Language: UR
مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ
سُوْرَۃُ الْکَوْثَرِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ کوثر.یہ سورۃ مکی ہے وَھِیَ ثَلٰثُ اٰیَا تٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْـھَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اوراس کی بسم اللہ کے علاوہ تین آیات ہیں اور ایک رکوع ہے سورۃ کوثر مکی سورۃ ہے سورۃ کو ثر اکثر رواۃ کے نزد یک مکی سورتوں میں سے ہے.حسن بصری ؒ، عکرمہؓ اور قتادہ اسے مدنی قرار دیتے ہیں.یوروپین مستشرقین کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے اور اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ آپ کو نعوذباللہ دیوانہ سمجھتے تھے اور اس لئے وہ آپ سے کچھ سرو کار نہیں رکھتے تھے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ یہ شخص عرب کے قومی مذہب کو بگاڑنے کی تدبیریں کر رہا ہے اس کا مقابلہ کرنا چا ہیے، اس لئے وہ آپ کو ایذائیں دیتے، دکھ دیتے اور مارتے پیٹتے تھے.پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی تم مخالفت کروگے اور اسے مارو پیٹو گے تو خواہ مخواہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہو گی.کیونکہ باہر کے لوگ مکہ آتے ہیں جب وہ دیکھتےہیں کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو ایذائیں دیتے ہو، مارتے ہو، پیٹتے ہو تو وہ اس کے متعلق پوچھنے لگ جاتے ہیں اور اس کے معاملہ میں دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں.اس طرح اسے اہمیت اور عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے.گو اس کی باتیں ہمیں پسند نہیں ہیں.گو اس کی تعلیم سارے عرب کے قومی مذہب کے خلاف ہے مگر مصلحتاً ہمیں اسے کچھ نہیں کہنا چاہیے تا اسے اہمیت و عظمت حاصل نہ ہو جائے ان لوگوں میں سے عاص بن وائل بھی تھا جو مکہ کا ایک بڑا سردار تھا.اس کا بھی یہی خیال تھا کہ مخالفت کی وجہ سے چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہمیت حاصل ہورہی ہے اور لوگوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو رہی ہے اس لئے ہمیں مخالفت سےرک جانا چاہیے اور انہیں کچھ نہیں کہنا چاہیے.اگرچہ ہمیں ان کی حرکات پسند نہیں اور اگرچہ ان کی تعلیم ہمارے مذہب کے خلاف ہے.مگر پھر بھی مصلحت اسی میں ہےکہ انہیں کچھ نہ کہیں.چنانچہ عاص بن وائل کہا کرتا تھا کہ دَعُوْہُ اِنَّـمَاھُوَ رَجُلٌ اَبْتَـرُ لَا عَقِبَ لَہٗ لَوْ ھَلَکَ انْقَطَعَ ذِکْرُہٗ وَاسْتَـرَحْتُمْ مِنْہُ (البحر المحیط سورۃ الکوثر) یعنی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو
قرار دیتے ہیں(دلائل النبوۃ للبیھقی باب ذکر سور التی نزلت بمکۃ والتی نزلت بمدینۃ).مغربی مصنف بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں.چنانچہ راڈول، وہیری اور میور یہ تینوں مستشرق اس کے مکی ہونے کے قائل ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس کے زمانہ نزول کو ذرا آگے پیچھے بیان کرتے ہیں.مثلا میور کے نزدیک اس کا وقت نزول قبل از ہجرت زندگی کے آخری زمانہ کے ساتھ ملتا ہے یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے اور ان کی سنگدلی اور بدسلوکی کی وجہ سے واپس آ گئے تو میور کے نزدیک اس وقت یہ سورۃ آپ پر نازل ہوئی تھی (Life of Mohammad page 148) اور یہ واقعہ دسویں سال نبوت کا ہے گویا وہ اس سورۃ کو آخری مکی زندگی کی قرار دیتا ہے.راڈویل اس کو مکی ہی قرار دیتا ہے لیکن کوئی خاص وقت اس کے لئے معین نہیں کرتا (ترجمہ القرآن از راڈویل).اور وہیری جیسا کہ اس کی عام طور پر عادت ہے بات وہی کہہ دیتا ہے جو ہماری تاریخوں میں ہوتی ہے لیکن کوشش کرتا ہے کہ نیش زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دے.اس نے بھی یہی قرار دیا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے لیکن ابتدائی زمانہ کی ہے.صرف اپنی علمیت جتانے کے لئے اتنا فرق بتاتا ہے کہ یہ سورۃ اتنی ابتدائی نہیں جتنی صحابہؓ کہتے ہیں بلکہ اس سے سال بھر پیچھے کی ہے.حالانکہ کوئی شخص یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہو کر اس کو یہ کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ سال بھر پہلے کی ہے یا بعد کی.اس قسم کا قول محض تمسخر ہوتا ہے.وہ کہتا ہے اسلام کا جو دوسرا دور تھا یعنی ہجرت حبشہ کا.اس کے ابتداء میں یہ نازل ہوئی اور پھر کچھ عرصہ تک نازل ہوتی چلی گئی.گویا وہ اس کو پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیتا ہے.لیکن سند کوئی نہیں بیان کرتا.(کمنٹری اَون دی قرآن وہیری جلد سوم) اس بارہ میں حدیثوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اور درحقیقت وہی اصل روایات ہیں جن پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے.کیونکہ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور جنہوں نے اس زمانہ کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہی صحیح گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی.وہ یہی ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی سورۃ ہے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ابتدائی صحابہؓ میں سے تھے وہ اس سورۃ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ سورۃ میرے ابتدائی اموال میں سے ہے.بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓکے متعلق آتا ہے کہ قَالَ: فِی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَالْکَھْفِ وَ مَرْیَمَ: اِنَّھُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ وَ ھُنَّ مِنْ تِلَادِیْ (بخاری کتاب التفسیر باب وقولہ: و منکم من یرد الی...) یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ سورۂ بنی اسرائیل ، سورئہ کہف اور سورئہ مریم یہ ابتدائی زمانہ میں نازل ہونے والی سورتوںمیں سے ہیں.وَ ھُنَّ مِنْ تِلَادِی اور یہ میرے پرانے اموال میں سے ہیں.یعنی جب میں ابتداء میں اسلام لایا تو اس
اور اس وقت یہ سورۃ ان کے خیال کی تردید میں نازل ہوئی تھی.(روح المعانی زیر آیت اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ) لیکن جب روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے تو محض ابتر کے لفظ سے یہ قیاس کر لینا کہ یہ سورۃ مدنی ہے درست نہیں.کفار آپ کے بیٹے ابراہیم کی پیدائش تک کیوں خاموش رہے تھے.ابراہیم آپؐکی وفات سے تین سال پہلے پیدا ہوئے تھے گویا آپ کی وفات سے تین سال قبل تک آپ کو کوئی بھی ابتر نہیں کہتا تھا.کون عقلمند یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو اور وہ وفات پائے تو پھر آپ کو ابتر کہیں.ابراہیم کی پیدائش سے پہلے بیس سال میں بھی تو آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور پھر آپ پر بڑھاپا بھی آیا ہوا تھا.اس وقت کفار نے آپ کو ابتر کیوں نہیں کہا.جب ابراہیم کی پیدائش تک وہ انتظار کرتے رہے تو اس کی وفات کے بعد انہوں نے کیوں انتظار نہیں کیا.ابراہیم ڈیڑھ سال کی عمر میں فوت ہوئے تھے تو کیا اس کے بعد آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہوسکتی تھی.کیا ڈیڑھ سال کے عرصہ میں انسان ناکارہ ہو جاتا ہے؟ یہ محض قیاسات ہیں عقل ان کی تائید نہیں کرتی.یہ سورۃ میرے مقرر کردہ اصول کے مطابق (جو میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی آخری چند سورتوں میں سے باری باری ایک سورۃ زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری زیادہ تر آپ کی امت کے آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ سے تعلق رکھتی ہے.یہ ضروری نہیں کہ جو سورۃ آپؐکے ابتدائی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو اس میں آپؐکی امّت کے آخری زمانہ کا ذکر نہ ہو یا جو سورۃ آپؐکی امت کے آخری زمانہ سے تعلق رکھتی ہو اس میں آپ کے ابتدائی زمانہ کا ذکر نہ ہو ذکر تودونوں زمانوں کا پایا جا سکتا ہے.لیکن مضمون میں زیادہ تر اہمیت ابتدائی زمانہ کو ہو گی یا آخری زمانہ کو ہوگی.چونکہ سورۃ ماعون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے آخری زمانہ کے ساتھ متعلق ہے جبکہ اس کی حالت خراب ہوجانی تھی اور آپ کی امّت کے ایک حصہ نے ریا کی نمازیں پڑھنے لگ جانا تھا.یعنی نمازوں کا مغز جاتے رہنا تھا اور آپ کی امت نے دیگر خرابیوں کا شکار ہوجانا تھا اس لئے اب سورۂ کوثر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے.سورۂ کوثر کے بعد صرف چھ چھوٹی چھوٹی سورتیں باقی رہ جاتی ہیں.میرے نزدیک چونکہ اب قرآن کریم کا خاتمہ نزدیک آگیا ہے اس لئے جیسا کہ سمجھ دار مصنّفوں کا قاعدہ ہے کہ وہ کتاب کے آخر میں آکر مضمون کو سمیٹتے ہیں کبھی خلاصہ بیان کرتے ہیں اور کبھی مضمون کے مغز کو بیان کرتے ہیں تا وہ قارئین پر اثر ڈال سکیں.اسی طرح قرآن کریم اب خاتمہ کے قریب آپہنچا ہے.اس سورۃ کے بعد صرف چھ سورتیں باقی رہ جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ
ضعف پہنچتا ان کو ایسا ٹھکانا میسر آ گیا ہے کہ اب وہ ہمارے خلاف بڑی آسانی کے ساتھ پروپیگنڈا کریں گے اور ہماری ہمسایہ حکومت کو ہمارے خلاف اکسائیں گے.چنانچہ اس کے انسداد کے لئے انہوں نے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ ایک وفد حبشہ جائے اور اس کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف بھیجے جائیں جو بادشاہ اور اس کے امراء اور پادریوں وغیرہ کے لئے ہوں.یہ وفد بادشاہ کے سامنے پیش ہو اور اسے کہے کہ تم ہمارے ہمسایہ ہو اور تمہارے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں.لیکن اب ہماری قوم کے کچھ باغی تمہارے ملک میں آ کر پناہ گزیں ہو گئے ہیں ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دو اور واپس مکہ میں بھجوا دو اور تجویز کی کہ اسی موقعہ پر بادشاہ اور اس کے درباریوں کو تحائف دئیے جائیں تاکہ ان کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ ان لوگوں کو واپس کر دیں.چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا.اس وفد میں حضرت عمرو بن العاص بھی جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے شامل تھے.عمرو بن العاص بڑے لَسّان آدمی تھے اور عام طور پرحکومت کی طرف سے جو ڈیپوٹیشن جاتے تھے ان میں عمرو بن العاص ضرور شامل ہوتے تھے.چنانچہ بعض اور جگہوں پر بھی مکہ والوں نے ان کو بھیجا ہے.انہوں نے نجاشی بادشاہ حبشہ کے سامنے بڑی عمدہ تقریر کی اور کہا بادشاہ سلامت آپ ہمارے ہمسائے ہیں.یمن میں آپ کی حکومت ہے اور یمن اور حجاز ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اس وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے.مگر اب یہ ایک نیا فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کے کچھ بھگوڑے آپ کے ملک میں آ گئے ہیں اور آپ نے ان کو پناہ دے دی ہے.ہم حیران ہیں کہ آپ نے ہمارا ہمسایہ اور تعلق دار ہو کر ہمارے دشمنوں کو پناہ کس طرح دے دی ہے.آپ انہیں مکہ میں واپس بھجوا دیں تاکہ ہمارے تعلقات آپ سے بدستور اچھے رہیں.اور ان میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو.بادشاہ نے کہا میں ان لوگوں کو بلوا کر اور ان سے پوچھ کر فیصلہ کروں گا.چنانچہ مسلمان مہاجرین کو بلوایا گیا اور بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا جھگڑا ہے صحابہؓ نے کہا ہمارا ا ن سے کوئی سیاسی جھگڑا نہیں صرف مذہبی اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا جسے ہم نے قبول کر لیا.اب یہ لوگ ہمیں ہمارے مذہب کے مطابق عبادت کرنے نہیں دیتے اور مذہبی معاملات میں دخل دیتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور یہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہم عبادت کرتے ہیں اس طرح عبادت کرو اور چونکہ ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے یہ برا مناتے اور ہمیں دکھ دیتے ہیں.جس سے مجبور ہو کر ہمیں اپنا ملک اور اپنی قوم چھوڑنے پڑے.بادشاہ پر اس کا نیک اثر ہوا اور اس نے کہا عقائد میں اختلاف تو ہوا ہی کرتا ہے اس بنیاد پر ہم مسلمانوں کو واپس نہیں کر سکتے (تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲صفحہ۳۲) اور اس نے مسلمانوں سے کہا کہ تم میرے ملک میں آزادی
سے رہو اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرو.جب یہ جواب ممبران وفد نے سنا تو انہوں نے وہ تحائف استعمال کئے جو مکہ والوں نے انہیں دئیے تھے چنانچہ بڑے بڑے بطریقوں اور پادریوں کو انہوں نے تحفے دئیے (بطریق درحقیقت Patriarchکا عربی تلفظ ہے جو ایک بڑے پادری کو جو اپنے حلقہ میں قریباً پوپ کی حیثیت رکھتا ہے کہا جاتا ہے) اور انہیں اکسایا کہ یہ دراصل تمہارے بھی دشمن ہیں اور ہمارے بھی.کیونکہ ان کے خیالات اور عقائد عیسائیت کے سخت خلاف ہیں.اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں.اگر تم ان لوگوں کو حبشہ میں رہنے کا موقع دو گے تو تم عیسائیت سے دشمنی کرو گے.اس اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں جیسا کہ آج کل ہمارے خلاف لوگوں کو جوش آ جاتا ہے ان کا بھی مشتعل ہو جانا ایک لازمی امر تھا.چنانچہ انہیں غصہ آیا اور انہوں نے تجویز کی کہ دوسرے دن پھر بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ رکھا جائے.چنانچہ دوسرے دن جب دربار لگا تو بڑے بڑے پادریوں نے پھر اس سوال کو اٹھایا اور انہوں نے نجاشی سے کہا کہ یہ معاملہ خالی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی بھی ہے کیونکہ یہ لوگ مذہباً مکہ والوں کے ہی خلاف نہیں بلکہ ہمارے بھی خلاف ہیں اور مسیح اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہیے.بادشاہ نے ان کو پھر بلوایا اور پوچھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہو.کیا یہ درست ہے؟ اس پر حضرت جعفرؓ جو رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور حضرت علیؓ کے سگے بھائی تھے مسلمانوں کی طرف سے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا.اے بادشاہ! میں آپ کو اپنی مذہبی کتاب کی چند آیتیں سنا دیتا ہوں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے.آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ ہم ان کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں.چنانچہ انہوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں.جب انہوں نے یہ آیتیں سنائیں.تو چونکہ عام طور پر عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے اور ان کی والدہ کے متعلق خدا کی والدہ ہونے کا خیال پایا جاتا تھا اور ایبے سینیا میں یہ مشرکانہ خیالات زیادہ تھے اس لئے پادریوں نے شور مچا دیا کہ ہمارے مسیح کی ہتک کی گئی ہے.مگر بادشاہ کا یہ مذہب نہیں تھا.وہ یونیٹیرین خیالات کا تھا جو خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بعد میں مسلمان بھی ہو گیا تھا.اس نے کہا مسلمان جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے.بلکہ تاریخوں میں لکھا ہے اس نے ایک تنکا اٹھا کر کہا خدا کی قسم جو کچھ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے میں مسیح اور اس کی والدہ کو اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا.اس پر پادری اور زیادہ جوش میں آ گئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی
اور آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا ہو جائے گا.جب انہوں نے یہ کہا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی تو نجاشی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا میں چھوٹا تھا کہ تم نے میرے چچا سے مل کر مجھے بادشاہت سے محروم کرنا چاہا.مگرمیرے خدا نے میری مدد کی اور اس نے مجھے حکومت عطا فرمائی.پس میں اگر بادشاہ بنا ہوں تو اس خدا کے فضل سے جس نے میرے مقابلہ میں تمہیں شکست دی اور مجھے کامیاب فرمایا.کیا تم سمجھتے ہو کہ جس خدا نے میرے بچپن میں میری مدد فرمائی تھی اس خدا کو میں اب جوان ہو کر چھوڑ دوں گا.جائو جو تمہارے جی میں آتا ہے کر لو.میں انصاف کے معاملہ میں تمہاری کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں اور اس نے مکہ کے وفد کو واپس لوٹا دیا اور مسلمانوں کو عزت کے ساتھ دربار سے رخصت کیا.ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ہجرت حبشہ جو دعویٰ نبوت کے پانچویں سال کے نصف اول میں ہوئی.اس سے پہلے سورۂ مریم نازل ہو چکی تھی اور مسلمانوں میں پھیل بھی چکی تھی تبھی تو مہاجرین نے شاہ حبشہ کے سامنے اپنے عقیدہ کی توضیح کے لئے اسے پڑھا پس یہ ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورۃ ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے کی ہے (یہ روایت جس کااوپر ذکر کیا گیا ہے محمد بن اسحا ق نے ام سلمہؓ سے اپنی سیرۃ میں اور امام احمد بن حنبل نے ابن مسعودؓ سے اپنی مسند میں بیان کی ہے) مقاتل کے نزدیک سورۂ مریم کی صرف آیت سجدہ مدنی ہے باقی ساری سورۃ مکی ہے(روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۳۷۷).راڈول کا خیال ہے کہ اس سورۃ کی آیت ۱ تا ۳۷ کی عبارت سورۂ آل عمران کی آیت ۳۵ تا ۵۷ سے فرق رکھتی ہے (اس سورۃ میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے) وہ کہتا ہے کہ یہ فرق اس اعتراض سے بچنے کے لئے کیا گیا ہے کہ لوگ شاعر کہیں گے گویا اس کے نزدیک اہل عرب کے اعتراض سے ڈر کر ان آیات کے طرز بیان کو بدل دیا گیا ہے(ترجمہ القرآن روڈویل) حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.دنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ شعر کس چیز کا نام ہے اور اہل عرب تو خاص طور پر شعر گوئی میں مشہور تھے.وہ قرآن کریم کی نثر کو شعر کس طرح کہہ سکتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ان یوروپین مستشرقین نے قرآن تو کیا سمجھنا تھا انہوں نے دشمنوں کا اعتراض بھی نہیں سمجھا ان کا اعتراض یہ نہیں تھا کہ یہ کوئی باوزن کلام ہے بلکہ اصل اعتراض ان کا یہ تھا کہ یہ کلام اپنے اندر شاعرانہ روح رکھتا ہے.مستشرقین یورپ نے یہ سمجھ لیا کہ اس سورۃ میں چونکہ نَدِیًّا اور رَضِیًّا وغیرہ الفاظ آتے تھے اس لئے شاید ان الفاظ کی وجہ سے مشرکین مکہ رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کو شاعر کہا کرتے تھے حالانکہ ان کا اعتراض روح شاعری کے متعلق تھا یعنی جس طرح شاعر اپنے مضمون کو مختلف پیرایوں میں بدل بدل کر بیان کرتا ہے اسی طرح قرآن کریم مختلف رنگوں میں بات کو پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے.ورنہ ان میں خود بڑے بڑے شاعر موجود تھے وہ بھلا کہہ سکتے تھے کہ یہ کلام شعر ہے.مگر یوروپین
مستشرقین نے یہ خیال کر کے کہ انہوں نے نَدِیًّا اور رَضِیًّا کی وجہ سے آپ کو شاعر قرار دیا تھا یہ اعتراض کر دیا کہ آل عمران میں اس طرز کوبدل دیا گیا ہے.میرے نزدیک اس سورۃ کا وقت نزول چوتھے سال نبوت کا آخر یا پانچویں سال نبوت کا شروع ہے کیونکہ تاریخوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ مکی وفد جب مسلمان مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کے لئے گیا اور بادشاہ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے پادریوں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں پر ہتک مسیح کا لزام لگا دیا.اس پر حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کرحضرت مسیح ؑ کے متعلق اسلامی عقیدہ بتایا جس پر بادشاہ کی تسلی ہو گئی اور وہ اپنے جواب پر پختہ ہو گیا اور ہجرت حبشہ رجب سنہ ۵میں ہوئی تھی یعنی رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کے دعویٰ پر جب ساڑھے چار سال گزر چکے تھے.اگر ہم سال کو ابتداء یعنی محرم سے شمار کریں تو یہ عرصہ ساڑھے چار سال کا بنتا ہے اور اگر درمیان سے شمار کریں تو اور بھی چھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ وحی نبوت کا آغاز رمضان میں ہوا ہے میں اس وقت پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جب مؤرخین نبوت کے سال شمار کرتے ہیں تو پہلے سال کا شمار محرم سے کرتے ہیںیا رمضان سے.اگر وہ ابتدائی مہینہ سے شمار کرتے ہوں تب تو یہ ساڑھے چار سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر وہ رمضان سے شمار کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ عرصہ تین سال دس ماہ کا بن جائے گا.بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہجرت حبشہ سے پہلے یہ سورۃ نازل ہوئی اور اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی کہ صحابہؓ نے اس کو یاد کر لیا.اس غرض کے لئے ہمیں کم از کم پانچ چھ ماہ کا عرصہ ضرور نکالنا پڑے گا.جس میں یہ سورت اتنی معروف ہو گئی کہ صحابہؓ نے اس کو حفظ کر لیا.ان امور کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چوتھے سال کا آخری حصہ اس کے نزول کا وقت تھا اس سے پہلے تین سال تک رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم پر برابر الہامات نازل ہوتے رہے لیکن عیسائیت کو مخاطب نہیں کیا گیا تین سال کے بعد یکدم عیسائیت کو مخاطب کیا گیا اور تفصیلی طور پر مخاطب کیا گیا.جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ذکر کے علاوہ جن پیشگوئیوں پر عیسائیوں کے نزدیک ان کے دعویٰ کی بنیاد تھی ان سب کی طرف اشارہ کیا گیا.اسی طرح مسیحیوں کے عقائد کو بیان کیا گیا اور ان کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا گیا اس کے چار پانچ ماہ کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت ہو جاتی ہے جہاں عیسائی بادشاہت ہوتی ہے اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ اس سے متاثر ہو کر ایک صحابی عبید اللہ بن جحش جو مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے وہاں مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے (شرح زرقانی الھجرۃ الثانیۃ الی الحبشۃ) اس سورۃ کا ایسے وقت میں نازل ہونا صاف طور پر بتاتا ہے کہ اس کے نزول میں ایک بہت بڑی حکمت
پوشیدہ تھی.جو قرآن کریم کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے جہاں عیسائیت کا کوئی زور نہیں تھا.آپ کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ تھے جن کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں تھا.سوائے اس کے کہ تین چار عیسائی غلام تھے مگر ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور پھر تین سال تک آپ پر وحی ہوتی رہتی ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا.لیکن یکدم چوتھے سال کے آخر یا پانچویں سال کے شروع میں تفصیلی طور پر عیسائیت کو مقابل میں رکھ کر بحث شروع کر دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ عیسائیت کیوں پیدا ہوئی.مسیح ؑ کے متعلق کیا کیا پیشگوئیاں تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حیثیت ہے اور پھر اس کے فوراً بعد ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائو جہاں ایک عیسائی حکومت ہے یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ اس کلام کا نازل کرنے والا ایک عالم الغیب خدا ہے جب تک اسلام اور عیسائیت کے ٹکرائو کی کوئی صورت نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ قبل از وقت عیسائیت کا کوئی ذکر کیا جائے.لیکن جونہی وہ وقت قریب آ گیا جب مسلمانوں نے ایک عیسائی ملک میںجانا تھا تو مسلمانوں کو بیدار رکھنے اور ان کو ہوشیار کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ اب عیسائیوں سے تمہارا مقابلہ ہو گا تمہیں ان کے مقابلہ میں کونسا پہلو اپنے سامنے رکھنا چاہیے یکدم ایک سورۃ نازل ہو جاتی ہے جس میں عیسائی عقائد اور عیسائی تعلیمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مسیحیت کی کیا غرض ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے.اس میںصاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اب تم کو مسیحیوں سے واسطہ پڑنے والا ہے.اس لئے ان کے مذہب کے بارہ میں تم کو ہوشیار کیا جاتا ہے.پس سورۂ مریم کے نزول میں قطعی اور یقینی طورپر ہجرت حبشہ کی پیشگوئی مخفی تھی اور قبل از وقت مسلمانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اب تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں عیسائیت سے تمہارا واسطہ پڑے گا.اس لئے ان کے عقائد کے متعلق ہوشیار رہو.یہ ایک غیر معمولی اشارہ تھا جس کو مسلمانوں نے تو نہیں سمجھا مگر عیسائیوں نے سمجھ لیا کیونکہ ریورنڈ وہیری اور سر میور کا سارا زور اس امر کے ثابت کرنے کے لئے صرف ہوتا ہے کہ اس سورۃ کو کسی اور سال کی نازل شدہ قرار دیں.حالانکہ سورۂ مریم چوتھے سال میں نازل ہو یا آٹھویں سال میں عیسائیوں کا اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اگر اس کا مضمون عیسائیت کوردّ کر دیتا ہے تو خواہ یہ چوتھے سال کے آخر میں نازل ہو یا دسویں سال میں عیسائیوں کے لئے برابر ہے مگر انہوں نے بڑا زور صرف کیا ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نہیں کیونکہ ان کا ذہن اس طرف چلا گیا ہے کہ اگر یہ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نازل شدہ ثابت ہو جائے تو یہ اس امر کا ایک صریح اور واضح ثبوت ہوگا کہ اس میں ہجرت حبشہ کی
پیشگوئی کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اسلام اب عیسائی ممالک میں جانے والا ہے.پس یہ اعتراض ان کے دل کو کھٹکا.اور چونکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ قرآن کریم میں کوئی پیشگوئی نہیں اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا کہ اس کا کوئی حل تلاش کریں ورنہ مسلمان مجبور کریں گے کہ بتائو تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ تین سال تک مشرکین مکہ کے سامنے عیسائیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا.نہ ان کی تعلیم کا نہ تاریخ کا.نہ غلط عقائد کا.مگر پھر یکدم ایک پوری کی پوری سورۃ اتاری جاتی ہے اور توجہ دلائی جاتی ہے کہ اب ایسے واقعات رونما ہونے والے ہیں کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا اور ان ممالک میںبھی جہاں عیسائیوں کا زور ہو گا.اسلام کو ان کے مقابلہ کے لئےنکلنا پڑے گا.کیا اس سے ظاہر نہیںہوتا کہ اسلام اور عیسائیت کا جو ٹکرائو ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قبل از وقت اس کی خبر دے دی تھی اور چونکہ یہ ایسی چیز ہے جس کو برداشت کرنا ان کی طاقت سے بالکل باہر ہے اس لئے قرآنی نشان کو باطل کرنے کے لئے انہوں نے کوشش کی کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ سے بعد کی قرار دیں.مگر اس عظیم الشان نشان پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں اور تو کچھ نہ سوجھا اپنے آپ کو بڑا ادیب ظاہر کرنے کے لئے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس سورۃ کے الفاظ اور اس کا سٹائل بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بعد میں نازل ہوئی تھی (تفسیر القرآن وہیری جلد۳) حالانکہ عربی سٹائل کو وہ جانتے ہی نہیں.بلکہ عربی تو الگ رہی اگر شکسپیئر کے ڈرامے ہی ہم ان کے سامنے رکھ دیں اور ان سے دریافت کریں کہ بتائو یہ کون سے سال کا ہے اور وہ کون سے سال کا.تو وہ سخت ذلیل ہو کر شرمندہ اور لاجواب ہو جائیں گے اور یہ ہرگز نہیں بتا سکیں گے کہ یہ کس سال کا ہے اور وہ کس سال کا.زبان کاسٹائل پہچان کر یہ بتانا کہ یہ عبارت کس سن کی ہے ایک لمبی تاریخ پر عبور کا متقاضی ہوتا ہے جس میںکوئی زبان تدریجاًارتقائی منازل طے کرتی ہے اور پھر اس میں بھی ہزاروں قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں.بعض شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے پچاس ساٹھ سال زندگی بسر کی ہےانہوں نے ابتدائی ایام میں بعض الفاظ اپنے شعروں میں استعمال کئے ہیں جن کو آخری ایام میں انہوں نے استعمال نہیںکیا.ایسے شخص کی کسی نظم کو اگر ہم دیکھیں گے تو ان الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکیں گے کہ یہ آخری زمانہ کی نظم ہے یا ابتدائی زمانہ کی مگر اس قسم کا اظہار خیال بھی صرف چند الفاظ کی بناء پر ہو گا.یہ نہیں کہ شعر کی بناوٹ دیکھ کر کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ فلاں زمانہ کی ہے اور وہ فلاں زمانہ کی.غالب بہت بڑا شاعر گزرا ہے مگر اس کے کلام پر بھی جرح کرنے والے کہتے ہیں کہ جیسے بعض سہل سے سہل شعر ہم اس کے آخری زمانہ کے کلام میں دکھا سکتے ہیں ویسے ہی بعض آسان شعر ہم اس کے ابتدائی زمانہ کے کلام میں بھی دکھا سکتے ہیں.پس یہ کہنا کہ غالب کے کلام میں بعد میں امپروومنٹ ہو گئی تھی غلط بات ہے اسی طرح ریورنڈ وہیری اور سر میور کا یہ
ایک فرضی ڈھکونسلہ ہے جس سے ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہم اتنے بڑے ماہر فن اور ادیب ہیں کہ ہم کلام کا سٹائل دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون سے زمانہ کی ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ماہر فن بھی اس قسم کی بات نہیں بتا سکتا.اس زمانہ میں ہی اگر جرمنی ، فرانس ، امریکہ اور انگلستان کے ادیبوں سے دریافت کیا جائے کہ فلاں فلاں قومی شاعر جو تم میں گزرے ہیں ان کی فلاں فلاں نظمیں کس سن کی ہیں تو وہ یہی کہیں گے کہ کیا ہم منجم ہیں کہ اس قسم کی بات بتا سکیں.سوائے اس کے کہ کسی کو ذاتی طور پر علم ہو کہ فلاں نظم کس سن میں کہی گئی تھی کوئی شخص نظموں کو دیکھ کر ان کے سن کی تعیین نہیں کر سکتا لیکن قرآن کریم کے متعلق وہ یہ اندازہ لگانے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ آیتیں فلاں سن کی ہیں اور یہ فلاں سن کی.اس سے ان کی غرض محض اتنی ہوتی ہے کہ جو پیشگوئی ثابت ہوتی ہو اس میں رخنہ ڈال دیں اور اسلام کی صداقت پر پردہ ڈال دیں.غرض وہیری اور میور کا فعل خود دلالت کرتا ہے کہ وہ دونوں اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ اس سورۃ کا نزول ایسے وقت میں ہوا ہے کہ یہ آئندہ کے حالات کے متعلق بڑی بھاری پیشگوئی بن جاتی ہے پس انہوں نے چاہا کہ اس پر پردہ ڈال دیں اور اسے بعد کے زمانہ کی قرار دے دیں.غرض یہ ایک عجیب نشان ہے کہ تین سال تک متواتر کلام الٰہی نازل ہوتا رہتا ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا.لیکن جونہی عیسائیت سے ٹکرائو کا زمانہ قریب آتا ہے ایک سورۃ نازل ہوجاتی ہے اور پھر چھ ماہ یا سال کے بعد مسلمان ہجرت کر کے ایک عیسائی ملک میں چلے جاتے ہیں.وہاں عیسائیوں سے ان کی بحثیں ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں عیسائی ایک مسلمان کا شکار کر لیتے ہیں اور اسے عیسائی بنا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں نے ان کے بادشاہ کا شکار کر لیا اور وہ مسلمان ہو گیا.پس قبل از وقت اس سورۃ کا نازل ہونا اور اس کے معاً بعد ایسے حالات کا پیدا ہو جانا جن کے نتیجہ میں اسلام اور عیسائیت کا ٹکرائو ہو گیا اسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے.اس سورۃ کے نزول کے بعد عیسائیت کا ذکر زمانۂ قبل از ہجرت میں ختم ہو جاتا ہے پھر مدینہ میں جا کر عیسائیت کا ذکر شروع ہوا ہے درمیان میں عیسائیت کی طرف اشارے ضرور کئے گئے ہیں لیکن تفصیل کے ساتھ عیسائیت کا ذکر پھر سورۂ آل عمران میں ہوا ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے یا تیسرے سال مدینہ میںنازل ہوئی.خود اس سورۃ کا مضمون بھی اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں جنگ احد اور اس کے متعلقہ واقعات کا ذکر ہے اور یا پھر عیسائیت کا ذکر سورۂ نساء میں آتا ہے کہ وہ بھی مدنی سورۃ ہے بلکہ سورۂ آل عمران کے بعد چوتھے سال سے اس کا نزول شروع ہوا ہے اور کچھ حصہ چوتھے سال کے بعد بھی نازل ہوا ہے سورۂ نساء کے علاوہ کسی حد تک تفصیل سے
عیسائیت کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور یہ سورۃ بھی سورۃ نساء کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اکثر حصہ اس کا پانچویں اور چھٹے سال ہجری میں نازل ہوا ہے بلکہ اس کی کچھ آیتیں رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب بھی نازل ہوئیں.پس قبل از ہجرت کی سورتوں میں سے جس سورۃ میں عیسائیت کو براہ راست بیان کیا گیا ہے اور کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وہ سورۂ مریم ہے اور جیسا کہ قیاس کیا جا سکتا ہے یہ سورۃ چوتھے سال نبوت کے آخر یا پانچویں سال نبوت کے شروع میں نازل ہوئی ہے تبھی صحابہؓ نے اس کو ہجرت حبشہ سے پہلے یاد کر لیا اور حبش کے بادشاہ کے سامنے اسے پڑھ کر سنایا.اس سورۃ کا یہ وقت نزول صاف طور پر بتا تا ہے کہ اس سور ۃ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ اب عیسائیت کے ساتھ بھی تعلقات کی بنیاد رکھی جانے والی ہے اورآنے والی حبشہ کی ہجرت کی طرف اس میں واضح طور پر اشارہ کیا گیا تھا جس سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول ایک عالم الغیب ہستی کی طرف سے ہوا ہے جو واقعات اور حالات مسلمانوں کو پیش آنے والے ہوتے تھے.ان کو قریب زمانہ میںبیان کر دیا جاتا تھا تاکہ وقت پر اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو کر مومنوں کے لئے ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ثابت ہو میں سمجھتا ہوں ریورنڈ وہیری اور میور کے دل پر بھی اسی بات کا اثر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے باوجود تاریخی اور حدیثی شہادتوں کے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ یا قریب ہجرت مدینہ کے رکھنے کی کوشش کی ہے.مگر ان کے دل کی یہ دھڑکن بتاتی ہے کہ اس سورۃ کے نزول کا وقت ایک ایسا بیّن اشارہ تھا کہ اس کے سمجھنے سے ریورنڈ وہیری اور میور بھی نہیں بچ سکے اور انہیں اس کے نزول کا وقت بدلنے کی ناکام کوشش کرنی پڑی.آخری تاریخی شہادت کی موجودگی میں وہ کیا بات تھی جس سے مجبور ہو کر ان کو اس کا وقت نزول بعد میں ثابت کرنا پڑا.صرف یہی کہ اگر اس کا وقت نزول وہی تھا جو تاریخ بتاتی ہے تو یہ اسلام کی سچائی کا ایک بہت بڑا ثبوت تھا.یہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم یہ کس طرح مان لیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل کی ہے کیوں نہ یہ سمجھ لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بخود سوچ لیا ہو گاکہ مکہ میں مخالفت زیادہ ہے اب لازماً ہمیں ہجرت کرنی پڑے گی اور یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں اس لئے انہوں نے عیسائیت کا قرآن کریم میں ذکر کر دیا اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک عقلی طور پر یہ ممکن ہے لیکن ساتھ ہی عقل اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ اگر عیسائیت کا ذکر کیا جاتا تو اس کی تعریف کی جاتی نہ کہ تردید.مگر اس سورۃ میں تو عیسائیوں کی شروع سے لے کر آ خر تک تردید کی گئی ہے.دوسرے محمد رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم یہ تو سوچ سکتے تھے کہ وہ اپنے متبعین کوحبشہ بھجوا دیں گے مگر انہیں یہ کس نے بتا دیا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک وہاں رہیں گے ان کے عیسائیوں سے مباحثات ہوںگے اور اس
لئے ضروری ہے کہ عیسائیت کے متعلق انہیں تفصیلاً واقفیت ہو کیونکہ اس سورۃ کے ذریعہ صرف یہی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہجرت ہو گی بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک عیسائیوں سے مقابلہ ہوگا اور ایک دوسرے کی تردید کے لئے مختلف قسم کے دلائل استعمال کئے جائیں گے پس یہ وسوسہ محض بے بنیاد ہے حقیقت یہی ہے کہ عیسائیوں نے چونکہ اس قرآنی معجزہ کو محسوس کرلیا تھا اس لئے انہوں نے پورا زور لگایا کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ کے بعد کی نازل شدہ سورۃ قرار دیں چنانچہ میور کہتا ہے کہ اس میںہجرت کی طرف تو اشارہ ہے مگر ہجرت حبشہ کی طرف نہیں بلکہ ہجرت طائف کی طرف.گویا وہ اسے ان آخری ایام مکی کی جو طائف میں گزرے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طائف میں بھی بعض عیسائی غلام تھے اور واقعہ طائف میں ایک عیسائی غلام عداس نامی کا ذکر بھی آتا ہے جو رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم سے ملا اور اس نے آپ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیا.مگر اس قسم کے عیسائی غلام خود مکہ میں بھی تھے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ لوہا کو ٹاکرتے تھے یا اسی قسم کے بعض اور کام کیا کرتے تھے.سفر طائف میں جس عیسائی غلام کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۱؟ اس نے کہا نینوہ کا.آپ نے فرمایا کیا وہی نینوہ جس میں میرا بھائی یونس ؑ آیا تھا؟ اور پھر آپ نے اسے تبلیغ کی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے آپ کے ہاتھ چوم لئے (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام باب قصۃ عداس النصرانی معہ).پس بے شک طائف میں بھی کچھ عیسائی تھے مگر ان کے ساتھ کوئی مذہبی مقابلہ پیش نہیں آیا کہ اس سورۃ کو طائف کے واقعہ پر چسپاں کیا جائے.وہیری نے بھی اسے دبے لفظوں میںہجرت حبشہ کے بعد کی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ کہتا ہے یہ سورۃ اتنی دور تو نازل نہیں ہوئی جتنی دور میور بتاتا ہے مگر اتنی قریب بھی نازل نہیں ہوئی جتنی قریب مسلمان بتاتے ہیں اس نے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیا ہے اور میور نے اسے گیارھویں سال میں نازل ہونے والی قرار دیا ہے.وہیری کہتا ہے اس میں بیان کردہ واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محمد (صلی ا للہ علیہ وسلم) کو کتاب مقدس کا بہت کم علم تھا اور جن لوگوں نے اسے بتایا وہ بھی بہت کم جانتے تھے اس کا جواب ہم اگلی آیتوں کی تفسیر میں دیںگے.ترتیب سورۃ اس سورۃ کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ اسلام کس طرح ترقی کرے گا یہ بتایا گیا تھا کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے جس طرح موسوی سلسلہ نے ترقی کی تھی اسی طرح اسلام بھی ترقی کرے گا.
سلسلہ محمدیہ کی سلسلہ موسویہ سے تشبیہ چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل میں موسوی سلسلہ کے کچھ واقعات بیان کر کے بتایا گیا تھا کہ موسوی سلسلہ کے متعلق یہ مقدر تھا کہ اس پر زمانہ موسیٰ ؑ کے بعد دو۲ تباہیاں آئیں گی اور اسی طرح پر دو۲ ترقیوں کا زمانہ بھی آئے گا اور چونکہ اسلام کی ترقی موسوی سلسلہ کے مشابہ ہے اس لئے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلو ک ہوگایعنی جس طرح وہاں زمانہ موسیٰ ؑ کے بعد دو۲ تباہیاں اور دو۲ ترقیاں مقدر تھیں.اسی طرح یہاں بھی زمانہ نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے دو۲ تباہیاں اور دو۲ ترقیاں مقدر ہیں.چنانچہ جیسا کہ بنی اسرائیل کی پہلی تباہی حضرت دائودؑ کے زمانہ کے بعد ہوئی جو بڑی ترقی کا دور تھا اور اس میںیروشلم تباہ ہوا جو یہود کا مرکز تھا(انسائیکلوپیڈیا برٹینکا زیر لفظ جیوز).اسی طرح زمانہ نبوی کے بعد بنو عباس کے زمانہ میںجو بڑی ترقی کا دور تھا.پہلی تباہی آئی اور بغداد جو اسلامی حکومت کا مرکز تھا وہ تباہ ہو گیا اور مسلمان علماء بغداد سے بھاگ کر ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور مرکز پر غیروں کا قبضہ ہو گیا(تاریخ ابن خلدون زیر عنوان وفاۃ المستنصر و خلافۃ المستعین اخر من العباس للبغداد).پھر جس طرح وہاں جو پہلی تباہی آئی وہ زیادہ تر حکومت کے مرکز کی تباہی تھی.یعنی نبو کد نضر نے یروشلم کو تباہ کیا اور وہاں کا تمام قیمتی سامان اپنے ساتھ لے گیا اور یہود جلاوطنی پر مجبور ہوئے.اسی طرح یہاں جو پہلی تباہی آئی وہ بھی زیادہ تر اسلامی حکومت کے مرکز کی تباہی تھی اور زمانہ بھی قریباً قریباً وہی تھا.یعنی جتنے عرصہ بعد یروشلم پر تباہی آئی اتنے عرصہ بعد ہی بغداد پر تباہی آئی.اس کے بعد دوسری تباہی جو ٹائٹس کے زمانہ میں یہود پر آئی وہ ایسی تھی جس کے بعد یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ان میں سے کچھ ایران کے علاقہ میں چلے گئے.کچھ مصر کی طرف نکل گئے اور انہیں اپنا وطن بالکل چھوڑ دینا پڑا(انسائیکلوپیڈیا ببلیکا زیر لفظ جیوئش).اسی طرح کی ایک دوسری تباہی مسلمانوں کے لئے بھی مقدر تھی.چنانچہ جس طرح بنی اسرائیل کی دوسری تباہی ظہور مسیح سے پہلے شروع ہوئی اور اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جاری رہی.اسی طرح زمانہ اسلام میں بھی ہوا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو اس سے کچھ عرصہ پہلے سے ہی مسلمانوں پر یہ عمومی تباہی مغربی مسیحی طاقتوں کے ذریعہ سے جو رومن ایمپائر کے قائم مقام تھیں آنی شروع ہوئی اور وہ ہر جگہ کمزور ہوتے چلے گئے ان کی حکومتیں تباہ ہو گئیں اور اسلام کو پھر ایک سخت دھکا لگا اور ساری دنیا سے اسلامی حکومت کا نشان مٹ گیا.یہ تباہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی رہی اور بعد میں بھی جاری رہی لیکن جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے مقدر یہی ہے کہ ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کی یہ تباہی ترقی کی صورت میں بدل جائے گی اور انہیں دنیا میں پھر عروج حاصل ہو جائے گا.پہلی موسوی تباہی کے بعد یہود کو دوبارہ زندگی اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ جو دشمن قوم تھی اس نے ان کو دوبارہ
یروشلم بنانے میں مد د دی اور اس نے انہیں اپنے مرکز میں لا کر بسا دیا(انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ Cyrus).اسی طرح مسلمانوں کی پہلی تباہی کے موقعہ پر بھی ایسا ہی نشان ظاہر ہوا بلکہ یہ نشان مسلمانوں کے حق میں زیادہ مکمل صورت میں ظاہر ہوا.اور وہ اس طرح کہ فارس اور مید کا بادشاہ جس نے یہود کو یروشلم کے آباد کرنے میں مدد دی تھی یہودی نہیں ہوا تھا صرف ان کا ہمدرد اور خیر خواہ تھا.لیکن وہ ترک بادشاہ جنہوں نے اسلامی حکومت کو تباہ کیا تھا خود مسلمان ہو گئے اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کی تباہی میںحصہ لیتے وہ ان کی ترقی اور احیاء میں حصہ لینے لگے (البدایہ و النہائیہ لابن کثیر.السلطان برکۃ کان بن تولیۃ بن چنگیز خان ).اور اسلام پھر دوبارہ ان کے ہاتھوں سے عروج کے ایک نئے دور میں سے گزرنے لگا.اس کے مقابلہ میں دوسری تباہی جو بنی اسرائیل پر آئی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم قوم خود مسیحی ہو گئی اور یہودی مذہب سے اس کی اس حد تک دلچسپی ہو گئی کہ مسیحی روایتوں کے ساتھ ساتھ تورات کا ادب اور احترام اور اسرائیلی انبیاء کا ادب اور احترام بھی ان میں قائم ہو گیا(انسائیکلو پیڈیا برٹینکا زیر لفظ جیوز).مسلمانوں کے لئے بھی یہی مقدر ہے کہ وہ حاکم قومیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کیا ہے وہی ایک دن اسلام قبول کریں گی اور پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل ہو گی.اس کے بعد سورۂ کہف میں اسی مضمون کو اور کھول کر بیان کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ دوسری تباہی کے بعد جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ترقی دینے کا اختیار کیا تھا وہی اب بھی اختیار کیا جائے گا.یہ کیا ذریعہ تھا جو اختیار کیا گیا اور موسوی سلسلہ کی یہ تباہی کس طرح ترقی میں تبدیل ہوئی.مسیحی دنیا اس سے خوب واقف ہے وہ رنگ جو اس وقت تک موسوی سلسلہ کا چلا جاتا تھا اسے یکسر بدل دیا گیا اور مسیح ناصری جنہوں نے یہ کہا تھا کہ میں قانون کو بدلنے نہیں آیا بلکہ اسے پورا کرنے آیا ہوں (متی باب ۵ آیت ۱۷.۱۸) ان کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے تبلیغ دین کی ایسی توفیق دی کہ ان کے ذریعہ سے پھر تورات کی حکومت ایک نئے رنگ میں دنیا میں قائم ہو گئی اور وہی قوم جو مردہ ہو چکی تھی پھر موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ مسیح ناصری پر ایمان لا کر دنیا میں ترقی کر گئی اور موسوی سلسلہ پھیل گیاایسا ہی بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں سے بھی ہوگا.سورۃ کہف کے بعد سورۃ مریم کو رکھنے کی حکمت چنانچہ یہ بتانے کے لئے کہ مسلمانوں کی دوبارہ ترقی بھی ایک مسیح کے ذریعہ سے ہو گی سورۂ مریم کو سورۂ کہف کے بعد رکھا گیا اور اس میں مسیح علیہ السلام کے واقعات بیان کر کے توجہ دلائی گئی کہ ایک ایسا ہی نشان مسلمانوں میں بھی ظاہر ہوگا اور مسلمان پھر اس نشان کے ذریعہ سے ترقی کریں گے.چنانچہ جس طرح موسوسی سلسلہ کی ترقی ایک مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ تھی اسی طرح اسلام کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ
وابستہ ہو گی جس طرح وہاں اصحاب کہف یعنی مسیح ناصری کے اتباع کے ذریعہ سے وہ غلبہ ملا تھا اسی طرح یہاں آنے والے مسیح کے لئے نئے اصحاب کہف پیدا ہوں گے اور ان کے ذریعہ سے دوبارہ اسلام غالب آ ئے گا.پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں معراج موسوی کا ذکر کیا اور بتایا کہ معراج موسوی کے اندر ہی اسلام کی ترقی کی خبر دی گئی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس معراج کے نتیجہ میں موسوی اور محمدی سلسلہ میں شدید رقابت پیدا ہو جائے گی.چنانچہ جب محمدی سلسلہ ترقی کرے گا.موسوی سلسلہ اسے رقابت کی نظروں سے دیکھے گا اور اس رقابت کے نتیجہ میں جیسا کہ عام طور پر قاعدہ ہے کہ جب دو۲ رقیب ہوں اور ان میں سے ایک ذرا بھی غافل ہو تو وہ مارا جاتا ہے.مسلمان غفلت کریںگے اور موسوی سلسلہ کے علمبردار یعنی مسیح ناصری کے پیرو ان پر غالب آجائیں گے اور مسلمانوں کو مغلوب کر لیںگے.پھر اس مشابہت کے لئے سورۂ کہف میں ایک پرانا واقعہ بنی اسرائیل کی قوم کا بیان کیا اور بتایا کہ بنی اسرائیل میں ذوالقرنین کا ایک واقعہ گزرا ہے تم دیکھو کہ کس طرح ذوالقرنین کے ذریعہ تباہ شدہ یہودیوں کو دوبارہ حکومت ملی.وہ واقعہ بھی اس موقعہ پر ظاہر کیا جائے گا اور مسلمان جو تباہ ہو چکے ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں پھر ایک دوسرے ذوالقرنین کے ذریعہ سے تباہی سے بچائے گا اور پھر ان کی ترقی اور حفاظت کے سامان پیدا فرمائے گا.اس کے بعد سورۂ مریم کو شروع کیا گیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں پہلی سورتوں کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی ترقی اور اس کے تنزل کا دور موسوی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے.جس طرح موسوی سلسلہ کے ٹوٹنے پر اس کا احیاء مسیح ناصری ؑ کے ذریعہ سے ہوا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا اسی طرح اسلام کی طاقت اور اس کی شوکت کے ٹوٹنے پر اس کا دوبارہ احیاء مسیح ؑمحمدی کے ذریعہ سے ہوگا جو محمدیؐ سلسلہ کا آخری نقطہ ہو گا مگر چونکہ محمدیؐ سلسلہ کا اصل مقابلہ مسیح ناصری کی قوم کے ساتھ ہوگا اور اسلام کا ٹوٹنا مسیح ناصری کی قوم کی وجہ سے ہوگا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا.اس لئے محمدی سلسلہ جب ترقی کرے گا تو اسے اصل مقابلہ مسیح ناصری ؑ کی قوم سے ہی پیش آئے گا.اس لئے اگر ہم تاریخی طور پر غور کرنا چاہیں تو ہمیں بجائے موسوی سلسلہ پر غور کرنے کے مسیحی سلسلہ پر غور کرنا پڑے گا.کیونکہ اسلام کے اصل دشمن وہی ہیں.اس مناسبت کے لحاظ سے سورۂ کہف کی تشریحات کے بعد اب وہ اس قوم کے حالات کی طرف آتا ہے جن سے مسلمانوں کا اصل مقابلہ تھا اور بتاتا ہے کہ مسلمانوں پر مسیح کے ذریعہ سے ہی تباہی آئی یعنی مسیح ناصری کی قوم کے ذریعہ سے اور مسلمانوں نے اگر تباہی سے بچنا ہے تب بھی مسیح کے ذریعہ سے ہی یعنی مسیح موعود ؑپر ایمان لانے کی وجہ سے.اس لئے اللہ تعالیٰ اب عیسائیت کی تاریخ بیان کرتا ہے اور
بتاتا ہے کہ یہ تاریخ تمہارے لئے شمع راہ ہو گی اور تمہیں مدنظر رکھنا پڑے گا کہ اس اس طرح عیسائیت کی بنیاد پڑی اور اس اس رنگ میں تمہارے احیاء کی بنیاد ڈالی جائے گی.گویا سورۂ مریم، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف کی تیسری کڑی ہے اور یہ تینوں سورتیں ایک ہی مضمون کی حامل اور ایک ہی طریق پر چل رہی ہیں.پھر اس سورۃ کا ایک قریبی تعلق سورۂ کہف سے یہ بھی ہے کہ سورۂ کہف کے آخر میں شریعت اور توحید پر زور دیا گیا تھا اور اس سورۃ میں مسیح کے ذکر سے کلام شروع کیا گیا ہے.جس کی وجہ سے شریعت اور توحید میں دو خطرناک ابہام پیدا ہونے والے تھے اور اس طرح بات صاف کر دی گئی.پھر ان دونوں سورتوں کا ایک یہ تعلق بھی ہے کہ سورۂ کہف میں مسیحیوں کی انتہاء بیان کی گئی تھی اور اس میں ان کی ابتداء بیان کی گئی ہے.بظاہر اس کے الٹ ہونا چاہیے تھا.مگر بیج چونکہ مخفی ہوتا ہے اور کسی چیز کے ظاہر ہونے کے بعد ہی اس کی حقیقت کھلتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا تاکہ مسیحیوں اور غیروں پر ظاہر ہو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی تھی اور ختم کس شکل میں جا کر ہوئی.خلاصہ سورۃ اس سورۃ کے شروع کے مقطعات میں جو صفات الٰہیہ کا اختصار ہیں مسیحیت اور اسلام کے عقائد کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گو مسیحیت کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اس میںخلاف صداقت عقائد داخل ہو گئے ہیں اور وہ عقائد صفات الٰہیہ کے بھی خلاف ہیں (خلاصہ مفہوم کٓھٰیٰعٓصٓ) اس کے بعد مسیح کا واقعہ حضرت زکریا کے ذکر سے شروع کیا.کیونکہ مسیح علیہ السلام کی بہت بڑی علامت جو یہود میں مشہور تھی وہ مسیح سے پہلے ایلیا نبی کا آسمان سے اتر نا تھا (ملا کی باب ۴ آیت ۵) چنانچہ مسیح کے نزول کے بعد سب سے اہم سوال ان سے یہی کیا جاتا تھا.اور اسی سوال کے حل کرنے کی طرف انجیل نے غیر معمولی توجہ دی ہے اور بتایا ہے کہ ایلیا سے مراد یوحنا ہے ( متی باب ۱۱ آیت ۱۵ و باب ۱۷ آیت ۱۲ و مرقس ۹ آیت ۱۳) اور یہ کہ ایلیا نے آسمان سے نہیں آنا تھا بلکہ زمین سے ہی نکلنا اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا تھا (متی باب ۱۱ آیت ۱۱ولوقاباب ۷ آیت ۲۸) )ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّاسے يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا تک) ایلیا کے ذکر کے بعد مسیح کا ذکر کیا لیکن مسیح ؑ کے دعویٰ کے ذکر کی بجائے اس کی والدہ کے ذکر سے اس کا ذکر شروع کیا.کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش سے ہی بعثت محمدیہؐ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے ان کی دوبیویوں سے تھے.یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق.حضرت اسماعیلؑ پلوٹھے تھے اور حضرت اسحاق ؑآپ کے دوسرے بیٹے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان دونوں کے بار ہ
میں وعدے تھے.حضرت اسماعیل ؑکے متعلق پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰تا۱۲وباب۱۷ آیت ۸ تا ۱۴و آیت ۱۸ و۲۰و باب ۲۱آیت ۱۳ ،۱۷و ۱۸ تا ۲۱ میں وعدے موجود ہیں.اور حضرت اسحاق ؑ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان کا پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹و۲۱ میں ذکر ہے.پھر ان دونوں بیٹوں کے لئے مجموعی پیشگوئی پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ و۱۸ میں کی گئی.ان حوالہ جات کو جب پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱ سے ملایا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی حضرت اسحاق ؑکے ذریعہ سے شروع ہونا تھا مگر پورا دونوں بیٹوں کے ذریعہ سے ہونا تھا.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی کا آخری ظہور نسلِ اسماعیل سے ہونا تھا لیکن جب عہد کواسحاق سے بدل کر اسماعیل کی طرف پھیرا جاتا تو لازماً نسلِ اسحاق کو ایک بڑا دھکا لگنا تھا اور ان پر گراں بھی گزرنا تھا.اس لئے ضروری تھا کہ اس تبدیلی کو تدریجی طور پر ظاہر کیا جائے اور مدلل طور پر قائم کیا جائے.ان آیات میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بار بار اور متواتر عہد کے توڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اب اسحاق کی نسل کی جگہ اسماعیل کی نسل کے ذریعہ سے عہد ابراہیمی کو پورا کیا جائے.لیکن بنو اسحاق کو آخری تنبیہ کرتے ہوئے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کنواری کے ہاں بیٹا پیدا کیا جائے اور اسے موسیٰ کا خلیفہ مقرر کیا جائے اس خلیفہ موسوی کی وجہ سے بنو اسرائیل کے ذریعہ سے پورا ہونے والا عہد آدھا رہ گیا یعنی باپ کا تعلق بنواسرائیل سے کٹ گیا اور صرف ماں کا تعلق رہ گیا جو بنی اسرائیل سے تھیں.پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ بن باپ کے بچہ ہونا ناممکن ہے گو خدا کے لئے سب کچھ ممکن ہے مگر پھر بھی لوگ اس کو سنت اللہ کے خلاف کہہ دیا کرتے تھے.مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بات سنت اللہ کے خلاف نہیں بلکہ قانون قدرت کے اندر ہے چنانچہ ہم ذیل میں ایک تازہ شہادت پیش کرتے ہیں :.Dr.HALEN SUPERWAY یونیورسٹی کالج لنڈن کی یہ تھیوری ہے کہ پیدائش کے لئے ہمیشہ ضروری نہیں کہ نر کی ضرورت ہو چنانچہ LENCET لنڈن کے ایک ہفتہ واری میگزین میں اس کے تجربات شائع ہوتے ہیں.پھر SUNDAY PICTORIAL لنڈن 6نومبر ۵۵ ء میں اسی تھیوری کے متعلق ایک شائع شدہ مضمون کے جواب میں ایک ہفتہ بعد یعنی ۱۳؍ نومبر کو شائع ہونے والے رسالہ میں تین ایسی عورتوں کی شہادات بھی شائع ہوئی ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا یہ بچہ خود بخود ہوا ہے اس کی پیدائش میں کسی مرد کا دخل نہیں.اس کے بعد ۲۸؍دسمبر کے
رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ انیس عورتوں نے اس امر کی مزید شہادت دی ہے.بہرحال چونکہ قرآن کریم کا اصل منشاء یہ تھا کہ ابراہیمی وعدہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پورا ہواہے جو کہ بنو اسماعیل میں سے ہیں اس لئے حضرت مسیح ناصری کے بن باپ پیدا ہونے کے واقعہ کا ذکر تفصیلی طور پر کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ خود پیدائش مسیح ہی اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ بنو اسحاق کے ذریعہ سے ابراہیمی عہد کے پور اہونے کا وقت ختم ہو رہا ہے.تبھی خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذریعہ سے عہد کی آدھی اہمیت ختم کر دی.باقی آدھی خود مسیح ناصری کے پیروئوں نے کم کر دی کیونکہ انہوں نے ختنہ کو جو عہد کی علامت تھا موقو ف کر دیا اور اس طرح عہد کو بنو اسحاق سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا(قاموس الکتاب از ایف ایس خیر اللہ زیر لفظ ختنہ).حالانکہ ختنہ ابراہیمی عہد کی خاص شرط تھی.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ’’ میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیاکرنا اوریہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے.‘‘ (پیدائش باب ۱۷آیت ۱۰ و۱۱) اسی طرح لکھا ہے.’’ میرا عہد تمہارے جسم میں ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہ ہواہو اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا.‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۳،۱۴)(وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مَرْيَمَ سے وَمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا تک) پھر حضرت مسیح کے واقعات بتائے اور ان کی صداقت کی دلیلوں کے ساتھ ان جھوٹے دعووں کا بھی ازالہ کیا جو ان کے متبعین ان کی نسبت کرتے ہیں (فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ سے اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُتک) اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو چھیڑا کہ ان گزشتہ واقعات میں اور مسیح کی آمد میں ایک اسماعیلی موعود کی خبر دی گئی تھی سوو ہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.لیکن لوگ ان کے مخالف ہیں اور ان کی مخالفت کی بڑی وجہ ان کی کثرت ہے جو دلیل نہیں اور ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں.لیکن ان کی کثرت فائدہ نہ دے گی اور آخر وہ سب تباہ ہوںگے.(وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُسے فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ تک) پھر فرمایا آج تو یہ لوگ خوب باتیں بناتے ہیں اور اسلام کے متعلق بات سننا تک پسند نہیں کرتے ل
لیکن ایک دن عذاب کو دیکھ کر خوب دیکھنے اور سننے لگ جائیںگے اور زمین مسلمانوں کے سپرد ہو جائے گی(اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ سے اِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ تک) اس کے بعد اس وعدہ ابراہیمی کو تفصیل سے بیان کرتا ہے جس کا ذکر پہلے اشارۃً آیا تھا اور بتاتا ہے کہ کس طرح ابراہیم سے ایک وعدہ ہوا جو اسحاق ؑاور موسیٰ ؑکے ذریعہ سے پورا ہوا.(وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ سے وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا تک) اس کے بعد اسماعیلؑ کا ذکر کرتا ہے کیونکہ اس جگہ یہ بتانا مقصود تھا کہ اسحاق ؑ کے وعدہ کے بعد اسماعیلؑ کا وعدہ پورا ہونا تھا ورنہ زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑ حضرت اسماعیلؑ کے بعد تھے ان کا ذکر حضرت اسماعیلؑ سے پہلے اس لئے کیا گیا کہ وہ اسحاق کے وعدہ کا حصہ تھے جو اسماعیلی وعدہ سے پہلے پورا ہونا ضروری تھا.( وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ سے وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا تک) اس کے بعد حضرت ادریس ؑ کا ذکر کیا جن کے بارہ میں رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا کا ذکر فرما کر بتایا کہ ان کو بھی حضرت مسیح سے رفع روحانی میںایک مشابہت ہے چنانچہ عہد نامہ قدیم پیدائش باب ۵ آیت ۲۴ میں لکھا ہے کہ حنوک (جسے عرب لوگ ادریس کہتے ہیں.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں لوگوں کو سناتا تھا.بائبل میں بھی لکھا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ چلتا تھا.پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ اور اس سے مراد بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرنے کے ہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اعلیٰ ظہور تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا تھا) غائب ہو گیا.اس لئے کہ خدا نے اسے لے لیا (پیدائش باب ۵ آیت ۲۴) ’’غائب ہوگیا کہ خدا نے اسے لے لیا‘‘کا ترجمہ قرآن کریم میں رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا سے کیا گیا ہے اور ایسے ہی الفاظ حضرت مسیح ؑناصری کے متعلق ہیں.لیکن باوجود اس کے مسیحی حنوک کو خدا نہیں کہتے.بلکہ انسان ہی سمجھتے ہیں.پھر ان لفظوں سے مسیح ؑکو کیوں خدا سمجھنے لگ گئے ہیں بلکہ بقول بائبل حنوک کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ وہ موت کے بغیر ہی آسمان پر چلا گیا اور خدا باپ کی طرح اس نے کبھی موت نہ چکھی.(وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ سے وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا تک) پھر بتاتا ہے کہ یہ سب لوگ آدمؑ سے لے کر نوح ؑتک اور نوح ؑ سے اسرائیل کے آخری نبیوں تک انسان تھے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار، پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے مسیح کو خدائی کا عہدہ دیا جاتا ہے.(اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ سے خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِيًّا تک) اس کے بعد بتایا کہ لوگوں نے تعلیمات سماوی کو بھلا کر لہو ولعب کو اختیار کر لیا ہے لیکن اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا.
نتیجہ انہی کے لئے اچھا ہو گا جو ان امور سے توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی باتوں کو سنیں گے.( فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ سےهَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا تک) پھر بعد الموت کا چونکہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ انکار ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کیا اور پھر ان کے انکار کا ذکر کر کے دلیل دی کہ مابعد الموت زندگی کوئی عجیب شئے نہیں ایسا ضرور ہوگا اور مجرم ضرور سزا پائیں گے اور نیک نجات حاصل کریں گے (وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ سے نَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا تک) پھر سچائی کے دشمنوں کا ایک حربہ بیان کرتا ہے کہ جب اخروی سزا کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکر کہتے ہیں کہ قیامت کی بات تو قیامت کو دیکھی جائے گی اب کس کا حال اچھا ہے، کس کی دولت زیادہ ہے، کس کے افراد زیادہ ہیں.فرماتا ہے ہمیشہ سے سچائی آہستہ آہستہ ترقی کرتی رہی ہے جب تک وہ وقت نہ آئے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دلیل کس کے ساتھ ہے اور قربانی اور نیک نمونہ کس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ دلیل ہو اور جس کے ساتھ نیک نمونہ ہو.ظاہر ہے کہ اس دنیا میں بھی آخر وہی جیتے گا.(وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ سے وَ نَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ وَ يَاْتِيْنَا فَرْدًا تک) اس کے بعد فرماتا ہے منکرین صداقت ہمیشہ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور شرک کو تقویت کا موجب سمجھتے ہیں مگر شرک ہمیشہ ذلت اور شکست کا موجب ہوتا ہے.وہی چیزیں جن کو لوگ تقویت کا موجب بتاتے ہیں ان کی کمزوری کا موجب ثابت ہوتی ہیں.(وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً سےيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا تک) پھر فرماتا ہے کہ جب دلائل سے کافر عاجز آ جاتا ہے تو دھینگا مشتی پر اتر آتا ہے مگر اس کی پروانہ کر آخر یہ دھینگا مشتی ہی تو دنیوی غلبہ کا سبب بنے گی.دشمن دھینگا مشتی نہ کرے تو اسلام کو دنیوی غلبہ کس طرح حاصل ہو گا(یعنی اسلام جارحانہ لڑائی کی اجازت نہیںد یتا.پس اس کے غلبہ کا ذریعہ یہی بن سکتا ہے کہ دشمن ظلم پر اتر آئے) جب وہ ظلم پر اترے گا تو مسلمانوں کو بھی لڑنے کی اجازت ہوگی.اور چونکہ دشمن خدا تعالیٰ کو عقیدۃً بھی ناراض کر چکا ہو گا خدا تعالیٰ کی مدد سے مسلمان جیت جائیں گے (اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا تک) پھر فرماتا ہے کہ یہودپر کلام عبرانی زبان میںنازل ہوتا تھا لوگ یہ نہ اعتراض کریں کہ اب عربی زبان میں کلام کیوں اترا ہے.ہر قوم سے اس کی زبان میں کلام ہونا چاہیے تاکہ آسانی سے تبلیغ ہو سکے اور دوست دشمن سمجھ سکیں اور کفار پر حجت تمام ہو.ہماری طرف سے سزا حجت کے بعد ہی دی جاتی ہے اور وہی سزا عبرتناک ہوتی ہے (فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَسےتَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا تک)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا( اور)بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں ) كٓهٰيٰعٓصٓ۫ۚ۰۰۲ كٓهٰيٰعٓصٓ کٓھٰیٰعٓصٓ کی تشریح کٓھٰیٰعٓصٓ میں نے متعدد بار بیان کیا ہے کہ حروف مقطعات کے متعلق مختلف ائمہ اسلام میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی تشریح ایسی ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہو تو بہرحال وہ دوسرے لوگوں کے خیالات سے مقدم سمجھی جائے گی.اس نقطہ نگاہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مقطعات کے متعلق دو ہی معنے منسوب ہیں.بعض روایتوں میں تو یہ آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہودیوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ حروف اعداد کے حروف ہیں.مثلا ً الم ہے اس میں الف کا ایک لام کے تیس اور م کے چالیس اعداد ہیں.گویا الٓمٓ کے اکہتر ۷۱ عدد ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معنوں کو رد نہیں کیا(طبری زیر آیت الم).پس بوجہ ان معنوں کو رد نہ کرنے کے وہ معنے بھی ہمارے نزدیک قابل قبول ہوںگے.کیونکہ اگر وہ غلط ہوتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو رد فرما دیتے.اور قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معنے بھی اپنے اندر بعض پیشگوئیاں رکھتے ہیں جو وقت پر پوری ہوئیں.اس کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے معنے بھی منسوب ہیں جن میںصفات الہٰیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً یہی کٓھٰیٰعٓصٓ ہے حضرت ام ہانی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں وہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے معنے کَافٍ.ھَادٍ.عَالِمٌ اَوْ عَلِیْمٌ اور صَادِقٌ کے ہیں یعنی ک قائم مقام صفت کافی کا ہے.ھاد قائم مقام صفت ہادی کی ہے ع قائم مقام صفت عالم یا علیم کی ہے اور ص قائم مقام صفت صادق کی ہے (فتح البیان سورۃ مریم زیر آیت کھیعص) گویا ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی صفت ہادی صفت عالم یا علیم اور صفت صادق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.حضرت علیؓ کی بھی ان الفاظ کے متعلق ایک روایت آتی ہے جو ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی کٓھٰیٰعٓصٓ میں صفات الٰہیہ کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے.وہ روایت یہ ہے کہ
حضرت علیؓ کو جب کوئی بڑی مصیبت پیش آتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے.کہ یَاکٓھٰیٰعٓصٓ اِغْفِرْلِیْ (فتح البیان سورۃ مریم زیر آیت کھیعص).یعنی اے کٓھٰیٰعٓصٓمجھے معاف فرما دے اور چونکہ دعا کا صفات الہٰیہ سے خاص تعلق ہوتا ہے اس لئے یہ روایت بتاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھیکٓھٰیٰعٓصٓ کو صفات الٰہیہ کا قائم مقام سمجھتے تھے.حضرت ابن عباسؓ نے بھی ان حروف مقطعات سے صفات الٰہیہ ہی مراد لی ہیں مگر انہوں نے ام ہانیؓ والی روایت سے کچھ اختلاف کیا ہے وہ کہتے ہیں ک کَبِیْرٌکا ہے ھاء ھَادٍ کی ہے یَاء اٰمِیْنٌ کی ہے ع سے عَزِیْزٌ مراد ہے اور ص سے صَادِقٌ مراد ہے (فتح البیان سورۃ مریم زیر آیت کھیعص)گویا حضرت ابن عباسؓ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں صفات الٰہیہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر وہ اس کی تشریح میں کچھ اختلاف کرتے ہیں.ام ہانی ؓ کی روایت میں ک سے کافٍ مراد لیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے کَبِیْرٌ مر اد لیا ہے دوسرے ع سے انہوں نے عَالِمٌ یا عَلِیْمٌ مراد لیا تھا مگر ابن عباسؓ اس سے عَزِیْزٌ مراد لیتے ہیں.اسی طرح ام ہانی کی روایت میں یاء کو چھوڑ دیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ یاء سے اٰمِیْنٌ مراد لیتے ہیں.ابن مسعودؓ اور بعض اور صحابہؓ کہتے ہیں کہ ک سے اَلْمُلْکُ مراد ہے ھاء سے اَلْاِ لٰہُ مراد ہے یاء اور ع سے العَزِیْزُ مراد ہے اور ص سے المُصَوِّرُ مراد ہے.( فتح البیان سورۃ مریم زیر آیت کھیعص) یہ روایتیں گو مختلف ہیں مگر ہم ان سے اتنا نتیجہ نکالنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہؓ نے بالاتفاق ان حروف سے صفات الٰہیہ مراد لی ہیں گو ان کی تعیین میں بعض صحابہ ؓ نے اختلاف کیا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ جو تعیین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہی مقدم ہے اور صحابہؓ کی تعیین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعیین کے مقابلہ میں محض ظنی سمجھی جائے گی اگر ابن مسعودؓ کچھ اور معنے کرتے ابن عباس ؓ کچھ اور معنی کرتے حضرت علیؓ کچھ اور معنی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ سب نے اپنے اپنے پاس سے معنے بنالئے ہیں.مگر حضرت علیؓ بھی ان سے صفات الہٰیہ مراد لیتے ہیںحضرت ابن عباس ؓ بھی صفات الٰہیہ مراد لیتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی ان سے صفات الٰہیہ مراد لیتے ہیں.پس ان روایات سے اتنا تو پتہ لگ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ حروف صفات الٰہیہ کے قائم مقام ہیں.باقی ہر شخص کا اپنی اپنی عقل کے مطابق کچھ صفات الٰہیہ تجویز کرلینا کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اس اصولی امر میں ہمیں سب متفق نظر آتے ہیں.کہ ان حروف میںصفات الٰہیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے رہا یہ کہ ان حروف میں کونسی صفات بیان کی گئی ہیں اس کو سورۃ کا
مضمون خود واضح کر دیتا ہے.اگر کوئی غلط معنے کرتا ہے تو ہمارے پاس صداقت کو معلوم کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ساری سورۃ پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ اس میں کن صفات الٰہیہ کا ذکر آتا ہے اگر ان صفات کا ذکر موجود نہیں ہوگا تو ہم ان معنوں کو غلط قرار دے دیں گے اور اگر موجود ہو گا تو ہم ان معنوں کو درست قرار دے دیںگے لیکن اور سورتوں کو جانے دو اس سورۃ میں جو صفات الٰہیہ بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کی تعیین خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس لئے اس بارہ میں کسی اور تشریح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سب سورتوں کے مقطعات کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں.لیکن اس سورۃ کے مقطعات کے معنے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ میں نے یہ معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں اور دوسرے صحابہؓ اپنے علم کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہیں اور چونکہ یہ مسلمہ اصل ہے کہ جو تشریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہر دوسری تشریح پر مقدم سمجھی جائے گی.اس لئے بہر حال ام ہانیؓ کے بیان کردہ معنوں کو ہی ترجیح دی جائے گی یعنی ک کے معنے کَافِی کے ہیں ھ کے معنی ہَادِی کے ہیں ع کے معنے عَالِمٌ یا عَلِیْمٌ کے ہیں اور ص کے معنے صَادِق کے ہیں اور میرے نزدیک یہی معنے اس سورۃ کی کنجی ہیں.اس جگہ ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ حروف پانچ ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات الٰہیہ بیان فرمائی ہیں وہ چار ہیں.حروف ہیں ک ھا یا ع اور ص مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفات بیان فرماتے ہیں ک، ھا ،ع اور ص کی.یاء کو چھوڑ جاتے ہیں.ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ بات کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یاء صرف نداء کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ یاء کو حرف ندا ہی قرار دیا ہے اور پہلی دو صفات بعد کی دو صفات کا نتیجہ قرار دی گئی ہیں.گویا ان حروف کو اگر کھولا جائے تو عبارت یوں بنے گی کہ اَنْتَ کَافٍ ،اَنْتَ ھَادٍ، یَا عَالِمُ، یَا صَادِقُ اے علیم اور اے صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے.ان معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کافی اور ہادی جو ظہور ہیں عالم یا علیم اور صادق کا وہ مسیحیت اور اسلام میں فیصلہ کن ہیں کیونکہ جب ہم یہ کہیں کہ اے ع اور ص تم کاف اور ہاء ہو.تو اس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ ع اور ص منبع ہیں کاف اور ہاء کا.اور یہ ایسی حقیقت ہے جو عقلی طور پر بھی ثابت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک صفات تو وہ ہوتی ہیں جو اپنا لازمی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں.لیکن بعض صفات ایسی ہیں جن کا لازمی نتیجہ پیدا ہوتا ہے گویا وہ صفات بعض دوسری صفات کے لئے بطور منبع ہوتی ہیں.مثلاً خدا مطعم ہے مگر کھلانے کی صفت پیدا کرنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر اگر رزق ہی موجود نہ ہو تووہ کھلائے گا کیا ؟ پس اس کا
مطعم ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ رازق بھی ہو.تو بعض صفات ابتدائی اور منبع کے طور پر ہوتی ہیں اور بعض تابع صفات ہوتی ہیں.یہاں ک اور ھاء کی صفات تابع ہیں اور ع اور ص کی صفات منبع کے طور پر ہیں اور کٓھٰیٰعٓصٓ کے یہ معنے ہیں کہ یَا عَلِیْمُ یَا صَادِقُ اَنْتَ کَافٍ وَ اَنْتَ ھَادٍ اے علیم اور صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے.گویا کافی اور ہادی تابع صفات ہیں اور علیم اور صادق اصل صفات ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے علیم اور صادق ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کافی بھی ہو اور خدا ہادی بھی ہو.گویااس جگہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ کہتا ہے کہ تم خدا سے یہ کہو کہ کٓھٰیٰعٓصٓ اے میرے علیم اور صادق خدا میں مانتا ہوں کہ تو علیم ہونے کی وجہ سے کافی ہے اور صادق ہونے کی وجہ سے ہادی ہے جب تو علیم ہے تو ضروری ہے کہ تو کافی بھی ہو اور جب تو صادق ہے تو ضروری ہے کہ تو ہادی بھی ہو اور یہ بات عقلی طور پر بھی ظاہر ہے.مثلاً جب کوئی شخص عالم ہو گا تو لازماً وہ کافی بھی ہو گا جیسے علاج کے لئے تشخیص کامل کی ضرورت ہوتی ہے اور تشخیص کامل کے لئے علم کامل کی ضرورت ہوتی ہے.جس شخص کو معالجات سے تعلق رکھنے والی ساری باتیں معلوم نہیں وہ علاج نہیں کر سکتا اور جس کو معلوم ہوں و ہ لازماً صحیح علاج بھی کر سکے گا.پس یہ ایک واضح امر ہے کہ جو علیم ہوگا وہ کافی بھی ہوگا کیونکہ علم ہی کفایت کرتا ہے نہ کہ جہالت.دنیا میں دو ہی قانون جاری ہیں.ایک قانون قدرت اور دوسرا قانون شریعت ، قانون قدرت میںبھی کامل راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو علیم ہو.جیسے وہی ڈاکٹر کامیاب ہو سکتا ہے جو بڑا جاننے والا ہو اور قانون شریعت میں بھی وہی وجود کامل راہنمائی کر سکتا ہے جو علیم ہو جو وجود ہماری جسمانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا یا ہماری روحانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا وہ ہمیں صحیح نسخہ بھی نہیں بتا سکتا.پس علیم کے لئے ضروری ہے کہ وہ کافی ہو.اسی طرح جو صادق ہو گا وہی صحیح ہادی بھی ہوگا کیونکہ جھوٹ اور غلطی گمراہ کرنے والی چیز یں ہیں اور ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو.پس وہی ہادی ہو سکتا ہے جو صادق ہو بلکہ تمام صداقتوں کا منبع ہو.اس کے سوا ہر جگہ کی ہدایت مشتبہ اور ناقابل قبول ہو گی.غرض جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی علیم ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت کافی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی صادق ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت ہادی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور اگر یہ دو اصول درست ہیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہودی مذہب جو بنیاد ہے عیسائیت کی وہ خدا تعالیٰ کو علیم بھی سمجھتا ہے اور صادق بھی سمجھتا ہے تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کافی بھی ہے اور خدا تعالیٰ ہادی بھی ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل اس بارہ میں کیا کہتی ہے.
پہلے ہم خدا تعالیٰ کی صفت علم کو لیتے ہیں انجیل میں لکھا ہے.’’ لیکن اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا.‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳۶) یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں علم کی مختلف مقداریں ہیں کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے انسان جانتا ہے.کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے فرشتے جانتے ہیں اور کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے نہ انسان جانتا ہے نہ فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے.گویا علم کامل صرف خدا تعالیٰ کی ذات سے مختص ہے اور جب علم کامل اسی میں ہو تو لازماً اسے کافی بھی ماننا پڑا.پھر لکھا ہے.’’ خدا وند نے دانائی سے زمین کی بنیاد کی اور عقلمندی سے آسمان آراستہ کیا.اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں اور آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں.(امثال باب۳ آیت ۱۹و ۲۰) یعنی خدا نے علم پر قانون قدرت کی بنیاد رکھی اور اسے آراستہ کیا اور پھر اس کے بعد جو بھی علم پیدا ہوتا ہے خواہ وہ روحانی یا جسمانی اس کے علم سے نکلتا ہے کیونکہ لکھا ہے’’ اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں ‘‘ اس کے بعد ’’ آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں ‘‘یعنی خدا تعالیٰ نے علم کو اتنا کامل کیا کہ آسمان بھی انسان کی ہدایت کے لئے ٹپک پڑا یعنی الہام اور کلام الٰہی نازل ہوا اور اس نے علم کو ہر رنگ میں مکمل کر دیا.یہ حوالہ بتاتا ہے کہ ہدایت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہی کامل ہدایت ہوتی ہے کیونکہ ایک علیم ہستی اس کے پیچھے ہوتی ہے انسان اپنی طرف سے کچھ نہیں کر سکتا.پھر صدق کے متعلق لکھا ہے.’’ اے خداوند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے.‘‘ (زبور باب ۳۱ آیت۵) اس سے ظاہر ہے کہ مخلصی یعنی نجات کا واسطہ ’’خداوند سچائی‘‘ کے خدا کے ساتھ ہے جس طرح شریعت کا واسطہ ایک علیم ہستی کے ساتھ ہے پھر لکھا ہے.’’ تیری صداقت ابدی صداقت ہے اور تیری شریعت حق ہے‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲) گویابائبل اور انجیل دونوں سے یہ ثابت ہے کہ علم کامل صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے اور صداقت کاملہ بھی اسی کو حاصل ہے اور جب بائبل کے نزدیک علیم اور صادق صرف خدا تعالیٰ کا ہی وجود ہے تو عیسائیوں کے لئے اس امر کے تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا.کہ سوائے علیم کے کوئی کافی نہیں ہو سکتا اور سوائے صادق کے کوئی نجات
نہیں دے سکتا.اور اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی صفت علیم اور اس کا ظہور کافی یہ کفارہ کے خلاف ہیں اور خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی شریعت کے لعنت ہونے اور مسیحی مسئلہ نجات کے خلاف ہیں.اگر خدا تعالیٰ عالم یا علیم ہے تو مذہب میں کفارہ کی کوئی جگہ نہیں.کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سکیم کے ماتحت اس دنیا کو چلایا اور اپنے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے مگر آخر وہ سکیم ناکام ہوئی اور پھر واپس لوٹ کر خدا تعالیٰ کو اپنے بیٹے کی قربانی دینی پڑی.اگر یہ درست ہے تو پھر نہ وہ علیم ہوا اور نہ کافی.اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی اگر درست ہے تو عیسائیوں کا شریعت کو لعنت قرار دینا اور نجات کےلئے کفارہ کا مسئلہ ایجاد کر لینا بالکل غلط ہے.کٓھٰیٰعٓصٓ میں عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ایک بنیادی اصول غرض کٓھٰیٰعٓصٓ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ایک بنیادی اصول بیان فرما دیا ہے اور بتایا ہے کہ عیسائیوں سے صفات الٰہیہ کو مدنظر رکھ کر بحث کیا کرو اس کے نتیجہ میں ان کے تمام عقائد باطل ثابت ہو جائیں گے اگر خدا کافی ہے تو پھر یہ کہنا کہ شریعت میں انسان خود رستہ تجویز کر سکتا ہے یا شریعت لعنت ہے بیوقوفی کی بات ہے جو کافی ہے وہ رحمت ہے اور جوغیر کافی ہے وہ لعنت ہے.اسی طرح جو صادق ہے اور جس کے اندر تمام سچائیاں پائی جاتی ہیں اگر اس کا وجود نجات نہیں دلا سکتا تو پھر کسی غیر صادق کا وجود کس طرح نجات دلا سکتا ہے.نجات تو وہی دلائے گا جو صادق ہو گا جیسے حضرت دائودؑ نے کہا کہ ’’ اے خدا وند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے‘‘ (زبور باب ۳۱آیت۵) غرض کھیعص میں عیسائیت اور اسلام کے مباحثات کا صحیح طریق بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اگر عیسائیوں سے مقابلہ کرو تو صفات الٰہیہ کی بنا ء پر کرو اور ان پر یہ امر واضح کر دو کہ تمہارے عقیدہ کو تسلیم کرلینے سے صفات باری باقی نہیں رہتیں اور جب عیسائیت کو ماننے سے صفات باری پر ہی زد پڑتی ہے تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا خدا نہ رہا اور یہ واضح بات ہے کہ سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں سے منوائے اور اس کی صفات پر ان کا ایمان قائم کرے.جو مذہب خدا تعالیٰ کو ہی ختم کرتا اور اس کی صفات پر تبر رکھ دیتا ہے وہ سچا کس طرح ہو سکتا ہے.غرض کافی اور ہادی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کو اگر مدنظر رکھا جائے تو اسلامی تعلیم اور عیسائی تعلیم دونوں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور صاف طور پر پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور اسلام کیا کہتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں پیش کرتے ہیں اور اسلام خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں
پیش کرتا ہے پس ع اور ص وہ صفات منبع ہیں جن کو اگر مانا جائے تو لازماً اسے کافی اور ہادی بھی ماننا پڑتا ہے.اگر اسے ہادی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا صادق ہونا ثابت نہیں ہو سکتا.اور اگر اسے کافی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا علیم ہونا ثابت نہیں ہو سکتا.غرض ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی کو کفارہ کے مقابلہ میں اور صفت ہادی کو عیسائی نظریہ نجات کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور درحقیقت عیسائیوں کے یہی دو بنیادی مسئلے ہیں جن میں اسلام کے ساتھ ان کا ٹکرائو ہوتا ہے.تثلیث ان مسائل کے تابع ہے.اصل مسئلہ جس پر اسلام اور عیسائیت آپس میں ٹکراتے ہیں وہ کفارہ اور عدم نجات کا ہے.عیسائیت نجات کو بالکل نہیں مانتی اور عیسائیت کفارہ کے بغیر کوئی روحانی ترقی تسلیم نہیں کرتی.ان دو عقیدوں سے خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور خدا تعالیٰ کی صفت ہادی باطل ہو جاتی ہیں.اور ان دونوں صفات کے باطل ہونے سے اس کاعلیم اور صادق ہونا بھی باطل ہو جاتا ہے گویا عیسائیت کے ان ہر دو عقائد کو مان لینے سے خدا تعالیٰ کی خدائی باطل ہو جاتی ہے اور جب کسی مذہب کی تعلیم کے نتیجہ میں خدا کی خدائی باطل ہو جائے تو ہمیںیہی ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب خود باطل ہے کیونکہ مذہب خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے ساتھ ہی وابستہ ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے تثلیث بھی ایک اہم عقیدہ ہے لیکن ان کا یہ عقیدہ کفارہ اور نجات کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ اگر کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جائیں تو ساتھ ہی تثلیث بھی باطل ہو جاتی ہے اور اگر تثلیث کو الگ کر لیا جائے تو کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جاتے ہیں چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کو نجات دلانے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے مسیح کو دنیا میں کفارہ کے لئے بھیجا.ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے اگر وہ انسان کے گناہ معاف کر دیتا تو وہ عادل نہ رہتا لیکن چونکہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ بنی نوع انسان نجات پا ئیں اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو دنیا میں اس غرض کےلئے بھیجا کہ وہ پھانسی پر لٹک جائے اور اس کے پھانسی پر لٹک کر مر جانے کے نتیجہ میں وہ لوگ جو اس پر ایمان لائیں روحانی سزا سے بچ جائیں اور اس کا پھانسی پر لٹک کر مر جانا لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارہ بغیر تثلیث کے نہیںہو سکتا کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی دی اور تین دن کے بعد اس کو زندہ کیا.یہ چیز تبھی تسلیم کی جا سکتی ہے جب ایک سے زیادہ خدا ہوں.اگر ایک سے زیادہ خدا نہ ہوںتو یہ بات ہو ہی نہیں سکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو نعوذ باللہ پھانسی دے کر تین دن کے بعد اپنے آپ کو زندہ نہیں کر سکتا.مگر تین خدائوں کو تسلیم کرنے کی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ
تینوں برابر کی طاقت رکھتے ہیں یا ان میں کم و بیش طاقت ہے اگر ایک کم طاقت رکھتا ہے اور دوسرا زیادہ.تو خد اتعالیٰ میں نقص ثابت ہو ا اور ناقص چیز تمام مذاہب کے متفقہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی.اس پر کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں.یہ ایک منطقی نظریہ ہے کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور جو ہستی ازلی ابدی نہ ہو وہ خدا نہیں ہو سکتی.اس پر تمام مذاہب متفق ہیں بلکہ عیسائیت کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ کےلئے ازلی ابدی ہوناضروری ہے.میں ابھی نوجوان تھا قریباً بیس سال کی عمر تھی کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں ایک مشہور پادری آئے ہوئے تھے جن کا نام غالباً فرگوسن تھا.انہوں نے سینکڑوں عیسائی بنا لئے تھے اور وہ پہاڑ پر بھی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تعلیم پھیلاتے رہتے تھے.کچھ مسلمان جو غیرت مند تھے وہ مولویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تو مقابلہ نہیں ہو سکتا.آخر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے.آپ چلیں اور ان سے بات کریں ہم لوگ بڑے شرمندہ ہیں.میں ابھی چھوٹی عمر کا ہی تھا اور میری دینی تعلیم ایسی نہ تھی لیکن میں ان کے کہنے پر تیار ہو گیا اور ہم چند آدمی مل کر ان کی کوٹھی کی طرف چل پڑے وہاں جا کر میں نے ان سے کہا کہ پادری صاحب میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں.اس وقت ہم میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور میرے سامنے ایک پنسل پڑی ہوئی تھی.میں نے کہا فرمائیے اگر یہ پنسل اٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی آواز دیں کہ آئو اور میری مدد کرو.اپنے ساتھیوں کو بھی آوازیں دینی شروع کر دیں.اپنے بہرے کو بھی بلائیں.اپنے باورچی کو بھی بلائیں.اپنے اردگرد کے ہمسایوں کو بھی بلائیں اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آپ ان سے یہ کہیں کہ یہ پنسل میز پر سے اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریںگے؟ کہنے لگا! اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا مطلب خود بخود آ جائے گا آپ صرف یہ بتائیں کہ آیا یہ بات معقول ہوگی اور اگر آپ ایسا کریں تو لوگ آپ کے متعلق کیا سمجھیں گے؟ کہنے لگا پاگل سمجھیں گے.میں نے کہا اب یہ بتائیے کہ باپ خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا بیٹے خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی.میں نے کہا روح القدس خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا پھر یہ وہی پنسل والی بات ہو گئی کہ تینوں میں ایک جیسی طاقت ہے اور اس کام کے کرنے کے قابل ہیں مگر تینوں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے اکیلے بھی دنیا کو پیدا کر سکتے تھے.میں نے کہا آپ یہ بتائیں کیا دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جس کو باپ خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے
اور روح القدس خدا نہیں کر سکتا یا روح القدس خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے او رباپ خدا نہیں کر سکتا؟ کہنے لگا کوئی نہیں.میںنے کہا پھر جھگڑا کیا ہے اگر دو خدا فارغ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ وہ کام تو کر سکتے ہیں مگر فارغ بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں اور اگر ایک کام کو تینوں مل کر کرتے ہیں حالانکہ ان تینوں میں سے ہر ایک اکیلا اکیلا بھی وہ کام کر سکتا ہے تو یہ جنون کی علامت ہے اس پر وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ عیسائیت کی اصل بنیاد کفارہ کے مسئلہ پر ہے تثلیث کا مسئلہ تو ایمان کے بعد سمجھ میں آتا ہے میں نے کہا کہ جب تک تثلیث سمجھ میں نہ آئے انسان ایمان نہیں لا سکتا اور جب تک ایمان نہ لائے تثلیث سمجھ میں نہیں آ سکتی تو یہ تو دور تسلسل ہو گیا جس کو تمام منطقی ناممکن قرار دیتے ہیں.اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے معاف کریں کفارے پر بات کریں.پس درحقیقت کفارہ تعلق رکھتا ہے تثلیث کے ساتھ اگر کفارہ باطل ہو جائے تو تثلیث خود بخود باطل ہو جاتی ہے اور چونکہ یہ عقیدہ صریح مشرکانہ ہے اس لئے اس جگہ عالم کی صفت کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ جس چیز کا انسان عالم کامل ہو اسے وہ بنا بھی سکتا ہے(سرمہ چشمہ آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۲۶).مثلاً انسان کو علم ہے کہ اینٹیں جوڑنے سے مکان بن جاتا ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ مکان بنا لیتا ہے یاا سے علم ہے کہ مٹی گھول کر لکڑی کے سانچوں میں ڈھالو توکچی اینٹ بن جاتی ہے اور پھر اسے آگ میں ڈال دیا جائے تو پختہ ہو جاتی ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ پختہ اینٹ بنا لیتا ہے اسی طرح اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ مٹی کس طرح بنتی ہے تو مٹی بھی بنا سکتا ہے.غرض خلق علم کے تابع ہے جب کسی چیز کا کامل علم حاصل ہو جائے تو اسے انسان بھی بنا سکتا ہے.اگر کسی کو گھڑی بنانے کا پورا علم حاصل ہو جائے تو وہ گھڑی بنا لے گا.جسے افعال الاعضاء کا پور اعلم حاصل ہو جائے وہ ڈاکٹر بن جائے گا.غرض کسی چیز کا علم کامل خلق پر قدرت دے دیتا ہے اور جب کوئی ہستی کامل علم والی ہو تو لازماً اس کے یہ معنے ہوںگے کہ وہ کامل خلق بھی کر سکتی ہے اور کامل تدبیر بھی کر سکتی ہے اور یہ کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور مدبر کی ضرورت نہیں.جیسے فرگوسن کے سامنے میں نے یہی دلیل پیش کی کہ جب تینوں خدا کامل ہیں تو پھر ایک کی موجودگی میں باقیوں کی کیا ضرورت ہے خدا باپ کو لے لو.خدا بیٹے کو لے لو.خدا روح القدس کو لے لو.جب باپ خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو بیٹا خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو روح القدس خدا کر سکتا ہے تو پھر ایک خدا ہی کافی ہے باقی دو کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کاف میں صفت کافی کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی ہے بندوں کی پیدائش کے لئےبھی اور ان کے نظام کےلئے بھی اور ان کی تدبیر کےلئے بھی اس میںنہ کسی کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ بیٹے
اور روح القدس کی مدد کی ضرورت ہے.یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کو کافی سمجھنے کے تم بھی تو فرشتوں کے قائل ہو.اسی طرح تم اس دنیا میں ہوائوں کے اور بجلیوں کے اور مادہ کے قائل ہو یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کو ہم تابع حیثیت دیتے ہیں اور تابع حیثیت اور ہوتی ہے اور برابر کی حیثیت اور ہوتی ہے تابع چیز ایسی ہی ہوتی ہے جیسے خادم ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو پس پردہ رکھنے کے لئے ایک قانون بنایا ہوا ہے اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا کوئی نیک نتیجہ نکلنا تھا اور ہمیں اس کے بدلہ میں انعامات ملنے تھے تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پس پردہ رہتی.کیونکہ جو ظاہر چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا کسی ثواب کا موجب نہیں ہوتا.سورج ہمیں نظر آتا ہے اور ہم اس کا وجود مانتے ہیں مگر اس کے ماننے سے ہمیں انعام نہیں ملتا.اسی طرح پہاڑ نظر آتے ہیں اور ہم ان کا وجود تسلیم کرتے ہیں مگر ہمیں ان پہاڑوں کو ماننے سے ثواب نہیں ملتا.چونکہ انسانی پیدائش کی غرض تکمیل روحانیت تھی اور تکمیل روحانیت ثواب کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اور روحانی نظر کی تیزی کے ساتھ تعلق رکھتی تھی.اس لئے جب کسی چیز کی تیزی اور اس کے ارتقاء کا سوال آئے گا لازماً امتحان اور آزمائش کا بھی سوال آ جائے گااور امتحان اور آزمائشیں زیادہ تر اسی چیز کے متعلق ہوتی ہیں جس کے حصول میں مشکلات حائل ہوں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مخفی رہے ورنہ بنی نوع انسان کی ترقی کی سکیم بالکل بے کار چلی جاتی اور جب خدا نے پوشیدہ رہنا تھا تو یہ لازمی بات تھی کہ کچھ روحانی سامان پیدا کئے جاتے اور کچھ جسمانی سامان پیدا کئے جاتے.روحانی اسباب میں فطرت صحیحہ اور فرشتے شامل ہیں اور جسمانی اسباب میں مادہ اور اس کو حرکت دینے والا قانون شامل ہے پس فرشتوں کا وجود یا مادہ کا وجود کسی اعتراض کا موجب نہیں عیسائی برابر کے خدا پیش کرتے ہیں اور ہم خادم اور تابع چیزیں پیش کرتے ہیں اور خادم اور تابع چیزوں کی ضرورت اس لئے ہے تا اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء رہے اور خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایسا پردہ حائل رہے جس کو مجاہد اور محنت سے کام لینے والا انسان ہی پھاڑ سکے، ہر انسان نہیں.غرض علم مبداء اور علم موجودات کا جو واقف ہو گا لازماً قادر مطلق وجود ہوگا.اسی طرح خدا تعالیٰ کا صادق ہونا بھی ایک مجاہد کی نجات کا ضامن ہوتا ہے.اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تھا تو تمام سابق انبیاء جھوٹے قرار پاتے ہیں اور ان کو بھیجنے والا بھی جھوٹا قرار پاتا ہے.کیونکہ آدم آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو.نوح ؑ آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو.آدم کا واقعہ تو تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود نہیں.نوح ؑ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ نوح ؑ نے آ کر یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو.اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تو نوح ؑ جھوٹا تھا اور نوح کو بھیجنے والا
بھی جھوٹا تھا.پھر ابراہیم آئے انہوں نے بھی بنی نوع انسان سے یہی کہا کہ جو صداقتیںمیں پیش کرتا ہوں.ان کو مانو.گو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی بائبل میں ادھورا ہے جیسے آدم کا ذکر ادھورا ہے لیکن اس کے بعد موسیٰ ؑکا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے اپنی تعلیم پیش کی اور ان سے یہی کہا کہ اگر تم اس تعلیم کو نہیں مانو گے تو تم خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جائو گے اور اگر مانو گے تو نجات پا جائو گے.انہوں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں تعلیم تو دیتا ہوں مگر تم اس پر عمل نہیں کر سکتے.جیسے عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت پر عمل نہیں کیا جا سکتا.موسیٰ ؑ نے یہی کہا کہ اگر تم عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے.پس عیسائی عقیدہ اگر سچا ہے اور نجات ناممکن ہے تو موسیٰ ؑ جھوٹا تھا اور اس نے نعوذباللہ بڑا فریب کیا کہ اپنی تعلیم کے متعلق لوگوں سے یہ کہا کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے اور اگر وہ نبی تھا جیسے بائبل کہتی ہے کہ وہ نبی تھا تو پھر خدا بھی نعوذ باللہ جھوٹا قرار پاتا ہے جس نے اسے اس تعلیم کے ساتھ بھیجا.اسی طرح موسیٰ ؑ کے بعد آنے والے باقی تمام انبیاء بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں کیونکہ ہر ایک نے یہی کہا کہ میری تعلیم پر چلو گے تو نجات پائو گے چنانچہ زبور میں لکھا ہےکہ حضرت دائود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ ’’ تیری شریعت حق ہے‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲) اگر شریعت پر عمل نہیںہو سکتا جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت لعنت ہے تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ سچائی پر عمل نہیں ہو سکتا صرف جھوٹ پر عمل ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہنا پڑے گا کہ سچائی سے نجات نہیں مل سکتی صرف جھوٹ سے مل سکتی ہے.غرض اگر ہم یہ مان لیں کہ انسان شریعت پر عمل کرنے سے نجات نہیں پا سکتا اور نبیوں کی اتباع نہیں کر سکتا تو سارے انبیاء کا سلسلہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے لیکن اگر وہ صادق خدا ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نجات ہے کیونکہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے تمام نبیوں نے یہی کہا کہ اگر تم ہماری باتوں کو مانو گے تو نجات پا جائو گے.دوسرے عربی زبان میں صدق کے لفظ میں دوام کے معنے بھی پائے جاتے ہیں خالی سچائی کے معنے نہیں (تاج العروس).بلکہ وہ چیز جو قائم رہنے والی ہوتی ہے اس پر بھی صدق کا لفظ حاوی ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے صادق ہونے کے یہ معنے بھی ہیں کہ اس کا وجود اور اس کی تعلیم ہمیشہ قائم رہنے والی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ خدا تعالیٰ کا قول اور خدا تعالیٰ کا فعل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں.اور خدا تعالیٰ کا قول اور اس کا فعل تبھی قائم رہنے والے ہو سکتے ہیں جب بنی نوع انسان بھی قائم رہنے والے ہوں.اگر مخلوق نے نجات نہیں پانی اور ہلاک ہو جانا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کے قول نے بھی قائم نہیں رہنا اور اس کے فعل نے بھی قائم نہیں رہنا کیونکہ اس کا
قول اور اس کا فعل مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر اس کا قول اور فعل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں تو معلوم ہوا کہ انسان قائم رہے گا اور وہ نجات پا سکتا ہے اگر اس نے فنا ہو جانا تھا تو خدا تعالیٰ کا ہمیشہ قائم رہنے والا قول اور فعل باطل ہو جاتا ہے.غرض صدق کامل اپنے ظلّی صدق کا بھی مطالبہ کرتا ہے کیونکہ صدق دوام پر دلالت کرتا ہے اور دوام صفات بغیر دائمی موہبت صفات کے نہیںہو سکتا.خود بائبل بھی ہماری اس بات کی تصدیق کرتی ہے.بائبل میں آتا ہے خدا نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا (پیدائش باب ۱آیت ۲۶ و ۲۷) اب خدا تعالیٰ کی شکل کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی نعوذ باللہ ہماری طرح ناک ، کان ،آنکھیں اور منہ ہیں.اس کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اندر جو صفات پائی جاتی ہیں وہ انسان کے اندر بھی پائی جا سکتی ہیں اور اگر یہ درست ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا گیا اور خدا تعالیٰ صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انسان اپنے اندر تقویٰ اور راستبازی اور طہارت بھی پیدا کر سکتا ہے ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ جو صادق ہے اس کا ارادہ اور فعل غلط نکلے اور انسان بوجہ گندی سرشت کے شیطان بن گیا.پس جو مذہب یہ کہتا ہے کہ انسان گندی سرشت کے ساتھ دنیا میں آیا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ارادہ کیا مگر کوئی وجود بھی وہ اپنی شکل پر پیدا نہ کر سکااس نے آدمؑ کو اپنی شکل پر پیدا کیا لیکن وہ گنہگار ہو گیا یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی شکل ناقص ہے یا وہ اپنےارادہ میں ناکام رہا اور شیطان خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پہلے پھل کو بھی لے گیا اور اس کے اگلے پھلوں کو بھی چرا کر لے گیا بلکہ اس کے آخری پھل مسیح کی بھی آزمائش کے لئے آ گیا.کیا یہ خدا تعالیٰ کی ہتک نہیں اور کیا یہ عقیدہ خدا تعالیٰ کی صداقت پر حرف لانے والا نہیں ؟خدا تو یہ کہتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا مگر ہوتا یہ ہے کہ پہلا انسان بھی شیطان کی شکل پر بن جاتا ہے یعنی اس کی بات ماننے لگ جاتا ہے اور اس کی آئندہ نسل بھی ورثہ کے گناہ میں ہمیشہ کے لئے مبتلا ہو جاتی ہے اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے لگ جاتی ہے حتیٰ کہ مسیح جو نجات دہندہ کے طو رپر آیا تھا وہ بھی اتنا کمزورثابت ہوتا ہے کہ شیطان اس کی آزمائش کے لئے آ جاتا ہے.(متی باب ۴ آیت ۱تا ۱۱) مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم جو تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نجات دینے کےلئے کسی کفارہ کا محتاج نہیں.اس نے اپنے بندوں کو ہدایت کے لئے ہی بنایا ہے اور ان کی پیدائش میں فطری طور پر اس نے نیکی کا مادہ رکھا ہے.(۱)اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں شیطان کے اس دعویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ انسان کو خراب کرے گا فرماتا ہے
قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ١ٞ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلًا.قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا.وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا.اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا.رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا(بنی اسرائیل :۶۳ تا ۶۷) یعنی جب آدم پیدا ہوئے اور ان کی عدم اطاعت اور نافرمانی کی وجہ سے شیطان پر غضب نازل ہوا تو اس نے کہا یہ آدمی جس کو مجھ پر فضیلت بخشی گئی ہے اس کے مقابلہ میں اگر آپ مجھے قیامت تک موقعہ دیں.تو میں اس کی اولاد پر غالب آ جائوں گا سوائے کچھ لوگوں کے.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کے رو سے (یہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ کہہ دیں یہ غلط بات ہے) شیطان بھی کہنے کی طاقت نہیں رکھتاکہ سارے انسان خراب ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور شیطان نے بھی یہ جرأت نہیں کہ سب کو خراب قرار دے بلکہ اس نے تسلیم کیا کہ کچھ انسان پھر بھی بچ جائیں گے لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلًا نہایت واضح آیت ہے اور بتا رہی ہے کہ یہ مسئلہ اتنا غلط ہے کہ شیطان کو بھی یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ وہ کہے کہ ہر انسان خراب ہے وہ بھی اقرار کرتا ہے کچھ انسان میرے حملہ سے ضرور بچ جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا جائو ان میں سے جو اپنی مرضی سے تمہارے پیچھے چلے گا اس کو سزا دی جائے گی اور تو ان کو ڈرا یا بلا جس کو چاہے اپنی آواز سے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے لے جا اور ان کو اموال اور اولاد میں شریک کر اور انہیں وعدے دے وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا اور شیطان تو ہمیشہ جھوٹے وعدے دیا کرتا ہے.اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ تو نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بندوں کو چھین کر لے جائوں گا مگر میرا دعویٰ یہ ہے کہ جو شخص میری طرف آنا چاہے گا تو اسے کبھی اپنی طرف نہیں لے جا سکے گا.وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا اور وہ انسان جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اس سے زیادہ حفاظت میں اور کون ہو سکتا ہے.رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا اور تمہارا رب وہ ہے جو تمہاری کشتی کو آرام سے سمندر میں لے جاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل کی تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی فطرت پاک ہے اور اگر فطرت پاک ہے تو پھر یقیناً اس کو بدی پر غالب آنے کی طاقت بھی حاصل ہے اور اگر انسان بدی پر غالب آ سکتا ہے تو پھر کسی کفارہ
کی ضرورت نہیں رہتی.بلکہ صحیح فطرت کی کوشش اور توبہ اور اس کے نتیجہ میں خدا کا رحم نجات کے لئے کافی ہیں.چنانچہ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :.اول.شیطان نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اکثر بنی نوع انسان کو اپنے قابو میں لے آئے گا.گویا قرآن کریم بنی نوع انسان کی خرابی کے عقیدہ کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ہے یہی نہیں کہ اسلام اس کو رد کرتا ہے رد کرنا اور چیز ہوتی ہے اور کسی عقیدہ کو اتنا گندہ قرار دینا کہ اس کو شیطانی فعل کہنا بالکل اور بات ہوتی ہے اس عقیدہ کے متعلق قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ شیطان کا عقیدہ ہے اور شیطان کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ سارے انسان خراب ہو جائیں گے بلکہ اس نے بھی یہ کہا کہ اکثر انسانوں کو میں خراب کر لوں گا.دوسری بات قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کہا کہ تم کوشش کرو ہم تمہیں روکتے نہیں.ہم نے انسان کو بنایا ہی ا سی لئے ہے کہ وہ تمہارا مقابلہ کرے اور اپنے اندر نیکی پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن فرماتا ہے تم صرف بیرونی اثرات سے ہی اس پر اپنا اثر ڈال سکو گے ورنہ فطرتاً ہم نے اسے پاک بنایا ہے.عیسائیت تو یہ کہتی ہے کہ گناہ انسان کے دل میںگھس گیا اور ورثہ کے طورپر نسل انسانی میں چل پڑا(رومیوں کے نام خط باب ۵ آیت ۱۲ تا ۲۱).حالانکہ اگر یہ درست ہے تو شیطان کے پیچھے چلنے کی تحریک خود انسان کے دل سے پیدا ہونی چاہیے.لیکن اسلام اس کے دل کو پاک قرار دیتا ہے.بلکہ اس انسان کے دل کو بھی پاک قرار دیتا ہے جو شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے فرماتا ہے وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ یعنی جس کو چاہے تو اپنی آواز سے ورغلانے کی کوشش کر اور جس پر چاہے اپنے گھوڑے چڑھا کر لے جا یعنی اپنا لائو لشکر اس پر لے جا اور جس پر چاہے اپنے پیادے لے جا یعنی خواہ جو غالب لوگ ہیں ان کے ذریعہ ان کو ورغلا یا جو ماتحت ہیں ان کے ذریعہ ورغلا اور خواہ تو انہیں مال کی لالچ دے یا اولاد کی ترقی کی لالچ دے بہرحال میرے بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ہوگا.اس آیت میں بنی نو ع انسان کو خراب کرنے والی جن تحریکا ت کا ذکر کیا گیا ہے.ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو دل سے پیدا ہوتی ہو بلکہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو باہر سے آتی ہیں اور انسان کو خراب کر دیتی ہیں.مثلاً فرمایا کہ تم گانے بجانے سے انسان کو خراب کرو گے.تم دھمکیوں سے اسے خراب کرو گے یعنی یہ کہ اگر سچ بولا تو پھانسی پر لٹک جائو گے یا تم نے سچ بولا تو قید ہو جائو گے پھر فرمایا وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ تم اس کو لالچیں دو گے کہ اگر تم
نے حرام مال نہ کھایا تو ہمیشہ غریب رہو گے اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو حرام مال کھائو وَ الْاَوْلَادِ اسی طرح جتھے بنانے کے لئے اور پارٹی بازی کےلئے تم اسے اکسائو گے اور کہو گے کہ جب تک تم فریب نہ کرو گے کامیاب نہیں ہو سکوگے وَعِدْهُمْ اور پھر ہر قسم کی ترقیات کے وعدے دو گے کہ اگر تم جھوٹ اور فریب او رمکر اور دغا بازی سے کام لو گے تو خوب ترقی کرو گے یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو خارجی ہیں اگر انسان کا دل ناپاک تھا تو پھر ان چیزوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی اللہ تعالیٰ فرما دیتا کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان گنہگار ہو گیا مگر جتنی چیزیں قرآن کریم نے انسان کو بگاڑنے اور خرابی میںمبتلا کرنے والی بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو خارجی ہیں یعنی (۱)گانا بجانا (۲)دھمکیاں مثلاً یہی کہ کہیں انبیاء کے ماننے والے ترقی نہ کر جائیں اس لئے ان پر خوب ظلم کرو (۳) حرص اور لالچ.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسان کی خرابی کے لئے تمہیں بیرونی ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اندرونی طور پر وہ محفوظ ہے.مگر ورثہ کا گنا ہ اندر سے پیدا ہوتا ہے.باہر سے نہیں آتا جیسے کسی شخص کی والدہ کو سل کا مرض ہو اور وہ بچپن میں اپنی والدہ کا دودھ پیتا رہا ہو جس سے سل کا مادہ اس کے اندر داخل ہو گیا ہو تو ایسے شخص کو جب سل کا مرض ہو گا تو یہ اس کی اندرونی بیماری کہلائے گی لیکن ایک اور انسان ایسا ہوتا ہے جو کسی مسلول کی تیمارداری میں مشغول رہا اور اس کے کپڑوں اور سانس وغیرہ کے ذریعہ سے سل کے کیڑے اور اس کے اندر چلے گئے اور وہ بیمار ہو گیا اب گو سل کا مرض اس کو بھی ہوا ہے مگر اس کی بیماری باہر سے آئی ہے اوراس کی بیماری اندر سے پیدا ہوئی تھی.اسی طرح اور کئی بیماریاں ہیں جو ماں باپ سے ورثہ میں اولاد کو ملتی ہیں.مثلاً مرگی کا مرض ہے.عموماً جن بچوں کے ماں باپ کو مرگی ہوتی ہے انہیں بھی مرگی کے دورے شروع ہو جاتے ہیں.یا جنون ہے یہ بھی ورثہ میں چلتا ہے ہم نے بعض دفعہ تین تین پشتوں میں جنون کا مرض منتقل ہوتے دیکھا ہے.چونکہ انسان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے اس بارہ میں لمباتجربہ نہیںہو سکتا.لیکن ممکن ہے اگر کوئی سوسائٹی بن جائے اور وہ اس کی تحقیق کرے تو شاید سات سات آٹھ آٹھ پشتوں تک یہ مرض ظاہر ہوتی چلی جائے.آتشک کی ایک صورت تو یقیناً ایسی ہے جو سات سات پشتوں تک چلی جاتی ہے بلکہ یورپ کے تازہ لٹریچر میں میںنے پڑھا ہے کہ بعض دفعہ پندرہ پندرہ بیس بیس پشت تک بھی اس مرض کے نشان ملتے ہیں گو اس کی شکل اس شکل سے بدل جاتی ہے جو ابتدائی حالت میں مرض کی ہوتی ہے لیکن بہرحال آئندہ نسل میں یہ مرض چلتی چلی جاتی ہے اب یہ مرض کہیں باہر سے نہیں آتی خود انسان کے اندر اس مرض کا مادہ ہوتا ہے جب نفس پر ضعف اور کمزوری غالب آ تی ہے تو کبھی ناک کی ہڈی
بیٹھنی شروع ہو جائے گی اور کبھی کوئی اور علامت ظاہر ہو جائے گی جس سے معلوم ہوگا کہ آتشک کا مادہ اس کے اندر تھا لیکن اگر یہ مرض باہر سے آئے.مثلاً فرض کرو باپ کو آتشک نہیں تھی لیکن بچہ آگے آتشک والے مریض سے چھو گیا اور ایسی طرز پر چھوا کہ اسے آتشک ہو گئی تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ مرض اسے باپ سے ملی ہے بلکہ ہم کہیں گے کہ یہ مرض باہر سے آئی ہے.اسی طرح قرآن کریم نے یہاں بگاڑ کے جتنے ذرائع بتائے ہیں وہ سب کے سب خارجی ہیں یہ نہیں کہا کہ چونکہ آدم ؑنے گناہ کیا تھا اس لئے انسان کو تم خراب کر لو گے بلکہ فرمایا کہ تم اسے لالچیں دو گے اس کے اندر ڈر اور خوف پیدا کرو گے.اسے گانے بجانے کی طرف توجہ دلائو گے اور اس طرح تم اسے خراب کر دو گے گویا خرابی کے تمام اسباب خارجی ہوںگے اندرونی نہیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے جس میں صاف طور پر ان معنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے مقطعات میں ک کے بیان کئے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ جو میرے ساتھ تعلق رکھنے والے بندے ہیں ان پرتیرا قبضہ کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان پر لالچ اورڈر اور خوف وغیرہ کا کوئی اثر ہو سکتا ہے.وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا اور تیرا رب اپنے بندے کا وکیل یعنی نگران ہونے کے لحاظ سے کافی ہے جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا تو شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے یہاں کَفٰی کا لفظ استعمال کر کے صاف پور ان معنوں کی طرف اشارہ کر دیا جو میں نے بیان کئے تھے میں نے بتایا تھا کہ ک اس جگہ کافی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ظاہر کر دی اور کَفٰی کا لفظ استعمال کر کے بتا دیا کہ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ کے کافی ہونے کا ذکر ہے جب کوئی شخص اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر کارساز ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے اور شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا.اگر ورثہ کے گناہ کی وجہ سے ہر انسان پیدائشی طور پر ناپاک ہوتا.جیسے عیسائی کہتے ہیں تو ایسے لوگ خواہ تقویٰ اختیار کرتے.خواہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ضرور تباہ ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ گناہ بیرونی اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.فطرت اپنی ذات میں پاکیزہ ہے.آگے اس کی دلیل دیتا ہے اور فرماتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا تم گناہ کو ایک خطرناک طوفان سمجھتے ہو.ایک ایسی آفت خیال کرتے ہو جو تباہ کر دینے والی ہوتی ہے اور تم گناہ کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس نے انسان کے اندر ڈیرہ ڈال لیا ہے اور اب یہ اس سے آزاد نہیں ہو سکتا.مگر فرماتا ہے گناہ اپنی ذات میں کوئی چیز ہی نہیں یہ سارا وہم ہے اس کی موٹی مثال سمندر ہے تم دیکھتے ہو کہ سمندر میں کشتیاں چلتی ہیں
دخانی کشتیاں تو اب بھی چلتی ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں سودے لے جاتی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں بادبانی کشتیوں کا رواج تھا جو ہوا کے زور پر چلتی تھیں.فرماتا ہے کشتیوں کا انحصار ہی ہوا پر ہے لیکن کبھی ہوا طوفان بھی بن جاتی ہے جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو طوفان کہلاتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ کبھی کبھی ہوا طوفان بن جاتی ہے.جب دنیا میں ہوائوں سے کشتیاں چلا کرتی تھیں اگر دنیا سے کہا جاتا کہ ہوائیں بند کی جائیں یا طوفان بند کئے جائیں تو ساری دنیا پکار اٹھتی کہ طوفان کاکیا ہے یہ تو کبھی کبھی آتا ہے اگر ہوائیں بند ہو گئیں تو ہماری تجارتیں ماری جائیں گی اور ہماری روزی کا سارا سامان جاتا رہے گا.اگر طوفان کے نتیجہ میں ہزاروں کشتیوں میں سے کوئی ایک ڈوب بھی جاتی ہے تو کیا ہوا یہ مثال بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ تم گناہ گناہ کرتے ہو حالانکہ وہ تو ایک اعتداء کا نام ہے جس طرح وہی ہوا جو جہازوں کو ایک سر ے سے دوسرے سرے تک لے جاتی ہے بعض دفعہ طوفان بن جاتی ہے اسی طرح وہی قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے اس کے اندر رکھی گئی ہیں جب بگڑ جاتی ہیں تو انہی کا نام گناہ بن جاتا ہے.گویا گناہ ایک طوفان ہے جذبات کا.مگر طوفان ہوا کے حد سے بڑھنے کا نام ہوتا ہے اس کے نیچے اس کی سب حرکت نیک ہوتی اور نیک نتائج پیدا کرتی ہے.مثلاً انسان کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دیکھنے کے لئے دی ہیں جن سے وہ دن رات کام لیتا ہے ایک بدمعاش سے بدمعاش انسان کے بھی سارے دن کے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آنکھوں کا کتنا ناجائز استعمال کیا ہے تو پتہ لگے گا کہ دو سو دفعہ اس نے اپنی آنکھوں کا جائز استعمال کیا ہے اور ۲۰۰؍۱دفعہ ناجائز استعمال کیا ہے کہیں اس نے گھر کی صفائی کی ہوگی کہیں اس نے دوستوں سے ملاقات کی ہو گی.کہیں اس نے محنت اور مزدوری کی ہوگی اور یہ سارے کام اس نے آنکھ سے کئے ہوں گے جو آنکھوں کا جائز استعمال ہے.لیکن ایک دفعہ اس نے کسی غیر عورت کو بھی دیکھ لیا ہو گا.اگر اس کی آنکھ ماری جاتی تو بیشک ناجائز فعل اس سے نہ ہوتا.مگر جائز فعل بھی وہ نہ کر سکتا پس فرماتا ہے.گناہ کی تعریف جو تم نے سمجھی ہے وہ غلط ہے.تم گناہ کو اپنی ذات میں بری چیز سمجھتے ہو حالانکہ وہ قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں انہی میں افراط اور تفریط کا نام گناہ ہوجاتا ہے.مثلاً اسراف صدقہ کی زیادتی کا نام ہے اور بخل مال کی حفاظت میں شدت پکڑنے کا نام ہے اور صدقہ اور حفاظت مال کے بغیر دنیا چل ہی نہیں سکتی.اسی طرح زنا رجولیت کے بے موقعہ استعمال کا نام ہے اور رہبانیت اس کے عدم استعمال کا نام ہے اگر رجولیت کا استعمال نہ ہو تو دنیا کیونکر چلے اور اگر اس پر ضبط نہ رکھا جائے تو انسان کی صحت کس طرح قائم رہے.غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گناہ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے.اور بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش نیک ہے
بدی باہر سے آتی ہے اور یہ دعویٰ کہ انسان کی اکثریت گناہ میں مبتلا ہو گی ایک شیطانی خیال ہے.(۲)دوسری آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ.اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ(التّین:۵ تا۷ ) فرماتا ہے ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر قوتیں دے کر پیدا کیا ہے.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ مگر اس کے بعد ہم اس کو بعض دفعہ نیچے ہی نیچے لے جاتے ہیں.یہاں ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ پہلے آدم آیا اور اس نے ترقی کی مگر اس کے گناہ کی وجہ سے نسل انسانی گر گئی.اس شبہ کے ازالہ کے لئے فرمایا اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ.اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں سارے انسان نہیں جاتے بلکہ وہ حصہ جو اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ والا تھا وہ تو اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ پر قائم رہا.صرف دوسرا حصہ جس نے اس راستہ کو چھوڑ دیا تھا وہ سزا میں مبتلا ہوا اور نبیوں کی جماعت سے الگ ہو گیا.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ نبیوں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ان کی نیکی بھی کسبی ہے اور گناہ بھی کسبی ہے نہ نیکی ورثہ کی ہے نہ گناہ ورثہ کا ہے اور عیسائیوں سے ہماری بحث ہی یہی ہے کہ تم بتائو آیا نبیوں کی جماعتیں بھی کفارہ پر ایمان لائے بغیر بچ سکتی ہیںیا نہیں ؟ وہ کہتے ہیں نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ مومن اور عمل صالح کرنے والوں یعنی نبی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے لوگوں کے لئے ایک غیر مقطوع اجر ہوگا.پس یہ خیال کہ گناہ انسان کی پیدائش میں رکھا گیا ہے بالکل غلط ہے.یہاں عیسائی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہمارا تو یہی دعویٰ ہے کہ انسان کی فطرت میںچونکہ بدی ہے وہ نیک عمل کر ہی نہیں سکتا اور اسی لئے ہم شریعت کو لعنت قرار دیتے ہیں.اس کا جواب قرآن کریم مندرجہ ذیل آیت میں دیتا ہے.فرماتا ہے.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشّمس :۷ تا ۱۱) ہم شہادت کے طو رپر نفس انسانی کو اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ قوتوں کے ساتھ پیدا کرنے کے واقعہ پیش کرتے ہیں.سوّٰی کے معنے ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی نہ ہو اور تسویہ کے معنے ہوتے ہیں برابر کر دینا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا میں ما مصدر یہ ہے اور اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طو رپر پیش کرتے
ہیں نفس کو اور اس کے بغیر افراط و تفریط کے اعلیٰ درجہ کی قوتوں کے ساتھ پیدا کئے جانے کو.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَاجب ہم نے اسے پیدا کر دیا تو اس کے بعد ہم نے اس نفس کو الہام کیا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا کہ فجور کیا ہے یعنی کن باتوں سے تو راستہ سے ادھر ہو سکتا ہے وَ تَقْوٰىهَا اور کون سے ایسے راستے ہیں جن پر چل کر تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے اس آیت سے ایک تو یہ پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانی نفس میں تسو یہ پایا جاتا ہے کجی نہیں پائی جاتی نیکی پائی جاتی ہے بدی نہیں پائی جاتی.دوسرے نہ صرف اپنی ذات میں اس میں درستی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں نیکی اور بدی کا ایک احساس بھی پایا جاتا ہے یعنی ہم نے اس کے اندر ایک کانشنس رکھی ہے جو پہچانتی ہے کہ کونسا اچھا راستہ ہے اور کونسا برا.مثلاً ایک سوٹی جسے چھیل کر صاف کر لیا گیا ہو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ میں صاف ہوں.لیکن انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ میرے اندر فلاں خوبی پائی جاتی ہے یا مثلاً یوں سمجھ لو کہ ایک انسان جس کی جیب میں روپیہ ہو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ آدمی بے پیسہ کے نہیں لیکن اگر اس کو پتہ نہیں کہ میری جیب میں روپیہ پڑا ہوا ہے تو وہ اس کو استعمال نہیں کر سکے گا.یہاں بھی دو باتیں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ ہم نے انسان کو ہر قسم کی کجی سے پاک بنایا ہے اور دوسرے یہ کہ صرف پاک ہی نہیں بنایا بلکہ اسے یہ بھی بتا دیا ہے کہ تیرے اندر یہ یہ باتیں خرابی کی ہوں گی اور یہ یہ باتیں نیکی کی ہوں گی.گویا وہ صرف پاک ہی نہیں بلکہ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ میرے اندر جو قوتیں پائی جاتی ہیں میں نے ان کو اس اس طرح استعمال کرنا ہے اور اس کے اندر ایک کانشنس ہے جو پہچانتی ہے کہ اگر میں نے اس طرح کیا تو میرا یہ فعل بدی ہوگا اور اگر اس طرح کیا تو میرا فعل نیکی ہوگا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا کی آیت میں مضمون کو اور بھی واضح کر دیا.کہ وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اس کو پاک رکھا یعنی اس کے اندر خدا تعالیٰ نے خرابیاں پیدا نہیں کیں.پس جو شخص اس کے تزکیہ کو قائم رکھتا ہے اور اسے خراب نہیں ہونے دیتا وہ بڑا کامیاب انسان ہے.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا اور جو اس کی پاکیزگی کو مسل ڈالتا اور اس کی نیکی کو اپنے پائوں سے کچل ڈالتا ہے وہ سخت ناکام اور نامراد ہو گا.(۴)پھر فرماتا ہے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى.الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى.وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى.وَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى.فَجَعَلَهٗ غُثَآءً اَحْوٰى.سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى.اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفٰى.وَ نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى.فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى.سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى.وَ يَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى.الَّذِيْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى ( الاعلیٰ:۲ تا ۱۳)
یعنی اے انسان تو اپنے اعلیٰ رب کی تسبیح کر.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہوا کہ تیرا رب اعلیٰ ہے.اس کے جواب میں فرماتا ہے الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى اس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے ہر قسم کے عیب سے پاک بنایا وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى پھر اس نے انسان کی طاقتوں کا ایک معیارمقرر فرمایا کیا کہ اس حد تک انسان ترقی کر سکتا ہے فَھَدٰی اور پھر بتایا کہ اس اس مقام تک پہنچنے کی یہ یہ ترکیب ہے.یعنی اگر ادنیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ تدبیر ہے اعلیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ کام کرو شہید اور صدیق بننا چاہتے ہو تو اس اس طرح کرو.گویا قَدَّرَ فَهَدٰى میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مختلف روحانی گریڈ مقرر کر کے ساتھ ہی طریقے بھی بتادئیے کہ اس اس طرح عمل کرو گے تو ان گریڈوں کو حاصل کر لو گے.درحقیقت اَلَّذِيْ خَلَقَ کے معنے اَلَّذِیْ خَلَقَ الْاِنْسَانَ کے ہیں.کیونکہ آگے ساری باتیں وہ بیان کی گئی ہیں جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح بات ہے کہ ہدایت درختوں کے لئے نہیں ہوتی.جانوروں کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے ہوتی ہے پس فرماتا ہے تم اپنے اندازہ سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا قانون انسان کے متعلق کیا ہے اور دوسری مخلوق کے متعلق کیا ہے.تم کھیتیوں اورسبزیوں ترکاریوں کو دیکھو وَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى.فَجَعَلَهٗ غُثَآءً اَحْوٰى.تمہیں دکھائی دے گاکہ ایک وقت کے بعد وہ بالکل بے کار اور سیاہ ہو جاتی ہیں اور ان کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی لیکن اس کے مقابلہ میں انسان آتا ہے تو انسانوں کی اچھی چیزیں یعنی ان کا مغز اور روحانیت قائم رہتی ہے.پچھلے سال کے پھل سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے لیکن آدم کی تعلیم آج تک قائم ہے نوح کی تعلیم آج تک قائم ہے ابراہیم کی تعلیم آج تک قائم ہے.موسیٰ ؑ کی تعلیم آج تک قائم ہے معلوم ہوا کہ اس جگہ اور قانون ہے اور اس جگہ اور قانون ہے اگر یہ گندی چیز ہوتی تو اس کے قائم رکھنے کے معنے کیا تھے اورضرورت کیا تھی کہ اسے ہزاروں تک زندہ رکھاجاتا؟ پھر فرماتا ہےسَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى.آدم ؑاور نوح ؑاور ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑکی تعلیم کے متعلق تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ انہوں نے یہی تعلیم دی تھی یا کچھ اور دی تھی اب ہم تجھے بتاتے ہیں کہسَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰۤى ہم تجھ کو ایک سبق پڑھائیں گے جو تو کبھی نہیں بھولے گا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ سوائے اس کے کہ کسی حکم کے متعلق خدا تعالیٰ خود کہہ دے کہ یہ عارضی ہے اور اسے بعد میں منسوخ کر دے جیسے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا(بخاری کتاب الصلوة باب التوجہ نحوالقبلة) اس قسم کے عارضی احکام کے سوا ہم تجھ کو ایک ایسی تعلیم دینے والے ہیں فَلَا تَنْسٰۤى جسے تو بھولے گا نہیں.اس جگہ مخاطب صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ تمام
انسان مخاطب ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسان جتنا بھی زور لگا لے اس تعلیم کو تو بھلا نہیں سکتا.یعنی ہم اسے قائم رکھیںگے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس میں انسان کے مخفی سے مخفی خیالات کا بھی ذکر ہے اور ان بیرونی حوادث کا بھی ذکر ہے جو اس کے اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں وَ نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى اور ہم اس تعلیم کے پھیلانے میں تمہارے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گے اور یہ تعلیم پھیلتی چلی جائے گی اگر شریعت لعنت ہے تو ہم ایک تعلیم بھیجنے والے ہیں ہم دیکھیں گے کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں.فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى یہ جو ہم نے دلیلیں دی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ انسانی قلوب کی اصلاح شریعت اور اس سے متعلقہ چیزوں سے ہو جاتی ہے پس انہی طریقوں کو تم بھی استعمال کرو.سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى جب تم اس تعلیم کو پیش کرو گے تو جو لوگ اپنے دل میں خوف خدا رکھنے والے ہوں گے وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھالیں گے.ا س میں بھی اشارہ کیا ہے کہ نیکی ورثہ کی چیز ہے نہ کہ بدی.کیونکہ خشیت دل میں پیدا ہوتی ہے وَ يَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى اور اس سے وہ شخص بچنے کی کوشش کرے گا جو اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال چکا ہو.آیت کا یہ دوسرا حصہ بھی بتاتا ہے کہ شقاوت خو دا نسان کی پیدا کردہ ہوتی ہے ورنہ ہر انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے پاک ہے.(۵) پھر فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِ.وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِ.وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ( البلد:۹ تا ۱۱) کیا انسان یہ نہیں سوچتا کہ ہم نے اسے آنکھیں دی ہیں.وہ کہتا ہے کہ انسان گنہگار ہے.وہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان نے گناہ کوورثہ میں لیا ہے کیا ہم نے اسے آنکھیں نہیں دیں کیا ہم نے اسے زبان نہیں دی.کیا ہم نے اسے ہونٹ نہیں دئیے اگر انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اس کی نجات کفارہ پر ہی منحصر تھی تو ہم نے اسے آنکھیں کیوں دی تھیں اور وہ دیکھتا کیوں ہے اور اگر اس کا دل گندا تھا اور وہ کسی واقف انسان سے تبادلہ خیالات کر کے اپنے گند کو دور نہیں کر سکتا تھا تو ہم نے اسے زبان کیوں دی تھی اور ا س کے ہونٹ کیوں بنائے تھے وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ.پھر ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ایک کانشنس رکھی ہے جو نیکی اور بدی کا موازنہ کرتی ہے.اگر یہ نیکی اور بدی کا موازنہ کر ہی نہیں سکتا تو اس کانشنس کی کیا ضرورت تھی.کفارہ تو ایسا ہی ہے جیسے گڑھے میں پتھر ڈال کر کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ اس طرح اس کا پیٹ بھر جائے گا چیز وہ ہوتی ہے جس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہو.جب اس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہی نہیں اور انسان دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو اسے سوچنا چاہیے کہ پھر اس کی ضرورت کیا ہے اگر کفارہ پر ہی بنی نوع انسان کی نجات منحصر تھی تو کیا ضرورت تھی آنکھ کی.کیا ضرورت تھی زبان کی.کیا ضرورت تھی ہونٹوں کی.اس کے بعد فرماتا ہے وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ.پھر ہم نے اس کو دونوں راستے بتاد ئیے.
قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض دفعہ چھوٹے سے چھوٹے لفظ میں بڑی بھاری بات بیان کر دیتا ہے.قرآن کریم میں رستہ کا ذکر کئی دوسرے مقامات پر بھی آتا ہے مگر کسی جگہ اس کے لئے سبیل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کسی جگہ طریق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے نجد کا لفظ استعمال کیا ہے.سبیل اور طریق کے الفاظ چھوڑ دئیے ہیں.اس اختلاف سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں مضمون کے ساتھ نجد کا ہی تعلق ہے سبیل اور طریق کا تعلق نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ لغت میں نجد کے معنے اونچے راستے کے ہیں.جو چڑھائی والا ہو(اقرب).قرآن کریم نے دوسری جگہ یہ مضمون بیان کیا ہے کہ چڑھائی والے راستہ پر جب انسان چلتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے سانس پھولتا ہے اور اس کے پائوں وغیرہ میں کھلیاں پڑ جاتی ہیں.اسی حالت کی طرف اللہ تعالیٰ نے یہاں اشارہ کیاہے.یہ تو سیدھی بات ہے کہ جیسے فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ میں تشریح کر دی گئی ہے اس سے دنیوی رستہ مراد نہیں.کیونکہ آگے یہ مضمون آتا ہے کہ اس نے صدقہ نہیں دیا.خیرات نہیں دی یتامیٰ اور مساکین کا خیال نہیں رکھا پس صاف پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ ظاہری رستہ مراد نہیں بلکہ دو راستوں سے مراد نیکی اور بدی کا راستہ ہے.قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کے اندر ورثہ سے آ جائے اس کے لئے اسے محنت نہیںکرنی پڑتی.مثلاً آنکھیں ہیں یہ ہمیں ورثہ میں ملی ہیں ان میں ہمارا کوئی دخل نہیں.اس لئے آنکھوں سے دیکھنے کے لئے ہمیں نہ کسی مشق کی ضرورت ہوتی ہے نہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے آپ ہی آپ ہم دیکھنے لگ جاتے ہیں اسی طرح زبان میں ہمیں ورثہ میں ملی ہے اور ہم آپ ہی آپ بولنے لگ جاتے ہیں یا ہاتھ اور پائوں ہیں یہ بھی آپ ہی آپ چلنے لگ جاتے ہیں.کیونکہ یہ ہمیں ورثہ کے طور پر ملے ہیں.اگر گناہ بھی ورثہ میں ملا ہوتا.تو اس کے لئے کسی مشق کی ضرورت نہیں تھی اور گناہ کاراستہ چڑھائی والا راستہ نہیں ہونا چاہیے تھا.جیسے ہاتھ اور پائوں ہمیں ورثہ میں ملے ہیں.ہم نے اپنے ماں باپ سے لئے.انہوں نے اپنے ماں باپ سے لئے.نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں ان کے ہلانے جلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی.اسی طرح گناہ بھی اگر ورثہ میں ملا ہے تو اس کے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے تھی.کیونکہ وہ طاقتیں جو ورثہ کے ساتھ آتی ہیں ان کے استعمال میں انسان کو محنت نہیں کرنی پڑتی.لیکن فرماتا ہے ہم نے نجدین بنائے ہیں یعنی اگر تم نیکی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر تم بدی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑے گی.پس نہ نیکی ورثہ میں ملی ہے نہ بدی ورثہ میں ملی ہے.دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.گویا ہر چیز Self Acquired ہے.بدی میں ترقی کرنا چاہو تو تمہیں محنت کرنی پڑے گی نیکی میں ترقی کرنا چاہو توتمہیں محنت کرنی پڑے گی اگر گناہ ورثہ میں ملا ہوتاتو پہلے جھوٹ اور پہلی چوری کےلئے کوئی محنت نہ کرنی پڑتی.
مگر جب کوئی پہلا جھوٹ بولتا ہے تو اس کا رنگ فق ہو جاتا ہے اور جب کوئی پہلی چوری کرتا ہے وہ آپ ہی بھاگا پھرتا ہے اور بعض دفعہ تو ایسی حرکات کرتا ہے کہ لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے چوری کی ہے ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ ایک برہمن سے گائے ماری گئی اس زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر برہمن گائے مارے تو اسے قتل کر دیا جائے.وہ گائے کو اپنے مکان میں ہی بند کر کے بھاگا.راستہ میں جب بھی وہ دو آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتا دیکھتا.فوراً ان کے پاس پہنچتا اور کہتا کہ آپ گائے گائے کیا کہہ رہے ہیں.وہ کہتے ہم تو گائے کا کوئی ذکر نہیں کر رہے وہ کہتا نہیں نہیں تم مجھ سے چھپاتے ہو.ضرور تم گائے کا ذکر کر رہے ہو پھر آگے چلتا اور جب پھر دو تین آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھتا تو ان کے پاس پہنچتا اور کہتا یہ آپ بچھڑا بچھڑا کیا کہہ رہے ہیں وہ کہتے ہم تو کوئی ذکر نہیں کر رہے وہ کہتا نہیں کوئی بات ضرور ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی بازار ختم نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کو شبہ پڑ گیا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا.گھر گئے تومری ہوئی گائے نکل آئی تو جب انسان کسی قسم کا بھی گناہ کرتا ہے پہلی مرتبہ اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے اور وہ شرمندہ ہوتا ہے.چور چوری کرنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے ڈاکو ڈاکہ مارنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے اگر گناہ ورثہ میں آیا ہوتا تو گناہ کا راستہ نجد کیوں ہوتا اور اس کے لئے چڑھائی کیوں چڑھنی پڑتی.(۶) پھر فرماتا ہےقَالَ رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (طہ:۵۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی طاقت کے مطابق قوتیں دی ہیں اور پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اس اس طرح ترقی کر سکتی ہے.ا س جگہكُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ میں انسان کی خلق بھی شامل ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا خدا سے تعلق ہو.اور وہی انسان مبارک ہے جو اس کے احکام کو سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے (امثال باب۸ آیت ۳۴) (۷) اسی طرح فرماتا ہے وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ(السجدۃ:۱۴) اگر ہم چاہتے تو ہر جان کو اس کی ہدایت دے دیتے اس جگہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون پہلی آیتوں کے مضمون کے خلاف ہے لیکن حقیقتاً خلاف نہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا وَ لَوْ شِئْنَا لَھَدَیْنَا كُلَّ نَفْسٍ.اگر یہ الفاظ ہوتے تب بھی اس کا مضمون پہلے مضامین کے خلاف نہ ہوتا لیکن یہاں ھُدٰ ھَا کے الفاظ ہیں یعنی ہر نفس جو ہم نے پیدا کیا ہے اس کے اندر اس کی ہدایت کا بھی سامان رکھا ہے بعض لوگ اس ہدایت کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں اگر ہم چاہتے تو مجبور کر کے انہیں ہدایت واپس دے دیتے.مگر جبر سے چونکہ پیدائش انسانی کی غرض
باطل ہو جاتی تھی اس لئے ہم نے جبر نہیں کیا.یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ انسان کا نفس پاک پیدا کیا گیا ہے اور ہر انسان ہدایت کے ساتھ بھیجا جاتا ہے لیکن بعض لوگ اپنی حماقت اور بیوقوفی سے اپنے اندر سے ہدایت نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے نفس کی اندرونی ہدایت انہیں پھر واپس دے دیتے یعنی ان کو ہدایت رد کرنے کی توفیق نہ ملتی.مگر جو لوگ اپنے دل کی ہدایت کو چھوڑ گئے ہمارا فیصلہ ان کے بارہ میں یہی ہے کہ ان کو ہم ان کے عمل کی سز ا دیتے ہیں ورنہ ہمارا دل یہی چاہتا تھا کہ ان کو بھی ہدایت دیتے چنانچہ اسی مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ یعنی ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ میں چلا جاتا ہے ورنہ ہماری طرف سے تو اس کی ہدایت کے سامان موجود تھے.(۸)اسی طرح فرماتا ہے وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ (الشعراء :۹۱) ہم نے متقیوں کے لئے جنت کو قریب کر دیا ہے یعنی ایک طرف ان کی فطرت انہیں جنت کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مدد ان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے اس طرح اندرونی اور بیرونی ہدایتیں ان کو جنت کی طرف راغب کرتی ہیں.(۹)اسی طرح فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات :۵۷) میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بنیں.یعنی تمام بنی نوع انسان کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ وہ عبد بنیں اور عبد کے متعلق دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ تشریح آئی ہےکہ يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ.ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً.فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ.وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (الفجر :۲۸ تا ۳۱) یعنی اے نفس مطمئنہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے پر راضی ہو گیا تو اپنے رب کی طرف ایسی حالت میں لوٹ آ کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ’’تو اس سے راضی ہے اوروہ تجھ سے راضی ہے ‘‘کے معنے یہ ہیں کہ وہ پاک ہے اور اس کا دل اس قدر صفائی اختیار کر چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن گیا ہے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ اس کے بعد فرماتا ہے جب یہ مقام کسی انسان کو میسر آ جائے کہ وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو جائے اور خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے تواس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کا عبد بن جاتا ہے گویا وہ جو فرمایا تھا کہمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.میں نے جن اور انس کو صرف اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا ہے اس مقصد پیدائش کو وہ پالیتا ہے اور جو شخص اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لے لازماً وہ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْکا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوجاتا ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی پیدائش کی غرض یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عبد بن جائیں اور جو غرض پیدائش انسانی کی اللہ تعالیٰ قرار دے اسے کون باطل کر سکتا ہے.پھر نہ صرف اس نے پیدائش انسانی کی
یہ غرض قرار دی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کو وہ خوشخبری دیتا ہے اور کہتا ہے کہ يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ.ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً.فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ.وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ.یہاں ایک اور لطیف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ نفس مطمئنہ کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً جن سے خدا راضی ہو گیا اور جو اپنے خدا سے راضی ہو گئے.ادھر خدا تعالیٰ صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْاعَنْہُ (التوبۃ :۱۰۰) اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.اب اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ.ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً.فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ.وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ پر غور کرو.تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یٰٓا اَیَّتُھَا الْجَمَاعَۃُالصَّحَابَةُ اِرْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ گویا قرآن کریم کی ان آیتوں نے شہادت دے دی کہ صحابہ کرامؓ اس مقام تک پہنچ چکے تھے جس پر پہنچ کر انسان خدا تعالیٰ کے عباد میں داخل ہو جاتا اور اس کی جنت کا وارث ہو کر اپنے مقصد حیات کو پالیتا ہے.(۱۰)ایک اور آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ قرآن کریم میں اسی واقعہ کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ گزرا.اللہ تعالیٰ حضرت آدم کے متعلق فرماتا ہےلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ :۱۱۶)یعنی حضرت آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ اجتہادی تھی اس میں ان کے عزم کا کوئی دخل نہیں تھا.غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک اجتہادی غلطیاں اور ایک عزم کے ساتھ تعلق رکھنے والی غلطیاں آگے اجتہادی غلطیوں کی کئی قسمیں ہیں اور عزم والی غلطیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ غلطی اجتہادی قسم کی تھی عزم والی غلطیوں میں سے نہیں تھی.ارادہ آدم نہیں تھا کہ غلطی کرے مگر ہو گئی اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ کے دو حصے ہوتے ہیں.ایک گناہ کا ظاہری حصہ ہوتا ہے اور ایک اس کا باطنی حصہ ہوتا ہے جو چیز انسان کو نجات سے محروم کرتی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہ کی ظاہری سزا محض لوگوں کو مل جاتی ہے مگر نجات سے محروم کرنے والا صرف باطنی حصہ ہوتا ہے ظاہری نہیں.مثلاً چوری ہے چوری کہتے ہیں کسی کا مال اٹھا کر لے جانے کو.اب بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلطی سے دوسرے کی چیز اٹھا کر لے جاتا ہے مثلاً بعض لوگوں کے پیروں میں حس کم ہوتی ہے اور وہ دوسرے کی جوتی پہن کر چلے جاتے ہیں.فرض کرو ایسا شخص پکڑا جائے.اس کا مقدمہ عدالت میں جائے اور وہ قید ہو جائے تو گناہ کی ایک ظاہری سزا تو اسے مل جائے گی مگر اس کا دل سیاہ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے جوتی ارادۃً نہیں اٹھائی تھی.حیدر آباد کے جو نظام تھے ان کے ایک پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا مجھے ملنے کے لئےقادیان آیا.اس نے کسی
مقصد کے لئے مجھ سے دعا کروانی تھی میرے دل میں خیال آیا کہ ایسے لوگ روز روز کہاں قابو آتے ہیں انہیں اچھی طرح نصیحت کرنی چاہیے.چنانچہ شام کا کھانا میں نے ان کو اپنے ساتھ ہی کھلایا اور پھر میں نے انہیں نصیحتیں کرنی شروع کر دیں اور گیارہ بارہ بجے تک انہیں سمجھتا تا رہا.میں نے کہا بتائو تم نماز پڑھتے ہو وہ کہنے لگا گھر پر تو کبھی پڑھ ہی لیتے ہیں مگر سفر میں صفائی وغیرہ کا چونکہ پورا اہتمام نہیں رہتا اس لئے نماز نہیں پڑھی جاتی.میں نے کہا تم لاکھوں روپے کے مالک ہو اور اب بھی تم آئے ہو تو پانچ سات نوکر تمہارے ساتھ ہیں اگر تمہارا یہ حال ہے تو غرباء کا کیا حال ہوتا ہوگا حالانکہ غرباء پر نماز زیادہ فرض نہیں جیسے تم پرفرض ہے ویسے ہی ان پر فرض ہے مگر تمہیں ان کے مقابلہ میں بیسیوں سہولتیں حاصل ہوتی ہیں تم نے گاڑی کے کمرے ریزرو کرائے ہوتے ہیں اور تم مزے سے ان میں لیٹے ہوئے آتے ہو.تم خدا تعالیٰ کو کیا جواب دو گے اور نمازیں نہ پڑھنے کا کیا عذر پیش کرو گے ایک غریب تو کہہ دے گا کہ اللہ میاں پر مجھے غصہ آ گیا کہ میرے خدا نے مجھے نہیں پوچھا تو میں اس کی عبادت کیوں کروں اس کا یہ جواب چاہے پاگلانہ ہو مگر بہرحال کچھ نہ کچھ جواب تو ہے لیکن تمہارے پاس کیا جواب ہوگا؟میں نے دیکھا جس طرح کسی پر پورا اثر ہو جاتا ہے ویسی ہی کیفیت اس کی ہو گئی اس کی رونے والی حالت ہو گئی اور اس نے کہا کہ اب میں باقاعدہ نماز پڑھا کروں گا گیارہ بارہ بجے کے قریب ہم فارغ ہوئے اور وہ اپنی قیام گاہ پر چلے گئے گھر پہنچے تو انہوں نے اپنے نوکروں سے کہا.کہ صبح نماز کے لئے مجھے ضرور جگا دینا آج میں سخت شرمندہ ہوا ہوں اگر کل انہوں نے پھر مجھ سے پوچھ لیا کہ نماز پڑھی تھی یا نہیں تو میں کیا جواب دوں گا نوکروں نے کہا کہ آپ بارہ بجے سونے لگے ہیں نو بجے سو کر بھی آپ صبح نہیں اٹھتے اور اب تو بہت رات گذر چکی ہے آپ صبح اٹھیں گے کس طرح ؟ انہوں نے کہا کچھ ہو مجھے ضرور جگا دینا.اگر تم نے مجھے نہ جگایا تو میں تمہیں سز ادوں گا چنانچہ صبح ہوئی تو نوکروں نے جگا دیا.اب وہ بیچارا نماز پڑھنے کا عادی تو نہیں تھا نوکروں کے جگانے پر اٹھ تو بیٹھا مگر اسی طرح سوئے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑا راستہ میں کہیں ٹھوکر لگتی تو نوکر دوڑ کر اسے پکڑ لیتے.آخر اسی طرح مسجد پہنچے اور پھر سوئے سوئے ہی انہوں نے نماز پڑھی.جب نماز سے فارغ ہوئے تو نیند کے غلبہ میں آتے وقت اپنا بوٹ تو وہیں چھوڑ گئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر چل پڑے نصف راہ تک پہنچے تو کسی نوکر کی نظر پڑ گئی اور اس نے کہا نواب صاحب یہ کیا؟ آپ تو کسی کی جوتی پہن کر آ گئے ہیں اس پر نواب صاحب کی بھی آنکھ کھلی اور وہ اپنے پائوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگے بھئی جلدی جائو اور یہ جوتی بدل لائو.ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس کی جوتی چرا لایا ہوں اس واقعہ کی وجہ سے صبح مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آج مسجد میں جا کر نماز پڑھی تھی مگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے وہ اپنا نرم اور نازک
اور ملائم بوٹ تو وہیں چھوڑ آئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر آ گئے اب دیکھو کسی نواب کے منہ پر تو یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ نواب ہے فرض کرو جوتی کا مالک وہاں پہنچ جاتا اور ان کی گردن میں ہاتھ ڈال کر کہتا کہ چل تجھے پولیس کے حوالے کروں تو تو چور ہے تو بظاہر انہیں سزا مل جاتی مگر یہ غلطی انہیں نجات سے محروم کرنے والی نہیں تھی کیونکہ اس میں ان کے عزم کا دخل نہیں تھا.اسی طرح آتشک اور سوزاک یہ دومرضیں بظاہر گناہ کا پھل سمجھی جاتی ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ گناہ اس کا نہ ہو بلکہ اس کے باپ یا دادا کا ہو.فرض کرو ایک شخص کسی بیوہ سے شادی کرتا ہے اس کے پہلے خاوند کو آتشک کا مرض تھا جس سے اسے بھی آتشک ہو گئی.اب جب یہ اپنی بیوی کے پاس جائے گا اسے بھی آتشک ہو جائے گی اور یہ بھی اس سزا میں مبتلا ہو جائے گا.اب بظاہر یہ ہے تو زنا کی سزا مگر اس کی وجہ سے وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور نہ اس کا دل سیاہ ہوگا بلکہ شاید اس کا دل اس کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ صاف ہو جائے تو اصل چیز جو دل کو سیاہ کرنے والی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہوتا ہے اس کے ظاہر ی حصہ کی وجہ سے اگر کوئی نقصان پہنچ بھی جائے تووہ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ اس جگہ آدم ؑکے متعلق فرماتا ہے کہ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا.آدم کے اندر ہم نے عزم نہیں پایا.یعنی اس سے جو غلطی ہوئی وہ اجتہاداً ہوئی جیسے بائبل کے حوالجات سے ثابت ہے کہ شیطان نے کہا یہ بڑا نیک کام ہے اس کے نتیجہ میں تمہیں نیک اور بد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہو جائے گی اور آدم نے سمجھا کہ یہ بات درست ہے اور وہ غلطی میں مبتلا ہو گئے پس ان کی غلطی اجتہادی غلطی تھی عزم والی غلطی نہیں تھی.(۱۱)اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا (الزمر:۵۶) یعنی سچی توبہ سے انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ عیسائیت کہتی ہے کہ گناہ معاف نہیں ہوتے(متی باب ۱۲ آیت ۳۲) مگر ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے کہ انجیل کا بیان درست ہے یا قرآن کریم کا بیان درست ہے ہم صرف یہ بحث کر رہے ہیںکہ اس بارہ میں قرآن کریم کیا کہتا ہے.قرآن یہ کہتا ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جب معاف ہو جاتے ہیں تو لازماً سزا بھی معاف ہو جاتی ہے.(۱۲)اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن :۴۷) جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں.ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں.اب یہ واضح بات ہے کہ یہاں جنت ملنے سے مراد دنیوی اموال نہیں ہو سکتے.اگر دنیوی اموال مراد لئے جائیں تو خدا تعالیٰ کے کئی نیک بندے ایسے گزرے ہیں جن کے دنیوی حالات کفار سے بہت ہی ادنیٰ تھے.خو درسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لے لو.آج یورپ کا مزدور آپ سے زیادہ اچھا کھانا کھاتا اور زیادہ اچھے کپڑے پہنتا ہے پس اگر اس جگہ
جنت سے دنیوی نعماء مراد لی جائیں تو یقیناً یورپ کا مزدور جنت میں ہے اور بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء نعوذ باللہ جنت میںنہیں تھے پس اس جگہ جنت سے مراد روحانی امن ہی ہو سکتا ہے اور جنت ملنے سے مراد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ جو شخص خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اس جہان میں بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہے اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کے قرب میں جگہ حاصل کرے گا اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کی قابلیت موجود ہے اگر گناہ انسان کو ورثہ میں ملا ہوا ہوتا تو اس کا قرب اسے کہاں حاصل ہو سکتا تھا.(۱۳)اسی طرح فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرائیل :۷۳) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ جو شخص اس دنیا میں جسمانی لحاظ سے اندھا ہوگا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگایہ تو بڑے ظلم کی بات ہے کہ ایک شخص اس جہان میں بھی اندھا ہو اور اسے اگلے جہان میں بھی اندھا رکھا جائے.اس کے معنے بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھنے والے کے ہیں اور اندھے سے مراد وہ ہےجس نے خدا تعالیٰ کو نہیںدیکھا.پس مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى سے وہ معنے نکلتے ہیں ایک منفی صورت میں اور ایک مثبت صورت میں ایک وہ ہیںجو اعمیٰ ہیں اور ایک وہ ہیں جو اعمیٰ نہیں کیونکہ فرماتا ہے جو اس دنیا میں اعمیٰ ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اعمیٰ رہے گا.اس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ لوگ اعمیٰ ہوں گے اور کچھ اعمیٰ نہیں ہوں گے پس یہ آیت بھی بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بعض کا دل پاک بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس جگہ یہی مضمون بیان فرماتا ہے کہ اس دنیا میں جس شخص کا قلب خراب ہو گیا (معلوم ہوا کہ ساری دنیا کا قلب خراب نہیں ) وہ اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت نہیںرکھے گا.(۱۴)اسی طرح حدیث میں آتا ہے کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَ اہُ یُھَوِّدَ انِہِ اَوْ یُنَصِّرَانِہِ اَوْ یُمَجِّسَا نِہٖ (بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین )ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور نیکی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے.پھر اس کے ماں با پ اسے سکھا کر کبھی یہودی بنا دیتے ہیں کبھی نصرانی بنا دیتے ہیں اور کبھی مجوسی بنا دیتے ہیں اس سے بھی پتہ لگاکہ انسان جو پیدا ہوتا ہے فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور بدی پیدائش کے بعد اردگرد کے اثرات کے نتیجہ میں آتی ہے.(۱۵)اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ نے صاف بنایا ہے پھر وہ دنیا میں آکر یا نیکی کرتا ہے یا بدی کرتا ہے جب وہ کوئی نیکی کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے اور جب کوئی
بدی کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے.پھر جوں جوں وہ نیکیاں یا بدیاں کرتا چلا جاتا ہے.ان سفید یا سیاہ نقطوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یا اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اگر اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے تو وہ بدی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ نیکی سے محروم ہو جاتا ہے (تفسیر ابن جریر زیر آیت کلا بل ران علی قلوبہم.تطفیف :۱۵) اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ انسان فطرت صحیحہ لے کر دنیا میں آتا ہے اور ایک لمبے عرصے تک اس کی فطرت صحیحہ قائم رہتی ہے جب اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور نیکی اس پر غالب آ جاتی ہے تو بغیر کفارہ کے نجات پا جاتا ہے اور جب اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے او ربدی اس پر غالب آ جاتی ہے تو پھر کوئی کفارہ اسے فائدہ نہیںدے سکتا.اس کے برخلاف مسیحیت یہ کہتی ہے کہ آدمؑ نے گناہ کیا اور اس کی وجہ سے اسے سزا دی گئی پھر اس کا گناہ ورثہ میں اس کی اولاد کو ملا.اب انسان گناہ سے خود بخود نہیں بچ سکتا.کیونکہ یہ اسے ورثہ میں ملا ہے.اس کے لئے کفارہ کی ضرورت تھی جو مسیح نے پیش کیا.اور انسان کا تمام گناہ اس نے اپنے سر پر اٹھالیا.گویا مسیحی تعلیم کے مطابق انسان شیطان کا غلام بن کر پید ا ہوتا ہے او رپھر مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں شیطان کے پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے.میں اوپر بتا چکا ہوں کہ مسیحیت کے اس عقیدہ سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا قرآن کریم نے انکار کر دیا ہے.قرآن کریم کے نزدیک نہ گناہ ورثہ میں ملا نہ انسان پیدائشی لحاظ سے گنہگار ہے اور نہ اس کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت ہے.انسان کی فطرت پاکیزہ بنائی گئی ہے اور اس میں ترقی کی قابلیت رکھی گئی ہے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بھی ہو سکتا ہے اور اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو اس عقیدہ کار د کیا ہے کیا خود بائبل بھی اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل بھی اس عقیدہ کی تصدیق نہیں کرتی تو پھر عیسائیوں کے لئے بھی اس عقیدہ کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیںرہتا.اس بارہ میں اگر ہم غور کریں تو چار مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں.۱.یہ مسئلہ کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا.۲.یہ مسئلہ کہ چونکہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ پاک نہیں ہو سکتا.۳.یہ مسئلہ کہ انسان پاک نہیں ہو سکتاتھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ رحیم و کریم بھی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے رحم و کرم کے ماتحت اس کے لئے کسی قربانی کی ضرورت تھی.۴.یہ مسئلہ کہ اس قربانی سے انسان حقیقتہً پاک ہو گیا ؟
یہ چار مسائل ہیں جو اس امر پر غور کرتے ہوئے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو حل کرنے کی کوشش کریں.پہلا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ آدم ؑ نے گناہ کیا تھا اس لئے تمام نسل انسانی گنہگار ہو گئی کیونکہ اسے آدم سے ورثہ میں گناہ ملا ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آدم ؑ نے واقعہ میں گناہ کیا تھا اور آیا بائبل اور انجیل اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل کے رو سے آدمؑ نے گناہ ہی نہیں کیا تو یہ سارا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم ؑنے گناہ نہیں کیا بلکہ بائبل سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی گناہ نہیں کیا.بلکہ اس سے بڑھ کر میں نے جب بائبل کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ گناہ نہ آدم نے کیا تھا نہ شیطان نے بلکہ نعوذ باللہ گناہ خالص خدا تعالیٰ کا تھا اس کا ثبوت میں ذیل میں پیش کرتا ہوں.آدم ؑ کا واقعہ پیدائش کی کتاب میں بیان ہے (یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل سے مراد وہ مجموعہ کتب ہے جو حضرت موسیٰ ؑسے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کے حالات پر مشتمل ہے حضرت موسیٰ ؑ سے ملاکی نبی تک کے حالات کا جو حصہ ہے وہ پرانا عہد نامہ کہلاتا ہے اور حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کے حالات پر جو حصہ مشتمل ہے وہ نیا عہد نامہ کہلاتا ہے یہودیوں کے نزدیک صرف پرانا عہد نامہ واجب العمل ہے لیکن عیسائیوں کے نزدیک پرانا اور نیا دونوں عہد نامے واجب العمل ہیں.پرانے عہد نامہ میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ کتابیں شامل ہیں.ان میں سے پہلی کتاب پیدائش ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے) پیدائش باب ۲ آیت ۸ تا ۱۰ میں لکھا ہے:.’’ اور خداو ند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا.اور خداوند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اگایا اور باغ کے بیچ میںحیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا.‘‘ اس جگہ بائبل یہ بتاتی ہے کہ آدم ؑ کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ نے عدن میں ایک باغ لگایا جس میں ہر قسم کے درخت اگائے اور اس باغ کے عین وسط میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا یہ میںآگے چل کر بتائوں گا کہ نیک و بد کی پہچان کا درخت الگ تھا اور حیات کا درخت الگ.یا دونوں ایک ہی تھے میرے نزدیک یہ دونوں ایک تھے لیکن بائبل اس بارہ میں مضطرب اور متردد ہے کہیں وہ ان دونوں کو ایک درخت بتاتی ہے اور کہیں دو بتاتی ہے.
آگے لکھا ہے.’’اور خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا.کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا.‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۶و۱۷) گویا خدا نے عدن کے باغ میں ہر قسم کے درخت لگائے اور درمیان میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا اور آدم ؑ سے کہا کہ تجھے اور تو تمام درختوں کے پھل کھانے کی اجازت ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت میں سے کچھ نہ کھانا اگر کھائو گے تو مر جائو گے.آگے حوا کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا ’’ جو درخت باغ کے بیج میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے.‘‘ ( پیداش باب ۳ آیت ۳) غرض پہلے تو بائبل کی اپنی روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے یہ کہا کہ اس نیک و بد کی پہچان کے درخت میںسے کچھ نہ کھانا ورنہ مر جائو گے اور پھر حوا کی روایت نے بھی اس کی تصدیق کر دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ نہ اس درخت کے پھل کو کھانا اور نہ اسے چھونا ورنہ مر جائو گے.اب آدم کے پاس شیطان آتا ہے (شیطان کے لئے بائبل نے سانپ کا لفظ استعمال کیا ہے) وہ آ کر کیا کہتا ہے بائبل کہتی ہے کہ :.’’ سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جائو گے.‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۵) ان روایتوں پرغور کر کے دیکھیںتو نہ آدم کا گناہ نظر آتا ہے نہ شیطان کا.بلکہ سارا گناہ نعوذ باللہ خدا کا نظر آتا ہے ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ درخت زندگی کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی اس درخت سے زندگی حاصل ہوتی تھی اور اس درخت سے نیک وبد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہوتی تھی مگر بائبل کہتی ہے کہ خدا نے آدم سے یہ کہا کہ :.’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۷) گویا خدا نے آدم ؑ سے جھوٹ بولا.درخت تو وہ زندگی کا تھا درخت تو وہ علم کی ترقی کا تھا.مگر خدا تعالیٰ نے یہ
کہا کہ جس روز تو نے اس میںسے کچھ کھایا تو مر جائے گا.مرنے کے معنے جسمانی بھی ہوسکتے ہیں اور روحانی بھی.لیکن کوئی معنے لے لئے جائیں دونوں صورتوں میں خدا تعالیٰ کی یہ بات بالکل غلط ثابت ہوتی ہے.اگر روحانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے.کیونکہ نیک وبد کی پہچان سے انسان کی روحانی موت نہیں ہوتی بلکہ اسے روحانی زندگی ملتی ہے اور اگر جسمانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے.کیونکہ وہ زندگی کا درخت تھا.جس کے کھانے سے موت نہیں آ سکتی تھی.غرض بائبل کے خدا نے آدم کو دھوکا دیا کہ وہ درخت جو زندگی بخشنے والا تھا.وہ درخت جو عقل پیدا کرنے والا تھا اس کے متعلق یہ کہا کہ اس کا پھل نہ کھائو.ورنہ مر جائو گے اور حوا بھی یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ ’’تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۳) صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ من ذالک غلط بیانی کی اور آدم کو دھوکا دیا اس کے مقابلہ میں جب شیطان نے کہا کہ ’’ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گےتمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے.‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۵) تو اس میں کوئی جھوٹ نہیںتھا.دونوں باتیں وہی تھیں جو اس درخت کے خواص میںشامل تھیں.وہ حیات کا درخت تھا اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا یعنی اس کے کھانے سے زندگی بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک وبد کے پہچاننے کی قابلیت بھی پیدا ہوتی تھی.پس شیطان نے آدم کو دھوکا نہیں دیا بلکہ بائبل کی رو سے خود خدا نے نعوذ باللہ آدم کو دھوکا دیا پھر اور آگے دیکھو جب آدم اور حوا نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو کیا وہ مر گئے؟وہ مرے نہیں بلکہ زندہ رہے اور شیطان کی بات ہی سچی نکلی کہ ’’ تم ہرگز نہ مرو گے‘‘ خدا تعالیٰ کی یہ بات کہ ’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ غلط نکلی.اسی طرح وہ اس درخت کو کھا کر جیسا کہ بائبل میں آگے ذکر آتا ہے نیک و بد کو بھی پہچاننے لگ گئے.پس بائبل کے رو سے آدم اور شیطان کا کوئی قصور نہیں خود خدا نے ان کو دھوکا دیا آدم ؑ نے کوشش کی کہ وہ نیک وبد کو پہچاننے لگے اور آدمی بن جائے اور اس کو دنیا کا کوئی شخص بدی نہیں کہہ سکتا.آدم نے نیکی کے راستہ میں ترقی کرنے کی کوشش کی اور شیطان نے کہا کہ خدا تمہیں دھوکا دے رہا ہے.وہ کہتا ہے اس کے کھانے سے تم مر جائو گے حالانکہ تم مرو گے نہیں بلکہ زندہ رہو گے او رپھر اس کے کھانے سے تمہارے اندر عقل پیدا ہو جائے گی اور تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ اس درخت کا پھل کھانے سے ان کے اندر عقل پیدا ہو گئی اور وہ نیک و بد کو پہچاننے لگ گئے.پس نہ آدم نے گناہ کیا اور نہ شیطان نے.گناہ کا مرتکب
صرف ایک ہی ہے اور وہ بائبل کا خدا ہے جس نے حیات کے درخت کوجھوٹ بول کر موت کا درخت ظاہر کیا اور کہا کہ اس کے کھانے سے تم مر جائو گے.اور یہ مرنا یا جسمانی ہو سکتا تھا یا روحانی مگر دونوں باتیں غلط تھیں جسمانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ حیات کا درخت تھا اور روحانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشنے والا تھا.پس اگر گناہ کیا تو آدم نے نہیں کیا بلکہ نعو ذباللہ خدا نے کیا اور آدم کو دھوکا دیا.یہاں عیسائیت یہ نہیں کہہ سکتی کہ خدا باپ نے جھوٹ بولا ہے خدا بیٹے نے جھوٹ نہیںبولا.کیونکہ عیسائیت میں جب خدا تعالیٰ کا ذکر ہو تو اس سے مرادا قانیم ثلاثہ ہوتے ہیں باپ خدا بیٹے سے جدا نہیں.اور بیٹا روح القدس سے جدا نہیں.پس جب باپ خدا نے جھوٹ بولا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بیٹے نے بھی جھوٹ بولا اور روح القدس نے بھی جھوٹ بولا.پس اگر گناہ ورثہ میں آیا ہے تو بائبل کی رو سے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آدم گنہگار نہ تھا بلکہ خدا یا دوسرے لفظوں میں یسوع گنہگار تھا جس نے نعوذبا للہ من ذالک جھوٹ بولا اور اسی پر سارا الزام آتا ہے.بہرحال بائبل نے خدا تعالیٰ کو ایسی بھیانک شکل میںپیش کیا ہے جو نہایت خطرناک اور افسوسناک ہے اور ان حوالجات کی موجوگی میں یسوع ہرگز نجات دہندہ نہیں کہلا سکتا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا اور دوسرے کو دھوکا اور فریب دینے والا نجات دہندہ ہو سکے.بائبل بتاتی ہے کہ خدا نے جھوٹ بول کر آدم سے کہا کہ تم اس درخت کا پھل کھانے سے مر جائو گے اور تمہیں نقصان پہنچے گا.حالانکہ وہ زندگی کا درخت تھا وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا اس کے کھانے سے نہ جسمانی لحاظ سے آدم مر سکتا تھا اور نہ روحانی لحاظ سے مر سکتا تھا.پھر آدم کے گنہگار نہ ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اسے جو غلطی لگی وہ محض اجتہادی تھی قرآن کریم نے بھی یہی بتایا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہو گئی اور اگر ہم بائبل کے واقعہ کو صحیح مانیں تب بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہوئی.پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ ،۲۸ میں لکھا ہے.’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا.خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا.نر و ناری ان کو پیدا کیا.‘‘ یعنی انسان جس کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس میں مرد بھی شامل ہے اور عورت بھی.انسان مرد بھی خدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اور انسان عورت بھی خدا کی صورت پر بنائی گئی ہے اب خدا کی صورت پربنانے کے یہ
معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی اسی طرح ناک ، کان ، آنکھ اور منہ وغیرہ ہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں آ گئیں اور جب خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور بتایا کہ تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم میری صفات کے مظہر بنو.تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ نیک وبد کے پہچاننے کی صفت آدم میں نہ آتی.پس شیطان نے آدم سے کہا کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک و بد کو پہچاننے کی طاقت رکھتا ہے پس جس طرح خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے تمہیں بھی نیک وبد کو پہچاننا چاہیے اور اس کا طریق یہی ہے کہ اس نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو.اگر تم اسے کھائو گے نہیں تو نیک اور بد کی پہچان کس طرح کرو گے.اور جب نیک اور بد کو پہچاننے کی قابلیت تم میں پیدا نہ ہو گی تو تم خدا تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر نہیں بن سکو گے پس ضروری ہے کہ تم اس درخت کا پھل کھائو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اس درخت کا پھل کھا کر خدا تعالیٰ کی طرح ہو جائو یا تیسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ اگر تم اس درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اس مقصد کو حاصل کر لو گے جس کے لئے خدا نے تم کو پیدا کیا ہے.فرض کرو تمام واقعہ اسی طرح ہوا ہو تو اس کے بعد آدم کو اگر اجتہادی غلطی لگ گئی تو اس میں اس کا قصور کیا تھا.ایک شخص آدم کے پاس آتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ تم کو معلوم ہے کہ تمہیں خدا کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے اور تم کو معلوم ہے کہ اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہو اور تم کو پتہ ہے کہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک وبد کو پہچانتا ہے پس اگر تم نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اپنے مقصد پیدائش کو حاصل کر لو گے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بن جائو گے.یہ اتنی زبردست دلیل تھی کہ آدم اجتہادی غلطی میں مبتلا ہو گیا اور اس نے سمجھاکہ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے بالکل درست ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں آدم کے ایک دفعہ دھوکا کھانے کے باوجود اگر آج بھی اسی رنگ میں لوگوں کے سامنے دلیل پیش کی جائے تو کئی لوگ آج بھی دھوکا کھا جائیں گے اور سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی تھا کہ اس درخت کا پھل کھا لیا جائے یہ منشاء نہیں تھا کہ اسے نہ کھایا جائے.غرض آدم کوغلطی لگنے کا امکان بائبل کے رو سے موجود ہے خود بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ نیک وبد کو پہچاننا خدا تعالیٰ اپنی صفت قرار دیتا ہے.پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ میں لکھا ہے:.’’ اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک وبد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا‘‘ اس جگہ ’’ ہم ‘‘ سے عیسائیوں کے نزدیک اقانیم ثلاثہ مراد ہیں یعنی ہم اقانیم ثلاثہ میں سے ایک کی مانند اور یہودیوں کے نزدیک ’’ہم ‘‘ سے خدا اور اس کے فرشتے مراد ہیں کیونکہ جیسے خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے اسی طرح فرشتے
بھی نیک اور بد کو پہچانتے ہیں پس یہودیوں کے نزدیک تو اس کے یہ معنے ہوںگے کہ جیسے خدا اور اس کے فرشتے نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا اور عیسائیوں کے نزدیک اس کے یہ معنے ہوںگے کہ جیسے باپ خد ااور بیٹا خدا اور روح القدس خدا نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں.اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا.اس حوالہ سے صاف پتہ لگ گیا کہ نیک اور بد کو پہچاننا خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور جو اسے پہچانتا ہے وہ خدا جیسا ہو جاتا ہے یا خدا کی صورت پر ہو جاتا ہے یا بائبل کی رو سے اس صورت پر ہو جاتا ہے جس صورت پر اسے خدا نے پیدا کیا.ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ حیات کے درخت کے بارہ میں بائبل کا خیال عجیب مضحکہ خیز ہے پیدائش باب ۲ آیت ۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت ایک ہی تھا لکھا ہے خدا نے ’’ باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت بھی لگایا.‘‘ یہاں مفرد لفظ ’’ لگایا ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ’’لگائے‘‘ جوجمع کا لفظ ہے وہ یہاں استعمال نہیںکیا گیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی درخت میں یہ دونوں صفات تھیں.اس کے کھانے سے حیات بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک و بد کے پہچاننے کی طاقت بھی پیدا ہوتی تھی.اس کے بعد آیت ۱۶،۱۷ میں لکھا ہے.’’ خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا.‘‘ یہاں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ایک درخت ہے اور ایک درخت سے ہی آدم کو روکا گیا.اگر دو درخت ہوتے تو دونوں سے روکنا چاہیے تھا مگر وہ منع کرتا ہے ایک درخت سے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی حیات کا درخت تھا.اور وہی نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا لیکن پیدائش باب ۳ آیت ۲۲،۲۳ میں لکھا ہے.’’ اور خدا وند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا.اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے.اس لئے خدا وند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کر دیا.‘‘ یہاں دو درخت ہو گئے نیک وبد کی پہچان کا درخت الگ ہو گیا اور حیات کا درخت الگ ہو گیا.چونکہ آدم نے
نیک وبد کی پہچان کے درخت میں سے کھا کر نیک وبد کو پہچاننے کی قابلیت پیدا کر لی تھی اس لئے خدا نے اسے باغ عدن سے باہر نکال دیا کہ کہیں وہ حیات کے درخت کا پھل بھی نہ کھا لے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث نہ ہو جائے.پھر پیدائش باب ۲ آیت ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ سے پہلے آدم کے لئے موت مقرر نہ تھی کیونکہ لکھا ہے.’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘ جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر آدم اور حوا اس میں سے نہیں کھائیں گے توہ نہیںمریں گے پس موت اس درخت میں سے کھانے کا نتیجہ تھی اگر نہ کھاتے تو وہ کبھی نہ مرتے.اسی طرح پیدائش باب ۳ آیت ۴ میں آتا ہے کہ ’’ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘ اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ موت کو اس درخت کا پھل کھانے کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے.اسی طرح رومیوں باب ۵ آیت ۱۲ میں لکھا ہے کہ ’’ گناہ کے سبب سے موت آئی.‘‘ پھر یعقوب باب ۱آیت ۱۵ میں لکھا ہے:.’’گناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کر تا ہے.‘‘ ان حوالجات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بائبل ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ اگر تم نے اس درخت میں سے کچھ کھایا تو مر جائو گے.حالانکہ تھا وہ درخت حیات کا اور حیات کے درخت میں سے کھا کر انسان مرتا نہیں جیتا ہے.دوسری طرف رومیوں اور یعقوب میں لکھا ہے کہ موت گناہ کے نتیجہ میں آئی یعنی اگر وہ گناہ نہ کرتے تو نہ مرتے.اب ہم اس کے ساتھ پیدائش باب ۳ آیت ۲۳ کو ملاتے ہیں تو حیرت آتی ہے اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ حیات کے درخت میں سے کچھ کھا کر ہمیشہ زندہ رہے.حالانکہ جب گناہ کا نتیجہ موت تھا تو چونکہ وہ پہلے نیک وبد کے درخت میںسے کھا کے گنہگار بن چکا تھا اس لئے خواہ دس ہزار دفعہ بھی وہ اس درخت میں سے کھاتا وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا.پس یا تو یہ کہنا چاہیے کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں اس درخت کے کھانے کا نتیجہ زندگی ہے لیکن ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے اور دوسری طرف بائبل یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا تا ایسا نہ ہو کہ وہ درخت میںسے کچھ کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے معلوم ہوا کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں بلکہ اس درخت کا پھل کھانے کے نتیجہ میں گناہ کے باوجود انسان زندہ رہ سکتا تھا.
پھر یہ سوال ہے کہ آدم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا.حالانکہ آدم کے باپ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا نہ آدم کی ماں نے کوئی گناہ کیا تھا.اگر بغیر اس کے کہ ماں باپ نے کوئی گناہ کیا ہو بیٹا گناہ کر سکتا ہے تو بغیر اس کے کہ ماں باپ نے کوئی نیکی کی ہو بیٹا نیکی بھی کر سکتا ہے اور اگر آدم نیکی کر سکتا تھا تو باقی لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟ معلوم ہوا کہ اس میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ ترقی بھی کر سکتا ہے اور تنزل بھی کر سکتا ہے آدم کا باپ گنہگار نہیں تھا بلکہ اس کا تو کوئی باپ تھا ہی نہیں.مگر آدم نے گناہ کر لیا.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ گناہ اور نیکی دونوں خاص حالات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور ان چیزوں میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا.پس کفارہ ایک بلا ضرورت شئے ہے.پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم کا گناہ کس طرح بخشا گیا؟ اگر توبہ سے بخشا گیا تو اسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے اور کفارہ کی کوئی ضرورت تسلیم نہیں کی جا سکتی.غرض وہ ساری بنیاد جس پر کفارہ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اور جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عیسائیت کہتی ہے کہ چونکہ انسان گناہ سے خود بخود نجات نہیں پا سکتا اس لئے کفارہ پر ایمان لانا ضروری ہے بائبل اور خود انجیل کی گواہی سے باطل ثابت ہوتی ہے.پھر بائبل سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدم کا سارا واقعہ تمثیلی ہے اور اس پر کسی عقیدہ کی بنیاد رکھنا عقل کے سراسر خلاف ہے کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حوا نے درخت کا پھل کھا لیااور پھر آدم ؑ کو بھی دیا.’’ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں.‘‘(پیدائش باب ۳ آیت۷) درخت کا پھل کھانے سے ننگا ہو جانا یہ صاف بتاتا ہے کہ اس واقعہ میں تمثیلی زبان اختیار کی گئی ہے.پھر لکھا ہے:.’’ اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی.‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۷و ۸) یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کی واضح دلیل ہیں.ٹھنڈک اور گرمی پیدا کرنے والا خود خدا ہے اور اسے ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں.یہ نہیں کہ جس طرح لوگ گرمی کے موسم میں کوئٹہ اور مری چلے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی ضرورت ہے کہ وہ ٹھنڈے وقت باہر نکلا کرے اور گرمی سے اپنے آپ کو بچائے مگربائبل بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ٹھنڈا وقت دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے کہ ابھی سورج نہیں نکلا باغ میں پھرنا شروع کر دیا تاکہ گرمی سے اسے
تکلیف نہ ہو صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے استعارہ کی زبان میں بیان کیا گیا ہے.اسی طرح لکھا ہے :.’’ اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خداکے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا.‘‘ (پیدائش باب ۳آیت ۸) یہ بھی تمثیلی زبان ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہو.خواہ زمین کی سطح پر کوئی چیز ہو یا تحت الثریٰ میں سب اس کے علم میں ہیں مگر بائبل بتاتی ہے کہ آدم اور حوا باغ کے درختوں میں چھپ گئے تاکہ خدا تعالیٰ انہیں دیکھ نہ سکے.یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کا ثبوت ہیں.پھر ایک اور بات لکھی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے علم کی محدودیت کا پتہ چلتا ہے لکھا ہے.’’ تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس سے کہا کہ تو کہاں ہے.‘‘ (پیدائش باب ۳آیت ۹) گویا وہ خدا جو زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اس نے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ ارے آدم تو کہاں ہے.ارے آدم تو کہاں ہے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے ورنہ وہ تو عرش پر بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہے.اور اگر وہ دیکھ نہیں رہا تو مخلوق کی نگرانی کس طرح کر رہا ہے؟ غرض بائبل بتاتی ہے کہ جب وہ باغ میں چھپ گئے تو خدا تعالیٰ نے انہیں آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے آدم تو کہاں ہے.’’ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا.‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۱۰) کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے آدم کا یہ خیال کر لینا کہ میں باغ میں چھپ کر خدا تعالیٰ کی نظروں سے پوشیدہ ہو جائوں گا یہ بھی عقل کے بالکل خلاف ہے.غرض یہ حوالہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس جگہ ظاہری واقعہ مراد نہیں بلکہ تمثیلی رنگ میں اس کو بیان کیا گیا ہے اور استعارہ کی زبان اس کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی ہے اور تمثیلی کلام اور استعارات ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اس لحاظ سے یہ بھی ایک تعبیر طلب کلام ہے نہ کہ حقیقی واقعہ.پس جس کلام پر اس عقیدہ کی بنیاد رکھی گئی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اس کا دل سیاہ ہو گیا ہم کہتے ہیں کہ وہ سارا کلام ہی تمثیلی ہے جیسے خدا تعالیٰ کا باغ میں پھرنا اس کا ٹھنڈے وقت سیرکے لئے آنا.آدم کا اسے نظر نہ آنا اور پھر
اللہ تعالیٰ کا آدم کو آوازیں دینا اور کہنا اے آدم تو کہاں ہے.یہ سب تمثیلی کلام ہے.اسی طرح باقی واقعہ بھی تمثیلی ہے پس اس پر کسی مذہبی عقیدہ کی بنیا د رکھنا عقل کے خلاف ہے.پھر جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں آدم کا گناہ کر لینا حالانکہ اس کا نہ باپ تھا نہ ماں یہ بھی بتاتا ہے کہ گناہ اور نیکی دونوںخاص حالات میں ظاہر بھی ہو سکتے ہیں اور مٹ بھی سکتے ہیں.پس کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی.اگر باہر سے نیکی نہیں آ سکتی تو باہر سے گناہ بھی نہیں آ سکتا.اور اگر گناہ باہر سے آ سکتا ہے تو نیکی بھی آ سکتی ہے.اگر آدم جس کا نہ باپ تھا نہ ماں اس کے اندر باہر سے گناہ آ گیا تو اولاد میں باہر سے نیکی بھی آ سکتی ہے.یہ دونوں چیزیں مساوی سمجھی جائیں گی.پھر بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ آدم گناہ کے باوجود خدا تعالیٰ کا مقدس رہا ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب عیسائیوں کی طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ آدم کا گناہ بخشا گیا ہم کہتے ہیںاسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے ان کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی.کفارہ کے مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے یا انسان کے نفس کے ایسے خراب ہو جانے کے لئے کہ اس کی درستی اور اصلاح ناممکن ہو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد انسان خراب ہو گیا اور وہ نیکی پر قائم نہیں رہ سکا.اگر بائبل سے یہ ثابت ہو کہ انسان آدم کے گناہ کے بعد نیکی پر قائم نہیں رہ سکا تو پھر بائبل کے مطابق کفارہ کو درست تسلیم کرنا پڑے گا لیکن اگر بائبل سے ہی پتہ لگے کہ آدم کے گناہ کے بعد (جسے قرآن کریم گناہ قرار نہیںدیتا)انسان خراب نہیں ہو ابلکہ وہ نیکی پر قائم رہا تو پھر کفارے کی بنیاد ہی باطل ہو جاتی ہے جب کفارہ کے بغیر انسان نیک بھی ہو سکتا تھا اور گناہ سے بھی بچ سکتا تھا تو اس کی نجات کے لئے کسی نئی چیز کی ضرورت نہ رہی.اس بارہ میں ہم انجیل ہی کی تعلیم لے لیتے ہیں.رومیوں باب ۵ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:.’’آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا.‘‘ اس جگہ آنے والے سے مراد مسیح ؑ ہے او رآنے والے کا مثیل آدم کو قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آدمؑ سے لے کر موسیٰ ؑ تک موت نے ان پر بھی بادشاہت کی جنہوں نے آدم کی طرح (جو مسیح کا مثیل تھا) گناہ نہیں کیا تھا گویا پولوس مانتا ہے کہ آدم ؑ سے لے کر موسیٰ ؑ تک بہت سے لوگ ایسے بھی گزرے ہیںجنہوں نے گناہ نہیں کیا تھااور جب انہوں نے گناہ نہیں کیا تھا تو یہ ثابت ہوا کہ انسان گناہ سے بچ سکتا ہے بہرحال انجیل مانتی ہے کہ آدم کے
بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا لیکن لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ حضرت مسیح کی صلیب کے واقعہ کے بعد جب لوگوں کی طرف سے اعتراضات ہوئے تو گھبراہٹ میں جلدی سے بنا لیا گیا تھا.اسی لئے حواری کبھی کچھ کہہ دیتے تھے اور کبھی کچھ مثلاً یہی فقرہ جس کو اوپر درج کیا گیا ہے صاف طور پر بتاتا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا گویا آدم کے گناہ کرنے کے باوجود اس کی اولاد کو ورثہ میں گناہ نہیں ملا.لیکن اسی کتاب کے اسی باب کی بارہویں آیت میں لکھا ہے کہ ’’ یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا ‘‘ یعنی آدم کو گناہ کی سزا موت ملی.اور آدم کی وجہ سے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی.اس لئے کہ سب نے گناہ کیا.’’کیونکہ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا.‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۳) گویا پولوس ایک ہی باب میں دو آیتیں لکھتا ہے پہلے تو یہ لکھتا ہے کہ چونکہ سب نے گناہ کیا اس لئے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی (کیونکہ موت کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ گناہ کے نتیجہ میں آئی ہے) لیکن آیت ۱۴ میں جا کر کہہ دیا کہ ’’ موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا.‘‘ لیکن اب انہیں ایک اور مشکل پیش آگئی اور وہ یہ کہ مسیحیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شریعت شروع ہوئی ہے پہلے نہیں.جب پہلے کوئی شریعت ہی نہیں تھی تو گناہ کہاں تھا؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ ’’ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا.‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۳) گویا ان کے نزدیک شریعت اور گناہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور یہ بالکل درست ہے اس میں ہم بھی ان سے متفق ہیں شریعت الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ اس اس طرح نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا اور گناہ تب ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس سے شریعت نے بنی نوع انسان کو بصراحت روکا ہو ورنہ شریعت کے نزول سے پہلے گناہ محسوب نہیں ہوتا پس اتنی بات تو درست ہے.لیکن خواہ شریعت موجود نہ ہو جو چیز
بری ہے وہ بہرحال بری ہو گی.مثلاً قرآن کریم نازل ہوا اور اس نے کہا کہ ظلم نہ کرو.یہ بہت بڑا گناہ ہے اور ہم نے سمجھ لیا کہ ظلم کرنا اچھا نہیں لیکن اگر قرآن کریم میں یہ حکم نازل نہ ہوتا اور یہ نہ کہا جاتا کہ ظلم نہ کرو.تو پھر بھی ظلم کرنے والا ایک برے فعل کا مرتکب ہوتا.یہی حال اور برائیوں کا ہے شریعت نازل نہ ہوتی تو پھر بھی برائیاں، برائیاں ہی رہتیں.فرق صرف اتنا ہوتا کہ ایک فعل کودس بیس آدمی برا کہتے اور دس بیس آدمی برا نہ کہتے.پچاس ساٹھ کہتے کہ یہ نیکی ہے اور پچاس ساٹھ کہتے یہ نیکی نہیں.بہرحال احساس برائی کا اور احساس نیکی کا یہ شریعت کے ساتھ تعلق نہیںرکھتا فطرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہی چیز پولولس پیش کرتا ہے کہ دنیا میںگناہ تھا لیکن جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا تھااور یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ گناہ ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کسی موقعہ پر شریعت نہ ہو تو ہر برا فعل گناہ تو ہوگا لیکن وہ گناہ شریعت کے مطابق محسوب نہیں ہوگا.مثلاً ایک جگہ پر شریعت موجود نہیں اور لوگ نمازیں نہیں پڑھتے.فرض کرو وہ جنگلوں میںرہتے ہیں یا دور پہاڑوں پر رہتے ہیں اور انہیں پتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں تو خدا تعالیٰ ان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے اسلام کی بتائی ہوئی نماز کیوں نہیں پڑھی یا تم نے اسلام کا بتایا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھا.کیونکہ اس نماز اور روزہ کا تو انہیںکچھ پتہ ہی نہ تھا.حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ قیامت کے دن چار قسم کے لوگ شرعی مؤاخذہ سے محفوظ ہوں گے.اول مادر زاد بہرے.دوم پاگل.سوم پیر فرتوت.چہارم وہ لوگ جن تک اسلام کی تبلیغ نہیں پہنچی اور وہ اسی حالت میں فوت ہو گئے.ایسے لوگوں کے امتحان کے لئے ان کی طرف کوئی اور رسول مبعوث کیا جائے گااگر وہ اسے مان لیں گے تو نجات پا جائیں گے اور اگر نہیں مانیں گے تو سزا پائیں گے (روح المعانی جلد ۴ زیر آیت و ماکنا معذبین حتی نبعث رسولا) اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے استدلال کر کے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا محاسبہ فطرت کے مطابق ہو گا(حقیقة الوحی صفحہ ۱۸۶) یعنی قرآن کریم کی شریعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا محاسبہ نہیں ہوگا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت کے اندر جو باتیں رکھی ہیں ان کے ماتحت ان کا محاسبہ ہوگا.انسانی فطرت بھی بعض چیزوں کو گناہ قرار دیتی ہے بغیر اس کے کہ شریعت انسان کی راہنمائی کرے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک چور آپ کے پاس علاج کے لئےآیا.آپ نے اسے نصیحت کی کہ تم لوگوں کا مال لوٹ لیتے ہو یہ بہت بری بات ہے تمہیں اس قسم کی حرام کمائی سے بچنا چاہیے.اس نصیحت کو سن کر وہ کہنے لگا واہ مولوی صاحب آپ نے بھی مولویوں والی ہی بات کی.بھلا ہمارے جیسا بھی کوئی حلال مال کماتا ہے آپ تھوڑی دیر نبض پر ہاتھ رکھ کر فیس وصول کر لیتے ہیں اور ہم سردی کے موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے اور
اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے جاتے ہیں.کس طرح ہمیںپولیس کا ڈر ہوتا ہے کس طرح قدم قدم پر ہمیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے مگر ہم تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد جاتے ہیں اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال کر روپیہ لاتے ہیں.بھلا ہم سے زیادہ حلال کمائی اور کسی کی ہو سکتی ہے؟ آ پ فرماتے تھے یہ سن کر میں نے جھٹ اسے اور باتوں میں لگا دیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اس سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا ہم سات آٹھ آدمی مل کر چوری کرتے ہیں ایک گھر کی ٹوہ لگانے والا ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ فلاں گھر میں اتنا مال ہے ایک سیندھ لگانے کا مشّاق ہوتا ہے ایک باہر کھڑا پہرہ دیتا رہتا ہے دو آدمی گلی کے سروں پر کھڑے رہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ادھر آئے تو وہ فوراً بتا دیں.ایک آدمی اندر جانے والا ہوتا ہے اور ایک آدمی اچھا لباس پہن کر دور کھڑا ہوتا ہے جس کے پاس چوری کا تمام مال ہم جمع کرتے جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی د یکھ بھی لے تو شبہ نہ کرے بلکہ سمجھے کہ یہ کوئی شریف آدمی ہے جو اپنا مال لئے کھڑ اہے باقیوں نے اپنے جسم پر تیل ملا ہوا ہوتا ہے اور وہ لنگوٹ باندھ کر اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہوتے ہیں.پھر ایک سنار ہوتا ہے جس کو ہم تمام زیورات دے دیتے ہیں وہ سونا گلا کر ہمیں دے دیتا ہے اور ہم سب آپس میں مل کر تقسیم کر لیتے ہیں.جب وہ یہاں تک پہنچا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میںنے کہا اگر وہ سنار سارامال لے جائے اور تمہیں کچھ نہ دے تو پھر تم کیا کرو؟ اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا.کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گا کہ دوسروں کا مال کھا جائے؟ میں نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہاری نگاہ میں بھی ایمان اور بے ایمانی میں کچھ فرق ضرور ہے اور تمہاری فطرت سمجھتی ہے کہ فلاں فعل بے ایمانی ہے اور فلاں فعل نیکی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بھی یہی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی فطرت پر امتحان ہو جائے گا اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ تم نے وہ نماز کیوں نہیں پڑھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ یہ کہے گا کہ تمہاری فطرت میں کسی نہ کسی ہستی کی عبادت کا مادہ رکھا گیا تھا تم یہ بتائو کہ اس فطرت کی آواز کے مطابق تم نے عبادت کی تھی یا نہیں ؟یا مثلاً جھوٹ ہے ، چوری ہے، ڈاکہ ہے.دوسرے کا مال تو انسان کھا لیتا ہے لیکن جب اس کا اپنا مال کوئی شخص اٹھا لیتا ہے تو کہتا ہے فلاں بڑا بے ایمان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی چیز کھانا یہ بھی بے ایمانی سمجھتا ہے.یہ صحیح ہے کہ شریعت کے مطابق اس کو مجرم نہیں کہا جائے گا لیکن فطرت کے مطابق وہ مجرم ہوگا اور اسے سزا دی جائے گی پس یہ مسئلہ تو ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ درست ہے تو پھر کفارہ کہاں رہا؟ انجیل اگر یہ کہتی کہ فطرت انسانی لعنت ہے تو پھر یہ مسئلہ قائم رہ جاتا لیکن انجیل یہ کہتی ہے کہ شریعت لعنت ہے (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳) یعنی وہ جو انسان کا نفس کسی فعل کو گناہ قرار دیتا ہے انجیل اس کے خلاف نہیں بلکہ انجیل یہ کہتی
ہے کہ شریعت لعنت ہے یعنی شریعت میں ایسے احکام دئیے گئے ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کر سکتے اور وہ کہتی ہے کہ اسی وجہ سے مسیح نے شریعت اڑا دی.لیکن سوال یہ ہے کہ موسیٰ ؑسے پہلے بھی شریعت اڑی ہوئی تھی اور انسان کی نجات کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ فطرت کے مطابق عمل کر کے وہ نجات پا جاتا تھا یا فطرت کے خلاف عمل کر کے سزا پا لیتا تھا.پھر اب کسی کفارہ کی کیا ضرورت ہے؟ گویا اصل مسئلہ صرف اتنا بنا کہ موسیٰ ؑ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے شریعت بھیج کر لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیا.مگر اس کا علاج کفارہ نہیں تھا.اصل علاج صرف اتنا تھا کہ شریعت کو منسوخ کر دیا جاتا.یہ چاہے کتنی ہی بیوقوفی کی بات ہوتی مگر بہرحال جہاں تک علاج کا سوال ہے اصل علاج صرف اتنا تھا.کیونکہ رومیوں کے حوالہ سے صاف ماننا پڑتا ہے کہ موسیٰ ؑ سے پہلے شریعت نہیں تھی اور بوجہ شریعت نہ ہونے کے لوگوں کو شریعت کے ماتحت گنہگار نہیں قرار دیا جاسکتا تھا اور جب شریعت کے مطابق وہ گنہگار نہیں تھے تو شریعت انہیں سزا بھی نہیں دلا سکتی تھی اور پھر رومیوں کے حوالہ کے مطابق ایسے لوگ بھی تھے جو گنہگار نہیں تھے یعنی فطرت کے گنہگار بھی نہیں تھے.ان سارے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خرابی پیدا ہوئی وہ آدم ؑ کے گناہ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ! خدا تعالیٰ کی اس غلطی سے ہوئی کہ اس نے موسیٰ ؑ کے ذریعہ ایک شریعت نازل کر دی جب لوگ اس پر عمل نہ کر سکے اور ان کی سزا کا سوال آیاتو اللہ تعالیٰ نے یسوع مسیح کو بھیج کر شریعت کو ہمیشہ کےلئے اڑا دیا.حالانکہ اس کے لئےیسوع مسیح کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی جس خدا نے موسیٰ ؑ کو شریعت دی تھی وہی یوشع ؑ کو کہہ دیتا کہ چونکہ لوگ اس پر عمل نہیں کر سکتے اس لئے میں اسے منسوخ کر تا ہوں.پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر گناہ ہوتا ہے مگر محسوب نہیں ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کا عدل کہاں رہا.کفارہ کی دوسری بنیاد عدل پر رکھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کو گناہوں کی سزا نہ دے تو وہ عادل نہیں رہتا مگر سوال یہ ہے کہ صرف نام بدل دینے سے تو کوئی چیز اپنی ماہیت سے الگ نہیں ہو سکتی.ایک چور چوری کر رہا ہے اور ہم کہتے ہیں اس کو کوئی سزا نہیں ملے گی کیونکہ ابھی موسیٰ ؑ کی شریعت نازل نہیں ہوئی.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص چوری کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں یہ دائمی جہنم میں جائے گا کیونکہ موسٰی کی شریعت اس کو گنہگار قرار دیتی ہے.حالانکہ چیز ایک ہے اس نے بھی اسی طرح مال اٹھایا ہے جس طرح پہلے نے اٹھایا ہے.مگر ایک کے فعل کو ہم اس لئے جرم قرار نہیں دیتے.کہ موسیٰ ؑ کی شریعت ابھی نازل نہیں ہوئی.اور ایک کو ہم اس لئے جرم قرار دے دیتے ہیں کہ موسیٰ ؑ کی شریعت نازل ہو چکی ہے.ایک کو ہم چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے کو ہم پکڑ لیتے ہیں.حالانکہ دونوں سے
ایک ہی فعل سرزد ہوا ہے یہ کہاں کا عدل ہے اور کونسا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے.بہرحال عدل تو پھر بھی نہ رہا.یا مثلاً جھوٹ بولنا یا لوگوں پر ظلم کرنا ہے اگر اس سے ہم لوگوں کو منع نہیں کرتے یا یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے جھوٹ بول کر یا ظلم کر کے گناہ کیا.تو ان فعلوں کا مرتکب متقی اور پاک دل کس طرح ہو سکتا ہے؟ محض ہمارے نہ روکنے کی وجہ سے.محض ہمارے جھوٹے کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا ظالم کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا چور کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے وہ متقی کس طرح بن سکتا ہے ؟ اور اگر وہ گنہگار نہیں ا ور ایک دوسرا شخص انہی افعال کی وجہ سے گنہگار کہلاتا ہے تو عدل تو پھر بھی قائم نہ رہا.یہاں تک تو اصولی اور فلسفیانہ طور پر میں نے بحث کی ہے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عملاً بھی بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میںنیک لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں حنوک جو حضرت آدم کے پڑپوتے اور نوح کے پردادا تھے ان کے متعلق لکھا ہے.’’حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی کل عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا.‘‘ (پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ تا ۲۴) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حنوک خدا تعالیٰ کے ساتھ چلتے رہے.اس کے یہ معنے تو ہو نہیں سکتے کہ حنوک اور خدا دونوں سفر پر اکٹھے رہے اور جس طرح لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ چلو امریکہ دیکھ آئیں یا کسی اور ملک کی سیر کر آئیں.اسی طرح وہ تین سو سال تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سیریں کرتے رہے.یہ بائبل کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ حنوک نیک انسان تھا اور خدا ئی صفات اس نے اپنے اندر پیدا کر لی تھیں یعنی جو کام خدا تعالیٰ کرتا ہے وہی کام حنوک کیا کرتا تھا.وہ بڑا رحم کرنے والا تھا ، وہ بڑا حسن سلوک کرنے والا تھا ، وہ ظلم نہیں کرتا تھا ،وہ ہر شخص سے پیار اور محبت سے پیش آتا تھا ، وہ عدل اور انصاف سے کام لیتا تھا ، وہ غرباء کی خبرگیری کیا کرتا تھا.اسی طرح خدا تعالیٰ کی یہ صفات کہ وہ رب ہے رحمٰن ہے رحیم ہے مالک ہے غفور ہے یہ ساری صفات اس میں بھی پائی جاتی تھیں اور پھر وہ آسمان پر اٹھا لیا گیا.گویا مسیح کے ساتھ اسے کلی مشابہت تھی اور ویسا ہی مقام حنوک کو حاصل تھا جیسے مسیح ؑ کو حاصل ہوا بلکہ مسیح کو تو ساری زندگی تیس سال ملی مگر حنوک ۳۶۵سال تک زندہ رہا اور تمام عمر اس نے نیکی اور تقویٰ میں بسر کی.اس سے پتہ لگا.کہ حنوک جو آدم کا پڑپوتا اور نوح کا پڑدادا تھا وہ اتنا نیک تھا کہ گویا خدا کی مثال تھا اور پھر وہ زندہ آسمان پراٹھا لیا گیا.اس کے ساتھ جب ہم حضرت مسیح کا یہ حوالہ ملاتے ہیں کہ
’’ آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اس کے جو آسمان سے اترا ‘‘ (یوحناباب ۳ آیت ۱۳) تو حنوک کا مقام اور بھی واضح ہو جاتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حنوک کا آنا بھی آسمان سے ہی تھا تبھی وہ آسمان پر چلا گیا.درحقیقت اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آسمان پر جانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن پر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ اپنا تصرف رکھتا ہے اور انہیں اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لیتا ہے.ایسے ہی لوگوں میں سے حنوک بھی تھے جنہوں نے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ کے فضل اوراس کے رحم کے سایہ کے نیچے پرورش پائی اور بقول بائبل وہ بھی آسمان پر اٹھا لئے گئے.پھر حنوک سے بھی زیادہ شاندار ذکر بائبل میں ملک صدق سالم کا موجود ہے اور انجیل بھی اس کی تائید کرتی ہے.بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جب عراق میں ظلم ہوئے اور ان کے چچا اور بھائیوں نے انہیں دکھ دیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ یہاں سے ہجرت کر کے فلسطین چلے جائیں صرف حضرت لوط ؑآپ پر ایمان لائے تھے وہ لوط کو ساتھ لے کر چلے.آپ کی بیوی بھی ساتھ تھیں.راستہ میں مصر سے ہوتے ہوئے اور حضرت ہاجرہؓ سے شادی کرتے ہوئے فلسطین پہنچے.اس ملک کے متعلق آپ کو بشارت مل چکی تھی کہ یہاں آپ کو جگہ دی جائے گی اور آپ کو ماننے والے یہاں پیدا ہو جائیں گے.جب آپ فلسطین میں آ کر بس گئے اور اردگرد کے بادشاہوں نے دیکھا کہ ابراہیم ؑ لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے تو انہوں نے آپ سے لڑائی کی.آپ بھی ان کے مقابلہ میں نکلے اور انہیں شکست دی.جب آپ انہیں شکست دے کر واپس آ رہے تھے تو ملک صدق سالم ایک بادشاہ آپ سے ملا.وہ اپنے زمانہ میں بہت بڑا نیک اور بزرگ اور ولی اللہ سمجھا جاتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غنیمت کے اموال کا دسواں حصہ ملک صدق سالم کی خدمت میں پیش کیا.ملک صدق سالم نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ روپیہ کی مجھے ضرورت نہیں جو آدمی آپ پکڑ لائے ہیں صرف وہ دے دئیے جائیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں یہ مال آپ کو ضرور دوں گا تا ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ملک صدق سالم کی وجہ سے میں دولت مند ہوا ہوں گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی اطاعت اور فرمانبردای کو قبول کیا.(پیدائش باب ۱۴آیت ۱۸ تا ۲۴) انجیل میں اس واقعہ کو زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لکھا ہے:.’’ یسوع ہمیشہ کے لئے ملک صدق کے طریقہ کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے.‘‘ (عبرانیوں باب ۶ آیت ۲۰)
اس جگہ پولوس اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یسوع مسیح ہمیشہ کے لئے ملک صدق سالم کے طریقہ کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے یعنی باقی لوگ تو مر جاتے ہیں.موسیٰ ؑ آئے اور فوت گئے.دائود ؑ آئے اور فوت ہو گئے ، سلیمان ؑ آئے اور فوت ہو گئے لیکن ملک صدق سالم نہیں مرا.اسی طرح مسیح ؑ بھی نہیں مرا.پھر آگے لکھا ہے:.’’ اور یہ ملک صدق ، سالم کا بادشاہ خدا تعالیٰ کا کاہن ہمیشہ کاہن رہتا ہے ‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱) یعنی ملک صدق سالم پر کبھی موت نہیں آتی.پھر لکھا ہے:.’’ جب ابراہام بادشاہوں کو قتل کر کے واپس آتا تھا تو اسی نے اس کا استقبال کیا اور اس کے لئے برکت چاہی.‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱) یعنی ملک صدق سالم نےا براہیم کو برکت دی.معلوم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا سمجھتا تھا کیونکہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ ملک صدق سالم نے یہ نہیں کہا کہ اے ابراہیم خدا تجھے برکت دے بلکہ اس نے یہ کہا کہ اے ابراہیم تیرے مال میں برکت ہو یعنی میں تجھے برکت دیتا ہوں.اور لکھا ہے:.’’ اسی کو ابراہیم نے سب چیزوں کی دہ یکی دی‘‘ آگے لکھا ہے:.’’ یہ اول تو اپنے نام کے معنی کے موافق راستبازی کا بادشاہ ہے (کیونکہ صدق راستبازی کو کہتے ہیں ) اور پھر سالم یعنی صلح کا بادشاہ (سالم سلامتی سے نکلا ہے) یہ بے باپ ، بے ماں ، بے نسب نامہ ہے.نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخربلکہ خدا کے بیٹے کا مشابہ ٹھہرا.‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۲، ۳) یعنی ملک صدق سالم کا نہ باپ تھا نہ ماں تھی.وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی تھا.نہ اس کی عمر کا کوئی شروع ہے اور نہ زندگی کا آخر.نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی مرتا ہے.وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ ہے اور خدا تعالیٰ کے بیٹے کے مشابہ ہے جس طرح مسیح ازل سے ابد تک ہے (وہ مسیح نہیں جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا.بلکہ وہ مسیح جو اقنوم ثلاثہ
میں شامل ہے) اسی طرح ملک صدق سالم بھی ازلی ابدی ہے.نہ اس کی کوئی ابتداء اور نہ انتہاء.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک اور وجود بھی تھا جو نیک تھا اور ایسا نیک تھا کہ وہ راستبازی اور صلح کا بادشاہ تھا اور ابراہیم ؑ کو برکت دینے کا حق رکھتا تھا.پھر انجیل میں حضرت زکریا ؑ اور ان کی بیوی کے متعلق لکھا ہے.’’ وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے‘‘ (لوقاباب ۱ آیت۶) پھر یوحنا کے بارے میں حضرت زکریا علیہ السلام کو فرشتے نے کہا :.’’وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگااور ہرگز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا.(لوقاباب ۱آیت ۱۵) گویا یوحنا پر روح القدس کا نزول ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد نہیں ہوگا بلکہ ابھی وہ ماں کے پیٹ میں ہی ہو گا کہ روح القدس اس پر نازل ہو گا اور وہ اسے اپنے تصرف میں لے لے گا اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے جب کسی پر ماں کے پیٹ میں ہی روح القدس نازل ہو جائے گا تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکے گا.غرض یوحنا کے متعلق بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ اور خرابی ان کے قریب نہیں آئی.بلکہ حضرت مسیح ؑ نے یہاں تک کہا کہ:.’’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میںیوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں.‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۱۱ و۱۲) اس طرح اس نے یوحنا کو اپنی ذات سے بھی بالا ثابت کیا.کیونکہ مسیح ؑ بھی عورت سے پیدا ہوا تھا اور یوحنا بھی عورت سے پیدا ہوئے.ان حوالوں سے ظاہر کہ انجیل کے رو سے حضرت زکریا ؑاور ان کی بیوی دونوں بے عیب تھے اور خدا تعالیٰ کے قانون پر چلنے والے تھے.اسی طرح یوحنا ماں کے پیٹ سے ہی روح القدس سے بھرے ہوئے تھے اور وہ کامل اور بے عیب تھے.اب اگر یوحنا اور زکریاا ور ان کی بیوی بے گناہ ہو سکتے ہیں تو اسی قانون کے ماتحت دوسرے لوگ بھی کیوں بے گناہ نہیں ہو سکتے.جب عملاً حضرت مسیح سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جو کفارہ واقعہ ہونے سے پہلے
نیک ،راستباز ، بے عیب اور شریعت پر چلنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ کفارہ کے بغیر بھی دنیا میں نیکی قائم تھی اور جب کفارہ کے بغیر دنیا میں نیکی قائم تھی تو آئندہ بھی قائم رہ سکتی ہے اور اس کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی.بعض دفعہ مسیحی علماء اس سوال کے متعلق کہ پہلے لوگ جو نجات پا گئے تھے انہوں نے کس طرح نجات پائی اورپہلے لوگوں میں سے جو نیک گزرے ہیں وہ کس طرح نیک ہوئے تھے؟ یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ پہلے لوگ بھی مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نیک ہوئے تھے اور مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ان کو نجات ملی تھی.مگر ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ محض ڈھکوسلہ ہے وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد محض اس بات پر رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت دائودؑ اور بعض اور انبیاء نے مسیح کی خبر دی تھی حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں کہیں مسیح کی خبر کا پتہ نہیں لگتا.یہ محض ایک دھوکا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنی خبر دی تھی کہ ان کی اولاد کو بابرکت کیا جائے گا اور یہ کہ ان کی اولاد کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے تقدس کو ظاہر کرے گا.ظاہر ہے کہ یہ خبر اولاد ابراہیم کے حق میں ہے کسی خاص فرد کے حق میں نہیں.حضرت اسماعیل علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں.حضرت اسحاق علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں.اسی طرح یعقوبؑ.یوسف ؑ.موسیٰ ؑ.دائودؑ اور زکریا ؑسب اس پیشگوئی کے ماتحت آتے ہیں.بعض اور نبیوں کی پیشگوئیوں سے بے شک معلوم ہوتا ہے.کہ وہ ایک آنے والے مسیح کی خبر دے رہے ہیں لیکن کسی آنے والے کے متعلق خبر دینا اور یہ خبر دینا کہ خدا تعالیٰ کا ایک بیٹا ہوگا جو لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اس کے بغیر دنیا کو نجات نہیں مل سکے گی ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے قریباً ہر نبی کی خبر پہلے نبیوں نے دی ہے حضرت یحی کی خبر پہلے سے موجود تھی،حضرت داؤد کی خبر پہلے سے موجود تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ان کے آنے کی اس رنگ میں خبر موجود تھی کہ ان کے کفارہ پر ایمان لانے سے دنیا کو نجات ملے گی.پھر ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خبر اپنی اولاد کے متعلق دی تھی وہ خبر اگر فرض کر و اس مفہوم کی بھی ہو کہ آئندہ زمانہ میں میرا ایک بیٹا ایسا ہوگا جس سے دنیا کو نجات ملے گی تو بہرحال وہ مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مسیح ؑ کے دعویٰ کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں.عیسائیت کہتی ہے کہ آدم کے بیٹے کا گنہگار ہونا ضروری ہے اور گنہگار دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا پس ضروری ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا وجود تلاش کیا جائے جو آدم کا بیٹا نہ ہو چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا اکلوتا یسوع مسیح دنیا میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے گناہوں
کا کفارہ ہو جائے اگر مسیح خدا تعالیٰ کا بیٹا تھا تو پھر وہ ابراہیم کا بیٹا نہیں تھا اور اگر وہ ابراہیم کا بیٹا تھا تو کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا نہیں تھاپس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کو مسیح پر چسپاں کرنا کفارہ کی ساری بنیاد ہی اکھیڑ دیتا ہے مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا سترہ اٹھارہ سال میری عمر ہو گی کہ میں لاہور گیا اور مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں کسی پادری سے گفتگو کروں لاہور کا سب سے بڑا پادری جو بعد میںمشنری کالج سہارنپور کا پرنسیپل مقرر ہو گیا تھا میں اس سے ملنے چلا گیا اور میں نے اس سے یہی سوال کیا کہ پہلے لوگ کس طرح نجات پاتے تھے؟ وہ کہنے لگا وہ بھی مسیح پر ایمان رکھتے اور اس ایمان کی وجہ سے ہی انہوں نے نجات پائی.میں نے کہا اگر میں کہہ دوں کہ مجھ پر ایمان لا کر انہوں نے نجات پائی ہے تو پھر اس کا کیا حل ہوگا؟ وہ کہنے لگاپیشگوئی بھی تو ہونی چاہیے.میں نے کہا یہ ٹھیک ہے آپ یہ بتائیں کہ مسیح کے متعلق کون سی پیشگوئی تھی؟ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی پیش کی.میں نے کہا آپ ابراہیم کی ساری پیشگوئیاں نکال لیں اگر ان میں ایک طرف یہ ذکر آتا ہے کہ میں اسحاق کی اولاد کو یوں برکت دوں گا تو ساتھ ہی اسمٰعیل ؑ کی اولاد کا بھی ذکر ہے.اگر آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اس پیشگوئی مسیح ؑ پر چسپاں کریں تو ہمیں کیوں یہ حق حاصل نہیں کہ اس پیشگوئی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں کر لیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے؟ پھر میں نے کہا پہلے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ کفارہ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح ؑخدا کا بیٹا تھا.اگر وہ ابراہیم ؑکا بیٹا تھا تو کفارہ نہیں ہو سکتا.میرے اس سوال پر اس نے بڑے چکر کھائے حالانکہ وہ بچپن ساٹھ سال کی عمر کا تھا.آخر گھنٹہ بھر کی بحث کے بعد وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مجھے معاف فرمائیں.یونانی میں ایک مثل ہے کہ ہر بیوقوف سوال کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند انسان چاہیے.گویا اس نے مجھے بیوقوف بنایا اور اپنے متعلق کہا کہ میں اتنا عقل مند نہیں کہ ہر بے وقوف کا جواب دے سکوں.میرا بھی اس وقت جوانی کا زمانہ تھا میں بھلا کب رکنے والا تھا میں نے کہا مجھے بڑا افسوس ہے میں آپ کو عقل مند سمجھ کر ہی آیا تھا.تو مسیح ؑ اگر ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے تھا تو کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر وہ خدا کا بیٹا تھا تو ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی.گویا دونوں صورتوں میں اعتراض پیدا ہوتا ہے ایک صورت میں مسیح ؑ کفارہ نہیں بن سکتا اور دوسری صورت میں ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی.دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں سے کسی آنے والے کی خبر دی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہے کون حضرت ابراہیم ؑ کہتے ہیں کہ میری اولاد میں سے ایک شخص آئے گا اور ابراہیمی نسل میں بھی یہ مشہور ہے کہ اس نے کسی بڑے آدمی کے ظہور کی خبر دی تھی اب ہم د یکھتے ہیں کہ دنیا میں دو آدمی کھڑے ہوتے ہیں
ایک کہتا ہے میں اس پیشگوئی کا مستحق ہوں اور دوسرا کہتا ہے میںاس پیشگوئی کا مستحق ہوں ایک سے ہم پوچھتے ہیں کہ تیرے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تو اس پیشگوئی کا مصداق ہے؟ وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اوراس کا باپ ابراہیم تھا.دوسرے سے ہم پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم ابراہیم کی نسل میں سے ہو وہ کہتا ہے میری ماں فلا ں تھی.وہ فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ شخص جس سے میری ماں بیاہی گئی تھی وہ فلاں کا بیٹا تھا وہ فلاں کا بیٹا تھا اور وہ ابراہیم کا بیٹا تھا.کیا دنیا کا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ وہ واقعہ میں ابراہیم کی اولاد میں سے ہے وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا ، دادا فلاں تھا، پردادافلاں تھا اور اس طرح چلتے چلتے وہ اپنا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میری ماں فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا.ہر شخص اسی کی بات مانے گا جو اپنے باپ دادا کا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پہنچا رہا ہو اس کی بات کوئی نہیں مانے گا جو اپنی ماں کے شوہر کو ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دے کر یہ سمجھ رہا ہو کہ میں بھی ابراہیم کی اولاد میں سے ہوں مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی کیفیت ہے.حضرت مسیح ؑکا جو نسب نامہ متی باب ۱ میں درج کیا گیا ہے اور جسے ’’ یسوع مسیح ابن دائود ابن ابراہام کا نسب نامہ ‘‘قرار دیا گیا ہے اس کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ ’’ یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے.‘‘ (انجیل متی باب ۱ آیت ۱۶) گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام تک مسیح کا نسب نامہ نہیں پہنچتا بلکہ یوسف کا نسب نامہ پہنچتا ہے جن سے حضرت مریم بیاہی گئی تھیں.اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میرا باپ عبداللہ تھا وہ عبدالمطلب کا بیٹا تھا اور اسی طرح چلتے چلتے آپ اس نسب نامہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتے ہیں (السیرة النبی لابن ہشام الجزء اول صفحہ ۱،۲).پس ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ تم جس وجود پر ابراہیم کی پیشگوئی کو چسپاں کر تے ہو اور جسے ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دیتے ہو وہ تو صاف کہتا ہے کہ میری ماں مریم جس سے بیاہی گئی تھی وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا میں ابراہیم کی اولاد میں سے نہیں.لیکن ہم جس وجود پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرتے ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ یقینی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں.پھر تم اس پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح کو کس طرح قرار دیتے ہو.باقی رہا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کا نجات دہندہ ہوں یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا ہے.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (آل عمران :۳۲)اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اور میری بیعت میں شامل ہو جائونتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف تم نجات پا جائو گے بلکہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے سے انسان کو صرف نجات ہی نہیں ملتی بلکہ وہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ(الانفال :۲۵) کہ اے مومنو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام کو قبول کرو کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے اپنی طرف بلا رہا ہے اس جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو زندہ کرتے ہیں اور چونکہ انجیل خود تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے.اس لئے ان الفاظ میں درحقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا نجات دہندہ قرار دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ آپ کی اتباع میں ہی بنی نوع انسان کو اس موت سے نجات مل سکتی ہے جو گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.کفارہ کے متعلق ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین اقنوم تھے تو پھر مسیح کے ذمہ کفارہ کیوں لگایا گیا.مان لیا کہ آدم نے گناہ کیا تھا یہ بھی ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ آدم کا گناہ ورثہ کے طو رپر اس کی اولاد میں چلا گو یہ بالکل احمقانہ بات ہے.اس کے بعد ہم یہ تیسری احمقانہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ورثہ کا گناہ ایسی چیز ہے جو کسی طرح علاج پذیر نہیں ہو سکتا.اس کے لئے بہرحال کوئی خارجی علاج چاہیے.پھر یہ چوتھی احمقانہ بات بھی ہم مان لیتے ہیں کہ اس ورثہ کے گناہ کا علاج کفارہ ہے گو یہ علاج بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ملک کی مثل ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ.کسی کے گھٹنے پر چوٹ لگی تو اس نے اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ ہائے مر گیا.ہائے مر گیا.یہ بھی بالکل وہی بات ہے کہ دنیا سے گناہ دور نہیںہو سکتا لیکن مسیح ؑ کے صلیب پر لٹکنے سے وہ گناہ دور ہو گیا.یہ بالکل بے جوڑ بات ہے لیکن چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوا اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس کے لئے کوئی خدائی طاقتوں والا وجود چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ اس غرض کے لئے خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا.آخر رحم کی صفت خدا باپ میں بھی پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ جب وہ دنیا پر اتنا رحم کرتا ہے کہ جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا.تو خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو کفارہ کے لئے پیش کر دیا ؟ روح القدس خدا نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا؟آخر کیا وجہ ہے کہ بیٹے نے اس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا؟ اس کے دو ہی جواب ہو سکتے ہیں یا تو یہ بات ماننی پڑے گی
کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے مرنے سے دنیا فنا ہو جاتی تھی اس لئے خدا بیٹے نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.لیکن اس صورت میں ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بیٹا ناقص خدا ہے اس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی اس لئے اسے پیش کر دیا گیا.باپ خدا نے اپنے آپ کو اس لئے پیش نہ کیا.کہ اگر وہ مرا تو ساری دنیا تباہ ہو جائے گی.دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے دل میں بنی نوع انسان کی اتنی محبت اور اتنا پیار نہیں تھا جتنا پیار خدا بیٹے کے دل میں تھا.مگر یہ جواب خدا باپ اور خدا روح القدس دونوں کو ناقص قرار دیتا ہے.دوسرے انجیل کے بھی خلاف ہے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ خدا محبت ہے(۲.کرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۱۱) اور یہ فقرہ نہ روح القدس کے متعلق ہے نہ مسیح کے متعلق ہے.غرض ایک صورت میں بیٹا ناقص قرار پاتا ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ وہ ایک غیر ضروری شئے تھا جس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی.لیکن اگر خدا باپ مر جاتا تو ساری دنیا تباہ ہو جاتی اور اگر بیٹے کے دل میں بنی نوع انسان کی کامل محبت تھی تو پھر باپ خدا اور روح القدس خدا دونوں ناقص قرار پاتے ہیں.بہرحال دونوں صورتوں میں ایک نہ ایک خدا ضرور ناقص قرار پاتا ہے اور ناقص چیز تمام مذاہب کے مسلمہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی.پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیت کے نزدیک کفارہ ضروری ہے ؟ ہم کہتے ہیں بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ کفارہ ضروری نہیں اس لئے کہ کفارہ کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب گناہ معاف نہ ہو سکتے ہوں لیکن بائبل کہتی ہے کہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور تمام بائبل گناہوں کی معافی کی تعلیم سے بھری ہوئی ہے.اسی طرح ان قربانیوں کی تعلیم سے بھری پڑی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہیں.بلکہ بائبل بتاتی ہے کہ خود آدم کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی قربانیوں کو خدا نے قبول کیا اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دی.بائبل میں لکھا ہے:.’’چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پلوٹھے بچوں کا اور کچھ ان کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا (یعنی ہابل بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور اس کا ہدیہ بھی منظور ہو گیا) پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا.(یہ قائن وہی ہے جسے ہمارے ہاں قابیل کہتے ہیں ) اس لئے قائن نہایت غضبناک ہوا اور اس کا منہ بگڑا اور خداوند نے قائن سے کہا تو کیوںغضبناک ہوا اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے (یعنی خدا تعالیٰ نے جب قائن کے ہدیہ کو قبول نہ کیا تو اس کا منہ بگڑ گیا اور اسے سخت غصہ آیا.اللہ تعالیٰ نے اس کا منہ بگڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا اے قائن تجھے کیوں غصہ آیا ہے اور تیرا
منہ کیوں بگڑا ہوا ہے) اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا اور اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تواس پر غالب آ.‘‘ (پیدائش باب ۴ آیت ۳ تا۷) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ :.اول باوجود آدم کے گناہ کے اس کے بعض بیٹوں کی قربانی قبول ہوتی تھی.چنانچہ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کا منظور نظر ہو گیا.کیونکہ لکھا ہے کہ ’’ خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا‘‘ ہابل کو قبول کرنے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا نے ہابل کو اپنی گود میں اٹھا لیا.ا س کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے اس کو اپنا منظور نظر بنا لیا اور اس کے ہدیہ کو ایک زندہ قربانی تصور کیا جو انسان کے درجہ کو برابر بڑھاتی چلی جاتی ہے.کیونکہ ہدیہ قبول کرنے کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو ملنا شروع ہو جائے.اب ہابل اور قائن دونوں آدم ؑکی اولاد تھے اور آدم کے گناہ کے بعد پیدا ہوئے.ان دونوں میں ورثہ کے طور پر گناہ آنا چاہیے تھا.مگر باوجود اس کے کہ وہ گناہ لے کر پیدا ہوئے تھے جب انہوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قربانی ردّ کی گئی.اگر ورثہ میں انہیں گناہ ملا تھا تو اول تو انہیں قربانی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی اور اگر کرتے تو دونوں کی قربانیاں ردّ کر دی جاتیں.دوم.اسی حوالہ میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قائن سے کہا ’’ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا.‘‘ یعنی اگر تو نیک بنے تو کیا خدا تجھے اپنا مقرب نہ بنائے گا.ان الفاظ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر تو نیک بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور نیک بننے کادروازہ تیرے لئے ہر وقت کھلا ہے اور ’’ کیا تو مقبول نہ ہوگا ‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول اور اس کا مقرب بننے کا دروازہ بھی تیرے لئے کھلا ہے جو نجات سے بڑا درجہ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے حضور عمل سے مقبول ہوتے تھے نہ کہ کفارہ سے.اور یہ کہ گناہ کرنے کے بعد بھی انسان توبہ سے مقبول ہو سکتا تھا.اور یہ دونوں باتیں بتاتی ہیں کہ ہر انسان نیک بھی بن سکتا ہے اور ہر انسان خدا تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو قائن جو گناہ کی وجہ سے نامقبول ہو چکا تھا اسے یہ نہ کہا جاتا کہ’’ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہو گا.‘‘ سوم.پھر لکھا ہے:.’’اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے‘‘
مسیحیت کہتی ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد گناہ انسان کے دل میں بویا گیا.ورثہ کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں.مگر بائبل کہتی ہے کہ گناہ اس کے دل میں نہیں گیا بلکہ وہ اس کے گھر کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ا نسان کے دل میں نہیں بلکہ باہر سے آتا ہے.پس بائبل کے نزدیک آدم کے گناہ کے بعد گناہ کا بیج انسان کے دل میں نہیں بویا گیا بلکہ ہر انسان کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے.گویا گناہ ایک خارجی شئے ہے نہ کہ ورثہ کی چیز جو جزو بدن ہو جاتی ہے.چہارم پھر لکھا ہے:.’’ پر تو اس پر غالب آ‘‘ یعنی اے قائن تو اس پر غالب آ.جب خدا کہتا ہے تو ایسا کر.تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے ایک چھوٹے بچے کو پیار میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے (سوائے اس کے کہ ہم غلط مذاق کر رہے ہوں) کہ جا اور موٹر کو اٹھا لا یاجا اور ہاتھی کو پکڑ لا.ہم اسے وہی بات کہیں گے جو اس کی طاقت کے اندر ہو گی.اگر دفتر میں ہی کوئی افسر اپنے چپڑاسی کو بلائے اور کہے کہ جیکب آباد کی طرف جو انجن جاتا ہے وہ اٹھا کر لے آ.تو تم جانتے ہو وہ کیا کرے گا؟ وہ چپ کر کے اور کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسک جائے گا.اس کے چہرے کا رنگ اڑ جائے گا اور وہ دوسروں سے جا کر کہے گا کہ صاحب پاگل ہو گیا ہے.کیونکہ اس نے ایک ایسی بات کہی ہے جو انسانی طاقت میں ہی نہیں.اسی طرح اگر گناہ دب ہی نہیں سکتا تھا تو خدا تعالیٰ نے قائن سے یہ کیوں کہا کہ تواس پر غالب آ سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کی قربانی کو رد کر دیا اور کہا کہ چونکہ تو نے اس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی نہیں کی جس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی قبول ہو سکتی ہے.اس لئے میں تیری قربانی کو قبول نہیں کرتا.مگر ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نے جو قربانی رد کر دی ہے وہ ہمیشہ کے لئے ردّ کر دی ہے تیرے لئے اب بھی موقعہ ہے کہ تو گناہوں پر غالب آ جائے اور میرا قرب حاصل کر لے.گویا انسان کے لئے اپنی ذاتی جدوجہد سے گناہ پر غالب آنا ممکن تھا.غرض آدم کا گناہ تو الگ رہا.قائن کے اپنے گناہ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیںجو دبائی نہ جا سکے.اگر تو کوشش کرے تو گناہ پر غالب آ سکتا ہے اور میں تجھے یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تو اس پر غالب آ.اوپر کے حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی قابیل کے متبع ہیں اور مسلمان ہابیل کے متبع.کیونکہ عیسائی کفارہ کی معافی کے قائل ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوںکے اس لئے دشمن ہیں کہ قابیل کی طرح ان کی
قربانی قبول نہیں ہوئی.پس وہ اس کا بدلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت سے لینا چاہتے ہیں.پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قابیل سے کہا تھا کہ’’ اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے.‘‘ آج کل ہمیں وہی نظارہ نظر آ رہا ہے.عیسائی دنیا میں اس کثرت کے ساتھ گناہ پایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں.بہرحال بائبل کے نزدیک انسان بعد از گناہ آدم بھی نیک ہو سکتا تھا اور یہ کہ گناہ کا بیج اس کے دل میں نہیں بویا گیا تھا.بلکہ اس وقت بھی وہ باہر سے آتا تھا اور اگر وہ گناہ کر بیٹھتا تھا تب بھی اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا تھا اور آئندہ گناہ پر غالب آنے کا امکان اس کے لئے موجود تھا.بلکہ نہ صرف وہ گناہ پر غالب آنے کی طاقت رکھتا تھا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہونے کی بھی طاقت رکھتا تھا.پس وہ کیفیت جس کے نتیجہ میں کفارہ کی ضرورت مسیحی بتاتے ہیں بائبل کے بیان کے رُو سے موجود ہی نہیں.ایک سوال کفارہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے.کہ فرض کرو دنیا میںنیکی موجود نہیں تھی اور فرض کرو کہ کفارہ کی ضرورت تھی.پھر بھی کیا اس کفارہ کے لئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیح خد اکا بیٹا تھا؟ یہ سوال کہ کفارہ کی ضرورت تھی.اس کے لئے ہم خود مسیح ؑکی کتاب کو دیکھتے ہیں.بائبل اس بات کو مانتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء مختلف معجزات دکھاتے رہے ہیں.اس کے نزدیک نبی مرد ے زندہ کرتے تھے.نبی بیماروں کو اچھا کرتے تھے.نبی تھوڑے سے کھانے کو بڑھا دیتے تھے اسی طرح اور قسم قسم کے معجزات دکھاتے تھے.لیکن مسیحی کہتے ہیں ( میں مسیحیوں کا لفظ اس لئے استعمال کرتا ہوں کہ بہت سی باتیں مسیحی اپنے پاس سے کہہ دیتے ہیں اور باوجود اس کے کہ انجیل بگڑ چکی ہے.پھر بھی ان باتوں کا انجیل سے ثبوت نہیں ملتا) کہ گناہ کا معاف کرنا یہ انسانی طاقت سے بالا ہے.انبیاء بے شک مرد ےزندہ کر لیتے تھے.جیسا کہ ایلیا ہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے (۱.سلاطین باب ۱۷ آیت ۲۲ ونمبر۲ سلاطین باب ۴ آیت ۳۵) مگر گناہ کا معاف کر دینا یہ ناممکن تھا اور اس کے لئے بیٹے کے کفارہ کی ضرورت تھی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا انجیل اس عقیدہ کی تصدیق کرتی ہے.انجیل میں لکھا ہے کہ لوگ ایک مفلوج کو چارپا ئی پر پڑا ہوا مسیح ؑ کے پاس لائے.مسیح ؑ نے اسے دیکھا اور کہا.’’ بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے.‘‘ (متی باب ۹ آیت ۲) اس پر لوگ حیران ہوگئے کہ کیا یہ گناہ معاف کرتا ہے.یہی بات آج کل مسیحیت کہتی ہے کہ انسان گناہ کس
ح معاف کرسکتا ہے لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ ’’ یسو ع نے ان کے خیال معلوم کر کے کہا کہ تم کیوں اپنے دلوں میں برے خیال لاتے ہو.آسان کیا ہے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اٹُھ اور چل پھر.‘‘(متی باب ۹ آیت ۴،۵) یعنی ان دونوں میں سے کون سی آسان بات ہے.ایک مفلوج کو یہ کہہ دینا کہ اُٹھ اور چل پھر یہ آسان ہے یا ایک گنہگار کو یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یہ آسان ہے مسیحیت کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اٹھ اور چل پھر کہنا زیادہ آسان ہے اور یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے ناممکن ہے.لیکن حضرت مسیح کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے کہا.’’ اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے (اس نے مفلوج سے کہا) کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا.وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا.‘‘ (متی باب ۹ آیت ۶تا۸) گویا پہلے حضرت مسیح ؑ کے گناہ معاف کرنے کے فقرہ پر لوگ حیران ہوئے کہ کیا آدم زاد بھی لوگوں کے گناہ معاف کر سکتا ہے مسیح ؑ نے کہا اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے میں اس مفلوج سے یہ کہتا ہوں کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا.اس پر وہ اور حیران ہوئے اور اس خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا ہے یہ واقعہ جو انجیل میں آتا ہے بتاتا ہے کہ گناہ معاف کرنا اور کسی بیمار سے یہ کہنا کہ اٹھ اور اپنے گھر چلا جا یہ معجزہ آدمیوں کا ہے خدا کا نہیں.اسی طرح یوحنا باب ۸ آیت ۱ تا ۱۱ میں ایک زانیہ عورت کا قصہ درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس عورت کو مسیح نے معاف کر دیاحالانکہ وہ مسیح یا اس کے کفارہ پر ایمان نہیں لائی تھی.باقی رہا یہ امر کہ اگر خدا کے بیٹے کے ذریعہ ہی گناہ معاف ہو سکتا ہے تو کیامسیح ؑ خدا کا بیٹا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دلیل اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسیح میں خدائی صفات بھی پائی جاتی تھیں ؟ مثلاً ہم جب کہتے ہیں کہ خدا ہے تو اس کی ہستی کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں اور وہ مختلف قوتیں اور طاقتیں جو انسان میں نہیں پائی جاتیں اس کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں.لیکن مسیحی کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرتے جو اور نبیوں میں تو نہ پائی جاتی ہو اور مسیح میں پائی جاتی ہو بلکہ بہت سی باتیں بائبل میں نبیوں کے متعلق ایسی پائی جاتی ہیں جو مسیح ؑ میں نہیں پائی جاتیں.مگریہ ایک الگ بحث ہے سوال یہ ہے کہ مسیحیت کی
ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اور چونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اس لئے خدا کا بیٹا ہو گیا ہم کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا.لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کا بیٹا کوئی اصطلاح ہے یا یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے جن معنوں میں عام طور پر یہ لفظ ہماری زبان میں بولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زید کا بیٹا یا عمرو کا بیٹا یا خالد کا بیٹا یا اس کے کوئی اور معنے ہیں.جہاں تک اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہنے کا تعلق ہے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں حضرت مسیح ؑ کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ ’’ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا.میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سِوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سِوا بیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہیے.‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۲۶.۲۷) یہاں مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے جہاں تک لفظوں کا تعلق ہے ہم مانتے ہیں کہ خدا کے بیٹے کے الفاظ انجیل میں مسیح کے متعلق آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسیح کو بیٹا کہنے کے وہی معنے ہیں جو جسمانی بیٹے کے ہوتے ہیں یا اس کے کچھ اور معنے ہیں.اسی طرح یوحنا باب ۳ آیت ۱۷ میں آتا ہے:.’’ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیںبھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے.‘‘ یہاں مسیح نے پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی بات کہی ہے جو انجیل کے ایک دوسرے حوالہ کے خلاف ہے.یہاں وہ کہتے ہیں ’’خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے ‘‘لیکن دوسری جگہ لوقا باب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۶ میں حضرت مسیح ؑ ایک تمثیل بیان کرتے ہیں جو باغ کی تمثیل کہلاتی ہے.اس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے باغ لگایا اور اسے کرایہ پر دے دیا جن لوگوں کو وہ باغ کرایہ پر دیا گیا تھا ان کے پاس باغ کے مالک نے اپنا ایک نوکر بھیجا تاکہ وہ پھل کا حصہ دے دیں.لیکن باغبانوں نے اسے مارا اور خالی ہاتھ واپس کر دیا پھر اس نے ایک دوسرا نوکر بھیجا مگر انہوں نے اس کو بھی پیٹ کر نکال دیا پھر اس نے ایک تیسرا نوکر بھیجامگر انہوں نے اس کو بھی مارا اور زخمی کر کے نکال دیا.……… اس پر باغ کے مالک نے کہا اب میں اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجتا ہوں شاید باغبان اس کا لحاظ کریں
اور باغ کا پھل اسے دے دیں لیکن جب اس کا اکلوتا بیٹا باغبانوں کے پاس آیا تو انہوں نے آپس میں مل کر یہ فیصلہ کیا کہ آئو ہم اسے قتل کردیں تاکہ یہ باغ ہماری میراث ہو جائے اور پھر ہمیںپوچھنے والا کوئی نہ رہے چنانچہ انہوں نے بیٹے کو باغ کے باہر پھانسی پر لٹکا دیا.حضرت مسیح یہ تمثیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں تم جانتے ہو پھر کیا ہوگا.پھر یہی بات رہ جائے گی کہ باغ کا مالک آپ آئے گا اور وہ ان مالیوں کو نکال دے گا اور باغ کو کسی اور قوم کے سپرد کر دے گا.یہ تمثیل صاف بتاتی ہے کہ بیٹے کا آنا سزا کے لئے ہو گا چونکہ وہ لوگ باغ کا مالیانہ ادا نہیں کرتے تھے اس لئے خدا اپنے بیٹے کو بھیجے گا تاکہ ان پر حجت تمام کرکے انہیں سزا دے پس یہ تمثیل مسیح کے اس قول کے بالکل خلاف ہے کہ ’’ خدا نے بیٹے کودنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے‘‘ پھر متی میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ :.’’ تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بنائو اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نا م سے بپتسمہ دو.‘‘ (متی باب ۲۸ آیت ۱۹) اس کے علاوہ بھی بعض جگہوں پر حضرت مسیح نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے.لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھلانا چاہیے کہ جہاں حضرت مسیح ؑنے بعض جگہ اپنے آپ کو بیٹابلکہ اکلوتا بیٹا کہا ہے وہاں اکثر مقامات پر اپنے آپ کو ابن آدم بھی کہا ہے.پس ہمارا کیا حق ہے کہ ہم ان کے ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دیں.مسیح ؑہی کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور مسیح ہی کہتا ہے کہ میں ابن آدم ہوں.اور جب دونوں دعوے ایک شخص کے ہیں تو ان میں سے کسی ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دے دینا ہمارے لئے جائز نہیں ہوسکتا.ہمیں یا تو دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن اللہ والی بات غلط ہے اور یا دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن آدم والی بات غلط ہے.بہرحال جب ایک شخص دونوں باتیں کہتا ہے تو محض اپنے عقل سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں بات سچی ہے اور فلاں بات غلط.انجیل میں لکھا ہے:.’’ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے ‘‘ (متی باب ۲۰ آیت ۲۸) (مثیل مسیح یعنی بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی یہی کہا ہے.؎ ’’ منہ از بہر ما کرسی کہ مامور یم خدمت را ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۵) یعنی میرے لئے کرسی نہ رکھو کہ مجھے خدا نے دنیا کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے)چونکہ دنیا میں عام طور پر
لوگ غرباء سے کام لیتے ہیں اور ان پر کئی قسم کے مظالم کرتے ہیں.اس لئے مسیح ؑنے کہا کہ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ وہ خدمت لے بلکہ اس لئے آیا ہے کہ خدمت کرے.جہاں تک اخلاقی تعلیم کا سوال ہے یہ بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ انسان کو ظلم نہیںکرنا چاہیے اور دوسروں کی خدمت میںاپنی زندگی بسر کرنی چاہیے لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ مسیح کیا تھا؟ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح آدم کا بیٹا تھا.پھر لکھا ہے ’’ جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہو گا‘‘(متی باب ۲۴ آیت ۳۷) اسی طرح اسی باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے.’’ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آ جائے گا.‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۴۴) یعنی مسیح ؑکی پہلی آمد بھی ابن آدم کی حیثیت میں تھی اور جب وہ دو بارہ آئے گا تب بھی ابن آدم کی حیثیت میں ہی آئے گا.مگر وہ ایسا اچانک آئے گا کہ لوگوں کو اس کی آمد کا گمان بھی نہ ہوگا یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں اور لوگ ان کی آمد کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انہیں جھوٹا کہنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح مسیح ؑ کے ساتھ ہو گا.پھر لکھا ہے :.’’ فانی خوراک کے لئے محنت نہ کرو بلکہ اس خوراک کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم تمہیں دے گا.‘‘ (یوحنا باب۶ آیت ۲۷) یعنی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں روٹی کپڑا ملے لیکن تمہیں ان چیزوں کے لئے کوشش نہیںکرنی چاہیے.بلکہ اس خوراک کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے جو حقیقی زندگی بخشتی ہے اور جو ابن آدم یعنی مسیح سے حاصل ہوتی ہے.باقی چیزیں تو سب فانی اور عارضی فائدہ پہنچانے والی ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ اس تعلیم کے باوجود سب سے زیادہ حضرت مسیح ؑ کی امت نے ہی دنیا کمانے کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے زیادہ انہوں نے ہی روحانیت کو پس پشت ڈال رکھا ہے.پھر لکھا ہے مسیح ؑ نے کہا ’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے.‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸) یہوداہ حضرت مسیح ؑ کا ایک شاگرد تھاجس نے تیس روپوں کے بدلے انہیں دشمنوں کے حوالے کر دیا تھا مسیح ؑ
ان دنوں چھپے پھرتے تھے اور وہ اور ان کے شاگر د ایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور منہ کو بھی ڈھانک کر رکھتے تھے تاکہ حضرت مسیح کا ان کو پتہ نہ چل جائے (یوحنا باب ۲۱ آیت ۴) دشمن بھی آپ کی تلاش میں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ہمیں پتہ لگ جائے کہ ان میں سے مسیح ؑ کون سا ہے.آخر انہوں نے تیس روپے رشوت دے کر حضرت مسیح ؑ کے ایک شاگرد کو جس کا نام یہوداہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا اور اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو.جہاں سب اکٹھے بیٹھے ہوئے ہوںگے.وہاں آگے بڑھ کر میں جس شخص کا بوسہ لوں تم سمجھ جانا کہ وہی مسیح ہے اور اسے گرفتار کر لینا.ادھر حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہام کے ذریعہ بتا دیا کہ تمہارا فلاں شاگرد اس طرح غداری کرے گا.چنانچہ جب یہودا دشمن کے سپاہی لے کر وہاں پہنچا اور وہ آپ کا بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو حضرت مسیح نے کہا ’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے.(لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸) گویا مسیح ؑجب آیا تب بھی ابن آدم تھا جب دوبارہ آئے گا تب بھی ابن آدم ہو گا اور جب صلیب پر لٹکایا گیا تب بھی وہ اپنے قول کے مطابق ابن آدم ہی تھا.پس جب مسیح ؑ خود اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے تو خدا تعالیٰ کے بیٹے کے ایسے معنے کرنے جو توراۃ اور انجیل کی تعلیم کے خلاف ہوں کس طرح جائز ہو سکتے ہیں.ایسی صورت میں یا تو ہم یہ کہیں گے کہ حضرت مسیح نعوذباللہ فاتر العقل لوگوں کی طرح کبھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیتے تھے اور کبھی ابن آدم کہنے لگ جاتے تھے اور یا پھر ہمیں اس کا کوئی حل نکالنا پڑے گا اور ان میں سے ایک کو استعارہ اور دوسرے کو اصل قرار دینا پڑے گا.اگر ہمیں پتہ لگ جائے کہ استعارہ کونسا ہے اور اصل کونسا تو ہم بڑی آسانی سے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں.اگر ابن آدم استعارہ ہو تو پھر ابن اللہ کو اصل ماننا پڑے گا اور اگر ابن اللہ استعارہ نکل آئے تو ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی پر جو کفارہ کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ساری کی ساری غلط ہے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں مسیح کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ :.’’ مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے ‘‘ (متی باب ۵ آیت ۹) یہاں حضرت مسیح ؑ اپنے سوا دوسرے انسانوں کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ خدا کا بیٹا کہلانا انسان کو خدا نہیں بنا دیتا.اگر کسی شخص کو خدا کا بیٹا ماننے سے اس میں خدائی تسلیم کرنی پڑتی ہے تو پھر وہ تمام لوگ جو صلح کراتے ہیں اس حوالہ کے مطابق خدائی کے دعوے دار بن سکتے ہیں اور وہ تمام کے تمام اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ کفارہ دے سکیں.لیکن اس حوالہ سے صرف یہی نہیںنکلتا کہ حضرت مسیح ؑکے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ
کے بیٹے ہیں اوراس طرح جو حق مسیح کا سمجھا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے باطل ہو جاتا ہے بلکہ اس سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے حضرت مسیح اس حوالہ میں یہ کہتے ہیں کہ ’’ مبارک ہیںوہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیںگے.‘‘ اس جگہ لوگوں کو صرف خدا کا بیٹا قرار نہیں دیا گیا بلکہ وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ کیوں خدا کے بیٹے کہلائیں گے اگر خالی خدا تعالیٰ کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے جاتے تو یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کہلانے کی وجہ کیا ہے.ہو سکتا تھا کہ ہم کوئی وجہ پیش کرتے اور دوسرا کہہ دیتا کہ ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو.لیکن حضرت مسیح نے یہاں وجہ بھی بتائی ہے کہ کیوں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور وہ وجہ صلح کرانابتائی گئی ہے.آپ فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے.گویا صلح کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کی شرط رکھا ہے اور بتایا ہے کہ جو صلح کرواتا ہے وہ بڑا مبارک ہے کیونکہ صلح کرانے سے انسان خدا تعالیٰ کا بیٹا بن جاتا ہے.اس حوالہ سے صرف یہی نہیں نکلتا کہ مسیح ؑ کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں بلکہ ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے نہیں.اگر انہیں بیٹا کہا گیا ہے تو پھر کسی چھوٹی وجہ سے کہا گیا ہے یہ وجہ ان میں موجود نہ تھی.کیونکہ حضرت مسیح ؑ خود کہتے ہیں کہ ’’ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں.صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں.‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۳۴) گویا متی کا ایک حوالہ تو یہ بتاتا ہے کہ صلح کرانے کی وجہ سے انسان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کا حق ہوتا ہے اور دوسرا حوالہ یہ بتاتا ہے کہ یہ وجہ مسیح میں نہیں تھی اس لئے مسیح خدا کا بیٹا نہیں کہلا سکتا.اسی طرح ایک اور حوالہ ہے جس میں دوسرے انسانوں کو بھی خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اور حضرت مسیح ؑخود یہ بتاتے ہیں کہ میرا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ میں واقعہ میں خدا یا خدا کا بیٹا ہوں.یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵ تا ۳۹ میں لکھا ہے حضرت مسیح نے یہود سے کہا:.’’ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں (یعنی میری سچائی معلوم کرنے کے لئے تمہیں باہر سے کسی شہادت کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں.جو کام خدا تعالیٰ نے مجھ سے کروائے ہیں وہ اپنی ذات میں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ میں سچا اور راستباز انسان ہوں) لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میںسے نہیں ہو (یعنی چونکہ تم میری
جماعت سے نہیں اس لئے تم میرے مخالف ہو) میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں (یعنی جو لوگ میری جماعت میں سے ہیں وہ میری آواز کو سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ) اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیںمیرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا.میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا.میں اور باپ ایک ہیں (جب حضرت مسیح ؑنے یہودیوں سے یہ بات کہی تو چونکہ آخری فقرہ یہ تھا کہ کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا اور پھر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور باپ سے مراد خدا تھا تو اس کے معنے یہ بن گئے کہ میں اور خدا ایک ہیں.اس سے یہودیوں نے یہ سمجھا کہ یہ شخص خدا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے چنانچہ لکھا ہے اس فقرہ پر ) یہودیوں نے اسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے یسوع نے انہیںجواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں.ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو (یعنی مسیح ؑ نے ان سے کہا کہ میں لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو.میں لوگوں کو حلم اور عفو کی تعلیم دیتا ہوںکیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو.میں لوگوں کو محبت الٰہی اور خدا ترسی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو میں بنی نوع انسان کی خود بھی خدمت کرتا ہوںاوردوسروں کو بھی خدمت کرنے کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو جو کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کئے ہیں ان میں سے بہتیرے کام میںنے کئے ہیں.تم مجھے یہ بتائو کہ میرا کون سا جرم ہے جس کی وجہ سے تم مجھے سنگسار کرنا چاہتے ہو؟) یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں (یعنی خدمت خلق اور غریبوں سے اچھا سلوک اور حلم اور عفو کی تعلیم اور رحم دلی یہ چیزیں نہیں جن کی وجہ سے ہم تجھے سنگسار کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارے سنگسار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تو نے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکالا ہے) اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے (یعنی تو نے انسان ہو کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں خدا ہوںاس لئے ہم تجھے سنگسار کریں گے) یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میںنے کہا تم خدا ہو (یعنی کیا بائبل میں یہ بات درج نہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو خدا کہا ہے؟) جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل
ہونا ممکن نہیں.آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں ؟(حضرت مسیح کہتے ہیں تمہارے لئے بائبل میں خدا کا لفظ بولا گیا ہے مگر تم خدا نہیں ہو گئے نہ تم اس لفظ کی وجہ سے کافر بن گئے لیکن میرے لئے صرف بیٹے کا لفظ بولا گیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں.جب مجھ سے پہلے لوگوں کے لئے خدا کا لفظ استعمال ہوا اور وہ کافر نہ ہوئے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ یہ ایک استعارہ ہے جو استعمال کیا گیا ہے تو میرے لئے بیٹے کے لفظ کا استعمال کون سا قہر ہو گیا کہ تم نے مجھے کافر قرار دے دیا.یہاں حضرت مسیح ؑنے صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ بائبل میں جو ان کے متعلق بیٹے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ بیٹے کے معنوں میںنہیں کیونکہ دوسروں کی نسبت خدا کا لفظ آیا ہے مگر تم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ واقعہ میں خدا بن گئے تھے جب تم انہیں مشرک نہیں کہتے جب تم اس لفظ کے باوجود انہیں خدا ئی کا دعویٰ کرنے والے قرار نہیں دیتے تو مجھے کیوں کہتے ہو کہ میں نے یہ لفظ استعمال کر کے خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس وجہ سے میں کافر اور سنگسار کئے جانے کے قابل ہوں ) اگر میں اپنے باپ کے کام نہیںکرتا تو میرا یقین نہ کرو (یعنی لفظی ہیر پھیر اور شرارتوں سے کام لینے کا کیا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے کرتا ہوں یا اس کے خلاف کرتا ہوں.موحدوں والے کرتا ہوں یا مشرکوں والے کرتا ہوں اگر میں تمام کام موحدوں والے کرتا ہوں تو الہام میں اگر میرے متعلق خدا تعالیٰ نے بیٹے کا لفظ استعمال کیا ہے تو بہرحال اس کے کچھ اور معنے کرنے پڑیں گے اور ضروری ہوگا کہ اس بارہ میں کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل میرے کاموں کود یکھا جائے )لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرومگر ان کاموں کا تو یقین کرو تاکہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں.انہوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا.‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵تا ۳۹) اس حوالہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح ؑنے خود اپنے بیٹا ہونے کے معنے کر دئیے ہیں اور بتایا ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہوتی کہ واقعہ میں خدا کی خدائی مجھ میں آ گئی ہے یا میںبھی ایک خدا ہوں.بلکہ جس طرح بائبل میں دوسرے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ خدا ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خدا نہیں بن گئے بلکہ یہ ایک استعارہ تھا جو استعمال ہوا.اسی طرح جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو یہ بھی ایک
استعارہ ہوتا ہے.یہ مراد نہیں ہوتی کہ میں واقعہ میں خدا بن گیا ہوں.اس حوالہ میں یہود کی شریعت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے وہ ہمیں زبور میں ملتا ہے زبور باب ۸۲ میں آتا ہے.’’ خدا کی جماعت میں خدا موجود ہے وہ الٰہوں نے کے درمیان عدالت کرتا ہے (یعنی مومن لوگ خدا ہیں اور ان خدائوں کے درمیان وہ عدالت کرتا ہے) تم کب تک بے انصافی سے عدالت کرو گے.اور شریروں کی طرف داری کرو گے غریب اور یتیم کا انصاف کرو.غمزدہ اورمفلس کے ساتھ انصاف سے پیش آئو.غریب اور محتاج کو بچائو.شریروں کے ہاتھ سے ان کو چھڑائو.وہ نہ توکچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیںوہ اندھیرے میں ادھر ادھرچلتے ہیں زمین کی سب بنیادیں ہل گئی ہیں.میں نے کہا تھا کہ تم اِلٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو تو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے اور امراء میں سے کسی کی طرح گر جائو گے.اے خد ا اٹھ زمین کی عدالت کر.کیونکہ تو ہی سب قوموں کا مالک ہو گا.‘‘ (زبور باب ۸۲ آیت۱تا۸) حضرت دائود ؑ کے انہی کلمات کی طرف حضرت مسیح ؑ اوپر کے حوالہ میں اشارہ کرتے ہیں.اس میں ایک تو یہ آیت ہے کہ ’’وہ الٰہوں کے درمیان عدالت کرتا ہے‘‘ اور پھر آیت ۶ اور ۷ تو بالکل واضح ہیں یعنی یہ کہ ’’ میں نے کہا تھا کہ تم اِلٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو.‘‘ اس جگہ حضرت دائود ؑ یہ کہتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم سب الٰہ ہو.تم سب خدا ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی انہوںنے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ میںنے تمہیں خدا کہا ہے اور خدا کا بیٹا بھی کہا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ چونکہ تم نہ اصلی خدا ہو اور نہ اصل میں خدا کے بیٹے ہو.اس لئے تم آدمیوں کی طرح مرو گے.یعنی خدا تو مرتا نہیں لیکن تم موت سے نہیں بچو گے.تمہیں خدا اور خدا کا بیٹا اس لئے کہا گیا ہے کہ تم دنیا میں خدا کی طرح انصاف قائم کرو گے اور خدا تعالیٰ کے قوانین لوگوں میں جاری کرو گے پس چونکہ تم دنیا میں خدا کے مظہر ہو گے اس لئے استعارۃً تمہیں کبھی خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا گیا ہے.بعض لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء کے دلی خیالات کا نام ہی الہام ہوتا ہے وہ اس کتاب کو دائود کی زبور کہتے ہیں.لیکن ہم قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کا الہام سمجھتے ہیں اور ہمارے نقطہ نگاہ سے
حضرت دائود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سے یہ بتایا گیا تھا کہ بنی اسرائیل خد ااور خدا کے بیٹے ہیں لیکن آگے تشریح کر دی گئی ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ واقعہ میں خدا یا خدا کے بیٹے بن جائیں گے.بلکہ خدا اور خدا کے بیٹے کہلانے کے باوجود یہ مریںگے بھی یہ کھائیں گے بھی یہ پہنیں گے بھی صرف اس لئے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے کہ یہ دنیا میںانصاف قائم کریں گے اور خدا تعالیٰ کے احکام پر لوگوں کو چلائیں گے حضرت دائودؑ بنی اسرائیل کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا نے تم کو اپنا نام دیا ہے.خدا نے تم کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے تم کو بھی چاہیے کہ اس نام کی وجہ سے اپنے کردار کا جائزہ لو.غریبوں سے انصاف کرو.کمزوروں کو اٹھائو.ستم رسیدوں پر رحم کرو.عفو اور درگزرسے کام لو اور خدائی صفات اپنے اندر پیدا کرو.ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح ؑ نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو ان معنوں میں نہیں کہا تھا کہ سچ مچ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا سمجھتا تھا کیونکہ اپنے قول کے مطابق وہ اپنے آپ کو اسی طرح خدا تعالیٰ کا بیٹا سمجھتا تھا جس طرح دائود نے بنی اسرائیل کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا.اسی طرح بائبل میں اور کئی مقامات پر مختلف لوگوں کے متعلق خدا یا خدا کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں پس جن معنوں میں وہ خدا اور خدا کے بیٹے تھے انہی معنوں میں حضرت مسیح نے بھی اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا.عیسائیوں کی طرف سے عام طور پر یہ دھوکا دیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کو خدا یا خدا کا بیٹا اور معنوں میں کہا گیا ہے لیکن یوحنا کا حوالہ صاف بتاتا ہے.کہ وہ اپنے آپ کو انہی معنوں میں خدا کا بیٹا کہتا تھا جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا تھا.اگر اور معنے ہوتے تو حضرت مسیح ؑکی دلیل باطل ہو جاتی ہے حضرت مسیح ؑ یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو بے شک خدا کا بیٹا کہا ہے لیکن بیٹا کہنے سے میں خدائی کا مدعی نہیں بن جاتا.کیونکہ پہلے لوگوں کو بھی خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ مسیح ؑ کا دعویٰ اور قسم کا تھا تو یہ دلیل باطل ہو جاتی ہے یہودی کہہ سکتے تھے کہ پہلے لوگوں کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے مگر تم اپنے آپ کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہتے ہو.مگر مسیح کا اس حوالہ کو پیش کرنا صاف بتاتا ہے کہ مسیح اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں میں بھی خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی ہوں اور جب مسیح ؑانہی معنوں میں خدا کے بیٹے ہوئے جن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے تھے تو کفارہ دینے کا حق جیسے مسیح کو حاصل تھا ویسے ہی تمام اسرائیلی نبیوں کو اور ان کے مخلص مومنوں کو حاصل تھا اور اگر ان کو یہ حق حاصل نہیں تھا تو مسیح ؑکو بھی نہیں تھا کیونکہ کفارہ کی بنیاد مسیح ؑکے ابن اللہ ہونے پر ہے اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ مسیح بیٹا کہلانے میں منفرد نہیں بلکہ سینکڑوں انبیاء اور ہزاروں لاکھوں
مومنوں کو بھی بائبل میں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے.یہاں تک تو اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ مسیح ؑکے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی تھا اور اسی لئے وہ کفار ہ ہوا یہ بائبل کی رو سے درست نہیں بے شک وہ بیٹا ہونے کا مدعی تھا مگر انہی معنوں میںجن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے کہلائے اور پھر وہ اس کے ساتھ ہی ابن آدم ہونے کا بھی مدعی تھا.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسیح ؑکا ابن آدم ہونا اصل حقیقت تھی یا اس کا ابن اللہ ہونا اصل حقیقت ہے اور اس کے لئے ہم پھر اس کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں.میں نے بتایا ہے کہ مسیح ؑنے یہ تسلیم کیاہے.کہ میں انہی معنوں میں خدا کا بیٹا ہوں جن معنوں میں بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے اور جب مسیح ؑکے اپنے قول سے یہ بات ثابت ہو گئی.تو معلوم ہوا کہ اگر مسیح کو کفارے کا حق حاصل تھا تو ان کو بھی حاصل تھا اور اگر ان کو حاصل نہیں تھا تو مسیح ؑکو بھی حاصل نہیں تھا.اب ہم ایک اور طرح اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں.دنیا میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو اس کا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا استعارۃًبھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ واقعہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رہا ہو.اور چونکہ یہ دونوں امکان موجود ہوتے ہیں.اس لئے فیصلہ کے لئے ہمیں بہرحال کوئی نہ کوئی رستہ نکالنا پڑے گا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ کسی شخص کے متعلق ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ شیر ہے اور کسی کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ باز ہے لیکن ہم اصلی شیر کو بھی شیر ہی کہتے ہیں ہم اپنے بچہ کو چڑیا گھر لے جاتے ہیں تو ایک جانور جو پنجرہ میں بند ہوتا ہے اس کی طرف اشارہ کر کے ہم کہتے ہیں یہ شیر ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے اگر کوئی بڑا بہادر اور دلیر انسان بیٹھا ہو تو اس کے متعلق بھی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے اب سوال یہ ہے کہ بچہ کس طرح پہچانتا ہے کہ وہ شیر اور ہے اور یہ شیراور ہے؟بہرحال کوئی پہچان ہونی چاہیے جو اس فرق کو واضح کر سکے اور وہ پہچان اسی طرح ہوتی ہے کہ بچہ نے جو نیچر ل ہسٹری کی کتابیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں ان میںیہ لکھا ہوتا ہے کہ شیر کے پنجے ہوتے ہیں دم ہوتی ہے منہ اس طرح ہوتا ہے شکل اس طرح ہوتی ہے پس جب ہم کسی انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں اور بچہ دیکھتا ہے کہ اس کی دم نہیں.اس کے پنجے نہیں اس کی شکل آدمیوں کی سی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اسے شیر استعارہ کے طو رپر کہا گیا ہے اور جب ہم چڑیا گھر کے شیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ وہی شیر ہے جس کی کتابوں میں تصویریں آتی ہیں.اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص خدا کا بیٹا تھا اور ہم استعارۃً کلام کرتے ہیں ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ حقیقتاً خدا ہے یا خدا کا بیٹا ہے تو اس وقت ہمارا سامع یہ کس طرح فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کو ہم نے جو خدا یا
خدا کا بیٹا کہا ہے تو ہماری مراد استعارہ ہے حقیقت نہیں اس کے لئے بہرحال کوئی نہ کوئی معیار ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو.جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ(الفتح :۱۱) اے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ خدا کی بیعت کر تے ہیں يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا خدا کا ہاتھ نہیں ہوتا تھا اب اس آیت کے باوجود ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نہیں مانتے کیوں نہیں مانتے؟اس لئے کہ قرآن کریم نے بعض اور مقامات پر خدا تعالیٰ کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میںنہیں پائی جاتی تھیں.مثلاً اللہ تعالیٰ کھاتا پیتا نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے پیتے تھے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ بھی آتی تھی اور نیند بھی آتی تھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بیوی کی ضرورت نہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاںتھیں.گویا وہ باتیں جو خدا میں نہیں ہوتیںوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میںپائی جاتی تھیں اور وہ باتیں جو خدا میں ہوتی ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی تھیں.پس جب خدا نے کہا اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہ استعارہ ہے.یہ مراد نہیں کہ آپ واقعہ میں خدا بن گئے تھے.چنانچہ ہمارا عقیدہ اور دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہی ہے کہ آپ بشر تھے سوائے بعض جہلاء کے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر قرار نہیں دیتے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک دوست مجھ سے ملنے کے لئے آئے وہ ان پڑھ تھے مگر قرآن کریم کی آیتیں بہت صاف پڑھتے تھے میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جس دوست کے ذریعہ مجھے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی ہے وہ قرآن کریم نہایت اچھا پڑھتے تھے ان کے پاس رہنے کی وجہ سے میری زبان بھی صاف ہو گئی.پھر انہوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ اپنے بعض رشتہ داروں کے پاس گیا اور انہیں میں نے کہا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ (حم السجدۃ :۷) میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں.اس پر وہ کہنے لگے دیکھو میاں یہ اچھی طرح سن لو تم ہمارے رشتہ دار ہو اس لئے ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم تمہیں ماریں لیکن اب تم چپ کر کے یہاں سے چلے جائو کیونکہ یہ بات ہم نے کبھی نہیں سنی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آدمی ہیں آج تم نے یہ بات بھی کہہ دی تو بعض جہلاء اس قسم کے بھی
ہیں لیکن مسلمانوں کا سمجھدار طبقہ ہمیشہ سے یہی تسلیم کرتا چلا آیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو تمام انسانوں کے سردار ہیں.تمام نبیوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے ہیں.لیکن بہرحال وہ انسان ہیں پس مسیح جب کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں کیا وہ ان کا مدعی ہے؟ جہاں تک کھانے پینے کاسوال ہے عیسائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ مسیح ؑانسانی بھیس میں آیا تھا اس لئے وہ کھاتا پیتا تھا.ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن کم از کم جو روحانی باتیں ہیں وہ تو خدا میں رہے گی یہ تو نہیں کہ خدا اس دنیا میں آ کر وہ کمالات بھی بھول جائے گا جو خدا ہونے کی حیثیت سے اس میں پائے جانے چاہئیں.مرقس باب ۱۰ آیت ۱۷.۱۸ میں لکھا ہے.’’ اور جب وہ باہر نکل کر راہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں.یسوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا.‘‘ پہلی صفت خدا تعالیٰ کی اس کا نیک ہونا ہے کیونکہ عیب دار خدا نہیں ہو سکتا.لیکن پہلی ہی صفت جو خدا میں پائی جانی ضروری ہے مسیح اس سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ میں اس جگہ دوستوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات سن کر عیسائیوں نے اب بعض مقامات سے بائبل کو بدل ڈالا ہے.مثلاً اسی واقعہ کو متی میں اب اس طرح درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب دیا کہ ’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘ (متی باب ۱۹ آیت ۱۷) حالانکہ انگریزی بائیبلیں جو انگلستان میں چھپی ہوئی ہیں اور بائبل کے وہ اردو ایڈیشن جو ۱۹۱۰ء سے پہلے کے ہیں.ان سب میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑنے اسے یہ جواب دیا کہ ’’ توکیوں مجھے نیک کہتا ہے؟نیک تو کوئی نہیں ،مگر ایک یعنی خد ا‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعتراض کیا کہ تم کہتے ہو کہ مسیح ؑخدا کا بیٹا تھا اس لئے وہ کفارہ ہو گیا.حالانکہ یہ حوالہ صاف بتا رہا ہے کہ مسیح خدا نہیں تھا کیونکہ وہ تو اپنے نیک ہونے سے بھی انکار کر رہا ہے اور جب وہ خدا نہیں تھا تو کفارہ کس طرح ہوا.گویا ایک طرف اس سے کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف اس سے توحیدثابت
ہوتی ہے(جنگ مقدس روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۱۳۶).عیسائیوں کو اور تو کوئی جواب نہ سوجھا.انہوں نے بائبل کے نئے اردو ایڈیشنوں میں ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ :.’’ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘ گویا یہ ظاہر کیا کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب د یا تھا کہ تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں سوال کر رہا ہے نیک تو صرف خدا ہے حالانکہ تمام انگریزی بائبلوں میں اور تمام یونانی اور جرمن بائبلوں میں اور اردو کی تمام پرانی بائبلوں میں یہ الفاظ تھے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ اس قسم کی سترہ اٹھارہ تبدیلیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات کے نتیجہ میں عیسائیوں نے بائبل میں کی ہیں.بہرحال کہنے والے نے یہی کہا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں.اور حضرت مسیح ؑ نے اسے کہا کہ ’ ’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ اس حوالہ سے دو باتیں نکل آئیں.اول خدا میں نیکی ہے کیونکہ بغیر نیکی کے وہ خدا ہی نہیں ہو سکتا دوم مسیح ؑ میں نیکی نہیں اور ان دو باتوں کا یہ لازمی نتیجہ نکل آیا کہ چونکہ مسیح میں نیکی نہیں اس لئے وہ خدا نہیں.اسی طرح متی باب ۲۴ آیت ۳۲ تا ۳۷ میں لکھا ہے:.’’ اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو جونہی اس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے اسی طرح جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے (یعنی مسیح کی آمد ثانی) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اس دن (یعنی مسیح کی آمد ثانی کے دن) اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ.‘‘ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح اپنے عالم الغیب ہونے سے انکار کرتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت اس کا عالم الغیب ہونا بھی ہے پس جب مسیح کہتا ہے کہ میں علم غیب نہیںجانتا اور مستقبل کے حالات کا مجھے علم نہیں.تو دوسرے الفاظ میں وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو میں حقیقتاً نہیں کہتا بلکہ صرف استعارۃً کہتا ہوں.یعنی میری مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ میں خدا کا پیارا ہوں.اسی طرح انجیل میں خدائے واحد کے لفظ پر بھی زور دیا گیا ہے.یوحنا باب ۵ آیت ۴۴ میں لکھا ہے.’’ تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے
نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو.‘‘ عیسائیت ہمارے سامنے تثلیث پیش کرتی ہے لیکن مسیح صاف طور پر خدائے واحد کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو.اسی طرح یوحنا باب ۱۷ آیت ۳ میں لکھا ہے:.’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں.‘‘ یہاں سے ایک اور بات بھی ثابت ہوئی.پہلا حوالہ جو یوحنا باب ۵ کا تھا اس کا ایک بودہ سا جواب مسیحی دے سکتے تھے اور وہ یہ کہ جب ہم خدائے واحد کالفظ استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد اقنوم ثلاثہ سے ہوتی ہے جس میں خدا باپ بھی شامل ہے خدا بیٹا بھی شامل ہے اور خدا روح القدس بھی شامل ہے اور وہ کہتے بھی یہی ہیں کہ ’’ تین ایک ہیں اور ایک تین ‘‘ پس وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی تین کو ایک سمجھتے ہیں اور خدائے واحد سے مراد خدا باپ ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس کا مجموعہ ہے.اس جواب کو یوحنا کے اوپر کے حوالہ نے رد کر دیا.کیونکہ یہاں مسیح کا ذکر خدائے واحد سے الگ کر کے کیا گیا ہے.الفاظ یہ ہیں :.’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں.‘‘ اس جگہ خدائے واحد کی جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس میں مسیح شامل نہیں.پس معلوم ہوا کہ مسیح سے علیحدہ ہو کر خدائے واحد بنتا ہے اس کے ساتھ مل کر نہیں اور توحید اسی کا نام ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے نہ بیٹے کو نہ روح القدس کو اور نہ کسی اور کو.غرض اس حوالہ نے بھی بتا دیا کہ بیٹے کا لفظ ایک استعارہ تھا جو مسیح کے متعلق استعمال کیا گیا تھا اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ خدا کا شریک تھا بلکہ یہ ویسا ہی ایک پیار کا کلمہ تھا جیسے مائیں اپنے بیٹے کو کہتی ہیں کہ یہ میرا بیٹا میرے جگر کا ٹکڑہ اور میرا دل ہے جس طرح بندوں کو حق حاصل ہے کہ وہ پیار میں اس طرح کلام کریں اسی طرح خدا کو بھی حق
حاصل ہے کہ وہ اپنے بندوں سے پیار اور محبت کی گفتگو کرے.دنیا میں بسا اوقات اپنے کسی عزیز یا دوست کے بچہ کو جب انسان دیکھتا ہے تو کہہ دیتا ہے تو میرا بچہ ہے اب یہ تو نہیںہوتا کہ وہ بعد میں ورثہ کا دعویٰ کرد ے اور کہے فلاں فلاں اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے ان کے سامنے مجھے اپنا بچہ قرار دیا تھا.ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں اسی طرح مائیں اپنے بچوں کا ذکر کرتی ہیں تو کہتی ہیں.ہائے میرا کلیجہ.ہائے میرا دل.ہائے میری آنکھوں کی ٹھنڈک.اب اس کا یہ مطلب تو نہیںہوتا کہ وہ بچہ سچ مچ ان کا کلیجہ یا دل یا آنکھیں ہوتا ہے یا عورت مر جائے تو ساتھ ہی بچے کو بھی دفن کر دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ بچہ تو ہے ہی نہیں.یہ تو اس عورت کا کلیجہ یا دل تھا.کیا دنیا میں کبھی کسی نے ایسی حماقت کی ہے ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں.اسی قسم کے الفاظ خدا تعالیٰ بھی اپنے پیاروں کے متعلق استعمال کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ان کو اپنا بچہ کہہ دیتا ہے جیسے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا یا جیسے اس نے اور کوئی نبیوں کو کہا پس کسی کو بیٹا کہنے کے یہ معنے نہیں کہ اب خدائے واحد نہیں رہا یا نعوذ باللہ دو یا تین خدا ہو گئے ہیں.غرض یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح ؑکے نزدیک خدا اور ہے اور وہ اور.چنانچہ خدائے واحد کے وجود کا الگ ذکر کیا گیا ہے اور مسیح کا الگ ذکر کیا گیا ہے اگر مسیح خدا ہوتا تو اس کے علیحدہ ذکر کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.خدائے واحد میں باپ خدا بھی آ جاتا، بیٹا خدا بھی آ جاتا اور روح القدس خدا بھی آ جاتا.مگر اسے خدائے واحد سے الگ کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے وجود میں شامل نہیںپس ان حوالوں سے ثابت ہوا کہ جب مسیح کو خدا کا بیٹا کہا گیا تو اس سے مراد حقیقتاً بیٹا نہ تھا بلکہ اسے استعارہ کے طور پر بیٹا کہا گیا تھا.پھر مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ مسیح خدا کی طرح بے جسم ہے (یوحنا باب ۱۴ آیت ۱) جب وہ اس دنیا میں آیا تو اس نے لوگوں کے لئے جسم اختیار کیا ورنہ خدا کے بیٹے کا کوئی جسم نہیں جیسے باپ خدا کا کوئی جسم نہیں یا جیسے روح القدس خدا کاکوئی جسم نہیں.اسی طرح بیٹے کا بھی کوئی جسم نہیں.جب وہ اس دنیا میں آیا تاکہ بنی نوع انسان کے گناہوں کی خاطر صلیب پر لٹک جائے تو اس نے اپنے لئے ایک جسم اختیار کر لیا.گویا جسم اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بنی نوع انسان کے بدلہ میںپھانسی پر لٹک جائے اور ایک دفعہ موت اختیار کرے کیونکہ موت کو گناہ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے جب مسیح نے دوسروں کا گناہ اٹھا لیا تو اس پرموت آنی لازمی تھی.مگر جب موت آ گئی تو اس کے بعد وہ سکیم جو بنی نوع انسان کے گناہ معاف کرانے کے لئے اختیار کی گئی تھی ختم ہو گئی.اب اگر عیسائیوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ضروری تھا کہ مسیح ؑ جب دوبارہ زندہ ہوا تو اس کے ساتھ اس کا جسم نہ ہوتا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی غرض پوری ہو چکی تھی.
