہو تو یہود اور نصاریٰ سے پوچھ لو.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اگر اور نہیںتو کم از کم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت اور آپ کے خدا رسیدہ ہونے کے تو ضرور قائل تھے.پس جب وہ بشر رسول تھے تو اب ایک بشر رسول کے آنے پرانہیںکیوں اعتراض ہے.اس قسم کے الزامی جواب سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ معترض جس بات کو تسلیم کرتاہے اس کے خلاف اسے تعصب نہیںہوتابلکہ اس کی تائید میںاس کے پاس دلائل ہوتے ہیں.پس بجائے اس کے کہ جس بات پر اس نے اعتراض

Page 20

کیا ہو اس کی تائید میں دلائل دیئے جائیں.یہ زیادہ سہل طریق ہوتاہے کہ خود اسی کی تسلیم کردہ باتوں میں سے کوئی اس کے سامنے پیش کردی جائے تاکہ ا س کی تائید میں جو دلائل اس کے ذہن میں ہوں انہی کے ذریعہ سے وہ اس بات کی صداقت کو بھی سمجھ لے جس پر وہ اعترض کرتاہے یہاں بھی بجائے یہ ثابت کرنے کے کہ نبی کے لئے بشر ہوناضروری ہے اللہ تعالیٰ صرف یہ حوالہ دیتاہے کہ پہلے نبی جن کو تم مانتے ہو و ہ بھی تو ایسے ہی تھے پھر تم نے ان کو کیوںمانا تھا.وَ مَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ مَا كَانُوْا اور ہم نے ان (رسولوں)کو ایسا جسم نہیں دیاتھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں.اور نہ وہ غیر معمولی عمر خٰلِدِيْنَ۰۰۹ پانے والے لوگ تھے.حلّ لُغَات.الجسد.اَلْجَسَدُکے معنے ہیںجِسْمُ الْاِنْسَانِ انسان کاجسم.وَکُلُّ خَلْقٍ لَا یَاْکُلُ وَلَا یَشْرَبُ مِنْ نَحْوِ الْجِنِّ وَالْمَلَائِکَةِ ہر وہ مخلوق جو نہ کھاتی ہے اور نہ پیتی ہے جیسے جن اور ملائکہ.(اقرب) تفسیر.یہاں سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم تو ان کو ابن اللہ مانتی ہے یارام اور کرشن کی قوم ان کوخدامانتی ہے کیونکہ وہ ابن اللہ مانیں یا خدامانیں وہ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ عورتوں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور انسانوں جیسا جسم رکھتے تھے اور کھانے پینے سے آزاد نہیںتھے اور نہ موت سے آزاد تھے یہ اقرار ثابت کرتاہے کہ درحقیقت ان کی قوم ان کو انسان ہی مانتی تھی چنانچہ دیکھ لو اسلام کے ذریعہ سے توحیدکی ضرب ایسی کار ی پڑی کہ اب ہندو اور عیسائی بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم موحد ہیں.

Page 21

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَيْنٰهُمْ۠ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا او رہم نے جو وعدہ ان سے کیا تھا اسے پورا کر دکھایا اور ان کو اوران کے سواجن کو چاہا (دشمنوں سے) نجات دی اور الْمُسْرِفِيْنَ۰۰۱۰ جو حد سے بڑھنے والے تھے ان کو ہلاک کردیا.حلّ لُغَات.مُسْرِفِیْنَ.مُسْرِفِیْنَ.أَسْرَفَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے.اور اَسْرَفَ فِی کَذَا کے معنے ہوتے ہیں جَاوَزَالْحَدَّ فِیْہِ.حد سے تجاوز کیا اسی طرح اس کے معنے ہیں اَخْطَأَ.غلطی کی.جَھِلَ.نادانی کی غَفَلَ.غفلت برتی (اقرب) پس مُسْرِفِیْنَ کے معنے ہوںگے.حد سے تجاوز کرنےوالے.غلطی کرنے والے نادانی کرنے والے.تفسیر.بے شک ان لوگوں سے غیر معمولی سلوک ہوا مگر غیر معمولی سلوک الٰہی باتوں کے معاملہ میںتھا جن کا ذکرالہام میں آیا تھا.ورنہ عام طبعی باتوں میں وہ دوسرے انسانوں کے مشابہ تھے.لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَؒ۰۰۱۱ ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میںتمہاری بزرگی کے سامان ہیں.کیا تم عقل نہیںکرتے.حل لغات.ذِکْرٌ.ذِکْرٌکے معنےشرف کے ہیںیعنی بزرگی اور عزت (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے الہام الٰہی رحمت کے طورپرآتاہے نہ کہ لعنت کے طورپر جیسا کہ عیسائیوں کاخیال ہے (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳).چنانچہ د یکھ لو.قرآن کریم میں وہ تعلیم ہے کہ اگر تم اس پرعمل کرو گے تو تم کو بڑاشرف نصیب ہوگا مثال کے طورپر قرآن کہتاہے ہمیشہ سچ بولو قرآن کہتاہے ایفائے عہد کرو.قرآن کہتاہے چوری نہ کروقرآن کہتاہے ظلم نہ کرو.قرآن کہتاہے کہ مال ہو تو غریبوں پر خرچ کرو.صرف اپنے نفس کا خیال نہ رکھو ہاں اپنے اہل وعیال کو بھی توفیق کے مطابق خرچ دو.قرآن کہتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میںلڑپڑیں تو ان میںصلح کرائو.اور صلح کے وقت اپناحصہ بٹوارے میںنہ رکھو اور جب معاملہ کرو انصاف اور عدل کے ساتھ کرو بیویوں اور نوکروں کے ساتھ نیک سلوک کرو.مزدور کو اس کا حق اداکرو مسافروں کی خبر گیری رکھو قرض داروں کے قرضے چکائو.غلاموں کو آزاد کرائو.جو مخلوقات مانگ نہیںسکتی یعنی بے زبان ہے یامانگنے کو عار سمجھتی ہے ان کی خبر گیری کرو اور ظالم کو اس حد

Page 22

تک معاف کرو کہ اس کی اصلاح ہو.مگر جب معاف کرنے سے شرارت پیدا ہوتی ہو تو معاف نہ کرو.اب دیکھ لو جو شخص اس تعلیم پرعمل کرےگا اس کو عزت نصیب ہوگی یاذلت ؟ اگر اس تعلیم پرعمل کرنا لعنت ہے تب تو عیسائی سچے ہیں لیکن اگر اس تعلیم پرعمل کرنا لعنت کا موجب نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے تو قرآن سچاہے اور مسیحیت جو شریعت کو لعنت قرار دیتی ہے جھوٹی ہے.وَ كَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّ اَنْشَاْنَا اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظلم کیاکرتی تھیں.کہ ہم نے ان کو کاٹ کر رکھ دیا اور ان کے بعد ایک اور قوم کو بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ۰۰۱۲فَلَمَّاۤ اَحَسُّوْا بَاْسَنَاۤ اِذَا هُمْ پیداکردیا.پس جب (ہلاک ہونے والے لوگوں نے ) ہمارے عذاب کو محسوس کیاتو لگے (اس سے مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَؕ۰۰۱۳ بچنے کے لئے )دوڑنے.حلّ لُغَات.قَصَمْنَا.قَصَمْنَاقَصَمَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور قَصَمَہُ کے معنے ہوتے ہیں کَسَرَہٗ وَ اَبَانَہٗ.اس کو توڑدیااور ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور مختلف حصوں کو علیحدہ کردیا اور جب قَصَمَہُ اللہُ کہیں تو معنے ہوں گے.اَھَانَہٗ وَ اَذَلَّہٗ اس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کیا.(اقرب) مفردات میں ہے وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً اَیْ حَطَمْنَاھَا وَ ھَشَمْنَا ھَا وَ ذٰلِکَ عِبَارَۃٌ عَنِ الْھَلَاکِ یعنی آیت کَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍکے معنے ہیںہم نے بہت سی بستیوںکو تباہ و برباد کردیا.اور اس طرح ہلاک و ویران کیا کہ ان کے مکانات ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئے.اَلْبَأْسُ.اَلْبَأْسُ الْعَذَابُ عذاب اَلشِّدَّۃُ فِی الْحَرْبِ لڑائی کی سختی.(اقرب) یَرْکُضُوْنَ.یَرْکُضُوْنَ رَکَضَ سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور رَکَضَ کے معنے ہوتے ہیں حَرَّکَ رِجْلَہٗ اپنے پائوں کوحرکت دی اور رَکَضَ مِنْہٗ کے معنے ہیں ھَرَبَ مُسْرِعًا جلدی جلدی بھا گا (اقرب) پس یَرْکُضُوْنَ کے معنے ہوںگے وہ جلدی جلدی بھاگتے تھے.

Page 23

تفسیر.فرماتا ہے.نیکی اور بدی کی لہریں دنیا میںہمیشہ چلتی رہتی ہیں.انسان ایک عرصہ کے بعد بگڑ جاتاہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرتاہے اور جب وہ اصلاح کے سامان پیدا کرتاہے.پہلے مفسد لوگ اصلاح کرنے والے کا مقابلہ کرتے ہیں.اور پھر ہمیشہ بھاگ جاتے ہیں.اس جگہ ظالم کے معنے ایسے شخص کے ہیں جو اپنے حقوق اور طاقتوں کوغیر محل استعمال کرتاہے یا کوئی حقیقت جو کسی کی طرف منسوب کرنی چاہیے وہ نہیںکرتا.یا جو بات کسی میں نہیں ہے وہ اس کی طرف منسوب کر دیتاہے.دنیا میںتمام بدیاں انہی باتوں سے پید اہوتی ہیں.اگر ہر ایک طاقت کو اپنے موقعہ اور محل پر استعمال کیاجائے تو ہمیشہ نیک نتائج پید اہوں نقصان کا موجب وہی بات ہوتی ہے جوبے جاطریق سے کی جاتی ہے.وہ بستیاں جن میںرہنے والے اپنی طاقتوں کے بے جا اور بے محل استعمال کرکے ظالم بن گئے تھے ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو ہلاک کردیااور ان کی جگہ دوسری قوم کو کھڑا کردیا.لَا تَرْكُضُوْا وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ وَ مَسٰكِنِكُمْ ( تب ہم نے کہا )دوڑو نہیں اور ان چیزوں کی طرف جن کے ذریعہ سے تم آرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے لَعَلَّكُمْ تُسْـَٔلُوْنَ۰۰۱۴قَالُوْا يٰوَيْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۰۰۱۵ گھروںکی طرف واپس جائو تاکہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کیاجائے اس کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ اے افسوس ہم تو (عمر بھر) ظلم ہی کرتے رہے.حلّ لُغَات.أُتْرِفْتُمْ.اُتْرِفْتُمْ اَتْرَفَ سے جمع مخاطب مجہول کاصیغہ ہے اور اَتْرَفَ النِّعْمَۃُ زَیْدًاکے معنے ہیںنَعَّمَتْہُ زیدکو نعمت نے خوشحال بنادیا اسی طرح اَتْرَفَتْہٗ النِّعْمَۃُکےمعنے ہوتے ہیں اَطْغَتْہُ وَ اَبْطَرَتْہُ اس کو نعمت اور خوشحالی نے متکبر اور سرکش بنادیا (اقرب ) مفردات میں ہے التَّرَفُّہٗ التَّوَسُّعُ فِی النِّعْمَۃِ کہ التَّرَفُّہُ کے معنے ہیںنعمتوں کی کثرت.پس وَ ارْجِعُوْۤا اِلٰى مَاۤ اُتْرِفْتُمْ فِيْهِ کے معنے ہوںگے کہ جن چیزوں کے ذریعہ سے تم آرام اور نعمت کی زندگی بسر کرتے تھے ان کی طرف لوٹو.تفسیر.اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ مجرم لوگ آخرمیں اپنی غلطی کااقرار کرتے ہیں مگر ان کی یہ اصلاح صرف سزا کے زمانہ تک رہتی ہے اس کے بعد پھر بگاڑ شروع ہو جاتا ہے.

Page 24

فَمَا زَالَتْ تِّلْكَ دَعْوٰىهُمْ حَتّٰى جَعَلْنٰهُمْ حَصِيْدًا اور وہ یہی بات کہتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایک کٹی ہوئی کھیتی کی طرح کردیا جس کی سب رونق خٰمِدِيْنَ۰۰۱۶ برباد ہو چکی تھی.حلّ لُغَات.حصیدًا.حَصِیْدًاکے معنے ہیں الزَّرْعُ الْمَحْصُوْدُ کٹی ہوئی کھیتی.خَامِدِیْن.خَامِدِیْنَ خَامِدٌ سے جمع کا صیغہ ہے جو خَمَدَ سے اسم فاعل ہے.او ر خَمَدَتِ ا لنَّارُ کے معنے ہیںآگ بجھ گئی اور خَامِدِیْنَ کے معنے ہیںاَیْ لَا یُسْمِعُ لَھُمْ حِسٌّ اَوْ مَوْتٰی وہ ایسے ہوگئے کہ ان کی کوئی حس باقی نہ رہی یا وہ مردہ ہوگئے (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے ان کی جڑوں کو کاٹ دیا اور وہ بجھی ہوئی آگ کی طرح ہوگئے.یعنی بڑھنے اور ترقی کرنے کامادہ ان میں نہ رہا.ان کی امنگیں جاتی رہیں اور ان کی ترقی کی خواہشیں مٹ گئیں جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوتاہے.ان کی یہی حالت ہوتی ہے.وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ۰۰۱۷ اور ہم نے آسمان کو اورزمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا.(بلکہ ان کی پیدائش میں حکمت تھی).حلّ لُغَات.لَاعِبیْنَ.لَاعِبِیْنَ لَاعِبٌ کی جمع ہے جو لعب سے اسم فاعل ہے او رلَعِبَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں ضِدُّ جَدَّ وَمَزَحَ.یعنی سنجیدگی کے بالمقابل کی حالت اختیار کی اور مزاح کرنے لگ گیا.اَوْ فَعَلَ فِعْلًا بِقَصْدِ اللَّذَّۃِ اَوِ التَّنَزُّہِ او ر یا صرف مزے کی خاطر کام کیا یاہنسی کھیل میںکام کیا.(اقرب) تفسیر.یہاں فرماتا ہے کہ آسمان اور زمین پرغور کرکے دیکھو ہم نے ان کوبغیر حکمت کے نہیں پیدا کیا.بلکہ حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے بے حکمت پید اکیاہو کہ کھائے پیئے اورمرجائے.

Page 25

لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ اگر ہم نے کوئی دل بہلاوا ہی تجویز کرناہوتا تو اس کو اپنے قرب میںتجویز کرتے لیکن ہم تو حق كُنَّا فٰعِلِيْنَ۰۰۱۸بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ کو باطل پراٹھامارتے ہیںاور وہ اس کاسرتوڑ دیتاہے اور وہ( باطل) فورًاہی بھاگ جاتاہے.اور تم فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۰۰۱۹ پرتمہاری باتوں کی وجہ سے افسوس ہے.حلّ لُغَات.نَقْذفُ.نَقْذِفُ قَذَفَ سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے اور قَذَفَ بِہٖ کے معنے ہوتے ہیںرَمَی بِہٖ اس کو پھینکاعربی میںمحاورہ ہے ھُمْ بَیْنَ حَاذِفٍ وَ قَاذِفٍ اَیْ ضَارِبٌ بِالْعَصَاءِ وَ رَامٍ بِالْحِجَارَةِ یعنی ان میں سے بعض تو سونٹے سے مارنے والے ہیں اور بعض پتھر مارنے والے ہیں(اقرب) پس نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ کے معنے ہیں ہم حق کوباطل پرپتھر کی طرح مارتے ہیں.یدمغ یَدْمَغُ دَمَغَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور دَمَغَہٗ کے معنے ہیںشَجَّہٗ حَتّٰی بَلَغَتِ الشَّجَّۃُ دِمَاغَہٗ اس کے سرکوایسا زخم لگایا کہ وہ زخم اس کے دماغ تک پہنچ گیا.نیز جب دَمَغَ الْحَقُّ الْبَاطِلَ کہیںتو معنے ہوتے ہیں اَبْطَلَہٗ و مَحَقَہٗ.اس کو باطل کر دیا اور مٹادیا پس یَدْمَغُہٗ کے معنے ہیں اس کا سرتوڑ دیتاہے اور اس پر غالب آجاتاہے.تفسیر.مفسرین ا س کے یہ معنی کرتے ہیںکہ اگر ہم ان کو کھیل کے طورپر پید اکرتے تو اپنے پاس رکھتے کیونکہ کھیل کی چیزیں اپنے پاس رکھی جاتی ہیں اسی طرح کہتے ہیں کہ لھو کے معنے بیٹے کے ہیں اور خدا تعالیٰ یہ کہتاہے کہ اگر ہم نے کوئی بیٹابنانا ہوتا تو اپنی جنس کا بناتے نہ کہ انسان بناتے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ لھو سے مراد مرد اور عورت کا خاص تعلق ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر میں نے ایسا تعلق رکھنا ہوتا تو اپنی جنس سے رکھتا نہ کہ انسان کی جنس سے(تفسیر بغوی زیر آیت ھذا) مگر میرے نزدیک چونکہ آگے یہ ذکر ہے کہ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ اس لئے اس کا بیٹے یاعورت سے کوئی تعلق نہیں.البتہ کھلونے والے معنے درست ہیں اور مراد یہ ہے کہ اگر ہم کھلونوں سے کھیلنے والے ہوتے تو کھلونا اپنے پاس رکھتے تمہیں کیوں دیتے مگر اس کے ایک معنے یہ بھی

Page 26

ہو سکتے ہیں کہ ہم نے جو یہ دنیاکا کارخانہ بنایا ہے جس سے بنی نوع انسان اتنا فائدہ اٹھاتے ہیں کیا اس کارخانہ کو ہم نے ہنسی اور تمسخر کے طور پر ہی بنایا ہے.اگر اسی لئے بنایا ہے تو کیا ہم اپنی ہی ذات سے تمسخر کرتے ہیں.یہ تو کوئی عقلمند نہیں کیا کرتا.پھر ہم ایسے کس طرح کر سکتے تھے.بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ بلکہ ہم تو ہمیشہ حق و حکمت کی باتیں دنیا میں بھیجتے رہتے ہیں تاکہ وہ باطل کا سر کچل دیں اور ہمیشہ باطل حق کے مقابلہ میں بھاگ جاتاہے پس اگر یہ دنیا ہم نے بے حقیقت پید اکی ہوتی تو الہام الہٰی کاسلسلہ دنیا میںکیوں جاری کرتے ؟ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ اس میںبتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں پرہنسی اڑانا بہت معیوب بات ہے.اور اس کا بڑا خطرناک نتیجہ نکلتاہے کیا ہنسی اور مذاق کے لئے ان کے پاس خدا کا کلام ہی رہ گیا ہے اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو ان پر سخت عذاب نازل ہوگا.وَ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا اورجو وجود بھی آسمان میںہیں اور زمین میںہیں سب اسی کے ہیں.او ر جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ۠ۚ۰۰۲۰ عبادت سے سرتابی نہیں کرتے.اورنہ( اس سے) تھکتے ہیں وہ رات کوبھی اور دن کوبھی تسبیح کرتے ہیں.يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ۰۰۲۱اَمِ اتَّخَذُوْۤا اور وہ اس سے رکتے نہیں.کیا ان لوگوں نے زمین میںسے معبود بنالئے ہیں ؟ اٰلِهَةً مِّنَ الْاَرْضِ هُمْ يُنْشِرُوْنَ۰۰۲۲ اور وہ (مخلوقات) پیدا کرتے ہیں.حلّ لُغَات.یَسْتَحْسِرُوْنَ.یَسْتَحْسِرُوْنَ اِسْتَحْسَرَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِسْتَحْسَرَ کے معنے ہیںاَعْیَا.وہ تھک گیا اور لَایَسْتَحْسِرُوْنَ کے معنے ہوںگے لَایَعْیَوْنَ مِنْھَا وہ عبادت سے تھکتے نہیں.(اقرب) یُنْشِرُوْنَ.یُنْشِرُوْنَ اَنْشَرَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے.اور اَنْشَرَاللہُ ا لْمَیِّتَ کے معنے ہوتے

Page 27

ہیں اَحْیَاہُ اللہ تعالیٰ نے مردہ کوزندہ کیا (اقرب) پس یُنْشِرُوْنَ کے معنے ہوںگے وہ زندہ کرتے ہیں مخلوق پیداکرتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے کہ تم دیکھو آسمان اور زمین میںجو کچھ ہے وہ خدا کاہے اور جب یہ سب کچھ خدا کا ہے تو کیاتم سمجھتے ہو کہ وہ انسانوںکو تباہ ہونے دےگا اور ان کے لئے ہدایت کا سامان نہیں کرے گا دنیامیںکوئی شخص اپنی چیز کو آپ تباہ نہیںکیا کرتاپھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان میںجوکچھ ہے سب خدا کاہو.اور پھر بھی اسے اپنے بندوںکی اصلاح کا خیال نہ ہو.وہ ہمیشہ ان کی اصلاح کے لئے اپنے مامور بھیجتارہتاہے اور جس شخص کے عمل بتاتے ہیں کہ وہ خدارسیدہ ہے وہ کبھی تکبر کرکے خدا تعالیٰ کی عبادت سے ہٹ نہیں جاتا.اور نہ خدا کی عبادت سے تھکتاہے بلکہ ایسے لوگ رات اور دن بغیر وقفہ کے تسبیح کرتے رہتے ہیں یہ لوگ تو خود بے وقوف ہیںاور ہماری طرف بے وقوفی منسوب کرتے ہیںکہ آپ اپنے ہاتھوں سے بت بناتے ہیںاور ان کی پوجا کرنے لگ جاتے ہیں اور ہمارے متعلق بھی خیال کرتے ہیں کہ ہم خود ایک مخلوق پید اکرکے اس کو اپنابیٹا یا ہمسر بنا لیتے ہیں.لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ اگر ان دونوں( یعنی زمین و آسمان) میںاللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے.پس اللہ( تعالیٰ) جو رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۰۰۲۳ عرش کابھی رب ہے تمام نقصوںسے پاک ہے اور ان (باتوں) سے بھی جو وہ کہتے ہیں.حلّ لُغَات.یَصِفُوْنَ.یَصِفُوْنَ وَصَفَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور وَصَفَ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں نَعَتَہٗ بِمَا فِیْہِکسی چیز کی اندرونی کیفیت کو بیان کرنا.(اقرب) پس یَصِفُوْنَ کے معنے ہوںگے وہ بیان کرتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے.کیا یہ سمجھتے نہیں کہ زمین وآسمان میںاللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے.یعنی اگر کئی معبود ہوتے تو دنیامیں کئی قانون نیچر ہوتے.اور دنیاتباہ ہوجاتی مگر قانون نیچر دنیامیںایک ہی نظر آتاہے مجھے یاد ہے جب میںچھوٹا تھا.غالباً میری عمر اس وقت کوئی اکیس سال کی تھی کہ ایک سندھ کے مولوی صاحب غالباً مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو اکثر قادیان آتے رہتے تھے.استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین

Page 28

صاحب خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کو ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے یہ آیت آپ کے سامنے رکھی کہ آپ اس کوحل کردیں اور یہ ا عتراض کیا کہ قرآن نے یہ کیا کہا ہے کہ اگر کئی معبود ہوتے تو زمین و آسمان میں فساد پید اہو جاتا حالانکہ معبود تو کہتے ہی اسے ہیں جو کامل القویٰ ہو انسان بادشاہ دنیامیں لڑتے ہیں.اگر واقعہ میں خداکے سوا اور کئی خداہوتے تو وہ آپس میں کیوں لڑتے.استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃا لمسیح اوّل رضی اللہ عنہ نے ان کو کئی جواب دیئے مگر ان کی تسلی نہ ہوئی بڑی دیر تک وہ اعتراض کرتے چلے گئے.مجھے اب تک وہ کمرہ یاد ہے جہاںیہ باتیںہوئی تھیںبلکہ اب تک وہ جہتیں بھی یاد ہیں جس طرف دونوں کے منہ تھے.استاذی المکرم حضرت مولوی صاحب ؓ کامنہ اس وقت شمال کی طرف تھا.اور سندھی مولوی صاحب کا منہ جنوب کی طرف تھا.اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جب بحث لمبی ہوگئی اور سندھی مولوی صاحب( جو اغلبا ً مولانا عبید اللہ صاحب سندھی تھے )نے کہا کہ اعتراض کا کوئی جواب نہیںہو سکتا تو استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ نے بڑے جوش سے کہاکہ آپ مجھ سے کہتے ہیںکہ میںجواب نہیں دے سکتا.ذرا اس بچہ سے جو میرا شاگرد ہے بحث کرکے دیکھ لیں.مولوی عبیداللہ صاحب کو معلوم تھا کہ میںبانئ سلسلہ احمدیہ کابیٹاہوں.وہ تھے تو دیوبندی مگر ایک لمبے عرصہ تک مختلف پیروںکے مریدبھی رہ چکے تھے اور پیروں کا ادب ان کے دل میں بڑاتھا.استاذی المکرم کی بات سن کر کہنے لگے ان سے میںبحث نہیںکروںگا یہ تو مرزا صاحب کے بیٹے ہیں.معلوم نہیںاگر بحث ہوجاتی تو میں اس وقت کیا جواب دیتالیکن اب میں سمجھتاہوں کہ بیشک اٰلھہ کامل القویٰ ہوتے ہیںلیکن ان کا کامل القویٰ ہونا ہی بتاتاہے کہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیاد ہ نہیں ہوسکتے.مذکورہ بالاواقعہ تو ۹ ؁ء کاہے ۱۱ ؁ء میں میں ڈلہوزی گیا وہاں چرچ نے یوروپین پادریوں کے آرام کے لے کچھ کوٹھیاں بنائی ہوئی ہیں.پادری ینگسن صاحب جن کے ذریعہ سے سیالکوٹ میںعیسائیت مضبوط ہوئی ہے وہ وہاں سے بدل کر جنوبی ہند میں کسی جگہ پرمقرر ہوئے تھے اور گرمیاں گذارنے کے لئے ڈلہوزی آئے ہوئے تھے.وہ جواںسال بڈھا روزانہ شام کو اسلام کے خلاف پمفلٹ ہاتھ میںپکڑ کر بازار میںپھرتاتھااور مسلمانوں میں تقسیم کرتاتھا مسلمان بے عمل تو بہت ہیں مگر جوش میںبھی بہت جلد آجاتے ہیں خصوصا ً ان پڑھ طبقہ.چنانچہ ڈلہوزی اور ساتھ کی چھائونی بیلون میں بڑا شور پڑگیا کہ اس پادری کے ساتھ کسی مسلمان عالم کی بحث کرانی چاہیے.بیلون جو ڈلہوزی کے پاس چھائونی ہے اس کی جامع مسجد کے امام ایک کشمیری مولوی تھے ان کو پتہ تھا کہ میں آیا ہوا ہوں.جب لوگ ان کے پاس گئے تو انہوںنے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب کا بیٹا آیا ہوا ہے.اس کو مباحثہ کے لئے لے جائو عیسائیوں سے مباحثہ قادیانی اچھا کرتے ہیں

Page 29

میں تو ناتجربہ کار تھا مگر جب ایک وفد میرے پاس آیا تو مجھے ان کی بات ماننی پڑی اور میں نے مباحثہ کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کردی.ایک برات کی شکل میں ہم آٹھ نو آدمی پادری صاحب کی کوٹھی پہنچے وہاں انہوںنے یہ سوال اٹھایا کہ آپ بتائیں آپ ہیں کس مذہب کے میرے دل میں فوراً خدا تعالیٰ نے ڈال دیا کہ ان کا منشا یہ ہے کہ میرے سوالوں کو ٹلادیں اور اسلام پر اعتراض شروع کردیں.میں نے ان سے کہا کہ آپ کو اس سے کیا غرض ہے کہ میں کس مذہب کا ہوں آپ یہاں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے آئے ہیں.آپ مجھے تین خدائوں کی تھیوری سمجھا دیں.اگر آپ کامیا ب ہوگئے تو خواہ میں کسی مذہب کا پیروہو امیں آپ کی بات مان لوںگا پہلے تو وہ ایچ پیچ کرتے رہے لیکن آخر انہیںمیری بات ماننی پڑی اور میں نے گفتگو یوں شروع کی کہ بتائیے خدا باپ کامل ہے یا ناقص اگر وہ ناقص ہے تو خدانہیں ہو سکتا.اسی طرح روح القدس کامل ہے یاناقص اگر وہ ناقص ہے تو وہ بھی خدانہیں ہوسکتا اسی طرح تیسرا اقنوم بیٹاکامل خداتھا یا ناقص خدا.اگر وہ ناقص تھا تو و ہ بھی خدانہیں ہوسکتا انہوںنے میری ان تینوں باتوںکو مان لیا.پھر میں نے ان سے پوچھاکہ کیا خداباپ کو اس زمین و آسمان کےپیداکرنےکی طاقت کلی طور پرحاصل تھی یا وہ کسی کی مدد کا محتاج تھا؟ اوپر کی بات سے ظاہر ہے کہ وہ یہ نہیںکہہ سکتے تھے کہ وہ کسی کی مدد کا محتاج تھا پھر میں نے یہ کہاکہ روح القدس اس ساری کائنات کو پیدا کرنے پر کلی طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کا محتاج تھا.انہوں نے کہا نہیں کلی طور پر قادر تھا.پھرمیں نے پوچھا کہ کیا خدا بیٹا اس کائنات کے پیدا کرنے پر کلی طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کا محتاج تھا.انہوں نے پھر یہی کہا کہ وہ کلی طور پر قادر تھا میں نے کہا پادری صاحب پھر سوال حل ہوگیا.کہنے لگے کس طرح؟ میں نے ایک پنسل ان کی میز سے اٹھاکر ان کے قریب رکھ دی اور میں نے کہا پادری صاحب اس پنسل کو اٹھاکر دوسری جگہ رکھنے پر آپ قادر ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں پھر میں نے کہا کیامیں قادر ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں پھر میں نے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ کیا یہ صاحب قادرہیں ؟پادری صاحب نے کہا ہاں میں نے کہا جب ہم تینوں شخص اپنی ذات میںاس پنسل کو ہلانے پر قادر ہیں لیکن پھر بھی ہم تینوں کھڑے ہوکر شور مچادیں کہ او بہرہ ادھر آئو او باورچی ادھر آئو جب وہ کمرے میں داخل ہوں تو ہم ان سے کہیںکہ ہم تینوںسے مل کر یہ پنسل ادھر رکھ دو توبتائیے وہ ہمیں پاگل سمجھیں گے یانہیں.پادری صاحب نے کہاآپ کامطلب؟ میں نے کہا صرف جواب دے دیجئے.انہوںنے کہا ہاں پاگل کہیں گے.میںنے کہاجب خدا باپ او رخدابیٹااور خدا روح القدس تینوں کائنات کے پیدا کرنے پر بذاتہ قادرہیں اور اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کو اس کام کے لئے بلاتے ہیں جس کو وہ اکیلے اکیلے کرسکتے ہیں تو بتایئے دوسرے خدابلانے والے خدا کواور ہم لوگ اس خدا کو پاگل

Page 30

کہیںگے یانہیں اور پاگل خداہو ہی نہیںسکتا.یاتو پاگل کہلا کر وہ خدانہ رہے گایا ایسے پاگل دنیامیں وہ اودھم مچادیں گے کہ دنیاہی تباہ ہوجائے گی.یہی جواب سندھی مولوی صاحب کو دینا مناسب تھا.مگر اس وقت انہوں نے بحث کرنے سے انکار کردیا حقیقت یہی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہیں یعنی کامل القویٰ ہستیاں موجود ہیںتو دنیاکے کام کومل کر چلانا جبکہ ان میں سے ہر ایک اس کام کو چلا سکتاہے ان کو پاگل ثابت کرےگااور خدائی سے ان کو جواب مل جائےگا اور اگر خدائی سے جواب نہ ملے گا تو ماننا پڑےگا کہ یہ پاگل دنیاکو تباہ کرکے رکھ دیںگے.پس یہ آیت بڑی سچی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا.محض ادھوری منطق کے ذریعہ اس پراعتراض کیا جاتا ہے.فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ.اس آیت میں بتایاکہ اگر یہ لوگ عقل سے کام لیں تو ہماری اوپر کی دلیل اتنی مضبوط ہے کہ ان کو رب العرش خدایعنی دنیاپرحکمران خداکے پاک ہونے اور ایک ہونےکااقرار کرنا پڑے گا.لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْـَٔلُوْنَ۰۰۲۴اَمِ اتَّخَذُوْا جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے متعلق وہ کسی کو جواب دہ نہیںہوتا.حالانکہ وہ( لوگ) جوابدہ ہوتے ہیں.کیا انہوںنے اس کے مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ١ۚ هٰذَا ذِكْرُ مَنْ سوا معبود بنالئے ہیں؟ تو کہہ دے اپنی دلیل لائو.یہ( قرآن) تو ان کے لئے بھی جومیرے ساتھ ہیں شرف مَّعِيَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِيْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ١ۙ الْحَقَّ کاموجب ہے اور جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی شرف کاموجب ہے لیکن ان میںسے اکثر فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ۰۰۲۵ حق کو پہچانتے نہیں اس لئے اس سے اعراض کرتے ہیں.حل لغات.ذِکْرٌ اَلذِّکْرُکے معنے ہیں اَلثَّنَاءُ تعریف اَلشَّرَفُ شرف اَلْکِتَابُ فِیْہ ِتَفْصِیْلُ

Page 31

الدِّیْنِ وَ وَضْعُ الْمِلَلِ وہ کتاب جس میں دین کی تفصیلات ہوں اور مذہب کے اصول ہوں اور جب الذِّکْرُ مِنَ الْقَوْلِکہیں تو معنے ہوںگے الصُّلْبُ الْمَتِیْنُ.مضبوط اور ٹھوس بات.(اقرب) تفسیر.اللہ تعالیٰ چونکہ واحد مالک ہے کوئی دوسرا شخص اس سے جواب طلبی کا حق دار نہیں لیکن تمام کے تمام کسی نہ کسی کے سامنے جواب دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں.پس ان کاکمزور اور ناقص ہوناثابت ہے.ویسے ناقص العقل اور ناقص القویٰ لوگوں کا خدا کے سوا معبود قرار دینا خود ہی ایک ہنسی کی بات ہے ان کی بات تو ماننے کے قابل ہی نہیںان کی بات تبھی صحیح ہو سکتی ہے جب خدااس کاگواہ ہو لیکن یہ خدا کی گواہی کبھی پیش نہیں کر سکتے.پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن کو دیکھو.یہ محمدؐ رسول اللہ کے زمانہ کے مومن لوگوں کے شرف کا بھی اظہار کرتاہے اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانہ کے لوگ تھے ان کے شرف کو بھی ظاہر کرتاہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے اتباع عظیم الشان شرف کے مالک نہ ہوتے تو یہ کبھی پہلے زمانہ کے نبیوں اور ان کے متبعین کے شر ف کااظہار نہ کرتا جیسا کہ قرآن میںآتاہے.وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر:۲۵) کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا کوئی نہ کو ئی نبی نہ آیاہو.قرآن مسیح ؑ کی طرح نہیں ہے جو کہتاہے کہ جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں (یوحنا باب ۱۰آیت ۸) کیونکہ مسیح اپنے اور اپنے حواریوں میں کوئی ایسی عملی اورظاہر خوبی پیش نہیں کرسکتاتھا جس کی بناپر وہ پہلے لوگوں پر اپنی فضیلت ثابت کر سکے.پس اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عزت ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس یہی چارہ کار تھا کہ وہ موسیٰ اور یرمیاہ اور حزقیل اور الیاس کو چور اور بٹ مار کہتا تاکہ لوگ سمجھ لیںکہ پہلے نبی چور اور بٹ مار تھے.اور عیسیٰ اور اس کے ساتھی چور اور بٹ مار نہیں.اس لئے ان سے بہتر ہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے پہلے نبیوںکو چور اور بٹ مار کہنے کے ان کو اعلیٰ درجہ کے اخلاق کامالک قرار دیا اور ان کے خدا رسیدہ ہونے اور خداکے محبوب ہونے کا اقرار کیا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک آپ ان سے زیادہ اخلاق ظاہر نہ کرتے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کازیادہ محبوب ثابت نہ کرتے آپ اپنے دعویٰ کو ثابت نہیںکرسکتے تھے پس قرآن کا طریق استدلال نہ صرف مشکل ہے بلکہ اعلیٰ ہے.عیسائیت نے آسان راستہ اختیار کیا مگر انجیل اور قرآن میںیہ فرق ہے کہ انجیل نے کہامسیح ؑچوروں سے اچھا ہے کیونکہ پہلے نبی چورتھے.اور قرآن نے کہا کہ محمدؐ رسول اللہ خداکے گزرے ہوئے محبوبوں سے بھی زیادہ اس کا محبوب ہے اور اعلیٰ کردار والے لوگوں سے بھی زیادہ اعلیٰ کردار کاآدمی ہے پس قرآن نے یہ دعویٰ نہیںکیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوروں کا سردار ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ بزرگوں اور محبوبان الٰہی کا سردار ہے اور ظاہر ہے کہ چوروں کے سردار سے محبوبان الٰہی کا سردار یقیناً بڑا ہوگا اور اسی

Page 32

طرح وہ شخص جو پہلے نبیوں کو چوراور ڈاکو قراردیتاہے (یوحنا باب ۱۰ آیت ۸) اس سے وہ شخص اعلیٰ ہوگا جو پہلے نبیوں کی فضیلت کو تسلیم کرکے ان پراپنی فضیلت ثابت کرتاہے فَصَلِّ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلِّمْ.مگر فرماتا ہے بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ١ۙ الْحَقَّ فَهُمْ مُّعْرِضُوْنَ قرآن اور اسلام کی فضیلت کامعاملہ تو بالکل صاف تھا.لیکن جو لوگ حقیقت جاننے کی کوشش نہیںکرتے وہ اعراض سے کام لے رہے ہیں.وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اورہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں ہم ان میںسے ہر ایک کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۰۰۲۶ یہ ہے کہ میںایک ہی خداہوں.پس (صرف) میری عبادت کرو.تفسیر.یعنی اے محمد ؐرسو ل اللہ ! تجھ سے پہلے رسول بھی سب انسان ہی تھے اگر تو انسان ہے تو اس میں تیری کوئی ہتک نہیںاور سوائے انسان کے وہ پہلے رسول کچھ بھی ہو نہیںسکتے تھے کیونکہ خدا صرف ایک ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ سب انبیا ء کا مشترکہ مشن اشاعت توحید تھا.خواہ کوئی نبی ہندوستان میں پیدا ہوا ہو جو کسی زمانہ میںشرک وبت پرستی کاگھر تھا یامصر میں پید اہوا ہو جہاں ایک انسان کو خدا سمجھا جاتاتھا یا ایران میں پیدا ہوا ہو جو آتش پرستوں کا مرکز تھا.یاکسدیوں کے اُور میں پیدا ہوا ہو جو بتوں سے اٹاپڑا تھا یا مکہ مکرمہ میںظاہر ہوا ہو جہاں کے رہنے والوں نے خدا کے گھر کو بھی بتوں سے خالی نہیں رکھا تھا مگر بڑے سے بڑے نبیوں کی زندگیوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیوں سے مقابلہ کر کے دیکھ لو آپ نے جس رنگ میںشرک کی بیخ کنی کی ہے اور توحید کو روئے زمین پر پھیلانے میںجس جانفشانی اور قربانی سے کام کیا ہے اس کی نظیر دنیا کے اور کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آسکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت توحید دنیاسے بالکل مٹ چکی تھی چنانچہ ہندوؤںکی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہوچکی تھی(ستیارتھ پرکاش سوال نمبر ۶۸) اور عیسائیوں کی کتابوںمیں بھی لکھا ہے کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا (لائف آف محمد از ولیم میور انٹروڈکشن صفحہ ۷).بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہی ہوئی کہ عیسائی قوم بگڑ چکی تھی اور عیسائیوں نے اسلام کی توحید کو دیکھ کر اسے قبول کرلیا.یہی بات زرتشتی کہتے ہیں.کہ اس زمانہ میںچونکہ زرتشتی لوگ توحید کو چھوڑ چکے تھے

Page 33

انہیںمسلمانوں کی پیش کر دہ توحید پسند آگئی اور وہ مسلمان ہوگئے غرض سب مذاہب کی کتابوں میں لکھاہے کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا او ر دنیامیں توحید باقی نہیںرہی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں پید اہو کر اور پھر ایسے مقام میں پید اہو کر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا اورپھر ایسی قوم میں پید اہو کر جس کاکوئی مذہب نہیںتھا.اور جو نہ وید کو الہامی مانتی تھی نہ تورات کو نہ انجیل کو الہامی مانتی تھی نہ ژندواوستا کو.توحید کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیاکہ آج آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں آپ نے دنیاکو صرف یہ نہیںکہا کہ توحید کو مان لو بلکہ یہ بھی بتایا کہ کس طرح مانو اسی طرح آپ نے صرف یہ نہیں کہا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا کہ شرک سے کس طرح بچو.پھر آپ نے صرف یہ نہیںکہا کہ توحید کو مان لو بلکہ توحید کے دلائل دے کر کہا کہ اسے مانو اسی طرح آپ نے صرف یہی نہیںکہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل اور براہین سے شرک کی برائی سمجھا کراس سے نفرت پیدا کی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ شر ک کی تردید کرتے ہوئے نہایت لطیف پیرایہ میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ.اَللّٰهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ١ۙ۬ وَ لَمْ يُوْلَدْ.وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (الاخلاص :۲ تا ۴).اس چھوٹی سی سورۃ میںجو سوئہ اخلاص کے نام سے موسوم ہے اللہ تعالیٰ نے چار اقسام کے شرک پیش کرکے اس کا رد کیا ہے فرماتا ہے.تم خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق مختلف خیالات میں مبتلاہو او ر قسم قسم کی تھیوریا ں ایجاد کرتے ہو طرح طرح کے فلسفے اور نکتے نکالتے ہو اور خدا تعالیٰ کے متعلق مختلف تصورات قائم کرتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق جو یقینی بات ہے اس کا نقطہ مرکزی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر رنگ میںاور ہرطرح ایک ہی ہے نہ وہ کسی کی ابتدائی کڑی ہے اورنہ آخری سرا.نہ کسی کے مشابہ ہے اورنہ کوئی اس کے مشابہ اس لئے اگر خدا تعالیٰ جیسی کوئی اورذات قرار دو گے تو تم اس کی احدیت پر حملہ کرنے والے سمجھے جائو گے.پھر شرک کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے کہ صفات کے لحاظ سے کسی کو خدا کا شریک قرار دیا جائے.اللہ تعالیٰ نے اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہہ کر اس کی تردید کی اور بتایا کہ صمدیت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میںہی پائی جاتی ہے.اس لئے اس کے دروازہ سے بھٹکنا کسی انسان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتا تم دنیا میں جس کو بھی اپناحاجت روا سمجھو گے وہ میر ا ہی محتاج ہوگا اس لئے تم چشمہ کو چھوڑ کر گلاس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہو.پھر فرمایا لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ.خدا تعالیٰ کے متعلق یہ بھی یاد رکھو کہ وہ ہمیشہ سے چلاآیا ہے اور ہمیشہ رہےگا.نہ اس نے کسی کو جنا ہے کہ اس کابیٹا اس کاقائم مقام ہو سکے اورنہ اس کا کوئی باپ ہے کہ جس سے اس نے ورثہ میں طاقتیں حاصل کی ہوں.گویاخداپہلے بھی صمد تھا.اب بھی صمد ہے اور آئندہ بھی وہی صمد ہوگا.اس لئے تمہیں اسی سے

Page 34

مدد مانگنا اپنا شعار بنانا چاہیے.پھر فرماتا ہے وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ کسی مخلوق میں یہ طاقت نہیںکہ وہ خدا تعالیٰ کا کفو یعنی اس کی شریک ہوسکے.خدا تعالیٰ کی شان اتنی بلند ہے اور اس کا مقام اتناارفع ہے کہ انسان خواہ کتنااونچا چلاجائے وہ اس کا عبد ہی رہے گا.اور ہمیشہ اس کی مدد کا محتاج ہوگا.یہ وہ توحید ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور جس کے بغیراسلامی نقطہ نگاہ سے کسی انسان کو تقدس حاصل نہیں ہو سکتا.پھر اللہ تعالیٰ ایک اورمقام پر توحیدپرزور دیتے ہوئے فرماتا ہے اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ(البقرۃ:۱۵۶) ان آیات میں یہ مضمون بیان کیاگیاہے کہ ا للہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اپنی ذات میں ہمیشہ زندہ رہنے والا اور دوسروں کو بھی زندہ رکھنے والا ہے.لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌاسے نہ کبھی اونگھ آتی ہے نہ نیند.گویا اس کے کاموں میںکبھی کوئی وقفہ نہیںپڑا.لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ زمین و آسمان میںجوکچھ ہے اسی کے قبضہ و تصرف میںہے مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ کون ہے جوبغیراس کے اذن کے اس کے حضور کسی کی شفاعت کر سکے بے شک خدا تعالیٰ نے دعائیںقبول کرنے کا سلسلہ جاری رکھاہوا ہے مگر کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ وہ اپنے زور سے خدا تعالیٰ سے کوئی بات منواسکتاہے.خداخود کسی کی شفاعت کے متعلق اجازت دے تو انسان کچھ مانگ سکتا ورنہ نہیں يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وہ جانتاہے جو ہو چکا اورجو آئندہ ہوگا.گویا توحیدکے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرف کامل نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے.وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَاور دنیا میں کوئی انسان خدا تعالیٰ کے دئے ہوئے علم کے بغیر کچھ حاصل نہیں کرسکتا.پس انسان کو ہمیشہ یہ سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے خدا تعالیٰ سے ہی حاصل ہونا ہے پھر فرماتا ہےوَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اس کی کرسی ساری زمین اورآسمانوں پر چھائی ہوئی ہے یعنی ہر ذرہ جو حرکت کرتاہے خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت کرتاہے.وَ لَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا اور زمین وآسمان کی حفاظت میں کبھی ناغہ نہیںہوتا.یہ ہمیشہ جاری رہے گی.وَ هُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ذرہ ذرہ سے اس کی قدرت ظاہر ہو رہی ہے وہ اتنابلند ہے کہ کوئی شخص اس کی کنُہہ تک نہیںپہنچ

Page 35

سکتامگر اس کے ساتھ ہی وہ العظیم بھی ہے یعنی اپنی قدرتوںکے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے اسے پاسکتاہے اور اس کا وصال حاصل کرسکتاہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتایا کہ توحیدکامل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال حاصل ہو جائے جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کو پالے توا س وقت یہ کہاجاسکتاہے کہ اس نے اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرلیا.یہ وہ توحید ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی.اور بتایا کہ تمہاری کامیابی اسی میںہے کہ تمہارا اسی دنیامیں خدا سے وصال ہو جائے اور سوائے خداکے تمہاری نگاہ اور کسی وجود پر نہ پڑے.دنیا نے آپ کے اس پیغام کا انکار کیااور بڑی سختی سے آپ کا مقابلہ کیا آپ کو بڑی بڑی اذیتیں پہنچائی گئیں.اور بڑی بڑی رکاوٹیں آپ کے مقصد میں حائل کی گئیں.مگر آپ نے خدائے واحد کے نام کی بلند ی کے لئے ہر مصیبت کا خوشی سے خیر مقدم کیااور ہر دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کسی نازک سے نازک موقعہ پر بھی مداہنت یا نفاق کو برداشت نہیںکیا احد کی جنگ میںجب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میںبدل گئی اور کفار نے پیچھے سے حملہ کرکے مسلمانوں کو تتر بتر کردیا بلکہ خود رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے دبائو کی وجہ سے ایک گڑھے میںگرگئے اورلوگوں میںمشہور ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے تو اس وقت مسلمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ زمین و آسمان ان کے لئے تنگ ہوگئے مگر جلدی ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںچنانچہ صحابہ ؓ نے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور جوں جوں مسلمانوں کو علم ہوتا گیا وہ آپ کے گرد جمع ہوتے گئے مگر پھر بھی ان کی تعداد تھوڑی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ساتھ لے کر پہاڑ کے ایک دامن میں چلے گئے اس وقت ابوسفیان نے بڑے تکبر سے آواز دی کہ مسلمانو ! کہاں ہے تمہارا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے اسے مار دیاہے.صحابہؓ جواب دینا چاہتے تھے مگر آپ ؐنے روک دیا.ابو سفیان نے پھر آواز دی اور کہا.کہاں ہے ابوبکرؓ صحابہ ؓ پھر جواب دیناچاہتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی روک دیا.پھر اس نے بڑے جوش سے کہاکہاں ہے عمر ؓ ؟ حضرت عمر ؓ کہنا ہی چاہتے تھے کہ میںتمہارا سرتوڑنے کے لئے یہاں موجود ہوں.مگر آپ نے فرمایا مت بولو.دراصل ابو سفیان کی غرض یہ تھی کہ وہ پتہ لگائے کہ کون کون زندہ ہے اور کون کون نہیں.آج کل بھی جنگ میں ایسی خبریں مشہور کردی جاتی ہیںجن کی اصل غرض صرف اطلاع حاصل کرنا ہوتی ہے.مثلاً مشہور کردیا جاتاہے کہ فلاں جرنیل پکڑا گیا ہے یافلاں جہاز ڈوب گیاہے اور جس حکومت کا وہ جرنیل یا جہاز ہوتاہے خاموش رہتی

Page 36

ہے تردیدنہیں کرتی تاکہ دشمن کو معلومات حاصل نہ ہوں یہی غرض ابوسفیان کی بھی تھی مگر جب مسلمانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملاتو اس نے سمجھ لیا کہ یہ تینوں مسلمان لیڈر مارے گئے ہیںاس پر اس نے بڑے زور سے اپنا مشرکانہ نعرہ بلند کیا.اور کہا اُعْلُ ھُبَلُ اُعْلُ ھُبَلُ.یعنی ہمارا ھبل دیوتا بڑی شان والا ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کو شکست دے دی ہے چونکہ صحابہ ؓ کو بار بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے تھے کہ خاموش رہو.اس لئے اس مشرکانہ نعرہ پر بھی وہ خاموش رہے.اس پر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے صحابہ ؓ سے کہا.جواب کیوں نہیں دیتے انہوں نے کہایا رسو ل اللہ ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو اللہ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ یعنی تمہارے ھبل کی کیاحقیقت ہے اللہ تعالیٰ ہی بلند اور سب سے زیادہ طاقتور ہے (بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد).اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اپنی اور اپنے صحابہؓ کی موت کا اعلان تو برداشت کرلیامگر جب خدا تعالیٰ کانام آیاتو اس وقت آپ نے اس بات کی کوئی پروانہ کی کہ ہم تھوڑے ہیںاگر دشمن کو پتہ لگ گیا تو وہ حملہ کرکے نقصان پہنچائےگا بلکہ آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ جواب دو تمہارا ھُبل ہمارے خدا کے مقابلہ میںکیا حقیقت رکھتاہے.پھر اس واقعہ پر غور کرو کہ بڑے بڑے رئوسا اکٹھے ہوکر ابوطالب کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے بھتیجے کو سمجھالو.ورنہ ہم تمہیںبھی اپنی سرداری سے الگ کردیں گے اس پر ابو طالب آپ کو بلاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بتوںکے بارہ میںکچھ نرمی اختیار کرلیںمگر آپ فرماتے ہیںاے چچا اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑاکردیں.تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.اگر آپ کو اپنی قوم عزیز ہے تو بیشک مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیںمیرے لئے میرا خدا کافی ہے (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام مباداة رسول اللہ قومہ و ما کان منہم).غرض رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں تھی کہ شرک مٹ جائے اور خدا تعالیٰ کی توحید دنیامیںپھیل جائے.پھر حدیثوں میں آتاہے کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ گھبراہٹ میں کبھی اس پہلو پرجھکتے تھے اور کبھی اس پہلو پر اور فرماتے کہ خدا یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کے بعد ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا یہ آپ کی آخری وصیت تھی جو آپ نے اپنی امت کو کی اور انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیاکہ دیکھنا میرے بندے ہونے کو کبھی نہ بھول جانا اور میری قبر کو ایک قبر سے زیادہ کبھی کچھ نہ سمجھنا (بخاری کتاب

Page 37

المغازی باب مرض النبی و وفاتہ ).باقی امتیں بے شک اپنے نبیوں کی قبروں پر سجدے کریں یاان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھائیں تمہار اکام یہی ہونا چاہیے کہ تم خدائے واحد کے آستانہ پر جھکو اور اس کو اپنا ملجاء و ماویٰ سمجھو.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر غرغرئہ موت کے وقت جو آخری الفاظ جاری ہوئے وہ بھی یہی تھے کہ اِلٰی الرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ اِلٰی الرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ میں ا ب عرش معلی پربیٹھنے والے مہربان دوست کی طرف جاتاہوں.یہ آخری الفاظ تھے جس کے بعد آپ کی روح جسد اطہر سے پرواز کر گئی اور آپ اپنے خدا کے حضور جاپہنچے.غرض ایک ایک قدم اور ایک ایک سانس پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس رنگ میںاللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال کا اظہار کیا ہے اور جس طرح اپنے عشق اور محبت کاثبوت دیا ہے اس کی مثال دنیاکے اور کسی نبی میں دکھائی نہیںدیتی.وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ اور (یہ لوگ) کہتے ہیںکہ رحمٰن( خدا)نے بیٹا بنالیاہے (ان کی بات درست نہیں)وہ تو ہرکمزوری سے پاک ہے مُّكْرَمُوْنَۙ۰۰۲۷ حقیقت یہ ہے کہ (جن کو یہ بیٹاکہتے ہیں)وہ خداکے کچھ بندے ہیںجن کو( خدا کی طرف سے) عزت ملی ہے.حلّ لُغَات.سُبْحَانَہُ.سُبْحَانَ اللہِ کے معنے ہیں اُبَرِّیءُ اللہَ مِنَ السُّوْءِ بَرَاءَ ۃً میں اللہ تعالیٰ کی ہر برائی سے برا ء ت کرتاہوں (اقرب ) پس سُبْحَانَہٗ کے معنے ہوںگے میںاللہ تعالیٰ کو لڑکابنانے سے پاک قرار دیتاہوں.تفسیر.فرماتا ہے.یہ لوگ جھوٹ بول کر کہتے ہیںکہ رحمٰن خدا نے اپنا ایک بیٹا بنالیا ہے حالانکہ سب پہلے نبیوں کے حالات پرغور کرکے دیکھ لو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم بندے ہیں صرف خدا نے ہم کوعزت بخشی ہے چنانچہ مسیح ؑجس کو خدا کا بیٹا قرار دیاگیاہے ہمیشہ اپنے آپ کو ابن آدم کہتارہا (متی باب ۱۱۲ ٓیت ۸).اب جو شخص خدا کا بیٹا تھا اگر وہ اپنے آپ کوابن آدم کہتاتھا تو کیانعوذباللہ اس کے یہ معنے نہیںکہ وہ اپنے باپ کے سوا اپنے آپ کو دوسرے کی طرف منسوب کرتاتھایہ کتنابڑا الزام ہے جو عیسائی لوگ خدا تعالیٰ کے ایک معزز بندہ پرلگاتے ہیں.

Page 38

لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ۰۰۲۸ وہ خدا کی بات سے ایک لفظ بھی زیادہ نہیں کہتے.او ر وہ اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں.حل لغات.لَایَسْبِقُوْنَہٗ.لَا یَسْبِقُوْنَ سَبَقَ سے مضارع منفی کا صیغہ ہے اور سَبَقَہٗ کے معنے ہوتے ہیں تَقَدَّمَہٗ وَ جَازَہٗ وَ خَلَّـفَہٗ.اس سے آگے بڑھ گیا اور اس کو پیچھے چھوڑ دیا (اقرب) پس لَایَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ کے معنے ہوںگے وہ خدا کی بات سے ایک لفظ بھی زیادہ نہیں کہتے.تفسیر.یعنی خدا تعالیٰ کے نیک بندے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو خدا نے ان سے نہ کہی ہو اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرماںبردار رہتے ہیں پھر وہ خداکس طرح ہوسکتے ہیں.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يَشْفَعُوْنَ١ۙ وہ (یعنی خدا) اس کو بھی جانتاہے جو انہیںآئندہ پیش آنےوالا ہے اور جووہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ سوائے اس کے اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَ هُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ۰۰۲۹ جس کے لئے خدا نے یہ بات پسند کی ہو کسی کے لئے شفاعت نہیںکرتے( یعنی معبودان باطلہ) اور وہ اس کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں.حلّ لُغَات.مُشْفِقُوْنَ.مُشْفِقُوْنَ اَشْفَقَ سے اسم فاعل جمع کاصیغہ ہے اور اَشْفَقَ الشَّیْءَکے معنے ہوتے ہیں خَافَ وَحَاذَرَ اس سے ڈرا (اقرب) پس مُشْفِقُونَ کے معنے ہوںگے ڈرنے والے.تفسیر.فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام حالات سے واقف ہے جوکام انہوں نے کرلئے ان سے بھی واقف ہے اورجو رہ گئے ان سے بھی واقف ہے اور ان کو بغیر قید کے شفاعت کا حق نہیں جس کے حق میں خدااجازت دے اسی کے حق میںشفاعت ہوسکتی ہے.پس بخشش بہر حال خداکے ہاتھ میںہی رہی بائیبل میںبھی لکھاہے.’’اگر ایک آدمی دوسرے کا گناہ کرے تو خدااس کا انصاف کرےگالیکن اگر آدمی خداوندی گناہ کرے تو اس کی شفاعت کو ن کرےگا.‘‘ (۱.سموئیل باب ۲ آیت ۲۵)

Page 39

یرمیاہ باب ۷ آیت ۱۶میں بھی آتاہے.’’تو ان لوگوں کے لئے دعا نہ کر اور ان کے واسطے آواز بلند نہ کر اور مجھ سے منت اور شفاعت نہ کر کیونکہ میںتیری نہ سنو ںگا.‘‘ پس بخشش کسی انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میںہے.وَ مَنْ يَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّيْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِيْهِ اور جو بھی ان میںسے یہ کہے کہ میں خداکے سوا معبود ہوں ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور ہم ظالموں کو ایسا جَهَنَّمَ١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَؒ۰۰۳۰ ہی بدلہ دیا کرتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے کہ انسان کے لئے خدائی کادعویٰ اتناباطل ہے کہ جہاں افتراء اور تکذیب کی سزا اس دنیا میں بھی دی جاتی ہے وہاں خدائی کے دعویٰ کی سزا اس دنیامیں نہیں دی جاتی بلکہ اگلے جہان میں دی جاتی ہے.اور فرماتا ہے کہ اس قسم کے ظالموںکو ہم اس طرح سزادیاکرتے ہیں یعنی اگلے جہان میں.اس آیت میںجواب ہے ان لوگوں کاجوکہتے ہیںکہ فلاں شخص الوہیت کامدعی تھا مگر پھراسے دنیا میںکیوں سزا نہ ملی.نبوت کادعویٰ کرنے والوں کے متعلق اسی جہان میں سزا کاوعدہ ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل.لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الحاقۃ :۴۵ تا ۴۷) یعنی اگر یہ رسول ہم پر افتراء کرتااورکوئی بات اپنی طرف سے بناکر ہماری طرف منسوب کردیتاتو ہم اس کوداہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے یعنی اس کوتباہ کردیتے لیکن خدائی کادعویٰ کرنے والے کے متعلق فرماتا ہے فَذٰلِكَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ اس کو اس دنیا میںسز ادینے کی ضرورت نہیں اس کو ہم اگلے جہان میںجہنم میں ڈالیں گے اس میںحکمت یہ ہے کہ جھوٹانبی چونکہ سچے نبیو ںکی طرح انسان ہی ہوتاہے لوگوں کو شبہ پڑ سکتاہے کہ کہیںیہ سچانہ ہو اس لئے اس کو فوراً سزادینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگوں پر حق کھل جائے لیکن خدائی کادعویٰ کرنے والا کھاتاپیتااور سوتاہے جو خدائی کے منافی ہے اس لئے اس کے دعویٰ سے دھوکا کوئی الّو ہی کھاسکتاہے پس اس کافریب کھولنے کے لئے دنیامیںسزادینے کی ضرورت نہیں ہوتی اگلے جہان کی سزاہی کافی ہے یہی وجہ ہے کہ بہاء اللہ وغیرہ جو خدائی کے مدعی تھے ان کو اس دنیا

Page 40

میںسزا نہیں ملی آخرت میںملے گی کیونکہ ان کے خدائی کے دعویٰ کا جھوٹ ہونا بالبداہت ظاہر تھا.ہے تو ذیل کا واقعہ لطیفہ لیکن چونکہ اس سے حقیقت روشن ہوجاتی ہے میںاس کو بیان کردیتاہوں.کہتے ہیں کسی سائیں فقیر نے خدائی کا دعویٰ کیا چند چیلے بنالئے جو ہروقت اس کے گرد بیٹھے رہتے تھے.باری باری شہر میں جاکر بھیک مانگ لاتے تھے اور خداصاحب اور ان کے چیلے خوب پرلطف غذائیںاڑاتے تھے.ایک مومن زمیندار ہمسایہ میں رہتاتھا اس کو غصہ چڑھتاتھا مگر مشٹنڈے چیلوں کی وجہ سے کچھ نہ کرسکتاتھا.اور ہر وقت موقعہ کی انتظار میں رہتا تھا ایک دن شاید مانگنے کاپروگرام دُور کا تھا.اس لئے سارے چیلے اکٹھے اپنے خدا کو اکیلا چھوڑ کرمانگنے کے لئے چلے گئے.زمیندار کو موقعہ ہاتھ آیا بڑے ادب سے جاکر اس فقیرکے آگے جاکر بیٹھ گیا اور اٹھ کر اس کی گردن پکڑلی اور زور سے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہامیرے باپ کو تونے ماراتھا.آج میرے قابو آیاہے پھرکہا میری ماںکو تونے ماراتھا پھر ایک اور تھپڑمارا پھر کہامیرے فلاں بیٹے کو تونے مارا تھا اور زور سے ایک اور تھپڑ مارا پھر ایک اور بیٹے کانام لیا اورکہا.میرے اس بیٹے کو بھی تونے مارا تھا اور ایک اور تھپڑ مارا اسی طرح سب رشتہ داروں اور دوستوں کانام لیتاگیا اور ہر ایک کانام لے لے کر ایسے زور سے تھپڑ مارتا تھا کہ آواز گونج جاتی تھی اور کہتاجاتا تھا کہ میں تو بیس سال سے تیر امنتظر تھا.آج تو میرے قابو چڑھاہے میںتجھے کبھی نہیںچھوڑوں گا.آخر ڈرکر خداکے مدعی فقیر نے گھٹنے ٹیک دیئے اور بولا میری توبہ میںکوئی خدانہیں.اب دیکھو خدائی کے دعویٰ کاپول کتنی جلدی کھل گیا اگرصرف نبوت کا دعویٰ ہوتاتو ہر تھپڑ پر کہتامیں تو آدمی رسول ہوں میںنے تیرے رشتہ داروں کو کس طرح مارنا تھا وہ تو خدا نے مارے ہیں بلکہ کہتاکہ پہلے نبیوں کو بھی لوگوںنے دکھ دیئے ہیںتو مجھے دکھ دے کر میری نبوت ثابت کررہا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے مدعی رسالت کے جھوٹ کو خدا ہی ظاہر کرتا ہے اس لئے آسمانی نشانوں سے اسے تباہ کیا جاتاہے اور بہت جلد تباہ کیا جاتاہے لیکن جھوٹے مدعی الوہیت کو آسمانی نشانوں سے تباہ کرنے کی ضرورت نہیںہوتی.ہر روز جب وہ کھاناکھاتاہے ہر روز جب وہ پانی پیتاہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ خدانہیںہر روز جب وہ سوتا ہے.پاخانہ پیشاب کو جاتاہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ خدانہیںجب و ہ شادی کرتاہے اور بچہ ہو جاتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ خدا نہیںاس کے زمانہ میں کوئی الّو یاگدھاہی اس کو خدا مان سکتاہے.جیساکہ بہاء اللہ کے اتباع.لیکن اس کی موت کے بعد اس کی تعلیم یا اس کے آنے والے مامور اس کی خدائی کا پرد ہ چاک کردیتے ہیں جیسے مسیح ؑ کے اپنے اقوال اور تاریخ اس کی خدائی کا پردہ چاک کررہے ہیں.

Page 41

اَوَ لَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا کیا کفار نے یہ نہیںدیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول دیا.رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ١ؕ اور ہم نے پانی سے ہرچیز کو زندہ کیا اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۰۰۳۱ پس کیا وہ ایمان نہیں لاتے ؟ حلّ لُغَات.رَتْقًارَتَقَہٗ رَتْقًا کے معنے ہیں سَدَّہُ وَ اَغْلَقَہٗ اس کو بند کردیا (اقرب) اسی طرح یہ لفظ فَتْقٌ کے خلاف استعمال کیا جاتاہے اور فَتَقَ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں شَقَّہُ کسی چیز کو پھاڑ دیا اور فَتَقَ الثَّوْبَ کے معنے ہوتے ہیں نَقَضَ خِیَا طَتَہٗ حَتی فَصَلَ بَعْضُہٗ مِنْ بَعْضٍ کہ کپڑے کی سیون کو کھول دیا اور وہ علیحدہ ہوکر مختلف حصے ہوگیا.(اقرب ) مفردات میں ہے الرَّتْقُ الضَّمُّ وَ الْاِلْتِحَامُ یعنی رتق کے معنے ملنے اور اکٹھے ہونےکے ہیں اور کَانَتَارَتْقًا کے معنے ہیں مُنْضَمَّتَیْنِ دونوں ملے ہوئے تھے.(مفردات ) تفسیر.فرماتا ہے کیا ان کافروںکو معلوم نہیں کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے ان کو چیر کر الگ کردیا اس میںپیدائش عالم کی ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی ہے جو اس صدی سے پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھی اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی کرہ فلکی تیار ہوتاہے تو اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ ذرات کا ایک وسیع ڈھیر فضامیںجمع ہو جاتا ہے.آہستہ آہستہ وہ سمٹنا شروع ہو جاتا ہے.جب اس کے درمیان ذرات کچھ زیادہ سمٹ جاتے ہیںتو وہ چکر کھانے لگ جاتے ہیںاور ان کے ارد گردکامادہ دھکا کھاکر دور جاپڑتا ہے اسی طرح پیدا ہونے ولے نظام ہائے فلکی میںسے ایک نظام شمسی ہے جس میںہماراکرہ ار ض واقع ہے.نظام شمسی کے عالم وجود میں آنے کے متعلق جتنے بھی نظریات سائینسدانوں نے آج تک پیش کئے ہیں ان میں کم وبیش اس حقیقت کااقرار موجود ہے کہ کرہ ارض اپنی موجودہ شکل سے پہلے سورج یاسورج جیسے ایک ستارے کا حصہ تھا.تازہ ترین نظریہ جس کی تصریح فریڈ ہائل (کیمبرج یونیورسٹی ) نے کی ہے یہ ہے کہ یہ ستارہ ہمارے سورج کاہمراہی ایک SUPER NOVA تھا اور اس کے پھٹنے سے سیارے عالم وجود میںآئے حتٰی کہ زمین ایک علیحدہ وجود کی شکل میںظاہر ہوئی زمین میںسے بعد میںپانی کے بخارات

Page 42

پید اہوئے اور پانی کے وجود سے آگے زندگی کاوجود پیدا ہو ا.(دی نیچر آف دی یونیورس مصنفہ فریڈہائل صفحہ ۶۹ تا صفحہ ۹۰ودی یونیورسٹی سرویڈ مصنفہ ہیر لڈ رچرڈس صفحہ ۹۴ تا ۱۰۹) اللہ تعالیٰ انہی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا اس نظارہ کو دیکھ کر یہ ایمان نہیں لاتے آخر دنیاکیوںباربار پیدا کی جارہی ہے.کیوں زندگی پید اکرنے کے لئے بادلوں سے پانی اتارا جاتاہے.دنیا کابار بار پیداکرنااور بادلوںسے متواتر پانی کااترنا اور اس سے زندگی کاپیدا ہونا بتاتاہے کہ یہ دنیا بلاوجہ نہیں پید اہوئی اس کوکسی بڑی غر ض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس غرض کوپوراکرنے کے لئے روحانی پانی کاآسمان سے اترتے رہنا بھی ضروری ہےتا کہ ہرطبقہ کے لوگ اپنی روحانی زندگی کے لئے اس سے سامان حاصل کرتے رہیں.وَ جَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ١۪ وَ جَعَلْنَا اورہم نے زمین میںپہاڑ بنائے تاایسا نہ ہوکہ وہ( یعنی زمین) ان (یعنی اہل زمین) سمیت شدید زلزلہ میںمبتلاہوجائے فِيْهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ۰۰۳۲ اور ہم نے زمین میںکھلے کھلے راستے بھی بنائے تاکہ یہ لوگ ان کے ذریعہ سے( مختلف مقامات تک) پہنچیں.حلّ لُغَات.رَوَاسِیَ.رَوَاسِیَکے معنے ہیں اَلْجِبَالُ الثَّوَابِتُ الرَّوَاسِخُ مضبوط پہاڑ (اقرب ) تَمِیْدَ.تَمِیْدُ مَادَ سے مضارع مونث غائب کا صیغہ ہے اور مَادَ الشَّیْءُ یَمِیْدُ کے معنے ہیں تَحَرَّکَ وَ زَاغَ اس نے حرکت کی اور ٹیڑھاہوگیا.اور مَادَتْ بِہٖ الْاَرْضُ کے معنے ہیں دَارَتْ.زمین نے اس کے سمیت چکر کھایا (اقرب) مفردات میں ہے اَلْمَیْدُ اِضْطِرَابُ الشَّیْءِ الْعَظِیْمِ یعنی بڑی چیز کاحرکت کرنا اور ہلنا مَیْد کہلاتاہے جیسے زمین بعض اوقات ہلتی ہے اسی طرح بعض ماہرین لغت کہتے ہیں کہ مَادَنِیْ یَمِیْدُ نِیْ اور اس کے معنے ہوتے ہیںاَطْعَمَنِیْ یعنی مجھے کھاناکھلایا.(مفردات ) فجاج.فِـجَاجٌ اَلْفَجُّ کی جمع ہےاور اَ لْفَجُّ کے معنے ہیں اَلطَّرِیْقُ الْوَاسِعُ الْوَاضِحُ بَیْنَ جَبَلَیْنِ دوپہاڑ وں کے درمیان کا کھلااور واضح راستہ (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ہم نے زمین میںپہاڑ بنائے ہیںتاکہ وہ انسانوں سمیت تہ وبالا نہ ہوجائے یعنی پہاڑوں کی غرض یہ ہے کہ زمین اپنی تمکنت کی حالت پر قائم رہے کیونکہ علم طبقات الارض سے ثابت ہے کہ زمین

Page 43

اندر سے اب تک بھی گرم ہے لیکن شروع پیدائش میں زیادہ گرم تھی یعنی تغیرات کے نتیجہ میںجب زمین کی گرمی نے اندر کی چھپی ہوئی چٹانوں کو گلا دیا اور بہت سی گیس پیداہوگئی تو گیس نے زور مار کرباہر نکلنا چاہا اور اس نکلنے کی کوشش سے زلزلہ آیااور آتش فشاں پہاڑ پھوٹے اسی طرح پہاڑوں کے عالم وجود میںآنے میںزمین کے اندرونی حصہ کی سطح پرقشری حصوں کے توازن ISOSTASY) ) کو بھی دخل ہے اس لحاظ سے پہاڑ گویا سطح زمین کے توازن کاذریعہ بھی ہیں اورزمین کے اندر پید اہونے والے معمولی تغیرات کو زمین کی سطح پر کسی بڑے انقلاب کاموجب بننے سے روکتے ہیںسوائے ایسے استثنائی واقعات کے جوزمین پر ایک قیامت کی طرح وارد ہوسکتے ہیں اور جن کا ثبوت کرہ ارض کی گذشتہ تاریخ سے ظاہر ہے جو زمین ہی کے موجودہ آثار سے معلوم ہوئی ہے پس پہاڑ زمین کو تہ و بالا ہونے سے بچاتے بھی ہیں اور ان کے بعض حصے آتش فشانی کی شکل میں زمین کی اندرونی طاقتوں کا نقشہ بھی پیش کرتے رہتے ہیں.دیکھو (’’مارولز اینڈ مسٹر یز آف سائینس ‘‘ مصنفہ ایلی سن ہاکس ایف آر اے ایس زیرعنوان کرسٹ آف دی ارتھ ‘‘ نیز دیکھیں انسائیکلوپیڈیابرٹینکا زیر عنوان جیالوجی‘‘) اللہ تعالیٰ ان مادی پہاڑوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ روحانی عالم کے اندر جو گرمی بھری ہوئی ہے وہ بھی جو ش میںآکر آتش فشاں پہاڑوں کی طرح دنیاپر تباہی لاتی ہے لیکن پھر ہم روحانی پانی کے ذریعہ سے اس آگ کو ٹھنڈا کردیتے ہیں اور کچھ سبزہ زار میدانوں والے پہاڑ ظاہر ہو جاتے ہیںیعنی اولیاء اللہ.پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان پہاڑوں کے درمیان بڑے بڑے کھلے راستے بنائے ہیں تاکہ لوگ ان پرچل کر فائدہ اٹھائیں چنانچہ ابتداء تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ لشکروںکی نقل و حرکت ہمیشہ پہاڑی رستوں کے ذریعہ ہی ہوا کرتی تھی کیونکہ میدانوں میں رستوں کاپہچاننا مشکل ہوتاہے لیکن پہاڑوں کے اندر قدرت نے جو خود بخود وادیاں اور رستے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا پہچاننا آسان ہوتاہے اور دور دور کی قومیںان رستوں کے ذریعہ آسانی کے ساتھ ادھر ادھر آجاسکتی ہیں.فرماتا ہے جس طرح مادی دنیامیںتمہیںیہ نظارہ نظر آتاہے اسی طر ح روحانی پہاڑوںکی ہدایت کے ساتھ لوگ روحانی سفر طے کرتے ہیںاور اس طرح مادی اور روحانی سلسلہ آپس میںمتوازی چلتاچلا جاتاہے.

Page 44

وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا١ۖۚ وَّ هُمْ عَنْ اٰيٰتِهَا اور ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت( یعنی حفاظت کا ذریعہ) بنایاہے اور پھر بھی وہ اس کے نشانوں (یعنی آسمان سے مُعْرِضُوْنَ۰۰۳۳ ظاہر ہونےوالے نشانوں) سے (جوان کے فائدہ کے لئے ہیں )اعراض کرتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت بنایا ہے یعنی جس طرح دور آسمان کے کرے نظام شمسی کی حفاظت کر رہے ہیں اسی طرح وہ لوگ جن پر آسمان سے روحانی پانی اترتاہے.نظام روحانی کی حفاظت کررہے ہیں مگر پھر بھی لوگ اس کی طرف توجہ نہیںکرتے.وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو او ر سورج اور چاند کو پید اکیا ہے یہ سب (آسمانی سیارے) اپنے اپنے محور میں فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ۰۰۳۴وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ بے روک چل رہے ہیں.اور ہم نے کسی انسان کوتجھ سے پہلے غیر طبعی عمر نہیںبخشی کیا اگر تو مرجائے تو وہ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ۰۰۳۵ غیرطبعی عمر تک زندہ رہیںگے؟ حلّ لُغَات.یاد رکھنا چاہیے کہ سَمَآءٌ اور چیزہے اور فَلَکٌ اورچیز ہے فلک درحقیقت نظام شمسی کے پھیلاؤ کانام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظام شمسی کے افراد چکر لگاتے رہتے ہیں اقرب میں ہے اَلْفَلَکُ مَدَارُ النُّجُوْمِ کہ فلک ستاروں کی گردش کی جگہ کانام ہے مفردات میں ہے اَلْفَلَکُ مَجْرَی الْکَوَاکِبِ کہ فلک ستاروں کی حرکت گاہ کانام ہے.یَسْبَحُوْنَ.یَسْبِحُوْنَ سَبَحَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے ا ور اَلسَّبْحُ جو (سَبَحَ کامصدر ہے) کے معنے ہیں اَلْمَرُّ السَّرِیْعُ فیِ الْمَاءِ وَالْھوَاءِ پانی یاہوامیںجلدی سے گذرنا (اقرب) پس یَسْبَحُوْنَ کے معنے

Page 45

ہوںگے وہ اپنے مدارمیں تیزی سے حرکت کر رہے ہیں.اَلْخُلْد.مفردات میںہے الْخُلُوْدُ ھُوَ تَبَرِّی الشَّیْءِ مِنْ اِعْتَرَاضِ الْفَسَادِ وَبَقَاؤُہُ عَلَی الْحَالَةِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْھَا وَ کُلُّ مَا یَتَبَا طَأُعَنْہُ التَّغْیِیْرُ وَ الْفَسَادُ تَصِفُہُ الْعَرَبُ بِالْخُلُوْدِ یعنی کسی چیز کاخراب ہونے سے اور فساد پذیر ہونے سے محفوظ رہنا اور اپنی اصلی حالت پرقائم رہنا اور ہر وہ چیز جس سے تغیر اور خرابی دور ہوتی ہے اور اپنی اصلی حالت پر و ہ قائم رہتی ہے اس کے لئے خلود کالفظ بولاجاتاہے.کَقَوْلِھِمْ لِلْأَثَافِیْ خَوَالِدُ وَذٰلِکَ لِطُوْلِ مُکْثِہَا لَا لِدَوَامِ بُقَائِھَا چنانچہ چولھےکے پتھروں کو بھی خوالد کہتے ہیںکیونکہ جہاں چولھے بنائےجاتے ہیںوہ پتھر ایک عرصہ تک وہیں پڑے رہتے ہیںاور اس وجہ سے ان کو خوالد نہیں کہتے کہ وہ ابدالا باد تک باقی رہیں گے.تفسیر.فرماتا ہے رات اور دن اور سورج اور چاند سب خداہی کے پیدا کردہ ہیںاور کسی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں.رات بھی انسانی ضرورت کوپورا کرتی ہے اور دن بھی اور سورج بھی اور چاند بھی اور سورج اور چاند دونوںایک مقررہ راستہ پرچل رہے ہیں.یعنی ہمیشہ ہی انسان کو رات اوردن کی ضرورت رہے گی اور سورج اور چاندکے ذریعہ سے ہمیشہ رات اوردن آتے رہیںگے.اسی طرح روحانی سورج اور روحانی چاند بھی ظاہرہوتے رہیںگے روحانی سورج مرے گا تو روحانی چاند آجائے گا.چنانچہ فرماتا ہے کہ اے روحانی سورج یعنی محمدؐ رسول اللہ.اگر تو نے مرناہے تو کیا انہوں نے زندہ رہناہے ؟ہر ایک انسان کے لئے مقدر ہے کہ آخرت کا مزہ چکھے لیکن تیرے مارنے والا خداایک روحانی چاندپیدا کرنے پر بھی قادر ہے پھر اسلام کے لئے مایوسی کی کونسی بات ہے.كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ ہرجان موت چکھنے والی ہے اور ہم تمہاری برے اور اچھے حالات سے آزمائش کرینگے.اور آخر ہماری طرف فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۰۰۳۶ ہی تم کو لوٹاکر لایا جائے گا.تفسیر.فرماتا ہے ہر انسان جواس دنیا میںپیدا ہوا ہے اس کے ساتھ خدا نے موت لگائی ہوئی ہے بےاندازہ زندگی کسی کوبھی نہیں ملتی.وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً اور ہم تم کو منحوس اور اچھی گھڑیوں کے ذریعے

Page 46

سے آزماتے رہیں گے.یعنی خدائی طریق یہ ہے کہ وہ کبھی خیر کے ذریعہ بنی نوع انسان کی آزمائش کرتاہے اور کبھی شرکے ذریعہ ان کی آزمائش کرتاہے یعنی کبھی تووہ بنی نوع انسان کو یہ موقعہ دیتاہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیا ء ظاہر ہوں تو وہ ان کی فرما نبرداری اور اطاعت کرکے ترقی حاصل کریں اور کبھی تاریکی کے دور میںجب نبیوںکی بعثت پرایک لمبازمانہ گذ ر جاتا ہے وہ لوگوں کوموقعہ دیتاہے کہ ان میں سے سمجھدار اور دور اندیش انسان اپنی عقل سے کام لے کر اس صحیح تعلیم کو جو فطرت کے مطابق ہو اخذ کریں اور بدی کی رو میں بہنے کی بجائے انبیاء کے طریق کو دنیا میںقائم رکھنے کی کوشش کریں یہ دونوں طریق ہیںجن سے لوگوں کی آزمائش کاسلسلہ جاری ہے اسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کبھی آسمانی چاند مٹ جائےگا اور تاریکی چھا جائےگی اور کبھی پھردوسرا چاند ظاہر ہوجائے گا.وَ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ اور ہر چاند کامقصد یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف لوٹائے.وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ۠ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا اور جب تجھے کفار دیکھتے ہیںتو تجھ کو صرف ایک حقیر چیز سمجھتے ہیں (اور کہتے ہیں)کیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ۰۰۳۷ کی کمزوریاں گناتاہے ؟ حالانکہ وہ خود رحمٰن( خدا) کے ذکر کا انکار کرتے ہیں.حلّ لُغَات.ھُزُؤٌ.ھَزَءَ کے معنے ہوتے ہیں سَخِرَ مِنْہُ اس سے ہنسی مذاق کیا (اقرب) او ر ھزؤٌ کے معنے ہوںگے ہنسی اور مذاق.تفسیر.فرماتا ہے کافرہمیشہ تیری ہنسی اڑاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ کیا یہ شخص تمہارے معبودوں کی تباہی کی خبردیتا ہے اور وہ یہ نہیںسوچتے کہ وہ تو رحمٰن خدا کے ذکرکو مٹانا چاہتے ہیں اگر محمدؐ رسول اللہ ان پیداکردہ شخصیتوں کو مٹاناچاہے جن کو کفار نے خدابنا چھوڑاہے تو یہ ہنسی کی کونسی بات ہے.گویا آپ تو حقیقی خداکے بھی منکر ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کاتمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیںکہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ ہمارے معبودوں کا حقارت کے ساتھ ذکر کرے.

Page 47

خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ انسان کے اندر جلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے سو( یادرکھو) میں تم کواپنے نشان دکھائوںگا پس فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۠۰۰۳۸ تم جلد بازی سے کام نہ لو.تفسیر.فرماتا ہے.محمدؐ رسول اللہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیںکہ ہم اس کے مخالف ہیں.لیکن پھر بھی ہم پر عذاب نہیں آتا.گویا محمدؐ رسول اللہ کی ہنسی اور تحقیر صرف اس لئے ہے کہ عذاب میںدیر ہو رہی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ عذاب جلدی آجائے.آیت کےا لفاظ یہ ہیں انسان جلدی سے پیدا کیا گیا ہے مگر جلدی کوئی مادہ نہیں جس سے کوئی دوسری چیز بنائی جائے یہ عربی زبان کاایک محاورہ ہے.چنانچہ عربی زبان میںجب یہ کہا جائے کہ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ شخص فلاں مادہ سے بنایاگیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں امر اس کی طبیعت میںداخل ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس محاورہ کو مختلف مقامات پر استعمال فرمایا ہے.سورئہ روم میںفرماتا ہے.اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَيْبَةً(الروم:۵۵) کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیںضعف سے پیدا کیا ہے.اب بتاؤ کیا ضعف کوئی مادہ ہے اس کامطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں کمزوری رکھی گئی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتاہے فطرتی طور پر سخت کمزور ہوتاہے.پھر آہستہ آہستہ اس کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیںمگر بڑھاپے میں پھر اس پرضعف طاری ہو جاتا ہے اور اس کی طاقتیں اسے جواب دے دیتی ہیں.پس یہاں خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ سے مراد بچے کے قویٰ کی کمزوری اورا س کاضعف ہے.یہ مراد نہیںکہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے و ہ پید اہوتاہے اسی طر ح قرآن کریم میں ذکر آتاہے کہ ابلیس نے کہا کہ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ (ص:۷۷) اے خدا تو نے تو میری طبیعت میں آگ کامادہ رکھا ہے اور اس میں طین کامادہ ہے مجھے توکو ئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے.اس لئے میں تو آدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی نہیں مان سکتا ارد و میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتاہے چنانچہ کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے اب اس کے یہ معنے نہیںہوتے کہ اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ اسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے.انگریزی میںبھی کہتے ہیںکہ فلاں شخص تو فائر برینڈہے

Page 48

یعنی ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتاہے یہی محاورہ اس جگہ استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ انسان جلدی سے پیدا کیا گیا ہے یعنی انسانی فطرت میںجلد بازی رکھی گئی ہے اور وہ چاہتاہے کہ جو کام بھی ہو جلدی سے ہوجائے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتاہے اس لئے فرماتا ہے سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۠ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں سنتے ہی اسے جھوٹاجھوٹا کہنے کیوں لگ جاتے ہو.تم جلدی نہ کرو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تکذیب کا نتیجہ آخر نکل آئے گا اور ہماری پیشگوئیاں پوری ہو کر رہیںگی.وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۳۹ اور( یہ سن کر) وہ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگ (یعنی مسلمان) سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ تفسیر.مگر کفار پھر بھی نہیںسمجھتے وہ یہی کہتے جاتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو عذاب کاوعدہ جلدی پورا کرو آخر وہ عذاب کب آئےگا؟ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ اگر کفار اس گھڑی کوجان لیتے جبکہ وہ نہ اپنے مونہوںسے اور نہ اپنی پیٹھوں وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ سے آگ کو ہٹا سکیںگے.اور نہ کسی کی طرف سے ان کی مدد کی جائےگی (تو وہ اتنی تعلّی نہ کرتے) لیکن( وہ عذاب) يُنْصَرُوْنَ۰۰۴۰بَلْ تَاْتِيْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا ان کے پاس اچانک آئے گا اوران کو حیران کردےگا پس وہ اس کو رد کرنے کی

Page 49

يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ۰۰۴۱ طاقت نہیں رکھیں گے اور نہ ان کو( کوئی) مہلت دی جائےگی.حلّ لُغَات.وُجُوْھُھُمْ.وُجُوْہٌ اَلْوَجْہُ کی جمع ہے اور اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں اَوَّلُ مَا یَبْدُوْ لِلنَّاظِرِ مِنَ الْبَدَنِ وَ فِیْہِ الْعَیْنَانِ وَ الْاَنْفُ وَالْفَمُ یعنی چہرہ مُسْتَقْبَلُ کُلِّ شَیْءٍ ہر چیز کا سامنے کاحصہ اسی طرح اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں سَیِّدُ الْقَوْمِ قوم کاسردار نَفْسُ الشَّیْ ءِ کسی چیز کاوجود اَلْجَاہُ عزت (اقرب) تَبْھَتُھُمْ.تَبْھَتُ بَھَتَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور بَھَتَ فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں اَخَذَہُ بَغْتَةً اس کو اچانک آلیا اور تَأْتِیْھِمْ بَغْتَةً فَتَبْھَتَھُم کے معنے ہیں اَیْ تَغْلِبُھُمْ وَ تُحَیِّرُھُمْ کہ ان کو مصیبت اچانک آئےگی اور ان کوحیران کردےگی (اقرب ) یُنْظَرُوْنَ.یُنْظَرُوْنَ اَنْظَرَ سے مضارع جمع مذکر غائب کامجہول کاصیغہ ہے اور اَنْظَرَہُ کے معنے ہیں أمْھَلَہٗ اس کو مہلت دی(اقرب) وَلَاھُمْ یُنْظَرُوْنَ کے معنے ہوںگے انہیںمہلت نہیں دی جائےگی.تفسیر.اصل بات یہ ہے کہ سزا ملنے سے پہلے انسان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا اور یہ لوگ بھی نہیںسمجھ رہے لیکن جب عذاب آجائےگا اور نہ صرف چھوٹوں پر بلکہ بڑوں پر اور ان کے مدد گاروں پر بھی آجائے گا اور کوئی مدد کرنے والانہیں رہے گا.اس وقت ان کو ہوش آئے گی وہ عذاب اچانک آئے گا اور ان کو حیران کردے گا اور یہ اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں پائیںگے اورنہ خداہی ان کومہلت دےگا.اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ کفار اس عذاب کو نہ اپنے مونہوںسے ہٹاسکیںگے اور نہ اپنی پیٹھوںپرسے ہٹاسکیںگے یعنی نہ سامنے آنے والا عذاب ان سے دور ہو سکے گا.اور نہ پیچھے سے آنےوالا عذاب ان سے دور ہو سکے گا سامنے آنے والے عذاب سے وہ عذاب مراد ہے جس کے نشانات ظاہر ہوجائیں اور پیچھے آنے والے عذاب سے وہ عذاب مراد ہے جو اچانک آجاتاہے اور جس کاا نسان کو پتہ تک نہیں لگتا بَلْ تَاْتِيْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ سے ظاہر ہے کہ جو عذاب ان کے لئے مقدر ہے وہ اچانک آئےگا گویاان کی پیٹھوں کی طرف سے عذاب کاآنا مقدر ہے.انہیںپتہ بھی نہیں لگے گا کہ عذاب کب آنےوالا ہے اور کس طرح آنے والا ہے.

Page 50

وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوْا اور تجھ سے پہلے جو رسول گذرے ہیں ان سے بھی ہنسی کی گئی تھی لیکن نتیجہ یہ ہو ا کہ جنہوں نے ان رسولوںسے مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ؒ۰۰۴۲ ہنسی کی تھی ان کو انہی باتوں نے آکر گھیر لیا جن کے ذریعہ سے وہ نبیوں کی ہنسی اڑاتے تھے.حلّ لُغَات.حاق حَاقَ بِہٖ کے معنے ہیں اَحَاطَ اس کو گھیر لیا.(اقرب) تفسیر.اور یہ تجھ سے مذاق کرتے ہیں یہ کو ئی نئی بات نہیںپہلے رسولوں سے بھی ایسا ہی ہوتاچلا آیاہے لیکن آخر انجام مخا لفوں کا ہی برا ہوا ہے اوران کے ٹھٹھے کا وبال انہی پر عذاب کی صورت میںپڑا ہے.اگر تیرے مخالفوں کاانجام بھی برا ہوا تو یہ اس بات کاثبوت ہوگا کہ تو ہمارا سچارسول ہے اور یہ لوگ جھوٹے ہیں.قُلْ مَنْ يَّكْلَؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ١ؕ بَلْ تو کہہ دے کہ رات یادن کے وقت رحمٰن خدا کی گرفت سے تم کو کون بچاسکتاہے ؟ لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ) هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ۰۰۴۳ وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کررہے ہیں.حلّ لُغَات.یَکْلَؤُ.یَکْلَؤُکَلَأَسے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اورکَلَأَہُ اللہُ کے معنے ہیںحَفِظَہٗ وَحَرَسَہٗ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اور نگہبانی کی (اقرب)پس یَکْلَأُ کے معنے ہیں حفاظت کرتاہے.تفسیر.فرماتا ہے تمہاری رات اوردن میںکئی قسم کی مشکلات اور مصائب پیدا ہوتے ہیں بعض مصائب رات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بعض دن کے ساتھ مگر کوئی پوشیدہ ہستی ان کو ٹلاتی چلی جاتی ہے اور تمہاری حفاظت کر تی ہے.آخر یہ رحمٰن کے سواکون ہستی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کئی قسم کی وبائیں اور بلائیںہیںجو رات کی وجہ سے پید اہوتی ہیںاور کئی قسم کی وبائیںاور بلائیںہیںجو د ن کی وجہ سے پید اہوتی ہیںان بلائوںاور آفتوں اور بیماریوں اور عذابوںکو جانتے تو سائینس والے

Page 51

ہیںمگر اثر ان کاساری پبلک پر پڑتا ہے جوان سے بے خبر ہوتی ہے اورجن کوپتہ بھی نہیں ہوتاکہ کوئی بلائیںہمارے لئے تیار ہورہی ہیں مگر پھرمخفی طورپر کچھ ایسے غیبی سامان پیدا ہوتے ہیںکہ وہ بلائیں دور ہوجاتی ہیںفرماتا ہے یہ رحمان خداہی ہے جوان کو دور کرتاہے لیکن ان لوگوں کو پھر بھی سبق نہیں ملتا اور یہ صداقتوں کامقابلہ کرتے چلے جاتے ہیں.مونہہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ایک جھوٹامدعی پیدا ہوا ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اپنے خداکے یا د کرنے کی رغبت ہی نہیں ہے چونکہ ذکر الٰہی سے ان کا دل گھبراتاہے اس لئے انبیاء کاانکار کرتے ہیں تاکہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرنی پڑے اوران ذمہ داریوںسے بچے رہیںجو ایمان لانےوالو ں پر ڈالی جاتی ہیں.ہر شخص جوتاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتاہے جانتاہے کہ انبیا ء کی اصل مخالفت اسی بنا پر ہوتی ہے کہ وہ دنیوی لہوولعب سے ہٹا کر خدا کی یاد کی طرف لوگوں کو لانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی بھی ہے ورنہ محمدؐ رسول اللہ کوئی ایسی بات نہیں کہتے تھے جو انسان کی فطرت یا اخلاق کے خلاف ہو اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتے تھے کہ ان کی بات ماننا لوگوں پر بوجھ ہوتا.روحانی نقطہ نگاہ سے ا س آیت میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی روحانی چاند یا روحانی سورج ظاہر ہوتاہے تو ا س کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خدا کی طرف سے عذاب آتاہے سو اے لوگو بتائو کہ خواہ چاند کا وقت ہویاسورج کا خدا تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں کون بچاسکتاہے.بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ میں بتایا کہ ان کی یہ حالت صرف اعراض عَنْ ذِکْرِ اللہِ کے سبب سے ہے.اَمْ لَهُمْ اٰلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِّنْ دُوْنِنَا١ؕ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ کیا ان کی تائید میںکوئی (سچے )معبود ہیں جو ان کو ہمارے عذاب سے بچالیں گے؟ وہ (معبود)تو اپنی جانوں کی بھی نَصْرَ اَنْفُسِهِمْ وَ لَا هُمْ مِّنَّا يُصْحَبُوْنَ۰۰۴۴ حفاظت نہیںکرسکتے اور نہ ہمارے مقابلہ میںکوئی ان کاساتھ دے سکتا ہے.تفسیر.پھر فرماتا ہے تم تو خدا تعالیٰ کی عبادت سے بچنا چاہتے ہو لیکن اس کے نتیجہ میں جوعذاب آئےگا اس سے کوئی جھوٹامعبود تمہیں نہیں بچاسکے گا بلکہ وہ جھوٹے معبود تو اپنے آپ کوبھی نہیں بچاسکتے اور نہ اپنا کوئی مدد گار

Page 52

پیدا کر سکتے ہیں.بَلْ مَتَّعْنَا هٰؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَيْهِمُ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کو بھی اوران کے باپ دادوں کو بھی بہت سامال و متاع دے رکھا تھا یہاں تک کہ ان الْعُمُرُ١ؕ اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ پرایک لمبازمانہ گزر گیا پس کیا یہ نہیںدیکھتے کہ ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروںکی طرف اَطْرَافِهَا١ؕ اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ۰۰۴۵ سے اسے چھوٹاکرتے جارہے ہیں تو کیا (اس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ )وہ غالب آئیںگے.حلّ لُغَات.اَطْرَاف.اَطْرَافٌ طَرَفٌ کی جمع ہے اور طَرَفٌ کے معنے ہیں حَرْفُ الشَّیْءِ وَ نِھَایَتُہُ کسی چیز کا کنارہ.النَّاحِیَۃُ طرف.اَلرَّجُلُ الْکَرِیْمُ.معزز آدمی (اقرب) تفسیر.حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کی عمر لمبی ہوجاتی ہے تو وہ تکبر کی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اور یہ نہیںدیکھتی کہ اس وقت اس کی تباہی کے سامان پیدا ہورہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہوتاچلا آیا ہے.بلکہ موجودہ زمانہ میں ہی انگریزوں اور فرانسیسیوں کو ہی دیکھ لولمبی حکومت کے بعد خود ان کی حکومت ہی ان کے لئے وبال جان بن گئی اور ان کی شہنشاہت کے اجزا خود ان کے لئے ایک ذلت کاطوق بن گئے.ہندوستان انگلستان سے کتنی دور تھا اور پھر انگریزوں نے کتنی شاندار حکومت یہاں کی لیکن پچھلی بڑی جنگ میں مسٹر چرچل کے قول کے مطابق ہندوستان انگریز کے گلے کاپتھر بن گیا اور چرچل چیخ اٹھاکہ اگر انگلستان کو بچانا چاہتے ہو تو اس پتھر کو سمندر میںپھینک دو.اب مصر اورملایا اسی طرح پتھر بن کے گلے میںلٹکے ہوئے ہیں کچھ عرصہ کے بعد نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا اور کینیڈا گلے کے پتھر بن جائیں گے مگر پھر بھی کچھ عرصہ تک انگلستان کا غرور قائم رہے گا اور انگریز یہی سمجھتے رہیںگے کہ ہم غالب ہیں مگر آخر خدا تعالیٰ کی وحی جیتے گی.تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے بڑی مصیبت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ جب دنیامیںکوئی قوم طاقتور ہوجاتی ہے تو اسے جتنی زندگی ملتی ہے چاہے وہ ساٹھ سال کی ہو یاسو سال کی ہو یادوسو سال کی ہو اس زندگی کی

Page 53

وہ ایسی عادی ہو جاتی ہے کہ سمجھتی ہےاب ہماری یہ حالت بدلے گی نہیں فرماتا ہے کیا وہ یہ نہیںدیکھتے کہ گو محمدؐ رسول للہ کو پوری فتح حاصل نہیں ہوئی لیکن محمدؐ رسول اللہ کے مخالفوں کی حکومت کا پھیلاؤ کم ہونا شروع ہوگیاہے او ران کے اثر کے وہ حصے جن کو کنارے کہناچاہیے اب سمٹناشروع ہوگئے ہیں کیا اس بات کو دیکھنے کے باوجود وہ خیال کرتے ہیں کہ آخر وہی غالب آئیںگے.یعنی جبکہ اسلام روز بروز ترقی کررہاہے ا ور و ہ کم ہورہے ہیں تو وہ کیونکر خیال کرسکتے ہیں کہ وہ غالب آجائیںگے.قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ١ۖٞ وَ لَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ تو ان سے کہہ دے کہ میں تو تم کو وحی کے ذریعہ سے ہوشیار کررہا ہوں اور( خوب سمجھتاہوں کہ) جب (روحانی) اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ۰۰۴۶وَ لَىِٕنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ بہروں کو ہوشیار کیا جائے تو وہ آواز نہیں سن سکتے.اور اگر ان کوعذاب کی گرمی کا کوئی جھونکالگ جائے تو وہ رَبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ يٰوَيْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۰۰۴۷وَ نَضَعُ ضرور کہیںگے ہم پر افسوس !ہم تو ظلم ہی کرتے رہے.اور ہم قیامت کے دن ایسے تول کے سامان الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا١ؕ (یعنی پورا پورا تولنے والے سامان) پید ا کریںگے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذراسا بھی ظلم نہیں کیا جائےگا وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ اور اگر ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی (کو ئی عمل) ہوگا تو ہم (اس کو) موجود کردیںگے كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ۰۰۴۸ اور ہم حساب لینے میںکافی ہیں.حلّ لُغَات.النَّفْحَۃُ.النَّفْحَۃُ مِنَ الْعَذَابِ :اَلْقِطْعَۃُ عذاب کاایک حصہ (اقرب)

Page 54

الْقِسْطُ.اَلْقِسْطُ کے معنے ہیں اَلْعَدْلُ.انصاف (اقرب) اَلْخَرْدَلُ.اَلْخَرْدَلُ حَبٌّ صَغِیْرٌ جِدًّا اَسْوَدُ مُقرِّحٌ وَ مِنْہُ اَبْیَضُ یعنی باریک باریک دانے جو سیاہ ہوتے ہیںاور ان میں سے بعض سفید بھی ہوتے ہیں (اقرب) اردو میں ہم انہیںرائی کہتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے اے محمدؐ رسول اللہ تو ان سے کہہ دے میںتو کسی طاقت کامدعی نہیں کمزور انسان ہوں.خد اکی وحی میں تمہارے عذاب کی خبر آئی ہے وہ تم کو سناتاہوں مگر تم بہرے ہوگئے ہو کتنابھی ڈرائوں سنتے نہیںلیکن جب عذاب آجائےگا تو اس وقت یہ لوگ کہیں گے کہ افسوس ہم تو ظالم تھے مگر کیا ان کایہ کہنا ان کو نفع دے سکے گا جب مقدرت ظلم کے وقت وہ ظلم کرتے رہے تو مقدرت ظلم کے چھینے جانے پر افسوس کرنے کا کیا فائدہ ؟ اور ہم اس فیصلہ کے دن انصاف کے ترازو رکھ دیں گے تاکہ جتنا جتنا کوئی مجرم ہے اس کو سزا مل جائے گی اور کسی پر تھوڑاسا بھی ظلم نہیں کیا جائےگا اور اگر کسی نے ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی نیکی کی ہوگی تو اس کابدلہ اسکو مل جائےگا.دیکھو یہ کتنی زبردست صداقت ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ابوجہل کتناشدیددشمن تھا مگر اس کے اندر کی نیکی کسی دوسرے شخص کو نظر نہیں آئی لیکن جب خدائی فیصلہ کا دن آیا تو ا س کے بیٹے کو مسلمان کردیا گیااور وہ اعلیٰ درجہ کا اسلامی جرنیل ثابت ہوا(الأصابۃ فی تمییز الصحابۃ عکرمۃ بن ابی جہل) اسی طرح ابوسفیان اسلام کاکتنا دشمن تھا ظاہرمیں دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے کہ یہ اور اس کا خاندان ہمیشہ سزاپائیں گے مگر اس کے اندر بھی کوئی نیکی تھی جب وقت آیا تو اس کابیٹاآدھی مملکت اسلامیہ کا حاکم بنا اور قریباً سو سال تک اس کے خاندان نے تمام عالم اسلام پر حکومت کی اور اس کے بعد اندلس پر قریباً پانچ سو سال تک حکومت کی یہ جزا محض عالم الغیب خدا کی طرف سے ہی آسکتی ہے اگر انسان جزا دیتاتو ابو جہل اور اس کے خاندان کو اور ابو سفیان اور اس کے خاندان کو پیس ڈالتا.اوپر کے مضمون کے علاوہ یہ آیت کہ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ جہنم کے غیرمنقطع ہونے کے عقیدہ کو بھی ردکر رہی ہے کیونکہ اس آیت میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی نے ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی نیکی یابدی کی ہوگی تو اس کاحساب لیاجائے گا اب اگر بدی کی وجہ سے انسان جہنم میںچلاگیا اور ابدالاباد تک وہیںرہا تو نیکیو ں کا بدلہ کب پائےگا پس ضرور ی ہے کہ جہنم کاعذاب منقطع ہو اور نیکیوں کی جزا کے لئے اسے جنت میںداخل کیاجائے.آریوںکا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ حساب کے وقت ہرروح کاایک گناہ باقی رکھ لیتا ہے چنانچہ پہلے تو وہ نیک روحوںکو نجات دے دیتاہے مگر پھر اس گناہ کی وجہ سے انہیں مختلف جونوں میںڈالتارہتاہے.گویاان کے نزدیک

Page 55

خدا تعالیٰ انعام پہلے دیتاہے اور عذاب پیچھے تاکہ روح ابدی نجات نہ پا جائے مگر اسلام کہتاہے کہ خدا تعالیٰ گناہوں کی سزاپہلے دیتاہے اور پھرانسان کو نجات دیتاہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اسلام کی تعلیم ہی فطرت صحیحہ کے مطابق ہے گناہ کو چھپارکھنا اور پھرسلسلہ انعام کومنقطع کر کے عذاب میں مبتلاکر دینا ایسا ہی ہے جیسے بنیا کسی کو روپیہ قرض دے کر اس کا بہت ساحصہ تو وصول کرلیتا ہے مگر کچھ حصہ باقی رہنے دیتاہے تاکہ چند سالوں کے بعد پھرسود سمیت اس سے ایک بہت بڑی رقم وصول کر سکے اس قسم کی کینہ توزی کسی انسان میںبھی برداشت نہیں کی جاسکتی کجا یہ کہ اسے خدا تعالیٰ کی طر ف منسوب کیاجائے لیکن اسلام کہتاہے کہ جس شخص کے لئے سزامقدر ہوگی اسے پہلے سزادی جائے گی اور پھراس کی نیکیوں کاانعام دیاجائےگا اور یہ انعام غیرمنقطع ہوگااور اس میں کوئی رخنہ واقع نہیں ہواہو گا چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ جولوگ میری جنت میںداخل ہوجائیں گے وہ اس سے کبھی نکالے نہیں جائیںگے (الحجر:۴۹)پس اسلام کی تعلیم عقل اور فطرت کے مطابق ہے جبکہ آرین مذہب کی تعلیم خدا تعالیٰ پرظلم کاالزام عائد کرنے والی ہے.وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِيَآءً وَّ ذِكْرًا اور ہم نے موسیٰ ؑاورہارون ؑ کو امتیازی نشان بخشا تھا.اور روشنی بخشی تھی.اور متقیوں کے لئے ایک لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ۰۰۴۹الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَ هُمْ مِّنَ یاد ہانی کی تعلیم بخشی تھی وہ( متقی) جو اپنے رب سے غیب میں (بھی) ڈرتے ہیں اور جو جزا سزا کے وقت السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ۰۰۵۰ مقرر سے بھی ڈرتے رہتے ہیں.حلّ لُغَات.اَلْفُرْقَان.اَلْفُرْقَانکے معنے ہیں کُلُّ مَا فُرِقَ بِہٖ بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ ہر وہ معجزہ جس سے حق اور باطل کے درمیان امتیاز ہوجائے.اَلنَّصْرُ مدد.اَلْبُرْھَانُ دلیل.اَلصُّبْحُ.صبح (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ہم نے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو ایک امتیاز اور روشنی دینے والی اور متقیوں کو خدا تعالیٰ کی یاد دلانے والی کتاب بخشی تھی ایسے متقی جو علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںاور اپنے انجام سے ڈرتے رہتے ہیں.

Page 56

وَ هٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰهُ١ؕ اَفَاَنْتُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَؒ۰۰۵۱ او ر یہ ( قرآن) ایسی یاددہانی کرنےوالی کتاب ہے جس میں تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں بہہ کرآگئی ہیں اس کوہم نے اتارا ہے پس کیا تم ایسی کتاب کے منکر ہو.تفسیر.مُبٰرَکٌ دراصل بِرْکَۃٌ سے نکلاہے اور بِرْکَۃٌ کے معنے گڑھے کے ہوتے ہیں جس میں ارد گرد کاتمام پانی جمع ہوجاتا ہے قرآن کریم کومبارک اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میںپچھلی سار ی صداقتوں اور اعلیٰ درجے کی تعلیموںکو جمع کردیاگیاہے.فرماتا ہے یہ قرآن جو ساری برکتیںاپنے اندر جمع رکھتاہے اور تورات کی طر ح خدا کویاد دلانے والا ہے ہم نے تجھ پر اتاراہے مگر پھر بھی لوگ اس کاانکار کرتے ہیں اس جگہ چونکہ قرآن کریم کو ذکرکہاگیا ہے اس لئے جہاں خدتعالیٰ نے مومنوں کوذکرا لٰہی کرنےکاحکم دیاہے وہاں اس کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ قرآن کریم کو پڑھو اور اس پرعمل کرو.وَ لَقَدْ اٰتَيْنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ اورہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی صلاحیت اور قابلیت عطا کی تھی اورہم ا س کے اندرونہ سے عٰلِمِيْنَۚ۰۰۵۲اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ خوب واقف تھے جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا مجسمے ہیں جن کے آگے تم بیٹھے رہتے ہو.الَّتِيْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ۰۰۵۳قَالُوْا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا لَهَا انہوں نے کہاہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھاتھاکہ وہ ا ن کی عبادت کرتے تھے اس نے کہاتب تم بھی عٰبِدِيْنَ۰۰۵۴قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ فِيْ ضَلٰلٍ اور تمہارے باپ دادے بھی ایک کھلی گمراہی میں مبتلاتھے.انہوں نے کہاکیاتو ہمارے پاس ایک حقیقت

Page 57

مُّبِيْنٍ۰۰۵۵قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِيْنَ۰۰۵۶ لے کر آیاہے یاتوہم سے مذاق کررہاہے اس (یعنی ابراہیم) نے کہاحقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب آسمانوںکابھی رب ہے قَالَ بَلْ رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِيْ فَطَرَهُنَّ١ۖٞ اور زمین کابھی رب ہے( وہی ہے) جس نے ان کو پیدا کیا ہے اورمیںاس بات پرتمہارے سامنے گواہ ہوں اور وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ۰۰۵۷وَ تَاللّٰهِ لَاَكِيْدَنَّ اس نے کہا خدا کی قسم! جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو میںتمہارے بتوںکےخلاف ایک پکی تدبیر کروںگا پھراس اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِيْنَ۰۰۵۸فَجَعَلَهُمْ نے ان (یعنی بتوں) کو ٹکڑے ٹکرے کردیاسوائے ان میں سے بڑے کے تاکہ وہ (ایک دفعہ پھر)اس کے پاس آئیں جُذٰذًا اِلَّا كَبِيْرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ۰۰۵۹قَالُوْا اس پر انہوںنے کہا کہ ہمارے معبودوںسے یہ کام کس نے کیاہے؟ ایسا کرنےوالا یقیناً ظالموں میںسے ہے مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۶۰قَالُوْا (تب کچھ دوسرے لوگوں نے) کہا ہم نے ایک نوجوان کوجس کانام ابراہیم ہے ان کی کمزوریاں بیان کرتے سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗۤ اِبْرٰهِيْمُؕ۰۰۶۱قَالُوْا فَاْتُوْا سنا ہے (تب قوم کے سرداروں نے ) کہا (اگر بات یوں ہے تو)اس شخص کو سب لوگوں کے سامنے لاؤ شایدوہ( اس کے بِهٖ عَلٰۤى اَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُوْنَ۰۰۶۲قَالُوْۤا متعلق) کو ئی فیصلہ کریں( پھر) انہوںنے کہااے ابراہیم کیا یہ کام تونے ہمارے معبودوں سے کیاہے ؟( ابراہیم

Page 58

ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا يٰۤاِبْرٰهِيْمُؕ۰۰۶۳قَالَ بَلْ نے )کہاکہ( آخر) کسی کرنے والے نے یہ کام ضرور کیاہے یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑاہے فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ۰۰۶۴ اگر وہ بول سکتے ہیںتو ان سے (یعنی اس بت سے بھی اور دوسرے بتوں سے بھی) پوچھ کر دیکھو.اس پر وہ اپنے فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۰۰۶۵ سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا سچی بات تو یہی ہے کہ ظا لم تم ہی ہو اور وہ لوگ اپنے ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰؤُلَآءِ سروں کے بل گرائے گئے( یعنی لاجواب کئے گئے.)اور انہوںنے کہا کہ تو جانتاہے يَنْطِقُوْنَ۰۰۶۶قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا کہ یہ تو بولانہیں کرتے.(ابراہیم نے )کہاتو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی شے کی پرستش کرتے ہو يَنْفَعُكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَا يَضُرُّكُمْؕ۰۰۶۷اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا جو نہ تمہیںنفع دیتی ہے نہ نقصان پہنچاتی ہے.ہم تم پر افسوس کرتے ہیںاور اس پربھی جس کی تم اللہ کے سوا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۰۰۶۸ عبادت کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ حلُ لُغَات.اَلرُّشْدُ.اَلرُّشْدُ اَلْاِسْتِقَامَۃُ عَلٰی طَرِیْقِ الْحَقِّ مَعَ تَصَلُّبٍ فِیْہِحق بات پراس طرح قائم رہناکہ انسان مضبوطی سے اسے اختیار کرلے.(اقرب) جُذَاذًا.جُذَاذًااَلْمُقَطَّعُ الْمُکَسَّرُ.ٹکڑے اور توڑی ہوئی چیز.مَاتُکَسَّرُمِنَ الشَّیءِ کسی چیز کا حصہ جو ٹوٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے.(اقرب)

Page 59

نُکِسُوْا.نُکِسُوْانَکَسَ سے جمع مذکر غائب مجہول کاصیغہ ہے.اور نَکَسَ کے معنے ہوتے ہیںقَلَبَہُ عَلیٰ رَأْسِہٖ وَجَعَلَ اَسْفَلَہُ اَعْلَاہُ وَ مُقَدَّمَہٗ مُؤَخَّرَہٗ اس کو سرکےبل الٹاکردیااور نچلے حصے کو اوپر اور اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا اسی طرح نَکَسَ رَأْسَہٗ کے معنے ہوتے ہیں.طَأْطَاَہُ مِنْ ذُلٍّ اس نے ذلت سے سر نیچے کرلیا (اقرب) نُکِسَ الْمَرِیْضُ.کے معنے ہوتے ہیں عَاوَدَہُ الْمَرَضُ کَاَنَّہُ قُلِبَ اِلٰی الْمَرْضِ یعنی مریض کو دوبارہ بیماری نے آلیا اور مرض کاپھراعادہ ہوگیا او ر نُکِسَ الرَّجُلُ کے معنے ہیںضَعُفَ وَعَـجَزَ.وہ ضعیف اور عاجز ہوگیا (اقرب) پس نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْکے معنے ہوئے (۱) اپنی پہلی حالت یعنی شرارت کی طرف دوبارہ لوٹ آئے (۲) ان کے سرذلت سے نیچے گرائے گئے (۳) جیساکہ اوپر حل لغات سے ظاہر ہے کہ اَلنَّکْسُ کے اصلی معنے یہ ہیںکہ کسی چیز کو اس طرح الٹاناکہ اس کا اوپر کاحصہ نیچے اور نیچے کاحصہ اوپر ہوجائے.علامہ آلوسی مصنف روح المعانی لکھتے ہیںکہ ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ میں نَکَسَ کالفظ ان معنوں میں استعمال ہونادرست ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالفوں نے شرمندگی سے اپنے سرنیچے ڈال دیئے اور وہ حیرت میںڈوب گئے.تفسیر.فرماتا ہے موسیٰ سے پہلے ابراہیم کو بھی ہم نے اس کے زمانہ کے مطابق ہدایت بخشی تھی اور ہم اس زمانہ کے حالات کو خوب جانتے تھے اس کا چچااور اس کی قوم مشرک تھے اس جگہ أَبٌ بمعنے چچا استعمال ہوا ہے.کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد فوت ہوچکے تھے اس نے اپنے چچا اور اپنی قوم سے کہاکہ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ یہ کیا مجسمے ہیںجن کے آگے تم رات دن بیٹھے رہتے ہو انہوں نے کہاہم نے تو اپنے باپ دادوںکوبھی دیکھاہے کہ وہ ان کی عبادت کیا کرتے تھے.مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُکے الفاظ ان بتوں کی تحقیر کے لئے استعمال کئے گئے ہیں ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خوب جانتے تھے کہ وہ کیا چیز ہیں.درحقیقت طرز کلام کی واقفیت بھی کلام کے سمجھنے میںخاص طور پر مدد دیتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ وہ عام طور پرتعریضاًکلام کیا کر تے تھے بَلْ فَعَلَهٗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا کا کلام بھی اسی طرز کاہے اور مَا هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ بھی اسی رنگ میںکہاگیا ہے کہ یہ کیا چیز ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو.مراد یہ ہے کہ کیا ایسی ذلیل اور حقیر چیزوں کی تم پر ستش کرتے ہو.اس جگہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک عجیب مماثلت ثابت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ بھی آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوچکے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام

Page 60

کے والد بھی ان کی پیدا ئش سے قبل فوت ہوگئے تھے اور دونوںکوان کے چچا نے پالا تھااور پھر دونوں پالنے والے بھی مشرک تھے.اور دونوں نبیوں نے ان کو توحید کی تبلیغ کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا اور ان کی قوم نے بھی ان کو کہاتھا کہ ہمارے باپ دادے ان بتوںکی پوجاکرتے تھے اس لئے ہم ان کو نہیں چھوڑ سکتے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابوطالب کو اسلام لانے کی دعوت دی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میرے بھتیجے میںجانتاہوں کہ تیری باتیں سچی ہیںمگر لوگ کہیں گے کہ اس نے اپنے باپ دادے کا مذہب ڈرکر چھوڑ دیا ہے.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام طمع الرسول فی اسلام ابی طالب و حدیث ذالک) پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے بزرگوں سے یہی کہااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بزرگوںسے یہی کہاکہ اگر تمہارے باپ دادے گمراہ ہوںگے تو کیاپھر بھی تم ان کے پیچھے چلو گے.(المائدۃ:۱۰۵ ) اس پرحضر ت ا براہیم علیہ السلام کی قوم نے کہاکہ کیا تم مذاق کر رہے ہو یاکو ئی سچی تعلیم لائے ہو کیایہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کر سکتے تھے انبیاء کے دشمن چونکہ د ل میںان کی قوت استدلال سے متاثر اور مرعوب ہوتے ہیں ان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ خود ہی کہہ دیںکہ ہم تو ہنسی کرتے تھے اور اس طرح ان کو اس فکر سے نجات ملے جیسے حضرت خلیفۃا لمسیح اول رضی اللہ عنہحکیم الہ دین صاحب کاحال سناتے تھے کہ وہ وفات مسیح کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ مرزا صاحب نے صرف مولویوںکو شرمندہ کرنے کے لئے یہ دعویٰ کیاہے اگریہ سب معافی مانگ لیں تو وہ فوراً اس دعویٰ کو باطل ثابت کردیںگے ان لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو سخت حادثہ میںمبتلاہوتاہے اور اس کے دل میںایک خفیف جھلک امید کی پیدا ہوتی ہے کہ شاید یہ خواب ہی ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے بھی ا ٓپ سے یہی کہا کہ کیاتم ہم سے مذاق تو نہیں کررہے کیا یہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کرسکتے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیاکہ تمہارارب آسمان و زمین کارب اوران کاپیدا کرنے والا ہے اور میں اس پر دلیل سے قائم ہوںاوراس کا گواہ ہوں اور میںتمہارے گھروں کی طرف لوٹ جانے کے بعد تمہارے بتوں کےساتھ ایک تدبیر کروںگا.مفسرین کہتے ہیں کہ یہ کلام ا ن میںسے کسی ایک نے سن لیاتھایاعید کو جاتے وقت سب سے آخر میں جو ضعفاء تھے ان میں سے بعض نے سن لیا(روح المعانی زیر آیت ھذا)مگر یہ کلام غالباً انہوںنے اپنے دل میںکہاتھا.حالانکہ اس کے صرف اتنے معنے ہیںکہ جب انہوں نے دلائل سے نہ ماناتو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عملی صورت میں ان کے بتوں کی برائی ان پرظاہر کرنی چاہی.جو زیادہ موثر دلیل ہوتی ہے.چنانچہ اس نے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے کہ شاید وہ خدا تعالیٰ کی طرف

Page 61

لوٹیںاس پر اس کی قوم کے لوگ بہت بگڑے اور کہاکہ ہمارے معبودوںسے یہ کام کس نے کیاہے وہ بڑاظالم ہے جو لوگ ابراہیم ؑ سے بحث کرکے آئے تھےانہوںنے کہا کہ ایک نوجوان ان بتوںکابرائی سےذکر کرتاتھا.اس کانام ابراہیم ہے.سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ سے مراد بھی یہی ہے کہ ان کابری طرح ذکر کرتاتھا چنانچہ اسی سورۃ میں آتاہے وَ اِذَا رَاٰكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ۠ اِلَّا هُزُوًا١ؕ اَهٰذَا الَّذِيْ يَذْكُرُ اٰلِهَتَكُمْ١ۚ وَ هُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمٰنِ هُمْ كٰفِرُوْنَ یعنی اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کفار تجھے دیکھتے ہیں تو وہ تجھے ایک حقیر چیز سمجھتے ہیںاور کہتے ہیںکہ کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوںکابری طرح ذکر کرتاہے حالانکہ وہ خود رحمٰن خدا کے ذکر کا انکار کرتے ہیں.بہرحال جب ابراہیم کے متعلق کچھ لوگوں نے مذ کورہ بالا باتیں کیں تو ابراہیم کی قوم نے کہاکہ سب شہریوں کے سامنے اس کو لائو تاکہ جن لوگوں نے اس کو مخالفت کرتے دیکھاہے وہ اس پر گواہی دیں اس طرح ثابت ہو جائےگا کہ بتوںکامنکر ہی یہ کام کر سکتاہے.یا یہ کہ اس کے متعلق وہ یہ فیصلہ کریں کہ اس کو کیا سزاملنی چاہیے اور یایہ کہ وہ بھی اس کی سزا دیکھیں پھر انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہاکہ اے ابراہیم کیایہ سب کچھ تیری کرتوت ہے ابراہیم نے کہاکہ ہاں.بَلْ فَعَلَهٗ یہ کام کسی نے کیا تو ضرور ہوگا بغیر کسی کے کرنے کے آپ ہی آپ تو ہو نہیںسکتا.كَبِيْرُهُمْ هٰذَا اب یہ بت ان میں سے سب سے بڑا ہے تو ان صاحب سے پوچھو اگر بت بول سکتے ہیںتو یہ صاحب جواب دےدیںگے.مجھ سے کیوں پوچھتے ہو.بَلْ فَعَلَهٗکے ایک تو یہ معنے ہیںکہ بَلْ فَعَلہ فَاعِلٌ یعنی یہ کام کسی نے تو ضرور کیا ہوگا اس صورت میںبَلْ کے معنے اضراب کے نہیں ہوںگے بلکہ تصدیق کے ہوں گے کہ ہاں کسی نے تو کیا ہی ہوگا.اور وقف سے ثابت ہوتاہے کہ اگلا حصہ الگ ہے اور اس میں سوال کیاہے کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو اس بڑے بت سے پوچھ لیتے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق تعریضاًکلام کرتے ہیں کہ نہیں میںنے کیوں کرناتھااس نے کیا ہوگا ایسے کلام سے مراد انکار نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ کیایہ سوال بھی پوچھنے والا تھا میں نہ کرتا تو کیااس بت نے کرنا تھا؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ دلوں میںشرمندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ تم خود ہی ظالم تھے پھر مزید غور پر اور بھی شرمندہ ہو ئے یا اپنی شرارت کی طرف لوٹ آئے اور بولے کہ ابراہیم تم جانتے ہو کہ یہ تو بولتے نہیں.تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ کیاخدا تعالیٰ کے سوا ان بتوںکی تم پرستش کرتے ہوجو تمہیں کچھ بھی نفع نہیںدیتےاور نہ نقصان دیتے ہیں.

Page 62

اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک زبردست مقابلہ کیا گیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد بھی بچپن میں فوت ہو گئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بھی آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور دونوں کو ان کے چچائوں نے پالا تھا جو دونوں مشرک تھے دونوں نے اپنے چچائوںکو توحید کی تبلیغ کی مگر دونوں نے توحید کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا.یہ دونوں نبی توحید پر بڑی مضبوطی سے قائم تھے اور دونوں علیٰ وجہ البصیر ت خدا تعالیٰ کو خالق ارض وسما سمجھتے تھے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بت توڑے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بت توڑے جب ان کی قوم کے لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بت توڑے جبکہ دوپہر کا وقت تھا اور کعبہ کے پاس تمام لوگ جمع تھے آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اسے آپ سارے مکہ والوں کے سامنے بتوں پر مارتے اور انہیںگراتے جاتے تھے اور کسی کی مجال نہیںتھی کہ وہ اُف بھی کر سکے.(السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، فتح مکۃ شرفھا اللہ تعالیٰ) ابراہیم ؑ بے شک بڑاآدمی تھا مگر کتنا فرق ہے ابراہیم ؑ میںاور میرے محمد ؐمیں اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَدَدَ کُلِّ ذَرَّۃٍ فِی السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ بَلْ اَکْثَرَ.قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۰۰۶۹ (اس پر وہ غصہ میں آکر ) کہنے لگے اس شخص کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم نے کچھ کرنے کا ارادہ قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَۙ۰۰۷۰وَ اَرَادُوْا کیا ہے تب ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم ؑ کے لئے ٹھنڈی بھی ہوجا اور اس کے لئے سلامتی کاباعث بھی بن جا.بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَخْسَرِيْنَۚ۰۰۷۱ اور انہوں نے اس سے کچھ برا سلوک کرناچاہا مگر ہم نے ان کو ناکام بنادیا.حلّ لُغَات.الْکَیْدُ.اَلْکَیْدُ اَلْمَکْرُ وَ الْخُبْثُ تدبیر اور کسی کے ساتھ شرارت کرنا.اَلْحِیْلَۃُ.حیلہ اَلْحَرْبُ.لڑائی.نیز اس کے معنے ہیں اِرَادَةُ مَضَرَّةِ الْغَیْرِ خُفْیَةً دوسرے کواس طور پر نقصان پہنچانا کہ اس کو معلوم نہ ہو.(اقرب)

Page 63

تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے کہاکہ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو ابراہیم ؑ کو جلا دو.اور اپنے معبودوں کی مدد کرو.ہم نے کہا.اے آگ تو ابراہیمؑ کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا.اور قوم ابراہیم ؑنے اس کے خلاف ایک تدبیر کرنی چاہی.مگر ہم نے اس کو ناکام کردیا.معلوم ہوتاہے کہ کسی غیبی سامان یعنی آندھی یا بارش وغیرہ سے آگ بجھادی گئی تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اے آگ.ٹھنڈی ہوجا.یہ نہیںفرماتا کہ اے آگ جلا نہیں.درحقیقت ایمان بالغیب کے قیام کے لئے بھی کسی ایسے ہی طریق کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ایک حد تک اخفا کا بھی پہلو ہو.ورنہ ایمان لانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا.اس واقعہ میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک بڑی مماثلت ہے قوم ابراہیم نے کہا تھااس کو جلا دو.اور اپنے معبودوں کی مدد کرو.گویا وہ سمجھتے تھے کہ معبودوںکی مدد کا کوئی راستہ کھلا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ ان کو قید کر دو یا قتل کردو یا اپنے شہرسے جلاوطن کردو.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںاس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَ اِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ يَمْكُرُوْنَ وَ يَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ (الانفال:۳۱) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ کفار تمہارے متعلق یہ منصوبے کررہے تھے کہ وہ تجھے قید کردیں یاقتل کردیں یا تجھے اپنے وطن سے باہرنکال دیں اور وہ اس کے متعلق بڑی بڑی تدبیریں سوچ رہے تھے مگر اس کے مقابلہ میں خدابھی اپنی تدبیر کر رہا تھا.اور خدا تعالیٰ سے بہتر اور کون تدبیر کرنے والا ہے.چنانچہ دیکھ لو مکہ والوں نے لڑائی کی آگ متواتر دس سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جلائی مگرناکام رہے اور وہی لڑائیاں جو محمد ؐرسول اللہ کے جلانے کے لئے کی گئی تھیں محمدؐ رسول اللہ کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہوئیں اور آخر محمد ؐرسول اللہ فاتحانہ رنگ میںمکہ میںداخل ہوئے اور پرانے سے پرانے دشمن آپ کی بیعت کرنے کے لئے آئے ہندہ کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ چونکہ اس نے مسلمانوں کے مروانے میںبڑا حصہ لیا ہے اس لئے جہاں بھی ملے اسے قتل کردیا جائے وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوںکے ساتھ مل کر بیعت کرنے کے لئے آگئی.اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے عورتو !وعدہ کرو کہ ہم شرک نہیںکریںگی تو ہندہ جو بڑی جوشیلی عورت تھی تڑپ کر بولی.یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریںگی.آپ اکیلے تھے اور ہمارے بت اورسب عرب والے ہمارے ساتھ تھے پھر بھی ہم ہار گئے اور آپ جیت گئے.ہم ایسے بیوقوف نہیںکہ اب بھی سمجھیں کہ بتوں کے ہاتھ میںکوئی طاقت ہے.دیکھو محمدؐ رسول اللہ کی فتح نے مشرکوں کو کیسا

Page 64

مایوس کردیا تھا جبکہ ابراہیم علیہ السلام کے دشمن آخر تک کہتے رہے کہ آئو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو.اس جگہ اس امر کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑنے جس بت خانہ کے بت توڑے تھے وہ کسی دوسرے کا نہیںتھا بلکہ ان کا اپنا خاندانی بت خانہ تھااگر وہ دوسروںکاہوتا تو اس کاتوڑنا ان کے لئے جائز نہ ہوتا.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا اپنا بت خانہ تھا اور انہیںورثہ میں ملا تھا اور چونکہ حضر ت ابراہیم ؑ بچپن سے ہی شرک سے سخت نفرت رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اس بت خانہ کو جو ان کی آمدنی کاایک بڑا بھاری ذریعہ اور ملک میںان کی عزت اور نیک نامی کاباعث تھا توڑ دیا.جب انہوںنے بتوںکوتوڑاتو سارے ملک میںایک شور مچ گیا بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا.ملک کے دستور اور بادشاہ کے قوانین کے مطابق اس فعل کی سزا جلادینا تھا.یہ ایک پرانی رسم تھی کہ جو بتوںکی ہتک کرتااسے جلادیا جاتا تھا.کیونکہ بتوں کی ہتک کرنا ارتداد سمجھا جاتا تھا اور ارتداد کی سزا پرانے زمانہ میںیاتو جلانا تھی یا سنگسار کرنا.چنانچہ یورپ میںجب پراٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی پیدا ہوئے تو انہیںمرتد قرار دے کر آگ میںجلایا جاتا تھا.اس کے مقابلہ میںایشیا میںسنگسار کرنے کارواج تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ بتوں کے توڑنےکی وجہ سے یہ سزا تجویز ہوگی مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنا نشان دکھائے.آخر ان لوگوں نے آگ جلائی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈال دیا.لیکن عین اس موقعہ پربادل آیاجس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میںسے صحیح سلامت نکل آئے.چونکہ بت پرست بہت وہمی ہوتے ہیں.اس لئے جب ادھر انہوںنے آگ جلائی اور ادھر بادل آگیا اور آگ بجھ گئی.تو انہوں نے سمجھا کہ خدا کی مشیت یہی ہوگی اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ دیا.وَ نَجَّيْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا اور ہم نے اسے بھی اور لوط ؑ کو بھی اس زمین کی طرف نجات دی جس میںہم نے تمام لِلْعٰلَمِيْنَ۰۰۷۲ جہانوں کے لئے برکتیں رکھی تھیں.تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے اُور میںرہتے تھے جوعراق کے علاقہ میںتھا.وہاں سے آپ حاران کی طرف جو بالائی عراق میں واقع ہے تشریف لے گئے اور وہاں سے کنعان کی طرف خدا تعالیٰ کے حکم سے

Page 65

آپ نے ہجرت کی اور یہ زمین آئندہ ان کی اولاد کے لئے مقرر کردی گئی.ان آیات میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑ اور لوط ؑدونوں کو نجات دی اور کامیاب کرکے فلسطین میںلے گیا.بعینہٖ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دشمنوں سے نجات دی اور ان کے غلام عمر ؓ کو ایک فاتح کی شکل میںبیت المقدس میںلے گیا.وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ١ؕ وَ يَعْقُوْبَ نَافِلَةً١ؕ وَ كُلًّا جَعَلْنَا اور ہم نے اسے اسحٰق ؑ بھی بخشا اور یعقوب بھی بطور پوتے کے( دیا).صٰلِحِيْنَ۰۰۷۳ اور ہم نے سب کو نیک بنایا.حلّ لُغَات.نَافِلَۃً.اَلنَّفْلُ کے معنے ہوتے ہیںاَلزِّیَادَۃُ عَلَی الْوَاجِبِ جوکسی کو دینا واجب اور ضروری تھا اس سے زیادہ دیا اور نَافِلَۃٌ: وَلَدُ الْوَلَدِ کو بھی کہتے ہیںیعنی پوتے کو (مفردات ) تفسیر.پھر فرماتا ہے ہم نے ابراہیم کو اسحاق ؑ او ریعقوب ؑ انعام کے طور پربخشے.ایسا ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی وعدہ ہے چنانچہ مسلمانوں کو دعا سکھائی گئی ہے کہ.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَّ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ یعنی اے اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آنے والی روحانی اولاد پر اسی طرح فضل نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم ؑ اورا س کی اولاد پر فضل نازل فرمائے تھے.بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ تو حضرت ابراہیم ؑ سے بہت بڑاہے پھر ایک بڑے درجہ والے کے لئے یہ دعاکرنا کہ اسے وہ کچھ ملے جو ان سے چھوٹے درجے والے کوملاتھا اور نہ صرف ایک دفعہ یہ دعاکرنا بلکہ قیامت تک کرتے چلے جانا ایک مضحکہ خیز امر ہے اور یہ ایسی ہی دعاہے جیسے کسی ای.اے.سی کو کہا جائے کہ خداتمہیںتھانیدار بنادے اس کے متعلق یہ امر یاد رکھانا چاہے کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو قسم کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے ایک خوبیاں تو وہ ہیں جو ان کی ذاتی ہیں مثلاً یہ کہ ابراہیم ؑ حلیم تھا.اواہ تھا.منیب تھا.صدیق تھا.خدا کامقرب تھا.ان خوبیوں اور مدارج کے لحاظ سے محمدؐ رسول اللہ

Page 66

صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں.اگر آپ افضل نہ ہوتے تو آپ خاتم النبیین اور سید ولد آدم کس طرح ہوسکتے ہیں پس جہاں تک محمدی مقام کاسوال ہے وہ ابراہیمی مقام سے یقیناً افضل ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان ذاتی خوبیوں کے علاوہ قرآن کریم سے ہمیںان کی ایک اور خوبی بھی معلوم ہوتی ہے.جو قومی انعام کے رنگ میں ظاہر ہوئی اور وہ یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعامانگی تھی کہ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (البقرۃ:۱۲۹)یعنی اے ہمارے رب ہمیںاپناسچا فرمانبردار بنائیواور ہماری ذریت میںسے بھی ایک ایسی امت پیداکیجئو جوتیری رضا کوحاصل کرنے والی اور تیری راہوں پر چلنے والی ہو اللہ تعالیٰ نے اس دعاکو اس رنگ میں قبول فرمایا کہ وہ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ (العنکبوت:۲۸) ہم نے ابراہیم ؑکی ذریت میںنبوت رکھ دی گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے جو کچھ مانگا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر آپ کوانعام دیا اس نقطہ نگاہ سے جب ہم درود میںیہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پربھی اسی طرح فضل نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم پر فضل نازل فرمایا.تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا یا جومعاملہ تو نے ابراہیم علیہ السلام سے کیا تھا وہی سلوک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کرنا جس طرح حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ مانگا تھا تونے اس سے بڑھ کر ان کو انعام دیا.اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ مانگا ہے اس سے بڑھ کر آپ کو انعام دیجیئو اب یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عرفان کے مطابق دعائیںکیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عرفان کے مطابق کیں.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے اتنی دعائیں کی ہیںکہ مجموعی طورپر تمام انبیاء نے بھی اتنی دعائیںنہیںکی ہوںگی.پھر جب یہ مسلمہ امر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفان ابراہیمی عرفان سے بہت بالا تھا تو پھریہ بھی یقینی امر ہے کہ آپ کی دعائیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائوں سے بڑھی ہوئی تھیں.او ر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جوکچھ ملنا ہے وہ بھی ابراہیمی انعام سے بہت زیادہ ہے پس درود میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کی بلندی اور آپ کی امت کی ترقی کے لئے اتنی جامع دعا سیکھائی گئی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی دعا تصور میںبھی نہیںآسکتی.کیونکہ اس میںیہ سکھایا گیا ہے کہ الٰہی وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ان کی ذریت پر نازل ہوئیں ان سے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل کی جائیں یعنی جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو ان کے مانگنے سے بڑھ کر ملا اسی طر ح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ مانگاہے آپ کو بھی اس سے بڑھ کر انعام دیا جائے.اور چونکہ وسعت فیض کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں بہت بڑھی ہوئی ہیںاس لئے آپ

Page 67

کے انعامات بھی ابراہیمی انعا مات سے بہت بڑھ کر ہیں.لوگوں کو غلطی صرف کَمَا کے لفظ سے لگی ہے.حالانکہ اس جگہ مَا مصدر یہ ہے اور کَمَاصَلَّیْتَ کے صرف اتنے معنے ہیں کہ کَصَلٰوتِکَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ یعنی جس طرح تونے ابراہیم پراپنی برکات نازل کیں اسی قسم کی برکات محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نازل فرما اگر کَمَا صلَّیْتَ کی بجائے اَلیٰ قَدْرِ مَاصَلَّیْتَ کہاجاتا تو بے شک اس کے یہ معنے ہوسکتے کہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس درجہ کا درود بھیج جس درجہ کا درود تم نے ابراہیم علیہ السلام پر بھیجا تھا مگر یہاں درجہ کا ذکر نہیں بلکہ قسم کا ذکر ہے اور مراد یہ ہے کہ جس قسم کی برکت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کو دی گئی تھی وہی قسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اولاد کو بھی ملے.اور وہ یہی برکت ہے کہ جو کچھ ابراہیم ؑ نے مانگا تھا خدا نے اس سے بڑھ کر اسے انعام دیا اسی طرح ہمیںیہ دعا سیکھائی گئی ہے کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگاہے اے خدا تو اس سے بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت پر انعام واکرام کی بارش نازل فرما.آج کل اسلام کے خلاف سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کاہے.اور عیسائیت اس بات کی مدعی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میںسے تھے(متی باب ۱۱ ٓیت ۱۷).پس درود میںیہ دعا سیکھائی گئی ہے کہ اے خدا یہ جتنی ترقیاں عیسائیت کو مل رہی ہیںیہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے ان وعدوں کی وجہ سے ہیں جو تو نے ان سے کیے تھے.ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیںکہ ابراہیمی وعدوںکی وجہ سے اس کی ایک شاخ جو اسحاق ؑ سے تعلق رکھتی تھی اس پر جو تو نے فضل نازل کئے ہیں اس سے بڑھ کر اسماعیل ؑکی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے تعلق رکھنے والوںپرفضل نازل فرما.اگر اللہ تعالیٰ ادھر سے اپنی برکتیں ہٹالے اور ان کا رخ اسماعیل ؑ کی نسل کی طرف پھیردے تو عیسائیت ایک دن میںختم ہوجاتی ہے پس یہ ایک عظیم الشان دعاہے جو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے سیکھائی گئی ہے اور پھر یہ ایک ایسی دعا ہے جس میںدنیا کے ہر ملک اور ہر علاقہ کا مسلمان شامل ہے گویا یہ ایسی کامل دعا ہے کہ نہ آقا اس سے باہر رہتاہے اور نہ امت محمدیہ کاکوئی فرد باہر رہتاہے آج کل یوروپین اقوام کو جو طاقت حاصل ہے یہ صرف ان وعدوں کی وجہ سے ہےجو اسحاق ؑکی نسل سے کئے گئے تھے اگر اب اسماعیل ؑ کی نسل سے اس کے وعدے پورے ہونے شروع ہوجائیںتو عیسائیت اس طرح ختم ہوجائے گی جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر حزقیل ؑیرمیاہؑ یسعیا ہؑ اور یحیٰ ؑوغیرہ ختم ہوگئے ہیں اور اسلام کو وہ شوکت حاصل ہوجائے گی جو مسلمانوں کے وہم وگمان میںبھی نہیں ہے.

Page 68

وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ اور ہم نے ان کو( لوگوں کا) امام بنایا.وہ ہمارے حکم سے ان کو ہدایت دیتے تھے.اورہم نے ان کی طرف فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے لَنَا عٰبِدِيْنَۚۙ۰۰۷۴وَ لُوْطًا اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّيْنٰهُ اور( ہم نے اسے) لوط ؑ( بھی بخشا) جسے ہم نے حکم بھی عطا کیا اورعلم بھی اور اس کو اس بستی سے نجات دی.مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىِٕثَ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا جوکہ نہایت گندے کام کرتی تھی.وہ( یعنی لوط کے شہر کے رہنے والے )ایک بہت بری قوم قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِيْنَۙ۰۰۷۵وَ اَدْخَلْنٰهُ فِيْ رَحْمَتِنَا١ؕ اِنَّهٗ مِنَ یعنی نافرمان تھے.اور ہم نے اس (یعنی لوط) کو اپنی رحمت میں داخل کیا.الصّٰلِحِيْنَؒ۰۰۷۶ وہ ہمارے نیک بندوںمیںسے تھا.تفسیر.فرماتا ہے یہ سب لوگ اپنے زمانہ کے امام تھے اور خدا تعالیٰ کے حکم کو دنیامیںپھیلاتے تھے بعینہٖ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمبھی فرماتے ہیںکہ اِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا (ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ) یعنی اللہ تعالیٰ میری امت میںبھی ہرصدی کے سرپر ایسے انسان مبعوث فرماتارہےگاجو دین اسلام کی تجدید کریں گے اور انسانوں کی داخل کی ہوئی خرابیوں کو دور کرکے اسلام کو پھرنئے سرے سے قائم کردیںگے.یہ حدیث درحقیقت وہی مضمون بیان کررہی ہے جو قرآن کریم نےاِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) میں بیان فرمایا ہے.یعنی ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیاہے اورہم ہی قیامت تک اس کی حفاظت کرتے رہیںگے.گویاوہی مضمون جو قرآن کریم میں

Page 69

بیان کیاگیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے پیرایا میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے بیان فرما دیا تاکہ ظاہرپرست لوگ اس آیت سے قرآن کریم کی صرف ظاہر ی حفاظت ہی مرادنہ لے لیں بلکہ وہ سمجھیں کہ اس میں قرآن کریم کی معنوی حفاظت کابھی وعدہ کیا گیا ہے جس کے لئے مجددین اور مامورین کا ا ٓناضروری ہے اور اگر غور سے کام لیا جائے تو درحقیقت یہی وہ فوقیت ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب پر حاصل ہے.ورنہ اگر صرف قصے اور روایات ہی کسی مذہب کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں تو ہندوؤں اور عیسائیوں کے ہاں بھی کچھ کم قصے نہیں اسلام کا فخر صرف اس بات میںہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اسلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے ایسے مقدس انسان کھڑے کرتاہے جو خود اپنے وجود کو اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طورپرپیش کرتے ہیں.اور کہتے ہیںکہ اسلام کا خدا ہمارے ساتھ اب بھی کلام کرتا اور ہمیںاپنے غیب سے اطلاع دیتاہے.اگر تمہارے اندر بھی سچائی پائی جاتی ہے تو آئو اور ہمارا مقابلہ کرلو مگر دنیا کے کسی مذہب کا پیرو اس مقابلہ میں کھڑانہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جانتاہے کہ وہ صرف ایک مردہ مذہب کاپیرو ہے جواپنی زندگی کاکوئی تازہ ثبو ت پیش نہیںکرسکتا.گویاان کی مثال اس درخت کی سی ہے جو جس کے پتے خزاںکی وجہ سے جھڑ گئے اب نہ وہ اپنے میووں سے کسی کا پیٹ بھر سکتاہے اور نہ اپنی چھاؤں میںکسی کو بٹھا سکتاہے.لیکن اسلام ایک ثمرور درخت ہے.جس کے شیریں پھلوں سے کوئی زمانہ بھی محروم نہیں رہتا.اور اس طرح اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ہر زمانہ میںلوگوں پرروشن ہوتی رہتی ہے.وَ لُوْطًا اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نبیوں کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس چشمہ فیض تک پہنچائیں جس سے سیراب ہوئے بغیر ان کی روحانی زندگی قائم نہیںرہ سکتی یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کو وابستہ کردیںاوراس سے اس کامضبوط پیوند کردیں.اوریہ بات علوم روحانیہ کے حصول کے بغیر کبھی سرانجام نہیںدی جاسکتی.وہی شخص روحانی امور میںلوگوں کو ہدایت دے سکتاہے جسے خدا تعالیٰ کی معرفت تامہ حاصل ہو اور اس کے قرب کے ذرائع اسے معلوم ہوں اور اس کی صفات کا باریک در باریک علم اسے حاصل ہو پس مدعی ماموریت کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس کی علمی غور وپر داخت کرے اور اسے ایسے روحانی علوم عطا فرمائے جو اس زمانہ کے لحاظ سے بے نظیر ہوں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق بیان فرمایا کہ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا اور اسی طرح اور کئی انبیا ءکے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنے علم سے نوازا تھادرحقیقت علمی معجزات ایک مامور کی صداقت معلوم کرنے کا بڑا زبردست ذریعہ ہوتے ہیں جن کے مقابلہ میں مخالفین بالکل گنگ ہوکر رہ جاتے ہیں.یہ علمی معجزات اگرچہ دنیامیں ہر نبی کو ملتے چلے آئے ہیں مگر عظمت اور شان کے ساتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ

Page 70

معجزہ ملا ہے.اس کی دنیاکے اور کسی نبی میںنظیر نہیں مل سکتی باقی انبیا ء کے معجزات تو اب ایک قصہ ءماضی کی شکل اختیار کرچکے ہیں جن کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیںکیا جاسکتا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علمی نشان بخشا گیا ہے جو قیامت تک زندہ رہنے والا اور ہر زمانہ میںدشمنوںپر حجت تمام کرنے والا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی پاک کتاب عطا فرمائی جس کے متعلق رہتی دنیاتک یہ ایک کھلاچیلنج موجود ہے کہ اگر تم میں ہمت ہے تو آئو اور اس کتاب کی نظیر تیار کردو اگر اور نہیں تو اس کی ایک سورت میںہی جس قدر علوم اور معارف اور پیش گوئیاں اور تزکیہ نفس کے ذرائع بیان کئے گئے ہیں اسی قدر حقائق اور معارف جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو مگر تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا دنیااس چیلنج کو قبول نہیں کرسکی اور قیامت تک وہ اسی طرح اس چیلنج کو قبول کرنے سے گریز کرتی رہے گی اور اس طرح پر عقلمند انسان یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کامقابلہ کرنا ناممکن امر ہے.وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ اور( یاد کر) نوح کو جب اس نے اس (یعنی ابراہیم کے واقعہ ) سے پہلے (ہم کو )پکارا او ر ہم نے اس کی دعاسنی پس ہم مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِۚ۰۰۷۷وَ نَصَرْنٰهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ نے اس کو بھی اور اس کے اہل کو بھی ایک بڑی گھبراہٹ سے نجات دی.اور ہم نے اس کی اس قوم کے مقابلہ میں مدد کی كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰهُمْ۠ اَجْمَعِيْنَ۰۰۷۸ جس نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا.وہ بہت بری قوم تھی.پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا.حلّ لُغَات.اَلْکَرْبُ.اَلْکَرْبُ کے معنے ہیں اَ لْحُزْنُ وَالْغَمُّ یَأْخُذُ بِالنَّفْسِ.غم واندوہ جو انسان کو لاحق ہو جاتا ہے.(اقرب) تفسیر.اس جگہ حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے جنہوںنے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور خدا نے اسے قبول کر لیا اس ذکر سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذکر کو آدم ؑ تک پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ نوح ؑآدم ؑکا پوتا تھا اور وہ پہلا نبی تھا جس پر شریعت کا نزول ہوا چنانچہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نوح ؑ کے متعلق فرمایا ہے کہ اَوَّلُ نَبِیٍّ شُرِعَتْ عَلٰی لِسَانِہٖ الشَّرَائِعُ کہ نوح ؑ پہلانبی تھا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل

Page 71

ہوئی.اس مضمون کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ اِنَّاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ كَمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ (النساء:۱۶۴) یعنی اے محمد ؐرسول اللہ !ہم نے تیری طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف وحی کی تھی گویا قرا ٓن کریم کے رو سے عقائد کے متعلق پہلی وحی حضر ت نوح علیہ السلام کو ہوئی کیونکہ ا س زمانہ میںایک طرف تو انسانی دماغ کا ارتقاء اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اس نے صفات الٰہیہ کا ادراک کرنا شروع کردیا تھااور دوسری طرف انسانوں میں وہ گنا ہ پید اہونے لگ گئے تھے جو تمدن کا ایک لازمی نتیجہ ہوتے ہیں پس خرابیوں کی اصلاح اور مزید روحانی ترقیات کادروازہ کھو لنے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام کو پہلا شارع نبی بنا کر بھیجا گیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت کے پیرؤں میںسے ہی تھے.چنانچہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ (الصافات:۸۴)یعنی ابراہیم ؑ بھی نوح ؑ کے گروہ میں سے تھا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے زمانہ کے نوح تھے اور نوح ؑوالا پیغام آپ کی وحی میں بھی شامل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں نوح ؑ کا ذکر کرکے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر شریعت لعنت ہے تو پھر نوح ؑ کابھی انکار کرو جس کے ذریعہ نسل انسانی کے لئے شریعت کاآغاز ہو ا.اور جس کے پیرؤں میںابراہیم جیسا جلیل القدر نبی بھی شامل تھااور اگر شریعت لعنت نہیں بلکہ ہمیشہ شریعت کاانکار کرنے والے سزا یاب ہوتے رہے ہیں جس طرح نوح ؑ کے زمانہ میں وہی لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے نوح ؑکی بات ماننے سے انکار کردیاتھا.اور وہی لوگ کامیاب ہوئے جو آپ کی ہدایت پرچلے تو اب بھی یاد رکھو کہ کامیابی انہی کو حاصل ہوگی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لارہے ہیں اور آپ کے مخالفوں کو سوائے ناکامی و نامرادی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا.وَ دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ اور( یاد کر )دائود کو بھی اور سلیمان کو بھی جبکہ وہ دونوں ایک کھیتی کے جھگڑے میںفیصلہ کررہے تھے فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَۗۙ۰۰۷۹ اس وقت جبکہ ایک قوم کے عامی لوگ اس کو کھا گئے تھے (یعنی تباہ کر گئے تھے) اور ہم ان کے فیصلہ کے گواہ تھے.

Page 72

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ٞ وَّ سَخَّرْنَا ہم نے اصل معاملہ سلیمان کو سمجھادیا اور سب کو ہی ہم نے حکم اور علم عطافرمایاتھا.مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَ الطَّيْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِيْنَ۰۰۸۰ اور ہم نے دائود کے ساتھ اہل جبال کو بھی اور پرندوں کو بھی کام پرلگادیا تھا وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ وہ سب خدا کی تسبیح کرتے تھے اورہم یہ سب کچھ کرنے پرقادر تھے.فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ۰۰۸۱وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً اور ہم نے اس کو ایک لباس کا بنانا سکھایا تھا.تاکہ وہ تمہاری جان لڑائی میںبچائے.تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا١ؕ وَ كُنَّا بِكُلِّ پس کیا تم شکر گذار بنوگے ؟اور ہم نے سلیمان کے لئے تیز ہوا کو بھی مسخر کر چھوڑاتھا جو اس کے حکم شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ۰۰۸۲ کے مطابق چلتی تھی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم سب کچھ جانتے ہیں.حلّ لُغَات.نَفَشَتْ.نَفَشَتْ نَفَشَ سے مؤنث کاصیغہ ہے اور نَفَشَتِ الْاِبِلُ وَ الْغَنَمُ کے معنے ہیں رَعَتْ لَیْلًا بِلَارَاعٍ رات کے وقت اونٹ یابکریاں کھیتی کو چرگئیں جبکہ کوئی گڈریا یانگہبان شخص ان کو روکنے والا نہ تھا.(اقرب) اَلْجِبَالُ.اَلْجِبَالُ اَلْجَبَلُکی جمع ہے اور اَلْجَبَلُ کے معنے ہیںپہاڑ.نیز اس کے معنے ہیں سَیِّدُ الْقَوْمِ وَعَالِمُھُمْقوم کاسردار اورعالم.(اقرب) عَاصِفَۃً.عَاصِفَۃً عَصَفَ سے اسم فاعل مؤنث کاصیغہ ہے اور عَصَفَ الرِّیْحُ عَصْفًاکے معنے ہیں اِشْتَدَّتْ ہوا سخت تیز چلی (اقرب) پس عَاصِفَۃً کے معنے ہوںگے تیز چلنے والی.

Page 73

تفسیر.پھر فرماتا ہے کہ دائودؑ اور سلیمان ؑ کو یاد کرو جبکہ وہ ایک کھیتی کے بارہ میں فیصلہ کر رہے تھے جبکہ اس کھیتی میں قوم کی بکریاں داخل ہوکر کھیتی کھا گئی تھیں.مفسرین کہتے ہیں کہ کسی کی کھیتی بکریاں چرگئی تھیں.حضرت دائود ؑ نے بکریاں کھیتی والے کو دلا دیں.حضرت سلیمان ؑ نے کہاکہ نہیںبکریوں والاپانی دے اور کھیتی ہری کرے اور جب کھیتی پہلے جیسی ہو جائے تو اپنی بکریاں واپس لے لے(درمنثور زیر آیت ھذا).اس فیصلہ میںاگر یہ واقعہ اسی طرح ہوا ہو تو کوئی خاص بات نہیںکہ جسے قرآن کریم میں اس جگہ بیان کیاجائے.میرے نزدیک اس آیت میںیہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی نبی کی قوم عزت پاتی ہے تو دائود ؑ اور سلیمان ؑ کے زمانہ کی طرح ان کی قوم کے حریص لوگ نظام میںتفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور چارپایہ مزاج لوگ دین کی کھیتی کو چرنے لگ جاتے ہیں.فرماتا ہے اس کا علاج ہم نے سلیمان ؑ کو سکھا دیا تھا.جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کی ہمسایہ قومیںجو چھاپے مار کر ان کی حکومت کو برباد کرنا چاہتی تھیں ان کے حملوں سے اس نے اپنی مملکت کو بچالیا اور نظام کی حفاظت کی.بے شک سلیمان ؑاور دائود ؑدونوں کو بادشاہت بھی ملی تھی اور علم بھی ملاتھا مگر اس بارہ میں سلیمان ؑ کا طریق ٹھیک تھا اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ جنگی آدمی تھے اور انہوں نے ظالموں اور مفسدوں کو بڑی سخت سزائیں دی تھیں.بلکہ بعض جگہ ان کے دوتہائی مرد قتل کردیئے تھے.حضر ت سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فہم عطافرمایا کہ اب ہمسایوں سے نرمی کرو تو ان کی عداوت کم ہو جائےگی.چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے زیادہ تر معاہدات سے کام لیا اور اس طرح تمام ہمسایوں سے اپنی مملکت کو بچالیا مگر اس کے علاوہ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ میںایک اور حکمت بھی مدنظر رکھی گئی ہے.اور وہ یہ کہ اسرائیلی مصنفوںبلکہ یورپ کے مصنفوں کا بھی خیال ہے کہ حضرت دائود ؑ کی پالیسی اعلیٰ تھی اور حضرت سلیمان ؑکاطریق عمل ناقص تھا.اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے سلیمان ؑ کو اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا خوب سکھایا تھا(The Dictionary of Bible p.829).اور چونکہ اس سے شبہ پیدا ہوتا تھا کہ پھرکیا دائود ؑکو نہیںسکھایا تھا؟ اس لئے اگلے حصہ میں وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا کہہ کر اس کا بھی ازالہ کردیا اور بتادیاکہ حضرت سلیمان ؑکو سکھانے سے یہ مراد نہیں کہ حضرت دائود ؑ کا طریق عمل غلط تھا بلکہ اس سے سلیمانؑ پرعائد کردہ ایک الزام کاازالہ مقصود ہے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ دائود ؑ کے ساتھ بھی بڑے بڑے لوگ شامل تھے جو اس کے ساتھ مل کر خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے یعنی روحانی لوگ بھی اس کے گرد جمع ہو گئے تھے جن

Page 74

کی پرواز اور نظریں آسمان پر ہوتی ہیں.ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَ الطَّيْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِيْنَ یعنی ہم نے داود ؑ کے لئے پہاڑ وں کو مسخر کر دیا تھا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی مسخر کردیئے تھے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اسی مضمون سے ملتاجلتا مضمون بعض دوسری سورتوں میںبھی بیان ہوا ہے.چنانچہ سورہ سبا رکوع ۲ میں بھی آتاہے.وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا١ؕ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَ الطَّيْرَ١ۚ وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ.اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (سبا :۱۱.۱۲)یعنی ہم نے دائود پر بڑافضل کیا اور ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حکم دے دیا کہ اس کے ساتھ رہیں اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کردیا اور اسے کہا کہ اس لوہے سے زرہیں بنائو اور نیک اعمال کرو.میںتمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں.اسی طرح سورئہ نمل میں آتاہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ.وَ وَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَ اُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ.وَ حُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ (النمل:۱۶ تا ۱۸)یعنی حضرت سلیمان ؑ دائودؑ کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ خدا تعالیٰ کا بہت بڑافضل ہے اور سلیمان کے لئے لشکر جمع کئے گئے.وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی تھے اور پرندوں کے بھی تھے.پھر سورئہ ص رکوع ۲ میںآتاہے وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ١ۚ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ.اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ.وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً١ؕ كُلٌّ لَّهٗۤ اَوَّابٌ (ص:۱۸ تا ۲۰)یعنی ہمارے بندے دائودؑ کو بھی یادکرو.جو بڑی طاقت والا تھا.وہ ہماری درگاہ میںبات بات پر جھکتا تھا ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تھے جو صبح وشام تسبیح کرتے تھے.اسی طرح پرندے بھی اس کی خاطر اکٹھے کردیئے تھے اور یہ سب کے سب اس کے کامل مطیع اور فرمانبردار تھے.ان آیا ت کی بنا پر مفسرین لکھتے ہیںکہ حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میںپہاڑ بھی تھے جنّ بھی تھے.پرندے بھی تھے اوروہ سب مل کر حضر ت دائودعلیہ السلام کے ساتھ ذکر الٰہی کرتے تھے جب وہ کہتے سبحان اللہ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جن بھی اور حیوانات بھی سب سبحان اللہ کہنے لگ جاتے.جیسے کشمیری

Page 75

واعظوں کادستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد خود سستانے کے لئے کہہ دیتے ہیں ’’پڑھو درود ‘‘ وہ بھی گویااسی طرح کرتے تھے جب خود ذکر الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ کرتسبیح اوروہ تسبیح کرنے لگ جاتا.پھر جب انہیںآرام آجاتا تو کہتے چپ کرجائو اب میںتسبیح کرتاہوں بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کاسبحان اللہ کہناکون سی بڑی بات تھی وہ باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے جب حضر ت دائود ؑ سجدہ میںجاتے تو سارے پہاڑ اور پرند چرند بھی سجد ہ میںچلے جاتے.اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے.بعض کہتے ہیں اس تاویل سے بھی مزہ نہیں آیا.اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے.حضرت دائود ؑ تھے شام میں اور یہ ہمالیہ.شوالک اور ایلپس سب آپ کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے تھے اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے.ان دنوں چڑیاں چوں چوں نہیں کرتی تھیں.بکریاں میں میں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سبحان اللہ سبحان للہ کہا کرتے تھے کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا.کیونکہ تفسیروں میںاسی طرح لکھا ہے غرض وہ عجیب زمانہ تھا اسی طرح سلیمان ؑ پرخدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جنّ ان کے حوالے کردئیے جو ان کے اشارے پر کام کرتے تھے جب وہ چلتے تو پرندے ان کے سر پر اپنے پر پھیلا کر سایہ کردیتے.وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ نعوذ باللہ حضرت دائود ؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کوگھر میں بند کرجاتے.ایک دفعہ گھر میںآئے تو دیکھا ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے.وہ اسے دیکھ کر سخت خفاء ہوئے اور کہنے لگے تجھے شرم نہیںآتی کہ اندر آگیا ہے پھر اس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آگیا.وہ کہنے لگا میں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے اس نے کہا ہاں اور اس نے آپ کی جان نکال لی.حضرت دائود علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوںنے آپ پر پروں سے سایہ کیا.کہتے ہیں حضرت سلیمان ؑ تمام پرندوں کی بولی جانتے تھے.کسی نے کہا کہ جانوروںکی بولیاں جانتے تھے یانہیں تو مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے.کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمان ؑ سے کہا کہ چلیں استسقاء کی نماز پڑھائیں حضرت سلیمان ؑ نے کہا گھبراؤ نہیں بارش ہوجائے گی.کیونکہ ایک کیڑی پیٹھ کے بل کھڑے ہوکر کہہ رہی تھی کہ خدایا اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی.(تفسیرابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ صفحہ ۲۰۴تا ۲۱۰و قرطبی زیر آیت ھذا) یہ وہ واقعات ہیںجو استعارے اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسرین کو گھڑنے پڑے ہیں حالانکہ بات بالکل

Page 76

صاف تھی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا جو تسبیح کرتے تھے اب ہم دیکھتے ہیںکہ کیاایسے قصوں کی ضرورت ہے.حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيْهِ بِاَمْرِهٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠(الجاثیۃ:۱۳،۱۴) فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو اور اے کافرو اور اے منافقو !ہم نے تم میںسے ہرایک کے لئے سمندر مسخر کردئیے ہیں جس میں کشتیاں اس کے حکم سے چلتی ہیں تاکہ تم خدا کا فضل تلاش کرو اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میںجو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے او راس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے نشانات ہیںاب اس آیت سے حضرت دائود علیہ السلام والی آیت بالکل حل ہوجاتی ہے.کیونکہ اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین وآسمان میںجس قدر چیزیں ہیںخواہ دریاہیں یاپہاڑ سب انسان کے لئے مسخر ہیں اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہو ںمگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائودؑ کے ساتھ پہاڑ کاپہاڑ چلنے لگ جائے اگر دائودؑ کے ساتھ واقعات ہوئے ہیںتو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیاکہ حضرت دائود ؑ کے ساتھ بھی ایسانہیں ہوتا تھا.اب رہا سوال تسبیح کا کوئی کہہ سکتاہے کہ قرآن میںتولکھاہے پہاڑ اور پرندے حضرت دائود ؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے.کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں ؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورئہ جمعہ میںدے دیا ہے.فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ(الجمعۃ:۲)یعنی سورج بھی تسبیح کررہا ہے چاند بھی تسبیح کررہا ہے ستارے بھی تسبیح کررہے ہیں اسی طرح مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ جو کچھ آسمانوں اور زمین میںہے سب تسبیح کررہے ہیں.درخت بھی تسبیح کررہے ہیں اس کے پتے بھی تسبیح کررہے ہیں.آم بھی تسبیح کررہا ہے.کیلا بھی تسبیح کر رہاہے.بلکہ کیلے کاچھلکا جو ہم اتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کررہا ہے.روٹی بھی تسبیح کررہی ہے تھالی بھی تسبیح کررہی ہے.جب تم چائے پیتے ہو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کررہے ہوتے ہیں.چائے بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے.مصری یا کھانڈبھی تسبیح کررہی ہوتی ہے.پیالی بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے پرچ بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے.اسی طرح مکان بھی اور چھت بھی اور دیواریں بھی اور دروازے بھی اسی طرح وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو وہ بھی بستر کی چادر اور توشک اور رضائی بھی سب سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہرچیز سبحان اللہ کہہ رہی

Page 77

ہے تو حضرت دائود ؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آجائیں تو اس کے نئے معنے بن جاتے ہیں.دیکھ لو.وہ دونوں باتیں جو حضرت دائود ؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں ہمارے لئے بھی خدا کہتاہے کہ میں نے ہرچیز مسخر کردی اور وہ یہ بھی کہتاہے کہ ہمارے زمانہ میںبھی ہر چیز تسبیح کررہی ہے.بلکہ حضر ت دائود ؑ کے لئے تو صرف یہ کہاگیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہرچیز یہ ثابت کررہی ہےکہ خدا بے عیب ہے.چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میںجو کچھ ہے وہ تسبیح کررہا ہے لیکن حضرت دائود نے چونکہ صرف جبال یعنی اہل جبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیاکی طرف مبعوث نہیںہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائود کے لئے صرف جبال نے تسبیح کی لیکن محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجدا و طھورا) زمین کاایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کررہا.اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائےگی پس یسبح للہ والے مضمون کو دائود ؑ کے مضمون میں محدود کرکے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا.اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلممَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ کے لئے تھے اور حضر دائود ؑ صرف چند اہل جبال کے لئے.باقی رہا اَوِّبِیْ مَعَہٗ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت دائود ؑکے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کاذرہ ذرہ تسبیح میںشامل ہے.کوئی کہے کہ پھرحضرت دائود کی خصوصیت کیا ہوئی تو یادرکھنا چاہیے کہ اس میںتو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ ان کے لئے مسخر تھے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ زمین و آسمان میںجو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے مسخر کردیا ہے.جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنادیتا ہے اس میںاسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائود ؑکے لئے اسی طرح مسخر تھیںجس طرح تمام بنی نوع انسان کے لئے.لیکن حضرت دائود ؑ کو ایک زائد فائدہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا.پس گو تسخیر بعینہٖ وہی ہے جوہرانسان کے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے.اب میںلغت سے بتاتاہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں.چنانچہ جَبَل کے معنے لغت میںسَیّدُ الْقَوْمِ کے لکھے ہیںپس حضرت دائود ؑکے لئے جبال مسخر کردینے کے معنے یہ تھے کہ حضرت دائود ؑیہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے

Page 78

جنہوں نے ارد گرد کے قبائل پرفتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے.حضرت دائود ؑ سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہواجس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو لیکن حضرت دائود پہلے بادشاہ تھے جن کے ارد گرد کے حکمران ان کے مطیع ہوگئے تھے اگر کوئی کہے کہ قرآن میںتو يُسَبِّحْنَ کالفظ آیا ہے تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جبال چونکہ مؤنث ہے اس لئے يُسَبِّحْنَ کالفظ آیا ہے.ورنہ اس کامطلب یہی ہے کہ وہ قومیںآپ کی مطیع ہوگئی تھیں.اور پھر اقوام کا لفظ بھی عربی میں مؤنث ہے.کیونکہ وہ جمع ہے اور جمع مؤنث ہوتی ہے.باقی رہے طیور.سو طیور کے لئے تسبیح قرآن میںآئی ہی نہیںاور اس امر کاکہیںذکر نہیں کہ وہ حضرت دائود ؑکے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے مگر لوگوں کو عربی کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا.اور وہ خیال کرنے لگے کہ جبال کے ساتھ طیور بھی تسبیح کیا کرتے تھے.حالانکہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَ الطَّيْرَ یہاں طیر پرزبر ہے اور زبر دینے والا سَخَّرَ کالفظ ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اسی طرح ہم نے طیر بھی مسخر کردیئے یہاں کوئی تسبیح کا ذکر نہیںصرف اتنے معنے کئے جاسکتے ہیں کہ انہیںپرندوں سے کام لینے کاعلم آتاتھا.جیسے کبوتروں سے خبر رسانی کاکام لیا جاتاہے.پس قرآن میں سَخَّرْ نَا الطَّیْرَہے يُسَبِّحْنَ کا فاعل الطَّیْرَ نہیں ہے.دوسری آیت یہ ہے.اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِشْرَاقِ.وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً (ص:۱۹.۲۰) یہاںبھی طَیْر کا ناصب سَخَّرَ ہے.تیسری آیت یہ ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا١ؕ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَ الطَّيْرَ (سبا:۱۱) ہم نے دائودؑ پر بڑافضل کیا.اور پہاڑوں سے کہااے پہاڑو !تم اس کے ساتھ گونج پیدا کرو اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دئیے گویا یہاںبھی اٰتَیْنَاالطَّیْرَ فرمایاگیا ہے یہ نہیںکہاگیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے.غرض طیر کا ناصب یا سَخَّرَ ہے یا أَتَی ہے.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے حضرت دائود ؑ کو طیر بھی دئیے تھے لیکن میںکہتا ہوں اس کے معنے اگر تسبیح کے بھی کرلو تو جب زمین و آسمان کی ہرچیز تسبیح کررہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کون سی عجیب بات ہوسکتی ہے مجھے ہمیشہ آجکل کے مسلمان مولویوں پرتعجب آیا کرتاہے کہ جب حضر ت دائود ؑ یاحضرت سلیمان ؑ یاحضرت عیسیٰ علیہم السلام کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنے لے لیتے ہیں لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آجائے تو اس کے اور معنے کرلیتے ہیں.حضرت دائود ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ تسبیح

Page 79

کرتے تھے تو کہتے ہیں پہاڑ واقعہ میں سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کرتے تھے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان مسخر کردئیے تو کہیں گے یہاں تشبیہ مراد ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مردوں سے روحانی مردے مراد ہیں.لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آجائیںتو جب تک وہ یہ نہ منوالیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مُردوں کے نتھنوں میںپھونک مار کر انہیں زندہ کردیا تھا اس وقت تک انہیں چین ہی نہیںآتا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیاطیر کے متعلق قرآن کریم میںکوئی اشارہ ہے یا نہیں.سوجب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ طیر کئی قسم کے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ(الانعام:۳۹)کہ زمین پر چلنے والے جانور اور پرندے سب تمہاری طرح قومیں اور گروہ ہیںاب یہاں ہم دیکھتے ہیںکہ خدا تعالیٰ نے پرندوں کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ يَطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ کہ وہ پرندے جو اپنے پروں کے ساتھ اڑتے ہیںجس سے معلوم ہوتاہے کہ ایک پرندہ ایسا بھی ہوتاہے جو پروں سے نہیںاڑتا.پھر اس سے بھی واضح آیت ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طورپرپتہ لگتاہے کہ واقعہ میں طیر کسی اور چیز کانام ہے.سورئہ نور میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّيْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (النور:۴۲) فرماتا ہے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذو ی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میںہیں.وہ طیر بھی جو صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں.اوران گروہوں میںسے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذوی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے.یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیںکہ طیرسے مراد پرندے نہیں.اول مَنْ کا لفظ ہمیشہ ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتاہے.غیر ذوی العقول کے لئے نہیں.پھریہ بھی قابل غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ میں سے صرف طیر کو کیوں نکالا.جنّات اور دوسری مخلوق کاالگ ذکر کیوں نہیںکیا.کیا اس سے صاف طورپریہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طیر کوئی الگ چیز ہے.پھرفرماتا ہےكُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نماز یںپڑھاکرتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیںکرتے بلکہ انہیںنماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نماز یں پڑھتے ہیں.آخر میںفرمایا.وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَاور یَفْعَلُوْنَ کا صیغہ پھرذوی العقول کے لئے استعمال ہوتاہے آخر تم نے کبھی ایسے طیر بھی دیکھے ہیںجو صفیںباندھ باندھ کرنمازیںپڑھتے ہوں.ایسے طیر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی

Page 80

نہیں.پس مَنْ کا استعمال كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ کا استعمال اور وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ کے الفاظ بتارہے ہیںکہ اس میںانسانوںکا ہی ذکر ہے خصوصاً وہ بلند مرتبہ انسان جو باجماعت نمازیں ادا کیاکرتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ اگر طیر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیںطیر کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو یافطرتی طاقت ہو اسے عربی میں طائر کہتے ہیں.اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتاہے.اللہ تعالیٰ سورئہ اعراف میںفرماتا ہے.فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ (الاعراف:۱۳۲) فرماتا ہے جب ان کو کوئی خوشی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ ہماراحق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ موسیٰ ؑکے بدعمل کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ان کاپرندہ خدا خدا کے پاس ہے اب وہ تو کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ کی وجہ سے عذاب آیاہے اور خداکہتاہے تمہارا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے ان دونوں کاآپس میںجوڑ کیا ہو ا اس کے لئے لغت دیکھی جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے لغت میںلکھاہے کہ طائر انسانی عمل کوبھی کہتے ہیں (اقرب) اور اس جگہ یہی معنے مراد ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے تمام اعمال ہمارے پاس محفوظ ہیں لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں.پھر فرماتا ہے.قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ(النمل:۴۸) جب ثمود کے پاس حضر ت صالح ؑ نبی آئے تو انہوںنے یہ کہنا شروع کردیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے برے عمل کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آج کل کہتے ہیںکہ حضرت مرزا صاحب کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں.فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طٰٓىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ کہ تمہارا طائرخداکے پاس ہے بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَبلکہ تم ایک ایسی قوم ہو جس کے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے پھرتین رسولوں کا سورۃیٰس میں ذکر کرکے فرماتا ہے.قَالُوْۤا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ١ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ۠ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ.قَالُوْا طَآىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ١ؕ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(یس:۱۹،۲۰) یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھارہے ہیں.اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے.انہوںنے کہا.تمہارا پرندہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے عمل تمہیں تباہ کر یں گے ہمیںتو کوئی نقصان نہیںپہنچا سکتے.ان تمام مقامات پرطائر کالفظ استعمال ہوا ہے جو قوت عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا بنتی ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور

Page 81

کرتے ہیں تو ہمیںسورئہ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جوہمیںاس مضمون کے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا.اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا.مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل:۱۴ تا ۱۶) فرماتا ہے.ہر انسان کے ساتھ ہم نے ایک پرندہ اس کی گردن کے نیچے باندھا ہواہے اور ہم قیامت کے دن اس کے اعمالنامہ کو اس کے سامنے لائیںگے اورکہیں گے اسے پڑھ ہم حساب نہیںکرتے تو اپنی نیکی بدی کا حساب کر لے جوہدایت پاتاہے وہ اپنے لئے پاتاہے اور جوگمراہ ہوتاہے اس کانقصان بھی اسی کوہوتاہے.کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا.اور ہم اس وقت تک لوگوں کوعذاب نہیںدیتے جب تک کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں.یہاں قرآن کریم نے طائر کے نہایت لطیف معنے کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے پرندہ ہے اب ہم دیکھتے ہیںکہ اس کامفہوم کیا ہے.سو جب ہمیں خدا نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیںیہ تو نظر آرہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیںہوتا.پس صاف معلوم ہو اکہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ قوت عمل یا نتیجہ اعمال کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے.پس جو بھی انسان اعمال کرتاہے ان کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے.اگر تو انسان نیک اعمال بجالائے.تو و ہ انسان کو آسمان روحانیت کی طرف اڑا کر لے جائیںگے جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمان میں اڑاکر لے جاتاہے.اور اگر برے اعمال ہوں گے تو لازماًپرندہ بھی کمزور ہوگا.اور انسان بجائے اوپراڑنے کے نیچے کی طرف گرےگا.اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ بیان کرتاہے کہ ہم نے ہرانسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے.اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اوپر اڑاکر لے جائےگا.اور اگر برے اعمال کرےگا تو وہ اسے نیچے گرادےگا.دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیںکہ کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ(بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین)کہ ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ترقی کی قابلیت رکھی ہوئی ہے.پھر ماں باپ اسے یہودی یامجوسی یا نصرانی بنادیتے ہیں.گویا ہرانسان میں اڑنے کی طاقت ہے.یہی مضمون كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو اس کاپرندہ بھی اس کے ساتھ پیدا کردیا جاتاہے.پھر بعض ماں باپ اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں.اور بعض جو بچ جاتے ہیں ان کے لئے دوسری صورت پیدا ہوجاتی ہے.یہ انسان طائر جو اچھے لوگ ہوتے ہیں عمل نیک

Page 82

کی وجہ سے ان کاطائر یعنی مادہ ترقی کرتارہتاہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطرمیںفرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ(الفاطر:۲) کہ سب تعریفیں اس اللہ کی ہیںجو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور جس نے فرشتوں کو بنایاجن کے پرہوتے ہیں دو دو تین تین اور چار چار.پھر انسانوں کی طرف آتاہے اور فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا١ؕ اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ١ؕ وَ الَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ١ؕ وَ مَكْرُ اُولٰٓىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ(الفاطر:۱۱) یعنی تمہیںیہ تومعلوم ہوگیا کہ فرشتوں کے ہم نے ترقی کے لئے کئی کئی پر بنائے ہیں مگر اے انسانو !یاد رکھو کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع ہیںبلکہ تم اگرچاہو تو فرشتوں سے بھی بڑھ سکتے ہو.یاد رکھو تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںہےاور اسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیںیعنی جن میں خدا کا کلام داخل ہو وہ ترقی کرجاتے ہیں.مگر خالی نہیں بلکہالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ اعمال صالحہ کا اسے سہارا چاہیے.گویاالْكَلِمُ الطَّيِّبُ ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلانہیں اڑ سکتابلکہ اعمال صالحہ کی مدد سے صعود کرتاہے.اور اس طرح اس کے دوپر بن جاتے ہیںجن کی وجہ سے وہ آسمان روحانیت کی طرف پرواز کرنے لگ جاتاہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دوخاصیتیں ہوتی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ اونچاجاتاہے.یعنی فضامیںاڑتاہے.دوسرے یہ کہ اس کا آشیانہ ہمیشہ اونچاہوتاہے.اور بہت شاذ ونادر ایسا ہوتاہے کہ اس کاآشیانہ اونچی جگہ نہ ہو.جو پرندے آشیانوں میںرہتے ہیں.وہ بھی درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیںاور جوبغیر آشیانے کے رہتے ہیںوہ بھی کسی درخت پربسیرا کرتے ہیںنیچے نہیںبیٹھتے.یہی دوخاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ۙ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ(المجادلۃ:۱۲) اے مومنو جب تمہیںکہا جائے کہ اٹھو تو فوراً اٹھ کھڑے ہوا کرو.اور نبی یااس کے خلیفہ کی آواز پردوڑ پڑاکرو.کیونکہ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ۙ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ کہ اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ ان لوگو ں کوجوتم میں سے مومن ہیںاونچا کردےگا.گویا اوپر اڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے متعلق بھی ذکر آگیا.دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندے اپنا آشیانہ ہمیشہ اونچا بناتے ہیں.اس کا بھی مومنوں میںپایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ١ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ.رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ (النور:۳۷.۳۸) فرماتا

Page 83

ہے یہ نور کچھ گھروں میںہے.جن گھروں کے متعلق ہمارا حکم ہے کہ انہیں اونچا کردیا جائے.وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ان گھروں میںصبح وشام تسبیحیں ہوتی ہیں.مگر فرمایا رِجَالٌ ہماری مراد آدمیوں کو اونچاکرنا ہے نہ کہ گھروں کو.گویاپرندے کی جو دو خاصیتیںتھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایاجانا بھی بیان کردیا.اور بتادیاکہ عمل صالح مومن کو اڑاکر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے.حدیثوں میں بھی آتاہے کہ جب کوئی مومن مرتاہے تو اس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اورکہتے ہیں دروازے کھول دو.ایک مومن کی روح آتی ہے.مگر جب کافر مرتاہے تواس کی روح اٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے(ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر الموت والاستعداد لہ).غرض طیر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیںجو وسعت حوصلہ اپنے اندر رکھتی ہیں اور دین کے لئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کے لئے تیار ہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہرقسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ و تیار رہتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کرایک دفعہ ایک صحابی نے کہا.یا رسول اللہ! آپ حکم دیجیئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میںڈالنے کے لئے تیار ہیںاور ذرابھی نہیں پوچھیں گے کہ حضور نے یہ حکم کیوں دیا.گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان قابلیتوں کا ذکر کیا ہے.جو مومنوں کے اندر پائی جاتی ہیںاور بتایا ہے کہ وہ سفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتا اور نیچے جھکنے کی بجائے اوپر کی طرف اڑتاہے.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت حضرت دائودعلیہ السلام پر ایمان لانے والوں کا نام طیر رکھا گیا اور بتایا گیا کہ وہ آسمان روحانی کی طرف پرواز کرنے والے لوگ تھے اور ان کے اندر خاص روحانی استعدادیںپائی جاتی تھیں.سفلی زندگی سے انہیں کوئی دور کا بھی واسطہ نہیںتھا.پھرفرماتا ہے.وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ.وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا١ؕ وَ كُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ اور ہم نے دائود کو زرہیں بنانےکافن بھی سکھایا تھا تاکہ وہ اپنی قوم کی جنگوں میںحفاظت کرے.اسی طر ح ہم نے سلیمان ؑپر یہ فضل کیاکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوائیںاس کے بیڑے کو مختلف جہات میں لے جاتی تھیں جن میںشام اور فلسطین بھی شامل تھے.انسائیکلو پیڈیا ببلیکا سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خلیج عقبہ سے مشرقی عرب کے اوپر کی طرف اپنا بیڑہ بھیجتے تھے جو سونا وغیرہ لاتاتھااور اس سے بہت فائدہ اٹھا تے تھے.

Page 84

یہ امر بھی یاد رکھناچاہیے کہ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ میں امر کی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھی اگر سلیمان علیہ السلام اس جگہ مراد ہوں تو اس سے ان کاحکم مراد نہیںہوگا بلکہ اس سے ان کاکام مراد ہوگا.وَ مِنَ الشَّيٰطِيْنِ مَنْ يَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ يَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ اور کچھ سرکش لوگ ایسے تھے جو اس کے لئے سمندروںمیں غوطے لگاتے تھے اور اس کے سوا بھی اور کام ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِيْنَۙ۰۰۸۳ کرتے تھے.اور ہم ان کے لئے نگرانی کاکام کرتے تھے.حلّ لُغَات.اَلشَّیٰطِیْن.شَطَنَ البِئْر کے معنے ہوتے ہیں کنواں بہت گہرا ہوگیا.اور شَیْطٰن کے معنے ہیں کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرَّدٍ سرکش انسان (اقرب) پس شیاطین سے مراد دور دور تک غوطہ لگانے والے لوگ ہیںجو ان کی ماتحت قوموں میںسے تھے اور کافر تھے.تفسیر.فرماتا ہے کئی قسم کے سرکش لوگ ہم نے سلیمان علیہ السلام کے ماتحت کردیئے تھے جو اس کے لئے غوطہ لگاتے تھے او رکئی قسم کے کام کرتے تھے.اور ہم اپنی تدبیر سے ان کی حفاظت کرتے رہتے تھے.ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت دائودعلیہ السلام کا ذکر کیا ہے جو اپنے زمانہ میںبڑی زبردست حکومت کرتے رہے تھے اور پھرحضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر کیا قرآنی زمانہ میں حقیقی دائود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنہوںنے اپنے دشمنوں سے عملاً جنگیں کیں اورجنگ کے سامان تیا ر کئے اور حضرت سلیمانؑ کے مشابہ اس امت میںبنو عباسؓ اور بنو امیہ کی حکومتیں تھیں جن کے عہد میں دولت و ثروت کی یہ کیفیت تھی کہ بنو عباس کے ایک خلیفہ مامون الرشید کے متعلق تاریخ میںلکھاہے کہ مامون نے ایک دفعہ مصر کے علاقہ کادورہ کیااس کاطریق تھا کہ وہ ہرگائوں میںایک رات دن ٹھہرتاتھا.جب وہ طاء النمل نامی ایک گائوں میں پہنچا تو وہاں اس نے قیام کرنا مناسب نہ سمجھا اور آگے چل پڑا.اس پر اس گائوں کی ایک معزز بڑھیا خاتون مامون الرشید کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے درخواست کی کہ آپ ہمارے گائوں میںبھی قیام فرمائیں.مامون الرشید نے اس کی درخواست کو منظور کر لیا اور وہاں قیام کیااس خاتون نے اپنی حیثیت کے مطابق مامون اور اس کے تمام ہمراہیوں کی

Page 85

دعوت کا پر تکلف سامان کیااور جب مامون روانہ ہونے لگاتو اس عورت نے اشرفیوںکی دس تھیلیاں مامون کی نذرکیں.مامون پہلے ہی ا س کی دعوت کے اہتمام سے متعجب تھا اب جو اس نے اشرفیوں کی دس تھیلیاں دیکھیں تو وہ اور بھی متعجب ہوا اور اس نے ان اشرفیوں کے قبول کرنے سے معذرت ظاہر کی وہ خاتون کہنے لگی.بادشاہ سلامت یہ تو کوئی بڑی چیز نہیں.یہ سونا تو ہمارے گائوں کی مٹی میںسے پیدا ہوتاہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ابھی بہت کچھ سونا موجود ہے جب مامون الرشید نے بات سنی تو اس نے اس ہدیہ کوخوشی سے قبول کرلیا.(اقوام المسالک فی احوال الممالک ۱۳۷بحوالہ تہذیب الاخلاق جلد ۳ صفحہ۱۴۲) وَ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ اور (تو) ایوب ؑ کو( بھی یاد کر) جب اس نے اپنے رب کو پکار کر کہا.کہ میری حالت یہ ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے.الرّٰحِمِيْنَۚۖ۰۰۸۴فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اور اے خدا! تو توسب رحم کرنےوالوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.پس ہم نے اس کی دعاسنی اور جو تکلیف اس کو اٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ پہنچی ہوئی تھی اس کو دور کردیا.اور اس کو اس کے اہل و عیال بھی دئیے اور ان کے سوا اپنی طرف سے رحم کرتے ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِيْنَ۰۰۸۵ ہوئے اور بھی دیئے.اور ہم نے اس واقعہ کو عبادت گذار وں کے لئے ایک نصیحت کاموجب بنایا ہے.حلّ لُغَات.اَلضُّرُّ.ضِدُّ النَّفْعِ نقصان.سُوْءُ الحَالِ وَ الشِّدَّةُ بدحالی اور تکلیف.(اقرب) تفسیر.ان دونوں کے بعد حضرت ایوب ؑ کا ذکرکیاگیاہے.جن کی ساری عمر مشکلات میںکٹ گئی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لحاظ سے شاید حضرت علی ؓ کو حضرت ایوب ؓ سے نسبت دی جاسکے اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لحاظ سے تو بہرحال یہ ایک پیشگوئی ہے جو وقت پر آکر ظاہر ہوگی.حضرت ایوب علیہ السلام جن کا ذکر اس جگہ پر آتاہے ان کے متعلق مختلف اقوام نے روشنی ڈالی ہے مسلمانوں نے عیسائیوں نے اور ان یہودی مؤرخوں نے جو کہ مذہب کی روشنی میںتاریخ لکھتے ہیں مسلمانوں نے جو کچھ ان

Page 86

کے متعلق لکھاہے وہ یہ ہے کہ ’’ایوب کے والد کا نام اسوؔص تھاان کے والد کانام تارؔح تھا ان کے والد کانام روم تھا ان کے والد کانام عیصؔ تھااور ان کے والد کانام اسحاق ؑ تھا اور ان کے والد کانام ابراہیم ؑتھا اور ان کی والدہ لوط بن ہاران کی اولاد میںسے تھیں.(عیصؔ نام جوغالباًایوبؑ کے پردادا کے والد کاتھاعیسو ؔکامخفف ہے کیونکہ بائیبل میں لکھا ہے کہ حضرت اسحاق ؑ کے ایک بیٹے کانام عیسو تھا) (پیدائش باب ۲۵ آیت ۲۵).پھرمسلمان مورخ یہ کہتے ہیں کہ ایوب بڑے مالدار تھے اورشام اوراس کے ملحقہ ملکوں کی زمینیں ان کی ملکیت تھیں اور گائیوںاور اونٹوں بکریوں گھوڑوں اور گدھوں کی ان کے پاس کوئی انتہانہ تھی ان کے پانچ سو ہل چلتے تھے.اور پانچ سو غلام تھے.اہل وعیال بھی بہت تھے.مگر آپ دولت کے باوجود بڑے نیک تھے اور مساکین یتامی اور بیوگان کی پرورش کرتے تھے اور بڑے مہمان نواز تھے.شیطان اپنی کوشش کے باوجود ان کو ورغلانے میںکامیاب نہیں ہوا آپ پر یمن کے تین آدمی ایمان لائے تھے ابلیس ان کے زمانہ میں آسمانی خبروں کو چوری چوری سن لیتا تھا (یہ خبر ہمارے مفسرین ہر نبی کے متعلق دیتے ہیں )ایک دفعہ ایوب ؑ نے بڑے اخلاص سے درود پڑھا اور فرشتوں نے اس کا جواب دیاتو شیطان نے وہ بھی سن لیا.اللہ تعالیٰ نے ایوب ؑ کادرود سن کر اس کی بڑی تعریف کی اس پر ابلیس کو حسد آگیااور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میںحاضر ہوا اور اس نے کہا کہ ایوب پرجو آپ نے نعمتیںنازل کی ہیں ان کی وجہ سے وہ نیک ہے اگر آپ اس کی نعمتوں کو چھین لیں تو وہ آپ کی اطاعت سے نکل جائےگا.تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا.جامیںنے تجھے اس کے مال اوراسباب پرتصرف بخشا اور اس نے ان سب چیزوں کو ہلاک کردیا مگر ایوب ؑنے تب بھی الحمدللہ ہی کہا تب شیطان دوبارہ اللہ تعالیٰ کے پاس گیا اور کہا ابھی اس کی صحت تو باقی ہے اس لئے وہ شکر گذار ہے اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا جائو اس کے جسم پر بھی تجھے تصرف دیاجاتاہے لیکن یاد رکھنا اس کی زبان دل اور عقل پر تیرا قبضہ نہ ہوگا.چنانچہ ان کے جسم میںکھجلی کی بیماری پیدا ہوگئی.اور جسم کارنگ تبدیل ہوگیا اور زخموں میںکیڑے پڑگئے تب بستی والوں نے انہیں گھر سے نکال دیااس وقت وہ ایک جھونپڑہ میں چلے گئے جہاں ان کی ایک بیوی رحمت نامی ان کی خدمت گار تھی آپ پر ایمان لانے والے تینوں آدمیوں نے بھی آپ کوچھوڑدیا بعض کے قول کے مطابق حضرت ایوبؑ اس مصیبت میں ۱۸ سال رہے اوربعض کے قول کے مطابق ۳ سال رہے اور بعض کے قول کے مطابق سات سال رہے اس وقت کوئی ان کے قریب تک نہ آتا تھا سوائے ان کی بیوی کے جو ان کوکھانا لاکر دیتی تھی.جب حضرت ایوب خدا تعالیٰ کی حمد کرتے تو وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہوتی.تب شیطان گھبرایااور اس نے کہاکہ آدم ؑ کی بیوی کو بھی پھسلایا گیاتھاکیوں نہ ایوب ؑکی بیوی کو بھی پھسلایاجائے تب وہ ان کی بیوی کے پاس آیا اور اس نے ایک بکری کا

Page 87

بچہ دے کر کہا کہ اگر ایوبؑ تیرے نام پراس کو ذبح کردیں تو اچھے ہوجائیں گے.بیوی نے حضرت ایوب ؑ سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے اس کو ڈانٹا اور کہا یہ تو خدا کادشمن ہے تم کیوں اس کے فریب میںآئیں.خدا تعالیٰ نے اتنی لمبی مدت تک نعمتیںدی تھیں اگر چند سال مشکلات کے آگئے تو کیا ہو اپھر قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے شفا ء دی تو وہ بیوی کو اس کی غلطی پر سوکوڑے لگائیںگے اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور کہا کہ میںاللہ کے سوا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنے کے لئے تیار نہیں.پھر آپ نے دعا کی کہ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے ایوب! میںنے تیری دعاسن لی اُٹھ اورزمین پر پائوں مار تو چشمہ پھوٹ پڑا آپ نے اس سے غسل کیاتو ساری بیماری جاتی رہی اورجوانی کا زمانہ عود کرآیا آپ نے ایک دفعہ پھرپائوں مارا تو ایک اور چشمہ پھوٹ پڑ ااس سے آپ نے پانی پیا تو سب اندرونی بیماریاں جاتی رہیں.اس وقت ان کی بیوی کو خیال آیاکہ گو ایوبؑ نے مجھے میری غلطی پر نکال دیا مگر وہ بھوکے مر جائیں گے.وہ ان کو ڈھونڈتی ہوئی آئی مگر ان کو اپنی جگہ پر نہ پایا.وہ روتے روتے سب جگہ ان کو ڈھونڈنے لگی آخر وہ ان کومل گئے اور حضر ت ایوب ؑ نے اس طرح قسم پوری کی کہ سو تیلیاں اکٹھی لے کر ان کو ماریں.(تفسیرخازن) یہ واقعہ لوگوں کو اتنا دلچسپ نظرآیا ہے کہ ہندوؤں کی تاریخ میں بھی پایا جاتاہے اور یہودیوں کی تاریخ میں بھی گوبعض جگہ نام بدل دیئے گئے ہیںبائیبل میں حضرت ایوبؑ کی ایک مستقل کتاب ہے جس کے ۴۲باب ہیں اور اس کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ وہ حضرت مسیح سے ۱۵۲۰ سال پہلے گذرے ہیں یعنی حضرت موسیٰ سے قریباً ۲۰۰ سال پہلے.مغربی محققین کے نزدیک حضرت ایوب ؑایک غیراسرائیلی نبی تھے.کیونکہ وہ عیسو کی نسل میںسے تھے جو کہ اسرائیل کابڑا بھائی تھا اور عوض کے رہنے والے تھے جو دور آخر کے SIDON کا شہر تھااور شام اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع تھا.(جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ JOB اور انسائیکلو پیڈ آف اسلام ) مگر میرے نزدیک یہ بات درست نہیںکیونکہ اس ملک کے لوگوں کی بنی اسرائیل سے سخت عداوت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنے علاقہ میںسے گذر کر کنعان نہ جانے دیا تھا اور اس عداوت کے سبب سے بنی اسرائیل ہمیشہ ان سے جنگ کرتے رہتے تھے اور صرف ایک قلیل عرصہ کے لئے اسیرین لوگوں کے حملوں کے مقابلہ میں ان دونوں قوموں کی آپس میں صلح ہوئی تھی.ایسے دشمن قبیلہ کے بزرگ کاواقعہ سب دنیاکے واقعات کو چھوڑ کربائیبل میں درج کرنا خلاف قیاس ہے.

Page 88

محققین اس امر پر متفق ہیںکہ ایوبؑ کی کتاب میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ نویں سے چوتھی صدی قبل مسیح کی زبان ہے اور اس زمانہ میںیہودی بخت النصر کے ہاتھوں قید ہو کر ہند کے قریب کے علاقوں میں پھیلائے جاچکے تھے ادھر ہندوؤں میںایک واقعہ ہریش چندر کے نام سے مشہور ہے جو اس واقعہ سے بہت کچھ ملتاجلتاہے پس کچھ تعجب نہیںکہ یہ وہیں سے لیاگیا ہو اس کاثبوت خود ایوب کی کتاب سے بھی ملتا ہے کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ شیطان خداکے دربارمیں حاضر ہوا.اب یہ خیال کہ شیطان خد اکے دربار میںجاتاہے یہود اور ان کے اردگرد کی اقوام کانہیں بلکہ خالص ہندوستانی خیال ہے جو بری اور اچھی روحوں کو خدا تعالیٰ کے دربار میںحاضر کرتے ہیں اوران کی آپس میںخوب باتیں ہوتی رہتی ہیں.بہرحال پرانے عہد نامہ میںکتاب ایوب باب ۱ میںلکھا ہے کہ عُوض کی سرزمین میں ایک شخص ایوب نامی تھا وہ شخص نہایت نیک اور متقی تھا اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیںاس کے پاس ۷۰۰۰بھیڑیں، ۳۰۰۰ اونٹ، ۵۰۰ جوڑے بیل اور ۵۰۰ گدھیاں تھیںاس کے نوکرچاکر بہت تھے اور اس کے برابر مشرق میں کوئی مالدار نہ تھا اس کے بیٹے بڑے مالدار تھے.ایوب کے بیٹے جب جوان ہوئے توان کی طرف سے قربانیاں کیںتاکہ اگر ان کاکوئی گناہ ہو تو معاف ہوجائے.ایک د ن خداکے حضور میںفرشتے پیش ہوئے اور ان میں شیطان بھی شامل ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو او رکیامیرے بندے ایوب کو دیکھاہے اس نے کہا ادھر ادھر سے پھر کے آیا ہوں اور ایوب کومیں نے دیکھا.کہ خداترسی کرتاہے مگر مفت میں نہیں بلکہ اس لئے کہ تونے اس پر بڑی نعمتیں نازل کی ہیں تو ذرااس کی نعمتیں لے لے پھردیکھ کہ وہ تجھ پر ملامت کرتا ہے یا نہیں.اس پر خدا تعالیٰ نے کہاکہ اس کے مال کو جس طرح چاہے تباہ کردے مگر اس کے جسم پر ہاتھ نہ بڑھائیو.اس کے بعد ایسا ہوا کہ دشمنوںنے اس کے نوکروں پر حملہ کردیا اور ان کو قتل کردیا.اسی طرح آسمان سے بجلی گری اور اس نے ان کے نوکر چاکر اور مال و اسباب کو جلادیا پھرکسی نے اطلاع دی کہ ان کے بیٹوںکو غلام بنا کر دشمن لے گئے ہیں اس پرایوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور رونے لگااور سجدہ کیا اور کہا کہ میںجس طرح ماں کے پیٹ سے ننگا آیا اسی طرح ننگا ہی جائوںگا.مگر ان سب مصائب کے باوجود ایوب نے خدا پر الزام نہ لگایا(باب ۲) اس کے بعد پھر ایک دن فرشتوں میںمل کر شیطان خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو ااو ر خدا تعالیٰ کے پوچھنے پر کہ تونے ایوب کا حال دیکھاکہ وہ کیساشکر گذار ہے شیطان نے کہا انسان اپنے جسم کے لئے بھی سب مال قربان کردیتاہے.تو اس کے جسم اور ہڈی کو نقصان پہنچاپھردیکھ اس کا شکر کہاں باقی رہتا ہے.خدا تعالیٰ نے شیطان کو کہاکہ بے شک اس کی جسمانی

Page 89

صحت کو نقصان پہنچا دے مگر اس کی جان نہ جائے تب شیطان نے اس کی جلد میں ایک بیماری پیدا کردی اور سرسے لے کر تلووں تک پھوڑے نکل آئے تب اس کی بیوی نے کہا اب یہ شکر گذاری چھوڑ خدا کو ملامت کر اور مرجا ایوب نے بات نہ مانی اور کہا یہ کس طر ح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کی نعمتیںلیںاور دیں کچھ نہ.تب اس کے تینوں مرید دور دور کے علاقوں سے آئے اور اس کی حالت زار دیکھ کر رونے لگ گئے (باب ۳)تب ایوب نے یہ دیکھ کر کہ اس کو بدی کی طرف پھرانے کی کوشش کی جارہی ہے اپنی پیدائش پر لعنت کی (باب۴) اس پر اس کے ایک مرید نے اس کو کہاکہ عذاب تو خداکے دشمنوں پر آیا کرتاہے.نیکوں پر نہیںاس لئے ضرور تیرے اندر کوئی بدی ہے (باب ۵) تب ایوب نے کہا سزا بدی کی وجہ سے ملتی ہے.سزاکے وقت انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو خدا پر چھوڑدے (باب ۶) تب ایوب دعاکرتاہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پرموت نازل کرے تو بہتر ہے (باب۷) بعد میںایوب پچھتا تاہے.اور اس پر عذر کرتاہے کہ میںنے کیوں موت کی تمنا کی (باب۸) ان کا ایک مرید بلددنامی بتاتاہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ نافرمانوں کو سزا دیتاہے (باب ۹) پھرلکھاہے ایوب نے اپنے معترضین کوجواب دیا کہ میں نہ اپنے آپ کو نیک کہتا ہوں اورنہ یہ کہتاہو ں کہ خداعادل نہیں.خدا عادل ضرور ہے مگر موت اور ہلاکت تو ہر ایک پر آرہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب وہ بے گناہ کو سزادے رہا ہوتاہے تو وہ اس کاامتحان کر رہا ہوتاہے.پھر اس نے کہا کہ زمین پر شریر حاکم ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میری عمر تیز تیز گذر رہی ہے میرا یہ کہنا کہ میںپوری طرح صبر کروں گا بے فائدہ ہے.کیونکہ تم لوگ تو پھر بھی مجھے گناہ گار قرار دو گے.کیونکہ تمہار ا یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ صر ف شریر کو سزا دیتاہے اور میرا یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بے گناہ کو بھی تکلیف میں ڈالتاہے کہ آزمائش کرے (باب ۱۰) آخر میںایوب کا قصہ بائیبل نے اس طرح ختم کیا ہے کہ اس کے شاگرد جو اس سے کج بحثی کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کوا لہام کیا کہ بیل اور بکرے ایوب کے پاس لائو اور اپنے گناہوں کی معافی کے لئے اس سے سوختنی قربانی کروائو اس کے بعد لکھا ہے کہ اس کے دوست بچے بیویاں سب واپس آگئے.دولت اس کی دوگنی ہوگئی اور بڑی لمبی عمر تک زندہ رہا.جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے ایوب سے ملتا جلتا قصہ ہندوستان میںبھی پایا جاتاہے.ہندوؤں میں اس شخص کانام جس کے ساتھ یہ واقعہ گذرا ہریش چندر لکھا ہے واقعہ قریباً ایوب جیسا ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی لکھا ہے کہ دیوتائوں کے ساتھ شیطان مل کر خدا کے پاس گیا اور اس سے ہریش چندر کی تعریف سن کر خدا سے اجازت لی کہ میں اس کا مال تباہ کردوں مگر ہریش چندر اپنے سچ اور دیانت پر قائم رہا کئی تجربے ہوئے مگر وہ نہ پھسلابائیبل میںاشارہ ملتاہے کہ ایوب کاواقعہ ہندوستان سے آیا ہے اور ایوب غالباً اس کے نام کاترجمہ ہے یا استعارۃً رکھا گیا ہے وہ اشارہ

Page 90

جو ہریش چندر کے متعلق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بائیبل میں لکھاہے کہ وہ اتنا مالدار تھا کہ اہل مشرق میں ویسا کوئی مالدار نہ تھا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ مشرق یعنی ہندوستان سے آیا تھا اوربائیبل نے اس قصہ کو اپنے اندر درج کرلیا ہم نے اوپر مفسرین کی روایتیں بھی دے دی ہیں اوربائیبل کی بھی ان دونوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے یہودیوں سے یہ روایتیں نقل کی ہیں کیونکہ بہت سی باتوں میںیہ روایتیںبائیبل کے قصے سے ملتی ہیں اور بعض میں مختلف بھی ہیں یہ اتفاق اور اختلاف بتاتا ہے کہ ذریعہ معلومات تو ایک ہی ہے مگر پور اقابل اعتبار نہیں قرآن کریم جو ان سب لغویات سے پاک ہے اس نے اس قصہ کی فضولیا ت کو حذف کردیا ہے اور جو واقعات اس نے بیان کئے ہیں ان سے صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایوب بڑامالدار تھا او ر اس کابڑا خاندان تھا وہ ایک مشرک ملک میںرہتا تھا جس کابادشاہ ظالم تھا.ظالم ملک کے متعلق یہ آیت شہادت دیتی ہے کہ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ (ص:۴۲) یعنی ایوب ؑ نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو تھکان اور تکلیف پہنچائی ہے شیطان کے معنے عربی زبان میں سرکش کے ہوتے ہیں(اقرب) پس اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سرکش بادشاہ مجھے تکلیفیں دیتا ہے اور تھکان اور عذاب پہنچارہا ہے یعنی اس کے ظلم کی وجہ سے مجھے ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑتا ہے اور میرے مال اور خاندان کو وہ نقصان پہنچاتاہے اور اس طرح مجھے دکھ دیتا ہے.یہ جو ہم نے لکھا ہے کہ وہ بادشاہ کے ظلم سے مجبور تھے کہ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں اس کاثبوت یہ آیت ہے کہ اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ(ص:۴۳) اور یہ آیت بھی کہ خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ (ص:۴۵) یعنی اپنی سواری کو ایڑی مار اور ساتھ ہی سواری کو درخت کی ایک ٹہنی سے بھی مارتا جا تاکہ تیرا سفر جلدی طے ہو جب تو ایسا کرےگا تو سامنے تجھے ایک چشمہ نظر آئےگا جس میں نہانے کا بھی سامان موجود ہوگااور پیاس بجھانے کا بھی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ایوبؑ کسی پہاڑی علاقہ میں رہتے تھے جن لوگوں نے کشمیر دیکھا ہے وہ اس کو خوب سمجھ سکتے ہیں کشمیر کے لوگ جب گھوڑے پر سوار ہوکر پہاڑی سے اترتے ہیں تو بے تحاشا دونوں ایڑیاں گھوڑوں کو مارتے جاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے درخت کی شاخ بھی مارتے جاتے ہیں تاکہ سفر جلدی طے ہو اور ٹھنڈے چشمے بھی عام طور پر پہاڑوں پر پائے جاتے ہیں.پس قرآنی روایت کے مطابق اتنا ہی پتہ لگتا ہے کہ ایک ظالم بادشاہ کی تعذیب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت ایوبؑ نے اپنے ملک سے ہجرت کی جو علاقہ پہاڑی بھی تھا اور چشموں والا بھی تھا اور ایڑیاں انہوںنے گھوڑے کو ماری تھیں نہ کہ زمین پر مار کر چشمہ پھوڑا تھا اور درخت کی مو ٹی شاخ جس کے آگے کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں لگی ہوئی تھیں سواری کو اس کے دوڑانے کے لئے مار رہے تھے.نہ یہ کہ

Page 91

ان کی بیوی نے ان کو شرک کی تعلیم دی تھی اور انہو ں نے قسم کھائی تھی کہ میںاسے سو کوڑے ماروںگا اور پھر قسم سے بچنے کے لئے یہ بہانہ بنایا کہ سو تیلیوں کا ایک جھاڑو پکڑ کر بیوی کو مار دیا.یہ دھو کا مفسرین نے صرف حنث کے لفظ سے کھایا ہے جس کے معنے ہوتے ہیں قسم توڑنا اور توجیہہ یہ کی ہے کہ سو تیلیاں بیوی کو مار دے اور قسم نہ توڑ حالانکہ قرآن میںنہ سو کوڑوں کا ذکر ہے اور نہ سو تیلیاں مارنے کا ذکر ہے.ضِغْثٌکے معنے صرف ایسی شاخ کے ہوتے ہیںجس میںکچھ خشک تیلیاں بھی ہوں اور کچھ سبز بھی اور ایسی ہی شاخ گھوڑوں کے مارنے کے لئے لوگ مہیا کرتے ہیںتاکہ سبزی کی وجہ سے وہ لچکدار ہو اور خشکی کی وجہ سے چمڑے میں چبھے حِنْثٌ کے معنے عربی میں مَالَ اِلی الْبَاطِلِ کے بھی ہیں پس بجائے اس دوراز عقل قصہ بنانے کے مفسرین کو چاہیے تھا کہ اس کے یہ معنے کرتے کہ ایک مشرک بادشاہ کی بادشاہت سے نکل جانےکاحکم حضرت ایوبؑ کو تھا اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ گھوڑے پر چڑھ ایڑیاں بھی مار اور درخت کی شاخ بھی مار اور جلدی جلدی اس ملک سے نکل جا تاکہ جلدی سے تو مشرکوں سے دور ہوجائے اور اس ملک سے نکلنے میںدیر نہ لگا اور شرک کرنےوالوں کی طرف مائل نہ ہو یعنی مشرکوں میںنہ رہ حِنْثٌ کے معنے جو مَالَ اِلی الْبَاطِلِ کے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ دل سے باطل کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اس جگہ جسمانی میلان بھی مراد ہو سکتاہے جو ہمسائیگت پر دلالت کرتاہے اور اس طرف اس جگہ اشارہ ہے فرماتا ہے کہ جلدی جلدی شرک کے علاقہ سے نکل جا گھوڑے کی سواری کی تھکان کی پرواہ نہ کر بادشاہ کے ظلم کی تھکان کا تو کوئی علاج نہیں تھا.گھوڑ ے کی سواری کی تھکان کا علاج موجود ہے سامنے چشمہ ہے اس میںنہا اور اس سے پانی پی اور اس ملک کو چھوڑدینے پر افسو س نہ کر ہم تیرے تمام رشتہ داروں کو وہاں پہنچا دیںگے بلکہ ان جیسے اور بھی دیںگے یعنی اس ملک میںبھی تیرے خیرخواہ پید اہوجائیں گے اس بات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ایوب ؑ سے مشابہت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھاگ کر شرک کا علاقہ چھوڑنا پڑاجہاں پانی نہیں ہوتا تھا.او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکہ میں چھوڑی ہوئی بیو یوں کو بھی مدینہ پہنچا دیا اور ویسی ہی پاکباز اور نیک بیویاں مدینہ میںاو ربھی دیں.یہی حضرت ایوب ؑ سے وعدہ تھا کہ اے ایوب! مشرک بادشاہ کی حکومت کو چھوڑ دے اور دوسرے علاقہ میں نکل جاوہاں ہم تیری تکلیفوں کو دور کردیںگے اور تیرے رشتہ دار بھی پہنچادیںگے بلکہ انہی جیسے اوربھی دیںگے اور نہانے اور پینے کے لئے پانی بھی کثرت سے مہیا ہوگا.

Page 92

وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِدْرِيْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَۚۖ۰۰۸۶ اور اسماعیل ؑ کو بھی( یاد کر) اور ادریس ؑ کو بھی اور ذوالکفل ؑ کو بھی یہ سب کے سب صبر کرنے والے تھے.تفسیر.حضرت اسمعٰیل ؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے تھے.گو عیسائی کئی بہانوں سے ان کو لونڈی کا بیٹا قرار دے کر اپنے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں(پیدائش باب ۱۶ آیت ۱ تا ۵) اور حضرت ادریس ؑ کے حالات سورئہ مریم کی تفسیر میںدرج کئے جاچکے ہیں اب ہم ذوالکفل کے متعلق اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں.ذوالکفل کا ذکر نام لے کر قرآن کریم میںدو جگہ پر آتاہے.ایک تو یہی آیت ہے جس میںاسمٰعیل ؑ ادریس ؑ اور ذوالکفل کا اکٹھا ذکر آتا ہے اور دوسرے سورئہ ص میں اسماعیل ؑ یسعیاہؑ اور ذوالکفل کااکٹھا ذکر آتا ہے.گویا دو سورتوں یعنی انبیاء او ر ص میں ان کا ذکر آتا ہے ایک جگہ پر اسماعیل ؑ اور ادریس ؑ کے ساتھ اور دوسری جگہ پراسماعیل ؑاور یسعیا ہ ؑ کے ساتھ.اسلامی مفسرین نے ذوالکفل ؑکے متعلق بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ دعویٰ کیاہے کہ وہ ایک غیر نبی شخص تھا جسے بعض کے نزدیک ایک نبی نے اور بعض کے نزدیک ایک بادشاہ نے اپناقائم مقام مقرر کیا جو دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو عبادت کرتا تھا.اور غصہ میںکبھی نہیںآتا تھا(روح المعانی زیر آیت ھذا).ایک روایت عبد ا للہ بن عمر ؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کرکے حدیثوں میںیہ آتی ہے جسے علاوہ اور کتابوں کے مسند احمد ؒ اور سنن ترمذی میں بھی بیان کیاگیا ہے کہ ذوالکفل ایک شخص تھا جس نے ایک عورت کو بدکاری پر مجبور کیا اور اسے کچھ رقم دی.عورت فاقوں کی وجہ سے مجبور تو ہوگئی لیکن رونے لگ گئی اس پر اسے خدا کاخو ف آگیا.اور اس نے اس عورت کو چھوڑ دیا.او رخود بھی توبہ کرلی.(مسند احمد بن حنبل بروایت عبد اللہ بن عمر و ترمذی ابواب صفۃ القیامة).اس حدیث میں کو ئی ایسے الفاظ نہیں ہیںجن سے معلوم ہو کہ یہ وہی ذوالکفل ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آتاہے بلکہ انہی حدیثوں میںاس کانام الکفلؑ بھی آتاہے پس اگر یہ حدیثیں درست ہیں تو بالکل ممکن ہے کہ یہ روایت کسی اور شخص کے متعلق ہو.کیونکہ ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ واقعہ ایسا نہیں جس کے مر تکب کو انبیا ء کے ساتھ گنا جائے.اور اسمٰعیل ؑ اور ادریس ؑ اور اسمٰعیل ؑاو ر یسعیا ہ ؑکے ساتھ اس کانام لیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ ذوالکفل معرب ہے حزقیل ؑ کا.یاء وائو سے بدلتی رہتی ہے او ر وائو فاء سے بدل جاتی ہے.پس

Page 93

حزقیل سے حزکفل اور اس سے ذوالکفل ہوجانا کوئی بعید بات نہیں.یہ بھی ہو سکتاہے کہ حزقیل کا عربی میںترجمہ کرکے اسے ذوالکفل کہہ دیا گیا ہو.کیونکہ حزقیل کے معنے ہیں ’’جسے خدا کی طرف سے طاقت ملی ہو‘‘ اور کفل کے معنے بھی حصہ کے ہیں.پس ذوالکفل کے معنے ہیں جس کو بڑا حصہ ملا ہو.پس ہو سکتاہے کہ عربوں نے حزقیل کانام سن کر اور عبرانی میں اس کے معنے سن کر اس کا ترجمہ ذوالکفل کر لیا ہو.یسعیاہ ؑ کے ساتھ اس کے نام کا آنا مزید ثبوت ہے کہ یہ نبی حزقیل ہی ہیں.حزقیل ؑاور یسعیاہ ؑکاخاص جوڑتھاجو پیشگوئیاں یسعیاہ ؑنے کی تھیں وہ حزقیل کے زمانہ میں پوری ہوئی تھیں اور یہودی مصنف یسعیاہ ؑاور حزقیل ؑکاباہم مقابلہ بھی کرتے ہیں (یسعیاہ باب ۲ آیت ۱،حزقیل باب ۴۰ آیت ۲۰ تا ۴۶ ،جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ EZEKEIL).بائیبل کے لٹریچر میں حزقیل کو چار بڑے نبیوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے.(جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ EZEKEIL).حزقیل ایک مشہور مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ابتدائی عمر یروشلم کی عبادت گاہ میں صرف ہوئی تھی جہاں انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی.حزقیل ان لوگوںمیںسے تھے جن کو بابل کابادشاہ قید کرکے یروشلم سے لے گیا تھا.ان کی کتاب میںبرابر ان کی قید کے زمانہ کا ذکر آتاہے گو وہ علماء کے لیڈر نہیں تھے مگر بوجہ ان کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے بادشاہ نے ان کو اس قابل سمجھا کہ ان کو گرفتار کرکے یروشلم سے لے جائے.غالباً ان کی پیدائش ۶۲۲قبل مسیح ؑ کی تھی اور ۵۹۲قبل مسیح میں ان کا الہامی زمانہ شروع ہوتا ہے جب وہ قریباً تیس سال کے تھے اندازاً بائیس سال تک انہوں نے نبوت کی اور ۵۷۰ ؁قبل مسیح میں۵۲ سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی.حزقیل نے شادی بھی کی یروشلم کی دوبارہ آبادی کی انہوں نے پیشگوئی بھی کی اور اس کا ذکر قرآن کریم میںسورئہ بقرہ رکوع۳۵ میں آتا ہے.حزقیل کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کے زمانہ کے بعدیہود نے قریباًقریباًظاہری بت برستی چھوڑ دی جو اس سے پہلے زمانوں میںبار بار ان میں عود کر آتی تھی.بعض ائمہ بائیبل کا خیا ل ہے کہ حزقیل اسرائیلی نبیوں میںسے آخری نبی تھا.اس کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے

Page 94

وہ در حقیقت بڑے بڑے علماء تھے.یایوں کہہ لو کہ خالی مجددانہ رنگ رکھتے تھے.نبوت کا رنگ نہیں رکھتے تھے.حزقیل اپنے آپ کوآدم زاد کہتے تھے چنانچہ دیکھو حزقیل باب ۲ آیت ۱و باب ۳ آیت ۲۵وباب ۴ آیت ۱ و باب ۵ آیت ۱وباب ۶آیت۲ (مسیح بھی اپنےآپ کو ابن آدم کہتا تھااور حنوک کے متعلق بھی آتا ہے کہ اسے ابن آدم کہا گیا ) غرض کثرت کے ساتھ ان کو آدم زادیا دوسرے لفظوں میں ابن آدم کہا گیا ہے بلکہ قریباً جہاں بھی خدا ان کو مخاطب کرتاہے آدم زاد کے لفظ سے مخاطب کرتاہے یہ ایک مشابہت ہے جوحزقیل ؑ اور ادریس ؑ اور مسیح ؑ میں ہے.حزقیل کچھ عرصہ تک خاموش بھی رہے اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کے حکم سے خاموش رہا ہوں(حزقیل ۳:۲۶) اس میںان کو زکریا ؑ سے مشابہت معلوم ہوتی ہے.حزقیل کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبو کدنضر کے بہت مداح تھے اور اسرائیل اور مصر اور ٹائر کے خلاف اس نے جو اقدام کئے تھے ان کو وہ جائز سمجھتے تھے اور ان لوگوں کی شرارتوں کا اسے نتیجہ سمجھتے تھے(حزقیل باب ۲۶ آیت ۷).حزقیل کی کتاب غالباًبائیبل کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس کا کچھ حصہ خود نبی نے لکھاہے.اسی کتاب کے کچھ حصے تو ان کے بیان کئے معلوم ہوتے ہیں اور کچھ لکھے ہوئے ہیں.(انسائیکلو پیڈیا ببلیکا صفحہ ۱۴۵۶تا ۱۴۵۸زیر لفظ EZEKEIL) حزقیل نبی اور اسی طرح یرمیاہ نبی کی کتا بوں کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اس بات کی تائید میں تھے کہ بابلی حکومت کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے.اس وقت کے علماء نے یرمیا ہ نبی اور حزقیل دونوں کو ہی ملک کاغدار قرار دیا (یرمیاہ باب ۲۶ آیت ۱ تا ۱۱و باب ۱۸ آیت ۱ تا ۲۰ و حزقیل باب ۱۷ آیت ۱۱ تا ۱۶).جس طرح ٹائٹس کے زمانہ میںرومیوں کی حمایت کرنے والے مسیح کو بھی یہودیوں نے غدا ر قرار دیا تھا.یااس زمانہ کے علماء نے مسیح موعود علیہ السلام کو جنہوں نے سکھوںکے مقابلہ میںانگریزوں کی تعریف کی غدا ر قرار دیا.اس کے برخلاف حزقیل نے ان لوگوں کو غدار قرار دیا ہے جوبابلی حکومت کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے تھے(حزقیل باب ۱۷ آیت ۱۱ تا ۱۶) حزقیل ؑ کا خیال تھا کہ وہ یہودی جو پکڑ کر بابل لائے گئے ان کے ذریعہ ایک نئی یہودی قوم جو اپنے مذہب پر قائم ہوگی کھڑی کی جائےگی چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس کے بعد یہودیوں نے کبھی ظاہری شرک نہیں کیا.کچھ تو اس وجہ سے کہ جو سزا ان کوملی تھی اس سے سبق حاصل ہوگیا.اور کچھ اس وجہ سے کہ ایک لمبے عرصہ تک بت پرست قوم میںرہنے کی وجہ سے ان پر بتوں کی حقیقت واضح ہوگئی (اس معاملہ میں حزقیل ؑ کو مسیح ناصر یؑ اور

Page 95

مسیح محمدیؐ سے مشابہت حاصل ہے ) حزقیلؑ اپنی کتاب کے پہلے باب میںبتاتے ہیںکہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو بابل میںظاہر کیا اور پھران کو نبوت کاکام سپرد کیاان کی کتاب کے باب ۳آیت ۲۶سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے ابتدائی دنوں میں حضرت زکریا ؑ کی طرح انہیںخاموش رہنے کاحکم ملا تھا.حزقیل اپنی قوم کی دوبارہ نجات اور ترقی کی بھی خبر دیتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک اس کے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کرتے ہیں حزقیل نے دوبارہ یروشلم کے معبد بنانے کے متعلق بھی پیشگوئی کی ہےاور اس کے متعلق ہدایتیں دی ہیں.چنانچہ ان کی کتاب باب ۴۰،۴۱،۴۲،۴۳،۴۴ میں وہ تمام قوانین بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق معبد بنایا جائے گا.اور جس کے مطابق کاہن کام کریں گے.حزقیل فرشتوںکا ذکر نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرورکہتا ہے کہ روحیں اس کوا ٹھاکر لے گئیں(حزقیل باب ۲ آیت ۲) او ریقیناً اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ وہ فرشتوں کی طرف اشارہ کرتاہے.انسان کے متعلق حزقیل ؑ کی یہی تعلیم ہے کہ وہ مقتدر ہے اور بد سے نیک اور نیک سے بد ہونےکی طاقت رکھتاہے.وہ اس کاطریقہ یہی بتاتاہے کہ انسان ارادہ کرے اورعزم کرلے.چنانچہ حزقیل باب ۱۸ میں تمثیل کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اچھے باپ سے برا بیٹا اور برے باپ سے اچھا بیٹا پیداہو سکتا ہے.اور یہ کہ باپ کا گناہ بیٹے کو نہیں پہنچتا او راس کی سزا اس کو نہیںملتی چنانچہ وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’تم کہو گے کہ کیا بیٹا باپ کے گناہ کابوجھ نہیںاٹھاتا سو جبکہ بیٹے نے و ہ جو شرع میںدرست اور روا ہے کیااور اس نے میرے حکموںکو حفظ کیا تو وہ یقیناً جئے گا.وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مرےگی بیٹا باپ کی بد کاری کابوجھ نہیں اٹھاوے گا.نہ باپ بیٹے کی بدکاری کا بوجھ اٹھاوےگا.صادق کی صداقت اس پر ہوگی اور شریر کی شرارت اس پرپڑےگی لیکن اگر شریر اپنی ساری خطائوں سے جواس نے کی ہیںباز آوے اور میرے سارے حکموںکو حفظ کرے او رجو کچھ شرع میں درست اور رواہے کرے تو وہ یقیناً جیئے گا.وہ نہ مرے گا.اس کے سارے گناہ جو اس نے کئے ا س کے لئے محسوب نہ ہوںگے.‘‘ (حزقیل باب ۱۸ آیت ۱۹ تا ۲۲ ) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حزقیل توبہ کے ذریعہ سے دائمی زندگی کے قائل تھے.پھر وہ توبہ پر زیادہ زور دیتا ہے اور کہتا ہے ’’ سو توبہ کرو اور اپنی ساری بدکاریوں سے باز آئو تاکہ بدکاری تمہاری ہلاکت کا باعث نہ ہو سارے برے کام جنہیںکر کے تم گناہ گار ہوتے ہو آپ سے جدا کر کے پھینک دو اور اپنے لئے ایک

Page 96

نیادل اور نئی روح پیدا کرو.‘‘ (آیت ۳۰ ،۳۱ ) (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا ) حزقیل کے متعلق یہودی لٹریچر میںلکھا ہے کہ وہ جوشوعا کی اولاد میں سے تھا.او ربعض کہتے ہیں کہ وہ یرمیاہ کابیٹا تھا.حزقیل کے متعلق لکھاہے کہ اس نے یسعیاہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ خدا کے تخت گاہ کاحال بیان کیا لیکن یہودی علماء کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیںکہ و ہ یسعیاہ سے بڑا تھا.اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا کے تخت کو صرف ایک دفعہ دیکھا اس لئے زیادہ تفصیل سے یاد رکھا.یسعیاہ بار بار دیکھتا تھا اس لئے اس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی.علماء یہود کے نزدیک حزقیل مردے زندہ کیا کرتے تھے اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ رویا تھی جس کو یہ شکل دے دی گئی ہے.(اس بارہ میں بھی ا نہیںمسیح سے مشابہت تھی ) (میمونیڈ یاکتاب رانیبو کین باب ۲آیت ۴۶.جیوش انسائیکلوپیڈیا صفحہ ۳۱۵ کالم ۲ ) قرآن کریم میںبھی اس واقعہ کا ذکر ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ رویاہی تھی (سورہ بقرہ رکوع۳آیت ۲۶۰) حزقیل جلا وطنی میں بابل کے پاس ہی فوت ہوئے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کی قبر کی زیارت یہودی اور مسلمان کرتے رہے.چنانچہ ڈیر نمرود کے پاس کفل جگہ پر یہ قبر بتائی جاتی ہے (اس جگہ کانام کفل ہونا صاف بتاتاہے کہ عربوںکی زبان میںحزقیل کانام ہی کفل تھا ) (جیوش انسائیکلو پیڈیا) حزقیل نبی بائیبل کے مؤرخوں کے نزدیک ساتویں صدی قبل مسیح ؑکے آخر میںپیدا ہوئے اور قریباً ۵۷۰سال قبل مسیح ؑ کے آخر تک زندہ رہے (انسائیکلوپیڈیا ببلیکا زیر لفظ EZEKEIL)حزقیل نبی کادعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ کی رؤیت ان کو حاصل ہوئی حزقیل زیادہ تر اپنی قوم کی تباہی کی خبریں دیتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب کے باب ۲ میں انہوں نے ایک رویا بیان کی ہے جس میں ایک کتاب انہیں دکھائی گئی اور انہیں کہا گیا کہ تم اس کو کھالو اس کتاب پر لکھا تھا نوحہ ماتم او ر واویلا اس میں اشارہ کیاگیا تھا کہ ان کی ساری زندگی ان الفاظ کے ماتحت گذرے گی.حزقیل کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں تہذیب بہت بڑھ گئی تھی اور وہ ایک مضبوط قوم بن گئے تھے گو سیاسی طور پر وہ کمزور ہوگئے تھے ان کی جتھہ بندی کی وجہ سے کوئی شخص ان کو حق نہیں سنا سکتا تھا.جو حق بات کہتا تھا سارے اس کے پیچھے پڑ جاتے تھے اسی وجہ سے باب ۳ میں حزقیل سے کہا گیا کہ جو کچھ میںتجھے کہوں وہ لوگوں کو پہنچا.ورنہ تو ذمہ دار ہوگا یہ وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ(المائدۃ:۶۸) یعنی اے ہمارے رسول لوگوں کو وہ ساری تعلیم پہنچا جو میں نے تجھ پر نازل کی ہے اور اگر تو ساری تعلیم نہیںپہنچا ئےگا تو یہ سمجھا جائےگا کہ تو نے کوئی حصہ بھی نہیں

Page 97

پہنچایا.باب ۵ میں بتایا گیا ہے کہ حزقیل کو استرے سے اپنے سر اور ڈاڑھی کے بال منڈوانے کاحکم دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہودی ڈاڑھی تو رکھتے تھے مگر اسے کوئی ضروری چیز نہیں سمجھا جاتا تھا.باب ۶ میںحزقیل بتاتاہے کہ توحیدکی مخالفت کی وجہ سے یہود تباہ کئے جائیںگے مگر تھوڑے سے لوگ بچائے جائیںگے.باب ۷ میں وہ پھر بنی اسرائیل کی تباہی کی خبر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی جماعت جب بگڑتی ہے تو غیر قوموں کو اس پر مسلط کیاجاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ غیرقومیں خود بھی بری ہیں.وہ خواہ کتنی ہی بگڑی ہوئی ہوں سچی کتاب سے تعلق رکھنے والی جماعت پر ان کو مسلط کردیاجاتا ہے تاکہ نبی کی جماعت توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے.باب ۹میں وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ سچے دین سے تعلق رکھ کر بگڑتے ہیں ان کے حق میںشفاعت بھی قبول نہیں کی جاتی.باب ۱۱میں وہ بتاتا ہے آخر بنی اسرائیل کو نجات دی جائےگی اور وہ بابل کی حکومت کی قید سے آزاد ہوجائیںگے.باب ۱۲ میں وہ یہودیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ الٰہی کلام پر تمسخر اڑاتے ہیں اور پیشگوئیوں کو فضول قرار دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ حزقیل کی پیشگوئیوں کو سچا کرکے یہودیوں کو جھوٹا کرےگا.اس باب میںایک آیت قرآن کریم کی ایک آیت کے نہایت ہی مشابہ ہے فرماتا ہے.’’جن کی آنکھیںہیںکہ دیکھیںپروہ نہیںدیکھتے او ر ان کے کان ہیں کہ سنیں پروہ نہیں سنتے کیونکہ وہ باغی خاندان ہیں.‘‘(آیت ۲) قرآن کریم میںآتا ہے وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا١ٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ(الاعراف:۱۸۰) یعنی ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں اوران کے کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں.وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں کیونکہ جانور تو پھر بھی کچھ سن لیتا ہے اور کچھ دیکھتا ہے.مگر یہ روحانی اندھے اور روحانی بہرے نہ کچھ دیکھتے ہیں اور نہ کچھ سنتے ہیں.باب ۱۳ میں وہ ان لوگوں کو ملامت کرتاہے جو کہ جھوٹے طورپر خدارسیدہ بنتے ہیں.