بنی نوع انسان کے گناہ معاف ہو چکے تھے اور اب بیٹے کے تجسم کی کوئی ضرورت نہ تھی.وہ ویسا ہی کامل ہو چکا تھا جیسے خدا کا باپ کامل ہے مگر انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بھی جب ان کے نزدیک مسیح دوبارہ زندہ ہوا مسیح کے ساتھ اس کا جسم تھا اور وہ اسی جسم سمیت آسمان پر گیا یا بعض دوسری روایتوں کے مطابق اسی جسم کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر جا کر غائب ہو گیا.گویا صرف یہی نہیں کہ انجیل کے رو سے مسیح قبر میں سے جسم لے کر نکلا.حالانکہ اسے جسم کے ساتھ نکلنا نہیں چاہیے تھا.بلکہ وہ آسمان پر بھی اس جسم کو لے گیا.حالانکہ اب جسم کے کوئی معنے ہی نہیں تھے.جب تک وہ دنیا میں نہیں آیا تھا اس کا کوئی جسم نہیں تھا پھر عارضی طور پر اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کو اپنے اوپر لینے کے لئے جسم اختیار کیا.اس کے بعد جب وہ غرض پوری ہو چکی تو لازماً اس کے ساتھ اس کا جسم نہیں ہونا چاہیے تھا.مگر انجیل بتاتی ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بعد بھی وہ جسم سمیت اٹھا اور پھر آسمان پر بھی جسم سمیت گیا.اس طرح اس کی خدائی کی ساری عمارت گر جاتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے.کہ مسیح ؑ جو عیسائیوں کے نزدیک خدا باپ کے برابر ہے.وہ اب تک اسی جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور اس قید کے ساتھ مقید ہے.اور پھر ا نجیل میں یہ بھی کوئی ذکر نہیں کہ وہ کب اس جسم سے الگ ہو گا بلکہ انجیل سے تویہ ظاہر ہے کہ جب وہ دوبارہ آئے گاتب بھی اسی جسم کے ساتھ آئے گا.کیونکہ لکھا ہے جب وہ آئے گا تو ’’اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے.‘‘ (یعنی اس کا دعویٰ آسانی کے ساتھ نہیں پہچانا جائے گا بلکہ کسی قسم کے شکوک و شبہات بھی اس کے متعلق پیدا کئے جائیں گے) (مرقس باب ۱۳ آیت ۲۶) گویا انجیل یہ بتاتی ہے کہ دوبارہ بھی لوگ اسی جسم کے ساتھ مسیح کو آسمان سے اترتا دیکھیں گے.اور یہ ظاہر ہے کہ اب دوبارہ مسیح پر موت نہیں آ سکتی.کیونکہ پہلی موت اس پر کفارہ کے لئے آئی تھی جب وہ کفار ہ ہو چکا تو اب دوسری موت کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی.اس کے معنے یہ ہیں کہ یا تو عیسائیوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح ؑ اب ہمیشہ کے لئے جسم کی قید میں رہے گا اور وہ اس سے کبھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا اور یا انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ تھیوری جو ان کے تجسم کے متعلق انہوں نے پیش کی تھی وہ باطل ہے کیونکہ اگر یہ تھیوری درست ہوتی تو صلیب کے واقعہ کے بعد انہیں جسم سے آزاد ہو جانا چاہیے تھا مگر بجائے آزاد ہونے کے وہ بائبل کے رو سے اسی جسم کے ساتھ زندہ ہوئے اور اسی جسم کے ساتھ آسمان پر چلے گئے.پھر عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ مسیح ؑکفارہ ہو گیا ہے اس دعویٰ کے ثابت کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا بھی
ضروری ہے کہ کیا مسیح کفارہ پر راضی تھا ساری دلیل کفارہ کی یہی ہے کہ خدا لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا اور چونکہ وہ معاف نہیں کرسکتا اس لئے اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ مسیح کو سزاد ے کر قبول کر لیا.ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر زید مقروض ہے اور بکر اس کا قرضہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے تو زید کا قرضہ اتر جاتا ہے بنی نوع انسان گناہ کر کے خدا تعالیٰ کے مقروض ہو گئے ہیں اور وہ بوجہ عادل ہونے کے ان کو معاف نہیںکر سکتا کیونکہ ان کے خیال میں عدل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گنہگار کو ضرور سزا دی جائے.پس اس کا علاج اس نے یہ کیا کہ اپنے بیٹے سے لوگوں کا قرضہ وصول کر لیا.فرض کرو یہ بات ٹھیک ہے.اگرچہ گناہ روپیہ کی طرح نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کا پھوڑا نکلا ہوا ہو.ایسے شخص کے متعلق اگر دس ہزار لوگ بھی یہ کہیں کہ یہ پھوڑا اسے نہیںنکلا ہوا بلکہ ہمیں نکلا ہوا ہے اور ہم اس کی تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہیں تو وہ اس کی تکلیف کو نہیں اٹھا سکتے.اسی طرح دنیا میں اور کئی چیزیں ہیں جن کا بدلہ نہیں دیا جا سکتااور گناہ بھی انہیں چیزوں میں سے ہے لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ گناہ کا بدلہ دیا جا سکتا ہے اور عیسائیوں کی بات درست ہے.تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کے قرض کے بدلہ میں دوسرے سے زبردستی روپیہ چھین لینا جائز ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر الف کا قرضہ ب اپنی مرضی سے ادا کر دے تو ایسا کر سکتا ہے لیکن اگر الف کا قرضہ ہم معاف نہ کریں اور ب کی جیب سے جبر اً روپیہ نکال لیں تو ہم نے انصاف ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کیا.انصاف اس لئے نہیں کیا کہ ہم نے اس سے قرض وصول نہیں کیا جس سے وصول کرنا چاہیے تھا اور ظلم اس لئے کیا کہ ہم نے جبر سے کام لیا اور دوسرے کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال لیا.پس اگر مسیح لوگوں کے گناہوں کا قرض ادا کرنے پرراضی ہو اور باقی باتیں بھی ثابت ہو جائیں تو ہمیں مان لینا پڑے گا کہ وہ کفارہ ہو گیا.لیکن اگر باقی باتیں مسیحیت ثابت بھی کر دے جن کا ہم نے اوپر رد کیا ہے اور یہ ثابت نہ کرے کہ بنی نوع انسان کے گناہ کا بوجھ اپنی مرضی سے مسیح نے اٹھایا تو کفارے کا تمام گھر وندا ختم ہو جاتا ہے کیونکہ جس کو کفارہ کے لئے پیش کیا گیا ہے وہ کفارہ دینے پر راضی نہیں تھا.اس کے متعلق ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارہ میں کیا بیان دیتی ہے.مرقس باب ۱۴آیت ۳۲ تا ۴۲ میں لکھا ہے:.’’ پھر وہ ایک جگہ آئے جس کا نام گتسمنی (Gethsemane)تھا اور اس نے (یعنی مسیح نے) اپنے شاگردوں سے کہا یہاں بیٹھے رہو جب تک میں دعا کروں.اور پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لے کر نہایت حیران اور بے قرار ہونے لگا (یعنی حضرت مسیح نے صرف تین ساتھی لئے اور علیحدگی میںدعا کرنے کے لئے چلا گیا) اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو (یعنی پہلے تو باقی
شاگردوں کو پیچھے چھوڑا تھا اور صرف تین شاگرد اپنے ساتھ لئے تھے لیکن پھر اس خیال سے کہ ممکن ہے ان کی وجہ سے طبیعت میں حجاب پیدا ہو اور پوری طرح گریہ وزاری نہ ہو سکے اس نے انہیں بھی کہا کہ تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو) اور وہ تھوڑا آگے بڑھا اور زمین پر گر کر دعا کرنے لگا کہ اگر ہو سکے تو یہ گھڑی مجھ پر سے ٹل جائے.(یعنی صلیب پر لٹکنا جس کے ذریعہ سے اس نے تمام بنی نوع انسان کے گناہ اٹھانے تھے اس کے متعلق اس نے یہ دعا کی کہ اے خدا یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور دشمن مجھے صلیب پر نہ لٹکا دے) اور کہا اے ابا اے باپ تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے اس پیالہ کو میرے پاس سے ہٹا لے (ان الفاظ کے صاف معنے یہ ہیں کہ اسے مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ پھانسی پر لٹکے اپنی مرضی سے وہ پھانسی پرلٹکنے کے لئے تیار نہیں تھا پھر اس نے کہا ) توبھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو (یعنی میں تو یہ چاہتا ہوں کہ صلیب پر نہ لٹکوں اور کفارہ نہ بنوں.لیکن تو چاہتا ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں گویا مجھ سے زبردستی ایک کام لے رہا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بینکر اس شخص سے تو قرضہ وصول نہ کرے جس نے روپیہ لیا اور بازار جاتے ہوئے کسی کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال کر یہ سمجھ لے کہ اس کا قرضہ ادا ہو گیا ہے.مسیح صاف الفاظ میں کہتا ہے ’’ تو بھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو‘‘ یعنی میں تو نہیں چاہتا کہ صلیب پر لٹکوں لیکن اگر تو لٹکانا ہی چاہتا ہے تو مجھے منظور ہے)پھر وہ آیا اور انہیں سوتے پا کر پطرس سے کہا اے شمعون تو سوتا ہے کیا تو ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکا (پطرس کا اصل نام شمعون تھا مسیح نے اس کا نام پطرس رکھا جس کے معنے چٹان کے ہیں اور جس میںاس طرف اشارہ تھا کہ آئندہ زمانہ میںیہ شخص مسیحیت کے لئے چٹان ثابت ہو گا.مرقس باب ۳ آیت ۱۶) جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے(یعنی چونکہ خدا کا منشاء ہے کہ میںصلیب پر لٹک جائوں اس لئے میرا دل تو نہیں ڈرتا مگر جہاں تک بشریت کا تعلق ہے میرا جسم اپنی کمزوری محسوس کرتا ہے) وہ پھر چلا گیا اور وہی بات کہہ کر دعا کی (یعنی پھر یہی کہا کہ اے خدا میری مرضی صلیب پر لٹکنے کی نہیں لیکن اگر تو لٹکانا چاہتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں)اور پھر آ کر انہیں سوتے پایا کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں اور وہ نہ جانتے تھے کہ اسے کیا جواب دیں (غرض مسیح گھبراہٹ اور بے قراری میں بار بار آتے تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ میرے حواری اس مصیبت اور تکلیف کی گھڑی میں میرا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں.مگر وہ جب بھی آتے.حواریوں کو سویا ہوا پاتے) پھر تیسری بار آ کر ان سے کہا اب سوتے رہو اور آرام کرو.بس وقت آ پہنچا ہے دیکھو ابن آدم گنہگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جاتا ہے دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے.‘‘ اس حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح ؑ اپنی مرضی سے ہرگز کفارہ نہیں ہوا.اس کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح یہ پیالہ
ٹل جائے اور صلیب پر اسے نہ لٹکنا پڑے پس جو کچھ ہوا زبردستی ہوا.اس بارہ میںدوسری گواہی لوقا کی ہے اس میں لکھا ہے.’’ پھر وہ نکل کر اپنے دستور کے موافق زیتون کے پہاڑ کو گیا اور شاگرد اس کے پیچھے ہو لئے اور اس جگہ پہنچ کر اس نے ان سے کہا دعا کرو کہ آزمائش میں نہ پڑو اور وہ ان سے بمشکل الگ ہو کر کوئی پتھر کا ٹپہ آگے بڑھا اور گھٹنے ٹیک کر یوں دعا کرنے لگا کہ اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو (گویا یہ انجیل بھی مانتی ہے کہ مسیح نے یہ کہا کہ میری مرضی تو اس میں نہیں لیکن اگر تیری مرضی مجھے صلیب پر لٹکانے کی ہی ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں.دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ میں تو قرضہ دینا نہیں چاہتا لیکن اگر تو چھیننا چاہتا ہے تو چھین لے) اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا وہ اسے تقویت دیتا تھا (یعنی خدا کو فرشتہ تقویت دیتا تھا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھوڑے کو کوئی چوہابلکہ اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز سہارا دے) پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی سے دعا کرنے لگا (گویا فرشتے کی تقویت بھی کام نہ آئی اور وہ اس دعا میں مشغول ہو گیا کہ کسی طرح یہ صلیب کی مصیبت مجھ سے ٹل جائے) اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا (حالانکہ وہ دن سخت سردی کے تھے.د سمبر کا مہینہ تھا شمالی علاقہ میںمسیح رہتے تھے اور پھر اس وقت پہاڑی پر چڑھے ہوئے تھے مگر اس پریشانی کا ان پر اتنا اثر تھا کہ ایسی سخت سردی میں بھی دعا کرتے وقت ان کا پسینہ ٹپ ٹپ بہنے لگا اس دعا کے بعد وہ اپنے شاگردوں کے پاس آئے چونکہ انسان کے لئے اپنا عیب بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ کہیں دشمن کوئی طعنہ نہ دے دے اس لئے یہاں لوقا نے ایک عجیب بات لکھ دی ہے مرقس نے تو صاف طور پر بیان کر دیا تھا کہ اس شدت گھبراہٹ میں مسیح بار بار اپنے شاگردوں کے پاس آتے اور کہتے کہ اٹھو اور دعا کرو مگر وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے لیکن لوقا کو خیال آیا کہ یہ تو بڑی بدنامی کی بات ہے لوگ کیا کہیں گے کہ مسیح کے اچھے شاگرد تھے اتنی بڑی مصیبت میں بھی وہ نہ جاگ سکے اور باوجود اس کے مسیح ؑبار بار کہتے تھے کہ اٹھو اور دعا کرو وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے.ا س بدنامی کے دھبہ کو دور کرنے کے لئے لوقا لکھتا ہے) جب دعا سے اٹھ کر شاگردوں کے پاس آیا تو انہیں غم کے مارے سوتے پایا.(گویا شدت غم میں وہ بالکل سو رہے تھے)اور ان سے کہا تم سوتے کیوں ہو (لوقا کے
نزدیک اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم غم کیوں کرتے ہو اور شدت غم میں تم کیوں سو رہے ہو.گویا غم میں انسان سویا کرتا ہے اور جب غم نہ ہو تو اٹھ کر دعا کیا کرتا ہے.صاف پتہ لگتا ہے کہ چونکہ لوقا کو یہ خیال آ گیا کہ پڑھنے والے کیا خیال کریں گے کہ یہ عجیب شاگرد تھے جو اتنی بڑی مصیبت میں بھی سوئے رہے اس لئے اس نے یہ الفاظ لکھ دئے کہ وہ حواری شدت غم میں سو رہے تھے مسیح نے ان سے کہا) اٹھ کر کہ دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو.‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۳۹ تا ۴۶) اس حوالہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ؑ صلیب پر لٹکنا نہیں چاہتا تھا اور کفارہ کی ساری بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ مسیح اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں صلیب پر لٹکا.جب وہ اپنی مرضی سے صلیب پر ہی نہیں لٹکا تو کفارہ کس طرح ہوا.؟ بعض دفعہ عیسائی یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس میں جبر کا کوئی سوال ہی نہیں مسیح نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ’’ تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو‘‘ ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک نبی سے یہ کب امید ہو سکتی ہے کہ خدا چاہے اور وہ نہ چاہے مسیح نے بھی جب دیکھا کہ خدا کی مرضی اسی میں ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں تو اس نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا تیری مرضی پوری ہو لیکن اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کفارہ نہیں ہوا.اور کفارہ خدا تعالیٰ کی مرضی سے نہیں ہوتا.بلکہ اگر کفارہ ہو سکتا ہے تو کفارہ دینے والے کی مرضی سے ہوتا ہے مسیح صاف طور پر کہتا ہے کہ میری مرضی نہیں کہ میں کفارہ پیش کروں یہ اور بات ہے کہ جبر کے بعد وہ تیار ہو گیا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ ڈاکو جنگل میں کسی مسافر کو پکڑ لیتے ہیں تو وہ ہنس ہنس کر انہیں روپیہ دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں بولا تو یہ مجھے قتل کر دیں گے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی مرضی سے انہیںروپیہ دے رہا ہوتا ہے اسی طرح یہ سوال نہیں کہ خدا نے اسے جبراً ایک بات پر تیار کر لیا.سوال یہ ہے کہ آیا یہ بات مسیح کی اپنی مرضی سے ہوئی؟اگر اس کی اپنی مرضی سے ہوئی ہے تب تووہ کفارہ ہوا ورنہ نہیں اور اوپر کے حوالہ جات بتا رہے ہیں کہ مسیح ؑنے صاف طور پر یہ کہا کہ میری مرضی نہیں کہ صلیب پر لٹکوں.پس جو کچھ ہوا جبر سے ہوا اور یہ چیز ایسی ہے جو کفارہ کو باطل ثابت کر دیتی ہے.بعض عیسائی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ مسیح کی عارضی حالت تھی بعد میں اس کی یہ کیفیت بدل گئی تھی.اس امر کا جائزہ لینے کے لئے ہم یہ دیکھتے ہیںکہ صلیب کے وقت مسیح ؑکی کیا حالت تھی.ساری انجیل میں عبرانی کا ایک ہی فقرہ محفوظ ہے جو مسیح نے صلیب کے وقت بولا اور وہ فقرہ یہ ہے کہ ’’ ایلی ایلی لما سبقتنی ‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۴۶)
یعنی جب مسیح ؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے ہاتھوں اور پائوں میں کیل گاڑے گئے تو مسیح ؑ نے نہایت ہی دردناک طور پر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ایلی ایلی اے میرے خدا اے میرے خدا لما سبقتنی تو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے.آخر میںنے کیا گناہ کیاہے کہ تو نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھ سے اپنے رحم و کرم کی نظر ہٹا لی.اس دعا سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح اپنے مرضی سے صلیب پر نہیں لٹکا بلکہ آخری حالت میںبھی وہ یہی سمجھتا تھاکہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور اس نے مجھے اس مصیبت میںڈال دیا ہے گویا مسیح اس بات پر خوش نہیں تھا کہ اس کو صلیب پر لٹکایا جائے اور جب وہ اس بات پر خوش نہ تھا نہ صلیب سے پہلے اور نہ بعد.اور وہ یہ قربانی دینے کے لئے تیار نہیں تھا تو اس کا صلیب پر لٹکنا کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا.پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی حل کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ کیا مسیح ؑ آدم کے گناہ سے خود پاک تھا کہ قابل کفارہ ہو؟ کفارہ کی تھیوری یہ ہے کہ انسان پاک نہیںہو سکتا کیونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اور وہ آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ نسل اپنے باپ کی وارث ہوتی ہے.اس لئے جو آدم کی اولاد ہے وہ بہرحال اپنے باپ کے گناہ کی وارث ہے اور چونکہ وہ گناہ کی وارث ہے اس لئے اولاد آدم گناہ سے بچ نہیں سکتی.اور چونکہ وہ گناہ سے بچ نہیں سکتی اور نجات نہیں پا سکتی اور نہ کوئی گنہگار انسان دوسرے گنہگار کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا وجود ہوتا جو گنہگار نہ ہوتا اور اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہ اٹھا لیتا اور ان کی سزا خود برداشت کر لیتا تاکہ دوسرے لوگ گناہ کی سزا سے بچ جائیں.اور یہ وجود مسیح ناصری تھا جو خدا کابیٹا تھا اس نے تمام لوگوں کے گناہ اٹھا لئے اور صلیب پر لٹک کر ان کے لئے کفارہ بن گیا.یہ ہے کفارہ کی تھیوری اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح گناہ سے پاک نہیں تھا تو یہ ساری تھیوری ختم ہو جاتی ہے جب وہ گناہ سے پاک ہی نہیں تھا تو کفارہ بھی نہیں ہو سکتا تھا انبیاء کے متعلق عیسائی یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ گنہگار تھے اس لئے کفارہ نہیں ہو سکتے تھے ابراہیم کفارہ نہیں ہو سکتا تھا موسیٰ کفارہ نہیں ہو سکتا تھا.د ائود کفارہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ خود گنہگار تھے اور گنہگار دوسرے گنہگار کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا.لیکن بائبل سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود بھی پاک نہیں تھا اور جب وہ پاک نہیں تھا تود وسرے گنہگاروں کا وہ بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا.انسان کو گنہگار ثابت کرنے کی دلیل مسیحیت یہ دیتی ہے کہ وہ گناہ کرنے والے آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ وہ آدم کی نسل میں سے ہے.اس لئے گنہگار ہے ہم کہتے ہیں مسیحؑ بھی حوا کے ذریعہ آدم کی اولاد میں سے تھا اور اس لئے وہ بھی گنہگار تھا.مسیحی کہتے ہیں کہ انسان نے گناہ آدم سے ورثہ میں لیا ہے.جب مسیح ؑ کا کوئی باپ ہی نہیں
تھا تو آدم کا گناہ اس کے ورثہ میں نہیں آیا.ہم کہتے ہیں کہ ورثہ باپ اور ماں دونوں سے مل سکتا ہے.مثلاً اگر ماں کے اندر آتشک ہو تو بچے کے اندر بھی آتشک کا مادہ آ سکتا ہے یا اگر ماں کو سل ہو تو بچے کے اندر بھی سل کا مادہ آ سکتا ہے.کئی مائیں مسلول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اولاد میں بھی سل کا مادہ آ جاتا ہے.اسی طرح مائوں کو مرگی یا جنون کا مرض ہوتا ہے تو اولاد میں بھی مرگی اور جنوں کا مرض آ جاتا ہے.غرض دنیا کے حالات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی ، جسمانی یا روحانی عیوب جو ماں یا باپ میں ہوتے ہیں وہ ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں.یہ نہیں ہوتا کہ صرف باپ سے ورثہ کے طور پر کوئی بات آ جائے اور ماں کی طرف سے نہ آئے بلکہ باپ اور ماں دونوں کا ورثہ ملتا ہے.اس نقطہ نگاہ سے جب مسیح ؑ حوا کی اولاد میں سے تھا تو خواہ اس کا باپ کوئی نہ ہو تب بھی اس نے اپنی ماں سے ورثہ کا گناہ پا لیا تھا اور وہ دوسرے انسانوں کی طرح گنہگار تھا.مسیح اسی صورت میں گناہ کے ورثہ سے بچ سکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ وہ آدم اور حوا دونوں کی اولاد میں سے نہیں تھا.جب اس کا نہ باپ ہو نہ ماں.تب بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ورثہ کا گناہ نہیں پایا.اور یا پھر یہ ثابت ہو جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا.تب حضرت مسیح ؑورثہ کے گناہ سے بچ سکتے ہیں کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسیح ؑ حوا کی اولاد میں سے ہے جس نے گناہ نہیں کیا تھا آدم کی اولاد میں سے نہیں جس نے گناہ کیا تھا.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسیح گناہ سے نہیں بچ سکتا.کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا تھا.گناہ صرف آدم نے کیا تھا تب بھی اگر مسیح کو حوا نے جنا ہوتا تب تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس میں گناہ کا مادہ نہیں آیا.لیکن مسیح تو اس عورت کا بیٹا ہے جو حوا سے ہزاروں سال بعد ہوئی اور جو کئی ہزار واسطے حوا تک رکھتی تھی اس دوران میں ہزاروں دفعہ آدم کی اولاد نے حوا کی بیٹیوں کو چھؤا پھر اور حوا کی بیٹیاں ہوئیں تو ان کو پھر آدم کی اولاد نے چھؤا.اس طرح کئی ہزار چکر کھانے کے بعد حضرت مریم پیدا ہوئیں.وہ اتنے ہزار چکر میں آدم کے گناہ کے اثر سے بچ کس طرح سکتی تھیں اگر تو وہ براہ راست حوا کی اولاد میں سے ہوتیں اور حوا بے گناہ ہوتیں تب بے شک یہ کہا جا سکتا تھا کہ چونکہ حوا بے گناہ ہے اور چونکہ مریم براہ راست بغیر کسی واسطہ کے حوا کی بیٹی ہے.اس لئے گناہ کا مادہ اس میں نہیں آیا مگر وہ براہ راست حوا کی اولاد میں سے نہیں بلکہ حوا کی ان بیٹیوں کی اولاد میں سے ہے جو ہزاروں دفعہ گناہوں سے ملوث ہو چکی ہیں.پس وہ عورت جو آدم کے گناہ کا حصہ لے چکی تھی کس طرح مسیح کے پاک ہونے کا موجب ہو سکتی تھی.پھر یہ بھی درست نہیں کہ حوا بے گناہ تھی.بلکہ بائبل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حوا آدم سے بھی زیادہ گنہگار تھی.بائبل میں لکھا ہے :.
’’ اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا یہ (امر یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل میں سانپ سے مراد شیطان ہوتا ہے) اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا (گویا شیطان حوا کے پاس گیا اور اس نے چالاکی یہ کی کہ حوا سے جا کر یہ نہیں کہا کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں درخت کا پھل کھانے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ممانعت ہو چکی ہے بلکہ اس نے یہ کہا کہ کیا خدا نے یہ کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا) عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے.تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے.بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کراپنے لئے لنگیاں بنائیں.اورانہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا.تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس نے کہا کہ تو کہاں ہے.اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا اس نے کہا کہ تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا.تب خداوند خدا نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا ؟عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکا یا تو میں نے کھایا اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس لئے کہ تو نے یہ کیا تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا.تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا.وہ تیر ے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا.پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھائوں گا تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت
اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا اور آدم سے اس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا.اس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تو پھر لوٹ نہ جائے اس لئے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا.‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱تا ۱۹) یہ وہ واقعہ ہے جو بائبل میں آدم کے گناہ کے متعلق آتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ شیطان کا مقصود آدم کو ورغلانا تھا.کیونکہ شیطان سمجھتا تھا کہ آدم کے وجود سے میری حکومت باطل ہو جاتی ہے حوا کا مقام ایسا نہیں تھا کہ شیطان کو اس سے خطرہ ہوتا.پس اس کی اصل غرض یہ تھی کہ آدم کو جنت سے نکالا جائے.گویا اصل ساکن جنت آدم تھا.حوا آدم کے طفیل پیدا ہوئی اور آدم کے طفیل ہی اسے جنت ملی.پس شیطان کا اصل مقصد آدم کو بہکانا تھا مگر شیطان آدم کے پاس نہیں گیا بلکہ حوا کے پاس گیا اور اسے پھل کھانے پر آمادہ کیا اور پھر حوا نے آگے آدم کو پھل کھلایا.اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور شیطان پہلے حوا کے پاس کیوں گیا جبکہ اس کی اصل غرض آدم کو بہکانا تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کی اصل غرض گو آدم کو بہکانا تھی مگر وہ ڈرتا تھا کہ اگر میں براہ راست آدم کے پاس گیاتو میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گا.اور آدم میرے دھوکا میں نہیں آئے گا.اس لئے وہ پہلے حوا کے پاس گیا.وہ سمجھتا تھا کہ حوا جلد قابو آ جائے گی او رپھر حوا کے ذریعہ آدم کو ورغلانا آسان ہو جائے گا.چنانچہ جب آدم سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ’’ کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا ‘‘ تو آدم نے یہی جواب دیا کہ ’’ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا ‘‘ یعنی آپ کی طرف سے یہ عورت مجھے تحفہ کے طور پر ملی تھی.میں دھوکا میں آ گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ عورت جو خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے یہ تو غلطی نہیں کر سکتی اور میں نے اس کے کہنے سے اس درخت کا پھل کھا لیا.غرض آدم بھی یہی کہتا ہے کہ عورت نے مجھے بہکایا اور شیطان بھی پہلے حوا کے پاس ہی گیا اور اس نے اسے ورغلایا.ان واقعات سے ظاہر ہے کہ
۱.پہلے گناہ حوانے کیا.۲.حوا آدم سے زیادہ کمزور اور گناہ میںپھنسنے کے زیادہ قابل تھی.اسی لئے شیطان پہلے حوا کے پاس گیا حالانکہ اس کا اصل مقصود آدم تھا.۳.جو نسل آدم اور حوا سے پیدا ہوگی اس میں ورثہ کے گناہ کی کمزوری اس اولاد سے کم آ ئے گی جو صرف حوا سے پیدا ہو گی.کیونکہ آدم اور حوا کی اولاد نے کچھ باپ کا ورثہ لیا ہے اور کچھ ماں کا ورثہ لیا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب طاقتور اور کمزور چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو وہ ایک درمیانی کیفیت پر آ جاتی ہیں لیکن وہ اولاد جو خالص حوا سے پیدا ہوگی وہ لازماً گناہ کے زیادہ قریب ہوگی.جب یہ حالات ہیں تو مسیح صرف حوا سے پیدا ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت گناہ کے زیادہ قریب ہو گئے پس وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہو سکتے.کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت میں ہے کہ حوا کی نسل میں سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے.ہم اس بات کو مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ حوا کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کر دے جو ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوں.لیکن کفارہ کی بنیاد اس بات پر نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بات داخل ہے یا نہیں کہ وہ حوا کی نسل سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے.بلکہ اس بات پر ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پر گنہگار ہے اور یہ گناہ کا مادہ اس نے آدم سے ورثہ میں لیا ہے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت کا سوال ہے ہمارا عقیدہ تو آدم کی اولاد کے متعلق بھی یہی ہے.کہ اس میں سے بھی نیک لوگ ہو سکتے ہیںاور ہوتے رہے ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا ہی سوال ہو تو خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ حوا گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ آدم گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے لیکن عیسائیوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ جو گنہگار ہو اس کی اولاد نیک ہی نہیں ہو سکتی اور جب ان کا یہ عقیدہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا کیا سوال رہا.اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ حوا کی اولاد نیک بن سکتی ہے تو پھر ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ آدم کے نطفہ سے نیک اولاد پیدا کردے.ایسی صورت میں نہ ورثہ کے گناہ پر زور دینے کی کوئی ضرورت رہتی ہے نہ گنہگاروں کی نجات کے لئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی کی ضرورت رہتی ہے گویا کفارے کی تمام عمارت ایک آن میںمنہدم ہو جاتی ہے عیسائی سیدھی طرح تسلیم کر لیں کہ خدا تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ گنہگارماں باپ سے نیک اولاد پیدا کر دے لیکن اگر وہ حوا کی اولاد
کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طاقت تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں اور آدم کی اولاد کے متعلق اس کی طاقت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ خود ایک قابل اعتراض امر ہوگا.بہرحال اصل سوال صرف اتنا ہے کہ خدا میں نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے یا نہیں؟اگر خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے تو خدا تعالیٰ میں گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے اور اگر خدا میں گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں.بہرحال اگر وہ گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کر سکتا ہے تو گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کر سکتا ہے اور وہ گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا تو گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا.غرض مسیح اگر گنہگار ماں کے بطن سے نیک پیدا ہو سکتا ہے تو باقی لوگ بھی نیک پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ مسیح سے زیادہ نیک ہو سکتے ہیں.کیونکہ ان کے اندر باپ اور ماں دونوں کے اثرات ہیں.میں نے اوپر لاہور کے ایک پادری کا ذکر کیا ہے جو بعد میں سہارنپور مشنری کالج کا پرنسیپل ہو گیا میری اس سے جو گفتگو ہوئی.اس کا ایک حصہ میں بیان کر چکا ہوں.اب گفتگو کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں.اس پادری کا نام غالباً وڈ تھا.میں نے اس سے کہا پادری صاحب آپ یہ بتائیں کہ ٹھنڈے پانی اور گرم پانی کو اگر آپس میں ملائیں تو کیا ہو گا.وہ کہنے لگا پانی سمویا جائے گا.کچھ گرم پانی کی گرمی کم ہو جائے گی اور کچھ سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی ایک درمیانی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی.میں نے کہا اب یہ بتائیے شیطان پہلے آدم کے پاس گیا تھا یا حوا کے پاس ؟ کہنے لگا حوا کے پاس میں نے کہا شیطان کا مقصود کیا تھا کیا حوا کو بگاڑنا مقصود تھا یا آدم کو بگاڑنا مقصود تھا؟ کہنے لگا شیطان کا مقصود تو آدم کو بگاڑنا تھا.میں نے کہا جب آدم مقصود تھا تو وہ براہ راست آدم کے پاس کیوں نہیں گیا راستہ میں چکر کاٹنے کی اسے کیا ضرورت تھی؟ اس نے کہا وہ براہ راست آدم کے پاس اس لئے نہیں گیا کہ اس نے سمجھا حوا کمزور ہے اور میں اسے آسانی سے ورغلا لوں گا.اس کے بعد آدم کو یہ حوا خود بخود ورغلالے گی میری ضرورت نہیںرہے گی.میں نے کہا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حوا آدم سے کمزور تھی کہنے لگا ہاں.میں نے کہا جب حوا آدم سے کمزور تھی اور گناہ کا ارتکاب پہلے اسی نے کیا اور اسی نے آدم کو ورغلایا تو وہ وجود جو صرف حوا سے پیدا ہوا وہ بے گناہ کس طرح ہو گیا؟ میں نے کہا آپ گرم اور ٹھنڈے پانی کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سمجھ لیں کہ آدم کی مثال ٹھنڈے پانی کی سی تھی اور حوا کی مثال گرم پانی کی سی تھی.ان دونوں کے ملنے سے جو اولاد پیدا ہوتی وہ لازماً اتنی گنہگار نہیں ہو سکتی جتنی وہ اولاد گنہگار ہو سکتی ہے جو صرف حوا سے پیدا ہوئی ہے پس مسیح جو حوا سے پیدا ہوا وہ دوسرے
لوگوں کی نسبت زیادہ گنہگار تھا.کہنے لگا کیا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا؟ میں نے کہا ہمارا اور آپ کا سارا جھگڑا ہی یہی ہے.اگر مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو پھر آدم کو آپ بے شک گنہگار کہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی مانیں کہ اس کی اولاد نیک ہو سکتی ہے ضروری نہیں کہ وہ گنہگار ہی ہو.اب جو میں نے اس طرح پکڑا تو کہنے لگا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا، سونے میں سے سونا نکلتا ہے.آدم چونکہ گنہگار تھا اس لئے اس کی اولاد بھی ضرور گنہگار ہو گی وہ نیک نہیں ہو سکتی کیونکہ سونے میں سے سونا نکلتا ہے میں نے کہا تو پھر حوا کا بیٹا دوسروں سے زیادہ گنہگار ماننا پڑے گا کیونکہ حوا آدم سے زیادہ گنہگار تھی.اس نے نہ صرف خود رخت کا پھل کھایا بلکہ آدم کو بھی کھلایا اور اس طرح وہ دوہری گنہگار بنی.اس پر وہ پھر جھنجلا کر کہنے لگا مٹی کی کان میں سے سونا نہیں نکلتا.کان مٹی کی ہوتی ہے مگر اندر سے سونا نکل آتا ہے میں نے کہا تو پھر آدم کے متعلق بھی یہی نظریہ تسلیم کریں کہ گو وہ گنہگار تھا مگر اس کی اولاد میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو نیک ہوں اور ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں.اب عیسائیوں کے لئے صرف ایک ہی پہلو رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح کے متعلق وہ یہ کہیں کہ اس کے ماں باپ کے گناہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا.وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا.اس کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حوا کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت کم گنہگار تھا یا زیادہ گنہگار تھا.وہ بوجہ ابن اللہ ہونے کے گناہ سے پاک تھا.گویا اس کا پاک ہونا ماں کے بطن سے پیدا ہونے کے سبب سے نہیں تھا بلکہ ابن اللہ ہونے کی وجہ سے تھا.اس پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اگر مسیح کے بغیر باپ کے پیدا ہونے میں کوئی خاص حکمت نہیں تھی اور ابن اللہ ہونے کی وجہ سے اس نے ماں باپ کا اثر قبول نہیں کرنا تھا تو اگر اس کا باپ ہوتا تب بھی اس نے اس کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھا.اگر مسیح ایک شادی شدہ عورت کے گھر میں پیدا ہوتا اور اس کا باپ ہوتا تو پھر بھی اس نے آدم اور حوا کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھا.کیونکہ اس کی اصل حیثیت ابن اللہ کی تھی.پھر خدا نے یہ کیا ظلم کیا کہ اس نے گنہگار تو ہونا نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے مسیح کو ایسے رنگ میں پیدا کیا کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل ہو گیا اور جہاں بھی لوگ بیٹھتے یہی کہتے کہ وہ نعوذ باللہ حلال زادہ نہیں جب اس نے نہ باپ کا اثر قبول کرنا تھا نہ ماں کا اثر قبول کرنا تھا تو اس جھگڑے کی ضرورت کیا تھی اور خدا نے مریم اور مسیح کو ایک گندے الزام کے نیچے رکھ کر کیوں تکلیف دی جب وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا تو اسے باپ او رماں دونوں سے پیدا کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے زور سے پاک ہوتا اور ولدالزنا ہونے کے الزام سے بھی بچتا.
اس جگہ مسیحی یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بھی تواس کو بن باپ مانتے ہو آخر تم کس وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا اور دشمن کو اس پر یہ الزام لگانے کا موقع ملا کہ وہ ولد الزنا ہے.تم کفارہ کو تو مانتے نہیں اور جو وجہ ہم پیش کرتے ہیں اس کو رد کرتے ہو.پھر تم کیوں کہتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی یہ وجہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ آئندہ ان کی اولاد میں پے درپے انبیاء آئیں گے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین وآسمان کے قیام تک ان کی نسل میں رہے گی اور پھر پے درپے نبیوں کی معرفت یہ وعدہ کیا گیا تھا.یہ وعدہ صدیوں تک اس طرح متواتر پورا ہوا.کہ موسوی سلسلہ کے لوگ دلیر ہو گئے اور انہیں اس امر کا یقین ہو گیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے خدا تعالیٰ اولاد ابراہیم کو نہیں چھوڑ سکتا اور موسوی سلسلہ سے نبوت اور بادشاہت باہر نہیں جا سکتی.اس کانتیجہ یہ نکلنا شروع ہوا کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کا انذار بیکار جانے لگا.نبی آتے اور وہ اپنی تعلیم پیش کرتے تو یہود ان کا مضحکہ اڑا دیتے.جیسے یرمیاہ وغیرہ آئے اور یہود نے ہنس کر ان کو رد کر دیا(یرمیاہ باب ۱۸ ٓیت ۱۸) اور سمجھا کہ خدا نے یہ نعمت ہمیں ہمیشہ کے لئے دے دی ہے.تب خدا نے انہیں بعض نبیوں کی معرفت یہ خبر دی کہ ایک کنواری بیٹا جنے گی (یسعیاہ باب ۷ آیت ۱۴)یعنی وہ موعود آدھا اسرائیلی اور آدھا غیر اسرائیلی ہو گا یہ ایک انذار تھا جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر یہود نبیوں کی باتیں نہ سننے پر اسی طرح مصر رہے تو آئندہ وہ نبی آئے گا جو نہ باپ کی طرف سے اسرائیلی ہو گا اور نہ ماں کی طرف سے اسرائیلی ہو گا سو مسیح کے وجود میں وہ وعدہ پورا ہوا مسیح بن باپ کے پیدا ہوا اور اس کے ذریعہ سے یہود کو نوٹس دے دیا گیا کہ آدھی نبوت ان سے لے لی گئی ہے.کیونکہ نسل ہمیشہ باپ سے چلتی ہے سو انہیں کہا گیا کہ اب جو نبی آیا ہے وہ باپ کی طرف سے یہود میں سے نہیں ہے اگر اس کے انذار سے بھی یہود نے فائدہ نہ اٹھایا تو اگلا نبی بالکل ہی غیراسرائیلی ہو گا گو ابراہیم کی نسل سے ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے وعدے تھے اور اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھاکہ بلا وجہ ان وعدوں کی برکات سے یہود کو محروم کر دے اس لئے اس نے پہلے متواتر انبیاء بھیجے جب یہود میں متواتر نبی آتے رہے اور ان کو یہ یقین کامل ہو گیا کہ اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبوت غیر اسرائیلیوں میں چلی جائے تو خدا تعالیٰ نے اپنے بعض انبیاء کی معرفت ایک ایسے رنگ میں انذار کیا جس کے بعد اگر ان کے اندر کچھ بھی ایمان ہوتا تو ان کو ہوش آ جانا چاہیے تھا اور یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اب ہماری شرارتوں کی وجہ سے ضرور کچھ ہونے والا ہے.مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے اور اپنی شرارتوں پر مصر رہے.آخر خدا تعالیٰ نے اپنے انذار کے مطابق مسیح کو بن باپ پیدا کیا اور یہودیوں کو سمجھایا کہ آدھی نبوت تو ہم نے لے لی ہے اگر آئندہ
بھی باز نہ آئے تو سزا کے طور پر نبوت کا باقی حصہ بھی لے لیا جائے گا.چنانچہ اب جو نبی آیا ہے یہ ماں کی طرف سے تو یہودی ہے مگر باپ کی طرف سے نہیں.لیکن آئندہ ایک بالکل غیر اسرائیلی نبی آئے گا گو وہ ابراہیم کی نسل میں سے ہی ہو گا چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جو بنو اسماعیل میں سے تھے اوربنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گیا.پس ہمارا حضرت مسیح ؑ کو بن باپ ماننا قابل اعتراض نہیں.ہمارے نزدیک اس میں بڑی حکمت ہے لیکن جو حکمت وہ بتاتے ہیںہم نے اسے رد کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس طرح حضرت مسیح بے گناہ نہیں بلکہ دوسروں سے بھی زیادہ گنہگار ثابت ہوتے ہیں اور کفارہ بالکل باطل چلا جاتا ہے.مسئلہ کفارہ کے متعلق ایک اور قابل غور سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کے صلیب پانے سے دنیا کا کفارہ ہو سکتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح ؑ کی صلیب کا واقعہ جس رنگ میں بائبل پیش کرتی ہے اگر ہم اسے تسلیم بھی کر لیں تب بھی یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ مسیح ؑنے واقعہ میں کوئی قربانی پیش کی تھی.کیونکہ انجیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صرف ڈیڑھ دن کے قریب قبر میں رہا.جمعہ کے دن دوپہر کے وقت مسیح کی صلیب کا واقعہ ہوا ہے اور اتوار کے دن صبح کے وقت وہ اٹھ بیٹھا (مرقس باب ۱۶) جمعہ کے بعد کی رات سے ہفتہ کی شام تک چوبیس گھنٹے ہوئے اور ہفتہ کی شام سے اتوار کی صبح تک بارہ گھنٹے ہوئے گویا انجیل کی رو سے مسیح صرف۳۶گھنٹے قبر میں رہا.فرض کرو یہ عیسائی عقیدہ کہ مسیح ڈیڑھ دن تک دوزخ میں رہا درست ہو تو بھی سوال یہ ہے کہ مسیح کا ڈیڑھ دن قبر میں رہنا دنیا کے گناہوں کا کفارہ کس طرح ہو سکتا ہے؟عیسائی عقیدہ کے مطابق دوزخ ابدی ہے اور ہر انسان جو دوزخ میں ڈالا جائے گا ہمیشہ کے لئے ڈالا جائے گا.لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کچھ مدت کے بعد خدا تعالیٰ دوزخیوں کو بھی معاف فرما دے گا اور انہیں جنت میں داخل کر دے گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ (القارعۃ:۱۰) یعنی دوزخ رحم مادر کی طرح ہے جس طرح رحم میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد بچہ باہر آ جاتا ہے اسی طرح دوزخمی کچھ عرصہ تک دوزخ میں رہنے کے بعد اس میں سے نکل آئیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیںجنت میںداخل کر دے گا لیکن عیسائی عقیدہ یہ ہے کہ دوزخ ابدی ہے اور جو بھی اس میں جائے گا وہ اس میں سے کبھی نہیں نکل سکے گا(متی باب ۲۵ آیت ۴۱) اب ساری دنیا جو مسیح پر ایمان رکھتی ہے وہ کروڑوں کروڑ کی ہے اسی زمانہ میں ساٹھ ستر کروڑ بلکہ اس سے بھی زیادہ عیسائی ہیں.اگر یہ ستر کروڑ آدمی دوزخ میں جاتا اور اس میں ابد تک رہتا تو ستر کروڑ کو ابدیت سے ضرب دے کر دیکھ لو کہ کتنا وقت بن جاتا ہے اور یہ تو صرف اس زمانہ کے عیسائیوں کی تعداد ہے.اگر مسیح سے لے کر اس وقت تک کے ان تمام لوگوں کا شمار کیا جائے جو مسیح پر ایمان لائے تھے اور ایک انسانی نسل کی اوسط عمر ہم تیس سال فرض کر لیں اور دنیا کی
اوسط عیسائی آبادی دس کروڑ مان لیں کیونکہ پہلے وہ تھوڑے تھے پھر لاکھ دو لاکھ ہوئے.پھر ستر اسی لاکھ ہوئے پھر کروڑوں کروڑ تک پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کی ایک ایک زمانہ میںستر ستر اسی اسی کروڑ تک تعداد ہو گئی.اس تمام تعداد کی اوسط اگر ہم صرف دس کروڑ رکھیں اور ایک صدی میں تین نسلیںفرض کریں تو اب تک ستاون عیسائی نسلیںدنیا میں گزر چکی ہیں.ستاون کو دس کروڑ سے ضرب دیں تو پانچ ارب ستر کروڑ آدمی بن جاتا ہے اب پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کی سزا کو ابدیت سے ضرب دے کر دیکھو تو کیا نتیجہ نکلتا ہے.گویا اگر مسیح کفارہ نہ بنتا تو اس پانچ ارب ستر کروڑ نے ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں رہنا تھا اور یہ زمانہ اتنا بڑا تھا جس کی تعیین ہند سوں میں ہو نہیں سکتی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو صرف ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کے ابدی عذاب کا کفارہ قبول کر لیا.کہا جاتا ہے کہ مسیح کو اس لئے صلیب پر لٹکایا گیا تھا.تاکہ اللہ تعالیٰ کے عدل پر کوئی حرف نہ آئے.مگر یہ کیا عدل ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ ضرب ابدیت کا عذاب ڈیڑھ دن میں پورا کر لیا گیا.گویا اور لوگ دوزخ میں پڑتے تو انہیں ابد ا ل الآباد تک دوزخ میں رکھا جاتا لیکن اپنے بیٹے کا سوال آیا تو اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر کہہ دیا کہ چلو سب کا کفارہ ہو گیا.یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک گائوں کے کچھ شرارتی لڑکے باہر کھیل رہے تھے کہ انہوں نے ایک مردہ گدھادیکھا.انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آئو ہم اسے پکاکر کھا لیں زندہ کیا اور مردہ کیا گوشت تو ہے ہی.چنانچہ انہوں نے مل کر گدھا پکایا اور کھا لیا.گائوں والے ایسی باتوں کو سخت برا سمجھتے ہیں انہیں پتہ لگا.تو وہ بھاگے بھاگے اپنے ملاں کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے کہ غضب ہو گیا.آج لڑکوں نے مردہ گدھا پکا کر کھا لیا ہے ایسا نہ ہو کہ خد اتعالیٰ کا کوئی عذاب ہم پر نازل ہو جائے.ملاں نے کہا یہ تو بڑے گناہ کی بات ہوئی ہے اب فوراً اس کا کفارہ ادا کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جائے گا.وہ پہلے ہی گھبرائے ہوئے تھے ملاں نے انہیں اور ڈرا دیا.اس پر انہوں نے کہا کہ ملاں جی اس مشکل کا آپ ہی کوئی حل نکالیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب برباد ہو جائیں.ملاں نے کہا اچھا میںکتابیںدیکھوں گا اور پھر بتائوں گا کہ اس کاکیا علاج ہے چنانچہ وہ سارا دن فقہ کی کتابیںدیکھتا رہا اور شام کو گائوں والوں سے کہنے لگا کہ لو بھئی مسئلہ نکل آیا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ ایک بڑا سا شہتیر کھڑا کر کے اس کے چاروں طرف روٹیوں کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ ڈھیر شہتیر کے آخری سرے تک پہنچ جائے اور پھر وہ روٹیاں خدا تعالیٰ کے نام پر دے دی جائیں.مطلب یہ تھا کہ روٹیاں مجھے دے دی جائیں کیونکہ خدا کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے ملاں کو ہی دیا جاتا ہے.اس نے سمجھا کہ چلو اس طرح کچھ دن مفت روٹیاں کھا لیں گے اور جو باقی رہیں گی وہ بیچ لیں گے گائوں چھوٹا سا تھا اور لوگ غریب تھے انہوں
نے یہ سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور کہا ملاں جی ہم تو یہ کفارہ دینے کی طاقت نہیں رکھتےاس نے کہا نہ دو گے تو سارے دوزخ میں جاؤ گے.فقہ میں یہی لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ اسی طرح ادا ہو سکتا ہے.انہوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ایک لڑکا بولا کہ ملاں جی کا اپنا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا.انہوں نے کہا سچ کہتے ہو؟ لڑکوں نے کہا بالکل سچ ہے وہ ہمارے ساتھ تھا آخر انہوں نے مشورہ کیا.کہ اب پھر ملا جی سے پوچھنا چاہیے شاید مسئلہ کی کوئی شکل بدل جائے.چنانچہ وہ پھر ملاں جی کے پاس آئے اور کہنے لگے ملاں جی آپ کا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا یہ سن کر ملاں جی کو فکر ہوا کہ اب تو مجھے بھی کفارہ دینا پڑے گا کہنے لگا اچھا میں پھر کتابیں دیکھوں گا.چنانچہ کتابیںدیکھ کر کہنے لگے لو میاں یہ بھی مسئلہ نکل آیا ہے کہ اگر اتنی توفیق نہ ہو تو پھر شہیتر کو زمین پر ڈال کر اس پر ایک ایک پھلکا رکھ دیا جائے اور وہ چندپھلکے صدقہ میں دے دئیے جائیں تو یہ تو میاں نور جمال والی بات ہو گئی کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو اگر عذاب دیا جائے تو ابدی طور پر عذاب دیا جائے لیکن جب اپنے بیٹے کا سوال آیا تو کہہ دیا کہ ہم انصاف سے کام لے رہے ہیں ہم اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ساری دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا.اور ابھی تو دنیا جاری ہے پانچ سو یا ہزار سال تک بھی دنیا اور جاری رہی تو گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب احمدیت کی وجہ سے عیسائیت دن بدن کم ہی ہو گی ترقی نہیں کر ے گی لیکن ہمارے بڑھتے بڑھتے بھی تین چار ارب کا اس تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا.مگر اتنی بڑی تعداد کے گناہوں کے کفارہ کا جب سوال آیا تو کہہ دیا گیا کہ ہم نے اپنے بیٹے کو ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر سب سزا پوری کر لی ہے اور ہمارے عدل اور انصاف کا تقاضہ پورا ہو گیا ہے.اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو تو ابدی عذاب دینے کا فیصلہ کرنا اور یہ کہنا کہ وہ دوزخ میں سے کبھی نکل نہیںسکیں گے اور اپنے بیٹے کے متعلق یہ کہہ دینا کہ چونکہ وہ ڈیڑھ دن جہنم میںرہ آیا ہے اس لئے سب لوگوں کی سزا معاف ہو گئی ہے.تم اس تجویز کو کسی کے سامنے رکھ کر دیکھ لو.مسیح اور خدا کا نام نہ لو.اتنا کہو کہ ایک شخص تھا جس کے ذمہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب قرض تھا لوگوں نے اس سے روپیہ کا تقاضا کیا مگر وہ ادا نہ کر سکا آخر معاملہ عدالت میں گیا اس نے درخواست کی کہ یہ قرض مجھے معاف کر دیا جائے مگر جج نے کہا کہ میں معاف نہیں کر سکتا کیونکہ معاف کرنا میرے عدل کے منافی ہے میں ایسی بے انصافی نہیں کر سکتا کہ تمہارے ذمہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہو اور تمہیں سزا نہ دی جائے.مگر اس کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ اس ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے بدلہ میں تم ڈیڑھ روپیہ دے دو اور جب اس نے ڈیڑھ روپیہ دے دیا تو اس نے کہا کہ اب سارا قرض معاف ہو گیا ہے.کیا دنیا کا کوئی بھی عقل مند اس فیصلہ کو معقول قرار دے گا؟ ہر شخص کہے گا کہ قاضی صرف بے ایمان
ہی نہیں بلکہ بڑا چالاک اور فریبی بھی تھا گویا اس کا الزام بڑھ جائے گا اور دنیا اسے عادل نہیں کہے گی بلکہ کہے گی کہ وہ بڑا ظالم تھا بڑا چالاک اور فریبی تھا کہ اس نے اپنے بیٹے سے ڈیڑھ روپیہ لے کر یہ فیصلہ کر دیا کہ لوگوں کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ادا ہو گیا ہے اسی طرح کفارہ کی جو صورت بتائی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ پر الزام کو بڑھانے والی ہے گھٹانے والی نہیں.اور اس قسم کے کھیل سے اس کا عادل ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ غیر عادل ہونے کے علاوہ چالاک اور دھوکے باز ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر ڈیڑھ دن بھی اسے دوزخ میں کیوں رکھا؟ اگر کہو کہ انسان اور خدا میں بے انداز فرق ہے چونکہ انسان کی حالت اور ہے اور خدا تعالیٰ کی حالت اور ہے اس لئے انسان کو جتنا عذاب ابدی جہنم میں ملے گا وہی عذاب خدا تعالیٰ کے بیٹے کو ڈیڑھ دن میں مل گیا ہے اس وجہ سے بنی نوع انسان کی ابدی سزا کے مقابلہ میں ابن اللہ کا صرف ڈیڑھ دن کے لئے جہنم میں جانا کوئی قابل تعجب امر نہیں.جوعذاب ان کو ابدیت میں ملنا تھا وہی مسیح کو ڈیڑھ دن میں مل گیا.یہ بھی ایک جواب ہے جو دیا جا سکتا ہے.اس کا ردّیہ ہے کہ جب خدا اور انسان میں بے انداز فرق ہے اور عیسائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں تو بے انداز فرق کے لحاظ سے یہ انسانی طاقت میں ہی نہیں کہ وہ خدا اور اس کی مخلوق کے باہمی فرق کو سمجھ سکے بے انداز چیز انسانی اندازوں سے باہر ہوتی ہے اور اندازہ ہمیشہ اسی چیز کا کیا جاتا ہے جو محدود ہو اور جس کا سمجھنا انسانی طاقتوں کے لحاظ سے ممکن ہو.اب بے انداز فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ ارب ستر کروڑ انسانوں کے مجموعی عذاب کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ڈیڑھ دن کے لئے دوزخ میںچلا گیااور انسانوں کا کفارہ ہو گیا.دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اندازہ لگالیا ہے کہ انسانی عذاب کی جو مقدار ہے وہ خدا تعالیٰ کو کتنے عرصہ میں مل سکتی ہے حالانکہ جب انسان اور خدا میں ہے ہی بے انداز فرق تو وہ یہ اندازہ کس طرح لگا سکتے ہیں کہ ڈیڑھ دن میں تمام عذاب خدا تعالیٰ کو پہنچ گیا ہے ایسی صورت میں تو اسے ایک منٹ کے لئے بھی دوزخ میں رکھنا درست نہ تھا بلکہ ایک سکینڈ کا ہزارواں حصہ بھی اس کے لئے کافی سے زیادہ تھا کیونکہ یہاں مقابلہ محدود طاقتوں والے انسانوں اور غیر محدو د طاقتوں والے خدا کا ہے اور غیر محدود طاقت والے خدا کا اندازہ محدود طاقت والوں کے ساتھ کرنا عقل کے بالکل خلاف ہے پھر تو ایک سکینڈ کی تعیین بھی اس کے لئے نہیں کی جا سکتی.بلکہ بے انداز فرق کے لحاظ سے تو جتنی دیر آنکھ جھپکنے میں لگتی ہے اتنی دیر کا عذاب بھی خدا تعالیٰ کے لئے ناممکن ہے.ا یسی صورت میں ڈیڑھ دن کا اندازہ انہوں نے کہاں سے نکال لیا اور اپنی محدود طاقتوں کے ساتھ غیر محدو د طاقتوں والے خدا کے متعلق یہ کس طرح سمجھ لیا کہ اس نے ڈیڑھ دن میں وہ عذاب برداشت کر لیا جو انسان اربوں سال میں برداشت کر سکتا تھا.
پھر یہ بھی سوال ہے کہ دوزخ میں گیا کون تھا ابن آدم گیا تھا یا ابن اللہ گیاتھا؟اگر ابن آدم گیا تھا تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ابن آدم کی روح چونکہ بہرحال جسم سے پیدا ہوتی ہے اور وہ جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس لئے اس کی روح دوزخ میں چلی گئی لیکن وہاں تو کوئی اور روح تھی ہی نہیں جسم بے شک انسان کا تھا لیکن اس میں ابن اللہ تھا اور ابن اللہ اگر جسم کی قید سے آزاد ہوجائے تو اسی وقت خدا بن جاتا ہے.و ہ اسی وقت تک ابن آدم کہلاسکتا ہے جب تک وہ جسم کی قید میں ہے جب وہ اس جسم کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اسی وقت ابن اللہ بن جاتا ہے اور جب وہ ابن اللہ ہو گیا تو اس کی حالت خدا کی سی ہو گئی اور جب اس کی حالت خدا والی ہو گی تو اس کے دوزخ میں جانے کے کوئی معنے ہی نہیں.کیا خدا کو بھی سردی گرمی لگتی ہے یا وہ بھی سردی سے آرام اور گرمی سے تکلیف محسوس کرتا ہے؟ انسان کی روح تو اگر دوزخ میں جائے گی تو وہ گرمی محسوس کرے گی.سرد مقام پر رکھی جائے گی تو سردی محسوس کرے گی مگر ابن اللہ جو خدا ہے اس کے لئے سردی اور گرمی کا کیا سوال ہے.دوزخ بھی اس کی پیدائش ہے اور جنت بھی اس کی پیدائش ہے نہ دوزخ اسے تکلیف پہنچا سکتی ہے او رنہ جنت اسے آرام پہنچا سکتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا پائوں ڈالے گا اور وہ ٹھنڈی ہوجائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے دوزخ کوئی چیز ہی نہیں.پس اگر مسیح ابن آدم تھا اور اس میں انسانی روح تھی تو دوزخ میں خدا نہیں گیا بلکہ انسان گیا اور اگر اس میں ابن اللہ کی روح تھی تو جونہی اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوئی وہ فوراً خدا کی طرح ہو گئی اور جب وہ خدا کی طرح ہو گئی تو اب خواہ اسے دوزخ میں بھی لے جائواسے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی.آخر مسیح کی کوئی دو روحیں تو تھی نہیں کہ کہا جائے ایک اس میں آدمی کی روح تھی اور ایک خدا کی روح تھی.اس میں ایک ہی روح تھی جو ابن اللہ کی تھی اور جب وہ روح جسم کی قید سے آزاد ہوگئی تو اس کے لئے دوزخ ، دوزخ ہی نہ رہا.پھر اگر اس کو دوزخ میں بھی لے جائو تو وہاں اس کا جانا اس کے لئے کسی عذاب کا موجب نہیں ہو سکتا.کیونکہ وہ مادی احساسات سے بالا ہے نہ اس پر دوزخ اثر کرتی ہے نہ جنت.عیسائی بعض دفعہ گھبرا کر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ سب تمثیلی کلام ہے تم خواہ مخواہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہو.ہم کہتے ہیں اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو تمثیلی کلام سے نئے نئے مسئلے نہیںنکلا کرتے.اس صورت میں بھی کفارہ باطل ثابت ہو جاتا ہے.کیونکہ جب تم حقیقت بیان نہیں کر رہے بلکہ تمثیل بیان کر رہے ہو.تو اس سے عجیب و غریب مسائل نکالنا اور ان پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دینا تمہارے لئے جائز نہیں ہوسکتا.مثلاً اگر ہم کسی شخص کے متعلق یہ کہیں کہ وہ سچ مچ شیر ہے اور جب کوئی شخص ہم سے پوچھے کہ اس کی دم کہاں ہے یا اس کے پنجے وغیرہ کہاں
ہیں اور ہم کہیں کہ یہ تو تمثیلی کلام تھا تم نے خواہ مخواہ اسے حقیقی شیر سمجھ لیا تو اس کے بعد ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ ہم اسے حقیقی شیر ہی کہتے پھریں.اسی طرح اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو عیسائیوں کو ماننا پڑے گا کہ مسیح کو ابن اللہ بھی تمثیلی طور پر کہا گیا تھا اور اگر وہ تمثیلی طور پر ابن اللہ تھا تو پھر نہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھا سکتا تھا اور نہ ڈیڑھ دن دوزخ میں رہ سکتا تھا یہ ساری کی ساری باتیں ہی باطل اور بے حقیقت ہو کر رہ جاتی ہیں.اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ عیسائیوں کی ساری باتیں مان لینے کے باوجود کہ کفارہ بھی کوئی ممکن چیز ہے اور مسیح ابن اللہ تھا کیا یہ بات ثابت ہے کہ وہ قربانی مسیح نے پیش کر دی تھی جسے کفار ے کا موجب کہا جاتا ہے؟ انجیل کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے مسیح ؑ نہ تو صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفار ے کا موجب قرار دیا جاتا ہے.مسیح ؑکا صلیب پر سے زندہ اتر آنا در حقیقت ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عیسائیت کی موت ہے.اگر مسیح ؑصلیب پر سے زندہ اتر آئے تھے تو عیسائیت کلی طو رپر ختم ہو جاتی ہے اور اگر مسیح صلیب کے واقعہ کے بعد اپنی طبعی موت مر گئے تھے تو وہ غلط عقائد جو غیر احمدیوں میں پھیلے ہوئے ہیں سب کے سب ختم ہو جاتے ہیں گویا مسیح کا صلیب پر سے زندہ اتر آنا عیسائیت کو ختم کر دیتا ہے اور مسیح کا طبعی موت مرجانا اسلام سے الحاد کو ختم کر دیتا ہے.اگر عیسائیت مر جاتی ہے تو اس میں بھی اسلام کی زندگی ہے اور اگر الحاد مٹ جاتا ہے تواس میںبھی اسلام کی زندگی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دونوں کارنامے سر انجام دئیے ہیں.آپ نے مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر ایک طرف مسیح کو لعنت سے بچایا اور دوسری طرف عیسائیت کو مار دیا.ادھر مسیح ؑکی طبعی موت ثابت کر کے اسلام کو الحاد سے بچا لیا کیونکہ ایک ایسا نبی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل نہیں کیا.جس نے آپؐ کے دین سے استفادہ نہیں کیا.جس نے آپؐ کے باغ سے خوشہ چینی نہیں کی اس کا اسلام میں آنا اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف ہتک ہے بلکہ ان کے کام کو بالکل ختم کر دیتا ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو حملے کر کے عیسائیت اور الحاد دونوں کو ختم کر دیا.ایک دفعہ آپ نے مسیح ؑ کو زندہ کر کے عیسائیت کو ختم کیا اور دوسری دفعہ آپ نے مسیح کو مار کر اسلام سے الحاد کو ختم کیا.یہ اتنے بڑے کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے.مگر افسوس ہے کہ نہ ابھی تک ہماری جماعت نے ان کارناموں کی طرف توجہ کی ہے اور نہ ان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا ہے.باقی باتیں کہ مسیح ؑ واقعہ صلیب کے بعد کہاں گیا یہ ضمنی دلائل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کئے ہیں.اصل چیز مسیح کا صلیب سے زندہ اتر آنا ہے.اگر وہ صلیب پر سے زندہ
اتر آیا ہے تو عیسائیت ختم ہے.چنانچہ اس بات کا اقرار خود مسیحی لوگ بھی کر رہے ہیں.Mr.Criltondon جو کہ انٹر یونیورسٹی فیلو شپ آف لنڈن کے سکرٹری جنرل ہیں انہوں نے ۱۱؍مارچ ۵۶ء کو لنڈن مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر مسیح کی وفات کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ درست ہے تو پھر عیسائیت باقی نہیں رہ سکتی.اگر فی الواقع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر عیسائیت کی ساری بنیادہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں عیسائیت کی تمام عمارت کا زمین پر آ رہنا یقینی ہے.‘‘ (الفضل۲۷؍نومبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۴ کالم ۱) پس اگر مسیح طبعی موت مر چکا ہے تو مسلمانوں کا الحاد ختم ہے.اس طرح وہ تمام تانا بانا جو انہوں نے بنایا ہوا ہے سب کا سب ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غلط عقائد جن میں وہ ایک عرصہ سے مبتلا ہو چکے ہیں سب کے سب باطل ثابت ہو جاتے ہیں.کیونکہ اگر مسیح طبعی موت مر گیا ہے توآنے والا مسیح امت محمدیہ میں سے ہو گا.اور جب آنے والا امت محمدیہ میں سے ہوگا تو اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا مطمح نظر قائم ہو جاتا ہے وہ قومیں جن کی امید یں مر جاتی ہیںفنا ہو جاتی ہیں.مگر وہ قومیں جن کی امیدیں نہیں مرتیں وہ کبھی فنا نہیں ہوتیں.جب بھی وہ گرنے لگتی ہیں ان کی امیدیں ان کو پھر کھڑا کر دیتی ہیں.پھر ان کے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کر دیتی ہیں.اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہمارے لئے بڑے بڑے درجے حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں.لیکن جب کسی قوم کی امید کا پہلو مار دیا جائے تو وہ قوم بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے ہیں.ایک طرف آپ نے مسیح کو صلیب سے اترنے کے بعد زندہ کر کے عیسائیت کو مار دیا اور دوسری طرف آپ نے مسیح کو قرآن کریم کی آیات کے مطابق وفات یافتہ ثابت کر کے اسلام کو الحاد سے بچا لیا.یہ کیسا شاعرانہ مضمون ہے کہ آپ نے مسیح کو زندہ کر دیا اور عیسائیت کو مار دیا اور مسیح کو مار دیا اور اسلام کو زندہ کر دیا.چونکہ عیسائیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح ؑ صلیب پر لٹک کر مرگیا اس لئے جب یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح ؑصلیب پر مرا ہی نہیں بلکہ زندہ رہا اور زندہ اترا تو ساتھ ہی کفارہ بھی ختم ہو جاتا ہے.بہرحال یہ ایک سوال ہے جو ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت ہو ا اور کیا اس نے وہ قربانی پیش کی جو کفارہ کا موجب ہو سکتی تھی؟ انجیل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے مسیح نہ صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفارہ کہا جاتا ہے.اگر ہم انجیل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کا اصل معجزہ جس پر
مسیحیت کو نازہے اور جو مسیحیت کے ابتدائی آثار میں نمایاں طو رپر نظر آتا ہے یوناہ نبی کا معجزہ ہے.صلیب کے واقعہ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک عیسائی کمزور رہے وہ کبھی کسی ملک میں بھاگ کر چلے جاتے تھے اور کبھی کسی ملک میں عام طور پر وہ چھپ کر رہتے تھے.کیونکہ جب لوگوں کو ان کا پتہ لگتا.تو وہ ان پر مختلف قسم کے مظالم کرتے.ا بتدائی مظالم کے سوا جو فلسطین میں یہودیوں کی طرف سے ہوئے.بعد میں یہ مظالم زیادہ تر مشرک قوموں خصوصاً رومیوں کی طرف سے ہوتے تھے.ایک عیسائی یہ رٹ لگانے سے نہیں رہ سکتا تھا کہ مسیح اس دنیا کا بادشاہ ہے.مگر ادھر بادشاہت کا لفظ اس کی زبان پر آتا اور ادھر رومیوں کو آگ لگ جاتی اور وہ فوراً مظالم شروع کر دیتے اس زمانہ میں یہودیت کا حملہ کمزور ہو چکا تھا بلکہ بعض جگہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیحی چھپتے تو ان کے ساتھ یہودی بھی چھپ جاتے تھے.چونکہ مذہب ملتا جلتا تھا اور یہودی ابھی موسوی شریعت سے اتنے دور نہیں ہوئے تھے جتنے آجکل ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اس لئے جس طرح ہم بھی نمازیں پڑھتے ہیں اور غیر احمدی بھی نمازیں پڑھتے ہیں.ہم بھی روزے رکھتے ہیں اور غیر احمدی بھی روزے رکھتے ہیں ہم بھی حج کرتے ہیں اور غیر احمدی بھی حج کرتے ہیں ہم بھی قرآن مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی قرآن مانتے ہیں اور اگر کوئی شخص صرف ظاہری شکل دیکھے عقائد کے اختلاف پر نظر نہ ڈالے تو وہ یہی کہے گا کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کوئی فرق نہیں.اسی طرح جو ایمان تورات پر مسیحیوں کو تھا ویسا ہی ایمان یہودیوں کو تھا.جس طرح صدقہ و خیرات عیسائی کرتے تھے ویسے ہی صدقہ و خیرات یہودی کرتے تھے.جس طرح تورات کی تعلیموں کو عیسائی قابل عمل سمجھتے تھے اسی طرح تورات کی تعلیموں کو یہودی قابل عمل سمجھتے تھے اور چونکہ تمام تعلیم میں دونوں مشترک نظر آتے تھے اس لئے جب رومی لوگ عیسائیت کے خلاف بھڑکے اور انہوں نے ظلم کرنے شروع کئے تو ساتھ ہی انہوں نے یہودیوں پر بھی ظلم کرنے شروع کر دئیے اور یہ خیال کیا کہ یہ بھی ان کے ساتھ ہی ہیں.پس ابتدائے عیسائیت میں تو ظلم یہودیوں کی طرف سے ہوئے مگر پھر شکل بدل گئی اور جب رومی دکھ دیتے ہیں تو وہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کو اکٹھا دکھ دیتے تھے.یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ان میں سے یہودی کون ہے اور عیسائی کون ہے.چنانچہ جب عیسائی بھاگ کر کہیں چھپتے تھے تو یہودی بھی ان کے ساتھ ہی چھپ جاتے تھے اور روما میں جو آثار پائے جاتے ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں عیسائیوں نے یہ بڑی ہمت کی کہ باوجود اس کے کہ روم میں ان کی بڑی مخالفت تھی اور حکومت کی طرف سے ان پرشدید مظالم ہوتے تھے.پھر بھی انہوں نے وہاں تبلیغ پر بڑا زور دیا.چنانچہ روم میں ان کے بڑے بھاری مشنز قائم تھے وہاں ان کی تبلیغ کی وجہ سے لوگ مخالفت بھی کرتے ، ظلم بھی کرتے، جائدادیں بھی
چھین لیتے.مگر ظلم زیادہ دیر تک نہیں چلا کرتا.پہلے کچھ عرصہ مارتے پیٹتے اور پھر چھوڑ دیتے جیسے آجکل ہندوستان میں ہندوئوں کو بعض مقامات پر جوش آتا ہے اور وہ مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے.پھرکسی اور علاقہ میں ظلم شروع ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی خاموش ہو جاتی ہے.ان کا بڑا مرکز ایک تو روم تھا دوسرا مرکز انطاکیہ تھا اور تیسرا مرکز اسکندریہ تھا.ان تینوں جگہ عیسائی پادریوں پر حملے ہوتے تھے اور دشمن انہیں یا تو مار دیتا یا زخمی کر دیتا.ان متواتر حملوں کی وجہ سے عیسائی بعض دفعہ اپنے گھروں یا محلوں میں چھپ جاتے یا بھاگ کر اردگرد کے گائوں میں چلے جاتے یا اپنی رہائش کے لئے زمین دوز جگہیں بنا لیتے.اس زمانہ میں یہ رواج تھا کہ بعض لوگ اپنی قبریں تہ خانوں میں بناتے تھے اور ان کے لئے زمین سے پتھر نکال کر لاتے تھے.ان پتھروں کے نکالنے سے جو زمین میں گڑھے بن جاتے تھے انہی کو صاف کر کے عیسائی ان میں رہنا شروع کر دیتے تھے.روم میں ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک چھپے رہے.اور جن کو کیٹا کومبز (Catacombs)کہتے ہیں.ان میں ابھی تک ایسی تصویریں ہیں جو دینی روح قائم رکھنے یا اپنے شہداء کی یاد تازہ رکھنے کے لئے انہوں نے کھینچی ہوئی ہیں.اسی طرح قبروں پر کئی جگہ کتبے لگے ہوئے ہیں.اور ان میں یہ ذکر ہے کہ یہ کس کی قبر ہے اور کس طرح شہید ہوا ہے ان غاروں کا ایک حصہ میں نے بھی دیکھا ہے سارا تو دیکھا ہی نہیں جا سکتا تھا.ستر میل تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے.بہرحال ان کیٹا کومبز کے دیکھنے سے پرانی عیسائی تاریخ کا پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ مسیحیت کے پھیلنے سے پہلے کے مظالم کا نقشہ ان آثار کو دیکھنے سے آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور کتبوںکی عبارات اور تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت مسیحیوں کے کیا عقائد تھے.تیسری صدی مسیحی میں روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا تھا(انسائیکلو پیڈیا برٹینکا زیر لفظ کانٹسٹائن) اور پھر مسیحیت کو طاقت حاصل ہو گئی تھی.اس سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والی جس قدر باتیں ہیں ان کا پتہ انہی کیٹا کومبز کے دیکھنے سے لگتا ہے.ان کیٹا کومبز میں ہمیں زیادہ تر تین تصویریں ملتی ہیں.ایک نوح کی کشتی کی.ایک گڈریا کی جس کے اردگر د بھیڑیں ہیںاور ایک یوناہ نبی کی جسے مچھلی نگل رہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تاریخ میں عیسائی مذہب کی بنیاد صرف تین چیزوں پر رکھی گئی تھی یا یوں کہو کہ تین مسئلے تھے جو عیسائیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے تھے.گڈریا کی تصویر میں اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح کی یہود کی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہے.نوح کی کشتی کے یہ معنے تھے کہ مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے اور یوناہ نبی کی تصویر سے وہ معجزہ مراد تھا جس پر آگے چل کر بحث کی جائے گی.گویا ان تین تصویروں کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھاکہ مسیحیت کی بنیاد انہی تین باتوں پر ہے (۱)اس پر کہ مسیح اپنی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع
کرنے کے لئے آیا ہے (۲)اس پر کہ مسیح نجات دہندہ ہے (۳)اس پر کہ مسیح کو ویسا ہی معجز ہ دیا گیا ہے جیسے یوناہ نبی کو دیا گیا تھا.پس مسیحیت کی بنیاد اس معجزہ پر ہے بلکہ مسیحیت اس کو ہی ایک حقیقی معجزہ قرار دیتی ہے اور تمام ابتدائی زمانہ کے نقوش اور تصاویر جن کا مسیحیت کے لٹریچر سے پتہ لگتا ہے وہ بھی اسی طرف راہنمائی کرتی ہیں یعنی گڈریا کی تصویر جسے اپنی بھیڑوں سمیت دکھایا گیا ہے.نوح ؑ کی کشتی کی تصویر اور یوناہ نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانے کی تصویر.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیت کا اصل معجزہ یہی تھا خود مسیح بھی اسے اپنا منفرد اور اصل معجزہ قرار دیتا ہے انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح ؑ وعظ کر رہے تھے کہ ’’ بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں (یعنی ہم ماننے کے لئے تو تیار ہیں لیکن دلائل سے ہماری تسلی نہیں ہوتی ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے)اس نے جواب دے کر ان سے کہا اس زمانہ کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.‘‘ (متی باب ۱۲ آیت ۳۸تا۴۰) مسیح ؑنے اس سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں تم کو اور کئی نشان دکھا چکا ہوں تم ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے.اسی طرح مسیح ؑنے یہ نہیں کہا کہ میں تم کو کئی نشان دکھائوں گا.بلکہ مسیح نے کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا ان کو اور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گایہ بتاتا ہے کہ مسیح ؑ اپنے اس نشان کو ایک ہی نشان قرار دیتا ہے ظاہر ہے کہ خدا کا کوئی نبی ایسا نہیںہو سکتا جس نے ایک ہی نشان دکھایاہو خود انجیل سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اور بھی کئی نشان دکھائے ہیں.پس مسیح کا یہ کہنا کہ ’’ یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا‘‘ اس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں تک یہودیت کا تعلق ہے بنیادی نشان مسیح کو یوناہ نبی والا ہی دیا جائے گا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں کی شہادت سے بھی یہی بات ثابت ہے اور درحقیقت ابتدائی زمانہ کا عیسائی ہی اس بات کا اہل تھا کہ وہ یہ سمجھتا کہ عیسائیت کی کیا غرض ہے ان کی تصویروں میں سے پہلی تصویر ہی یوناہ نبی کے واقعہ سے تعلق رکھتی ہے جو بتاتی ہے کہ ابتدائی زمانہ کے مسیحی یہ تسلیم کرتے تھے.کہ یوناہ نبی والا نشان ہی مسیح کا اصل نشان ہے.باقی دو تصویریں اس پہلی تصویر کے تابع ہیں یعنی یوناہ نبی والے نشان میں ہی نجات بھی شامل ہے اور یوناہ نبی والے نشان
میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا گڈریا والی مثال بھی شامل ہے.کیونکہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد اپنی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ایران اور افغانستان اور کشمیر میں گیا اور اس نے انہیں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا.اور پھر مسیح خود بھی کہتا ہے کہ ایک ہی نشان ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کو دکھایا جائے گا اور وہ یوناہ نبی والا نشان ہے ایک ہی نشان کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک ہی اہم نشان ہے یا ایک ہی قابل اعتماد نشان ہے.غرض ابتدائی زمانہ کا عیسائی بھی تسلیم کرتا ہے کہ عیسائیت کی حقیقی شان یوناہ نبی والے نشان سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور مسیح بھی اس کو اپنا منفرد اور مہتم بالشان نشان قرار دیتا ہے.لوقا میں بھی یہی ذکر آتا ہے اس میں لکھا ہے:.’’ اس زمانہ کے لوگ برے ہیں وہ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.کیونکہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ٹھہرے گا.‘‘ (لوقاباب ۱۱آیت۲۹.۳۰) لوقا نے یہاں ایک زائد بات کہی ہے.متی نے تو یہ کہہ کراپنی بات ختم کر دی تھی کہ ’’یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘ یہاں متی نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا تھا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرے گا.متی نے صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے‘‘ (متی باب ۱۲آیت۴۱) مگر لوقا اس بات پر زور دیتا ہے کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہراتھا.اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرے گا.گویا اس نشان کے متعلق وہ خاص طور پر یہ بتاتا ہے کہ نینوہ کے لوگوں کے لئے جس رنگ میںیوناہ نشان ٹھہرا تھا اسی رنگ میں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے مسیح نشان ٹھہرے گا.ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل نشان جو زمانہ مسیح میںدکھایا جانے والا تھا وہ یوناہ نبی والا نشان تھا.یہ نشان کیا تھا اس کے متعلق مسیح خود کہتا ہے کہ :.’’ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.‘‘
اس جگہ حضرت مسیح نے خود تشریح کر دی ہے کہ یوناہ نبی کے نشان سے کیا مراد ہے.آپ کہتے ہیں کہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.مشابہت کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہر چیز میں مشابہت ہو.بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصولی باتوں میں مشابہت ہوگی.چنانچہ اسی مشابہت کی بناء پر مسیح کہتا ہے کہ جس طرح یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا اسی طرح مسیح قبر میں تین دن رات رہے گا.گویا اس نشان کا مقصد یہ تھا کہ مسیح بھی تین دن رات قبر میںرہے اور یوناہ نبی کی طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہے.آخر کسی کا مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا تو کوئی معجزہ نہیں.ہزاروں لوگ مچھلی کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں کہتاکہ یہ معجزہ ہوا ہے پھر یوناہ نبی کا کیا معجزہ تھا؟ یوناہ نبی کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہا.تاکہ اس کی قوم کے لئے اس کا وجود خدا تعالیٰ کا ایک نشان ثابت ہو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ یوناہ نبی کس طرح مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا.اس کے لئے ہم یوناہ نبی کی کتاب کو دیکھتے ہیں اس میں لکھا ہے:.’’ خداوند کا کلام یوناہ بن متی پر نازل ہوا.کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور اس کے خلاف منادی کر کیونکہ ان کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے (نینوہ ایک بڑا شہر تھا خدا تعالیٰ نے یوناہ سے کہا کہ جائو اور ان لوگوں کو سمجھائو) لیکن یوناہ خدا وند کے حضور سے ترسیس کو بھاگا اور یافا میں پہنچا اور وہاں اسے ترسیس کوجانے والا جہاز ملا.اور وہ کرایہ دے کر اس میں سوار ہوا تا کہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اہل جہاز کے ساتھ جائے (یعنی بجائے اس کے کہ وہ اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے اور نینوہ والوں کو تبلیغ کرتے ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے پہلے اس کی طرف سے عذاب کی خبریں ملتی ہیں او رپھر لوگوں کے تضرع پر وہ ان کو معاف کر دیتا ہے اور لوگ نبیوں کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا.اس لئے میں نینوہ میں جاتا ہی نہیں.چنانچہ وہ ترسیس جانے کے لئے جہاز میں سوار ہو گئے) لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ تھا کہ جہازتباہ ہو جائے.تب ملاح ہراساں ہوئے اور ہر ایک نے اپنے دیوتا کو پکارا اور وہ اجناس جو جہاز میں تھیں سمندر میں ڈال دیں تاکہ اسے ہلکا کریں (پہلے زمانہ میں بادبانی جہاد ہوتے تھے جو زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لئے جب طوفان آتا اور جہاز ڈوبنے کا خطرہ ہوتا تو وہ اپنے سامان کا کچھ حصہ سمندر میںپھینک
دیتے تھے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے) لیکن یوناہ جہاز کے اندر پڑا سو رہا تھا (باقی لوگ تو دعائیں کر رہے تھے اور جہاز کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے اور یوناہ اندر سو رہے تھے) تب ناخدا اس کے پاس جاکر کہنے لگا تو کیوں پڑا سو رہا ہے اٹھ اپنے معبود کو پکار شاید وہ ہم کو یاد کرے اور ہم ہلاک نہ ہو ں اور انہوں نے آپس میں کہا آئو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پرکس کے سبب سے آئی.چنانچہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور یوناہ کانام نکلا.تب انہوں نے اس سے کہا.تو ہم کو بتا کہ یہ آفت ہم پر کس سبب سے آئی ہے.تیرا کیا پیشہ ہے اور تو کہاں سے آیا ہے.تیرا وطن کہاں ہے اور تو کس قوم کا ہے اس نے ان سے کہا میں عبرانی ہوں (ضمنی طور پر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ بائبل کا یہ بیان غلط ہے یوناہ عبرانی نہیں تھا بلکہ کسی اور قوم کا نبی تھا.کیونکہ وہ نینوہ والوں کی طرف بھیجا گیا تھا جو کہ اشور کا دارالخلافہ تھا اور وہاں کے لوگ اشور قوم کے تھے.اشور سے مراد سیریایعنی شام کا علاقہ نہیں بلکہ یہ الگ علاقہ ہے اور شہر بابل کے شمال سے شروع ہو کر آرمینیا کی سرحد سے جا ملتا ہے اور مشرقی طرف اس کی کردستان سے ملتی ہے اور مغربی سمت دجلہ کے مغرب کے علاقہ کے ایک حصہ پر مشتمل ہے.گویا موجودہ عراق کا ایک حصہ اس میں شامل ہے.ایک زمانہ میں اس علاقہ میں زبردست حکومت قائم تھی.اس کا دارالخلافہ پہلے تو اسور تھا جو موصل سے ساٹھ میل جانب شما ل واقعہ تھااور اب اسے قلعات شرجت کہتے ہیں لیکن تیرہ سو سال قبل مسیح اس شہر کو چھوڑ کر نینوہ کو دارالحکومت قرار دیا گیا.محققین یورپ بھی اس بارہ میں مختلف الخیال ہیں کہ آیا یونس نبی اسرائیلی ہے یا نہیں.جیوئش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Jonah ) اور خداوند آسمان کے خدا بحر وبر کے خالق سے ڈرتا ہوں.تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے تو نے یہ کیا کیا.کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہے.اس لئے کہ اس نے خود ان سے کہا تھا تب انہوں نے اس سے پوچھا ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکن ہوجائے کیونکہ سمندر زیادہ طوفانی ہوتا جاتا تھا؟ تب اس نے ان سے کہا مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہو جائے گا کیونکہ میںجانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے تو بھی ملاحوں نے ڈانڈ چلانے میں بڑی محنت کی کہ کنارہ پر پہنچیں لیکن نہ پہنچ سکے کیونکہ سمندر ان کے خلاف اور بھی زیادہ موجزن ہوتا جاتا تھا.تب انہوں نے خداوند کے حضور گڑگڑا کر کہا.اے خداوند ہم تیری منت کرتے ہیں کہ ہم اس آدمی کی جان کے سبب سے ہلاک
نہ ہوں اور تو خون ناحق کو ہماری گردن پر نہ ڈالے.کیونکہ اے خداوند تو نے جو چاہا سو کیا اور انہوں نے یوناہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہو گیا تب وہ خداوند سے بہت ڈر گئے اور انہوں نے اس کے حضور قربانی گزرانی اور نذریں مانیں لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے یہ دعا کی.میں نے اپنی مصیبت میں خداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی.میں نے پاتال کی تہ سے دہائی دی تو نے میری فریاد سنی.تو نے مجھے گہرے سمندر کی تہ میںپھینک دیا او رسیلاب نے مجھے گھیر لیا.تیری سب موجیں اور لہریںمجھ پر سے گزر گئیں اور میں سمجھا کہ تیرے حضور سے دور ہو گیا ہوں.لیکن میںپھر تیری مقدس ہیکل کو دیکھوں گا سیلاب نے میری جان کا محاصرہ کیا سمندر میری چاروں طرف تھا.بحری نبات میرے سر پرلپٹ گئی.میں پہاڑوں کی تہ تک غرق ہو گیا.زمین کے اڑ بنگے ہمیشہ کے لئے مجھ پر بند ہوگئے.تو بھی اے خداوند میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی جب میرا دل بیتاب ہوا تو میںنے خداوند کو یاد کیا اور میری دعا تیری مقدس ہیکل میں تیرے حضور پہنچی.جو لوگ جھوٹے معبودوں کومانتے ہیں وہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں.میں حمد کرتا ہوا تیرے حضور قربانی گذرانوں گا.میں اپنی نذریں ادا کروں گا.نجات خداوند کی طرف سے ہے اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا اور خداوند کا کلام دوسری بار یوناہ پرنازل ہوا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جس کا میں تجھے حکم دیتا ہوں.تب یوناہ خدا وند کے کلام کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو گیا اور نینوہ بہت بڑا شہر تھا.اس کی مسافت تین دن کی راہ تھی اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا.اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جائے گا تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ واعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی.اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا.اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے نہ پئے.لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں بلکہ ہرشخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ
بدلے اور اپنے قہر شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا.لیکن یوناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا اور اس نے خداوند سے یوں دعا کی کہ اے خداوند جب میںاپنے وطن ہی میں تھا اور ترسیس کو بھاگنے والا تھا تو کیامیں نے یہی نہ کہا تھا.میں جانتا تھا کہ تو رحیم و کریم خدا ہے جو قہر کرنے میںدھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے.اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اس جینے سے مرجانا بہتر ہے تب خداوند نے فرمایا کیا تو ایسا ناراض ہے.اور یوناہ شہر سے باہر مشرق کی طرف جا بیٹھااور وہاں اپنے لئے ایک چھپر بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھ رہا کہ دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے.تب خداوند خدا نے کدو کی بیل اگائی اور اسے یوناہ کے اوپر پھیلا یا کہ اس کے سر پر سایہ ہو اور وہ تکلیف سے بچے.(بائبل کہتی ہے اس نے پہلے چھپر بنایا اور پھر خدا نے کدو کی بیل اُگائی حالانکہ چھپر کے بعد بیل کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی چھپر زیادہ آرام دہ ہوتا ہے مگر قرآن کریم میں چھپر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیاخالی بیل کا ذکر کیا گیا ہے (الصّٰفّٰت:۱۴۷)جو ثبوت ہے کہ قرآنی بیان ہی صحیح ہے اور عقل کے مطابق ہے) اور یوناہ اس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا لیکن دوسرے دن صبح کے وقت خدا نے ایک کیڑا بھیجا جس نے اس بیل کو کاٹ ڈالا.اور وہ سوکھ گئی اور جب آفتاب بلندہوا تو خد انے مشرق سے لو چلائی اور آفتاب کی گرمی نے یوناہ کے سر میں اثر کیا اور وہ بیتاب ہو گیا اور موت کا آرزو مند ہوکرکہنے لگا کہ میرے اس جینے سے مر جانا بہتر ہے اور خدا نے یوناہ سے فرمایا کیا تو اس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہے اس نے کہا میںیہاں تک ناراض ہوں کہ مرنا چاہتا ہوں تب خداوند نے فرمایا کہ تجھے اس بیل کا اتنا خیال ہے جس کے لئے تو نے نہ کچھ محنت کی اور نہ اسے اُگایا جو ایک ہی رات میں اُگی اور ایک ہی رات میں سوکھ گئی اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینوہ کا خیال کروں.جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بے شمار مویشی ہیں.‘‘ (یوناہ باب ۱ تا ۴) یہ ہے وہ یوناہ نبی کا واقعہ جس کی طرف حضرت مسیح اشارہ کرتے ہیں.اس واقعہ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی کو جب یہ الہام ہوا کہ جا اور اپنی قوم کوتبلیغ کر.تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرتے اس خیال
سے کہ نبی جب تبلیغ کرتے ہیںتو انہیں کچھ انذاری پیشگوئیاں بھی ملتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ رحم کر کے اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے اور اس طرح انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے، انہوں نے ایک دوسرے ملک کو بھاگ کر جانا چاہا تاکہ وہ اس ذلت سے بچ سکیں جو انہیں اپنی قوم سے پہنچ سکتی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ نینوہ کے لوگوں کی طرف ہی جائیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں.چنانچہ اس نے تدبیر کر کے انہیںسمندر میں پھینکوادیا.اور پھر ایک بڑی مچھلی کو انہیں نگل جانے کا حکم دے دیا جس نے انہیں زندہ نگل لیا.چنانچہ بائبل کے بیان کے مطابق وہ مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے اور دعائیں زند ہ شخص ہی کیا کرتا ہے نہ کہ مردہ.پس مچھلی کے پیٹ میں وہ زندہ گئے اور مچھلی کے پیٹ میں جب تک رہے زندہ رہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مچھلی نے آپ کو اگل دیا.سمندر میں نہیں بلکہ خشکی پر اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نینوہ کے لوگوں کی تبلیغ کے لئے بھجوایا گیا.چنانچہ وہ گئے اور اپنی تبلیغ میں کامیاب ہوئے.اس معجزہ سے ظاہر ہے کہ (۱)یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میںزندہ گیا.(۲)وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا.(۳)وہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا.(۴)اس کا اصل تبلیغ کا زمانہ مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوا.پہلے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا ہی نہیں کہ مجھے تمہاری اصلاح کے لئے بھجوایا گیا ہے.ممکن ہے چند لوگوں سے انہوں نے ذکر کیا ہو لیکن عام لوگوں کو ان کے مشن کی کوئی خبر نہیں تھی.وہ وہاں سے بھاگے اورانہوں نے چاہا کہ ایک دوسرے ملک کو نکل جائیں لیکن مچھلی کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو اپنے ملک میںبھجوا کر کہا کہ اب تبلیغ کرو.چنانچہ انہوں نے تبلیغ کی اور لوگ آپ پر ایمان لائے.اس نشان کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص ا س امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ واقعہ اسی صورت میں مسیح پر چسپاں ہو سکتا ہے.جب اول.مسیح زندہ قبر میں جائے.دوم.مسیح زندہ قبر میںرہے.سوم.مسیح زندہ قبر میں سے نکلے.چہارم.قبر سے نکلنے کے بعد اسے ایک کامیاب تبلیغ کا زمانہ میسر آئے.
یہ چار چیزیں ہیںجو یوناہ نبی کے واقعہ سے نکلتی ہیں.اگر مسیحی کہانی صلیبی موت کی ٹھیک ہے تو پھر یہ چاروں باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں (۱)اگر مسیح صلیب پر مر گیا اور زندہ قبر میں نہیں گیا اور (۲)اگر مسیح قبر میں تین دن رات مرا رہا بلکہ دوزخ میں رہا.تو یوناہ نبی سے اس کی کوئی مشابہت ثابت نہیں ہو سکتی.کیونکہ یوناہ نبی تین دن رات مچھلی کے پیٹ میںزندہ رہا.اور اس کی خدا تعالیٰ سے صلح رہی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہا.لیکن مسیح اول تومر کر قبرمیں گیا اور پھر دوزخ میں رہا.گویا وہ خد اتعالیٰ سے دور ہو گیا.(۳)اسی طرح اگر مسیح قبر میں سے دوبارہ زندہ ہو کر نکلے ہیں تو اس صورت میں بھی وہ یوناہ نبی کے مثیل نہیں ہو سکتے.کیونکہ یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ سے دوبارہ زندہ ہو کر نہیںنکلے وہ پہلے بھی زندہ تھے، مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں سے نکلے.(۴)اگر قبر میں سے جی اٹھنے کے بعد مسیح کا مشن ختم ہو گیا جیسے مسیحیت کہتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر پہلے تین دن دوزخ میں رہااور جب وہ دوبارہ جی کر اٹھا تو آسمان پر اپنے باپ کے تخت پر بیٹھنے کے لئے چلا گیا.تو اس کی یوناہ نبی سے کوئی بھی مشابہت باقی نہیں رہتی.کیونکہ یوناہ نبی کا تو یہ معجزہ تھا کہ اسے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک کامیاب تبلیغ کا موقع عطا فرمایا اور درحقیقت اصل معجزہ یہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ دیکھو یوناہ نے میری بات کو رد کیا اور وہ میرا پیغامبر نہ بنا وہ ڈرا کہ میں لوگوں میں ذلیل ہوں گااور لوگ مجھے قبول نہیں کریںگے.چنانچہ وہ بھاگا لیکن ہم نے اسے مچھلی کے پیٹ میںڈالا اور پھر مچھلی کے پیٹ میںزندہ رکھا اور آخر ہم نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا.اس کے بعد ہم نے پھر اسے نینوہ میں ہی بھجوایا اور اس نے تبلیغ کی اور وہ اپنی تبلیغ میں کامیاب رہا.اس طرح خدا تعالیٰ نے اس بات کا اظہار کیا کہ جس شخص کو خدا اپنا پیغامبر بناتا ہے وہ اپنے آپ کو خواہ کتنا بھی کمزور خیال کرے اور خواہ دنیا کے لوگ اسے کتنا بھی حقیر سمجھیں اللہ تعالیٰ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ اسی کے ذریعہ اپنے پیغام کو کامیاب کرے اور لوگوں میں اسے مقبول بناوے.یہ ہے یوناہ کا اصل نشان جو نینوہ والوں کو دکھایا گیا لیکن مسیح کا واقعہ جس رنگ میں عیسائی پیش کرتے ہیں اگر اسے درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کی یوناہ سے کوئی بھی مشابہت ثابت نہیںہو سکتی.کیونکہ یوناہ نبی کا اصل معجزہ یہ تھا کہ اسے تبلیغ کا موقعہ دیا گیااور لوگوں نے دیکھا کہ وہی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ڈر کر بھاگ گیا تھا ایک کامیاب مصلح ثابت ہوا اور لوگوں نے اس کو قبول کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی.ورنہ یوناہ نبی جب مچھلی کے پیٹ میں گئے تھے نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا.یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا.یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا.ان کے اور نینوہ والوں
کے درمیان اس وقت پانچ سات سو بلکہ ہزار میل کا فاصلہ تھا.انہوں نے یہ کب دیکھا کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا ہے پس ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو نینوہ والوں نے دیکھی ہو.جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھا.جب وہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھااور جب مچھلی نے اسے اُگل دیا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھا لیکن جب یوناہ نینوہ والوں کے پاس دوبارہ گیا اور انہوں نے دیکھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ڈر کر بھاگ گیا تھا مگر پھر خدا تعالیٰ اسے پکڑ کر واپس لایا ہے اور جس جگہ کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ وہاں مجھے کامیابی نہیں ہوگی وہیں اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی عطا فرمائی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی طاقتوں کا ایک بہت بڑا نشان بن گیا جو انہوں نے دیکھا اور مسیح نے اپنے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ ’’ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ٹھہرے گا.‘‘ (لوقا باب ۱۱ آیت ۳۰) اب سوال یہ ہے کہ نینوہ والوں نے کیا دیکھا تھا.نینوہ والوں نے یوناہ کو مچھلی کے پیٹ میں جاتے نہیں دیکھا.مچھلی کے پیٹ میں رہتے نہیں دیکھا مچھلی کے پیٹ میں سے نکلتے نہیں دیکھا.نینوہ والوں نے یہی دیکھا کہ ایک شخص پر الہام نازل ہوا کہ جا اور نینوہ والوں کو ہماری طرف بلا.مگر اسے جرات نہ ہوئی کہ وہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچائے.اور اس نے بھاگ کر کسی اور ملک کو جانا چاہا مگر کئی مصیبتوں اور تکلیفوں کے بعد خدا تعالیٰ اسے پھر نینوہ والوں کے پاس لایا اور نینوہ والے اس کا پیغام ماننے پر مجبو رہو گئے.پس اگر کوئی نشان ایسا ہے جو نینوہ والوں نے دیکھا تو وہ یہی نشان ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک مچھلی کے پیٹ میں ان کا جانا ہے یہ بھی ایک نشان ہے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا یہ بھی ایک نشان ہے اور مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلنا یہ بھی ایک نشان ہے مگر یہ نشانات ایسے ہیں جو نینوہ والوں نے نہیں دیکھے انہوں نے جو نشان دیکھا وہ یہی ہے کہ یوناہ نبی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا اور وہ وہاں سے چلا گیا.اس نے نہ چاہا کہ نبوت کا پیغام لوگوں تک پہنچائے.لیکن خدا اُسے سینکڑوں میل سے مجبورکر کے اور کئی قسم کی تکلیفوں میں سے گزار کر پھر اسے اپنی قوم کے پاس لایا اور خدا تعالیٰ نے وہ مشن پورا کر کے دکھا دیا جس کے لئے اس نے یوناہ کو کھڑا کیا تھا.لوگوں نے ان کا انکار بھی کیا ، مقابلہ بھی کیا مگر آخر قوم کو جھکنا پڑا.یہ نشان تھا جو نینوہ والوں نے دیکھا پس مسیح کے لئے بھی یہ نشان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مسیح قبر میں زندہ جائے، قبر میںزندہ رہے اور قبر میں سے زندہ نکلے.مگر اتنا حصہ وہ ہوگا جس کو دشمن نے نہیں د یکھا.اس کے بعد نشان
کا یہ حصہ آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تبلیغ کر کے جو اس وقت نینوہ کے قریب اور ایران اور افغانستان اور کشمیر میںرہتی تھیں اپنے مذہب میں داخل کرے اور اس طرح اس مقصد میں کامیاب ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا تھا.اگر ایسا ہو جائے تو یوناہ نبی سے مسیح کی مماثلت ثابت ہو جاتی ہے اور وہ معجزہ جس کے دکھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ دنیا پر ظاہر ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یوناہ نبی والا نشان پورا نہیں ہو سکتا.بہرحال جس طرح یوناہ نبی نے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کو تبلیغ کی اور وہ اس تبلیغ میں کامیب ہوئے اسی طرح مسیح کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ قبر میں سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو تبلیغ کرتا اور انہیں ہدایت پر لاتا.اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یوناہ نبی کا نشان مکمل نہیں ہو سکتا.اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے وہی نشان دکھایا ہے جو یوناہ نبی نے اپنی قوم کو دکھایا تھا.نینوہ والوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو ناقابل سمجھتے ہوئے یہاں سے بھا گ گیا تھا اور جس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے گریز کیا تھا وہ پھر ہم میں واپس آیا اور ہم اس پر ایمان لانے پر مجبور ہوئے.لیکن مسیح واقعۂ صلیب کے بعد اگر غائب ہو گیا تھا تو یوناہ سے اس کی مشابہت کس طرح ہوئی اور نینوہ والوں کی طرح کونسا نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا.گویا وہ نشان جو یوناہ نبی کی طرح مسیح کے لئے دکھانا ضروری تھا اور جس کا ماحصل یہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بھی کام لے لیتا ہے جو اپنے آپ کو کام کے ناقابل سمجھتے ہیں وہ تو مسیح نے نہ دکھایا اور وہ حصہ جو یوناہ نبی نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھا دیا.یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا.یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا.یوناہ مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ جب یوناہ کو پھر نینوہ میں لایا تو انہوں نے لوگوں کو کام کر کے دکھایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ سے کوئی شخص بھاگ نہیں سکتا.میں بھاگا تھا مگر پھر مجھے پکڑ کر خدا تمہاری طرف واپس لایا.یہ نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا اور ہر شخص جو معمولی عقل و سمجھ سے کام لے کر بھی اس نشان پر غور کرے گا وہ بے اختیار یہ کہہ اُٹھے گا کہ سبحان اللہ یہ کتنا بڑا نشان ہے.یوناہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر بنے اور وہ ڈر کر کسی اور ملک کی طرف بھاگا مگر خدا اسے پکڑ کر پھر نینوہ والوں کے پاس لایا اور جب اس نے پیغام پہنچایا تو وہی نینوہ والے جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اس پر ایمان لانے پرمجبور ہوئے اور انہوں نے یوناہ کے سامنے اپنا سر جھکا دیا.وہ اس نشان پر جتنا بھی غور کرے گا اسے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان لانا پڑے گا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ کتنی بڑی طاقتوں کا مالک ہے.وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رُتبہ بخشتا ہے لیکن اگر یوناہ لوگوں سے
یہ کہتا کہ دیکھو میں مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تھا یا مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا تھا.تو لوگ کہتے یہ بالکل جھوٹ اور فریب ہے ہم اسے نہیں مان سکتے.پس مسیح کی یوناہ نبی سے مماثلت اگر پوری ہو سکتی تھی تو اسی طرح کہ وہ یوناہ نبی کی طرح زندہ ہی قبر میں جاتا، زندہ ہی قبر میں رہتا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلتا اور پھر واقعہ صلیب کے بعد بنی اسرائیل کے ایک حصہ میں کامیاب تبلیغ کرتا.لیکن انجیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو نشان یوناہ نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ تو مسیح نے لوگوں کو دکھایا اور جو نشان یوناہ نے لوگوں کو دکھایا وہ مسیح نے نہیں دکھایا.مچھلی کے پیٹ میں زندہ جانے، اس کے پیٹ میں زندہ رہنے اور اس کے پیٹ میں سے زندہ نکلنے کا نشان یوناہ نے نینوہ والوں کو نہیںدکھایا.مگر انجیل کہتی ہے کہ قبر میں جانے ، قبر میں رہنے اور قبر میں سے نکلنے کا نشان مسیح نے لوگوں کو دکھایا.پھر بائبل بتاتی ہے کہ یوناہ نے نینوہ والوں کو یہ نشان دکھایا کہ مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اس نے تبلیغ کی اور نینوہ والے اسے ماننے پر مجبور ہوگئے.لیکن انجیل کہتی ہے کہ مسیح قبر میں سے نکلنے کے بعد غائب ہو گیا اور اس نے کوئی تبلیغ نہیں کی.گویا جو نشان یوناہ نے دکھایا تھا اور جو اصل نشان تھا وہ تو مسیح نے نہیں دکھایا اور جو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھایا.پھر بائبل تو بتاتی ہے کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ گیا ، زندہ رہا ، اور زندہ نکلا.لیکن مسیحی کہتے ہیں کہ مسیح قبر میں مر کر گیا ، قبر میں تین دن مردہ پڑا رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکل آیا.اگر مسیحیوں کی یہ بات درست ہے تو یوناہ نبی کا نشان مسیح نے نہیں دکھایا اور اگر اس نے یوناہ نبی کا نشان دکھایا تھا اور وہ صلیب پر نہیں مرا.نہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میںرہا تو کفارہ کا مسئلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے.کیونکہ کفارہ تب ثابت ہوتا ہے جب یہ مانا جائے کہ مسیح نے صلیب پر لٹک کر لوگوں کے گناہ اٹھا لئے.اگر وہ زندہ ہی رہا تھا تو ثابت ہوا کہ اس نے کوئی قربانی نہیں دی تھی اور جب قربانی نہیں دی تھی تو کفارہ بھی باطل ہوا.غرض صلیب کا واقعہ جسے مسیحی پیش کرتے ہیں سر تاپا اس نشان کے خلاف ٹھہرتا ہے جو یوناہ نے دکھایا تھا اور جس کے دکھانے کا مسیح نے اپنی قو م سے وعدہ کیاتھا.اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ نتیجہ جو ہم نے یوناہ نبی کی پیشگوئی سے نکالا ہے آیا اس کا ذکر مسیح کی کسی پیشگوئی میں بھی ہے؟ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ یہی بات حضرت مسیح نے بھی بیان کی ہے بلکہ مسیح سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح کے آنے کی پیشگوئی کی تھی انہوں نے بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ یسعیاہ میں لکھا ہے:.’’خداوند یہوواہ جو اسرائیل کے تتر بتر کئے ہوئوں کا جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ میں
ان کے سوا جو اسی کے ہو کے جمع ہوئے ہیں اوروں کو بھی اس پاس جمع کروں گا.‘‘ (یسعیاہ باب ۵۶ آیت۸) یہاںیسعیاہ نبی یہ پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ خدا تعالیٰ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو پھر اکٹھا کرے گا اور ایک نبی بھیجے گا جس کے اردگرد وہ جمع ہو جائیں گی.یسعیاہ نبی جو اس جگہ خبر دیتے ہیں یہ مسیح کے بارہ میں ہے کیونکہ مسیح کے سوا اور کوئی شخص نہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ میںبنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں.یہ جو گمشدہ بھیڑیں ہیںان سے مراد بنی اسرائیل کے وہ دس قبیلے ہیں جن کونبو کد نضر کے زمانہ میں عراقی حکومت نے حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا اس حملہ کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس وقت یہودیوں میںپھوٹ پڑی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کی دشمنی میں مشغول رہتے تھے چنانچہ اس وقت یہود کی دو حکومتیں بنی ہوئی تھیں ایک اسرائیلی کہلاتے تھے اور دوسرے یہودی کہلاتے تھے ایک یروشلم سے تعلق رکھتے تھے اور دوسروں نے اپنا الگ دارالحکومت بنایا ہوا تھا جب عراقی حکومت نے یہودی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کیا تو یہود کا ایک حصہ دوسروں کی دشمنی کی وجہ سے اس کے ساتھ مل گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ عراقی حکومت یہود کی آپس کی پھوٹ کی وجہ سے ملک پر غالب آ گئی.اور اس نے یہود کے تمام مقدس مقامات تباہ کر دئیے حتیٰ کہ یروشلم کا معبد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا بنا یا ہوا تھا اس میں سور کی قربانی کی گئی اور اسی طرح اور بہت کچھ مظالم کئے گئے چونکہ یہود کا حکومت سے دیر سے مقابلہ چلا آتا تھا اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے.چنانچہ بارہ یہودی قبائل میں سے دس کو اس نے پکڑ لیا اور مشرق کے علاقہ میںلا کر پھیلا دیا.صرف دو قبائل فلسطین میں رہ گئے تھے اور یہ دو قبائل وہ تھے جنہوں نے اپنی قوم سے دشمنی کر کے دشمن کا ساتھ دیا تھا.اس لئے ان سے دشمن نے رعایت برتی.بہرحال وہ دس قبائل جو مشرق کے علاقہ میں لا کر پھیلا دئیے گئے تھے ان کے متعلق بائبل میں تو اتنا ہی لکھا ہوا ہے کہ ایران کے مشرق کے علاقہ میں یہود کے دس قبائل کو پھیلا دیا گیا.لیکن ہماری تحقیقات سے ثابت ہے کہ یہ علاقے افغانستان اور کشمیر کے تھے اور چونکہ ایک لمبا فاصلہ درمیان میں حائل ہو گیا تھا اور بابلیوں کی کوشش بھی یہی تھی کہ یہ لوگ واپس نہ آئیں.اس لئے دیر تک ان کا حال چھپا رہا.مگر تمام یہود انہوں نے مشرق میں نہیں بھیجے بلکہ کچھ لوگ اپنی خدمت کے لیئے انہوں نے بابل اور اس کے ارد گرد رکھ لئے تھے یہ لوگ جو وہاں رہے تھے فارس اور مید کے بادشاہوں کی مدد سے پھر واپس آئے اور انہوں نے یروشلم کی بستیاں دوبارہ بسائیں (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ سائرس) ان یہودیوں کا قرآ ن کریم میں بھی ذکر آتا ہے.مگر وہ لوگ جو کشمیر اور افغانستان بھیج دئے گئے تھے ان کا
واپس آنا مشکل تھا.اور پھر چونکہ وہ ایک لمبا عرصہ بدھوں کے ساتھ رہے اور ان کی تہذیب سے متاثرہو گئے اس لئے وہ اپنی روایات اور اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کو بھی بھول گئے.اس وجہ سے ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں بنتی تھی.ان لوگوں کے متعلق یہود کا یہ خیال تھا کہ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح ان گمشدہ بھیڑوں کو واپس لا کراپنی قوم سے ملا دے گا اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی جس سے یہود کو یہ امید تھی کہ ان کی گمشدہ بھیڑیں پھر اپنے بھائیوں سے آ ملیں گی وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام بھی اس بارہ میں کئی جگہ پر ذکر فرماتے ہیں.ایک دفعہ انہوں نے اپنے شاگردوں کی جماعت کو تبلیغ کے لئے بھجوایا تو اس موقعہ پر انہوں نے اپنے شاگردوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا.‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۶) یہ نصیحت انہوں نے اسی لئے کی تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو جائے جو یسعیاہ نبی نے کی تھی کہ جو اسرائیلی کھوئے گئے ہیں وہ مسیح کے ذریعہ پھر اکٹھے ہو جائیں گے آپ کہتے ہیں غیر قوموں کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور انہیں تبلیغ کرنا.اسی طرح متی باب ۱۵ آیت ۲۱تا ۲۸ میں لکھا ہے کہ ایک عورت کی لڑکی بیمار تھی معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جن آدمی کو بیمار کر دیا کرتے ہیں اور اگر جن نکال دیا جائے تو آدمی اچھا ہو جاتا ہے اس نے سنا ہوا تھا کہ مسیح جن نکالتا ہے ایک دفعہ حضرت مسیح کہیں جا رہے تھے کہ اس نے آپ کو دیکھ لیا اور وہ آپ کے پیچھے پیچھے شور مچاتی اور آوازیں دیتی دوڑی کہ اے خدا کے مقدس مجھ پر رحم کر اور میری لڑکی کا جن نکال دے.لیکن حضرت مسیح اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ غیر قوم کی تھی مگر وہ برابر شور مچاتی چلی جاتی تھی اور درخواست کرتی تھی کہ اس کی بیٹی کو بد روح سے بچایا جائے.جب شاگردوں نے دیکھا کہ اس طرح ایک عورت پیچھے پیچھے شور مچاتی آ رہی ہے تو انہوں نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضور یہ عورت میلوں میل سے بھاگی چلی آ رہی ہے اور شور مچا رہی ہے.کہ میری بیٹی کی بد روح نکالی جائے.اس پر حضرت مسیح نے کہا.’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.‘‘ اس میں حضرت مسیح نے بتایا کہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کی وہ دس قومیں جو کھوئی گئی ہیں
انہیں تبلیغ کروں اور انہیں پھر اپنے مذہب پر قائم کروں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کو الہام سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ دوسری قوموں میں رہنے کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کو بھول چکی ہیں اور موسوی شریعت پر ان کا عمل نہیں رہا.اور خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ دوبارہ ان کو مذہب کی طرف لایا جائے’’ کھوئی ہوئی بھیڑوں‘‘ کے الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ظاہری طور پر وہ غیر ملک میں چلی گئی تھیں بلکہ روحانی طور پر بھی غیر مذاہب کا اثر انہوں نے قبول کر لیا تھا پس وہ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے کھوئی ہوئی تھیں.اسی وجہ سے جس طرح حضرت مسیح نے یہ کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان یہودیوں کو نہیں دکھایا جائے گا اور یہی میرا سب سے بڑا نشان ہو گا.انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ میرا سب سے بڑا مشن یہی ہے کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو پھر جمع کروں.اسی طرح یوحنا میں حضرت مسیح ؑکا یہ قول درج ہے کہ ’’ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کوبھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی.پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا.‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶) یہاں حضرت مسیح ؑ یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ یہودی کسی اور ملک میں رہتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں‘‘ یعنی اس ملک کی نہیں بلکہ وہ کسی اور ملک میں رہتی ہیں اور میرے لئے یہ امر فیصل شدہ اور مقدر ہے کہ میں ان کو لائوں ان بھیڑوں نے تو میرا نکار کیا ہے لیکن وہ میری آواز سنیں گی اور مجھے مان لیں گی یوں تو نبی کا انکار لوگ کیا ہی کرتے ہیں حضرت مسیح کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تو ضد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں مگر وہ ضد کی وجہ سے انکار نہیں کریںگے بلکہ جلدی ہی مجھ پر ایمان لے آئیں گے.’’ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا‘‘ یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت موسوی قوم کا ایک بڑا حصہ موسوی شریعت کو چھوڑ بیٹھا تھا اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح ؑکے ذریعہ پھر ان کو موسوی مذہب کی طرف واپس لائے اور اس طرح سب کو ایک قوم بنا دے.ان حوالجات سے ثابت ہے کہ گزشتہ نبیوں کے ذریعہ سے مسیحی مشن کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ (۱)وہ اسی طرح مشرقی ممالک کے یہود کو پیغام دے گا جس طرح فلسطین کے یہود کو دے گا.(۲) یہ کہ مسیح کے نزدیک جہاں فلسطین کی بھیڑوں نے اس کو کم مانا ہے وہاں دوسری بھیڑیں اس کی آواز کو زیادہ سنیں گی اور اس پر جلد ایمان لائیں گی.(۳)مسیح کا ان لوگوں تک جانا اور انہیں پیغام پہنچانا ضروری ہے.
یہ تین باتیں ہیں جو ان حوالوں سے نکل آتی ہیں اول یہود کے ملک سے باہر کچھ یہودی قبائل ہیں جن تک مسیح اپنا پیغام پہنچائے گا.دوسرے وہ لوگ اس کی بات سنیں گے اور اسے مان لیں گے.تیسرے مسیح کا ان لوگوں تک جانا کوئی اختیاری بات نہیں.بلکہ ان کا وہاں جانا اور پیغام پہنچانا ایک ضروری امر ہے.ا ن تین نتیجوں کو یوناہ نبی کی پیشگوئی سے ملا لوتو ایک ہی بات بن جاتی ہے.یوناہ نبی کو بھی ایک غیر ملک کی طرف بھجوایا گیا تھا چنانچہ واقعات پڑھ کر دیکھ لو.یوناہ نینوہ کی مملکت میں نہیں رہتے تھے.انہیں الہام ہوا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو جو مشرق کی طرف ہے.اسی طرح مسیح کو حکم دیا گیا کہ وہ مشرق کی طرف ایک غیر ملک میں جائیں اور انہیں پیغام پہنچائیں.دوسرے یوناہ نبی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے جبری طور پر وہاں بھجوایاورنہ وہ تو وہاں سے بھاگے تھے اور چاہتے تھے کہ نینوہ نہ جائیں لیکن خدا تعالیٰ نے جبر کر کے یوناہ کو وہاں بھجوا دیا.اسی طرح پیشگوئی بتاتی تھی کہ حضرت مسیح کو بھی اللہ تعالیٰ جبر اً اپنے ملک سے نکال کر ایک غیر ملک میں لے جائے گااور ان کے ذریعہ اپنا پیغام یہود کی گمشدہ بھیڑوں تک پہنچائے گا.(۳) جب وہ وہاں جائیں گے تو لوگ ان کو قبول کرلیںگے اور ان کے دعویٰ پر ایمان لائیں گے.یوناہ نبی کے ساتھ جوو اقعہ ہوا وہ اسی طرح ہوا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے.تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے.پھر مچھلی نے ان کو خشکی پر اگلا.اور جب وہ اچھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو.اس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ میں کتنا بھی بھاگوں بہرحال خدا تعالیٰ کی بات مجھے ماننی پڑے گی چنانچہ وہ واپس آئے اور انہوں نے نینوہ والوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا پہلے تو انہوں نے معمولی سا انکار کیا.مگر جونہی عذاب کے آثار ظاہر ہوئے انہوں نے مان لیا.غرض ان حوالوں کو جب ہم یوناہ نبی کی پیشگوئی کے حوالہ سے ملا کر دیکھتے ہیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی والا معجزہ جو حضرت مسیح نے دکھانا تھا وہ مسیح کے زندہ قبر میں جانے ، زندہ قبر میں رہنے اور زندہ قبر میں سے نکلنے پر ہی مشتمل نہیں تھا.بلکہ اس میں یہ چوتھی بات بھی بتائی گئی تھی اور یہی اہم بات تھی کہ مسیح کو خدا تعالیٰ یوناہ نبی کی طرح ان اسرائیلی قبائل کی طرف لے جائے گا جو کھوئے گئے تھے.اور وہ ان کو خدا کا کلام سنا ئے گا اور وہ لوگ اس کی باتیں مانیں گے اور یہ ایک ایسا نشان ہوگا جسے اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیںدیکھیں گی.جیسے نینوہ کے لوگوں نے نشان دیکھا تھا.اب دیکھ لو مسیح کے ساتھ جو حالات گزرے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح تھے مسیح فلسطین میں پیدا ہوا اور اس کی بولی عبرانی تھی.اس کی ماں بھی فلسطین میں موجود تھی اور اس کا جو باپ کہلاتا تھا وہ بھی وہیں موجود تھا.اسی طرح باپ
چچاور پھر دوبارہ پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ یوناہ نبی کی طرح وہ مجبور ہو کر کشمیر اور افغانستان کی طرف چلے گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی خدا کی راہ میں موت سے نہیں ڈرتا لیکن نبی نکمی زندگی کو برداشت نہیںکر سکتا.وہ کام کے لئے پیدا کیاجاتا ہے.اور کام ہی کا عاشق ہوتا ہے.وہ ایک مشین ہوتا ہے جو ہر وقت چلتی ہے پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسیح اپنی باقی عمر ادھرادھر چھپ کر گزار دے.پس اس واقعہ نے جہاں اس کے کے ایمان کو اور بھی مضبوط کر دیا وہاں اسے جلد سے جلد فلسطین چھوڑ کریوناہ نبی کی طرح مشرق میں جا کر خدا تعالیٰ کا کلام سنانے پر مجبور کر دیا.جب مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہوں گے اور بتایا ہو گا کہ ان ان حالات کی وجہ سے میں تمہاری طرف آنے پرمجبور ہوا ہوں تو کس طرح ان کے ایمان بڑھ گئے ہوںگے اور کس طرح ان کے دلوں میں اللہ تعالی کے شکر کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے کشمیر کی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت مسیح ؑ کشمیر میں داخل ہوئے تو ان کے زخم ابھی موجودتھے.معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں جراح اتنے اچھے نہیں ہوتے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ جب شہزادہ نبی کشمیر پہنچاتو اس کے ہاتھوںاور پیروں پر زخم تھے جن کا ایک لمبے عرصہ تک وہاں کے جراح علاج کرتے رہے جب حضرت مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہوںگے کہ اس طرح جبراً اللہ تعالیٰ مجھے فلسطین سے نکال کرتمہاری طرف لایا.اگر میں وہیں رہتاتو وہ دوبارہ مجھے پھانسی دےدیتے.تو وہ اپنی خوش قسمتی پر کتنا ناز کرتے ہوںگے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا تھا کہ انہیں پھر بچا لیتا.وہ پھر صلیب پر لٹکاتے تو پھر بچا لیتا مگراس طرح صلیب پرچڑھنا اور اترنا ہی رہتا تو حضرت مسیح تبلیغ نہیں کر سکتے تھے.بہر حال جب یہ باتیں انہوں نے سنی ہوںگی تو ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کتنی بڑھ گئی ہوگی کہ وہ ایک نبی کو مجبور کرکے ہمارے ملک میں لایا تا کہ ہم اس کے ذریعہ سےہدایت حاصل کریں بےشک بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی ہوگی اور مخالفت ہونی بھی چاہیے مگر تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حضرت مسیح کے بہت جلد معتقد ہو گئے (Jesus in Heaven On The Earth by Khawaja Nazir Ahmad p.368.369) اور بہت جلد انہوں نے ایک نبی کی حیثیت میں آپ کو ماننا شروع کر دیا.غرض ان حالات میں خدا تعالیٰ نے ان کو مجبو رکر کے وہاں بھجوا دیا.اگر ہم یہ تشریح نہ مانیں تو کفارہ تو الگ رہا مسیح ایک سچا اور راستباز انسان بھی نہیں رہتا.کیونکہ مسیح صاف کہتا ہے کہ میں قبر میں زندہ جائوں گا ، قبر میں زندہ رہوں گا اور قبر میں سے زندہ نکلوں گا، اور یہ کہ ان واقعات کے بعد میرا گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانا ضروری ہے تاکہ یوناہ نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے.یوناہ آخر کس وقت تبلیغ کے لئے نینوہ والوں کی طرف گئے تھے.اسی وقت جب وہ مچھلی کے پیٹ میںسے نکلے.اسی طرح مسیح کا اصل
کام کا زمانہ وہی تھا جب وہ قبر میں سے نکلا.اگر یہ بات واقع نہیں ہوئی اور اگر قبر میں سے زندہ نکلنے کے بعد مسیح نے تبلیغ نہیں کی اور اس نے اپنی گمشدہ بھیڑوں کو جمع نہیں کیا.تو مسیح بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور یسعیاہ وغیرہ وہ انبیاء بھی نعوذ باللہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.جنہوں نے مسیح کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرے گا.پس یہ واقعات اس امر کا قطعی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ مسیح ؑ کے لئے صلیب پر مرنا یا کفارہ ہونا مقدر ہی نہیں تھا.اور اگر کفارہ کو مانا جائے تو مسیح کو سچا ماننا بھی ناممکن ہو جاتا ہے.کیونکہ اس کی سب سے بڑی پیشگوئی جھوٹی نکلتی ہے اسی طرح وہ کلام بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے جو یسعیاہ نبی پر نازل ہوا اور جس کی بعض اور نبیوں نے بھی خبر دی تھی.پس ثابت ہوا کہ مسیح نے وہ قربانی نہیں کی جو کفارہ ماننے والے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نہ وہ کفارہ ہوا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو واقعہ ہوا کیا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح زندہ قبر میں جائے گا زندہ قبر میں رہے گا اور زندہ قبر میں سے نکلے گا یا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح قبر میں مردہ گیا.مردہ ہونے کی حالت میں ہی رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکلا.میں اس غرض کے لئے چند بڑی بڑی باتیں بیان کرتا ہوں.جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا.پہلی چیز تو یہ ہے کہ مسیح جس حاکم کے سامنے پیش کیا گیا وہ حاکم مسیح کا خیر خواہ تھا (لوقا باب ۲۳ آیت ۱ تا ۲۳)اور مسیح کے بعض ماننے والوں کا دوست تھا.مسیح کے ماننے والے جو ابھی ظاہر میں حواری نہیں بنے تھے لیکن دل سے آپ پر ایمان لا چکے تھے ان میں ایک یوسف آرمیتیا بھی تھا.انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ یوسف آرمیتیا بوجہ اس کے کہ یہودیوں میں بڑا معزز اور مالدار انسان تھا پیلا طوس کا دوست تھا(لوقا باب ۲۳ آیت ۵۰،۵۱).جب مسیح پیلاطوس کے سامنے پیش ہوئے تو پیلا طوس نے بار بار کوشش کی کہ کسی طرح وہ مسیح کو چھوڑ دے.اس بارہ میں اس نے جو تدابیر کیںان میں سے ایک تدبیر یہ تھی کہ جس دن وہ پیش ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا (لوقا باب ۲۳ آیت ۵۴)اور جمعہ کے ساتھ ہی سبت کا دن آتا تھا.جو یہودیوں کا ایک مقدس تہوار ہے مگر اس دن ایک اور خاص تہوار بھی تھا جس میں رومی حکومت یہود کو خوش کرنے کے لئے ایک قیدی چھوڑا کرتی تھی تاکہ یہودیہ سمجھیں کہ حکومت مذہب کا احترام کرتی ہے اور اس کا دل ان کے مذہب سے متاثر ہے.اس تقریب کی وجہ سے پیلا طوس نے یہ کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کو یہ کہہ کر ہم نے کوئی نہ کوئی قیدی تو چھوڑنا ہی ہے چلو اسے ہی چھوڑ دیں آپ کو رہا کر دے.مگر یہودیوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کو نہیں مان سکتے فلاں ڈاکو کو بے شک چھوڑ دیا جائے مگر مسیح کو نہ چھوڑا جائے ( متی باب ۲۷ آیت ۲۱و ۲۲) اس
بارہ میں انجیل میںبہت سے اختلافات ہیں جن میں اس وقت پڑنے کی ضرورت نہیں.بہرحال مسیح کو انہوں نے چھڑوانے نہیں دیا.اتنے میںجب پیلا طوس اپنی ذاتی دلچسپی سے مسیح کو چھوڑنے کی کوشش کر رہا تھا عدالت میں ایک پیغامبر آیا اور اس نے کہا کہ مجھے آپ کی بیوی نے بھجوایا ہے جب پیلا طوس اس کی بات سننے کےلئے اٹھا تو اس نے کہا آپ کی بیوی نے مجھے یہ پیغام آپ تک پہنچانے کےلئے دیا ہے کہ آج میں ساری رات سوئی نہیں کیونکہ فرشتے مجھے بار بار آ کر کہتے تھے کہ یہ شخص بے گناہ ہے اسے سزا نہ دینا ورنہ مر جائو گے ( متی باب ۲۷ آیت ۱۹) پیلاطوس نے جب یہ بات سنی تو اس نے مزید کوشش شروع کر دی کہ کسی طرح یہودی مسیح کو رہا کر دینا مان لیں.مگر انہوں نے نہ مانا بلکہ انہوں نے دھمکی دی کہ ہم روم میں بادشاہ کو لکھیں گے کہ ایک شخص جو حکومت کا باغی تھا اور بادشاہت کا دعویٰ کرتا تھا پیلا طوس نے اسے چھوڑ دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ پیلا طوس بھی باغی ہے.یہ سن کر پیلا طوس ڈر گیا اور اس نے پانی منگوا یا.یہودیوں کو تمثیلی زبان میں گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا.اسی طریق کے مطابق اس نے پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھو کر کہا کہ مجھ پر اس گناہ کی کوئی ذمہ واری نہیں میں اس انسان کے خون سے بری ہوں.اگر گناہ ہوگا تو وہ تم پر اور تمہاری اولادوں پر ہوگا.اس پر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ہاں اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر ہے ( متی باب ۲۷ آیت ۲۴و۲۵) تب پیلا طوس نے مسیح کو ان کے حوالے کر دیا کہ اسے لے جائو اور صلیب پر لٹکا دو.جب وہ مسیح کو لے کر صلیب کے مقام پر پہنچے ہیں تو انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت چھٹا گھنٹہ آ گیا تھا.اور چھٹے گھنٹے کے معنے اس زمانہ کے لحاظ سے تین اور چار بجے کے درمیان کے وقت کے ہیں.اس دن دو اور مجرم بھی پیش تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا.اب یہ بات ظاہر ہے کہ ایک مجرم کے لٹکانے اور تین مجرموں کے لٹکانے میں بہت فرق ہوتا ہے.ایک آدمی کو تھوڑے سے وقت میںلٹکایا جا سکتا ہے مگر تین آدمیوں کو لٹکانے سے لئے لازماً زیادہ وقت لگے گا.پھر ایک اور بات بھی ہے جس کو عام طور پر نہ مسلمان سمجھتے ہیںاور نہ بوجہ اپنے مذہب کے ناواقف ہونے کے عیسائی سمجھتے ہیں.اس زمانہ میں صلیب کے لئے ایک لکڑی گاڑی جاتی تھی.جس کی شکل اس قسم کی ہواکرتی تھی.جب کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے تو وہ اس لکڑی کے ساتھ سیدھا کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے بازئوں کو پھیلا کر دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا.اس کے بعد مجرم کے بازوئوں اور ٹانگوں کے نرم گوشت میں کیل گاڑ دئیے جاتے اور وہ اسی طرح بھوکا پیاسا صلیب پر لٹکا لٹکا مر جاتا.بعض حالات میں علاوہ ان کیلوں کے جو بازوئوں کے گوشت اور پنڈلیوں کے گوشت میں گاڑے جاتے تھے وہ ایک ایک کیل
ہتھیلیوں میں بھی گاڑ دیتے تھے لیکن جن لوگوں کو علم التشریح کی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ یہاں بھی کیلوں کاگاڑنا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا.بہرحال صلیب دیتے وقت کیل جسم کی ہڈیوں میں نہیں گاڑے جاتے تھے بلکہ بازوئوں اور پنڈلیوں کے نرم نرم گوشت میں گاڑے جاتے تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسم کے گوشت میں کیل گاڑ دینا یہ بھی انسان کو خطرناک تکلیف پہنچاتا ہے.بلکہ کیل تو الگ رہے معمولی ٹیکہ سے بھی بعض لوگ چیخیں مارنے لگ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس صلیب سے انسان کی موت کئی دنوں کے بعد واقع ہوتی تھی اور وہ سسک سسک کر اپنی جان دیتا تھا فوری طور پر موت واقع نہیں ہوتی تھی.اس میں صرف ہیبت کا پہلو ہے جو دماغی لحاظ سے سخت اذیت پہنچاتا ہے یعنی انسان یہ دیکھتا ہے کہ اب کیل آ گئے ہیں اب ہتھوڑا آ گیا ہے.اب کیل گاڑنے والا آ گیا ہے.اب کیل گاڑنے کے لئے اٹھا ہے.اب کیل جسم پر رکھا گیا ہے.اب کیل پر ہتھوڑا پڑنے والا ہے.یہ باتیں ایسی ہیں جو اس کے دماغ کو خوف زدہ کردیتی ہیں اور وہ اس کی ہیبت سے شدید متاثر ہوتا ہے ورنہ محض گوشت کٹ جانے سے ایسی تکلیف نہیں ہوتی جسے برداشت نہ کیا جا سکتا ہو.لڑائیوں میں ہزاروں مرتبہ تلوار لگتی ہے اور گوشت کٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے مگر چونکہ وہ تلوار یکدم آ پڑتی ہے اس لئے اس کی ہیبت طاری نہیں ہوتی.لیکن کیل کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اب نہ معلوم کیا ہونے والا ہے.لیکن تلوار لگ کر اگر گوشت کٹ جائے تو بعض دفعہ اس کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی ڈاکٹر کی سوئی سے انسان محسوس کرتا ہے.کیونکہ اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جب گوشت کٹ چکا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسی حالت میں جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہڈی سلامت ہے تو بجائے گھبرانے کے بے اختیار الحمد للہ کہہ اٹھتا ہے.لیکن جب ڈاکٹر ٹیکا لگانے کے لئے سرنج تیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید ڈاکٹر مجھے ذبح کرنے لگا ہے اور اس پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی ہے.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح کے ساتھ جو کچھ گزرا وہ دماغی لحاظ سے ایک نہایت ہی تکلیف دہ واقعہ تھا.لیکن وہ حقیقی تکلیف جس سے انسان مر جاتا ہے وہ آپ کو نہیں ہوئی.لیکن چونکہ آپ نازک طبیعت انسان تھے آپ نے اس تکلیف کو بھی شدت سے محسوس کیا اور بیہوش ہو گئے.اس کے مقابلہ میں وہ چور جو آپ کے دائیں بائیں لٹکائے گئے تھے وہ ایک
دوسرے سے مذاق کرتے رہے.بلکہ ان میں سے ایک نے مسیح کو طعنہ دے کر کہا کہ اگر تو مسیح ہے تو اپنے آپ کو بھی اور ہم کو بھی بچا.اس پر دوسرے نے اسے جھڑک کر کہا کہ تو خدا سے ڈر ہم تو اپنے کئے کی سزا پا رہے ہیں اور یہ بےگناہ ہے.(لوقاباب ۲۳ آیت ۳۹.۴۰) اب دیکھو وہ صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں مگر مذاق جاری ہے کیونکہ وہ سنگدل لوگ تھے اور ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے.اسی قسم کی طبیعت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے اندر سختی برداشت کرنے کا مادہ رکھتے ہیں.کشمیر میں ہی ہمارا ایک احمدی خاندان ہے جو پہلے زمانہ میں مظفر آباد کے راجہ تھے مہاراجہ کشمیر نے حملہ کر کے انہیں شکست دی اور راجہ کو قید کر کے سری نگر لے آیا اور ان کے گزارہ کے لئے وظیفہ مقرر کر دیا.یہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت کی بات ہے جس کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول رضی ا للہ عنہ ریاست جموں و کشمیر میں ملازم تھے.وہ مسلمان راجہ بڑا خوبصورت اور قوی نوجوان تھا اور اس کی شکل مہاراجہ کو بڑی پسند تھی.ایک دن وہ پولو کھیلتے ہوئے گرا اور کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی.انہوں نے علاج کرایا اور ہڈی جڑ گئی.مگر ہڈی کچھ ٹیڑھی جڑی.ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ مہاراجہ نے کہا کیوں راجہ صاحب آپ فلاں دن پولو کھیلتے ہوئے گرے تھے اور آپ کو چوٹ آئی تھی.بتائیے اب ہڈی کا کیا حال ہے جڑ گئی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا جڑ گئی ہے اس نے کہا آئیے مجھے دکھائیں.انہوں نے دکھائی تو کہنے لگاراجہ صاحب یہ آپ نے کیا کیا.یہ ہڈی تو ٹیڑھی جڑی ہے اور اس سے آپ کی خوبصورتی پر دھبہ آ گیا ہے.آپ اتنے خوبصورت انسان تھے آپ مجھے بتاتے تو میں اپنا ڈاکٹر آپ کے لئے مقرر کر دیتا اور اس ہڈی کو بالکل صحیح جڑوا دیتا.وہ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے بازو پر دبائو ڈال کر اتنے زور سے اسے جھٹکا دیا کہ بازو دو ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگے ’’ مہاراج اب جڑوا دیں‘‘ یہ دیکھ کر مہاراجہ کی ایسی حالت ہو گئی کہ وہ بے ہوش ہو نے لگا.اور دربار سے اٹھ کر چلا گیا.تو ایسے ایسے سنگدل لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی مگر حضرت مسیح ایک نازک مزاج انسان تھے.اردگرد کے چور تو مذاق کرتے رہے اور مسیح بے ہوش ہو گئے جب انہیں ہوش آیا تو کراہنا شروع کر دیا.مگر معلوم ہوتا ہے آپ کے حواس قائم تھے کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ اوپر سے آپ کی والد ہ آ گئیں.آپ نے اپنی والدہ کو دیکھا اور آپ پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی.آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم میری والدہ کو اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی سامنے ہی آپ کا ایک شاگرد تھو ما نا می کھڑا تھا.آپ نے تھوما کی طرف دیکھا اور کہا.اے تھوما یہ تیری ماں ہے اور اپنی والدہ سے کہا اے عورت یہ تیرا بیٹا ہے(یوحنا باب ۱۹ آیت ۲۵ تا ۲۷).بعض لوگ تھوماس سے یہ غلطی کھاتے ہیں کہ تھوماس کے معنے ہوتے ہیں توأم بھائی.جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح ؑ کا
باپ تھا لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے.تھوماس کے معنے عبرانی میں دودھ شریک بھائی کے ہوتے ہیں.پس اس نام سے صرف اتنا نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کو جس عورت کا دودھ پلایا گیا تھا اسی عورت نے تھوماس کو بھی دود ھ پلایا تھا.یا یہ کہ خود حضرت مریم کا دودھ اس نے پیا تھا اور اس طرح وہ حضرت مسیح کا دودھ شریک بھائی ہو گیا تھا بہرحال حضرت مسیح نے اس چھوٹے سے فقرہ میں نہایت لطیف طریق پر ایک طرف تھوما کی توجہ دلائی کہ میں تو اس وقت صلیب پر لٹکا ہوا ہوں اور گو مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اس کے وعدوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی کی ہو.اس لئے اب میں اپنی والدہ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنی والدہ سے کہا کہ تھوما کو اپنا بیٹا سمجھنا.ساری انجیل میں اپنی ماں سے محبت کا اظہار اگر حضرت مسیح نے کیاہے تو صرف اس جگہ.ورنہ انجیل پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں اپنی والدہ سے کچھ خار سی ہے.کیونکہ کسی جگہ پر ان کی محبت کا اظہار نہیں.بہرحال حضرت مسیح کی یہی کیفیت رہی.کبھی انہیں ہوش آجاتا اور کبھی وہ بے ہوش ہو جاتے اس موقعہ پر پیلا طوس کی طرف سے جو پہریدار مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں ان کے مرید تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح ؑتکلیف برداشت نہیں کر سکتے تو وہ دوڑ کے گئے.اور انہوں نے اسفنج کا ایک ٹکڑہ لے کر اسے شراب اور مر سے بھگویا اور حضرت مسیح کو چوسنے کے لئے دیا.انجیل میں تو صرف اتنا لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں ڈبو کر انہوں نے حضرت مسیح کو چوسنے کے لئے دیا ( مرقس باب ۵ ۱آیت ۳۶) مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کو شراب اور مرکا مرکب دیا گیا (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۴زیر لفظ Cross) عیسائی لوگ بعض دفعہ اس بات پر بڑا زور دیا کرتے ہیں کہ یہود نے آپ پر اتنا ظلم کیا کہ جب آپ شدت تکلیف سے کراہ رہے تھے تو انہوں نے شراب اور مُر کے مرکب میں اسفنج بھگویا اور چوسنے کے لئے آپ کو دیا.حالانکہ رومی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ رعایت کرنا چاہتے تھے اور جس کو وہ تکلیف سے بچانا چاہتے تھے اس کو وہ شراب اور مر کا مرکب دیا کرتے تھے(جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Crucifixtion).معلوم نہیں طبی طور پر یہ چیز فائدہ بخش بھی ہے یا نہیں لیکن اس زمانہ میں لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جس کو شراب اور مر دی جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے.پس یہ واقعہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے پہرہ کے لئے مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں آپ کے مرید تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی تکلیف کو کم کرنے میں وہ جس قدر بھی حصہ لے سکتے ہوں لیں.پھر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں انہیں جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور مغرب سے سبت کا دن شروع ہو جاتا تھا آج کل تو رات کے بارہ بجے کے بعد سے اگلا دن شمار کیا جاتا ہے لیکن اسلامی طریق یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگلا دن شروع ہو گیا ہے اور یہی
طریق بنی اسرائیل میں بھی رائج تھا.اس لحاظ سے سورج کے غروب ہوتے ہی سبت کا دن شروع ہو جاتا تھا اور یہودیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی سبت کے دن صلیب پر لٹکا رہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے(یوحنا باب ۱۹ ٓیت ۳۱) چنانچہ دو تین گھنٹہ کے بعد ہی پیلا طوس نے انہیں توجہ دلائی کہ اگر یہ صلیب پر لٹکا رہا اور سبت کا دن شروع ہو گیا تو تم پر عذاب آ جائے گا.ادھر اللہ تعالیٰ نے یکدم ایک زور دار آندھی چلا دی جس سے چاروں طر ف تاریکی چھا گئی ( مرقس باب ۱۵ آیت ۳۳) اس کو دیکھ کر یہودی اور بھی ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہ صلیب پر رہے اور سبت شروع ہو جائے.چنانچہ انہوں نے پیلاطوس سے خود درخواست کی کہ اب ان کو اتار لیا جائے ( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱) ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب نازل ہو جائے.اب فرض کرو انہیں سورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ پہلے اتار لیا گیا تھا.تب بھی ان کی صلیب کا وقت کچھ نہ کچھ تو ضرور کم ہو جائے گا اگر سات بجے سورج غروب ہوا کرتا تھا اور ساڑھے تین بجے انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو یہ کل وقت ساڑھے تین گھنٹے بنتا ہے لیکن چونکہ شدید آندھی کی وجہ سے سخت تاریکی چھا گئی تھی اور سبت شروع ہو جانے کے خوف سے انہیں جلدی اتار لیا گیا تھا.اس لئے اگر آدھ یا پون گھنٹہ بھی یہ وقت فرض کر لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اڑھائی سے تین گھنٹہ تک حضرت مسیح کو صلیب پر رہنا پڑا.حالانکہ اس صلیب پر سات سات دن تک بھی بعض لوگ زندہ رہتے تھے اور وہ صرف بھوک اور پیاس کی وجہ سے یا زخموں کا زہر جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے ہلاک ہوتے تھے.پھر یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر سے زندہ اتر آتے تھے ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں.مگر پہرے دار چونکہ حضرت مسیح کے مرید تھے انہوں نے چوروں کی تو ہڈیاں توڑ یں مگر حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں دراصل صلیب دینے کے اصل معنے بھی ہڈیاں توڑ کر گودا نکال دینے کے ہیں اور یہ نام اسی لئے رکھا گیا تھا کہ اکثر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ہڈیاں توڑ کر ان کا گودا نکالا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح ؑ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں.( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۳) پھر حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ انجیل میں لکھا ہے.جب حضرت مسیح کو اتارا گیا تو ایک سپاہی دوڑتا ہوا گیا اور اس نے آپ کی پسلی میں آہستہ سے نیزہ مار کر دیکھا تو اس میں سے خون اور پانی بہ نکلا ( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۴) جسم میں سے خون اور پانی نکلنا یہ تو کوئی محاورہ نہیں.اس کے معنے یہی ہیں کہ سیال خون نکل آیا.ورنہ انجیل کا بیان ہی اگر درست ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پانی الگ چیز ہے اور خون الگ.اور خون کو سیال بنانے والی سرم کے علاوہ کوئی اور بھی چیز ہے حالانکہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں.پس اس کے معنے پانی اور خون کے نہیں بلکہ بہتے ہوئے خون کے ہیں.مگر یہودیوں میں انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ مر گیا ہے اور اسی لئے ہم نے اس کی ہڈیاں نہیں توڑیں.
معلوم ہوتا ہے یہودی بھی دل میں گھبرائے ہوئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ایک بے گناہ کو سزا دلوائی ہے پس چونکہ ان کے دل میں چور تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم ایک نیک اور خدارسیدہ انسان کو سزا دلوا رہے ہیں.اس لئے جب انہوں نے ایک شدید آندھی دیکھی توڈر گئے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا عذاب معلوم ہوتا ہے.اور انہوں نے زیادہ مزاحمت نہیں کی.بلکہ کہا کہ اچھا اگر وہ مر گیا ہے تو اسے دفن کر دو.ان تمام واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر مرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا.عام طور پر ساتویں دن تک بھی لوگ زندہ رہا کرتے تھے اور ہڈیاں توڑ کر انہیں مارنا پڑتا تھا کجا یہ کہ اڑھائی یا تین گھنٹہ تک صلیب پر رہنے کے نتیجہ میں وہ فوت ہو جاتے.ان کا صلیب پر لٹکنے کا وقت زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین گھنٹے ہو سکتا ہے مگر جب اس صلیب پر سات سات دن تک بھی لوگ زندہ رہتے تھے تو ساڑھے تین گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کم عرصہ میں آپ کس طرح فوت ہو سکتے تھے اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ آپ کے ماننے والے آپ کے پہریدار تھے اور انہوں نے آپ کی تکلیف کو کم کرنے اور آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی.بہرحال جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا تو یوسف آرمیتیا پیلا طوس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ لاش میرے حوالے کی جائے.چنانچہ پیلا طوس نے حکم دے دیا کہ لاش یوسف آرمیتیا کو دے دی جائے ( متی باب ۲۷ آیت ۵۸) اس کے بعد یوسف آرمیتیاہ نے ان کو ایک قبر میں جا کر رکھ دیا.مگر وہ قبر ہماری قبروں جیسی نہیں تھی.اس قبر میں تو کسی کو رکھا جائے تو اس کا سانس بند ہو جائے کیونکہ یہ اور طرح بنائی جاتی ہے وہ قبر ایک کھلی کوٹھڑی تھی جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی (متی باب ۲۷ آیت ۶۰) یوسف آرمیتیاہ نے اس قبر میں حضرت مسیح کو جا کر رکھ دیا اور سامنے دروازہ پر ایک پتھر لڑھکا دیا ( متی باب ۲۷ آیت ۶۰) تاکہ لوگوں کو شبہ بھی نہ ہو اور ہوا کی آمدورفت بھی جاری رہے.یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ یہ امر قطعی طور پر ناممکن تھا کہ مسیح صلیب پر مر سکتا.یوں تو بعض دفعہ انسان بیٹھے ہوئے زمین پر سے اٹھنے لگتا ہے تو اس کا دم نکل جاتا ہے چلتے چلتے کھڑا ہوتا ہے تو دم نکل جاتا ہے مگر یہ اور چیز ہے ہم جس امر پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عام طور پر ان حالات میںجو حضرت مسیح کو پیش آئے لوگ مرا نہیں کرتے بلکہ زندہ رہتے ہیں اور حضرت مسیح کی موت بھی ان حالات میں قطعی طور پر ناممکن تھی.شروع سے لے کر آخر تک ان کے ساتھ ایسے لوگ رہے جو ان کے مرید تھے یا ان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش آپ کو بچانے کے لئے کی.پھر ان کی خیرخواہی کا اس امر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا اور ایک قبر میں رکھ دیا گیا تو یہودیوں نے درخواست کی کہ جس کوٹھڑی میں مسیح کو رکھا گیا ہے اس پر تین دن تک
پہرہ لگا دیا جائے کیونکہ مسیح کہا کرتا تھا کہ میںیوناہ کی طرح تین دن رات کے بعد زندہ ہو جائوں گا.مگر پیلاطوس نے انہیں سرکاری پہرے دار دینے سے انکار کر دیاا ور کہا کہ ’’ تمہارے پاس پہرے والے ہیں جائو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی حفاطت کرو.‘‘ ( متی باب ۲۷ آیت ۶۵) پیلا طوس کی اس انکار سے یہی غرض تھی کہ اگر سرکاری پہرےدار مقرر کئے گئے تو حضرت مسیح باہر نہیں نکل سکیں گے اور اگر وہ پہریداروں کا مقابلہ کریں گے تو ان کا مقابلہ حکومت کا مقابلہ سمجھا ئے گا لیکن اگر عام لوگ پہرہ پر ہوئے تو ان کا مقابلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکے گا.پس پیلا طوس نے انکار کرد یا اور کہا کہ میں پولیس دینے کے لئے تیار نہیں.پھر اس کے بعد جو واقعات ہوئے وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.اگر عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح مر کر زندہ ہو چکے تھے تو وہ خدا کے بیٹے بن چکے تھے.ا یسی صورت میں انہیں لوگوں کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہو سکتا تھا.مگر انجیل بتاتی ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ چھپ چھپ کر پھرا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہا کرتے تھے کہ کسی کو بتانا نہیں کہ میں زندہ ہوں.بلکہ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں.ممکن ہے یوسف آرمیتیاہ کے مکان میں ہی رہتے ہوں.کیونکہ لکھا ہے کہ مسیح یکدم ظاہر ہو جاتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی کہیں ادھر ادھر غائب ہو جاتا.ایک دفعہ جب وہ اپنے حواریوں کے پاس آئے تو انہیں دیکھنے کے باوجود یہ یقین نہ آیا کہ یہ سچ مچ مسیح کھڑا ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اور کچھ شہد دیا اور اس نے ان کے سامنے کھایا تب انہیں یقین آیا کہ وہ واقعہ میں مسیح کو دیکھ رہے ہیں.( لوقاباب ۲۴ آیت ۴۱تا ۴۳) اب یہ ظاہر ہے کہ کوئی روح ایسا نہیں کیا کرتی.اس قسم کے کام جسم ہی کیا کرتا ہے مگر چونکہ قانون حکومت کے مطابق وہ پھانسی کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے اور اگر پکڑے جاتے تو دوبارہ پھانسی پر لٹکا دئیے جاتے اس لئے ضروری تھا کہ وہ چھپ کررہتے اور حواریوں کو بھی نہ بتاتے کہ وہ کہاں رہائش رکھتے ہیں.بہرحال انجیل کے بیانات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ صلیب پر زندہ رہے.قبر میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی اس قبر میں سے نکلے اور انہوں نے حواریوں کو بتایا کہ میں زندہ ہوں لطیفہ یہ ہے انجیل بتاتی ہے جب تھوما کو یہ خبر پہنچی کہ مسیح زندہ ہے تو اس نے کہا جب تک میں اس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں گا اور جب تک ان کیلوں کے نشان میں اپنی انگلی نہ ڈالوں گا میں اس بات کو ماننے کے
لئے تیار نہیں کہ مسیح دوبارہ زندہ ہو گیا ہے اس پر حضرت مسیح نے تھوما کو بلایا اور کہا میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ میری پسلی میںڈال اور دیکھ کہ میں مسیح ہی ہوںکوئی روح نہیں.( یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۴ تا ۲۹) یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ نے جو پیشگوئی کی تھی کہ یوناہ نبی کا نشان اس قوم کو دکھایا جائے گا وہ لفظ بلفظ پوری ہو ئی.ایک گوشت پوست والے مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا مگر وہ صلیب پر زندہ رہا.وہ زندہ قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلا اور اس کے بعد وہ لوگوں سے چھپتا پھرا.کیونکہ قانون اس ملک میں رہنے کی انہیں اجازت نہیں دیتا تھا.اور یہی اللہ تعالیٰ کی وہ مخفی تدبیر تھی جس کے ماتحت وہ مجبور ہوئے کہ کشمیر اور افغانستان کی طرف جائیں اور بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کریں.خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ان حالات کے نتیجہ میں مسیح اس ملک میں رہنا مناسب ہی نہیں سمجھے گا اور وہ خوشی سے خود ان قوموں کی طرف چلا جائے گا جن کی ہدایت اور اصلاح کےلئے اسے مبعوث کیا گیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب فلسطین میں میرا رہنا مشکل ہے تو مشرق کی طرف چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام بنی اسرائیل کےان دس قبائل کو پہنچاتے رہے جو کشمیر اور افغانستان میں آ بسے تھے.اس بحث کا اگلا حصہ بائبل سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ افغانستان اور کشمیر کی تاریخوں اور بعض پرانی قبائلی روایات وغیرہ سے اس کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب میں جس کا نام ’’ مسیح ہندوستان میں ‘‘ ہے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح ہجرت کر کے افغانستان اور کشمیر کی طرف آ گئے تھے.اس کے علاوہ بعض اور تحقیقاتیں بھی ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک نبی جسے شہزادہ نبی کہا جاتا تھا اور جس کے ہاتھوں اور پائوں میں زخموں کے نشانات تھے ہجرت کر کے کشمیر میں آیا اور اس نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا.غرض کٓھٰیٰعٓصٓ میں عیسائیت کے ابطال کےلئے خدا تعالیٰ کی چار صفات پیش کی گئی ہیں.یعنی صفت کافی ، صفت ہادی ، صفت علیم اور صفت صادق اور جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور ہادی اس کی صفت علیم اور صادق کے تابع ہیں جو علیم ہوتا ہے وہ کافی ہوتا ہے اور جو صادق ہوتا ہے وہ ہادی ہوتا ہے.اس وقت ہی کسی کا علاج ناقص ہوتا ہے جب اسے ساری مرض کا علم نہ ہو.یا مرض کا علاج معلوم نہ ہو.تشخیص ناقص ہو تب بھی نسخہ ناقص لکھا جاتا ہے اور اگر علاج پورا معلوم نہ ہو تو تب بھی نسخہ ناقص ہوتا ہے لیکن جو علیم ہو گا اور جسے ہر بات کا علم ہو گا اس کا نسخہ اپنی ذات میں مکمل ہو گا یہ نہیں ہوگا کہ باوجود علم کے وہ مرض ادھوری بتائے یا باوجود علم کے نسخہ ناقص لکھے.دوسری صفت صادق ہے صادق کے معنے ہوتے ہیں مخلص سچا اور دوستی میں پکا اب جو شخص سچا ہو گا مخلص
ہوگا اور دوستی میں پکا ہوگا لازماً وہ ہادی بھی ہو گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صادق انسان کا دوست اور پیارا اور رحم کا مستحق وجود ڈوب رہا ہو اور وہ اسے نکالے نہیں.تباہ ہو رہا ہو اور وہ اسے بچائے نہیں.غرض علم کی صفت کے ماتحت کافی لفظ آتا ہے اور صادق کی صفت کے ماتحت ہادی کی لفظ آتا ہے.عیسائیت کے تمام مسائل انہی چار صفات کے اردگرد چکر کھاتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے علیم اور کافی ہونے کو اور اس کے صادق اور ہادی ہونے کو نہیں سمجھا اور اس لئے انہوں نے غلط عقائد اختیار کر لئے.اس سورۃمیں چونکہ خدا تعالیٰ نے عیسائیت کا ذکر کیا ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو عیسائیت کے رد میں کام آنے والی تھیں.میں نے بتایا تھا کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقطعات کو صفات الٰہیہ قرار دیا ہے اور میری ایک پرانی رؤیا بھی اس کی تصدیق کرتی ہے میں ایک دفعہ سندھ سے آ رہا تھا.کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو کٓھٰیٰعٓصٓ آتا ہے ان حروف مقطعات میں تمہارا بھی ذکر ہے.گویا مجھے بتایا گیا کہ کٓھٰیٰعٓصٓ میں میرا بھی ذکر آتا ہے اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل مسیح ناصری ہیں.اس لئے درحقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذکر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کٓھٰیٰعٓصٓ میں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر ہے تو لازماً اس میں دوسرے مسیح کا ذکر ہوگا.اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر تو اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کافی اور ہادی ہونے اور اس کے علیم اور صادق ہونے کی صفات کو نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کر لیا.ا ور ہمارے حق میں یہ مقطعات اس لحاظ سے ہوںگے کہ ہم نے انہی صفات سے کام لے کر عیسائیت کا رد کر دیا.گویا مراد تو دونوں سلسلے ہوں گے مسیح ناصری کا سلسلہ بھی اور مسیح موعود ؑ کا سلسلہ بھی مگر عیسائیت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ان صفات کو مدنظر نہ رکھ کر وہ صحیح راستہ سے بھٹک گئے اور ہمارے لئے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات نے ہماری تائید کی اور ہم نے ان کے ذریعہ سے عیسائیت کا کو کچل دیا.درحقیقت دنیا میں تمام روحانی کام صفاتِ الٰہیہ سے ہی چلتے ہیں اور اگر کسی کو علم صحیح عطا ہو جائے تو وہ صرف صفات الٰہیہ سے ہی تمام غلط مذاہب کو ردّ کر سکتا اورا ن کا باطل ہونا ثابت کر سکتا ہے.
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّاۖۚ۰۰۳اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً (اس سورت میں ) تیرے رب کی(اس ) رحمت کا ذکر (ہے )جو اس نے اپنے بندے زکریا پر (اس وقت ) کی خَفِيًّا۰۰۴ جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آواز سے پکارا حل لغات.ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ خبر ہے ایک مبتداء محذوف کی جو ھٰذا ہے یعنی ھٰذَا ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا.یہاں مصدر جو ذکر ہے فعل کا عمل کررہا ہے اور یہ عبارت اپنے معنوں کے لحاظ سے اس طرح کہ ھٰذَا ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہُ اَیْ زَکَرِیَّا حِیْنَ نَادَہُ یعنی یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا وہ رحمت جو اس نے اپنے بندہ پر کی.کون سے بندہ پر ؟ زکریا پر.کس وقت کی؟ جب اس نے اپنے رب کو ایک ایسی آواز میں پکارا جو خفی یعنی آہستہ تھی.نَادَی کے معنے ہوتے ہیں صَاحَ بِہٖ یعنی اونچی اور بلند آواز سے پکارا اور نَادَی فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں جَالَسَہٗ فِی النَّادِی اس کے ساتھ مجلس میں اٹھتا بیٹھتا رہا اور اس کے معنے فَاخَرَہٗ کے بھی ہوتے ہیں.یعنی کسی کے ساتھ مفاخرت کی باتیں کیں اور نَادَی بِسِرِّہِ کے معنے ہوتے ہیں اَظْھَرَہٗ اس نے اپنے دل کا رازاس پر ظاہر کیا.(اقرب) تفسیر.میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں عیسائیت پر بحث کی گئی ہے اور عیسوی عقائد کی تردید کے لئے کٓھٰیٰعٓصٓ میں چار صفات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.دو۲ بنیادی صفات کی طرف اور دو۲ ایسی صفات کی طرف جو ان صفات کا لازمی ظہور ہیں.بنیادی صفات عالم اور صادق کی ہیں اور وہ صفات جو ان دو کا لازمی نتیجہ ہیں وہ کافی اور ہادی کی صفات ہیں.لیکن ابتداء زکریا ؑکے ذکر سے کی گئی ہے اس میں کیا حکمت ہے ؟ اور عیسائیت کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا ؑ کا کیوں ذکر کیا گیا ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے جس کا حل کر نا ضروری ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ زکریا سے وہ زکریا مراد نہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے وہ زکریا ۴۸۷ سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ زکریا وہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب زمانہ میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکریا ؑ بھی نبی تھے لیکن اناجیل میں ان کا ذکر بطور کاہن کیا گیا ہے بطور نبی کے
نہیں.مگر اس مشکل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بالکل حل کر دیتی ہے.آپ فرماتے ہیں اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِعَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا (ابو داؤد جلد۲ کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائة) یعنی اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر احیاء دین کے لئے ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ(النور:۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے خلفاء یعنی مجددین کو پہلے زمانہ کے اسرائیلی خلفاء کا مثیل قرار دیا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ ۳۳ مکتوب نمبر۲۳۴ ونمبر۲۴۹)یعنی میری امت کے علماء روحانی یعنی مجددین انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیںپس ممکن ہے کہ ایسے نبی جو کسی دوسرے نبی کے کام کی تکمیل کے لئے آتے ہوں ان کے لئے بائبل میں کاہن کا لفظ استعمال ہوتا ہو.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی کفاریہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص کاہن ہے(طور:۳۰) معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل ایسے رنگ میں نبیوں اور کاہنوں کا ذکر کیا کرتے تھےجس سے وہ دونوں ایک وجود معلوم ہوتے تھے.لیکن چونکہ مکہ والے کاہن کو برا سمجھتے تھے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہونے کا دعویٰ کرتے تو وہ سمجھتے کہ یہ کاہن ہے لیکن اس کے علاوہ جب ہم بائبل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ یہود کے حالات دیکھ کر بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں میں اپنے نبی بھیج دیا کرتا تھا یہاں تک کہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ بعض دفعہ سینکڑوں انبیاء ایک ہی زمانہ میں ہوئے ہیں (نمبر۱ سلاطین باب۲۲آیت ۶) بلکہ بعض بڑے بڑے پایہ کے انبیاء بھی ایک ہی زمانہ میں بھیجے گئے ہیں.چنانچہ حزقی ایل(۵۹۵ قبل مسیح).دانی ایل (۶۰۷ قبل مسیح) اور یرمیاہ(۶۲۹ قبل مسیح) یہ سب ایک ہی وقت میںآگے پیچھے ہوئے بلکہ کچھ حصہ ان کی زندگیوں کا متوازی بھی گزرا ہے.پس اگر بائبل نے زکریا کو نبی نہیں کہا تو یہ کوئی قابل تعجب بات نہیں.جب بائبل کہتی ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک زمانہ میں چار چار سو نبی آئے (نمبر۱ سلاطین باب ۲۲ آیت ۶) اور وہ نام ایک کا بھی نہیں لیتی.تو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں اتنی کثرت سے نبی آیا کرتے تھے کہ بائبل نے ان کے ناموں کی طرف توجہ ہی نہیں کی.قرآن کریم نے اپنی ضرورت کے مطابق جن نبیوں کا نام ضروری سمجھا لے لیا اور بائبل نے جن نبیوں کی ضرورت سمجھی ان کا نام لے لیا.باقیوں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون تھے اور ان کے کیا
نام تھے.بہرحال حضرت زکریا کو انجیل نے گو کاہن قرار دیا ہے مگر قرآن کریم انہیں نبی قرار دیتا ہے اور اس جگہ زکریا سے وہی زکریا ؑ مراد ہیں جو حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے کفیل تھے اور حضرت مسیح کے قریب ترین زمانہ میں گزرے ہیں.عیسائیت کے تفصیلی ذکر سے پہلے حضرت زکریا ؑ کا ذکر کرنے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہود میں یہ پیشگوئی پائی جاتی تھی کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیاہ نبی کا آنا ضروری ہے.چونکہ حضرت زکریا کے ہاں یحییٰ پیدا ہونے والے تھے اور حضرت یحییٰ ارہاص تھے مسیح ناصری کے.یعنی وہ اس لئے آئے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے آنے کے لئے راستہ تیار کرتے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ یہود کو حضرت مسیح سے واقف اور انٹرڈیوس کرانے کے لئے آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر فرما دیا.چنانچہ جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ملا کی نبی کی یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ ’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا.‘‘ (ملا کی باب ۴ آیت ۵) اس جگہ ’’خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن‘‘ سے مراد حضرت مسیح ؑ کی آمد ہے.چنانچہ جب مسیح ناصری نے دعویٰ کیا تو یہود نے یہی سوال کیا کہ وہ ایلیاہ جو آنے والا تھا وہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح نے جواب دیا کہ اس سے مراد یوحنا ہے اور فرمایا کہ ’’چاہو تو مانو ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے.‘‘ (انجیل متی باب ۱۱ آیت ۱۴) پس چونکہ حضرت یحییٰ جن کا انجیل میں یوحنا نام آتا ہے اور جو ایلیاء نبی کے بروز تھے جب تک ظاہر نہ ہوتے حضرت مسیح نہیں آ سکتے تھے.اس لئے ضروری تھا کہ مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا جاتا.تا ملاکی نبی کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا اور لوگوں کو بتا دیا جاتا کہ دیکھو وہ ایلیا ہ بھی آ گیا جس کی ملا کی نبی نے خبر دی تھی اور پھر ہمارا مسیح بھی دنیا میں ظاہر ہو گیا.دوسری وجہ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کا موجب حضرت مریم علیہا السلام ہوئیں.چنانچہ سورہ ٔ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ١ۙ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا١ۚ قَالَ يٰمَرْيَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا١ؕ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ١ۚ قَالَ رَبِّ هَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً١ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ
الدُّعَآءِ.(آل عمران :۳۸،۳۹) یعنی حضرت زکریا علیہ السلام جو حضرت مریم کے کفیل تھے اور جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی وہ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم جو اس وقت چھوٹی بچی تھیں ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں.انہوں نے مریم سے پوچھا کہ اَنّٰى لَكِ هٰذَا بیٹی تمہیں یہ چیزیں کہاں سی ملی ہیں.چھوٹے بچوں سے عام طور پر لوگ محبت او رپیار کی وجہ سے اس قسم کی باتیں پوچھا ہی کرتے ہیں.انہوں نے جواب دیا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ یہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں مفسرین اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے آسمان سے یہ چیزیں بھجوا دیا کرتا تھا(تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت آل عمران کلما دخل ).حالانکہ یہاں آسمان سے آنے کا کوئی ذکر نہیں.یہ جواب صرف اس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم علیہماالسلام کی ہوئی تھی.ہمارے گھروں میں بھی بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جب کوئی تم سے پوچھے کہ فلاں چیز تمہیں کہاں سے ملی ہے تو تم یہ کہا کرو کہ خدا نے دی ہے.حضرت مریم علیہا السلام نے جب یہ جواب دیا تو ایک تین چار سال کے بچہ کے منہ سے یہ بات سن کر کہ اللہ سب کچھ دیتا ہے یہ نعمتیں بھی اللہ نے ہی دی ہیں حضرت زکریا علیہ السلام کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خیال کیا کہ جب واقعہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ دیتا ہے اور ایک بچی بھی یہی کہہ رہی ہے تو میں تو سمجھدار اور تجربہ کار ہوں میں کیوں نہ یقین کروں کہ ہر چیز خدا ہی دیتا ہے.چنانچہهُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ یہ جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام کو توجہ ہوئی کہ میں بھی اپنی ضرورت کی چیز خدا تعالیٰ سے مانگوں.میرے گھر میں بھی کوئی بچہ نہیں.اگر مریم کی طرح میرے گھر میں بھی بچہ ہوتا اور میں اس سے پوچھتا کہ یہ چیز تمہیں کس نے دی ہے اور وہ کہتا کہ خدا نے تو جس طرح مریم کی بات سن کر میرا دل خوش ہوا ہے اسی طرح اپنے بچہ کی بات سن کر میرا دل خوش ہوتا.پس حضرت مریم علیہا السلام حضرت یحییٰ کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرانے کا ایک محرک ہو گئیں اور اس طرح بالواسطہ طور پر جہاں خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت مسیح کے ارہاص کے طور پر آئے وہاں حضرت مریم علیہا السلام جو حضرت مسیح کی والدہ تھیں حضرت یحییٰ کی پیدائش کے لئے ارہاص بن گئیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعا سنی اور ان کے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا یہاں خالی یہ نہیں فرمایا ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ زَكَرِيَّا بلکہ عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا فرمایا ہے اس میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا ایک بہت بڑی حکمت ہے اور قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ ہر لفظ ایسے موقع پر استعمال کرتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے کوئی لفظ
چصفت رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہیں اور مومن اور کافر سب کو ملتی ہیں اور ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو خاص طو رپر اعلیٰ درجہ کے کارکنوں کو ملتی ہیں.جو جزاء کے طور پر ہوتی ہیں اور صفت رحیمیت کے ماتحت نازل ہوتی ہیں.رَحْمَتُ رَبِّکَ میں صرف رحمت کا ذکر تھا.یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ یہ رحمانیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے یا رحیمیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے.عَبْدَہٗ نے بتا دیا کہ یہ رحیمیت والی رحمت ہے وہ رحمت مراد ہے جو کسی کام کے نتیجہ میں نازل ہوتی ہے ایسے احسان کا ذکر نہیں جو بغیر خدمت اور کوشش کے صرف رحمانیت کے نتیجہ میں کیا جاتا ہے.اگر صرف زکریا کہا جاتا تو یہ سارا مضمون غائب ہو جاتا لیکن عَبْدَهٗ زَكَرِيَّا کہہ کر بتایا کہ ہم نے زکریا پر جو رحمت نازل کی وہ عام رحمت نہیں تھی بلکہ خود زکریا بھی بہت نیک تھے اور انہوں نے بڑی بڑی خدمات کی تھیں.یہ سارا مضمون صرف و نحو کے چند اشاروں میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیا ہے.اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق نہیں ہوتا اور ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق ہوتا ہے مگر رحمت کی صفت بھیآپ ہی آپ ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے بھی بعض ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس رحمت کو ابھارنے والی ہوں چنانچہ کبھی مشکلات کبھی دشمنوں کے مظالم اور کبھی اپنی بے کسی اور بے بسی انسانی قلب میں دعا کا ایک غیر معمولی جوش پیدا کر دیتی ہے اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو جاتی ہے.گویا صفات الٰہیہ کا ظہور بعض خاص خاص محرکات کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اس جگہ اس رحمت کے نزول کی کیا وجہ ہوئی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں کیا ہے کہ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِيًّا یعنی حضرت زکریا کے پکارنے کی وجہ سے وہ رحمت آئی جو خالص خدمت گاروں کے لئے آیا کرتی ہے.جیسا کہ اوپر بتا یا جا چکا ہے نَادٰی کے کئی معنے ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنے بلند آواز سے پکارنے کے بھی ہیں مگر وہ معنے یہاں چسپاں نہیںہو سکتے.کیونکہ اگر وہ معنے لئے جائیں تو پھر خَفِیًّا کے کوئی معنے نہیں بنتے.پس یہاں لازماً کوئی اور معنے لینے پڑیں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ اس نے مخفی آواز میں اپنے دل کا بھید اس پر ظاہر کیا.دنیا میں دو طرح کی دعائیں ہواکرتی ہیں.ایک تو وہ دعا ہوتی ہے جس میں انسان دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے اور اس غرض کے لئے وہ بلند آواز سے دعائیہ کلمات کو دہراتا چلا جاتا ہے اور ایک دعا ایسی ہوتی ہے جو انسان علیحدگی میں کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی اس کے ساتھ شامل ہو جب ایسی دعا ہوتی ہے تو اس کا اصل مقام اخفاء ہوتا ہے.یعنی آہستہ آہستہ دعا کرنا.تاکہ دوسروں کے کانوں میں آواز نہ پڑے.مثلاً اگر اس میں اضطراب اور اضطرار ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے لوگوں کے سامنے تضرع سے دعا کی تو میری آواز نکلے گی جس
کو میں پسند نہیں کرتا تووہ علیحدگی میں دعا کرتا ہے تاکہ اس کے اضطراب اور اضطرار پر کوئی دوسرا مطلع نہ ہو.یہاں حضرت زکریا کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِيًّا حضرت زکریا نے آہستہ آواز میں دعا کی یعنی وہ اس دعا میں دوسروں کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے تھے.کیوں نہیں کرتے تھے؟ اس کا ہمیں سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے اور یہاں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کو الٰہی ارشادات سے یہ معلوم ہو کہ اب خدا تعالیٰ کا فیضان کسی اور طرف منتقل ہونے والا ہے تو چاہے وہ خود اللہ تعالیٰ کے انوار کا حامل ہو.اس کے دل کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہاتھ سے وہ نور ختم ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ خواہ ایک منزل پرے ہٹ کر نور ختم ہو بہرحال میں وہ آخری چراغ نہ بنوں جس پر آسمانی نور کا خاتمہ ہو.سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے کہ مریم کی حالت دیکھ کرحضرت زکریا ؑ کو یہ شبہ پڑ گیا تھا کہ آنے والا اسرائیلی موعود مریم کے بطن سے پیدا ہونے والا ہے کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایسے اشارے ہوئے کہ مریم کا خیال رکھو ادھر مریم نے چھوٹی عمر میں ایسی باتیںشروع کر دیں جو ان کی نیکی اور تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار پر دلالت کرتی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لئے اپنے نشانات دکھانے شروع کر دئیے اور لوگوں کے دلوں میں ان کے تقویٰ اور ان کی بزرگی کا احساس پیدا کر دیا.چنانچہ کوئی کھانا لا رہا ہوتا ، کوئی پھل پیش کر رہا ہوتا اور کوئی اور چیز تحفتہً لا کر دے رہا ہوتا.ادھر انہوں نے مریم کو دیکھا کہ اس کے دل میں کوئی دنیوی رغبت نہیں.بچہ ہونے کے باوجود وہ محسوس کرتی تھیں کہ یہ نعمتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں اور اسی کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہیں.حضرت زکریا نے ان تمام باتوں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ وہ موعود جس پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ مقدر ہے.مریم کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے ادھر ملا کی نبی اور بعض دوسرے انبیاء کی پیشگوئیاں ان کے سامنے تھیں جو بتا رہی تھیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ اب ختم ہونے والا ہے.پس حضرت زکریا نے اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا فیضان اب ختم ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ان آیات میں ذکر آتا ہے اور کہا کہ اے میرے رب میرے دل میں دیر سے یہ خواہش پائی جاتی تھی مگر آج مریم کی بات سن کر میرا دل بےقرار ہو گیا ہے اور میں اپنے دل کا راز تجھ پر ظاہر کرنے کے لئے مجبور ہو گیا ہوں پس یہاں نَادٰی کے وہ معنے نہیں جو شور مچانے کے ہیں بلکہنَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِيًّا کے یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا سے وہ راز سربستہ بیان کیا جو اس نے اپنے دل میں چھپایا ہوا تھااور خدا تعالیٰ سے مانگتا نہیں تھا مریم کی بات سن کر اس کے دل میں جوش پیدا ہوا اور اس نے اپنے رب سے اپنے درد کا اظہار کر دیا.بیشک خدا تعالیٰ کے لئے کوئی چیز راز نہیں مگر جب تک کوئی دعا مانگی نہیں جائے گی اصطلاحاً اسے ایک راز
ہی سمجھا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اسی رنگ میں ایک جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ـ وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے حقیقت یہی ہے کہ کئی خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بندہ ایک مدت تک چھپائے رکھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ سے کیا مانگنا ہے لیکن کسی وقت محرک ایسا پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دل کا راز سربستہ خدا تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے نِدَآءً خَفِيًّا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ خدایا یہ میرے دل کا ایک راز تھا.میری پہلے سے یہی خواہش تھی کہ مجھے بیٹا ملے مگر اب مریم کی بات میں نے سنی ہے تو اس خواہش کو دل میں چھپائے رکھنے کی طاقت نہیں رہی.قَالَ رَبِّ اِنِّيْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ (اور) کہا اے میرے رب (میری حالت تو یقیناً ایسی ہے کہ ) میری تمام ہڈیاں تک کمزور ہو گئی ہیں اور (میرا) سر شَيْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا۰۰۵ بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے اور اے میرے رب میں (کبھی بھی ) تجھ سے دعائیں مانگنے کی وجہ سے ناکام (ونامراد ) نہیں رہا.حل لغات.اَلْوَھْنُ اَلْوَھْنُکے معنے ہیں ضَعْفٌ مِنْ حَیْثُ الْخَلْقِ اَوِ الْخُلُقِ (مفردات) یعنی خواہ پیدائش کے لحاظ سے کمزوری ہو یا اخلاق کے لحاظ سے کمزوری ہو اسے وھن کہتے ہیں پس وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْکے معنے ہوں گے کہ میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں.تفسیر.حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے رب میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں.قاعدہ یہ ہے کہ بڑھاپے میں ہڈیاں BRITTLE ہو جاتی ہیں یعنی ایسی نازک ہو جاتی ہیں کہ ذرا سی ٹھوکر سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا جڑنا مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے جو ان کی ہڈی تو جلدی جڑ جاتی ہے لیکن بوڑھے آدمی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ آسانی سے نہیں جڑتی.پس رَبِّ اِنِّيْ وَهَنَ الْعَظْمُ کے یہ معنے ہوئے کہ
میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرا ضعف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب مجھ میں تاب مقاومت باقی نہیں رہی.وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا.اور میرا سر بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے.بال جب سفید ہو تے ہیں تو یکدم سفید نہیں ہوتے بلکہ پہلے بالوں کا رنگ اڑتا ہے اور وہ سیاہی سے زرد ی مائل ہو جاتے ہیں پھر ان میں سفیدی آتی ہے مگر وہ اتنی تیز اور نمایاں نہیں ہوتی.صرف ہلکی ہلکی سفیدی ہوتی ہے.لیکن جب بڑھاپا غالب آ جائے تو سر کے بال بہت زیادہ سفید ہو جاتے ہیں.اسی کیفیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے کہ میرا سر تو اب بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے.وَ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا.اور اے میرے رب میں تیری دعا کے ساتھ کبھی شقی نہیں ہوا.اس کے ایک معنے یہ ہیں بِدُعَا ئِیْ اِیَّاکَ یعنی تجھے پکارنے کی وجہ سے یا ان دعائوں کی وجہ سے جو میں تجھ سے مانگا کرتا ہوں میں کبھی شقی نہیں ہوا.دوسرے معنے حضرت زکریا کے لحاظ سے ایک اور بھی ہوسکتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت زکریا چونکہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے اس لئے بِدُعَآىِٕكَ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بِدُعَآىِٕكَ اِیَّایَ یعنی اے خدا جب تو نے مجھے پکارا اور مجھے اپنا نبی بنایا تو تیرا مقرب اور ہمکلام ہونے کی وجہ سے میں کسی بات میں بھی شقی نہیں ہوا.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مجھے اپنے کسی مقصد میں ناکامی ہوئی ہو اور شقاوت میرے حصہ میں آئی ہو.شقاوت سعادت کی ضد ہے اور سعادت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایسی مدد انسان کے شامل حال ہونا جس سے اسے خیر حاصل ہو جائے اور شقاوت کے معنے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی مدد کا میسر نہ آنا جس کی وجہ سے اسے مخصوص خیر حاصل نہ ہو.ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے دونوں مطلب لئے جا سکتے ہیں.یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تیرے حضور دعا کرنے کی وجہ سے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اس لئے تیرے مخصوص کر لینے کی وجہ سے اور تیرے انعامات کی وجہ سے میں نے یہ برکت پائی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہو اکہ مشکلات میں مجھے ناکامی ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ مجھے کامیابی ہوئی ہے اور میں نے اپنے مقصد کو حاصل کیا ہے.
وَ اِنِّيْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَآءِيْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا اور میں یقیناً اپنے رشتہ داروں سے اپنے (مرنے کے )بعد (کے سلوک) سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے.فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّاۙ۰۰۶يَّرِثُنِيْ وَ يَرِثُ مِنْ اٰلِ پس تو اپنے پاس سے ایک دوست (یعنی بیٹا) عطا فرما.جو میرابھی وارث ہو اور آل یعقوب (سے جو دین و تقویٰ ہم يَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا۰۰۷ کو ورثہ میں ملا ہے اس) کا بھی وارث ہو اور اے میرے رب اس کو (اپنا )پسندیدہ (وجود )بنائیو.حل لغات.موالی مَوَالِی مَوْلٰی کی جمع ہے اور اس کے بہت سے معنے ہیں چنانچہ مَوْلیٰ کے ایک معنے دوست کے بھی ہوتے ہیں اور مَوْلٰی کے معنے اِبْنُ الْعَمِّ یعنی چچا زاد بھائی کے بھی ہیں جنہیں پنجابی میں ’’ شریکے والے‘‘ کہتے ہیں (اقرب) اس جگہ موالی سے مراد شریک ہی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ میں اپنے شریکوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ نہ معلوم میرے بعد کیسا معاملہ کریںگے.عاقر عَاقِرٌ اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو.اصل میں عَقَرَ کے معنے زخمی کر دینے کے ہیں.چنانچہ عَقَرَ النَّخْلَۃَ کے معنے ہوتے ہیں.قَطَعَ رَاْسَھَا کُلَّہٗ مَعَ الْجُمَّارِ فَیَبَسَتْ یعنی اس نے کھجور کے درخت کا اوپر کا حصہ اس قدر کاٹ دیا کہ وہ سوکھ گیا اور اس میں پھل لگنا بند ہو گیا.(اقرب) جس مرد یا عورت کی اولاد نہ ہو چونکہ وہ بھی اپنے خاندان کو زخمی کر دیتا اور اسے مار دیتا ہے اس لئے بے نسلی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے اصل معنے کاٹ دینے اور زخمی کر دینے کے ہی ہیں.عقر کا لفظ عورت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے او رمرد کے لئے بھی.الولی.اَلْوَلِیُّ کے معنے ہیں المُحِبُّ وَ الصَّدِّیْقُ محب اور دوست نیز اس کے معنے ہیں النَّصِیْرُ.مددگار.وَقَالَ ابْنُ فَارِسٍ وَ کُلُّ مَنْ وَلِیَ أَمْرَ اَحَدٍفَھُوَ وَلِیُّہ جو شخص کسی کے امور کو سنبھالنے والا ہو وہ اس کا ولی کہلاتا ہے.نیز ولی کے معنے حَافِظُ النَّسَبِ کے بھی ہیں یعنی نسب کا محافظ (اقرب) مفردات میںہے فَھَبْ لِی مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا اَیْ اِبْنًایَکُوْنُ مِنْ اُوْلِیَائِکَ یعنی ایسا بیٹا عطا کر جو تیرے
مقربین میں سے ہو.تفسیر.اس دعا میں حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی ضرورت حقہ کا اظہار کیا ہے وہ کوئی دولت مند نہیں تھے کہ انہیں اپنے بعد اپنی دولت کا فکر ہوتا وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے پس ان کا خوف دولت کے جانے کا نہیں تھا بلکہ تعلیم کے مفقود ہونے کا تھا.حضرت زکریا علیہ السلام پر وہت فیملی میں سے تھے اور ان کے رشتہ دار بھی پروہت تھے جو بیت المقدس اور دوسری عبادت گاہوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے(لوقا باب ۱ ٓیت ۵).حضرت زکریا علیہ السلام ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الہٰی ان میں ایسی دنیا داری آچکی ہے کہ ان کا کوئی قدم یہودیت اور مذہب کو بچانے کے لئے نہیں اٹھتا.معلوم ہوتا ہے مسلمان پیروں کی طرح یہود میں بھی بزرگی وراثت بن گئی تھی اور گدیاں قائم ہو گئی تھیں جیسے مسلمانوں میں پیر مر جائے تو اس کے بیٹے کو پیر بنا لیا جاتا ہے چاہے وہ کیسا ہی بے دین ہو.اسی طرح وہاں بیٹا موجود ہوتا تو بیٹا گدی سنبھال لیتا.بیٹا نہ ہوتا تو چچا کا بیٹا گدی پر بیٹھ جاتا.گویا ان کی حالت مسلمان پیروں جیسی ہو گئی تھی.جو کہلاتے تو پیر ہیں مگر عملی لحاظ سے و ہ دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سید پیر صاحب کا لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ وہ ایک دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر ہرن کے شکار کے لئے گئے.شکار کرنا منع نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گو خود شکار نہیں کیا مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ شکار کروایا کرتے تھے چنانچہ ایک غزوہ میں آپ نے سعد بن ابی وقاص کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہر ن جا رہا ہے اسے تیر مارو.جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے.تو شکار بری چیز نہیں.اس میں جو لطیفہ ہے وہ آگے آتا ہے بہرحال پیر صاحب نے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا.ہرن بہت مضبوط تھا اس نے بھاگنا شروع کیا اور کئی میل تک بھاگتا چلا گیا.اس زمانہ میں بندوقیں نہیں تھیں.تیر یا نیزہ سے شکار کرتے تھے.پیر صاحب بھی ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑاتے چلے گئے اور آخر اسے زخمی کر کے گرا لیا.جب وہ نیچے اترے اور ہرن کو ذبح کرنے لگے تو بجائے اس کے کہ وہ تکبیر کہہ کر اسے ذبح کرتے انہیں اتنا غصہ چڑھا ہوا تھا کہ چھری پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ ’’ ارے سؤر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے ارے سؤ ر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے‘‘گویا غصہ یہ تھا کہ وہ بھا گا کیوں.حالانکہ انسان ہو یا جانور جسے بھی اپنی جان کا خوف ہوگا بھاگے گا.غرض یہودیوں میں بھی مسلمانوں کی طرح یہ رواج تھا کہ جب خاندان میں ایک دفعہ کوئی بزرگ ہو جاتا تو اس کی اولاد اس کی گدی سنبھال لیتی تھی خواہ وہ کیسی ہی نالائق ہوتی.حضرت زکریا علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ اِنِّيْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَآءِيْ.خدایا میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے بھی ڈرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر دین کی خدمت کا کوئی احساس نہیں.وَ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا.اور پھر میری بیوی بھی بانجھ ہے اگر میں جوان ہوتا یا میری بیوی جوان ہوتی تو ہو سکتا تھا کہ میرے ہاں کوئی اولاد پیدا ہو جاتی.کیونکہ بوڑھے مرد سے بھی جوان عورت کو بچے پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح بعض دفعہ ادھیڑ عمر والی عورت اگر کسی جوان مرد سے شادی کر لے تو اس کے ہاں بھی بچے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں مگر فرماتے ہیں دنیا میں بچے پیدا ہونے کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ نہ میرے اندر پائے جاتے ہیں اور نہ میری بیوی کے اندر پائے جاتے ہیں.فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا پس اے خدا تو مجھے اپنے پاس سے ایک ایسا شخص عطا فرما جو ہمارے خاندان کی اولادوں کا حافظ ہو اور ان کو دین پر قائم کرے.يَرِثُنِيْ وَ يَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ جو میرابھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو.یعنی جو میرے اندر قوم کی خدمت اور دین کی اشاعت کے لئے نیک جذبات پائے جاتے ہیں وہ بھی اس میں پائے جائیں اور اسی طرح بنی اسرائیل میں جو نیکیوں کا ورثہ چلا آتا ہے اور موسیٰ اور ہارون اور دائود اور سلیمان اور دوسرے انبیاء سے انہوں نے جو جو خوبیاں حاصل کی ہیں وہ سب کی سب اس میں پائی جائیں.وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا.اور اے میرے رب تو اس کو دنیا میں ایک پسندیدہ وجود بنا دے.دیکھو یہ کیسی لطیف دعا ہے اور کس طرح دعا کے چاروں کونے اس میں پورے کر دئیے گئے ہیں.اس دعا کو اگر ہم اپنے الفاظ میں بیان کریں تو اس کی یہ صورت ہو گی کہ ’’ اے میرے خدا میرےاندرونی قویٰ مضحل ہو گئے ہیں.میرا بیرونی چہرہ مسخ ہو گیا ہے.میں ہمیشہ سے ہی تیرے الطاف خسروانہ کا عادی ہوں.اس لئے مایوسیاں اور ناکامیاں میں نے کبھی دیکھی نہیں.ناز کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہو چکی ہے.رشتہ دار میرے برے اور موت کے بعد گدی سنبھالنے کے منتظربیوی میری بیکار.ان سب وجوہ کے ساتھ میں مانگنے آیا ہوں اور کیا مانگنے آیا ہوں یہ مانگنے آیا ہوں کہ اے میرے خدا تو مجھے بیٹا دے.ایسا بیٹا دے.جو میرا ہم خیال اور دوست ہو ایسا بیٹا دےجو میرے بعد تک زندہ رہنے والا اور میرے خاندان کو سنبھالنے والا ہو اور ایسا بیٹا دے جو میرے اخلاق اور آل یعقوب کے اخلاق کو پیش کرنے والا ہو گویا صرف میرے نام کو ہی زندہ نہ کرے بلکہ اپنے دادوں پر دادوں کے نام کو بھی زندہ کردے اور پھر وہ انسانوں ہی کے لئے باعث خوشی نہ ہو.بلکہ اے میرے رب وہ تیرے لئے بھی باعث خوشی ہو.‘‘
سبحان اللہ کیسی لطیف دعا ہے کہ اندر میرا خراب ہو چکا ہے باہر میرا خراب ہو چکا ہے بیوی میری بیکار ہو چکی ہے رشتہ دار میرے خراب ہو چکے ہیں اور میں مانگتا یہ ہوں کہ تو مجھے بیٹا دے مگر اس بڑھاپے میں بھی میںناقص بیٹا نہیں مانگتا بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے وہ بیٹا دے جو میرے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اپنے باپ دادوں کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور پھر وہ میرا ہی پسندیدہ نہ ہو بلکہ تیرا بھی پسندیدہ اور محبوب ہو.یہ دعا ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام نے کی.بے شک وہ پیشگوئیوں کی بنا پر جانتے تھے کہ نبوت کا نور اب بنی اسرائیل سے چھینا جانے والا ہے.مگر پھر بھی انسان خیال کرتا ہے کہ شاید کوئی ایسا ذریعہ نکل آئے جس سے قوم بچ جائے اور وہ ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں نہ گرے.پس حضرت زکریا علیہ السلام نے یحییٰ کے لئے اس لئے دعا کی وہ جانتے تھے کہ اب ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس پر بنی اسرائیل کی نبوت ختم ہو جائے گی.سو انہوں نے چاہا کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے جس کے نتیجہ میں آنے والے موعود کو قوم مان لے اور اس کی امداد اور نصرت کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے اور خدا تعالیٰ کا نور کچھ دنوں کے لئے اور ہماری قوم میں باقی رہ جائے.چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا انجیل سے جو حال معلوم ہوتا ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی آمد کی بڑی غرض یہی تھی کہ قوم کو حضرت مسیح ؑ پر ایمان لانے کے لئے تیار کریں.انجیل میں لکھا ہے حضرت یحییٰ ؑ نے لوگوں سے کہا ’’ میں تو تم کو توبہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے (یعنی مسیح ) وہ مجھ سے زور آور ہے میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا.‘‘ ( متی باب ۳ آیت ۱۱) بہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سارا زور اس بات پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ خود مقصود نہیں بلکہ مسیح کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور حضرت زکریا علیہ السلام نے جو دعا مانگی وہ بھی اسی لئے مانگی تھی کہ ان کا بیٹا آنے والے اسرائیلی موعود کے لئے رستہ صاف کرے شاید وہ اپنی کوشش اور جدوجہد سے بنی اسرائیل کو آنے والے مسیح کی طرف متوجہ کر سکے اور اس طرح قوم پر جو عذاب آنے والا ہے وہ ٹل جائے یہ چیز ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے سامنے تھی.اب اس پس منظر کے سامنے ساری عیسائیت کو رکھ لو اس کی کوئی حقیقت بھی باقی نہیں رہتی عیسائیت اپنے آپ کو بنیاد قرار دیتی ہے اور یہ پس منظر بتاتا ہے کہ وہ عمارت کی آخری اینٹ تھی کسی نئے مذہب اور نئے اصول کی تعلیم اس کا مقصد نہیں تھا بلکہ ایک لمبے عرصہ سے جو نبوت اور وحی و الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل میں جاری تھا اس کے خاتمہ کا اس ذریعہ سے اعلان کیا گیا تھا.گویا مسیحیت کوئی بنیادی چیز نہیں بلکہ خاتمہ کی اینٹ ہے حضرت زکریا کی
کوشش یہ تھی کہ یہ نور کچھ اور دیر قائم رہے اور انہیں ایک ایسا بیٹا ملے جو اس بات کے لئے اپنا پور ا زور صرف کر دے کہ بنی اسرائیل مسیح کے منکر نہ ہوں.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن کر حضرت یحییٰ کو بھیج دیا اور اس نے اپنا سارا زور بھی لگا لیا مگر پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر ہی پوری ہوئی اور وہی کچھ ہوا جس کا وہ فیصلہ کر چکا تھا.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں جب فرشتے ان کے پاس لوط کی بستی کی ہلاکت کی خبر لے کر آئے یا انسان آئے جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط کی قوم کو تباہ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس خبر کو سن کر انہیں درد پہنچا اور انہوں نے دعا کرنی شروع کی کہ یا اللہ اس قوم پر سے عذاب ٹل جائے دعا کرتے کرتے ان کے دل میں جوش پید اہو گیا اور انہوں نے کہا خدایا! ’’ کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا شاید اس شہر میں پچاس راستباز ہوں کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس راستبازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گاایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں ‘‘ اللہ تعالیٰ نے کہا اے ابراہیم ! ’’ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راستباز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا‘‘ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے اس میں پچاس بھی نیک آدمی نہیں ہیں اور انہوں نے کہا اچھا ’’ اگرچہ میں خاک اور راکھ ہوں شاید پچاس راستبازوں میں پانچ کم ہوں کیا ان پانچ کی کمی کے سبب سے تو تمام شہر کو نیست کرے گا اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا.پھر اس نے اس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں.تب اس نے کہا کہ میں ان چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروں گا.پھراس نے کہا.خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں.شاید وہاں تیس ملیں.اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی ایسا نہیں کروں گا.پھر اس نے کہا.دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی شاید وہاں بیس ملیں.اس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا.تب اس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں.شاید وہاں دس ملیں.اس نے کہا.میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا.‘‘ (پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲)
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش ہو گئے.اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ بستی ضرور تباہ ہو کر رہے گی.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خوش کر دیا اور اپنی تقدیر بھی پوری کر دی.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب یہ دعا کر رہے ہوں گے تو وہ اپنے دل میں کتنے خوش ہوں گے اور انہوں نے اسے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان سمجھا ہو گا کہ خدا تعالیٰ ایک بستی کو بتاہ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے مگر ان کی دعا اور التجا پر وہ کہتا ہے کہ اچھا میں نے تمہاری بات مان لی اگر اس میں پچاس مومن ہوئے تو میں اس بستی کو کبھی ہلاک نہیں کروں گا.پھر وہ پینتالیس پر آئے تو خدا تعالیٰ نے یہ بات بھی مان لی پھر چالیس پر آئے تو یہ بات بھی مان لی.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے دس پر بات آ گئی مگر اس کے بعد خود بخود ان کی زبان بند ہو گئی اور انہوں نے خیال کیا کہ اب میں ا س سے زیادہ خدا تعالیٰ کو اور کیا کہوں.میری تو اب زبان ہی نہیں چلتی.اسی طرح حضرت زکریا کے دل میں جب اس بات سے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ قوم تباہ ہونے والی ہے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ میں تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں کہ اس بوجھ کے اٹھانے کی اب مجھ میں ہمت ہی نہیں رہی اگر خدا تعالیٰ مجھے کو ئی بیٹا دے اور ایسا بیٹا دے جو نبی ہو اور وہ آنے والے اسرائیلی موعود کا راستہ صاف کرے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی تحریک کرے تو ممکن ہے یہ عذاب ہماری قوم پر سے ٹل جائے اور خدا تعالیٰ کا نور اس میں کچھ اور مدت تک باقی رہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.بہت اچھا ہم تجھے بیٹا دیں گے اور اسے نبی بھی بنا دیںگے مگر پھر بھی ہماری تقدیر ہی پوری ہو گی یہودی قوم پھر بھی ایمان نہیں لائے گی بلکہ خود تمہارا بیٹا انہی لوگوں کے ہاتھ سے قید خانہ میں قتل کیا جائے گا.يٰزَكَرِيَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ا۟سْمُهٗ يَحْيٰى ١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ (اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا) اے زکریا.ہم تجھے ایک لڑکے کی خبر دیتے ہیں (جو جوانی کی عمر تک پہنچے گا اور) اس کا مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا۰۰۸ نام (خدا کی طرف سے ) یحیی ہوگا ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا.حل لغات.غُلَامٌ غلام کا لفظ تین مختلف عمروں والوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی پیدائش سے لے کر جوانی تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں.جوانی سے لے کر کہولت تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں اور کہولت سے لے کر بڑھاپے تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں (اقرب).گویا زندگی کے چاردوروں بچپن، جوانی ،
ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں سے بڑھاپے کو چھوڑ کر باقی تینوں زمانوں کے لئے غلام کا لفظ بولا جاتا ہے.سَمِیٌّ سَمِیٌّ کے معنے ہم نام کے بھی ہوتے ہیں.اورسَمِیٌّ کے معنے نظیر اور مثل کے بھی ہوتے ہیں.(اقرب) تفسیر.دعا مانگنے والا خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ انسان زکریا تھا جس نے اللہ تعالیٰ سے ایک کامل دعا مانگی.اب دوسرے کامل کی قبولیت کو دیکھو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سنو اے زکریا! ہم تمہیں ایک بچہ کی بشارت دیتے ہیں جو ادھیڑ عمر تک پہنچے گا مگر بڑھاپا نہیں دیکھے گا.اسْمُهٗ يَحْيٰى اور اس کا نام یحییٰ ہوگا.یہ بات ظاہر ہے کہ پیدائش سے پہلے نام نہیں رکھا جاتا بلکہ پیدائش کے بعد نام رکھا جاتا ہے.پس اسْمُهٗ يَحْيٰى کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ پیدا ہو تو تم اس کا نام یحییٰ رکھنا.یہ مطلب نہیں کہ بچہ پیدا ہوتے ہی کہنا شروع کر دے گا کہ میرا نام یحییٰ ہے.یحییٰ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں تو ان کا نام یحییٰ آتا ہے لیکن اردو بائبل میں یحییٰ کی بجائے یوحنا نا م لکھا ہے.عبرانی اور یونانی زبان میں انہیں JOHN اور JHANAN بھی کہتے ہیں انگریزی بائبلوں میں ان کا نام JOHNلکھا ہے.عبرانی کے متعلق تو مجھے معلوم نہیں کہ یوحنا کے کیا معنے ہیں لیکن عربی میں یہ بامعنی لفظ ہے اور یحییٰ کے معنے ہیں وہ شخص جو زندہ رہتا ہے پس اسْمُهٗ يَحْيٰى میںاس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا تم اس کا نام یحییٰ رکھنا یا اس کی صفت یحییٰ ہوگی اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوگا.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ شہداء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں.اس لحاظ سے یحییٰ نام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگا اور ایسے اعلیٰ درجہ کا روحانی مقام رکھے گا.کہ دنیا میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا چنانچہ یہ واضح بات ہے کہ مسیح جیسا نبی کبھی مر نہیں سکتا اور جب مسیح مر نہیں سکتا تو جس کی نبوت مسیح سے وابستہ ہے وہ بھی کبھی مر نہیں سکتا.مسیح اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ ایک نہ مرنے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارہاص تھا اور یوحنا اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ مسیح کا ارہاص تھا.جو خود ایک نہ مرنے والے نبی کا ارہاص تھا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزارا نبیاء گزرے ہیں.(مسند احمد بن حنبل بروایت ابی عمامہ الباھلی)مگر ہمیں تو سو نبیوں کا بھی علم نہیں باقی سب مر گئے ہیں پس نبی کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے بعض زندہ رہتے ہیں اور بعض مر جاتے ہیں.حضرت یحییٰ ؑان نبیوں میں سے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گئے ہیں کیونکہ ان کی نبوت مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ تھی اور مسیح ؑ اس لئے نہیں مر سکتے کہ ان کی نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ تھی جو ہمیشہ کےلئے زندہ رہنے والے نبی ہیں.لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا.سَمِیٌّ کے معنے ہوتے ہیں اسی قسم کا نام رکھنے والا یعنی ہم اسم.اور سَمِیٌّ کے معنے
مثل کے بھی ہوتے ہیں.مفسرین غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ سَمِیٌّ ہم اسم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا(بحر محیط زیر آیت یا زکریا).حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.خود بائبل میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کا نام یوحنا تھا.چنانچہ۲.سلاطین باب ۲۵آیت ۲۳میں یہودیوں کے ایک سردار کا نام یوحناہ لکھا ہے.اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک پڑپوتے کا نام یوحنا تھا.دیکھو۱.تواریخ باب ۳آیت ۱۵.اسی طرح عزرا نبی کے ساتھ جو لوگ ایران سے یروشلم بنانے کے لئے آئے ان میں سے ایک شخص کا نام یوحنا تھا (عزرا باب ۸ آیت ۱۲) پس مفسرین کا یہ خیال کہ اس نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گذرا یہ واقعات کے خلاف ہے.عیسائیوں کو ایسی بات خدا دے.انہوں نے سمیًا کے معنے مفسرین کے بیان کے مطابق یہ سمجھ لئے کہ اس کا ہم نام کوئی نہیں.اور پھر بائبل سے یوحنا کے ہم نام بتانے لگے گئے.اور پھر اس اعتراض کو مزید پختہ کرنے کے لئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ کسی سے بائبل کی تھوڑی سی باتیں سنی ہوئی تھیں ان سے دھوکاکھا کر آپ نے یہ خیال کر لیا کہ یحییٰ نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گزرا (تفسیر وہیری).چنانچہ اس کے لئے وہ یہ حوالہ بیان کرتے ہیں کہ انجیل میں لکھا ہے جب حضرت زکریا کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو چونکہ وہ اس سے پہلے گونگے ہو چکے تھے اس لئے آٹھویں دن ان کے رشتہ دار لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اور انہوں نے نے تجویز کیا کہ اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھا جائے.مگر اس کی ماں نے کہا نہیں اس کا نام یوحنا رکھا جائے.اس پر انہوں نے اس سے کہا کہ.’’ تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں.‘‘(لوقا باب۱ آیت ۶۱) یعنی تیرے خاندان میں چونکہ پہلے یہ کسی کا نام نہیں.اس لئے ہم یہ نام نہیں رکھتے.اس کے بعد لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت زکریا کو اشارہ کیا کہ تو اس کا کیانام رکھنا چاہتا ہے.انہوں نے تختی منگوا کر اس پر لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے اور اسی وقت ان کی زبان کھل گئی.اور وہ بولنے لگے گئے.وہ کہتے ہیں کہ انجیل میں یہ جو فقرہ آتا ہے کہ ’’تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں.‘‘ معلوم ہوتا ہے یہ فقرہ کسی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سنایا مگر انہیں پوری طرح یاد نہ رہا اور بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ یوحنا نام زکریا کے خاندان میں سے کسی کا نہیں تھا.انہوں نے قرآن میں یہ لکھوا دیا کہ اس سے پہلے
یہ نام دنیا میں کسی شخص کا نہیں تھا.حالانکہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیاکہ اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں تھا.قرآن کے الفاظ بالکل واضح ہیں.مفسرین کی غلطی ان کے ساتھ ہے.قرآن کریم تو یہ کہتا ہی نہیں کہ ان کا ہم نام کوئی نہیں تھا.قرآن کریمہ کہتا کہ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا.ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا سمی نہیں بنایا.اب بتائو کہ بچوںکا نام ان کے نام باپ رکھا کرتے ہیں یا خدا رکھا کرتا ہے؟ عیسائیوں میںدیکھ لو.ہندوئوں میں دیکھ لو.مسلمانوں میں دیکھ لو.کون نام رکھا کرتا ہے.ہر شخص جانتا ہے.کہ ماں باپ بچوں کے نام رکھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا ہم نے اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں رکھا.اب فرض کرو یوحنا دنیا میں دس کروڑ بھی ثابت ہو جائیں.تب بھی کیا حرج ہے.کیونکہ سوال یہ نہیں کہ یوحنا نام پہلے تھا یا نہیں.بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے کسی اور کا نام خود خدا تعالیٰ نے یوحنا رکھا تھا؟ بے شک دس کروڑ چھوڑ دس ارب یوحنا ثابت ہو جائیں ان کا نام خدا نے یوحنا نہیں رکھا تھا بلکہ ان کے ماں باپ نے رکھا تھا.اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ نام پہلے کسی کا نہیں رکھا.اگر ایک نام دس کروڑ دفعہ بھی ماں باپ رکھیں تب بھی خدا اگر پہلی دفعہ کسی کا وہ نام رکھے گا تو وہ تو یہی کہے گا کہ میں نے یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا.ہمارے ملک میں لاکھوں محمدہوں گے.لاکھوں عبداللہ ہوں گے.لاکھوں عبدالرحمٰن ہوں گے.لاکھوں عبدالرحیم ہوں گے مگر ان کے نام ماں باپ نے رکھے ہیں.اگر کل کسی کو الہام ہو کہ تو اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمٰن رکھ اور یہ وہ نام ہے جو ہم نے اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا اور پھر وہ اس کا نام عبدالرحمٰن رکھ دے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے عبدالرحمٰن تو اس سے پہلے لاکھوں ہوں خدا نے ا سے پہلے اور کسی کا نام عبدالرحمٰن نہیں رکھا.وہ نام ان کے ماں باپ نے رکھے ہیں.اسی طرح اگر تو خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہوتا کہ یوحنا کا ہم نام کوئی نہیں ہو گا تب تو اعتراض ہو سکتا تھا.لیکن قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ہم نے اور کسی کو یہ نام نہیں دیا.اور یہ ٹھیک بات ہے کہ جتنے نام بتائے جاتے ہیں وہ سب ایسے ہیں جو ماں باپ نے رکھے تھے اور یہاں اس کا نام ذکر ہے جو خدا تعالیٰ نے رکھا.اس لئے اعتراض کی کوئی بات نہیں.دوسرے عربی زبان میں سمیا کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں پسلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی مثل نہیں بنایا.گویا اس میں ان کے بے مثل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اب سوال ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بے مثل کس طرح ہو گئے.کیاموسیٰ ؑاس جیسا نہیں تھا؟ ہم کہتے ہیں بے مثل ہونا بھی اپنے اپنے دائرہ میں ہوتا ہے.مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص گھوڑے کا بے مثل سوار ہے.فلاں بے مثل کاتب ہے.فلاں بے مثل انگریز ہے.اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ جو گھوڑے کی سواری میں
بے مثل ہے وہ بے مثل کاتب بھی ہے یا بے مثل رنگساز بھی ہے یا بے مثل تفسیر لکھنے والا بھی ہے.جو شخص بے مثل کہلاتا ہے وہ اپنی کسی خاص خوبی میں بے مثل کہلاتا ہے.یہ مراد نہیں ہوتی کہ سارے جہان کی خوبیاں اور کمالات اس میں پائے جاتے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ یحییٰ کس بات میں بات میں بے مثل تھے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ وہ پہلے نبی ہیں جن کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ الیاس کا نام پا کر آئے ہیں گویا ارہاص والے نبیوں میں سے یہ پہلے نبی تھے.جو الیاس کا نام پاکر اس کی خو بو پر آئے.اس سے پہلے پرانے نبیوں میں کوئی ایسا نبی نہیں مل سکتا جو کسی دوسرے نبی کے لئے ارہاص کے طور پر آیا ہو.لیکن یحییٰ کے بعد حضرت مسیح ؑ آگئےجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ارہاص تھے.اور پھر حضرت سید احمد صاحب بریلوی آ گئے جوحضرت مسیح موعودؑ کے لئے ارہاص تھے.پس لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا میں یہی خبر دی گئی تھی کہ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا مثل نہیں بنایا.یعنی یحییٰ وہ پہلے شخص ہیں جو کسی کے مثیل ہو کر آئے ہیں چنانچہ دیکھ لو اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو ہمیں بار بار یحییٰ کا نام لینا پڑتا ہے.کیونکہ پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا.جب مخالف ہم سے پوچھتے ہیں کہ بتائو وہ مسیح کہاں ہے؟ تو ہم کہتے ہیں مسیح ناصری کے وقت میں بھی لوگوں نے یہی سوال کیا تھا.جب حضرت مسیح ؑنے دعویٰ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ملا کی نبی کتاب میں ایلیاہ کے دوبارہ نزول کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا وہ ایلیاہ کہاں ہے.حضرت مسیح ؑ نے جواب دیا کہ یوحنا ہی ایلیاہ ہے(متی باب ۱ ۱ ٓیت ۱۴).اگر چاہو تو قبول کر لو.پس جس طرح وہاں ایلیاہ کے نام پر یوحنا آیا اسی طرح یہاں مسیح ناصری ؑ کے نام پر خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے مسیح کو بھیج دیا.اس طرح اب ہماری جماعت بھی مجبور ہے کہ وہ یحییٰ کے نام کو زندہ رکھے کیونکہ مثلیّت کا نکتہ انہی کے ذریعہ سے حل ہوا ہے.غرض لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا سے یہ مراد ہے کہ ہم نے اس کا مثل پہلے نہیںبنایا اور اسے ایسی خصوصیت عطا فرمائی ہے جو پہلے کسی کو نہیں دی گئی.چنانچہ موٹی مثال موجود ہے کوئی بتا دے کہ یوحنا سے پہلے کسی اور نبی کو مثیلِ ایلیاہ قرار دیاگیا ہو.اگر عیسائی اور یہودی بھی مانتے ہیں کہ اس پہلو کے لحاظ سے اس کاکوئی مثل پہلے نہیں گذرا تو اس کا بے مثل ہونا ثابت ہو گیا.بے مثل ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ساری دنیا کی خصوصیات کسی میں پائی جائیں.کسی ایک بات میں بھی اگر کوئی بے مثل ہو تو اسے بے مثل کہا جا سکتا ہے.جیسے ایک بات میں نے بھی بتا دی ہے.اسی طرح اور بھی بعض خوبیاں ہو سکتی ہیں جو ان کو بے مثل بنانے والی ہوں.انجیل میں بھی اس کے مطابق ہی
حضرت یحییٰ ؑ کی تعریف آئی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے کہا کہ ’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نبی بڑا نہیں.‘‘ ( لوقا باب ۷آیت ۲۸) گویا انجیل بھی ان کو بے مثل قرار دیتی ہے.مگر انجیل نے جو مثال دی ہے وہ غلط ہے.انجیل کہتی ہے کہ اس سے کوئی بڑا نبی نہیں ہوا.مگر کیا وہ موسیٰ ؑ سے بھی بڑا تھا؟ حالانکہ وہ موسیٰ ؑ کا تابع تھا.کیا وہ ابراہیم ؑ سے بھی بڑا تھا؟ حالانکہ وہ ابراہیم کا تابع تھا.صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات جو بیان کی گئی ہے غلط ہے.کیونکہ موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور دوسرے کئی انبیاء یوحنا سے بڑے تھے.لیکن قرآن نے جو کچھ فرمایا ہے.اس میں اس نے یہ مثال نہیں دی صرف اتنا کہا ہے کہ کسی بات میں ہم نے اسے بے مثل بنایا تھا.مسیح کہتا ہے کہ وہ بڑے نبی ہونے میں بے مثل ہے مگر خود عیسائی عقیدہ اس کے خلاف ہے پس حضرت یحییٰ کے بے مثل ہونے کا ثبوت بھی انجیل سے مل گیا اور انجیل کے جھوٹا ہونے کا بھی ثبوت مل گیا.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے مگر خد اس بات کا بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں(المنافقون:۲).اسی طرح اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جو بے مثل کہا تھا وہ درست تھا انجیل بھی اسے بے مثل مانتی ہے مگر ساتھ ہی جو وجہ اس نے بتائی اس نے بتا دیا کہ انجیل جھوٹی ہے اور قرآن سچا.کیونکہ وہ وجہ خود عیسائی مسلّمات کے خلاف ہے اور وہ یوحنا کو تمام انبیاء سے بڑا قرار نہیں دیتے.اب میں بتاتا ہوں کہ یوحنایعنی یحییٰ کا انجیل سے کیا حال معلوم ہوتا ہے.لوقا میں لکھا ہے زکریا کاہن اور اس کی بیوی الیسبات (یعنی الزبتھ) بڈھے تھے.عورت بانجھ تھی.لڑکا کوئی نہ تھا.دونوں نیک اور راستباز تھے.ایک دن وہ خوشبو جلانے کے لئے ہیکل میں گیا تو فرشتہ ملا جس نے کہا کہ ’’زکریاہ مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی اور تیری جورو الیسبات تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خورمی ہو گی اور بہتیرے اس کی پیدائش سے خوش ہوں گے.کیونکہ وہ خدا وند کے حضور بزرگ ہو گا اور نہ مے اور نہ کوئی نشہ پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا اور بنی اسرائیل میں سے بہتوں کو ان کے خداوند خدا کی طرف پھیرے گا اور وہ اس کے آگے الیاس کی طبیعت اور قدرت کے ساتھ چلے گا.‘‘ (لوقا باب ۱آیت ۱۳تا۱۷)
پھر لکھا ہے کہ یہ فرشتہ جبریل تھا.اور لکھا ہے کہ چونکہ زکریا نے فرشتہ کی بات پر شک کیا اس لئے اسے یوحنا کی پیدائش بلکہ ختنہ کے وقت تک کے لئے یعنی قریباً دس ماہ کے لئے گونگا کیا گیا.یہ بات قرآن شریف سے مختلف ہے.مگر ظاہر ہے کہ ان کے نبی ہونے کے لحاظ سے قرآن کریم کا بیان زیادہ درست ہے.قرآن کریم کا بیان ایک نبی کی شان کے مطابق ہے اور انجیل کا بیان نبی کی شان کے خلاف ہے.بائبل کے بیان اور قرآنی بیان میں کچھ اختلافات بھی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:.(۱) قرآن کہتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو دعا کی تحریک حضرت مریم علیہا السلام کے ایک معصومانہ کلام سے ہوئی (آل عمران:۳۸،۳۹)بائبل اس بارہ میں خاموش ہے.مگر خاموش ہونا واقعہ کے غلط قرار دینے کے مترادف نہیں ہوتا.بائبل نے جہاں بشارت کا ذکر کیا ہے تسلیم کیا ہے کہ زکریا ؑ بیٹے کے لئے دعا کیاکرتے تھے.کیونکہ لکھاہے فرشتے نے اسے کہا کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ (لوقا باب۱ آیت ۱۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا بیٹے کے لئے دعا کیا کرتے تھے.لیکن بائبل نے یہ نہیں بتایا کہ اس دعا کا محرک کیا ہوا.قرآن کریم نے یہی واقعہ ابتداء سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام سے ان کی باتیں ہوئیں تو اس بچی کے معصومانہ کلام سے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا اور انہوںنے اپنے رب سے یہ دعا کی.گویا بائبل نے صرف اتنا واقعہ بیان کیاہے جو بعد کا ہے دعا کے محرک کا ذکر اس نے نہیں کیا.اس سے اس کے نقص کا تو اظہار ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی.ہمارے پاس اس بات کا ثبوت کہ قرآن کریم کی روایت ہی صحیح ہے یہ ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ حضرت زکریا ؑ کی آخری عمر میں پیدا ہوئے تھے اور اس با ت کو خود بائبل بھی تسلیم کرتی ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ جب فرشتہ نے انہیں یحییٰ کی پیدائش کی خوشخبری دی تو انہوں نے کہا کہ ’’میں اس بات کو کس طرح جانوں.کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے‘‘.(لوقا باب ۱آیت ۱۸) اب سوال یہ ہے کہ حضرت زکریا نے اس سے پہلے کیوں نہیں دعا کی؟ آخری عمر میں جا کر دعا کرنا صاف بتاتا ہے کہ کوئی نیا محرک پیدا ہوا تھا اور وہ نیا محرک یہی تھا کہ حضرت مریم ؑ پیدا ہو چکی تھیں جن کے ایک معصومانہ کلام سے انہیں دعا کی تحریک پیدا ہوئی پس قرائن اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن کریم کی بات ہی صحیح ہے.بہرحال اس بات کو اختلاف قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص صبح کی بات بیان کرے اور دوسرا دس بجے کی اور ان
دونوں باتوں کو سامنے رکھ کرکوئی شخص کہنا شروع کر دے کہ ان میں بڑااختلاف ہے.ہر شخص جو حقیقت کو سمجھتا ہو گا وہ فوراً کہے گا کہ ان میں اختلاف کون سا ہے.ایک صبح کی بات ہے او ر دوسری دس بجے کی ہے.اختلاف تب ہوتا جب ایک ہی وقت کی بات میں متضاد بیان ہوتا.بائبل کے یہ الفاظ کہ اے زکریا تیری دعا سنی گئی بتاتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کو قبولیت دعا سے شروع کرتی ہے لیکن قرآن کریم جو واقعہ بیان کرتا ہے وہ دعا کرنے سے پہلے کا ہے.پس بائیبل کی اس خاموشی کے صرف یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ابتداء سے واقعہ بیان کیا گیا ہے اور بائبل نے اس دعا کے محرک کا ذکر نہیں کیا.اس سے اس کے بیان کے نامکمل ہونے کا تو پتہ چلتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی.(۲) بائبل کہتی ہے کہ ایک فرشتہ نے یہ بشارت دی مگر قرآن کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے زکریا تیرے ہاں بیٹا ہو گا.بظاہر یہ اختلاف ہے لیکن حقیقت میں نہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام اکثر فرشتے لاتے ہیںاور فرشتے اپنے پاس سے غیب کی باتیں نہیں کر سکتے ورنہ ان کو خدا ماننا پڑے گا.پس اگر فرشتے نے کہا تب بھی وہ خدا کی طرف سے کہا اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے یوں کہا.اور چونکہ اس جگہ پر یہ الفاظ ہیں کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتے کو خدا نے بتایا تھا.کہ میں نے زکریا کی دعا سن لی ہے.پس فرشتہ کا قول خدا تعالیٰ کی نمائندگی میں تھا.اور اس کا ذکر دونوں طرح کیا جاسکتا تھا.اس طرح بھی کہ فرشتے نے کہا اور اس طرح بھی کہ خدا نے کہا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے خواب میں اگر کوئی شخص آم دیکھتا ہے تو اس کی تعبیریہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا.اب اگر کوئی شخص ایسی خواب دیکھے اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے اور وہ اس کی پیدائش پر کہے کہ خدا نے مجھے پہلے سے بتا دیا تھا کہ میرے ہاں لڑکا ہو گا تو کیاکوئی شخص کہہ سکتا کہ تم جھوٹ بولتے ہو تمہیں خدا نے کب کہا تھا تم نے تو آم دیکھا تھا؟اگر کوئی شخص ایسا اعتراض کرے تو سب لوگ اسے پاگل کہیں گے کیونکہ خواہ آم کی شکل میں اسے بتایا گیا ہو بہرحال بتایا تو اسے خدا نے ہی تھا.اسی طرح تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ فرشتے نے یوں کہا اور تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے یوں کہا.آخر فرشتہ اپنے پا س سے تو کچھ نہیں کہتا وہ تو جو کچھ کہتا ہے خدا کی طرف سےہی کہتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کے ایک دوسری جگہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہی حقیقت ہے.کیونکہ سورئہ آل عمران میں اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ هُوَ قَآىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ١ۙ اَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰى (آل عمران :۴۰) یعنی حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے کہ اتنے میں ملائکہ ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا تمہیں یحییٰ کی پیدائش کی بشارت دیتا ہے دیکھ لو
یہاں خدا تعالیٰ کے بولنے کا ذکر نہیں بلکہ ملائکہ کے بولنے کا ذکر ہے.پس معلوم ہواکہ سورئہ مریم میں خدا تعالیٰ کے بولنے کا جو ذکر ہے.اس سے مراد بھی براہ راست بولنا نہیں بلکہ ملائکہ یا ان کے سردار جبریل کی معرفت بولنا ہے.جیسا کہ سورئہ آل عمران میں لکھا ہے پس یہ اختلاف نہیں ایک مزید لطیف تشریح ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتہ جب کلام کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی کا کلام ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ بھی کہہ سکتے ہیں خدا نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ نے یوں کہا.وہیریؔ اس جگہ لکھتا ہے کہ مسلمان دماغ بھی کیسا عجیب ہے بائبل میں لکھا ہے کہ جبریل ظاہر ہوا.لیکن قرآن کہتا ہے کہ فرشتوں نے اسے پکارا.اور پھر اسے ایک معمولی اختلاف سمجھتے ہیں(تفسیر وہیری).گویا وہیری نے ہنسی اڑائی ہے کہ مسلمان بھی عجیب انسان ہیں اتنا بڑا اختلاف قرآن اور انجیل میں پایاجاتا ہے اورپھر اسے معمولی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ کہنا بھی ٹھیک ہے.کہ فرشتوں نے یوں کہا اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ فرشتہ نے یوں کہا.کیونکہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے اہم کلام ہوتے ہیں.ان کے نزول کے وقت کئی کئی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا.اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا.لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَ اَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا.(الجن:۲۷ تا ۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور وہ سوائے اپنے رسولوں کے اور کسی کو اپنے غیب سے کثرت کے ساتھ اطلاع نہیں دیتا اور پھر جو غیب نازل ہوتا ہے اس کے ساتھ بہت سے فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں تاکہ وہ اس کلام کی نگرانی کریں.یہ آیت بتاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا کوئی اہم کلام کسی فرشتہ کے ذریعہ بھجواتا ہے تو اس کے ساتھ اَوربھی بہت سے سپاہی فرشتے متعین ہوتے ہیں.پس فرشتہ کہو تب بھی درست ہے کیونکہ بولتے وقت ایک ہی بولے گا اور اگر فرشتے کہو تب بھی درست ہے کیونکہ کلام الٰہی کے ساتھ کئی کئی فرشتے آتے ہیں.جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اسے ملائکہ نے پکارا تو اس کے معنے یہ تھے کہ چونکہ یہ ایک اہم کلام تھا اس لئے ہم نے بہت سے فرشتوں کے ساتھ اپنا کلام بھجوایا.اور اگر انجیل نے اسے ایک فرشتہ قرا ر دیا ہے تب بھی درست ہے کیونکہ جب بولے گا تو ایک ہی بولے گا.مگر اس کا بولنا دوسروں کی نمائندگی میں ہو گا.جیسے گورنر یا وزراء سے ملنے کے لئے جب کوئی وفد جاتا ہے تو اخباروں والے یہی لکھتے ہیں کہ وفد نے یہ بات کہی.حالانکہ وفد نہیں بولتا بلکہ ان کی طرف سے کوئی ایک شخص بولتا ہے.آئیں گے سات آ ٹھ لیکن بولے گا ایک.اگر سات آٹھ یکدم بولنا شروع کر دیں تو گورنر ان سب کو نکال دے کہ تم کیسے بد تہذیب ہو.اسی طرح فرشتہ کہو تب بھی درست ہے اور فرشتے کہو تب بھی درست ہے.تعجب ہے کہ
اتنی معمولی بات جس کے یوروپین لوگ رات دن عادی ہیں اور وہ وفود کے طریق ملاقات کو اچھی طرح جانتے ہیں وہی اگر قرآن کریم میں آ جائے تو اس پر ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں.کسی شاعر نے کہا ہے ع ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند یہ گنا ہ وہ ہے جو تمہارے شہر میں بھی ہوتا ہے.اسی طرح ہم کہتے ہیں یہ طریق وہ ہے جو رات دن تمہارے ہاں جاری ہے اس پر اعتراض کیسا؟ پھر ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں.چنانچہ پیدائش باب ۱۸میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے ’’پھر خدا وند ممرے کے بلوطوں میں اسے نظر آیا اور وہ دن کوگرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کی.اور کیا دیکھتا ہے کہ تین مرد اس کے سامنے کھڑے ہیں(یعنی پہلے خدانظر آیا اور پھر دیکھا تو تین مرد سامنے کھڑے تھے) وہ ان کو دیکھ کر خیمہ کے دروازہ سے ان سے ملنے کو دوڑا اور زمین تک جھکا.اور کہنے لگا کہ اے میرے خدا وند اگر مجھے پرآپ نے کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس سے چلے نہ جائیں بلکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور آپ اپنے پائوں دھو کر اس درخت کے نیچے آرام کریں.میں کچھ روٹی لاتا ہوںآپ تازہ دم ہو جائیں تب آگے بڑھیں کیونکہ آپ اسی لئے اپنے خادم کے ہاں آئے ہیں.انہوں نے کہا جیسا تو نے کہا ہے ویسا ہی کر.اورابراہام ڈیرے میں سارہ کے پاس دوڑا گیا اور کہا کہ تین پیمانہ باریک آٹا جلدلے اور اسے گوندھ کر پھلکے بنا اور ابرہام گلہ کی طرف دوڑا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر ایک جوان کو دیا اور اس نے جلدی جلدی اسے تیار کیا.پھر اس نے مکھن اور دودھ اوراس بچھڑے کو جو اس نے پکوایا تھا لے کر ان کے سامنے رکھا اور آپ ان کے پاس درخت کےنیچے کھڑا رہا اور انہوں نے کھایا پھر انہوںنے اس سے پوچھا کہ تیری بیوی سارہ کہاں ہے.اس نے کہا وہ ڈیرے میں ہے.تب اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا.اور دیکھ تیری بیوی سارہ کے بیٹا ہو گا (دیکھو یہاں پہلے خدا نظر آتا ہے.پھر تین مرد دکھائی دیتے ہیں اور وہ باتیں شروع کر دیتے ہیں مگر یکدم ان کی گفتگو میں ہی پھر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ ’’میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا‘‘) اس کے پیچھے ڈیرے کا دروازہ تھا سارہ وہاں سے سن رہی تھی اور ابرہام اور سارہ ضعیف اور بڑی عمر کے تھے.اور
سارہ کی وہ حالت نہیں رہی تھی جو عورتوں کی ہوتی ہے.تب سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہوسکتی ہے.حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے.پھر خدا وند نے ابرہام سے کہا (اب پھر میں کی بجائے خدا وند ہو گیا ہے) کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹا ہوگا.کیا خداوند کے نزدیک کوئی بات مشکل ہے.موسم بہار میں معین وقت پر میں تیرے پاس پھر آئوں گا.اور سارہ کے بیٹا ہو گا.تب سارہ انکار کر گئی کہ میں نہیں ہنسی کیونکہ وہ ڈرتی تھی پر اس نے کہا نہیں تو ضرور ہنسی تھی.‘‘ (پیدائش باب ۱۸آیت۱تا ۱۵) اس حوالہ کو دیکھو.پہلے یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ؑ کو خدا نظر آیا.پھر خدا کی بجائے تین مرد کہا گیا اور انہوں نے گفتگو شروع کر دی اور کھانا بھی کھایا.اس کے بعد پھر تینوں غائب ہو گئے.اور ذکر اس طرح شروع کیا گیا کہ ’’ اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا‘‘.یعنی پھر تین کا ذکر ایک شخص کے طور پر کرنا شروع کر دیا گیا اور ان کے لئے ضمیر ’’اس‘‘ اور ’’میں‘‘ کی استعمال کی گئی.مگر آگے چل کہہ دیا گیا کہ ’’خدا وندنے ابرہام سے کہا کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹاہو گا‘‘.پس اس میں تو عیسائیوں کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں.لیکن اگر قرآن نے ایک جگہ یہ کہہ دیا کہ ملائکہ نے زکریا کو خبر دی تھی اور دوسری جگہ یہ کہہ دیا کہ خدا نے اسے خبر دی تھی تو اس میںان کے نزدیک بڑے تعجب کی بات ہے.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ تعجب کی بات ہے.انجیل میں بے شک ایک فرشتے کا ذکر آتا ہے مگر جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے اہم کلام کے ساتھ کئی فرشتے نازل ہوا کرتے ہیں گو کلام ایک ہی فرشتہ کرتا ہے.پس ہم بائبل کے بیان کو بھی غلط نہیں کہتے.اس نے بھی ٹھیک کہا اور قرآن نے جو کچھ کہا وہ بھی ٹھیک کہا.(۳) انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص ہو گا مگر قرآن میں اس کا ذکر نہیں.یہ بھی ایک اختلاف ہے جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اس کا یہاں ذکر نہیں مگر سورئہ آل عمران میں لکھا ہے مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ (آل عمران:۴۰) پس اختلاف کوئی نہ رہا.انجیل میں لکھا ہے کہ وہ ایلیاہ کی روح اور اس کی قوت میں مسیح کے آگے آگے چلے گا (لوقا باب ۱ آیت ۱۷)اور قرآن نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی آمد سے ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا جو صحف سابقہ میں پائی جاتی ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سب واقعہ ایک ہی جگہ بیان ہو.بائبل میں بھی کوئی ٹکڑہ کسی جگہ پایا جاتا ہے اور کوئی کسی جگہ.(۴) قرآن میں لکھا ہے کہ زکریا کو تین دن خاموش رہنے کا نشان دیا گیا (خواہ خود خاموش رہنے کا یا خدا تعالیٰ
کی طرف سے زبان بند ہو جانے کا) مگر بائبل کہتی ہے کہ ان کی زبان بطور سزا بند رہی اور یحییٰ ؑ کی پیدائش کے بعد ان کے ختنہ کے دن تک وہ گونگے رہے.آخر ختنہ کے دن جب انہوںنے یہ لکھ کر دیا کہ اس کا نام یحییٰ رکھو تب ان کی زبان کھلی.(لوقا باب ۱آیت ۲۰،۵۷) ان دونوں میں اختلاف تو ہے لیکن خود سوچ لو کہ عقل اور فطرت کسے سچا بتاتی ہے.ایک نبی یا بائبل کے بیان کے مطابق کاہن پر (جو ایسا ہی مقام رکھتا ہے جیسا ہمارے ہاں محدث کا مقام ہوتا ہے) خدا تعالیٰ ابراہیمی انعام نازل کرتا ہے یعنی جس طرح ابراہیم ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں بیٹے کا وعدہ کیا تھا اسی طرح زکریا ؑ کے ساتھ اس نے بیٹے کا وعدہ کیا ایسے بیٹے کاجو بقول مسیح ؑ سب نبیوں کا موعود تھا اور اس نے ضرور پیدا ہونا تھا.کیونکہ اس کے بغیر مسیح ؑپیدا نہیں ہو سکتے تھے.لیکن محض زکریا کے اس قول پر کہ میں بھی بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی بوڑھی ہے بچہ کہاں سے ہو گا اس پر یہ عذاب نازل کیا جاتا ہے کہ اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا جاتا ہے حالانکہ بائبل سے ثابت ہے کہ یہی فعل سرّی زوجہ ابراہیم ؑ نے بھی کیا تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہو سکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے.‘‘ (پیدائش باب۱۸ آیت ۱۲) لیکن اس پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا.اور خدا تعالیٰ نے اس کو ایک دن کے لئے بھی گونگا نہیں کیا.حالانکہ اگر یہ فعل جرم تھا تو اس جرم کے بدلہ میں یہی عذاب سارہ پر بھی نازل ہونا چاہیے تھا.مگر اس پر توکوئی عذاب نازل نہیں ہوا.اور زکریا ؑ نے یہی بات کہی تو اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا گیا.پھر بائبل سے ہی ثابت ہے کہ زکریا کا یہ قول انکار کے طور پر نہ تھا بلکہ محض اظہار تعجب کے طور پر تھا یعنی یہ کتنی بڑی عظمت اور شان کا نشان ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوقا میں فرشتہ کا یہ قول درج ہے کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی.‘‘(لوقا باب۱آیت ۱۳) اب سوال یہ ہے کہ کیا زکریا اس دن بوڑھے ہوئے تھے یا زکریا کی بیوی اس دن بوڑھی ہوئی تھیں وہ لازماً چھ مہینے یا سال دو سال پہلے بوڑھے ہو چکے تھے.اور اگر یہ بات انہیں قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہی نہیں ہو سکتا تو وہ اس قسم کی دعا کرتے ہی کیوں؟ ان کا دعا کرنا اور بائبل میں فرشتے کا یہ قول درج ہونا کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی‘‘ بتاتا ہے کہ زکریا کا اس بات پر ایمان تھا کہ خدا ایسا کر سکتا ہے.زکریا جانتا تھا کہ میں بوڑھا ہو چکاہوں.زکریا جانتا تھا کہ میری بیوی بھی بوڑھی ہو چکی ہے.مگر وہ یہ بھی یقین رکھتا تھا
کہ خدا تعالیٰ بڑی قدرتوں کا مالک ہے.اس لئے وہ اس سے دعائیں کرتا رہتا تھا.پس جب اس کی دعا کی قبولیت کی اطلاع اسے ملی.تو وہ حیرت و استعجاب کا شکارتو ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ ایسا قادر ہے کہ ایسی غیر معمولی دعا بھی سن سکتا ہے مگر وہ منکر اور متردد نہیں ہو سکتا تھا.اور سزا منکر اور متردد کو ملا کرتی ہے.حیرت اور استعجاب ظاہرکرنے والے کو انعام ملا کرتا ہے.پس بائبل کی اپنی شہادت قرآنی معنوں کی تائید کرتی ہے کہ زکریا نشان کا طالب ضرور ہوا مگر انکار کا مرتکب نہیں ہوا.پس بائبل کا یہ بیان کہ اسے سزا ملی اور وہ دس ماہ تک گونگا رہا غلط ہے اور قرآن کریم کا یہ بیان ہی درست ہے کہ صرف تین دن تک اس نے کلام نہ کیا.اور یہ خاموشی ذکر الٰہی کے لئے تھی نہ کہ بطور سزا کے.جیسا کہ سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا١ؕ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِبْكَارِ (آل عمران :۴۲) یعنی تیرے لئے حکم یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین دن تک کلام نہ کرے سوائے اشارہ کے اور بجائے لوگوں سے باتیں کرنے کے ان ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرو.چونکہ تین دن انہوں نے ذکر الٰہی کرنا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ ان دنوں میں اور باتیں نہ کرو.ورنہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی.چنانچہ قرآن کریم نے اسی الزام کو دور کرنے کے لئے جو انجیل نے حضرت زکریا پر لگایا ہے کہ وہ گونگے ہو گئے تھے فرمایا اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا.تیرا نشان یہ ہے کہ تو تین دن رات کلام نہیں کرے گا مگر ہو گا بے عیب اور تندرست (سَوِيًّا ) کوئی بیماری تجھے نہیں ہو گی.اب دیکھ لو قرآنی بات کتنی سچی نظر آتی ہے کہ خدا نے جب حضرت زکریا کی دعا قبول کی.تو انہوں نے کہا خدایا اب مجھے بھی شکریہ کا موقع دیجئے.خدا نے کہا تین دن مسجد میںاعتکاف بیٹھو اور ذکر الٰہی میں مشغول رہو یہ تمہاری طرف سے ہمارے شکریہ کا ایک نشان ہوگا لیکن بائبل کا بیان عقلاً بھی غلط ہےاور نقلًایعنی دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے.قرآن کریم اور بائبل میں یہ ایک نمایاں فرق ہے.کہ بائبل ہمیشہ انبیاء پر گناہ کا الزام لگانے پر دلیر ہوتی ہے.مگر ایسے ہر الزام کی قرآن کریم تردید کرتا ہے.مثلاً بائبل میں لکھا ہے کہ ہارون نے شرک کیا (خروج باب ۳۲آیت ۱تا ۶) قرآن کہتا ہے کہ اس نے شرک نہیں کیا(طٰہٰ:۹۱).بائبل کہتی ہے کہ زکریا نے خدا کی قدرت کا انکارکیا تو اسے سزا ملی (لوقا باب۱آیت ۲۰و۲۱) قرآن کہتا ہے کہ اس نے خدائی وعدہ کو سن کر چاہا کہ اسے شکریہ کا کوئی کام بتایا جائے چنانچہ خدا تعالیٰ نے تین دن چپ کا روزہ رکھنے اور ذکر الٰہی کی کثرت کا ارشاد فرمایا اور اس عرصہ میں ان پر نہ کوئی عذاب آیا نہ بیماری ہوئی.اسی طرح بائبل نے حضرت سلیمان ؑ کو مجرم اور عیاش اور بے دین قرار دیا ہے (۱.سلاطین باب ۱۱ آیت ۱تا ۶)
لیکن قرآن کریم نے ان کو راستباز اور مومن اور نیک قرار دیا ہے(ص:۳۱).یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآنی تاریخ سچی ہے اور بائبل کی روایات مخدوش.اگر یہ لوگ جن کا ذکر ہے خدا کے برگزیدہ تھے تو پھر ان سے ان افعال کا ارتکاب نہیں ہو سکتا.اور اگر برگزیدہ نہ تھے تو پھر نبیوں میں ان کا ذکر کرنا حماقت ہے.عجیب بات ہے کہ وہی باتیں جو بائبل میں نبیوں کی نسبت لکھی ہیں عوام الناس یا پادریوں کے ماں باپ کی نسبت کہی جائیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جائیں گے مگر دلیری سے ان باتوں کو نبیوں کی نسبت تسلیم کر لیتے ہیں.(۵) بائبل کہتی ہے کہ جب مریم حاملہ ہوئیں اور یوحنا کی ماںکے پاس گئیں تو یوحنا کی ماں روح القدس سے بھر گئیں اور بولیں کہ ’’یہ کیونکر ہوا کہ میرے خدا وند کی ماں مجھ پاس آئی کہ دیکھ تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کان تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اچھل پڑا.‘‘ (لوقا باب ۱آیت ۴۳و ۴۴) لیکن قرآن کہتا ہے کہ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا (مریم :۱۳) اور یہ کہ سَيِّدًا وَّ حَصُوْرًا (آل عمران:۴۰) یعنی اس کو خدا نے روحانی طاقت اور روحانی حکمت اور روحانی بادشاہی بچپن سے ہی عطا فرمائی تھی.اور یہ کہ وہ سردار تھا اور ہر قسم کی بدیوں سے پاک اور منزہ تھا.گویا عیسائیوں کے نزدیک اختلاف یہ ہے کہ بائبل تو یحییٰ کو مسیح ؑ کا غلام قرار دیتی ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ یحییٰ سید تھا اور بچپن سے ہی اسے سرداری عطا کی گئی تھی.اس کا جواب یہ ہے کہ انجیل کے دوسرے حوالوں سے ظاہر ہے کہ لوقا کا بیان محض زیب داستان کے لئے ہے ورنہ حقیقت سے اسے دور کا بھی تعلق نہیں.اگر یوحنا مسیح ؑکا خادم تھا جیسا کہ لوقا نے اس واقعہ میں لکھا ہے تو کیا مصیبت پڑی تھی کہ مسیح ؑ یوحنا کا شاگرد ہوتا.اناجیل کے مصنفوں نے اپنے آقا کو عزت دینے کے لئے اس موقعہ پر سخت ظلم کئے ہیں.مثلا متی کہتا ہے کہ مسیح ؑ یوحنا سے بپتسمہ پانے کے لئے آیا اور اسے کہا کہ مجھے اپنا مرید بنائو تو یوحنا نے کہا کہ میں تجھ سے بپتسمہ پانے کا محتاج ہوں (متی باب ۳آیت ۱۴) یعنی حضور میرے استاد ہیں اور میں تو آپ کا شاگرد ہوں میں آپ کو کس طرح بپتسمہ دے سکتا ہوں.پھر یہ بات مسیح ؑ کے منہ میں بھی ڈالی گئی ہے کہ ’’اب ہونے دے کیونکہ ہمیں مناسب ہے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کریں‘‘ ( متی بات۳آیت ۱۵) یعنی ہے تو یہ ٹھیک کہ میں بڑا ہوں اور تو چھوٹا ہے لیکن چونکہ نبی خبر دے چکے ہیں اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے.یہ جواب کتنا غیر معقول ہے اگر مسیح یوحنا کی شاگردی سے بالا تھا تو نبیوں نے یہ پیشگوئی کیوں کی اور خدا تعالیٰ نے ایسا مقدر کیوں کیا؟ یہ عجیب بات ہے کہ مسیح جاتا ہے یوحنا کی بیعت کرنے اور یوحنا آگے سے یہ کہتا ہے کہ میں کس کی بیعت لوں میں تو خود چھوٹا
ہوں اور تو بڑا ہے اور مسیح کہتا ہے پہلے نبیوں سے غلطی ہو گئی ہے.ہے تو یہی درست کہ میں بڑا ہوں لیکن چونکہ وہ ایک بات کہہ چکے ہیں اس لئے اب اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کی رات خدا تعالیٰ کے پاس گئے اور باتیں ہونے لگیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حضور اتنی دور سے میں چل کر آیا ہوں اب دیدار تو کروا دیجئے.اس پر اللہ میاں نے پردہ اٹھایا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا کہ حضرت علی ؓ بیٹھے ہیں.انہوں نے کہا حضور نے اتنی تکلیف دے کر بلایا.یہ دیدار تو نیچے بھی روزانہ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا اس میں بھی راز ہوتے ہیں.اسی قسم کا راز یوحنا والے واقعہ میں ہے کہ مسیح یوحنا کے پا س ان کے مرید بننے کے لئے جاتے ہیں اور یوحنا کہتے ہیں توبہ توبہ بھلا مجھ میں یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ میں آپ کی بیعت لوں اور حضرت مسیح کہتے ہیں کہ ہوں تو میں ہی سردار.لیکن چونکہ نبیوں کے منہ سے ایک بات نکل چکی ہے اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہے.کیا لغویت ہے.مرقس نے بھی اسی رنگ کو اختیار کیا ہے گو اوپر والی گفتگو اس نے بیان نہیں کی.لوقا نے بھی اس گفتگو کا تو ذکر نہیں کیا.لیکن یوحنا کی شاگردی اور ماتحتی کا اوپر کے واقعہ میں اظہار کیا ہے.یوحنا نے مسیح کے یوحنا سے بپتسمہ پانے کا ذکر چھوڑدیا ہے مگر ان باتوں سے کیا بنتا ہے.تین اناحیل کہہ رہی ہیں کہ یوحنا نے مسیح کو بپتسمہ دیا جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ استاد بنا.بے شک مسیح اس سے بڑھ گیا مگر بڑھنے کے وقت بڑھا.اس سے پہلے تو وہ بہرحال یوحنا کا شاگرد تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے دنیا میں کئی شاگرد استا د سے بڑھ جاتے ہیں.استاد پرائمری پاس ہوتا ہے لیکن اس کا شاگرد ایم اے پاس کرلیتا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جب وہ پرائمری میں پڑھ رہا ہو تو پرائمری کا استاد اسے پڑھانے سے انکار کر دے اور کہے کہ تو بڑا ہے اور میں چھوٹا.بے شک جب وہ ایم اے ہو جائے گا تو استاد سے آگے نکل جائے گا.لیکن اس سے پہلے وہ اپنے استاد کی شاگردی سے انکار نہیں کر سکتا.پس یہ کہناکہ یوحنا نے پیٹ سے اس کی بڑائی کا اقرار کیا ایک عبث فعل ہے.اگر ایسا تھا تو اسے بپتسمہ پر مقرر ہی کیوں کیا گیا؟ قرآن نے جو بات بیان کی ہے کہ یوحنا مسیح کا مصدق تھا.وہیری اپنی کتاب کی جلد ۲ص ۱۷میں اس پر سخت برافروختہ ہوا ہے کہ ایک ماتحت اور چھوٹے درجہ کے نبی کو مصدق قرار دیا گیا ہے.مگر یہ اس کی حماقت ہے جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہی انجیل نے بھی کہا ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطورارہاص تھا.(۶) قرآن کہتا ہے کہ مریم کے پاس رزق آتا تھا بائبل میں اس کا ذکر نہیں.اس اختلاف سے کچھ ثابت نہیں ہوتا.یہ ایک طبعی امر ہے کہ لوگ بچوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.خصوصاً ان بچوں کوجو نذر کے ہوں.اور لوگ
ان کی خدمت کرتے ہیں.جولوگ صحیح طور پر ان کی قدر سمجھتے ہیں وہ ان کا اداب اور احترام کرتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ انہیں صدقہ وغیرہ دے دیتے ہیں.اسی جذبہ کے ماتحت حضرت مریم کے لئے بھی لوگ مختلف تحائف لاتے ہوں گے.چنانچہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں مسیحیوں کی روایات سے اس کے مشابہ باتیں نقل کی ہیں (دیکھو وہیری جلد۲ص۱۶) اور انہوں نے اسے معجزانہ رنگ میں بیان کیا ہے.مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ ہم تفاسیر کے قصوں کو صحیح سمجھیں.مثلاً تفاسیر والے لکھتے ہیں کہ حضرت زکریا نے مریم کے پاس کھانا دیکھا تو انہیں شبہ ہوا کہ کوئی بدمعاش آتا ہے اور وہ اس قسم کی چیزیں پہنچاجاتا ہے.چنانچہ وہ مریم کو کمرہ میں بند کر دیتے تھے اور پھر سات دروازے آگے پیچھے بند کر دیتے تھے مگر رزق ان کے پاس پھر بھی آ جاتا تھا(الرازی و المیزان زیر آیت کلما دخل علیہ زکریا).معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مفسرین کو سات دروازوں سے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ یوسف ؑ کے واقعہ میںبھی وہ لکھتے ہیں کہ زلیخا نے سات دروازے بند کرکے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی.پس سات دروازوں سے مفسرین کوکوئی خاص لگائو ہے.مریم کو بھی اگر روٹی آتی تھی تو سات بند دروازوں سے اور زلیخا اگر یوسف کو چھیڑتی تھی تو سات دروازے بند کرکے(الرازی زیر آیت وراودتہ التی...).قرآن نے صرف اتنا کہا ہے کہ حضرت زکریا نے ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں دیکھیں تو انہوں نے پوچھا کہ یہ چیزیں تمہیں کس نہ دی ہیں.حضرت مریم نے جواب دیا کہ اللہ نے.ایک معصوم بچی کے یہ الفاظ ان کے لئے دعا کا محرک بن گئے اور انہوں نے کہا کہ خدایا مجھے بھی ایک بچہ عطا فرما جو اپنے اندر روحانی اوصاف اور کمال رکھتا ہو.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہودی روایتوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جیسا کہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے.قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا وَّ (زکریا نے ) کہا اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا۰۰۹قَالَ كَذٰلِكَ١ۚ قَالَ رَبُّكَ کی انتہائی حد کو پہنچ چکا ہوں.(الہام لانے والے فرشتہ نے )کہا کہ (جس طرح تو کہتا ہے واقعہ ) اسی طرح (ہے)
هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَيْـًٔا۰۰۱۰ (مگر )تیرا رب کہتا ہے کہ یہ (بات)مجھ پر آسان ہے اور (دیکھ کہ) میں تجھے اس سے پہلے پیدا کر چکا ہوں حالانکہ تو کچھ بھی نہیں تھا.حلّ لُغَات.عتی عِتِیٌّ عَتَیسے بنا ہے اور عَتَا کے معنے حد سے نکل جانے کے ہیںعَاتِیْ اسم فاعل ہے.عِتِیٌّ بھی عَاتِیْ کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے.امام راغب کہتے ہیں کہ آیت مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا میں عِتِیٌّ سے مراد بڑھاپے کی اس حالت کے ہیں جس کا کوئی مداوا اور علاج نہیں ہو سکتا.تفسیر.حضرت زکریا کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا تو انہوں نے کہا اے میرے رب اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ میرے ہاں کس طرح بیٹا پیدا ہو گا وَ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے وَ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا اور میں بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ چکاہوں.غلام ہونے میں دو باتیں پائی جاتی تھیں.اول یہ کہ بیٹا ہو اور دوسرے یہ کہ کہولت کی عمر تک پہنچنے والا ہو.اور پھر جب کسی شخص کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ تم بھی اس کی زندگی کا اچھا حال دیکھو گے.حضرت زکریا اتنے عظیم الشان انعام کے وعدہ پر استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اول تو میں بوڑھا اور میری بیوی بانجھ اور پھر میں حد درجہ کا بوڑھا لیکن مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا ہو گا اور اس کی پیدائش کے بھی کچھ عرصہ بعد تک میں زندہ رہوں گا اور اس کی تربیت کر سکوں گا.گویا یہ ذوالعجائب الہام ہے.قَالَ كَذٰلِكَ اس نے کہا اسی طرح ہو گا قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ.تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے.ہمارے مفسرین نے اس جگہ عیسائیوں سے ڈر کر یہ لکھا ہے کہ قَالَ كَذٰلِكَ میں فرشتہ کے قول کا ذکر ہے اور قَالَ رَبُّكَ میں اللہ تعالیٰ کی بات بیان کی گئی ہے.حالانکہ قرآن کریم میں کثرت سے ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ حاضر کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ غائب میں بدل جاتا ہے اور غائب کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور پھر وہ حاضر میں بدل جاتا ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ قَالَ كَذٰلِكَ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ یہ فرشتہ کا قول ہے اور اگلے حصہ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.حقیقت یہ ہے کہ فرشتہ اگر کچھ کہتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہوتا ہے کیونکہ فرشتہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا.بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام دوسرے تک پہنچاتا ہے.پس اس امتیاز کی کوئی ضرورت نہیں.اگر فرشتہ نے یہ کہا تھا کہ اسی طرح واقعہ ہو گا تب بھی اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی
کہا تھا اپنی طرف سے نہیں کہا.پس یہ بات بھی خدا تعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہو گی.درحقیقت قَالَ كَذٰلِكَاورقَالَ رَبُّكَ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں باتوں کو تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سمجھو جہاں فرشتہ کلام کرتاہے وہاں یہ سمجھو کہ اس کلام کا منبع خدا تھا.اور جہاں خود کلام کرے وہاں یہ سمجھو کہ اب اس نے براہ راست کلام کیا ہے.وَ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَيْـًٔا.اور اس سے پہلے میں نے تجھے پیدا کیا تھا اور تو کچھ بھی نہیں تھا.میرے نزدیک یہاں جسمانی پیدائش مراد نہیں.کیونکہ جسمانی پیدائش زکریا سے خاص طور پر تعلق نہیں رکھتی تھی.اگر پیدائش جسمانی کا ذکر ہوتا تو خَلَقْتُكَ کی بجائے یہ کہنا چاہیے تھا.کہ ساری دنیا کو میں نے پیدا کیا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھی.مگر یہاں حضرت زکریا کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جسمانی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ درحقیقت اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کالَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا میں ذکر آتا ہے کہ ہم تجھے ایک غیر معمولی بیٹا عطا فرمائیں گے جو بعض باتوں میں بے مثل ہو گا.اول بیٹا ہونا اور پھر بعد تک زندہ رہنے والا بیٹا ہونا اور پھر غیر معمولی شان کا بیٹا ہونا یہ ساری باتیں اپنے اندر حیرت انگیز رنگ رکھتی تھیں.قَالَ كَذٰلِكَ١ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ میں اللہ تعالیٰ نے پہلی دو باتوں کا جواب دے دیا تھا.اب تیسری بات کا جواب دیتا ہے کہ تمہاری بھی پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی مگر پھر ہم نے تمہیں علوم بخش دئے.اسی طرح ہم میں یہ بھی طاقت ہے کہ ہم تیرے بیٹے کو بھی علوم عطا فرما دیں.قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْۤ اٰيَةً١ؕ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ (زکریا نے )کہا اے میرےرب! میرے لئے کوئی حکم بخش.فرمایا تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو لوگوں سے تین النَّاسَ ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا۰۰۱۱ راتیں متواتر کلام نہیں کرے گا (یعنی کلام نہ کرنا) تفسیر.آیت کے معنے قرآن کریم میں کئی مقامات پر حکم کے بھی آئے ہیں.آیات قرآنیہ کو بھی اسی وجہ سے آیات کہا جاتا ہے کہ ان میں احکام الٰہیہ کا بیان ہوتا ہے پس رَبِّ اجْعَلْ لِّيْۤ اٰيَةً کے یہ معنے ہیں کہ خدایا مجھے کوئی حکم دے جس کی میں تعمیل کروں.یعنی تو نے جو مجھ پر یہ احسان فرمایا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اب تو
مجھے کوئی ایسا حکم دے جو تیرے شکر کی ایک ظاہری علامت ہو اور جس کو پورا کرکے میرا دل خوش ہو جائے کہ میں نے رب کا حکم پورا کر دیا ہے.بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں آئندہ کی خبروں کے لئے نشان مقرر ہوتے تھے جن میں سے بعض نشان تو آسمانی ہوتے تھے اور بعض میں صرف عبادت کا حکم ملتا تھا.چنانچہ پیدائش باب ۹میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے حضرت نوح اور ان کی اولاد سے آئندہ سب دنیا پر طوفان نہ لانے کا عہد کیا اور اس کے لئے قوس قزح کو نشان مقرر کیا.بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ.’’ خدا نے نوح اور اس کے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو میں خود تم سے اور تمہارے بعد تمہاری نسل سے اور سب جانداروں سے جو تمہارے ساتھ ہیں.کیا پرندے کیا چوپائے.کیا زمین کے جانور یعنی زمین کے ان سب جانوروں کے بارے میں جو کشتی سے اترے عہد کرتا ہوں.میں اس عہد کو تمہارے ساتھ قائم رکھوں گا کہ سب جان دار طوفان کے پانی سے پھر ہلاک نہ ہوں گے اور نہ کبھی زمین کو تباہ کرنے کے لئے پھر طوفان آئے گا.اور خدا نے کہا کہ جو عہد میں اپنے اور تمہارے درمیان اور سب جانداروں کے درمیان جو تمہارے ساتھ ہیں پشت در پشت ہمیشہ کے لئے کرتا ہوں اس کا نشان یہ ہے کہ میں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں.وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نشان ہو گی اور ایسا ہو گا کہ جب میں زمین پر بادل لائوں گا تو میری کمان بادل میں دکھائی دے گی اور میں اپنے عہد کو جو میرے اور تمہارے اور ہرطرح کے جاندار کے درمیان ہے یاد کروں گا اور تمام جاندار وں کی ہلاکت کے لئے پانی کا طوفان پھر نہ ہوگا اور کمان بادل میں ہو گی اور میں اس پر نگاہ کروں گا تاکہ اس ابدی عہد کو یاد کروں.جو خدا کے اور زمین کے سب طرح کے جاندار کے درمیان ہے.پس خدا نے نوح سے کہا کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو میں اپنے اور زمین کے کل جانداروں کے درمیان قائم کرتا ہوں.‘‘ (پیدائش باب ۹آیت۸تا ۱۷) یہ روایت گو بگڑی ہوئی ہو مگر بہرحال اس سے یہود کی روایات اور ان کے دستور کا علم ہو جاتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جب کوئی عہد کرتا تھا تو اس کے پورا ہونے کا وہ کوئی ظاہری نشان بھی مقرر کر دیتا تھا.اسی طرح بعض دفعہ ایسا نشان مقرر کیا جاتا تھا جس کا کرنا خود بندے کے اختیار میں ہو.چنانچہ پیدائش باب ۱۷آیت۹تا ۱۱میںلکھا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ
’’تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت اسے مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے.‘‘ اسی طرح حزقی ایل باب ۲۰میں سبت کو ایک نشان قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں.‘‘ (حزقیل باب ۲۰ آیت ۲۰) ان حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کسی نیک کام کا کرنا پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے لئے ایک ظاہری نشان سمجھا جاتا تھا.اسی رنگ میں حضرت زکریا نے بھی خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے کوئی نشان دیا جائے یعنی مجھے کوئی ایسا حکم دیاجائے کہ جب میں اسے پورا کردوں تو یہ وعدہ اٹل ہو جائے کیونکہ جب بندہ اپنا وعدہ پورا کر دے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے اور اس کوکسی اور رنگ میں نہیں بدلتا.قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا.اللہ تعالیٰ نے کہا تیرے لئے وہ حکم جو اس بات کی علامت ہو گا کہ تو نے خدا کا شکر ادا کر دیا ہے یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین راتیں کلام نہیں کرے گا اس حالت میں کہ تو تندرست اور بے عیب ہو گا اور بغیر کسی بیماری کے ہو گا.اور ان دنوں میں ذکر الٰہی کرتا رہے گا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اٰیتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ ثَلَاثَ لَیَال بلکہ فرمایا ہے اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ تو لوگوں سے کلا م نہیں کرے گا.اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کامل صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی باتیں کیا کرتا ہے چنانچہ دیکھ لو.حضرت زکریا علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے کتنی لمبی باتیں کی ہیں کہ رَبِّ اِنِّيْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا.وَ اِنِّيْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَآءِيْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا.يَّرِثُنِيْ وَ يَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا.یہ تمام باتیں کسی آدمی سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے کی گئی ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے بعض دفعہ فرشتوں سے بھی ہمکلام ہوتے ہیں پس النَّاسَ کے لفظ نے اس کلام کا استثناء کر دیا جو خدا اور اس کے ملائکہ سے کی جاتی ہے اور اس طرف اشارہ کر دیا کہ یہ صر ف ایک روزہ تھا جس میں انہیں خاموشی کے ساتھ ذکرالٰہی کرنے کی تاکید کی گئی تھی.یہ نہیں کہ ان کی زبان ماری گئی تھی اگر زبان ماری جاتی تو لَاتُکَلِّمُ کہنا چاہیے تھا مگر کہا یہ گیا ہے کہ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ توان تین
راتوں میں لوگوں سے کلام نہیں کرے گا یعنی ان تین راتوں میں لوگوں سے کلام نہکیجیئو.گویا تو خدا کے لئے اپنے اوپر یہ واجب کر لے گا کہ میں نے تین رات دن لوگوں سے گفتگو نہیں کرنی حالانکہ تو تندرست ہو گا اور تجھ میںطاقت ہو گی کہ تو باتیں کرے.یہاں خدا تعالیٰ کے ایک وعدے کو اس کے ایک حکم کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر بندہ وہ حکم پورا کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے دیا گیا ہے تو وہ وعدہ کسی صورت میں بھی ٹل نہ سکے اور وہ بہرحال پورا ہو جائے.اسی طرح ثَلٰثَ لَيَالٍ سے صرف تین راتیں مراد نہیں بلکہ دن بھی ساتھ ہی مراد ہیں.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَعَدْنَا مُوْسٰی ثَلَثِیْنَ لَیْلَۃً (الاعراف :۱۴۳) ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا حالانکہ وہاں دن بھی مراد ہیں.پس یہاں بھی تین راتوں سے تین رات دن مراد ہیں نہ کہ صرف تین راتیں.فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا اس کے بعد (زکریا) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں آہستہ آواز میں کہا کہ صبح اور شام خدا تعالیٰ کی ٍ بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا۰۰۱۲ تسبیح کرتے رہو.حل لغات.مـحراب مِـحْرَابٌ کے معنے چوبارہ کے بھی ہوتے ہیںاور محراب کے معنے گھر کے اچھے حصہ کے بھی ہوتے ہیں.مسجد کے محراب کو اسی لئے محراب کہتے ہیں کہ وہاں امام کھڑا ہوتا ہے جو سب سے زیادہ معزز ہوتا ہے اور محراب اس جگہ کو بھی کہتے ہیںجہاں بادشاہ علیحدگی میںمسائل پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں اور عوام کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی.اور قلعہ کو بھی محراب کہتے ہیں اور شیر کی کچھار کو بھی محراب کہتے ہیں.(اقرب) اَوْحَی اِلَیْہِ.اَوْحٰی اِلَیْہِ اِیْحَاءً کے معنے ہوتے ہیں.بَعَثَہُ اس کو مبعوث کیا.اسی طرح اَوْحٰی بِکَذَا کے معنے ہوتے ہی اَلْھَمَہُ بِہٖ.اس کو کسی بات کی خبر دی.اور اساس میں لکھا ہے کہ وَحَیْتُ اِلَیْہِ وَ اَوْحَیْتُ.اِذَا کَلَّمْتَہُ بِمَا تُخْفِیْہِ مِنْ غَیْرِہِ یعنی وَحَیْتُ اِلَیْہِ اور اَوْحَیْتُ کے معنے ہوتے ہیں ایسی طرز پر بات کرنا کہ
دوسرے اس کو نہ سنیں.اور مصباح میں ہے کہ بَعْضُ الْعَرَبِ یَقُوْلُ وَ حَیْتُ اِلَیْہِ وَ حَیْتُ لَہ وَ اَوْحَیْتُ اِلَیْہِ وَلَہ یعنی بعض اہل عرب کے نزدیک وَ حَیْتُ اِلَیْہِ اور وَحَیْتُ لَہُ بھی استعمال ہوتا ہے.اور اَوْحَیْتُ اِلَیْہِ اور اَوْحَیْتُ لَہُ بھی استعمال ہوتا ہے.معنے سب کے ایک ہی ہیں.پس اَوْحٰی کے معنے صرف اشارہ کرنے کے نہیں بلکہ اس سے مراد کسی سے ایسے رنگ میں بات کرنا ہے کہ دوسرے لوگ نہ سنیں.بُکْرۃ بُکْرَۃً صبح سے دوپہر تک کو کہتے ہیں(اقرب)اور عَشِیًّا دن کے آخری حصہ کو کہتے ہیں.بعض زبان دان کہتے ہیں کہ مغرب سے عشاء تک کے وقت کے لئے عَشِیٌّ کا لفظ بولا جاتا ہے.(اقرب) تفسیر.حضرت زکریا ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تین رات دن خاموش رہ کر ذکر الٰہی کرنے کی ہدایت ہوئی تو انہوں نے نیت کر لی کہ میں اب کوئی بات نہیں کروں گا اور خدا کے ذکر میں مشغول رہوں گا.چنانچہ وہ اپنے کمرہ میں سے یا مسجد کے اس حصہ میں سے جہاں امام کھڑا ہوتا ہے باہر آئے اور انہوں نے ایسے رنگ میں بات کی کہ غیر لوگ اس کو نہ سنیں گویا نہایت آہستگی سے اپنے دوستوں کے پاس کھڑے ہو کر بات کی تاکہ غیر لوگ نہ سنیں.ا س سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے گونگے ہونے کا کوئی سوال نہیں تھا صرف ایسے رنگ میں بات کرنا مراد تھا کہ دوسروں کو سنائی نہ دے.سورئہ آل عمران میں اَوْحٰی اِلَیْھِمْ کی بجائے رَمْزًا کا لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا(آل عمران :۴۲) رَمْزًا کے معنے چونکہ عام طور پر اشارہ کے ہوتے ہیں اس لئے انجیل سے متاثر ہوکر ہمارے مفسرین نے بھی ا س کے معنے اشارہ کے کر لئے ہیں(تفسیر ابن کثیر زیر آیت فنادتہ الملائکة) حالانکہ لغت والے لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہونٹوں سے یا آنکھوں سے یا بھووں سے اشارہ کرنے کے ہیں(اقرب).اور ظاہر ہے کہ ہونٹوں سے انسان اشارہ نہیں کیا کرتا صرف آہستگی سے گفتگو کیا کرتا ہے پس ہونٹوں کے اشارہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ صوت نہ نکلے جیسے کسی کا گلا خراب ہو تو کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح بولو کہ تمہاری آواز نہ نکلے.بلکہ ثعالبی جو لغت کے امام ہیں وہ تو اپنی کتاب فقہ اللغۃ میں لکھتے ہیں کہ ھُوَمُخْتصٌّ بِالشَّفَۃِ.رمز کا لفظ ہونٹوں سے اشارہ کرنے کے لئے مخصوص ہے.(فقہ اللغۃ فصل فی تفصیل تحریکات مختلفۃ) یعنی صرف ہونٹ سے بولنا گلا استعمال نہ کرنا اور یہ معنے اَوْحٰی اِلَیْھِمْ کے بالکل مطابق ہیں یعنی اونچا بولنا ان کو منع تھا.ہونٹوں میں یعنی آہستہ کلام کر سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت تھی.چونکہ خدائی ارشاد پہنچانے کے لئے بعض قریبی لوگوں کو بتانا ضروری تھا.اس لئے انہوں نے آہستگی سے کہہ دیا.کہ میں خدائی حکم کے ماتحت تین دن
ذکر الہٰی کروں گا تم بھی صبح و شام ذکر الٰہی کرو.بُكْرَةً چونکہ صبح سے لے کر دوپہر تک کے وقت کو کہتے ہیں اور عَشِيًّا کا لفظ زوال سے لے کرر ات تک کے وقت پر استعمال ہوتا ہے.اس لئے بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا سے مراد یہ ہے کہ تم سارا دن عبادت کرو.میں بھی یہ ایام عبادت میں بسر کروں گا.يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّاۙ۰۰۱۳ (اس کے بعد یحییٰ پیدا ہو گیا اور ہم نے اسے کہا) اے یحییٰ ! تو (الٰہی) کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے.اور ہم نے وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِيًّاۙ۰۰۱۴ اسے چھوٹی عمر میں ہی (اپنے) حکم سے نواز تھا.(اور یہ بات) ہماری طرف سے بطور مہربانی (اور شفقت کے تھی) اور (اسے )پاک کرنے کے لئے (تھی)اور وہ بڑ متقی تھا.حل لغات.حَنَانٌ کے کئی معنے ہیں اس کے معنے رحمت کے بھی ہیں.رزق کے بھی ہیں.برکت کے بھی ہیں.دل کی نرمی کے بھی ہیں.ہیبت کے بھی ہیں اور وقار کے بھی ہیں(اقرب) اس جگہ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اسے دل کی نرمی بخشی.تفسیر.اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ تورات اور اس کے صحیفے اس وقت تک منسوخ نہیں ہوئے تھے.کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پر کسی نئی کتاب کے اترنے کے نہ مسلمان قائل ہیں اور نہ عیسائی.پس اَلْکِتٰبَ سے مراد تورات ہی ہے جس کومضبوطی سے پکڑنے کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حکم ہوا اور پھر آگے مسیح نے بھی یوحنا سے بپتسمہ لیا.گویا اسی کے دین کی اتباع کا اقرار کیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کوئی نئی کتاب نہیں لائے.کیونکہ جب ایک ہی زمانہ میں دو نبی ظاہر ہو رہے تھے اور ایک ہی قوم کی طرف آنے والے تھے اور ایک دوسرے کا شاگر دہونے والا تھا.تو کس طرح ممکن تھا کہ ایک تو تورات پر مضبوطی سے قائم ہو اور دوسرا اس شریعت کو منسوخ کرکے ایک اور کتاب لے آئے.پس یہ الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ موسوی شریعت ابھی جاری رہنے والی تھی.اگر وہ مسیح ؑ کے ذریعہ منسوخ ہونے والی ہوتی تو اتنی شدت کے ساتھ نہ کہا جاتا کہ خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ.اس
کتاب پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرو.یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک بنی اسرائیل کے لئے تورات ہی واجب العمل تھی.اگر وہ جلدی ہی منسوخ ہو جانے والی ہوتی تو ا س قدر تاکید نہ کی جاتی.کہ تم پوری مضبوطی کے ساتھ اس پر عمل کرو.یہ الفاظ دفع الوقتی کے لئے استعمال نہیں ہو سکتے.بلکہ اسی صورت میں استعمال ہو سکتے ہیں جب اس شریعت نے ابھی کچھ عرصہ تک قائم رہنا ہو.وَ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا.اور ہم نے اس کو بچپن کی عمرسے ہی حکم دیا تھا.صَبِيًّاکے معنے بچپن کی عمر کے بھی ہوتے ہیں لیکن درحقیقت مراد یہ ہے کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا قرب عطا کر دیا.یعنی ابھی لوگ ان کو بچہ ہی جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر کلام نازل ہونے لگ گیا.ہماری زبان میں بھی محاورہ ہے کہ فلاں تو ابھی کل کا بچہ ہے.مراد یہ ہوتی ہے کہ ابھی تو وہ چھوٹی عمر کا ہے.یہ مطلب نہیںہوتا کہ وہ دودھ پیتا بچہ ہے لیکن اس کے علاوہ جوانی کے لئے بھی یہ لفظ بول لیتے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں دو نبی یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام آگے پیچھے آئے اور ان دونوں کے متعلق صَبِيًّا کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ جب ان کی والدہ نے یہودیوں سے کہا کہ اس سے بات کرو تو انہوں نے کہا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ صَبِیًّا(مریم :۳۰)ہم ایک بچہ سے کس طرح بات کر سکتے ہیں گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں نے صبی کہا اور یحییٰ علیہ السلام کو بھی خدا نے صبی قرار دیا.اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا.پھر وہاں تو دشمنوں نے آپ کو صبی قرار دیا تھا اور یہاں خدا نے حضرت یحییٰ کو صبی قرار دیا ہے.اگر دشمن کے قول کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ؑ کو عظمت دی جا سکتی ہے تو حضرت یحیٰ کے متعلق تم اسی عظمت کے کیوں قائل نہیں.جب کہ یحیٰ کو دشمنوں نے نہیں بلکہ خدا نے صبی قرار دیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا (آل عمران :۴۷) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں مگر آپ کے متعلق صبی کا لفظ دشمنوں نے ہی استعمال کیا ہے.جس طرح اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر مسیح ؑکی عظمت کے تم اس وجہ سے قائل ہوکہ وہ بچپن میں ہی اپنے دشمنوں پر بھاری تھا تو وہی عظمت تم کو یحییٰ کو بھی کیوں نہیں دیتے جبکہ ہم نے اسے بھی بچپن میں ہی اپنا قرب عطاکردیا تھا اسی طرح یہاں بھی حضرت مسیح ؑ کی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے عیسائیوں کا بڑا زور
جس طرح اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر مسیح ؑکی عظمت کے تم اس وجہ سے قائل ہوکہ وہ بچپن میں ہی اپنے دشمنوں پر بھاری تھا تو وہی عظمت تم کو یحییٰ کو بھی کیوں نہیں دیتے جبکہ ہم نے اسے بھی بچپن میں ہی اپنا قرب عطاکردیا تھا اسی طرح یہاں بھی حضرت مسیح ؑ کی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے عیسائیوں کا بڑا زور اس امر پر ہے کہ حضرت مسیح ؑ نرمی اور حلم اور عفو اور بردباری کی تعلیم دیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں فرما دیا کہ یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم اور برد بار اور نرم مزاج تھا.اگر نرمی اور حلم کسی فضیلت کا باعث ہیں تو یہ فضیلت حضرت یحییٰ کو بھی حاصل ہے.غرض جتنی باتیں حضرت مسیح ؑ کی افضلیت کے متعلق پیش کی جاتی ہیں ان سب کی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ تردید کر دی ہے.(۱) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح دل کے بڑے حلیم تھے اور ان کی طبیعت میں رأفت اور محبت تھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم تھا اور اس کی طبیعت میں بھی رأفت اور محبت ڈالی گئی تھی.(۲) کہا جاتا ہے کہ مسیح ایک نئی شریعت لایا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی کہا تھا کہ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ تو اس کتاب پر مضبوطی سے عمل کر.(۳) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے بچپن میں کلام کیا اوریہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی بچپن میں اپنا مامور بنا کر لوگوں کی طرف بھیج دیا تھا.(۴) کہا جاتا ہے کہ مسیح ؑ گناہوں سے پاک تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یحییٰ بھی گناہوں سے پاک تھاکیونکہ ساتھ ہی فرماتا ہے و زکوۃً اس میں پاکیزگی اور تقدس بھی پایا جاتا تھا.غرض جتنی خصوصیات حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ سب کی سب حضرت یحییٰ میں بیان کر دی ہیں اور اس طرح عیسائیوں پر حجت تمام کی ہے کہ اگر ان خصوصیات کی وجہ سے حضرت مسیح کو تم تمام نبیوں پر فضیلت دیتے ہو تو پھر یحییٰ کو بھی تم ایسا ہی کیوں نہیں سمجھتے جبکہ اس میں بھی یہی باتیں پائی جاتی تھیں.وَ كَانَ تَقِيًّا.اور وہ صاحب تقویٰ تھا.پہلے فرمایا کہ اس میں زَکٰوۃً یعنی پاکیزگی پائی جاتی تھی پھر فرمایا کہ اس میں تقویٰ پایا جاتا تھا.اردو میں جب ہم معنی الفاظ آ جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ ان کے کوئی الگ الگ معنے نہیں صرف ایک ہی مفہوم کو مختلف الفاظ میں حسن کلام کے لئے ادا کیا گیا ہے.لیکن عربی زبان میں یہ بات نہیں.عربی زبان میں ہر لفظ الگ الگ معنے رکھتا ہے.پس كَانَ تَقِيًّا اور مفہوم کا حامل ہے اور زَکٰوۃً کا لفظ اور مفہوم کا حامل ہے.زَکٰوۃً کا لفظ عربی زبان میں اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تقویٰ کا لفظ باہر سے آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے حلم اور نرمی بخشی اور ہم نے اس کے اندرونی خیالات بھی پاکیزہ بنائے اور جو باہر سے خرابیاں آتی ہیں ان کے مقابلہ کی بھی اس کو طاقت بخشی.
وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَيْهِ وَ لَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا۰۰۱۴ اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا اور ظالم اور نافرمان نہیں تھا حلّ لُغَات.بَرٌّ بَرَّفِیْ یَمِیْنِہِ کے معنے ہوتے ہیں صَدَقَ.اس نے اپنی قسم کو پورا کرکے دکھایا یعنی اپنی بات کا پکا اورسچا نکلا.اور بَرَّ وَالِدَہُ کے معنے ہوتے ہیں اَحْسَنَ الطَّاعَةَ اِلَیْہ وَ رَفَقَ بِہ.اس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کیا.وَ تَحَرّٰی مُحَابَّہٗ وَ تَوَفّٰی مَکَارِھَہٗ اور جو باتیں اس کو پسند تھیں ان کو اس نے اختیار کیا اور جو باتیں اس کو ناپسند تھیں ان کو اس نے چھوڑ دیا فَھُوَبَرٌّ بِہٖ وَبَارٌّ.ایسے شخص کو بَرٌّ بھی کہتے ہیں اور بَارٌّ بھی کہتے ہیں (اقرب).اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے باپ کو خوش کرنے کے لئے ظاہری اور باطنی طور پر وہ تمام اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے جن کو وہ پسند کرتا ہو اور ان تمام برائیوں کو ترک کر دے جن کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس وقت اسے اسے بَرٌّ اور بَارٌّ کہتے ہیں.لیکن بَرٌّ میں بَارٌّ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے.جَبَّارًا.جَبَرَالْعَظْمَ کے معنے ہوتے ہیں اَصْلَحَہُ مِنْ کَسْرٍ.اس نے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کیا.یہ متعدی اور لازم دونوں طرح استعمال ہوتا ہے یعنی جَبَرَ الْعَظْمَ کے تو یہ معنی ہوں گے کہ اس نے ٹوٹی ہڈی کو درست کیا.لیکن جَبَرَالْعَظْمُ بِنَفْسہٖ کے معنے ہوں گے صَلُحَ بَعْدَ الْکَسْر.ہڈی ٹوٹ گئی تھی مگر پھر درست ہو گئی اور جَبَرَالْفَقِیْرَ کے معنے ہوتے ہیں اَغْنَاہُ اس نے فقیر کو غنی کر دیا.اور جَبَرَ فُلَانًا عَلَی الْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں اَکْرَھَہٗ.اس نے فلاں کو کسی کام پر سختی سے مجبور کیا (اقرب) گویا جہاں اس کے معنے اصلاح کرنے کے ہیں وہاں کسی کی مرضی کے خلاف اس پر ظلم کرکے جبراً اس سے کام لینے کے بھی ہیں گویا ایک معنے ایسے ہیں جن میں نیکی اور اصلاح پائی جاتی ہے اور ایک معنے ایسے ہیں جن میں سختی اور ظلم پایا جاتا ہے.عصیًّا عِصِیًّابمعنے عاصی استعمال ہوا ہے یعنی وہ نافرمان نہیں تھا.(اقرب) تفسیر.بَرًّۢا بِوَالِدَيْهِ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کا اپنے ماں باپ سے یہ سلوک تھا کہ وہ ان کا پورا مطیع اور فرمانبردار تھا.وہ ان تمام اخلاق فاضلہ کو پسند کرتا تھا جن کو وہ پسند کرتے تھے اور ان تمام برائیوں سے بچتا تھا جن کو وہ ناپسند کرتے تھے.وَ لَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا.اور پھروہ جبار اور نافرمان بھی نہیں تھا.
یہ خوبیاں جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی اسی لئے بیان کی ہیں کہ عیسائی حضرت مسیح ؑکے متعلق یہ کہا کرتے ہیں کہ اس نے کیا ہی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ ’’جو کوئی تیرے داہنے گالے پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.‘‘ (انجیل متی باب ۵آیت۳۹) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یحییٰ بھی جبار نہیں تھا.اس نے جو تعلیم دی اس میں بھی ظلم کا کوئی پہلو نہیں تھا.اسی طرح عیسائی حضرت مسیح ؑکی یہ بڑی خوبی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ’’ جو قیصر کا ہے قیصرکو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو‘‘ (انجیل متی باب ۲۲آیت۲۱) اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ یحییٰ بھی عِصِیًّا نہیں تھا.اس نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ نافرمانی مت کرو.اور قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو.غرض وہ ساری خوبیاں جو حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے رنگ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی تھیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت یحییٰ حضرت مسیح ؑ سے درجہ میں کم تھے لیکن یہاں درجہ اور مقام پر بحث نہیں.بلکہ اللہ تعالیٰ اس بات کا ذکر کر رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں تھی.چونکہ عیسائی حضرت مسیح کو غیر معمولی عظمت دیتے ہیں اور کہتے ہیں ان میں بعض اخلاق مخصوص طور پرپائے جاتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ساری خوبیاں حضرت یحییٰ ؑ میں بھی پائی جاتی تھیں.اگر ان باتوں کی وجہ سے تم عیسیٰ کو فضیلت دیتے ہو تو یحییٰ کو کیوں فضیلت نہیں دیتے؟ وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی اس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا اور جب وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا حَيًّاؒ۰۰۱۶ (تب بھی اس پر سلامتی ہوگی) تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوا تب بھی اس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا تب بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جب وہ زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا جائے گا تب بھی
اس پرسلامتی ہو گی.اس سے بعض لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد ہے اور چونکہ یہ سلامتی ان کی موت کے دن کے لئے بھی مقدر تھی.اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے.حالانکہ اگر آپ پر سلامتی نازل ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی نازل ہونے کے کیا معنے ہیں.کیا قیامت کے دن بھی کوئی دشمن آپ کے قتل کی تدبیر کرے گا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی.اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ اس میں دشمنوں کی تدابیر قتل کا رد ہے.تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے.جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے.اب بتائو کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے متعلق يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا.درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کاکچھ سمجھ لیا.دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں.ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش سے اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر.دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے.اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے.مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے.جسے قرآن کریم نے یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دئے جائیں گے.یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے.پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیٰوۃ الدنیا کا.موت ابتدائی نقطہ ہے حیات برزخی کا.اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے حیات اخروی کا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا.پھر جب وہ وفات پا ئے گا تب بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالم برزخ میں بھی سلامتی سے حصہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اوروہ اخروی حیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا.غرض اس آیت میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں.اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان تینوں زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے مورد ہوں گے مگر یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے نہیں آیابلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے.چنانچہ سور ہ انعام ع۶.۱۲
میں آتا ہے وَ اِذَا جَآءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ(الانعام:۵۵).یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کرلی ہے.یہ سلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے.پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے.الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(النحل:۲۹) یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے انہیں کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پرسلامتی ہو.جائو اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائو.اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں.بعض کی شہادت کے ذریعے نکالتے ہیں تو کیا اگر سلامتی کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ ساتھ سلام بھی کرتے جا رہے ہوں گے.گویا جو بات ہو رہی ہو گی اس کی تردید کر رہے ہوں گے.اسی طرح سورئہ طہ میں آتا ہے وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى(طہ:۴۸)جو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے.اگر سلام کے معنے دشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا پھر سورئہ مائدہ ع ۳.۷میں مومنوں کی نسبت فرمایا ہے يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ (المائدۃ:۱۷)یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے.اب اگر سلام کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے جوبالبداہت غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا حامل لفظ ہے بعض موقعوں پر یقیناً اس کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے کسی حملہ سے بچا لے گا.لیکن بعض جگہ بیماری سے بچانے کے اور بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے.بہرحال بغیر کسی زبردست قرینہ کے ایک عام لفظ کے کوئی خاص معنے کرنے اور وہ بھی ایسے جو تاریخی واقعات کے سراسر خلاف ہوں کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتے.پس یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے.اگر جسمانی سلامتی مراد ہو تو موت کے دن بھی اس پر سلامتی ہونے کے کوئی معنے نہیں ہو سکتے.کیونکہ انسان جب بھی مرتا ہے کسی بیماری یا حادثہ سے مرتا ہے اور جب وہ کسی بیماری یا حادثہ سے ہلاک ہو گا تو اس کے لئے سلامتی کہاں ہوئی.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے.اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس دن وہ پیدا ہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی
اور وہ تمام دماغی اور جذباتی کمزوریوں سے محفوظ ہو گا اور جس دن وہ مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی یعنی وہ تمام روحانی امراض سے پاک ہو گا اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی.یہ آیت بھی حضرت مسیح ؑ کی ایک خصوصیت کو رد کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے.مسلمان کہتے ہیں کہ سوائے حضرت عیسیٰ ؑ اور اس کی والدہ کے دنیا میں کوئی شخص مس شیطان سے پاک نہیں.یہ بات عیسائیوں نے نہیں کہی بلکہ مسلمانوں نے مسیحیوں پر احسان کرکے ان کے لئے پیدا کی ہے خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دینا ہے کہ مسیح ؑ مس شیطان سے پاک تھا اور یہ اس کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں وہ منفرد ہے(تفسیر ابن کثیر زیر آیت انی اعیذھا بک).اس کی تردید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کی نسبت فرما دیا وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ.یوحنا بھی اپنی پیدائش کے دن خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے تھا.اگر پیدائش کے وقت شیطان ہرشخص کو چھیڑتا ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا ہی برکت والا وہ دن تھا.جس دن یحییٰ پیدا ہوا (تفسیر ابن کثیر زیر آیت انی اعیذھا بک)اور شیطان نے اسے چھیڑا.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر شیطان ہر انسان کو اس کی پیدائش پر چھیڑتا ہے تو یحییٰ کی نسبت یہ نہیںکہا جا سکتا کہ وہ بڑی برکتوں والا اور سلامتی کا دن تھا جس دن یحییٰ پیدا ہوا.ہاں اگر شیطان نے اسے نہیں چھیڑا تب بے شک کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑی ہی برکتوں والا دن تھا جب یحییٰ پیدا ہوا.اور شیطان نے اسے نہیںچھیڑا.پس حضرت یحییٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ نے وہ ساری خوبیاں بیان کر دی ہیں.جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح میں پائی جاتی تھیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور کمالات پائے جاتے تھے.مسلمانوں نے ان کو عیسائیوں کے سامنے پیش کرنا تھا اور عیسائیوں نے ان کا انکار کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ ساری خوبیاں تو مسیح میں پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے ذریعہ مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھیری کہ تم انجیل میں یوحنا کے حالات دیکھ لو تمہیں وہ ساری خوبیاں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر یوحنا میں دکھائی دیں گی جو مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں.میں نے بتایا ہے کہ یوحنا کے متعلق اناجیل میں یہاں تک لکھا ہے کہ ’’میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نبی بڑا نہیں‘‘.( لوقا باب۷آیت ۲۸) اسی طرح یوحنا کے متعلق سابق انبیاء کی پیشگوئیاں بھی پائی جاتی ہیں.پس مسیح ؑ کو کوئی خاص خصوصیت حاصل نہیں جس کی وجہ سے اسے خدا یا خدا کابیٹا قرار دیا جا سکے.باقی یہ کہ ایک بڑا تھا اور ایک چھوٹا.اس سے ہم بھی انکار
نہیں کرتے.لیکن یہ کہ وہ کوئی نرالی خصوصیات رکھتا تھا یہ ایک ایسی بات ہے جو اناجیل کے رو سے بالکل باطل ہے بلکہ یوحنا کے متعلق تو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا اور ہرگز نہ مَے نہ کوئی اور شراب پئے گا.‘‘ ( لوقا باب۱آیت ۱۵) اور مسیح انجیل کے رو سے نہ صرف خود شراب پیتا تھا بلکہ شراب بنانے کا معجزہ بھی اس نے دکھایا تھا (انجیل یوحنا باب ۲آیت ۱تا ۱۱) اسی طرح مسیح ؑ اگر روزہ رکھتا اور عبادتیں کرتا تھا تو یہ باتیں یوحنا میں بھی پائی جاتی تھیں.غرض خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہ گر بتایا ہے کہ عیسائیوں کے مقابلہ میں تم یحییٰ کے حالات کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جتنی باتیں مسیح کے متعلق بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری یوحنا میں بھی پائی جاتی ہیں اور جب یہ حالت ہے تو مسیح کی اس میں خصوصیت کیا رہی.پس يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ سے آخر رکوع تک مسیحیت کے رد کے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کرو گے تو عیسائی مانیں گے نہیں.ہم تمہیں گر بتاتے ہیں کہ انجیل میں یوحنا کا ذکرپڑھو.وہاں تمہیںوہی باتیں ملیں گی جو عیسائی حضرت مسیح ؑ میں بیان کرتے ہیں.پس تم انہیں بتائو کہ مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں جس کی وجہ سے اسے خدایا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مَرْيَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا اور تو(اس) کتاب میںمریم کا (جو) ذکر (آتا ہے اسے)بیان کر (خصوصاً اس با ت کو کہ) جب وہ اپنے مَكَانًا شَرْقِيًّاۙ۰۰۱۷ رشتہ داروں سے مشرقی (جانب ایک) جگہ چلی گئی حلّ لُغَات.اِنْتَبَذَ کے معنے ہوتے ہیں اعْتَزَلَ وَ تَنَحّٰی نَاحِیَۃً.وہ الگ ہو گیا.اور ایک طرف چلا گیا.(اقرب) شَرْقِی شَرْقِیٌّ کے متعلق لغت میں لکھا ہے اَلشَّرْقِیُّ الْمَنْسُوْبُ اِلٰی الشَّرْقِ.وَ کُلُّ مَکَانٍ فِیْ جِھَةِ الشَّرْقِ وَ کُلُّ مَا اتَّجَّہَ نَحْوَالشَّرْقِ.یعنی شَرْقِیٌّ کے معنے مشرق کی طرف کے بھی ہوتے ہیںاور شرقی ہر ایسے مکان کوبھی
کہتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو.(اقرب) تفسیر.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مَرْيَمَ کے یہ معنے ہیں کہ تو کتاب میں مریم کا ذکر کر یاکتاب میں مریم کا جو ذکر ہے اس کو اپنے ذہن میں لا.الْکِتٰبِ سے مراد گر قرآن کریم لیا جائے تو اس کا یہ مفہوم ہو گا کہ اس قرآن کے ذریعہ تو مریم کا ذکر بیان کر.لیکن الْکِتٰبِ سے مراد بائبل بھی ہو سکتی ہے.اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کا جو ذکر آتا ہے اس کو بیان کر یا اسے اپنے ذہن میں لا.یہ ظاہر ہے کہ بائبل میںبہت کچھ غلط واقعات اپنی طرف سے شامل کر دئے گئے ہیں پس وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مَرْيَمَ کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کے جوحالات بیان کئے گئے ہیں ان کو بھی دیکھو.اور پھر قرآن کریم میں جو حالات بیان ہوئے ہیں ان کو پڑھو.اور دونوں کا مقابلہ کرکے اندازہ لگائو کہ مریم کے حالات کس کتاب نے زیادہ عمدگی کے ساتھ ان کی شان کے مطابق پیش کئے ہیں.اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان کرکے یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا.کیونکہ پیشگوئیوں کے مطابق یحییٰ کی پیدائش مسیح ؑ کے لئے بطور ارہاص تھی اور مسیح ؑ دنیامیں اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان سے پہلے ایلیاہ کا بروز ظاہر نہ ہو جاتا.اب خدا تعالیٰ یحییٰ کے ذکر کے بعد مریم کا ذکر کرتا ہے.کیونکہ جس طرح یحییٰ کا وجود مسیح ؑ سے پہلے ضروری تھااور یحییٰ کا آنا ایک نشان کے طور پر تھا اسی طرح مسیح کی بن باپ ولادت بھی یہود کے لئے ایک عظیم الشان نشان تھی.کیونکہ اس ذریعہ سے یہود کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ اب بنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس نعمت کو ان کے دوسرے بھائیوں کی طرف منتقل کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے بیسیوں دفعہ سنا ہے کہ مسیح کی بن باپ ولادت نبوت کا کانٹا پھیرنے اور یہود کو یہ بتانے کے لئے تھی کہ بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ نے اب اپنا منہ موڑ لیا ہے.اور وہ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اب نبوت کا سلسلہ ایک دوسری قوم میں منتقل کرنے والا ہے(مواہب الرحمن روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۹۰،۲۹۱).چونکہ سلسلہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا.یہ بتانے کے لئے کہ اب یہود میں کوئی مرد ایسا نہیں رہا جس کی اولاد میں سے کسی کو نبی بنایا جا سکے.چناچہ اب ہم جس کو نبی بنا رہے ہیں بغیر باپ کے بنا رہے ہیں صرف اس کی ماں اسرائیلی ہے مگر آنے والے نبی میں اتنا حصہ بھی نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ اسرائیل سے اپنے تعلقات کلی طور پر منقطع کر لے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا بار بار ذکر فرمایا ہے چنانچہ
مواہب الرحمٰن وغیرہ میں یہ مضمون پایا جاتا ہے.اور درجنوں دفعہ ہم نے آپ کی زبان سے بھی یہ بات سنی ہے کہ حضرت مریم بھی ایک علامت تھیں اس خدائی انتباہ کی کہ نبوت اب بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہونے والی ہے اور موسیٰ ؑ کی اس پیشگوئی کا ظہور بالکل قریب ہے جس میں اس نے بتایا تھا کہ ’’خدا وند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل) میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا.‘‘ (استثناء باب ۱۸آیت ۱۵) پس چونکہ مریم بھی ایک خدائی نشان تھیں اس لئے ہمیں پوری طرح تحقیق کرنی چاہیے کہ بائبل اور قرآن نے ان کا وجود کس شکل میں پیش کیا ہے.عربی زبان میں حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے مریم کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن عبرانی زبان میں اس کا تلفظ کئی رنگ میں آتا ہے.چنانچہ ماریہؔ.مریمؔ.مریوم.یہ تین تلفظ ہیں جن میں اس لفظ کو ادا کیا جاتا ہے.انجیل میں جہاں حضرت مسیح کی والدہ کا ذکر آتا ہے وہاں تو مریم کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے مگر جہاں دوسری عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں کا نام کبھی مریم آتا ہے اور کبھی ماریہ.غرض مریمؔ، ماریہؔ اور مریوم یہ مختلف تلفظ ہیں جو اس زمانہ کے لوگوں میں رائج تھے.مگر غالباً حضرت مسیح کی عظمت کی وجہ سے ان کی والدہ کے لئے صرف ایک ہی نام رکھا گیا تھا یعنی مریم.سب سے پہلے بائبل میں یہ نام تورات کے صحیفہ میں آیا ہے اور اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی ہمشیرہ کا یہ نام بتایا گیا ہے.غالب گمان یہ ہے کہ یہی وہ بہن تھی جو موسیٰ کے دریا میںپھینکنے کے بعد ان کے پیچھے پیچھے گئی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے (القصص:۱۲)مگر اس کے نام کا تلفظ بائبل میں مِریم آتا ہے.یعنی میم کی زیر سے.اس کے بعد یہ نام دوسری دفعہ نئے عہد نامہ میں آتا ہے اور اس جگہ کا تلفظ مَریم میم کی زبر سے آتا ہے.(متی باب ۱ آیت ۱۸) اس لفظ کے معنوں میںاختلاف ہے.بعض نے لکھا ہے اس کے معنے تلخ سمندر کے ہیں.بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے سمندر کا ستارہ کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے ’’دن کی ملکہ‘‘ کے ہیں.بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے ’’ماسٹر کی مہر‘‘ کے ہیں.بعض نے اس کے معنے سمندر کے استاد کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے سمندر کی مر (MYRH)کے ہیں.مِر ایک قسم کی گوند ہوتی ہے جو دوائوں میں استعمال ہوتی ہے.درحقیقت جن لوگوں نے عبرانی زبان کی تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مریم کے جو مختلف معنے کئے گئے ہیں اس
کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مشابہ بعض اور الفاظ عربی اور ایرانی اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ہیں لوگوں نے ان زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے یہ معنے اخذ کر لئے اور اس طرح اختلاف پیدا ہو گیا.مثلاً ’’سمندر کے مِر‘‘ کے جو معنے کئےگئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کی بہن کا نام تورات میں مِریم آتا ہے اور مِرْعربی زبان میں ایک گوند کانام ہے اور یَم ْسمندر کو کہتے ہیں.پس انہوں نے دوسری زبانوں کے مشابہ الفاظ کو دیکھ کر مِریم کا یہ ترجمہ کر لیاکہ ’’سمندر کا مِر‘‘ اسی طرح بعض معنے ایرانی ا ور دوسری زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے اخذ کئے گئے ہیں.لیکن جن لوگوں نے HEBREWزبان کی پوری تحقیق کی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے معنے یا تو سینہ زور کے ہیں یا موٹی کے ہیں.گویا اس کے ایک معنے خود سر کے اور ایک موٹاپے کے کئے جاتے ہیں.خود سر کا مفہوم بھی موٹاپے کی طرف ہی جاتا ہے کیونکہ جو مضبوط بچہ ہوتا ہے وہی اَڑتا اور مقابلہ کرتا ہے.خیال کیا جاتا ہے کہ عام طور پر جو بچے مشکل سے پیدا ہوتے تھے اور وزنی ہوتے تھے ان کا نام مریم رکھا جاتا تھا بعض نے کہا ہے کہ اصل میں ہر ملک کی خوبصورتی کا معیار الگ الگ ہوتا ہے.سامی نسلوں میں یعنی یہودیوں اور عربوں میں موٹاپا خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا.اسی وجہ سے بَانَتْ سُعَادُ میں شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ھَیْفَاءُ مُقْبِلَةً عَجْزَاءُ مُدْبِرَۃً یعنی جب وہ سامنے سے آ رہی ہو تو پتلی کمر والی دکھائی دیتی ہے اور جب واپس جا رہی ہوتو موٹی دکھائی دیتی ہے.تو چونکہ موٹاپا اُن میں خوبصورتی کا معیار تھا اس لئے جو لڑکی خوبصورت ہوتی تھی اور موٹی بھی ہوتی تھی اس کا نام مریم رکھ دیا جاتا تھا.لیکن بعض نے کہا ہے کہ صرف خوبصورتی کی وجہ سے یہ نام رکھا جاتا تھا.موٹاپے کو خاص طور پر ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا.یہ معنے غالباً انہوں نے اس لئے کر لئے ہیں کہ حضرت مریم کی عیسائیوں میں جو تصویریں پائی جاتی ہیں ان میں وہ زیادہ موٹی نظر نہیں آتیں.انجیل میں جیسا کہ میں بتا چکاہوں کہ مریمؔ اور ماریہؔ کے نام تبدیل ہوتے رہتے ہیں یعنی ایک دوسرے کی جگہ بولے جاتے ہیں.لیکن حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے ہمیشہ مریم کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں یہ نام بہت معروف تھا کیونکہ انجیل میں کئی عورتوں کا یہ نام مذکور ہے.مریم کی زندگی کے حالات انجیل قبل از ولادتِ مسیح مریم کے حالات کے بارہ میں بالکل خاموش ہے.متی باب ۱آیت۸ ۱سے صرف اتنا
معلوم ہوتا ہے کہ مریم کنواری حاملہ ہوئی تو یوسف جس سے اس کی منگنی ہوئی تھی اس نے اسے چھوڑنا چاہا مگر فرشتہ نے اسے منع کیا اور اسے یوسف کی جورو قرار دیا اور کہا اے یوسف تو اپنی جورو کو گھر لے جا(متی باب ۱ آیت ۱۸ تا ۲۰).اس سے پہلے کاکوئی واقعہ متی میں نہیں ہے.مرقس نے اس پیدائش کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا.لوقا نے اس معجزانہ پیدائش کا ذکر کیا ہے.مگر اسی وقت سے اس نے مریم کا ذکر کیا ہے جب فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہو گئی.کیونکہ لکھا ہے کہ مریم کنواری تھی اور اس کی یوسف سے منگنی ہوئی تھی مگر شادی سے پہلے فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہوئی(انجیل لوقا باب ۱آیت ۲۷تا ۳۵) لیکن حاملہ ہونے سے پہلے کے حالات پر لوقا نے کوئی روشنی نہیں ڈالی.صرف اتنا بتایا ہے کہ مریم زکریاہ کی بیوی کی رشتہ دار تھی اور اس کے گھر آتی جاتی تھی.اس کے ماں باپ اور اس کے بچپن کے حالات پر اس نے کوئی روشنی نہیں ڈالی.یوحنا اس بارہ میں بالکل خاموش ہے.قرآن کریم نے مریم کے خاندان کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی والدہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی پیدائش کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے (آل عمران :۳۶،۳۷)جس سے مسیح کی پیدائش کی طرف اشارہ ملتا ہے.آخر اتنابڑا نشان دکھانے کے لئے کوئی ابتدائی علامات بھی تو ہونی چاہئیں.وہ ابتدائی علامات قرآن کریم پیش کرتا ہے انجیل نہیں.چنانچہ سورئہ آل عمران ع ۴.۱۲میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمران کے خاندان کی ایک عور ت تھی (یعنی موسوی خاندان کی) اس نے اپنے دل میں محسوس کیا کہ دین کی حالت خراب ہو رہی ہے اور اس کی اصلاح کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے.اگر میرا بچہ ہوا تو میں اس کام کے لئے اسے وقف کر دوں گی اور خدا تعالیٰ سے اس نے یہ وعدہ کیا اور دعا کی کہ وہ اس کی نذر کو قبول کرے اور اس میں برکت دے.لیکن جب اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو بجائے لڑکے کے وہ لڑکی تھی جس پر اسے مایوسی ہوئی کہ وہ کام جس کے لئے اس نے اپنی اولاد وقف کی تھی لڑکی سے نہ ہو سکے گا اور گھبرا کر پھرخدا سے دعا کی کہ الٰہی اب کیاکروں میرے گھر میں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے.حالانکہ خدا جانتا تھا کہ جو نر اولاد اس نے مانگی تھی وہ اس لڑکی کےبرابر کام نہیں کر سکتی تھی.اصل بات یہ ہے کہ زمانہ کی خرابی کا احساس تو نیک لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکا تھا مگر اس خرابی کو دور کرنے کا جوصحیح وقت تھا اسے وہ نہیں جانتے تھے.وہ دیکھتے تھے کہ خرابی پیدا ہو چکی ہے اور دین سے محبت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں جوش تھا کہ وہ اس کی اصلاح کریں.مرد اپنی جگہ فکر مند تھے اور عورتیں اپنی جگہ فکر مند تھیں.عورتوں نے اس طرف توجہ کی کہ ہم اپنی اولادیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کریں گی.مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ اس اصلاح کا صحیح موقعہ کونسا ہے.اگر مریم کی والدہ کی دعا اس وقت قبول ہوجاتی تو مسیح ؑ اپنے وقت سے
بیس سال پہلے پیدا ہو جاتے.حالانکہ درمیان میں یحییٰ نے بھی آنا تھا اور ان کا آنا مسیح کے لئے ارہاص کے طور پر تھا.پس اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس رنگ میں قبول کیا کہ بجائے اس کے کہ انہیں وہ بیٹا دیتا جو دین کی خدمت کرتا اس نے انہیں وہ بیٹی دی جس سے آگے چل کر ایک عظیم الشان بیٹا پیدا ہونے والا تھا.اس طرح دعا بھی قبول ہو گئی اور زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وقت مقدر تھا وہ بھی نہ ٹلا.غرض خدا تعالیٰ جو حالات سے واقف تھا اگر اسی وقت اس کی دعا سن لیتا تو وہ بچہ اس خدمت کو سر انجام نہیں دے سکتا تھا جو امّ مریم کے ذہن میں تھی.اس نے پرانی پیشگوئیوں کے مطابق کہ کنواری لڑکا جنے گی جویہود کو نجات دلوائے گا (یسعیاہ باب ۷ آیت ۱۴)اور وہ ایک غیر معمولی فرزند کی ماں ہو گی لڑکے کی بجائے لڑکی دے دی.اور اس کی ماں کی دعا اس رنگ میں سنی گئی کہ لڑکی سے ایک ایسا فرزند پیدا ہوا جو یہود کی رستگاری کا موجب ہوا.بہرحال ماں نے جب دیکھا کہ لڑکی ہوئی ہے تو چونکہ نذر مان چکی تھی.اس نے اسے علماء اور مجاوروں کی تربیت میں دے دیا.مگر اس لئے نہیں کہ وہ بے بیاہی رہے بلکہ صرف دینی تربیت کے لئے.کیونکہ ماں دعا کرتی ہے کہ میں اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے تجھ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں(آل عمران: ۳۷).اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس خیال سے کہ میں چونک دعا کر چکی ہوں اس لئے اگر علماء کے سپرد اسے کیا گیا تو وہ اس کی اچھی تربیت کریں گے اور اسے دین کی باتیں سکھائیں گے اور یہ آگے اپنی اولاد کو سکھائے گی اسے پادریوں اور مجاوروں کے سپرد کر دیا.ورنہ ان کی خواہش تھی کہ یہ لڑکی شادی کرے اور اس کے بچے پیدا ہوں کیونکہ وہ اس کے لئے اور پھر اس کی اولادکے لئے بھی دعا کرتی ہیں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں.معلوم ہوا کہ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹی شادی کرے اور اس کے بچے ہوں.خدا تعالیٰ نے ماں کی دعا سنی اور مریم پر خاص فضل کیا.وہ زکریاہ کاہن کی تربیت میں پلی اور دوسرے کاہنوں کی نگرانی میں رہی اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہوئی.چنانچہ بچپن ہی میں وہ اس یقین پر پہنچی کہ جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے.اس کے ایک ایسے ہی جواب سے زکریا متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے لئے بھی لڑکے کی دعا کی جس سے یحییٰ پیدا ہوئے اور اس طرح عیسیٰ کی ماں عیسیٰ کے ارہاص والے نبی کے پیدا کرنے میں ممد ہوئی اور اپنے بیٹے کی سخت سے سخت مشکل کے حل کرنے والی بن گئی.کہ ایلیاہ نبی کی آمد کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت نہ ہو سکتا تھا سو یحییٰ ایلیاہ کامثیل بنا اور عیسیٰ کی ماں کی ایک معصوم حرکت سے اس کا وجود ظہور میں آیا.مریم کی بعد کی زندگی کے حالات انجیل میں یہ لکھے ہیں کہ حمل کے بعد یوسف اسے گھر لے گیا(متی باب ۱ آیت ۲۴).
شادی کاکوئی ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہود میں منگنی شادی ہی سمجھی جاتی تھی اور حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے ان کی پیدائش تک یوسف نے مریم سے کوئی تعلق نہ ر کھا.ان کی پیدائش کے بعد وہ ان کے پاس گیا.اور دوسرے بچے پیدا ہوئے.(انجیل متی باب۱آیت ۲۵) پھر لکھا ہے.’’یسوع بچپن سے اپنے ماں باپ سے نفور تھا اور جب اس نے دعویٰ کیا مریم اس پر ایمان نہیں لائی بلکہ اس کی باتوں کو تعجب سے دیکھتی رہی‘‘.متی باب ۱۲آیت ۴۶تا ۵۰میں لکھا ہے.’’جب وہ جماعتوںسے یہ کہہ رہا تھا دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے اس سے بات کیا چاہتے تھے.تب کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں.پر اس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی اور اپنا ہاتھ اپنے شاگردوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی کیونکہ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پرچلتاہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے.‘‘ اس سے پتہ لگا کہ مسیح نے اپنے بھائیوں اور اپنی ماں کو مومن نہیں قرار دیا.کیونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ’’ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پر چلتا ہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے‘‘ یعنی یہ خدا کی مرضی پر چلنے والے نہیں.پس انجیل کی رو سے حضرت مریم منکرہ اور کافرہ تھیں.انہوں نے مسیح کی باتوں کو نہیں مانا.مرقس باب ۲آیت ۳۱تا ۳۵اور لوقا باب۸آیت ۲۰میں بھی یہی مضمون ہے.اور یوحنا تو اس واقعہ پر بالکل خاموش ہے.متی میں پھر اور وضاحت سے لکھا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ کیا یسوع کی ماں اور بھائی اور سب بہنیں ہمارے ساتھ نہیں.یعنی لوگوں نے کہا کہ اگریہ سچا ہے تو اس کی ماں ہمارے ساتھ کیوں ہے.اس کے بھائی ہمار ے ساتھ کیوں ہیں.اس کی بہنیں ہمارے ساتھ کیوں ہیں.وہ اس پر کیوں ایمان نہیں لائے.گویا متی صاف طور پر اقرار کرتا ہے کہ مسیح پر نہ مریم ایمان لائی تھیں نہ مسیح کی بہنیں ایمان لائی تھیں نہ مسیح کے بھائی ایمان لائے تھے.اور یہود کہا کرتے تھے کہ یسوع کے سب بھائی اور بہنیں اور اس کی والدہ ہمارے ساتھ ہیں.اگر یہ سچا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ اس پر ایمان لاتے.جس پر مسیح نے کہا کہ
’’نبی اپنے وطن اور گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہے.‘‘(متی باب۱۳آیت ۵۵تا ۵۷) یعنی میں اپنے وطن میں بھی بے عزت ہوں اور اپنے گھر میں بھی بے عزت ہوں.مگر میری یہ بے عزتی اس بات کی دلیل نہیں کہ میں جھوٹا ہوں کیونکہ نبیوں کے گھر والے ہمیشہ ان کے مخالف ہوا کرتے ہیں.پھر یہیں تک بس نہیں.مرقس باب۳سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے عزیز اور رشتہ دار اسے پاگل سمجھا کرتے تھے.چنانچہ لکھا ہے.’’جب اس کے عزیزوں نے یہ سنا تو اسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے وہ بے خود ہے.‘‘ (انجیل مرقس باب ۳آیت ۲۱) گویا بجائے اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاتے وہ اسے دیوانہ اور مجنون سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسے پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ ادھراُدھر نہ پھرے.ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ انجیل کے نزدیک مریم اور ان کی دوسری اولاد اور یوسف جو باپ کہلاتا تھا مسیح ؑ پر ایمان نہیں لائے اور مسیح ؑ ان سے تُرش روئی سے پیش آتا تھا.حتیٰ کہ بائبل کے رو سے عین صلیب کے وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں کی طرف توجہ نہیں کی.ماں کے دل میں درد تھا اور وہ صلیب کے وقت وہاں پہنچی.مگر بائبل بتاتی ہے کہ اس وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں سے محبت کے ساتھ بات نہیں کی.بلکہ اسے جب کھڑا دیکھا تو تھوما سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تیری ماںہے اور مریم سے کہا اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا.(انجیل یوحنا باب ۱۹آیت ۲۶و۲۷) گویا اس وقت بھی انجیل کی رو سے مسیح کے دل میں مریم کی نسبت اتنا بغض تھا کہ بجائے یہ کہنے کے کہ اے ماں یا اے مریم مسیح نے اس وقت بھی یہ کہا کہ اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا.اس طرح انہوں نے اپنا اخلاقی فرض تو ادا کر دیا اور ماں کو اس کا ٹھکانہ بتا دیا اور تھوما سے بھی کہہ دیا کہ اس کی اپنی ماں کی طرح خدمت کرنا لیکن اس وقت بھی ان کے جذبات انجیل کی رو سے اتنے زخمی تھے کہ بجائے اس کے کہ ایسے خطرناک موقعہ پر جبکہ انہیں صلیب پر لٹکایا جا رہا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے.انہوں نے اس وقت بھی ماں کا لفظ نہیں بولا بلکہ اسے اے عورت کہہ کر مخاطب کیا.پھر انجیل کے بیان کے مطابق اس کی اپنی ماں سے بے رخی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ایک عورت نے اس کے لیکچر سے متاثر ہو کر کہا کہ ’’مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تُو رہا اور وہ چھاتیاں جو تُونے چوسیں.‘‘ یعنی کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کے پیٹ میں تُو رہا.اور کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کی چھاتیوں سے تو نے
شادی کاکوئی ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہود میں منگنی شادی ہی سمجھی جاتی تھی اور حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے ان کی پیدائش تک یوسف نے مریم سے کوئی تعلق نہ ر کھا.ان کی پیدائش کے بعد وہ ان کے پاس گیا.اور دوسرے بچے پیدا ہوئے.(انجیل متی باب۱آیت ۲۵) پھر لکھا ہے.’’یسوع بچپن سے اپنے ماں باپ سے نفور تھا اور جب اس نے دعویٰ کیا مریم اس پر ایمان نہیں لائی بلکہ اس کی باتوں کو تعجب سے دیکھتی رہی‘‘.متی باب ۱۲آیت ۴۶تا ۵۰میں لکھا ہے.’’جب وہ جماعتوںسے یہ کہہ رہا تھا دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے اس سے بات کیا چاہتے تھے.تب کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں.پر اس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی اور اپنا ہاتھ اپنے شاگردوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی کیونکہ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پرچلتاہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے.‘‘ اس سے پتہ لگا کہ مسیح نے اپنے بھائیوں اور اپنی ماں کو مومن نہیں قرار دیا.کیونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ’’ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پر چلتا ہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے‘‘ یعنی یہ خدا کی مرضی پر چلنے والے نہیں.پس انجیل کی رو سے حضرت مریم منکرہ اور کافرہ تھیں.انہوں نے مسیح کی باتوں کو نہیں مانا.مرقس باب ۲آیت ۳۱تا ۳۵اور لوقا باب۸آیت ۲۰میں بھی یہی مضمون ہے.اور یوحنا تو اس واقعہ پر بالکل خاموش ہے.متی میں پھر اور وضاحت سے لکھا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ کیا یسوع کی ماں اور بھائی اور سب بہنیں ہمارے ساتھ نہیں.یعنی لوگوں نے کہا کہ اگریہ سچا ہے تو اس کی ماں ہمارے ساتھ کیوں ہے.اس کے بھائی ہمار ے ساتھ کیوں ہیں.اس کی بہنیں ہمارے ساتھ کیوں ہیں.وہ اس پر کیوں ایمان نہیں لائے.گویا متی صاف طور پر اقرار کرتا ہے کہ مسیح پر نہ مریم ایمان لائی تھیں نہ مسیح کی بہنیں ایمان لائی تھیں نہ مسیح کے بھائی ایمان لائے تھے.اور یہود کہا کرتے تھے کہ یسوع کے سب بھائی اور بہنیں اور اس کی والدہ ہمارے ساتھ ہیں.اگر یہ سچا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ اس پر ایمان لاتے.جس پر مسیح نے کہا کہ
’’نبی اپنے وطن اور گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہے.‘‘(متی باب۱۳آیت ۵۵تا ۵۷) یعنی میں اپنے وطن میں بھی بے عزت ہوں اور اپنے گھر میں بھی بے عزت ہوں.مگر میری یہ بے عزتی اس بات کی دلیل نہیں کہ میں جھوٹا ہوں کیونکہ نبیوں کے گھر والے ہمیشہ ان کے مخالف ہوا کرتے ہیں.پھر یہیں تک بس نہیں.مرقس باب۳سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے عزیز اور رشتہ دار اسے پاگل سمجھا کرتے تھے.چنانچہ لکھا ہے.’’جب اس کے عزیزوں نے یہ سنا تو اسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے وہ بے خود ہے.‘‘ (انجیل مرقس باب ۳آیت ۲۱) گویا بجائے اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاتے وہ اسے دیوانہ اور مجنون سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسے پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ ادھراُدھر نہ پھرے.ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ انجیل کے نزدیک مریم اور ان کی دوسری اولاد اور یوسف جو باپ کہلاتا تھا مسیح ؑ پر ایمان نہیں لائے اور مسیح ؑ ان سے تُرش روئی سے پیش آتا تھا.حتیٰ کہ بائبل کے رو سے عین صلیب کے وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں کی طرف توجہ نہیں کی.ماں کے دل میں درد تھا اور وہ صلیب کے وقت وہاں پہنچی.مگر بائبل بتاتی ہے کہ اس وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں سے محبت کے ساتھ بات نہیں کی.بلکہ اسے جب کھڑا دیکھا تو تھوما سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تیری ماںہے اور مریم سے کہا اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا.(انجیل یوحنا باب ۱۹آیت ۲۶و۲۷) گویا اس وقت بھی انجیل کی رو سے مسیح کے دل میں مریم کی نسبت اتنا بغض تھا کہ بجائے یہ کہنے کے کہ اے ماں یا اے مریم مسیح نے اس وقت بھی یہ کہا کہ اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا.اس طرح انہوں نے اپنا اخلاقی فرض تو ادا کر دیا اور ماں کو اس کا ٹھکانہ بتا دیا اور تھوما سے بھی کہہ دیا کہ اس کی اپنی ماں کی طرح خدمت کرنا لیکن اس وقت بھی ان کے جذبات انجیل کی رو سے اتنے زخمی تھے کہ بجائے اس کے کہ ایسے خطرناک موقعہ پر جبکہ انہیں صلیب پر لٹکایا جا رہا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے.انہوں نے اس وقت بھی ماں کا لفظ نہیں بولا بلکہ اسے اے عورت کہہ کر مخاطب کیا.پھر انجیل کے بیان کے مطابق اس کی اپنی ماں سے بے رخی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ایک عورت نے اس کے لیکچر سے متاثر ہو کر کہا کہ ’’مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تُو رہا اور وہ چھاتیاں جو تُونے چوسیں.‘‘ یعنی کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کے پیٹ میں تُو رہا.اور کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کی چھاتیوں سے تو نے
دودھ پیا.اب کم از کم اس موقعہ پر ہی مسیح اس عورت کی تعریف کو پی جاتے اور کچھ نہ کہتے.مگر مسیح سے اتنی بات بھی برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے کہا ’’ہاں مبارک ہیں وہ جو خدا کا کلام سنتے ہیںاور اسے مانتے ہیں.‘‘ (انجیل لوقا باب ۱۱آیت ۲۷و ۲۸) یعنی وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کے پیٹ میں رہا.وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کی چھاتیوں سے میں نے دودھ پیا.بلکہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اسے مانتے ہیں جس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مریم نے نہ خدا کا کلام سنا اور نہ اسے مانا.غرض دوسرے کے منہ سے بھی وہ ان کی تعریف نہیں سن سکتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کے دشمن جانی تھے اور وہ انہیں مومن نہیں سمجھتے تھے.لیکن قرآن خود مسیح ؑ کے منہ سے کہلواتا ہے کہ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ (مریم :۳۲) میں تو اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں.میں اس سے بڑی محبت اور پیار کرنے والا ہوں.اب خود ہی دیکھ لو کہ ان دونوں میں سے کونسی تاریخ سچی ہو گی.ایک طرف بائبل کہتی ہے کہ فرشتہ نے مریم سے کہا کہ ’’خدا کی طرف سے تجھ پرفضل ہوا ہے اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹاہو گا.اس کا نام یسوع رکھنا وہ بزرگ ہو گا خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا.‘‘(انجیل لوقا باب ۱آیت ۳۰و ۳۱) مگر باوجود اس کے کہ فرشتہ اسے ایک ایسی خبر دے گیا تھا جوظاہری حالات کے لحاظ سے قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی.اور پھر خدا نے اس ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیا پھر بھی یہ عظیم الشان نشان دیکھنے کے باوجود وہ بائبل کے مطابق مسیح کو پاگل سمجھتی رہی اور اس پر ایمان نہ لائی.یوں اگرکسی کو بچہ کے متعلق خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا بھی ہوجائے تو بے شک یہ ایک نشان تو ہو گا مگر اتنا بڑا نہیں ہو گا جتنا یہ معجزہ تھا.اگر کسی عورت کو ایسی خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے اور وہ نیک بھی بن جائے تب بھی ممکن ہے کہ ماں کسی وقت ناراض ہو کر اسے کہہ دے کہ تو نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا.لیکن یہاں کوئی معمولی نشان نہیں دکھایا جاتا.یہاں ایک کنواری حاملہ ہوتی ہے.فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے خبر دیتا ہے کہ تیرے ہاں بچہ ہو گا اور وہ اپنے اندر یہ یہ صفات رکھے گا.اور پھر واقعہ میں اسے حمل ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میںغیر معمولی عزت اور شہرت حاصل کرتا ہے.کیا دنیا کی کوئی بھی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ اتنے عظیم الشان واقعہ کے بعد بھی وہ عورت اپنے بچہ کو پاگل کہے گی یا اس کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی.جس نے خدا تعالیٰ کی قدرت کا اتنا عظیم الشان
نشان دیکھا ہو اس کے لئے تو انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی پس انجیل کا یہ بیان کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان تھا عقلی لحاظ سے بھی بالکل ناقابل تسلیم ہے.مگر قرآن خود مسیح کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ میں تو اپنی والدہ سے نہایت ہی حسن سلوک کرنے والا ہوں.پھربائبل کہتی ہے کہ مریم کافرہ تھی مگر قرآن کہتاہے کہ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا (آل عمران :۳۸) یعنی خدا نے مریم کی والدہ کی دعا کو قبول فرمایا اور وہ نیکیوں پر پختہ ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے اسے غیر معمولی ترقی اور عظمت بخشی.پس قرآن اسے مومن اور اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی حامل قرار دیتا ہے لیکن انجیل جو اسے خدا کی ماں قرار دیتی ہے وہ اسے کافرہ اور بے ایمان ٹھہراتی ہے.پھر فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِيْنَ (آل عمران:۴۳) یعنی اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگ بنایا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے پاک کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تجھے اس زمانہ کی ساری عورتوں پر فضیلت بخشی ہے غرض قرآن وہ بات کہتا ہے جو فطرت کہتی ہے اور انجیل وہ بات کہتی ہے جس کا فطرت انکار کرتی ہے.اتنے بڑے نشان کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مریم انکار کرے.پس صحیح بات وہی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے.دشمن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعات کا صحیح علم نہیں تھا انہوں نے غلط باتیں اس میں درج کر دیں.ہم ان سے کہتے ہیں اے احمقو! تم صحیح لکھنے والوں کو اس قرآن کے سامنے لائو.وہ جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ اسے پتہ نہیں تا وہ تو سچی باتیں بتاتاہے اور جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ انہیں سب کچھ پتہ تھا وہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں.کیا یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عظیم الشان ثبوت نہیں؟ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اِصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِيْنَ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انجیل میں کئی مریموں کا نام آتا ہے جن کی نیکی اور تقدس کی بڑی تعریف کی گئی ہے لیکن وہ مریم جو ماں تھی مسیح کی اسی کو عیسائیوں نے مسیح کا دشمن اور مخالف ظاہر کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مریم مگدلینی اور دوسری عورتوں کو امّ عیسیٰ پر فضیلت دیتے ہو.حالانکہ تم جن مریموں کو لئے بیٹھے ہو وہ اس مریم کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھیں.سب سے بہتر اور سب سے مقدس وہی مریم تھی جو عیسیٰ کی ماں تھی.پھر فرماتا ہے يٰمَرْيَمُ اقْنُتِيْ لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِيْ وَ ارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (آل عمران :۴۴) رَاکِعٌ اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان خالص عطا کر دیاجائے.پس يٰمَرْيَمُ اقْنُتِيْ لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِيْ وَ ارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ کے یہ معنے ہیں کہ اے مریم اپنے رب کی فرمانبردار رہو.اس کی عبادت بجا
لائو اور باقی مومنوں کے ساتھ مل کر اس کی جماعت میں شامل رہو.گویا قرآن صاف طور پر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ مریم اول درجہ کے ایمانداروں میں سے تھیں.مگر انجیل کہتی ہے کہ وہ بد عورتیں جو مسیح کے سر پر تیل ملا کرتی تھیں وہ توبا ایمان تھیں اور جس نے اتنا بڑا معجزہ دیکھاوہ بے ایمان تھی.اب بظاہر یہ سب عام باتیں ہیں کوئی مخفی اور غیب کی باتیں نہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ مریم خدا تعالیٰ کی فرمانبردار اور نماز گزار اور مومنوں کی جماعت میں شامل تھی فرماتا ہے ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ (آل عمران:۴۵) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تیری طرف وحی کے ذریعہ نازل کر رہے ہیں.یعنی یہ باتیں تمہیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں.لیکن انجیل ان باتوںکو کھا گئی ہے اور اس لئے اب یہ غیب کی خبریں بن گئی ہیں.انجیل میں لکھا ہے کہ مریم کافرہ تھی.انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کو پاگل سمجھتی تھی.مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط ہیں.وہ ایماندار تھی ،وہ فرمانبردار تھی اور وہ مسیح پر سچے دل سے ایمان لانے والوں میں شامل تھی.وہیریؔ کہتا ہے کہ قرآن کو پتہ نہیں کہ صحیح واقعات کیا ہیں(تفسیر وہیری) اور قرآن کہتا ہے کہ ہم تمہیں وہ تاریخ بتا رہے ہیں جو بائیبل میں بھی درج نہیں.یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے قرآن کی صداقت کا.کہ بائبل جو عیسائیوں کی کتاب ہے اور جس میں مسیح اور اس کی والدہ کے متعلق سچی باتیںہونی چاہئیں تھیں وہ تو غلط باتیں لکھتی ہے اور قرآ ن ان کے متعلق سچی تاریخ پیش کرتا ہے.فرماتا ہے ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ.یہ باتیں انجیل میں نہیںلکھیں.یہ عیسائیوںنے چھپا دی تھیں اب ہم تم کو بتا رہے ہیں.کیونکہ ان کے بغیر مسیح کی کہانی پوری نہیں ہوتی.حقیقت یہ ہے کہ انجیل کا بیان بتاتا ہے کہ اپنے قرب کو ظاہر کرنے کے لئے حواریوں نے خدا کی ماں پر الزام لگانے سے دریغ نہیں کیا.محض یہ ظاہرکرنے کے لئے کہ ہم متی ؔاور مرقسؔا ور لوقاؔ اور یوحناؔ اور تھوماؔ بڑے مقرب تھے مسیح کی والدہ پر انہوں نے انتہائی ظلم کیا کہ اسے کافرہ اور بے ایمان قرار دے دیا.لیکن قرآن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا اور بتا دیا کہ مریم مومنہ تھی، مریم راستبا زتھی اور انجیل میں جو باتیں ان کے خلاف لکھی ہیں وہ سراسر جھوٹی اور مفتریانہ ہیں.وہیری نے الزام لگایا تھا کہ قرآن جھوٹا ہے لیکن قرآن نے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ ہم اس میں وہ باتیں بیان کر رہے ہیں جو انجیل میںبھی نہیں یا یہ کہ انجیل نے ان کے متعلق جھوٹ بولا ہے.اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن سچا ہے اور انجیل جھوٹی.اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا حضرت مریم کا وطن جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے ناصرہ تھا ان کا بھی
اور ان کے خاوند یوسف کا بھی لیکن چونکہ عبادت گاہ یروشلم تھی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے (بائبل سے نہیں) کہ بچپن میں ان کو دینی تعلیم و تربیت کے لئے یوروشلم میں حضرت زکریا ؑ کے پاس چھوڑا گیا تھا مگر جیسا کہ قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے حضرت مریم کی والدہ کا یہ منشاء نہیں تھاکہ وہ کاہن یا نن بنیں.اس لئے انہوں نے ہمیشہ وہاں نہیں رہنا تھا.چنانچہ حضرت مریم کے متعلق انہوں نے دعا کی تھی کہ الٰہی اس کی اولاد بھی پیدا ہو جو نیکی اور تقویٰ پر قائم رہنے والی ہو.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں پس جب وہ جوان ہوئیں اور بالغ ہو گئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ انہیں ناصرہ اپنے وطن لے گئیں.پس اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا سے یروشلم اور اس میں رہنے والے مراد نہیں.بلکہ اس سے ان کے وہی اہل مراد لئے جائیں گے جو کہ ناصرہ میں تھے.ان سے وہ ایک طرف ہو کر مکان شرقی میں چلی گئیں.یہ شرقی مکان کیا تھا؟ مفسرین کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ کسی مشرقی شہر کی طرف گئی تھیں.انجیل کہتی ہے کہ وہ ناصرہ میں تھیں جو ان کا اور ان کے خاوند کا وطن تھا (انجیل لوقا باب ۱آیت ۲۶ ، ۲۷) اور ناصرہ یوروشلم سے شمال کی طرف ہے نہ کہ مشرق کی طرف.پس یہ معنے نہیں لئے جا سکتے کہ حضرت مریم اس وقت یروشلم سے ناصرہ کو چلی گئیں بلکہ اس جگہ ناصرہ کی رہائش کے زمانہ کا کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے.بہرحال جہاں تک بائبل کی تاریخ کا سوال ہے حضرت مریم مشرق کے مکان کی طرف نہیں گئیں بلکہ اپنے وطن میں رہیں اور یوروشلم کے لحاظ سے وہ شمال میں تھیں.بائبل کی تاریخ کوئی معتبر تاریخ تو ہے نہیں مگر بہرحال اس کے اپنے زمانہ کے متعلق باتیں بلاعقلی یا نقلی دلیلوں کے رد نہیں کی جا سکتیں کیونکہ وہ اس زمانہ کے قریب کی باتیں ہیں اور چونکہ شَرْقِیٌّ کے معنے عربی زبان میں ایسے مکان کے بھی ہوتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو اور مشرق کے بھی ہوتے ہیں.اس لئے مَکَانًا شَرْقِیًّا کے معنے ہوئے.مشرق کی جانب یا ایسے مکان میںجس کا منہ مشرق کی طرف تھا.ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم قرآن کریم کی بنا ء پر بائبل کے بیان کو رد بھی نہیں کر سکتے اور آسانی سے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے مکان میں گئیں جس کا منہ مشرق کی طرف تھا.اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم میں تو اہم باتیں بیان کی جاتی ہیں.آخر یہ کوئی قصہ کہانی کی کتاب تو ہے نہیں کہ غیرضروری تفصیلات بھی بیان کی جائیں اور بتایا جائے کہ فلاں نے اس رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی پگڑی اس رنگ کی تھی.اس میںتو وہی باتیں بیان ہوتی ہیں جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہیں.پس سوال پیدا ہوتاہے
کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ وہ ایک مکان شرقی کی طرف گئیں.مکان شرقی کی کوئی خصوصیت ہونی چاہیے جس کا مریم کے واقعہ سے تعلق ہو.ور نہ یہ ایک بے معنی بات بن جائے گی.سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہود کے نزدیک مشرق کو خاص اہمیت حاصل ہے.سب سے اول تو رات میں لکھا ہے کہ ’’خدا وند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا.‘‘ (پیدائش باب ۲آیت ۸) پورب کے معنے مشرق کے ہوتے ہیں یعنی خدا نے عدن میں مشرقی جانب جنت بنائی اور اس میں آدم کو رکھا گیا.پس بائبل کے نزدیک جنت و انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے.بابلی لوگ جہاں یہودی قید ہو کر گئے تھے اور جن کے خیالات اور روایات سے وہ بہت ہی متاثر تھے وہ بھی مشرق کو بہت متبرک خیال کرتے تھے وہ مشرق کو روشنی کا دروازہ سمجھتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والا جو ہیرو تھا (اسے تم لیڈر کہہ لو یا پیغمبر کہو) ان کا عقیدہ تھا کہ وہ مشرق کاباشندہ تھا لیکن مغرب کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ مردوں کی دنیا ہے.غرض بابلی لوگ مشرق کو روشنی کا دروازہ اور مغرب کو مردوں کی دنیا خیال کرتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والے بطل کو وہ مشرق کا باشندہ سمجھتے تھے.حزقیل نبی بھی چونکہ اسی علاقہ میں رہے اس لئے وہ بھی اپنی کتاب میںلکھتے ہیںکہ ’’روح مجھ کو اٹھاکے خدا وند کے گھر کے پوربی دروازہ پر جس کا رخ پورب کی طرف ہے لے گئی.‘‘ (حزقیل باب۱۱آیت ۱) یعنی جوہیکل بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ پورب کی طرف تھا معلوم ہوتا ہے اس خیال سے کہ مشرق کی طرف سے روشنی آتی ہے وہ ہیکلوں میں بھی اس امر کو مدنظر رکھتے تھے کہ ان کے دروازے مشرق کی طرف ہوں اور وہ اس کو برکت والا خیال کرتے تھے.متی باب ۲آیت ۲ میں لکھا ہے کہ مجوسی آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نےپورب میں اس کا ستارہ دیکھا اور اسے سجدہ کرنے کو آئے ہیں یعنی مسیح کی پیدائش پر انہوں نے مشرق میں ستارہ دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ جس کے آنے کی صحیفوں میں خبر تھی پیدا ہو گیا ہے.گنتی باب ۲۴ آیت ۱۷ میں ہے.’’یعقوب میں سے ایک ستارہ نکلے گا.‘‘ اس میں ایک نبی کی خبر دی گئی تھی اور روایات اسے مشرق کی طرف بتاتی تھیں.پس چونکہ پہلی کتابوں میں
ایک ستارہ کے نکلنے کی خبر تھی اور یہودی روایات میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ ستارہ مشرق سے نکلے گا.اس لئے پورب سے جو لوگ آئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ستارہ مشرق میں دیکھاہے جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نبی جس کے آنے کی پیشگوئی کی گئی تھی پیدا ہو گیا ہے.مکاشفات باب ۷ آیت ۲میں لکھا ہے ’’پھر میں نے ایک اورفرشتے کو پورب سے اٹھتے دیکھا جس کے پاس زندہ خدا کی مہر تھی.‘‘ مکاشفات بے شک مسیح کے بعد کی کتاب ہے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہود اور نصاریٰ میں مشرق کا خاص احترام تھا اور وہ عبادت گاہوں کے دروازے مشرق کی طرف بناتے تھے بلکہ بعض مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت بھی کرتے تھے.اس وجہ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ مریم ایک عبادت گاہ میں جس کا منہ مشرق کی طرف تھا تاکہ جنت اولیٰ اور بشارت عظیمہ سامنے رہیںعبادت کے لئے گئیں.یادرکھنا چاہیے کہ عیسائیوں کے عبادت گاہ اور مسلمانوں کی عبادت گاہ میں فرق ہوتا ہے.عیسائیوں کی عبادت گاہ میں جدھرامام کا منہ ہوتا ہے اسی طرف مقتدیوں کا منہ نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کے منہ آمنے سامنے ہوتے ہیں.ہمارے ہاں تو امام بھی قبلہ رو کھڑا ہوتا ہے اور مقتدیوں کا منہ بھی قبلہ رخ ہوتا ہے.مگر ان میں عبادت گاہ کا دروازہ مشرق کی طرف ہو گا.امام اور مقتدی سب اس دروازہ سے داخل ہوں گے مگر اندر داخل ہوکر امام اپنا منہ مشرق کی طرف کر لے گا اور مقتدی اپنا منہ مغرب کی طرف کر لیں گے یا یوں کہو کہ مقتدیوں کا منہ امام کی طرف ہو گا اور امام کا منہ مقتدیوں کی طرف ہو گا.غرض عیسائی اپنی عبادت گاہوں کا دروازہ مشر ق کی طرف بناتے ہیں بلکہ بعض فرقوں کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ عبادت بھی مشرق کی طرف ہی منہ کرکے کرتے ہیں.میں یہ تحقیق نہیں کر سکا کہ آیا سارے ایسا کرتے ہیں یا صرف بعض فرقے ایسا کرتے ہیں.بہرحال بعض فرقوں کے متعلق میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں.پس مَکَانًا شَرْقِیًّا کے معنے یہ ہوئے کہ وہ مکان جس کا منہ مشرق کی طرف تھا.معلوم ہوتا ہے جب حضرت مریم جوان ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا کیا اور وہ گھر سے نکلیں اور ایک عبادت گاہ میں گئیںوہ عبادت گاہ ایسی تھی جس کا منہ مشرق کی طرف تھا اس یادگار میں کہ جنت اور انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے.
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا١۪۫ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَيْهَا رُوْحَنَا اور( اپنے اور ) ان (یعنی رشتہ داروں)کے درمیان پردہ ڈال دیا (یعنی ان سے تعلق قطع کرکے اپنے آپ کو چھپا دیا) فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا۰۰۱۸ اس وقت ہم نے اس کی طرف اپنا کلام لانے والا فرشتہ(یعنی جبرئیل) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک تندرست بشر کی شکل میں ظاہر ہوا.حل لغات.رُوْحٌ کے معنے اس چیز کے ہیں جس سے حیات نفس قائم ہے اور روح کے معنے نبوت کے بھی ہیں اور روح کے معنے جبریل کے بھی ہیں اور روح کے معنے وحی کے بھی ہیں نبوت کو روح اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشتی ہے اور جبریل کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےایسا کلام لاتا ہے جو زندگی بخش ہوتا ہے.اسی طرح وحی کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو تازہ کرتی ہے غرض یہ ساری چیزیں روح کہلاتی ہیں.تفسیر.فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے دعا میں خلوت کے حصول کے لئے پردہ کھینچ لیا.موجودہ زمانہ میں مکانوں کے اندر دروازے بنائے جاتے ہیںجو آسانی کے ساتھ بندکر لئے جاتے ہیں لیکن اس زمانہ میں دروازوں کا رواج نہیں تھا صرف پردے کھینچ لئے جاتے تھے بلکہ بنو عباس کے زمانہ تک شاہی محلات کے اندر دروازے نہیں ہوتے تھے.شاہان مغلیہ کی عمارتوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تخلیہ کے لئے پردے ڈال لیا کرتے تھے.پس فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کرنے کے لئے علیحدہ ہوئیں جس میں حجاب کی ضرورت تھی.بلکہ چونکہ وہ دعا اور عبادت کے لئے علیحدہ ہوئی تھی اور اس کے لئے تخلیہ کی ضرورت تھی انہوں نے پردہ کھینچ لیا تاکہ لوگ ان کونہ دیکھیںاور وہ علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر سکیں.حضرت زکریاعلیہ السلام بھی عبادت گاہ میں تھے جب انہیں الہام ہوا.اسی طرح حضرت مریم بھی عبادت گاہ میں ہی تھیں جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ تخلیہ میں گئیں اور دعا میں مشغول ہو گئیں تو اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْهَا رُوْحَنَا ہم نے اپنا فرشتہ ان کی طرف بھیجا.فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا.اور وہ ان کے لئے ایک مثالی جسم بن گیاجیسے خواب میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے بکرا ذبح کیا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ
اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا کوئی اور قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے گا.یا خواب میں چوہا دیکھے تو اس سے مراد کوئی منافق ہو گا یا خواب میں دیکھے کہ میرے گھر میں چور آیا ہے تو اس سے مراد داماد ہو گا.اب تعبیر بظاہر بالکل بے جوڑ نظر آتی ہے.لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں یہ واقعات اس کے سامنے پیش کرتا ہے.یہاں بھی اسی مثالی وجود کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ فَتَمَثَّلَ لَهَا اس نے ان کے لئے ایک تمثیلی شکل اختیار کر لی.بَشَرًا سَوِيًّا ایک ایسے انسان کی صورت جو تندرست تھا.گویا اس وقت حضرت مریم پرجو کلام نازل ہوا ان الفاظ میں اس کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ وہ کس رنگ میں نازل ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے تو آپ نے فرمایاکبھی تو وہ گھنٹی کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے یعنی یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کے بعد کلام الٰہی نازل ہونے لگتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی فرشتہ آتا ہے اور وہ مجھ سے بات کرتا ہے اور کبھی وہ کوئی دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے.یہاں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ وہ وحی ایسی نہیں تھی جو مریم کے کا ن پر پڑی یا اس کی زبان پر جاری ہوئی.بلکہ وہ ایک خواب یا کشف کی شکل میں ظاہر ہوئی.انہوں نے کشف میں دیکھا کہ ایک فرشتہ سامنے آیا ہے جو ایک تندرست انسان کی شکل میں ہے اور اس فرشتہ نے انہیں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا ہے.درحقیقت اگر ہم گہرا غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی ہے جو نزول کے وقت مختلف شکلیں اختیار لیتا ہے اور کبھی وہ کسی شکل میں نازل ہو جاتا ہے اور کبھی کسی شکل میں.حضرت مریم پر جب کلام الٰہی نازل ہوا تو اس کلام نے اس وقت ایک انسان کی شکل اختیار کر لی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جبریل تھا جو ان کے سامنے ظاہر ہوا.حالانکہ اگر اسے جبریل کہو تب بھی حقیقت تو وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہی مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص خواب میں بینگن دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ کلام نے بینگن کی شکل اختیار کر لی.یا اگر کوئی شخص فرشتہ دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کلام الٰہی نے اس وقت فرشتہ کی شکل اختیار کر لی.بہرحال خدا تعالیٰ کا کلام نزول کے وقت مختلف رنگ اختیار کر لیتا ہے.میں ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ جس طرح کٹورہ بجائیں تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے.اسی طرح کسی نے کٹورہ بجایا ہے اور اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے.پھر میں نے دیکھا کہ وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی.جس طرح دریا میں پتھر پھینکا جائے تو اس کے بعد پانی میں ایک دائرہ سا بن جاتا ہے جو پھیلتا چلا جاتا ہے اسی طرح وہ آواز جَوّ میں پھیلنی شروع ہوئی اور آخر پھیلتے پھیلتے جَوّ کے عین وسط میں ایک خالی
فریم پیدا ہو گیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر بننی شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اس تصویر نے انسان کی شکل اختیا رکر لی.پھر یکدم اس میں حرکت پیدا ہوئی اور تصویر میں سے ایک آدمی کود کر نکلا.اور میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں.مجھے خدا نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھائوں میں نے کہا سکھائو.چنانچہ اس نے مجھے سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی.جب وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ اب تک جتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں اسی آیت تک لکھی گئی ہیں اگر تم کہو تو تمہیں اس سے آگے بھی سکھا دوں.میں نے کہا ہاں آگے بھی سکھائو.چنانچہ اس نے مجھے ساری سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دی.اب دیکھو اس رؤیامیں آوز پیدا ہوئی آواز فریم بن گئی.فریم میں تصویر ظاہر ہوئی اور تصویر آدمی کی شکل میں کود کر میرے سامنے آ گئی اور اس نے مجھ سے بات کی.پس یہ ساری چیزیں اسی رنگ میں ہوتی ہیں کہ کلام الٰہی مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.پس اس میں خاص بات کوئی نہیں جن لوگوں کو اس کوچہ کا علم نہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ نہ معلوم یہ کیا بات ہے مگر اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس کے قسم کے واقعات کثرت سے ہوتے رہتے ہیں.اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت مریم سے پیش آیا اور کلام الٰہی ایک آدمی کی شکل بن کر ان کے سامنے آ گیا.اس سے حمل کی حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا ایک نشان تھا نہ کہ کسی فرشتے یا روح کا ان کے اندر داخل ہو جانا.اس جگہ رُوْحَنَا کا جو لفظ آتا ہے اس سے مسیحی یہ نتیجہ نکالتے ہیںکہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن نے ان کے عقیدہ ابنیت کی تصدیق کر دی ہے.ہم تو کہتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا جو ان کے سامنے متمثل ہوا مگر چونکہ ا س جگہ رُوْحَنَا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنے ’’ہماری روح‘‘ اس لئے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب خدا کہہ رہا ہے کہ ہماری روح نے ایک تمثل اختیار کیا تو اس کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور ان کا یہ عقیدہ کہ مسیح خدا یا خدا کا بیٹا تھا درست ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ لوقا باب ۱ آیت ۳۵ میں ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم سے کہا کہ ’’روح القدس تجھ پر نازل ہو گا.‘‘ جب فرشتہ نے مریم سے یہ کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور قرآن کہتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تو یہ انجیل کی تصدیق نہ ہوئی بلکہ تردید ہوئی کیونکہ انجیل تو یہ مانتی ہی نہیں کہ خدا اس کے اندر داخل ہوا تھا.وہ
چصرف اتنا کہتی ہے کہ روح القدس اس پر نازل ہوا تھا.پھر متی باب ۱ آیت ۱۸ میں ہے ’’وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی.‘‘ یہاں معاملہ اور بھی مشتبہ ہو گیاکیونکہ متی کےالفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف القدس اس پر نازل ہی نہیں ہوا بلکہ روح القدس اس کے اندر داخل ہو گیا.اسی طرح متی باب ۱ آیت ۲۰ میں ہے ’’جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے.‘‘ اس میں روح القدس سے حاملہ ہونے کی تشریح کر دی کہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے یعنی اس کے نطفہ سے ہے.یہاں اور بھی مشکل پیش آگئی.کیونکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہوا تھا یا روح القدس مریم کے پیٹ میں داخل ہوا تھا.کیونکہ متی یہ بتاتا ہے کہ روح القدس مریم سے ملا اور اس کے نطفہ سے آگے مسیح پیدا ہوا پس عیسائیوں کا یہ خیال کہ قرآن نے انجیل کی تصدیق کر دی ہے بالکل غلط ہے اوّل تو قرآن کہتا ہے کہ روح نے متمثل ہو کر اسے خبر دی یہ نہیں کہتا کہ روح اس کے اندر چلی گئی اور انجیل خدا کی جگہ روح القدس کا حمل بتاتی ہے.گویا دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں.مسیحی عقیدہ جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور قرآن یہ نہیں کہتا.اور انجیل کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ روح القدس کا فرزند تھا یا یہ کہ خدا روح القدس تھا اور یہ دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں.قرآن صرف اتنابتاتا ہے کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے متمثل ہوا اور اس نے انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی خبر دی.پس رُوْحَنَا سے عیسائیوںکا یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن انجیل کا مصدق ہے بالکل غلط ہے.قَالَتْ اِنِّيْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا۰۰۱۹ (مریم نے اس سے )کہا میں تجھ سے رحمٰن (خدا) کی پناہ مانگتی ہوںاگر تیرے اندر کچھ بھی تقویٰ ہے تفسیر.یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی طرف رحمٰن کا لفظ منسوب کیا ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ کی بات ہی درست ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیت خدا تعالیٰ کی رحمانیت ہی کی منکر ہے اور عیسائیت کی بنیاد ہی اس
رحم کر دے اور یہ کرب و بلا کا وقت مجھ سے دور فرما دے.ان الفاظ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب انسان انتہائی مشکلات میں مبتلا ہو اور کرب و بلا نے اسے گھیرا ہوا ہو تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے اسی طرح دعا کیا کرے کہ خدایا میرا کوئی عمل نہیں.لیکن میں بے عمل ہوتے ہوئے بھی تیری رحمانیت کا تجھے واسطہ دیتا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھ پر اپنا فضل نازل فرما.اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا انہوں نے اس لئے کہا کہ خدا کا واسطہ دینا بھی اسی شخص پر کچھ اثر ڈال سکتا ہے جس میں خدا کا ڈر اور خوف پایا جائے ورنہ قاتل جب قتل کرتے ہیں تو لوگ انہیں بار بار خدا کا واسطہ دیتے ہیں مگر ان کے دلوں میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا.آج کل ہماری مخالفت میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے.انہیں خدا کا لاکھ دفعہ خوف دلایا جائے ان کو خدا کا خوف آتا ہی نہیں.حضرت مریم بھی جانتی تھیں کہ اگریہ نیک نہیں تو اس کے سامنے خدا کا نام لینا بیکار ہے بلکہ ادب کے بھی خلاف ہے پس انہوں نے کہا کہ میں خدا کا واسطہ تو تجھے دیتی ہوں مگر ایسی شرط کے ساتھ کہ تو نیک ہو.اگر تو نیک نہیں تو پھر میں خدا سے کہوں گی کہ وہ آپ میری حفاظت کرے.قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ١ۖۗ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا۰۰۲۰ (اس پر اس فرشتہ نے )کہامیں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا پیغامبر ہوں.تاکہ میں تجھے (وحی کے مطابق )ایک پاک لڑکا دوں(جو جوانی کی عمر تک پہنچا گا) حل لغات.غُلَامٌ غُلَامٌ کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بچہؔ ، جوانؔاور ادھیرؔ عمر والا تینوں کے لئے غلام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور زَکِیًّاکا لفظ زکوٰۃ سے ہے اور اس کے معنے ایسے شخص کے ہیں جس میں اندرونی پاکیزگی پائی جاتی ہو.تفسیر.جب حضرت مریم نے کہا کہ اگر تم میں کچھ تقویٰ ہو اور تم خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہو تو رحمٰن کے نام سے پناہ مانگتی ہوں.تو فرشتہ نے کہا گھبرائو نہیں میں تو تمہارے رب کی طرف سے ایک پیغامبر کے طو رپر آیا ہوں لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا تاکہ میں تم کو ایک زکی غلام دوں.رَسُوْلٌ کا لفظ بتاتا ہے کہ بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شخص درحقیقت حضرت مریم کا خاوند تھا یا خدا تعالیٰ کی طرف سے خاوند تجویز کیا گیا تھا یہ درست نہیں.کیونکہ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی کام کرنے آیا ہوں.بلکہ
وہ یہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک پیغامبر کے طور پر بھجوایا گیا ہوں.لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا.اَھَبَ کے متعلق بھی خیال ہو سکتا ہے کہ شاید اس کے معنے دینے کے ہوں اور مراد یہ ہو کہ وہ تعلقات رکھے لیکن یہ بھی درست نہیں.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ جو چیز یقینی اور قطعی ہو.وہ ایسے الفاظ میں میںبیان کرتا ہے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو مثلاً مستقبل کی خبر بیان کی جاتی ہے تو اسے ماضی کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ تم اس بات کو ایسا ہی سمجھو جیسا کہ یہ ہو چکی ہے.اسی طرح اس پیشگوئی پر زور دینے کے لئے کہ یہ پیشگوئی ضرور پوری ہو گی اس نے اَھَبَ کہا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں دینے آیا ہوں.یعنی اس بات کوایسا ہی سمجھو کہ گویا بیٹا مل گیا ہے.ورنہ سب جانتے ہیں کہ لڑکا خدا دیا کرتا ہے فرشتہ نہیں دیا کرتا.پس اَھَبَ لَکَ سے مراد صرف لڑکے کی خبر ہے نہ کہ لڑکا دینا.خدائی خبر چونکہ یقینی ہوتی ہے اس لئے اسے گویا چیز کے مل جانے کے برابر ظاہر کیا اور اس نے کہا کہ میں خدائی وحی کے مطابق تجھ کو ایک پاک لڑکا دینے آیا ہوں یعنی میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دوں اور یہ کشف قطعی اور یقینی ہے.اسے ایسا ہی سمجھو جیسا کہ لڑکا مل گیا ہے.قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ (مریم نے )کہا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا حالانکہ اب تک مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا اور میںکبھی بدکاری میں وَّ لَمْ اَكُ بَغِيًّا۰۰۲۰ مبتلا نہیںہوئی.حل لغات.بَغِیُّ کے معنے ہوتے ہیں جو تجاوز عن الاقتصاد کرے.یہ تجاوز اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی.انسان عدل سے احسان کی طرف جائے گا تو اچھا ہو گا.اور حق سے باطل کی طرف تجاوز کرے گا تو برا ہو گا.
اس جگہ غلام سے مراد بچہ ہی ہے بڑی عمر کا انسان مراد نہیں.یوں تو بڑی عمر کا آدمی بھی عربی زبان کے لحاظ سے غلام کہلاتا ہے لیکن یہ چونکہ مریم کا کلام ہے اور ان کے لئے حیرت کی بات بچہ پیدا ہونا ہی تھا اس لئے اس جگہ غلام کے معنے بچہ ہی کے لئے جائیں گے.بہرحال حضرت مریم کو تعجب پیدا ہوا کہ میرے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہو سکتا ہے جبکہ مجھے نہ توکسی مرد نے چھوا ہے اور نہ میں باغیہ ہوں.اگر حضرت مریم کے اس استعجاب کو ظاہری حالات محمول کیاجائے اور خواب میں بھی ان کے وہی حواس سمجھے جائیں جو جاگتے ہوئے ہوتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ظاہر میں ایسی بات ناممکن ہوتی ہے اس لئے رویا میں بھی انہوں نے وہی بات کہہ دی جو ظاہر میں کہی جاتی ہے.خواب میں دونوں قسم کی کیفیات انسان پر وارد ہوتی ہیں.کبھی صرف نظارہ اور کلام تاثیر رؤیا کے نیچے ہوتا ہے دلی جذبات تاثیر رؤیاکے نیچے نہیں ہوتے.کبھی انسان دیکھتا ہے کہ بیٹا مارا گیا ہے اور وہ بڑا خوش ہے.حالانکہ بیٹے کے مرنے پر انسان کو خوشی نہیں ہو سکتی وہ ضرورروتا اور غمزدہ ہوتا ہے.پس جب رؤیا میں وہ بیٹے کے مرنے پر خوش ہوتا ہے.تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ رؤیا میں اس کے جذبات بھی تاثیر رؤیا کے نیچے تھے.ورنہ بیٹے کے مارے جانے پر اسے رونا چاہیے تھا.اگر وہ خوش ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے قلب کی کیفیت بھی رئویا کے ماتحت تھی.لیکن بعض دفعہ دیکھے گا کہ بیٹا مارا گیا ہے اور میں رو رہا ہوں.اب جہاں تک بیٹے کے مارے جانے کا سوال ہے.اس کی تعبیر تو یہ ہو گی کہ اس کا بیٹا نیک ہو گا اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گااور اس تعبیر پر اسے خوش ہونا چاہیے.مگر چونکہ اس نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کا رونا رؤیا کی تعبیر کے نیچے نہ تھا بلکہ ظاہری کیفیات کے تابع تھا.غرض کبھی تاثیر قلبی رؤیا کے نظارہ کے ماتحت ہوتی ہے.اور کبھی رؤیا کے نظارہ کے ماتحت نہیں ہوتی.ایک شخص خواب میں گنّا دیکھتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے.حالانکہ گنے کی تعبیر غم ہے.پس خواب میں اس کا خوش ہونا بتاتا ہے کہ اس وقت تعبیر اس پر اثر نہیں کر رہی تھی بلکہ ظاہری حالات اثر کر رہے تھے.چونکہ ظاہر میں انسان گنّا ملنے پر خوش ہوتا ہے اس لئے خواب میںبھی وہ خوش ہو گیا.اور اگر وہ گنّا ملنے پر رو رہا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس وقت اس کے دل کی کیفیت بھی رؤیا کی تعبیر کے نیچے تھی.یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کو صر ف علم تعبیر الرؤیا جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے لوگ نہیں.پس اگر اس قول سے حضرت مریم کی تعبیر ظاہری مراد لی جائے تو اس سے صرف اتنا نکلے گا کہ چونکہ ظاہر میں ایسی باتیں بری سمجھی جاتی ہیں.اس لئے جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت مریم نے کہا.ہائے ہائے تم کیسی باتیںکر رہے ہو کبھی مردوں کے بغیر بھی بچہ پیدا ہو ا ہے.اور اگر یہ الفاظ بھی تاثیر رؤیا کے ماتحت سمجھے جائیں تو اس
کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ان کو بلا مرد کے ایک بچہ کی ولادت کی خبر دی جا رہی تھی اس لئے وہ حیرت ظاہر کر رہی ہیں کہ کیا خدا مجھ سے یہ سلوک کرے گا.بہرحال اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ حضرت مریم نے یہی سمجھا تھا.کہ بغیر شادی کے اور شادی سے پہلے اولاد ہو گی.کیونکہ لَمْ يَمْسَسْنِيْ بتاتا ہے کہ وہ سمجھتی تھیں کہ اولاد اس رؤیا کے دن بعد کے شادی سے پہلے ہو گی ورنہ ماضی کے ذکرکی نفی کے معنے کیا ہوئے.دوسرے لَمْ اَكُ بَغِيًّا بھی یہی بتاتا ہے.پہلاحصہ جائز تعلق کی نفی کرتا ہے اور دوسرا ناجائز تعلق کی.آئندہ شادی کے ہونے یا نہ ہونے کا وہ ذکر تک نہیں کرتیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اس وقت یہ سوال نہیں تھا کہ مجھے وقف کیا ہوا ہے.اس لئے میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی بلکہ اس وقت ان کے سامنے اپنی ماضی کی حالت تھی جس میں اولاد ناممکن تھی.اگر آئندہ تعلقات کے نتیجہ میں وہ اولاد کاوعدہ سمجھتیں تو وہ یاتو یہ کہتیں کہ میری تو شادی نہیں ہو سکتی پھر اولاد کیسی اور یا پھر شادی کا احتمال تھا وہ اس وعدہ پر تعجب نہ کرتیں.قَالَ كَذٰلِكِ١ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ١ۚ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰيَةً (فرشتہ نے) کہا (بات) اسی طرح (ہے جس طرح تو نے کہی) (مگر) تیرے رب نے یہ کہا ہے کہ یہ (کام) مجھ پر لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا١ۚ وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا۰۰۲۲ آسان ہے اور (ہم اس لئے یہ لڑکا پیدا کریں گے) تاکہ اسے لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیںاور اپنی طرف سے رحمت ( کاموجب بھی) بنائیں اور یہ (امر) ہماری تقدیر میں طے ہو چکا ہے.حلّ لُغَات.مَقْضِیًّا.عربی زبان میں قضا اور قدر دو الگ الگ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مگر عام طور پر لوگ ان دونوں لفظوں کو ہم معنی سمجھتے ہیں.حالانکہ حقیقتاً یہ ہم معنے نہیں.مفردات میں لکھا ہے اَلْقَضَاءُ فَصْلُ الْاَمْرِ قَوْلًا کَانَ ذَالِکَ اَوْ فِعْلًا.قضاء کسی امرکے فیصلہ کرنے کا نام ہے خواہ وہ قولاً ہو یا فعلاً ہو وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْھُمَا عَلٰی وَجْھَیْنِ اِلٰھِیٍّ و بَشَرِیٍّ اور یہ قضاء الٰہی بھی ہوتی ہے اور بشری بھی.یعنی کبھی خداکے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے اور کبھی بشر کے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے.والْقَضَاءُ مِنَ اللہِ تَعَالیٰ اَخَصُّ مِنَ الْقَدَرِ لِاَنَّہُ الْفَصْلُ بَیْنَ الْتَقْدِیْرِ فَالْقَدَرُ ھُوَ التَّقْدِیرُ وَالْقَضَاءُ ھُوَ الْفَصْلُ والْقَطْعُ یعنی جب
قضاء الٰہی کا ذکرکیا جائے تو وہ قدر سے بڑھ کر ہوتی ہے.کیونکہ قدر صرف ایک معیار یا سکیم کے تجویز کرنے کو کہتے ہیں.اور قضاء کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس سکیم کے جاری کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے اور وہاں طاعون پڑ گئی.جو طاعونِ عمواس کے نام سے مشہور ہے اور حضرت ابو عبیدہ ؓ اور اسلامی لشکر نے آپ کا استقبال کیا تو اس وقت صحابہ ؓ نے مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لئے آپ کو واپس تشریف لے جانا چاہیے.حضرت عمر ؓ نے ان کے مشورہ کو قبول کرکے فیصلہ کرلیا کہ آپ واپس لوٹ جائیں گے.حضرت ابو عبیدہ ؓ ظاہرپر بڑا اصرار کرنے والے تھے انہیں جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اَتَفِرُّمِنَ الْقَضَاءِ کیا آپ قضاء الٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا أَفِرُّ مِنْ قَضَاء اللہِ اِلَی قَدَرِ اللہِ میں اللہ تعالیٰ کی قضاء سے اس کی قدر کی طرف بھاگ رہاہوں یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فیصلہ ہے اور ایک عام فیصلہ.یہ دونوں فیصلے اسی کے ہیں کسی اور کے نہیں.پس میں اس کے فیصلہ سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلہ سے اس کے دوسرے فیصلہ کی طرف جا رہاہوں.تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو جب طاعون کی خبر ملی اور آپ نے مشورہ کے لئے لوگوں کواکٹھا کیا تو آپ نے دریافت کہ شام میں تو پہلے بھی طاعون پڑا کرتی ہے پھر لوگ ایسے موقعہ پر کیاکیاکرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب طاعون پھیلتی ہے تو لوگ بھاگ کر ادھر ادھر چلے جاتے ہیں اور طاعون کا زور ٹوٹ جاتا ہے.اسی مشورہ کی طرف آپ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک عام قانون بھی بنایا ہوا ہے کہ جوشخص طاعون کے مقام سے بھاگ کر ادھر ادھر کھلی ہوا میں چلا جائے وہ بچ جاتاہے.پس جبکہ یہ قانون بھی خدا تعالیٰ کا ہی بنایا ہوا ہے.تو میں اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہا.بلکہ اس کی قضاء سے قدرکی طرف لوٹ رہاہوں.یعنی خدا تعالیٰ کے خاص قانون کے مقابلہ میں اس کے عام قانون کی طرف جا رہا ہوں.پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بھاگ رہا ہوں میں صرف ایک قانون سے اُس کے دوسرے قانون کی طرف جارہا ہوں.پس حضرت عمر ؓنے بھی قضاء اور قدر میں فرق کیاہے اور مفردات والے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اس قول کا مفہوم یہی تھا.کہ اِنَّ الْقَدْرَ مَا لَمْ یَکُنْ قَضَاءً فَمَرْجُوٌّ اَنْ یَدْفَعَہُ اللہُ.یعنی جب تک قدر قضاء کارنگ اختیار نہ کرلے اُس وقت تک امید ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے ٹلادے.گویا آپ نے بتایا کہ چونکہ میں ابھی اس ملک میں داخل نہیں ہوااور خدا تعالیٰ نے ایک دوسرا قانون بھی بنایا ہو ا ہے کہ جو لوگ طاعون زدہ مقام سے اِدھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں.اِس لیے میں اُسی کے ایک دوسرے قانون سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں.فَاِذَا قَضَی فَلَامُدْفِع لَہٗ لیکن جب وہ فیصلہ کردے تو پھر اُس کے فیصلہ سے کوئی بچ نہیں سکتا.
تفسیر.هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌکے یہ معنی نہیں کہ اور لوگوں کے لئے تو یہ بات مشکل ہے اور میرے لئے آسان ہے کیونکہ انسان کے لئے تو یہ چیز قطعی طور پر ناممکن ہے.یہاں صرف خدا تعالیٰ کے پہلو کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے متقابل بیان مد نظر نہیں اور مراد یہ ہے کہ جب میں کسی کام کا ارادہ کر لوں تو میرے لئے کوئی مشکل نہیں.وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا اس جگہ لام لامِ عاقبت ہے یعنی ہم ضرور ایسا کریں گے اور اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہماری ایک آیت ہو جائے گا اور لوگوں کے لئے رحمت بن جائے گا یعنی ہمارے اس فعل کے نتیجہ میں وہ لوگوںکے لئے ایک نشان بن جائے گا اور ہمارے اس فعل کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے لئے رحمت بن جائے گا.مراد یہ ہے کہ ہم جو اُسے بغیر باپ کے پیدا کریں گے تو یہ نشان ہو گا اس بات کہ ابراہیمی نُور اب ہم بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کرنے والے ہیں.رَحْمَۃً مِّنَّا اور پھر اس کے ساتھ ہی ہم اُسے لوگوں کے لئے رحمت بنادیں گے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو مسیح لوگوں کے لئے رحمت کس طرح بنا ؟اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مسیح کے ظہور کے بعد اُس کی تعلیم سے یہود کی خشونت اور اُن کی درشتی میں جو کمی آنے والی تھی اُس کا رَحْمَۃً مِّنَّامیں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے یہود کی خشونت کو دُور کیا جائے گا.کیونکہ وہ دُنیا کو محبت اور پیا ر کی تعلیم د ے گا اور رحم پر اپنا سارا زور صرف کرے گا.پس وہ لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک ذریعہ بن جائے گا.دوسرا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل کی طرف نعمتِ نبوت منتقل ہونے کے نتیجہ میں ہی نبی آخر الزمان نے پیداہونا تھا پس چونکہ وہ ذریعہ بننے والا تھا رحمۃٌ للعالمین کے ظہور کا اور وہ رحمت والی تعلیم کا راستہ صاف کرنے والا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اُسے اپنی رحمت کے ماتحت نازل کیا ہے یعنی ہم نے اُ س کو ذریعہ بنایا ہے اُس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کا جس کے نتیجہ میں نبی آخر الزما ن نے پیداہونا ہے.گویا مسیح ایک کُنجی تھا اس دروازہ کی جس کے کھلنے پر خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت نے دنیا پر نازل ہونا تھا.یہ قرآن کریم کا کتنا بڑا کمال ہے کہ مسیح سردار تو عیسائیوں کے ہیں لیکن انجیل میں جہاں مسیح کی پیدائش کی پیشگوئی ہے وہاں یہ ذکر تک نہیں کیا گیا کہ مسیح دنیا کو محبت کی تعلیم دے گا.مگر قرآن مجید نے اُس کی پیدائش کی پیشگوئی میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش سے پہلے مریم کو بتا دیا تھا کہ وہ محبت کی تعلیم دے گا.یہ مضمون قرآن کریم کے انصاف اور کمال پر دلالت کرتا ہے اور انجیل کے ناقص ہونے کی دلیل ہے.مسیح ؑ کا سب سے بڑا کمال اس کی رحم کی تعلیم تھی.مگر انجیل نے اس کی پیدائش کی پیشگوئی میں اس کا ذکر تک نہیں کیا ہاں قرآن نے کیا ہے
جو اس کے کامل اور سچا ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تمام انبیاء اپنے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی آیت ہوتے ہیں.مگر عیسائیوں کی عادت ہے کہ وہ بعض الفاظ سے نا جائز فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا حضرت مسیح کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں اور ہم بھی اُن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں.مگر عیسائی اِس قسم کے الفاظ سے انہیں غیر معمولی اہمیت دے دیتے ہیں.ہمارا اُن سے یہ اختلاف نہیں کہ ہم مسیح کو نعوذباللہ ادنیٰ درجہ کا نبی سمجھتے ہیں.ہم بھی مسیح کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول سمجھتے ہیں مگر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کوئی ایسی فوقیت حاصل تھی.جو دوسرے نبیوں کو حاصل نہیںتھی یا اُن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ کمالات پائے جاتے تھے.بہر حال اس آیت میں حضرت مسیح کے متعلق جو آیت کا لفظ آیا ہے.عیسائی اُس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُنہیں قرآن نے غیر معمولی اہمیت دی ہے مگر یہ درست نہیں.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے آیت کا لفظ اور لوگوں کے متعلق بھی استعمال کیا ہے چنانچہ ایک نبی کے متعلق آتا ہے.وَ لِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ (البقرۃ:۲۶۰)اس جگہ پہلے ایک نبی کی رئو یا بیان کی گئی ہے اور پھر اس رؤیا کو بیان کرکے کہا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے آیت بنادیںگے یہ حزقیل نبی تھے جوموسیٰ ؑ اور دائود ؑسے درجہ میں چھوٹے تھے.پھر نبی تو الگ رہے اُونٹنی تک کو آیت کہا گیا ہے.چنانچہ اعراف ع۱۰ میں آتا ہے هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً (الاعراف:۷۴).یہ خدا کی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے آیت ہے.اگر اونٹنی آیت ہو سکتی ہے تو مسیح کے آیت ہونے میں اس کی کونسی فضیلت رہی.پھر فرعون کے متعلق فرماتا ہےفَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً(یونس:۹۳) ہم آج تیرے جسم کو بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے ایک آیت بن جائے.گویا قرآن کریم میں مسیح کے علاوہ دوسرے رسولوں کو بھی آیت کہا گیا ہے.جانوروں کو بھی آیت کہا گیا ہے بلکہ ایک دشمن خدا اور کافر فرعون کو بھی آیت کہا گیا.پس آیت کے اتنے ہی معنے ہیں کہ اُس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صداقت نظر آجاتی ہے.یہ معنے نہیں کہ اُسے دوسروں سے کوئی بڑا درجہ حاصل ہوجاتا ہو.اِسی طرح یہ جو فرمایا کہ رَحْمَۃً مِّنَّا یہ بھی کوئی خاص فضیلت کی بات نہیں.حضرت یحیٰی کے متعلق اس سے پہلے فرمایا گیا تھا کہ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا اور حنان کا لفظ عربی زبان میں رحمت کے معنو ں میں ہی استعمال ہوتا ہے.چنانچہ لُغت والے لکھتے ہیں کہ حنان اس اظہا ر محبت کو کہتے ہیں جس میں آواز ہو.جیسے ماں کو بعض دفعہ جوش آتا ہے تو وہ اپنے بچہ کو پچکارنے لگ جاتی ہے اور زبان سے بھی محبت
اور پیا ر کے الفاظ دُہراتی ہے.پس محبت کے کمال پر جبکہ زبان سے بھی محبت کا اظہار ہونے لگے حنان کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہ محبت بغیر رحمت کے نہیں ہو سکتی جب بھی اس قسم کا اظہار ہو گا پہلے رحمت آئے گی.پس حنان کا لفظ بھی رحمت کے مترادف ہے اور یہ حضرت یحییٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اُسے حنان دی اور اُس میں رحمت پیدا کردی.بلکہ مزید بات یہ ہے کہ یحییٰ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُ سے حنان یا رحمت اپنے پاس سے بخشی.لیکن مسیح کے لئے یہ نہیں کہاگیا کہ ہم نے اُسے رحمت بخشی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُسے لوگوں پر رحمت کرکے اُتارا.گویا رحمت خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی گئی ہے نہ کہ مسیح کی طرف.پس یحییٰ ایک مجسم رحمت تھے اور عیسیٰ ؑ صرف لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنا کر بھیجے گئے تھے.اور ظاہر ہے کہ مجسم رحمت بڑی چیز ہے پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہ صرف یہ کہا گیا آپ رحمت تھے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ آپ رحمۃٌ للعالمین تھے فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعٰلَمِیْنَ.(الانبیاء:)اے ہمارے رسول ہم نے تجھے تمام جہان کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے گویا حضرت عیسیٰ ؑ کو رحمت بھی نہیں کہا صرف رحمت کا نشان کہا.حضرت یحییٰ کو رحمت کہا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اُن کو رحمت یہ نہیں بنایا بلکہ ایسی رحمت بنایا ہے جو مختص القوم اور مختص الزمان نہیں بلکہ سارے جہان کے لئے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو.(۱)ایک تو رحمت بنایا گیا نہ کہ صرف لوگوں پر رحمت کرکے بھیجوایا گیا.(۲) دوسرے رحمت بھی مختص القوم ومختص الزمان نہیں بنایا گیا بلکہ رحمۃٌ للعالمین بنایا گیا.یہاں ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ہم یہ نہیں مان سکتے کہ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعٰلَمِیْنَ میں آپ کو سارے جہان کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے کیونکہ مریم کی نسبت بھی تو کہا گیا ہے کہ اُسے عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے جیسا کہ فرما تا ہے اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِيْنَ(آل عمران:) مگر آپ لوگ وہاں نساء العالمین کے یہ معنے کرتے ہیں کہ مریم کو اپنی قوم کی عورتوں پر فضیلت دی گئی تھی.اگر وہا ں عالمین سے صرف قوم کی عورتیں مراد ہو سکتی ہیں تو یہاں بھی یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وَمَا اَرْسَلْنَکَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعٰلَمِیْنَ میں آپ کو اپنی قوم کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے نہ کہ سارے جہان کے لئے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ الفاظ محدود معنے بھی رکھتے ہیں اور غیر محدود بھی یہ سیا ق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ کسی لفظ کے معنے محدود ہیں یا غیر محدود.سورئہ انبیا ء میں غیر عرب قوموں کا ذکر کرکے اس فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے.خصوصاََ بنی اسرائیل کا ذکر کرکے کیونکہ پہلے بتایا ہے اِنَّ الْاَ رْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الْصّٰلِحُوْنَاور پھر یہ آیت آتی ہے.پس اس جگہ بنو اسرائیل کو شامل کر
کے تما م انسانوںپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا ذکر ہے.اس لئے یہ وعدہ بہر حال وسیع ہے.اگر غیر قوموں کا ذکر نہ ہو تا تو تمہارا حق تھا کہ تم کہتے کہ جس طرح وہا ں تمہارے نزدیک صرف بنی اسرائیل کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا ذکر ہےاِسی طرح یہا ں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زمانہ کے عربوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے.مگر یہاں عربوں کا ذکر نہیں بلکہ غیر قوموں کا ذکر ہے.اور بنی اسرائیل کی نعمتیں اُن سے چھین کر مسلمانوں کو دئے جانے کا بیان ہے پس سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رحمۃٌ لّلعالمین میں غیر قومیں بھی شامل ہیں لیکن مریم والا وعدہ صرف اپنی قوم کی عورتوں کے متعلق ہے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختص القوم والزمان ہونے کے معنے نہیں لئے جاسکتے کیونکہ وہاں ایک غیر قوم کا ذکر ہے.ایسی قوم کا جو اپنے آپ کو ساری دنیا سے افضل سمجھتی ہے.اور بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کی نعمتیں چھین کر مسلمانوں کو دینے کا وعدہ کرتا ہے پس رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا رحمت ہونا صرف قبائل عرب کے لئے نہیں بلکہ سب اقوام ِعالم کے لئے ہے.وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا چونکہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہهُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ یعنی خدا اگر کسی کو بغیر باپ کےپیدا کرنا چاہے تو اُس کے لئے یہ کو ئی مشکل امر نہیں اِس لئے اب یہ بتا تا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء تھی کہ مریم کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوگا جو بغیر باپ کے ہوگا اور اس طرح بنی اسرائیل سے سلسلہ نبوت کا انقطاع ہو کر بنی اسمٰعیل میں منتقل ہو جائے گا یہ وہ تقدیر نہیں تھی جو ٹل جا تی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق احکام جاری ہو چکے تھے.فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا۰۰۲۳ اس پر مریم نے (اپنے پیٹ میں) اُس (بچہ )کو اٹھا لیا اور پھر اس کو لے کر ایک دور مکان کی طرف چلی گئی.تفسیر.حضرت مریم کس طرح حاملہ ہوئیں یہ ایک الہٰی راز ہے.جو قانونِ قدرت سے بالا ہے یا اگر قانون قدرت میں ہی شامل ہے تو یہ ایک ایسا حصہ ہے جس کا ابھی انسان کو علم نہیں ہوسکا.قانون قدرت کے بھی کئی راز ایسے ہیں جن کا ابھی انسان کوپتہ نہیں لگا جیسے اٹیم بم کا اس سے پہلے نسلِ انسانی کو کوئی علم نہیں تھالیکن اب اس کا انکشاف ہوا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کئی راز ایسے ہیں جن کو ابھی دنیا دریافت نہیں کرسکی.اُنہی اسرار میں سے ایک بن باپ ولادت بھی ہے.بہر حال وہ خدا جس نے کُن سے سب کچھ پیدا کیا ہے.وہ مادہ میں بھی نئے تغیر پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کے علاوہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسی شہادتیں بھی نظر آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور
بچے بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں.مثلاََمنچو خاندان جو چین پر حکمران تھا اور جو ۰۶ یا ۰۷ میں آکر تباہ ہوا اس کی بنیاد بھی اِسی طرح پڑی کہ اس خاندان کی ایک پڑدادی بغیر نکاح کے حاملہ ہوگئی لوگوں نے بڑا شور مچایا مگر اس نے کہا اس میں میرا کوئی قصور نہیں.وہ کسی گڈریا کی بیٹی تھی اُس نے کہا میں ایک دن اپنے جانور چرا رہی تھی کہ ایک فرشتہ نازل ہوا اور اس نے کہا کہ میں تجھ پر خدا کا نور ڈالتا ہوں تیرے ہا ں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس لڑکے کا لڑکا سارے چین کا بادشاہ ہوگا چنانچہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے پس اس میں میرا کوئی قصور نہیں.لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یہ عورت ایک آئندہ کی خبر بتا رہی ہے انتظار کرو کہ کیا ہوتا ہے چنانچہ نو ماہ کے بعد اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا.لوگوں نے کہا کہ اس عورت کی پہلی بات تو سچی ہو گئی اب اگلی خبر کا انتظار کرنا چاہیے.چنانچہ وہ لڑکا جوان ہوا اور اٹھارہ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی پھر جلد ی ہی اس کے ہاں بھی ایک لڑکا پیدا ہوگیا.وہ لڑکا پندرہ سولہ برس کا تھا کہ ملک میں فساد ہوگیا.چونکہ وہ بہادر تھا.اُس نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور حملہ کرکے اِرد گرد کے دیہات پر قابض ہوگیا.اس کا میابی سے اس کا حوصلہ بڑھااور اس نے آگے قدم بڑھایا.پھر وہاں کامیابی ہوئی تو اور آگے بڑھا یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ چین کا بادشاہ بن گیا.اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ جو کچھ اُس عورت نے کہا تھا درست تھا.اور اسے خدا نے ہی خبر دی تھی.اِسی طرح چنگیز خاں جو ترکوں کی دوسری نسل کا سردار ہے اس کے متعلق بھی ایسا ہی واقعہ ہوا.ترکوں کی دو شاخیں ہیں.ایک شاخ برلاس ہے جس میں سے ہم ہیں اور دوسری شاخ وہ ہے جس میں چنگیز خان.باتو خان اورجتلائی خان وغیرہ مشہور لوگ گذرے ہیں.چنگیز خاں کا باپ جب مرگیا اور اس کی ماں بیوہ ہوگئی.تو ملک کے رواج کے لحاظ سے اُس کی ماں ہی بادشاہ تسلیم کی گئی.ایک دن اس کی ماں نے درباریوں کو بلایا اور کہا کہ مجھے حمل ہوگیا ہے درباریوں نے شور مچادیا کہ ہم تجھے قتل کردیں گے.اُس نے کہا اس میں میرا کوئی قصور نہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور وہ میرے آر پار ہوگیا ہے.اس کے ساتھ ہی مجھے بتایا گیا کہ تیرے ہاں ایک لڑکا ہوگا جو دنیا کا بادشاہ ہو گا.چنانچہ اس کے بعد جب میں بیدار ہوئی تو مجھے حمل ہو چکا تھا انہوں نے یہ سن کر صبر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ ہمیں اس خبر کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے چنانچہ اسی حمل سے چنگیز خاں پیداہوا جس سے ساری دنیا میں بڑی بھا ری تباہی آئی.اوروہ دنیا کا بادشاہ بنا.اِسی طرح اور بہت سے واقعات انسائیکلوپیڈیا بر ٹینیکا میں بیان کئے گئے ہیں.اور عجیب بات یہ ہےکہ اس قسم کے جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں اُن کے پیدا ہونے سے پہلے عورتوں کو کوئی نہ کوئی خواب بھی آئی ہے.جس کی وجہ
سے ہم اُن پر الزام نہیں لگا سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا.پس مسیح ؑ کی بن باپ ولادت کوئی قابل تعجب نہیں.کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش کے علاوہ اس قسم کے اور بھی کئی واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں.فَحَمَلَتْهُ سے مراد وہی حمل ہے جو اس رؤیا کے نتیجہ میں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام نے یہی بات تسلیم کی ہے چنانچہ ’’مواھب الرحمٰن ‘‘ میں آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے (مواھب الرحمٰن روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۹۵)اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لئے سوائے اِن دو صورتوں کے اور کوئی صورت ہی نہیں کہ یا تو ہم یہ کہیں کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور یا یہ کہیں کہ اُن کی ولادت نا جائز تھی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اپنا عقیدہ یہی بیا ن فرمایا ہے کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے.میں نے زیادہ زور اس پر اس لئے دیا ہے مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبایعین نے لکھا ہے کہ مسیح کا باپ تھا (بیان القرآن زیر آیت ھذا)اور اُس کا نا م یوسف تھا حالانکہ جیسا کہ میںبتا چکا ہوں انجیل کے رُو سے بھی یوسف نے اُس وقت تک مریم کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے جب تک کہ مسیح پیدا نہیں ہوگئے.فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے ایام میں ایک وقت حضرت مریم پر ایسا بھی آیا جب انہیں کہیں دور جانا پڑا.اس کے متعلق جب ہم بائبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں سے کچھ تفصیل ملتی ہے.وہ تفصیل یقیناًایسی ہے کہ اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ ثابت نہ ہو تو اُسے تسلیم کیا جاسکتا ہے.لوقا باب ۲میں لکھا ہے کہ ـــ’’اُن دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اگسطس کی طرف سے یہ حکم جاری ہو اکہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں.یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورینس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے دائود کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لئے کہ وہ دائود کے گھرانے اور اولاد سے تھا تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے.‘‘ (انجیل لوقاب باب ۲ آیت اتا ۵) انجیل کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ قیصر اگسطس نے حکم دیا تھا کہ تمام شہرو ں اور گائوں کے لوگوں کے نام لکھے جائیں.اس لئے یوسف بھی جو حضرت مریم کے شوہر تھے ناصرہ سے بیت لحم گئے.کیونکہ وہ دائود کی نسل میں سے تھے.اور بیت لحم اُس وقت قبیلہ دائود کا ایک بہت بڑا شہر تھا.اس سفر میں حضرت مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں.مگر آگے لکھا ہے کہ چونکہ بیت لحم میں بہت سے لوگ اپنے نام لکھوانے کے لئے آئے ہوئے تھے اس لئے انہیں سرائے
میں جگہ نہ ملی اور وہ کہیں باہر ٹھہرے.وہیں حضرت مریم کو دردِزہ شروع ہو ا اور بچہ پیدا ہوگیا.(انجیل لوقاباب ۲آیت ۷) بیت لحم یروشلم سے جنوب کی طرف پانچ میل کے فاصلہ پر ہے اور بہت زرخیز علاقہ ہے(تاریخ بائبل صفحہ ۴۸۴).ناصرہ سے بھی بیت لحم جنوب کی طرف ہے اور قریباََ سّتر میل دُور ہے.پس مَكَانًا قَصِيًّا میں اسی سفر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے.کہ وہ ناصرہ سے بیت لحم گئیں.فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ يٰلَيْتَنِيْ پس (جب وہ وہاں پہنچی)تو اُسے دردِزہ (اٹھی اور اُسے)مجبورکرکے ایک کھجور کے تنہ کی طرف لے گئی (جب مریم کو مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا۰۰۲۴ یقین ہو گیا کہ اُس کو ہا ں بچہ ہونیوالا ہے تو اس نے دنیا کی انگشت نمائی کا خیا ل کرکے)کہا اے کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میری یاد مٹا دی جاتی.حل لغات.مَخَاضٌ کے معنے شدت کے ساتھ دردِزہ ہونے کے بھی ہیں(تاج ) اور مخاضپیدائش کے وقت کے قریب آجانے کو بھی کہتے ہیں (اقرب).اِس وقت کے قریب آجانے کی بڑی علامت بھی دردِزہ ہی ہوا کرتی ہے.جِذْعٌ تنے کو بھی کہتے ہیں اور بڑی شاخ کوبھی کہتے ہیں.تفسیر.کھجور کے تنہ کی طرف انسان تبھی جاتا ہے جب وہ گھر میں نہ ہو.اور جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے بائبل میں یہ ذکر آتا ہے کہ انہیں سرائے میں جگہ نہ ملی اور چونکہ وہ میدان میں ڈیرہ ڈالے پڑی تھیں.معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ پر کوئی کھجور کا درخت ہو گا جس کے نیچے وہ اُس وقت آگئیں.ہمارے مفسرین کہتے ہیں کہ وہ درد کا سہارا لینے کے لئے وہاں گئیں تھیں(مجمع البیان زیر آیت ھذا).لیکن درد کا سہارا لینے کی وجہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا میرے نزدیک عیسائی روایتوں سے ڈر کر بنائی گئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہر درخت سایہ بھی دیتا ہے اور سہارا بھی دیتا ہے اور یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں اس کے اندر پائی جاتی ہیں.پھر انہوں نے سہارا کیوں کہا سایہ کیوں نہ کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی روایات سے مطابقت رکھنے کا
خیال ہمارے مفسرین کے ذہنوں پر غالب رہا.اور انہوں نے سایہ کی بجائے سہارا لینے کا ذکر کر دیا.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ درد میں سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ جب شدید دردِزہ ہورہا ہو تو اُس وقت ہوشیار عورتیں اپنا ہاتھ زچہ کو پکڑا دیتی ہیں اور اُسے کہتی ہیں کہ ہمارے ہاتھ کو زور سے دبائو.وہ زور سے دباتی ہے تو اُسے درد میں ایک قسم کا سہارا مل جاتا ہے اور بچہ آسانی سے پیدا ہوجاتا ہے پس اتنی بات تو درست ہے کہ درد میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہو لیکن میرے نزدیک اس آیت کے متعلق مفسرین کی یہ توجیہہ درست نہیں.قَالَتْ يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًّا بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں چونکہ بچہ جو پیدا ہونےوالا تھا بغیر باپ کے تھا اس لئے وہ گھبرائیں اور انہوں نے کہا کہ ہا ئے اب میں کیا کروںگی اور لوگوں کو کیا جواب دوںگی (تفسیر ابن کثیر زیر آیت ھذا).لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں تجربہ کا ر لوگ جانتے ہیں کہ پہلا بچہ ہمیشہ اتنی تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے کہ عورت بے اختیار ہوکر کہتی ہے کہ ہائے میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی.میں نے اپنے خاندان میں اپنی بیویوں اور بچیوں کو بھی دیکھا ہے.اُن میں سے ہر ایک اپنے پہلے بچہ کی ولادت پر یہی کہتی تھی ہائے میں اس سے پہلے مر جاتی.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ بھی اپنی ذات میں غیر معمولی تھا کہ ایک کنواری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا.مگر عام طور پر پہلوٹھے بچوں کی پیدائش کی تکلیف پر لڑکیا ں اسی طرح کہا کرتی ہیں.پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس میں مخفی طور پر اُس حدیث کی تردید کی طرف بھی اشارہ ہو جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اُسے چھوتا ہے جس کی وجہ سے وہ رونے لگتا ہے لیکن مسیح جب پیدا ہو اتو شیطان نے اُسے نہیں چھوا (بخاری کتاب التفسیر سورۃ آل عمران باب منہ آیات محکمات).پیدائش پر بچہ اس لئے روتا ہے کہ راستہ تنگ ہوتا ہے اور وہ نہایت تکلیف کے ساتھ رحم مادر میں سے باہر آتا ہے اُدھر عورت چیختی ہے کیونکہ اُس کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر کہ حضرت مریم کو اچھی خاصی درد ہوئی اس طرف بھی اشارہ کردیاہے کہ جب مریم کو اتنی درد ہوئی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ عیسٰی کو بھی ضرور درد ہوئی ہوگی اور وہ بھی تکلیف سے چیخا چلایا ہو گا.
فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِيْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ پس (فرشتہ نے )اس کو نچلی جانب کی طرف سے پکارکر کہا کہ (اے عورت) غم نہ کر اللہ (تعالے ٰ) نے تیر ی نچلی سَرِيًّا۰۰۲۵وَ هُزِّيْۤ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ جانب ایک چشمہ بہایا ہوا ہے (اس کے پاس جا اور اپنی اور بچہ کی صفائی کر ) اور (وہ ) کھجور (جو تیرے قریب ہوگی رُطَبًا جَنِيًّاٞ۰۰۲۶ اس)کی ٹہنی کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا.وہ تجھ پر تازہ بتازہ پھل پھینکے گی.حل لغات.تَحْتَ کے معنے نیچے کے بھی ہوتے ہیں اور نشیب کے بھی ہوتے ہیں کیونکہ نشیب بھی نیچے کی طرف ہوتا ہے اگر تم کسی پہاڑ پر جارہے ہوتو وہ جگہ بھی نیچے کہلائے گی جس طرف پہاڑی اُترتی ہو اور وہ جگہ جو تمہارے پائوں کے نیچے ہوگی وہ بھی تحت کہلائے گی.سریا سَرِ یًّا سَرٰی سے ہے جس کے معنے چلنے والی چیز کے ہیں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ سَرِیًّا سَرْوٌ سے ہے جس کے معنے بلندی شان اور عظمت کےہیں.ھز ھَزَّ کے معنے زور سے ہلانے کے ہوتے ہیں.(لسان) تفسیر.فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ سے مفسرین کا ذہن پائوں کے نیچے والے معنوں کی طرف چلا گیا ہے(روح المعانی).وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی چونکہ نیچے تھے اس لئے انہوں نے یہ آواز دی.مگر بعض نے کہا ہے کہ ا س سے مراد حضرت مسیح ؑ نہیں بلکہ فرشتہ ہے جس نے پائوں کی طرف سے کلام کیا(درمنثور).اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جگہ مراد فرشتہ ہی ہے.مگر یہ بالکل احمقانہ خیال ہے کہ فرشتہ نے جسم کے نیچےسے بات کیتَحْتِهَاۤسے مراد نشیب ہے کیونکہ جس جگہ پر اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا اُس کے پاس نشیب تھا اور نشیب کے نیچے چشمہ تھا.بائبل کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ بیت لحم میں پیدا ہوا.اور بیت لحم ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو سمندر سے ۲۳۵۰ فٹ اونچی ہے.اس کے ارد گرد سبز وادیاں ہیں جو سارے یہود اہ سے زیادہ سر سبز ہیں.اس پہاڑی کے اندر دو تین چشمے ہیں جن کو چشمئہ سلیمان کہتے ہیں اور یہیں سے شہر میں پانی لایا جاتا ہے گویا شہر میںپانی نہیں بلکہ تالاب سلیمان سے نالیوں کے ذریعہ پانی لایا جا تا ہے.مگر شہر سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ سو گز یعنی نصف میل پر اور وہ بھی نیچے
ڈھلوان کی طرف چشمہ ہے (قاموس کتاب المقدس ترجمہ وتالیف ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم ڈی.تحت بیت لحم)پس فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ سے یہ مراد ہے کہ اُنہیں چشمہ کی طرف سے آواز آئی.انسان آواز سے بھی اندازہ لگا لیتا ہے کہ جگہ کہاں ہے.مثلاََ اگر ہمیں کوئی شخص بائیں طرف سے آواز دے تو ہم اُس آواز سے فوراً قیاس کرلیں گے کہ یہ آواز ہمیں بائیں طرف سے آئی ہے دائیں طرف سے نہیں آئی.پس حضرت مریم کو جگہ بتانے کے لئے کہ تمہیں کہاں سے پانی ملے گا فرشتہ نے اُس نشیب سے اُنہیں آوازدی اور اس طرح بتایا کہ پہاڑی کا جو نشیب ہے یہاں سے تمہیں پانی مل جائے گا یہ مراد نہیں کہ وہ اُن کی کمر کے نیچے سے بولا.جغرافیہ سے بھی ثابت ہے کہ وہاں چشمے پائے جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بائبل بتاتی ہے حضرت مریم جب بیت لحم گئیں توانہیں ٹھہرنے کے لئے شہر میں جگہ نہیں ملی پس وہ شہر سے باہر جاکر رہیں.اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ اس جگہ رہیں جہاںگڈریے اپنے جانور چرایا کرتے تھے (انجیل لوقاب باب۲آیت ۸) اور گڈریے اپنے جانور ہمیشہ شہر سے کچھ فاصلے پر چرایا کرتے ہیں اسی وجہ سے لکھا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اُسے کھلیان میں ڈالا پس شہر اور چشموں کے درمیان کسی جگہ پر جاکروہ ٹھہر گئیں.شاید انہیں یہ بھی خیال ہو کہ اگرمیں شہرمیں رہی تو لوگ شور ڈالیں گے کہ یہ کس کا بچہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ شہر سے کچھ فاصلہ پر جاکر رہوں چنانچہ انہوںنے شہر سے کچھ فاصلہ پر ڈیرہ لگادیا.جہاں سے پانی نزدیک تھا مگر بوجہ اجنبی جگہ ہونے کے انہیں اس کاعلم نہیں تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے اُنہیں الہاماََ بتا دیا کہ اس طرف چشمہ بہ رہا ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو اس ذریعہ سے حضرت اسمعٰیل سے مشابہت دی گئی ہو.حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی جب مکہ میں چھوڑے گئے تو اُن کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے آوازدی تھی کہ جا ہم نے تیرے بیٹے کے پائوں تلے سے چشمہ پھوڑ دیا ہے.بہر حال یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ اس نے حضرت مریم کی گھبراہٹ کے وقت انہیں بتا دیا کہ فلاں جگہ پانی ہے وہاں سے تم اپنی ضرورت پوری کرلو.ہمارے مفسرین تَحْتَكِ سَرِيًّا کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خدا نے تیرے نیچے ایک شاندار وجود بنایا ہے یعنی تیرا بچہ بڑی شان والا ہوگا (تفسیر کبیر لامام رازی).اور بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ حضرت مسیح ؑ کی شان کی بلندی اور اُن کی عظمت کے اظہار کے لئے بولا گیا ہے.در حقیقت ہمارے مفسرین کو شوق ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے حضرت مسیح کی تعریف کرتے رہیں اور اُن کی شان کی بلندی کے قصے بیان کرتے پھریں.اُن کے پیدا ہونے کا ذکر ہو تو کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں سے صرف وہی مسِ شیطان سے پاک تھے اور موت کا ذکرہو توکہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو زندہ
آسمان پر اٹھا لیا ہے پس یہ معنے اُن کی اِسی دیرینہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں حالانکہ بات سیدھی تھی بچہ پیدا ہوا تو ماں کو اپنی اور بچہ کی صفائی کے لئے پانی کی ضرورت تھی.خیال تھا کہ کپڑ ے دھونے اور بچے کو نہلانے کے لئے پانی کہاں سے آئے گا فرشتے نے کہا کہ نیچے پانی موجود ہے وہاں سے اپنی ضرورت پوری کرلو اور جغر افیہ سے ثابت ہے کہ بیت لحم میں پہاڑی کے نیچے چشمے موجود ہیں.اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ فَكُلِيْ وَ اشْرَبِيْ وَ قَرِّيْ عَيْنًا یعنی کھا اور پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر.کھجور کا ذکر چونکہ پہلے آچکا ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ کھجوریں کھا اور پانی پی اور تجھے یہ جو فکر تھا کہ میں گندکا کیا علاج کروں گی اُس کو اب دُور کردے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر.یہ اگلی عبارت صاف طور پر بتارہی ہے کہ یہاں سَرِيًّا کے معنے رفعت کے نہیں بلکہ چشمہ کے ہیں.پہاڑی کے نشیب میں چشمہ تھا.خدا تعالیٰ نے کہا کہ کھجوریں کھا.پانی پی او ر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر.اب اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی پیدائش ۲۵دِسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسطُس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لئے یوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیح کی پیدائش ہوئی.گویا ۲۵ دسمبر کو.اُس زمانہ میں جب کہ قیصر اگسطُس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شمارہوئی مسیح ؑبیت لحم میں پیدا ہوئے(لوقا باب ۲ آیت ۱ تا ۵).لیکن قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے.اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا.لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ دسمبر میں پیدا ہوئے.اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ هُزِّيْۤ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا تو کھجور کے تنا کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی.حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے.کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں پیدا ہوئی.پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکر کیا جبکہ کھجوریں اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں.اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ
دیا کہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں.انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میںکھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں.اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں.مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ ہی قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گریںگی صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے انہوں نے یہ معنے کر لئے کہ وہ سہارا لینے کے لئے کھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں لیکن بعض مفسروں کو فَكُلِيْ اور تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا کا بھی خیال آیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا.حضرت مریم کھجور کے سوکھے درخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں (تفسیر کبیر لامام رازی).دوسری مشکل ہمارے سامنے یہ پیش آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے.قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا (قاموس الکتاب تحت بیت لحم)اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا.انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی.اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جس میں انجیل حضرت مسیح کی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں.اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہوا کرتی تھی.چنانچہ لکھا ہے ’’تب موسیٰ کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کےبیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں.‘‘ (قاضیوں باب ۱آیت ۱۶) عراد جس کا حوالہ میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمالی کی طرف کھجوروں کا شہر تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقیناً کھجوریں پائی جاتی تھیں پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے لیکن اس تحقیق سے اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ تک تو بات ٹھیک ہوگئی.پتہ لگ گیا کہ اُس علاقہ میں کھجور پائی جاتی تھی لیکن یہ سوال ابھی حل نہیں ہوا کہ قرآن کہتا ہے کہ مسیح جس موسم میں پیدا ہوئے اُس وقت کھجوریں درخت پر لگی ہوئی تھیں اور کھجوریں بھی پختہ تھیں اور کھانے کے قابل تھیں.اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے جبکہ
کھجوریںبہت کم ہوتی ہیں.اس سے لازماََ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک حضرت مسیح ؑ کی پیدائش اس موسم میں جس میں کھجور لگی ہوئی ہوتی ہے مسیحی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح ۲۵دسمبر کو پیدا ہو.بعض اس کا وقت اپریل بتاتی ہیں (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن آف ایتھکس زیر لفظ Chrismas).مگر دسمبر یا اپریل میں کھجور درخت پر بہت کم ہوتی ہے.پس ہمیں اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے.میں نے کہا تھا کہ لوقا نے جوکچھ بیان کیاہے اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ نہیں تو ٹھیک ہے لیکن اب اس قرآنی آیت نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم وہ وجہ تلاش کریں جس کی بناء پر ان دونوں باتوں کا آپس میں جوڑ نظر نہیں آتا.اس نقطہ نگاہ سے اب ہم پھر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوقا کو مردم شماری کے بارہ میں غلطی لگی ہے.وہ کہتا ہے کہ یوسف اور مریم مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے.لیکن جب ہم روما کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے سن میں کوئی مردم شماری ہوئی ہی نہیں اور جوزیفس جو مسیح کے زمانہ کا سب سے بڑا مؤرخ ہے وہ لکھتا ہے کہ پہلی مردم شماری ۷ بعدمسیح میں ہوئی ہے سات سال پہلے کوئی مردم شماری نہیں ہوئی اور وہ لکھتا ہے کہ یہ یہود کے لئے اتنی نئی چیز تھی کہ وہ حیران ہوتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ اس مردم شماری کی غرض کیا ہے.اگر سات سال پہلے بھی مردم شماری ہوچکی ہوتی تویہود اتنے حیران کیوں ہوتے ؟ علاوہ ازیں تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہیروڈ (HEROD)کی وفات کے وقت کون سٹیسلس واردس گورنر تھا لوقا کا بیان کردہ کورینس(QUIRINIUS) نہیں تھا بلکہ رومی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے گورنر سینٹی نس (SENTINIS) اور (TITNIS) تھے.اول الذکر ۹قبل مسیح سے ۶قبل مسیح تک رہا.اور دوسرے کا ذکر تاریخ میں ۱۰ قبل مسیح میں آتا ہے.(انسائیکلوپیڈیا ببلیکازیر لفظ کرانیکل) اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ مسیح کی پیدائش سے دس سال قبل سے لے کر ہیروڈ کی وفات تک کورنیس نام کا کوئی گورنر تھا ہی نہیں.پس جبکہ دس سال قبل مسیح سے بعد وفات ہیروڈ تک کے گورنروں کے نام ہمیں معلوم ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی لوقا کا بیان کردہ کورنیس نہ تھا اور جوزیفس کے بیان کے مطابق اُس وقت کوئی مردم شماری ہوئی ہی نہ تھی تو ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ لوقا کے ذہن میں واقعات مشوش ہوگئے ہیں.یا تو اُس نے مردم شماری کا ذکر سُن کر جو کئی سال بعد ہوئی تھی یہ سمجھ لیا کہ وہ پہلے ہوئی تھی اور یوسف اس کے لئے باہر گئے تھے اور پھر پیدائش کا واقعہ اُس نے ساتھ ملالیا.اور یا پھراُس نے جان بوجھ کر اُن واقعات کو بدلا.اور یہی حقیقت ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآنی بات سچی ثابت ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ حضرت مریم بغیر خاوند کے حاملہ ہوئیں.خاوند نے شور مچایا کہ یہ میرا حمل نہیں.اِدھر خاوند کو
خواب آگئی کہ مریم کو اپنے گھر میں لے آکیونکہ وہ جو کچھ کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے.مگر جس کو خواب آگئی اُس کی تو تسلی ہوگئی کہ میری بیوی بدکار نہیں.لیکن شہر والے تو نہیں مان سکتے تھے جو بھی سُنے گا وہ کہے گا کہ حرام کا ہے.اور کوئی خاوند یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی کو بد کار کہا جا ئے.پس چونکہ لوگوں میں بدنامی کا ڈر تھا.اِس لیے تین چار مہینے جب تک کہ حمل چھپ سکتا تھا وہ اپنے گھر میں رہے اورجب دیکھا کہ پیٹ بڑا ہورہا ہے اور حمل اب چھپ نہیں سکتا تو ایک دور کے علاقہ میں چلے گئے اور وہا ں جا کر بچہ پیدا ہوا.اب لوقا کےلئے اس بات کے اظہار میں کیا مشکل تھی لوقا کے لئے یہ مشکل تھی کہ وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ مریم کو خواب میں فرشتہ ملا اور اُس نے بتایا کہ تو حاملہ ہوگی بلکہ وہ ساتھ ہی معجزے بھی بیان کرنے شروع کردیتاہے.کہ ادھر مریم حاملہ ہوئیں اور اُدھر خداوند کے ظہور کی وجہ سے معجزے ظاہر ہونے لگ گئے.چنانچہ مریم حضرت زکریا کی بیوی سے ملنے گئیں تو وہ کہنے لگیں کہ ‘‘میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے ‘‘اور پھر کہا کہ ’’ دیکھو تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کا ن تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اُچھل پڑا.‘‘(لوقا باب۱آیت ۴۳و۴۴) اور یہ ظاہر بات ہے کہ جب اس حمل کے ساتھ ہی معجزات ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو حمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.مگر اِدھر واقعات بتارہے تھے کہ یوسف اور مریم ایک لمبے عرصہ تک باہر رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوسف کو خواب آچکی تھی کہ میری بیوی کا کوئی قصور نہیں.مگر صرف یوسف کی خواب سے کیا بنتا تھا.سوال لوگوں میں بدنامی کا تھا پس یوسف نے یہ تدبیر کی کہ جب تک حمل چھپ سکتا تھا انہیں اپنے گھر میں رکھا اور جب دیکھا کہ اب حمل چھپ نہیں سکتا تو وہ اُنہیں کسی دور مقام پر لے گیا تاکہ لوگوں میں بدنامی نہ ہو اور بچہ کہیں باہر ہی پیدا ہوجائے لیکن لوقا کی غرض یہ تھی کہ مسیح کی خدائی ثابت کرے اِس لئے اُس نے حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزے بیان کرنے شروع کردئے کہ ابھی وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ زکریا کی بیوی حضرت مریم کو دیکھ کر کہہ اُٹھیں کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے بلکہ زکریا کی بیوی تو الگ رہی.یوحنا جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھا وہ بھی خوشی سے اچھل پڑا اور پیٹ میں ہلنے لگ گیا.پس لوقا نے یہ سمجھا.کہ اگر حمل کی وجہ سے مریم کا باہر جانا ثابت ہو تو یہ خیال کیاجائے گا کہ گویا مریم اور اُس کے خاوند یوسف اللہ تعالیٰ کے اِس قدر نشانات اور معجزات کے باوجود لوگوں کے اعتراض سے ڈرتے تھے لیکن اِدھر وہ اس امر سے بھی انکار نہیں کر سکتا تھا کہ یوسف اور مریم باہر گئے پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب یہ حمل معجزانہ تھا اور جب حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزات بھی ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو پھر اس حمل کو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی اور جب نہیں تھی تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے.اس اعتراض سے بچنے کے لئے وہ سات سال بعد کی مردم شماری کے واقعہ کو پہلے بیان کرتاہے
تاکہ یوسف اور مریم کے باہر جانے کی ایک قانونی وجہ نکل آئے اور لوگو ں کو بتایا جا سکے کہ وہ حمل کو چھپانے کے لئے باہر نہیں گئے بلکہ اس لئے گئے تھے کہ قیصر نے مردم شماری کا حکم دیا تھا اور اُن کابیت لحم میں جانا ضروری تھا پس رومی تاریخ کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوقا نے پردہ ڈالا.در حقیقت یہ مردم شماری اُس وقت نہیں ہوئی محض پیدائش کو چھپانے کے لئے یہ سفر تھا نہ کہ مردم شماری کے لئے.اور واقعہ بھی یہی ہے یوسف خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت مریم کو اپنے گھر تو لے آیا مگر دیکھا کہ اگرمیں مریم کو پنے گھر میں ہی رکھوں تو میری ناک کٹتی ہے پس اُس نے یہ تدبیر کی کہ جب حمل چھپ نہیں سکتا تھا تو وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر کسی بہانہ سے سفر پر چلاگیا.اب سیدھی بات ہے کہ اگر وہ بچہ پیدا ہونے کے فوراََ بعد ہی اپنے شہر میں واپس آجاتے تو اعتراض قائم رہتا کہ مریم کو تمہارے گھر آئے تو ابھی پانچ ماہ ہی ہوئے تھے یہ بچہ کہاں سے پیدا ہوگیا اگر وہ ٹھیک نوماہ کے بعد بھی واپس آتے اور کہتے کہ کہ جائز حمل کے نتیجہ میں پید ا ہوا ہے تو بچہ کی شکل سے لوگ پہچان جاتے کی یہ نوزائیدہ بچہ ہے یا اس کی پیدائش پر چار پانچ ماہ گذر چکے ہیں.اس بات کو چھپانے کا صرف ایک ہی طریق تھا کہ وہ کئی سال باہر رہتے چنانچہ بڑی عمر کا بچہ لے آئو تو پھر کچھ پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ کب پیدا ہوا.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کو کئی سال باہر رہنا پڑا.میں قیاساََ سمجھتا ہوں کہ وہ آٹھ نو سال باہر رہے اور پھر واپس آئے.بہر حال چونکہ یوسف حضرت مریم کو اپنے گھر لے آئے تھے لیکن گھر لانے سے پہلے چند ماہ کا حمل تھا.اس لئے سمجھاجا سکتا ہے کہ اگر وہ چند سال باہر رہتے تو اس پر پر دہ پڑ جاتا اور یہ سمجھا جاتا کہ عیسیٰ شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اگر اُسی وقت لے آتے تو راز فاش ہوجاتا.فرض کرو یوسف حضرت مریم کو اپریل میں اپنے گھر لایا تو لوگ حمل کا وقت اپریل سے شروع کریں گے اور اس طرح اُن کے نزدیک دسمبر میں بچہ پیدا ہو جانا چاہیے.اگر وہ اگست ستمبر میں پیدا ہوجاتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ یہ حرام کا بچہ ہے.کیونکہ خاوند تو اسے اپریل میں اپنے گھر لایا تھا اور بچہ اگست ستمبر میں پیدا ہو گیا.اگر وہ بچہ کہیں باہر جنوالیتا ہے اور واپس اُس وقت آتا ہے جب شادی پر نو مہینے گذر جاتے ہیں تب بھی ہر شخص جو بچے کو دیکھے گا کہے گا کہ یہ تو ایک مہینے کا ہے ہی نہیں.وہ کہے گا کہ یہ دسمبر میں پیدا ہوا ہے اور لوگ کہیں گے کہ یہ تین چار ماہ کا معلوم ہوتاہے.آخر کون شخص ہے جو تین مہینے اور ایک مہینہ کے بچہ میں فرق نہ کر سکے پس اگر یوسف دسمبر میں ہی اپنے بچے کو لے آتے اور کہتے کہ یہ اِسی مہینہ میں پیدا ہوا ہے تو ہر شخص کہتا کہ یہ بالکل غلط بات ہے یہ تو پانچ چھ ماہ پہلے کا معلوم ہوتاہے.اِس پر پردہ اُسی صورت میں پڑ سکتا تھا جب وہ کئی سال باہر رہتے.چونکہ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح اس موسم میں پیداہوئے جس موسم میں کھجور تیا ر ہوتی ہے اور کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں
ہوتی ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ جولائی یا اگست میں پیدا ہوئے اور حضرت مریم کو اکتوبر یا نومبر میں حمل ہوا.اگر وہ جولائی کے مہینہ میں یا اگست کے شروع میں پیدا ہوئے تھے تو حضرت مریم کو اکتوبر میں حمل ہوا اور اگر وہ اگست کے وسط یا آخر میں پیدا ہوئے تو حضرت مریم کو نومبر میں حمل ہو ا.بہر حال قرآن کریم کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۱۵اکتوبر سے ۱۵ نومبر تک کسی تاریخ میں حمل ہوا ہے تبھی جاکر اُس موسم میں بچہ پیدا ہوتا ہے جس میں کھجورزیادہ تر پھل دیتی ہے.نومبر میں حمل ہو ا تو مریم اپنی ماں سے تو نہیں چھپا سکتی تھی.اُس نے اپنی ماں کو ضرور بتایا ہوگا.اور پھر ماں نے اپنے رشتہ داروں کوبتایا ہو گا.اور وہ روئے پیٹے ہوں گے اور پھر یوسف کے پاس گئے ہوں گے کہ وہ کسی طرح مریم کو اپنے گھر لے آئے.اور یہ بات دب جائے.یوسف نے پہلے انکار کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں اُسے حکم دیا کہ وہ انکار نہ کرے اور مریم کو اپنے گھر لے آئے اب وہ خدا سے بھی ڈرتا تھا اور لوگوں سے بھی ڈرتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مریم کو اپنے گھر میں لے آیا.فرض کرو فروری میںیامارچ کے آخر میں وہ اُن کو اپنے گھر لایا اور مئی جون میں جب اس نے دیکھا کہ اب حمل پر پر دہ نہیں پڑ سکتا تو وہ کوئی بہانہ بناکر جنوب کی طرف سفر پر چلاگیا اور بیت لحم میں پہنچ کر بچہ پیدا ہوگیا.اب اگر اُسی وقت وہ اپنے بچہ کو واپس لے آتے تو بڑے بے وقوف بنتے کیونکہ وہ تو نکلے ہی اس لئے تھے کہ لوگوں کو بچہ کی پیدائش کا علم نہ اور وہ یہ نہ کہیں کہ مریم تو تمہارے گھر میں مارچ میں آئی تھیں جولائی یا اگست میں بچہ کس طرح پیدا ہوگیا.اگر وہ چھ مہینے کے بعد بھی واپس لاتے تب بھی بے وقوف بنتے کیونکہ وہ یہ کہتے کہ ایک مہینہ ہوا ہمارے ہاں یہ بچہ ہوا ہے اور اس کی شکل چار پانچ مہینے کے بچے والی ہوتی اور چار پانچ مہینے کا فرق بڑا بھاری فرق ہوتا ہے پس وہ کئی سا ل باہر رہے تاکہ اس بات پر پر دہ پڑ جائے اور لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جائے اور جب وہ بچہ بڑا ہو گیا تو پھر اپنے وطن میں واپس آئے.متی سے بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ کئی سال مصر میں رہے (انجیل متی باب ۲آیت۱۳) اب واقعات تویہ بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم لوگوں سے ڈر کر باہر گئے.مگر لوقا بتاتا ہے کہ مسیح ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ اُس کے معجزے ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور سب کو پتہ لگ گیا کہ مریم روح القدس کی وجہ سے حاملہ ہے.اب جبکہ سب کو پتہ لگ گیا تھا اور مسیح کے معجزے بھی ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے تو اس حمل کو چھپانے اور اُن کے باہر جانے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر دوسری طرف واقعات بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم باہر گئے اور باہر ہی بچہ پیداہوا.پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر سب کو علم تھا کہ مریم روح القدس سے حاملہ ہے تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے.اس سوال کو حل کرنے کے لئے لوقا سات سال بعد کی مردم شماری کو سات سا ل پہلے بیان کرتا ہے اُس نے خیال کیا کہ ستر اسی سال گذر چکے
ہیں (کیونکہ لوقا کی انجیل مسیح ؑ کے واقعہ صلیب کے بہت بعد لکھی گئی ہے ) کون یاد رکھے گا کہ مردم شماری کس سال میں ہوئی.آئو ہم دنیا کے سامنے یہ وجہ پیش کردیں کہ یوسف اور مریم کسی اور غرض سے نہیں بلکہ مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے تھے لیکن قرآن تو سچی بات بتاتا ہے.اُس نے وہ بات بتائی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق ہے اور اس سے واضح ہوتاہے کہ مسیح ؑ کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی جیسا کہ عیسائی بتلاتے ہیں.بلکہ جولائی یا اگست میں ہوئی ہے.جبکہ کھجور کے درخت پرکثرت سے پھل تیار ہوجاتا ہے.عیسائیوں نے دسمبر کی پیدائش محض اس لئے بیان کی ہے تاکہ اصل واقعہ پر پردہ پڑا رہے اور لوگ یہ سمجھیں کہ حضرت مسیح شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں.پھر انجیل میں مسیح کی پیدائش کا موقع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کررہے تھے.‘‘ (لوقا باب ۲ آیت ۸) ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا نہ کہ شدید سردی کا.دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دُھند کاہوتا ہے.کون یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ ایسے موسم میں کھلے میدان میں چرواہے اپنے گلّوں کو لے کر باہر نکل آئے تھے.صاف ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا چنانچہ پیکس تفسیر بائبل میں انجیل لوقا کے مفسّرپرنسیپل اے.جے.گریوایم.اے.ڈی کی طرف سے لوقا کے اس بیان پر کہ حضرت مسیح ؑ کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اُس وقت چرواہے گلّوں کو باہر نکال کر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے مندرجہ ذیل تبصرہ موجود ہے کہ یہ موسم’’ ماہ دسمبر کا نہیں ہوسکتا ہمارا کرسمس ڈے مقابلتہََ بعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی ‘‘.اسی طرح بشب جارنس اپنی کتاب RISE OF CHRISTIANITYمیں تحریر کرتے ہیں ’’اس تعین کے لئے کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن تھا اگر ہم لوقا کی بیان کردہ ولادت مسیح کی کہانی پر یقین کرلیں کہ اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کے گلّہ کی نگرانی بیت لحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جبکہ رات کو ٹمپریچر اتنا گرجاتا ہے کہ یہود یہ کے پہاڑی علاقہ میں برف باری ایک عام بات ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریباََ ۳۰۰ء میں متعین کیاگیا ہے‘‘ (ص۷۹)
پس اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت مریم کو دردِزہ ہوئی تو وہ ایک کھجور کے نیچے گئیں اور کھجور اُس وقت موجود تھی.لیکن انجیل جس زمانہ کی خبر دیتی ہے اُس وقت کھجور نہیں ہوتی.میں نے بتایا ہے کہ در حقیقت انجیل کی غلط بیانی کی ایک وجہ موجود ہے اور وہ کہ لوقا بتاتا ہے کہ مسیح سے حاملہ ہونے پرصرف مریم ہی کو خبر نہیں ہوئی بلکہ جب وہ اپنی بہن الزبتھ کو ملنے گئیں جو زکریا کی بیوی تھیں تو اُن کے پیٹ میں یحییٰ خوشی سے ہلا جس سے یہ بات دوسروں میں بھی پھیل گئی کہ مریم حاملہ ہے.پھر قرآن تو خاموش ہے.لیکن انجیل بتاتی ہے کہ حضرت مریم کو جب فرشتہ نے خبر دی کہ تُو حاملہ ہوگی تو انہوں نے صرف تعجب کا ہی اظہار نہیں کیا کہ بغیر خاوند کے مجھے کس طرح حمل ہوسکتا ہے بلکہ وہ اس پر خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ’’دیکھ میں خداوندکی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو‘‘ (انجیل لوقا باب۱ آیت ۳۸)اب اس چیز کے ساتھ یہ بات ملتی نہیں کہ جب حمل ہوچکا تھا اور لوگوں پر ظاہر ہوچکا تھا کہ یہ بچہ روح القدس سے ہے باپ سے نہیں.اور مریم کو بھی فرشتے کی وجہ سے تسلی ہوگئی تھی اور وہ خوش تھیں کہ مجھے ایسا حمل ہوا ہے تو پھر وہ اپنی جگہ سے غائب کیوں ہوئیں کیونکہ ساری انجیلیں اِس بات پر متفق ہیں کہ بچہ کسی اور جگہ ہوا.سوال یہ ہے کہ کسی اور جگہ کیوں ہوا.اپنے وطن میں ہی کیوں نہ ہوا ؟ اس بات کو چھپانے کے لئے کہ غائب ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنا بچہ چھپانا چاہتی تھیں لوقا کہتا ہے کہ چونکہ وہ مردم شماری کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے نام لکھوانے کے لئے وہاں گئے تھے اور مردم شماری کا مہینہ دسمبر بتایا جاتا ہے.اِس سے اُن کی غرض یہ تھی کہ شہر والوں پر یہ ظاہر کریں کہ مسیح دسمبر میں پیداہوا ہے اور اُس دن سے نو مہنیے پورے ہوجاتے ہیں جب یوسف اُسے اپنے گھر میں لایا اور اس طرح حمل پر پردہ پڑ جاتا ہے.لیکن قرآن نے تو اصل واقعہ بیان کرنا تھا.اِس لئے اُس نے اُس وقت سے تاریخ بیان کی ہے جب وہ روح القدس سے حاملہ ہوئی.اور بائبل نے اُس وقت سے تاریخ بنانے کی کوشش کی ہے جب وہ یوسف کے گھر میں آئی.تم یوں سمجھ لو کہ قرآنی بیان کے مطابق حضرت مریم نومبر میں حاملہ ہوئیں اِس لحاظ سے نو مہینے جولائی کے آخر میں ختم ہوجاتے ہیں.چونکہ بعض بچے ۲/۱ ۸ ماہ بعد بعض ۹ماہ بعد اور بعض ساڑھے نوماہ بعد پیدا ہوتے ہیں.اِس لئے ہم اندازاََ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ ۱۵جولائی سے ۱۵اگست تک کسی وقت میں پیدا ہوئے اور اُس وقت کھجور بکثرت ہوتی ہے لیکن انجیل کہتی ہے کہ وہ ۲۵دسمبر کو پیدا ہوئے.اب ہم ۲۵دسمبر سے اُلٹ حساب کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۲۵ مارچ کو حمل ہو ا.اور چونکہ عیسائیوں نے مسیح کی پیدائش اُس وقت کی بتائی ہے جبکہ یوسف کے مریم کو گھر لا نے کے بعد نوماہ ہوتے تھے
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت مریم کو دردِزہ ہوئی تو وہ ایک کھجور کے نیچے گئیں اور کھجور اُس وقت موجود تھی.لیکن انجیل جس زمانہ کی خبر دیتی ہے اُس وقت کھجور نہیں ہوتی.میں نے بتایا ہے کہ در حقیقت انجیل کی غلط بیانی کی ایک وجہ موجود ہے اور وہ کہ لوقا بتاتا ہے کہ مسیح سے حاملہ ہونے پرصرف مریم ہی کو خبر نہیں ہوئی بلکہ جب وہ اپنی بہن الزبتھ کو ملنے گئیں جو زکریا کی بیوی تھیں تو اُن کے پیٹ میں یحییٰ خوشی سے ہلا جس سے یہ بات دوسروں میں بھی پھیل گئی کہ مریم حاملہ ہے.پھر قرآن تو خاموش ہے.لیکن انجیل بتاتی ہے کہ حضرت مریم کو جب فرشتہ نے خبر دی کہ تُو حاملہ ہوگی تو انہوں نے صرف تعجب کا ہی اظہار نہیں کیا کہ بغیر خاوند کے مجھے کس طرح حمل ہوسکتا ہے بلکہ وہ اس پر خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ’’دیکھ میں خداوندکی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو‘‘ (انجیل لوقا باب۱ آیت ۳۸)اب اس چیز کے ساتھ یہ بات ملتی نہیں کہ جب حمل ہوچکا تھا اور لوگوں پر ظاہر ہوچکا تھا کہ یہ بچہ روح القدس سے ہے باپ سے نہیں.اور مریم کو بھی فرشتے کی وجہ سے تسلی ہوگئی تھی اور وہ خوش تھیں کہ مجھے ایسا حمل ہوا ہے تو پھر وہ اپنی جگہ سے غائب کیوں ہوئیں کیونکہ ساری انجیلیں اِس بات پر متفق ہیں کہ بچہ کسی اور جگہ ہوا.سوال یہ ہے کہ کسی اور جگہ کیوں ہوا.اپنے وطن میں ہی کیوں نہ ہوا ؟ اس بات کو چھپانے کے لئے کہ غائب ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنا بچہ چھپانا چاہتی تھیں لوقا کہتا ہے کہ چونکہ وہ مردم شماری کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے نام لکھوانے کے لئے وہاں گئے تھے اور مردم شماری کا مہینہ دسمبر بتایا جاتا ہے.اِس سے اُن کی غرض یہ تھی کہ شہر والوں پر یہ ظاہر کریں کہ مسیح دسمبر میں پیداہوا ہے اور اُس دن سے نو مہنیے پورے ہوجاتے ہیں جب یوسف اُسے اپنے گھر میں لایا اور اس طرح حمل پر پردہ پڑ جاتا ہے.لیکن قرآن نے تو اصل واقعہ بیان کرنا تھا.اِس لئے اُس نے اُس وقت سے تاریخ بیان کی ہے جب وہ روح القدس سے حاملہ ہوئی.اور بائبل نے اُس وقت سے تاریخ بنانے کی کوشش کی ہے جب وہ یوسف کے گھر میں آئی.تم یوں سمجھ لو کہ قرآنی بیان کے مطابق حضرت مریم نومبر میں حاملہ ہوئیں اِس لحاظ سے نو مہینے جولائی کے آخر میں ختم ہوجاتے ہیں.چونکہ بعض بچے ۲/۱ ۸ ماہ بعد بعض ۹ماہ بعد اور بعض ساڑھے نوماہ بعد پیدا ہوتے ہیں.اِس لئے ہم اندازاََ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ ۱۵جولائی سے ۱۵اگست تک کسی وقت میں پیدا ہوئے اور اُس وقت کھجور بکثرت ہوتی ہے لیکن انجیل کہتی ہے کہ وہ ۲۵دسمبر کو پیدا ہوئے.اب ہم ۲۵دسمبر سے اُلٹ حساب کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۲۵ مارچ کو حمل ہو ا.اور چونکہ عیسائیوں نے مسیح کی پیدائش اُس وقت کی بتائی ہے جبکہ یوسف کے مریم کو گھر لا نے کے بعد نوماہ ہوتے تھے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ مارچ میں کسی وقت یوسف اُن کو اپنے گھر میں لایا.نومبر میں وہ حاملہ ہوئی تھیں.فرض کرو ۱۵ نومبر کو وہ حاملہ ہوئیں.چوتھے مہینے جاکر حمل نمایا ں ہوجاتا ہے چوتھے مہینے جب بات کھلی تو یوسف خدا کے حکم سے اُن کو اپنے گھر میں لے آیا.اب لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ حلال کا حمل ہے حرام کانہیں عیسائیوں نے مارچ سے حساب لگایا اور اس کے ٹھیک ۹ماہ بعد دسمبر میں اُس کی پیدائش بتائی.پس عیسائی مجبور تھے کہ وہ اُن کی تاریخ پیدائش ۲۵دسمبر ہی بتاتے ورنہ لوگوں کو کیا جواب دیتے کہ خاوند کے گھر میں مارچ میں آئی اور بچہ پیدا ہوگیا جولائی اگست میں.اس کا ایک ہی طریق تھا کہ وہ اُن کی تاریخ پیدائش کو چھپا دیتے اور کسی بعد کے مہینہ میں اُن کی ولادت ظاہر کرتے.یوں سمجھ لوکہ نومبر میں مریم حاملہ ہوئیں مارچ میں پیٹ بڑا ہوگیا اور یوسف تک بات پہنچی اُس نے ارادہ کیا کہ میںطلاق دیدوں.مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں بتلایا کہ یہ بدکار نہیں بلکہ اسے معجزانہ طورپر حمل ہواہے.چنانچہ مارچ میں وہ انہیں گھر لے آیا.ممکن ہے فروری میں ہی لے آیا ہو مئی جون میں کوئی عذر کرکے وہ ان کو ناصرہ سے باہر لے گیا.اب خاوند ساتھ تھا اور اُسے یقین تھا کہ یہ خدائی فعل ہے وہ انہیں شہر سے باہر لے گیا.جولائی کے آخر یا اگست میں حضرت مسیح پیداہوئے.چند سال یوسف باہر رہے جب واپس آئے تو پیدائش دسمبر کی بتائی.یا یوں کہوکہ یوسف نے تو پیدائش ٹھیک ہی بتائی انجیل نے ان کی پیدائش دسمبر میں بتائی جو مارچ میں مریم کو گھر لانے کی صورت میں ۹ماہ بعد کی تھی تا کہ لوگ سمجھیں کہ مسیح یوسف کی اولاد سے ہے اس صورت میں کھجور کا معاملہ بھی صاف ہوجاتا ہے کیونکہ جولائی اگست میں کھجوریں بکثرت لگی ہوئی ہوتی ہیں.ظاہر ہے کہ جب یوسف اس واقعہ سے شرماتا تھا اور جب وہ اس پر پر دہ ڈالنا چاہتا تھا تو اُس کے سوا کیا صورت تھی کہ وہ حمل اُس وقت سے ظاہر کرتا جب مریم اُن کے گھر آگئی تھیں اور اِس صور ت میں اس کے حمل کو چار پانچ ماہ بعد کا ظاہر کرنا ضروری تھا.اور اسی طرح پیدائش بھی چار پانچ ماہ بعد کی ظاہر کرنی ضروری تھی.ممکن ہے سات سال کے بعد جو مردم شماری ہوئی وہ دسمبر میں ہوئی ہو اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوقا نے اُسے پیدائش کے سال پر چسپاں کردیا ہو.ظاہر ہے کہ لوقا نے ستر اسی سال بعد کتاب لکھی ہے اتنے عرصہ بعد کسی کو کیا یاد رہتا ہے کہ کب مردم شماری ہوئی تھی.اس تشریح سے جو نہایت اہم تشریح ہے اور جو رومن تاریخ کے واقعات سے موید ہے اور انجیل کی روایا ت کی روشنی اس کی تائید کرتی ہے قرآن میں پھل دار کھجور کے ذکر کا واقعہ صاف ہوجا تا ہے.
فَكُلِيْ وَ اشْرَبِيْ وَ قَرِّيْ عَيْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ پس ان کو کھائو اور(چشمہ سے پانی بھی ) پیو اور (خود نہاکر اور بچہ کو نہلا کر)اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو.پھر اگر (اس فَقُوْلِيْۤ اِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ عرصہ میں )تو کسی مرد کو دیکھے تو کہہ دے میں نے رحمن (خدا) کے لئے ایک روزے کی نذر کی ہوئی ہے پس آج اِنْسِيًّاۚ۰۰۲۷ میں کسی انسان سے بات نہیں کروںگی.تفسیر.خدا نے کہا کہ کھائو اور پیو.اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو.فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا اور اگر تمہیں کوئی شخص نظر آئے.توفَقُوْلِيْۤ اِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا اُسے کہو کہ آج میں نے خدا کے لئے روزہ رکھاہوا ہے پس آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی.مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں روزہ سے مراد خاموشی کا روزہ ہے یعنی اُن کے لئے کلام کرنا بالکل ممنوع تھا (فتح البیان).لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں.دراصل حضرت مریم کو بھی حضرت زکریا کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور حضرت زکریا کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ اُنہیں اونچی آواز سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن آہستہ بولنا اُن کے لئے جائز تھا.یہاں بھی اِسی رنگ کا روزہ مراد ہے یعنی حضرت مریم کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی بلکہ اپنا وقت ذکر الٰہی میں بسر کرنا.پس روزہ سے مراد وہ روزہ نہیں جس میں کھا نا پینا ترک کیا جا تا ہے.کیونکہ اُس وقت تو وہ نفاس کی حالت میں تھیں اور وہ روزہ اُس وقت ہوتا ہی نہیں.اور پھر خصوصاََ اس لئے بھی وہ روزہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلِيْ وَ اشْرَبِيْ کھااور پی جس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا اُن کے لئے منع نہیں تھا.پس یہاں صوم سے مراد یہ ہے کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی زیادہ باتیں میں اس لئے کہتا ہوں کہ ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے کہاہے قُوْلِيْ کہو.اگر بات بالکل منع تھی تو وہ کہہ کس طرح سکتی تھیں کہ میں روزہ سے ہوں.یہ لفظ صاف بتاتا ہے کہ اُنہیں بات کرنا بالکل منع نہ تھا وہ ایک حد تک بات کرسکتی تھیں.لیکن ساتھی ہی ہدایت تھی کہ اپنے وقت کو ذکر الٰہی میں بسر کریں.اِس میںحکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ ابھی بچہ پیدا ہوا تھا اس لئے لازماََ جوبھی ملتا وہ ضرور پوچھتا کہ یہ کس کا بچہ ہے.اللہ تعالیٰ نے
فرما دیا کہ آج ذکر الٰہی کرو اوراگر کوئی شخص تم سے کچھ پوچھنا چاہے تو اُسے بھی کہہ دو کہ آج میں نے ذکر الٰہی کرناہے.اِس طرح بات ختم ہوجائے گی اور اگلی بات پیداہی نہیں ہوگی.پس صوم سے مراد کلام کی حد بندی ہے یعنی فضول اور لغو باتیں نہیں کرنی.بلکہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرناہے.اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الٰہی منع نہیں.لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الٰہی نہیں کیا جاسکتا.حالانکہ اگر ذکر الٰہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مرجائے بلکہ بعض لوگ تو مُنہ سے بھی ذکر الٰہی کرنا جائز سمجھتے ہیں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عورت حیض کے دنوں میں بھی قرآن کوکسی کپڑے یا رومال سے پکڑ کر اور پھر صاف ستھرے کپڑے پر رکھ کر پڑھ سکتی ہے ہاتھ سے پکڑنا اس لئے منع ہے کہ ممکن ہے ہاتھ کو حیض کی نجاست لگی ہو ئی ہو.چنانچہ جن عورتوں نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھا ہے وہ اب بھی حیض کے ایام میں کپڑے پر قرآن رکھ کر پڑھ لیتی ہیں.میرا یہ عقیدہ نہیں لیکن اگر کوئی پڑھے تو ہم اُسے کہتے کچھ نہیں.کیونکہ قرآن بہر حال خدا تعالیٰ کا کلام ہے اگر کسی کے نزدیک حیض کی حالت میں اُسے دیکھ کر پڑھنا جائز ہو تو کیا حرج ہے.فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْـًٔا اس کے بعد وہ اس کولےکر اپنی قوم کے پاس اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہوئی آئی.جنہوں نے کہا اے مریم فَرِيًّا۰۰۲۸ تُونے بہت بُرا کام کیا ہے.تفسیر.مفسرین اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جب وہ وہاں سے فارغ ہوئیں اور چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو اپنی قوم کے پاس آئیں.بچہ اُن کی گود میں تھا.انہوں نے اعتراض کیا کہ مریم تُو نے یہ کیا بلا ماری ہے حضرت مریم نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو اس بچہ سے پوچھ لو(تفسیر ابن کثیر).چنانچہ حضرت مسیح ؑ اُس وقت بولے اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کا نبی ہو ں.گو یا مسیح کا پہلا معجزہ ہی جھوٹا تھا.وہ نبی نہیں تھا مگر اُس نے کہا میں نبی ہوں.وہ نماز نہیں پڑھتا تھا مگر اُس نے کہا خدا نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حالانکہ وہ اُس وقت پوتڑوں میں پاخانہ پھرتا تھا گویا مفسرین کے نزدیک حضرت مسیح ابھی اپنی ماں کی گود میں ہی تھے کہ انہوں نے جھوٹ بولنے کی مشق شروع کردی اور
جب اُن پر نماز فرض نہیں تھی کہنے لگے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور جب پوری طرح ہو ش بھی نہیں تھا تو کہنے لگے کہ میں نبی ہو گیا ہوں اس بارہ میں اُن کا استدلال تَحْمِلُهٗاوريُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ (آل عمران :۴۷)سے ہے.اب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارہ میں کیا کہتی ہے.مرقس کہتا ہے کہ وہ یوحنا کے ظہور کے وقت ناصرہ میں تھا.(انجیل مرقس باب۱آیت ۹) متی باب ۴آیت ۱۳ میں بھی لکھا ہے کہ جب یوحنا گرفتار ہوا تو مسیح ناصرہ چھوڑ کر کَفرنا حوم ایک گلیلی شہر میں گیا گویا وہ یہ تو نہیں بتاتے کہ پیدائش کے بعد حضرت مسیح ناصرہ کب گئے مگر یہ بتا تے ہیں کہ جب یوحنا کا ظہو ر ہوا تو اُس وقت وہ ناصرہ میں تھے اور اس کی گرفتاری پر وہ کفرنا حوم چلے گئے.اِس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح ؑ جب جوان ہوئے توناصرہ میں آتے جاتے تھے.لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں بعد یوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے اور وہیں مسیح پلا.(انجیل لوقا باب۲آیت ۳۹)گویا یوحنا اِس بارہ میں بالکل خاموش ہے.متی کچھ نہیں کہتا کہ وہ پیدا ہو کر کہا ں گئے.مرقس کچھ نہیں کہتا کہ وہ پیدا ہوکر کہاں گئے.لیکن لوقا کہتا ہے کہ وہ ناصرہ گئے.لوقا باب ۱ آیت ۲۶و۲۷میں لکھا ہے کہ خدا کا فرشتہ مریم پر ناصرہ میں ظاہر ہوا اور وہیںاُسے حاملہ ہونے کی خوشخبری دی.یہ حوالہ بتاتا ہے کہ حضرت مریم ناصرہ میں رہتی تھیں مردم شماری کے لئے بیت لحم گئیں اور پھر بچہ پیدا ہونے پر نا صرہ میں آگئیں اور حضرت مسیح وہیں ناصرہ میں رہے یہاں تک کہ یوحنا نے نبوت کا دعویٰ کیا.اِس روایت کے مطابق حضرت مریم ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور وہیں وہ مسیح کو لے گئیں اور لے جانے کا وقت پیدائش کے معاََ بعد کا ہے اگر یہ بیا ن درست ہے تو معلوم ہو اکہ مسیح کو اس کی والدہ پیدائش کے معاََ بعد اپنے وطن لے گئی تھیں جس کا نا م ناصرہ تھا.اس صورت میں اِن آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ مسیح نے پیدا ہوتے ہی کلام کیا.کیونکہ قرآنی الفاظ یہ ہیں کہ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا حضرت مریم اپنے رشتہ داروں اور تعلق والوںکے پاس اُن کو لائیںاور مسیح نے اُن سے کلام کیا.پس اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور ناصرہ میں ہی اپنے بچے کو لے گئیں اور پیدائش کے چند دن بعد لے گئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح نے پیدائش کے چند دن بعد ہی یہ کلام کیا.لیکن اب ہم تحقیق کرتے ہیں کہ کیا لوقا کا یہ بیا ن ٹھیک ہے کہ مریم ناصرہ کی تھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیا ن درست نہیں.متی میں لکھا ہے کہ جب مسیح پیدا ہوا تو اُس وقت مریم بیت لحم میں تھیں لیکن وہ اصل وطن کا ذکر نہیں کرتا بلکہ باب۲ میں جو ذکر ہے اُس سے شبہ ہوتا ہے کہ اُن کا وطن بیت لحم کے سوا کوئی اور تھا مگر وہ بیت لحم کے قریب ہی تھا.اس
کے بعد اُس میں لکھا ہے کہ چونکہ بادشاہ ہیرو دیس کو شبہ تھا کہ یہ لڑ کا جو پیدا ہوا ہے بڑا ہوکر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گا کیونکہ مجوسی فقیروں نے اُسے بتایا تھا کہ ایسا لڑکا پیدا ہوا ہے اور ہم پورب میں اُس کا ستا رہ دیکھ کر آئے ہیں اس لئے ہیرو دیس نے انہیں کہا کہ جب تمہیں اُس کا پتہ ملے تو مجھے بھی بتانا.اُس کی غرض یہ تھی کہ میں اُسے مروا ڈالوں گا تاکہ حکومت کو نقصان نہ پہنچے مگر متی کہتا ہے جب مجوسی آئے اور انہوں نے حضرت مسیح کو دیکھ لیا تو رات کو فرشتہ نے اُنہیں کہا کہ اب ہیرودیس کے پاس نہیں جانا چنانچہ وہ کسی دوسرے راستہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوگئے.ان کے جانے کے بعد یوسف پر فرشتہ ظاہر ہوا اور اُس نے کہا کہ بادشاہ اس بچہ کو مروانا چاہتا ہے تو اُٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر میں بھا گ جا.چنانچہ یوسف اور مریم بچے کولے کر مصر میںچلے گئے.اِدھر جب بادشاہ نے دیکھا کہ مجوسی واپس نہیں آئے بلکہ کسی اور راہ سے اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں تواُسے سخت غصہ آیا اور اُس نے حکم دے دیا کہ بیت لحم اور اُس کے گردو نواح کے وہ تمام لڑکے جو دوسال یا اس سے چھوٹی عمر کے ہوں قتل کردئے جائیں (یہ قصہ دراصل موسیٰ ؑ کی نقل میں بنایا گیا ہے )بہر حال یوسف خدا سے خبر پاکر مسیح کو مصر لے گیا اور خدا تعالیٰ نے کہا کہ تو اُس وقت تک مصر میں ہی رہ جب تک کہ میں دوبارہ تجھ کو کوئی خبر نہ دُوں (متی باب ۲) اب دیکھو یہ بیان لوقا سے کتنا مختلف ہے لوقا کہتا ہے کہ مریم پیدائش کے معاََ بعد نا صرہ گئیں اور متی کہتا ہے کہ وہ مصر گئیں اور متی کہتا ہے.کہ یہ قیاسی بات نہیں بلکہ الہاماََ یوسف کو کہا گیا کہ تُو نے وطن واپس نہیں جانا بلکہ مصر جاناہے.اور پھر الہاماََ کہا کہ تُو نے مصر سے نہیں ہلنا جب تک کہ میں دوبارہ تجھ پر الہام نازل نہ کروں.چنانچہ وہ وہاں رہے.یہاںتک کہ ہیرودیس مر گیا.پھر خدا نے اُس کو خبر دی.کہ اب ہیرو دیس مرگیا ہے تو واپس اسرائیل کے ملک میںچلا جا.لیکن جب یوسف واپس آیا اور اُسے معلوم ہوا کہ اَرخَلاؤس اپنے باپ کی جگہ پر بیٹھا ہے تو وہ ڈراکہ اگر میں اسرائیل کے ملک یعنی یہودیہ میں گیا تو مجھے مار ڈالیں گے (اس سے معلوم ہوا کہ بائبل کی رُو سے وہ جوڈیا یعنی یہودیہ کے کسی شہر کا باشند ہ تھا ) تب خدا سے اطلاع پاکر (گویا خدا تعالیٰ کو اَر خَلا ؤس کا پہلے علم نہ تھا ) وہ جلیل کے ایک شہر ناصرہ میں جا کر رہا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہوکہ وہ ناصری کہلائے گا (انجیل متی باب ۲ آیت اتا ۲۳) اس حوالہ سے کتنی باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۱.اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہوا.۲.پیدائش کے بعدیو سف خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مریم اور بچہ کولے کر مصر گیا.۳.مصر میں وہ ہیرو دیس کی وفا ت تک رہا.
۴.ہیرو دیس کی وفات کےبعد خدا تعالیٰ نے اُسے اپنے ملک میں واپس جانے کے لئے کہا.۵.مگر جب وہ وطن میں واپس جانے سے ڈرا تو خدا تعالیٰ سے علم پاکر وہ گلیل کے شہر نا صرہ میں گیا.۶.اور خدا نے کہا کہ تو نا صرہ میں اس لئے جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا.اگر وہ ناصرہ کے رہنے والے ہوتے تو خدا کیوں کہتا کہ تُو ناصرہ چلا جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا.اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یوسف نا صرہ کا رہنے والا نہیں تھا بلکہ اس کا وطن کوئی اور تھا.نا صرہ میں مصر سے واپس آنے کے بعد اُس نے قیام کیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح ؑ کا وطن نا صرہ نہ تھا.وہ نا صرہ پیدائش کے معاََ بعد نہیں گیا بلکہ مصر سے واپسی پر گیا.اگر فوراََ بھی گیا تو نا صرہ میں رشتہ دارو ں سے گفتگوکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ وہاں اُس کے کوئی رشتہ دار نہ تھے اور قرآن رشتہ داروں سے گفتگو کا ذکر کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کہ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا وہ اُسے اپنے رشتہ داروں اور قوم کے لوگوں کے پاس لائی.اب ہمیں اِن دونوں بیا نوں سے پتہ لگ گیا کہ اگر لوقا کا بیا ن صحیح ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں کے بعد یوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے تو متی کے حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ ناصرہ ان کا وطن نہیں تھا پس اگر ماں مسیح کو ناصرہ لے گئی تھی تب بھی وہاں اُن کے بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ قرآن اُن کے بولنے کا ذکر وہاں کرتا ہے جہاں اُن کی قوم کے لوگ تھے اور اگر وہ مصر میں رہا اور پھر نا صرہ گیا جو اس کا وطن نہیں تھا تو بچپن میں بھی بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق یوحنا کے دعو ےٰبلکہ اس کی گرفتاری تک وہ ناصرہ میں رہا.پس یہ کلام یوحنا کے دعویٰ تک کے زمانہ کا بھی نہیں سمجھا جا سکتا.کیونکہ اُس وقت تک ناصرہ میں تھا.متی سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح یروشلم میں دو دفعہ گیا ہے جس کے ارد گرد اُن کا وطن تھا.ایک دفعہ بارہ برس کی عمر میں اور ایک دفعہ بتیس سال کی عمر میں بارہ سال کی عمر میں جب وہ یروشلم آیا تو اس وقت کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا.سوائے اس کے کہ وہ بزرگوں کی باتیں سنتا تھا اور کھیل کود میں شامل نہیں ہوتا تھا.اِس کے بعد وہ ۳۲ سال کی عمر میں دوبارہ یروشلم آیا اور اسی علاقہ میں اُس کے رشتہ دار ثابت ہوتے ہیں پس اِن دو سفروں میں کسی ایک سفر میں ہی اس کا رشتہ داروں سے یہ مکالمہ ہو سکتا ہے اور غالباََ یہ مکالمہ دوسرے سفر میں تھا جب وہ مسحیت کی تبلیغ کرنے کے لئے یروشلم آیا جس کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اس کی بعثت کے قریباََ تیسرے سال میں ہوا تھا.جبکہ وہ دوسال سے اپنے دعویٰ کا اعلان کرچکا تھا.(انجیل متی باب۲۱) اُس وقت اس کے مُنہ سے یہ کلمات جو قرآن کریم نے کہے ہیں بالکل درست ثابت
ہوتے ہیں.پہلے سفر کے حالات جب وہ بچہ تھا اس پر چسپا ں نہیں ہوتے.خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ رشتہ داروں سے مسیح ؑنے باتیں کیں.انجیل کہتی ہے کہ پیدائش کے بعد مسیح ؑ ناصرہ گیا وطن نہیں گیا.پس وطن کسی دوسرے وقت میں گیا اور دوسری جگہ یروشلم کا گردو نواح ہے جہاں اُس کا جا نا دو دفعہ ثابت ہے.ایک دفعہ بچپن میں جب اُس کی ماں اور باپ اُس کے حالات سے ابھی نا آشنا تھے اور دوسری دفعہ جب وہ مدعی ہوکر گیا.پس یہ گفتگو اُسی وقت ہوئی.اس سے پتہ لگ گیا کہ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ سے وہ زمانہ مراد ہے جب مسیح ۳۳ سال کے ہوچکے تھے اور دعویٰ نبوت کرچکے تھے.اب سوال پیدا ہوتا ہےتَحْمِلُهٗسے کیا مراد ہے بچہ کو تو ما ں اُسی وقت اُٹھا تی ہے جب وہ چھوٹا ہوتا ہے.سویاد رکھنا چاہیے کہ بیشک اس کے ایک معنے گود میں اٹھا نے کے ہیں.لیکن اِس کے علاوہ مجازی طور پر یہ کسی کا ساتھ دینے اور اس کی تائید اور نصرت کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا (الجمعۃ:۶) یعنی وہ لوگ جن پر تورات رکھی گئی تھی لیکن انہوں نے اُس کو اُٹھا یا نہیں.اب دیکھو یہاں حمل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر حُمِّلُوا کے یہ معنے نہیں کہ تورات ان کے سروں پر رکھ دی گئی تھی بلکہ اُس کی تائید کرنے کا ان کو حکم دیا گیا تھا.اور جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ لَمْ يَحْمِلُوْهَا تو اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ ہر یہودی نے تورات اپنے ہاتھ سے پھینک دی تھی.بلکہ مطلب یہ تھا کہ انہوں نے تورات کی تبلیغ اور تائید چھوڑ دی تھی.چنانچہ مفردات امام راغب میں مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کے معنی کرتے ہوئے لکھا ہے کُلِّفُوْا اَنْ یَقُوْمُوْا بحَقِّھَا فَلَمْ یَحْمِلُوْھَا یعنی یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کے واجبات کو ادا کریں اُس کی ظاہری اور باطنی طور پر تائید وحفاظت کریں اور اُس کے احکام پر خود بھی عامل ہوں اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کریں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا.گویا خدا تعالیٰ نے حُمِّلُوا کہا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی کے سر پر تورات رکھی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے لَمْ يَحْمِلُوْهَا.کہا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی نےتورات اُٹھا کر پھینک دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما یا کہ انہوں نے تورات نہیں اُٹھا ئی تو انہوں نے ظاہر میں تورات اُٹھائی ہوئی تھی اور جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ تو رات اُن پر رکھی گئی تو ظاہرمیں اُن کے سروں پر کوئی تورات نہیں تھی.پس حمل کے معنے کبھی تائید اور نصرت اور ساتھ دینے کے بھی ہوتے ہیں.انجیل کہتی ہے کہ مسیح ؑ پر اُن کی ماں ایمان نہیں لائی(مرقس باب ۳ آیت ۳۱ تا ۳۵) لیکن قرآن کہتا ہے کہ فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ جب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ماں اُن کے ساتھ اُن کی تصدیق کرتی اور اُن کے دعویٰ کی تائید کرتی ہوئی آئی.اِسی طرح تَحْمِلُهٗکے معنی حوصلہ دلانے اور ہمت
بڑھانے کے بھی ہوسکتے ہیں.پس اَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مریم مسیح کو اُٹھائے ہوئے تھیں بلکہ مرادیہ ہے کہ وہ مسیح ؑ کی تعلیم پر عمل کرنے والی اور اس کی تصدیق کرنے والی تھیں.گویاانجیل نے جو الزام لگایاتھا کہ مریم حضرت مسیح کو نہیں مانتی تھی قرآن کریم نے اَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ کے الفاظ میں اس کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے وہ تو مسیح ؑ کے ساتھ ساتھ آئی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اس پر ایمان لاتی ہوں یہ سچا ہے.تم کہتے ہویہ حرام کا بچہ ہے کیا حرام کے بچے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں.تم اس سے بات کرکے تو دیکھو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ یہ حلال زادہ ہے یا نہیں.قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْـًٔا فَرِيًّا انہوں نے کہا اے مریم تُو نے یہ کیا گند پھیلایا ہے.پہلے تُو نے ایک گندہ کام کیا اور آگے یہ بھی خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا.گویا انہوں نے یہ طعن کیا کہ چونکہ یہ حرام کا تھا اس لئے ایسی باتیں کرنے لگ گیا ہے.يٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّاۖۚ۰۰۲۹ اے ہارون کی بہن ! تیرا باپ تو بُرا آدمی نہیں تھا اور تیری ماں بھی بدکار نہیںتھی.تفسیر.یعنی اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا اور تیری ما ں بھی بدکار نہیں تھی پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا ہے.مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی دوسری والدہ سے ایک اور بھا ئی تھا جس کا نام ہارون تھا(تفسیر مظہری) لیکن یہودی تاریخ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.اِس لئے ایسی بے دلیل بات پیش نہیں کی جا سکتی.بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن اس لئے کہا کہ وہ ان کی نسل میں سے تھیں.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ الزبتھ جو حضرت زکریا کی بیوی تھیں بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہارون کے خاندان میں سے تھیں اور چونکہ یہ اُن کی رشتہ دار تھیں اس لئے قرآن نے اُن کو اُن کے قبیلہ کی زبان میں اُخت ِہارون کہہ دیا (دیکھو القرآن از جارج سیل زیر آیت یٰٓا اُخْت ِہارون) یہ اُن عیسائیوں نے تشریح کی ہے جو منصف مزاج ہیں اور تعصب کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے.بعض عیسائیوں نے تو اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تاریخ سے ایسے ناواقف تھے کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہارون حضرت مسیح سے چودہ سو سال پہلے گذرے ہیں (ینابیع الاسلام صفحہ ۱۰۴) لیکن بعض دوسرے عیسائیوں نے خود اس اعتراض کو ردّ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ
بات غلط ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ اور ہارون کے زمانہ کا خوب علم تھا.چنانچہ قرآن کریم میں ہی کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کے بعد فلاں فلاں نبی آئے پس یہ اعتراض صحیح نہیں.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت زکریا کی بیوی الزبتھ ہارون کے خاندان میںسے تھیں اور مریم اُن کی رشتہ دار تھیں اِس لئے انہوں نے حضرت مریم کو بھی ہارون کی بہن کہہ دیا.(تفسیر القرآن از وہیری ) حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ایک دفعہ یہ اعتراض پیش ہوا.تو آپ نے فرمایا کہ یہود انبیاء وصلحا ء کے نام پر اپنے اپنے خاندان کے مردوں اور عورتوں کے نام رکھ لیا کرتے تھے (تفسیر فتح البیان جلد ۶وتفسیر ابن جریر جلد ۱۶)لیکن میرے نزدیک اس کے ایک اورمعنے بھی ہیں.جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن طنز کے طور پر کہا ہے.بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی ایک سوتیلی بہن تھی.جو ہارون کی سگی تھی یا بعض مورخوں کے نزدیک وہ حضرت موسیٰ کی سوتیلی بہن نہیں بلکہ سالی تھی اور اس کا نام بھی مریم تھا.گنتی باب۱۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مریم نے جو ہارون کی سگی بہن اور حضرت موسیٰ ؑ کی سوتیلی بہن تھی اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ کی سالی تھی.بہر حال ہارون سے اُس کا زیادہ رشتہ تھا اور موسیٰ ؑسے کم.ہارون کے ساتھ مل کرایک کوشی عورت سے شادی کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کئے تھے (آیت ۱).قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض اس حد تک تھا کہ گویا ناجائز تعلق قائم کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا (الاحزاب :۷۰)یعنی اے ایمان والوں تم اُن لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت دی اور پھر خدا نے اُس کی بریت کی.معلوم ہوتا ہے یا تو اُن کا یہ اعتراض تھا کہ ایک بدکار عورت سے موسیٰ نے شادی کرلی ہے اور یا یہ تھا کہ کسی شادی شدہ عورت سے شادی کر لی ہے.بہرحا ل پتہ لگتاہے کہ اُن پر ناجائز رشتہ کا الزام لگایا گیا تھا.بائبل میں لکھا ہے کہ اس جرم کی سزا میں مریم کو کوڑھی کردیا گیا (گنتی باب ۱۲ آیت ۱۰).مگرچونکہ بائبل ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ہارون اور مریم دونوں نے اعتراض کیا اور دوسری طرف بائبل سے ہی معلوم ہوتاہے کہ صرف مریم کو سزا ملی ہارون کو سزا نہیں ملی.اِس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون کانام بائبل میں حسب معمول انبیاء پر اعتراض کرنے کے شوق میں درج کیا گیا ہے ورنہ ایک ہی جرم میں دونوں کو سزا کیوں نہ ملتی اس سے ثابت ہوتاہے کہ ہارون نے اعتراض نہیں کیا صرف مریم نے اعتراض کیا تھا.آخر ہارون کی سفارش پر حضرت موسیٰ ؑ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی اور مریم کا قصور معاف کیاگیا اور صرف سات دن اسے کوڑھی بن کر رہنا پڑا.لیکن اس جرم سے پہلے جس شان اور عظمت کے ساتھ اُس کا ذکر کیا جاتا
ہے تھا اس شان اور عظمت سے بعد میں اُس کا ذکر نہیں کیاگیا.بلکہ بعض تو اس کی طرف اور بھی عیوب منسوب کرتے ہیں.پس میرے نزدیک يٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ کہہ کرانہوں نے طعنہ دیا ہے کہ اے ہارون کی بہن یعنی جس طرح اس مریم نے قہر مارا اور وہ کوڑھی ہوگئی تھی اسی طرح تونے بھی کوڑھیوں والا کام کیاہے.پس ان الفا ظ میں اُن کی طعنہ زنی تھی کہ اُس مریم نے بھی طوفان اٹھایا تھا تُونے بھی طوفان اُٹھایا ہے.اس نے موسیٰ پر بدکاری کا الزام لگایا تھا اور تُو نے آپ بدکاری کی ہے حالانکہ تیرا باپ بُرا نہیں تھا اور تیری ماں بھی بُری نہیں تھی پس تُو نے یہ کیا گند اُچھالا ہے.فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ١ؕ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ اس پر اُس نے اُس (بچہ ) کی طرف اشارہ کیا.اس پر لوگوں نے کہا ہم اس سے کس طرح باتیں کریں جو کہ کل تک صَبِيًّا۰۰۳۰ پنگھوڑے میں بیٹھنے والا بچہ تھا.تفسیر.جیسا کہ میں اُوپر بتا چکا ہوں ہمارے نزدیک حضرت مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی تھی اور الٰہی نشان کے طور پر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فعل اس لئے کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نسل سے جو نبیوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا خدا تعالیٰ اس کو ختم کرکے بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کرنا چاہتا تھا اور یہ سلسلہ اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ بنو اسحاق کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ نبوت اُن کے گھروں سے منتقل ہوکر اب کسی اور قوم میں چلی جائے گی اس کے لئے ایک بڑی ٹھوکر کی ضرورت تھی اور وہ ٹھوکر حضرت مسیح ؑ کی بن باپ پیدائش تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک معجزہ تھا.مگر یہ معجزہ ایک ابتلا ءکا رنگ لئے ہوئے تھا.معجزے کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک معجزے ہدایت دینے کے لئے اور لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے ہوتے ہیں.وہ ایسے معجزے ہوتے ہیں جن کو دشمن سے بھی منوایا جا سکتا ہے.اگر منوایا نہ جاسکے تو وہ حجت کس طرح ہوسکتے ہیں.پس جو معجزے حجت کے لئے آتے ہیں وہ ایسی ہی شکل میں آتے ہیں جن کو منوایا جاسکے.مثلاً ایک پیشگوئی ہے جسے شائع کردیا گیا.دشمن نے اُس پر بحث کی.اس کے مختلف پہلوئوں پر جرح کی اور پھر وہ پیشگوئی پوری ہوگئی تو اُ س کا کوئی دشمن انکار نہیں کرسکتا.سوائے اُن کے جو ضدی طبیعت کے ہوں یا مثلاََ قرآن کریم کا معجزہ ہے یہ ایسا معجزہ ہے جو عیسائی سے بھی منوایا جا سکتا ہے ہم اُسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سامنے پڑ ا ہے اگر ہمت ہے تو
اس جیسی کتاب بنا لائو.یاعرفان الٰہی کا معجزہ ہے.فطرت کے باریک رازوں کو ظاہر کرنے کا معجزہ ہے.یہ ہر ایک سے منوایا جاسکتا ہے.تو جو معجزے ہدایت کے لئے آتے ہیں اُن کے لئے یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ ایسے ہی ہوں جن کو دشمن سے بھی منوایا جاسکے.اِسی طرح بعض معجزات ایسے ہوتے ہیں جو صرف تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اُن کا منوایا جانا ضروری نہیں ہوتا وہ صرف مومنوں کے از دیا دایمان کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور ایسی شکل میں ظاہر کئے جاتے ہیں کہ مومن تو مان لیتا ہے اور کافر نہیں مانتا مثلاََ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیانی سوراخوں سے ایک دفعہ پانی پھوٹ نکلا اور ایک لوٹا پانی بہت سے لوگوں کی ضروریا ت کے لئے پورا ہوگیا(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ) یا تھوڑا سا کھانا تھا مگر آپ کی دعا کی برکت سے بہت سے لوگوں نے کھانا کھا لیا اور وہ سیر ہوگئے(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خندق) یا مثلاََ یہ معجز ہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کُرتے پر سرخی کے چھینٹے پڑے (سرمہ چشمہ آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۸۰ ح).اب ایک مومن اِن معجزات کو مان جائے گا لیکن دوسرا کہے گا کہ اپنے مریدوں سے جھوٹ بلوالیا ہے یا مثلاََ میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے مُنہ میں مشک ڈالا گیا ہے.جب میں جاگا تو میرے مُنہ سے مشک کی خوشبو آرہی تھی میں نے اپنی بیوی کو جگایا اور اُس سے کہا کہ سونگھ کر دیکھو میرے مُنہ سے کسی چیز کی خوشبو آرہی ہے یا نہیں.اُس نے سونگھا تو کہا کہ مشک کی خوشبو آرہی ہے.اب یہ معجزہ میرے لئے توتقویت ایمان کا موجب تھا.میری بیوی کے لئے بھی تقویت ایمان کا موجب تھا مگر دوسروں کے لئے اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.اِسی طرح ایک دفعہ مجھے روزہ لگااور بہت تکلیف ہوئی اس حالت میں یکدم مجھ پر غنودگی طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے اور اُس نے میرے مُنہ میں پان ڈالا ہے جب میری آنکھ کھلی تو پیاس بالکل غائب تھی.تو ایک معجزے تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اور وہ مخصوص ہوتے ہیں مومنوں کے لئے اورایک آیت ہوتے ہیں یعنی دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے آتے ہیں.یہ معجزے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دشمنوں کے سامنے کھلے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے.اور کچھ معجزے ایسے ہوتے ہیں جو ابتلائی ہوتے ہیں اوراُن میں رنج اور کوفت کا پہلو پایا جا تا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت اُن کو ظاہر فرماتا ہے حضرت مسیح کی بن باپ ولادت بھی ایسے ہی ابتلائی معجزوں میں سے ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہود کو بتائے کہ اب نبوت تم میں ختم ہونےوالی ہے اوراس کے نشان کے طور پر اُس نے مسیح کو بن باپ پیدا کردیا لیکن یہودی مذہب پر ایمان لانےوالوں کے لئے یہ بات ماننی کہ آئندہ ہماری قوم میں سے نبوت مٹ جائے گی اور ایک غیر قوم میں چلی جائے گی بالکل ناممکن تھا.اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہودی قوم کی توجہ محمد رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کی طرف پھرائے
اور اس نے ایک کنواری کے بطن سے حضرت مسیح کو پیدا کردیا بے شک یہ ایک معجزہ تھا لیکن یہود کے لئے یہ معجزہ نہیں تھا.وہ تو سنتے ہی کہتے تھے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے یہ شخص (نعوذباللہ) حرام زادہ ہے خود مسیح کے لئے بھی یہ معجزہ تقویت ایمان کا موجب نہیں تھا بلکہ وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو ابنِ آدم کہا کرتا تھا.قرآن کریم نے ابنِ مریم نام رکھ دیا.وہ اپنے آپ کو ابن آدم بھی اِسی لئے کہتے تھے کہ لوگ پوچھتے ہوںگے کہ کس کے بیٹے ہو وہ کہتے کہ میں ابن آدم ہوں.قرآن کریم نے ایک آسان ذریعہ اختیار کرلیا کہ اُن کی والدہ کی طرف انہیں منسوب کردیا اور کہہ دیا کہ وہ ابن مریم تھے پس یہ ایک معجزہ توہے مگر بنی اسرائیل کی ٹھوکر کے لئے اور ان کو ہوشیار کرنے کے لئے کہ جس مامور کے تم ماننے والے ہو اس کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کانٹا بدل دیا اور ظاہر کردیا کہ اب غیر قوم سے نبی آئے گا.گو یا یہ ایک ٹھوکر تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اور عیسائیوں کے لئے اسلام کا رستہ کھولنے کے لئے.فَاَشَارَتْ اِلَيْهِحضرت مریم جب مسیح ؑ کے ساتھ اپنی قوم میں آئیں تو انہوں نے کہا اے مریم تُو نے یہ کیا بدکاری کی ہے تُو تو بڑے اچھے خاندان میں سے تھی فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ اس پر انہوں نے اُس کی طرف اشارہ کیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم جانتی تھیں کہ عیسیٰ ؑ نے جواب دینا ہے تبھی تو انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑنے اس موقعہ پر معجزانہ کلام کیا یہ فقرہ اُن کی تردید کرتا ہے ورنہ مریم کو کس طرح پتہ تھا کہ یہ کلام کرےگا.اَشَارَتْ اِلَيْهِ کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے بھی بولا کرتا تھا اور چونکہ بولا کرتا تھا اس لئے انہیں پتہ تھا کہ اب بھی بولے گا.اگر کہا جائے کہ سورئہ آل عمران سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو یہ بتا دیا گیا تھا کہيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا (آل عمران:۴۷)یہ بچہ مہدوکہل میں باتیں کرے گا اور چونکہ ان کو بتا دیا گیا تھا کہ یہ بچہ مہد میں باتیں کرے گا اس لئے انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آل عمران میں جس الہام کا ذکر ہے اُس میں مو قع نہیں بتایا گیا کہ کس موقع پر بات کرے گا صرف اتنا کہا گیا ہے کہ بات کرے گا پس سوال یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے کیوں اشارہ کیا ؟ یا تو الہام بتاتا کہ وہ ہمیشہ ہی دُودھ پیتے زمانہ میں باتیں کرے گا اور چونکہ وہ پہلے بھی باتیں کیا کرتا تھا اس لئے اس موقعہ پر بھی اُنہوں نے اس کی طرف اشارہ کردیا.مگر اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں کہ اس سے پہلے بھی عیسیٰ ؑ بولا کرتے تھے اور بعد میں بھی بولا کرتے تھے اِس لئے یہ الہام اس فعل کا محر ک نہیں ہو سکتا.اُن کا حضرت مسیح ؑ کی طرف اشارہ کرنا در حقیقت یہود کے اعتراض کا جواب تھا.انہوں نے اعتراض
یہ کیا تھا کہ تُو نے ایک نا جائز فعل کا ارتکا ب کیا ہے اور اپنی قوم اور خاندان کو بدنام کیا ہے حضرت مریم نے اس اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کردیا کہ تم اس سے باتیں کر کے دیکھ لو کیا تمہیں یہ بدکاری کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے اگر تمہار ایہ خیال درست ہے کہ میں نے ایک حرام فعل کا ارتکا ب کیا ہے تو پھر بدکاری کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان لڑکا کس طرح پیدا ہوگیا.تمہارے اصل کے مطابق تو خود یہ لڑ کا تمہارے تما م شبہات اور وساس کو دور کرنے والا اور میری بریت کو ثابت کرنے والا ہے.قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّایہ آیت حضرت مسیح ؑ کے بچپن میں کلام کرنے کے متعلق بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہم اس سے کس طرح کلام کریں جو کہ مہد میں ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چائیے کہ مہد کا لفظ تیاری کے زمانہ کے لئے بھی بولا جا تاہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَ مَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِيْدًا (المدثر:۱۵) یعنی میں نے کافر کو مال دیا ، روپیہ دیا اور اس کی ترقیا ت کے لئے بڑے بڑے سامان مہیا کئے پس مہد کا لفظ محاورۃََ اُس زمانہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو تیا ری کا زمانہ ہو اور تیاری کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اُس زمانہ میں انسان آئندہ کے لئے اپنے اندر طاقتیں جمع کرتا ہے یہاں بھی جوانی کے زمانہ کے لئے استعارۃََ مہد کا لفظ بولا گیا ہے اور قوم کے بڑے لوگ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کا ذکر انہی الفاظ میں کیا کرتے ہیں مگر اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقعہ میں پنگھوڑے میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ ہم سے بہت چھوٹے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی.بڑھا پا شروع ہوچکا تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ کی طرف سے ایک رئیس آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آیا تو وہ بار بار کہتا کہ اے بچے مَیں تجھے کہتا ہوں کہ میری بات مان لو.حالانکہ آپ اُس وقت قریباََ ساٹھ سال کی عمر کے تھے مگر پھر بھی وہ آپ کو بچہ کہتا تھا کیونکہ خود اسّی سا ل کا تھا.تو قوم کے بڑے لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ اس ہم سے کیا گفتگو کریں یہ تو ابھی کل کا بچہ ہے کوئی قابل تعجب بات نہیں.مولوی سید محمداحسن صاحب کا امرو ہی جب سخت غصّہ میں آیا کرتے تو انجمن کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ تم کل کے بچے.دودھ پیتے بچّے میرے سامنے بات کرتے ہو.اب اگر کوئی اس بات کو سن کر یہ کہنا شروع کردے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چودہ ممبروں پر مشتمل ایک انجمن بنائی تھی جس میں صرف ایک جوان شخص تھا باقی سب دُودھ پیتے بچے تھے تو یہ کیسی ہنسی والی بات ہوگی.جس طرح مولوی سید محمد احسن صاحب کہتے تھے کہ تم کل کے بچے ہو اسی طرح یہودی کہتے کہ یہ جو ہمارے سامنے پوتڑ وں میں کھیلا ہوا ہے کیا ہم اس سے بات کریں.یعنی ابھی تو اس کے سیکھنے کے دن ہیں یہ ہمیں کیا بتائے گا کہ ہم اس سے بات کریں گویا ان الفاظ میں وہ
اپنے علم و فضل اور اپنی عمر کی بڑائی پر فخر کرتے ہیں.دیکھو سورئہ آل عمران میں بتایا گیا ہے کہ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا (آل عمران :۴۷)مسیح مہد اور کہل میں کلام کرے گا.اِس سے مسلمان یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں بتا یا گیا تھا کہ مسیح بچپن میں کلام کرے گا اور مہد سے مراد حقیقی مہد ہے لیکن یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں.کیونکہ سورئہ آل عمران میں مہد کے ساتھ کہل بھی لگایا گیا ہے اگرمہد میں بولنا معجزہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کہولت میں بولنا بھی معجزہ ہوتاہے.کیا ۳۳ سے پچاس سال تک کی عمر میں جو کہولت کا زمانہ ہوتاہے لوگ بولا کرتے ہیں یا تنتیس سے پچاس سال تک کی عمر والا اگر بولے تو اُسے بڑا معجزہ سمجھا جا تا ہے؟ جب مہد کے ساتھ کہل کا لفظ بھی لگایا ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں کسی عمر میں بولنے کا مجزہ مراد نہیں بلکہ بولنے کی نوعیت مراد ہے اگر کسی عمر میں بولنا مراد ہوتا تو ساتھ کہل کا لفظ کیوں ہوتا.اگر کہل میں بولنا معجزہ ہوتا ہے تو پھر مہد سے مراد بھی دودھ پیتے بچے کا کلام کرنا مراد ہوسکتا ہے اور اگر کہولت کا کلام عام بات ہے تو مہد کا زمانہ بھی وہی زمانہ لیا جائے گا جس میں عام بچے بولتے ہیں.اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ پھر پیشگوئی کیو ں کی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مہد کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی وہی ضرورت ہے جو کہولت کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی ہے آخر کہولت کی عمر والے باتیں کیا کرتے ہیں یا نہیں جب کیا کرتے ہیں تو پھر یہاں پیشگوئی کیوںکی ؟ بہر حال کو ئی نہ کوئی غرض ہے جس کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کی ہے اور ہمیں وہ غرض تلاش کرنی چاہیے سو یاد رکھنا چاہیے کہ کلام اپنی ذات میں بھی معجزہ ہوتاہے قطع نظر عمر کے.یعنی ہے تویہ معجزہ اگر معجزہ نہ ہوتا تو پیشگوئی نہ ہوتی اور یہ نہ کہا جاتا کہ ایسا ہوجائے گا مگر سوال یہ ہے کہ معجزہ آیا عمر کے لحاظ سے ہوتا ہے یا اس میں کوئی اور بات ہوتی ہے ؟ ہم مان لیتے ہیں کہ اگر دو مہینے کا بچہ بول پڑے تو یہ بڑ امعجزہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے.وہ پچاس سال کی عمر میں بھی بولے گا پچاس سال کی عمر میں بولنا کس طرح معجزہ ہوسکتا ہے؟اس کا جواب وہی ہے جو میں اُوپر دے چکا ہوں کہ قطع نظر عمر کے کلام اپنی ذات میں بھی معجزہ ہوتا ہے.مثلاََ قرآن کریم ایک بڑا معجزہ ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کس وقت نا زل ہونا شروع ہوا.جب آپ دومہینے کے بچے تھے یعنی چالیس سا ل کے تھے.چالیس سال کی عمر سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہو ا اور تریسٹھ سال کی عمر تک نازل ہوتا چلا گیا.مگر ہم پھر بھی اُس کو معجزہ کہتے ہیں.کیا اس لئے کہ آپ دو مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا یا تین مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا.بلکہ ہم اس کلام کو کلام کی وجہ سے معجزہ کہتے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کلام اِس شان کا ہے کہ دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہے.پس يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ اپنی تیا ری اور جوانی کے زمانہ
میں بھی اور کہل کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کریں گے جو معجزانہ ہوں گی.اور تمام انبیا ء ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں.کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ سال تک وہ کلام کیا کہ مسیح ؑ تو مسیح ؑ ،موسیٰ ؑ کا کلام بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے.چنانچہ موسیٰ کی تورات اور عیسیٰ کی انجیل قرآن کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں.حالانکہ یہ کلام چالیس سال کی عمر میں نازل ہونا شروع ہوا تھا.پس خدا ہی یہ بتا سکتا تھا کہ مسیح ایسا کلام کرے گا جو معجزہ ہوگا.یہ معجزہ دو مہینے کے بچہ کے کلام کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اس کلام کی ذاتی خوبیوں اور حُسن کی وجہ سے ہے.پس مہد کے معنے بچپن کے کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ جوانی میں بھی ایسی باتیں کرتے تھے جو عام آدمی نہیں کرسکتے تھے تو وہ معجزہ تھا.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں بولے مگراُن کا کلام پھر بھی معجزہ تھا اور ایسا معجزہ کہ مسیح کو اس کا ہزارواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ ؑ وغیرہ کا کلام جس طرح بڑی عمر میں معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ ہی اس کے متعلق پہلے سے بتاسکتا تھا اسی طرح مسیح کے متعلق تھا.پس پیشگوئی کی ضرورت مہد میں کلام کرنے کے لئے نہ تھی کیونکہ اس کے ساتھ کہل بھی لگا ہوا ہے پیشگوئی کی ضرورت معجزانہ کلام کی وجہ سے تھی اور اسی وجہ سے مہد کے ساتھ کہل لگایا گیا ہے کیونکہ کلام خاص جس طرح جوانی میں معجزانہ ہوتا ہے اسی طرح کہولت اور بڑھاپے میں بھی معجزانہ ہوتا ہے.قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۱وَّ (یہ سُن کر ابن مریم نے ) کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے.جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے.اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا۰۰۳۲وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ١ٞ وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ اور زکوۃٰ کی تاکید کی ہے.اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنےوالا بنایا ہے
جَبَّارًا شَقِيًّا۰۰۳۳ اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا.تفسیر.یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اگر مہد سے مراد بچپن کا زمانہ ہی لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مسیح ابھی دُودھ پیتے بچے تھے کہ آپ نے یہ کلام کیا تو اِن آیات میں جس قدر باتیں انہوں نے بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری اُس وقت جھوٹی بنتی ہیں.اگر وہ دو مہینے کی عمر میں بولے تھے تو غو ر کرو وہ کیا کہتے ہیں.وہ کہتے ہیں اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ عبداللہ کے معنے اس جگہ محض مخلوق کے نہیں ہوسکتےکیونکہ مخلوق ہونے کے لحاظ سے تو سب انسان برابر ہیں اور حضرت مسیح اپنی وہ خصوصیا ت بیان کررہے ہیں جن میں انہیں دوسروں سے امتیاز حاصل ہے پس یہاں عبداللہ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنے والا اور اُس کی صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والا.ایک دودھ پیتا بچہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا مطیع اور فرما نبردار ہوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اخلاق کو دنیا میں ظاہر کرنے والا ہوں.اب اگر دُودھ پیتا بچہ ایسا کہتا ہے تو وہ یقیناًجھوٹ بولتا ہے کوئی معجزہ نہیں دکھاتا بلکہ اُس کی اپنی حالت یہ تھی کہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی تھی.وہ چوستا تھا ماں کا پستان اور کہتا تھا کہ میں عبداللہ ہوں.کیا عبداللہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ماں کا پستان پکڑ کر چُو سنا شروع کردے یہ عجیب نظارہ ہوگا کہ اِدھر وہ کہتا ہوگا اِنِّیْ عَبْدُاللہِ اور پھر ماں کی طرف مُنہ کرکے اس کا پستان چوسنے لگ جاتا ہوگا گویا فعل کرتا ہے بچے والا اور دعویٰ کرتا ہے بڑے مقرب اور پاکیزہ انسانوں والا.اور پھر جو کچھ کہتا ہے محض جھوٹ ہے کہتا ہے میں اللہ کا عبدہوں اور اس کی عبادت کرتا ہوں حالانکہ وہ اس وقت عبادت کرتا ہی نہیں تھا بلکہ اگر وہ اُس وقت اپنے اس دعویٰ کے مطابق نماز پڑھنی شروع کردیتا تو اُس کی ماں اُسے پھینک کر چلی جاتی اور شاید وہ سارا دن پاخانہ میں لتھڑا رہتا.پھر کہتا ہے اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ اُس نے مجھے کتاب دی ہے.سوال یہ ہے اُس وقت خدا تعا لیٰ نے اُسے کون سی کتاب دی تھی ؟ پھر کہتا ہےوَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا اس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے حالانکہ یہ جھوٹ تھا.اِسی طرح کہتا ہے وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ اُس نے مجھے برکت والا بنایا ہے جہاں کہیں بھی میں ہوں.چلنا آتا نہیں ماں گود میں اُٹھائے پھرتی ہے اور کہتا یہ ہے کہ اَيْنَ مَا كُنْتُ جہاں کہیںبھی میں جا ئوں خدا تعالیٰ کی برکت میرے ساتھ ہے.
وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ اور اس نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حا لانکہ طہارت بھی کوئی دوسرا کراتا تھا.اور نماز پڑھنی آتی ہی نہیں تھی.وَ الزَّكٰوةِاور اس نے مجھے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ اس کے پوتڑے بھی اس کی ماں بناتی تھی اور کہتا یہ ہے کہ مجھے خدا نے زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے.وَ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ اور میں اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں حا لانکہ ماں کی کیا فرمانبرداری کرنی تھی ماں تو اُسے اپنا خون چوسا رہی تھی اور اپنی گودی میں اٹھائے پھرتی تھی اور راتوں کو اُس کے لئے جاگتی تھی.وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا اور اس نے مجھے جبار اور شقی نہیں بنایا حالانکہ اُس وقت اُس نے جبار کیا ہونا تھا چٹکی کاٹنے سے وہ رونے لگ جاتا تھا.غرض اگر یہ درست ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کیا تو یہ جتنی باتیں ہیں سب کی سب جھوٹ بن جاتی ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ یہ آئندہ کی خبریں تھیں جو اُن کی زبان پر جاری ہوئیں.لیکن اگر اتنی باتوں کو آئندہ کی خبریں بنانا ہے تو صرف اِسی با ت کو کہ وہ بچپن میں کلام کرے گا آئندہ کی خبر کیوں نہ کہا جائے.سارا سوال حل ہوجاتا ہے.پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض کیا تھی.وہ کہتے ہیں غرض یہ تھی کہ یہود کو معجزہ دکھایا جائے.حالانکہ اس معجزہ سے بجائے اس کے کہ وہ کچھ فائدہ اٹھاتے وہ تو اور زیادہ بگڑے ہوں گے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کتاب دی حالانکہ اس کے پاس کوئی کتاب نہیں.کہتا ہے کہ اُس نے مجھے نبی بنایا ہے حالانکہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی ہے کہتا ہے کہ اُس نے مجھے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ پاس پیسہ بھی نہیں.اور اگر کہو کہ دشمن پر صرف اُن کا بولنا حجت تھا گویا معجزہ کسی اور بات میں نہیں تھا بلکہ معجزہ صرف اتنا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر کا بچہ بول پڑ ا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اتنے جھوٹ بلوانے کی کیا ضرورت تھی ایک دو ماہ کا بچہ تو اگر خالی اتنا ہی کہہ دے گا کہ ’’ چچا جان کیا حال ہے آپ کیسی باتیں کررہے ہیں خدا کا خوف کریں ‘‘ تو بڑے بڑے جبہّ پوش فقیہوں اور فریسیوں نے اُسی وقت بھاگ جانا تھا اتنے جھوٹ بلوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی حقیقت یہ ہے کہ حضرت مریم کئی سال باہر رہیں جب وہ تیس سال کے ہوگئے (انجیل لوقاباب۳ آیت ۲۳) اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو نبوت کے مقام پر فائز کردیا تو حضرت مریم اُن کو ساتھ لے کر اپنی قوم میںواپس آئیں.مگر معلوم ہوتا ہے دشمن رشتہ دار ٹو ہ میں رہے یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور دشمنوں نے راز کا پتہ لگا ہی لیا اور یا پھر خدا تعالیٰ اپنے نشان کو نمایاں کرنے کے لئے راز فاش کروادیا.
عربی کی کتابوں میں ایک لطیفہ لکھا ہے جو دراصل لطیفہ نہیں بلکہ کثیفہ ہے مگر اس لئے کہ یہا ں چسپاں ہوتا ہے اُسے بیان کردیتا ہوں.ہماری عربی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی مولوی صاحب تھے جو بڑے بے وقوف اور بخیل تھے.جو بھی روپیہ آتا اُسے جمع کرلیتے اور بیوی کو صرف آنہ دو آنے خرچ کرنے کے لئے دے دیتے.تنگ آکر وہ طلاق لے لیتی دوسری آتی تو اُسے بھی اسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا آخر ایک عورت آئی اور اس نے ارادہ کر لیا کہ میں اس بخیل سے اس کا سا را روپیہ چھین لوں گی چنانچہ اُس نے آتے ہی اپنے پاس سے خوب مزیدار چیزیں پکا پکا کر اُسے کھلانی شروع کر دیں اور کہتی یہ میرے بھائی نے بھیجی ہیں.یہ میرے چچا نے بھیجی ہیں یہ میرے فلاں رشتہ دارنے بھیجی ہیں.اِسی طرح اُس نے پیاز اور لہسن وغیرہ خوب کھلانے شروع کر دئیے اُس نے یہ بھی پتہ لگا لیا کہ روپیہ کہاں رکھاہے چنانچہ وہ رسّی کو موم لگاکر اس جگہ لٹکاتی جہاں روپیہ رکھا تھا اور ایک اشرفی نکال لیتی اور اُسی سے اُسے کھلانا پلانا شروع کردیتی جب وہ اشرفی ختم ہوجاتی تو ایک اور نکال لیتی.آخر نفاخ چیزیں کھاکھاکراُس کا جگر خراب ہوگیا اور پیٹ پھولنا شروع ہوگیا جب اس کا پیٹ کچھ زیادہ بڑھ گیا تو عورت نے اس کا پیٹ ملنا شروع کیا اور پیٹ ملتے ملتے کہا کہ تمہیں توحمل ہوگیا ہے.وہ گو مولوی تھا مگر بے وقوف تھا.سنتے ہی کہنے لگا خبردار کسی کو بتانا نہیں ورنہ میری بڑی بدنامی ہوگی.اُس نے کہا فکر نہ کرو میں کسی کو نہیں بتاتی غرض اس طرح اس کا پیٹ پھولتا چلاگیا اور وہ یقین دلاتی چلی گئی کہ یہ حمل ہے نو ماہ کے بعد اُس نے اپنی ایک ہمسائی سے جو اس کی سہیلی تھی مشور ہ کیا اور دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کسی کا بچہ اٹھا کر لے آتے ہیں اور اسے دکھادیتے ہیں کہ یہ تیرے حمل کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ کسی کا بچہ لے آئے اور انہوں نے اُس کا پیٹ خوب ملنا شروع کیا اور پھر ایک بچہ نکال کر دکھادیا کہ لو یہ بچہ پیدا ہوگیا ہے اس نے منتیں کرنی شروع کیں کہ کسی کو بتانا نہیں.اور پھر کہا کہ اب بچہ تو پیدا ہو گیاہے اس کے دُودھ کا کیا انتظام ہوگا وہ کہنے لگی کہ دُودھ کا فکر نہ کرومیں اس کا خود انتظام کرلوں گی.ادھر اُس نے سارے شہر میںخبر مشہور کردی کہ مُلا جی کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے شہر کے لوگ اُس کے پاس آنے لگے.وہ اس قدر گھبرایا کہ شہر چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اور پندرہ بیس سال تک اِدھر اُدھر پھرتا رہا.آخر اُسے خیال آیا کہ اب تو بات بہت پرانی ہوچکی ہے سب لوگ اس قصہ کو بھول چکے ہوں گے آئو اب وطن واپس چلوں چنانچہ بیس سال کے بعد وہ اپنے شہر میں واپس آیا.شہر کی حالت بالکل بدل چکی تھی.پُرانے لوگوں میں سے کئی مرچکے تھے اور بچے جوان ہوچکے تھے.ایک جگہ کچھ نوجوان کھیل رہے تھے.اس نے ایک لڑکے کو بلایا اور پوچھا کہ کچھ جانتے ہو فلاں مکان کس گلی میں ہے.اُس نے جواب دیا کہ مجھے توکچھ علم
نہیں.وہ حیران ہوا اور اُس نے پوچھا کہ لڑکے تمہاری عمر کتنی ہے.اُس نے کہا عمر کا تو مجھے علم نہیں مگر جس سال قاضی کے پیٹ سے بچہ پیداہوا تھا اُسی سال میں پیداہو ا تھا.ایسا ہی لطیفہ اس جگہ گزرا حضرت مریم تو بھاگیں مگر وہ رشتہ دار جو اُن کے’’ شریک‘‘ تھے انہوں نے اس واقعہ کو یاد رکھا اور جب آپ واپس پہنچیں اور انہوں نے دیکھا کہ وہی بچہ آگیا ہے جس کی خبر مشہور ہوئی تھی تو انہوں نے حضرت مریم کو طعنہ دیا.فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ اُن کے طعنہ پر حضرت مریم شرما گئیں اور انہوں نے حضرت مسیح کی طرف اشارہ کردیا مگر وہ بچہ اب جوان ہوکر خدا تعالیٰ کا نبی بن چکا تھا.اُس نے کہاتم کیا بکواس کرتے ہو اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا میں خدا تعالیٰ کی صفا ت کو دنیا میں ظاہر کرنے والا ہو ں.میں خدا تعالیٰ کے اخلاق کو دنیا میں قائم کرنے والا ہوں.خدا نے مجھے کتاب دی ہے اور خدا نے مجھے نبی بنا یا ہے کیا ایسی اولاد حرام کی اولاد ہوسکتی ہے وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ اور اُس نے مجھے مبارک بنایا ہے جہاں کہیںبھی میں ہو ں وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِاور خدا نے مجھے نماز کا اور زکوۃ کا حکم دیا ہے مَا دُمْتُ حَيًّا جب تک کہ میں زندہ رہوں.اگر یہ دُودھ پیتے زمانہ کا معجزہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دُودھ پیتے وقت چلتے پھرتے بھی تھے اور نماز یں بھی پڑھتے تھے اور زکوٰتیں بھی دیتے تھے حالانکہ اس بات کونہ غیر احمدی مانتے ہیں اور نہ عیسائی مانتے ہیں.اگر کہو کہ یہ آئندہ کی پیشگوئیاں تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ بولا تو اس لئے تھا کہ لوگ ایمان لاتے مگر اس سے تو اُن کے ایمان اور بھی خطرہ میں پڑگئے ہوںگے کہ یہ کیسا جھوٹا ہے کہتا کیاہے اور اس کی حالت کیا ہے جب اس نے کہاہوگا کہ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ مجھے اُس نے کتاب دی ہے تو وہ کہتے ہوں گے صریح جھوٹ ہے دکھائو کتا ب کہاں ہے اور پھر اگر اُس نے کتاب دے دی تھی تو اس کے اوّل منکر خود مسیح ؑ ہوئے کیونکہ اُس پر عمل نہیں کیا.اِسی طرح جب انہوں نے کہا ہو گا کہ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا اس نے مجھے نبی بنایا ہے تو وہ کہتے ہوں گے کیسا جھوٹا ہے.تجھے نبی بنایاہے تُوتو ابھی ما ں کا پستان چوس رہاہے.جب کہا ہو گا کہ وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ تو وہ کہتے ہوں کہ خوب !ماں کی گود سے تو اُتر نہیں سکتا اور کہتا یہ ہے کہ میں جہاں کہیں جائوں خدا نے مجھے برکت والا بنایا ہے.جب کہا ہوگا وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مجھے اس نے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیاہے تو انہوں نے کہا ہوگا اچھا فرمائیے آپ نے کتنی نمازیں پڑھی ہیںاور پھر دھیلہ آپ کی جیب میں نہیں اور کہتے یہ ہیں کہ مجھے اُس نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے.
چ قرآن کریم نے ہمارے لیڈر کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ غلط ہے چنانچہ اب میں اسی سوال کی طرف آتا ہوں کہ آیا عیسائی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کہ مسیح ؑنے یہی کچھ بیان کیا تھا اور لوگوں سے یہی کہا تھا کہ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا عیسائی مفسر اور عیسائی مصنف جو اسلام کے متعلق کتابیں لکھتے ہیں وہ اس موقع پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت غصہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرے ہوئے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنی بات منوانے کے لئے مسیح کے مُنہ میں جھوٹی باتیں ڈالیں(تفسیر القرآن از وہیری).گویا علماء نے اپنے قول سے مسیح کی طرف تو ایک معجزہ منسوب کیا لیکن اپنے آقا اور سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسائیوں سے گالیا ں دلوائیں اور انہیں جھوٹا کہلوایا.وہ کہتے ہیں مسیح تو خدا تھا پھر اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اوراٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاکہنے کے کیا معنے ہوئے ان کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذباللہ ) اپنی بات سچی ثابت کرنے کے لئے مسیح ؑ کی زبان سے اس قسم کے فقرے کہلوائے ہیں.جو بالکل غلط ہیں اور جن کو مسیح ؑ کی طرف کسی صورت میں بھی منسوب نہیں کیاجا سکتا چنانچہ اس موقع پر وہ اپنی شدید نفرت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف بالکل غلط دعاوی منسوب کردئیے ہیں پس ہم ان آیا ت سے اس وقت تک نہیں گذر سکتے جب تک ہم یہ بھی ثابت نہ کردیں کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ درست ہے اور اناجیل سے بھی وہی باتیں ثابت ہوتی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں یہ اسلامی تعلیم یا اسلامی ہسٹری کا سوال نہیں کہ ہم خاموشی سے گذر جائیں اور کہیں کہ کسی غیر کا اس سے کیا تعلق ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو ایک قوم کے لیڈر کے متعلق کہی گئی ہیں او ر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُس نے یہ باتیں کیں.پس اُس لیڈر کے اتباع کاحق ہے کہ وہ کہیں کہ ان باتوں کا ثبوت لائو اور اگر واقعہ میں انجیل سے ان باتوں کا کوئی ثبوت نہ ملے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن انسانی کتاب سمجھا جائے گا اور یہ خیال کیا جائے گا کہ نعوذ باللہ قرآن کریم نے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیاہے وہ درست ہے اور انجیل سے بھی یہی باتیں ظاہر ہوں تو نہ صرف یہ سوال حل ہوجائےگا کہ مسیح ؑ مہد میں نہیں بولا بلکہ یہ سوال بھی حل ہوجائےگا کہ مسیح ؑ کی طر ف خدائی کا دعویٰ منسوب کرنا غلط ہے مسیح ؑ بھی ایک ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ اور لوگ اس دنیا میں پائے جاتے ہیں.قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف جو باتیں منسوب کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کہااِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ میں اللہ کا بندہ ہوں اسی طرح انہوں نے کہا اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور اس نے مجھے نبی بنا یا ہے اب یہ باتیں اگر درست ہیں تو اس میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ مسیح نہ خدا تھا نہ خدا کا بیٹا
تھا بلکہ وہ خدا کا ایک نبی تھا پس ان آیا ت پر یقیناً عیسائیوں کو چڑنے کا حق ہے گو بد کلامی کا حق نہیں.یہ تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ کہیں کہ قرآن کریم نے مسیح کی طرف غلط دعاوی منسوب کردئیے ہیں مگر اُن کا یہ حق نہیں کہ و ہ بد زبانی پر اتر آئیں اور گالیوں سے کام لیں بہرحال جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی عقائد غلط فہمیوں پر مبنی ہیں اور اسلام اور قرآن نے جو بات کہی ہے وہی صحیح اور درست ہے.پہلی بات.قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مسیح نے کہا اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اب اگر انجیل بھی یہی کہتی ہے کہ مسیح اللہ کا بندہ تھا توقرآن کریم کی بات سچی ثابت ہو جائے گی پس سب سے پہلے ہم اسی با ت کو لیتے ہیں اور قرآن کریم کے اس بیان کی تائید کے لئے متی باب ۴آیت اتا ۱۱ کو پیش کرتے ہیں.اس میں لکھا ہے.’’تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تاکہ شیطا ن اُسے آزمائے اور جب چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا آخر کو بھوکا ہوا تب آزمائش کرنے والے نے اس پاس آکے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں.اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی جیتا ہے تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اس سے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیر ے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے.ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سے ٹھیس لگے یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خدا وند اپنے خدا کو مت آزما.پھر شیطان اُسے ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دےدوںگا تب یسوع نے اُسے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اس اکیلے کی بندگی کر( یہ آیات بتاتی ہیں کہ گو مسیح ؑنے شیطان کو سجدہ نہیں کیا مگر مسیحی قوم نے آخر شیطان کو سجدہ کیا تبھی اُن کو دنیا کی بادشاہت مل گئی.کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ دنیا کی بادشاہت شیطان کو سجدہ کرنے کے نتیجہ میںملتی ہے ) تب شیطان اُسے چھوڑ گیا اور دیکھو فرشتوں نے آکے اُس کی خدمت کی.‘‘ یہ بیا ن کس تفصیل سے مسیح کی انسانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ شیطان اُسے آزمانے کے لئے آیا.اب کوئی عقلمند یہ نہیں مان سکتا کہ شیطان جس نے مسیح کو آزمانا چاہا وہ اتنا بھی نہیں جانتا تھا
کہ خدا کیا ہو تا ہے اور اس کی کیا صفات ہیں اور اس کے اندر کیا کیا طاقتیں پائی جاتی ہیں.بائبل میں جہاں بھی شیطان کا ذکر آتا ہے وہاں سے اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ شیطان ایک باغی وجود تھا اور خدا تعالیٰ کی معرفت کاملہ اس کو حاصل نہیں تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا ضرور جا نتا تھا کہ خدا کیا ہوتا ہے اور اس کی کیا طاقتیں ہیں پس شیطان کا مسیح کے پاس اُس کی آزمائش کے لئے آنا جبکہ وہ جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آزمایا نہیں جا سکتا صاف بتاتا ہے کہ شیطان یہ بھی جانتا تھا کہ مسیح خدا نہیں.ورنہ اگر وہ جانتا کہ یہ خدا ہے تو وہ اُسے آزمانے کے لئے کیوں آتا.پھر لکھا ہے جب وہ چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھ چکا تو ’’آخر کو بھوکا ہوا‘‘ اب چالیس دن اور چالیس رات کے روزہ کے اگر یہ معنے بھی لئے جا ئیں کہ اُس نے چالیس دن رات کھانا نہیں کھایا تب بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.گاندھی جی نے توساٹھ ساٹھ دن کے بھی روزے رکھے ہیں.پھر یہاں صرف بھوکا رہنے کا ذکر ہے پیاسا رہنے کا ذکر نہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح گاندھی جی پھلوں کا رس اور سوڈا وغیرہ پی لیا کرتے تھے اسی طرح وہ بھی چالیس دن رات صرف پانی اور پھلوں کا رس وغیرہ پیتے رہے روٹی انہوں نے نہیں کھائی لیکن بہرحال جب چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ ختم ہوا تو انجیل بتاتی ہے کہ انہیں بھوک لگی اور جب وہ بُھوکے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ انسان تھے خدا نہیں تھے کیونکہ بھوک انسان کو ہی لگا کرتی ہے خدا کو نہیں.عیسائی اس موقع پرکہا کرتے ہیں کہ چونکہ مسیح ؑ انسانی جسم میں تھا اس لئے انسانی حوائج بھی اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے.ہمارا تو اعتقاد ہے کہ اس کا جسم بھی انسانی تھا اور اس کی روح بھی انسانی تھی.لیکن بہر حال ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ کم ازکم تم نے مسیح کا انسانی جسم تو مان لیا.اب رہ گیا یہ سوال کہ اس میں انسانی روح تھی یا خدائی.اس کا حل اگلی آیا ت سے ہوجاتا ہے.لکھا ہے شیطان نے اُس سے کہاکہ ’’اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں.‘‘ اس پر حضرت مسیح ؑ نے کہا ’’لکھا ہے ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی جیتاہے.‘‘ یعنی شیطان نے کہا کہ پتھر کو روٹی بنا دے.اب پتھر کو روٹی بنانا خدا کے اختیا ر میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں.پس چونکہ یہ چیز خدا کے اختیار میں تھی.اس لئے شیطان نے کہا کہ جب تُو کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور
لوگ بھی تجھے ایک فوق العا دت وجود سمجھتے ہیں تو تُو پتھر کو روٹی بنادے مگر اُس نے ایسا نہ کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ اُس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں.اِس موقع پر عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روٹی نہ بنانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں کیونکہ یہ امر اس کی مرضی پر منحصر تھا.اگر اس کا جی چاہتا تو وہ پتھر کو روٹی بنا سکتا تھا.مگر چونکہ اُس نے نہ چاہا کہ وہ ایسا کرے اس لئے پتھر روٹی نہ بن سکا پس اگر مسیح نے یہ معجزہ نہیں دکھایا تو اس سے اُس کے عجز کا اظہار نہیں ہوتا.بلکہ صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اُس نے جب شیطان کی گستاخی دیکھی تو اُس نے اُس کی بات کو رد کر دیا اور کہہ دیا کہ تم کون ہوتے ہو جو مجھ سے ایسا سوال کرو جاؤمیں پتھر کو روٹی نہیں بناتا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر کا فیصلہ کرنے کے لئےکہ مسیح نے پتھر کو روٹی کیوں نہ بنایا ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ مسیح ؑنے اس سوال کا جواب کیا دیا ہے ؟اگر تو مسیح ؑ یہ جواب دیتا کہ میں پتھر کو روٹی نہیں بناتا یہ امر میری مرضی پر منحصر ہے تم کون ہو جو مجھے اس امر پر مجبور کرو تب تو یہ بات درست تسلیم کی جاسکتی تھی کہ مسیح ؑ نے پتھر کو روٹی اس لئے نہیں بنایا کہ وہ بنا نہیں سکتا تھا بلکہ اس لئے نہیں بنایا کہ وہ بنا نا نہیں چاہتا تھا لیکن مسیح یہ جواب دیتا ہے کہ ’’لکھا ہےکہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہرایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی جیتا ہے ‘‘.اب سوال یہ ہے کہ وہاں کون سے دو وجود تھے جو باتیں کررہے تھے کیا روٹی کھانے والا وجود وہاں مسیح ؑ کے علاوہ کوئی اور بھی تھا ؟صاف ظاہر ہے کہ شیطان روٹی کھانے والا نہیں تھا.روٹی کھانے والا وجود صرف مسیح ؑ تھا اور مسیح ؑ یہ جواب دیتے ہیںکہ آدمی روٹی کے بغیر بھی جیتا ہے.گویا مسیح ؑ نے اس امر کا اقرار کیا کہ میں انسان ہوں اور روٹی کا محتاج ہوں لیکن اگر خدا نے مجھے روٹی نہیں دی تو مجھے خدا کے کلام پر اعتبار کرنا چائیے اور ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں کہ پتھر روٹی بن جائیں.پھر اس نے کہا کہ ’’انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے خدا کے منہ سے نکلتی جیتاہے‘‘ یہ بھی وہ اپنے متعلق ہی کہتا ہے پس معلوم ہواکہ مسیح ؑ خدا کی باتوں سے جیتا تھا اور جو خدا کی باتوں سے جیتا ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا.پھر لکھا ہے ’’تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اُس
سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لئے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے.ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سی ٹھیس لگے.‘‘ یعنی شیطان نے کہا کہ تم ہیکل کے کنگرے سے اپنے آپ کو نیچے گرادو.اگر تم ایسا کروگے تو میں سمجھ لوں گا کہ تم خدا ہو کیونکہ خدا کو چوٹ نہیں لگ سکتی اس پر مسیح نے کہا ’’یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما ‘‘ یعنی یہ کام بھی میں اس لئے نہیں کرتا کہ میں اپنے خدا کو کس طرح آزمائوں میں خدا کا ایک بندہ ہوں اور بندوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خدا کو مت آزمائیں.پھر شیطان اُسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور’’ دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تُو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دُوں گا ‘‘.یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا نہیں تھا کیونکہ خدا کی تو سب چیزیں ہیں جب وہ مسیح ؑ کو کہتا ہے کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو میں سب کچھ تجھے دے دوں گا.تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ شیطان جانتا تھا کہ یہ خدا نہیں ورنہ خدا کوکوئی کہہ سکتا ہے کہ میں تجھے سب چیزیں دے دُوں گا.جو چیزیں ہیں ہی خدا وہ خدا کی کودینے کے کیا معنے ہیں پس اگر مسیح ؑ شیطان کی نظر میں خدا ہوتاتو وہ اُسے یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ اگر تُو مجھے سجدہ کردے تو میں دنیا کی سب نعمتیں تجھے دے دوںگا اور پھر جب مسیح ؑ نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ یہ سب چیزیں میری ہیں تو اس سے بھی پتہ لگا کہ وہ بھی اپنے آپ کو خدا کا بندہ ہی سمجھتا تھا اگر مسیح ؑ خدا ہوتا تو مسیح ؑکا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں تو خداہوں اور میری ہی یہ سب چیزیں ہیں تم میری ہی چیزیں مجھے دینے کا کیا وعدہ کرتے ہو.مگر مسیح اس کا بھی یہ جواب دیتا ہے کہ ’’ اے شیطان دُور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اُس اکیلے کی بندگی کر‘‘.گو یا مسیح ؑ نے اقرار کرلیا کہ میں صرف خدا کا ایک بندہ ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں اُسی کو سجدہ کروں اور اُسی کی عبادت بجالائوں.لوقا باب۴آیات ۱تا ۱۳ میں بھی یہی باتیں بیان کی گئی ہیں صرف اس میں اتنی بات زائد ہے کہ متی نے تو یہ لکھا ہے.کہ وہ چالیس دن اور چالیس رات بھوکا رہنے کے بعد آزما یا گیا اور یہاں یہ لکھا ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے آزماتا رہا.ہمارے مولوی کہتے ہیں کہ مسیح ؑ کو شیطان نے مس بھی نہیں کیا اور انجیل کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے اپنے ساتھ لے کر پھرتا رہا اور مختلف آزمائشوں میں سے اُسے گذرنا پڑا.گو یا اُ س کوخدا ماننے والے تو اس کو مس شیطان سے پاک نہیں کہتے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع باقی سب نبیوں کو
مس شیطان سے آلودہ قرار دیتے ہیں صرف اُس نا م نہاد خدا کے بیٹے کو جس کے متعلق اُس کی اُمت بھی کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان کے ساتھ پھرتا رہا مس شیطان سے پاک قرار دیتی ہے.پھر لطیفہ یہ ہے کہ مسلمان مولوی تو یہ کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت جب وہ بچہ تھا اس وقت بھی اُسے شیطان نے نہیں چھوا.لیکن انجیل کہتی ہے کہ جب وہ بالغ اور عاقل تھا تب بھی وہ شیطان کے ساتھ ساتھ پھرتا تھا صرف ایک دو منٹ کے لئے نہیں.بلکہ چالیس دن تک پھرتا رہا.پھر یوحنا باب۴ آیت ۲۲ میں لکھا ہے ’’تم جسے نہیں جانتے اس کی پرستش کرتے ہو ہم جسے جانتے ہیں اس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے.‘‘ اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح اپنے آپ کو خدا کا ایک بندہ سمجھتے تھے کیونکہ فرماتے ہیں کہ میں اور باقی یہودی اُس خدا کی پرستش کرتے ہیں جس کو ہم جانتے ہیں اور تم اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم نہیں جانتے.پھر خدائی کی ایک بڑی علامت علم غیب ہوتا ہے اگر کوئی خدائی کا دعویدار ہوتا تو ضروری ہے کہ علم غیب بھی اسے حاصل ہومگر مسیح کہتا ہے کہ ’’اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیںجانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ‘‘.(مرقس باب ۱۳ آیت۳۲) اُس دن یا اُس گھڑی میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے.بعض لوگ اس سے قیامت مراد لیتے ہیں اور بعض اس مسیح کی آمد ثانی مراد لیتے ہیں بہر حال قیامت مراد ہویا مسیح کی آمد ثانی حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں کہ اُس دن یا اس گھڑی کونہ میں جانتا ہوں نہ آسمان کے فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی.گویا علم غیب کے متعلق حضرت مسیح ؑ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے مجھے حاصل نہیں.اگر وہ خدا ہوتا تو اُسے بھی یہ علم غیب حاصل ہوتا.اسی طرح مرقس باب۱۰ آیت ۱۷و۱۸ میں لکھا ہے ’’اور جب وہ باہر نکل کرراہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑ تا ہوا اُس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک اُستا د میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوںیسوع نے اُس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے.کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا.‘‘
ان آیا ت میں حضرت مسیح دو دعوے کرتے ہیں ایک یہ کہ نیک صرف خداہے.دوسرا یہ کہ میں نیک نہیں ہوں.اب اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں خدا نہیں تم منطقی صغریٰ کبریٰ بنالو.اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.ایک طرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیک صرف خدا ہے اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ میں نیک نہیں.اِن دو دعووں کا سوائے اس کے اور کو ئی مفہوم نہیں کہ میں خدا نہیں گو یا حضرت مسیح انسان ہونے کا اس جگہ اقرار کرتے ہیں.یہاں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بعض مسلمان بغیر حقیقت پر غور کرنےکے اس جگہ عیسائیوںسے بھی زیادہ جوش میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا مسیح ؑ نیک نہیں تھا اگر کسی احمدی سے یہ سوال کیا جا ئے تو وہ کہے گا کہ تم عیسائیوں سے پوچھوان کی کتاب میںیہ لکھا ہے.پس اس کے جواب کی اصل ذمہ واری ان پر ہے ہم پر نہیںلیکن اگر ہمیں ہی جواب دینا پڑے تو ہم یہ جواب دیں گے کہ عبداللہ کی نیکی کسبی ہوتی ہے اور یہاں حضرت مسیح کی مراد اس نیکی سے ہے جو ذاتی ہوتی ہے انسان کی نیکی کسبی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے.اسی لئے خدا قدوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے.خدا تعالیٰ پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل بننے کی کوشش کی.لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے.پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے.دو دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے.تین دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے.لیکن خدا تعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہے اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے لیکن انسان کی نیکی کسی وقت کم ہوتی ہے اور کسی وقت زیادہ ہوتی ہے چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو.جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نیکی ادنیٰ ہوتی ہے جب وہ صداقتوں کو سمجھنے لگ جاتا ہے تو اس کی نیکی کا معیار اور زیادہ ترقی کر جاتا ہے اور جب اس پر شریعت یا الہام نازل ہونا شروع ہوتا ہے تو اس کی روحانیت اور زیادہ ترقی کر جاتی ہےپس جب مسیح نے کہا کہ میں نیک نہیں تو اس کے صرف اتنے معنے تھے کہ میرے اندر ذاتی نیکی نہیں کسبی نیکی ہے.اسی طرح یوحنا میں لکھا ہے کہ ایک عورت کو لوگ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا کہ یہ عورت زنا کی حالت میں پکڑی گئی ہے موسیٰ ؑ کی شریعت کے مطابق زانیہ کی سزا سنگساری ہوتی ہے مگر ہم اسے آپ کے پاس لائے ہیں آپ اس کے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں مسیح ؑ نے جواب دیا کہ جو شخص تم میں بے گناہ ہے وہ آگے آئے اور سب سے پہلے اس کو پتھر مارے.وہ لوگ یہ سن کر بھاگ گئے.حضرت مسیح نے اس عورت سے پوچھا کہ تجھ پر حکم لگانے والے
لوگ کہاں چلے گئے اس نے کہا کہ بھاگ گئے.حضرت مسیح ؑ نے کہا جامیں بھی تجھ پر کوئی حکم نہیں لگاتا.اس بارہ میں انجیل کے اصل الفاظ یہ ہیں.لکھا ہے.’’فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاد یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے توریت میں موسیٰ ؑ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کر یں پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے.انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں.مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا.جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا.وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی.یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا.اے عورت یہ لوگ کہاں گئے.کیا کسی نے تجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں یسوع نےکہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا.جا پھر گناہ نہ کرنا.‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۳ تا ۱۱) اب دیکھو فقیہی اور فریسی کہتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت میں ایسی عورتوں کو سنگسار کرنے کا حکم ہے.حضرت مسیح کہتے ہیں کہ تم میں سے وہ شخص پہلے پتھر چلا ئے جو بے گناہ ہو.مگر جب سب لوگ ایک ایک کرکے غائب ہو گئے تو مسیح نے اس عورت سے کہا کہ میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں بھی بے گناہ نہیں ہوں.یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح اپنے گنہگار ہونے کا اقرار کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہے.دوسری بات قرآن کریم نے حضرت مسیح کی طرف یہ منسوب کی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ اس نے مجھے کتاب دی ہے.اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۸ جہاں حضرت مسیح کہتے ہیں کہ میں ’’ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا.بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں.‘‘ یہ حوالہ اس امر پر صراحتاً دلالت کرتا ہے کہ حضرت مسیح لوگوں کو جو کچھ تعلیم دیتے تھے وہ اپنی طرف سے نہیں دیتے تھے بلکہ وہی کچھ بتاتے تھے جو خدا انہیں بتاتا تھا.وہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتابلکہ جس
طرح باپ نے مجھے سکھایا ہے اور جس طرح اس نے مجھے تعلیم دی ہے اسی طرح میں لوگوں سے کہتا ہوں مجھے یہ اختیار حاصل نہیں کہ میں اپنی طرف سے انہیں کچھ کہوں.اسی طرح حضرت مسیح کہتے ہیں.’’ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.‘‘ (انجیل متی باب ۵ آیت ۱۷.۱۸) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح یہود کی طرف اس لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ وہ تورات کو رائج کریں پس قرآن کریم نے جو ان کے متعلق اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ کے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بالکل صحیح اور درست ہیں.اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ کے الفاظ اس لحاظ سے بھی استعمال ہوئے ہیں کہ ایک پہلے نبی کی کتاب پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کروانے کا انہیں حکم تھا اور اس لحاظ سے بھی کہ پہلی کتاب کی تفسیر انہیں الہاماً سکھائی جاتی تھی اور یہ دونوں باتیں انجیل سے ثابت ہیں حضرت مسیح نے یہ بھی کہا کہ میں تورات کو رائج کرنے اور اس کے احکام پر عمل کروانے کےلئے آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں اپنی طرف سے کوئی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا مجھے سکھاتا ہے.تیسری بات قرآن کریم نے یہ بتائی ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے اپنی قوم کے سامنے نبوت کا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے اس کی صداقت بھی انجیل سے ثابت ہے.یوحنا میں لکھا ہے حضرت مسیح نے کہا.’’ جس نے مجھے بھیجا وہ میرے ساتھ ہے (نبی اسی کو کہتے ہیں جسے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جائے) اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میںہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند آتے ہیں.‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۲۹) یہ الفاظ ایک رنگ میں وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا کی ہی تفسیر ہیں.اسی طرح لکھا ہے فریسیوں نے حضرت مسیح سے کہا ’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا.یسوع نے ان سے کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے.اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں.کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے
بھیجا.‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۴۱.۴۲) یہاں بھی ’’اسی نے مجھے بھیجا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو حضرت مسیح ؑ کی نبوت اور رسالت کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں.اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ؑ کا خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہنا ان کی الوہیت پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ یہود بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بیٹے کہا کرتے تھے.چنانچہ فریسیوں نے ان سے کہا ’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا.‘‘ معلوم ہوا کہ بیٹا ہونے میں مسیح کی خصوصیت نہیں یہ یہود میں عام محاورہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہا کرتے تھے اور اس قسم کے محاورہ کا ان میں رائج ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں.جن لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پائی جاتی ہو اور جو صرف مادی چیزوں کے پیچھے جانے والے نہ ہوں بلکہ روحانیت کی سچی تڑپ اور خدا تعالیٰ کے وصال کی حقیقی خواہش رکھتے ہوں وہ جذبات محبت کے غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں اور باپ کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں اور رئویا اور کشوف میں بھی خدا تعالیٰ اپنے منتخب کردہ بندوںکو بعض دفعہ اپنا وجود ماں یا باپ کی شکل میں ہی دکھاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں نے اپنے باپ کی شکل میں خدا تعالیٰ کو دیکھا (الحکم ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۷)اور میں نے ایک دفعہ خدا تعالیٰ کو حضرت اماں جانؓ کی شکل میں دیکھا تھا تو جہاں اخلاص اور محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہاں بندے اپنی محبت کے جوش کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں یا باپ کی حیثیت میں ہی دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ بھی رئویا و کشوف کے ذریعہ جب اپنی محبت ان پر ظاہر کرتا ہے تو بالعموم باپ یا ماں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے.آگے یہ ایک باریک روحانی نکتہ ہے کہ وہ کن حالات میں اپنے آپ کو باپ کی شکل میں دکھاتا ہے اور کن حالات میں اپنے آپ کو ماں کی شکل میں دکھاتا ہے بہرحال یہ دونوں وجود محبت کا ایک نشان سمجھے جاتے ہیں مگر دونوں کی محبت میں فرق ہوتا ہے.ماں کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے اور باپ کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے ماں کی ذمہ داریاں اور قسم کی ہوتی ہیں اور باپ کی ذمہ داریاں اور قسم کی ہوتی ہیں.جب خدا تعالیٰ ماں کی محبت اور ماں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو وہ ماں کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور جب وہ باپ کی محبت اور باپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو باپ کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے.چونکہ نبیوں کے پیرو اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ان کی زبان سے یہ باتیں سنتے رہتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے ماں او رباپ کی طرح محبت کرتا ہے اس لئے وہ بھی ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں.اسی رنگ میں جب یہود میں خدا تعالیٰ کے انبیاء آئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کا بار بار ذکر کیا اور بتایا کہ ہم سے خدا نے یوں محبت کی
ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے یا ماں اپنے بچے سے کرتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کو باپ کہنے لگ گئے.اسی محاورہ کو حضرت مسیح بھی استعمال کرتے اور خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہتے تھے.دوسرا مسئلہ اس حوالہ سے یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کہتے ہیں ’’ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں.‘‘ یعنی جس سے محبت ہوتی ہے اس کی محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے بھی محبت رکھی جائے جن سے محبوب محبت رکھتا ہو.اس میں مدارج کا سوال نہیں ہوتا کہ فلاں چھوٹا ہے اور فلاں بڑا.بلکہ انسان صرف یہ دیکھتا ہے کہ خواہ میرا مقام بڑا ہے جب میرا محبوب اور پیارا فلاں سے محبت رکھتا ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں اس سے محبت کروں.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے متعلق ذکرآتا ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ ان سے ملنے کےلئے آیا وہ کھڑے ہو گئے اور بادشاہ سے ملے اور پھر بیٹھ گئے پھر وزیر ملنے کے لئے آیا تو وہ اسی طرح بیٹھے رہے کھڑے نہیں ہوئے.اس کے بعد بادشاہ کا پہرےدار آیا تو پھر وہ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ گئے جب یہ لوگ چلے گئے تو کسی نے کہا آپ نے یہ کیا کیا کہ جب بادشاہ آیا تو آپ اس کے اعزا ز کےلئے کھڑے ہو گئے.وزیر آیا تو کھڑے نہ ہوئے لیکن پہرےدار آیا تو پھر کھڑے ہو گئے.ا نہوں نے فرمایا بادشاہ کے آنے پر میں اس لئے کھڑا ہوا تھا کہ بادشاہ کی اطاعت کا حکم ہے.وزیر کے آنے پر میں اس لئے کھڑا نہیں ہوا کہ وزیر کی اطاعت کا حکم نہیں.اس کے بعد پہرےدار آیا تو میں پھر کھڑا ہو گیا مگر اس لئے کہ وہ حافظ قرآن تھا.اب دیکھو پہرےدار ایک ادنیٰ ملازم تھا لیکن چونکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے محبوب کا کلام اس نے یاد کیا ہوا تھا اس لئے باوجود چھوٹا ہونے کے آپ اس کے آنے پر کھڑے ہو گئے.یہی بات حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے بھی عزیز سمجھتے اور میری مخالفت نہ کرتے.ا سی نقطہ نگاہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا فرمایا کہ ؎ ’’خاکم نثار کوچہ آل محمداست ‘‘(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۵) ادھر آپ اپنا مقام حضرت امام حسین ؓ سے بڑا بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے علماء سے پوچھو کہ تمہارا مسیح ؑ جس نے آسمان سے آنا ہے وہ امام حسین سے بڑا ہو گا یا چھوٹا.لیکن دوسری طرف امام حسین ہی نہیں امام حسین کی اولاد در اولاد پر اپنی جان قربان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے قابل احترام وجود ہیں.کیونکہ وہ
بہرحال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں.تو رتبہ اور مقام اور چیز ہے اور محبت کا تعلق اور چیز ہے.پس حضرت مسیح کہتے ہیں کہ اگر واقعہ میں تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتا اور تم اس کے بیٹے ہوتے تو تم مجھ سے محبت کیوں نہ کرتے.تمہارا مجھے نہ چاہنا بتاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بیٹے نہیں ’’ اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آ یا ہوں ‘‘ یعنی اپنے محبوب کی طرف سے آنے والی ہر چیز پیاری ہوتی ہے.پس تم جو مجھ سے محبت نہیں رکھتے تو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں اپنے محبوب کی بھی کوئی قدر نہیں.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ کھڑے تھے کہ بادل آیا اور بارش ہوئی جب اس کے قطرات گرے تو آپ نے اپنی زبان باہر نکالی اور بارش کا قطرہ اس پر لے لیا.پھر آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے میرے اردگرد کے لوگ یہ سمجھیں کہ میں نے کیا خلاف مرتبت بات کی ہے اس لئے آپ نے فرمایا یہ میرے رب کی تازہ نعمت آئی ہے یہی مضمون حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ ’’ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں ‘‘ یعنی میں خدا تعالیٰ کا ایک تازہ انعام ہوں.اگر تم خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھنے والے ہوتے تو تم میری قدر کیوں نہ کرتے.’’ کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا.‘‘ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح نے جب اپنے آپ کو بیٹا کہا تو صرف رسول ہونے کی حیثیت سے ہی کہا ہے.اسی طرح لوقا باب ۴ آیت ۱۶ تا ۲۲ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ ایک دفعہ ناصرہ میں سبت کے دن عبادت خانہ میں گئے تو وہاں ان کو یسعیاہ نبی کی کتاب دی گئی کہ اس میں سے وعظ کریں.انہوں نے کتاب کھول کر وہ مقام نکالا جہاں لکھا تھا.’’ خداوند کا روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے لئے مسح کیا.اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سنائوں.کچلے ہوئوں کو آزاد کروں اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں.‘‘ اور پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کی.جب درس دے چکے تو لکھا ہے.’’ جتنے عبادت خانہ میں تھے سب کی آنکھیں اس پر لگی تھیں.وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا ہے.‘‘ یعنی یسعیاہ نبی کی کتاب کا جو نوشتہ تھا وہ آج پورا ہو گیا ہے.اس نوشتہ کا یسعیاہ باب ۶۱ آیت ۱ تا ۳ میں تفصیلی طور پر ذکر آتا ہے حضرت یسعیاہ کہتے ہیں.
’’خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ خداوند نے مجھے مسح کیا تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دوں (یسعیاہ کہتے ہیں کہ خدا نے مجھے مسح کیا ہے تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبری سنائوں.مگر عیسائی کہتے ہیں کہ اس میں مسیح کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے) اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کر وں اور قیدیوں کےلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کے لئے قید سے نکالنے کی منادی کروں کہ خداوند کے سال مقبول کا اور ہمارے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور ان سب کو جو غمزدہ ہیں تسلی بخشوں کہ صیہوں کے غمزدوں کےلئے ٹھکانہ کردوں کہ ان کو راکھ کے بدلے پگڑی اور نوحے کی جگہ خوشی کا روغن اور اداسی کے بدلے ستائش کی خلعت بخشوں تاکہ وے صداقت کے درخت اور خداوند کے لگائے ہوئے پودے کہلاویں کہ اس کا جلال ظاہر ہووے.‘‘ (یسعیاہ ب ۶۱ آیت ۱تا ۳) عیسائیوں کے نزدیک یسعیاہ نبی کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح پر چسپا ںہوتی ہے.اگر یہ درست ہے اور یہ پیشگوئی واقعہ میں حضرت مسیح پر چسپاں ہوتی ہے تو پھر یہاں خدا کا ذکر نہیں بلکہ ایک انسان کے آنے کا ذکر ہے اور وہ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاکے ماتحت ہی آتا ہے کیونکہ لکھا ہے.’’ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کروں اور قیدیوں کےلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کےلئے قید سے نکالنے کی منادی کروں.‘‘ ’’ اس نے مجھے بھیجا ہے ‘‘ کا عربی میں یہی ترجمہ ہوگا کہ اَرْسَلَنِیْ اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے.یا جَعَلَنِيْ نَبِيًّا اس نے مجھے اپنا نبی بنایا ہے.یہ بھی یاد رکھو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ مصلح موعود والی پیشگوئی کے الفاظ سے بالکل ملتے جلتے ہیں.یعنی اس پیشگوئی میں بھی اسی قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس قسم کے الفاظ یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی میں استعمال کئے گئے ہیں.پھر متی باب ۲۱ آیت ۱۰و۱۱ میں لکھا ہے.’’ اور جب وہ یروشلم میں داخل ہوا تو سارے شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگ کہنے لگے یہ کون ہے.بھیڑ کے لوگوں نے کہا یہ گلیل کے ناصرہ کا نبی یسوع ہے.‘‘ یہی بات قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے خدا نے نبی بنا کر بھیجا ہے.