Page 98

باب ۲۹ میں وہ مصر کی نبو کد نضر کے مقابلہ میں ایک زبردست شکست کی خبر دیتا ہے مگر چالیس سال کے بعد وہ پھراس کے بحال ہونے کی بھی خبر دیتا ہے.باب ۳۷ آیت ۱تا ۱۴ میں وہ اپنی ایک خواب کا ذکر کرتا ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے دوبارہ زندہ کئے جانے کے بارہ میں دیکھا اس خواب کا ذکر سورئہ بقرہ ع۳ میںبھی آتا ہے جہاں فرماتا ہے.اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى يُحْيٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(البقرۃ:۲۶۰) یعنی اس شخص کے واقعہ پر غور کرو جو ایک ایسے شہر کے پاس سے گذرا جس کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی چھتوں کے بل گراہو اتھا.اس کو دیکھ کر اس شخص نے کہاکہ اللہ تعالیٰ اس شہر کی ویرانی کے بعد اسے کب آباد کرےگا.اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سوسال تک خواب میں مردہ رکھا پھر اسے اٹھایا اور فرمایا اے میرے بندے تو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا اس نے کہااے میرے رب میںاس حالت میں صرف ایک دن یادن کاکچھ حصہ رہا ہوںتب اللہ تعالی ٰنے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے.اور تو اس حالت میں سوسال تک بھی رہا ہے.اب تو اپنے کھانے اور پینے کے سامان کی طرف دیکھ وہ سڑانہیںاور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھ اور ان دونوں کاسلامت رہنا دیکھ کر سمجھ لے کہ تیرا خیال بھی اپنی جگہ درست ہے اور ہماری بات بھی اور ایسا ہم نے اس لئے کیا ہے تاکہ تجھے لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیںاور تو ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح اپنی اپنی جگہ رکھ کر جوڑتے ہیں پھرجب اس پر حقیقت پورے طور پر ظاہر ہو گئی.تو اس نے کہا.میںعلی وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے.عوام یہودیوں نے اس خواب کے یہ معنے لئے ہیںکہ حزقیل گویا مردے زندہ کرتے تھے لیکن چوٹی کے علماء نے یہ تشریح کی ہے کہ درحقیقت یہ ایک خواب تھا(Peaks Commentary on the Holy Bible under word Ezekiel) یہی غلط فہمی قرآن کریم کی اس آیت کے متعلق بھی ہوئی عام طور پر لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میںمردہ کے زندہ کرنے کا ذکر ہے.حالانکہ مردہ زندہ کرنے کا ذکر نہیں.ایک مردہ قوم کے زندہ ہونے کا ذکر ہے.باب ۳۸،۳۹میں وہ یاجوج ماجوج کی خبر دیتاہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح وہ دنیا پر چھاجائیںگے لیکن آخر

Page 99

اللہ تعالیٰ ان کی تباہی کے سامان کرےگا.پھرباب ۴۰ سے آگے وہ یروشلم کے دوبارہ بنائے جانے کی تفصیلیں بیان کرتا ہے سارے باب اس کی کتاب کے ۴۸ ہیں.اللہ تعالیٰ ان تینوں نبیوںکا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ اور اس سے اشارہ کرتا ہے کہ ایوب ؑ کے بعد ہم نے ان تینوں نبیوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ بھی صابرتھے اور ایوب ؑ سے مصیبت برداشت کرنے میںمشابہت رکھتے تھے.چنانچہ حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے باپ اورملک کی جدائی اختیار کرنی پڑی اور ادریس ؑ اور ذوالکفل ؑ کو بھی مختلف مصائب اور آفات میں سے گذر نا پڑا جیسا کہ ان کے حالات سے ظاہر ہے.وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِيْ رَحْمَتِنَا١ؕ اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۰۰۸۷ اورہم نے ان سب کو اپنی رحمت میںداخل کیا تھا اور وہ سب نیکوکار تھے.تفسیر.اس میںیہ بتایا ہے کہ یہ لوگ صابر بھی تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان پررحمتیںبھی بڑی نازل کی تھیں جس طرح حضرت سلیمان ؑ اور حضرت ایوب ؑ کو بڑی دنیوی عزت بھی دی تھی.اسی طرح ان تینوں انبیا ء کوبڑی دنیوی عزت بھی بخشی گئی تھی.مگر ان پرمصائب بھی بڑے آئے.وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ اور ذا النّون( یعنی یونس ؑکو بھی یاد کر)جب وہ غصہ کی حالت میںچلاگیااوردل پُریقین تھا کہ ہم عَلَيْهِ فَنَادٰى فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ اس کو تنگ نہیںکریںگے پس مصائب میں اس نے ہم کو پکارا (اور کہا) کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَۚۖ۰۰۸۸فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ۙ وَ تو پاک ہے.میںیقیناً ظلم کرنے والوں میںسے تھا پس ہم نے اس کی دعا کو سنا اورغم سے اسے نجات دی.

Page 100

نَجَّيْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِي الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۸۹ اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں.حلّ لُغَات.اَلنُّوْن.کے معنے ہیںاَلْحُوْتُ یعنی مچھلی.(اقرب)پس ذَاالنُّوْنِ کے معنے ہوئے مچھلی والا.ظَنَّ.ظَنَّ الشَّیْءَکے معنے ہوتے ہیںعَلِمَہ وَاسْتَیْقَنَہ کسی چیز کو معلوم کرلیااور اس کا یقین کرلیا (اقرب) نَقْدرَ عَلَیْہِ.نَقْدِرَ عَلَیْہِ قَدَرَ سے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے اور قَدَرَاللہُ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں قَضٰی و حَکَمَ بِہٖ عَلَیْہ اللہ نے اس کے خلاف فیصلہ کیا.او رقَدَرَ عَلٰی عَیَالِہٖ کے معنے ہیں ضَیَّقَ اس نے اہل وعیال پر تنگی کی (اقرب ) پس لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ کے معنے ہوںگے (۱) ہم تنگی نہیںکریںگے (۲) ہم اس کے خلاف فیصلہ نہیںدیںگے.تفسیر.اب یونسؑ نبی کاحال بیان کرتاہے کہ وہ بھی ان سب نبیوں سے مشابہت رکھتے تھے ان کو بھی ایک وقت میںتکالیف پہنچیں مگر دوسرے وقت میں خدا تعالیٰ نے ان کو بڑی عزت بخشی.چنانچہ فرماتا ہے کہ ایک دفعہ وہ ناراض ہوکر اپنے ملک سے نکل گئے مگر دل پُریقین تھاکہ ہم اس پر تنگی نازل نہیں کریںگے چنانچہ مصیبت کے وقت انہوںنے اللہ تعالیٰ کو پکارا کہ اے خداتیرے سوا کوئی معبود نہیںتو پاک ہے غلطی مجھ سے ہی ہوئی ہے.بائیبل کی کتاب یوناہ میں(یوناہ باب ۱ آیت ۲)یونس نبی کا حال اس طرح درج ہے کہ خدا کی طرف سے ان کو نینوا کی طرف جو ایک بڑا اور شرارتی شہر تھا جانےکا حکم ہو ااور کہا گیا کہ وہ اس کے خلاف پیشگوئی کریں.مگر حضرت یونس ڈرے کہ نینوا والے توبہ کرلیں گے اور عذاب سے بچ جائیںگے پس وہ نینوا جانے کی بجائے یافاچلے گئے اور ترشیش کی طرف جانے والے ایک جہاز میںسوار ہوگئے لیکن دفعۃًجہاز کو طوفان نے آگھیر ا.ملاحوں نے دیوتائوں سے بہت دعائیں کیںمگر کچھ فائدہ نہ ہوا.آخر قرعہ ڈال کر انہوں نے معلوم کرناچاہا کہ یہ عذاب کس کے سبب سے آیا ہے.اس پر حضرت یونس علیہ السلام کانام قرعہ میں نکلااور انہوں نے ان سے جاکر حال پوچھا.انہوں نے اپنا سب حال بتایا اور کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے بھاگا ہوں مجھے پانی میںپھینک دو اس طرح عذاب سے محفوظ رہوگے.چنانچہ لوگوں نے انہیں پانی میںپھنک دیااور طوفان تھم گیا.خدا تعالیٰ نے ایک مچھلی کوحکم دیااور وہ حضرت یونس علیہ السلام کو نگل گئی.اس کے پیٹ میں حضرت یونس علیہ السلام تین دن رات رہے آخر ان کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیںاگل دے چنانچہ مچھلی نے ان کواگل دیا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ

Page 101

فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعاسن لی اور ان کو غم سے نجات دی اور مومنوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں.حضرت یونس علیہ السلام کی اس دعا سے قبولیت دعا کاایک گر معلوم ہوتا ہے جسے ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ دعا سے پہلے انسان کوچاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر لیا کرے اور پھراپنامدعا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا کرے.چنانچہ دیکھ لوحضرت یونس علیہ السلام نے پہلے یہی کہاکہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ یعنی اے میرے رب! تو کامل تعریف کامستحق ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود قابل پرستش نہیںاور پھرتو ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے منزہ ہے.اس تسبیح و تحمیدکے بعد انہوںنے اپنامدعا پیش کیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مصیبت میں مدد چاہی یہی طریق ہر مومن کو اختیار کرناچاہیے اور دعا میںتسبیح وتحمید کو مقدم سمجھنا چاہیے دنیا میںبھی جب کسی کے دروازہ پر کوئی سائل آتا ہے تو وہ پہلے مالک مکان کی تعریف کرتا ہے اور اس کی خوبیوں کے گیت گاتاہے اورپھر اپنا مدعا پیش کرتا ہے او رسمجھتا ہے کہ اب میرا آنارائیگاں نہیں جائےگا.یہی طریق عمل دعا میںاختیار کرناچاہیے اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی عظمت وجبروت کااقرار کرنے اور اس کی تسبیح و تحمید کرنے کے بعد حرف مدعازبان پرلانا چاہیے.وَ زَكَرِيَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ اور زکریاکو بھی( یاد کر) جب اس نے اپنے رب کوپکارا تھااور کہاتھا کہ اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ الْوٰرِثِيْنَۚۖ۰۰۹۰فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ٞ وَ وَهَبْنَا لَهٗ يَحْيٰى وَ اَصْلَحْنَا اور تو وارث ہونےوالوں میں سے سب سے بہتر ہے اور ہم نے اس کی دعا کو سنااور اس کو یحیٰ عطا کیا اور لَهٗ زَوْجَهٗ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَ اس کی بیوی کو اس کی خاطر تندرست کردیا.وہ سب لوگ نیکیوں میں جلد ی کرتے تھے اور ہم کو يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا١ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ۰۰۹۱ محبت اور خوف سے پکارتے تھے.اور ہماری خاطر عجز کی زندگی بسر کرتے تھے.حلّ لُغَات.رَھَبًا.رَھِبَ الرّجُلُ رَھْبًا کے معنے ہیںخَافَ وہ ڈرا (اقرب) پس رَھَبٌ کے معنے ہوںگے ڈراو رخوف.

Page 102

تفسیر.پھر زکریا ؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ بھی اسی جماعت میں شامل تھے.اور فرماتا ہے کہ زکریا ؑ کو بھی یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے تب ہم نے اس کی دعاسنی اور اس کی بیوی کی اصلاح کی اور اس کو یحیٰ عطا کیا.(دیکھ لو.اصولی طور پر اس سارے گھرانے کے حالات حضرت ایوب ؑ سے ملتے ہیں ) پھر وجہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی تنگیوں کو کیوں بدل دیا اس لئے کہ یہ گروہ نیکی کرنے میںجلدی کرتا تھااور ہمارے انعام کی رغبت سے اور ہماری سزا کے خوف سے ہمیں پکارتارہتا تھا اور ہمیشہ ہمارے حضور عاجزی کیاکرتا تھا.وَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ او ر اس عورت کو بھی (یادکر) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پس ہم نے اس پراپنا کچھ کلام نازل کیا.اور اس کو جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰۹۲اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اور اس کے بیٹے کو دنیاکے لئے ایک نشان بنایا.یہ تمہاری امت (یعنی تمہارے ابدی دشمن ) ایک ہی راہ پرچلنے والے اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖٞ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۰۰۹۳ تھے اور میںتمہارا رب ہوں.پس تم میری ہی عبادت کرو.تفسیر.پھرحضرت مریم ؑ کا ذکر کرتاہے کہ وہ جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی اس کو بھی یاد کرو.اس پرہم نے اپنا کلام نازل کیا تھا.اور اس کو اور اس کے بیٹے کو تمام دنیا کے لئے نشان بنادیا تھا.اور یاد رکھو کہ یہ ساری جماعت ایک ہی قسم کی جماعت ہے اور میںتم سب انسانوں کا رب ہوں.پس میری عباد ت کرو.وَ تَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ١ؕ كُلٌّ اِلَيْنَا رٰجِعُوْنَؒ۰۰۹۴ اور انہوں نے (یعنی انبیاء کے مخالفوںنے ) شریعت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے اندر تقسیم کر لئے تھے.(حالانکہ ) وہ سب ہماری طر ف لوٹائے جانے والے ہیں.حلّ لُغَات.تَقَطَّعُوْا.تَقَطَّعُوْاتَقَطَّعَ سے جمع کاصیغہ ہے اور تَقَطَّع اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْکے معنے ہیں

Page 103

تَقَسَّمُوْہُ انہوںنے اپنے معاملے کو تقسیم کرلیا.وَقِیْلَ تَفَرَّقُوْا فِیْہِ اور بعض ماہرین لغت کہتے ہیں کہ تَقَطَّعَ اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کے معنے ہیں انہوںنے اپنے معاملے میں اختلاف کیا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ان انبیاء کے مخالف لوگ ایسے تھے کہ انہوںنے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا مگر آخر وہ سب ہماری طرف ہی آئیںگے اور ہم ان کا حساب ان سے لیںگے.فَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ اور جو کوئی مناسب حال عمل کرے گا اورساتھ ہی مومن بھی ہوگا.تو اسکی کوشش کو رد نہ کیا جائے گا.لِسَعْيِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ۰۰۹۵ اورہم اسکے نیک اعمال کو لکھ رکھیں گے.تفسیر.پس جو کوئی اچھے عمل کرے گا اور ساتھ ہی مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش ضائع نہیں جائے گی اورہم اس کے سب نیک اعمال لکھتے چلے جائیں گے.وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۰۰۹۶حَتّٰۤى اور ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لئے یہ فیصلہ کردیاگیا ہے کہ اس کے بسنے والے لوٹ کر اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ اس دنیامیںنہیں آئیںگے یہاںتک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیاجائےگا.اور وہ يَّنْسِلُوْنَ۰۰۹۷ ہرپہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پرسے پھلانگتے ہوئے دنیامیںپھیل جائیںگے.حلّ لُغَات.حَدَبٌ.حَدَبٌکے معنے ہیں اَلْمَوْجُ پانی کی موج یا لہر.اسی طرح اس کے معنے ہیں اَلْغِلَـظُ الْمُرْتَفعُ مِنَ الْاَرْضِ سخت اونچی زمین (اقرب) مفردات میں ہے اَ لْحَدَبُ: مَا ارْتَفَعَ مِنْ ظَھْرِ الْاَرْضِ

Page 104

زمین پر اٹھی ہوئی جگہ یعنی ٹیلہ.یَنْسِلُوْنَ.یَنْسِلُوْنَ نَسَلَ سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور نَسَلَ الْمَاشِی فِی مَشْیِہٖ کے معنے ہیں اَسْرَعَچلنے والے نے اپنی رفتار میںجلدی کی.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ہر بستی جس کو ہم فنا کرچکے ہیں اس پر اس وقت تک واپس لوٹنا حرام ہے جب تک کہ یاجوج اورماجوج کو آزاد نہ کردیاجائے اوروہ ہر پہاڑ کی چوٹی اور سمندر کی ہر لہر پر سے پھلانگتے کودتے دنیامیں پھیل نہ جائیں یعنی آخر ی زمانہ میں جبکہ یاجوج اور ماجوج یعنی روس اور مغربی ممالک کو دنیامیںپھیلنے کے لئے آزاد کردیا جائے گا اور وہ تمام دنیاپر پہاڑ کی ہرچوٹی اور سمندر کی ہر لہر سے کودتے پھاندتے ہوئے پھیل جائیںگے یعنی ان قوموں کاغلبہ ہوجائے گا.جیسا کہ آج کل ہورہا ہے.تو اس کے بعد ان کی تباہی کے متعلق ہمارا وعدہ پور اہوگا.چونکہ پہاڑ کی چوٹیاں اورسمندر کی لہریں اونچی ہوتی ہیں اس لئے یہ دو قومیں جن کے لئے پہاڑوں اور سمندروں کی لہروں کے اوپرسے پھلانگتے اور کودتے ہوئے دنیامیںپھیل جانا مقدر تھا ان کے متعلق یَنْسِلُوْنَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے آج کل کا زمانہ وہی ہے کہ ایک طرف روس آدھی دنیاپر قابض ہے اور دوسری طرف مغربی ممالک دوسرے حصہئ دنیا پر قابض ہیں اور دونوں اپنے اپنے اصول کو لوگوں میں راسخ کرنے کی فکر میں ہیں ایک فریق جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میںترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسرا فریق قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے.یہ دو اصول اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میںغلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایک اصل تو اس بات کی جدوجہد میںمشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھاکر دنیا میںغلبہ حاصل کیاجائے اور دوسرا اصل اس غرض کے لئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو راہنمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیاجائے.ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے.اور ساری دنیا ان دو گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے.اسلام ان دونوں کے خلاف اور ان دونوں سے بالکل الگ ایک درمیانی راہ پیش کرتاہے.وہ انفرادیت کو بھی نظر انداز نہیںکرتا.اور وہ چیدہ افراد کی طاقتوں سے کام لینے کو بھی نا پسند نہیں کرتا.وہ یہ اجازت بھی نہیںدیتا کہ افراد کی حریّت کو کچل دیا جائے.اور یہ بھی اجازت نہیںدیتا کہ چیدہ افراد کی قابلیت سے دنیا کو محروم کردیا جائے.غرض اسلامی تعلیم کادائرہ اپنی وسعت کے ساتھ ان دونوں گروہوں پر حاوی ہے اوروہ دونوں کے درمیان ایک راستہ بتاتاہے.وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتاہے کہ سب انسانوں میں ذہنی مساوات نہیں بعض دماغ زیادہ قابلیت رکھتے ہیں اور بعض کم بعض زیادہ قربانیاں کرسکتے ہیں اور بعض کم.بعض زیادہ

Page 105

سمجھدار ہوتے ہیں اور بعض کم پس قوم کو زیادہ سمجھدا ر زیادہ عقلمند اور زیادہ فہیم و تدبر رکھنے والوںکی قابلیت سے محروم نہیں کرنا چاہیے مگر دوسری طرف وہ یہ بھی تسلیم کرتاہے کہ افراد کی مجموعی رائے بھی بڑی طاقت رکھتی ہے اوراس کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیںہوتا.جتنابعض لوگ خیال کرتے ہیں اور نہ اسے نظر انداز کرنا انسانی ترقی کومدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہے.بہر حال یہ دونوں اصول آجکل کلی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں.آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف.یعنی آدھی دنیا مغربی ڈیما کرسی کی دلدادہ ہے اور آدھی دنیا ڈکٹیٹر شپ کی طرف مائل ہے مگر خدا تعالیٰ کا کلام بتاتاہے کہ آخر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور مخالف اسلام طاقتیں توڑدی جائیںگی ان طاقتوں نے دنیا میںبہت دیر تک حکومت کر لی ہے.اب خدا کی غیر ت بھڑک رہی ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی حکومت دنیا میںپھر قائم کی جائے گی خدا کی بادشاہت پھراس زمین پر لائی جائےگی.خدا کے وجود کے دشمن مٹائے جائیں گے خواہ دنیا کی کتنی بڑی قومیں ان کی تائید میںکھڑی ہوجائیں اور یقیناً وہ دن دنیا کے لئے بڑا مبارک ہوگاہمارا خدا پھر اپنے تخت پر بٹھایا جائےگا ہمارے رسول کا جھنڈا پھرہوامیںلہرائےگا اور وہ امن اور صلح کا پیغام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا پھردنیا میں پھیلے گا اور دشمنو ںکی زبانیں بند ہوجائیں گی اور وہ اپنے منہ سے اس بات کااقرار کریںگے کہ وہ خدا کے مقدس پر خاک ڈالنے میںناکام رہے ہیں اور اپنے اس فعل پر وہ سخت شرمندہ اور نادم ہوںگے.ان آیا ت کے متعلق ایک یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ تمام قومیں جو ہلاک ہوچکی ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میںواپس نہیں آئیں گی یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا.اس کے یہ معنی نہیں کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں مردے زندہ ہونے لگ جائیںگے کیونکہ قرآن کریم دنیا میںمردوں کے دوبارہ زندہ ہونےکا قطعی طور پر منکر ہے وہ صاف طورپر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بعض ارواح یہ استدعا کریں گی کہ ان کو واپس کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ نیک اعمال کریں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا١ؕ وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ(المومنون :۱۰۱) ایسا ہرگز نہیںہوسکتا کیونکہ قیامت تک روحوں اور اس دنیا کے درمیان ایک حد فاصل مقرر کردی گئی ہے اور کوئی روح اس دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹ سکتی پس دنیا میں مُردوںکا دوبارہ احیا ء قرآنی تعلیم کے روسے بالکل ناممکن ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کاکیا مفہوم ہے.سو جیسا کہ خلاصہء مضامین میںبیان کیا جاچکا ہے اس آیت کا یہ

Page 106

مطلب ہے کہ جب کوئی قوم ہلاک ہوجاتی ہے سنت الٰہیہ کے مطابق اسے دوبارہ ا ٹھنے کاموقعہ نہیں ملتالیکن یاجوج و ماجوج کے زمانہ میںان کی تباہی و بربادی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی رو چلے گی جس کے نتیجہ میں کفر کا نظام لپیٹ دیاجائےگا اور وہ مسلمان جن میںزندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے پھر ایک فاتح اور طاقتور قوم کی شکل اختیا ر کرلیں گےاور اسلام دنیا پرغالب آجائے گا.وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ اَبْصَارُ اور( خدا کا) سچا وعدہ قریب آجائےگا تو اس وقت کا فروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ کہیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ؕ يٰوَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا بَلْ ہم پر افسوس ہم تو اس دن کے متعلق سخت غفلت میںپڑے رہے بلکہ ہم لوگ تو ظالم تھے (اس وقت کہا جائےگا) كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۰۰۹۸اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ تم بھی اور جن چیزوں کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے سب کی سب جہنم کا ایندھن بنیںگی.تم سب اس میںداخل حَصَبُ جَهَنَّمَ١ؕ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ۰۰۹۹لَوْ كَانَ هٰؤُلَآءِ ہوگے اگر وہ ہستیاں جن کو یہ لوگ معبود بناتے ہیں واقعہ میں معبود ہوتیں تو پھر وہ کبھی جہنم میںنہ جاتیں اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا١ؕ وَ كُلٌّ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۱۰۰لَهُمْ فِيْهَا اور یہ ہستیاں تو مدتوں اس میںپڑی رہیں گی.وہ اس میںچیخیں گے اور وہ اس میں(سمجھانے والوں زَفِيْرٌ وَّ هُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ۰۰۱۰۱ میں سے )کسی کی بات نہیں سنیںگے.حلّ لُغَات.شَاخِصَۃٌ.شَاخِصَۃٌ شَخَصَ سے اسم فاعل مونث کاصیغہ ہے.اور شَخَصَ بَصَرُہٗ کے معنے ہیں فَتَحَ عَیْنَیْہِ وَ جَعَلَ لَا یَطْرِفُ مَعَ دَوْرَانٍ فِی الشَّحْمَةِ اس نے اپنی دونوں آنکھوں کو کھولا اور وہ اس طرح کھلی رہیں کہ وہ حرکت نہ کرتی تھیں.گویا ایک طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کردیا اور کسی اور طرف نہ دیکھ سکا

Page 107

اسی طرح شَخَصَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں رَفَعَہٗ.آنکھ کو اٹھایا.(اقرب ) پس شَاخِصَۃٌ کے معنے ہوںگے اوپر اٹھنے والی اور ٹکٹکی لگا کر دیکھنے والی آنکھ.زَفِیْر.زَفِیْر کے معنے الدَّاھِیَةُ.مصیبت اَوَّلُ صَوْتِ الْحِمَارِگدھے کی ابتدائی آواز جو اس کے گلے سے نکلتی ہے جو چیخ کے مشابہ ہوتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے الزَّفِیْرُ تُرَدُّدُ النَّفْسِ حَتّٰی تَنْتَفِخَ الضُّلُوْعُ مِنْہُ یعنی سانس کا اس طور پر آنا کہ اس سے پسلیاں پھول جائیں (مفردات ) تفسیر.فرماتا ہے جب وعدہ کے پورا ہونے یعنی ان قوموں کے سزا پانے کا وقت آجائےگا تو گھبراہٹ میں ان کی آنکھیں چڑھی کی چڑھی رہ جائیںگی.اور وہ آپس میںکہیں گے افسوس ہم اس دن سے غفلت برتتے رہے بلکہ ہم گناہوں میں بڑھتے چلے گئے تب اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم اور تمہار ے معبود آج جہنم میںجائو گے اگر تمہارے معبود سچے ہوتے تو اس ذلت کو کیوں برداشت کرتے ؟ اس آیت میںاس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو وہ گمراہی کا زمانہ ہوگا مگر بت پرستی مٹا دی جائےگی اسی طرح اس میںیہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک وقت میںتو یہ قومیںبڑا فخر کریںگی مگر جب سزا کا وقت آجائےگا تو چلانے لگیں گی اور ایک دوسرے سے تعاون چھوڑدیں گی.اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا یقیناً وہ لوگ جن کے متعلق ہماری طرف سے نیک سلوک کا وعدہ ہوچکا ہے وہ اس دوزخ سے دور مُبْعَدُوْنَۙ۰۰۱۰۲لَا يَسْمَعُوْنَ حَسِيْسَهَا١ۚ وَ هُمْ فِيْ مَا رکھے جائیںگے.وہ اس کی آواز تک نہیںسنیںگے.اور وہ اس( حالت) میں جسے اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ۰۰۱۰۳لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ ان کے دل چاہتے ہیںہمیشہ رہیں گے.بڑی پریشانی کا وقت بھی الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ١ؕ هٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ ان کو غمگین نہیں کرے گا اور فرشتے ان سے ملیں گے او رکہیں گے یہ وہ تمہارا دن ہے

Page 108

كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۰۰۱۰۴ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.حلّ لُغَات.حَسِیْسٌ.حَسِیْسٌکے معنے ہیں اَلصَّوْتُ الْخَفِیُّ.ہلکی آواز (اقرب) تفسیر.یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بشارتیں ہوںگی وہ ان عذابوںسے بچائے جائیں گے اور ان کی بھنک تک نہ سنیںگے او ر جو کچھ ان کے دل چاہیں گے ان کو ملے گا اور ایک لمبے عرصہ تک یہی سلوک ہوتا چلا جائےگا.بڑے عذاب کی تباہی ان کو غمگین نہیں کرے گی.اور فرشتے ان پر نازل ہوںگے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے کہیں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا.يَوْمَ نَطْوِي السَّمَآءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیںگے جس طرح بہیاں تحریر کو لپیٹ لیتی ہیں جس طرح ہم نے تمہاری اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَيْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ۰۰۱۰۵ پیدائش کو پہلی دفعہ شروع کیا تھا اسی طرح پھر اسکو دہر ائیںگے یہ ہم نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے ہم ایسا ہی کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں.حلّ لُغَات.نَطْوی.نَطْوِیْ طَویٰ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور طَوَی الصَّحِیْفَةَکے معنے ہوتے ہیں نَقِیْضُ نَشَرَھَا صحیفہ کو لپیٹا (اقرب) پس نَطْوِی کے معنے ہوںگے ہم لپیٹیں گے.اور کَـطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کے معنے ہیں طَیُّ ا لْکَاتِبِ لِلْکِتٰبِ یعنی جس طرح کاتب کتاب کو لپیٹ دیتا ہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.یہ وہ دن ہوگا کہ ہم آسمان کو یعنی اس وقت کی بادشاہتوں کو اس طرح لپیٹ دیںگے جس طرح کتاب کا صفحہ تحریر کو لپیٹ دیتا ہے اور ہم اعلان کردیںگے کہ جس طرح ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریںگے یہ پکا وعدہ ہے جس کو ہم پورا کرکے چھوڑیںگے.

Page 109

وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ اور ہم نے زبور میں کچھ نصیحتیں کرنے کے بعد یہ لکھ چھوڑا ہے کہ ارض( مقدس) کے وارث يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۰۰۱۰۶اِنَّ فِيْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ میرے نیک بندے ہوںگے.اس( مضمون) میں ایک پیغام ہے اس قوم کے لئے جو عبادت گذار ہے.عٰبِدِيْنَؕ۰۰۱۰۷وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۰۸ اور ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.حلّ لُغَات.بَلَاغٌ بَلَاغٌ کے معنے ہیں اَلْاِ نْتِھَاءُ اِلی اَقْصَی الْمَقْصَدِ وَالْمُنْتَھٰی اپنے مقصد اور مدعا کی انتہا ئی حد تک پہنچنا.نیز اس کے معنے ہیں اَلتَّبْلِیْغُ پہنچانا اسی طرح اس کے معنے اَلْکِفَایَۃُ کے بھی ہیں یعنی کافی ہونا.(مفردات) تفسیر.فرماتا ہے ہم نے زبور میں کچھ شرائط بیان کرنے کے بعد یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ ارض مقدس کے وارث ہمارے نیک بندے ہوںگے اس میںعبادت گذار بندوں کے لئے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کو ساری دنیا کی طرف رحمت بنا کر بھیجا ہے.مطلب یہ ہے کہ بائیبل میں جو یہ پیشگوئی تھی کہ صرف خدا کے نیک بندے ارض مقدس میں رہیں گے اس سے کوئی اس وقت دھوکا نہ کھائے جبکہ بنی اسرائیل اس ملک پر غالب آجائیں گے.کیونکہ اس پیشگوئی میںاس طرف بھی اشارہ تھاکہ اگر کوئی وقفہ پڑا تو پھر خدا کے بندے اس ملک پر غالب آجائیںگے اس لئے فرماتا ہے کہ عبادت گذار بندوں کے لئے اس میں ایک پیغام ہے یعنی مسلمانوں کو تو ہوشیا ر کردے کہ ایک وقت ایسا آئےگا کہ پھر بنی اسرائیل اس پر قابض ہو جائیںگے اس لئے یہاں عابدین کا لفظ دائود ؑ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا اور بتایا کہ میرے بندوں کو کہہ دے کہ ہوشیار ہوجائو.اگر کسی وقت تم نے میرے عباد بننے میںکمزوری دکھائی تو پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو اس ملک میںواپس لے آئے گا لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ پھر عبادت گذار بن جائیں.اس کے نتیجہ میں وہ پھر غالب آجائیںگے اور ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب زمانوں کے لئے رحمت ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اس وقت ختم نہیں ہوجاتا جب بنی اسرائیل فلسطین پرقابض ہوں.بلکہ اس کے بعد بھی وہ زمانہ ہے جس کے لئے

Page 110

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہیں.پس مایوس نہیں ہوناچاہیے جب دوبارہ رحمت الٰہی جوش میں آجائےگی مسلمان دوبارہ فلسطین میں غالب آجائیںگے.اس آیت میںزبور کی جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اس کا ذکر زبور باب ۳۷ میں آتا ہے اس میںلکھا ہے.’’ تو بد کردارں کے سبب سے بیزار نہ ہو.اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیںگے.اور سبزہ کی طرح مرجھا جائیں گے.خداوند پر توکل کر اور نیکی کر ملک میں آباد رہ اوراس کی وفاداری سے پرورش پا خداوند میںمسرور رہ.اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا.اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اس پر توکل کر وہی سب کچھ کرے گا.وہ تیری راست بازی کو نور کی طر ح اورتیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا.خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا اور برے منصوبوں کو انجام دیتاہے.بیزار نہ ہو.قہر سے باز آاور غضب کو چھوڑ دے.بیزار نہ ہو.اس سے برائی ہی نکلتی ہے کیونکہ بد کردار کاٹ ڈالے جائیںگے.لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوںگے.کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا.تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا.پروہ نہ ہوگا لیکن حلیم ملک کے وارث ہوںگے.اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیںگے.‘‘ (زبور باب۳۷ آیت ا تا ۱۱) اسی طرح زبور باب ۳۷ آیت ۲۹ میں لکھا ہے.’’ صادق زمین کے وارث ہوںگے اور اس میںہمیشہ بسے رہیں گے.‘‘ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وعدہ ارض مقدس کے متعلق بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا.یہ کوئی غیر مشروط وعدہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت کی شرط لگائی گئی تھی اور انہیںکھلے طور پر بتادیاگیاتھا کہ اگر تم نے شرارتوں پر کمر باندھ لی اور بد کرداریوں کو اپنا شیوہ بنالیا تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میںسرکشی پیدا ہوگئی تو ’’جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہو ا ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کرڈالنے سے خداوند خوشنود ہوگا.اور تم اس ملک سے اکھاڑ دیے جائو گے.جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جارہا ہے.اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام

Page 111

قوموں میں پراگندہ کرے گا.وہاں تو لکٹری اور پتھر کے اور معبودوں کی جن کو تو یا تیرے باپ دادے جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا.‘‘ (استثنا باب ۲۸آیت ۶۳ ،۶۴ ) مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی ٰنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی خبر دے دی کہ ا س عذاب کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی تو ان پر پھر رحم کیاجائےگا.چنانچہ فرمایا.’’خداوند تیرا خداتیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کرےگا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میںسے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا اگر تیرے آوارہ گروہ دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیر اخدا تجھ کو جمع کر کے لے آئےگا.‘‘(استثناء باب ۳۰ آیت ۳ ،۴) گو یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو یہ خبر دی گئی تھی کہ جب تمہاری شرارتیں بڑھ گئیں تو یہ ملک تم سے چھین لیاجائےگا.مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا اور یہ زمین پھر تمہارے سپرد کر دی جائے گی.مگر اس کے بعد پھر دوبارہ ایک تباہی کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ یہود پھرسرکش ہوجائیںگے اور پھر ان پر الٰہی عذاب نازل ہوگا اور وہ اس ملک سے نکال دیئے جائیںگے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی بھی پیشگوئی کی.اور فرمایا کہ ’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے باعث غیرت اور مکروہات سے اسے غصہ دلایا......خدا وند نے یہ دیکھ کر ان سے نفر ت کی کیونکہ اس کے بیٹوں اور بیٹیوںنے اسے غصہ دلایا (اس جگہ تمام یہودی مردوں اور عورتوں کو خدا تعالیٰ کے بیٹے او ربیٹیاں قرار دیا گیا ہے )تب اس نے کہا.میں اپنا منہ ان سے چھپالوںگا.اور دیکھو ںگا کہ ان کاانجام کیسا ہوگا کیونکہ وہ گردن کش نسل اور بے وفا اولاد ہیں...میں ان پرآفتوں کاڈھیر لگائوںگا اور اپنے تیروں کو ان پر ختم کروںگا وہ بھوک کے مارے گھل جائیں گے اور شدید حرارت اور سخت ہلاکت کالقمہ ہوجائیںگے اور میں ان پردرندوں کے دانت اور زمین پرکے سرکنے والے کیڑوں کازہر چھوڑ دوںگا باہر وہ تلوار سے مریںگے اور کوٹھڑیوں کے اندر خوف سے جواں مرد اور کنواریاں دودھ پیتے بچے اور پکے بال والے سب یوں ہی ہلاک ہوںگے.‘‘ (استثنا باب ۳۲ آیت ۱۶ تا ۲۵ ) غرض حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ بنی اسرائیل کو دوتباہیوں کی خبردی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس ملک پرتمہارا قبضہ دائمی نہیںہوگا.بلکہ پہلے تمہاراقبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جائوگے.پھر تمہارا قبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے

Page 112

جائوگے.اللہ تعالیٰ کایہ کلام کس شان اور عظمت سے پورا ہو ا.اس کی تفصیل سورئہ بنی اسرائیل کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہےوَ قَضَيْنَاۤ اِلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا.فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا.ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا (بنی اسرائیل:۵ تا ۷) یعنی ہم نے تورات میںبنی اسرائیل کویہ بات کھول کر پہنچادی تھی کہ تم یقیناً اس ملک میںدو دفعہ فساد کروگے.اور یقیناً تم بڑی سرکشی اختیار کرو گے چنانچہ جب ان دو دفعہ کے فسادات میں سے پہلی دفعہ کاوعدہ پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے بعض بندوں کو تمہاری سرکوبی کے لئے تم پرکھڑاکردیا.جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے گھروں کے اندر جاگھسے اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا تھا.پھر ہم نے تمہاری طرف دوبارہ دشمن پرحملہ کرنے کی طاقت کو لوٹا دیا.اور ہم نے مالوں اور بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مددکی اور ہم نے تمہیں جتھے کے لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردیا.پھر فرماتا ہےفَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا.عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا(بنی اسرائیل:۸ ،۹) جب دوسری بار والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا.تاکہ وہ دشمن تمہارے منہ خوب کالے کریں.اور تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور اسی طرح ،مسجد میںداخل ہوںجس طرح وہ اس مسجد میںپہلی بار داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے بالکل تباہ وبرباد کردیں تو ہم نے اپنی اس پیشگوئی کو بھی پورا کردیا مگر اب بھی کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم کردے.لیکن اگر تم پھر اپنے ا س رویہ کی طرف لوٹے تو ہم بھی اپنے عذاب کی طرف لوٹیں گے.اور یقیناً ہم نے جہنم کوکافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ فلسطین کا ملک خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو ملے گا اور چونکہ پہلے یہود سے یہ وعدہ کیا گیا.اس لئے ان کو یہ ملک ملا.مگر ملک دیتے وقت خدا تعالیٰ نے کچھ شرائط بھی عائد کردیں.اور فرمایا کہ کچھ عرصہ کے بعد تمہاری شرارتوں کی وجہ سے ہم یہ ملک تم سے چھین لیں گے.چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ جب ان دو بار کے فسادوں میںسے پہلی بار کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریںگے.جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی اور وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائے گی اور تمہاری حکومت کوتباہ کردے گی مگر ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ

Page 113

کچھ مدت کے بعد یہ ملک ہم تم کو واپس دے دیںگے اور تمہاری طاقت اور قوت کو بحال کردیںگے.وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا اور ہم تم کو مال بھی دیںگے اور بیٹے بھی دیںگے اور تمہیں تعداد میںبھی بہت بڑھا دیںگے لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ ملک تم سے چھین لیںگے چنانچہ فرمایا فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا جب وہ دوسراوعدہ پوراہونے کا وقت آئے گا تو اس لئے کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور ہم یہ ملک دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں اور جس طرح پہلی دفعہ انہوں نے تمہاری عبادت گاہ کی بے حرمتی کی تھی اسی طرح اس دفعہ بھی اس کو ذلیل کریں.یہ دشمن پھر تمہارے ملک میںجاگھسے گا.اور تمہاری عبادت گاہ کو ذلیل کرے گا.اور جس جس علاقہ میں جائے گا تباہی مچاتا چلا جائے گا.مگر فرمایا عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ کچھ بعید نہیں کہ اب بھی تمہارا رب تم پر رحم کردے یعنی اس کے بعد پھرہم یہ فیصلہ کریںگے.کہ یہ ملک واپس دے دیا جائے مگر یہاں یہ نہیںفرمایا کہ وہ یہودیوں کو دیاجائے گا بلکہ فرمایا.عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ خداتم پر رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کردے گا.جو تمہاری دنیا میںہوئی.وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے پھر بھی باز نہ آئے تو ہم بھی اپنی اسی سنت کی طرف لوٹیں گے.اور پھریہ ملک تم سے چھین لیں گے.وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قیدخانہ بنا دیںگے یعنی پھرتم اس ملک میںواپس نہیںآسکو گے.چنانچہ دیکھ لو خدا تعالیٰ نے کہاتھا کہ یہ ملک کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گا مگر اس کے بعد چھینا جائے گا چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں ،شہر بھی تباہ کئے اور سارے ملک پر قبضہ کرلیا او رقریباً ڈیڑھ سوسال تک حکومت کی(۲سلاطین باب ۲۴ آیت ۱۰ تا ۱۷،۲ تواریخ باب ۳۶ آیت ۲۰،۲۱،جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Nebuchadenezzar) اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہوگئے.پھر مسیح ؑکے بعد رومی لوگوں نے اس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ وبرباد کیا.اسی طرح مسجد کو تباہ کیااور اس کے اندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا لمبے عرصہ تک قبضہ رہا.لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہوگیا.اس لئے یہاں یہ نہیںفرمایا تھاکہ یہودیوںکو یہ ملک واپس کیا جائے گا بلکہ فرمایا تھا کہ پھرہم تم پر رحم کریںگے.یعنی تمہاری وہ بے عزتی دور ہوجائے گی چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہوگیاتو پھر وہ موسیٰ ؑکو بھی ماننے لگ گیا.دائود ؑ کو بھی ماننے لگ گیا.اسی طرح باقی جس قدر انبیا ء تھے ان کو بھی ماننے لگ گیاتھا.وہ عیسیٰ ؑکو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے.عیسائی بادشاہت یہودی نبیوںکاادب کرتی تھی.

Page 114

تورات کا ادب کرتی تھی.بلکہ تورات کو بھی اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہوگیا.مگر فرماتا ہے.اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اگر اس کے بعد تم لوگ پھربگڑے اور شرارتیں کیں تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال دیںگے.یعنی پھرمسلمان آجائیں گے اوران کے قبضہ میںیہ ملک چلا جائے گا اور وہ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ بنیںگے اور تمہارے لئے پھرجہنم پیدا ہوجائے گا.جس میںتم ہمیشہ جلتے رہوگے.اس تفصیل سے معلوم ہوسکتا ہے اس جگہ مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.۱.یہ ملک یہود سے چھین کر ایک اور قوم کو دے دیاجائے گا.۲.کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ ملک یہود کوواپس مل جائے گا.۳.کچھ عرصہ کے بعد یہ پھر ان سے چھین لیا جائے گا.۴.اس کے بعد یہ ملک پھر واپس کیا جائے گا.مگر یہود کے ہاتھ نہیں آئے گا.بلکہ موسوی سلسلے کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میںچلا جائے گا.۵.اگر پھر شرارت کی گئی ( اب اس میں عیسائی بھی شامل ہوگئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے.) تو پھریہ زمین ان سے چھین لی جائے گی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میںداخل ہوکر اس کی ہتک کریںگے.اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے.مگر ان کی جگہیںبھی مقدس تھیں.اس لئے مسلمان ان کی مسجدوں میں وہ خرابیا ں نہیں کرسکتے تھے جو بابلیوں او ر رومیوں نے کیں.یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا.یوروپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا کوئی ان کو برا بھلا نہیںکہتا.کوئی ان پر الزام نہیںلگاتا.رومیو ں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں.گبن نے بھی’’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر.‘‘ THE DECLINE AND FALL OF THE ROMAN EMPIRE لکھی ہے مگر سب کتابوںکو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Roman Empire)حالانکہ انہوںنے ان کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے ان کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے

Page 115

باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں.آپ مسجد میںآکر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کوتسلی ہوجائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آ پ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں.کل کویہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیںگے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے.اس لئے باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے.پس ایک وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کامنہ اس کی تعریف کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اورایک وہ تھا جس نے ان کی مسجد میں دونفل پڑھنے سے بھی انکار کیا.کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں.اور اس کو رات دن گالیاں دےجاتی ہیں.کتنی ناشکر گذار اور بے حیا قوم ہے.اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعد سوال ہوسکتا ہے کہ یہ ملک یہودیوں کے ہاتھ بھی نہ رہا اور عیسوی سلسلے کے پاس بھی نہ رہا.یہ کیا معمہ ہے ؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جب کسی بات پر جھگڑ اہوتاہے اور وراثت کے کئی دعوے دار بن جاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں کہ ہم ان کے وارث ہیں.اور ان کے حق میںفیصلہ کردیا جاتاہے یہی صورت اس جگہ واقعہ ہوئی ہے.خداملک دینے والا تھا.خداکے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰ ؑاور دائودؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں.یا موسیٰ اور دائود کے وارث یہ یہودی اور عیسائی ہیں.توکورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ اور دائود کے وارث مسلمان ہیں.چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا.پھر آگے چل کر فرماتا ہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا (بنی اسرائیل:۱۰۵) پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئے گا.کہ یہودیوں کو دنیا کے اطراف سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لاکر بسادیا جائے گا چنانچہ وہ وقت اب آیا ہے.جب کہ یہودی اس جگہ پر قبضہ کئے ہوئے ہیں.کراچی اور لاہور میں میںجب بھی گیاہوں مسلمان مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ یہ تو خدائی وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی.پھر یہودیوں کو کیسے مل گئی؟ میں نے کہا.کہاں وعدہ تھا.قرآن میں تو لکھاہے کہ پھریہودی بسائے جائیںگے.کہنے لگے.اچھاجی یہ تو ہم نے کبھی نہیںسنا.میں نے کہاتمہیںقرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سننا کہاںسے ہے.میر ی تفسیر پڑھو تو اس میںلکھاہوا موجود ہے.تو یہ جو وعدہ تھاکہ پھریہودی ارض کنعان میں آجائیںگے قرآن میںلکھا ہوا موجود ہے.سورئہ بنی اسرائیل رکوع ۱۲میں یہ لکھا ہوا ہے.کہ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا جب وہ آخر ی زمانہ کاوعدہ آئے گا.توپھر ہم تم

Page 116

کواکٹھاکرکے اس جگہ پرلے آئیںگے.اس جگہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مرادمسلمانوں کے دوسرے عذاب کا وعدہ ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئےگا اور دوسری دفعہ ارض مقدس ان کے ہاتھ سے نکل جائےگی اس وقت اللہ تعالیٰ پھریہود کو اس ملک میںواپس لے آئےگا اس جگہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیںکہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہوگیا.گویا ان کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کہ عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا.جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہو اکہ مسلمان عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ نہیں رہے.یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہی پیشگوئی تو رات میں موجود ہے یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس ملک کو بابلیوں نے سوسال رکھامگر اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا.ٹائٹس کے زمانہ سے لےکر سو دو سو بلکہ تین سوسال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا وہ عیسائیوں کے قبضہ میںنہیںتھا.یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھامسجد میںسور کی قربانی کی جاتی تھی.اور پھر بھی یہودیت کو سچا سمجھا جاتا تھالیکن یہودیوں کے آنے پر نوسال کے اندر اندر اسلام منسوخ ہوگیاکیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے اگر واقعہ میں کسی غیرقوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی باطل ہوجاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتاہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے تین سو سال دوسری دفعہ کافروں کاقبضہ دیکھاہے اس وقت یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیںکہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداو ت اتنی ہے کہ اسلام میں نو سال کے بعد ہی تم اس قبضہ کو منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو جب اتناقبضہ ہوجائے جتنا یہودیت اور عیسائیت کے زمانہ میںرہا تب تو کسی کا حق بھی ہوسکتا ہے کہ کہے لوجی اسلام کے ہاتھ سے یہ ملک نکل گیا لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوا تو اس پراعتراض کرنا محض عداوت نہیںتو اور کیا ہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.حالانکہ مکہ مسلمانوں کے پاس ہے مدینہ مسلمانوں کے پاس ہے اور یہ دو اہم اسلامی مراکز ہیں.ہم ان سے کہتے ہیں ’’چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میںنو سو سوراخ ‘‘.تمہاراکیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو تمہارے پاس تو ایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو.اسلام کامکہ بھی موجود ہے اور اسلام کامدینہ بھی موجود ہے.وہ تو ایک زائد انعام تھا.وہ ملک اگر عارضی طور پر چلا گیا تو کیا اعتراض ہے ؟

Page 117

بہائیت ۱۸۴۴ سے شروع ہے اور اب ۱۹۵۸ ؁ہے اس کے معنے یہ ہیںکہ ان کے مذہب کو قائم ہوئے ایک سوچودہ سال ہوگئے اور ایک سوچودہ سال میںایک گائوں بھی تو انہوںنے مقدس نہیںبنایا.وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیںحکومت حاصل نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی توحکومت نہیںہم نے تو چندسال میں ربوہ بنا لیا پہلے قادیان بنا ہوا تھا.اب ربوہ بنا ہوا ہے یہاں ہم آتے ہیں.نمازیں پڑھتے ہیں.اکٹھے رہتے ہیں پھرفلسطین میں بھی کرمل پہاڑ کی چوٹی پر ایک پورا گائوں احمدیوں کا ہے جس کانام کبابیرؔ ہے بہائی بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مکان ہے یادنیا میں کسی جگہ پروہ اکٹھے ہوتے ہیں ؟ لیکن اسلام پر صرف نوسال کے قبضے کی وجہ سے ان کے بغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام ختم ہوگیا اور اپنی حالت یہ ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے اور کہتے ہیںکہ حدیثوںمیں بھی پیشگوئیاںتھیں کہ عکہ ان کے پاس ہوگا اور تورات میںبھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کانام ونشان بھی نہیں ہے اور ان کے لیڈر شوقی افندی جو عکہ کی بجائے سال کا اکثر حصہ سوئٹزر لینڈ میں گزارا کئے وہ بھی وفات پاچکے ہیں اوران کے بعد ابھی تک بہائیوں کا کوئی قائم مقام لیڈر بھی تجویز نہیںہوا.پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی جاہل ان کے اعتراضوںسے مرغوب ہوجاتے ہیں.غرض بابلیوںکے آنے اور رومیوں کے عارضی طورپر وہاں آجانے کو جس کاعرصہ ایک دفعہ ایک سوسال اور دوسری دفعہ قریباًتین سو سال کا تھا.اگر موسیٰ ؑاور دائود ؑکے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں قرار دیاگیا تو اس وقت یہود کا عارضی طورپر قبضہ جس میںصرف چند سال گذرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیاجاسکتاہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے.جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوںکو نکالا جائے گا اور یہودی واپس آئیںگے تو یہودیوںکاواپس آنا اسلام کے منسوخ ہونےکی علامت نہیں اسلام کے سچاہونے کی علامت ہے.کیونکہ جو کچھ قران نے کہاتھاوہ پوراہوگیا.باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میںکس طرح رہا ؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طورپر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے.اور عارضی طورپر اب بھی نکلا ہے اورجب ہم کہتے ہیں ’’عارضی طورپر ‘‘تو لازماًاس کے معنے یہ ہیںکہ پھر مسلمان فلسطین میںجائیںگے اور بادشاہ ہوںگے اور لازماًاس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہود ی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماًاس کے یہ معنے ہیںکہ یہ سارا نظام جس کو یو.این.او کی مدد سے اور امریکہ کی مددسے قائم کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اور پھر اس جگہ پر لاکر مسلمانوں کو بسائیں.

Page 118

دیکھو حدیثو ں میںبھی یہ پیشگوئی آتی ہے.حدیثوں میںیہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیںگے اور جب کوئی مسلمان سپاہی کسی پتھر کے پاس سے گذرے گا تو وہ پتھر کہے گا کہ اے مسلمان خداکے سپاہی میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار.(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب قتال الیہود).جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کافلسطین میںنام ونشان بھی نہیں تھا.پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیںکہ ایک وقت میں یہودی اس ملک پرقابض ہوںگےمگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میںداخل ہوںگے اور یہودیوںکو چن چن کے چٹانوں کے پیچھے ماریںگے.پس عارضی میں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَکاحکم موجود ہے مستقل طورپر تو فلسطین عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے.سو خدا تعالیٰ کے عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماًاس ملک میں جائیںگے.نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کرسکتے ہیںنہ ایچ بم کچھ کرسکتے ہیں.نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہوکر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگالے.اس جگہ پرایک اعتراض کیا جاسکتا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد آخری زمانہ ہے.مگر سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیات میںبھی تو ایک وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ کا ذکر ہے جس میںرومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا (بنی اسرائیل:۱۰۵) رومیوں کے حملہ کےمتعلق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس صورت میںوَعْدُ الْاٰخِرَۃِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ کو انعام کاقائم مقام قرار دیاہے.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے.اس جگہ توفرمایا ہے کہ جب دوسری دفعہ والاو عدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو تم کو تباہ کردیاجائےگا اوراس آیت میں ذکر ہے کہ جب وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ آئے گا تو پھر تم کو لاکے اس ملک میںبسادیا جائے گا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ اور ہے اوروہ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ اور ہے.وہاں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اوریہاں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مردایہ ہے کہ آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی پیش گوئی.پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتارہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے

Page 119

اور وہ اور وعدہ ہے.وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کاہے.اور انعام کاقائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہوسکتا.قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰۤى اِلَيَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَهَلْ تو کہہ دے کہ مجھ پر تو صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہاراخدا ایک ہے.پس کیا تم اس بات کو مانو گے (کہ نہیں).اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۰۰۱۰۹فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ پس اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو تو ان سے کہہ دے کہ میں نے تم (میں سے مومن و کافر )کو برابر خبر دے دی ہے.وَ اِنْ اَدْرِيْۤ اَقَرِيْبٌ اَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ۰۰۱۱۰ او ر میں نہیں جانتا کہ وہ امر جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھاقریب ہے یابعید.حلّ لُغَات.اٰذَنْتُکُمْ.اٰذَنْتُکُمْ اٰذَنَ سے متکلم کا صیغہ ہے اور اٰذَنَہُ الْاَمْرَ کے معنے ہوتےہیں اَعْلَمَہُ بِہٖ.اس کو کسی امر کے متعلق بتایا.(اقرب) پس اٰذَنْتُکُمْ کے معنے ہوں گے میںنے تم کو اطلاع دےدی ہے بتا دیا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.میری وحی تو توحید پرمشتمل ہے باقی سب چیزیں اس کی تابع ہیں پس اگر تم اس آواز کو سن لو.تو تم پرفضل ہوجائےگا.اوراگر اس ا ٓواز سے منہ پھیر لو.تو اچھی طرح سن لو کہ تمہاری تباہی کے وقت کے متعلق مجھے معلوم نہیںکہ جلد آنے والا ہے یا بدیر لیکن وہ آکر رہے گا.اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَ يَعْلَمُ مَا تَكْتُمُوْنَ۰۰۱۱۱ خدا (تعالیٰ) ظاہر بات کو بھی جانتا ہے.اور جوتم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے.اور میں نہیںجانتا کہ وہ (بات جو اوپر وَ اِنْ اَدْرِيْ لَعَلَّهٗ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۰۰۱۱۲ بیان ہوئی ہے )شاید تمہارے لئے ایک آزمائش ہے اور (اس سے) ایک عرصہ تک تمہیں فائدہ پہنچانا مدنظر ہے (یاہمیشہ ہمیش کے لئے ).حلّ لغات.فِتْنَةٌ.فِتْنَۃٌکے معنے ہیں اَلْخِبْرَۃُ وَالْاِ بْتِلَاءُآزمائش اور امتحان.اَلضَّلَالُ وَالْاِثْمُ

Page 120

وَالْکُفْرُگُمراہی.گناہ اور کفر اَلْفَضِیْحَۃُ.رسو ائی.اَلْعَذَابُ.عذاب.اَلْعِبْرَۃُ عبرت.اَلْمَالُ وَالْاَوْلَادُ.مال اور اولاد.اِخْتِلَافُ النَّاسِ فِی الْاٰرَاءِ وَمَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْقِتَالِ لوگوںکی آپس کی آرا ء مخالفت اور ان کے درمیا ن لڑائی اور جھگڑا کا پیدا ہونا بھی فتنہ کہلاتا ہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.خداظاہر بات کوبھی جانتاہے اور چھپی بات کوبھی اور میں نہیںجانتا کہ جوکلام تمہا ر ے سامنے پیش کیاجارہا ہے اس کا انکار تم کو ایک لمبی تباہی میں مبتلاکردےگا یاکچھ عرصہ کے لئے تم ترقیات حاصل کرلو گے.قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ١ؕ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا (اس وحی کے آنے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا اے میرے رب.تو حق کے مطابق فیصلہ کردے اور تَصِفُوْنَؒ۰۰۱۱۳ ہمارا رب تو رحمٰن ہے اور( اے کافرو) جو تم باتیںکرتے ہو انکے خلاف اسی سے مددمانگی جاتی ہے.تفسیر.اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے اپنی امت کے متعلق ایک دعا سکھائی گئی ہے.اور کہا گیا ہے کہ اے محمدؐ رسول اللہ تو دعا کر کہ خدایا جس وقت مسلمانوں پر تنزل کا زمانہ آئے اور یہودی پھرارض مقدسہ میں آجائیںتوگو میری امت کے لوگ اس وقت کمزور ہوںگے مگر اصل حکومت تو میری ہی ہوگی جو تیری طرف سے قیامت تک کے لئے خاتم ا لنبیین مقرر ہوا ہوں.پس مسلمانوں کی شکست میری شکست ہوگی اور میں تیرے حضور میں محبوب ہوں اور یہودی تیرے حضور میں مغضوب ہیں.پس میں تجھ سے دعا کرتاہوں کہ ایسے وقت میں میر الحاظ کرکے میری قوم اور یہودیوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور میری قوم کو یہودیوں پر فتح دے تاکہ پھرمیری قوم عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ میں شامل ہوکر فلسطین پر قابض ہوجائے.اور یہ ظاہر ہے کہ جو دعا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ ضرور پوری ہوکر رہے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ تمسخر نہیں کیا کرتا.پس مسلمانوں کو ایک طرف تو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے ان کو تنبیہہ کردی ہے اور دوسری طرف انہیںاپنے انجام سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی دوبارہ کامیابی کے لئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے دعا کرواد ی ہے جو پوری ہوکر رہے گی.

Page 121

سُوْرَۃُ الْحَجِّ مَدَنِیَّۃٌ سورۃ حج.یہ سورۃ مدنی ہے وَھِیَ مَعَ البَسْمَلَۃِ تِسْعٌ وَّ سَبْعُوْنَ اٰیَۃً وَّ عَشَرَۃُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ سمیت اس کی۷۹آیات ہیں.اور دس۱۰ رکوع ہیں ۱ ؎ ۱ ؎ یہ سورۃ علماء تاریخ قرآن کے نزدیک مکّی اور مدنی ہے.یعنی کچھ حصہ مکّی اور کچھ مدنی.ابن ؔ عباس ؓ اور مجاہدؔ کے نزدیک آیت نمبر۲۰،۲۱،۲۲یعنی تین آیتیں مدنی ہیں.ابنؔ عباسؓ سے ایک اور روایت بھی ہے کہ تیئیسویں آیت بھی مدنی ہے گویا ان کے نزدیک چار آیتیں مدنی ہیں.ضحاکؔ کا خیال ہے کہ ساری سورۃ ہی مدنی ہے.(تفسیر قرطبی) ترتیب قریب کی ترتیب کے لحاظ سے سورۂ انبیاء کے مضمون سے اس کا سلسلہ ملتا ہے.اُس سورۃ میں اصل مضمون ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے دنیا میں عذاب آتا رہتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر انسان صحیح راستہ اختیار کرے تو وہ نجات پا سکتا ہے.پھر بتایا تھا کہ تیری قوم پر بھی عذاب آئے گا.چنانچہ سورۂ انبیاء کی آخری آیت ہی یہ تھی کہ قٰلَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ١ؕ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے رب ! تُو حق کے مطابق فیصلہ کردے اور ہمارا ربّ تو رحمٰن ہے اور (اے کافرو!) جو تم باتیں کرتے ہو اُن کے خلاف اس سے مدد مانگی جاتی ہے.گویا اس آیت میں منکرین کے لئے عذاب کی دُعا سکھائی گئی تھی.اب سورۃ الحج میں اس دُعا کا جواب دیا اور پہلی آیت ہی یہ رکھی کہيٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌیعنی اے لوگو! تم اپنے رب کا تقویٰ کرو.کیونکہ فیصلہ والا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حکم سے اب دعا میں مشغول ہو گئے ہیں تم اگر بچنا چاہتے ہو تو اپنے نفس کی اصلاح کرکے اس عذاب سے بچنے کی دعا میں لگ جائو.سورتوں کی لمبی ترتیب کے لحاظ سے اس سورۃ میں مریم ؔ.طٰہ اور انبیاء ؔ کے مضمون کو تکمیل تک پہنچایا گیاہے.سورۃ مریم میں اصول مسیحیت بتا کر اُن کا ردّ کیا گیا تھا کیونکہ مسیحیت کی تردید کئے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 122

رسالت ثابت نہیں ہو سکتی تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ اوّل شریعتِ جدید ہ کے لانے کا اور دوم ساری دنیا کی طرف آنے کا تھا.اگر مسیحیت اپنی اصلی شکل میں قائم تھی تو ایک سچا اور قابلِ عمل دین دنیا میں موجود تھا اُس کے ہوتے ہوئے کسی ایسی شریعت کا آنا جائز نہ تھا جو سب قوموں کے لئے ہو.کیونکہ جب مسیحیت ایک زندہ مذہب تھا تو مسیحیوں کو اسلام کی کیا ضرورت تھی ؟پس سورۃ مریم میں مسیحیت کے اصول کا ردّ کیا اور مسیح ؑ کی پیدائش اور اس کے دعویٰ کے حالات بیا ن کئے اور اُسے دوسرے نبیوں جیسا ثابت کیا.سورۃ طٰہٰ میں مسیحیت کے اس دعویٰ کو تفصیل سے ردّ کیا کہ شریعت لعنت ہے.سورۃ انبیاء میں اس مضمون کی دوسرے رنگ میں وضاحت کی کہ اگر ورثہ کے گناہ سے انسان پاک نہیں ہوسکتا تو ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا کس لئے آیا اور اُن کے دشمنوں کو سزاکیوں ملی ؟ کیونکہ ورثہ کے گناہ کی وجہ سے تو انسان مجبور ہے اور مجبور کو سزا نہیں دی جا سکتی.اب اس سورۃ میں بتا تا ہے کہ اگر مسیح آخری نقطہ روحانیت کا تھا تو اُن کے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں آنی چاہیے تھی کیونکہ مسیح کامل ترین تھا.اور شریعت متروک ہو چکی تھی لیکن محمد ؐ رسول اللہ کا وجود اس دعویٰ کو باطل کر دیتا ہے.اُس کے سّچا ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ سابق انبیاء کی طرح اُس کے دشمن ہلاک ہونگے.دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی تعلیم ضروری اور پُر حکمت باتوں پر مشتمل ہے.تیسری دلیل یہ ہے کہ اس کے ماننے والے روحانی اور مادی طور پر ترقی کر جائیں گے.چوتھی دلیل یہ ہے کہ محمد ؐ رسول اللہ کو غیر معمولی برکات آسمان سے ملیں گی.اور پانچویں دلیل یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ بشمولیت مسیحیت اس سے شکست کھا جائیںگے.خلاصۂ سورۃ اس سورۃ کے شروع میں عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو پہنچے گا (يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْسے عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ تک آیت نمبر ۲و۳) پھر بتا یا گیا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دلائل ہیں.اور دلائل کا مقابلہ زبانی دعوے نہیں کر سکتے.(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ سے لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِيْرُ تک آیت نمبر۴تا۱۴) اس کے بعد بتا یا گیا کہ محمد ؐرسول اللہ کے ساتھ تائیدات سماوی ہیں.ان کے ہوتے ہوئے ان کے دشمن خواہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں کس طرح جیتنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں.(اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ سےاَنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ تک آیت نمبر۱۵تا ۱۷) پھر اس کی تعلیم ایسی پُرامن اور بابرکت ہے اور اس کے مخالفوں کی تعلیم ایسی تکلیف دہ ہے کہ ایک دوسرے

Page 123

کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتی.(اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِيْنَ هَادُوْا سے وَ مَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍتک آیت نمبر ۱۸تا ۲۶) یہ ابراہیمی دعا کے دوسرے حصہ کا مصداق ہے پھر یہ کیونکر ناکام رہ سکتا ہے.اس کی ناکامی ابراہیم ؑ کی بھی ناکامی ہے.(وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ سےاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍٍ تک آیت۲۷تا ۳۹) بے شک محمدؐ رسول اللہ کی سخت مخالفت ہے اور بے شک اُس نے ایک لمبے عرصے تک صبر کیا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے دفاع کی اجازت دے گا اور اپنی مدد سے اِسے فتح دے گا ( مسیحیت دفاع کو بھی ناجائز قرار دیتی ہے.یہ تعلیمی مقابلہ بھی ہے ) اور اس کا انجام تمام گزشتہ اولو العزم رسولو ں کی طرح ہو گا.(اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاسے وَ الَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْۤ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ تک آیت۴۰تا۵۲).پھر فرمایا کہ سب نبیوں کی مخالفت ضروری ہوتی ہے شیطان ان کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ ہمیشہ ان روکوں کو دُور کرکے انبیاء کو فتح دیتا ہے.ایسا ہی اب بھی کرےگا.اور سب ادیان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب آئیں گے.اور مختلف موقعوں پر ثابت ہوجائے گا کہ وہ سچے مذہب پر قائم ہیں ( وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ سے وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ تک آیت۵۳تا۵۸) دفاعی مقابلے کی نسبت بتا یا کہ یہ جائز ہوتا ہے بلکہ جو لوگ دین کے لئے دفاعی جنگ کر تے ہیں خدا تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میںہدایت ناکام ہو جائے.( وَ الَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْۤا سے وَ اَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ تک آیت ۵۹تا۶۳) پھر بتا یا کہ ہدایت آتی ہی کامیاب ہونے کے لئے ہے جس طرح بارش دنیا کو تازگی دینے کے لئے ہوتی ہے.یہ ایک دَور ہوتا ہے جو چلتا رہتا ہے.جب ہدایت ایک دَور ختم کر لیتی ہے تو وہ دوسرے دَور کے لئے بیکار ہوجاتی ہے اور نئے دَور کی تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتی.(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًسے اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ تک آیت ۶۴ تا ۷۱) فرماتا ہے کہ اس کا بڑا نشان یہ ہوتا ہے کہ پہلے دَور کی ہدایت ( انسانی خیالات سے مخلوط ہو جانے اور نئے زمانہ کی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے ) خدائی تائید سے محروم ہو جاتی ہے.اگر وہ اب تک خدا تعالیٰ کی پسندیدہ ہدایت ہوتی تو جو نصرت اُسے پہلے ملتی تھی اب کیوں نہ ملتی.یہی وجہ ہے کہ سابق ہدایت کے مدعی خدا تعالیٰ کی جگہ اپنے ہاتھ میں سزا لینا چاہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نصرت سے محرومی کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں.

Page 124

( وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاسے وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِيْرُ تک آیت ۷۲تا ۷۳) پھر بتا یا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے مقابلہ میں وہی سابق کا منصور مذہب بالکل بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور خدائی آواز جس نئے وجو د کے حق میں اُٹھتی ہے وہی جیتتا ہے.(يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌسےوَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ تک آیت ۷۴ تا ۷۷) اس وقت چونکہ محمدؐ رسول اللہ وہ موعود وجود ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ کی مدد ان کو حاصل ہوگی پس ان کے پیرؤں کوان کی پوری اطاعت کرنی چاہیے تا کہ وہ کامیاب ہوں.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ سابق پیشگوئیاں بھی ان کے حق میں ہیں اور اُن کا رسول ہی موعود نہیں بلکہ ان کی قوم بھی موعود ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد سے وہ کامیاب ہوںگے.(يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا سےفَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِيْرُ تک آیت۷۸ تا ۷۹) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں )اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنیوالا ہے(پڑھتا ہوں) يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ اے لوگو! تم اپنے ربّ کا تقویٰ کر و.کیونکہ فیصلہ والا زلزلہ عَظِيْمٌ۰۰۲يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ بہت بڑی چیز ہے.جس دن تم اس کو دیکھو گے ہر دودھپلانے والی عورت جس کو دودھ پلا رہی ہوگی اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى اُس کو بھُول جائیگی.اور ہر حاملہ عورت اپنے حمل کو گِرا دے گی.اورتُو النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ بد مستوں کی طرح ہیں.حالانکہ وہ بد مست نہیں ہونگے لیکن اللہ کا عذاب

Page 125

شَدِيْدٌ۰۰۳ بڑا سخت ہے.حلّ لُغَات.اِتَّقُوْا.اِتَّقُوْا وَقٰی سے باب افتعال اِتَّقٰی بنتا ہے.اور اِتَّقُوْا اسی باب سے امر کا جمع مذکر کا صیغہ ہے.وَقَاہُ کے معنے ہیں سَتَرَہٗ عَنِ الْاَذَی وَ صَانَہُ وَحَفِظَہٗ اُس کو تکلیف سے بچایا اور محفوظ رکھا ( اقرب ).مفردات میں ہے الوِقَایَۃُ: حِفْظُ الشَّیْءِ مِـمَّا یُؤْ ذِیْہُ وَیَضُرُّہٗ یعنی وِقَایَۃ ( جو وَقٰی کا مصدر ہے) کے معنے ہیں کسی چیز کو اس امر سے بچانا جو اس کو نقصان پہنچائے یا تکلیف دے.اور اَلتَّقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلُ النَّفْسِ فِیْ وِقَایۃٍ مِمَّا یُخَافُ.خطرے والی چیزوں سے نفس کو حفاظت میں رکھنا ( مفردات ) اسی طرح اَلْوِ قَایَۃُ کے معنے ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے دوسری چیز بچائی جاتی ہے ( اقرب) جیسے درخت کی چھال یا کتاب کی جلد.پس اِتَّقُوْا کے معنے ہوںگے اللہ تعالیٰ کو آفات سے بچنے کے لئے ڈھال بنائو.اَلسَّاعَۃُ اَلسَّاعَۃُ جُزْءٌ مِّنْ اَجْزَائِ الزَّمَانِ.زمانہ کے حصوں میں سے ایک حصّہ جسے ہم گھڑی یا کچھ وقت سے تعبیر کرتے ہیں.وَ یُعَبَّرُ بِہٖ عَنِ الْقِیَامَۃ اور ساعۃ کے لفظ سے کبھی قیامت بھی مراد لی جاتی ہے.وَقِیْلَ السَّاعَاتُ الَّتِیْ ھِیَ الْقِیَامَۃُ ثَلَاثَۃٌ اَلسَّاعَۃُ الْکُبْریٰ وَ ھِیَ بَعْثُ النَّاسِ لِلْمُحَاسَبَۃِ علماء نے بیان کیا ہے کہ وہ ساعات جن کو قیامت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے تین ہیں (۱)اَلسَّاعَۃُ الْکُبْرٰی جبکہ لوگوں کو محاسبہ کے لئے قبروں سے اٹھایا جائیگا.(۲) اَلسَّاعَۃُ الْوُسْطیٰ وَھِیَ مَوْتُ اَھْلِ الْقَرْنِ ساعت وسطیٰ اور یہ ایک زمانہ کے لوگوں کا مرنا اور ختم ہونا ہے.(۳) وَالسَّاعَۃُ الصُّغْرٰی وَ ھِیَ مَوْتُ الْاِنْسَانِ فَسَاعَۃُ کُلِّ اِنْسَانٍ مَوْتُہٗ.اور ساعت صغریٰ انسانی موت کا نام ہے.پس ہر انسان کی ساعۃ اُس کی موت ہے (مفردات) پس اَلسَّاعَۃُ کے معنے ہوںگے.ہلاکت کی گھڑی یا وہ خاص گھڑی جس کا انتظار کیا جا رہا ہے.تَذْھَلُ تَذْھَلُ ذَھَلَ سے مضارع واحد مؤنث کا صیغہ ہے اور ذَھَلَہُ کے معنے ہیں نَسِیَہٗ لِشُغْلٍ کسی کا م کی وجہ سے جس میں وہ مشغول تھا اسے بھُول گیا ( اقرب ) پس تَذْھَلُ کے معنے ہونگے وہ بھُول جائےگی.سُکٰری سُکٰرٰی سَکْرَانُ کی جمع ہے جو سَکِرَ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے.اور سَکِرَ مِنَ الشَّرَابِ کے معنے ہیں شراب کے نشے سے مدہوش ہوگیا ( اقرب) پس سُکٰرٰی کے معنے مدہوش کے ہیں.تفسیر.اس آیت کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ اس آیت کا مفہوم آخرت پر ہی

Page 126

چسپاں کیا جائے.بلکہ شدید جنگوں یا زلزلوں میں بھی یہ حالت پیش آتی رہتی ہے.جب ضلع کانگڑہ میں۱۹۰۵ء؁ کا زلزلہ آیا جس سے تیس ہزار کے قریب آدمی مر گئے تھے اور جو زخمی ہوئے اُن کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی اور گائوں کے گائوں اس طرح مٹ گئے کہ ان کا نام و نشان نہ رہا اور تمام پنجاب ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا تو اُس وقت لوگوں کا بالکل یہی حال ہو ا تھا.اسی طرح ۱۹۳۵ء؁ میں جب کوئٹہ میں زلزلہ آیا اور مجروح اور زلزلہ سے بچے ہوئے لوگ سپیشل ٹرینوں کے ذریعہ واپس آتے تو لوگ دیوانہ وار روتے ہوئے سٹیشنوں پر اِدھر اُدھر اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں دوڑے پھرتے اور جب انہیں اپنا کوئی رشتہ دار نظر نہ آتا تو ان کے نالہ وبکا سے ماتم برپا ہو جاتا.ایک اخبار کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا وہ اس طرح اسٹیشن پر پھر رہی تھی جس طرح ایک شرابی نشہ میں مدہوش ہو کر لڑھکتا پھرتا ہے.وہ کبھی دائیں گِرتی کبھی بائیں اور روتے ہوئے کہتی کہ سارے ہی مرگئے کوئی بھی نہیں بچا.بعض لوگوں نے بیان کیا کہ جب مصیبت زدہ لوگوں سے پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے کی بجائے چیخیں مار کر روپڑتے پھر کئی آدمی اس صدمہ کی وجہ سے پاگل ہوگئے.ان دنوں اخبارات میں چھپاتھا کہ کوئٹہ سے ملتان کو گاڑی آرہی تھی کہ راستہ میں دو عورتیں شدت غم کی وجہ سے پاگل ہوگئیں.ایک اور شخص بھی دیوانہ ہوگیا اور اُس نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی.غرض یہ ایک ایسا درد ناک نظارہ تھا کہ اس نظارہ کو دیکھنے والے توکیا پڑھنے والے بھی ششدر رہ جاتے تھے اور اُن کے دل کرب و اضطراب سے بھر جاتے تھے (اخبار انتخاب لاجواب لاہور ۲۷ ؍اگست ۱۹۳۵ء).اسی طرح ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۴ء ؁کو جب بہار میں ایک قیامت نما زلزلہ آیا جس کے متعلق لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لنڈن میں ایک تقریر کرتے ہوئے چشم پُر آب ہو کر کہا تھاکہ ــ’’ یہ زلزلہ ایسا ہیبت ناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی.‘‘ ( اخبار سو ل اینڈ ملٹری گزٹ، ۱۰؍فروری ۱۹۳۴ء؁) تو اُس وقت بھی لوگوں کی یہی کیفیت ہوئی تھی.اخبار ’’ حقیقت ‘‘ لکھنٔو نے لکھا کہ ’’ انسان تو انسان حیوان بھی اس قہر ِ خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے.اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوں کے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے.‘‘(’’ حقیقت ‘‘لکھنو۱۸؍ جنوری۱۹۳۴ء؁ ) ’’ امرت بازار پتر کا ‘‘ کے نامہ نگار نے لکھا کہ ’’ میں نے کئی آدمیوں کو کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاتے دیکھا.مگر اُن کے نیچے آنے

Page 127

سے پہلے دیواریں گِر جاتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسانی سِروں ، ہاتھوں اور بازوئوں کی بارش ہو رہی ہے.‘‘(’’پرتاپ ‘‘لاہور ۲۶؍جنوری۱۹۳۴ء؁ ) مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک شخص نے اپنا چشم دید ماجرا بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اُس وقت ’’ زمین میں دائیں اور بائیں دو حرکتیں ہوئیں بعد ازاں ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھما دیا ہے.میرے ہوش و حواس زائل ہوگئے.آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا.جہاں تک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں.شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میں اپنا گھر بھی نہ پہچان سکا.‘‘ ( ’’انقلاب‘‘ یکم فروری۱۹۳۴ء؁ ) اخبار ’’ ملاپ ‘‘ کے ایڈیٹر نے لکھا کہ ’’ باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں.بچے اپنے ماتا پتا کو تلاش کر رہے ہیں.گِرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے ماتا پتا نیچے سے نظر آسکیں اور انہیں پیا ر سے بلا سکیں لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے.جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ و پکار کا کیا ٹھکانہ.پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے.‘‘ ( ’’ ملاپ ‘‘۲۵؍جنوری۱۹۳۴ء؁ ) یہی حال جنگ میں بھی ہوتا ہے.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جنگ میں ایک عورت کو دیکھا جو دیوانہ وار دوڑی پھرتی تھی.اُس کا بچہ کہیں گُم ہو گیا تھا.وہ کبھی ایک بچہ کو اُٹھاتی اور کبھی دوسرے کو اور پھر پاگلوں کی طرح اپنے بچہ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی.یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ نظر آگیا.اُس نے لپک کر اُسے گود میں اُٹھا لیا.اُس سے پیا ر کرنے لگی اور پھر آرام اور سکون سے بیٹھ کر اُسے دودھ پلانے لگ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظارہ دیکھا تو فرمایا کہ تم نے جو اس عورت کی گھبراہٹ کا نظارہ دیکھا ہے اس سے کہیں زیادہ گھبراہٹ اللہ تعالیٰ کو اپنے گنہگار بندے کے پانے کی ہوتی ہے.( مسلم کتاب التوبۃ باب فی وسعة رحمة اللہ تعالیٰ و انھا تغلب غضبہ( یہ جو کہا گیا ہے کہ تُو ان لوگوں کو شراب سے متوالے دیکھے گا حالانکہ وہ شراب سے متوالے نہیں ہونگے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح متوالے کی حرکات اس کے قبضے میں نہیں ہوتیں اسی طرح ڈر کی وجہ سے ان لوگوں کی

Page 128

حرکات بھی اُن کے قبضہ میں نہیں ہونگی.خطرناک جنگ میں بھی لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے.چنانچہ اگر اس آیت کو جنگ پر ہی چسپاں کیا جائے تو میرے نزدیک اس کو فتح مکّہ پر چسپاں کرنا چاہیے.اس سورۃ کا نا م بھی سورۃ الحج رکھا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک عظیم الشان جنگ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے حج ممکن ہو جائے گا.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اکثر سورتوں کے نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھے ہیں اور اس سورۃ کے تیسرے رکوع میں حج کا ذکر بھی آتا ہے.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے جن کے ذریعہ حج بیت اللہ قائم ہوا.پس یہ آیتیں ایک عظیم لڑائی پر دلالت کرتی ہیں.جس کے بعد مسلمانوں کے لئے حج کا راستہ کھل جانا مقدر تھا.بیشک ا س آیت میں زَلْزَلَةَ السَّاعَةِِ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے بادیٔ النظر میں یہ شبہ پید ا ہوسکتا ہے کہ شاید اس میں عالمِ آخرت کے اُس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے جو کفار کے لئے مقّدر ہے لیکن یہ درست نہیں.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ساعۃ کا لفظ صرف اُخروی قیامت کے لئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور اُن کے دشمنوں کی تباہی کے لئے بھی ساعۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.مثلاً سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زُيِّنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَ يَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ( البقرۃ :۲۱۳) یعنی جن لوگوں نے کفر اختیا ر کیا ہے انہیں دنیوی زندگی خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے.اور وہ اُن لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں ہنسی اور تمسخر کرتے ہیں حالانکہ جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے وہ اِن کفار پر قیامت کے دن غالب ہوںگے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے.اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ کفار اس دُنیا کی زندگی کو ہی اپنا منتہیٰ قرار دیتے ہیں اور انہیں اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ ہے.حالا نکہ اصل چیز انجام ہے اور انجام مسلمانوں کا اچھا ہوگا اور وہ قیامت کے دن اِن کفار پر غالب آجائیں گے.اب اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں کہ مرنے کے بعد اگلی زندگی میں مسلمانو ں کو کفار پر غلبہ میسر آجائیگا تو یہ معنے کفار کے لئے اسلام کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں رہتے.وہ تو کہیں گے کہ یہ تمہاری اپنی خوابیں ہیں.ہمیں تو نہ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین ہے اور نہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ تمہیں اُس زندگی میں ہم پر کوئی غلبہ میسر آئےگا.یہ محض زبانی دعوے ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں.پھر یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ جب مرنے کے بعد ایمان لانا کسی انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا تو کفار کے سامنے مسلمانوں کے اس غلبہ کو پیش کرنے کا فائدہ کیا ہو گا.پس یہ آیت اگر عالم آخرت پر چسپا ں کی جائے تو اس کے کوئی معنے ہی نہیں بنتے اور نہ یہ اسلام کی صداقت کا کوئی ثبوت قرار پا سکتا ہے.

Page 129

حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ یوم القیامۃ سے مراد فتح مکّہ وغیرہ کی قسم کے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسا بین غلبہ میّسر آیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے پُوچھا کہ بتائو اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے.تو انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.گویا انہوں نے اقرار کر لیا کہ جس طرح یوسف ایک دن اپنے بھائیوں پر غالب آگیا تھا اسی طرح تجھے بھی خدا نے ہم پر غلبہ عطا کر دیا ہے.پس ہم تجھ سے اس سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ وَ ھُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ اذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء ( السیرۃ الحلبیۃ ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکة شرفھا اللہ تعالیٰ) یعنی آج تم پر کوئی گرفت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے قصورو ں کو معاف فرمائے کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.جائو تم سب کے سب آزاد ہو.قرآن کریم کی یہ آیت بتا تی ہے کہ قیامۃ کے لفظ کا استعمال اسلامی فتوحات کے لئے بھی کیا گیا ہے.اسی طرحيٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ.يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ میں فتح مکّہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ کفّا ر پر ایک قیامت نما زلزلہ آنے والا ہے.جس کو دیکھ کر وہ ایسے سراسیمہ اور حیران ہوجائیں گے کہ انہیں اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی اور وہ بد مستوں کی طرح لڑھک رہے ہوںگے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریش مکّہ نے بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہد قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے تو بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمی تیز اونٹو ں پر بٹھا کر مدینہ میں اس بد عہدی کی اطلاع دینے کے لئے روانہ کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کے مطابق اب آپ ہمارا بدلہ لیں اور مکّہ پر چڑھائی کر یں.یہ وفد ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ والوں کی اس بد عہدی کی اطلاع دے دی.چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ہاں باری تھی آپ رات کے وقت تہجد کے لئے اُٹھے.جب آپ وضو کر رہے تھے تو میں نے سُنا کہ آپ نے بلند آواز سے فرمایا.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ! اور پھر آپ نے تین دفعہ فرمایا نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ ! حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا فقرات فرمائے ہیں.یہ تو ایسے الفاظ ہیں جیسے آپ کسی سے گفتگو فرما رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ابھی دیکھا ہے کہ خزاعہ کا ایک وفد

Page 130

میرے پاس آیا ہے اور وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ قریش نے بنو بکر کے ساتھ مل کر اُن پر حملہ کر دیا ہے اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے ہیں.اب آپ معاہدہ کے مطابق ہماری مدد کریں اور مکّہ والوں پر چڑھائی کر یں.اور میں نے انہیں کہا ہے کہ میں تمہاری مدد کے لئے بالکل تیار ہوں.اب ادھر تو خزاعہ والوں نے اپنا وفد مدینہ بھجوا دیا اور اُدھر مکّہ والوں کو فکر ہوئی کہ اگر ہماری معاہدہ شکنی کی خبر مدینہ پہنچی تو مسلمان ہمار ا مقابلہ کر یں گے.چنانچہ انہوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھجوایا اور اُسے کہاکہ جس طرح بھی ہو سکے تم اس معاہدہ میں ردّ و بدل کروا دو تا کہ ہم پر معاہدہ شکنی کا کوئی الزام نہ آئے.وہ مدینہ پہنچا اور اُس نے یہ زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہیں تھا اور میں مکّہ کا بڑا رئیس ہوں اس لئے میرے دستخطوں کے بغیر وہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اب میں چاہتا ہوں کہ نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضر ہو ا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے بھی ملا مگر کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.آخر جب ہر طرف سے مایوس ہو گیا تو خود ہی مسجد میں کھڑے ہو کر اُس نے اعلان کر دیا کہ چونکہ میں اس معاہدہ میں شامل نہیں تھا اور میں مکہ کا رئیس ہوں اس لئے وہ معاہدہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں.مسلمان اُس کی اس بے وقوفی پر ہنس پڑے اور وہ سخت ذلیل اور شرمندہ ہوا اور ناکام مکّہ کو واپس چلا گیا.اسی دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ پر حملہ کرنے کے لئے دس ہزار کا لشکر تیار کر لیا اور آپ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت مکّہ کے قریب جا پہنچے اور آپ نے حکم دے دیا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے.ایک جنگل میں رات کے وقت دس ہزار آدمیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک منظر پیش کر رہی تھی.مگر چونکہ آپ نے یہ تیاری نہایت مخفی رکھی تھی اس لئے مکّہ والوں کو اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ اسلامی لشکر اُن کے سامنے ڈیرہ ڈالے پڑا ہے لیکن اندر ہی اندر وہ سخت خوف زدہ تھے.اور ابو سفیان کی ناکامی انہیں اور زیادہ پریشان کررہی تھی.آخر انہوں نے دوبارہ ابو سفیان سے کہا کہ تم پھر مدینہ جائو اور مسلمانوں کے ارادوں کی خبر لو.ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب مکّہ سے باہر نکلا تو اُس نے سارے جنگل کو آگ سے روشن پا یا.وہ حیران ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں.چنانچہ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے پُو چھا کہ یہ کیا ہے.کیا آسمان سے کو ئی لشکر اُتر آیا ہے.انہوں نے مختلف قبائل کے نا م لئے مگر ابو سفیان ہر نام پر کہتا کہ اس قبیلہ کے لوگ تو بہت تھوڑے ہیں اور اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے.ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں آواز آئی.ابو حنظلہ ! یہ ابو سفیان کی کُنیت تھی.ابو سفیان نے آواز پہچان لی اور کہا.عبا س !تم کہاں ؟ اُس نے کہا سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر پڑا ہے.اگر تم اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً میرے پیچھے سواری پر بیٹھ

Page 131

جائو.ورنہ عمر ؓ میرے پیچھے آرہا ہے اور وہ تیری خبرلے گا.چنانچہ حضرت عباس ؓ نے جو ابو سفیا ن کے گہرے دوست تھے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا.اور سواری کو دوڑاتے ہو ئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاپہنچے.وہاں جاتے ہی ابو سفیان کو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دھکا دیکر گر ا دیا.اور عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیان بیعت کرنے کے لئے حاضر ہو ا ہے.ابو سفیان اس نظارہ کو دیکھ کر اس قدر مبہوت ہو چکا تھا کہ اس کے منہ سے بات تک نہ نکلی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا تو فرمایا عبا س! ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائو اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح اسے میرے پاس لانا.جب صبح اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اُس وقت فجر کی نماز کا وقت تھا.جب اُس نے دیکھا کہ ہزاروں مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کبھی کھڑے ہو جاتے ہیں.کبھی رکوع میں چلے جاتے ہیں.کبھی سجدہ میں گِر جاتے ہیں اور کبھی تشہد میں بیٹھ جاتے ہیں تو اُس نے اپنی بیوقوفی سے سمجھا کہ شاید یہ میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہو رہا ہے.اور میرے قتل کی تدبیریں ہو رہی ہیں.چنانچہ اُس نے حضرت عبا س ؓ سے کہا کہ عباس ! یہ لوگ صبح صبح کیا کر رہے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو دس ہزار آدمی اُنکی اقتداء میں کھڑے ہو گئے.وہ رکوع میں گئے تو دس ہزار آدمی رکوع میں چلے گئے.وہ سجدہ میں گرے تو دس ہزار آدمی سجدہ میں گر گئے.وہ تشہد میں بیٹھے تو دس ہزار آدمی تشہد میں بیٹھ گئے.حضرت عبا س ؓ نے کہا یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں.وہ حیران ہو کر کہنے لگا میں نے قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے اور کسریٰ کا بھی.مگر میں نے تو ان بڑے بڑے بادشاہوں کی بھی اس طرح اطاعت نہیں دیکھی جس طرح یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر رہے ہیں.حضرت عباس ؓ نے کہا.ابو سفیان تم تو یہ کہتے ہو ان لوگوں کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر محمدؐ رسول اللہ انہیں کہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیں.نماز کے بعد حضرت عبا س ؓ ابو سفیان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے.آپ نے ابو سفیان کو دیکھا اور فرمایا کہ ابو سفیا ن کیا ابھی تم پر وہ حقیقت روشن نہیں ہوئی کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.ابو سفیان نے کہا.میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.میں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی او ر بھی معبود ہوتا تو ہماری کچھ تو مدد کرتا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو سفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں.ابو سفیا ن نے ترد د کا اظہار کیا.مگرحضرت عباسؓ کے زور دینے کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اُس کے دونوں ساتھیوں نے بھی بیعت کر لی تھی اُس نے بھی اسلام قبول کر لیا.پھر اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اگر مکّہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوںگے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہر شخص جو اپنے گھر کا

Page 132

حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ یوم القیامۃ سے مراد فتح مکّہ وغیرہ کی قسم کے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسا بین غلبہ میّسر آیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے پُوچھا کہ بتائو اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے.تو انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.گویا انہوں نے اقرار کر لیا کہ جس طرح یوسف ایک دن اپنے بھائیوں پر غالب آگیا تھا اسی طرح تجھے بھی خدا نے ہم پر غلبہ عطا کر دیا ہے.پس ہم تجھ سے اس سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ وَ ھُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ اذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء ( السیرۃ الحلبیۃ ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکة شرفھا اللہ تعالیٰ) یعنی آج تم پر کوئی گرفت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے قصورو ں کو معاف فرمائے کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.جائو تم سب کے سب آزاد ہو.قرآن کریم کی یہ آیت بتا تی ہے کہ قیامۃ کے لفظ کا استعمال اسلامی فتوحات کے لئے بھی کیا گیا ہے.اسی طرحيٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ.يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ میں فتح مکّہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ کفّا ر پر ایک قیامت نما زلزلہ آنے والا ہے.جس کو دیکھ کر وہ ایسے سراسیمہ اور حیران ہوجائیں گے کہ انہیں اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی اور وہ بد مستوں کی طرح لڑھک رہے ہوںگے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریش مکّہ نے بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہد قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے تو بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمی تیز اونٹو ں پر بٹھا کر مدینہ میں اس بد عہدی کی اطلاع دینے کے لئے روانہ کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کے مطابق اب آپ ہمارا بدلہ لیں اور مکّہ پر چڑھائی کر یں.یہ وفد ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ والوں کی اس بد عہدی کی اطلاع دے دی.چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ہاں باری تھی آپ رات کے وقت تہجد کے لئے اُٹھے.جب آپ وضو کر رہے تھے تو میں نے سُنا کہ آپ نے بلند آواز سے فرمایا.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ.لَبَّیْکَ! اور پھر آپ نے تین دفعہ فرمایا نُصِرْتَ.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ ! حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا فقرات فرمائے ہیں.یہ تو ایسے الفاظ ہیں جیسے آپ کسی سے گفتگو فرما رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ابھی دیکھا ہے کہ خزاعہ کا ایک وفد میرے پاس آیا ہے اور وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ قریش نے بنو بکر کے ساتھ مل کر اُن پر حملہ کر دیا ہے اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے ہیں.اب آپ معاہدہ کے مطابق ہماری مدد کریں اور مکّہ والوں پر چڑھائی کر یں.اور میں نے انہیں کہا ہے کہ میں تمہاری مدد کے لئے بالکل تیار ہوں.اب ادھر تو خزاعہ والوں نے اپنا وفد مدینہ بھجوا دیا اور اُدھر مکّہ والوں کو فکر ہوئی کہ اگر ہماری معاہدہ شکنی کی خبر مدینہ پہنچی تو مسلمان ہمار ا مقابلہ کر یں گے.چنانچہ انہوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھجوایا اور اُسے کہاکہ جس طرح بھی ہو سکے تم اس معاہدہ میں ردّ و بدل کروا دو تا کہ ہم پر معاہدہ شکنی کا کوئی الزام نہ آئے.وہ مدینہ پہنچا اور اُس نے یہ زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہیں تھا اور میں مکّہ کا بڑا رئیس ہوں اس لئے میرے دستخطوں کے بغیر وہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اب میں چاہتا ہوں کہ نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضر ہو ا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے بھی ملا مگر کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.آخر جب ہر طرف سے مایوس ہو گیا تو خود ہی مسجد میں کھڑے ہو کر اُس نے اعلان کر دیا کہ چونکہ میں اس معاہدہ میں شامل نہیں تھا اور میں مکہ کا رئیس ہوں اس لئے وہ معاہدہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں.مسلمان اُس کی اس بے وقوفی پر ہنس پڑے اور وہ سخت ذلیل اور شرمندہ ہوا اور ناکام مکّہ کو واپس چلا گیا.اسی دوران میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ پر حملہ کرنے کے لئے دس ہزار کا لشکر تیار کر لیا اور آپ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت مکّہ کے قریب جا پہنچے اور آپ نے حکم دے دیا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے.ایک جنگل میں رات کے وقت دس ہزار آدمیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک منظر پیش کر رہی تھی.مگر چونکہ آپ نے یہ تیاری نہایت مخفی رکھی تھی اس لئے مکّہ والوں کو اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ اسلامی لشکر اُن کے سامنے ڈیرہ ڈالے پڑا ہے لیکن اندر ہی اندر وہ سخت خوف زدہ تھے.اور ابو سفیان کی ناکامی انہیں اور زیادہ پریشان کررہی تھی.آخر انہوں نے دوبارہ ابو سفیان سے کہا کہ تم پھر مدینہ جائو اور مسلمانوں کے ارادوں کی خبر لو.ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب مکّہ سے باہر نکلا تو اُس نے سارے جنگل کو آگ سے روشن پا یا.وہ حیران ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں.چنانچہ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے پُو چھا کہ یہ کیا ہے.کیا آسمان سے کو ئی لشکر اُتر آیا ہے.انہوں نے مختلف قبائل کے نا م لئے مگر ابو سفیان ہر نام پر کہتا کہ اس قبیلہ کے لوگ تو بہت تھوڑے ہیں اور اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے.ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں آواز آئی.ابو حنظلہ ! یہ ابو سفیان کی کُنیت تھی.ابو سفیان نے آواز پہچان لی اور کہا.عبا س !تم کہاں ؟ اُس نے کہا سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر پڑا ہے.اگر تم اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جائو.ورنہ عمر ؓ میرے پیچھے آرہا ہے اور وہ تیری خبرلے گا.چنانچہ حضرت عباس ؓ نے جو ابو سفیا ن کے گہرے دوست تھے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا.اور سواری کو دوڑاتے ہو ئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاپہنچے.وہاں جاتے ہی ابو سفیان کو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں دھکا دیکر گر ا دیا.اور عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیان بیعت کرنے کے لئے حاضر ہو ا ہے.ابو سفیان اس نظارہ کو دیکھ کر اس قدر مبہوت ہو چکا تھا کہ اس کے منہ سے بات تک نہ نکلی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا تو فرمایا عبا س! ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائو اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح اسے میرے پاس لانا.جب صبح اُسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اُس وقت فجر کی نماز کا وقت تھا.جب اُس نے دیکھا کہ ہزاروں مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کبھی کھڑے ہو جاتے ہیں.کبھی رکوع میں چلے جاتے ہیں.کبھی سجدہ میں گِر جاتے ہیں اور کبھی تشہد میں بیٹھ جاتے ہیں تو اُس نے اپنی بیوقوفی سے سمجھا کہ شاید یہ میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہو رہا ہے.اور میرے قتل کی تدبیریں ہو رہی ہیں.چنانچہ اُس نے حضرت عبا س ؓ سے کہا کہ عباس ! یہ لوگ صبح صبح کیا کر رہے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو دس ہزار آدمی اُنکی اقتداء میں کھڑے ہو گئے.وہ رکوع میں گئے تو دس ہزار آدمی رکوع میں چلے گئے.وہ سجدہ میں گرے تو دس ہزار آدمی سجدہ میں گر گئے.وہ تشہد میں بیٹھے تو دس ہزار آدمی تشہد میں بیٹھ گئے.حضرت عبا س ؓ نے کہا یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں.وہ حیران ہو کر کہنے لگا میں نے قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے اور کسریٰ کا بھی.مگر میں نے تو ان بڑے بڑے بادشاہوں کی بھی اس طرح اطاعت نہیں دیکھی جس طرح یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر رہے ہیں.حضرت عباس ؓ نے کہا.ابو سفیان تم تو یہ کہتے ہو ان لوگوں کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر محمدؐ رسول اللہ انہیں کہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیں.نماز کے بعد حضرت عبا س ؓ ابو سفیان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے.آپ نے ابو سفیان کو دیکھا اور فرمایا کہ ابو سفیا ن کیا ابھی تم پر وہ حقیقت روشن نہیں ہوئی کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.ابو سفیان نے کہا.میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.میں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی او ر بھی معبود ہوتا تو ہماری کچھ تو مدد کرتا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو سفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں.ابو سفیا ن نے ترد د کا اظہار کیا.مگرحضرت عباسؓ کے زور دینے کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اُس کے دونوں ساتھیوں نے بھی بیعت کر لی تھی اُس نے بھی اسلام قبول کر لیا.پھر اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اگر مکّہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوںگے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلےگا اور مقابلہ نہیں کرےگا اُسے امن دیا جائےگا.حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابو سفیان کو اپنے اعزاز کا زیاد ہ خیال رہتا ہے اس کی عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے.آپ نے فرمایا اچھا جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائےگا اُسے بھی امن دیا جائےگا.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! مکّہ کی آباد ی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابوسفیان کا گھر بہت چھوٹا ہے.آپ نے فرمایا جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے بھی امن دیا جائےگا.اورجو شخص اپنے ہتھیار پھینک دیگا اُسے بھی امن دیا جائےگا.اور جو کوئی خانہ کعبہ میں چلا جائےگا اُس کو بھی امن دیا جائےگا.اُس نے کہایا رسول اللہ ! یہ جگہیں بھی مکّہ کی آبادی کے لحاظ سے کافی نہیں.آپ نے فرمایا اچھا میرے پا س کچھ کپڑا لائو.جب کپڑا لایا گیا تو آپ نے اُس کا ایک جھنڈا بنایا اور پھر وہ جھنڈا آپ نے ایک صحابی ابو رویحہؓ کو دیا جو حضر ت بلا ل ؓ کے بھائی بنے ہوئے تھے.اور فرما یا کہ یہ بلا ل ؓ کا جھنڈا ہے جو کوئی اس کے نیچے آکر کھڑا ہو جائےگا اُس کو بھی معاف کر دیا جائےگا.(السیرة الحلبیة ذکر مغازیہ فتح مکة ) یہ تاریخی واقعہ بتاتا ہے کہ جب ابو سفیان نے مکّہ میں جا کر اعلان کیا ہوگا.تو کس طرح لوگ پاگلوں کی طرح اپنے اپنے گھروں کی طرف.خانہ کعبہ کی طرف.بلال ؓ کے جھنڈے کی طرف اور ابو سفیان اور حکیم بن حزام کے گھر کی طرف دوڑ پڑے ہوںگے اور کس طرح اُن کے دل اُس وقت لرز رہے اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہوںگی.اور اُن کے حواس باختہ ہو رہے ہوں گے ؟ اس موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بلال ؓ کا جھنڈا بنایا یہ ایک لطیف طریقہ مکّہ والوں کو ذلیل کرنے اور بلال ؓ کا دل خوش کرنے کا تھا.مکّہ والے سالہا سال تک بلال ؓ کو اس کے اسلام لانے کی وجہ سے مارا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خیال آیا کہ بلا ل ؓ دل میں کہے گاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تو معاف کر دیا مگر میرے سینہ اور چھاتی پر لگے ہوئے زخموں کا کوئی بدلہ نہ لیا.پس آپ نے اُن کا جھنڈا بنا کر اُن کے ایک منہ بولے بھائی کے ہاتھ میں دے دیا اور فرما یا کہ جو کوئی بلال ؓ کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑ ا ہو گا اُسے بھی معاف کیا جائےگا.( السیرۃ الحلبیۃ ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکۃ شرفھا اللہ تعالیٰ ) اور اس طرح ایک ہی وقت میں آپ نے اپنی رحم دلی کا ثبوت بھی دے دیا اور بلال ؓ کے زخموں پر پھایا بھی لگا دیا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ.

Page 133

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّ يَتَّبِعُ اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ (تعالیٰ) کے بارہ میں بغیر علم کے بحث کرتے ہیں ( اور) ہر حق سے كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍۙ۰۰۴كُتِبَ عَلَيْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ دُور اور سرکش کی اتباع کرتے ہیں (حالانکہ ) اِن (سرکشوں اور حق سے دُور لوگوں ) کے متعلق فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ جو فَاَنَّهٗ يُضِلُّهٗ وَ يَهْدِيْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِ۰۰۵ (شخص) بھی ایسے آدمیوں میں سے کسی کے ساتھ دوستی کرےگا وہ ( سرکش اور حق سے دُور شخص) اُس کو بھی گمراہ کر دےگا اور دوزخ کے عذاب کی طرف لے جائے گا.حلّ لُغَات.مَرِیْدٍ.مَرِیْدٍاَلْخَبِیْثُ الْمُتَمَرِّدُ الشَّرِیْرُ.مرید کے معنے ہیںشریر اور سرکش.( اقرب) السَّعِیْرُ السَّعِیْرُکے معنے ہیں اَ لنَّارُ آگ.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے کہ بغیر واضح دلیل کے تو کسی معاملہ میں بھی نہیں جھگڑنا چاہیے.پھر یہ کتنا ظلم ہے کہ کو ئی شخص خدا تعالیٰ کے متعلق کج بحثی شروع کر دے اور کسی سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے.حالانکہ یہ الٰہی تقدیر ہے کہ جو شخص سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے اور اس کا دوست بن جائے.وہ اُسے گمراہ ہی کرتا ہے اور اُسے عذاب ہی کا رستہ دکھاتا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص بار بار شیطان کی بات ماننے لگتا ہے تو ان دونوں کا آپس میں دوستانہ تعلق ہو جاتا ہے اور یہ تعلق آخر اُسے جہنم تک پہنچا کر رہتا ہے.ایک دوسرے مقام پر بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا (النساء:۳۹) کہ شیطان جس کا ساتھی بن جاتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ بہت ہی بُرا ساتھی ہے.اگر اس حالت میں بھی انسان اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کرے تو پھر بدیوں میں بڑھتے بڑھتے آخر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ شیطان اس کا دوست نہیں رہتا بلکہ آقا بن جاتا ہے.اور وہ اُس کی غلامی میں پورے طور پر جکڑا جاتا ہے.گویا مومن تو ہدایت پر سوار ہوتے ہیں مگر یہ شخص اتنا گِرجا تا ہے کہ شیطان اُس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ جدھر چاہتا ہے اُسے ہانک کر لے جاتا ہے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ بعض انسانوں کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ وہ شیطان کی پرستش کرنے لگ گئے ہیں ( المائدۃ :۶۱)

Page 134

گویا یہ ذلت کا انتہائی مقام ہے کہ وہ انسان جسے خدا نے اپنا عبد بننے کےلئے پیدا کیا تھا وہ اپنی بد کر داریوں سے شیطان کی فرمانبر داری کرنے لگ جا تا ہے.اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے بارے میں بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے کہ وہ کیا چیز ہے.شیطان کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے حق سے دُور ہونے والے وجود کے ہیں یا بدی میں ترقی کر جانے والے کے (لسان العرب )اور ابلیس ایسے وجود کو کہتے ہیں جو مایوس ہو جائے.(اقرب)میری تحقیق کے مطابق شیطا ن اور ابلیس ایک ایسے وجود کا بھی نام ہے جسے خدا تعالیٰ نے انسانوں کے امتحان کےلئے ملائکہ کے مقابل میں رکھاہے.اس شیطان کےلئے اُس وقت تک کہ اس کا کا م پورا ہو موت نہیں.جس طرح کہ ملائکہ کے لئے اس وقت تک کہ ان کا کام پورا ہو موت نہیں.حضرت آدم علیہ السلام کے بالمقابل جو وجود کھڑا ہو اتھا وہ یہ شیطان بھی تھا اور اس کے اظلال بھی تھے.لیکن قصّۂ آدم میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن کے دو حصّے ہیں.ایک حصّہ بدی کے محرک کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ایک حصّہ اُس کے اظلال کی طرف اشارہ کرتا ہے.پس حضرت آدم علیہ السلام کے وقت کا شیطان زندہ بھی ہے اور مر بھی چکا ہے.وہ زندہ ہے اِن معنوں میں کہ محرکِ بدی انسانی نسل کے اس دنیا میں موجود رہنے تک قائم رکھا جائے گا اور وہ مُردہ ہے ان معنوں میں کہ اُس کے وہ اظلال جن کا قصّہ آدم ؑ میں ذکر آتا ہے وہ اُسی زمانہ میں فوت ہوچکے ہیں.وہ شیطان جو محرک ِ بدی ہے اُس کے متعلق تو کسی ثواب اور عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ ایک آدمی کو قتل کرنےوالا آدمی پھانسی پاتا ہے لیکن بیسیو ں آدمیوں کو جلادینے والی بجلی تو کسی سزا کی مستحق نہیں ہوتی.زلزلہ کا مادہ علاقوں کو اجاڑ دیتا ہے.اولوں کی بارش زمیندار و ں کو تباہ کر دیتی ہے.آندھیاں شہروں کو ویران کر دیتی ہیں.یہ دُکھ دینے والی چیزیں ہیں لیکن کسی شرعی الزام کے نیچے نہیں آتیں.بے شک شیطان اور ابلیس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس طرح فرشتوں کا ٹھکانہ جنّت ہے لیکن نہ فرشتے جنّت سے متلذّذ ہو سکتے ہیں اور نہ شیطان جہنّم سے متالم.شیطان ایک ناری وجود ہے.کیا آگ کا انگارہ بھی بھٹی میں دُکھ پا سکتا ہے ؟ اُس کا تو مقام ہی وہی ہے.پس شیطان کے دوزخ میں جانے کے یہ معنے نہیں کہ اُس کو سزا دی جائے گی بلکہ وہ جس جگہ کی چیز ہے وہیں چلی جائےگی.ملائکہ اگر جنّت میں جائیں گے تو وہ کسی انعام کے بدلہ میں نہیں جائیں گے.اِسی طرح شیطان بھی دوزخ میں کسی سزا کی وجہ سے نہیں جائےگا.ہاں جو اس کے اظلال ہیں وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق سزا پائیں گے.اس لئے کہ وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کے لئے اُن کو پیدا نہیں کیا گیا.سزا ہمیشہ اُن کاموں کی ملتی ہے جو خلاف قانونِ طبعی ہوتے ہیں.

Page 135

انسان کو چونکہ خلقتاًنیکی کے لئے پیدا کیا گیا ہے جیسے فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذٰریٰت:۵۷).اس لئے جو شخص عبودیت کو ترک کر تا اور عبادت کو بھُلا دیتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے ، مگر محرک بدی تو پیدا ہی امتحان کے لئے کیا گیا ہے اُس کو تو سزا تبھی مل سکتی ہے جب وہ تحریک ِ بدی میں سُستی کرے.ہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اس کو بُرا کیوں کہا جاتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا بُرا ہونا اور شے ہے اور سزا کا مستحق ہونا اور شے.پاخانہ کو گھر سے اٹھا کر اس لئے نہیں پھینکتے کہ اسکو سزا دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اُس کا رہنا ہماری صحت کے لئے مضر ہوتا ہے.یہی حال محرک بدی شیطان کا ہے.وہ بیماری اور گناہ کا نمائندہ ہے.اس لئے لازمی طور پر اُسے برا کہا جائےگا لیکن باوجود اس کے وہ سزا کا مستحق نہیں.ہاں اس کے ماتحت کچھ اظلال ہیں جو انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنّوں میں سے بھی.ایسی بد ارواح جن کا مقصد ِ پیدائش بدی نہیں لیکن بدی کو پسند کر کے وہ بدی کی محرک ہو جاتی ہیں یا ایسے انسان جو بدی کے لئے نہیں پید ا کئے گئے لیکن وہ بدی کو پسند کرکے بدی کے محرک بن جاتے ہیںیہ لوگ بھی اپنے اپنے درجہ کے مطابق شیطان اور ابلیس ہیں.اور سزا کے مستحق ہیں.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا اے لوگو! اگر تم دوبارہ اٹھائے جانے کے متعلق شبہ میں ہو تو (یاد رکھو ) ہم نے تم کو پہلے مٹی سے پیدا کیا تھا.پھر نطفہ خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ سے.پھر ترقی دیکر ایک ایسی حالت سے جو کہ چمٹ جانیکی خاصیت رکھتی تھی پھر ایسی حالت سے کہ وہ ایک بوٹی کے مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ١ؕ وَ مشابہ تھی.کچھ عرصہ تک تو وہ ایک کامل بوٹی کی شکل رہی اور کچھ عر صہ تک ناقص بوٹی کی شکل رہی تاکہ ہم تم پر نُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ ( حقیقت حال ) ظاہر کر دیں.اور ہم جس چیز کو چاہتے ہیں رحموں میں ایک مدّت تک قائم کردیتے ہیں.پھر ہم تم کو نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ ایک بچّہ کی شکل میں نکالتے ہیں.( پھر بڑھاتے جاتے ہیں ) جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم اپنی مضبوطی ( کی عمر) کو پہنچ

Page 136

يُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا جاتے ہو اور تم میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنی طبعی عمر کو پہنچ کے فوت ہو جاتے ہیں اور بعض تم میں سے ایسے ہو تے يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا١ؕ وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً ہیں جو اپنی انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تاکہ بہت کچھ علم حاصل کرنے کے بعد بالکل علم سے کورے ہو فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ جائیں.اور تُو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ ( کبھی کبھی ) اپنی سب طاقت کھو بیٹھتی ہے پھر جب ہم اُس کے اوپر پانی نازل كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ۰۰۶ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ کرتے ہیں تو وہ جوش میں آجاتی ہے اور بڑھنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوبصورت کھیتیاں اُگانے لگتی ہے.یہ اس لئے يُحْيِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌۙ۰۰۷وَّ اَنَّ ہوتا ہے کہ ( ظاہر کیا جائے کہ ) اللہ( تعالیٰ) ہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی ہستی ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي ہے اور ہر چیز پر قادر ہے.اور ہر چیز کے لئے جو وقت مقرر ہے وہ ضرور آکر رہےگا.اس میں کوئی شبہ نہیں.اور اللہ الْقُبُوْرِ۰۰۸وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ (تعالیٰ) یقیناً اُن کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ اُٹھائےگا.اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ( تعالیٰ) کے عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍۙ۰۰۹ثَانِيَ عِطْفِهٖ متعلق بغیر علم ، بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے اس حالت میں بحث کرتے ہیں کہ اپنے پہلو موڑے ہوئے ( ہوتے)

Page 137

لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ لَهٗ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّ نُذِيْقُهٗ ہیں ( یعنی اظہار تکّبر کرتے ہیں ) تا کہ اللہ کے راستہ سے لوگوں کو گمراہ کریں.ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں بھی رسوائی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَذَابَ الْحَرِيْقِ۰۰۱۰ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدٰكَ ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم اُن کو جلنے والا عذاب پہنچائیں گے.تمہارے ہاتھوں نے جو کچھ پہلے کیا تھا اُس کے وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِؒ۰۰۱۱وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ نتیجہ میں یہ بات ظاہر ہوگی اور ( اس سے معلوم ہوگا کہ ) اللہ (تعالیٰ) اپنے بندوں پر ہر گز کسی قسم کا ظلم نہیں کرتا.اور يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُ ا۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ لوگوں میں سے( بعض) ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ( تعالیٰ) کی عبادت صرف بد دلی سے کرتے ہیں.پس اگر اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ ا۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْيَا وَ اُن کو کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس (عبادت ) پر خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اپنے منہ کی الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۰۰۱۲يَدْعُوْا مِنْ سیدھ لوٹ جاتے ہیں.وہ دنیا میں بھی گھاٹے میں پڑ جاتے ہیں اور آخرت میں بھی.اور یہی کھلا کھلا گھاٹا ہے.وہ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَ مَا لَا يَنْفَعُهٗ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ اللہ کے سوا اُس چیز کو بُلاتے ہیں جو نہ اُن کو نقصان پہنچاتی ہے اور نہ نفع دیتی ہے.اور یہی انتہائی درجہ کی گمراہی ہے الْبَعِيْدُۚ۰۰۱۳يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗۤ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ١ؕ لَبِئْسَ وہ اس ( شخص ) کو بُلاتے ہیں جس کا ضرر اُس کے نفع سے زیادہ قریب ہے.ایسا آقا بھی بہت برا ہے اور ایسے الْمَوْلٰى وَ لَبِئْسَ الْعَشِيْرُ۰۰۱۴اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ ساتھی بھی بہت بُرے ہیں.اللہ (تعالیٰ) یقیناً مومنوں کو جو مناسب حال عمل بھی کرتے ہیں ایسے باغات میں داخل

Page 138

عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اِنَّ کرے گا جن ( کے سایہ ) میں نہریں بہتی ہیں.اللہ (تعالیٰ) جو چاہے کرتا ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۰۰۱۵مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ ( تعالیٰ )اس کی ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد کبھی نہیں کرےگا نہ دُنیا میں نہ آخرت میں.تو اُسے چاہیے کہ وہ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ ایک رسّی آسمان تک لے جائے (اور اس پر چڑھ جائے ) پھر اُسے کاٹ ڈالے.پھر وہ دیکھے کہ کیا اُس کی تدبیر اس لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهٗ مَا يَغِيْظُ۰۰۱۶وَ كَذٰلِكَ بات کو دُور کر دیتی ہے جو اُسے غصّہ دلا رہی ہے ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی امدادیں اور فتوحات ) اور ہم اَنْزَلْنٰهُ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يُّرِيْدُ۰۰۱۷ نے اسی طرح اس ( یعنی قرآن ) کو کھلے کھلے نشانات بنا کر نازل کیا ہے.اور اللہ (تعالیٰ) یقیناً جس کے متعلق ارادہ کرتا ہے اُسے صحیح راستہ دکھا دیتا ہے.حلّ لُغَات.مُضْغَۃٌ.مُضْغَۃٌکے معنے ہیں قِطْعَۃُ لَحْمٍ گوشت کا ٹکڑا.(اقرب) مُخَلَّقَۃٌ.مُخَلَّقَۃٌ کے معنے ہیں تَا مَّۃُ الْخَلْقِ.پوری پیدا ئش والا.(اقرب) ھَامِدَۃٌ.ھَمَدَتِ الْاَرْضُ کا فقرہ جب بولتے ہیں تو مراد ہوتی ہے اِذا لَمْ یَکُنْ بِھَاحَیَاۃٌ وَلَا عُوْدٌ وَلَا نَبْتٌ وَلَا مَطَرٌ.جب زمین میں زندگی کے آثار نہ ہوں یعنی نباتا ت وغیرہ نہ ہو.الاساس میں ہے.اَرْضٌ ھَامِدَۃٌ مُقْشَعَرَّۃٌ قَدْ یَبِسَ نَبَاتُھَاوَتَحَطَّمَ کہ جب اَرْضٌ ھَامِدَۃٌ کا فقرہ بولیں تو اس سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین جس کی نباتات خشک ہو چکی ہو.اور خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ چکی ہو.(اقرب) اِھْتَزَّتْ.اِھْتَزََّّ سے مؤنث کا صیغہ ہے.اور اِھْتَزَّتِ الْاَرْضُ کے معنے ہیں اَنْبَتَتْ.زمین نے اُگایا.(اقرب) بَھِیْجٌ.بَھِیْجٌ بَھِجَ سے صفت مشّبہ کا صیغہ ہے.اور بَھِجَ بِہٖ کے معنے ہیں فَرِحَ بِہٖ وَسُرَّ.اس کو دیکھ کر

Page 139

خوش ہوا.پس بَھِیْجٌ کے معنے ہونگے.خوش کرنے والا.(اقرب) عِطْفٌ.عِطْفٌ کے معنے ہیں جانب.پہلو.(اقرب) حَرْفٍ.حَرْفُ کُلِّ شَیْ ئٍ: طَرَفُہٗ وَ شَفِیْرُہٗ وَحَدُّ ہٗ.حَرْفٌ کے معنے ہیں ہر چیز کا کنارہ اور اُس کی حد.(اقرب) اَلْعِشَیْرُ.اَلْعِشَیْرُکے معنے ہیں اَلصَّدِّ یْقُ دوست.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے اے لوگو ! تم کو مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق کیوں شبہات ہیں.کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہاری پہلی پیدائش کس طرح بے جان چیزوں سے ہوئی ہے.مٹی سے سبزہ نکلتا ہے.پھر اس سبزہ کو کھا کر نطفہ بنتا ہے.پھر نطفہ خون کے لوتھڑے کی شکل اختیار کر تا ہے پھر وہ گوشت کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے.جس کا کچھ حصہ تو انسانی جسم کی شکل اختیا ر کر چکا ہوتا ہے اور کچھ حصّہ ابھی ایسی شکل اختیار نہیں کر چکا ہوتا.پیدا ئش کی یہ ترتیب اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ ہم اس سے تمہاری روحانی پیدا ئش کا اندازہ بھی تمہیں بتا سکیں.اور جب ہم جنین کو ایک حد تک پیدا کر لیتے ہیں توہم اس کو ایک عرصہ تک رحم میں رکھتے ہیں.پھر اُسے ایک بچہ کی شکل میں باہر نکالتے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ تم اپنی جوانی کو پہنچو.اور تم میں سے کسی کی رُوح تو پہلے ہی یعنی دنیا میں کام کرنے سے پہلے قبض کر لی جاتی ہے.اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی کمزور عمر تک لے جایا جاتا ہے تاکہ ایک خاص مقدار تک علم حاصل کر کے وہ بالکل جاہل ہو جائے.اور تم زمین کو بھی دیکھتے ہو کہ وہ بالکل بے طاقت پڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب ہم اُس پر پانی بر ساتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور اس کی سبزی اُگنے لگتی ہے اور ہر قسم کے خوبصورت نباتی جوڑے اُگانے لگتی ہے.یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات پوری ہو کر رہتی ہے.اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے.اور وہ ہر اس چیز پر قادر ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو تی ہے.ہم نے یہ ترجمہ اس لئے کیا ہے کہ یہاں یہ نہیں آیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ یعنی خدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار پسندیدہ چیزوں میںہوتا ہے.نا پسند یدہ چیزوں میں نہیں.پس یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا خدا جھوٹ بول سکتا ہے ؟ یا کیا خدا چوری کر سکتا ہے ؟ یا کیا خدا خود کشی کر سکتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں ناپسند یدہ ہیں.اور قدرت کے اظہار کے خلاف ہیں.قرآن شریف یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پسندیدہ چیزوںکا اندازہ کرنے والا ہے جو قَدِيْرٌ کے معنے ہیں.یعنی ایسے امور کو ظاہر کرنے والا ہے جو اس کے منشاء کو پورا کرتے ہوں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان تمام باتوں کو دیکھ کر تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح جسم کی پیدائش تدریجاً ہوتی ہے اسی طرح رُوح کی پیدا ئش بھی تدریج سے ہوتی ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 140

کے دعویٰ کرتے ہی مسلمانوں کی ترقی اور اپنی تباہی کی امید نہیں لگا بیٹھنی چاہیے.جس طرح جسم آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح اسلام اور مسلمان بھی آہستہ آہستہ کمال حاصل کریں گے.اور جس طرح جسم پر ایک عرصہ کے بعد تنزل وارد ہوتا ہے اور وہ بالکل بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کے مقابلہ میں تم بھی کچھ عرصہ کے بعد تنزل کا شکار ہو جائو گے اور تباہ ہو جائو گے.پس جلدی نہ کرو.نہ خدا کی طرف سے آنے والی زندگی فوراً اثر ظاہر کرتی ہے اور نہ قوموں پر آنے والی موت فوراً نتیجہ خیز ہوتی ہے.ہاں خدا کی باتیں ضرور پوری ہو کر رہتی ہیں.اور جس کے لئے زندگی مقدّر ہو اس کو زندگی مل جاتی ہے.اور جس کے لئے تباہی مقدّر ہو اُس پر تباہی آجاتی ہے.اور جن کے لئے زندگی مقدّر ہے خواہ وہ قبروں میں پڑے ہوئے نظر آتے ہوں پھر بھی وہ زندہ ہو کر رہیں گے اور جن کے لئے موت مقدّر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کج بحثی کرتے چلے جائیں گے اور تکبّر سے کا م لیں گے اور چاہیں گے کہ دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالیں لیکن آخر وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوںگے اور قیامت کے دن بھی عذاب پائیں گے.لیکن خدا کی طرف سے آنے والا عذاب بلاوجہ نہیں ہوتا وہ انسان کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ انسان اُس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو.بے دلی سے اُس کی عبادت مقبول نہیں ہوتی.خوشی اور رنج دونوں میں اُس کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے.ورنہ ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ ایمان جو انسان کو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث کرتا اور اس کو مقّرب اور نعماء الٰہیہ کا جاذب بنا تا ہے وہ وہی ایمان ہوتا ہے جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک اور ماسوی اللہ کی محبت سے خالی ہو.ہمارے ملک میں بھی لوگ کہا کرتے ہیں کہ دو کشتیوں میں پائوں رکھنے والا انسان کبھی بچ نہیں سکتا اگر دونوں کشتیاں کچھ وقت تک اکٹھی بھی چلی جائیں تب بھی پانی کی رو ایک نہ ایک وقت ان کو ضرور علیحدہ کر دے گی اور ان کشتیوں میں پاؤں رکھنے والا انسان غرق ہو کر رہےگا.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جو مُنہ سے تو اس کے ساتھ اپنی محبت کا دعویٰ کرتے ہوں اور عملی طور پر رات دن وہ دنیا پر گرے رہتے ہوں اور خدائی احکام کو پس پشت ڈال رہے ہوں.جب ترکوں نے بغداد پر حملہ کیا تو اٹھارہ لاکھ آدمی انہوں نے قتل کر دیا تھا (تاریخ ابن خلدون.وفاۃ المستنصر و خلافۃ المستعصم).ایسی تباہی اور بربادی کے وقت کچھ لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس تباہی سے بچالے.انہوں نے کہا میں کیا دُعا کروں.میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں مجھے آسمان سے ملائکہ کی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ اَیُّھَاالْکُفَّارُ اُقْتُلُواالْفُجَّارَ یعنی اے کافر و!ان فاجر مسلمانوں کو خوب مارو.حالانکہ بظاہر اُن میں سے ایک فریق جو مارا جارہا تھا خدا اور اس کے رسول ؐ پر ایمان رکھتا تھا اور دوسرا فریق دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا مگر چونکہ

Page 141

مسلمان کہلانے والوں نے مذہب کو صرف نام کے طورپر قبول کیا تھا.اپنے قلوب میں انہوں نے کوئی تغّیر پیدا نہیں کیا تھا.اس لئے ان پر عذاب آگیا.پس انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کا جائزہ لیتا رہے اور دیکھتا رہے کہ اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق ہے.اور آیا عسر اور یُسر دونوں حالتوں میں وہ وفاداری کے ساتھ اپنے عہد پر قائم ہے یا نہیں.اگر انعام کے وقت وہ خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا اور مصیبت کے وقت یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ خدا نے پہلے مجھ پر کونسا احسان کیا تھا جو یہ مصیبت بھی بھیج دی تو صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ اُس کا ایما ن محض دھوکا تھا.کا مل الایمان وہی شخص کہلا سکتا ہے جو ہر ابتلاء اور مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے.بلکہ مصائب کے آنے پر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ جھک جاتا اور اپنے اندر پہلے سے بھی زیادہ عجز اور انکساری پیدا کرتا ہے.یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا چاہیے.اور کسی مصیبت میں بھی اس سے اپنا تعلق قطع نہیں کرنا چاہیے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بدوی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور اسلام میں داخل ہوگیا مگر چنددنوں کے بعد ہی اُسے بخار ہوگیا.اس پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنی بیعت واپس لیتا ہوں.کیونکہ مجھے تپ آنے لگا ہے ( بخاری کتاب فضائل المدینۃ باب المدینۃ تنفی الخبث) مگر اس کے مقابلہ میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو عہد انہوں نے کیا تھا اس میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیا.حقیقت یہ ہے کہ سچے تعلق اور اخلاص کا پتہ ہی اسی وقت لگتا ہے جب انسان پر کوئی ابتلاء آتا ہے.ورنہ آرام اور آسائش کی حالت میں تو کمزور ایمان والے بھی بڑی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں.قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا (البقرۃ :۲۱)کہ جب کبھی بجلی ان کے لئے روشنی پیدا کر دیتی ہے تو وہ اُس میں چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیرا کر دیتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں.یعنی امن کے دن ہوں تو منافق مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.لیکن مشکلا ت کا وقت آئے تو الگ ہو جاتے ہیں.ایسا ایمان انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا.اس آیت میں یہی بتا یا گیا ہے کہ جس شخص کا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا کمزور ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اور پھر یہ تو اور بھی حماقت ہے کہ انسان خدا کی عبادت کو چھوڑ کر بتُوں کی عبادت اختیار کرے جو نہ نقصان دیتے ہیں نہ نفع.بلکہ اُن کی عبادت سے نقصان کا احتمال تو ہے نفع کا نہیں.ان لوگوں کے مقابلہ میں وہ لوگ جو ایک خدا کی پر ستش کرتے ہیں وہ اگلے جہان میں بھی سُکھ پائیں گے اور اس دُنیا میں بھی سُکھ پائیں گے.چنانچہ جو لوگ ایسا گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل موحد بندے یعنی محمد رسول ا للہ

Page 142

صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد نہیں کرےگا.نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں انہیں چاہیے کہ وہ آسمان تک ایک رسی لے جائیں اور اُس پر چڑھ کر رسّی کو کاٹ ڈالیں.اور زمین پر گِر کر مر جائیں کیونکہ اُن کی یہ اُمید کبھی بر نہیں آئے گی.وہ اسی طرح تمنا ئیں کرتے کرتے ہلاک ہو جائیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اور آپ کے عروج کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.پس اپنی ناکامی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی دیکھنے سے انہیں اُن کی موت ہی بچا سکتی ہے.اس کے سوا اور کوئی ذریعہ باقی نہیں.آسمان پر خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کامیابی اور آپ کی غیر معمولی فتوحات کا فیصلہ کر چکا ہے.اور دشمنوں کے مقابلہ میں اُس کی تلوار کھچ چکی ہے.اب مخالف بے شک جتنی چاہیں تدبیریں کریں اور بیشک حسد کی آگ انہیں رات دن جلاتی رہے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس بات پر انہیں غصّہ آرہا ہے اُسکے متعلق اُن کی تدبیریں ہمیشہ ناکامی و نامرادی کا مُنہ دیکھیں گی اور وہ ایک دن ایڑیاں رگڑ رگڑ کر حسد کی موت مریں گے.لیکن اسلام ترقی کرے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دنیا میں پھیل کر رہے گی.اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِيْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِـِٕيْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ یقیناًجو لوگ ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر) ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی بن گئے اور صابی اور نصرانی اور الْمَجُوْسَ وَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا١ۖۗ اِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ مجوسی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شرک کیا.اللہ( تعالیٰ) یقیناً ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کردے گا.الْقِيٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۰۰۱۸ اللہ (تعالیٰ )یقیناً ہر ایک چیز کا نگران ہے.تفسیر.فرماتا ہے جولوگ توحید پر چلتے ہیں اُن کے بھی مختلف مدارج ہیں.ایک درجۂ توحید تو مسلمانوں کا ہے اور ایک درجہ یہودیوں کا اور ایک صابیوں کا اور ایک عیسائیوں کا ( عیسائی شروع میں موحد ہوتے تھے ) اور ایک مجوس کا اور ایک مشرکوں کا ( مشرک قوم میں بھی بعض لوگ ایسے تھے.جو توحید کے قائل تھے.چنانچہ مکّہ کا ایک شخص زید تھا.جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل تھا.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر ورقۃ بن نوفل و زید بن عمرو بن

Page 143

نفیل )) پھر فرماتا ہےکہ ان سب مدعیانِ ایمان کا اللہ تعالیٰ آخری فیصلہ کے دن کامل فیصلہ کردے گا یعنی جو اُن میں سے اپنے دعویٰ میں سچّے ہونگے وہ غالب آجائیں گے اور جو اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہونگے وہ اپنے اپنے جھوٹ کے مطابق مغلوب ہو جائیںگے چنانچہ فیصلہ کے دن مسلمان غالب آگئے اور مشرک جن میں سے بہت کم لوگ موحد تھے بالکل تباہ ہو گئے اور یہود اور صابی اور نصاریٰ اور مجوسی اپنی اپنی کمزوری کی حد تک سزا پاگئے.جس سے ثابت ہو گیا کہ اسلام سچا مذہب ہے.اس آیت سے بعض لوگ یہ غلط نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی اور صابی سارے کے سارے دینوں کو اسلام سچا قرار دیتا ہے حالانکہ اس کے اصل معنوں کی رو سے اس جگہ ایک معیار ِ صداقت بتا یا گیا ہے کہ جو اس معیارِ صداقت پر پورا اُترے گا.وہ سچا ہوگا یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قومیں سچی ہیں.اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي ( اے اسلام کے مخالف! ) کیا تُو نہیں دیکھتا کہ جو کوئی بھی آسمان میں ہے وہ اللہ (تعالیٰ) کی فرمانبرداری کرتا ہے اور الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ اسی طرح جو کوئی زمین میں ہے اور سورج بھی اور چاند بھی اور ستارے بھی اور پہاڑ بھی اور درخت بھی اور الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ١ؕ وَ كَثِيْرٌ حَقَّ چارپائے بھی اور لوگوں میں سے بھی بہت سے.لیکن لوگوں میں سے ایک گروہ کثیر ایسا ہے جس کے عَلَيْهِ الْعَذَابُ١ؕ وَ مَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ١ؕ اِنَّ متعلق عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جس کو خدا ذلیل کرے.اُسے کوئی عزّت دینے والا نہیں.اللہ( تعالیٰ) اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُؕؑ۰۰۱۹ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.آسمان اور زمین میں ایک ایسا قانون جاری ہے کہ جس کی فرمانبرداری سے کوئی شخص

Page 144

اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکتا.مثلاً دیکھو خدا تعالیٰ نے زبان بنائی ہے.اب ایک طرف تو انسان کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ اس زبان سے اگر چاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی گالیاں دے لے لیکن دوسری طرف اگر اس زبان کے سامنے دنیا کے تمام بادشاہ ، وزراء ، علماء اور فقہاء ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں کہ میٹھے کو کھٹا چکھ یا کھٹے کو کڑوا چکھ تو وہ ایسا کبھی نہیں کر ے گی.وہ میٹھے کو میٹھا ہی چکھے گی اور کھٹے کو کھٹا ہی چکھے گی.گویا ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے انسان کواتنی آزادی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی بُرا بھلا کہہ لے.اور دوسری طرف اس میں اتنی طاقت بھی نہیں رکھی کہ وہ میٹھے کو کڑوا چکھے یا کڑوے کو میٹھا چکھے.اور اگر کسی جگہ اس میں تبدیلی بھی نظر آتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہی ہوتی ہے.مثلاً اگر کسی کا جِگر خرا ب ہے تو اُسے میٹھی چیز کڑوی لگتی ہے یا بعض خرابیو ں کی وجہ سے نمک تیز محسوس ہونے لگتا ہے یا میٹھی چیز میں مٹھاس کم معلوم ہو تی ہے.یا پھیکی چیز کڑوی معلوم ہو تی ہے مگر یہ تبدیلی بھی خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہی ہوتی ہے ورنہ جن چیزوں پر انسان کو اختیار حاصل نہیں ان میں اُس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی.مثلاً تمہاری انگلی ہے.اگر تم اُسے کسی سوئی کے ناکہ میں ڈالنے کی کوشش کرو تو اس کو ناکہ میں نہیں ڈال سکتے خواہ کوئی جرنیل ہو ،نواب ہو ، بادشاہ ہو ، دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت اس کے پاس ہو.وہ اپنی انگلی سوئی کے ناکہ میں نہیں ڈال سکتا.یا مثلاً آواز ہے اگر تمہیں کسی عزیز کی آواز آرہی ہو.توتم اگر چاہو بھی تواُسے کسی دوسرے شخص کی آواز نہیں بنا سکتے.کسی کے ہاں بدصورت لڑکا پیدا ہو تو اگر وہ چاہے کہ وہ خوبصورت ہو جائے تو وہ اُسے خوبصورت نہیں بنا سکتا.کسی کے لڑکے کا قد چھوٹا ہو تو اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ وہ اس کے قد کو لمبا کر دے یا مثلاًخدا تعالیٰ نے آنکھ دیکھنے کے لئے بنائی ہے تو آنکھ ہمیشہ سُرخ کو سُرخ اور زرد کو زرد دیکھے گی یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ سُرخ کو زرد دیکھنا چاہے تو وہ زرد دیکھنے لگ جائے اور زرد کو سُرخ دیکھنا چاہے تو سُرخ دیکھنے لگ جائے.گویا ایک قانون ہے جس کی اطاعت سے کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا.اسی طرح سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا اور چوپائے کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں.اور ہر ایک اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے.پھر تم اِن چیزوں کو خدا کس طرح قرار دیتے ہو.یہ چیزیںتو خود تمہارے سامنے ایک خد مت گار کے طور پر کھڑی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ انہی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہو.اس نظامِ کائنات کی طرف اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کائنات پر غور کرنے سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ تمام کائنات قانون قدرت کے تابع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ہے.اور اکثر انسان بھی قانونِ قدرت کے تابع ہیں.اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ بعض انسان قانونِ قدرت سے آزاد ہیں بلکہ یہ کہا گیا

Page 145

ہے کہ بعض انسان قانونِ قدرت کو توڑ نے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں.جیسے بدپرہیزی کے ذریعہ.اور ان لوگوں میں سے اکثر پر عذاب آجاتا ہے.جو قانونِ قدرت کے اٹل ہو نے پر دلالت کرتا ہے.اور ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑنے سے کو ئی شخص عزّت نہیں پا سکتا اور اُسی کی مشیئت آخر دنیا میں غالب آتی ہے.هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ١ٞ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا یہ دو باہم مخالفت کرنے والے گروہ ایسے ہیں جو اپنے رب کے بارہ میں جھگڑرہے ہیں.پس جو اللہ (تعالیٰ) کی قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّنْ نَّارٍ١ؕ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ مذکورہ بالا صفات کے کافر ہوئے اُن کے لئے آگ کے کپڑے بنائے جائیں گے.او ر اُن کے سروں پر گر م گرم رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُۚ۰۰۲۰يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَ پانی ڈالا جائیگا.(حتیٰ کہ ) اس گرم پانی کی وجہ سے جو کچھ اُن کے پیٹ میں ہے وہ بھی گل جائےگا اور اُن کے الْجُلُوْدُؕ۰۰۲۱وَ لَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيْدٍ۰۰۲۲كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا چمڑے بھی (گل جائیںگے).اور اُن کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ( تیار کئے جائیں گے ).جب وہ غم اور اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا١ۗ وَ ذُوْقُوْا فکر کی وجہ سے اُس عذاب سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے ( اور کہا جائےگا) عَذَابَ الْحَرِيْقِؒ۰۰۲۳ جلانے والا عذاب بھگتتے چلے جائو.حلّ لُغَات.یُصْھَرُ.یُصْھَرُصَھَرَ سے مضارع مجہول کا صیغہ ہے اور صَھَرَ الشَّیْءَ کے معنے ہیں اَذَابَہٗ.اُس کو پگھلایا.پس یُصْھَرُ کے معنے ہیں اُس کو پگھلایا جائے گا (اقرب).

Page 146

مَقَامِعُ مَقَامِعُ اَلْمِقْمَعَۃُ کی جمع ہے.اور اَلْمِقْمَعَۃُ کے معنے ہیں اَلْعَمُوْدُ مِنْ حَدِیْدٍ لوہے کی گرز.وَقِیْلَ کَالْمِحْجَنِ یُضْرَبُ بَہٖ رَأ سَ الْفِیْلِ.بعض علمائے لغت یہ کہتے ہیں کہ مِقْمَعَۃٌ کے معنے ایسی چھڑی کے ہیں جس کے ذریعہ سے ہاتھی کے سر پر ضرب لگائی جاتی ہے.اسی طرح مِقْمَعَۃٌ کے معنے ہیںخَشْبَۃٌ یُضْرَبُ بِھَا الْاِنْسَانُ عَلٰی رَأسِہٖ لِیُذَلَّ وَیُھَانَ.وہ لکڑی جس کے ذریعہ سے انسان کے سر پر اس لئے مارا جاتا ہے تا کہ وہ ذلیل اور رسوا ہو (اقرب).تفسیر.فرماتا ہے.یہ دو گروہ یعنی قانونِ قدرت کی اتباع کرنےو الے اور اس سے آزادی چاہنے والے اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے رہتے ہیں.لیکن نتیجہ ثابت کر دیتا ہے کہ ان میں سے حق پر کو ن ہے اور باطل پر کون.چنانچہ قانونِ قدرت کا مقابلہ کرنےوالے ہمیشہ ناکامی اور نا مرادی کا مُنہ دیکھتے رہتے ہیںاور ایک روحانی آگ میں پڑے رہتے ہیں.اُن کے سروں پر بھی گرم پانی پڑتا رہتا ہے ایسا گرم پانی جو اُن کے پیٹوں تک کی چیزوں کو جلا دیتا ہے.یعنی اُن کے دماغوں میں ایسے وحشیانہ خیالات آتے رہتے ہیں جو اُن کو سیاہ باطن ثابت کرتے رہتے ہیں.ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائےگی.جو صرف اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی بھی ہوگی.یعنی پہلی سزا تو یہ ہوگی کہ اُن کے دلوں میں پریشان خیالات اٹھیں گے جن سے اُن کا باطنی امن بر باد ہو جائےگا.اور پھر بیرونی سزائیں بھی ملیں گی.یعنی خارجی امن بھی بر باد ہو جائےگا.اور جتنی کوشش بھی وہ عذاب سے بچنے کی کریںگے اتنا ہی وہ اُس میں اور پھنستے چلے جائیں گے.کیونکہ اُن کے عذاب کی بنیاد اُن کے دماغی خیالات پر ہو گی.اوردماغی خیالات پر قابو پانا اُن کے بس کی بات نہیں.پس اندرونی سزا بھی اور بیرونی سزا بھی جاری رہے گی.کیونکہ اندرونی سزا بیرونی سزا کو کھینچتی ہے.اس آیت میں روحانی اور جسمانی دونوں عذابوں کا ذکر ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اُن کے جسم تو آگ میں جلتے ہی ہوںگے.اُن کے دلوں میں بھی آگ لگی ہوئی ہوگی جس سے بچنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آئےگا.اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ اللہ (تعالیٰ )یقیناً مومنوں کو جو مناسب حال عمل بھی کرتے ہیں ایسے باغات میں رکھّے گا جن ( کے سایہ ) میں تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ نہریں بہ رہی ہوں گی.اُن کو اس میں سونے اور موتیوں کے جڑاو والے کنگن پہنائے جائیں گے.

Page 147

ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ؕ وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۰۰۲۴ اور اُن کا لباس اُس میں ریشم کا ہوگا.تفسیر.اس سے یہ مرادنہیں کہ مادی سونے کے کنگن اُن کو پہنائے جائیں گے.مادی سونا تو وہ حقیر چیز ہے جس کو اس دنیا میں بھی مومن پھینک دیتا ہے.اگلے جہان میں اُس کو کیا مزہ آئےگا.پس یہ ایک تمثیلی زبان ہے.اور کنگن سے مراد زینت کا سامان ہے.اور سونے سے مراد یہ ہے کہ وہ سامان تباہ ہونے والا نہیں ہوگا.کیونکہ سونے کو زنگ نہیں لگتا اور موتی سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ سامان انسان کی طبیعت میں ایک چمک اور ملائمت پیدا کر یں گے.جیسا کہ موتی ہوتا ہے.وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ میں بتایا کہ اگلے جہان میں انہیں ایسا تقویٰ ملے گا جس کے اختیار کرنے میں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ بھی لباس سے مشابہت رکھتا ہے.جیسا کہ آتا ہے.وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ( الاعراف:۲۷) مگر فرماتا ہے کہ اس دنیا میں تو تقویٰ کا لباس پہننے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.لیکن اگلے جہان میں تقویٰ کا لباس ریشم کے مشابہ ہوگا.یعنی اس کو اختیار کرنے کے لئے تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی بلکہ وہ نہایت آرام دہ ہوگا اور طبیعت خود بخود ہی تقویٰ کی طرف مائل ہو گی اُسے مجبور نہیں کرنا پڑے گا.وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ اور اُن کی پاک باتوں کی طرف راہنمائی کی جائے گی.اور قابلِ تعریف الْحَمِيْدِ۰۰۲۵ طریق کار کی ہدایت کی جائے گی.تفسیر.پھر فرماتا ہے کہ صرف لباس ہی نہیں اُن کی زبان بھی بڑی اچھی ہوگی اور طور طریقہ بھی اچھا ہوگا.یہاں تک کہ اُن کے ہمسائے اور اللہ تعالیٰ بھی اُن کے طور طریقے کی تعریف کرے گا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنّت صرف بےکار بیٹھنے کی جگہ نہیں بلکہ عمل کا مقام ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ اس جہان میں انسان سے گناہ بھی

Page 148

صادر ہو جاتا ہے.مگر وہاں کوئی بُرا فعل سر زد نہیں ہوگا.اور انسان ہر قسم کے روحانی تنزل سے محفوظ رہے گا.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الْمَسْجِدِ (لیکن) وہ لوگ جوکافر ہیں اور اللہ کے راستہ سے اور بیت اللہ کی طرف جانے سے جس کو ہم نے تمام انسانوں کے الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ا۟لْعَاكِفُ فِيْهِ وَ فائد ہ کے لئے بنایا ہے روکتے ہیں ( حالانکہ وہ بیت اللہ ایسا ہے جس کو ہم نے تمام انسانوں کے لئے بنایا ہے ) ان کے الْبَادِ١ؕ وَ مَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ لئےبھی جو اُس میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اُن کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتے ہیں.اور جو کوئی شخص اس ( دنیا ) عَذَابٍ اَلِيْمٍؒ۰۰۲۶ میں ظلم کی راہسے کو ئی کجی پیدا کرنا چاہے گا اُس کو ہم دردناک عذاب دیں گے.حلّ لُغَات.یَصُدُّوْنَ یَصُدُّوْنَ صَدَّسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور صَدَّ عَنْہُ کے معنے ہیں اَعْرَضَ عَنْہُ ومَالَ.اس سے اعراض کیا اور ہٹ گیا.اور صَدَّ فُلَانًا عَنْ کَذَا کے معنے ہیں مَنَعَہٗ وَ دَفَعَہٗ وَصَرَفَہٗ عَنْہُ.کسی کو کسی بات سے روکا اور دُور رکھا اور ہٹا ئے رکھا.(اقرب ) پس یَصُدُّوْنَ کے معنے ہوںگے (۱) وہ رکتے ہیں (۲) وہ دوسروں کو روکتے ہیں.اَلْعَاکِفُ اَلْعَاکِفُکے معنے ہیں اَلْمُقِیْمُ.رہنے والا.(اقرب) اَلْبَادُ اَلْبَادُ کے معنے ہیں اَلْمُقِیْمُ بِالْبَادِیَۃِ.یعنی صحرا اور جنگل میں رہنے والا (مفردات ).اِلْحَادٌ.اِلْحَادٌ اَلْحَدَ کا مصدر ہے اور اَلْحَدَ عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ کے معنے ہیں مَالَ و حَادَ وَعَدَلَ.خدا تعالیٰ کے دین سے ہٹ گیا.اور وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِـاِ لْحَادٍ بِظُلْمٍ کے معنے ہیں اَیْ یُرِدْ عُدُوْلًا عَنِ الْـحَقِّ کہ جو حق سے دور ہونے اور ہٹنے کا ارادہ کرے گا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے جو لوگ کعبۃ اللہ کے ساتھ تعلق چھوڑ دیں گے اور اس کی طرف جانے میں روک پیدا کریں گے وہ دنیا میں مساوات قائم کرنے سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی عذاب پائیں گے.

Page 149

سَوَآءَ ا۟لْعَاكِفُ فِيْهِ وَ الْبَادِمیں اس مساوات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسلام نے بیت اللہ کے قیام میں مدنظر رکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مسجد کسی خاص فر د کے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نو ع انسان کے لئے بنائی گئی ہے.اس میں غریب اور امیر اورمشرقی اور مغربی کا کوئی امتیاز نہیں.اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے.اس کے لئے بھی جو اُس میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتا ہے.تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی قبیلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آیا جس میں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی شامل تھے.مسجد میں گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہوگئی.معلوم ہوتا ہے وہ اتوار کا دن تھا جو عیسائیوں میں عبادت کا دن ہے.جب اُن کی نماز کا وقت آگیا تو اس قافلہ کے ایک پادری نے کہا کہ اب ہماری عبادت کا وقت ہے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم باہر جاکر نماز ادا کر آئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ لوگوں کو باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی عبادت کر لیں.آخر ہماری مسجد بھی خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہی بنائی گئی ہے.چنانچہ ان لوگوں نے اپنے طریق کے مطابق مسجد نبویؐ میں ہی عبادت کی.(تفسیر جامع البیان لابن جریر الطبری.الجزء الثالث زیر تفسیر سورۃ آل عمران ) یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے نزدیک مسجد کا دروازہ ہر مذہب و ملّت کے شرفاء کے لئے کھلا ہے اور وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق اس میں عبادت بجا لا سکتے ہیں.پھر عبادات میں مساوات قائم کرنے کے لئے اسلام نے امامت کے لئے بھی کسی خاندان یا کسی خاص قوم کی خصوصیت نہیں رکھی.عیسائیوں میں مقرر ہ پادری کے سوا کوئی دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا.سکھوں میں گرنتھی کے سوا دوسرا شخص گرنتھ صاحب کا پاٹھ نہیں کر ا سکتا لیکن اسلام پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں.وہ ہر نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں راہنمائی کا حق دیتا ہے.پھر غریب اور امیر مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں.ایک جج اور ایک ملزم اور ایک جرنیل اور ایک سپاہی پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں.اورکوئی شخص کسی دوسرے کو اُس کی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا.انگریزوں کے گرجوں میں مختلف سیٹوں پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ جگہ فلاں لاٹ صاحب کے لئے ہے.اور یہ فلاں خاندان کے لئے مخصوص ہے.لیکن مسلمانوں میں اس قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا کیونکہ مسجد میں اسلام نے ہر ایک کو برابر کا حق دیا ہے.میں جب عرب ممالک میں گیا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کی ایک جہت میں ایک حجرہ بنا ہوا تھا.اور اس کے ارد گرد کٹہرا لگا ہوا تھا.میں نے بعض لوگوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہو اکہ پُرانے زمانہ

Page 150

میں جب بادشاہ آتے تھے تو وہ اس حجرہ میں نماز پڑھا کرتے تھے.اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ آیا.اور اس کے ساتھ ہی ایک جھاڑو دینے والا بیٹھ گیا.اُس کے نوکروں نے اُسے ہٹا نا چاہا تو سب مسلمان اور قاضی پیچھے پڑگئے اورانہوں نے کہا یہ خدا کی مسجد ہے.یہاں چھوٹے اوربڑے کا کوئی سوال نہیں.مسجد میں اگر کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی بیٹھا ہو تو اُس کے ساتھ اُس دن کا نو مسلم جو خاکروبوں یا ساہنسیوں میں سے آیا ہو کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے.چاہے وہ بڑا آدمی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو.چنانچہ اس کو نہ اٹھایا گیا.مگر بادشاہ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ اُس نے جگہ بدل کر پیچھے کی طرف اپنے لئے حجرہ بنوالیا.میں نے جب یہ واقعہ سُنا تو اپنے دل میں کہا کہ اسلام کے ایک حکم کی بے حرمتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آئندہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق ہی چھین لی.کیونکہ جس جگہ حجرہ بنایا گیا تھا وہ مسجد کا حصّہ نہیں تھا.بہر حال اسلام نے مساجد میں بڑے اور چھوٹے کا کوئی امتیاز نہیں رکھا.اور اس طرح بنی نوع انسان میں اُس نے ایک بے نظیر مساوات قائم کر دی ہے.وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ اور ( یاد کر) جب ہم نے ابراہیم ؑ کو بیت اللہ کی جگہ پر رہائش کا موقعہ دیا ( اور کہا ) کہ کسی چیز کو ہمارا شریک شَيْـًٔا وَّ طَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْقَآىِٕمِيْنَ۠ وَ الرُّكَّعِ نہ بنائو.اور میرے گھر کو طواف کرنےوالوںکےلئے اور کھڑے ہو کر عبادت کرنےوالوں کےلئے اور رکوع کرنے السُّجُوْدِ۰۰۲۷ والوںکےلئے اور سجدہ کرنےوالوں کےلئے پاک کر.حلّ لُغَات.بَوَّاْنَا.بَوَّاْنَا بَوَّاَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے.اور بَوَّأَ لَہٗ مَنْزِلًا کے معنے ہوتے ہیں ھَیَّأَہُ وَمَکَّنَ لَہٗ فِیْہِ اُس کے لئے مکان تیار کروایا اور اس میں اس کو جگہ دی ( اقرب) پس بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ کے معنے ہیں.ہم نے ابراہیم ؑ کو خانہ کعبہ کے مقام پر جگہ دی.تفسیر.فرماتا ہے کہ یاد رکھو کہ ہم نے اس گھر کی تعمیر ابراہیم ؑ کے زمانہ سے شروع کی ہے.اور اس تعلیم سے شروع کی ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ شرک نہ کریں اور مسافروں اور اس گھر کے پاس رہنے

Page 151

والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے اس گھر کو پا ک رکھیں.اِن آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جس قربانی کا مطالبہ کیا تھا.اور جس کے ماتحت وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر چلے گئے اس کی اصل غرض یہ تھی کہ وہ بڑے ہو کر بیت اللہ کی حفاظت اور دینِ ابراہیمی کی خدمت کریں.اور ان کے ذریعہ وہ اولاد پیدا ہو جس کے ہاتھوں خدا تعالیٰ اپنے دین کا آخری دور قائم کرنا چاہتا تھا.پس درحقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جس دن بیت اللہ کے پاس چھوڑا گیا اُس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا اعلان کیا گیا.کیونکہ بیت اللہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر کا آخری گھر ہونا تھا.اور اُس کی تیاری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانہ ہی سے شروع کر دی گئی.دُنیا میں جب بھی کوئی بڑا کام ہونے لگتا ہے تو پہلے سے اس کی تیاری شروع کردی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چونکہ مکّہ میں ظہور مقدر تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق دو۲ ہزار سال پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ سے تیار ی شروع کر دی.یہ کتنا اہم مقام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ دو ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس گھر کو صاف کرو ،کیونکہ یہاں میرا وہ نبی آنے والا ہے جس کے نور سے ساری دنیا منور ہو گی.چنانچہ فرمایا طَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْقَآىِٕمِيْنَ۠ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِتم میرے اس گھر کو اُن لوگوں کے لئے تیار کرو جو طواف کرنے کےلئے یہاں آئیں گے.جو قیام کرنےکےلئے یہاں آئیں گے.اور جو یہاں آکر رکوع اور سجدہ کریں گے.مگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ میں اور اس کے بعد کتنے لوگ تھے جو اس نیت کے ساتھ وہاں آیا کرتے تھے.طواف تو لوگ کرتے ہی تھے مگر کتنے لوگ تھے جو وہاں جا کر اپنی عمر یں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے سینکڑوں سال کی تاریخ محفوظ ہے ،مگر وہ تاریخ ہی بتاتی ہے کہ اس وقت وہاں بُت پرستی ہی بُت پرستی تھی.نہ خدا کے لئے کوئی اعتکاف بیٹھنے والا تھا.نہ خدا کے لئے کوئی قیام کرنے والا تھا.نہ خدا کے لئے وہاں رکوع ہوتا تھا اور نہ خدا کے لئے وہاں سجدہ ہوتا تھا.بلکہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے انہیں مارا اور پیٹا جاتا تھا.پس یہ باتیں جو بیان کی گئی ہیں کہ میرے اس گھر کو تیار کرو تاکہ طواف کرنے والے قیام کرنے والے اور کامل رکوع اور کامل سجدہ کرنے والے یہاں آئیں.یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہونے والی تھیں.اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اسی تیاری کے لئے مقرر کیا گیا تھا.باقی رہا یہ سوال کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے پھر کیا کا م کیا ؟اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ظاہر ی رنگ میں کعبہ کی تعمیر کی.اسی

Page 152

طرح اُنہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے زمزم نکلوایا.بعد میں جو خرابیاں نظر آتی ہیں اُن کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر اعتراض نہیں ہو سکتا.اصل غور کرنے والی بات یہ ہے کہ گو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جن لوگوں کو اپنے بعد چھوڑا اُن میں سے بہت سے مشرک اور بُت پر ست ہو گئے.مگر کیا دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ دین کو پھیلانے کی قابلیت انہی لوگوں کے اندر تھی.اہل مکّہ نے بے شک اسلام کی مخالفت کی.قریش نے بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور شدید مخالفت کی.بلکہ ابوجہل کو پیش کرکے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ جس قوم میں ابوجہل جیسے لوگ پیدا ہو نے والے تھے کیا اس کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ طَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْقَآىِٕمِيْنَ۠ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِکہ میرے اس گھر کو کامل طواف کرنےوالوں او ر کامل قیام کرنے والوں اور کامل رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے تیار کرو؟ میں اُسے کہوںگا کہ اے نادان!تجھے ابوجہل تو نظر آگیا جس کا کام ختم ہوگیا.مگر تجھے ابوبکر ؓ نظر نہ آیا جس کا کام آج تک جاری ہے.تجھے عتبہ اور شیبہ تو نظر آگئے جو پیدا ہو کر فنا ہو گئے.مگر تجھے عمر ؓ ، عثمان ؓ اور علیؓ نظر نہ آئے جن کو دائمی حیات بخشی گئی ہے اور جن کے کارنامے قیامت تک دُنیا سے محو نہیں ہو سکتے.پس بے شک وہ لوگ خراب ہو گئے تھے.مگر اُن کی یہ خرابی ایسی ہی تھی جیسے کوٹ پر مٹی پڑ جائے.یا وہ ہیرا تو تھے مگر تراشا ہو ا ہیرا نہیں تھے.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور آپ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے وہ تراشے گئے تو وہی ہیرے دنیا کی بہترین متاع شما ر ہونے لگے.چنانچہ ابوجہل عکرمہ ؓ کی صورت میں ،عاصی اور وائل عمرو ؓ کی صورت میں ،ولید خالدؓ کی صورت میں ، اور ابو سفیان ، معاویہ اور یزید ابن ابوسفیان کی صورت میں ظاہر ہوا.جب تک سونے کے ذرات مٹی میں ملے ہوئے ہوتے ہیں اُن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی.مگر جب کسی ماہر کی نگاہ اُن پر پڑتی ہے تو وہ اُن ذرّات کو مٹی سے علیحدہ کر لیتا ہے اور پھر وہی ذرّات بہت بڑی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں.اسی طرح ہیرا جب تک پتّھر میں رہتا ہے اُس کی قدر و قیمت کا کسی کو احساس نہیں ہوتا.مگر جب کوئی ماہر اُسے کاٹ کر ہیرے کو اپنی اصل شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر تا ہے تو اس کی قیمت لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ تک پہنچ جاتی ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن میں خرابیاں پیدا ہوئیں مگر جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں صفائی پیدا کی.تو انہی میں ابوبکر ؓ ، عمرؓ ، عثمان ؓ اور علی ؓ پیدا ہوئے.بلکہ اور ہزاروں لوگ پیدا ہوئے اُن میں طلحہ ؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے.اُن میں زبیر ؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے.اُن میں عبدالرحمٰن ؓ بن عوف جیسے لوگ پیدا ہوئے.اُن میں ابو عبیدہؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے.اُن میں سعد ؓ اور سعیدؓ جیسے لوگ پید اہوئے.اُن میںعثمان ؓ بن مظعون جیسے لوگ پیدا ہوئے.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نام کو روشن کرنے کے لئے اپنے جذبات کی انتہائی قربانی کی.

Page 153

یہاں تک کہ اُن میں سے ہر شخص زندہ ابراہیم ؑ بن گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ آپ ابوا براہیم بھی تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ سے آپ کی روحانی اولاد میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کے سامنے پھر وہی نظارہ پیش کر دیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا.غرض اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مکّہ میں بھیجا تو درحقیقت یہ تیاری تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی.خدا تعالیٰ نے انہیں کہا کہ تم ہمارا گھر تیار کرو.کیونکہ ہمارا محبوب اور ہمارا آخری شرعی رسول دنیا میں نازل ہونے والا ہے.تم آج سے ہی ہمارے محبوب کی آمد کی تیاری میں مشغول ہو جائو اور آج سے ہی ایسی اولاد پیدا کرو جو میرے محبوب کو ابوبکر ؓ دے.جو میرے محبوب کو عمر ؓ دے.جو میرے محبوب کو عثمان ؓ دے.جو میرے محبوب کو علی ؓ دے.جو میرے محبوب کو طلحہ ؓ.زبیر ؓ.حمزہ ؓ اور عباس ؓ دے.اور اسی طرح کے اور سینکڑوں صحابہ ؓ اُس کے حضور بطور نذر پیش کرے.یہی مفہوم تھا طَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْقَآىِٕمِيْنَ۠ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِکا.ورنہ ظاہری معنوں میں تو مکّہ والوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بعد دین کا کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھا یا ہاں چونکہ اس پیشگوئی کا ظہور رسول کریم صلی اللہ علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہونا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکّہ میں لاکے رکھا تاکہ وہ ایسی اولاد تیار کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کے لئے وقف کر دے.مگر اس کے علاوہ چونکہ دنیا کی تمام مساجد بھی بیت اللہ ہیں.کیونکہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں اور بیت اللہ کے ظل کے طورپر ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم فرمایا ہے اس لئے یہ احکام صرف بیت اللہ کے لئے ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر مسجد پر بھی ظلی طور پر چسپاں ہوتے ہیں.اس نقطۂ نگاہ سے اگر غور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں مساجد کی تین اہم اغراض بیان کی گئی ہیں.اوّل.مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ مسافر اُن سے فائدہ اٹھائیں.دوم.مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیںکہ شہرمیںرہنے والے اُن سے فائدہ اٹھائیں.سوم.مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ رکوع و سجود کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے اور توحیدِ کامل پر قائم لوگ اُن سے فائدہ اٹھائیں.مسافر تو مسجد سے اس رنگ میں فائدہ اٹھاسکتا ہے کہ اگر اُسے کو ئی اور ٹھکانہ نہ ملے تو وہ اُس میں چند روز قیام

Page 154

کرکے رہائش کی دِقتوں سے بچ سکتا ہے.اور مقیم اس رنگ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ مسجد شورو شغب سے محفوظ مقام ہو تا ہے.وہ اس میں بیٹھ کر اطمینان اور سکون سے دعائیں کر سکتا اور اپنے رب سے مناجات کر سکتا ہے.اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اُن کا اصل ٹھکانہ تو مسجد ہی ہوتا ہے.کیونکہ مسجد مومنوں کے اجتماع کا مقام ہوتی ہے اور دُعائوں اور ذکر الٰہی کی جگہ ہوتی ہے.ایسے مقام سے کوئی سچا عشق اور تعلق رکھنے والا انسان جدا ہی نہیں ہو سکتا.مگر یہ امر بھی مدنظر رکھناچاہیے کہ ذکر الٰہی کا قائم مقام وہ تمام کا م بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں.خواہ وہ قضاء کے متعلق ہوں یا جھگڑوں اور فسادات کے متعلق ہوں یا تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمانوں کی ترقی اور اُن کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو لڑائیوں کے فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے.قضاء بھی وہیں ہوتی تھی.تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی.جس سے معلو م ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں مساجد میں کئے جا سکتے ہیں.کیونکہ اسلام میں ذکر الٰہی صرف اس بات کا نا م نہیں کہ انسان سبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا رہے بلکہ اگر کوئی بیوہ کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے.اگر کوئی یتیم کی پرورش کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے.اگر کوئی شخص قوم کی خدمت کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے.اگر کوئی شخص لوگوں کے جھگڑے دور کرتا اور اُن میں صلح کراتا ہے تو یہ بھی دین ہے.پس وہ تمام کام جن سے قوم کو فائدہ پہنچے اور جو قوم کے اخلاق اور اس کی دنیوی حالت کو اونچا کریں ذکر الٰہی میں شامل ہیں اور اُن کا مساجد میں کرنا جائز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر کوئی مہمان آجاتا تو آپ مسجد میں ہی صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے فرماتے کہ فلاں مہمان آیا ہے تم میں سے کون اسے ساتھ لے جائے گا.(بخاری کتاب المناقب باب قولہ ویؤثرون علی انفسہم...)اب بظاہر یہ روٹی کا سوال تھا.لیکن درحقیقت دین تھا.اس لئے کہ اس سے ایک دینی ضرورت پوری ہوتی تھی.لوگوں نے غلطی سے دین کے معنوں کو بہت محدود کر دیا ہے.حالانکہ دین اس لئے نازل ہوا ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور خدا تعالیٰ بغیر کسی خدمت کے بندہ سے نہیں ملتا بلکہ وہ یتیم کی پرورش کرنے سے ملتا ہے.وہ بیوہ کی خدمت کرنے سے ملتا ہے.وہ کافر کو تبلیغ کرنے سے ملتا ہے.وہ مومن کو مصیبت سے نجات دلانے سے ملتا ہے.پس ان باتوں کا اگر مسجد میں ذکر کیا جاتا ہے تو یہ دنیا نہیں بلکہ دین کا ہی حصّہ ہوگا.ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے.مثلاً اگر تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہاری بیٹی کی شادی کا کیا فیصلہ ہوا یا کہتے ہو کہ میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر نہیں مانتے تو یہ باتیں مسجد میں جائز نہیں ہوںگی.سوائے امام کے کہ اُس پر تمام قوم کی ذمہ واری ہوتی ہے اور

Page 155

اس کا حق ہے کہ وہ ضرورت محسوس ہو نے پر ان اُمور کے متعلق بھی لوگوں سے باتیں کرلے.بہر حال مسجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو وہ اس کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے.(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجدوما یقولہ من سمع الناشد ) پس مساجد صرف ذکر الٰہی کے لئے ہیں لیکن ذکر الٰہی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملی، سیاسی ، علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں.لیکن وہ تمام باتیں جو لڑائی د نگہ فساد یا قانون شکنی سے تعلق رکھتی ہوں خواہ اُن کا نام مِلّی رکھ لو یا سیاسی ، قومی رکھ لو یا دینی ان کا مساجد میں کرنا ناجائز ہے.اسی طرح مساجد میں ذاتی امور کے متعلق باتیں کرنا بھی منع ہے.کیونکہ اسلام مسجد کو بیت اللہ قرار دیتا اور اُسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص قرارد یتا ہے.وَ اَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ اور تمام لوگوں میں اعلان کردے کہ وہ حج کی نیت سے تیرے پاس آیا کریں.پیدل بھی اور ہر ایسی سواری پر ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍۙ۰۰۲۸لِّيَشْهَدُوْا بھی جو لمبے سفر کی وجہ سے دُبلی ہو گئی ہو ( ایسی سواریاں ) دُور دُور سے گہرے راستوں پر سے ہوتی ہوئی آئیںگی.مَنَافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ تاکہ وہ ( یعنی آنےوالے ) اُن منافع کو دیکھیں جو اُن کے لئے ( مقرر کئے گئے )ہیں.اور کچھ مقرر دنوں میں اللہ( تعالیٰ) عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا کو اُن نعمتوں کی وجہ سے یاد کریں جو ہم نے ان کو دی ہیں ( یعنی ) بڑے جانوروں کی قسم سے ( جیسے گائے اونٹ وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِيْرَٞ۰۰۲۹ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وغیرہ ) پس چاہیے کہ وہ اُن کے گوشت کھائیں اور تکلیف میں پڑے ہوئے اورنادار کو کھلائیں.پھر اپنی میل دور

Page 156

وَ لْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْيَطَّوَّفُوْا بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ۰۰۳۰ کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پُرانے گھر ( یعنی خانہ کعبہ ) کا طواف کریں.حلّ لُغَات.رِجَالًا.رِجَالًا رَجُلٌ کی جمع ہے اور اَلرَّاجِلُ کے معنے ہیں وہ آدمی جس کے پاس کوئی سواری نہ ہو.یعنی پیادہ.(اقرب) ضَامِر.ضامرٌ: اَلْقَلِیْلُ اللَّحْمِ الدِّ قِیْقُ.تھوڑے گوشت والا یُقَالُ جَمَلٌ ضَامِرٌ وَنَاقَۃٌ ضَامِرَۃٌ یہ لفظ اونٹ اور اونٹنی دونوں کے لئے جبکہ وہ لاغر ہوںاور ان کا گوشت تھوڑا ہو بولا جاتا ہے.(اقرب) اَلْفَجُّ.اَلْفَجُّکے معنے ہیں اَلطَّرِیْقُ الْوَاسِعُ الْوَاضِحُ بَیْنَ جَبَلَیْنِ.وہ کھلا راستہ جو دو پہاڑوں کے درمیان ہو تا ہے.تَفَثٌ تَفَثٌ کے معنے ہیں اَلْوَسَخُ.میل ( اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے ہم نے ابراہیم ؑ کویہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ حکم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے کہ لوگ دُوردُور سے سفر کی وجہ سے دُبلی ہونے والی سواریوں پرچڑھ کر جو رستوں میں بھی کثرتِ سفر کی وجہ سے گڑھے ڈال دیں گی اور تیز دوڑنے والی ہوں گی تیرے پاس آئیں تاکہ دنیوی نفع بھی اُن کو پہنچے اور مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی وہ خوب کریں اور اس طرح ساری دنیا میں ایک دین قائم ہو جائے.اور چاہیے کہ تم میں سے مالدار لوگ قربانیوں کے گوشت میں سے خود بھی کھائیں اور باقی غریبوں کو بھی کھلائیں.اور جب قربانیاں کر چکیں تو نہائیں اور اپنی میل دُور کریں.یعنی جسمانی لحاظ سے بھی اپنی صفائی کریں اور روحانی لحاظ سے بھی اپنے دلوں کے گند دُور کریں.اور انہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھے تھے اُن کو پورا کریں اور اس پُرانے عبادت خانہ کا طواف کریں.اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ایک بے جان چیز کو خدا تعالیٰ کا مرتبہ دیا گیا ہے بلکہ طواف کرنا ایک پُرانی رسم تھی جو قربانی دینے کی علامت تھی.لوگ بیماروں کے گرد طواف کرتے تھے جس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ ہم قربان ہوجائیں اور یہ بچ جائیں (Encyclopedia of Religion and Ethics underword CIRCUMAMBULATION).اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے رہیں جو اس گھر کی عظمت اور خدا تعالیٰ کی عبادت کو قائم رکھنے کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں.ورنہ طوافِ ظاہری تو اپنی ذات میں کوئی بڑی بات نہیں.

Page 157

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک اہم اسلامی عبادت ہے اور جس کے مطابق ہر سال لاکھوں آدمی جن میں سے کوئی کسی قوم کا ہوتا ہے اور کوئی کسی ملک کا ایک دوسرے کے رسم و رواج ایک دوسرے کی زبان اور ایک دوسرے کی عادات وغیرہ سے ناواقف ہوتے ہوئے مکّہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسلامی توحید نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسا متحد کر دیا ہے کہ باوجود اختلافِ زبان.اختلافِ عقائد.اختلاف ِ رنگ و نسل.اختلاف ِ خیالات اور اختلافِ آب و ہوا کے ہم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبّیک کہہ کر ایک جگہ پر جمع ہونے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح مسلمانوں نے اپنے عمل سے ظاہری حج کے علاوہ یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور جب تک مسلمانوں میں یہ رُوح قائم رہےگی کسی دشمن کی یہ طاقت نہیں ہوگی کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے یا مسلمانوں کی یکجہتی کو توڑ سکے.کیونکہ جب تک خانہ کعبہ رہےگا مسلمانوں کی یکجہتی بھی قائم رہے گی.اُن کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف یہ نظارہ ہوتا ہے کہ دنیا کے کن کن کونوں میں خدا تعالیٰ نے اسلام کو پھیلا دیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک بےآب و گیاہ جنگل سے بلند ہونےوالی وہ آواز جس کو غیر تو الگ رہے اپنے بھی نہیں سُنتے تھے اور آواز دینے والے کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بناتے تھے.آج دنیا کے کونوں کونوں تک پہنچ کر لاکھوں انسانوں کے اجتماع کا باعث بن رہی ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھتے اور اپنے ایمانوں میں ایک تازگی اور لطافت محسوس کرتے ہیں کہ کہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پید اہوئے جنہوں نے ایک ایسی آواز بلند کی جو گونجی اور گونجتی چلی گئی.یہاں تک کہ وہ دُور دراز ملکوں میں پہنچی اور لاکھوں لوگو ں کو یہاں کھینچ لائی.اور وہ مکّہ جہاں رہنے والوں کی اذیتوں اور تکلیفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور جنہیں اِس سرزمین میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے کی اجازت تک نہیں تھی آج اُسی مکّہ مکرمہ میں ہر ایک کی زبان پر اَللّٰہُ اَکْبَرُ.اَللّٰہُ اَکْبَر.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.وَاللہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ جاری ہے اور وہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتے جارہے ہیں.گویا اس وقت خدا تعالیٰ اُن کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اُس سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم حاضر ہیں.ہم اقرار کرتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں صرف تُو ہی اس امر کا مستحق ہے کہ بندوں کو آواز دے.اور اے خدا تیرے بلانے پر ہم تیرے حضور حاضر ہیں.پس مکّہ مکرمہ وہ مقام ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان صرف اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.اور دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت پیش کریں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے.اورآپ کے خادم آج بھی آپ کی آواز کو بلند کرنے کے لئے

Page 158

دنیامیں موجود ہیں.گویا حج دنیا کو یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ اسلام کی رگوں میں اب بھی زندگی کا خون دوڑ رہا ہے.اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والے لوگ اسلام کے مرکز مکّہ مکرمہ میں جمع ہیں اور انہوں نے اپنے اس تعلق کا اعلان کیا ہے جو انہیں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے.انہوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ چاہے کمزورہی سہی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اب بھی دنیا میں موجو د ہیں اور اب بھی مسلمانوں کی قومی زندگی کی رگ پھڑک رہی ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جس طرح نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کو ضروری قرار دیا ہے اسی طرح اُس نے حج کو بھی ایک ضروری فریضہ قرار دیا ہے.بے شک حج کی اصل غرض روحانی طور پر یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے.مگر اس غرض کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہر ی حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکّہ مکرمہ میں جائیں.اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں.کیونکہ اسلام جسم اور رُوح دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جس طرح دنیا میں ہر ایک انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور اس جسم میں رُوح ہوتی ہے.اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں جن کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے.مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں.اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو.اس کی صفات کو وہ اپنے ذہن میں لائے اور اُن کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے.ان باتوں کا بظاہر ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہو نے یا زمین پر جھک جانے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر چونکہ کوئی رُوح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دےدیا.جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کے لئے عبادت کرتے وقت جسم کی حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہوگئے ہیں.اور اگر اُن میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.اسی طرح گو حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کرکے خدا کا ہو جائے ،چنانچہ اسی لئے خواب میں اگر کوئی شخص اپنے متعلق دیکھے کہ اُس نے حج کیا ہے تو اُس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کا مقصد پورا ہوجائے گا اور یہ ظاہر ہےکہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کا قرب حاصل کرنا ہے.جیسے وہ فرماتا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِ لَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:۵۷) کہ میں نے بنی نوع انسان کو صرف اپنا مقرب بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.پس حج اس بات کی علامت ہے کہ جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ اُس نے پوری کرلی.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ حج کیا ہے؟

Page 159

خدا تعالیٰ کی رؤیت اور اس کا دیدار.مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہر ی جسم بھی رکھ دیا تا کہ جسم کے ذریعہ رُوح کی بھی حفاظت ہوتی رہے.پھر حج اُس سچّے اخلاص کے واقعہ کو بھی تازہ کرتا ہے جس کا نمونہ آج سے چارہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دکھا یا اور جس کے نتائج آج تک دنیا کو نظر آرہے ہیں.اُورکی سرزمین میں آج سے چار ہزار سال پہلے ایک مشرک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا( دیکھو پیدائش باب ۱۱آیت۲۶ ) اُس نے ایسے لوگوں میں تربیت پائی جن کا رات دن مشغلہ خدا کا شریک بنانااور ُبتوںکی پرستش کرناتھا.مگر وہ بچہ ایک نورانی دل لے کر پیداہوا تھا.اور وہ بچپن سے ہی بتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا.جب دنیا کی بڑھتی ہوئی گمراہی اور اُس کے طوفانِ ضلالت کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے چاہا کہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو اپنا بنائے تو اُس کی جوہر شناس نگاہ نے کسدیوں کی بستی میں سے ابراہیم کو چنا ( پیدائش باب۱۱آیت۳۱) اور اُسے اپنے فضل سے ممسوح کیا.اور اُسے کہا کہ اے ابراہیم جا اور اپنے بیٹے کو قربان کر تاکہ لوگوں سے الگ میری خاص حفاظت اور نگرانی میں ایک پنیری لگائی جائے.نیکی اور تقویٰ کی پنیری.ایک چشمہ پھوڑاجائے.پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بہت اچھامیں تیار ہوں چنانچہ انہوں نے اپنے اس بیٹے کو جو بڑھاپے میں نصیب ہواتھا.اس وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر چھوڑ دیا.جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ اُس میں کھانے اور پینے کا کوئی سامان نہیں تھا.(ابراہیم آیت ۳۸) ایسی پُر خطر اور بھیانک وادی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اس لئے اپنے بیٹے اور اُس کی والدہ کو چھوڑا تاکہ خدا کا ذکر بلند ہو اور اُس کی کھوئی ہوئی عظمت دنیا میں پھر قائم ہو.صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور اُس ماں اور بچے کو دئے گئے جن کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ تھا کہ اب انہوں نے اسی جنگل میں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی بسر کرنی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور کتنے دن کا م دے سکتی ہے.پھر سوائے ریت کے ذروں اور آفتاب کی چمک کے او ر کوئی چیز میری بیوی اور بچے کے لئے نہیں ہوگی.یہ سوچتے ہی اُن پر رقت طاری ہوگئی.اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے.حضرت ہاجرہ ؓ ان کی آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں کی پھڑ پھڑ اہٹ سے سمجھ گئیں کہ بات کچھ زیادہ ہے.وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے چلیں اور کہنے لگیں ابراہیم ! تم ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہو.یہاں تو پینے کے لئے پانی تک نہیں اور کھانے کے لئے کوئی غذا نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا چاہا مگر رقّت کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی.تب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا آپ خدا کے حکم سے ایسا کر رہے ہیں یا اپنی مرضی سے.اس پر انہوں نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دئیے جس کے معنے یہ تھے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں.اس جواب کو سُن کر یقین اور ایمان سے پُر ہاجرہؓ جو اپنی جوانی کی عمر میں تھی اور

Page 160

جس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اُس وقت موت کی نذر ہو رہا تھا فوراً رُک گئی اور کہنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرےگا.آخر پانی ختم ہو ا.غذا ختم ہوئی اور باوجود اس کے کہ اس علاقہ میں کوئی چیز نظر نہ آتی تھی حضرت ہاجرہ ؓ اپنے بچے کی تکلیف کو نہ دیکھ کر جو پیاس سے تڑپ رہا تھا ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے اور اس سے پانی مانگ لیں یا شاید کوئی آبادی دکھائی دے.انہوں نے جس حد تک انسانی نظر کام کر سکتی تھی دیکھا مگر انہیں کہیں پانی کا نشان نظر نہ آیا.تب وہ اسی گھبراہٹ میں اُتریں اور دوڑتی ہوئی دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں.وہاں سے بھی دیکھا مگر پانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے.اسی کرب و اضطراب کی حالت میں حضرت ہاجرہ ؓ سات دفعہ دوڑیں اور آخر اُن کا دل بیٹھنے لگا کہ اب کیا ہوگا.اس پر معاً خدا تعالیٰ کا الہام نازل ہوا کہ اے ہاجرہ ؓ ! خدا نے تیرے بچےکےلئے سامان پیدا کر دیا ہے.جا اور اپنے بچے کو دیکھ.حضرت ہاجرہ ؓ واپس آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ جہاں بچہ پیاس سے تڑپ رہا تھا وہاں پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا ہے.یہی وہ چشمہ ہے جس کو چاہ زمزم کہتے ہیں.زمزم درحقیقت اُس گیت کو کہتے ہیں جو خوشی میں گایا جاتا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت ہاجرہ ؓ نے اُس چشمہ کانام خود زمزم رکھا تھا کیونکہ اس چشمہ کے ذریعہ سے اپنے بچہ کی نجات کی خوشی میں اُن کےلئے شکریہ میں گانے کا موقعہ پیدا ہوا تھا.پانی کا تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح انتظام کر دیا اب غذا کی فکر تھی.اتفاقًا ایک قافلہ راستہ بھول گیا اور وہ اُسی جگہ آپہنچا جہاں حضرت ہاجرہ ؓبیٹھی تھیں.قافلہ والوں کو پانی کی سخت ضرورت تھی انہوں نے جب وہاں چشمہ دیکھا تو حضرت ہاجرہ ؓ سے کہا کہ ہم آپ کی رعایا بن کر یہاں رہیں گے.آپ ہمیں اس جگہ بسنے کی اجازت دے دیں.حضرت ہاجرہ ؓ نے انہیں اجازت دےدی.اور وہ وہاں حضرت ہاجرہ ؓ اور اسمٰعیل ؑ کی رعایا بن کر رہنے لگے.اور پیشتر اس کے کہ اسمٰعیل ؑ جو ان ہوتا خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا.( بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون النَّسْلَانُ فِی الْمَشْیِ) آج تک حج کے ایّام میں حضرت ہاجرہ ؓ کے اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر ہی صفاؔ اور مروہؔ پر ہر حاجی کو سات دفعہ دوڑنا پڑتا ہے.یہ دوڑنا حضرت ہاجرہ ؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا ایک اقرار ہوتا ہے.یہ دوڑنا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اگر ہمیں بھی خدا کے لئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑ نا پڑا تو ہم انہیں چھوڑنے میں کوئی دریغ نہیں کریں گے.پس حج ایک اہم عبادت ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے.جب کوئی شخص مکہ مکرمہ میں جاتا ہے اور مناسکِ حج کو پوری طرح بجا لاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنے و الے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے جاتے ہیں.

Page 161

پھر حج سے مسلمانوں کے اندر مرکزیت کی روح بھی پیدا ہوتی ہے اور انہیں اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غورو فکر کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے.اسی طرح ایک دوسرے کی خوبیوں کو دیکھنے اور اُن کو اخذ کرنے کا انہیں موقع ملتا ہے اور باہمی اخوت اور محبت میں ترقی ہوتی ہے.غرض حج ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رُکن ہے جس کی طرف اسلام نے لوگوں کو توجہ دلائی ہے.وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی ہو اور جن کی صحت سفر کے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہواُن کا فرض ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں اور حج بیت اللہ کی برکات سے مستفیض ہوں.میں سمجھتا ہوں آجکل کے امراء کے لئے سب سے بڑی نیکی حج ہی ہے کیونکہ باوجود مال و دولت کے وہ کبھی حج کے لئے نہیں جاتے اورجو لوگ حج پر جاتے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن پر حج واجب نہیں ہوتا.میں جب حج کے لئے گیا تو ایک حاجی میرے پاس آیا اور اُس نے مجھ سے کچھ مانگا.حضرت نانا جان صاحب ؓ مرحوم میرے ساتھ تھے انہوں نے اُسے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں تھا تو تم حج کے لئے آئے کیوں ؟ وہ کہنے لگا.میرے پاس بہت روپے تھے مگر سب خرچ ہوگئے.حضرت نانا جان مرحوم نےپوچھا کہ کتنے روپے تھے وہ کہنے لگا جب میں بمبئی پہنچا تھا تو میرے پاس پینتیس روپے تھے اور میں نے ضروری سمجھا کہ حج کر آئوں.تو وہ پینتیس رپوئوں کو ہی بہت سمجھتا تھا مگر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ۳۵ہزار بلکہ ۳۵.۳۵لاکھ روپے رکھتے ہیں اور پھر بھی وہ حج کے لئے نہیں جاتے لیکن غرباء میں بہت حاجی نظر آتے ہیں.ایک شخص ساری عمر تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع کرتا رہتا ہے اور جب چند سو روپیہ اس کے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے تو وہ تمام عمر کا اندوختہ لے کر حج کے لئے چل پڑتا ہے.حالانکہ اُسی روپیہ پر اُس کے بیوی بچوں کی آئندہ زندگی کا مدار ہوتا ہے.وہ اگر اس روپے سے اچھے بیل خرید لے یا کچھ ایکڑ زمین لے لے تو اس کے بیوی بچوں کے لئے سہولت پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور روپیہ اٹھا تا اور حج کے لئے چل پڑ تا ہے تو امراء کے لئے سب سے بڑی نیکی حج ہے.کیونکہ وہ حج میں سب سے زیادہ کوتاہی کرتے ہیں.اسی طرح کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی بھی پائیں گے یا نہیں.اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن لینے کے بعد ایسے بیمارپڑتے ہیں کہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ حج کو جا سکیں.پنشن تو گورنمنٹ دیتی ہی اُسی وقت ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا.پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائیںگے پھر اُس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیں.حالانکہ دُنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہو تو جلدی حج کرلینا چاہیے.

Page 162

میں جب تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آئوںگا.مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اُسی سال حج کروںگا.یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کرلوںگا.جب میں بمبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب ؓ مرحوم بھی آملے.وہ براہ راست حج کو جارہے تھے.اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کر لوں.جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رئویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جائو کیونکہ یہ آخری جہاز ہے گو حج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے.اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی اور کئی جہاز حاجیوں کے مصر سے جدہ جائیں گے.میرے ساتھ عبدالحی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے.مگر مجھےچونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جائو ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہو جائے گی.اس لئے میں نے چلنے کا پختہ ارادہ کر لیا.وہاں جو ایک دو۲ اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہاز جائیں گے.قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں.اتنی دُور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جائوںگا.چنانچہ اُس جہاز ران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اس جھگڑے نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہوا اور کمپنی والے اس سال حاجیوں کے لئے کوئی اور جہاز نہ لے گئے.غرض کئی لوگ حج کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اُسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک بہت بڑی نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں.پس جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہو.وہ حج بیت اللہ سے مشرف ہونے کی کوشش کریں مگر حج میں بھی جب تک تقویٰ اور خشیۃ اللہ کو مدّنظر نہ رکھا جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.میں جب حج کرنے کے لئے گیا تو سوؔرت کے علاقہ کے ایک نوجوان تاجر کو میں نے دیکھا کہ جب وہ منٰی کی طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکرالٰہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں مَیں سفر کر رہا تھا اُسی جہاز میں وہ بھی واپس آرہا تھا ایک دن میں نے موقعہ پا کر اُس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کے لئے کیوں آئے تھے.میں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منٰی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الٰہی نہیں کر رہے تھے.اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دوکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں جہاں ہماری دوکان ہے اُس کے بالمقابل ایک اور شخص کی دوکان بھی ہے.وہ حج کرکے گیا اور اُس نے اپنی دوکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے لگ گئے.یہ دیکھ کر میرے باپ نے

Page 163

مجھے کہا کہ تُو بھی حج کر آ تا کہ واپس آکر تُو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دوکان پر لگا سکے.اب بتائو کہ کیا اُس کا حج اس کےلئے ثواب کا موجب ہوا ہوگا.ثواب کا تو کیا سوال ہے اُس کا حج اُس کےلئے یقیناً گناہ کا موجب ہوا ہوگا.پس انسان کو اپنے تمام کاموں میں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اچھے سے اچھا کام کرنے میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھے.ورنہ وہی نیکی اس کے لئے ہلاکت اور عذاب کا باعث بن جائےگی.بے شک حج ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اس لئے حج پر جاتا ہے کہ اس کا لوگوں میں اعزاز بڑھ جائے یا رسم و رواج کے ماتحت جاتا ہے یا اس لئے جاتا ہے کہ لوگ اُسے حاجی کہیں تو وہ اپنا پہلا ایمان بھی مٹا کر آئےگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا.کسی ریل کے اسٹیشن پر کوئی اندھی بڑھیا گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی.اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا سوائے ایک چادر کے جو اُس نے پاس رکھی ہوئی تھی.تاکہ جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تیز ہوا کی وجہ سے سردی محسوس ہو تو اوڑھ لے.اُس نے وہ چادر پاس رکھی ہوئی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اُسے ٹٹول لیتی تھی.ایک شخص اس کے پاس سے گذرا اور اُس نے سوچا کہ یہ تو اندھی ہے او ر پھر اندھیرا بھی ہو چکا ہے.اس لئے اگر میں یہ چادر اٹھا لوں تو نہ اس کو پتہ لگے گا اور نہ پا س کے لوگوں کو پتہ لگے گا.اس پر اُس نے چپکے سے وہ چادر کھسکا لی.بڑھیا چونکہ بار بار اُسے ٹٹولتی تھی اُسے پتہ لگ گیا کہ کسی نے چادر اٹھالی ہے.اُس نے جھٹ آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے بھائی حاجی میری چدر دے دو.میں اندھی غریب ہوں اور میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں.وہ شخص فوراً واپس مڑا اور اُس نے چادر تو آہستہ سے اُس کے ہاتھ میں پکڑا دی مگر کہنے لگا.مائی یہ تو بتائو تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں.وہ بڑھیا کہنے لگی بیٹا ! ایسے کام سوائے حاجیوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.میں اندھی کمزور اور غریب ہوں ، سردی کا موسم ہے اور میں بالکل اکیلی ہوں.ایسی حالت میں میرا ایک ہی کپڑا چُرانے کی کوئی عادی چوربھی جرأ ت نہیں کر سکتا.یہ ایسا کا م ہے جسے حاجی ہی کر سکتا ہے.غرض حج کااُسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے جب انسان اپنے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھے اور اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کرے.اگر وہ اخلاص کے ساتھ حج کے لئے جاتا ہے تو وہ ایمانوں کے ڈھیر لے کر واپس آتا ہے اوراگر وہ اخلاص کے بغیر جاتا ہے تو وہ اپنے پہلے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو البیت العتیق قرار دےکر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ نہیں بنایا بلکہ وہ پہلے سے بنا ہو ا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ مل کر صرف پہلے نشانوں پر اس کی دوبارہ تعمیر کی تھی.چنانچہ حضرت ہاجرہ ؓ اور حضرت اسمٰعیل ؑ

Page 164

کو چھوڑ تے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دُعا کی اُس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَبَّنَاۤ اِنِّيْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ( ابراہیم :۳۸)کہ اے میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ چلاہوں جہاں نہ کھانے کے لئے کوئی دانہ ہے اور نہ پینے کے لئے کوئی چشمہ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا.اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ ( آل عمران:۹۷)یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے روحانی فائدہ اور ان کی ایمانی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ وہی ہے جو مکّہ میں ہے.اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام دنیا کے لوگوں کے لئے اس میں فضل اور رحمت کے سامان اکٹھے کردئیے گئے ہیں.اس آیت میں وُضِعَ لِلنَّاسِ کے الفاظ اس پیشگوئی کے بھی حامل تھے کہ اس گھر کے ذریعہ وہ لوگ جو متفرق ہو چکے ہوںگے پھر اکٹھے کر دئیے جائیں گے.یعنی عالمگیر مذہب کا اس کے ساتھ تعلق ہوگا.اور ساری دنیا کو جمع کرنے کا یہ گھر ایک ذریعہ ہوگا.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوامِ عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کردیا اور اس طرح کعبہ تمام متفرق لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن گیا.یسعیاہؔ نبی نے بھی اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا.’’رب الافواج فرماتا ہے میں نے اس کو صداقت میں برپا کیا ہے اور میں اُس کی تمام راہوں کو ہموار کروںگا.وہ میرا شہر بنائےگا.اور میرے اسیروں کو بغیر قیمت اور عوض لئے آزاد کر دےگا.خداوند یوں فرماتا ہے کہ مصر کی دولت اور کوش کی تجارت اور سباؔکے قد آور لوگ تیرے پاس آئیںگے اور تیرے ہوںگے.وہ تیری پیروی کریں گے وہ بیڑیاں پہنے ہوئے اپنا ملک چھوڑ کر آئیں گے اورتیرے حضور سجد ہ کریں گے وہ تیری منّت کریں گے اور کہیں گے.یقیناً خداتجھ میں ہے اور کوئی دوسرا نہیں اور اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.‘‘ (یسعیاہ باب ۴۵ آیت ۱۳،۱۴) اس پیشگوئی میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی تھی کہ ایک خدا کا شہر بنایا جائےگا چنانچہ ساری دنیا میں صرف بلد اللہ الحرام ہی ایک ایسا شہر ہے جو خدا کا شہر کہلاتا ہے.پھر بتا یا گیا تھا کہ اس کو بنانےوالا یعنی اس کی عظمت کو قائم کرنے والا میرے اسیروں کو بلا اُجرت لئے چھڑائےگا.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کو فتح کرکے بلا کسی تاوان لینے کے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کی آواز بلند کرکے قیدیوں کو چھوڑ دیا.اسی طرح آپ روحانی قیدیوں سے بھی یہی کہتے رہے کہ لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا (الانعام :۹۱)یعنی میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا.پھر محمدرسول اللہ

Page 165

صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی مصر کی دولت اور کوشؔکامنافع اور سباؔ کے قد آور لوگ آئے.گذشتہ انبیاء میں سے صرف حضرت مسیح ؑ کے متعلق عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ شاید وہ اس پیشگوئی کے مصداق ہوں.لیکن ان میں ایک بات بھی اِن باتوں میں سے نہیں پائی جاتی.بیشک مصر پر رومیوں کا ایک عرصہ تک قبضہ رہا لیکن کوش کا منافع اُن کو نہیں ملا.گو مسیحی مؤرخوں نے زور دےکر ایتھوپیا کو کوشؔ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے (The Dictionary of the Bible underword CUSH).مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کوشؔ جس کا یسعیاہؔ میں ذکر آتا ہے وہ علاقہ ہے جو ایلام اور میڈیا کے درمیان میں واقع ہے.ایلام کا علاقہ خلیج فارس کے کنارے کا دجلہ تک کا علاقہ ہے.اور میڈیا کیسپین لیک کے جنوب کا علاقہ ہے (Encyclopedia Biblica underword CUSH).اس علاقہ کا منافع عیسائیوں کو کبھی نہیں ملا.یعنی یہاں کے لوگوں نے مسیحیت کو قبول نہیں کیا.اسی طرح سباؔ کے قد آور آدمی بھی مسیحی مقامات پر سجدہ کرنے کے لئے نہیں گئے.اور اگر جائیں بھی تو وہ تثلیث کی تائید کرنے والے ہوں گے حالانکہ یسعیا ہ بتاتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق ایک خدا کی پرستش کے لئے اس شہر میں جمع ہوںگے اور وہاں یہ آوازیں دیتے ہوئے آئیں گے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.لیکن اسلام کو یہ سب باتیں حاصل ہیں.کعبہ کو خدا کا گھر ماننے والے مصر میں بھی ہیں ، یمن میں بھی ہیں جس میں سباؔ واقع ہے اور کوش ؔ میں بھی ہیں اور یہاں سے ہزاروں لوگ ہر سال اس شہر کو جاتے ہیں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے.اور وہاں جا کر اس گھر میں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے یہ کہتے ہوئے داخل ہوتے ہیں کہ لَبَّیْکَ ، لَبَّیْکَ ، اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ یعنی میں حاضر ہوں.میں حاضر ہوں اے میرے اللہ میں حاضر ہوں.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.میں حاضر ہوں.پس اس پیشگوئی میں بھی مکّہ مکرمہ کی طرف رجوعِ خلائق کا اشارہ پایا جاتا تھا.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی.اور اسی تعلق کے قیام کے لئے نماز میں بیت اللہ کی طرف مُنہ کر نے کا حکم دیا گیا.بہرحال بیت اللہ ایک نہایت ہی پُرانا مقام ہے اور تاریخ بھی اس کے قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے.چنانچہ سرولیم میور ’’ لائف آف محمد ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مکّہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانے کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیرو ڈوٹس مشہور یونانی جغرافیہ نویس نے نام لےکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلا لات کا ذکر کرتا ہے (یعنی خداوئوں کا خدا) اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکّہ میں ایک ایسی ہستی کی پرستش کی جاتی تھی جسے بڑے بڑے بتوں کا بھی خدا مانا جاتا تھا.(The Life of Mahomad:introduction p.14 )

Page 166

پھر لکھا ہے کہ مؤرخ ڈایو ڈورس سکولس جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گذرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصّہ جو بحیرۂ احمر کے کنارے پر ہے اُس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں.( دیباچہ لائف آف محمد ) پھر لکھتا ہے کہ قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے.یعنی یہ اتنا پُرانا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا.یہ بالکل البیت العتیق کا ہی مفہوم ہے جو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے.پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا.اور کچھ عرصہ تک اُن کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہو ئے تھے (خروج باب ۱۷ آیت ۸تا ۱۶ وگنتی باب ۲۴ آیت ۲۰) گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی بہت پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے تھے اور وہ بھی اس کے بانی نہ تھے بلکہ یہ گھر اُن سے بھی پہلے کا بنا ہوا تھا اور انہوں نے اُس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا.پس تاریخی شواہد کی رو سے بھی بیت اللہ کا بیت عتیق ہونا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.اس موقعہ پر حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کے ایک کشف کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب فتوحات ِ مکیہ کی جلد ۳میں بیان فرمایا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں.پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یاد رہا.وہ شعر جو مجھے یاد رہا وہ یہ تھا کہ ؎ لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا بِھٰذَا الْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا یعنی ہم بھی اس مقد س گھر کا سالہا سال اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو.وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر بڑا تعجب ہو ا پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتا یا مگر وہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا.اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ دادوں میں سے ہوں.میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گذر چکا ہے اُس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گذر رہا ہے.میں نے کہا زمانۂ آدم پرتو اتنا عرصہ نہیں گذرا.اُس نے کہا کہ تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو کیا اُس آدم کا

Page 167

جو تمہارے قریب ترین زمانہ میں ہوا ہے.یا کسی اور آدم کا.وہ کہتے ہیں اس پر معاً مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یا د آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں.اور میں نے سمجھا کہ میرے یہ جدِّاکبر بھی انہیں میں سے کسی ایک آدم سے تعلق رکھنے والے ہوںگے.( فتوحات مکیۃ جلد ۳ باب فی معرفة منازلة زمان الشیء وجودہ الا انا فلا زمان لی و الا انت فلا زمان لک فانت زمانی و انا زمانک) حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کا یہ کشف بھی بتا رہا ہے کہ بیت اللہ نہایت قدیم زمانہ سے دنیا کا مرکز اور لوگوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ بنا رہا ہے اور اسی طرح یہ دنیا بھی لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے.چنانچہ آج سے ہزار ہا سال قبل بھی لوگ اس مقدس گھر کا اِسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں.یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ یہ البیت العتیق ہے جو زمانۂ قدیم سے خدا تعالیٰ کے انوار و برکات کا تجلی گاہ رہا ہے اور قیامت تک دنیا کو ایک مرکز پر متحد رکھنے کا ذریعہ بنا رہےگا.ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ (تعالیٰ) کی مقرر کردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ اس کے رب کے نزدیک اُس رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ کےلئے اچھا ہوتا ہے اور اے مومنو! تمہارے لئے( سب) چوپائے حلال کئے گئے ہیں سواے اُن کے جن کی فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ۰۰۳۱ حُرمت قرآن میں بیان ہو چکی ہے.پس چاہیے کہ تم بُت پرستی کے شرک سے بچو اور (اسی طرح ) اپنی عبادت اور حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فرمانبرداری صرف اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے جھوٹ بولنے سے بچو( اور) تم خدا کا شریک کسی کو نہ بنائو.اور فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ جو اللہ کا شریک کسی کو بناتا ہے وہ آسمان سے گِر جاتا ہے اور پرندے اُس کو اُچک کر لے جاتے ہیں.

Page 168

الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۰۰۳۲ اور ہوا اُس کو کسی دور کی جگہ پر پھینک دیتی ہے.حلّ لُغَات.اَلرِّجْسُ الرِّجْسُ کے معنے ہیں اَلْقَذَرُ گندگی.اَلمَأْثَمُ.گناہ.اَلْعَمَلُ الْمُؤَدِّیْ اِلَی الْعَذَابِ عذاب تک لے جانے والا عمل.اَلْعِقَابُ.سزا.اَلْغَضَبُ: غضب.ناراضگی (اقرب) اَلْاَوْثَانُ.اَلْاَوْثَانُ اَلْوَثَنُ کی جمع ہے اور اَلْوَثَنُ کے معنے ہیں اَلصَّنَمُ.بت.(اقرب) اَلزُّوْرُاَلزُّوْرُ کے معنے ہیں اَلْکَذِبُ جھوٹ اَلشِّرْکُ بِا للّٰہِ.اللہ کے ساتھ شرک کرنا.اَلْبَاطِلُ.باطل.( اقرب) اَلسَّحِیْقُ.السَّحِیْقُ: اَلْمَکَانُ الْبَعِیْدُ.دور کی جگہ ( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.جو بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی عزت کرتا ہے.اُس کو اُس کے ربّ کے پاس درجے ملتے ہیں یعنی خدا کے حضور میں عزت حاصل کرنے کا اصل طریق یہ ہے کہ خدا جس زمانہ میں جن چیزوں کی عزت کرنے کے لئے کہے اُن کی عزت کی جائے.پھر فرماتا ہے کہ چوپائوں میں سے کچھ تم پر حلال کئے گئے ہیں مگر وہ چوپائے جو بُتوں پر چڑھائے جاتے ہیں وہ تم پر حرام کئے گئے ہیں.ان سے بچو اور جھوٹ بھی مت بولو.یعنی چوپایوں کا اس طرح مشرکانہ طورپر قربان کرنا یہ ایک جھوٹ ہے.اور شرک بھی مت کرو.کیونکہ خانہ کعبہ کی بنیاد دنیا کی سب قوموں کے جمع کرنے کے لئے اور ایک مذہب قائم کرنے کے لئے رکھی گئی تھی.اور سب قومیں صرف توحید پر ہی جمع ہو سکتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ توحید کو قبول کئے بغیر انسانی ذہن کبھی بھی اُلجھنوں اور پریشانیوں سے نجات نہیں پاسکتا.چنانچہ واقعات بتاتے ہیں کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہ ہمیشہ اُلجھنوں اور پریشانیوں کے چکر میں ہی پھنسے رہے اور کبھی بھی حقیقی امن اور سکون اُن کو نصیب نہیں ہوا.انسان جب اس دنیا کے پردہ پر پہلی مرتبہ ظاہر ہوا تو اس وقت سورج اُسے ایک سنہری تھال نظر آتا تھا.چاند اُسے ایک چمکدار ٹکیہ کی مانند دکھائی دیتا تھا.اور ستاروں میں سے کوئی اسے دانوں کے برابر.کوئی بیروں کے برابر اور کوئی اخروٹوں اور سیبوں کے برابر نظر آتا تھا.اور زمین کی جھاڑیاں اور درخت اُسے سورج ، چاند اور ستاروں سے بھی بڑے معلوم ہوتے تھے.اس کے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ سینکڑوں میل دُور جہاں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا جہاں وہ پہاڑوں پر چڑھ

Page 169

کر بھی نہیں پہنچ سکتا ایک چھوٹی سی ٹکیہ نمودار ہو کر ساری دنیا کو روشن کرد یتی ہے.اور رات کے وقت ایک چھوٹی سی سفید تھالی ظاہر ہو کر سارے عالم کو چاندنی سے بھر دیتی ہے.ہزاروں ہزار ٹمٹمانے والے ستارے جَوّ میں پھیل جاتے ہیں اور چمک چمک کر اُس کی آنکھوں کو خیرہ کر تے ہیں اور اس کی نظر کے لئے ایک دلفریب نظارہ پیدا کرتے ہیں.اور جب دن آتا ہے تو غائب ہو جاتے ہیں.یہ چیزیں اُسے ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی تھیں اور یقیناً اُسے ہمیشہ حیرت میں مبتلا رکھتیں اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ابتداء میں ہی اُسے پکڑ کر سیدھا راستہ نہ دکھا دیتا.ہم دیکھتے ہیں گھر میں کوئی معمولی ساکھٹکا بھی ہوتا ہے تو گھر والے اُٹھ کر تجسّس شروع کر دیتے ہیں.کوئی کہتا ہے چھپکلی ہو گی کوئی کہتا ہے چوہا ہوگا.کوئی کہتا ہے چور ہوگا.گویا ایک معمولی ساکھٹکا چھپکلی اور چوہے سے لےکر چور تک پہنچا دیا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح ؑنے بھی انجیل میں پیشگوئی کی ہے کہ آنےوالا مسیح چوروں کی طرح آئےگا.چنانچہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’ جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئےگا.لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کونسے پہر آئےگا تو جاگتارہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگا نے دیتا.اس لئے تم بھی تیار رہوکیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آجائے گا.‘‘(متی باب ۲۴آیت۴۳،۴۴)اس پیشگوئی میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اُس کے آنے سے ایک کھٹکا پیدا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ اُسے چور بنائیں گے لیکن ہوگا وہ خدا کا راستباز نبی.غرض ایک معمولی ساکھٹکا بھی جب انسان کو پریشان کر دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے نظارے اُسے کس قدر حیران کر سکتے ہیں مگر جونہی کہ انسانیت سنِ شعور کو پہنچی اللہ تعالیٰ نے اُس کے کان میں یہ آواز ڈال دی کہ میں تیرا اللہ تعالیٰ ہوں اور جو کچھ تجھے نظر آتا ہے یہ سب میری مخلوق ہے جس طرح کہ تو مخلوق ہے اور تو ایک دن مر کر میرے سامنے آنے والا ہے اور یہ سب چیزیں جو تجھے نظر آتی ہیں خواہ قریب ہوں یا بعید میں نے تیرے فائدہ اور تیری خدمت کے لئے پیدا کی ہیں اور سب تجھے نفع پہنچانے کے کاموں پر لگی ہوئی ہیں.اس آواز نے اسے کتنی پریشانیوں سے بچا لیا.اگر پہلا انسان یعنی آدم اپنے سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد اس آواز کو نہ سُنتا تو اُس کے لئے کس قدر مصیبت ہوتی اور وہ کتنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا.دن چڑھتا تو اُس کے لئے ایک تکلیف کاآغاز ہوجاتا کہ سورج کی کنہ معلو م کرے.اور رات ہوتی تو ایک اور پریشانی کا دروازہ کھل جاتا کہ چاند کی حقیقت معلوم کرے.اور پھر یہ پتہ لگا ئے کہ ان چیزوں کا اس سے کیا تعلق ہے اور یہ اُسے نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا نہیں ؟ اور اس سے خوش ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اس آواز سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ اب تک انہیں چکروں میں پڑے ہوئے ہیں.چنانچہ تمام بُت پرست قومیں انہی الجھنوں میں مبتلا ہیں.کوئی کہتی ہے کہ چاند اور سورج پر

Page 170

ارواح چھا جاتی ہیں اور وہ ناراض یا خوش ہوتی ہیں.اگر کسی شخص نے کوئی ایسا کام کیا جس کا نتیجہ خراب نکل آیا تو اُس نے خیال کر لیا کہ چاند پر چھائی ہوئی ارواح کو یہ بات پسند نہیں آئی.اور اگر کسی نے کوئی کام کیا اور اُس کا اچھا نتیجہ نکل آیا تو اُس نے یہ سمجھ لیا کہ سورج کی روح کے نزدیک یہ کام اچھا ہے.مگر آدم ؑ کیسا مطمٔن تھا اور کس بشاشتِ قلب سے بیٹھا تھا کیونکہ اُسے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ یہ سب چیزیں خدا نے اس کے لئے مسخر کر دی ہیں.اور اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں.اسی لئے اُسے سورج اور چاند کی ناراضگی یا خوشنودی کے سامانوں کی تلاش میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی.موحد اور خدا رسیدہ آدم ان سب پریشانیوں سے محفوظ تھا.اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا.اگر تجسّس صرف اس حد تک ہو کہ سورج ایک مادی چیز ہے اُس کی شعاعوں میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا فائدے رکھے ہیں.تو یہ ایک سائینس کی تحقیقات ہوگی.اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں لیکن اگر وہ ان چیزوں کو ہی خدا کا مرتبہ دے دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان کا تعلق اس کی زندگی اور موت سے ہے او ر یہ اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے آرام و راحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں تو اُسے دن رات ایک خلش رہےگی کہ معلوم نہیں یہ چیزیں مجھے کیا نقصان پہنچائیں.اور اگر نقصان پہنچادیں تو معلوم نہیں میں اُس کا کس طرح ازالہ کروں.غرض مشرک کی ساری زندگی ایک ذہنی پریشانی اور گھبراہٹ کی تصویر ہوتی ہے.اور وہ حیران ہوتا ہے کہ میں اپنے مصائب کا کیا علاج کروں ؟ وہ کبھی ایک بُت کے آگے جھکتا ہے اور کبھی دوسرے کے آگے.کبھی اس کی ناراضگی کا اُسے خو ف آتا ہے اور کبھی اُس کی خفگی کا.کبھی ستاروں سے ڈرتا ہے اور کبھی سورج اور چاند سے لرزتا ہے اور کبھی پتھر کے بے جان بتوں سے اُس کا خون خشک ہوتا ہے.غرض زندگی کے کسی مرحلے میں بھی اُسے اطمینان نصیب نہیں ہوتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ.اگر تم ذہنی کشمکش اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہوتو بُت پرستی کے شرک سے بچو اور کامل موحد بن جائو پھر تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی.اور تمہیں دکھائی دےگا کہ ساری دُنیا تمہاری خدمت میں لگی ہوئی ہے.پھر فرماتا ہے کہ ہم تمہیں دوسری نصیحت یہ کرتے ہیں کہ تم جھوٹ سے بچو.کیونکہ یہ بھی روحانیت کو تباہ کر دینے وا لا مرض ہے اور پھرشرک اپنی ذات میں سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ جو طاقتیں خدا تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیں اُن کے متعلق ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیزمیں ہیں اور اس طرح جھوٹ کی نجاست پر مُنہ مارتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت راستبازی ہوتی ہے.اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.مگر افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ راستبازی کی قدرو قیمت کو

Page 171

نہیں سمجھتے.خصوصیت کے ساتھ اس زمانہ میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ یہ زمانہ مداہنت اور نفاق کا زمانہ ہے اور تہذیب کے معنے آجکل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنےوالا دوسرے کے خیالات کا اس حد تک خیال رکھے کہ اگر اُسے سچائی بھی چھپانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے.مگر زمانہ کی رَو کے باوجود ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس بدی کا پورے زور سے مقابلہ کرے اور اُسے کچلنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے کیونکہ جھوٹ بولنے والا دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے اور دھوکا ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے.پس جھوٹ بولنے والا صرف اخلاقی مجرم ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا دشمن اور انہیں تباہ کرنے والا بھی ہے.اور اس عیب کو مٹانا ہر سچےاور مخلص مسلمان کا فرض ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ جب وہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے(بخاری کتاب الایمان باب علامة المنافق) اور منافق کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسے دوزخ کے سخت ترین مقام میں رکھا جائےگا (النساء:۱۴۶).گویا خدا تعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا.اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے.جو قوم اپنے افراد میں سے جھوٹ نہیں مٹا سکتی اور اس کے باوجود وہ یہ سمجھتی ہے کہ اُسے ترقی اور عزت حاصل ہو جائےگی.اُس کا یہ خیال ایسا ہی خام ہے جیسے ایک بچہ کا یہ خیال کہ وہ چاند کے پاس پہنچ جائےگا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائےگا.جس طرح ایک بچہ کی چاند یا ستاروں تک پہنچنے کی خواہش ناکام رہتی ہے اسی طرح وہ قوم جس کے اندر جھوٹ پایا جاتا ہو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور راستبازی کا یہ حال تھا کہ آپ کا دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ آپ سچائی کے اعلیٰ مقام پر ہیں.چنانچہ جب آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائو تو آپ نے صفا پر چڑ ھ کر مکّہ کے لوگوں کوبلانا شروع کیا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا دشمن تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ اب بظاہر یہ ناممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہا ں جمع ہو اور مکّہ والوں کو اس کا علم تک نہ ہو.مگر انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے.( بخاری کتاب التفسیر سورة الشعراء،تفسیر روح المعانی زیر آیت تَبَّتْ یَدَٓا اَبَیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ)اسی طرح جب قیصر رومانے ابو سفیا ن کو اپنے دربار میں بُلا کر اس سے پُوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے تمہارے ساتھ کبھی جھوٹا معاہدہ کیا ہے تو ابو سفیان نے کہا کہ پچھلے افعال کے متعلق تو میں کو ئی گرفت نہیں کرتا.لیکن اب انہوں نے ایک نیا معاہدہ کیا ہے.دیکھیں وہ عہد شکنی کرتے ہیں یا نہیں.اس پر قیصر نے کہا کہ آئندہ کا ذکر

Page 172

جانے دو.جب اُس نے پیچھے تمہارے ساتھ کوئی عہد شکنی نہیں کی تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرے گا (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ؐ).تو شدید سے شدید دشمن کو بھی جو آپ سے لڑائی کر رہا تھا یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آپ کے متعلق یہ کہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے یا کوئی معاہدہ شکنی کی ہے.یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے مسلمان جب کسی ملک میں جاتے تو وہاں کے باشندے اُن کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر اُن کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے کہ وہ اپنے ہم قوم اور اپنے ہم مذہب افراد سے بھی اُن کی زیادہ عزت کرتے اور اُن کی سلامتی کی دُعائیں کرتے.چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے جب حمص پر قبضہ کر لیا جو رومیوں کے علاقہ میں تھا.تو کچھ عرصہ کے بعد مسلمانوں کو دوبارہ دشمن کے حملہ کا خطرہ پیدا ہوگیا.اور انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت حمص کو خالی کر دیا جائے اس فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے وہاں کے عیسائیوں کو بُلایا اور اُن سے کہا کہ ہم تم سے جزیہ وصول کر چکے ہیں مگر یہ جزیہ اس شرط کے ماتحت لیا گیا تھا کہ ہم تمہارے جان و مال کی حفاظت کریں گے.اب چونکہ خود ہمارے لئے ایک نازک صورتِ حالات پیدا ہوگئی ہے اور ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم جزیہ کی رقم تمہیں واپس کر تے ہیں.چنانچہ کئی لاکھ روپیہ جو عیسائیوں سے جزیہ کے طور پر لیا گیا تھا انہیں واپس کر دیا گیا.اس اعلیٰ درجہ کے نمونہ کا اُن عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا تو وہ ساتھ ساتھ روتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو دوبارہ ہم میں واپس لائے اور یہودی بھی بڑے جوش سے یہ کہتے جاتے تھے کہ توراۃ کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا.( فتوح البلدان بلازری امر حمص و یو م الیرموک) غرض سچائی ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہو سکتا.جو لوگ سچائی اور دیانت کا نمونہ دکھاتے ہیں وہ اپنی قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں.اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ اپنی قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں.فرماتا ہے توحید کے مقابلہ میں شرک کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص بلندی سے گِر جائے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہوا اس کے ٹکڑوں کو دُور دُور پھینک دے کیونکہ مشرک اپنے کئی آقا تجویز کرتا ہے اور ہر آقا کو اس کے گوشت پر حق ہے.اس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ شرک کا مسئلہ ایسا سیدھا سادہ نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ نہایت باریک مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قومیں جو بظاہر شرک کی مخالف ہیں عملاً شرک میں مبتلا پائی جاتی ہیں اور اس کا سبب

Page 173

یہی ہے کہ وہ شرک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ شرک کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے بلکہ مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے اس مرض کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے.جب تک اُسے ایک تعریف کے اندر لانے کی کوشش کی جائے اُس وقت تک یہ مسئلہ ایک عقدۂ لاینحل ہی رہتا ہے.میرے نزدیک شرک مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے : اوّل : یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں.یہ شرک فی الذات ہے.دوسرے :یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی.یہ شرک بھی شرک فی الذات میں ہی داخل ہے.تیسرے :وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کے لئے اختیار کئے گئے ہیں.اُن میں سے جو حد درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں اُن کو خدا کے سوا کسی اور کے لئے اختیار کرنا مثلاً سجدہ انتہائی ادب اور تذلّل کے اظہار کا ذریعہ ہے.پس یہ عمل صرف خدا کے لئے جائز ہے کسی اور کے لئے نہیں لیکن سجدہ کے علاوہ بھی مختلف اقوام میں مختلف حرکاتِ بدن انتہائی تذلّل کے لئے قرار دے دی گئی ہیں.جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ، یا رکوع وغیرہ کرنا.ان سب امور کو خدا تعالیٰ نے عبادتِ الٰہی کا حصّہ بنا دیا ہے.پس اب یہ عمل کسی اور کے لئے جائز نہیں.چہارم :شرک کی چوتھی قسم یہ ہے کہ انسان اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سے میری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصرف کا خیال دل سے ہٹا دے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں.یہ بھی شرک ہے.ہاں اگر یہ خیال کرے کہ ان سامانوں میں خدا تعالیٰ نے فلاں طاقت رکھی ہے اور اس کے ارادہ کے ماتحت ان کے نتائج پیدا ہوں گے تو یہ شرک نہیں ہو گا.پنجم:شرک کی پانچویں قسم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ مخصوص صفات جو اُس نے بندوں کو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا یا کوئی چیز پیدا کرنا یا خدا تعالیٰ کا ازلی اور غیر فانی ہونا ایسے امور میں خدا تعالیٰ کی خصوصیّت کو مٹا دیا جائے.اور ان صفات میں کسی غیر کو شریک کر لیا جائے خواہ اس عقیدہ کی بنا پر ہی شریک کیا جائے کہ خدا نے اپنی مرضی اور اپنے اذن کے ساتھ یہ صفات یا ان کا کچھ حصّہ کسی خاص شخص کو دےدیا ہے.یہ بھی شرک ہی ہو گا.ششم : شرک کی چھٹی قسم یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نےبلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خدا تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے مقرر کئے

Page 174

ہیں اپنی خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو پورا کر دیا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے آگ کو جلانے کے لئے پیدا کیا ہے.اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ کسی شخص نے اپنی ذاتی طاقت سے بلا دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے جو قانونِ قدرت میں رکھے گئے ہیں آگ لگا دی تو یہ شرک ہو گا لیکن اس میں مسمریزم وغیرہ شامل نہیں کیونکہ یہ طاقتیں خود قانون قدرت کے اندر شامل ہیں کسی شخص کے ذاتی کمالات نہیں.ہفتم : شرک کی ساتویں قسم یہ ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبّت ہے کہ وہ اس کی ہر ایک بات مان لیتا ہے کیونکہ اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ بندہ خدائی طاقتیں رکھتا ہے.ہشتم : شرک کی آٹھویں قسم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت نے کسی کام کے کرنے کی کوئی طاقت نہیں دی.اس کے متعلق یہ خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کر لے گی.مثلاً خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے آپ کو اَلسَّمِیْعُ قرار دیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کامل طور پر لوگوں کی دعائوں کو سُنتا اور اُن کی حاجات کو پورا فرماتا ہے.یعنی فاصلہ اور وقت کا اُس پر کوئی اثر نہیں پڑتا.اب اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ سے دُعا کرنے کی بجائے مُردوں کی قبروں پر جاتا اور اُن سے اپنی مرادیں مانگتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے اَلسَّمِیْعُ ہونے میںمُردوںکوبھی شریک کر لیا.حالانکہ قرآن کریم اس کی صراحتاً تردید کر تا ہے اور فرماتا ہے کہ وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَ.اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ١ۚ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ ( النحل:۲۱،۲۲)یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبود انِ باطلہ کو لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں اور وہ سب کے سب مردہ ہیں نہ کہ زندہ.اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے کہ ہمارے معبود بھی دلوں کے بھید جانتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے.جو خالق ہو وہی اپنی مخلوق کی اندرونی طاقتوں اور اُس کی ضروریات سے آگاہ ہو سکتا ہے مگر جن کو تم پکارتے ہو وہ تو خود سب کے سب مخلوق ہیں انہوں نے تمہارے حالات کو کیا جاننا ہے.اور پھر وہ مُردہ ہیں زندہ نہیں.انہوں نے تمہاری مدد کیا کرنی ہے.انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اُٹھائے جائیں گے گویا اُن کا انجام بھی دوسروں کے ہاتھ میں ہے.ایسی صورت میں اگر کوئی شخص کسی قبر پر جاتا اور مردہ کوکسی تصرف کے لئے کہتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے.اسی طرح بتوں ، دریائوں ، سمندروںاور سورج اور چاند وغیرہ سے مُراد یں مانگنا اور دُعائیں کرنا بھی شرک میں ہی شامل ہے.