پھر یوحنا باب ۷ آیت ۱۴ تا ۱۶ میں لکھا ہے کہ یسوع ایک دن ہیکل میں جا کر تعلیم دینے لگا.اس پر یہودیوں نے متعجب ہو کر کہا کہ اس کو بغیر پڑھے کیونکر علم آ گیا.’’ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے.‘‘ گویا یہود نے جب تعجب کیا کہ اسے بغیر پڑھے تورات کا علم کس طرح آ گیا تو حضرت مسیح ؑنے کہا یہ میری تعلیم نہیں بلکہ اس خدا کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.پس ان الفاظ میں بھی وہ اپنے رسول ہونے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا کمال ذاتی ہوتا ہے.اگر وہ خدایا خدا کے بیٹے ہوتے تو یہ کمال ان کے اندر ذاتی طور پر موجود ہونا چاہیے تھا.مگر وہ کہتے ہیں کہ میرا اس میں ذاتی کمال کوئی نہیں خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے یہ تعلیم مجھے سکھائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ ؎ دگر استاد را نامے ندانم کہ خواندم درد بستان محمدؐ (استفتاء.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۳) یعنی میں کسی اور استاد کا نام نہیںجانتا کیونکہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکول میں پڑھا ہوں اس سے مراد یہ ہے کہ میرے علوم قرآنی علوم ہیں اور گو آپ نے ادب کے طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا ہے لیکن آپ کا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے جو خدا تعالیٰ کا نازل کردہ ہے.پس آپ کا یہ شعر وہی معنے رکھتا ہے جو حضرت مسیح کے اس فقرہ کے ہیں کہ ’’ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے.‘‘ پھر وہ اسی باب کی سترھویں آیت میں کہتے ہیں ’’ اگر کوئی اس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس کی تعلیم کی بابت جان لے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں.‘‘ یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے تحقیق کرنا چاہیں وہ اگر تحقیق کریں گے تو معلوم کر لیں گے کہ یہ تعلیم میری نہیں بلکہ میرے خدا کی ہے.پہلی آیت میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اب اس آیت میں وہ اپنے اس دعویٰ پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تعلیم میں نے نہیں بنائی بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے.پھر وہ اور زیادہ اس پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں.
’’ جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے وہ سچا ہے اور اس میں ناراستی نہیں ‘‘ (آیت ۱۸) اس میں وہ پھر اپنے رسول ہونے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اپنے پاس سے علم دیتا ہوں وہ جھوٹا ہے لیکن وہ شخص جو یہ کہے.کہ میں خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دیتا ہوں وہ سچا ہے گویا حضرت مسیح عیسائیوں کو جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا تھا اور اپنے علم سے بولتا تھا جھوٹا قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کے اس عقیدہ کو کہ مسیح خدا کا بندہ تھا سچا قرار دیتے ہیں.پھر یوحنا باب ۸ آیت ۱۶ میں فرماتے ہیں.’’ اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.‘‘ گویا وہ پھر جَعَلَنِيْ نَبِيًّا پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے میرے خدا نے بھیجا ہے.اسی طرح سترھویں آیت میں فرماتے ہیں.’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے (استثناء باب ۱۷ آیت ۶ و باب ۱۹ آیت ۱۵) کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے.‘‘ گویا وہ اپنی سچائی کی دو شہادتیں پیش کرتے ہیں ایک یہ کہ میں اس لئے سچا ہوں کہ میں خود کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں اور دوسرے میں اس لئے سچا ہوں کہ خدا کہتا ہے میں سچا ہوں اور جب تمہاری شریعت میں یہ لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی سچی تسلیم کی جائے گی اور میری سچائی پر بھی دو شہادتیں موجود ہیں تو تم کیوں میری سچائی کے قائل نہیں ہوتے.دیکھو یہ جو مسیح ؑنے کہا ہے کہ ’’ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں ‘‘ یہ وہی دلیل ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں پیش کی ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس :۱۷) ورنہ گواہی دینے والا بعض دفعہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور دنیا میں ہزاروں ایسے واقعات ملتے ہیں.پس اس جگہ گواہی سے یہ مراد نہیں کہ چونکہ میں اپنے آپ کو سچا کہتا ہوں اس لئے میں سچا ہوں.بلکہ اس جگہ اپنی گواہی سے مراد آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے اور حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ ایک تو میری سابقہ زندگی اس
بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں اور دوسرے خدا نے میری تائید میں جو نشانات دکھائے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ میرا دعویٰ سچا ہے اور درحقیقت نبیوں کی زندگی کا خلاصہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے باقی سب جھگڑے لغو اور فضول ہوتے ہیں.میں نے اپنی کتاب ’’ دعوۃ الامیر ‘‘ میں اسی دلیل کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دلیل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں.؎ آفتاب آمد دلیل آفتاب (دعوۃ الامیر.انوار العلوم جلد ۷ صفحہ ۴۲۴) اگر کوئی پوچھے کہ آفتاب کے نکلنے کی کیا دلیل ہے تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ آفتاب کی دلیل خود آفتاب کا وجود ہے.اسی طرح ایک شخص جس کی ساری زندگی ایک کھلے ورق کی طرح لوگوں کے سامنے ہے.جس کے متعلق اپنے اوربےگانے سب جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا خطرناک سے خطرناک اوقات میں بھی سچ سے کام لیتا ہے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی بات کہے تو کوئی احمق اور بے وقوف ہی ہو گا جو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے لیکن اس شہادت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا کیریکٹر اور چال چلن لوگوں کےلئے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو.وہ شخص جس کی زندگی کے حالات لوگوں کو معلوم نہیں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری پہلی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہماری جماعت میں سے ایک شخص جو اچھا مخلص اور سمجھدار تھا مگر بعد میں غیر مبایعین میں شامل ہو گیا اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور وہ ہماری جماعت میں شامل ہو گیا.ایک دفعہ کسی جھگڑے کے موقعہ پر دوسرے سے کہنے لگا کہ میرا اپنا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں.میں اس وقت بچہ تھا مگر مجھے یہ سن کر ہنسی آئی کہ اس کا وجود بھلا لوگوں کےلئے کس طرح صداقت کا نشان بن سکتا ہے.اس کی زندگی کے تو حالات ہی لوگوں کو معلوم نہیں.پس اس آیت کو وہی شخص اپنی ذات پر چسپاں کر سکتا ہے جس نے لوگوں کے سامنے چیلنج کے طور پر اپنی زندگی کو پیش کیا ہو اور لوگوں نے بھی کرید کرید کر اس کے حالات زندگی کو دیکھا ہوا ہو.ایک عام آدمی کی زندگی تو ہوتی ہی پردے میں ہے وہ اس دلیل کو پیش کس طرح کر سکتا ہے.اسی طرح انبیاء کی صداقت کے جو اور دلائل ہیں ان کے متعلق بھی لوگ غلطی کر تے ہیں اور بعض دفعہ ایک ایسی بات اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں جو موقع اور محل کے لحاظ سے وہاں چسپاں ہی نہیں ہوتی.
سید احمد نورصاحب کابلی جو اب (۵۶ء سے پہلے) فوت ہو چکے ہیں نبوت کا دعویٰ کیا کرتے تھے ایک دفعہ ایک دوست ان کے پاس گئے تو وہ واپس آ کر مجھے کہنے لگے کہ ان کی اور باتوں کا جواب تو مجھے آ گیا ہے لیکن ایک دلیل کو میں رد نہیں کرسکا اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا تم لوگ مجھے پاگل کہتے ہو حالانکہ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ جتنے نبی اور رسول آئے سب کو لوگ پاگل کہا کرتے تھے.پس تمہارا مجھے پاگل کہنا میری صداقت کی دلیل ہے میرے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں.میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بالکل سیدھی بات تھی نبی کو اس کے دعویٰ کے بعد محض اس کے دعوے کی وجہ سے لوگ پاگل کہتے ہیں لیکن سید احمد نور صاحب سے کہئے کہ آپ نے تو ابھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ ہم آپ کو رسیوں سے باندھا کرتے تھے.پس ایک پاگل کا اپنے آپ کو نبی کہنا اور چیز ہے اور نبی کو لوگوں کا پاگل کہنا بالکل اور چیز ہے.اگر تو نبوت کے دعویٰ کے بعد لوگ انہیں پاگل کہنے لگ جاتے پہلے وہ دماغی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوتے تو کچھ دلیل بھی تھی لیکن انہیں تو دعویٰ سے پہلے ہی کئی دفعہ جنون کی وجہ سے رسیوں سے باندھا جا چکا ہے.تو یہ دلیل بھی غلط استعمال ہونے لگ گئی ہے.اسی طرح ایک نبی کی صداقت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس کی سابق زندگی اتنی شاندار ہوتی ہے کہ ہر قسم کے حالات میں سے گزرنے کے باوجود لوگ اس کی زندگی کو بالکل بے عیب پاتے ہیں.اردگرد کے لوگ اسے ٹٹو لتے ہیں.ایسے حالات اس پر گزرتے ہیں جب جھوٹ کے بغیر اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جھوٹ نہیں بولتا اور لوگوں پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ شخص نیک اور راستباز انسان ہے.لیکن عام آدمیوں کی زندگیاں نمایاں نہیں ہوتیں.بیسیوں چور ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ چور ہیں.بیسیوں جھوٹے ہوتے ہیں مگر چونکہ ان کے حالات لوگوں کے سامنے نہیں آتے اس لئے وہ مخفی رہتے ہیں.پس یہ آیت صرف انبیاء ہی اپنے اوپر چسپاں کر سکتے ہیں.وہ لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ تم نے ہماری زندگیوں کو دیکھا.تم نے ہمارے حالات کو دیکھا.تم نے ہمارے اخلاق اور عادات کی جستجو کی.مگر تم نے یہی دیکھا کہ ہم جھوٹ بولنے والے نہیں.پس جب ہم انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم خدا پر جھوٹ بولنے لگ جائیں.یہی دلیل حضرت مسیح پیش کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے.ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے.‘‘ اب اگر اپنی گواہی سے صرف اتنی ہی مراد ہو کہ چونکہ میںکہہ رہاہوں اس لئے میری بات سچی ہے تو اس طرح تو دنیا میں تباہی مچ جائے.کیا عدالت میں مقدمہ پیش ہو تو ملزم کہہ سکتا ہے کہ ایک توا س واقعہ کا میں گواہ ہوں اور
ایک خدا گواہ ہے.اگر وہ ایسا کہے تو سب ہنسنے لگ جائیں گے.پس اس جگہ مسیح نے درحقیقت وہی دلیل پیش کی ہے کہ ؎ آفتاب آمد دلیل آفتاب وہ اپنے یسوع ہونے کی حیثیت کو پیش نہیں کرتا بلکہ دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کو متحد یا نہ طور پر پیش کرتا ہے.مگر بہرحال اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ بندہ تھا.رسول تھا.خدائی کا دعویدار نہیں تھا.پھر متی باب ۲۱ آیت ۹ میں لکھا ہے.’’ اور بھیڑ جو اس کے آگے آگے جاتی اور پیچھے پیچھے چلی آتی تھی پکار پکار کر کہتی تھی ابن دائود کو ہوشعنا.مبارک ہے وہ جو خدا کے نام سے آتا ہے عالم بالا پر ہو شعنا.‘‘ یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں مسیح ؑکی آمد کی خبر دی گئی تھی پس جب یہ پیشگوئی پوری ہوئی تو لوگ خوش ہوئے کہ وہ شخص جس کے آنے کی خبر دی گئی تھی.وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آ گیا ہے.بہرحال یہاں حضرت مسیح کو ابن دائود کہا گیا ہے گویا انہیں بنی اسرائیل کا ہی ایک فرد قرار دیا گیا ہے خدا نہیں کہا گیا.پھرمرقس باب ۶ آیت ۲ تا ۵میں لکھا ہے کہ ’’ جب سبت کے دن مسیح عبادت خانہ میں تعلیم دینے لگا تو لوگ سن کر حیران ہوئے کہ یہ کیا حکمت ہے جو اسے بخشی گئی ہے.کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسیس اور یہوداہ اور شمعون کا بھائی ہے اور کیا اس کی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں.‘‘ یعنی اس کے بھائی اور بہنیں تو سب مذہب میں ہمارے ساتھ متفق ہیں اس کے ساتھ نہیں پھر یہ باتیں اسے کیسے آ گئیں.ا س پر حضرت مسیح نے کہا.’’نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہوتا.‘‘ (مرقس باب ۶ آیت ۴) گویا وہ صاف طور پر اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیںہوتا.یوحنا باب ۴ آیت ۴۴ میںبھی یہی مضمون بیان ہوا ہے لکھا ہے کہ ’’ یسوع نے خود گواہی دی کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا.‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کچھ رشتہ دار اس کے ضرور مخالف تھے.یوحنا باب ۵ آیت۳۶، ۳۷ میں حضرت مسیح فرماتے ہیں.’’ باپ نے مجھے بھیجا ہے اور با پ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے میری گواہی دی ہے.‘‘ گویا ایک ہی آیت میں دو دفعہ انہوں نے اپنے آپ کو رسول کہا ہے.پھر یوحنا باب ۴ آیت ۱۹ میں لکھا ہے ’’ عورت نے اس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے.‘‘ گویا لوگ بھی اس کو نبی کہتے تھے اور وہ بھی اپنے آپ کو نبی کہتے تھے مگر آج کل کے عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا تھے.غرض عیسائیوں نے قرآن کریم کے اس بیان پر جو گالیاں دی ہیں.وہ درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیں بلکہ اپنے مسیح کو گالیاں دی ہیں جس نے خود یہ دعوے کئے ہیں.چوتھی بات قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ یہ الفاظ بھی اس کے انسان ہونے پر دلالت کرتے ہیں.کیونکہ خدا اپنی ذات میں مبارک ہے اور انسان اس سے برکت حاصل کرتا ہے.خدا مبارِک ہوتا ہے اور انسان مبارَک ہوتا ہے.میرے ایک بچے کا نام مبارَک ہے.کوئی غلطی سے اسے مبارِک کہہ دیتا ہے تو میں کہتا ہوں یہ مبارِک نہیں مبارَک ہے.اسے برکت دی گئی ہے.برکت دینے والا خدا ہے پس حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے برکت دیا گیا بنایا ہے اور جو مبارَک ہے وہ یقیناً انسان ہے.کیونکہ خدا کو کوئی برکت نہیں دے سکتا خدا تعالیٰ کے اندر ساری طاقتیں ذاتی ہیں وہ کسی سے کوئی طاقت نہیں لیتا.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح مبارک ہے وہ برکت نہیں دیتا بلکہ برکت مانگتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ وہ ایک انسان تھا اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۹ جہاں وہ کہتا ہے.’’ اور جس نے مجھے بھیجا ہے میرے ساتھ ہے.باپ نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا (گویا وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ مدد کا محتاج ہے اور یہ بھی کہ خدا نے اس کی مدد کی ہے) کیونکہ میں ہمیشہ ایسے کام کرتا ہوں جو اسے خوش آتے ہیں.‘‘ پھر مرقس باب ۶ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں لکھا ہے.’’ تب اس نے انہیں حکم کیا کہ ان سب کو ہری گھاس پر بانٹ بانٹ کر کے بٹھلائو وے سو سو اور
چپچا س پچا س بانٹ میں بیٹھے.تب اس نے وہ پانچ روٹیاں اوردو مچھلیاں لے کے آسمان کی طرف دیکھ کے برکت چاہی.‘‘ یعنی مسیح ؑ کے پاس ایک دفعہ بہت سے لوگ آ گئے آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ان کو کھانا کھلانے کے لئے قطاروں میں بٹھا دو.پھر مسیح ؑ نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں اپنے ہاتھ میں لیں اور آسمان کی طرف دیکھا اور خدا تعالیٰ سے برکت چاہی.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ سمجھتا تھا کہ برکت صرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے.پھر لکھا ہے کہ اس نے ’’ روٹیاں توڑیں اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھیں اور اس نے وے دو مچھلیاں ان سب میں بانٹیں وے سب کھا کے سیر ہوئے.‘‘ (آیت ۴۱.۴۲) یعنی پھر برکت آ بھی گئی.پہلے مسیح نے خدا سے برکت مانگی اور پھر خدا نے اسے برکت دے بھی دی.پس مرقس تسلیم کرتا ہے کہ خدا مبارِک ہے اور مسیح مبارَک ہے.خدا برکت دینے والا ہے اور مسیح برکت لینے والا ہے.پھر یہی مضمون مرقس باب ۸ آیت ۶ تا ۸ میں بھی بیان ہوا ہے.لکھا ہے ’’ پھر ا س نے بھیڑ کو حکم کیا کہ زمین پر بیٹھ جائیں اور اس نے وہی سات روٹیاں لیں اور شکر کر کے توڑیں (یعنی روٹی ملنے پر اس نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا ) اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھیں اور انہوں نے لوگوں کے آگے رکھ دیں اور ان کے پاس کئی ایک چھوٹی مچھلیاں تھیں سو اس نے برکت مانگ کے حکم کیا کہ انہیں بھی ان کے آگے دھریں چنانچہ انہوں نے کھایا اور سیر ہوئے.‘‘ اس جگہ پھر برکت مانگنے کا ذکر ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پھر وہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ بھی گئی.یہ کہ یہ کیا معجزہ ہے اس جگہ میں ہمیں اس تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد ان حوالوں سے صرف اس قدر ہے کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ اور بائبل بھی یہی کہتی ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ سے برکت مانگی اور خدا تعالیٰ نے اسے برکت دی.پس قرآن کریم کا دعویٰ بالکل درست ہے اگر قرآن نے غلط دعویٰ کیا ہے تو پھر بائبل بھی غلط اور ناقابل اعتبار ہے.حدیثوں میںبھی اس قسم کے بعض واقعات آتے ہیں.حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے غلہ خریدا جو چلتا چلا گیا اور ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا.آخر مجھے خیال آیا کہ دیکھیں تو سہی کہ ہے کتنا جب اس کو تولا تو ختم ہو گیا (ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع باب ۳۱).بے شک بعض دفعہ انسان اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے بھی
تھوڑی چیز میں گزارہ کر لیتا ہے لیکن بعض دفعہ انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نظر نہیں آتا اور برکت چلتی چلی جاتی ہے یہ ایک ایسا راز ہے جس کو انسان بیان نہیں کر سکتا.میرے گھر کے بہت سے افراد ہیں چار بیویاں ہیں.بائیس بچے ہیں اور پھر بچوں کی اولادیں ہیں.کئی ایسے ہیں جو ابھی کوئی کام نہیں کرتے اور کئی ایسے ہیں جو کام تو کرتے ہیںلیکن بوجہ دینی خدمت کرنے کے جو رقم ان کو ملتی ہے اس میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور ہمیشہ ان کے اخراجات کا کچھ حصہ مجھے برداشت کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی میں حساب کرنے لگوں تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان اخراجات کے پور اہونے کا کوئی راستہ ہی نہیں.مگر حساب نہ کروں.تو روپیہ آ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب ضرورتوں کو پورا کر دیتا ہے.ایک دفعہ میں دریا پر سیر کرنے کے لئے گیا ہوا تھا کہ ایک دن ہم نے صرف ایک چوزہ اور ایک چھوٹی سی مرغابی تیار کروائی یہ کھانا ہمارے لئے کافی تھا.مگر ہم مغرب کی نماز پڑھ کر بیٹھے تو اردگرد کے علاقہ کے تیس چالیس آدمی آ گئے.ان میں سے ایک دو تو احمدی تھے اور باقی ان کے غیر احمدی رشتہ دار تھے.مگر انہوں نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیوں آئے ہیں.میں نے سمجھا کہ وہ تھوڑی د یر ٹھہر کر چلے جائیں گے مگر وہ اتنی دیر بیٹھے کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا.آخر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے آنے کی کیا غرض ہے؟ کہنے لگے ہم نے ایک نکاح پڑھوانا ہے.میں نے کہا بہت اچھا چنانچہ میں نے نکاح پڑھ دیا.مگر وہ نکاح پڑھوانے کےبعد پھر بیٹھ گئے.غالباً وہ اسی نیت سے آئے تھے کہ ہم کھانا کھا کر ہی جائیں گے.پہلے تو میرے دل میں بخل پیدا ہوا کہ ہم کچھ دیر اور انتظار کر لیتے ہیں شاید یہ چلے جائیں.مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ تو جانے کا نام ہی نہیں لیتے.تو میں نے امّ طاہر مرحومہ ؓ کو رقعہ لکھا کہ اس طرح مہمان آ گئے ہیں.چالیس کے قریب یہ ہیں چھ سات گھر کے افراد ہیں اور بیس کے قریب دفتر کے آدمی اور بعض دوسرے لوگ ہیں ان ستر آدمیوں کے کھانے کا کیا انتظام ہوگا.انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ ہم تو آپ کاہی انتظا رکر رہے تھے.میںنے باورچی سے اس بارہ میں بات کر لی ہے آپ بے فکر رہیں.چنانچہ اس کے بعد سب کو کھانے کے لئے بٹھا دیا گیا اور وہ دستر خوان پر سے سیر ہو کر اٹھے.جب میں باہر سے فارغ ہو کر گھر آیا تو میں نے امّ طاہر سے کہا کہ آج تم کو تو کھانا نہیںملا ہوگا.انہوں نے کہا ملا کیوں نہیں.میں نے بھی کھا لیا ہے اور کچھ کھانا بچ بھی گیا ہے اب اس میں کچھ باورچی کا بھی کمال ہوگا مگر کچھ خدا تعالیٰ کا بھی فضل تھا کہ ستر آدمی دو چوزوں پر بیٹھ گئے اور سیر ہو کر اٹھے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں کئی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک اس میں اخفاء کا بھی پہلو ہوتا ہے جیسے میں نے اپنے متعلق ہی بتایا ہے کہ حساب کرنے بیٹھوں تو دماغ پریشان ہو جاتا
ہے اور طبیعت سخت کوفت محسوس کرتی ہے لیکن حساب نہ کروں تو سب کام خود بخود ہو جاتے ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے سلوک کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی حدیثوں میں اسی قسم کے کئی واقعات آتے ہیں.پھر متی باب ۲۶ آیت ۲۶ تا ۲۸ میں بھی یہی لکھا ہے کہ ’’ ان کے کھاتے وقت یسوع نے روٹی لی اور برکت مانگ کے توڑی پھر شاگردوں کو دے کر کہا لو کھائو یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور انہیں دے کر کہا تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا لہو ہے یعنی نئے عہد کا لہو جو بہتوں کے گناہوں کی معافی کے لئے بہایا جاتا.‘‘ یہاں بھی یہی ذکر ہے کہ مسیح نے برکت مانگ کر روٹی توڑی اور شاگردوں سے کہا کہ کھائو یہ میرا بدن ہے اور پانی دے کر کہا کہ پیئو یہ میرا خون ہے عیسائیوں میں عشاء ربانی کی جو عبادت پائی جاتی ہے اس کی بنیاداسی واقعہ پر ہے.اسی طرح لوقا باب ۱ آیت ۴۱.۴۲ میں لکھا ہے کہ جب مریم حاملہ ہوئیں اور یحییٰ کی ماں سے ملنےکے لئے گئیں تو اس نے حضرت مریم سے کہا کہ ’’ تو عورتوں میں مبارک ہےاور تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہے.‘‘ گویا اس جگہ وہی مضمون ہے جو جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.پھر لوقاباب ۱۱ آیت ۲۷.۲۸ میں لکھا ہے.’’جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ بھیڑ میں سے ایک عورت نے پکار کر اس سے کہا مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو رہا اور وہ چھا تیاں جو تو نے چوسیں اس نے کہا ہاں مگر زیادہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اسے مانتے ہیں.‘‘ غرض جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا کے ثبوت میں انسانوں کی شہادتیں بھی انجیل میں موجود ہیں.اور خدا تعالیٰ کی شہادتیں بھی انجیل میں موجود ہیں.پانچویں بات قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے کہا وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ خد اتعالیٰ نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے یہ بھی انسان ہی کی صفت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کو کوئی حکم دینے والا نہیں ہوتا اور پھر اس کے لئے نماز کا بھی کوئی سوال نہیں.اس کے لئے دیکھو لوقاباب ۹ آیت ۱۸ جہاں لکھا ہے.
’’جب وہ تنہائی میں دعا کر رہا تھا اور شاگر د اس کے پاس تھے تو ایسا ہوا کہ اس نے ان سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں.‘‘ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح دعائیں کرنے کا عادی تھا اور دعائیں بھی وہ زیادہ تر اپنی ترقی اور دعویٰ کی کامیابی کے لئے کرتا تھا کیونکہ اس کا یہ کہنا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں بتاتا ہے کہ اس کے دماغ پر یہ امر حاوی تھا کہ لوگوں کے متعلق اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آیا وہ اسے سچاسمجھتے ہیں یا جھوٹا سمجھتے ہیں.یہ فقرہ بتاتا ہے کہ وہ دعا اپنے سلسلہ کی ترقی اور دعویٰ کی کامیابی کے لئے کرتا تھا.پھر لوقاباب ۱۱ آیت ۱ تا ۴ میں لکھا ہے.’’اور ایسا ہوا کہ وہ ایک جگہ دعا مانگتا تھا جب مانگ چکا ایک نے اس کے شاگردوں میں سے اس کو کہا اے خداوند ہم کو دعا مانگنا سکھاجیسا کہ یوحنا نے اپنے شاگردوں کو سکھایا اس نے ان سے کہا جب تم دعا مانگو تو کہو اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے.تیرے نام کی تقدیس ہو تیری بادشاہت آوے تیری مراد جیسی آسمان پر، زمین پر بھی آوے.ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے اور ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ ہم بھی ہر ایک کو جو ہمارا قرض دار ہے بخشتے ہیں.اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ ہم کو برائی سے چھڑا.‘‘ یہاں سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ دعا کا عادی تھا یہ الفاظ کہ ’’ایسا ہوا کہ وہ ایک جگہ دعا مانگتا تھا‘‘ بتاتے ہیں کہ خلوت میں کوئی جگہ ہوگی جہاں حضرت مسیح دعا مانگتے ہوں گے.ان کے ساتھیوں پر بھی اس دعا اور گریہ وزاری کا اثر ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی بتائیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا کریں.اس پر حضرت مسیح نے ان کو یہ دعا سکھلائی.یہ دعا عیسائیوں کی سورۂ فاتحہ ہے لیکن غور کر کے دیکھو قرآن کریم کی سورۂ فاتحہ میں اور انجیل کی اس دعا میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ شروع ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے.بسم ا للہ الرحمن الرحیم میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت مانگتے ہوئے جو بے مانگے دینے والا اور ہمارے کاموں کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرنے والا ہے اس کے حضور یہ دعا کرتا ہوں.گویا سورۃ فاتحہ جو دعا ہے اس کی قبولیت کےلئے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھلائی ہے یعنی پیشتر اس کے کہ وہ دعا مانگی جائے اس دعا کو صحت نیت کے ساتھ مانگنے کے لئے اور ان سامانوں کے حصول کےلئے جن سے کام لے کر دنیا میں ترقی حاصل ہوتی ہے.اورجو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور اسی طرح ان پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طور پر کام لینے کےلئے اور ان کے اعلیٰ درجہ کے نتائج کے
حصول کےلئے جو انسان کو مزید انعامات کا مستحق بنا دیتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو جوش میں لاتا ہے جن کا دعا کی قبولیت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے.یہ کسی کامل دعا ہے کہ ابھی دعا شروع بھی نہیں کی گئی کہ اس کی قبولیت کےلئے اور اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی استعانت طلب کی جاتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر التجاء کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مدد انسان کے شامل حال رکھے اور اس کے لئے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے اور نہ صرف سامان مہیا فرمائے بلکہ ان کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج بھی پیدا فرمائے.پھر وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ گویا وہ خدا تعالیٰ کی چار صفات بیان کرتا ہے اور یہ چاروں اصولی صفات ہیں جن کے اردگرد باقی تمام صفات چکر کھاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں مسیح کہتا ہے.’’اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.‘‘ گویا وہ محض اس کو قدوس کہتا ہے حالانکہ قدوس ان صفات میں سے ایک صفت ہے جو اس کے گرد چکر کھا رہی ہیں.پھر سورۂ فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کا اسم ذات بیان کیا گیا ہے مگر مسیح کہتا ہے ’’ اے ہمارے باپ‘‘حالانکہ باپ کا لفظ اس کی صرف ایک صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی یہ لفظ صرف اتنا بتاتا ہے کہ اس کے اندر باپ کی سی شفقت اور رحم پایا جاتا ہے حالانکہ صرف باپ ہی رحم کرنے والا نہیں ہوتا ماں بھی رحم کرنے والی ہوتی ہے بھائی بھی رحم کرنے والا ہوتا ہے.استاد بھی رحم کرنے والا ہوتا ہے.بادشاہ بھی رحم کرنے والا ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں محبت اور احسان کے ساتھ پیش آتے ہیں.لیکن قرآن کریم نے ان ساری صفات کو جمع کر کے اس کا اسم ذات بیان کیا.یعنی اللہ جس میں ساری صفات جمع ہیں.بے شک باپ بھی مہربان ہوتا ہے مگر وہ اللہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ میں باپ والی محبت بھی شامل ہے ، ماں والی محبت بھی شامل ہے، بیٹے والی محبت بھی شامل ہے.بھائی والی محبت بھی شامل ہے.استاد والی محبت بھی شامل ہے، محلہ کی پنچایت والی محبت بھی شامل ہے، بادشاہ والی محبت بھی شامل ہے لیکن باپ میں ان محبتوں سے کوئی محبت بھی شامل نہیں ہوتی.پس قرآنی دعا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ اس دعا میں خدا تعالیٰ کے اسم ذات کو پیش کرتا ہے جس میں تمام قسم کے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں.اس کے بعد اس نے صفات کی تقسیم شروع کی اور کہا کہ وہ رب ہے ، رحمٰن ہے، رحیم ہے ،مالک یوم الدین ہے لیکن انجیل نے صرف اتنا کہا کہ ’’تیرے نام کی تقدیس ہو‘‘
حالانکہ تقدیس جھوٹی بھی ہو سکتی ہے اور سچی بھی.بتوں کو لوگ قدوس کہتے ہیں لیکن وہ مقدس نہیں ہو جاتے.پھر انجیل نے یہ بھی نہیں کہا کہ تو مقدس ہے بلکہ کہا ہے کہ ’’’تیرے نام کی تقدیس ہو‘‘ یعنی لوگ تجھے مقدس کہا کریں حالانکہ مقدس کہنے والے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں اور سچے بھی ہو سکتے ہیں.پھر لکھا ہے’’تیری بادشاہت آوے‘‘ مگر قرآن کہتا ہے کہ وہ مالک یوم الدین ہے اس کی بادشاہت نے آنا کیا ہے وہ تو ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے پھر وہ تو یہ کہتا ہے کہ’’ تیری بادشاہت آوے‘‘ اور قرآن کہتا ہے کہ خالی بادشاہت کچھ چیز نہیں بادشاہتیںقائم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں تیری بادشاہت وہ ہے جو انجام تک ممتد ہوتی اور پھیلتی چلی جاتی ہے گویا خدا تعالیٰ کو وہ بادشاہت حاصل ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں جس کی طرف مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِمیں اشارہ کیا گیا ہے.پھر انجیل کہتی ہے کہ ’’تیری مراد جیسی آسمان پر زمین پر بھی آوے‘‘ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی شان کے بالکل خلاف ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو دوسروں کی مرادیں پوری کرنے والا ہے مگر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین پر بھی تیری مرادیں پوری ہوں گویا جس طرح فقیروں کو خیرات ڈال دی جائے تو وہ خوش ہو کر کہتے ہیں کہ اللہ تیری مرادیں پوری کرے اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی دعا دی گئی ہے کہ تیری مرادیں پوری ہوں.حالانکہ خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ تیری مراد یں پوری ہو جائیں اس سے زیادہ ہتک آمیز بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی.اس کے بعد قرآن کریم نے ایک فقرہ استعمال کیا ہے جس کا انجیل میں ذکر تک نہیں.قرآن کریم نے صفات الٰہیہ کے بعد انسان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں گویا ان الفاظ میں انسان خدائی طاقتوں کا اقرار اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے لیکن انجیل نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا.پھر قرآن کریم نے کہا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی اے خدا دنیا کے بھی کام ہیں اور دین کے بھی کام ہیں.زمین کے بھی کام ہیں اور آسمان کے بھی کام ہیں.اگر میں باپ ہوں تو مجھ پر باپ کی ذمہ واریاں ہیں.ماں ہوں تو مجھ پر ماں کی ذمہ و اریاں ہیں.خاوند ہوں تو مجھ پر خاوند ہونے کی ذمہ واریاں ہیں.بیوی ہوں تو مجھ پر بیوی ہونے کی ذمہ وایاں ہیں.سپاہی ہوں تو مجھ پر سپاہی ہونے کی ذمہ واریاں
ہیں.کرنیل ہوں تو مجھ پر کرنیل ہونے کی ذمہ واریاں ہیں.جرنیل ہوں تو مجھ پر جرنیل ہونے کی ذمہ واریاں ہیں.بادشاہ ہوں تو مجھ پر بادشاہ ہونے کی ذمہ واریاں ہیں.فلاسفر ہوں تو مجھ پر فلاسفرہونے کی ذمہ واریاں ہیں صناع ہوں تو مجھ پر صناع ہونے کی ذمہ واریاں ہیں.غرض مجھ پر کئی قسم کی ذمہ واریاں ہیں تو میرے ہر کام میں کامیابی کا قریب ترین راستہ مجھے دکھا.مگر مسیح کہتا ہے کہ ’’ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے‘‘ گویا جس طرح کھانا کھاتے وقت بلی پاس آ بیٹھتی ہے یا طوطا اور کوّا آ بیٹھتا ہے اور روٹی کا ایک ٹکڑہ اٹھا کر ہم اسے بھی ڈال دیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی گئی ہے کہ ’’ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے‘‘ پھر کہا گیا ہے کہ ’’ ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ ہم بھی ہر ایک کو جو ہمارا قرضدار ہے بخشتے ہیں ‘‘ لیکن قرآن کریم نے سورئہ فاتحہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کہہ کر بتایا ہے کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں.ایک گناہ POSITIVEہوتا ہے اور ایک گناہNEGATIVE ہوتا ہے یعنی ایک گناہ مثبت ہوتا ہے اور ایک گناہ منفی ہوتا ہے.بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو نواہی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو نیکیوں کے نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.انجیل کی دعا میں صرف POSITIVEگناہوں کا ذکر ہے.NEGATIVE گناہوں کا ذکر نہیں.یعنی یہ تو دعا کی گئی ہے کہ جو گناہ ہم کر بیٹھے ہیں وہ ہمیں بخش دے لیکن اس امر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ جو نیکیاں ہم نے نہیں کیں ان کے بدنتائج سے ہمیں محفوظ رکھ.اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ میںPOSITIVEگناہوں کا ذکر کیا ہے.اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ میں NEGATIVE گناہوں کا ذکر کیا ہے یعنی جو نیکیاں ہمیں کرنی چاہیے تھیں لیکن ہم نے نہیں کیں ان کے بدنتائج سے بھی ہمیں بچا.اور اسی طرح ہم کو اس بات سے بھی بچا کہ جو کام کرنے والے ہیں وہ ہم نہ کریں اور نیکی کے رستہ سے بہک جائیں.آخر میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہمیں آزمائش میںنہ ڈال بلکہ ہم کو برائی سے چھڑا.‘‘ یہ فقرہ اس پہلے فقرہ کا ہی نتیجہ ہے کہ ’’ ہمارے گناہوں کو بخش ‘‘ اس میں کوئی زائد بات نہیں بیان کی گئی لیکن قرآن کریم نے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کیونکہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کے ماتحت جب ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھایا جائے گا جو منعم علیہ گروہ میں شامل تھے تو ہم آزمائش میں پڑیں گے ہی نہیں.
بہرحال اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح دعا مانگا کرتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ قرآنی دعا اور مسیح ؑ کی دعا میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اسی طرح لوقا باب ۵ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’ پروہ بیابان میں الگ جا کے رہا اور دعا مانگتا تھا‘‘ یعنی وہ ایک دفعہ جنگل میں جا کے رہا تاکہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے.یہ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ کی صداقت کا کیسا واضح اور کھلا ثبوت ہے اَوْصَاہُ بِکَذَ اکے معنے ہوتے ہیں عَھِدَ اِلَیْہِ یعنی مستقل طو پرکام کرنے کی تاکید کی.حکم محض ا س بات پر دلالت کرتا ہے.کہ ہم فلاں بات کا تقاضا کرتے ہیں اور وصیت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ہم مستقل طور پر زور سے اس کام کو جاری رکھنے کی تاکید کرتے ہیں.پس اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ کے یہ معنے ہیں کہ اس نے مجھے دعائیںکرنے کی بڑے زور سے تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ تم ہمیشہ دعائیں کرتے رہو.اور جو حوالے میں نے بتائے ہیں ان سے یہی امر ظاہر ہوتا ہےکہ مسیح مستقل طور پر دعائیں کرنے کا عادی تھا.پھر لوقا باب ۲۲ آیت ۳۲ میں آتا ہے ’’لیکن میں نے تیرے لئے دعا مانگی کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے.‘‘ یہاں بھی دعا کا ذکر ہے.اسی طرح لوقا باب ۲۲ آیت ۴۱ میں ہے ’’ اور اس نے ان سے تیر کے ایک ٹپے پر بڑھ کے گھٹنے ٹیک کر دعامانگی.‘‘ یعنی اتنی دور جتنے فاصلہ پر تیر گرتا ہے گویا اندازاً سو ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلہ پر تشہد کی طرح گھٹنے ٹیک کر اس نے دعا کی.پھر اسی باب کی آیت ۴۴ میں لکھا ہے ’’اور وہ جان کنی میں پھنس کے بہت گڑ گڑا کے دعا مانگتا تھا اور اس کا پسینہ لہو کی بوند کی مانند ہو کر زمین پر گرتا تھا.‘‘ یعنی حضرت مسیح اس طرح گڑگڑا گڑ گڑا کر دعا مانگ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا ان کے پسینہ کی جگہ خون بہہ رہا تھا.اسی طرح آیت ۴۵،۴۶ میں لکھا ہے
’’اور دعا سے اٹھ کر اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور انہیں غم سے سوتا پایا.‘‘ اپنی تعریف بھی کتنی کرتے ہیں کہ دعا کی نہیں اور غفلت کی حالت میں سو گئے.لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ انہیں اتنا غم پہنچا کہ وہ سو گئے.حضرت مسیح ؑ پھر ان کے پاس آئے اور کہا کہ ’’تم کیوں سوتے ہو اٹھ کر دعامانگو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو.‘‘ دوسری چیز زکوٰۃ ہے.زکوٰۃ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ انہیں دیتا ہے وہ آگے لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں.پس نبیوں کا زکوٰۃ دینا درحقیقت ان کا اپنے مریدوںکو اس کی تلقین کرنا ہوتا ہے.متی باب ۲۲ میں آتا ہے کہ فریسی حضرت مسیح ؑ کے پا س آئے اور آ کر کہا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آیا قیصر کو ہم اس کا ٹیکس ادا کریں یا نہ کریں.ان کی غرض یہ تھی کہ اگر یہ جواب دیں گے کہ ادا کرو تو ہم قوم کو اکسائیں گے اور کہیں گے کہ یہ حکومت کا خوشامدی ہے یہ لوگوں کو تعلیم دیتا ہے کہ قیصر کو جزیہ اداکرناچاہیے اور اگر یہ جواب دیں گے کہ نہ دو تو ہم شور مچا دیں گے کہ یہ حکومت کا باغی ہے.یہ وہی مولویوں والی چال تھی جو آج کل ہمارے خلاف چلی جاتی ہے.حضرت مسیح ؑ نے ان کی اس شرارت کو بھانپ لیا.چنانچہ لکھا ہے ’’یسوع نے ان کی شرارت سمجھ کے کہا اے ریاکارو مجھے کیوں آزماتے ہو.جزیہ کا سکہ مجھے دکھلائو.وے ایک دینا ر اس پاس لائے.تب اس نے ان سے کہا یہ صورت اور سکہ کس کا ہے.انہوں نے کہا قیصر کا پھر اس نے کہا پس جوچیزیں قیصر کی ہیں قیصرکو اور جو خدا کی ہیں خدا کودو.انہوں نے یہ سن کر تعجب کیا اور اسے چھوڑ کر چلے گئے.‘‘ (متی باب۲۲آیت ۱۸ تا ۲۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے اموال میں سے خدا تعالیٰ کا حصہ دینے کا قانون تسلیم کیا ہے اور یہی چیز ہے جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے.پھر متی باب ۱۵میں لکھا ہے ’’تب یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنے پاس بلا کے کہا کہ مجھے اس جماعت پر رحم آتا ہے کہ تین دن میرے ساتھ رہی اور ان کے پاس کچھ کھانے کو نہیں.اور میں نہیں چاہتا کہ انہیں فاقہ سے رخصت کروں ایسا نہ ہو کہ راہ میں کہیں ناطاقت ہو جائیں.اس کے شاگردوں نے اس سے کہا کہ اس ویرانہ میں ہم اتنی روٹیاں کہاں سے پاویں کہ ایسی جماعت کو آسودہ کریں.تب یسوع نے انہیں
کہاکہ تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں وے بولے سات اور کئی ایک چھوٹی مچھلی.تب اس نے جماعتوں کو حکم کیا کہ زمین پر بیٹھ جاویں.پھر ان سات روٹیوں اور مچھلیوں کو لے کر شکر کیا اور توڑ کر اپنے شاگردوں کو دیا اور شاگردوں نے لوگوں کو.اور سب کھا کے آسودہ ہوئے اور ٹکڑوں سے جو بچ رہے تھے انہوں نے سات ٹوکریاں بھر کر اٹھائیں اور کھانے والے سوا عورتوں اور لڑکوں کے چارہزار مرد تھے اور جماعتوں کو رخصت کرکے کشتی پر چڑھا اور مگدلا کی اطراف میں آیا.‘‘ (انجیل متی باب۱۵ آیت ۳۲ تا ۳۹ ) بائبل کے بیان میں ہمیشہ مبالغہ ہوتا ہے ممکن ہے چار پانچ ہی آدمی ہوں جنہیں چار ہزار کہہ دیا گیا ہو جیسے سکھوں کی عادت ہے کہ ایک آدمی بھی آ جائے اور وہ دروازہ کھٹکھٹائے.تو اندر والا پوچھتا ہے.باہر کون ہے؟ اس پرباہر والا جواب دیتا ہے’’فوجاں‘‘ وہ پوچھتا ہے کتنی؟ وہ جواب دیتا ہے سوا لاکھ.جس طرح سکھ ایک آدمی کو سوا لاکھ کہہ دیتے ہیں.اسی طرح بائبل کے لکھنے والے بھی تعداد میں خوب مبالغہ کرتے ہیں.موسیٰ کی قوم کی تعداد بتائی گئی ہے تو اس میں اتنا مبالغہ کیا گیا ہے کہ کوئی حد ہی نہیں.حالانکہ وہ کوئی بڑی قوم نہیں تھی.اسی طرح اس واقعہ میں بھی خوب مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے.مگر بہرحال ا س سے ظاہر ہے کہ بھوکوں کو روٹی کھلانے کا جذبہ اس کے اندر موجود تھا اور وہ غریبوں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا.یہی واقعہ دوسری جگہوں میں بھی آتا ہے.پھر حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے.اس کا ذکر لوقا باب ۲ آیت ۵۱ میں آتا ہے جہاں لکھا ہے.’’اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوکر ناصرؔت میں آیا اور ان کے تابع رہا اور اس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں.‘‘ یعنی مسیح اپنی ماںکی اطاعت کرتا تھا.لیکن جہاں لوقا نے یہ لکھا ہے کہ وہ اپنی ماں کا تابع رہا وہاں باقی سب انجیل نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ عملاً اپنی ماں کے احکام کو توڑتا رہا.کسی جگہ اس نے سختی سے اپنی ماں کو ڈانٹا کسی جگہ یہ کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو.کسی جگہ یہ کہا کہ تم چلے جائو میں تمہارے پیچھے آنے کے لئے تیار نہیں.لیکن قرآن ہر جگہ یہی بتاتا ہے کہ وہ اپنی ماں کا فرمانبردار تھا اور اس نے ہمیشہ اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا.پھر فرماتا ہے وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا اس نے مجھے جبار اور شقی نہیں بنایا.جبار کا لفظ اضداد میں سے ہے.یعنی اس کے ایک معنے ٹوٹے ہوئے کی اصلاح کرنے والے کے ہیں اور اس کے ایک معنے دوسرے کا حق مار کر اور
اس کو ذلیل کرکے اپنے آپ کو اونچا کرنے والے کے ہیں.گویا ایک شخص تو ایسا ہوتا ہے جو جائزطور پر بڑائی حاصل کرکے بڑا بنتا ہے اور ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دوسرے کو گرا کر اور اس کا حق مار کراس کے اوپر چڑھتا ہے.پس جبار کے ایک معنے ہیں دوسرے کو گرا کر اور سے ذلیل کرکے اپنی بڑائی اور بلندی چاہنے والا.اور اس کے دوسرے معنے ہیںٹوٹے ہوئے کی اصلاح کرنے والا.جبار کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ٹوٹے کام بنانے والا اور جب انسانوں کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں دوسروں کو گرا کر اپنی ترقی چاہنے والا.گویا جبار کا لفظ ایسا ہے جس کے مقابلہ میںنرم دل اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کے الفاظ آئیں گے.پس جب حضرت مسیح نے کہا کہ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا تو اس کے معنے یہ تھے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے جو اخلاق بخشے ہیں ان کے لحاظ سے اس نے مجھے جبار نہیں بنایا یعنی اس نے مجھے نرم دل اور لوگوں کے ساتھ محبت کرنے والا وجود بنایا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل اس بارہ میں کیا کہتی ہیں.اس کے لئے متی باب ۱۱ آیت ۲۹ میں ہمیں حضرت مسیح ؑ کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ ’’میرا جؤا اپنے اوپر لے لواور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں تو تم اپنے جیوں میں آرام پائو گے کیونکہ میرا جؤا ملائم اور میرا بوجھ ہلکا ہے.‘‘ اس حوالہ میں وہ اپنے آپ کو دل کا حلیم اور خاکسار کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں لوگوں پر ظلم نہیں کرتا.ان کا حق نہیں چھینتا.بلکہ اگر کوئی حکم بھی دیتا ہوں تو اس لئے کہ لوگوں کا فائدہ ہو.محض اپنی حکومت جتانے کے لئے میں کوئی حکم نہیں دیتا.اسی طرح متی باب ۲۱آیت ۵ میں آتا ہے ’’صیہوں کی بیٹی سے کہو.دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہ پر سوار ہو کے تجھ پاس آتا ہے.‘‘ ا س حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کوفروتن کہتا ہے یعنی بجائے اس کے کہ لوگوں کو گرا کر اور ان کو کمزور کرکے وہ اپنی برتری کی کوشش کرتا وہ اپنے آپ کو لوگوں کا خادم بتاتا ہے لیکن اس کے اظہار کے لئے وہ صورت نہایت مضحکہ خیز استعمال کرتا ہے.یعنی کسی غیر شخص کی گدھی کے بچہ پر سوار ہو کر شہر میں آتا ہے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے.’’اور جب وہ یروشلم کے نزدیک پہنچے اورزیتون کے پہاڑ پربیت فگے کے پاس آئے تو یسوع
نے دو شاگردوں کو یہ کہہ کربھیجا کہ اپنے سامنے کے گائوں میں جائو.وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئی اور اس کے ساتھ بچہ پائو گے انہیں کھو ل کر میرے پا س لے آئو.اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خدا وند کو ان کی ضرورت ہے.‘‘ (انجیل متی باب ۲۱ آیت ۱ تا ۳) جبار کے ساتھ دوسرا لفظ شقی استعمال کیا گیا ہے شقی عربی زبان کا لفظ ہے جو سعادت کے مقابل میںاستعمال ہوتا ہے.بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معانی اپنی ذات میں بیان ہو سکتے ہیں لیکن بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معنے صرف نسبت سے سمجھے جا سکتے ہیں.عربی زبان میں شقی اور سعید بھی ایسے ہی الفاظ ہیں جن کے معانی نسبت سے سمجھے جاتے ہیں ورنہ یوں لغت میں دیکھو کہ سعید کے کیا معنے ہیں تو وہاں لکھا ہو گا اَلسَّعِیْدُ مَنْ لَّمْ یَکُنْ شَقِیًّا.سعید وہ ہے جو شقی نہ ہو اور شقی کے معنے دیکھیں تو لکھا ہو گا الشَّقِیُّی مَنْ لَمْ یَکُنْ سَعِیْدًا.شقی وہ ہے جو سعید نہ ہو.پس یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور لغت دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ میں ان کے معنے کہاں سے نکالوں.مگر جب وہ لغت کی وضع کی طرف جاتا ہے تو اس پر اس لفظ کے معنے کھل جاتے ہیں.درحقیقت سعید کے معنے ہوتے ہیں وہ شخص جو کسی دوسرے کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کر لے.اور یہ لفظ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں بولا جاتا.کیونکہ سعیدکے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی دوسری طاقت کا میاب کروائے اور شقی وہ ہوتا ہے جس کی مدد سے کوئی دوسری طاقت انکار کر دے.پس شقی کے معنے ہوں گے جو شخص جائز مددگار اور جائز نصرت کرنے والے کی مدد سے محروم ہو اور اس کی تائید حاصل نہ کر سکے.اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۱۶ آیت ۳۳ جہاں حضرت مسیح فرماتے ہیں.’’میں نے تمہیں یہ باتیں کہیں تاکہ تم مجھ میں اطمینان پائو.تم دنیا میںمصیبت اٹھائو گے لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں نے دنیا کو جیتا ہے.‘‘ یعنی تم پر مصیبتیں آئیں گی اور لوگ تمہیں کچلنا چاہیں گے لیکن تم یقین رکھو کہ آخر مجھے فتح حاصل ہو گی.ہر نبی جو دنیا میں آیا اس نے لوگوں کے سامنے یہی دعویٰ کیا ہے کہ مجھے فتح حاصل ہو گی اور میرے مقابل میں کھڑے ہونے والے لوگ ناکام ہوں گے.مگر تعجب ہے آج ہم پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے یہ کیوںکہا کہ ہم فتح پائیں گے.حالانکہ اگر کوئی جھوٹے طور پر دعوےٰ کرے تو وہ بھی یہی کہا کرتا ہے کہ میں فتح پائوں گا اور جس کو خدا تعالیٰ کہے کہ میں تجھے کامیاب کروں گا وہ اگر یہ نہ کہے کہ میں کامیاب ہوں گا تو اور کیا کہے.مسیح بھی یہی کہتا ہے کہ ’’میں نے دنیا کو جیتا ہے.‘‘ اس کے یہی معنے ہیں کہ لَمْ یَجْعَلْنِیْ شَقِیًّا.میںشقی نہیں ہوں میں دنیا کو جیتنے
والا ہوں.اسی طرح لوقا باب ۱۰ آیت ۹ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے اپنے حواریوں سے کہاکہ جب تم تبلیغ کے لئے کسی شہر میں جائو تو’’وہاں کے بیماروں کو چنگا کرو اور ان سے کہو کہ خدا کی بادشاہت تمہارے نزدیک آئی.‘‘ یعنی تم تسلی رکھو کہ تم جلدی فتح پالو گے اور کامیابی تمہیں حاصل ہو جائے گی.غرض وہ ساری باتیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں انجیل میں بھی موجود ہیں.پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر مسیح ؑ کے منہ میں ڈال دی گئی ہیں یا تو ان کے جھوٹ پر اور یا پھر ان کی اپنی کتب سے ناواقفیت پردلالت کرتا ہے.وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کرکے حَيًّا۰۰۳۴ اٹھایا جائے گا (اس وقت بھی مجھ پر سلامتی نازل کی جائے گی) تفسیر.حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے یہی کہا ہے کہ وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا (مریم:۱۶) لیکن وہاں خود اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کے متعلق کہا ہے کہ جس دن وہ پیداہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی.جس دن مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کیاجائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی.اور یہاں حضرت مسیح نے اپنی زبان سے کہا ہےکہ وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا اس آیت سے دو نہایت غلط استدلال کئے جاتے ہیں.وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّسے تو یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے.کہ حضرت مسیح کو شیطان نےنہیں چھوا اور وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا سے یہ نتیجہ نکالاجاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑکو صلیب پر نہیں لٹکایا گیا(فتح البیان زیر آیت والسلام علی).حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر ا س سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے.کہ حضرت مسیح ؑ کو شیطان نے نہیں چھوا تو یہی الفاظ حضرت یحییٰ کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں ان کے متعلق یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ مس شیطان سے پاک تھے.حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان کی عصمت پر دلالت نہیں کرتے.بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیدائش سے ہی
اللہ تعالیٰ نے انہیں بابرکت بنایا ہے اور اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.موسیٰ ؑ اور دائود ؑ اور سلیمان ؑاور دوسرے ہزاروں ہزار انبیاء سب اپنی پیدائش کے وقت سے ہی بابرکت تھے.اور يَوْمَ اَمُوْتُ سے جو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح صلیب پر نہیں لٹکا یہ بھی درست نہیں.کیونکہ صلیب پر لٹکنا سلامتی کے خلاف نہیں بلکہ صلیب پر لٹک کر مر جانا سلامتی کے خلاف ہے.بائبل میں لکھا ہے کہ ’’جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے‘‘.(استثناء ب ۲۱ آیت۲۳) پس يَوْمَ اَمُوْتُ کے یہ معنے ہیں کہ میری موت ایسی نہیں ہو گی جس کو لعنتی کہا جا سکے بلکہ میری موت خدا تعالیٰ کی رضاء میں ہو گی اور میرا رفع خدا تعالیٰ کی طرف ہو گا.پس يَوْمَ اَمُوْتُ میں صلیب کی موت کی تو نفی پائی جاتی ہے مگر اس سے صلیب پر لٹکائے جانے کی نفی ثابت نہیں ہوتی.لیکن ا س سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ حضرت یحییٰ ؑ شہید نہیں ہوئے.کیونکہ دشمن کے ہاتھوں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونا سلامتی کے خلاف نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ حضرت یحییٰ ؑشہید نہیں ہوئے مگر جب آپ کے سامنے کثرت کےساتھ حو الجات پیش کئے گئے جن سے حضرت یحییٰ کی شہادت ثابت ہوتی تھی تو آپ نے اپنے اس عقیدہ سے رجوع فرما لیا آپ بھی شروع میںحضرت یحییٰ کی شہادت کے خلاف یہی دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے وَ السَّلٰمُ عَلَيْہِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ یَمُوْتُ وَ يَوْمَ یُبْعَثُ حَيًّا.حالانکہ موت سلامتی کے خلاف نہیں ہوتی خواہ وہ طبعی موت ہو یا تلوار کے ذریعہ ہو.اگر موت سلامتی کے خلاف ہوتی تب تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا لیکن جب موت سلامتی کے خلاف ہی نہیں توچاہے کسی کو بخار نے مار دیا ہو یا تلوار نے مار دیا ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے.لیکن صلیب پر لٹک کر مرنا یقیناً سلامتی کے خلاف ہے.اور حضرت یحییٰ کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے ان الفاظ سے ان کے قتل ہونے کا رد نہیں ہوتا.لیکن يَوْمَ اَمُوْتُ سے حضرت مسیح کے صلیب پر لٹک کر مارے جانے کی ضرورنفی ہوتی ہے.کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق وہ لعنتی موت تھی.اس آیت سے بظاہر تو مسیح کی بڑی عظمت معلوم ہوتی ہے.لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ مسیح انسان تھا خدا نہیں تھا.کیونکہوَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ دلالت کرتا ہے کہ سلامتی کہیں اور سے آئی ہے اور کسی پر نازل ہوئی ہے.سلامتی دینے والا کوئی اَور وجود ہے اور جس پر سلامتی نازل ہوئی ہے وہ اَور وجود ہے.خدا تعالیٰ کا ایک نام جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اَلسَّلَامُ بھی ہے.اب اگر ہم اس نام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام رکھیں گے تو عبدالسلام نام رکھیں گے یا کسی پر سلامتی پہنچانا چاہیں گے تو سَلَامٌ عَلَیْہِ یا
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہیں گے.لیکن اس کے کبھی یہ معنے نہیں ہوں گے کہ تم قتل نہیں کئے جائو گے یا صلیب پر نہیں لٹکائے جائو گے.اسی طرح ہم نمازوں میں بھی کہا کرتے ہیں کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ.لیکن ہم یہ کبھی نہیںکہیں گے کہ اَلسَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ سوائے اس کے کہ کبھی استعارہ کے طور پر کوئی شخص اس لفظ کا استعمال کر لے.مثلاً کوئی شخص خدا تعالیٰ کا تصور اپنے ذہن میں لائے اور اس کی محبت میں محو ہو کر ایک ربودگی کی کیفیت میں اسے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَکہہ دے.اگروہ ایسا کہے تو وہ محض ایک استعارہ ہو گا.اسے حقیقت پرمحمول نہیں کیا جائے گا.بہرحال جب ہم کسی کے متعلق سلامتی کا لفظ استعمال کریں گے تو یہی مراد لیں گے کہ وہ شخص انسان ہے اور سلامتی کا محتاج ہے.اور ہمارے ذہن میں اس وقت یہ مضمون بھی ہو گا کہ سلامتی دینےوالا صرف خدا ہے.وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ میں حضرت مسیح اپنی پیدائش اور موت دونوں وقتوں کے متعلق کہتے ہیں کہ مجھ پر سلامتی نازل کی گئی ہے ایک ایسی ہستی کی طرف سے جو سلام ہے وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا.اسی طرح جب میں زندہ کیا جاوںگا تو اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہو گی اُبْعَثُ حَيًّاکے الفاظ بھی بتاتے ہیںکہ سلامتی بخشنے والا کوئی اور وجود ہے اور سلامتی حاصل کرنے والا کوئی اور ہے.بظاہر تو اس آیت میں حضرت مسیح کی بڑی شان نظر آتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح کا مقام کتنا بلند تھا کہ ان کی پیدائش پر بھی اور موت پر بھی اور دوبارہ حیات پر بھی سلامتی نازل کی گئی ہے.لیکن درحقیقت اصل مفہوم اس آیت کا یہی ہے کہ مسیح انسان تھا، خدا نہیں تھا اور جبکہ یہ الفاظ مسیح کی انسانیت پر دلالت کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ وہ انسان تھا خدا نہیں تھا تو طبعی طورپر عیسائیوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوگا کہ ہمارے خدا کو انسان ثابت کرنے کے لئے جھوٹے کلمے اس کے منہ میں ڈال دئے گئے ہیں.پس چونکہ اس آیت سے بھی عیسائیوں کے لئے اعتراض کا موقع پیدا ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم انجیل کو دیکھیں اور غور کریں کہ وہ اس بارہ میں کیا کہتی ہے.يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے دو معنے ہوں گے.ایک ہمارے نقطہ نگاہ سے اور ایک عیسائیوں کے نقطہ نگاہ سے کیونکہ ہمارے اور ان کے نقطہ نگاہ میں بڑا بھاری فرق ہے.ہمارے نزدیک مسیح صلیب پر مرا نہیں بلکہ وہ صلیب پر لٹک کر کَالْمَیِّت ہوا.پس ہمارے نزدیک يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا سے مراد وہ وقت ہوگا جب مسیح ؑکو صلیب پر لٹکایا گیا اور اس پر ایک رنگ میںموت طاری ہوئی لیکن پھر وہ اس موت سے بچا لیا گیا.لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح صلیب پر سچ مچ مر گیاتھا اور تین دن کے بعد خدا نے اسے پھر زندہ کر دیا.پس عیسائی نقطہ نگاہ
سے يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا سے مراد وہ وقت ہو گا جب وہ صلیبی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا.ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک وہ بھی بعث ہے جب انسان اپنی حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا لیکن اس سلامتی کا ہم دوسرے کو کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے اور اُبْعَثُ حَيًّا کے جو معنے میں نے کئے ہیں اس کا ثبوت ہم ہر عیسائی کے سامنے پیش کر سکتے ہیں.کیونکہ انجیل سے ظاہر ہے کہ خدا نے اسے موت کی شکل سے نجات دی اور صلیب سے بچا لیا.اس کے مقابلہ میں عیسائیوں پر ان کے نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس طرح حجت تمام کر سکتے ہیںکہ تم خود مانتے ہو کہ مسیح مر گیا تھا اور پھر وہ زندہ ہوگیا.گویا اسے سلامتی حاصل ہوئی.لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ اگلے جہان میں مسیح پر سلامتی نازل ہو گی تو اس سلامتی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی حالانکہ وہ چیزیں جن کو دشمن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ان کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے پاس دلائل ہوں ورنہ دشمن ان کو مان نہیں سکتا.بے شک بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیںکہ ان کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی مگر وہ صرف ایسی ہی ہوتی ہیں جن کا عقائد کا ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.مثلاً اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے تو ایک غیر مومن کے لئے ہمارا اتنا ثابت کر دینا کافی ہے.آگے یہ کہ کیا کیا نعماء ہیں جو اسے جنت میں دی جائیں گی اور وہ نعمتیں کس شکل اورصورت میں ہوں گی.اس کے لئے ہمیں کسی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ صرف ہمارے ایمان میںشامل ہے.اس کا تعلق ان اعتقادات کے ساتھ نہیں جن کو دوسروں سے منوانے کے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص ہمارے پاس آئے اور کہے کہ ثابت کرو کہ جنت میں انسان جو کچھ خواہش کرے گا وہ پوری ہو جائے گی.تو ہم اسے کہیں گے کہ تمہارا یہ مطالبہ فضول ہے تمہارے ساتھ جو تعلق رکھنے والی چیز ہے وہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ ہو جاتا ہے.باقی یہ کہ زندہ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا.یہ ان باتوں میں سے نہیں جن کو ثابت کرنا ہمارے لئے ضروری ہو.بعض لوگوں نے ایسی باتوںکو ذوقیات قرار دیا ہے اور بعض نے انہیں ایمانیات کا حصہ قرار دیا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر خوش ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگلے جہان میں ان کے لئے بڑی بڑی نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں.بہرحال ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم دلیل دے کر اپنے دشمن سے بھی ان باتوں کو منوانے کی کوشش کریں لیکن اس جگہ ایک دعویٰ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مسیح ؑ کی ولادت پر بھی اس کے لئے سلامتی نازل ہوئی اور بعدمیں بھی وہ ہمیشہ سلامتی کا مورد رہا.پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس اس سلامتی کے دلائل
موجود ہوں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس سلامتی کا انجیل میں کہیں ذکر آتا ہے.اس کے لئے جب ہم انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی جب پیدائش ہوئی تو وہ گڈریے جو شہر سے باہر اپنے جانور چرایا کرتے تھے اور جن کے قریب ہی جنگل میں حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے تھے انہوں نے کشفی حالت میں دیکھاکہ فرشتے کہہ رہے ہیںکہ ’’ خدا کو آسمان پر تعریف اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں سے رضا مندی ہو وے‘‘ (انجیل لوقا بب ۲ آیت ۱۴) اس فقرہ میں تین باتیں کہی گئی ہیں اول خدا تعالیٰ کی آسمان پر تعریف ہو.دوم خدا تعالیٰ کی زمین پر سلامتی ہو.سوم خدا تعالیٰ کی آدمیوں سے رضا مند ی ہو.اس فقرہ کا پہلا حصہ تو ہے ہی خدا تعالیٰ کے متعلق کہ آسمان پر اس کی تعریف ہو.اس لئےاس حصہ کے متعلق تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دوسرا حصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی زمین پر سلامتی ہو یہ فقرہ خدا تعالیٰ کے متعلق کسی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ خود سلامتی والا ہے اور اس کے لئے ہر جگہ سلامتی ہے اس کے سلامت نہ رہنے کے متعلق کوئی خطرہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ یہ دعا مانگی جائے کہ اسے زمین پر سلامتی ہو.زمین پر سلامتی کے محتاج انسان ہوا کرتے ہیں اور انہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی عطا کی جاتی ہے.تیسرا حصہ یہ ہے کہ اسے آدمیوں سے رضا مندی ہو.یہ فقرہ تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلیں اور انہیں اس کی رضا حاصل ہو.بہرحال پہلے حصہ میں خدا تعالیٰ کا ذکر آ گیا کہ اس کے لئے آسمان پر تعریف ہو.تیسرے حصہ میں تمام بنی نوع انسان کا ذکر آ گیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو.اب رہ گیا دوسرا حصہ جو زمین پر سلامتی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے سو ظاہر ہے کہ جب یہ کشف مسیح کی پیدائش پر دکھایا گیا تو لازماً ’’زمین پر سلامتی‘‘ کے الفاظ بھی حضرت مسیح ؑ کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو آسمان پر تو سلامتی حاصل ہے لیکن زمین پر سلامتی حاصل نہیںحالانکہ خدا تعالیٰ کی سلامتی کو نہ پہلے کبھی کوئی خطرہ پیدا ہو ا ہے اور نہ آئندہ پیدا ہو سکتا ہے.پس ’’زمین پر سلامتی‘‘ کے الفاظ کا یہی مفہوم ہے کہ مسیح کی پیدائش سلامتی کا موجب ہے گویا انجیل نے بھی بتا دیا کہ مسیح کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے سلامتی نازل کی گئی تھی.پھر یوحنا ۱۶ آیت ۳۲ میں حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں
انہوں نے یہ بھی نہیںکہا کہ میں بالقوّہ سلامتی رکھتا ہوں بلکہ کہا کہ خدا میرے ساتھ ہے.پس معلوم ہوا کہ وہ انسان تھے خدانہیں تھے.اس جگہ ایک اور امر بھی یاد رکھنے والا ہے اور وہ یہ کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے ساتھ تو اس لئے ملایا تھا کہ یہ بتاتا کہ حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ارہاص کے طور پر آ ئے تھے مگر آگےان دونوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ بھی آپس میں اتنی ملتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں وجود ایک ہی جوہر کے دوٹکڑے تھے مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا.ا س کے مقابلہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے يٰيَحْيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَيْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا گویا وہاں بھی نبوت اور جوان عمر میں نبوۃ اور کتاب ملنے کا ذکر ہے اور یہاں بھی نبوت اور کتاب ملنے کا ذکر ہے.پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے وَ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا اور حضرت یحییٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِيًّا.پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ بَرًّۢا بِوَالِدَيْهِ وَ لَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا.اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا اور حضرت یحیٰی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.یہ تمام الفاظ آپس میں بہت ہی مشابہ ہیں اور معانی کے لحاظ سے بھی ان میں اشتراک پایا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح کے متعلق کہا گیا ہے وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ اور اَوْصَاہُ بِکَذَا اور وَصَّاہُ بِکَذَا کے معنے ہوتے ہیںعَھِدَ اِلَیْہ یعنی اس کے متعلق اس کوپختہ وصیت کی.ایسی وصیت جو عہد کی حد تک جا پہنچتی ہے اور ادھر حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق کیا گیا ہے کہ خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ.یہ الفاظ بھی زور اور شدت پر دلالت کرتے ہیں.پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ لَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کہا گیا کہ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا.یعنی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ جبار نہ تھے اور نہ گنہگار.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان کو خدا نے جبار نہیں بنایا اور ناکام نہیں بنایا.گویا اس جگہ حضرت یحییٰ کی ذاتی خوبیوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے.کیونکہ گنہگار نہ ہونا یہ ذاتی خوبی پر دلالت کرتا ہے اور لَمْ يَجْعَلْنِيْ
َبَّارًا شَقِيًّا میںشقی نہ ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور شقی نہ ہونا ایک قومی خوبی ہے کسی روحانی لیڈر اور نبی کی کامیابی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی جماعت دنیا پر غالب آ جائے اور پھیل جائے پس مسیح کی قومی خوبی بیان کی گئی ہے اور یحییٰ کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے.اس میں درحقیقت حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ ان کی قوم بحیثیت قوم دنیا میں باقی نہیں رہے گی اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ بتایا تھا کہ ان پر ایمان لانے والے لوگ بحیثیت جماعت دنیا میں قائم رہیں گے.اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام درمیانی نبیوں میں سے ایک نبی ہے جن کی حیثیت ایک مجدد کی سی تھی.لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کی آخری کڑی تھے اور خدائی سنت یہ ہے کہ سلسلہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے نام اور کام اور سلسلہ کو باقی رکھا جاتا ہے لیکن درمیان میں آنے والے لوگوں کے کام بانی سلسلہ کے کام میں مدغم ہو جاتے ہیں اور ان کی کوئی علیحدہ حیثیت باقی نہیں رہتی.حضرت دائود علیہ السلام ایک بڑے نبی تھے لیکن ان کا کام موسیٰ کے کام میں مدغم ہو گیا.حضرت یسعیاہ ؑ ایک بڑے نبی تھے.یرمیا ہ ؑ ایک بڑے نبی تھے.حزقیل ؑ ایک بڑے نبی تھے عزر ا ؑ ایک بڑے نبی تھے لیکن ان سب کے کام موسیٰ ؑ کے کام میں مدغم ہو گئے.مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کام کو ایک علیحدہ حیثیت دی گئی.کیونکہ وہ سلسلہ موسویہ کی آخری کڑی تھے.یہی وجہ ہے کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی لکھتے ہیں کہ آنے والا مسیح ؑ قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے ایک اور چھوٹا سا جھنڈا لے کر کھڑا ہو گا(فتوحات مکیۃ السفر الثالث الباب الرابع والعشرون فی معرفة جاء ت من العلوم الکونیۃ).یعنی اس کا نام علیحدہ طور پر جماعتی لحاظ سے قائم رکھا جائے گا جبکہ باقی لوگوں کے کام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں مدغم کر دیا جائے گا گویا اس کی تصویرکو ایک چھوٹے پیمانہ میں الگ بھی دکھایا جائے گا یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری میںاتنی اعلیٰ شان حاصل کی ہے کہ اس کو ایک مخصوص حیثیت بھی حاصل ہے.حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان پر سلامتی ہو گی اور حضرت مسیح اپنے متعلق خود کہتے ہیں کہ مجھ پر سلامتی ہو گی.یہ دونوں قول ایک ایک رنگ میں ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہیں.حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اسے تو اس رنگ میں برتری حاصل ہے کہ خدا کہہ رہا ہے کہ ان پر سلامتی ہو گی اور خدا کاکہنا ایک بڑی بات ہے.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کو اس رنگ میں برتری حاصل ہے کہ آخر کسی کو اپنی سلامتی کا اسی طرح پتہ چل سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے خبر ملے کہ تو سلامت
رہے گا.پس گو زبان سے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے خدا نے کہا ہے کہ مجھ پر سلامتی ہو گی.لیکن بہرحال یہ امر ظاہر ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے ہی بتایا ہو گا تبھی انہوں نے لوگوں سے یہ بات کہی.مگر انہوںنے اس سلامتی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ان میں کُنْ فَیَکُوْنُ والی طاقت پائی جاتی تھی کہ میرے اوپر سلامتی ہو گی اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سلامتی سے محروم نہیں کر سکے گی.اس تقابل سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی سلامتی والی بتائی گئی ہے اور حضرت مسیح کی پیدائش بھی سلامتی والی بتائی گئی ہے.اب اگر اس کے صرف اتنے ہی معنے ہوں کہ یحییٰ بھی بچ جائیں گے اور مسیح بھی بچ جائے گا تو اس میں یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کی کوئی خاص خصوصیت نظر نہیں آتی اس طرح تو جتنے بچے زندہ رہتے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کی سلامتی کے نتیجہ میں ہی زندہ رہتے ہیں.درحقیقت ان الفاظ سے بتانا یہ مدنظر ہے کہ ان دونوں کی پیدائش اپنے ساتھ الٰہی نشان رکھنے والی ہو گی.گویا سلامتی یہ نہیں کہ ان کو جسمانی لحاظ سے سلامتی حاصل ہو گی اور یہ زندہ رہیں گے.وہ تو جو بچہ بھی زندہ رہتاہے خدا تعالیٰ کی سلامتی کی وجہ سے ہی زندہ رہتا ہے.ان دونوں کے متعلق خصوصیت سے یہ کہنا کہ ان کی پیدائش سلامتی والی ہو گی بتاتا تھا کہ ان کے ذریعہ دنیا پر سلامتی نازل ہو گی یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات لے کر آئیں گے کہ ان کی پیدائش دنیا کو کفر سے نجات دینے والی ہو گی، ان کی پیدائش دنیا کو بے ایمانی سے نجات دینے والی ہو گی.جو بھی یحییٰ کی معجزانہ پیدائش اور اس کے کارناموں کو دیکھے گا اور جو بھی عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش اور اس کے حیرت انگیز کاموں کا مشاہدہ کرے گا اور اس تغیر کو دیکھے گا جو انہوں نے دنیا میں پیدا کیا اور ان نشانات کودیکھے گا جو ان کے ذریعہ ظاہر ہوئے اس کا ایمان تازہ ہو گا.اس کا کفر دور ہو گا.اس کی بے ایمانی اس سے جاتی رہے گی شکوک و شبہات اور وساوس کی تاریکیاں دور ہو جائیں گی خدا کا نور اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو گا اوروہ سمجھے گا کہ ہمارا خدا بڑا قادر خدا ہے.پس ایک تو یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کی پیدائش کو خدا تعالیٰ نے سلامتی والا قرار دیا.پھر فرمایا کہ یحییٰ کی موت بھی سلامتی والی ہو گی اور مسیح ؑ کی موت بھی سلامتی والی ہو گی.اس کے یہ معنے نہیں کہ ان کی موت انسانی دخل سے پاک ہو گی جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس جگہ سلامتی کا لفظ آتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے.حالانکہ کوئی شخص شہادت حاصل کرے یا طبعی طور پر وفات پائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے.جب اس نے مرنا ہی ہے تو پھر وہ کسی طرح مر جائے بات ایک ہی ہو گی.یا تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ وہ موت سے محفوظ رہیں گے اور اگر انہوں نے موت سے ہی محفوظ رہنا تھا تو پھر اَمُوْتُ کا لفظ نہیں آنا
چاہیے تھا یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ ساری عمر موت سے محفوظ رہیں گے لیکن جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ اس کی موت کے وقت بھی سلامتی ہو گی تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ فنا ہونے کی نفی نہیں کر رہا اور جب اس نے فنا ہونے کی نفی نہیں کی تو پھر موت خواہ کسی آدمی کے ہاتھ سے ہو یا فرشتہ کے ہاتھ سے، بات ایک ہی ہے.پاس اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا.بہرحال کوئی ایسا مطلب ہونا چاہیے کہ موت کے باوجود یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو اور وہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جس مقصد کو لے کر وہ دنیا میں کھڑے ہوئے تھے اور جس مدعا کے حصول کے لئے ان کی دنیا میں بعثت ہوئی تھی اس مقصد اور مدعا کے راستہ میں ان کی موت حائل نہیں ہو گی.وہ مر جائیں گے مگر ان کا نام زندہ رہے گا.وہ مر جائیں گے مگر ان کا کام زندہ رہے گااور اس طرح ان کی موت بھی سلامتی والی موت ہو گی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر موت کے باوجود کسی شخص کا پیغام رکا نہیں.اگر موت نے اس کے کام کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ جاری ہو گیا ہے تو یقیناً اس کی موت سلامتی والی ہے اور اگر موت کے ساتھ ہی اس کا کام بھی فنا ہو گیا ہے اور اس کا نام بھی مٹ گیاہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ اس کی موت ہلاکت اور بربادی والی موت ہے.لیکن اگرموت کے بعد بھی کسی کا کام جاری رہے تو ہم اس کو مردہ نہیں کہہ سکتے.تاریخوں میں لکھا ہے کہ مامون نے اپنے دو بیٹوں کو فراء کے پاس جو ایک مشہورنحوی گزرے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بٹھایا.ایک دن فراء کسی کام کے لئے اٹھا تو دونوں شہزادے دوڑ پڑے تاکہ استاد کے سامنے اس کی جوتیاں سیدھی کرکے رکھیں مگر چونکہ دونوں اکٹھے پہنچے تھے اس لئے ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہو گیا.ایک کہتا تھا میں ان کے آگے جوتیاں رکھوں گا اور دوسرا کہتا تھا میں رکھوں گا.آخر دونوں نے ایک ایک جوتی اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دی.جب مامون کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے فراء سے کہا کہ مَاھَلَکَ مَنْ خَلَفَ مِثْلُکَ.جس شخص کے ایسے شاگرد باقی رہ جائیں جو اس کا اتنا ادب اور احترا م کرنے والے ہوں وہ کبھی مر نہیں سکتا(تاریخ بغدادی للبغدادی جلد ۱۴ صفحہ ۱۵۰).اسی طرح جس شخص کی جماعت دنیا میں قائم رہے.جس کے نام لیوا دنیامیں موجود ہوں جو اس کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے ہوں اس کی موت سلامتی والی موت کہلائے گی.کیونکہ موت تو آئی مگر موت نے اس کے کاموں میں تعطل پیدا نہیں کیا.پس جب ہم یہ کہیں گے کہ فلاں کی موت سلامتی والی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ کسی انسان کے ہاتھ سے مر نہیں سکتا.کیونکہ جب انسان مر گیا تو چاہے کسی طرح مرا اس سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا.سلامتی والی موت وہ کہلاتی ہے.جس موت کے بعد بھی انسان کا نام زندہ رہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے چنانچہ دیکھ لو حضرت یحییٰ علیہ السلام مر گئے.ان کی جماعت کا وجود تک باقی نہیں رہا
مگر آج سارے مسلمان کہتے ہیں کہ یحییٰ علیہ السلام.وہ قرآن میں جب بھی یہ پڑھتے ہیں وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا تو حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر تازہ ہوجاتا ہے.ان کی زندگی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور محبت اور احترام کے جذبات ان کے متعلق پیدا ہو جاتے ہیں.پس باوجود موت کے وہ زندہ ہیںاور قیامت تک زندہ رہیں گے یہی حال حضرت مسیح ؑ کا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح ؑ کے ماننے والے دنیا میں موجود ہیں لیکن حقیقتاً وہ اب ان کے ذریعہ زندہ نہیں.کیونکہ وہ مسیح کو نہیں بلکہ خدا کے بیٹے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا.اصل میں مسیح اگر زندہ ہے تو اسلام کے ذریعہ سے.مسیح ؑ زندہ ہے قرآن کے ذریعہ سے.مسیح ؑ زندہ ہے ہماری جماعت کے ذریعہ سے.کیونکہ اسلام اور قرآن ہی ہیں جو حقیقی مسیح کو دنیا میں پیش کر رہے ہیں.پس اس سلامتی سے مراد یہ ہے کہ یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کا نام دنیا میں زندہ رہے گا.ان کی سچی تعلیم دنیا میں قائم رہے گی.وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے اور پھر قرآن اور اسلام کے ذریعہ ایک دائمی حیات کے وارث ہوں گے.آگے حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق آتا ہے کہ ان پر اس دن بھی سلامتی ہو گی يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا اور حضرت مسیح ؑ بھی کہتے ہیں کہ وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ.........يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا.اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اس سلامتی کا ثبوت کیا ہے اور کون جا کر دیکھے گا کہ اس دن ان پر سلامتی نازل ہوتی ہے یا نہیں.اس طرح تو ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ جب میں مرنے کے بعد اٹھوں گا تو مجھے یہ یہ مدارج ملیں گے اور ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم تحقیق کرکے فیصلہ کر سکیں کہ کہنے والے کی بات صحیح ہے یا غلط.اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ کہنے والے کی ہر بات کو اس کی سابق اور گزشتہ باتوں پر قیاس کیا جاتا ہے اور پھر ایک نتیجہ نکال لیا جاتا ہے یہ قانون دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور قرآن کریم نے بھی بعث بعدالموت کے ثبوت میں اسے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین سے کہا ہے کہ تم ان پیشگوئیوں پر غور کرو جو تمہاری تباہی اور اسلام کی ترقی کے متعلق کی گئی ہیں اور جن کے ساتھ اگلے جہان سے تعلق رکھنے والے بعض وعدے وابستہ کر دئیے گئے ہیں.ان دنیوی ترقیات کے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں پر غور کرکے تم سمجھ سکتے ہو کہ جب وہ باتیںپوری ہو رہی ہیں جن کے متعلق کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی تھی کہ پوری ہو جائیں گی.تو اسی پر قیاس کرکے تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ آخرت کے متعلق ہماری طرف سے جو خبریں دی گئی ہیں وہ بھی ایک دن پوری ہو کر رہیں گی.یہی دلیل اس مقام پر دی گئی ہے اور تیسری بات کے ذکرسے پہلے دو اور باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس دنیا کی
۱۹ مارچ ۵۳ء کو نوٹس ملا اور ڈی.ایس.پی مجھے وہ نوٹس دینے کے لئے آیا تو میں نے اس سے کہا کہ میری گردن تمہارے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن تمہارے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے.تمہارے گورنر نے میرے ساتھ جو کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا.جب وہ اٹھنے لگا تو میں نے پھر اسے کہاکہ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے جوش کی حالت میں نہیں کہا یہ ایک حقیقت ہے جو پوری ہو کر رہے گی اور جب میری یہ بات پوری ہو گی تو اس وقت میں تمہیں یاد دلائوں گا کہ میں نے گورنر کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا ہے.چنانچہ جب اس گورنر کوپنجاب سے رخصت کیا گیا تو میں نے اپنا آدمی اس کی طرف بھیجا اور کہا کہ تمہیں یاد رہے میں نے اس روز تمہیں کیا کہا تھا.اس نے کہا مجھے خوب یاد ہے بلکہ میں دوسرے دوستوں سے بھی اس کا ذکر کرتا رہا ہوں.پھر ایک شخص کے سامنے اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری گردن پر بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہوا ہے.تو مرنے کو انسان مر جاتا ہے.لیکن اگر کسی شخص کا نام زندہ رہتا ہے، اس کا کام زندہ رہتا ہے، اس کی تعلیم زندہ رہتی ہے، تو وہ مرتا نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے.یہی حقیقت حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ.زندگی میں ہی نہیں میری موت کے بعد بھی مجھے اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل ہو گی.موت کے بعد انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا.زندگی میں تودوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑا چالاک تھا، بڑا ہوشیار اور فریبی تھا، اس نے اپنی چالاکی کی وجہ سے دنیا کو فتح کر لیا.لیکن مرنے کے بعد چالاکی بھی ختم ہو جاتی ہے، دھوکا بازی بھی ختم ہو جاتی ہے، رسوخ اور اقتدار بھی ختم ہو جاتا ہے، خدمت خلق بھی ختم ہو جاتی ہے.پھر تو خدا ہی کسی کا نام زندہ رکھنا چاہے تورکھ سکتا ہے.چنانچہ دیکھ لو حضرت یحییٰ ؑ بھی مر گئے، حضرت مسیح ؑ بھی مر گئے، مگر ان کے نام دنیا میں آج تک زندہ ہیں.جب یہ دو باتیں پوری ہو چکی ہیں تو اب تیسری بات میںکیا شبہ رہا.جب دو غیر ممکن باتیں ممکن ہو گئی ہیں تو تیسری بات کے سچا ہونے میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے.پس بے شک وہ زندگی نظر نہیںآتی مگر ان دو دعووں کو جو ویسے ہی ناممکن تھے خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ ملا دیا اور اس طرح بتادیا کہ جب یہ باتیںپوری ہو گئی ہیں تو وہ بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ علاوہ اس بعث کے جو مرنے کے بعد مقدر ہے ہر نبی کی ایک دوسری بعثت اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور ہرنبی اپنے بعد میں آنے والے ایک اَور نبی کی شکل میںدنیا میں ظاہر ہوتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ہر سچے نبی کے بعد ایک اَور نبی مبعوث ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ فلاںنبی سچا تھا اور اس طرح اس پہلے نبی کی سچائی دنیا میں دوبارہ قائم کی جاتی ہے اور اس کی شہادت کے ذریعہ اسے دوبارہ سلامتی ملتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام
دنیا میںآئے اور عظیم الشان کارنامے انہوں نے سرانجام دئے.مگر اس کے بعد آہستہ آہستہ جب ایک لمبازمانہ آپ کی بعثت پر گزر گیا تو لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ پتہ نہیں موسیٰ سچا بھی تھا یا نہیں.تب خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح ؑ آیا اور اس نے اعلان کیا کہ موسیٰ سچا تھا.پس موسیٰ ؑ کو دوبارہ زندگی مسیح ناصری کے ذرئعی سے ملی.اور یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کو دوبارہ زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمتعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ اُولٰٓىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ١ۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ( ہود:۱۸) فرماتا ہے کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے جس کی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات جمع ہیں اور پھر موسیٰ کی خبریں اس کے متعلق پہلے سے موجود ہیں اور اس کی وفات کے بعد ہم ایک اور ماموربھیجیں گے جو اس امر کی تصدیق کرے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے گویا اس کا ماضی وہ ہے حال یہ ہے اور مستقبل یہ ہے کہ ہم خود آسمان سے ایسے آدمی بھیجتے رہیں گے جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت دیں گے اور گواہی دیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا سچا رسول ہے گویا یہ دوبارہ بعثت ہو گی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی.اس لئے سورئہ جمعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخرین میں مبعوث ہونے کا نام بھی بعثت ہی رکھا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ( الجمعۃ :۳،۴) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقدر ہیں آپ کی ایک بعثت اولین میں ہوئی ہے اور آپ کی دوسری بعثت آخرین میں ہو گی.يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا میں وہی بعثت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو سورئہ جمعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال ہوا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی محاورہ میں بعثت کا لفظ اس موقعہ پر بھی استعمال ہوتا ہے جب کوئی نبی آئے اور وہ اپنے وجود کے ذیعہ کسی پہلے آنے والے نبی کو دوبارہ زندہ کر دے اور اس کی صداقت کو دنیا پرظاہر کر دے.پس وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ........يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی دوسرا نبی اور مامور آئے گا اور وہ میری تصدیق کرے گا تو تم اس وقت سمجھ لو گے کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہا ہوں.وہ ایک غیرملک میں آئے گا اور غیر قوم میں سے آئے گا لیکن وہ کہے گا کہ میں سچا ہوں.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اورانہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی تصدیق کر دی اور وہ بات پوری ہوگئی جو انہوں نے کہی تھی کہ
وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بھی تصدیق کر دی اور وہ بات پوری ہو گئی جو خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق کہی تھی کہ وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا.ان معنوں کی رو سے اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنے کی ضرورت ہی نہیںرہتی.اسی دنیا میں ان کی دوبارہ بعثت پر خدا تعالیٰ کی سلامتی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے.ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ (دیکھو ) یہ (حقیقی) عیسیٰ ابن مریم ہے اور یہ (اس کا) (اصل) سچا واقعہ ہے جس میں وہ (لوگ) يَمْتَرُوْنَ۰۰۳۵ اختلاف کر رہے ہیں.حل لغات.اِمْتَرَاءٌ اختلاف کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں ایک شخص دوسرے کی بات کو رد کرتا ہے اور دوسرا شخص اپنے مد مقابل کی بات کی تردید کرتا ہے.اس کو تردد ہوتا ہے اس کی باتیں ماننے میں اور اس کو تردد ہوتا ہے اس کی باتوں کے ماننے میں.تفسیر.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے متعلق خود عیسائیوں میں اور پھر عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عقائد رکھتے ہیں.یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حق ان کے پاس نہیں.کوئی کہتا ہے کہ مسیح کی ماں بھی خدا تھی اور کوئی کہتا ہے کہ وہ خدا نہیں تھی.کوئی کہتا ہے کہ مسیح واقعہ میں خدا کا ایک حصہ تھا اور کوئی کہتا ہے کہ ایک روح پیدا کی گئی تھی جس پر خدا تعالیٰ نے اپنا فضل نازل کر دیا.حتیٰ کہ صلیب کے واقعہ کے متعلق بھی یہودیوں اور عیسائیوں میں اختلاف پاجاتا ہے.بلکہ خود عیسائیوں کا بھی آپس اتفاق نہیں.شایدد نیا میں سوائے مسیح ؑ کے اور کوئی شخص ایسا نہیں جس کے متعلق اس قدر اختلاف پایا جاتا ہو مسلمانوں کو دیکھا جائے تو پھر ان میں بھی مسیح ؑ کے متعلق بڑا اختلاف پایا جاتا ہے.ہم کہتے ہیں کہ مسیح ؑ مر چکا ہے اور مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ؑ مرا نہیں بلکہ وہ آسمان پر زندہ ہے.اسی طرح واقعہ صلیب کو لیا جائے تو اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ؑصلیب پر نہیں لٹکا ہم کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر تو لٹکایا گیا تھا مگر مرا نہیں.یہودی کہتے
ہیں کہ وہ صلیب پر لٹکایا گیا اور مر گیا.عیسائی کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹکایا گیا اور مرا لیکن پھر زندہ ہو گیا.گویا دنیا کی چار بڑی جماعتیں صرف واقعہ صلیب کے بارہ میں ہی شدید اختلاف رکھتی ہیں.غیر احمدی کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹکائے ہی نہیں گئے.ہم کہتے ہیں وہ لٹکائے توگئے مگر صلیب پر فوت نہیں ہوئے.یہودی کہتے ہیں وہ صلیب پر لٹکایا گیااور مر گیاعیسائی کہتے ہیں وہ صلیب پر لٹکایا گیا اور مر گیالیکن پھر زندہ ہو گیا.غرض عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں میں مسیح ؑ کے متعلق بڑا بھاری اختلاف پایا جاتا ہے.پھر آگے یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف فرقوں کا آپس میں اختلاف ہے.اسی طرح مسیح ؑ کی پیدائش لے لو تو اس میں جھگڑا ہے.ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر بغیرباپ کے پیدا کر دیا.غیر مبایعین کہتے ہیں کہ وہ یوسف کے نطفہ سے تھے.عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا کانطفہ تھا.یہودی کہتے ہیں کہ وہ حرام کا نطفہ تھا.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ.یہ بھی درحقیقت ایک چوٹ ہے جو عیسائیوں پر کی گئی ہے.خدا تعالیٰ کے وجود سے زیادہ سچی اوریقینی کوئی چیز نہیں.مگر مسیح ؑ کے متعلق ایک بات بھی قطعی طور پر ثابت نہیں.پس ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ کہہ کر چوٹ کی گئی ہے کہ عیسائی حضرت مسیح ؑ کو خدا بنائے پھرتے ہیں.حالانکہ انہیں ان کی کسی بات کے متعلق بھی یقین حاصل نہیں.آئو ہم تمہیں یقینی بات بتاتے ہیں کہ وہ کون تھا.وہ ہمارا ایک رسول تھا جو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا.یہاں حضرت مسیح ؑ کو عیسیٰ بن مریم کہا گیا ہے.عیسائی مصنف اس پر پھر چڑتے ہیں کہ ہمارے مسیح ؑکو ابن مریم کیوں کہا گیا ہے وہ تو خدا کا بیٹا تھا.اسے ابن مریم محض ہمیں چڑانے اور دکھ دینے کے لئے اور دنیا پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ خدا نہیں تھا کہا گیا ہے.حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انجیل میں بھی حضرت مسیح کو ابن مریم کہا گیا ہے.مرقس باب ۶ آیت ۳ میں آتا ہے:.’’کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں اور یعقوب اور یوسیس اور یہود اہ اور شمعون کا بھائی نہیں اور کیا اس کی بہنیں ہمارے پاس یہاں نہیں ہیں اور انہوں نے اس سے ٹھوکر کھائی.‘‘ یعنی لوگوں نے جب مسیح ؑ کو دیکھا تو کہا کہ یہ جو بڑے بڑے دعوے کرتا پھرتا ہے کہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ کے یوں وعدے ہیں اور اس طرح مجھے اس نے اپنے فضلوں اور انعامات کا مورد بنایا ہے کیا یہ وہی مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں جو ہماری چارپائیاں اور میزیں درست کیا کرتا تھا اور آج ایسے دعوے کر رہاہے.
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ نمازیںپڑھایاکرتے تھے.ان کا لہجہ بڑا عمدہ تھا.آواز بڑی بلند تھی اور ان کی تقریر میں بڑا جوش پایا جاتا تھا.میں اگرچہ بچہ تھا مگر مجھے خوب یاد ہے جب وہ اس مضمون پر پہنچتے تو بڑے جوش سے کہا کرتے تھے کہ کیا چیز ہے جو عیسائی ہمارے مقابلہ میں پیش کر سکتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بڑی بلند شان ہے.آپ کا ایک نائب اس زمانہ میں احیاءِ اسلام کے لئے آیا.ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے خاندان میں سے ہے.شاہی نسل میں سے ہے ہزاروں سال کی تاریخ اس کے خاندان کی عظمت کو ظاہر کررہی ہے.اس کے مقابلہ میں میرے کانوں میں پہلے مسیح کی ابھی تک یہ آواز گونج رہی ہے کہ کسی نے چارپائیاں ٹھیک کروانی ہوں تو کروا لے کسی نے ٹوٹی ہوئی کرسیوں کی مرمت کروانی ہو تو کروا لے.انجیل کے اس حوالہ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے.کہ لوگوں نے کہا کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کیا یہ یوسف نجار کا بیٹا نہیں.بلکہ کہا کہ کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ مسیح نے اپنے طور پر بھی بڑھئی کا کام کیا ہے.مسیح بے شک انجیل میں اکثر جگہ اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے لیکن ابن آدم ہونے میں تو تمام بنی نوع انسان اس کے شریک ہیں.اس میں مسیح ؑ کی کوئی خصوصیت نہیں.لیکن قرآن کریم ایک ایسا نام دیتا ہے جس سے مسیح ؑ کی آسانی کے ساتھ شناخت ہو سکتی ہے.اگر قرآن کریم عیسیٰ ا بن آدم کہتا تب بھی مشکل پیش آتی.کیونکہ ہزاروں لوگوں کے نام عیسیٰ ہیں اور وہ بھی ابن آدم ہی ہیں.اگر خالی ابن آدم کہا جاتا تو اس لحاظ سے اور بھی دقت پیش آتی.کیونکہ سارے انسان ابن آدم ہیں پھر وہ پہچانا کس طرح جاتا.مسیحی اسے خدا کا بیٹا کہتے ہیں.لیکن یہ بھی ایسا لفظ ہے جو بائبل میں عام طورپر استعمال ہوتا ہے.پس یہ بھی مسیح کی شناخت کا کوئی قطعی ذریعہ نہیں تھا.کیونکہ بائبل کے رو سے سب نیک لوگ خدا کے بیٹے ہیں اور اگر وہ خدا کے بیٹے سے ظاہری بیٹا مراد لیں تو پھر خدا تعالیٰ کا ظاہری بیٹاہونے کے کوئی ظاہری ثبوت بھی ہونے چاہئیں جو نہیں ہیں.درحقیقت حضرت مسیح کی صحیح شناخت اسی نام سے ہوتی ہے.جو خدا نے اس کے لئے تجویز کیا ہے یعنی ’’ابن مریم‘‘.اگر ہم اس کو صرف عیسیٰ کہیں تو ہر ضلع میںبیسیوں لوگ ایسے نکل آئیں گے جن کا نام عیسیٰ ہو گا.ہماری جماعت میں بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا نام عیسیٰ ہے.گو اب یہ نام کم رکھا جاتا ہے کیونکہ عیسیٰ کی نسبت محمدؐ اور احمدؐ کی محبت لوگوں کے دلوں میں زیادہ ہے اور وہ محمدؐ اور احمدؐ کے نام پرا پنے بچوں کے نام رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی ایسے کئی لوگ ہماری جماعت میں نکل آئیں گے جن کا نام عیسیٰ ہو گا اور پرانے غیر احمدیوں میں تو سینکڑوں لوگ اس نام
کے موجود ہیں.پس اگر صرف عیسیٰ کہا جاتا تو یہ حضرت مسیح کی شناخت کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں تھا.اگر عیسیٰ ابن آدم نام رکھا جاتاتب بھی مشکل پیش آتی کیونکہ ہر عیسیٰ آدم کا بیٹا ہے اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.اگر خدا کا بیٹا کہا جاتاتو سب لوگ کہتے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.ان مشکلات کو دور کرتے ہوئے قرآن نے مسیح کو عیسیٰ بن مریم کہہ دیا جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا.سب کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے اور مسیح کی شناخت کا ایک بڑا عمدہ ذریعہ ہے.پس قابل اعتراض انجیلوں اور مسیحیوں کا قول ہے نہ کہ قرآن کا.مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى خدا(تعالیٰ) کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے وہ اس بات سے پاک ہے.وہ جب کبھی کسی بات کا فیصلہ اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُؕ۰۰۳۶ کرتا ہے تو کہتا ہے (ایسا) ہوتا جائے تو ویسا ہی ہونے لگتا ہے( پھر اسے مدد کے لئے بیٹا بنانے کی کیا ضرور ت ہے).حل لغات.عربی زبان میں جب مَا کَانَ لَہُ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیںتو اس سے دوسرے شخص کی قابلیت یا اس کی شان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے چنانچہ مَاکَانَ لَہُ اَنْ یَفْعَلَ کَذَا کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کہاں اس قابل ہوا کہ ایسا کرے یا اس کی شان اعلیٰ کے خلاف تھا کہ وہ ایسا کرتا.گویا یا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کی شان اتنی اعلیٰ ہے کہ ایسا ادنیٰ کام اس کی طرف منسوب ہی نہیں ہو سکتا اور یا پھر یہ معنے ہوں گے کہ یہ کام اتنا اعلیٰ ہے کہ اس میں یہ قابلیت ہی نہیں کہ وہ اس کو سرانجام دے سکے.تفسیر.اوپر جو تشریح کی جا چکی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک معنے تو یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے یعنی یہ معنے کرنے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی شان کہاں کہ اس کا بیٹا ہو.یہ تو قطعی طور پر غلط ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.عورتیں تو کہہ دیتی ہیں کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہو.لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ایسی شان کہاں کہ اس کے ہاں بیٹا ہو.اس جگہ صرف دوسرے معنے ہی چسپاں ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی شان اس سے بہت بالا ہے کہ ایسی ذلیل اور ادنی بات اس کی طرف منسوب کی جائے اور کہا جائے کہ اس نے بیٹا بنا لیا ہے.یہاں یَتَّخِذُ مِنْ وَّلَدٍ کہا گیا ہے.یہ نہیں کہا گیا کہ اس کا بیٹا ہو.اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.بیٹا ہونا اور بیٹا بنا لینا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں.عیسائیوں میں
سے بعض بیٹا بنا لینے کی تھیوری کے قائل ہیںاور بعض بیٹا ہونے کی تھیوری کے قائل ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ کہیں گے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے تو لوگ اس بات کو مانیں گے نہیں اور کہیں گے کہ کیا کوئی ایسی عورت تھی جس سے خدا نے تعلق پیدا کیا اور اس سے خدا تعالیٰ کا بیٹا پیدا ہوا.اس لئے وہ بیٹا ہونے کی بجائے بیٹا بنا لینے کی تھیوری کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شان اور اس کی عظمت نے پسند کیا کہ اپنے لئے ایک بیٹا تجویز کرے.سو اس نے مسیح کو اپنا بیٹا بنا لیا پس چونکہ عیسائیوں میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال کئے جو دونوں قسم کے لوگوں پر چسپاں ہو جاتے ہیں اور آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے.چاہے یہ کہا جائے کہ کوئی اس کا اپنا بیٹا ہے اور چاہے یہ کہا جائے کہ کسی کو اس نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے.اب یہ صاف بات ہے کہ جب کسی غیر کو اپنا بیٹا بنا لینا بھی اس کی شان کے خلاف ہے تو اس کا کوئی اپنا بیٹا ہونا تو اس کی شان اور عظمت کے بالکل منافی ہو گا.اس جگہ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص کسی امر کا مدعی ہوتا ہے ہمیشہ اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا اس کے ذمہ ہوتا ہے.اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کے دو سینگ ہیں اور جواب میں وہ شخص کہے کہ نہیں تم غلط کہتے ہو تو اس پر اگر پہلاآدمی یہ کہے کہ اچھا اگر تمہارے سر پر سینگ نہیں تو ا س کا ثبوت دو.تو ہر شخص اسے پاگل قرار دے گا اور کہے گا کہ ثبوت پیش کرنا تمہارا کام ہے کیونکہ دعوےٰ تم کر رہے ہو اس کا کام نہیں کہ وہ ثبوت پیش کرے.حضرت مسیح ؑ کے متعلق چونکہ عیسائی اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اس لئے ان کے ابن اللہ ہونے کا ثبوت پیش کرنا عیسائیوں کے ذمے ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ یہی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ چونکہ انجیل میں حضرت مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اس لئے ہم بھی انہیں خدا تعالیٰ کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انجیل پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا اس میں خدا تعالیٰ کے بیٹے کے وہی معنے پائے جاتے ہیں جو عیسائی پیش کرتے ہیں.لوقا باب ۲۰ آیت ۳۵.۳۶ میں لکھا ہے ’’جو لوگ اس جہان کے اور قیامت کے شریک ہونے کے لائق ٹھہرتے نہ بیاہ کرتے ہیں اور نہ بیاہے جاتے.پھر نہیں مرنے کے کیونکہ وے فرشتوں کی مانند ہیں اور قیامت کے بیٹے ہو کے خدا کے بیٹے ہیں.‘‘ حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں ایسے
لوگوں پر روحانی موت نہیں آتی اور وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کہلاتے ہیں گویا مسیح تمام نیک اور پاک لوگوں کے لئے ’’خدا تعالیٰ کے بیٹے‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.پھر یرمیاہ باب ۳۱ آیت ۹ میں خدا تعالیٰ حضرت یرمیاہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے.’’میں اسرائیل کا باپ ہوں اور افرائیم میرا پلوٹھاہے.‘‘ اس حوالہ میں سارے بنی اسرائیل کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہاگیا ہے اور افرائیم جو بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ تھا اسے اپنا پلوٹھا قرار دیاگیا ہے.پھر متی باب ۵ آیت ۱۶ میں لکھا ہے.’’تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وے تمہارے نیک کاموں کو دیکھیں اور تمہارے باپ کی جوآسمان پر ہے ستائش کریں.‘‘ اس میں حضرت مسیح نے اپنے سب مخاطبین کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے.پھر متی باب ۶ آیت ۸ میںلکھا ہے ’’ تمہارا باپ تمہارے مانگنے کے پہلے جانتا ہے کہ تمہیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے‘‘ پھر حضرت مسیح ؑ نے اپنے متبعین کو جو دعا سکھلائی ہے اس میں بھی یہی کہا ہے کہ خدا باپ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں جب تم دعا مانگو تو اس طرح مانگوکہ ’’ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.‘‘ (انجیل متی باب ۶ آیت ۹) پھر متی باب ۶آیت ۴ ۱ میں ہے ’’ اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشوگے تو تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہیں بھی بخشے گا‘‘ پھر متی باب ۶ آیت میں ۱۸میں ہے ’’تو آدمی پر نہیں بلکہ تیرے باپ پر جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر ہو اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے آشکارا تجھے بدلہ دے.‘‘ اس سے پہلے آپ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں کہ لوگ روزہ رکھتے ہیں تو لوگوں پر اپنے روزہ کا اظہار کرتے ہیں.ایسے لوگ چونکہ ریاکاری سے کام لیتے ہیں.اس لئے وہ کسی بدلہ کے مستحق نہیں لیکن اگر تم محض خدا کے لئے روزہ رکھو تو تمہارا باپ جو تمہارے دل کے حالات سے واقف ہے وہ تمہیں بدلہ دے گا.
متی باب ۱۰ آیت ۲۸ تا ۳۰ میں آتا ہے ’’جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے ان سے نہ ڈرو بلکہ اسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے.کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بکتیں اور ان میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گر سکتی.بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں پس ڈرو نہیں.‘‘ پھر مرقس باب ۱۱ آیت ۲۶ میں لکھا ہے ’’اگر تم معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے تمہارے قصور بھی معاف نہ کرے گا.‘‘ اس جگہ سارے انسانوں کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا گیا ہے.پھر لوقا باب ۶ آیت ۳۶ میں لکھاہے ’’جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم رحیم ہو.‘‘ لوقا باب ۱۲ آیت ۳۰ میں لکھا ہے ’’تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم ان کے محتاج ہو.‘‘ لوقا باب ۱۲ آیت ۳۲ میں لکھا ہے ’’تمہارے باپ کو پسند آیا کہ بادشاہت تمہیں دے.‘‘ پھر یوحنا باب ۸آیت ۴۱ میں لکھا ہے کہ یہود نے کہا ’’ ہمارا باپ ایک ہے یعنی خدا‘‘ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودیوں میں یہ محاورہ رائج تھا.کہ وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے.اسی طرح بائبل خود یہودیوں کو کہتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ہو اور حضرت مسیح سب لوگوں کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم دعا کرو تو اس طرح کیا کرو کہ ’’اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے.تیرے نام کی تقدیس ہو.‘‘ اسی طرح ہم حواریوں کے خطوط کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں یہی مضمون نظر آتا ہے.چنانچہ افسیوں باب ۴ آیت ۶ میں لکھا ہے ’’ایک خدا جو سب کا باپ کہ سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور تم سب میں ہے.‘‘
یعنی خدا تمام انسانوں کا باپ ہے اور بندے اس کے بیٹے ہیں.اسی طرح خروج باب ۴ آیت ۲۲ میں لکھا ہے ’’اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے‘‘ غرض تمام بائبل کیا عہد نامۂ قدیم اور کیا عہد نامۂ جدید اس قسم کے حوالجات سے بھری پڑی ہے کہ تمام بنی نوع انسان خواہ وہ نیک ہوں یا بد.خصوصاً نیک.خصوصاً مسیح کے حواری یا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہتے ہیں اور خدا انہیں اپنابیٹاکہتا ہے.اسی طرح حضرت مسیح ؑ بھی یہی تلقین فرماتے ہیں کہ تم اس محاورہ کو استعمال کیا کرو اور خدا تعالیٰ کو ’’اے ہمارے باپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرو.پس اگر انجیل میں مسیح ؑ کے متعلق بھی کسی جگہ یہ الفاظ آ گئے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے تو ہمیں اس کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو بائبل کے دوسرے مقامات سے ثابت ہیں.اس کے خلاف ہمارے لئے کوئی اور معنے کرنے جائز نہیں ہوں گے.اور نہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ محض ان الفاظ کی وجہ سے انہیں خدا قرار دے دیں.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہےمَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ.خدا تعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا قرار دے ایک ہوتا ہے کسی کو بمنزلہ ولد قرار دینا یہ چیز بالکل الگ ہے.اس کے معنے محض اتنے ہوتے ہیںکہ اس شخص کو خدا تعالیٰ نے اپنا پیارا قرار دیا ہے لیکن ولد کے یہ معنے ہیں کہ کسی کو خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا کہا جائے.اور حقیقی بیٹے کا درجہ خدا تعالیٰ کسی کو نہیں دیتا.حقیقی بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کو اپنا وارث بنا دے.کیونکہ اس نے مرنا نہیں یا اپنی صفات اس کو دے دے.بیٹا اپنے باپ سے ورثہ کے طور پر اس کے ہاتھ پائوں ناک کان منہ اور دوسرے تمام اعضاء لیتا ہے لیکن کوئی بندہ خدا تعالیٰ سے ورثہ میں اس کی صفات نہیں لے سکتا.صفات الٰہیہ کا اپنے اندر پیداکر لینا اور چیز ہے اور ورثہ کے طور پر کسی چیز کا حاصل کرنا اور چیز ہے صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا کسب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جیسا کہ شاگرد اپنے استاد سے جو کچھ حاصل کرتا ہے کسب کے ذریعہ حاصل کرتا ہے یہ چیز خدا تعالیٰ کے متعلق بھی جائز ہے مگر بیٹا اپنے باپ سے کئی چیزیں ورثہ کے طور پر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے کوئی چیز ورثہ کے طور پر نہیں لی جاتی اس سے اگر کوئی شخص لے گا تو کسباً یا عطیۃ ً ہی لے گا.مثلاً انگریزوں کا رنگ گورا ہوتا ہے.ان کے ہاں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوگا اس کا رنگ گورا ہو گا.یہ نہیں ہو گا کہ بچہ پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنے لڑکے کو بلائیں اور کہیں کہ آئو ہم تمہیں اپنے رنگ میں سے تھوڑا سا رنگ دے دیں.اسی طرح حبشیوں کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا تو سیاہ رنگ کا ہی پیدا ہو گا.یہ نہیں ہو گا کہ باپ اپنے بیٹے کو بلائے اور
کہے کہ آئو میں تم کو اپنے بالوں میں سے کچھ بال دے دوں.اپنے رنگ میں سے کچھ رنگ دے دوں یا تمہیں ناک، کان اور منہ وغیرہ دوں.یہ سب چیزیں وہ ورثہ میں پیدائش کے ساتھ ہی لے کر آتا ہے اس رنگ میں نہ خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں.باقی رہا یہ کہ کسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے طور پر یا اس سے اپنے تعلق کے اظہار کے لئے بیٹا کہہ دیا جائے تو اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.انجیل بتاتی ہے کہ سب لوگ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں یہاں تک کہ وہ گنہگاروں کو بھی اس کا بیٹا قرا ردیتی ہے.(لوقا باب ۶ آیت ۳۵) اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جو قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے کیا اس کی شہادت بھی بائبل سے ملتی ہے یا نہیںملتی.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں اس ہستی کا نام جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام دنیا کی خالق اور مالک ہے اللہ استعمال ہوا ہے جو خدا تعالیٰ کا اسم ذات ہے.سوائے عربی زبان کے اور کسی زبان میں بھی خدا تعالیٰ کا اسم ذات نہیں.بائبل میں یہوا کا لفظ اس رنگ میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسم ذات ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہوا اسم ذات نہیں.اصل میں عربی اور عبرانی یہ دونوں زبانیں آپس میں بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے جو عرب کا ہی ایک حصہ ہے.پھر آپ عراق سے ہجرت کرکے کنعان چلے گئے اور وہاں سے ان کی قوم آگے مصر کو نکل گئی مگر آپ کنعان میں ہی رہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام جب کنعان میں رہتے تھے تو ان کا ایک بیٹا جس کا نام اسماعیل تھا بچپن میں الٰہی حکمت کے ماتحت مکہ پہنچا دیا گیا.ان کا دوسرا بیٹا اسحاق تھا جو ان کے ساتھ رہا.اس وجہ سے ان کی زبانیں آپس میں ملتی جلتی تھیں اور عبرا نی اور عربی میں بہت معمولی فرق تھا.یہوا کا لفظ بھی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کااسم ذات ہے اور جوبائبل میں استعمال ہوا ہے درحقیقت عربی زبان میں کا ہی ایک بگڑا ہوا لفظ ہے.بہرحال بائبل میں خدا تعالیٰ کے متعلق یہوا کے لفظ کا استعمال پایا جاتا ہے چنانچہ یسعیاہ باب ۴۲ آیت ۸ میں لکھا ہے.’’یہوا میں ہوں یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا.‘‘ یہ بالکل وہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ خدا تعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے اس جگہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’یہوا‘‘ میرا نام ہے اور میں اپنی شوکت کسی دوسرے کو نہ دوں گا.یعنی کوئی اور وجود ایسا نہیں جو میری عظمت اور میری قدرت اور میری شوکت میں شریک ہو سکے.
یہ’’یہوا‘‘ کا لفظ درحقیقت یَا ھُوَ سے بنایا گیا ہے.یَاھُوَ کے معنے ہیں اے وہ ہستی جو غائب ہے اور نظر نہیں آتی.پس یہ بھی ایک صفاتی نام ہے ذاتی نام نہیں.اور صرف خدا تعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کے آنکھوں سے غائب ہونے پر دلالت کرتا ہے یا خدا تعالیٰ کے موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یاء حرف ندا ہے اور اس چیز پر دلالت کرتا ہے جو موجود ہو.اور ھُوَ یہ بتاتا ہے کہ وہ ہے تو موجود مگر نظروں سے غائب ہے.پس یہ بھی اسم ذات نہیں اور یہوا کے معنے یہ ہیں کہ اے وہ ہستی جو ہے تو سہی مگر چونکہ آنکھوں سے نظر نہیںآتی اس لئے وہ ھُوَ کہلا سکتی ہے اَنْتَ نہیں کہلا سکتی.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عربی اور عبرانی آپس میں کس حد تک ملتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس زبان میں بہت کچھ تبدیلی پیدا ہو گئی لیکن باوجود اس زبان کے بدل جانے کے حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں بھی جو یہود کا آخری زمانہ تھا اور وہ جس کے بعد وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے عبرانی زبان عربی زبان سے اتنی ملتی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ عبرانی عربی کی ہی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے.چنانچہ حضرت مسیح ؑنے جو آخری فقرہ صلیب پر کہا اور جس کے بعد انہیں ہوش نہیں رہا اور جو ایک ہی فقرہ ہے جس کے متعلق تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ یقیناً حضرت مسیح ؑ کا ہی فقرہ ہے وہ یہ تھا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی(متی باب ۲۷ آیت ۴۶،مرقس باب ۵ آیت ۳۴) یہ اٖیلٖی اٖیلٖی درحقیقت عربی زبان کا ایلی ایلی ہے عبرانی میں خدا تعالیٰ کو ایل کہتے ہیں اور عربی میں خدا تعالیٰ کو اٖیلکہتے ہیں.عبرانی والے کہیں گے جبراایل اور عربی والے کہیں گے کہ جبر اٖیل.وہ اسرافیل اور عربی والے کہیں گے اسرافِیل پس ایلی ایلی کو اگر ہم عربی لہجہ میں ادا کریں گے تو کہیں گے.اٖیْلِی اٖیْلِی یعنی اے میرے خدا.اے میرے خدا آگے ہے.’’لِمَا ‘‘ یہ وہی عربی لم ہے.یعنی کس لئے یا کیوں؟ ’’سبقتانی‘‘یہ بھی عربی کا ہی ایک بگڑا ہوا لفظ ہے.عربی میں کہیں گے سَبَقْتَنِیْ اور عبرانی میں کہیں گے سبقتانی پس اٖیلی اٖیلی لم سبقتنی کے یہ معنے ہوئے کہ اے میرے خدا.اے میرے خدا تو مجھے کیوں چھوڑ کر آگے چلا گیا سَبَقَ کے معنے ہوتے ہیں آگے نکل گیا.پس حضرت مسیح ؑ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو مجھے
سے کیوں آگے نکل گیا اورمیں پیچھے رہ گیا اگر تو میرے پاس ہوتا تو میری مدد کرتا.یہ کتنا عربی زبان سے ملتا جلتا فقرہ ہے.صرف اٖیلی اٖیلی کی جگہ ایلی ایلی اور لم کی جگہ لما اور سبقتنی کی جگہ سبقتانی کر دیا گیا ہے اور یہ ایک ہی فقرہ ہے جو حضرت مسیح کا انجیل میں موجود ہے.باقی الفاظ کے متعلق کوئی یقینی شہادتیں نہیں لیکن اس فقرہ کے متعلق بائبل کے تمام مفسرین متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ یہ فقرہ یقینی طور پر وہی ہے جو حضرت مسیح ؑنے کہا.پس عبرانی کوئی الگ زبان نہیں.عربی زبان کی ہی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے.ذرا عبرانی کو چست کر دو تو عربی بن جائے گی.بہرحال ان کے ہاں ایل کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے لئے ’’ایلوہیم‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے.ہیم جمع کی ضمیر ہے.عربی میں جمع کے لئے ھُمْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے.عبرانی میں اسے ہیم بنا دیا گیا ہے.بہرحال ایلوہیم کے لفظی معنے یہ ہیں کہ کئی خدا.مگر اس لفظ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بڑا خدا یا شاند ار خدا.پہلے زمانہ میں جب کسی شخص سے مخاطب ہو کر کوئی بات کہی جاتی تھی تو عرب لوگ اسے اَنْتَ کہا کرتے تھے مگر آج کل اَنْتَ کی بجائے اَنْتُمْ کا لفظ استعمال ہونے لگ گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عرب لوگ ہمیشہ اَنْتَ اَنْتَ کہا کرتے تھے(بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی المیت بعد الموت) مگر اب معمولی رئیس یا استاد یا افسر یا ڈپٹی کمشنر یا گورنر سے بھی ملاقات ہو تو اسےاَنْتَ کی بجائے اَنْتُمْ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے.اسی طرح عبرانی زبان میں تمدن اور تہذیب کا دور آ جانے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے اعزاز کے لئے ایلوہیم کا لفظ استعمال ہوتا تھا جو جمع کا صیغہ ہے.جس طرح غیر متمدن اقوام میں گفتگو کے وقت تو کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن تمدن آ جائے تو وہ تم کہنے لگ جاتے ہیں پھر اور زیادہ تمدنی شان پیدا ہو جائے تو آپ کہنے لگے جاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ادب اور اس کے اعزاز کے لئے وہ ایلوہیم کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے جس کے معنے الٰہوںاور معبودوں کے ہیں.یہ اہلوہیم بھی عربی زبان کے لفظ اٰلِھَۃٌ کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے.گویا جسے عربی میں اٰلِہَۃٌ کہتے ہیں عبرانی میں اسے ایلوہیم کہتے ہیں.جسے عربی اِلٰہٌ کہتے ہیں عبرانی میں اسے ایلواہ کہتے ہیںاور جسے عربی میں اٖیل کہتے ہیں عبرانی میں اسے ایل کہتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان میں سے کوئی بھی خدا تعالیٰ کا اسم ذات نہیں.یہ تمام نام خدا تعالیٰ کے صفاتی اسماء ہیں.اس تمہید کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ گو بائبل میں خدا تعالیٰ کے لئے اللہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن پھر بھی پرانے عہد نامہ میں خدا تعالیٰ کو وحدہ لاشریک تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ استثناء باب ۶ آیت ۴ میں لکھا ہے.
’’ سن لے اے اسرائیل خداوند ہمار ا خدا اکیلا خداوند ہے.‘‘ ’’اکیلاخداوند‘‘ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ وحدہ لاشریک ہے اور جب وہ وحدہ لاشریک ہوا تو یہ بات بھی سچی ثابت ہوئی کہ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ پھر یسعیاہ باب ۴۲ آیت ۸ میں ہے ’’یہوا میں ہوں یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا.‘‘ اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا یہ مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ پر دلالت کرتا ہے.یعنی نہ صرف یہ کہ میرا بیٹا نہیں بلکہ میں کسی کو اپنا بیٹا بنائوں گا بھی نہیں.گویا تم اگر یہ کہو کہ میں نے کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے اور اپنی طاقتیں اس کو دے دی ہیں تو یہ بھی غلط ہو گا.میں اپنی صفات کسی اور کو نہیں دیتا.اب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں جس پر مسیح ؑ کے ابن اللہ ہونے کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس میں بھی ہمیں یہی تعلیم نظر آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں.چنانچہ مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹ میں لکھا ہے کہ ایک شخص حضرت مسیح کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے وہ سب سے بڑا حکم بتائیں جس پر عمل کرنا میرے لئے سب سے زیادہ ضروری ہو.حضرت مسیح نے اسے فرمایا ’’سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن وہ خدا وند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خدا وند ہے‘‘.(انجیل مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹) پھر مسیح کے حواریوں نے جو خطوط لکھے ہیں ان میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے.چنانچہ رومیوں میں لکھا ہے ’’اسی واحد دانا خدا کو یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ حمد پہنچا کرے.‘‘ (رومیوں باب ۱۶ آیت ۲۷) گویا مسیح کا ذکر کرکے اس کے مقابلہ میں ایک خدا کو پیش کیا گیا ہے اور کہا گیاہے کہ اسی واحد دانا یعنی علیم خدا کو یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ حمد پہنچا کرے.پھر ایک حواری کہتا ہے ’’لیکن مجھ پر اس لئے رحم ہوا کر یسوع مسیح مجھ بڑے گنہگار پر کمال صبر ظاہر کرے تاکہ میں ان کے واسطے جو اس پر ہمیشہ کی زندگی کے لئے ایمان لاویں گے نمونہ بنوں.اب انسانی بادشاہ.غیر فانی.نادیدنی.واحد حکیم خدا کی عزت اور جلال ابدالاباد ہو وے.‘‘ (۱.تمطائوس باب۱ آیت ۱۶و۱۷)
اس میں خدا تعالیٰ کو ازلی قرار دیا گیا ہے.بادشاہ قرار دیا گیا ہے.غیر فانی قراردیا گیاہے.نادیدنی قرار دیا گیا ہے.یعنی جو نظر نہیں آتا لیکن مسیح تو نظر آتا تھا.واحد قرار دیا گیا ہے.حکیم قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان صفات کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے خدا کی ضرورت نہیں ہو سکتی.پھر یہوداہ کے خط میں لکھا ہے ’’جو خدائے واحد حکیم اور ہمارا بچانے والا ہے‘‘ (یہوداہ کا عام خط باب ۱ آیت ۲۵) غرض ایک طرف پرانا عہد نامہ خدا تعالیٰ کو ’’خدائے واحد‘‘ قرار دیتا ہے اور دوسری طرف نیا عہد نامہ بھی اسے ’’ خدا ئےواحد‘‘ قر ار دیتا ہے پس مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ میں بائبل اور انجیل دونوں قرآن کریم کے ساتھ متفق ہیں جوکچھ قرآن نے کہا ہے وہی تورات نے کہا ہے اور وہی انجیل نے تعلیم دی ہے.لیکن افسوس ہے کہ اس تعلیم کے باوجود یہود ا ور نصاریٰ دونوں نے شرک کی کئی باتیں پیدا کر لیں اور وہ صداقت سے منحرف ہو گئے.یہود کی طرف جو انبیاء مبعوث ہوئے بائبل سے معلوم ہوتا ہے وہ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں کیا سمجھائیں.ہم ہمیشہ تمہیں سمجھاتے رہے مگر تم پھر شرک کرنے لگ جاتے ہو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت کی دلیل بیان فرماتا ہے کہ سُبْحٰنَہٗ وہ پاک ہے.فرماتا ہے ہم اپنی توحید کا ذکر صرف بائبل کی نقل کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ اس لئے کر رہے ہیں کہ اس مسئلہ کی دلیل پر بنیاد ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ سُبْحٰنَہٗ وہ پاک ہے.بیٹا دنیا میں کیوں ہوا کرتا ہے؟ تمام دنیا پر غور کرکے دیکھ لو بیٹے کا قانون صرف انہی چیزوں میں جاری ہے جو اپنے کام کے ختم ہونے سے پہلے فنا ہو جاتی ہیں.انسان کا کام دنیا میں موجود ہے.لیکن وہ مر رہا ہے.اس لئے اسے بیٹے کی ضرورت ہے.بکروں کی ضرورت دنیا میں موجود ہے لیکن بکرے مر رہے ہیں اس لئے بکروں کی نسل کی ضرورت ہے پہاڑوں کی ضرورت دنیامیں موجود ہے لیکن پہاڑ بھی موجود ہیں وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے پہاڑوں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.سورج کی ضرورت موجود ہے لیکن سورج بھی موجود ہے اس لئے سورج کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.چاند اور ستاروں کی دنیا کو ضرورت ہے.پہلے بھی ضرورت تھی اور اب بھی ہے لیکن چاند اور ستارے بھی موجود ہیں.وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے چاند اور ستاروں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.پس تناسل کا سلسلہ انہی چیزوں کے ساتھ چلتا ہے جو اپنی ضرورت سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں اور جو چیزیں اپنی ضرورت تک جاری رہتی ہیںفنا نہیں ہوتیں ان میں تناسل کا سلسلہ بھی جاری نہیں.اللہ تعالیٰ اسی دلیل کا اس جگہ ذکر کرتا ہے
بیٹا دنیا میں کیوں ہوا کرتا ہے؟ تمام دنیا پر غور کرکے دیکھ لو بیٹے کا قانون صرف انہی چیزوں میں جاری ہے جو اپنے کام کے ختم ہونے سے پہلے فنا ہو جاتی ہیں.انسان کا کام دنیا میں موجود ہے.لیکن وہ مر رہا ہے.اس لئے اسے بیٹے کی ضرورت ہے.بکروں کی ضرورت دنیا میں موجود ہے لیکن بکرے مر رہے ہیں اس لئے بکروں کی نسل کی ضرورت ہے پہاڑوں کی ضرورت دنیامیں موجود ہے لیکن پہاڑ بھی موجود ہیں وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے پہاڑوں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.سورج کی ضرورت موجود ہے لیکن سورج بھی موجود ہے اس لئے سورج کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.چاند اور ستاروں کی دنیا کو ضرورت ہے.پہلے بھی ضرورت تھی اور اب بھی ہے لیکن چاند اور ستارے بھی موجود ہیں.وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے چاند اور ستاروں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں.پس تناسل کا سلسلہ انہی چیزوں کے ساتھ چلتا ہے جو اپنی ضرورت سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں اور جو چیزیں اپنی ضرورت تک جاری رہتی ہیںفنا نہیں ہوتیں ان میں تناسل کا سلسلہ بھی جاری نہیں.اللہ تعالیٰ اسی دلیل کا اس جگہ ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے سُبْحٰنَہٗ.اگر تم سوچنا شروع کرو کہ بیٹے کیا کی وجہ ہوا کرتی ہے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ بیٹا ہونے کی تین وجوہات ہوا کرتی ہیں.اوّل شہوت نفسانی.یعنی انسان کے اندر بعض مادے ایسے جمع ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ رکے رہیں تو صحت کو نقصان پہنچانے کا موجب بن جاتے ہیں اس لئے ان کا نکالنا ضروری ہوتا ہے.پس یا تو اپنی بیوی کے ذریعہ نکلیں گے اور یا وہ رؤیا شہوانی کے ماتحت نکل جائیں گے.بہرحال نکل ضرور جائیں گے.دوسرے ہر انسان کو ایک مونس اور غمگسار کی ضرورت ہوتی ہے اور بغیر مونس اور غمگسار ساتھی کے وہ آرام محسوس نہیں کرتا.بائبل میں لکھا ہے کہ ہر قسم کے آراموں کے باوجود آدم افسردہ اور حیران پھرتا تھا تب خدا نے کہا کہ یہ بیوی کا محتاج ہے آئو ہم اس کی بیوی پیدا کریں چنانچہ خدا نے آدم کے لئے حوا پیدا کی اور اس کی پریشانی اور افسردگی دور ہوئی(پیدائش باب ۲ آیت ۱۸ تا ۲۲).پس جب انسان اپنی ذات میں خوش نہ رہ سکے اور اسے اطمینان حاصل نہ ہو تو اس کے لئے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے.تیسرے.اسی طرح جب اپنے کام کے ختم ہونے سے پہلے کوئی فنا ہو جائے گا تو لازماً اسے ضرورت ہو گی کہ اس کا کوئی بیٹا ہو جو اس کے کام کے تسلسل کو جاری رکھے اور اس کے فنا ہونے کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچے.یہ تین چیزیں ہیں جو بیٹے کی ضرورت کا بنیادی باعث ہوتی ہیں.(۱) انسان کے اندر ایسے مادوں کا جمع ہو جانا جو اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں.(۲) انسان کے اندر ایسے ساتھی کی خواہش کا پایا جانا جس کے بغیر اسے اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا.(۳) انسان کا اپنی ضرورت سے پہلے فنا ہو جانا اور یہ تینوں چیزیں نقص پر دلالت کرتی ہیں.یہ ماننا کہ خدا تعالیٰ کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جس کا نکالنا ضروری ہوتا ہے اگر وہ نہ نکالے تو اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے نقص پر دلالت کرتا ہے.یہ ماننا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے کسی مونس اور غمگسار کے بغیر اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور وہ افسردہ رہتا ہے نقص پر دلالت کرتا ہے.یہ ماننا کہ خدا وقت سے پہلے مرجائے گا اور اس لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو نقص پر دلالت کرتا ہے پس فرماتا ہے مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ.اگر تم غور کرو کہ بیٹا کیوں ہوا کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ بعض زائد مادوں کا انسانی جسم میں جمع ہو جانا.ساتھی کی خواہش اور موت.یہ تین وجوہ ہیں جن کی بناء پر بیٹے کا تقاضا کیا جاتا ہے اور یہ تینوں نقص پر دلالت کرتی ہیں.نہ کسی کامل ذات میں ایسے مادے جمع ہو سکتے ہیں جو اس کی صحت کو خراب کرنے والے ہوں.نہ کسی کامل ذات کو اپنے لئے کسی مونس اور غمگسار ساتھی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ کسی کامل ذات پر موت آ سکتی ہے.حالانکہ بیٹے کے لئے یہ تینوں باتیں ضروری ہیں.