Page 175

نہم : شرک کی نویں قسم یہ ہے کہ ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کا نشان ہیں گو اب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلا ضرورت ِ طبعی ارتکاب کیا جائے مثلاً کوئی شخص کسی قبر پر دیا جلا کر رکھ آئے تو خواہ وہ صاحب قبر سے دُعا کرے یا نہ کرے یا صاحبِ قبر کو خدا سمجھے یا نہ سمجھے یہ فعل بھی شرک کے اندر آجائےگا کیونکہ یہ عمل پہلے زمانہ کے مشرکانہ اعمال کا بقیہ ہے.وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ مُردے قبروں پر واپس آتے ہیں اور جن لوگوں کی نسبت معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے اُن کی قبروں کا احترام کیا ہے اُن کی مدد کرتے اور ان کے کاموں کو تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں.اسی لئے لوگ قبروں پر دئیے یا پھول وغیرہ رکھ آتے تھے.ان یاد گار وں کو تازہ رکھنا بھی چونکہ شرک کی مدد کرنا ہے.اس لئے یہ بھی شرک میں ہی داخل ہے اسی طرح درختوں پر رسیّاں وغیرہ باندھنی یا قبروں پر چڑھاوے چڑھانے اور ٹونے کرنے سب اسی قسم میں شامل ہیں.میں نے جو یہ کہا ہے کہ بلا ضرورت طبعی ایسے کام کرنے منع ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جا رہا ہو اور راستہ میں رات آجائے اور مجبوراً کسی مقبرہ میں ٹھہرنا پڑے تو یہ ضروری نہیں کہ وہاں انسان اندھیرے میں ہی بیٹھا رہے بلکہ اگر دیا جلا کر روشنی کا انتظام کرلے تو یہ جائز ہوگا.دہم : شرک کی دسویں قسم یہ ہے کہ خواہ عمل نہ ہو.مگر دل میں محبت ، ادب ، خوف اور اُمید کے جذبات اور لوگوں کے متعلق خدا تعالیٰ سے زیادہ یا اُس کے برابر رکھے جائیں.کامل موحد وہی ہے جو شرک کی ان تمام اقسام سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی احدیت پر سچّے دل سے ایمان لائے.حق یہ ہے کہ شرک انسان کا نقطۂ نگاہ بہت ہی محدود کر دیتا ہے اور اس کی ہمت کو گِرا دیتا ہے.اور اس کے مقصد کو ادنیٰ کر دیتا ہے.مشرک انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور اُسے کسی واسطہ کی ضرورت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور انسانوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھا اور سب انسانوں کے لئے اُس نے اپنے قرب کے دروازے کھلے رکھے ہیں جو چاہے اُن میں داخل ہو جائے.بے شک ایک دنیوی بادشاہ کے لئے سب رعایا سے تعلق رکھنا ممکن نہیں ہوتا.مگرخدا تعالیٰ کی طاقتیں محدود نہیں ہیں.اُ س کی طاقت اور قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ سب سے براہِ راست تعلق رکھے اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دے.

Page 176

ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ (تعالیٰ ) کی مقرر کردہ نشانیوں کی عزت کرےگا اُس (کے اس فعل )کو دلوں کا تقویٰ الْقُلُوْبِ۰۰۳۳لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ قرارد یا جائے گا.(یاد رکھو کہ )ان قربانیوں سے ایک مدت تک تم کو نفع حاصل کر نا جائز ہے.پھر خدا کے پُرانے گھر مَحِلُّهَاۤ اِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيْقِؒ۰۰۳۴ تک اس کو پہنچانا ضروری ہے.حلّ لُغَات.اَلْعَتِیْقُ اَلْعَتِیْقُکے معنے ہیں اَلْقَدِیْمُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ.تمام چیزوں میں سے پرانی چیز.اَلْکَرِیْمُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَالْخِیَارُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ.معززاور بہترین چیز.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا اُس کے شعائر کی عظمت بجا لانا اس کی مقرر کردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم کرنا اور اس کے نشانات کی حرمت کو قائم رکھنا خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اس سے خود انسان کے اپنے دل میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ میں وہ ترقی کرنے لگتا ہے.چنانچہ قربانیوں کو ہی دیکھ لو.یہ پہلے کچھ مدّت تک تم لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور پھر خانہ کعبہ پر پہنچتی ہیں تو ذبح کی جاتی ہیں.لیکن پھر بھی اُن کا گوشت تم لوگوں کے فائدے کے لئے ہی تقسیم ہوتا ہے خدا کو نہیں پہنچتا خدا تعالیٰ کو تو وہی اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت تم نے قربانیاں کی ہوتی ہیں.پس اصل چیز دل کا اخلاص اور وہ ایمان ہے جو انسان کے اندر پایا جائے.اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قدرو قیمت رکھتی ہے.اس جگہ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تعظیم شعائر اللہ تقوی القلوب میں داخل ہے.یعنی متقی ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نشانات کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہو تا ہے.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں.درحقیقت اسلام نے یہ کلیہ پیش کیا ہے کہ انسان کے ظاہری اعمال کا اس کے باطن پر اور اس کے باطن کا ظاہر پر اثر پڑتا ہے.پس جو شخص اُن مقامات کا ادب کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوا ہو یا اُن ہستیوں کا ادب کرتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام اُترا ہو یا اُس کے نشانات کی حامل ہوں تو چونکہ یہ ادب اُس کے دل کے تقویٰ اور خشیٔت الٰہی کی وجہ سے ہوگااس لئے طبعی طور ہر اُس کی دلی پاکیزگی کا اس کے ظاہر پر بھی اثر پڑے گا

Page 177

اور اس طرح وہ ظاہری اور باطنی دونوں طور پر نیکیوں سے آراستہ ہو جائےگا.یہ آیت گو بہت چھوٹی سی ہے لیکن انسان کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کو اس میں ایسے کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سمجھ اور عقل سے کا م لینے والا ہو تو وہ اسی کے ذریعہ اپنے تما م اعمال کو درست کر سکتا ہے.انسان کی تمام تر سعادت اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا ادب کرے اور ان کی عظمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے ورنہ اُس کا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا.وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا اور ہر ایک قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے تاکہ وہ اُن چارپایوں پر جو اللہ( تعالیٰ) نے ان کو بخشے رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ہیں اللہ (تعالیٰ) کا نام لیں.(پس یاد رکھو کہ) تمہارا خدا ایک خدا ہے.پس تم اُسی کی فرمانبرداری کرو.اور جو( خدا فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَۙ۰۰۳۵الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ کے سامنے) عاجزی کرنےوالے ہیں ان کو خوشخبری دےدے ایسے لوگوں کو کہ جب اللہ کا نام اُن کے سامنے لیا جائے اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ تو اُن کے دل کانپ جاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی( خوشخبری دےدے) جو اپنے پر نازل ہونےوالی مصیبتوں پر الْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۰۰۳۶وَ الْبُدْنَ صبر کرتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے (ہماری خوشنودی کے لئے )اس میں سے جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ١ۖۗ فَاذْكُرُوا خرچ کرتے رہتے ہیں.اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو بھی قابلِ عزت بنایا ہے.اُن میں تمہارے لئے اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ١ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا بہت بھلائی ہے.پس انہیں صفوں میں کھڑا کرکے اُن پر خدا کا نام لو.اور جب اُن کے پہلو زمین پر لگ جائیں

Page 178

مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا تو اُن (کے گوشت) میں سے خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو اپنی غربت سے پریشان ہیں.اسی طرح ہم نے لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۰۰۳۷ اُن جانوروں کو تمہارے فائدے کے لئے بنایا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو.حلّ لُغَات.اَلْبُدْنُ.اَلْبُدْنُ اَلْبَدَنَۃُ کی جمع ہے.اور اَلْبَدَنَۃُ کے معنے ہیں نَاقَةٌ اَوْ بَقَرَۃٌ تُنْحَرُ بِمَکَّۃَ سُمِّیَتْ بِذٰلِکَ لِاَ نَّھُمْ کَانُوْا یُسْمِنُوْ نَھَا.یعنی بَدَنَۃٌ اُس اونٹنی یا گائے کو کہتے ہیں جو مکّہ میں حج کے موقع پر ذبح کی جاتی ہے.اور بَدَنَۃٌ بَدَنَ سے ہے جس کے معنے بدن کے بڑے ہو جانے کے ہیں.اور قربانی کو اس لئے بَدَنَۃٌ کہتے ہیں کہ لوگ اس کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرتے ہیں.(اقرب) شَعَائِرٌ.شَعَائِرٌ شَعِیْرَ ۃٌ کی جمع ہے اور اَلشَّعِیْرَۃُکے معنے ہیں اَلْعَلَامَۃُ.علامت.(اقرب) صَوَافٌّ.صَوَافٌّ اَلصَّآ فَّۃُ کی جمع ہے اور اَلصَّآفَّۃُمِنَ الْاِبِلِ کے معنے ہیں اَلْوَاضِعَۃُ قَوَائِمُھَا صَفًّا جن کو ایک قطار میں کھڑا کیا جائے.(اقرب) وَجَبَتْ.وَجَبَتْ وَجَبَ کے معنے ہوتے ہیں سَقَطَ وَمَاتَ.وہ گِر گیا اور مر گیا.پس وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا کے معنے ہوںگے.جب وہ اونٹ پہلوئوں پر گِر جائیں اور اُن کی جان نکل جائے.(اقرب) اَلْقَانِعُ.اَلْقَانِعُ قَنَعَ سے اسم فاعل ہے.اور قَنَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں سَأَ لَ وَتَذَلَّلَ.اُس آدمی نے سوال کیا اور سوال کرنے میں عاجزی اختیار کی.پس اَلْقَانِعُ کے معنے ہوںگے سوال کرنےوالا.(اقرب) اَلْمُعْتَرُّ.اَلْمُعْتَرُّ کے معنے ہیں اَلْفَقِیْرُ.اَلْمُعْتَرِ ضُ للْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّسأَ لَ.اپنی حالت کو پیش کرکے بغیرسوال کرنے کے مانگنے والا.(اقرب)یعنی ایسا شخص جو مُنہ سے سوال نہیں کرتا بلکہ اپنی حالت سے سوال کرتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.قربانی کا طریق ہم نے ہر قوم میں جاری کیا ہے.تاکہ وہ اُن چوپایوں پر جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا فرمائے ہیں اُس کا نام لیا کریں.اور اس طرح اس کے اس عظیم الشان احسان کا کہ اُس نے اُن کے لئے خوراک اور سواریاں پیدا کی ہیں کم سے کم زبانی شکریہ ادا کریں.حقیقی شکریہ تو یہ ہے کہ جس طرح اُس نے اُن کی

Page 179

قربانی کے لئے جانور پیدا کئے ہیں وہ اپنے نفس کی قربانیاں اُس کے لئے اور اُس کے دین کے لئے کریں.پس تم بھی ایک خدا کے لئے قربانی کرو.اور اس کے فرما نبردار ہو جائو تاکہ دنیا میں ایک خدا کی بادشاہت قائم ہوجائے اور اے رسول جو بھی ہمارے حضور میں عجزو انکسار سے رہنا چاہیں اور ہمارا نام آتے ہی اُن کے دل لرز جائیں اور مصیبتوں پر وہ صبر کریں اور باجماعت نمازیں ادا کیا کریں اور اپنے اموال غریبوں پر خرچ کرتے رہیں اُن کو بتا دے کہ یہ ایسا راستہ ہے جس سے وہ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میںبھی عزت حاصل کریں گے.وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ میں اللہ تعالیٰ نے دو امور کی طرف توجہ دلائی ہے.ایک تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب مذاہب میں قربانی کا وجود پایا جا تاہے.اور دوسرے یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہٰی رضاء کے لئے ہمیشہ جانوروں کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے.پس جن قوموں میں انسانی قربانی کا رواج رہا ہے وہ درحقیقت مذہب کے بگاڑ کی وجہ سے پید ا ہوا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جانوروں کی قربانی کا ہی حکم دیا گیا تھا.بائیبل کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں انسانی قربانی کا رواج ہوا کرتا تھا جو بنی اسرائیل میں بھی اُن کے بگاڑ کے زمانہ میں جاری ہو گیا اور انہوں نے بُتوں پر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو قربان کرنا شروع کر دیا.چنانچہ نمبر ۲.سلاطین باب ۱۶ میں آخز بادشاہ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اس نے وہ کام نہ کیا جو خداوند اُس کے خدا کی نظر میں بھلا ہے.جیسا اُس کے باپ دائود نے کیا تھا.بلکہ وہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا اور اُس نے ان قوموں کے نفرتی دستور کے مطابق جن کو خداوند نے بنی اسرائیل کے سامنے سے خارج کر دیا تھا اپنے بیٹے کو بھی آگ میں چلوایا.‘‘ (باب ۱۶ آیت ۲،۳) نمبر ۲.تواریخ باب ۲۸ آیت ۳میں صرف ایک بیٹے کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ لکھا ہے کہ آخز نے’’ اپنے ہی بیٹوں کوآگ میں جھونکا.‘‘ گویا صرف ایک بیٹے کی نہیں بلکہ کئی بیٹوں کی اُس نے قربانی کی.اسی طرح بنی اسرائیل کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ہوسیع بادشاہ کے عہد میں’’بعل کو پُوجا اور انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں چلوایا اور فال گیری اور جادو گری سے کام لیا.‘‘ ( نمبر۲ سلاطین باب ۱۷ آیت ۱۶،۱۷) حزقیاہ کے بیٹے منسی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس نے ’’ خداوند کی ہیکل کے دونوں صحنوں میں مذبح بنائے اور

Page 180

اُس نے اپنے بیٹے کو آگ میں چلایا.‘‘ ( نمبر ۲ سلاطین باب ۲۱ آیت۵، ۶) اس بارہ میں بھی تواریخ کا بیان سلاطین سے کسی قدر مختلف ہے یعنی سلاطین میں تو صرف ایک بیٹے کی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے مگر تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ اُس نے بن ہنوم کی وادی میں اپنے فرزندوں کو بھی آگ میں چلوایا.‘‘ ( ۲.تواریخ باب ۳۳ آیت ۶) حضرت دائو د علیہ السلام بھی اس بُرائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ انہوں نے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو شیا طین کے لئے قربان کیا اور معصوموں کا یعنی اپنے بیٹے بیٹیوں کا خون بہایا ( جوکہ ایک بُرا فعل تھا اور شرک پر دلالت کرتا تھا ) جن کو انہوں نے کنعان کے بتوں کے لئے قربان کر دیا اور ملک خون سے ناپاک ہو گیا.ـ‘‘ ( زبور باب ۱۰۶ آیت ۳۷، ۳۸) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی انسانی قربانی کا رواج تھا جس سے شریعت موسویہ میں بڑی سختی کے ساتھ روکا گیا.چنانچہ استثناء میں لکھا ہے ’’ جب تو اس ملک میں جو خدا وند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا.تجھ میں ہر گز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گر یا جادوگر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رمّال یا ساحر ہو.کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خداوند کے نزدیک مکروہ ہیں.‘‘ ( استثناء باب ۱۸ آیت ۹ تا ۱۲) احبار میں بھی لکھا ہے کہ ’’ تُو اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک ( یہ کنعانیوں کا ایک بت تھا ) کی خاطر آگ میں سے گذرنے کے لئے نہ دینا.اور نہ اپنے خدا کے نام کو ناپاک ٹھیرانا.‘‘ ( احبار باب ۱۸ آیت ۲۱) اسی طرح لکھا ہے ’’ خداوند نے موسیٰ سے کہا تُو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا اُن پر دیسیوں میں سے جو اسرائیلوں کے درمیان بودو باش کرتے ہیں جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے وہ ضرور جان سے مارا جائے.اہل ملک اُسے سنگسار کریں.اور میں بھی اُس شخص کا مخالف ہوںگا اور اُسے اس کے لوگوں میں سے کاٹ ڈالوں گا.اس لئے کہ اُس نے اپنی

Page 181

اولاد کو مولک کی نذر کر کے میرے مقدس اور میرے پاک نام کو ناپاک ٹھہرایا اور اگر اُس وقت جب وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے اہل ملک اس شخص کی طر ف سے چشم پوشی کرکے اُسے جان سے نہ ماریں تو مَیں خود اُس شخص کا اور اُس کے گھرانے کا مخالف ہو کر اُس کو اور اُن سبھوں کو جو اُس کی پیروی میں زنا کار بنیں اور مولک کے ساتھ زنا کریں اُن کی قوم میں سے کاٹ ڈالوںگا.‘‘ ( احبار باب ۲۰ آیت ۱ تا۵) لیکن باوجود اس کے کہ بائیبل انسانی قربانی کو بُرا قرار دیتی ہے پھر بھی بائیبل بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو چھری سے ذبح کریں.چنانچہ پیدائش میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتائوںگا سو ختی قربانی کے طور پر چڑھا.تب ابراہام نے صبح سویر ے اُٹھ کر اپنے گدھے پر چارجامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کے لئے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اُس جگہ کو جو خدا نے اُسے بتا ئی تھی روانہ ہو ا.‘‘ ( پیدائش باب ۲۲ آیت ۲تا ۳) پھر لکھا ہے ’’ وہاں ابراہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا اور ابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے.تب خداوند کے فرشتے نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابراہام.اے ابراہام ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں.پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے.اس لئے کہ تُونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا.اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے.تب ابراہام نے جاکر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختی قربانی کے طور پر چڑھا یا.‘‘ ( پیدائش باب ۲۲ آیت ۹ تا ۱۳) اب اگر اسی طرح واقعہ ہوا ہو کہ خدا تعالیٰ نے پہلے الہامًا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ کہا ہو کہ جائو اور اپنے

Page 182

بیٹے کو چھری سے قربان کر دو.اور پھر جب وہ قربان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا تو پہلا حکم بالکل بےفائدہ قرار پاتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح قربان کریں.تو انہیں قربان کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور کیوں بعد میں اُن سے صرف مینڈھے کی قربانی کو قبول کر لیا گیا.پس بائیبل جو کچھ بتاتی ہے وہ عقلی طور پر ایک قابلِ اعتراض صورت ہے جس میں خدا تعالیٰ کے ایک حکم کو بے کار قرار دینا پڑتا ہے.لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں (الصفت:۱۰۳)جس کی تعمیل میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں جا کر چھوڑ دیا اور اس طرح عملی رنگ میں اپنے ہاتھوں انہیں ذبح کر دیا.گویا بائیبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں انسانی قربانی کو بطور اصل پیش کرتی ہے اور جانور کی قربانی کو اس کا قائم مقام قرار دیتی ہے.لیکن اسلام صرف جانور کی قربانی کو ہی اصل قربانی قرار دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ ہر مذہب میں خدا تعالیٰ کی طر ف سے جانوروں کی قربانی ہی اصل قربانی مقر ر کی گئی تھی.انسانی قربانی کا جو اُن میں رواج پیدا ہوا وہ منشاء الٰہی کے خلاف اور مذہب کے بگاڑ کا نتیجہ تھا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی قربانی کا رواج منشاء الٰہی کے خلاف تھا تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رؤیا میں یہ کیوں دکھا یا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رؤیا دراصل اپنے اندر تعبیری رنگ رکھتی تھی جسے بعد میں رُونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کر دیا.اور وہ تعبیر یہ تھی کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسمعٰیل ؑ کو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی جگہ اور ایسے حالات میں چھوڑ کر آئیں گے کہ جہاں ظاہر ی حالات کے مطابق اُن کی موت یقینی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ اُن کی اس قربانی کو قبول فرما کر اُن کی زندگی کے سامان پیدا کر دےگا اور اُن کے ذریعہ سے اس قدیم معبد کو جسے اللہ تعالیٰ دنیا کا آخری معبد بھی بنانا چاہتا تھا آباد کر ائے گا تاکہ جس طرح اللہ اوّل اور آخر ہے اسی طرح اس کا گھر یعنی مکہ مکرمہ بھی اوّل گھر اور آخر گھر بن جائے.چنانچہ مسلمانوں میں عیدالاضحی کی یاد گار کسی ایسے بکرے کی قربانی کے بدلے میں نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا ہو بلکہ خود حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار میں ہے.جو بیت اللہ کو آباد رکھنے کے لئے کی گئی.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آنا اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے متراد ف تھا.بلکہ حقیقتاً اُس سے بھی زیادہ.کیونکہ قتل کرنے سے ایک منٹ میں جان نکل جاتی ہے اور اس طرح اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو انہوں نے سسک سِسک کر جان دینی تھی.پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ رؤیا انسانی قربانی کی ترویج کے لئے نہیں تھا بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دُنیا

Page 183

کو یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ اصل قربانی یہ ہے کہ انسان اس غرض سے تکلیف اُٹھائے کہ اس کا فائدہ دنیا کو پہنچے.پس وہی قربانی اس کی نظر میں مقبول ہو سکتی ہے جو بنی نوع انسان کی زندگی کا موجب ہو.اس جگہ یہ امر بھی مدّنظر رکھنا ضرور ی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا فرما کر قربانی کی حقیقت اور اس کے فلسفہ پر بھی نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ محض قربانی کو ئی چیز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نگا ہ میں وہ جذبۂ اخلاص قدرو قیمت رکھتا ہے جو اس قربانی کے پس پشت ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اعلیٰ درجہ کا دُنبہ تو ذبح کر دیتا ہے لیکن وہ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو مدنظر نہیں رکھتا تو اس کی یہ قربانی خدا تعالیٰ کے حضور ایک پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھ سکتی.یہ لطیف اشارہ اللہ تعالیٰ نے مَنْسَکًا کا لفظ استعمال فرما کر کیا ہے جس کے معنے عربی زبان میں شِرْعَۃُ النَّسْکِ.نَفْسُ النَّسْکِ اور مَوْضِعٌ تُذْبَحُ فِیْہِ النَّسِیْکَۃُ کے ہوتے ہیں یعنی مَنْسَکٌ قربانی کے طریق کو بھی کہتے ہیں.نفسِ قربانی کو بھی کہتے ہیں اور اُس جگہ کو بھی کہتے ہیں جہاں قربانی کی جاتی ہے اور نَسِیْکَۃٌ کا لفظ جو عربی زبان میں قربانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے نَسَکَ سے نکلا ہے اور نَسَکَ لِلٰہِ کے معنے ہوتے ہیں تَطَوَّعَ بِقُرْبَۃٍ وَ ذَبَحَ لِوَجْھِہٖ ( اقرب) یعنی کسی نیک کام کو بغیر اس کے کہ اُس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو یا بغیر اس کے کہ اُس کی ذمہ داری کسی پر ڈالی گئی ہو اپنی خوشی اور رضا سے کسی شخص نے سرانجام دیا.اور اس نیت سے کام کیا کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اُسے حاصل ہو جائے.گویا نسیکۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ جبر کے ماتحت نہ ہو بلکہ طبعی رغبت اور ارادہ اور خواہش سے ہو اور پھر خالصۃً لِلّٰہ ہو.اور اسی طرح نَسَکَ الثَّوْبَ کے معنے ہوتے ہیں غَسَلَہٗ بِالْمَائِ فَطَھَّرَہٗ.اُس نے کپڑے کو پانی سے دھویا اور اُس میں سے ہر قسم کی مَیل نکال دی.پس اس آیت میں مَنْسَکًا کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ہمیشہ اپنی خوشی اور بشاشت ِ قلبی کے ساتھ قربانیوں میں حصّہ لو.یہ نہ ہو کہ تمہیں کسی کا جبر قربانی پر آمادہ کر رہا ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی قربانی مقبول ہوتی ہے جو بشاشتِ قلب کے ساتھ کی جائے.دوم صرف بشاشتِ قلب کا مدنظر رکھنا ہی تمہارے لئے ضروری نہیں بلکہ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانیاں کرو.اور تیسری بات یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت اپنے دل کے تما م گوشوں کو ٹٹو لو اور دیکھو کہ کیا کسی دنیوی غرض کی ملونی تو اس میں نہیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو تمہاری قربانی خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف حاصل نہیں کر سکتی.یہ نہایت لطیف اور قیمتی اسباق اللہ تعالیٰ نے محض ایک چھوٹے سے لفظ میں بیان کر دئے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر انسان اپنی قربانیوں کے اعلیٰ نتائج حاصل کر سکتا ہے.

Page 184

وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ.الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے والوں کی چار علامات بتا ئی گئی ہیں.اوّل.یہ کہ اللہ تعالیٰ کا نام آنے پر اُن کے دل کانپ اُٹھتے ہیں.دوم.خدا تعالیٰ کی راہ میں مصائب اور مشکلات کے آنے پر وہ اُن کو بخندہ پیشانی بر داشت کرتے ہیں.سوم.با جماعت نمازیں ادا کرتے ہیں.چہارم.اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملتا ہے اس کا ایک حصہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں.اس جگہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف روپیہ ہی شامل نہیں کہ انسان کچھ روپے خدا تعالیٰ کی راہ میں دے کر اپنے فرض کو ادا کرنے والا سمجھا جا سکے بلکہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اُس کی آنکھیں بھی شامل ہیں اس کا دماغ بھی شامل ہے.اُس کے کان بھی شامل ہیں اس کی ناک بھی شامل ہے اُس کے ہاتھ اور پائوں بھی شامل ہیں.اُس کا دھڑ بھی شامل ہے.پھر مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اس کا مکان بھی شامل ہے.وہ گندم بھی شامل ہے جو وہ استعمال کرتا ہے بلکہ وہ مولیاں اور گاجریں اور گُڑ بھی شامل ہیں جو زمیندار پیدا کرتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ خرچ کر کے ایک شخص مالی قربانی کرنے والا قرار پا سکتا ہے لیکن شریعت صرف مالی قربانی کا حکم نہیں دیتی بلکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس کاایک حصہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.پس اگر کوئی شخص اپنی ساری جائیداد بھی چندہ میں دے دیتا ہے لیکن اس کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں حصہ نہیں لیتیں ، اُس کے ہاتھ پائوں خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں حصہ نہیں لیتے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی ساری جائیداد دے کر اپنے فرض کو ادا کر دیا ہے.یہ چیز منطق تو کہلا ئےگی لیکن دین نہیںکہلائےگا.دین کا تقاضا پورا کرنے کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے سارے جسم کو خدا تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کے لئے استعمال کرے.احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام انسان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوںگے تو وہ بعض لوگوں سے کہے گا کہ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑے پہنائے میں بیمار ہوا تم نے میری تیمارداری کی.اس لئے جائو اور میری جنت میں داخل ہو جائو.وہ بندے کہیں گے.توبہ توبہ بھلا ہماری کیا طاقت تھی کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے یا پانی پلاتے یا کپڑے پہناتے یا بیماری پر تیری عیادت کرتے تو تو ان تمام باتوں سے پاک ہے.وہ فرمائے گا یہ درست ہے لیکن جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا تو تم نے اُسے کھانا کھلایا تو گویا مجھے ہی کھانا کھلایا.اور اسی طرح جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ تمہارے

Page 185

پاس آیا اور وہ پیاسا تھا.اور تم نے اُسے پانی پلایا توگویا تم نے مجھے ہی پانی پلایا.اسی طرح جب تم نے ایک ننگےکو کپڑا پہنایا یا ایک بیمار کی تیمارداری کی تو تم نے ایک بندے کو کپڑا نہیں پہنایا یا ایک بندے کی تیمارداری نہیں کی بلکہ درحقیقت تم نے مجھے کپڑا پہنایا.اور تم نے میری تیمارداری کی.اس لئے جائو اور میر ی جنت میں داخل ہو جائو.(مسلم کتاب البر و الصلۃ و الادب باب فضل عیادۃ المریض).غرض مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر طاقتیں اور قوتیں ملی ہوئی ہیں اُس پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہر طاقت کو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے صرف کرے اور صرف اس امر پر خوش نہ ہوجائے کہ اُس نے روپیہ دے دیا تھا یا نماز پڑھ لی تھی یا روزہ رکھ لیا تھا.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مالی قربانی کی تحریک کی تو ایک صحابی جن کے پاس اَور کچھ نہیں تھا وہ جَو کی دو مٹھیاں لائے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں منافقوں نے اس بات کو دیکھا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے لو اَب دنیا جَو کی ان دومٹھیوں سے فتح ہوگی (بخاری کتاب التفسیر سورۃ براءۃ قولہ تعالیٰ والذین یلمزون المطوعین من المومنین فی.......).حالانکہ اگر اُن کی آنکھ کھلی ہوتی تو وہ سمجھتے کہ یہ جَو کی دو مٹھیاں نہیں تھیں بلکہ اسلام کی محبت میں بیتاب ہونے والے ایک دل کے خون کے دو قطرے تھے جو اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے.اور دنیا دل کے خون کے قطروں سے ہی فتح ہوا کرتی ہے.دنیاوی سامانوں سے نہیں.پس ایمانِ کامل کی علامت یہ ہے کہ جو کچھ تم گھروں میں کھاتے ہو اور جو کچھ کماتے ہو اور جو کچھ پہنتے ہو اور جو کچھ خرچ کرتے ہو.اُس کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی دو اور اپنی ہر طاقت بنی نوع انسان کی بھلائی اور اُن کی بہبودی کے لئے صرف کرو.پھر فرماتا ہے.وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ اور تُو ان کو بتا دے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے.یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے.پس قربانی کے دنوںمیں قربانیوں کو صف در صف کھڑا کرکے اُن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے کام آئیں.چنانچہ جب وہ ذبح ہو کر اپنے پہلوئوں پر گِر جائیں تو خود بھی اُن کا گوشت کھائو اور صابر غریب اور مضطر غریب کو بھی کھلائو.یہ سب مال ہم نے تم کو دیا ہے تاکہ اس کو غریبوں پر خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو.ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جو حج بیت اللہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور بتایا ہے کہ یہ قربانیاں شعائر اللہ میں داخل ہیں اور تمہارے لئے ان قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے

Page 186

بڑی برکت رکھی گئی ہے.وہ لوگ جو حقائق سے نا آشنا ہیں وہ بھی اور مسلمانوں میں سے بھی بعض نادان یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اسلام نے یہ قربانی بغیر کسی حکمت کے رکھی ہے کیوں نہ اس روپیہ کے بدلہ میں کالج جاری کئے جائیں اور اس طرح قومی ترقی کے سامان کئے جائیں.فرض کرو حج کے موقعہ پردس لاکھ بکرا ذبح ہوتا ہے اور ایک بکرے کی اوسط قیمت پچیس روپے بھی فرض کی جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے کا بکرا ذبح ہو جاتا ہے.پھر اونٹ وغیرہ بھی ہوتے ہیں ان سب کو ملا کر اندازاً دو کروڑ روپیہ ان قربانیوں پر خرچ ہو جا تا ہے.پس لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ روپیہ قربانیوں پر ضائع کیا جائے کیوں نہ اس کے بدلہ میں عربوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور مکہ مکرمہ میں کالج اور سکول وغیرہ جاری کر دئیے جائیں.میں ہمیشہ ان کو یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ بعض دفعہ قوم پر ایسے اوقات بھی آیا کرتے ہیں جب اُسے ایسی قربانیا ں کرنی پڑتی ہیں جو بظاہر بے فائدہ نظر آتی ہیں.انہی قربانیوں کی ٹریننگ کے لئے اسلام نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ ایسے مواقع پر خواہ انہیں کوئی حکمت نظر آئے یا نہ آئے وہ قربانی کرتے چلے جائیں.مثلاً اگر کسی ملک میں کوئی اکیلا مسلمان ہو اور وہاں کی حکومت مذہب کے خلاف کوئی جابرانہ حکم دےدے جس سے وہ اسلام کو مٹانا چاہتی ہو.تو ایسی صورت میں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ یہ نہیں کہےگا کہ جب قربانی کا کوئی فائدہ نہیں تو میں اپنے آپ کو کیوں قربان کروں بلکہ وہ فوراً قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دے گا.کیونکہ جب تک وہ اپنے آپ کو قربان نہیں کرے گا دوسروں کے دلوں میں قربانی کی تحریک پیدا نہیں ہوگی.وہ اگر پھانسی پر چڑھ جائےگا.تو پھر کوئی دوسرا شخص بھی پھانسی کے تختے پر چڑھنے کے لئے نکل آئے گا.وہ دوسرا شخص پھانسی دیا جائےگا تو تیسرا شخص نکل آئےگا اور اس طرح قدم بقدم تمام قوم میں ایسا جوش پیدا ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی حفاظت کے لئے دیوانہ وارکھڑے ہو جائیں گے اور کفر کو شکست کھانے پر مجبور کر دیں گے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہّ مکرمہ میں دعویٰ فرمایا تو اس وقت جن صحابہ ؓ نے قربانیاں کیں.وہ بظاہر کیسی بے فائدہ اور کیسی بے نتیجہ نظر آتی تھیں.مگر پھر انہی قربانیوں کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا اور سارا عرب اسلامی جھنڈے کے نیچے آگیا.جب صحابہ ؓ مکہ میں قربانیاں کر رہے تھے اُس وقت کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن انہی قربانیوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شوکت ملنے والی ہے.اُس وقت جن عورتوں کی شرمگاہوں میں نیز ے مار مار کر انہیں مارا جاتا تھا ،جن مردوں کو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تھا اُن عورتوں اور مردوں کی قربانیوں کو دیکھ کرہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بیکار اپنی عمریں ضائع کر

Page 187

رہے ہیں.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عثمان ؓ بن مظعون بھی تھے.عرب کا ایک مشہور شاعر لبید ایک مجلس میں اپنے اشعار سُنا رہا تھا کہ اُس نے یہ مصرع پڑھا.؎ اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ یعنی سُنو کہ خدا کے سوا ہر چیز تباہ ہونے والی ہے.عثمانؓ بن مظعون نے یہ مصرع سُنتے ہی بڑے زور سے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے.خدا کے سوا ہر چیز واقع میں فنا ہونے والی ہے.عثمانؓ بن مظعون اُس وقت چھوٹی عمر کے بچے تھے جب انہوں نے تعریف کی تو لبید ناراض ہو گیا.اور اُس نے لوگوں سے کہا کہ اس لڑکے نے میری ہتک کی ہے کیا میں اپنے اشعار میں ایک چھو کرے کی تائید کا محتاج ہوں بعض لوگ اُسے مارنے کے لئے اُٹھے لیکن بعض اَور نے دخل دے کر اس معاملہ کو رفع دفع کر ا دیا.اور اُسے کہہ دیا کہ اب تم نے کچھ نہیں کہنا.اس کے بعد لبید نے اس شعر کا دوسرا مصرع پڑھا کہ ؂ وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلُ یعنی ہر نعمت بہر حال ایک دن ختم ہو نے والی ہے.اس پر عثمانؓ بن مظعون سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے کہا.جنت کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہو ں گی.لبید کو سخت غصّہ آیا اور اُس نے کہا میں اس مجلس میں اَب اپنے شعر سُنانے کے لئے تیار نہیں.اس پر لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے عثمانؓ بن مظعون کو مارنا شروع کر دیا.اور ایک شخص نے اتنے زور سے گھونسہ مارا کہ عثمانؓ بن مظعون کی ایک آنکھ کا ڈیلا با ہر نکل آیا.اُن کے والد کا ایک دوست بھی اُسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور پہلے وہ اُسی کی پناہ میں رہتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں اور وہ آرام سے مکہ میں پھرتے ہیں تو انہوں نے اس رئیس سے جا کر کہہ دیا کہ میں تمہاری پناہ میں نہیں رہنا چاہتا.چنانچہ اُس نے اعلان کردیا کہ عثمانؓ اب میری پناہ میں نہیں.اُسے یہ جرأت تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ سب لوگوں کے سامنے اُن کی مدد کرتا.لیکن جب اُن کی آنکھ نکل گئی تو جس طرح کسی غریب آدمی کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مارے پیٹے تو غریب ماں اپنے بچہ کو ہی مارتی ہے اور اُس پر غصّہ نکالتی ہے.اسی طرح وہ ان مارنے والوں پر تو غصہ نہیں نکال سکتا تھا اُس نے عثمانؓ پر ہی غصّہ نکالا.اور کہا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میری پناہ سے نہ نکل.اب دیکھا تُو نے کہ اُس کا کیا نتیجہ نکلا.حضرت عثمانؓ بن مظعون نے جواب دیا کہ چچا تم تو مجھ پر اس لئے خفا ہو رہے ہو کہ میری ایک آنکھ کیوں نکلی لیکن خدا کی قسم میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تڑپ رہی ہے(الاصابة فی معرفة تمییزالصحابة.عثمان بن مظعون والسیرة النبویة لابن ہشام قصة عثمان بن مظعون ).

Page 188

اب کیا کوئی عقلمند اس وقت قیا س کر سکتا تھا کہ اُن کی ایک آنکھ کا نکلنا دین کو کوئی فائد ہ پہنچا سکتا ہے.واقعہ یہی ہے کہ اُس وقت یہ تمام قربانیاں بالکل بے کار نظر آتی تھیں لیکن اگر عثمانؓ بن مظعون کی ایک آنکھ خدا تعالیٰ کے راستہ میں نہ نکلتی.اگر عثمانؓ بن مظعون کی دوسری آنکھ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تڑپ نہ رہی ہوتی.اگر عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے نہ مارے جاتے.اگر مکّہ کے ابتدائی دور میں صحابہ ؓ اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو مسلمان وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے بدر اور اُحد کے موقعہ پر پیش کیں.وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے احزاب کے موقعہ پر پیش کیں.یہی قربانیاں تھیں جنہوں نے اُن کے اندر جوش پیدا کیا.اُن کے اندر اخلاص پیدا کیااور انہیں قربانی کے نہایت اعلیٰ مقام پر لا کر کھڑا کر دیا.اسی طرح بے شک وہاں ہزاروں بکرے ذبح ہوتے ہیں جن کا گوشت بظاہر ضائع چلا جاتا ہے اور اُس کو کھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا مگر اسلام پھر بھی قربانیوں کو حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ تمہارے لئے اس میں خیراور برکت رکھی گئی ہے.تمہیں ان قربانیوں کے تسلسل کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے.اور ان دُور رس نتائج پر نظر رکھنی چاہیے جو ان قربانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اُس احمق بادشاہ کی طرح نہیں بننا چاہیے جس نے فوج کے خرچ کو بے مصرف قراردےکر اُسے توڑ دیا تھا.اور سمجھ لیا تھا کہ وقت آنے پر قصاب یہ کام کرلیں گے.مگر نتیجہ یہ ہوا کہ سارا ملک اس کے ہاتھ سے جاتا رہا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ایک ایسا واقعہ نظر آتا ہے.جس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہی سبق دیا تھا کہ بعض دفعہ ایسی قربانی بھی کی جاتی ہے جس کا بظاہر کو ئی فائدہ نظر نہیں آتا.مگر پھر بھی قوم کو قربانی میں حصّہ لینا پڑتا ہے.صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکّہ سے صلح کر لی تو صحابہ ؓ کے اندر اس قدر بے چینی پیدا ہوئی کہ حضرت عمر ؓ جیسا آدمی بھی گھبرا گیا.اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ نہیں کیا تھا کہ ہم حج کریں گے.آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر یہ کب کہا تھا کہ اسی سال کریں گے.غرض صحابہ ؓ کے لئے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا جس سے انہیں دو چار ہونا پڑا.اسی لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی قربانیاں یہیں ذبح کر دو تو وہ حیران ہوئے کہ ہمیں یہ کیا حکم دیا گیا ہے.قربانی تو مکّہ میں ہونی تھی اور پھر عمرہ یا حج کے بعد ہونی تھی.مگر ہمیں یہیں قربانی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے.جب ہم مکّہ گئے نہیں.خانہ کعبہ کا ہم نے طواف نہیں کیا.عمرہ یا حج نہیں کیا.تو قربانی کیسی.جب صحابہ ؓ قربانیاں کرنے میں متأمل ہوئے.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے اور اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ آج تیری قوم کو میں نے یہ حکم دیا تھا مگر اُس نے میری اس بات کو نہیں مانا.انہوں نے کہا یا رسول اللہ انہوں نے محبت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا بلکہ اس

Page 189

صدمہ کا اُن کی طبیعتوں پر اس قدر اثر ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں رہے.آپ اپنی قربانی کو ذبح کرنا شروع کر دیجئیے اور صحابہؓ سے کچھ نہ کہیں.پھر دیکھیں کہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا.آپ ؐ نے نیزہ ہاتھ میں لیا اور سیدھے اپنی قربانی کی طرف گئے.آپ ؐ کا اپنے اونٹ کو نیزہ مارنا تھا کہ صحابہ ؓ دیوانہ وار اُٹھے اور اپنی قربانیاں ذبح کرنے لگ گئے.(بخاری کتاب الشرو ط باب الشروط فی الجہاد المصالحۃ مع اھل الحرب و کتابۃ الشروط)اب دیکھو یہ قربانی بظاہر بے معنے تھی.صحابہ ؓ مکّہ میں داخل نہیں ہوئے تھے.انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف نہیں کیا تھا.انہوں نے عمرہ یا حج نہیں کیا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اپنی قربانیاں ذبح کر دیں ایسا کیوں ہوا ! صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر لوگ تمہیں بیت اللہ تک نہیں جانے دیتے تو جہاں انہوں نے تمہیں روک دیا ہے تم وہیں قربانی کرد و اور سمجھ لو کہ یہی مقام خدا تعالیٰ کا گھر ہے.غرض یہ بھی بظاہرایک بے مصرف قربانی تھی مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓ کو اس قربانی کا حکم دیا اور اس طرح بتا دیا کہ خواہ کوئی قربانی تمہیں کتنی ہی بے مصرف دکھائی دیتی ہو تمہارا کام ہچکچاہٹ کا اظہار کرنا نہیں.تمہارا کام قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو جھونک دینا ہے.تمہیں خدا نے اپنے دین کا سپاہی بنایا ہے.تمہارے ہاتھوں پر کفر اور شیطنت کی شکست مقدر ہے.تم کام کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو.پس تمہارا جرنیل تمہیں جو کچھ کہتا ہے تم کرو.اور جس طرف تمہیں لے جانا چاہتا ہے اُس کے پیچھے جائو.یہی روح ہے جس کے نتیجے میں تمہیں خیر اور برکت حاصل ہوگی اور جس کے بعد دنیا کی کوئی قوم تمہارے مقابلہ میں کھڑی نہیں ہو سکے گی.لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ (یاد رکھو کہ) ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہر گز اللہ( تعالیٰ) تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى ( تعالیٰ) تک پہنچتا ہے.(درحقیقت) اس طرح اللہ( تعالیٰ) نے ان قربانیوں کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ تم

Page 190

مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۳۸ اللہ (تعالیٰ) کی ہدایت کی وجہ سے اس کی بڑائی بیان کرو.اور تو اسلام کے احکام کو پوری طرح ادا کرنےوالوںکو بشارت دے.تفسیر.یعنی یاد رکھو قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے.بلکہ اُن میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے.بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتائوں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کر نےکا حکم دیتا ہے.اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے.اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا وہ غلطی کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا.اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا.یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے.جیسے مصّور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر اُن کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ اُن کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں.چنانچہ کبھی وہ زنجیر بناتے ہیں جس سے مراد قومی اتحاد ہوتا ہے اور کبھی وہ طلوع آفتاب کانظارہ دکھاتے ہیں اور اُس کا مطلب قومی ترقی ہوتا ہے.اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہے.پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امرکا اظہار کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کردو ںگا.اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبا ن میں اقرار کرے عملاً بھی اُسے پورا کر کے دکھا دے.کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی.آخر تھیٔٹر والوں کو شرفاء کیوں نا پسند کر تے ہیں اسی لئے کہ تھیٔٹر میں جو نقال بادشاہ بنتے ہیں اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی لیکن حقیقی بادشاہ کی سب لوگ عزت کرتے ہیں تھیٔٹر میں بادشاہ بننے والا اگر عملی زندگی میں بھی اس کے لئے جدو جہد کرے تو اُسے بُرا نہیں سمجھا جائےگا لیکن محض نقل کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی.اسی طرح جو شخص بکرے کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس کی

Page 191

قربانی بھی کرتا ہے وہ شرفا ء کے نزدیک قابلِ احترام ہے.لیکن جو شخص صرف بکرے کی قربانی پر اکتفا کرتا ہے وہ نقال اور بھانڈ ہے اور اس لئے کسی عزت کا مستحق نہیں.پھر اگرغور کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سوائے اُن قصابوں کے جو جانوروں کو روزانہ ذبح کر نے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کی طبیعت پر جانور کو ذبح ہوتے دیکھ کر ایک گہرا اثر پڑتا ہے اور اُن کے خیالات میں ایک زبردست ہیجان پیدا ہو جاتا ہے.حتّٰی کہ اسی اثر کے ماتحت بعض قوموں نے قربانی کو ظلم قرار دے دیا ہے.اُن کا یہ فعل تو کمزوری کی علامت ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قربانی کا اثر طبیعت پر ضرور پڑتا ہے.اور اسی اثر کو پیدا کرنے کے لئے قربانی کو عبادت میں شامل کیا گیا ہے.گویا قربانی کے ذریعہ سے ہر انسان اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ جس طرح یہ جانور جو مجھ سے ادنیٰ ہے میرے لئے قربان ہوا ہے اسی طرح میں بھی اقرار کرتا ہوں کہ اگر مجھ سے اعلیٰ چیزوں کے لئے مجھے اپنی جان دینی پڑے گی تو میں بھی خوشی سے اپنی جان دے دوں گا.اب غور کرو جو شخص قربانی کی اس حکمت کو سمجھ کر قربانی کرتا ہے اس کی طبیعت پر اس کا کس قدر گہرا اثر پڑے گا اور کس طرح وہ اپنے اس فرض کو یاد رکھے گا جو اُس کے پیدا کرنےوالے کی طرف سے اُ س پر عائد ہوتا ہے.اس ذبح کی یاد ہمیشہ اس کے دل میں تازہ رہے گی.اور اس کا دل اُسے کہتا رہےگا کہ دیکھ تُو نے اپنے ہاتھوں سے بکرے کو ذبح کر کے اس امر کا اقرار کیا تھا کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے لئے قربان کی جاتی ہے.اب تجھے بھی اس قربانی کے لئے تیار رہنا چاہیے جو صداقتوں کے قیام کے لئے یا بنی نوع انسان کی تکالیف کے دُور کرنے کے لئے تجھے کرنی پڑیں.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون.بلکہ اللہ تعالیٰ کو وہ ارادۂ نیک پہنچتا ہے جو خشیت اللہ کو مدنظر رکھ کر تم نے کیا تھا.یعنی اگر تم اس غرض کو پورا کرو گے جس کے لئے تم نے قربانی کی ہے تو فائدہ ہو گا ورنہ صرف گوشت کھانے اور خون بہانے کا کام تم سے ہو اہے جس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں.اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے کسی عمل کی ظاہر ی شکل نتیجہ پیدا نہیں کرتی بلکہ قربانی کی وہ رُوح نتیجہ پیدا کرتی ہے جو اس عمل کے پسِ پشت کا م کر رہی ہوتی ہے.پس حالات کے اختلاف کی وجہ سے بعض دفعہ عمل کی ظاہر ی شکل میں جو اختلاف پیدا ہو جاتا ہے وہ کسی شخص کو ترقی سے روکتا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نتیجہ کے وقت ا س کی قربانی کی رُوح کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے.مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہو اور وہ اس میں سے سو روپیہ غرباء میں تقسیم کر دے.اور ایک شخص جس کے پاس صرف دس روپے ہوں وہ اُن میں سے پانچ روپے دے دے تو نتیجہ پانچ اور سو کے مطابق نہیں نکلے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ دونوں کو کتنی ضرورتیں

Page 192

تھیں اور اُن ضرورتوں میں انہوں نے کس قدر قربانی کی یا دونوں کے لئے صدقہ کا محرک کون سی بات ہوئی اور ان میں سے زیادہ بہتر کونسی ہے اور جب بدلہ اس اصل کے ماتحت ملے تو ظاہری اختلاف کے باوجود کسی شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جس طرح محض جانوروں کی قربانی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ خدا تعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے.اور وہ محبتِ الٰہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے.جس کے پاس تقویٰ ہو اُس کی اٹھنی بھی اُس شخص کے سور وپے سے زیادہ قیمت رکھتی ہے جو تقویٰ سے خالی ہو.کیونکہ قرآن کریم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خون اور گوشت کو نہیں دیکھتا بلکہ قربانی کرنے والے کی نیت کو دیکھتا ہے.ایک امیر آدمی آسانی کے ساتھ سو اونٹ یا سو دُنبے خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر سکتا ہے.لیکن ایک غریب آدمی جو سال بھر قربانی کے لئے پیسے جمع کرتا رہتا ہے اور جس کا ایک ایک دن اس حسرت میں گذرتا ہے کہ کاش میرے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے کہ میں ایک دفعہ عید کے موقع پر قربانی کرکے اُس کا کچھ گوشت خدا کی راہ میں تقسیم کردوں اور کچھ گوشت اپنے دوستوں کو تحفۃً پیش کر وں.وہ اگر سال بھر کی محنت اور تگ و دو کے بعد ایک معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی قربان کرتا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی کو رّد کر دےگا.اور اس امیر کے موٹے تازے دُنبوں کو قبول کر لے گا.اگر خدا تعالیٰ انسانی عمل پر فیصلہ کرتا تو یقیناً اُس امیر کے موٹے تازے دُنبے قبول کرلئے جاتے.اور اس غریب کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی رّد کر دی جاتی.مگر اللہ تعالیٰ کافیصلہ انسانی اعمال پر نہیں ہوگا.بلکہ وہ فرماتا ہے يَنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ.خدا تعالیٰ کے حضور قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارے دلی جذبات اُس تک پہنچتے ہیں.یعنی اُن کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے اگر اُس کے پاس گوشت اور خون پہنچا کرتا تو وہ اچھا گوشت پسند کر لیتا اور وہ اُن قربانیوں کو قبول کر لیتا جن میں بہت زیادہ خون بہایا گیا ہو.مگر وہ فرماتا ہے ہمارے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں پہنچتی.ہمارے پاس تو قربانی کے پیچھے جو نیّت ہوتی ہے وہ پہنچا کر تی ہے.اگر ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کرنے والے کی نیت بہت اعلیٰ تھی اور دو سو بڑے بڑے دُنبے ذبح کرنے والے کی نیت ایسی اعلیٰ نہیں تھی تو قیامت کے دن جس نے دو سو دُنبے ذبح کئے ہوںگے اگر اُس کے ساتھ اعلیٰ اخلاص نہ ہوگا تو اُس کے ساتھ دو سو دُنبے نہیں ہوںگے بلکہ ایک مریل سی دُنبی ہوگی.اور جس نے ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کی تھی اگر اُس نے اعلیٰ اخلاص اور محبت کے ساتھ یہ قربانی کی تھی تو قیامت کے دن اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دُنبی نہیں ہوگی بلکہ ہزار ہا موٹے تازے دُنبے ہوںگے کیونکہ اُس جہان میں سب کی سب چیزیں نیّت کے تابع ہو جاتی ہیں.

Page 193

یہ تو روحانی نقطۂ نگاہ سے قربانیوں کی حقیقت بیان کی گئی ہے.مادی لحاظ سے غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر اشیاء دنیا میں پیدا کی ہیں اُن میں سے ہر ایک کا ایک چھلکا ہوتا ہے اور ایک مغز ہوتا ہے.دنیا میں کوئی مغز ایسا نہیں جو بغیر چھلکے کے ہو.اور کوئی چھلکا ایسا نہیں جس کے اندر مغز نہ ہو.یہی کیفیت روحانی اعمال کی بھی ہے مثلاً نماز میں قیام اور قعود اور رکوع اور سجود ایک چھلکا ہیں.لیکن وہ رُوحانی اثر جو اس قیام و قعود اور رکوع و سجود کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے وہ مغز ہے.قربانیوں میں بھی کسی جانور کو ذبح کرنا ایک قشر ہے لیکن وہ اخلاص جو اس قربانی کے پیچھے کا م کررہا ہوتا ہے وہ مغز ہوتا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری قربانیوں کے گوشت اور خون خدا تک نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ خدا تک پہنچتا ہے.ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ اگر تقویٰ ہی کی ضرورت تھی تو پھر جانور کیوں قربان کروائے جاتے ہیں.اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ ہر مغز اپنے ساتھ قشر بھی رکھتا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ قشر بے فائدہ چیز نہیں بلکہ غرباء کے کام آنے والی چیز ہے چونکہ غربا ء عام طور پر اس مقوی خوراک سے محروم رہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک صدقہ اس قسم کا بھی جاری کر دیا جس میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے تاکہ غرباء کے دل بھی نہ ترستے رہیں اور وہ اس مقوی غذا سے اپنی مالی تنگی کی وجہ سے محروم نہ رہیں.چنانچہ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں پر تم کو اس لئے ملکیت بخشی ہے تاکہ تم خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ان پر خدا تعالیٰ کا نام لیتے رہو اور غریبوں کی پرورش کرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو خدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کریں ان کو بڑے بڑے انعام ملتے ہیں.اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ اللہ (تعالیٰ )یقیناً ان لوگوں کی طرف سے جو کہ ایمان لائے ہیں دفاع کرتا رہےگا.اللہ (تعالیٰ) یقیناً ہر خیانت خَوَّانٍ كَفُوْرٍؒ۰۰۳۹ کرنے والے (اور) انکار کرنےوالے کو پسند نہیں کرتا.تفسیر.فرماتا ہے مومنوں کو ڈرنا نہیں چاہیے خدا تعالیٰ خود ان کی طر ف سے اُن کے دشمنوں سے لڑےگا اور انہیں اُن کی کوششوں میں ناکام کرےگا.لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ خائن ہوتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود نا شکر ے ہوتے ہیں یعنی اپنے اموال کو غریبوں پر خرچ نہیں

Page 194

کرتے.اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں کرتا بلکہ انہی کو پسند کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو مختلف طریقوں سے بنی نوع انسان پر خرچ کر تے رہتے ہیں.مثلاً قربانیوں کا گوشت کھلا کر یا کپڑے وغیرہ دے کر یا اور مختلف ذرائع سے.اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى وہ لوگ جن سے( بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنےکی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم کیا گیا نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۙ۰۰۴۰ ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ ہےاور اللہ( تعالیٰ) اُن کی مدد پر قادر ہے.(یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ١ؕوَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ کہ اللہ ہمارا رب ہے.بغیر کسی جائز وجہ کے نکا لا گیا.اور اگر اللہ (تعالیٰ) اُن (یعنی کفار) میں سے بعض النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ کو بعض کے ذریعہ سے (شرارت سے) باز نہ رکھتا تو گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا١ؕ اللہ (تعالیٰ )کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے بر باد کر دئے جاتے.اور اللہ( تعالیٰ) یقیناً اُس کی مدد کرےگا وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۰۰۴۱ جو اُس (کے دین) کی مدد کرےگا.اللہ (تعالیٰ) یقیناً بہت طاقتور (اور) غالب ہے.اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ یہ (یعنی مہاجر مسلمان) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰتیں دیں اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بری باتوں سے روکیں گے.

Page 195

وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۰۰۴۲وَ اِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ اور سب کاموں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے.اور اگر یہ (دشمن) تجھے جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح ؑ کی كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ۰۰۴۳وَ قَوْمُ قوم نے بھی اور عاد اور ثمود نے بھی اور ابراہیم کی قوم نے بھی اور لوطؑ کی قوم نے بھی اور مدین کے اصحاب اِبْرٰهِيْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍۙ۰۰۴۴وَّ اَصْحٰبُ مَدْيَنَ١ۚ وَ كُذِّبَ نےبھی (اپنے نبیوں کو) جھٹلایا تھا اور موسیٰ ؑ کی تکذیب بھی کی گئی تھی.پس میں نے انکار کر نے والوں کو کچھ مُوْسٰى فَاَمْلَيْتُ لِلْكٰفِرِيْنَ ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١ۚ فَكَيْفَ كَانَ ڈھیل دی پھر ان کو پکڑ لیا.پس (سو چو کہ) میرا انکار کیسا خطر ناک تھا.اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے اس نَكِيْرِ۰۰۴۵فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَ هِيَ ظَالِمَةٌ حالت میں ہلاک کیا تھا کہ وہ ظلم کر رہی تھیں وہ آج اپنی چھتوں پر گِری پڑی ہیں.اور کتنے کنوئیں ہیں جو بالکل فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ متروک ہیں اور کتنے اونچے اونچے قلعے ہیں جو بالکل تباہ ہو چکے ہیں.کیا وہ زمین میں چل کر نہیں دیکھتے مَّشِيْدٍ۰۰۴۶اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ تا کہ اُن کو ایسے دل حاصل ہو جائیں جو (ان باتوں کو) سمجھنے والے ہوں یا کان حاصل قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا ہو جائیںجو( ان باتوں کو) سننے والے ہوں.کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ ظاہری آنکھیں

Page 196

تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۰۰۴۷ اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہوتے ہیں.حلّ لُغَات.اَلصَّومَعَۃُ.الصَّوَامِعُ اَلصَّوْمَعَۃُ کی جمع ہے.مفردات میں ہے اَلصَّوْمَعَۃُ کُلُّ بِنَاءٍ مُتَصَمِّعُ الرَّأسِ اَیْ مُتَلَاصِقُہُ.ہر ایک عمارت جس کے اوپر گنبد بنا ہو ا ہو.اقرب میں ہے کہ اَلصَّوْمَعَۃُ کا لفظ راہب کے منارہ پر بولا جاتا ہے.بِیَعٌ.بِیَعٌ بِیْعَۃٌ کی جمع ہے اور اَلْبِیْعَۃُ کے معنے ہیں مَعْبَدُ النَّصَارٰی.عیسائیوں کی عبادت گاہ.( اقرب) صَلَوَاتٌ.صَلَوٰتٌ یہودیوں کے کنیسہ کو کہتے ہیں.( اقرب) مَکَّنَّا.مَکَّنَّا مَکَّنَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور مَکَّنَہُ مِنَ الشَّیْءِ کے معنے ہیں.جَعَلَ لَہٗ عَلَیْہِ سُلْطٰنًا وَقُدْرَۃً.اُسے کسی چیز پر غلبہ اور قدرت دےدی.پس اِنْ مَّکَّنَّا کے معنے ہوںگے اگر ہم غلبہ دے دیں.(اقرب) نَکِیْرٌنَکِیْرٌ کے معنے ہیں.اَلْاِنْکَارُ.انکار اور نَکِیْرِیْ کے معنے ہیں.میرا انکار.( اقرب) مُعَطَّلَۃٍ.عَطَّلَ الْبِٔرَ کے معنے ہیں تَرَکَ وِرْدَھَا کنوئیں پر جانا چھوڑ دیا.وَکُلُّ مَاتُرِکَ ضَائِعًا فَقَدْ عُطِّلَ.اور ہر وہ چیزجس کی نگرانی چھوڑ دی جائے اور وہ ضائع ہو جائے اُس کے لئے عُطِّلَ کا لفظ بولتے ہیں ( اقرب) پس بِئرٍ مُّعَطَّلَۃٍ کے معنے ہوںگے ایسے کنوئیں جن پر کوئی نہ جاتا ہو.مَشِیْدٌ مَشِیْدٌ کے معنے ہیں ھُوَ مَا طُلِیَ بِالشِّیْدِ وَقِیْلَ ھُوَ الْمَرْ فُوْعُ الْمُطَوَّلُ.وہ عمارت جو چونہ گچ ہو یا بلند و بالا ہو ( اقرب) تفسیر.ان آیات میں وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے ماتحت مسلمانوں کو مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے.اسلام عیسائیت کی طر ح یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دو ( متی باب ۵ آیت ۳۹) بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص تم پر ظالمانہ حملہ کرے یعنی بغیر کسی گناہ کے تمہیں اپنے گھروں سے نکال دے صرف یہ کہنے کی وجہ سے کہ اللہ ہمارا رب ہے تو تم اس کا مقابلہ کر و.اور یہ نہ سمجھو کہ ہم تھوڑے ہیں.کیونکہ اگر تم مظلوم ہوتو خدا تعالیٰ تمہاری مد د کے لئے آئےگا اور وہ تمہاری مدد کرنے پر قادر ہے.اور یاد رکھو کہ یہ حکم دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ہے.اگر ہم یہ حکم دے کر

Page 197

ایک قوم کو انصاف قائم کرنے کے لئے کھڑا نہ کر دیتے تو عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام بڑی کثرت سے لیا جاتا ہے سب گِرا دی جاتیں.پس جو مسلمان دین میں دخل اندازی کرنے والی جنگ کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے وہ درحقیقت اپنی مدد نہیں کرتا بلکہ اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے مذہب کا دفاع نہیں کرتا بلکہ سب مذاہب کا دفاع کرتا ہے.پس لازماً اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کرے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے ایسا مسلمان بھی قوی اور غالب ہو جائےگا کیونکہ ایسا مسلمان اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے کہ اگر اس کو طاقت ملے گی تو نماز با جماعت بھی قائم کرےگا اور زکوٰۃ بھی دےگا.اور نیک باتوں کا حکم بھی دےگا اور بُری باتوں سے بھی رو کے گا اور چونکہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں اور ساری باتوں کا نتیجہ خدا تعالیٰ نکالتا ہے اس لئے جو شخص خدا تعالیٰ کے منشاء پر چلے گا وہی جیتے گا.اوریہ نہیں ڈرنا چاہیے کہ مخالفت سخت ہے.سچائی کی مخالفت نوح ؑ اور عاد اور ابراہیم کے زمانے سے چلی آئی ہے.مگر ہمیشہ ہی سچائی جیتتی ہے اور اس کے مخالفوں کی تباہی کے نشان اب تک دنیا میں موجود ہیں.پس ان نشانوں کو دیکھو او رفائدہ اٹھائو کیونکہ اصل دیکھنا دل کا کام ہے آنکھوں کا کام نہیں.ان آیا ت سے جو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے جنگ کی اجازت صرف اُسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی قوم دیر تک کسی دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اُسے رَبُّنَا اللّٰہَ کہنے سے روکے.یعنی اُس کے دین میں دخل دے اور وہ جبراً اسلام سے لوگوں کو پھرائے یا اُس میں داخل ہونے سے جبراً باز رکھے اور اس میں داخل ہونے والوں کو صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں قتل کرے.اُس قوم کے سوا کسی دوسری قوم سے جہاد نہیں ہوسکتا لیکن اگر جنگ ہوگی تو صرف سیاسی اور ملکی جنگ ہوگی جودو مسلمان قوموں میں بھی ہو سکتی ہے مگر اس کا نام جہاد نہیں رکھا جاسکتا اور اس جنگ میں شامل ہونا ہرمسلمان کا فرض نہیں ہوگا بلکہ صرف انہی مسلمانوں کا فرض ہو گا جو اُس لڑنے والی حکومت میں بس رہے ہوں کیونکہ یہ جنگ حب الوطنی کی جنگ کہلائے گی.دینی جنگ نہیں کہلائے گی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ یعنی وطن کی محبت بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.پھر بتا یا کہ ایسی مظلوم قوم کا فرض ہو تا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور قوت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری ، ملک کی حالت کی درستی اور فتنہ و شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے.کیونکہ اسلام دنیا میں

Page 198

بطور شاہد اور محافظ کے آیا ہے نہ کہ بطور جابر اور ظالم کے.وہ لوگ جو اسلامی جہاد پر اعتراض کیا کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا اس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب اُن کا جی چاہے شروع کردیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں.اس قسم کی جنگ کی ابتداء تو دشمن کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے اور جب اُس سے بچنا اُس کے اختیار میں ہے تو اس کے بعد بھی اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے اور جبراً دوسروں کا مذہب اُن سے بدلوانا چاہتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا پھراس قابل ہے کہ اُسے سزا دی جائے کیونکہ اُسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا.اسے اختیار تھا کہ وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا.اُسے اختیار تھا کہ وہ دین کے لئے جنگ نہ کرتا اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاکت اور بر بادی سے بچالیتا.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے بعداُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ جب بندے خود کفار سے لڑے تو خدا تعالیٰ نے کس طرح دفاع کیا ؟ ان آیا ت میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ گو بظاہر مومن لڑیں گے لیکن وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ کمزور ہیں.جیت نہیں سکتے پس اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُفرما کر بتا یا کہ اصل لڑائی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگی.مومن تو اس کا صرف ایک ہتھیار ہوںگے جن سے وہ کام لےگا.فتح دینا اُس کے اختیار میں ہوگا.اور وہ فتح دےگا اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ لڑائی خدا نے لڑی ہے نہ کہ انسانوں نے.پھر اگلی آیات میں بھی فرما دیا کہ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗکہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کیا کرتا ہے.گویا باوجود مومنوں کے لڑنے کے اصل دفاع اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہا.وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ یہ لوگ عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں.اور اللہ (تعالیٰ) کبھی اپنا وعدہ جھوٹا نہیں کرتا.اور( کوئی کوئی) دن خدا کے وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۰۰۴۸وَ نزدیک تمہاری گنتی کے ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے.اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو (پہلے) تو میں نے مہلت

Page 199

كَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَ هِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ دی حالانکہ وہ ظلم کر رہی تھیں.پھر میں نے اُن کو پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب نے لوٹ کر آنا ہے.تو اَخَذْتُهَا١ۚ وَ اِلَيَّ الْمَصِيْرُؒ۰۰۴۹قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا کہہ دے اے لوگو! میں تمہاری طرف صرف ایک ہوشیار کرنےوالے کی حیثیت سے آیا ہوں.پس جو ایمان لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌۚ۰۰۵۰فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لائیں گے اور (اس کے) مناسب حال عمل کریں گے.انہیں (خدا تعالیٰ کی) بخشش اور معزز رزق حاصل ہوگا.اور لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌ۰۰۵۱وَ الَّذِيْنَ سَعَوْا فِيْۤ اٰيٰتِنَا وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانوں کے متعلق ( اس غرض سے) جدوجہد کی کہ (وہ ہم کو) عاجز کر دیں وہ مُعٰجِزِيْنَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۰۰۵۲ لوگ جہنم میں پڑنے والے ہیں.حلّ لُغَات.اَمْلَیْتُ.اَمْلَیْتُ اَمْلیٰ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے.اور اَمْلٰی لَہُ کے معنے ہوتے ہیں اَمْھَلَہٗ.اُس کو مہلت دی ( اقرب) پس اَمْلَیْتُ کے معنے ہوںگے میں نے اُن کو مہلت دی.تفسیر.فرماتا ہے.حق کے مخالف ہمیشہ عذاب کے متعلق جلد بازی کیا کرتے ہیں مگر اُن کے اس فریب میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ خدا کا ایک دن تو ہزار سال کے برابر ہے.وہ آہستہ آہستہ عذاب لاتا ہے.چنانچہ پہلے لوگوں کو بھی دیکھو کہ انہوں نے صداقتوں کا انکار کیا مگر فوراً تباہ نہ ہوئے پھر ایک دن خدا کا عذاب آگیا اور وہ تباہ ہو گئے.اس آیت میںاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ فرماکر جہاں اللہ تعالیٰ نے عذاب کی شدت کا ذکر کیا ہے اور بتا یا ہے کہ تم تو عذاب مانگ رہے ہو مگر جب وہ آیا تو تمہاری یہ حالت ہوگی کہ تمہیں عذاب کی ایک گھڑی ہزار برس کے برابر معلوم ہو گی.اور تمہیں اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی.وہاں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اس ہزار سالہ دَور کا بھی ذکر فرمایا ہے جس میں کفر کو پھر اپنا سر اٹھانے کا ایک موقع ملنا تھا اور فرمایا

Page 200

ہے کہ تم عذاب کے لئے جلدی نہ کرو.اللہ تعالیٰ ابھی تمہیں ایک ہزار سال تک اَور ڈھیل دینا چاہتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے اعمال بجالاتے ہو.جب یہ ہزار سالہ دَور گذر جائےگا تو تمہیں اپنی بد اعمالیوں کی ایسی سزا ملے گی جو نہایت عبرت ناک ہو گی اور جس کے نتیجہ میں کفر کی صف ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی جائےگی.سورۃ طٰہٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کفر کی اس تباہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا.يَّتَخَافَتُوْنَ۠ بَيْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا( طٰہٰ :۱۰۳،۱۰۴) یعنی جس دن کہ بگل بجایا جائےگا اُس دن ہم مجرموں کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ اُن کی آنکھیں نیلی ہوںگی اور وہ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے کہیں گے کہ تم تو صرف دس صدیاں اس دنیامیں رہے ہو.اس آیت میں مشرکوں کو نیلی آنکھوں کے ساتھ اٹھائے جانے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُس زمانہ میں شرک زیادہ تر نیلی آنکھوں والی قوموں یعنی یو روپین اور امریکن لوگوں میں ہوگا.اور یہ لوگ صرف دس سو سال تک دنیا میں حکومت کرنے کی طاقت پائیں گے.چنانچہ تیسری صدی سے ان لوگوں نے ترقی کرنی شروع کی اور چودھویں صدی میں آکر یعنی دس سو سال گذر نے کے بعد ان پر زوال آنا شروع ہوگیا.تاریخ سے ثابت ہے کہ ۲۷۱سنہء میں عیسائیوں نے سر اٹھانا شروع کیا تھا.جس کی طرف سورۂ رعد کے ابتداء میں ہی الٓمٓرٰ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا.۲۷۱ سنہ ءمیں دس صدیاں شامل کی جائیں تو ۱۲۷۱ بن جاتا ہے.اب سن عیسوی نکالنے کے لئے ۱۲۷۱ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے کے ۶۲۱ سال شامل کئے جائیں تو ۱۸۹۲ بن جاتے ہیں.اور چونکہ سورۂ رعد مکّی سورۃ ہے جو ہجرت سے دو تین سال پہلے نازل ہوئی تھی اس لئے ۱۸۹۲ سے اگر دو سال نکالے جائیں تو ۱۸۹۰ اور تین سال نکالے جائیں تو ۱۸۸۹ رہ جاتے ہیں اور ۱۸۸۹ء ہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں سے بیعت لی اور عیسائیت کی تباہی کی بنیاد رکھ دی گئی.چنانچہ دیکھ لو عیسائی حکومتوں میں سے سب سے بڑی حکومت انگلینڈ کی تھی.لیکن جب وہ زمانہ ختم ہوگیا اور اُن کی تباہی کا زمانہ آگیا تو ہندوستان سے وہ اس طرح بھاگے کہ اَب ہندوستان میں اُن کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا حالانکہ ہندوستان ہی سلطنت برطانیہ کے تاج کا ہیرا کہلاتا تھا.یہ لوگ پہلے تو اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ خیال کرتے تھے کہ ہم کبھی تباہ نہیں ہو سکتے.جیسا کہ سورۂ کہف میں بتا یا گیا تھا کہ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً (الکہف :۳۷) یعنی ان لوگوں کی رُوح رواں یہ کہے گی کہ میں اس امر کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ہم پر بھی تباہی کی گھڑی آنےوالی ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا اور ان کی

Page 201

طاقتیں بالکل ٹوٹ جائیں گی تو اُس وقت ان پر بھی یہ حقیقت روشن ہو جائیںگی کہ ان کی ترقی کا زمانہ صرف ایک ہزار سال تھا بلکہ اس کے بعد تباہی اور بر بادی ہی اُن کے لئے مقدر تھی.پھر انہی د س صدیوں کو ایک یوم بھی قرار دیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُھُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ( طٰہٰ:۱۰۵)یعنی اپنی تباہی کے موقعہ پر وہ جو کچھ کہیں گے ہم اُسے خوب جانتے ہیں جبکہ اُن میں سے سب سے زیادہ اُن کے مذہب پر چلنے والا کہےگا کہ اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو تم صرف ایک مقررہ وقت تک رہے ہو.یعنی پیشگوئی کے مطابق د س صدیاں.سورۂ سبا میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ۠ عَنْهُ سَاعَةً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ۠( سبا :۳۰،۳۱) یعنی مخالف کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ساری دنیا میں اسلام کے پھیل جانے کا وعدہ کب پورا ہوگا.تو انہیں کہہ دے کہ تمہارے لئے ایک وقت ِ معین کا اعلان کر دیا گیا ہے.تم نہ تو اُس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے.یہاں بھی ایک یوم سے مراد ایک ہزار سالہ زمانہ ہے جیسا کہ سورۃ سجدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ( السجدۃ:۶) یعنی اللہ تعالیٰ امرِ اسلامی کو آسمان سے اتار کر زمین میں اپنی تدبیر کے ساتھ قائم کر ےگا.مگر پھر و ہ اُس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھنا شروع کر دے گا جو تمہاری گنتی کے ہزار سالوں کے برابر ہوگا لیکن اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا فرمائےگا.اور کفر کو تباہ کر دیا جائے گا.چنانچہ اس موعود عذاب کا سورۂ مریم میں ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ١ؕ فَسَيَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا( مریم :۷۶) یعنی تو انہیں کہہ دے کہ جو شخص گمراہی میں مبتلا ہو خدائے رحمٰن اُسے ایک عرصہ تک ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ جب ایسے لوگوں کے سامنے وہ سب کچھ ظاہر ہو جائےگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی یا تو دنیوی عذاب یا کامل قومی تباہی تو اس وقت وہ جان لیں گے کہ کون ہے جو مکان کے لحاظ سے بد تر اور دوستوں کے لحاظ سے کمزور ہے.یعنی اُس وقت نہ تو اُن کا تمدن اُن کو محفوظ رکھ سکے گا جس پر اُن کو بڑا ناز ہوگا اور نہ اُن کے دوست اور ساتھی اور مدد گار اُن کے کسی کام آئیںگے اُن کی دولت بھی اُن سے چھن جائیںگی اور اُن کے ساتھی بھی اُن سے الگ ہو جائیں گے.اور وہ ہلاکت اور بر بادی کا شکار ہو جائیں گے.

Page 202

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ اِلَّاۤ اِذَا اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا نہ نبی مگر جب بھی اُس نے کوئی خواہش کی شیطان نے اُس کی خواہش تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْۤ اُمْنِيَّتِهٖ١ۚ فَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا کے رستہ میں مشکلات ڈال دیں.پھر اللہ (تعالیٰ) اُس کو جو شیطان ڈالتا ہے مٹا دیتا ہے.اور جو اس کے اپنے نشان يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌۙ۰۰۵۳ ہوتے ہیں اُن کو مضبوط کر دیتا ہے.اور اللہ( تعالیٰ) بہت جاننے والا حکمت والا ہے.حلّ لُغَات.تَمَنّٰی.تَمَنَّی الشَّیْءَ کے معنے ہیں اَرَادَہٗ کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کیا اور تَمَنَّی الْکِتَابَ کے معنے ہیں قَرَأَہٗ.کتاب کوپڑھا.(اقرب) اَلْاُمْنِیَۃُ الامنیۃ کے معنے ہیں اَلْبُغْیَۃُ.خواہش مَایُتَمَنّٰی وَیُقَدَّرُ.جس کی خواہش کی جاتی ہے.(اقرب) یَنْسَخُ.یَنْسَخُ نَسَخَ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور نَسَخَ الشَّیْءَ نَسْخًا کے معنے ہیں اَزَالَہٗ.کسی چیز کو دُور کر دیا چنانچہ کہتے ہیں نَسَخْتُ حُکْمَہ‘ بِحُکْمِ فُلَانٍ.میں نے فلاں کے حکم سے اُس کے حکم کو منسوخ کر دیا ( اقرب ) پس یَنْسَخُ کے معنے ہوںگے وہ زائل کر دیتا ہے.وہ ختم کر دیتا ہے.تفسیر.یہ آیت قرآن کریم کی نہایت آسان آیت بھی ہے اور اس کو مفسرین نے خطرناک آیت بھی بنا دیا ہے.اور وہ اس طرح کہ وہ اس آیت کو سورۂ نجم کی بعض آیات سے ملا دیتے ہیں اور پھر بعض خیالی دقتوں کے ذریعہ سے اس کو ایک نہایت ہی خطرناک حربہ اسلام کے خلاف بنا دیتے ہیں.حالانکہ سورۂ حج اور سورۂ نجم کا کوئی بھی جوڑ نہیں.سورۂ نجم کی جن آیتوں کو ان کے ساتھ ملا کر ایک ہوّا بناد یا گیا ہے وہ یہ ہیں.اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى.وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى(النجم:۲۰،۲۱).مفسرین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خانہ کعبہ کے صحن میں آئے اور سب کفار بھی وہاں جمع ہو گئے اور آپ نے یہ آیتیں پڑھنی شروع کیں کہ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى.وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى اور اس کے بعد آپ نے فرمایا وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی یعنی یہ تینوں اونچی گر دنوں والے دیوتا ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے.( نعوذباللہ مِنْ تِلْکَ الْخُرَافَاتِ ) اس کے بعد جب سورۃ کے آخر تک پہنچے تو آخری آیت یہ تھیفَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا (النجم :۶۳) اور تم اللہ کے حضور

Page 203

ہی سجدہ کرو اور اس کی فرمانبرداری کرو.چونکہ اس جگہ قرآن کریم میں سجدہ کرنےکا حکم ہے.آپ نے اس جگہ سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ ؓ نے بھی اور کفار نے بھی سجدہ کیا.بلکہ ولید بن مغیرہ جو ایک خطرناک دشمنِ اسلام تھا اس نے بھی زمین پر سے کنکر اٹھا کر اپنے ماتھے کو لگا لئے گویا سجدہ کر لیا.یہ واقعہ جب مکہ میں مشہور ہوا تو ایک شور مچ گیا.لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ سارامکہ مسلمان ہوگیا ہے کیونکہ سب کفار نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر سجدہ کر لیا ہے.مسلمان مفسر کہتے ہیں کہ یہ آیتیں جو آپ ؐ نے پڑھیں کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی یہ قرآن کا حصہ نہیں تھیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں ان کو منسوخ کر دیا.چنانچہ موجودہ قرآن میں یہ آیتیں نہیں ہیں (تفسیرقرطبی و فتح البیان زیر آیت ھٰذا).وہ اس کہانی کی حقیقت یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۂ حج میں یہ آیت آتی ہے کہ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْۤ اُمْنِيَّتِهٖ.یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اُس کی یہ حالت تھی کہ جب کبھی وہ وحی پڑھتا تھا شیطان اُس کی وحی میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیتا تھا.پھربعد میں خدا تعالیٰ شیطانی وحی کو منسوخ کر دیتا تھا.اسی طرح جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃنجم کی آیتیں خانہ کعبہ میں پڑھیں تو شیطان نے ( نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ ) آپ ؐ کی وحی میں یہ بات ملا دی کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو مکہ کے کفار نے سمجھا کہ آپ ؐنے اپنے دین میں کچھ تبدیلی کر دی ہے اور آپ کے ساتھ سجدہ میں شامل ہو گئے.جب مکہ میں شور پڑگیا کہ کفار مسلمان ہوگئے ہیں تو کفار نے کہا کہ ہم نے تو صرف اس لئے سجدہ کیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلاوت میں یہ فرمایا تھا کہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی جس میں صاف طور پر ہمارے بتوں کو تسلیم کر لیا گیا تھا.پس جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے بتوں کو تسلیم کر لیا تو ہم نے بھی جواب میں اُن کے خدا کے آگے سجدہ کر دیا.جب کفار کا یہ قول مشہور ہوا تو مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ اُس وقت کوئی آواز آئی تھی جس میں یہ الفاظ سنے گئے تھے کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی اس لئے معلوم ہو تا ہے کہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہر نبی کی زبان پر شیطان کبھی کبھی خدائی منشاء کے خلاف الفاظ جاری کر دیتا تھا(القرطبی و فتح البیان زیر آیت ھذا).لیکن اس آیت میں الفاظ جاری کرنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ آیت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ جب کوئی نبی دنیا میں کوئی خواہش کرتا ہے اور نبی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے.اُس وقت شیطان جو اس کی کامیابی کو ناپسند کرتا ہے اُس کے راستہ میں روکیں ڈال دیتا ہے.اَلْقٰی کے معنے ڈال دینے کے ہوتے ہیں.پس اَلْقٰی الشَّیْطٰنُ فِی

Page 204

اُمْنِیَّتِہٖ کے یہی معنے ہیں کہ اُس کی خواہشوں کے راستہ میں کوئی چیز ڈال دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان روک ہی ڈالےگا نبی کی مدد تو نہیں کرےگا.پس ان الفاظ سے یہ معنے لینا کہ شیطان اس کی زبان پر شرکیہ الفاظ بھی جاری کر دیتا ہے صریح ظلم ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ اوپر کے بیان کردہ واقعہ کی روایت کو بڑے پایہ کے محدثین نے صحیح تسلیم کیا ہے.چنانچہ ابن حجر جیسا محدث لکھتا ہے انّ ثلاثۃ اسانید منھا علیٰ شرط الصحیح ( فتح الباری لابن حجر کتاب تفسیر القرآن قولہ اذا تمنی القی الشیطن فی امنیتہ) یعنی مختلف راویوں سے جو بڑے ثقہ تھے یہ روایت آتی ہے جن میں سے تین روایتیں اتنی معتبر ہیں جتنی بخاری ؒ کی.اسی طرح بزاز ؒ اور طبرانی ؒ نے بھی اسے درست تسلیم کیا ہے( ھمیان الزاد تفسیر زیر آیت ھذا) جس کی وجہ سے ہم اس روایت کو کلی طور پر رّد نہیں کر سکتے.لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کا حل سمجھا دیا ہے جو یہ ہے کہ جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تو مکہ والوں کو اُن کا حبشہ جانا بڑا بُرا لگا.اور انہوں نے اپنے بعض آدمی نجاشی شاہِ حبشہ کے پاس بھیجے کہ کسی طرح اُن کو سمجھا کر واپس مکہ لے آئیں ( السیرۃ الحلبیۃ جلد ۱ باب الھجرۃ الثانیہ علی الحبشۃ) اور تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت یہ سجدہ والا واقعہ ہوا.اُس وقت کچھ مہاجرین حبشہ سے لوٹ کر مکہ آگئے.اور جب اُن سے لوگوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آگئے ہو تو انہوں نے کہا.ہمیں تو یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں ( ابن خلدون زیر عنوان ہجرت حبشہ) مکّہ کے جو لوگ اُن سے ملے تھے.انہوں نے کہا کہ مکّہ والے تو کوئی مسلمان نہیں ہوئے.بات یہ ہے کہ تمہارے رسول نے قرآن کی کچھ آیتیں ایسی پڑھی تھیں جن سے شرک کی تائید ہوتی تھی.اس لئے تمہارے رسول کے ساتھ مل کر مکہ والوں نے بھی سجدہ کرد یا مگر جبکہ بعد میں تمہارے رسول نے اُن آیتوں کو منسوخ قرار دے دیا تو مکہ والے پھر اپنے دین کی طرف لوٹ آئے.یہ باتیں سن کر وہ مہاجر پھر واپس حبشہ چلے گئے ( السیرۃ الحلبیۃ ).سورۂ نجم کی تلاوت کا واقعہ اور مسلمانوں کے حبشہ سے آنےکا واقعہ اتنا قریب قریب ہے کہ خود جغرافیہ اس کو ردّ کر تا ہے.مکہ سے اس زمانہ کی بندر گاہ شعیبہ کا فاصلہ اکیلے سوار کے لئے کم ازکم چار پانچ دن کا بنتا ہے.چنانچہ زرقانی میں لکھا ہے کہ مُسَافَتُھَا طَوِیْلَۃٌ جِدًّا (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ الھجرۃ الاولیٰ الی الحبشۃ) کہ مکہ سے شعیبہ کا فاصلہ بہت زیادہ ہے.اور وہاں سے حبشہ کی بندرگاہ کا فاصلہ بھی کوئی چار پانچ دن کا بنتا ہے.کیونکہ اس زمانہ میں لوگ صرف بادبانی کشتیوں میں سفر کرتے تھے اور وہ بھی ہر وقت نہیں چلتی تھیں کیونکہ کوئی جہاز رانی کی کمپنیاں نہیں ہوتی تھیں جب کسی ملّاح کو فرصت ہوتی تھی وہ اپنی کشتی اُدھر لے آتا تھا جس میں بعض دفعہ

Page 205

مہینوں کا فاصلہ ہو جاتا تھا.اور حبشہ کی بندرگاہ سے لے کر اُس زمانہ کے حبشہ کے دارالحکومت کا فاصلہ کوئی دو مہینہ کے سفر کا ہے.گویا اگر یہ خبر سورۂ نجم کی تلاوت کے بعد مکّہ سے جاتی اور پھر مسلمان وہاں سے روانہ ہوتے تو مختلف فاصلوں اور دربارِ حبشہ کی اجازت وغیرہ کے زمانہ کو ملا کر کوئی اڑھائی تین ماہ میں لوگ واپس آسکتے تھے.مگر وہ سجدہ والے واقعہ کے بعد پندرہ بیس دن کے اند ر اندر واپس آگئے.کیونکہ مسلمان حبشہ جانے کے لئے رجب میں روانہ ہوئے تھے اور شعبان و رمضان حبشہ میں ٹھہرے اور شوال میں واپس پہنچ گئے (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ الھجرۃ الاولیٰ الی الحبشۃ) اور حبشہ ٹھہرنے اور واپس مکہ پہنچنے کا کل عرصہ تین ماہ سے بھی کم بنتا ہے (السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرۃ الاولیٰ الی ارض الحبشۃ) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت والا واقعہ بنایا گیا ہے یعنی بعض مکہ کے سرداروں نے پہلے سے یہ تدبیر سوچی اور کوئی سوار حبشہ دوڑا دیاکہ مسلمانوں میں جاکر مشہور کر دو کہ مکّہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور انہوں نے محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر سجدہ کیا ہے.لیکن جب انہوں نے اندازہ کیا کہ اَب حبشہ والے آنے ہی والے ہوںگے تو سوچا کہ اُن کے آنے پر ہم کیا جواب دیں گے کیونکہ آکر وہ دیکھیں گے کہ مکّہ والے تو ابھی تک کافر ہیں اس لئے یہ مشہور کر دیا کہ سجدہ کرنا ( نعوذ باللہ ) شرکیہ آیتوں کی وجہ سے تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان آیتوں کو منسوخ کرنا جو درحقیقت منسوخ کرنا نہ تھا بلکہ یہ اعلان کرنا تھا کہ ایسی کوئی آیتیں میں نے نہیں پڑھیں کفّار مکّہ کے واپس کفر پر آجانے کی وجہ تھا.اب یہ تدبیر تبھی کامیاب ہو سکتی تھی جب کہ کوئی شرکیہ آیتیں اس مجلس میں کہلائی جاتیں جس میں آپ نے تلاوت کی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلکہ کسی خبیث کا فر نے اپنے سرداروں کے مشورہ سے پیچھے سے یہ فقرے پڑھ دئیے اور بوجہ اس کے کہ سینکڑوں آدمی موجود تھے اور مکّہ کے سارے رئو ساء جمع تھے.شور میں پہچا نا نہیں گیا کہ یہ آواز کس کی ہے.اور کفار نے مشہور کر دیا کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرے کہے ہیں اس لئے ہم نے سجدہ کر دیا تھا.جو لوگ مجلس کے کناروں پر بیٹھے تھے انہوں نے بھی چونکہ یہ فقرے اس متفنی شیطان کے منہ سے سنے تھے جس نے یہ فقرے آپ کی تلاوت کے وقت بآواز بلند کہہ دئیے تھے.اس لئے اُن لوگوں نے بھی یہ خیال کیا کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی یہ فقرے کہے ہوں.پس اس کہانی کا حل تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت کفار نے پہلے سے سوچے سمجھے ہوئے منصوبہ کے مطابق کسی خبیث سے یہ فقرے بلند آواز سے کہلا دیئے اور اُن کی سکیم کا ثبوت یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اُس وقت سے پہلے مکہ پہنچ گئے جبکہ سورۂ نجم والے واقعہ کو سُن کر وہ مکّہ آسکتے تھے.بلکہ اگر اُس وقت ہوائی جہاز بھی ہوتے تو جتنے وقت میں وہ آسکتے تھے اُس سے بھی

Page 206

پہلے پہنچ گئے.پس اُن کا وقت سے پہلے مکّہ آجانا بتا تا ہے کہ وقت سے پہلے اُن کو کہلا بھیجا گیا تھا کہ مکّہ والے مسلمان ہوگئے ہیں اور عین اُن دنوں میں جبکہ وہ سکیم کے ماتحت آسکتے تھے مکہ والوں نے یہ اوپر کے الفاظ کسی خبیث کے منہ سے بلند آواز سے کہلوا دئیے.پھر اگر اُن حدیثوں کو نظر انداز کر دیا جائے جو صراحتًا قرآن کریم کے خلاف ہیں تو یہ سورۃ ہی اس واقعہ کی تردید کرتی ہے کیونکہ ان آیتوں سے پہلے جن میں کہا گیا ہے شیطان نے شرکیہ مضمون ملاد یا تھا یہ ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا ہے بلکہ یہ بھی کہ دو دفعہ دیکھا ہے چنانچہ پہلے فرمایا وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی (النجم:۱۴)یعنی اُس نے یقیناً اپنے خدا کو ایک دفعہ اور دیکھا ہے.اور پھر فرمایا لَقَدْ رَأی مِنْ اٰیَتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی (النجم:۱۹)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں اُس کے مقابلہ میں کافروں کو کہا گیا ہے کہ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى (النجم:۲۰)یعنی بتائو تو سہی کہ کیا تم نے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنےبتوں کا کوئی نشان دیکھا ہے.یعنی تم نے نہیں دیکھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں.یہ تو شرکیہ آیا ت سے پہلے کی آیتیں ہیں.اور ان شرکیہ آیا ت کے بعد کی یہ آیت ہے کہ اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ(النجم:۲۴) یعنی یہ بتوں کے نام تو تم نے خود رکھ لئے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی دلیل نہیں اتاری.اب بتائو کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شرک کے اقرار سے پہلے بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں اور اُن کے بعد بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں.باوجود اس کے کوئی شخص کہہ دے کہ ان دو تردیدوں کے درمیان محمد ؐرسول اللہ کی زبان پر شیطان نے شرک کے کلمات جاری کر دئیے تھے.شیطان کو تو ہمارے مفسّر عقل مند کہتے ہیں.یہاں تک کہ سورۂ بقرۃ کی آیات میں شیطان کو فرشتوں کا اُستاد قرار دیتے ہیں.اور شیطان اور خدا تعالیٰ کے مباحثے میں خدا کو ہرایا گیا ہے (تفسیرقرطبی سورۃ الکہف واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم...)مگر اس کہانی والا شیطان تو کوئی گدھا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو شرکیہ کلمات کے لئے دو زبر دست توحیدی آیات کے درمیان ہی مقام ملا.اس شیطان کو تو پاگل خانہ میں داخل کرنا چاہیے.ایسا اُلّو خدا کے بندوں کو بہکاتا کس طرح ہے ؟ پھر یہ لطیفہ دیکھو کہ یہ سورۃ اس آیت پر ختم ہوئی ہے فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا کہ اے لوگو اللہ کے سامنے سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو.اس آیت کو سُن کر کون گدھا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ محمد ؐرسول اللہ نے کوئی شرکیہ کلمات کہہ دئیے ہیں.غرض اس سورۃ کی آیت آیت ہی اس کہانی کو ردّ کر رہی ہے.یہ اندرونی شہادت ہے اور بیرونی شہادت

Page 207

یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اس کہانی کو سن کر اس وقت مکہ میں واپس نہیں آسکتے تھے جس وقت وہ آئے جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہو ں.اب میں سورۂ حج کی زیرِ تفسیر آیت کو لیتا ہوں جس کی بناء پر اس واقعہ کو جائز قرار دیا گیا ہے اور بتا تا ہوں کہ اس آیت کا وہ مفہوم نہیں جو مفسرین نے لیا ہے.اس آیت کے مفسرین تو یہ معنے کرتے ہیں کہ تجھ سے پہلے جتنے نبی اور رسول گذرے ہیں جب کبھی وہ اپنی وحی کی تلاوت کیا کرتے تھے شیطان اُن کی وحی میں کچھ ملا دیا کرتا تھا.پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ملائے ہوئے کو منسوخ کر دیتا تھا اور اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا تھا.(القرطبی زیر آیت ھذا) لیکن یہ معنے بالکل غلط ہیں.اوّل تو اس لئے کہ تَمنّٰی کے معنے صرف پڑھنے کے نہیں ہوتے بلکہ ارادہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور اُمْنِیَۃٌ کے معنے صرف تلاوت کے ہی نہیں ہوتے بلکہ مطلوب و مقصود کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب) ان دونوں لفظوں کے مذکورہ بالا معنے مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے معنے یوں ہوںگے کہ ’’ ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر جب بھی وہ کوئی ارادہ کرتا تھا.شیطان اُس کے ارادہ میں کچھ ڈال دیتا تھا.پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو راستے سے ہٹا دیتا ہے اور اپنے نشانوں کو قائم کر دیتا ہے.‘‘ ان معنوں کو دیکھو تو پتہ لگ جائےگا کہ مفسرین کے معنے یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے.ان معنوں کی رُو سے اس آیت کے معنے صرف یہ بنتے ہیں کہ کوئی رسول اور نبی نہیں گذرا جس کے ارادوں یعنی شرک کے تباہ کرنے کے ارادوں کو ناکام رکھنے کے لئے شیطان کوئی روکیں نہ ڈالتا ہو.لیکن نبیوں کے مطلوب و مقصود کو ناکام کرنے کے لئے شیطان خواہ کتنی کوششیں کر ے اور اُن کے راستہ میں کتنی مشکلات بھی ڈالےا للہ تعالیٰ شیطان کی ڈالی ہوئی مشکلات کو اُن کے راستہ سے ہٹا دیتا ہے او ر نبیوں کو کامیاب بنانے کے لئے جن نشانوں کی خبر دیتا ہے اُن کے پورا ہونےکے سامان پیدا کر دیتا ہے.سو اس طرح نبی جیت جاتے ہیں اور شیطان ہار جاتا ہے.اب جو تاریخی واقعات ہیں اُن سے بھی لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ آیا جو مفسرین نے معنے کئے ہیں.وہ واقعات کے مطابق ہیں یا جو ہم نے معنے کئے ہیں وہ واقعات کے مطابق ہیں.تفسیری معنوں کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہارنا چاہیے تھا اور شرک کو غالب آجانا چاہیے تھا لیکن ہوا یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئےبتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا اور شرک ہمیشہ کے لئے مٹ گیا.پس آج تک کوئی بھی نبی اور رسول ایسا نہیں آیا جس کے ہر مقصد اور ہر مدعا اور ہر خواہش اور ہر تڑپ کے آگے شیطان نے روکیں نہ ڈالی ہوں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر نبی کامیاب ہو گیا.تو پھر میرا ٹھکانا کہیں نہیں.جس طرح مرتا ہوا آدمی پورا زور لگاتا ہے کہ وہ کسی طرح موت کے پنجے سے نکل جائے اسی طرح شیطان اور اس کی

Page 208

ذریّت انبیاء اور اُن کی جماعتوں کے خلاف پورا زور لگاتی ہے.جنہوں نے مرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس بے ہوشی میں بھی جس میں دنیا و مافیہا کی اُسے کوئی خبر نہیں ہوتی جبکہ ساری طاقت زائل ہو چکی ہوتی ہے اور تمام قوت خرچ ہو چکی ہوتی ہے مرنے سے چند منٹ پہلے مرنے والا اس طرح زور لگا تا ہے کہ گویا وہ پھر اس دنیا میں واپس آنا چاہتا ہے.اس کا سارا جسم ہل جاتا ہے.گردن اُٹھ جاتی ہے اور وہ اپنی طاقت کا آخری ذرّہ تک اس لئے خرچ کر دیتا ہے کہ بچ جائو ں.یہ اس انسان کی حالت ہوتی ہے جو بے ہوشی میں ہوتا ہے جس کی طاقت خرچ ہو چکی ہوتی ہے.جو سُوکھ کر کانٹا ہو چکا ہوتاہے پھر اُس کی کیا حالت ہوگی جو بے ہوش نہ ہو اور جس کی طاقت خرچ نہ ہوئی ہو.ایک چھوٹے بچے کو ہی کنوئیں میں ڈراوے کے طور پر دھکیل کر دیکھ لو کس طرح وہ چمٹ جاتا ہے اور عام طاقت سے آٹھ دس گنے زیادہ طاقت اُس میں پیدا ہو جائےگی.ایک ایسا آدمی جسے کُشتی میں پہلوان ایک منٹ میں گِرا سکتا ہے اُس کے متعلق پہلوان سے کہو کہ اُسے کنوئیں میں گِرا کر دیکھے تو ایک منٹ چھوڑ ایک گھنٹے میں بھی نہیں گِرا سکے گا.اس لئے کہ کشتی میں تو وہ سمجھتا ہے مقابلہ ہے اگر گِر بھی گیا تو کیا ہو ا.مگر جب وہ یہ سمجھے کہ موت آنے لگی ہے تو اپنی ساری طاقت خرچ کرےگا اور اتنا زور لگا ئے گا کہ اوّل تو زبر دست کے برابر ہو جائے گا ورنہ اُس کے قریب قریب رہےگا.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں کوئی سلسلہ قائم کیا جاتا ہے تو اُس وقت ایسی ارواح خبیثہ جو شیطان سے تعلق رکھتی ہیں یا بعض گناہوں کی وجہ سے شیطان نے اُن پر تصرف پایا ہوا ہوتا ہے جوش میں آجاتی ہیں اور سارا زور اس بات کے لئے صرف کرتی ہیں کہ کسی طرح سچائی دنیا میں نہ پھیلے.یہ لوگ جو الٰہی سلسلوں کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہیں کبھی تو ایسے ہوتے ہیں جو اِن سلسلوں میں نام کے لحاظ سے شامل ہوتے ہیں جیسے عبدا للہ بن ابی ابن سلول اور اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والے اور کبھی ایسے ہوتے ہیں جو نام کی طرف تو منسوب ہوتے ہیں لیکن نظام کی طرف منسوب نہیں ہوتے.جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں خوارج تھے.اور کبھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ نام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور نہ نظام کے لحاظ سے کوئی تعلق رکھتے ہیں.جیسے مکّہ کے کفار اور یہود اور نصارٰی.یہ سب لوگ مل کر اُن مقاصد میں روک بننا چاہتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں.اور ہر قسم کی مشکلات اُن کے راستے میں کھڑی کر دیتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ اپنے نشانات کے ساتھ نبیوں کی تائید کرتا اور شیطان کو اس کے تمام منصوبوں میں ناکام کر دیتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح شکاری کتے کو اگر کسی چور کے کپڑے کی خوشبو سونگھا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ دس بیس بلکہ سو میل تک بھی پیچھے جا کر اُسے

Page 209

پکڑ لیتا ہے.اسی طرح شیطان کو بھی تقدس کی خوشبو سے دشمنی ہے اور جس میں سے اُسے یہ خوشبو آئے اُس پر وہ دیوانہ وار حملہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جس سے تقدس کی خوشبو آتی ہے اُسے چیر ڈالے.جب آدم ؑ نے خدا تعالیٰ سے تقدس کی خوشبو پائی تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پیچھے دوڑا.پھر حضرت نوح علیہ السلام آئے اور انہوں نے خوشبو پائی تو وہ اُن کے پیچھے دوڑا.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے اور ان کے ذریعہ سے یہ خوشبو پھیلی تو وہ اُن کے پیچھے دوڑ پڑا.پھر حضرت رام.حضرت کرشن.حضرت زرتشت.حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ ؐ آئے تو اُن کے پیچھے دوڑ پڑا.اگر ان سب میں ایک ہی قسم کی خوشبو نہ ہوتی تو ان پر شیطان کا حملہ بھی ایک رنگ میں نہ ہوتا.چونکہ ان کی خوشبو ایک ہی طرح کی تھی اور وہ توحید کی خوشبو تھی اس لئے شیطان نے اُن کے زمانوں میں حملہ بھی ایک ہی رنگ میں کیا.مگر فرماتا ہےفَيَنْسَخُ اللّٰهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ.اللہ تعالیٰ شیطان کی تمام روکوں کو مٹا دیتا ہے اور اس تعلیم کو قائم کر دیتا ہے جو اُس کی طرف سے آتی ہے.اور اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور حکت والا ہے.لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو( مشکلات) شیطان ڈالتا ہے وہ اُن لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں جن کے دلوں مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍۭ میں بیماری ہو تی ہے اور جن کے دل سخت ہوتے ہیں اور ظالم لوگ( ہر خدائی بات کی) شدید مخالفت کرنے پر بَعِيْدٍۙ۰۰۵۴وَّ لِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ تُلے رہتے ہیں.اور( یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے) تاکہ وہ لوگ جو علم والے ہوتے ہیں جان لیں کہ وہ( یعنی قرآن) رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ تیرے رب کی طرف سے مجسم سچائی ہے اور اس پر ایمان لے آئیں.اور ان کے دل اُس کے آگے جھک

Page 210

الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۵۵وَ لَا يَزَالُ الَّذِيْنَ جائیں اور اللہ (تعالیٰ) مومنوں کو ضرور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخشنے والا ہے.اور کافر اس (قرآن) کے متعلق كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ اُس وقت تک کہ( تباہی کی) گھڑی اچانک آجائے یا اُن کے پاس اُس دن کا عذاب آجائے تو یَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ۰۰۵۶ اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑتا شبہ میں پڑے رہیں گے.حلّ لُغَات.اَلْفِتْنَۃُ اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں اَلْخِبْرَۃُ وَالْاِبْتِلَاءُ.امتحان و آزمائش (اقرب).اَلضَّلَالُ وَالْاِثْمُ وَالْکُفْرُ.گمراہی.گناہ اور کفر ، اَلْفَضِیْحَۃُ رسوائی.اَلْعَذَابُ.عذاب اَلْعِبْرَۃُ.عبرت.(اقرب) شِقَاقٍ شَاقَّہٗ شِقَاقًا کے معنے ہیں خَالَفَہٗ وَعَادَاہُ.اس کی مخالفت اور دشمنی کی.وَحَقِیْقَتُہٗ اَنْ یَّاْتِیَ کُلُّ وَاحِدٍمِّنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرَ شِقِّ صَاحِبِہٖ.عربی زبان میں شق کے معنے جانب کے ہوتے ہیں اور شَاقَّہٗکے معنے ہوتے ہیں.دونوں نے اپنا اپنا پہلواختیار کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہ کیا ( اقرب ) پس شِقاقٌ کے معنے ہوںگے مخالفت کرنا.تُخْبِتُ.تُخْبِتُ اَخْبَتَ سے مضارع واحد مؤنث کا صیغہ ہے.اور اَلْاِخْبَاتُ ( جو اَخْبَتَ کا مصدر ہے ) کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالتَّوَاضِعُ.نرمی اور عاجزی ( مفردات ) پس تُخْبِتُ کے معنے ہیں.عاجزی کریں اور تواضع اختیار کریں.مِرْیَۃٌ.مِرْیَۃٌ کے معنے ہیں اَلشَّکُّ.شک اَلْجَدَلُ جھگڑا ( اقرب) یَوْمٌ عَقِیْمٌ یَوْمٌ عَقِیْمٌ کے معنے ہیں جس میں کوئی خیرو برکت نہ ہو ( اقرب) مفردات میں ہے.یَوْمٌ عَقِیْمٌ: لَافَرَحَ فِیْہِ.ایسا دن جس میں کوئی خوشی نہ ہو.تفسیر.اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ شیطان کو نبیوں کے راستہ میں کیوں روکیں ڈالنے دیتا ہے.

Page 211

اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ اِن شیطانی فتنوں کے ذریعہ نبیوں کی جماعتیں ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی رکھنے والوں سے پا ک ہو جائیں اور دشمنوں کی عداوت لوگوں پر ظاہر ہو جائے.جب شیطان روکیں پیدا کرتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں بدی ہوتی ہے اور جن کے قلوب سخت ہوتے ہیں وہ اس کی بات مان لیتے ہیں اور بلاوجہ مومنوں پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں.پس کمزور ایمان والوں کی کمزوری اور دشمنوں کی دشمنی دونوں ظاہر ہو جاتی ہیں اور پتہ لگ جاتا ہے کہ اسلام کے دشمن ضد اور مخالفت میں کس قدر بڑھے ہوئے ہیں.اور یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ اسلام پر سچا ایمان لانے والے لوگ شریروں کی شرارتوں سے ڈرتے نہیں بلکہ ایمان میں اَور بھی بڑھتے ہیں.اور اس طرح مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا چلا جاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی نبی آتا ہے اور وہ لوگوں کی اصلاح کی تجاویز کرتا ہے تو شیطان اس کے راستہ میں روکیں ڈالنی شروع کر دیتا ہے مگر اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق اور کمزور ایمان لوگ الگ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی مضبوطی اور اس کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.اب ان معنوں پر غور کرو اور دیکھو کہ یہ معنے تمام نبیوں کو عمومًا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصاً کس طرح شیطان کے تصرف سے محفوظ رکھتے ہیں.بلکہ اُلٹا یہ بتاتے ہیں کہ نبیوں پر شیطان کا تصرف تو الگ رہا شیطان اُن سے ماریں کھاتا ہے.اور جب ہم قرآن کریم کی یہ آیت مدنظر رکھیں کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ ( بنی اسرائیل:۶۶) کہ میرے بندوں پر تجھے کبھی غلبہ نصیب نہ ہوگا تو میرے کئے ہوئے معنے ہی ٹھیک ثابت ہوتے ہیں.اور مفسرین کے کئے ہوئے معنے غلط ثابت ہوتے ہیں.کیونکہ کسی نبی کی زبان پر شیطان کا قبضہ خصوصاً وحی کی تلاوت کے وقت تو اتنا بڑا ’’ سلطان‘‘ ہے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں پائی جاتی.ہم تو معمولی انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اُن پر کتنا ہی جبر کریں وہ اُن کے خلاف نعرے لگاتے جاتے ہیں.پھر یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب نبیوں کے بھی سردار تھے شیطان نے اُن کی زبان پر تصرف کر لیا اور نعوذبا للہ اُن کے منہ سے شرکیہ کلمات نکلوا دئے.یہ تو سورۂ بنی اسرائیل والی آیت کی صریح تردید ہے اور قرآن کریم کی کوئی آیت دوسری آیت کی تردید نہیں کر سکتی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء :۸۳)یعنی کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے.اگر یہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں عظیم الشان اختلاف پائے جاتے بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں چونکہ کثیر ًا کا لفظ ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا دوسروں کے کلام میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں لیکن خدا کے کلام میں بہت سے اختلا ف

Page 212

نہیں پائے جاتے.چونکہ یہاں کثیراً کا لفظ ہے اس لئے یہ آیت ایک اختلاف کو ردّ نہیں کرتی مگر کثیر کے معنے عربی زبان میں عظیم الشان کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ مفردات میں لکھا ہے وَلَیْسَتِ الْکَثْرَۃُ إِشَارَۃً اِلیٰ الْعَدَدِ فَقَطْ بَلْ اِلَی الْفَضْلِ یعنی قرآن شریف میں بعض جگہ جو کثیر کا لفظ استعمال ہو ا ہے اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ تعداد میں زیادہ بلکہ مطلب یہ ہے کہ شان میں بڑا اور قرآن کریم میں یہ اختلاف ماننا کہ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ میرے نیک بندوں پر شیطان کوکبھی تصّرف نہیں ہوگا.اور دوسری طرف وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر نبی اور رسول پر شیطان کو تصرف دیا گیا تھا وہ اس کی وحی میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیتا تھا یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ جس سے بڑا اختلاف قیاس کرنا بھی مشکل ہے پس سورۂ نساء کی آیت کے مطابق اس کے ایسے معنے کرنے بالکل باطل اور غلط ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کے صریح خلاف ہیں.دوسری تشریح آیت لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا کی یہ ہے کہ منطق کے قضیہ حملیہ کی رُو سے بالمقابل قضیہ نکالنا جسے مفہومِ مخالف بھی کہتے ہیں جائز نہیں ہوتا.مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص کا سر بڑا ہے تو اس فقرہ سے یہ نتیجہ نکالنا ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ اُس کے پائوںچھوٹے ہیں اسی طرح قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا جو قضیہ شرطیہ پر مشتمل ہے قضیہ حملیہ کی صورت میں یہ معنے رکھتا ہے کہ غیر اللہ کے کلام میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہوںگے کہ خدا کے کلام میں تھوڑا سا اختلاف ہوتا ہے کیونکہ یہ نتیجہ ایک ایسا مفہومِ مخالف ہے جو منطق کی رُو سے جائز نہیں جیسا کہ ہم اوپر کی مثال سے ظاہر کر چکے ہیں.پھر فرماتا ہے.وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْیَاْتِیَھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ.کفار اُس وقت تک صداقت کے بارے میں شبہ میں ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی تباہی کی گھڑی اُن پراچانک آجاتی ہے یا اُن پر عذاب کا وہ دن آجاتا ہے جو اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑتا.دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے زمانہ میں کون شخص تھا جو یہ یقین رکھتا تھا کہ مکہ میں رہنے والے چند غریب لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر چھا جانے والے ہیں لیکن ہجرت کے معاً بعد یعنی دوسرے ہی سال مکہ کے وہ رئو ساء جو اسلام کی ہستی کو مٹا دینے پر تُلے ہوئے تھے اور جو غریب مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کر تے تھے بدر کے میدان میں اس طرح ذبح کر دئیے گئے جس طرح باولے کتے گائوں کی گلیوں میں مروا دئیے جاتے ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا مگر طوفان آنے سے قبل آخری وقت تک آپ کی قوم ہنستی رہی اور یہی کہتی رہی کہ ہاں ہم غرق ہو جائیں گے اور تم بچ جائو گے.اگر ہم غرق ہو گئے تو وہ جگہ کہاں ہے جہاں تم بھاگ جائو گے

Page 213

لیکن سالہا سال کی ہنسی کے بعد جسے بائیبل نے شاعرانہ رنگ میں سینکڑوں سال کا زمانہ کہا ہے یکدم طوفا ن آیا اور وہ لوگ غرق ہو گئے جو آپ پر ہنسی کیا کرتے تھے اور آپ کی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر جا ٹھہری.قرآن کریم اور بائیبل دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے بھاگے تو آخر وقت تک ان کی قوم کے لوگ بھی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہماری نجات کا وقت آگیا ہے اور فرعون نے بھی کہا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں.فوراً فوجیں جمع کرو یہ ہم سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کو فرعون کا لشکر نظر آیا تو انہوں نے کہا اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ(الشعراء:۶۲) ہم ضرور پکڑے جائیں گے لیکن وہی لوگ جو آدھ گھنٹہ پہلے یہ سمجھتے تھے کہ ہم اب فرعون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے آدھ گھنٹہ بعد انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ کے وہ وزراء اور فوجیں جن پر اس کی شوکت کا دارو مدار تھا غوطے کھاتے ہوئے سمندر کی تہ میں جا رہے ہیں.(خروج باب ۱۴ آیت ۱۰ تا ۳۱)پھر اس عذاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ فرعون اُن بادشاہوں میں سے تھا جو اپنے مُنہ پر ہمیشہ نقاب اوڑھے رہتے تھے اور انہوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جو شخص بادشاہ کی شکل دیکھ لے وہ کوڑھی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ہتک کرتا ہے.اس لئے وہ ہمیشہ اپنے منہ پر نقاب رکھتے تھے یہ بتانے کے لئے کہ ہم ایسے عالیشان انسان ہیں کہ ہماری شکل دیکھنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں اور اگر کسی شخص کے لئے بادشاہ اپنا نقاب اٹھا دیتا تھا تو وہ بڑا مقرب سمجھا جاتا تھااور وہ اپنی قوم کا سردار بن جاتا تھا مگر آج اُس کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہوئی ہے جسے میں نے ۲۴؁ء میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.مگر دیکھنے والا کن جذبات کے ماتحت اُسے دیکھتا ہے.اچھے جذبات کے ماتحت نہیں بلکہ ہر دیکھنے والا اُس پر لعنت ڈالتا ہے اور کہتا ہے.خبیث توتھا موسیٰ ؑ کو دکھ دینے والا.غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب عذاب آتا ہے تو وہ بعض دفعہ ایسا اچانک آتا ہے کہ انسان دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی لپٹ میں بھسم ہو کر رہ جاتا ہے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں اسی طرح شکوک و شبہات میں ہی مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ ایک دن اچانک ان کی تباہی کی گھڑی آجائےگی اور وہ اُس سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے.اور یا پھر اُن پر ایسا عذاب نازل ہو گا جو اُن کی شوکت کا کوئی نشان تک باقی نہیں رکھے گا.چنانچہ فتح مکہ بھی ایک ساعت تھی جو اچانک کفار مکہ پر آئی.اور جس نے اُن کے تمام بل اس طرح نکال کر رکھ دئیے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو ابتدائے اسلام سے دکھ دیتے چلے آرہے تھے اس قدر عاجزاور درماندہ ہو گئے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عاجز انہ التجا کی کہ آپ ہم پر رحم کریں اور ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں

Page 214

کے ساتھ کیا تھا(السیرة الحلبیة ذکر ،مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکة شرفھا اللہ تعالیٰ).اور اس قدر انقلاب اُن میں پیدا ہو ا کہ وہی لوگ جو کل تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے آپ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے لگ گئے اور عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ سے حضرت ابن عباس ؓ مجاہد اور قتادہ کے نزدیک بدر کا عذاب مراد ہے جس نے کفار کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں اور اُن کے رعب اور دبدبہ کو خاک میں ملا دیا.(القرطبی زیر آیت ھٰذا) اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ١ؕ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ١ؕ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اُس دن سب بادشاہت اللہ ہی کی ہوگی وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے گا.پس مومن جو ایمان کے عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۰۰۵۷وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ مناسب حال عمل بھی کرتے ہوںگے وہ نعمت والی جنتوں میں رہیں گے.اور کافر اور ہماری آیتوں کے كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌؒ۰۰۵۸ منکر تو وہ ہیں جن کے لئے رسوائی کا عذاب (مقدر) ہے.حلّ لُغَات.جَنّٰتِ النَّعِيْمِ.اَلنَّعِیْمُ کے معنے ہیں الْخَفْضُ وَالدَّعَۃُ.آرام آسائش.اَلْمَالُ.مال ( اقرب ) اسی طرح النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اَلنِّعْمَۃُ الْکَثِیْرَۃُ بہت سی نعمت ( مفردات ) پس جَنّٰتِ النَّعِیْمِ کے معنے ہوںگے (ا) ایسی جنات جن میں آرام و آسائش حاصل ہوگا.(۲) مال و دولت والی جنات (۳) بہت سی نعمت والی جنات.تفسیر.فرماتا ہے جب یہ ساعۃ آگئی تو اُس دن خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائےگی اور شرک اور کفر دنیا سے مٹ جائےگا.چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کے بعد خدا کا وہ گھر جسے حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعٰیل ؑ نے خدا ئے واحد کی پرستش کے لئے بنایا تھا اور جسے بعد میں اُن کی گمراہ اولاد نے تین سو ساٹھ بتوں سے بھر دیا تھا کس طرح بتوں سے خالی کیا گیا.اور کس طرح ایک ایک بُت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیت اللہ سے باہر پھینک دیا گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک بُت پر سونٹی مارتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (بنی اسرائیل:۸۲).یعنی حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے.اور باطل تو ہے ہی

Page 215

بھاگ جانے والا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑے بت ھبل پر اپنی چھڑی مار ی اور وہ گِر کر ٹوٹ گیا.تو ایک صحابی ؓ نے ابو سفیان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.ابو سفیان ! تمہیں یاد ہے اُحد کے دن تم نے کتنے غرور میں یہ نعرہ لگا یا تھا کہ اُعْلُ ھُبُلْ.اُعْلُ ھُبُلْ یعنی ہبل کی شان بلند ہو ہبل کی شان بلند ہو.آج دیکھ لو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں.ابو سفیان کھسیانا ہو کر بولا.بھائی یہ باتیں جانے بھی دو.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور بھی خدا ہوتا تو آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ کبھی نہ ہوتا.اب تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ خدائے واحد کے سوا اَور کوئی خدا نہیں (السیرة الحلبیة ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکة شرفھا اللہ تعالیٰ).غرض اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ کی پیشگوئی اُس روز بڑی شان سے پوری ہوئی اور عرب کے ایک سرے سے لےکر اُس کے دوسرے سرے تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آوازیں گونجنے لگیں.پھرفَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ.وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ میں یہ بتایاکہ الٰہی سلسلوں کی ترقی میں شیطان خواہ کس قدر روڑے اٹکائے اور کتنے ہی منصوبے کرے آخر میں خدا تعالیٰ کے نبی ہی جیتتے ہیں.اور کفار کی سب تدبیریں ناکام ہو کر رہتی ہیں.چنانچہ مومن تو ترقی کر جاتے ہیں لیکن مخالفین خائب و خاسر ہو کر غم و غصہ اور ناکامی و ذلت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور یہ دنیا ہی اُن کے لئے دوزخ ہو جاتی ہے.اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ میں ضمنی طور پر ایک اعتراض کا جواب بھی پایا جاتا ہے.بعض لوگ سورۂ فاتحہ کے الفاظ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ پر اعتراض کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ کیوں کہا گیا ہے کہ وہ مَالِک ہے یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ وہ مَلِک ہے.حالانکہ مَلِک یعنی بادشاہ کا تصرف مَالِک یعنی قابض سے زیادہ ہوتا ہے.اس اعتراض کا جواب اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِمیں موجو دہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ اُس دن حکومت اللہ ہی کی ہو گی اور وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے گا.گویا اللہ تعالیٰ صرف مالک ہی نہیں بلکہ متصرف ِ کامل یعنی بادشاہ بھی ہے.لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ آجکل کے بادشاہوں کی طرح کسی بالا قانون کا پابند ہے.کیونکہ وہ خود فرماتا ہے کہ بالا قانون کی پابندی صرف اس کے لئے ہوتی ہے جس کے فیصلہ میں ظلم اور استبداد پایا جائے.لیکن خدا رحمٰن ہے اُس کے فیصلہ میں استبداد نہیں پایا جاتا.اور ظلم نہیں پا یا جا تا.بلکہ وہ سب کے ساتھ رحم اور بخشش کا سلوک کرتا ہے اور ایسا معاملہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کو فائدہ پہنچے.اسی طرح سورۂ فرقان میں فرماتا ہے اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ( الفرقان :۲۷) کہ اُس دن حکومت واقعی رحمٰن خدا ہی کی ہوگی.اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ

Page 216

مَا يَوْمُ الدِّيْنِ.يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا١ؕ وَ الْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ (الانفطار :۱۹،۲۰) کہ تجھے کس چیز نے بتایا ہے کہ جزا و سزا کا وقت کیا ہے ؟ وہ وہ وقت ہوگا جس دن کوئی جان کسی جان کی کچھ بھی مالک نہیں ہوگی اور اُس دن اللہ ہی کا حکم ہوگا.ان آیات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بادشاہت بھی حاصل ہے.پس مالک کا لفظ جو سورۂ فاتحہ میں استعمال کیا گیا ہے وہ ان معنوں میں نہیں کہ خدا تعالیٰ صرف مالک ہے مَلِک یعنی بادشاہ نہیں.بلکہ ان معنوں میں ہے کہ وہ مالک بادشاہ ہے اور یہ ظاہر بات ہے کہ مالک بادشاہ خالی بادشاہ سے بہتر ہوتا ہے یعنی خالی بادشاہت کسی کو تمام افراد یا اشیاء پر پورا تسلط نہیں بخشتی.ایک بادشاہ کو یہ ہر گز اختیار حاصل نہیں کہ وہ رعایا اور ملک کی دولت سے جس طرح چاہے سلوک کرے.لیکن بادشاہ اُن اشیاء میں جو اس کی مملوکہ ہوں بالکل اور قسم کا تصرف رکھتا ہے جو اُس تصرف سے جو اُسے صرف بادشاہت کی وجہ سے حاصل ہو تا ہے زیادہ مکمل اور اعلیٰ ہوتا ہے.پسمٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِکہہ کر خدا تعالیٰ کی ملکیت کی نفی نہیں کی گئی بلکہ خدا تعالیٰ کی ملکیت کی قسم بیان کی گئی ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالی مَلِک نہیں بلکہ وہ مَلِک ہے جو ساتھ ہی سب مخلوق کا مالک بھی ہے اور جو مالک بادشاہ ہو اُسے تصرف میں پوری آزادی حاصل ہوتی ہے.وَ الَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْۤا اَوْ مَاتُوْا اور وہ لوگ جو اللہ کے راستہ میں ہجرت کرتے ہیں پھر مارے جاتے ہیں یا طبعی موت مر جاتے ہیں.لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ اللہ (تعالیٰ) ان کو نہایت اعلیٰ انعام بخشے گا.اور اللہ (تعالیٰ) انعام بخشنے والوں میں سب سے اچھا ہے.الرّٰزِقِيْنَ۰۰۵۹لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُّدْخَلًا يَّرْضَوْنَهٗ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ وہ ضرور ان کو ایسی جگہ میں داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ (تعالیٰ) لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۰۰۶۰ بہت جاننے والا (اور) بہت سمجھ رکھنے والا ہے.تفسیر.اس جگہ جو یہ کہا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں گے یا مر جائیں گے اللہ تعالیٰ

Page 217

ان کو رزق دے گا.اس کے صرف یہی معنے نہیں ہیں کہ جنت میں اُن کو رزق ملے گا کیونکہ دشمن کہہ سکتا ہے کہ نہ تو میں نے جنت دیکھی ہے نہ مجھے اس کا پتہ ہے.بلکہ اس سے قوم کے افراد بھی مراد ہیں کیونکہ قوم کے ہم خیال لوگوں سے جو سلوک ہوتا ہے وہ ساری قوم سے سمجھا جاتا ہے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین میں سے بعض بے شک قتل کئے جائیں گے اور بعض مر جائیں گے لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کی قوم کو بہت سی دنیوی اور اخروی نعمتیں دے گا.یعنی زندہ رہنے والوں کو دنیاوی نعمتیں تو بادشاہت کی صورت میں ملیں گی اور اخروی نعمتیں ایمان کی زیادتی کی صورت میں ملیں گی.ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ یہ با ت اسی طرح ہے اور جو شخص اتنی ہی سزا دے جتنی اُسے تکلیف دی گئی تھی مگر باوجود اس کے (اُس کا دشمن) اُلٹا لَيَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۰۰۶۱ اُس پر چڑھ آئے تو اللہ (تعالیٰ) ضرور اُس کی مدد کرےگا اللہ (تعالیٰ) یقیناً بہت معاف کرنےوالا (اور) بہت بخشنے والا ہے.حل لغات.بُغِیَ عَلَیْہِ.بُغِـیَ عَلَیْہ بَغٰی عَلَیْہِ سے مجہول کا صیغہ ہے اور بَغٰی عَلَیْہِ کے معنے ہیں.اِسْتَطَالَ عَلَیْہِ وَظَلَمَہٗ.اس پر ظلم کیا اور دست درازی کی ( اقرب ) پس بُغِیَ عَلَیْہِ کے معنے ہوںگے.اس پر ظلم کیا گیا.تفسیر.یعنی یہ جو ہم نے تعلیم دی تھی کہ ظلم کو ہر دفعہ معاف کرنا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ ظلم کا بدلہ لینا بھی جائز ہوتا ہے.اس کے متعلق اگر یہ خیال کرو کہ اگر ہم بدلہ لیں گے تو دشمن اور بھی شرارت میں بڑھ جائےگا اور اس طرح ہماری مصیبت زیادہ ہو جائےگی تو یاد رکھو کہ اگرتم مظلوم ہونے کے بعد حد کے اندر بدلہ لو گے اور پھر بھی دشمن تم پر مزید ظلم کرنے کے لئے تیار ہو جائےگا تو خدا تعالیٰ کی مدد تم کو حاصل ہو گی.اور تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی.یہ آیت بظاہر اس جگہ بے تعلق نظر آتی ہے لیکن اگر اوپر کے رکوع کا مضمون دیکھا جائے تو اُس میں یہ آیت نظر آئے گی کہ وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِيْ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ اسی طرح اُس میں فرمایا گیا ہے کہ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا

Page 218

مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِيٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْۤ اُمْنِيَّتِهٖ (الحج:۵۳) پھر اس سے بھی اوپر چلیں تو یہ آیت نظر آئے گی کہ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ(الحج:۴۰) اور پھر اس سے بھی پہلے یہ آیت آتی ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ (الحج:۳۹).ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ گذشتہ دو رکوعوں سے جنگ کا ذکر چلا آرہا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہےکہ جنگ میں چاہے سچائی کی تائید کرنے والے لوگوں کی تعداد کتنی بھی کم ہو پھر بھی وہ جیتیں گے.پس جنگ کے اس پہلو کو بھی بیان کرنا ضروری تھا کہ کفار میں اگر اَور جوش پیدا ہو ا تو کیا بنے گا.پس یہ آیت بے تعلق نہیں بلکہ سابق مضمون کے تسلسل میں بیان کی گئی ہے.ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ یہ( سزا و جزاکا سلسلہ )اس لئے چلتا ہے کہ ثابت ہو کہ اللہ( تعالیٰ) رات کو دن میں داخل کر دیتا ہے اور دن کو رات فِي الَّيْلِ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۰۰۶۲ میں داخل کر دیتا ہے.اور اللہ( تعالیٰ) یقیناًبہت دعائیں سُننے والا (اور) بہت حالات دیکھنے والا ہے.حلّ لُغَات.یُوْلِجُ.یُوْلِجُ اَوْلَجَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور اَوْلَجَہٗ کے معنے ہیں اَدْخَلَہٗ اس کو داخل کیا (اقرب ) پس یُوْلِجُ کے معنے ہوںگے وہ داخل کرتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے اپنی مصیبتوں اور دشمن کی ترقی سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ دنیا کی تاریخ سے معلو م ہو تا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ایک دن گر جاتی ہیں اور گِری ہوئی قومیں ایک دن بڑ ھ جاتی ہیں.پس اگر آج تمہارے دشمن کی باری ہے تو کل تمہاری بار ی ہوگی.دوسرے یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سُنتا ہے اور اپنے بندوں کے حالات دیکھ رہا ہے.اس جگہ نور کے بعد ظلمت اور ظلمت کے بعد نور سے اچھی حالت کے بعد تکلیف کی حالت اور دُکھ کے بعد سُکھ کی حالت پیداکرنا مراد ہے.اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ نظامِ عالم سے بےد خل نہیں بلکہ وہ مظلوم کا ساتھ دیتا اور اس کے لئے اپنی قدرت اور جلال کو ظاہر کرتا ہے پس مسلمانوں کے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.وہ ان کی ضرور مدد کرےگا اور ان کے لئے ترقی کے راستے کھول دےگا.

Page 219

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ یہ( دعائیں سُننا اور حالات سے واقف رہنا) اس لئے ہے کہ اللہ (تعالیٰ) اپنی ذات میں قائم ہے اور دوسری چیزوں الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۰۰۶۳اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ کو قائم رکھتا ہے اور اس لئے کہ جس چیز کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ تباہ ہونےوالی ہے اور اس لئے کہ اللہ ہی اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ٞ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً١ؕ اِنَّ سب سے اوپر ہے اور سب سے بڑا ہے.کیا تونے دیکھا نہیں کہ اللہ (تعالیٰ) نے آسمان سے پانی اُتارا ہے جس سے اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌۚ۰۰۶۴ زمین سر سبز ہو جاتی ہے.اللہ (تعالیٰ) یقیناً (اپنے بندوں سے) مہربانی کا سلوک کرنےوالا ہے اور (ان کے حالات سے) بہت با خبر ہے.حلّ لُغَات.اَلْبَاطِلُ.اَلْبَاطِلُ بَطَلَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے.اور بَطَلَ کے معنے ہوتے ہیں فَسَدَ خراب ہو گیا.اَوْ سَقَطَ حُکْمُہٗ.اُس کا حکم ختم ہو گیا.وَذَھَبَ ضَیَا عًا وَخُسْرًا.ضائع ہو گیا اور گھاٹا کھا کر ختم ہو گیا (اقرب) پس اَلْبَاطِلُ کے معنے ہوںگے.ضائع ہو جانے والا او ر گھاٹا کھا کر ختم ہونے والا.تفسیر.اب بتا تا ہے کہ وہ نظام عالم میں دخل اس لئے دیتا ہے کہ اصل قائم رہنے والی ہستی وہی ہے اور باطل ہلاک ہونے والا ہے.اگر بندے باطل سے تعلق رکھیں گے تو وہ بھی ہلاک ہوںگے اور اگر حق اور صداقت سے تعلق رکھیں گے تو وہ بھی قائم رہیں گے.پس تم جو واجب الوجود خدا کےساتھ تعلق رکھو گے ان لوگوں کے مقابلہ میں کس طرح ہار سکتے ہو جو ہلاک ہونےوالی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہیں.یہ تو اس کی ہتک ہے کہ اُس کی طرف سے قائم ہونےوالا سلسلہ تباہ ہو جائے.اس سے اُس کے علی اور کبیر ہونے پر اعتراض آتا ہے.تمہارا خدا یقیناً بڑا ہے.اس لئے تم بھی بڑے ہوگے اور تمہارے دشمن کا بت چھوٹا ہے.اس لئے لازماً وہ ذلیل اور رسوا ہوگا.مادی دنیا کو بھی دیکھ لو.جب مادی پانی نازل ہوتا ہے تو وہ شاداب ہو جاتی ہے اسی طرح روحانی پانی نازل ہوگا تو تم کیوں شاداب نہیں ہوگے.خصوصاً جب خدا دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور خبرد ار ہے.

Page 220

لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اُس کا ہے.اور اللہ (تعالیٰ) یقیناً اپنے سوا سب وجودوں الْحَمِيْدُؒ۰۰۶۵ کی مدد سے بے نیاز (اور) تعریفوں کا مالک ہے.تفسیر.فرماتا ہے زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا کا ہی ہے.اور اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.پس ہر قربانی جو وہ تم سے چاہتا ہے صرف تمہارے فائدے کے لئے چاہتا ہے اپنے فائدے کے لئے نہیں.چنانچہ اسلامی تعلیم پر غور کر کے دیکھ لو اُس نے جس قدر احکام دئیے ہیں محض بنی نو ع انسان کے فائدہ کے لئے دیئے ہیں اس لئے نہیں دئیے کہ اُن سے اُس کی خدائی میں کوئی اضافہ ہوتا ہے.اگر اُس نے نمازوں کا حکم دیا ہے یا روزوں کا حکم دیا ہے یا زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے یا حج کا حکم دیا ہے تو یہ تمام احکام ایسے ہیں جن کا بالذات فائدہ خود انسان کو ہی پہنچتا ہے.خدا تعالیٰ کو نہیں.مثلاً نماز کو ہی لے لو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ( العنکبوت :۴۶) نماز انسان کو بدیوں اور برائیوں سے روکتی ہے.پس جو شخص صحیح معنوں میں نماز پڑھتا ہے اُسے دوسرے روحانی فوائد کے علاوہ ذاتی طور پر یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اسی طرح نماز سے یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ قومی شیرازہ کو متحد رکھنے کا خیال ہر وقت انسان کے ذہن میں جاگزیں رہتا ہے اور اسے یہ احساس رہتا ہے کہ ہمارا ہروقت ایک واجب الاطاعت امام ہونا چاہیے جس کی متابعت میں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جا سکے.پھر مسجد میں پانچوں وقت نماز کے لئے جانا ایسی چیز ہے جو بنی نوع انسان کو ذاتی فائدہ پہنچانے والی چیز ہے کیونکہ اُس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہوتی رہتی ہے.اور مسلمان تنظیمی رنگ میں اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اسی طرح روزہ ایک اہم اسلامی عبادت ہے مگر اس کا فائدہ بھی خود انسان کو پہنچتا ہے خدا تعالیٰ کو نہیں.روزہ کے ذریعہ افراد کے اندر مشقت بر داشت کرنے کی عادت پیدا ہو تی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو مختلف اوقات میں اس کے بے حد کام آتی ہے.اسی طرح روزہ کے ذریعہ غرباء کی حالت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُن کو ابھارنے اور ترقی دینے کا جذبہ ترقی کرتا ہے.جس سے بحیثیت مجموعی تمام قوم فائدہ اٹھاتی ہے اور ترقی کی منزلیں جلد جلد طے کرنے

Page 221

لگتی ہے.یہی حال زکوٰۃ کا ہے وہ بھی قومی ترقی کا ایک زبر دست ذریعہ ہے کیونکہ حکومت امراء سے اُن کے اموال کا ایک حصہ لے کر غرباء پر خرچ کرتی ہے اور اس طرح فقراء.مساکین.مؤلفۃ القلوب اور مصائب و آفات میں مبتلا انسان اس روپیہ سے اپنے پائوں پر کھڑے ہو نے کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں.اور قوم اور ملک میں ضعف پیدا نہیں ہوتا.اسی طرح حج بھی ارکان اسلام میں شامل ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا فائدہ بھی خود مسلمانوں کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو خدا تعالیٰ کی خاطر اپنا وطن چھوڑنے کی عادت پیدا ہو تی ہے اور پھر مکّہ مکرمہ میں جب دنیا کے تمام اطراف سے مسلمان جمع ہوتے ہیں تو عالمی اخوت کا احساس ترقی کرتا ہے اور باہمی اتحاد کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں.غرض اسلامی شریعت نے جس قدر احکام دئیے ہیں خود بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دئیے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ اُن میں سے کسی چیز کا محتاج نہیں.اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ کیا تو نے دیکھا نہیں کہ اللہ( تعالیٰ) نے تمہارے کام پر جو کچھ بھی زمین میں ہے اُسے بغیر مزدوری کے لگا رکھا ہے.تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى اور کشتیاں بھی سمندر میں اُس کے حکم سے چلتی ہیں.اور اُس نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ کہیں زمین پر سوائے الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۰۰۶۶ اُس کے حکم کے گِر نہ جائے.اللہ (تعالیٰ) یقیناً لوگوں سے بہت شفقت کرنےوالا (اور اُن پر) بار بار رحم کرنےوالا ہے.حلّ لُغَات.سَخَّرَ سَخَّرَہُکے معنے ہیں کَلَّفَہٗ عَمَلًابِلَااُجْرَۃٍ.بغیر مزدوری اور اُجرت کے اُس کو کام میں لگا یا.( اقرب ) پس سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ کے معنے ہوںگے کہ زمین کی ہر چیز کو بغیر اس کے کہ تم کوئی معاوضہ ادا کرو تمہاری خدمت میں اُس نے لگا دیا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.اگر وہ تمہاری چھوٹی چھوٹی قربانیوں کا محتاج ہوتا تو زمین کی ہر چیز جو اُس کے قبضہ میں تھی وہ تمہاری خدمت میں کیوں لگادیتا.اُس نے تو جو کچھ پیدا کیا ہے تمہارے فائدہ اور بھلائی کے لئے پیدا کیا

Page 222

ہے تاکہ تم اس کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر ترقی کر سکو.ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کی سائینس قرآن کریم کی اس بیان کردہ صداقت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے.اور ہزاروں اشیاء جن کو پہلے بالکل بے کار سمجھا جاتا تھا اُن کے عجیب در عجیب خواص معلوم ہو رہے ہیں.سم الفار ، بیش اور کچلہ نے ہزاروں انسانوں کو ہلاک کیا مگر اب وہی سم الفا راور بیش اور کچلہ کروڑوں انسانوں کی زندگی کا موجب بن رہے ہیں.اسی طرح سانپ کے ڈسنے سے بیشک ہزاروں اموات ہوتی ہیں مگر اُسی سانپ کے زہر کو کئی قسم کے خطرناک امراض میں استعمال کر کے اس کے تریاقی فوائد حاصل کئے جارہے ہیں.اور لاکھوں انسان اس سے نئی زندگی حاصل کر رہے ہیں.پاخانہ کتنی گندی اور بظاہر بےکار نظر آنے والی چیز ہے مگر یہی چیز کھاد بن کر بنی نوع انسان کو کتنا بڑا فائدہ پہنچاتی ہے غرض کوئی چیز ایسی نہیں جو اپنے اندر افادیت کا پہلو نہ رکھتی ہو اور جس کی پیدائش بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے نہ کی گئی ہو.پہاڑوں کو ہی دیکھ لو یہ بنی نوع انسان کو کتنابڑا فائدہ پہنچارہے ہیں جب موسم گرما کی تپش سے انسانی بدن جھلسنے لگتا ہے تو پہاڑوں کی بلندی پر پہنچ کر وہ نہایت آرام اور سکون کی زندگی بسر کر نے لگتا ہے اور آفتاب کی حدت سے امن میں آجاتا ہے.پھر انہی پہاڑوں سے سونا اور چاندی اور لوہا اور ابرق اور کروم اور دوسری کئی قسم کی قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں.نمک جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے انہی پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے.پھر کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو وہاں پائی جاتی ہیں اور جن سے انسان طبی رنگ میں بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور تجارتی رنگ میں بھی.اسی طرح دریائوں اور نہروں سے تمام ملک سیراب ہوتا ہے ہر قسم کی فصلیں ترقی کرتی ہیں اور باغات سر سبز و شاداب ہوتے ہیں.درختوں کو لے لو تو وہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچارہے ہیں.اور ان کی عمارتی ضروریات کو بھی پورا کر رہے ہیں اور جلانے والی لکڑی اور کوئلہ کی صورت میں بھی ساری دنیا کے کام آرہے ہیں.غرض دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے فائدہ کے لئے نہ پیدا کی ہو.اور اگر کسی چیز کا فائدہ ابھی تک لوگوں کو معلوم نہیں ہوسکا تو یہ صرف انسانی علم کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارض کی تمام اشیاء انسانوں کی خدمت کے لئے پیدا کی ہیں اُس نے پہاڑوں اور اُن کی برفوں اور اُن کے درختوں اور اُن کے پھولوں اور اُن کی بوٹیوں اور اُن کے اندر چھپی ہوئی کوئلہ کی کانوں ،سیسہ کی کانوں، تانبہ کی کانوں اور ہیرے اور جواہرات کی کانوں کو بھی انسانی فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اور اُس نے زمین کے صحرائوں میں رہنے والے جانوروں اور پانی کے پتال میں رہنے والی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں کو بھی انسانی فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے.غرض ہر چیز خواہ وہ زمین کے اندر سے نکالی جانے والی ہو یا جنگل میں اُگنے والی ہو یا دریائوں کے نیچے سے مہیا ہونے والی ہو یا پہاڑوں سے حاصل کی جانے

Page 223

والی ہو صرف انسان کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے.مگر افسوس کہ وہی انسان جس کی خدمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان تمام اشیاء کو پیدا کیا تھا کبھی ایسا بیوقوف بن جاتا ہے کہ پتھر کے بے جان بُتوں کے آگے اپنا سر جھکا دیتا ہے.کبھی ستاروں کو ہر قسم کی بر کت اور نحوست کا اصل موجب قرار دے دیتا ہے اور کبھی سورج اور چاند کی پرستش کرنے لگتا ہے اور وہ خدا جس نے ان چیزوں کو ایک خد مت گار کے طور پر پیدا کیا تھا اُس سے غافل ہو جاتا ہے.حالانکہ جب وہ اُن کے سامنے اپنا ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوتا ہے یا اُن سے منتیں کر رہا ہوتا ہے تو یہ ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے اپنے غلام کی منّتیں کر رہا ہو یا افسر اپنے چپڑاسی سے ڈر رہا ہو.اگر دنیا میں کہیں ایسا نظارہ نظر آئے تو ہر شخص ایسے افسر کو پاگل قرار دےگا.مگر مذہبی دنیا میں ایسے ہزاروں پاگل پائے جاتے ہیں جو اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ان چیزوں کو خدائی طاقتوں سے متصف قرار دیتے ہیں اور اس طرح اپنی انسانیت کی شرمناک تذلیل کے مرتکب ہوتے ہیں.وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُس نے عذاب کے لئے مختلف قسم کی قیود لگا دی ہیں تاکہ بنی نوع انسان اُن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اورپیشتر اس کے کہ وہ کسی عذاب کی لپیٹ میں آئیں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کر کے اُس کی رضا حاصل کر لیں اور عذاب سے محفوظ ہو جائیں.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ عذاب ہمیشہ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک تو شرعی عذاب ہوتے ہیں اور ایک طبعی عذاب ہوتے ہیں.شرعی عذاب اسی وقت آتا ہے جب لوگ خدا تعالیٰ کے کسی رسول کی تکذیب کریں.مگر طبعی عذاب کے لئے یہ کوئی شرط نہیں بلکہ جو قوم بھی ترقی کے اُن اسباب سے غافل ہو جائےگی جو خدا تعالیٰ نے مادی عالم میں مقرر کئے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عام قانون کے ماتحت خود بخود ہلاک ہو جائےگی.جیسا کہ آج تک نقشۂ عالم پر ہزاروں قومیں اور حکومتیں اُبھریں اگر پھر ایک وقت ایسا آیا جبکہ وہ کمزوری اور انحطاط کا شکار ہوتے ہوتے مٹ گئیں اور صفحہ عالم پر اُن کا نشان تک باقی نہ رہا.ان قوموں کی ہلاکت اور بر بادی خدا تعالیٰ کی محبت کی کمی یا ا ُس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس لئے ہوئی کہ انہوں نے ترقی کے اُن قوانین کو نظر انداز کر دیا جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جاری کئے ہوئے ہیں.ان دونوں قسم کے عذابوں کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں ذکر فرمایا ہے.شرعی عذابوں کے متعلق تو فرماتا ہے وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل:۱۶) یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک اس کی طرف اپنا کوئی رسول نہ بھیج لیں.جب رسول کے آنے کے بعد اس

Page 224

قوم پر اتمام حجت ہو جاتی ہے اور وہ انکار اور تکذیب میں بڑھتی چلی جاتی ہے تو آخر اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے.اور وہ عذاب کا شکار ہو جاتی ہے.یہ شرعی عذاب ہے جو مامورین کی تکذیب کے نتیجہ میں قوموں پر آتا ہے اس عذاب کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس کے متعلق پہلے سے پیشگوئیوں میں خبر دے دی جاتی ہے یا غیر معمولی طور پر دنیا میں ایسی بلائوں اور آفات کا ظہور ہونے لگتا ہے جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی.مثلاً یکد فعہ زلزلوں پر زلزلے آنے شروع ہو جاتے ہیں یا بیماریاں.قحط.لڑائیاں اور دوسری قسم کے مصائب ایک ہی وقت میں اس طرح جمع ہو جاتے ہیں کہ لوگوں میں ایک شور مچ جاتا ہے اور ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ یہ غیر معمولی حوادث ہیں.ان شرعی عذابوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہ عذاب وقفہ وقفہ کے بعد آتے ہیں تاکہ جو لوگ عذاب کے ان متواتر جھٹکوں سے بیدار ہو سکیں وہ بیدار ہو جائیں اور کلی تباہی سے محفوظ رہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے اس قانون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْ بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّکْرٌ فِیْ اٰیَاتِنَاقُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا.اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ ( یونس :۲۲) یعنی جب ہم لوگوں کو کسی دُکھ اور مصیبت کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ جھٹ ہمارے نشانوں کے متعلق کوئی نہ کوئی مخالفانہ تدبیر شروع کردیتے ہیں تو انہیں کہہ دے کہ اللہ کی تدبیر بہت ہی جلد کار گر ہو اکرتی ہے اور تم جو تدبیریں کرتے ہو ہمارے فرستادے انہیں لکھتے رہتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہمارا عذاب کبھی یکدم نازل نہیں ہوتا بلکہ پہلے عذاب کا ایک جھٹکا آتا ہے جسے کچھ عرصہ کے بعد دور کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ توبہ سے کام لیں اور اپنے مظالم اور گناہوں سے باز آجائیں لیکن بد سرشت لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے وہ عذاب کے وقت تو کسی قدر ڈر جاتے ہیں مگر جب عذاب میں کمی واقع ہوتی ہے تو پھر ہمارے کلام اور احکام کے خلاف اپنی تدابیر شروع کر دیتے ہیں.فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کی تدبیر تو بہت جلد نافذ ہو جاتی ہے مگر وہ خود ہی لوگوں پر احسان کرتے ہوئے اپنی تدبیر کو روکے رکھتا ہے.کیونکہ نہ تو اُسے لوگوں کے کام بھول سکتے ہیں کہ اُسے فوراً بدلہ لینے کی ضرورت ہو اور نہ سزا دینے میں اُسے کوئی مشکل پیش آسکتی ہے کہ وہ سمجھے کہ اگر اس وقت میں نے سزا نہ دی تو بعد میں مشکل پیش آجائے گی وہ ہر وقت سزاد ے سکتا ہےاور کوئی بات بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں اس لئے مخالفین کو تکبر اور اعراض سے کام نہیں لینا چاہیے.جب اُن کی کلی تباہی کا فیصلہ کر دیا گیا تو پھر ان کی کوئی تدبیر اُن کو بچا نہیں سکے گی.یہ تو شرعی عذابوں کا ذکر تھا طبعی عذابوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ(الرعد :۱۲)یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خوداپنی اندرونی

Page 225

حالت کو نہ بدل دے.جب وہ خود اپنے اعمال سے اُس مقام کو کھو بیٹھتی ہے جو خدا تعالیٰ نے اُسے عطا کیا تھا تو خدا تعالیٰ کا سلوک بھی اس سے بدل جاتا ہے اور وہ قوم ہلاکت کے گڑھے میں گِر جاتی ہے گویا خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے انعامات کے وارث ہوں مگر جب وہ خود اپنے ہاتھوں زہر کھانا شروع کر دیں تو خدائی قانون کے ماتحت وہ زہر اُن کا خاتمہ کر دیتی ہے.یہی وہ قوانین ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ اُس نے اپنی رحمت کے ہاتھ سے تم سے عذاب کو روک رکھا ہے اور اُسے کئی قسم کی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اس قانون سے فائدہ اٹھائو.اور خدائی احکام کو قبول کر کے اس کے شرعی عذاب سے اور قوانینِ نیچر کی اتباع کر کے اس کے طبعی عذاب سے بچو.اور خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام نعماء سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھائو.وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَحْيَاكُمْ١ٞ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ١ؕ اِنَّ اور وہی ہے جس نے تم کو زندہ کیا.پھر تم کو مارے گا.پھر تم کو زندہ کرے گا الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۰۰۶۷ انسان یقیناً بڑا نا شکر ا ہے.حلّ لُغَات.کَفُوْرٌ.کَفُوْرٌکَفَرَ سے نکلا ہے اور کَفَرَ نِعْمَۃَ اللّٰہِ کے معنے ہیں جَحَدَ ھَا وَسَتَرَھَا وَھُوَ ضِدُّ الشُّکْرِ.اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا اور ان کو چُھپا یا.اور کفر کا لفظ ان معنوں میں شکر کے مخالف معنے ادا کرنے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے.کلیات ابوالبقاء میں ہے.اَلْکُفْرُ تَغْطِیَۃُ نِعَمِ الْمُنْعِمِ بِالْجُحُوْدِ (اقرب).احسان کرنے والے کی نعمتوں کا انکار کرکے ان نعمتوں پر پردہ ڈالنا اور لوگوں سے چھپا نا کفر کہلاتا ہے.پس کَفُوْرٌ کے معنے ہوںگے ناشکری کرنےوالا خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کر نے والا.تفسیر.فرماتا ہے.خدا تعالیٰ انسان کو ہمیشہ ترقیات دیتا رہتا ہے اور ترقی کے بعد نافرمانی کی صورت میں تباہی بھی لاتا ہے تاکہ اس کا دل صاف ہو اور جب دل صاف ہو جاتا ہے تو پھر زندہ کر دیتا ہے مگر انسان خدا تعالیٰ کے سب احسان دیکھ کر بھی ناشکری میں لگا رہتا ہے.

Page 226

ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْسے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہی وقت میں مُمیت بھی ہوتا ہے اور مُحْي بھی.وہ مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے.اور ہر موت اپنے ساتھ ایک نئی حیات لاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو کھانے پینے کی چیزیں مرتی ہیں تو وہ مرکر کھاد جیسی قیمتی چیز پیدا کر دیتی ہیں.تم روٹی سے ایک روٹی کا کام لے سکتے ہو.مگر روٹی کے فضلہ سے دس روٹیاں پیدا کی جاتی ہیں.پس کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جس پر موت آئے مگر وہ حیات پیدا نہ کرے.نابینا انسان دیکھتا ہے تو کہتا ہے خدا مار رہا ہے.مگر آنکھوں والا جب دیکھتا ہے تو کہتا ہے خدا زندہ کر رہا ہے اور درحقیقت یہ آنکھ خدا تعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اُن کی جماعتوں کو ہی ملتی ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف موت کبھی نہیں آتی بلکہ اس کی طرف سے آنےوالی ہر موت زندگی کا پیغام اپنے ساتھ لاتی ہے.جنگ بدر میں بیشک مسلمانوں کے بھی کچھ آدمی مارے گئے.مگر کیا بدر کی جنگ ہی نہیں تھی جس نے عرب کو زندہ کر دیا اسی طرح جنگِ اُحد میں کچھ مسلمان مارے گئے اور کچھ جنگ احزاب میں کام آئے مگر انہی جنگوں کے نتیجہ میں جب اہل عرب میں اصلاح پیدا ہو گئی.تو اُن میں سے ہر ایک شخص کو زندگی کی رُوح نظر آنے لگی.پھر فتح مکّہ کے وقت بھی بعض موتیں ہوئیں لیکن اگر مکّہ فتح نہ ہوتا تو عرب کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کس طرح ممکن تھی.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان موتوں میں ہی عرب کی زندگی مخفی تھی.پس موت بسا اوقات حیات کا موجب ہو جاتی ہے.بشرطیکہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اپنی عملی زندگی میں تغّیر پیدا کریں.لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ ہم نے ہر ایک اُمت کے لئے ایک عبادت کا طریق مقرر کیا ہے جس کے مطابق وہ چلتی ہے.پس اس طریق فِي الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى (یعنی اسلام) کے متعلق وہ تجھ سے بحث نہ کریں( کیونکہ یہ خدا کا مقرر کردہ ہے) اور تو (انہیں )اپنے رب کی طرف مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۶۸ بُلا کیونکہ تُو سیدھے راستہ پر ہے.حلّ لُغَات.نَاسِکُوْہٗ.نَاسِکوہٗ نَسَکَ سے اسم فاعل نَاسِکٌ ہوتا ہے اور نَاسِکُوْنَ نَاسِکٌ سے جمع

Page 227

ہے.نَاسِکُوْہٗ میں ن گِرا ہوا ہے اور ہ ضمیر غائب ہے.نَسَکَ الرَّجُلُ نَسْکًا کے معنے ہیں تَزَ ھَّدَ وَتَعَبَّدَ وَتَقَشَّفَ اس نے خدا کی عبادت کی اور دنیا سے بے رغبت ہوگیا اور زینت کے سامانوں کو اُس نے چھوڑ دیا.اور جب نَسَکَ لِلّٰہِ کا فقرہ بولیں تو معنے ہوں گے.تَطَوَّعَ بِقُرْبَۃٍ وَذَبَحَ لِوَجْھِہٖ خدا کا قرب چاہنے کے لئے خوش دلی سے عبادت کی اور اُس کی ذات کے لئے قربانی کی ( اقرب) پس نَاسِکٌ کے معنے ہوںگے عباد ت کرنےوالا.خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنےوالا.مَنْسَکٌ.مَنْسَکٌ کے معنے ہیں شِرْعَۃُ النَّسْکِ عبادت کا طریقہ.قربانی کا طریقہ (اقرب ).یُنَازِعُ.یُنَازِعُ نَازَ عَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَازَعَہٗ مُنَازَعَۃً کے معنے ہیں خَاصَمَہٗ.اُس سے جھگڑا کیا ( اقرب) پس فَلَا یُنَا زِعُنَّکَ کے معنے ہوںگے وہ نہ جھگڑا کریں.تفسیر.فرماتا ہے.ہر مذہب والوں کے لئے کوئی نہ کوئی دین چاہیے.پس تیرے دین کے متعلق تیرے دشمنوں کے پاس جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں.اُن کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ تیرا دین اپنے رب کی طرف بلاتا ہے یا نہیں اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھاتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اور صاف طور پر کہتا ہے کہفَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا( الحج :۳۵) اے لوگو! تمہارا معبود ایک ہی ہے اُسی کی فرمانبرداری کرو اور وہ انہیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے.جیسا کہ ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتحۃ:۶) اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا.تو پھر ان کی دشمنی محض ان کی کینہ توزی پر دلالت کرتی ہے ورنہ جو شخص خدائے واحد کی طرف بلائے اور لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت کرے اُس سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.اُس سے جھگڑا اُسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کے وجود کاہی انکار کیا جائے یا یہ ثابت کیا جائے کہ صراط مستقیم کے بغیر بھی انسان اپنے مقصود کو حاصل کر سکتا ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ کی ہستی تسلیم کئے بغیر کوئی دین دین ہی نہیں کہلا سکتا اور صراط مستقیم پر چلنے کے بغیر کسی کامیابی کا حصول ہی ممکن نہیں تو دشمنوں کی لڑائی یہ تو ثابت کر سکتی ہے کہ اُن کے دل بغض و حسد کی آگ سے جل رہے ہیں مگر یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ کسی معقولیت کی بنا پر لڑائی کر رہے ہیں.ا س آیت میںاِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرما دی ہے کہ دنیا خواہ کس قدر مخالفت کرے آخر وہی تعلیم دنیا میں غالب آئے گی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش فرما رہے ہیں.اور تمام مذاہب کے جھنڈے ایک دن اسلامی جھنڈے کے مقابل میں سرنگوں ہو جائیں گے.چنانچہ دیکھ لو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 228

نے عقیدۂ توحید کو پیش کیا اُس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی.عیسائی تین خدائوں کے قائل تھے.زرتشتی نور اور ظلمت کے الگ الگ دیوتا قرار دیتے تھے.مجوسی آگ کی پرستش کر تے تھے.بتوں کے پجاری لات و منات کو اپنا خدا قرار دے رہے تھے اور تمام دنیا شرک سے بھری ہوئی تھی مگر آج اسلام کی پیش کردہ توحید دنیا پر اس قدر غالب آچکی ہے کہ عیسائی بھی اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں اور بُتوں کے پجاری بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے یہ بُت محض ایک واسطہ ہیں جن کے ذریعہ الٰہی دربار تک پہنچا جا تا ہے.حالانکہ جب اسلام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خدا ایک ہے تو اس وقت مکّہ کے لوگوں کو اس دعویٰ پر اس قدر حیرت ہوئی تھی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کرد یا تھا کہ اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ( ص:۶ ) یعنی کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے.یہ تو بڑی عجیب بات ہے جو کبھی سُنی نہیں گئی.گویا انہوں نے یہ سمجھا کہ معبود تو کئی ہیں مگر یہ شخص جو ایک خدا کہتا ہے تو شائد اس نے سب معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک معبود بنا دیا ہے مگر اب ساری دنیا اسلامی توحید کو اپنا رہی ہے اور مشرک قومیں بھی شرک کرنے کے باوجود توحید کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتیں.یہی حال دوسرے مسائل کا ہے.یورپ ایک بڑی مدت تک اسلامی مسائل پر اعتراض کرتا رہا.مگر اب وہاں کے بعض اچھے تعلیم یافتہ اوراعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں وہی باتیں جو پہلے اسلام کے خلاف سمجھی جاتی تھیں اب اُس کی صداقت کا ثبوت سمجھی جانے لگی ہیں.میں جب اپنے علاج کے سلسلہ میں لنڈن گیا تو میرے وہاں پہنچنے سے چند دن پہلے وہاں کا ایک مشہور میوزیشن جو لنڈن کے ایک بہت بڑے اوپیرا میں کام کرتا اور پیانو وغیرہ بجاتا ہے اس کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا ہوئی.اور مجھے وہاں کے مبلغین نے بتا یا کہ اس شخص کی اسلام کی طرف رغبت کی ایک عجیب وجہ ہے جو عام وجوہات سے بالکل اُلٹ ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دماغوں میں تغیر پیدا کر رہا ہے.کوئی زمانہ ایسا تھا کہ اسلام کے راستہ میں سب سے بڑی روک تعدد ازواج کا مسٔلہ سمجھا جاتا تھا اور یورپ کے لوگ اصرار کرتے تھے کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سخت ظلم ہے مگر اب یہ حالت ہے کہ جب اس کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو وہ پہلے بعض اور مسلمانوں کے پاس گیا اور اُس نے اُن سے پوچھا کہ اسلام کا تعدد ازواج کے متعلق کیا خیال ہے.انہوں نے کہا توبہ توبہ یہ بات تو دشمنوں کی طرف سے سخت بگاڑ کر پیش کی جاتی ہے اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں.یہ تو خاص خاص مجبوریوں اور شرطوں اور قیدوں کے ساتھ اجازت دی گئی ہے اُس نے بتا یا کہ انہوں نے جب مجھے یہ جواب دیا تو میں جھٹ کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ مجھے تو اسلام میں یہی ایک خوبی نظر آئی ہے اور تم کہتے ہو کہ اس کے ساتھ کئی قسم کی قیدیں اور شرطیں ہیں.میں تو وہاں جانا چاہتا ہوں جہاں مجھے سیدھی طرح بتا یا جائے کہ اسلام اس

Page 229

کی اجازت دیتا ہے.چنانچہ اس کے بعد وہ ہمارے پا س آیا اور اُ س نے پوچھا کہ اس بارہ میں اسلام کا کیا حکم ہے ؟ ہمارے مبلّغین نے بتایا کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے مگر اُس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ تم انصاف سے کام لو اور ہر بیوی کا حق ادا کرو.وہ کہنے لگا یہ بات درست ہے اور میری عقل اسے تسلیم کرتی ہے.مَیں سمجھتا ہوں کہ یورپ نے اس تعلیم کو چھوڑ کر بہت کچھ کھویا ہے اور ہم نے اپنے اخلاق بگاڑ لئے ہیں.اس لئے اب مَیں آپ کے پاس ہی آیا کروںگا.چنانچہ وہ خو د بھی مجھے ملا اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ہمارے گھر لایا.اسی طرح ایک جرمن عورت جو مسلمان ہو چکی تھی میرے پا س آئی.اُس نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ جنرل نجیب نے مجھے سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس بھیجا تھا اور اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کے ساتھ شادی کر لو.میں نے کہا.شکر کرو تم بچ گئیں کیونکہ اُن کی تو بہت سی بیویاں ہوتی ہیں ،وہ کہنے لگی ساری بیویاں نہیں ہوتیں.اصلی بیوی ایک ہی ہوتی ہے.باقی سب داشتہ ہوتی ہیں.پھر کہنے لگی جب اسلام نے مسلمانوں کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے اور مَیں بھی مسلمان ہو گئی ہوں تو مجھے ایک سے زیادہ بیویوں پرکیا اعتراض ہو سکتا ہے.پھر وہ کہنے لگی میری کئی دفعہ پادریوں سے گفتگو ہوئی ہے ایک دفعہ ایک پادری نے تعدد ازواج کے خلاف تقریر کی تو میں نے کہا.تم بڑے بیوقوف ہو.عورت تو مَیں ہوں سوکن مجھ پر آنی ہے یا تم پر آنی ہے.مجھے تو سوکن آنے پر کوئی اعتراض نہیں اور تم خواہ مخواہ چڑتے ہو.میں تو اسلام کے اس حکم کو غنیمت سمجھتی ہوں کیونکہ اسلام نے گو مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ایک جیسا کھانا کھلائو.ایک جیسے کپڑے دو اور ایک جیسا مکان دو.جب یہ چیز موجود ہے تو عورتوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ہم کورٹ شپ کے بعد شادی کرتے ہیں مگر دو سال تک کورٹ شپ کرنے کے باوجود پھر بھی لڑائی ہو جاتی ہے.اگر تّعدد ِ ازواج کی صورت میں میرا خاوند مجھ سے لڑےگا تو اتنا تو ہوگا کہ ایک مکا ن میرا ہوگا اور اُس کے ساتھ ہی دوسرا مکان میری سوکن کا ہوگا اور اس کے ساتھ تیسرا مکان میری تیسری سوکن کا ہوگا.میں شام کے وقت خاوند کا بازو پکڑوںگی اور اُسے دوسرے گھر میں دھکیل دوںگی اور کہوںگی کہ سار ا دن میں نے تیرا منحوس مُنہ دیکھا ہے اب دوسری بیوی تیرا مُنہ دیکھے.اگر یہ ہوتا کہ کورٹ شپ کی وجہ سے ہماری کبھی لڑائی ہی نہ ہوتی تو پھر تو کوئی بات بھی تھی لیکن جب ہماری بھی لڑائیاں ہو تی ہیں تو پھر اسلام کی اس اجازت سے اتنا تو فائد ہ ہو سکتا ہے کہ جب خاوند کی عورت سے لڑائی ہو تو وہ اُس کا بازو پکڑ کر اُسے دوسری بیوی کے گھر میں دھکیل دے اور خود اُس کا غصّے والا چہر ہ سارا دن نہ دیکھتی رہے.میں نے یہی واقعہ اُس میوزیشن کو سنا یا تو وہ کہنے لگا آپ وہاں کی بات کرتے ہیں میں لنڈن میں دس ہزار

Page 230

عورت ایسی دکھا سکتا ہوں جو ا س بات کے لئے تیار ہے کہ مرد اگر انصاف سے کام لیں تو بیشک وہ کئی شادیاں کر لیں.مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اخلاق اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اچھے خاوند میسر نہیں آتے.اب دیکھو یہ کتنا بڑا تغّیر ہے جو ان میں پیدا ہو رہا ہے.اسی طرح کئی لوگ مجھے ملے جنہوں نے کہا کہ ہم نے بیس بیس تیس تیس سال سے شراب نہیں پی کیونکہ ہم اسے بُرا سمجھتے ہیں.اسی طرح پہلے پردہ پر اعتراض کیا جا تا تھا مگر اب خود یورپ میں ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو پردہ کی ضرورت کو تسلیم کر تے ہیں.بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب میں یورپ گیا تو وہی میوزیشن جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اُس نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کا دیباچہ تفسیر القرآن پڑھا ہے جس سے میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہو ا ہے.میں نے کہا فرمائیے کیا شبہ پیدا ہوا ہے.کہنے لگا اس کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد میں عبادت کے لئے بیٹھے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ سے ملنے کے لئے آگئیں چونکہ واپسی کے وقت رات ہوگئی تھی اس لئے آپ اپنی بیوی کو گھر پہنچانے کے لئے ساتھ چل پڑے.راستہ میں آپ کو ایک آدمی ملا اُسے دیکھ کر آپ کو شبہ ہوا کہ کہیں اسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور یہ خیال نہ کرے کہ مَیں کسی اور کو ساتھ لئے جا رہا ہوں.چنانچہ آپ نے اپنی بیوی کے مُنہ پر سے نقاب اٹھا دی اور اُسے کہا کہ دیکھ لو یہ میری بیوی ہے ( بخاری کتاب الاعتکاف باب ھل تخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد) وہ کہنے لگا جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میرے دل میں اعتراض پیدا ہوا کہ پرد ہ تو اسلام کے نہایت اعلیٰ درجہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے.اور یہ پاکیزگی کی جان ہے.اگر کوئی بد بخت شخص ایسا تھا جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو دیکھ کر بھی شبہ پیدا ہوا تو وہ بیشک جہنم میں جاتا.اس کی کیا حیثیت تھی کہ محض اس کا ایمان بچانے کے لئے اپنی ایک بیوی کے مُنہ پر سے پردہ اٹھا دیا جاتا.جس شخص نے اتنی مدت دراز تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کو دیکھا آپ کی قربانیوں کو دیکھا.آپ کے ایمان کو دیکھا آپ کے اخلاص کو دیکھا آپ کی محبت الٰہی کو دیکھا اور پھر بھی اس کے دل میں شبہ پیدا ۂوا.وہ بدبخت اگر مرتا تھا تو بے شک مرتا اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ آپ اپنی کسی بیوی کے مُنہ پر سے نقاب اُٹھا دیتے.مَیں نے اُسے کہا آخر آپ کو یہی اعتراض ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹی چیز کے لئے بڑی چیز کو کیوں قربان کر دیا.بیشک اُس کا ایمان بھی ایک قیمتی چیز تھی مگر بہرحال وہ ایک کمزور انسان کا ایمان تھا کیونکہ اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی پر شک کیا اُس شخص کے ایمان کے بچانے کے لئے اپنی ایک بیوی کا پردہ اُٹھا دینا ایک بڑی چیز کو چھوٹی چیز کے لئے قربان کر دینا ہے.کہنے لگا ہاں میرے دل میں یہی شبہ پیدا ہوا ہے.مَیں نے کہا تو پھر اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ

Page 231

تسلیم کرتے ہیں کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کے لئے قربان کر دینا چاہیے.مگر اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس مخصوص واقعہ کو دیکھا جائے تو اس میں اُس شخص کا ایمان بچا نا بڑا کام تھا اور بیوی کے مونہہ سے نقاب اُلٹ دینا چھوٹی بات تھی.کہنے لگا کس طرح ؟ میں نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ پردہ کا حکم پہلی شریعتوں میں نہیں تھا.اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ پردہ کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں نازل ہوا ہے.تیرہ سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں رہے اور پردہ کا حکم نازل نہ ہواپھر مدینہ تشریف لائے تو وہاں بھی چار پانچ سال تک پردہ کا حکم نہیں اُترا.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوٰئے نبوت کے بعدجو تیٔیس سالہ زندگی گذری ہے اُس میں سے سترہ اٹھارہ سال تک آپ کی بیویوں نے پردہ نہیں کیا.اور جب پردہ کاحکم مدینہ آنے کے بھی چار پانچ سال بعد نازل ہوا ہے تو تمہیں یہ ماننا پڑےگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بیوی کو قریباً ہر صحابی نے دیکھا ہوا تھا.اب بتائو جس بیوی کو وہ سو دفعہ پہلے دیکھ چکا تھا اگر ایک موقعہ پر اُس کا ایمان بچانے کے لئے آپ نے اپنی اُس بیوی کا نقاب اٹھا دیا تو اس میں کیا حرج ہوا.وہ آپ کی بیویوں کو جوانی کی حالت میں دیکھ چکا تھا.اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں اس عمر میں اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کے مونہہ سے نقاب اُلٹ دیا تو چاہے وہ کتنا ہی کمزور ایمان والا شخص ہو اس کے ایمان کو بچانے کے لئے آپ کا تھوڑی دیر کے لئے نقاب اُلٹ دینا بالکل بے حقیقت بات تھی کیونکہ اُس بیوی کو اُس نے جوانی کی حالت میں بھی دیکھا ہوا تھا اور اب وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں.جوانی میں سو دفعہ دیکھنے والے شخص کے سامنے اگر آپ نے بڑی عمر میں اپنی ایک بیوی کے مونہہ سے اُس کا ایمان بچانے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے پردہ اٹھا دیا تو آپ نے بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان نہیں کیا بلکہ چھوٹی چیز کوبڑی چیز کے لئے قربان کیا.اس جواب سے وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا اب میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے.اب غور کرو یہ کتنا بڑا تغیر ہے کہ یا تو یہ کہا جاتا تھا کہ چونکہ اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اس لئے جھوٹا ہے.اور یا یہ کہا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت ایک شخص کا ایمان بچانے کے لئے اپنی بیوی کے مونہہ پر سے ایک منٹ کے لئے بھی نقاب کیوں اُتارا؟ ڈسمنڈشا انگلستان کے بہترین مصنفوں میں سے ہے کم ازکم وہ خود اپنے آ پ کو ایچ.جی ویلز سے بھی بڑا سمجھتا ہے.وہ مجھے ملا تو کہنے لگا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ امن پھیلانے والا جو نبی آیا اُس کو لڑائی کرنے والا نبی کہا جاتا ہے اور پادری اُس پر اعتراض کرتے ہیں.پھر وہ کہنے لگا شاید آپ مجھے پاگل قرار دیں گے کہ عیسائی ہو کر مَیں ایسی باتیں کرتا ہوں.یہ ٹھیک ہے کہ میں عیسائی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح ناصری سے بڑے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 232

جو اعلیٰ تعلیم دنیا میں لائے وہ مسیح ناصری نہیں لائے.آپ حیران ہو ں گے کہ میں عیسائی ہو کر ایسی بات کر رہا ہوں لیکن میں سچی بات کا انکار کیسے کر سکتا ہوں.پھر جب میں اُسے رخصت کر کے اپنے کمرے کی طرف آیا تو مجھے محسوس ہو اکہ کوئی شخص میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے.میں نے مُڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آرہا تھا.کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں.میں نے کہا کیا سوال ہے.کہنے لگا جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی تھے تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے.مگریہ عیسائی لوگ پھر بھی نہیں مانتے.میں نے کہا مسٹر ڈسمنڈشا! یہ لوگ صرف تمہاری آواز سُنتے ہیں.خدا تعالیٰ کی آواز نہیں سُنتے.لیکن جب یہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی آواز سُننے لگ گئے اور خدا تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی بولا تو اِن پر بھی اثر ہو جائےگا.اور یہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قائل ہوجائیں گے اس پر اُس کی تسلی ہو گئی.غرض اللہ تعالیٰ نےاِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا یہ ثبوت پیش کیا ہے کہ دنیا ہزار انکار کرے وہ زمانہ کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آخراس تعلیم کی طرف آئےگی.جو تیری طرف سے پیش کی جارہی ہے کیونکہ توسیدھے راستہ پر قائم ہے اور لوگ ضلالت اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں.وَ اِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰۶۹اَللّٰهُ اور اگر وہ تجھ سے بحث کریں تو کہہ دے کہ اللہ (تعالیٰ) تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے.اللہ (تمہارے اور يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ میرے درمیان) قیامت کے دن اُن اُمور میں فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف رکھتے ہو.(اے محمد ؐرسول اللہ !) تَخْتَلِفُوْنَ۰۰۷۰اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَآءِ وَ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ (تعالیٰ) ہر چیز کو جو آسمان اور زمین میں ہے جانتا ہے.یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ۰۰۷۱وَ ہوا موجود ہے.اور اس طرح (کسی قانون کو محفوظ) کر دینا اللہ( تعالیٰ) کے لئے آسان ہے.اور وہ لوگ اللہ( تعالیٰ)

Page 233

يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ مَا کے سوا اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کے لئے اُ س نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور جن کے متعلق ان کو لَيْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ۰۰۷۲ کسی قسم کا کوئی علم حاصل نہیں.اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا.حلّ لُغَات.جَادَلُوْا.جَادلُوْاجَادَلَ سے جمع مذکر کا صیغہ ہے اور جَادَلَہٗ کے معنے ہیں خَاصَمَہٗ شَدیدًا.اُس کے ساتھ سختی سے لڑائی کی ( اقرب )پس جٰدَلُوْكَ کے معنے ہوں گے.اگر تیرے مخالف تیرے ساتھ سختی سے لڑائی اورجھگڑا کریں.یَسِیْرٌ.اَلْیَسِیْرُ کے معنے ہیں اَلْھَیِّنُ.آسان.اَلْقَلِیْلُ.تھوڑا ( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.اگر وہ کج بحثی سے کام لیں اور باوجو ددلائل بیان کر دینے کے اور سیدھا راستہ دکھادینے کے جھگڑیں.تو تُو انہیں کہہ دے کہ اگر دین کی تعلیم سے تم ہدایت نہیں پاتے تو انجام کا انتظار کرو.اور دیکھو کہ عالم الغیب خدا کس کی مدد کرتا ہے.پھر مشرکین کے خلاف تین دلائل دیتا ہے.اوّل یہ کہيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا.وہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن چیزوں کی پرستش کرتے ہیں اُن کی پرستش کے متعلق وہ سابق الہامی کتابوں میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے محض اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید میں اُن کی عبادت کرتے چلے جاتے ہیں.دوم.دوسرے یہ کہ وَّ مَا لَيْسَ لَهُمْ بِهٖ عِلْمٌ اُن معبودوں کے متعلق وہ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر بھی کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں.حالانکہ جب یہ معاملہ اُن کی اُخروی نجات کے ساتھ تعلق رکھتا تھاتو اُن کا فرض تھا کہ وہ محض دوسروں کی سُنی سُنائی باتوں کے پیچھے نہ چل پڑتے بلکہ اُن کے متعلق ذاتی تحقیق اور غورو فکر سے بھی کام لیتے.مگر انہوں نے سُنی سُنائی باتوں پر اکتفا کر لیا اور ذاتی بصیرت سے کام نہ لیا.سوم.تیسرے یہ کہ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍمشرکین کا جب بھی موحدین سے مقابلہ ہو جائے.مشرک لوگ الٰہی مدد سے محروم رہتے ہیں اور اس طرح ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ ایک غلط راستے پر جا رہے ہیں.

Page 234

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِ اور جب اُن کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں تو تُو منکروں کے چہروں میں (صاف صاف) الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ١ؕ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ بِالَّذِيْنَ ناپسندیدگی (کے آثار) دیکھتا ہے.قریب ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں پر حملہ کردیں جو اُن کو ہماری آیتیںپڑھ کر يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا١ؕ قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ سُنا رہے ہوتے ہیں توکہہ دے کیا میں تم کو اس حالت سے بھی ایک بُری حالت کی خبردوں (اور وہ) جہنم ذٰلِكُمْ١ؕ اَلنَّارُ١ؕ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِيْرُؒ۰۰۷۳ (میں پڑنا) ہے.اللہ (تعالیٰ) نے اُس کا وعدہ منکروں سے کیا ہے اور وہ بُراٹھکا نہ ہے.حلّ لُغَات.اَلْمُنْکَرُ اَلْمُنْکَرکے معنے ہیں مَالَیْسَ فِیْہِ رِضَی اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ.یعنی ہر وہ بات یا فعل جس میں خدا تعالیٰ کی رضا نہ ہو.اور اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہو اسے منکر کہتے ہیں ( اقرب) یَسْطُوْنَ.یَسْطُوْنَ سَطَاسے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور سَطَا عَلَیْہِ ( یَسْطُوْ) کے معنے ہوتے ہیں صَالَ عَلَیْہِ وَوَثَبَ.اُس پرکود کر حملہ کیا.وَقِیْلَ قَھَرَہٗ بِالْبَطْشِ اَوْ بَسَطَ عَلَیْہِ بِقَھْرِہٖ مِنْ فَوْقٍ (اقرب) اور بعض علماء لغت کہتے ہیں کہ سَطَا کے معنوں کے اندر یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ کسی پر سخت گرفت کرکے اُس کو دبانے کی کوشش کی یا اس پر دبائو ڈال کر اُس کو کمزور کر نےکی کوشش کی.پس یَسْطُوْنَ کے معنے ہوںگے (۱) وہ حملہ کرتے ہیں (۲) یا وہ ہر قسم کا دبائو ڈال کر مومنوں کو تبلیغ سے روکنا چاہتے ہیں.اَلْمَصِیْرُ اَلْمَصِیْرُکے معنے ہیں.جانے کی جگہ ( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے جو لوگ شرارتی ہوتے ہیں حق بات سُن کر اُن کو غصہ آجاتا ہے اور وہ مومنوں پر حملہ کرنے لگ جاتے ہین اور ہر قسم کا دبائو ڈال کر انہیں تبلیغ سے روکنا چاہتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ حق بات کو ماننا خود ان کے فائدہ کا موجب ہے.اور اگر وہ اسے نہیں مانیں گے تو دُکھ پائیں گے.وہ صرف جوش میں فتنہ و فساد پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور مومنوں کو دکھ دینا شروع کر دیتے ہیں.

Page 235

چنانچہ دیکھ لو بانی سلسلہ احمدیہ نے جب یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوسرے تمام انبیاء کی طرح وفات پا چکے ہیں تو کس طرح سارے ہندوستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک آگ لگ گئی اور مخالفت کا ایک طوفان اُمڈ آیا.علماء اپنے بستے کھول کر بیٹھ گئے اور لکھتے لکھتے اُن کی قلمیں گھس گئیں.اور تقریریں کرتے کرتے اُن کی زبانوں پر آبلے پڑ گئے.انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کو کافر اور اکفر اور دجّا ل اور ضال اور مضل کہنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور عرب تک کے علماء سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگوایا.مگر نتیجہ کیا ہوا ہر دن جو نیا چڑھا اُس میں اُن کے چند ماننے والے اگر احمدی نہیں ہوئے تو حیاتِ مسیح کا انکار ضرور کرنے لگ گئے اور آج یہ کیفیت ہے کہ نئے تعلیم یافتہ آدمیوں میں سے ایک بھی حیاتِ مسیح کا قائل نظر نہیں آئے گا بلکہ عام طور پر مسلمانوں سے اس مسٔلہ پر گفتگو کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس مسٔلہ میں رکھا ہی کیا ہے چلو اسے چھوڑو.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل اس مسٔلہ کی صداقت کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں.اسی طرح جب بانی سلسلہ احمدیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ملک میں اپنے انبیاء مبعوث فرمائے ہیں تو ساری دنیا میں ایک آگ لگ گئی اور لوگوں نے کہا.دیکھو یہ رام اور کرشن کو بھی نبی قراردے کر کافروں کو خدا کا رسول قرار دیتا ہے لیکن آج شدید ترین مخالف بھی اس مسٔلہ کی صحت کو تسلیم کر چکے ہیں.اور مخالف اخبارات میں اس بات پر کئی دفعہ مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں کہ اسلام پہلے انبیاء کی صداقت کا بھی قائل ہے خواہ وہ یہودیوں کی طرف آئے ہوں یا ہندوؤں اور زرتشتیوں وغیرہ کی طرف آئے ہوں.اسی طرح بانی سلسلہ احمدیہ نے جب قرآن کریم کے کامل ہونےکا دعویٰ پیش کیا اور بتایا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو علماء کہلانے والے اتنے جوش میں آگئے کہ اُن کے مونہوں سے جھاگ اور اُن کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگ گئے.مگر آج علماء یا اُن عوام سے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں پوچھ کر دیکھ لو.وہ قرآن مجید کی تمام آیتوں سے استدلال کریں گے اور کسی آیت کے منسوخ ہونے کا نام بھی نہیں لیں گے.یہی کیفیت ہر زمانہ میں رہی ہے جب بھی خدا تعالیٰ کا کوئی نبی دنیا میں آیا اور اس نے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا.لوگوں نے اُس کی مخالفت شروع کر دی اور اُسے سخت سے سخت اذیتیں پہنچائیں.مگر آخر دنیا کو وہی تعلیم ماننی پڑی جو خدا تعالیٰ کے انبیاء کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور انہیں اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی.مخالفین کے اس معاندانہ رویہ کا اللہ تعالیٰ اس آیت میں ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب مخالفین کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں تو تُو منکروں کے چہروں میں ناپسندیدگی کے آثار دیکھتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں پر حملہ کر دیں جو انہیں ہماری آیات سُناتے ہیں.

Page 236

کیونکہ دلائل وبراہین اور عقل و نقل کے میدان میں اُن کا عجز ظاہر ہوتا ہے.و ہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان لوگوں پر دلیل کے ساتھ تو غالب نہیں آسکتے.ہمارے غلبہ کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ڈنڈا اٹھا لیں.اور ان لوگوں کا سر پھوڑنا شروع کر دیں جو ہمیں اپنے عقائد سے منحرف کرنا چاہتے ہیں.مگر مومن اُن کے مظالم پر صبر سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہی سُنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پہلے ابتلائوں کے دریائوں میں سے گذارتا ہے اور پھر انہیں اپنے قرب سے نوازتا ہے.آج تک دُنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جس کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے سخت سے سخت ابتلائوں میں ڈال کر اس کا امتحان نہ لیا ہو.یا مصائب کی بھٹی میں ڈال کر اُسے صاف نہ کیا ہو.جب اللہ تعالیٰ کے بندوں نے اپنے خون سے یا اپنے مال اور اپنے وطن اور اپنے عزیز و اقرباء کی قربانی سے اپنے صدق پر مہر لگائی تب انہیں خدا تعالیٰ کے حضور عزت بخشی گئی.اور وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوئے اور آخرت میں بھی انہیں بلند درجات عطا کئے گئے.پس مخالفین کی اذیتوں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہیے.تمام دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور وہ جب چاہے اُن کو ہدایت دے سکتا ہے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ غزوۂ حنین میں مکّہ کا ایک مخالف شخص جس کا نام شیبہ تھا مسلمانوں کی طرف سے اس ارادہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گیا کہ جب دونوں لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقعہ پا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوںگا جب لڑائی تیز ہوئی اور دشمنوں کی تیر اندازی کی وجہ سے اسلام لشکر میں بھاگڑ مچ گئی اور ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف چند صحابہ ؓ رہ گئے تو شیبہ نے تلوار کھینچی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا وہ خود کہتا ہے کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہے اور اگر میں اور قریب ہوا تو وہ شعلہ مجھے بھسم کر کے رکھ دےگا اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا شیبہ اِدھر آئو.جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا اورفرمایا.اے خدا! شیبہ کو ہر قسم کے شیطانی خیالات سے نجات عطا فرما وہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھیرنا تھا کہ خدا کی قسم میرے دل سے آپ کی ساری دشمنی اور عداوت جاتی رہی اور میرا دل آپ کی محبت سے بھر گیا.پھر آپ نے فرمایا شیبہ اَب آگے بڑھو اور دشمن سے لڑو.تب میں آگے بڑھا اور میں نے دشمن سے لڑنا شروع کر دیا میرے دل میں اُس وقت سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچائوں اور خدا کی قسم اگر اُس وقت میراباپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو میں اس کا سر اتارنے سے بھی دریغ نہ کرتا.(السیرۃ الحلبیۃ

Page 237

باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ حنین)پس مخالفتوں پر صبر اور دُعائوں سے کام لینا چاہیے.اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دینا چاہیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو باوجود اس کے کہ مکہ والوں نے آپ کا مقابلہ کیا اور آپ کی تعلیم پر ہنسی اُڑائی پھر بھی آپ مایوس نہیں ہوئے.بلکہ آپ نے تبلیغ کے کام کو برابر جاری رکھا.آپ کا طریق تھا کہ جہاں بھی آپ کو کچھ آدمی اکٹھے بیٹھے نظر آتے آپ اُن کے پاس پہنچ جاتے اور فرماتے کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو مَیں آپ کو کچھ خدا کی باتیں سُنا ئوں.چونکہ مکہ والوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ یہ شخص نعوذ باللہ پاگل ہو گیا ہے اس لئے جب آپ اُن کے پاس جاتے تو وہ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے کہ یہ پاگل ہے اور آہستہ آہستہ وہاں سے کھِسک جاتے.کئی لوگ آپ کے سر پر مٹی ڈال دیتے.کئی آپ سے تمسخر اور استہزا ء سے پیش آتے.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر ما لقی رسول اللہ من قومہ)مگر آپ برابر رات اور دن اُن کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے اور آخر اُنہی میں سے ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں.پس استقلال کے ساتھ تبلیغ میں مشغول رہنا اور دعائوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت کو کھینچنا یہی کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے.جب تک کسی قوم میں اس قسم کی دیوانگی پیدا نہ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ اے لوگو! ایک بات تمہیں بتائی جاتی ہے تم اُسے غور سے سُنو.تم جن کو اللہ (تعالیٰ) کے سوا پکارتے ہو وہ ایک تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا مکھی بھی پیدا نہیں کر سکیں گے خواہ سب کے سب جمع ہو جائیں بلکہ اگر ایک مکھی اُن کے آگے سے کوئی چیز لَهٗ١ؕ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ۠ اُچک کر لے جائے تو وہ اُس چیز کو( بھی) چھڑا نہیں سکتے.یہ دعائیں مانگنے والا (بھی) اور جس سے دعائیں مانگی مِنْهُ١ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ۰۰۷۴ جاتی ہیں( وہ بھی) کتنے کمزور ہیں.حلّ لُغَات.اَلذُّبَابُ اَلذُّبَابُکے معنے مکھی کے ہیں.یہ لفظ شہد کی مکھی اور بِھڑوں پر بھی بولا جاتا ہے.

Page 238

اسی طرح اس کے معنے ہیں.اَلْبَعُوْضُ بِاَ نْوَاعِہٖ.یعنی ہر قسم کا مچھر.(اقرب) تفسیر.اس جگہ اللہ تعالیٰ ایک نہایت زبردست دلیل شرک کے رد میں اور مشرکوں کی تباہی کی تائید میں پیش کرتا ہے.فرماتا ہے کہ خدا کے سوا جو معبود ہیں انہوں نے تو کبھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کی بلکہ اگر سب کے سب معبود جمع ہو جائیں تب بھی وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے.اور اگر مکھی اُن کے کھانے میں سے کچھ اُٹھا کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے.پس عبادت کرنے والا اور معبود دونوں ہی کتنے کمزور ہیں.اس آیت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کا یہ کہنا نہایت تعجب انگیز ہے کہ حضرت مسیح ؑپرندے پیدا کیا کرتے تھے.قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ سارے معبود مل کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے.اور ہمارے مفسر فرماتے ہیں کہ اکیلے مسیح ؑ نے بہت سے پرندے پیدا کئے تھے.بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک دفعہ ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ پرندے پیدا کیا کرتے تھے ،تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں اُن میں سے کچھ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوںگے اور کچھ مسیح ؑ کے.کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کون سے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے مسیح ؑ کے.اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے ’’ اے تے ہُن مشکل ہے.اوہ دونوں رَل مِل گئے نے ‘‘ یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے.خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پرندے اور مسیح ؑ کے پیدا کردہ پرندے آپس میں مِل جُل گئے ہیں.اور اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے.مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۰۰۷۵ ان لوگوں نے اللہ( تعالیٰ کی صفات )کا صحیح اندازہ نہیں لگا یا.اللہ( تعالیٰ) تو یقیناً بڑی طاقت والا (اور) بڑا غالب ہے.حل لغات.قَدَرَ اللّٰہَ قَدَرَ اللہَ کے معنے ہیں عَظَّمَہٗ.اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی ( اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کر تے ہیں انہوں نے خدائی صفات کا کبھی پورا اندازہ نہیں کیا.اور یہی وجہ اُن کے ٹھوکر کھانے کی ہے چنانچہ دیکھ لو جو لوگ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں یا وہ لوگ جو بعض اور ذرائع کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں اُن کے اس عقیدہ کی نبیاد ہی اس امر پر ہے کہ ان کا دماغ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ ایک ایسی ہستی بھی ہے جو سب دنیا کو دیکھ رہی ہے اور سب لوگوں کی آوازوں کو سُن رہی ہے.

Page 239

وہ خیال کرتے ہیں کہ بعض ایسے درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے جن میں خدائی طاقتیں تقسیم ہوں اور جو اپنی اپنی جگہ اُن طاقتوں کو استعمال کر رہے ہوں اس دھوکا کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ اپنی طاقتوں کے لحاظ سے کیا.اور خدائی طاقتوں کا انسانی طاقتوں پر قیاس کر لیا انہوں نے دیکھا کہ انسان جب ایک طرف نگا ہ کرتے ہیں تو دوسری طرف کی چیزیں انہیں نظر نہیں آتیں.پس انہوں نے خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ کی نظر بھی محدود ہے.پھرجب انسانوں نے دیکھا کہ ہم ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتے تو خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ بھی ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سن سکتا.غرض انسانی طاقتوں پر خدائی طاقتوں کا جب انہوں نے قیاس کیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے بعض شریک مقرر کریں.اسی خیال کے نتیجے میں بعض فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کلی علم ہے.جزئی نہیں.یعنی اُسے یہ تو پتہ ہے کہ انسان روٹی کھایا کرتا ہے مگر اُسے یہ پتہ نہیں کہ زیداس وقت روٹی کھا رہا ہے.اُسے یہ تو علم ہے کہ انسانوں کے گھروں میں بچے پیدا ہوا کرتے ہیں مگر اُسے یہ علم نہیں کہ اس وقت زید یا بکر کے گھر میں بچہ پیدا ہورہا ہے.اب اس خیال کی نبیاد اسی امر پر ہے کہ انسان اپنی محدود طاقتوںسے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ لگا تا ہے.مگر آج دیکھو وہ کمزور انسان جو خدا تعالیٰ کی طاقتوں کو گِرا رہے تھے انہیں خدا نے کہا کہ تم ہماری طاقتوں کا تو اندازہ ہی نہیں لگا سکتے آئو میں تمہاری اپنی طاقتوں کو اُبھارتا ہوں اور تمہیں بتا تا ہوں کہ تم اپنی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچا سکتے ہو.اور تم کتنی دُور دُور کی آواز بخوبی سُن سکتے ہو.چنانچہ اُس نے وائر لیس ایجاد کروا کے بتا دیا کہ جب تمہاری جیسی ذلیل اور حقیر ہستی ساری دنیا کی آوازیں وائر لیس کے ذریعہ سُن سکتی اور ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا سکتی ہے تو کیا وہ خدا جو تم کو پیدا کرنے والا ہے وہ تمہاری آواز یں نہیں سُن سکتا ؟آج جب انگلستان کا ایک ڈوم یا میراثی یا ایک گانے والی کنچنی ساری دُنیا میں اپنی آواز پہنچا رہی ہوتی ہے تو فضا کی ہر حرکت اور آواز کی ہر جنبش یورپ کے فلسفیوں پر قہقے لگا رہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کمبختو ! اب بتا ئو کیا خدا تعالیٰ ساری دنیا کی آوازیں نہیں سُن سکتا ؟ اسی طرح اب بڑی بڑی دُور بینیں نکل چکی ہیں جن سے لاکھوں میل دور کے سیاروں کی حرکات کا بھی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے اور اب تو وائر لیس نے ترقی کرتے کرتے یہ صورت اختیار کر لی ہے کہ شکلیں بھی دُور دُور تک دکھا دی جاتی ہیں غرض وہ جو واہمہ پیدا ہو گیا تھا کہ خدا کس طرح ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور کس طرح ساری دنیا کی آوازیں سُن سکتا ہے اس ترقی نے اسے دُور کر دیا اور بتا دیا کہ جب معمولی انسان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قابلیت رکھی ہے کہ وہ اپنی آواز تمام دنیا کو سنا سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کنارے کے آدمی کی بات کو با ٓسانی سن سکتا ہے اور نہ صرف آواز سن سکتا ہے بلکہ اُس کی شکل بھی دیکھ سکتا ہے تو کیا خدائے ذوالجلال جس

Page 240

کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا اور ہر شخص کی آواز کو نہیں سُن سکتا ؟ اور جب وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر شخص کی آواز کو سُنتاہے تو اُس کے لئے کسی اور مدد گار خدا کی کیا ضرورت رہی ؟ وہ اکیلا ہی ساری دنیا پر حاوی ہے اور اکیلا ہی سب پر حکومت کر رہا ہے.غرضمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس بنیادی غلطی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ انسانی طاقتوں پر قیاس کر کے خدائی طاقتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس طرح شرک جیسے گندے عقیدے میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ اللہ (تعالیٰ) فرشتوں میں سے اپنے رسول منتخب کرتا ہے اور (اسی طرح) انسانوں میں سے (بھی) اللہ( تعالیٰ) بہت سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌۚ۰۰۷۶ (دعائیں) سُننے والا (اورحالات کو )بہت دیکھنے والا ہے.حلّ لُغَات.یَصْطَفِیْ.یَصْطَفِی اِصْطَفٰی سے مضارع کا صیغہ ہے اور اِصْطَفَاہُ کے معنے ہیں اِخْتَارَہٗ اُس کو چُن لیا.( اقرب) پس یَصْطَفِیْ کے معنے ہیں چنتا ہے اور چنتا رہے گا.تفسیر.فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ملائکہ کو اپنے پاک بندوں پر نازل کرتا رہے گا اور اسی طرح انسانوں میں سے بھی پاک لوگوں کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا رہے گا کیونکہ وہ دعائیں سُنتا ہے اور انسانوں کے حالات کو دیکھتا ہے.جب کبھی کسی انسان کی روح آسمانی پانی کے لئے پکارےگی.اللہ تعالیٰ اُس پر آسمان سے پانی اتارے گا اور جب کبھی وہ دیکھے گا کہ اس کے بندے ہدایت سے دُور جارہے ہیں وہ اُن کی ہدایت کے لئے اپنے پاک بندوں کو مامور کرتا رہے گا.اس آیت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے.آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں.اور چونکہ اس میں صاف طو ر پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چُنتا ہے.اور چنتا رہےگا جیسا کہ فعل مضارع سے ظاہر ہے جو اس جگہ استعمال کیا گیا ہے.اس لئے یہ آیت واضح طور پر امتِ محمدیہ

Page 241

کی طرف سے رسالت کے مقام پر کھڑے کئے جاتے رہیں گے.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ وہ پیچھے کر آئے ہیں اُسے بھی جانتا ہے اور سب تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۰۰۷۷ معاملے اُسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں.تفسیر.یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو بھی جانتا ہے اور جو وہ نہیں کر سکا اُس کو بھی جانتا ہے اور سب امور اُسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت ہدایت نہ دے کیونکہ اس صورت میں جب بندے اس کے پاس پیش ہوںگے اور اُن سے ان کے کئے ہوئے کاموں اور نہ کئے ہوئے کاموں کے متعلق سوال کیا جائےگا تو وہ یہ کہنے کے حقدار ہوںگے کہ حضور نے موقع پر ہماری طرف ہدایت تو بھیجی نہیں ہمارا کیا قصور ؟ یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کا اِعطاء صرف ماضی پر نہیں بلکہ آئندہ کی قابلیتوں پر بھی ہوتا ہے.اسی لئے اس کا ذکر رسولوں کے انتخاب کے ساتھ ملاکر کیا گیا ہے.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ اے مومنو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚؑ۰۰۷۸ نیک کام کرو تاکہ تم اپنے مقصود کو پا لو.حلّ لُغَات.اِرْکَعُوْا.اِرْکَعُوْاامر مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ رَکْعًا وَرُکُوْعًا کے معنے ہیں طَأ طَأَ رَأسَہٗ.نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہوںگے اِطْمَاَنَّ اِلَیْہِ.اُس نے اللہ تعالیٰ سے دل لگا کر تسلی پائی.نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَّتْ حَالُہُ وَافْتَقَرَ.اُس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ

Page 242

محتاج ہو گیا ( یہ مجازی معنے ہیں ) اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ فِیْ الصَّلٰوۃ ِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں.خَفَضَ رَأسَہٗ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرَاءَۃِ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَا ہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہٗ نمازی نے قرأت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکا یا نیز لکھا ہے الرَّاکِعُ: کُلُّ شَيْءٍ یَخْفِضُ رَأْسَہٗ.ہر وہ چیز جس کا سر نیچے کی طرف جھکا ہو ا ہو اُس کے لئے راکع کا لفظ استعمال کرتے ہیں ( اقرب) تاج العروس میں ہے.امام ثعلب کہتے ہیں اَلرُّکُوْعُ : اَلْخُضُوْعُ یعنی رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں.وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَاھَلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکِعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ وَیَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ.اور عرب لوگ قبل اسلام موحدین کو راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتوں کی پوجا نہ کرتے تھے اور اُن کے لئے راکع کا لفظ اس لئے استعمال کرتے تھے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی تھی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی تھی.الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندر عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں.پس رَاکِعٌ کے معنے ہوںگے ( ۱) عاجزی کرنےوالا ( ۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا.اور اِرْکَعُوْ ا کے معنے ہوںگے ( ۱) تم عاجزی کر و( ۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو.اور توحید پر پوری طرح قائم ہو جائو.اُسْجُدُوْا.اُسْجُدُوْا سَجَدَ کے معنے ہیں خَضَعَ وَاِنْحَنٰی اُس نے عاجزی اختیار کی اور اپنے عجز کا اظہار کر نے کے لئے جھُک گیا.اور سَجَدَ الْبَعِیْرُ کے معنے ہوتے ہیں خَفَضَ رَأسَہٗ اونٹ نے اپنا سر نیچے کر لیا اور سَجَدَتِ السَّفِیْنَۃُ لِلرِّیَاحَ کے معنے ہوتے ہیں طَاعَتْھَا وَمَالَتْ بِمَیْلِھَا.کشتی نے ہوا کی پیروی کی اور اُسے جدھر ہوا لے گئی اُدھر چل پڑی.اسی طرح اہل عرب کہتے ہیں کہ فُلاَنٌ سَاجِدُ الْمُنْخَرِ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ذَلِیْلٌ خَاضِعٌ.فلاں شخص نہایت مطیع ہے اور عجز و انکسا ر کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے ( اقرب) پس اُسْجُدُوْا کے معنے یہ ہوںگے کہ تم اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرو.تفسیر.ان آیات میں مومنوں کو ان فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو الٰہی جماعتوں کو کامیاب بنانے میں ممد ہوتے ہیں.اور جن کے بغیر غلبہ کا حصول ناممکن ہوتا ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ دنیوی جماعتوں کا طریق کار بالکل علیٰحدہ ہوتا ہے اور اُن پر دینی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا.دنیوی جماعتوں کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سچ سے کام لیں.وہ جھوٹ ، فریب اور دغا بازی سے کام لیتی ہیں اور اس طرح ہر ممکن ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.مگر یہ ہتھیار جو عام طور پر دنیا میں کامیابی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں دین میں ان کو بالکل حرام قرار دیا گیا ہے.دنیوی امور میں لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ

Page 243

ہیں کہ منافقت کے بغیر گذارہ نہیں.جب ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے.جب اس کی ساری قوتیں دوسری قوم پر حملہ کرنے کے لئے مجتمع ہو رہی ہوتی ہیں.جب اس کے سارے محکمے اپنے کیل کانٹے درست کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت دنیا دار حکومتیں بڑے زور سے یہ اعلان کرتی سنائی دیتی ہیں کہ ہمارے تعلقات اس حکومت سے بڑے اچھے ہیں اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں.اُن کے مدبر بڑے زور شور سے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم صلح کے لئے ہر ممکن تدابیر اختیار کر یں گے.مگر اُن کی غرض ان اعلانات سے یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارا دشمن بیوقوف بنایا جا سکے تو اُسے بیوقوف بنائیں.اس کے مقابلہ میں اُن کا دشمن بھی اسی طرح کر رہا ہوتا ہے جس طرح وہ کر رہے ہوتے ہیں.وہ بھی دھوکا اور فریب اور جھوٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے.مگر دین کے ساتھ تعلق رکھنے والی جماعتوں کو اس قسم کا طریق اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.انہیں اگر کہا جاتا ہے تو یہ کہ تمہیں اچانک حملہ کرنے کی اجازت نہیں اور اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ دوسرا فریق اس معاہد ہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو ایک لمبا عرصہ قبل یہ اعلان کر دو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے اس کے بعد اگر تم چاہو تو دوسری قوم سے لڑ سکتے ہو.پس دینی قوموں کے لئے مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ جن تدابیر کو دنیا اختیار کر سکتی ہے اُن کو وہ تدابیر اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی.اس لئے عقلی طور پر کوئی ایسا قائم مقام ہو نا چاہیے جو جھوٹ اور فریب اور دغا کے مقابلہ میں نیکوں کا سہارا ہو.اس سہارے کا اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں ذکر کیا ہے.فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا اے مومنو! تم رکوع کرو.رکوع سے مراد اس جگہ نماز والا رکوع نہیں بلکہ رکوع کے معنے نماز کے علاوہ بھی ہوتے ہیں.اور وہ معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اُس کی طرف جھک جانا.اور ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے بکلی نکال دینا گویا کامل توحید کے خیالات دل میں پیدا کر لینا اور ماسوی کی عبادت اُس پر انحصار اور توکل اور امید کا دل سے خیال نکال دینا.اس کا نام عربی زبان میں رکوع ہے.چنانچہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ فُلَانٌ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ.فلاں شخص ہر ایک دنیوی چیز کا خیال دل سے نکال کر خدا تعالیٰ کی طرف جھک گیا.پس اس جگہ رکوع سے مراد وہ رکوع نہیں جو نماز میں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ رکوع ہم علیحدہ نہیں کرتے بلکہ نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے.خالی رکوع اسلام میں کہیں ثابت نہیں اور خالی سجدہ اسلام میں شکریہ یا تلاوت قرآن کریم کے سوا عبادت کے طور پر ثابت نہیں.بلکہ خالی سجدہ تو دُعا کے موقعہ پر کر بھی لیا جاتا ہے.خالی رکوع کا رسماً بھی اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ملتا.پس رکوع سے مراد یہاں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا نہیں بلکہ ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے نکا ل کر کا مل توحید پر ایمان رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا نام رکوع

Page 244

رکھا گیا ہے.یہ گویا مومن کے لئے ان چیزوں کا قائم مقام ہو جاتا ہے جن کو چھوڑ نے کا اُسے حکم ہے.رکوع کا لفظ اصل میں اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ایک چیز ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور سہارا ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر لیا جاتا ہے.جو شخص سیدھا کھڑا ہوگا وہ سہارا نہیں لے سکتا اور اگر وہ سہارا لینا چاہےگا تو اُسی وقت لے سکے گا جب وہ ٹیڑھا ہوگا.تو وَارْكَعُوْا کے معنے دراصل خدا تعالیٰ پر سہارا لینا اور اُس کے اُوپر جھک جانا ہے.جھوٹ فریب اور منافقت یہ دُنیا کے سہارے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو بڑے گندے سہارے ہیں ان کو چھوڑ و اور ان کے قریب بھی مت پھٹکو.جب دنیا کے سہارے ایک انسان سے لے لئے جائیں تو لازماً وہ کسی اور سہارے کا محتاج ہو گا.کیونکہ انسان سخت کمزور اور بے بس ہے.ایک کمزور انسان جو بیمار بھی ہو کرچز CRUTCHESپر چلتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو دیوار کی ٹیک لگا لیتا ہے.یا دم لینے کے لئے کرسی پر جا بیٹھتا ہے یا اگر لیٹے لیٹے سر اٹھاتا ہے تو کہنی کا سہارا لے لیتا ہے.یا گائوتکیہ اپنے پیچھے رکھ لیتا ہے.تو کمزور ی اور بیماری کے وقت انسان کو دوسری چیزوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ انسان عالمِ روحانی میں سخت کمزور ہے اور ہزاروں خفیہ باتیں ایسی پید ا ہو جاتی ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں روک بن کر حائل ہو جاتی ہیں.اس لئے اس عالم میں بھی وہ کسی نہ کسی سہارے کا محتاج ہوتا ہے.دنیا دار شخص ایسے موقعہ پر دغا ، فریب ، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیتا ہے مگر مومنوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان امور سے بچو.تم نہ فریب سے کام لو نہ جھوٹ سے کام لو ، نہ دھوکا سے کام لو اور نہ کسی ناجائز ہتھیار کو استعمال کرو.اب جبکہ ایک کمزور انسان کے تمام دنیوی سہارے شریعت نے لے لئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا کرے.سہارا تو ایک کمزور انسان کے لئے ضروری تھا اور اس سے سہارے کو لے لینا ایسا ہی ہے جیسے ایک لُنجے کی سوٹیاں لے لی جائیں یا بیمار کے نیچے سے گائوتکیہ نکال لیا جائے.یا ایک کمزور انسان جب کرسی پر بیٹھنے لگے تو اُس کے نیچے سے کرسی کھینچ لی جائے.ایسی حالت میں اُسے لازمًا کسی اور سہارے کی ضرورت پیش آئے گی اور وہ کہے گا میں کس پر سہارا لُوں میں تو گر جائوںگا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا جواب دیا ہے.فرماتا ہے ارْكَعُوْا تم ہمارے اوپر سہارا لے لو.اور ہم پر جھک جائو.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی انسان دوسرے کمزور انسان کی سونٹی تو لے لے مگر اپنا کندھا اُس کے سامنے پیش کر دے اور کہے کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلو.اسی طرح جب ناجائز ہتھیاروں اور ناجائز سہاروں سے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا تو فرمایا.چونکہ تمہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہے.اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں تم ہم پر جھک جائو.اور ہمارا سہارا لے لو.تو اِرْكَعُوْا کا لفظ توکل علی اللہ پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ میرے کاموں میں جو

Page 245

نقائص ہیں خدا تعالیٰ اُن کا خود ذمہ دار ہے.کیونکہ جب کامیابی کے حصول کی ناجائز دنیوی تدبیروں سے اُس نے منع کر دیا ہے تو اب وہ ہمارا خود ذمہ دار ہے.اور وہ آپ ہمارے نقصوں اور ہماری خامیوں کو پورا کرے گا.پھر فرماتا ہے.وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ یہاں وَاسْجُدُوْا میں جو سجدہ کا لفظ آیا ہے.اس سے مراد بھی نماز والا سجدہ نہیں اس لئے کہ آگے وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ کے الفاظ آتے ہیں جس میں سجدہ بھی شامل ہے پس اس جگہ سجدہ سے مراد بھی وہ سجدہ نہیں جو ہم زمین پر کرتے ہیں بلکہ وَاسْجُدُوْا کے معنے ہیں.اے مومنو ! تم کامل فرمانبرداری سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری اتباع کرو اور جس طرح وہ حکم دیتا ہے اُسی طرح کرو.چاہے وہ حکم تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے.بسا اوقات انسان ایک چیز کے متعلق جانتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سےپیش کی گئی ہے مگر اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اس میں میری تباہی اور بر بادی ہے لیکن جب وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس چیز کو اختیار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اُس پر انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے.حدیثوں میں اس کی ایک نہایت ہی لطیف مثال بیان کی گئی ہے کہ کس طرح و ہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے لئے تکلیفیں اُٹھاتے اور بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھوں میں گراتے چلے جاتے ہیں اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیںاور تباہی کے سامانوں میں اُن کے لئے برکت کے سامان پیدا کر دئیے جاتے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے کہے گا کہ دوزخ میں کود جا.بندہ بے دھڑک دوزخ میں کو د جائےگا اور کہےگا جب مجھے میرے رب کا یہی حکم ہے کہ میں دوزخ میں کود جائوں تو مجھے دوزخ ہی منظور ہے.مگر جب وہ اُس میں کو دے گا تو دوزخ اُس کے لئے نہایت آرام دہ جنت بن جائےگا اور وہ آگ سے کھیلنے لگ جائےگا.اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا دیکھو میرا بندہ آگ سے کیسا خوش ہو رہا ہے.یہ مثال درحقیقت اسی بات کی ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کر کے بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُنہی ہلاکت کے سامانوں میں اُن کے لئے ترقی کے سامان پید ا کر دیتا ہے.بظاہر دنیا سمجھتی ہے کہ وہ آگ میں کودے ہیں مگر جب وہ اس آگ میں کود جاتے ہیں تو وہی آگ اُن کے لئے جنت بن جاتی ہے.دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت سارا عرب مرتد ہوگیا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ جیسے بہادر بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے.وفات کے قریب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کر نے کے لئے تیار کیا تھا اور اسامہ ؓ کو اُس کاافسر مقرر کیا تھا.مگر ابھی وہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی.آپ کی وفات پر جب قریباً سارا عرب مرتد ہوگیا تو صحابہ ؓ گھبراگئے اور انہوں نے

Page 246

سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ ؓ کا لشکر بھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد بچے اور عورتیں ر ہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہوگا.چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جائے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور اکابر صحابہ ؓ مل کرایک وفد کی صورت میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بے شک اسے بھیج دیا جائے.جب حضرت ابوبکر ؓ کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنےکا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے ( ابوقحافہ حضرت ابوبکر ؓ کے باپ کا نام تھا اور وہ مکہ کے بہت ہی معمولی آدمیوں میں سے سمجھے جاتے تھے )حضر ت ابو بکر ؓ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے باپ کا نام لیتے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میری کیا حیثیت ہے جو میں ایسا کرو ں.اس موقعہ پر بھی آپ نے اپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اُسے روک لے.پھر آپ نے فرمایا اگر سارا عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں.تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروںگا جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروںگا (البدایۃ والنھایۃفصل فی تنفیذ جیش اسامۃ بن زیدؓ).یہ جرأت اور دلیری حضرت ابوبکر ؓ میں کہا ں سے پیدا ہوئی ؟ یہ وہی ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا والے حکم کی تعمیل کا نتیجہ تھا.جس طر ح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جاتی ہے تو اس تارمیں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.بجلی سے علیحدہ کرلو تو تار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی.مگر اُسی تار میں جب بجلی کی رَو آئی ہوئی ہو.اور تار کے اوپر سے ربڑ اُترا ہوا ہو تو اگر ایک قوی سے قوی پہلوان بھی اُسے چھوئے گا تو مُردہ چوہے کی طرح گِر جائےگا اور اس کی طاقت اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکے گی.غرض دنیوی عزتوں کے حصول کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر تے ہیں.اللہ تعالیٰ اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کرتا اور فرماتا ہے.اے مومنو! جب تم ہمارے پاس آئے ہو تو تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بغیرارْكَعُوْا وَ

Page 247

اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ کے احکام پر عمل کرنے کے تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.ہاں اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو.ہمارے احکام کی فرمانبرداری کا عہد کرو اور ہماری عبادت میں لگ جائو تو ہم تمہیں کامیاب کر دیں گے.پھر فرماتا ہے وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ جب تم یہ باتیں کرلو.یعنی جب تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جب تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھا لو.جب تم اُس کی شب وروز عبادت کرو تو پھر چو تھا فرض تمہا را یہ ہے کہ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ تم بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوشش کرو تم یتیموں کی خبر گیری کرو.تم بیوائوں کی نگہداشت کرو.تم مساکین سے شفقت اور رأفت کے ساتھ پیش آئو تم ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو.تم دین اسلام کو اُن لوگوں میں پھیلا ئو جو اسلامی تعلیم سے نا آشنا ہیں.غرض جس قدر اچھے کام ہیں وہ سب کرو لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تاکہ تم کامیاب ہو جائو.وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ کو تو لوگ کسی حد تک مانتے ہیں مگر باقی جس قد ر احکام ہیں ان کو دنیا عمومًا اپنی تباہی کی علامت سمجھتی ہے.لوگ کہتے ہیں جو توکل کرے گا اُس کا بیڑہ غرق نہیں ہوگا تو اَور کس کا ہو گا؟ پھر وہ کہتے ہیں جو احکام مذہبی پر چلے گا اور دین کی ترقی کے لئے چندے دے گا.وہ غریب نہیں ہوگا تو اَور کون ہوگا ؟ اسی طرح وہ کہتے ہیں جو پانچ وقت نماز پڑھےگا وہ تین چار گھنٹے ضرور ضائع کر دے گا.اور جس نے اپنے اوقات کا اتنا بڑا حصہ اس طرح رائیگاں کھو دیا وہ دنیا میں کامیاب کس طرح ہوگا ؟ غرض دنیا ان تمام باتوں کو تباہی کا موجب سمجھتی ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہی تم کرو کیونکہ دنیوی ترقی اور دینی ترقی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اس کے ذرائع اور ہوتے ہیں اور اُس کے ذرائع اَور ہیں.وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ١ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا اور اللہ( تعالیٰ) کے راستہ میں ایسی کوشش کرو جو مکمل ہو کیونکہ اُسی نے تم کو بزرگی بخشی ہے.اور دین (کی تعلیم) جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ١ؕ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ میں تم پر کوئی تنگی کا پہلو اختیار نہیں کیا.(اے مومنو) اپنے باپ ابراہیم ؑ کے دین کو( اختیار کرو کیونکہ) اللہ نے اِبْرٰهِيْمَ١ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا تمہارا نام مسلمان رکھا ہے.اس کتاب میں بھی اور اس سے پہلی کتب میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو

Page 248

لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى اور تم باقی دنیا پر گواہ رہو.پس نماز کو قائم کرو او ر زکوٰۃ دو النَّاسِ١ۖۚ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ١ؕ اور اللہ (تعالیٰ) کو مضبوطی سے پکڑلو.وہ تمہارا آقا ہے.هُوَ مَوْلٰىكُمْ١ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِيْرُؒ۰۰۷۹ پس کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مدد گا ر ہے.حلّ لُغَات.جَاھِدُوْ ا:جَاھَدَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مُجَاھَدَۃً وَ جِھَادًا کے معنے ہیں بَذَلَ وُسْعَہٗ.اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اُس نے پوری کوشش صرف کی.اور جب جَاھَدَ الْعَدُوّ کہیں تو معنے ہوںگے قَاتَلَہٗ دشمن سے لڑائی کی ( اقرب ) جَاھِدُوْا امر کا جمع کا صیغہ ہے.اس لئے اس کے معنے ہوںگے اللہ کے دین کے لئے پوری کوشش صرف کرو.مفردات میں ہے.اَلْجِھَادُ وَالْمُجَاھَدَۃُ: اِسْتِفْرَاغُ الْوُسْعِ فِیْ مُدَافَعَۃ ِ الْعَدُوِّ.یعنی دشمن کے مقابلہ کے لئے اپنی ساری کوشش صرف کرنے کا نام جہاد اور مجاہدہ ہے.وَالْجِھَادُ ثَلَاثَۃُ اَضْرُبٍ اور جہاد کا لفظ اسلامی نقطۂ نگاہ سے تین معانی کے لئے استعمال ہوتاہے ( ا) مُجَاھَدَۃُ الْعَدُ وِّ الظَّاھِرِ ظاہر دشمن کا مقابلہ ( ۲) مُجَاھَدَۃُ الشَّیْطَانِ.شیطان کا مقابلہ ( ۳) وَمُجَاھَدَۃُ النَّفْسِ.نفس کو بدی سے روکنے اور نیکی پر لگانے کے لئے نفس کا مقابلہ.امام راغب ؒ لکھتے ہیں.وَتُدْخُلُ ثَلَاثَتُھَا فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالَی وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ.......کہ آیت وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ........میں مذکورہ بالا تینوں معانی مدنظر رکھے گئے ہیں ( مفردات ) اِجْتَبٰکُمْ.اِجْتَبَاہُ کے معنے ہیں اِخْتَارَہٗ وَاصْطَفٰہُ.اُس کو چُن لیا ( اقرب) پس اِجْتَبٰکُمْ کے معنے ہوںگے اُس نے تمہیں چن لیا ہے.حَرَجٌ مفردات میں ہے کہ قِیْلَ لِلضَّیْقِ حَرَجٌ وَلِلِاثْمِ حَرَجٌ.یعنی تنگی کو بھی حرج کہتے ہیں اور گناہ کو بھی.اِعْتَصِمُوْا : اِعْتَصَمَ بِہٖ کے معنے ہیں اَمْسَکَہٗ بِیَدِہ ٖ.اس کو ہاتھ سے پکڑ لیا اور اِعْتَصَمَ بِاللّٰہِ کے معنے

Page 249

ہیں.اِمْتَنَعَ بِلُطْفِہٖ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے کرم سے معصیت سے پنا ہ میں آگیا.اور جب اِعْتَصَمَ فُلَانٌ مِنَ الشَّرِّ وَالْمَکْرُوْہِ کہیں تو معنے ہوں گے اِلْتَجَأَ وَامْتَنَعَ.اُس نے معصیت سے بچنے کے لئے پناہ چاہی ( اقرب) پس اِعْتَصِمُوْا کے معنے ہوںگے گناہ سے بچنے اور مصائب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو.تفسیر.فرماتا ہے.صرف مُنہ کے ایمان پر کفایت نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوری طرح عملًا کوشش کرتے رہو.کیونکہ اُس نے تم کواس وقت دین کے معاملہ میں باقی قوموں میں سے چُن لیا ہے اور دین بھی تم کو وہ دیا ہے جس میں کوئی تنگی نہیں بلکہ وہ صراط مستقیم کے پانے میں مدد گار ہے کوئی ناقابلِ برداشت بوجھ نہیں.مفسرین نے وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ پربحث کی ہے کہ اس سے مراد کیا ہے کہ اُس نے دین کے بارے میں تم پر کوئی تنگی نازل نہیں کی اور انہوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد قصرِ صلٰوۃ ہے یعنی اسلام اجازت دیتا ہے کہ سفر میں انسان نماز قصر کر لے بعض کہتے ہیں کہ اس سے کثرت ازدواج اور مسافر کے لئے روزہ کی رخصت کی طرف اشارہ ہے.بعض کہتے ہیں اس میں بیمار کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے اور ناقابل پر جہاد فرض نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے.(تفسیر قرطبی زیر آیت ھٰذا)یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں.لیکن یادرکھنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مِنْ حَرَجٍ فرمایا ہے یعنی اُس نے کسی قسم کی کوئی تنگی نہیں رکھی.پس اس میں کسی ایک قسم کی تنگی کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا بلکہ ساری قسم کی تنگیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اور اصل مضمون جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت اس لئے نازل نہیں ہوئی کہ وہ انسان پر بوجھ ڈالے بلکہ شریعت لوگوں کے بوجھوں کو ہلکا کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے عیسائیوں نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ شریعت لعنت ہے.(گلتیوں باب ۳ آیت ۳۱)حالانکہ شریعت تو ایک ہدایت نامہ کے طور پر ہوتی ہے اور نبی ہادی اور راہنما ہوتا ہے.اب کوئی احمق ہی ہوگا جو کسی ہدایت نامہ کو لعنت قرار دے یا طب کی کتابوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ فلاں چیز زہر ہے اور اگر فلاں زہر کوئی شخص کھا لے تو اُس کا یہ یہ تریا ق ہے.اب کون شخص ہے جو ایسی کتابوں کو لعنت قرار دے سکے.ایسی کتابیں ہمیشہ سکھ اور آرام کا موجب ہوا کرتی ہیں نہ کہ تکلیف کا.اسی طرح شریعت میں روحانی اور جسمانی آفات سے بچنے کے طریق بتائے جاتے ہیں اور جو مصائب آچکے ہوں اُن کو دُور کرنے کی تدابیر سمجھائی جاتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَ يَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ يَتُوْبَ عَلَيْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ.وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ١۫ وَ يُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ( النساء :۲۷ تا ۲۸) یعنی اللہ تعالیٰ

Page 250

چاہتا ہے کہ وہ تمہارے لئے تمام مسائل کو خوب کھول کھو ل کربیان کر دے اور تمہیں بتادے کہ تم فلاں کام کرو گے تو فائدہ اٹھائو گے اور فلاں کرو گے تو نقصان اٹھائو گے.پھر فرماتا ہے تم سے پہلے بھی کچھ قومیں گذری ہیں اُن میں سے بعض نے اپنے اعمال کی وجہ سے سکھ پایا تھا اور بعض نے دُکھ.خدا چاہتا ہے کہ اُن کی باتیں بھی تمہیں کھو ل کھول کر سنا دے اور ان لوگوں کا راستہ بھی بتا دے جو ہلاکتوں سے بچ گئے تھے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے حالات کو اچھی طرح جاننے والا اور ہر کام کی حکمت کو سمجھنے والا ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر شریعت کے ذریعہ اپنی رحمت کو کامل کرے مگر وہ لوگ جو اپنی خواہشاہت کی پیروی کرنےوالے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم ایک ہی طرف سارے کے سارے جھک جائو.یعنی اعتدال اور میانہ روی کو ترک کر دو اور ایک ہی پہلو کو اختیار کرلو.پھر فرما تا ہے.يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا (النساء:۲۹) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہارے بوجھوں کو ہلکا کر دے کیونکہ انسان فطرتی طور پر سخت کمزور پیدا کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر اسے کوئی ہدایت نامہ نہ دیا گیا تو وہ سخت نقصان اٹھائےگا.پس شریعت کی غرض انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور اُسے ہر قسم کے خطرات اور مصائب سے بچانا ہے.اور یہی بات اللہ تعالیٰ نےوَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍمیں بیان فرمائی ہے کہ یہ دین جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں جو تمہیں کسی مشکل میں مبتلا کر دے.چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لےکر بڑے سے بڑے حکم تک کو دیکھ لو.ہر حکم انسان کے لئے برکت اور رحمت کا باعث ہے.پھر فرماتا ہے.مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ یہ تمہارے دادا ابراہیم ؑ والادین ہی ہے کوئی نیا دین نہیں کہ اس کا اختیار کرنا تم پر دو بھر ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ سے پہلے اور اس کتاب میں بھی تمہارا نام مسلم رکھا ہے.لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ تا کہ محمد رسول اللہؐ اپنے عمل سے تم پر گواہی دیں کہ وہ موعود ابراہیم ؑ اور موعود انبیاء سابقین ہیں.وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ اور تم بھی دوسری قوموں کے لئے ہمیشہ اس بات کے گواہ بنتے چلے جائو کہ تم ہی اس نئے نام کے مصداق ہو.جس کی صُحفِ سابقہ میں خبر دی جا چکی ہے.اس آیت میں هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ کے الفاظ میں جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.وہ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ان الفاظ میں پائی جاتی ہے کہ ’’ تو ایک نئے نام سے کہلایا جائےگا جو خداوند کا مُنہ تجھے رکھ دےگا.‘‘( یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲) اسی طرح انہوں نے فرمایا تھا

Page 251

’’ تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر لعنت کا باعث ہوگا کیونکہ خداوند یہوداہ تم کو قتل کر ے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائےگا.‘‘ ( یسعیاہ باب ۶۵ آیت ۱۵) یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کو بائیبل نویسوں نے کلیسیا پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے.(THE OLD TESTAMENT WITH A BRIEF COMENTARY UNDERWORD 'ISAIAH')حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا.اسی طرح مختلف مسیحی فرقوں نے جو اپنے اپنے نام رکھے ہوئے ہیں وہ بھی اُن کے اپنے تجویز کردہ ہیں.خدا تعالیٰ نے اُن کے یہ نام نہیں رکھے.ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نام ملا اور وہ مسلمان ہیں.هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ میں اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اور فِيْ ھٰذَا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قرآنی دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں کی کہ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (البقرۃ:۱۲۹) یعنی اے ہمارے رب مجھ ابراہیم کو اور میرے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو اپنے حضور میں مسلم قرار دے.اسی طرح ہماری اولاد میں سے بھی ایک بڑی جماعت پیدا کر جو تیرے حضور میں مسلم کہلائے.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں اعلان فرما دیا کہ خدا تعالیٰ نے میری امت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے.یہ نام اپنے اندر ایسی گہری حکمت اور فلسفہ رکھتا ہے کہ اگر غور سے کام لیا جائے تو اس نام میں ہی اسلام کی غرض وغایت پوری وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے.عربی زبان کی خصوصیات میں سے یہ ایک عجیب خصوصیت ہے کہ اس میں صرف الفاظ کے معنے نہیں ہوتے بلکہ حروف کے بھی معنے ہوتے ہیں.اسی طرح اس زبان میں جو لفظ کسی خاص شے کے لئے وضع کیا گیا ہو وہ صرف اس چیز کے لئے بطور علامت نہیں ہوتا بلکہ وہ نام کسی خاص مناسبت کی وجہ سے رکھا جاتا ہے اور وہ نام ہی بتا دیتا ہے کہ اُس چیز میں وہ کونسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُس کا فلاں نام رکھا گیا ہے.مثلاً اردو میں ایک لمبی چیز کو لمبی کہیں گے.ماں کو ماں کہیں گے.باپ کو باپ کہیں گے مگر ان الفاظ سے یہ پتہ نہیں لگے گا کہ ان میں وہ کیا امتیازی بات ہے جس کی وجہ سے انہیں اس نام سے مخصوص کیا گیا ہے.اور اگر ہم ان لفظوں کی بجائے اور لفظ رکھ دیں تب بھی ہمارے مطلب اور مدعا میں کوئی نقص واقع نہیں ہوگا.مثلاً اگر چھوٹی چیز کو لمبی کہنے لگیں اور لمبی کو چھوٹی.اور یہی چیز رائج ہو جائے تو اس سے اردو زبان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوگا.لیکن عربی زبان کا یہ حال نہیں.اس میں اگر طویل کو قصیر کہنے لگیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ طَ وَ لَ جن معنوں پر

Page 252

دلالت کرتے ہیں قَ صَ رَ ان معنوں پر دلالت نہیں کرتے.غرض دوسری زبانوں میں تو چیزوں کے نام صرف علامت کے طور پر ہیں.اگر ان کو بدل کر اَور لفظ بھی رکھ دئیے جائیں تو کوئی حرج واقع نہیں ہوتا لیکن عربی زبان میں ہر ایک نام نہ صرف علامت کے طور پر ہوتا ہے بلکہ اس چیز کے کسی خاص امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس وجہ سے ایک لفظ کی بجائے ہم دوسرا لفظ نہیں رکھ سکتے.خد اتعالیٰ نے اسلام کے لئے بھی ایسا ہی نام چُنا ہے جو اپنے اندر بڑی بھاری خوبیاں اور حکمتیں لئے ہوئے ہے.چنانچہ س لَام میم جو اسلام کے اصلی حروف یا روٹ ہیں عربی زبان میں جہاں بھی اکٹھے ہوںگے وہاں ان کے معنوں میں حفاظت کے معنے ضرور پائے جائیں گے.اور پھر یہ حروف جس شکل میں بھی بدلتے چلے جائیں اُن سب صورتوں میں حفاظت کے معنے بد ستور پائے جائیںگے.مثلاً اسلام ہے اس کے معنے فرمانبرداری کے ہیں اور ان معنوں میں حفاظت لازمی طور پر پائی جاتی ہے.کیونکہ جب کوئی شخص کسی بڑے آدمی کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کی بات مان لیتا ہے تو طبعی طور پر وہ اُن تکالیف سے محفوظ ہو جاتا ہے جو اس بڑے آدمی کی طرف سے پہنچ سکتی ہیں.اور پھر اُسی کے مال و جان کی حفاظت کی جاتی ہے جو مطیع و منقاد ہو.چنانچہ جو لوگ باغی ہو تے ہیں وہ گورنمنٹ کی حفاظت میں نہیں ہوتے.بلکہ گذشتہ زمانہ میں تو ایسے لوگ آئوٹ آف لاز کہلاتے تھے.اور اُن کو اگر کوئی قتل بھی کر دیتا تھا تب بھی گورنمنٹ کوئی گرفت نہیں کرتی تھی پھر سَلْمٌ ہے.جس کے معنے آفات اور مصائب سے بچنے کے ہیں.اسی طرح سَلَمَ الْجِلْدَ کے معنے ہیں سلم سے چمڑے کی دباغت کر دی (اقرب)اور دباغت بھی چمڑے کو گلنے سے بچانے کے لئے کرتے ہیں.پس اس میں بھی حفاظت کے معنے شامل ہیں.اسی طرح کہتے ہیں سَالَمَہٗ جس کے معنے ہوتے ہیں اس سے مصالحت کی اور صلح کرنے میں بھی حفاظت مدنظر ہوتی ہے.اسی طرح کہتے ہیں تَسَلَّمَ الشَّیْئَ فلاں چیز کو اُس نے پکڑ لیا اور اُس پر قبضہ کر لیا اور جب کوئی چیز قبضہ میں آجاتی ہے تو وہ بھی حفاظت میں ہو جاتی ہے.اسی طرح اِسْتَلَمَ الزَّرْعُ کا محاورہ ہے جس کے معنے ہیں.کھیتی نے استیلام کیا.یعنی کھیتی میں دانہ پڑ گیا.اس میں بھی حفاظت کے معنے ہیں کیونکہ جب تک کھیتی میں دانہ نہ پڑے اُس وقت تک کسان اُس پر مطمئن نہیں ہوتا.اور جب دانہ پڑ جائے تو پھر ایک حد تک وہ اُسے محفوظ خیال کرتا ہے.پھر سَلَامٌ خدا کا نام ہے جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے.پھر اشتقاق کے لحاظ سے آگے چلیں تو اشقاق کبیر میں سَلْم کا لفظ سَمَلْ بن جائےگا جس کے معنے صلح کرانے اور حوض سے گند نکال کر صاف کرنے کے ہیں.لَمْسٌ چھُونے کو کہتے ہیں.اس میں بھی حفاظت کے معنے شامل ہیں کیونکہ وہ تمام باتیں جن کو انسان محفوظ کرتا ہے اپنے حواس سے ہی کرتا ہے جن میں سے ایک لمس بھی ہے.پھر مَسَلَ الْمَائُ کے معنے ہوتے ہیں پانی بہ پڑا.جب

Page 253

پانی بہ کر کھیتی میں پہنچتا ہے تو کھیتی کی حفاظت کرتا ہے اور اُسے خشک ہونے سے بچاتا ہے.اسی طرح لَسْمٌ ہے.اس کے معنے چُپ رہنے کے ہیں اور یہ ضر ب المثل مشہور ہے کہ ’’ نِکلی ہونٹوں چڑھی کوٹھوں.‘‘ حفاظت اور امن جو خاموشی میں نصیب ہوتا ہے اُس کو ہر ایک جانتا ہے.مَلْسٌ مداہنت کو کہتے ہیں اور مداہنت کی غرض ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ کسی شخص کے شر سے چکنی چپڑی باتیں کرکے انسان محفوظ ہو جائے.غرض سَ لَام مَیم یہ تینوں حروف آگے پیچھے ہو کر جس طرح بھی آئیں عربی زبان میں ان کے معنے حفاظت کے ہی ہوتے ہیں.پس اسلام کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے افعال بجا لانا جن سے انسان ہلاکت سے محفوظ ہو جائے.گویا اس نام میں ہی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض بتا دی ہے جو یہ ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ ہوجائیں اور آپس کے لڑائی جھگڑوں سے نجات پا جائیں.یعنی ایک طرف تو ان کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم ہو جائے اور دوسری طرف وہ نبی نوع انسان سے ایسا اچھا سلوک رکھیں کہ اُن میں باہم محبت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور فتنہ و فساد دنیا سے مٹ جائے.اور ایک سچا مذہب انہی دو ۲ ا غراض کا حامل ہوتا ہے.یعنی ایک طرف تو وہ تعلق باللہ کے پہلو کو مضبوط کرتا ہے اور دوسری طرف وہ شفقت علیٰ خلق اللہ کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے.اور جب اس کی تعلیم کے نتیجہ میں لوگوں کا خدا تعالیٰ سے بھی تعلق ہو جائے اور بنی نوع انسان سے بھی وہ شفقت کرنے لگیں تو نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں کسی ناراضگی کا ڈر ہو سکتا ہے اور نہ بنی نوع انسان کی طرف سے انہیں کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے.اور اس طرح وہ روحانی اور جسمانی دونوں رنگ میں محفوظ ہو جاتے ہیں.غرض اس نام میں ہی اللہ تعالیٰ نے مذہب کی ساری حقیقت بیان کر دی ہے.اور بتا یا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں خدا تعالیٰ کے حقوق بھی کامل طور پر ادا کئے گئے ہیں اور بنی نوع انسان کے حقوق کا بھی اس میں پورا لحاظ رکھا گیا ہے.ہر انسان کا پہلا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے.پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے وہ مسلم ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلیۃً ڈال دیتا ہے اور یہی اسلام کی توضیح او ر اس کی صحیح تشریح ہے دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات اور بنی نوع انسان سے ہوتا ہے.پس جو شخص اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے.شرارتوں میںپڑنے سے بچا لیتا ہے.بد دیانتیوں ،خیانتوں اور ظلموں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے.جھوٹ ، فریب.دغا.بغض اور کینہ سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے.وہ بھی مسلم ہے کیونکہ اُس نے اپنی جان کو سلامتی عطا کی.اسی طرح جو شخص اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ بھی مسلم ہے.جو شخص اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کو امن دیتا اور فساد اور خونریزی اُن کے لئے پیدا نہیں کرتا وہ بھی مسلم ہے.مگر جو شخص اس کے خلاف عمل

Page 254

کرتا ہے وہ غیر مسلم ہے چاہے وہ رات دن اپنے آپ کو مسلم کہتا رہے کیونکہ نام کے ساتھ کوئی چیز بدل نہیں جاتی.ہم دیکھتے ہیں بچے بعض دفعہ ایسی حالت میں جبکہ اُن کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہوتی کھیلتے ہوئے دوسرے بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں لو میں تمہیں آم دیتا ہوں.تم کھا لو یا پیسہ دیتا ہوں تم لے لو.حالانکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا.اب بچوں کا ایسا فعل ایک مذاق کے طور پر تو کام آسکتا ہے.یہ فائدہ تو ہو سکتا ہے کہ ماں با پ یا بھائی وغیرہ ہنس پڑیں.یا جس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسا کیا جاتا ہے وہ ہنس پڑے اور سمجھے کہ مجھ سے مذاق کیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو سکتا.خیالی طور پر تم کسی کو دنیا کی بادشاہت بھی بخش دو تو اُس کے حالات میں کوئی تغّیر نہیں آئے گا.لیکن حقیقی طور پر اگر تم کسی کو ایک پیسہ بھی دے دو تو وہ اُس سے فائدہ اُٹھالے گا.یہی حال ایمان کا ہے.اگر کوئی شخص صرف اسلام کے نام سے کام لے تو وہ دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا.لیکن اگر وہ اسلام کے مفہوم کے مطابق تھوڑا سا بھی عمل کر ے تو بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتا اور دوسروں کو بھی حقیقی فائدہ پہنچا سکتا ہے.خ خ خ خ خ

Page 255

سُوْرَۃُ الْمُؤْمِنُوْنَ مَکِّیَّۃٌ سورۃ مومنون یہ سورۃ مکی ہے وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ مِائَۃٌوَّ تِسْعَ عَشْرَۃَ اٰیَۃً وَّسِتَّۃُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو انیس آیات اور چھ رکوع ہیں.۱؎ ۱؎ قرطبی کا قول ہے کہ یہ ساری سورۃ مکی ہے اور اس میں کسی شخص نے اختلاف نہیں کیا (تفسیر القرطبی سورۃ المؤمنون ) اس کی آیتیں بصریوں کے نزدیک۱۱۹اور کوفیوں کے نزدیک۱۱۸ہیں(ہمارے نزدیک بھی اس سورۃ کی آیتیں۱۱۹ہیںلیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بسم اللہ کو بھی ہر سورۃ کا حصہ سمجھتے ہیں.دوسرے مفسرین بسم اللہ کو سورۃ کے اندر رکھنا تو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کو سورۃ کا حصہ نہیں سمجھتے.ہمارے نزدیک اوپر کی دونوں وجوہ کی موجودگی میںاس کو سورۃ کا حصہ نہ سمجھنا مضحکہ خیز ہے.پس بسم اللہ کی بعد کی آیتوں کے متعلق تو ہمیں کوفیوں سے اتفاق ہے کہ۱۱۸ہیں لیکن بسم اللہ کو ملا کر۱۱۹آیتیں ہیں.اس اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک کوئی آیت کم یا زیادہ ہے.بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ ایک فریق نے ایک آیت کو دو آیتیں قرار دیا ہے اور دوسرے فریق نے اُن آیات کو ایک آیت قرار دیا ہے.بصریوں کے نزدیک ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ١ۙ۬ بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (آیت۴۶)پوری آیت ہے اور کوفیوں کے نزدیک یہ آیت پوری نہیں بلکہ اگلی آیت کا حصہ ہے چونکہ انہوں نے اسے اگلی آیت کا حصہ قرار دیا ہے اس لئے انہوں نے ایک آیت کم شمار کی ہے.مسیحی پادری چونکہ ان باتوں سے واقف نہیں.ان میں سے بعض نے ایسے حوالہ جا ت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت مشتبہ ہے.کیونکہ بعض لوگ اس کی آیتیں زیادہ بتاتے ہیں اور بعض کم بتاتے ہیں.حالانکہ جیسا کہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہے یہ کمی بیشی حقیقی نہیں بلکہ آیتوں کی تعیین کی وجہ سے کمی بیشی ہو گئی ہے.بعض لوگوں نے مضمون کے لحاظ سے ایک عبارت کو پوری آیت قرار دے دیا ہے اور بعض نے اس کو آدھی آیت قرار دے کر دوسری کا حصّہ سمجھ لیا ہے.اس وجہ سے لازماًسورۃ کی آیتوں کے شمار میں فرق پڑ گیا ہے.ورنہ مضمون سارے کا سارا ایک ہے.ہر لفظ دونوں کے نزدیک مسلّم ہے.ایک حرف کی بھی کمی بیشی سارے قرآن میں نہیں مگر اس جہالت

Page 256

کو کیا کیا جائے کہ بغیر تحقیق کے بعض لوگ رائے زنی شروع کر دیتے ہیں.زمانہ سورۃ یہ سورۃ اپنے مضمون کے لحاظ سے ہجرت سے پہلے کے آخری دور کی ہے.چنانچہ علامہ جلال الدین ؔسیوطی ؒ اس کو مکّی سورتوں میں سب سے آخری سورۃ کہتے ہیں.بعض لوگ اس کو مدنی سورۃ بھی قرار دیتے ہیں.لیکن اُن کی رائے جمہور علماء کے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتی.(A COMPREHENSIVE COMMENTARY ON THE QURAN VOL.3 P.174) ریورنڈ وہیری نےاس کو چھ اور سات سال بعد نبوت کے زمانہ کی قرار دیا ہے.لیکن زیادہ درست یہی ہے کہ یہ سورۃ ہجرت کے قریب زمانہ میں مگر اس سے پہلے نازل ہوئی خواہ یہ آخری سورۃ نہ ہو جیسا کہ علامّہ جلال الدین سیوطیؒ نے کہا ہے.اس سورۃ میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ مومن کامیاب ہونے والے ہیں اور اُن کی کامیابی کا زمانہ قریب آگیا ہے.دوسرے اس میں زکوٰۃ پر بھی خاص زور دیا گیا ہے.تیسرے اس میں باجماعت نماز پر بھی خاص طور پر زور ہے.یہ تین مضمون ایسے ہیں جو مدنی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.پس ان مضمونوں پر زور دینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پورا ہونے کا زمانہ قریب آگیا تھا.وہیری کی رائے کہ چھٹے یا ساتویں سال بعد نبوت میں یہ نازل ہوئی ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے کیونکہ اس رائے کو مان لینے سے پیشگوئی کی قدر اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر اسلامی روایات اور سورۃ کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ سورۃ ہجرت سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے نازل ہوئی تھی لیکن ہم وہیری کی تصدیق کرنے کی جرأت نہیں کرتے کہ یہ چھٹے یا ساتویں سال بعد نبوت نازل ہوئی تھی.ترتیب مضامین اس سورۃ کا قریبی تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ سورۃ حج کے آخرمیں فرمایا تھا کہ اے مومنو! خدا تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس کی اطاعت کرو تو تم کامیاب ہو گے.اسی طرح جہاد بالسیف کے وقت میں جہاد بالسیف کرو اور جہاد بالدعوۃ کے موقعہ پر جہاد بالدعوۃ کرو.اور یہ متبادل حکم کہ کبھی جہاد بالسیف اور کبھی جہاد بالدعوۃ ہم نے اس لئے دیا ہے کہ دین کے بارہ میں ہم نے کوئی تنگی نہیں رکھی یعنی نہ غیر مومنوں پر جبر جائز رکھا ہے اور نہ مومنوں کو اُن کی ضمیر کے خلاف کوئی حکم دیا ہے.پھر بتایا گیا تھا کہ جہاد فی الدین کے نتیجہ میں تم کو نمازیں پڑھنی چاہئیں.زکوٰتیں دینی چاہئیںاور خدا تعالیٰ کا دامن اس زور سے تھام لینا چاہیے کہ وہ یارِ یگانہ تم سے کبھی جدا نہ ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو لازمًا وہ تمہارا مددگار ہوگااور تمہارے کام پورے کرےگا.ان آیات میں مشروط طور پر بتایا گیا تھا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو

Page 257

کامیاب ہو جائو گے اور خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کروگے.سورۃ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسی جماعت پیدا ہوگی اور وہ جماعت ضرور کامیاب ہو جائےگی.گویاجو بات پہلے فرضی طور پر تسلیم کی گئی تھی اب اُس کے واقعہ ہوجانے کادعویٰ کیاہے.یہ سورۃ درحقیقت گریز ہے پہلی سورتوں کے مضمون سے.پہلی سورتوں میں مسیحیت کی تعلیم اور اُس کی غلطیوں اور اس کی اصلاح کا ذکر تھا.اس سورۃ میں بھی مسیحیت کی تعلیم کا ہی ردّ ہے لیکن ساتھ ہی اس امر کی طرف بھی زوردار اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کی جگہ اب ا سلام نے لے لی ہے.اور اس کی غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کرکے اب اسلام انسانوں کو کامیابی کی منزلیں طے کرائے گا جبکہ مسیحیت جاوۂ توحید سے ہٹ جانے کی وجہ سے اب وہ آسمانی ثمرات نہیں کھلا سکے گی جو اس کے ذریعے سے انسان پہلے زمانہ میں کھایا کرتا تھاکیونکہ خدا تعالیٰ انسانوں سے اُس ایمان کے مطابق سلوک کرتا ہے جو ان کے دل میں ہوتا ہے یا جس پر اُن کا عمل ہو.نہ اس کے مطابق جس کا وہ زبانی دعویٰ کرتے ہوں.خلاصہ مضمون اس سورۃ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والے لوگوں کی کامیابی کا وقت قریب آگیا ہے.(آیت ۱،۲) ان سچے مومنوں کی علامتیں یہ ہوںگی کہ (۱) وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ظاہر داری سے نہیں کریں گے.(۲) وہ ایسے تمام کاموں سے بچیں گے جن سے اُن کی ذات یا قوم یا ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو.(۳) وہ اپنے ملک کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہیں گے.(۴) وہ اپنے ان تمام راستوں کو بند کریں گے جن کے ذریعہ سے خرابیاں انسانی قلب میں داخل ہوتی ہیں.خصوصًا وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں گے.سوائے آزاد بیویوں یا مملوکہ بیویوں کے.ایسی صورت میں اُن پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا.(۵) جو ذمہ داریاں اُن کے سپرد کی جائیں گی اُن کو وہ پورا کریں گے اور جو معاہدے وہ دوسری قوموں سے کریں گے اُن کو وہ توڑیں گے نہیں.(۶) وہ اجتماعی عبادتوں کی خاص طور پر حفاظت کریں گے یعنی ملت یا قومیت کاجذبہ اُبھاریں گے اور انفرادیت کو ملت کے تابع کر دیں گے.ایسے لوگ اُن انعامات کے وارث ہوںگے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور وہ اسی دنیا میں وہ جنتیں پالیں گے جن کی مومنوں کو خبر دی گئی ہے.اور ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا تعالیٰ کے انعاموں

Page 258

کے وارث ہوںگے.یہ روحانی تخلیق ہے جو بالکل جسمانی تخلیق کے متوازی ہے.انسان کی جسمانی تخلیق بھی اسی طرح ہوئی ہے.انسان کو ہم نے مٹی سے نکلے ہوئے ایک خلاصہ سے پیدا کیا ہے (یعنی اُن خوراکوں سے جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں)پھر ہم نے اس کو نطفہ کی شکل میں تبدیل کر دیا.اور وہ نطفہ ایک ایسی جگہ پر ٹکاجہاں اُس کے لئے نشوونما کا موقع تھا.پھر ہم نے اُس نطفہ کو ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں بدل دیا.پھر اُس جمے ہوئے خون سے ہم نے گوشت کی بوٹی تیا ر کی.پھر ہم نے اس بوٹی کے ساتھ ہڈیاں بنائیں.پھر اُن ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھایا.اس کے بعد وہ پیدائش ایک نئی چیز بن گئی.یعنی انسان کی شکل اختیار کر گئی.(آیت ۳ تا۱۵) پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم جسمانی پیدائش کے بعد مر جاتے ہو اور پھر قیامت کے دن تم کو اُٹھایا جائےگا اسی طرح روحانی پیدائش میں بھی تم پر یہ بات آتی رہتی ہے کہ قومیں پیدا ہوتی ہیں اور مر جاتی ہیں اور پھر اُن کی جگہ دوسری قومیں کھڑی ہو جاتی ہیں.( آیت ۱۶.۱۷) پھر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری جسمانی اور روحانی ترقیات کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے( چنانچہ پہلی آیات میں جسمانی پیدائش کو بھی سات حصوں میں تقسیم کیا ہے اور روحانی پیدائش کو بھی سات حصوں میں تقسیم کیا ہے ) اورہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں.( آیت ۱۸) اور ہم نے آسمان سے اندازے کے مطابق پانی اتارا ہے ،پھر ہم اس کو زمین میں قائم رکھتے ہیں.(یعنی جسمانی پانی بھی اندازے کے مطابق اترتا ہے اور روحانی پانی بھی اندازے کے مطابق اترتا ہے ) اور ہم اس کے ضائع کر دینے پر قادر ہیں یعنی محض کسی تعلیم کا خدائی ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی خراب نہیں ہوگی.( آیت ۱۹) اور ہم نے تمہارے لئے باغات بنائے ہیں.کھجور کے بھی اور انگوروں کے بھی.اور اُن میں تمہارے لئے بہت سے پھل پیدا کئے ہیں جن کو تم کھاتے ہو اورزیتون کا وہ درخت بھی ہم نے بنایا ہے جو طورِ سینا سے نکلتا ہے.جس میں سے تیل بھی پیدا ہوتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سامان بھی تیار ہوتے ہیں ( اس کا ذکر سورۂ نور کی آیت نمبر۳۶ میں کیا گیا ہے ) اور ہم نے تمہارے لئے چارپائے بنائے ہیں وہ بھی تمہارے لئے ایک نشان ہیں.اُن کے پیٹوں میں سے نکلی ہوئی چیز یعنی دودھ کو تم پیتے ہو.اس کے علاوہ بھی تمہارے لئے ان میں بہت سے منافع ہیں اور تم اُن کا گوشت بھی کھاتے ہو.اور تم اُن جانوروں پر بھی اورکشتیوں پر بھی سواریاں کرتے ہو.یعنی اللہ تعالیٰ نے

Page 259

جس طرح انسانی زندگی کے لئے بہت سی آرام اور ترقی دینے والی اشیاء پیدا کی ہیں اسی طرح اُس نے روحانی زندگی کے لئے بھی مختلف قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں.جو شخص جسمانی راحت دینے والی چیزوں کو اختیار کرتاہے اور روحانی راحت دینے والی چیزوں کو اختیار نہیں کرتا اور اُن کو لعنت سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے وہ عقلمند نہیں بیوقوف ہے.( آیت ۲۰ تا ۲۳) اس کے آگے حضرت نوح ؑ کی مثال بیان فرماتا ہے کہ وہ بھی اپنے زمانہ میں فلاح کا رستہ دکھانے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ خدا ایک ہے دو نہیں ہیں.لیکن اُن کی قوم نے انکارکیا اورمحض اس لئے انکار کیا کہ وہ ایک انسان ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں (لیکن پہلوں نے تو اس لئے نبیوں کا انکار کیا کہ کیوں ایک انسان اُن میں نازل ہوا.اور مسیح ؑ کے بعد لوگوں نے اس لئے ایک نبی کا انکار کیا کہ خدا کا بیٹا اُن میں آچکا ہے اس لئے انہیں کسی انسان کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ ماننے کے قابل وہی بات ہے جو خدا کی طرف سے آئے خواہ وہ خدا کے لقب سے آئے یا خدا کے بیٹے کے لقب سے آئے یا نبی کے لقب سے آئے.بھیڑیں تو اپنے گڈریے کی آواز کو پہچانتی ہیں خواہ وہ گڈریا مشرق سے بولے یا مغرب سے بولے.شمال سے بولے یا جنوب سے بولے ہمارا گڈریا ہمارا خدا ہے وہ جس وجود میں بھی ہم کو آواز دے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی سنیں )فرماتا ہے.مخالف کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ ہمارے اندر ملائکہ نازل کر دیتا.یعنی ہم انسان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں.انسان سے اوپر کوئی اور وجود ہونا چاہیے ( اگر مسیحیوں کا دعویٰ سچاہے تو پھر ان لوگوں کا اعتراض کیوں جھوٹا ہے ) ہم نے تو اس قسم کا دعویٰ اپنے پہلوں سے کبھی سُنا نہیں تھا.(مسیح ؑ سے پہلے لوگوں نے کہا کہ ہم نے اس قسم کا دعویٰ پہلے کبھی نہیں سنا کہ کوئی انسان دوسرے انسانوں سے بڑا بننا چاہےاور مسیح کے وقت لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی انسان سے نہیں سُنا کہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرےاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی سے نہیں سنا کہ بنی اسرائیل سے باہر بھی کوئی نبی آسکتا ہے.افسوس ہمیشہ ہی انسان عذرلنگ تلاش کرتا رہا اور اُس نے کبھی بھی خدا کی آواز پر لبیک کہنے کی کوشش نہیں کی )اس شخص کو تو کوئی جنون معلوم ہوتا ہے.کچھ دن ٹھہرو نتیجہ نکل آئےگا.تب نوح ؑ نے اپنے خدا سے مدد مانگی اور خدا نے اُسے کہا کہ تو ہمارے حکم اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کر(یعنی ایک کامل تعلیم جو اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نجات کا موجب ہو )پھر جب مخالفت بڑھتی جائے اور عذاب کا وقت آجائے تو ہر قسم کے لوگوں کو اس کشتی کے ذریعہ سے تو پناہ دے اور اپنے اہل کو بھی اُس کے ذریعہ سے بچا.سوائے اس کے جس کے لئے خدا کی طرف سے عذاب کا حکم ہو چکا ہو.جب تو اُس کشتی میں سوار ہو جائے تو دعاکیجئیوکہ خدایا ! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہم کو ظالموں سے نجات دی اب تو ہمیں کسی اچھی جگہ پر

Page 260

اتار.جہاں ان ظالموں کے ظلم سے ہم محفوظ رہیں.اگر لوگ غور کریں تو نوح ؑ کی زندگی میں ایک بڑا نشان ہے.(آیت ۲۴ تا ۳۱) اس کے بعد نسلِ انسانی چلتی چلی گئی.کچھ زمانہ تک تو لوگ ہدایت پر قائم رہے پھر بگڑ گئے اور پھر ہم نے اُن میں سے ہی ایک رسول اُن میں بھجوایا ( رسول کا اسی قوم میں سے آنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ کسی غیر جنس میں سے ہو جیسا کہ مسیحیت کا دعویٰ ہے تو وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتا.ایک انسان شیر والے کام نہیں کر سکتا اور ایک شیر انسان والے کام نہیں کرسکتا.انسان کا بچہ خدا کے بچہ کی نقل نہیں کرسکتا.اور خدا کا بچہ کہلانے والا یعنی مسیح ؑ یا عزیر انسان کے بچہ کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا)اُس رسول نے ان کو حکم دیا کہ ایک خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو(نوح ؑ کے بعد آنےوالے رسولوں نے بھی صرف ایک خدا کی خبر دی دو کی نہیں ) اس کی قوم کے سرداروں نے جو کہ مابعد الموت زندگی کے منکر تھے اور دنیوی اموال پرخوش تھے اپنی قوم سے اس کے بارہ میں کہا ارے لوگو! یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کچھ یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی کچھ یہ پیتا ہے.اگر تم ایسے آدمی کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھائو گے.یہ تو کہتا ہے کہ تم مر کر پھر جی اٹھو گے.ہم تو اسی دنیا میں مریںگے اور جئیں گے.مرنے کے بعد کوئی اور زندگی ہم کو نہیں ملے گی.یہ شخص جھوٹا ہے (یہی وہ خرابی ہے جو ہمیشہ ہی دنیا کے لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی سے پھرا دیتی ہے )تب نبی نے دُعا کی کہ اے میرے رب! انہوں نے تو میرا انکار کر دیا ہے اب تو ہی میری مدد کر.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جلد ہی اپنے کئے پر شرمندہ ہوںگے اور ان کو عذاب نے پکڑ لیا اور وہ تباہ ہوگئے.(آیت ۳۲ تا ۴۲) اس کے بعد پھر کچھ لوگ گذرے.اور ہم نے پے در پے اُن کے اندر رسول بھیجنے شروع کرد ئیے مگر جس قوم کے پاس بھی رسول آیا اُس نے انکار کیا اور ہم نے بھی قوم کے بعد قوم کو ہلاک کرنا شروع کر دیا.( آیت ۴۳ تا ۴۵) ان سب واقعات کے بعد موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون آئے اُن کے ساتھ بھی ہمارے نشان اور دلائل تھے لیکن فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تکبر سے کا م لیا اور پہلے لوگوں کی طرح یہی کہا کہ کیا ہم ان دو آدمیوں کو مان لیں جو ہمارے جیسے ہیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ہلاک ہوگئے اور موسیٰ کو ہم نے ایک تفصیلی شریعت دی تاکہ لوگ اُس سے صحیح راستہ دیکھیں اور پھر ہم نے مریم کے بیٹے اور اُس کی ماں کو ایک نشان بنا کے بھیجا.اور اُن دونوں کو ہم نے ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو رہنے کے لئے بھی بڑی اچھی تھی اور اُس میں پانی بہتے تھے (یعنی کشمیر کا علاقہ ).(آیت ۴۶ تا ۵۱)

Page 261

اے رسولو! تم حلال میں سے طیب چیزیں کھائو اور مناسب حال عمل کرو اور میرا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خداتمہارے اعمال سے واقف ہے.دیکھو یہ سارے نبی ایک ہی شکل کے ہیں.سب کے حالات ملتے جلتے ہیں اور ان کے دعوے بھی ملتے جلتے ہیں پھر تم کیوں خدا کے بارہ میں اختلاف کرتے ہو.( آیت ۵۲، ۵۳) لیکن انسانوں کی یہ حالت ہے کہ جب کبھی بھی اُن کے پاس نبی آئے انہوں نے بعد میں اُن کی تعلیم کو کوئی اور شکل دے دی اور نئے نئے مذہب بن گئے.حالانکہ ابتداء ً سب تعلیمیں ایک سی تھیں.اب تو ان کو اُن کی غفلت میں چھوڑ دے.کیونکہ تجھے اُن پر جبر کا کوئی اختیار نہیں.اُن کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو جو مال اور اولاد ملی ہے وہ اُن کی عزت اور ان کے درجے کی وجہ سے ملی ہے حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ یہی چیزیں ان کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں.( آیت ۵۴ تا ۵۷) مومن تو اپنے رب کے خوف سے ہمیشہ لرزاں اور اُس کے نشانوں پر ایمان لانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.اور خدا کا کسی کو شریک نہیں بناتے اور ہر قسم کی نیکی کرکے بھی اپنے آپ کو قصور وار ہی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ قرار دیتے ہیں.اور وہ نیکی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں اور دوڑ کر نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم اتنی ہی کسی انسان سے امید کرتے ہیں جتنی کہ اُس میں طاقت ہوتی ہے.اور جب ہم فیصلہ کریں گے تو ایسے امتیازی طریقوں کے ساتھ فیصلہ کریں گے کہ جتنا جتنا کوئی شخص حقدار ہوگا اُتنا اُس کو حق مل جائےگا اور کوئی وجہ جو کسی کے غیر مجرم بنانے کی ہو نظر انداز نہیں کی جائےگی.( آیت ۵۸ تا ۶۳) لیکن ان لوگوں کے دل تو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ کبھی بھی کوشش نہیں کرتے کہ نیکی کریں یا نیکی میںآگے بڑھیں.یہاں تک کہ جب اُن کے دولتمندوں پر عذاب کی گرفت آجاتی ہے تو پھر وہ گریہ وزاری کرنے لگ جاتے ہیں.اُس دن ہم اُن سے کہتے ہیں آج گریہ وزاری کا کیا فائدہ ہے.آج ہم تمہاری مدد کس طرح کر سکتے ہیں.تمہارے سامنے ہماری تعلیم سنائی جاتی تھی لیکن تم ایڑیوں کے بل پھر جاتے تھے اور اس پر کبھی غور نہیں کرتے تھے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے.اور راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر ہماری تعلیم کو بُرا بھلا کہا کرتے تھے.( آیت ۶۴ تا ۶۸) کیا انہوں نے کبھی ہماری باتوں پر غور نہ کیا یا انہوں نے یہ نہ سوچا جو کچھ ان سے کہا گیا ہے وہی ان کے باپ دادوں سے بھی کہا گیا تھا.کیا انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جو شخص ان سے مخاطب ہو رہا ہے اس کی تعلیم میں ان کی ترقی کا راز مضمر ہے.مگر باوجود اس کے وہ انکار کر رہے ہیں.وہ کہتے ہیں اسے جنون ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس مجنون کی باتیں وہ ہیں جو نظر آتی ہیں کہ آخر ہو کر رہیں گی اور اصل بات تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو اس نتیجہ سے

Page 262

ڈرتے ہیں جس نتیجہ کی طرف یہ شخص توجہ دلارہا ہے.اگر حقیقت ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو جاتی تو زمین و آسمان میں فساد پیدا ہو جاتا اور انسان تباہ ہو جاتے.( آیت ۶۹ تا ۷۲) توان سے کچھ مانگتاتو نہیں تیری مدد تو خدا کرتا ہے.تُو تو ان کو صرف سیدھا راستہ دکھاتا ہے اور یہ لوگ سیدھے رستہ پر چلنے سے کتراتے ہیں.ہم تو ان کو بخش ہی دیتے لیکن ہم بخشیں تو یہ شرارتوں میں اور بھی بڑھ جاتے ہیں اگر عذاب کے وقت یہ توجہ کریں تو پھر بھی ہم کچھ رحم کردیں.مگر یہ تو عام عذاب کے وقت بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے.اور جب آخری عذاب آجاتا ہے تو پھر بالکل ہی نا امید ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں.( آیت ۷۳ تا ۷۸) پھر فرماتا ہے ذرا سوچو تو سہی تمہاری یہ شنوائیاں ، تمہاری بینائیاں اور تمہارے دل تمہارے کس کام کے بدلہ میں تمہیں ملے ہو ئے ہیں.کیا کبھی اس کا بھی شکر کیا ہے؟ یہ رات اور دن کی تبدیلیاں اور یہ موت اور حیات تمہارے لئے کیسے فوائد رکھتی ہے ؟ کیا تم سمجھتے نہیں.بس ایک ہی رٹ لگی جاتی ہے کہ مر کر زندہ کس طرح ہوںگے.یہی بات ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں مگر کبھی ثبوت نہیں ملا.( آیت ۷۹ تا ۸۴) تو ان سے کہہ کہ آخر یہ سب کچھ کس کا ہے ؟ خدا کا.کیا پھر بھی نصیحت نہیں آتی پھر تو پوچھ کہ آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے.یہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ اللہ.مگر پھر بھی نہیں سمجھتے اور یہ تمام مخلوق کی بادشاہت اور دعائوں کا سننا کس کے اختیا رمیں ہے ؟ اللہ کے.پھر بھی تم غور نہیں کرتے.( آیت ۸۵ تا ۹۱) یاد رکھو.خدا کا کوئی بیٹا نہیں.اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.اگر ایسا ہوتا تو ضرور ایک دوسرے کے خلاف بغاوت ہو جاتی.وہ غیب اور شہادت کو جانتا ہے ( حالانکہ مسیح ؑ غیب کے جاننے سے منکر ہے.مرقس باب ۱۳ آیت ۳۲ ، ۳۳) پس وہ تمہارے شرکوں سے بالا ہے.( آیت ۹۲ ، ۹۳) تو کہہ دے کہ اگر میری زندگی میں میری قوم پر عذاب آئے تو اے خدا تو مجھے ان سے علیحدہ رکھیو.پھر فرماتا ہے ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تیری آنکھوں کے سامنے ان پر عذاب لے آئیں لیکن تو خود یہی طریق اختیار کر کہ بری باتو ں کا جواب اچھی باتوںسے دے اور اگر ان کی گالیوں سے کبھی غصہ آجائے تو ہم سے دعا مانگا کر کہ الٰہی شیطان کے وسوسوں سے مجھے محفوظ رکھ بلکہ ایسے مواقع سے ہی مجھے محفوظ رکھ کہ شریر لوگ میرے سامنے ایسی باتیں کریں جو ناقابل برداشت ہوں.( آیت ۹۴ تا ۹۹) یہ لوگ تو اسی طرح شرارتیں کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ موت آجائے گی اور اس وقت کہیں گے کہ خدایا اب تو ہم کو واپس کر تاکہ ہم نیک عمل کریں.مگر ایسا نہیں ہو سکے گااور جب ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اس

Page 263

وقت سب رشتے ٹوٹ جائیں گے اور صرف وہی لوگ کامیاب ہوںگے جنہوں نے دنیا میں کچھ کام کیا ہوگا.جنہوں نے دنیا میں کوئی اچھا کام نہیں کیا ہو گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے.آگ ان کے مونہوں کو جلا کر سیاہ کر دے گی اور ان کو کہا جائے گا کہ تم ہمارے نشانوں کا انکار کیا کرتے تھے.( آیت ۱۰۰ تا ۱۰۶) اس پر وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہماری بد قسمتی سے ایسا ہوا.ہم گمراہ تھے خدایا تو پھر ہم کو لوٹا دے.پھر ہم ایسا نہیں کریں گے.فرمائے گا.اب ان باتوں سے کیا فائدہ.میرے بندے صرف اتناہی کہتے تھے نا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے.تو ہمیں معاف کردے.تو بڑا رحم کرنے والا ہے.تمہاری جائیدادیں تو نہ چھینتے تھے مگر تم ان سے مزاق کرتے تھے.اتنا مزاق کہ دنیا میں کوئی اور چیز تمہیں یاد ہی نہ رہی تھی.اب میں ان کی اس مظلومیت کا بدلہ لوں گا.( آیت ۱۰۷ تا ۱۱۲) پھر خدا ظالموں سے پوچھے گا تم کتنی مدت دنیا میں رہے ؟ وہ کہیں گے کچھ نہیں.کوئی ایک دن یا دن کا کچھ تھوڑا سا حصہ ( آرام کی زندگی تکلیف کے وقت بالکل حقیر نظر آنے لگ جاتی ہے ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا ٹھیک ہے تم تھوڑا ہی رہے مگر کاش !کہ تمہیں پہلے اس کا علم ہوتا کہ یہ زندگی جس کو تم لمبا سمجھ رہے ہو تھوڑی ہے.( آیت ۱۱۳ تا ۱۱۵) اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے تم کو بغیر کسی غرض کے پیدا کیا ہے اور تم ہمارے سامنے جواب دہ نہیں ہو گے.اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے وہ سچا اور حقیقی بادشاہ ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک بزرگ عرش کا مالک ہے جو شخص بے دلیل اس کے سوا کوئی معبود ٹھیراتا ہے اس کو خدا کے سامنے حساب دینا پڑے گا اوروہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا.تو ان لوگوں سے منہ پھیر لے اور اپنے خدا سے بخشش مانگ اور اس کا رحم طلب کر.( آیت ۱۱۶ تا ۱۱۹)

Page 264

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ( تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حدکرم کرنےوالا( اور) بار بار رحم کرنےوالا ہے(پڑھتا ہوں) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۲الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ (کامل) مومن اپنی مراد کو پہنچ گئے.و ہ( مومن) جو اپنی نمازوں میں خٰشِعُوْنَۙ۰۰۳وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ۰۰۴ عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ۰۰۵وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ جو زکوٰۃ( باقاعدہ) دیتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں حٰفِظُوْنَۙ۰۰۶اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک اُن کے دائیں ہاتھ ہوئے ہیں فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَۚ۰۰۷فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ پس ایسے لوگوں کو کسی قسم کی ملامت نہیں کی جائےگی.اور جو اس کے سوا کسی هُمُ الْعٰدُوْنَۚ۰۰۸وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ اور بات کی خواہش کریں تو وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہوںگے.اور وہ لوگ (یعنی کامل مومن) جو اپنی رٰعُوْنَۙ۰۰۹وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَۘ۰۰۱۰ امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں.اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ۰۰۱۱الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ١ؕ هُمْ یہی لوگ اصل وارث ہیں.جو فردوس کے وارث ہوںگے.

Page 265

فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۱۲ وہ اس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.حلّ لُغَات.اَفْلَحَ.اَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں فَازَ وَظَفِرَ بِمَاطَلَبَ انسان اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا.اور اُس نے اپنے مقصد کو پالیااوراَفْلَحَ زَیْدٌ کے معنے ہیں نَجَحَ فِیْ سَعْیِہٖ وَاَصَابَ فِیْ عَمَلِہٖ.زید نے اپنی کوشش کے پھل کو پالیا اور اُس کی محنت بار آور ہوئی.( اقرب ) اَلْفَلَاحُ.اَلْفَلَاحُ : اَلظَّفَرُ وَ اِدْرَاکُ بُغْیَۃٍ.یعنی فلاح کے معنے کسی کام میں کامیابی اور مقصود کو پالینے کے ہیں ( مفردات ) پس اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کے معنے ہیں کہ کامل مومن اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا.اَللَّغْوَ.اَللَّغْوُ لغو کے معنے ہیں مَالَا یُعْتَدُّبِہٖ مِنْ کَلَامٍ وَغَیْرِہٖ.ہر ایسا کلام یا فعل جو کسی توجہ کے قابل نہ ہو ( اقرب) وَقَدْیُسَمّٰی کُلُّ کَلَامٍ قَبِیْحٍ لَغْوًا.اسی طرح ہر بُری اور ناپسندیدہ بات کو بھی لغو کہتے ہیں.( مفردات) اَلْخَاشِعُوْنَ.خَاشِعُوْنَ خَاشِعٌکی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے اور خَشَعَ لَہٗ کے معنے ہیں ذَلَّ وَ تَطَاْ مَنَ.فرمانبردار ہوگیا اور عاجزی کا اظہار کیا.اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہٗ آنکھ نیچے کر لی.نہایۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخُشُوْعُ فِی الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کا تعجز اور اُس کی کمزوری ظاہر کرنے کے لئے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے ( اقرب) مفردات میں ہے.اَلْخُشُوْعُ:اَلضَّرَاعَۃُ.خشوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں اور خشوع کا استعمال بالعموم اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہوتی ہے اور تضرع کا لفظ دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے ( مفردات ) پس خٰشِعُوْنَ کے معنے ہوںگے.عاجزی اور فروتنی اختیار کرنے والے.الزَّکوٰۃ.الزَّ کٰوۃ زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْءُ کے معنے ہیں نَمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہوگئی.کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ : صَلَحَ وَ تَنَعَّمَ وَکَانَ فَیْ خِصْبٍ.کوئی شخص عمدہ حالت میں ہوگیا (کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضُ اُس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے ) اور جب زَکَّاہُ اللہُ کہیں تو اس کے معنے ہوںگے اَنْمَاہُ.اللہ تعالیٰ نے اس کو پروان چڑھایا.طَھَّرَہٗ اُسے پاکیزہ کیا.زَکّٰی فُلَانٌ مَالَہٗ کے معنے ہوتے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکٰوتَہُ.

Page 266

اُس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اور جب زَکّٰی نَفْسَہٗ کہیں تو معنے ہوںگے کہ مَدَحَھَا اپنے نفس کو اُس نے تعریف کے قابل بنایا.پس اَلزَّ کٰوۃ کے معنے ہیں (۱) صَفْوَۃُ الشَّیْءِ.اعلیٰ درجہ کی چیز (۲) طَاعَۃُاللہِ اللہ کی اطاعت (۳) مَا اَخْرَجْتَہٗ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرَہُ بِہٖ.مال کا وہ حصہ جو بطور زکوٰۃنکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے اور صدقہ کا نام اس لئے زکوٰۃ رکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ مال میں برکت ڈالتی اور اُسے بڑھاتی ہے اور انسان کو آفات سے بچاتی ہے.(اقرب) اَلْفِرْدَوْسَ.اَلْفِرْدَوْسُ فردوس کے معنے ہیں اَلْجَنَّۃُ الَّتِیْ تُنْبِتُ ضُرُوْبًا مِنْ النَّبْتِ.وہ باغ جو کئی قسم کی نباتات اُگاتا ہے.اَلْبُسْتَانُ یَجْمَعُ کُلَّ مَایَکُوْنُ فِی الْبَسَاتِیْنِ.وہ باغ جس میں تمام وہ اشیاء ہوں جو باغوں میں ہو سکتی ہیں.( اقرب) تفسیر.ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ جن مسلمانوں میں یہ اوصاف پائے جائیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ظاہر داری سے نہیں کریں گے بلکہ دلی خشوع اور انتہائی عجزو انکسار اور پوری فروتنی کے ساتھ اُس کی یاد میں مشغول رہیں گے اور ایسے تما م کاموں سے بچیں گے جن سے اُن کی ذات یا قوم یا ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہواور اپنے ملک کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہیں گے اور اپنے اُن تمام راستوں کو بند کریں گے جن کے ذریعہ سے خرابیاں انسانی قلب میں داخل ہو تی ہیں.بالخصوص وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں گے اور سوائے جائز ذرائع کے اور کسی طرح اپنی عفت پر حرف نہیں آنے دیں گے اور جو اُن ذمہ داریوں کو پورا کریں گے جو اُن کے سپر د کی جائیں گی اور جو معاہدے وہ دوسری قوموں سے کریں گےاُن کو توڑیں گے نہیںاور جو انفرادیت کو ملت کے تابع کردیں گے اور قومیت کا جذبہ اُبھاریں گے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اُن کو حاصل ہوگی.یہ ایک زبردست صداقت ہے جس سے شیعیت کاردّ ہوتا ہے.کیونکہ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نعوذ باللہ صرف اڑھائی مومن تھے.ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ.ایک اُن کا غلام اور آدھے مومن سلمان فارسی ؓ تھے لیکن اوّل تو یہ بات اس لحاظ سے غلط ہے کہ ہر مذہب کی خوبی اس کے ثمرات سے ہی پہچانی جاتی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام اسی اصل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہےاور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے.اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا.نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے.جودرخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے.پس اُن کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے.‘‘ (متی باب ۷آیت ۱۷ تا ۲۰)

Page 267

اب اگر ایک شخص دنیا کی اصلاح اور اس کے درست کرنے کے لئے مامور ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی سب کوششیں اکارت چلی جاتی ہیں اور وہ ایک ایسی جماعت چھوڑ جاتا ہے جو بے دین اور منافق اور خدا سے دور ہو.اور جس میں صرف اڑھائی مومن پائے جاتے ہوں تو یقیناً اس کا دعویٰ سچا نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ ایک کام کے لئے بھیجے اور پھر وہ اس کام میں ناکام ہو جائے.اُس کی کامیابی اُسی صورت میں سمجھی جا سکتی ہے جب اس کی تربیت یافتہ اور اس کی صحبت سے مستفیض ہونے والی جماعت کا بیشتر حصہ اُس کے اثر سے متاثر ہو.اور اس کی تعلیم کا حامل اور اُس پر پوری طرح عامل ہو.ورنہ اُس کی آمد بالکل فضول اور اُس کی بعثت بالکل عبث ہو جاتی ہے.اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی نیک اور پاک جماعت تدریجی مراحل طے کئے بغیر اچانک شرارت اور فتنہ کا مجسم نمونہ بن جائے.پس جو مذہب یہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور اُن کے بعد خدمتِ اسلام کرنے والے لوگ درحقیقت منافقوں کی ایک جماعت تھے اور اسلام صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دم تک تھا یا آپ کے بعد آپ کے چند رشتہ داروں کے دلوں میں اس کاا ثر محدود ہو کر رہ گیا وہ یا تو قانونِ قدرت اور انبیاء کی شان سے بالکل نا واقف ہے یا پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درپردہ مخالف ہے کہ آپ کو ناکام ثابت کرنا چاہتا ہے.اور اسلام کو ایک بے ثمر درخت اور اس کی تعلیم کو ایک بے اثر تعلیم بتا کر دشمنوں کو خوش کرنا اور اسلام کی وقعت کو گرانا چاہتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بڑے گناہوں میں سے ایک یہ بھی گناہ ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو گالی دے.لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا کوئی ایسا بدبخت بھی ہو سکتا ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے.آپ نے فرمایا ہاں جب وہ کسی کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے اور دوسرا اُس کے جواب میں اُسکے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے تو درحقیقت یہی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دلوانے والا ہوتا ہے(صحیح بخاری کتاب الادب ،باب لا یسب الرجل والدیہ).اسی طرح جن لوگوں کو کوئی قوم اپنے روحانی ہادیوں میں سے سمجھتی ہو.اُن کی عزت وہ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ کرتی ہے.پس اُن کی نسبت اگر کوئی قوم یہ الفاظ استعمال کرتی ہے کہ وہ منافق اور بے ایمان تھے تو درحقیقت وہ اپنے بزرگوں کو گالیاں دیتی ہے اور یہ ایک خطرناک جرم ہے.جس سے افتراق اور اختلاف کی خلیج وسیع ہو جاتی ہے.پس اوّل تو یہ کہناکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں سے صرف اڑھائی مومن تھے باقی تمام لوگ نعوذ باللہ منافق اور بے ایمان تھے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ اور آپ کے اعلیٰ درجہ کے روحانی کمالات پر اعتراض کرنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے آپ کو انبیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے.لیکن ایسا کہنے والے تو حضرت موسیٰ ؑ اور

Page 268

حضرت عیسٰی علیہما السلام سے بھی آپ کو ادنیٰ قرار دیتے ہیں.کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں کی خدا تعالیٰ قرآن کریم میں تعریف کرتا ہے ( الصف:۱۰)اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ اُن کی قوم کے گو سارے نوجوان ایمان نہیں لائے تھے.مگر کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے (یونس :۸۴) اور کچھ لوگوں سے مراد اڑھائی مومن نہیں ہو سکتے.دوسرے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ فرما کر اللہ تعالیٰ نے شیعیت کے اس حملہ کا بھی رد کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اُن کا یہ نظریہ محض غلط اور بے بنیاد ہے.مومنون کا لفظ جو اس جگہ استعمال کیا گیا ہے جمع سالم ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مومن بہر حال تین یا تین سے زیادہ ہونے چاہئیں.اور اگر ان سات اقسام کو جو اگلی آیات میں بیان ہوئی ہیں مدنظر رکھا جائے توایسے مومن کم سے کم اکیس ضرور ہونے چاہئیں حالانکہ شیعہ صرف اڑھائی آدمیوں کو مومن قرار دیتے ہیں دوسرے اس آیت سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جو سچے مومن ہیں وہ کامیاب ہوںگے.اور واقعات سے ظاہر ہے کہ کامیاب ابوبکرؓ ہوئے.عمرؓہوئے.عثمانؓ ہوئے.حضرت علی ؓ تو ساری عمر ان لوگوں کے وظیفہ خوار رہےاور جب اُن کو حکومت ملی تو خود اپنے آدمیوں نے اُن کی مخالفت کی اور اپنے آدمیوں کے ہاتھ سے ہی مارے گئے.پس معلوم ہوا کہ اہل السنت و الجماعت کے افراد جو تمام صحابہؓ کو مومن قرار دیتے ہیں وہی حق پر ہیں نہ کہ وہ جن کی نگاہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اڑھائی مومن نصیب ہوئے.صحابہؓ کا مقام تو ایسا بلند تھا کہ خود قرآن کریم اُن کی تعریف کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی نیکی اور تقویٰ اور اخلاص میں وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ خدا اُن سے راضی ہوگیاتھا.چنانچہ فرماتا ہے.وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.(التوبۃ:۱۰۰)یعنی جولوگ مہاجرین اور انصار میں سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں.اور وہ لوگ بھی جو کامل اطاعت دکھاتے ہوئے اُن کے پیچھے چلے.اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے.اُس نے اُن کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اُن میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے.لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ ایسا بھولا بھالا اور سادہ ہے کہ وہ منافقوں کے دھوکے میں بھی آجاتا ہےاور اُن سے بھی راضی ہو جاتا ہے.اب بتائو جن مہاجرین اور انصار سے خدا راضی ہو گیا اور جن کو اُس نے اپنی جنت میں داخل کر لیا اور انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ عطاکر دیا اُن کو منافق قرار دینا کیا خود اپنے نفاق اور کمیٔ ایمان کی علامت نہیں؟ پھر صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ (الاحزاب :۲۴) یعنی

Page 269

ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اسلام لاتے وقت جو وعدے کئے تھے اُن کو مکمل طورپر انہوں نے پورا کرکے دکھا دیا ہے.اور کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیںاور بعض انتظار کر رہے ہیں اور ایسے لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور کفار سے لڑتے ہوئے مارے گئے.درجنوں سے زیادہ ہیں مگر شیعہ ایسے حساب دان ہیں کہ اُن کے نزدیک جو درجنوں کی جماعت ہے اُسے اڑھائی آدمی کہنا چاہیے.پھر شیعہ کہتے ہیں کہ خلافت کا اصل حق تو حضرت علی ؓ کا تھا اور انہی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت بھی فرمائی تھی مگر ابو بکر ؓ اور عمر ؓ جن کو خلافت کی خواہش تھی انہوں نے حضرت علیؓ کا حق غصب کر لیا اور خود خلیفہ بن گئے ( جلاء العیون فصل ششم در بیان احوال چند ).یہ عقیدہ بھی اوّل تو اس لحاظ سے غلط ہے کہ حضرت علیؓ جیسے بہادر اور شجاع انسان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ ایک امر کو حق سمجھتے ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا حامل ہوتے ہوئے اس کے خلاف عمل کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش رہےاور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیااور عالم اسلام کو تباہی کے گڑھے میں گرتے دیکھ کر بھی کوئی قدم اٹھانا مناسب نہ سمجھا بالکل عقل کے خلاف ہے.پھر تاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی بھی بیعت کی تھی اور پھر حضرت عمرؓ کی بھی بیعت کی تھی (البدایۃ و النھایۃ فصل خلافۃ ابی بکر)اور ان دونوں خلفاء کے ساتھ مل کر وہ کام کرتے رہے بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بعض سفروںکے پیش آنے پرحضرت علیؓ کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر بھی مقرر فرمایا.چنانچہ طبریؔ میں لکھا ہے کہ واقعۂ جسر کے موقعہ پر جبکہ مسلمانوں کو ایرانی فوجوں کے مقابلہ میں ایک قسم کی زک اُٹھانی پڑی تھی حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیاکہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران کی سرحد پر تشریف لے جائیں اور آپ نے اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا.(تاریخ طبری ذکر الخبر عما ھیج القادسیۃ)اسی طرح جب مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور وہاں کے لوگوں نے اُس وقت تک ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا جب تک کہ خود حضرت عمرؓ وہاں تشریف نہ لائیں.تو اُس وقت بھی حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو ہی اپنے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا.حالانکہ آپ کو کئی ماہ کاسفردرپیش تھا(البدایة و النھایة فتح بیت المقدس علی یدی عمر بن الخطابؓ).اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت علیؓ اپنا عندیہ اتنا چھپاتے تھے کہ حضرت عمر ؓ اُن کو اپنے پیچھے گورنر مقرر کر دیتے تھے اور اس بات سے ذرا بھی نہیں ڈرتے تھے کہ پیچھے یہ بغاوت کر دیں گے گویا حق چھپانے کی عادت حضرت علیؓ میں انتہا درجہ کی پائی جاتی تھی.اگر یہی بات کسی شیعہ عالم کے متعلق کہی جائے تو غالبًا وہ گالیاں دینے لگ جائےگا.لیکن ایسی گندی بات حضر ت علی ؓ کی طرف

Page 270

منسوب کرتے ہوئے اور ذرا نہیں شرماتے اور درحقیقت وہ اس طرح حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو بکر ؓ کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ خود حضرت علی ؓ کو گالیاں دیتے ہیں.بہرحال جو شخص ابوبکر ؓ اور عمرؓ کی غلامی کا جؤا اپنی گردن پر رکھ لیتا ہے اور اُن کی بیعت میں شامل ہوجاتا ہے اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے.اُس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ دل میں خلافت کو اپنا حق سمجھتا تھا اور حق بھی لیاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ منشائے شریعت کے مطابق.اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے بنتے ہیں کہ حضرت علیؓ نعوذ باللہ ظاہرکچھ کرتے تھے اور دل میں کچھ رکھتے تھے اور یہ بات حضرت علیؓ کی نسبت امکانی طور پر بھی ذہن میں لانا گناہ ہے.کجا یہ کہ اس کے وقوع پر یقین کیا جائے.پس اوّل تو حضرت علیؓ کا طریق عمل خود اس خیال کو باطل کر رہاہے.دوسرےقَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کی آیت بھی شیعوںکے اس خیال کی تردید کرتی ہے کیونکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ جن مومنوں میں وہ صفات ہو ںگی جن کااللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں ذکر فرمایا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.کیونکہاَفْلَحَ کے معنے اپنے مقصد اور مدعا کو حاصل کرلینے اور اس میں کامیاب ہو جانے کے ہوتے ہیں.پس اگر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کو شیعوں کے نظریہ کے مطابق خلافت کی خواہش تھی اور وہ خلیفہ بن بھی گئے تو صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ کامل مومن تھے جن کواللہ تعالیٰ نے مذہبی اور سیاسی نظام کی باگ ڈور دے دی اور انہیں دُنیا کا راہنما بنا دیااور یا پھر یہ ماننا پڑےگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے باوجود حضرت علیؓ یہی چاہتے تھے کہ ابوبکر ؓ خلیفہ ہو جائیں.میں نہ بنوں سو خدا نے اُن کی اس خواہش کو پورا کر دیا اور حضرت ابوبکرؓ کامیاب ہو گئے.لیکن بعد میں حضرت علیؓ کے اتباع نے ہی اُن کو گالیاں دینی شروع کر دیں.پس قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کی آیت نے شیعوں کے ان دونوں خیالات کا ردّ کر دیا.اس خیال کا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نعوذ باللہ منافق تھی اور صرف اڑہائی آدمی پکے مومن تھے اور اس خیال کا بھی کہ خلافت کے اصل مستحق حضرت علیؓ تھے ،حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے ان کا حق غصب کر لیا تھا.اس جگہ یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ میں مومنوں کے متعلق فلاح کے لفظ کا استعمال بتا رہا ہے کہ مومن کا اصل مقام نجات حاصل کرنا نہیں بلکہ فلاح حاصل کرنا ہے نجات جس کے اصل معنے تکلیفوں اور دُکھوں سے بچ جانے کے ہیں بیشک ایک خوبی ہے مگر اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد کو حاصل کرلے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جرنیل کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ وہ دشمن سے بچ کر نکل آیا.بیشک بعض مواقع پر اُس کا دشمن سے بچ کرنکل آنا بھی قابلِ تعریف فعل ہوگا مگر حقیقی تعریف کا وہ تبھی مستحق ہوگا

Page 271

جب دشمن کو بھی گرفتار کرلے.اسی طرح اسلام صرف یہ تعلیم نہیں دیتا کہ تم نجات حاصل کرو بلکہ وہ اس سے بھی بلند تر مقصد مومنوں کے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے تم فلاح حاصل کرنے کی کوشش کرو.کیونکہ جب انسان دشمن پر کامیابی حاصل کرلے گا تو یہ لازمی امر ہے کہ وہ اُس کے حملہ سے بھی بچ جائےگا یا وہ شخص جسے بھوک نہیں بیشک وہ بھوک کی تکلیف سے بچا ہوا ہوگا مگر وہ جس نے جسم کو طاقت پہنچانے والا کھانا کھایا ہو ا ہو وہ بھوک سے بھی بچا ہوا ہوگا اور اُس کا جسم بھی تنومند ہوگا.پس فلاح ایک ایسا مقام ہے جس میں نجات بھی شامل ہے اور فلاح یہ ہے کہ انسان اس مقصد کو حاصل کرلے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.یہ ظاہر ہے کہ انسان اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کا مظہر بن جائے اور خدا تعالیٰ سے ملنے کی جو تڑپ انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے اس کے مطابق وہ اپنے محبوبِ حقیقی کا قرب حاصل کرلے.یہی وہ مقصد ہے جسےاللہ تعالیٰ نے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( الذاریات :۵۷) میں بیان فرمایا ہے.پس فلاح یہ ہے کہ انسانی پیدائش کا مقصد حاصل ہوجائےاوراللہ تعالیٰ کی رضا انسان حاصل کرلے.یہ مقام انسان کو کیسے حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے کیا کیا ذرائع ہیں.ان امور کا تفصیلی ذکر اس جگہ کیا گیا ہے.چنانچہ اس سورۃ میںاللہ تعالیٰ رُوحانی اور جسمانی پیدائشوں کو بالمقابل بیان کرکے پہلے رُوحانی پیدائش کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مومن کامیاب ہوگئے جو اوّل اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں اورپھر اس سے ترقی کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہر قسم کی فضول اور بے فائدہ باتوں سے پرہیز کرنے لگ جاتے ہیں.یعنی وہ اُن تمام کاموں سے اجتناب اختیار کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو.مثال کے طور پر شطرنج ہے تاش ہے یا اور اس قسم کی کئی کھیلیں ہیں جن سے وقت ضائع ہو تا ہے.اسلام ہرمومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے لغوکاموں سے بچیں اور شطرنج اور تاش یا اس قسم کی دوسری کھیلوں میں حصّہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے.ہاں وہ ورزش سے نہیں روکتاکیونکہ یہ انسان کے اندر جرأت اور بہادری اور طاقت پیدا کرتی ہے.یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے.یامثلاً بیکار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بیکار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گپیں ہانکتے رہتے ہیں.اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کررہے ہیں.ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائیداد چھوڑ جاتا ہے.اب لڑکے کا کام صرف یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے.ایک آتا اور کہتا ہے.نواب صاحب آپ ایسے ہیں یا لالہ صاحب آپ ایسے ہیں یا پنڈت صاحب آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں اور پھر دوسراتعریف شروع کردیتا ہے.وہ خاموش ہو تا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع

Page 272

کر دیتا ہے.اسی طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں اور گپیں ہانکتے ہیں اور اس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں.اس پر وہ بھی اُن کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے.اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الائچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام ان کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے.مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں.اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں.اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گذر جاتا ہے.اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیں دیتا.وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں.وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہیے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو.وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا.آخر اُسے سوچنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا اُس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے.یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اُس کی ذات کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرنا ہے.اور اسلام اس قسم کی بیکار زندگی کی اجازت نہیں دیتا.اگر ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ روپیہ بھی جائیداد میں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائیداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کو ضائع نہ کرے بلکہ اسے قوم اور مذہب کے فائدہ کے لئے خرچ کرے.اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میّسر آئے تو وہ ایسی خدمات سرانجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں.اس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے ملک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کرکے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بھی بنا سکتا ہے.اس ضمن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں.وہ ریشم استعمال نہ کریں (بخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذّھب).اسی طرح سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے.عورتوں کے لئے زیور حرام نہیں.مگر اُن کے لئے بھی عام حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیورات کو ناپسند فرمایا ہے.(سنن النسائی کتاب الزینۃ باب الکراھیۃ للنساء فی اظہار الحلّی و الذھب ) گو اس وجہ سے کہ وہ مقامِ زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کے لئے جائز ہے مگر اسلام اس با ت کی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اس قدر خرچ کیا جائے کہ ملک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا انہیں اس قدر زیورات بنواکر دئیے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی روح پیدا ہو جائے یا اس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کا مادہ اُن میں

Page 273

بڑھ جائے.اُن کے لئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر.لیکن مردوں کے لئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے.اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوں اُن کا استعمال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے.(بخاری کتاب الاشربة باب الشرب فی انیة الفضة).اس ضمن میں وہ اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طورپر محض زینت یا تفاخر کے لئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی کوٹھیوں کی زینت کے لئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا.مثلاً بعض لوگ چینی کے پُرانے برتن خرید کر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خرید ی ہے.یوروپین لوگوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ اس قسم کے برتن خرید نے پر صرف کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں یا پُرانے قالین بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں لٹکا لیتے ہیں.حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے.یا فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کردیتے ہیں.اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیں اور ان میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں کیونکہ صرف دولت کے اظہار کے لئے لوگ ان چیزوں کو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں.میں تو سمجھتا ہوں کہ یوروپین لوگوں کو اگر آج پتہ لگے کہ کسریٰ کا قالین اُن کو مل رہا ہے تو شاید اس کے لئے وہ ایک کروڑ روپیہ بھی دےدیں لیکن مسلمانوں کے نزدیک اُس کی اتنی حیثیت تھی کہ ایک جنگ میں کسریٰ نے کہا کہ مسلمان افسر میرے پاس لائے جائیں میں اُن کے ساتھ خود بات چیت کرنا چاہتاہوں.اس پر صحابہؓ کا ایک وفد اُس کے پاس گیا اور ان کے سردار اپنے بھدے جوتوں کے ساتھ قالین پر اپنا نیزہ مارتے ہوئے اُس کے پاس پہنچے.بادشاہ اُن کی اس حرکت کو دیکھ کر حیران ہو گیااور کہنے لگا آپ لوگوں میں کوئی تمیز ہی نہیں (تاریخ ابن خلدون سنۃ ۱۴ ھ ذکر الخبر عما ھیج امر القادسیة ).حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بادشاہ ہو کر بھی قالین کی عزت کرتا تھا اورمسلمان غریب ہو کر بھی صرف خدا کی عزت کرتا تھا اور کسریٰ کے پاس ہو نے کی وجہ سے قالین اُس کی نظروں میں کوئی عزت نہیں رکھتا تھاوہ صرف اُس چیز کی عزت کرتا تھا جس کی خدا عزت کرتا تھا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ساری باتوں کو عملاً ناجائز قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کو ضائع کرے اور اس قسم کی بیکار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے.آج کل کے لحاظ سے سینما اور تھیئٹر وغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے کیونکہ سینما اور تھیئٹروں وغیرہ پر بھی

Page 274

ملک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہوتا ہے.یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں.اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیئٹر بناتی ہیں تاکہ وہ لوگ جو سینمائوں کی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور ان کی دولت اور ان کا وقت بھی اس پر صرف ہو لیکن اسلام قطعی طور پر اُن تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ان کی اجازت نہیں دے سکتے.اگر اسلام کے ان احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں.اس طرح ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ حقیقی مومن صرف لغو کاموں سے ہی نہیں بچتے بلکہ لغو خیالات سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو لغو خیالات کی عادت ہوتی ہے اُنہی کے دلوں میں نماز پڑھتے وقت قسم قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے اُن کی توجہ میں انتشار پیدا ہو جاتا ہے.اگر وہ لغو خیالات اپنے دل و دماغ میں پیدا ہی نہ کریںاور اگر پیدا ہوں تو اُن کو روکنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوں.لیکن دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ محض شیخ چلی جیسے خیالات کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں حالانکہ ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا.ایسے خیالات جو محض ظنّی اور قیاسی ہوں اُن میں مشغول ہونے کے لئے اپنے نفس کو ہر گز اجازت نہیں دینی چاہیے اس سے ایک اور نقص بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بیکار خیالات میں اپنے دماغ کو لگا دیتا ہے تو پھر وہ معقول باتوں کی طرف توجہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا.پس لغو خیالات اور لغو افکار سے اپنے دل و دماغ کو صاف کرکے انہیں اعلیٰ اور مفید خیالات کی طرف متوجہ رکھنا چاہیے تاکہ قوتِ فکر ترقی کرے اور دماغ جواللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے وہ ماؤف نہ ہو.پھر بتایا کہ مومن اس سے بھی ترقی کرکے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیںکہ اپنے اموال غرباء کی ترقی کے لئے ہمیشہ خرچ کرتے رہتے ہیں.درحقیقت اسلام اس نظریہ کا حامل ہے کہ دنیا میں جس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے مشترکہ فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں.کسی ایک فرد کے لئے مخصوص نہیں کی گئیں اور چونکہ ہر قسم کی دولت جو دنیا میں حاصل کی جاتی ہے دوسرے لوگوں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے اور مزدور کی مزدوری ادا کرنے کے بعد بھی دولت مند کے مال میں اُن کا حق باقی رہ جاتا ہے اس لئے اسلام نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی اموال دوسروں کے حقوق کی ملونی سے پاک ہو جائیں.مثلاً ایک کان کا مالک اگر ان تمام مزدوروں کو جو کان میں کام کرتے ہیں اُن کی پوری مزدوری بھی ادا کر دے تب بھی وہ جو کچھ ادا کرے گا وہ اُن کی

Page 275

اُجرت ہوگی.حالانکہ قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اُس کان میں حصّہ دار تھے.پس مزدوری ادا کرنے کے بعد بھی وہ حق ملکیت جو مزدوروں کو حاصل تھا ادا نہیں ہوتا.اُس کی ادائیگی کی ایک صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اُن مزدوروں کو کچھ زائد رقم دے دی جاتی مگر اس طرح بھی اُن چند مزدوروں کا حق تو ادا ہو جاتا جو وہاں کام کر رہے ہیں لیکن باقی دنیا جو اس میں انہی کی طرح حصّہ دار تھی اپنا حق حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی.اس لئے اسلام نے یہ حکم دے دیا کہ ہر شخص لازماً اپنے اموال کا ایک حصّہ زکوٰۃ کے طور پر ادا کرے.تاکہ حکومت اُسے تمام بنی نوع انسان کی ضروریات کے لئے مشترکہ طور پر خرچ کرے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر کان جو دریافت کی جائے اس کا ۱/۵حصہ حکومت کو ملے گا تاکہ اسے غرباء پرخرچ کیا جائے(بخاری کتاب الزکاة باب فی الرکاز الخمس).اس طرح بھی اسلام نے تمام بنی نوع انسان کا زمین میں جوحصہ ہے اُس کو محفوظ کر دیا ہے.اسی طرح ایک زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر درحقیقت وہ اُس زمین سے فائدہ اُٹھا تا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے مشترکہ طورپر بنائی گئی تھی.پس اُس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ لازمی طورپر حکومت کو دلوایا جاتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اُسے خرچ کیا جائے.یہی حال تجارت کا ہے.تجارت کرنے والا بظاہر اپنے مال سے تجارت کرتا ہے لیکن اُس کی تجارت ملکی امن کے بغیر کبھی نہیں چل سکتی اور امن کے قیام میں ملک کا ہر شخص حصہ دار ہوتا ہے.پس اس کا حق دلانے کے لئے تجارتی اموال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کردی تاکہ ان اموال میں جو دوسرے لوگوں کے حق شامل ہیں وہ ادا ہو جائیں اور حکومت ایسے تمام روپیہ کو بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے مشترکہ امور کی تکمیل اور اُن کی سرانجام دہی کے لئے خرچ کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غرباء کی تکالیف کا اتنا احساس رہتا تھا کہ احادیث میں آتا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی کثرت کے ساتھ غرباء میں صدقات تقسیم فرماتے کہ اُسے اگر ایک تیز ہوا سے مشابہت دی جائے تو یہ بھی ایک ناقص مشابہت ہوگی(بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون فی رمضان).اسی طرح ایک دفعہ کچھ اموال آئے جن کو آپ نے غرباء میں تقسیم فرما دیا مگر ایک دینار کہیں غلطی سے رہ گیا اور وہ تقسیم نہ ہو سکارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ کو وہ دینار یاد آگیا.جب آپ نے نماز ختم کر لی تو بجائے اس کے کہ آپ بیٹھ کر صحابہؓ سے گفتگو فرماتے آپ جلدی جلدی اندر تشریف لے گئے.صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا اضطراب پایا جاتا تھا کہ آپ ہماری گردنوں پر سے کودتے ہوئے اندر تشریف لے گئے.جب واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اموال تقسیم کرتے

Page 276

کرتے ایک دینار کہیں گر گیا تھا.مجھے نما ز پڑھاتے ہوئے وہ یاد آیا تو میرا دل اس خیال سے بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور غرباء کا یہ مال میرے گھر میں ہی پڑا رہا تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوںگا.اس لئے میں فوراً اندر گیا اور اسے بھی تقسیم کرنے کا حکم دے دیا.(بخاری کتاب الزکاۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ من یومہا) اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس صدقہ کی کچھ کھجوریں آئیں.حضرت امام حسنؓ جو اس وقت چھوٹے بچے تھے اور اُن کی عمر اُس وقت دو اڑہائی سال کی تھی انہوں نے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ نے فوراً اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر وہ کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں.یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے (بخاری کتاب الزکاة باب ما یذکر فی الصدقة للنبی صلی اللہ علیہ وسلم و آلہ).ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ایک صحابی حضرت سعدؓ جو مالدار تھے وہ بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں یہ مال اپنے زور بازو سے ملا ہے؟تمہاری طاقت اور دولت کا اصل ذریعہ غرباء ہی ہیں.اس لئے فخر مت کرو اور غرباء کی تحقیر نہ کرو.(بخاری کتاب الجھاد باب من استعان بالضعفاء و الصالحین فی الحرب).غرضهُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہی لوگ کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں جو غرباء کی ترقی کے لئے اپنے اموال خرچ کرتے رہتے ہیں اور اُن کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرتے.یورپ میں تو مزدوروں نے کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں وہ اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اوّل تو لوگ مزدور کو اس کے حق سے کم دیتے ہیں اور پھر جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی وقت پر نہیں دیتے حالانکہ ہمارے مزدوروں کی کمیٹی آسمان پر بنی ہو ئی ہے اور وہ اُن کے حقوق کا تصفیہ کرتی ہے.مگر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رہا جس کی وجہ سے لوگ آسمانی کمیٹیوں کے فیصلہ کی تعمیل نہیں کرتے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو احمدیت کے ذریعہ سے اس کی تعمیل ہونے لگ جائےگی مگر موجودہ زمانہ میں اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نہ صرف مزدور طبقہ کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ مالکوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ مالکوں کو مزدوروں سے ہی کام لینا پڑتا ہے اور جب ان کے حقوق ادا نہیں ہوتے تو وہ خوش دلی سے کام نہیں کرتے جس کا اثر اس کام پر بھی پڑتا ہے جو ان کے سپرد کیا جاتا ہے.اور اس طرح مالک بھی مزدور کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں.یورپ میں میں نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص چلتا ہوا نظر نہیں آتا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ دوڑ رہے ہیں۱۹۲۴؁ء میں جب میں یورپ گیا تو ایک دفعہ میں نے

Page 277

حافظ روشن علی صاحبؓ سے پوچھا کہ کیا آپ نے لنڈن میں کسی کو چلتے بھی دیکھا ہے.انہوں نے کہا ہم نے تو کسی کو چلتے نہیں دیکھا جس کوبھی دیکھا ہے دوڑتے ہوئے دیکھا ہے.وہاں ہم نے ایک عمارت بنتی دیکھی تو حیرت آگئی کہ کس پھرتی کے ساتھ مزدور وہاں کام کر رہے ہیں.ہمارا مزدور جب اینٹ اُٹھا نے لگتا ہے تو ہاتھوں میں اٹھا کر اور ایک آہ بھر کر ٹوکری میں ڈالتا ہے پھر دوسری اینٹ اٹھاتا اور یہ دکھانے کے لئے کہ وہ کام کر رہا ہے اس طرح پھونک مار مار کر اُس پر سے گرد ہٹاتا ہے کہ گویا اطلس یا کمخواب کا کوئی تھان اس کے سامنے پڑا ہوا ہے.کبھی وہ اس کے ایک طرف پھُونک مارےگا اور کبھی دوسری طرف اور بہانہ صرف یہ ہوگاکہ کچھ نہ کچھ دیر لگ جائے.پھر آرام سے اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُسے معمار کے پاس لے جاتا ہے اور جب اس انداز میں وہ دو تین ٹوکریاں اُٹھا لیتا ہے تو اس کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے.میں حقہ کے دو گھونٹ تو پی لوں مگر انگلینڈ میں یہ بات نہیں.وہاںہر شخص دوڑتا ہو انظر آتا ہے اور پھر جس عمارت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جس طرح منٹوں میںمَیں نے اُٹھتی دیکھی اُس طرح گھنٹوں میں بھی ہمارے ملک میں کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی.مگر افسوس کہ اس دفعہ جو میں علاج کے لئے یورپ گیا اور انگلینڈ بھی گیا.تو مجھے معلوم ہوا کہ انگلینڈ کے لوگوں میں سستی پیدا ہو چکی ہے اور وہ اُس چُستی سے کام نہیں کرتے جس چُستی سے وہ پہلے کیا کرتے تھے ہاں کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکہ میں ابھی کچھ چستی موجود ہے.پس غرباء کے حقوق نظر انداز کرنے کا نتیجہ دونوں کے حق میں بُرا نکل رہا ہے.غرباء میں سستی اور نکمّے پن کی عادت پیدا ہو رہی ہے اور امراء اپنی تجارتوں اور صنعتوں اور کارخانوں اور زمینوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے سے محروم ہو رہے ہیں.پس قومی ترقی کا یہ ایک نہایت اہم اصل ہے کہ غرباء کے حقوق کا خیال رکھا جائے.اور امراء اُن کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے اپنے اموال کا ایک حصہ خرچ کرتے رہیں.اس طرح دنیوی طور پر بھی وہ ترقی کریں گے اور روحانی رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انعامات حاصل کریں گے.پھر مومن اس سے بھی آگے ترقی کرتے ہیں اور اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپنے سب سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی کانوں ، آنکھوں ، منہ اور اپنی شرمگاہوں کی بھی.نہ غیبت سنتے ہیں نہ دوسروں کے اموال کو لالچ سے دیکھتے ہیں اور نہ بدکاری کرتے ہیں.ہاں اپنی بیویوں سے تعلق رکھنا جائز ہے.اسی طرح ایسی عورتوں سے جن کے اُن کے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.ایسے لوگوں پر مذہبی لحاظ سے کوئی ملامت نہیں.’’داہنے ہاتھ مالک ہوئے‘‘ کی تشریح کے بارہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بعض لوگ تو اس میں نوکرانیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور بعض اُن لونڈیوں کو بھی جو چھاپہ مار کر کسی کمزور قوم کے اندر سے زبردستی اغوا کر لی جاتی ہیں

Page 278

اور پھر فروخت کر دی جاتی ہیں اور بعض لوگ ان الفاظ کے یہ معنے لیتے ہیں کہ جو عورتیں جہاد میں حاصل ہوں وہ بغیر نکاح کے گھروں میں رکھنی جائز ہیں لیکن یہ سب معنے غلط ہیں.قرآن کریم میں اور احادیث میں نوکروں اور غلاموں کا الگ الگ ذکر ہے.اس لئے نوکر اس میں شامل نہیں.اور غلاموں کے متعلق قرآن کریم صاف طورپر فرماتا ہے کہ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ(الانفال :۶۸) یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی پُر امن قوم میں سے مردجنگی قیدی یا عورت جنگی قیدی زبردستی پکڑ لائے جب تک کہ اُس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان خونریز جنگ نہ ہولے.یعنی یونہی کسی قوم میں سے جو جنگ نہ کر رہی ہو قیدی پکڑنے جائز نہیں جیسا کہ سینکڑوں سال سے حجاز کے لوگ حبشہ سے غلام پکڑ لاتے ہیں یا جیسا کہ گذشتہ صدیوں میں عراق کے لوگ ایران سے یا روم سے یا یونان سے یا اٹلی کے جزیروں سے غلام پکڑ کر لے آتے تھے.ایسی غلامی اسلام میں جائز نہیں.صرف جنگی قیدی پکڑنے جائز ہیں اورجنگی قیدی پکڑنے بھی صرف اس وقت جائز ہیں جبکہ دشمن سے باقاعدہ جنگ ہو جائے اور ایسے وقت میں بھی یہ حکم ہے کہ جنگی قیدی کا فدیہ لے کر اُسے چھوڑ دو.اور اگر اُس کے پاس فدیہ نہ ہو یا اُس کی قوم اس کا فدیہ دینے کو تیار نہ ہو تو پھر حکومتِ اسلامیہ اُسے احسان کے طور پر چھوڑ دے.( محمد :۵) اور اگر احسان کے طور پر چھوڑنا اس کے لئے مشکل ہو تو زکوٰۃ کے روپیہ میں سے اُس کا فدیہ دے کر اُسے چھوڑ دے (التوبۃ :۶۰) اور اگر اس میں بھی مشکل ہو تو قیدی کو مکاتبت کا اختیار دیا جائے.(النور :۳۴)مکاتبت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جنگی قیدی اپنے مالک سے یہ کہتا ہے کہ تم مجھے آزاد کر دو میں محنت اور کمائی کرکے اپنا فدیہ ادا کر دوںگااور اس وقت تک اپنی ذاتی تجارتوں وغیرہ میں آزاد سمجھا جاؤںگا.صرف اسلامی ملک میں رہنے کا وہ پابند ہوتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت اوپر کے تمام طریقوں کے باوجود آزاد ہونا نہ چاہے گی تو وہ عورت ایسی ہی ہوگی جو اپنے ملک میں جانا اپنے لئے خطرناک سمجھتی ہوگی اور مسلمان مرد کے پاس رہنے کا جو خطرہ تھا اس کے راستے کھلے ہونے کے باوجود اُن کو استعمال کر نا پسند نہ کرے گی اور جو عورت باوجود ہر قسم کی سہولت کے مسلمان گھرانے سے نکلنا پسند نہ کرے گی اس عورت سے جبراً شادی کر لینے کے سوامسلمان مرد کے لئے کوئی چارہ نہیں کیونکہ اگر وہ آزاد نہ ہوگی اور مسلمان مرد اس سے جبراً شادی نہ کرے گا تو وہ گھر میں اور علاقہ میں بدکاری پھیلائےگی اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.پس آزاد عورتوں اور جنگی عورتوں میں اتنا ہی فرق ہے کہ آزاد عورت کے لئے اپنی مرضی سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے اور وہ عورت جو جنگی قیدی ہو وہ یا تو ان طریقوں سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیتی ہے جو اسلام نے اس کے لئے کھلے رکھے ہیں یا پھرجس گھر میں وہ ہوتی ہے اُس کا کوئی مرد اُس سے شادی کر لیتا ہے تاکہ بدکاری نہ پھیلے اور اگر اس کے ہاں بچہ

Page 279

پیدا ہو جائے تو پھر وہ آزاد ہو جاتی ہے.پس داہنے ہاتھوں کی ملکیت کے الفاظ سے کوئی شخص دھوکہ نہ کھائے.ان الفاظ کے معنی غلامی کے نہیںکیونکہ غلامی اسلام میں جائز نہیں.قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ جب تک کسی قوم کے ساتھ بھاری جنگ نہ ہو اُس میں سے قیدی پکڑنے جائز نہیں اور پھر انہیں بھی مختلف طریقوں سے آزاد کرنے کا حکم ہے.جو زیادہ تر اسلامی حکومت یا کفر کی حکومت یا قیدی کے رشتہ داروں یا خود قیدی کے اختیار میں ہیں.اور اگر کسی قیدی عورت کے چھڑانے کے لئے نہ تو اسلامی حکومت کوشش کرتی ہے جو کہ غیر جانبدار ہے نہ کافر حکومت کوشش کرتی ہے جو کہ قیدی کی جانبدار ہے.نہ اس کے رشتہ دار کوشش کرتے ہیں جن کو سب سے زیادہ اُس کا درد ہےاور نہ وہ عورت خود کوشش کرتی ہے جس کو اپنی عزت کا خیال سب سے زیادہ ہو سکتا ہے اور پھر کوئی مسلمان اس عورت سے شادی کرلے.تو اس کے لئے یہ راستہ کھلا رکھا جاتا ہے کہ اولاد ہوتے ہی وہ آزاد ہو جائےگی اور باوجود جنگی قیدی ہونے کے اسے بچنا ناجائز نہ ہوگا.اب بتاؤ ایسی عورت آزاد ہوئی یا قید.پہلے تو اس کا قید کرنا کئی طرح ناجائز قرار دیا گیا.پھر اس کی آزادی کے لئے اس کی شادی سے پہلے کئی راستے کھولے گئے.پھر شادی کے بعد اولاد ہونے پر اُس کو آزاد قرار دیا گیا اور ہمیشہ کے لئے یہ گارنٹی دی گئی کہ اُسے کسی صورت میں بھی فروخت نہیں کیا جا سکتا.(المحلّٰی بالاثار کتاب العتق و أمھات الاولادالمسألة کل مملوکۃ حملت من سیدھا....) اب بتاؤ کہ کیا دنیا میں کسی آزاد عورت کو اس سے زیادہ حق ہوتے ہیں.پانچواں درجہ روحانی ترقی کا یہ بتایا کہ مومن اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.یعنی جو امانت اس کے پاس رکھوائی جائے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جو عہد کرتے ہیں خواہ وہ کسی کافر یا دشمن سے ہی کیوں نہ ہو اُسے پورا کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امانت اور دیانت کے اصول پر اتنی سختی سے عمل کرتے تھے کہ تاریخوں میں لکھا ہے جن دنوں اسلامی افواج نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اُس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیااور اُس نے کہا یا رسول اللہ میں اب ان لوگوں میں تو نہیں جا سکتالیکن میرے پاس اپنے یہودی آقا کی جو بکریاں ہیں ان کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بکریوں کا منہ یہودی قلعہ کی طرف کردواور اُن کو ادھر دھکیل دو.اللہ تعالیٰ خود انہیں ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے اُن کواندر داخل کر لیا.(السیرۃ الحلبیہ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ خیبر) اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 280

امانت کی ادائیگی کا کتنا احساس رکھتے تھے اورکس طرح جنگ کے دوران میں بھی دشمن قوم کے اموال پر بے جا قبضہ کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے.موجودہ زمانہ انتہائی ترقی یا فتہ دور کہلاتا ہے.مگر آجکل بھی کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جنگ کے دوران میں دشمن اقوام کے جانور ہاتھ آگئے ہوں تو اُن کو دشمن کی فوج کی طرف واپس کر دیا گیا ہو.لڑنے والوں کے اموال آج کل جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں اور لُوٹ کھسوٹ ایک روزمرہ کا کھیل سمجھا جاتا ہے مگر باوجود اس کے وہ بکریاں ایک ایسے شخص کی تھیں جو اسلامی افواج کے مقابلہ میں بر سرِ پیکار تھا.اور باوجود اس کے کہ ان بکریوں کے قلعہ میں واپس چلے جانے کا یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ مہینوں تک انہیں اپنی غذا کا سامان مہیا ہو جاتا اور لڑائی لمبی ہو جاتی.پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ برداشت نہ کیا کہ امانت میں خیانت ہو بلکہ آپ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اور انہیں اس طرف کوہانک دو تا کہ امانت میں خیانت واقع نہ ہو.اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے مسلمان ہوتے ہی پہلا سبق یہ دیا کہ جب کوئی امانت تمہارے پاس رکھ دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ انتہائی مشکلات میں بھی اُس کی حفاظت کرو اور جس کی چیز ہے اُسے واپس پہنچاؤ.صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سبق سیکھا اور انہوں نے بھی اس پر ایسی سختی سے عمل کیا جس کی نظیر آج تہذیب و شائستگی کی دعویدار اقوام میں بھی کہیں نظر نہیں آسکتی.یہ کتنا شاندار نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا کہ حمص جو عیسائیوں کا ایک مرکزی شہر تھا اُس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور انہوں نے لاکھوں روپیہ عیسائیوں سے ٹیکس کے طور پر وصول کر لیالیکن جب انہیں جنگی مصلحتوں کے ماتحت اس شہر کو خالی کرنا پڑا تو انہوں نے وہاں کے ذمہ دار افراد کو بلایا اور اُن کا سارا روپیہ اُن کو واپس کردیا اور کہا ہم نے تم سے یہ ٹیکس اس لئے لیا تھا کہ ہم تمھارے جان و مال کی حفاظت کریں گے.مگر اب چونکہ حالات مخدوش ہو رہے ہیں اور ہم اس شہر کو چھوڑ رہے ہیں اس لئے ہم دیانت و امانت کے اصول کے خلاف یہ بات سمجھتے ہیں کہ تمہارا روپیہ اپنے پاس رکھیں.چنانچہ لاکھوں روپیہ ان کو واپس کر دیا گیا.تاریخ بتاتی ہے کہ اس واقعہ نے عیسائیوں کے قلوب پر ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ جب مسلمانوں کا لشکر شہر سے نکلا تو وہ ساتھ ساتھ الوداع کہنے کے لئے چل پڑے.اُن کی آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے اور وہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تمہیں پھر دوبارہ واپس لائے کہ ہم نے تمہارے جیسے نیک حاکم آج تک نہیں دیکھے(فتوح البلدان للبلاذری امر حمص و یوم الیرموک).اسی طرح اسلام نے حکومت کو بھی امانت قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جب یہ امانت تمہارے سپرد ہو تو تم اس میں کبھی خیانت نہ کرو اور ہمیشہ حکومت کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دو جو حکومتی ذمہ داریوں کو پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں اور تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر بھی انتہائی سختی کے ساتھ عمل کیا ہے.

Page 281

گبن یورپ کا ایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے.اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب لکھی ہے.وہ اس کتاب میں ملک شاہ کے متعلق جو الپ ارسلان کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ ابھی چھوٹی عمر کا تھا کہ اُس کا والد فوت ہوگیا.اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچا زاد بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کر دیااور آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی.نظام الدین طوسی ملک شاہ کے وزیر اعظم تھے اور چونکہ وہ شیعہ تھے انہوں نے ملک شاہ سے درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ امام موسیٰ رضا کے مزار پر دُعا کے لئے تشریف لے چلیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس جنگ میں آپ کو کامیاب فرمائے.ملک شاہ چل پڑا اور اُس نے وہاں دُعا کی جب دعا سے فارغ ہوئے تو ملک شاہ نے نظام الدین طوسی سے پوچھا کہ بتائیے آپ نے کیا دعا کی ہے اُس نے کہا میں نے تو یہ دُعا کی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو فتح بخشے.ملک شاہ نے کہا لیکن میں نے تو یہ دُعا نہیں کی.میں نے تو یہ دعا کی ہے کہ اے میرے رب!اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو تُو اُسے کامیابی بخش اور میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے.اگر میں اس امانت کو زیادہ عمدگی سے ادا کرنے کے قابل ہوں تو پھرتُو مجھے کامیابی عطا فرما.(ابن خلقان جلد پنجم صفحہ ۲۸۵)گبن ایک نہایت ہی متعصب عیسائی مؤرخ ہے مگر اس واقعہ کے سلسلہ میں وہ بے اختیار لکھتا ہے کہ اس مسلمان نوجوان شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظر یہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا نا ممکن ہے اور عیسائیت کے بوڑھے بوڑھے بادشاہ بھی ایسے اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتے(The Decline and Fall of the Roman Empire v.2 chapter LVIII pg.984).یہ رُوح جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئی اسی بات کا نتیجہ تھی کہ اسلام نے ان کے دماغوں میں بڑی سختی کے ساتھ یہ بات مرکوز کر دی تھی کہ حکومت بھی ایک امانت ہے اور تمہارا کام یہ ہے کہ تم کبھی کسی امانت میں خیانت نہ کرو.پھر ایفائے عہد کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قد ر خیال رہتا تھا کہ ابھی آپ نے دعوٰئے نبوت بھی نہیں فرمایا تھا کہ قبائلی لڑائیوں اور روزمرہ کے باہمی جھگڑوں اور فسادات کو دیکھ کر مکہ کے چند نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مجلس میں شامل ہوئے اور سب نے مل کر یہ قسمیں کھائیں کہ جب تک سمندر میں پانی کا ایک قطرہ تک بھی موجود ہے وہ ہمیشہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق ان کو ظالم سے دلوانے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کریں گے.یہ انجمن جو مظلوموں کی دادرسی اور اُن کی اعا نت کا بیڑہ لے کر اُٹھی تھی اُس نے کیا کام کیا اور کس طرح مظلوموں کی مدد کی ؟ اس بارہ میں تاریخی طورپر کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں مگر دعویٰ نبوت کے بعد

Page 282

جبکہ مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جان لیوا دشمن بن گئے ایک شخص جس نے ابوجہل سے کچھ روپیہ لینا تھا مگر وہ دیتا نہیں تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ آپ حلف الفضول میں شامل رہ چکے ہیں اور آپ نے اس کی قسم کھائی تھی کہ ہمیشہ مظلوموں کی مدد فرمائیں گے میں آپ کو آپ کا عہد یاد دلاتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ میرا کچھ روپیہ ابو جہل نے دینا ہے آپ اس کے پاس چلیں اور مجھے یہ روپیہ دلا دیں.جب اُس نے یہ بات کہی تو باوجود اس کے کہ مکہ میں کھلے بندوں پھرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خطرہ کا موجب تھا اور پھر ابوجہل آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور ہو سکتا تھا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچائے.آپ فوراً اُٹھے اور اُس کے ساتھ چل کر ابوجہل کے مکان پر جا پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا.ابو جہل دستک کی آواز سن کر باہر نکلا آپ نے فرمایااس شخص کا تم نے کچھ روپیہ لیا ہوا ہے وہ فوراً اسے ادا کر دو.ابوجہل بلاچوں و چرا اندر گیا اور روپیہ لاکر اُس نے اُس شخص کے حوالے کر دیا.ابوجہل کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ایک شخص کو اس کا روپیہ دے دینا کوئی ایسی بات نہ تھی جو چھپی رہتی.جنگل کی آگ کی طرح یہ بات مکہ میں پھیل گئی اور لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ابو الحکم ہمیں تو کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات نہ مانواور خود اُس سے اتنا ڈر گیا کہ ایک منٹ کے اندر اندر روپیہ دینے کے لئے تیار ہو گیا.جب اُس نے یہ باتیں سنیں تو وہ کہنے لگا.خدا کی قسم اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی وہی کام کرتے جو میں نے کیا ہے.کیونکہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آیا تو مجھے اُس کے دائیں اور بائیں دو مست اونٹ کھڑے دکھائی دئیے.جن کو دیکھ کر میرا دل سخت خوف زدہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ اگر میں نے اُس کی بات نہ مانی تو یہ دونوں اونٹ مجھے چیر کر کھا جائیں گے(السیرة النبویة لابن ہشام امر الاراشی الذی باع اباجھل ابلہ ).اب یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اُسے کوئی ایسا نظارہ نظر آیا تھا یا حق کا رعب اُس پرچھا گیا تھا مگر بہر حال جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلف الفضول کے معاہدہ کے احترام میں ایک مظلوم شخص کا حق دلانے کے لئے انتہائی خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُس کے پاس گئے تو سچائی کے رُعب نے اُس کی شرارت کی رُوح کو کچل دیا اور وہ مظلوم کا حق دینے کے لئے تیار ہو گیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفائے عہد کا اس قدر پاس تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب یہ معاہدہ ہوا کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہوا تو اسے اس کے رشتہ داروں کی طرف واپس کر دیا جائےگا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف واپس جائےگا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہیں ہوںگے.تو ابھی اس معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہاتھا اُس کا اپنا بیٹا رسیّوں سے جکڑا ہوا اور

Page 283

زخموں سے چور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گِرا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں دل سے مسلمان ہوں مگر میرا باپ اسلام کی وجہ سے مجھے تکلیفیں دے رہا ہے.آج میرا باپ یہاں آیا تو میں موقعہ پا کر نکل بھاگا اور یہاں آگیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اُس کا باپ کہنے لگا معاہدہ ہو چکا ہے.اب اسے میرے ساتھ جانا پڑےگا.ابو جندل کی حالت اس وقت اتنی دردناک تھی کہ مسلمانوں کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے تھے.خود ابو جندل نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے پھر مکہ والوں کی طرف واپس کر دیں گے تاکہ یہ لوگ مجھے پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دیں؟ مگر آپ نے فرمایا ! خدا کے رسول معاہدہ نہیں توڑا کرتے.تمہیں بہر حال واپس جانا پڑےگا.تم صبر سے کام لو اور خدا تعالیٰ پر توکل کرو.چنانچہ وہ مکہ میں واپس بھجوا دیا گیا.پھرجب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابو بصیر ؓ آپ کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق مکہ واپس جانے پر مجبور کیا(السیرة النبویة لابن ہشام وما جری علیہ امر قوم من المستضعفین بعد الصلح).اسی طرح وفائے عہد کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک حکومت کا ایلچی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا.اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مناسب نہیں.تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہد ہ پر مامور ہو.تم اسی حالت میں واپس جاؤ اور وہاں جاکر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام قبول کرو.( ابو داؤد کتاب الجھادباب فی الامام یستجن بہ فی العھود( پھر مسلمانوں کو بھی وفائے عہد کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ ایک دفعہ کفار نے عین جنگ کے دوران میں دھوکا سے ایک حبشی مسلمان سے معاہدہ کر لیااور انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دئیے.جب لشکر آگے بڑھا تاکہ قلعہ میں داخل ہوتو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہدہ ہو چکا ہے.کمانڈر نے کہا میرے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا.انہوں نے کہا ہم نے ایک حبشی سے معاہدہ کر لیا تھا اور اُس نے بعض شرائط پر ہمیں امن دےدیا تھا.کمانڈر نے کہا اُسے معاہدہ کا کیا اختیار تھا.معاہدہ تو میرے ساتھ ہو نا تھا.انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے ہم آپ سے معاہد ہ کر چکے ہیں.جب یہ اختلاف بڑھاتو اسلامی فوج کے کمانڈر نے حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھ دیااور دریافت کیا کہ اب کیا کیا جائے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاء عہد کو بڑی عظمت و اہمیت دی ہے.سو تم اس عہد کو پورا کرو اور اُس وقت تک اس عہد پر قائم رہو جب تک کہ فریق ثانی خود اس عہد کی خلاف ورزی نہ کرے.(طبری جلد ۵ صفحہ ۲۵۶۸ )

Page 284

غرض اسلام امانت و دیانت اور معاہدات کی پابندی کو خاص اہمیت دیتا ہے.اور فرماتا ہے کہ وہی مومن کامیاب ہو سکتے ہیں جو امانت اور وفائے عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش کرنے والے ہوں.پھر چھٹا درجہ یہ بتایا کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.یہاں نماز کا لفظ جمع کی صورت میں آیا ہے.پس اس سے ایک تو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نمازیں یعنی فرائض اور نوافل اچھی طرح ادا کرتے ہیں اور دوسرے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم میں سے ہر ایک کی جسمانی عبادت کی حفاظت کرتے ہیں یعنی یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ اُن کی اولاد اُن کی بیویاں ، اُن کے رشتہ دار اور اُن کے ہمسایہ اور اُن کی سب قوم نماز کی پابند ہے یا نہیں کیونکہ جب تک سارے خاندان بلکہ ساری قوم کے اعمال درست نہ ہوں اُس وقت تک انسان کا اپنا عمل بھی خطرہ سے باہر نہیں رہ سکتا.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص صبح اپنے بچے کو نماز کے لئے جگانے لگتا ہے تو اُس وقت فوراً جذباتِ محبت اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور دل میں کہتا ہے.سخت سردی ہے میں اسے کیوں جگاؤں.اگر نماز کے لئے جگایا تو اسے سردی لگ جائے گی.پھر وہ بیوی کو نماز کے لئے جگانے لگتا ہے تو اس وقت بھی محبت کے جذبات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ کہتا ہے.ساری رات یہ بچے کو اُٹھا کر پھرتی رہی ہے.اب میں اسے جگاؤں گا تو اس کی نیند خراب ہو جائےگی.بہتر ہے کہ یہ سوئی رہے.نماز پھر پڑھ لے گی.غرض کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی کا عذر اس کے سامنے آجاتا ہے چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردی ہے ان ایام میں بچہ کو نماز کے لئے کیوں جگاؤں اسے سردی لگ جائےگی اور چھ مہینے اُس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ نازک اور پُھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گیا تو اسے گرمی لگ جائےگی.پھر کبھی بیوی کو جگاتے وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ ساری رات تو بچے کو اٹھائے پھرتی رہی ہے.اس لئے بہتر ہے کہ سوئی رہے.نماز پھر پڑھ لے گی.غرض قدم قدم پر جذبات اور احساسات اُس کے سامنے آجاتے ہیں.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اُن کی اصلاح ہوتی ہے اورنہ اس کی اپنی اصلاح مکمل ہوتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے.قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم:۷).یعنی اے میرے بندو نہ صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچائو بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی آگ سے بچاؤ.تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچا لینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر دوسرا نہیں بچے گا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبے گا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے.سب سے پہلا درجہ جس سے اترکر اور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے.جو مسلمان پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور اُس میں کبھی ناغہ نہیںکرتاوہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے.

Page 285

دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے.پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے.باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے.پھر چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے.جو شخص ترجمہ نہیںجانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو ادا کرے.یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کما حقہ‘ ادا کیا ہے.پھر پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نمازمیں پوری محویّت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں.اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے.یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے.اس مؤخر الذکر حالت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اندھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہو.اپنی ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلّی ہوتی ہے جو بینا ہو اور اپنی ماں کو دیکھ رہا ہو مگر ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو نابینا ہو.اس خیال سے کہ گو وہ اپنی نابینائی کی وجہ سے ماں کو نہیں دیکھ رہا مگر اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت بندے کو ان دو میں سے ایک مقام ضرور حاصل ہونا چاہیے.یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ اس کا دل اس یقین سے لبریز ہو کہ خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے (بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبیؐ عن الایمان..).یہ ایمان کا پانچواں مقام ہے اوراس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں.مگر جس بامِ رفعت پر اُسے پہنچنا چاہیے اس پر ابھی نہیں پہنچتا.اس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں.یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے.اے خدا میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں جیسے کئی لوگ جب کسی بزرگ کی ملاقات کے لئے جاتے ہیں تو وہ مقررہ وقت گذر جانے پر کہتے ہیں کہ دو منٹ اور دیجئیے.اور وہ ان مزید دو منٹوں میں لذّت محسوس کرتے ہیں.اسی طرح ایک مومن جب فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب میں اپنی طرف سے کچھ مزید وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں.ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے.یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے.اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں

Page 286

کہ اے میرے بندو خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کے لئے آیا ہے.اُٹھو اور اس سے مل لو.(بخاری کتاب التھجد باب الدعا و الصلٰوة من اٰخر اللّیل) پس ان سات درجوں کو پورا کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کیا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سیکھ کر ادا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرضی نمازوں کے رات اور دن کے اوقات میں نوافل بھی پڑھا کرے.ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویّت پیدا کرے اور اتنی محویت پیدا کرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق یا تو وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو.یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے.پھر ہر شخص کو چاہیے کہ وہ فرائض اور نوافل اس التزام اور باقاعدگی سے ادا کرے کہ اُس کی راتیں بھی دن بن جائیں.اسی طرح تہجد کی مناجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.جب تک کوئی شخص اپنی نمازوں کی اس رنگ میں حفاظت نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا یہ اُمید کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرلے گا ایک وہم سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.پھر فرماتا ہے انسان کی روحانی ترقی کا ساتواں درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی جنت کا وارث کر دیتا ہے جو سب جنتوںکا مجموعہ ہے یعنی فردوس.فردوس کے معنے عربی زبان میں ایسے باغ کے ہوتے ہیں جو ہر قسم کے باغوں کا مجموعہ ہو.پس فردوس کا لفظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ سب اعلیٰ درجہ کے رُوحانی خواص اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اسی طرح ان کو مقام بھی وہ ملے گا جو تمام خوبیوں کا جامع ہوگااورهُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَکہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی حفاظت کیا کرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس بات کی نگرانی رکھے گا کہ وہ ان انعامات کے ہمیشہ وارث رہیں اور کبھی ان پر تنزل کی گھڑی نہ آئے.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍۚ۰۰۱۳ثُمَّ اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصہ سے بنایا.پھر اُس کو ایک ٹھہرنے والی جگہ میں نطفہ کے طورپر رکھا.جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۪۰۰۱۴ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ پھر نطفہ کو ترقی دے کر ایسی شکل دی کہ وہ چمٹنے والا وجود بن گیا.پھر اُس چمٹنے والے وجود کو ایک بوٹی بنا دیا

Page 287

عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا پھر اُس بوٹی کو ہم نے ہڈیوں کی شکل میں تبدیل کر دیا.پھر اُن ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھایا.فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ١ؕ فَتَبٰرَكَ پھر اس کوا یک اور شکل میں تبدیل کردیا پس بہت ہی برکت والا ہے اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَؕ۰۰۱۵ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَؕ۰۰۱۶ وہ خدا جو سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے.پھر تم لوگ اس کے بعد مرنے والے ہو.ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۰۰۱۷ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جانے والے ہو.حلّ لُغَات.سُلَا لَۃٌ.اَلسُّلَا لَۃُ کے معنے ہیں مَااسْتُلَّ مِنَ الشَّيْءِ وَالْخُلَاصَۃُ لِاَ نَّھَا تُسَلُّ مِنَ الْکَدَرِ.یعنی وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے کھینچ کر نکال لی جائے.یا کسی چیز کا جو ہر جو ہر قسم کی میل کچیل اور تلچھٹ سے پاک کرلیا جائے.اسی طرح اَلسُّلَا لَۃُ کے ایک معنے اَلنَّسْلُ وَالْوَلَدُ کے بھی ہیں یعنی انسانی نسل اور اولاد.(اقرب) طِیْن.اَلطِّیْنُ: تُرَابٌ اَوْ رَمْلٌ وَ کِلْسٌ یُجْبَلُ بِالْمَاءِ وَیُطْلٰی بِہٖ یعنی طین اُس مٹی یا ریت اور چونا کو کہتے ہیں جس میں پانی ملایا گیا ہو اور اس کے ساتھ لپائی کی جائے.(اقرب) عَلَقَۃً.علق کے معنے خون کے ہوتے ہیں.خصوصًا اُس خون کے جو گاڑھا اور جما ہوا ہواور عَلَقَۃٌ کے معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُ مِنَ الْعَلَقِ لِلدَّمِ.یعنی خون کا لوتھڑا.(اقرب) اَلْمُضْغَۃُ.اَلْمُضْغَۃُکے معنے ہیں قِطْعَۃُ لَحْمٍ یعنی گوشت کی بوٹی.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے کہ جس طرح یہ سات رُوحانی پیدائش کے مدارج ہیں اسی طرح تمہاری جسمانی پیدائش کے بھی مختلف مدارج ہیں.سب سے پہلے ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کرتے ہیں یعنی اس غذا سے جو مٹی سے نکلتی ہے جیسے نباتات ، حیوانات اور جمادات وغیرہ یہی حال عالمِ روحانیات کا بھی ہے.یعنی جس طرح نطفہ

Page 288

ان غذاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہیں اسی طرح روحانیت کا بیج بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتاجب تک انسان کے اندر خشوع و خضوع اور فروتنی کی حالت پیدا نہ ہو اور کبر اور غرور کا مادہ اُس کے اندر سے نہ نکل جائے.پھر جب انسان اس غذا کو کھاتا ہے جو مٹی میں سے نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے نطفہ بنا کر ایک ٹھہرنے والی جگہ پر رکھ دیتا ہے جو جسمانی پیدائش کا دوسرا درجہ ہے.روحانی پیدائش میں اس کے مقابل پر وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ کو رکھا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح نطفہ کی حفاظت کے لئے مختلف قسم کی احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ اُس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.اسی طرح روحانیت کا بیج بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان ہر قسم کے لغو کاموں سے بچے ورنہ انسان کی روحانی پیدائش تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی.پھر تیسرا درجہ یہ بتایا کہ ہم نطفہ کو علقہ بنا دیتے ہیں یعنی وہ ایک جمے ہوئے لہو کی طرح ہو جاتا ہے.رُوحانی درجات میں اس کے مقابل پروَ الَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ کو رکھا گیا ہے.یعنی جس طرح نطفہ علقہ بن جاتا ہےاور رحم سے چمٹ جاتا ہے اسی طرح روحانی ترقی کرنے والا انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے اور وہ بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے لگ جاتا ہے.پھر چوتھا درجہ انسانی پیدائش کا یہ بیان فرمایا کہ جما ہوا لہو ایک بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے.یعنی خون کے لوتھڑے میں جو گندگی پائی جاتی ہے وہ اس سے بچ جاتا ہے اس کے مقابلہ میںوَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَکو رکھا گیا ہے.یعنی وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرنے لگ جاتا ہے اور اب اس کا وجود ایک مستقل وجود بن جاتا ہے جو گندگی سے اپنے آپ کو اپنے ارادہ سے محفوظ رکھتا ہے.پھر پانچواں درجہ یہ بتا یا کہ بوٹی کے بعد ہڈی جسم میں بننی شروع ہو جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں رُوحانی درجہ یہ بتایا کہ وہ امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی اُن میں ایسی روحانی سختی پیدا ہو جاتی ہے کہ خواہ ان کے پاس کوئی دشمن امانت رکھوائے یا کوئی مخالف قوم ان کے ساتھ معاہدہ کرے وہ اس کی پابندی کرتے ہیں.کسی قسم کا لالچ یا کمزوری اُن میں پیدا نہیں ہوتی.گویا ہر شخص جانتاہے کہ وہ موقع پر پھر نہیں جائیں گے بلکہ بات کے پکے رہیں گے.جسمانی پیدائش کا چھٹا درجہ یہ بتایا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں روحانی درجہ یہ بیا ن کیا کہ وہ اپنی اور اپنی قوم کی نمازوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں.یعنی جس طرح چمڑے کے چڑھ جانے کے بعد بچہ بہت حد تک ضائع ہو جانے سے محفوظ ہو جاتا ہے.اسی طرح وہ لوگ جو اپنی قوم میں خدا تعالیٰ کی عبادت کو قائم رکھتے ہیں وہ نہ صرف ذاتی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں بلکہ قومی طور پر بھی محفوظ ہو جاتے ہیں اور بوجہ قوم کے نیک ہو جانے کے وہ بیرونی اثرات سے بھی اُسی طرح محفوظ ہو جاتے ہیں جیسے

Page 289

چمڑے والا انسان بیرونی اثرات سے محفوظ ہوتا ہے.جسمانی پیدائش میں ساتواں درجہ یہ بیان فرمایا کہ جب ہڈیوں پرگوشت اور چمڑہ مڑھ دیا جاتا ہے تو ہم اُن کو ایک دوسری پیدا ئش دے دیتے ہیں.اور وہ پیدا ہو کر بشر بن جاتے ہیں.اس کے مقابلہ میں روحانی کمال کا یہ درجہ بیان فرمایا کہ وہ مر کر ایسے انعامات کے وارث ہوتے ہیں جو سب انعامات کا مجموعہ ہوتے ہیں یعنی جس طرح جسمانیات میں انسان تمام جانوروں کے کمالات کا مجموعہ ہے اسی طرح روحانی انسان مر کر تمام قسم کی نعمتوں کے مجموعہ کو حاصل کر لیتے ہیں.اور جس طرح مادی انسان اپنی اور اپنی قوم کی حفاظت پر قادر ہو جاتا ہے روحانی انسان کی روحانی حفاظت کا اللہ تعالیٰ خود ذمہ اٹھا لیتا ہے.جسمانی خلق کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ.کیا ہی برکت والا ہے وہ خدا جو سب سے بہتر طور پر مخلوق پیدا کرنےوالا ہے.یہی آیت روحانی پیدائش کے ساتھ بھی لگتی ہے یعنی جب انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے تو اسے ایک نئی روحانی پیدائش عطا کی جاتی ہے جو تمام انسانوں کو ایک اچنبھا نظر آتی ہے اور اُسے دیکھ کر ہر شخص خدا تعالیٰ کی حمد پر مجبور ہو جاتا ہے.ٍ اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا.آپؐ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اُسے بلوا کر لکھوا دیتے.ایک دن آپؐ یہی آیتیں اُسے لکھوا رہے تھے.جب آپثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَپر پہنچے تو اُس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے اس کو لکھ لو.اُس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے.اُس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذباللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں چنانچہ وہ مرتد ہوگیا.اور مکہ چلا گیا.فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنےکا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُن میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا.مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپ کے گھر میں تین دن چُھپا رہا.ایک دن جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمانؓ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اُس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے توکچھ دیرتامل فرمایا مگر پھر آپ نے اُس کی بیعت لے لی.اور اس طرح دوبارہ اُس نے اسلام قبول کر لیا.( ابو داؤد کتاب

Page 290

ٍ اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب وحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا.آپؐ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اُسے بلوا کر لکھوا دیتے.ایک دن آپؐ یہی آیتیں اُسے لکھوا رہے تھے.جب آپثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَپر پہنچے تو اُس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے اس کو لکھ لو.اُس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے.اُس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذباللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں چنانچہ وہ مرتد ہوگیا.اور مکہ چلا گیا.فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنےکا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُن میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا.مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپ کے گھر میں تین دن چُھپا رہا.ایک دن جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمانؓ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اُس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے توکچھ دیرتامل فرمایا مگر پھر آپ نے اُس کی بیعت لے لی.اور اس طرح دوبارہ اُس نے اسلام قبول کر لیا.( ابو داؤد کتاب الحدود باب الحکم فی من ارتد) اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے.بلکہ اس جگہ خالق کے معنے اندازہ کرنے والے کے ہیں.چنانچہ مفردات امام راغبؒ میں لکھا ہے.مَعْنَاہُ اَحْسَنُ الْمُقَدِّرِیْنَ اَوْ یَکُوْنُ عَلٰی تَقْدِیْرِ مَاکَانُوْا یَعْتَقِدُوْنَ وَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّ غَیْرَاللہِ یُبْدِعُ فَکَاَ نَّہُ قِیْلَ فَاحْسِبْ اَنَّ ھٰھُنَا مُبْدِعِیْنَ وَمُوْجِدِیْنَ فَاللہُ اَحْسَنُھُمْ اِیْجَادًاعَلٰی مَا یَعْتَقِدُوْنَ یعنی اس جگہ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ کے معنے اَحْسَنُ الْمُقَدِّ رِیْنَ کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ وہ تمام اندازہ کرنے والوں میں سے بہتر اندازہ کرنے والا ہے اور یا پھر اس جگہ دوسروں کے اعتقادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی گئی ہے کیونکہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے لوگ بھی ایجادیں کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک دنیا میں کئی موجد اور صناع پائے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ایجاد اور صنعت کا ان کی ایجادوں اور صنعتوں سے مقابلہ تو کرو.تمہیں ماننا پڑےگا کہ اُن کی ایجادات خدائی ایجادات کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے مگر پھر وہ انسان کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ( الدہر :۳) یعنی ہم نے اسے سمیع اور بصیر بنا دیا.اب اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفت سمیع اور بصیر میں شریک ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے جب اسے سننے اور دیکھنے کی قابلیت دی تو مجازی رنگ میں اُسے بھی سمیع اور بصیر کہہ دیا گیاپھر انسان کے لئے صرف سمیع اور بصیر کا لفظ آتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے لئے اَلسَّمِیْعُ اور اَلْبَصِیْرُ کا لفظ آتا ہے یعنی سننے اور دیکھنے کے جتنے کمالات ہیں وہ سب اُس میں پائے جاتے ہیں.ورنہ انسان کی سماعت اور بصارت تو اتنی ناقص ہے کہ وہ دور کی بات سُن ہی نہیں سکتا اور نہ اپنی پیٹھ کے پیچھے پڑی ہوئی چیز کو دیکھ سکتا ہے.اسی طرح بیشک دنیا میں اور بھی صناع اور موجد ہیں مگر اُن کی صنعتیں اور ایجادات بالکل بے حقیقت ہیں اور پھر جبکہ وہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے ہی ایجادات کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں تو اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ بہر حال خدا تعالیٰ ہی ہوا.کوئی انسان نہ ہو ا.آخر میں اس امر کا بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میںثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ فرما کراللہ تعالیٰ نے جس روحانی مقام کا ذکر فرمایا ہے یہ وہ مقام ہے جو محنت اور قربانی اور جدوجہد اور متواتر عمل کے ساتھ وابستہ ہے اور جس کے لئے ایک لمبے عرصہ تک انسان کو اپنے نفس کی جلاء میں مشغول رہنا پڑتا ہے.لیکن بعض تغیرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انقلابی طورپر واقع ہوتے ہیں اور آناً فاناً انسان کو زمین سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتے ہیں.حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کا واقعہ اس انقلاب کی ایک زندہ مثال ہے.حضرت عمرؓ کو اسلام سے شدید دشمنی تھی لیکن اُن میں روحانی قابلیت بھی موجود تھی یعنی باوجود آپ میں شدید غصّہ ہونے کے.باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو تکا لیف پہنچانے کے اُن کے اندر جذبۂ رقت بھی موجود تھا.چنانچہ جب حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی تو مسلمانوں نے نماز فجر سے پہلے مکہ سے روانگی کی تیاری کی تاکہ مشرک انہیں روکیں نہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائیں.مکہ میں یہ رواج تھا کہ رات کو بعض رؤساء شہر کا دورہ کیا کرتے تھے تاکہ چوری وغیرہ نہ ہو.اسی دستور کے مطابق حضرت عمر ؓ بھی رات کو پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک جگہ گھر کا سب سامان بندھا پڑا ہے.آپ آگے بڑھے.ایک صحابیہ ؓ سامان کے پاس کھڑی تھیں.اُس صحابیہؓ کے خاوند کے ساتھ شاید حضرت عمر ؓ کے تعلقات تھے.اس لئے آپ نے اُس صحابیہ ؓ کو مخاطب کر کے کہا.بی بی یہ کیا بات ہے.مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی لمبے سفر پر جارہی ہو.اُس صحابیہؓ کا خاوند وہاں نہیں تھا.اگر وہ وہاں ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ مشرکینِ مکہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کر وہ کوئی بہانہ بنا دیتا.لیکن عورت کو یہ حِس نہیں تھی.اُس صحابیہؓ نے کہا عمرؓ! ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں انہوں نے کہا.تم مکہ چھوڑ رہی ہو.صحابیہ ؓ نے کہا ہاں ہم مکہ چھوڑ رہے ہیں.حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو.صحابیہ ؓ نے جواب دیا.عمرؓ ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے.اور ہمیں خدا ئے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں.ا س لئے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں.اب باوجود اس کے کہ حضرت عمر ؓ اسلام کے شدید دشمن تھے.باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے.رات کے اندھیرے میں اُس صحابیہ ؓ سے یہ جواب سن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ تم اور تمہارےبھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے.حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا.اور اس صحابیہ ؓ کا نام لے کر کہا.اچھا جائو خدا تمہارا حافظ ہو.معلوم ہوتا ہے حضرت عمر ؓ پر رقت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا.اتنے میں اُس صحابیہ ؓ کے خاوند بھی آگئے.وہ سمجھتے تھے کہ عمرؓ اسلام کے شدید دشمن ہیں.انہوں نے جب آپ کو وہاں کھڑا دیکھا تو خیال کیا یہ ہمارے سفر میں کوئی روک پیدا نہ کر دیں.انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ یہ یہاں کیسے آگیا؟ اُس نے بتا یا کہ وہ اس اِس طرح آیا تھااور اس نے سوال کیا تھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی شرارت نہ کر دے.اُس صحابیہ ؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ( عرب عورتیں عام طورپر اپنے خاوندوں کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں )تم تو یہ کہتے ہو کہ وہ کہیں کوئی شرارت نہ کر دےمگر مجھے تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اُس نے کسی دن مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ جب میں نے کہا عمرؓ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے تو اُس نے منہ پھیر لیا اور کہا.اچھا جائو خداتمہارا حافظ ہو.اُس کی آواز میں ارتعاش تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور کسی دن مسلمان ہو جائےگا(السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرة الاولیٰ الی ارض الحبشة).

Page 291

روحانی قابلیت بھی موجود تھی یعنی باوجود آپ میں شدید غصّہ ہونے کے.باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو تکا لیف پہنچانے کے اُن کے اندر جذبۂ رقت بھی موجود تھا.چنانچہ جب حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی تو مسلمانوں نے نماز فجر سے پہلے مکہ سے روانگی کی تیاری کی تاکہ مشرک انہیں روکیں نہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائیں.مکہ میں یہ رواج تھا کہ رات کو بعض رؤساء شہر کا دورہ کیا کرتے تھے تاکہ چوری وغیرہ نہ ہو.اسی دستور کے مطابق حضرت عمر ؓ بھی رات کو پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک جگہ گھر کا سب سامان بندھا پڑا ہے.آپ آگے بڑھے.ایک صحابیہ ؓ سامان کے پاس کھڑی تھیں.اُس صحابیہؓ کے خاوند کے ساتھ شاید حضرت عمر ؓ کے تعلقات تھے.اس لئے آپ نے اُس صحابیہ ؓ کو مخاطب کر کے کہا.بی بی یہ کیا بات ہے.مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی لمبے سفر پر جارہی ہو.اُس صحابیہؓ کا خاوند وہاں نہیں تھا.اگر وہ وہاں ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ مشرکینِ مکہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی یہ بات سن کر وہ کوئی بہانہ بنا دیتا.لیکن عورت کو یہ حِس نہیں تھی.اُس صحابیہؓ نے کہا عمرؓ! ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں انہوں نے کہا.تم مکہ چھوڑ رہی ہو.صحابیہ ؓ نے کہا ہاں ہم مکہ چھوڑ رہے ہیں.حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو.صحابیہ ؓ نے جواب دیا.عمرؓ ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے.اور ہمیں خدا ئے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں.ا س لئے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں.اب باوجود اس کے کہ حضرت عمر ؓ اسلام کے شدید دشمن تھے.باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے.رات کے اندھیرے میں اُس صحابیہ ؓ سے یہ جواب سن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ تم اور تمہارےبھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے.حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا.اور اس صحابیہ ؓ کا نام لے کر کہا.اچھا جائو خدا تمہارا حافظ ہو.معلوم ہوتا ہے حضرت عمر ؓ پر رقت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا.اتنے میں اُس صحابیہ ؓ کے خاوند بھی آگئے.وہ سمجھتے تھے کہ عمرؓ اسلام کے شدید دشمن ہیں.انہوں نے جب آپ کو وہاں کھڑا دیکھا تو خیال کیا یہ ہمارے سفر میں کوئی روک پیدا نہ کر دیں.انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ یہ یہاں کیسے آگیا؟ اُس نے بتا یا کہ وہ اس اِس طرح آیا تھااور اس نے سوال کیا تھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی شرارت نہ کر دے.اُس صحابیہ ؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ( عرب عورتیں عام طورپر اپنے خاوندوں کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں )تم تو یہ کہتے ہو کہ وہ کہیں کوئی شرارت نہ کر دےمگر مجھے تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اُس نے کسی دن مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ جب میں نے کہا عمرؓ! ہم اس لئے مکہ

Page 292

چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے تو اُس نے منہ پھیر لیا اور کہا.اچھا جائو خداتمہارا حافظ ہو.اُس کی آواز میں ارتعاش تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور کسی دن مسلمان ہو جائےگا(السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرة الاولیٰ الی ارض الحبشة).دن اسی طرح گذرتے چلے گئے اور حضرت عمر ؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے.ایک دن اُن کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائےاور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے.راستہ میں کسی نے پوچھا.عمرؓ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے کے لئے جا رہا ہوں.اُس شخص نے ہنس کر کہا.اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں.حضرت عمر ؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے.اُس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو.حضرت عمر ؓ وہاں گئے دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابی ؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے.آپ نے دستک دی.اندر سے آپ کے بہنوئی کی آواز آئی.کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا عمرؓ.انہوںنے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابی ؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا.اسی طرح قرآن کریم کے اوراق بھی کسی کو نہ میں چھپا کرر کھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ چونکہ یہ سُن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے.آپ کے بہنوئی نے جواب دیا.آخر دیر لگ ہی جاتی ہے.حضرت عمرؓ نے کہا یہ بات نہیں کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے.مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اُس صابی کی باتیں سن رہے تھے (مشرکین مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے) انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمرؓ کو غصّہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے.آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں.حضرت عمر ؓ چونکہ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اور اُن کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور اُن کا ہاتھ زور سے اُن کی ناک پر لگااور اُس سے خون بہنے لگا.حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اُٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے.حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کے لئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیںاُس نے کہا جاؤتمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کے لئے تیار

Page 293

نہیں.حضرت عمر ؓ نے کہا پھر میں کیا کروں.بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ.تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے.حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے.بہن نے قرآن کریم کے اوراق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی اُن کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بے اختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ یہ الفاظ سن کروہ صحابی ؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے.پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے.انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں.حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اُس گھر کی طرف چل پڑے بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بری نیت سے نہ جا رہے ہوں.انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم ! میں تمہیں اُس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلادو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے.حضرت عمرؓ نے کہا میں پکا وعدہ کرتاہوں کہ میںکوئی فساد نہیں کروںگا.حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور دستک دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا.کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا.عمرؓ! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے.حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے.انہوں نے کہا دروازہ کھول دو.میں دیکھوں گا وہ کیاکرتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا.حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمرؓ! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گئے.حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! میں مخالفت کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بننے کے لئے آیا ہوں.وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا.جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.اس کے بعد نماز کا وقت آیا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے.اُس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا.یارسول اللہ ! خدا تعالیٰ کا رسول اور اُس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے.میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جذبہ تو

Page 294

بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں (السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرۃ الاولیٰ...اسلام عمر بن الخطاب ؓ).یہ ایک غیر معمولی انقلاب تھا جو حضرت عمرؓ کے اندر پیدا ہوااور آناً فاناً آپ شدید دشمن سے اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کی حالت انقلاب کے ذریعہ دوسری حالت میں بدلتی ہےاور پھر انقلاب خود پیدا نہیں کیا جا تا بلکہ انقلاب باہر سے آیا کرتا ہےاور جب آتا ہے تو لوگ حیران ہو جاتے ہیں.دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں.لیکن استدراجی تغیر پیدا کیا جاتا ہے اور جو شخص استدراجی حالت پر ہو لیکن وہ انقلاب کی اُمید میں بیٹھا رہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے ایک رات میں چالیس ہزار عربی کا مادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھایا گیا.( انجام آتھم ص ۲۳۴)(’’ایک رات‘‘ کے لئے دیکھئے روایت غلام نبی صاحب سیٹھی مندرجہ الحکم ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۵؁ء)اب یہ انقلاب تھا جو آپ کے اندر پیدا ہوا.لیکن اگر اس انقلاب کو دیکھتے ہوئے لڑکے سکول میں پڑھنا چھوڑ دیں اور اس انتظار میں بیٹھ جائیں کہ فرشتہ آئےگا اور ساٹھ ہزار عربی کا مادہ انھیں سکھا دےگاتو انہیں کون عقلمند سمجھے گا؟ انقلاب پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ انقلاب خود بخود پیدا ہوتے ہیں.لیکن ارتقاء اور انتقال عَنِ الحال اِلَی الحال آہستہ آہستہ اور محنت کے ساتھ ہوتا ہے.انقلاب لاکھوں دنوںمیں کسی ایک دن آتا ہے.باقی سارے دن انتقال کے ہوتے ہیں اور انسان ایک حالت سے دوسری حالت میں بتدریج کوشش اور محنت اور قربانی کے ساتھ پہنچتا ہے.یہ انتقال عَنِ الحال اِلَی الحال اور استدراجی تغیر ہمیشہ نوافل اور ذکرِ الٰہی اور کوشش اور جدوجہد کے ساتھ ہوتا ہے.انسان جب اپنے نفس کا مطالعہ کرے تو وہ سوچے گا کہ اگر دوسرا شخص مجھے گالی دے تو میں اپنے نفس کو کس طرح روکوں گا.وہ ظلم کرے تو میں اُس کے ظلم کو کیسے برداشت کروںگا.وہ لغو گفتگو کرے تو میں اپنی زبان کو کس طرح بند رکھوں گا.اور جب وہ سوچےگا تو آہستہ آہستہ اس کا نفس کامل بنتا چلا جائےگا.اگر اُس میں انقلاب آتا تو پہلے ہی دن وہ تہجد اور دوسرے نوافل پڑھنے لگ جاتا.وہ فوراً حرام خوری اور جھوٹ سے بچ جاتا.لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ اُس کا تغیر استدراجی ہوتا ہے اور اس کی ترقی کوشش اور جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ عام طورپر اس کوشش اور جدوجہد کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں توجہ دلائی ہے اور انقلاب کے انتظار میں لوگ بیٹھے رہتے ہیں.حالانکہ اُن کے اندر جو بھی تغیر پید اہوگا وہ استدراجی ہوگا اور اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوگی.اس غرض کے لئے بنیادی طورپر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلوص کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس پر دوام اختیار کیا جائے.اگر انسان عبادت پر دوام اختیار کرے تو دوسری

Page 295

دن اسی طرح گذرتے چلے گئے اور حضرت عمر ؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے.ایک دن اُن کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائےاور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے.راستہ میں کسی نے پوچھا.عمرؓ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے کے لئے جا رہا ہوں.اُس شخص نے ہنس کر کہا.اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو.تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں.حضرت عمر ؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے.اُس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو.حضرت عمر ؓ وہاں گئے دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابی ؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے.آپ نے دستک دی.اندر سے آپ کے بہنوئی کی آواز آئی.کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا عمرؓ.انہوںنے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابی ؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا.اسی طرح قرآن کریم کے اوراق بھی کسی کو نہ میں چھپا کرر کھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا.حضرت عمرؓ چونکہ یہ سُن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے.آپ کے بہنوئی نے جواب دیا.آخر دیر لگ ہی جاتی ہے.حضرت عمرؓ نے کہا یہ بات نہیں کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے.مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اُس صابی کی باتیں سن رہے تھے (مشرکین مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے) انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمرؓ کو غصّہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے.آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں.حضرت عمر ؓ چونکہ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اور اُن کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور اُن کا ہاتھ زور سے اُن کی ناک پر لگااور اُس سے خون بہنے لگا.حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اُٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے.حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کے لئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیںاُس نے کہا جاؤتمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کے لئے تیار نہیں.حضرت عمر ؓ نے کہا پھر میں کیا کروں.بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ.تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے.حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے.بہن نے قرآن کریم کے اوراق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی اُن کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بے اختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ یہ الفاظ سن کروہ صحابی ؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے.پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے.انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں.حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اُس گھر کی طرف چل پڑے بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بری نیت سے نہ جا رہے ہوں.انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم ! میں تمہیں اُس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلادو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے.حضرت عمرؓ نے کہا میں پکا وعدہ کرتاہوں کہ میںکوئی فساد نہیں کروںگا.حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور دستک دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا.کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا.عمرؓ! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہیے.ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے.حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے.انہوں نے کہا دروازہ کھول دو.میں دیکھوں گا وہ کیاکرتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا.حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمرؓ! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گئے.حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! میں مخالفت کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بننے کے لئے آیا ہوں.وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کے لئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا.جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.اس کے بعد نماز کا وقت آیا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے.اُس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا.یارسول اللہ ! خدا تعالیٰ کا رسول اور اُس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے.میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں (السیرۃ الحلبیۃ باب الھجرۃ الاولیٰ...اسلام عمر بن الخطاب ؓ).یہ ایک غیر معمولی انقلاب تھا جو حضرت عمرؓ کے اندر پیدا ہوااور آناً فاناً آپ شدید دشمن سے اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کی حالت انقلاب کے ذریعہ دوسری حالت میں بدلتی ہےاور پھر انقلاب خود پیدا نہیں کیا جا تا بلکہ انقلاب باہر سے آیا کرتا ہےاور جب آتا ہے تو لوگ حیران ہو جاتے ہیں.دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں.لیکن استدراجی تغیر پیدا کیا جاتا ہے اور جو شخص استدراجی حالت پر ہو لیکن وہ انقلاب کی اُمید میں بیٹھا رہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے ایک رات میں چالیس ہزار عربی کا مادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھایا گیا.( انجام آتھم ص ۲۳۴)(’’ایک رات‘‘ کے لئے دیکھئے روایت غلام نبی صاحب سیٹھی مندرجہ الحکم ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۵؁ء)اب یہ انقلاب تھا جو آپ کے اندر پیدا ہوا.لیکن اگر اس انقلاب کو دیکھتے ہوئے لڑکے سکول میں پڑھنا چھوڑ دیں اور اس انتظار میں بیٹھ جائیں کہ فرشتہ آئےگا اور ساٹھ ہزار عربی کا مادہ انھیں سکھا دےگاتو انہیں کون عقلمند سمجھے گا؟ انقلاب پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ انقلاب خود بخود پیدا ہوتے ہیں.لیکن ارتقاء اور انتقال عَنِ الحال اِلَی الحال آہستہ آہستہ اور محنت کے ساتھ ہوتا ہے.انقلاب لاکھوں دنوںمیں کسی ایک دن آتا ہے.باقی سارے دن انتقال کے ہوتے ہیں اور انسان ایک حالت سے دوسری حالت میں بتدریج کوشش اور محنت اور قربانی کے ساتھ پہنچتا ہے.یہ انتقال عَنِ الحال اِلَی الحال اور استدراجی تغیر ہمیشہ نوافل اور ذکرِ الٰہی اور کوشش اور جدوجہد کے ساتھ ہوتا ہے.انسان جب اپنے نفس کا مطالعہ کرے تو وہ سوچے گا کہ اگر دوسرا شخص مجھے گالی دے تو میں اپنے نفس کو کس طرح روکوں گا.وہ ظلم کرے تو میں اُس کے ظلم کو کیسے برداشت کروںگا.وہ لغو گفتگو کرے تو میں اپنی زبان کو کس طرح بند رکھوں گا.اور جب وہ سوچےگا تو آہستہ آہستہ اس کا نفس کامل بنتا چلا جائےگا.اگر اُس میں انقلاب آتا تو پہلے ہی دن وہ تہجد اور دوسرے نوافل پڑھنے لگ جاتا.وہ فوراً حرام خوری اور جھوٹ سے بچ جاتا.لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ اُس کا تغیر استدراجی ہوتا ہے اور اس کی ترقی کوشش اور جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ عام طورپر اس کوشش اور جدوجہد کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں توجہ دلائی ہے اور انقلاب کے انتظار میں لوگ بیٹھے رہتے ہیں.حالانکہ اُن کے اندر جو بھی تغیر پید اہوگا وہ استدراجی ہوگا اور اس کے لئے کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوگی.اس غرض کے لئے بنیادی طورپر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلوص کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس پر دوام اختیار کیا جائے.اگر انسان عبادت پر دوام اختیار کرے تو دوسری نیکیاں آپ ہی آپ صادر ہونے لگتی ہیں.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صرف فرض نمازیں پڑھی جائیں بلکہ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے تہجد اور نوافل کی ادائیگی پر بھی زور دینا چاہیے.اسی طرح دیانت ، امانت وفائے عہد ، غرباء پروری اور عفت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے.ان نیکیوں میں حصہ لینے سے انسان اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ آخر اُسے ایک نئی روحانی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور انسانیت اپنے معراجِ کمال کو پہنچ جاتی ہے.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ١ۖۗ وَ مَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ اور ہم نے تمہارے اوپر(کے درجات کے لئے) سات (روحانی) راستے بنائے ہیں اور ہم (اپنی )مخلوق غٰفِلِيْنَ۰۰۱۸ سے غافل نہیں رہے.حلّ لُغات.طَرَآئِقَ.طَرَائِقُ طَرِ یْقَۃٌ کی جمع ہے اور طَرِیْقَۃُ الرَّجُلِ کے معنے ہوتے ہیں مَذْھَبُہٗ یعنی وہ راستہ جسے وہ اختیار کرتا ہے.(اقرب) تفسیر.علامہ قرطبی ؒ لکھتے ہیں کہ یہاںسَبْعَ طَرَآىِٕقَسے سات آسمان مراد ہیں.اور اُن کو طَرَآىِٕقَ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر تہہ بہ تہہ واقع ہیں.چنانچہ عربی زبان میں جب طَارَقْتُ الشَّيْءَ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جَعَلْتُ بَعْضَہٗ فَوْقَ بَعْضٍ.میں نے ایک چیز کے مختلف حصّوں کو ایک دوسرے کے اوپررکھ دیا.وَالْعَرَبُ تُسَمِّیْ کُلَّ شَیْءٍ فَوْقَ شَیْءٍ طَرِیْقَۃً اور عرب لوگ ہر اُس چیز کو جو دوسری چیز پر رکھی ہوئی ہو طرِیْقَۃٌ کہتے ہیں ( تفسیر قرطبی زیر آیت ھٰذا) علامہ ابو حیانؒ بھی اپنی تفسیر بحرِ محیط میں خلیل.فرّاء اور زجاج کے متعلق لکھتے ہیں کہ اُن کے نزدیک بھی آسمان کو طرائق اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں.چنانچہ جب طَارَقَ النَّعْلَ کہیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ جَعَلَہٗ علٰی نَعْلٍ اُس نے ایک جوتی کودوسری جوتی پر رکھ دیا اور طَارَقَ بَیْنَ ثَوْبَیْنِ کے یہ معنے ہوتے ہیںکہ لَبِسَ أَحَدَھُمَا عَلَی الْاٰخِر اُس نے ایک کپڑے پر دوسرا کپڑا پہن لیا.(بحرِ محیطزیر آیت ھٰذا) امام راغبؒ اپنی کتاب مفردات میں سورۂ جن کی آیت كُنَّا طَرَآىِٕقَ قِدَدًا کے متعلق لکھتے ہیں کہ اِشَارَۃٌ اِلٰی اِخْتِلَافِھِمْ فِیْ دَرَجٰتِھِمْ یعنی اس میں ان کے درجات کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے گویا طَرَآىِٕقَ کے معنے انہوں نے درجات کے کئے ہیںاور سَبْعَ طَرَآىِٕقَکے متعلق لکھتے ہیں کہ اِطْبَاقُ السَّمَائِ یُقَالُ لَھَا طَرَائِقُ یعنی طرائق کے معنے آسمانوں کا اوپر نیچے ہو ناہے.

Page 296

نے درجات کے کئے ہیںاور سَبْعَ طَرَآىِٕقَکے متعلق لکھتے ہیں کہ اِطْبَاقُ السَّمَائِ یُقَالُ لَھَا طَرَائِقُ یعنی طرائق کے معنے آسمانوں کا اوپر نیچے ہو ناہے.ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَکے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے تمہارے اوپر یکے بعد دیگر ے سات بلندیاں پیدا کی ہیں.یعنی جس طرح تمہاری جسمانی پیدائش کو ہم نے سات ترقیات کے ساتھ مکمل کیا ہے اسی طرح تمہاری روحانی پیدائش کو بھی ہم نے سات درجات میں تقسیم کیا ہوا ہے.یہ سات درجات کو ن سے ہیں ؟ اس کے متعلق جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روحانیات میں انسان کا پہلا درجہ جمادات کے مشابہ ہوتا ہے.یعنی جس طرح جمادات کے اندر کوئی حس نہیں ہوتی اسی طرح ایسے لوگوں میں بھی بھلی بُری بات پہچاننے کی کوئی حس نہیں ہوتی.نہ اُن کے سامنے کوئی بلند مقصد ہوتا ہے.انہیں لاکھ وعظ کیا جائے اُن کے اندر نیکی اور خدا تعالیٰ کی خشیٔت کا کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً (البقرۃ:۷۵)یعنی اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے اور وہ پتھروں کی طرح ہوگئے بلکہ اپنی سختی میں پتھروں سے بھی آگے نکل گئے.گویا بعض لوگوں کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے ایسے سرد ہوتے ہیں کہ اُن میں خدا تعالیٰ کی خشیٔت کا کوئی احساس ہی نظر نہیں آتا.جب انہیں بھوک لگتی ہے کھالیتے ہیں اور جب نیند آتی ہے تو سو رہتے ہیں.انہیں کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ نے اُن پر کیا ذمہ داریاں رکھی ہوئی ہیں.بلکہ اگر انہیں کوئی توجہ بھی دلائے تو وہ بے کار ثابت ہوتی ہے ایسے لوگ روحانیات میں جمادات سے مشابہت رکھتے ہیں.دوسرا درجہ جو اس سے اوپر ہے وہ نباتات کے مشابہ ہے یعنی جب انسان ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے اور جمادی حالت کو ترک کر دیتا ہے تو اس کے اندر نباتات کے مشابہ ایک نشوونما کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ لمبے تجربات کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نباتات کے اندر بھی رُوح ہوتی ہے گو وہ حیوانی رُوح سے بہت کم درجہ کی ہوتی ہے اس کے ثبوت کے لئے چھوئی موئی کی بوٹی کو جسے اُردو میں لاجونتی کہتے ہیں پیش کیا جا سکتا ہے.اُس کے پتوں کو جب ہاتھ لگایا جائے تو وہ فوراً سکڑ جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نباتات میں بھی حِس ہوتی ہے.گو بعض میں زیادہ ہوتی ہے اور بعض میں کم مگر یہ حِس اتنی کمزور ہوتی ہے کہ کسی صدمہ سے بچنے کی طاقت اُن میں نہیں ہوتی جیسے لاجونتی کے پتے ہاتھ لگانے سے سکڑ جاتے ہیں لیکن اُن میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ بھاگ کر اپنے آپ کو بچا لیا کریں.اسی طرح ایک انسان اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس میں کسی قدر روحانی حِس تو پائی جاتی ہے

Page 297

لیکن وہ کسی بیرونی حملہ سے اپنے آپ کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتا.چنانچہ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا١ؕ وَ تَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَ هُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ (الاعراف:۱۹۹) یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ سن نہیں سکتے.اورتو اُن کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ گویا وہ تجھے دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ تجھے نہیں دیکھ رہے.اس جگہ اُن کی طرف دیکھنے کو منسوب کرنا اور پھر یہ کہنا کہ وہ نہیں دیکھتے بتاتا ہے کہ یہاں اُن لوگوں کا ذکر کیا جا رہاہے جن میں ایک حد تک تو نیکی کا احساس پایا جاتا ہے مگر اُن پر کمزوری اس قدر غالب ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس حس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتےاور دیکھنے کے باوجود وہ روحانی علوم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں.تیسرا درجہ حیوانی زندگی سے مشابہ ہوتا ہے یعنی جس طرح حیوان کو اگر آواز سناؤ تو وہ سُن لے گا مگر مطلب نہیں سمجھے گااور اگر اُسے دُکھ دینے لگو تو وہ بھاگ جائےگا.مگر اپنے بچاؤ کے لئے ایسے ذرائع نہیں سوچ سکے گا جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے خطرات سے محفوظ ہو جائے.اسی طرح روحانی عالم میں بھی بعض لوگ حیوانات کے مشابہ ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا١ٞ وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا١ٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(الاعراف :۱۸۰) یعنی اُن کے دل تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ سمجھتے نہیںاور اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ دیکھتے نہیں اور اُن کے کان تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ سنتے نہیں.یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں.بلکہ اُن سے بھی بد تر ہیںاور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غافل ہیں.ان لوگوں کو بدتر اس لئے کہا کہ چارپایوں میں جو نقص ہے وہ تو طبعی ہے.لیکن ان کے اندراللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی قابلیتیں پیدا کی ہیں اور پھر بھی یہ چارپاؤںکے مشابہ بن گئے ہیں.ایسے لوگ حیوانات کی طرح خوف کے وقت تو اپنے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی طرف جُھک جاتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو اُس کے عذاب سے محفوظ نہیں کر سکتے.بلکہ جب مصیبت ہٹ جاتی ہے تو پھر شرارتوں کی طرف عود کر آتے ہیں.لیکن جب اس سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کی محبت کا احساس پیدا ہو جائے تو چوتھا درجہ انسان کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ اُسے تقویٰ اور روحانیت سے لگاؤ ہو جاتا ہے اور وہ سب کام عقل اور سمجھ سے کرنے لگتا ہے مگر کبھی کبھی اس پر شیطان بھی غالب آجاتا ہے ہاں بدی کا حملہ اس پر بہت کم کارگر ہوتا ہے.کیونکہ اُس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے اِس حالت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ

Page 298

طٰٓىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ(الاعراف :۲۰۲)یعنی وہ لوگ جنہوں نے اُس وقت تقویٰ اختیار کیا جب شیطان کی طرف سے آنے والا کوئی خیال اُن کو محسوس ہوا اور وہ ہوشیار ہوگئے اور اُن کی آنکھیں کُھل گئیں وہ ہدایت پا جاتے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ایسے لوگوں کو شیطان اپنی طرف کھینچتا ہے.مگر وہ جھٹ ہوشیار ہو جاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیںاور شیطانی حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں.پھر انسان اس سے بھی ترقی کرتا اور پانچویں درجہ میں پہنچ کرملک بن جاتا ہے.یعنی اُس کی معرفتِ الٰہی ایسی ترقی کر جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل اُس کی غذا بن جاتا ہے اور جس طرح ملائکہ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(النحل:۵۱) کے مصداق ہوتے ہیں اسی طرح ایسا انسان بھی خدا تعالیٰ کے سب حکموں کو پورا کرتا ہے اور اس پر کبھی غفلت کی نیند نہیں آتی.ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےوَالْمَلٰٓئِکَۃُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ.سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد :۲۴،۲۵)یعنی ایسے لوگوں کے پاس ہر دروازہ سے فرشتے آئیں گےاور ان سے کہیں گے کہ تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں ثابت قدم رہے ہو.پس اب دیکھو کہ تمہارے لئے اس گھر کا کیا ہی اچھا انجام ہے.چونکہ یہ لوگ ملکوتی صفات رکھنے والے ہوںگے اس لئے ان کو دیکھتے ہی فرشتے اُن کی طرف دوڑ پڑیں گے اور انہیںاللہ تعالیٰ کے قرب اور اُس کے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیں گے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے اپنی کثرت کی وجہ سے ایک دروازہ کی بجائے بہت سے دروازوں سے داخل ہوںگے بلکہ اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ ہر دروازہ کا فرشتہ اُن کے پاس آئے گا اور انہیں مبارک باد دےگا کہ تم اس جدوجہد میں کامیاب ہو گئے جس میں میں اور تم دونوں مل کر شیطان کا مقابلہ کیا کرتے تھے.کیونکہ بدی انسانی قلب میں کئی راستوں سے داخل ہوتی ہے.کبھی آنکھ کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے.کبھی کانوں کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے اور کبھی چھونے اور چکھنے کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے اور چونکہ ہر راستہ کی حفاظت کے لئےخدا تعالیٰ کے فرشتے مقرر ہیں.اس لئے جب انسان شیطان پر کامیابی حاصل کرلے گاتو ہردروازہ کا فرشتہ اُسے مبارکباد دینے کے لئے آئے گا.پھر انسان اس سے بھی آگے ترقی کرتا ہے اور چھٹا درجہ اُسے حاصل ہوتا ہے کہ اُس میں ایسا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پراللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ( البقرۃ :۱۱۳)یعنی جو لوگ اپنے آپ کو کلیۃًاللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور نیک اعمال بجا لائیں.اُن کے لئے اپنے رب کے حضور بہت بڑا اجر مقدر

Page 299

ہے.اور وہ ہر قسم کے خوف اور حزن سے محفوظ رہیں گے.ملکوتی مقام میں تو وہ سمجھتا تھا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں مجھے حکم دو تو میں دوڑ کر اُس کی تعمیل کروں گا.مگر اس مقام پر پہنچ کر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں جس طرح آپ کی مرضی ہو اسی طرح مجھے چلا لیجئیے.اس مقام پر پہنچ کر اس کے تمام کام خدا تعالیٰ کے کام ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک بے جان ہتھیار کی طرح دے دیتا ہے.ایسے لوگوں کی نسبت ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ خدا اُن کی آنکھیں اور کان اور ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے.یعنی اُ ن کی تمام حرکات و سکنات اُس کے منشا کے مطابق ہوتی ہیںاور وہ ہر ابتلاء اور ٹھوکر سے محفوظ ہو جاتے ہیں.ساتواں مقام جس پر انسان ترقی کرکے پہنچتا ہے وہ وہی ہے جس کاثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ میں ذکر کیا گیا ہے.یعنی پھر اُسے ایک اور خلق میں بدل دیا جاتا ہے اور اس پر ایسا آسمانی رنگ چڑھ جاتا ہے کہ پہلے تو وہ خدا تعالیٰ کے بلائے بولتا تھا مگر اَب اُس کو وہ مقام بخشا جاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے خدا تعالیٰ بھی اُسی کے مطابق اپنے احکام جاری کر دیتا ہے گویا پہلے تو خدا اس کے ہاتھ پاؤں بناتھا مگر پھر وہ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کے اپنے ہاتھ پاؤں خدا تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں اور اُس کی اپنی زبان خدا تعالیٰ کی زبان بن جاتی ہےاور وہ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى.اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى(النجم:۴،۵) کا مصداق ہو جاتا ہے.یہ انسانی کمال کا وہ آخری نقطہ ہے جس پر پہنچ کر خدائی صفات اُس کے آئینہ ٔ قلب میں منعکس ہونے لگتی ہیں.اور وہ اس کے جلال اور جمال کا مظہر ہو جاتا ہے.اس سے دشمنی رکھنے والے خدا تعالیٰ سے دشمنی رکھنے والے قرار پاتے ہیں اور اُس سے محبت رکھنے والے خدا تعالیٰ کی برکات اور اُس کے انعامات کے مورد بنتے ہیں.اسی مقام کی طرف بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ؎ اے آں کہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخِ مثمرم (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۱) یعنی اے وہ شخص جو میری طرف تبر اور کلہاڑے لے کر اس نیت سے دوڑا چلا آرہا ہے کہ تو میرے لگائے ہوئے باغ کو کاٹ دے تو باغبان سے ڈر کہ میں وہ شاخ نہیں ہوں جو کاٹی جا سکے.تیری تدابیر الٹ کر تجھ پر ہی پڑیں گی اور تیرا منصوبہ خود تجھے ہی تباہ کر دےگا.کیونکہ میرے سر سے پاؤں تک میرا خدا مجھ میں نہاں ہے اور حملہ

Page 300

کرنےوالا مجھ پر حملہ نہیںکرتا.بلکہ خدا پر حملہ کرتا ہے اور کون ہے جو خدا پر اپنے حملہ میں کامیاب ہو سکے.غرض یہ وہ سات مقامات ہیں جو روحانی ترقی کے حصول کے لئےاللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور جن کو درجہ بدرجہ طے کرتے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اس کی لازوال محبت کو حاصل کر لیتا ہے.وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اور ہم نے آسمان سے ایک اندازہ کے مطابق پانی اُتارا ہے.پھر اُس کو زمین میں ٹھہرا دیا.اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ۰۰۱۹فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ اور ہم اُس کے فنا کرنے پر بھی قادر ہیں.پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّ اَعْنَابٍ١ۘ لَكُمْ فِيْهَا فَوَاكِهُ كَثِيْرَةٌ وَّ مِنْهَا باغات بنائے کھجور کے(بھی) اور انگوروں کے( بھی) اُن میں تمہارے لئے بہت سے پھل تَاْكُلُوْنَۙ۰۰۲۰وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَآءَ تَنْۢبُتُ (پیدا کئے گئے) ہیں.اور اُن سے تم کھاتے ہو.اور (ہم نے تمہارے لئے) وہ درخت بھی(پیدا کیا ہے) جو بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ۰۰۲۱ طورِ سینا سے نکلتا ہے جو اپنے اندر تیل لےکراُگتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر( بھی).حلّ لُغَات.الدُّھْن.دُھْنُ السِمْسِمِ وَ غَیْرِہٖ: زَیْتُہٗ یعنی تِلوں اور دوسرے بیجوں کے تیل کو عربی زبان میں دُھن کہتے ہیں.(اقرب) الصِبْغ.اَلصِّبْغُ: مَایُصْطَبَغُ اَیْ یُؤْ تَدَمُ بِہٖ مِنِ الْاِدَامِ.یعنی وہ سالن جسے کھانے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے آسمان سے روحانی زندگی کا پانی ایک اندازہ کے مطابق اتارا ہے اور پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ہے.لیکن اگر لوگوں نے اس آسمانی پانی کی قدر نہ کی تو ہم اس کو اس دنیا سے غائب کر دینے پر بھی

Page 301

قادر ہیں.یہ وہی خبر ہے جس کی طرف قرآن کریم کے متعدد مقامات میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری شرعی کلام کو آسمان سے نازل کرکے زمین میں قائم کرے گااور لوگوں کی مخالفت اُس کے راستہ میں روک نہیں بنے گی.لیکن پھر ایک عرصہ کے بعد جبکہ لوگوںمیں بگاڑ پیدا ہو جائےگایہ کلام آسمان پر چڑھناشروع ہو جائےگااور ایک ہزار سال میں یہ دنیا سے اُٹھ جائےگا.(السجدۃ :۶) رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام شریعت کے زمانہ کو تین سوسال کا عرصہ قراردیا ہے.جیسا کہ آپ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنُ بَعْدَھُمْ قَوْمٌ یَشْھَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْھَدُوْنَ وَ یَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ وَ یَنْذِرُوْنَ وَلَا یُوْفُوْنَ وَ یَظْھَرُ فِیْھِمُ السَّمَنُ ( بخاری کتاب الرقاق باب مایحذرمن زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا)یعنی سب سے بہتر میری صدی ہے پھر اس سے اُتر کر وہ لوگ ہوںگے جو دوسری صدی میں ہوںگے اور ان سے اُتر کر وہ لوگ ہوںگے جو تیسری صدی میں ہوںگے.مگرا س کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو گواہی دیں گے تو لوگ کہیں گے کہ تمہاری گواہی کا ہم کیا اعتبار کریں تم تو جھوٹ بولتے ہو.کوئی شخص اُن کے پاس امانت رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ وہ سخت خائن اور بد دیانت ہوںگے.اسی طرح اُن کا حال یہ ہوگا کہ وہ نذریں مانیں گے تو اُن کو پورا نہیں کریں گےاور کھا کھا کر خوب موٹے ہو جائیں گے یعنی دین کی محبت اور قربانی کا جذبہ اُن کے اندر نہیں ہوگا.اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوگی کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم الفصل الثالث)اسلام کا صرف نام ہی باقی رہ جائےگااور قرآن کریم کی صرف تحریر رہ جائےگی.یعنی اسلام کا مغز لوگوں میں باقی نہیں رہےگا اور قرآن کریم کے مطالب کسی پر روشن نہیں ہوںگے.اُن کی عبادتیں اخلاص سے خالی ہوںگی اور اُن کے دماغ قرآنی معارف کو سمجھنے سے عاری ہو جائیں گے.قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کے مطابق ابتدائی تین صدیوں کے بعد اسلام پر زوال آنا شروع ہوااور یہ زوال اتنا بڑھا کہ مسلمان اپنی طاقت کو بالکل کھو بیٹھے.کُجا تو وہ وقت تھا کہ یورپ ایک ایک مسلمان بادشاہ سے ڈرتا تھا اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کی سکت سارے عالم اسلام میں بھی نہیں ہے.پھر مسلمانوں کی عملی حالت خودبخود بتارہی ہے کہ وہ اسلام سے کس قدردُور جاچکے ہیں.انہوں نے اسلام کی تعلیم کے صریح خلاف عقائد اختیار کر رکھے ہیں اور اسلام کی اشاعت کا جذبہ اُن کے دلوں سے مفقود ہو چکا ہے.نہ محبت الٰہیہ اُن میں پائی جاتی ہے اور نہ محبت ِ رسول کا کوئی نمونہ اُن کی عملی زندگی میں نظر آتا ہے.منہ سے بے شک وہ اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں مگر اُن کے

Page 302

اپنے دل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسلاف کی رُوح اُن میں باقی نہیں رہی.خود علماء کہلانے والوں کی یہ حالت ہے کہ وہ فتنہ وفساد کو ہوا دینے کے لئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن وہ غرض جس کے لئے اسلام مبعوث ہوا تھا اس کی طرف انہیں کوئی توجہ نہیں.نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ کی طرف اوّل تو اکثریت کی کوئی توجہ نہیں اور جو لوگ ان عبادات میں حصّہ لیتے ہیں وہ بھی رسمی رنگ میں حصّہ لیتے ہیں.ورنہ نہ نماز کی غرض و غایت اُن کو معلوم ہے نہ روزہ کا مقصد اُن کے سامنے ہوتا ہے،نہ حج اور زکوۃ کی حکمت کا انہیں احساس ہوتا ہے.پھر خدا جو سب سے بڑی دولت ہے اور جس کے کلام کے بغیر روحانیت کا پودہ کبھی پنپ نہیں سکتا اس کی محبت سے وہ ایسے بیگانہ ہو چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب خدا تعالیٰ کے کلام اور اُس کے الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے پہلے تو اپنے مامورین کو مبعوث فرماتا رہا ہے مگر اب اُس نے اس چشمۂ فیض کو بھی بند کر دیا ہے اور امت محمدیہ سے اپنا چہرہ ہمیشہ کے لئے چھپا لیا ہے اور وحی اور الہام کا سلسلہ قیامت تک بند کر دیا ہے.اب خواہ کوئی لاکھ چلائےاللہ تعالیٰ اُس کی روح کی تسکین کا کوئی سامان پیدا نہیں کرے گااور اُسے ظلمات کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دےگا.یہ وہ حالات ہیں جن سے موجودہ دور کا مسلمان گذر رہا ہے.وہ مایوسی اور نکبت کا شکار ہو چکا ہے.روحِ فاعلی اُس کے اندر سے مفقود ہو چکی ہے اورکُفر پر غالب آنے کے ولولے اُس کے قلب کے کسی گوشہ میں بھی نہیں پائے جاتے اور یقیناً اگر یہی حالات رہتے تو اسلام کی ہستی معرضِ خطر میں پڑجاتی اور ابلیس کا سر کبھی کچلا نہ جا سکتا.لیکن وہ خدا جس نے اسلام کے ایک ہزار سالہ دور تنزل کی خبر دی تھی اُسی نے قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری بروزی بعثت کی بھی خبر دی تھی (الجمعۃ:۴)اورپھر اُس زمانہ کی علامات بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُس زمانہ میں خدا ترس علماء جو دنیا کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا موجب ہوا کرتے ہیں دنیا سے مفقود ہو جائیں گے اور اُن کی جگہ ایسے علماء لے لیں گے جو دین سے بے بہرہ ہوںگے(بخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم).اُس زمانہ میں ایک نئی سواری ایجاد ہو گی جس کی وجہ سے اونٹ ترک کر دیئے جائیں گے.اُس وقت کتابیں اور اخبار کثرت سے شائع ہوںگے.علوم ہیئت کے کئی نئے عظیم الشان انکشافات ہوں گے.دریاؤں میں سے نہریں نکالی جائیں گی پہاڑوں کو اُڑایا جائےگا.سفر کا رواج زیادہ ہو جائےگا.ستی وغیرہ کی قدیم رسوم قانوناً بند کر دی جائیں گی.ایسی سواریاں ایجاد ہوںگی جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں تھیں اور دو سمندروں کے درمیان کی ایک خشکی کو پھاڑ کر جس کے ایک طرف مونگا پایا جاتا ہے اور دوسری طرف موتی دونوں سمندروں کو ملا دیا جائےگا.اور اُس میں کثرت سے جہاز چلیں گے جس میں سویز اور پانامہ کی نہروں کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمٰن میں اس کی خبر دیتے ہوئے

Page 303

فرمایا مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ.بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ.فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ.يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ.فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ( الرحمٰن:۲۰ تا ۲۴ ) یعنی اُس نے دوسمندروں کو اس طرح چلایا ہے کہ وہ ایک وقت آکر آپس میں مل جائیں گے لیکن سرِ دست اُن دونوں کے درمیان خشکی کا ایک پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے.ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتے ہیں.اب بتاؤ کہ تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کرو گے چنانچہ ان دونوں نہروں نے بحیرۂ قلزم اور احمر کو ایک طرف اور بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو دوسری طرف ملا دیااور اس طرح یہ قرآنی پیشگوئی پوری ہوئی.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امّت محمدیہ کو خوشخبری دی اور فرمایا کہ بے شک ایک زمانہ ایسا آئےگا جب کہ روحانی پانی آسمان کی طرف اُٹھ جائےگا.مگر پھر آسمان سے ہی ایمان کا خزانہ واپس لےکر ایک فارسی الاصل انسان دنیا میں مبعوث ہوگا(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ).جوصلیبی طاقتوں کو پاش پاش کر دے گا اور اسلام پر حملہ آور عاقبت نا اندیش لوگوں کو اپنے دلائل و براہین اور آسمانی حربوں اور معجزات و نشانات اور دُعاؤں کی مدد سے ایسا گھائل کرےگا کہ وہ سر اُٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھیں گے.وہ اسلام کو پھر روئے زمین پر غالب کرےگا کہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کرےگا.اور ادیانِ باطلہ کو اسلام کے مقابلہ میں ایسی شکست دےگا کہ جس کی مثال دنیا میں نظر نہیں آئےگی(ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال ).پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احیاء اسلام کے لئے صرف ایک موعود کے آنے کی ہی خبر نہیں دی بلکہ آپ نے وہ علامات بھی بتائیں جن سے اس کا پہچاننا مسلمانوں کے لئے آسان ہو جائے.آپ نے بتایا کہ یہ موعود دو بیماریوں میں مبتلا ہوگا ایک دھڑ کے اوپر کے حصے سے تعلق رکھتی ہو گی اور ایک نچلے حصے سے (ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال)اور یہ کہ اُس کا رنگ گندم گوں ہوگا.سر کے بال سیدھے ہوںگے.کسانوں کے خاندان میں سے ہوگا.اُس کے کلام میں لُکنت ہوگی.وہ بات کرتے وقت ہاتھ کو اپنی ران پر مارےگااور کدعہ یعنی قادیان نامی گاؤں سے ظاہرہوگا(بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ عزوجل واذکر فی الکتاب مریم).اسی طرح آپ نے فرمایا کہ وہ مسیحیت اور مہدویت کی دونوں شاخوں کا جامع ہوگا(ابن ماجہ ابواب الفتن باب شدّة الزمان ).اُس وقت عیسائیت کو دوسری اقوام پرغلبہ حاصل ہوگا(الترمذی ابواب الفتن باب فی فتنة الدجّال) اور اسلامی شریعت کی مقرر کردہ حدود کو ترک کر دیا جائےگا.جُؤا کثرت سے پھیل جائےگا.امراء اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنے کو بوجھ تصور کریں گے.اسلامی حکومتیں ضعف و انحطاط کا شکار ہو جائیں گی(مشکوة المصابیح کتاب العلم ،ترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی اشراط الساعة ،ابن ماجہ

Page 304

ابواب الفتن باب بدء الاسلام غریباً).پھر فرمایا کہ اُس زمانہ میں عورتیں زیادہ ہو جائیں گی اور تجارتی کاروبار میں سے اشیاء فروخت کرنے کاکام عورتوں کے سپرد کر دیا جائےگا اورعورتوں کے لباس ایسے ہوںگے کہ اُن کے جسم کا وہ حصّہ جسے پہلے لوگ بھی پردہ کے قابل سمجھتے تھے ننگا نظر آئےگا(مسند احمد بن حنبل مسند عبد اللہ بن مسعودؓ و عبد اللہ بن عمروؓ).پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ یہ بھی بتایا کہ آنے والا موعود مشرق سے ظاہر ہوگا.اس کے زمانہ میں کئی قسم کی بیماریاں پھیلیں گی(ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال و ابن ماجہ ابواب الفتن باب دآبة الارض) اور سورج اور چاند دونوں تاریک ہوجائیں گے.یعنی رمضان کے مہینہ میں سورج کو اُس کے گرہن کی تاریخوں میں سے دوسری کو اور چاند کو اُس کے گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو گرہن لگے گا اور اس علامت پر اتنازور دیا گیا تھا کہ کہا گیا تھا کہ یہ علامت پہلے کسی مدعیٔ مہدویت کے لئے بطور نشان مقرر نہیں کی گئی (دارقطنی کتاب العیدین باب صفة صلاة الکسوف و الخسوف و ھیئتھما) ان تمام پیشگوئیوں پر اگر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو سوائے موجودہ زمانہ کے اور کسی زمانہ پر چسپاں نہیں ہوتیںاور سوائے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے جنہوں نے مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کیا اور جن کے زمانہ میں یہ تمام پیشگوئیاںپوری ہوئیں اور کوئی وجود ان پیشگوئیوں کا مورد نظر نہیں آتا.پس یہی وہ زمانہ ہے جس کی خبر قرآن کریم اوراحادیث اور انبیائے سابقین کے کلام میں پائی جاتی تھی.اور بانیٔ سلسلہ احمدیہ ہی وہ موعود ہیں جن کی انتظار میں صدیوں سے لوگ چشم براہ تھے.آپ خود فرماتے ہیں.’’ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اُس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اُس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچّائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کردوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دُعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے اُن کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اُس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودہ لگادوں.اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا.بلکہ اُس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۰) سو خدا نے وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ میں صرف تنزلِ اسلام کی ہی خبر نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ اس

Page 305

تاریکی کے زمانہ میں جبکہ روحانیت کے متلاشی اندھوں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہوںگے.اللہ تعالیٰ مشرق کی سرزمین سے اپنا ایک مامور مبعوث فرمائےگا جس کی نورانی کرنوں سے وساوس اور شکوک کی تاریکیوں کو پھاڑ دیا جائےگا.خشک زمین کو سیراب کیا جائےگا اور روحانیت اور تقویٰ کی روئیدگی کو نکالا جائےگا.تاکہ وہ دنیا جو ایک خشک جنگل کی طرح ہوگئی تھی ایک شاداب کھیت کی طرح ہو جائے اور لوگ زندگی اور خوشی کا سانس لینے لگیں اور تاکہ لوگ اُس حقیقی راحت کو پالیں جو خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی لقاکے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی.چنانچہ وہ زمانہ آگیا جس میں اسلام کے دوبارہ احیاء کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.اُس کی رحمت کا دریا دِلوں کی خشک زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے اپنے کناروں سے اچھل کر بہ پڑا ہے.اب وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس آسمانی پانی سے فائدہ اٹھائیں اورابٰی اور استکبار سے کام نہ لیں.پھر فرماتا ہے جس طرح تازہ اُترنے والے مادی پانی سے کھجور اور انگور اور دوسرے پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تازہ اُترنے والے روحانی پانی سے بھی قسم قسم کے اعلیٰ درجہ کے پھل پیدا ہوتے رہیں گے.ان پھلوں میں سے کچھ تو تم کھاتے ہو اور کچھ دوسرے کاموں میں استعمال کرتے ہو.جیسے اس درخت کا پھل جو طورِ سینا سے نکلتا ہے اور جس میں تیل بھی پایا جاتا ہےاور جو کھانے والوں کے لئے سالن کے کام بھی آتا ہے.یعنی زیتون.ان آیات میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسلام کے دوبارہ احیاء کے سلسلہ میں بیان کیا جا رہا ہےاور بتایا گیا ہے کہ تم اسلام کو ایک بے ثمر باغ تصور مت کرو.بلکہ یاد رکھو کہ یہ وہ باغ ہے جو ہر زمانہ میں اپنے تازہ پھل لوگوں کو کھلاتا رہے گااور جب بھی اسلام میں کوئی خرابی واقعہ ہو گی اُس کو دور کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی غلام جو آپ کی ہی روحانیت کا پھل ہوگا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوکر اُس خرابی کو دور کر دے گا.چنانچہ موجودہ زمانہ میں جبکہ دُنیا معجزات و نشانات کا انکار کر رہی تھی بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مخالفینِ اسلام کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا؎ کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیابنگر ز غلمانِ محمّدؐ (استفتاء ،روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۳) یعنی اس زمانہ میں اگر تمہیں معجزات و نشانات کاکوئی نمونہ نظر نہیں آتا تو تم آؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے ان کرامات کا مشاہدہ کر لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا ذکر کرتے

Page 306

ہوئے فرمایا کہ اِنّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا ( ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المئة)یعنی اللہ تعالیٰ میری امت میں ہر صدی کے سر پر ایسے مصلحین کھڑا کرتا رہے گاجو اُن خرابیوں کو دُور کر دیا کریں گے جو مرور زمانہ کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوںگی اور اس طرح اسلام کا پاک اور بے عیب چہرہ لوگوں کے سامنے بار بار آتا رہے گا.اس جگہ زیتون کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ علاوہ اس کے کہ وہ ایک پھل کا کام دیتا ہے.اس کا تیل اچار میں بھی ڈالا جاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے.اس طرح تمثیلی زبان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے ذریعہ ہم نہ صرف اس کے تازہ پھل تمہیں کھلا ئیں گے بلکہ ہم تمہارے اندر اس تعلیم کو قائم کریں گے جو سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ ہوگی.چنانچہ دیکھ لو موسوی اور عیسوی تعلیمیں بے کار ہوکر رہ گئیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تعلیم لائے وہ اب بھی قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گی اور کوئی شخص اس قرآن کا ایک شوشہ بدلنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا.وَ اِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً١ؕ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ اور تمہارے لئے چارپایوں میں بڑی عبرت ہے.ہم تم کو اس چیز سے جو اُن کے پیٹ میں ہوتی ہے پلاتے ہیں بُطُوْنِهَا وَ لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ كَثِيْرَةٌ وَّ مِنْهَا اور ان چارپایوں میں تمہارے لئے اور بھی بہت سے نفعے ہیں اور تم ان میں سے بعض کو کھاتے ہو.تَاْكُلُوْنَۙ۰۰۲۲وَ عَلَيْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُوْنَؒ۰۰۲۳ اور ان پر اورکشتیوں پر اٹھائے جاتے ہو.تفسیر.فرماتا ہے جس طرح تم دیکھتے ہو کہ مُردہ مٹی میں سے ہم گھاس نکالتے ہیں جسے جانورکھاتے ہیں اور پھر وہ اس کے پیٹ کے راستہ سے تمہارے لئے عمدہ غذا بن جاتا ہے.اسی طرح انسانی عقل بیشک طرح طرح کی تدبیریں نکالتی ہے.لیکن ان تدبیروں کو اعلیٰ درجہ کا مفید اور بے عیب بنانا خدا کا کام ہے.جو خدا گھاس کو جانور کی مشین میں ڈال کر دودھ بنا کر نکا لتا ہے وہی خدا جب ایک کامل دماغ پر اپنا پرتو ڈالتا ہے اور اعلیٰ الہام سے اُس کی

Page 307

مدد کرتا ہے تو اُس کے نتیجہ میں ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم پیدا ہوتی ہے جو دودھ کی طرح رُوحانی انسان کی پرورش کرتی ہےاور گھاس کا فضلہ سب اُس میں سے نکل جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مادی اور رُوحانی عالم کو ایک دوسرے کے مشابہ بنایا ہے جس طرح مادی عالم میں ہمیں یہ قانون دکھائی دیتا ہے کہ زمین اپنی قوتوں کے نشوونما کے لئے آسمانی بارش کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح عقل انسانی بھی وحی اور الہام کی بارش کی محتاج ہے.جس طرح جسمانیات میں ہمیں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ اگر ایک لمبے عرصہ تک بارش نازل نہ ہو تو کنوؤں کے پانی تک خشک ہو جاتے ہیں.درخت مرجھا جاتے ہیں.سبزے گل سڑ جاتے ہیں اور باغات اپنے پھل سے محروم ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب ایک لمبے عرصہ تک آسمانِ روحانی سے وحی و الہام کی بارش نازل نہیں ہوتی تو ارتقاء ِ دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اور محض عقل بنی نوع انسان کی کوئی راہنمائی نہیں کر سکتی.فلسفیوں کی گمراہی اس بات کا نتیجہ ہوتی ہے کہ وہ صرف عقل کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم اپنی بہبودی کے لئے خود قوانین تجویز کر سکتے ہیں ہمیں کسی مذہب یا الہام کی ضرورت نہیںحالانکہ اُن کے اس نظریہ کی خود نیچر تردید کر رہا ہے.زمین اپنے اندر بڑی بھاری طاقتیں رکھتی ہے مگر وہ بارش کی محتاج ہے.بارش نازل ہوتی ہے تو زمین کے سوتے بھی پُھوٹ پڑتے ہیں.اُس کی سبزیاں اُگنے لگتی ہیں.اُس کے درخت لہلہانے لگتے ہیں.اُس کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کرنے لگتے ہیں.اُس کا سبزہ آنکھوں کو طراوت بخشنے لگتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہرچیز میں زندگی کے آثار پیدا ہو گئے ہیں.یہاںتک کہ فضائے آسمانی میں اُڑنے والے پرندے بھی خوشی سے چہچہانے لگتے ہیں اور لوگ اطمینان اور خوشی کا سانس لینے لگتے ہیں.وہی لوگ جن کے دل قحط سالی کے خوف سے دھڑک رہے ہوتے ہیں اُن کے چہروںپر بشاشت آجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بارش نازل کرکے ہمیں تباہ ہونے سے بچا لیا.جس طرح مادی عالم میں زمین آسمانی بارش کی محتاج ہے.اسی طرح انسانی عقل وحی و الہام کی محتاج ہے.گویا جس طرح انسانی آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر بے کار ہے.اسی طرح انسانی عقل اللہ تعالیٰ کے کلام اور اُس کے الہام کے بغیر ایک بے کار چیز ہے.اگراللہ تعالیٰ کا ہاتھ اُس کی مدد کے لئے آسمان سے نہ اُترے تو وہ کبھی اپنی اُس پیاس کو نہیں بجھا سکتا جو اُس کی فطرت کے اندر ودیعت کی گئی ہے اور جس کے لئے وہ چاروں طرف اپنے ہاتھ پاؤں مارتا دکھائی دے رہا ہے.یورپ کو دیکھ لواُس نے مادی علوم میں کس قدر ترقی کر لی ہے.سائینس اپنے معراجِ کمال کو پہنچ چکی ہے اور مذہب کو انسانی زندگی کے لئے ایک بے کار چیز سمجھا جانے لگا ہے.مگر اُس کے ساتھ ہی ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتا ہے کہ ذرا کوئی شخص اُن سے کہہ دے کہ میں ہتھیلی

Page 308

دیکھ کر تمہیں غیب کی خبریں بتا سکتا ہوں تو بڑے بڑے لائق وکیل اور گریجوایٹ اور ڈاکٹر اور انجنئیر اُس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے ہمارا ہاتھ دیکھ کر ہمیں بتائو کہ ہمارا مستقبل کیسا ہےاور پھر وہ جو کچھ بتاتاہے.اُسے پتھر کی لکیر سمجھ لیتے ہیں.اُن کی یہ کیفیت بتاتی ہے کہ فطرتی طور پر انسان کے اندر ایک پیاس رکھی گئی ہے اور وہ کائنات عالم کی حقیقت اور اُس کے راز معلوم کرنا چاہتا ہے.بےشک انہوں نے سینکڑوں سالوں تک سمندروں پر حکمرانی کی.انہوں نے ایک ایک چلّو پانی کو چھان مارا اور سب گہرائیوں کو دریافت کیا انہوں نے موتی نکالنے کے لئے سمندروں کی تہ میں غوطے لگائے اور فضائے آسمانی کی بلندیوں کے راز معلوم کرنے کے لئے آسمان کی طرف اپنے تیر پھینکے.اُن کے بیڑوں نے جزیروں کی تلاش میں زمین کا چپہ چپہ دیکھ مارا اور ملکوں پر قبضہ کر لیا.مگر اُن کا غیب معلوم کرنے کے لئے اپنے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ یہ مادی علوم اُن کو مطمئن کرنے سے قاصر رہے ہیں اور وہ ماوراء الطبیعات علوم کے حصول کی ایک تڑپ اس لا مذہبیت میں بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.یہی تڑپ اور پیاس ہے جو انسان کو کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر.کوئی ستاروں کو دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے.کوئی پامسٹری کو علمِ غیب کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے.کوئی تسبیح کے منکوں سے اپنی کامیابی یا ناکامی کی فال لیتا ہے.اگر طاق منکا آجائے تو کہتا ہے کامیابی یقینی ہے.جفت آجائیں تو سر نیچے ڈال لیں گے اور کہیں گے ناکامی یقینی ہے.عرب کے رہنے والے کبھی تیروں سے فال لیتے تھے اور کبھی پرندوں کی شکلوں اور اُن کی آوازوں سے مختلف قسم کے نتائج اخذ کرتے تھے اگر اُلّو اُن کی دیوار پر آبیٹھتا تو وہ سمجھتے کہ اب ہمارے لئے ویرانی اور بربادی مقدر ہے اور اگر کوا آبیٹھتا تو سمجھتے کہ کوئی سفر پیش آنے والا ہے.غرض یہ خواہش کہ کائنات کے راز اور عالمِ بالا کے اسرار کس طرح منکشف ہوں ہر انسان کے اندر فطرتی طورپر پائی جاتی ہے اور یہ خواہش اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ہمارے ملک میں کئی لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں جو جنات کو قابو کرنے کے لئے مختلف قسم کی چلّہ کشیاں کرتے رہتے ہیں.اگر انہیں معلوم ہو کہ کسی شخص کے قبضہ میں جِن ہیں تو وہ دور دراز کا سفر کر کے بھی اس کے پاس پہنچیں گے.اُس کی منتیں کریں گے اور اُس سے عاجز انہ التجائیں کریںگے کہ وہ انہیں بھی ایسا طریق بتا دے جس سے جنات قابو میں آجائیں اور وہ اُن کی مدد سے اپنی تمام مشکلات کو دور کر سکیں.کوئی اسم اعظم کی دریافت کے پیچھے لگا ہوا ہے اور کوئی عملِ حبّ اور عمل تسخیر کو دریافت کرنے کے لئے مارا مارا پھر رہا ہے.اگر مادی علوم ہی انسان کی پیاس بجھانے کے لئے کافی تھے تو کیا وجہ ہے کہ یورپ کا عقلمند بھی ان باتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور ایشیا کا جاہل بھی ان علوم کے حاصل کرنےکا متمنّی ہے.یہ نظارہ بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر فطرتی طور پر ایک بالا طاقت کا احساس

Page 309

پایا جاتا ہے.بے شک مادیات کا بوجھ بعض دفعہ اس کی اس فطرتی طاقت کو دبا دیتا ہے مگر اس کی جدوجہد بتا رہی ہے کہ جب اس کا شعوری دماغ غافل ہوتا ہے تو اُس کا غیر شعوری دماغ اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے.اور وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کئی قسم کے راستے تلاش کرتا رہتا ہے.چنانچہ دیکھ لو دہریہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتا ہے مگر بسا اوقات جب کوئی اچانک مصیبت آتی ہے تو اُس کے مُنہ سے بھی اللہ تعالیٰ کا نام نکل جاتا ہے اور وہ اُسی کو اپنی مدد کے لئے پکارنے لگ جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی فطرت بھی خدا تعالیٰ کو تسلیم کرتی تھی مگر مادیات کے بوجھ نے فطرت کو مسخ کردیا اور اُس پر کئی قسم کے پردے ڈال دیئے مگر جونہی وہ پردے ہٹے فطرت کا نُور پھر چمک اُٹھا اور اُس نے خدا کو پکارنا شروع کر دیا.غرض ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ملاقات کی ایک تڑپ رکھی ہے.مگر انسانی جدوجہد بتا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا الہام اُس کی راہنمائی کے لئے نازل نہ ہوتا تو وہ اسی طرح بھول بھلیوں کے چکر میں پھنسا رہتا اور وہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ پا سکتا.خدا تعالیٰ نے اُس پر یہ احسان کیا ہے کہ اُس نے اپنے نبیوں کی معرفت اُسے وہ راستہ دکھایا جس پر چل کر وہ آسانی سے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا اور ہر قسم کے مصائب سے امن حاصل کر سکتا ہے.یہی مضمون ایک تمثیلی زبان میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے اور بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا تم دودھ کو نہیں دیکھتے وہ کتنا لذیذ اور تمہاری طاقتوں کے نشوونما کے لئے کتنی مفید چیز ہے لیکن یہ دودھ تم نہیں بناتے بلکہ خدا خود جانور کی مشین میں گھاس ڈالتا اور اُس سے دودھ پیدا کرتا ہے.اسی طرح بےشک تمہارے اندر بھی عقل پائی جاتی ہے مگر وہ گھاس کی طرح ہے جب تک تمہاری عقل پر الہام کا پانی نازل نہ ہو اُس وقت تک وہ گھاس کی طرح ایک ذلیل چیز ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ اپنا الہام نازل کرتا ہے تو اُس سے دودھ کی طرح ایک قیمتی تعلیم دنیا کے سامنے آتی ہے جو بنی نوع انسان کے دماغی اور عقلی قویٰ کو نشوو نما دے کر انہیں ایسے بلند مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ خود وحی والہام کے مورد ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی پیاس میں تسکین اور اپنی رُوح میں ایک نئی چمک محسوس کرتا ہے.

Page 310

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا اور ہم نے نوح ؑکو اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا پس اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۰۰۲۴فَقَالَ الْمَلَؤُا اور کوئی تمہارا معبود نہیں.کیا تم اس کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے.اس پر اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ يُرِيْدُ نے کہا یہ شخص تو فقط تمہارے جیسا ایک انسان ہے (اور) چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت اختیار کرے.(اور) اگر اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً١ۖۚ مَّا اللہ (تعالیٰ) پیغمبر بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو اتارتا.ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں تو کوئی اس قسم سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَۚ۰۰۲۵اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ کا واقعہ ہوتا سُنا نہیں یہ تو فقط ایک انسان ہے جس کو جنون ہو گیا ہے پس اس کے جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِيْنٍ۰۰۲۶ انجام کا کچھ دیر انتظار کرو.حلّ لُغَات.الجِنَّۃُ.اَلْجِنَّۃُ: طَائِفَۃٌ مِنَ الْجِنِّ یعنی جنوں کا ایک گروہ.اِسْمٌ مِنَ الْجُنُوْنِ.دیوانگی اور پاگل پن (اقرب) تفسیر.انبیاء اور خلفاء کے دشمن ہمیشہ حریت کے نام پر اُن کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ کیا اپنے جیسے انسان کو ہم اپنا حاکم تسلیم کر لیں؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ شخص ہم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے.یعنی ایسا خلیفہ جو ساری جماعت کی راہنمائی کرے اور جس کا حکم سب مانیں انسانیت اور حریت کے خلاف ہے.چنانچہ دیکھ لو جب اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کو آدم ؑ کی اطاعت اور اُس کی کامل فرمانبرداری کا حکم دیا تو اُس وقت بھی حریت کے نام پر ابلیس آدم کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ١ؕ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ ( ص :۷۷)

Page 311

میں آدم کی اطاعت کس طرح کر سکتا ہو ں.میں تو اس سے بہت بہتر اور افضل ہوں.میرے اندر حریت اور آزادی کی آگ پائی جاتی ہے اور آدم ؑ غلامانہ ذہنیت کا مالک ہے.وہ لوگ جو غلامی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی حریت کی رُوح کو کچل دینا چاہتے ہیں وہ تو بیشک آدم ؑ کی اطاعت کرلیں مگر میں اس کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں.یہی دعویٰ جو آج کل انار کسٹ کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے ہم بغاوت کریں گے اور اپنی آزادی کی روح کو برقرار رکھیں گے.چونکہ دنیا کا نظام اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک باہم مادۂ تعاون نہ پایا جائے اور اعلیٰ حکام کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر نہ رکھا جائے اس لئے ایسے لوگ جو باغیانہ روح اپنے اندر رکھتے ہیں مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی قابلِ نفرت سمجھے جاتے ہیںاور دنیوی حکومتیں بھی ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دیتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس قسم کی حریت کا نعرہ بلند کرنے والوں نے اسلام کی شدید مخالفت کی جن میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اپنے رشتہ دار بھی شامل تھے چنانچہ ابولہب جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک چچا تھا.اُس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (اللہب:۲).یعنی آگ کے شعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا.اس جگہ اُسے آگ کے شعلوں کا باپ اسی لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ ناری طبیعت رکھنے والے لوگوں کا سردار تھا اور وہ اور اُس کے ساتھی اسی لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے کہ آپ کو مانا تو انہیں اپنی سرداری چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنی پڑے گی.اور یہ چیز اُن کے لئے ناقابلِ برداشت تھی.حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا.نوح علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی توحید کی تعلیم پیش کی تو لوگوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا اور انہوں نے دوسروں کو بھی یہ کہہ کر بہکانا شروع کر دیا کہ یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے اس کے اندر کون سی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے.اس نے جو یہ ساری قوم کے خلاف ایک نئی آواز بلند کرنی شروع کر دی ہے تو اس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کچھ لوگ اس کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کا جتھا مضبوط ہو جائے اور یہ ہم پر حکومت کرنے لگ جائے.مگر ہم اس کو کبھی برداشت نہیں کریں گے.ہم مٹ جائیں گے مگر اپنی حریت اور آزادی میں کوئی فرق نہیں آنے دیں گے.پھر انہوں نے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا اور کہا کہ اگر آسمان سے فرشتے ہم پرحاکم بنا کر بھیجے جاتے تو ہم مان بھی لیتے لیکن انسان نبی یا انسان خلیفہ کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں.کیونکہ اس کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ شروع سے ہی خدا تعالیٰ کے انبیاء خدائی توحید کاو عظ کرتے چلے آئے ہیں.اُن کے دشمنوں کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ ہدایت

Page 312

کے لئے انسان سے بالا کوئی وجود آنا چاہیے لیکن باوجود اس اعتراض کے خدا ہمیشہ انسانوں کو ہی لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا رہا.کیونکہ اگر رسول کسی غیر جنس میں سے ہو تو وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا.جس طرح ایک انسان شیر کی نقل نہیں کر سکتا اور نہ شیر انسان کی نقل کر سکتا ہےاور یا پھروَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں اُترے کہ اُن کودیکھ کر ہم سمجھ جاتے کہ یہ سچا ہے اس میں اُن کی اس جہالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے پہلے لوگوں سے یہ سُن کر کہ نبیوں پر فرشتے اُترا کرتے تھے یہ سمجھ لیا کہ وہ دوسروں کو بھی نظر آتے تھے.چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دینا چاہتا تو جس طرح پہلے لوگوں کے ساتھ فرشتے آیا کرتے تھے اسی طرح اس کے ساتھ بھی فرشتے اُترتے.ایسا خاموشی سے آنے والا نبی تو ہم نے کبھی نہیں سنا.مگر ان مخالفتوں کے باوجود ہمیشہ انبیاء کی تعلیم ہی کامیاب ہوتی رہی ہے.کیونکہ ماننے کے قابل وہی بات ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ جس وجود میں بھی انسان کو آواز دے اُس کا فرض ہے کہ اُ س کی سُنے اور غلط حریت اور مادرپدر آزادی کو اپنے لئے لعنت کا طوق سمجھے.پھر فرماتا ہے کہ جب نوح ؑ کے مخالفوں نے دیکھا کہ ہمارے ان حریت کے بلند بانگ دعاوی کے باوجود کچھ نہ کچھ لوگ اس کی جماعت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اِنْ هُوَ اِلَّا رَجُلٌۢ بِهٖ جِنَّةٌ کہ اس آدمی کے ساتھ تو کوئی جنوں کا تعلق ہے مذہبی آدمی نہیں.اس کی کامیابی کو محض جنوں کی کامیابی کہنا چاہیے.خدائی نصرت نہیں کہنا چاہیے.فَتَرَبَّصُوْا بِهٖ حَتّٰى حِيْنٍ.پس کچھ دن انتظار کرو اور دیکھو کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے.یہ بھی وہی ہتھیار ہے جو ہر زمانہ میں انبیاء کے مخالفین استعمال کرتے چلے آئے ہیں.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مخالفین نے مجنون کہا.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر جن آتے تھے(السیرة النبویۃ لابن ہشام ذکر ما لقی رسول اللہ من قومہ).عیسائی پادری جب دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفین نے مجنون کہاتو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ میں کوئی دماغی نقص نہیں تھا تو دشمن نے آپ کو مجنون کیوں کہا؟(A Comprehensive Commentary on the Quran vol:3 p.15) وہ اس امر کو بھول جاتے ہیںکہ خود مسیح ؑ جن کو وہ ابن اللہ قرار دیتے ہیں اُن کو بھی لوگوں نے دیوانہ اور مجنون قرار دیاتھا.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’ ان باتوں کے سبب یہودیوں میں پھر اختلاف ہوا.اُن میں بہتیرے تو کہنے لگے کہ اس میں بد رُوح ہے (یعنی اس پرجنّ آتے ہیں ) اور وہ دیوانہ ہے.تم اُس کی کیوں سنتے ہو.‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۹، ۲۰)

Page 313

پھر پو لوس کو وہ رسول قرار دیتے ہیں اور عہد نامہ جدید بتاتا ہے کہ اُس کو بھی دیوانہ قرار دیا گیا.چنانچہ لکھا ہے.ـ’’ جب وہ اس طرح جو اب دہی کر رہا تھا تو فیتس نے بڑی آواز سے کہا.اے پولوس ! تو دیوانہ ہے.بہت علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے.‘‘ (اعمال باب ۲۶ آیت ۲۴) اب اگر لوگوںکے دیوانہ اور مجنون کہنے کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی دماغی نقص تسلیم کرنا جائز ہے تو عیسائی کیوں اپنے مسیح کو بھی مجنون نہیں کہتے اور کیوں پولوس کوبھی دیوانہ قرار نہیں دیتے.اور اگر مسیح لوگوں کے مجنون کہنے کی وجہ سے واقعہ میں کوئی دماغی نقص اپنے اندر رکھتا تھا تو وہ دنیا کا نجات دہندہ کس طرح ہوگیا.حقیقت یہ ہے کہ دنیا اگر انبیاء کو مجنون کہتی ہے تو صرف اس لئے کہ وہ ایسی تعلیم پیش کرتے ہیںجو زمانہ کی رَو کے بالکل خلاف ہوتی ہے اور جس کو انسانی عقل نہیں بنا سکتی.علماء اُس کو سنتے ہیں تو مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں.امراء سنتے ہیں تو طیش میں آجاتے ہیں.عوام سنتے ہیں تو وہ بھڑک اُٹھتے ہیں.مگر چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہوتے ہیں اور اُن کی پُشت پر اللہ تعالیٰ کھڑا ہوتا ہے.وہ نہ مخالفت کی پروا ہ کرتے ہیں اور نہ دشمنوں کی ایذاء رسانیوں سے گھبراتے ہیں اور برابر اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں.لوگ حیرت اور استعجاب سے اُن کو دیکھتے ہیں.مگر بجائے یہ سمجھنے کے کہ زمین و آسمان کا خدا اُن کی پشت پر ہے وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے.یعنی جس طرح دیوانہ اپنا کام کئے جاتا ہے اور لوگوں کی ہنسی یا مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح وہ بھی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں.جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ ہم نے محمدرسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو توحید کے وعظ سے باز رکھنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر اختیار کیں مگر یہ پھر بھی اپنے کام سے نہیں رکا اور اُس نے بتوں کو بڑا بھلا کہنا نہیں چھوڑا تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ شخص تو مجنون ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ.مَٓا اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ (القلم:۲،۳ )یعنی ہم دوات اور قلم کو اور اُن تمام تحریروں کو جو دوات اور قلم سے لکھی گئی ہیں اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ تُو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہے یعنی قلم اور دوات سے جس قدر علوم احاطۂ تحریر میں آئے ہیں یا آئندہ زمانوں میں آئیں گے اگر ان سب کو جمع کر لیا جائے اور پھر اُن کا تیرے علوم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو دنیا کو معلوم ہوگا کہ تُو ان سے بہت زیادہ علوم پھیلارہا ہے.پس اگر اور لوگ ادنیٰ اور معمولی علوم پھیلانے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کے موجد اور سائینس دان اور فلاسفر اور فقیہہ اور عالم کہلا سکتے ہیں تو تُو اُن سے ہزاروں گُنا زیادہ علوم پھیلانے کی وجہ سے مجنون کس طرح ہو گیا.

Page 314

غرض انبیاء کے مخالفین کا یہ ایک پرانا حربہ ہے جس سے وہ ہمیشہ کام لیتے رہے ہیں.یا یوں کہو کہ جس طرح ڈوبتا ہوا آدمی سہارے کے لئے تنکوں پر بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ بھی مجنون کہہ کر الٰہی سلسلوں کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں مگر آخر خدا کے رسول ہی کامیاب ہوتے ہیں اور مخالفین مجنون کہنے والے ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتے ہیں.قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۰۰۲۷فَاَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِ اَنِ ( اس پر نوح ؑ نے )کہا اے میرے رب !میری مدد کر کیونکہ یہ لوگ مجھے جھٹلاتے ہیں.پس ہم نے اُس کی طرف اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ وحی کی کہ (جس)کشتی( کا ہم نے حکم دیا ہے اُس) کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق بنا.پس جب التَّنُّوْرُ١ۙ فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَ اَهْلَكَ ہمارا حکم آجائے اور زمین کا سوتا پھوٹ پڑے تو اُس (کشتی) میں ہر ایک جانور میں سے (جس کا ہم حکم دیں) ایک ایک اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ١ۚ وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي جوڑا رکھ لے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی اُن کے سوا جن کے خلاف ہمارا حکم پہلے اُتر چکا ہے سوار کردے.اور الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ۰۰۲۸فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَ جنہوں نے ظلم کیا ہے اُن کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کر.کیونکہ وہ تو ضرور غرق کئے جائیں گے.پس جب تُو مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا اور تیرے ساتھی کشتی میں اچھی طرح بیٹھ جائیں تو تم سے ہر ایک کہے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۲۹وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا نے ہمیں ظالموں کی قوم سے نجات دی.تو( کشتی سے اُترتے وقت) کہہ کہ اے میرے رب ! تُو مجھے (اس کشتی سے)

Page 315

وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ۰۰۳۰اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا ایسی حالت میں اُتار کہ مجھ پر کثرت سے برکتیں نازل ہو رہی ہوں اور مجھے (اس دعا کی بھی کیا ضرورت ہے جبکہ) لَمُبْتَلِيْنَ۰۰۳۱ تمام اتارنے والوں سے تیرا وجود بہتر ہے.اس میں بہت سے نشان ہیں اور ہم یقیناً بندوں کا امتحان لینے والے ہیں.حلّ لُغَات.اَلتَّنُّوْرُ التَّنُّوْرُکے معنے ہیں.اَلْکَا نُوْنُ یُخْبَزُ فِیْہِ.تنور جس میں روٹیاں پکاتے ہیں.کُلُّ مَفْجَرِ مَاءٍ.ہر وہ جگہ جہاں سے پانی پھوٹ رہا ہو.یعنی چشمہ.مَحْفَلُ مَائِ الْوَادِیِّ.پہاڑی وادی کا پانی جمع ہونے کی جگہ.(اقرب) نیز تنور کے ایک معنے وَجْہُ الْاَرْضِ یعنی سطح زمین کے بھی ہیں (تاج) تفسیر.جب حضرت نوح علیہ السلام کی مخالفت اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی کی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا.اس جگہ جو بِاَعْیُنِنَا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لُغت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ میری حفاظت میں کشتی بنا.کیونکہ عَیْنٌ کے معنے عربی زبان میں جہاں آنکھ کے ہیں وہاں اس کے ایک معنے حفاظت کے بھی ہیں.چنانچہ عربی زبان میں جب یہ کہا جائے کہ اَنْتَ عَلٰی عَیْنِیْ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تُو میری حفاظت میں ہے اور میں تیری عزت کرتا ہوں (اقرب) اسی طرح فُلَانٌ بِعَیْنِیْکے یہ معنے ہو تے ہیں کہ اَحْفَظُہٗ وَ أُرَاعِیْہِ کہ میں اُس کی حفاظت کرتا ہوں اور اُس کی رعایت ملحوظ رکھتا ہوں (مفردات) مفردات ِ امام راغب ؒ میں بھی لکھا ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا کے یہ معنے ہیں کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِحِفَاظَتِیْ یعنی تو میری حفاظت میں کشتی بنا اور اسی سے عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ عَیْنُ اللہِ عَلَیْکَ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تُو خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے (مفردات) پس اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہ جب تم کشتی بنانے لگو گے تو کفار روکیں گے مگر ہم تمہاری حفاظت کریں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے.اور وَحْیِنَا سے اس طرف اشارہ کیا کہ اصل چیزدل کا تقویٰ ہے جو انسان کو عذاب الٰہی سے بچاتا ہے پس وہ روحانی کشتی بھی تیار کرو جو وحی الٰہی کی اتباع سے تیار ہوا کرتی ہے اور جس میں بیٹھنے والے خدا تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا کرتے ہیں.اس جگہ کشتی سے مراد ظاہری کشتی بھی ہو سکتی ہے مگر سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد

Page 316

حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت ہے جس کے بننے میں کافر روک تھے.کیونکہ درحقیقت نبی کی جماعت ہی ہوتی ہے جس میں شامل ہو کر لوگ نجات پاتے ہیں اور یہ جو فرمایا کہ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور جوش میں آجائے تو اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت آدم ؑ کا تنور تھا (تفسیر کبیر لامام الرازی زیر آیت ھذا)مگر یہ بات محض قصّوں کی محبت کا نتیجہ ہے ورنہ آدم ؑ کا اس جگہ کوئی ذکر نہیں.تنور کے معنے عربی زبان میں ایک تو اُس چیز کے ہوتے ہیں جس میں روٹی لگائی جاتی ہے اور تنور کے معنے سطح زمین کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے التَّنُّوْرُ وَجْہُ الْاَرْضِ.تنور کے معنے سطح زمین کے بھی ہوا کرتے ہیں.اسی طرح تنور کے معنے چشمہ کے بھی ہوتے ہیں اور تنور اُس پہاڑی وادی کو بھی کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہو جائے( اقرب) لیکن ابو حیّان لکھتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّوْرُ کا استعمال مجازی رنگ میں بھی ہوسکتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر جب کہ جنگ خوب تیز ہوگئی فرمایا کہ حَمِیَ الْوَطِیْسُ تنور گرم ہوگیا.حالانکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ جنگ خوب تیز ہوگئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ فَارَ اور حَمِیَ ایک ہی معنے رکھتے ہیں جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ سَمِعُوْا لَھَا شَھِیْقًا وَّ ھِیَ تَفُوْرُ (الملک:۸) یعنی کفار جب جہنم میں ڈالے جائیںگے تو وہ اُس میں ایک بڑی چیخ سنیں گے اور وہ بڑے جوش میں آرہی ہوگی.پس اُن کے نزدیک فَارَ التَّنُّوْرُ کے الفاظ مجازی رنگ میں استعمال ہوئے ہیں اور اُس کے معنے یہ ہیںکہ پانی چاروں طرف پھیل گیا.ان دونوں معنوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ جب ہمارے عذاب کا وقت آیا تو چشموں کی جگہ سے پانی پھوٹ پڑایا سطح زمین پر پانی بہنے لگا اور چاروں طرف پانی ہی پانی ہوگیا.یہ عذاب جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے صرف زمینی چشموں کے پھوٹنے کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ پانی کا اصل سرچشمہ بادل تھے.یعنی اُس وقت اتنے زور سے بارش ہوئی کہ اُس سے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو گیااور جس طرح کثرت بارش کی وجہ سے زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑتے ہیں اور دریاؤں کا پانی بھی اُچھل جاتا ہے اسی طرح اسی وقت زمین کے سوتے بھی جاری ہوگئے اور آسمانی اور زمینی پانی نے مل کر اُن لوگوں کو تباہ کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے کہفَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ.وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُيُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ (القمر:۱۲،۱۳) یعنی ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعہ کھول دیئے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دیئے.پس آسمان کا پانی زمین کے پانی کے ساتھ ایک ایسی بات کے لئے اکٹھا ہوگیا جس کا فیصلہ کیا جا چکا تھا.یعنی آسمانی پانی زمینی پانی سے مل کر دنیا کو تباہ کرنے لگا.اسی طرح سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب کا وقت پورا ہوگیا اور جس تباہی کا فیصلہ کیا جا چکا تھا وہ آچکی تو ہم نے کہا کہ يٰۤاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ

Page 317

يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ وَ غِيْضَ الْمَآءُ وَ قُضِيَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِيِّ وَ قِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ( ہود :۴۵)یعنی اس کے بعد زمین سے کہہ دیا گیا کہ اے زمین ! تُو اب اپنے پانی کو نگل جا اور آسمان سے بھی کہہ دیا گیا کہ اے آسمان ! اب تُو برسنے سے تھم جا اور پانی کو جذب کر دیا گیا اور یہ معاملہ ختم کر دیا گیا.اور وہ کشتی جو دی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ اے عذاب کے فرشتو! ظالم لوگوں کے لئے ہلاکت مقدر کر دو.پس آیاتِ قرآنیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اس وقت آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑے جس طرح کہ پہاڑی علاقوں میں جب شدید بارش ہوتی ہے تو اونچے پہاڑوں پر پڑی ہوئی برف کے گھلنے کی وجہ سے چشموں کے پانیوں میں بھی زیادتی آجاتی ہے.اور قرآن کریم سے بھی اور تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہاڑی علاقہ میں رہتے تھے.اسی لئے جب حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے !ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ مت شامل ہو تو ان کے بیٹے نے جواب دیا.سَاٰوِيْۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَآءِ(ہود:۴۴) میں ابھی کسی پہاڑ پر جا ٹھہروں گا جو اس پانی سے مجھے بچالےگا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کسی پہاڑی وادی میں رہا کرتے تھے اور ایسی جگہ پر پانی کا یکدم اونچا ہو جانا اور غیر معمولی طورپر بلند ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے.اُن کے بیٹے نے خیال کیا کہ میں آسانی سے تیر کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائوں گا اور عذاب سے محفوظ ہو جائوںگا.غرض حضرت نوح علیہ السلام کو بتا یا گیا کہ جب آسمان سے شدید بارش شروع ہو جائے یہاں تک کہ زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑیں اور تمام زمین جھیل بن جائے تو اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے اور اپنے اہل کو داخل کر دیجئیو.عربی زبان میں زوج کے معنے کُلُّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ کے ہوتے ہیں یعنی ہر وہ چیز جس کے ساتھ اُس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو.پس زوج کے معنے ساتھ کے جوڑے یعنی نر و مادہ کے ہوتے ہیں.نہ کہ دو،دو چیزوںکے.اسی وجہ سے اِثْنَیْنِ کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ زَوْجَيْنِ سے مراددو ہم جنس افراد ہیں نہ کہ دو، دو جوڑے اور مراد یہ ہے کہ ہر قسم کے نر و مادہ اس ظاہر ی کشتی میں یا جماعت میں داخل کیجئیو.اور اپنے اہل کو بھی داخل کیجئیو سوائے اُن کے جن کے خلاف خدا کا فیصلہ ہو چکا ہے.اس جگہ جو اللہ تعالیٰ نے مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ فرمایا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ دنیا کے ہر جانور کے جوڑے لے لے.ورنہ ماننا پڑےگا کہ اربوں ارب حشرات الارض اور کروڑوں کروڑ درندے پرندے اور جانورسب حضرت نوح ؑ نے اپنی کشتی میں جمع کرلئے تھے.اس صورت میں تو انہیں اتنی بڑی کشتی بنانی پڑتی جو اُن کے ملک میں بھی سمانہ سکتی اور یہ عقل کے خلاف ہے.

Page 318

پس اس جگہ کُلّ کے معنے سب کچھ کے نہیں بلکہ ہرضروری چیز کے ہیں جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ملکہ سبا کے متعلق آتا ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ( النمل :۲۴)اُسے ہر ایک چیز دی گئی تھی.اب ہر ایک چیز سے یہ مراد نہیں تھی کہ حضرت سلیمان ؑ اور ان کا لشکر بھی اُسے ملا ہوا تھا اور ہندوستان اور چین اور امریکہ بھی اُسے ملے ہوئے تھے بلکہ مراد یہ تھی کہ ہرچیز جس کی اُسے ضرورت ہے اُسے ملی ہوئی ہے.اس جگہ بھیمِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ سے یہی مراد ہے کہ ہر وہ جاندار جس کی تجھے ضرورت ہے اُس کے نر و مادہ ساتھ رکھ لے.نہ یہ کہ ہاتھی اور شیر اور چیتے کو بھی رکھ لےاوراِثْنَیْنِ کا لفظ تاکید کے لئے ہے کوئی نئے معنے نہیں دیتا.مطلب یہ ہوا کہ نر و مادہ جو مل کر دو بنتے ہیں اور جن سے آئندہ نسل چلتی ہے.اگر کشتی سے اس جگہ جماعت مراد لی جائے تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ظاہر ی کشتی کی صور ت میں تو یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ ہر قسم کے ضروری جانور نر و مادہ کی صورت میں اپنے پاس رکھ لے.لیکن جماعت کی صورت میں کیا معنے ہوںگے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ جماعت کی صورت میں اس سے مراد ہر قسم کے رُوحانی لوگ ہوںگے.یعنی اپنی جماعت میں ہر قسم کے لوگوں کو داخل کرو.غریب بھی اور امیر بھی اوردر میانہ درجہ کے بھی اور اس کی پرواہ نہ کرو کہ لوگ ان کو ذلیل سمجھتے ہیں یا کیا سمجھتے ہیں.اگر کہا جائے کہ جماعت میں داخل کرنا تو حضرت نوح ؑ کے اختیار میں نہیں تھا یہ تو لوگوں کے اپنے اختیار میں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ کوشش تو کر سکتے تھے.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ صرف امراء کی طرف توجہ کرتے ہیں.بعض غرباء کی طرف توجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں.بعض درمیانہ درجہ کے لوگوں کی طرف توجہ رکھتے ہیں.بعض علماء کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بعض پیشہ وروں کی طرف میلان رکھتے ہیں ، بعض زمینداروں کی طرف توجہ کرتے ہیں اور بعض تاجروں کی طرف توجہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کوبتایا کہ اگر جماعت کو پھیلانا مقصود ہے تو ہر طبقہ اور ہر قسم کے ایسے لوگوں کی طرف توجہ کرو جو آپس میں تعاون کی رُوح رکھتے ہوں یعنی جوڑوں کی مانند ہوں اور یہ جو زوجین فرمایا تو جماعت کی صورت میں اس کے معنے نر و مادہ کے نہیں ہوںگے بلکہ مراد یہ ہوگی کہ ایسے لوگ جو ایک دوسرے سے اُنس اور محبت رکھتے ہوں اور تعاون کرنے والے ہوں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ جا کر ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو بھائی بھائی بنا دیا تھا.گویا وہ زوجین ہو گئے تھے (بخاری کتاب مناقب الانصار باب اخاء النبی بین المھاجرین و الانصار).یہی نصیحت حضرت نوح علیہ السلام کو کی گئی ہے.اور کہا گیا ہے کہ اپنی جماعت میں اخوت پیدا کرو.اور اپنے ماننے والوں کو جو ہر طبقہ کے لوگ ہوں آپس میں بھائی بھائی بنائو.یا عورتوں کو بہنیں بنائو.پھر اُن سب کو لے کر ایک جگہ پر

Page 319

رہو.تاکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو حاصل ہو اور خدا کا عذاب تمہارے دشمنوں پر نازل ہو.اگر تم دشمن کے ساتھ مل کر رہو گے تو تمہارے دشمن پر بھی خدا عذاب نہیں بھیجے گا.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠ (الانفال : ۳۴)یعنی اللہ انہیں اس حالت میں کبھی عذاب نہیں دے سکتا جب تک تُو ان میں ہو اور نہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی حالت میں عذاب دے سکتا ہے جبکہ وہ استغفار کر رہے ہوں.اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے اہل کوبھی کشتی میں بٹھا لے تو اس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تعریف نکلتی ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کا مثیل قرار دیا ہے اور آپ ؐ حضرت نوح ؑ کے بھی مثیل تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس طرح عمل کیا کہ ہجرت میں حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ رکھا جس کے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ آپ کے اہل میں شامل تھے.پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نعوذ باللہ منافق اور زیرِ عتاب تھے وہ غلط کہتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے خلاف ان کو ہجرت میں ساتھ کیوںرکھتے ؟ پھر فرماتا ہے.وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ.ظالموں کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کر کیونکہ وہ ضرور غرق کئے جائیں گے.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جبکہ کفار کی تباہی کا آخری فیصلہ کر دیا جاتا ہے.اُس وقت اُن کے لئے دُعا کرنے کی بھی نبی کو اجازت نہیں ہوتی.جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی تباہی کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خبر ملی کہ قومِ لوط کی تباہی کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور اُس کے ساتھ ہی انہیں حضرت اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کی پیدائش کی بھی خوشخبری ملی تو یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ (ہود:۷۵)حضرت ابراہیم علیہ السلام قومِ لوط کے متعلق اللہ تعالیٰ سے جھگڑنے لگے.یعنی انہوں نے دُعا کرنی شروع کر دی کہ الٰہی اس قوم کو بچا لے.اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں الہامًا فرما یا کہ يٰۤاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا١ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ۚ وَ اِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ(ھود:۷۷).یعنی اے ابراہیم !تُو اب اس سفارش سے رک جا.کیونکہ تیرے رب کا آخری حکم آچکا ہے اور ان کفار کی ایسی حالت ہے کہ ان پر نہ ٹلنے والاعذاب آکر رہے گا.گویا ایک مقام ایسا آیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دعا کرنے سے بھی منع کر دیا گیا.اس آیت میں ظَلَمُوْا کا لفظ استعمال فر ما کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فر مایا ہے کہ وہ بلا وجہ لوگوں کو عذاب سے ہلاک نہیں کیا کرتا بلکہ اُن کی ہلاکت اُن کے متواتر ظلموں کا نتیجہ ہوتی ہے.آج تک جس قدر قومیں دنیا میں ہلاک ہوئی ہیں محض اس لئے ہلاک ہوئی ہیں کہ وہ ظالم بن گئی تھیں.یعنی یا تو انہوں نے دینی احکام کو نظر انداز کر

Page 320

دیا یا دنیوی ترقی کے قوانین کو نظر انداز کر دیا تھا.دینی احکام کو نظر انداز کر دینے کے نتیجہ میں وہ شرعی عذاب کے مستحق ہوئے اور قوانین نیچر کے نظر انداز کر دینے کے نتیجہ میں وہ مختلف قسم کے طبعی عذابوں کا شکار ہوئے.مگر اللہ تعالیٰ کے بے مثال رحم کا یہ ثبوت ہے کہ باوجود لوگوں کے ظالم ہو جانے کے آج تک کوئی قوم بھی اُس وقت تک ہلاک نہیں ہوئی جب تک خدا تعالیٰ نے اپنے کسی رسول کے ذریعہ اُن پر حجت تمام نہ کر دی ہو.اور انہیں ان کی غلطیوں پر متنبہ نہ کر دیا ہو.جس طرح نوح ؑ کی قوم کو رات اور دن نصیحت کی گئی مگر و ہ اپنی نافرمانیوں سے باز نہ آئے اور آخراُن کی صف لپیٹ دی گئی.فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ.فرماتا ہے تمہیں دشمنوں کے ظلموں سے بچا لینا میرا ایک بہت بڑا فضل ہے.اس لئے جب کشتی مکمل ہوجائے اور تُو اس میں بیٹھ جائے یا تیری جماعت مکمل ہوجائے اور سب سعید روحیں اُس میں داخل ہو جائیں تو اَلْحَمْدُ لِلہِ کہو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ تمہارا مشن پورا ہو گیا.بائیبل بتاتی ہے کہ جب طوفان تھم گیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ زمین پر پانی کم ہوا ہے یا نہیں پہلے ایک کوّے کو اُڑایا.مگر چونکہ ابھی زمین پر پانی تھا.اس لئے وہ روزانہ کشتی میں واپس آتا رہا.چند دنوں کے بعد انہوں نے ایک کبوتری اُڑائی مگر اُسے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہ ملی جہاں وہ تھوڑی دیر کے لئے بھی بیٹھ سکتی.اس لئے وہ بھی کشتی میں واپس آگئی.پھر سات دن اور انتظار کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ اس کبوتری کو اُڑا دیا.اور جب وہ شام کو واپس آئی تو ’’ زیتون کی ایک تازہ پتی اُس کی چونچ میں تھی تب نوح نے معلوم کیا کہ پانی زمین پر سے کم ہوگیا ہے.‘‘ ( پیدائش باب ۸ آیت ۱۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیتون کی پتی کے ذریعہ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ تیرے دشمن ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو گئے ہیں.جیسے سورۂ تین ؔ میں اللہ تعالیٰ نے زیتون کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں پیش کیا ہے اور بتا یا ہے کہ بیشک تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دو مگر یاد رکھو تم نوح ؑ کے دشمنوں کی طرح تباہ کئے جائو گےاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیتون کی پتی کے ذریعہ اُ س کی کامیابی اور فتوحات کی خوشخبری دی جائےگی.چنانچہ تَعْطِیْرُالْاَنَامِ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص رؤیا میں زیتون کے پتے دیکھے تو اُ س کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ عروۂ وثقٰی کو مضبوطی سے پکڑ لےگا(تعطیر الانام زیر لفظ زیتون).پس زیتون کے

Page 321

ذریعہ آپ کو اپنی کامیابی کی خوشخبری ملنا بتاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک ایسی جماعت عطا کی جائےگی جو اپنے ایمان میں مضبوط اور قربانی اور اطاعت میں حدِ کمال کو پہنچی ہوئی ہوگی اور کسی قسم کی تکلیف اُسے جادۂ حق سے منحرف نہیں کر سکے گی.یہی خوشخبری حضرت نوح ؑ کو زیتون کی پتی کے ذریعہ دی گئی ہے اورانہیں کشتی سے اُترنے سے پہلے پہلے اپنی جماعت کی آئندہ ترقی اور اُس کے ایمان کی مضبوطی کی خبر دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اُس خدا کا شکر ادا کر جس نے اپنے فضل سے تمہارے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچا یا.وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ.اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِيْنَ.اس جگہ اگر ظاہری کشتی مراد لی جائے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ تُو دُعا کرتا جا کہ یہ کشتی اُس جگہ ٹھہرے جو ہمارے لئے مبار ک ہو اور اگر جماعت مُراد ہو تو اس کے یہ معنے ہوںگے کہ تُو دعا کرتا رہ کہ اے اللہ ! میری جماعت اپنے مقصد کو پالے اور ایسی ترقی اس کو حاصل ہو جو اس کے لئے دینی اور دنیوی طورپر مبارک ہو.قرآن کریم نے اُس مقام کا نام جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری تھی جودی بتا یا ہے (ہود :۴۵) لیکن بائیبل اُس کا نام اراراط بتا تی ہے.چنانچہ پیدائش میں لکھا ہے.’’ ساتویں مہینہ کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی.‘‘ ( پیدائش باب ۸ آیت ۴) ان دونوں ناموں کو دیکھنے سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ نام ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو اِن دونوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں.اصل بات یہ ہے کہ جُود کے معنے عربی زبان میں رحمت اور احسان کے ہوتے ہیں.(تاج)پس اس مقام کا نام اللہ تعالیٰ نے جُودی رکھ کر اس طرف اشارہ کیا کہ وہ میری رحمت اور احسان کے ظہور کا مقام اور اس کی تجلی گاہ تھا.اور یہی معنے اَرَا رَاط کے بھی ہیں.کیونکہ رَاطَ کے معنے ہوتے ہیں.اُس نے پناہ چاہی (اقرب)اور اراراط کے معنے ہوئے میں پناہ کی جگہ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں.گویا بائیبل اُسے پناہ کی جگہ قرار دیتی ہے اور قرآن اُسے خدا تعالیٰ کی رحمت اور احسان کے ظہور کا مقام بتاتا ہے.جہاں حضرت نوح علیہ السلام کو پناہ ملی اور دشمنوں کے شر سے محفوظ ہوگئے.پس ان دونوں ناموں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِيْنَ.یعنی یہ واقعہ ایک قصہ اور کہانی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا بلکہ اس میں بہت سے نشانات ہیں اور ہم یقیناً اپنے بندوں کا خیر اور شر کے ساتھ امتحان لینے والے ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے ساتھ بھی ایسے ہی حالات پیش آنے والے ہیں.

Page 322

چنانچہ جس طرح نوح ؑکو اپنے دشمنوں کی اذیت کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑ نا پڑا اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ والوں کی متواتر تکالیف اور ایذاء رسانیوں کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑ نا پڑا.جس طرح نوح ؑ کی کشتی جُودی پہاڑ پر جا کر ٹھہرگئی تھی جہاں نوح ؑ کو پناہ ملی اور خدا تعالیٰ نے اُس پر اپنے انعامات کی بارش نازل کی اسی طرح مدینہ بھی وہ جودی تھا جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کی کشتی لنگر انداز ہوئی اور جس طرح زیتون کی پتی کے ذریعے نوح کو اس کی جماعت کی آئندہ ترقی اور اس کی ایمانی ترقی کی بشارت دی گئی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ انصار عطا فرمائے جو عروۃ الوثقٰی کو مضبوطی سے پکڑنے والے تھے اور جنہوں نے اپنی ایمانی قوت کے ایسے شاندار مظاہرے کئے جن کو دیکھ کر انسان کا دل لذّت اور سرور سے بھر جاتا ہے.مدینہ آنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ شام سے کفار کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرکردگی میں آرہا ہے اور وہ راستہ میں تمام عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا تا آرہا ہے.تو آپ نے ضروری سمجھا کہ اُس کی شرارتوں کا سدِّباب کیا جائے.چنانچہ آپ صحابہ ؓ کی ایک جماعت کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے.چونکہ یہ ایک چھوٹا سا قافلہ تھا اس لئے مسلمانوں نے اس کو کوئی زیادہ اہمیت نہ دی اور انہوں نے سمجھا کہ تھوڑے سے آدمی بھی اگر چلے گئے تو اس قافلہ کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دےدی گئی کہ اصل مقابلہ اس تجارتی قافلہ سے نہیں بلکہ کفار کے ایک بڑے لشکر سے مقدر ہے جو مکہ سے اس قافلہ کی مدد کے لئے آرہا ہے.مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس راز کے انکشاف کی ممانعت فرما دی.کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ صحابہ ؓ کا امتحان لے اور اُن کے اعلیٰ درجہ کے ایمان اور اُن کی قربانیوں کے اَن مٹ نقوش کو صفحۂ عالم پر ثبت کر دے اور اُن کا اخلاص لوگوں کے لئے ایک زندہ نمونہ کا کام دے جو آنے والی نسلوں کی مُردہ عروق میں بھی زندگی کا خون دوڑا دے.جب مدینہ سے کئی منزل دور آپ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ ؓ کو جمع کیا اور انہیں بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ تمہارا کفار مکّہ کے ایک بڑے لشکر سے مقابلہ ہو.اب بتائو کہ تمہاری کیا رائے ہے.مہاجرین میں سے ایک ایک صحابی اٹھتا اور کہتا یا رسول اللہ مشورہ کا کیا سوال ہے.آگے بڑھئے اور دشمن کا مقابلہ کیجئیے ہم آپ کے ساتھ ہیں.اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر جب بھی کوئی مہاجر بیٹھ جاتا.آپ پھرفرماتے اے لوگو مجھے مشورہ دو.انصار جوایک بڑی سمجھ دار اور قربانی کرنے والی قوم تھی اُ س کے افراد ابھی خاموش تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو چونکہ کفار مکّہ ان مہاجرین کے رشتہ دار ہیں.اُن میں سے کوئی ان کا باپ ہے کوئی بیٹا ہے کوئی بھائی ہے.کوئی ماموں ہے کوئی چچا ہے.اس لئے ہمارا

Page 323

جوش ان پر گراں گذرے گا اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں ہمارے رشتہ داروں کو مارنے میں بڑا مزہ آتا ہے.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما یا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا.یا رسول اللہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے.مگر آپ جو بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے کہ اس بارہ میں ہماری کیا رائے ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! جب ہم مکّہ مکرمہ میں گئے تھے اور ہمیں آپ کی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں.آپ نے ہماری درخواست کو قبول فرمایا اور ہم نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر مدینہ پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو ہم اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر کے آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر مقابلہ ہوا تو پھر ہم پر کوئی پابندی نہیں ہو گی.اب چونکہ مدینہ سے باہر مقابلہ ہو رہا ہے.اس لئے شاید آپ کا اشارہ اُس معاہدہ کی طرف ہے اور آپ ہم سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اب اس معاہدہ کے مطابق ہماری کیا رائے ہے ؟ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم درست سمجھتے ہو.میرا اشارہ اسی معاہدہ کی طرف تھا انہوں نے کہا یا رسول اللہ اس معاہدہ کا خیال جانے دیجئیے.جب ہم نے یہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت ابھی ہم پر آپ کی پوری شا ن ظاہر نہیں ہوئی تھی مگر اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ آپ کی کیا شان ہے اور آپ کتنی بڑی عظمت اور جاہ وجلال کے نبی ہیں.اب کسی معاہدہ کا سوال نہیں.یا رسول اللہ ! چند منزل کے فاصلہ پر سمندر ہے آپ حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے اُس میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور یا رسول اللہ ! اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہو ا نہ گذرے(السیرة النبویة لابن ہشام غزوة بدر الکبریٰ).یہ وہ اخلاص تھا جس کا نمونہ انصار نے دکھایا اور یہ وہ جذبۂ فدائیت تھا جس کا انہوں نے مظاہر ہ کیااور پھر انہوں نے جس طرح بھیڑ اور بکریوں کی طرح اپنے سروں کو اسلام کی راہ میں کٹوایا اس کے نقوش تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں دلوں کی گہرائیوں پر اس طرح ثبت ہیں کہ قیامت تک آنے والی نسلیں اُن کی شاندار قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں.اس واقعہ کو دیکھو اور پھر موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کے جواب کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو.تو تمہیں معلوم ہوگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوت ِقدسیہ سے کیسے شاندار پھل پیدا کئے تھے.موسیٰ ؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ کنعان کی سرزمین پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جائو تو انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ ؑ ! تو اور تیرا رب دونوں جائواور دشمنوں سے لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (المائدة:۲۵)مگر انصار نے یہ نہیں کہا کہ ہم معاہدہ کے مطابق مدینہ میں بیٹھ کر آپ کی حفاظت

Page 324

کریں گے.مدینہ سے باہر ہم آپ کی حفاظت کے پابند نہیں بلکہ انہوں نے قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو بلا دریغ جھونک دیا اور خون کے دریا میں تیر کر اپنے رب کے قُرب کو حاصل کر لیا.یہ وہ زیتونی ورق تھے جو نوح ؑ کی مماثلت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے اور جس کی اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍمیں خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ نوح ؑ کا واقعہ ہم نے ایک افسانہ کے رنگ میں بیان نہیں کیا بلکہ اس میں اسلام اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور اسلام کے روشن مستقبل کی جھلک اس آئینہ میں تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے.ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَۚ۰۰۳۲فَاَرْسَلْنَا پھر ہم نے اُن کے بعد کئی قومیں پیدا کیں اور ہم نے اُن میں اُنہی میں سے رسول بھیجا(یہ پیغام دیتے ہوئے) فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ کہ اللہ کی عبادت کرو.اُس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں.کیا تم اُس کے ذریعہ سے اپنے آپ کوہلا کت سے غَيْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَؒ۰۰۳۳وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ بچاتے نہیں ؟اور اس (نئے رسول) کی قوم میں سے جنہوں نے کفر کیا تھا اور بعد الموت (خدا سے ملنے ) کا انکار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِي کیا تھا.اور جن کو ہم نے اس دنیا کی زندگی میں مالدار بنایا اُن کے سرداروں نے کہا یہ تو تمہارے جیسا ایک آدمی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ يَاْكُلُ مِمَّا ہے.اُنہی (کھانوں ) میں سے کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو.اور انہی (پانیوں ) میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو.اور تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ۰۰۳۴وَ لَىِٕنْ اَطَعْتُمْ اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کی بات مانو گے تو تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائو گے.کیا وہ تم سے یہ وعدہ کرتا ہے

Page 325

بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَۙ۰۰۳۵َأيَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ کہ جب تم مر جائو گے اور مٹی ہو جائو گے اور ہڈیاں بن جائو گے تو تم (پھر زندہ کر کے ) نکالے جائو گے.جس بات اِذَا مِتُّمْ وَ كُنْتُمْ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْرَجُوْنَ۪ۙ۰۰۳۶ کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عقل سے بہت ہی دو رہے اور ماننے کی بات نہیں.زندگی تو صرف ہماری اس دنیا کی هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۪ۙ۰۰۳۷اِنْ هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا زندگی ہے.ہم کبھی مُردہ حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی زندہ حالت میں اور ہم کبھی مرنے کے بعد دوبارہ نہیں الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ۪۠ۙ۰۰۳۸اِنْ هُوَ اِلَّا اُٹھائے جائیں گے یہ شخص تو (صرف) ایک اکیلا شخص ہے جو اللہ (تعالیٰ) پر جھوٹا افتراء کرتا ہے اور ہم اس (کی باتوں) رَجُلُ ا۟فْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا وَّ مَا نَحْنُ لَهٗ بِمُؤْمِنِيْنَ۰۰۳۹ کو کبھی نہیں مانیں گے.(اس پر) اُس نے کہا اے میرے رب !ان لوگوں نے مجھے جھٹلادیا ہے پس تو میری مدد کر قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۰۰۴۰قَالَ عَمَّا قَلِيْلٍ (تب خدا تعالیٰ ) نے فرمایا.یہ لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں شرمندہ ہو جائیں گے اور اُن کو ایک عذاب لَّيُصْبِحُنَّ نٰدِمِيْنَۚ۰۰۴۱فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ نے پکڑ لیا جس کی پختہ خبر دی گئی تھی اور ہم نے اُن کو کوڑا کرکٹ بنا دیا اور( فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ) فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً١ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۴۲ ظالموں کے لئے خدا کی لعنت (مقدر کر دو).حلّ لُغَات.اَلصَّیْحَۃُ.اَلصَّیْحَۃُ:اَلصَّوْتُ الشَّدِیْدُ.سخت آواز.اَلزَّجَرُ.ڈانٹ.اَلْعَذَابُ.عذاب اَلْغَارَۃُ إذَا فُوْجِی ءَ الْحَیُّ بِھَا.اچانک حملہ.( اقرب)

Page 326

غُثَآءٌ.غُثَاءٌیہ لفظ غُثَاءٌ اورغُثَّاءٌ دونوں طرح بولا جاتا ہے.اور اس کے معنے ردّی چیز کے ہوتے ہیں چنانچہ ہر قسم کی چیز جو ردّی ہو جائے اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ غُثَاءٌ ہوگئی.اور غُثَاءٌ کے معنے جھاگ کے بھی ہوتے ہیں اور اس کے معنے ہلاک ہونے والی چیز کے بھی ہوتے ہیں.اور اُن پتوں کو بھی کہتے ہیں جو گِر کر سڑ جاتے ہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے نوح ؑ پر ہم نے نبوت کا سلسلہ ختم نہیں کر دیا بلکہ نوح ؑ کے بعد اور رسول آئے.اور نوح ؑ کی قوم کے بعد اور قومیں آئیں اور وہ بھی نوح ؑ کی قوم کی طرح اعتراض کرتی چلی گئیں.جب خدا کے رسول نے ان کو حکم دیا کہ ایک خدا کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کرو تو اس کی قوم کے سرداروں نے جو کہ مابعد الموت زندگی کے منکر تھے اور دنیوی عزت اور مال و دولت کی وجہ سے تکبر میں مبتلاہو چکے تھے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کچھ یہ کھا تا ہے اورجو کچھ تم پیتے ہو وہی کچھ یہ پیتا ہے.اگر تم ایسے آدمی کے پیچھے چلے تو یقیناً نقصان اُٹھائو گے.یہ تو کہتا ہے کہ تم مر کر پھر زندہ کئے جائو گے حالانکہ یہ ایسی بات ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی.ہم تو اسی دنیا میں جئیں گے اور مریں گے اور ہماری موت کے بعد کوئی اور زندگی ہم کو نہیں ملے گی.یہ شخص یقیناً جھوٹا ہے اور ہم اس پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے.تب خدا تعالیٰ کے نبی نے دُعا کی کہ اے میرے رب! انہوں نے تو میرا انکار کر دیا ہے اب تُو ہی میری مدد فرما.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جلد ہی اپنے کئے پر نادم ہوںگے.چنانچہ ان کو ایک عذاب نے آپکڑا اور وہ تباہ ہو گئے.ان آیات میںثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ کے الفاظ میں قومِ عاد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کی ہدایت کے لئے حضرت ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.کیونکہ ان قوموں کا ذکر قومِ نوح ؑ کی ہلاکت کے بعد کیا گیاہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے قومِ عاد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا وَاذْکُرُوْا اِذْجَعَلَکُمْ خُلَفَآ ئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (الا عراف :۷۰) یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ خدا نے تم کو نوح ؑ کی قوم کے بعد اُس کا جانشین بنا دیا تھا.اور قوم عاد کے متعلق فرماتا ہے کہ وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا (الا عراف:۶۶)یعنی عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا تھا.پھر جس طرح ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُس رسول نے انہیں توحید کی طرف بلایا اور بتوں کی پرستش سے روکا اسی طرح سورۂ اعراف میں حضرت ہود ؑ کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے یہی کہا کہ یَا قَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (ھود:۵۱) یعنی اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو.اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں.پھر جس طرح اس قوم کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اَتْرَفْنٰھُمْ فِیْ

Page 327

الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ہم نے ان کو اس دنیا کی زندگی میں ہر قسم کی آسائش عطا کی تھی اسی طرح قومِ عاد کو حضرت ہود ؑ نیکی اور تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً١ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (الا عراف:۷۰).اُس نے تمہاری نسلوںکو زیادہ کیا اور تمہارے جسم کو بہت مضبوط بنایا.پس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو.پھر جس طرح یہاں یہ کہا گیا ہے کہ انہو ں نے یہ اعتراض کیا کہ وَ لَىِٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ کہ اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کی بات مانو گے تو گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائو گے اسی طرح سورۂ اعراف میں قوم عاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اُن سے کہا اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ(الا عراف:۷۰) کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی طرف سے ہدایت نازل ہوئی ہے تاکہ وہ تمہیں آنے والے عذاب سے ہو شیا ر کرے.غرض قرآن کریم کا یہ بتانا کہ قوم نوح ؑ کی ہلاکت کے بعد عاد کو ہم نے اس کا جانشین بنایا تھا اور پھر انہی اعتراضات کا ذکر جو عاد نے کئے بتاتا ہے کہ اس جگہقَرْنًا اٰخَرِيْنَ میں عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے.مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ يَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ سے معلو م ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر اُن کے مخالفین کی طرف سے جو اعتراضات ہوتے رہے ہیں اُن میں سے ایک بڑا اعتراض اُن کا ہمیشہ یہ رہا ہے کہ بشر رسول کی بات ماننے کے لئے ہم تیار نہیں.ہماری ہدایت کے لئے بشر سے بالا کوئی اور وجود آنا چاہیے.اُن کا یہ اعتراض کئی وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے بعض لوگ یہ اعتراض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ضد اور تعصب کا شکار ہو تے ہیں اور اُن کے قلب کے مخفی گوشوں میں کِبر پایا جاتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ آخر اس کو ہم پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ اسے کلام الٰہی کا حامل بنا دیا گیا ہے ہم بھی انسان ہیں اور یہ بھی انسان ہے.اگر ہماری ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام ہی نازل ہونا تھا تو وہ ہم پر ہوتا اس پر کیوں نازل ہوا ہے ؟اور اس کا کیا حق ہے کہ ہمارے جیسا ایک انسان ہوتے ہوئے ہم پر اپنی بڑائی کا اظہار کرے اور ہمیں اپنے پیچھے چلانا چاہے.ایسے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ کلامِ الٰہی نازل ہو سکتا ہے مگر وہ انبیاء کو ایک گھٹیا وجود قرار دیتے ہیں اور اپنی دنیوی قابلیتوں یا ما ل و دولت یا ظاہری علم کی وجہ سے اپنے آپ کو اُن سے بالا سمجھتے ہیں اس لئے وہ اُن کا پیغام سُننے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی بات نہیں مان سکتے.پھر بعض لوگ یہ اعتراض اس بنا پر کیا کرتے ہیں کہ اُن کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دماغی اور عقلی قویٰ

Page 328

کے لحاظ سے ایسا مکمل بنا دیا ہے کہ اب اسے اپنی ہدایت کے لئے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں.اُن کے نزدیک ایک انسان اپنی طاقتوں سے کام لے کر اپنی نجات کی راہ اپنے لئے خود تجویز کر سکتا ہے اور بری اور بھلی بات میں امتیاز کر سکتا ہے.اُسے یہ ضرورت نہیں کہ وہ اپنے جیسے آدمی کے سامنے سر جھکا دے اور اس کی ہر بات پر اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہنا شروع کر دے.گو یا اُن کے نزدیک ایک اپنے جیسے آدمی کی بات مان لینا اُن اعلیٰ درجہ کی طاقتوں کی توہین ہے جو قدرت کی طرف سے ہر انسان کو ودیعت کی گئی ہیں.ان کے علاوہ ایک تیسری قسم کے بھی لوگ ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت و رسالت کے لئے جن طاقتوں کی ضرورت ہے وہ کسی بشر میں نہیں پائی جاتیں.اگر کوئی ایسا وجود ہو جو مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتا ہو تو بے شک ہم اُس کو ماننے کے لئے تیار ہیں.لیکن اپنے جیسے ایک وجود کو جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور ہماری طرح حوائجِ بشریہ کا محتاج ہے ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.ایسے لوگ کلامِ الٰہی کے نزول کے منکر نہیں ہوتے مگر وہ کسی ایسے وجود کے منتظر ہوتے ہیں جو مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتا ہو.اس لئے وہ نبیوں کا انکار کر دیتے ہیں.غرض یہ اعتراض مختلف وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ بشر کو ہی رسول بنا کر بھیجتا رہا کیونکہ ہر انسان ایک نمونہ کا محتاج ہے.اگر انبیاء مافوق الانسانیت طاقتیں اپنے اندر رکھیں تو وہ بنی نو ع انسان کے لئے نمونہ نہیں ہو سکتے.وہ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تم تو اس لئے ان احکام کو بجا لا رہے ہو کہ تم اپنے اندر غیر معمولی طاقتیں رکھتے ہو.اگر ہمارے جیسی طاقتیں تم میں بھی ہو تیں تو پھر ہم دیکھتے کہ تم کس طرح ان احکام پر عمل کرتے ہو پس اس اعتراض کو دُور کرنے اور بنی نوع انسان کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ بشر رسول ہی بھیجا کرتا ہے تاکہ قیامت کے دن وہ کوئی عذر نہ کر سکیں اور اللہ تعالیٰ اُن پر حجّت تما م کرے اور کہے کہ جب یہ لوگ جو تمہارے جیسے انسان تھے انہوں نے میرے احکام پر عمل کیا اور میری ہدایات کی پیروی کی تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ ہمارے لئے ان احکام پر عمل کرنا ناممکن تھا.تمہارا یہ عذر محض بے بنیاد ہے اور تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں سزا دی جائے.پس بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ بشر رسول کا آنا ہی ضروری ہوتا ہے مگر افسوس کہ انسان ہمیشہ عذر لنگ تلاش کرتا ہے اور حیلوں بہانوں سے خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑتا رہتا ہے.اِنْ هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ منکرین انبیاء کے انکار کی دوسری وجہ یہ ہو تی ہے کہ وہ لوگ بعث بعد الموت کے منکر ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے اندر اپنے اعمال کے اچھا یابُرا ہونے کے متعلق کبھی کوئی صحیح احساس پیدا نہیں ہوتا.وہ جس ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں اُس پر

Page 329

آنکھیں بند کرکے چلتے چلے جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہمارا کام اتناہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور اس چند روزہ زندگی کو عیش و آرام میں گذار دیں.یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء اُن کے پاس خدا تعالیٰ کا پیغام لے کر آتے ہیں تو وہ چونکہ اُن کے عقائد اور اعمال میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے اُن کو ایک دھکا لگتا ہے اور وہ یہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ تم ہمیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے کیا ڈراتے ہو.ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں کہ ہم مر کر پھر زندہ ہوںگے.اس لئے ہمیںکسی جواب دہی کا کیا خطرہ ہو سکتا ہے.ہم جو بھی عمل کریں گے اپنی اس چند روزہ حیات کے لئے کریں گے اور ہم اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے کی خوب اہلیت رکھتے ہیں.اس لئے تم ہمیں آخرت کے عذاب سے مت ڈرائو.حقیقت یہ ہے کہ بعث بعد الموت پر ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے اعمال کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے.اگر آئندہ زندگی پر ایمان نہ رہے تو نہ صرف تمام کا رخانۂ عالم کو ایک عبث اور لغو چیز تسلیم کرنا پڑتا ہے بلکہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی بھی ایک بیکار عمل قرار پاتا ہے.مگر یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستاروں اور سیّاروں اور آسمان اور زمین کے درمیان کی ہزارہا چیزیں پیدا کرکے اور اُن میں اپنی قدرت کے ہزارہا راز ودیعت کر کے ایک ایسے انسان کو پیدا کیا جس نے چند سالہ زندگی بسر کرکے ہمیشہ کے لئے فنا ہو جانا ہے اور اُس کی زندگی کا کوئی اہم مقصد نہیں ایک ایسا خیال ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی.انسان کے لئے اس قدر وسیع کائنات کا پیدا کرنا اور اُس پر عقل کے ذریعہ انسان کو حکومت بخشنا بتاتا ہے کہ اُس کے لئے اس محدود زندگی کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی مقرر کیا گیا ہےاور اسلام کہتا ہے کہ وہ مقصد یہی ہے کہ اُسے ایک دائمی حیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور دائمی روحانی ترقیات کا راستہ اُس کے لئے کھولا گیا ہے.پس موت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انسانی رُوح جسم سے جدا ہو گئی ورنہ رُوح پر کوئی فنا نہیں او ر وہ ہمیشہ زندہ رہتی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مراتب حاصل کر تی رہتی ہے.بہر حال انبیاء کے انکار کی ایک بڑی وجہ بعث بعد الموت کا انکار بھی ہوتا ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مخالفین نے ہمارے نبی کا انکار کیا اور اُس کی باتوں پر ہنسی اڑائی تو وہ ہمارے حضور جھکا اور اس نے دعا سے ہماری مددچاہی تب ہم نے اُسے الہام کیا کہ یہ لوگ تھوڑے عرصہ میں ہی ہمارے عذاب سے ہلاک ہو نے والے ہیں.چنانچہ ایک دن عذاب آگیا اور ہم نے ان کو کوڑا کرکٹ بنا کر رکھ دیا قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتا یا ہے کہ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ.سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ

Page 330

لَيَالٍ وَّ ثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ١ۙ حُسُوْمًا١ۙ فَتَرَى الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰى كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ( الحاقۃ:۷،۸)یعنی عاد ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے تھے جو ایک سخت تیز اور تند ہوا کی صورت میں آیا تھا.خدا تعالیٰ نے اُس ہوا کو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن اُن کی تباہی کے لئے مقرر کر چھوڑا تھا.سو اُس کا نتیجہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ قوم بالکل گِر گئی گویا وہ کھجور کے ایک کھوکھلے درخت کی جڑیں ہیں جن کوتیز آندھی نے گِرا کر رکھ دیا ہے.فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءًکی صداقت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو گا کہ بعض یوروپین محققین عاد کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے (Encyclopedia of Islam underword AD)حالانکہ یونان میں جو جغرافئیے لکھے گئے ہیں اُن میں ایک قبیلے کا نام عاد بھی موجود ہے (العرب قبل الاسلام زیر عنوان عاد ) جس سے قرآنی بیان کی صداقت واضح ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے اُن کو کوڑا کرکٹ بنا کر رکھ دیا تھا اس لئے بعض یوروپین محققین کو عاد کا وجود تسلیم کرنے میں ہی مشکل پیش آگئی.ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ قُرُوْنًا اٰخَرِيْنَؕ۰۰۴۳مَا تَسْبِقُ مِنْ پھر اُن کے بعد ہم نے کئی اور قومیں پیدا کیں.کوئی قوم اپنی مدت سے آگے نہیں گذرتی اور نہ ہی اس سے پیچھے اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ؕ۰۰۴۴ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا رہ (کر بچ)سکتی ہے.پھر ہم نے اپنے رسول متواتر بھیجے.جب کبھی کسی قوم کے پا س اُس کا رسول آتا تھا وہ تَتْرَا١ؕ كُلَّمَا جَآءَ اُمَّةً رَّسُوْلُهَا كَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ اُس کو جھٹلاتے تھے.پس ہم اُن میں سے بعض کو بعض کے پیچھے پیچھے بھیجتے چلے جاتے تھے (یعنی ہلاک کرتے بَعْضًا وَّ جَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ١ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا جاتے تھے ) اور ہم نے اُن سب کو گذشتہ افسانے کر کے رکھ دیا (یعنی دنیا میں ان کا نام نشان باقی نہ رہا)اور يُؤْمِنُوْنَ۰۰۴۵ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَ اَخَاهُ هٰرُوْنَ١ۙ۬ بِاٰيٰتِنَا (ان کے متعلق فرشتوں کو حکم دیا کہ) جو لوگ ایمان نہیں لائے اُن کے لئے خدا کی لعنت (مقدر کرد و).پھر اُس کے بعد

Page 331

وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍۙ۰۰۴۶اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ وَ ہم نے موسیٰ ؑ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنے نشان اور کُھلا کُھلا غلبہ دے کر فرعون اور اُس کے سرداروں کی كَانُوْا قَوْمًا عَالِيْنَۚ۰۰۴۷فَقَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَ طرف بھیجا.پس انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگوں میں سے بن گئے.پھر انہوں نے کہا کیا ہم اپنے قَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَۚ۰۰۴۸فَكَذَّبُوْهُمَا۠ فَكَانُوْا مِنَ جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے.پس انہوں نے اُن الْمُهْلَكِيْنَ۰۰۴۹وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ لَعَلَّهُمْ دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) کو جھٹلادیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ہلاک ہونےوالے لوگوں میں سے بن گئے.يَهْتَدُوْنَ۰۰۵۰ اور ہم نے موسیٰ کو( وہ) کتاب دی (جس کو سب جانتے ہیں) تاکہ وہ (اور اس کی قوم )ہدایت پائیں.تفسیر.فرماتا ہے عاد کے بعد پھر کچھ اور لوگ گذرے تھے جیسا کہ ثمود کی قوم جسے قرآن کریم نے عاد کا جانشین قرار دیا ہے (الا عراف:۷۵) اور ہم نے ان کے اندر پے در پے رسول بھیجنے شروع کر دئیے مگر جس قوم کے پاس بھی رسول آیا.اس نے انکار کیا اور ہم نے بھی قوم کے بعد قوم کو ہلاک کرنا شروع کر دیا.اس آیت میں بائیبل سے ایک بہت بڑا اختلاف کیا گیا ہے.لیکن تاریخ شاہد ہے کہ قرآن کریم نے جوبات کہی ہے وہی ٹھیک ہے اور بائیبل کی غلط.بائیبل میں لکھا ہے کہ نوح ؑ کے وقت میں جب عذاب آیا اور اس کے زمانہ کے لوگ تباہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ پچھتا یا اور اُس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا عذاب دنیا پر کبھی نہیں لائےگا.چنانچہ پیدائش باب ۸ آیت ۲۱ میں لکھا ہے کہ ـ’’ خداوند نے اپنے دل میں کہا کہ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجو ںگا کیونکہ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے برا ہے.‘‘

Page 332

مگر پھر بائیبل ہی بتاتی ہے کہ ’’ خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پرگندھک اور آگ آسمان سے بر سائی اور اُس نے اُن شہروں کو اور اُس ساری ترائی کو او ر اُ ن شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگا تھا غارت کیا.‘‘ (پیدائش باب ۱۹ آیات ۲۴،۲۵) گویا وہ عہد جو بائیبل کی رو سے خدا تعالیٰ نے کیا تھا.اُسے اُس نے خود ہی توڑ دیا اور سدوم کو آگ اور گندھک سے بر باد کر دیا.اسی طرح بائیبل بتاتی ہے کہ موسیٰ ؑ کے زمانہ میں فرعون پر بھی مختلف عذاب آئے.ایک دفعہ ایسا عذاب آیا کہ ’’ دریا کا پانی سب خون ہوگیا اور دریا کی مچھلیاں مر گئیں اور دریا سے تعفّن اُٹھنے لگا اور مصری دریا کا پانی نہ پی سکے.‘‘ ( خروج باب ۷ آیت ۲۰، ۲۱) ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے عذاب کے طور پر ملک مصر میں اتنے مینڈک پیدا کر دئیے کہ بائیبل بتاتی ہے کہ اُن مینڈکوں نے ملک مصر کو ڈھانک لیا.( خروج باب ۸آیت ا تا ۷) ایک دفعہ عذاب کے طور پر اتنی جوئیں پید اہو گئیں کہ بائیبل کہتی ہے کہ ’’ تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئی.‘‘ ( خروج باب ۸ آیت ۱۶ تا ۱۸) ایک دفعہ موسیٰ کی بد دعا سے ’’ سارے ملک مصر میں مچھروں کے غول کے غول بھر گئے اور اُن مچھروں کے غولوں کے سبب سے ملک کا ناس ہو گیا.‘‘ (خروج باب ۸ آیت ۲۴) ایک دفعہ ایسی مری پڑی کہ مصریوں کے سب چوپائے مر گئے.( خروج باب ۹ آیت ۵،۶) ایک دفعہ عذاب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے مصریوں اور اُن کے جانورو ں کے جسموں پر پھوڑے اور پھپھولے پیدا کر دئیے.(خروج باب ۹ آیت ۸ تا ۱۱ ) ایک دفعہ مصری قوم پر اولوں کا عذاب آیا اور یہ عذاب ایسا تھا کہ لکھا ہے.’’ اولوں کے ساتھ آگ ملی ہو ئی تھی اور وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی ایسے اولے ملک میں کبھی نہیں پڑے تھے.‘‘ ( خروج باب ۹ آیت ۲۲ تا ۲۴) ایک دفعہ عذاب کے طور پر اتنی ٹڈیاں پیدا کر دیں کہ لکھا ہے.

Page 333

’’ نہ تو ان سے پہلے ایسی ٹڈیاںکبھی آئیں نہ اُن کے بعد پھر آئیں گی.کیونکہ انہوں نے تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا.ایسا کہ ملک میں اندھیرا ہو گیا اور انہوں نے اس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے چٹ کر لیا.‘‘ (خروج باب ۱۰ آیت ۱۴ و ۱۵ ) لیکن بائیبل کے اس بیان کے مقابلہ میں جغرافیہ سے ثابت ہے کہ ٹڈی جن ملکوں میں خاص طور پر نشو و نما پاتی ہے اُن میں سے ایک مصر بھی ہے.(The Book of Knowledge vol.5 p.33.34 underword holocaust) پھر ایک دفعہ عذاب کے طور پر مصر میں ایسی تاریکی چھائی کہ لکھا ہے.’’ تین دن تک سارے ملک مصر میں گہری تاریکی رہی.تین دن تک نہ تو کسی نے کسی کو دیکھا اور نہ کوئی اپنی جگہ سے ہلا.‘‘ ( خروج باب ۱۰ آیت ۲۲ و۲۳ ) اسی طرح ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ملک مصر کے تمام پلوٹھے بچوں کو مارڈالا.اور لوگوں کی چیخ و پکار سے کہرام مچ گیا.بائیبل کہتی ہے کہ ’’ آدھی رات کو خداوند نے ملک مصر کے سب پلوٹھوں کو فرعون جو اپنے تخت پر بیٹھا تھا اُس کے پلوٹھے سے لےکر وہ قیدی جو قید خانہ میں تھا اس کے پلوٹھے تک بلکہ چوپائوں کے پلوٹھوں کو بھی ہلاک کر دیا.اور فرعون اور اُس کے سب نوکر اور سب مصری رات ہی کو اُٹھ بیٹھے اور مصر میں بڑا کہرام مچ گیا کیونکہ ایک بھی ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئی نہ مرا ہو.‘‘ ( خروج باب ۱۲ آیت ۲۹،۳۰) اب اگر بائیبل کی یہ بات درست تھی کہ قوم نوح ؑ کی ہلاکت کے بعد خدا تعالیٰ نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ لوگوں کو کبھی اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کرےگا کیونکہ ’’ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے.‘‘ تو سدوم کیوں تباہ ہوا ؟ اور اُس پر گندھک اور آگ کیوں بر سائی گئی.فرعونیوں پر جوؤں اور مینڈکوں اور مچھروں اور ٹڈیوں کا عذاب کیوں نازل کیا گیا.اُن پر اولے اور آگ کیوں بر سائی گئی.اُن کے لئے دریا کے پانی کو لہو میں کیوں تبدیل کیا گیا.اُن کے پلوٹھوں کو کیوں مارا گیا.اُن کے جسموں پر پھوڑے اور پھپھولے کیوں پیدا کر دئیے گئے.ان کو گہری تاریکی میں تین دن تک کیوں رکھا گیا ؟ کیا خدا تعالیٰ نہیں جانتا تھا کہ انسان کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے اسے کچھ نہیں کہنا چاہیے؟ پھر اگر خدا تعالیٰ نے نوح ؑ کے بعد کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرنا تھا تو خدا تعالیٰ نے موسیٰ کی معرفت یہ کیوں کہا کہ

Page 334

’’ خداوند تیرا خدا بھسم کر نےوالی آگ ہے.‘‘ ( استثنا باب ۴ آیت ۲۴) اگر اُس کی یہ بات درست تھی کہ ’’ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر لعنت نہیں بھیجوںگا.‘‘ (پیدائش باب ۸ آیت ۲۱) تو اُس نے بنی اسرائیل سے یہ کیوں کہا کہ اگر تم میں سے کسی نے میرے احکام کو نہ ماناتو ’’ شہر میں بھی تو لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی لعنتی ہوگا.تیرا ٹوکرا اور تیری کھٹوتی (یعنی آٹا گوندھنے کا برتن) دونو ں لعنتی ٹھہریں گے.تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے لعنتی ہوںگے.تو اندر آتے لعنتی ٹھہرےگا اور باہر جاتے بھی لعنتی ٹھہرےگا.خداوند اُ ن سب کا موں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور اضطراب اور پھٹکار کو تجھ پر نازل کرے گا.جب تک تو ہلاک ہو کر جلد نیست و نابود نہ ہو جائے.‘‘ ( استثنا باب ۲۸ آیت ۱۶ تا ۲۰ ) غرض بائیبل نے جو کچھ کہا تھا وہ خود اس کی اپنی اندرونی شہادت سے باطل ثابت ہو تا ہے لیکن قرآن بتا تا ہے کہ نوح ؑ کے بعد متواتر رسول آئے اور اُ ن کے دشمن اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک ہو تے رہے.یہاں تک کہ آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے مخالف بھی تباہ ہو گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم کی بات ہی سچی ہے.یعنی متواتر کئی قومیں حضرت نوح ؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہلاک ہوتی رہیں.پس بائیبل کی یہ بات صریح غلط ہے کہ نوح ؑ کی قوم پر عذاب بھیجنے کے بعد خدا تعالیٰ پچھتایا اور اُس نے عہد کیا کہ آئندہ وہ ایسا عذاب دنیا پر کبھی نازل نہیں کرے گا.اگر وہ سچا عہد تھا تو پھر اُ س نے مختلف وقتوں میں کیوں عذاب نازل کئے اور کیوں بنی نوع انسان کو ہلاک کیا.وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰيَةً وَّ اٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ اور ہم نے ابن مریم اور اُس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے اُن دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍؒ۰۰۵۱ ٹھہرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی.حل لغات.اٰوٰی.اٰوَیْتُہٗ: اَنْزَلْتُہٗ.یعنی اٰوَیْتُہٗکے معنے ہیں میں نے اُسے اپنے پاس اتارا.

Page 335

وَمِنْہُ اَللّٰھُمَّ اٰوِنِیْ اِلٰی ظِلِّ کَرَمِکَ وَعَفْوِکَ اور انہی معنوں میں یہ لفظ اس دعا میں بھی استعمال ہو اہے کہ اے اللہ ! مجھے اپنے کرم اور عفو کے سایہ میں جگہ دے.(اقربـ) اٰوَی اِلٰی مَنْزِلِہِ وَ اٰوَی مَنْزِلَہُ کے معنے ہیں نَزَلَ بِہٖ لَیْلًا اَوْ نَھَارًا (اقرب) دن کو یا رات کو اپنے گھر میں آٹھہرا.یعنی بے اطمینانی کی جگہ سے آرام کی جگہ پر آگیا.رَبْوَۃ.اَلرَّبْوَۃُ : اَلرَّابِیَۃُ.یعنی ربوۃ کے معنے اونچے ٹیلے کے ہیں.(اقرب) قَرَارٍ.قَرَارٍ قَرَّ کا مصدر ہے اور قَرَّ فِی الْمَکَانِ قَرَارً کے معنے ہیں ثَبَتَ وَ سَکَنَ کسی جگہ پر ٹھہرا.نیز قَرَارٌ کے معنے ہیں مَا قُرَّفِیْہِ جس میں ٹھہرا جائے اَلْمُسْتَقَرُّ.جائے قرار.(اقرب) تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت تکلیفیں دی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی مدد کی اور انہیں خدا تعالیٰ کے زندہ اور طاقتور ہو نے کا ایک نشان بنا دیا اور پھر اُن دونوں کو دشمنوں کے عذاب سے بچایا.اور ایک بلند زمین پر جو رہنے کے لحاظ سے بھی اچھی تھی اور جس میں پانی کے چشمے بھی جاری تھے اُن کو بسا دیا.عربی زبان میں اٰوٰی کا لفظ ہمیشہ ایسی جگہ بولا جا تا ہے جہاں احسا ن کے طور پر کسی مصیبت اور دُکھ سے بچائے جانے کا ذکر ہو جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی (الضحٰی:۷) کیا اُس نے تجھے یتیم پا کر اپنے زیر سایہ جگہ نہیں دی.تو ابھی رحم ِمادر میں ہی تھا کہ تیرا والد فوت ہو گیا.اور تُو یتیمی کی حالت میں آگیا مگر اللہ تعالیٰ نے خود تیری پرورش کے سامان پیدا فرمائے اور تجھے اپنے سایۂ عاطفت میں پناہ دی.اسی طرح سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ۠ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَ اَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَ رَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (الانفال:۲۷ ) یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم تھوڑے تھے اور زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور تم ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک کر نہ لے جائیں پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی تائید تمہارے شامل حال رکھی.اور ہر قسم کی پاک چیزوں سے تمہیں رزق بخشا تاکہ تم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرو.اس آیت میں بھی اٰوٰی کا لفظ ایسے موقعہ پر استعمال کیا گیا ہے جب کہ ایک بڑی مصیبت اور تکلیف کے بعد خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن بخشا اور انہیں اپنی تائید سے نوازا.اسی طرح قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب حضرت نوح ؑ نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ يٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا اے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا تو اُن کے بیٹے نے جواب دیا کہسَاٰوِيْۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ

Page 336

مِنَ الْمَآءِ( ہود:۴۴)یعنی میں ابھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر پناہ لے لوںگا.جو اس طوفان کی زد سے مجھے بچائے گا.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَ لَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى يُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَيْهِ اَخَاهُ قَالَ اِنِّيْۤ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ( یوسف :۷۰) یعنی جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس آئے تو انہوں نے بن یامین کو اپنے پاس جگہ دی اور اُ س سے کہا کہ میں ہی تیرا گمشدہ بھائی ہوں.پس جو کچھ یہ تجھ سے سلوک کرتے رہے ہیں اس کی وجہ سے اب تو غمگین نہ ہو.اس جگہ بھی اٰوٰی کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کا بھائی حضرت یوسف ؑ کی گمشدگی اور پھر اپنے ہی بھائیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے نہایت تکلیف سے اپنے دن گذار رہا تھا حضرت یوسف علیہ السلام نے اُسے عزت کے ساتھ اپنے پا س جگہ دی اور پھر اُسے تسلی دی کہ میں ہی تیرا بھائی ہوں اور اس طرح اُس کی سب تکلیف دُور ہو گئی.اور اُسے امن اور سکون میسر آگیا.لغت عرب کے لحاظ سے بھی جب اٰوٰی اِلٰی مَنْزِلِہٖ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ بے اطمینانی کی جگہ سے آرام کی جگہ پر آگیا.چنانچہ انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی جاتی ہے کہ اَللّٰھُمَّ آوِنِیْ اِلٰی ظِلِّ کَرَمِکَ وَعَفْوِکَ ( اقرب) یعنی اے اللہ ! مجھے اپنے کرم اور عفو کے سایہ میں پناہ دے.پس اٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍ میں اٰوٰی کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اُس نے مسیح ؑ اور اُن کی والدہ کو ایک بڑی مصیبت سے نجات دےکر ایسی جگہ پناہ دی جو بلند اور اونچی زمین پر واقع تھی اور جہاں پانی کے چشمے جاری تھے.کیونکہ اٰوٰی کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ’’ مصیبت سے نجات دےکر پناہ دی.‘‘اب اگر تاریخی طور پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ واقعہ صلیب سے پہلے حضرت مسیح ؑ اور اُن کی والدہ پر کوئی ایسا زمانہ نہیں گذرا جس میں اُن کو کوئی بڑی مصیبت پہنچی ہو.اور جس سے اُن کو پناہ دی جانی ضروری ہو.صرف صلیب کا واقعہ ایسا تھا جس نے اُن کو اور اُن کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کو سخت غم پہنچایااور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت مسیح ؑ کو صلیب سے بچالیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اب وہ کسی اور ملک کو ہجرت کر جاتے.کیونکہ ملک شام قیصر روم کے ماتحت تھا اور وہ قیصر کے باغی قرار پا چکے تھے.اگر حضرت مسیح ؑ اس ملک میں رہتے تو دوبارہ گرفتار کر لئے جاتے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دے دیا اور پھر اپنے فضل و احسان سے انہیں ایک ایسے بلند مقام پر جگہ دی جو اُن کے دشمنوں کی دست درازی سے محفوظ تھااور جہاں خوشگوار پانی کے چشمے بہتے تھے.یہ مقام جیسا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کشمیر کا علاقہ ہے جسے اعلیٰ درجہ کے چشموں اور سر سبز و شاداب مقامات اور نہایت عمدہ آب و ہوا کی وجہ سے لوگ جنّت نظیر قرار دیتے ہیں بلکہ خود کشمیر کا لفظ حضرت مسیح ؑ کے سفرِ کشمیر کی طرف

Page 337

صریح اشارہ کرتا ہے.کیونکہ کشمیری زبان میں کشمیر کو کشیر کہتے ہیں جو درحقیقت ایک عبرانی لفظ ہے جو کاف اور اشیر سے مرکب ہے کاف کے معنے مانند کے ہیں اور اشیر عبرانی زبان میں ملک شام کو کہتے ہیں.پس کشیر کے معنے تھے ’’ ملک شام کی مانند.‘‘ لیکن کثرت استعمال سے الف ساقط ہو گیا اور صرف کشیر رہ گیا.جسے بعد میں غیر قوموں کے لوگوں نے آہستہ آہستہ کشمیر بنا دیا.مگر یہ عجیب بات ہے کہ کشمیری زبان میں اب تک کشمیر کو کشیر ہی کہا جاتا اور اسی طرح لکھا جاتا ہے اور کشمیر کے رہنے والوں کو کشمیر ی لوگ کاشر کہتے ہیں اور پنجابی لوگ کشمیری کہتے ہیں.پھر صرف کشمیر کا لفظ ہی اس امر کا ثبوت نہیں کہ کسی زمانہ میں عبرانی قوم اس جگہ ضرور آباد رہ چکی ہے بلکہ تاریخی کتب سے صراحتہً ثابت ہے کہ آج سے دو ہزار سال پہلے ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور شہزادہ نبی کہلاتا تھا اُس کی قبر محلہ خان یار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کے نام سے مشہور ہے.یہ لفظ جیسا کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتب میں لکھا ہے یسوع آصف کا بگڑا ہو ا ہے.آصف عبرانی زبان میں اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی قوم کو تلاش کرنے والا ہو اور یوز کا لفظ یسوع سے بگڑا ہو اہے گویا مسیح ؑ کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ اسرائیل کے اُن دس قبائل کی تلاش اور اُن کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے نکلے تھے جن کو بخت نصر غلام بنا کر لے آیا تھااور جسے اُس نے مشرق کے علاقوں یعنی افغانستان اور کشمیر میں لاکر بسا دیا تھا.(History of Afghanistan p.39 & The Races of Afghanistan chapter 2 p.15) حضرت مسیح ؑ نے خود ایک موقعہ پر اپنے اس مشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.‘‘ ( متی باب ۱۵ آیت ۲۴) اسی طرح یوحنّا میں حضرت مسیح ؑ کا یہ قول درج ہے کہ : ’’ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے اُن کا بھی لانا ضروری ہےاور و ہ میری آواز سُنیں گی.پھر ایک ہی گّلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا.‘‘ ( یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶) پھر حضرت مسیح ؑ نے اپنے حواریوں کو ایک دفعہ تبلیغی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا.اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا‘‘ ( متی باب ۱۰ آیت ۵،۶) ان حوالہ جات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ جس طرح فلسطین کے یہود کو حضرت مسیح ؑنے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا

Page 338

اسی طرح اُن کا یہ بھی فرض تھا کہ وہ مشرقی ممالک کے یہود کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور وہ اُن کی آواز پر لبیک کہتے.کیونکہ مسیح کے نزدیک فلسطین کی بھیڑوں نے تو اُسے کم مانا تھا لیکن دوسری بھیڑوں نے اُس کی آواز پر بہت جلد جمع ہو جانا تھا.ان پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ فلسطین میں اُن کے خلاف مخالفت کی ایک عام رو چل پڑی.یہاں تک کہ حکومت کی طرف سے آپ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کیا گیا اور اس کے لئے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی مگر جس طرح اللہ تعالیٰ نے یوناہ نبی کو موت کے مونہہ سے بچالیا تھا اسی طرح حضرت مسیح ؑ کو بھی اس نے صلیبی موت سے بچا لیا اور چونکہ اس کے بعد وہ اپنے ملک میں نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ حکومت کی طرف سے جسے پھانسی کا حکم مل چکا ہو وہ اگر بچ بھی رہے تو دوبارہ تختۂ دار پر لٹکایا جاتا ہے.اس لئے انہوں نے اس ملک کو چھوڑ دیا اور باوجود اس کے کہ فلسطین سے افغانستان اور کشمیر تک کا راستہ بڑا ہولناک تھا پھر بھی وہ ہجرت کرکے ان ممالک میں آئے اور جیسا کہ قرآن کریم بتاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے کشمیر کو دارالہجرت بنایا جو ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ کا مصداق تھا.یعنی وہاں انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے امن و عافیت کے ساتھ رہائش اختیار کر لی اور پھر یہ جگہ ایسی تھی جہاں نہ صرف صاف پانی کے چشمے تھے بلکہ یہ علاقہ اپنی ٹھنڈک اور سرسبزی و شادابی میں ملک شام کی مانند تھا جہاں پہنچ کر اُن کی تمام کلفتیں دور ہوگئیں اور وہ ایک سو بیس سال کی عمر تک خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو پہنچاتے رہے (کنز العمال کتاب الفضائل، من قسم الافعال، الباب الثانی فی فضائل سائر الانبیاء)اور آخر انہوں نے یہیں وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں دفن ہوئے جہاں آج تک اُن کی قبر پائی جاتی ہے.يٰۤاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّيْ (اور ہم نے کہا) اے رسولو! پاک چیزوں میںسے کھائو اور مناسب حال عمل کرو.(اور) میں اُس کو جو تم کرتے ہو بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌؕ۰۰۵۲وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً جانتا ہوں.اور یہ تمہاری جماعت (یعنی نبیوںکی) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھے ہلاکت وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ۰۰۵۳فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا١ؕ سے بچنے کے لئے اپنی ڈھال بنائو.جس پر انہوں نے (یعنی کفار نے) شریعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جو ٹکڑا

Page 339

كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ۰۰۵۴فَذَرْهُمْ فِيْ اپنے لئے اختیار کیا اُس پر فخر کرنے لگ گئے.پس تو ان کو ایک مدت تک اپنی غفلت میں پڑا رہنے دے.غَمْرَتِهِمْ حَتّٰى حِيْنٍ۰۰۵۵اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا اُن کو مال اور بیٹوں سے مدد دینا اُن کو نیکیوں میں جلد جلد بڑھاتا ہے ؟( ایسا نہیں) مَّالٍ وَّ بَنِيْنَۙ۰۰۵۶نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرٰتِ١ؕ بَلْ لَّا بلکہ وہ( حقیقت حال کو) سمجھتے نہیں.وہ لوگ جو اپنے رب کے ڈر سے کانپتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کی يَشْعُرُوْنَ۰۰۵۷اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور جو اپنے رب کا شریک کسی کو نہیں بناتے.اور جو خدا تعالیٰ کے بخشے ہوئے مال مُّشْفِقُوْنَۙ۰۰۵۸وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ۰۰۵۹ کو (آگے مستحقین کو) دیتے رہتے ہیں اور اُن کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ انہیں ایک دن وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَۙ۰۰۶۰وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے.یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہیں اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ۰۰۶۱اُولٰٓىِٕكَ اور وہ اُن (نیکیوں )کی طرف ایک دوسرے سے يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ۰۰۶۲ آگے بڑھتے جا رہے ہیں.حلّ لُغَات.زُبُرًا.زُبُرٌ زُبْرَۃٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُ الضَّخْمَۃُ بڑا ٹکڑا.( اقرب)

Page 340

غَمْرَۃٌ.غَمْرَۃٌ کے متعلق امام راغب اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیں کہ جُعِلَ مَثَلًا لِلْجَھَالَۃِ الَّتِیْ تَغْمُرُ صَاحِبَھَا یعنی غمرۃ کا لفظ اس غفلت اور جہالت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان پر چھا جاتی ہے.( مفردات) تفسیر.اس آیت سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اس میں صرف نبیوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کا یہ قاعدہ ہے کہ اس میں بعض جگہ مخاطب تو نبیوں کو کیا جاتا ہے لیکن مراد اُن کے سب متبع ہوتے ہیں.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ( بنی اسرائیل :۲۴) کہ اگر تیرے والدین میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں ہی بڑھاپا آجائے توتُو اُن کی کسی بات پر ناپسند یدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اُف تک بھی نہ کہہ اور نہ انہیں سختی سے جھڑک بلکہ ہمیشہ اُن سے نرمی سے بات کیا کر.اب اس جگہ خطاب بظاہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مراد آپ کی اُمت کے افراد ہیں.کیونکہ آپ ؐ کے والد تو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے اور آپ کی والدہ آپ کے بلوغ سے پہلے وفات پاچکی تھیں.اسی قاعدہ کے مطابق گو یہاں رسولوں کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن مراد اُن رسولوں کے متبع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ تم حلال اور طیب اشیاء کھائو.کیونکہ اس کے نتیجہ میں تم کو نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملے گی.حقیقت یہ ہے کہ انسان کی خوراک کا اس کے اخلاق پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے اور جس قسم کے اثرات کسی غذا میں پائے جائیں ویسے ہی جسمانی یا اخلاقی تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.چونکہ دنیا میں انسان کو اپنے تمام طبعی جذبات ابھارنے اور اُن کو ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اُن کا برمحل استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکے اس لئے قرآن کریم نے اُن غذائوں کے استعمال سے منع فرما دیا ہے جن کا کوئی جسمانی اخلاقی یا رُوحانی ضرر ظاہر ہو.مثلاً اللہ تعالیٰ نے مردار.خون اور سُؤر کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے.اسی طرح ہر ایسی چیز کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو.اب ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنے اندر بہت بڑے نقصانات نہ رکھتی ہو.مردار کو ہی لے لو.اگر کوئی جانور مر جائے.تو اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ بالکل بوڑھا ہو کر مرا ہے یا کسی زہریلے جانور کے کاٹنے کی وجہ سے مرا ہے یا کسی بیماری اور زہر کے نتیجہ میں مرا ہے اور یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو اس کے گوشت کو زہریلا اور ناقابل استعمال بنا دیتی ہیں اور اگر وہ کسی سخت صدمہ سے مرا ہو مثلاً کنویں میں گر کر یا جانوروں کی باہمی لڑائی میںتب بھی اس کے خون میں زہر پیدا ہو جاتا ہے جو اس کے گوشت کو ناقابل استعمال بنا دیتا ہے اور خون تو اپنی ذات میں ہی ایسی چیز ہے جو کئی قسم کی زہریں

Page 341

اپنے اندر رکھتا ہےاور طبی لحاظ سے اس کا استعمال صحت کو تباہ کرنے والا ہے.یہی حال سؤر کے گوشت کا ہے اس کے استعمال سے بھی کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.اور پھر سؤر میں بعض اخلاقی عیوب بھی پائے جاتے ہیں جو اس کا گوشت استعمال کرنے والوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اور جو چیز غیر اللہ کے نام پر ذبح کی جائے اس کا استعمال انسان کو بے غیرت بنا دیتا ہے اور اس کے دل سے اللہ تعالیٰ کا ادب دور کر دیتا ہے.اسی طرح پینے کی چیزوں میں سے اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ وہ انسانی عقل پر پردہ ڈالتی اور اس کی ذہانت اور علم کو نقصان پہنچاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے جس قدر چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کی وجہ ان کے جسمانی یا اخلاقی یا روحانی مضرات ہیں اور صرف ایسی ہی اشیاء کا کھانا جائز قرار دیا ہے جو انسان کے جسمانی اخلاقی اور روحانی ترقی کا موجب ہوں اور پھر حلال اشیا ء میں سے بھی طیبات کے استعمال پر زیادہ زور دیا ہے یعنی ایسی اشیاء پر جو انسان کی صحت اور اُس کی طبیعت کے مطابق ہوں اور جن کے استعمال سے اُسے کوئی ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ نہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام نے اخلاق پر خوراک کے اثر کو تسلیم کیا ہے اور اس کو خاص قیود اور شرائط سے وابستہ کرکے اخلاق کے حصول کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے.اسلام دنیا کے سامنے یہ اصل پیش کرتا ہے کہ انسانی رُوح جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی.پس وہ غذا پر بھی ایک حد تک پابندی عائد کرتا ہے تاکہ معدہ کے ذریعہ انسانی دل اور دماغ پر بد اثرات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ ہو کر نہ رہ جائے.وہ کہتا ہے کہ اگر تم حلال کھائو گے بلکہ حلال میں سے بھی طیبات کا استعمال کرو گے تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تمہیں عمل صالح کی توفیق ملے گی.جس طرح آج کل کمیونسٹوں سے جہاں بھی کسی کو بات کرنے کا موقعہ ملے وہ کہتے ہیں کہ اور مسائل کو جانے دیجئیے سارا جھگڑا ہی پیٹ کا ہے.اسی طرح قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ تمہارا پیٹ ہی اصل چیز ہے مگر انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ جس نے پیٹ کا مسئلہ حل کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ کو ہر قسم کی گندی چیزوں سے بچالیا وہ کامیاب ہو گیا جس نے حلال اور حرام میں ہمیشہ امتیاز کیا اور جس نے طیبات کا استعمال ہمیشہ اپنا معمول رکھا وہی ہے جسے عمل صالح کی توفیق ملتی ہے یعنی نماز کی بھی اُسے ہی توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے اور روزہ بھی اُسی کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہے اور حج بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہےاور زکوٰۃ کی بھی اسی کو توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے ، غرض کمیونزم تو یہ کہتی ہے جس نے پیٹ بھرا وہی ہمار ا لیڈر اور نجات دہندہ ہے اور قرآن کریم کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ میں حلال ڈالا وہی ہمارا بندہ ہے اوراس کے نتیجہ میں اس کے لئے نیکیوں کے راستے کھلتے ہیں.جب تک و ہ اس امر کی پرواہ نہیں کرتا کہ اُس کا رزق حلال ذرائع سے کمایا ہو ا ہے یا حرام ذرائع سے اس وقت تک نہ

Page 342

اُس کا لَا اِلَہَ اِلَّااللہُ کہنا اُسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ اسلام کے کسی فرقہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرکے وہ خدا تعالیٰ کو خوش کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ اُسی وقت خوش ہوگا جب وہ اپنے پیٹ میں حلا ل روزی ڈالے گا.اگر وہ دھوکا بازی کے ساتھ روپیہ کماتا ہے اور حرام روٹی اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کا یہ سمجھنا کہ اس کے نتیجہ میں اُسے نیک اعمال کی بھی توفیق مل جائےگی بالکل غلط ہے لیکن اگر وہ حلال روزی کھائے گا تو اس کے نتیجہ میں اسے نیک اعمال کی بھی توفیق مل جائے گی.یعنی اُس کے بعد اگر وہ سنوار کر نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے.اگر وہ احتیاط کے ساتھ روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اگر وہ شرائط کےمطابق زکوۃ دینا چاہے تو دے سکتا ہےیہ نہیں کہ آپ ہی آپ اُس سے یہ اعمال صادر ہو نے شروع ہو جائیں گے ، آپ ہی آپ کوئی عمل ظاہر نہیں ہو سکتا صرف اُن کے لئے ایک رستہ کھل جاتا ہے.پس اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر ایک ہندو حلال روزی کھائےگا تو وہ نماز پڑھنے لگ جائےگا.یا ایک سکھ حلال روزی کھائےگا تو وہ ذکرالٰہی کرنے لگ جائےگا.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان نیکیوں کا راستہ اُس کے لئے کھل جائےگا اور اگر وہ نماز اور روزہ اور ذکر الٰہی کو اختیار کرنا چاہے گا تو ان نیکیوں کی اُسے توفیق مل جائےگی لیکن اس کے بغیر وہ عمل صالح کی اُمید رکھے تو اُس کی یہ اُمید پوری نہیں ہو سکتی.دنیا میں لوگ عام طورپرپوچھا کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے کس طرح محبت کریں.نیکیوں میں کس طرح ترقی کریں.گناہوں اور مختلف قسم کی بدیوں سے کس طرح بچیں.اپنے مقاصد میں کامیابی کس طرح حاصل کریں.اللہ تعالیٰ ان سب سوالات کا یہ جواب دیتا ہے کہكُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا.اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عمل صالح تم سے صادر ہوں تو تم حلال اور طیب چیزیں استعمال کرو.اگر تم حرام خوری کرو گے تو تم میں دھوکا بھی ہوگا.فریب بھی ہوگا.دغا بازی بھی ہوگی.لالچ بھی ہوگا.معاملات میں خرابی بھی ہوگی.اس کے بعد یہ امید رکھنا کہ تم نیکیوں میں ترقی کرنے لگ جائو گے اور خدا تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میںپیدا ہو جائےگی محض ایک خام خیالی ہے.تمہیں دو میں سے ایک چیز بہر حال چھوڑنی پڑے گی.یا تو اعمال صالحہ چھوڑنے پڑیں گے اور یا حرام خوری چھوڑنی پڑے گی.جو شخص ان دونو ں کو اکٹھا کرنا چاہےگا وہ ہمیشہ ناکام ہوگا.کامیاب وہی ہوگا جو حرام خوری کوچھوڑ دے اور حلال اور طیب رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے.پھر فرماتا ہے وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ.یعنی دیکھو یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں.پس مجھے ہلاکت سے بچنے کے لئے اپنی ڈھال بنا لو.اس جگہ اُمَّۃٌ سے مراد انبیاء کے ماننے والے نہیں بلکہ خود انبیاء مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُمَّةً وَّاحِدَةً کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیموں پر غور کرکے دیکھ لو سب کے حالات آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان کے دعوے بھی ملتے جلتے

Page 343

ہیں جس طرح نوح ؑ نے توحید کا مسئلہ پیش کیا تھا اسی طرح نوح ؑ کے بعد جس قدر نبی آئے انہوں نے بھی یہی تعلیم دی کہ خدا ایک ہے اس کے بعد پھر اور رسول آئے اور وہ بھی یہی تعلیم دیتے رہے اور جو منکر تھے وہ ہلاک ہوتے رہے.پھر موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ آئے اور انہوں نے بھی ایسی ہی تعلیم دی.پھر مریم کے بیٹے مسیح ؑ آئے اور اُن کو بھی خدا تعالیٰ نے دنیا کے لئے ایک نشان قرار دیا اور دشمنوں سے بچا کر ایک محفوظ جگہ پہنچا دیا.پس معلوم ہوا کہ تو حیدِ باری تعالیٰ مذہب کا اعلیٰ جزو ہے.اور سب نبی اس کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور یہ تعلیم دینے والے لوگ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے ہیں.پھر مسیح ؑ کے بعد جو اُن کی اُمت نے یہ بیٹے کا مسئلہ نکالا ہے یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس اختلاف کی وجہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا.یعنی اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب نبی وفات پاگئے اور اُن کی تعلیم پر ایک لمبا زمانہ گذر گیا تو اُن کے ماننے والوں نے ہی غفلت میں مبتلا ہو کر اُن کی تعلیم کو کوئی اور شکل دے دی اور نئے نئے مذہب بن گئےاور چونکہ ہر ایک مذہب میں تھوڑی تھوڑی سچائیاں موجود ہیں اُن کے ماننے والے اُن سچائیوں کو پیش کرکے خوش ہیں کہ دیکھو ہم سچے ہیں.حالانکہ جب سچے مذہب کے انہوں نے ٹکڑے کئے تو ضرور تھا کہ اُن میں سچائی بھی ہو پس اُس سچائی کا وجود اُن کے سچا ہونے کی علامت نہیں.سچا وہ ہے جس کے پا س کامل تعلیم ہو.پھر فرماتا ہے اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَ.نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ.یعنی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو جو مال ملا ہے اور انہیں اولاد دی گئی ہے وہ ان کی عزت اور وجاہت اور اُن کے درجہ کی بلندی کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ یہی چیزیں ان کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں.پھر فرماتا ہے ان لوگوں کے مقابلہ میں مومنوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے خوف سے ہمیشہ لرزاں رہتے ہیں اور اُس کے نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار نہیں دیتے اور ہر قسم کی نیکی کر کے بھی اپنے آپ کو قصور وار ہی سمجھتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ قرار دیتے ہیں.یعنی ہر قسم کی نیکیاں بجا لانے کے باوجود اُن میں کبر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اور بھی انکسار پیدا ہو جاتا ہے اور اُٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا خوف اُن کے دلوں پر مستولی رہتا ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشار ہ فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام کے مقابلہ میں اسی فریق کا انجام اچھا ہوگا جس میں یہ چار خوبیاں پائی جائیں گی.اوّل خشیت اللہ دوم ایمان باٰیات اللہ.سوم شرک سے اجتناب اور چہارم خدمتِ دین اور پھر یہ خوف کہ ہم نے کچھ نہیں کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا

Page 344

وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌکا یہ مطلب ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے.آپ نے فرمایا نہیں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان نیکی کرے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ سے ڈرتا بھی رہے (فتح البیان زیر آیت ھذا) اس کے بعد فرماتا ہے کہ یہی لوگ ہیں جو دوڑ کر نیکیوں میں حصّہ لیتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں.گویا مسابقت کی روح اُن میں پائی جاتی ہے.یہ ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جا تا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ترقی کے میدان میں دوسروں سے آگے نکل جائے.طالب علم اسی جذبہ کے ماتحت محنت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں.بچے اسی جذبہ کے ماتحت کھیلوں میں امتیازی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں.تاجر.صناع.زمیندار.ڈاکٹر.انجنیئر.موجد اور سائنسدان اسی جذبہ کے ماتحت اپنی تجارت اور صنعت اور زراعت اور طب اور انجنیئرنگ اور سائینس او ر ایجادات کے سلسلہ میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں.قومیں اور حکومتیں بھی اسی جذبہ کے ماتحت اپنے اندر زیادہ سے زیادہ طاقت پیدا کر تیں اور دوسروں سے ایک بلند اور نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں بلکہ اور تو اور حیوانوں میں بھی یہ جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ بھی مسابقت کی رُوح اپنے اندر رکھتے ہیں.اگر دو گھوڑے آگے پیچھے آرہے ہوں تو فوراً اگلا گھوڑا پچھلے گھوڑے کے پائوں کی آہٹ پا کر اپنے قدم تیز کر دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرا اُ س سے آگے نہ نکل جائے مگر اس کو دوڑتا دیکھ کر پچھلا گھوڑا بھی اپنے قدم تیز کر دیتا ہے.پھر بسا اوقات پچھلا گھوڑا آگے نکل جا تا ہے اور اگلا گھوڑا پیچھے رہ جاتا ہے.غرض یہ ایک طبعی اور فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جا تا ہے.اسلام نے اسی طبعی جذبہ کی طرف مومنوں کو ان آیات میں توجہ دلائی ہے اور بتا یا ہے کہ تمہارا کام ہر میدان میں دوسروں سے آگے نکلنا ہے اگر تم معمار ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی قوم کا معمار تم سے آگے نہ بڑھے.اگر تم صناع ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی قوم کا صناع تم سے آگے نہ بڑھے.اگر تم موجد ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی قوم کا موجد تم سے آگے نہ نکل سکے.اگر تم ڈاکٹر یا طبیب ہوتو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی قوم کا ڈاکٹر اور طبیب تم سے اس فن میں آگے نہ نکلے.اسی طرح تمہیں دیانت اور امانت میں اتنا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا چاہیے کہ کوئی قوم اس نیکی میں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے معلّم اور استاد بن جائو گے اور لوگ تمہارے پیچھے چلنے پر مجبور ہو ںگے.مجھے یاد ہے مسٹر سٹرک لینڈ کواپریٹو سوسائٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے.وہ ایک دفعہ شملہ میں مجھے ملے اور

Page 345

کہنے لگے کہ آپ کی جماعت میں جو چندہ وصول کرنے کا کام کرتے ہیں وہ کس طرح دیانت داری سے کا م کرتے ہیں میں تو جسے بھی مقرر کرتا ہوں وہ تھوڑے دنوں میں ہی خائن ثابت ہو جاتا ہے اور مجھے اُسے نکالنا پڑتا ہے.میں نے کہا ہمارے ہاں لوگ اس لئے بد دیانتی نہیں کرتے کہ اُن کا ایمان ہے کہ بد دیانتی انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے.وہ اُس وقت انگلستان چھٹی پر جا رہے تھے.کہنے لگے اگر میں واپس آیا تو میں حکومت سے درخواست کروںگا کہ کواپریٹو سو سائٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کے لئے امامِ جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دئیے جایا کریں تاکہ وہ اُن میں دیانت کی روح پیدا کریں.ہماری جماعت کی برتری کا یہ احساس اُس انگریز رجسٹرار کے دل میں اسی لئے پیدا ہوا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہمارا ہر فرد نیکی میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرتاہے اور وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اُس سے آگے نہ نکل جائے.اگر یہ جذبۂ مسابقت قومی رنگ میں پیدا ہو جائے اور ہر فرد نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو دنیا کے تمام جھگڑے اور فسادات مٹ جائیں اور امن اور صلح کا دور دورہ ہو جائے.میں نے کئی دفعہ اپنی جماعت کے مخالفین کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا کوئی خوبی کی بات نہیں اگر تم ہماری جماعت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح مقابلہ کرو کہ اگر ہم نے بیرونی ممالک میں سو جگہ اپنے تبلیغی مشن قائم کئے ہو ئے ہیں تو تم دو سو جگہ اسلام کے تبلیغی مشن قائم کر دو.اگر ہم پانچ یا دس ہزار آدمی سالانہ غیر مذاہب میں سے اسلام میں شامل کر تے ہیں تو تم بیس ہزار آدمی سالانہ غیر مذاہب میں سے اسلام میں شامل کرو.اگر ہمارے اندر دو ہزار واقفین زندگی پائے جاتے ہیں تو تم اپنے اندر چار ہزارواقفینِ زندگی پیدا کرکے دکھا دواور ہم سے بڑھ کر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پھیلانے کی کوشش کرو.مگر اس مقابلہ کی طرف کوئی نہیں آتا.گالیاں دےکر اور جھوٹے الزامات لگا کر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں غلبہ حاصل ہو جائے مگر اسلام ایسے گندے مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا.اسلام کہتا ہے کہ اگر تم نے مقابلہ ہی کرنا ہے تو نیکی اور تقویٰ میں کرو.خدا تعالیٰ کی محبت اور تعلق باللہ میں کرو.اسلام کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے پھیلانے میں کرو.دنیوی ترقی کی تدابیر میں کرو.اور گندے مقابلوں میں اپنی طاقتیں خرچ نہ کرو.

Page 346

وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ اور ہم کسی جان کے ذمہ کوئی کام نہیں لگاتے مگر اُس کی طاقت کے مطابق.اور ہمارے پاس ایک اعمال نامہ ہے جو بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۰۰۶۳بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ سچی سچی بات کہتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائےگا لیکن اُن کے دل تو اس تعلیم کے متعلق غفلت میں پڑے ہوئے هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَ۰۰۶۴ ہیں اور ان کے سوا اُن کے اور بھی بہت سے( خراب) اعمال ہیں جو وہ کر رہے ہیں.حلّ لُغَات.اَلْحَقُّ.الحقُّ حَقَّ کا مصدر ہے اور حَقَّہٗ حَقًّا کے معنے ہیں غَلَبَہٗ عَلَی الْحَقِّ حق کی وجہ سے اُس پر غالب آیا.وَالْاَمْرَ: اَثْبَتَہٗ وَاَوْجَبَہٗ کسی امر کو ثابت کیا اور واجب کیا.کَانَ عَلٰی یَقِیْنٍ مِّنْہُ کسی بات پر یقین سے قائم ہوا.وَالْحَقُّ: ضِدُّ الْبَاطِلِ اور حق کے معنے سچ کے بھی ہیں.نیز اس کے معنے اَلْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ کے بھی ہیں یعنی فیصلہ شدہ بات.اسی طرح اس کے معنے اَلْمَوْجُوْدُ الثَّابِتُ کے بھی ہیں.یعنی ایسی چیز جو مضبوط اور قائم رہنے والی ہو اور اس کے معنے عدل.مال.ملکیت.یقین.موت اور دانائی کے بھی ہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ہم نے یہ تو کہا ہے کہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو لیکن ہم انسان سے اتنی ہی امید کرتے ہیں جتنی اُس میں طاقت ہو تی ہے.یہ نہیں کہ کسی سے اُس کی طاقت سے زیادہ کی امید کی جائے یا اس کام کے نہ کرنے پر جو اسی کی طاقت سے زیادہ ہو اُسے سزا دی جائے.اسلام لوگوں کی طبائع کے اختلاف اور اُن کی طاقتوں کی کمی بیشی کو ملحوظ رکھتا ہے.مثلاً نماز کو ہی لے لو.یہ اسلام کے بنیادی مسائل میں شامل ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کو پانچ وقت مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنی چاہیے.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ ساری زمین ہی خدا تعالیٰ کی مسجد ہے.اگر کسی جگہ مسجد موجود نہیں تو تم نمازکو چھوڑ نہیں سکتے بلکہ جہاں بھی چاہو صاف ستھری زمین پر نماز پڑھ سکتے ہو پھر اگر تم بیمار یا مسافر ہو تو بغیر جماعت کے بھی نماز پڑھ سکتے ہو اسی طرح اسلام نے نماز کے لئے وضو کی شرط رکھی ہے مگر ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا پانی کا استعمال طبی نقطہ نگاہ سے انسان کے لئے مضر ہو تو وہ تیمم کر لے.کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے.بیٹھنا بھی دو بھر ہو تو لیٹ کر پڑھ لے.لیٹ کر پڑھنا بھی تکلیف دہ ہو تو اشارہ سے پڑھ لے.یہی حال روزہ کا ہے.اسلام نے

Page 347

رمضان کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو تو بیماری سے اچھا ہونے پر یا سفر سے واپس آنے پر روزہ رکھ لو.جہاد پر اسلام نے بڑا زور دیا ہے.مگر ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ وہ بیمار اور کمزور اور لولے لنگڑے جو جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن اُن کے دل اس شوق میں تڑپ رہے ہوتے ہیں کہ کاش اُن میں بھی طاقت ہوتی اور وہ بھی جہاد میں شریک ہو تے اللہ تعالیٰ کی نگا ہ میں ویسے ہی جہاد میں شریک سمجھے جاتے ہیں جیسے وہ تندرست لوگ جو اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کر رہے ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ (النساء :۹۶)یعنی مومنوں میں سے جو لوگ خدمت دین نہیں کررہے وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت اور اُس کے کلمہ کے اعلاء میں مشغول رہتے ہیں.ہا ں جو لوگ خدمت دین سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ اُن کو کوئی تکلیف لاحق ہے تو اُن کے متعلق یہ حکم نہیں.اللہ تعالیٰ اُن کی اس معذوری کو مدّنظر رکھے گا اور انہیں اپنے قرب اور ثواب سے محروم نہیں کرے گا.اسی حقیقت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بھی بیان کیا ہے کہ وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ (الاعراف :۹) یعنی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا دی جائےگی تو اُن تمام امور کو ملحوظ رکھا جا ئےگا جو انسان کی ترقی میں حائل رہے اور دیکھا جائےگا کہ کن امور کے بجا لانے میں یہ طبعی طور پر معذور تھا اور کن امور کو اس نے غفلت سے ترک کیا.غرض قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ اُس میں فطرت ِ انسانی کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور کوئی ایسی تعلیم نہیں دی گئی جس پر عمل کرنا طبائع پر گراں ہو بلکہ اُس میں ایسی سہولتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے ہر فطرت اور طبیعت کا انسان اس کے احکام پر عمل کر سکتا ہے.جس طرح اس مادی عالم میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی اشیاء پیدا کر دی ہیں اور کسی فطرت اور طبیعت کا انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری سہولت کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیزپیدا نہیں کی.اگر اس کے دانت سخت چیزوں کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو سخت چیزیں موجود ہیں اور اگر اُس کے دانت کمزور ہیں اور وہ نرم چیز وں کا محتاج ہے تو نر م نرم چیزوں کی بھی کمی نہیں.اسی طرح رُوحانی عالم میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے لوگوں کی ترقی کی تعلیم پیش کردی ہے اور ساتھ ہی ایسی سہولتیں بھی رکھی ہیں جن کی وجہ سے کوئی انسان دیانت داری کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے لئے اسلامی شریعت ناقابلِ عمل ہے.کٹھ حجتی اور بہانہ سازی ایک دوسری چیز ہے لیکن جہاں تک احکامِ شریعت کا سوال ہے اُن میں ایسی لچک موجود ہے کہ ہر طبیعت کا انسان بڑی آسانی سے ان پر عمل کر سکتا ہے.

Page 348

اس کے مقابلہ میں عیسائیت دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتی ہے کہ ’’ مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا.‘‘ (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳) گویا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا کے گلے میں لعنت کا ایک طوق ڈالا تھا جسے مسیح نے اُن کے گلے سے اُتار ڈالا.اور انہیں شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے نجات دے دی.مگر یہ خدا تعالیٰ کی قدوسیت اور اُس کی سبوحیت پر بد ترین قسم کا الزام ہے کہ اُس نے آنکھیں بند کر کے موسیٰ ؑ کے ذریعے ایسے احکام بھجوا دئیے جن پر لوگوں کے لئے عمل ناممکن تھا.اسلام اس گندے عقیدہ کو رد کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ شریعت میں ہمیشہ وہی احکام نازل کئے جاتے ہیں جن پر دنیا عمل کر سکتی ہے.پس شریعت لعنت نہیں بلکہ شریعت سے انحراف ایک لعنت ہے جس سے ہرانسان کو بچنے کی کوشش کرنی چاہیے.پھر فرماتا ہےوَ لَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ.مفسرین لکھتے ہیں کہ اس جگہ کتاب سے مراد وہ نامۂ اعمال ہے جو ملائکہ لکھتے رہتے ہیں اور چونکہ ملائکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اپنی طرف منسوب کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس کتاب سے لوحِ محفوظ مراد ہے اور بعض نے وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ سے قرآن کریم مراد لیا ہے.(قرطبی زیر آیت ھذا)نامۂ اعمال کی صورت میں تو اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ قیامت کے دن ہم ایسے امتیازی طریقوں کے ساتھ فیصلہ کریں گے کہ جتنا جتنا کوئی شخص انعام کا حق دار ہوگا اتنا انعام اُس کو مل جائے گا اور کوئی وجہ جو کسی کے غیر مجرم بنانے کی ہو اُسے نظر انداز نہیں کیا جائےگا.لیکن چونکہ اس سے پہلے اسلامی شریعت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس میں کوئی حکم ایسا نہیں جو ناقابل عمل ہو بلکہ ہر طبیعت اور فطرت کا انسان اس پر عمل کر سکتا ہے اس لئے وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ سے درحقیت قرآن کریم ہی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں اسلامی شریعت کی بعض اور خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے.مفردات ِ امام راغب ؒ جو قرآنی لغت کی ایک مشہور کتاب ہے اُس میں حق کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے ایک معنے اُس چیز کے بھی ہوتے ہیں جو حکمت کے مطابق ہو.اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فِعْلُ اللہِ تَعَالٰی کُلُّہٗ حَقٌّ یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورج اور چاند کی پیدا ئش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ (یونس :۶) اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے.یعنی ان چیزوں کی پیدائش بلاوجہ نہیں کی گئی بلکہ ان میں بڑی بھاری حکمتیں رکھی گئی ہیں.

Page 349

پھر وہ لکھتے ہیں کہ حق کا لفظ اکمال شریعت کے معنوں میں بھی استعمال ہو تا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ( الصّف :۱۰)یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے خواہ مشرک لوگ دین کے اس غلبہ کو کتنا ہی نا پسند کریں.اس جگہ اسلام کو دین الحق انہی معنوں میں قرار دیا گیا ہے کہ یہ دین باقی تما م ادیان پر اپنی کامل شریعت کے لحاظ سے غلبہ اور تفوق رکھتا ہے.ان معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے وَ لَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ ِّ کے ایک معنے یہ ہوںگے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور دوسرے معنے یہ ہوںگے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو تما م شریعتوں پر اپنے کامل ہونے کے لحاظ سے افضلیت رکھتی ہے اور یہ دونوں خوبیاں ایسی ہیں جو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتیں.جہاں تک حکمت اور فلسفہ کا سوال ہے اس آیت سے یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ اسلام کے سارے قانون کوئی نہ کوئی خوبی اپنے اندر رکھتے ہیں.وہ صرف حکم کے طورپر نہیں دئیے گئے بلکہ انسانی مقاصد اور ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے دئیے گئے ہیں.دنیا میں بعض دفعہ ایک آقا اپنے نوکر کو حکم دے دیتا ہے کہ یوں کرو.مگر اس میں کوئی حکمت نہیں ہوتی یا سزا کے طورپر وہ بعض احکام دے دیتا ہے مگر ان کے پس پردہ بھی کوئی حکمت کام نہیں کر رہی ہوتی.مثلاً بعض لوگ جب کسی کو سزا دینا چاہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائو.اب دیوار کی طرف منہ کر انے میں کوئی حکمت نہیں ہوتی محض دوسرے کی تذلیل مدّنظر ہوتی ہے لیکن اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میںجس قدراحکام دئیے گئے ہیں اُن میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے کوئی نہ کوئی غرض ہے جس کو مدّنظر رکھتے ہوئے وہ احکام دئیے گئے ہیں.کوئی حکم نہیں دیا گیا مگر اسی صورت میں کہ اُس کا فائدہ بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور کسی بات سے نہیں روکا گیا مگر اُسی صورت میں کہ اُس کا نقصا ن بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور یہ اسلامی شریعت کی باقی تما م شریعتوں پر ایک امتیازی فوقیت ہے باقی شریعتوںکے احکام کسی حکمت اور فلسفہ کے ماتحت نہیں.مگراسلام نے کوئی حکم بھی ایسا نہیں دیا جس میں کوئی حکمت اور غرض مدّنظر نہ ہو.مثلاً نماز کو ہی لے لو.اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو اُس کے ساتھ ہی اُس نے نماز کا فائدہ بھی بیان کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ (العنکبوت :۴۶)نماز انسان کو بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.یعنی نماز میں ایسی تعلیمیں دی گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ اور بلند مقاصد انسان کے سامنے رکھے گئے ہیں کہ اگر انسان صحیح طورپر نماز پڑھے تو یقیناً وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائے گا.فَاحِشَۃٌ کے معنے ہوتے ہیں مَایَشْتَدُّ قُبْحُہٗ

Page 350

مِنَ الذُّنُوْبِ (اقرب)ہر وہ غلطی جو بہت ہی معیوب ہو اور جس کا عیب اتنا ظاہر ہو کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھانے لگ جائیں اور کہنے لگیں کہ دیکھو یہ کتنی بری حرکت ہے اور مُنْکَرٌ کے معنے ہوتے ہیں مَالَیْسَ فَیْہِ رِضَی اللہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْفِعْلِ ( اقرب) ہر ایسا قول یا فعل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو.یہ نماز کا فائدہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا.اب اگر ہم اور احکام کو جانے دیں اور صرف اسی حکم پر غور کریں.تو اس حکم میں ہی ہمیں اسلام کی فضیلت نہایت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے.اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں اگر کوئی شخص سچے دل سے نمازیں پڑھے تو وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائےگا.ہر مسلمان دن رات میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے اور ہر نماز میں کچھ فرض ہوتے ہیں اور کچھ سنتیں ہوتی ہیں اور کچھ نوافل ہوتے ہیں.اور پھر تہجد اور اشراق وغیرہ کی بھی نمازیں ہیں.ان سب نمازوں میں وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے اور نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.یعنی اے خدا ! میر ی زندگی میں بعض کام بُرے ہوںگے اور بعض اچھے ہوںگے بعض ایسے ہوںگے جو پسندیدہ ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مطابق ہوںگے اور بعض ایسے ہوںگے جو نا پسندیدہ ہوںگے اور اخلاقی معیار سے گِرے ہوئے ہوںگے.الٰہی میری دُعا تجھ سے یہ ہے کہ تو ہمیشہ میرا قدم ایسے راستہ پر رکھیئو جو صراط مستقیم ہو جس پر چلنے کے نتیجہ میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو.کسی قسم کی تعدی نہ ہو.کسی قسم کی بے حیائی نہ ہو اور جس پر چل کر میں ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رہوں.اب جو شخص دن رات اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا رہےگا اور دُعا بھی سچے دل سے کرے گا وہ برائیوں اور گناہوں میں ملوث ہی کس طرح ہو سکتا ہے.اگر اس کے سامنے شہوات کاسوال آئےگا تو فوراً اُس کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ میں سیدھے راستہ پر چلوں یعنی شہوات کو پورا کرنے کے جو حلال طریق اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُن کو اختیار کروں.ناجائز اور حرام راستہ اختیار نہ کروں.کھانے پینے کا سوال آئےگا تو فوراً اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آجائےگا کہ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ( الاعراف :۳۲)کھائو اور پیو مگر اسراف سے کام نہ لو.معاملات کی طرف آئےگا تو فوراً اس کے سامنے یہ بات آجائےگی کہ میں نے دھوکا باز ی نہیں کرنی.دغا اور فریب سے کام نہیں لینا کیونکہ ایسا کرنا ظلم ہے.غرض جو شخص یہ سمجھ کر دُعا کر ےگا کہ میں نماز پڑھ رہاہوں تمسخر نہیں کررہا.ہنسی نہیں کر رہا.دین سے تلعب نہیں کر رہا وہ کھانے پینے کے معاملات میں دوستوں کے تعلقات میں.بیوی بچوں سے سلوک کرنے میں.شہریت کے حقوق اور فرائض ادا کرنے میں.غیر ممالک اور اقوام سے تعلقات رکھنے میں ہمیشہ یہ غور کرتا رہےگا کہ میں وہ راستہ اختیار کروں جو سیدھا ہے اور جس میں کسی قسم کی کجی نہیں پائی جاتی.آخر جو شخص خدا سے کچھ مانگے گا وہ خود اُس کے مطابق عمل کرنے کے لئے کیوں تیار نہیں ہو گا؟ کیا

Page 351

کوئی شخص کبھی یہ دُعا کیا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے ہیضہ ہو جائے ؟ وہ کیوں یہ دعا نہیں کرتا اس لئے کہ وہ ہیضہ کو بُرا سمجھتا ہے.اگر وہ اچھا سمجھتا تو اللہ تعالیٰ سے ضرور مانگتا.پس وہی چیز انسان اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جسے وہ اپنے لئے اچھا سمجھتا ہےاور جب وہ کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو لازمًا اُس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کرےگا.پھر یہیں تک بس نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ الٰہی مجھے سیدھے راستے پر چلا بلکہ وہ ساتھ ہی یہ دُعا بھی کرتا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.الٰہی میر ی یہی خواہش نہیں کہ تُو مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما.بلکہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ تو مجھے اُن لوگوں کے راستہ پر چلا جو تیرے دربار میں خاص طور پر مقرب ہیں.میں عام لوگوں کے راستہ پرنہیں چلنا چاہتا.میں درمیانی درجہ کے لوگوں کے راستہ پر بھی نہیں چلنا چاہتا بلکہ میں اُن اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش رکھتا ہوں جنہوں نے تجھ سے انعامات حاصل کئے اور جو منعم علیہ گروہ میں شامل ہوئے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ منعم علیہ گروہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.اُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ( النساء :۷۰)یعنی منعم علیہ گروہ وہ ہے جس میں نبی صدیق شہید اور صالح شامل ہیں.پس یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے بدی سے بچا.یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے نیکی کی توفیق عطا فرما بلکہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ والی نیکی دے.یا اللہ مجھے اُسی طرح گناہ سے بچا جس طرح تُو نے نوح ؑ اور یعقوب ؑ اور یوسف ؑ اور دوسرے انبیاء کو بچا یا.یہ کتنا بلند مقام ہے جس کو حاصل کرنے کی دُعا سکھائی گئی ہے اور کتنا جوش ہے جو اس میں پایا جاتا ہے.اگر کوئی شخص سچے دل سے نماز پڑھتا ہے تو لازمی طور پر وہ اس مقام کے حصول کے لئے کچھ تو جدوجہد کرےگا اور جب وہ جدو جہد کرےگا تو لازمی طورپر وہ اُن دوسروں کی نسبت جن کے دلوں میں یہ جوش نہیں پایا جاتا بہتر حالت میں ہوگااور اس دُعا کے نتیجہ میں وہ ہر قسم کی بدیوں سے بچ جائےگا اور ہر قسم کی نیکیوں کو حاصل کر لے گا.پھر ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کیا کریں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اے خدا ’’ ہم‘‘ تیری عبادت کرتے ہیں اور اے خدا ’’ہم‘‘ تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں.اسی طرح اگلی آیت میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.اے خدا ’’ہم‘‘ کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما.اب نماز میں دُعا مانگنے والا شخص تو ایک ہوتا ہے مگر وہ بار بار’’ ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے.وہ کہتا ہے اے خدا ’’ ہم‘‘ تیری عبادت کرتے ہیں ’’ہم‘‘ تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں.’’ہم‘‘ تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ’’ہم‘ ‘ کو سیدھا راستہ دکھا.ہمیں غور کر نا چاہیے کہ اس سے کیا مراد ہے اور کیوں ہمیں بار بار’’ ہم‘‘ کالفظ استعمال کرنے کی تاکید کی گئی

Page 352

ہے.اگر ہم سوچیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑےگا کہ یا تو اس سے ساری دنیا کے لوگ مراد ہیں یا سارے مسلمان مراد ہیں یا سارے شہر والے مراد ہیں یا سارے محلہ والے مراد ہیں یا اپنی حکومت کے سب افراد مراد ہیں.بہر حال جب ایک شخص نماز میں’’ ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی دعامیں اُن لوگوں کو بھی شریک کرتا ہے جو اس کے علاوہ ہیں.وہ نماز میں بڑے جوش اور درد سے یہ دُعا کر رہا ہوتا ہے کہ الٰہی ہماری مدد کر.الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا.الٰہی ہمیں بدیوں سے بچا.الٰہی ہمیں اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی توفیق عطا فرما اور اُس کے پاس کھڑا ہوا ایک دوسرا شخص یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ نماز جلدی ختم ہو تو میں گھر جائوں.میں نے جانوروں کو چارہ ڈالنا ہے.یا میری بیوی بیمار ہے اُس کے لئے ڈاکٹر سے دوائی لانی ہے.وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی وجہ کسی اور طرف ہوتی ہے اگر اُس کے ساتھ کھڑا ہونے والا مومن بندہ اپنی دعا میں اُسے بھی شریک کر رہا ہوتا ہے جسے نماز کا کچھ بھی خیال نہیں ہوتا جسے نماز میں بھی خدا یاد نہیں آتا.اور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ تواسے بھی ہدایت دے یا اللہ تو اس کے سینہ کو بھی نیکی کے لئے کھو ل دے.پھر جب ہم نماز میں ’’ہم ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں ہمارے محلہ والے بھی شریک ہوتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ محلہ والوں میں سے چند آدمی تو نماز کے لئے مسجد میں آجاتے ہیں لیکن باقی آدمی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور پھر اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں کوئی شخص قسم کھا کر کہہ رہا ہو تا ہے کہ میں نے چار آنے کو یہ چیز لی تھی جو سوا چار آنے کو فروخت کر رہا ہوں اور صرف ایک پیسہ نفع لے رہا ہوں.حالانکہ اُس نے وہ چیز صرف ڈیڑھ آنہ میں لی ہوتی ہے اور اُس کا یہ کہنا کہ میں نے چار آنہ کو یہ چیز لی تھی محض جھوٹ ہوتا ہے.کوئی شخص کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص گھی ہے حالانکہ اُس گھی میں اُس نے خود چربی ملائی ہوتی ہے.غرض اُس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی خدا تعالیٰ کی خشیت نہیں ہوتی مگر ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ہیں تو کہتے ہیںاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ خدا یا ہمارے محلہ کے وہ آدمی جو غلطی سے نماز میں نہیں آئے اور جو جھوٹ بول بول کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں تو اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں سیدھے راستہ پر چلا.اگر کوئی شخص اس طرح غور کرکے نماز پڑھے تو اس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کس قدر بڑھ جائےگی.اُن کی اصلاح کا جذبہ اُس کے دل میں کس قدر ترقی کر جائےگا اور وہ کس قدر تڑپ رکھے گا کہ سب لوگ راہ راست پر آجائیں اور ہر قسم کی بدیوں اور گناہوں سے محفوظ ہو جائیں پھر جو شخص اپنے ہمسایوں اپنے محلہ والوں اور اپنے شہر والوں کے لئے اس طرح دُعائیں کرےگا ضروری ہے کہ اس کی یہ دعائیں کسی دن قبول ہو ں اور اُن کو ہدایت میسر آجائے.آخر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ دعا کبھی قبول نہیں ہو سکتی اگر اس دعا نے قبول ہی نہیں ہونا تھا تو

Page 353

اللہ تعالیٰ نے یہ دعا ہمیں سکھائی کیوں ؟ اس کا سکھا نا بتا تا ہے کہ یہ دعا قبول ہونے والی ہے اور جب یہ دعا قبول ہونے والی ہے تو ضروری ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں کسی دن دوسرے کو ہدایت میسر آجائے.کبھی کسی واعظ کا وعظ سن کر ہدایت حاصل ہو جاتی ہےاور کبھی گھر میں کوئی مصیبت آتی ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے.بہرحال کسی نہ کسی ذریعہ سے جب بھی دوسرے شخص کو ہدایت میّسر آئےگی تو چونکہ یہ ہدایت اس دعا کے نتیجہ میں ہوگی اس لئے نماز صرف نماز پڑھنے والے کو ہی بدیوں سے روکنے والی نہیں ہوگی بلکہ دوسروں کو بھی بدی اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے والی بن جائےگی.پھر اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ میں صلوٰۃ کے معنے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ہیں وہاں اس کے ایک معنے دعا کے بھی ہیں اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز جو ہم نے تمہیں سکھائی ہے اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے.اگر عبادت مراد لو تو جب کوئی شخص اخلاص اور محبت سے خدا تعالیٰ کی درگاہ میں بار بار جائےگا تو لازمی طور پر وہ کوشش کرےگا کہ میں بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے الگ رہوں اور اس طرح نماز اُسے گناہوں سے محفوظ کرنے والی بن جائےگی اوراگر دعا مراد لو تب بھی نماز انسان کو فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہے کیونکہ نماز میں بار بار یہ دعائیں آتی ہیں کہ الٰہی مجھ پر بھی رحم فرما.میرے ہمسایہ پر بھی رحم فرما.میرے اہلِ ملک پر بھی رحم فرما.میرے دوستوں اور عزیزوں پر بھی رحم فرما.اگر ساری عمر میں ایک دفعہ بھی یہ دعا قبول ہو جائے تو کم از کم اس کے ذریعہ ایک آدمی تو ضرور ہدایت پا جائےگا اور اس طرح یہ نماز جہاں خود اُس کی ذات کے لئے ہدایت کا موجب ہو گی وہاں دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہدایت کا موجب بن جائےگی اور انہیں فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہوگی.حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ساٹھ کروڑ مسلمان سچے دل سے نماز یں پڑھنے لگ جائیں اور ایک شخص کی دعا سے ایک شخص کو ہی ہدایت میسر آجائے.تب بھی ساٹھ کروڑ مسلمان اس دعا کی بر کت سے ایک ارب بیس کروڑ بن جاتے ہیں اور اسلام کے غلبہ اور اُس کی شوکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی.اس موقعہ پر بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم تو نمازوں میں دعائیں مانگتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دعا کا قصور نہیں.دعا مانگنے والے کا قصور ہے.وہ مانگ یہ رہے ہوتے ہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.مگران کے دلوں میں دعائوں کی قبولیت کا کوئی یقین نہیں ہوتااور جب انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہی نہ ہو تو وہ انہیں دے کیوں ؟ جب آپ ہی وہ اللہ تعالیٰ پر بدظنی رکھتے ہوں اور جب آپ ہی وہ اُس کی طاقتوں کے منکر ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کو قبول کیوں کرے؟ اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے بھی یہی کہا تھا کہ الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا.مگر اس

Page 354

کے نتیجہ میں سارا عرب مسلمان ہو گیا.سارا شام مسلمان ہوگیا.سارا فلسطین مسلمان ہو گیا.سارا مصر مسلمان ہو گیا.ساراا یران مسلمان ہو گیا.آخر فلسطین اور شام اور مصرا ور ایرا ن اور عراق کے لوگوں کو اس زمانہ کے لوگوں سے کوئی علیحدہ دماغ تو نہیں ملا ہوا تھا جو بدیاں آج یورپ اور امریکہ میں پائی جاتی ہیں وہی اُن لوگوں میں پائی جاتی تھیں.پھر اُن لوگوں کو کیوں ہدایت ملی ؟ اسی لئے کہ اُس زمانہ میں مسلمان نمازیں پڑھتے تھے تو وہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری دعائوں کو سننے والا ہےاور حقیقت یہ ہے کہ دل میں درد بھی اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہو.فرض کرو ایک شخص پر ڈاکو حملہ کرتا ہے اور وہ اُس سے ڈر کر بھاگتا ہے اور اپنی حفاظت اور بچائو کے لئے ایک مکان کے پاس پہنچ کر دستک دیتا اور زور زور سے مالک مکان کو آوازیں دیتا ہے توجس درد سے وہ اُس وقت یہ کہہ رہا ہوگا کہ خدا کے واسطے دروازہ کھولو وہ بالکل اور قسم کا ہوگا.لیکن اگر وہی شخص بھاگتے ہوئے ایک چٹان کی طرف چلا جاتا ہے اور یونہی اُ س ڈاکو کو ڈرانے کے لئے آوازیں دینا شروع کر دیتا ہے کہ دروازہ کھولو تو چونکہ وہ جانتا ہوگا کہ اس جگہ کوئی آدمی نہیں اس لئے باوجود اس کے کہ وہ کوشش کرےگا کہ زور زور سے آوازیں دے اور ڈاکو پر یہ اثر ڈالے کہ میں کسی آدمی کو اپنی مدد کے لئے بلا رہا ہوں پھر بھی اس کی آواز میں درد نہیں ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہوگا کہ یہاں آدمی کوئی نہیں.میں محض ڈرانے کے لئے یہ شور مچا رہا ہوں.اسی طرح اگر کوئی شخص اس اخلاص سے نمازیں پڑھتا ہے کہ واقعہ میں خدا میری دُعائوں کو سن رہا ہے تو اُس کے اندر جو درد اور جوش پیدا ہو گا وہ اُس شخص کے اندر کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو محض بناوٹ اور ریاء کے لئے نمازیں پڑھتا ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی قدرتوں پر کوئی یقین نہیں رکھتا.اسی طرح روزہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے تم پر اس لئے فرض کئے ہیں کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو.روزہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پانی ہمارے گھر میں موجو د ہوتا ہے.روٹی ہمارے گھر میں موجود ہوتی ہے مگر ہم محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے گھر کے پانی اور اپنے گھر کی روٹی کو چھوڑ دیتے ہیں.اب جو شخص سچے دل سے روزہ رکھے گا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی روٹی اور اپنے پانی کو بھی چھوڑ دےگا وہ دوسرے کی روٹی کیوں کھائے گا.جس شخص کے اندر اتنا اخلاص پیدا ہو جائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا مال بھی استعمال نہ کرے وہ کب یہ کوشش کر سکتا ہے کہ دوسروں کے اموال کو لوٹ لے.دوسروں کے مال کو لوٹنے کی وہی شخص کوشش کرتا ہے جو روزہ نہیں رکھتا یا روزہ تو رکھتا ہے مگر صرف رسمی طور پر رکھتا ہے.روزہ کی حقیقت اور اُس کی غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور ایسا روزہ درحقیقت کوئی روزہ نہیں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

Page 355

کہ روزہ یہ نہیں کہ تم بھوکے اور پیاسے رہو اور عملی طور پر دنگا اور فساد کرتے رہو یا گالی گلوچ سے کام لیتے رہو.اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم روزہ نہیں رکھتے بلکہ محض بھوکے اورپیا سے رہتے ہو.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ لوگ قربانیاں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محض ان قربانیوں کی وجہ سے ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائےگا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ(الحج :۳۸) قربانی کا گوشت ہمارے پاس نہیں آتا بلکہ قربانیوں کے ساتھ جس قدر تقویٰ تمہارے دل میں ہوتا ہے وہ ہمارے پاس آتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہفَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ (الحج :۳۷)یعنی جب قربانی کے جانوروں کے پہلو زمین پر لگ جائیں تو ان کا گوشت تم خود بھی کھائو اور اُن کو بھی کھلائو جو اپنی غربت سے پریشان ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ہم نے تمہیں اس کا کیوں حکم دیا ہے.کئی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قربانی میں کیا رکھا ہے.سارا سال جب لوگ گوشت کھاتے رہتے ہیں تو ایک خاص دن جانوروں کو قربان کرنےکا حکم دینے کے معنے ہی کیا ہوئے؟ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ قربانی کا حکم اللہ تعالیٰ نے غرباء کو مدنظر رکھتے ہو ئے دیا ہے.جنہیں اور دنوں میں بہت کم گوشت کھانے کو میسر آتا ہے.امراء تو سال بھر گوشت کھاتے رہتے ہیں لیکن غرباء نے بعض دفعہ مہینوں گوشت کی شکل تک نہیں دیکھی ہوتی.ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے حج کے موقعہ پر عقیقہ کے موقع پر اور شادی بیاہ کے موقعہ پر قربانی کر نےکا حکم دے دیا.احادیث میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی ہے یا بیوہ سے اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے بھائی یتیم رہ گئے تھے میں نے اُن کی پرورش کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بیوہ سے شادی کی ہے تاکہ اُن کی بھی پرورش ہو جائے اور بیوہ سے شادی کرنےکا ثواب بھی مجھے مل جائے.آپؐ نے فرمایا تم نے بڑے ثواب کی بات کی ہے لیکن دیکھو اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ (بخاری کتاب النکاح باب الولیمۃ ولو بشاۃ)اب ولیمہ کرو خواہ تمہیں ایک بکری ہی مل جائے.یعنی اگر زیادہ جانور خریدنے کی تم میں استطاعت نہیں تو کم از کم ایک بکری ہی ذبح کر کے ولیمہ کر دو.اسی طرح اسلام نے عقیقہ کے موقعہ پر جانوروں کی قربانی کا حکم دیا ہے بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ اسلام نے یہی قرار دیا ہے کہ جانوروں کو قربان کیا جائے صدقۃ الفطر میں بھی یہی حکمت ہے کہ عید کے موقعہ پر غرباء اس روپیہ سے اپنے لئے گوشت وغیرہ خرید سکتے ہیں.اگر اسلام میں قربانیوں کے یہ احکام نہ ہوتے تو امراء آپ ہی گوشت کھاتے رہتے اور

Page 356

غرباء کا انہیں کبھی خیال بھی نہ آتا.غرض جس قدر احکام اسلام میں پائے جاتے ہیں ان سب میں حکمتیں ہیں اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ ہمارا کوئی حکم ایسا نہیں جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ نہ ہو اور جس کا کسی نہ کسی رنگ میں بنی نوع انسان کو کوئی نہ کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ لوگ تو قرآنی احکام پر عمل کریں اور انہیں نقصان ہو.ان احکام پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہمیشہ فائدہ ہی فائدہ ان کو ہوگا اور برکت ہی برکت ان کو ملے گی.دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ یہ کتاب ایک کامل شریعت کی حامل ہے اور اس کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو مرورِ زمانہ سے باطل ہو سکے.بلکہ ہر زمانہ میں اس کے پیش کر دہ نظریات دنیا پر غالب رہیں گے اور کبھی ایسا وقت نہیں آئےگا کہ دنیا کو اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو.چنانچہ لغتِ عرب میں حق کے ایک معنے اَلْمَوْجُوْدُ الثَّا بِتُ کے بھی لکھے ہیں یعنی ایسی چیز جو مضبوط اور قائم رہنے والی ہو ( اقرب).اسی طرح اس کے ایک معنے اَلْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ کے بھی ہیں یعنی قطعی اور فیصل شدہ امر.اور فیصل شدہ بات وہی ہوتی ہے جس میں کوئی تبدیلی نا ممکن ہو اور قائم بھی اسی چیز کو رکھا جاتا ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہو.پس وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ میں قرآ ن کریم کی اکملیت کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ یہ دنیا کے لئے آخری اور کامل ہدایت نامہ ہے.جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اس دعویٰ کو ان الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ( المائدۃ:۴) یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت کا تم پر اتمام کر دیا ہے اور تمہارے لئے اسلام کو ایک دین کے طور پر پسند کر لیا ہے.یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی.یہ موقع وہ تھا جب مکہ فتح ہو چکا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کے لئے حج اور عمرہ کھل چکا تھا (بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع).آپ نے جو آخری حج فرمایا اور جس کے اسّی دن بعد آپ وفات پا گئے اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ایسی باتیں کہیں کہ صحابہ ؓ کہتے ہیںہم حیرا ن ہو تے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں کیوں فرما رہے ہیں.مگر جب آپ حجۃ الوداع کے صرف اسّی دن کے بعد وفات پاگئے تب ہمیں معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وفات کی خبر مل چکی تھی اور آپ مسلمانوں کو اُس وقت آخری نصیحتیں کر رہے تھے.اُس وقت آپ نے فرمایا.اے مسلمانو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہو ں کہ تم اپنی عورتو ں سے اچھا سلوک کیا کرو.اے مسلمانو ! میں

Page 357

تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے غلامو ں اور نوکرو ں سے اچھا سلوک کیا کرو.پھر آپ نے فرمایا آپس میں قوموں کا لڑنا بہت ہی بُرا اور نا پسندیدہ امر ہے.میں چاہتا ہوں کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کی حرمت کے متعلق بعض احکام دئیے تھے اسی طرح میں بھی تمہیں بعض احکام دوں.چنانچہ آپ نے فرمایا.میں اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ ہر مسلما ن کی جان اور مال اور عزت اسلامی شریعت کے لحاظ سے محفوظ ہے اس لئے کسی مسلمان کی جان اور مال اور عزت کو تمہارے ہاتھو ں سے نقصان نہیں پہنچنا چاہیے.پھرچونکہ عربوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دیر تک لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اس لئے آپ نے اُن کا بھی ذکر کیا اور فرمایا یہ لڑائیا ں کبھی تو ختم ہو نی چاہئیںورنہ قوم میں کبھی اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے چنانچہ آپ نے فرمایا.آج کے د ن میں اس مقام پر کھڑے ہو کر اُ ن تمام لڑائیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو جاہلیت سے چلی آرہی ہیں.اُس کے ساتھ ہی آپ نے زمین پر اپنا پائو ں مارا اور فرمایا میں اُن تمام لڑائیو ں کو اپنے پائو ں کے نیچے مسلتا ہو ں.اب پرانی رنجشوں اور لڑائیو ںکی وجہ سے کسی سے بدلہ لینا ہرگز جائز نہیں ہوگا.اسی مقام پر آپ نے یہ آیت بھی پڑھی اور فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.بعض صحابہ ؓ اور بہت سے مفسرین کا قول ہے کہ قرآ ن کریم کی یہ آخری آیت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.اس کے بعد کوئی اور کلامِ الٰہی نازل نہیں ہوا.لیکن بعض نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے.بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نہایت ہی آخری آیتوں میں سے ایک آیت ہے.اگر یہ سب سے آخر میں نازل نہیں ہوئی تو آخرمیں نازل ہونے والی چند آیتوں میں سے ایک آیت ضرورہے.اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت کو مکمل کر دیا گیا ہے.اب کو ئی نیا حکم نازل نہیں ہو گا اور نہ کوئی ایسا حکم نازل ہو گا جو ان حکموں کو بدل سکے.اس سے معلوم ہوا کہ شریعت ِ اسلامی ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اس کا قانون آخری قانون ہے ہندو ہمار ے اس دعویٰ کو مانیں یا نہ مانیں عیسائی ہمارے اس دعویٰ کو مانیں یا نہ مانیںایک مسلما ن کو بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ احکامِ شریعت کو قرآ ن کریم میں مکمل کر دیا گیا ہے اور دنیا کو جتنے قوانیں کی ضرورت تھی وہ سب اس میں بیا ن کردئیے گئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے قوانین بن سکتے ہیں جو وقتی اور مقامی طور پر ضروری ہوں.ایسے قانون بھی بن سکتے ہیں جو عارضی مشکلات کو دور کرنےوالے ہوں.جیسے حکومتوں کی آپس میں لڑائیاں ہوں تو انہیں اپنے جھگڑوں کو نپٹانے کے لئے بعض قوانین بنانے پڑتے ہیں یہ شریعت کا کام نہیں کہ وہ یہ بتائے کہ اگر امریکہ اور سپین میں جھگڑا ہو تو اس جھگڑے کو اس طرح دُور کیا جائے.لیکن جہا ں تک اُن امور کا سوال ہے جن میں قرآن کریم دخل دیتا ہے اور جہاں تک اُن اُمور کا سوال ہے جن میں مذہب

Page 358

کو اس بات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہدایت دے اُن تمام اُمور کو قرآ ن کریم میں بیان کردیا گیا ہے.کسی کو بالتفصیل اور کسی کو بالاجمال اور اس کا نتیجہ یہ بیان فرمایا ہے کہ میں نے اپنا انعام تم پر مکمل کر دیا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دربار لگائے بیٹھے تھے اور عیسائی اور یہودی بھی وہاں موجود تھے کیونکہ وہ سب آپ کی رعایا بن چکے تھے کہ آپ نے اس آیت کا ذکر کیا.ایک یہودی یہ آیت سُن کر کہنے لگا کہ اگر ہم پر ایسی آیت نازل ہوتی تو ہم اسے اپنے لئے عید کا دن قرار دے لیتے.حضرت عمر ؓ نے فرمایاتمہیں معلوم نہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو وہ جمعہ کا دن تھا اور حجۃ الوداع کا موقعہ تھا اور یہ دونوں ہمارے لئے عید کا دن تھے.تم تو کہتے ہو کہ ہم اس آیت کے نازل ہونے پر آپ عید مقرر کرتے.مگر ہم نے یہ عید خود تجویز نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ایک ایسے د ن اس آیت کو اتارا جس میں ہمارے لئے دو عیدیں جمع تھیں یعنی جمعہ کا د ن بھی تھا اور حج کا بھی موقعہ تھا (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المائدۃ ).اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ یہ امر بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے.اب مسلمانوں کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کو پورا کرنے کا سامان انہیں باہر سے لانا پڑے.سارے احکام قرآن کریم میں بیان کر دئیے گئے ہیں اور ساری برکت ان احکام پر عمل کرنے میں ہے کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کو کوئی ضرورت ہو اور وہ انہیں باہر سے پُوری کرنی پڑے.اسی مضمون کی مزید وضاحت سورۂ مائدہ کی ان آیات میں بھی کی گئی ہےکہ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ١ؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ.وَ اَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ.اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ.(المائدۃ :۴۹ تا ۵۲)یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک کامل کتاب نازل کی ہے اور اُس کے ساتھ ہر قسم کی ثابت شدہ حقیقتیں نہایت کھول کر بیان کر دی ہیں اور جو الہامی کتب اس سے پہلے نازل ہو چکی ہیں یہ کتاب اُن کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والی اور اُن کی اعلیٰ تعلیموں کو محفوظ رکھنے والی ہے.پس جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے

Page 359

اس کے مطابق تم لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرو اور اگر دوسرے لوگ اپنے پاس سے کچھ سکیمیں بنا کر تمہارے پاس لائیں تو تم اُ ن کی باتوں کو مت سنواور اُن کی سکیموں کو ہر گز اختیار نہ کروکیونکہ اگر تم دوسرے فلسفیوں کی باتیں مانو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم تمہیں دی ہے تمہیں اُسے چھوڑ نا پڑے گا آخر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم اس پر بھی عمل کرو اور اُن کی باتوں پر بھی عمل کرو.بہرصورت ایک چیز پر ہی عمل ہو سکتا ہے اور جب تم اُن کے پیچھے چلو گے تو اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور اُس کے احکام تمہیں چھوڑنے پڑیں گے اور ایک اعلیٰ چیز کی بجائے تمہیں ادنیٰ چیز اختیار کرنی پڑے گی.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ مخاطب گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا گیا ہے مگر مراد آپ کی اُمت ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی دشمن کے اثر کو قبول نہیں کر سکتے تھے.پس آپ کو مخاطب کرکے جو کچھ کہا گیا ہے دراصل اُس میں آپ کی امت سے خطاب ہے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قرآ ن کریم کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کی کبھی اتباع نہ کرنا.ورنہ گمراہ ہو جائو گے پھر فرماتا ہےلِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا.تم میں سے ہر ایک کے لئے الہامی پانی تک پہنچنے کے لئے ہم نے ایک چھوٹا یابڑا راستہ بنایا ہو ا ہے.کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ.کوئی کہتا ہے میں اپنے باپ دادا کی باتیں مانوں گا.کوئی کہتا ہے میں فلسفیو ں کی باتیں مانوں گا کوئی کہتا ہے میں اقتصادیات کے ماہرین کی باتیں مانوں گا کوئی کہتا ہے میں فن قانون کے ماہر لوگو ں کی باتیں مانو ں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے طریق کارا ور ان لوگوں کے طریق کار میں کوئی مشابہت نہیں.تم نے یہ کہنا ہے کہ ہم خدا کی باتیں مانیں گے اور انہوں نے یہ کہنا ہے کہ ہم کسی فلسفی یا اقتصادیات کے ماہر یا صناع یا قانون ساز کے پیچھے چلیں گے وہ اور لوگوں کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں اور تم اور ہستی کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہو.و ہ اقتصادیوں اور فلسفیوں او ر مقّننوں کے پیچھے جا رہے ہیں اور تم خدا کے پیچھے جا رہے ہو وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ مگر یا د رکھو.یہ اختلاف جو دنیا میں پا یا جاتا ہے یہ قیامت تک رہےگا.تمہاری اُمت خدا تعالیٰ کے پیچھے چلے گی اور دوسرے لوگ اپنے بنائے ہوئے قانونوں کے پیچھے چلیں گے اور کہیں گے کہ فلاں ماہر نفسیات یوں کہتا ہے اُن کے پیچھے چلنا چاہیے.فلاں مقّنن یوں کہتا ہے اُس کے پیچھے چلنا چاہیے.فلاں فلسفی یوں کہتا ہے اس کے پیچھے چلنا چاہیے.فرماتا ہے ہم اگر چاہتے تو دنیا کو مجبور کرکے ایک خیال پر لے آتے ہم میں طاقت تھی کہ ہم دنیا کے فلسفیوں ، موجدو ں یونیورسٹیوں کے پروفیسروں.مقّننوں اور بڑے بڑے سائینس دانوں کو مجبور کرتے کہ وہ اسلام کے پیچھے چل پڑیں مگر ہم نے ایسا نہیں کیا.اس لئے کہ مجبور کرنے سے انسان کسی انعام کا مستحق نہیں رہ سکتا.مثلاً بجلی کا انجن خواہ کتنی تیزی سے چل رہا ہو ہم کبھی اُسے یہ نہیں کہتے کہ چونکہ تم بڑی تیزی سے

Page 360

چل رہے ہو اس لئے ہم تمہیں فلاں انعام دیتے ہیں.اس لئے کہ بالارادہ کام نہیں کر رہا ہوتا.لیکن اگر ایک چھوٹا بچہ بھی سکول کی دوڑ میں آگے نکل جاتا ہے تو اُسے انعام ملتا ہے.اس لئے کہ چھوٹے بچے نے عقل اور قربانی سے کام لیا.وہ مجبور نہیں تھا کہ ضرور محنت کرتا وہ سستی کر سکتا تھا وہ غفلت کر سکتا تھا.لیکن اُس نے دوسروں سے اچھا نمونہ دکھایا.وہ صبح کو اُٹھااُس نے دوڑنے کی مشق کی اپنی صحت کے معیار کو اونچا کیا اور دوسروں سے آگے نکل گیا.پس اُس نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے کیا.اپنی خواہش اور اپنے ارادہ کے ماتحت کیا اس لئے اُسے انعام مل گیا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم جبر کر سکتے تھے لیکن ہم نے کیوں جبر نہیں کیا.کیوں ہم نے دنیا کے فلسفیو ں اور اقتصادیات کے ماہروں اور سائینسدانوں اور مقّننوں کو زندہ رکھا اس لئے کہ لِيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ کون خدا کو خوش کرتا ہے اور کو ن دنیا کے پیچھے چلتا ہے لیکن فرماتا ہے اب ہم تم کو یہ بتاتے ہیں کہ تمہارا دنیا سے ایک اور مقابلہ ہو گیا ہے.دنیا کا فلسفی اور اقتصادی ماہر بھی کچھ سکیمیں پیش کرےگا اور قرآن کریم بھی کچھ سکیمیں پیش کرے گا اور وہ تمہارے لئے بڑی آزمائش کا وقت ہوگا کیونکہ ایک طرف خدا کی آواز ہوگی اور دوسری طرف دنیا کے فلسفیوں اور سائینسدانوں کی آواز ہوگی اُس وقت ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ تم ہتھیار ڈال دو اور کہو کہ ہم ہارے اور تم جیتے اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تم ضد کرکے بیٹھ رہو اور عملی رنگ میں تو کچھ نہ کرو مگر زبان سے یہ کہتے جائو کہ قرآن کریم کی سکیم اچھی ہے.اگر تم ایسا کرو گے اور زبا ن سے تو یہ کہو گے کہ قرآ ن کریم کی سکیم اچھی ہے مگر اُسے اچھا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرو گے تو دنیا تمہاری بات نہیں مانے گی کیونکہ وہ تمہارے عمل کو دیکھے گی.جب تم خود قرآنی احکام پر عمل نہیں کروگے.جب تم خود اُس کی تعلیموں کے مطابق نہیں چلو گے تو محض زبان سے اُسے اچھا کہہ کر تم اُسے اور بھی بد نام کرو گے.اس لئے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہفَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ اگر تم سچے مومن ہو.اگر تمہارے دل میں حقیقی ایمان موجود ہے.اگر تم واقعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہو تو جو بہتر سے بہتر احکام اور بہتر سے بہتر تعلیمیں ہم نے تمہارے سامنے پیش کی ہیں تم دوڑ کر اُن کو اختیار کرو اور اپنی عملی زندگی میں اُن کو شامل کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو چونکہ اعلیٰ درجہ کی سکیمیں تمہارے پاس ہوںگی اور اُن سکیموں پر تم عمل بھی کررہے ہو گے.اس لئے دنیا مجبور ہوگی کہ وہ تمہاری طرف آئے اور اپنی ناقص سکیموں اور ناقص قانونوں کو ترک کر دے.گویا دنیا پر اسلام کی صداقت اور اُ س کی عظمت صرف اسی طریق سے واضح ہو سکتی ہے کہ تم اپنی ذات میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرو.پھر فرماتا ہے کہ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ.جب تم اس دنیا میں خدا تعالیٰ کے احکام کی برتری اور اُن کی عظمت کو روشن کردو گے تو چونکہ مرکر تم نے ہماری طرف ہی

Page 361

آنا ہے اس لئے ہم تمہیں اگلے جہان میں اونچے مقامات عطا کریں گے کیونکہ تم نے دنیامیں ہماری بات کو اونچا کرنے کی کوشش کی.اس کے بعد فرماتا ہے وَ اَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ ہم پھر دوبارہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا دم بھرنے والو! تم لوگوں کے سامنے اُس قرآن کو پیش کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور دوسرے لوگ جو اپنی عقلوں سے سکیمیں بنا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ان کے پیچھے ہر گز نہ چلو.وَ احْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ اور اس سے ڈرو کہ اگر تم نے قرآن کو نہ سمجھا اور اُس کی سکیموں پر عمل نہ کیا تو تم میں سے بھی کمزور ایمان والے لوگ اُن ناقص سکیموں کے پیچھے چل پڑیں گے جو دنیا کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں اور قرآ ن کریم کو چھوڑ دیں گے.چنانچہ دیکھ لو یہ نتیجہ آج ظاہر ہو چکا ہے.اعلیٰ درجہ کی تعلیم مسلمانوں کے پاس موجود تھی مگر چونکہ انہوں نے اس پر عمل نہ کیا اس لئے خود مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انہیں اپنی قومی ترقی کے لئے قرآن کریم کے علاوہ کسی اور سکیم کی بھی ضرورت ہے.اس کے بعد چونکہ یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ لوگ تو اپنی سکیموں کے متعلق بڑے بڑے جتھے اور پارٹیاں بنائیں گے.کہیںایسا نہ ہو کہ ہم اُن کے مقابلہ میں فیل ہو جائیں.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ اگر تم اسلام کے احکام پر عمل کرو گے تو باوجود اس کے کہ وہ تم سے زیادہ طاقتور ہوںگے اگر انہو ں نے اسلام کی تعلیموں کو اختیار نہ کیا تو خدا تعالیٰ اُن کے گناہوں کی وجہ سے اُن کو کچل ڈالےگا وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ اور یہ مت دیکھا کرو کہ وہ اچھی سکیمیں بنا کر پیش کر رہے ہیں اگر تم غور سے کا م لو تو تم دیکھو گے کہ صرف اپنے جتھہ اور اپنی پارٹی کی مضبوطی اُن کے مدنظر ہے یہ نہیں کہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچا نا اُن کا مقصود ہے پھر فر ما تا ہے.اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ.کیا وہ جاہلیت کے فیصلوں کو پسند کر تے ہیں ! اگر وہ جاہلیت کے فیصلوں کو ہی پسند کرتے ہیں تو بے شک کریں ایک سچا مومن بہرحال خدا تعالیٰ کی بات ہی مانے گا.کسی اور کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا.پھر فرماتا ہے اے مومنو!تم سوچو تو سہی اگر واقعہ میں خدا تعالیٰ نے یہ کتاب نازل کی ہے تووَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ.خدا تعالیٰ سے بہتر اور کون سکیمیں پیش کر سکتا ہے اور اُس کی تعلیم سے بہتر اور کس کی تعلیم ہو سکتی ہے ؟ یا تو تم یہ مانوکہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُ س کے رسول نہیں.اور یہ کتاب خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں.اور اگر تم یہ باتیں ماننے کے لئے تیار نہیں.تم واقعہ میں اسے خدا تعالیٰ کی کتاب سمجھتے ہو اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کا سچا رسول سمجھتے ہو تو یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ رُوس کا لینن اور سٹالن تو زیادہ اچھا قانون بنائے گااور خدانہیں بنا ئے گا.امریکہ کی سٹیٹ تو زیادہ

Page 362

اچھا قانون بنا ئے گی اور خدا ویسا قانون نہیں بنائے گا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ایک دھیلے سے زیادہ شکر آتی ہے اور اشرفی سے کم آتی ہے.بلکہ دھیلے اور اشرفی میں تھوڑی بہت نسبت بھی ہے.خدا اور بندے میں تو کوئی بھی نسبت نہیں.خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے بندوں کے حالات کو خوب جانتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ان کے لئے کونسی چیز مفید ہے اور کونسی مضر.پس یہ ہو ہی کس طرح سکتا ہے کہ اس کا قانون ناقص ہو اور لوگوں کے قانون ہر قسم کے نقائص سے پاک ہوں.مگر فرماتا ہےلِقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ.یہ نکتہ صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی باتوں پر یقین لانے کی کوشش کرتے ہوں اُن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا جو سنتے ہی اُن کو ردّ کر دیتے ہوں.پھر فرماتا ہےيٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ.اے مسلمانو ! جن دنوں اسلام پر یہ آفت آنے والی ہے اُ ن دنوں یہو د اور انصاریٰ کا غلبہ ہوگا اور انہی لوگو ں کی طرف سے اسلام کے مقابلہ میں نئی نئی سکیمیں پیش کی جائیں گی.اس لئے تم کبھی اُن کو اپنا دوست مت سمجھنا.کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ وہ تمہاری خیر خواہی اور ترقی کے لئے یہ سکیمیں تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں.چنانچہ دیکھ لو اس وقت یا یہود تھیوری دنیا میں کا م کر رہی ہے ، یا عیسائیت کی تھیوری دنیا میں چکر لگا رہی ہے.لینن جو کمیونزم کا بانی تھا یہود ی تھا اور سٹالن بھی یہودی تھا.اسی طرح فرائیڈ جس کے فلسفہ نے دنیا پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے وہ بھی یہودی تھا.اس کے مقابلہ میں کچھ عیسائی ہیں جو اپنے اپنے فلسفے پیش کر رہے ہیں.غرض اس وقت مغرب کی طرف سے جس قدر فلسفے آرہے ہیں وہ یا تو یہودیوں کے بنائے ہوئے ہیں یا عیسائیوں کے بنائے ہوئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہےيٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِيَآءَ.اُس زمانہ کے یہود اور نصاریٰ تمہارے سامنے بڑی بڑی خوبصورت سکیمیں بنا کر پیش کریں گے اور وہ تمہیں اپنے پیچھے چلانا چاہیں گے مگر ہم تمہیں یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم اُن کو کبھی اپنا دوست نہ سمجھنابَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ اُن کی یہ سکیمیں محض اپنے مفاد کے لئے ہیں.ان سکیموں سے اُن کو تو کچھ نہ کچھ فائدے پہنچ جائیں گے مگر وہ تمہارے لئے کسی صورت میں بھی فائدہ بخش نہیں ہوںگےوَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ اور یاد رکھو اگر تم میں سے کسی نے اُن کی دوستی اختیار کی تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ہر گز مسلمان نہیں سمجھا جائےگا وہ یہودی ہو گا یا عیسائی ہوگا.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ اور یقیناً جو لوگ کسی مذہب کو قبول کرکے اُس سے غداری کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہیں اور تم یہ سمجھ لو کہ ظالم کو ہم کبھی چھوڑا نہیں کرتے بلکہ اُسے ضرور سزا دیتے ہیں.یہ آیات بھی وَ لَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ کی تفسیر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جب قرآن کریم میں سارے احکام موجود ہیں اور ہم نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری تھی تو

Page 363

وجہ کیا ہے کہ تم قرآ ن اور اسلام کو چھوڑ کر اُن کے پیچھے دوڑتے ہو.اُن کی غرض محض اپنی قومو ں کو فائدہ پہنچانا ہے.چنانچہ یورپ کی ہزارو ں تھیوریاں ایسی ہیں کہ جب وہ پُرانی اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو ہمارے سرمڑھ دی جاتی ہیں.آخریہ غور کرنے والی بات ہے کہ ایک بندوق ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچاسکتی ہے یا ایک فلسفہ کا خیال ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے.یہ ظاہر ہے کہ فلسفہ کا خیال ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ یورپ جب کسی فلسفہ کے خیال کو رّد کر دیتا ہے اور اُسے ناکارہ اور ناقابل عمل قرار د ے دیتا ہے تو بیس سال کے بعد ہمارے پروفیسر وہی فلسفہ کالجو ں میں پڑھانے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جدید نظر یہ ہے جو یورپ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے گویا اُن کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی براہمن راجہ کے پاس گیا اور اُسے کہنے لگا کہ مجھے کچھ پُن دیجئیے.ہندو مذہب میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی براہمن مانگنے آئے تو اُسے ضرور کچھ دینا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو تاہے.راجہ بخیل تھا.اُس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ کچھ دے مگر مذہبی حکم کی وجہ سے مجبور بھی تھا اس لئے وہ اپنے وزیر سے کہنے لگا.وزیر صاحب پچھلے سال جو ہماری گائے گم ہو گئی تھی وہ ان کو دے دیں.اُس کا بیٹا پا س ہی کھڑا تھا وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ بخیل تھا اُسے خیال آیا کہ یہ براہمن ہے ممکن ہے لوگوں میں اعلان کرے تو اسے وہ گائے مل جائے اس لئے کہنے لگا آپ یہ گائے کیوں دیتے ہیں.پر ارسال جو ہماری گائے مر گئی تھی وہ دےدیں.یہی یورپ کا حال ہے.وہ ہر پرانی اور بوسیدہ اور سڑی گلی چیز ہماری طرف پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے لینی ہے تو پندرہ سال پہلے کی بندوق لے لو.بیس سال پہلے کے بنے ہوئے ٹینک لے لو.نئی بندوقیں اور نئے ٹینک تو ہماری ضروریات کے لئے ہیں.اسی طرح بیس بیس سال کے پرانے ڈسٹرائر اور کُروزر دیتا ہے اور کہتا ہے ان کی مرمت کرالو.اب بھلا یورپ سے ایٹم بم تو مانگ کر دیکھو وہ کبھی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا.لیکن جب اٹامک انرجی سے ہر ملک کا م لینے لگ گیا اور یہ چیز تمام دنیامیں پھیل گئی تو اُس وقت امریکہ بھی آفر کرے گا کہ ۲۵ ایٹم بم فلاں سال کے بنے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں اگر چاہو تو ہم سے خرید لو ہم دینے کے لئے تیار ہیں.جب یورپ کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمیں اپنی نئی مادی چیزیں دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے تو ہمارے سمجھدار اور تعلیم یافتہ آدمی یہ خیال بھی کس طرح کرتے ہیں کہ وہ فلسفے جن سے قومیں بنتی ہیں.وہ فلسفے جن سے ملک ترقی کرتے ہیں.وہ فلسفے جن سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوتا ہے.وہ فلسفے جن سے اقوام کو عظمت حاصل ہوتی ہے وہ یورپ ہمیں فوراً دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب وہ کسی نظریہ سے اُکتا جاتے ہیں.جب وہ اُسے بے کار اور ناکارہ چیز قرار دینے لگتے ہیں تو اس وقت کہتے ہیں اب یہ نظریہ تم لے لو اور اپنے اندر رائج کر لو.یہی بات اللہ تعالیٰ

Page 364

قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے اور مومنوں سے کہتا ہے تم یہ تو سوچو کہ کیا وہ تمہارے خیر خواہ ہیں ؟اوّل تو تمہیں غور کرنا چاہیے کہ یہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے اور وہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ہیں اور خدا تعالیٰ کا قانون اور انسان کا بنایا ہوا قانون برابر نہیں ہو سکتے.پھر یہ تمہارے دشمن ہیں.یہ لوگ اس بات کو برداشت ہی کب کر سکتے ہیں کہ تم ترقی کر جائواور دنیا میں تمہیں اعلیٰ مقام حاصل ہو جائے.مثلاًامریکہ اور روس کو لے لو.کیا امریکہ اور روس یہ پسند کریں گے کہ اُن کا ملک ترقی کرے یا یہ پسند کریں گے کہ اُن کا ملک پیچھے رہ جائے اور دوسرے ملک آگے نکل جائیں.اگر کسی وقت ہم بڑے صناع ہو جائیں تو کیا امریکہ کی چیزیں ہم اُسی طرح منگواتے رہیں گے جس طرح اب منگواتے ہیں ؟ اور جب نہیں منگوائیں گے تو کیا امریکہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ دوسرے ملک اتنی ترقی کر جائیں کہ وہ اس سے چیزیں نہ منگوائیں.وہ تو ایسی ہی تدابیر اختیار کرےگا جن سے اُسے ترقی ہو اور دوسرے ممالک اُس سے پیچھے رہیں.وہ جب تیسری منزل پر پہنچے گا تب وہ ہمیں دوسری منزل پر لے جائےگا ورنہ نہیں.اس وقت بظاہر ہم یہ سمجھ رہے ہو ںگے کہ ہم نے بہت بڑی ترقی کی ہے مگر حقیقت یہ ہوگی کہ اُس نے دوسری منزل ہمارے سامنے اس لئے پیش کی ہوگی کہ وہ منزل اس کے کام کی نہیں رہی تھی اور وہ اُس سے آگے نکل چکا تھا.اسی طرح مذہبی لحاظ سے دیکھ لو تو یورپ عیسائیت کو پیش کر رہا ہے جو قرآن کریم کے نزول سے بھی چھ سوسال پہلے کی تعلیم تھی اور قرآن کریم کے آنے پر منسوخ ہو گئی اور اس طرح ہمیں پیچھے کی طرف گھسیٹنا چاہتا ہے تاکہ ہم کسی کام کے نہ رہیں.مگر مسلمان ہے کہ اس کے فریب میں آجاتا ہے.وہ صرف اُس کی پتلون ، اُس کا کھانا اور اُس کی کوٹھی دیکھتا ہے اور اُس کے ہوائی جہاز دیکھتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ وہ میرے دماغ کو اپنا غلام بنا رہا ہے.غرض وَ لَدَيْنَا كِتٰبٌ يَّنْطِقُ بِالْحَقِّ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ دو عظیم الشان خوبیاں بیان کی ہیں.اوّل یہ کہ اُس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور دوم یہ کہ وہ اپنے قوانین کے لحاظ سے دنیا کے لئے کامل اور آخری ہدایت نامہ ہے.پس جب اُس میںتمام طبائع کا لحاظ رکھا گیا ہے اور تمام احکام حکمت کے ماتحت دئیے گئے ہیں اور شریعت کو ہر لحاظ سے مکمل کر دیا گیا ہے تو اب دنیا اپنی نجات کے لئے اور کس چیز کی محتاج ہے.اُس کی کامیابی اور نجات اسی میں ہے کہ وہ قرآن کریم کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے اور سمجھے کہ جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے وہی سچ ہے مگر فرماتا ہے بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا.باوجود اس کے کہ شریعت قابلِ عمل ہے اور اسے ہر لحاظ سے کامل کر دیا گیا ہے انبیاء کے منکر نیکی میں بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور وہ غفلت کے لحافوں میں ہی سوئے رہتے ہیں یہاں تک کہ اُن پر عذاب آجاتا ہے اور وہ تباہ ہو جاتے ہیں.اس میں بتا یا کہ اُن کا حق کوقبول نہ کرنا ایک

Page 365

تو اس وجہ سے ہے کہ وہ غفلت سے کام لے رہے ہیں اور کلام الٰہی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور دوسرے اُن کی بداعمالی اس میں روک بنی ہوئی ہے.اگر وہ غفلت کو ترک کر دیں اور بد اعمالی کی بجائے نیک اعمال اختیار کریں تو انہیں بھی ہدایت میسر آسکتی ہے.ضمنی طور پر یہ آیت شیعوں کا بھی ردّ کرتی ہے.شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کا حق مارا گیا تھا.خلیفہ انہیں ہو نا چاہیے تھا مگر حضرت ابوبکر ؓ نے اُن سے خلافت کا حق غصب کر لیا.اللہ تعالیٰ ان آیات میں اُن کے اس خیال کی بھی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس انعام کے دینے کا ہم فیصلہ کرتے ہیں وہ کبھی نہیں مارا جاتا کیونکہ قرآن کریم میں جو بات کہی جاتی ہے وہ ضرور پوری ہو کر رہتی ہے اگر قرآن کریم حضرت علی ؓ کی خلافت یا امامت کا فیصلہ کرتا تو کوئی طاقت اُن سے یہ انعام چھین نہیں سکتی تھی.ان معنوں کے لحاظ سے بَلْ قُلُوْبُهُمْ فِيْ غَمْرَةٍ مِّنْ هٰذَا وَ لَهُمْ اَعْمَالٌ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِكَ هُمْ لَهَا عٰمِلُوْنَکا یہ مفہوم ہوگا کہ جو لوگ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہ حق مقرر کیا تھا اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے وہ حق چھین لیا وہ قرآنی علوم سے نا واقف ہیں اور چونکہ وہ جو کچھ عمل کر رہے ہیں وہ قرآن کریم کے مطابق نہیں اس لئے ان کے دلوں میں وہ ایمان پیدا نہیں ہوتا جو قرآن کریم پر عمل کر نے والوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے.حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا هُمْ يَجْـَٔرُوْنَؕ۰۰۶۵لَا یہاں تک کہ جب ہم اُن میں سے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں گرفتار کر لیتے ہیں تو اچانک وہ فریادیں کرنے تَجْـَٔرُوا الْيَوْمَ١۫ اِنَّكُمْ مِّنَّا لَا تُنْصَرُوْنَ۰۰۶۶قَدْ كَانَتْ لگ جاتے ہیں.(اُس وقت ہم اُن سے کہتے ہیں) آج فریادیں نہ کرو.ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد نہ پہنچے گی.اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ میری آیتیں تم کو پڑھ کر سُنائی جاتی تھیں مگر تم ان( آیات یعنی مجموعہ قرآن) سے بے پرواہی کا اظہار کرتے ہوئے تَنْكِصُوْنَۙ۰۰۶۷مُسْتَكْبِرِيْنَ۠١ۖۗ بِهٖ سٰمِرًا تَهْجُرُوْنَ۰۰۶۸ اور بیہودہ باتیں کرتے ہوئے اور اس سے رُوگردانی کرتے ہوئے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جایا کرتے تھے.حلّ لُغَات.یَجْئَرُوْنَ.یَجْئَرُوْنَ جَأَ رَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور جَأَرَ اِلَی اللہِ

Page 366

بِالدُّعَاءِ کے معنے ہیں ضَجَّ وتَضَرَّعَ و اسْتَغَاثَ.اُس نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے فریا د اور دُعا کی اور اُس سے مدد چاہی اور جَأَرَ الدَّاعِی جَأْرًا کے معنے ہیں رَفَعَ صَوْتَہٗ بِالدُّعَاءِ پکارنے والے نے اونچی آواز سے پکارا.پس یَجْئَرُوْنَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ عاجزی کا اظہار کرتے اور فریاد کرتے ہیں.(اقرب) سٰمِرًا.سَمَرَ فُلَانٌ کے معنے ہوتے ہیں لَمْ یَنَمْ وَتَحدَّثَ لَیْلًا.یعنی وہ رات کو نہ سویا اور باتیں کرتا رہا.پس سٰمِرًا جو سَمَرَ کا اسم فاعل ہےاس کے معنے ہوںگے رات کو باتیں کرنے والا ( اقرب) تفسیر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا یا ہے کہ خدائی منشا کو پورا نہ کرنے والے لوگ بعض دفعہ دولتیں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اُن کی دولتیں انہیں خدائی عذاب سے نہیں بچا سکتیں.وہ اپنی دولت کے گھمنڈ میں ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھر چلاتے اور گریہ وزاری کرنے لگ جاتے ہیں مگر اُس دن ہم اُن سے کہتے ہیں کہ آج گِریہ و زاری کا کیا فائدہ ؟ آج ہم تمہاری مدد کس طرح کر سکتے ہیں.تمہارے سامنے ہماری تعلیم سُنائی جاتی تھی لیکن تم اس سے بے پرواہی کا اظہار کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے ایڑیوں کے بل پھر جاتے تھے او ر اُس پر کبھی غور نہیں کرتے تھے اور راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر ہماری تعلیم کو برا بھلا کہا کرتے تھے.اُس کا نتیجہ آج تم نے دیکھ لیا کہ تمہارا تکبر تمہیں لے ڈوبا اور تمہاری دولتیں تمہارے کسی کام نہ آئیں.یعنی خدائی عذاب پر چلانا کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا عذاب حجت تما م ہونے کے بعد آتا ہے اور حجّت پوری ہونے کے بعد عذاب پر چلانا بے فائدہ ہوتا ہے.اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ يَاْتِ اٰبَآءَهُمُ کیا ان لوگوں نے اس قول( یعنی قرآن) پر غور نہیں کیا یا ان کو وہ (وعدہ) ملا ہے جو ان کے پہلے باپ دادوں کو نہیں ملا تھا.الْاَوَّلِيْنَٞ۰۰۶۹اَمْ لَمْ يَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ (اور)کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا جس کی وجہ سے وہ اُس کا انکار کر رہے ہیں کیا وہ کہتے ہیں مُنْكِرُوْنَٞ۰۰۷۰اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ١ؕ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ کہ اس کو جنون ہے (مگر ایسی بات نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لےکر آیا ہے اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو

Page 367

وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۰۰۷۱وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ نا پسند کرتے ہیں.اور اگر حق ان کی خواہشات کی اتباع کرتا تو آسمان اور زمین اور جو ان کے اندر بستے ہیں اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ١ؕ تباہ ہو جاتے.حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس اُن کی عزت کا سامان لےکر آئے ہیں اور وہ اپنی عزت کے بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ۰۰۷۲ سامان سے اعراض کر رہے ہیں.حلّ لُغَات.ذِکْرٌ اَلذِّکْرُ کے معنے ہیں اَلتَّلَفُّظُ بِالشَّیْءِ وَاِحْضَارُہٗ فِی الذِّ ھْنِ بِحَیْثُ لَا یَغِیْبُ عَنْہُ.کسی چیز کا زبان سے ذکرکرنا اُسے ایسے طور پر ذہن میں مستحضر کرنا کہ وہ بھول نہ جائے.اَلصِّیْتُ شہرت.الثَّنَاءُ تعریف.اَلشَّرَفُ.شرف.اَلصَّلٰوۃُ لِلّٰہِ تَعَالیٰ وَالدُّعَاءُ.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا اور اس کے معنے ایسی کتاب کے بھی ہیں جس میں دین کی تفصیل اور شریعت کے اصول ہوں.اورایسے بہادر شخص کو بھی کہتے ہیں کہ جو کسی کا رعب نہ برداشت کر سکے.نیز موسلا دھار بارش اور پکی بات کو بھی الذکر کہتے ہیں.( اقرب) تفسیر.فر ماتا ہے کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ اُس کا انکار کر رہے ہیں.یعنی یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.آپ کے اخلاق اور عادات کا انہوں نے مشاہدہ کیا اور انہوں نے اپنی عینی شہادات سے اس امر کو تسلیم کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت راستباز انسان ہیں مگر جب اس راستباز انسان نے یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں تو اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو گئے.اگر کوئی غیر شخص یہ بات کہتا تو وہ معذور سمجھا جا سکتا تھا اور اس کے متعلق خیال کیا جا سکتا تھا کہ چونکہ اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا اس لئے وہ آپ کی طرف یہ بات منسوب کر رہا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ پر افتراء کیا ہے لیکن مکہ کے رہنے والے جن کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی آپ کو کس طرح مفتری قرار دینے لگ گئے.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا تو مکہ والوں پر اتنا اثر تھا کہ دعویٰ نبوت کے بعد جب

Page 368

ایک دفعہ کفار یہ مشورہ کرنے کے لئے جمع ہوئے کہ حج کے موقعہ پر باہر سے آنے والے لوگوں کو ہم اس شخص کے متعلق کیا کہیں تو ایک شخص نے کہہ دیا کہ اگر ہم سے کسی نے پوچھا تو ہم فوراً کہہ دیں گے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اس پر ایک شدید مخالف نضر بن الحارث جو ش سے کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا تم یہ کیا کہہ رہے ہو.محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے درمیان پیدا ہوا اور اُس نے تمہارے سامنے اپنے شباب کی منزلیں طے کیں.تم جانتے ہو کہ اُس کے اخلاق کتنے پاکیزہ تھے وہ تم سب سے زیادہ راستباز انسان تھا.امانت اور دیانت میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا اور وہ اسی نیک نامی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن گذارتا چلا گیا.مگر اب جبکہ اُس کی کنپٹیوں میں سفید بال آرہے ہیں اور وہ شباب سے گذر کر کہولت کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور اُس نے اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کی ہے تم یہ کہنے لگے ہو کہ وہ جھوٹا ہے.خدا کی قسم وہ ہر گز جھوٹا نہیں اگر تم نے احمقانہ بات کہی تو کوئی شخص اس کو تسلیم نہیں کرے گا (کتاب الشفاءللقاضی ابو فضل عیّاض بن موسیٰ الباب الثانی الفصل العشرون عدلہ و امانتہ صلی اللہ علیہ وسلم) ابوجہل محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا شدید دشمن تھا.مگر اُس نے بھی ایک موقعہ پر کہہ دیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تجھ کو تو جھوٹا نہیں کہتے.ہم تو اُس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جسے تو پیش کر رہا ہے (ترمذی کتاب التفسیر سورة الانعام) گویا ابو جہل جیسا معاند اور سیاہ باطن انسان کا دل بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہنے کے لئے تیار نہیں تھا.گویا جھوٹا کہتے ہوئے اُس کی ضمیر بھی اُسے ملامت کرتی تھی اور اُس کا دل بھی دھڑکنے لگتا تھا کہ میں کیسی قبیح حرکت کر رہا ہوں مگر اُس نے بہانہ یہ بنایا کہ میں تو محمدرسول اللہ کی تعلیم کو جھٹلارہاہوں.آپ کو تو جھوٹا نہیں کہہ رہا.یہ ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘ والی بات ہے مگر بہر حال اس سے اُس اثر کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے جو شدید ترین معاندین کے دلوں پر بھی آپ کی صداقت اور راستبازی کی وجہ سے قائم ہو چکا تھا.امیہ ابن خلف بھی آپ کا ایک شدید معاند تھا مگر ایک موقعہ پر اُس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکل گئے کہ خدا کی قسم جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بات کرتا ہے تو سچی ہی کرتا ہے جھوٹ نہیں بولتا ( بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) کہتے ہیں ’’ جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے ‘‘.محمد ؐ کا یہ کتنا بڑا جادو ہے کہ آپ ؐ کے اپنے دشمنوں سے بھی اپنی صداقت اور راستبازی تسلیم کروالی.اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی پاک اور بے عیب زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا ؟ یعنی انہیں تو چاہیے تھا کہ آپ کو فوراً پہچان لیتے اور آپ کی تکذیب کا راستہ اختیار نہ کرتے مگر دیکھتے ہوئے اُن کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے اور واقف ہوتے ہوئے ناواقفوں کی سی باتیں کرنے لگے.پھر فرماتا ہے اَمْ يَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ١ؕ بَلْ جَآءَهُمْ

Page 369

بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ.یعنی کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس آدمی کے ساتھ جنوں کا تعلق ہے ؟ ان کی یہ بات بھی بالکل غلط ہے.اصل بات صرف یہ ہے کہ وہ اُ ن کے پاس ایک ایسی تعلیم لے کر آیا ہے جس پر عمل کرنا اُن کو دو بھر معلوم ہوتا ہے اور وہ اُسے ناپسند یدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.کیونکہ اس تعلیم کے غالب آنے سے اُن کی چودھرئیت جاتی ہے اور اُن کی سرداریاں ختم ہوتی ہیں اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کی چوہدریت ختم ہو.گویا مخالفین نے جب دیکھا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے دوسرا پہلو بدلا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ جھوٹا تو نہیںہاں اس کا جنّات کے ساتھ تعلق ہے اور وہ اسے اس قسم کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں.عیسائی لوگ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ یہ کیا توہّم والی باتیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو ہّم تو کفار کا ہے اور اُن کو عقلمند کون کہتا ہے.پھر خود انجیل میں حضرت مسیح ؑ کے متعلق اُن کے دشمنوں کا قول درج ہے کہ ’’ اس میں بدرُوح ہے اور وہ دیوانہ ہے.‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۰) اگر حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں بھی یہی بات کہی گئی اور اُس پر انہیں تعجب نہیں ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر یہی بات کہی گئی تو اس پر تعجب کیوں.بہر حال اللہ تعالیٰ نے بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ میں اُن کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے اوراَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ میں اُن کے انکار کی وجہ بتائی ہے.اُن کے اعتراض کا تو یہ جواب دیا ہے کہ کیا کبھی جنّات سے تعلق رکھنے والوں نے بھی لوگوں کے سامنے ایسی تعلیم پیش کی ہے جو اُن کی تمام اخلاقی روحانی اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا حل ہو اور جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں اُن کو اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات حاصل ہوں.اگر دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا تو محمدؐر سول اللہ ایسی تعلیم کو پیش کرکے جنات سے تعلق رکھنے والا کس طرح ہوااوراَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُ ن کے انکار کی یہ وجہ نہیں کہ محمدؐ رسول اللہ میں کوئی عیب پاتے ہیں بلکہ انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ حق پر عمل کرنا اُن کو ناپسند ہے.اگر وہ محمد ؐرسول اللہ کو قبول کر لیں تو انہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑتی ہیں.انہیں گندی سے گندی گالیاں سُننی پڑتی ہیں.انہیں مالی اور جانی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں.اُنہیں اپنا وطن چھوڑنا پڑتا ہے.انہیں اپنی سرداریوں کو ترک کرنا پڑتا ہےاور یہ چیز ایسی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے.پس وہ مخالفت کے لئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں.کبھی لوگوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہےاور کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا جنّات کے ساتھ تعلق ہے اور چاہتے ہیں کہ سچائی دنیا میں ظاہر نہ ہو.حالانکہ اگر حق کو لوگوں کی خواہشات کا تابع کر دیا جائے تو آسمان اور زمین میں فساد پیدا ہو جائے یعنی تعلق باللہ بھی نہ رہے اور تعلق بالعباد کے متعلق بھی لوگوںکو کہیں سے راہنمائی میسر نہ آئے اور اس طرح ہر طرف ظلمت اور تاریکی ہی

Page 370

دکھائی دینے لگے.اس کے بعد فرماتا ہے بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ.حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کے پاس اُن کی عزت اور شرف کا سامان لے کر آئے ہیں مگر وہ اپنی عزت اورشرف کے سامانوں سے بھی اعراض کر رہے ہیں.یعنی قرآنی تعلیم کی اتباع میں اُن کی بزرگی اور شرف کے سامان مخفی تھے پس اُس کو چھوڑ کر وہ اس سے منہ نہیں موڑ رہے.بلکہ اپنی ترقی سے مُنہ موڑ رہے ہیں.اس آیت میں قرآن کریم کو ذکر قرار د ے کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک عظیم الشان شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ سچے دل سے اس پر ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم کی طرف آئے تھے جو غیر متمدن اور تہذیب و شائستگی کے اصول سے بالکل بے گانہ تھی اور ہر قسم کی خرابیاں اُس میں پائی جاتی تھیں.وہ لوگ ڈاکہ ، چوری اور راہزنی میں مشہور تھے اور فسق و فجور اُن کی گھٹی میں رچا ہوا تھا.دوسرے کو قتل کردینا اُن کے نزدیک ایک معمولی بات تھی.مائوں سے شادی کرلیتے تھے.شراب کے نشہ میں ہر وقت چور رہتے تھے.لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.عورتوں کو حیوانوں سے بد تر سمجھتے تھے.معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑائی شروع کر دیتے تھے جو بعض دفعہ سالہا سال تک جاری رہتی تھی.غرض نہ انہیں کوئی اخلاقی برتری حاصل تھی نہ تمدنی برتری حاصل تھی.نہ سیاسی برتری حاصل تھی.نہ مذہب سے انہیں کسی قسم کی دلچسپی تھی.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور قرآن کریم کی برکت سے وہ تھوڑے دنوں میں ہی دنیا کے معلم اور استاد بن گئے اور ایک نئی تہذیب اور تمدن کی انہوں نے بنیاد ڈال دی.قیصر و کسریٰ کی حکومتیں بھی اُن سے ٹکرائیں تو وہ پاش پاش ہو گئیں اور پھر وہ جس جگہ بھی گئے انہوں نے علوم کے دریا بہا دئیے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عربوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ علم تاریخ کیا چیز ہے یا صرف اور نحو کونسے علوم ہیں یا فقہ اور اصول فقہ کس کو کہتے ہیں.یا علم معانی اور بیان کس چیز کا نام ہے.یا فن بلاغت کس کو کہتے ہیں.یا علم اقتصادیات کو نسا علم ہے.یا علم کلام کیا چیز ہے.مگر قرآن کریم کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہی خانہ بدوش اور اونٹوں کے چرواہوں کے ذریعہ دنیا میں ان تمام علوم کو پھیلا دیا.اسی طرح فنِ تعمیر.قالین بانی اور عمارتوں پر رنگدار بیل بوٹے بنانے بھی مسلمانوں سے ہی یورپ نے سیکھے.بلکہ فنِ موسیقی جو آج تمام متمدن دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اُس کی ایجاد کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہی ہے اور خود یوروپین مصنّفین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے.اسی طرح فلسفہ کو یورپ کی ایجاد سمجھا جاتا ہے لیکن ایک یوروپین فلاسفر نے لکھا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.فلسفہ میں بھی ہم مسلمانوں کے ہی مرہون منت ہیں.

Page 371

غرض قرآن کریم نے مسلمانوںکو اس قدر شرف بخشا اور اس قدر بزرگی دی کہ وہ دنیا کے معّلم اور راہنما بن گئے.حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب خسرو پرویز کے پوتے یزد جرد کی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانہ پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے اُن کے مقابلہ کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی سر کردگی میں ایک لشکر روانہ کیا.حضرت سعد ؓ نے جنگ کے لئے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمر ؓ کو اُس مقام کا نقشہ بھجوا دیا.حضرت عمر ؓ نے اس مقام کو بہت پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ پیشتر اس کے کہ شاہِ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہِ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو.چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یزد جرد کی ملاقات کے لئے بھجوا دیا.جب یہ وفد شاہِ ایران کے دربار میں پہنچا تو شاہ ِایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ملک میں کیوں فساد بر پا کر رکھا ہے.جب اُس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مقرنؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دُنیا کے تمام لوگوں کو دین حق میں شامل ہونے کی دعوت دیں.اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں.یزد جرد اس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مُردار خوار قوم ہو.تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملہ کے لئے مجبور کیا ہے تو میں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کے لئے تیار ہوں کہ تم اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکو اسی طرح تمہیں پہننے کے لئے لبا س بھی دوںگا.تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک کو واپس چلے جائو تم ہم سے جنگ کرکے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو.جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مغیرہ بن زرارہ ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا.آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے یہ بالکل درست ہے.ہم واقعہ میں ایک وحشی اور مُردار خوار قوم تھے.سانپ اور بچّھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیااور اُس نے اپنا رسول ہماری ہدایت کے لئے بھیجا.ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اُس کی باتوں پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہےاوراب ہم میں وہ خرابیاںموجود نہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے.اب ہم کسی لالچ میں آنے کے لئے تیار نہیں.ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے.اب اس کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہو گا.دنیوی مال و متاع کا لالچ ہمیں اپنے ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتا.یز د جرد نے یہ بات سنی تو اُسے سخت غصّہ آیا اور اُس نے ایک نوکر سے کہا کہ جائو اور مٹی کا ایک بورا لے آئو.مٹی کا بورا آیا تو اس نے

Page 372

اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اس لئے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا.وہ صحابی ؓ نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے انہوں نے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کو بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے.بادشا ہ نے جب اُن کایہ نعرہ سنا تو وہ کانپ اُٹھا اور اُس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا اُن سے واپس لے آئو.یہ تو بڑی بد شگونی ہوئی کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی اُن کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اُس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دُور نکل چکے تھے.لیکن آخر وہی ہو ا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمانوں کے ماتحت آگیا (محاضرات تاریخ الامم الاسلامیۃ جلد ۱ صفحہ ۲۰۳ تا ۲۰۹، مقدمۃ تاریخ ابن خلدون اخبار القادسیةجلد ۲ صفحہ ۹۱ تا ۹۴ ) یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہو ا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے اُن کے اخلاق اور اُن کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.اُن کی سفلی زندگی پر اُس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی سطح پرلا کر کھڑا کر دیا تھا.حضرت عمر ؓ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ حج کے لئے گئے تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے.اس وقت دھوپ چمک رہی تھی اور پسینہ بہ رہا تھا مگر آپ وہاں بڑی دیر تک کھڑے رہے.اس وقت کسی کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر آپ سے کچھ عرض کر سکے مگر جب زیادہ دیر ہو گئی تو ایک صحابی ؓ جو حضرت عمر ؓ کے بڑے دوست تھے لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ حضرت عمر ؓ سے پوچھیں کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں.انہوں نے جرأت کی اور آگے بڑھ کر حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا کہ حضور یہاں کیوں کھڑے ہیں سخت گرمی کا وقت ہے اور لوگ تکلیف محسوس کر رہے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا.میں یہاں اس لئے کھڑا ہو ں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا تھا کہ اچانک میرا باپ آگیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا میں نے تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ تو جا کر سو رہے اور اونٹوں کا خیال چھوڑ دے.آج جب میں یہاں سے گذرا تو میرے دل میں خیال آیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے کتنا اعزاز بخشا کہ آج لاکھوں آدمی میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہیں حالانکہ میں وہی ہوں جو اکیلا اس جنگل میں اونٹ چرایا کرتا تھا اور جسے باپ نے اس لئے مارا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے سو کیوں گیا تھا.حضرت ابو بکر ؓ کو دیکھ لو آپ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے

Page 373

اور مکّہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابو بکر ؓ عرب کا ایک شریف اور دیانت دار تاجر تھا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ابو بکر ؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور حضرت ابو بکر ؓ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکہ میں بھی یہ خبر جاپہنچی.ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابوبکر ؓ کے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے.جب انہوں نے سنا کہ ابو بکر ؓکے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کر لی ہے تو اُن کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا نا ممکن ہو گیا اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابو بکر ؓ کا ذکر کر رہے ہو ؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر ؓ جو تمہارا بیٹا ہے انہوں نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اُس نے بھی ابو بکر ؓ کی بیعت کر لی ہےاور جب اُس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابو بکر ؓ کو خلیفہ اور بادشا ہ بنا لیا ہے تو ابو قحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗیعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ رسول اللہ اُس کے سچے رسول ہیں.حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے.انہوںنے جو یہ کلمہ پڑھا اور دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبردست ثبوت ہے.ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اُس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جا تا.غرض اسلام نے اپنے ماننے والوں کو فرشِ زمین سے اٹھایا اور انہیں ثریا تک جا پہنچایا.تاریخ اُن کے کارناموں سے بھری پڑی ہےاور کوئی شخص جو دیدۂ بینا رکھتا ہو اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو ایک لازوال شہرت بخشی اور اُن کی عزت کو اُس نے چار چاند لگا دیئے.مگر وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کو نہ مانا وہ اپنی پہلی عزتیں بھی کھو بیٹھے اور ذلّت کے ایسے گڑھوں میں گِرے کہ آج کوئی شخص اُن کا نام تک نہیں جانتا اور جن کو جانتا بھی ہے اُن کو وہ عزّت سے یاد نہیں کرتا بلکہ ذلّت اور رسوائی سے یاد کرتا ہے.اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ١ۖۗ وَّ هُوَ خَيْرُ کیا تُو ان سے کوئی تاوان مانگتا ہے ؟( ایسا نہیں ہو سکتا )کیونکہ تیرے رب کا دیا ہوا مال بہت اچھا ہے اور وہ الرّٰزِقِيْنَ۰۰۷۳وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۷۴ (رب) بہتر ین رزق دینے والا ہے.اور تُو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہے.اور جو لوگ

Page 374

وَ اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سچّے راستہ سے لَنٰكِبُوْنَ۰۰۷۵ ہٹنے والے ہیں.حلّ لُغَات.خَرْجًا.اَلْخَرْجُ : اَلْخَرَاجُ یعنی خرج کے معنے لگان کے ہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے تُو ان سے کچھ مانگتا تو نہیں کہ ان پر تیری تعلیم کا قبول کرنا گراں گذررہا ہے.اگر تُو ان سے اپنی ذات کے لئے کچھ مانگتا تو کوئی بات بھی تھی مگر تیرا بوجھ تو سارا تیرے رب نے اٹھایا ہوا ہے.اور اسی کا بوجھ اُٹھانا اور رزق دینا سب سے بہتر چیز ہے.پھر کیایہ اتنا بڑا نشان دیکھنے کے بعد بھی آنکھیں نہیں کھولتے اور تیری صداقت کو تسلیم نہیں کرتے ؟ یعنی ان کے راستہ میں سب سے بڑی روک یہ ہے کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی ذاتی وجاہت اور برتری کے حصول کے لئے بتوں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنی ذاتی برتری کے لئے جدوجہد کر رہے ہوتے تو مکہ والوں سے کبھی تو کچھ مانگتے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ کیفیت تھی کہ خود مکّہ والوں نے آپ کو پیغا م بھجوایا کہ اگر آپ کو حکومت اور سرداری کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو اپنا سردار ماننے کے لئے تیار ہیں.اگر دولت کی خواہش ہے تو ہم اپنی دولت جمع کرکے آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں کہ سارے عرب میں آپ سے بڑھ کر کوئی دولت مند نہ ہو.اور اگر کسی حسین اور خوبصورت لڑکی سے شادی کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اعلیٰ اور معزز گھرانے کی حسین ترین لڑکی آپ کے عقد کے لئے پیش کرنے کو تیار ہیں اور اس کے بدلہ میں ہم آپ سے صرف اس بات کی خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہیں.اسی طرح ایک مرتبہ رؤسائے قریش ابوطالب کے پاس آئے اور یہ درخواست کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے بتوں کو گالیاں دینے سے روک لیں اور جب ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ مجھ پر اور اپنی جان پر رحم کرو اور ظاہر کیا کہ مجھ میں ساری قوم کی مخالفت کی طاقت نہیں ہے تو آپ نے فرمایا.اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کر دیں تب بھی میں اُس پیغام کو نہیں چھوڑ سکتا جس پیغام کا پہنچانا خدا نے میرے سُپرد کیا ہے (دیکھو المواہب اللدنیۃ جلد ۱ صفحہ ۴۸ و طبری جلد ۲ صفحہ ۴۰۸ تا۴۱۰ ذکر

Page 375

الخبر عمّا کان من امر نبی اللہ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام مباداة رسول اللہ قومہ وما کان منھم و ما دار بین رسول اللہ و رؤساء قریش ) اس واقعہ سے مکّہ والے سمجھ سکتے تھے کہ محمد رسول اللہ اُن سے اپنی ذات کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ جو کچھ کہہ رہے ہیں خود اُن کی اصلاح اور ترقی کے لئے کہہ رہے ہیں.پھر اس کے علاوہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو بھی دیکھ سکتے تھے کہ محمدؐر سول اللہ اکیلا اور بے یارو مدد گار تھا.کوئی اُس کا ساتھی نہیں تھا کوئی اس کا ہم نوا نہیں تھا کوئی اُسے دشمنوں کے حملوں سے بچانے والا نہیں تھا کوئی اُسے مالی مدد دینے والا نہیں تھا.مگر جونہی خدا تعالیٰ کی آواز اُس کی زبان سے بلند ہوئی اُس آواز نے لوگوں کے قلوب میں ایک ارتعاش پیدا کرنا شروع کر دیا.سعید طبع لوگوں پر ملائکہ کا نزول شروع ہو گیا اور اُن کے دلوں میں اسلام کی رغبت اور محبت پیدا ہوئی یہاں تک کہ آپ پر ایما ن لانے والے جو پہلے انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے سینکڑوں سے ہزاروں اور پھر ہزاروں سے لاکھوں کی تعداد تک جا پہنچے اور اب اس زمانہ میں تو کروڑوں تک پہنچ گئے ہیں.ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیاں کرنے والے نوجوان آپ کے گر دجمع ہو گئے.جہاندیدہ اور تجربہ کار بڈھے آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے.مالدار اور ذی وجاہت خاندانوں کے چشم و چراغ آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے لگ گئے.عوام جو ملک کی ریڑ ھ کی ہڈی کہلاتے ہیں وہ آپ کے دائیں اور بائیں پر وانوں کی طرح اپنی فدائیت اور جاں نثاری کے مظاہرے کرنے لگے.دولت آپ کے قدموں پر نثار ہو نے لگی اور حکومت کی عنان آپ کے مقدس ہاتھوں میں آگئی.یہ سب کچھ خدائے قادر و برتر کا ایک زندہ نشان تھا جو اُس نے آپ کی صداقت کے لئے ظاہر کیا مگر بد قسمت لوگوں نے پھر بھی آپ کو شناخت نہ کیا.وہ آنکھیں رکھتے ہوئے نابینا ہو گئے اور کان رکھتے ہوئے بہرے ہوگئے اور دل رکھتے ہوئے عقل اور سمجھ سے بیگانہ ہو گئے.پھر فرماتا ہے اگر یہ نشان بھی اُن کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں تھا تو وہ اتنا توسوچتے کہ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ تُو انہیں صراط مستقیم کی طرف بلا رہا ہے.جس میں خود اُن کا اپنا فائدہ ہے.مگر یہ لوگ اُس راستہ کو ترک کر کے ایک غلط راہ اپنے لئے اختیار کر رہے ہیں.جس کا نتیجہ بہر حال یہی ہوگا کہ وہ نقصان اٹھائیں گے اور اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالیں گے.کیونکہ سیدھے راستہ کو ترک کرکے کبھی کوئی قوم نجات حاصل نہیں کر سکتی.یہ آیت اسلام کی صداقت اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کا اتنا کھلا ثبوت ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کیا جائے اتنی ہی اسلام کی صداقت اور اُس کی حقانیت واضح ہوتی ہے.اسلام تیرہ سو سال سے دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کر رہا ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس کی طرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بُلا رہے ہیں اور یہ کہ دنیا

Page 376

جب بھی اس کے خلاف کسی اور راستہ پر چلے گی وہ تباہ و برباد ہوگی اور واقعات شہادت دیتے ہیں کہ ہمیشہ یہی دعویٰ سچا ثابت ہو رہا ہے.چنانچہ دیکھ لو اس وقت تک یورپ کے مختلف نظریے اسلام سے ٹکرا چکے ہیں.جن میں سے بعض مذہبی ہیں اور بعض سیاسی اور اقتصادی.مگر ہر نظریہ میں یورپ نے بہت بُری طرح شکست کھائی ہے اور آخروہ اُسی راستہ کی طرف آیا ہے جو اسلام نے پیش کیا تھا.مذہبی نظریوں میں سے سب سے بڑا توحید کا عقیدہ ہے.جب عیسائیوں نے ترقی کی تو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے تھے اور ہر قسم کے بشری حوائج اپنے اندر رکھتے تھے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ نعوذباللہ خدا اور خداکے بیٹے تھے اور مسلمانوں سے اس عقیدہ میں انہوں نے لڑائی شروع کر دی.یورپ کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں نے بھی بعض باتوں میں اُن کی ہمنوائی اختیار کر لی اور کہنے لگے کہ حضرت مسیح ؑ خدا تو نہیں تھے مگر کسی حد تک وہ علمِ غیب ضرور رکھتے تھے.وہ مُردوں کو بھی زندہ کر لیا کرتے تھے.کچھ جانور بھی وہ پیدا کر لیا کرتے تھے.اس طرح آہستہ آہستہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی کئی صفات حضرت مسیح ؑ کی طرف منسوب کر دیں اور وہ بھی عیسائیت کی تقویت کا موجب بن گئے.مگر یورپ اور اسلام کی اس ٹکر کا نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائی اسلام سے ٹکرائے اور اس لئے ٹکرائے کہ وہ اسلام کو مسیحت کا شکار بنائیں.مگر اس ٹکرائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی یورپ جو توحید پر حملہ کیا کرتا تھا.وہی یورپ جو تثلیث کا پر ستار تھا آج اپنے مُنہ سے توحید کا اقرار اور تثلیث کا انکار کر رہا ہے.یہ الگ سوال ہے کہ قومی لحاظ سے یورپ کیا کہہ رہا ہے.یوں انفرادی رنگ میں اُن سے پوچھ کر دیکھو کہ کیا تم مسیح ؑ کو خدا مانتے ہو.تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو توحید کے قائل ہیں اور ہم اگر مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو صرف ان معنوں میں کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب اور راستباز انسان تھے.غرض مغرب اس عقیدہ میں اسلام سے ٹکرایا مگرآخر اسلام ہی غالب آیا اور مغرب اپنے نظریہ میں ناکام ہوا.یہ انہی لوگوں کا نظریہ تھا جنہوں نے تو پیں بنائیں.ریلیں ایجاد کیں.ہوائی جہاز بنائے اور دنیا پر اپنی عظمت کا سکّہ بٹھایا.لیکن اسلام سے ٹکرا کر اُن کے لئے اپنی شکست ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا.پھر عملی نظریوں میں سے ایک طلاق کا مسئلہ ہے جو اسلام نے پیش کیا اور جس پر مغرب نے مدتوں ہنسی اڑائی.بڑے بڑے مقنّن اور ماہر فنون جو یورپ میں چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اُن کی کتابوں میں طلاق پر ہنسی اڑائی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے کہ مردا پنی عورت کو چھوڑ دے اور پھر وہی عورت ایک دوسرے گھر میں جا کر اپنی زندگی بسر کر نے لگے.مگر اب پچھلے تیس سال سے یورپ کے ہر ملک میں طلاق کے قانون پاس ہونے لگے ہیں اور وہی مسٔلہ جس کی مخالفت کی جاتی تھی اُس کی تائید کی جا رہی ہے.

Page 377

پھر اسلام نے اگر طلاق کا مسئلہ رکھا تھا تو اُس کے ساتھ کئی قسم کی شرطیں لگا دی تھیں جو عورت کے حقوق کی حفاظت کرتی تھیں.مگر یورپ کے بڑے بڑے فلسفیوں اور مقنّنوں نے اس پر ہنسی اڑائی اُن کی کتابوں کے ہزاروں صفحات ان اعتراضوں سے بھرے ہوئے ہیں کہ اس سے عورت اور مرد کی محبت کے حقوق کو تلف کر دیا گیا ہے.ان کے جذبات کو کچل دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کو تباہ کر دیا گیا ہے.مگر اب انہی ہنسی اڑانے والوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے ملکوں میں اس کثرت کے ساتھ طلاق کا رواج ہے کہ ٹائمز آف لنڈن میں مَیں نے ایک دفعہ خبر پڑھی کہ امریکہ کی فلاں عورت مری تو اس کے جنازہ میں گیارہ خاوند شریک ہوئے.میں اس خبر کو پڑھ کر حیران رہ گیا کہ گیارہ خاوندوں کے کیا معنے ہیں.نیچے تفصیل پڑھی تو لکھا تھا کہ اس عورت نے اٹھارہ خاوند کئے تھےجن میں سے سترہ سے اس نے طلاق لے لی.اُن سترہ میں سے چھ مر گئے باقی گیارہ زندہ تھے جو اس احترام میں کہ کسی وقت یہ ہماری بیوی رہ چکی ہے اُس کے جنازہ میں شریک ہوئے.پھر علیحدگی کی جو وجوہ بیان کی گئی تھیں وہ اور بھی حیرت انگیز تھیں.ایک وجہ یہ لکھی تھی کہ اُس کی عورت نے عدالت میں درخواست د ی کہ میرا خاوند گھر میں آتاہے تو مجھے چومتا نہیں.اس پر مجسٹریٹ نے لکھا.اُف اتنا غضب یہ خاوند ہر گز عورت رکھنے کا مستحق نہیں.میں اس کی علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں.ایک اور وجہ یہ لکھی تھی کہ عورت نے جج سے کہا میں نے ایک ناول لکھا ہے مگر میرا خاوند کہتا ہے یہ سخت بیہودہ ہے.اس پر مجسٹریٹ لکھتا ہے یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اب علیحدگی کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں.اسی طرح اور کئی وجوہ لکھی تھیں.اب انگلستان میںبھی آہستہ آہستہ طلاق کو نرم کیا جا رہا ہے.مگر نتیجہ یہ ہے کہ اب امریکہ چلاّ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں طلاق اتنی سستی ہو گئی ہے کہ گھر بر باد ہو گئے ہیں.خاوند دفتر سے چڑا ہوا آتا ہے اور وہ اپنی بیوی سے ذرا اونچا بولتا ہے تو بیوی اٹھتی ہے اور گھر سے باہر چلی جاتی ہے.پوچھو کہ کہاں جا رہی ہو تو کہتی ہے عدالت میں جارہی ہوں تاکہ خاوند سے علیحدگی کا فیصلہ کراؤں.غرض اس مسئلہ میں بھی یورپ نے اسلام سے ٹکرا کر بہت بُری طرح شکست کھائی.اگریورپ کے فلاسفر بڑے بڑے اعلیٰ فلسفے بنا سکتے ہیں تو اُن کا یہ چھوٹا سا فلسفہ زیادہ اچھا ہو نا چاہیے تھا.کیونکہ چھوٹی چیز زیادہ آسانی سے بن جاتی ہے اور بڑی چیز بنانی مشکل ہو تی ہے.مگر اس چھوٹے سے فلسفے میں بھی اسلام سے ٹکرا کر یورپ کی جو حالت ہوئی ہے وہ آج ساری دنیا پر ظاہر ہے.پھر شرا ب کو لے لو.اسلام نے کہا ہے کہ شراب مت پیٔو.مگر ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ شراب کلی طور پر خراب ہے شراب اور جوئے میں فوائد بھی ہیں مگر چونکہ ان کی مضر تیں زیادہ ہیں اور فوائد کم ہیں اس لئے ہم یہ چیزیں تمہارے لئے حرام قرار دیتے ہیں (البقرۃ:۲۲۰.المائدۃ:۹۱).اب ڈاکٹر بعض مریضوں کو شراب

Page 378

دیتے ہیں تو جن لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اسلام نے شراب کے کچھ فوائد بھی تسلیم کئے ہیں وہ جھٹ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اسلام نے ایسی اچھی چیز کیوں حرام قرار دے دی ہم نے تو دیکھا ہے کہ فلاں کی نبضیں چھوٹ چکی تھیں مگر برانڈی دیتے ہی اُس کی مردہ نبض میں حرکت ہو نے لگی اور اُس کے جسم میں جان پڑگئی.ایسے لوگوں کے سامنے ہم قرآن کھول کر رکھ دیتے ہیں کہ تم نے تو یہ شراب کا فائدہ آج معلوم کیا ہے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ اس میں محض خرابی ہی خرابی نہیں بلکہ فوائد بھی ہیں مگر چونکہ اس کے نقصانات زیادہ ہیں اور چونکہ اس میں بڑا بھاری نقص یہ ہے کہ جب کو ئی شخص اسے پینا شروع کر تا ہے تو اُس کی اعلیٰ دماغی طاقتیں ناکارہ ہو نے لگتی ہیں اور پھر اُسے شراب کی ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا اس لئے اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا.یہ ہو سکتا ہے کہ سو میں سے ایک آدمی ایسا ہو جسے شراب پینے کے باوجود اس کی عادت نہ پڑے مگر سو میں سے نناوے یقیناً اس کے عادی ہو جائیں گےاور ایک کی خاطر نناوے کو قربان نہیں کیا جا سکتا.جب سو میں سے نناوے آدمی اس سے خراب ہو جاتے ہیں تو ضروری تھا کہ اس ایک کو نناوے پر قربان کیا جاتا نہ کہ نناوے کو ایک کے لئے قربان کیا جاتا آخر ہر زمانہ کا مقنّن یہ کس طرح ثابت کر سکتا ہے کہ فلاں شخص زیادہ مضبوط ہے اور فلاں شخص کم.فلاں شخص میں شراب کو بر داشت کرنے کی زیادہ طاقت ہے اور فلاں میں نہیں.ہر شخص کے متعلق نہ اس قسم کی تحقیق ہو سکتی ہے اور نہ ایسی تحقیق یقینی کہلا سکتی ہے.اس لئے اسلام نے ایک قانون مقرر کر دیا کہ شراب حرام ہے کیونکہ نناوے فیصدی اس کا نتیجہ یہی پیدا ہو تا ہے کہ پینے والے کو شراب کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا.پس اس مسئلہ میں بھی اسلام نے جو راہ اختیار کی وہی درست ہے نہ کہ وہ راہ جو یورپ نے اختیار کی.پھر کثرت ازدواج کا مسئلہ ہے.قرآن نے اس مسئلہ کو بیان کیا مگر مسلمانوں نے عیسائیوں اور یو روپین مصّنفین کے ڈر کے مارے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو عربوں کے زمانہ کی بات تھی.چونکہ عربوں کے رسم و رواج میں یہ بات شامل تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کی دلداری کرتے ہوئے اس تعلیم کو جاری کر دیا.مَیں ایک دفعہ شملہ گیا.وہاں درد صاحب مرحوم جو میرے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اُن کی طرف سے ایک دعوت ِ عصرانہ میری ملاقات کے لئے گورنمنٹ کے بڑے بڑے افسروں کو دی گئی.میں وہاں بیٹھا تھا کہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے رئیس جنہیں سَر کا خطاب بھی ملا ہو اتھا مسٹر مترا کے ساتھ جو لاء ممبر تھے کمرہ میں داخل ہوئے وہ آپس میں کچھ باتیں کرتے آرہے تھے جب و ہ کمرہ میں داخل ہوئے تو میرے کانوں میں اُن کی یہ آواز پڑی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ گائے کے سوال پر ہندوؤں میں اس قدر خفگی پیدا ہو گی ورنہ قرآن میں وہ اس کو ضرور حرام قرار دے

Page 379

دیتے.جب میرے کانوں میں یہ آواز پڑی تو طبعی طور پر میرے دل میں احساس پیدا ہوا کہ میں ان سے دریافت کروں کہ کیا بات ہو رہی تھی.چنانچہ جب وہ بیٹھ گئے تو میں نے مسٹر متّر ا سے کہا کہ ابھی میرے کانوں میں اس قسم کی آواز آئی تھی کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ دونوں کی آپس میں کیا گفتگو ہو رہی تھی.انہوں نے کہا ہاں صاحب ! انہوں نے تو کمال کر دیا.ان صاحب سے آج مجھے ایک ایسا نکتہ معلوم ہو ا جس سے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بڑھ گئی ہے اور میں اسلام کا بہت زیادہ قائل ہو گیا ہوں یہ صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ اسلام غیر اقوام کی دل داری کا اس قدر خیال رکھتا ہے کہ محض یہودیوں کے لئے اُس نے سؤر کو حرام کر دیا.چونکہ یہودیوں کو سؤر سے نفرت تھی اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے سؤر کو ممنوع قرار دے دیا.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ ہندوؤں کے دلوں میں گائے کی کیا عظمت ہے تو یقیناً آپ قرآن میں گائے کھانے سے بھی مسلمانوں کو منع کر دیتے.کیونکہ اسلام نہایت ہی ملاطفت اور نرمی کی تعلیم دیتا ہے اور وہ دوسروں کے جذبات کا بہت خیال رکھتا ہے مجھے علم نہیں تھا کہ اسلام دوسر ی اقوام کا اس قدر خیال رکھتا ہے.ان صاحب سے آج پہلی دفعہ مجھے یہ بات معلوم ہو ئی ہے اور اس بات نے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بٹھا دی ہے.میں نے کہا مجھے افسوس ہے کہ میں اُ س عظمت کو جو آپ کے دل میں پیدا ہوئی ہے کچھ کم کرنے لگا ہوں.آپ ذرا اِن صاحب سے پوچھئیے کہ قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنا یا ہے یا خدا نے بنا یا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو علم نہیں تھا کہ ہندو اپنے دلوں میں گائے کی کس قدرعظمت رکھتے ہیں.کیا خدا کو بھی اس بات کا پتہ نہیں تھا ؟ اس پر وہ مسلمان رئیس گھبرا کر کہنے لگا اوہو مجھ سے غلطی ہو گئی ہے.ممکن ہے میرے اس جواب سے مسٹر متّرا کے دل میں اسلام کی عزت کچھ کم ہو گئی ہو مگر یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ وہ قرآن کے متعلق یہ سمجھنے لگتے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب ہے اور جونیا نکتہ اُن کے ذہن میں آتا تھا وہ اس میں داخل کر دیتے تھے.حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تمام احکام محض ہمارے فائدہ کے لئے دیئے ہیں.یہ بات بالکل غلط ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے حالات کا علم نہ تھا یا چونکہ عربوں میں فلاں فلاں بات پائی جاتی تھی اس لئے قرآن نے بھی ان کا ذکر کر دیا.کثرت ازدواج کا ہی مسئلہ لے لو.ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ساری دنیا ایسا نہیں کر سکتی اس لئے کہ بعض ملک ایسے ہیں جن میں کچھ مرد زیادہ ہیں.بعض ملک ایسے ہیں جن میں کچھ عورتیں زیادہ ہیں اور بعض ملک عورتوں اور مردو ں کی تعداد کے لحاظ سے مساوی ہیں.اب اگر عورتیں ایک دو فیصد ی بھی زیادہ ہوں تو

Page 380

بہرحال تھوڑے لوگ ہی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتے ہیں ہر ایک نہیں کرسکتا.مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکم ہے یا ایک سے زیادہ شادیاں کرنےکی اجازت ہے.قرآن اسے حکم قرار نہیں دیتا بلکہ اجازت قرار دیتا ہے اور جب یہ اجازت ہے تو جو لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوںگے وہی اس پر عمل کریں گے دوسرے نہیں اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایسے لوگ ایک دو فیصدی سے زیادہ نہیں ہو سکتے.مگر بعض دفعہ زمانہ میں مخصوص حالات کے ماتحت ایسے تغیرات بھی ہو سکتے ہیں کہ قومی ترقی کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کرنی ضروری ہو جائیں.۴۷ء کے شروع میں جب بہار میں فسادات ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تو وہاں سے مسلمان بھاگے اور اِدھر اُدھر چلے گئے.کوئی مدراس چلا گیا کوئی بمبٔی چلا گیا کوئی کلکتہ چلا گیا اور کوئی کسی اور جگہ چلا گیا.ہماری جماعت کا مرکز چونکہ قادیان تھا اس لئے جو لوگ ہماری جماعت سے تعلق رکھتے تھے اُن میں سے بعض قادیان آگئے.ایک دفعہ ان لوگوں میں سے ایک شخص مجھے ملنے آیا اور اُس نے کہا میں بہار سے آیا ہوں وہاں مسلمانوں پر جو تباہی آئی ہے اور جس طرح ہزاروں ہزار مسلما ن وہاں سے بھاگ گئے ہیںوہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں.میں آپ کے پاس صرف اس لئے آیا ہوں کہ مسلمانوں کی اس بر بادی اورتباہی کو دیکھ کر میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ اب مسلمان کیا کریں ؟ اور وہ کس طرح دوبارہ ہندو ستان میں ترقی کر سکتے ہیں ؟ میں نے کہا اس کا علاج تو موجود ہے مگر آپ لوگوں نے کرنا نہیں کہنے لگے.کیوں نہ کریں گے.اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی اگر ہم نے اپنی بقا کے لئے کوئی تدبیر نہ کی تواور کب کریں گے میں نے کہا.اسلام نے اسی قسم کی ضرورت کے لئے کثرت ِازدواج کی تعلیم دی تھی مگر مسلمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ تعلیم تو محض وقتی ضرورت کے ماتحت دی گئی تھی.عرب لوگ جاہل تھے اور اُن کو فوراً دبایا نہیں جا سکتا تھا چونکہ اُن میں کثرت ِ ازدواج کا رواج تھا اس لئے اسلام نے بھی اُن کی دلداری کے لئے یہ تعلیم دے دی ورنہ اسلام کا منشایہ نہیں تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں اسلام درحقیقت ایک شادی کا ہی قائل ہے عرب کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو تعلیم اس نے دی تھی اسے سارے زمانوں پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا.مَیں نے کہا آج مسلمانوں پر جو وبال آیا ہے یہ محض اسلامی احکام کی بے حرمتی کرنے کا نتیجہ ہے.قرآن کریم کے اور احکام جانے دو اس کے صرف دو مسٔلے ہی ایسے ہیں کہ اگر مسلمان صرف انہی پر عمل کرتے تو آج سارا ہندوستان مسلمانوں سے بھرا ہو اہوتا.اُن میں سے ایک تبلیغ ہے اور ایک کثرتِ ازدواج اگر سارے مسلمان تبلیغ کرنے لگ جاتے تو آدھے ہندوستان کو مسلمان بنا لیتے اور اگر تعدد ازدواج پر عمل کرتے تو باقی آدھا ہندوستان بھی مسلمان ہو جاتا اور ہندو کہیں نظر بھی نہ آتا.مگر تم نے اس پر عمل نہ کیا اور یہ بحث کر نی شروع کر دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 381

نے یہ بات یونہی کہہ دی تھی اسی کا خمیازہ آج مسلمان بھگت رہے ہیں.پھر میں نے انہیں کہا کہ اگر آج بھی مسلمان اس پر عمل کریں تو میں ذمّہ لیتا ہوں کہ پچاس سال میں ایک ہندو بھی ہندوستا ن میں نظر نہیں آئےگا.آخر یہ واضح بات ہے کہ جب ہر شخص چار شادیاںکرنے کے لئے تیار ہو جائےگا تو شادی کے لئے اعلیٰ خاندان کی عورتیں میّسر نہیں آسکیں گی.لازمًا گونڈ بھیل گومل اور دوسری ادنیٰ اقوام کی طرف انہیں توجہ کرنی پڑے گی اور ان کی لڑکیو ں سے شادی کرنی پڑے گی.اس طرح دو چار سال میں ہی وہ سارے کے سارے خاندان ہی مسلمان ہو جائیں گے.پھر ہندو کے ہاں اگر ایک بچہ پیدا ہو گا تو مسلمان کے ہاں چار چار پیدا ہوںگے.ہندویوں بھی نسل کے لحاظ سے کمزور ہوتا ہے.اس لئے اس کے اگر دو بچے ہوںگے تو تمہارے سولہ ہوںگے نتیجہ یہ ہوگا کہ بیس پچیس سال میں صرف تم ہی تم ہوگے او ر تمہارا ہی ہندوستان میں زور ہوگا.وہ کہنے لگا جو بچے پیدا ہوںگے وہ کھائیں گے کہاں سے ؟ میں نے کہا یہی تو اس میں نکتہ ہے جسے تم سمجھے نہیں.جب کوئی قوم بھوکی ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جایا کرتی ہے.ایک زمانہ آئےگا جب انہیں کھانے کے لئے روٹی نہیں ملے گی.تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا میسّر نہیں آئے گا.علاج کے لئے دوا نہیں ملے گی.رہنے کے لئے مکان نہیں ملے گا تب یک دم اُن میں جو ش پیدا ہو گا اور وہ کہیں گے اب ہم اس حالت میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے ہم مر جائیں گے یا دوسروں کو مار ڈالیں گے اور جب وہ اٹھے تو یکدم سارے ملک پر قابض ہو جائیں گے.لوگ سمجھتے ہیں کہ بھوک ایک عذاب ہے حالانکہ بھوک خود ایک اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے.جس قوم میں بھوک آجائےگی وہ زیادہ دیر تک غلام بنا کر نہیں رکھی جا سکے گی.وہ شیر بن جائےگی اور اس کا ایک ایک فرد مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائےگا اور جب وہ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے تو اُن کے مقابلہ میں کوئی اور قوم کہاں ٹھہر سکے گی.پہلے ہی یہ ایک کے مقابلہ میں آٹھ ہوںگے او ر پھر بھوکے شیر ہوںگے.نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لڑیں گے اور ملک پر قابض ہو جائیں گے.اسی وجہ سے ہندوستان میں آج کل ادنیٰ اقوام زیادہ طاقتور ہیں لیکن مسلمان ذلیل ہیں کیونکہ ہندو سمجھتا ہے کہ مسلمانوں پر بے شک ظلم کر لو وہ اپنے اموال کی وجہ سے کبھی بغاوت نہیں کر سکتے لیکن ادنیٰ اقوام پر ظلم نہ کر و کیونکہ وہ غربت کی وجہ سے بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گی.حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو عیب سمجھتے ہو وہ عیب نہیں بلکہ بہت بڑا انعام ہے اور یہی علاج ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے مقرر ہے.مگر میں نے پھر کہا کہ علاج تو میں نے بتا دیا ہے مگر تم نے میری بات ماننی نہیں.اس واقعہ پر چھ ماہ گذرے تھے کہ انڈیمان سے مجھے ایک خط ملا.خط لکھنے والا کوئی مدرس یا پروفیسر تھا.اُس نے سخت سُست کہنے کے بعد مجھے لکھا کہ آپ لوگ کچھ کرتے نہیں.اگر کثرتِ ازدواج پر ہی مسلمان عمل کرتے تو آج

Page 382

اُن کی یہ حالت کیوں ہوتی.میں نے اُسے جواب میںلکھا کہ تم مجھے مت کو سو.میں تو لوگوں سے کہتا رہتا ہوں.ملامت کرنی ہے تو اپنے لوگوں کو کرو جو اس پر عمل نہیں کرتے.اب دیکھو یہ کثرت ِ ازدواج کا مسئلہ ہے جو اسلام نے پیش کیا.یہ کتنا اہم مسئلہ تھا.مگر مسلمانوں نے اس کو کس طرح فراموش کر دیا اور وہ بھی عیسائیوں اور ہندوؤں اور دوسرے مذاہب والوں سے ڈر کر حالانکہ قرآن کریم میں بار بار آتا تھا کہ عیسائی اور یہودی تمہارے دشمن ہیں.تم ان کی باتیں کبھی نہ ماننا.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک لچکدار قانون ہو اور ایک غیر لچکدار اور پھر ان قانونوں کو ماننے والی قومیں اکٹھی رہ سکیں.ایک عیسائی اپنی قوم کی حالت دیکھے گا تو فوراً کہےگا کہ اس کے لئے یوں قانون بنائو.مگر مسلمان کہےگا قانون ہم نے بنانا ہے یا خدا نے.قانون تو وہ بنا چکا.اب ہمارا اختیار نہیں کہ ہم اس کے مقابلہ میں کوئی اور قانون بنائیں.اس پر وہ کہےگا.تم پاگل ہو تم حالات کو نہیں سمجھتے.ایک پُرانے قانون کی رٹ لگا ئے چلے جارہے ہو.اس طرح قدم قدم پر ہمارا اور اس کا اختلاف ہو جائےگا.ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ کے قانون کو چھوڑنا بے وقوفی ہے اور اُس کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قانون پر عمل کرنا بے وقوفی ہے.ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ کا قانون آج سے تیرہ سو سال پہلے نازل ہو چکا تھا اب قیامت تک کوئی اور قانون نازل نہیں ہو سکتا مگر اُس کے نزدیک اب نئے قانون کی ضرورت ہے.نئے نظریات اور نئے مسلّمات کی اُس کو جستجو ہے.جب وہ ہم میں اس قدر اختلاف دیکھتا ہے تو وہ ہمارے نقطۂ نگاہ کا دشمن ہو جاتا ہے اور اُس کی یہ دشمنی ایک ایک قدم پر ظاہر ہو جاتی ہے.۲۴ ء میں جب مَیں ولایت گیا تو سرَتھامس آرنلڈ جو علی گڑھ میں پروفیسر رہ چکا تھا اور اُس وقت وہ مشرقی افریقہ کا گورنر تھا اور وہیں سے آیا تھا ایک میٹنگ میں شامل ہو اجس میں مَیں بھی شریک تھا.اُس وقت بعض عورتوں نے مجھ سے مصافحہ کرنا چاہا تو میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں.میری یہ بات اُس پر طبعًا گراں گذری.اور اُس نے بعد میں کہنا شروع کر دیا کہ میں اسلام کا بڑا ماہر ہوں.بہت بڑا مصّنف ہوں اسلام میں ایسی کہیں تعلیم نہیں.اس کے بعد کچھ طالب علم میرے پاس آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ اس طرح ذکر کرتا تھا.کیا اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ میں نے انہیں تفصیل سے اسلام کی تعلیم بتائی اور کہا کہ اسلام عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا.اس پر پروفیسر آرنلڈ کے دل میں میرے متعلق اس قدر بغض پیدا ہو گیا کہ جب کوئی میٹنگ ہوتی تو وہ میری موجودگی میں اُس میں شامل نہیں ہوتا تھا.ایک دفعہ وہ میٹنگ میں تو آیا مگر مجھ سے دُور دُور رہا.میں نے سکرٹری سے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ محض میری وجہ سے آگے نہیں آتا.اُس نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے میں ابھی اُسے بلواتا ہوں میں نے کہا.آ پ دیکھ لیں وہ میرے سامنے نہیں آئےگا

Page 383

چنانچہ ایسا ہی ہوا.اُس نے آواز دی اور کہا پروفیسر آرنلڈ ادھر آئو.اس پر وہ آتو گیا مگر مجھے دیکھتے ہی ایک دوسرے راستہ سے نکل گیا.غرض اس قدر بغض ان کے دلوں میں اسلامی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں.وہ کہتے ہیں ہم اپنی مرضی سے قانون بنانا چاہتے ہیں اور یہ ہر جگہ روڑا اٹکا دیتے ہیں.اور کہتے ہیں اسلام یوں کہتا ہے پس مسلمانوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی آپس میں کبھی دلی مودّت نہیں ہو سکتی.ہاں اگر کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑ دے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دے اور کہے کہ نعوذباللہ خدا تعالیٰ کو غلطی لگ گئی تھی اُس نے زمانہ کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے قانون نہیں بنایا تب بے شک اُس کی یورپ سے مودت ہو سکتی ہے.مگر جب تک وہ ایک خدا کو مانتا ہے جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے جب تک وہ قرآن کو خدا تعالیٰ کی کتاب سمجھتا ہے اُس وقت تک ایک مسلمان اور یورپ کی آپس میں دلی مؤدت نہیں ہو سکتی ایک دفعہ میں ہوائی جہازوں کے ایک بڑے افسر سے ملا بعض اور افسربھی اس وقت موجود تھے.اُس نے باتوں باتوں میں اسلام پر اعتراض کر دیا.میں نے اُس کا جواب دیا اُس نے پھر اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا غرض اسی طرح وہ اعتراض کرتا چلا گیا اور میں جواب دیتا گیا.میں جانتا تھا کہ باتوں باتوں میں مَیں اسے اس طرح پھنسائوںگا کہ اس کے اعتراضات کا خدا تعالیٰ سے ٹکرائو ہو جائے گا.چنانچہ ایک مقام پر آکر وہ پھنس گیا اور میں نے کہا فرمائیے آپ زیادہ عقلمند ہیں یا خدا زیادہ عقلمند ہے ؟ اُس میں کچھ توجوانی کی ترنگ تھی اور کچھ یوں بھی نو تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کا ادب کچھ کم ہو تا ہے.تھوڑی دیر وہ خاموش رہا.مگر پھر کہنے لگا میں سمجھتا ہوں کہ میں زیادہ عقلمند ہوں.اس پر اُس کے تمام ساتھی ہنس پڑے کہ بے وقوفی کی وجہ سے یہ پھنس تو گیا ہے مگر بے حیا بن کر اب یہ کہہ رہا ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے زیادہ عقلمند ہوں.حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی کتاب ہے.جب تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے لازمًا اُسے یورپ کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور اس مقابلہ میں آخر یہی ظاہر ہو گا کہ یورپ ہارا اور اسلام کا خدا جیتا.شراب کے متعلق ہی دیکھ لو.کس طرح یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اسلام انسان کی علّوِ حوصلگی کو نہیں سمجھتا وہ فطرت کے نازک جوہروں کو نہیں پہچانتا.وہ سمجھتا ہے کہ شراب صرف اسی طرح پی جاتی ہے کہ انسان بد مست ہو کر بکواس کرنے لگ جائے.و ہ ایشیائی لوگ تھے جو اس طرح شراب پیا کرتے تھے.ہمارے یورپ کے لوگ وحشی نہیں وہ صرف ایک یا دو پیگ پیتے ہیں جس سے اُن پر کوئی بد حواسی طاری نہیں ہوتی اور ان کی عقل ٹھکانے رہتی ہے.مگرپھر وہی امریکہ جو اسلام پر اعتراض کیا کرتا تھا اُس نے قانون بنایا کہ شراب نوشی قطعًا ممنوع کی جاتی ہے.اگر

Page 384

شراب کے ایک یادو پیگ عقل کو تیز کرتے ہیں تو امریکہ جو سب سے زیادہ شراب پیا کرتا تھا اُس نے شراب کو ممنوع کرنے کی کیوں کوشش کی ؟ اور پھر ممنوع قرار دینے کے بعد اُسے جائز کیوں کر دیا ؟ یہ بھی ایک ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلامی قوانین ہی تمام قوانین سے بہتر ہیں.امریکہ نے مجبور ہو کر شراب کو ممنوع قرار دیا.مگر پھر مجبور ہو کر اسی حرام چیز کو اُس نے حلال کر دیا.اس کی یہ شکست بتا رہی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کے پیچھے خدائی طاقت ہو تی ہے مگر یورپ جو کچھ کہتا ہے اس کے پیچھے کو ئی خدائی طاقت نہیں ہوتی.اسلام نے کہا کہ شراب حرام ہے اور امریکہ نے بھی کہا کہ شراب حرام ہے مگر اسلام کی حرام کی ہوئی چیز آج تک حرام ہے اور امریکہ نے پندرہ سال کے بعد پھر اسی حرام چیز کو حلال کر دیا.یہ تفاوت بتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی بڑی طاقت اور عظمت حاصل تھی.عرب کے لوگ شراب کے اس قدر عادی تھے کہ وہ اور وقتوں کے علاوہ تہجد کے وقت شراب پینا خاص طور پر فخر کا موجب خیال کیا کرتے تھے (بلوغ الإرب الجزء الاول صفحہ ۳۹۴ تقدیم العرب الایمن فی الشرب).اسلام نے اسی وجہ سے اس وقت مومنوں کے لئے تہجد کی نماز مقرر کر دی.پھر رات کی شراب کے علاوہ اُن کے امراء صبح سے سوتے وقت تک پانچ دفعہ شراب پیا کرتے تھے.اسلام نے انہی اوقات کے مقابلہ میں مومنوں کے لئے پانچ نمازیں فرض کر دیں.ان نمازوں میں اور بھی حکمتیں ہیں مگر ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انہی اوقات میں عرب کے لوگ شراب پیا کرتے تھے.ایک دن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا.آج خدا نے کہاہے کہ شراب پینا حرام ہے.اُس وقت مدینہ کے ایک گھر میں کوئی تقریب تھی جس میں بہت سے لوگ مدعو تھے اور نہایت اعلیٰ درجہ کی شراب کے مٹکے انہوں نے منگوائے ہوئے تھے.شراب کا ایک مٹکا ختم ہو چکا تھا اور دوسرا دور شروع ہونے والا تھا کہ ایک ڈھنڈور ا پیٹنے والا مدینہ کی گلیوں میں سے گذرا اور اُس نے کہا اے لوگو! سُن لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج خدا کے حکم سے شراب حرام کر دی ہے.وہ لوگ جو شراب کا ایک مٹکا پی چکے تھے اُن کے متعلق ہر شخص آسانی سے یہ انداز ہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنے بد مست ہوںگے.کس طرح اُن کی عقل پر پردہ پڑ چکا ہو گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا یہ عالم تھا کہ جونہی اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑی وہ چونک اُٹھے اور اُن میں سے ایک نے کہا ارے باہر سے آواز آرہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے.دروازہ کھول کر پوچھو تو سہی کہ کیا بات ہے.دوسرے نے کہا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم ہمارے کانوں میں پہنچ چکا ہے تو اب یہ کیاسوال ہے کہ میں دروازہ کھولوں اور اعلان کرنے والے سے پوچھوں کہ کیا بات ہے.میں پہلے شراب کا مٹکا توڑوںگا اور پھر اس سے پوچھو ں گا کہ کیا بات ہے ؟ (بخاری

Page 385

کتاب اخبارالاحاد باب ما جاء فی اجازۃ خبر الواحد الصدوق)ادھر امریکہ جو عرب کو وحشی قرار دیتا ہے اور جس کے ڈر کے مارے بعض مسلمان بھی اپنی نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ عرب ایک غیر مہذب اور نا تربیت یافتہ قوم تھی وہ دوسروں کی بات ماننے کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوتے تھے.محض ان کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ ازدواج کی تعلیم دے دی یا ایسے ہی اور احکام دے دئیے اُس ملک کی اکثریت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شرا ب بُری چیز ہے.اس ملک کے سائینسدان یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ شراب بُری چیز ہے.اس ملک کے ڈاکٹر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ شراب بُری چیز ہے.اس ملک کی آئین ساز حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور وہ اس کے خلاف ملک میں قانون پاس کرتے ہیں مگر اس زمانہ کا وہ تعلیم یافتہ اور مہذب آدمی جو عرب کو جاہل قرار دیتا ہے جو محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر اعتراض کیا کرتا ہے خود اتنا جاہل ہو جاتا ہے کہ وہ پھر بھی شراب نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس قانون کے بعد لوگ اتنی گندی شرابیں پینے لگ گئے کہ ملک میں ایک ہیجان بر پا ہو گیا.یہا ں تک واقعات ہوئے کہ لوگوں نے جوش میں آکر میتھیلیٹڈ سپرٹ پینی شروع کر دی اور اندھے ہوگئے ( میتھیلیٹڈ سپرٹ ایک قسم کی شراب ہے جس میں میتھل جو زہرہے ملایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کو پی نہ سکیں اور صرف چولہے میں جلانے کے کام آئے ) یہ وہ سمجھ دار لوگ ہیںجو موجودہ زمانہ میں اپنی تہذیب کا ڈھنڈ ورا پیٹتے پھرتے ہیں.اور وہ نعوذ باللہ ’’ جاہل اور بد تہذیب ‘‘ عرب تھے جن کی زبان سے بد مستی کی حالت میں بھی اگر کوئی فقرہ نکلا تو یہ کہ یہ کیا سوال ہے کہ میں دروازہ کھولوں او ر دریافت کروں کہ کیا بات ہے.کیا شراب کے مٹکے کی زیادہ قیمت ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی زیادہ قیمت ہے.جب ایک آواز ہمارے کانوں میں پہنچ چکی ہے تو اب میں پہلے مٹکا توڑوں گا اور پھراس سے دریافت کروںگا کہ کیا بات ہے اگر بات غلط نکلی تو ہم اور شراب منگوالیں گے اور اگر ٹھیک نکلی تو ہم اس فخر سے اپنا سر اونچا کر سکیں گے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سُنتے ہی اُس پر عمل کر لیا.ُ پھر جؤا ہے.دنیا نے اسلام کے اس حکم پر بھی کہ جؤا مت کھیلو ہنسی اُڑائی.انگریز ساری کی ساری جٔوا باز قوم تھی مگر آج کوئی ملک دکھائو جس میں جؤے کے متعلق قانون نہ بن رہے ہوں.وہ ابھی کھلے طور پر اسے چھوڑ نہیں سکے مگر اسلام کی بر تری اور اُس کی فضیلت کی یہ کتنی بیّن دلیل ہے کہ اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو حکم دیا تھا مغرب رفتہ رفتہ بعض قیود اور شرائط عائد کرتے ہوئے اس کی طرف آرہا ہے.مگر کھلے طور پر جؤے کو ممنوع قرار دینے میں ابھی اُسے شرم آتی ہے.جیسے ذوقؔ کہتا ہے ؎ بعد مدت کے گلے ملتے ہوئے آتی ہے شرم اب مناسب ہے یہی کچھ تم بڑھو کچھ میں بڑھوں

Page 386

اگر وہ یکدم جؤا بند کردیں تو انہیں یہ ڈر محسوس ہو تا ہے کہ لوگ کہیں گے آخر تم اسی بات کی طرف آگئے جو اسلام نے پیش کی تھی اس لئے وہ مختلف قیود عائد کرتے چلے جا رہے ہیں.کہتے ہیں فلاں طرز کا جؤا منع ہے.اس اس طرح کھیلنا منع ہے.اگر کھیلنا ہی ہو تو کسی فرم کی معرفت جؤا کھیلا جائے اور اُس کا ریکارڈ رکھا جائے.غرض کئی قیود ہیں جو وہ عائد کررہے ہیں.گویا بات وہی آگئی جو اسلام نے کہی تھی کہ جؤا مت کھیلو مگر کھلے بندوں ابھی اسے ماننے کی ہمت اُن میں نہیں.پھر سزائے موت ہے.قرآن کریم نے بعض جرموں کے متعلق سزائے موت تجویز کی تو کہا گیا کہ یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ ایک انسان کی جان لے لی جائے.ہمارے مسیح نے تو یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دو.(متی باب ۵ آیت ۳۹)چنانچہ یورپ کے بعض ملکوں نے سزائے موت کو منسوخ کر دیا.مگر پچیس تیس سال کے بعد انہوں نے پھر قانون بنائے کہ سزائے موت ضرور ہونی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں رہتا.غرض بیسیوں چیزیں ہیں جو اسلام نے پیش کیں اور جن پر مغرب نے ہنسی اُڑائی مگر ایک ایک چیز سے ٹکرانے کے بعد آخر مغرب کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہی راہ درست ہے جس پر اسلام دنیا کو چلانا چاہتا ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی کتاب جو ایک اُمی نبی ؐ نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی وہ اُسی خدا کا قانون ہے جو فطرت ِ انسانی کا خالق ہے.وہ جانتا تھا کہ جو مشین میں نے بنائی ہے وہ کس طرح چل سکتی ہے اور اُس کی درستی کے لئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں.مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر خود کا مل ایمان نہیں.وہ یورپ کی ہر بات پر حیران ہو کر اُس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ یورپ ناکام ہو ا تو اس کے بعد انہیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اصل تعلیم تو وہی ہے جو قرآن نے پیش کی مگر اتنے میں یور پ ایک اور بات نکال لیتا ہے اور مسلمان پھر اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ عرب میں ایک فاتر العقل لڑکا تھا جسے اُس کے ساتھی لڑکے ہمیشہ چھیڑتے اور دِق کرتے رہتے.جب وہ سخت تنگ آجاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہتا.ارے تمہیں پتہ نہیں کہ فلا ں رئیس کے ہاں بہت بڑی دعوت ہے.اُس نے کئی اونٹ اور دُنبے ذبح کئے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلا رہا ہے.تمہارے ماں با پ اور بھائی بہنیں سب وہاں گئے ہوئے ہیں.تم اگر یہیں رہے تو گوشت وہ کھا جائیں گے اور تم محروم رہ جائو گے.لڑکے اُس کی بات سُن کر دھوکے میں آجاتے اور دعوت کھانے کے لئے اُس رئیس کے مکان کی طرف دوڑجاتے اور یہ اُن کی مار سے بچ جاتا.مگر اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال پیدا ہو تا کہ میں نے تو ان سے جھوٹ موٹ ایک بات کہی تھی

Page 387

شاید سچ مچ ہی وہاں کوئی دعوت ہو او ر اگر ایسا ہو اتو یہ لڑکے تو گوشت کھا جائیں گے اور میں محروم رہ جائوںگا.اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اُس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتا.یہ ابھی راستہ میں ہی ہوتا کہ آگے سے وہ لڑکے غصّہ میں بپھرے ہوئے آرہے ہوتے اور ادھر سے یہ صاحب ہانپتے کانپتے جاپہنچتے کہ کہیں میں گوشت سے رہ نہ جاؤں وہ اسے دیکھتے تو پکڑ کر خوب مارتے اور کہتے تم نے ہمیں بڑا دھوکا دیا.یہ مار کھانے کے بعد کہتا تم جو مجھے مارتے پیٹتے ہو اس لئے مجھے دھوکا کرنا پڑتا ہے.اصل میں فلاںجگہ دعوت تھی مگر میں نے تمہیں بتا یا نہیں.اس پر انہوں نے پھر اُسے چھوڑ کر اُس طرف کو دوڑ پڑنا.مگر اُن کے جاتے ہی اس کے دل میں پھر خیال آجانا کہ اگر وہاں سچ مچ دعوت ہوئی تو میں محروم رہ جائوں گا اور یہ لڑکے دعوت اڑا جائیں گے.چنانچہ اس کے بعد وہ خود بھی اسی طرف کو دوڑ پڑتا.یہ ابھی راستہ میں ہی ہوتا کہ لڑکے اس طرف سے بھی واپس آرہے ہوتے تھے اور وہ پھر اُسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیتے وہ تو بیچارہ فاتر العقل تھا مگر مسلمان جو قرآن کو مانتے ہیں اُن کا یہ حال ہے کہ پہلے ایک بات میں یورپ کے پیچھے دوڑتے ہیں اور جب وہ ناکام ہو کر دوسری سکیم پیش کرتا ہے تو پھر اُس کے پیچھے دوڑنے لگ جاتے ہیں.دوسری سکیم میں ناکام ہو کر وہ تیسری سکیم پیش کرتا ہے تو پھر اُس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں.غرض یورپ آگے آگے ہے اور مسلمان پیچھے پیچھے.اب سٹالن اور رشیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری عزت اور ساری ترقی رشیا کے پیچھے چلنے میں ہے.اس قسم کی غلطیاں اور کمزوریاں اس لئے واقعہ ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا سچّا کلام سمجھ کر نہیں مانا جاتا بلکہ صرف رسمی طور پر اُس پر ایمان رکھا جاتا ہے.حالانکہ مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے لئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ وہ حقیقی طور پر اس بات پر ایمان لائیں کہ ساری برکت قرآن کریم میں ہے اور ساری بر کت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس سے ادھر اُدھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہو ںگی کیونکہ صراط مستقیم پر چلے بغیر کوئی انسان اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا.وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِيْ اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو ضرر ان کوپہنچ رہا ہے اُسے دُور کردیں تو وہ اپنی سرکشی میں اور بھی بڑھ جائیں.طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ۰۰۷۶وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اور ہم نے ان کو سخت عذاب میں جکڑ رکھا ہے پھر بھی وہ اپنے رب کے سامنے عاجزانہ طور پر نہیں جھکے اور نہ

Page 388

اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا يَتَضَرَّعُوْنَ۰۰۷۷حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا اس کے سامنے گریہ و زاری کی.یہاں تک کہ جب ہم اُن پر ایک سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو وہ عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيْدٍ اِذَا هُمْ فِيْهِ مُبْلِسُوْنَؒ۰۰۷۸ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے.حلّ لُغَات.مُبْلِسُوْنَ.مُبْلِسُوْنَ اَبْلَسَ سے ہے اوراَبْلَسَ کے معنے ہیں قَلَّ خَیْرُہٗ.اُس سے بھلائی کی توقع کم ہوگئی.اِنْکَسَرَ وَحَزِنَ.شکستہ خاطر اور غمگین ہو گیا اور جب اَبْلَسَ مِنْ رَحْمَۃِاللہِ کہیں تو اس کے معنے ہوںگے یَئِسَ.وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا.اور اَبْلَسَ فِیْ اَمْرِہٖ کے معنے ہیں تَحَیَّرَ.وہ اپنے معاملہ کے بارے میں حیرت میں پڑگیا.اَبْلَسَ فُلَانٌ کے ایک معنے سَکَتَ غَمًّا کے بھی ہیں یعنی غم و اندوہ کی وجہ سے خاموش ہو گیا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ہم تو اپنی صفات کے مطابق چاہتے ہیں کہ ان پر رحم کریں اور ان کی مصیبتوں کو دور کریں.لیکن ہمیں نظر آرہا ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ شرارتوں میں اور بھی بڑھ جائیں گے اور ہمارا یہ دعویٰ بے ثبوت نہیں.اس قوم پر پہلے بھی عذاب آچکے ہیں مگر پھر بھی وہ اپنے رب کے حضور نہیں جھکی اور اُس نے کوئی عاجزی نہیں دکھائی.ہاں جب ہمارا آخری سخت عذاب آجائےگا تو اُس وقت وہ مایوس ضرور ہو جائیں گے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا یا ہے کہ ہم جب بھی کسی قوم پرعذاب نازل کرتے ہیں ہماری اصل غرض اس عذاب سے یہ ہوتی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں مگرلوگوں کی یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ وہ عذاب کے آنے پر بھی اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اپنے دلوںمیں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتے حالانکہ اگر وہ ذرا بھی خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن سے اپنے عذاب کو دور کر لے.یونس ؑ کی قوم کا واقعہ ہمارے سامنے ہے.بائیبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت یونس ؑ نے اعلان کیا کہ چالیس دن کے اندر اندر نینوہ تباہ ہوجائےگا تو نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اوریہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اُٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اُس کے ارکانِ دولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا اور اس بات کی منادی

Page 389

ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان گلہ یا رمد کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے نہ پئے لیکن حیوان اور انسان ٹاٹ سے ملبّس ہوں اور خدا کے حضور گریہ و زاری کریں بلکہ ہر شخص اپنی بُری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے شاید خدا رحم کرے اوراپنا ارادہ بدلے اوراپنے قہر ِ شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں.جب خدا نے اُن کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بُری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کر نے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کیا.( یوناہ باب ۳ آیت ۴تا ۱۰) قرآن کریم خو د اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہفَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِيْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِيْنٍ (یونس :۹۹)یعنی یونس ؑ کی قوم کے سوا کیوں کوئی اور بستی بھی ایسی نہ ہوئی جو سب کی سب ایمان لاتی اور اس کا ایمان لانا اُسے نفع دیتا.چنانچہ دیکھ لو.یونس ؑ کی قوم کے لوگ جب ایمان لائے تو ہم نے اُن پرسے اس دنیا کا رسوا کن عذاب دور کر دیا اور انہیں ایک وقت تک ہر طرح کا سامان اور رزق عطا فرمایا.اس سے ظاہر ہے کہ بندے اگر توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے رجوع کریں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو دورکر دیا کرتا ہے خواہ اُس عذاب کی اُس نے پیشگوئی ہی کیوں نہ کی ہوئی ہو.کیونکہ انذاری پیشگوئیوں سے بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو اصلاح کا موقعہ دیا جائے.چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کے وقت جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری قوم نے آپ کی غلامی کو قبول کر لیا تو باوجود اس کے کہ وہ شدید جرائم کی مرتکب رہ چکی تھی اور اگر اُسے سزا دی جاتی تو قانونی رنگ میں بالکل جائز ہوتی اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی سزا سے بھی بچا لیا اور روحانی لحاظ سے بھی اُسے بڑی ترقیات عطا فرمائیں.مگر فرماتا ہے ان لوگوں کی یہ حالت نہیں وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا يَتَضَرَّعُوْنَ ہم نے ان کو سخت عذاب میں جکڑا مگر پھر بھی یہ اپنے رب کے حضور عاجزانہ رنگ میں نہ جھکے اور اُس سے اپنے گناہوں کی معافی انہوں نے طلب نہ کی.آخر اس کا یہی نتیجہ ہو گا کہ یہ ایک دن آخری عذاب میں مبتلا ہو جا ئیں گے اور اُس وقت اپنی نجات کی کوئی راہ نہیںپائیں گے اور دنیوی سہاروں کو ٹوٹتا دیکھ کر بالکل مایوس اور نا امید ہو جائیں گے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہی نہیں بتا یا کہ مجر م قوم اس کے عذاب کا شکار ہوا کرتی ہے بلکہ اُس نے اس مضمون کو بھی بیان کیا ہے کہ وہ سزا دیتے وقت کن امور کو ملحوظ رکھا کرتا ہے تاکہ اُس کی سزا کو ظلم قرار نہ دیا جا سکے.چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پہلی بات تو یہ معلو م ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر فعل کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ ُّ ( الاعراف :۹)اس دن تمام اعمال کا وزن کرنا

Page 390

اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے صرف یہی نہیں بتا یا کہ مجر م قوم اس کے عذاب کا شکار ہوا کرتی ہے بلکہ اُس نے اس مضمون کو بھی بیان کیا ہے کہ وہ سزا دیتے وقت کن امور کو ملحوظ رکھا کرتا ہے تاکہ اُس کی سزا کو ظلم قرار نہ دیا جا سکے.چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پہلی بات تو یہ معلو م ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر فعل کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ ُّ ( الاعراف :۹)اس دن تمام اعمال کا وزن کرنا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.انسانوں کی تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی شخص سے اڑتی ہوئی خبر بھی سُن لیں کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے تو اسے فوراً چو ر سمجھنے لگ جاتے ہیں اور تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے مگر اللہ تعالیٰ سزا دیتے وقت یہ بھی ملحوظ رکھتا ہے کہ اُس نے یہ فعل کن حالات میں کیا ہے اور کتنی سزا کا مستحق ہے.دوسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جس کا جرم ہو صرف اسی کو پکڑا جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ دوسروں کے جرائم کے بدلہ میں ایک غیر مجرم کو سزا دے دی جائے.بلکہ جس کا قصور ہو صرف اسی کو سزا دی جاتی ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الانعام :۱۶۵) کوئی بوجھ اٹھانےوالی ہستی کسی دوسری ہستی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.یعنی وہ شخص جو خود ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو وہ کسی دوسرے کی کوئی مدد نہیں کر سکتا.پس سزا صرف مجرم کو دی جاتی ہے یہ نہیں ہوتا کہ اُس کا بوجھ کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںبھی بیان فرما یا ہے.لَاتَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا ( البقرۃ :۴۹)یعنی کوئی شخص کسی دوسر ے شخص کا سزا میں قائم مقام نہیں بن سکے گا.تیسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جتناکسی کا جرم ہو اتنی ہی اسے سزا دی جاتی ہے.یہ نہیں ہوتا کہ جرم تو تھوڑا ہو اور سزا زیادہ ہو.چنانچہ وہ فرماتا ہے جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشورٰی :۴۱)یعنی بدی کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا کہ جرم ہو اور دونوں کے تناسب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے.چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزا دینے سے پہلے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اُس نے نیک کام کون کون سے کئے ہیں اور اگر کسی کے نیک اعمال زیادہ ہوں تو سزا معاف کر دی جاتی ہے چنانچہ وہ فرماتا ہےفَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ( الاعراف :۹)جن کے وزن بھاری ہوںگے یعنی جن کے اعمال نیک اُن کے اعمالِ بد سے بڑھ کر ہوںگے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عفو کی چادرمیں لے لےگا اور اُ ن کے گناہوں سے درگذر فرمائےگا.پانچویں بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزا کا فیصلہ کرتے وقت کوئی سفارش قبول نہیں کی جاتی چنانچہ وہ فرماتا ہے وَلَایُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ ( البقرۃ :۴۹) کوئی شفاعت اور سفارش کسی جان کی طرف سے قبول نہیں کی جاتی.چھٹی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزاد یتے وقت اُس کے رحم کا پہلو ہمیشہ غالب ہو تا ہے اور وہ کبھی کسی مجرم کو انتہائی سزا نہیں دیتا بلکہ جب بھی سزا دیتا ہے اس کے جرم سے کم دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ءٍ(الاعراف :۱۵۷)یعنی میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.اور ہر چیز میں اس کی طرف سے آنے والی سزا اور عذاب بھی شامل ہے.

Page 391

اس تفصیل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سزاد ینے میں کتنا دھیما ہے.اور وہ اپنے بندوں سے کتنی شفقت اور رحمت کا معاملہ کرتا ہے.مگر افسوس ہے کہ لوگ پھر بھی اُس کی رحمت سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ اُن کی طرف اپنی محبت کا ہاتھ بڑھاتا ہے.مگر نادان انسان اُس کے ہاتھ کو ٹھکرا دیتا اور آخر اپنی ہی بد اعمالیوں کے چکر میں پھنس کر عذاب کا شکار ہو جاتا ہے.وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ١ؕ اور وہ خدا ہی ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیا ہے.لیکن تم بالکل شکر نہیں کرتے.قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۰۰۷۹وَ هُوَ الَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَ اور وہی ہے جس نے زمین میں تم کو پھیلا دیا ہے اور تم اُسی کی طرف پھر اکٹھے کئے جائو گے.اور وہی ہے جو اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ۰۰۸۰وَ هُوَ الَّذِيْ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ وَ لَهُ تمہیں زندہ کرتا ہے اور جو تمہیں مارے گا اور رات اور دن کا آگے پیچھے آنا اُسی کے اختیار میں ہے.اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۰۰۸۱بَلْ قَالُوْا کیا تم عقل نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ وہ وہی بات کہتے ہیں جو اُن سے پہلوں نے کہی تھی مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ۰۰۸۲قَالُوْۤا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ انہوں نے کہا تھا کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں بن جائیں گے عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠۰۰۸۳لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا تو ہم پھر اُٹھائے جائیں گے.اس سے پہلے اسی بات کا وعدہ ہم سے اور هٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۸۴قُلْ ہمارے باپ دادوں سے کیا گیا تھا (مگر ایسا نہیں ہوا ).یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں تو کہہ دے

Page 392

لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۸۵ کہ اگر تم جانتے ہو تو (بتائو تو سہی )کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے ؟یقیناً وہ( اس کے سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ١ؕ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۰۰۸۶ جواب میں) کہیں گے اللہ کا.اس پر تو کہہ دے کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے؟ حلّ لُغَات.اَسَاطِیْر اَسَاطِیْر سَطَرَ سے بنا ہے اور سَطَرَ الْکَاتِبُ کے معنے ہیں کَتَبَ اُس نے لکھا.اور سَطَرَ الرَّجُلَ کے معنے ہیںصَرَعَہٗ اُس کو کُشتی میں گِرا لیا.اور سَطَرَہٗ بِا لسَّیْفِ کے معنے ہیں قَطَعَہٗ بَہٖ اُس کو تلوار سے کاٹ ڈالا.اور اِسْطَارٌ اُسْطَارٌ.اُسْطُوْرٌ اور اَسَاطِیْرُ کے معنے لکھی ہوئی چیز کے ہیںاور ایسی باتوں کو بھی اَسَاطِیْرُ کہتے ہیں جن میں کوئی نظام نہ ہو.اور قصّے اور کہانیوں کو بھی اَسَاطِیْرُ کہتے ہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ذرا سوچو تو سہی کہ تمہاری یہ شنوائیاں تمہاری بینائیاںاور تمہارے دل تمہارے کس کام کے بدلہ میں تمہیں ملے ہوئے ہیں.ان چیزوں کے تم خالق نہیں بلکہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں کان اورآنکھیں اور دل بخشے ہیں اور تمہاری پیدا ئش کی ابتداء بھی اُسی نے کی ہے اور تمہاری اُخروی پیدائش بھی وہی کرے گا اور تمہاری زندگی اور موت او ررات اور دن کا آگے پیچھے آنابھی اُسی کے قبضے میں ہے کیونکہ تمام نظام شمسی انسان کے اختیار سے باہرہے اور رات اور دن اس سے پیدا ہوتے ہیں.اس جگہ کانوں اور آنکھوں کی پیدا ئش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب خدا نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائی ہیں اور جس نے اس چند روزہ حیات میں تمہیںسننے اور دیکھنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے کیا وہ تمہارے روحانی کانوں کی سماعت اور روحانی آنکھوں کی بصارت کے لئے کوئی سامان پیدا نہ کرتا.اسی طرح جب اُس نے تمہیںوہ دل بخشے ہیں جن پر تمہاری اس مادی زندگی کا انحصار ہے تو خدا تعالیٰ یہ کب بر داشت کر سکتاتھا کہ وہ تمہاری روحانی زندگی کا کوئی سامان پیدا نہ کرتا اور تمہیں کانوں اور آنکھوں اور دل کے بغیر رکھتا.اسی طرح زندگی اور موت بھی اُسی کی طرف سے آرہی ہے.وہی پیداکرتا اور وہی مارتا ہے.یہی کیفیت روحانی عالم میں بھی دکھائی دیتی ہے.وہ انبیاء کے ذریعہ مُردہ اور گِری ہوئی اقوام کو زندہ کر دیتا ہے.اور اُن کا مقابلہ کرنے والی اقوام کو بامِ عروج سے اٹھاکر قعرِ مذلّت میں گِرا دیتا ہے.یہی سبق رات اوردن کے آگے پیچھے آنے میں بھی مخفی ہے یا رات اور دن کا ظلمت اور بیاض میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اُس

Page 393

میں بھی سوچنے والوں کے لئے بڑے بھاری نشانات ہیں.کئی بیماریاںایسی ہیںجو اندھیرے میں بڑھ جاتی ہیںاور کئی حوادث ہیںجو رات کی تاریکی کی وجہ سے پیش آتے ہیں.دنیا میں جتنی چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہوتی ہیںاُن میںسے اکثر وارداتیں رات کی تاریکی میں ہی ہوتی ہیں.اسی طرح سانپ اور بچھو اور دوسرے حشرات الارض بھی رات کو ہی باہر نکلتے ہیں.پھر تاریکی ایسی بلا ہے کہ نہ اس میں خوبصورت کی خوبصورتی کا پتہ لگتا ہے اور نہ بد صورت کی بد صورتی کا.سیاہ اور سفید اور سُرخ اور زرد سب برابر ہوتے ہیں.لیکن جب دن چڑھتا ہے تو بد صورت کی بد صورتی اور خوبصورت کی خوبصورتی نظر آنے لگتی ہے.حشرات الارض اپنے اپنے بِلوں میں گھس جاتے ہیں.چورچوری کرنے سے ڈرتا ہے اور ڈاکو ڈاکہ ڈالنے سے گریز کرتا ہے.پھر کئی بیماریاں ہیں جن کا علاج سورج کی شعاعوں سے ہی ہوجاتا ہے اور مختلف امراض کے جراثیم سورج کی تپش سے فنا ہو جاتے ہیں.غرض رات اور دن کا اختلاف بھی ایک عقلمند انسان کو اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جس طرح مادی عالم پر ایک تاریکی کا دور آتا ہے اور ایک روشنی کا.اسی طرح روحانی عالم میں بھی بعض دفعہ الٰہی نور لوگوں کی نگاہ سے مخفی ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی بُرائیا ں لوگوں میں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.مگر جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی مامور کے ذریعہ ہدایت کی روشنی پھیلاتا ہے تو رات سے تعلق رکھنے والی تمام بلائیں اور آفات دُور ہو نے لگتی ہیں اور ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوجاتی ہے.پس جس طرح نیچر میں رات اور دن کا اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ روحانی عالم میں بھی رات اور دن کی گھڑیاں آنی ضروری ہیں.مگر مخالف بس ایک ہی رٹ لگائے چلے جاتے ہیں کہ کیا مرنے کے بعد مٹی ہو کر ہم پھر زندہ ہوجائیں گے ؟ یعنی کفار جب دلائل سے عاجز آجاتے ہیں تو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیںکہ اس زندگی کا تو مقصد ہی کوئی نہیں پھر ان جھگڑوں میں پڑنے کا کیا فائدہ ؟ یہ تو پہلوں کی باتیں ہیں جو ہمارے کانوں میں دیر سے پڑتی چلی آرہی ہیں مگر قیامت ہے کہ وہ آتی ہی نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بہت لمبے عرصہ سے چلی آرہی ہے اور ہمیشہ قربِ قیامت کا لوگوں کو خیال رہا ہے.چنانچہ انبیاء کے مخالفین یہی اعتراض کرتے ہیں کہ آج تک تو ہم قیامت کا شور سُنتے رہے ہیں مگر وقت کے بعد وقت گذر رہاہے اور قیامت ابھی تک نہیں آئی.جس سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے.حالانکہ یہ اُن لوگوں کا تو ہم ہے کیونکہ قیامت کسی خاص دن کا نام نہیں اور نہ وہ اس دنیامیں آئے گی بلکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے اور جس میں مجموعی طور پر تمام مُردہ روحوں کو جزا سزا دی جائے گی اس کا نام قیامت ہے اور وہ اس دنیا کے لوگوں کو نہ نظر آتی ہے اور نہ آئے گی.پس اُن کا یہ کہنا بیوقوفی کی بات ہے کہ اب تک تو قیامت آئی نہیں ؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی دن اس دنیا کا نظام ختم کرکے پھر نئے سرے سے شروع کر دیا جائے.لیکن

Page 394

مذہبی کتابوں میں قیامت اس کا نام نہیں.قیامت اُسی کا نام ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے کہ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ( الرحمٰن:۲۷،۲۸) بہر حال اللہ تعالیٰ مخالفین کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ دنیا میں جو کوئی بھی بستا ہے کیا اُس کی موت و حیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں نہیں.وہی باپ کے صُلب میں بچہ کا نطفہ پید اکرتا ہے اور وہی ماں کے رحم میں اُس کی پرورش کا سامان کرتا ہے اور وہی اُس کے پیدا ہونے کے بعد اُس کی غذا کا سامان مہیا کرتا ہے اب بتائو کہ جس خدا نے یہ سب کچھ پید ا کیا ہے کیا وہ دوبارہ جسم کے کسی باریک حصّہ سے انسان کو پیدا نہیں کر سکتا.احادیث میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی پیدائش عجب الذنب سے ہوگی(بخاری کتاب التفسیر سورۃ عم یتسآء لون باب یوم ینفخ فی الصور...).یعنی پیٹھ کے نیچے کی جو ہڈی ہے جس کے متعلق سائینسدان کہتے ہیں کہ یہ بندر کی دُم کی علامت ہے (The Descent of Man p 89.90)اس کے ایک ذرہ سے انسان کی پیدائش ہوئی.اگر نطفہ کے خوردبینی ذرۂ حیات سے انسان پیدا ہو سکتا ہے تو عجب الذنب کے کسی حصہ سے جس کو خدا تعالیٰ باقی رکھے انسان دوبارہ کیوں پیدا نہیں ہو سکتا.آخر وہ کیڑے بھی تو ہیں جو زمین کی تہوں میں اور پتھروں کے نیچے پیدا ہو جاتے ہیں.اگر انسان کی پہلی پیدائش رحم مادر میں ہوئی تھی تو اُس کی دوسری پیدائش کسی اور جگہ کیوں نہیں ہو سکتی ؟ یہ محض خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اپنی طاقتوں پر قیاس کر لینے کا نتیجہ ہے ورنہ جو خدا ایک دفعہ پیدا کر سکتا ہے اُس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا ایک ایسا امر ہے جس کو کوئی انسان بھی بعید از عقل تصّور نہیں کر سکتا.پھرقُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کفار کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا دین کی بنیاد صرف اگلے جہان پر ہی ہے کہ تم اس کا ذکر کرتے ہو.کیا اس دنیا میں تم کو خدا سے واسطہ نہیں پڑنا.پھر اُس کے احکام سے اس قدر دُوری اور غفلت تمہارے اندر کیوں پائی جاتی ہے.قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۰۰۸۷ (پھر) تو (اُن سے) کہہ کہ ساتوں آسمان اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے ؟ وہ فوراً کہیں گے( یہ سب) اللہ کے ہیں تو سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ١ؕ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۰۰۸۸قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ کہہ دے کیا پھر تم (اُس خدا کے ذریعہ سے تباہی سے )بچنے کی کوشش نہیں کرتے (نیز) تو کہہ دے کہ کس کے قبضہ

Page 395

مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ میںہر چیز کی بادشاہت ہے اور وہ( سب کو) پناہ دیتا ہے ہاں اُس کے عذاب کے خلاف کوئی دوسرا پناہ نہیں دے سکتا كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۸۹سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ١ؕ قُلْ فَاَنّٰى اگر تم جانتے ہو (تو اس کو سمجھ سکتے ہو).وہ (اوپر کا سوال سن کر) فوراً کہیں گے.اللہ کے( قبضہ میں) اس پر تو کہہ دے تُسْحَرُوْنَ۰۰۹۰بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِالْحَقِّ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۰۰۹۱ کہ پھر تمہیں دھوکا دےکر کدھر لے جایا جا رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کے پاس حق لائے ہیں اور وہ مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّ مَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا یقیناً جھوٹے ہیں.اللہ (تعالیٰ) نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور اُ س کے ساتھ کوئی معبود نہیں (اگر ایسا ہوتا) تو ہر معبود لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء کو الگ کرکے لے جاتا.اور ان( معبودوں) میں سے بعض بعض پر ہلّہ بول دیتے.سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَۙ۰۰۹۲عٰلِمِ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ اللہ (تعالیٰ) پاک ہے اس سے جو یہ باتیں کرتے ہیں.وہ غیب کا بھی علم رکھتا ہے اور حاضر کا بھی (علم رکھتا ہے).فَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَؒ۰۰۹۳ پس جن کو وہ اُس کا شریک بناتے ہیں اُن سے وہ بہت اونچا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.تم ان لوگوں سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے.اس کے جواب میں یہ لوگ یہی کہیں گے کہ اللہ ہے.پس جب سب بلندیاں اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہیں تو اعلیٰ روحانی تعلیم بھی اسی کی طر ف سے آسکتی ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے.یعنی روحانی بادشاہت اُسی کے قبضہ میں ہے.رُوحانی علوم کے لئے انسانی دماغ کی طرف توجہ کرنا اور فلاسفروں کی طرف جانا بیوقوفی کی بات ہے.یہ علوم خدا تعالیٰ ہی کی

Page 396

طرف سے آسکتے ہیں.پھر فرماتا ہے تم ان لوگوں سے پوچھو کہ تمام عالم کی بادشاہت کس کے ہاتھ میں نظر آتی ہے اور وہ کون ہے کہ جب دوسروں کی سزا سے کوئی بھاگ کر اُس کے پاس آتا ہے تو وہ اُسے پناہ دیتا ہے.لیکن جب وہ کسی کو سزا دے تو اُس کی سزا سے کوئی بچا نےوالا نہیں ہوتا.وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ جب وہ یہ جواب دیں تو تُو انہیں کہہ کہ پھر تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے اور تم فریب دے کر کدھر لے جائے جا رہے ہو.یعنی جب ہدایت کے اتنے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں تو پھر شیطان تم کوکس دروازہ سے دھوکا دے دیتا ہے کہ تم اس بات کے جاننے کے باوجود شر ک کررہے ہو.قرآن تو سچائی یعنی توحید کی تعلیم دیتا ہے مگر وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یعنی مشرکانہ باتیں کرتے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے کبھی کوئی بیٹا تجویز نہیں کیا اور کبھی بھی اُس کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں ہوا.اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوق اپنے ساتھ لے جاتا اور اپنی بڑائی دوسرے پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا.دنیا میں ایک ہی قانون جاری رہا ہے.پس جو کچھ یہ مشرک کہتے ہیں خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے.وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے اور خواہ ظاہری تغّیرات ہوں یا باطنی سب پر ایک قسم کا قانون جاری ہونا بتاتا ہے کہ مشرک جھوٹے ہیں.اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضروری تھی.یا تو وہ کسی ایک خدا کی اطاعت کرتے اور اس کے احکام میں کوئی دخل نہ دیتے مگر اس صورت میں دوسرے خدائوں کا ہونا یا نہ ہونا بالکل برابر ہوتا اور یہ اعتراض واقعہ ہوتا کہ جب ایک خدا سب کام کر رہا ہے تو باقی خدائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ ایک کے علاوہ جس قدر خدا ہوتے وہ اپنا الگ الگ نظام جاری کرتے.مگر اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ نظامِ عالم میں اختلاف نظر آتا لیکن چونکہ دنیا میں جو نیچر کا قانون ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سال سے ایک ہی شکل میں چلا آرہا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا رخانۂ عالم میں صرف ایک خدا کا وجود ہی کا م کررہا ہے.کو ئی دوسرا اُس کے ساتھ شریک نہیں.اس جگہ عالم الغیب و الشہادۃ کہہ کر مسیح کی خدائی کو بھی رّد کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا کے لئے عالم الغیب ہونا ضروری ہے.مگر مسیح تو خود کہتا ہے کہ ’’ اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا.نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ.‘‘ ( مرقس باب ۱۳ آیت ۳۲) پس جبکہ وہ علمِ غیب ہی نہیں رکھتا تو اُسے خدا قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے.

Page 397

قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِيَنِّيْ مَا يُوْعَدُوْنَۙ۰۰۹۴رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِيْ فِي تو کہہ دے اے میرے رب ! اگر تو میری زندگی میں وہ کچھ دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۹۵ اے میرے رب ! تو مجھے ظالم قوم میں سے نہ بنائیو.(یعنی ان کے عذاب میں شریک نہ کیجئیو).تفسیر.قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں بعض جگہ جمع کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر مراد ایک شخص ہوتا ہے.جیسے قرآن کریم میں بہت جگہ ایک رسول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسل کا لفظ بولا گیا ہے کیونکہ ہر رسول پہلے رسولوں کے مشابہ ہوتا ہے.اسی طرح بعض جگہ ایک شخص کا ذکر ہوتا ہے اور مراد قوم ہوتی ہے.جیسا کہ اس جگہ گو لفظ مفرد ہیں مگر مراد قوم ہے کیونکہ کفار پر عذاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے آنا تھا اور جب اُس عذاب کا اصل باعث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی تھی تو پھر آپ کو اس دُعا کے سکھانے کا کچھ مطلب ہی نہیں رہتا.کہ اے خدا ! ان کفار پر جب موعود ہ عذاب آئے تو مجھے اُس میں شریک نہ کیجئیو.درحقیقت اس جگہ ہر قرآن کا پڑھنے والا مخاطب ہے اور اس کو سکھایا گیا ہے کہ (۱) تُو ہمیشہ یہ دعا کرتا رہ کہ کفا ر پر جب عذاب آئے تو میں ان کے عذاب میں شریک نہ ہوں.کیونکہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں.مجھے کسی کمزوری کی وجہ سے کفار کے ساتھ شریک کرکے دشمن کو ہنسی کا موقعہ نہ دیجئیو.یا (۲) اے میرے خدا جب عذاب آئے اور کفار تباہ ہوجائیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آجائے تو میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تُو مجھے اُس وقت بھی انصاف پر قائم رکھیئو اور مجھے ظالم نہ بننے دیجیئو.اس لحاظ سے یہ اُن کے ظلم میں اشتراک سے بچنے کی دُعا ہے.اور مراد یہ ہے کہ اے خدا ! جب ان پر تیرا عذاب آئے اور ان کی حکومت ٹوٹ کر مسلمانوں کو مل جائے تو ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ نشۂ حکومت میں انصاف کو بھول کر ظلم کرنے لگیں اور تیری ناراضگی مول لے لیں.وَ اِنَّا عَلٰۤى اَنْ نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقٰدِرُوْنَ۰۰۹۶ اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو ان سے وعدہ کرتے ہیں تجھے دکھا دیں.تفسیر.یعنی ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تیری آنکھوں کے سامنے ان پر عذاب لے آئیں اور تیری زندگی میں ہی تیرے دشمنوں کو تباہ کر دیں جیسا کہ عملاً ہوا کہ مکہ آپ کی زندگی میں فتح ہوگیا اور کفار کی طاقت تباہ ہوگئی اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی اور پھرحضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے دور میں تو اس حکومت نے اور بھی ترقی کی اور قیصرو کسریٰ کی حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی.

Page 398

میں ہی تیرے دشمنوں کو تباہ کر دیں جیسا کہ عملاً ہوا کہ مکہ آپ کی زندگی میں فتح ہوگیا اور کفار کی طاقت تباہ ہوگئی اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی اور پھرحضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے دور میں تو اس حکومت نے اور بھی ترقی کی اور قیصرو کسریٰ کی حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی.اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ١ؕ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا تو اُن کی بری باتوں کو ایسی (جوابی) باتوں سے دور کر جو نہایت خوبصورت ہوں.ہم ان کی يَصِفُوْنَ۰۰۹۷ باتوں کو خوب جانتے ہیں.تفسیر.اس جگہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دشمن اگر چہ ظالم ہے مگر تو پھر بھی اس کے مقابلہ میں احسان اور عفو سے کاملیجئو.کیونکہ برائی کے بدلہ میں نیکی کرنا اولوالعزم انبیاء کا کام ہے اور تیرے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ دشمن نے تو ظلم بھی کر لیا اور پھر میرے عفو سے سزا سے بھی بچ گیا.ایسا نہ ہو کہ وہ پھر کوئی شرارت کرے کیونکہ میں اس کی ہر تدبیر کو جانتا ہوں اور کوئی چیز بھی میری جزا سزا سے باہر نہیں رہ سکتی.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ( حٰمٓ السجدۃ :۳۵)یعنی تُو دشمن کی برائی کا جواب نہایت نیک سلوک سے دے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص جس سے تیری عداوت ہے وہ تیرے اس حسنِ سلوک کو دیکھ کر شرمندہ ہوگا اور وہ تیرا گرم جوش دوست بن جائےگا.گویا بتا یا کہ سزا آخر اس لئے دی جاتی ہے کہ انسان دوسروں کے ضرر سے بچ جائے اور اُسے اپنی اصلاح کا خیال آئے.لیکن دوسرے کے ضرر سے بچنے کا صرف یہی طریق نہیں کہ اُس کو سزا دی جائے بلکہ اگر عفو سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہو تو بہتر یہی ہے کہ اس کو معاف کر دواور اس بات سے مت گھبرائو کہ اس کا کوئی خراب نتیجہ نکلے گا.کیونکہ دوسرا شخص اس سلوک سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا اُسکی آنکھیں نیچی ہو جائیں گی اور وہ تمہاری دوستی اور محبت کا دم بھرنے لگے گا.

Page 399

وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِۙ۰۰۹۸ اور تو کہہ دے اے میرے رب ! میں سرکش لوگوں کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں.اور اے میرے رب! وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ۰۰۹۹ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے (بھی )کہ وہ میرے سامنے آجائیں.حلّ لُغَات.ھَمَزٰت اَلْھمَزُ: اَلْعَصْرُ.ھمز کے معنے نچوڑنے کے ہیں ( مفردات ) چنانچہ ھَمَزَ رَأ سَہٗ کے معنے ہوتے ہیں عَصَرَہٗ اُس کے سر کو سختی کے ساتھ دبایا ( اقرب ) اور ھَمَزَ الشَّیْطٰنُ الْاِنْسَانَ کے معنے ہوتے ہیں ھَمَسَ فِیْ قَلْبِہٖ وَسْوَ اسًا.اس کے دل میں وسوسہ ڈالا (اقرب) تفسیر.اس جگہ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ میں کسی شیطانی وسوسہ کا ذکر نہیں بلکہ یہاں ان دشمنوں کو شیاطین کہا گیا ہے جو اسلام کے مخالف تھے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف قسم کی تکا لیف پہنچاتے رہتے تھے چنانچہ ھَمْز کے ایک معنے نچوڑنے یعنی تکلیف دینے کے بھی ہوتے ہیں.اور ھَمَزْتُ الشَّیْءَ فِیْ کَفِّیْ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے فلاں چیز کو اپنے ہاتھ میں دبا کر نچوڑ ڈالا ( مفردات امام راغب ؒ )پس رَبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ.وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا مجھے شیطان کے چیلوں کے اُن حملوں سے بچائیو جو مجھے کچل ڈالنے کے لئے اُس کی طرف سے ہو رہے ہیں بلکہ میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھ پر غالب آنا تو الگ رہا وہ میرے قریب بھی نہ پھٹک سکیں یعنی وہ مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ دے سکیں.چنانچہ اس سے اگلی آیتحَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ.لَعَلِّيْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ بھی انہی معنوں پر دلالت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس جگہ کسی شیطانی وسوسہ کا ذکر نہیں بلکہ اُن انسان شیاطین کا ذکر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچاتے تھے ورنہ اگلی پچھلی عبارت سب بے جوڑ ہو جاتی ہے.

Page 400

حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۰۰۱۰۰لَعَلِّيْۤ اور اُس وقت جب اُن میں سے کسی کی موت آجائے گی وہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے واپس لوٹا دے اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا١ؕ مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس جگہ جس کو میں چھوڑ کر آگیا ہوں (یعنی دنیا میں) مناسب حال عمل کروں ہر گز وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۰۰۱۰۱ ایسا نہیں ہوگا.یہ صرف ایک منہ کی بات ہے جسے وہ کہہ رہے ہیں اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے اُس دن تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے (پس وہ دنیا کی طرف زندہ کرکے کبھی لوٹائے نہیں جائیں گے).تفسیر.ان آیات میں بتا یا گیا ہے کہ جب مشرک کی تباہی کا وقت آتا ہے تو اُس وقت وہ اپنے بتوں کو بالکل بھول جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے عجز اور انکسار کے ساتھ اُس سے دعائیںکر نے لگ جاتا ہے.یہ ایک نہایت ہی لطیف آیت ہے جس میں مختصر الفاظ میں وسیع معنوں کو ادا کیا گیا ہے.اس میں کافر کے منہ سے ایک تورب کا لفظ کہلایا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اُس وقت وہ خدا تعالیٰ کی توحید کا کھلے بندوں اقرار کرے گا اور دوسری طرف ارْجِعُوْنِکہہ کر جو جمع کا صیغہ ہے اور جس کے معنے یہ ہیں کہ’’ مجھے لوٹا دیں‘‘ خدا تعالیٰ کی عظمت اور تمام کمالات کے جامع ہونے کا اُس کے مونہہ سے اقرار کروایا گیا ہے.پھر ارْجِعُوْنِکہہ کر اللہ تعالیٰ نے کفار کی حیرت اور اُن کی گھبراہٹ کو بھی ظاہر کر دیا ہے کیونکہ جمع کا لفظ استعمال کرکے اس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ کافر اس وقت گھبرا کر کہے گا اے میرے خدا مجھے لوٹا دے اے میرے خدا مجھے لوٹا دے ، اے میرے خدا مجھے لوٹا دے.گو یاارْجِعُوْنِدراصل اَرْجِعْنِیْ اَرْجِعْنِیْ اَرْجِعْنِیْ کاقائم مقام ہے کیونکہ عربی زبان میں جمع کا صیغہ جب مفرد کے لئے استعمال کیا جائے تو بعض دفعہ تکرار کے معنے دیتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں کفار کی حیرت کا بھی ذکر کر دیا اور حالتِ گھبراہٹ میںاُن کا اپنی درخواست کو بار بار اور جلدی جلدی پیش کرنا بھی بیان کر دیا.پھرلَعَلِّيْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا کے الفاظ میں اور بھی عظمت الہٰی کا ذکر کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ اُس وقت کافر پر

Page 401

اپنی بے حقیقتی اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا کامل انکشاف ہو جائےگا.اور وہ باوجود اپنے خیال میں سچی توبہ کرنے کے یہی کہے گا کہ اے خدا ! آج میرا غرور ٹوٹ گیا.میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر تو مجھے لوٹا دے تو میں ضرور نیک کا م کروںگا.میں صرف امید ظاہر کر سکتا ہوں کیونکہ اپنے نفس کی بے حقیقتی مجھ پر کھل چکی ہے.كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا میں بتا یا کہ ہر کافر حسرت اور ندامت کا مجسمہ بن کر قیامت کے دن یہ بات ضرور کہے گا مگر اُس کا یہ قول بالکل بے نتیجہ رہےگا.اور اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی.لیکن اس کے علاوہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ مَا ھِیَ اِلَّا کَلِمَۃٌ یَقُوْلُھَا الْکَافِرُ وَلٰکِنْ لَا یُسْتَجَابُ دُعَاؤہٗ ‘یعنی کافر صرف منہ سے ایک بات کہہ رہا ہے جو کبھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ اُس کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کے لئے ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے.پس اُس کے لئے دنیا میں لوٹ کر واپس جانا بالکل نا ممکن ہے.فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّ لَا پھر جب بگل میں پھونک مار ی جائے گی تو اُس دن اُن کے درمیان کوئی قرابتیں باقی نہیں رہیں گی اور يَتَسَآءَلُوْنَ۠۰۰۱۰۲فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھیں گے.پس جن کے وزن بھاری ہو جائیں گے الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۱۰۳وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ و ہ لوگ بامراد ہوں گے اور جن کے وزن ہلکے ہوجائیں گے وہ لوگ گھاٹے میں پڑیں گے خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚ۰۰۱۰۴تَلْفَحُ (اور اپنی جانوں کو تباہ کر دیں گے )اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے.آگ اُن کے وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ۰۰۱۰۵ مونہوں کو جھلسے گی اور وہ اُس میں رو سیاہ ہو جائیں گے.تفسیر.فرماتا ہے.جب صُور پھونکا جائےگا تو اُس دن کوئی رشتہ دار یاں باقی نہیں رہیں گی اور نہ ایک

Page 402

دوسرے سے کوئی سوال کرے گا.اس جگہ صُور کے ایک معنے تو اَلْقَرْنُ یعنی بگل کے ہیں جو فوج کو جمع کرنے کے لئے بجایا جاتا ہے اور جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسا دن ہوگا جب تمام کفار کو جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائےگا.لیکن چونکہ صُوْرَۃٌ کی جمع بھی صُور آتی ہے اس لئے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ جب انسانی صورتوں میں رُوح پُھونکی جائےگی اور وہ زندہ ہو کر کھڑے ہو جائیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ اگلے جہان میںکوئی نہ کوئی جسم انسان کو ضرور ملےگا.خواہ وہ یہ مادی جسم نہ ہو جو انسان کو اس دنیا میں ملا ہو اہے.فَلَاۤ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ میں یہ بتایا کہ اُس دن کسی دوسرے کی مدد کام نہیں دےگی بلکہ انسان کے اپنے ہی اعمال اُس کے کام آئیں گے.اگر نیک اعمال زیادہ ہوئے تو انسان نجات پا جائےگا اور اگر نیک اعمال کم ہوئے تو وہ گھاٹے میں پڑے گا.وَ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ۠میں یہ بتایا کہ اُس دن ایک دوسرے کے متعلق لوگوں کو کوئی تجسس نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہو گی اور کسی دوسرے کی طرف اُسے کوئی توجہ نہیں ہو گی.تَلْفَحُ وُجُوْهَهُمُ النَّارُ وَ هُمْ فِيْهَا كٰلِحُوْنَ میں یہ بتا یا کہ کفار کے سردار بھی عذاب میں مبتلا ہوںگے وَجْہٌ کے ایک معنے سردار کے بھی ہوتے ہیں اور وہ اس عذاب پر دانت پیسیں گے.یعنی اپنی کوتاہی پر حسرت اور افسوس کریں گے مگر اُس وقت اُن کا افسوس کرنا اُن کو کوئی فائدہ نہیں دےگا.اَلَمْ تَكُنْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ۰۰۱۰۶ (اور کہا جائےگا) کیا تمہارے سامنے میری آیتیں نہیں پڑھی جاتی تھیں ؟ اور تم ان کا انکار نہیں کرتے تھے ؟ قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَ كُنَّا قَوْمًا وہ کہیں گے.اے ہمارے رب ! ہماری بد قسمتی ہم پر غالب آگئی اور ہم ایک گمراہ جماعت تھے.اے ہمارے رب! ضَآلِّيْنَ۰۰۱۰۷رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ہمیں اس (دوزخ )سے نکا ل.اگر ہم (ان گناہوں کی طرف) پھر لوٹیں تو ہم ظالم ہوںگے.(خدا) فر مائےگا

Page 403

ظٰلِمُوْنَ۰۰۱۰۸قَالَ اخْسَـُٔوْا فِيْهَا وَ لَا تُكَلِّمُوْنِ۰۰۱۰۹اِنَّهٗ كَانَ ( دور ہو جائو اور) دوزخ میں چلے جائو اور مجھ سے کلام مت کرو.بات یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے ایک گروہ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں سو تو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم کر.ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَۚۖ۰۰۱۱۰فَاتَّخَذْتُمُوْهُمْ سِخْرِيًّا اور تُو سب رحم کرنے والوں میں سے اچھا ہے.مگر تم نے اُن کو ہنسی مذاق کا مورد بنا لیا یہاں تک کہ انہوں نے (تمہاری حَتّٰۤى اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِيْ وَ كُنْتُمْ مِّنْهُمْ تَضْحَكُوْنَ۰۰۱۱۱ دلچسپی کا سامان بن کر) تم کو میری یاد بھُلا دی.اور تم اُن سے ہمیشہ ہنسی کرتے رہے.اُن کے صبر کرنے کی وجہ سے اِنِّيْ جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوْۤا١ۙ اَنَّهُمْ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠۰۰۱۱۲ میں آج اُن کو( مناسب حال) بدلہ دوں گا.یقیناً وہ کامیاب ہوں گے.تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے بغیر حجت پورا کئے تو تم پر عذاب نازل نہیں کیا.مگر تم لوگ تو حجت پورا ہونے پر بھی انکار کرتے رہے.جب کافر یہ بات سُنیں گے تو کہیں گے.اے خدا ! بدبختی نے ہم کو گھیر لیا اور ہم گمراہ ہو گئے.تو ایک دفعہ اس موجودہ حالت سے ہم کو نکال دے اگر ہم نے پھر وہی پہلے سے کا م کئے تو بے شک ہمارے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا.پھر جو چاہیں سزا دے لیں.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائےگا کہ میرے سامنے سے دُور ہو جائو اور دوزخ میں داخل ہو جائو اور مجھ سے کلام مت کرو.ایک وہ وقت تھا کہ میرے مومن بندے جب یہ کہا کرتے کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے ہیں.پس ہم کو معاف کردے اور ہم پر رحم کر اور تُو سب رحم کرنے والوں میں سے اچھا ہے تو تم اُن کی نیکی کے باوجود اُن سے ہنسی مذاق کرتے تھے اوراس میں تم کو اتنا لطف آتا تھا کہ تمہیں خدائی گرفت کا بھی کچھ خیال نہ رہا اور تم ان بے کسوں پر خوب قہقہے لگاتے تھے.آج میں نے اُن کے صبر کی جزا ان کو دے دی ہے.یعنی ان کو غلبہ بخش دیا ہے اور انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے.

Page 404

یہ عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں جن سے خفا ہوتا ہوں اُن سے کلام نہیں کرتا بلکہ اُن کواپنے ساتھ بولنے کی اجازت بھی نہیں دیتا.مگر مسلمانوں پر بد قسمتی کا وہ زمانہ آیا کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ امت مسلمہ سب اُمتوں سے افضل ہے اس لئے اب اس کے کسی فرد کے ساتھ خدا تعالیٰ کلام نہیں کرے گا.اِنَّالِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ قٰلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ۰۰۱۱۳ پھر وہ (یعنی خدا) فرمائےگا کتنے سال تم زمین میں رہے ہو ؟ وہ کہیں گے ہم ایک ہی دن یا دن کا کچھ حصہ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّيْنَ۰۰۱۱۴ زمین میں رہے ہیں.تو گننے والوں سے پوچھ لے.(اس پر خدا تعالیٰ )فرمائےگا.اگر تم سمجھ سے کا م لو تو قٰلَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا لَّوْ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۱۵ تم بہت تھوڑا عرصہ رہے ہو.حلّ لُغَات.یَوْمٌ.یَوْمٌ اس کے معنے مطلق وقت کے ہوتے ہیں.جیسا کہ شاعر کہتا ہے ع یَوْمَا ہٗ یَوْمُ نَدًی وَیَوْمُ طِعَانِ یعنی میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں یا تو وہ سخاوت میں مشغول ہوتا ہے یا دشمنوں کے قتل کرنے میں.اور اس کے معنے اَلدَّھْرُ یعنی زمانہ کے بھی ہیں (لسان العرب ) تفسیر.فرماتا ہے.اُس وقت خدا تعالیٰ کفار سے کہے گا کہ بھلا بتائو تو سہی کہ تم دنیا میں کتنے سال رہے ؟ وہ کہیں گے کہ کچھ نہیں کوئی ایک دن یا دن کا کچھ تھوڑا سا حصہ.یہ فقرہ ناواقفیت کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے چنانچہ اسی آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ فَسْـَٔلِ الْعَآدِّيْنَ.تُو گننے والوں سے پُوچھ لے اور اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ اگر تم کو حقیقی علم ہو تو تم بہت تھوڑا عرصہ دنیا میں رہے ہو.ان الفاظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کفار اپنی زندگی ہنسی کھیل میں گذار دیتے ہیں اور ہنسی کھیل میں گذرا ہوا وقت بہت تھوڑا معلوم ہوتا ہے.اسی وجہ سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ.فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ

Page 405

اِلَّا هُوَ١ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ.یعنی اے لوگو ! کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تم کو بغیر کسی غرض کے پیدا کیا ہے کہ تم نے اپنی عمریں ضائع کرنی شروع کر دیں.اور یہ خیال کرتے رہے کہ تم لوٹ کر ہمارے پاس نہیں آئو گے تاکہ اپنی زندگی کی روشن اور تاریک گھڑیوں کا ہمیں حساب دو.حالانکہ اگر تمہارا خیال ٹھیک ہوتا تو خدا تعالیٰ کی توحید اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ثابت نہ ہوتی.خدا تعالیٰ کی توحید اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت تبھی ثابت ہو سکتی ہے جبکہ دنیا ایک مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہواور اگر کوئی شخص اُس مقصد کو پورا نہ کرے اور ہنسی کھیل میں اپنے دن گذار دے تُو اُس سے جواب طلبی کی جائے.اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا کیا تم یہ سمجھا کرتے تھے کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے ؟ا ور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے.تُرْجَعُوْنَ۰۰۱۱۶فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ پس اللہ بڑی بلندشان والا.بادشاہ اور قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا ہے.اُس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ عرش کریم رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ۰۰۱۱۷ کا رب ہے.تفسیر.اس آیت میں بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرو اور سوچو کہ کیا ہم نے دنیا کو بلا وجہ پیدا کیا ہے.یا کیا یہ ایک کھیل اور تماشہ ہے جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ جس طرح بچے کھلونے بناتے اور پھر اُسے توڑ پھوڑ دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کرتے اور پھر ہلاک کر دیتے ہیں اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے ؟ فرماتا ہے یہ بالکل احمقانہ خیال ہے.اسے ہماری طرف منسوب کرنا بھی ہماری ہتک ہے کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تم نے بچہ بنا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے وہ کامل الصفات خدا ہے اُس کے متعلق یہ تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بچوں کی طرح کھیل رہا ہے اور دنیا کو پیدا کرتا اور اُسے تباہ کرتا رہتا ہے.نہ اس کا کوئی مقصد ہے نہ مدعا.جیسے بچے ریت کے میدانوں میں جاتے ہیں تو اوپر کی خشک ریت ہٹا کر نیچے سے گیلی ریت نکال لیتے ہیں اور اُس میں پائوں

Page 406

یا ہاتھ رکھ کر اوپر سے تھپکتے جا تے ہیں اور اس طرح ریت کے مکان بنا لیتے ہیں.مگر گھر آتے وقت لات مار کر انہیں گِرا دیتے ہیں.فرماتا ہے.کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے بھی دنیا کو بچوں کے کھیل کی طرح پیدا کیا ہے.یعنی ہم انسان کو پیدا کرتے اور کچھ عرصہ کے بعد اُسے مار دیتے ہیں.گویا بچے کی کھیل تو گھنٹہ دو گھنٹے کی ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی کھیل چند سالوں کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَعَالَی اللہُ.تم تو ایک عقلمند انسان کی طرف بھی ایسی بات منسوب نہیں کرتے.وہ اگر کھیلے بھی تو اس کے کھیلنے کا وقت کام کے وقت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور پھر بڑی عمر کا آدمی جب کوئی مکان بناتا ہے تو اُسے توڑتا نہیں.سوائے اس کے کہ اُس میں کوئی نقص ہو یا اُس سے بہتر عمارت بنانے کا اُسے خیال ہو.مگر خدا تعالیٰ کے کام میں تو کوئی نقص بھی نہیں ہوتا.پھر وہ جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا او ر علّو شان رکھنے والا ہے اس کے متعلق تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ کھیل رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کئی ایسے فلسفی موجود ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ یہ دنیا خدا تعالیٰ کی ایک کھیل ہے.خدا تعالیٰ تنہائی سے گھبرایا تو اُس نے کہا آئو کوئی شغل جاری کریں اور اُس نے انسان کو پیدا کر دیا.کوئی انسان مرتا ہے تو وہ ہنستا ہے جس طرح بچہ کھلونے کو توڑ کر ہنس دیتا ہے.اُس کے ماں باپ اس پرناراض ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ قہقہہ لگا رہا ہوتا ہے.اسی طرح جب کوئی انسان مرتا ہے تو لوگ تو رو رہے ہوتے ہیں مگر خدا نعوذ باللہ ہنستا ہے کہ کیا خوب گلا گھونٹا گیا.اسی طرح جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں دردزِہ کی شدت سے کراہ رہی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نعوذباللہ ہنس رہا ہوتا ہے.پھر کئی لوگ ایسے ہیں جو گو منہ سے تو یہ نہ کہتے ہوں لیکن اُن کے اعمال کے پس پشت یہ خیال ضرور موجود ہوتا ہے وہ سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے ؟ اور پھر خیال کر لیتے ہیں کہ یونہی آگئے ہیں.جو لوگ اپنی زندگیوں کا کوئی روحانی مقصد نہیں سمجھتے اُن پر اگر جرح کرکے دیکھو تو اُن کا یہی عقیدہ نکلے گا کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ کھیل رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَعَالَی اللہُ.اللہ تعالیٰ بہت بلند شان والا ہے.اُس نے دنیا کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ کی چار صفات تھیں جنہوں نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا وہ صفات اپنا ظہور چاہتی تھیں اور اُن صفات کے ظہور کے لئے ہی اُس نے دنیا کو پیدا کیا.وہ چار صفات کیا ہیں.اَلْمَلِکُ.اَلْحَقُّ.لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ.اور رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ.فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ مَلک ہے اُس کی ملکیت چاہتی تھی کہ وہ ظاہر ہو.وہ الحق ہے اُس کا حق ہونا چاہتا تھا کہ وہ ظاہر ہو.وہ لَا اِلَہَ اِلَّاھُوَ کا مصداق ہے اُس کی توحید چاہتی تھی کہ وہ ظاہر ہو.اور وہ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہے اُس کا رب العرش الکریم ہونا چاہتا تھا کہ وہ ظاہر ہو.یہ چار صفات چونکہ اپنا ظہور چاہتی تھیں.اس لئے اُس نے دنیا کو پیدا کر دیا ،ان چاروں صفات پر غور کرکے دیکھو تو درحقیقت یہ وہی صفات ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں.وہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

Page 407

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ.الرَّحِيْمِ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ.یعنی اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے رحمٰن ہے رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں ترتیب بدل دی گئی ہے.اس آیت میں جو صفت پہلے بیان کی گئی تھی سورۂ فاتحہ میں اُسے آخر میں رکھ دیا ہے اور پھر اسی ترتیب سے تمام صفات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے.چنانچہ دیکھ لو اس آیت میں جو اَلْمَلِکُ آیا ہے یہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی طرف اشارہ کرتا ہے.الحق صفتِ رحیمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے.لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ صفت رحمانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ صفت رب العالمین کی طرف اشارہ کرتا ہے.گویا اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًاوَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ میں تو چار صفات بطور منبع کے بیان کی گئی ہیں.یعنی وہ صفات جنہوں نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا.لیکن ان کے نتیجہ میں جب انسان کو پیدا کیا گیا تو بندوں کے تعلق کے لحاظ سے وہی چار صفات ایک دوسرے رنگ میں ظاہر ہو گئیں.گویا تختِ شاہی کے مالک بلند شان والے مہربان رب کی طرف سے جب دنیا پیدا ہوئی تو وہ دنیا کے لحاظ سے رَبُّ الْعَالَمِیْنَ بن گیا.پھر توحید کامل نے جب اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو وہ انسانوں کے لئے رحمانیت کی صفت میں ظاہر ہوئی اور دنیا کی ہر ضرورت کو اس نے پورا کرکے بتا دیا کہ سوائے اس کے اور کوئی خدانہیں.پھر اَلْحَقُّ کی صفت نے جب ظہور چاہا.جو سچ وعدے کرنے والی اور دنیا کو قائم رکھنے والی ہے تو اُس نے رحیمیت کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا.پھرملکیت نے چاہا کہ وہ کوئی قانون جاری کرے اور جب اُس نے قوانین جاری کئے تو اُس نے کہا.اب میں ہر ایک سے حساب لوںگا کہ اُس نے قانون کی کس حد تک پیروی کی ہے.اور وہ مالک یوم الدین کی صورت میں ظاہر ہوا.پس یہ چار صفات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں یہ سورہ فاتحہ کی چار صفات کے لئے بطور منبع ہیں.مگر سورۂ فاتحہ میں جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ اس سورۃ کے لحاظ سے موزوں تھی اور جو اس جگہ ترتیب رکھی گئی ہے یہ پیدائش ِ عالم کے لحاظ سے موزوں ہے.یعنی ملک نے جب اپنی جلوہ گری کی تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کی صفت انسانوں کے لئے ظاہر ہوئی کیونکہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے معنے ہیں جزا سزا کے دن کا مالک اور جزا سزا اُس وقت تک مترتّب نہیں ہو سکتی جب تک مَلِک کی طرف سے پہلے کوئی قانون نہ ہو.پس مالک یوم الدین نتیجہ ہے ملکیت کا.اسی طرح توحید نے جب اپنا ظہور چاہا تو اس کی رحمانیت کی صفت ظاہر ہوئی.کیونکہ الرحمٰن کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہر مخلوق کی جائز ضرورت کو پورا کرتا ہے خواہ اُس نے کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو.اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ایک ہی خدا ہو.اگر پانی کسی خدا نے دینا ہے اور روٹی کسی نے تو توحید کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا.لیکن جب ہم اپنی ہر ضرورت خدا تعالیٰ سے پوری ہوتی دیکھیں تو پھر ہماری عقل کہتی ہے کہ اُس کے سوا کسی اور خدا کی ضرورت نہیں.پس رحمانیت کی صفت توحیدِ الٰہی

Page 408

کی ایک زبر دست دلیل ہے کیونکہ بغیر کسی وقفہ اور رخنہ کے سب مخلوق کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں.یہی وجہ ہے کہ کامل توحید اُنہی قوموں میں پائی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی قائل ہیں.ہندو اور مسیحی مشرک قومیں ہیں اور یہ دونوں رحمانیت کی قائل نہیں.ایک نے رحمانیت کا انکار کرکے تناسخ کا مسئلہ نکال لیا اور دوسری نے کفارہ کا مسئلہ ایجاد کر لیا.پھر خدا تعالیٰ کی صفتالْحَقُّ نے جب اپنا ظہو ر چاہا تو اُس نے رحیمیت کے ذریعہ سے سچائی کے دلدادوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشی.کیونکہ رحیم کے معنے ہیں اچھے کاموں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دینے والی ہستی جو کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتی اور یہی الحق کی صفت کا تقاضا ہے.الْحَقُّ چاہتا ہے کہ اُس کا کوئی وعدہ غلط نہ جائے اور جو جو اُس نے لوگوں سے انعامات کے وعدے کئے ہیں وہ اُن کو ضرور مل جائیں.پھر الْحَقُّ کے معنے قائم رہنے اور قائم رکھنے کے بھی ہوتے ہیں.اور رحیم کی صفت میں جو بار بار بدلہ دینے کے معنے پائے جاتے ہیں وہ بھی اس صفت سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ الحق نہ صرف خود قائم رہتا ہے بلکہ دوسروں کوبھی قائم رکھتا اور ان کے انعامات کو بھی قائم رکھتا ہے.حق درحقیقت مصدر ہے اور مصدر مبالغہ کے معنوں کے ساتھ اسم فاعل کے معنے بھی دے دیتا ہے.جیسے اَلْعَدْلُ نہایت انصاف کرنےوالے کو کہتے ہیں.پس الْحَقُّ کے معنے قائم رہنے والے.قائم رکھنے والے اور سچے وعدے کرنے والے کے ہوںگے.اور چونکہ رحیم کے معنے بھی کسی کے نیک کام کو ضائع نہ کرنے والے اور متواتر انعامات دینے والے کے ہیں اس لئے اس صفت کا تعلق الحق سے ہی ہے.پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِنے چاہا کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس کی وہ ربوبیت کرے.پس اُس نے دنیا پیدا کی اور اس کے لئے وہ رب العالمین ہو کر ظاہر ہوا.رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ میں بتایا گیا تھا کہ وہ تمام صفاتِ حسنہ کا مرکز اور حکومت کا مالک ہے اور اُس کا عرش کریم ہے اور کریم اُسے کہتے ہیں جس میں اعزاز اور احسان پایا جا تا ہو.اور یہی رب العالمین میں بیان کیا گیا ہے.غرض رب العالمین کی صفت تابع ہے رب العرش الکریم کی صفت کے اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِکی صفت تابع ہے اُس کے ملک ہونےکی صفت کے اورالرَّحیم کی صفت تابع ہے الْحَقُّ کی صفت کے اور الرحمٰن کی صفت تابع ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کی صفت کے.گویا یہ چاروں صفات جو سورۂ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِمیں بیان کی ہیں.اور اس طرح بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم نے دنیا کو کھیل کے طورپر نہیں بتا یا بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ ہم الْمَلِكُ ہیں.ہم الْحَقُّ ہیں.ہم لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ ہیں.ہم رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِہیں.یہ چار صفات ہیں جنہوں نے تقاضا کیا کہ ہم اپنے آپ کو ظاہر کریں.پس ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کر دیا.چنانچہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ چاروں صفات تنزلی طور پر ہر انسان کے اندر پائی جاتی

Page 409

ہیں.اس کے اندر خدا تعالیٰ نے مَلِک والی صفت بھی رکھی ہے جس کے نتیجہ میں وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا مظہر بنتا ہے اور اس صفت کا اتنا غلبہ ہے کہ دنیامیں ناقابل سے ناقابل انسان کو بھی مجازی طورپر بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اپنا مشورہ دینے کے لئے بے تاب رہتا ہے.پھر بادشاہت ایک نظام چاہتی ہے اور انسان بھی ملک ہو کر قانون بناتا اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہو کر قاضی بنتا اور لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے.پھر ملکیت نظام کامل پر بھی دلالت کرتی ہے.کیونکہ بادشاہ کا یہ کام ہو تا ہے کہ وہ نظام کو قائم رکھے اور ایک کو دوسرے پر ظلم نہ کرنے دےاور چونکہ خدا تعالیٰ الملک تھا اُس کی ملکیت نے تقاضا کیا کہ بنی نوع انسان میں بھی نظام جاری ہو.اسی لئے اُس نے انسان کو مدنی الطبع بنایا اور اُس میں مل جُل کر رہنے کی طرف رغبت پیدا کی.اور بیوی بچے رشتہ دار اور دوست وغیرہ اُس کے ساتھ لگادیئے گئے.بیشک وہ جانوروں کے ساتھ بھی ہیں مگر اس طرح نہیں جس طرح انسان کے ساتھ ہیں.مثلاً اُن میں تربیت اولاد کا طریق نہیں.بچہ جب دانہ کھانے لگے تو وہ اُسے مارکر باہر نکال دیتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوگا کہ بچے کو بوڑھا ہونے تک وہ اپنے ساتھ لئے پھریں.لیکن انسانوں میں یہ بات نظر آتی ہے کہ بچے کے بوڑھا ہونے تک بھی اگر ماں باپ زندہ ہوں تو اس کا فکر رکھتے ہیں.پھر جانوروں میں برادری سسٹم کوئی نہیں.لیکن اگر بعض کے تعاون کو جیسا کہ چیونٹیوں میں ہوتا ہے برادری کا طریق بھی سمجھ لیا جائے تو خاندانوں کا سسٹم اُن میں قطعًا نہیں.اور وارث ہونا اور قرابت کی وجہ سے دوسرے کا ذمہ دار قرار پانا یہ باتیں تو اُن میں کُلی طور پر مفقود ہیں.غرض ملکیت چونکہ نظامِ کامل پر دلالت کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ دنیامیں بھی نظام کامل جاری کیا جائے اور اسی لئے اس نے انسان کو مدنی الطبع بنایا.پھر صفت الْحَقُّ جس کے تابع رحیمیت کی صفت ہے اخلاقِ فاضلہ اور عمل کی درستی پر دلالت کرتی ہے.رحیمیت کے معنے ہیں اچھے کام کا بہتر سے بہتر بدلہ دینا اور یہ چیز اخلاق سے تعلق رکھتی ہے.اچھے کام ہوں تو بدلہ دیا جا سکتا ہے.ورنہ نہیں.چنانچہ جس طرح ملکیت کے نظام کو قبول کرنے کے لئے اُس نے انسان کے اندر قابلیت رکھی تھی اور اُسے مدنی الطبع بنایا تھا اسی طرح الحق کے مقابلہ میں اخلاق فاضلہ انسان کو عطاکئے گئے.مذہب ہویا نہ ہو.تعلیم ہو یا نہ ہو.خلافِ اخلاق بات دیکھ کر ہر شخص کا چہرہ فوراً سُرخ ہو جائےگا اور پتہ لگ جائے گا کہ اُس کی فطرت بو ل رہی ہے.جھوٹ بولنے یا چوری کرنے کی کسی کو عادت پڑ جائے تو اور بات ہے ورنہ پہلا جھوٹ بولتے ہوئے اُس کا رنگ ضرور فق ہوگا اور پہلی چوری کرتے ہوئے اُس کا ہاتھ ضرور کانپے گا کیونکہ اخلاق فاضلہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں داخل کئے ہیں.اور جب خدا تعالیٰ رحیم تھا تو ضروری تھا کہ دنیا میں اچھے کام بھی ہوں تاکہ اُن کا بدلہ دیا جا سکتا.پھر الْحَقُّ میں چونکہ سچا وعدہ کرنے والے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں اس

Page 410

لئے اللہ تعالیٰ نے انسان میں الْحَقُّ کی صفت بھی رکھی.چنانچہ انسان ہی وہ وجود ہے جو سچائی کو اُس کی انتہائی حد تک پہنچا دیتا ہے اور سچائی کے قیام کے لئے اتنی عظیم الشان قربانی کرتا ہے کہ جس کی مثال کسی اور مخلوق میں نہیں مل سکتی.امتِ محمدیہؐ میں ایسے کئی اولیا ء ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کے لئے بڑی بڑی تکالیف اٹھائی ہیں.یہا ں تک کہ انہوں نے اس راہ میں مرنا قبول کر لیا مگر سچا ئی کو ترک نہیں کیا.خود ہماری جماعت میں شہدائے کابل کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے پتھر کھا کھا کر مرجانا قبول کر لیا مگر اس بات کو ایک لمحہ کے لئے برداشت نہ کیا کہ جوسچائی انہوں نے اختیار کی تھی اُس کو لوگوں کے کہنے سے ترک کر دیں.ہمارے سردار اور آقا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو.مکی زندگی میں ابو طالب جو آپ کے چچا تھے آپ کی بڑی حفاظت کیاکرتے تھے اور چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح دق نہ کر سکتے تھے جس طرح وہ آپ کے صحابہ ؓ کودق کیا کرتے تھے.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ و نصیحت کو سُن سُن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اُس کا مٹانا اُن کے لئے سخت مشکل ہو جائےگا تو وہ ایک وفد کی صورت میں ابو طالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دق کر رکھا ہے وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا او ر ایک خدا کاو عظ کرتا رہتا ہے.آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ اس سے الگ ہو جائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اس سے نپٹ لیں گے اور اگر آپ اُن سے الگ ہو نے کے لئے بھی تیار نہ ہوں تو مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا.اور پھر اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.ابو طالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں میں قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت سمجھتی ہیں.ابو طالب نے جب یہ بات سُنی تو گھبراگئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا کر کہا.اے میرے بھتیجے ! اب قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلا ک کردیں اور ساتھ ہی مجھے بھی.میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طو ر پر کہہ دیا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے الگ ہو جائیں اور اگر آپ الگ ہونے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے.ابو طالب کے لئے یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ باتیں کرتے کرتے انہیں رقت آگئی اور اُن کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں.مگر آپ نے فرمایا.اے چچا ! میں آپ کے احسانات کو بھول نہیں سکتا.میں جانتا ہوں کہ آپ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں لیکن اے چچا ! مجھے خدا تعالیٰ نے اسی کام کے لئے مبعوث کیا ہے.اگر آپ کو اپنی تکلیف کا احساس ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں.خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا.

Page 411

اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام مباداۃ رسول اللہ قومہ وما کان منھم وذکر ما دار بین رسول اللہ و رؤساء قریش ) یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے.آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ محمد ؐرسول اللہ جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور آپ کو اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو آپ ؐ لائے تھے.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.پھر الحق کے دوسرے معنے دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں.اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑکنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگا ہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں دنیا کو کیونکر تباہ کردوں.پس اُس کا وجود اس دنیا کے لئے ایک حرز اور تعویذ ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے مخلوق بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے.پھر لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ جو رحمانیت کا منبع ہے اُس کےساتھ قربانی اور ایثار کا تعلق ہے.کیونکہ رحمانیت تقاضا کرتی ہے کہ بغیر کسی مزدوری اور محنت کے دوسرے پر احسان کیا جائے اور یہ چیز بھی انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے چنانچہ دیکھ لو قطع نظر اس خیال کے کہ بڑے ہو کر بچہ کسی کام بھی آئےگا یا نہیں ماں باپ اُسے پالتے اور اُس کے آرام و آسائش کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں.وہ اپنے دن کا آرام اور راتوں کی نیند اُس کے لئے حرام کر دیتے ہیں اور ہر ممکن کوشش اُس کے بقاء اور تحفظ کے لئے کرتے ہیں.یہ صفت رحمانیت کا ہی پر تو ہے جو انسان میں دکھائی دیتا ہے.اسی طرح ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جو شخص لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کا مقام دیکھ لیتا ہے وہ خود بھی توحید کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے.توحید کے مقام پر کھڑا ہونے کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح اپنی تو حید اور تفرید سے محبت ہے اسی طرح انسان سے بھی محبت ہو جاتی ہے اور وہ اُس کے مقابلہ میں ساری دنیا کی بھی پروا نہیں کرتا.یہی وہ مقام ہے جسے حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ لَوْلَا کَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ یعنی اے محمد ؐ رسول اللہ ! اگر تونہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.پھر یہ بھی توحید کا مقام تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سیّد ولد آدم اور اوّلین و آخرین کا سردار بنایا اور فیصلہ فرما دیا کہ اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں جن سکتی جو آپ ؐ کے درجہ کی

Page 412

بلندی کو پہنچ سکے.پھر اس لحاظ سے بھی آپ ؐ توحید کے مقام پر تھے کہ توحید کے قیام کے لئے آپ ؐنے اس قدر جدوجہد کی کہ دنیا و مافیھا آپ کی نظرو ں سے غائب ہوگئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگا.اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ توکل کا بلند ترین مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھی.پھر رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ کے ماتحت صفت رب العالمین کا مادہ بھی خدا تعالیٰ نے ہر انسان میں پیدا کیا او ر اُسے اتنا وسیع کیا کہ ہرماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی تربیت کر رہا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو یہ صفت اس درجہ تک پائی جاتی تھی کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو.یہ ظاہر ہے کہ ربوبیت عالمین میں تمام مخلوق شامل ہے.یعنی انسان بھی اس میں شامل ہیں اور حیوان بھی اُس میں شامل ہیں.مرد بھی اس میں شامل ہیں اور عورتیں بھی اس میں شامل ہیں مومن بھی اس میں شامل ہیں اور کافر بھی اس میں شامل ہیں امیر بھی اس میں شامل ہیں اور غریب بھی اس میں شامل ہیں.یہاں تک کہ انبیاء اور ملائکہ بھی اس میں شامل ہیں.اب جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ آپ صفتِ رب العالمین کے ایسے کامل مظہر تھے کہ د نیا کی کوئی مخلوق آپ کے احسان سے باہر نہیں تھی.مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کئی قسم کے احکام دئیے ہیں.مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانوروں کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو ان کے کھانے پینے کا انتظام کرو.کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرو تاکہ اُسے تکلیف نہ ہو.کسی جانور کو کُند چھری سے ذبح نہ کرو.کسی جانور کو باندھ کر نشانہ نہ بنائو.کسی جانور پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو.کسی جانور کے مونہہ پر داغ نہ لگائو.اگر لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگائو.اسی طرح فرمایا کہ جو پالتو جانور ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص جو جانوروں کو دانے وغیرہ ڈالا کرتا تھا اللہ تعالیٰ کو اُس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اُس نے اس نیکی کے عوض اُسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.(مسلم کتاب البر و الصلۃ والآداب باب تحریم تعذیب الھرۃ،و ابن ماجہ کتاب الذبائح باب اذا ذبحتم فاحسنواالذبح و البخاری کتاب الذبائح و الصید باب ما یکرہ من المثلۃ المصبورۃ و ابو داؤد کتاب الجھاد باب ما یؤمر بہ من القیام علی الدواب و باب النھی عن الوسم فی الوجہ) عورتوں کے حقوق کا آپ نے اس قدر خیال رکھا کہ فرمایا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کہ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں.پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے اُسے جائیداد کا مالک قرار دیا.اُس کے جذبات اور احساسات

Page 413

کا خیال رکھا.اس کی تعلیم کی نگہداشت کی.اُس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ فرما دیا کہ جس طرح جنت میں مرد کے لئے ترقیات کے غیر متناہی مراتب ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ترقیات کے غیر متناہی دروازے کھلے ہیں.پھر انسانوں میں قوموں مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائیاں ہو جاتی ہیں.مگر جہاں گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہو تی ہے جہاں کوئی انسان کسی کی پروا نہیں کرتا وہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ دیکھنا ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا.کسی بچے کو نہ مارنا.کسی پنڈت یا پادری یا راہب کو قتل نہ کرنا.باغات نہ جلانا.معبد نہ گرانا.پھلدار درخت نہ کاٹنا.جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا.کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرنا جس نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہوں.زخمی کو نہ مارنا.کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا.کفار کا مثلہ نہ کرنا(بخاری کتاب الجھاد باب قتل الصبیان فی الحرب ،و باب قتل النساء فی الحرب ،و باب لا یعذب بعذاب اللہ، ومسلم کتاب الجھاد باب فتح مکة،و ابو داؤد کتاب الجھاد باب فی دعا ءالمشرکین ، و باب النھی عن المثلة و مؤطا امام مالک کتاب الجھاد باب النھی عن قتل النساء و طحاوی کتاب السیر باب الشیخ الکبیر ھل یقتل فی دار الحرب...).گویا تمثیلی زبان میں اگر ہم ان ہدایات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مسلمانوں کو کفار سے لڑا رہے تھے کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہ سختی نہ کرو.وہ سختی نہ کرو.گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لشکر ہی کی کمان نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کر رہے تھے اور انہیں بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچا رہے تھے.پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت رب العالمین کے مظہر ہونے کا ثبوت نظر آرہا ہے.پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا کہ جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اُسے آزاد کردے.آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا اور اگر زیادہ کام ہو تو خود ساتھ لگ کر کا م کرائو اور اگر تم اس کے لئے تیار نہیں تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ اس سے کام لو.اسی طرح اگر غلام کے لئے تمہارے مونہہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اُسے فوراً آزاد کردو.غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العالمین کا مظہر بن کر دنیا کو دکھا دیا.آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تو حلال کما اور محنت سے کام کر اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے تو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ خشک ہو نے سے پہلے اس کی

Page 414

مزدوری اُسے دے.(مسلم، کتاب الایمان باب صحبة الممالیک و کفارة من لطم عبدہ و البخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیة، الترمذی ابواب الاحکام باب ما جاء ان الوالد یآخذ من مال ولدہ و ابن ماجہ کتاب التجارات باب الحث علی المکاسب و ابواب الرھون باب اجر الاجراء )اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام دئیے بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق واضح ہدایات دے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان پر احسان نہ فرمایا ہو.کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احسانات کئے لیکن آپ نے پہلوںپر کیا احسان کیا.سو ایسے لوگوں کو میں بتا نا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ اُن لوگوں پر بھی ہیں جو آپ سے پہلے گذر چکے.آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اُس وقت تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر نبی پر اُسی قوم نے الزام لگائے جو اُس نبی کو ماننے والی تھی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی الزام لگا.حضرت دائود علیہ السلام پر بھی الزام لگا.حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا.بلکہ عیسائیوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مستثنٰی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی نعوذ باللہ چو ر اور بٹ مار تھے(یوحنا باب ۱۰ آیت ۸) مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نیکی بھی اُن کی نگا ہ میںکیا تھی انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ بے گناہ تھے.مگر تفصیلات میں وہ اُن پر الزام لگانے سے بھی باز نہیں آئے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اُس پر سواری کرتے پھرے (مرقس باب ۱۱ آیت ۲).لوگوں کو گالیاں دیتے تھےاور انہیں حرامکار اور بدکار کہتے تھے (متی باب ۷ آیت ۲۳).وہ لوگوں کے گناہ اٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نعوذ باللہ لعنتی بنے اور تین دن دوزخ میں رہے(The Lost Books of the Bible p:91 ).وہ لوگوں کے سؤروں کے گلّے بغیر اُن کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کر دیا کرتے تھے (متی باب ۸ آیت ۳۰ تا ۳۴).یہ سب باتیں مسیحی کتب میں لکھی ہیں.پھر ہندوؤں کو لے لو.وہ حضرت کرشن ؑ اور حضرت رامچندر ؑ کو اپنا اوتار مانتے ہیں.مگر رامچندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تو یہ تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیاہو.پھر حضرت کرشن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لےجایا کرتے تھے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے(مھارشی وید ویاس شریمد بھاگوت مھا پران دوسرا کھنڈ سکنڈھ ۹.۱۲).غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے.یہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء پر سے ان اعتراضات کو دور کیا اور بتا یا کہ یہ لوگ نیک پاک اور راستباز تھے ا ن

Page 415

پر الزام نہیں لگانا چاہیے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی احسان کیا جو وفات پا چکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا.جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اُس کی گذشتہ تاریخ کتنی صاف ہو جاتی ہے اور وہ کیسی خوشی کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا.یہی حال عیسائیوںکا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنی قوم ہی کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور اُن کے سامنے بھی اُن کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کر سکتے ہیں.پھر آپ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا.طرح طرح کے الزام تھے جو اُن پر لگائے جاتے تھے.مگر اسلام نے آکر بتا یا کہ ملائکہ گناہ گار نہیں بلکہ اُن کے اندر خدا تعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا.انہیں جو بھی حکم ملے اُس کی وہ اطاعت کرتے ہیں (التحریم:۷)پس اُن پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے بھی فلاں گناہ کیا تھا سخت ظلم ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے ہر گناہگار پر احسان کیا اور اُس کے دل کو خوشی سے لبریز کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گناہگار ہمیشہ دوزخ میں گرائے جا ئیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا.گویا دنیا گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور توبہ کا دروازہ اس پر بند کرتی تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.انسان کتناہی گناہگار ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے معاف کرنے کے لئے تیار ہے(ترمذی ابواب الدعوات باب فضل التوبۃ).بے شک گناہگاروں کے گناہ بڑے ہوں مگر خدا تعالیٰ کا رحم اُس سے بھی بڑا ہے.پس تم اس بات سے مت گھبرائو کہ تم گناہوں میں ملوث ہو تم توبہ کرو تو خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہے.کتنی امید ہے جو گناہگار وں کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کر دی.کتنی امنگ ہے جو آپ نے ان کے قلوب میں موجزن کر دی.غرض رب العالمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہر ہوئی اور آپ سے اُتر کر امتِ محمدیہ کے اور بہت سے اولیا اور صلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے.غرض یہ چاروں صفات جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں انہی کے ماتحت دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے.اگر قانون نہ ہو اور پھر اس قانون کا نفاذ نہ ہو تو ہر گز امن قائم نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر صحیح رنگ میں تربیت نہ ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست نہ ہو تب بھی امن مفقود ہو تا ہے.امن کے قیام کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو سمجھ لے کہ وہ دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہے.اور یہ حقیقت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 416

کی لائی ہوئی تعلیم انسان کے سامنے پیش نہ کی جائے.جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے اُس کے سامنے نہ رکھ دئے جائیں.جب تک ہم اُسے یہ یقین نہ دلادیں کہ یہی دنیوی زندگی کا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل زندگی وہ ہے جب وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا.تو خدا اُسے کہےگا کہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۳۰،۳۱).کہ اے میرے بندے میں نے تجھے بے انتہا انعامات دینے ہیں.میں نے تیری روح ہمیشہ قائم رکھنی ہے.بیشک تیری دنیوی زندگی ہزاروں مایوسیوں ہزاروں ناکامیوں اور ہزاروں بیماریوں کی آماجگاہ تھی لیکن یاد رکھ کہ وہی تیری زندگی نہیں تھی بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو اب تجھے دیتا ہوں اور جو ہر قسم کی تکلیفوں اور ہر قسم کی ذلتوںاور ہر قسم کے تنزل سے محفوظ ہے.آ اور میری جنت میں داخل ہو جا.جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے.جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہی ہے جو میری موت کے بعد شروع ہو گی تو اس وقت وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتا ہے اور اس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اُٹھا کر ایک بلند مقام پر پہنچا دے.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص تحصیلدار سے ای.اے.سی ہو گیا ہو یا ڈپٹی کمشنر سے کمشنرہو گیا ہو اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ گیا ہو.اسی طرح مومن اپنی موت پر روتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے انعامات ملنے کا وقت آگیا.لیکن جو شخص روتا ہے وہ اس لئے روتا ہے کہ اس نے زندگی محض دنیوی حیات کو سمجھ رکھا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس زندگی کا بیشتر حصہ ناکامی اور بد مزگی میں گذر گیا اور اُسے کچھ بھی لطف نہ آیا.مگر جو شخص جانتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا کمرہ ہے وہ اس کمرے سے نکلتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے ،جس طرح وہ لڑکا جو اچھے پرچے کرکے آتا ہے خوش ہوتا ہے اسی طرح مومن جب دنیا کے امتحان کے کمرہ سے اچھے پرچے کر کے نکلتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ایک رحیم ہستی میرے سامنے ہے جس نے مجھ سے بے انتہا انعامات کا وعدہ کیا ہوا ہے.اب میں اُس کے پاس جائوں گا اور اُس سے انعام لوں گا.جیسے یونیورسٹی کی ڈگریاں لینے کے لئے جب طالب علم جاتے ہیں تو وہ بھڑکیلے لباس اور گائون وغیرہ پہن کر جاتے ہیں.اسی طرح وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے عظیم الشان فضلوں پر ایمان رکھتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو اس کا دل خوشی سے اچھل رہا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے میں اپنے رب کے پاس ڈگری لینے چلا ہوں میں اپنے رب سے انعام لینے چلا ہوں.جب تک یہ امید انسان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک اُسے حقیقی راحت میسر نہیں آسکتی.

Page 417

غرض انسا ن میں اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان طاقتیں رکھی ہیں اور اُس کا یہ فرض مقرر کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بنانے کی کوشش کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے اورچاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسی روحانی حکومت قائم کرے جس کے افراد اُنہی صفات کے مظہر ہوں جو اُس کے اندر پائی جاتی ہیں.پس جب تک کوئی شخص ان تمام ذمہ داریوں کو سمجھ کر مذہب قبول نہیں کرتا اس وقت تک اس کا مذہب میں شامل ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے.وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی تفسیر سارا قرآن ہے اور اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں ہو سکتا.جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کان آنکھوں منہ گردن سر سینہ ہاتھ اور پائوں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز بھی علٰیحدہ نہیں ہوسکتی.نہ سر الگ ہو سکتا ہے.نہ دھڑالگ ہو سکتا ہے.نہ ہاتھ اور پائوں الگ ہو سکتے ہیں.اسی طرح لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ایک مفرد شے نہیں بلکہ وہ چار اعضاء روحانی کے مجموعہ کا نام ہے.وہ الْمَلِكُ اور الْحَقُّ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اور رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِکے بروز کا نام ہے.پس انسان صحیح معنوں میں اسی وقت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے والا سمجھا جاسکتا ہے جب وہ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ.الرَّحِيْمِاور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کی صفات کا مظہر ہو.اگر کوئی شخص ان صفات کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو آدمی سمجھتا رہے جس کا نہ دل ہو ، نہ دماغ ہو ، نہ ہاتھ ہوں ، نہ پائوں ہوں.کامیابی حاصل کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیںجو اپنے آپ کو صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بنا کر اپنے اندر تغیر پیدا کرتے ہیں اور اس طرح اُس مقصد کو حاصل کر لیتے ہیں جس کے لئے ان کی پیدائش معرضِ وجود میں آئی تھی.وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ١ۙ فَاِنَّمَا اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی اور معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل نہیں.تو اُس کا حساب اس کے رب کے حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۰۰۱۱۸وَ قُلْ پاس ہے.حقیقت یہ ہے کہ کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور توکہہ دے.اے میرے رب ! معاف کر اور رحم کر

Page 418

رَّبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَمْ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰحِمِيْنَؒ۰۰۱۱۹ اور تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے.تفسیر.فرماتا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود سمجھ کر اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کو اپنے رب کے سامنے حساب دینا پڑے گا اور ایسے کافر لوگ کبھی اپنی مراد نہیں پائیں گے.یعنی وہ کبھی بھی مسلمانوں پر غالب نہیں آئیں گے بلکہ مسلمان ہی اُن پر غالب رہیں گے.مگر اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے تُو اپنے رب سے بخشش اور رحم مانگتا رہا کر اور یہ کہتا رہا کر کہ الٰہی تو ہی سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے.یعنی اسلام کی اشاعت کے لئے سب سے کار گر حربہ یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس سے دعائیں کرتے رہو کہ وہ تمہاری کمزوریوں کو دور فرمائے.تمہیں اپنے رحم اور کرم سے حصہ دے اور تمہیں ایسا روحانی غلبہ عطا کرے کہ تم لوگوں کے خیالات اور اُن کے افکار اور ان کے رجحانات میں ایک نیک تغیر پیدا کر سکو اور انہیں توحید کی طرف کھینچ کر ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھ سکو.تاکہ اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کا اظہار ہو اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو.یہ وہ حربہ ہے جسے ہر شخص استعمال کرسکتا ہے.یہاں تک کہ چارپائیوں پر پڑے ہوئے کمزور اور بیمار جن میں چلنے کی تاب نہیں.وہ بھی اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس کی نصرت کو کھینچ سکتے ہیں.قید وبند میں مبتلا انسان جو زندان کی چار دیواریوں میں مقید ہیں وہ بھی اس حربہ کو استعمال کر کے خدمتِ دین کا ثواب لے سکتے ہیں اور نادار اور غریب انسان جن کے دل اس حسرت سے بے تاب رہتے ہیں کہ کاش اُن کے پاس بھی روپیہ ہوتااور وہ بھی دین کی اشاعت میں مدد دے سکتے وہ بھی اس ذریعہ سے اسلام کی کامیابی کو قریب تر لا کر ثواب میں دوسروں کے شریک ہو سکتے ہیں.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اس سے نہایت عجزو انکسار سے یہ دعا کرتا رہے کہ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ.ڑ ڑ ڑ ڑ

Page 419

سُوْرَۃُ النُّوْرِ مَدَنِیَّۃٌ سورۃ نور.یہ سورۃ مدنی ہے وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ خَمْسٌ وَّ سِتُّوْنَ اٰیَۃً وَّتِسْعَۃُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ سمیت اس کی پینسٹھ (۶۵) آیتیں ہیں اور نو رکوع ہیں.۱؎ ۱؎ سورۃ النور بغیر اختلاف کے مدنی ہے.نہ مسلمان اس بارہ میں اختلاف کرتے ہیں اور نہ عیسائی اس کے متعلق اختلاف کرتے ہیں.(قرطبی و تفسیر القرآن از ویری)اور اس کی پینسٹھ(۶۵) آیتیں ہیں یعنی بسم اللہ کو شامل کرکے.بسم اللہ کو نکا ل کر چونسٹھ(۶۴) بنتی ہیں.سورۃ نور کا پہلی سورۃ سے تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورۂ مومنون کے آخر میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوںگے جو روحانیت میں ترقی کر کے خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کر سکیں گے.اب اس سورۃ میں وہ طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کی جاتی ہے.اور بتایا ہے کہ عبادت اور تقویٰ کی راہوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے کے ذریعہ قوم کی اخلاقی حالت کی درستی اور عائلی اور قومی تنظیم بھی ہوتے ہیں.چنانچہ اس سورۃ کو اخلاقی حالت کی درستی کی تدابیر سے ہی شروع کیا گیا ہے اور مرد و عورت کے تعلقات کی درستی اور اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے گو یا بتا یا ہے کہ اسلام کے مخالفوں کی نہ صرف مذہبی حالت گر گئی ہے بلکہ اخلاقی حالت بھی گر گئی ہے.اس لئے وہ کامیاب نہیں ہو سکتے (خصوصاً مسیحی) لیکن مسلمانوں کی یہ دونوں حالتیں درست ہو جائیں گی اس لئے وہ کامیاب ہو جائیں گے.درحقیقت اس مضمون کا بیج سورۂ مومنون میں موجود تھا.چنانچہ سورۂ مومنون میں کامیاب ہو نےوالے مومنوں کے لئے جو امور بیان کئے گئے تھے اُن میں سے ایک لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ بھی تھا پس یوں کہناچاہیے کہ کامیاب ہونے والے مومنوں کے مضمو ن کو اس سورۃ میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے.ضمنی طور پر ان دونوں سورتوں کے مضمون سے یہ امر بھی نکلتا ہے کہ لوگوں میں جو یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کسی سچے مذہب کو محض مان لینے سے کامیابی ہو سکتی ہے.یا یہ کہ اس طرح وہ کامیابی ہمیشہ کے لئے قائم بھی رکھی جا سکتی ہے یہ غلط ہے.کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ عقیدہ کے ساتھ ذہن افکار اور اخلاق کی اصلاح بھی کی جائے اور افراد اور قوم کے تعلقات کی بنیاد بھی صلاحیت اور رشد پر رکھی جائے.اور قومی تنظیم کو خاص اہمیت دی جائے اور افراد کے حقوق پر قوم کے حقوق کو مقدم کیا جائے.

Page 420

زمانۂ سورۃ یہ تو ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے.اب اس کی معّین تاریخ کا سوال رہ جاتا ہے.سو یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ میں جو حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یہ ۵ ؁ہجری کا ہے.بنو مصطلق کی جنگ سے واپسی کے وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا اور بنو مصطلق کی جنگ شعبان ۵ ؁ ہجری میں ہوئی تھی.(البدایۃ والنھایۃ غزوۃ بنی المصطلق بن خزاعۃ)پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سورۃ پانچویں سال ہجری کے آخری مہینوں میں اُتری ہے.خلاصہ سورۃ اس سورۃ میں خاص احکام بیا ن کئے گئے ہیں.اور ایسے امور بیان کئے گئے ہیں جن سے قوم ترقی کر سکتی ہے.(آیت ۱،۲) بدکاری قومی نظام کو توڑ دیتی ہے اور اُس کی شہرت قومی اخلاق کو بگاڑ دیتی ہے.ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے.(آیت ۳ تا ۶) پھر فرماتا ہے اگر میاں بیوی میں بدظنی پیدا ہو تو چونکہ اُس کا اثر خاندانی تعلقات پر پڑتا ہے اس لئے اس کا قانون دوسروں سے مختلف ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ بجائے غیر گواہوں کے ذاتی قسموں کے ذریعہ سے اُ ن کا تصفیہ کروایا جائے.(آیت ۷ تا ۱۱) پھر فرمایا کہ بعض دفعہ خرابی کے انفرادی واقعات قوم کے لئے مفید ہو جاتے ہیں.کیونکہ قوم اُن کی وجہ سے بیدار ہو جاتی ہے پس ایسی باتوں سے چڑنا نہیں چاہیے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہی بات کہی جائے جو قانونی گواہی کی حد تک دلیل رکھتی ہو.ورنہ وہ بات زبان پر نہ لائی جائے.کیونکہ اگر محض بد ظنی یا محض کمزور گواہوں پر ایک دوسرے کے خلاف الزام لگائے جائیں تو قوم میں گناہ بہت بڑھ جاتا ہے اور نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہماری قوم میں یہ بدی کثرت سے پائی جاتی ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں.(آیت ۱۲ تا ۲۱) پھر فرماتا ہے کہ اے مومنو ! اخلاق کی حفاظت بڑی ضروری چیز ہے ایسے تمام کام جو معیار ِ اخلاق کو قوم میں کمزور کر دینے والے ہوں شیطانی کام ہیں.اور قومی اخلاق کو قائم رکھنے کے لئے بڑی بیداری کی ضرورت ہے اگر انسان اس بیداری کو کھو بیٹھے تو قوم کے اخلاق گِر جاتے ہیں.لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قوم میں سے بعض افراد بعض دفعہ غلطی کر بیٹھیں تو محض اس لئے کہ وہ فعل اگر بڑھ جائے تو قوم کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے اُن کو پیسنے اور کچلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ قوم میں سے بعض کے اخلاق کمزور بھی ہو تے ہیں.ایسے لوگوں کی اصلاح بہت عفو سے کرنی چاہیے.(آیت ۲۲، ۲۳ )

Page 421

لیکن وہ لوگ جو کہ اصرار کے ساتھ قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور بد گوئی کے عادی ہوں اُن کو یقیناً اس دنیا میں بھی سزا ملنی چاہیے اور آخرت میں بھی سزا ملے گی.اللہ تعالیٰ ان کی بدیوں کو ظاہر کرکے اُن کو ذلیل کرے گا اور جس سزا کے وہ مستحق ہیں اس میں انہیں مبتلا کرےگا.جب ایک شخص کا ظاہر نیک نظر آتا ہو تواُس کے متعلق بد باتیں قبول ہی نہیں کرنی چاہئیں.جس طرح کہ بد آدمی کے متعلق نیک بات سُن کرانسان کو تعجب ہو تا ہے اور اُس کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا.( آیت ۲۴ تا ۲۷ ) پھر فرماتا ہے کہ انفرادی اخلاق پر اعتراضات بعض بے احتیاطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بے احتیاطی مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط ہے.پس تم کو چاہیے کہ ان چیزوں سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کے گھر آزادانہ نہ گھس جا یا کرو بلکہ پہلے اجازت لیا کرو.اور گھر والوں پر سلام کیا کرو.پھر اگر تمہیں تمہارے سلام کا جواب نہ ملے تو جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اُس گھر میں داخل نہ ہو اور اگر گھر میں بعض افراد ہوں اور وہ تمہیں کہیں کہ چلے جائو اس وقت ہم نہیں مل سکتے تو پھر ملاقات پر اصرار نہ کرو.ہاں ایسے گھرجن میں تمہارا اسباب پڑا ہوا ہے اور اُن میں کوئی رہتا نہیں اُن میں تم بلا اجازت جا سکتے ہو.اور اگر مرد او رعورت کا آمنا سامنا ہو جائے تو ان کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھا کریں اور اُن تمام راستوں کی حفاظت کریں جن سے بدی انسانی قلب میں داخل ہوتی ہے.یہی حکم عورتوں کے لئے بھی ہے جس طرح مردوں کے لئے ہے.اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ بھی ایسے راستوں کو بند کریں جن کے ذریعہ سے بدی انسان کے اندر داخل ہوتی ہے اور اپنے جسم کے ایسے حصے جن کو خدا تعالیٰ نے خوبصورت بنایا ہے غیر محرموں پر ظاہر نہ کریں.سوائے اس کے کہ کوئی حصہ آپ ہی آپ ظاہر ہو جائے ( جیسے قداور جسم کی بناوٹ وغیرہ ) اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کو اپنے منہ کے اوپر سے کھینچ کر سینوں تک لے آئیں ( یعنی لمبا گھونگھٹ نکالیں ) اور اپنی زینت سوائے اپنے قریبی رشتہ داروں کے یا ایسے متعلقین کے جن کی فہرست دی گئی ہے اور کسی کو نہ دکھائیں.( آیت ۲۸ تا ۳۲) اسی طرح چاہیے کہ قومی اخلاق کی درستی کے لئے بیوائیں قوم میں نہ رہنے دی جائیں بلکہ اُن کی شادی کر دی جائے.اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کی جائے.اور شادی میں مالی کمزوری کو مدنظر نہ رکھا جائے.اور جو شادی کر ہی نہ سکیں وہ اپنے اخلاق کی درستی کا خاص طور پر خیال رکھا کریں.دوسرا طریقہ نیکی کے قائم رکھنے کا یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو آزاد کیا جائے.پس اگر کوئی جنگی قیدی فوراً اپنی آزادی کی قیمت دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا جائے کہ وہ قسط وار اپنا جرمانہ ادا کردے گا

Page 422

بلکہ حکومت کو اور دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اس کی طرف سے اس کی آزادی کی رقم ادا کردیں.اسی طرح جو عورتیں جنگی قیدی ہوں اور تمہارے قبضہ میں ہوں اُن پر بھی ایسے احکام جاری نہ کرو کہ وہ بدکاری پر مجبور ہو جائیں.اگر تم ایسے حالات میں ان کو رکھو گے تو پھر تم ذمہ دار ہو گے وہ نہیں.ا ن باتوں میں تمہارے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی گئی ہے اور تم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں اُن سے بڑھ کر روحانی مرتبے دینے والی یہ تعلیم ہے.(آیت ۳۳ تا ۳۵) زمین اور آسمان کی روشنی سب خدا سے ہی آتی ہے پھر اُس روشنی کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ یہ خدائی نور مسلمانوں میں ظاہر ہونے والا ہے اور ان کو عزت بخشنے والا ہے.(آیت ۳۶ تا ۳۹ ) پھر بتا یا کہ جو لوگ اسلام کو نہیں مانیں گے چونکہ اُن کے اخلاق کی بنیاد یا تو ایک غیر مصفّٰی شریعت پر ہوگی یا صرف انسانی ذہنوں پر ہوگی (جیسے مسیحیوں کی ) اس لئے اُن کی تدبیریں کبھی کامیاب نہیں ہوںگی اور اُن کی کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی اور اصلاح قومی کے کام کو وہ بڑا مشکل پائیں گے.کیونکہ اصلاح بغیر خدائی ہدایت کے نہیں ہو سکتی (یعنی بغیر شریعت کے ).( آیت ۴۰.۴۱) پھر فرماتا ہے کہ کیا انسانوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ تمام کائنات میں خدا تعالیٰ کے قانون سے برکت ہی برکت نظر آرہی ہے.اور تمام قانونِ قدرت خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت نظر آرہا ہے پھر یہ کیونکر سمجھتے ہیں کہ اُسی خدا کا بنایا ہوا قانونِ شریعت ایک لعنت ہے.انسان اگر اپنے لئے صحیح رستہ تلاش کر سکتا ہے تو خدا اُس کے لئے صحیح رستہ کیوں تلاش نہیں کر سکتا.( آیت ۴۲ تا ۴۷ ) مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محض منہ کے ایمان سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ احکامِ الٰہیہ پر عمل کیا جائے.یہ نہ ہو کہ جب فائدہ دیکھا عمل کر لیا اور جب فائدہ نہ ہوا تو چھوڑ دیا.( آیت ۴۸ تا ۵۵) ہم مسلمانوں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے بتائے ہوئے طریق پر چلیں گے تو ہم انہیں دین و دنیا میں بادشاہ بنا دیں گے.(یعنی اپنے اپنے وقت پر مناسب حال دینی و دنیوی لیڈری یا دونوں نعمتیں ایک ہی وقت میں اُن کو ملیں گی.)اور اُن کے دین کو دنیامیں پھیلا دیں گے اور اُن کے ذریعہ توحید کو دنیا میں قائم کردیں گے.لیکن ان کو بھی چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں.اپنے مالوں سے غریبوں کی مدد کریں اور محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے احکام کی اطاعت کریں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اُن کے دشمن بوجہ اپنی طاقت اور کثرت کے اُن پر فاتح ہو جائیں گے وہ کبھی فاتح نہیں ہو ں گے.(آیت ۵۶ تا ۵۸ ) اے مومنو ! ہم پھر تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی عائلی اور قومی زندگی کو درست کر و.اور آزادانہ خلا ملا نہ کیا کرو.

Page 423

صبح کے ہونے سے پہلے اور دوپہر کو اور رات گئے وہ خادم جو جنگی قیدی ہیں اور نابالغ بچے بھی اُن کمروں میں نہ جایا کریں جن میں میاں بیوی رہتے ہیں.ہاں ان وقتوں کے علاوہ جو لوگ گھر کا حصہ ہیں وہ آجا سکتے ہیں.اس میں تمہاری اخلاقی بہتری ہے.اور جب بچے جوان ہوجائیں تو اُن پر بھی نوجوانوں والے احکام کا اطلاق ہونا چاہیے.اسلامی پردہ اُن عورتوں کے لئے ہے جو جوان اور شادی کے قابل ہیں.بوڑھی عورتیں اگر چاہیں تو اس پردہ کو ترک کر سکتی ہیں.مگر وہ بھی زینت کرکے باہر نہ نکلیں.(آیت ۵۹ تا ۶۱) جو لوگ جسمانی طورپر معذور ہیں جو قریبی رشتہ دار ہیں اگر ایک دوسرے کے گھر سے بن بُلائے کھانا کھا لیں تو ہر ج نہیں.مگر دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ دعوت کے بغیر ایک دوسرے کے گھر کھانے کے وقت نہ جایا کریں.(آیت ۶۳) عائلی نظام کے بعد یاد رکھو کہ قومی نظام بھی نہایت اہم شے ہے بلکہ عائلی اور انفرادی نظام سے بالا ہے.اس لئے چاہیے کہ جب کوئی قومی مجلس ہو تو بلا اجازت افسر وہاں سے کوئی نہ جائے ( جیساکہ بعض پارلیمنٹوں نے آج کل قانون بنا رکھا ہے ) جو لوگ اجازت سے جائیں اور قانون شکن نہ ہوں ایسوں کو ضرورت کے وقت اجازت دے دینی چاہیے.(آیت ۶۳) اے مومنو! دنیوی نظام سے بھی اہم تر دینی نظام ہے.اس لئے رسول کی آواز کو دوسروں کی آوازوں کی طرح مت سمجھو.جو لوگ رسول کی مجلس سے بغیر اجازت چلے جاتے ہیں وہ خدا کے نافر مان ہیں اُن کو عذاب سے ڈرنا چاہیے.( آیت ۶۴ ) پھر فرماتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ خداہی کا ہے اور وہ تمہارے معیارِ اخلاق کو خوب جانتا ہے.پس اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلو تا کہ اس کی مخلوق تمہارا ساتھ دے اور خدا تعالیٰ کی مدد بھی تم کو حاصل ہو.( آیت ۶۵)

Page 424

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنےوالا (اور) با ر بار رحم کرنےوالا ہے( پڑھتا ہوں) سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِيْهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ ( یہ) ایک ایسی سورۃ ہے جو ہم نے اتاری ہے اور( جس پر عمل کرنا) ہم نے فرض کیا ہے اور اس میں ہم نے اپنے لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۰۰۲ روشن احکام بیا ن کئے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.تفسیر.سورۃ نور کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں اُن کی وجہ سے اس کی ابتداء ہی سُوْرَۃٌ سے کی گئی ہے.حالانکہ سورۃ فاتحہ سے لے کر قرآن کریم کے آخر تک ایک سو چودہ (۱۱۴) سورتیں ہیں مگر سورۃ نور کے سوا اَور کوئی سورۃ ایسی نہیں جس کے ابتداء میں ہی سُوْرَۃٌ کا لفظ رکھ کر اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہو.درحقیقت اس میں حکمت یہ ہے کہ عربی زبان میں سُوْرَۃٌ کا لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ سارے کے سارے اس سورۃ پر نہایت عمدگی سے چسپاں ہو جاتے ہیں.چنانچہ لغت عرب کے لحاظ سے سورۃ کے ایک معنے درجہ کے ہوتے ہیں.دوسرے معنے بزرگی اور شرف کے ہوتے ہیں.تیسرے معنے نشان اور علامت کے ہوتے ہیں.چوتھے معنے ایسی عمارت کے ہوتے ہیں جو بلندی میں آسمان سے باتیں کر رہی ہو.اور خوبصورت بھی ہو.پانچویں معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں مکمل ہو ( اقرب) اور چھٹے معنے کسی چیز کے حصہ اور جزو کے ہوتے ہیں ( تفسیر قرطبی )ـ.ان معانی کے اعتبار سے اس جگہ سُوْرَۃٌ کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ سورۃ قرآن کریم کا ایک اہم حصہ ہے جس میں انسان کی تمدنی ، اخلاقی اور روحانی ترقی کے متعلق ایک جامع اور مکمل تعلیم دی گئی ہے.یہ ایک بلند اور نہایت درجہ خوبصورت روحانی تعلیم پر مشتمل ہے جس پر عمل کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کے حضور اعلیٰ روحانی مراتب حاصل کر لیتا ہے اور دنیا میں بھی شرف اور بزرگی کا حامل بنتا ہے.اسی طرح اس کے احکام پر عمل کرنےوالے کو دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اخلاق اور روحانیت کی ایک بلند سطح پر کھڑا ہو جاتا ہے.پھر اس سورۃ کی اہمیت پر اللہ تعالیٰ نے اور زیادہ زور دیا اور فرمایا اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا.یعنی

Page 425

ہم نے ہی اس کو نازل کیا ہے اور ہم نے اس پر عمل کرنا لوگوں کے لئے فرض قرار دیا ہے.قرآن کریم میں عام طور پر مختلف آیات اور سوَر کے متعلق یہ تو آتا ہے کہ ہم نے ان کو نازل کیا ہے مگر اس کے ساتھ ان الفاظ کی زیادتی نہیں کی جاتی کہ ہم نے ان پر عمل کرنا لوگوں کے لئے فرض قرار دیا ہے مگر یہاںفَرَضْنٰھَا کے الفاظ خاص طور پر بڑھائے گئے ہیں اور چونکہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی فرض ہے جیسا کہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ( القصص:۸۶ ) یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے اس مقام کی طرف ضرور لوٹاکرلے آئےگا جس کی طرف لوگ بار بار لوٹ کر آتے ہیں یعنی مکّہ مکرمہ.اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں اَنْزَلْنٰھَا کے بعدفَرَضْنٰھَا کے الفاظ کیوں بڑھائے گئے ہیں.سو یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ فرض کے معنے احکام کو واجب کرنےکے نہیں بلکہ تاکید کرنے کے ہیں.چنانچہ گذشتہ مفسرین میں سے بھی بعض نے اس کے معنے اَلْزَمْنٰکُمُ الْعَمَلَ بِھَا کے لئے ہیں ( تفسیر فتح البیان زیر آیت ھٰذا ) یعنی ہم نے اس پر عمل کرنا تمہارے لئے لازم کر دیا ہے.پس سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا کہہ کر اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ ایک نہایت ہی اہمیت رکھنے والی سورۃ ہے.اس میں ایک اعلیٰ درجہ کا اخلاقی اور روحانی ضابطۂ حیات بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے جس پر عمل کرنے والا دنیا میں بھی عزت پاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور بھی اُسے ایک بلند روحانی مقام حاصل ہو جاتا ہے.اور پھر اس سورۃ کو ہم نے اس تاکید کے ساتھ اتارا ہے کہ اس کی تعلیم پر تم ہمیشہ عمل کرو اور اسے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دو کیونکہ اس میں سارے کے سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور جن میں سے کسی ایک کوبھی نظر انداز کرنا اپنی ہلاکت اور بر بادی کو مول لینا ہے.پس اس کی اہمیت اور عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے.اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ زانیہ عورت اور زانی مرد ( اگر ان پر الزام ثابت ہو جائے ) تو ان میں سے ہرا یک کو سو کوڑے لگائو اور اگر جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہو تو اللہ کے حکم کے بجالانے میں ان دونوں قسم

Page 426

كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْيَشْهَدْ کے مجرموں کے متعلق تمہیں رحم نہ آئے اور چاہیے کہ ان دونوں کی سزا عَذَابَهُمَا طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۳ کو مومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے.حلّ لُغَات.اِجْلِدُوْاجَلَدَہٗ بِا لسِّیَاطِ کے معنے ہوتے ہیں ضَرَبَہٗ بِھَا وَاَصَابَ جِلْدَہ‘ اُس نے اُسے کوڑے سے مارا اَور کوڑے کے نشان اس کے چمڑے پر پڑگئے ( اقرب ) پس اِجْلِدُوْا کے معنے ہوںگے تم کوڑے سے مارو.رَاْفَۃٌ الرَّأْفۃُ : اَلرَّحْمَۃُ رأفت کے معنے رحمت کے ہوتے ہیں.( مفردات) تفسیر.سورۂ نور کی ابتداء بعض ایسے احکام سے کی گئی ہے جن کو نظر انداز کرنا انسانی تمدن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ نسل انسانی کے بقاء اور اس کی حفاظت کے قوانین سے اس سورۃ کو شروع کیا گیا ہے تاکہ جسمانی اور اخلاقی حفاظت کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے روحانی ترقیات کی طرف انسان کی توجہ پھرےیہ ایک یقینی بات ہے کہ جس طرح جسمانی حفاظت کے قواعد کو مدنظر نہ رکھنے سے انسانی جسم تباہ اور قوتیں برباد ہو جاتی ہیں.اسی طرح روحانی تعلقات میں غلطی کرنے سے بھی بڑے بھاری نقصانات پیدا ہوتے ہیں اور روحانی کوششوں کے نتائج مخلوط ہو جاتے ہیں.جسمانی تعلقات میں دیکھو بظاہر جس طرح جائز تعلق رکھنے والے مردو عورت ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح ناجائز تعلق رکھنے والے بھی ملتے ہیں اور ان کے تعلق سے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے.لیکن پہلا تعلق جہاں انسانی تمدن کو ترقی دینے والا ہے وہاں ناجائز تعلق کے نتیجہ میں انسانی تمدن کے سر پر کلہاڑا رکھ دیا جاتا ہے اور آئندہ نسلیں ایسی مشکوک ہو جاتی ہیں کہ اُن کا امتیاز کرنا ہی ناممکن ہو جا تا ہے.اسی طرح روحانی تعلق پیدا کرنے میں جب لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے اور غلط طریق اختیار کر لیتے ہیں یعنی جس سے روحانی تعلق پیدا کرنا چاہیے اُس سے نہیں کرتے بلکہ جس سے نہیں کرنا چاہیے اُس سے کر لیتے ہیں تو اُس سے بھی بڑے خوفناک نتائج نکلتے ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے حالانکہ اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے.اور جب تک اُن کا تعلق جائز اور صحیح

Page 427

جسمانی تعلقات میں دیکھو بظاہر جس طرح جائز تعلق رکھنے والے مردو عورت ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اسی طرح ناجائز تعلق رکھنے والے بھی ملتے ہیں اور ان کے تعلق سے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے.لیکن پہلا تعلق جہاں انسانی تمدن کو ترقی دینے والا ہے وہاں ناجائز تعلق کے نتیجہ میں انسانی تمدن کے سر پر کلہاڑا رکھ دیا جاتا ہے اور آئندہ نسلیں ایسی مشکوک ہو جاتی ہیں کہ اُن کا امتیاز کرنا ہی ناممکن ہو جا تا ہے.اسی طرح روحانی تعلق پیدا کرنے میں جب لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے اور غلط طریق اختیار کر لیتے ہیں یعنی جس سے روحانی تعلق پیدا کرنا چاہیے اُس سے نہیں کرتے بلکہ جس سے نہیں کرنا چاہیے اُس سے کر لیتے ہیں تو اُس سے بھی بڑے خوفناک نتائج نکلتے ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے حالانکہ اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے.اور جب تک اُن کا تعلق جائز اور صحیح طور پر نہ ہو خراب نتیجہ نکلتا ہے اور خواہ کتنی کوشش کی جائے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.دیکھ لو ایک طالب علم ایک استاد سے کچھ نہیں سیکھ سکتا لیکن دوسرے اُستاد سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے.ایک افسر کے ماتحت ایک شخص اچھی طرح کا م نہیں کرتا لیکن دوسرے افسر کے ماتحت وہی شخص خوب عمدگی سے کام کرتا ہے.ایک تاجر کو اگر دوسرے تاجر سے ملا دیا جائے تو اُن کا ملنا نقصان کا موجب ہوتا ہے لیکن ایک اور کے ساتھ ملنے سے اُس کی تجارت خوب ترقی کر جاتی ہے.پس اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے مگر یہ تعلق خدا ہی پیدا کرتا ہے.جو دو طرح ہوتا ہے یا تو اس طرح کہ ایسی روح کے متعلق دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے روحانی فائدہ اُٹھائیں گے اور یا ایسا ہوتا ہے کہ اعلان تو نہیں ہوتا ہاں انسان اپنی کوشش اور سعی سے اس کو دریافت کر لیتا ہے.پہلی شق میں مامورین اور اُن کے خلفا ء شامل ہیں اور دوسری شق میں غیر مامور اور اُن کے خلفا ء داخل ہیں.جب اُن سے تعلق ہو تب روحانی طور پر نیک نتائج نکلتے ہیں ورنہ نہیں.پہلی قسم کی ارواح کے متعلق تو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلا ن ہو جاتا ہے اس لئے اُن کی تلاش میں کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن دوسری قسم کی ارواح کے متعلق عقل اور فراست سے جستجو کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کے لئے کامل جستجو نہیں کرتا اور اُن سے تعلق نہیں رکھتا تو دوسرے لوگوں سے خواہ وہ بیس بیس سال بھی تعلق رکھے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.پس روحانی تعلقات کی طرف توجہ دلانے کے لئے اس سورۃ کو مرد و عورت کے تعلقات سے شروع کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سَو سَو کوڑے لگائو.اور اس حکم الٰہی کو سرانجام دینے کے سلسلہ میں تمہارے دل میں کوئی نرمی پیدا نہ ہوبلکہ سزا دیتے وقت کچھ اور مومنوں کو بھی بلالیا کرو.قرآ ن کریم کی اس آیت سے بالبداہت ثابت ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا ایک سو کوڑے ہیں.اور سورۂ نساء رکوع ۴ میں آتا ہے کہ یہ سزا اُن عورتوں اور مردوں کے لئے ہے جو آزاد ہوں.جو عورتیں آزاد نہ ہوں اُن کی سزا بد کاری کی صورت میں نصف ہے یعنی پچا س کوڑے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاِذَا اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلٰی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ( النساء :۲۶) یعنی جب وہ عورتیں جو آزاد نہ ہو ں دوسروں کے نکاح میں آجائیں تو اگر وہ کسی قسم کی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو اُن کی سزا آزاد عورتوں کی نسبت نصف ہوگی.اس آیت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مقررہ سزا ایسی ہے جو نصف ہو سکتی ہے.اور سو کوڑوں کی نصف سزا پچاس کوڑے بن جاتی ہے.لیکن بعض لوگ اس آیت کے متعلق یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ سزا بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی شکل میں بد ل دی تھی.یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ بجائے اس کے کہ کوڑے مارے جائیں رجم کرنا چاہیے (شرح فتح القدیر الجزء الرابع صفحہ ۱۲۵).لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو نہ صرف محولہ بالا آیتِ نور ہی منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ سورۂ نساء کی آیت بھی بالکل بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں صاف بتا یا گیا ہے کہ لونڈی کی سزا آدھی ہے اور رجم کا آدھا قیاس میں بھی نہیں آسکتا.پس اس آیت کی صریح اور واضح مفہوم کے ہوتے ہوئے اور سورۃ نساء کی آیت کی تصدیق کی موجودگی میں یہ بات بغیر کسی شک اور شبہ کے کہی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا آزاد عورت اور مرد کے لئے سو کوڑے ہیں اور لونڈی یا قیدی کے لئے پچا س کوڑے ہیں.

Page 428

صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی شکل میں بد ل دی تھی.یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ بجائے اس کے کہ کوڑے مارے جائیں رجم کرنا چاہیے (شرح فتح القدیر الجزء الرابع صفحہ ۱۲۵).لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو نہ صرف محولہ بالا آیتِ نور ہی منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ سورۂ نساء کی آیت بھی بالکل بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں صاف بتا یا گیا ہے کہ لونڈی کی سزا آدھی ہے اور رجم کا آدھا قیاس میں بھی نہیں آسکتا.پس اس آیت کی صریح اور واضح مفہوم کے ہوتے ہوئے اور سورۃ نساء کی آیت کی تصدیق کی موجودگی میں یہ بات بغیر کسی شک اور شبہ کے کہی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا آزاد عورت اور مرد کے لئے سو کوڑے ہیں اور لونڈی یا قیدی کے لئے پچا س کوڑے ہیں.اب رہا یہ سوال کہ رجم کا دستور مسلمانوں میں کس طرح پڑا ؟ سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد کار عورت اور مرد کے متعلق رجم کا حکم دیا(بخاری کتاب الحدود باب رجم المحصن).پس اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں میں کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں رجم کا حکم یقیناً تھا.سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا رجم نے کوڑے مارنے کے حکم کو منسوخ کیا یا کوڑے مارنے کے حکم نے رجم کے حکم کو منسوخ کیا.یایہ دونو ں حکم ایک وقت میں موجود تھے اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس حکم کے متعلق ناسخ اور منسوخ کا قاعدہ استعمال ہو اہے تو ہمارے اپنے عقیدہ کے رُو سے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی منسوخ حکم قرآن کریم میں موجود نہیں.قرآن کریم میں جتنے احکام موجود ہیں وہ سب غیر منسوخ ہیں.اس عقیدہ کے رُو سے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر رجم کا کوئی حکم تھا تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت نے اُسے منسوخ کر دیا لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اور حکم بعد میں نازل ہو ا اور اُس نے اس حکم کو منسوخ کر دیا.اور اگر کوئی حدیث اس کے خلاف ہے تو وہ مردو د ہے کیونکہ وہ قرآن شریف کو رد کرتی ہے.نیز اگر یہ آیت منسوخ ہو گئی ہوتی تو پھر یہ قرآن سے نکال دی جاتی.یہ جو بعض فقہاء نے مسئلہ بنایا ہو اہے کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ تلاوتًا قائم ہیں اور حکماً منسوخ ہیں(الاتقان جزء اول صفحہ ۳۶) یہ نہایت ہی خلاف عقل.خلافِ دلیل اور خلافِ آداب قرآنی ہے.ہم اس مسئلہ کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے.ہمارے نزدیک اگر منسوخ آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں تو پھر سارے قرآن کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے.اس صورت میں ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم فلاں آیت پر عمل کریں اور فلاں پر نہ کریں.قرآن کریم کی سب سے بڑی عظمت تو یہی ہے کہ وہ ایک یقینی بنیاد پر قائم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ یقینی ہے.اگر اس کے احکام کو بلکہ اس کی آیات کے قابلِ عمل ہو نے کو ہم علماء اور فقہاء کے قیاس کے ساتھ وابستہ کرد یں تو پھر تو وہ ایسا ہی مشکوک اور مبہم ہو جاتا ہے جیسا کہ علماء کے قیاس ہو تے ہیں.اگر

Page 429

یہ بات ہو تو ہمارا حق ہے کہ جس طرح ہم علماء کے قیاسات کو دلیل کے ساتھ رد کر سکتے ہیں قرآن کریم کی آیتوں کو بھی ہم دلیل کے ساتھ رد کردیں.اور یہ ایک نہایت ہی گمراہ کن اور غیر اسلامی عقیدہ ہو گا.پس صرف یہ صورت رہ جاتی ہے کہ ہم کہیں کہ رجم کا کوئی حکم پہلے موجود تھا.جسے قرآن کریم کی اس آیت نے منسوخ کر دیا.اگر یہ بات مانی جائے تو سارا مسئلہ ہی صاف ہو جاتا ہے اور شکل یہ بنتی ہے کہ یہود میں رجم کا حکم موجود تھا ( دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۵ وحزقی ایل باب ۱۶ آیت ۴۰ واحبار باب ۲۰ آیت ۱۰ واستثناء باب ۲۲ آیت ۲۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں میں بھی یہی طریق جاری کیا کیونکہ اُس وقت تک قرآن کریم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا.جب قرآن کریم نے فیصلہ کر دیا تو پہلا طریق منسوخ ہو گیا جو قرآنی حکم نہیں تھا بلکہ اتباع یہود میں ایک اسلامی دستور قائم ہوا تھا.مگر اس عقیدہ کے ماننے کے لئے ضروری ہے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ رجم پر مسلمانوں کا عمل سو کوڑے مارنے کے عمل سے پہلے تھا لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی.بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رجم کرنے کا طریق مسلمانوں میں بعد میں بھی جاری رہا اور حضرت عمرؓ کے متعلق تو یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں رجم کی ایک آیت تھی جو کہ بعد میں غائب ہو گئی.اور وہ اس کے الفاظ یہ بتا تے ہیں کہ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ ( کشف الغمّۃعن جمیع الامّة کتاب الحدود فی حد الزنا باب وما جاء فی رجم الزانی المحصن) ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت جب زنا کریں تو اُن کو پتھر مار کر کلّی طور پر قتل کر دو.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لَقَدْ نَزَ لَتْ اٰیَۃُ الرَّجْمِ وَالرَّضَاعَۃِ فَکَانَتَا فِیْ صَحِیْفَۃٍ تَحْتَ سَرِیْرِیْ فَلَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَشَاغَلْنَا بِمَوْتِہٖ فَدَخَلَ دَاجِنٌ فَاَکَلَھَا ( محلّٰی ابن حزم کتاب الحدود ،مسألۃ حد الحر و الحرۃ غیرالمحصنین )یعنی رجم اور رضاعت کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو ا تھا.اور وہ ایک کاغذ پر لکھا ہوا تھا اور میرے تکیہ کے نیچے پڑا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ہم آپ کے کفن دفن میں مشغول ہو گئے.اتنے میں ایک بکری آئی اور وہ اُس کا غذ کو کھا گئی.ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک کوئی آیت اُتری تھی جس میں زانی کو رجم کرنے کاحکم تھا.حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکم آپ کے تکیہ کے نیچے رکھا ہو اتھا اور ایک بکری اُ س کو کھا گئی.اور حضرت عمر ؓ اس کے متعلق خاموش ہیں.اگر اُن سے کوئی روایت ثابت ہے تو صرف یہ کہ کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ اَنْ تَھْلِکُوْا فَیَقُوْلَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ

Page 430

الرَّجْمَ فِی کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ رَجَمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ رَجَمْنَا بَعْدَہٗ وَ اِنِّی وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہٖ لَوْ لَا اَنْ یَّقُوْلَ قَائِلٌ اَحْدَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَکَتَبْتُھَا ( کشف الغمّہ کتاب الحدود فی حد الزنا باب ما جاء فی رجم الزانی المحصن ) وَفِیْ رَوَایَۃٍ لَکَتَبْتُھَا عَلٰی حَاشِیَۃِ الْمُصْحَفِ (فتح القدیر شرح ہدایۃ کتاب الحدود فصل فی کیفیۃ اقامۃ الحدود) یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو تم لوگوں کے مرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہنے لگ جائے کہ ہم کو تو خدا کی کتاب میں رجم کا مسئلہ نہیں ملتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا ہے اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ہے.اور مجھے خدا کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ کوئی شخص یہ اعتراض کر دےگا کہ عمر ؓ نے خدا کی کتاب میں اپنے پاس سے زیادتی کر دی ہے تو میں یہ حکم بھی لکھ دیتا.اور ایک روایت میں آیا ہے کہ میں یہ حکم قرآن کریم کے حاشیہ پر لکھ دیتا.چونکہ یہ ایک عقلی اور نقلی مسلمہ اصول ہے کہ کسی روایت کی زیادتی اس کے معنوں کی اصل تشریح ہو تی ہے اس لئے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ درحقیقت یہی زیادہ معتبر قو ل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ میں قرآن کے حاشیے پر یہ عبارت لکھ دیتا.اور قرآن کے حاشیہ پر اگر کوئی چیز لکھی ہو ئی ہو تو وہ قرآن نہیں بن جاتی پس حضرت عمر ؓ جو اس روایت کے مطابق اس کو حکم الٰہی سمجھتے تھے وہ بھی یہ جرأت نہیں کر سکے کہ اس کو قرآن کریم میں داخل کردیں.حالانکہ اُس وقت قرآنی وحی کے بہت سے کاتب موجود تھے اور وہ اُن سے پوچھ سکتے تھے لیکن اُن سے نہ پوچھنا بھی بتا تا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو یقین تھا کہ میرا یہ خیال صرف ایک وہم ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو آیتیں اُترتی تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تب وحی کو بلوا کر وہ آیت اس جگہ پر لکھوا دیتے تھے جہاں اس آیت کا لکھوا یا جانا ضروری ہوتا تھا.اگر یہ قرآن کی آیت ہوتی اور واقعہ میں یہ خدائی حکم ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے کیوں نہ لکھواتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے یہی روایت تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور اس سے صاف ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو جس شکل میں بھی تھا قرآن کریم کا حکم قرار نہیں دیا.اُن کی روایت یہ ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا زَنَی الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجِمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ ( محلّٰی ابن حزم کتاب الحدود مسألۃحد الحر و الحرۃ غیرالمحصنین ) یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جب کوئی بڑی عمر کا مرد یا بڑی عمر کی عورت زنا کریں تو ان کو رجم کر کے مار دو.ان الفاظ سے ثابت ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے اس کو کبھی وحیٔ قرآنی قرار نہیں دیا.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دیا ہے.ممکن ہے حضرت عمر نے بھی یہی سنا ہو لیکن انہوں نے بجائے قول کے اس کو وحی سمجھ لیا ہو اور

Page 431

حضرت عمر ؓ ایسی غلطیاں جلد بازی میں کر لیا کرتے تھے چنانچہ وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ نماز میں ہشام بن حکیم ؓ کو سورۂ فرقان پڑھتےسنا مگر وہ اس سورۃ کو اُس طرح نہیں پڑھ رہے تھے جس طرح میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتےسنا تھا.اس پر مجھے سخت غصہ آیا اور قریب تھا کہ میں نماز میں ہی اُن پر حملہ کر دیتا.مگر میں نے صبر کیا.جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے اُن کی چادر پکڑ لی اور اُن سے کہا کہ اس سورۃ کو اس طرح پڑھنا آپ کو کس نے سکھا یا ہے.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے.میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو.چلو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمہارا معاملہ پیش کر تا ہوں.اصل سورۃ اور طرح ہے اور تم اور طرح پڑھ رہے ہو.چنانچہ وہ انہیں کھینچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لےگئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہشام تم کس طرح پڑھ رہے تھے.انہوں نے پڑھ کرسنایا تو فرمایا ٹھیک ہے.پھر آپ ؐ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ تم پڑھو.انہوں نے یہ سورۃ اس طرح پڑھی جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکھائی تھی آپ ؐ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے.پھر آپ نے فرمایا.قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے.اس لئے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو.جس طرح کسی کی زبان پر کوئی لفظ چڑھے اُسی طرح پڑھ لیا کرے (بخاری کتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن علٰی سبعۃ احرف).معلوم ہوتا ہے جس طرح حضرت عمر ؓ سے اس جگہ غلطی ہوئی.اسی طرح زنا کی سزا کے معاملہ میں بھی حضرت عمر ؓ سے غلطی ہوگئی.اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کو وحی سمجھ لیا.ورنہ فی الواقعہ اگریہ قرآنی آیت ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن ثابت ؓ کو حکم دیتے جیسا کہ آپ اور آیتوں کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ یہ قرآن کی وحی ہے اسے قرآن کریم میں فلاں مقام پر درج کرو.لیکن حضرت زید بن ثابت ؓ نے اس کو قرآن کریم میں درج نہیں کیا جس کا نسخہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں تیار ہوگیا تھا یعنی حضرت عمر ؓ کے خلیفہ ہونے سے پہلے.پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو غلطی لگی تھی.اور انہوں نے ایک قول کو وحی سمجھ لیا تھا.بہر حال اس روایت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی ایسا فقرہ تو کہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہے.بالکل ممکن ہے کہ آپ نے اس قسم کی خواہش کا اظہا ر کیا ہو کہ اگر ایسے حالات میں یہ فعل ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ ایسے آدمی کو بائیبل کے احکام کے مطابق رجم کر دیا جائے.اسی طرح شعبہؓ کی روایت ہے کہ قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ اکْتُبْنِیْہاقَالَ شُعْبَۃُ کَاَنَّہٗ کَرِہَ ذٰلَکَ فَقَالَ عُمَرُ اَلَا تَرٰی اَنَّ الشَّیْخَ اِذَا لَمْ یُحْصِنْ جُلِدَ وَاَنَّ الشَّابَّ اِذَا زَنٰی وَقَدْ اَحْصَنَ رُجِمَ ( محلّٰی ابن حزم کتاب الحدود مسألۃ حد الحر و الحرۃ

Page 432

غیرالمحصنین ) یعنی شعبہ ؓ کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب رجم کا حکم نازل ہوا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ ؐ کو کہا کہ مجھے یہ حکم لکھ دیجئیے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اس سوال کو پسند نہیں فرمایا.اور آپ کو یہ حکم لکھ کر نہیں دیا.اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ جب شیخ یعنی بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو زنا کرے تو اس کو کوڑے لگا ئے جائیں اور جب جوان زنا کرے اور وہ شادی شدہ ہو تو اُسے رجم کیا جائے.اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے نزدیک ایسی کوئی آیت اُتری تھی اور اسی بنا پر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ یہ آیت آپ کو لکھ دیں مگر آپ ؐ نے اس کو پسند نہیں کیا اور انکار کیا.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول تھا آیت نہیں تھی.ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی قرآنی کو چھپا تے.قرآن تو کہتا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ( المائدۃ:۶۸ ) یعنی اے ہمارے رسول ! تیرے رب کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے تُو اسے لوگوں تک پہنچا.اور اگرتو نے ایسا نہ کیا تو گویا تُو نے اس کا پیغام بالکل نہ پہنچایا.مگر اس کے باوجود آپ خود بھی یہ حکم لوگوں تک نہیں پہنچاتے بلکہ حضرت عمر ؓ کے پوچھنے پر بھی اُن کی بات کو نا پسند کرتے ہیں اور یہ حکم لکھ کر نہیں دیتے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول تھا.اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم تو تعہد کے ساتھ لکھواتے تھے لیکن حدیث کے لکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ کی ہی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حدیثیں لکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے.( مسند احمد بن حنبل حدیث زید بن ثابتؓ ) اسی طرح حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ سوائے قرآن کریم کے ہم کوئی اور بات نہ لکھا کریں تا ایسا نہ ہو کہ قرآنی آیات کے متعلق لوگوں کو شبہ پڑجائے ( مسند احمدبن حنبل مسند ابی سعید الخدری ؓ) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ چونکہ انہیں لکھنا آتا تھا اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے.مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حدیثیں لکھنے سے منع فرما دیا.پس حضرت عمر ؓ کا اس کو آیت سمجھنا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو لکھ کر دینے سے انکار کرنا بلکہ اس کو ناپسند کرنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آیت نہیں قرار دیتے تھے بلکہ محض اپنا خیال سمجھتے تھے.اور عام باتوں کے لکھنے سے چونکہ آپ منع فرماتے تھے اس لئے آپ نے کچھ لکھ کر نہیں دیا.ایسا معلوم ہو تا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تورات میں سے رجم کا حکم دیکھا ہو گا.جسے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی پیش

Page 433

کر دیا.کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تورات پڑھاکرتے تھے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! یہ تورات ہے.آپ ؐ اُن کی بات سن کر خاموش ہو گئے.مگر حضرت عمر ؓ نے تورات کھول کر اُسے پڑھنا شروع کر دیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمر ؓ پر ناراض ہو ئے اور انہوں نے کہا.کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بُرا منا رہے ہیں.اُن کی بات سن کر حضرت عمر ؓ کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دیئے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی طلب کی.( مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) پھر یہ امر بھی روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جب تورات کا درس ہو اکرتا تھا تو حضرت عمر ؓ اس میں اکثر شریک ہوا کرتے تھے اور یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوں میں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو ( کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال باب فی القرآن فصل فی التفسیر سورۃ البقرۃ )معلوم ہوتا ہے حضرت عمر ؓ نے تورات سے ہی رجم کا حکم دیکھا تھا جسے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی پیش کر دیا.پھر اس حدیث کا آخری ٹکڑا بھی بتا تا ہے کہ خود حضرت عمر ؓ کو بھی شبہ تھا کہ یہ آیت ہے یا نہیں کیونکہ خود حضرت عمر ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بد کاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان اگر شادی شدہ ہو اور وہ بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے.اب یہ خیال اس خیالی آیت کے بالکل خلاف ہے جو اوپربیان ہو ئی ہے.ا س خیالی آیت کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے (قطع نظر اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں ) تو اُن کو رجم کردو.اگر واقعہ میں حضرت عمر ؓ بھی اس کو قرآنی آیت سمجھتے تو وہ اس کے خلاف اظہار رائے کیوں کرتے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصدیق کیوں چاہتے جب اُن کی مزعومہ قرآنی آیت میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کا ذکر تھا تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بدکاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان شادی شدہ اگر بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے.یہ بات بتاتی ہے کہ خود حضرت عمر ؓ کو بھی یہ شبہ تھا کہ یہ قرآنی آیت ہے یا نہیں.

Page 434

پرانے علماء میں سے بھی ایک حصّہ ایسا ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ جَلْدُ مِائَۃٍ ہی اصل حکم ہے رجم قرآن کریم سے ثابت نہیں.چنانچہ امام ابن حزم سورۂ نساء کی آیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں اِنَّ الْاِ حْصَانَ اِسْمٌ یَقَعُ عَلَی الْحُرَّۃِالْمُطَلَّقَۃِ فَقَطْ.فَاِنْ کَانَ ھٰذَا کَمَا قَالُوْا فَالنَّفْیُ وَاجِبٌ عَلَی الْآمَاءِ اَلْمُحْصَنَاتِ مِنْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ لِاَنَّ مَعْنَی الْآیَۃِ: فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَاعَلَی الْـحَرَائِرِ مِنَ الْعَذَابِ وَعَلَی الْـحَرَائِرِ ھُنَا مِنَ الْعَذَابِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَمَعَہُ نَفْیُ سَنَۃٍ اَوْ رَجْمٌ ، وَالرَّجْمُ لَا یَنْتَصِفُ اَصْلًالِاَنَّہُ مَوْتٌ وَ الْمَوْتُ لَا نِصْفَ لَہٗ اَصْلًا.وَکَذٰلِکَ الرَّجْمُ لِاَنَّہٗ قَدْیَمُوْتُ الْمَرْجُوْمُ مِنْ رَمْیَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَقَدْ لَایَمُوْتُ مِنْ اَلْفِ رَمْیَۃٍ وَمَا کَانَ ھٰکَذَا فَلَا یُمْکِنُ ضَبْطُ نِصْفِہٖ اَبَدًا وَاِذْ لَا یُمْکِنُ ھٰذَا فَقَدْ أَمِنَّا اَنْ یُّکَلِّفَنَا اللہُ تَعَالیٰ مَا لَا نُطِیْقُ لِقَوْلِہٖ تَعَالیٰ:( لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) وَلِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:’’اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ أَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَسَقَطَ الرَّجْمُ وَبَقِیَ الْجَلْدُ وَالنَّفْیُ سَنَۃٍ وَکِلَاھُمَا لَہٗ نِصْفٌ فَعَلَی الْأَمَۃِنِصْفُ مَاعَلَی الْحُرَّۃِ مِنْھَا (المحلّٰی لابن حزم مسألۃ حد الأمۃ المحصنۃ).یعنی احصان کا لفظ خالص آزاد عورت پر بولا جاتا ہے.پس اگر لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا سے نصف ہے تو لونڈیوں پر بھی جلاوطنی واجب ہوگی.کیونکہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورتوں کو جو عذاب دیا جائے گا اس سے نصف لونڈیوں کو دیا جائےگا.اور آزاد عورتوں کے لئے جو عذاب بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو سوکوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے.یا بقول بعض کے رجم کیا جائے اور رجم کسی صورت میں بھی آدھا نہیں ہو سکتا کیونکہ رجم درحقیقت موت کے ہم معنی ہے اور موت کو کسی صورت میں بھی آدھا نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح رجم کو بھی کسی صورت میں آدھا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس پر پتھر مارے جاتے ہیں کبھی تو وہ ایک پتھر سے ہی مر جاتا ہے اور کبھی ہزار پتھر سے بھی نہیں مرتا.پس جو چیز اپنے اختیار میں نہیں اس پر عمل کس طرح کیا جائے.ہم کو کسی صورت سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص کتنے پتھروں سے مرے گا کہ اُس سے آدھے ہم ا س کو مار لیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ :۲۸۷) وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسان کی طاقت میں نہ ہو.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو اس حکم پر اس حد تک عمل کرو جتنی تمہیں طاقت ہو یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں آپؐ نے ارشاد فرمایا.پس ان الفاظ سے رجم کا حکم ساقط ہو گیا اور کوڑوں والا حکم اور ایک سال کی جلاوطنی کا حکم باقی رہا.کیونکہ یہ دونوں حکم ایسے ہیں جن کا نصف ہو سکتا ہے لیکن رجم نصف نہیں ہو سکتا.

Page 435

اسی طرح امت محمدؐ یہ میں سے معتزلین اور خوارج کا یہ عقیدہ ہے کہ رجم قرآن سے ثابت نہیں.اسلامی حکم یہی ہے کہ سوکوڑے لگائے جائیں.چنانچہ لکھا ہے کہ اَمَّا الرَّجْمُ فَھُوَ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ وَحُکِیَ فِی الْبَحْرِ عَنِ الْخَوَارِجِ اَنَّہٗ غَیْرُ وَاجِبٍ وَکَذٰلِکَ حَکَاہُ عَنْھُمْ اَیْضًا اِبْنُ الْعَرَبِیِّ وَحَکَاہُ اَیْضًا عَنْ بَعْضِ الْمُعْتَزِ لَۃِ کَالنَّظَامِ وَاَصْحَابِہٖ وَلَا مُسْتَنَدَ لَھُمْ اِلَّا اَنَّہٗ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْقُرْاٰنِ ( نیل الاوطار کتاب الحدود باب ما جاء فی رجم الزانی المُحصن و جَلدالبکر وتغریبہ )یعنی نیل الاوطاروالا کہتا ہے کہ رجم پر سب مسلمان متفق ہیں لیکن کتاب بحر میں خوارج سے روایت کی گئی ہے کہ رجم ہر گز اسلام میں واجب نہیں اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ جو صوفیا کے سردار ہیں انہوں نے بھی خوارج کا یہی مذہب بیان کیا ہے اور ابن العربی ؒ نے نظام اور اُن کے ساتھیوں کا مذہب بھی یہ بیان کیا ہے (جو معتزلی تھے ) کہ رجم اسلام سے ثابت نہیں لیکن ان لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں.اس حوالہ سے ثابت ہے کہ خوارج اور معتزلہ کے نزدیک رجم کا حکم اسلام میں نہیں ہے لیکن نیل الاوطار کے نزدیک یہ دلیل بالکل کمزور ہے کیونکہ یہ دلیل صرف قرآن پر مبنی ہے.اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ روح المعانی میں لکھا ہے.وَیُعْلَمُ مِنْ قَوْلِہِ الْمَذْکُوْرِ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْھَہٗ اَ نَّہٗ قَائِلٌ بِعَدْمِ نَسْخِ عُمُوْمِ الْاٰیَۃِ فَیَکُوْنُ رَأ یُہٗ اَنَّ الرَّجْمَ حُکْمٌ زَائِدٌ فِیْ حَقِّ الْمُحْصِنِ ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ وَبِذٰلِکَ قَالَ اَھْلُ الظَّاھِرِ وَھُوَرِوَایَۃٌ عَنْ اَحْمَدَ وَاسْتَدَلُّوْا عَلیٰ ذٰلِکَ بِمَا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدُ مِنْ قَوْلِہٖ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْیٌ بِالْحِجَارَۃِ وَفِیْ رِوَایَۃِ غَیْرِہٖ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَۃِ وَعِنْدَ الْحَنْفِیَّۃِ لَا یُجْمَعُ بَیْنَ الرَّجْمِ وَالْجَلْدِ فِی الْمُحْصِنِ وَھُوَ قَوْلُ مَالِکٍ وَالشَّافِعِیِّ( روح المعانی زیر آیت ھٰذا)یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کے قول سے یہ ثابت ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورۃ نور والی آیت جس میں کوڑوں کا ذکر ہے منسوخ نہیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے نزدیک رجم کا حکم ایک زائد حکم تھا جو سنت سے ثابت ہے وہ حکم قرآن کو منسوخ کرنے والا نہیں.اور اہل ظاہر یعنی ابو دائودؒ جو فقہاء خمسہ میں سے ایک بڑے رکن ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ زیاد ہ تر اُن کے حکم کو ترجیح دیتے ہیں وہ اور ان سے تعلق رکھنے والے بھی اس مذہب کے قائل ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے.اور یہ لوگ ابو دائود ؒ کی اس روایت سے سند پکڑتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْیٌ بِالْحِجَارَۃِ.یعنی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو سو کوڑے لگائے جائیں اور پتھر مارے جائیں.

Page 436

اس روایت سے حضرت علی ؓ کے متعلق بھی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے نزدیک کوڑے مارنے کا حکم قائم ہے اور یہ آیت منسوخ نہیں.چنانچہ حضرت علی ؓ کے متعلق بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک عورت شرحۃ الھمدانیۃ کو آپ نے کوڑے بھی لگوائے اور رجم بھی کیا اور پھر فرمایا.جَلَدْتُّھَا بِکِتٰب اللّٰہِ وَرَجَمْتُھَا بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ( مسند احمد بن حنبل مسند علی بن ابی طالب ؓ) یعنی میں نے کوڑے تو خدا کے حکم کے مطابق لگائے ہیں.اور رجم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کیا ہے.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کو منسوخ نہیں قرار دیتے تھے.حضرت عبادۃ ابن الصامت ؓ کی روایت ہے کہ کنواری سے زنا سرزد ہو جائے تو اس کی سزا میں ایک سال کی جلاوطنی بھی زائد کر دی گئی تھی اور بیاہی ہوئی عورت سے زنا سرزد ہو جائے تو کوڑوں کے علاوہ اس کے لئے رجم کا بھی اضافہ کر دیا گیا تھا ( مسلم کتاب الحدود باب حد الزنٰی) اس سے بھی حضرت علی ؓ والے خیال کی تصدیق ہو تی ہے کہ قرآنی آیت منسوخ نہیں بلکہ قرآنی حکم کے ساتھ ایک چیز کا اپنی طرف سے اضافہ کیا گیا تھا پس یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قرآنی حکم یہی ہے کہ اگر کسی عورت یا مرد سے زنا صادر ہو جائے تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیبل کی تعلیم کے مطابق اپنے استدلال سے یہودی مذہب کی سزا کو پہلے جاری کیا اس کے بعد چونکہ قرآنی حکم نازل ہو گیا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ہم محض عارضی حکم کہیں گے مستقل حکم نہیں کہیں گے کیونکہ مستقل حکم آپ کا وہی ہوتا ہے جس کے متعلق قرآنی حکم موجود نہ ہو.اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قبلہ بھی یہودیوں کے طریق کے مطابق بیت المقدس کو ہی رکھا تھا.لیکن جب قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہو اکہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا جائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف منہ کر لیا.چنانچہ دوسرے پارہ کے شروع میں اس کا ذکر آتا ہے(البقرۃ:۱۴۵).اسی طرح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی اصلاح کے لئے ایک حکم فرما دیا کرتے تھے لیکن وہ دائمی حکم نہیں ہوتا تھا.مثلاً بخاری میں ہی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ وفد عبدالقیس آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ !ہمیں کوئی خاص ہدایت دیجئیے.آپ نے فرمایا فلاں فلاں چارقسم کے برتن استعمال نہ کئے جائیں ( بخاری کتاب الایمان باب اداءا لخمس من الایمان ) لیکن قریباً سب مسلمان آج اُن برتنوں کو استعمال کرتے ہیں اور سب فقہاء کہتے ہیں کہ یہ برتن جائز ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ اس قسم کے برتنوں میں وہ شراب بناتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی اس عادت کو چھڑانے کے لئے حکم دے دیا کہ یہ برتن استعمال نہ کیا کرو.ان برتنوں کے

Page 437

استعمال نہ کرنے کی وجہ سے شراب بنانے کی عادت اُن میں سے جاتی رہی اور بعدمیں تمام مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق یہ حکم غیر ضروری ہو گیا.اور اس قسم کے برتنوں کا استعمال سب مسلمانوں کے لئے جائز ہو گیا.حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کا حکم محض یہودی احکام کی اتباع میں دیا تھا.چنانچہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمْرَکَ اِذَا اَمَاتُوْہُ فَاَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ ( مسلم کتاب الحدودباب رجم الیھود اھل الذمّۃ فی الزنٰی) یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ یہود نے یہ اقرار کیا کہ اصل میں تو ہمارے ہاں رجم کا ہی حکم ہے مگر بڑے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہم نے رجم کا طریق ترک کر دیا ہے تو آپ نے وہ بات فر مائی جو ہم نے اوپر درج کی ہے اور جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ ! میں اس زمانہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو جو تونے یہودیوں کو دیا تھا زندہ کردیا ہے حالانکہ خود یہودی جن کو یہ حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس حکم کو ترک کر دیا ہے.اس کے بعد آپ نے اُس ملزم کو جو آپ کے سامنے لایا گیا تھا رجم کی سزا دی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا محض بائیبل کی اتباع میں دی تھی.چنانچہ احادیث میں بیان شدہ ایک اور واقعہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ بات سن کر غصّہ سے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا.مگر وہ بار بار چکر کاٹ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہتا رہا کہ یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے.جب وہ چار دفعہ اقرار کر چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تُو پاگل ہے ! اُس نے کہا یا رسول اللہ ! نہیں.آپ نے فرمایا کہ اچھا اسے سنگسار کر دیا جائے.صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم اسے باہر لے گئے لیکن جب ہم نے اُسے پتھر مارنے شروع کئے تو وہ بھاگا.ہم اُس کے پیچھے پیچھے دوڑے اور اُسے پکڑکر مارڈالا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اُس کا بھاگنا ہی اپنے اقرار سے رجوع کرنا تھا.پھر تم نے اُسے کیوں نہ چھوڑ دیا(ابن ماجہ کتاب الحدود باب الرّجم).یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رجم کا حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا.ورنہ یہ کس طرح ہو سکتاتھا کہ خدا تعالیٰ تو یہ کہتا کہ رجم کرو.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اُلٹ اپنے صحابہ ؓ سے یہ فرماتے کہ جب وہ بھاگا تھا تو تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا.اگر رجم کا حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تم نے اُسے مارا کیوں ؟ اس جگہ ایک لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مفسرین حضرت ایوب ؑ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جب وہ

Page 438

شدید بیمار ہو گئے تو شیطان نے اُن کی بیوی کو ورغلایا اور اُسے ایک بکری کا بچہ دے کر کہا کہ اگر ایوبؑ میرے نام پر اس کو ذبح کردیں تو یہ اچھے ہو جائیں گے.بیوی نے حضرت ایوبؑ سے اس کا ذکر کیا.تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ یہ تو خدا کا دشمن ہے تم اس کے فریب میں کیوں آئیں ؟ اور پھر قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفادی تو میں اپنی بیوی کو اس غلطی پر اُسے سو کوڑوں کی سزا دوںگا.مگر جب اچھے ہو گئے تو حضرت ایوب ؑ نے اپنی قسم کو اس طرح پورا کیا کہ سو تیلیاں اکٹھی کر کے اُن کو مار دیں ( تفسیر خازن زیر آیت ھٰذا) اگر یہ روایتیں درست ہیں تو پھر زانی اور زانیہ کو بھی حضرت ایوبؑ کی طرح ایک جھاڑو اٹھا کر مار دینا چاہیے جس میں سو تیلیاں ہوں اور سمجھ لینا چاہیے کہ سزا پوری ہوگئی.اور جب سو کوڑے بھی نہ رہے بلکہ ایک جھاڑو مار دینا بھی جائز ہو گیا تو رجم کہاں باقی رہا.بے شک ہم مفسرین کی ان روایات سے متفق نہیں لیکن جو علماء اس قسم کی روایات کو تسلیم کرتے ہیں ان پر واقعہ ٔ ایوبؑ بھی ایک حجت ہے کیونکہ جب وہاں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ایوبؑ نے سو کوڑوں کی بجائے سو تیلیاں مار کر قسم پوری کر لی تو پھر یہاں بھی رجم پر کیوں زور دیتے ہیں.یہاں بھی انہیں چاہیے کہ سو تیلیوں والا جھاڑو اٹھا کر زانیہ اور زانی کو ایک دفعہ مار دیں اور سمجھ لیں کہ سزا پوری ہو گئی.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض لوگوں کو رجم کرنا محض یہودی تعلیم کی اتباع میں تھا.لیکن اس کے بعد جب قرآن کریم میں واضح حکم آگیا تو پہلا حکم بھی بدل گیا اور وہی حکم آج بھی موجود ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یعنی اگر کسی کی نسبت زنا کا جرم ان شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں.کوڑوں کی تشریح قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی لیکن قرآنی الفاظ سے یہ ثابت ہے کہ کوڑا ایسی طرز پر مارا جانا چاہیے کہ جسم کو اس کی ضرب محسوس ہو.کیونکہ جَلَدَہٗ بِالسِّیَاطِ کے معنے ہوتے ہیں ضَرَبَہٗ بِھَا وَاَصَابَ جِلْدَہٗ ( اقرب) یعنی کوڑے سے اس طرز پر مارا کہ جلد تک اُس کا اثر پہنچا.پس کسی چیز سے جس کی ضرب اتنی ہو کہ جسم محسوس کرے سزا دینا اور لوگوں کے سامنے سزا دینا اس حکم سے ثابت ہوتا ہے.خواہ وہ کوڑا چمڑے کا نہ ہو بلکہ کپڑے کا ہو.یہ ضروری نہیں کہ وہ کوڑا وہی ہو جیسا کہ آجکل عدالتیں استعمال کرتی ہیں اور جس کی ضرب اگر سو کی حد تک پہنچے تو انسان غالباً مر جائے.سورئہ نساء کی آیت نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے کوڑے مار نےناجائز ہیں جن کے نتیجے میں موت وارد ہو جائےایسے ہی کوڑے مارے جا سکتے ہیں اورا تنی ہی شدت سے مارے جا سکتے ہیں جس سے انسان پر موت وارد ہونےکا کوئی امکان نہ ہو.یعنی نہ تو کوڑا ایسا ہو نا چاہیے جس سے ہڈی ٹوٹ جائے کیونکہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے کہ جَلَدَہٗ بِا لسِّیَاطِ کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ صرف جلد کو تکلیف پہنچے ہڈی کے

Page 439

ٹوٹنے یا اس کو نقصان پہنچنے کا کوئی ڈر نہ ہو.اورنہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی ضرب سے انسان پر موت وارد ہو نے کا کوئی امکان ہو.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف زانی یا زانیہ کا لفظ نہیں رکھا بلکہ اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ کے الفاظ رکھے ہیں یعنی الف لام کی زیادتی کی گئی ہے اور الف لام کی زیادتی ہمیشہ معنوں میں تخصیص پیدا کردیا کرتی ہے.پس اس جگہ اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ سے صرف ایسا ہی شخص مراد ہو سکتا ہے جو یاتو زنا کا عادی ہو یا علی الاعلان ایسا فعل کرتا ہو.اور اتنا نڈر اور بےباک ہو گیا ہو کہ وہ اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتا ہو کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے یا نہیں یا اُس میں شہوت کا مادہ تو نہ ہو اور پھر بھی وہ زناکرتا ہو جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت.ان معنوں کے لحاظ سے اس حدیث کی بھی ایک رنگ میں تصدیق ہو جاتی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت اگر زنا کریں تو ان کو پتھر مار مار کر مار دو.گویا اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ کے معنے اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ کے ہی ہیں.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی خیالات کا اظہار فرمایا تھا.مگر حضر ت عمر ؓ نے اس کو غلطی سے قرآنی آیت سمجھ لیا.لیکن بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لئے بھی قرآن کریم نے فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ کا ہی حکم دیا ہے رجم کا نہیں.یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے کہاکہ یا رسول اللہ یہ بات مجھے لکھ دیجئیے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کی اس بات کو ناپسند فرمایا.کیونکہ یہ قرآنی حکم کے خلاف تھی.پس اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ سے کامل زانی مراد ہے جو یا توزنا کا عادی ہو یا اتنا نڈر ہوگیا ہو کہ وہ کھلے بندوں اس فعل کا ارتکاب کرتا ہو.یا محصن یعنی شادی شدہ ہو یا بڈھا ہو اور پھر بھی وہ زنا کرتا ہو.ایسے تمام لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ اُن کا جرم ثابت ہونے پر انہیںسو سو کوڑے لگائو.وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کی سزائیں آتی ہیں.ایک تو وہ سزائیں ہوتی ہیں جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ایک ایسی سزائیں ہوتی ہیںجو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہیں.جو سزائیں قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں ان میں رحم کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہوتا ہے.لیکن وہ سزائیں جو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے دی جائیں اُن میں رحم کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا اُسی صورت میں آتی ہے جبکہ بندہ اس کا مستحق ہو جاتا ہے.اور ایسی حالت میں رحم کرنے یعنی مجرم کو اس سزا سے بچانے کا یہ مفہوم ہو گا کہ انسان خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو جھٹلانے کی کوشش کرے.

Page 440

یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اُس سزا پر جو فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ ہو.یعنی دین کے حکم کے پورا کرنے کے لئے دی جائے رحم نہیں آنا چاہیے.پس اس سے وہ سزا نکل گئی جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کی وجہ سے ملتی ہے مثلاً اگر کسی کا گِر کر دانت ٹوٹ جائے تو اس پر رحم کرنا جائز ہے یا کوئی بیمار ہو تو اُس پر بھی رحم کرنا جائز ہے.اسی طرح جو لوگ ڈوب جاتے ہیں یا زلازل وغیر ہ سے تباہ ہو جاتے ہیں اُن کے متعلق بھی رحم کے جذبات کا اظہار کرنا یا اُن کے پسماندگان کی مالی امداد کرنا اور اُن سے محبت اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہے.کیونکہ ان حوادث میں ہزاروں ایسے لوگ بھی تباہ ہو جاتے ہیں جن کی تباہی کسی مامور کے انکار کا نتیجہ نہیں ہوتی.پس اس قسم کے حوادث میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا نہایت ضروری ہوتا ہے مگر جسے دینی احکام اور قانونِ شریعت کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملے اس پر رحم نہیں کیا جا سکتا.یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جس کے متعلق شرعی قانون کے ماتحت زنا کا الزام ثابت ہوجائے اُس کو قرآنی کوڑے نہ لگائے جائیں.ہاں اگر یہ خواہش کی جائے کہ کاش یہ ایسا نہ کرتا تو یہ جائز ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس آیت میں قرآن کریم نے اپنے عام دستور کے خلاف عورت کا ذکر پہلے کیا ہے اور مرد کا بعدمیں.یعنی یہ کہا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد کو سو سو کوڑے لگائے جائیں.اس میں ایک نکتہ ہے جو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ یہ فعل پیشہ کے طور پر عورتوں میں ہی پایا جا تا ہے.مردوں میں نہیں پایا جاتا.مگر اس کایہ مطلب نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اس سے مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ نیکی اور تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے.بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد اس کو اختیار ہی نہیں کر سکتے.صرف عورتیں ہی مالی فائدہ کے لئے اس پیشہ کو اختیار کرتی ہیں.اسی لئے ان کا ذکر پہلے کیا گیا ہے.اور مردوں کا اُن کے بعد.دوسرے اس معاملہ میں عورت میں فطرۃً حیاء کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے بلکہ عورتوں میں ہی نہیں ہر نرو مادہ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اُن میں سے جو چیز یں اثر قبول کرتی ہیں اُن میں حیاء زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت اُن کے جو دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں.اثر لینے والی چیز پیچھے کو ہٹتی ہے اور اثر ڈالنے والی اُس کی طرف بڑھتی ہے اور یہ بات انسانوں اور حیوانوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی جو نر و مادہ کی خاصیت رکھتے ہیں پائی جاتی ہے کہ جو پودہ نر کا قائم مقام ہوتا ہے اُس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ اُس پودے کی طرف جھکتا ہے جو مادہ کا قائم مقام ہوتا ہے.اس علم کی تحقیق موجودہ زمانہ میں کی گئی ہے.مگر اسلام نے اس کو پہلے سے ہی بیان کر دیا ہے.پس عورت میں چونکہ حیاء کا مادہ نسبتاًزیادہ ہوتا ہے اور وہ طبعاً رکتی ہے اس لئے اگر اس طبعی حیاء کے باوجود کوئی عورت شرم و حیاء کو ترک کر دیتی ہے تو وہ زیادہ نفرین کی مستحق ہوتی ہے.اسی لئے اس جگہ عورت کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور مرد کا بعد میں.

Page 441

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً١ٞ وَّ الزَّانِيَةُ لَا اور ایک زانی زانیہ یا مشرکہ کے سوا کسی سے ہم صحبت نہیں ہوتا.اور نہ زانیہ يَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى زانی یا مشرک کے سوا کسی سے ہم صحبت ہوتی ہے.اور الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۴ مومنوں پر یہ (بات) حرام کی گئی ہے.حلّ لُغَات.لَایَنْکِحُ.لسان العرب میں لکھا ہے کہ علامہ ازہری جو لغت کے امام ہیںکہتے ہیں.اَصْلُ النِّکَاحِ فِیْ کَلَامِ الْعَرَبِ اَلْوَطْءُ کہ نکاح کے اصل معنے لغت عرب میں عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ہیں.پس اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً کے معنے ہوںگے کہ کوئی زانی تعلقات قائم نہیں کرتا مگر زانیہ سے ہی.تفسیر.بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ زانی کا زا نیہ یا مشرکہ کے ساتھ ہی نکاح جائز ہے.شریف مومنہ کے ساتھ جائز نہیں.(طبری زیر آیت ھذا)لیکن یہ معنے تواتر اور عقل کے بالکل خلاف ہیں.کیونکہ کسی کو زانی یا زانیہ کا علم کس طرح ہو سکتا ہے.اگر زانی یا زانیہ پہلے سے شادی شدہ ہوںگے توروایت کے مطابق تو ان کو سنگسار کیا جا چکا ہوگا.پس اس روایت کے مطابق تو اس آیت کے یہ معنے بنیں گے کہ سنگسار شدہ عورت صرف سنگسار شدہ مرد کے ساتھ شادی کر سکتی ہے جو نہایت احمقانہ خیال ہے.اور مومنوں پر یہ بات حرام کر دی گئی ہے کہ وہ کسی سنگسار شد ہ عورت سے شادی کریں.ایک معمولی سے معمولی عقل کا آدمی بھی اس کو بالکل بے ہودہ حکم قرار دےگا.یہ ساری غلطی درحقیقت نَکَحَ کے معنے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.نکاح کے دو معنے ہوتے ہیں.ایک معنے شریعت کے قانون کے مطابق اعلان ازدواج کے ہیں وہ معنے اس جگہ مراد نہیں.کیونکہ ان معنوں کی رُو سے یہ آیت بالکل لغو ہو جاتی ہے دوسرے معنے نکاح کے مرد عورت کے باہمی اجتماع کے ہیں اور یہی معنے اس جگہ لگتے ہیں.یہ معنے اس آیت پر چسپاں کر کے دیکھو تو یہ آیت بڑے اعلیٰ درجہ کے معنوں پر مشتمل نظر آئے گی.فرماتا ہے کہ زنا کرنے والا مرد جب بھی صحبت کرتا ہے زنا کرنے والی عورت سے کرتا ہے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ زنا کرنے والا مرد تب ہی زنا کرنے والا کہلا سکتا ہے جبکہ اس سے صحبت کرنے والی عورت بھی زانیہ ہو.اگر وہ

Page 442

پاک دامن ہے تو مرد اُس کا خاوند کہلائےگا زنا کرنےوالا نہیں کہلا ئےگا.اسی طرح ہر زنا کرنے والی عورت تب ہی زنا کرنے والی کہلا سکتی ہے جبکہ وہ کسی غیر محرم سے صحبت کر رہی ہو.اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو عورت کسی غیر محرم مرد سے صحبت کرےگی وہ زانیہ ہی کہلائے گی.ورنہ اگر وہ پاک دامن ہوگی تو جب بھی وہ مجامعت کرےگی اپنے خاوند سے کرےگی.غرض اس آیت میں یہ بتا یا گیا ہے کہ زانیہ یا زانی کا نام اس وقت ملتا ہے جبکہ بالمقابل شخص کو بھی یہی نام حاصل ہو.ورنہ مومن آدمی جب بھی مجامعت کرے گا.اُس کا بالمقابل فرد اس کی بیوی ہوگی.پس مومن مرد یا مومن عورت کے لئے زانیہ کا لفظ استعمال ہی نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہم نے اس جگہ نکاح کے معنے صحبت کے کئے ہیں اس لئے وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ کے لازماً یہ معنے ہوںگے کہ مومنوں کے لئے زانی کا لفظ استعمال کرنا حرام ہے.یہ معنے نہیں ہوںگے کہ وہ زنا نہیں کرتے کیونکہ زنا تو کوئی مومن کرتا ہی نہیں.پھر اس آیت میں ایک سوال کا بھی جواب دیا گیا ہے.چونکہ پچھلی آیت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں کو کوڑے مارے جائیں.اس لئے کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ کیوں صرف مرد کو ہی نہ مارا جائے عورت تو اثر قبول کرنے والی ہے.جب اثر ڈالنے والا اس کی طرف جھکے گا تو وہ مجبوراً اثر قبول کرے گی.اس لئے فرمایا کہ یہ فعل دونوں کی رضا مندی سے ہوتا ہے.زانی مرد زانیہ عورت کے ساتھ اُس کی مرضی کے بغیر تعلق پیدا نہیں کر سکتا.اور زانیہ عورت زانی مرد کے ساتھ اُس کی مرضی کے بغیر تعلق پیدا نہیں کر سکتی.اور مومنوں کے لئے یہ بات قطعاً حرام ہے.اس وجہ سے زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے لئے شریعت نے سز ا تجویز کی ہے.وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر چار گواہ مہیا نہیں کر تے تو( ان کی سزا یہ ہے کہ) شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ اُن کو اَسّی کوڑے لگائواور اُن کی گواہی کبھی قبول نہ کرو.اور وہ لوگ( اپنے اس فعل کی وجہ سے شریعت اسلامی

Page 443

شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۰۰۵ کی) اطاعت سے خارج ہیں.حلّ لُغَات.یَرْمُوْنَ.یَرْمُوْنَ رَمَاہُ یَرْمِیْہِ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور رَمَا فُلَا نًا بِکَذَا کے معنے ہوتے ہیں عَابَہٗ وَقَذَفَہٗ وَاتَّھَمَہٗ ( اقرب)یعنی اس پر الزام اور اتہام لگایا.پس یَرمُوْنَ کے معنے ہوںگے وہ الزام لگاتے ہیں.تفسیر.اس آیت میں الزام زنا کی شہادت کا طریق بیان کیا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ دوسرے پر زنا کا الزام لگانے والا چار گواہ لائے جو اس الزام زنا کی تصدیق کرتے ہوں.مگر رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ؓ کے اقوال سے ثابت ہے کہ اگر گواہ مختلف جگہوں کے متعلق شہادت دے رہے ہوں تو وہ شہادت ہر گز تسلیم نہیں کی جائے گی.اور چاہے وہ چار گواہ ہوں پھر بھی وہ ایک ہی گواہی سمجھی جائےگی.یہ ضروری ہے کہ ایک ہی واقعہ اور ایک ہی جگہ کے متعلق الزام لگانے والے کے علاوہ چار عینی شاہد ہوں اور دوسرے اُن کی گواہی اتنی مکمل ہو کہ وہ اس فعل کی تکمیل کی شہادت دیں.فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ چار وں گواہ یہ گواہی دیں کہ انہوں نے مرد وعورت کو اس طرح اکٹھے دیکھا ہے جس طرح سرمہ دانی میں سلائی پڑی ہوئی ہوتی ہے (مختصر القدوری کتاب الحدود ).فقہاء کے نزدیک مجرم پر حدّزنا تین طرح لگتی ہے.اوّل.قاضی کے علم سے.دوم اقرار سے.سوم چارگواہوں کی شہادت سے.مگر قاضی کے علم سے حد لگا نا میرے نزدیک قرآن کریم کی رو سے غلط ہے کیونکہ قاضی بہر حال ایک شاہد بنتا ہے.لیکن قرآن کریم کی رو سے پانچ شاہد ہونے چاہئیں.ایک الزام لگانے والا اور چار مزید گواہ بلکہ میرے نزدیک اگر قاضی کو کوئی ایسا علم ہو تو اُسے وہ مقدمہ سننا ہی نہیں چاہیے.بلکہ اس مقدمہ کو کسی دوسرے قاضی کے پاس بھیج دینا چاہیے اور خود بطور گواہ پیش ہونا چاہیے.قاضی صرف امور سیاسیہ میں اپنے علم کو کام میں لا سکتا ہے حدودِ شرعیہ میں نہیں.کیونکہ حدودِ شرعیہ کی سزا خود خدا تعالیٰ نے مقرر کی ہوئی ہے.اسی طرح گواہی کا طریق بھی اس کا مقرر کردہ ہے.اقرار کے متعلق بھی یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اقرار وہ ہے جو بغیر جبر اور تشدد کے ہو.ورنہ پولیس کئی دفعہ مارپیٹ کر بھی اقرار کر وا لیتی ہے.حالانکہ وہ اقرار صرف جبر کا نتیجہ ہوتا ہے.پھر یہ اقرار ایک دفعہ کافی نہیں بلکہ چار دفعہ بغیر پولیس کے قاضی کے سامنے اقرار ہونا چاہیے.اور اقرار بھی قسمیہ ہونا چاہیے.تب اس کو حد لگے گی.لیکن اگر ایسا شخص

Page 444

چار دفعہ اقرار کرنے کے باوجود بعد میں انکار کر دے تو اس کو حد زنا نہیں لگے گی.ہاں اگر اُس نے کسی عورت کا نام لیا ہو تو حدِقذف اس کو لگے گی.کیونکہ اُس نے ایک عورت پر زنا کا الزام لگایا.قذف کے متعلق فقہاء میں یہ بحث ہے کہ وہ کس طرح ہوتا ہے.اگر صریح ہو تو اس پر حد ہے اور اگر کنایۃً ہو جیسے یہ کہہ دے کہ اے فاسقہ یا اے مؤا جرہ یا اے ابنۃا لحرام تو اُسے قذف نہیں سمجھا جائے گا.جب تک اُس کے ساتھ نیت نہ ہو بلکہ عام طور پر یہ گالی سمجھی جائے گی.اور اگر تعریضاً ہو جیسے کوئی کہے کہ میں تو زانی نہیں اور وہ اشارۃً یہ کہنا چاہتا ہو کہ تو زانی ہے یا کسی کو مخاطب کرتے ہو ئے کہہ دے کہ اے ابن حلال اور اس کا مقصد یہ ہو کہ مخاطب ابن حلال نہیں تو امام شافعی ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک تو تعریض قذف نہیں لیکن امام مالک ؒ کے نزدیک قذف ہے اور امام احمد ؒ کے نزدیک غصہ کی حالت میں ایسا کہا گیا ہو تو قذف ہے ورنہ نہیں (تفسیر کبیر لامام فخر الدین رازی زیر آیت ھٰذا).لیکن میرے نزدیک جو کلام بھی کسی ایسے رنگ میں ثابت ہو جائے کہ اُس کے سُننے والوں پر کسی الزام کا اثر ڈالنا مقصود ہو تو وہ قذف ہے اور اسی طرح قابلِ سزا ہے ، جس طرح آزاد آدمی اگر قذف کرے تو اس کے لئے اَسّی کوڑے سزا مقرر ہے.اگر غلام قذف کرے تو اس کے لئے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر ہے.لیکن اس کا فیصلہ قاضی کرے گا پبلک کا کام نہیں کہ اس کا فیصلہ کرے.اگر غیر شادی شدہ عورت یا غیر شادی شدہ مرد پر کوئی قذف کرے تو قرآن کی رُو سے اس پر کوئی حد نہیں ہاں قانون یا قاضی مناسب حال سزا اس کے لئے تجویز کرےگا.گویا ایسے مقدمہ کا فیصلہ صرف اس بنا پر ہوگا کہ قاضی اس کو مجرم قرار دے دے.اس کے بعد حکومت اس سے مجرموں والا سلوک کرے گی ورنہ نہیں.گویا اسلام نے دونوں کو پابند کردیا.قاضی کو طریق شہادت سے پابند کر دیا اور حکومت کو قاضی کے فیصلہ سے پابند کر دیا.اور اگر کوئی شخص کسی غیر محصنہ پر جس کو پہلے کبھی سزا مل چکی ہو الزام لگائے تو اس کو تعزیر کی سزا ملے گی.کیونکہ پھر عزت کا سوال نہیں بلکہ فتنہ ڈالنے کا سوال ہو گا.لیکن اگر الزام کسی ایسے شخص پر لگا یا جائے جو مشہور بد نام اور آوارہ ہو اور قاضی بھی اُسے بد نام اور آوارہ قرار دےدے تو پھر الزام لگانے والے کو صرف فتنہ پیدا کرنے کی سزا دی جائےگی.یہ بھی فقہاء نے بحث کی ہے کہ گو یہاں محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے محصنین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں.وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مردوں کے ذکر میں عورتیں شامل سمجھی جاتی ہیں تو عورتوں کے ذکر میں مرد کیوں نہ شامل سمجھے جائیں گے.پس وہ اس آیت کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے سمجھتے ہیں.پھر فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس جگہ محصنات کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اور محصنین کا نہیں کیا گیا تو اس سے اس طرف

Page 445

اشارہ کیا گیا ہے کہ گو مرد بھی اس حکم میں شامل ہیں مگر عورتوں کی عزت کو بچا نا سو سائٹی کا پہلا فرض ہے.کیونکہ جھوٹے الزاموں سے عورت کی عزت کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور مرد کی عزت کو کم.اگر چار گواہ نہ ہوں تو خواہ وہ تین ہوں اُن پر حد لگے گی.اور اگر چار گواہ تو ہوں لیکن فاسق ہوں.تب بھی بعض فقہا ء کے نزدیک گواہوں پر حد لگے گی.(فتح البیان تفسیر زیر آیت ھٰذا)لیکن میرے نزدیک حد نہیں لگے گی کیونکہ فاسق قرار دینے کا فیصلہ قاضی کے اختیار میں تھا اور گواہ کو اس کا کوئی علم نہیں ہو سکتا تھا کہ مجھے فاسق قرار دیا جائےگا یا نہیں.ہاں قاضی کو تعزیر کا اختیار ہوگا یعنی حالات کے مطابق سزا دینے کا تاکہ آئندہ احتیاط رہے اور جس پر الزام لگا یا گیا ہو اُس کی برأت کی جائےگی.قرآن کریم کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ قاذف کے علاوہ چار گواہ ہوںگے یعنی کل پانچ نہ کہ قاذف سمیت چار.بعض لوگوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ شہادت ایک مقام پر ہوگی یا مختلف مقامات پر(شرح فتح القدیر زیر آیت ھٰذا).لیکن میرے نزدیک یہ بحث فضول ہے.قاضی جس طرح چاہے گواہی لے لے لیکن یہ ضروری ہے کہ گو مقامِ شہادت مختلف ہوں مگر جس واقعہ کی شہادت ہو وہ ایک ہی ہوتا کہ وہ احتیاط جو غلطی سے بچنے کے لئے کی گئی تھی ضائع نہ ہو جائے اور منصوبہ بازی کا ازالہ ہو جائے.یہ حکم اس زمانہ میں خوب یاد رکھنے کے قابل ہے کیونکہ جس قدر بے حرمتی اور ہتک اس زمانہ میں اس کی ہو رہی ہے اور کسی حکم کی نہیں ہو رہی.بلادلیل اور بلا وجہ اور بلا کسی ثبوت کے محض کھیل اور تماشہ کے طورپر دوسروں پر الزام لگائے جاتے ہیں اور قطعاً اس بات کی پر واہ نہیں کی جاتی کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر سزا مقرر کی ہوئی ہے.ایسا الزام لگانے والے کے لئے خدا تعالیٰ نے اَسّی کوڑے سزا رکھی ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے.یعنی اس کے لئے سو کوڑے کی سزا ہے.لیکن الزام لگانے والے کے لئے اَسّی کوڑے کھا لینے کے بعد بھی یہ سزا ہے کہ کبھی اس کی گواہی قبول نہ کرو.پھر اسی پر بس نہیں بلکہ سزا اور زیادہ آگے بڑھتی ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا انسان خدا تعالیٰ کے حضور فاسق ہے.اور جسے خدا تعالیٰ فاسق قرار دےدے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مومن اور متقی ہے یونہی خدا نے اس کا نام فاسق رکھ دیا ہے بلکہ اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ الزام لگانے والا خود اُسی بدی میں مبتلا ہوجائےگا.کیونکہ خدا تعالیٰ بلاوجہ کسی کا نام نہیں رکھتا بلکہ جب بھی کسی کا کوئی نام رکھتا ہے اُس کے مطابق اس میں صفات بھی پیدا کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ جس کو دلیر کہتا ہے وہ دلیر ہو کر رہتا ہے.اور خدا تعالیٰ جس کو متقی کہتا ہے وہ متقی ہو کر رہتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ جس کو فاسق کہتا ہے.و ہ فاسق بن کر رہتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے کہ جو الزام اس نے دوسرے پر لگایا تھا اس کا وہ خود مصداق بن گیا ہے.

Page 446

بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ چونکہ یہاں یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ آیا ہے اس لئے جو واقع میں پاک دامن عورتیں ہوں اُن پر اتہام لگانے والے کے لئے سزا رکھی گئی ہے دوسروں کے لئے نہیں(التفسیرات الاحمدیۃ للجونفوزی جلد دوم صفحہ ۵۵۱).حالانکہ اگر یہ درست ہو تو اس کا پتہ کون لگا سکے گا کہ جس پر الزام لگایا گیا ہے وہ فی الواقعہ پاک دامن ہے یا نہیں.ایک خبیث اور بے باک آدمی بڑی دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جس عورت پر میں نے الزام لگا یا ہے.پہلے اس کی پاکدامنی تو ثابت کرو.پھر مجھے سزا دو.اور اس طرح ہر عورت کی عزت خطرہ میں پڑسکتی ہے.پس اس کے یہ معنے نہیںکہ جب تک عورت کا پاک دامن ہونا ثابت نہ کیا جائے الزام لگانےوالے کو کوئی سزا نہیں مل سکتی بلکہ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ کے یہ معنے ہیں کہ ایسی عورتیں جن پر بد کاری کا الزام لگا یا گیا ہو.اگر وہ الزام شہادت سے ثابت نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ یقینی طور پر پا کدامن ہیں اور الزام لگانے والا کذاب اور جھوٹا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سزا دی جائے.کیونکہ قاعدہ ہے کہ بارِ ثبوت مدعی پر ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے چونکہ الزام لگانےوالا مدعی ہوتا ہے اس لئے ثبوت لانا بھی الزام لگانے والے کا ہی کام ہے.عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی پاکدامنی کا ثبوت پیش کرے.اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو جو شخص الزام لگانےوالا ہو وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر چہ میں اتہام کا ثبوت نہیں لا سکا مگر ہے وہ درست.ورنہ تم ثابت کرو کہ جس پر میں نے الزام لگا یا ہے وہ محصنات میں سے ہے.بہر حال اتہام لگانے والا اگر شریعت کی بیان کردہ شرائط کے مطابق چار گواہ نہیں لائےگا تو وہ مجرم ہوگا اور اگر لے آئےگا تو جس پر اتہام لگا یا گیا ہو وہ مجرم ہو گا.چونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو سکتاہے کہ کیوں قرآن کریم نے چار گواہیوں کی شرط لگا ئی ہے اور کیوں دوسرے الزامات کی طرح صرف دو گواہوں پر کفایت نہیں کی اس لئے یہ بتا نا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دو کی بجائے چار گواہوں کی شرط لگانا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قسم کے واقعات میں کثرت سے جھوٹ بو لا جاتا ہے پس اس وجہ سے زیادہ گواہوں کی شرط لگا دی گئی ہے اور پھر ایک ہی واقعہ کے متعلق چار کی شرط اس لئے لگائی کہ ایک وقت میں پانچ آدمیوں کا اکٹھا ہونا یعنی الزام لگانے والے اور چار گواہوں کا.یہ ایک ایسا امر ہے کہ اس کا جھوٹ آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور جرح میں ایسے لوگ اپنے قدم پر نہیں ٹھہر سکتے.کیونکہ پانچ آدمیوں کا ایک جگہ پر موجود ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس کا اخفاء مشکل ہو تا ہے اور پانچ آدمی مل کر یہ جھوٹ بہت کم بنا سکتے ہیں کیونکہ اُن میں سے بعض کی نسبت یہ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے کہ یہ تو اُس وقت فلا ں جگہ پر بیٹھا تھا.پس چونکہ زنا ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے بیرونی دلائل نہیں ہوتے جس طرح چوری میں پہلے کسی کے گھر سے مال کا نکلنا ضروری ہے پھرکسی

Page 447

شخص کے پاس ا س کا موجود ہونا ضروری ہے یا قتل میں کسی کا جان سے مارا جانا ضروری ہے.پھر دوسرے شخص کا اُس جگہ موجود ہونا ضروری ہے اور ایسے شواہد کسی شخص کے متعلق جمع کر دینے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتے ہیں.لیکن زنا کے لئے اس کی بیرونی علامات موجود نہیں ہوتیں اس لئے اس پر الزام لگانا آسان ہوتا ہے اس وجہ سے شریعت نے چوری اور قتل کے لئے تو دو گواہوں کی گواہی کو تسلیم کیا.لیکن بدکاری کے الزام کے متعلق چار گواہوں کی شرط لگائی اور الزام لگانے والوں سے ہمدردی کو بھی سخت جرم قراردیا اور الزام سنتے ہی اس کو جھوٹا قرار دینے کی نصیحت کی.دوسر ی صورت انسان کے مجرم ہونے کی یہ ہے کہ وہ خود اقرار کرے.مگر حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بھی قاضی کے سامنے اپنے متعلق چار دفعہ گواہی دےگا کہ میں نے ایسا فعل کیا ہے.مگر ایسی صورت میں بھی شریعت صرف اسی کو مجرم قرار دےگی عورت کو مجرم قرار نہیں دےگی.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ دوسرے کی نسبت الزام لگانا اور بات ہے اور اپنی نسبت الزام لگانا اور کہنا کہ میں نے ایسا فعل کیا ہے یا کسی عورت کا یہ کہنا کہ میرے ساتھ کسی دوسرے نے ایسا فعل کیا ہے بالکل اور بات ہے.یہ دونوں امور یکساں حیثیت رکھنے والے نہیں سمجھے جا سکتے بلکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی طرف اس الزام کی نسبت دینا کہنے والے کے تقویٰ اور اُس کی نیکی کا ثبوت ہوتا ہے.حالانکہ اپنی نسبت الزام لگانا تو الزام لگانے والے کی وقاحت اور بے شرمی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے تقویٰ اور پاکیزگی پر.کیا یو سف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیوی نے اپنی ذات کے متعلق الزام نہیں لگا یا تھا.پھر کیا اس سے زلیخا کے تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے یا اس کی چالبازی اور مکاری کا ثبوت ملتا ہے.پھر اسی طرح ایک واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوا.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے اس پر آپ نے اس کو بلا کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ نہیں پھیرا کہ شاباش تم نے کیسا اچھا فعل کیا ہے کہ اپنے جرم کا اقرار کیا ہے بلکہ آپ نے غصہ سے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا.اُس شخص نے دوسری طرف سے جا کر پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے.لیکن پھر بھی آپ نے غصہ سے منہ پھیر لیا.پھر اس نے تیسری جانب سے جا کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے مگر آ پ نے پھر بھی اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.جب چوتھی دفعہ اُس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے تو آپ نے فرمایا کیا تو دیوانہ ہے.یعنی کسی طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اپنی ہوش میں ایسی بات کہے جو تو کہہ رہا ہے.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں دیوانہ نہیں ہو ں.تب آپ نے فرمایا چونکہ اس نے چار دفعہ اپنے جرم کا اقرار کیا

Page 448

ہے اس لئے اب اسے سزا دےدو.(بخاری کتاب الحدود باب رجم المحصن)اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے اس اقدام کی تعریف نہیں کی بلکہ اسے دیوانگی کا فعل قرار دیا ہے.اور دیوانگی کا شبہ تبھی ہو سکتا ہے جبکہ یہ سمجھا جائے کہ ایک انسان ہوش و حواس میں اپنے اوپر الزام نہیں لگا سکتا.ورنہ اگر یہ امکان نہ ہوتا تو آپ اُسے دیوانہ کیوں قرار دیتے.لیکن تعجب ہے کہ اس زمانہ میں بعض لوگ اس کو فرزانگی کا فعل قرار دیتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے اقرار کو دیوانگی اور بے حیائی قرار دیا ہے.بہر حال اس صورت میں بھی صرف اقرار کرنے والے کوہی مجرم قرار دیا جائے گا.عورت کو مجرم قرار نہیں دیا جائےگا.عورت سے اگر ا س کا نام معلوم ہو تو بغیر قسم کے صرف اتنا سوال کیا جا ئے گا کہ آیا یہ درست کہتا ہے یا غلط اور اگر وہ کہہ دے کہ غلط کہتا ہے تو عورت کو چھوڑ دیا جائےگا.یہ کتنی بڑی خوبی ہے جو اسلام کے اس حکم سے ظاہر ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود کوئی عزت نہیں رکھتا دوسروں کی عزت بر باد کرنے کے لئے جھوٹا الزام لگا دے اور کہے کہ میں نے فلاں سے ایسا فعل کیا ہے.اُس کی اپنی عزت تو ہوتی نہیں کہ اس کی اسے پرواہ ہو لیکن دوسروں کو بد نام کر سکتا ہے اگر اس کی اجازت دی جاتی تو کئی شریر النفس لوگ روزانہ اُٹھ کر دوسروں پر الزام لگا دیتے اور جب انہیں ملامت کی جاتی تو کہہ دیتے کہ ملامت اور غصہ کی بات نہیں میں تو خود اپنے آپ کو بھی ملزم قرار دے رہا ہوں.پھر میری بات ماننے میں آپ کو کیا عذر ہے.اگر کسی شریف انسان سے ایک بد معاش جا کر کہہ دے کہ اُس کی بیوی سے اُس نے زنا کیا ہے تو وہ آدمی اس پر ناراض ہوگا یا اُس کی نیکی اور تقویٰ کی تعریف کرنے لگ جائے گا.اور اپنی بیوی کو بھی اس گناہ میں ملوث قرار دے گا.اس راستہ کو کھو ل کر دیکھو تو دنیا میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ دنیا میں ایسے ہزاروں بے حیا مل سکتے ہیں جو کسی بُغض یا غصہ کی وجہ سے یا دوسروں کے کہے کہلائے صرف ایک شغل کے طور پر اپنے ساتھ دوسرے مردوں یا عورتوں کے ملوث ہونے کا اقرار کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.چنانچہ عرب میں تشبیب کا ایک عام رواج تھا یعنی وہ اپنی بے حیائی میں کسی عورت پر الزام لگادیتے کہ میرا اس کے ساتھ ناجائز تعلق ہے اور ان کی غرض یہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنا تقویٰ ظاہر کریں بلکہ اس سے اُن کی غرض یہ ہوتی تھی کہ دوسری عورت کو بد نام کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبیب کرنے والے کو واجب القتل قرار دیا ہے.پس یہ طریق عقل کے بالکل خلاف ہے اور اس کی اجازت دینے سے فتنہ کا بڑا بھاری دروازہ کھل جاتا ہے.اسی لئے ہماری شریعت نے ایک فریق کے اقرار سے دوسرے فریق کو مجرم قرار نہیں دیا.چنانچہ اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ بھی احادیث سے ثابت ہے.

Page 449

حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آکر بیان کیا کہ فلاں شخص کا بیٹا میرے بھائی کا ہے کیونکہ میرے بھائی نے کہا تھا کہ وہ لڑکا اصل میں میرا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی تعریف نہیں فرمائی یا یہ نہیں فرمایا کہ آئو ہم دوسرے فریق کو قسم دیں بلکہ فرمایا اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ (بخاری کتاب المحاربین باب للعاھر حجر).یعنی بیٹا تو اسی کو ملے گا جس کی بیوی کہلاتی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے میں نے زنا کیا ہے اُس کی سزا سنگساری ہے.جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ یہودی کتب میں یہی لکھا تھا.اس واقعہ پر غور کر کے دیکھ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اقرارِ جرم کرنے والے کی تعریف نہیں فرمائی بلکہ اس کی مذمت کی اور فرمایا کہ اس کے اقرار کا اثر خود اُسی پر پڑے گا نہ کہ دوسرے پر.پس کسی کا اپنے جرم کو ظاہر کرنا یا اس کا اقرار کر لینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بڑا نیک ہے کیونکہ شریعت تو گناہ کو ظاہر کرنے سے روکتی ہے.جب تک قاضی کے سامنے شہادت کے موقعہ پر اس کا بیان کرنا ازروئے شریعت ضروری نہ ہو.پس جو شخص بلاوجہ اپنی طرف بد کاریاں اور عیوب منسوب کرتا ہے اس کو تو شریعت شاہدِ عادل قرار نہیں دیتی کُجا یہ کہ اس کے اقرار کو کوئی اہمیت دی جائے.یا اسے اُس کے تقویٰ کا ثبوت سمجھا جائے.لیکن اگر کوئی شخص اقرار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پر اتہام لگائے تو جس پر اتہام لگایا جائےگا اس سے پوچھا بھی نہیں جائے گا اور نہ اُس سے قسم یا مباہلہ کا مطالبہ کرنا جائز ہو گا.کیونکہ حدود میں قسم یا مباہلہ کرنا شریعت کی ہتک کرنا ہے.اور یہی پرانے فقہاء کا مذہب ہے.چنانچہ امام محمد جو امام ابو حنیفہ ؒ کے بعد اُن کے قائم مقام ہوئے.اور جن کے متعلق علماء کایہ خیال ہے کہ امام یوسف ؒ جو حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے اوّل شاگر دتھے.اُن کا قول بھی فقہ میں اتنا قابلِ اعتماد نہیں جتنا امام محمدؒ کا.وہ اپنی کتاب المبسوط میں لکھتے ہیں.وَالْحُدُوْدُ لَا تُقَامُ بِالْاَیْمَانِ ( المبسوط جلد ۹ کتاب الحدودص ۵۲) یعنی جن امور میں حد مقرر ہے اُن میں قسموں کے ذریعہ حد قائم نہیں کی جا سکتی.ایسے امور کا فیصلہ بہر حال گواہوں کی گواہی پر منحصر ہوگا.پھر اگر کوئی الزام لگانے والا تین گواہ بھی لے آئے تو ان گواہوں کو بھی اور اتہام لگانے والے کو بھی اَسّی اَسّی کوڑوں کی سزا دی جائےگی کیونکہ انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کا اُن کے پاس کوئی شرعی ثبوت نہیں تھا.تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ پر جو بصرہ کے گورنر تھے بدکاری کا الزام لگا یا گیا.حضرت عمر ؓ نے گواہی لی تو ایک شخص نے گواہی میں خفیف سی کمزوری دکھائی اور کہا کہ میں نے زنا ایسی صورت میں نہیں دیکھا کہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرم گاہ کے اندر داخل ہو.اس پر دوسرے تینوں گواہوں کو قذف کی حد لگائی گئی.(تاریخ طبری ذکر خبر عزل مغیرۃ)اور کسی نے نہ کہا کہ تین گواہ تو موجو د ہیں.

Page 450

Page 451

وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اور جولوگ اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور اُن کے پاس سوائے اپنے وجود کے اور کوئی گواہ نہیں ہوتا اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ تو اُن میں سے ہر شخص کو ایسی گواہی دینی چاہیے جو اللہ (تعالیٰ) کی قسم کھا کر چار گواہیوں پر مشتمل ہو اور (ہر گواہی میں) لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۰۰۷وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَيْهِ اِنْ وہ یہ کہے کہ وہ راستبازوں میں سے ہے.اور پانچویں (گواہی) میں (کہے) کہ اُس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۰۰۸وَ يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ جھوٹوں میں سے ہو.اور وہ (مظلوم) بیوی( جس پر اُس کا خاوند الزام لگائے) اپنے نفس پر چار ایسی گواہیوں تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَۙ۰۰۹ کے ذریعہ سے جو قسم کھا کر دی گئی ہوں عذاب کو دور کرے یہ کہتے ہوئے کہ وہ (یعنی خاوند) جھوٹا ہے.وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَيْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ اور پانچویں (قسم) اس طرح (کھائے) کہ اللہ کا غضب اُس (یعنی عورت) پر نازل ہو اگر وہ (یعنی اس کا الصّٰدِقِيْنَ۰۰۱۰وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ الزام لگانےوالا خاوند) سچا ہے.اور اگر اللہ (تعالیٰ) کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ نہ ہوتا کہ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِيْمٌؒ۰۰۱۱ اللہ بڑا فضل کرنےوالا (اور) بڑی حکمتوں والا ہے (تو تم لوگ تباہی میں پڑ جاتے ).حلّ لُغَات.یَدْرَؤُ.یَدْرَأُ دَرَأَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور دَرَأَ کے معنی ہوتے ہیںدَفَعَہٗاس کو دُور کیا (اقرب) پس یَدْرَؤُا کے معنے ہوںگے وہ دور کرے گا.

Page 452

تفسیر.فرماتا ہے وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر بد کاری کا الزام لگاتے ہیں اور کوئی بیرونی گواہ نہیں رکھتے صرف ان کا نفس ہی گواہ ہوتا ہے اُن میں سے ہر شخص چار دفعہ حلفیہ گواہی دے کہ واقعی میں نے اپنی عورت کو بدکاری کرتے دیکھا ہے اور میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر لعنت ہو.جب خاوند اس طرح قسم کھا چکے تو عورت بھی چار دفعہ قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو.جب دونوں طرف سے قسمیں کھا لی جائیں توپھر ان دونوں کو جُدا کر دیا جائے گا.یعنی خلع کا حکم دے دیا جائےگا لیکن اگر خاوند بیوی پر قذف تو کرے مگر نہ گواہ لائے نہ لعان کرے.تو خاوند پر حدلگے گی (یعنی اُسے اَسّی کوڑے لگیں گے ) ہا ں اگر وہ لعان کرلے تو پھر وہ حد سے آزاد ہو جائےگا یعنی کوڑے کھانے سے بچ جائےگا.لیکن اگر بیوی بھی لعان کردے تو پھر بیوی پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہوگا اور دونوں طرف کا معاملہ برابر سمجھا جا ئے گا یہ لعان کسی مخفی مقام پر نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ ایسا شخص اوّل لوگوں کے مجمع میں قسم کھائے دوم کسی مقدس مقام پر قسم کھائے.سو م جب وہ لعنت کرنے لگے تو اس کو کہا جائے کہ دیکھو خوب سو چ سمجھ لو.خدا کی لعنت جس شخص پر نازل ہوتی ہے اسے تباہ کر دیتی ہے.پھر فرماتا ہےوَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِيْمٌ.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اُس کی رحمت تمہاری دست گیری نہ کرتی اور وہ اس قسم کے حکموں سے تمہاری عزت نہ بچا تا تو تم تباہ ہو جاتے.اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ یقیناًوہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے.تم اس (فعل) کو شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اپنے لئے بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہت اچھا تھا (کیونکہ اس کی وجہ سے ایک پُر حکمت تعلیم تم کو مل گئی) اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ اُن میں سے ہر شخص کو اس نے جتنا گناہ کیا تھا اس کی سزا مل جائےگی اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصّہ کا ذمہ وار تھا

Page 453

عَذَابٌ عَظِيْمٌ۰۰۱۲ اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا.حلّ لُغَات.اَلْاِفْکُ.اَلْإِفْکُ: اَلْکِذْبُ یعنی افک کے معنے جھوٹ کے ہیں.(اقرب) عُصْبَۃٌ.عُصْبَۃٌجماعت کو کہتے ہیں لیکن بعض کے نزدیک تین سے دس افراد تک کی جماعت کو عُصبہ کہتے ہیں اور بعض صرف دس افراد کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں.بعض دس سے پندرہ افراد تک کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں.اور بعض کہتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک کی جماعت کو عُصبہ کہا جاتا ہے.( اقرب ) تفسیر.اس آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بنو مصطلق میں پیچھے رہ گئی تھیں.اور قافلہ چلا آیاتھا.اور منافقوں نے آپ پر ایک نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام لگا دیا تھا.یہ واقعہ یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ تشریف لے جاتے تو بالعموم امہات المومنین میں سے کسی کو ساتھ لے جاتے اُن کے لئے باری مقرر نہ تھی بلکہ آپ قرعہ ڈالتے اور جن کا نام نکلتا انہیں آپ اپنے ساتھ لے جاتے.غزوۂ بنو مصطلق پر جاتے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام نکلا اور انہیں آپ اپنے ساتھ لے گئے.جب واپس آئے تو مدینہ کے قریب ایک جگہ ڈیرہ لگایا گیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی اور آپ لشکر سے باہر تشریف لے گئیں.جب واپس آئیں تو معلوم ہوا کہ اُن کا ہار کہیں اُس جگہ گِر گیا ہے.چنانچہ آپ ہار کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ باہر تشریف لے گئیں.اتنے میں قافلہ کے چلنے کا وقت آگیا.اور چونکہ ان دنوں آپ بہت دبلی پتلی تھیں.قافلہ کے منتظم نے اُن کا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور سمجھا کہ اندر ہی ہوںگی.جب واپس آئیں تو قافلہ روانہ ہو چکا تھا.انہیں سخت پریشانی ہوئی.مگر پھر یہ خیال کرکے کہ جب لوگوں کو اُن کے پیچھے رہ جانے کا علم ہو گا تو وہ ضرور واپس آئیں گے آپ وہیں بیٹھ گئیں.مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی آپ کو نیند آگئی اور آپ وہیں زمین پر سو گئیں.جب صبح ہوئی تو ایک صحابی جن کا نام صفوان بن معطلؓ تھا اور جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے پیچھے چھوڑ دیا تھا کہ دن چڑھے دیکھ لینا کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی وہ ادھر اُدھر گرے پڑے سامان کی تلاش میں وہاں سے گذرے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت لیٹی ہوئی ہے.پاس آئے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں سور ہی تھی کہ میرے کان میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کی آواز آئی.اُس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا.مگر چونکہ جنگل میں

Page 454

بے خبر سوئی پڑی تھیں منہ کھلا تھا اور پردہ سے پہلے اس صحابی نے آپ کو دیکھا ہو ا تھا.پہچان لیا اور زور سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی.اس کے بعد حضرت صفوان ؓ نے چپکے سے قریب آکر اپنا اونٹ بٹھا دیا.اور حضرت عائشہ ؓ اُس پر سوار ہو گئیں.اور وہ صحابی ؓ اونٹ کی مہار پکڑ کر مدینہ کو چل پڑے جب مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عائشہ ؓنعوذ باللہ جان بوجھ کر پیچھے رہی ہیں اور اُن کا صفوان ؓ سے تعلق تھا.اور یہ شور اتنا بڑھا کہ بعض صحابہ ؓ بھی نادانی سے اُن کے ساتھ مل گئے.جن میں سے ایک حسان بن ثابت ہیں اور دوسرے مسطح بن اثاثہ.اسی طرح ایک صحابیہ حمنہ بنت حجش بھی تھیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو چونکہ اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا تھا اور وہ چھوٹی عمر میں ایک ایسے جنگل میں تن تنہا رہ گئی تھیں جہاں ہُو کا عالم تھا اس لئے وہ مدینہ پہنچ کر اس صدمہ سے بیمار ہو گئیں.ادھر ان کے متعلق منافقین میں کھچڑی پکتی رہی.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ باتیں پہنچ گئیں مگر آپ حضرت عائشہ ؓکی بیماری دیکھ کر اُن سے دریافت نہیں فرما سکتے تھے.ادھر دن بدن باتیں زیادہ بڑھتی جاتی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو آپ کا چہرہ اُترا ہوا ہوتا اور مجھ سے کوئی بات نہ کرتے.دوسروں سے حال پوچھتے اور چلے جاتے.اسی دوران میں آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے والدین کے ہاں تشریف لے گئیں.ایک دن قضائے حاجت کے لئے ایک اور عورت کے ساتھ جو اُن کی رشتہ دار تھیں با ہر گئیں ( اُس وقت تک پاخانے ابھی تک گھروں میں نہیں بنے تھے ) جوعورت اُن کے ساتھ تھی اُس نے اپنے بیٹے مسطح کا نام لے کر کہا کہ اُس کا بُرا ہو.حضرت عائشہ ؓ نے کہا.ایسا کیوں کہتی ہو.اُس نے کہا ایسا کیوںنہ کہوں آپ کو نہیں پتہ.وہ تو اِس اِس قسم کی باتیں کرتا ہے معلوم ہوتا ہے وہ عورت کوئی موقعہ نکالنا چاہتی تھی کہ بات کہے.جب حضرت عائشہ ؓ نے اس سے یہ بات سُنی تو انہیں سخت صدمہ ہو ا.وہ جوں توں کرکے گھرتو پہنچیں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیمار ی کا پھر زور ہو گیا.انہوں نے اپنے والد اور والدہ سے پوچھا کہ کیا بات ہے.انہوں نے کہا کہ لوگوں میں اس اِ س طرح بات مشہور ہو رہی ہے.اس پر اُن کی والدہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا.کیا ہوا جہاں سو کنیں ہوتی ہیں وہاں اس قسم کی باتیں ہوا ہی کرتی ہیں.تجھے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.لیکن حضرت عائشہ ؓ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ رونے لگ گئیں اور صبح تک اُن کی آنکھ نہ لگی.دن چڑھا تو پھر رونے لگ گئیں اور دوپہر تک یہی حالت رہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف

Page 455

لائے اور حال پوچھ کر باہر چلے گئے.باہر جا کر آپ نے حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور اسامہ بن زید ؓ کو بلا کر مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہیے.حضرت عمر ؓ اور اسامہ بن زید ؓ دونوں نے کہا یہ منافقوں کی پھیلائی ہوئی بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں.لیکن حضرت علی ؓ کی طبیعت تیز تھی انہوں نے کہا بات کوئی ہو یا نہ ہو آپ کو ایسی عورت سے جس پر اتہام لگ چکا ہے تعلق رکھنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ اُن کی لونڈی سے پوچھ لیں.اگر کوئی بات ہوئی تو وہ بتا دے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ ؓ کی لونڈی بریرہ سے پوچھا کہ کیا تجھے عائشہ ؓ کا کوئی عیب معلوم ہے.اُس نے کہا میں نے عائشہ ؓ کا سوائے اس کے اور کوئی عیب نہیں دیکھا کہ کم سنی کی وجہ سے وہ سو جاتی ہیں اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور صحابہ ؓ کو جمع کیا اور فرمایا.کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دُکھ دیا ہے.اس سے آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی.حضرت سعد بن معاذ ؓ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے کھڑے ہوئے.اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم ا س کو مارنے کے لئے تیار ہیں.اور اگر وہ خزرج میں سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لئے تیار ہیں.شیطان جو فتنہ ڈلوانے کے لئے موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے.اس موقعہ پر بھی نہ چونکا.خزرج کو یہ خیال نہ آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے کتنا صدمہ پہنچا ہے.انہوں نے اس کو قومیت کا سوال بنا لیا چنانچہ سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سعد بن معاذ ؓ سے کہا کہ تم ہمارے آدمی کو نہیں مار سکتے اور نہ تمہاری طاقت ہے کہ ایسا کر سکو.اس مقابلہ میں دوسرے صحابی اٹھے اور انہوں نے کہا ہم اُسے مار ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ کون اسے بچاتا ہے اب بجائے اس کے کہ یہ مقابلہ باتوں تک ہی رہتا اوس اور خزرج نے میانوں سے تلواریں نکالنی شروع کر دیں اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی مشکل سے اُن کو ٹھنڈا کیا.اوس کہتے تھے کہ جس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا ہے اُس کو ہم مار ڈالیں گے اور خزرج کہتے تھے کہ تم یہ بات اخلاص سے نہیں کہتے.چونکہ تم جانتے ہو کہ وہ ہم میں سے ہے اس لئے یہ بات کہتے ہو.ان دونوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی.مگر شیطان نے اُن میں فتنہ پیدا کر دیا.اُس وقت کی حالت کے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کیسی دردناک ہو گی.ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ایذاء پہنچ رہی تھی اور ادھر مسلمانوں میں تلوار چلنے تک نو بت پہنچ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو ٹھنڈا کرکے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ رورہی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات لوگوں میں مشہور ہو رہی ہے تم نے سُنی ہے.انہوں نے کہا ہاں سُنی

Page 456

ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو انسان سے گناہ ہو جاتا ہے.اگر تم سے غلطی ہو گئی ہو تو توبہ کرلو.اور اگر نہیں ہوئی تو خدا تمہاری برأت کر دے گا.حضرت عائشہ ؓ نے اپنے باپ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ اس کا جواب دیں.انہوں نے کہا مجھے تو اس کا کوئی جواب نہیں آتا.پھر انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ اس کا جواب دیں.انہوں نے بھی کہا کہ میں کوئی جواب نہیں دے سکتی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ جواب سن کر مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ میرے آنسو جو بہ رہے تھے یکدم تھم گئے اور میں نے بڑے جوش سے کہا کہ وہ بات جو مشہور ہو رہی ہے اس کے متعلق اگر میں یہ کہتی ہوں کہ غلط ہے تو آپ مانیں گے نہیں.اور اگر کہتی ہوں کہ سچ ہے تو یہ جھوٹ ہے اس لئے میں اور تو کچھ نہیں کہتی وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف ؑ کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ.یہ کہہ کر میں وہاں سے اٹھی اور اپنے بستر پر آگئی.اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی حالت طاری ہوئی اور آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْا بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ.یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک خطرناک جھوٹ بولا ہے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے.مگر تم اُس کے اس الزام کو اپنے لئے کسی خرابی کا موجب نہ سمجھو بلکہ خیر کا موجب سمجھو کیونکہ اس الزام کی وجہ سے جھوٹا الزام لگانے والوں کی سزائوں کا جلدی ذکر ہو گیا اور تمہیں ایک پُر حکمت تعلیم مل گئی.اور یقیناً اُن میں سے ہر شخص اپنے اپنے گناہ کے مطابق سزا پائےگا اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصّے کا ذمہ وار ہے اُس کو بہت بڑا عذاب ملے گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی نازل ہوئی تو آپ کا چہرہ روشن ہو گیا اور آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا اے عائشہ ؓ! خدا نے تمہیں اس الزام سے بری قرار دے دیا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے یہ بات سُنی تو انہوں نے کہا.عائشہ ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو.انہوں نے کہا میں تو اسی خدا کا شکر ادا کروں گی جس نے مجھے اس الزام سے بری قرار دیا ہے.( السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ بنی المصطلق و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام خبر الافک فی غزوۃ بنی المصطلق )

Page 457

لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ جب تم نے یہ بات سُنی تھی تو کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی قوم کے بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ۰۰۱۳لَوْ لَا متعلق نیک گمان کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ تو ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ؟ اور کیوںنہ وہ لوگ جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ ( جنہوں نے یہ جھوٹ پھیلا یا تھا ) اس پر چار گواہ لائے ؟ پس جب کہ وہ گواہ نہیں لائے تو فَاُولٰٓىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ۰۰۱۴ اللہ (تعالیٰ) کے فیصلہ کے مطابق وہ جھوٹے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے کہ خدائی حکم تو احسان کے طور پر نازل ہوگیا.مگر تمہارا اپنا قومی فرض تھا کہ جب تم نے اس قسم کی بے بنیاد بات سُنی تھی تو تم فوراً کہہ دیتے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایسی نہیں ہو سکتیں.یہ محض جھوٹ ہے اگر الزام لگا نے والے سچے تھے تو وہ چار گواہ کیوں نہ لائے.حضرت عائشہ ؓ تو غلطی سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان ؓ کو جنگی انتظام کے ماتحت پیچھے چھوڑا گیا تھا.پھر بغیر کسی گواہ کی موجودگی کے ایسا اتہام لگانا سوائے جھوٹوں اور کذابوں کے اور کس کا کام ہو سکتا ہے.پس آئندہ کے لئے یہ قانون یاد رکھو کہ جو لوگ چار گواہ نہیں لائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جھوٹے سمجھے جائیں گے.اگر کوئی شخص کسی کو ایسا فعل کرتے دیکھتا ہے مگر گواہ نہیں رکھتا تو خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا بھی سچا قرار دے اور بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کھائے تب بھی خدا تعالیٰ کے حکم اور اُس کے قانون کے مطابق وہ چار گواہ نہ لا سکنے کی وجہ سے جھوٹا اور کذاب ہی ہوگا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی کا حق نہیں کہ ایسے شخص کی نسبت جو گواہ نہیں لا سکتا کہے کہ ممکن ہے وہ سچا ہی ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم اس کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور جب خدا اسے جھوٹا قرار دیتا ہے تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ اُسے سچا قرار دے.اس آیت سے اصولی طور پر یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کسی کے متعلق کوئی بری بات سُنی جائے تو مومن کا پہلا

Page 458

فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ نیک ظنی کو کبھی ترک نہ کرے.کیونکہ اگر وہ بُرائی بعد میں دوسرے میں ثابت بھی ہو جائے.تب بھی اُسے نیک ظنی کا ثواب مل جائےگا.اور اگر ثابت نہ ہو تو انسان بدظنی کرکے دوہرا مجرم قرار پائےگا ایک تو اس لحاظ سے کہ اس نے بدظنی کی اور دوسرے اس لحاظ سے کہ ایک بے گناہ پر الزام لگاکر اُس نے شریعت کی بے حرمتی کی.شریعت کہتی ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بُری بات تمہارے پاس بیان کی جائے تم ہمیشہ اس کے متعلق حسنِ ظن رکھو اور بری بات کہنے والے کو جھوٹا سمجھو کیونکہ اس نے دوسرے کی عزت پر حملہ کیا ہے.اگر زید تمہارے پاس ایک شخص کی بُرائی بیان کرتا ہے اور تم زید کی بات سن کر اس پر فوراً یقین کر لیتے ہو اور جس کے متعلق کوئی بات کہی گئی ہو اس کو مجرم سمجھنے لگ جاتے ہو تو تم بدظنی کا ارتکاب کرتے ہو.اور اگر وہ عیب ایسا ہے جس کے لئے شریعت نے گواہی کا کوئی خاص طریق مقرر کیا ہو اہے تو نہ صرف عیب لگانے والا شریعت کا مجرم بنتا ہے بلکہ جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا اور اُس کی تائید کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے.ایسے مواقع پر شریعت کی یہی ہدایت ہے کہ جس کا جرم بیان کیا جاتا ہے اسے بری سمجھو اورجو کسی کا عیب بیان کرتا ہے اس کا جرم چونکہ ثابت ہے اُسے کبھی سچا قرار نہ دو.وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ اور اگر اللہ (تعالیٰ) کا فضل اور رحمت تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتے تو تم کو اس کام (کی وجہ) سے جس میں لَمَسَّكُمْ فِيْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِيْهِ عَذَابٌ عَظِيْمٌۚۖ۰۰۱۵اِذْ تم پڑگئے تھے بہت بڑا عذاب پہنچتا.اس وجہ سے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی زبان سے اس جھوٹ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ۠ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ کو سیکھنے لگ گئے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنے لگ گئے جس کا تم کو کوئی علم نہیں تھا ( خدا تم پر ناراض ہوا ) بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا١ۖۗ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ۰۰۱۶ اور تم اس بات کو معمولی سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی.اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے

Page 459

وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ اس بات کو سُنا تھا تو فوراً کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اس بات کو آگے دوہرائیں.بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ۰۰۱۷يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ اے خدا تو پاک ہے یہ بہت بڑا بہتان ہے.اللہ (تعالیٰ) تم کو اس قسم کی بات کے دوبارہ کرنے سے ہمیشہ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۰۰۱۸وَ يُبَيِّنُ کے لئے روکتا ہے اگر تم مومن ہو.اور اللہ (تعالیٰ) تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے.اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۰۰۱۹ اور اللہ (تعالیٰ) بہت جاننے والا حکمت والا ہے.حلّ لُغَات.اَفَضْتُمْ.اَفَضْتُمْ اَفَاضَ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَفَا ضَ الْقَوْمُ فِی الْحَدِیْثِ کے معنے ہوتے ہیں لوگ باتوں میں لگ گئے ( اقرب) پس اَفَضْتُمْ فِیْہِ کے معنے ہوںگے جس کے بارہ میں تم باتوں میں لگ گئے تھے.تَلَقَّوْنَہٗ.تَلَقَّوْنَہٗ تَلَقّٰی سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے.اور تَلَقّٰی الشَّیْ ئَ مِنْہُ کے معنے ہوتے ہیں تَلَقَّنَہٗ اُس سے کسی بات کو سیکھا اور قبول کیا ( اقرب )پس تَلَقَّوْنَہٗ کے معنے ہوںگے تم اس کو سیکھتے تھے.ھَیِّنٌ ھینکہتے ہیں ھَانَ الْاَمْرُ عَلیٰ فُلَانٍ اور معنے یہ ہوتے ہیں کہ سَھُلَ یعنی یہ بات فلاں پر آسان ہوگئی ( اقرب) پس ھَیِّنٌ کے معنی ہوںگے معمولی اور آسان بات.تفسیر.فرماتا ہے کہ اس طرح اُن لوگوں پر الزام لگانا جو قوم کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے نکلتے ہیں نہایت خطرناک گناہ ہے.اور اگر خدا تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مسلمانوں کو بچانا نہ چاہتا تو اس گناہ کے بدلہ میں تمہیں بڑی سخت سزا ملتی.جبکہ تم دوسروں سے ایک بات سُن کر اپنی زبانوں سے دہراتے چلے جاتے تھے.اور ایسی باتوں کا چرچا کرتے تھے جن کا تمہیں کوئی علم نہیں تھا.او رقومی خادموں کے متعلق ایسی باتیں کہنا آسان سمجھتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم تھا.

Page 460

اور کیوں ایسا نہ ہوا کہ جس وقت یہ بہتان تم نے سنا تھا تو تم نے فوراً کہہ د یا ہوتا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منہ سے نکالیں.جس نے یہ بات بیان کی ہے وہ گواہ لائے اور اس الزام کو ثابت کرے.ہمارا اس سے کیا تعلق ہے کہ ہم سنیں اور دوسروں کوسنائیں.یہ ایک بہت بڑا بہتا ن ہے جو دوسرے پر لگا یا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ایسی بات پھر کبھی منہ سے نہ نکالنا.اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا یقیناً جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بدی پھیل جائے اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ( تعالیٰ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اور اگر اللہ (تعالیٰ) کا فضل وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۲۰وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ اور رحم تم پر نہ ہوتا اور اگر اللہ (تعالیٰ) بہت مہربان (اور) با ر بار رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌؒ۰۰۲۱ رحم کرنےوالا نہ ہوتا (تو تم دکھ میں پڑ جاتے).حلّ لُغَات.تَشِیْعَ شَاعَ الْخَبَرُ ( یَشِیْعُ) کے معنے ہوتے ہیں ذَاعَ وَفَشَا.خبر پھیل گئی.( اقرب) پس اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ کے معنے ہوں گے کہ بدی پھیل گئی.اَلْفَاحِشَۃَ.اَلْفَاحِشَۃَ اَلزِّنٰی فاحشہ کے معنے ہوتے ہیں زنا مَا یَشْتَدُّ قُبْحُہٗ مِنَ الذُّنُوْبِ.وہ گناہ جس کی برائی بہت سخت ہو.وَقِیْلَ کُلُّ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہٗ اور بعض کے نزدیک فاحشہ کے معنے ہر اس امر کے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ایسی باتیں کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ فحش پر دلیر ہو جاتے ہیں.کیونکہ جب نوجوان سنتے ہیں کہ ہمارے بڑے بھی ایسے کام کر لیتے ہیں تو وہ بھی ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں.پس اس جر م پر جو سخت سز ا تجویز کی گئی ہے تو وہ صرف فرد کی عزت کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ قوم کی عزت اور اس کے اخلاق کی

Page 461

حفاظت کے لئے ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس قسم کی باتیں کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے مگر بہت ہیں جو ایسی باتیں سنتے ہیں اور سنتے ہی نہیں آگے پہنچاتے ہیں.اور جب پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ یونہی بات منہ سے نکل گئی تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنا دیتی ہے.پس اس بہت بڑے گناہ سے بچو اور کوشش کرو کہ کبھی تمہارے منہ سے کسی کے متعلق ایسی بات نہ نکلے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے علم النفس کا ایک ایسا نکتہ بیان کیا ہے جو قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے.کیونکہ علم النفس کی تحقیق پہلے زمانہ میں نہیں ہوئی تھی یہ تحقیق انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور اب بیسویں صدی میں اس نے ایک علم کی صورت اختیار کی ہے.وہ مسئلہ جو قرآن کریم نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بری باتوں کا مجالس میں تذکرہ نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہی برائیاں لوگوں میں کثرت کے ساتھ پھیل جائیں گی.بے شک دنیا میں لوگ کثرت سے ڈاکہ اور چوری وغیرہ برے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ ڈاکہ کی وارداتیں زیادہ ہونے لگی ہیں.جیسے گجرات ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ اضلاع میں کئی بڑے بڑے شریف نمازی اور تہجد گذار کہلانے والے دوسرے کی بھینس کھول کر گھر لے آئیں گے.اور اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کریں گے کہ انہوں نے کوئی برا کام کیا ہے.میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہو گئے تو ایک احمدی نے جو پہلے چوروں کے ساتھ مل کر چوریاں کیا کرتے تھے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم سارے علاقہ کو سیدھا کر دیتے ہیں.میں نے پیغامبر کو جواب دیا کہ اُن سے کہہ دینا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں توبہ کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہی بہتر ہے کہ آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں اور اس کو توڑنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ مجھے اور گھوڑے دے دےگا.غرض بعض علاقوں میں جانوروں کی چوری کی اتنی کثرت ہے کہ اسے اعلیٰ درجہ کا بہادری کا فن سمجھا جاتا ہے مثلاً گجرات کے علاقہ میں ہی بعض اقوام میں پہلے یہ رواج ہوا کرتا تھا گو غالباً اب نہیں کہ بیٹے کو پگڑی نہیں پہناتے تھے جب تک وہ ایک چوری کی بھینس اپنی بہن کو لا کر نہ دیتا تھا.لڑکا جب جوان ہوجاتا اور پگڑی اس کے سر پر نہ ہوتی تو اپنے رشتہ دار اسے طعنے دیتے اور کہتے بے حیا اتنا بڑا ہو گیا ہے مگر اب تک اس سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لا دےاور اپنے سر پر پگڑی بند ھوائے.ا س طرح ہر نوجوان کو چوری پر مجبور کیا جاتا اور وہ

Page 462

بڑا ہو کر جانوروں کا چور بنتا.ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست جواَب مخلص احمدی ہیں جب شروع شروع میں آئے تو اُن کا ایک لڑکا اُن کے ساتھ تھا جس کے سر پر پگڑی نہیں تھی حضرت ام المومنین ؓ نے گھر میں اُن کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ اس بچے کے سر پر پگڑی کیوں نہیں.تو اُس نے بتا یا کہ جب یہ کسی کی بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لادےگا تب اس کے سر پر پگڑی باندھی جائےگی.کیونکہ یہ ہمارے علاقہ کا دستور ہے.گو وہ دوست ہمیشہ یہ واقعہ سن کر شرمندہ ہوا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات نہیں تھی.میرے گھر والوں نے صرف ہنسی سے ایسا ذکر کیا تھا.مگر بہرحال اُن کے علاقہ میں یہ رواج تو تھا.تبھی اُن کی اہلیہ نے اس کا ذکر کیا یہی بات ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے سنی تو اس کا اُن پر اتنا اثر ہوا کہ ایک دفعہ جبکہ مجلس میں بعض اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.بر سبیل تذکرہ وہ کہنے لگے کہ گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے.میرے ذہن میں اس وقت یہ واقعہ نہیں تھا میں نے کہا یہ صحیح نہیں ہر علاقہ میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں.کہنے لگے نہیں گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے.میں نے کہا میر صاحب آپ کی یہ بات درست نہیں.ہماری جماعت میں بھی اس علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور وہ بڑے نیک ہیں وہ میری اس بات پر بھی کہنے لگے.خواہ کچھ ہو چور ضرور ہوںگے.میرا ذہن اس وقت تک بھی اس قصہ کی طرف نہیں گیااور میں نے چند دوستوں کے نام لئے کہ دیکھیں فلا ں دوست کیسے نیک ہیں.فلاں دوست کیسے نیک ہیں.وہ کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو ضرور چو ر ہوںگے.اس دوران میں چونکہ ایک مذاق کی صورت پیدا ہو گئی تھی.اس لئے میں نے نام لے کر کہا کہ حافظ روشن علی ؓ صاحب بھی گجرات کے علاقہ کے ہیں.کیا وہ بھی چور ہیں.میرے اس جواب پر میر صاحب کہنے لگے.حافظ روشن علی صاحب گجرات کے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں ! اس پر وہ پہلے تو ذرا رک گئے مگر پھر کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو وہ بھی چو ر ہوںگے.آخر میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہاں تود ستورہے کہ بچہ کے سرپر اُس وقت تک پگڑی نہیں باندھتے جب تک وہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بہن کو نہ دے.اب یہ رسم جو ان علاقوں میں ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میں چونکہ ہر وقت جانوروں کی چوری کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے سارے علاقہ میں چوری کا رواج ہوگیا.یو ں اگر و ہ سنیں کہ کسی نے دوسرے کا روپیہ اُٹھا لیا ہے تو وہ بھی برا مناتے ہیں لیکن جانوروں کی چوری کے ذکر پر اُن کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذکر اُن میں عام ہے.اور جس بدی کا ذکر عام ہو جائے وہ قوم کے افراد میں پھیل جاتی ہے.اسی طرح پٹھانوں میں قتل کا رواج ہے اور وہ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتے کیونکہ ہر وقت ان میں قتل کا چرچا رہتا ہے.مشہور ہے کہ کسی پٹھان

Page 463

کا لڑکا ایک ہندو سے پڑھتا تھا.ایک دن اُستاد کسی بات پر نارا ض ہوا تو لڑکے نے تلوار اُٹھالی اور چاہا کہ اُسے قتل کر دے.وہ ہندو آگے آگے بھاگا اور لڑکا پیچھے پیچھے.وہ بھاگتا جارہا تھا کہ راستہ میں اس لڑکے کا باپ مل گیا.اُس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ باپ اسے روک لےگا کہاخاں صاحب دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے.اسے روکئے.اب خاں صاحب بجائے اس کے کہ اپنے لڑکے کو روکتے.اس ہندو کو گالی دے کر کہنے لگے.اوبنیئے.کیا کر رہا ہے.میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے خالی نہ جائے.غرض جب اشاعتِ فحش ہو اور بدی کا ذکر عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہو.تو وہ بدی قوم میں پھیل جاتی ہے.اسی لئے ہماری شریعت نے عیوب کا عام تذکرہ ممنوع قرار دیا ہے.اور فرمایا ہے کہ جو اولی الامر ہیں اُن تک بات پہنچا دو اور خود خاموش رہو.اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو یہ اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سنے اُسے بیان کرتا پھرے.تو اُس کے نتیجہ میں قلوب میں سے بدی کا احساس مٹ جاتا ہے اور بُرائی پر دلیری پیدا ہو جاتی ہے.پس اسلام نے بدی کی اس جڑ کو مٹایا.اور حکم دیا کہ تمہیں جب کوئی برائی معلوم ہو تو اولی الامر کے پاس معاملہ پہنچا ؤ جو سزا دینے کا بھی اختیار رکھتے ہیں.اور تربیت نفوس اور اصلاحِ قلوب کے لئے اور تدابیر بھی اختیار کر سکتے ہیں.اس طرح بدی کی تشہیر نہیں ہو گی.قوم کا کیر یکٹر محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہو جائےگی پس یاد رکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفاء یہ کوئی معمولی بات نہیں.بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس کی خلاف ورزی سے بگڑتی ہیں.جتنا تم اس بات کا زیادہ ذکر کرو گے کہ فلاں اتنی قربانی کرتا ہے.فلاں اس طرح نمازیں پڑھتا ہے.فلاں اس اہتمام سے روزے رکھتا ہے اتنا ہی لوگوں کے دلوں میں دین کے لئے قربانی کرنے اور نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی خواہش پیدا ہو گی اور جتنی تم اس بات کو شہرت دو گے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ خیانت کرتے ہیں.وہ چوری کرتے ہیں.وہ ظلم کرتے ہیں اتناہی لوگوں کے دلوں میں اُن بدیوں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کسی کی نیکی دیکھو تو اُسے خوب پھیلائو اور جب کسی کی بدی دیکھو اس پر پر دہ ڈالو.ایک بلی بھی جب پاخانہ کرتی ہے تو اُس پر مٹی ڈال دیتی ہے.پھر انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ بدی کی تشہیر نہ کرے بلکہ اُس پر پردہ ڈالے اور اس کے ذکر سے اپنے آپ کو روکے.اگر اس ذکر سے اپنے آپ کو نہیں روکا جائےگا تو متعدی امراض کی طرح وہ بدی قوم کے دوسرے افراد میں بھی سرائت کر جائے گی.اور خود اس کا خاندان تو لازماً اس میں مبتلا ہو جا ئےگا.کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جو چیز کثرت سے اُس کے سامنے آئے وہ اس کی نظر میں حقیر ہو جاتی ہے اور جس بات کے متعلق یہ عام چرچا ہو کہ لوگ کثرت سے کرتے ہیں وہ بالکل معمولی سمجھی جاتی ہے.ا س اصول کے ماتحت جو بات لوگوں میں عام طورپر پھیلائی جائے اس کا لوگوں

Page 464

پر یہ اثرپڑتا ہے کہ معمولی بات ہے.اور جب اس قسم کے الزام کثرت سے لگائے جائیں اور لوگ اُن کے پھیلانے میں کسی کی عزت کی پرواہ نہ کریں تو لازماً وہ ان باتوں کو معمولی سمجھیں گے اور جب معمولی سمجھیں گے تو اُن کا ارتکاب بھی اُن کے لئے معمولی بات ہو گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے اور اس قسم کی افواہوں کو نہیں روکو گے تو تمہاری قوم ان کو معمولی سمجھنے لگے گی.اور جب معمولی سمجھے گی تو اس کا ارتکاب بھی کثرت سے کرے گی.اس لئے ایسی باتوں کو پھیلنے ہی نہ دو.اسی نکتہ کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ.یعنی جس شخص نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم تباہ ہو گئی وہ اپنی قوم کو تباہ کرنے والا ہے.بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ قوم ہلاک ہوگئی.ساری کی ساری قوم کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے اور چونکہ یہ بات اُن کی سمجھ میں نہیں آئی اس لئے وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اَھْلَکَھُمْ کا لفظ نہیں بلکہ اَھْلَکُھُمْ کا لفظ ہے یعنی وہ شخص سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے قومی نفسیات کو سمجھا ہی نہیں.یہ کہہ دینا کہ جو شخص کہتا ہے قوم ہلاک ہوگئی وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے.اول تو بعض حالتوں میں درست ہی نہیں اور پھر یہ صحیح بھی نہیں کہ ان الفاظ کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونےوالا بن جاتا ہے.درحقیقت ان لوگوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ جب کسی قوم میں مایوسی پیدا کر دی جائے تو وہ بڑے بڑے کام کرنے سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتی ہے.کبھی کسی قوم کا دانا اور سمجھدار لیڈر ایسا نہیں ہو سکتا جو اُس کو مایوس کر دے اور آئندہ ترقیات کے متعلق اس کے دل میں نا امیدی پیدا کر دے.کیونکہ جب کسی قوم کو مایوس کر دیا جائے تو وہ تباہ ہونی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن کریم کی تفاسیر جو لوگ پہلے لکھ چکے ہیں اُن سے زیادہ اب کچھ نہیں لکھا جا سکتا تو مسلمانوں میں اُسی وقت تنزل پیدا ہونا شروع ہو گیا.اُن کی معرفت جاتی رہی اور وہ آسمانی علوم سے اس قدر محروم ہو گئے کہ اس زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے نئے نئے معارف بیان کرنے شروع کر دئیے اور پھر ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے عجیب و غریب اسرار کھولے تو مسلمانوں نے کہنا شروع کرد یا کہ یہ تفسیر بالرائے ہے.گویا انہیں معرفت کی باتوں سے اتنی دوری ہوگئی کہ اسلام کی باتیں انہیں کفر کی باتیں دکھائی دینے لگیں.اور قرآن کریم کی باتیں انہیں بے دینی کی باتیں نظر آنے لگیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ جب قوم سے کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کوئی ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہو سکتا.آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جوقرآن کریم کو پہلوں سے

Page 465

زیادہ سمجھ سکے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم ہلاک ہوگئی.اب اس میں کوئی زندہ وجو د باقی نہیں رہا.اور جب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا.ہماری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ میں نے قرآن سے فلا ں نئی بات نکالی ہے.تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے قرآن پر تدبر کرنا ترک کر دیا.انہوں نے حدیثوں پر غور کرنا چھوڑ دیا.او ر انہوں نے کہا کہ جب ہمیں کوئی نئی بات نہ قرآن سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ حدیث سے مل سکتی ہے تو ہمیں قرآن اور حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.پُرانی تفسیر یں ہی ہمارے لئے کافی ہیں.یہ ایک لازمی نتیجہ تھا اس خیال کا کہ قرآن کریم سے اب کوئی نیا نکتہ نہیں نکل سکتا.بلکہ رازی اور ابن حیان اور دوسرے مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے.پھر یہ عذاب اتنا بڑھا کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے بڑے بڑے مولوی ایسے تھے جو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ تک نہیں جانتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ضروری نہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اگر موقعہ ملے تو کوئی پرانی تفسیر دیکھ لی جائے.یہ ہلاکت محض اس وجہ سے ہوئی کہ قوم کو مایوس کر دیاگیا.اسے کہہ دیا گیا کہ قرآن کریم کے معارف تک اس کی رسائی نہیں ہو سکتی.اسی طرح جب مسلمانوں کو کہہ دیا گیا کہ خدا بولتا نہیں.وہ کسی سے محبت نہیں کرتا.وہ کسی سے پیار نہیں کرتا.وہ کسی کی التجاء اور دعا کا جواب نہیں دیتا تو لوگوں کے دلوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش بھی مٹنی شروع ہو گئی آخر یہ خواہش کہ خدا مجھ سے ملے.وہ میرے ساتھ باتیں کرے وہ مجھے اپنا پیار ا بنا لے.وہ میر ا ہو جائے اور میں اس کا ہو جائوں انسان تبھی کرے گا جب اُسے یہ خیال ہوگا کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن جب اُس کا یہ خیال ہوکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو وہ اس غرض کے لئے کوشش ہی کیوں کرےگا.جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ ہم خدا کے نہیں ہو سکتے اور خدا ہمارا نہیں ہو سکتا.جب قوم کے لیڈروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھَلَکَ الْقَوْمُ ہماری قوم ہلاک ہوگئی.ہماری قوم میں وہ استعداد ہی نہیں رہی کہ جس سے کام لے کر وہ خدا سے محبت کر سکے.اس کے فضل کو اپنی طرف کھینچ سکے.اس کی وحی اور الہام کی مورد بن سکے تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس طرف سے اپنی توجہ ہی ہٹالی اور خدا تعالیٰ کے دروازہ کو بند سمجھ کر اسے کھٹکھٹا نا ترک کر دیا.اگر کسی مکان کا دروازہ بند ہو.باہر کی طرف اس پر قفل لگا ہو ا ہو تو کون بے وقوف ہے جو اس دروازہ پر بیٹھ کر مالک مکان کو آوازیں دینی شروع کر دےگا اگر کسی کے مکان کے دروازہ کے متعلق یہ اعلان کر دیا جائے کہ اُسے قطعی طور پر بند کر دیا گیا ہے اور پھر اس دروازہ کو کوئی شخص کھٹکھٹا نا شروع کر دے.تو سب لوگ اسے احمق اور پاگل سمجھیں گے کیونکہ وہ ایسا دروازہ

Page 466

کھٹکھٹا رہا ہوگا جو بند ہو چکا ہے اور جس کے کھلنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے.اس کے مقابلہ میں اگر کسی عمارت کا دروازہ تو بند ہو لیکن کھڑکی کھلی ہو تو سب لوگ اس کھڑکی کی طرف جائیں گے دروازہ کی طرف نہیں جائیں گے.وہ کھڑکی کی طرف اس لئے جائیں گے کہ کھڑکی کھلی ہوگی اور دروازہ کی طرف اس لئے نہیں جائیں گے کہ دروازہ بند ہو گا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ بند کر دیا گیا.جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ اس دروازے سے تمہیں کوئی آواز نہیں آسکتی خواہ تم کس قدر چلا ئو خواہ تم کس قدر آہ وزاری سے کا م لو تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا.اور پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے.کیونکہ گو وہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں مگر وہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں انہیں کھلی نظر آئیں اور بڑا دروازہ انہوں نے مقفّل پایا.پس وہ خدا کے دروازہ کو چھوڑ کر پیروں اورفقیروں کے پیچھے چل پڑے انہوں نے کہا کہ یہ ہیں تو کھڑکیاں مگر کھلی کھڑکیاں ہیں.پس آئو ہم ان کھڑکیوں سے اند ر کی طرف جھانکیں.مگر جانتے ہوا س کا کیا نتیجہ ہوا ؟ یہی ہوا کہ خدا کی محبت اور خدا کا پیا ر مسلمانوں کے دلوں سے جاتا رہا.روحانیت کا اُ ن میں فقدان ہو گیا.وہ اس کے قرب سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے اور خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام سننے سے اُن کے کان ہمیشہ کے لئے نا آشناہو گئے.اسی طرح اسلامی تمدن اور سیاست میں بھی خطرناک نقص پیدا ہو گیا کیونکہ کہہ دیا گیا کہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں تمدن نےجوشکل اختیار کی تھی اس سے زیادہ اسلامی تمدن کو کوئی شکل نہیں دی جا سکتی.حالانکہ تمدن کی شکل ہر زمانہ کے لحاظ سے بدلتی چلی جاتی ہے.کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں اُس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے.سچا مذہب وہی ہوتا ہے جو اپنے اندر لچک رکھتا ہے.اسی لئے وہ مذاہب جو دنیا میں ایک لمبے عرصہ کے لئے آتے ہیں اُن کی تعلیم کے اندر ایک قسم کی لچک پائی جاتی ہے جو مختلف زمانوں اور مختلف حالات کے مطابق تغیر پذیر ہو تی چلی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی تمدن نے جو شکل اختیا ر کی وہ اور تھی مگر اب اس تمدن نے جو شکل اختیار کرنی ہے وہ اورہے.بے شک اس تمدن کے اصول ایک ہی رہیں گے مگر اس کی شکل زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدلتی چلی جائےگی اعتراض تب ہو جب اصول میں تبدیلی ہو لیکن جیسا کہ میں نے بتایاہے اصول ہمیشہ ایک ہی رہیں گے.صرف اس تمدن کی شکل میں زمانہ کے حالات کے لحاظ سے تبدیلی ہو تی چلی جائےگی.اور شکل میں یہ تبدیلی بالکل جائز ہو گی.مگر چونکہ کہہ دیا گیا کہ اسلامی تمدن انتہا تک پہنچ چکا ہے اور یہ کہ اس قانون میں کوئی لچک نہیں اگر لوگ پُرانے زمانہ کے تمدن کی نقل کریں تو بے شک کریں لیکن اس کے خلاف کوئی اور شکل تجویز نہیں کر سکتے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے تمدن کے متعلق غور و فکر کرنا چھوڑ دیا اور وہ اس

Page 467

چھوٹے سے تالاب کی صورت میں بد ل گیا جس کا پانی نہیں بہتا جس میں بُو تو پیدا ہو جاتی ہے.مگر خوشنمائی اور دلکشی باقی نہیں رہتی.پس یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ یہ درحقیقت آپ نے ایک بہت بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا تھا.اگر قوم کے لیڈر اس حدیث کو ہی یاد رکھتے اگر وہ اپنی قوم کو مایوس نہ کرتے.اگر وہ اپنی جہالت سے اُن کو یہ نہ کہتے کہ تمہارے لئے اب ترقی کا کوئی امکان نہیں.تو مسلمان روحانی میدان میں بھی آگے رہتے.اقتصادی میدان میں بھی آگے رہتے.علمی میدان میں بھی آگے رہتے اور سائنٹفک میدان میں بھی آگے رہتے.مگر ہمارے ہاں تو یہاں تک مصیبت بڑھی کہ مذہب تو الگ رہا مسلمانوں نے دنیوی علوم بھی پہلے لوگوں پر ختم کر دئیے.بو علی سینا کے متعلق کہہ دیا کہ اُس نے طب میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا.منطق کے متعلق کہہ دیا کہ اس بارہ میں فلاں منطقی جو کچھ لکھ گیا ہے اُس کے بعد منطق کے علم میں کوئی زیادتی نہیں کی جا سکتی.اسی طرح ایک ایک کرکے سارے علوم کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ اُن کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ لکھ چکے ہیں.اُن سے زیادہ اب کوئی شخص نہیں لکھ سکتا.گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھَلَکَ الْقَوْمُ جو کچھ پہلوں کو مل گیا وہ اب دوسروں کو نہیں مل سکتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان بالکل تباہ ہو گئے.نہ مسلمانوں میں خدا پرست رہے.نہ مسلمانوں میں فقیہہ رہے.نہ مسلمانوں میں قاضی رہے نہ مسلمانوں میں عارف رہے نہ مسلمانوں میں محدث رہے کیونکہ جو چیز بھی تھی اُسے گذشتہ لوگوں پر ختم کر دیا گیا اور قوم کو مایوس کر دیا گیا.غرض اس آیت میں خدا تعالیٰ نے قوم کی اصلاح کا یہ ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جس فعل کو روکنا چاہو تم اُس کی تشہیر کو روکو اور قوم کو مایوسی کا شکار نہ ہو نے دو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر بدی کی جڑ کو پکڑ تا ہے اور اُسے اکھیڑتا ہے.اسی کے مطابق قرآن کریم بتاتا ہے کہ جس بدی کو تم روکنا چاہو اُس کے اتہام کو روکو.اور اسی کا الٹ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس نیکی کو قائم کرنا چاہو اُس کی عظمت اور اہمیت پھیلائو مثلاً نماز ہے.اس کے متعلق کہا جائے کہ ایسے اہم فریضہ کو کون چھوڑ سکتا ہے؟یا چوری ہے اس کے متعلق کہا جائے کہ کیا اتنا بڑا گناہ کوئی کر سکتا ہے ؟ اس قسم کی باتیں جس شخص کے کان میں بھی پڑیں گی وہ ان کو بہت اہم سمجھے گا اور ان کے متعلق احتیاط سے کام لے گا.تم اپنے اندر اس کے مطابق تغیر کر کے دیکھ لو.تین چار سال میں ہی تمہیں اپنے اندر بہت بڑا فرق نظر آئےگا.اور تمہیں محسوس ہوگا کہ افرادِ جماعت میں پہلے سے زیادہ بیداری پائی جاتی ہے پہلے سے زیادہ اُن میں نیکیوں کو اختیار کرنے اور بدیوں سے بچنے کا جذبہ پا یا جا تا ہے اور پہلے

Page 468

سے زیادہ اُن کے اخلاص اور ایمان میں ترقی ہو گئی ہے.جماعتی چندوں کو ہی دیکھ لو.اگر عام طور پر یہ ذکر ہو کہ لوگ چند ہ نہیں دیتے تو یہ معمولی بات سمجھی جا ئےگی لیکن اگر یہ کہا جائے کہ کوئی شاذ ہی ہوگا جو چند ہ نہ دیتا ہو تو ہر ایک کو اس کی اہمیت کا احساس ہوگا اور وہ چندہ میں کمزوری نہیں دکھا ئےگا.اسی طرح یہ گُر سب نقائص اور کمزوریوں پر حاوی ہے.اور تمام خرابیوں کی اس کے ذریعہ اصلاح ہو سکتی ہے.تم جس فعل کو روکنا چاہو اس کے اتہام کو روکو اور اس کے اُلٹ جس نیکی کو قائم کرنا چاہو.اُس کو پھیلائو اور اُسے اہمیت دو.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ فرائض کی ادائیگی پر کسی کو کوئی خاص عظمت نہ دو.مثلاً کوئی شخص حج کرکے آتا ہے تو یہ نہ کہو کہ یہ بڑا نیک اور پار سا ہے کیونکہ حج کرنا تو اس کا فرض تھا جسے اُس نے ادا کیا.اسی طرح نماز ، روزہ اور زکوٰۃ ہے.ان کو ادا کرنے کی وجہ سے کسی کی تعریف نہ کرو کیونکہ اگر اُن کی وجہ سے کسی کی تعریف کی جائےگی کہ وہ بڑا نیک اور پار سا ہے تو جو ان کو ادا نہیں کرتا وہ کہےگا کہ اچھا میں ایسا نیک اور پارسا نہ سہی معمولی مسلمان تو ہوں لیکن جب اُن کا ادا کرنا ہر ایک مومن کا فرض بتا یا جائےگا تو اسے معلوم ہو گا کہ ان کو اد اکئے بغیر تو میں معمولی مسلمان بھی نہیں بن سکتا.پس اس بات کو یاد رکھو اور جو نواہی ہیں اُن کے اتہام کو برا سمجھو اور انہیں کبھی اپنی قوم میں پھیلنے نہ دو.اگر تم ایسا کرو گے تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمہارے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا.اور تم قومی اصلاح کے کام میں کامیاب ہو جائو گے.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ١ؕ وَ مَنْ اے مومنو! شیطان کے قدموں پر مت چلو اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے وہ جان لے کہ شیطان يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ بدیوں اور نا پسندیدہ باتوںکا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ (تعالیٰ) کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو کبھی بھی تم میں سے کوئی وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ پاک باز نہ ہوتا.لیکن اللہ (تعالیٰ) جس کو چاہتا ہے پاکباز بنا دیتا ہے.اور اللہ

Page 469

اَحَدٍ اَبَدًا١ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۰۰۲۲ بہت دعائیں سننے والا بہت جاننے والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْفَحْشَآءَ.اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَآءُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا عَظُمَ قُبْحُہٗ مِنَ الْاَفْعَالِ وَالْاَقْوَالِیعنی فحش ، فحشاء اور فاحشہ ہر ایسے فعل اور قول کو کہتے ہیں جس کی برائی نہایت واضح اور نمایاں ہو.(مفردات) اَلْمُنْکَرُ.اَلْمُنْکَرُ: مَالَیْسَ فِیْہِ رِضَی اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْفِعْلٍ.ہر وہ بات یا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی نہ ہو منکر کہلاتی ہے.( اقرب) زَکٰی.زَکَا الرَّجُلُ کے معنے ہیں صَلَحَ وَ تَنَعَّمَ.اچھا ہو گیا اور عمدہ حالت میں آگیا ( اقرب) تفسیر.خُطْوَۃٌ کے معنے قدم کے ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ جمع کی صورت میں استعمال ہو تو اس کے معنے مفسرین کے نزدیک مسلک اور مذہب اور اثر کے بھی ہوتے ہیں ( فتح البیان ) پسلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے مومنو! شیطانی طریق اور شیطانی مذہب اور شیطانی اثر کو اختیار نہ کرو.اور اس امر کو یاد رکھو کہ جو شخص شیطانی طریق اور مسلک کو قبول کرتا ہے وہ لازماً بدی اور ناپسندیدہ باتوں کے پیچھے پڑجاتا ہے.کیونکہ شیطان ہمیشہ بدی اور ناپسندیدہ باتوں کی ہی تحریک کیا کرتا ہے.لیکن یہ بھی یادرکھو کہ کامل پاکیزگی بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے حاصل نہیں ہوتی.پس اس کا طریق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو اور اپنے حالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ لوگوں کی طرح بنائو.تاکہ وہ یہ دیکھ کر کہ تم پاکیزہ بننے کی کوشش کر رہے ہو تم کو پاکیزہ بنا دے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے.حتّٰی کہ جب انسان خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتا ہے تب بھی وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آکر ایمان لانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو ماننے لگ جاتے ہیں اور مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں اور یہ خطرہ اس قدر عظیم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کوئی شخص بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا.مگر اس فضل کو جذب کرنےکا طریق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت سَمِیْعٌ سے فائدہ اٹھائے اور اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائے.اگر وہ اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائے گا اور اُس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنالےگا تو اللہ تعالیٰ جو علیم ہے اور اپنے بندوں کے

Page 470

حالات اور اُن کی کمزوریوں کو خوب جانتا ہے اس کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دےگا جس کے نتیجہ میں وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جائےگا اور اسے طہارت اور پاکیزگی میسر آجائےگی.کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس اُن کا ایک شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا.جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو اُس بزرگ نے اُس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جا رہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان بھی ہوتا ہے ؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا.اور اُس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا ہر ملک میں شیطان ہوتا ہے اور جہاں میں جا رہا ہوں وہاں بھی شیطان موجود ہے.آپ نے فرمایا اچھا اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا.ایسی حالت میں تم کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں شیطان کا مقابلہ کروںگا.وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا.تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا.لیکن جب پھر تم عمل کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے رستوں پر تم نے چلنا شروع کیا اور پھر شیطان پیچھے سے آگیا اور اُس نے تمہیں پکڑ لیا اور تمہیں آگے بڑھنے سے اُس نے روک لیا تو پھر تم کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں پھر شیطان کا مقابلہ کروںگا.اور اُس سے پیچھا چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی جدوجہد میں مشغول ہو جائوںگا.انہوں نے کہا بہت اچھا میں نے مان لیا کہ تمہارے مقابلہ کے نتیجہ میں شیطان اس دفعہ بھاگ گیا اور تم جیت گئے لیکن جب پھر تم اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کے لئے جدوجہد کرنے لگے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع اختیار کرنے لگے اور تم نے شیطان کی طرف سے پیٹھ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی طرف رُخ کیا.تو پھر شیطان آگیا اور اُس نے تمہیں پکڑ لیا تو پھر کیا گرو گے ؟ شاگرد حیران رہ گیا اور وہ کہنے لگا مجھے تو پتہ نہیں لگتا آپ ہی فرمائیں کہ مجھے ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے ؟ وہ فرمانے لگے.اچھا یہ بتائو کہ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو جس نے اپنے مکان کی حفاظت کے لئے ایک بڑا سا مضبوط کُتّا رکھا ہوا ہو.اور جب تم اپنے دوست کے مکان میں داخل ہونے لگو تو وہ کتا آئے اور تمہاری ایڑی پکڑ لے تو اُس وقت کیا کرو گے.شاگرد کہنے لگا میں کُتّے کا مقابلہ کروںگا اور اُسے مار وںگا.اگر میرے پاس سوٹی ہوگی تو میں اسے سوٹی سے ماروں گا اور اگر پتھر قریب ہو گا تو اُسے پتھر سے مار وںگا.انہوں نے کہا مان لیا کہ تم نے کتے کو سوٹی ماری یا پتھر مارا او ر وہ بھاگ گیا لیکن جب پھر تم نے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کتے کی طرف سے پیٹھ پھیری تو وہ پھر آگیا اور اُس نے تمہاری ایڑی پکڑ لی تو اُس وقت کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں اُسے پھر ماروں گا اور اُسے ہٹا کر مکان کے اندر

Page 471

داخل ہو نے کی کوشش کروںگا.انہوں نے فرمایا.اچھا فرض کرو دوسری دفعہ بھی کُتا بھاگ گیا لیکن جب پھر تم دوست سے ملنے کے لئے مکان کے اندر داخل ہونے لگے تو وہ پھر تمہیں پکڑ لے تو آخر تم کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں پھر اُسے ماروںگا اور اُسے ہٹانے کی پوری کوشش کروںگا.وہ بزرگ فرمانے لگے.اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی کہ جب تم مکان کے اندر داخل ہونا چاہو تو کُتّا تمہاری ایڑی پکڑ نے لگے اور جب تم اُسے مارو تو وہ بھاگ جائے لیکن جب پھر مکان کے اندر داخل ہونے لگو تو وہ پھر آکر پکڑ لے تو تم اپنے دوست سے مل کس طرح سکو گے ؟اور اُس سے ملاقات کرنے کا جو مقصد تم لئے ہوئے ہو گے وہ کس طرح پورا ہوگا ؟ شاگرد کہنے لگا جب میں یہ دیکھوں گا کہ یہ جنگ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی اور کتّا بار بار مجھے پکڑ لیتا ہے تو میں اپنے دوست کو آواز دوںگا کہ میاں تمہارا کتّا مجھے نہیں چھوڑتا اسے آکر ہٹا ئو.وہ بزرگ فرمانے لگے بس یہی نسخہ شیطان کے مقابلہ میں بھی استعمال کرنا.شیطان اللہ میاں کا کتّا ہے اور جب یہ انسان پر بار بار حملہ آور ہو اور اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اُس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پکارو او راُسے آواز دو کہ اللہ میاں !میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کتّا مجھے آنے نہیں دیتا.اسے روکئے تاکہ میںآپ کے پاس پہنچ جائوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ اُسے روک لےگا اور تم شیطان کے حملہ سے محفوظ ہو جائو گے.غرض طہارتِ کا مل جس کے بعد کوئی ارتداد اور فسق نہیں ہوتا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے جسے انسانی دعائیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں.پھر اس آیت میں بدی کو روکنے کے متعلق اللہ تعالیٰ ایک اور لطیف نکتہ بیان فرماتا ہے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ ایک دوسرے کے متعلق بے بنیاد باتوں کا اپنی مجالس میں تذکرہ کرتے رہنا قوم کے اخلاقی معیار کو تباہ کر دیتا ہے.اب مومنوں کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے.اے مومنو ! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو.اس لئے کہ جو شخص شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا.وہ بدی اور بدکاری میں مبتلا ہو جائےگا کیونکہ شیطان فحشاء اور منکر کا حکم دیتا ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر برائی جو دنیا میں پھیلتی ہے اُس کی ابتداء بھیانک نہیں ہوتی.شیطان کا یہ طریق نہیں کہ کوئی خطرناک بات کرنے کے لئے ابتدا ء میں ہی انسان کو تحریک کرے کیونکہ انسان کی فطرت میں حیاء و شرم کا مادہ رکھا گیا ہے.اس لئے جس کا م کو انسان صریح طور پر برا سمجھے اُس کو فوری طور پر کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا.مثلاً شیطان اگر کسی کو سیدھا ہلاکت کی طرف لے جانا چاہے تو وہ نہیں جائےگا.ہاں چکر دے کر لے جائے تو چلا جائےگا.پس شیطان پہلے ہی کسی بڑی بدی کی تحریک نہیں کرتا.بلکہ پہلے چھوٹی برائی کی جو

Page 472

بظاہر برائی نہ معلوم ہوتی ہو تحریک کرتا ہے.پھر اُس سے آگے چلاتا ہے.پھر اس سے آگے حتیٰ کہ خطرناک برائی تک لے جاتا ہے.گویا شیطان پہلے ہی گڑھے کے سرے پر لے جاکر انسان کو نہیں کہتا کہ اس میں کود پڑو بلکہ پہلے گھر سے دور لے جاتا ہے.جس طرح ڈاکو گھر کے پاس حملہ نہیں کرتے یا جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گھر کے پاس نہیں کرتے بلکہ اُن کو دھوکہ اور فریب سے دُور لے جاتے ہیں.کہتے ہیں آئو تمہیں مٹھائی کھلائیں اور جب شہر یا گائوں سے باہر لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں تو گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں یہی طریق شیطان کا ہوتا ہے.وہ پہلے انسان کو اُس قلعہ سے نکالتا ہے جہاں خدا نے انسان کو محفوظ کیا ہو اہوتا ہے.یعنی فطرت صحیحہ کے قلعہ سے.انسان اُس سے باہر چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی حرج نہیں مگر ہوتے ہوتے وہ اتنا دور چلا جاتا ہے کہ پھر اُس کا واپس لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہو کر تباہ ہو جاتا ہے.جھوٹے الزامات کے ذکر کے ساتھ یہ نصیحت فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم یہ نہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے کیا ہوا اگر کسی پر ہم نے زنا کا الزام لگا دیا.یا یہ کہ ہم نے تو نہیں لگا یا کسی نے ہم کو بات سنائی اور ہم نے آگےسنا دی.شیطان کا یہی طریق ہے وہ پہلے اپنے پیچھے چلاتا ہے اور آہستہ آہستہ روحانیت اور شریعت کے قلعہ سے دور لے جاتا ہے اور جب انسان دور چلا جاتا ہے تو اُس کو مار ڈالتا ہے.پس شیطان پہلے تو یہی کرےگا کہ تحریک کرےگا کہ دوسرے کی کہی ہوئی بات بیان کردو تمہارا اس میں کیا حرج ہے.لیکن جب تم ایسا کر لو گے تو پھر خود تمہارے منہ سے ایسی بات نکلوائےگا.اور جب یہ بھی کر لو گے تو پھر اس فعل کا تم سے ارتکاب کروائےگا.پس تم پہلے ہی اس کے پیچھے نہ چلو اور پہلے قدم پر ہی اس کی بات کو رد کر دو تا کہ تم تباہی سے محفوظ رہو.پھر فرماتا ہے وَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا١ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَآءُ.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی پاک نہ ہوسکتا اللہ ہی ہے جو تم میں سے جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے.’’جس کو چاہتا ہے‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ اندھا دھند کرتا ہے بلکہ یہ کہ جو خدا کا پسندیدہ ہو جاتا ہے اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اُسے خدا تعالیٰ اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے.وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے یعنی جب کوئی اس کو پکارتا ہے تو سنتا ہے.جس طرح اگر کوئی رستہ بھول جائے اور کسی کو آواز دے تو اگر وہ سُننے کی طاقت رکھتا ہوگا تو جواب دے گا.اسی طرح جو لوگ سیدھے راستہ سے بھٹک جاتے ہیں وہ جب دعا کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو پکارتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی پکار کو سنتا ہے کیونکہ وہ سُننے والا ہے.پھر جب خدا آواز دیتا اور انسان اُس کی طرف چلتا ہے تو خدا تعالیٰ کی صفت علیم اُس کی راہ نمائی کرتی ہے اور اس طرح وہ اس کے قرب تک پہنچ جاتا ہے.

Page 473

وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْا اُولِي اور تم میں سے( دین و دنیا میں) فضیلت رکھنے والے اور کشائش رکھنے والے لوگ قسم نہ کھائیں کہ الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہ کریں گے.لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اور چاہیے کہ وہ عفو سے کام لیں اور درگذر سے کام لیں.کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرے اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۲۳ اور اللہ بہت معاف کرنےوالا (اور) بار بار رحم کرنےوالا ہے.حلّ لُغَات.لَا یَاْتَلِ.اِئْتَلٰی کے معنے ہیں حَلَفَ قسم کھائی ( اقرب) پس لَا یَاْ تَلِ کے معنے ہوںگے چاہیے کہ قسم نہ کھائیں.تفسیر.فرماتا ہے.پاکیزہ بننے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ تم میں سے جن کو توفیق ہو وہ کبھی قسم نہ کھائیں کہ اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں پر آئندہ خرچ نہیں کر یں گے یعنی بعض دفعہ رشتہ داروں سے بھی کوئی جھگڑا ہو جاتا ہے اور مسکینوں اور مہاجروں سے بھی ہوجاتا ہے.مگر مال داروں کو نہیںچاہیے کہ اس ناراضگی پر وہ قسم کھا لیں کہ اُن پر ہم کبھی خرچ نہیں کریں گے.بلکہ چاہیے کہ وہ غصہ کی حالت میں درگذر کریں اور معاف کریں کیونکہ اگر تم معاف کرو گے تو تمہیں اُمید ہوگی کہ خدا تعالیٰ بھی تمہیں معاف کرے گا.بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ حضر ت عائشہ ؓ پر جو افتراء کیا گیا تھا اُس کے پھیلانے میں مسطح کا بھی دخل تھا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھانجہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی تھا.اُس کی ماں نہایت نیک عورت تھی اُسی نے ایک موقعہ پر حضرت عائشہ ؓ کے سامنے مسطح کو گالی دی تھی جس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ وہ تو بدری صحابی ہے اُس کو گالی کیوں دیتی ہو.مسطح کی ماں نے کہا جانے دو.وہ ایسی ایسی باتیں کرتا پھرتا ہے اور اس طرح بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ ؓ کے کان میں پڑگیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو قسم کھا لی کہ آئندہ میں مسطح کے

Page 474

خاندان کی مدد نہیں کروںگا.حالانکہ وہ پہلے اُن کی بہت مدد کیا کرتے تھے(بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک).مفسرین کہتے ہیں کہ اسی واقعہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے (القرطبی زیر آیت ھذا).لیکن اس آیت کا کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نکالنے کی ضرورت نہیں.اس آیت میں ایک عام سبق دیا گیا ہے کہ رشتہ داروں مسکینوں اور مہاجروں کی مدد کرنے کا جو قرآن کریم میں حکم ہے.وہ اُس وقت تک کے لئے نہیں ہے جب تک کہ تم اُن سے خوش ہو.بلکہ اگر وہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھیں جو تمہیں بری لگے تو بھی اُن پر خرچ نہ کرنے کی قسم نہ کھا لیا کرو.یعنی غصہ کے دنو ں میں اگر کچھ دن کمی آجائے تو اور بات ہے مگر ہمیشہ کے لئے خرچ نہ کرنے کی قسم کھانا ناجائز امر ہے اس کی بجائے عفو اور درگذر اچھا ہے.مگر یہ آیت بتا رہی ہے کہ اس جگہ اپنے مال کے خرچ کرنے کا ذکر ہے.پبلک یا خدا تعالیٰ کے مال کے خرچ کرنےکا ذکر نہیں.اگر پبلک یا خدا تعالیٰ کے مال کے خرچ کرنے کا سوال ہو تو پھر پبلک کی مصلحت کے تقاضا کو مقدم کرنا پڑے گا یا خدا تعالیٰ کے حکم کو مقدم کرنا پڑے گا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا فرما کر مومنوں کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ انہیں دوسروں کی خطائوں کو معاف کرنا اور ان کے قصوروں سے درگذر کرنا چاہیے.مگر معاف کرنےکامسئلہ بہت پیچیدہ ہے.بعض لوگ نادانی سے ایک طرف نکل گئے ہیں اور بعض دوسری طرف.وہ لوگ جن کا کوئی قصور کرتا ہے وہ تو کہتے ہیں کہ مجرم کو ضرور سزا دینی چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو.اور جو قصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب خدامعاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہیے مگر یہ سب خود غرضی کے فتوے ہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدامعاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہیے وہ اس قسم کی بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ خود مجرم ہوتا ہے.اگر مجرم نہ ہوتا تو ہم اس کی بات مان لیتے لیکن جب اُس کا کوئی قصور کرتا ہے تب وہ یہ بات نہیں کہتا.اسی طرح جو شخص اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ سزا دینی چاہیے وہ بھی اُسی وقت یہ بات کہتا ہے جب کوئی دوسرا شخص اس کا قصور کرتا ہے لیکن جب وہ خود کسی کا قصور کرتا ہے تب یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکلتی.اُس وقت وہ یہی کہتا ہے کہ خدا جو معاف کرتا ہے توبندہ کیوں معاف نہ کرے.پس یہ دونوں فتوے خود غرضی پر مشتمل ہیں.اصل فتویٰ وہی ہو سکتا ہے جس میں کوئی اپنی غرض شامل نہ ہو.اور وہ وہی ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہو تو تم یہ دیکھو کہ سزا دینے میں اُس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے.اگر تمہیں سزا دینے میں مجرم کی اصلاح دکھائی دیتی ہو تو اُسے سزا دو.اگر معاف کرنے سے اُس کے اخلاق درست ہو سکتے ہوں تو اُسے

Page 475

معاف کر دو.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا١ۚ فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ( الشورٰی :۴۱)یعنی بدی کا بدلہ اتنا ہی ہے جتنا کسی کا جرم ہو لیکن اگر کوئی شخص دوسرے کو معاف کر دے اور اصلاح کو مدنظر رکھے یعنی اس معافی کے نتیجہ میں فساد پیدا نہ ہو بلکہ دوسرے کی اصلاح ہو تو ایسے شخص کا نیک اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.یعنی اگر کوئی شخص جرم سے زیادہ سزا دے دیتا ہے یا باوجود اس کے کہ عقلی طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اگر مجرم کو سزا دی گئی تو اُس کے اخلاق اور بھی بگڑ جائیں گے اور وہ نیکی سے اور بھی دور چلا جائےگا.لیکن پھر بھی وہ اس کو دُکھ دینے کے لئے سزا دے دے.یا اگر ذاتی طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص کو معاف کرنا اسے گناہ پر اور بھی دلیر بنا دے گا مگر اس کے باوجود وہ اسے معاف کردے تو ایسے تمام لوگ خدا تعالیٰ کی نگا ہ میں ظالم ہوںگے اور وہ اپنے اس فعل کے متعلق اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوںگے.یہ تعلیم ہے جو اسلام نے جرائم کے سلسلہ میں پیش کی ہے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ تعلیم کس قدر امن پیدا کرنے والی اور ہر قسم کے فسادات اور جھگڑوں کو دنیا سے مٹانے والی ہے.عیسائیت نے دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کی تھی کہ ـ’’شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے.‘‘ ( متی باب ۵ آیت ۳۹ ) مگر آج ساری عیسائی دنیا میں پھر کر دیکھ لو تمہیں ایک شخص بھی اس تعلیم پر عمل کرتا دکھائی نہیں دے گا.اور اگر کوئی عمل بھی کرے تو یہ تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.فتنہ وفساد کو مٹانے والی اور ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات کا سدّ باب کرنے والی وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی اور جس کے ذریعہ مجرم کی اصلاح کو ضروری قرار دیا گیا ہے.خواہ یہ اصلاح سزا کی صورت میں ہو یا عفو اور درگذر کی صورت میں.اسی مضمون کو قرآن کریم کی اس آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ.( اٰل عمران :۱۳۵) یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے غصہ کو دباتے اور لوگوں کی غلطیوں سے درگذر کرتے ہیں اور پھر اُن پر احسان بھی کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ احسان کرنےوالوں سے بڑی محبت رکھتا ہے.محسن کے معنے عربی زبان میں ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو شریعت کے تمام احکام کی پابندی کرنے والا ہو.پس وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ فرما کراللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مومن اسی وقت کظمِ غیظ کرتا اور مجرم کو معاف کرتا ہے جب عَفٰی وَ اَصْلَحَ کا حکم پورا ہوتا ہو یعنی اس کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو.اگر وہ معاف تو کرد تیا ہے

Page 476

مگر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی معافی کیا نتیجہ پیدا کر ے گی تو وہ محسن نہیں کہلا سکتا کیونکہ اُس نے شریعت کے اُن قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا جو اُس نے سزا اور عفو کے سلسلہ میں دئیے تھے.اس بارہ میں حضرت امام حسنؓ کا بھی ایک نہایت لطیف واقعہ کتابوں میں درج ہے کہا جاتا ہے کہ اُن کے ایک غلام سے ایک دفعہ کوئی اعلیٰ درجہ کا برتن گر کر ٹوٹ گیا جس پر حضرت امام حسن ؓ کے چہر ہ پر غصہ اور ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے.ا س غلام نے فوراً یہی آیت پڑھ دی اور کہا حضور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ مومن اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں.آپ نے فرمایا بہت اچھا میں نے اپنے غصہ کو دور کر دیا.اس پر اُس نے آیت کا اگلا ٹکڑا پڑھ دیا کہ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ یعنی مومن صرف غصہ کو دباتے ہی نہیں بلکہ معاف بھی کر تے ہیں.آپ نے فرمایا جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا.وہ کہنے لگا حضور آگے یہ بھی لکھا ہے کہ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.آپ نے فرمایا اچھا میں نے تمہیں آزاد کر دیا.(فتح البیان زیر آیت آل عمران ۱۳۰) پس ہر جگہ یہ کہنا کہ سزا دو.نادانی ہے جس طرح ہر جگہ یہ کہنا کہ معاف کر دو.یہ بھی نادانی ہے.شریعت نے بتا دیا ہے کہ جہاں سزا دینے کا فائدہ ہو.وہاں سزادو.اور جہاں معاف کرنے سے فائدہ ہو وہاں معاف کرو.مثلاً فوج لڑ رہی ہو تو اُس وقت کوتاہی کرنے والوں کو اگر معاف کر دیا جائے تو دوسروں کو بھی سستی کی جرأت ہو تی ہے اور اس طرح ساری فوج تباہ ہو جاتی ہے.لیکن اگر کوئی ایسا فعل ہو جس کا اثر صرف ایک شخص کی ذات تک محدود ہو اور اس کے معاف کرنے سے اس کی اصلاح کی امید ہو تو اُسے معاف کر دیا جائےگا.ایک ناول نویس نے جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کو اپنا تا ہے فرانس کا ایک قصہ بیان کیا ہے کہ فرانس کے بوربن خاندان کو جب ملک سے نکالا گیا تو وہ انگلستان چلاگیا اور لنڈن جا کر بادشاہ نے کوشش کی کہ کسی طرح ملک میں بغاوت پھیلائی جائے.اُس وقت فرانس میں جمہوریت نہیں تھی.طوائف الملوکی پائی جاتی تھی غالباً اُس وقت تک نپولین بر سرِ اقتدار نہیں آیا تھا یا اُس کے قریب زمانہ کا یہ واقعہ ہے.بادشاہ نے لنڈن سے ایک جہاز میں بعض آدمی فرانس بھیجے تا کہ وہ فرانس جا کر بغاوت پھیلائیں.جہاز کے نچلے حصہ میں ہتھیار بھی رکھے ہوئے تھے اور توپیں زنجیر کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں.ایک شخص صفائی کے لئے وہاں گیا تو اُس سے ایک زنجیر کھل گئی اور توپ جہاز کے اندر لڑھکنے لگی اور خطرہ پید ا ہو گیا کہ کہیں جہاز ٹوٹ نہ جائے.سارے لوگ جہاز کو بچانے کے لئے بھاگے.بادشاہ کا نمائندہ بھی وہاں موجود تھا.یہ حالت دیکھ کر اس شخص نے جس سے کنڈا کھلا تھا چھلانگ لگا دی اور اپنی جان کو انتہائی خطرہ میں ڈال کر کنڈا لگا نے میں کامیاب ہو گیا.اس پر بادشاہ کے نمائندہ نے

Page 477

سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا اس شخص نے بہت بڑی بہادری کا کام کیا ہے اور ایک تمغہ جو فرانس میں سب سے زیادہ عزت کا موجب سمجھا جاتا تھا لے کر کہا.میں بادشاہ کی طرف سے یہ تمغہ اس کی بہادری کے صِلہ میں اس کے سینہ پر لگاتا ہوں.اس کے بعد اُس نے کمانڈر کو حکم دیا کہ اسے لے جائو اور گو لی مار دو.اتفاقاً جہاں اُتر نا تھا وہاں سمندر میں سخت طوفان آیا ہوا تھا اور خطر ہ تھا کہ کہیں جہاز غرق نہ ہو جائے.اُس وقت جہاز کے کمانڈر نے کہا کہ اس وقت مجھے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو یقینی موت کو قبول کرلے.چنانچہ ایک ملاح آگے آیا اُس نے اسے حکم دیا کہ اس شخص کو جو بادشاہ کا نمائندہ ہے کشتی میں بٹھا کر ساحل فرانس تک پہنچا دو.طوفان زوروں پر تھا لیکن وہ ملاح کا میابی کے ساتھ ساحلِ فرانس پر پہنچ گیا وہا ں پہنچ کر ملاح نے اپنا پستول نکا ل لیا اور کہا کہ میں نے اپنی جان کو صرف اس لئے خطرہ میں ڈالا تھا کہ تم سے اپنے بھائی کا بدلہ لوں.اُس نے کہاتم نے حقیقت پر غور نہیں کیا.تمہارے بھائی نے ایک نیک کام کیا تھا اور ایک بُرا کا م کیا تھا میں نے اس کے اچھے کام کا اچھا بدلہ دیا اور فرانس کا سب سے بڑا تمغہ اُس کے سینہ پر لگایا اور اُس کے بُرے کام کے بدلہ میں اُسے گولی سےمار دینے کا حکم دیا.تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ کے مفاد کی خاطر یہاں آیا ہوں اور اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ میں ہر طرح کی احتیاط سے کام لوں اور اس کے رستہ میں حائل ہونے والی کسی چیز کی پرواہ نہ کروں.اُس نے ایک برا کام کیا تھا اور میری بادشاہ سے وفاداری کا تقاضا یہی تھا کہ میں اُسے ہلاک کر دوں.اس پر ملاح نے ہتھیار پھینک دیا اور کہا میں سمجھ گیا ہوں کہ میرا بھائی قصور وار تھا اور اپنے جرم کے بدلہ میں موت کی سزا کا ہی مستحق تھا.تو ایسے جرائم جن کا اثر دور تک پہنچتا ہو.اُن کی سزا دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ غافل نہ ہوں.لیکن بعض دفعہ عفو بھی ضروری ہوتا ہے.دیکھو یہاں تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ معاف کر دو.اور صرف معاف ہی نہ کرو بلکہ فائدہ بھی پہنچائو مگر اسی سورۃ کے شروع میں فرمایا ہے کہ زانی کو سزا دو او ر سز ا دیتے وقت تمہارے دل میں اس کے متعلق رحم کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نہ ہر جگہ عفو کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہر مقام پر سز ا دینے کی تلقین کرتا ہے بلکہ وہ موقعہ اور محل کے مطابق سزا اور عفو کے احکام جاری کرتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر نہ تو جرائم پر دلیری پیدا ہو اور نہ عفو اور درگذر سے اگر کسی کی اصلاح ممکن ہو تو اس کا موقع ضائع ہو.

Page 478

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا وہ لوگ جو کہ پاکدامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں جو( شریروں کی شرارت سے )غافل ہیں (اور) ایماندار ہیں اُن فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۲۴ پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جائےگی اور اُن کے لئے بڑا عذاب ہو گا.حلّ لُغَات.لُعِنُوا.لَعْنَہٗ لَعْنًا کے معنے ہوتے ہیں طَرَدَہٗ اُس کو دھتکار ا.وَاَبْعَدَہٗ مِنَ الْخَیْرِ اور اُس کو بھلائی سے دور کیا.وَاَخْزَاہُ اور اس کو ذلیل کیا.وَسَبَّہٗ اور اُس کو گالی دی اسی طرح اس کے ایک معنے عذاب کے بھی ہیں.( اقرب) تفسیر.یعنی شریف اور بے گناہ عورتوں پر الزام لگانےوالوں کی اصل سزا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہ سزا یہ ہوتی ہے کہ اُن پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جاتی ہے.لعنت کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے دوری کے ہوتے ہیں.پس بدکاری کا الزام لگانے والوں کو لعنتی قرار دینے سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگوں سے دنیا میں بھی شریف آدمی تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ سوسائٹی کو خراب کرنے والے ہیں اگر ہم نے ان سے تعلق رکھا تو یہ لوگ ہمارے خاندانوں کو بدنام کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن ان کو کوئی انعام نہیں دےگا بلکہ انہیں سزا کا مستحق قرار دے گا.يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ اُس دن جبکہ اُن کی زبانیں بھی اور ان کے ہاتھ بھی اور اُن کے پائوں بھی اعمال کے متعلق جو وہ کرتے تھے ان بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۲۵يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ کے خلاف گواہی دیں گے.اُس دن اللہ( تعالیٰ) اُن کو اُن کا صحیح بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ( تعالیٰ) ہی الْحَقَّ وَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ۰۰۲۶ صدقِ مجسم ہے ایسا صدق جو اپنے آپ کو آپ ظاہر کر دیتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے اُس دن کو یاد کرو جبکہ اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور اُن کے پائوں اُن کے خلاف

Page 479

گواہی دیں گے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کے مطابق اُن کو جزا دے گا اور اللہ تعالیٰ کی بات ہی آخر پوری ہو کر رہا کرتی ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ جو شخص انسانوں پر الزام لگاتا ہے وہ آخر خدا تعالیٰ پر بھی الزام لگانا شروع کر دیتا ہے.کیونکہ اس میں الزام لگانے کی عادت بڑھتی چلی جاتی ہے.فرماتا ہے ایسے لوگ جو انسانوں پر الزام لگاتے ہیں کسی دن خدا تعالیٰ پر بھی الزام لگانا شروع کر دیں گے اور قیامت کے دن اُن کے اعضاء اُن کے خلاف گواہی دیں گے اور بتائیں گے کہ دنیا میں یہ لوگ خدا تعالیٰ کے متعلق کیا کیا بد ظنیاں کرتے رہے ہیں اور انسانوں کے متعلق کیا کیا بد ظنیاں کرتے رہے ہیں.گویا اس دن مجرموں پر اُن کے اعمال کی حقیقت ظاہر کرنےکے لئے الٰہی ریکارڈنگ مشین کی سوئی اُن کی زبان پر رکھ دی جائےگی اور زبان بولنا شروع کر دے گی کہ حضور فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی.فلاں دن اس نے نبیوں کو گالی دی.فلاں دن اس نے اپنے ہمسائے کو گالی دی.فلاں دن اس نے اپنی بیوی کو گالی دی.فلاں دن اس نے حرام کا مال چکھا.اور فلاں دن اس نے یہ یہ الزام لگایا.غرض یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دےگی.پھر ہاتھوں پر سوئی رکھی جائےگی تو ہاتھ بولنا شروع کر دیں گے کہ فلاں دن اس نے فلاں کو مارا اور فلاں دن اس نے ان کا یوں مال اٹھایا.پھر پائوں بیان کرنا شروع کر دیں گے کہ فلاں رات کو فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں کا مال اٹھانے کے لئے یااس کو قتل کرنے کے لئے یا اور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے یہ شخص گیا.غرض کانوں آنکھوں اور چمڑوں کے علاوہ زبانیں بھی اور ہاتھ اور پائوں بھی اپنے اپنے حصّہ کے ریکارڈسنائیں گے.اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہتے ہیں.ـ’’ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ‘‘.جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہوں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا.اپنی زبان گواہی دے رہی ہو کہ میں نے یہ کچھ کیا تھا تو اب وہ فرشتوں کو کس طرح کہہ سکیں گے کہ یہ جھوٹ بو ل رہے ہیں.ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ یہاں دماغ کا کیوں ذکر نہیں کیا گیا.حالانکہ تمام گناہوں کی ابتداء دماغ سے ہی ہوتی ہے اور ہاتھ پائوں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پائوں کو موقعہ نہیں ملتا اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا.وہ بدی شمار نہیں کی جاتی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے.(بخاری کتاب الرقاق باب من ھمّ بحسنۃ او سیئۃ)پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ اگر تو ہاتھ

Page 480

دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی اور اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کرچکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی.اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ چوری کرو تو پیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں گھر میں چوری کرنے کے لئے گئے تھے.لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پائوں سے اُس نے عمل نہیں کروایا.تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اُس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی.کیونکہ ہاتھ پیر جو دماغ کے تابع تھے اُن کا دماغ کے حکم پر عمل نہ کرنا بتاتا ہے کہ دماغ نے اپنی رائے بدل لی تھی.پس رائے بدلنے کی وجہ سے وہ نیکی کا مرتکب ہو گا بدی کا نہیں اور چونکہ وہ نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو شر مندگی دلانے والی باتوں میں اُسے بیان نہیں کیا گیا کیونکہ ایک طرف خدا کا اُس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعث فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف تھا.اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بے شک اس کا فضیحت کی جگہ پر ذکر کر سکتا تھا.لیکن اُس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ ایسا بُرا خیال بھی نیکی تصور کیا جائےگا جس پر عمل نہ کیا گیا ہو.اور جب وہ نیکی تصور ہوگی تو اُسے فضیحت کا ذریعہ کس طرح بنایا جا سکتا تھا ؟ اس آیت پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہاتھ پائوں کس طرح گواہی دیں گے ؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہر چیز کی زبان الگ الگ ہوتی ہے جس سے اُس کی حالت ظاہر ہوتی ہے.دیکھو ہاتھ کی زبان کا تو سب لوگ مشاہدہ کرتے ہی رہتے ہیں.طبیب آتا ہے اور نبض دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ یہ یہ تکلیف ہے.مگر اس کے علاوہ اب نئی تحقیق سے یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ جس عضو کی کوئی حرکت ہو اس پر اس کا ایک نشان پڑجاتا ہے اسی طرح ہر حرکت کا ایک نشان جَو ّپر بھی پڑتا ہے جو محفوظ رہتا ہے.بے تار برقی کی ایجاد اسی اصول پر ہے کہ ایک جگہ کی حرکت کا جَوّ پر جو اثر پڑتا ہے دوسری جگہ آلہ کے ذریعہ اسے معلوم کر لیا جاتا ہے.پس اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان اعضاء کی جو حرکات ہیں اُن کے اثرات اُن پر پڑتے ہیں لیکن دنیا میں انسانی نظر ایسی تیز نہیں ہوتی کہ ان اثرات کو دیکھ سکے مگر قیامت کے دن انسانی نظر بہت تیز کر دی جائےگی جو ان نشانات کو بھی دیکھ لےگی.اور یہ ان اعضاء کی شہادت ہوگی جو اُن کے خلاف ہوگی.ہاں جو لوگ تو بہ کرکے وفات پاتے ہیں اُن کے اعضاء پر جو اثرات ہوںگے وہ مٹا دئیے جائیں گے کیونکہ تو بہ کرنے والوں کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.

Page 481

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۠ وَ الْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ١ۚ وَ الطَّيِّبٰتُ خبیث باتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث باتو ں کے لئے ہیں اور پاک باتیں پاک مردوں لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک باتوں کے لئے ہیں.یہ سب لوگ ان باتوں سے جو (دشمن) کہتے ہیں پاک ہیں.يَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِيْمٌؒ۰۰۲۷ اُن کے لئے بخشش اور معزز رزق (مقدر) ہے.تفسیر.بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں.(بحر محیط زیر آیت ھذا)لیکن یہ معنے واقعات کے بھی خلاف ہیں اور عقل کے بھی خلاف ہیں.قرآن کریم نے حضرت لوط ؑاور حضرت نوح علیہم السلام کی بیویوں کو مجرم قرار دیا ہے.تو کیا حضرت لوط ؑ اور حضرت نوح ؑ کو بھی مجرم قرار دیا جا ئےگا ؟ اصل بات یہ ہے کہ پہلی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ بری باتیں برے مردوں کے لئے ہیں اور برے مرد بری باتوں کے لئے ہیں.اور پاک باتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک باتوں کے لئے ہیں چنانچہ آیت کا آخری حصہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے جس میں فرمایا ہے کہ پاک مرد اور پاک عورتیں اُن الزاموں سے جو اُن پر لگائے جاتے ہیں پاک ہیں.اسی طرح ضمنی طور پر اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ والی آیت بھی مرد و عورت دونوں کے لئے ہے کیونکہ مضمون کے خاتمہ پر جو نتیجہ نکالا گیا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا ہے.یہ آیت درحقیقت ایک عام قانون پر مشتمل ہے اور اس میں بتلایا گیا ہے کہ الزام قبول کرنے سے پہلے ملزم کی عام حیثیت کو دیکھ لو.اگر وہ عام طور پر نیک سمجھا جاتا ہے تو بادی النظر میں الزام کو فوراً جھوٹا قرار دے دو اسی طرح یہ بھی دیکھ لو کہ الزام لگانے والے کن اخلاق کے آدمی ہیں.اور آیا وہ گواہِ عادل ہیں یا نہیں.اگر وہ راستباز نہ ہوں یا اُن کی دماغی کیفیت قابل تسلی نہ ہوتو ان کی گواہی کو کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں سمجھا جا ئےگا.تاریخ قضاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے امام ابن تیمیہ ؒ کے خلاف ایک دعویٰ کیا.قاضی نے آپ کے خلاف

Page 482

سمن جاری کر دیا.اتفاقاً آپ اُسے ملنے چلے گئے.قاضی نے اُن سے ذکر کیا کہ ایسا ایسا دعویٰ آپ کے خلاف ہوا ہے اور میں نے سمن جاری کر دیا ہے.امام ابنِ تیمیہ ؒ نے کہا کہ آپ نےقرآن وحدیث کے حکم کے خلاف کیا ہے.آپ کو سمن جاری کرنے سے پہلے معاملہ کی تحقیق کرنی چاہیے تھی کیونکہ میری شہرت اس الزام کے خلاف ہے.پس چاہیے تھا کہ آپ مدعی سے ثبوت طلب کرتے اور اگر کوئی معقول ثبوت اس کے پاس ہوتا تو پھر بے شک مجھے اپنی برأت پیش کرنے کے لئے بلاتے.قاضی نے ان کی اس دلیل کو قبول کر لیا اور ان کے سمن کو منسوخ کر دیا.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى اے مومنو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کرو جب تک کہ اجازت نہ لے لو.تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اور داخل ہونے سے پہلے اُن گھروں میں بسنے والوں کو سلام کرو.یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا اور لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۰۰۲۸فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَاۤ اَحَدًا فَلَا اس( فعل) کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم( نیک باتوں کو ہمیشہ) یاد رکھو گے.اور اگر تم اُن گھروں میں کسی کو نہ پائو تب بھی تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا اُن میں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں (گھر والوں کی طرف سے )اجازت نہ مل گئی ہو.اور اگر (کوئی گھر میں ہو اور) فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۰۰۲۹ تم سے کہا جائے کہ اس وقت چلے جائو تو تم چلے آئو یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہو گا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے.حل لغات.تَسْتَاْ نِسُوْا.اٰنَسْتُ مِنْہُ کَذَا کے معنے ہوتے ہیں عَلِمْتُ میں نے معلوم کیا اور جب اِسْتَاْنَسْتُ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے اِسْتَعْلَمْتُ.میں نے یہ کوشش کی کہ کسی بات کے متعلق علم حاصل کروں.زجاج جو لغت کے امام ہیں و ہ کہتے ہیں کہ آیت لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًاغَیْرَ بُیُوْ تِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا میں

Page 483

تَسْتَاْنِسُوْا کے معنے ہیں تَسْتَاْذِنُوْا یعنی تم کسی کے گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم اجازت حاصل نہ کرلو.وَلِذٰلِکَ جَآءَ فِی التَّفْسِیْرِ تَسْتَاْنِسُوْا فَتَعْلَمُوْا اَیُرِیْدُ اَھْلُھَا اَنْ تَدْخَلُوْا اَمْ لَا.اسی واسطے تَسْتَاْ نِسُوْا کی تشریح میں یہ آیا ہے کہ اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ تم معلوم کرو کہ کیا گھر والے یہ چاہتے ہیں کہ تم اندر آئو یا نہیں.(لسان العرب) تفسیر.قرآن کریم کا طریق ہے کہ وہ اصلاح خلق کے لئے ایسی ہدایات دیتا ہے جو بدی کی جڑ کو کاٹنے والی ہوتی ہیں.چونکہ بعض لوگ بدظنی کی طرف بہت جلد مائل ہو جاتے ہیں اس لئے اُس نے حکم دے دیا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں بغیر اجازت اور بغیر گھرو الوں کو سلام کرنے کے داخل نہ ہوا کرو.تاکہ کوئی شخص تم پر چوری یا بدکاری کی بدظنی نہ کرے.اگر تم اجازت لے لو گے یا سلام کہہ لو گے تو پھر ہر ایک شخص کو پتہ لگ جائےگا کہ گھر کے تمام مردوں اور عورتوں کو تمہارے اندر داخل ہو نے کا علم ہے اور اس صورت میں نہ تم پر کوئی چوری کا الزام لگا سکے گا اور نہ بدکاری کا.اور اگر یہ سوال ہو کہ گھر میں کوئی ہو ہی نہ.تو پھر کیا کیا جائے تو اس کا جواب یہ دیا کہ اس صورت میں گھر میں داخل ہی نہ ہو.جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے یعنی اُس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ خاندان کے مردوزن واپس نہ آجائیں تاکہ تم پر چوری کا الزام نہ لگ سکے اور گھر کے افراد کے واپس آنے کے بعد اگر اجازت مل گئی تو تم بدکاری کے الزام سے بھی محفوظ ہو جاؤ گے.پھر سوال ہو سکتا تھا کہ اگر گھر کے افراد تو موجود ہوں مگر وہ اجازت نہ دیں تو پھر کیا کریں.اس کا جواب یہ دیا کہ گھرو الے اپنے گھر کے مالک ہیں اگر وہ اجازت نہ دیںتو اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائو.انگریز اپنی زبان کے اس محاورہ پر بڑا فخر کیا کرتے ہیں کہ ـ’’ انگریز کا گھر اس کا قلعہ ہوتا ہے.‘‘ یعنی اس میں کوئی شخص بلا اجازت داخل نہیں ہو سکتا.لیکن ان میں تو یہ بات آج آئی ہے.اور قرآن نے اس وقت یہ قانون بنایا جب انگریز ابھی ننگے پھرا کرتے تھے اور بندروں سے زیادہ اُ ن کی کوئی حیثیت نہیں تھی.یہ آیات جو تمدّنی زندگی سے تعلق رکھنے والے بعض نہایت ہی لطیف احکام پر مشتمل ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کر لیا کرو.اِسْتِیْنَاس کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہےاس بات کا علم حاصل کرنے کی کوشش کے ہیں کہ آیا گھر والے ملاقات کرنا پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے ( بحرِ محیط زیر آیت ھٰذا) اسی طرح اس کے ایک معنے اجازت حاصل کرنے کے بھی ہیں.چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہی معنے مروی ہیں اور انہوں نے تَسْتَاْنِسُوْا کے معنے تَسْتَاْ ذِنُوْا یعنی

Page 484

اجازت مانگنے کے ہی کئے ہیں.(بحر محیط ) اگر اس قرآنی ہدایت پر عمل کیا جائے تو دنیا کے بہت سے فسادات اور جھگڑے مٹ جائیں بعض لوگ بڑی سادگی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ یونہی ہماری نظر پڑگئی تھی اور اس بنا پر وہ دوسرے پر اتہام لگا دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعہ اس قسم کی خرابیوں کو بھی دور کر دیا.اگر کوئی شخص کہے گا کہ جھانک کر دیکھنے سے میں نے فلاں کو اس حالت میں دیکھا تھا.تو قاضی کہےگا کہ تو جھانکا کیوں تھا ؟ تیری گواہی قابلِ قبول نہیں کیونکہ تو نے خود شریعت کے حکم کو توڑا ہے.دوسرے اس ہدایت پر عمل کرنے سے خود انسان بہت سے ایسے مواقع سے بچ جاتا ہے جن کی وجہ سے وہ اتہام کا نشانہ بن سکتا ہے.تیسرے آپس کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی.اگر دوسروں کے گھروں میں آنے جانے کے لئے اجازت کی شرط نہ ہو تو ایسی صورت میں جبکہ میاں بیوی بے تکلفی کی حالت میں بیٹھے ہوں اُن کو شرمندگی اٹھانی پڑے گی.پھر اگر اجازت لینا ضروری نہ ہوتا تو چوریوں کی وارداتیں بھی بڑھ جاتیں.ایک شخص چوری کی نیت سے اندر داخل ہو جاتا اور جب پکڑا جاتا تو کہتا میں تو ملنے آیا تھا.غرض ان احکام میں بیسیوں فوائد مخفی ہیں مگر آج کل جہاں دوسروں کے گھروں میں داخل ہو نے سے پہلے لوگ عموماً اجازت لے لینے کے عادی ہیں وہاں استیناس کرتے وقت السلام علیکم کہنے کا بہت کم رواج ہے.وہ صرف زور زور سے دستک دینا او ر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں یا باہر کھڑے کھڑے بلند آواز سے گھر والے کا نام لے کر بلانا شروع کر دیتے ہیں.حالانکہ استیناس کے ساتھ سلام کہنا بھی ضروری ہوتا ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا اور اُس نے کہا.یا رسول اللہ ! میں اندر آجائو ں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خادم کو بلایا اور اُسے فرمایا کہ جائو اور اسے اجازت حاصل کرنے کا طریق بتائو.جویہ ہے کہ پہلے السلام علیکم کہے.اور پھر دریافت کرے کہ کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے ( فتح البیا ن فی مقاصد القرآن زیر آیت ھٰذا.ابو داؤد کتاب الادب باب کیف الإستئذان ) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے سلام کہنا چاہیے اور پھر اجازت لینی چاہیے.اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ اگر ایک دفعہ جواب نہ ملے تو وقفہ وقفہ کے بعد تین دفعہ السلام علیکم کہنا چاہیے (بخاری کتاب ا لاستئذان باب التسلیم والاستئذان ثلاثا).لیکن بعض لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے اجازت لینی چاہیے اور پھر سلام کہنا چاہیے (تفسیر مظہری زیر آیت ھٰذا)کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا یعنی استیناس کا پہلے ذکر آتا ہے اور سلام کا بعد میں مگر ان کا یہ استدلال درست نہیں بیشک اس جگہ استیناس کا پہلے ذکر آتا ہے.مگر استیناس کے معنے استعلام اور استکشاف کے ہیں.یعنی اس بات کا علم

Page 485

حاصل کرنےکی کوشش کے ہیں کہ آیا گھر والے ملاقات کرنا پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے.گویا اس کے معنے اپنا تعارف کروانے کے ہیں اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ پہلے گھروالوں کی توجہ اپنی طرف پھیر لی جائے.اب سوال یہ ہے کہ گھروالوں کی توجہ کو کس طرح پھیرا جائے سو اس کے لئے ایک طریق تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دیا کہ پہلے السلام علیکم کہو اور پھر اندر آنےکی اجازت حاصل کرو.اور ایک عام طریق جو لوگوں کا اپنا ایجاد کردہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ دروازہ کو زور زور سے کھٹکھٹانا یا زنجیر ہلانا شروع کر دیتے ہیں مگر السلام علیکم نہیں کہتے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہنا ضروری قرار دیا ہے اس لئے خواہ دستک دی جائے یا زنجیر ہلائی جائے تب بھی اس حکم کے ماتحت ضروری ہو گا کہ دستک کے ساتھ السلام علیکم کہا جائے لیکن جہاں امراء کو ٹھیوں کے اندر رہتے ہوں وہاں اُن کی ملاقات کے لئے اگر تعارفی کارڈ اندر بھجوا دیا جائے یا رقعہ لکھ کر کسی خادم کے ذریعہ اپنے آنے کی اطلاع دےدی جائے تو یہ طریق بھی استیناس میں ہی شامل ہوگا کیونکہ اس ذریعہ سے وہ اپنا تعارف کروا دیتا ہے.اس کے بعد جب انسان اندر داخل ہو تو پھر تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا کے ماتحت اس کا فرض ہوگا کہ وہ دوبارہ سلام کرے.گویا ایک سلام تو استیناس کے وقت ہوگا اور ایک سلام اس وقت ہوگا جب وہ ملاقات کے لئے اندر داخل ہوگا.استیناس کی شرط علاوہ اور حکمتوں کے اس لئے بھی رکھی گئی ہے کہ بعض دفعہ ایسا آدمی ملاقات کے لئے آجاتا ہے جس سے ملنا ضروری نہیں ہوتا.پس جب وہ استیناس کے ذریعہ گھروالوں کو اپنی طرف متوجہ کرلےگا تو گھر والے دیکھ لیں گے کہ وہ کون ہے اور آیا اُس سے ملنا ضروری ہے یا غیر ضروری.اگر ضروری ہوگا تو وہ بلالیں گے اور اگر ضروری نہیں ہو گا تو اُسے جواب دے دیں گے.ٍ پھر فرماتا ہے فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ اگرگھر میں کوئی شخص موجود نہ ہو اور وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہوں تو تم ان کی واپسی کا انتظار کرو اور اُن کی اجازت کے بغیر مکان میں مت داخل ہو.وَ اِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ اور اگرتم کو کہہ دیا جائے کہ جائو ہم مل نہیں سکتے.ہمیں اس وقت فرصت نہیں تو پھر تمہارا فرض ہے کہ واپس چلے جائو.یہ نہیں کہ دھرنا مار کر بیٹھ جائو کہ ہمیں ضرور آنے کی اجازت دی جائے.صحابہ ؓ میں احکام شریعت کو پورا کرنے کی اس قدر تڑپ پائی جاتی تھی کہ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں.مجھے سالہا سال یہ خواہش رہی کہ میں کسی کے ہاں جائوں اوروہ مجھے کہے کہ واپس چلے جائو تاکہهُوَ اَزْكٰى لَكُمْ کے ماتحت میں ثواب حاصل کر سکوں مگر مجھے کبھی ایسا موقعہ نہیں ملا ( فتح البیان زیر آیت ھٰذا ) اس سے صحابہ ؓ کی اُس محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تھی.ایک شخص سالہا سال اس موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے کہ مجھے کبھی یہ سُننے کا موقعہ

Page 486

ملے کہ واپس چلے جائو مگر ایک صحابی ؓ بھی یہ جواب نہیں دیتا.اور دوسری طرف اس صحابی ؓ میں بھی کس قدر اخلاص تھا کہ سالہا سال اُس نے ایسا موقعہ تلاش کرنے میں لگا دئیے.لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ تمہارے لئے اُن گھروں میں داخل ہونا گناہ کا موجب نہیں جن میں کوئی رہتا نہیں اور تمہارا سامان اُس میں پڑا ہے فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ۰۰۳۰ اور اللہ( تعالیٰ) اُسے بھی جانتا ہے جسے تم ظاہر کرتے ہو اور اُسے بھی جسے تم چھپاتے ہو.تفسیر.اس آیت میں ایک نئی حالت کا ذکر کیا کہ اگر کوئی گھر ہو تو کسی غیر کا لیکن اس میں کوئی خاندان رہتا نہ ہو بلکہ تم نے اپنا زائد سامان رکھنے کے لئے اُسے کرایہ پر لیا ہوا ہو یا مانگا ہوا ہو.تو اُس کے متعلق یہ قانون ہے کہ اُس میں بغیر اجازت کے داخل ہونا تمہارے لئے جائز ہے کیونکہ اگر وہ مکان تم نے کرایہ پر لیا ہوا ہے تو عملاً وہ تمہارا ہی ہے اور اگر مانگا ہوا ہے تو پھر بھی مالک کی اجازت سے وہ مکان تمہارا ہی سمجھا جائےگا.وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ میں پہلے حکم کے نتیجہ میں جو وساوس پیدا ہو سکتے تھے اُن کا رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ اگر تمہارے دل میں یہ خیال گذرے کہ ایسی قیدوں سے تو تمدن خراب ہو جائےگا.تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ وساوس درست نہیں.یہ قیدیں تمہاری بھلائی کے لئے ہیں تم کو تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں.صرف اس لئے ہیں کہ تم ہوشیار ہو جائو اور پہلے سے احتیاطیں اختیار کرلو تاکہ نقصان اٹھانے سے محفوظ ہو جائو.قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا تو مومنوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا یہ اُن کے لئے بہت پاکیزگی کا موجب ہوگا.جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ (تعالیٰ) اُس سے اچھی طرح خبردار ہے

Page 487

يَصْنَعُوْنَ۰۰۳۱وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں.اَبْصَارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو.اور اپنی اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ١۪ وَ اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گذار کر اس کو ڈھانک کر پہنا کریں.اور اپنی زینتوں کو صرف اپنے خاوندوں لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی (ہم کفو) عورتوں یا جن کے مالک اُن کے داہنے ہاتھ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ ہوئے ہیںان کے سوا کسی پر ظاہر نہ کیا کریں.یا ایسے ماتحت مردوں پر جو ابھی جوان نہیں ہو ئے.نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي یا ایسے بچوں پر جن کو ابھی عورتوں کے خاص تعلقات کا علم حاصل نہیں ہوا.الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى اور اپنے پائوں ( زور سے زمین پر ) اس لئے نہ مارا کریں عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا کہ وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کو وہ اپنی زینت سے چھپا رہی ہیں

Page 488

يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ اور اے مومنو ! سب کے سب اللہ کی طرف رجوع کرو.الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۰۰۳۲ تا کہ تم کامیاب ہو جائو.حلّ لُغَات.یَغُضُّوْا.یغضُّوا غَضَّ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور غَضَّ بَصَرَہٗ کے معنے ہیں مَنَعَہ‘ مِمَّا لَا یَحِلُّ لَہٗ رُوْیَتُہٗ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز سے روکاجس کا دیکھنا اس کے لئے ممنوع تھا.( اقرب) خُمُر.خُمُرٌ خِمَارٌ کی جمع ہے اور اَلْخِمَارُ کے معنے ہیں ھُوَ مَا تُغَطِّیْ بِہِ الْمَرْأۃُ رَاْسَھَا.وہ کپڑا جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے.( اقرب) جُیُوْ بِھنَّ.اَ لْجُیُوْبُ اَلْجَیْبُ کی جمع ہے او ر اَلْجَیْبُ کے معنے ہیں اَلْقَلْبُ وَالصَّدْرُ.سینہ (اقرب) اَلْاِرْبَۃُ.اَ لْإِرْبُ: اَلْحَاجَۃُ یعنی اربۃ کے معنے عربی زبان میں حاجت کے ہوتے ہیں.(اقرب )پس غَیْرُ اُولِی الْاِرْبَۃِ کے معنے ہوںگے جن کو کوئی حاجت اور ضرورت نہ ہو.تفسیر.یہاں بدی سے بچنے کا ایک اور طریق بتا یا.اور وہ یہ کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں.کیونکہ اس سے بدی کا امکان بہت کم ہو جائےگا اور برائی پھیلنے کا راستہ مسدود ہو جائے گا.گویا باوجود پردہ کے حکم کے جو الٰہی آیات میں بیان کیا گیا ہے.پھر بھی بعض مواقع ایسے نکل سکتے ہیں جبکہ مرد و عورت اکٹھے ہوں ایسی صورت میں یہ حکم دیا کہ مرد و عورت دونوں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں تا کہ شیطان اُن پر حملہ آور نہ ہو اور ان کے دلوں کی پاکیزگی قائم رہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح ؑنے بھی انجیل میں غیرعورتوں پر نگاہ ڈالنے سے روکا ہے اور اسلام نے بھی اس کی ممانعت کی ہے.مگرحضرت مسیح ؑ نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ’’ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا.‘‘ ( متی باب ۵ آیت ۲۸)

Page 489

لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ تو کسی غیر عورت کے چہرہ پر نگاہ نہ ڈال.نہ اچھی نظر سے اور نہ بری نظر سے کیونکہ اگر تو نے دیکھا تو ہو سکتا ہے کہ شیطان تجھے ورغلائے اور تیرے دل میں بدی کا بیج بو دے.پھر اسلام اگر ایک طرف مردوں کو غضِ بصر کی ہدایت دیتا ہے تو ساتھ ہی عورتوں کو بھی اس کی تاکید کرتا ہے.مگر عیسائیت صرف مردوں کو اس تعلیم کا پابند قرار دیتی ہے اور وہ بھی اس شکل میں کہ وہ غیر محرم عورت کو تو کھلے بندوں دیکھنے کی اجازت دیتی ہے مگر اتنی احتیاط رکھنے کی ہدایت دیتی ہے کہ بری نگاہ سے نہ دیکھو.مگر یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎ درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردۂ بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش دریا کے وسط میں قید کر دینا او ر پھر کہنا کہ دیکھنا تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوں عقل کے بالکل خلاف ہے.اسی طرح یہ کہنا کہ عورتوں کو تو دیکھو مگر بری نیت سے نہ دیکھو ایسی بات ہے جو کسی صورت میں بھی قابلِ عمل نہیں کہلا سکتی.کیونکہ بدی کی جڑ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط ہی ہے.اگر اس جڑ کو قائم رکھا جائے تو بدی کے رُکنے کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا.پس عیسائیت ایک ایسی تعلیم پیش کرتی ہے جو ناقابلِ عمل ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ مردوں کو چاہیے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھیں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ غیر محرم مردوں کو نہ دیکھیں اور اس طرح اپنے ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کریں.مگر بعض لوگوں نے جو حقیقت پر غور کرنے کے عادی نہیں غلطی سے اس حکم سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر محرم عورت کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا اسلامی احکام کی رُو سے جائز نہیں.حالانکہ یہ درست نہیں اگر شریعت اسلامیہ کا یہی منشا ہوتا کہ عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہ ڈالی جائے تو عورتوں کو چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت ہی نہ ہوتی اور مکان بھی بند دریچوں کے بنائے جاتے.جس قسم کے ظالم بادشاہ پرانے زمانہ میں قید خانے بنایا کرتے تھے حالانکہ عورت بھی اسی قسم کی انسان ہے جس قسم کا کہ مرد ہے اور اُس کی طبعی ضروریات بھی مرد ہی کی طرح ہیں اور خدا تعالیٰ کا طبعی قانون بھی دونوں پر یکساں اثر کر رہا ہے.اور وہ قانون صحت کی درستی اور جسم کی مضبوطی کے لئے اس امر کا مقتضی ہے کہ انسان کھلی ہو ا میں پھرے اور محدود دائرہ میں بند ہونے کا خیال اس کے اعصاب میں کمزوری پیدا نہ کرے اور جبکہ شریعت عورت کو باہر پھرنے کی اجازت دیتی ہے تو لازماً جب وہ باہر نکلے گی اس کی نظر مردوں کے جسم کے بہت سے حصوں پر اُسی طرح پڑے گی جس طرح عورت کے بعض حصوں پر مرد کی پڑتی ہے.خواہ وہ کپڑوں کے

Page 490

نیچے چھپے ہوئے ہوں.اور یہ چیز ممنوع نہیں اصل چیز جو پردہ کی جان ہے اور جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے وہ دونوں کی نظر کو ملنے سے بچانا ہے اور جسم کا وہ حصہ جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے آنکھیں ملنے سے رہ ہی نہیں سکتیں.یا اس امر کی احتیاط نہایت مشکل ہو جاتی ہے وہ چہرہ ہی ہے.بقیہ جسم کو جبکہ وہ مناسب کپڑوں سے ڈھکا ہوا ہو نہ چھپانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے چھپایا جا سکتا ہے جب تک کہ عورتیں بازاروں اور گلیوں میں پھرنا نہ چھوڑ دیں.یا قناتیں تان کر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر نہ کریں.اوریہ ناممکن امر ہے.امراء کی عورتیں تو پھر بھی اپنے مکانوں کی وسیع چاردیواری میں پھر سکتی ہیں مگر غرباء اور اوسط طبقہ کی عورتیں کس طرح گذارہ کریں.مگر امراء کی عورتوں کو بھی میل ملاقات کے لئے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف جانا پڑتا ہے اور ان کی نظر بھی لازماً گلیوں اور سڑکوں پر پھرنے والے اور بر آمدوں اورا سٹیشنوں اور گاڑیوں پر بیٹھنے والے لوگوں کے بعض حصہ جسم پر پڑےگی اور مردوں کی نظر ان کے جسم کے بعض حصوں پر پڑےگی سو ائے اس صورت کے کہ گھر سے نکلتے ہی عورتوں اور مردوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ ہی نہ سکیں.مگر کوئی عقلمند اس کو جائز قرار نہیں دے سکتا.پس غضِ بصر کے حکم کا یہ منشا ء نہیں کہ عورت کے لئے مرد کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا منع ہے یا مرد عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہیں ڈال سکتا بلکہ صرف دونوں کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اُس کے پائوں او ر اُس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی اور کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی.اسی طرح مرد کے جسم کے کئی حصے عورتوں کو نظر آئیں گے اور یہ چیز ایسی ہے جس پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی.لیکن عورت کا بلا حجاب مرد کے سامنے آنا اور اس کے ساتھ بے تکلف ہونا چونکہ انسان کے حیوانی تقاضوں کو جوش دلاتا اور اسے جذبات کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے.اس لئے شریعت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے اور عورت کو پردہ کا حکم دےد یا ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کا یہ طریق نہیں ہے کہ وہ عورتوں کو الگ مخاطب کر کے ان کو وہی حکم دے جو مردوں کو دیا گیا ہو بلکہ جو حکم مردوں کے لئے ہو اُس میں عورتیں بھی شامل ہو تی ہیں مگر یہاں پہلے مومن مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اس طرح اپنے فروج کی حفاظت کریں.اور پھرقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ کہہ کر مومن عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس معاملہ میں پیشہ کے طور پر عورتوں میں ہی یہ برائی پائی جاتی ہے اس لئے ضروری تھا کہ عورتوں کو الگ بھی مخاطب کیا جا تا اور اُن کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا جاتا.لیکن اس کے علاوہ علم النفس کے ماتحت مرد و

Page 491

عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء ہمیشہ دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پر اثر پڑ جاتا ہے.اس لئے یہ حکم تبھی مفید ہو سکتا تھا جبکہ دونوں کو دیا جاتا اور دونوں کو اس امر کا پابند کر دیا جاتا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھیں.نہ مرد عورتوں کی طرف دیکھیں اور نہ عورتیں مردوں کی طرف دیکھیں.وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا پھر فرماتا ہے.اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہن کر لوگوں کو دکھاتی نہ پھرو.ہاں جو چیز خود بخود ظاہر ہو جائے.اس کے ظاہر ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں.مَا ظَھَرَ مِنْھَا کے متعلق مفسرین میں اختلاف پیدا ہوا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے.بعض نے کہا ہے کہ اس سے کپڑے مراد ہیں.بعض نے کہا ہے کہ ایسے زیورات مراد ہیں جو عورتوں کے ہاتھوں اور پائوں میں ہوتے ہیں.جیسے انگوٹھی اور کڑے اور پازیب وغیرہ.بعض نے کہا ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں.بعض نے کہا ہے کہ اوپر کا برقعہ یا چادر مراد ہے.بعض نے اس کے ہاتھوں کی مہندی مراد لی ہے (فتح البیان زیر آیت ھٰذا)لیکن قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو.یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے.یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو.میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیز یں دو۲ ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں.چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے.اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہو تو طبیب مونہہ بھی دیکھے گا.اگر اندرونی بیماری ہو تو زبان دیکھے گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی لاتی تھیں اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں.اُس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہو نا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا.جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کا م کرتیں اور دوڑنے کی وجہ سے پنڈلیاں خود بخود ننگی ہو جاتی تھیں (بخاری کتاب المغازی باب اذا ھمت طائفتان...)کیونکہ اس وقت پاجامے کا نہیں بلکہ تہ بند کا رواج تھا.اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لےکر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہو گا.اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائےگا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں.اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پر

Page 492

دے کے حکم میں ہی شامل ہے.اسی طرح جن عورتوں کو پانی میں کام کرنا پڑتا ہو اُن کے لئے یہ بھی جائز ہوگا کہ وہ پاجامہ اڑس لیں اور اُن کی پنڈلی ننگی ہو جائے لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس پر اجازت کا اطلاق نہ ہوگا.غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جا سکتا ہے.مثلاً ایک زمیندار عورت مونہہ پر نقاب ڈال کر گوڈی وغیرہ یا زمینداری سے تعلق رکھنے والے دوسرے کام نہیں کر سکتی اس کے لئے جائز ہوگا کہ ہاتھ اور آنکھوں سے لےکر ناک تک کا حصہ ننگا رکھے تاکہ کام کر سکے لیکن جن عورتوں کو اس قسم کے کام نہ کرنے پڑتے ہوں بلکہ انہوں نے صرف سیر وغیرہ کے لئے باہر نکلنا ہو.اُن کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے منہ کو ڈھانکیں.غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے یہ معنے ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپا یا نہ جاسکے خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو.جیسے قد کہ یہ بھی ایک زینت ہے مگر اس کو چھپانا ناممکن ہے اس لئے اس کو ظاہر کرنے سے شریعت نہیں روکتی.یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو یہا ں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے متعلق تجویز کرے کہ وہ مونہہ نہ ڈھانپے اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائےگی اور اِدھر اُدھر چلنے پھرنے کے لئے کہے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ ننگا کرکے چلتی ہے تو بھی جائز ہے بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہواور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائےگی تو اس کی جان خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہوگا.بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مر جائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی گنہگار سمجھی جائےگی جیسے اُس نے خود کشی کی ہے.پھر یہ مجبوری کا م کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی میں نے مثال دی ہے کہ اُن کے گذارے ہی نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ کاروبار میں اپنے مردوں کی امداد نہ کریں.یہ تمام چیزیں اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا میں ہی شامل ہیں.پھر فرماتا ہے.وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کو کھینچ کر اپنے گر یبانوں تک لے آئیں.خمار کسی چادر یا دو پٹے کا نام نہیں ہے بلکہ اُس رومال کا نام ہے جو کام کرتے وقت عورتیں اپنے سر پر باندھ لیا کرتی ہیں.اور جیب عربی زبان میںقمیض کے چاک کو کہتے ہیں.جیسے ہمارے ہاں گریبان کہتے ہیں.(اقرب) یہ گریبان مختلف طریق سے بنا یا جاتا ہے.بعض لوگوں میں پیچھے کی طرف ہوتا ہے بعض میں دائیں کندھے کی طرف ہوتا ہے.بعض میں بائیں کندھے کی طرف ہوتا ہے.بعض میں اگلی طرف ہوتا ہے.بعض میں دائیں بائیں دونوں

Page 493

طرف ہوتا ہے.عربوں میں چاک کا رواج سامنے یعنی سینہ کی طرف تھا.اور عرب کی عورتوں میں رواج تھا کہ وہ پیٹھ اور کندھے پر کپڑا ڈال لیتیں اور سینہ ننگا رکھتیں جس طرح آجکل یوروپین عورتیں کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ چاہیے کہ وہ اپنے خُمر کو جیوب پر ڈال لیں.اور چونکہ اُن کے جیوب اگلی طرف ہوتے تھے اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ سر پر سے کپڑے کو کھینچ کر نیچے جیوب تک لے آئیں.یعنی گھونگھٹ نکال لیں یہ معنے نہیں کہ دو پٹے کی آنچل کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں.کیونکہ خمار کی آنچل نہیں ہوتی وہ چھوٹا ہوتا ہے.اس کے معنے یہی ہیں کہ سر سے رومال کو اتنا نیچا کرو کہ وہ سینہ تک آجائے اور سامنے سے آنے والے آدمی کو منہ نہ نظر آئے.یہ ہدایت بتارہی ہے کہ عورت کا مونہہ پر دہ میں شامل ہے مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے لئے منہ کا پردہ نہیں حالانکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کے کیا معنے سمجھے اور پھر صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ نے اس پر کس طرح عمل کیا ؟ اس غرض کے لئے جب احادیث او ر اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت منہ پردہ میں شامل تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رشتہ کے سلسلہ میں ایک صحابیہ ؓ اُمِّ سلیم ؓ کو بھیجا تھا کہ وہ جا کر دیکھ آئے کہ لڑکی کیسی ہے.( مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالکؓ)اگر اُس وقت چہرہ کو چھپا یا نہ جاتا تھا تو ایک عورت کو بھیج کر لڑکی کا رنگ وغیرہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نوجوان نے اپنے رشتہ کے لئے ایک جگہ پسند کی اور اُس نے لڑکی کے باپ سے درخواست کی کہ مجھے اور تو سب باتیں پسند ہیں.میں صرف اتنا چاہتا ہوںکہ آپ مجھے ایک دفعہ لڑکی دیکھنے کی اجازت دےدیں تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے.چونکہ اس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا.اس لئے لڑکی کے باپ نے اس کو اپنی ہتک سمجھا.اور خفا ہو گیا.وہ نوجوان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اُ س نے یہ تمام واقعہ بیان کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک پردہ کا حکم نازل ہو چکا ہے مگر یہ غیر عورت کے لئے ہے جس لڑکی سے انسان شادی کرنا چاہے اور لڑکی کے ماں باپ بھی رشتہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو اُسے شادی سے پہلے اگر لڑکا دیکھنا چاہے تو ایک دفعہ دیکھ سکتا ہے.تم جائو اور لڑکی کے باپ کو میری یہ بات بتا دو.وہ گیا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام اُسے پہنچا دیا.مگر معلوم ہوتا ہے اُس کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا.اُس نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ میں ایسا بے غیرت نہیں کہ تمہیں اپنی لڑکی دکھا دوں.لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ تمام باتیں سن رہی تھی جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر بھی اپنی لڑکی کی شکل دکھانے سے انکار کر دیا.تو وہ لڑکی فوراً اپنا منہ ننگا کر کے باہر آگئی اور اُس نے کہا جب رسول کریم

Page 494

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مونہہ دیکھ لو تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف چلے میں اب تمہارے سامنے کھڑی ہوں تم بے شک مجھے دیکھ لو.( ابن ماجہ کتاب النکاح باب النظر الی المرأۃ اذا اراد ان یتزوجھا و مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک)اگر وہ لڑکی کھلے منہ پھر اکرتی تو اُس نوجوان کو لڑکی کے باپ سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے اپنی لڑکی دکھا دیں.اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں اجازت حاصل کرنے کا کیا مطلب تھا ؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہ ؓ تھا شام کے وقت گلی میں سے گذر رہے تھے کہ آپ ؐ نے دیکھا کہ ایک آدمی سامنے سے آرہا ہے.آپ ؐ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ اس کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اورعورت ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب اُلٹ دیا اور فرمایا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ؓ ہے ( بخاری کتاب الاعتکاف باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجدو مسند احمد بن حنبل مسند صفیۃ ام المومنینؓ) اگر مونہہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کے خطرہ کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا تھا.اسی طرح حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ جمل میں فوج کو لڑا رہی تھیں اور اُن کی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گِرا دیا گیا.تو ایک خبیث الطبع خارجی نے اُن کے ہودج کا پردہ اُٹھا کر کہا کہ اوہو ! یہ تو سُرخ و سفید رنگ کی عورت ہے(طبری سنۃ ۳۶ شدۃ القتال یوم الجمل و خبرا عین بن ضبیۃ واطلاعہ فی الھودج).اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہو تا تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں تو اس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کے لئے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں اُن سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپائو.اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے.اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے.جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے.بیشک ہم اس حدتک قائل ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے.مثلاًباریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے.مگر چہرہ کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا.پھر فرماتا ہے وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّالخ اس قسم کی زینت سوائے اپنے خاندوں یا باپ دادوں کے یا اپنے خاوندوں کے باپ دادوں کے یا اپنے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے طور طریق

Page 495

والی عورتوں کے یا جو اُن کے غلام ہیں اور کسی پر ظاہر نہ کریں.یا سوائے ایسے نوکروں کے جو شہوت کی عمر سے باہر ہیں یعنی بہت بوڑھے ہیں یا سوائے ایسے بچوں کے جن میں ابھی احساسِ شہوت پیدا نہیں ہوا.اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض عورتوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہوتا ہے.ہر ملک میں یہ رواج ہے اور ہمارے ملک میں بھی تھا گو اب کم ہو گیا ہے کہ بد چلن لوگوں نے آوارہ عورتیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں جو گھروں میں جا کر آہستہ آہستہ عورتوں کو ورغلاتی اور انہیں نکال کر لے جاتی ہیں.اس قسم کی عورتوں کو روکنے کے لئے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر عورت کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے بلکہ وہی عورتیں آئیں جن کے متعلق اس قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو.اور اُن کے حالات سے پوری واقفیت ہو.اگر کوئی شخص تاریخ کا مطالعہ کرے تو اُسے معلوم ہو گا کہ سپین اور ہندوستان میں عورتوں کی وجہ سے ہی تباہی آئی ہے.سپین کے عیسائیوں نے جب مسلمانوں میں اپنی عورتیں پھیلائیں اور اُن سے طرح طرح کے گندے کام لئے اور انہیں اپنے مذہب کے پھیلانے کا ایک ذریعہ بنایا اور بہت سی مسلمان عورتوں کے خیالات کو بد ل دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مسلمانوں کی نسلوں میں عیسائیت کے خلاف کوئی جوش نہ رہا اور وہ اُن سے اس قدر مل جل گئے کہ عیسائیوں کو اُن پر اقتدار حاصل ہو گیا.دوسری طرف عیسائیوں نے اپنی عورتوں کے ذریعے مسلمانوں میں عیاشی اور آرام طلبی کی عادت ڈال دی جس سے اُن میں نہ غیرت اسلامی رہی اور نہ لڑنے کی طاقت رہی(اخبار الاندلس ہشام الثانی).آخر یہاں تک نو بت پہنچی کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ملک پر قبضہ جمانا شروع کیا اور وہ بڑھتے بڑھتے غرناطہ کی دیواروں تک آپہنچے مگر مسلمان پھر بھی بیدار نہ ہوئے اور وہ اپنے عیش میں ا س طرح مست رہے کہ گویا شہر کے باہر فوج نہیں بلکہ برات پڑی ہے.آخر انہوں نے اپنا وطن ترک کرنے کی ٹھانی اور افریقہ جانا چاہا مگر عیسائی انہیں کب واپس جانے دیتے تھے.انہوں نے وہ جہاز ڈبو دئیے جن میں خود عیسائی بادشاہ کی اجازت سے مسلمانوں نے اسلامی لٹریچر کی کتابیں بھری تھیں اور اس طرح سپین سے اسلام او ر مسلمانوں کا نام تک مٹا دیا.اسی طرح ہندوستان میں بھی عیسائی مِسوں نے مسلمانوں کے گھر وں میں جا جا کر کئی عورتوں کو عیسائی بنا لیا تھا لیکن افسوس ہے کہ مسلمان اب بھی ایسے پادریوں کے سکولوں میں اپنی لڑکیاں داخل کرتے ہیں جہاں پڑھانے والی عیسائی عورتیں ہوتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکیاں خود مذہب سے بیزار ہو جاتی ہیں اور اسلام پر ہنسی اُڑاتی ہیں.اِلَّا ماشاء اللہ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتوں کے متعلق بھی پہلے تحقیق کر لیا کرو کہ اُن کا چال چلن کیسا ہے.اور جب تمہیں اطمینان ہو جائے تو پھر انہیں گھر میں آنے کی اجازت دو.اور یہی نِسَآىِٕهِنَّ َّ سے مراد ہے یعنی وہ عورتیں جو تمہارے

Page 496

گھروں میں آئیں ایسی دیکھی بھالی ہوں کہ گویا تمہاری اپنی ہی عزیز ہیں.پھر فرماتا ہے.اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ.عورتوں کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنی لونڈیوں کے سامنے اظہارِ زینت کر لیا کریں.کیونکہ لونڈیاں بھی گھر کے افراد کی طرح ہی سمجھی جاتی ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں جیسا کہ بعض مفسرین نے غلطی سے سمجھا ہے کہ عورتوں کو اپنے غلاموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں(قرطبی زیر آیت ھٰذا) کیونکہ غلام صرف ایسی صور ت میں پکڑنے جائز ہوتے ہیں جب دشمن قوم سے خونریز جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر لڑی گئی ہو.اور جب ایسی دشمن قوم کے بر سرِ جنگ افراد کو سزا کے طور پر پکڑا گیا ہو تو یہ سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ اُن سے اپنی عورتوں کا پردہ ہٹا یا جائے یا نہ ہٹایا جائے.جب شریعت اپنی قوم کے شریف مردوں سے بھی عورتوں کو پردہ کرنےکا حکم دیتی ہے تو ایک دشمن قوم کے افراد سے پردہ اُتارنے کا خیال کسی ایسے شخص کے دماغ میں ہی آسکتا ہے جو عقل اور فہم سے عاری ہو چکا ہو.پس اس جگہ غلاموں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈیوں کا ذکر ہے اور وہ بھی ایسی لونڈیوں کا جن پر انہیں پوری طرح اعتماد ہو.جس طرح نِسَآىِٕهِنَّ میں ہر قسم کی آوارہ گر د اور اخلاق باختہ عورتیں شامل نہیں بلکہ صرف ایسی ہی عورتیں شامل ہیں جو ہر طرح اعتماد کے قابل ہوں.اور جن کی شرافت او ر وفاداری بالکل بے داغ ہو.غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ.بعض نے اس آیت کے معنوں میں مخنث کو بھی شامل کیا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث سے پردہ کا حکم دیا ہے.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ اپنی بیویوں سے فرمایا کہ اگر مخنث آئے تو اُس سے بھی پردہ کرو.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کرتے ہیں اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہوتے ہیں.( ابو داؤد کتاب اللباس باب قولہ تعالیٰ غیر اولی الاربۃ و ابن ماجہ کتاب النکاح باب فی المخنثین و مسند احمد بن حنبل مسند ام سلیمؓ) اس سے معلوم ہو اکہ یہاںغَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ سے مخنث مراد نہیں بلکہ ایسے ملازم مراد ہیں جو بوڑھے ہوں اور احساسِ شہوت سے اس قدر عاری ہو چکے ہوں کہ انہیں بدی کا کوئی خیال بھی نہ آسکے.مخنث چونکہ جوان بھی ہو سکتے ہیں اور بوجہ ایک عارضی ذریعہ سے نامرد بنا دینے کے اُن کی شہوت اور اُن کا غصہ تیز ہو جاتا ہے اس لئے اُن کو اس میں شامل نہیں کیا جا سکتا.علاوہ ازیں چونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ انسانی شکل کو بگاڑنا شیطان کا کام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ شیطان نے کہا وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ.( النساء :۱۲۰) یعنی میرے کہنے پر لوگ خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں میں بھی تبدیلی کر دیا کر یں گے.اس لئے مخنث بنانا اسلام میں

Page 497

جائز ہی نہیں ہو سکتا.اور جو چیز جائز ہی نہ ہو اس کے لئے احکام کس طرح بتا ئے جا سکتے ہیں.پس یا تو ان الفاظ سے بوڑھے نوکر مراد ہیں یا پاگل اور نیم عقل رشتہ دار جو احساسِ شہوت سے عاری ہوں یا ایسے بچے جن میں ابھی احساسِ شہوت پید انہ ہو ا ہو.اور مردو عورت کے تعلقات سے ناواقف ہوں.وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ.فرماتا ہے زیورات چاہے پوشیدہ ہوں عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح پیر نہ مارا کریں کہ اُن کی چھنکار لوگوں کو سُنائی دے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مالدار عورتیں ہیں اور اُن سے تعلق پیدا کرنا ان کے لئے مفید ہو گا.اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ناچ وغیرہ کو شریعت نے ناجائز رکھا ہے کیونکہ اس سے بے حیائی پیدا ہوتی ہے.یہ احکام ایسے باحکمت ہیں کہ اگر کوئی شخص تعصب کے بغیر ان پر غور کرے تو ان احکام کی خوبی کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ان سے بہت سی بدیوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں پردہ کے متعلق ایسے تشدد سے کام لیا جاتا تھا کہ وہ ڈولیوں کو بھی پردوں میں سے گذارتے تھے.چنانچہ میں نے خود دیکھا کہ عورتوں کو ڈولی میں لاتے اور پھر ڈولی کے اردگرد پردہ تان کر انہیں گاڑی میں سوار کراتے.اور بعض قوموں میں اس سے بھی بڑھ کر یہ پردہ ہوتا تھا کہ وہ کہتے تھے عورت ڈولی میں آئے تو پھر اس کا جنازہ ہی گھر سے نکلے.مگر یہ لوگوں کے خود ساختہ پردے ہیں جو صریح ظلم ہیں اور اُن کا اثر عورتوں کی صحت اور اُن کے اخلاق اور ان کے علم اور اُن کے دین پر بہت ہی گندا پڑا ہے.قرآن اور حدیث سے اس قسم کے کسی پردے کا پتہ نہیں چلتا بلکہ قرآن کریم سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو با ہر نکلنے کی اجازت ہے.اگر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی تو غضِ بصر کے حکم کی بھی ضرورت نہ ہوتی.پھر تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود آپ ؐ کی بیویاں اور آپ ؐ کی بیٹیاں باہر نکلتی تھیں اُن کا جنگوں پر جانا.کھیتوں وغیرہ پر کام کرنے کے لئے جانا حاجاتِ بشریہ پورا کرنے کے لئے جانا.علم سیکھنے اور سکھانے کے لئے جانا یہ نہایت ہی کثرت کے ساتھ ثابت ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تاریخ سے بھی اس کے ثبوت مل سکتے ہیں پس اسلام ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں.اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں.بلکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ سننے آتی تھیں.جنگوں میں شامل ہوتی تھیں.زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں.سواری کرتی تھیں.مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں

Page 498

(بخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان و باب حدیث الافک و کتاب الوضوء باب خروج النساء الی البراز و کتاب الصوم باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ و السیرة الحلبیة باب ذکر مغازیہ غزوة احد).بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی(البدایة والنھایة ابتداء وقعة الجمل).غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا اُن کو حکم تھا کہ اپنے سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں اُن کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں.اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیںتو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں.یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہو اہے.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ آپ امن کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ سے ہمیشہ دوستانہ مقابلے کروایا کرتے تھے.جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے.ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے.(بخاری کتاب العیدین باب الحراب و الدرق یوم العید)اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنونِ حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے تاکہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکے.اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر اُس کا خون خشک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے.ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی صرف عورت کی بزدلی اور مرد کی بے جا محبت کی وجہ سے ہوئی.غدر کے زمانہ میں انگریزوں کے ہمدردوں نے جب دیکھا کہ مغلیہ افواج نے ایک ایسے مقام پر توپیں رکھ دی ہیں جہاں سے انگریز ی فوجوں پر زد پڑتی ہے تو انہوں نے زینت محل کو جو بادشاہ کی چہیتی بیوی تھی مگر در پردہ انگریز وں سے ساز باز رکھتی تھی اور چاہتی تھی کہ میرا بیٹا تخت نشین ہو جائے کہلا بھیجا کہ اگر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہو تو یہاں سے تو پیں اٹھوا دو.چنانچہ زینت محل نے بیماری کا بہانہ بنا کر بادشا ہ سے کہا کہ میرا تو دل گھٹتا ہے اور میں بیہوش ہو جائوں گی اس لئے یا تو یہاں سے توپیں اٹھوا دو.یا پہلے مجھے مار دو.بادشاہ نے اس کے کہنے پر وہاں سے تو پیں ہٹا دیں مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی اور شاہی خاندان او ر دلی کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا (The Great Mutiny India 1857 pg.278& 314).اب اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو بادشاہ پر زینت محل کے اس بہانہ کاا سی وجہ سے اثر ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ یہ تو پوں کی آوازیں سُننے کی عادی نہیں اگر اس

Page 499

کے سامنے پہلے بھی توپیں چلتی رہتیں اور وہ فنونِ جنگ کو دیکھنے کی عادی ہوتی تو وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتی تھی.بادشاہ کہہ سکتا تھا کہ جب پہلے بھی تم ان کی آوازیں سنتی رہی تو آج کس طرح بے ہوش ہو سکتی ہو.اسی طرح اگر بادشاہ خود فنونِ جنگ کا ماہر ہوتا اور اُس کی عمر اس قسم کے کاموں میں بسر ہوئی ہوتی اور وہ جنگ اور اس کے نتائج سے آگاہ ہوتا تو وہ ایک عورت کی بات کو کیوں مانتا.مگر خود جنگی فنون سے ناواقف ہو نے اور پھر عورتوں کو فنونِ حرب سے الگ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ زینت محل نے بادشاہ کو دھوکا دے دیا.لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوئی جنگی منظر دیکھ کر یہ ہر گز نہیں کہہ سکتی تھیں کہ میرا دل گھٹتا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگی فنون دکھائے اور پھر جنگ میں ہمیشہ کسی نہ کسی بیوی کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ ان کے اندر بھی جرأت اور بہادری پیدا ہو.پس اسلامی تعلیم کے ماتحت پردے کے قواعد کو مدّنظر رکھتے ہوئے عورت ہر قسم کے کاموں میں مردوں کے شریک حال ہو سکتی ہے.وہ مردوں سے پڑھ سکتی ہے اُن کا لیکچر سن سکتی ہے اور اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریر کر نی پڑے جو مرد نہیں کر سکتا تو عورت تقریر بھی کر سکتی ہے.مجالسِ وعظ اور لیکچروں میں مردوں سے الگ ہو کر بیٹھ سکتی ہے.ضرورت کے موقعہ پر اپنی رائے بیان کر سکتی ہے اور بحث کر سکتی ہے کیونکہ ایسے امور جن میں عورتوں کا دخل ہو اُن امور میں عورتوں کا مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے.اسی طرح عورت ضرورت کے ماتحت مرد کے ساتھ مل کر بھی بیٹھ سکتی ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک نوجوان لڑکی کو جو پید ل جارہی تھی اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھا لیا.( مسند احمد بن حنبل حدیث امراة بنی غفار) ہمارے ملکی رواج کے مطابق تو اگر کوئی شخص ایسا کرے تو شاید ساری قوم اس کا بائیکاٹ کر دے لیکن شریعت کے احکام آج سے تیرہ سو سال پہلے مل چکے ہیں.ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر عورتوں کی گاڑیوں میں کبھی کوئی خطرہ ہو تو مردوں کا فرض ہے کہ عورتوں کو اپنے پاس مردانہ گاڑیوں میں بٹھالیں.یا عورت اکیلی خود مردانہ گاڑی میں جا بیٹھے جہاں وہ شریف مردوں کی موجود گی میں اپنی عزت کو بہ نسبت اکیلے کمرہ میں بیٹھنے کے زیادہ محفوظ سمجھتی ہو.اسی طرح اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو عورتیں خود سودا خرید نے کے لئے بازاروں میں بھی جاسکتی ہیں.عرب میں میں نے دیکھا ہے کہ وہاں عورتیں خود بازاروں میں جاتیں اور چیزیں خرید تی تھیں.بلکہ وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ہماری خریدی ہوئی چیزیں عورتوں کو پسند بھی نہیں آتیں.وہ کہتی ہیں کہ مرد کیا جانیں کہ کپڑا کیسا ہونا چاہیے.یا اور چیزوں کے متعلق انہیں کیا واقفیت ہو سکتی ہے ہم خود جا کر خریدیں گی.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ

Page 500

سے کپڑا اُٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُن کا مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ غیر ضروری باتیں کرنا یہ ناجائز ہے.اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنا نا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے.پھر فطرتِ انسانی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ مرد جو مضبوط ہے اُسے تو صحت کے درست رکھنے کے لئے باہر کی آب و ہوا کی ضرورت ہو اور عورت جو فطرتًا کمزور صحت لےکر آئی ہے اُسے کھلی ہوا سے محروم کر دیا جائے.حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک دفعہ لوگوں کے سامنے مقابلۃً دوڑے اور حضرت عائشہ ؓ آگے بڑھ گئیں.مگر دوسرے موقعہ پر پھر دوڑے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے (ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی السبق علی الرجل).پس وہ پردہ جس میں عورت کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ڈولی کے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہ رکھے نہایت ظالمانہ اور خلافِ اسلام پردہ تھا.اس کے مقابلہ میں ایک اور پردہ ہمارے ملک میں یہ ہے کہ عورتیں برقعہ پہن کر باہر نکلتی ہیں اور ایک گھر سے دوسرے گھر تک چلی جاتی ہیں لیکن اس سے زیادہ ان کوباہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی.یہ پردہ گو اوپر کے پردہ کے برابر قابلِ اعتراض نہیں لیکن اس سے بھی عورتوں کے ذہنی ارتقاء اور اُن کی صحت کی ترقی میں ایسی مدد نہیں ملتی کہ اُسے قومی ترقی کے لئے کافی سمجھا جائے.دوسرے ہمارا پرانا برقعہ یا تو عورت کی صحت کو بر باد کرنے والا ہے یا پردے کے نام سے بے پردگی کا موجب ہوتا ہے.اس برقعہ میں اوپر سے لے کر نیچے تک ایک گنبد سا بنا ہوا چلاجاتا ہے اور عورت کے ہاتھ بھی اندر بند ہوتے ہیں اگر وہ بچے کو اٹھائے تو سر سے پائوں تک اس کا اگلا حصہ سارے کا سارا ننگا ہوجا تا ہے اور ایک ایسا حقارت پیدا کرنے والا نظارہ ہوتا ہے کہ ایسے پردے سے طبیعت خود بخود نفرت کرتی ہے.اس سے بہت زیادہ بہتر وہ چادر کا طریق تھا جو برقعہ کی ایجاد سے پہلے تھا.اور جس میں عورت اپنا کام بھی کر سکتی تھی اور اپنے آپ کو لپیٹ بھی سکتی تھی.میرے نزدیک نیا برقعہ جسے ٹرکی برقعہ کہتے ہیں پردے کے لحاظ سے تمام برقعوں سے بہتر ہے بشرطیکہ وہ جسم کے اوپر لپٹا ہوا نہ ہو بلکہ جیسا کہ ہماری جماعت کی عورتوں میں رواج ہے سیدھا کوٹ ہو جو کندھوں سے پائوں تک آتا ہو.ایسا کوٹ نہ ہو جو جسم کے اعضاء کو الگ الگ کر کے دکھا تا ہو.اگر اس قسم کا کپڑا جائز ہوتا تو جسم کے کپڑے ہی کافی تھے اُن کے اوپر کسی اور کھلے کپڑے کے لینے کا قرآن مجید حکم نہ دیتا.اس برقعہ میں یہ بھی فائدہ ہے کہ چونکہ ہاتھ کھلے ہوتے ہیں عورت سب قسم کے کام اس برقعہ میں بخوبی کرسکتی ہے اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے ڈاکٹر اپریشن کے وقت ایک کھلا کوٹ پہن لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی میرے نزدیک یہ بھی ظلم کیا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو برقعہ اوڑھا دیا جا تا ہے اس سے اُن کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور اُن کا قد بھی اچھی

Page 501

طرح نہیں بڑھ سکتا.جب لڑکی میں نسائیت پیدا ہونے لگے اس وقت اُسے پردہ کرانا چاہیے اس سے پہلے نہیں.باقی رہا یہ سوال کہ عورت کو کیوں پردہ کے لئے کہا گیا ہے مرد کو کیوں نہیں کہا گیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ پردہ مرد او ر عورت دونوں کے لئے برابر ہے.اگر عورت کو چادر اوڑھ کر باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ پردہ کا حکم صرف اُسی کے لئے ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مرد کا دائرہ عمل گھر سے باہر ہے اور عورت کا اصل دائرہ ٔ عمل گھر کی چار دیواری ہے.پس جب عورت مرد کے اصل دائرہ عمل میں جاتی ہے وہ چادر اوڑھ لیتی ہے اور مرد چونکہ اپنے اصل دائرہ عمل میں ہوتا ہے وہ کھلا پھرتا ہے.اگر اس کو اپنے دائرہ عمل میں چادر اوڑھنے کا حکم دیا جاتا تو چونکہ اس کا وہاں ہر وقت کام ہوتا ہے اُس کے لئے کام کرنا مشکل ہو جاتا.جس طرح اگر عورت کو اُس کے دائرہ عمل یعنی گھر کی چاردیواری میں چادر اوڑھ کر کام کرنےکا حکم دیا جائے تو وہ گھبرا جائےاور کام نہ کر سکے.اس فرق کے مقابلہ میں مرد کو یہ حکم ہے کہ وہ عورت کے دائرہ عمل میں بالکل ہی نہ جائے اور اس کو آزاد ی سے اپنا کام کرنے دے.اور اگر کسی کے گھر جائے تو پہلے اجازت لے لے.لیکن عورت کو باہر نکلنے پر مردوں سے اجازت لینے کا حکم نہیں کیونکہ مرد کے دائرہ عمل میں عورت کے بھی حقوق ہیں اور وہ سڑکوں اور بازاروں سے بے تعلق نہیں.لیکن عورت کے دائرہ عمل سے عام مرد کے حقوق وابستہ نہیں.پس عورت کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رکھی بلکہ صرف اوٹ کر لینا اور اوڑھنی سے پردہ کر لینا کافی رکھا اور عورت کے دائرہ عمل میں مرد کے بلا اجازت داخلہ کو روک دیا.پس پرد ہ میں ہتک یا غیر ہتک کا کوئی سوال نہیں بلکہ یہ مرد او ر عورت کے دائرہ عمل کی الگ الگ تقسیم ہے اور اس کی مخالفت صرف عادات اور رسوم کی وجہ سے ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورتیں ترقی نہیں کر سکتیں ان کی صحت خراب رہتی ہے.مگر یہ بالکل غلط ہے.وہ عورتیں جو بالکل بے پردہ پھرتی ہیں وہ کیا کر رہی ہیں جو پردہ کرنے والی نہیں کر سکتیں.جس وقت عورتیں اسلام کے احکام کے مطابق پردہ کرتی تھیں اُس وقت ان کی صحتیں بھی اچھی تھیں.اور وہ جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں.اور دشمن کو مارتی بھی تھیں مگر اب بے نقاب پھرنے والی عورتیں کچھ بھی نہیں کر رہیں.دراصل صحت امید اور اُمنگ سے قائم رہتی ہے جب کسی میں اُمنگ ہی نہ ہو تو چاہے اُسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کر دو وہ نیچے ہی گرےگا اور اگر امنگ اور امید ہو تو خواہ لحاف اُڑھا دوپھر بھی وہ بلند ہوتا چلا جائےگا.چنانچہ میری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ عورتوں کا پردہ شریعت کے مطابق ہو اور میرے زمانۂ خلافت میں قادیان میں بھی اور ربوہ میں بھی تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد ہمیشہ غیر تعلیم یافتہ عورتوں سے زیادہ رہی ہے لیکن تعلیم یافتہ مردوں کی تعداد غیر تعلیم یافتہ مردوں کے برابر

Page 502

کبھی نہیں ہو سکی.اسی طرح لجنہ کا کام وہ بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہیں.مختلف گھروں میں جاتی ہیں چندہ وصول کر تی ہیں.دوسرے لوگوں میں جوش پیدا کرتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ دوسرے شہروں میں بھی جاتی ہیں پس یہ بالکل غلط ہے کہ پردہ عورتوں کی ترقی میں حائل ہے.عورتیں پردہ میں رہتے ہوئے بھی ہر قسم کی ترقی کرسکتی ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں تعلیم یافتہ ہوں اور وہ خود شرعی پردہ پر عمل کریں اور دوسری عورتوں کو بھی بتائیں کہ پردہ کی پابندی کرتے ہوئے ہر قسم کی ترقی کی جاسکتی ہے.صرف مردوں کے کہنے کا زیادہ اثر نہیں ہوتا کیونکہ عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ تم تو باہر پھرتے ہو تمہیں کیا معلوم ہے کہ پردہ کی کیا تکا لیف ہیں.وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اور اپنے میں سے جو بیوائیں ہیں اور جو اپنے غلاموں یا اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ لونڈیوں میں سے نیک ہوں اُن کی شادیاں کر دیا کرو.اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی بنا دےگا.وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۳۳ اور اللہ (تعالیٰ) بہت وسعت رکھنے والا اور بہت جاننے والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْاَیَامٰی.اَلْاَیَامٰی اَیِّمٌکی جمع ہے.اور اَیِّمٌ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی خاوند نہ ہو.اسی طرح اس مرد کو بھی اَیِّمٌ کہتے ہیں جس کی کوئی بیوی نہ ہو.(مفردات ) تفسیر.اس آیت میں حکم دیا کہ بدی کو دور کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ بیوائوں کی شاد ی کرو.اسی طرح جو غلام بیویاں رکھنے کے قابل ہوں اُن کی بھی شادیاں کرو تاکہ بے شادی غلام گھروں میں آکر خرابی نہ کریں اسی طرح اپنی لونڈیوں کی بھی شادی کرو.اور اگر تمہارے غلاموں میں سے بعض غریب ہوں تو اُن کا نکاح کرنے سے ڈرو نہیں کیونکہ اگر وہ نیک بنیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دےگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس رزق بھی ہے اور وہ اپنے بندوں کے حالات کو بھی جانتا ہے.افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک یہ خرابی بھی پائی جاتی ہے

Page 503

کہ لوگ بیوائوں کی شادی کرنا بڑا بھاری گناہ سمجھتے ہیں.اور اگر بعض لوگ گناہ نہیں سمجھتے تو کم ازکم اسے اپنی غیرت اور حمیت کے منافی ضرور سمجھتے ہیں گویا اُن کے نزدیک عورت ایک جانور سے بھی بدتر ہے کہ جانور تو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جا سکتا ہے مگر عورت ایک خاوند سے جدا ہو کر دوسرے کے پاس نہیں جاسکتی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کہیں بیوہ کی شادی ہو تو تمام گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے اور اس کے خاندان کے ساتھ اظہار ِ ہمدردی کیا جاتا ہے اور اُن کو بڑا مظلوم سمجھا جاتا ہے.وہ مرد کو تو اس بات کا حقدار سمجھتے ہیں کہ اپنی بیوی کے فوت ہونے پر دوسری شادی کر لے مگر عورت کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ وہ اپنے خاوند کے فوت ہونے پر دوسرا شوہر کر لے.حالانکہ قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّ احِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا ( الاعراف :۱۹۰) یعنی وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اُسی کی قسم سے اُس کا جوڑا بنایا گویا جیسے احساسات اور جذبات مردوں میں پائے جاتے ہیں.ویسے ہی جذبات اور احساسات عورتوں میں بھی پائے جاتے ہیں.اگر مرد اپنی بیوی کے فوت ہونے پر چاہتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرے تو بیوہ کی شادی میں روک بننا بتا تا ہے کہ وہ عورت کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے اور اس کے جذبات اور احساسات کو کچلنا چاہتے ہیں.پس بیوگان کی شادی بڑی بھاری اہمیت رکھنے والی چیز ہے.اور قرآن کریم نے اس کو اُن احکام میں شامل کیا ہے جن سے اخلاقی برائیوں کا انسداد ہوتا ہے.اس لئے اس سے غفلت درحقیقت قومی اخلاق کو بگاڑ نا اور بدی کو فروغ دینا ہے.دوسری چیز جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے.وہ غلاموں کی شادی کامسئلہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے غلام شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم ان کی شادی کردو.کیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں اور کب انہیں ازدواجی زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملے.یہ اسلام کے اس حسنِ سلوک کا ایک واضح اور نمایاں ثبوت ہے جو اس نے غلاموں کے ساتھ کیاہے.نادان مخالف اعتراض کرتا ہے کہ اسلام نے غلامی کو روا رکھا ہے.حالانکہ دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے غلامی کو صفحۂ ارض سے مٹانے میں ایک ایسا قابلِ فخر کر دار ادا کیا ہے جس کی نظیر دنیا کا کوئی اور مذہب پیش نہیں کر سکتا.رومن ، یونانی ، مصری اور ایرانی تاریخ پڑھ کر دیکھ لو.ان میں سے ہر ملک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئےگی.یہ غلام دو طرح بنائے جاتے تھے.ایک طریق تو یہ تھا کہ جن سے جنگ ہوا کرتی تھی ہمسایہ قومیں اُن کے افراد کو جہاں وہ اِکّا دُکّا نظر آئیں پکڑ کر لے جاتے اور انہیں غلام بنا لیتے تھے.چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقعہ ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور سمجھتے کہ اس طرح ہم نے دوسرے ملک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچا دیا ہے.دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام

Page 504

کی عورتیں اور اُن کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور انہیں اپنی غلامی میں رکھتے.اوّل الذکر طریق جب موقعہ ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور اُن میں جاری تھا.بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دنیا میں رائج رہا ہے.چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں لےجائے گئے جو اب تک وہاں موجود ہیں.گو اب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجو د ہیں جو مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچائے گئے تھے.متمدن اقوام کی غرض اس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کی دولت کو بڑھائیں.چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے کہیں اُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپرد کر دیا جاتا تھا کہیں جنگل کاٹنے کا کام ان کے سپر د کر دیا جاتا تھا.اسی طرح محنت و مشقت کے سب کا م جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتے تھے.وہ ان غلاموں سے لئے جاتے تھے مثلاً سستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا تو ان غلاموں کو زمینوں کی آبپاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کر دیا جاتا.اسی طرح ملک کے غیر آباد علاقے بھی غلاموں کے ذریعہ ہی آباد کئے جاتے تھے.چنانچہ روس میں سائیبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی.اسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں کی ہی رہینِ منت تھی.و ہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کر سکتے تھے.لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے.آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے.مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہینِ منّت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے.اسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہینِ منت ہے.مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُس کی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی.فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہینِ منت تھی جو آج سے دو تین سو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سرانجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا.غرض اس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم رکھا جاتا تھا اور دوسری طرف ملک کی دولت کو بڑھایا جاتا تھا.قرآن کریم نے ان دونوں طریقوں کو قطعاً ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ١ؕ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ( الانفال :۶۸)یعنی ہم نے کسی نبی کے لئے نہ پہلے یہ جائز رکھا تھا اور نہ تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ بغیر اس کے کہ کسی حکومت سے باقاعدہ لڑائی ہو اُن افراد کو غلام بنا لیا جائے.اگر کسی حکومت سے

Page 505

جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہو تو عین میدان جنگ میں قیدی پکڑے جا سکتے ہیں.لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری اقوام کے افراد کو قیدی بنائو.یا میدانِ جنگ میں تو نہ پکڑولیکن بعدمیںاُن کو گرفتار کرکے قیدی بنا لو.قیدی بنانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے باقاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیا جائے.گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے اسی طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اس کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی اور جگہ سے بعد میں پکڑنا جائز نہیں ہے صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا اُن کو جو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے تو یہ جائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں.لیکن ان کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ اِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً ( محمد:۵)یعنی بعد میں یا تو اُن کو احسان کے طور پر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو.پس یہ صورت تو اسلام میں جائز ہی نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر بھی اس کو غلام رکھا جائے اُسے بہر صورت یا تو احسان کے طور پر رہا کرنا پڑےگا یا فدیہ لےکر چھوڑنا پڑ ے گا.مگر یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ موجود زمانہ میںیہ قاعدہ ہے کہ تاوانِ جنگ لڑنے والی قوم سے لیا جاتا ہے لیکن اسلام نے یہ طریق رکھا ہے کہ خود جنگی قیدی یا اُس کا رشتہ دار اس کا فدیہ ادا کرے.بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ تک تنخواہ دار فوجیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ دونوں طرف سے رضا کار لڑنے کے لئے آتے تھے.پس چونکہ وہ لڑائی رضاکاروں کی لڑائی ہوتی تھی اس لئے فدیہ بھی رضا کاروں پر رکھا گیا.اب چونکہ جنگ قومی ہوتی ہے اس لئے فدیہ قوم پر رکھا گیا ہے.پس یہ بالکل جھوٹ ہے کہ اسلام نے غلامی کو قائم کیا ہے.درحقیقت اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے غلامی کو دنیا سے مٹا یا لیکن اگر بفرض محال تسلیم بھی کر لو کہ اسلام نے غلامی کو جائز قرار دیا ہے تو بتائو کہ کیا آج کل کا انٹرنیشنل قانون جنگی قیدیوں کے ساتھ اس سے زیادہ حسنِ سلوک سکھاتا ہے.آجکل تو اُن کی پہلی بیویوں کو بھی اُن کے پاس نہیں آنے دیتے کجایہ کہ خود اُن کی شادی کا انتظام کریں.مگر اسلام کہتا ہے کہ جو کچھ خود کھائو وہی ان کو کھلائو.جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہنائو.اور پھر ان میں سے جوشادی کے قابل ہوں ان کی شادی کر دو تاکہ انہیں بھی سکونِ قلب حاصل ہو اور قوم میں بھی فواحش کا دروازہ بند رہے.اس آیت میںاِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ کہہ کراس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ محض غربت کے ڈر کی وجہ سے اُن کی شادی کرنے میں نہ ہچکچائو کیونکہ فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ

Page 506

اُن کے حالات کو بدل دے اور انہیں کشائشِ رزق سے حصہ دے دے.یہ آیت گو جنگی قیدیوں کے احکام کے ضمن میں بیان کی گئی ہے مگر اصولی رنگ میں اپنے اندر یہ بڑی بھاری ہدایت رکھتی ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات میں روپیہ اور مال و دولت کی بجائے نیکی اور تقویٰ پر اپنے تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہیے اور ہمیشہ ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی تلاش کرنی چاہیے جو اپنے اندر نیکی اور تقویٰ اور شرافت رکھتے ہوں.صرف مال اور جائیداد پر نظر نہیں رکھنی چاہیے.اس آیت پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ شادیاں کرتے ہیں مگر ساری عمر انہیں کوئی دولت حاصل نہیں ہوتی.اور غربت میں ہی اُن کی زندگی کٹ جاتی ہے.پھر یہ خدائی وعدہ کیسا ہوا جس کے خلاف ہمیں دنیا میں کئی شواہد نظر آتے ہیں.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں غناء سے مراد صرف مال کی کثرت ہی نہیں بلکہ اس سے دل کا آرام اور چین بھی مراد ہے.اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اگر نیک اور ہمدرد بیوی میسر آجائے تو انسان کو ایسا اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے کہ خواہ اُسے فاقہ کرنا پڑے پھر بھی وہ آرام اور راحت سے کلیۃً بے گانہ نہیں ہوتا.وہ تکلیف کی گھڑیوں میں بھی ایک راحت کا سامان پاتا ہے جس سے اس کی اپنی ذہنی کوفت اور پریشانی کے دور ہونے میں بڑی بھاری مدد ملتی ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں اُن لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے ہیں اور اس کے وعدوں پر انہیں ایسا یقین ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو تو تسلیم کر سکتے ہیں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے مگر وہ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ ایک بات کہے اور وہ پوری نہ ہو.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کنارِ عاطفت میں ہوتے ہیں اور خواہ اُن پر مصائب کی کتنی آندھیاں چلیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آتی اور وہ آگ میں پڑ کر بھی سلامتی کے ساتھ باہر نکل آتے ہیں اور نہ صرف روحانی نعماء سے متمتع ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ دنیوی نعماء بھی اُن کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور اُن کی غربت اور افلاس اورتنگدستی کو دُور فرما دیتا ہے.وَ لْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اور چاہیے کہ وہ لوگ جن کو نکاح کی توفیق نہیں پاکیزگی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ (تعالیٰ) اُن کو اپنے فضل اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ سے غنی بنا دے.اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مکاتبت کا مطالبہ کریں اگر تم اُن میں

Page 507

اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ بھلائی دیکھو تو اُن سے مکاتبت کر لو.اور( اگر اُن کے پاس پورا مال نہ ہو تو) جو اللہ نے تم کو مال دیا ہے اس میں سے کچھ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَى مال دے (کر اُن کی آزادی ممکن بنا) دو.اور تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ نیک رہنا چاہتی ہوں الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ؕ تاکہ تم اُن کے ذریعہ سے دنیوی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے.تو اللہ (تعالیٰ) اُن عورتوں کی وَ مَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ مجبوری کے بعد بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (وہ ان پر گرفت نہیں کرےگا) اور ہم نے تم پر کھلے کھلے رَّحِيْمٌ۰۰۳۴وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ نشانات اتار ے ہیں.اور جو لوگ تم سے پہلے گذر چکے ہیں اُن کے حالات بھی بیان کئے ہیں اور متقیوں کے لئے الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ؒ۰۰۳۵ نصیحت کی باتیں بھی (بیان کی ہیں).حلّ لُغَات.وَلْیَسْتَعْفِف.عربی زبان میں عِفَّۃٌ کے معنے ہوتے ہیں تَرْکُ الشَّھْوٰتِ یعنی شہوات کا چھوڑ دینا ( اقرب ) اور اِسْتِعْفَافٌ کے معنے ہیں عفت اختیار کرنا ( مفردات ) پس ولْیَسْتَعْفِف کے معنے ہوںگے چاہیے کہ شہوات کو ترک کر کے پاکیزگی اختیار کریں.اَلْکِتٰبُ.مفردات میں ہے کہ کِتَابَۃُ الْعَبْدِ اِبْتِیَاعُ نَفْسِہٖ مِنْ سَیِّدِہٖ بِمَا یُؤَدِّیْہِ مِنْ کَسْبِہٖ.یعنی جب غلام کے لئے کتابت کا لفظ بولا جائے تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے آقا کے ساتھ ایسامعاہدہ کر لیا ہے کہ وہ کچھ رقم اپنی کمائی سے بالا قساط اداکرتا رہےگا.حتّٰی کہ مقررہ رقم ادا کرکے آزاد ہو جائےگا.( مفردات )

Page 508

تفسیر.اب اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ وہ لوگ جن کے لئے شادی کا انتظام نہ ہو سکتا ہو وہ کیا کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا یعنی چاہیے کہ وہ لوگ جن کو نکاح کا موقع میسر نہیں اپنی طاقتوں کو دبا دیں یعنی ایسی احتیاطوں سے جو شہوات کو کم کرتی ہیں اپنے جوشوں کو کم کریں مگر زنا نہ کریں اور نہ یہ کریں کہ اپنی اُن طاقتوں کو بالکل ضائع کر دیں جن کے ذریعہ سے بقائے نسل کا تقاضا پورا ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ اپنی فطرت کو مسخ کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو نا پسند کرتا ہے کہ فطرتی تقاضوں کو کچل دیا جائے.اس آیت کے متعلق مفسرین کو بہت مشکل پیش آئی ہے.وہ کہتے ہیں کہ پہلی آیت میں تو یہ بتا یا تھا کہ نکاح کرنے سے فقر غناء سے بدل جائےگا مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہوتا تو یہ حکم دیا جاتا کہ ضرور نکاح کر لو.مگر یہاں یہ کہا گیا ہے کہ اُس وقت تک انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کر دے.پس مفسرین اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ نکاح لازماً انسان کو غنی نہیں بناتا ورنہ یہ آیت بے معنے ہو جاتی ہے.(فتح البیان زیر آیت ھذا)لیکن میرے نزدیک اُن کا یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ غنی بنانا تو ایک الٰہی وعد ہ ہے ممکن ہے کہ باوجود اس وعدہ کے کہ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖایک شخص اپنی لڑکی یا ایک مالک اپنی لونڈی اس غلام کو دینے کے لئے تیار نہ ہو جو غریب ہو.ایسی صورت میں بہر حال وہ شخص بغیر بیوی کے رہےگا.سو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو نصیحت کی کہ اگر کسی طرح بیوی نہ ملے تو صبر کرو اور پاکدامنی اختیار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کر دے یعنی تمہارے رشتہ کا انتظام ہو جائے.میں سمجھتا ہوں کہ مفسرین کو یہ مشکل زیادہ تر اس لئے پیش آئی ہے کہ انہوں نے لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖکے معنے صحیح طور پر نہیں سمجھے.اس آیت کے یہ معنے کرنا کہ جب تک مال حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک نکاح نہیں کرنا چاہیے درست نہیں.کیونکہ اس آیت میں اُس شخص کا ذکر نہیں جو غریب ہو اور نکاح نہ کرے بلکہ اس شخص کا ذکر ہے جو غریب ہو اور جسے غربت کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص رشتہ دینے کے لئے تیار نہ ہو پہلے تویہ بتا یا تھا کہ اگر کسی غریب کا نکاح ہوتا ہو اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے نکاح نہ کرے تو یہ درست نہیں وہ نکاح کرلے.اللہ تعالیٰ اُسے غنی کر دےگا اور یہاں یہ بتایا ہے کہ اگر کسی کو غربت کی وجہ سے رشتہ نہ ملے تو اس وقت تک وہ عفت سے کام لے جب تک کہ خدااس کے لئے رشتہ کا انتظام نہ کر دے.پس یہ دو الگ الگ حکم ہیں پہلی آیت کے تو یہ معنے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل توکل کرکے شادی کرتا ہے خدا اُسے کشائش دے دیتا ہے اور وہ مشکلات میں گرفتا ر نہیں ہوتا اور دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں کو

Page 509

غربت کی وجہ سے رشتہ ملنے میں دقتیں ہوں وہ ایسی احتیاطوں سے کام لیں جو شہوات کو کم کرنے والی ہوں اور پاکیزہ زندگی بسر کریں اور اُس وقت تک انتظار کریں جب تک کہ خدا تعالیٰ اُن کے لئے شادی کا رستہ نہ کھول دے.چونکہ پچھلی آیات میں جنگی قیدیوں کا نکاح کرنے کے متعلق خدا تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے تھے اس لئے اب یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ان احکام سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم غلامی کو پسند کرتے اور اس کو دنیا میں قائم رکھنا چاہتے ہیں.یہ احکام انسانی مجبوری کی وجہ سے دئیے گئے ہیں ورنہ ہمارا اصل منشاء یہی ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے خواہ احسان کے طور پر انہیں آزاد کر دیا جائے اور خواہ فدیہ لےکر.چنانچہ فرمایا.وَ الَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا.یعنی وہ لوگ جو تمہارے غلام مردوں یا عورتوں میں سے مکاتبت چاہتے ہیں اگر تم اُن میں قابلیت دیکھو تو ان کو مشروط آزادی دے دو.’’ اگر اُ ن میں قابلیت دیکھو ‘‘ کے یہ معنے نہیں کہ مالک خود فیصلہ کرے کہ غلام میں آزادی کی قابلیت ہے یا نہیں بلکہ غلام اس کا فیصلہ قاضی سے کروائےگا.اگر قاضی کہے گا کہ یہ مرد یا عورت اس قابل ہیں کہ مشروط آزادی حاصل کرکے اپنا گذارہ چلا سکیں گے تو وہ حکم دے دےگا کہ ان سے مکاتبت کر لی جائے.ورنہ اس سے روک دےگا تاکہ وہ تباہ نہ ہو جائیں.پھر مزید سہولت اس طرح پیدا کی کہ حکم دے دیا کہ تمہیں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کے جو پہلے طریقے بتائے جا چکے ہیں اُن میں یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ اپنے مالوں کا کچھ حصہ مشروط آزادی حاصل کرنے والے غلاموں کو کامل آزادی دلانے میں بھی خرچ کرو.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے غلام کے لئے دو ہی صورتیں رکھی ہیں.جن کا ذکر اُس نے سورۂ محمد میں ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ اِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً (محمد:۵)یعنی مذہبی جنگ میں جب کوئی شخص قید ہو کر تمہارے پاس آئے تو یا تو اس کو بطور احسان چھوڑ دو اور یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو.یہ صورت تمہارے لئے کسی طرح بھی جائز نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر بھی اس کو غلام رکھا جائے.مگر چونکہ ممکن تھا کہ ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو گورنمنٹ ظالم ہو اور اُسے رہا کرانے کا کوئی احساس نہ ہو.اس کے رشتہ دار لاپرواہ یا بدمعاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہے تاکہ وہ اُس کی جائیداد پر قبضہ کئے رکھیں اور دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ لینے کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ جو رقم اُس نے جنگ میں خرچ کی تھی اُس نے اُس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو.تو ایسی صورت کے لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں اُن پر قبضہ و تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں چھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہو سکیں ہم غریب اور

Page 510

نادار ہیں.ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آ پ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سال میں ادا کر دیںگے اور اس قدر ماہوار یا سالانہ قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں توفَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا تم اس بات پر مجبور ہو کہ اُن کو آزاد کر دو.اور اُن کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو.بشرطیکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں.بلکہ تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اُس میں سے ان کی مدد کرو یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکیں.جب قسطیں مقرر ہو جائیں تو اس وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہو گا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائےگا مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے پہلے زمانوں میں چونکہ جنگ انفرادی ہوا کرتی تھی اس لئے افراد سے تاوانِ جنگ وصول کیا جاتا تھا.مگر اس زمانہ میں قومی جنگیں ہوتی ہیں اس لئے اب یہ طریق ہوگا کہ قوم تاوانِ جنگ ادا کرے.پہلے چونکہ باقاعدہ فوجیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فرداًفرداً پڑتی تھی اس لئے اُس وقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تاکہ وہ اُن سے اپنے اپنے اخراجات جنگ وصول کریں.مگر جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فرداً فرداً نہ پڑتا ہو تو اُس وقت جنگی قیدی تقسیم نہیں ہوںگے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوانِ جنگ ادا کر دےگی تو پھر اُن سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائےگا.بہر حال اسلامی تعلیم کےماتحت غلام دنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہی جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں.مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اوّل تو احسان کرکے انہیں چھوڑ دو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لے کر رہا کر دو.یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اُس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں.حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لا پرواہ ہو رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ خود غریب ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میرے ساتھ طے کرلو کہ مجھ پر کیا تاوانِ جنگ عاید ہوتا ہے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس تاوان کی ادائیگی کے لئے اتنی مہلت دے دو میں اس عرصہ میں اسقدر ماہوار روپیہ ادا کر کے تاوانِ جنگ دے دوںگا.اس معاہدہ کے معًا بعد وہ آزاد ہو جائےگا اور مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کتابت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے.کتابت کا روکنا صرف اُسی صورت میں جائز ہے جبکہ خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل اور کم عقل ہو.خود کمانہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدہ کے نقصان اٹھائےگا اور کتابت کی صورت میں اسلام اُسے سرمایہ مہیا کر دینے کا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت.

Page 511

ممکن ہے یہاں کوئی شخص کہہ دے کہ اگر پاگل یا کم عقل والے کی مکاتبت کو روکنا جائز ہے تو پھر تو لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے.آزاد تو وہ پھر بھی نہ ہوئے.اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحبِ عقل ہوں کما سکتا ہوں مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے اور قاضی فیصلہ کرکے اُسے آزادی کا حق دلا دے گا.غرض کوئی صورت بھی ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو اوّل مالک کو کہا کہ وہ احسان کر کے چھوڑ دے.دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کرکے آزاد ی حاصل کر لے اور اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو مکاتبت کر لے اور کہہ دے کہ میں اتنی قسطوں میں روپیہ دے دوں گا.مجھے دو یا تین سال کی مہلت دے دو.ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ آزاد سمجھا جائےگا.اگر ان ساری سہولتوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میںآزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اُسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے پاس جو غلام تھے وہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے ماتحت اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں آزادی سے غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وَ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اٰتٰىكُمْ کہہ کر بنی نوع انسان کو اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ اموال جو تمہارے قبضہ میں ہیں درحقیقت ایک امانت کے طور پر تمہارے پاس ہیں ورنہ اس مال میں دوسروں کا بھی حق شامل ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اُن کے حقوق ادا کرو.تمہیں یہی خوشی اپنا سب سے بڑا انعام سمجھنا چاہیے کہ تمہارے کئی بھائی جو تمہاری طرح اس مال کے حصہ دار ہیں تمہارے ذریعہ سے پرورش پا رہے ہیں اور خدا تعالیٰ نے تم کو اس درجہ پر پہنچایا ہے کہ اُس کی مخلوق کی ربوبیت میں تم بھی حصہ لو.پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو.چونکہ اس جگہ مکاتبت یعنی مشروط آزادی حاصل کرنے والے غلاموں کا ذکر ہے اس لئے اس جگہ وہی لونڈیاں مراد لی جائیں گی جو مشروط آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں.اور اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی لونڈیوں کو جو کہ مشروط آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں دنیا کے حصول کی غرض سے اُن کے اس اراد ہ میں روک ڈال کر بدکاری پر مجبور نہ کرو.یعنی جو عورت مشروط آزادی حاصل کر کے جبری نکاح سے بچنا چاہتی ہے اور مکمل آزادی کے بعد اپنی مرضی کے خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہے اُس کو اس ارادہ سے باز رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بدکاری پر مجبور کرنا.وَ مَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.اور جو شخص آزادی کی کوشش کرنے والی عورت

Page 512

کے راستہ میں روک ڈالتا ہے اور اس طرح اُسے جبری نکاح پر مجبور کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کے دل میں جو بغض پیدا ہوگااُس کی وجہ سے عورت پر کوئی گناہ نہیں ہوگا.مرد کو ہوگا کیونکہ عورت کے دل میں جو بے دفائی پیدا ہوگی وہ مر دکے جبر کی وجہ سے ہوگی.اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا اللہ آسمانوں کا بھی نور ہے اور زمین کا بھی.اُس کے نور کی کیفیت یہ ہے جیسے کہ ایک طاق ہو جس میں ایک دِیا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ پڑا ہو (اور وہ) دِیا ایک شیشے کے گلوب کے نیچے ہو (اور) وہ گلوب ایسا چمکدار ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّ لَا (اور) وہ (چراغ) ایک ایسے برکت والے درخت( کے تیل) سے جلایا جارہا ہو کہ وہ (درخت) نہ مشرقی ہو نہ مغربی.غَرْبِيَّةٍ١ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ قریب ہے کہ اُس کا تیل خواہ اُسے آگ نہ بھی چھوئی ہو بھڑک اُٹھے.(یہ چراغ) بہت سے نوروں کا مجموعہ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ يَضْرِبُ ( معلوم ہوتا) ہے.اللہ (تعالیٰ) اپنے نور کے لئے جن کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.اور اللہ (تعالیٰ) لوگوں کے لئے اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌۙ۰۰۳۶ (تمام ضروری) باتیں بیان کرتا ہے.اور اللہ (تعالیٰ) ہر ایک چیز کو خوب جانتا ہے.حلّ لُغَات.مِشْکٰوۃٌ.اَلْمِشْکٰوۃُ کے معنے ہیں کُلُّ کُوَّۃٍ غَیْرِ نَافِذَۃٍ.ہر وہ سوراخ جو دیوار میں کوئی چیز رکھنے کے لئے بنا یا جائے اور وہ دوسری طرف نہ کھلے.( اقرب) اَلزُّ جَاجَۃُ.اَلْقِطْعَۃُ مِنَ الزُّجَاجِ.زجاجہ کے معنے ہیں شیشے کا ٹکڑا.( اقرب) دُرِّیٌّ.کہتے ہیں کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ اور اس کے معنے ہوتے ہیں اَیْ ثَاقِبٌ مُضِيٌّ یعنی چمکنے والا روشن ستارہ ( اقرب)

Page 513

تفسیر.اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ آسمانی نور بھی خدا کی طرف سے آتا ہے اور زمینی نور بھی یعنی شریعت حقہ بھی آسمان سے آتی ہے اور اُس کی زمین پر اشاعت بھی اس کے فضل سے ہوتی ہے.اُس کے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک طاق ہو جس میں ایک تیز روشنی والا چراغ رکھا ہوا ہو اور چراغ پر ایک چمنی یا گلوب ہو.اور وہ چمنی یا گلوب ایسے صاف شیشے کا ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے.انسانی تجربہ نے یہ بتایا ہے کہ لیمپ کی سب سے اچھی روشنی تبھی ہوتی ہے جب اس کے پیچھے کوئی ایسی روک ہو جو اُس کے نور کو چاروں طرف نہ پھیلنے دے بلکہ صرف آگے کی طرف پھینکے.جس کی طرف مشکوٰۃ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے.یہ نور خصوصاً اُس وقت پھیلتا ہے.جبکہ چراغ چمنی کے اندر ہو.اورچمنی بہت صاف شیشے کی بنی ہوئی ہو.اور تیل بھی اعلیٰ درجہ کا ہو.اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے کہ الٰہی نور کا چراغ ایک ایسے تیل سے جلتا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے نکلتا ہے.مُبَارَکٌ کا لفظ بِرْکَۃٌسے نکلا ہے اور بِرْکَۃٌ اُس نیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش ہونے پر اردگرد کا تمام پانی بہ کر جمع ہو جائے.پس مُبَارَکَۃٌ کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسا شجرہ ہے جس میں ساری خوبیاں اور کمالات جمع ہیں.اور پھر اُسے زیتون قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا کہ وہ کلام جو اب دنیا میں نازل کیا جا رہا ہے وہ نئے سے نئے علوم اور معارف کو دنیا میں قائم کر نے کا ایک ذریعہ ہوگا کیونکہ زیتون علاوہ اس کے کہ ایک پھل کا کام دیتا ہے اس کی لکڑی اور تیل جلانے کے کام آتا ہے اور اس کے پتوں اور چھال سے بُننے کا کام لیا جاتا ہے.اسی طرح اس کا روغن کثرت کے ساتھ مختلف مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے اور آچار میں بھی ڈالا جاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے.اس طرح تمثیلی زبان میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ موسوی او ر عیسوی تعلیمیں تو سڑ جانے والی اور عملی لحاظ سے ایک دن ناکارہ ہونے والی تھیں مگر اسلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو وہ تعلیم دی جائےگی جو نہ صرف سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ ہوگی بلکہ انسانی ذہنوں میں وہ ایسا نو ر پیدا کرے گی کہ اس کے ذریعہ سے نئے سے نئے علوم اور نئے سے نئے معارف اُن کو حاصل ہو تے رہیں گے.نور کے متعلق عا م طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو اُس مادی چیز کا نام ہے جو بعض مادی چیز وں کے رگڑ کھانے سے پیدا ہو تا ہے.پھر خدا تعالیٰ نور کیونکر ہوا ؟ نحویوں نے تو اسے اس طرح حل کیا ہے کہ انہوں نے نو ر سے پہلے ایک مخذوف نکالا ہے اور کہا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے معنے ہیںاللّٰہُ صَاحِبُ نُوْرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( املاء مامن بہ الرحمٰن زیر آیت ھٰذا) یعنی آسمانوں اور زمین کے سب نور خدا تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور جب سب نور اس کے قبضہ میں ہیں تو جو انسان بھی ترقی کرنا چاہتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھے.

Page 514

معانی والے کہتے ہیں کہ اس جگہ نور کا لفظ مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ جس طرح نور کے ذریعہ انسان کو بری اور بھلی چیزوں میں امتیاز کرنے کا موقعہ ملتا ہے.اسی طرح نیکی اور بدی میں امتیاز خدا تعالیٰ کی ہدایت سے ہی میسر آتا ہے کیونکہ تمام آسمانی اور زمینی انوار کا منبع خدا تعالیٰ ہی ہے.ٍ لغت والے کہتے ہیں کہ یہ ایک محاورہ ہے چنانچہ جس چیز پر کسی کا دارومدار ہو اُسے نور کہتے ہیں.مثلاً نُوْرُ الْبَلَدِ اس آدمی کو کہتے ہیں جس پر کسی شہر کے لوگوں کا انحصار ہو اور نُوْرُ اْلقَبَائِلِ اس شخص کو کہتے ہیں جو قبائل کے لئے باعث ِ فخر ہو چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان کو کسی کام میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے اسے آسمانوں اور زمین کا نور کہا گیا ہے.یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن میرے نزدیک یہاں اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمین و آسمان میں تم جس چیز کو بھی روشن کرنا چاہو خدا تعالیٰ کا نور اُس میں داخل کر دو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ چیز روشن ہو جائےگی اگر وہ نور مکان میں نازل ہوگا تو وہ مکان روشن ہو جائےگا.اور اگر دل پر نازل ہو گا تو دل روشن ہو جائےگا.یہی نور جب بیت اللہ پر نازل ہوا تو وہ دنیا کی ہدایت کا مرکز بن گیا.پھر یہی نور مسجد نبوی ؐ پر نازل ہوا تو تمام مساجد کے لئے وہ ایک نمونہ قرار پاگئی حالانکہ بظاہر اینٹوں اور گارے کی ایک عمارت سے زیادہ اُس کی کیا حیثیت تھی.پھر یہی نور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مطہر پر نازل ہو ا تو آپ عالمِ روحانی کے آفتاب بن گئے.اسی طرح قرآن کیا ہے وہی حروف ہیں جن کو عربی زبان میں روزانہ استعمال کیا جاتا ہے.وہی کاغذہوتا ہے جس پر تمام اخبارات اور کتابیں چھپتی ہیں.وہی سیاہی ہوتی ہے جس سے گندے اور فحش اشعار بھی لکھے جاتے ہیں مگر اسی سیاہی سے لکھا ہوا اور اسی کاغذ پر چھپا ہوا جب قرآن آتا ہے تو وہ دنیا کی ہدایت کا موجب بن جاتا ہے.یہ وہی خصوصیت ہے جسے اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں بیان کیا گیاہے.چونکہ خدا اس میں آگیا اس لئے وہ دنیا کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا.لیکن جہاں یہ نور نہ ہو وہاں ظلمت اور سیاہی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.پھر اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ روشنی کبھی مقید نہیں رہتی.وہ ضرور باہر نکلتی اور پھیلتی ہے.سیاہی اور ظلمت کا دائرہ بیشک محدود ہوتا ہے مگر روشنی ہمیشہ پھیلنے کی کوشش کرتی ہے.چنانچہ دیکھ لو وہ کرم شب چراغ جو رات کے وقت چمکتا ہے کتنا چھوٹا سا ہوتا ہے مگر کس طرح دور سے اس کی روشنی رات کے وقت نظر آتی ہے.مسافر جب گائوں کے قریب آتا ہے تو کس طرح اُسے جھاڑیوں میں چمکتا ہوا دیکھ کر کہہ اٹھتا ہے کہ وہ گائوں آگیا.اسی طرح جس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت کی چنگاری سُلگ اُٹھے اگر وہ اس کرم شب چراغ کے برابر بھی ہو تب بھی

Page 515

وہ دوسروں کو روشنی پہنچا ئےگا.یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی خدا کا ہو جائے اور اپنے دائرہ استعداد کے مطابق سورج یا چاند یا ستارہ نہ بنے جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پید اکر لیتا ہے وہ اس کے نُور کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور پھر دوسروں کو بھی اپنے انوار سے منور کر دیتا ہے.بانی سلسلہ احمدیہ اسی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی (کہ میں مسیح موعود کہلائوں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہرائوں ) میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبرًا نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشید ہ رہوں اور پوشیدہ مروں.مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوںگا.‘‘ ( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳) غرض نور کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ظاہر ہو.وہ کبھی چھپ کر نہیں رہ سکتا.پس جب کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کرلے تو نہ صرف اُس میں بلکہ اُس کے ملنے والوں میں بھی ایک پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کے اندر وہ تبدیلی نا مکمل ہو مگر پھر بھی نور ضرور ظاہر ہو کر رہتا ہے.جس طرح کا لے کپڑے کی اوٹ میں بھی اگر بتی جلائی جائے تب بھی کچھ نہ کچھ روشنی ضرور نکلتی ہے.اسی طرح ممکن ہے کہ کسی کے دل میں محبت الٰہی کی ایک ہلکی سی چنگاری تو مخفی ہو مگر گناہوں کی سیاہ چادر اُس پر پڑی ہوئی ہو.لیکن یہ سیاہی اس کے نور کو صرف کم کر سکتی ہے مٹا نہیں سکتی.اور جب بھی اس کی سیاہ چادر ہٹے گی الٰہی نور نہایت شان سے اس میں سے ظاہر ہوناشروع ہو جائےگا.پھر اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کراسلام نے دنیا کے سامنے یہ اصل بھی پیش کیا ہے کہ تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نور یعنی اس کے الہام پر ہونی چاہیے.اور تمدنی قوانین صرف اُس ذات کی طرف سے ہونے چاہئیں جس کی نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ دوستی.عورتوں سے پوچھو تو وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے ہاتھ میں چونکہ قانون بنانا ہے اس لئے وہ جس طرح چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں.اسی طرح پہلے زمانہ میں ہندوستانی کہا کرتے تھے کہ ملکی قوانین چونکہ انگریزوں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائے ہوئے ہیں اس لئے ہم سول نافرمانی کرتے ہیں.غرض کوئی قوم دوسری قوم کے بنائے ہوئے قوانین پر مطمئن نہیں ہو سکتی مگر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے متعلق کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کسی قوم کی رعایت کی ہے.خدا تعالیٰ کو اس سے کوئی غر ض نہیں کہ لنکا شائر کا کپڑا فروخت ہو یا نہ ہو اور ہندوستان کی روئی بکے یا نہ بکے اس کے نزدیک سب یکساں ہیں.پس صحیح قانون اُسی کی طرف سے

Page 516

جاری ہو سکتا ہے.اور اسی کی طرف اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی آسمانوں اور زمینوں کا نور خدا ہی ہے اور سب چیزیں اسی سے طاقت پاتی ہیں.وہ جس قانون کو جاری کرتا ہے وہ ایسے سرچشمہ سے نکلتا ہے جو لَا شَرْقِيَّةٍ وَّ لَا غَرْبِيَّةٍ کا مصداق ہو تا ہے.اُس میں نہ مشرقیوں کی رعایت مدنظر ہوتی ہے اور نہ مغربیوں کی نہ عورتوں کی رعایت ہوتی ہے نہ مردوں کی.نہ کمزوروں کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے نہ طاقتوروں کی رعایت مدنظر رکھی جاتی ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلیم نہ کی جائے.مزدور اور سرمایہ دار کے جھگڑے صرف اسی لئے پید اہوئے کہ دنیا نے کہا ہم خود تمدنی قوانین بنائیں گے بلکہ وہ اسلام پر اعتراض کرتے رہے کہ اس نے تمدنی امور میں کیوں دخل دیا ہے.لیکن اب وہ لوگ بھی دھکے کھا کھا کر وہیں آرہے ہیں جہاں اسلام لانا چاہتا ہے اور تعلقات مابین خواہ میاں بیوی کے ہوں یا ماں باپ کے.بھائی بھائی کے ہوں یا بہن بھائی کے.رعایا اور راعی کے ہوں یا مختلف حکومتوں کے سب میں دنیا اسلام کی طرف آرہی ہے.پس اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِمیں اس طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تمدن کی بنیاد الہام پر رکھو ورنہ تمہارے آپس کے جھگڑے اور مناقشات کبھی ختم نہیں ہوں گے اور دنیا میں کبھی پائیدار امن قائم نہیں ہوگا.اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِکےبعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ.اس کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے جس میں ایک تیز روشی والا چراغ رکھا ہوا ہو.مشکوٰۃ اس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوا رمیں بنا ہوا ہو اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو.دیوار میں دو طرح کے طاقچے بنائے جاتے ہیں ایک کھڑکی کی طرح ہوتا ہے یعنی اُس کے آر پار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ کھڑکی کی غرض باہر دیکھنا ہوتی ہے یا مثلاً روشن دان بنانے کے لئےجو خلا رکھا جاتا ہے اس کے بھی آر پار سوراخ ہوتا ہےکیونکہ روشن دان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ہوا اور روشنی کی آمد و رفت رہے.مگر پرانے زمانے میں مساجد میں خصوصًا اس قسم کے طاقچے بنائے جایا کرتے تھے جن میں چراغ یا قرآن شریف رکھے جاتے تھے اور جن کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا تھا اور مشکوٰۃ ایسے ہی طاقچے کو کہتے ہیں جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو.اللہ تعالیٰ ان آیات میں اپنے نور کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُس نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے جس میں ایک بتی رکھی ہوئی ہو.اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ.اور وہ بتی ایک چمنی یا گلوب میں ہو.اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ.اور وہ چمنی یا گلوب ایسے اعلیٰ درجہ کے شیشہ کا بنا ہوا ہو اور ایسا روشن ہو کہ گویا وہ ایک ستارہ ہے جو چمک رہا ہے.اس جگہ اللہ تعالیٰ کے نور کو تین چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کمالِ نور ہمیشہ تین ذرائع سے ہوتا ہے.ایک مشکٰوۃ سے.ایک مصباح سے اور ایک زجاجہ سے.

Page 517

یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود یہ کہ قرآن کریم ایسے زمانہ میں نازل ہوا جبکہ سائینس ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی اور ایسے ملک میں نازل ہوا جہاں کے لوگ تہذیب و تمدن سے بھی ناآشنا سمجھے جاتے تھے اور ایسے انسان پر نازل ہوا جو اُمّی تھا.پھر بھی روشنی کے کمال کو جس عجیب طرز سے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیسویں صدی کا سائینس دان روشنی کی حقیقت بیان کر رہا ہے.مشکٰوۃ جس طرح اس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوا ر میں بنایا جاتا ہے اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اسی طرح مصباح اُس شعلہ کو کہتے ہیں جو بتی میں سے نکلتا ہے یا بلب کی وہ تاریں سمجھ لو جن سے بجلی کی روشنی پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ وہ روشن ہوں.مصباح کے معنے دراصل صبح کردینے والا آلہ کے ہیں اور اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے بہت تیز روشنی ہوتی ہو اُسے مصباح کہا جاتا ہے اور چونکہ وہ بتی کا گُل ہی ہوتا ہے جو روشن ہوتا ہے یا بجلی کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو بلب کے اندر ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں اس لئے عربی زبان میں انہیں مصباح کہتے ہیں.گویا وہ شعلہ جو آگ لگنے کے بعد بتی میں سے نکلتا ہے یا بجلی کی وہ تار جہاں بجلی پہنچتی ہے تو وہ یکدم روشن ہو جاتا ہے.وہ مصباح کہلاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کے نور کی مثال ایک طاقچہ کی سی ہے جس میں ایک بتی جل رہی ہو اور پھر وہ بتی ایک زجاجہ میں ہو.ہر شخص جانتا ہے کہ ہری کین روشن کرنے کے لئے جب کوئی شخص دیا سلائی جلاتا اور بتی کو لگاتا ہے تو اس وقت بتی کی روشنی کی کیا حالت ہوتی ہے ایک زرد سا شعلہ بتی میں سے نکل رہا ہوتاہے اور اُس کا دھوآں اُٹھ اُٹھ کر کمرہ میں پھیل رہا ہوتا ہے.نازک مزاج اشخاص کے دماغ میں وہ دھوآں چڑھتا ہے تو انہیں چھینکیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.بعض کو نزلہ ہو جاتا ہے لیکن جونہی بتی میں سے دھوآں نکلتا اور کمرے میں پھیلنے لگتاہے انسان جلدی سے چمنی پر ہاتھ مارتا اور ہر ی کین کا ہینڈل دباکر اُسے بتی پر چڑھا دیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسی وقت دھوآں جاتا رہتا ہے اور اس شعلہ کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور پہلی روشنی سے بعض دفعہ بیس گُنے بعض دفعہ تیس گنے بعض دفعہ پچاس گنے بعض دفعہ سو گنے اور بعض دفعہ دو سو یا ہزار گنے تیز روشنی پیدا ہو جاتی ہے.اور تمام کمرہ روشن ہو جاتا ہے.پھر زائد بات اس چمنی یا گلوب کی وجہ سے یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بتی بجھتی نہیں.تیز بارشوں کے ایّام میں رات کے وقت لوگ ہری کین لے کر باہر چلے جاتے ہیں.آندھی آرہی ہوتی ہے طوفان اُٹھ رہا ہوتا ہے.چھتیں ہل رہی ہوتی ہیں.عمارتیں کانپ رہی ہوتی ہیں.پیر لڑکھڑا رہے ہوتے ہیں مگر وہ روشنی جو انسان ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے نہیں بجھتی کیونکہ اس کی چمنی اس کے ماحول کو محفوظ کر دیتی ہے اور نہ صرف اس کی روشنی کو کئی گنا زیاد ہ کر دیتی ہے بلکہ اُسے بجھنے سے بھی محفوظ کر دیتی ہے.مگر بعض لمپ ہر ی کین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں.اور جو بڑے بڑے لمپ کمروں کو روشن

Page 518

کرنے کے لئے جلائے جاتے ہیں ان کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان کی روشنی تیز کرنے کے لئے ان کے پیچھے ایک اس قسم کی چیز لگا دی جاتی ہے جو روشنی کو آگے کی طرف پھینکتی ہے.پرانے زمانوں میں لوگ اس غرض کے لئے لمپ کو طاقچہ میں رکھ دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں اس کی ایک مثال ٹارچ ہے.ٹارچ پیچھے سے لمبی چلی آتی ہے اور اس کے آگے اس پر ایک نسبتًا بڑا خول چڑھا دیتے ہیں جو بلب کے تین طرف دائرہ کی شکل میں پھیلا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ایک چمکدار دھات لگی ہوئی ہوتی ہے جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو آگے کی طرف پھیلا دے اگر اس خول کو اتار لیا جائے تو ٹارچ کی روشنی دس پندرہ گز تک رہ جاتی ہے.لیکن اس خول کے ساتھ وہی روشنی بعض دفعہ پانچ سو گز بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو دو ہزار گز تک پھیل جاتی ہے.یہ روشنی کو دُور پھینکنے والا جو خول ہوتا ہے اُسے انگریزی میں ری فلیکٹرکہتے ہیںاور بڑی بڑی طاقت کے لمپ توری فلیکٹر کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ دور تک روشنی پہنچا دیتے ہیں اس طرح روشنی مکمل ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں.غرض یہ تین چیزیں ہیں جن سے نور مکمل ہو تا ہے اُن میں سے ایک تو شعلہ ہے جو اصل آگ ہے.اور جس کے بغیر کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا.روحانی دنیا میں وہ شعلہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور چمنی جس سے وہ نور روشن ہوتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ہیں.یوں تو دنیا کے ہر ذرہ سے خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہے مگر وہ نور لوگوں کو نظر نہیں آتا.ہاں جب خدا تعالیٰ کا نبی آتا ہے.اور اُسے اپنے ہاتھوں میں لے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تب ہر شخص کو وہ نور نظر آنے لگ جاتا ہے.بالکل اسی طرح جس طر ح بتی جلائی جائے تو ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اُسے بجھا دیتا ہے.مگر جونہی اس پر شیشہ رکھ دیا جاتا ہے سب اندھیرا دُور ہو جاتا ہے تاریکی مٹ جاتی ہے اور وہی نور آنکھوں کے کام آنے لگ جاتا ہے.اس کایہ مطلب نہیں کہ اصل چیز شیشہ ہے اصل چیز تو وہ نور ہی ہے جو بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے.مگر چونکہ وہ نور دھوئیں کی شکل میں ضائع ہو رہا ہوتا ہے اس لئے لوگ اس سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک اس پر شیشہ نہیں چڑھایا جاتا.ہاں جب شیشہ چڑ ھ جاتا ہے تو وہی نور جو پہلے ضائع ہو رہا ہوتا ہے ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے.پھر چمنی سے مل کر پہلے نور سے بیس گنے سو گنے دوسو گنے ہزار گنے بلکہ دوہزار گنے زیادہ تیز ہو جاتا ہے.یہ شیشے اور گلوب دراصل انبیاء کے وجود ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے اس نور کو جو قدرت میںہر جگہ پایا جاتا ہے لیتے ہیں اور اپنے گلوب اور چمنی کے نیچے رکھ کر اُس کا ہر حصہ انسانوں کے استعمال کے قابل بنا دیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس نور کو دیکھنے لگ جاتی ہے.اس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے لگ جاتی ہے.

Page 519

اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ سورۃ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا اور فرمایا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا میں نے ایک آگ دیکھی ہے اس فقر ہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے.پس اٰنَسْتُ نَارًا میں یہ بتا یا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے.یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اُسے دیکھ سکتا ہے لیکن جب وہ نبی کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے.یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی بہت تیز ہو جاتی ہے.پھر نبوت میں یہ نور آکر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدود ہو تا ہے کیونکہ نبی بھی موت سے محفوظ نہیں ہوتے.پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کے لئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک ری فلیکٹر بنایا.جس کا نام خلافت ہے جس طرح طاقچہ تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح خلفاء نبی کی قوتِ قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا.اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اوراس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا.غرض خلافت کے ذریعہ سے الٰہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو الٰہی نور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو سوا دو سال اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور خلافتِ عمر ؓ کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور ساڑھے دس سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور بارہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا.پھر حضرت عثمان ؓ کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور چار سال نو ماہ اُس نور کو اور لمبا کر دیا گیا.گویا تیس سال الٰہی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا.پھر ناقص خلافتوں کے ذریعہ سے تو یہی نور چار سو سال تک سپین اور بغداد میں ظاہر ہوتا رہا.غرض جس طرح ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ بلب کی روشنی دُور دُور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دیکر بنائے جاتے ہیں جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیر کا ری فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی

Page 520

جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے.اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا ہے اور اسے دُور تک پھیلا دیتا ہے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت نبوت اور الوہیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہا ہے.مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.جیسے نیچر پر غور کرکے اللہ تعالیٰ کی ہستی معلوم کرنےکا شوق رکھنے والے ہمیشہ ٹھو کریں کھاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ( اٰل عمران :۱۹۱) بالکل درست ہے اور زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی آیات پائی جاتی ہیں مگر یہی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یورپ کے فلاسفروں کو دہریہ بنا رہی ہے.گویا خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ.یہ شعلہ جب نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دھوآں بھی اٹھتا ہے جو بعض دفعہ نزلہ پیدا کردیتا ہے اور آنکھوں کو بھی خراب کرتا ہے.وہ دھوآں تب ہی دُور ہوتا ہے جب اُس پر نبوت کی چمنی یا گلوب رکھ کر اُسے روشنی کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے اگر اس کے بغیر کوئی اس شعلہ سے نور کاکام لینا چاہے تو اُسے کچھ نور ملے گا اور کچھ دھوآں ملےگا جو اس کی آنکھوں اور ناک کو تکلیف دے گا.چنانچہ اسی وجہ سے جو شخص نیچر پر غور کرکے خدا تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے وہ کئی دفعہ ٹھوکریں کھاتا ہے اور بعض دفعہ تو خدا تعالیٰ کو پانے کی بجائے دہریہ ہو جاتا ہے.مگر جو شخص خدا تعالیٰ کے وجود کو نبوت کی چمنی کی مدد سے دیکھنا چاہتا ہے اس کی آنکھیں اور اس کا ناک دھوئیں کے ضرر سے بالکل محفوظ رہتے ہیں.اور وہ ایک نہایت لطیف اور خوش کن روشنی پاتا ہے جو سب کثافتوں سے پاک ہوتی ہے.بانی سلسلہ احمدیہ نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ فرمایا ہے.؎ فلسفی کز عقل مے جوئد ترا دیوانہ است دُور تراست ازخرد ہا آں رہِ پنہانِ تو (چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۱) ٍ غرض کائنات ِعالم پر غور کرکے خدا تعالیٰ کا وجود پانے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے کچھ ابتلاء رکھے ہیں کچھ شکوک رکھے ہیں کچھ شبہات رکھے ہیں تا وہ مجبور ہو کر نبوت کی چمنی اُس نور پر رکھیں چنانچہ جب بھی الٰہی نور پر نبوت کی چمنی رکھی جاتی ہے.اُس نور کی حالت یکدم بدل جاتی ہے اور یا تو وہ بو دینے والا دھوآں نظر آرہا ہوتا ہے اور یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نور ہی نور ہے او ر اس میں دھوئیں کا نشان تک نہیں.پھر جب اس روشنی کو اٹھا کر ہم طاقچہ میں رکھ

Page 521

دیتے ہیں تو پہلے سے بہت زیادہ دُور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے.غرض اس آیت میں الوہیت.نبوت اور خلافت کا جوڑ بتا یا گیا ہے.اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہو جاتی ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت کاختم ہونا یا نہ ہونا انسانوں کے اختیار میں ہے اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک قائم رہ کر اُن کی طاقت کو بڑھانےکا موجب ہو سکتا ہے اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو رد کردیں تو اس کا علاج کسی شخص کے پاس نہیں.اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والی آیت کا مضمون مختصراً بتانے کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے گرد چکر لگا رہی ہے.اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے بدکاری اوربدکاری کے الزامات لگانے والوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جوا لزام لگا تھا اس کا ذکر کیا ہے.پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان فرماتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے.یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے دوسرے اور تیسرے رکوع میں بیان فرمائے ہیں.کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے.کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے.کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے.کسی جگہ ان دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے مگر اس کے معًا بعد فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے.اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ا س کا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے ؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآ ن کریم میں کوئی ترتیب نہیں وہ نعوذ باللہ ایک بے ربط کلام ہے.اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جاپڑتا ہے اور کوئی کسی جگہ وہ تو کہہ دے گا کہ اس میں کیا حرج ہے.پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کر دیا گیا ہے.مگر وہ شخص جو حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ ایک ترتیب رکھتا ہے.وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پہلے تو بدکاری کے الزامات اور اُن کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معًا بعد یہ ذکر شروع کر دیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہو ا.پھر انسان اور زیادہ حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس سے دو رکوع بعد یعنی ساتویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر شروع کر دیا ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

Page 522

َیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ(النور:۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گویا پہلے تو زنا کے الزامات کا ذکر کیا.پھر حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ بیان کیا.پھر اُن الزامات کے الزالہ کے طریقوں کا ذکر کیا پھر اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا مضمون بیان کیا اور پھر کہہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ہے کہ جو مومن ہو ںگے انہیں میں اس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بنائوں گا جس طرح پہلے لوگو ں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے دین کو دنیا میں قائم کروںگا اور اُن کے خوف کو امن سے بد ل دوںگا.وہ میری عبادت کریںگے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اور جوان خلفاء کا منکر ہو گا وہ فاسق ہوگا.پس لازمًا یہ سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے پھر اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کر دیا.ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہیے ورنہ یہ سمجھا جائےگا کہ قرآن کریم نعوذ با للہ بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے.اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم ہستی والا ربط اور رشتہ نہیں ہے.ا س جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگانے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:۵)کہ وہ لوگ جو بے گناہ عورتوں پر الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقعہ کے چار گواہ نہیں لاتے تم اُن کو اسّی کوڑے مارو.اور تم ان کی موت تک اُن کو جھوٹا سمجھو اور اُن کی شہادت کو کبھی قبول نہ کرو.وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ اور یہی وہ لوگ ہیں جوخدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں.پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَکہ جو شخص خلفاء کا ا نکار کرے وہ فاسق ہے.اب جو الفاظ زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے رکھے تھے اور جو نام اُن کا تجویز کیا تھا وہی نام خدا تعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریبًا اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چارگواہ ایک موقعہ کے نہیں لاتے انہیں اسّی کوڑے مارو.انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ یہ لوگ فاسق ہیں.اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے.غرض جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم ہستی کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے باربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات دیکھنے کا اُسے موقعہ ملا ہے اُس کے دل میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ کیا ہے.اس مشکل کو حل کرنے کے لئے اگر اس مضمون پر غور کیا جائے جو میں نے اوپر بتا یا ہے اور جو یہ ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں

Page 523

الوہیت ، نبوت اور خلافت کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے تو آخری دو مضمونوں کا تعلق پہلے مضامین سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلال الٰہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الٰہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدہ کے لئے محفوظ کر دیا جاتا ہے.اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعًا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے سو وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ کی آیات میں اس خواہش کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا اور بتادیا کہ یہ نعمت تم کو بھی اُسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی.غرض ان بیان کردہ معنوں کی رُو سے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کی آیت اور ان کی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہو جاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے کیا تعلق ہوا.یعنی سورۃ نور کے پانچویں رکوع کا اس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوا.لیکن جو پہلے چار رکوع ہیں جن میں بدکاری اور بدکاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے اُن کا اس سے کیا تعلق ہے جب تک یہ جوڑ بھی نہ ملے اس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب پورے طور پر ثابت نہیں ہو سکتی.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور اُن میں خصوصًا اس الزام کو رد کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی.اس کا سبب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی.ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو نہ قضاء سے.نہ عہدوں سے نہ اموال کی تقسیم سے نہ لڑائیوں سے.نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے نہ حکومت سے نہ اقتصادیات سے اُس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے.پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست بُغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا.خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو رد کیا ہے او ر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لئے لگا یا گیا ہو.اب

Page 524

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لئے یا اُن کے سرداروں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے.ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے او ر ایک حضرت ابوبکر ؓ سے.کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں.یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض اُن کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں.ورنہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی.زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہ ؓکو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو.مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت حجش ؓ تھیں.ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینب ؓ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگا یا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں.( السیرۃ الحلبیۃ غزوة بنی المصطلق ) پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گِر جائیں اور اُن کی عزت بڑھ جائے.مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہ ؓ کی تعریف ہی کی.غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.پس آپ پر الزام یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے.انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں.وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ؓ ہی ہے.پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگا دیاتا حضرت عائشہ ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گِر جائیں اور اُن کے گِرجانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر ؓ کو

Page 525

مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپ سے تھی.اور اس طرح رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا.حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہ ؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر ؓ کا ہی مقام ہے (ابوداؤد کتاب السنة باب فی التفضیل).حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے کہا.اے عائشہ ؓ ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر ؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہوںگے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر ؓ).غرض صحابہ ؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر ؓ کا ہے اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں.مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.لیکن مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعاً منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہوکر نظامِ اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کے لئے تباہ نہ ہو جائیں.کیونکہ آپ کے مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے اُن کی کئی اُمیدیں باطل ہوگئی تھیں.تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دوقبیلے اوس اور خزرج تھے اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خون ریزی کا بازار گرم رہتا تھا.جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آ پس میں صلح کی تجویز کی.اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے.اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لئے تاج بننے کا حکم دے دیا گیا.اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اور لوگوں نے بھی مکہ جاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی.اور پھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے.انہی دنوں چونکہ

Page 526

مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ کو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ؓ سمیت مدینہ ہجرت کرکے آگئے(السیرة النبویة لابن ہشام نبذ من ذکر المنافقین و بدء اسلام ا لانصار العقبۃ الاولٰی) اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا.کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گووہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا.اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا.جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آجاتی اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اُسے اس رنگ میں بھی زک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے.آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اُسے خوف پید ا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اُس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا.چنانچہ اس کے لئے جب اس نے غور کیا تو اُسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکر ؓ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہی کی طرف اٹھتی ہیں.اور وہ اُسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کرد یا جائے.اور لوگوں کی نظروں سے گِرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی آپ کو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اُسے حضرت عائشہ ؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارۃً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے.عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکر ؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہو جائیںگے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائےگا جس کا قائم ہونا اُسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی اُمیدیں برباد ہو جاتی تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکومت کے خواب

Page 527

صرف عبداللہ بن ابی ابن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ بعض اور لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے.چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کر لوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں.اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو.وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے.آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبردست قوم ہے اس لئے میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اُس وقت کھجور کی ایک شاخ تھی.آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ محمد ؐرسول اللہ اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کردیں تو میں ان کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں تو خدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا (بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامة بن اثال).اور اپنی تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہو گیا.تومسیلمہ کذاب نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی.یہی حال عبداللہ بن ابی ابن سلول کا تھا.چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے.اس لئے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا.وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں.لیکن اب اُس نے دیکھا کہ ابوبکر ؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکر ؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقعہ نہیں ملتا تو مسلمان ابو بکر ؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی اُمیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا.اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے.چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کے لئے اُس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ ؓ سے نفرت پیدا ہواور حضرت عائشہ ؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکر ؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو

Page 528

اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور اُن کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے چنانچہ اسی امر کااللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے.مگرفرماتا ہے لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ تم یہ خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی برا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائےگا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زورمار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے.اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے.پھر فرماتا ہےلِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ.ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اُسے مل جائےگا.چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شریک تھے انہیں اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے.پھر فرمایا وَ الَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ.مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اس تمام فتنہ کا بانی ہے یعنی عبداللہ بن ابی ابن سلول اُسے نہ صرف ہم کوڑے لگوائیں گے بلکہ خود بھی عذاب دیں گے.چنانچہ اس وعید کے مطابق اُسے کوڑوں کی سزا بھی دی گئی ( السیرۃ الحلبیۃ باب مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوة بنی المصطلق ) اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُسے عذاب مل گیا.اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلا ک ہوگیا اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے بعد خلیفہ ہوگئے اس طرح یہ عذاب اُسے اس رنگ میں بھی ملا کہ غزوہ بنومصطلق میں ایک معمولی سی بات پر جب انصار اور مہاجرین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول جو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتا تھا.اُس نے انصار کو بھڑکا تے ہوئے کہا کہ اے انصار ! یہ تمہاری اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے.تم نے مہاجرین کوپناہ دی اور اب وہ تمہارے سر چڑھ گئے ہیں.تم مجھے مدینہ پہنچنے دو.وہاںکا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی ( نعوذ باللہ )محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دےگا.عبداللہ بن ابی ابن سلول کا بیٹا ایک نہایت ہی مخلص نوجوان تھا.اُس نے یہ الفاظ سُنے تو وہ بے تاب ہوگیا اور وہ بھاگتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میرے باپ نے ایسی ایسی بات کہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ کی سزا موت کے سوا او ر کوئی نہیں ہو سکتی.میں صرف اتنی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیں تو یہ حکم کسی اور کو نہ دیں بلکہ خود مجھے دیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور شخص اُسے قتل کر دے تو بعد میں کسی وقت اُسے دیکھ کر مجھے جوش آجائے اور میں اُس پر حملہ کر بیٹھوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اُسے کوئی سزا نہیں دینا

Page 529

چاہتے ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا ہی معاملہ کریں گے.اب گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کوئی سزا نہ دی مگر اس کے بیٹے کا دل اس غم سے کباب ہو رہا تھا کہ میرے باپ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسے گندے اور ناپاک الفاظ کیوں استعمال کئے.اور اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے باپ سے اس کا انتقام لےگا.چنانچہ جب اسلامی لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو اس کا بیٹا جلد ی سے آگے بڑھا اور مدینہ کے دروازہ پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ سے کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! میں تمہیں اس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز شخص ہیں اور میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں.اور اگر تُونے اس بات کا اقرار نہ کیا تو میں اسی تلوار سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوںگا.عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اپنے بیٹے کی زبان سے یہ بات سُنی تو وہ گھبرا گیا اور اُس نے مدینہ کے دروازہ میں کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! سُن لو میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے زیادہ معزز انسان ہیں.جب اُس نے یہ بات کہی تب اس کے بیٹے نے اُس کا راستہ چھوڑا اور اُسے شہر میں داخل ہونے دیا(السیرة الحلبیة باب ذکرمغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوة بنی المصطلق).غرض یہ بھی ایک عذاب تھا جو خدا تعالیٰ نے خود اس کے بیٹے کے ذریعہ اُسے دیا.اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اُس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا یا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ.اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنےکا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے.گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے.پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کے لئے اس سامان کو مہیا کریں گے.اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نو ر کا ذکر ہے وہ نور خلافت ہی ہے اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے.فرماتا ہے فِيْ بُیُوْتٍ یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے.نورِ نبوت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِيْ بُیُوْتٍ چند گھروں میں ہے.

Page 530

پھر فرماتا ہے اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ.وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے.اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصدنور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدنظر ہے کہ نورِ خلافت نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نور ِ نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورِ الٰہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے.چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس گئی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پا س گئی.کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان بیوت کو اونچا کرے.تُرْفَعَکے لفظ نے یہ بھی بتادیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں مگر خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے.اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے.اب دیکھو سورۂ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے.پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگا یا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو رسو ا کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کے جو تعلقات ہیں اُن میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگا ہ میں ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں کیونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھتی ہے تو وہ ابوبکر ؓ ہی ہے اور اگر ابوبکر ؓ کے ذریعہ سے خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی ابن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہیں ہوںگے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے معًا بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس کا ضائع ہونا نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے.پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہیں بلکہ متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے اس نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگائو.نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابوبکر ؓ کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے جو نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے.

Page 531

دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورۂ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہو جاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس کے بعدکی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہو جاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں.پس خلافت ایک الٰہی انعام ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے.وہ خدا تعالیٰ کے نور کے قیام کا ایک ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے.ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے.پھر فرماتا ہے.لَا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ.وہ نہ شرقی ہے نہ غربی.شرقی درخت اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مشرق کی طرف سے پڑتا ہو اور مغرب کی طرف سے کسی دیوار یا درختوں کی اوٹ کی وجہ سے نہ پڑتا ہو.اور غربی اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مغرب کی طرف سے پڑتا ہو مشرق کی طرف سے نہ پڑتا ہو.اس میں ایک بات تو یہ بتائی کہ اسلامی شریعت ایک عالمگیر تعلیم کی حامل ہے.وہ نہ مشرقی لوگوں سے مخصوص ہے اور نہ مغربی لوگوں سے بلکہ ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں.پس دنیا اسی صورت میں امن سے رہ سکتی ہے جب وہ قرآنی تعلیم پر عمل کرے.دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انتخابِ خلافت میں مشرق و مغرب کا خیال نہیں رکھنا چاہیے.بلکہ مسلمانوں میں سے جو شخص لائق ہو اس کو خلیفہ بنانا چاہیے.يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ.پھر اس کا تیل ایسا بھڑکنے والا ہے کہ آگ کے بغیر بھی بھڑک سکتا ہے.مگر اس کو آگ دکھا دی جائے تو نُوْرٌعَلیٰ نُوْرٍ ہو جاتا ہے یعنی وہ تعلیم ایسی کامل ہے کہ فطرتِ صحیحہ اس کو قبول کر نے کے لئے خود ہی اس کی طرف دوڑتی ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کا کوئی ہادی بھی ظاہر ہو جائے اور الہام الٰہی کی آگ بھی اُسے چھو جائے تو پھر تو فطرتِ صحیحہ اس شریعت کے ساتھ مل کر اور نبی کی صحبت کی گرمی پا کر دنیا کو روشن کر دیتی ہے.مگر فرماتا ہے یہ نور انسانی محنت سے نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے فائدہ کے لئے ہمیشہ اپنے دین کی تفاصیل بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے.

Page 532

ِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ١ۙ يُسَبِّحُ یہ( دیئے) ایسے گھروں میں ہیں جن کے اونچا کئے جانے کا خدا نے حکم دےدیا ہے.اور اُن میں خدا کا نام لیا جاتا لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ۰۰۳۷رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ ہے.(اور) اُن میں اس کی تسبیح کی جاتی ہے دن کے وقتوں میں بھی اور شام کے وقتوں میں بھی.(یہ ذکر کرنےوالے) تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ کچھ مرد ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوٰۃکے دینے سے نہ تجارت اور نہ سود ا بیچنا غافل الزَّكٰوةِ١۪ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ کرتا ہے.وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اُلٹ جائیں گے اور آنکھیں پلٹ جائیں گی.نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ الْاَبْصَارُۗۙ۰۰۳۸لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ يَزِيْدَهُمْ (تعالیٰ) اُن کوان کے اعمال کی بہتر سے بہتر جزا دے گا.اور ان کو اپنے فضل سے (مال اور اولاد میں) بڑھا دےگا.مِّنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۰۰۳۹ اور اللہ( تعالیٰ) جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے.حلّ لُغَات.اَلْغُدُوُّ.اَلْغُدُوُّ اَلْغُدْوَۃُ کی جمع ہے اور اَلْغُدْوَۃُ کے معنے ہیں اَلْبُکْرَۃُ صبح.اس طرح اَلْغُدُوُّ مصدر بھی ہے جس کے معنے صبح کرنے کے ہیں.(اقرب) اَلْاٰصَالُ.اَلْاٰصَالُ اَلْاَصِیْلُ کی جمع ہے اور اَلْاَصِیْلُ کے معنے ہیں.وَقْتٌ مَابَعْدِ الْعَصْرِ اِلَی الْمَغْرِبِ وہ وقت جو عصر سےلےکر مغرب تک ہوتا ہے.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.یہ نور اس وقت ایسے گھروں میں ہے (یعنی مسلمانوں کے گھروں میں )جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے.بلند کرنے کے یہ معنے نہیں کہ اُن کو اُٹھا کر ہو ا میں معلق کر دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کے درجات کو بلند کیا جائےگا اور انہیں غیر معمولی عزت اور لازوال شہرت

Page 533

عطا کی جائےگی.مگر تعجب ہے کہ جب رفع کا لفظ حضرت مسیح ناصری ؑ کے متعلق آجائے تو اس کے یہ معنے کر لئے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں زندہ بجسدِ عنصری آسمان پر اُٹھا لیا(بحر محیط سورۃ المائدۃ زیر آیت واذ قال اللہ یا عیسٰی).حالانکہ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کے گھروں کے متعلق وہی لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر کوئی شخص نہیں کہتا کہ اُن کے گھروں کو اُٹھا کر آسمان پر لے جایا گیا تھا یا انہیں ہوا میں معلق کر دیا گیا تھا.ہر شخص مانتا ہے کہ یہاں درجات کی بلندی مراد ہے.اسی طرح حضرت مسیح ؑ کے متعلق بھی یہی معنے لئے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت دی اور اُس لعنتی موت سے انہیں بچا لیا جس کا یہود انہیں شکار بنانا چاہتے تھے.يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ.اس جگہ غدو سے مراد وقت الغدویعنی صبح کرنے کا وقت ہے.اور چونکہ صبح کی نماز ایک ہی ہوتی ہے.اس لئے یہاں وقت الغدو کے معنے ہی چسپاں ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں آصال کا لفظ رکھا گیا ہے.کیونکہ شام کی کئی نمازیں ہوتی ہیں.ظہر بھی زوال کے بعد پڑھی جاتی ہے اور عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی شام ہی کے قریب ہوتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے شام کے لئے آصال کا لفظ رکھا.رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِمیں بتا یا کہ ان لوگوں کے ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ زراعت نہیں کرتے یا کوئی اور دنیوی کام نہیں کرتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر اُن کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور اُن کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے منتظر ہوتے ہیں.جونہی اُن کے کانوں میں مؤذن کی آواز آتی ہے وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر اپنی زراعت کو چھوڑ کر اور اپنی صنعت و حرفت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام کرنا ہے سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے نہ اٹھیں.بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فوراً بستر سے الگ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کے لئے ان لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو کلیۃً خدمت کے لئے وقف کر دیں مگر وہ شخص بھی ایک رنگ میں واقفِ زندگی ہے جس کے تمام اوقات خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت گذرتے ہیں اور وہ ہر آن اور ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے تجارت کرو.اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے زراعت کرو.اگر وہ کسی اور پیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے کہ تم پیشوں کی طرف متوجہ ہو.پس اس کی تجارت اُس کی زراعت اور اُس کی صنعت لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰه ِ

Page 534

کی مصداق ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اُسے غافل نہیں کرتی.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ کہنے لگ جائے کہ میں کیا کروں میری تجارت کو نقصان پہنچے گا.میری زراعت میں حرج واقع ہو گا بلکہ اُسے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں.وہ جانتا ہی نہیں کہ میں تاجر ہوں وہ جانتا ہی نہیں کہ میں زمیندار ہوں.وہ جانتا ہی نہیں کہ میں صناع ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ساری عمر ہی خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اس کی تنخواہ کھاتا رہا ہوں اور اب وقت آگیا ہے کہ میں حاضر ہو جائوں.اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کردوں پس باوجود تجارت کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے.باوجود زراعت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقف زندگی ہے.مگر جو شخص ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خدا تعالیٰ کی یا اُس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں منتظر تھا وہ اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے اور اسے اپنے لئے ایک تکلیف اور دُکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان درحقیقت خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل نہیں.اس حقیقت کو انسان پر ظاہر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں.ہر روز پانچ وقت خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت تمہارے ایمان کی حقیقت تم پر آشکار کرتا ہے.پانچ وقت جب مکبر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ.حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ.اے لوگو آئو نماز کی طرف.اے لوگو آئو نماز کی طرف.تو اگر تمہارے ہاتھوں پر اُس وقت لرزہ طاری ہو جاتا ہے.تمہارے جسم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم تاجر ہو.تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم زمیندار ہو.تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صناع ہو.تمہیںبھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو.تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجار ہو.تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معما ر ہو.تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو.تمہیں صرف ایک ہی بات یاد رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو تب اور صرف تب تم اپنے دعوٰئے ایمان میں سچے سمجھے جا سکتے ہو.لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ حَيَّ عَلَی الصَّلٰوۃ اے میرے بندو میری عبادت کے لئے آئو او ر تمہارا نفس تمہیں کہہ رہا ہوتا ہے کہ دو گاہک او ر دیکھ لوں اور چند پیسے کمالو ں.اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جاکر نماز کیا پڑھنی ہے اسی جگہ پڑھ لیں گے.بلکہ کئی دفعہ واقعہ میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یاد وکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدا نے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہوگئے.صحابہ کرامؓ ذکر الٰہی میں ترقی کرنے کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ اُن کی یہ جدوجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی

Page 535

ہوئی تھی.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیںاسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں.جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر یا رسول اللہ ہم زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے.اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتا تا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے.آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد ۳۳ دفعہ سبحان اللہ ۳۳ دفعہ الحمد للہ اور۳۴ دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو.وہ وہاں سے بڑے خوش خوش اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا.مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اُس نے عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے.آپ نے فرمایا کس طرح ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات ہمیں اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی ہے اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے(کنزالعمال باب فی السماء و الصدقۃ فصل فی انواع الصدقة).اب ہم کیا کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرنیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں کس طرح روک سکتا ہوں.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس آیت میں تجارت اور بیع دونوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے.حالانکہ کوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی.درحقیقت اُس میں حکمت یہ ہے کہ بعض کاموں میں دونوں جہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کما تا ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان کوئی چیز خرید تا نہیں صرف فروخت کرتا ہے.پس وہ چیز جس میں انسان خرید و فروخت سے نفع کماتا ہے اُسے تو تجارت کہا گیا ہے.اور جس میں انسان کوئی چیز خریدتا نہیں صرف فروخت کرتا ہے.اُسے بیع قرار دیا گیا ہے.جیسے زمیندار یا صناع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اُس کی اپنی پیداوار ہوتی ہے.پس اُس کا کام درحقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں.اس لئے اس کا تجارت سے الگ ذکر کیا گیا ہے.گویا بتایا کہ ہر قسم کی تجارت خواہ وہ ملکی ہو یا اور آمدو برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو.اسی طرح زمیندار ہ اورصنعت و حرفت کے کارخانے نہ انہیں نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتے ہیں اور نہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے اُن کی توجہ پھراتے ہیں وہ دنیا میں رہ کر تجارت بھی کرتے ہیں زراعت بھی کرتے ہیں.ملازمت بھی کرتے ہیں.مگر پھر وہ آسمان پر بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف لگا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن

Page 536

کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہوںگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہوںگے.نادان انسان جب اُن کے پاس مال دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ شائد اُن کے دل میں مال کی بڑی محبت ہے مگر اُن کے آسمانی ہونے کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز آتی ہے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کا اصل مقصود خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اُن کی دنیا دین کے راستہ میں روک نہیں بلکہ وہ دنیا اس لئے کماتے ہیں تاکہ وہ دین کی زیادہ دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ خدمت کر سکیں.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں مختلف مذہبی جماعتیں اپنی ترقی کی نسبت تین قسم کے خیالات رکھتی ہیں.(۱) بعض جماعتوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب نام اس بات کا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دیا جائے اور کلی طور پر تمام افراد اپنے تمام اوقات دینی کاموں میں مشغول رکھیں.ایسی جماعتیں یا تو دنیا میں صرف تصوف کا ایک سلسلہ ہو کر رہ گئی ہیں اور یا پھر وہ اپنی بات پر عمل نہیں کر سکیں.بہت سے سادھو او ر فقیر دنیا میں ایسے نظر آتے ہیں جو اس قسم کی تعلیم دیتے ہیں کہ دنیا کمانی نہیں چاہیے.کارخانوں کو جاری نہیں کرنا چاہیے.تجارتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیے.زمیندارہ کام کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے.بلکہ ان تمام کاموں کو چھوڑ کر صرف خدا کی یاد اور اُس کی محبت میں اپنی عمر گذار دینی چاہیے.مگر ایسی جماعتیں ہزاروں اور لاکھوں سے آگے کبھی نہیں بڑھیں کیونکہ وہ فطرت ِ انسانی کے خلاف تعلیم دیتی ہیں.اور اگر کوئی جماعت باوجود اس تعلیم کے بڑھی ہے تو وہ اس تعلیم کو پسِ پشت پھینک کر بڑھی ہے.اس پر عمل کرکے نہیں بڑھی.مثلًا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا کہ تُو اپنا تمام مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے ( متی باب ۱۹ آیت ۲۱) یا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بات کہی کہ ’’ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو.‘‘ ( متی باب ۱۹ آیت ۲۴) اسی طرح انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ ’’ اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.‘‘ ( متی باب ۶ آیت ۱۹،۲۰) یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام نے دی اور جس کا موجودہ اناجیل میں ذکر آتا ہے.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بیشک عیسائی بڑھے اور انہوں نے دنیامیں خوب ترقی کی لیکن کیا عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم پر عمل کرنے کے

Page 537

نتیجہ میں ہوئی یا اس تعلیم کو رد کر نے اور اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دینے کے نتیجہ میں ہوئی.ہر شخص جوذرا بھی عقل و فہم سے کام لے سمجھ سکتا ہے کہ عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ اس تعلیم سے مونہہ پھیر لینے کا نتیجہ ہے.بیشک دنیا میں سب سے زیادہ مال آج عیسائیوں کے پاس ہے دنیا میںسب سے زیادہ کارخانے آج عیسائیوں کے قبضہ میں ہیں.دنیا کی تجارتوں کا اکثر حصہ یورپین اقوام کے ہاتھ میں ہے.اسی طرح زراعت پر اُن کا قبضہ ہے.مختلف پیشوں اور فنون پر ان کا تسلط ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت نے ترقی کی مگر حضرت مسیح ؑکی طرف جو تعلیم منسوب کی جاتی تھی اُسے توڑ کر اور اُس کی خلاف ورزی کرکے انہوں نے ترقی کی ہے.اُس تعلیم پر عمل کرکے ترقی نہیں کی.(۲) پھر بعض قومیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کو دولت کمانے کے ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں.دین اور مذہب عقیدہ سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.مذہب کا ا س بات سے کیا تعلق ہے کہ ہم کیا کماتے ہیں کس طرح کماتے ہیں اور کن ذرائع سے کماتے ہیں.ایسی جماعتوں نے بیشک دنیا میں ترقی کی مگرا ن کا مذہب ایک مرجھائی ہوئی جھاڑی کی طرح رہ گیا.وہ جماعتیں بے شک دنیا میں بڑھیں اور انہوں نے خوب ترقی کی.مگر اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے پاس رہ گئی.دین اور مذہب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ رہا.(۳)ان دونوں اصولوں کے خلاف اسلام نے ایک اور تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کہتا ہے ہم دنیا کمانے سے تمہیں منع نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں مال کا نام فضل اللہ رکھا گیا ہے ( سورۃ جمعہ :۱۱)اور بتا یا گیا ہے کہ مال و دولت کا میسر آنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل اور اس کے انعامات میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے.اگر اسلام تجارت اور صنعت و حرفت سے منع کرتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اسلام اس امر کو روا رکھتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو اسلام میں داخل ہو لیکن دوسرا حصہ بے شک داخل نہ ہو.مثلاً جہازرانی دنیاکی تجارت کا ایک اہم ترین شعبہ ہے.اگر جہاز بنانے اور جہاز چلانے اسلام کے نزدیک منع ہوتے تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی.یا توسفر منقطع ہو جاتے اور دنیا کی تہذیب اور ان کے تمدن پر ایک کاری ضرب پڑتی.اور یا پھر اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا کہ جو لوگ جہاز بناتے اور جہاز چلاتے ہیں وہ بیشک مسلمان نہ ہو ں.ہندویا عیسائی یا سکھ ہی رہیں کیونکہ اگر وہ اسلام میں داخل ہوئے تو انہیں اس کام سے دست بردار ہونا پڑے گا.مگر یہ بات بھی عقل کے خلاف ہے اور دیدہ و دانستہ دنیا کے ایک طبقہ کو اسلام سے محروم رکھنا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.یا مثلاً کان کنی ایک ایسی چیز ہے جس سے حکومت کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوتی ہے.اگرا سلام روپیہ کمانے سے بنی نوع انسان کو منع

Page 538

کرتا تو وہ یہ حکم دے دیتا کہ تم نے کان کنی نہیں کرنی کیونکہ اگر کان کنی کرو گے تو تمہیں روپیہ حاصل ہوگا اور یا پھر یہ کہا جاتا کہ دنیا میں جس قدر کانوں کے مالک ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں اور یا پھر یہ حکم دیا جاتا کہ کانوں کا کھودنا ہی بند کر دیا جائے تا کہ دین کو کوئی نقصان نہ پہنچے.یا مثلاً غیر ملکوں سے مال کا لانا ہے.یہ ایک بڑی فائدہ بخش تجارت ہے اور کروڑوں روپیہ اس تجارت کے ذریعہ کما یا جا سکتا ہے مگر یہ کام بڑے بڑے تاجر ہی کر سکتے ہیں.دس بیس چالیس یا پچاس ہزار روپیہ سرمایہ بھی اگر کسی شخص کے پاس ہو تو وہ یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ اتنے معمولی سرمایہ سے وہ انگلستا ن سے یا امریکہ سے یا فرانس سے یا چین سے یا جاپان سے بڑی مقدار میں مال منگوا سکتا ہے.کیونکہ غیر ملکوں سے تمام مال جہازوں کے ذریعہ سے آتا ہے اور کوئی معمولی تاجر اس قسم کی تجارت میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا.لازماً ایسے ہی تاجر انگلستان سے مال منگوائیں گے یا امریکہ سے مال منگوائیںگے یا فرانس اور جاپان وغیرہ سے مال منگوائیں گے یا جرمنی سے مال منگوائیں گے جن کے پاس دس بیس چالیس پچاس لاکھ روپیہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسے ہی تاجر اس میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس کروڑ کروڑ روپیہ ہو.پس اگر اسلام روپیہ کمانے کی اجازت نہ دیتا تو دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں.یا تو یہ اعلان کر دیا جاتا کہ اس قسم کی تجارت کرنے والے بیشک مسلمان نہ ہوں وہ تجارتیں کرتے رہیںمگر اسلام قبول نہ کریں کیونکہ اسلام اس قسم کی تجارتوں سے منع کرتا ہے اور یاپھر یہ کہہ دیا جاتا کہ لوگ مسلمان بیشک ہو جائیں مگر اپنی تجارتیں بند کردیں.آئندہ وہ کوئی مال ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جا سکتے کیونکہ ہمارے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے.لیکن یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں.نہ تجارتوں کو بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ان تجارتوں میں حصہ لینے والوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیشک ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہیں اسلام میں داخل نہ ہوں.بہر حال دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کئے بغیر ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں ہو گا.اگر کارخانوں کا کوئی مالک ہمارے پاس مسلمان ہونے کے لئے آتا ہے تو یا تو اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ تم اپنے کارخانے کو بند کر دو اور یا پھر اسے یہ کہنا پڑے گا کہ چونکہ کارخانے کو بند کرنا دنیا کی مشکلات کو بڑھا دیتا ہے اس لئے بیشک تم مسلمان نہ بنو.ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہو.یا موٹر کے کارخانے کی مثال لے لو.ایک ایک موٹر چار چار دس دس بیس بیس ہزار روپیہ میں آتا ہے اور موٹر کا کارخانہ وہی شخص کھول سکتا ہے جس کے پاس دس بیس کروڑ روپیہ موجود ہو.اگر اسلام دنیا کمانے کی اجازت نہ دیتا اور موٹروں کے کارخانہ کا کوئی مالک ہمارے پاس اسلام قبول کرنے کے لئے آتا تو یا تو ہم اُسے یہ کہتے کہ تم مسلمان نہ بنو کیونکہ اگر تم مسلمان بنے تو دنیا کو نقصان پہنچے گا اور تمہیں اپنا کارخانہ بند کر دینا پڑے گا.اور یا پھر ہم اُسے یہ کہتے کہ تم آئندہ موٹریں بنانی چھوڑ دو اور کارخانہ بند کردو.مگر یہ

Page 539

دونوں صورتیں ایسی ہیں جو ناجائز ہیں.نہ اسلام ایک کو جائز قرار دیتا ہے نہ دوسری صورت کو درست تسلیم کرتا ہے.ان مشکلات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑےگا کہ صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جا سکتا اور دوسری طرف قبول اسلام میں بھی کسی قسم کی دیوار حائل نہیں کی جاسکتی.اس لئے ضروری ہے کہ ان دونوں حالتوں کے درمیان کوئی راستہ تلاش کیا جائے جس سے یہ دونوں مشکلات دُور ہو جائیں.نہ دنیا کے تمدن اور اُس کی تہذیب کو نقصان پہنچے اور نہ اسلام میں داخل ہونے سے کسی شخص کو روکا جا سکے.اسلام نے اسی نظریہ کے ماتحت بعض قواعد تجویز کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم لوگوں کو دنیا کمانے سے منع نہیں کرتے.وہ بے شک تجارت کریں وہ بیشک صنعت وحرفت اختیار کریں مگر اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعض قواعد کی پابندی اپنے اوپر لازم کر لیں تاکہ دین کو بھی کوئی نقصان نہ ہو.اور دنیا کی مشکلات میں بھی کوئی اضافہ نہ ہو.وہ ہدایتیں جو اسلام دنیا کمانے کے متعلق دیتا ہے یا مال و دولت اپنے پاس رکھنے والوں کے متعلق دیتاہے اُن میں سے بعض تجارت اور صنعت کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہیں.اور بعض ایسی ہیں جو ہر ایسے شخص کے متعلق ہیں جس کے پاس کسی قسم کا بھی مال ہو خواہ اُس نے کسی اور ذریعہ سے ہی کیوں نہ کمایا ہو.چنانچہ اس بارہ میں پہلا قاعدہ قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مسلمان رہتے ہوئے لوگ مال کمانا چاہیں تو اُن کی حالتلَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ کی مصداق ہونی چاہیے.یعنی وہ بیشک تجارت کریں وہ بیشک بیع کریں مگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک نہیں ہونی چاہئیں.اگر ایک شخص صنعت و حرفت کے ذریعہ مال کمانا چاہتا ہے تو اسلام کہتا ہے بیشک تم مال کمائو اور بیشک صنعت و حرفت اختیار کرو.مگر دیکھو اس کے ساتھ ہی تمہیں پانچوں وقت نماز کے لئے مسجد میں آنا پڑےگا یا اگر ایک شخص تجارت کرنا چاہے تو اسلام کہےگا بیشک تجارت کرو مگر تمہیں پانچ وقت روزانہ اپنی دوکان بند کرکے مسجد میں آنا پڑ ے گا.اسی طرح اگر تجارت اور صنعت و حرفت کرتے ہوئے روزوں کے ایام آجاتے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم روزے رکھو.یہ نہ کہو کہ تجارت یا صنعت و حرفت میں مشغول رہنے کی وجہ سے روزے رکھنے ہمارے لئے مشکل ہیں.اگر یہ چیزیں نماز کے راستہ میں روک بنتی ہیں اگر یہ چیزیں روزوں کے راستہ میںروک بنتی ہیں اگر یہ چیزیں دوسرے دین کے کاموں میں روک بنتی ہیں تو اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ ان کاموں کو چھوڑ دو.اور اپنے دین کو خراب ہونے سے محفوظ رکھو.لیکن اگر یہ چیزیںدین کے راستہ میں روک نہیں تو پھر بیشک دنیا کمائو.اسلام تمہیں اس سے منع نہیں کرتا.اسی طرح ذکر الٰہی ہے.اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازوں کے علاوہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر علیٰحدگی میں خدا تعالیٰ کو یاد کیا کرو.اُس کی حمد کرو اُس کی تسبیح کرو.اُس کی بڑائی بیان کرو.اس کی صفات پر غور کرو.

Page 540

پنے نفس کو احکام الٰہی کے تابع کرنے کی کوشش کرو.اور اپنے قلب کو ہر قسم کی کدورتوں اور میل کچیل سے صاف کرکے ایک ایسا مصفیٰ اور روشن آئینہ بنائو جس میں خدا تعالیٰ کا چہرہ منعکس ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور تمہارے ذریعہ سے ہونے لگے اور اگر تم ایسا کرتے ہو تو بیشک تم اچھے لوہار بنو تاجر بنو اچھے صناع بنو اچھے کارخانہ دار بنو اور خوب مال کمائو ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں کیونکہ تمہارے یہ کام ہمارے دین اور ہمارے ذکر میں حائل نہیںہیں.پس پہلی شرط جس کو اسلام پیش کرتا ہے وہ وہی ہے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے کہ رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ.مومن بے شک تجارت بھی کرتے ہیں.خریدو فروخت بھی کرتے ہیں صنعت و حرفت بھی کرتے ہیں مگر اصل کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر اوراس کے دین کی مدد میں روک بن کر حائل نہ ہو جائیں.پس ایک مومن اور غیر مومن میںیہ فرق ہے کہ مومن بھی تجارت کرتا ہے اور غیر مومن بھی تجارت کرتا ہے مومن بھی صنعت وحرفت اختیار کرتا ہے اور غیرمومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے مگر غیرمومن جب ان کاموں میں مشغول ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی توجہ بالکل ہٹ جاتی ہے لیکن جب ایک مومن یہ کام اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے ذکر میں روک نہیں بنتیں ان مشاغل کے باوجود اس کی ذکر الٰہی کی عادت پھر بھی قائم رہتی ہے.نمازیں پھر بھی باقاعدگی سے ادا کرتاہے زکوٰۃ پھر بھی بالشرح ادا کرتاہے.روزے پھر بھی پوری احتیاط سے رکھتا ہے.حج پھر بھی استطاعت پر کرتا ہے گویا اس کے دنیوی مشاغل دین کی خدمت کے راستہ میں روک نہیں بنتے.اور چونکہ دین کا پہلو مضبوط رہتا ہے.اس لئے اسلام کہتا ہے کہ ہمیں تمہارے دنیا کمانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر مثلاً تبلیغ کا وقت آجائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کے لئے وقت دے اور اُس وقت کوئی شخص کہے کہ میں تبلیغ کے لئے کس طرح وقت دے سکتا ہوں.میں اگر وقت دوں تومیری دوکان کا نقصان ہوتا ہے تو اسلام کہےگا یہ تجارت تمہارے لئے جائز نہیں.یا اگر کوئی کارخانہ دار کہے کہ میں کس طرح تبلیغ کے لئے باہر جا سکتا ہوں.میں اگر باہر جائوں تو کارخانے کا تمام کام درہم برہم ہوجائےگا تو اسلام کہے گا ایسا کارخانہ تمہارے لئے جائز نہیں.پس مومن وہی ہیں جو لَا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ کے مصداق ہوتے ہیں یعنی تجارت اور بیع اُن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہیں روکتی بلکہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہوتی ہے ایک مومن تاجر.ایک مومن کا رخانہ دار ایک مومن صناع اپنی تجارت اور اپنے کارخانہ اور اپنی صنعت کو چھوڑ کر اس آواز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے.دوسری شرط اسلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ

Page 541

اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ( التوبۃ:۳۴) یعنی وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اُسے خرچ نہیں کرتے ایسے لوگوں کو تو درد ناک عذاب کی خبر دیدے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ جو شخص روپیہ کماتا اور اُسے غلّق میں بند کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.ایسا شخص اسلامی نقطہ نگاہ سے مومن نہیں کہلا سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بھی اپنی تجارتوں کو بڑھاتا ہے اور اگر وہ اپنی تجارت کو ترقی نہیں دےگا تو اس کے پاس روپیہ کہاں سے آئے گا.روپیہ کمانے کے لئے ضروری ہے کہ تجارت اور صنعت کو فروغ دیا جائے لیکن اگر کسی تجارت یا صنعت کا یہ نتیجہ نکلے کہ انسان روپیہ جمع کرنا شروع کر دے اوربخل کا مرض اس میں اس قدر ترقی کر جائے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اُس پر گراں گذرنے لگے تو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے وہ تجارت اور صنعت بالکل ناجائز ہوگی.وہی تجارت اور وہی صنعت جائز ہے جس کے نتیجہ میں بے کار روپیہ جمع نہ کیا جائے.ہاں وہ روپیہ جس کا رکھنا کسی خاص غرض کے لئے ضروری ہو مثلاً کام کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے یا مکان وغیرہ بنانے کے لئے یا روزانہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یا بچوں کی شادی بیاہ کے لئے.ایسا روپیہ ہر شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے.یا مثلاً ایک شخص جس نے کارخانہ کھولا ہوا ہو اُسے کارخانہ کے لئے کبھی لوہا خریدنا پڑتا ہے کبھی کوئلہ خریدنا پڑتا ہے کبھی مٹی کا تیل خریدنا پڑتا ہےکبھی آٹے یا سوجی کے لئے گیہوں خریدنا پڑتا ہے.یا اگر بوٹ کا کارخانہ اس نے جاری کیا ہوا ہے تو اُسے مشینیں خریدنی پڑتی ہیں کیل خریدنے پڑتے ہیں.چمڑا خریدنا پڑتا ہے.اور پھر بعض دفعہ کارخانوں میں کام کرتے کرتے مشینوں کے پرزے ٹوٹ جاتے ہیں.بعض دفعہ کوئی مشین ہی ناکارہ ہو جاتی ہے.اور اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ اور مشین یا مشین کے اور پرزے خریدے جائیں.ان تمام کاموں کے لئے جب تک روپیہ پاس نہ ہو کوئی کارخانہ دار اپنے کارخانے کو چلا نہیں سکتا.اسلام کے نزدیک اس قسم کے کاموں کو چلانے کے لئے جتنے روپے کی ضرورت ہو وہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے.یا مثلاًایک شخص مکان بنانے کے لئے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے لئے اُس کی روزانہ آمدنی کافی نہیں ہو سکتی تو یہ اسلام کے خلاف نہیں ہوگا.اور نہ یہ اس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا کہلا ئےگا جس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے.یہ صرف بعد میں آنے والے ضروری اخراجات کو مہیا کرنے کی ایک جائز صورت ہوگی یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ بعد میں اُس نے جو کچھ خرچ کرنا ہے اس کے لئے یہ اس کی تیاری ہوگی.پس چونکہ یہ روپیہ محض جمع رکھنے کے لئے نہیں بلکہ کسی دوسرے وقت خرچ کرنے کے لئے ہے اس لئے اس قسم کی ضروریا ت کے لئے روپیہ پس انداز کرنااسلام کی رُو سے بالکل جائزہے.ہاں جن لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد روپیہ ہوتا ہے اور

Page 542

وہ اس روپیہ کو بند کرکے رکھ دیتے ہیں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.اسلام کے نزدیک اگر ایک شخص دس لاکھ روپیہ سے ایک کارخانہ جاری کر دیتا ہے تو یہ بالکل جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ غلق میں بند کرکے رکھ دیتا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص دس لاکھ روپیہ کسی کارخانے پر لگاتا ہے تو اسے کئی ہزار روپیہ مشینوں کے خریدنے پر صرف کرنا پڑتا ہے پھر ان مشینوں سے کام لینے والے مستریوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے.فٹروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے.مزدوروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح سینکڑوں لوگوں کے لئے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح جب کوئی کارخانہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ لوگوں کو افسر مقرر کرنا پڑتا ہے کچھ ماتحت ہوتے ہیں.کچھ قلی ہوتے ہیں.کچھ نگران ہوتے ہیں اس طرح دو دو سو چار چار سو پانچ پانچ سو بلکہ ہزار ہزار آدمیوں کے لئے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے کارخانوں میں تو بعض دفعہ بیس بیس ہزار آدمی ایک وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اس طرح اس کا روپیہ بند نہیں رہتا بلکہ بنی نوع انسان کے کام آتا رہتا ہے یا اگر کوئی شخص اپنے روپیہ سے تجارت کرتا ہے تب بھی وہ لوگوں کے کام آتا ہے لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ بند کرکے رکھ دیتا ہے تو چونکہ لوگ اس روپیہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اس لئے اسلام کے نزدیک اس قسم کا روپیہ جمع رکھنا ناجائز ہے.تیسری چیز جس پر خصوصیت سے اسلام نے زور دیا ہے اور جس کی طرف قرآن کریم میں بارہا توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ روپیہ بیشک کمائو مگر جو کچھ کمائو اس پر زکوٰۃ ادا کرو.اسلام نے بیشک روپیہ کو بند رکھنا ناجائز قرار دیا ہے مگر روپیہ کمانا منع نہیں کیا.پس فرماتا ہے اگر تم روپیہ کماتے ہو اور کچھ روپیہ اپنی ضروریات کے لئے عارضی طور پر جمع کر لیتے ہو جس پر ایک سال گذرجاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرو.اگر کوئی شخص باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو دین کی خاطر کماتا ہے لیکن اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا محض دنیا کی خاطر کما رہا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنےکا شوق اس کے دل میں نہیں.اگر واقعہ میں اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کو جذب کرنےکااحساس ہوتا اگر دنیا کو وہ دین کی خاطر کما رہا ہوتا تو اس کا فرض تھا کہ وہ اپنے مال میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرتا اور پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا لیکن جب وہ زکوٰۃادا نہیں کرتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا تابع ہے خدا تعالیٰ کے احکام کا تابع نہیں.زکوٰۃ کے معاملہ میں میں دیکھتا ہوں کہ تاجروں میں بہت بڑی کوتا ہی پائی جاتی ہے.پُرانے زمانہ میں تو غیر احمدی تاجروں نے بالکل اندھیر مچارکھا تھا.حضرت خلیفہء اوّل رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ بھیرہ میں ایک بہت بڑا مسلمان تاجر تھا

Page 543

جو ہر سال باقاعدگی سے زکوٰۃ دیا کرتا تھا.مگر اُس کے زکوٰۃ دینے کا طریق یہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بند کر دیتا.فرض کرو اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا جس میں سے اڑہائی ہزار روپیہ زکوٰۃ دینا اُس پر فرض ہوتا تو وہ اڑہائی ہزار روپیہ ایک گھڑے میں ڈال دیتا اور اُن روپوئوں کے اوپر دو چار سیر گیہوں ڈال کر کسی ملاں کو بلاتا اور اس کی خوب پر تکلف دعوت کرتا.جب وہ کھانے سے فارغ ہو جاتا تو اُسے کہتا مولوی صاحب اس گھڑے میں جو کچھ ہے وہ میں آپ کی مِلک کرتا ہوں.لوگوں کو بھی اُس کے اس طریق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ گھڑے میں اُس نے زکوٰۃ کا روپیہ رکھا ہوا ہے جو اڑہائی تین ہزار روپیہ ہے مگر اُسے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے.تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی کہتا کہ آپ اس گھڑے کو اُٹھا کر کہاں لے جائیںگے اسے میرے پاس ہی بیچ ڈالئے.بتائیے آپ اس گھڑے کی کیا قیمت لیں گے.ملّاں ڈرتے ڈرتے کہ نہ معلوم کس حد تک سودا ہو پانچ دس یا پندرہ روپے بتا دیتا اور وہ جھٹ اتنے روپے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیتا اور کہتا کہ مولوی صاحب جو کچھ اس میں ہے وہ آپ نے پندرہ روپے میں مجھے دےدیا ہے یہ کہہ کر وہ گھڑا اٹھا کر اندر رکھ لیتا اور سمجھ لیتا کہ اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے.تو دنیا میں اس قسم کی دھوکا بازی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے احکام سے تمسخر کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو فرض عائد ہوتا ہے اس کو انہوں نے ادا کردیا ہے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کے لوگ تو نہیں مگر ابھی ہماری جماعت میں لوگ پوری احتیاط سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے.بالخصوص تاجروں میں زکوٰۃ کے معاملہ میں بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے.حالانکہ زکوٰۃ کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنے شدید احکام پائے جاتے ہیں کہ صحابہ ؓ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ تم جو کچھ مال کماتے ہو اُس میں دوسرے لوگوں کا بھی حصہ ہے کیونکہ مال جن چیزوں سے کمایا جاتا ہے وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو کسی خاص شخص کی مِلک نہیں.بلکہ ساری دنیا اُن پر حق رکھتی ہے.مثلاً تجارت کو لے لو.تجارت لوہے کی ہوتی ہے یا لکڑی کی ہوتی ہے یا اور بعض چیزوں کی ہوتی ہے.مگر کیا لوہا اور لکڑی تاجر آپ بناتا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے لکڑی بنائی ہے سارے انسانوں کے لئے.اللہ تعالیٰ نے کوئلہ بنایا ہے سارے انسانوں کے لئے.اللہ تعالیٰ نے مٹی کا تیل بنایا ہے سارے انسانوں کے لئے.اللہ تعالیٰ نے کپاس بنا ئی ہے سارے انسانوں کے لئے.اللہ تعالیٰ نے گندم بنائی ہے سارے انسانوں کے لئے.مگر جب ایک شخص ان چیزوں سے خاص طور پر نفع کماتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اس کا ٹیکس ادا کرو.کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ساری دنیا مالک ہے.پس جس طرح مزارع اپنے مالک کو

Page 544

ٹیکس ادا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی ٹیکس ادا کرے.وہ فرماتا ہے چونکہ تم کسان بنے اور تم نے اس زمین میں زراعت کی جو ساری دنیا کی ہے اس لئے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اس کا حق دو.چنانچہ اڑہائی فیصدی ٹیکس اُس سے وصول کیا جاتا ہے اور پھر جو نظام مقرر ہوتا ہے وہ اس ٹیکس کو غرباء کی مدد کے لئے خرچ کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کرتا یا ادا تو کرتا ہے مگر پورے طور پرا دا نہیں کرتا کسی قدر حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک چور کی حیثیت رکھتا ہے.بظاہر ایک شخص کپڑے کا تاجر ہوگا لیکن درحقیقت وہ چور ہوگا.کیونکہ کپڑا آخر کن چیزوں سے تیار ہوتا ہے.کپڑا تیار ہوتا ہے روئی سے اور روئی تیار ہوتی ہے زمین سے اور زمین کسی خاص شخص کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے بنائی ہے.پس جب زمین ساری دنیا کے لئے بنائی ہے اور اُسی زمین سے روئی کی فصل تیار کرکے ایک شخص کپڑے کی تجارت کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اس ٹیکس کو ادا کرے جو اس پر عائد ہوتا ہے کیونکہ اُس نے اس چیز سے فائدہ اٹھایا جس میں ساری دنیا کا حصہ تھا اسی طرح زمینوں پر زکوٰۃ کا حکم ہے کیونکہ زمین کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے.اگر بعض وجوہ سے کوئی ٹکڑا کسی شخص کے قبضہ میں چلا گیا ہے تو بہر حال اُسے غریبوں کو اُن کا حق دینا پڑے گا اور وہ یہ کہہ کر اس ٹیکس سے نہیںبچ سکتا کہ جب میں نے اپنی ذاتی کوشش سے یہ روپیہ کمایا ہے تو میں غریبوں کو اپنے مال کا ایک حصہ کیوں دوں اس لئے کہ اُس نے ذاتی محنت سے روپیہ کمایا.مگر بہر حال اُس نے روپیہ ایک ایسی چیز سے کمایا ہے جو ساری دنیا کے لئے مشترک تھی اور جس میں غرباء کا حق بھی رکھا گیا تھا.پس اسلام کی ہدایت کے مطابق اس شخص سے زکوٰۃلی جائیگی اور غرباء پر خرچ کی جائےگی.اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو وہ یقیناً چور ہے خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کرکے کپڑے کی تجارت سے روپیہ کمایا ہے خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے لوہے کے کارخانے سے روپیہ کمایا ہے.خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کرکے مٹی کے تیل کی تجارت سےیہ روپیہ کمایا ہے.خواہ کسی چیز کی تجارت سے اُس نے روپیہ کمایا ہو اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اُس حصہ کو اد اکرے.اور اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے روپیہ اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو اسلام اُسے قطعاً مومن کہنے کے لئے تیار نہیں.ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں چونکہ ٹیکس دوہرا ہوگیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اور اسلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے.اس لئے جس چیز پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہے اگر اس کے ٹیکس کی رقم زکوٰۃ کے برابر یا زکوٰۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوٰۃدینا واجب نہیں ہوگا.مگر اُس کے ساتھ ہی یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی

Page 545

ہے لیکن اسلام اُس مال سے زکوٰۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو.اور جس پر ایک سال گذر گیا ہو.فرض کرو ایک شخص دس ہزار روپیہ سالانہ کماتا ہے اور گورنمنٹ اُس سے ٹیکس لے لیتی ہے اور وہ ٹیکس زکوٰۃ سے زیادہ ہے تو ہم کہیں گے کہ اب ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں.جیسے زمیندار سے بھی گورنمنٹ مالیہ وصول کر لیتی ہے تو اس کے بعد اگر وہ مالیہ زکوٰۃ کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں رہتی.لیکن اگر کوئی زمیندار معاملہ ادا کرنے کے بعد اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لینا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح وہ کچھ روپیہ پس انداز کر لیتا ہے جس پر ایک سال گذر جاتا ہے تواس روپیہ پر زکوٰۃ کا حکم عائد ہو جائےگا.فرض کرو اُس نے کفایت کرتے کرتے پانچ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے اور اس پانچ ہزار روپیہ پرایک سال گذر گیا ہے تو اسلام کی طرف سے اس پر زکوٰۃ کا ٹیکس لگ جائے گا.پس جمع شدہ مال پر جب سال گذر جائے اور وہ مال زکوٰۃ کے نصاب کے اندر ہو توشریعت کی طرف سے زکوٰۃ کا حکم انسان پر عائد ہو جاتا ہے خواہ وہ زمیندار کا مال ہو یا تاجر کا ہو یا کسی اور کاہو.ہاں اس مال پرجس میں سے گورنمنٹ نے زکوٰۃ کے برابر یا اس سے زائد ٹیکس لے لیا ہو زکوٰۃ واجب نہیں.مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کے لئے اسے طوعی طور پر پھر بھی دینی چاہیے ہاں اگر انکم ٹیکس یا مالیہ کم ہو اور زکوٰۃ یا عُشر اس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائےگی اُس کو پورا کرنا اُس کا فرض ہوگا.فرض کرو زکوٰۃ کے بیس روپے کسی شخص کے ذمے تھے گورنمنٹ نے ٹیکس کے ذریعے پندرہ روپے وصول کر لئے تو باقی پانچ روپے اسلام کا قائم کردہ نظام اُس سے ضرور وصول کرے گا لیکن اگر گورنمنٹ نے اس سے ٹیکس اکیس روپے لے لئے ہیں تو پھر زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہوگی.زکوٰۃ کا حکم ایسے شخص پر اُس صورت میں عائد ہوگا جب وہ اپنی آمد کو جمع رکھے اور پھر اس جمع شدہ مال پر بشرطیکہ وہ نصاب کے مطابق ہو ایک سال گذر جائے.چوتھے زکوٰۃ کے علاوہ اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ سّراء اور ضّراء دونوںحالتوں میں انفاق فی سبیل اللہ سے کام لیا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَرَّٓآئِ وَالضَّرَّٓآئِ( اٰل عمران :۱۳۵) مومن کشائش کی حالت میں بھی غرباء اور مساکین کی امداد کے لئے اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور تنگی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں.یہ الفاظ بتاتے ہیںکہ اس جگہ اُس خرچ کا ذکر ہے جو زکوٰۃ کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ مومن تنگی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں حالانکہ تنگدست پر زکوٰۃ فرض نہیں.پس اس جگہ طوعی صدقہ مراد ہے زکوٰۃ مراد نہیں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان پر خواہ وہ کس قدر مالدار ہو بعض تنگی کی حالتیں آتی ہیں اور بعض کشائش کی

Page 546

حالتیں آتی ہیں.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مومن کو چاہیے کہ وہ ان دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کے راستہ میں اپنے اموال خرچ کرتارہے مگر ضراء کے یہ معنے نہیں کہ انسان کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی وہ خرچ کرے بلکہ ضّراء کے لفظ کا استعمال اس غرض کے لئے کیا گیا ہے کہ بڑے بڑے تاجروں پر بھی بعض دفعہ تنگی کے اوقات آجاتے ہیں.دس بیس لاکھ کا کارخانہ ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے مال کا فروخت ہونا رُک جاتا ہے.اُس وقت لوگ کہتے ہیں ہم پر بڑی مصیبت آگئی ہے.اب ہم کیا کریں پہلی سی حالت ہماری نہیں رہی ہم بڑی تنگی میں مبتلا ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ایسی حالتیںآئیںاُس وقت بھی تمہارا فرض ہے کہ تم اپنا مال خرچ کروکیونکہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ دس لاکھ روپیہ کے مالک کارخانہ دار کا کام خراب ہو گیا ہے تب بھی چار پانچ لاکھ روپیہ اس کے گھر میں ضرور موجود ہوگا.پس اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اگر دین کے لئے وہ شخص قربانی کر رہا ہے جس کی آمد پانچ دس یا پندرہ بیس روپے ہے تواس کے لئے دین کی خاطر قربانی کرنے میں کونسی مشکل درپیش ہے جبکہ اس کے قبضہ میںدیوالیہ ہونے کے باوجود چار پانچ لاکھ روپیہ کا مال ہے پس اس آیت کے صرف یہ معنے نہیں کہ مومن غربت اور امارت دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں بلکہ یہ مطلب بھی ہے کہ امیر پر بھی بعض دفعہ تنگی کی گھڑیاں آجاتی ہیں.پس ان تنگی کی گھڑیوں کے متعلق اسلام یہ حکم دیتاہے کہ تم اُس حالت میں بھی غرباء و مساکین پرا پنا روپیہ خرچ کیا کرو.اور یہ نہ کہا کرو کہ ہم کس طرح خرچ کریں ہماری آج کل بِکری کم ہے جب وہ شخص جس کے پاس تمہارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں دین کی خاطر قربانی کرتا رہتا ہے تو تمہارے پاس تو پھر بھی لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپے موجود ہیں تمہارے لئے ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیں.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بھی توجہ دلائی ہے فرماتا ہے.وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ( الذاریات :۲۰) یعنی مومنوں کے اموال میں اُن کا بھی حق ہے جو سوال کرتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو سوال نہیں کرتے.سوال نہ کرنا کئی طرح سے ہوتا ہے مثلاً ایک شخص گونگا ہوتا ہے اور وہ بول ہی نہیں سکتا.یاجانور ہیں کہ جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو دوسرے سے کوئی سوال نہیں کر سکتے.دنیا میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی جانور بوڑھا ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے تو لوگ اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں.اور کوئی اس کا پر سانِ حال نہیں رہتا ایسے جانوروں کو پالنا ملک کا کام ہوتا ہے یا پھر حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مالک کو مجبور کرے کہ وہ اُس جانور کواپنے گھر میں رکھے.یہ کوئی انصاف نہیں کہ جب تک کسی جانور سے کمائی کی جاسکتی ہو اُس وقت تک تو اُسے کھلایا پلایا جائے اور جب وہ بوڑھا ہو کر کام کے قابل نہ رہے تو اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیا جائے.گائے اور بیل تو ایسے جانور ہیں جن کے بوڑھا یا ناکارہ ہونے پر لوگ اُن کو ذبح کر لیتے ہیں مگر گھوڑا اور گدھا وغیرہ ایسے جانور

Page 547

ہیں جن کو ذبح نہیں کیا جا سکتا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ لوگوں کے اموال میں اُن کا بھی حق ہے جو مانگ سکتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو محروم ہیں اور بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے.اس حکم کے ماتحت بے زبان جانوروں کی غذا کا خیال رکھنا اُن کی طاقت کے مطابق اُن سے کام لینا اور جن جانوروں سے کوئی کام نہ لیا جائے ان کو بھی کھانا دینا پرندوں وغیرہ کو دانہ ڈالنا.بے زبان جانوروں کی سردی گرمی اور اُن کے شہوانی جذبات اور اُن کے بچوں کا خیال رکھنا بھی مومن کے فرائض میں شامل ہے.پانچویں ہدایت جو اسلام نے اس سلسلہ میں دی ہے اور تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہے.اُن لوگوں سے بھی جو تجارت اور صنعت و حرفت کرنے والے ہیں اور اُن سے بھی جن کے پاس کسی اور ذریعہ سے مال آتا ہے وہ یہ ہے کہتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ( المائدۃ:۳) یعنی جو شخص بھی کوئی کام کرتا ہو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرے پس وہی تجارت اور وہی صنعت اسلامی نقطۂ نگاہ سے صحیح ہو سکتی ہے جو بِرّ اور تقویٰ پر دوسروں سے تعاون کرتی ہو.تاجر اور صناع یہ دو گروہ ایسے ہیں کہ اُن کا تعاون بہت وسیع ہو سکتا ہے.مثلاً صناع اگر ایسی صورت میں اپنی صنعت و حرفت کو فروغ دیں کہ اُن کی صنعت سے مذہب کو شوکت حاصل ہونے لگ جائے.دین کی شہرت پھیلنے لگ جائے اور سلسلہ کی مضبوطی پہلے سے بڑھ جائے تو یقیناً اُن کی صنعت دین کا ایک حصہ سمجھی جائےگی.یا اگر کوئی شخص دو کام کر سکتا ہو.اور اُن دونوں میں سے ایک کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد ہوتی ہو اور دوسرا کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد نہ ہوتی ہو تو اسے بہر حال وہ کام کرنا چاہیے جس سے دین کی مدد ہوتی ہوخواہ اس میں تھوڑے بہت نفع کا فرق ہی کیوں نہ ہو.اگر ایسا شخص وہ کام اختیار کرتا ہے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو تو وہ یقیناً ثواب کا مستحق ہوگا اور اُس کا دنیا کمانا محض دنیا نہیں بلکہ دین کا ایک حصہ ہو گا.اسی طرح تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى میں جہاں یہ بات داخل ہے کہ ایسی تجارتیں اور ایسی صنعتیں اختیار کی جائیں جو دین کی تقویت کا موجب ہوں وہاں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرنےکا بھی اس آیت میں حکم پایا جاتا ہے.آخر ایک شخص کی تجارت کیوں چل نکلتی ہے اور دوسرے شخص کی تجارت کیوں رہ جاتی ہے.اسی لئے کہ ایک شخص کو تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے گُر معلوم ہوتے ہیں اور دوسرا شخص تجارت کے اصول سے ناواقف ہوتا ہے ایک شخص جانتا ہے کہ سودا کہاں سے سستا ملتا ہے.سودا کس طرح فروخت کرنا چاہیے.کس منڈی میں بیچنے سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے اور کس منڈی میں بیچنے سے کم نفع حاصل ہوتا ہے.مگر دوسرا شخص ان باتوں کو نہیں جانتا.پس اگر تاجر اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ کسی اور آدمی کو بھی تجارت کا کام سکھا دیں اور اُسے بھی تجارت کے رازوں سے واقف کر دیں تو یہ بھی ایک

Page 548

قومی تعاون ہوگا اور اس کے نتیجہ میں بھی وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوںگے.اسی طرح اگر کسی شخص کو کوئی پیشہ یا ہنر آتا ہے تو اُسے چاہیے کہ اس پیشہ یا ہنر کو اپنے پاس ہی نہ رکھے بلکہ کسی دوسرے کو بھی سکھا دے.پرانے زمانہ میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ وہ بعض ہنر مخفی رکھتے تھے.جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہنر اُن کے ساتھ ہی چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نسخہ معلوم تھا دُور دُور سے لوگ اس کے پاس علاج کے لئے آتے.اور فائدہ اٹھاتے.مگر وہ اتنا بخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی مرہم کا نسخہ نہ بتا تا اور کہتا کہ یہ اتنا بڑا ہنر ہے کہ اس کے جاننے والے دو آدمی ایک وقت میں نہیں ہو سکتے.بیٹے نے بہتیری منتیں کیں اور کہا کہ مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیتا کہ مرتے وقت تمہیں بتائوں گا.اس سے پہلے نہیں بتا سکتا.بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں وہ کس وقت آجائے.آپ مجھے ابھی یہ نسخہ بتادیں مگر باپ آمادہ نہ ہوا.آخر ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور سخت نازک حالت ہوگئی.بیٹا کہنے لگا باپ مجھے اب تو نسخہ بتا دیں مگر وہ جواب دیتا کہ میں مرتا نہیں اچھا ہو جائوں گا.پھر اور حالت خراب ہوئی.تو بیٹے نے پھر منتیں کیں مگر اُس نے پھر یہی جواب دیا کہ کیا تُو سمجھتا ہے میں مرنے لگا ہوں میں تو ابھی نہیں مرتا.غرض اسی طرح وہ جواب دیتا رہا یہاں تک کہ مر گیا.اور اُس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا یہ چیز ایسی ہے جسے اسلام جائز قرار نہیں دیتا.اسلام کہتا ہے کہ تم علم کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھو بلکہ اُسے وسیع کرو اور دوسرے لوگوں میں بھی پھیلائو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علم اور بعض پیشے ایسے ہیں جن میں ایک حد تک اور ایک وقت تک اخفاء جائز ہوتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے اخفاء جائز نہیں ہوتا.یورپ میں ادویہّ کوپیٹنٹ کرانے کا ایک نہایت ہی مفید طریق جاری ہے.وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اتحاد کرے تو چالیس سال تک وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے اس دوران میں ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس کی نقل کرے.لیکن چالیس سال کے بعد اجازت ہونی چاہیے کہ سب لوگ اُس سے فائدہ اٹھائیں.یہ ایک بہت ہی اچھا طریق ہے جو یورپ والوں نے ایجاد کیا ہے کہ کچھ وقت موجد کو دے دیتے ہیں کہ وہ اُس میں اپنی ایجاد سے فائدہ اٹھائے اور پھر ساری دنیا میں اس کو پھیلا دیتے ہیں تاکہ اور لوگ بھی اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھالیں.اسی طرح صناع اور تاجر اگر اپنی صنعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی یہ پیشے سکھا دیں یا ان پیشوں کے سیکھنے میں اُن کی مدد کریں تاکہ دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں میں بھی صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ حاصل ہو تو یہ بھی ایک رنگ کی زکوٰۃ ہوگی.جو اُن کی تجارت اور صنعت کو پاک کرنےکا ذریعہ بن جائےگی.غرض تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى میں تجارتی کمیٹیاں اور صناعوں کی کمیٹیاں بھی شامل ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مال فروخت

Page 549

کرنے میں مدد دیں اور ایک دوسرے کی تجارتوں کے فروغ میں مدد دیں.مسلمان عمومًا تجارت میں اس لئے نقصان اٹھاتے ہیں کہ اُن کی تجارتوں کو نہ دوسرے تجار سے مدد ملتی ہے اور نہ گاہکوں سے اس کے بالمقابل ہندو تاجروں کو دونوں طرف سے مدد ملتی ہے اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں.چھٹا اصل جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کو مدنظر رکھنا ہر وقت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ حَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ(البقرۃ :۱۴۵ )یعنی جس کام میں بھی تم لگے ہوئے ہو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہیے اور وہ یہ کہ دین کے غلبہ اور ترقی کے لئے تم نے کوشش کرنی ہے.پس اگر کوئی شخص تجارت کرتا ہے یا صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے تو اُسے ہر وقت یہ اصول اپنے سامنے رکھنا چاہیے اس اصول کے ماتحت اگر کوئی شخص اپنی تجارت یا اپنی صنعت کو اسلام کی شوکت اور اس کے غلبہ کا ذریعہ بناتا ہے تو وہ دنیا نہیں کماتا بلکہ دین کماتا ہے خواہ وہ اپنی تجارت اور صنعت کے ذریعہ لاکھوں روپے ہی کیوں نہ کما رہا ہو.ساتواںحکم قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ ماپ تول اور وزن درست ہونا چاہیے.تاجروں میں بالعموم یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جائز طور پر مال کمانے کے علاوہ وہ ماپ اور تول میں ضرور کچھ نہ کچھ کمی کر دیتے ہیں.پہلے تو وہ صرف ڈنڈی مارا کرتے تھے مگر اب کئی قسم کے بٹے بنائے گئے ہیں.پہلے بھی جب اسلام میں تجارت کا زور تھا لوگوں میں یہ نقص پیدا ہو گیا تھا چنانچہ پرانی کتب میں بھی ذکر آتا ہے کہ اُس زمانہ میں تین قسم کے بٹے ہوا کرتے تھے.ایک لینے کے لئے ایک دینے کے لئے اور ایک افسروں کو دکھانے کے لئے.پس پہلے بھی یہ نقص تھا مگر اس زمانہ میں اس نقص نے بہت بڑی وسعت اختیار کر لی ہے.اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مومن کو چاہیے کہ وہ تول اور ماپ میں کسی قسم کی کمی نہ کرے.جب کوئی چیز لے تو تول کر لے اور جب کوئی چیز دے تو تول کردے.کسی قسم کی دھوکا بازی اور فریب اسلام میں جائز نہیں اور اگر کوئی تاجر یا صناع ایسا کام کرتا ہے تو اس کا کام محض دنیا داری ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو بھڑ کانے کا موجب ہے.جب وہ اس قسم کے دھوکا کے بعد کوئی مال کما کر اپنے گھر میں لاتا ہے تو وہ حرام مال ہوتا ہے اور وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے چوری اور ڈاکہ سے حاصل کیا ہو ا مال.چاہے اُس نے اپنی دوکان پر بیٹھ کر ہی وہ کیوں نہ کمایا ہو.آٹھواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ دھوکہ اور فریب اور ملاوٹ جائز نہیں.بے شک تم تجارت کرو.مگر تجارت میں یہ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے.یہ نقص بھی ایسا ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے.ہمارے ملک میں تو یہ مرض اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ کوئی چیز دھوکہ اور ملاوٹ سے نہیں بچی.گھی فروخت کریں گے تو اس میں چربی یا تیل وغیرہ ملا کر

Page 550

تیل بیچیں گے تو وہ خالص نہیں ہوگا بلکہ اُس میں بعض اور تیلوں کی ملاوٹ ہوگی.یہی باقی چیزوں کا حال ہے.سب میں دھوکا اور فریب سے کام لیا جاتا ہے اور خالص چیز خریداروں کو مہیا نہیں کی جاتی.یہ نقائص بھی صرف اسی زمانہ میں نہیں بلکہ گذشتہ زمانہ میں بھی یہ نقص پائے جاتے تھے اور انہی کو دُور کرنے کے لئے اسلامی حکومت کی طرف سے محتسب مقرر ہوتے تھے.پس یہ بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس کو دور کرنا چاہیے.نواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم جو مال بنائو یا دوسروں سے خریدو اُسے روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہوگا اُس وقت ہم فروخت کریںگے.اگر کوئی تاجر مال کو اس لئے روک کر رکھ لیتا ہے کہ جب مال مہنگا ہو گا اس وقت وہ اُسے فروخت کرکے زیادہ نفع کمائےگا تو اسلام کی رُو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے.حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلہ خرید کر اس لیے روک لیتا ہے کہ جب غلہ مہنگا ہوگا تو اس وقت میں اُسے فروخت کروںگا.تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے(مسلم کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب تحریم الاحتکار فی الاقوات) مگر بعض لوگوں نے غلطی سے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ یہ حکم صرف غلہ کے متعلق ہے اور چیزوں کے متعلق نہیں حالانکہ تفقہ کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ جو حکم کسی خاص موقعہ پر دیا جائے اس کے متعلق دیکھا جائے کہ اس حکم کی غرض کیا تھی.اور پھر جہاں جہاں وہ غرض پائی جائے اس حکم کو چسپاں کر دیا جائے.پس گو احتکار کا حکم غلہ کے متعلق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف غلہ کے تاجروں کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ غلہ کو اس ارادہ اور نیت سے روک لیتے ہیں کہ جب غلہ مہنگا ہو گا تب فروخت کریںگے تو وہ ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن اس سے عام استدلال بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس حکم کی اصل غرض یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کو روک کر نہ رکھیں تاکہ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.پس جس طرح غلہ روک کر ایک شخص احتکار کرتا اور شریعت کے نزدیک مجرم قرار پاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی کپڑے کا تاجر کپڑے کو روک لے اور لوگوں میں فروخت نہ کرے تو وہ بھی ایسا ہی سمجھا جائےگا.یااگر کوئی لکڑی کو روک لیتا ہے یا لوہے کو روک لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ چیزیں مہنگی ہوںگی تب میں ان کو فروخت کروں گا تو وہ یقیناً اسلام کے خلاف چلتا ہے.پس شریعت اسلامی کی رُو سے کوئی ایسی تجارت اور صنعت جائز نہیں جس میں احتکار سے کام لیا گیا ہو یعنی یہ مدنظر رکھا گیا ہو کہ جب چیزیں مہنگی ہوں گی تب ان چیزوں کو ہم فروخت کریں گے.اس سے پہلے ہم فروخت نہیں کریں گے.آج کل تاجروں میں خصوصیت سے احتکار پایا جا تا ہے.اُن کے پاس کپڑا موجود ہوتا ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کپڑا نہیں.جس سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب کپڑا اور زیادہ مہنگا ہوا تب ہم فروخت کریں گے.اسی طرح لکڑی موجود ہوتی ہے مگر جب کوئی لکڑی کا خریدار

Page 551

آتا ہے تو اُس کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی لکڑی نہیں.کوئلہ موجود ہوتا ہے مگر جب کوئی کوئلہ مانگنے کے لئے آتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی کوئلہ نہیں.شریعت کی رُو سے یہ بالکل ناجائز ہے.اور ہر شخص جو احتکار کے نتیجہ میں روپیہ کماتا ہے اُسے اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ وہ حرام خوری کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے دنیا کمانے کے جو جائز ذرائع رکھے ہوئے ہیںصرف ان ذرائع سے کام لینا چاہیے.ناجائز اور گندے اور ناپاک ذرائع جن کا اسلام دشمن ہے جن سے اس نے بڑی شدت کے ساتھ منع کیا ہے اُن کو اختیار کرنا دین کی ہتک کرنا اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں موردِ غضب بننا ہے.دسواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم مزدور کو اُس کا پورا حق دو.اور پھر وہ حق اپنے وقت پر ادا کرو(سنن ابن ماجہ کتاب الرھون باب أجر الأجراء).گویا مزدور کے متعلق اسلام دو حکم دیتا ہے.اوّل یہ کہ اس کی تنخواہ کام کے مطابق مقرر کرو.دوسرے یہ نہ کرو کہ وقت پر اُس کی مزدوری ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے لگ جائو.میں نے دیکھا ہے بالعموم لوگ اس حکم کی پرواہ نہیں کرتے.وہ مزدور سے پورا کام لیتے ہیں لیکن جب اُن کی تنخواہ یا اُجرت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو اُس میں تساہل سے کام لینے لگ جاتے ہیں.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے دروازہ پر با ر بار آتا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے.اس پر بھی وہ اسے اس کا حق ادا نہیں کرتے.بلکہ کہتے ہیں آج نہیں کل آنا.کل آتا ہے تو کہتے ہیںپر سوں آنا.اس طرح بار بار اُسے اپنے پاس آنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھی کسی دن اُسے ایک روپیہ دے دیتے ہیں کسی دن دو روپے دے دیتے ہیں کسی دن چار روپے دے دیتے ہیں گویا اُسے خراب کر کرکے اس کی مزدوری دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مزدوری سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اگر اُسے اکٹھی اجرت مل جاتی تو وہ اپنی ضروریات اکٹھی خرید لیتا اور اِس طرح اُسے فائدہ رہتا.لیکن چونکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُجرت دی جاتی ہے.اس لئے اُسے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور پھر اکٹھی اُجرت ملنے سے جو فائدہ اُسے پہنچ سکتا تھا وہ بھی نہیں پہنچتا.پس اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہ کیا جائے.اُسے اُس کا حق پورا ادا کرو.اور پھر عین وقت پر ادا کر و.یہ نہ ہو کہ وہ اپنے حق کے لئے تمہارے دروازے کھٹکھٹاتا رہے اور تم اُسے بار بار ٹالتے رہو.گیارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ بیشک تم مال کمائو لیکن دیکھو اس کے نتیجہ میں تمہارے اندر کِبر پیدا نہ ہو.تمہاری دولت امیر اور غریب میں فرق پیدا کرنےکا موجب نہ بن جائے.اگر کوئی دولت امیر اور غریب میں اتنا بُعد پیدا کردیتی ہے کہ امیر اپنے غریب بھائی کے ساتھ مل کر بیٹھ نہیں سکتا ایک دسترخوان پر اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا.

Page 552

اگر وہ ملنے کے لئے آتا ہے تو امیر آدمی تکبر سے پیٹھ موڑ لیتا ہے.یا غصہ اور جوش کی حالت میں اُس سے کہتا ہے تم جانتے نہیں میں کون ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص دولت کمانے کے بعد انسان نہیں رہا بلکہ حیوان بن گیا ہے اور دولت صرف انسان کے لئے جائز ہے حیوان کے لئے نہیں.لیکن اگر کسی شخص کے پاس دولت تو آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اس میں اور دوسرے غریب بھائیوں میں مغائرت کی کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو کوئی علیٰحدہ جنس سمجھنے نہیں لگتا.وہ دوسروں کو تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ اُن کے ساتھ محبت سے بات چیت کرتا ہے اُن کے دُکھ سکھ میںشریک ہوتا ہے.اپنے آپ کو کوئی الگ قسم کا آدمی اور غریبوں کو کوئی الگ قسم کے آدمی نہیں سمجھتا تو ایسے شخص کے لئے دولت کمانابالکل جائز ہے.بارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ مالدارشخص کوچاہیے کہ وہ اپنی موت کے وقت رشتہ داروں کو یہ وصیت کر جائے کہ وہ اس کے مال کاکچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اُس کے غریب بندوں کے فائدہ اور ترقی کے لئے خرچ کردیںچنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے.كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَا١ۖۚ ا۟لْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ (البقرۃ:۱۸۱) یعنی اگر کوئی شخص مرنے لگے اورمال و دولت اُس کے پاس ہو تو وہ کچھ روپیہ غرباء کی بہبودی اور دین کی خدمت کے لئے وقف کردے.اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے اورگو اس آیت کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ رشتہ داروں کو وصیت کرجائے کہ شریعت کے مطابق اس کی جائیداد تقسیم ہو لیکن اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جب کسی شخص کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو تووہ موت کے وقت ایک حصہ کی غرباء کے لئے وصیت کرجائے اور جہاں کسی آیت کے دو معنے ہو سکتے ہوں وہاں دونوںلئے جائیںگے.یہ نہیں ہوگا کہ ایک معنے ترک کر دئیے جائیںاور دوسرے معنے لئے جائیں.یہ بارہ موٹے موٹے احکام ہیں جو قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتے ہیں.اگر کوئی تاجر اور صناع ان اصول کو مدنظررکھتا ہے توگووہ بظاہرکپڑا یا لوہا یا تیل یاکوئی اورچیز فروخت کر رہاہوتا ہے مگروہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے وہ دین کا کام کررہاہے اوروہ پیسے لے کراپنے گھر واپس نہیںلوٹتابلکہ خدا تعالیٰ کی رضا اوراس کی محبت کا تحفہ لے کر اپنے گھر میںآتاہے.

Page 553

وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ اوروہ لوگ جنہوں نے کفرکیا اُن کے اعمال سراب کی طرح ہیں جوایک وسیع میدان میںنظر آتی ہے جس کو پیا سا الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَيْـًٔا وَّ وَجَدَ پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اُس کے پاس آجاتا ہے تو وہ اُسے کچھ بھی نہیں پاتا.اوراللہ( تعالیٰ) کو اُس کے اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِۙ۰۰۴۰ پاس دیکھ لیتا ہے.تب اللہ( تعالیٰ) اُسے اُس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے اور اللہ( تعالیٰ) بہت جلد حساب چکا نےوالوں میں سے ہے.حلّ لُغَات.سَرَاب.سَرَابٌ:مَاتَرَاہُ نِصْفَ النَّھَارِ مِنَ اشْتِدَادِ الْحَرِّ کَالْمَآءِ یَلْصَقُ بِالْاَرْضِ.دوپہر کو شدت گرمی سے جو میدان میں زمین یوں معلوم ہوتی ہے جیسے پانی ہے اُسے سراب کہتے ہیں.اور سراب اس کو بھی کہتے ہیںجس کی کوئی حقیقت نہ ہو.( اقرب ) قِیْعَۃٌ.قِیْعَۃٌ قَاعٌ کی جمع ہے اور قَاعٌ کے معنے ہوتے ہیںاَرْضٌ سَھْلَۃٌ مُطْمَئِنَّۃٌ قَدِ انْفَرَجَتْ عَنْھَا الْجِبَالُ وَالاٰکَامُ.وہ ہموار زمین جس میںپہاڑ اور ٹیلے وغیرہ نہ ہو ں.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے مومنوں کے مقابلہ میںکافروں کے اعمال سراب کی طرح ہیں جس کو بعض دفعہ انسان پانی سمجھ لیتا ہے لیکن جب وہ اس کے پاس آتاہے تو وہاں کچھ بھی نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو اس کے پاس کھڑاپاتا ہے اور وہ اس کا حساب پائی پائی چکا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد جلد حساب چکانے والا ہے.سراب ریت کے اُس وسیع میدان کو کہتے ہیںجس پرسورج کی جب تیز شعاعیں پڑتی ہیںتو ایسی حرکت پیدا ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے.عرب اور افریقہ کے ریتلے میدانوںمیںکئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب لوگوںکے پاس پانی نہ رہا تو وہ سراب کودیکھ کر اُدھر چل پڑے مگر جتناچلتے گئے وہ انہیںآگے ہی آگے نظرآتا گیا اور اس طرح وہ صحراء میںکئی میل دُور نکل گئے اور آخر تڑپ تڑپ کر مر گئے.فرماتا ہے وہ لوگ جوخدا تعالیٰ کے نور کاانکار کرتے ہیںاُن کی مثال بالکل سراب کی طرح ہوتی ہے یعنی جس

Page 554

مذہب میں وہ شامل ہوتے ہیںاس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیںاور خیال کرتے ہیںکہ اس طرح انہیں روحانیت حاصل ہو جائےگی مگر درحقیقت وہ ایک سراب ہوتا ہے جس میںروحانیت کا کوئی پانی نہیں ہوتا وہ ایک غلط اُمیدکے ساتھ اس راستہ پر بڑھتے چلے جاتے ہیںمگر ان کاہر قدم انہیں روحانی پانی سے اور زیادہ دُور کرتاچلا جاتا ہے.یہاں تک کہ اُن پر روحانی موت وارد ہو جاتی ہے اوروہ خدائی فیوض سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں.گویا مومنوں کے متعلق تو یہ بتایا تھاکہ وہ الٰہی نور کواپنے اندر جذب کرکے خود بھی نور بن جاتے ہیں.مگر کافر کے متعلق بتا یاکہ وہ ایسے صحرائوںمیںبھٹکتا پھرتا ہے جن سے اُسے کوئی فائدہ حاصل نہیںہوتا.وہ اپنے دل میںتوفائدہ کی امید رکھتا ہے مگر انجام اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا.پھر سراب کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ مومن جب اسلامی احکام پر عمل کرتاہے تو وہ صرف خیالی طور پر یہ نہیں سمجھتاکہ وہ پانی کی طرف جارہا ہے بلکہ اُسے نظر آرہا ہوتا ہے کہ وہ پانی پی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیوض اور اس کی برکات سے متمتع ہو رہاہے لیکن وہ لوگ جو جھوٹے مذہب کے پیرو ہوتے ہیں اُن میں سے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ تمہیں کچھ ملا بھی ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ ملا تو کچھ نہیں ممکن ہے اگلے جہان میں کچھ مل جائے.یہی وجہ ہے کہ اسلام کے سوا جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں اُن پر چلنے والے یہی کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد پتہ لگے گا کہ ہمیںکیا ملتا ہے لیکن سچے مذہب کا پیرو اس دنیا میں بتا دیتاہےکہ مجھے یہ کچھ ملا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ(حٰمٓ السجدۃ:۳۱ و ۳۲) یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ مضبوطی کے ساتھ اس عقیدہ پرقائم ہو گئے اور حوادث کی آندھیاں اُن کے پائے استقلال میں کوئی جُنبش پیدا نہ کرسکیں ایسے لوگوں پراللہ تعالیٰ کے ملائکہ نازل ہوتے ہیںاور وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ تم ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی کوتا ہی پر افسوس کرو بلکہ اُن اعلیٰ درجہ کی کامیابیوں پر خوش ہو جائو جو عنقریب تمہیں ملنے والی ہیں اور جن کا خدا تعالیٰ کی طرف سے تم سے وعدہ کیاگیاتھا.ہم اس دنیا میںبھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور اُس جنت میں تمہیںوہی کچھ ملے گا جو تمہارے دلوں کی خواہش اور آرزوکے مطابق ہوگا بلکہ جو کچھ تم مانگوگے وہی کچھ تم کو مل جائےگا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ اسلام مومنوں کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ سچے دل سے اسلام پر ایمان لائیں اور اس کے احکام کے مطابق عمل کریں تو اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی ہم کلامی کا شرف عطافرماتا ہے اور مصائب کے

Page 555

اوقات میں اپنے ملائکہ کے ذریعہ اُن کے دلوںکوتسلی دیتا اور آئندہ حاصل ہونے والی اعلیٰ درجہ کی کامیابیوں کی بشارات دیتا ہے.مگر دوسرے مذاہب والے صرف اگلے جہان کا وعدہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد تمہیں نجات حاصل ہوگی گویا وہ صرف موہوم وعدوں پر انسان کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح سراب کو دیکھ کر ایک پیاس سے بے تاب انسان کے دل میں یہ غلط امید پیدا ہو جاتی ہے کہ میں دریا کی طرف جارہا ہوں حالانکہ وہ اپنی ہلاکت اور بربادی کی قبر کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے.اسی طرح اسلام کے سوا دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیںچونکہ وہ اس دنیا میں الٰہی برکات کا کوئی نمونہ دکھانے کی طاقت نہیں رکھتے.نہ خدا تعالیٰ کا الہام اُن پر نازل ہوتا ہے نہ معجزات و نشانات سے اُن کی تائید ہوتی ہے.نہ دعائوں کی قبولیت کا کوئی نمونہ اُن سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے وہ صرف اگلے جہان کے انعامات کا وعدہ کرتے رہتے ہیںاور اس طرح اُن کے ماننے والوں کا ہر قدم سراب کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن موت کا زبرد ست ہاتھ انہیں اس دنیا سےجُدا کر دیتا ہے.اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آسمانی آب حیات سے کتنے دور رہے تھے اور غلط امیدوں نے انہیں کیسا تباہ کیا.غرض یہ اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایک نمایاں فرق ہے جو اسلام کی فضیلت اور اس کے من جانب اللہ ہونےکا ایک زبر دست ثبوت ہے.اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ یا (اُن کافروں کے اعمال کی کیفیت) اُن تاریکیوں جیسی ہے جو ایک گہرے سمندر پر چھائی ہوئی ہوتی ہیں جس پر مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ١ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ١ؕ اِذَاۤ لہریں اُٹھ رہی ہوتی ہیںاور اُن لہروں پر اور لہریں اُٹھ رہی ہوتی ہیں اور اُن سب کے اوپر ایک بادل ہوتا ہے.اَخْرَجَ يَدَهٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىهَا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ یہ ایسی تاریکیاں ہوتی ہیں کہ اُن میں سے بعض بعض کے اوپر چھائی ہوئی ہوتی ہیں.جب انسان اپنا ہاتھ نکالتا ہے

Page 556

نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍؒ۰۰۴۱ تو باوجود کو شش کے اس کو دیکھ نہیں سکتا.اور جس کے لئے اللہ نور نہ بنائے اس کو کہیں سے نور نہیں ملتا.حلّ لُغَات.لُجِّیٌّ.اَللُّجُّ کے معنے ہیں معظم الْمَآ ئِ بہت پانی.اورلُجِّيٌّ کے معنے ہوںگے بہت پانی والا.( اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے کافروں کے اعمال کی کیفیت اُن تاریکیوں کی طرح ہے جو ایسے گہرے سمندر پر چھا جاتی ہیںجس پر موج پر موج چڑھی آتی ہے اور جس کے اوپر بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں.یہ ایسی تاریکیاں ہوتی ہیںکہ ایک تاریکی کے اوپر دوسری تاریکی چھائی ہوئی ہوتی ہے.اور جب انسان اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو باوجود کوشش کے اس کو دیکھ نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے اپنا نو ر چھین لیتا ہے یعنی جب تک قوم میں خدا کی شریعت رہتی ہے اُس میں نورقائم رہتا ہے.لیکن جب قوم خدا کی شریعت سے مُنہ موڑ لیتی ہے تو ایک طرف اُس کے نفس کی تاریکیاں جوش مارنے لگ جاتی ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ بھی اپنے نور کو اُس سے کھینچ لیتا ہے.اور لحظہ بہ لحظہ اس کے مصائب بڑھتے چلے جاتے ہیں اور اس کی ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو بھی نہیں دیکھ سکتا.یعنی اس کے کام کرنے کے ذرائع بھی اُس سے غائب ہو جاتے ہیں.اور جس کو خدا کا نور میسر نہ ہو اس کا یہ حال لازماً ہو تا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی شریعت کا اور کوئی قائم مقام نہیں.ان آیات میں سمندر اور خشکی پر ظلمت چھانے اور انسانوں پر تباہی آنے کا ذکر کرنے کے یہ معنے تھے کہ مسلمان یہ نہ سمجھ لیں کہ قرآنی نور اور محمدی نور کے بعد اُن کے اندر زوال یا اندھیرا نہیں آسکتا.اُن پر اندھیرے کا دور بھی آتا رہےگا اور اس دور کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی وہی تدبیر کار گر ہوگی جو ہمیشہ سے کار گر ہوتی چلی آئی ہے.یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی مصلح بھیجے گا جو اس کو دُور کرے گا.پھر تاریکی ہوگی تو پھر خدا مصلح بھیجے گا.پھر تاریکی ہوگی تو پھر بھیجے گا اور اس طرح اندھیروں کو دُور کرتا رہے گا.

Page 557

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ کیا تو دیکھتا نہیں کہ اللہ وہ ہے کہ جو آسمانوں اور زمین میں رہتے ہیں سب اُسی کی تسبیح کرتے ہیں.اور پرندے الطَّيْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِيْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ صف باندھے ہوئے اس کے سامنے حاضر ہیں.اُن میں سے ہر ایک (اپنی اپنی پیدائش کے مطابق )اپنی نماز عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۰۰۴۲وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے اور اللہ (تعالیٰ) جو کچھ وہ کرتے ہیں اُسے خوب جانتا ہے.اور آسمانوں اور زمین کی اِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ۰۰۴۳ بادشاہت اللہ ہی کی ہے.اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے.حلّ لُغَات.صَلٰوۃٌ.اَلصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ: اَلرَّحْمَۃُ.جب اللہ تعالیٰ کے لئے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہو تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کا نزول ہوگا.وَمِنَ الْمَلَائِکَۃِ: اَلْاِسْتِغْفَارُ اور جب ملائکہ کے لئے صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہو تو یہ مراد ہوگی کہ ملائکہ استغفار طلب کرتے ہیں.وَمِنَ الْمُؤ مِنِیْنَ: اَلدُّعَآءُ اور جب مومنوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ مومن دعا مانگتے ہیں وَمِنَ الطَّیْرِ والْھَوَامِّ: اَلتَسْبِیحُ اور جب یہ لفظ کیڑوں مکوڑوں اور پرندوں کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ اشیاء خدا تعالیٰ کی بزبانِ حال پاکیزگی بیان کرتی ہیں.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ آسمانوں اورزمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنے وجود سے خدا کی تسبیح کر رہا ہے ( یہ مراد نہیں کہ منہ سے کر ر ہا ہے ) اور پرندے بھی اپنے پر کھولے ہوئے جَوّ میں پھر رہے ہیں.ان میں سےہر ایک اپنی نماز کا طریق بھی جانتا ہے اور تسبیح کا بھی اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُسے جانتا ہے.یعنی ہر ایک چیز اپنے وجود سے ثابت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بے عیب ہے کیونکہ اس کے لئے جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ خدا تعالیٰ نے مہیا کی ہوئی ہے.مثلاً گوشت خور جانوروں کے لئے گوشت کھانےوالے دانتوں کی ضرورت تھی.سو خدا نے انہیں ایسے دانت مہیا کر دئے جن سے وہ گوشت کھا سکتے ہیں.پھر انہیں اتنی لمبی انتڑیوں کی ضرورت تھی جو

Page 558

گوشت کو ہضم کر سکتیں.سو خدا نے انہیں ایسی انتڑیاں بھی دے دیں.اسی طرح گھاس خور جانوروں کے لئے گھاس کھانے والے دانت اور گھاس ہضم کرنے والی انتڑیاں موجود ہیں.اور پرندوں کو بھی ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے پر کھو ل کر اڑ سکتے ہیں کیونکہ ان کے لئے اپنی رہائش اور غذا کے لئے جو ّ میں اُڑنا ضروری ہے.پس وہ اپنی ہیٔت سے خدا کی تسبیح کر رہے ہیں اور اُس کا فرض ادا کررہے ہیں.جو پرندہ کے تعلق میں صلوٰۃ کے معنے ہیں اور ان باتوں کو دیکھ کر انسان کو ماننا پڑتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اس کی طرف انسان کو جواب دہی کے لئے لوٹنا پڑے گا.اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ (تعالیٰ) بادلوں کو آہستہ آہستہ ہانک کر لاتا ہے.پھر اُن کے درمیان اتصال پیدا يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ١ۚ وَ کر دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ بنا دیتا ہے.پھر تو دیکھتا ہے کہ اُن کے اندر سے بارش ٹپکنے لگتی ہے.اور وہ بادل میں يُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ بہت بڑے حجم کی چیزیں گراتا ہے.جن میں سے بعض اولوں کی قسم کی ہوتی ہیں.پھر اس کو جس( قوم) تک مَنْ يَّشَآءُ وَ يَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَآءُ١ؕ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهٖ چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے جس سے چاہتا ہے اُسے روک لیتا ہے.قریب ہوتا ہے کہ اس کی بجلی کی روشنی يَذْهَبُ بِالْاَبْصَارِؕ۰۰۴۴يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ بعض آنکھوں کو اندھا کر دے.اللہ (تعالیٰ) رات اور دن کو چکر دیتا رہتا ہے.اس میں عقل فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۰۰۴۵ والے لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے.حلّ لُغَات.یُزْجِیْ یُزْجِیْ اَزْجٰی سے مضارع کا صیغہ ہے.اور اَ زْجَاہُ کے معنے ہوتے ہیں سَاقَہٗ.

Page 559

اس کو چلایا.دَفَعَہٗ بِرِ فْقٍ.اُسے نرمی کے ساتھ آگے کیا.پس یُزْجِیْ کے معنے ہوںگے چلاتا ہے.ہانکتا ہے.(اقرب) رُکَامًا.الرُّکَامُ :اَلشَّیْءُ اَلْمُتَرَا کِمُ بَعْضُہٗ فَوْقَ بَعْضٍ.یعنی رکام اس چیز کو کہتے ہیں جس کے کچھ حصے ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ہوں.(اقرب) اَلْوَدْقُ.اَلْوَدْقُ اَلْمَطَرُ.ودق کے معنے بارش کے ہیں.خواہ تھوڑی ہو یا بہت.( اقرب) سَنَا.اَلسَّنٰی :اَلْبَرْقُ سَنا کے معنے چمک کے ہوتے ہیں.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے یعنی پانی کے ذروں کی شکل میں.پھر اُن کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے.یعنی بادل گھنے ہو جاتے ہیں.اس کے بعد تُو دیکھتا ہے کہ تھوڑی یا بہت بارش ( یہ ودق کے معنے ہیں ) اُن کے درمیان سے نکلتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ اپنے نور کو بھی اٹھاتا ہے تو وہ پہلے پانی کے ذرہ کی طرح ہلکا سا غبار معلوم ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کو طاقت بخشنا شروع کر تا ہے اور آخر وہ موسلادھار بارش کی طرح انسانوں پر برس جاتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں سے پہاڑ اتارتا ہے.یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو کثرت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں فُلَانٌ یَمْلِکُ جِبَالًا مِنْ فِضَّۃٍ وَذَھَبٍ.فلاں شخص کے پاس چاندی اور سونے کے پہاڑ ہیں یعنی چاندی سونا کثرت سے ہے.یہاں بھی یہی مراد ہے کہ کبھی کبھی وہ بادلوں سے موسلا دھار بارش اتارتاہے نہ کہ پہاڑ اتارتا ہے.اُس بارش میں اولے بھی ہوتے ہیں اور وہ جس پر چاہتا ہے اولے گِرا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اولے ہٹا دیتا ہے.یعنی خدا کی شریعت بعض لوگوں کے لئے ہدایت اور ترقی کا موجب ہو جاتی ہے اور بعض لوگوں کے لئے برفباری کے طور پر فصلیں تباہ کرنے کا موجب ہو جاتی ہے اور جس طرح کبھی کبھی بجلی کی روشنی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے.اسی طرح الٰہی شریعت کا نور بھی کبھی کبھی نہ ماننے والوں کو اندھا کر دیتا ہے اور بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہو جاتا ہے پھر فرماتا ہےيُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِجس طرح خدا تعالیٰ رات اور دن کو ایک دوسرے سے بدلتا رہتا ہے عقلمند لوگ اس نظارہ سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسی طرح ہدایت اور کفر کے ادوار کا بدلنا بھی ضروری ہے.

Page 560

وَ اللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآءٍ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى اور اللہ( تعالیٰ) نے ہر چلنے والے جانور کو پانی( یعنی نطفہ) سے پید اکیا ہے.پس کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے پیٹ بَطْنِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰى رِجْلَيْنِ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ پر چلتے ہیں.اور کچھ ایسے ہیںجو اپنے دو پائوں پر چلتے ہیں.اور کچھ ایسے ہیں جو اپنے چار پائوں يَّمْشِيْ عَلٰۤى اَرْبَعٍ١ؕ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ پر چلتے ہیں.اللہ (تعالیٰ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۴۶ اور اللہ (تعالیٰ) ہر ایک چیز پر قادر ہے.تفسیر.فرماتا ہے کہ ہر جانور کو اللہ تعالیٰ نے پانی سے پیدا کیا ہے.پھر ان جانوروں میں سے بعض اپنے پیٹ پر چلتے ہیں.اور بعض اپنے دو پیروں پر چلتے اور بعض اپنے چار پیروں پر.اللہ تعالیٰ جیسی مخلوق چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اس میں بتا یا کہ روحانی پانی سے بھی مختلف قسم کے لوگ اپنی استعدادوں کے مطابق طاقت حاصل کرتے ہیں.بعض تو اپنے پیٹوں پر چلتے ہیں یعنی جب تک اُن کے پیٹ بھرے جائیں اور انعامات ملتے ر ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ رہتے ہیں اور بعض دو پائے یعنی انسانوں کی طرح اعلیٰ ترقیات حاصل کر جاتے ہیں او ر بعض چوپایوں کی طرح کم عقل ہو تے ہیں.اور خدا کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اور اپنے کھانے پینے کی طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں.لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ١ؕ وَ اللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى ہم نے کھلے کھلے نشانات اتار ے ہیں اوراللہ (تعالیٰ) جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۴۷ طرف ہدایت دیتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے ہم نے ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حقیقت حال کو کھول کر رکھ دینے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ

Page 561

جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے.مذہب چونکہ زیادہ تر ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو غیب میں ہوتی ہیں اس لئے وہی مذہب انسان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور وہی مذہب انسان کو ہدایت دے سکتا ہے جس میں آیات بینات بھی ہوں.یعنی ایسے نشانات ہوں جو غیب کو کھول کر رکھ دیں.اور چھپی ہوئی باتوں کو ظاہر کر دیں.اگر غیب غیب ہی رہے اور چھپی ہوئی باتیں ظاہر نہ ہوں تو پھر مذہب پر ایمان لانے کا کوئی محرک نہیں ہو سکتا.کیونکہ مذہب ظاہر ہوتا یا نہ ہوتا جو چیز غیب میں ہے وہ غیب ہی میں رہتی.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی غیب میں ہے.اگر مذہب نہ ہوتا تب بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی غیب میں ہی رہتی.مذہب کا فائدہ تو تبھی ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو معجزات اور دلائل کے ذریعہ سے غیب سے نکال کر ہمارے سامنے رکھ دے.اگروہ ایسا کر دے تب تو بیشک مذہب ہے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ ایک بے فائدہ چیز ہے کہ جس کے آنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچا.اور جس کے نہ آنے سے ہم کوکوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا.اب ہم دیکھتے ہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کو کس طرح پورا کیا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمنوں میں سے ایک ہندہ تھی.جو اتنی سخت مخالف تھی کہ جنگ اُحد کے موقعہ پر لوگوں کو شعر پڑھ پڑھ کر بھڑکاتی تھی کہ جائو اور اسلامی لشکر پر حملہ کرو.اور جب ایک خطر ناک موقعہ مسلمانوں کے لئے آیا تو اُس نے کہا کہ جو شخص حضرت حمزہ ؓ کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے کلیجہ نکال کر میرے پاس لے آئےگا اور اسی طرح ان کا ناک اور ان کے کان کاٹ کر لے آئےگا میں اُسے انعام دوںگی.چنانچہ حضرت حمزہ ؓ کی نعش کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا.جنگ کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ کے چچا کی ایسی بے حرمتی کی گئی ہے تو طبعی طور پر آپ کو تکلیف ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ جب دشمنوں نے اس قسم کے ظالمانہ سلوک کی ابتداء کر دی ہے تو میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کروںگا.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ احد)تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوئی کہ ان کے اس ظالمانہ سلوک کے باوجود آپ کو ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے اور عفو اور درگذر سے کام لینا چاہیے.(اٰل عمران ۱۳ع ) اب دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کتنا حکمت والا تھا.ہندہ بے شک لڑائی کرنے والوںمیں سے نہیں تھی وہ اُن پیچھے رہنے والی عورتوںمیں سے تھی جو مردوں کو لڑائی کے لئے اکساتی تھیں.مگر اسلام پر حملہ آور لوگوں میں وہ بھی تھے جو بعد میںمسلمان ہو ئے اور اسلامی لڑائیوں میں مارے گئے یا مارے جانے کے قریب پہنچے اگر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا جو ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کے ساتھ کیا تھا تو بعد میں جو اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوئے وہ کیسے ظاہر ہوتے مثلاً اُنہی لوگوںمیں ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ؓ بھی تھا.اُنہی لوگوں میںخالد بن ولید ؓ بھی تھے.

Page 562

انہی لوگوںمیں عمر و بن العاص ؓ بھی تھے.فرض کرو یہ سب لوگ مارے جاتے اور اُن کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو ہندہ نے حضرت حمزہ ؓ کی لاش کے ساتھ کیا تھا تو بعد میں اُن کے ذریعہ سے جو نشان ظاہر ہوئے وہ کس طرح ظاہر ہوتے.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ آپ کو مستقبل کا علم نہیں لیکن ہمیں مستقبل کا علم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوںپر آپ کو اس وقت غصہ آرہا ہے ان میں سے بعض مستقبل میں اسلام کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کرنےوالے ہوںگے.اس لئے ہم ان کو زندہ رکھیں گے اور ان سے کام لیں گے.اور آپ کے انتقام کے جذبہ کو پورا نہیں ہونے دیں گے.چنانچہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی مثال ہی لےلو وہ ابوجہل کے بیٹے تھے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا میں دکھا یا گیا تھا کہ ایک فرشتہ انگوروں کا ایک خوشہ آپ کے پاس لایا ہے.آپ نے خواب میں ہی دریافت فرمایا کہ یہ خوشہ کس کے لئے لائے ہو.فرشتہ نے جواب دیا کہ میں یہ خوشہ ابو جہل کے لئے لایا ہوں.آپ گھبرا گئے اور اُسی گھبراہٹ میںآپ کی آنکھ کھل گئی(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ باب رؤیا رسول اللہ فی اسلام عکرمۃ).کیا خدا تعالیٰ کا رسول اور اس کا دشمن ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کہ اُس کے لئے بھی جنت سے انگوروںکا خوشہ آرہاہے اور اس کے لئے بھی جنت سے انگوروں کا خوشہ آرہا ہے.جب بعد میںعکرمہ ؓ مسلمان ہوئے تو آپ نے فرمایا اب میری خواب کی تعبیر مجھ پر کھل گئی ہے.ابوجہل سے مراد اس کا بیٹا عکرمہ تھا جو اسلام لایا.پھر عکرمہ اپنے اسلام میں اتنے ترقی کر گئے کہ جب بعد میں عیسائیوں سے جنگیں ہوئیںتو ایک موقعہ پر صحابہؓ نے فیصلہ کیا کہ یک دم دشمن کے قلب پر حملہ کیا جائے تاکہ وہ آئندہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے.جو لوگ اس غرض کے لئے چُنے گئے اُن میں عکرمہ ؓ بھی تھے.تاریخ میں آتاہے کہ جس طرح عقاب چڑیا پر جھپٹا مارتا ہے اسی طرح یہ لوگ دشمن پر حملہ کر کے قلب ِ لشکر میںپہنچ گئے.یہ لوگ صرف ساٹھ تھے اور دشمن کا لشکر ساٹھ ہزار کی تعدا د میں تھااور کمانڈر انچیف سے روم کے بادشاہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم نے مسلمانوں پر فتح پائی تو میں اپنی آدھی سلطنت تمہیںدے دوںگا اور اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر دوںگا مگر یہ ساٹھ آدمی صفوںکو چیرتے اور دشمنوںکو قتل کرتے ہوئے عین قلب ِ لشکر میں پہنچ گئے.اور انہوں نے جرنیل کو مار ڈالا اور عیسائی فوج مرعوب ہو کر بھاگ گئی.مگر چونکہ یہ لوگ ساٹھ ہزار تلواروں میں سے گذر ے تھے اس لئے زخمی ہو کر گِر گئے.جب جنگ کے بعد مسلمان اُن لوگوں کی خبر لینے کے لئے گئے تو انہوں نے اُن میں سے چند زخمیوں کو میدان میں پڑے پایا.وہ گرم ملک تھا اور شائد وقت بھی گرمی کا تھا.پھر ہزاروں آدمیوں میں سے راستہ نکالنے اور تلواریں مارتے چلے جانے کی وجہ سے ان کے جسموں سے پسینہ بھی کثرت سے نکلا جس کی وجہ سے انہیں بڑی شدت سے

Page 563

پیاس لگی ہوئی تھی.زبانیں اُن کی باہر نکلی ہوئی تھیں اور وہ پانی کے لئے تڑپ رہے تھے ایک مسلمان سپاہی نے عکرمہ ؓ کو پہچان لیا اور پانی کی چھاگل لے کر اُن کے پاس گیا اور کہا.آپ کو پیاس لگی ہوئی ہے پانی پی لیں.عکرمہ ؓ نے دوسری طرف نگاہ ڈالی تو ایک اور مسلمان بھی پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا.انہوں نے پانی کا کوئی قطرہ پیئے بغیر اُس سپاہی سے کہا.وہ دیکھو ایک اور پرانا مسلمان پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا ہے وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے تم اس کے پاس جائو اور اُسے پانی پلائو.چنانچہ وہ مسلمان سپاہی دوسرے زخمی مسلمان کے پاس گیا اور اُس سے پانی پینے کے لئے کہا.مگر اُس نے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے میرے پہلو میں جو مسلمان ہے اُس کے پاس جائو اور اس کو پانی پلائو.کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.چنانچہ وہ اگلے مسلمان کے پاس گیا لیکن اُس نے بھی انکار کر دیا اور اگلے مسلمان کو پانی پلانے کے لئے کہا.غرض وہ مسلمان سپاہی چھاگل لے کر اُن میں سے ہر ایک کے پاس گیا لیکن ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو پانی پلانے کے لئے کہا.جب وہ آخری مسلمان کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.پھر وہ عکرمہ ؓ کی طرف لوٹا تو اُن کی جان بھی نکل چکی تھی ( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب باب عکرمۃ.الکامل فی التاریخ لابن اثیرذکر وقعۃ الیرموک.محاضرات الامم الاسلامیۃ) اب دیکھو یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو عکرمہ ؓ نے کی.اور یہ دیکھنے والوں کے لئے کتنا بڑا نشان تھا.جب مسلمانوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے یہ سنا ہو گا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ انگوروں کا ایک خوشہ لایا ہے اور جب میں نے دریافت کیا کہ یہ خوشہ کس کے لئے ہے تو اُس نے جواب دیا ابو جہل کے لئے جس کی وجہ سے میں گھبرا گیا.اور اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی.اور میں نے کہا کیا خدا تعالیٰ کا دشمن اور اُس کا رسول برابر ہو سکتے ہیں.اور پھر بعد میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھا ہو گا کہ کس طرح عکرمہ ؓ نے خطرناک حالات میں اپنی جان کی قربانی پیش کی.وہ پانی کے ایک قطرہ کے لئے تڑپتے ہوئے فوت ہو گئے لیکن پانی کو اس لئے نہ چھوا کہ جب تک میرے دوسرے مسلمان بھائی سیر نہ ہو جائیں میں پانی نہیں پیٔوں گا.تو اُن کا ایمان کس طرح بڑھا ہوگا.انہوں نے کہا ہوگا کہ اوّل تو عکرمہ ؓ کا اسلام لانا ہی ناممکن تھا.اور پھر اُن کا اسلام لانے کے بعد اتنا بڑا اخلاص پیدا کرنا اور اتنی بڑی قربانی کرنا ناممکن تھا مگر خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رؤیا دکھا یا تھا اس نے وہ پورا کرکے دکھادیا.اس رؤیا کے یہی معنے تھے کہ انگور کے اندر چونکہ پانی ہوتا ہے اس لئے وہ پانی کی پیا س میں مریں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہیں جنت کے انگوروں کے خوشے چوسا ئیں گے.پس یہ واقعہ یقیناً آیات مبینات میں سے تھا جسے دیکھ کر مسلمانوں کے ایمان خدا تعالیٰ پر اور اسلام کی سچائی پر اور زیادہ پختہ ہوگئے.اس قسم کے نشانات کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 564

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ہم نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے نشانات نازل کئے ہیں جو خدا تعالیٰ کو بے نقاب کر کے انسان کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں.غیروں کے لئے تو خدا تعالیٰ ایک پوشیدہ چیز ہے مگر مسلمانوں کے لئے وہ پوشیدہ چیز نہیں کیونکہ وہ نشانات کے ذریعہ اُن کے سامنے آجاتا ہے.دوسری مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت عمر و بن العاص ؓ کی ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ابتدائی صحابہ ؓ میں سے تھے اور اپنے باپ سے بہت پہلے مسلمان ہو گئے تھے.آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی آپ کا طریق تھا کہ آپ مسجد میں بیٹھے رہتے تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلیں اور کوئی بات کریں تو اسے لکھ لیںچونکہ ان کو لکھنا آتا تھا اس لئے وہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور فرمایا میں قرآن کریم لکھواتا ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی لکھی ہوئی چیز دیکھ کر لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہو کہ وہ بھی قرآن کریم کا ہی حصہ ہے.جب اُن کے والد حضرت عمر و ؓ بن العاص فوت ہونے لگے تو یہ اُن کی خبر لینے کے لئے گئے موت کے وقت اُن کی حالت سخت کرب اور اضطراب کی تھی.کبھی وہ دائیں کروٹ بدلتے اور کبھی بائیں اور کہتے یا اللہ! مجھے معاف کر مجھے معلو م نہیں میں نے کیا کیا گناہ کئے ہیں.حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے کہا.آپ اتنا گھبراتے کیوں ہیں.آپ کا انجام تو اچھا ہی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق دی.اور اب تک اسلام پر قائم رکھا.پھر آپ کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.حضرت عمرو ؓ بن العاص کہنے لگے میرے بیٹے تم ٹھیک کہتے ہو.خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی لیکن کاش میں اُسی وقت مار ا جاتا اور مجھے شہادت نصیب ہوتی.میرے بیٹے ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ میں لڑائیاں ہوئیں اور میں اُن جنگوں میں حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے حصہ لیتا رہا مجھے معلوم نہیں کہ ان لڑائیوں میں مجھ سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں.اس خیال کے آنے پر مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے کہ معلوم نہیں خدا تعالیٰ مجھے معاف بھی کرے گا یا نہیں.پھر آپ نے فرمایا میرے بیٹے ! جب میں اسلام کا دشمن تھا تو میری دشمنی کا یہ حال تھا کہ اگر مجھے پتہ لگتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے گلی میں آرہے ہیں تو میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا تاکہ مجھے آپ کی شکل نظر نہ آئے.اور اگر کوئی شخص اُس وقت مجھ سے پوچھتا کہ محمدؐ رسول اللہ کا حلیہ کیا ہے تو میں آپ کا حُلیہ نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ جب آپ کی شکل سامنے آتی تھی میں آنکھیں بند کر لیتا تھا.پھر جب میں ایمان لایا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا ایمان بخشا کہ آپ کی محبت اور رعب کی وجہ سے میں آپ کے چہرہ پر نظر نہیں ڈالتا تھا بلکہ

Page 565

آپ کے سامنے میں ہمیشہ اپنی آنکھیں نیچی رکھتا اور میں خیال کرتا کہ آپ اتنے معزز اور بلند مقام پر ہیں کہ میرے جیسے گنہگار آدمی کو آپ کا چہرہ دیکھنے کا کوئی حق نہیں.اے میرے بیٹے ! کفر کی حالت میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے آئے اور ایمان کی حالت میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے آئے لیکن اگر اب بھی مجھ سے کوئی پوچھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ کیا تھا تو میں نہیں بتا سکتا.کیونکہ کفر میں بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی اور ایمان میں محبت اور رعب کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہیں دیکھی (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ عمرو بن العاصؓ.والطبقات الکبریٰ لابن سعد، عمرو بن العاص).اب دیکھو عاص جیسے شدید دشمنِ اسلام کا بیٹا جو ایمان لانے سے پہلے خود بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت بغض رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان لانے کی سعادت بخشی.اور اُسے ایسا مقام دیا کہ اُس نے اسلام کے لئے بڑی بڑی جنگیں لڑیں.اور مصر کو اسلام کے لئے فتح کیا.مسلمان جب پڑھتے ہوںگے کہ اسلام کے شدید دشمنوں ولید اور عاص کی اولاد اسلام کی گود میں آگئی اور اُن کے بیٹوں نے اسلام لانے کے بعد بڑی بھاری قربانیاں کیں تو اُن کا ایمان کس قدر بڑھتا ہو گا.پھر میں نے ہندہ کا واقعہ بیان کیا ہے.اُس کے بغض کی یہ کیفیت تھی کہ اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ؓ کا کلیجہ نکلوایا اور آپ کا ناک اور کان کٹوائے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے جن لوگوں کے گرفتار کر نے اور قتل کرنے کا حکم دیا تھا اُ ن میں ہندہ بھی شامل تھیں جب عورتوں کی بیعت کا وقت آیا تو ہندہ بھی مونہہ چھپائے اُ ن میں جا بیٹھی اور بیعت میں شامل ہوگئی.جب قرآنی ہدایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اقرار لیا کہ ہم چوری نہیں کریں گی.زنا نہیں کریں گی.جھوٹ نہیں بولیں گی ، شرک نہیں کریں گی.تو اس آخری فقرہ پر کہ ہم شرک نہیں کریں گی.ہندہ بول اٹھی کہ یا رسول اللہ ! آپ کیا کہتے ہیں.کیا ہم اب بھی شرک کریں گی.ہم مکہ والے متحد ہو کر آپ کے مقابلہ میں آئے.سارا عرب ہمارے ساتھ تھا اور آپ اکیلے تھے.ہم نے آپ کے ساتھ لڑائی کی مگر آپ نے کہا کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور وہ میری مدد کرے گا.اور ہم نے کہا کہ آپ کا خدا جھوٹا ہے وہ آپ کی مدد نہیں کرے گا.ہمارے بُت آپ کے خدا سے زیادہ طاقتور ہیں وہ آپ کے خلاف ہماری مدد کریں گے.مگر ہوا کیا.ہوا یہ کہ آپ جیت گئے اور ہم ہار گئے.اگر ہمارے بتوں میں کوئی طاقت ہوتی اور آپ کا خدا جھوٹا ہوتا تو ہم یقیناً جیت جاتے.اتنے بڑے نشان کو دیکھنے کے بعد اب ہم کس طرح شرک کر سکتی ہیں.جب ہندہ کی آواز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تو آپ نے فرمایا.ہندہ ہے ؟ وہ جھٹ بول

Page 566

اٹھی کہ ہوں تو ہندہ.مگر اب میں مسلمان ہو گئی ہوں اور خدا تعالیٰ نے اسلام لانے پر میرے سارے گناہ معاف کر دیئے ہیں.اب آ پ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے.آپ نے فرمایا.ہندہ تو ٹھیک کہتی ہے(البدایۃ والنھایۃ فصل مبایعۃ رسول اللہ الناس یوم الفتح علی الاسلام.الدرالمنثور سورة الممتحنة زیر آیت ۱۰) جس طرح ہندہ کے لئے فتح مکہ آیات ِ مبینات میں سے تھی اسی طرح اُس کی یہ گفتگو ہمارے لئے آیات ِ مبینات میں سے ہے.ایسی شدید دشمنِ اسلام عورت کو خدا تعالیٰ نے ہدایت دے دی اور اُس کا دل کھل گیا.اور پھر ایسا دل کھلا کہ وہ بعد میں عیسائیوں کے مقابلہ میں لڑی جانے والی جنگوں میں شامل ہوئی.اس کا ایک لڑکا یزید جو حضرت معاویہ ؓ سے بڑا تھا اور بہت مخلص تھا اور اس کا خاوند ابو سفیان ؓ جو اسلام لانے سے پہلے اسلام کا شدید دشمن تھا دونوں عیسائیوں کے ساتھ لڑنے کے لئے ایک جنگ میں شریک ہوئے.عیسائیوں کا لشکر بہت بڑا تھا اور مسلمانوں کی تعدا د اس کے مقابلہ میں بہت کم تھی.اس جنگ میں ایک موقعہ پر اسلامی لشکر پیچھے کو بھاگا.بھاگنے والوں میں ابو سفیان اور اُن کے بیٹے یزید بھی تھے.پیچھے عورتیں کھڑی تھیں.اگراُ س وقت مسلمانوں کے قدم نہ جمتے تو مدینہ تک دشمن کے راستہ میں کوئی روک نہیں تھی.ہندہ نے مسلمان سپاہیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا.تو اس نے عورتوں کو جمع کیا.اور کہا مردوں کے پائوں اکھڑ گئے ہیں.آئو ہم اسلام کے لئے لڑائی کریں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس لڑنے کے لئے کیا سامان ہے ؟ ہندہ نے کہا سامان تو نہیں ہے لیکن ایک چیز ہے.خیموں کی چوبیں اتار لو اور ہاتھ میں لے لو.اور مسلمان سپاہی جو دوڑتے ہوئے آرہے ہیں.اُن کے اونٹوں کو ان چوبوں سے مارو.اور کہو بے شرمو !تم کافروں سے بھاگ رہے ہو.چنانچہ عورتوں نے چوبیں اتار لیں.ہندہ نے بھی ایک چوب اتار لی.اور سب عورتوں کو لےکر بھاگتے ہوئے اسلامی لشکر کے آگے کھڑی ہو گئی.سب سے آگے اُس کا خاوند ابو سفیا ن اور اُس کا بیٹا یزید تھے.عورتوں نے اُن کے اونٹوں کے مونہوں پر چوبیں ماریں اور کہا بے شرمو ! تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم کافروں کے مقابلہ میں شکست کھا کر بھاگے چلے آرہے ہو.اس موقعہ پر ہندہ نے ابو سفیان کو مخاطب کرکے کہا جب تو کافر تھا تو بہادری کے ساتھ اونٹ پر سوار ہو کر تو محمد رسول اللہ کے لشکر پر حملہ کرنے جایا کرتا تھا.اب تُو مسلمان ہو گیا ہے تو تُو عیسائیوں کو پیٹھ دکھا رہا ہے.تجھے ایسا کرتے ہوئے شرم نہیں آتی.اس کا ابو سفیان ؓ پر ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اپنے بیٹے کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا بیٹا ! عورتوں کے سونٹے عیسائیوں کی تلواروں سے زیادہ خطرناک ہیں چلو واپس لوٹو اب خواہ ہم مر یں یا جیئیں اس کی پرواہ نہیں.چنانچہ دونوں واپس لوٹے اور پھر سارا اسلامی لشکر بھی واپس لوٹا اور اُن کی شکست فتح سے بدل گئی.یہ تھی وہ ہندہ جو ایک وقت اسلام کی اتنی شدید دشمن تھی کہ شعر پڑھ پڑھ کر کفار کومسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اُکسایا کرتی

Page 567

تھی.فتح مکہ کے بعد اُسی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا گیا لیکن قبل اس کے کہ اُسے گرفتا ر کیا جاتا وہ عورتوں میں چُھپ کر بیعت میں شامل ہو گئی.کیا اُس کے متعلق اس وقت کوئی انسان یہ خیال بھی کرسکتا تھا کہ کسی وقت یہ عورت اسلام میں داخل ہوگی اور پھر اسلام کے لئے شاندار قربانیاں کرنے والی ہوگی.لیکن وہی ہندہ جو اسلام کی شدید دشمن تھی اسلام لانے کے بعد اسلامی فتوحات میں حصہ دار بن گئی.غرض تاریخِ اسلام کا ایک ایک واقعہ پڑھا جائے تو یُوں محسوس ہوتا ہے کہ وہلَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ کے مطابق ایک ایسا نشان ہے جو حقیقت ِ حال کو کھو ل کر سامنے رکھ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اے مسلمانو! تم پر اسلام میں داخل ہونا کوئی بوجھ نہیں کیونکہ دوسرے لوگوں کے لئے اُن کے مذہب غیب نہیں.لیکن تمہارا مذہب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی غیبی طاقتوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اور مذہب نہیں ٹھہر سکتا.پھر دیکھ لو یہ نمونہ آج تک چلا آرہا ہے ! اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہو ئے جولَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ کے ذریعہ اسلام کی روشنی کو ظاہر کرتے رہے.چنانچہ ابتدائی زمانہ میں حضرت جنید بغدادی ؒ ہوئے.حضرت سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ ہوئے.شبلی ؒ ہوئے.ابراہیم ادھم ؒ ہوئے.ابن تیمیہ ؒ ہوئے.ابن قیم ؒ ہوئے.امام غزالی ؒ ہوئے.حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ ہوئے.اور ان کے علاوہ ہزاروں اور بزرگ ہوئے.پھر آخری زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ محدث دہلوی ہوئے.خواجہ باقی باللہ ؒ ہوئے.خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ ہوئے.شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ ہوئے.خواجہ بہائو الدین صاحب نقشبندی ؒ ہوئے.نظام الدین صاحب اولیا ؒ ہوئے.خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی ؒ ہوئے.فرید الدین صاحب شکر گنج ؒ ہوئے.حضرت سید احمد صاحب ؒبریلوی ہوئے.حضرت شیخ احمد صاحب ؒ سرہندی مجدد الف ثانی ہوئے.یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کا قرب پا کر اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ کا مقام حاصل کر گئے اور ان میں سے ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے.پھر جب اُن کا نور دھندلا ہوا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور آ پ کا وجو د ہمارے لئے آیات مبینات بن گیا.جو شخص بھی آپ کے پاس بیٹھا اُس کو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نظر آگئی اور کوئی چیز اس کو اسلام سے ہٹانے والی نہ رہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھیں والا مقدمہ ہو ا تو مجسٹریٹ ہندو تھا آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور کچھ نہ کچھ سزا دے اور اُس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کما ل الدین صاحب نے یہ بات سنی تو ڈر گئے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خد مت میں گورداسپور حاضر ہوئے جہاں مقدمہ کے دوران میں آپ ٹھہرے ہوئے

Page 568

تھے اور کہنے لگے حضور بڑے فکر کی بات ہے.آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے آپ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا.خواجہ صاحب خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے ؟ میں خدا کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.چنانچہ ایسا ہی ہو ا.دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں یکے بعد دیگر ے یہ مقدمہ پیش ہوا اور ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی ان میں سے ایک تو معطل ہو ااور ایک کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مر گیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ میں دہلی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دُعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں.اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جائوں.اب میرا ایک اور بیٹا ہے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے اور مجھے دونوں کو تباہی سے بچائے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو اُن کے مقصد میں ناکامی ہوئی.یہ آیات مبینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے.مگر فرماتا ہے.وَ اللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ.آیا ت مبینات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا کو اپنا چہرہ تو دکھا دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر میسر نہیں آسکتا اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجز انہ طور پر دعائیں کرتا رہے کہ وہ خود اس کی صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائے اور پھر اُسے صراط مستقیم پر ہمیشہ کے لئے قائم بھی رکھے کیونکہ سورۂ فاتحہ کی دعا نے بتا دیا ہے کہ صراط مستقیم حاصل ہو جانے کے بعد بھی انسان کے لئے گِرنے اور مغضوب یا ضال ہونےکا خطرہ ہوتا ہے اور اس خطرہ سے نجات کی طرف یہی صورت ہوتی ہے کہ انسان ہر وقت آستانۂ الوہیت پر گرا رہے اور دُعائوں سے اس کی مدد حاصل کرتا رہے.وَ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى اور وہ کہتے ہیں ہم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کا وعدہ کر لیا پھراُن میں سے فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۴۸ ایک گروہ اس کے بعد (اپنے اقرار سے) پھر جاتا ہے.اور ایسے لوگ ہر گز مومن نہیں.اور جب اُن کو اللہ اور

Page 569

وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اِذَا فَرِيْقٌ اس کے رسول کی طرف اس لئے بلایا جاتا ہے تا کہ وہ اُ ن کے درمیان فیصلہ کرے.تو اُن میں سے ایک گروہ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ۰۰۴۹وَ اِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْۤا اِلَيْهِ اعراض کر نے لگ جاتا ہے.اور اگر کوئی بات اُن کے حق میں ہو تو وہ فوراً اظہار اطاعت کر تے ہوئے مُذْعِنِيْنَؕ۰۰۵۰اَفِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْۤا اَمْ يَخَافُوْنَ آجاتے ہیں.کیا اُن کے دلوں میں کوئی بیماری ہے ؟ یا وہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اَنْ يَّحِيْفَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ وَ رَسُوْلُهٗ١ؕ بَلْ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ اُس کا رسول اُ ن پر ظلم کرےگا.ایساہر گز نہیں بلکہ وہ خود ظالم ہیں.مومنوں کا جواب جب وہ اللہ اور الظّٰلِمُوْنَؒ۰۰۵۱اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اُس کے رسول کی طرف بلائے جائیں کہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کریں یہ ہوا کرتا ہے کہ ہم نے سنا اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اور ہم نے مان لیا.اور وہی لوگ کامیاب ہوا کرتے ہیں.اور جو لوگ اللہ اور اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۵۲وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور رَسُوْلَهٗ وَ يَخْشَ اللّٰهَ وَ يَتَّقْهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠۰۰۵۳ اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ با مراد ہو جاتے ہیں.حلّ لُغَات.مُذْعِنِیْنَ.اَذْعَنَ سے اسم فاعل کا صیغہ مُذْعِنٌ آتا ہے اور مُذْعِنِیْنَ جمع کا صیغہ ہے.اَذْعَنَ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں.اَسْرَعَ الطَّاعَۃَ اُس نے جلدی سے اطاعت کی.خَضَعَ وَذَلَّ وَاِنْقَادَ.

Page 570

اُس نے عاجزی کی او ر اس کے سامنے جُھک گیا ( اقرب) پس مُذْعِنٌ کے معنے ہوںگے جلدی اطاعت کرنےوالا اور مُذْعِنِیْنَ کے معنے ہوںگے جلدی اطاعت کرنے والے.یَحِیْفُ.یَحِیْفُ حَافَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور حَافَ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں جَارَ وَظَلَمَ.اُس پر ظلم کیا اور زیادتی کی.( اقرب) پس یَحِیْفُ کے معنے ہوںگے وہ ظلم اور زیادتی کرےگا.تفسیر.فرماتا ہے بعض لوگ اللہ اور رسو ل کے ساتھ ہونے کا دعویٰ تو کر دیتے ہیں لیکن جب آزمائش کا موقعہ آتا ہے تو وہ پیٹھ پھیر لیتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ مومن نہیں اور وقت پر کچے دھاگے ثابت ہوتے ہیں.ہاں اگر اُن کو کچھ ملنا ہو تو دوڑے چلے آتے ہیں اور اگر نہ ملنا ہو تو بھاگ جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کوئی بیماری ہے یا اُن کو ایمان نصیب نہیں ہو ا.یا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو مانا تو اُن کو نقصان پہنچے گا.اس کے مقابل میں مومنوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب اُن کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کسی فیصلہ کے لئے بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے کہ ہم نے سُن لیا اور عمل سے اطاعت کرتے ہیں اور آخر اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتے ہیں.کیونکہ اللہ اور رسول کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اُس کا تقویٰ اختیار کرنے کے نتیجہ میں انسان ہمیشہ کامیاب ہی ہوا کرتا ہے.یہ آیات قومی ترقی سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت ہی اہم اصل پر مشتمل ہیں اور ان میں بتا یا گیا ہے کہ آپس کے اختلافات میں جب تک خدا اور اس کے رسول کو حَکَم نہ بنایا جائے اُس وقت تک مسلمان بہ حیثیت مجموعی کبھی ترقی حاصل نہیں کرسکتے.یہ منافقت اور بے ایمانی کی علامت ہوتی ہے کہ جہاں اپنا فائدہ دیکھا وہاں تو خدا اور اس کے رسول کی بات مان لی.اور جہاں یہ نظر آیا کہ اگر میں نے خدا اور اُس کے رسول کی بات مانی تو مجھے نقصان پہنچے گا وہاں ان کے فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.اسلام اس قسم کی منافقت کو جائز قرار نہیں دیتا.وہ کہتا ہے کہ تمہارے ایمان کی علامت یہ ہے کہ تم نہ صرف مذہبی امور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرو بلکہ اپنے سیاسی اور معاشرتی امور میں بھی آپ کی اقتداء کرو او ر آپ کو اپنا حَکَم تسلیم کرو.درحقیقت اسلام اُن مذاہب میں سے نہیں جو مذہب کا دائرہ عمل صرف چند عبادات اور افکار تک محدود رکھتے ہیں اور امورِ اعمالِ دنیوی کو ایک علیٰحدہ عمل قرار دیتے ہیں اور اُن میں کوئی دخل نہیں دیتے.ایسے مذہب یہ تو کہیں گے کہ نمازیوُں پڑھو.روزے یُوں رکھو.صدقہ و خیرات یوں کرو.لوگوں کے حقوق یوں بجا لائو مگر کوئی ایسا حکم نہیں دیں گے جس کا نظام کے ساتھ تعلق ہو یا اقتصادیات کے ساتھ تعلق ہو.یا بین الاقوامی حالات کے ساتھ تعلق ہو یا لین دین کے معاملات کے ساتھ تعلق ہو یا

Page 571

ورثہ کے ساتھ تعلق ہو.اسی قسم کے مذاہب میں سے ایک مسیحی مذہب ہے اور اس مذہب میں جو شریعت کو لعنت قرار دینے پر زور دیا گیا ہے.اس کی وجہ بھی زیادہ تر یہی ہے کہ وہ افراد کے اعمال کو مذہب کی پابندیوں سے الگ رکھنا چاہتے ہیں.وہ کہتے ہیں مذہب کا کا م صرف یہ ہے کہ وہ کہے تم عبادت کرو.تم روزے رکھو تم غریبوں کی خبر گیری کرو.تم عیسیٰ کو خدا سمجھو اسے اس بات سے کیا واسطہ ہے کہ قتل اور فساد اور چوریوں اور ڈاکوں کے متعلق کیا احکام ہیں.یا یہ کہ قومیں آپس میں کس طرح معاہدات کریں.یا اقتصاد کو کس طرح حدود میں رکھا جا سکتا ہے.ان کے نزدیک شریعت کا ان امور سے کوئی واسطہ نہیں.چنانچہ اگر لڑکوں اور لڑکیوں کو ورثہ میں حصہ دینے کا سوال ہو تو وہ کہہ دیں گے کہ اس میں شریعت کا کیا دخل ہے.یہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ جس امر میں قوم کا فائدہ دیکھے اسے بطور قانون نافذ کر دے.اسی طرح وہ کہتے ہیں اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم سود لیں گے چاہے روپیہ کی صورت میں لیں اور چاہے جنس کی صورت میں تو مذہب کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ روپیہ کے بدلہ میں سودی روپیہ لینا ناجائز ہے.غرض وہ مذہب کے ان احکام سے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں شدید نفرت کرتے ہیں.اسی لئے انہوں نے شریعت کو لعنت قرار دے رکھا ہے.اس کے بالمقابل بعض دوسرے مذاہب ایسے ہیں جنہوں نے مذہب کے دائرہ کو وسیع کیا ہے اور انسانی اعمال اور باہمی تعلقات اور نظامِ حکومت وغیرہ کے متعلق بھی قواعد بنائے ہیں.اور جو لوگ ایسے مذاہب کو مانتے ہیں لازمًا انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ حکومت کے معاملات میں بھی مذہب کو دخل اندازی کا حق حاصل ہے اور نیز یہ کہ اِن احکام کی پابندی افراد اور جماعتوں پر اسی طرح واجب ہے جس طرح عقائد اور انفرادی احکام.مثلاً نماز اور روزہ وغیر ہ میں واجب ہے.اس کی مثال میں یہودی مذہب کو پیش کیا جا سکتا ہے.اگر کوئی شخص موسوی شریعت کو پڑھے تو اُسے جابجا یہ لکھا ہوا نظر آئےگا کہ اگر کوئی قتل کرے تو اُسے یہ سزا دی جائے.چوری کرے تو یہ سزا دی جائے.جنگ ہو تو ان قواعد کو ملحوظ رکھا جائے.قربانی کرنی ہو تو ان اصول کے ماتحت کی جائے اسی طرح لین دین اور تجارت وغیرہ معاملات کے متعلق وہ ہدایات دیتا ہے.غرض وہ معاملات جو حکومت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یہودی مذہب اُن میں دخل دیتا ہے.اَب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام کس قسم کے مذاہب سے مشابہت رکھتا ہے.آیا اول الذکر قسم سے یا دوسری قسم کے مذاہب سے اس غرض کے لئے جب قرآن کریم اور احادیث نبویہ کو دیکھا جاتا ہے تو اُن پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے ہی یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام پہلی قسم کے مذاہب میں شامل نہیں بلکہ دوسری قسم کے مذاہب میں شامل ہے اُس نے صرف بعض عقائد اور انفرادی اعمال بتانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اُس نے ان احکام

Page 572

کو بھی لیا ہے جو حکومت اور قانون سے تعلق رکھتے ہیں.چنانچہ وہ صرف یہی نہیں کہتا کہ نمازیں پڑھو.روزے رکھو.حج کرو.زکوٰۃ دو بلکہ وہ ایسے احکام بھی دیتا ہے جن کا حکومت اور قانون سے تعلق ہوتا ہے.مثلاً وہ میاں بیوی کے تعلقات پر بحث کرتا ہے.وہ بتا تا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان اگر جھگڑا ہو جائے تو کیا کیا جائے اور اُن کی باہمی مصالحت کے لئے کیا تدابیر عمل میں لائی جائیں اور اگر کبھی مرد کو اس بات کی ضرورت پیش آئے کہ وہ عورت کو بدنی سزا دے تو وہ کتنی اور کیسی ہو.اسی طرح وہ لین دین کے قواعد پر بھی بحث کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قرض کے متعلق کتنے گواہ تسلیم کئے جا سکتے ہیں.قرضہ کی کون سی صورتیں جائز ہیں اور کون سی ناجائز.و ہ تجارت اور فنائینس کے اصول بھی بیان کرتا ہے جن پر قضاء کی بنیاد ہے.چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ کیسے گواہ ہونے چاہئیں کتنے ہونے چاہئیں.ان کی گواہی میں کن کن امور کو ملحوظ رکھنا چاہیے اسی طرح وہ قضاء کے متعلق کئی قسم کے احکام دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ قاضیوں کو کس طرح فیصلہ کرنا چاہیے پھر ان مختلف انسانی افعال کی وہ جسمانی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے جو عام طور پر قوم کے سپرد ہوتی ہیں مثلاً قتل کی کیا سزا ہے یا چوری کی کیا سزا ہے.اسی طرح وہ وراثت کے قوانین بھی بیان کرتا ہے.حکومت کو ٹیکس کا جو حق حاصل ہے اس پر بھی پابندیاں لگا تا ہے اور ٹیکسوں کی تفصیل بیان کرتا ہے.حکومت کو ان ٹیکسوں کے خرچ کرنے کے متعلق جو اختیارات حاصل ہیں اُن کو بھی بیان کرتا ہے.فوجوں کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.معاہدات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.وہ بتا تا ہے کہ د وقومیں جب آپس میں کوئی معاہدہ کرنا چاہیں تو کن اصول پر کریں اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.مزدور اور ملازم رکھنے والوں کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.سڑکوں وغیرہ کے متعلق قواعد بیان کرتا ہے.چنانچہ اسی ہدایت کے ماتحت جب بغداد بنایا گیا تو بڑی سڑکیں ساٹھ فٹ کی رکھی گئیں اور چھوٹی سڑکیں تیس فٹ کی رکھی گئیں.غرض وہ تمام امور جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں اُن سب کو اسلام بیان کرتا ہے.اور ساتھ ہی وہ تفقہ کاقانون بھی بیان کرتا ہے جس سے قوانین بنانے والوں کی راہنمائی ہو جاتی ہے.پس جو شخص اسلام کو مانتا ہے اور اس میں حکومت کے متعلق تمام احکام کو تفصیل سے بیان کیا ہوا دیکھتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو ان امور سے کیا واسطہ بلکہ اُسے تسلیم کرنا پڑےگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قابلِ تقلید ہیں جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کے متعلق احکام.کیونکہ جس خدا نے یہ کہا ہے کہ نماز پڑھو.جس خدا نے یہ کہا ہے کہ روزے رکھو.جس خدا نے یہ کہا ہے کہ حج کرو.جس خدا نے یہ کہا ہے کہ زکوٰۃ دو اُسی خدا نے امور سیاست اور تنظیم ملکی کے متعلق بھی احکام بیان کئے ہیں.اور فرمایا ہے

Page 573

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ( النور :۵۲ )کہ مومنوں کو جب خدا اور اس کا رسول بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئو ہم تمہارے جھگڑے کا فیصلہ کردیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا.حضور کا حکم ہم نے سُن لیا اور ہم ہمیشہ حضور کی اطاعت کر یں گے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہی لوگ ہیں جو کامیا ب ہو ںگے اور ہمیشہ مظفر و منصور رہیں گے.اب ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کو وابستہ قرار دینا اور دوسری طرف انہی لوگوں کو کامیاب قرار دینا جو سَمِعْنَا اور اَطَعْنَا کہیں اور آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف نہ چلیں بتا تا ہے کہ اگر کوئی شخص ان احکام کو نہ مانے تو وہ خدائی گرفت میں آجاتا ہے.اسی مضمون کی طرف سورۂ نساء میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہفَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ( النساء :۶۶) یعنی یہ لوگ کبھی مومن نہیں کہلا سکتے جب تک یہ اپنے جھگڑوں میں اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے حَکَم تسلیم نہ کریں اور پھر تیری قضا ء پر دل و جان سے وہ راضی نہ ہوں.اس آیت کریمہ میں دو نہایت اہم باتیں بیان کی گئی ہیں اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری قاضی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کے فیصلہ پر کسی اور کے پاس کسی کو اپیل کا ہر گز حق حاصل نہیں ہوگا اور آخری فیصلہ کا حق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکومت کے اختیارات حاصل تھے.دوسری بات جو اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان فیصلوں کے تسلیم کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ تیرے رب کی قسم وہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک وہ تیرے فیصلوں کو تسلیم نہ کریں.گویا یہ بھی دین کا ایک حصہ ہے اور ایسا ہی حصہ ہے جیسے نماز دین کا حصہ ہے.جیسے روزہ دین کا حصہ ہے.جیسے حج اور زکوٰۃ دین کا حصہ ہے.فرض کرو زید اور بکر کا آپس میں جھگڑا ہو جاتا ہے.ایک کہتا ہے میں نے دوسرے سے دس روپے لینے ہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے کوئی روپیہ نہیں دینا.دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے ہیں.اور اپنے جھگڑے کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں تو دوسرا اس فیصلہ کو اگر نہیں مانتا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہ مومن نہیں رہا.پس باوجود یہ کہ وہ نماز پڑھتا ہوگا وہ روزے رکھتا ہوگا وہ زکوٰۃ دیتا ہوگا.وہ حج کرتا ہوگا.اگر وہ اس حصہ میں آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فتویٰ اس کے متعلق یہی ہے کہ اس انکار کے بعد وہ مومن نہیں رہا.پس لَا یُؤْ مِنُوْنَ کے

Page 574

الفاظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے اس حصہ کو بھی دین کا ایک جزو قرار دیا ہے علیٰحدہ نہیں رکھا.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی ان زیر تفسیر آیات میں بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو بتا یا ہے کہ تمہارا صرف منہ سے خدا اور رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں تمہارا ایمان اس وقت قابل قبول سمجھا جاسکتا ہے جب تم اپنے ہر معاملہ میں خدا اور اس کے رسول کو حَکَم تسلیم کرو اور کسی بات میں بھی اُن کے احکام سے انحراف کرنےکی جرأت نہ کرو.وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ اَمَرْتَهُمْ اور وہ لوگ اللہ (تعالیٰ) کی پکی قسمیں کھاتے ہیں.کہ اگرتو اُن کو حکم دے تو وہ فوراً گھروں سے نکل کھڑے لَيَخْرُجُنَّ١ؕ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا١ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ ہوںگے.کہو قسمیں نہ کھائو.ہمارا حکم تو تمہیں صرف ایسی اطاعت کا ہے جو عرفِ عام میں اطاعت سمجھی جاتی ہے خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۰۰۵۴قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا اللہ( تعالیٰ) اُس سے جو تم کرتے ہو یقیناً خبر دار ہے.تو کہہ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَيْكُمْ مَّا پس اگر وہ پھر جائیں تو اس( رسول) پر صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اُس کے ذمہ لگا یا گیا ہے.اور تم پر اُس کی حُمِّلْتُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا١ؕ وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا ذمہ واری جو تمہارے ذمہ لگا یا گیا ہے.اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جائو گے.اور رسول کے الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۰۰۵۵ ذمہ تو بات کو کھول کر پہنچا دینا ہے.تفسیر.فرماتا ہے یہ لوگ پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ہم کو لڑنے کا بھی حکم دیا گیا تو ہم ضرور لڑیں گے.تُو ان سے کہہ دے کہ قسمیں کھانے کا کوئی فائدہ نہیں مومنوں والی اطاعت کا نمونہ اصل چیز ہے.قسمیں تو منافق سے منافق انسان بھی کھا لیتا ہے.پس اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور بڑھ بڑھ کر باتیں نہ بنائو.مومنانہ طریق تو یہ ہوتا

Page 575

ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی عملاً اطاعت کی جائے اور صرف زبانی دعووں پراپنے ایمان کا انحصار نہ سمجھاجائے.لیکن اگر اس نصیحت کے باوجود یہ لوگ پیٹھ پھیر جائیں تو اس رسول پر اس کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.اس پر صرف اس پیغام کی ذمہ واری ہے جس کا پہنچانا اس کے سپر د کیا گیا ہے اور تم پر ان احکام کے بجا لانے کی ذمہ داری ہے جو تمہارے ذمہ لگائے گئے ہیں.ہاں ہم اتنی بات تمہیں ضرور بتا دیتے ہیں کہ اگر تم اس بارہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تم کامیاب ہو جائو گے اور فتح پائو گے.مگر ہم پھر تمہیں کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف دنیا تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دینا ہے.ورنہ عملی قدم اٹھانا تمہارا کام ہے.جدوجہد کرنا تمہارا کا م ہے.قربانیاں کرنا تمہارا کام ہے.تم صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائو کہ خدا کا ایک رسول تم میں آیا اور تم نے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا.اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور اُس کے مطابق وہ تم سے سلوک کرے گا اگر تم مونہہ سے تو یہ کہتے ہو کہ ہم رسول کے ساتھ ہر میدان میں دشمن سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن وقت آنے پر تمہارے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور جان دینا تمہیں دو بھر معلوم ہوتا ہے تو تم سمجھ لو کہ تمہارا ایمان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک رائی کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتا.موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی مثال تمہارے سامنے ہے.انہوں نے بھی موسیٰ ؑ کی اطاعت کا اقرار کیا تھا مگر جب موسیٰ ؑ نے کہا کہ اٹھو اور کنعان کی سرزمین پر حملہ کردو.تو انہوں نے کہہ دیا کہ اے موسیٰ ؑ تو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑتے رہو.ہم تو یہیں بیٹھے ہیں(المائدۃ:۲۵).مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا.چالیس سال تک وہ قوم صحرائوں میں بھٹکتی پھری اور کنعان میں داخل نہ ہو سکی.اور اگر داخل ہوئی تو اس وقت جب وہ قربانیوں کے لئے تیار ہو گئی.پس اصل چیز خدا اور اس کے رسول کی اطاعت ہے اور تمام کامیابیاں اسی رُوح کے ساتھ وابستہ ہیں جس قوم میں اطاعت کی رُوح ہوتی ہے و ہ دوسروں کے مقابلہ میں کمزور ہوتے ہوئے بھی کامیاب ہوجاتی ہے.اور جس قوم میں سے اطاعت کی رُوح نکل جاتی ہے وہ زیادہ ہوتے ہوئے بھی ناکام رہتی ہے.

Page 576

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اللہ (تعالیٰ) نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعد ہ کیا ہے کہ وہ ان کو لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.اور جو دین اُس نے اُن کے قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ لئے پسند کیا ہے وہ اُن کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دےگا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا امن کی حالت تبدیل کر دےگا.وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے.اور جو لوگ يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ اس کے بعد بھی انکار کریںگے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے.او ر تم سب نمازوں کو قائم کر و.الْفٰسِقُوْنَ۰۰۵۶وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِيْعُوا اور زکوٰ ۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے.(اور اے مخاطب) کبھی خیال نہ کر الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۵۷لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا کہ کفارز مین میں ہمیں اپنی تدبیروں سے عاجز کر دیں گے مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ١ۚ وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ١ؕ وَ لَبِئْسَ الْمَصِيْرُؒ۰۰۵۸ اور ان کا ٹھکانا تو دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکا نا ہے.تفسیر.ان آیات سے یہ مضمون شروع ہوتا ہے کہ اگر مسلمان قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے تو ان کو کیا انعام ملےگا.چنانچہ فرماتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ خلافت پر ایما ن لا ئیں گے اور

Page 577

خلافت کے استحقاق کے مطابق عمل کریں گے اور ایسے اعمال بجا لائیں گے جو انہیں خلافت کا مستحق بنا دیں اُن سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعد ہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں اُسی طرح خلیفہ بنائےگا جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو اس نے خلیفہ بنایا اور اُن کی خاطر ان کے دین کو جو اس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے دنیا میں قائم کرے گا اور جب بھی ان پر خوف آئے گا اس کو امن سے بدل دےگا.اور ایسا ہوگا کہ وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرا شریک قرار نہیں دیں گے لیکن جو لوگ مسئلہ خلافت پر ایمان لانا چھوڑ دیں گے وہ اس انعام سے متمتع نہیں ہوںگے بلکہ اطاعت سے خارج سمجھے جائیں گے.اس آیت میں مسلمانوں کی قسمت کا آخری فیصلہ کیا گیا ہے اور ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ خلافت کے قائل رہے اور اس غرض کے لئے مناسب کوشش اور جدوجہد بھی کرتے رہے تو جس طرح پہلی قوموں میں خدا تعالیٰ نے خلافت قائم کی ہے اسی طرح ان کے اندر بھی خدا تعالیٰ خلافت کو قائم کر دے گا اور خلافت کے ذریعہ سے اُن کو اُن کے دین پر قائم فرمائے گا جو خدا نے اُن کے لئے پسند کیا ہے اور اس دین کی جڑیں مضبوط کر دےگا اور خوف کے بعد امن کی حالت اُن پر لے آئےگا جس کے نتیجہ میں وہ خدا ئے واحد کے پرستا ر بنے رہیں گے اورشرک نہیں کریں گے.مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک وعدہ ہے پیشگوئی نہیں.اگر مسلمان ایمان بالخلافت پر قائم نہیں رہیں گے اور اُن اعمال کو ترک کردیں گے جو خلافت کے قیام کے لئے ضروری ہیں تو وہ اس انعام کے مستحق نہیں رہیں گے.اور خدا تعالیٰ پروہ یہ الزام نہیں دے سکیں گے کہ اُس نے وعدہ پورا نہیں کیا.پھر خلافت کے ذکر کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ.یعنی جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو.گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کر کے وہ اطاعتِ رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے.یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِيْ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیة و تحریمھا فی المعصیة).یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی.اُس نے میری نافرمانی کی پس وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُس

Page 578

وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت و تمکین دین کے لئے نمازیں قائم کی جائیں.زکوٰتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زکوٰۃ کی وصولی کا باقاعدہ انتظام تھا.پھر جب آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوگئے تو اہل عرب کے کثیر حصہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حکم صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا.بعد کے خلفاء کے لئے نہیں مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا بلکہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اونٹ کے گھٹنے کو باندھنے والی رسی بھی زکوٰۃ میں دینے سے انکار کر یں گے تو میں ان سے جنگ جاری رکھوں گا اور اس وقت تک بس نہیں کروںگا جب تک اُن سے اُسی رنگ میں زکوٰۃ وصول نہ کرلوں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے (تاریخ الخمیس ذکر بدء الردة والبدایة والنھایة زیر عنوان فی تنقید جیش اسامة بن زید).چنانچہ آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے اور زکوٰۃ کا نظام پھر جاری ہوگیا جو بعد کے خلفاء کے زمانوں میں بھی جاری رہا.مگر جب سے خلافت جاتی رہی مسلمانوں میں زکوٰۃ کی وصولی کا بھی کوئی انتظام نہ رہا اور یہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو مسلمان زکوٰۃ کے حکم پر عمل ہی نہیں کر سکتے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ جیسا کہ اسلامی تعلیم کا منشاء ہے امراء سے لی جاتی ہے اور ایک نظام کے ماتحت غرباء کی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے.اب ایسا وہیں ہو سکتا ہے.جہاں ایک باقاعدہ نظام ہو.اکیلا آدمی اگر چند غرباء میں زکوٰۃ کا روپیہ تقسیم بھی کر دے تو اُس کے وہ خوشگوار نتائج کہاں نکل سکتے ہیں جو اُس صورت میں نکل سکتے ہیں جبکہ زکوٰۃ ساری جماعت سے وصول کی جائے اور ساری جماعت کے غرباء میں تقسیم کی جائے.یہ مسئلہ اُن سارے اسلامی بادشاہوں کو مجرم قرار دیتا ہے جو سرکاری بیت المال کو اپنی ذات پر اور اپنے تعیش پر قربان کرتے تھے اور بڑے بڑے محل اور بڑی بڑی سیرگاہیں بناتے تھے.اگر پبلک اس کا آرڈر دیتی چونکہ اس کا روپیہ تھا جائز ہوتا بشرطیکہ اسراف نہ ہوتا لیکن پبلک نے کبھی آرڈر نہیں دیا اور پھر وہ اسراف کی حد سے بھی آگے نکلا ہوا تھا.اس لئے یہ سارے کام ناجائز تھے.اور ان لوگوں کو گنہگار بناتے تھے.نہ اسلام کو تختِ طائوس کی ضرورت تھی نہ تاج محل کی ضرورت تھی نہ قصر زہرہ کی ضرورت تھی نہ بغداد کے محلات ہارون الرشید کی ضرورت تھی.یہ ساری کی ساری چیزیں اسلامی شوکت کی بجائے چند افراد کی شوکت ظاہر کرنے کے لئے بنائی گئی تھیں.اسی لئے آخر میں ان

Page 579

خاندانوں کی تباہی کا باعث بنیں.اسی طرح اقامت صلوٰۃ بھی اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے.اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے.مثلاً پاکستان کی جماعتوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ چین اور جاپان اور دیگر ممالک میں اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام اُن سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے.اگر ایک مرکز ہوگا اور ایک خلیفہ ہو گا جو تما م مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہوگا تو اُسے تمام اکناف ِ عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے.اسی لئے حنفیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں کوئی سلطان نہ ہو جمعہ پڑھنا جائز نہیں (المختصر للقدوری باب صلوٰة الجمعة).اور اس کی تہ میں یہی حکمت ہے جو میں نے بیان کی ہے اسی طرح عیدین کی نمازیں ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ امر ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ قومی ضرورتوں کے مطابق خطبات پڑھا کرتے تھے.مگر جب خلافت کا نظام نہ رہے تو انفرادی رنگ میں کسی کو قومی ضرورتوں کا کیا علم ہو سکتا ہے.اور وہ ان کو کس طرح اپنے خطبات میں بیان کر سکتا ہے.بلکہ بالکل ممکن ہے کہ حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ خود بھی دھوکا میں مبتلا رہے اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں مبتلا رکھے.میں نے ایک دفعہ کہیں پڑھا کہ آج سے ستر اسّی سال پہلے ایک شخص بیکانیر کے علاقہ کی طرف سیر کرنے کے لئے نکل گیا.جمعہ کا دن تھا وہ ایک مسجد میں نمازپڑھنے کے لئے گیا تو اُس نے دیکھا کہ امام نے پہلے فارسی زبان میں مروجہ خطبات میں سے کوئی ایک خطبہ پڑھا اور پھر ان لوگوں سے جو مسجد میں موجود تھے کہا کہ آئو اب ہاتھ اٹھا کر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ امیر المومنین جہانگیر بادشاہ کو سلامت رکھے.اب اُس بیچارے کو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ جہانگیر بادشاہ کو فوت ہوئے سینکڑوں سال گذر چکے ہیں اور اب جہانگیر نہیں بلکہ انگریز حکمران ہیں.غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہو سکتا ہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجو د ہو.چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں.اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ کئی غیر احمدی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے.درحقیقت لیڈر کا کام لوگوں کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے مگر یہ رہنمائی وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس دنیا کے اکثر

Page 580

حصوں سے خبریں آتی ہوں.اور وہ سمجھتا ہو کہ حالات کیا صورت اختیار کر رہے ہیں.صرف اخبارات سے اس قسم کے حالات کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ اخبارات میں بہت کچھ جھوٹی خبریں درج ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان میں واقعات کو پورے طور پر بیان کرنےکا التزام نہیں ہوتا.لیکن ہمارے مبلغ چونکہ دنیا کے اکثر حصوں میں موجود ہیں اور پھر جماعت کے افراد بھی دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے اُن کے ذریعہ مجھے ہمیشہ سچی خبریں ملتی رہتی ہیں.اور میں اُن سے فائدہ اٹھا کر جماعت کی صحیح رہنمائی کرتا رہتا ہوں.پس درحقیقت اقامۃ الصلوٰۃ بھی بغیر خلیفہ کے نہیں ہو سکتی.اسی طرح اطاعتِ رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے.یُوں تو صحابہ ؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں.صحابہ ؓ بھی حج کرتے تھے اور آجکل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں.پھر صحابہؓ اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی ہے کہ صحابہ ؓ میں ایک نظام کاتابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی رُوح حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہ ؓ اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.لیکن یہ اطاعت کی رُوح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں.مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے.روزے بھی رکھیں گے حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا.پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعتِ رسول بھی ہوگی.کیونکہ اطاعت رسول یہ نہیں کہ نمازیں پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو.یہ تو خدا کے احکام کی اطاعت ہے.اطاعت رسول یہ ہے کہ جب وہ کہے کہ اب نمازوں پر زور دینے کا وقت ہے تو سب لوگ نمازوں پر زور دینا شروع کر دیں اور جب وہ کہے کہ اب زکوٰۃ اور چند وں کی ضرورت ہے تو وہ زکوٰۃ اور چندوں پر زور دینا شروع کر دیں.اور جب وہ کہے کہ اب جانی قربانی کی ضرورت ہے یا وطن کو قربان کرنے ضرورت ہے تو وہ جانیں اور اپنے وطن قربان کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں.غرض یہ تین باتیں ایسی ہیں جو خلافت کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.اگر خلافت نہ ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نمازیں بھی جاتی رہیں گی.تمہاری زکوٰۃ بھی جاتی رہے گی.اور تمہارے دل سے اطاعت ِ رسول کا مادہ بھی جاتا رہے گا.ہماری جماعت کو چونکہ ایک نظام کے ماتحت رہنے کی عادت ہے اور اس کے افراد اطاعت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اس لئے اگر ہماری جماعت کے افراد کو آج اٹھا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رکھ دیا جائے تو وہ اُسی طرح اطاعت کرنے لگ جائیں گے جس طرح صحابہ ؓ اطاعت کیا کرتے تھے لیکن اگر کسی غیر احمد ی کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے تم اس زمانہ میں لے جائو تو تمہیں قدم قدم پر وہ ٹھو کر یں کھاتا ہوا

Page 581

دکھائی دےگا.اور وہ کہے گا ذراٹھہرجائیں.مجھے فلاں حکم کی سمجھ نہیں آئی بلکہ جس طرح ایک پٹھان کے متعلق مشہور ہے کہ اُس نے کہہ دیا ’’ خو.محمد ؐ صاحب کا نماز ٹوٹ گیا ‘‘ کیونکہ قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے(المختصر للقدوری باب صلٰوة الجمعة) اسی طرح وہ بعض باتوں کا انکار کرنے لگ جائےگا لیکن اگر ایک احمد ی کو لے جائو تو اُس کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ وہ کسی غیر مانوس جگہ میں آگیا ہے.بلکہ جس طرح مشین کا پُرزہ فوراً اپنی جگہ پر لگ جاتا ہے اُسی طرح وہ ہاں پر فِٹ آجائےگا اور جاتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی بن جائےگا.اور آپ کے ہر حکم کی بلاچون و چرا اطاعت کرنے لگ جائےگا اور ائمۂ اربعہ اس کے لئے کبھی ٹھو کر کا موجب نہیں بنیں گے کیونکہ وہ سمجھتا ہوگا کہ اصل حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.ائمۂ اربعہ تو محض آپ کے غلام بلکہ شاگردوں کے بھی شاگرد ہیں.یہ آیت جو آیت ِ استخلاف کہلاتی ہے اس میں مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں.اوّل جس انعام کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ ایک وعدہ ہے.دوم یہ وعدہ امت سے ہے جب تک وہ ایمان اور عمل صالح پر کا ربندر ہے.سوم اس وعدہ کی غرض یہ ہے کہ ( الف ) مسلمان بھی وہی انعام پائیں جو پہلی اُمتوں نے پائے تھے کیونکہ فرماتا ہے لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ( ب)اس وعدہ کی دوسری غرض تمکین دین ہے (ج) اس کی تیسری غرض مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دینا ہے (د) اس کی چوتھی غرض شرک کا دُور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے.اس آیت کے آخر میں وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کے وعدہ ہونے پر زور دیا اور وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ( ابراہیم ۲ تا ۱۴ ع )کے وعید کی طرف توجہ دلائی کہ ہم جو انعامات تم پر نازل کرنے لگے ہیں اگر تم اُن کی ناقدری کرو گے تو ہم تمہیں سخت سزا دیں گے.خلافت بھی چونکہ ایک بھاری انعام ہے.اس لئے یاد رکھو جو لوگ اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ فاسق ہو جائیں گے.یہ آیت ایک زبر دست شہادت خلافتِ راشدہ پر ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور احسان مسلمانوں میں خلافت کا نظام قائم کیا جائے گا جو مؤید من اللہ ہوگا.جیسا کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ اور وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ سے ظاہر ہے اور مسلمانوں کو پہلی قوموں کے انعامات میں سے وافر حصہ دلانے والا ہوگا.پھر اس آیت میں خلفاء کی علامات بھی بتائی گئی ہیں

Page 582

جن سے سچے اور جھوٹے میں فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں.اوّل.خلیفہ خدا بناتا ہے یعنی اس کے بنانے میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا نہ وہ خود خواہش کر تا ہے اور نہ کسی منصوبہ کے ذریعہ وہ خلیفہ ہوتا ہے.بلکہ بعض دفعہ تو ایسے حالات میں وہ خلیفہ بنتا ہے جبکہ اس کا خلیفہ ہونا بظاہر ناممکن سمجھا جاتا ہے.چنانچہ یہ الفاظ کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ خو دظاہر کرتے ہیں کہ خلیفہ خداہی بناتا ہے کیونکہ جو وعدہ کرتا ہے وہی دیتا بھی ہے.نہ یہ کہ وعدہ تو وہ کرے اور اُسے پورا کوئی اور کرے.پس اس آیت میں پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ سچے خلفاء کی آمد خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگی کوئی شخص خلافت کی خواہش کر کے خلیفہ نہیں بن سکتا اور نہ کسی منصوبہ کے ماتحت خلیفہ بن سکتا ہے.خلیفہ وہی ہوگا جسے خدا بنانا چاہے گا بلکہ بسا اوقات وہ ایسے حالات میں خلیفہ ہوگا جبکہ دنیا اُس کے خلیفہ ہونے کو ناممکن خیال کرتی ہوگی.دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے سچے خلیفہ کی یہ بتائی ہے کہ وہ اُس کی مدد انبیاء کے مشابہ کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہ یہ خلفاء ہماری نصرت کے ایسے ہی مستحق ہوںگے جیسے پہلے خلفاء اور جب پہلی خلافتوں کو دیکھا جاتا ہے تو وہ تین قسم کی نظر آتی ہیں.اول خلافت نبوت ،جیسے آدم علیہ السلام کی خلافت تھی.جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ (البقرۃ:۳۱)میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.اب آدم علیہ السلام کا انتخاب نہیں کیا گیا تھا.اور نہ وہ دنیوی بادشاہ تھے.اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک وعدہ کیا اور انہیں اپنی طرف سے زمین میں آپ کھڑا کیا.اور جنہوں نے ان کا انکار کیا انہیں سزا دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آدم ؑ ان معنوں میں بھی خلیفہ تھے کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر انہوں نے اور اُن کی نسل نے پہلی قوم کی جگہ لے لی.اور ان معنوں میں بھی خلیفہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ ایک بڑی نسل جاری کی.لیکن سب سے بڑی اہمیت جو انہیں حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.انہی معنوں میں حضرت دائود علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ ( ص:۲۷)یعنی اے دائود ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ( حضرت دائود علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے معلوم ہو ا کہ یہاں خلافت سے مراد خلافتِ نبوت ہی ہے ) پس تُو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کر اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے سیدھے راستہ سے منحرف کردیں.یقیناً وہ لوگ جو گمراہ ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب ہو گا.اس لئے ایسے لوگوں

Page 583

کے مشورہ کو قبول نہ کیا کر بلکہ وہی کر جس کی طرف خدا تعالیٰ تیری راہنمائی کرے.ان آیا ت میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو دوسری جگہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ( اٰل عمران :۱۶۰) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.بعض لوگوں نے غلطی سےلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ کے یہ معنے کئے ہیں کہ اے دائود ! لوگوں کی ہوا وہوس کے پیچھے نہ چلنا.حالانکہ اس آیت کے یہ معنے ہی نہیں.بلکہ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگوں کی اکثریت تجھے ایک بات کا مشورہ دے گی اور کہے گی کہ یُوں کرنا چاہیے مگر فرمایا تمہارا کام یہ ہے کہ تم محض اکثریت کو نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ جو بات تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے وہ مفید ہے یا نہیں.اگر مفید ہو تو مان لو.اور اگر مفید نہ ہو تو اُسے رّد کردو.چاہے اُسے پیش کرنےوالی اکثریت ہی کیوں نہ ہو.بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ گناہ والی بات ہو.پس پہلی خلافتیں اول خلافت ِ نبوت تھیں جیسے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام کی خلافت تھی جن کو قرآن کریم نے خلیفہ قرار دیا ہے مگر ان کو خلیفہ صرف نبی اور مامورہونے کے معنوں میں کہا گیا ہے.چونکہ وہ اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق صفاتِ الٰہیہ کو دنیا میں ظاہر کرتے تھے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوئے اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کہلائے.دوسری خلافت جو قرآن کریم سے ثابت ہے وہ خلافت ِ ملوکیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت ہود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً١ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(الاعراف:۷۰ )یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ قوم نوح ؑ کے بعد خدا نے تمہیں خلیفہ بنایا اور اُس نے تم کو بناوٹ میں بھی فراخی بخشی یعنی تمہیں کثرت سے اولاد دی.پس تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو تاکہ تمہیں کا میابی حاصل ہو.اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ ( الاعراف :۷۵) یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ تم کو خدا تعالیٰ نے عاد اولیٰ کی تباہی کے بعد اُن کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آگئی.اس آیت میں خلفاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد صرف دنیوی بادشاہ ہیں اور نعمت سے مراد بھی نعمتِ حکومت ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی ہے کہ تم زمین میں عدل و انصاف کو مدنظر رکھ کر تمام کا م کرو.ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے.چنانچہ یہود کی نسبت اللہ تعالیٰ اسی انعام کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ وَاِذْ قَالَ مُوْسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوْكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِيْنَ (المائدۃ :۲۱) یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم

Page 584

سے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر غور کرو جو اس نے تم پر اُس وقت کیا تھا جب اُس نے تم میں نبی بھیجے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو دنیا کی معلوم قوموں میں سے کسی کو نہیں دیا تھا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا یا ہے کہ یہود کو ہم نے دو طرح خلیفہ بنایا اِذْجَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ کے ماتحت انہیں خلافت ِ نبوت دی اور جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا کے ماتحت انہیں خلافت ِ ملوکیت دی.چونکہ موسیٰ ؑ کے وقت تک تو اور کوئی بادشاہ اُن میں نہیں ہوا اس لئے اس سے مراد یہ ہے کہ نبوتِ موسوی اور بادشاہت موسوی عطا کی جو دریائے نیل کو پار کرنے کے بعد سے ان کو حاصل ہو گئی تھی.جیسا کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور ایک لحاظ سے بادشاہ بھی تھے مگر آپ کی بادشاہت خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع تھی خود سربادشاہوں والی بادشاہت نہ تھی.مگر ان دو قسم کی خلافتوں کے علاوہ نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوں.یعنی اُس کی شریعت پر قوم کو چلانےوالے اور اُن میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ وہ نبی ہوں یا غیرنبی.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعود راتوں کے لئے طُور پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون ؑ کو کہا کہ اُخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ (الاعراف :۱۴۳) یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا.حضرت ہارون علیہ السلام چونکہ خود نبی تھے اور اس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے اس لئے یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت نبوت نہیں ہو سکتی تھی.اس کے معنے صر ف یہ تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں اُن کی قوم کا انتظام کریں.اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں.اور فساد سے بچائیں.پس وہ ایک تابع نبی بھی تھے اور ایک حکمران نبی کے خلیفہ بھی تھے اور یہ خلافت خلافتِ نبوت نہ تھی.بلکہ خلافت ِ انتظامی تھی مگر اس قسم کی خلافت بعض دفعہ خلافت ِ انتظامی کے علاوہ خلافت نبوت بھی ہوتی ہے یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک اور نبی مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے.کوئی نئی شریعت نہیں لاتا گویا جہاں تک شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے.لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے.اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت گذرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے.یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

Page 585

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ( المائدۃ :۴۵) یعنی ہم نے تورات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھر پور اتارا تھا.اس کے ذریعہ سے انبیاء جو (ہمارے) فرمانبردار تھے اور عارف اور ربانی علماء بہ سبب اس کے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر نگران تھے یہودیوں کے لئے فیصلے کیا کرتے تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کئی انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے.لیکن ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو ربانی اور احبار کہنا چاہیے اس کام پر مقرر تھے.اس سے معلوم ہو تا ہے کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اُن کے خلفاء کے طورپر ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کام کی تکمیل تھا.اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو کئی مسلمان غلطی سے صاحب شریعت نبی سمجھتے ہیں (بحر محیط سورۃ اٰ ل عمران زیر آیت ویعلمہ الکتاب والحکمۃ...)اسی طرح اس زمانہ کے مسیحی بھی اُن کی نسبت یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ اُن کی کتاب کو نیاعہد نامہ کہتے ہیں.حالانکہ قرآن کریم مسیح ناصری علیہ السلام کو حضرت موسیٰ ؑکے دین کا قائم کرنے والاایک خلیفہ قرار دیتا ہے.جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ قَفَّيْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ( المائدۃ :۴۷)یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آئے تھے عیسٰی بن مریم کو بھیجا جو ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تھے اور تورات کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے.خود مسیح ناصری بھی فرماتے ہیں کہ ’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کر نے آیا ہوں.میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہیں ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.‘‘ ( متی باب ۵ آیت ۱۷، ۱۸) غرض یوشع سے لےکر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے معاً بعد اُن کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری ؑ تک سب انبیاء اور مجددین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور اُن کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے.پس جب خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ تو اس سے

Page 586

یہ استنباط ہوا کہ پہلی خلافتوں والی برکات مسلمانوںکو بھی ملیں گی اور انبیاء سابقین سے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ سلوک کیا وہی سلوک وہ امت محمدیہ کے خلفاء کے ساتھ بھی کرے گا.اگر کوئی کہے کہ پہلے تو خلافت ِ ملوکیت کا بھی ذکر آتا ہے پھر خلافتِ ملوکیت کا ذکر چھوڑ کر صرف خلافتِ نبوت کے ساتھ اس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک مسلمانوں کے ساتھ بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے.چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ کہ خدا تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کر کے رہےگا.اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اور نہ اُن کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا ہے.بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے.پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافتِ نبوت ہے نہ کہ خلافتِ ملوکیت.اسی طرح فرماتا ہے.وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا کہ خدا اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے.یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں بھی چسپاں نہیں ہوسکتی کیونکہ د نیوی بادشاہ اگرآج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں توکل تخت سے علیٰحدہ ہو کر بھیک مانگتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے خوف کو امن سے بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں.پھر فرماتا ہے يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریںگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریںگے گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوںگے.مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کر لیتے ہیں حتّٰی کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح بھی صادر ہو جائے.(بخاری کتاب الفتن باب قول النبی ؐسترون بعدی امورًا تنکرونھا)پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہو سکتے ہیں.چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ان خلفاء سے مراد دنیوی بادشاہ ہر گز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ یعنی جو لوگ ان خلفا ء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہو جائیںگے اب بتائو کہ کیا جو شخص کفرِ بواح کا بھی مرتکب ہو سکتا ہوآیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہو سکتا ہے ؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بنا سکتا.فسق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے.غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا

Page 587

گیاہے وہ خلافت ِ ملوکیت نہیں.پس جب خدا نے یہ فرمایا کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہ ہم اُن خلفاء پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیا ء کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی رہی ہے اُسی طرح اُن کی مدد ہوگی.پس اس آیت میں خلافتِ نبوت سے مشابہت مراد ہے نہ کہ خلافتِ ملوکیت سے.تیسری بات اس آیت سے یہ نکلتی ہے کہ یہ وعدہ امت سے اس وقت تک کے لئے ہے جب تک کہ امت مومن اور عمل صالح کرنے والی رہے.جب وہ مومن اور عمل صالح کرنے والی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس وعدہ کو واپس لے لےگا.گویا نبوت اور خلافت میں یہ عظیم الشان فرق بتا یا کہ نبوت تو اس وقت آتی ہے جب دنیا خرابی اور فساد سے بھر جاتی ہے جیسے فرمایا ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ( الروم :۴۲) یعنی جب بّر اور بحر میں فساد واقع ہو جاتا ہے.لوگ خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں الٰہی احکام سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں.ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور تاریکی زمین کے چپہ چپہ کا احاطہ کر لیتی ہے تو اس وقت لوگوں کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کسی نبی کو بھیجتا ہے جو پھر آسمان سے نور ِایمان کو واپس ملاتا اور ان کو سچے دین پر قائم کرتا ہے لیکن خلافت اس وقت آتی ہے جب قوم میں اکثریت مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی ہوتی ہے اور خلیفہ لوگوں کو عقائد میں مضبوط کرنے کے لئے نہیںآتا بلکہ تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے آتا ہے.گویا نبوت تو ایمان اور عمل صالح کے مٹ جانے پر آتی ہے.اور خلافت اس وقت آتی ہے جب قریباً تمام کے تما م لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خلافت اسی وقت شروع ہوتی ہے جب نبوت ختم ہوتی ہے کیونکہ نبوت کے ذریعہ ایمان اور عمل صالح قائم ہوچکا ہوتاہے.اور چونکہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح پر قائم ہوتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی خلافت کی نعمت عطا فرما دیتا ہے اور درمیانی زمانہ جب کہ نہ تو دنیا نیکو کاروں سے خالی ہو اور نہ بدی سے پُر ہو دونوں سے محروم رہتا ہے کیونکہ نہ تو بیماری شدید ہوتی ہے کہ نبی آئے اور نہ تندرستی کا مل ہوتی ہے کہ اُن سے کام لینے والا خلیفہ آئے.پس اس حکم سے معلو م ہوتا ہے کہ خلافت کا فقدان کسی خلیفہ کے نقص کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کے نقص کی وجہ سے ہوتا ہے اور خلافت کا مٹنا خلیفہ کے گنہگار ہونے کی دلیل نہیں بلکہ امت کے گنہگار ہونے کی دلیل ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ صریح وعدہ ہے کہ وہ اس وقت تک خلیفہ بناتا چلا جائےگا جب تک جماعت میں مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں کی اکثریت رہے گی.جب اس میں فرق پڑ جائےگااور اکثریت مومنوں اور عمل صالح

Page 588

کرنےوالوں کی نہیں رہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائےگا.اب چونکہ تم خود بد عمل ہو گئے ہو اس لئے میں اپنی نعمت تم سے چھین لیتا ہوں ( گوخدا چاہے تو بطور احسان ایک عرصہ تک پھر بھی جماعت میں خلفاء بھجواتا رہے ) پس وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ خراب ہوگیا ہے وہ بالفاظ دیگراس امر کا اعلان کرتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو چکی ہے.کیونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جب تک امت ایمان اور عمل صالح پرقائم رہے گی اس میں خلفاء آتے رہیں گے اور جب وہ اس سے محروم ہو جائےگی تو خلفاء کا آنا بھی بند ہو جائےگا.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی امکان نہیں ہاں اس بات کا ہر وقت امکان ہو سکتا ہے کہ جماعت کی اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم نہ ہو جائے.چوتھی علامت خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ ان کے دینی احکام اور خیالات کو اللہ تعالیٰ دنیا میں پھیلائے گا.چنانچہ فرماتا ہے.وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دین کو تمکین دےگا اور باوجود مخالف حالات کے اُسے دنیا میں قائم کر ے گا.یہ ایک زبردست ثبوت خلافتِ حقہ کی تائید میں ہے اور جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو خلفاء کی صداقت پر خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان نظر آتا ہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں کوئی جتھہ نہیں رکھتے تھے لیکن حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہماایسے خاندانوں میں سے تھے جو عرب میں جتھے رکھتے تھے.چنانچہ بنو عبدالشمس حضرت عثمان ؓ کے حق میں تھے اور بنو عبدالمطلب حضرت علی ؓ کے حق میں اور ان دونوں کو عرب میں بڑی قوت حاصل تھی.جب خلافت میں تنزل واقع ہو ا اور مسلمانوں کی اکثریت میں سے ایمان اور عمل صالح جاتا رہا تو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد بنو عبدالشمس نے مسلمانوں پر تسلط جما لیا.اور یہ وہ لوگ تھے جو حضرت عثمان ؓ سے تعلق رکھتے تھے.چنانچہ ان کی حکومت کے دوران میں حضرت علی ؓ کی تو مذمت ہوتی رہی اور حضرت عثمان ؓ کی خوبیاں بیان ہوتی رہیں.حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے مداح اور ان کی خوبیوں کا ذکر کرنےوالے اس دور میں بہت ہی کم تھے.اس کے بعد حالات میں پھر تغّیر پیدا ہوا اور بنو عبدالشمس کی جگہ بنو عبدالمطلب نے قبضہ کر لیا یعنی بغداد میں دولتِ عباسیہ قائم ہو گئی اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ بیت سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ ان کا تما م زور حضرت علی ؓ کی تعریف اور آپ کی خوبیاں بیان کرنے پر صرف ہونے لگ گیا.(تاریخ الطبری خلافة ابی العباس ذکر الخبر عن سبب خلافتہ).اس طرح کئی سو سال تک مسلمانوں کا ایک حصہ حضرت عثمان ؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا اور ایک حصہ حضرت علی ؓ کے اوصاف شمار کرتا رہا.مگر باوجود اس کے کہ خلفاء اربعہ کے بعد اسلامی حکومتوں کے یہ دو دَور آئے اور دونوں ایسے تھے کہ ان میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ

Page 589

سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت کم تھے.پھر بھی دنیامیں جو عزّت اور رتبہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے فتووں اور ارشادات کو حاصل ہے وہ ان دونوں کو حاصل نہیں.گو ان سے اُتر کر انہیں بھی حاصل ہے اور یہ ثبوت ہے وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ کا کہ خدا نے اُن کے دین کو قائم کیا.اور اُن کی عزت کو لوگوں کے قلوب میں جاگزیں کیا.چنانچہ آج کسی مسلمان سے پوچھ لو کہ اس کے دل میں خلفا ء میں سے سب سے زیادہ کس کی عزت ہے تو وہ پہلے حضرت ابوبکر ؓ کا نام لےگا.پھر حضرت عمر ؓ کانام لےگا.پھر حضرت عثمان ؓ کا نام لے گا اور پھر حضرت علیؓ کا نام لے گا.حالانکہ کئی صدیاں ایسی گذری ہیں جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا اور اتنے لمبے وقفہ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام دنیا سے مٹ جایا کرتے ہیں لیکن خدا نے اُن کے نام کو قائم رکھا اور اُن کے فتووں اور ارشادات کو وہ مقام دیا جو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فتووں اور ارشادات کو بھی حاصل نہیں.پھر بنو عبدالشمس کے زمانہ میں حضرت علی ؓ کو بدنام کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور دولتِ عباسیہ کے زمانہ میں حضرت عثمان ؓ پر بڑا لعن طعن کیا گیا.مگر باوجود اس کے کہ یہ کوششیں حکومت کی طرف سے ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اُن کو بدنام کرنے اور اُن کے ناموں کو مٹانے کے لئے بڑی کوشش کی مگر پھر بھی یہ دونوں خلفاء دُھلے دھلائے نکل آئے اور خدا نے تمام عالمِ اسلام میں اُن کی عزت و توقیر کو قائم کر دیا.پھر دین کے ایک معنے سیاست اور حکومت کے بھی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے سچے خلفاء کی اللہ تعالیٰ نے یہ علامت بتائی کہ جس سیاست اور پالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اُسے دنیا میں قائم فرمائےگا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفہ ٔ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اُس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہوتو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اُسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے.صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عصمت صغریٰ کہا جاتا ہے.گویا انبیاء کو تو عصمت ِ کبریٰ حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو.اُن کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں.مگر انجام کا ر نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا اور اُس کے مخالفوں کو شکست ہوگی.گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہوگی.خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو اُن کی ہوگی.بیشک بولنے والے وہ ہوںگے.زبانیں انہی کی حرکت کریں گی.ہاتھ انہی کے چلیں گے.دماغ انہی کا کام کرےگا.مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا اُن

Page 590

سے جزئیا ت میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں.بعض دفعہ اُن کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گذر کر کامیابی انہی کو حاصل ہوگی.اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہو گی کہ کوئی طاقت اُسے توڑ نہیں سکے گی.پانچویں علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا.یعنی جب بھی قومی طور پر اسلامی خلافت کے لئے کوئی خوف پید ا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نورِ ایمان باقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کر دےگا کہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائےگا.چنانچہ دیکھ لو.حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جب افراتفری کی حالت پیدا ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کو حضرت علی ؓ کے ہاتھ پر اکٹھا کر دیا.اور جب حضرت علی ؓ کے مقابلہ میں حضرت معاویہ ؓ کھڑے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہ ؓ کے دل میں اُس زمانہ کے مناسب حال خشیت اللہ پیدا کر دی اور جب روم کے عیسائی بادشا ہ نے مسلمانوں کا انتشار دیکھ کر اسلامی ممالک پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہ ؓ نے اُسے کہلا بھیجا کہ یہ نہ سمجھنا کہ مسلمانوں میں اختلاف ہے اگر تم نے اسلامی ملکوں پر حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو حضرت علی ؓ کی طرف سے تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وہ میں ہوںگا.(البدایۃ والنھایۃ وھذہ ترجمۃ معاویۃ و ذکر شیء من ایامہ)چنانچہ رومی بادشاہ ڈر گیا اور مسلمانوں کا خوف امن سے بدل گیا.یہ ایک جزوی ایمان تھا اگر حضرت معاویہ ؓ اُس وقت کلی طور پر ہتھیار ڈال دیتے اور حضرت علی ؓ کے تابع ہو جاتے تو مسلمانوں کا اختلاف ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا.اور ایسے خوش کن نتائج نکلتے کہ آج ہر مسلمان کی گردن فخر سے اونچی ہوتی مگر افسوس کہ حضرت معاویہ ؓ نے صرف وقتی اطاعت کا اعلان کیا کلی اطاعت کا اعلان نہ کیا.بعض لوگ غلطی سے اس آیت کا یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ خلفاء راشدین ہر تخویف سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ.حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ کو چونکہ خلافت کے بعد مختلف حوادث پیش آئے اور دشمنوں نے انہیں شہید کر دیا.اس لئے حضرت ابوبکر ؓ کے سوا اور کسی کو خلیفہ ٔ راشد تسلیم نہیں کیا جا سکتا.یہ غلطی انہیں اس لئے لگی ہے کہ انہوں نے قرآنی الفاظ پر غور نہیں کیا.بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے.لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الـخَوْفِ اَمْنًا.کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اُسے امن سے بدل دیا جائےگا.بلکہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا فرمایا ہے کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے دور کر دےگا.اور اس کی جگہ امن پیدا کر دےگا.پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے

Page 591

نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئےگی.بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیز سے وہ ڈریں گے اللہ تعالیٰ اُسے ضرور دُور کردےگا.اور ان کے خوف کو امن سے بدل دےگا.مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ فقر میرے لئے ذلت کا موجب نہیں بلکہ فخر کا موجب ہے.اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کے لئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو یہ بڑی ذلّت کی بات ہوتی ہے تو کیا اس کے اس خیال کی وجہ سے ہم یہ مان لیں گے کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ذلت ہوئی ؟ جو شخص فقر کو اپنی عزت کا موجب سمجھتا ہے.جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر چیز سمجھتا ہے اور جو شخص دنیوی مال ومتاع کو نجاست کی طرح حقیر سمجھتا ہے اُس کے لئے فقرکا خوف بالکل بے معنے ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الـخَوْفِ اَمْنًا بلکہ فرمایا ہے وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا کہ کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہوگی جس سے وہ ڈرتے ہوںگے.اس فرق کو مدّنظر رکھ کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ خلفا ء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عمر ؓ شہید ہوئے.مگر جب واقعات کو دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئی خوف نہیں تھا.بلکہ وہ متواتر دعائیں کیا کرتے تھے کہ یا اللہ مجھے شہادت نصیب کر اور شہید بھی مجھے مدینہ میں کر.پس وہ شخص جس نے اپنی ساری عمر یہ دعائیں کرتے ہوئے گذار دی ہو کہ یا اللہ مجھے مدینہ میں شہادت دے وہ اگر شہید ہو جائے تو ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایک خوفناک وقت آیا مگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امن سے نہ بدلا گیا.بیشک اگر حضرت عمر ؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہید ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اُن کے خوف کو خدا تعالیٰ نے امن سے نہ بدلا.مگر وہ تو دعائیں کرتے رہتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے مدینہ میں شہادت دے.پس اُن کی شہادت سے یہ کیونکر ثابت ہوگیا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھی تھے اور جب وہ شہادت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائیں کرتے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو معلوم ہوا کہ اس آیت کے ماتحت اُن پر کوئی ایسا خوف نہیں آیا جو اُن کے دل نے محسوس کیا ہو او ر اس آیت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہی ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہو ںگے وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اُن کے خوف کو امن سے بدل دےگا مگر جب وہ ایک بات سے ڈرتے ہی نہ ہوں بلکہ اپنی عزت اور

Page 592

بلندیٔ درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اُسے خوف کہنا اور پھر یہ کہنا کہ اسے امن سے کیوں نہ بدل دیا گیا بے معنی بات ہے.میں نے تو جب حضرت عمر ؓ کی اس دعا کو پڑھاتو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس کا بظاہر یہ مطلب تھا کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور اُس کا حملہ اتنی شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائیں پھر وہ خلیفہ ٔ وقت تک پہنچے اور اُسے بھی شہید کر دے.مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی دعا بھی قبول کر لی.اور ایسے سامان بھی پیدا کر دئے جن سے اسلام کی عزت قائم رہی.چنانچہ بجائے اس کے کہ مدینہ پر کوئی بیرونی لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہی ایک خبیث اٹھا اور اُس نے خنجر سے آپ کو شہید کر دیاپھر حضرت عثمان ؓ کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں سے کبھی خائف نہیں ہوئے.تاریخ سے ثابت ہے کہ جب باغیوں نے مدینہ پرقبضہ کر لیا تو وہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے.اور اہل مدینہ کو ایک دوسرے سے جدا جدا رکھتے تاکہ وہ اکٹھے ہو کر اُن کا مقابلہ نہ کر سکیں.مگر باوجود اس شورش اور فتنہ انگیزی اور فساد کے حضرت عثمان ؓ نمازپڑھانے کے لئے اکیلے مسجد میں تشریف لاتے اور ذرا بھی خوف محسوس نہ کرتے اور اس وقت تک برابر آتے رہے جب تک لوگوں نے آپ کو منع نہ کردیا.جب فتنہ بہت بڑھ گیا اور حضرت عثمانؓ کے گھر پر مفسدوں نے حملہ کر دیا.تو بجائے اس کے کہ آپ صحابہ ؓ کا اپنے مکان کے گرد پہرہ لگواتے.آپ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں(البدایۃ والنھایۃ ذکر حصر امیرالمؤمنین عثمان بن عفوان).کیا شہادت سے ڈرنے والا آدمی بھی ایسا ہی کیا کرتا ہے ؟ اور وہ لوگوں سے کہا کرتا ہے کہ میرا فکر نہ کرو بلکہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو؟ پھر اس بات کا کہ حضرت عثمان ؓ ان واقعات سے کچھ بھی خائف نہیں تھے ایک اور زبردست ثبوت یہ ہے کہ اس فتنہ کے دوران میں ایک دفعہ حضرت معاویہؓ حج کرنے آئے.جب وہ شام کو واپس جانے لگے تو مدینہ میں وہ حضرت عثمان ؓ سے ملے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام میں چلیں.وہاں آ پ تمام فتنوں سے محفوظ رہیں گے آپ نے فرمایا کہ معاویہ ! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمسائیگی پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتا.انہوں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو یہ بات منظور نہیں تو میں شامی سپاہیوں کا ایک لشکر آپ کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہوں.حضرت عثمان ؓ نے فرمایا میں اپنی حفاظت کے لئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی کرنا نہیں چاہتا.حضرت معاویہ ؓ نے عرض کیا کہ امیر المومنین لوگ آ پ کو دھوکا سے قتل کر دیں گے.یا ممکن ہے آپ کے خلاف وہ بر سرِ پیکار ہو جائیں.حضرت عثمان ؓ نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں.میرے لئے میرا خدا کافی ہے (الکامل فی التاریخ لابن اثیر ثم دخلت سنة خمس و ثلاثین والبدایة والنھایۃ ذکرحصر امیر المؤمنین عثمان بن عفانؓ،تاریخ طبری زیر عنوان ثم

Page 593

دخلت سنۃ خمس و ثلاثین).آخر انہوں نے کہا اگر آپ اور کچھ منظور نہیں کرتے تو اتنا ہی کریں کہ شرارتی لوگوں کو بعض اکا بر صحابہ ؓ کے متعلق گھمنڈ ہے اور وہ خیال کر تے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے.چنانچہ وہ ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کردیں اور بیرونی ملکوں میں پھیلا دیں.اس سے شریروں کے ارادے پست ہو جائیں گے اور وہ خیال کریں گے کہ آپ سے تعرض کر کے انہوں نے کیا لینا ہے جبکہ مدینہ میں کوئی اور کام کو سنبھالنے والا ہی نہیں.مگر حضرت عثمان ؓ نے یہ بات بھی نہ مانی اور کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے.میں اُن کو جلا وطن کردوں.حضرت معاویہ ؓ یہ سُن کر رو پڑے اور انہوں نے عرض کیا.اگر آپ اور کچھ نہیں کرتے تو اتناہی اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہؓ لےگا.مگر آپ نے فرمایا معاویہؓ ! تمہاری طبیعت تیز ہے میں ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں پر تم کہیں سختی نہ کرو.اس لئے میں یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اب کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ دل کے کمزور تھے مگر تم خود ہی بتائو کہ اس قسم کی جرأت کتنے لوگ دکھا سکتے ہیں اور کیا ان واقعات کے ہوتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے دل میں کچھ بھی خوف تھا.اگر خوف ہوتا تو وہ کہتے کہ تم اپنی فوج کا دستہ میری حفاظت کے لئے بھجوادو.انہیں تنخواہیں میں دلوائوں گا.اور اگر خوف ہوتا تو آپ اعلان کر دیتے کہ مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ سُن لے کہ میرا بدلہ معاویہ ؓلےگا.مگر آپ نے سوائے اس کے کوئی جواب نہ دیا کہ معاویہ ؓ ! تمہاری طبیعت تیز ہے.میں ڈرتاہوں کہ اگر میں نے تم کو یہ اختیار دے دیا تو تم مسلمانوں پر سختی کروگے.پھر جبکہ آخر میں دشمنوں نے دیوار پھاند کر آپ پر حملہ کیا تو کس دلیر ی سے آپ نے مقابلہ کیا.بغیر ڈر اور خوف کے اظہار کے آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر ؓ کا ایک بیٹا محمد بن ابی بکر ؓ جو ابن حنفیہ کہلاتا ہے ( اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے)آگے بڑھا اور اُس نے حضرت عثمانؓ کی داڑھی پکڑ کر اُسے زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان ؓ نے اُس کی طرف آنکھ اٹھائی اور فرمایا میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا تو تجھے کبھی ایسا کرنے نہ دیتا.یہ سن کر اس کا جسم کانپ گیا.اور وہ شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گیا.اس کے بعد ایک اور شخص آگے بڑھا او ر اُس نے ایک لوہے کی سیخ حضرت عثمانؓ کے سرپر ماری اور پھر آپ کے سامنے جو قرآن کریم پڑا ہوا تھا اُسے اپنے پائوں کی ٹھوکر سے الگ پھینک دیا.وہ ہٹا تو ایک اور شخص آگے آگیا اور اُس نے تلوار سے آپ پر حملہ کیا جس سے آپ کا ہاتھ کٹ گیا پھر اُس نے دوسرا وار کیا.مگر آپ کی بیوی حضرت نائلہ درمیان میں آگئیں جس سے اُن کی انگلیاں کٹ گئیں.اس کے بعد اُس نے ایک اور وار کیا جس سے آپ زخمی ہو کر گر گئے مگر پھر اُس نے یہ خیال کر کے کہ ابھی آپ کی جان نہیں نکلی ایسی حالت میں جبکہ زخموں کی شدت کی وجہ

Page 594

سے آپ بے ہوش ہو چکے تھے آپ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کر دیا اور اس وقت تک آپ کو نہیں چھوڑا جب تک کہ آپ شہید نہیں ہوگئے.(البدایة والنھایة ثم دخلت سنۃ خمس و ثلاثین فیھا مقتل عثمان صفۃ قتلہؓ ).ان واقعات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان واقعات سے خائف تھے.اور جب وہ ان واقعات سے خائف ہی نہ تھے تو مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا کے خلاف یہ واقعات کیونکر ہوگئے.یہ لوگ تو اگر کسی امر سے خائف تھے تو اس سے کہ اسلام کی روشنی میں فرق نہ آئے.سو باوجود ان واقعات کے وہی بات آخر قائم ہوئی جسے یہ لوگ قائم کرنا چاہتے تھے.اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدل دیا.یہی حال حضرت علیؓ کا ہے.اُن کے دل کا خوف بھی صرف صداقت اور روحانیت کی اشاعت کے بارہ میں تھا.سو اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو امن سے بدل دیا یہ ڈر نہیں تھا کہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت معاویہ ؓ کا لشکربعض دفعہ حضرت علی ؓ کے لشکر سے کئی کئی گنا زیادہ ہوتا تھا آپ اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کر تے تھے.اور یہی فرماتے تھے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی مانوں گا.اس کے خلاف میں کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتا.اگر محض لوگوں کی مخالفت کو ہی خوفناک امر قرار دے دیا جائے تب تو ماننا پڑے گا کہ انبیاء ( نعوذ باللہ ) ہمیشہ لوگوں سے ڈرتے رہے ہیں کیونکہ جتنی مخالفت لوگ اُن کی کرتے ہیں اتنی مخالفت اور کسی کی نہیں کرتے بہر حال دنیا کی مخالفت کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الـخَوْفِ اَمْنًا بلکہ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا فرمایا ہے.کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہوںگے اُسے اللہ تعالیٰ دور کر دے گا اور اُن کے خوف کو امن سے بدل دےگا اور جیسا کہ میں بتاچکا ہوں وہ صرف اس بات سے ڈرتے تھے کہ امتِ محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے.سو امتِ محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس توجہ اور دعا کی برکت سے بحیثیت مجموعی ضلالت سے محفوظ رکھا اور اہل السنت والجماعت کا مذہب ہی دنیا کے کثیر حصہ پر ہمیشہ غالب رہا.میں نے اس آیت کے جو یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ خوف سے مراد عام خوف نہیں بلکہ وہ خوف ہے جسے خلفاء کا دل محسوس کرتا ہو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عام خوف ضرور ہوتا ہے بلکہ عام خوف بھی اللہ تعالیٰ ان سے دور ہی رکھتا ہے.سوائے اس کے کہ اس میں کوئی مصلحت ہو جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب خوف پیدا ہوا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خلافت کے انعام کے مستحق نہیں رہے تھے.پس میرا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عام خوفوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصل

Page 595

وعدہ اس آیت میں اُسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھے کہ اُمت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے سو خدا کے فضل سے امتِ محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے.اصل معجزہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کی خواہشات پوری ہوتی رہیں.زندگی میں اگر کسی کی خواہشیں پوری ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے تدبیروں سے کام لےلیا تھا.مگر جس کی زندگی ختم ہو جائے اور پھر بھی اس کی خواہشیں پوری ہوتی رہیں اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے کسی ظاہر ی تدبیر سے کام لے لیا ہوگا.بلکہ یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کا محبوب اور پیار ا تھا اور اللہ تعالیٰ کا اُس سے گہرا تعلق تھا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کشفی حالت میں سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے.ا ب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ صرف یہ نہیں کہ آپ نے اُس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے دیکھے بلکہ معجز ہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد مالِ غنیمت میں سونے کے کڑے آئے اور باوجود اس کے کہ شریعت میں مردوں کو سونے کے کڑے پہننے ممنوع ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کشف کو پورا کرنے کے لئے اُسے سونے کے کڑے پہنائیں.چنانچہ آپ نے اُسے پہنائے.پس اس واقعہ میں معجزہ یہ ہے کہ باوجود یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کا جذبہ پیدا کر دیا.پھر یہ بھی معجزہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات حضرت عمرؓ نے سُن لی.اور آپ کو اس کے پورا کرنے کا موقع مل گیا.آخر حضرت عمر ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات تو نہیں سنا کرتے تھے.ممکن ہے یہ بات کسی اور کے کان میں پڑتی اور وہ آگے کسی اور کو بتانا بھول جاتا.مگر اس معجزہ کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ جس شخص کے پاس سونے کے کڑے پہنچنے تھے اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کشف بھی پہنچ چکا تھا.پھراس معجزے کا یہ بھی حصہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ تحریک پیدا کر دی کہ وہ اس صحابی کو سونے کے کڑے پہنائیں حالانکہ شریعت کے لحاظ سے مردوں کے لئے سونا پہننا ممنوع ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتا تھا.اس لئے آپ کے دل کو اس نے اس طرف مائل کر دیا کہ مردوں کے سونا نہ پہننے میں جو حکمتیں ہیں وہ بھی بیشک اچھی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کسی کو تھوڑی دیر کے لئے سونے کے کڑے پہنا دینا بھی کوئی بری بات نہیں ہو سکتی.چنانچہ انہوں

Page 596

نے اس صحابی کو اپنے سامنے سونے کے کڑے پہنائے (اسد الغابة ،سراقة بن مالکؓ ).اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ خلفاء راشدین فوت ہوگئے تو ان کی وفات کے سالہا سال بعد خدا تعالیٰ نے اُن کے خوف کو امن سے بدلا.کبھی سو سال بعد کبھی دو سو سال بعد.کبھی تین سو سال بعد.کبھی چار سو سال کےبعد اور کبھی پانچ سو سال کے بعد اور اس طرح ظاہر کر دیا کہ خدا تعالیٰ اُن سے محبت رکھتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ ان کے ارادے رائیگاں جائیں لیکن اگر اس ساری آیت کو ساری قوم کی طرف منسوب کر دیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی وہی معنے کئے جائیں گے جن کو میں نے بیان کیا ہے یعنی اس صورت میں بھی ساری قوم کو اگر کوئی خوف ہو سکتا تھا تو وہ کفار کے اسلام پر غلبہ کا ہو سکتا تھا.فردی طور پر تو کسی کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ میرا بیٹا نہ مر جائے.کسی کو یہ خوف ہو سکتا ہے کہ مجھے تجارت میں نقصان نہ ہو جائے.مگر قوم کا خوف تو ایسا ہی ہو سکتا ہے جو اپنے اندر قومی رنگ رکھتا ہو اور وہ خوف بھی پھر یہی ماننا پڑتا ہے کہ ایسا نہ ہو اسلام پر کفار غالب آجائیں.سو قوم کا یہ خوف بھی اسلام کے ذریعہ ہی دور ہوا اور اسلا م کو ایسا زبردست غلبہ حاصل ہوا جس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی.خلفاء کی چھٹی علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے.یعنی اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ جرأت اور دلیری پیدا کردے گا اور خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا خوف اُن کے دل میں پیدا نہیں ہوگا.وہ لوگوں کے ڈر سے کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں گے اور اُسی کی خوشنودی اور رضا کے لئے تمام کام کریں گے.یہ معنے نہیں کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.بُت پرستی تو عام مسلمان بھی نہیں کرتے کجا یہ کہ خلفاء کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بُت پرستی نہیں کریں گے.پس یہاں بُت پرستی کا ذکر نہیں بلکہ اس امر کا ذکر ہے کہ وہ بندوں سے ڈر کر کسی مقام سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے بلکہ جو کچھ کریں گے خدا تعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضا کو پورا کرنے کے لئے کریں گے اور اس امر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ اس راہ میں انہیں کن بلائوں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.دنیا میں بڑے سےبڑا دلیر آدمی بھی بعض دفعہ لوگوں کے ڈر سے ایسا پہلو اختیار کر لیتا ہے جس سے گو یہ مقصود نہیں ہوتا کہ وہ سچا ئی کو چھوڑ دے مگر دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ میں ایسے رنگ میں کام کروں کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو.مولوی غلام علی صاحب ایک کٹر وہابی ہوا کرتے تھے.وہابیوں کا یہ فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے لیکن حنفیوں کے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تھی.کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اور جہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر

Page 597

ہو (امداد الفتاوی مختصر سوانح حیات اشرف علی تھانوی باب صلاۃ الجمعۃ وا لعیدین و فتاویٰ نذیر یہ کتاب الجمعۃ ) ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا.نہ قاضی اس لئے وہ جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے ادھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوا پاتے تھے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے بلایا جائے تو فوراً تمام کام چھوڑ تے ہوئے جمعہ کی نماز کے لئے چل پڑو(الجمعۃ:۱۰).اس لئے ان کے دلوں کو اطمینان نہ تھا.ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی حنفی مولوی ہمارے خلاف فتویٰ نہ دےدے.اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گائوں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے.اور وہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والامسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے.اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی ہم بچ گئے.اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے ’’ احتیاطی ‘‘ رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ خدا نے اگر ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اُس نے ظہر کو رّد کر دیا تو ہم جمعہ اس کے سامنے پیش کر دیں گے.اور اگر کوئی ’’ احتیاطی ‘‘ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے.راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا.ہم نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد میں چلے گئے.آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا جلتا تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت پر عمل کرنا ہی انسان کی نجات کے لئے ضروری ہے.غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی.جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے تھے کہ میں نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب یہ جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعتیں کیسی ہیں.وہ کہنے لگے یہ ’’ احتیاطی ‘‘ ہے میں نے کہا.مولوی صاحب ! آپ تو وہابی ہیں اور عقیدۃ ً اس کے مخالف ہیں.پھر ’’ احتیاطی ‘‘ کے کیا معنے ہوئے وہ کہنے لگے یہ احتیاطی ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہمارا جمعہ قبول ہوتا ہے یا ظہر بلکہ یہ ان معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں.تو کئی لوگ اس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میں تو وہ اس بات پر خوش رہے کہ انہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور اُدھر لوگوں کو خوش کرنے کے لئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی.اسی طرح ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی سُنی بزرگ تھے جو شیعوں کے علاقہ میں رہتے تھے ایک دفعہ غربت کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر مدد کی درخواست کرنی چاہیے.چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی.وزیر نے اُن کی شکل کو دیکھ کر بادشاہ کو کہا کہ یہ شخص

Page 598

شیعہ نہیں سُنی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہو ا.وہ کہنے لگا بس شکل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ کہنے لگا یہ کوئی دلیل نہیں تم میرے سامنے اس کا امتحان لو.چنانچہ وزیر نے ان کے سامنے حضرت علی ؓ کی بڑے زور سے تعریف شروع کردی.وہ بزرگ بھی حضرت علی ؓ کی تعریف کرنے لگ گئے.بادشاہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ دیکھا تم جو کچھ کہتے تھے وہ غلط ثابت ہوا یا نہیں.اگر یہ شیعہ نہ ہوتا تو کیا حضرت علیؓ کی ایسی ہی تعریف کرتا.وزیر کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ خواہ کچھ کہیں مجھے یہ سُنّی ہی معلوم ہوتا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا امتحان کے لئے پھر کوئی اور بات کرو.چنانچہ وزیر کہنے لگا کہو بر ہر سہ لعنت یعنی ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمانؓ پر(نعوذ باللہ ) لعنت.وہ بھی کہنے لگا بر ہرسہ لعنت.بادشاہ نے کہا اب تو یہ یقینی طور پر شیعہ ثابت ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے مگر میرا دل مطمئن نہیں.آخر وزیر انہیں الگ لے گیا اور کہا سچ سچ بتائو تمہارا مذہب کیا ہے ؟ اُس نے کہا میں سُنّی ہوں.اُس نے کہا پھر تم نے بر ہرسہ لعنت کیوں کہا تھا.وہ بزرگ کہنے لگے تمہاری ان الفاظ سے تو یہ مراد تھی کہ ابوبکر ؓ.عمر ؓ اور عثمان ؓ پر لعنت ہو.مگر میری مراد یہ تھی کہ آپ دونوں اور مجھ پر لعنت ہو.آپ لوگوں پر اس لئے کہ آپ بزرگوں پر لعنت کرتے ہیں اور مجھ پر اس لئے کہ مجھے اپنی بدبختی سے تم جیسے لوگوں کے پاس آنا پڑا.غرض انسان کئی طریق پر وقت گذار لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح اُس نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا.مگر فرمایا يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا.خلفاء انتہائی طورپر دلیر ہوںگے اور خوف وہراس اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا.وہ جو کچھ کریں گے خدا کی رضا کے لئے کریں گے.کسی انسان سے ڈر کر اُن سے کوئی فعل صادر نہیں ہوگا.یہ علامت بھی خلفاء راشدین میں بتمام و کمال پائی جاتی ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت سارا عرب مرتد ہوگیا.صرف دو جگہ نماز باجماعت ہوتی تھی.باقی تمام مقامات میں فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا اور سوائے مکہ اور مدینہ اور ایک چھوٹے سے قصبہ کے تمام ملک نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا تھا کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً ( التوبۃ :۱۰۳) تُو ان کے مالوں سے صدقہ لے.کسی اور کو یہ اختیار نہیں کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرے.غرض سارا عرب مرتد ہوگیا اور وہ لڑائی کے لئے چل پڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اسلام کمزور تھا مگر لوگ متفرق طور پر حملہ کرتے تھے کبھی ایک گروہ نے حملہ کر دیا اور کبھی دوسرے نے.جب غزوۂ احزاب کے موقعہ پر کفار کے لشکر نے اجتماعی رنگ میں مسلمانوں پر حملہ کیا تو اُس وقت تک اسلام ایک حد تک طاقت پکڑ چکاتھا گو ابھی اتنی زیادہ طاقت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ انہیں آئندہ کے لئے کسی حملہ کا ڈر ہی نہ رہتا.اس کے بعد جب

Page 599

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ فتح کرنے کے لئے گئے تو اُس وقت عرب کے بعض قبائل بھی آپ کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے.اس طرح خدا تعالیٰ نے تدریجی طور پر دشمنوں میں جوش پیدا کیا تاکہ وہ اتنا زور نہ پکڑلیں کہ سب ملک پر چھا جائیں.لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یک دم تمام عرب مرتد ہوگیا.صرف مکہ اور مدینہ اور ایک اور چھوٹا سا قصبہ رہ گئے.باقی سب مقامات کے لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور وہ لشکر لےکر مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے.بعض جگہ اُن کے پاس ایک ایک لاکھ کا بھی لشکر تھا.مگر اِدھر صرف دس ہزار کا ایک لشکر تھا اور وہ بھی شام کو جارہا تھا.اور یہ وہ لشکر تھا جسے اپنی وفات کے قریب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.اور اسامہ ؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا.باقی جو لوگ تھے وہ یا تو کمزور اور بڈھے تھے اور یا پھر گنتی کے چند نوجوان تھے.یہ حالات دیکھ کر صحابہ ؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر بھی روانہ ہوگیا تو مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہوسکے گا.چنانچہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد جن میں حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ بھی شامل تھے اور جو شجاعت اور دلیری میں مشہور تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس لشکر کو روک لیا جائے.جب بغاوت فرو ہو جائے تو پھر بیشک اُسے بھجوا دیا جائے.مگر اب اس کا بھجوا نا خطرہ سے خالی نہیں.مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں اور دشمن کا لشکر ہماری طرف بڑھتا چلا آرہا ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت غصہ کی حالت میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا یہ کام کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اُسے روک لے.میں اس لشکر کو کسی صورت میں روک نہیں سکتا.اگر تما م عرب باغی ہوگیا ہے تو بیشک ہو جائے اور اگر مدینہ کی حفاظت کا کوئی ساما ن نہیں تو بے شک نہ رہے.خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھُس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتّے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروںگا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے.اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو.میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کروںگا(البدایۃ والنھایۃ فی تنفیذ جیش اسامۃ بن زید).یہ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا کی صداقت کا کتنا بڑا ثبوت ہے.دوسرا سوال زکوٰۃ کا تھا.صحابہؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ لشکر نہیں روک سکتے تو صرف اتنا کر لیجئیے کہ ان لوگوں سے عارضی صلح کرلیں اور انہیں کہہ دیں کہ ہم اس سال تم سے زکوٰۃ نہیں لیں گے.اس دوران میں ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائےگا اور تفرقہ کے مٹنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائےگی.موجودہ صورت میں جبکہ وہ جوش سے بھرے ہوئے

Page 600

ہیں اور جبکہ وہ لڑنے مرنے کے لئے تیار ہیں اُن سے زکوٰۃ وصول کرنا مناسب نہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.ایسا ہر گز نہیں ہوگا.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ لوگ اونٹ کا گھٹنا باندھنے والی ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے اور اَب نہیں دیں گے تو میں اُس وقت تک اُن سے جنگ جاری رکھوںگا جب تک کہ وہ رسّی بھی اُن سے وصول نہ کر لوں(بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ).اس پر صحابہؓ نے کہا اگر جیشِ اسامہ ؓ بھی چلاگیا.اور ان لوگوں سے عارضی صلح بھی نہ کی گئی تو پھر دشمن کا کون مقابلہ کرےگا.مدینہ میں تو بڈھے اور کمزور لوگ یا چند نوجوان ہیں وہ بھلا لاکھوں کا کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا.اے دوستو! اگر تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو ابو بکر ؓ اکیلا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوگا.یہ دعویٰ اس شخص کا ہے جسے فنونِ جنگ سے کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دل کا کمزور ہے.پھر یہ جرأت ، یہ دلیری ، یہ یقین اور یہ وثوق آپ میں کہاں سے آیا ؟ اسی وجہ سے آیا کہ آپ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میں خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہوں اور مجھ پر ہی تمام کاموں کی ذمہ داری ہے.پس میرا فرض ہے کہ میں مقابلہ کے لئے تیار ہو جائوں.کامیابی دینا یا نہ دینا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ کامیابی دینا چاہےگا تو آپ دے دےگا اور اگر نہیں دینا چاہےگا تو سارے لشکر مل کر بھی کامیاب نہیں کر سکتے.(تاریخ الخمیس ذکر بدء الردة والطبری بقیة الخبر عن امر الکذاب العنسی).اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کی یہ جرأت دیکھو کہ انہوں نے اپنے عہد خلافت میں دنیا کی دو زبردست حکومتوں یعنی قیصرو کسریٰ سے بیک وقت جنگ شروع کر دی.حالانکہ اس زمانہ میں صرف قیصر کا مقابلہ کرنا بھی ایسا ہی تھا.جیسے آج کل افغانستان کی حکومت امریکہ یا انگلستان سے لڑائی شروع کر دے.مگر باوجود اتنی زبردست حکومت کے ساتھ جنگ جاری ہونے کے جب حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے یہ سوال پیش ہوا کہ کسریٰ کی فوجوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے اور اُن کے بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضہ میں تھے اُن میں بغاوت اور سرکشی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ فوراً ایران پر حملہ کردو.صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں دو زبردست حکومتوں سے کس طرح مقابلہ ہوگا.مگر آپ فرماتے ہیں کچھ پرواہ نہیں جائو اور مقابلہ کرو.مسلمان چونکہ اس وقت رومی حکومت سے جنگ کرنے میں مشغول تھے اس لئے ایران پر مسلمانوں کا یہ حملہ اس قدر دُور ازقیاس تھا کہ ایران کے بادشاہ کو جب یہ خبریں پہنچیں کہ مسلمان فوجیں بڑھتی چلی آرہی ہیں تو اُس نے ان خبروں کو کوئی اہمیت نہ دی اور کہا کہ لوگ خواہ مخواہ جھوٹی افواہیں اُڑارہے ہیں.مسلمان بھلا ایسی حالت میں جبکہ وہ

Page 601

پہلے ہی ایک خطرناک جنگ میں مبتلا ہیں ایران پر حملہ کرنے کا خیال بھی کر سکتے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ایرانیوں کی شکست کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ دارالخلافہ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فوج نہیں آئی.او ر بادشاہ خیال کرتا رہا کہ لوگ جھوٹی خبریں اُڑا رہے ہیں.مگر جب کثرت اور تواتر کے ساتھ اسے اس قسم کی خبریں پہنچیں تو اُس نے اپنا ایک جرنیل بھیجا اور اُسے حکم دیا کہ میرے پاس صحیح حالات کی رپورٹ کرو.چنانچہ اُس نے جب رپورٹ کی کہ مسلمان واقعہ میں حملہ کر رہے ہیں اور وہ بہت سے حصوں پر قابض بھی ہوچکے ہیں.تب اُس نے ان کے مقابلہ کے لئے فوج بھیجی.اس سے تم اندازہ لگا لو کہ مسلمانوں کا اس لڑائی میں کودنا بظاہر کتنا خطرناک تھا جبکہ اس کے ساتھ ہی وہ رومی لشکر کا بھی مقابلہ کر رہے تھے.مگر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو خدا تعالیٰ نے مقامِ خلافت پر کھڑا کر نے کے بعد جو قوت بخشی تھی اس کے آگے ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہ تھی.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اتنے مسلمان کہاں سے آئیں گے جو ایرانی لشکر کا مقابلہ کر سکیں.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اتنا سامان اور اسلحہ کہاں سے آئے گا جو ایرانی فوجوں کے سامان اور اسلحہ کے مقابلہ میں کا م آسکے.انہوں نے ایرانیوں کی سرکشی کی خبر سُنتے ہی فوراً اپنے سپاہیوں کو اس آگ میں کود جانے کا حکم دے دیا اور کسریٰ سے بھی جنگ شروع کردی(الفخری فی الآداب السلطانیۃ والدول الاسلامیة شرح الحال فی تجھیز الجیش الی العراق و استخلاص الملک بن فارس).اس کے بعد جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو وہی عمر ؓ جو ابوبکر ؓ کو یہ مشورہ دیتے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے.جیشِ اسامہ ؓ کو روک لیا جائے تاکہ وہ ہماری مدد کر سکے.اُن میں بھی وہی توکل آگیا اور انہوں نے بھی ایک ہی وقت میں قیصر و کسریٰ سے جنگ شروع کر دی اور آخر ان دونوں حکومتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا.اسی جنگ کے نتیجہ میں جب ایران فتح ہو ا اور کسریٰ کے خزائن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو مال غنیمت میں کسریٰ کا ایک رومال بھی آیا جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ملا.ایک دن انہیں کھانسی اُٹھی تو انہو ں نے اپنی جیب میں سے کسریٰ شاہِ ایران کا رومال نکا ل کر اس میں تھوک دیا اور پھر کہا بَـخْ بَـخْ اَبُوْھُرَیْرَۃَ.واہ ،واہ ابو ہریرہ ! تیری بھی کیاشان ہے کہ تو آج کسریٰ شاہ ِ ایران کے رومال میں تھوک رہا ہے.لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا الفاظ استعمال کئے ہیں.انہوں نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ مجھے اتنے فاقے ہوتے تھے کہ میں بھوک سے بیتاب ہو کر بے ہوش ہو جاتا اور لوگ یہ سمجھ کر کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے.میرے سر پر جوتیاں مارا کرتے مگر آج یہ حالت ہے کہ میں شاہی رومال میں تھوک رہا ہوں.تويَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا کی علامت خدا تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے ذریعہ نہایت واضح رنگ میں پوری فرمائی اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے سوا کبھی کسی

Page 602

کا خوف اپنے دل میں نہیں آنے دیا.اسی طرح حضرت عثمان ؓ جیسے باحیا اور رقیق القلب انسان نے اندرونی مخالفت کا مقابلہ جس یقین سے کیا ہے وہ انسانی عقل کو دنگ کر دیتا ہے حالانکہ وہ عام طور پر کمزور سمجھے جاتے تھے مگر جب اُن کا اپنا زمانہ آیا تو انہوں نے ایسی بہادری او ر جرأت سے کام لیا کہ انسان ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتا ہے.یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے کسی مخالفت یا خطرے کی انہوں نے پرواہ نہیں کی.حالانکہ اندرونی خطرے بھی تھے اور بیرونی بھی مگر ان کے مدّنظر صرف یہی امر رہا کہ خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہو اور ذرا بھی کسی سے خوف کھا کر اُس منشاء الٰہی میں جو انہوں نے سمجھا تھا فرق نہیں آنے دیا.غرض تمام خلفاء کے حالات میں ہمیں يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا کا نہایت اعلیٰ درجہ کا نظارہ نظر آتا ہے جو اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود مقامِ خلافت پر کھڑا کیا تھا اور وہ آپ اُن کی تائید اور نصر ت کا ذمہ وار رہا.اب میں اُن اعتراضات کو لیتا ہوں جو عام طور پر اس آیت پر کئے جاتے ہیں.پہلا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں امت مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے اور امت کو خلیفہ بنانے کا وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد کو.پس اس سے مراد مسلمانوں کو غلبہ اور حکومت کا میسر آجانا ہے نہ کہ بعض افراد کا خلافت پر متمکن ہو جانا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے بے شک یہ وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے کسی وعدہ کے کئے جانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعے پورے کئے جاتے ہیں.اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا.اس کی مثالیں دنیا کی ہر زبان میں ملتی ہیں.مثلاً ہماری زبان میں ہی کہا جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں.اب کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے.ہر انگریز تو نہ بادشاہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے.مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے.حالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہے چند افراد کے سپرد حکومت کا نظم و نسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولتمند ہے.انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے دولتمند ہیں حالانکہ اُن میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں.ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے ایک دفعہ سُنایا کہ جب وہ لنڈن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اُٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑکا جھپٹ کر آیا اور اُس نے کوڑے کرکٹ کے انبار میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھا لیا.اسی طرح برنڈزی میں

Page 603

میَں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے سر پر برتن رکھ کر پانی لینے جاتی تھیں اور ان کے بچوں نے جو پتلونیں پہنی ہوئی تھیں اُن کا کچھ حصہ کسی کپڑے کا ہوتا تھا اور کچھ حصہ کسی کپڑے کا.مگر کہا یہی جاتا ہے کہ یوروپین بڑے دولتمند ہیں.پس قوم سے وعدہ کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو.کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افراد کے ذریعہ کئے جاتے ہیں.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یَاقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوْکًا (المائدۃ :۲۱)یعنی موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اُس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے اور اُس نے تم کو بادشاہ بنایا.اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے.یقیناً ان بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوںگے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے یہی فرماتے ہیں کہ جَعَلَکُمْ مُلُوْکًا.اُس نے تم سب کو بادشاہ بنایا.مراد یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم ان انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہوگئی.پس جبجَعَلَکُمْ مُلُوْکًا کی موجودگی کے باوجود اس آیت کے یہ معنے نہیں کئے جاتے کہ ہر یہودی بادشاہ بنا.تو وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ سے یہ کیونکر نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ وعدہ بعض افراد کے ذریعہ پورا نہیں ہونا چاہیے.بلکہ امت کے ہر فرد کو خلافت کا انعام ملنا چاہیے.پھر اگر اس سے قومی غلبہ بھی مراد لے لو تب بھی ہر مومن کو یہ غلبہ کہاں حاصل ہوتا ہے پھر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بعض افراد کو غلبہ ملتا ہے اور بعض کو نہیں ملتا.صحابہؓ میں سے بھی کئی ایسے تھے جو قومی غلبہ کے زمانہ میں بھی غریب ہی رہے اور ان کی مالی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہوئی.حضرت ابوہریرہ ؓ کا ہی لطیفہ ہے کہ جب حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی آپس میں جنگ ہوئی اور صفین کے مقام پر دونوں لشکر وں نے ڈیرے ڈال دئیے تو باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے کیمپوں میں ایک ایک میل کا فاصلہ تھا.جب نماز کا وقت آتا تو حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت علی ؓ کے کیمپ میں آجاتے.اور جب کھانے کا وقت آتا تو حضرت معاویہ ؓ کے کیمپ میں چلے جاتے.کسی نے اُن سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُدھر علی ؓ کی مجلس میں چلے جاتے ہیں اور اُدھر معاویہ ؓ کی مجلس میں شریک ہو جاتے ہیں ؟ وہ کہنے لگے.نماز حضرت علی ؓ کے ہاں اچھی ہوتی ہے اور کھانا حضرت معاویہ ؓ کے ہاں اچھا ملتاہے.اس لئے جب نماز کا وقت ہوتا ہے میں اُدھر چلا جاتاہوں اور جب روٹی کا وقت آتا ہے ادھر آجاتا ہوں.غیر مبائعین کا بھی ایسا ہی حال ہے.بلکہ اُن کا لطیفہ تو ابوہریرہ ؓ کے لطیفہ سے بھی بڑھ کر ہے.میں ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے

Page 604

ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی دوست نے ایک غیر مبائع کے متعلق بتا یا کہ وہ کہتے ہیں عقائد تو مولوی محمد علی صاحب کے درست ہیں مگر دعائیں میاں صاحب کی زیادہ قبول ہوتی ہیں.گویا جیسے ابوہریرہؓ نے کہا تھا کہ روٹی معاویہ ؓ کے ہاں اچھی ملتی ہے اور نماز علی ؓ کے ہاں اچھی ہوتی ہے اسی طرح اُس نے کہا کہ عقائد تو مولوی محمد علی صاحب کے درست ہیں مگر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں.تو قوم میں بادشاہت آجانے کے باوجود پھر بھی کئی لوگ غریب ہی رہتے ہیں.مگر کہا یہی جاتا ہے کہ وہ قوم بادشاہ ہے کیونکہ جب کسی قوم میں سے کوئی بادشاہ ہوتو تمام قوم بادشاہت کے فوائد سے حصہ پاتی ہے.اسی طرح جب کسی قوم میں سے بعض افراد کو خلافت مل جائے تو یہی کہا جائےگا کہ اُس قوم کو وہ انعام ملا ہے.یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہر فرد کو یہ انعام ملے.دوسری مثال اس کی یہ آیت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْ ا نُؤمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآئَ ہٗ ( البقرۃ :۹۲)کہ جب یہود سے یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ اُترا ہے اُس پر ایمان لائو تو وہ کہتے ہیں نُوْمِنُ بِمَا اُنْزِلَ عَلَیْنَا ہم تو اسی پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور یہ امر صاف ظاہر ہے کہ وحی اُن پر نہیں اُتری تھی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اُتری تھی.مگر وہ کہتے ہیں ہم پر اُتری.گویا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کے متعلق اُنْزِلَ عَلَیْنَا کہتے ہیں.اسی طرح بعض افراد پرجو اس قسم کا انعام نازل ہو جس سے ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہو تو یہی کہا جاتاہے کہ وہ ساری قوم کو ملا.چونکہ ملوکیت کے ذریعہ سے ساری قوم کی عزت ہو تی ہے اس وجہ سے جَعَلَکُمْ مُلُوْکًا فرمایا.اور چونکہ خلافت سے سب قوم نے نفع اٹھانا تھا اس لئے خلافت کے بارہ میں بھی یہی کہا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائےگا.دوسرا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فعل نے اس امر پر شہادت دے دی ہے کہ اُس کی اس آیت سے کیا مراد ہے.خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کہ وہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے والوں کو زمین میں اُسی طرح خلیفہ بنائےگا جس طرح اُس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا اب اگر اللہ تعالیٰ کی اس سے جمہوریت مراد تھی تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ جمہوریت قائم ہوئی یا نہیں.اور اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشاء تھا کہ بعض افرادِ امت کو خلافت ملے گی اور اُن کی وجہ سے تمام قوم برکات خلافت کی مستحق قرار پا جائے گی تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس رنگ میں مسلمانوں میں خلافت قائم ہوئی یا نہیں ؟ اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد امت کو ہی خلافت ملی تھی.سب کو خلافت نہیں ملی.پس یا تو یہ مانو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے مصداق نہیں

Page 605

رہے تھے.اور جس طرح شیعہ کہتے ہیں کہ امت میں صرف اڑہائی مومن تھے.اسی طرح نعوذ باللہ سب منافق ہی منافق رہ گئے تھے اس لئے خلافت ِ قومی کا وعدہ اُن سے پورا نہ ہوا.اور یا یہ مانو کہ خلافت کا طریق وہی تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عملاً جاری ہوا بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں جس رنگ میں خلافت قائم کی وہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت بتا رہی ہے کہ قوم سے اس وعدہ کو بعض افراد کے ذریعہ ہی پورا کیا جائےگا.دوسرا اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ بہت اچھا ہم نے مان لیا کہ اس آیت میں افراد کی خلافت کا ذکر ہے مگر تم خود تسلیم کرتے ہو کہ پہلوں میں خلافت یا نبوت کے ذریعہ سے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ سے مگر خلفاء ِ اربعہ کو نہ تم نبی مانتے ہو نہ ملو ک.پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہو ا.اور وہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلوں کو خلافت یا نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں.مگر مشابہت کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہر رنگ میں مشابہت ہو بلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے.مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکر کریں اور پھر کسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہے تو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہے کہ جب تم نے دونوں کو لمبا قرار دیا ہے تو یہ مشابہت کس طرح درست ہوئی اُن میں سے ایک چور ہے اور دوسرا نمازی.یا ایک عالم ہے اور دوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائےگی ہر بات اور ہر صورت میں مشابہت نہیں دیکھی جائےگی.اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل :۱۶) کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اور وہ ویسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ساری دنیا کے بادشاہوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف انیس سو سال تک تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کے لئے ہے.یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں اہم فرق ہیں.مگر باوجود ان اختلافا ت کے مسلمان یہی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل

Page 606

ہیں.پس اگر اس قسم کے اختلافات کے باوجو د آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتاتو اگر پہلوں کی خلافت سے بعض جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تو اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے ؟ اصل با ت جو اس آیت میں بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو سنبھالنے کے لئے اُن کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے بعض وجودوں کو اُن کی امت کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ بعض ایسے وجود کھڑے کرےگا جو آپ کی امت کو سنبھال لیں گے اور یہ مقصدبہ نسبت سابق خلفاء کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے زیادہ پورا کیا ہے.پھر جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری ؑ کو مبعوث فرمایا جو موسوی شریعت کی خدمت کرنے والے ایک تابع نبی تھے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال کے بعدا للہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور اس طرح اُس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال امتی نبوت سے دروازہ کھو ل دیا.اور آپ کے ذریعہ اُس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا.چنانچہ یہ سلسلۂ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد شروع ہوا اور خلافتِ ثانیہ تک ممتد رہا.اور اگر جماعت احمدیہ میں ایمان بالخلافت قائم رہا اور وہ اس کو قائم رکھنے کے لئے صحیح رنگ میں جدوجہد کرتی رہی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ وعدہ لمبا ہوتا چلا جائےگا مگر جماعت احمدیہ کو ایک اشارہ جو اس آیت میں کیا گیا ہے کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور وہ اشارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ بنایا اُسی طرح تمہیں خلیفہ بنائیں گے یعنی خلافت کو ممتد کرنے کے لئے پہلوں کے طریق انتخاب کو مدنظر رکھو.اور پہلی قوموں میں سے یہودیوں کے علاوہ ایک عیسائی قوم بھی تھی جس میں خلافت بادشاہت کے ذریعہ سے نہیں آئی بلکہ اُن کے اندر خالص دینی خلافت تھی.پس کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ میں پہلوں کے طریق انتخاب کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی اس کی تصدیق کرتا ہے.آپ کا الہام ہے ’’ کلیسیا کی طاقت کا نسخہ ‘‘ ( تذکرہ اخبار بدر ۱۹؍ مئی ۱۹۰۶ء) یعنی کلیسیا کی طاقت کی ایک خاص وجہ ہے اس کو یاد رکھو.گویا قرآن کریم نےکَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کے الفاظ میں جس نسخہ کا ذکر کر دیا تھا.الہام میں اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ جس طرح وہ لوگ اپنا خلیفہ منتخب کرتے ہیں اسی طرح یا اس کے قریب قریب تم بھی اپنے لئے خلافت کے انتخاب کا طریقہ ایجاد کرو.چنانچہ اس طریق سے قریبًا انیس سو سال سے عیسائیوں کی خلافت محفوظ چلی آتی ہے.عیسائیت کے خراب ہونے کی وجہ سے بے شک انہیں وہ نور حاصل نہیں ہوتا جو پہلے زمانوں میں حاصل ہوا کرتا تھا مگر جماعت احمدیہ اسلامی تعلیم کے مطابق اس قانون کو ڈھال کر اپنی خلافت کو

Page 607

سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک کے لئے محفوظ کر سکتی ہے.چنانچہ اسی کے مطابق میں نے آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق ایک قانون بنا دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمدیہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدوجہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکےگا.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر خلافت کا مسلمانوں سے وعدہ تھا تو حضرت علی ؓ کے بعد خلافت کیو ں بند ہوگئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وعدہ شرطی تھا.آیت کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے تھا جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوںگے اورحصول خلافت کے لئے جو مناسب قومی اعمال ہوںگے وہ کرتے رہیں گے.کیونکہ یہاں اٰمَنُوْاوَعَمِلُواا لصّٰلِحٰتِ کے الفاظ ہیں اور صَلُحَ کے معنے عربی زبان میں ایسے کام کے ہوتے ہیں جو مناسب ِحال ہو.چونکہ اس آیت میں خلافت کا ذکر ہے اس لئے اٰمَنُوْا سے مراد اٰمَنُوْا بِالْخلَافَۃِ ہے اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سے مراد عَمِلُوا عَمَلًا مُنَاسِبًا لِـحُصُوْلِ الْخلَافَۃِ ہے.اگر یہ شرط پوری نہ ہوگی تو خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوگا حضرت علیؓ کے بعد صرف لفظ خلافت باقی رہ گیا تھا لیکن عملاً بادشاہت قائم ہوگئی اور خلافت کے لئے جو شرط ہے کہ تبلیغ دین اور تبلیغ اسلام کرے وہ مٹ گئی تھی.پس شرط کے ضائع ہونے سے مشروط بھی ضائع ہو گیا.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ٹل گیا.ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب خلیفہ انتخاب سے ہوتا ہے تو پھر امت کے لئے اُس کا عزل بھی جائز ہوا (An Interpretation of Islam p.84.85 by Laura Veccia Valglieri).اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن یہ آیت نص صریح کے طورپر اس امر پر دلا لت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اُس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتا ہے.لیکن مقرر اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کہ وہ خود اُن کو خلیفہ بنائے گا پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں مَیں فلاں فلاں خصوصیات پیدا کردیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعامِ الٰہی ہوتے ہیں.پس اس صورت میں اس اعتراض کی تفصیل یہ ہوئی کہ کیا امت کو حق حاصل نہیں کہ وہ اُس شخص کو جو کامل موحد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خدا نے تما م خطرات کو دُور کرنےکا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کر دے ؟ ظاہر

Page 608

ہے کہ ایسے شخص کو امتِ اسلامیہ معزول نہیں کر سکتی ایسے شخص کو تو شیطان کے چیلے ہی معزول کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے.پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوںگے کہ چونکہ اس انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے امت کے ہاتھ میں رکھا ہے اُسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو رّد کردے.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بد ترین استنباط ہے جو انعام منہ مانگے ملے اُس کا رّد کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور اُس پر شدید حجت قائم کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرمائےگا کہ اے لوگو ! میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑ ا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو.تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اُس شخص کے ساتھ وابستہ کر دئے.جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں اب اس نعمت کے رّد کرنے پر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ( ابراہیم :۸) اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے امت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم امت کی رہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اُس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس لئے اس کے بعد امت کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا.اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یاد رکھے کہ وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتا ہے.پس اگر انتخاب کے وقت وہ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ میں شامل تھا تو اب اس اقدام کی وجہ سے ہماری درگاہ میں اس کا نام اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کی فہرست سے کاٹا جائےگا اور فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائےگا.پھر فرماتا ہے.وَاَقِیْمُوا الصّٰلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.اس آیت میں وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُو لٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ کے معاًبعد نماز اور زکوٰۃ اور اطاعت رسول ؐ کا ذکر کرکے اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر کسی وقت برکاتِ خلافت کے نزول میں کمی آجائے تو مسلمانوں کو بحیثیت قوم نمازوں میں لگ جانا چاہیے اور زکوٰۃ دینے میں چُست ہو جانا چاہیے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اختیار کرنی چاہیے.اگر وہ ایسا کریں گے تو اُن پر رحم کیا جائےگا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ایسا نائب کھڑا کر دیا جائے گا جو سب مسلمانوں کو اکٹھا کر دے گا.مگر بہر حال منکرین خلافت کبھی زمین پر غالب نہیں آئیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑے کرتا رہے گا جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں.خواہ جزوی ہی ہو.چنانچہ خوارج جو منکرین خلافت ہیں کبھی بھی دنیا پر حاکم نہیں ہوئے بلکہ سُنی جو منہ سے خلافت کے قائل ہیں لیکن حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے خلافت کو قائم رکھنے کی کوشش نہیں کی وہی ہمیشہ غالب رہے ہیں.

Page 609

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اے مومنو! چاہیے کہ وہ لوگ جس کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہیں اور وہ لوگ جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے وہ تین اَيْمَانُكُمْ وَ الَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ وقتوں میں اجازت لے کر اند ر آیا کریں.صبح کی نماز سے پہلے اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتارتے ہو مَرّٰتٍ١ؕ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ اور عشاء کی نماز کے بعد.یہ تین وقت تمہارے پردے کے وقت ہیں.ان وقتوں کے بعد اندر آنے جانے پر نہ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ١ؕ۫ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر کوئی گناہ ہے کیونکہ بعض تم میں سے بعض کے پاس ضرورتًا اکثر آتے جاتے ہیں.لَّكُمْ١ؕ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَ لَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ١ؕ اسی طرح اللہ (تعالیٰ) اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ (تعالیٰ) بہت علم والا (اور) حکمت والا ہے.طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو اسی طرح اجازت لیا کریں جس طرح اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۰۰۵۹وَ اِذَا بَلَغَ اُن سے پہلے (یعنی بڑے )لوگ اجازت لیا کرتے تھے.الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ اسی طرح اللہ (تعالیٰ) اپنے احکام تمہارے لئے الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ١ؕ وَ بیان کرتا ہے اور اللہ (تعالیٰ)

Page 610

اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۰۰۶۰ بہت جاننے والا (اور) حکمت والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْحُلُمُ.مفردات امام راغب ؒ میں ہے اِذَ ابَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ اَیْ زَمَانَ الْبُلُوْغِ.یعنی آیت اِذَ ابَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ میںاَلْحُلُمُ کے معنے زمانہ ٔ بلوغت کے ہیں.( مفردات) تفسیر.یہ آیت بظاہر ایک بے جوڑ آیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سے پہلے خلافت کا ذکر ہے اور اس آیت میں گھریلو معاملات کا ذکر شروع ہو گیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو درحقیقت استعارۃً اس آیت میں بھی استحکام قومی کا ہی ذکر ہے.اس آیت میں کہا گیا ہے کہ غلام اور بچے تین وقتوں میں یعنی صبح کی نماز سے پہلے.دوپہر کے وقت اور عشا ء کی نماز کے بعد اجازت لے کر گھر میں داخل ہوا کریں کیونکہ یہ تین وقت ایسے ہوتے ہیں جبکہ لوگ کپڑے اتار کر آرام کر رہے ہوتے ہیں ہاں ان وقتوں کے آگے پیچھے یہ لوگ بغیر اجازت گھروں میں آجا سکتے ہیں.اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ وقت انسان پر غفلت کے بھی آتے ہیں ایسی غفلت کے اوقات میں بہت ہوشیار رہنا چاہیے.اور غلاموں اور بچوں کو بھی بغیر اجازت گھر میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے.اسی طرح اس آیت میں یہ پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے کہ جب مسلمانوں کو قومی طورپر غلبہ حاصل ہو گا تو غلاموں کا رواج اُن میں بڑھ جائےگا.چنانچہ اندلس اور بغداد میں زیادہ تر کام غلاموں سے ہی لیا گیا اور یہی مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس آیت کے مضمون کو محض گھریلو مضمون نہ سمجھا جاتا بلکہ یہ سمجھا جاتا کہ یہ آیت چونکہ خلافت کے ذکر کے بعد آئی ہے اس لئے اس میں کوئی قومی مضمون بیان ہوا ہے تو مسلمان اپنی کمزوری کے وقتوں میں اور زیادہ ہوشیار ہو جاتے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے آخری ایام میں.اور کسی غیر کو خواہ وہ کتنا ہی بےضرر نظر آتا اپنے نظام کے پاس تک نہ پھٹکنے دیتے.اگر وہ ایسا کرتے تو نہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ہوتی اور نہ حضرت علی ؓ کی.حضرت علی ؓ کی شہادت صبح کی نماز کے وقت ہوئی تھی(البدایة والنھایة ذکر مقتل امیر المؤمنین علیؓ بن ابی طالب.صفۃ مقتلہ ؓ).اگر مسلمان اس آیت کے مضمون کے مطابق حضرت علی ؓ کے گھر کا اُس وقت پہرہ دے رہے ہوتے تو ایک فاسق خارجی کی کیا مجال تھی کہ آپ پر حملہ کرتا.اُس نے مِنْ قَبْلِ صَلٰوۃِ الْفَجْرِکا وقت شائد اسی آیت سے نکالا ہواور سمجھا ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس وقت کو ننگا ہونے کا وقت قرار دیا ہے.یعنی جب آدمی حفاظت

Page 611

سے محروم ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ اُسی وقت حملہ کرو.اسی طرح دوپہر کا وقت حفاظتی نقطۂ نگاہ سے بڑی بھاری اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جبکہ بالعموم لوگ غافل ہو جاتے ہیں اور حملہ آور ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں جبکہ لوگ غفلت کی نیند سو رہے ہوں صحابہ ؓ سے ایک دفعہ دوپہر کے وقت اسی قسم کی غلطی ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حملہ آور تلوار لےکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کھڑا ہو گیا اور اُس نے چاہا کہ آپ کو قتل کر دے.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شاملِ حال ہوا اور اُس نے دشمن کو اپنے بد ارادہ میں ناکام کر دیا.یہ واقعہ غزوۂ ذات الرقاع سے واپسی کے وقت پیش آیا.دوپہر کے وقت صحابہ ؓ اِدھر اُدھر پھیل گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آرام فرمانے کے لئے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے.چونکہ مدینہ قریب آگیا تھا.اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اب کسی دشمن کے حملہ کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ہے.مگر دشمن تاک میں تھا.جب صحابہ ؓ ادھر اُدھر پھیل گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شخص حفاظت کے لئے نہ رہا تو ایک شخص آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تلوار اٹھا کر آپ کو جگایا اور پوچھا کہ بتائیں اَب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا کہ اللہ.آپ کا یہ جواب دینا تھا کہ اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوئی اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور پھر اُس سے پوچھا کہ بتا اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے.وہ کہنے لگا.آپ ہی رحم کریں تو کریں.آپ نے فرمایا.کمبخت تو نے میرے مونہہ سے ہی اللہ کا نام سن کر کہہ دینا تھا کہ اللہ مجھے بچائےگا.مگر تجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میری نقل ہی کر لیتا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓ کوبلایا اور فرمایا کہ یہ شخص مجھے قتل کرنے کے لئے آیا تھا مگر خدا نے مجھے اس کے حملہ سے بچالیا ( بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع) اب دیکھو وہ بھی دوپہر ہی کا وقت تھا جب وہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لئے آیا.اسی طرح مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِکے الفاظ میں رات کے وقت ہوشیار رہنے کی نصیحت کی گئی ہے.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں انصار اپنی مرضی سے رات کے وقت آپ کے گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے.ایک دفعہ رات کے وقت آپ کو باہر ہتھیاروں کے چھنکار کی آواز آئی.آپ نے نکل کر دیکھا تو ایک انصاری سردار بو لے کہ یا رسول اللہ ! آپ اطمینان سے آرام فرمائیے.آج کل دشمنوں میں آپ کے خلاف بڑا جوش پایا جاتا ہے.میں نے اپنی قوم سے کہا کہ چلو ہتھیار لےکر آپ کا پہرہ دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش ہوئے اور آپ نے انہیں دعا دی(بخاری کتاب الجھاد باب الحراسة فی الغزو فی سبیل اللہ ).پس یہ تین کمزوری

Page 612

کے اوقات ہیں جن میں اسلام مومنوں کو چوکس اور ہوشیار رہنے کی نصیحت فرماتا ہے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو پھر ان تین کمزور ی کے وقتوں کا سوال نہیں ہر وقت اُن کو اجازت لینی چاہیے.یعنی جب مسلمانوں کو جب حکومت مل جائے تو انہیں ہر وقت اپنے ملک کی حفاظت کا فکر رکھنا چاہیے اور کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں اس ہدایت پر عمل نہ کیا اور وہ اپنی حفاظت سے ایسے غافل ہوئے کہ دشمن انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک بھی گھروں کے دروازے ہوتے تھے جن کے کھولے بغیر کوئی شخص اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا لیکن خلافت ِ عباسیہ اور خلافت اندلس اور خلافتِ فاطمیہ میں دروازے نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف زینت کے طور پر پردے گرائے جاتے تھے گویا زینت اس وقت مقدم ہوگئی تھی اور حفاظتِ نفس مؤخر ہوگئی تھی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی خلفاء غلاموں کے ہاتھ سے ہی مارے گئے.وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ اور وہ عورتیں جو کہ بڑھیا ہوگئی ہیں (اور) نکاح کے قابل نہیں اُن پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ اتار کر رکھ دیں اسی طرح کہ زینت کو ظاہر نہ کیا کریں اور اُن کا بچے رہنا اُن کے لئے بہتر ہوگا اور بِزِيْنَةٍ١ؕ وَ اَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۰۰۶۱ اللہ (تعالیٰ) بہت سننے والا (اور) جاننے والا ہے.حلّ لُغَات.اَلْقَوَاعِدُ.اَلْقَوَاعِدُ اَلْقَاعِدُ کی جمع ہے اور اَلْقَاعِدُ کے معنے ہیں اَلْمَرْأَۃُ الَّتِیْ قَعَدَتْ عَنِ الْوَلَدِ وَعَنِ الزَّوْجِ وہ عورت جو بچے پیدا کرنے اپنے خاوند کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا زمانہ ختم کر چکی ہو ( اقرب) ثِیَابٌ.ثیاب ثَوْبٌ کی جمع ہے اور ثوب کے معنے کپڑے کے ہیں.لیکن محاورہ میں ثِیَابٌ دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں.مُتَبَرِّجَاتٍ.تَبَرَّجَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ مُتَبَرِّ جَۃٌ آتا ہے اور مُتَبَرِّ جٰتٍ جمع کا صیغہ ہے.

Page 613

جب تَبَرَّجَتِ الْمَرْاَۃُ کہیں تو عربی زبا ن میں اس کے معنے ہوںگے اَظْھَرَتْ زِیْنَتَھَا لِلْاَجَانِبِ کہ عورت نے اپنی زینت کو نامحرم لوگوں کے لئے ظاہر کیا ( اقرب) پس غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ کے معنے ہوںگے وہ عورتیں اپنی زینت کو غیروں کے لئے ظاہر نہ کریں.تفسیر.اس جگہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بنائو سنگار کرکے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بُری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں.اور بوڑھی عورتوں کو جبرًا گھروں میں بٹھایا جا رہا ہے.اس آیت میں بوڑھی عورتوں کے لئے قَوَاعِدُ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو جمع ہے اور اس کا مفرد قَاعِدٌ بھی آتا ہے اور قَاعِدَۃٌ بھی لیکن اس آیت میں قَوَاعِدُ قاعدٌ کی جمع ہے.اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ عورت کے بیٹھنے سے مراد اس کا بڑھاپے کی وجہ سے بیٹھنا ہے.جبکہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی.عربی قواعد کی رو سے قَاعِدٌ وہ صیغہ ہے جو مذکر کے لئے استعمال ہوتا ہے اور جب مؤنث کے لئے استعمال کریں تو ’’ۃ‘‘ زائد کر دیتے ہیں.لیکن جو چیز عورتوں کے ساتھ مخصوص ہو اور اس میں مردوں کے شامل ہونے کا کوئی اشتباہ واقعہ نہ ہوتا ہو وہاں تانیث کی علامت لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے عربی میں اس عورت کو جسے حمل ہو چکا ہو اِمْرَأَ ۃٌ حَامِلٌ کہیں گے.پس نحویوں نے استدلال کیا ہے کہ اس جگہ قَوَاعِدُ کا لفظ چونکہ ایسے معنے رکھتا ہے جو مرد پر چسپاں نہیں ہو سکتے اس لئے اس کے مفرد کے ساتھ بھی مؤنث کی علامت نہیں ہونی چاہیے پس یہ قَاعِدۃٌ کی جمع نہیں بلکہ قَاعِدٌ کی جمع ہے.ضمنی طور پر اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَا بَھُنَّ سے معلو م ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَا بَھُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہو گیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.وَ اَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ.بعض لوگوں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیںکہ اگر وہ بچیں تو بہتر ہے لیکن یہ معنے درست نہیں کیونکہ اس آیت میں اِنْ کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ اَنْ کا لفظ استعمال ہوا ہے.عربی میں اگر کا مفہوم ادا کرنے کے لئے اِنْ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اَنْ مصدری معنے دینے کے لئے آتا ہے.پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ اگر وہ اس سے بچیں تو بہتر ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ اس سے بچنا ان کے لئے بہر حال بہتر ہے.یعنی جائز ہے کہ پردہ چھوڑ دیں لیکن اگر وہ پردہ جاری رکھیں تو کئی لحاظ سے اس میں بھی اُن کے لئے بہتری ہوگی.مثلاً اس سے

Page 614

نوجوان عورتوں میں بے پردگی کی تحریک پیدا نہیں ہوگی.ہمارے ملک کے لحاظ سے ساٹھ سالہ اور یورپ کے لحاظ سے ستر پچھتر سالہ عورت پر اس اجازت کا اطلاق ہو سکتا ہے.کیونکہ اس عمر میں بوڑھی عورتوں کے لئے چلنا پھر نا مشکل ہو تا ہے اور پھر پردہ کے کپڑوں کو سنبھالنا تو اُن کی مشکل کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.لیکن شریعت پھر بھی یہی کہتی ہے کہ اگر وہ پردہ کو قائم رکھیں تو نتائج کے لحاظ سے یہ زیادہ بہتر بات ہے.لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى نہ اندھوں پر نہ لنگڑوں پر نہ مریض پر نہ تم پر گھروں سے یا اپنے باپ دادوں کے گھر سے یا اپنی مائوں ( یا ننھیال ) الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ کے گھر سے یا اپنے بھائیوں کے گھر سے یا اپنی بہنوں کے گھر سے یا اپنے چچوں کے گھر سے یا اپنی پھوپھیوں بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ کے گھر سے یا اپنے ماموئوں کے گھر سے یااپنی خالائوں کے گھر سے اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ یا جن کے سامان کے انتظام پر تم مقرر ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ سے کوئی چیز لے کر کھالینے میں کوئی حرج ہے (اسی طرح) تم پر کوئی گناہ نہیں مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِيْقِكُمْ١ؕ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ کہ الگ کھائو یا سب مل کر کھائو.پس جب گھروں میں داخل ہو نے لگو اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا تو اپنے عزیزوں یا دوستوںپر سلام کہہ لیا کرو.یہ اللہ کی طرف سے

Page 615

فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً ایک بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے.اسی طرح اللہ (تعالیٰ) اپنے احکام طَيِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؒ۰۰۶۲ تمہیں کھول کر سناتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو.تفسیر.مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے پہلے جب مسلمان جہاد کے لئے باہر جاتے تھے تو چونکہ اُ ن میں سے بعض کے گھر بالکل خالی ہوا کرتے تھے اس لئے وہ ایسے لوگوں کو جو معذوری کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اپنے گھروں کی کنجیاں سپر د کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے گھروں کا خیال رکھنا اور جو کچھ کھانے کی چیزیں ہمارے گھروں میںپڑی ہیں وہ استعمال کرتے رہنا مگر وہ لوگ اپنی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے دوسروں کے اموال کو استعمال کرنے سے احتراز کیا کرتے تھے.اور کہتے تھے کہ ہمارا کا م صرف گھروں کی نگہداشت کرنا ہےہمارے لئے اُن کی کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنا جائز نہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جب انہوں نے خود تمہیں اپنے گھروں کی چابیاں دے دی ہیں اور وہ جہاد کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں تو تمہیں اُن کے گھروں سے اور اسی طرح اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں.حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ( النساء:۳۰) یعنی اے مومنو! تم آپس میں ناجائز طور پر اپنے مال نہ کھائو.تو انصار نے کہا کہ اموال میں سےسب سے افضل چیز تو طعام ہی ہے.پس جب خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے اموال کو ناجائز طور پر استعمال نہ کریں.تو اگر ہم اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے تو ہو سکتا کہ ہم ان کا حق کھاجائیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم مجرم ٹھہریں کیونکہ اندھے کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میرے سامنے کیا کیا چیزیں پڑی ہیں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ اچھی چیزیں ہم خود کھا جائیں اور اندھا اُن سے محروم رہ جائے.اسی طرح لنگڑے کے متعلق بھی امکان ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی معذوری کی وجہ سے کھانے کے لئے دیر سے پہنچے یا بہت پیچھے بیٹھے اور اس طرح کھانے کی تقسیم اور اس کے استعمال میں اُس سے نا انصافی ہو جائے.یہی حال

Page 616

بیمار کا ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے وہ اپنی بیماری کی وجہ سے بعض کھانے نہ کھائے اور دوسرے لوگ کھا جائیں اس لئے اندھوں ،لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھانا چاہیے.اسی طرح انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھی کھانا کھانا ترک کر دیا کہ مباد ا کوئی گناہ ہو جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بے شک ان کے ساتھ مل کر کھانا کھا لیا کرو.اور بلاتکلف اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھروں میں بھی آیا جایا کرو.اور ان کے ساتھ مل کر یا علیٰحدہ علیٰحدہ جس طر ح چاہو.اور اس قسم کے وساوس سے باہمی تعلقات ِ محبت کو منقطع نہ کرو.اس کے مقابلہ میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ خود اندھے اور لنگڑے اور بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے تندرستوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانا پسند نہیں کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ ان کی معذوری اور بیماری کی وجہ سے لوگوں کو کوئی تکلیف محسوس ہو.اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بھی تندرستوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کی اجازت دے دی گئی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جن کی مالی حالت کمزور ہوا کرتی تھی اور اُن کے لئے گھروں میں کھانے کا پورا سامان نہیں ہوا کرتا تھا.اُن کا طریق تھا کہ وہ عموماً معذوروں کو اپنے رشتہ داروں کے گھر لے جا کر کھانا کھلا دیا کرتے تھے.لیکن جن کو ساتھ لے جاکر کھانا کھلاتے تھے وہ برا مناتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمیں غیروں کے گھروں میں کھانے کے لئے کیوں لے جایا جاتا ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں.ضحاکؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اہل مدینہ اپنے کھانے میں اندھوں ، لنگڑوں اور بیماروں کو خصوصیت کے ساتھ شامل نہیں کیا کرتے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کو جائز قرار دےد یا.مفسرین میں اس بات پر بھی بحث ہوئی ہے کہ آیا یہ آیت منسوخ ہے یا محکم.بعض نے تو یہ کہا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں مکانوں کے دروازے نہیں ہوا کرتے تھے.صرف پردے لٹکا دئے جاتے تھے.اس لئے جب کسی کو بھوک ستاتی تو وہ پردہ اٹھا کر اندر آجاتا.حالانکہ بعض دفعہ گھر میں کوئی شخص بھی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اُن کے اس فعل کو جائز قرار دے دیا مگر بعد میں جب دروازے لگ گئے اور قرآن کریم نے بھی یہ ہدایت دے دی کہ گھروں میں بلااجازت داخل نہ ہو ا کرو تو اب کسی کے لئے یہ جائز نہ رہا کہ وہ بلا اجازت دوسرے کے گھر میں داخل ہو کر کھانے پینے کی چیزیں اٹھا لے.اور چونکہ اس آیت میں اجازت پائی جاتی ہے اس لئے یہ آیت منسوخ ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ ناسخ

Page 617

ہے.اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ( النساء :۳۰) تو صحابہ ؓ نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھانا کھانا ترک کر دیا اور سمجھا کہ اس طرح ہم اندھوں لنگڑوں اور بیماروں کا حق ناجائز طور پر استعمال کر سکتے ہیں.اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی.پس ان کے نزدیک یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ والی آیت منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے.لیکن ایک تیسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ آیت نہ ناسخ ہے نہ منسوخ بلکہ محکم آیات میں سے ہے اور اس کے ثبوت میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ صحابہ ؓ جہاد پر جاتے وقت بعض لوگوں کے سپرد اپنے مکانات کی حفاظت اور نگرانی کا کام کر جاتے مگر وہ ان کے کھانے پینے کی چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے.اس پر یہ آیت نازل ہوئی پس یہ منسوخ نہیں بلکہ محکم آیت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب اور مدینہ کے رہنے والے عموماً اندھوں ،لنگڑوں اور بیمار وں کے ساتھ کھانا نہیں کھایاکرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اندھا کھانے میں ہاتھ ڈالےگا تو چونکہ اُسے کچھ دکھائی نہیں دیتا اس لئے وہ ادھر اُدھر ہاتھ مارےگا اور کھانا خراب ہو جائےگا.اور لنگڑے کی نشست دیکھ کرا نہیں انقباض محسوس ہوتا اور بیمار کی بُو اور اس کی شکل اور بیماری کے مختلف عوارض سے انہیں تکلیف ہوتی.یہ طریق عمل چونکہ اُن کے کِبر پر دلالت کرتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر انہیں ہدایت دی کہ ایسے معذوروں اور قریبی رشتہ داروں کے ہاں سے کھانا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں.مفسرین نے اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ یہ ساری آیت آیا ایک ہی مضمون پر مشتمل ہے یا اس میں الگ الگ مضامین بیان کئے گئے ہیں.چنانچہ اس کے متعلق بھی دو گروہ پائے جاتے ہیں.بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ تمام آیت لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ سے لے کر کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ تک معاشرتی آداب اور ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھا لینے کے مضمون کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے.لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ اور اس سے اگلی قیدیں عَلٰۤى اَنْفُسِکُمْ کے ساتھ ہیں.اور اس آیت کا پہلا ٹکڑا ایک الگ ٹکڑا ہے جس کا کھانا کھانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ایسے لوگوں نے لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ لوگ چونکہ اپنی معذوری کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے اس لئے ان پر کوئی الزام نہیں.علامہ قرطبی ؒ نے اسی آخری توجیح کو پسند کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں پر سے اُن تمام احکام کی پابندی دُور کر دی ہے جن کو وہ اپنی معذوری

Page 618

کی وجہ سے سرانجام نہیں دے سکتے.یعنی وہ کام جس کے لئے بینائی کی ضرورت ہو اس کے نہ بجا لانے پر اندھوں پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا.اور وہ کا م جس کے لئے صحیح سالم ٹانگوں کی ضرورت ہو اس کے سرانجام نہ دینے پر شریعت لنگڑوں کو کسی قسم کے الزام کے نیچے نہیں لاتی.اسی طرح ہر وہ کام جس کے لئے جسمانی طاقت کی ضرورت ہے اس کے سرانجام نہ دینے کی وجہ سے بیماروں پر کوئی گرفت نہیں کی جا سکتی.ابن عطیہ ؒ نے بھی اسی کی تائید کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اس جگہ حَرَجٌ سے ہر وہ معذوری مراد ہے جو کسی اندھے یا لنگڑے یا بیمار کو لاحق ہو مثلاً بیمار آدمی روزہ نہیں رکھ سکتا.اندھا اور لنگڑا جہاد میں شریک نہیں ہو سکتا.یا اسی قسم کے اور کئی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا.ایسی تمام معذوریاں اللہ تعالیٰ مدنظر رکھےگا.اور ان لوگوں کو ثواب سے محروم نہیں کرےگا.ان کے نزدیک وَ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ سے وہ مضمون شروع ہوتا ہے جس کا معاشرتی آداب کے ساتھ تعلق ہے.(قرطبی زیر آیت ھذا) اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے کہ مفسرین کو اس آیت کے معنے کرنے میں اچھی خاصی مشکل پیش آئی ہے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو ہی منسوخ قرار دے دیا ہے.مگر یہ عقیدہ کہ قرآن کریم میں کوئی منسوخ آیت بھی ہے نہایت گندہ اور خلافِ اسلام عقیدہ ہے جس کے نتیجہ میں قرآ ن کریم کی کسی آیت کا بھی اعتبار نہیں رہتا.اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ قرآن کریم کے بعض حصے منسوخ ہیں اور دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ ہمیں خدا نے یہ بتا یا ہی نہیں کہ کون سا حصہ منسوخ ہے اور کون سا قابلِ عمل تو ہر آیت پر عمل کرتے وقت طبیعت میں یہ خلجان رہےگا کہ نہ معلوم جس آیت پر میں عمل کر رہا ہوں وہ منسوخ ہے یا غیر منسوخ اور اس طرح ساری کتاب پر سے ہی اعتبار اٹھ جاتا ہے.پس یہ تو قطعی طور پر غلط ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے.قرآن کریم کی ایک آیت چھوڑ ایک حرف بلکہ ایک زیر اور زبر بھی منسوخ نہیں بلکہ بسم اللہ سے لے کر والناس تک ساری کتاب قابلِ عمل ہے.ہمارا کام یہ ہے کہ اگر ہمیں کسی آیت کے صحیح معنے معلوم نہ ہوں تو ہم اس پر غور کریں.یہ نہیں کہ اُسے منسوخ قرار دے دیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام کی ہتک کریں.حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اسلام اور یہودیت کے ایک بہت بڑے امتیاز پر دلالت کرتی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لئے رحمت کا ایک بادل بن کر آیا تھا جو دلوں کی مرجھائی ہوئی کھیتیوں پر اس شان سے برسا کہ اُس نے انہیں سرسبزو شاداب بنا دیا اور ستم رسیدہ انسانوں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ کھیلنے لگی.اسلام سے پہلے دنیا میں صرف یہودی مذہب ہی ایک ایسا مذہب تھا جو اپنے زمانہ کے لحاظ سے تفصیلی شریعت

Page 619

کا حامل تھا اور دنیا کا ایک مقبول طبقہ اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا تھا.مگر یہودیت دنیا کو جو تعلیم دے رہی تھی اس کا ایک ہلکا سا اندازہ ان آیا ت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا کہ ہارون سے کہہ دے کہ تیری نسل میں پشت درپُشت اگر کوئی کسی طرح کا عیب رکھتا ہو تو وہ اپنے خدا کی غذا گذراننے کو نزدیک نہ آئے خواہ کوئی ہو جس میں عیب ہو وہ نزدیک نہ آئے خواہ وہ اندھا ہو یا لنگڑا یا نک چپٹا ہو یا زائد الاعضاء یا اس کا پائوں ٹوٹا ہو یا ہاتھ ٹوٹا ہو یا وہ کُبڑا یا بونا ہو یا اس کی آنکھ میں کچھ نقص ہو یا کھجلی بھرا ہو یا اس کے پپڑیاں ہوں یا اس کے خصیے پچکے ہوں.ہارون کا ہن کی نسل میں سے کوئی جو عیب دار ہو.خداوند کی آتشین قربانیاں گذراننے کو نزدیک نہ آئے.وہ عیب دار ہے.وہ ہرگز اپنے خدا کی غذا گذراننے کو پاس نہ آئے وہ اپنی خدا کی نہایت ہی مقدس اور پاک دونوں طرح کی روٹی کھائے.لیکن پردہ کے اندر داخل نہ ہو.نہ مذبح کے پاس آئے اس لئے کہ وہ عیب دار ہے.تاایسا نہ ہو کہ وہ میرے مقدس مقاموں کو بےحرمت کرے.‘‘ ( احبار باب ۲۱ آیت ۱۶ تا ۲۳) اس تعلیم پر غور کرو اور دیکھو کہ اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں اور معذوروں کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے.کس طرح انہیں مقدس مقامات سے دُور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے.کس طرح انہیں ناپاک قرار دے کر سوسائٹی کا ایک ناکارہ عضو قرار دیا گیا ہے.کیا اس تعلیم کی موجودگی میں کوئی بھی بیمار اور معذور اس پر خوش ہو سکتا ہے ؟ اور کیا وہ یہودیت کو اپنی نجات کا ضامن قرار دے سکتا ہے جو مذہب اس کے خلقی عیوب کی وجہ سے اُسے ناپاک قرار دیتا ہے وہ روحانیت میں اُسے کونسا درجہ دینے کے لئے تیار ہو سکتا ہے ؟ یہ ستم ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا.اُنیس سو سال تک بیماروں اور معذوروں کی آہیں آسمان کی طرف بلند ہوتی رہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے رحم و کرم کے دروازہ کو کھٹکھٹاتی رہیں.آخر خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا اور اُس نے آپ کے ذریعہ دنیا کو یہ تعلیم دی کہ لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ یعنی اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری سوسائٹی کا ایک اہم جزو ہیں اُن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور انہیں اپنے تمدنی اور معاشرتی حلقہ سے منقطع کر دینا انسانیت کے شرف اور اس کی عظمت کی توہین کرنا ہے.اس لئے ہم تمہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ان معذوروں کو بھی اپنی سوسائٹی کا ایک حصہ سمجھ لو اور اُن سے چھوت چھات مت کرو اگر ایسا کرو گے تو معذوروں اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں اور امراء اور اعلیٰ خاندانوں میں ایک

Page 620

وسیع خلیج حائل ہو جا ئےگی.اور قوم کے ایک حصہ میں احساسِ کمتری پیدا ہو جائےگا جو انہیں کچل کر رکھ دےگا.اور تمہاری قوم کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکے گی.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے وَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِٓ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریا ت:۲۰) کی تعلیم دی اور بتا یا کہ تمہارے اموال میں نہ صرف وہ لوگ شریک ہیں جو مطالبہ کر کے تم سے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں بلکہ وہ لوگ شریک ہیں جو بیمار اور کمزور اور معذور ہیں.دنیا نے ایک لمبے عرصہ تک انسانیت کے ایک بڑے حصہ کی توہین کی یہاں تک کہ ہندومت نے برہمن.ویش ،کھشتری اور شودر کی تقسیم کر کے بنی نوع انسان کو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا.اور شودر کا یہ فرض قرار دیا کہ برہمن کی خدمت کر ے اور کبھی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے بلکہ منوجی نے تو کہا کہ ’’ اگر شودر دھن جمع کرے تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اُس سے چھین لے کیونکہ شودر مالدار ہو کر براہمنوں کو دکھ دیتا ہے.‘‘ (منو ادھیائے ۱۰ شلوک ۱۲۹) اسی طرح انہوں نے یہ تعلیم دی کہ ’’ برہمن شودر سے دولت لے لے.اس میں کوئی وچار نہ کرے کیونکہ وہ دولت جو اس نے جمع کی ہے وہ اُس کی نہیں بلکہ برہمن کی ہے.‘‘ ( منو ادھیائے ۸ شلوک ۴۱۷) گویا براہمنوں کو اجازت دے دی گئی کہ جب بھی تمہیں کسی شودر کے پاس دولت دکھائی دے تم فوراً اس سے چھین لو اور یہ مت خیال کرو کہ ایسا کرنا گناہ ہوگا کیونکہ شودر کا مال اس کا نہیں بلکہ تمہارا ہے.یہودیت آئی تو اُس نے بھی اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں کو اپنی سوسائٹی سے الگ قرار دےدیا اور انہیں ناپاک سمجھنے کا حکم دیا.(گنتی باب ۵ آیت ۲ و احبار باب ۱۳ و باب ۲۱ آیت ۱۶ تا ۲۱)مدینہ اور اس کے نواحی میں بھی چونکہ اسلام سے پہلے زیادہ تر یہود کی آباد ی تھی اس لئے اُن میں بھی اندھوں اور لنگڑوں اور بیماروں کے ساتھ علیٰحدہ سلوک کیا جاتا تھا.اور وہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے یا انہیں اپنی دعوتوں وغیرہ میں شریک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے.یہ یہودی اثر اتنا غالب تھا کہ جب حضرت مسیح آئے تو اُن پر بھی یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ محصول لینے والوں کے ساتھ کھانا کھاتا ہے چنانچہ انجیل میں لکھا ہے ’’ جب وہ گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تھا تو ایسا ہوا کہ بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار آکر یسوع اور اس کے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے.فریسیوں نے یہ دیکھ کر اس کے شاگردوں سے کہا تمہارا اُستاد محصول لینے والوں اور گنہگار وں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے.‘‘ (متی باب ۹ آیت ۱۰ ، ۱۱)

Page 621

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تنافر کے حلقہ کو یہودیوں نے اتنا وسیع کر دیا تھا کہ وہ بیماروں اور اندھوں اور لنگڑوں وغیرہ سے لے کر خاص خاص نوکریوں پر کام کرنے والوں کے ساتھ بھی کھانا کھانا معیوب سمجھتے تھے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک ایسی تعلیم لے کر آئے جو عالمگیر اخوت کو ترقی دینے والی اور انسانیت کو اعلیٰ درجہ کی بنیادوں پر استوار کر نےوالی تھی اس لئے آپ نے اُن تمام طوقوں کو کاٹ کر رکھ دیا جو پُرانے مذاہب نے اُن کے گلوں میں ڈال رکھے تھے اور اُ ن تمام زنجیروں کو قطع کر دیا جنہوں نے رسم و رواج کی صورت میں انہیں جکڑ رکھا تھااور بتایا کہ چھوت چھات کو اپنے لئے لعنت سمجھو اور اخوت کو ترقی دینے کے لئے تمام بنی نوع انسان کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کرو.اور اپنے رشتہ داروں سے تعلقات ِ محبت زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرو.رشتہ داروں کا ذکر اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں کھانا کھانا بھی معیوب سمجھتا ہے.ہندوؤں کو بھی دیکھ لو.وہ اپنی بیٹی کے گھر سے پانی تک پینا گناہ سمجھتے ہیں اور چونکہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ایک لمبے عرصہ تک مل جل کر رہے اس لئے بعض ہندو انہ رسوم مسلمانوں میں داخل ہو گئیں اور ان کا بھی ایک حصہ اس قسم کی رسوم میں مبتلا ہو گیا بلکہ موجودہ تہذیب کے دور میں یوروپین قوموں میں بھی یہ دستور پایا جاتا ہے کہ اگر بیٹا بھی باپ کے ہاں چلا جائے تو اُسے گھر کی بجائے ہوٹل میں ٹھہرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے.گویا باوجود اس کے کہ آج کل تہذیب عروج پر ہے پھر بھی تمدنی اور معاشرتی معاملات میں ابھی دنیا کی مہذب اقوام کو بھی قرآنی تعلیم سے ہزاروں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے.غرض یہ چیزیں چونکہ دلوں میں مغائرت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں اور باہمی محبت کو قطع کرتی ہیں اس لئے اسلام نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں سے کھانا کھانے کی اجازت دی تاکہ آپس کے تعلقات بڑھیں اور مغائرت اور اجنبیت کا احساس دلوں پر غالب نہ آنے پائے.غرض اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ اندھے اور لنگڑے یا بیمار کا بوجہ معذوری کے معروف حد تک رہنے یا اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے گھروں سے بن بلائے کھانا کھا لینا یا تندرست کا اپنے نہایت قریبی رشتہ داروں کے گھروں میں کھانا کھا لینا کوئی معیوب امر نہیں.اسی طرح اگر کسی کے مال کا نگران آدمی کسی کے مال کو معروف طور پر کھا لے تو یہ کوئی الزام کی بات نہیں.یہ عرف عام سے تعلق رکھنے والی ایک بات ہے اور عرفِ عام پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ مریضو ں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے سے یہ مراد نہیں کہ متعدی اور خطرناک امراض میں مبتلا انسانوں کے ساتھ بھی کھانا کھا لوتو حر ج نہیں اسلام نے اس قسم کے حالات کو بھی مدنظر رکھا ہے اور متعدی امراض میں مبتلا انسانوں سے مناسب حفاظت اور بچائو کی تاکید کی ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 622

ایک حدیث میں فرمایا کہ جذامی سے بچو تا ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائو(بخاری کتاب الطبّ باب الجزام) اور قرآن کریم نے اصولی طور پر یہ ہدایت دی ہے کہ لَاتُلْقُوْا بِاَیْدِ یْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ :۱۹۶) یعنی اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں مت ڈالو.پس یہاں بیماری سے وہ معمولی عوارض مراد ہیں جو عام طور پر ہوتے رہتے ہیں اور جن میں مبتلا انسانوں کا تندرست انسانوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا کوئی نقصان د ہ نہیں سمجھا جاتا.اور نہ دوسروں کی صحت پر اس کا کوئی برا اثر پڑ تا ہے.مثلاً سردرد ہے یا گلے کی خرابی ہے یا اعصاب میں درد کی شکایت ہے یا معمولی حرارت ہے یا اسی قسم کی اور کئی بیماریاں ہیں اس قسم کا آدمی بیما ر بھی ہوتا ہے اور کھانے میں اُس کا شریک ہونا بھی طبائع پر گراں نہیں گذرتا.اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُیُوْتِکُمْ کے متعلق عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اپنے گھر سے تو ہر شخص کھایا ہی کرتا ہے.پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر تم اپنے گھروں سے کھا لیا کرو تو تم پر کوئی الزام نہیں.کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنے گھر سے نہ کھاتا ہو اور اپنے گھر سے کھانا کھانے کے لئے بھی اُسے کسی اجازت کی ضرورت ہو سو یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ بُیُوْتِکُمْ سے اپنے بیٹوں اور بیویوں کے گھر مراد ہیں.اور چونکہ بیٹا اپنے باپ سے الگ نہیں ہوتا اور نہ بیوی اپنے خاوند سے جدا ہوتی ہے اس لئے اُن کے گھروں کو بُیُوْتِکُمْ کہا گیا.یعنی وہ ایسے ہی ہیں جیسے تمہارے اپنے گھر ہیں.یہی وجہ ہے کہ آگے جن بیوت کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں اولاد اور بیویوں کے گھروں کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ انہیں بُیُوْتِکُمْ میں ہی شامل کر لیا گیا ہے.پھر فرماتا ہےلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا.تم پر اس بارہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ناواجب قید نہیں کہ تم اکٹھے مل کر کھائو یا الگ الگ کھائو.تمہارا جی چاہے تو مل کر کھائو اور جی چاہے تو الگ الگ کھا لو.الگ الگ کھانے کی اجازت بتاتی ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس کو ہندوستان کے اس رواج کا پتہ تھا کہ رشتہ دار بھی اکٹھے نہیں کھا سکتے بلکہ سب الگ الگ کھاتے ہیں.مگر اس کے علاوہ جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تم اپنے ان قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں اُن کی اجازت سے بھی کھانا کھا سکتے ہو.اور بن بلائے بھی اُن کے ہاں کھانا کھا سکتے ہو.اجازت کا استنباط تو جمیعًا کے لفظ سے ہوتا ہے کیونکہ جب سب مل کر کھائیں گے تو سمجھا جائےگا کہ گھروالوں نے سب کو کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی.اور بن بلائے کھانا کھانے کا جواز اَشْتَاتًا سے نکلتا ہے.کیونکہ جب کوئی شخص اکیلا کھائےگا تو سمجھا جائےگا کہ وہ بن بلائے آکر کھا رہا ہے.غرض بتایا کہ اکٹھا کھانا کھانا بھی تمہارے لئے جائز ہے یعنی اجازت سے اور الگ الگ بھی.یعنی بغیر اجازت

Page 623

کے تاکہ تمہارے آپس کے تعلقات بڑھیں اور تم محبت اور پیار سے رہ سکو.پھر اس بارہ میں اللہ تعالیٰ ایک اور اہم ہدایت دیتا ہے اور فرماتا ہے.فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً.یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو پہلے اپنے آپ کو سلام کر لیا کرویعنی اپنے اُن رشتہ داروں اور دوستوں کو سلا م کہو جو اُن مکانوں میں رہتے ہیں اور یاد رکھو کہ یہ سلام تمہارے مونہہ کا سلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا تحفہ ہے یعنی سلام کا لفظ بظاہر تو معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن ہے بڑے عظیم الشان نتائج پید اکرنے والا کیونکہ سلام کے لفظ کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے.پس جب تم کسی بھائی کو سلام کہتے ہو تو تم نہیں کہتے بلکہ خدا تعالیٰ کی دُعا اُسے پہنچاتے ہو.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں لوگ عموماً اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم نہیں کہتے گویا اُن کے نزدیک دوسروں کے لئے تو یہ دُعا ہے لیکن اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لئے نہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ جب بھی اپنے گھروں میں جائیں السلام علیکم کہا کریں.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جب بھی ایک شخص دوسرے شخص سے ملے اُسے سلام کرے خواہ اس کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو (نسائی کتاب الایمان و شرائعہ باب ایّ الاسلام خیر) مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کا ایک طبقہ سلام کو بالکل ترک کر بیٹھا ہے.ایسے لوگ سلام کہنے کی بجائے آداب وغیرہ الفاظ استعمال کرتے ہیں.اور جو شخص اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے پتھر ماردیا حالانکہ وہ خود اسلام کے ایک حکم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا انکار کرکے اپنے اوپر پتھر گراتے ہیں اور جو مرہم ہے اسے پتھر سمجھتے ہیں.السلام علیکم کے معنے یہ ہیں کہ تم پر خدا تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو اور تمہارے زخم مندمل ہوں مگر نادان کہتے ہیں کہ پتھر مار دیا اب بتائو کہ اس شخص سے زیادہ احمق اور کون ہو سکتا ہے جو مرہم کا نام پتھر رکھے.پس ایک طبقہ تو ایسا ہے جو سلام کو بالکل ترک کر بیٹھا ہے.اور دوسرا ایسا ہے جو تارک تو نہیں لیکن اس کی حقیقت سے ناواقف ہے.ایسے لوگ مجلس میں آئیں گے اور چُپ کر کے بیٹھ جائیں گے گھروں میں داخل ہو ںگے اور خاموشی کے ساتھ داخل ہو جائیں گے اور انہیں خیال بھی نہیں آئےگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس موقعہ کے لئے کوئی حکم ہے ؟ اور اگر توجہ دلائی جائے تو بعض کہہ دیں گے کہ معمولی بات ہے اگر سلام نہ کہا تو کیا ہوا.بعض کہیں گے کہ حیا کی وجہ سے نہیں کہا.بعض کہیں گے کہ ہمیں عادت نہیں مگر یہ تینوں قسم کے لوگ نادان ہیں.حیاء کے معنے ہیں رُکنا اور رُکنا ایسی باتوں سے چاہیے جو مضر ہوں نہ کہ اُن سے جو فائدہ مند ہوں پھر قرآن کریم میں اور کسی چیز کو اس رنگ میں تحفہ نہیں کہا گیا جیسے سلام کو تحفہ کہا گیا ہے حتّٰی کہ مرنے کے بعد بھی جو تحفہ

Page 624

خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے گا وہ بھی یہی ہوگا کہ فرشتے آکر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلام کہیں گے.اگر کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی یہ کہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں کسی کو سلام کہوں تو ہم کہیں گے کہ جب خدا تعالیٰ بھی اپنے مومن بندوں کو سلام پہنچا ئےگا تو اور کون ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی ضرورت نہ سمجھے.سب سے پہلی چیز جو بندہ کو خدا تعالیٰ کی ملاقات کے وقت حاصل ہوگی وہ یہی سلام ہے.پھر احادیث میں لکھا ہے کہ جبریل علیہ السلام جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ کو سلام کہتے (تاریخ الخمیس طلوع جبریل مجلس نبی صلی اللہ علیہ وسلم).اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو دیکھ کر سلام کہتے.اب ان سے بڑا اور کون ہے جسے سلام کہنے کی ضرورت نہ ہو.لیکن بہت لوگ ہیں خصوصًا انگریزی تعلیم یافتہ جو سلام کو بہت حقیر چیز سمجھتے ہیں اور وہ اپنے عمل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل ؑ حتّٰی کہ خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بڑا قرار دیتے ہیں کیونکہ جس حکم کو بہت سی حکمتوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی رکھا ہے اور جس کی تاکید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے.اس سے یہ لوگ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں.اوّل تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے ہیں یا ایک دوسرے سے ملیں گے تو کہیں گے مولوی صاحب اور دوسرا اس کے جو اب میں کہہ دےگا.بھائی صاحب یا کہہ دیں گےسنائو جی کیا حال ہے لیکن شریعت کا یہ منشاء نہیں.شریعت نے السلام علیکم کہنا ضروری قرار دیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باہمی اتحاد کا ذریعہ قرار دیا ہے.صحابہ ؓ اس کے اس قدر پابند تھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی ؓ دوسرے صحابی ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے آئو بازار چلیں اُس صحابی ؓ نے سمجھا کہ کوئی کام ہوگا.لیکن وہ بازار میں سےگھوم کر یونہی چلے آئے.نہ کوئی کام کیا اور نہ کوئی چیز خریدی.دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہنے لگے آئو بازار چلیں اُس صحابی ؓ نے کہا اُس دن تو آپ نے نہ کوئی چیز خریدی اور نہ کوئی اور کام کیا.آج کوئی خاص کام ہے یا یونہی ساتھ لے چلے ہیں.انہوں نے کہا میں بازار اس لئے جاتاہوں کہ کئی دوست ملتے ہیں وہ ہم کو سلام کہتے ہیں اور ہم اُن کو سلام کہتے ہیں.تو صحابہ ؓ بازاروں میں صرف سلام کہنے کے لئے بھی جاتے تھے(الادب المفرد للبخاری باب من خرج یسلِّم و یسلَّم علیہ) تمہیں بھی چاہیے کہ بازاروں میں محلوں میں مجلسوں میں اور گھروں میں جہاں کسی کو ملو سلام کہو.جاننے والوں کو بھی سلام کہو اور نہ جاننے والوں کو بھی سلام کہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سَلِّمْ عَلیٰ مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (بخاری کتاب الاستئذان باب السلام للمعرفة و غیر معرفة)یعنی سب کو سلام کہیں خواہ کوئی واقف ہو یا نہ ہو.غرض سلام کہنا ایک بہت بڑی نیکی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوتِ اسلامی کے قیام کے لئے

Page 625

اسے ضروری قرار دیا ہے.پس تم سلام کو چھوٹی اور معمولی بات سمجھ کر نہ چھوڑ و بلکہ اس کی نگہداشت کرو.کیونکہ شریعت نے اسے ایک اسلامی شعار قرار دیا ہے.وہ لوگ جو بڑے درجوں پرہیں انہیں چاہیے کہ چھوٹوں کو سلام کیا کریں اور چھوٹوں کو چاہیے کہ بڑوں کو سلام کیا کریں.یہ نہ ہو کہ کوئی بھی سلام نہ کہے اور دونوں خاموشی سے گذر جائیں بلکہ میرے نزدیک بڑوں کو سلام کرنے میں سبقت اختیار کرنی چاہیے تاکہ انہیں دیکھ کر دوسروں کو بھی توجہ پید اہو اور وہ بھی اس قومی شعار کو اختیار کر لیں.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا صرف وہی لوگ مومن کہلانے کہ مستحق ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی قومی کام کے لئے كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى اس (رسول) کے پاس بیٹھے ہوں تو اُٹھ کر نہیں جاتے جب تک اُس کی اجازت نہ لے لیں.وہ لوگ جو يَسْتَاْذِنُوْهُ۠١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ کہ اجازت لے کر جاتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں.پس جب وہ اپنے کسی يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ اہم کام کے لئےاجازت لیں تو اُن میں سے جن کے متعلق تو چاہے انہیں شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اجازت دے دے اور اللہ( تعالیٰ) سے اُن کے لئے بخشش مانگ اور اللہ( تعالیٰ) یقیناً اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۶۳ بہت بخشنے والا (اور) با ر بار رحم کرنےوالا ہے.تفسیر.اس آیت میں قومی نظام کو درست رکھنے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب مومن کسی قومی مشورہ

Page 626

کے لئے سردار قوم کے پاس جمع ہو ں تو اس کی اجازت کے بغیر مجلس سے نہ جائیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ مومن ہوںگے ورنہ نہیں.پھر سردارِ قوم کو بھی ہدایت دی کہ اگر مشاورت میں جمع ہونے والے لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے کسی ضروری کا م کے لئے اجازت مانگے تو اسے اجازت دے دیں.لیکن قومی مشورہ کے وقت کسی ایسی ضرورت کا پیش آجانا جس کی وجہ سے مجلس شوریٰ کو چھوڑنا پڑے یہ بھی کسی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہو تا ہے اس لئے اے سردارِ جماعت تو ایسے موقع پر اجازت تو دے دیا کر مگر چونکہ وہ ضرورت جس کے لئے وہ اجازت مانگتے ہیں اُن کی کسی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہوگی یا قومی مجلس سے اُٹھ جانے کی وجہ سے وہ لوگ سردارِ جماعت کی صحبت اور اس کے مشورہ سے اور مل کر کام کرنے سے محروم رہیں گے اور اس طرح اُن کے علم اور تجربہ میں کمی آجائے گی اس لئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کر کہ یہ لوگ اس کے بد اثرات سے بچ جائیں.اور اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہی کا ازالہ فرما دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کو اس شدت کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ انہیں طبعی ضروریات کے لئے بھی مجلس سے بلا اجازت جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.ایسی حالت میں صحابہ ؓ سِرک کر سامنے آجاتے یا انگلی اُٹھا دیتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ جاتے کہ کوئی حاجت ہے اور ہاتھ کے اشارہ سے اجازت دے دیتے (الدرالمنثور زیر آیت ھٰذا)مگر اس زمانہ میں عام طور پر اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ ٔ اوّل رضی اللہ عنہ ایک دفعہ لاہور تشریف لے گئے جب آپ نے واپس قادیان آنے کا ارادہ فرمایا تو چونکہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے ابھی وہاں کچھ دن اور ٹھہرنا تھا اس لئے آپ نے مجھے لاہو رمیںہی ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم اُن کے ساتھ آجانا ،جب میں آیا اور آپ کے پاس آکرمیں نے السلام علیکم کہا تو میرے سلام کا جواب دینے سے بھی پہلے آپ نے فرمایا.میاں تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو ا.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ جتنے آدمی تھے وہ سارے ہمیں بٹالہ چھوڑ کر آگئے.اس سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں نے امر جامع کے متعلق جو قرآنی حکم تھا اس پر عمل نہ کیا.خلیفہ ٔ وقت کا وجود تو ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا اثر سارے عالمِ اسلام پر پڑتا ہے اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا اثر لازماً سب جماعت پر پڑےگا.اس لئے اس بارہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ تو اس سختی کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوڑی دیر کے لئے بھی ادھر اُدھر ہونا اُن کے لئے ناقابلِ برداشت ہو جاتا تھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے کرتے مجلس سے اُٹھے اور تھوڑی دیر تک واپس نہ آئے تو سب صحابہ ؓ آپ کی تلاش میں بھاگ پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 627

ایک باغ میں تشریف لے گئے تھے وہ سب کے سب آپ کے پیچھے اُٹھ کر چلے گئے اور انہیں اُس وقت ایسی گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں گھبراہٹ میں مجھے باغ کے اند ر جانے کا راستہ بھی نظر نہ آیا اور میں گندے پانی کی نالی میں سے گذر کر اند ر داخل ہوا حالانکہ عموماً انہیں کمزور دل سمجھا جاتا تھا (مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا).حقیقت یہ ہے کہ دین کے کام دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور دوسرے ایسے احکام جو تمام لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے جہاد یا مشورہ کے لئے قوم کا جمع ہونا یا کوئی ایسا حکم جو ساری جماعت کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہو جو کام ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں افراد سے نہیں اُن میں سب کو ایسا پرو یا ہوا ہونا چاہیے جیسے تسبیح کے دانے ایک تاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں.کسی کو ذرا بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا چاہیے اور اگر کوئی ضروری کا م کے لئے جانا چاہے تو امام کی اجازت سے جائے.اسی حقیقت کو تصویری زبا ن میں ظاہر کرنے کے لئے لوگ جب تسبیح کے دانے پروتے ہیں تو تاگے کے دونوں سرے اکٹھے کر کے ایک لمبا دانہ پرودیتے ہیں اور اُسے امام کہتے ہیں.درحقیقت اس سے قومی تنظیم کی اہمیت کی طرف ہی اشارہ ہوتا ہے اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح تسبیح کے دانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے اسی طرح تمہیں بھی ہمیشہ ایک امام کے پیچھے چلنا چاہیے ورنہ تمہاری تسبیح وہ نتیجہ پیدا نہیں کر سکے گی جو اجتماعی تسبیح پیدا کیا کرتی ہے لیکن بہت کم ہیں جو اس گُر کو سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ شخص مومن ہی نہیں ہو سکتا جو ایسے امور میں جو ساری جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اپنی رائے اور منشاء کے ماتحت کام کرے اور امام کی کوئی پروا نہ کرے مومن کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اگر کوئی دینی کام ہو تو اجازت لے لے اور اگر کوئی اہم دنیوی کام ہو جس کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہو تو امام سے مشورہ لے لے بہرحال امر جامع سے علیٰحدہ ہونے کے لئے استیذان ضروری ہوتا ہے.مگر چونکہ انسان کا امر جامع سے علیٰحدہ ہونا اس کی شامتِ اعمال کی وجہ سے ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسے اجازت تو دےدو مگر ساتھ ہی دعا کیا کرو کہ خدا تعالیٰ اُسے معاف کرے اور اس کی کمزوریوں کو دُور کرے.

Page 628

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ (اے مومنو!) یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا.بَعْضًا١ؕ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا١ۚ اللہ (تعالیٰ) اُن لوگوں کو جانتا ہے جو کہ تم میں سے پہلو بچا کر (مشورہ کی مجلس سے) بھاگ جاتے ہیں.پس چاہیے فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ کہ جو اس (رسول) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس سے ڈریں کہ ان کو خدا(تعالیٰ) کی طرف سے فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۶۴ کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا اُن کو دردناک عذاب نہ پہنچ جائے.حلّ لُغَات.یَتَسَلَّلُوْنَ.تَسَلَّلَ مِنَ الزِّحَامِ کے معنے ہیں اِنْطَلَقَ فِیْ اسْتِخْفَآءٍ.اجتماع سے خاموشی سے پوشیدہ ہو کر نکل گیا.( اقرب) یَتَسَلَّلُوْنَ تَسَلَّلَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.پس اس کے معنے ہوں گے وہ پوشیدہ طور پر مجلس سے چلے جاتے ہیں.لِوَاذًا.لِوَاذٌ لَاَذَ کا مصدر ہے اور لَاَ ذَ لِوَاذً ا کے معنے ہوتے ہیں اِسْتَتَرَبِہٖ.وہ اس کے ذریعہ سے چُھپا.( اقرب) تفسیر.فرماتا ہے امام کی آواز کے مقابلہ میں افراد کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی.تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز آئے تم فوراً اُس پر لبیک کہو اور اُس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے بلکہ اگر انسان اُس وقت نماز پڑ ھ رہا ہوتب بھی اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی آواز کا جواب دے.ہمارے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایسا ہی کیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آواز دینے پر فوراً نماز توڑ دی اور آ پ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور غالباً میر مہدی حسین صاحب ؓ اور میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ نے بھی ایسا ہی کیا تھا.بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے

Page 629

یہی آیت پڑھ کر انہیں جواب دیا تھا.بہر حال نبی کی آواز پر فوراً لبیک کہنا ایک ضروری امر ہے بلکہ ایمان کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت ہے چونکہ پچھلی آیات سے خلافت ِ اسلامیہ کے متعلق مضمون بیا ن کیا جا رہا ہے اور تمام احکام نظام اسلام کی مضبوطی کے متعلق دئے گئے ہیں اس لئے اس آیت میں بھی اسی مضمون کو جاری رکھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مومنو! اگر کبھی خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلائے تو اس کے بلانے کو دوسروں کے بُلانے جیسا مت سمجھو بلکہ فوراً اُس کی آواز پر لبیک کہا کرو.گویا بتا یا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو الگ الگ حیثیتیں ہیں.ایک افسرِ دنیوی ہونے کی اور ایک نبی ہونے کی.دنیوی رئیس ہونے کے لحاظ سے بھی اُس کے احکام کو ماننا ضروری ہے مگر رئیسِ دینی ہونے کے لحاظ سے تو اُس کی آواز پر لبیک کہنا اور بھی مقدم ہے.یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفئہ رسولؐ اللہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اُس کی آواز پر جمع ہو جانا بھی ضروری ہوتا ہے اور اُس کی مجلس سے بھی چپکے سے نکل جانا بڑ ا بھاری گنا ہ ہوتا ہے.دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگِ حنین کے موقعہ پر جب مکہ کے کافر لشکر اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہوگئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنوثقیف کے حملہ کی تاب نہ لا کر میدانِ جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگر دصرف بارہ صحابی ؓ رہ گئے.اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھاگڑ مچ گئی اور کفار کا لشکر جو تین ہزار تیراندازوں پر مشتمل تھا آپ کے دائیں بائیں پہاڑیوں پر چڑھا ہو ا آپ پر تیر برسا رہا تھا.مگر اُس وقت بھی آپ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے.حضرت ابو بکر ؓ نے گھبرا کر آپ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری جان آپ پر قربان ہو.یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں.ابھی لشکرِ اسلام جمع ہو جائےگا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے.مگر آپ نے بڑے جو ش سے فرمایا کہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑی لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ یعنی میں موعو د نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے جھوٹا نہیں ہوں.اس لئے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا میں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا ( یعنی پوتا ) ہوں.آپ کے چچا حضرت عباس ؓ کی آواز بہت اونچی تھی.آپ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا ! عباس ؓ آگے آئو اور آواز دو اور بلند آواز سے پکارو کہ اے سورۂ بقرہ کے صحابیو! ( یعنی جنہوں نے سورۂ بقرہ یاد کی ہوئی ہے ) اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو ! خدا کا رسول تم کو

Page 630

بلاتا ہے.ایک صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتنا ہم روکتے تھے اتناہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں.یہاں تک کہ عباس ؓ کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ ’’ اے سورۂ بقرہ کے صحابیو! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.‘‘ یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہوں.اور اسرافیل کا صور فضا میں گونج رہا.میں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اُس کا سر پیٹھ سے لگ گیا.لیکن وہ اتنا بِدکا ہوا تھا کہ جونہی میں نے لگا م ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا.اس پر میں نے اور میرے بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنا شروع کر دیا.اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ ؓ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جارہا تھا آپ کے گِرد جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اُس نے دشمن کا تہس نہس کر دیا.اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بد ل گئی ( عمدة القاری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی باب قول اللہ ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم و السیرة الحلبیة باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ و سلم غزوة حنین).قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ١ۙ وَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ.ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ( التوبۃ: ۲۵.۲۶ )یعنی اللہ تعالیٰ نے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کی ہے.خصوصًا حنین کی جنگ کے دن جبکہ تمہاری کثرت نے تم کو متکبر بنا دیا تھا.پھر وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی اور تم نے پیٹھ دکھاتے ہوئے منہ پھیر لیا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی سکینت اپنے رسول اور مومنوں پر اتاری اور ایسے لشکر آسمان سے نازل کئے جن کو تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کفار کو عذاب دیا اور یہی کفّا ر کی جزاء ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی اہمیت پر اور زیادہ زور دیتا اور فرماتا ہے کہ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.یعنی جو لوگ اس رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا وہ کسی دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں.چنانچہ دیکھ لو جنگِ اُحد میں اس حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے اسلامی لشکر کو کتنا نقصان پہنچا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر فرمائے تھے اور یہ درہ اتنا اہم تھا کہ آپ نے اُن کے افسر

Page 631

عبداللہ بن جبیر ؓ انصاری کو بلا کر فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا مگر جب کفار کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کردیا تو اُس درہ پر جو سپاہی مقرر تھے.انہوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو فتح ہو چکی ہے.اب ہمارا یہاں ٹھہرنا بے کار ہے ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی جہاد میں شامل ہونے کا ثواب لے لیں.اُن کے افسر نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا اس لئے میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتا.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ خواہ فتح ہو جائے پھر بھی تم نے نہیں ہلنا.آپ کا مقصد تو صرف تاکید کرنا تھا.اب جبکہ فتح ہو چکی ہے ہمارا یہاں کیا کام ہے.چنانچہ انہوں نے خدا کے رسول کے حکم پر اپنی رائے کو فو قیت دیتے ہوئے اُس درّہ کو چھوڑ دیا.صرف ان کا افسر اور چند سپاہی باقی رہ گئے جب کفار کا لشکر مکہ کی طرف بھاگتا چلا جا رہا تھا تو اچانک خالد بن ولید ؓ نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو درہ کو خالی پایا.انہوں نے عمر و بن العاص ؓ کو آواز دی یہ دونوں ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے اور کہا دیکھو کیسا اچھا موقعہ ہے آئو ہم مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیں چنانچہ دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے.چند مسلمان جو وہاں موجود تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کو انہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اسلامی لشکر پر پشت پر سے حملہ کر دیا.کفار کا یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ مسلمان جو فتح کی خوشی میں اِدھر اُدھر پھیل چکے تھے اُن کے قدم جم نہ سکے.صرف چند صحابہ ؓ دوڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گر دجمع ہوگئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ بیس تھی.مگر یہ چند لوگ کب تک دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے.آخر کفار کے ایک ریلے کی وجہ سے مسلمان سپاہی بھی پیچھے کی طرف دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تن تنہا رہ گئے.اسی حالت میں آپ کے خود پر ایک پتھر لگا جس کی وجہ سے خود کے کیل آپ کے سر میں چُبھ گئے اور آپ بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں گِر گئے جو بعض شریروں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچانے کے لئے کھود کر ڈھانپ رکھے تھے.اس کے بعد کچھ اور صحابہ ؓ شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم مبارک پر جا گریں اور لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں.مگر وہ صحابہ ؓ جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفّا ر کے پیچھے ہٹتے ہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے آپ کو گڑھے میں سے باہر نکالا.تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیا اور آپ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دئیے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہوجائیں اور آپ انہیں ساتھ

Page 632

لےکر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد والطبقات الکبرٰی لابن سعد غزوة رسول اللہ احدا).اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لئے لگا کہ اُن میں سے چند آدمیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کر دیا.اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے.اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہیں.اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اُس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑ تے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا.اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ کو کوئی نقصان پہنچتا.اللہ تعالیٰ اس آیت میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجالاتے اور ذاتی اجتہادات کو آپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں.انہیں ڈرنا چاہیے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آجائے یا وہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں.گویا بتایا کہ اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اُٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائو.جب تک یہ روح زندہ رہے گی مسلمان بھی زندہ رہیں گے اور جس دن یہ روح مٹ جائےگی اُس دن اسلام تو پھر بھی زندہ رہے گا مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اُن لوگوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کرنے والے ہوںگے.اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قَدْ يَعْلَمُ مَاۤ اَنْتُمْ سُنو ! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کا ہی ہے جس (مقام) پر تم( کھڑے) ہو اس کو بھی اللہ ہی جانتا ہے عَلَيْهِ١ؕ وَ يَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا١ؕ اور جس دن وہ لوگ اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ اُن کو ان کے اعمال کا حال بتائےگا

Page 633

وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌؒ۰۰۶۵ اور اللہ( تعالیٰ) ہر ایک چیز کو خوب جانتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے یہ مت خیال کرو کہ تمہاری ترقیات خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑ کر بھی ہو سکتی ہیں.مان لیا کہ عقلی طور پر دنیا میں ترقی کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں لیکن آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ خدا ہی کا ہے اگر تم اس کے ہو جائو گے تو وہ زمین و آسمان تمہارے حوالے کر دےگا.لیکن اگر تم خدائی احکام کی اتباع نہیں کرو گے تو تم خدا کا مقابلہ کر کے کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتے اور یہ مت سمجھو کہ وہ بغیر کسی حکمت کے احکام دے دیتا ہے.وہ تمہارے حالات کو خوب جانتا ہے اور تمہاری ضروریا ت کو مدنظر رکھ کر ہی احکام نازل کرتا ہے.پس ان پر عمل کرنے سے تمہیں یقیناً ترقی اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.اور اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ اگر ہم نے خدائی احکام کو مانا تو ہمیں فلاں فلاں تکلیف پہنچے گی.ہمارے رشتہ دار ہمارے مخالف ہو جائیں گے.ہماری ملازمتیں جاتی رہیں گی ہماری تجارتوں کو نقصان ہوگا.ہماری عزت اور شہرت خطرہ میں پڑ جائےگی تو جب کہ خدا تعالیٰ نے جزاء و سزا کا ایک دن مقرر کیا ہو ا ہے تو تمہیں گھبراہٹ کس بات کی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اعلیٰ درجہ کے انعامات سے نواز ےگا اور تمہیں اپنے قرب سے حصہ دےگا.ہاں اگر نافرمانی کرو گے تو یاد رکھو کہ تم اُس کی سزا سے نہیں بچ سکو گے.خ خ خ خ

Page 634

Page 635

Page 636

Page 637

Page 638

Page 639

Page 640

Page 641

Page 642

Page 643

Page 644

Page 645

Page 646

Page 647

Page 648

Page 649

Page 650

Page 651

Page 652

Page 653

Page 654

Page 655

Page 656

Page 657

Page 658

Page 659

Page 660

Page 661

Page 662

Page 663

Page 664

Page 665

Page 666

Page 667

Page 668

Page 669

Page 670

Page 671

Page 672

Page 673

Page 674

Page 675

Page 676

Page 677

Page 678

Page 679

Page 680

Page 681

Page 682

Page 683

Page 684

Page 685

Page 686

Page 687

Page 688

Page 689

Page 690

Page 691

Page 692

Page 693

Page 694

Page 695

Page 696

Page 697

Page 698

Page 699

Page 700

Page 701

Page 702

Page 703

Page 704

Page 705

Page 706

Page 707

Page 708

Page 709

Page 710

Page 711

Page 712

Page 713

Page 714

Page 715

Page 716

Page 717

Page 718

Page 719

Page 720

Page 721

Page 722

Page 723

Page 723

← Previous BookNext Book →