جاتا ہے اور یہ تینوں نقص پر دلالت کرتی ہیں.نہ کسی کامل ذات میں ایسے مادے جمع ہو سکتے ہیں جو اس کی صحت کو خراب کرنے والے ہوں.نہ کسی کامل ذات کو اپنے لئے کسی مونس اور غمگسار ساتھی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ کسی کامل ذات پر موت آ سکتی ہے.حالانکہ بیٹے کے لئے یہ تینوں باتیں ضروری ہیں.اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُممکن ہے کوئی کہہ دے کہ بیٹے کی ضرورت اسے مددگار کے طورپر ہے.سواس شبہ کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا.اس بات کو بھی سوچ لوکہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے توفَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ وہ صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہكُنْ ایسا ہو جائے فَيَكُوْنُ پس وہ چیز عالم وجود میں آجاتی ہے.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کُنْ کس کو کہتا ہے.ان کے نزدیک کُنْ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے کوئی مادہ موجود ہوتاہے جسے اللہ تعالیٰ کُنْ کہتا ہے.سو یاد رہے کہکُنْ کا لفظ عربی زبان میں کسی کو کہنے کے لئے بھی بولاجاتا ہے اور محض اظہار خواہش کے لئے بھی بولا جاتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شام کی طرف لشکرکشی کی تو ابو خیثمہ ؓ ایک صحابی تھے جن پر آپ کو بڑا اعتماد تھا اور آپ ان سے بڑی محبت رکھتے تھے اور آپ سمجھتے تھے کہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں یہ شخص غفلت سے کام نہیں لے سکتا.لیکن جب آپ لشکر کے ساتھ شہر سے کچھ فاصلہ پر جا پہنچے اور آپ نے اپنے صحابہ ؓ کا جائزہ لیاتو آپ کو ابو خیثمہؓ نظر نہ آئے جس پر آپ کو بہت افسوس ہوا کہ مجھے اس پر اتنی حسن ظنی تھی اور وہ اس جہاد سے پیچھے رہ گیا ہے.جب آپ چلے تو کسی نے کہا حضور کوئی شخص پیچھے سے آرہا ہے.آپ نے اس طرف دیکھا اور فرمایا کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ.جب گرد ہٹی اور وہ شخص قریب پہنچا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ ابو خیثمہ ؓ ہی تھا.اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی کہ اس نے آپ کی خواہش کو اتنی جلدی پورا فرما دیا ( سیرۃ حلبیۃ جزء ثالث غزوہ تبوک ) اب کُنْ اَبَاخَیْثَمَۃ کے یہ معنے نہیں تھے کہ آ تو کوئی اور رہا تھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ وہ ابو خیثمہ بن جائے بلکہ کُنْ اَبَاخَیْثَمَۃ کے یہ معنے تھے کہ خداکرے کہ یہ آنے والا شخص ابو خیثمہ ہی ہو تو عربی زبان میں یہ ایک محاورہ ہے کہ بعض دفعہ خواہش کے اظہار کے لئے بھی کُنْ کا لفظ بول لیا جاتا ہے.یہ نہیں کہ جنس تبدیل کرنا مدنظر ہو اور اس کے لئے کُنْ کا لفظ استعمال کیا جائے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ہمارا یہ ارادہ ہے اور پھر وہ اسی طرح ہو جاتا ہے جس طرح خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے.پس یہ جو اعتراض کیا جاتاہے کہ کُنْ فَیَکُوْنُ سے معلوم ہوتا ہے کہ روح اور مادہ ازلی ہیں خدا تعالیٰ روح اور مادہ کو حکم دیتا ہے اور وہ ایک شکل اختیار کر لیتے ہیں یہ عربی زبان کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.بے شک کُنْ کسی چیز کو مخاطب کرکے بھی کہا
جاتا ہے مگر محاورہ میںبغیر کسی کو مخاطب کرنے کے بھی اس لفظ کا استعمال کر لیا جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُنْ اَبَا خَیْثَمَۃ فرمایا.اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ اے زید تو بکر کی شکل بدل لے بلکہ اس کے صرف اتنے معنے تھے کہ اے کاش یہ آنے والا ابو خیثمہ ہی ہو.اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور وہ چیز کسی شکل میں موجود ہو جاتی ہے ہاںخدا تعالیٰ کے لئے اے کاش کے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے بندے بے شک خواہش کا اظہار کریں گے تو اسی رنگ میں کریں گے کہ اے کاش فلاں بات اس طرح ہو جائے.لیکن خدا تعالیٰ صر ف اس قدر اظہار کرتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور وہ بات وقوع میں آ جاتی ہے یہاں بھی کُنْ فَیَکُوْنُ کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ہے یا کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی وہ خواہش اور وہ ارادہ فوراً پورا ہو جاتاہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عربی زبان کی یہ خوبی ہے کہ اس میں الفاظ وہ استعمال کئے جاتے ہیں.جو خود اپنے مقتضٰی پر دلالت کرنے والے ہوتے ہیں.ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ’’جب وہ کسی چیز کو چاہتا ہے ‘‘ یا کہیں گے کہ ’’جب وہ کسی بات کو چاہتا ہے تو ویسی ہی ہو جاتی ہے.‘‘ حالانکہ ’’چیز ‘‘اور ’’بات‘‘ حقیقت پر دلالت نہیں کرتے.دو چار دن ہوئے مجھے ایک شامی دوست کا خط آیا جس میں ایک فقرہ اس نے یہ لکھا کہ اِذَا اَرَادَاللّٰہُ بِشَیْ ئٍ.جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے.مجھے اس وقت خیال آیا کہ اپنی طرف سے تو اس نے بڑا عمدہ فقرہ لکھا ہےلیکن عربی زبان کے لحاظ’’ شی ءٌ ‘‘کے لفظ میں بھی ارادہ شامل ہوتا ہے چنانچہ شَیْ ءٌ کے معنے عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ وہ چیز جس کو چاہا جائے.لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٍ.اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے کیا وہ اپنی موت پر بھی قادر ہے حالانکہ شَیْ ءٌ کے معنے بات کے ہیںہی نہیں.شَیْ ءٌ کے معنے مشیت کے ہیں.پس اِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٍکے یہ معنے ہیں کہ اِنَّ اللہَ قَدِیْرٌ عَلٰی کُلِّ مَشِیَّتِہِ اب کیا یہ خدا کی مشیت ہو گی کہ وہ اپنے آپ کو مار ڈالے اگر یہ خدا کی مشیت نہیں ہو سکتی تو اِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٍپر یہ اعتراض بھی نہیں ہو سکتا.اسی طرح یہاں فرمایا ہے کہ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا اردو زبان کے لحاظ سے اس کا یہ ترجمہ ہو گا کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے.لیکن عربی کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جب وہ کسی ایسی چیز کا ارادہ کرے جس کا اس نے حکم دیا ہے.گویا امر کا لفظ مامور پر دلالت کرتا ہے اور شی ءٌ کا لفظ مشیت پر دلالت کرتا ہے.پس یہ الفاظ ہی ایسے ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا میں امر کے معنے مامور کے ہیںیعنی وہ چیز جس کا حکم دے.اوراِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٍمیں یہ مضمون نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے بلکہ اس کے یہ
معنے ہیں کہ ہر بات جس کو وہ چاہے اس پر وہ قادر ہے پس اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ کسی ایسی چیز کا فیصلہ کرے جو اس کے احکام میں شامل ہو اور اس کی شان کے مطابق ہو توفَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُوہ صرف کُنْ کہہ دیتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے.غرض امر کے معنے جہاں بات کے ہیں وہاں عربی زبان کے لحاظ سے اس میں سریہ ہے کہ بات وہ ہو جس کا فیصلہ کیا گیا ہو.جسے پسند کر لیا گیا اور جو اس کی شان کے مطابق ہو.یہ نہیں کہ ہر لغو بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دی جائے اور کہنا شروع کر دیاجائے کہ کیا خدا ایسا نہیںکر سکتا.جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ چوری کا ارادہ کر لے تو کیا چوری کر لے گا.حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اپنے آپ کو یہ حکم دیا کرتا ہے کہ جا اور چوری کر.اور کیا چوری ان چیزوں میں سے ہے جو خدا تعالیٰ کی پسندیدہ ہیں.پس یہ سوال ہی احمقانہ ہے.بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ بیٹے کی اسے ضرورت ہوتی ہے جو خود کام نہ کر سکے اور جسے اپنی مدد کے لئے دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہو.جب خدا تعالیٰ کو کسی مددگار کی ضرورت ہی نہیں اور جب وہ سارے کام خود کر لیتا ہے تو اس کے متعلق بیٹے اور روح القدس کا وجود کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے.وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ اور اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اس کی عبادت کرو.مُّسْتَقِيْمٌ۰۰۳۷ یہی سیدھا راستہ ہے تفسیر.فرماتا ہے یقیناً اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے فَاعْبُدُوْهُ پس تم اسی کی عبادت کرو.جب خدا باپ کے متعلق تم بھی سمجھتے ہو کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور وہ قادر مطلق ہے تو قادر مطلق کو چھوڑ کر کسی اور کو خدا تعالیٰ کا بیٹا تسلیم کرنے کی کیا ضرورت ہے.اللہ تمہارا بھی رب ہے اور میرا بھی.وہ تمہارا بھی مالک ہے اور میرا بھی جھگڑا کیسا اور رقابتیں کیسی.ان جھگڑوں کو چھوڑ واور سمجھ لوکہ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ یہ سیدھا راستہ ہے.تم ان چیزوں کی طرف چلے گئے ہو.جن کی عدم ضرورت کو تم بھی تسلیم کرتے ہو.تم جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ پر موت نہیں آ سکتی کہ اسے بیٹے کی ضرورت ہو.تم
جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کو بیوی کی ضرورت نہیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس کے اندر ایسے مادے جمع نہیںہوتے جو بیٹوں کی پیدائش کا موجب بنتے ہیں.پھر جب تم بھی ان باتوں کو تسلیم کر تے ہو تو آئو اور سیدھے راستہ پر چلتے ہوئے خدائے واحد کی عبادت کرو.صراط مستقیم کو چھوڑ کر تم ٹیڑھے راستہ کو کیوں اختیار کر رہے ہو.فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ١ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مگر مختلف گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا (اور سچائی کو چھوڑ دیا) پس جن لوگوں نے ایک بڑے دن میں حاضر مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۰۰۳۸ ہونے کا انکار کیا ان پر عذاب نازل ہوگا.تفسیر.اَحْزَابٌ حِزْبٌ کی جمع ہے اس کے عام معنے تو اَلْجَمَاعَۃُ مِنَ النَّاسِ کے ہوتے ہیں یعنی انسانوں کی کوئی جماعت.لیکن لغت والے لکھے ہیں کہ اس سے مراد خالی گروہ نہیں ہوتا بلکہ کُلُّ قَوْمٍ تَشَاکَلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اَعْمَالُھُمْ فَھُمْ اَحْزابٌ (اقرب).وہ تمام قومیں جن کے افراد کے قلوب میں ہم رنگی پیدا ہو چکی ہو اور ان کے اعمال میں بھی ہم رنگی ہو احزاب کہتے ہیں یوں تو پچاس ساٹھ یا سو آدمی کہیں کھڑے ہوں تو انہیں حزب کہہ دیں گے ان معنوں میں کہ یہ ایک طائفہ یا گروہ ہے.لیکن استعمال میں آہستہ آہستہ اس لفظ کو یہ خصوصیت دے دی گئی ہے کہ صرف ایسے لوگوں کو حزب قرار دیا جائے گا جو ایک خیال اور ایک عقیدہ کے ہوں.اگر کسی جگہ بہت سے لوگ جمع ہوں جن میں عیسائی بھی ہوں، یہودی بھی ہوں، مسلمان بھی ہوں، دہریہ بھی ہوں، سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بھی ہوں.تو محاورہ کے لحاظ سے ہم انہیں حزب نہیں کہیں گے.حزب اس وقت کہیں گے جب ان کے مذہبی اور تمدنی اور سیاسی خیالات اور اعمال ایک رنگ کے ہوں تو فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ میں اگر لوگوںکی عام جماعت مراد لی جائے تو یہ معنے درست نہیں ہوں گے.کیونکہ جن لوگوں کومسیح ؑ کے متعلق کوئی دلچسپی ہی نہیں انہوں نے اختلاف کیوں کرنا ہے اختلاف کرنے والے وہی ہو سکتے ہیں جن کی دلچسپی مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ ہے.لیکن دوسری طرف اگر حزب کے معنے ان لوگوں کے لئے جائیں جن کے قلوب اور اعمال میں مشارکت پائی جاتی ہو تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ایک رنگ اور خیالات کے ہوں اور جن کے اعمال میں بھی یکجہتی پائی جاتی ہو انہوں نے اختلاف کیا کرنا ہے یہ بھی تضاد رکھنے والی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف تو انہیں یک رنگ کہا جاتا ہے اور
دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اختلاف کیا.سو یاد رکھنا چاہیے کہ اختلاف درحقیقت پیدا ہی یک رنگی کے بعد ہوتا ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ اگر کسی امر کے متعلق لوگوں کو دلچسپی ہی نہ ہو تو انہوںنے اختلاف کیوں کرنا ہے.اسی طرح اختلاف بھی اسی وقت اہمیت رکھتا ہے جب خیالات اور اعمال میں مشارکت پائی جاتی ہو اور پھر اختلاف بھی نظر آ رہا ہو.مثلاً اگر مسلمانوں میں قرآن کریم کے بارہ میں اختلاف پیدا ہو جائے تو یہ اختلاف بڑی اہمیت رکھے گا کہ مسلمان ایک طرف قرآن کو بھی مانتے ہیں اور دوسری طرف اسی قرآن کے بارہ میں اختلاف بھی کرتے ہیں.لیکن اگر عیسائیوں میں قرآن کریم کے بارہ میں اختلاف ہو تو ان کا اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھے گا.کیونکہ ہر شخص کہے گا کہ یہ تو قرآن کو مانتے ہی نہیں.ان کا اختلاف کونسی اہمیت رکھتا ہے.تو اختلاف وہی اہمیت رکھتا ہے جو ایک عقیدہ اور ایک خیال رکھنے والے لوگوں کے اندر پایا جاتا ہومِنْۢ بَيْنِهِمْ کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں حزب کے معنے اَلْجَمَاعَۃُ مِنَ النَّاسِ کے نہیں بلکہ ہم خیال اور ہم عقیدہ لوگ مراد ہیں اور یہی قابل تعجب ہوا کرتا ہے کہ ایک کتاب پر ایمان رکھنے والے لوگ ہوں ایک رسول پر ایمان لانے والے لوگ ہوں.ایک مقصد اور ایک مدعا اپنے سامنے رکھنے والے لوگ ہوں اور پھر ان میں اختلاف پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ.یہ جو لوگ مسیح کو ماننے والےاور اس کے ساتھ عقیدت رکھنے والے ہیں ان کی کتاب ایک تھی.ان کے عقائد ایک تھے.ان کے اعمال ایک تھے.مگر کتنی بدقسمتی ہے کہ پھر انہوں نے اختلاف کرنا شروع کر دیا.کسی نے کہا کہ مریم ایک بشر تھی جو خدا تعالیٰ کا بیٹا جنی (لوقا باب ۱ آیت ۲۶ تا ۳۵)اور کسی نے کہا کہ مریم خدا تعالیٰ کی بیوی تھی اور وہ خدائی صفات اپنے اندر رکھی تھی.چنانچہ سال ڈیڑھ سال کی بات ہے پوپ نے اعلان کیا تھا کہ یہ عقیدہ کہ مریم خدا تعالیٰ کی بیوی اور خدائی صفات اپنے اندر رکھتی تھی.یہی رومن کیتھولکس کا آفیشل عقیدہ سمجھا جائے گا.پھر بعض نے کہا کہ خدا ایک ہے مسیح اپنے اندر صرف خدائی صفات رکھتے تھے اور وہ انسان کی صورت میں اس دنیا میں ظاہر ہوئے.بعض نے کہا کہ نہیںمسیح ؑ خدا تھا اور مسیح ؑکا خدا ہونا بطور ایک مادی وجود کے تھا.وہ کہتے ہیں تین شخصیتیں ماننی ضروری ہیں.اور بعض کہتے ہیں کہ تین شخصیتیں ماننی ضروری نہیں صرف اتنا ماننا ضروری ہے کہ ان تینوں میں خدائی حیثیتیں پائی جاتی ہیں.یہ لوگ اس مسیح کو جو دنیا میں ظاہر ہوا انسان ہی سمجھتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ خدا بیٹا الگ تھا جس کا اس مسیح کے ساتھ جو دنیا میں ظاہر ہو ا تعلق ہو گیا.یہ لوگ تین شخصیتوں کے نہیں بلکہ تین حیثیتوں کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک حیثیت سے خدا باپ ہے ایک حیثیت سے خدا بیٹا ہے اور ایک حیثیت سے خدا روح القدس ہے.مگر جو تین شخصیتیں مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا باپ اپنی ذات
میں الگ وجود ہے خدا بیٹا اپنی ذات میں الگ وجود ہے اور خدا روح القدس اپنی ذات میں الگ وجود ہے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْ خود انہی میں سے یہ گروہ جو عیسیٰ کو ماننے والا ہے باوجود اتحاد مذہب اور اتحاد عقیدہ اور اتحاد عمل کے اختلا ف کا شکار ہو گیا.فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ اس اختلاف کے نتیجہ میںلازماً ایک گروہ کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ وہ حق پر ہے اور ایک کے متعلق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ضلالت پر ہے چاہے دس گروہ ہو جائیں.مگر بہرحال اختلاف کے نتیجہ میں دو فریق بن جائیں گے.ایک حق پر ہو گا اور ایک باطل پر.وہ لوگ جو باطل عقائد میں مبتلا ہو گئے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَیْلُ خدائے واحد نے اپنا ایک بندہ توحید کے قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا مگر ان لوگوں نے اسی کو خد ابنا لیا.یہ بہت بڑا جرم ہے جو ان سے سرزد ہوا پس ان پر عذاب اور لعنت ہے.وَیْلٌ کے معنے عذاب کے بھی ہوتے ہیں اور وَیْلٌ کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں.پس فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑے دن میں حاضر ہونے کا انکار کر دیا ان پر ہمارا عذاب نازل ہو گا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں دوری کا پیغام دیا جائے گا.یوم عظیم کی انسان تمنا کیا کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس دن بدلے ملیں گے اور وہ کہتا ہے کاش اس دن مجھے بھی خدا نظر آجائے لیکن اگر وہ اس طرح نظر آئے کہ انسان اس کے سامنے مجرم کی طرح پیش ہو تو اس سے زیادہ ذلت اور بدقسمتی کی بات اور کیا ہو گی.حضرت ضرار ؓ ایک جنگ میں شامل تھے.قیصرکی فوجوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی کہ اس کی طرف سے ایک جرنیل نکلا جس نے بہت سے مسلمان سپاہی مار ڈالے حضرت ابوعبیدہ ؓ جو اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف تھے انہوں نے ضرار کو بلایا اور کہا.اب تم اس جرنیل کے مقابلہ کے لئے جائو.وہ نکلے اور جرنیل کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے مگر یک دم انہوں نے اپنی پیٹھ موڑی اور خیمہ کی طرف بھاگ پڑے.ان کا بھاگنا تھا کہ اسلامی لشکر میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی.اور عیسائیوں نے خوشی سے نعرہ بلند کیا کہ اتنا بڑا آدمی ہمارے جرنیل کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر میدان سے بھاگ نکلا ہے.حضرت ضرار جب واپس بھاگے تو کمانڈر انچیف نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جائو ضرار سے پتہ لو کہ کیا ہوا ہے اور وہ کیوں میدان سے بھاگا ہے؟ وہ شخص ان کے پاس پہنچا تو اس وقت ضرار اپنے خیمہ میں سے باہر نکل رہے تھے اس شخص نے کہا.ضرار آج تم نے سب مسلمانوں کو ذلیل کر دیا ہے اور سب میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے.کیونکہ تم اس جرنیل کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے بتائو تمہیں کیا ہوا تھا اور تم کیوں بھاگے؟ اس
نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں اس جرنیل کے مقابلہ کےلئے نکلا اور اس کے سامنے کھڑا ہوا تو یکدم مجھے یاد آیا کہ میںنے زرہ بکتر پہنی ہوئی ہے زرہ پہننے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تلوار بھی جسم پر اثر نہ کرے اور نیزہ بھی جسم پر اثر نہ کرے.وہ لوہے کی ایک صدری ہوتی ہے اور اگر اچھی مضبوط زرہ ہو تو تلوار نہ صرف اسے کاٹ نہیں سکتی بلکہ زرہ پر لگنے کی وجہ سے خود خراب ہو جاتی ہے تو انہوں نے کہا آج صبح میں نے زرہ پہن لی تھی جو اس وقت بھی میں نے پہنی ہوئی تھی جب میں اس کے سامنے ہوا تو چونکہ یہ جرنیل نیز ہ زنی اور تلوار چلانے کا بڑا مشاق ہے اس لئے میرے دل نے کہا اے ضرار کیا تجھے خدا تعالیٰ کی ملاقات سے اتنی نفرت ہے کہ اس بہادر جرنیل کے سامنے تو زرہ پہن کر کھڑا ہوا ہے تاکہ تو مارا نہ جائے اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ اگر آج میں مارا گیا تو میرے لئے جہنم کے سوا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا.کیونکہ خدا کہے گاکہ تجھے میرے ملنے کی خواہش نہیں تھی اگر خواہش ہوتی تو تو زرہ پہن کر کیوں لڑتا.چنانچہ میں دوڑا اور اپنے خیمہ میں آیا تاکہ میں زرہ اتار دوں اور اگر اس لڑائی میں مارا جائوں تو اللہ تعالیٰ سے خوشی اور بشاشت کے ساتھ ملوں تو یوم عظیم وہی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی ملاقا ت ہو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات وہی ہے جس سے خوشی اور سکون حاصل ہو.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےفَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيْمٍ.کتنی بدقسمتی ہے، کتنی بڑی لعنت کی بات ہے کہ ایک شخص خدا سے ملے مگر بجائے خوش ہونے کے اس کا دل چاہے کہ میں یہاں سے دور بھاگوں.یہ ذلت اور رسوائی ان لوگوں کو اس لئے پہنچے گی کہ جس سے ان کو تعلق جوڑنا چاہیے تھا اس سے انہوں نے اپنا تعلق توڑا اور وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اور ادنیٰ غلام تھا اسے انہوں نے خدا کی جگہ پر بیٹھا دیا.اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ يَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ جس دن وہ ہمارے حضور حاضر ہوںگے ان کی قوت شنوائی بہت تیز ہوگی اور نظریں بھی بہت تیز ہوںگی.لیکن وہ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۰۰۳۹ ظالم آج بہت بھاری گمراہی میں مبتلا ہیں.تفسیر.اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْیہ عربی زبان کاایک محاورہ ہے اور عام طور پر ہمارے صرفی اور نحوی اس کے یہ معانی کرتے ہیں کہ’’ وہ کیا ہی خوب سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے ‘‘ لیکن بعض نحویوں نے کہا ہے کہ اَسْمِعْ وَ اَبْصِرْ کلمہ تعجب کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی امر کے طور پر استعمال ہوا ہے(املاء مامن بہ الرحمن زیر آیت ۳۹).پس
اُن کے نزدیک اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان لوگوں کو سنائو اور انہیں اُن کی حالت دکھائو.یعنی ان لوگوں کی جو کیفیت ہے وہ ان پر اچھی طرح واضح کرو لیکن عربی محاورہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے پہلے معنے ہی قابل ترجیح ہیں کہ ’’وہ کیا ہی خوب سننے والے اور کیاہی خوب دیکھنے والے ہوںگے.‘‘ يَوْمَ يَاْتُوْنَنَا جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے.کیونکہ اُس روز تمام باتیں کھل جائیںگی.ہر قسم کے پیچ جو مذہبی مسائل میں پیدا ہو چکے ہیں دور ہوجائیںگے.پادریوں ،پنڈتوں اور مولویوں کی جھوٹی روایتوں کی وجہ سے انسانی عقلوں پر جو پردہ پڑگیاہے وہ اُٹھ جائے گا.کان اس روز حقیقت کو سن رہے ہوں گے اور آنکھیں اس روز حقیقت کو دیکھ رہی ہوںگی.لیکن اس حقیقت کے کھلنے کا کیا نتیجہ ہوگا.ایک مومن پر جب حقیقت کھلے گی تو چونکہ چیز وہی ہوگی جس کو وہ اس دنیا میں مان رہا ہوگا.اس لئے وہ خوش ہوگا کیونکہ اس کے سامنے کوئی نئی چیز نہیں ہوگی بلکہ وہی ہوگی جس کو وہ اس دنیا میں مان رہا تھا.ایک مومن جس نے خدا تعالیٰ کے متعلق یہ ایمان رکھا کہ وہ حمید ہے ، وہ مجید ہے ، وہ غفار ہے ، وہ ستار ہے ، وہ مہیمن ہے ، وہ شکور ہے ، وہ غفور ہے ، وہ رب ہے وہ رحمٰن ہے وہ رحیم ہے ، وہ مالک یوم الدین ہے.قیامت کے دن جب حقیقت کھلے گی او روہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا تو اسے رحمانیت کے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے.رحیمیت کے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے.مالک یوم الدین کے بڑے وسیع معنے معلوم ہوںگے اسی طرح خدا تعالیٰ کی باقی تمام صفات کے اُسے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ خوش ہوگا کہ میں نے صحیح راستہ اختیار کیا تھا.جیسے کوئی شخص دور سے سبزہ دیکھتا ہے تو اس کی او ر کیفیت ہوتی ہے.اور جب قریب آکر دیکھتاہے تو اس کی اور کیفیت ہوتی ہے.کیونکہ اس وقت اسے ہر چیز نظر آنے لگ جاتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ اس کی کیفیات میں فرق ہوتاہے سبزہ کے قریب پہنچ کر اس کی خوشی بڑھ جاتی ہے کم نہیں ہوتی لیکن ایک اور شخص ایسا ہوتاہے جو دور سے اژدہا دیکھتا ہے اور نظر کی کمزوری کی وجہ سے خیال کرتا ہے کہ وہ کوئی ٹیلہ ہے اور اس کی طرف بڑھنا شروع کردیتاہے تاکہ رات کے وقت وہاں قیام کرے اور شیر اور چیتے کے حملہ سے محفوظ رہے لیکن جب وہ اس کے قریب پہنچتاہے تو دیکھتاہے کہ وہ ٹیلہ نہیں بلکہ اژدہا ہے اور اس کا دل حسرت سے لبریز ہو جاتا ہے.اسی طرح قیامت کے دن جب کفار پر حقیقت کھلے گی تو وہ حسر ت کے ساتھ کہیں گے کہ یہ کیا نکلا؟ ہم تو کچھ اور ہی سمجھ رہے تھے.لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ اس کے یہ معنے نہیں کہ اَسْمِعْ بِھِمْ وَ اَبْصِرْ کے بعد ضلالت ملتی ہے کیونکہ جب آنکھیں کھل جائیں اور کان کھل جائیں تو اس کے بعد ہدایت ملتی ہے ضلالت نہیں ملتی.مطلب یہ ہے کہ
انہیں پتہ تو لگ جائے گا کہ جو کچھ وہ مان رہے تھے وہ بالکل غلط تھا مگر اس وقت وہی چیز انسان کے کام آسکتی ہے جس کو پہلے مانتاہو.وہ عقیدہ کام نہیں آسکتا جو اس روز انسان پر روشن ہوا ہو.ایک عیسائی جسے خدائے واحد نظر آجائے گا اس کے دیکھنے سے وہ شرک سے پاک نہیں ہوجائے گا اگر وہ پاک ہو جاتا تو دوزخ میں کیوں جاتاپس اس کے یہ معنے نہیں.کہ اس دن ان کو گمراہی ملے گی بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس دن اُن کو گمراہی کا علم حاصل ہوگا.وَ اَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِيْ اور اُن کو اس دن سے ڈرا جس دن (افسوس اور )مایوسی چھائی ہوئی ہوگی (یعنی قیامت کے دن سے ) جب سب غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۰۰۴۰ معاملات کا فیصلہ ہوجائےگا اور (اب تو )یہ لوگ غفلت میں (پڑے ہوئے) ہیں اور ایمان نہیں لاتے.تفسیر.’’حسرت کادن ‘‘اس لئے کہا کہ اس روز حقیقت کھل جائے گی مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہوگا اور سامنے کچھ اور نظر آرہا ہوگا اس لئے انہیںاپنے عقائد کی غلطی معلوم کر کے افسوس ہوگا اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ جس دن حقیقت کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا یا جس دن امر الٰہی کا اعلان کر دیا جائے گا اور یہ فیصلہ اور امر الٰہی کا اعلان سچائی کی تائید میں ہوگا جھو ٹ کی تائید میں نہیں.پس جب اعلان ہوگا تو ان کے دلوں میں حسرت ہوگی کہ کاش ہم اس سے پہلے ایمان لا چکے ہوتے.وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ مگر تمام حقائق کو سمجھ لینے کے باوجود پھر بھی وہ غفلت میں مبتلا رہیں گے اور ایمان لانے کے لئے اپنے قدم نہیں بڑھائیں گے.یہاں سے یہ ایک عجیب حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ صداقت کو دیکھ کر بھی دل کبھی یکدم نہیں بدلا کرتے.اَسْمِعْ وَ اَبْصِرْمیں بتایا تھا کہ وہ دیکھ بھی رہے ہوں گے اور وہ سن بھی رہے ہوں گے اور پھر يَوْمَ يَاْتُوْنَنَا وہ ہمارے پاس بھی پہنچ چکے ہوںگے اور قُضِيَ الْاَمْرُفیصلہ بھی ہو جائے گالیکن وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ پھر بھی بوجہ سابق کفر اور بداعمالیوں کے ان کا دل اتنا ملوث ہوگا کہ حقیقت کو دیکھنے کے باوجود اس کے اندر صفائی پیدا نہیں ہوگی اور وہ دوزخ میں داخل کئے جائیں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ حقیقت کھل جانے کے بعد بھی بوجہ اپنی پرانی عادت کے انسان اپنے طریق کو نہیں چھوڑ سکتا اور پھر بھی اسے تاریکی اور ظلمت ہی پسند آتی ہے چنانچہ دیکھ لو ہر قسم کے نشانات دیکھنے کے باوجود کفار پھر بھی اعراض ہی کرتے رہتے ہیں ان کے دلوں میں اتنی صفائی پیدا نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ کا نو ر ان
میں جذب ہوسکے.وہ نشانات دیکھتے ہیں مگر پھر بھی ہدایت سے دور رہتے ہیں.اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَيْهَا وَ اِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَؒ۰۰۴۱ ہم یقیناً ساری زمین کے بھی وارث ہونگے اور ان لوگوں کے بھی جو اس پر رہتے ہیں اور (آخر کار )سب لوگ ہماری طرف ہی لوٹاکر لائے جائیں گے.تفسیر.گذشتہ آیات میں عیسائیوں کا ذکر کرکے بتایا گیا تھا کہ ایک دن ان پر حقیقت کھل جائے گی اور انہیں پتہ لگ جائے گا کہ خدا تعا لیٰ ہمارے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور دین کے ساتھ ہے لیکن باوجود اس علم کے وہ سچائی کو قبول کرنے سے اعراض کریں گے اب فرماتا ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَيْهَا وَ اِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ان لوگوں کو انسانوں اور مالوں پر حکومت حاصل ہوگی لیکن فیصلہ کے دن انسانوں اور مالوں کی بادشاہت مومنوں اور سچائی پر قائم ہونے والوں کو دے دی جائے گی اور ان لوگوں سے چھین لی جائے گی گویا اس میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس طرف بھی کہ عیسائیت کا اس وقت ساری دنیا پر غلبہ ہوگا جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس وقت عیسائیت کے پاس بے شک حکومت تھی مگر ان کی حکومت بہت ہی محدود تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک زمانہ میں ساری دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی جس کے معنے یہ ہیں کہ پہلے ساری دنیا کی حکومت ان کے قبضہ میں چلی جائے گی اور پھر وہ حکومت ان سے چھینی جائے گی.کیونکہ کوئی چیزتبھی چھینی جاسکتی ہے جب وہ دوسرے کے پاس موجود ہو.پس یہ کہنا کہ دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی اس میں دو پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں.ایک یہ کہ ساری دنیا کی حکومت ان کو ملے گی اور دوسری یہ کہ دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ہم کسی غریب آدمی کے متعلق کہیںکہ ایک سال کے بعد ہم ایک کروڑ روپیہ اس سے چھین لیں گے.اب اس فقرہ میں یہ بھی مفہوم پایا جاتاہے کہ ایک کروڑ روپیہ اس غریب آدمی کے قبضہ میں آجائے گا اور یہ بھی کہ وہ کروڑ روپیہ اس سے چھین لیا جائے گا.اسی طرح اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ میں بھی دوپیشگوئیاں کی گئی ہیں ایک یہ کہ عیسائی ایک زمانہ میں ساری دنیا پر چھا جائیں گے اور ساری دنیا کے وارث ہو جائیں گے اور تمام بنی نوع انسان ان کے ماتحت ہوجائیں گے اور پھر یہ کہ ہم ہی اس کے وارث ہوجائیں گے یعنی ہم وہ زمین ان سے چھین لیں گے اور اپنے نیک بندوں کو دے دیں گے.وَ مَنْ عَلَيْهَا اور پھر زمین پر جتنے لوگ ہوں گے ان کے بھی ہم ہی وارث
ہوجائیںگے یعنی نہ صرف عیسائی اس وقت دنیا کے بادشاہ ہوں گے بلکہ لوگ بھی کثرت کے ساتھ عیسائی ہوجائیں گے.اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ میں بتایا کہ انہیں دنیوی شان و شوکت حاصل ہوگی اور مَنْ عَلَيْهَا میں بتایا کہ تعدادبھی ان کی زیادہ ہوگی چنانچہ اس کے بعد امریکہ دریافت ہوا جو عیسائیوں کے قبضہ میں ہے.اب اگر امریکہ چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا کیونکہ وہاں ان ہی کا غلبہ ہے اگر فلپائن چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا.اگر چین کے بہت سے علاقے چھینے جائیں تو عیسائیوں سے ہی چھینے جائیں گے.کیونکہ وہاں کئی کروڑ عیسائی پائے جاتے ہیں اگر آسٹریلیا چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا اگر روس چھینا جائے تو گو وہ دہریہ ملک ہے بہر حال عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا.اگر یورپ چھینا جائے تو عیسائیوںسے ہی چھینا جائے گا اگر افریقہ چھینا جائے تو چونکہ اس کا اکثر حصہ عیسائی ہے اس لئے وہ بھی عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا اگر جزائر چھینے جائیں تو عیسائیوں سے ہی چھینے جائیں گے غرض فرمایا اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَ مَنْ عَلَيْهَا ہم وارث ہوجائیں گے زمین کے بھی اور ان کے بھی جو اس زمین پر رہتے ہیں اور ان کو اپنی ماتحتی میں لے آئیں گے.ماتحتی کے معنے یہ ہیں کہ وہ لوگ خدئے واحد کی بادشاہت کو قبول کرلیں گے پہلی آیت میں بتایا تھا کہ عیسائیت بحیثیت قوم ایمان نہیں لائے گی.اب بتاتاہے کہ عیسائیت تو قیامت تک باقی رہے گی لیکن جہاں تک اکثریت کا سوال ہے زمین بھی ان سے چھین لی جائے گی.اور ان کی اکثریت بھی ان سے چھین لی جائے گی اور زمین خدا کی ہوجائے گی یعنی ان لوگوں کی ہوجائے گی جو خدائے واحد کے پرستار ہیں اور روئے زمین کے تمام لوگ بھی موحدین کے ماتحت آجائیں گے.گویا اس میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ احمدیت دنیا کے اکثر افراد کو اپنے اندر جذب کرلے گی اور عیسائیت اس کے مقابلہ میں شکست کھا جائے گی.وَ اِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ اور عیسائی لوگ جو آج خدائے واحد سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں اور ایک خدا کے بندے کی پرستش کررہے ہیں مسیح ؑ کے گرد ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر خدا کی طرف لوٹائے جائیںگے یعنی ان میں تبلیغ اسلام کی جائے گی اور وہ اسلام کو قبول کرکے لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ کی طرف لوٹیں گے اور شرک کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجائیں گے.
وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۰۰۴۲ اور تو قرآن کریم کے رو سے ابراہیم کا ذکر کر.وہ یقیناً بڑا راستباز تھااور نبی تھا.تفسیر.یوں تو اَلْکِتَاب ایک عام لفظ ہے جو کسی جگہ قرآن کریم کے لئے استعمال ہوا ہے اور کسی جگہ بائبل کے لئے مگر اس جگہ الکتاب سے مراد قرآن کریم ہی ہے اور اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تو قرآن کریم کے رو سے ابراہیم کا ذکر کر یعنی تو ابراہیم کو اس شکل میں پیش کر جو قرآن کریم میںبیان کی گئی ہے نہ کہ اس شکل میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل میں ابراہیم کو صدیق نہیں بتایا گیا بلکہ اس کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیا ہے کہ اس نے بادشاہ سے ڈر کر اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا چنانچہ اس بارہ میں بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ابراہام وہاں سے جنوب کے ملک کی طرف چلا اورقادس اور شور کے درمیان ٹھہر ا اور جرار میں قیام کیا اور ابراہام نے اپنی بیوی سارہ کے حق میں کہا کہ وہ میری بہن ہے اور جرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ کو بلوالیا لیکن رات کو خدا ابی ملک کے پاس خواب میں آیا اور ا سے کہا کہ دیکھ تو اس عورت کے سبب سے جسے تو نے لیاہے ہلاک ہوگا کیونکہ وہ شوہر والی ہے پر ابی ملک نے اس سے صحبت نہیں کی تھی سو اس نے کہا اے خداوند کیا تو صادق قوم کو بھی مارے گا.کیا اس نے خود مجھ سے نہیںکہا کہ یہ میری بہن ہے اور وہ آپ بھی یہی کہتی تھی کہ وہ میرا بھائی ہے میں نے تو اپنے سچے دل اور پاکیزہ ہاتھوں سے یہ کیااور خدا نے اسے خواب میں کہاہاں میں جانتا ہوں کہ تو نے اپنے سچے دل سے یہ کیا اور میں نے بھی تجھے روکا کہ تو میرا گناہ نہ کرے اسی لئے میں نے تجھے اس کو چھونے نہ دیا اب تو اس مرد کی بیوی کو واپس کردے کیونکہ وہ نبی ہے اور وہ تیرے لئے دعاکرے گا او رتو جیتارہے گا.پر اگر تو اسے واپس نہ کرے تو جان لے کہ تو بھی اور جتنے تیر ے ہیں سب ضرور ہلاک ہوں گے تب ابی ملک نے صبح سویرے اٹھ کر اپنے سب نوکروں کو بلایا اور ان کو یہ سب باتیں کہہ سنائیں تب وہ لوگ بہت ڈرگئے اور ابی ملک نے ابراہام کو بلاکر اس سے کہا کہ تو نے ہم سے یہ کیا کیا اور مجھ سے تیرا کیا قصو ر ہوا کہ تو مجھ پر اور میری بادشاہی پر ایک گناہ عظیم لایا.تو نے مجھ سے وہ کام کئے جن کا کرنا مناسب نہ تھا ابی ملک نے ابراہام سے یہ بھی کہا کہ تو نے کیا سمجھ کر یہ بات کی ابراہام نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ خدا کا خوف تو اس جگہ ہرگز نہ ہوگا اور وہ مجھے میری بیوی کے سبب سے مارڈالیںگے اور فی الحقیقت وہ میری
بہن بھی ہے کیونکہ وہ میر ے با پ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں پھر وہ میری بیوی ہوئی اور جب خدا نے میرے باپ کے گھر سے مجھے آوارہ کیا تو میں نے اس سے کہا کہ مجھ پر یہ تیری مہربانی ہوگی کہ جہاں کہیں ہم جائیں تو میرے حق میں یہی کہنا کہ یہ میرا بھائی ہے.‘‘ (پیدائش باب ۲۰آیت ۱تا ۱۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ بائبل ابراہیم کو جھوٹا قرار دیتی ہے پس چونکہ بائبل میں ابراہیم کو صدیق نہیں بتایا گیا بلکہ اس کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیاہے کہ اس نے بادشاہ سے ڈرکر اپنی بیوی کو بہن کہا اور اپنی بیوی سے بھی یہی کہاکہ تو مجھے اپنا بھا ئی کہنا اس لئے فرماتا ہے کہ تو ابراہیم کو اس شکل میں پیش کر جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے نہ کہ اس شکل میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ بیان بالکل غلط ہے اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ابراہیم صدیق بھی تھا اور نبی بھی تھا.صدیق کے کئی معنے ہوتے ہیں ایک معنے صدیق کے یہ ہیں کہ مَنْ کَثُرَ مِنْہُ الصِّدْقُ جو شخص زیادہ سچ بولے.کبھی کبھار بے احتیاطی ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ اپنی طرف سے وہ سچ بولنے کی کوشش کرے.دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ مَنْ لَا یَکْذِبُ قَطُّ جس کے منہ سے کسی صورت میں بھی جھوٹ نہ نکلے گویا وہ بہت زیادہ احتیاط سے اپنی زبان سے الفاظ نکالنے کا عادی ہو اور غلطی سے بھی جھوٹ نہ بولتا ہو.تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ مَنْ لَا یَتَاَتّٰی مِنْہُ الْکِذْبُ لِتَصَوُّرِہِ الصِّدْق جو شخص سچ کا اتنا عادی ہو کہ جھوٹ اس کے منہ سے نکل ہی نہ سکے گویا دوسرے معنے تو یہ تھے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا لیکن تیسرے معنے یہ ہیں کہ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا.سچائی اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے.چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ مَنْ صَدَقَ بِقَوْلِہٖ وَ اِعْتَقَادِہٖ وَ حَقَّقَ صِدْقَہٗ بِفِعْلِہٖ جو شخص اپنے قول اور اعتقاد سے دونوں باتوں میں سچائی بیان کرے یعنی اس کی بات بھی سچی ہو او راس کا عقیدہ بھی سچاہو.مثلاًایک عیسائی دیکھتاہے کہ اس کے بیٹے نے زید کو مارڈالا ہے.مقدمہ عدالت میں پیش ہوتاہے اور اسے گواہی کے لئے بلایا جاتاہے وہ کہتاہے کہ واقعہ میں میرے بیٹے نے اس شخص کو ماراتھا.وہ اپنے بیٹے کی جان کی پروا نہیں کرتا اور سچ بولتاہے اب ایسے شخص کو ہم صادق تو کہیں گے لیکن اسے صدیق نہیں کہیں گے.کیونکہ صدیق میں یہ شرط ہے کہ مَنْ صَدَقَ بِقَوْلِہ وَ اِعْتَقَادِہٖ وہ اپنے قول میں بھی سچاہو اور اپنے اعتقاد میں بھی سچاہو.اس نے بے شک سچ بولا مگر اعتقادی لحاظ سے وہ سچائی پر قائم نہیں تھاپس وہ صادق تو ہے مگر صدیق نہیں وَحَقَّقَ صِدْقَہُ بِفَضْلِہٖ اور پھر اس کا
عمل بھی اس کی قولی او ر اعتقادی سچائی کی تائید کررہاہو یہ گویا کمال صدیقیت ہوتاہے.پھر لکھا ہے فَالصِّدِّیْقُوْنَ ھُمْ قَوْمٌ دُوَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ فِی الْفَضِیْلَةِ یعنی اللہ تعالیٰ کے انعامات جو انبیاء کو حاصل ہوتے ہیں وہ ان سے نیچے اتر کر صدیقین کو حاصل ہوتے ہیں.(مفردات) چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت یہ لفظ بولا ہے.اس لئے لازماًہمیں اس کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو شان ابراہیمی کے مطابق ہوں اور وہ تیسرے اور چوتھے معنے ہی ہوسکتے ہیں یعنی سچ کی اسے اتنی عادت تھی کہ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتاتھا.سچ اس کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا وہ ایسا راستباز تھا کہ اس کی بات بھی سچی تھی اس کا اعتقاد بھی سچا تھا اور اس کا عمل بھی سچا تھا.اس جگہ ایک اور سوال بھی پیدا ہوتاہے جس کا حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ صدیق نچلا درجہ ہے اور نبوت اس سے بڑا مقام ہے.جب کسی شخص کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ نبی ہے تو صدیقیت کے معنے اجمالی طور پر اسی میں آجاتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو صِدِّيْقًا نَّبِيًّا کیوں کہا کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ صدیق ہوکر نبی ہوگیا.یا وہ صدیق اور نبی ایک وقت میں تھا ؟ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ نہ صرف صدیق کا لفظ بلکہ درحقیقت تمام صفات حسنہ اپنے اندر دو۲ معنے اور دواستعمال رکھتی ہیں ایک استعمال بطور صفت کے ہوتاہے ایک استعمال بطور درجہ کے ہوتاہے.مثلاًجب ہم کسی شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ کاذب ہے.تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جھوٹ اور کذب بیانی کی صفت اس میں پائی جاتی ہے.لیکن کبھی کاذب کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص نے جھوٹ اور کذب بیانی کی اتنی عادت ڈال لی ہے کہ کاذب اس کا ایک درجہ اور مقام ہوگیا ہے.غرض جتنے بھی صفاتی الفاظ آتے ہیں وہ سب دو رنگ میں استعمال ہوتے ہیں کبھی وہ صفاتی الفاظ صدور فعل پر دلالت کرتے ہیں اور کبھی حصول مقام پر دلالت کرتے ہیں.کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ بھی فعل صادر ہوجائے تو وہ لفظ اس شخص کی طرف منسوب کردیا جاتاہے اور کبھی ان معنوں میں استعمال ہوتاہے کہ یہ چیز اسے مقام کے طور پر حاصل ہے یا وہ اس چیز کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ یہ اس کی حیثیت ذاتیہ بن گئی ہے جب اس قسم کے الفاظ صفات کے طور پر استعمال ہوں تو ہر بڑے درجہ کے لئے چھوٹا درجہ استعمال ہو سکتا ہے.مثلاً ہر نبی مومن بھی ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ(یونس:۱۰۵) مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اور مقام مومن کا تھا.پس صالح شہید اور صدیق کے الفاظ بطور صفات بھی استعمال ہوتے ہیں اور بطور درجہ بھی جب صفات کے طور پر
استعمال ہوں تو ہر بڑے درجہ کے لئے چھوٹادرجہ استعمال ہو سکتا ہے مثلاًہر شہید صالح ہے ،ہر صدیق صالح اور شہید ہے اور ہر نبی صدیق ، شہید اور صالح ہے لیکن جب درجہ کے معنوں میں استعمال ہو تو پھر ہر لفظ اپنے درجہ کے لئے بولا جائے گا دوسرے کے لئے نہیں کیونکہ درجہ کے معنے یہ ہوتے ہیں یہی خصوصیت مسلّمہ اس میں پائی جاتی ہے.مثلا ً جب کوئی شخص صدیق کے درجہ کو حاصل کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیقیت کا درجہ حاصل کرلیا ہے.ایسی صورت میںشہید کا لفظ اس کے ساتھ درجہ اور مقام کے بیان کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا.یا نبی کی اہم حیثیت چونکہ نبوت کی ہوتی ہے اور یہی اس کا مقام ہوتاہے اس لئے جب اس کے مقام کااظہا ر کیاجائے گا تو صرف نبی کا لفظ استعمال کیا جائے گانبی کے ساتھ صدیق کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ نبوت کا درجہ صدیقیت کے مقام پر مشتمل ہوتاہے پس جب کسی بڑے درجہ کے ساتھ چھوٹا درجہ استعمال کیا جائے تو وہ درجہ اور مقام کے بیا ن کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صفت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے.اس جگہ بھی صدیق کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے.یہ مطلب نہیں کہ وہ مقام صدیقیت حاصل کرنے والا تھا.بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ہمارا نبی تھا جس کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ سچ بولنے میں اپنے زمانہ میں بے نظیر تھا پس یہاں صدیق سے مراد درجہ نہیں بلکہ راستبازی کا اعلیٰ نمونہ مراد ہے.ابراہیم ؑکون شخص تھا اور کیوں یہاں ابراہیم ؑ کا ذکر کیا گیا ؟ یہ ایک سوال ہے جو طبعی طور پر پیدا ہوتاہے.عجیب بات یہ ہے کہ اس سورۃ میں پہلے زکریا ؑ کا ذکر کیا گیا.پھر یحییٰ ؑ کا ذکر کیا گیا.پھر مسیح ؑ کا ذکر کیا گیا اور مسیح ؑ کے بعد اب ابراہیم ؑ کا ذکر شروع کردیا ہے.ابراہیم ؑ کے بعد اسحاق ؑ یعقوب ؑ اور موسیٰ ؑ کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اسمٰعیل ؑ کا ذکر کیا گیا ہے عیسائی کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انبیا ء کا آگے پیچھے ذکر اس لئے کیا ہے کہ انہیں پتہ نہیں تھا کہ پہلے کون نبی ہوا ہے او ربعد میں کون نبی آیا تھا.چنانچہ اسی لئے انہوں نے مسیح ؑ کے بعد ابراہیم کا ذکر کردیا.حالانکہ حضرت ابراہیم ؑ بہت پہلے گذرے تھے اور موسیٰ ؑ کے بعد اسمٰعیل ؑ کا ذکر کردیا حالانکہ موسیٰ ؑبعد میں ہوئے ہیں او راسماعیلؑ پہلے گذرچکے تھے(تفسیر القرآن از وہیری).پس ان کے نزدیک اس آگے پیچھے ذکر کی وجہ یہ ہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ کونسا نبی پہلے گذراہے اور کونسا نبی بعد میں آیا ہے.حالانکہ جس ترتیب سے انبیاء گذرے ہیں قرآن کریم نے اس ترتیب کے ساتھ ہی ان کو بیان کیا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ قرآن کریم کو نبیوں کی تاریخ کا علم تھا بلکہ خود بعض یوروپین مصنفین نے لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ انبیاء کس ترتیب سے آئے ہیں غلط ہے.قرآن کریم نے اس ترتیب سے بھی انبیاء کا ذکر کیا ہے جس
ترتیب کے ساتھ وہ آئے ہیں پس اگر کسی جگہ قرآن کریم نے اس ترتیب سے اختلاف کیا ہے تو وہ کہتے ہیںکہ اس کی کوئی اور وجہ ہوگی گویا عیسائیوں کے اعتراض کو انہوں نے خود ہی ردکردیا ہے اور کہا ہے کہ جہاں قرآن کریم انبیاء کا تاریخی طور پر ذکر کرتاہے وہاں اسی ترتیب سے ذکر کرتاہے جس ترتیب سے وہ دنیا میں آئے ہیں اور جہاں اس نے آگے پیچھے ذکر کیا ہے وہاں اس کا کوئی اور مقصد ہوگا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوںکی تاریخ کا علم نہیںتھا.میرے نزدیک حضرت مسیح ؑکے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت اپنے آپ کو شاخ قرار دیتی ہے موسویت کی اور موسویت اپنے آپ کو کڑی قراردیتی ہے ابراہیمی سلسلہ کی گویا مسیح ؑ کا تعلق آخر ابراہیم ؑ سے جاکر ثابت ہوتاہے اور یہی بات ہمیں انجیل بتاتی ہے چنانچہ انجیل میں کہیں ابراہیمی تخت کا حضرت مسیح کو وارث بتایاگیا ہے اور کہیں دائو دی تخت کا اس کو وارث بتایا گیاہے(لوقا باب ۱ آیت ۳۲).پس مسیح ؑ کی صداقت جب بھی زیر بحث آئے گی ابراہیم کا ذکر ضرور کیا جائے گا کیونکہ جب مسیحیت ابراہیمی سلسلہ کی ایک شاخ ہے اور جڑیہ ثابت کرتی ہو کہ خدا ایک ہے اور شاخ یہ کہتی ہو کہ خدا دو یا تین ہیں تو لازماًہمیں ماننا پڑے گا کہ شاخ جو کچھ کہہ رہی ہے وہ غلط ہے جب بانی سلسلہ موسویہ یا بانی سلسلہ اسرائیلی شرک کا دشمن تھا تو اس کی نسل کا ایک فردشرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہو سکتاہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے زکریا کا ذکر کیا جو یحییٰ کے والد تھے پھر یحییٰ ؑکا ذکر کیا جو مسیح ؑ کے لئے ارہاص کے طور پر آئے تھے پھر مسیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئیے کہ وہ ہمارا موحد بندہ تھا.اس نے شرک کی تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش کی تاکید کی ہے.اب فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں تم کہتے ہو کہ مسیح کے اندر خدائی پائی جاتی تھی اور مسیح دنیا کا آخری نجات دہندہ تھا ، اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہم تمہیں ابراہیم کی طرف لے چلتے ہیں اور تمہیں بتاتے ہیںکہ وہ ایک خدا مانتاتھا اور شرک کا شدید ترین دشمن تھا اور تم سمجھ سکتے ہو کہ جب جڑ ایک بات کا انکا ر کرتی ہو تو شاخ کس طرح کہہ سکتی ہے کہ میرے اندر وہ بات پائی جاتی ہے پس یہ ایک طبعی ترتیب ہے جس کے ماتحت خد اتعالیٰ نے مسیح کا ذکر کر نے کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور عیسائی قوم کو اس طرف تو جہ دلائی کہ تم سوچو کہ ابراہیم کیا کہتاہے ابراہیم کاکام بائبل میں دیکھو اس نے جو تعلیم دی ہے اس کو پڑھو اور پھرغور کرو کہ وہ باتیں جو تم کہتے ہوکہ مسیح نے کہی ہیں کیا وہ ابراہیم کی باتوں سے ملتی ہیں یا وہ اس کے خلاف ہیں اگر وہ اس کے خلاف ہیں تو معلوم ہوا کہ وہی باتیں مسیح کے متعلق سچ ہیں جو ہم مسیح کے متعلق کہتے ہیں پس مسیح کے بعد ابراہیم کا ذکر قابل اعتراض نہیں بلکہ طبعی ترتیب یہی تھی کہ ابراہیم کا ذکر کیا جاتا اور یہ ترتیب
دووجوہ سے اختیا رکی گئی ہے.اول یہ بتانے کے لئے کہ بانی سلسلہ موسویہ یا اسرائیلی شرک کا دشمن تھا.پھر اس کی نسل کا ایک فرد شر ک کا قائم کرنے والا کس طرح ہو سکتا ہے.دوم یہ بتانے کےلئے کہ ابراہیم ؑ نے دو بیٹوں کے متعلق خبر دی تھی ایک اسحاق کی جس میں سے موسیٰ نے سلسلہ کی بنیاد رکھی دوسرے اسماعیل کی موسوی سلسلہ کو کبھی ختم ہونا چاہیے تھاتاکہ اسماعیلی سلسلہ کے وعدے شروع ہوتے.پس مسیح کی آمد سے جو بغیر باپ کے تھا اسرائیلی سلسلہ ختم ہوا تاکہ اسماعیلی سلسلہ شروع ہو اسی وجہ سے اس سورۃ میں پہلے زکریا کا ذکر کیا جو مسیح کے لئے بطور ارہاص آنے والے وجود کے والد تھے.پھر حضرت یحییٰ کا ذکر کیا کیونکہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص آئے تھے پھر مسیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل تھے اس کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب مسیحیت ایک شاخ ہے ابراہیمی سلسلہ کی تو تم سوچو کہ کیا یہ شرک کی تعلیم جڑمیں بھی پائی جاتی تھی یا نہیں جب ابراہیم جس کی تم ایک شاخ ہو موحد تھا تو اس کی نسل کا ایک فردشرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہوگیا اس کے بعد اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ وعدے جو اسحاق کے ساتھ کئے گئے تھے پورے ہوگئے اور تمہارا سلسلہ ختم ہوگیا اب ہم تمہیں ان وعدوں کی طر ف توجہ دلاتے ہیں جو ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کے متعلق کئے گئے تھے اور تمہیں بتاتے ہیںکہ انہی وعدوں کے مطابق اسماعیل کی نسل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں پھر تمہیں ان پر کیا اعتراض ہے اگر اوپر کا مضمون مد نظر نہ ہوتا تو اس ترتیب کا کوئی مفہوم نہ تھا.کیونکہ مسیح کے بعد ابراہیم نہ تھے اور موسیٰ کے بعد اسماعیل نہ تھے پس مسیح کے بعد ابراہیم پھر موسیٰ اور پھر اسماعیل کی طرف چلے جانا صاف بتاتاہے کہ اس جگہ وہی مضمون مراد ہے جو میں نے بیان کیا ہے دوسر اکوئی مضمون اس جگہ مراد نہیں انبیاء کی ترتیب کے بارہ میں یہ وہ علم ہے جوخد اتعالیٰ نے صر ف مجھے ہی عطافرمایا ہے چنانچہ تیرہ سو سال میں جس قدر تفاسیر لکھی گئی ہیں ان میں سے کسی تفسیر میں بھی یہ مضمون بیان نہیں کیا گیا اور کوئی نہیں بتا تا کہ نبیوں کا ذکر کرتے وقت یہ عجیب ترتیب کیوں اختیار کی گئی ہے صر ف مجھ پر خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کو کھولا ہے جس سے اس ترتیب کی حکمت اور اہمیت بالکل واضح ہوجاتی ہے.بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام ابرام آتاہے اور لکھا ہے کہ ’’جب ابرام ننانوے برس کا ہو اتب خدا وند ابرام کو نظر آیا اور اس سے کہا کہ میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو او ر میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتاہوں کہ میں تجھے
نہایت بڑھائوں گا تب ابرام منہ کے بل گرااور خدااس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابراہام ہوگا.کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کاباپ ٹھہرایا.‘‘ (پیدائش باب ۱۷آیت ۱تا ۵) انسائیکلوپیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے کہ ابراہام کے کوئی معنے نہیں.صرف ضلع جگت کے طور پر ابرام کو ابراہام کہہ دیا گیاہے(زیر لفظ Abraham) ضلع جگت کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایک لفظ سن کر اسی کے مشابہ کوئی اور لفظ اس سے نکال لیاجائے مثلاً تاش کا ایک پتہ اینٹ ہوتاہے اور ایک پتے کانام پان ہوتاہے.فرض کر و دوشخص آپس میں تاش کھیل رہے ہیں اور ایک نے اینٹ کا پتہ پھینکا ہے دوسراکہتاہے ’’گلوری کھائیں گے ‘‘اور یہ کہہ کر وہ پان کا پتہ پھینک دیتاہے اس کو ضلع جُگت کہیں گے یعنی لفظ سے لفظ کی طرف اشارہ کرنا یعنی وہ پان کے پتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اسی کے مشابہ ایک اور لفظ اس سے نکال لیتا ہے اور کہتاہے ’’گلوری کھائیں گے ‘‘ اسی طرح انسا ئیکلو پیڈیا ببلیکا والا لکھتاہے کہ ابرام سے ابراہام بھی ضلع جگت کے طور پر کردیا گیاہے پہلے ابرام نام تھا پھر کہہ دیا کہ اب چونکہ تو بڑا ہوگیاہے اس لئے تو ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہوگا ورنہ اس کے معنے کوئی نہیں مگر یہ درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ عربی اور عبرانی زبانیں آپس میں بہت حد تک ملتی ہیںصرف فرق یہ ہے کہ عبرانی زبان کئی سوسال تک بولی نہیں گئی اور بوجہ اس کے کہ وہ بولی نہیں گئی لوگ اس زبان کی باریکیاں بھول گئے ہیں لیکن عربی زبان ہمیشہ بولی جا تی رہی ہے اور اس وجہ سے عربی زبان کے الفاظ کی باریکیاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں اگر لوگ عبرانی کو نہ بھولتے تو انہیں معلوم ہوتاکہ عبرانی زبان عربی میں سے ہی نکلی ہوئی ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لوکہ عبرانی زبان عربی کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے مثلا ً حضرت مسیح کایہ فقرہ کہ ایلی ایلی لما سبقتانی(متی باب ۲۷ آیت ۴۶).یہ عربی سے کتنا مشابہ ہے سَبَقْتَنِیْ عربی زبان کا لفظ ہے جسے عبرانی میں ذرالمبا کرکے سبقتانی بنادیا گیا ہے اور اٖیل بھی عربی زبان کا ہی لفظ ہے جو خدا کے لئے استعمال ہوتاہے اور لِمَا دراصل لِمَ ہے پس جبکہ عربی اور عبرانی آپس میں اتنی ملتی ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آیا عربی زبان میں بھی اس کے کوئی معنے پائے جاتے ہیں یا نہیں.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ عربی زبان میں اَبْرَمَ کے معنے بات کو پکا کرنے کے ہوتے ہیں چنا نچہ اَبْرَمَ الْکَلَامَ کے معنے ہوتے ہیں اَحْکَمَہُ اس نے کلام کو خوب پکا کیا اور اَبْرَمَ عَلَیْہِ فِی الْجِدَالِ کے معنے ہوتے ہیں اَلَـحَّ قَاصِدًا اِفْحَامَہُ (اقرب) اس نے بات کو خوب پکا کیا اور نہایت عمدگی سے بحث کی جس میں اس نے غرض یہ رکھی کہ دوسراسمجھ جائے یعنی اس کا مقصد اسکا تِ خصم نہیں تھا بلکہ اسے سمجھانا مراد تھا پس ابرام کے معنے ہوئے ایسی عمدہ بات کرنے والا
اور ایسی اچھی بحث کرنے والا جو دوسرے کو اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سمجھادے اور اسے ساکت کردے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء کے جو نام رکھے جاتے ہیں وہ ان کی آئندہ زندگی کے کاموں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ نام رکھنے والے مومن نہیں ہوتے جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھا بلکہ آپ کے دادا نے رکھا اور آپ کی والدہ نے اس نام کو پسند کیا لیکن ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا.اور اس نے ان سے وہی نام رکھوایا جو پیشگوئیوں میں موجود تھا یہی حال دوسرے نبیوں کے ناموں کاہے.مثلا ًاسحاق ضحک سے ہے اس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ بڑاہنسوڑ اور خوش مزاج ہوگا.چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی تو ’’سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہوسکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے.‘‘(پیدائش باب ۱۸آیت ۱۲) یہ واقعہ بتاتاہے کہ اس نام کا ہنسنے کے ساتھ تعلق ہے لیکن چونکہ بائبل کے لکھنے وا لے لغت کے واقف نہیں تھے انہوں نے اضحاک کی بجائے اضحاق لکھ دیا لیکن عربی میں وہی معرّب کر کے استعمال ہوگیا.اسی طرح اسماعیل سَمِعَ سے ہے اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا اس کی دعاکو سنے گا چنانچہ حضرت اسماعیل نے پیر مارے اور چشمہ پھوٹ پڑا اب بظاہر یہ ویسے ہی نام تھے جیسے اور لوگوں کے نام ہوتے ہیں مگر یہ وہ نام تھے جوالہاماًرکھے گئے اور خاص مقصد اور مدعا کے ماتحت رکھے گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بے شک الہام سے نہیں رکھا گیا ماں باپ نے آپ کانام رکھا تھا مگر ان کی زبانوں پرخدا نے تصرف کیا او ر اس نے ان سے وہی نام رکھوایا جس کا پیشگوئیوں میں ذکر آتاتھا اسی طرح ابراہیم کاباپ یا چچابے شک مشرک تھا مگر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام الٰہی تصرف کے ماتحت رکھا گیا اسی طرح خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے باپ کی زبان پر بھی تصرف کیا اور اس نے وہی نام رکھا جو ان کی آئندہ زندگی کا ایک اجمالی نقشہ اپنے اندر رکھتاتھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے تھے جو عرب کا ایک حصہ ہے اور وہاں عربی زبان ہی بولی جاتی تھی.عبرانی تو عربی سے بگڑکر بنی ہے پس خدا نے آپ کانام آپ کے باپ سے ابرام رکھوایا جس میں یہ پیشگوئی مخفی تھی.کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بڑی اچھی بحث کرنے کی توفیق دے گا اور صداقت کے اظہار کے لئے یہ اپنے مد قابل کے سامنے اس عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے گا کہ وہ ساکت اور لاجواب ہوکر رہ جائے گا چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جو واقعات بتائے گئے ہیں ان سے ابراہیم کی یہی صفت ظاہر ہوتی ہے.ایک موقعہ پر آپ نے
بادشاہ سے بحث کی اور سورج کے طلوع و غروب سے استدلال کیا تو قرآن کریم کہتاہے کہ فَبُهِتَ الَّذِيْ كَفَرَ (البقرۃ:۲۵۹) وہ کافر بادشاہ مبہوت ہو کر رہ گیا.اور آپ کے دلائل کا کچھ بھی جوب نہ دے سکا اسی طرح ستاروں.چاند اور سورج کے نظام سے آپ نے خدائے قادر کی ذات پر استدلال کیا اور مشرکین کے سامنے دلیلیں دیں تو وہ گھبرااٹھے بت توڑے تو ایسی دلیلیں دیں کہ وہ لاجواب ہو کر رہ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اس شخص نے ہمارے مذہب کا ستیاناس کردیاہے.یہودی روایات سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ آپ بچپن سے ہی بڑی عمدہ بحث کرنے کے عادی تھے چنانچہ انہی روایات میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ باپ نے انہیں دوکان پر بٹھادیا کہ اگر کوئی بت خریدنے کے لئے آئے تو اسے بت دے دینا ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ایک بڈھا شخص آیا اور ا س نے کہا میں کوئی بت خریدنا چاہتاہوں انہوں نے پوچھا کو نسا بت لیں گے اس نے ایک بت کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ فلاں بت مجھے چاہیے وہ اٹھے اور بت لاکر اس کے سامنے رکھ دیا اور پھر پوچھا کہ آپ کی عمر کیاہے اس نے کہا میری عمر ستر سال کی ہے.حضرت ابراہیم ؑنے کہا یہ بت تو ابھی کل ہی بن کر آیا ہے اور آپ ستر سال کے ہوچکے ہیں کیا اتنی بڑی عمر کے ہوکر آپ کو شرم نہیں آئے گی کہ اس بت کے آگے سرجھکائیں جو ابھی کل ہی بن کر آیا ہے (جیوش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ Abram)اس بڑھے پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اس بت کو وہیں چھوڑ کر چلاگیا.جب ان کے بھائیوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کی کہ یہ تو ہمارے گاہک خراب کرتاہے.باپ نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے یہ بت تو ابھی کل بن کر آیا تھا.کیا وہ بڈھا اس بت کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے اچھالگ سکتا تھا ؟ تو صداقت کی تائید کے لئے دلائل پیش کرنا اور اپنے مخالف سے نہایت عمدہ بحث کرنا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ایک نمایاں وصف ہے.قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لو اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے اور بائبل پڑھ کر دیکھ لو تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ابراہیم اعلیٰ درجہ کی بحث کرنے والا تھا.اور وہ اپنے مخالف کو چپ کرادیتا تھا.پس ابراہیم بے معنی نام نہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بڑی عمدہ بحث کرنے والا ہوگا نہایت اعلیٰ درجہ کے دلائل پیش کرنے والا ہوگا اور ایسی باتیں کرے گا جن سے دوسراشخص حقیقت کو سمجھ جائے گا جیسے اس بڈھے سے آپ نے گفتگو کی تو پھر وہ ٹھہر انہیں بلکہ اسی وقت بت چھوڑ کر بھاگ گیا.اور اس نے سمجھ لیا کہ میرا اس کے آگے سرجھکانا درست نہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ عبرانی زبان میں بھی اس کے یہی معنے ہوں گے اورخدا تعالیٰ نے ابرام اسی لئے ان کا نام رکھوایا تاکہ یہ بتائے کہ یہ بڑی بحث کرنے والا ہوگا مگر عبرانی زبان کا علم کم ہو جانے کی وجہ سے اسرائیلی علماء کو دھوکا لگا اور انہوں نے خیال
کرلیا کہ یہ بے معنی لفظ ہے حالانکہ ابرام سے ابرہام میں تبدیلی کی وجہ خود بائبل نے بھی بتادی ہے کہ چونکہ تو ’’بہت قوموں کاباپ ‘‘ہوگا.اس لئے آئندہ تیرانام ابرام ایک فرد نہیں ہوگا بلکہ ابراہام ہوگا اور یہ عبرانی کا قاعدہ ہے کہ ھا لگانے سے جمع بن جاتی ہے گویا وہ ایک فردنہ رہا بلکہ بہت سے افراد کا مجموعی ہوگیا.قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً(النحل :۱۲۱) ابراہیم ایک امت تھا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ ابرام سے ابراہام بن گیا تھا گویا جو بات قرآن کریم نے بیان کی ہے وہی بات بائبل بھی بیان کرتی ہے مگر یہ جاہل لوگ جن کی زبان مٹ چکی ہے کہتے ہیں کہ ابرام کو ابراہام محض قافیہ بندی کے طور پر کہہ دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ذومعانی لفظ ہے او ربہت بڑی حقیقت پر دلالت کرتاہے.یہ کہنا کہ یہ تو ایک مشرک نے نام رکھا تھایہ کوئی دلیل نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانام خدا نے نہیںرکھا لیکن اس نے نام رکھنے والوں کی زبانوں پر تصرف کردیا.اور چاہے کوئی سچے مذہب کو نہ مانے اس حقیقت سے تو انکار نہیں کر سکتا کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ہے.اگر درخت خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہیں.اگر آم کی گٹھلی خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہے اگر خربوزہ کی بیل خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہے تو ابراہیم کا باپ کیوں خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے نہیں تھا اور کیوں وہ اس سے ایسا نام نہیں رکھوا سکتا تھا جس میں ابراہیم کی آئندہ زندگی کے کارناموں کی طر ف اشارہ ہوتا.پھر ابرام سے ابراہام اس لئے بنا کہ عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ ھا لگانے سے جمع بنتی ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ھا میں بھی اس کے مشابہ خصوصیت ہے.چنانچہ عربی زبان میں ھم جمع کے لئے آتاہے پس یہ خیال کہ اس لفظ کے کوئی معنے نہیں اور ابرام کو ابراہام صرف ضلع جگت کے طور پر کہہ دیا گیاہے حقیقت لغت کے نہ جاننے کی وجہ سے پید اہوا ہے.بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ ابراہیم اُور کے رہنے والے تھے جو چلڈیا کا ایک شہر تھا یعنی وہ عراق میں پیدا ہوئے.ان کی قوم ستارہ پرست تھی ان کے والد کا نام تارہ تھا قرآن کریم نے سورئہ انعام میں ان کانام آزربتایا ہے (الانعام:۷۵) لیکن یہ تعجب کی بات نہیں ابراہام کو ابراہیم یسوع کو عیسیٰ حنوک کو ادریس اور یوحنا کو یحییٰ لکھنا اگر اعتراض کی بات نہیں تو تارہ کو آزر کہنا بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہوسکتی یہ صرف ان کے ناموں کو عربی بنانے کا نتیجہ ہے.چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ لگتاہے کہ وہ وہی نام استعمال کرتاہے جو عربوں کی زبان سے آسانی کے ساتھ ادا ہوسکیں اور یا پھر قرآن مجید اصل نام کا ترجمہ کرلیتا ہے جیسے حنوک کے جو معنے ہیں وہی معنے ادریس کے ہیں پس ہو سکتا ہے کہ تارہ سے قرآن نے آزر بنالیا ہو کیونکہ ت ،ز سے بدل جاتی ہے.اور قلب کے ذریعہ الف پہلے آجاتا ہے اور اس طرح آزربن جاتاہے ہ ادب کے لئے ہے.ایسا معلوم ہوتاہے کہ عربوں کی زبان پر تارہ نہیں چڑھتاتھا
انہوںنے تارہ کو زارَکہنا شروع کردیا اور زارَ سے آزَر بن گیا.اور یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آزر ان کے کسی اور عزیز کانام ہو بہر حال قرآن کریم چونکہ معرب نام استعمال کرتاہے اس لئے تارہ کی بجائے آزر ہونا کوئی اعتراض کی بات نہیں.یہ بھی ممکن ہے کہ تارہ اور آزر آپس میں معنوی اشتراک رکھتے ہوں ہمیں چونکہ تارہ کے معنے معلوم نہیں اس لئے ہم اس بارہ میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ممکن ہے اگر تحقیق کی جائے تو تارہ اور آزر آپس میں معنوی اشتراک بھی رکھتے ہوں.بہر حال آزر ایک معرب نام ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو اپنے والد سے اختلاف ہوا تو وہ اسے چھوڑ کر مصر چلے گئے اور وہاں سے پھر واپس کنعان آگئے(جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Abram) حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو اصرار تھا کہ آزر ان کے باپ کا نہیں بلکہ چچا کا نام تھا اور باپ فوت ہوچکا تھا.بعض یہودی روایات سے بھی اس کا ثبوت ملتاہے کہ وہ یتیم تھے.اَبْ کے متعلق آپ قرآن کریم سے استدلال کرتے تھے کہ چچا کے لئے بھی بولاجاتاہے چنانچہ ابناء یعقوب کے متعلق سورئہ بقرہ میں آتاہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم کس کی عبادت کروگے تو انہوں نے کہا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىِٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا(البقرۃ :۱۳۴) اس میں اسمٰعیل کو بھی انہوں نے اپنااَبْ قرار دیاہے حالانکہ وہ ان کے چچا تھے اس سے معلوم ہوتاہے کہ عربی زبان میں اَبْ کا لفظ چچاکےلئے بھی استعمال ہو سکتا ہے یہ سب کچھ درست ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایساہے ؟ حضرت خلیفہ اول ؓ کے اس خیال کی بڑی بنیاد یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ اتنا بڑا مشرک ابراہیم کاباپ کس طرح ہوگیا یہ ایک ذوقی بات ہے.ہو تو حرج نہیں ، نہ ہو توحر ج نہیںاصل میں ہمیں تاریخ پر بنیاد رکھنی چاہیے جو اس بارہ میں زیادہ تر اس شخص کے باپ ہونے پر ہی دلالت کرتی ہے باقی رہانام کا سوال سو قرآن عربی شکل میں نام دیتاہے یا معنوں کا ترجمہ کرتاہے پس بائبل کے تارہ اور قرآن کے آزر کا فرق قرآن کے بیان کو غلط نہیں بتاتا کہ ہمیں ان دوکو الگ الگ ہستیاں ثابت کرنےکی ضرورت ہو.ابراہیم روحانی عالم کاباپ تھااور آئندہ اصلاح اس کی ذریت کے ساتھ خواہ جسمانی ہو خواہ روحانی مخصوص کی گئی تھی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ (العنکبوت:۲۸)یعنی ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطاکئے اور اس کی ذریت میں ہم نے نبوت اور کتاب رکھ دی.گویا یہ وعدہ کیا کہ آئندہ نبی ابراہیم کی اولاد میں سے آئیں گے بائبل میں بھی اسحاق کے متعلق پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۵تا ۱۸میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی نسل کو ترقی دی جائے گی اور زمین کی سب قومیں اس سے برکت پائیں
گی اسی طرح اسماعیل کے متعلق پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳و ۱۸میں لکھا ہے.’’اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لئے کہ وہ تیری نسل ہے ‘‘ (آیت ۱۳) اسی طرح لکھا ہے.’’خداکے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کوپکارا اور اس سے کہا اے ہاجرہ تجھ کوکیاہو امت ڈر کیونکہ خد انے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں ا س کو ایک بڑی قوم بنائوں گا ‘‘ (آیت ۱۸) اس سے پتہ لگتا ہے کہ عہد صرف ایک بیٹے کے متعلق نہیں تھا بلکہ دونوں کے متعلق تھا.اسی طرح پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹تا۲۲میں لکھاہے ’’تب خدا نے فرمایا کہ بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کانام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے ا پنا عہد جو اَبدی عہد ہے باندھوں گا اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعاسُنی.دیکھو میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا او راس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا لیکن میں اپنا عہد اضحاق سے باندھوں گا جو اگلے سال اسی وقت معین پر سارہ سے پیدا ہوگا اور جب خدا ابراہام سے باتیں کر چکاتو اس کے پاس سے اوپر چلاگیا.‘‘ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑدونوں کے متعلق یہ عہد تھا کہ انہیں برکت دی جائے گی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا عہد پہلے اسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوگا اور پھر اسماعیل کے ذریعہ سے.پیدائش باب ۱۷آیت ۷و۸ سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ یہ عہد دونوں بیٹوں کے لئے تھا چنانچہ لکھا ہے.’’میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کی سب پشتوں کے لئے اپنا عہد جواَبدی عہد ہوگا باندھوں گا تاکہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا را ہوں اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے ایسا دوںگا کہ وہ دائمی ملکیت ہوجائے اور میں ان کا خدا ہوں گا ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عہد صرف بنواسحاق کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ابراہیم کی ساری نسل اور ان کی سب
پشتوں کے ساتھ تھا صر ف اس قدر تصریح کردی گئی تھی کہ اس کے وعدے پہلے بنو اسحاق کے ساتھ پورے ہوں گے اور پھر بنو اسمٰعیل کے ساتھ پس موسیٰ کا سلسلہ کبھی ختم ہونا چاہیے تھا.تاکہ بنو اسماعیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے تھے وہ بھی پورے ہوتے.اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا ملک دوں گا.اگر کنعان کی حکومت کبھی مسلمانوں کے پاس نہ آئی ہو تی تو عیسائی کہہ سکتے تھے کہ اسحاق کی نسل کو تو کنعان کی حکومت ملی لیکن مسلمان اس سے محروم رہے.مگر واقعہ یہ ہے کہ کنعان جتنا عرصہ مسلمانوںکے پاس رہا ہے اس سے کم عرصہ یہود کے پاس رہا ہے.فلسطین پر یہود کا موجودہ قبضہ ۱۳۶۷ھ میں ہوا ہے ۱۶ہجری میںمسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تھااور اس وقت سے لے کر ۱۹۴۷ ء تک مسلمان اس پر قابض رہے ہیںصرف حروب صلیبیہ کے زمانہ میں باون سال عیسائی پھر اس پر قابض ہوگئے تھے بہرحال ایک سو آٹھ سال اگر نکال بھی دئے جائیں تو ۱۲۵۹سال مسلمان کنعان پر قابض رہے ہیں اس کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ سے مسیح ؑ تک کا زمانہ بھی تیرہ سوسال ہے لیکن اس عرصہ میں یہود دوسوسال بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ کنعان کی حکومت سے محروم رہے ہیں ۷۳۳قبل مسیح میں اسورین حکومت نے فلسطین کو فتح کیا اور یہود کو اپنا باجگذار بنالیا اس کے بعد ۶۰۸ قبل مسیح میں ایک مصری بادشاہ ’’نیکو ‘‘ نے اسوریوں کو شکست دی او ریہود اسوریوں کی بجائے مصریوں کے باجگذار بن گئے.۵۸۷قبل مسیح میں شاہ بابل نبوکد نضر نے یروشلم پر چڑھائی کی اور اس نے یہود کو جلاوطن کردیا یہی عرصہ ایک سو چھیالیس سال بن جاتاہے پھر سترسال کے قریب وہ عرصہ ہے جس میں یہود جلاوطن رہے اور جس کے بعدمید اور فارس کے بادشاہ نے انہیں واپس یروشلم جانے کی اجازت دی گویا یہود ۸۴ ۱۰ سال کنعان پر قابض رہےاور مسلمان ۱۲۵۹ سال قابض رہے (فتوح للبلدان للبلاذر،امر فلسطین ص ۱۴۴،الکامل فی التاریخ لابن اثیر مجلد ۲ ذکر فتح البیت المقدس ص ۴۹۹،۲.تواریخ باب ۳۵ آیت ۲۰و۲۱،۲.سلاطین باب ۲۵ آیت ۸ تا ۱۱ ،قاموس الکتاب اردو ص ۵۷و۵۸،History of Egypt p 61,69) پس جہاں تک اس پیشگوئی کا تعلق ہے اس نے بھی بتادیا کہ وہ ابراہیمی عہد جو اسحاق کی نسل سے پورا ہونا تھا اب ختم ہوچکا ہے اور کنعان بنو اسحاق کی بجائے خدا تعالیٰ کے سچے دین کے پیرووں کو دیا جارہا ہے.چنانچہ پہلے ابراہیمی دور میں موسیٰ سے مسیح تک وہ اس سے تھوڑا عرصہ یہود کے پاس رہا جتنا دوسرے ابراہیمی دور میں وہ مسلمانوں کے پاس رہا.اور اب جو واپس ہوگا تو پھر کبھی ان کے ہاتھ سے نہیں جائے گا.
خلاصہ یہ کہ مسیح ابراہیمی وعدوں میں سے ایک وعدہ کی آخری کڑی تھا اور ابراہیم موحد تھا پس مسیح ؑ کے ذکر کے بعد مورث اعلیٰ کا ذکر کیا.تا بتائے کہ اس منبع سے دو۲ دریا نکلنے تھے ایک کا آخری حصہ مسیح تھا اس کے بعد لازماً دوسرے دریانے اپنا بہائو مکمل کرناتھا پس واپس ابراہیم کا ذکر لاکر اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ کا ذکر کیا تاکہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کی طرف اشارہ کرے.میں بتا چکا ہوں کہ بائبل کے رو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اُور میں جو چلڈ یا کا ایک شہر تھا پیدا ہوئے یعنی عراق میں ان کی پیدائش ہوئی تھی او ر ان کی قوم ستارہ پرست تھی قرآن کریم کی روسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اَبْ یا والد مشرک تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شرک کی برائی قرآن کریم کی روسے اپنے باپ کی زندگی میں ہی ظاہر ہوگئی تھی اور وہ ان کو نصیحت کرتے رہتے تھے نصیحت پر وہ خفاہوگئے اور ان کو دھمکی دی اور غصہ کی شدت دیکھتے ہوئے نصیحت کی کہ کچھ مدت تک کہیں باہر چلے جائو اور میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو تاکہ میراغصہ ٹھنڈا ہوجائے ورنہ ممکن ہے کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچادوں.ان کی اس شدید ناراضگی کو دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس ملک سے ہجرت کرگئے (الصّٰفٰت:۱۰۰)قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ لوط بھی ان کے ساتھ گئے (العنکبوت:۲۷)اسی طرح حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ بھی ان کے ساتھ تھیں جاتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ یہ وعدہ کر گئے کہ میں آپ کےلئے دعاکروں گا(الممتحنۃ:۵) یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرک کے لئے زندگی میںدعا کرنا جائز ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ایسے مشرک کےلئے دعاکرنا جائز ہے جس پر اتمام حجت کی سند نہ ملے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنی والدہ حضرت آمنہ کو مشرکہ قراردیا ہے لیکن آپ نے ان کے لئے دعا بھی کی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ص ۳۵۵ بروایت عبد اللہ بن بریدۃؓ)وہاں سے جانے کے بعد ان کے گھر میں اولاد پیدا ہوئی پہلے ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی بائبل کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد اُور کلدی سے ہجرت کرکے اور ابراہیم او رلوط کو ساتھ لے کر حران نامی جگہ چلے گئے تھے.گویا قرآن کریم تو یہ بتاتاہے کہ جہاں ان کے والد تھے وہاں سے حضرت براہیم علیہ السلام ہجرت کرکے چلے آئے.مگر بائبل بتاتی ہے کہ ان کے والد نے ہی وہ ملک چھوڑ دیا تھا اور ان کا ارادہ کنعان آنے کا تھا لیکن حران پہنچ کر وہ ٹھہر گئے اور وہیں مر گئے.(پیدائش باب ۱۱ آیت ۳۱و ۳۲) اس کے بعد پیدائش باب ۱۲ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے کہاکہ وہ اپنے باپ اورقرابتیوں کو چھوڑ کرنکل چلے تاکہ خدا تعالیٰ تجھے وہ ملک دکھائے جس میں تجھے رہنا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم لوط کو اور اپنی بیوی کو اورنوکروں چاکروں کو لے کر وہاں سے نکلے اور کنعان گئے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے بتایا کہ یہاں آپ
خلاصہ یہ کہ مسیح ابراہیمی وعدوں میں سے ایک وعدہ کی آخری کڑی تھا اور ابراہیم موحد تھا پس مسیح ؑ کے ذکر کے بعد مورث اعلیٰ کا ذکر کیا.تا بتائے کہ اس منبع سے دو۲ دریا نکلنے تھے ایک کا آخری حصہ مسیح تھا اس کے بعد لازماً دوسرے دریانے اپنا بہائو مکمل کرناتھا پس واپس ابراہیم کا ذکر لاکر اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ کا ذکر کیا تاکہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کی طرف اشارہ کرے.میں بتا چکا ہوں کہ بائبل کے رو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اُور میں جو چلڈ یا کا ایک شہر تھا پیدا ہوئے یعنی عراق میں ان کی پیدائش ہوئی تھی او ر ان کی قوم ستارہ پرست تھی قرآن کریم کی روسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اَبْ یا والد مشرک تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شرک کی برائی قرآن کریم کی روسے اپنے باپ کی زندگی میں ہی ظاہر ہوگئی تھی اور وہ ان کو نصیحت کرتے رہتے تھے نصیحت پر وہ خفاہوگئے اور ان کو دھمکی دی اور غصہ کی شدت دیکھتے ہوئے نصیحت کی کہ کچھ مدت تک کہیں باہر چلے جائو اور میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو تاکہ میراغصہ ٹھنڈا ہوجائے ورنہ ممکن ہے کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچادوں.ان کی اس شدید ناراضگی کو دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس ملک سے ہجرت کرگئے (الصّٰفٰت:۱۰۰)قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ لوط بھی ان کے ساتھ گئے (العنکبوت:۲۷)اسی طرح حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ بھی ان کے ساتھ تھیں جاتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ یہ وعدہ کر گئے کہ میں آپ کےلئے دعاکروں گا(الممتحنۃ:۵) یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرک کے لئے زندگی میںدعا کرنا جائز ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ایسے مشرک کےلئے دعاکرنا جائز ہے جس پر اتمام حجت کی سند نہ ملے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنی والدہ حضرت آمنہ کو مشرکہ قراردیا ہے لیکن آپ نے ان کے لئے دعا بھی کی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ص ۳۵۵ بروایت عبد اللہ بن بریدۃؓ)وہاں سے جانے کے بعد ان کے گھر میں اولاد پیدا ہوئی پہلے ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی بائبل کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد اُور کلدی سے ہجرت کرکے اور ابراہیم او رلوط کو ساتھ لے کر حران نامی جگہ چلے گئے تھے.گویا قرآن کریم تو یہ بتاتاہے کہ جہاں ان کے والد تھے وہاں سے حضرت براہیم علیہ السلام ہجرت کرکے چلے آئے.مگر بائبل بتاتی ہے کہ ان کے والد نے ہی وہ ملک چھوڑ دیا تھا اور ان کا ارادہ کنعان آنے کا تھا لیکن حران پہنچ کر وہ ٹھہر گئے اور وہیں مر گئے.(پیدائش باب ۱۱ آیت ۳۱و ۳۲) اس کے بعد پیدائش باب ۱۲ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے کہاکہ وہ اپنے باپ اورقرابتیوں کو چھوڑ کرنکل چلے تاکہ خدا تعالیٰ تجھے وہ ملک دکھائے جس میں تجھے رہنا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم لوط کو اور اپنی بیوی کو اورنوکروں چاکروں کو لے کر وہاں سے نکلے اور کنعان گئے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے بتایا کہ یہاں آپ
چھوڑ نے کا کیوں حکم دیا.پھر یہ نہیں بتاتی.کہ وہ قبیلہ کون سا تھا جسے چھونے کا حکم دیا گیا.صرف چار آدمی تھے جو اُور سے نکلے.باپ حران میں پہنچ کر فوت ہوگیا تھا.پھر وہ کونسے رشتہ دار تھے جنہیں وہ چھوڑ کر نکلا.غرض بائبل کا بیان بہت مبہم ہے اور اس کے اندر ایسی کئی باتیں پائی جاتی ہیں جو خلاف عقل نظر آتی ہیں.حران شہر کلدی علاقہ اور شام کے درمیان میں تھا جب چلڈیا سے چلیں تو فلسطین کی طر ف راستہ میں یہ شہر آتاہے.یہ بڑا بھاری شہر تھا تمام تجارتی قافلے یہاں ٹھہرا کرتے تھے اور اس سے تجارتی دروازہ کہتے تھے اس کے علاوہ یہ مذہبی سنٹر بھی تھا اور یہاں ایک بہت بڑا مندر چاند دیوتاکا تھا.وہ لوگ جو چاندکے پرستار تھے وہ اس جگہ آتے اور نذرانے وغیرہ چڑھاتے تھے.طالمودی روایات یعنی وہ احادیث جو یہود میں پائی جاتی ہیں وہ بھی قرآنی بیان کی تصدیق کرتی ہیں چنانچہ طالمودی روایات سے پتہ لگتاہے کہ ابراہیمؑ کا باپ مشرک تھا بلکہ طالمودی روایات بتاتی ہیں کہ وہ اتنا مشرک تھا کہ مشرکانہ عبادت گاہوں کا متولی بھی تھا اسی طرح طالمودی روایات سے پتہ لگتاہے کہ وہ بت بھی فروخت کیا کرتاتھا(طالمودصفحہ ۳۵) اور ان سے یہ بھی پتہ لگتاہے کہ اس ملک کا بادشاہ بھی بت پرست تھا اور وہ ابراہیم کو جلانے کے لئے تیار ہوگیا تھا.جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.بہر حال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں تین قسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں اول قرآنی روایات دوم بائبل کی روایا ت سوم طالمودی روایا ت.بائبل کی روایات اتنی مجروح اور غیر معقول ہیں کہ کوئی بات بھی یقین کے ساتھ درست نہیںکہی جاسکتی بائبل اتنا تو بتادیتی ہے کہ ابراہیم کے باپ نے بھی اپنا ملک چھوڑ دیا مگر کوئی وجہ نہیں بتاتی کہ آخر انہوں نے اپنا ملک کیوں چھوڑا لیکن قرآن بتاتاہے کہ ابراہیم نے ہجرت کی اور اس لئے کی کہ اس کا باپ مشرک تھا اس کی قوم ستارہ پرست تھی اور یہ اختلاف اس قدر ترقی کرگیا کہ آخر حضرت ابراہیم ہجرت پر مجبور ہوگئے پھر بائبل کہتی ہے کہ تارہ نے بھی کنعان جانا چاہا مگر یہ نہیں بتاتی کہ کنعان جانے کا اسے کیوں خیال پیدا ہوا پھر یہ نہیں بتاتی کہ جب کنعان جانے کے ارادہ سے نکلے تھے تو حران میں کیوں ٹھہر گئے اس کے بعد یہ نہیں بتاتی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے جو یہ کہا کہ تو اپنے باپ اور قبیلہ کو چھوڑ کر نکل چل ، تو وہ کونسا قبیلہ تھا جسے انہوں نے چھوڑا.لوط اور سارہ تو ان کے ساتھ ہی رہے ہیں اور ان کے علاوہ اور رشتہ دار ساتھ تھا نہیں پھر وہ قبیلہ کو نسا تھا جسے چھوڑ نے کا حکم دیا گیا اسی طرح بائبل یہ بھی نہیں بتاتی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کویہ کیوں حکم دیا کہ تو اپنے باپ کو چھوڑ دے جبکہ بائبل یہ بھی نہیں بتاتی کہ ان کا باپ
مشرک تھا.غرض قرآنی بیان زیادہ صحیح ہے گو اس کا بائبل کی روایت سے اختلاف ہے.اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ (اورتو اس وقت کو بھی یاد کر اور لوگوں کے سامنے بیان کر) جب ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ اے میرے وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا۰۰۴۳ باپ تو کیوں ان (چیزوں ) کی پرستش کرتا ہے جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ تیری کسی تکلیف کو دور کر نے پر قادر ہیں.تفسیر.فرماتا ہے ابراہیم کے ان واقعات کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ تو کیوں اس کی عبادت کرتاہے جو نہ سنتاہے نہ دیکھتاہے اور نہ تیرے لئے کسی چیز کا قا ئم مقام ہو سکتاہے.اَبَتِ منادیٰ کے طور پر آتاہے اور تا.ی کے قائم مقام ہوتی ہے گویا اَبَتِ اَبِیْ کا قائمقام ہے عرب لوگ یہ دونوں لفظ استعمال کر لیتے ہیں یعنی اَبِیْ بھی کہہ دیتے ہیں اور اَبَتِ بھی کہہ دیتے ہیں مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ جو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا.اس سے پتہ لگتاہے کہ الٰہی صفات میں سے اہم صفات اس کا سننا اور دیکھنا ہے.باقی ساری صفات اس کے تابع ہیں اگر سننے اور دیکھنے کی صفت اس میں نہ پائی جائے توکوئی مشاہدہ والی دلیل خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق نہیں رہ جاتی سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق یہی ہوتی ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ سے دعاکی کہ خدایاہمارا فلاں کام ہوجائے اور وہ کام ہوگیا جس سے پتہ لگ گیا کہ خداموجود ہے.اگر اس کا سننا اور دیکھنا ثابت نہ ہو تو پھر بنی نوع انسان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا.کسی غیر سے دو ہی ذریعہ سے تعلق ہو سکتاہے یا کانوں کے ذریعہ اور یا پھر آنکھوں کے ذریعہ.یا تو انسان دوسرے کی آواز سن کر پتہ لگا لیتا ہے کہ اسے کوئی ضرورت در پیش ہے اور وہ اس کی مدد کے لئے پہنچ جاتاہے اور یا پھر آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ فلاں شخص مصیبت میں گرفتار ہے اور وہ اس کی مدد کے لئے بیتاب ہو جاتا ہے پس ایک تعلق رکھنے والا خدا تبھی ہو سکتاہے جب اس میں سننے اور دیکھنے کی صفت موجود ہو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو بتوں کے ناقابل پرستش ہونے کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ يٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ اے میرے باپ تو کیوں اس کی عبادت کرتاہے جو نہ سنتاہے اور نہ دیکھتاہے جب یہ دونوں
صفات اس میں نہیں پائی جاتیں تو اس کی عبادت کرنے کا فائدہ کیا؟ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا اور نہ وہ کسی بات میں کفایت کرتاہے مَااَغْنَی فُلَانٌ شَیئًا کے معنے ہوتے ہیں لَمْ یَنْفَعْ فِیْ مُھَمٍّ وَ لَمْ یَکْفُ مَوْءُوْنَةً کسی کام میں اس نے نفع نہ پہنچایا اور کسی ضرورت کے موقعہ پر اس نے کفایت نہ کی مثلاً اگر کسی پر قرضہ ہو اور دوسرا شخص وہ قرض اتار دے یا کوئی بیمار ہو اور دوسراس کے علاج کے لئے جدوجہد کرے تو وہ اس کا قائم مقام ہو جاتاہے اورا س کے بوجھ کو ہلکاکرنے کا موجب بن جاتاہے مگر فرمایا لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا یہ بت تو وہ ہیں جو تیرے لئے کسی قسم کا بوجھ بٹانے کا موجب نہیں ہوسکتے پھر ان کی عبادت کا فائدہ کیا؟ یہ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا دراصل دلیل کا ایک ٹکڑا ہے جو لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ کے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے اگر کسی شخص کے کان ہوں او وہ دوسرے کی آواز بھی سن لے کہ دوڑو اور میری مدد کے لئے پہنچو لیکن لولا لنگڑا ہو تو خالی سن لینا دوسرے کو کیا فائدہ پہنچاسکتاہے یا کیسی نے دیکھ تو لیا کہ فلاں شخص کنوئیں میں گرنے لگا ہے لیکن اتنی ہمت نہیں کہ دوڑ کر اسے بچاسکے تو اس کے دیکھنے کا کیا فائدہ.سننا اور دیکھنا تبھی فائدہ پہنچاسکتاہے جب دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت بھی موجود ہو پس لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ والی دلیل لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔاکے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے کیونکہ کسی کی تکلیف معلوم کرنے کے دوہی ذرائع ہوتے ہیں.یا تو انسان سن کر پتہ لگاتاہے یا دیکھ کر پتہ لگاتاہے لیکن دیکھنا اور سننا کافی نہیں ہوتاجب تک ایسی طاقت بھی موجود نہ ہو کہ دوسرے کی مدد کا ارادہ انسان پوراکر سکے جب وہ ایسا کرلے تو اس کی دوستی کی زنجیر مکمل ہوجاتی ہے مگر فرمایا یہ بت تو ایسے ہیں کہ نہ یہ تمہاری آوار سنتے ہیں نہ تمہاری تکلیف کو دیکھتے ہیں اور نہ یہ کسی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں پھر ان کی عبادت کرنا کتنی بڑی حماقت کی بات ہے.یہاں کوئی شخص کہہ سکتاہے کہ وہ کیوں نہیں سنتے.ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ سنتے ہیں.کیوں نہیں دیکھتے ہمار ا اعتقاد ہے کہ وہ دیکھتے ہیں اگر یہ بت دیکھتے اور سنتے نہیں تو تمہارے خداکے دیکھنے اور سننے کا کیا ثبوت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے خداکے سننے کا ثبوت یہ ہے کہ ہم اسے پکارتے ہیںتووہ ہمیںجواب دیتاہے.اور اس کے دیکھنے کا ثبوت یہ ہے کہ ہم مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ ہماری مدد کرتاہے پس اس کا ہماری مدد کرنا اور ضروریات کو پورا کرناثبوت ہے اس کے سمع اور بصر کا لیکن بت چونکہ کوئی ضرورت پوری نہیں کرتے اور وہ کسی تکلیف کے موقعہ پر انسان کی مدد نہیں کرتے اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ سمع اور بصر نہیں رکھتے.ورنہ یہ کس طرح ہوسکتاتھا کہ ان کے کانوں تک بات پہنچے وہ اپنی آنکھوں سے کوئی نظارہ دیکھیں اور پھر مدد نہ کریں.حدیثوں میں آتاہے ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں
بتوں کے اس قدر شائق ہوا کرتے تھے کہ جب ہم گھر سے باہر کسی سفر پر جاتے تو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی بت بھی رکھ لیتے تھے تاکہ اس کی برکت سے بلائیں اور مصیبتیں ہم سے دور رہیں ایک دفعہ میں سفر پر گیا اور بت اپنے ساتھ لے لیا راستہ میں اتفاقاً مجھے کوئی کام یاد آگیا اور میں نے کہیں جانا چاہا.مگر اسباب میرے پاس بہت تھا او رکسی دوسری جگہ اسے اٹھاکرلے جانا میرے لئے مشکل تھا میں نے وہیں جنگل میں اسباب رکھا بت کو پاس بٹھایا اور اسے کہا حضور والا آپ ذرا میرے اسباب کا خیال رکھیں میں ایک ضروری کام کے لئے جارہا ہوں چنانچہ میں اطمینان کے ساتھ خوش خوش چلا گیا کہ میں اپنا اسباب اللہ میاں کے سپرد کر آیا ہوں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گیدڑ ٹانگ اٹھاکر اس بت پر پیشاب کر رہا ہے.مجھے یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اورمیں نے آتے ہی اس بت کو اٹھا کر پرے پھینک دیا او رکہا کمبخت گیدڑ کے پیشاب سے تو تو اپنے آپ کو بچانہیںسکتامیرے اسباب کو کیا بچائے گا اس وقت مجھے خیال آیا کہ مسلمان جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے اور میں واپس آکر مسلمان ہوگیا.اسی طرح ایک اور صحابی کہتے ہیںکہ ہم ایک دفعہ سفر پر گئے تو میںنے خیال کیا کہ پتھر کا بت اٹھانا تو مشکل ہوگا اسباب بھی زیادہ ہے.آٹے کا بت بناکر ساتھ رکھ لیتے ہیں.چنانچہ میں نے آٹے کا بت بنایا اور ساتھ رکھ لیا اتفاقاً راستہ میں آٹا ختم ہوگیا اور کھانے کے لئے کوئی چیز نہ رہی جب سخت بھوک لگی تو اسی بت کو کوٹ کرہم نے آٹا گوندھا اور روٹی پکا کر کھالی.پھر مجھے خیال آیا کہ جس خدا کو میں کھا گیا ہوں اور وہ مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکا وہ کیسا خداہے اور میں مسلمان ہوگیا یہی حقیقت لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا میں بیان کی گئی ہے کہ وہ کسی قسم کا تم کو فائدہ نہیں پہنچاسکتے.کوئی شخص اس پر بھی اعتراض کرسکتاہے کہ لوگوں کی کئی خواہشات اتفاقی طورپر بھی پوری ہوجاتی ہیں پھر یہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت کس طرح ہوا.مثلاً بعض لوگوں کے ہاں بیٹا ہوجائے تو وہ کہتے ہیں کہ فلاں پیر کی قبر پر سجدہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے یا فلاں جگہ چڑھاوا چڑھایا تھا تو اس کی وجہ سے یہ کام ہوا ہے سواس کے متعلق یادرکھنا چاہیے کہ لَا يَسْمَعُ وَ لَا يُبْصِرُ وَ لَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَيْـًٔا میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں اور یہ تینوں باتیں آپس میں جوڑ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کردلیل بنتی ہیں یعنی سمع اور بصر اور اغناء جب یہ تینوں چیزیں ملتی ہیں تب دلیل مکمل ہوتی ہے اور جب یہ زنجیر مکمل ہوجائے تو ا س کے بعد کوئی کام نہ اتفاقی قرار پاسکتاہے اورنہ کسی بت وغیرہ کی طرف منسوب ہو سکتا ہے.مثلا ً اگر کسی کام کے متعلق دعائیں کی گئی ہیں اور پھر کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہے تو ہم یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یہ کام خدا نے کیا ہے لیکن اگر دعائیں نہیں کی گئیں اور وہ کوئی غیر معمولی کام بھی نہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی
طرف منسوب نہیں ہوسکتا.کیونکہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کام اتفاقی بھی ہوا کرتے ہیں.يٰۤاَبَتِ اِنِّيْ قَدْ جَآءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْۤ اے میرے باپ مجھے ایک خاص علم عطا کیا گیا ہے جو تجھے نہیں ملا پس (باوجود اس کے کہ میں تیرا بیٹاہوں ) تومیری اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا۰۰۴۴ اتباع کر میں تجھے سیدھا راستہ دکھائوں گا.حل لغات.سَوِیًّا کے معنے الْاِسْتِوَاءُ وَالْاِنْصَافُ کے بھی ہیں یعنی کسی چیز کا توازن ٹھیک ہونا.اور اس کے معنے مستوی کے بھی ہیں یعنی جس میں کسی قسم کی کجی نہ ہو.تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ مجھے یقیناًخدا تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کاعلم ملا ہے جو تجھ کو نہیں ملا پس تو میری اتباع کر میں تجھے ایک ایسا رستہ دکھائوں گا جس میں نہ زیادتی پائی جاتی ہے نہ کمی.نہ افراط ہے نہ تفریط.میں سمجھتاہوں سب سے بڑا ابتلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہی تھا کہ باپ کہہ لو یا چچا کہہ لو جو بھی وجود تھا بہرحال وہ ان کے پالنے والا تھا اسے جا کر آپ کو یہ کہنا پڑا کہ يٰۤاَبَتِ اِنِّيْ قَدْ جَآءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ اور دعویٰ کرنا پڑا کہ مجھے وہ علم حاصل ہے جو آپ کو حاصل نہیں اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنی بڑی دوبھر ہوتی ہے پس میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہت بڑے ابتلائوں میں سے ایک ابتلا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے زمانہ میں مبعوث کیا جب ان کو پالنے والا یا جننے والا باپ موجود تھا او راسے بتانا پڑا کہ تمہاری غلطی ہے اور کہنا پڑا کہ فَاتَّبِعْنِيْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا.آج سے میں تمہارا روحانی باپ ہوں اور تم میری روحانی اولاد ہو.بچے تو بعض دفعہ بیوقوفی سے ایسی بات کہہ دیتے ہیں چنانچہ میرے نواسے کبھی میرے پاس آجائیں تو میں پیار سے اپنی لڑکی کو پکڑ کر ان سے کہتا ہوں یہ میری بیٹی ہے اس پر وہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی کہہ دیتے ہیں یہ میری بیٹی ہے پس بچے تو بعض دفعہ بیوقوفی سے ایسی بات کہہ دیتے ہیں لیکن ایک جوان اور بالغ مرد کا جاکر کہنا کہ والد صاحب آج سے آپ والد نہیں رہے ہیں میں آپ کا والدبن گیا ہوں آپ کی تربیت کا وقت گذرچکا اب میں آپ کی غلطیا ں نکالوں گاآپ میری غلطیاں نہیں نکال سکتے.یہ زبان سے کہنا بڑامشکل کام ہے.
يٰۤاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ١ؕ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر شیطان یقیناً (خدائے )رحمٰن کا عَصِيًّا۰۰۴۵ نافرمان ہے.حل لغات.لَاتَعْبُدْ نہی کا صیغہ ہے جو عَبَدَ سے بنا ہے اور عَبَدَاللّٰہَ کے معنے ہیںطَاعَ لَہٗ وَخَضَعَ وذَلَّ وَخَدَمَہٗ یعنی اللہ کی اطاعت کی اس کی فرمانبرداری کی (اقرب) پس لَاتَعْبُدِالشَّیْطٰنَ کے معنے ہوںگے تو شیطان کی فرمانبرداری نہ کر.تفسیر.اس آیت میں کہا گیا ہے کہ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ تو شیطان کی عبادت نہ کر حالانکہ شیطان کی عبادت دنیا میں کوئی نہیں کرتااس سے پتہ لگتاہے کہ عبادت خالی سجدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ کسی کی بات کو بلا دلیل پورے طور پر ماننابھی عبادت ہی کہلاتاہے اگر کوئی شخص اپنے برے ساتھیوں کی بات اس طرح مانتاہے کہ عقل سے کام نہیں لیتاتو وہ بھی مشرک ہے اگر کوئی شخص اپنے نفس کی بات اس طرح مانتاہے کہ عقل سے کام نہیںلیتاتو وہ بھی مشرک ہے ابراہیم کا باپ آخر شیطان کو نہیں پوجتاتھا بلکہ بتوںکو پوجتاتھا مگر قرآن کہتاہے کہ جن کی تو پوجا کرتاہے یہ شیطان ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کی اگر خلاف عقل اتباع ہو تو وہ بھی شیطان کی ہی عبادت ہوتی ہے.خواہ یہ شیطان نفس کی صورت میں ہوخواہ برے ساتھیوں کی صورت میں ہو اور خواہ بدارواح کی صورت میںہوشیطان انسان کا نفس بھی ہوتاہے اور شیطان انسان کے برے ساتھی اور دوست بھی ہوتے ہیں اور شیطان وہ بدروحیں بھی ہوتی ہیں جوبدی کا عادی ہوجانے کے بعد انسان پر غالب آجاتی ہیں اور اسے بری باتیں سکھاتی ہیں جس وقت انسان اپنے نفس کے برے مشوروں پر جرح کرنا چھوڑدے جس وقت انسان اپنے دوستوں کی بری باتوں پر تنقید کرنا چھوڑدے جس وقت انسان اپنی بد اعمالی سے ایسے گند میں جاپڑے کہ شیطانی روحوں کااس کے ساتھ واسطہ ہو جائے تو اس وقت قرآنی اصطلاح میں یہ کہاجاتاہے کہ وہ شیطان کی عبادت کررہا ہے درحقیقت بلاوجہ تنقید چھوڑدینا اور بری باتوں کو قبول کرتے جانا بھی ایک رنگ کی عبادت ہی ہے پس لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے بری باتیں آتی ہیں اور وہ ان پر تنقید نہیںکرتاان پر جرح قدح نہیں کرتااور
بغیر جرح اور بغیر غور اور بغیر فکر کے ان کو قبول کرلیتا ہے تو درحقیقت وہ ان کو خد ا کا مقام دیتاہے کیونکہ خدا کا مقام ہی ایساہے جس کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاسکتابہر حال جب یہ ثابت ہوجائے کہ خدا ہے تو بلا چون وچرا اس کی بات ماننی ضروری ہوتی ہے لیکن جب کوئی ہستی خدا ثابت نہ ہو یا خد اکی قائم مقام ثابت نہ ہو تو اس وقت ہر بات جرح کر کے ماننی چاہیے.اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّاکے الفاظ بھی بتارہے ہیں کہ اس جگہ بت مراد نہیں کیا تم نے کبھی پتھروں کو دیکھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا انکار کر رہے ہوں پتھروں نے خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا کیا انکا ر کرنا ہے وہ تو بے جان چیزیں ہیں پس یہ الفاظ بھی اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہاں بت مراد نہیں.فرماتا ہے شیطان رحمٰن کی نافرمانی ہی کیا کرتاہے.عَصِییٌّ کے معنے عاصی اور گنہگار کے ہیں عَصٰی کا فاعل عاصی بھی آجاتاہے اور بعض دفعہ فَعِیْلٌ کے وزن پر عَصِیٌّ آجاتاہے.اگر بت مراد لئے جائیں تو اس آیت کا یہ ترجمہ ہوگا کہ بت خدا تعالیٰ کے نافرمان ہیں حالانکہ بت نافرمان ہیں ہی نہیں وہ بے جان چیزیں ہیں انہیں تو اتنا بھی پتہ نہیں کہ انہیں کسی نے پاخانہ میں ڈال دیا ہے یا کوئی شخص ان کے آگے جھک کر سجدہ کررہا ہے پس عَصِیًّا نے اس بات کو حل کردیا کہ تَعْبُدِالشَّیْطٰنَ سے بلا دلیل بات مان لینا مراد ہے بت مراد نہیں.يٰۤاَبَتِ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ اے میرے باپ میں ڈرتاہوں کہ تجھے (خدائے ) رحمٰن کی طرف سے (نافرمانی کی وجہ سے ) کوئی عذاب نہ پہنچے فَتَكُوْنَ لِلشَّيْطٰنِ وَلِيًّا۰۰۴۶ جس کے نتیجہ میں تو شیطان کا دوست ہوجائے.تفسیر.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لئے رحمٰن کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ عذاب نازل کرنا خدائے رحمٰن کاکام نہیں عذاب نازل کرنےوالی خدا تعالیٰ کی بعض اور صفات ہیں مثلا ً جبار خدا عذاب نازل کرتاہے قہار خدا عذاب نازل کرتاہے ذوالانتقام خدا عذاب نازل کرتاہے اسی طرح بعض اور نام ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت
عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہیں اورجن کے ماتحت اس کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب نازل ہوتاہے مگر یہ رحمٰن کی صفت کا ذکر کیاگیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ میں ڈرتاہوں کہ خدائے رحمٰن کی طرف سے تجھے عذاب نہ پہنچ جائے پس سوال پیدا ہوتاہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ سویادرکھنا چاہیے کہ ہر عذاب کی صفت کسی نہ کسی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے کبھی انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی رحیمیت کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی مالکیت کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی صفت احیاء کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی صفت اغناء کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے غر ض عذاب کی صفات مستقل نہیں.یعنی آپ ہی آپ بلاوجہ عذاب کی صفت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ کسی نیک صفت کے انکا ر یا اس کے رد کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے اگر عذاب کی صفت کو ہم مستقل سمجھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمار اخدا نعوذ باللہ ظالم ہے اور آپ ہی آپ اس کا دل چاہتا ہے کہ میں لوگوں کو پیس ڈالوں ، ان پر عذاب نازل کروں اور انہیں تباہ اور برباد کردوں او ریہ جابرانہ اور ظالمانہ طریق ہے جو خدا تعالیٰ جیسی رحیم وکریم ہستی کے بالکل منافی ہے پس جبکہ اس کی سزا والی صفات صفاتِ مستقلّہ نہیں.بلکہ کسی دوسری صفت کی مناسبت سے ظاہر ہوتی ہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی صفت عذاب کبھی رحمانیت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے کبھی رحیمیت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے کبھی غفاریت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے ، کبھی ستاریت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے ، کبھی خدا تعالیٰ کی صفت ستار ایک انسان کے عیبوں کو چھپاتی چلی جاتی ہے مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتااور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عذاب نازل ہوجاتا ہے اب اس پر عذاب توآیا مگر خدا تعالیٰ کی صفت ستاری کی وجہ سے کبھی وہ ایک شخص کو رزق دیتاچلا جاتاہے مگر باوجود کثرت رزق کے وہ نافرمانی میں بڑھتاچلا جاتاہے جب خدا تعالیٰ اس کی متواتر نافرمانیوں کو دیکھتاہے تو اس پر عذاب نازل کرتاہے اب اس پر عذاب تو آیا مگر صفت رزّاق کی وجہ سے جب اس نے خدا تعالیٰ کی اس صفت کی ہتک کی تو اس پر عذاب آگیا پس اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ کے یہ معنے ہیں کہ میں ڈرتاہوں کہ تجھ پر وہ عذاب نازل نہ ہوجو رحمانیت کی صفت کی وجہ سے نازل ہوتاہے تمہیں خدا نے مالک بنایا تھا پتھروں کا ،تمہیں خدا نے مالک بنایا تھاآگ کا ، تمہیں خدا نے مالک بنایا تھا ہوا کا، تمہیں خد انے مالک بنایا تھا پانی کا اور یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کی وجہ سے تم کو دیں مگرا نہیں چیزوں کو تم نے اس کا شریک بنالیا.دنیا میں جس قدر بت پائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے رحمانیت کے ماتحت آتے ہیں.حضر ت عیسیٰ ؑ
کو خدا تعالیٰ نے بھیجا اور اس لئے بھیجا کہ وہ اس کے بندوں کی خدمت کریں مگر لوگوں نے انہی کو خدا کا بیٹابنالیا تو شرک ہمیشہ رحمانیت کی صفت کے انکار کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے اسی لئے ہندو اور عیسائی خدا تعالیٰ کو رحمٰن نہیں مانتے ہندوئوں نے جب اپنی تعلیم پر غور کیا تو انہیں ماننا پڑا کہ خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں.اگر وہ اسے خالق مانیں تو ساتھ ہی اسے رحمٰن بھی ماننا پڑے گا اور رحمٰن ماننے سے ہندومذہب ختم ہو جاتا ہے اسی طرح عیسائی خدا تعالیٰ کو رحمٰن مانیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اس کی طرف سے ہدایت آئے اور جب شریت لعنت نہیں بلکہ اس پر عمل کرکے انسان نجات پاسکتاہے تو کفارہ کا انکار کرنا پڑا کفارہ کے انکار سے مسیح کی ابنیت ختم ہوگئی اور جب مسیح کی ابنیت ختم ہوگئی تو عیسائیت بھی فنا ہو گئی.پس شرک میں سب سے بڑا انکار خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ہی کرنا پڑتا ہے اس لئے جوقومیں شرک کرتی ہیں ان کے متعلق خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی صفت کہتی ہے کہ میری ہتک انتہاء تک پہنچ چکی ہے اب ان پر عذاب نازل ہونا چاہیے پس اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يَّمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ کا یہ مطلب نہیں کہ رحمانیت عذاب نازل کرتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمانیت کی صفت اس عذاب کا موجب ہوجاتی ہے.فَتَكُوْنَ لِلشَّيْطٰنِ وَلِيًّا پس تو شیطان کا دوست ہوجائے یہ الفاظ بھی اسی بات پردلالت کرتے ہیں کہ یہاں شیطان سے بت مراد نہیں کیونکہ بتوں سے تو وہ پہلے ہی دوستی کررہا تھا.میں اوپر بتاچکا ہوں کہ شیطان کے ساتھ تین ذرائع سے تعلق پیدا ہوتاہے.اول نفس کے ذریعہ سے یعنی نفس انسان کو گمراہ کرتاہے اور اس کا شیطان سے تعلق ہو جاتاہے دوسرے برے ساتھیوں کے ذریعہ سے اور تیسرے جب شیطان کے ساتھ براہ راست تعلق ہوجائے تو بدارواح اس کے نفس پر پر توڈالتی ہیں اور اسے گمراہی میں بڑھاتی چلی جاتی ہیں.پہلے یہ کہا تھا کہ تو شیطان کی عبادت نہ کر کیونکہ شیطان خدائے رحمٰن کا نافرمان ہے اس کے بعد یہ کہا کہ اگر تم عبادت شیطان سے باز نہ آئو گے تو خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی صفت تم پر عذاب لانے کا موجب بن جائے گی اور اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تم شیطان کے دوست ہوجائو گے.گویا عبادت شیطان سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ انسان شیطان کا دوست بن جائے کیونکہ پہلے صرف اتنی بات تھی کہ یہ اپنے نفس کے گمراہ کن خیالات کی وجہ سے شیطان کی بات مانتاتھا یا اپنے برے دوستوںکی وجہ سے شیطان کی بات مانتاتھا مگر پھر ترقی کرکے اس کا شیطان سے براہ راست تعلق ہو جاتا ہے جس طرح مومنوں کی نیکیو ں میں ترقی کرتے کرتے فرشتوںسے براہ راست تعلق ہو جاتا ہے.
َالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِيْ يٰۤاِبْرٰهِيْمُ١ۚ لَىِٕنْ لَّمْ اس پر( ابراہیم کے باپ نے) کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے متنفر ہورہا ہے ؟ اے ابراہیم اگر تو باز نہ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِيْ مَلِيًّا۰۰۴۷ آئے گا تومیں تجھے ضرور سنگسار کردوںگا اور(بہتر ہے کہ ) تو کچھ دیر کے لئے میری نظروں سے اوجھل ہو جا (تاکہ غصہ میں کچھ کر نہ بیٹھوں ) حل لغات.رَغِبَ عَنْہُ کے معنے ہوتے ہیں اعراض کرنا یا نفرت کرنا جس طرح رَغِبَ اِلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کی طرف رغبت اور شوق کے ساتھ جانا.گویا نفرت اور اعراض کے لئے رَغِبَ عَنْہُ کے الفاظ آتے ہیں اور کسی کی طرف شوق اور محبت کے ساتھ جانے کے لئے رَغِبَ اِلَیْہِ کے الفاظ آتے ہیں (اقرب).حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِيْ يٰۤاِبْرٰهِيْمُ.اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے نفرت کرتاہے لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ اگر تو اس طریق سے باز نہیں آئے گا تو میں تجھے رجم کروں گا.رَجَمَہُ کے معنے ہوتے ہیں رَمَاہُ بِالْحِجَارَۃِ اس کو پتھر مار مار کر ماردیا (۲) قَتَلَہُ اس کو قتل کردیا (۳) قَذَفَہُ اس کو الزام یا تہمت لگائی (۴) لَعَنَہُ اس کو لعنت کی اور اس کے لئے بددعائیں کیں (۵) شَتَمَہُ اس کو گالیاں دیں (۶) ھَجَرَہُ اس سے قطع تعلق کرلیا (۷) طَرَدَہُ اس کو دور کردیا (اقرب ) پس لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تو باز نہیں آئے گا تو میں تجھ کو سنگسار کردوں گا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھ کو قتل کردوں گا اگر تو باز نہیں آئے گا تو میں تجھے سب میں بدنام کردوں گا کہ یہ اپنی قوم کا مذہب نہیں مانتا.یا اگر تو باز نہیںآئے گا تو میں لوگوں کے سامنے تجھ سے نفرت کا اظہار کروں گا یا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھے گالیاں دوں گا یا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھے چھوڑ دوں گا اور اپنے گھر سے نکال دوں گا.وَ اهْجُرْنِيْ مَلِيًّا لیکن پھر بھی میں تیر ا باپ ہوں.میرے نفس کی حالت یہ ہے کہ میرادل چاہتاہے تجھے سنگسار کردوں.میرا دل چاہتاہے تجھے قتل کردوں میرادل چاہتاہے تجھے بدنام کروں میرا دل چاہتاہے تجھ پر لعنتیں ڈالوں کہ معبود تجھے تباہ کردیں.میرا دل چاہتاہے کہ میں تجھے خوب پیٹ بھر کر گالیاں دوں.میرا دل چاہتاہے کہ میں تجھے
اپنے گھر سے نکال دوں.مگر پھر میری باپ والی محبت جوش میں آجاتی ہے.اس لئے میں تجھے کہتا ہوں کہ کچھ مدت کے لئے میرے سامنے سے ہٹ جا.تاکہ میرا غصہ دورہوجائے.ایسانہ ہوکہ میں کوئی حرکت کر بیٹھوں اور تجھے نقصان پہنچ جائے.تفسیر.اس سے پتہ لگتاہے کہ جب کوئی شخص غلطی سے یا اپنے ماں باپ کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے کوئی ایسی بات ماننے لگ جائے جو خلاف حقیقت ہوتی ہے تو اس کے انکا ر پربھی اسے غیرت آجاتی ہے لیکن جب انکار دلیل اور عقل کے ماتحت ہوتاہے.تو غیرت بھی دلیل اور عقل کے ماتحت ہوتی ہے.اور جب غصہ دلیل اور عقل کے ماتحت نہیں ہوتاتو سلوک بھی دلیل اور عقل کے ماتحت نہیں ہوتاچنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آپ کے مخالف آتے اور کہتے تھے کہ ہم آپ کی بات نہیںمانتے خود ابوجہل آپ کا قریبی رشتہ دار تھا جو آپ کا شدید ترین دشمن تھااسی طرح آپ کے بعض دوست تھے جو آپ پر ایمان نہیں لائے حکیم بن حزام آپ کا ایک بڑا گہر ادوست تھا جو مشرک تھا اور بہت بعد میں ایمان لایا وہ آپ سے اتنی محبت رکھتاتھا کہ ایک دفعہ وہ تجارت کے لئے شام گیا تو اس نے ایک اعلیٰ درجے کا کوٹ دیکھا باوجود اس کے کہ وہ کا فر تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے تھے پھر بھی اس نے کہایہ کوٹ اتنا اچھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کے جسم پر نہیں سج سکتا.چنانچہ وہ کوٹ خرید کر مکہ میں لایا اور پھر مکہ سے تین سومیل کا سفر کرکے مدینہ پہنچا اور آپ کی خدمت میں اس نے وہ کوٹ پیش کیا اور کہا کہ مجھے یہ کوٹ اتنا پسند آیا تھا کہ میں نے سمجھا سوائے آپ کے اور کسی کو یہ سج نہیں سکتا.چنانچہ اب میں یہ کوٹ آپ کی خدمت میںپیش کرنے کے لئے لایا ہوں آپ نے فرمایا اس کی کیا قیمت ہے ؟ اس نے کہا قیمت کیسی ! میں تو محض دوستی کی خاطر لایا ہوں آپ نے فرمایا تمہاری دوستی کی میرے دل میں قدر تو بہت ہے مگر میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی مشرک کا تحفہ قبول نہیں کروںگا.اب چاہو تو یہ واپس لے جائو اور چاہو تو قیمت لے لو.اس کو صدمہ تو بہت ہوا مگر اس نے کہا میں اتنی دور سے یہ چیز آپ کے لئے خرید کر لایا تھا اور دوستی کے طور پر لایا تھا مگر آپ واپس کرتے ہیں میں یہ تو پسند نہیںکرتاکہ کوئی اور شخص اس کوٹ کو پہنے ، آپ قیمت ہی دینا چاہتے ہیں تو دے د یں چنانچہ اس نے قیمت لے لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کوٹ رکھ لیا(مسند احمد بن حنبل مسند المکیین رقم الحدیث ۱۴۷۸۴).اب دیکھودشمن آپ کے بھی تھے بلکہ ایسے ایسے دشمن تھے کہ حضرت عمر وبن العاص کہتے ہیں میں جن دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف تھا ان دنوں میرے دل میں آپ کا اتنا بغض تھااور آپ سے مجھے اتنی شدید نفرت تھی کہ میں اس بغض اور نفرت کی وجہ سے آپ کی شکل تک نہیں دیکھ
سکتاتھا (مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ وکذا الھجرۃ والحج)لیکن اس ساری مخالفت کے باوجود جب طائف میں آپ پر پتھر پڑے توآپ نے غصہ میں دشمن سے یہ نہیں کہا کہ لَاَرْجُمَنَّكَ بلکہ اس وقت جب دشمن پتھر مار رہا تھا خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے کہاخدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس قوم پر عذاب نازل کروں.سامنے پہاڑی تھی فرشتہ نے اس پہاڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا خدا نے مجھے کہاہے کہ میں یہ پہاڑی ان پر الٹا دوں اور زلزلہ سے انہیں تباہ کردوں آپ نے فرمایا نہ ایساہرگز نہ کرنا اگر تم ان لوگوں کو تباہ کردوگے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.پھر آپ نے دعاکی اور فرمایا اے میرے خدامیری قوم جانتی نہیں کہ میں کون ہوں اس لئے میراانکا ر کررہی ہے تو ان کی خطائوں کو معاف فرما اور ان کی غلطیوں سے درگذرکر (بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم اٰمین).غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس عقیدہ پر قائم تھے چونکہ ا س کی دلیل آپ کے پاس موجود تھی اس لئے آپ کواگر غصہ بھی آتاتھا تو اس کی بھی دلیل ہوتی تھی اور اگر درگذر فرماتے تھے تو اس کی بھی دلیل ہوتی تھی اسی طرح حضرت ابراہیم کے پاس چونکہ دلیل تھی ان کاغصہ بھی دلیل کے ماتحت تھا اور ابراہیم کے باپ کے پاس چونکہ دلیل نہیں تھی اس لئے اس کاغصہ بھی بے دلیل تھا.آخر ابراہیم نے اسے کہا کیا تھا.یہی کہا تھا کہ یہ باتیں اچھی نہیںبری ہیں.آخر کسی بات کو بلا دلیل آپ کیوں مانتے ہیں.جس چیز کو بھی مانیں اس پر ماننے سے پہلے جرح کریں ، تنقید کریں ، غور وفکر کریںاور پھر اسے قبول کریں.یہ تو شرک ہے کہ انسان بغیر کسی دلیل کے دوسرے کی بات مان لے اس پر وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتاتھا کہ یہ کل کا بچہ مجھے آج سمجھانے لگاہے.مگر اس کے طیش کی یہ حالت ہے کہ و ہ کہتاہے.میں تجھے مارڈالوںگا میں تجھ پر پتھرائو کروں گامیں تجھ پر لعنتیں ڈالوں گا.میں تجھے گالیاں دوں گا.میں تجھے لوگوں میں بدنام کروں گا ،میں تجھ سے قطع تعلق کرلوں گا ، میں تجھے اپنے گھر سے نکال دوں گا.مگر اس قدر طیش اور غضب کے باوجود وہ آج کل کے مولویوں سے پھر بھی اچھا تھا کیونکہ غصہ آیا تو ساتھ ہی یہ بھی خیال آگیا کہ یہ میرا بیٹاہے اور اسے کہا کہ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جا ایسانہ ہوکہ میں تجھے کوئی نقصان پہنچادوں لیکن پنجاب کی ۵۳ ءوالی شورش میں مولویوں نے احمدیوں کو تلاش کر کر کے مارا ہے.ابراہیم ؑ کا باپ مشرک تھا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے دعاسے بھی منع کردیا.مگر وہ کہتاہے مجھے غصہ آگیا ہے میرانفس اس وقت قابومیں نہیں تو تھوڑی دیر کے لئے میرے سامنے سے ہٹ جا.لیکن اس فتنہ وفساد کے دنوں میں مولویوں نے لوگوں سے یہ کہا کہ احمدیوں کی عورتوں کو بے شک پکڑکرلے جائو تم پر کوئی گناہ نہیں.
غرض ابراہیم کے باپ نے تو غصہ کی حالت میں ذراسوچنے کی مہلت چاہی مگر بعض بڑے علماء نے ۵۳ ء میں سوچنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی.مَلِيًّا کے معنے عربی زبان میں لمبے زمانہ کے ہوتے ہیں مگر لمبے زمانہ سے مراد صدی دوصدی نہیں کیونکہ عربی کا محاورہ ہے کہتے ہیں مَرَّمَلِیٌّ مِنَ الَّیْلِ رات میں سے ایک مَلِیٌّ گذر گئی ہے (المنجد).گویا اگر بارہ گھنٹے کی رات ہو اور چھ سات گھنٹے گذرجائیں تو کہیں گے کہ ایک مَلِیٌّ گذرگئی ہے پس وَ اهْجُرْنِيْ مَلِيًّا کے یہ معنے نہیں کہ سالوں کے لئے مجھ سے جدا ہوجائو.بلکہ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ دوچار گھنٹہ کے لئے میری آنکھوںسے پرے ہوجائو تاکہ میرا غصہ ٹھنڈا ہوجائے.قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِيْ اس پرابراہیم نے ) کہا اچھا میری طرف سے تجھ پر ہمیشہ سلامتی کی دعاپہنچتی رہے (یعنی میں تجھ سے الگ حَفِيًّا۰۰۴۸ ہوجاتاہوں ) میں اپنے رب سے تیرے لئے ضرور مغفرت کی دعاکروں گا وہ مجھ پر بہت ہی مہربان ہے.تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے باپ کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو تو اس بات پر غصہ آیا ہوا ہے کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتالیکن میں اس بات کو دیکھ کر بھی کہ آپ میرے سچے معبود کو نہیں مانتے آپ سے یہی کہتا ہوں کہ خدا آپ پر رحم کرے.آپ مجھے اس لئے رجم کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا.آپ مجھے اس لئے قتل کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتاآپ مجھے اس لئے لوگوں میں بدنام کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتاآپ مجھ پر اس لئے لعنتیں ڈالنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا آپ مجھے اس لئے گالیاں دینا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا.آپ مجھ سے اس لئے قطع تعلق کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتاآپ مجھے اس لئے گھر سے نکال دینا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتالیکن اے میرے باپ آپ میرے سچے معبود کو نہیں مانتے اور پھر بھی میں یہی کہتا ہوں کہ خدا آپ پر رحم کرے.گناہ آپ نے کیا ہے لیکن میرا رب اب بھی معاف
کرنے والا ہے.میں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاکروں گا.اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا.حَفِیٌّ کے معنے ہوتے ہیں الْعَالِمُ یَتَعَلَّمُ الشَّیءَ بِاِسْتِقْصَاءٍ ایسا شخص جو کوشش اور جدوجہد کے ساتھ کوئی بات نکالتاہے اور حَفِیٌّ کے معنے المُبَالِغُ فِی الْاِکْرَامِ و الْبِرِّ وَالْمُظْہِرُ السُّرُوْرِ وَالْفَرْحَ وَالْمُکْثِرُ السُّؤَالِ عَنْ حَالِ الرَّجُلِ کے بھی ہیںیعنی ایسا شخص جو دوسرے کی عزت اور اس کا احترام کرنے میں اور اس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے میں کما ل کردے اور اس کو دیکھ کر انتہا ء درجہ کی خوشی اور فرحت کا اظہار کرے اور کثر ت کے ساتھ پوچھے کہ آپ کا کیا حال ہے.کیا میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتاہوں.یعنی لوگوں کی خیر خواہی میں جوشخص انتہائی درجہ رکھتاہو اسے حَفِیٌّ کہتے ہیں پس اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا کے یہ معنے ہوئے کہ میرا رب میرے اعزاز اور اکرام کے لئےبےانتہاء کوشش کرتاہے وہ میری کامیابی کو دیکھ کر بڑا خوش ہوتاہے اور ہر وقت میرا حال پوچھتارہتاہے اور اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بے تاب ہو جاتاہے.جب میں اپنے اس محسن خدا کو دیکھتا ہوں اور اس کے متعلق میرے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے تو ساتھ ہی مجھے خیال آتاہے کہ اس محبت اور حسن سلوک کا ایک چھوٹاسا نمونہ میرے ماں باپ بھی ہیں.پس میرافرض ہے کہ میں ان سے بھی محبت کروں اور ان سے بھی عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئوں.گویا اس وجہ سے کہ ماں باپ مجھ سے حسن سلوک کرتے ہیں یا ماں باپ مجھ سے محبت رکھتے ہیں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہوتی بلکہ جب میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے اتنی محبت کرتاہے اور میری ضروریا ت کا اتنا خیال رکھتا ہے تو مجھے خیال آتاہے کہ اسی قسم کی محبت کا ایک نمونہ میرے ماںباپ بھی ہیں.پس خدا کی محبت تقاضا کرتی ہے کہ میں اپنے ماں باپ سے بھی محبت کروں یہ تقویٰ کا کیا ہی لطیف معیار ہے.بعض لوگ نیکیوں میں نیچے سے اوپر جاتے ہیں اور بعض اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں آپ فرماتے ہیں میں اپنے ماں باپ کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتابلکہ خدا تعالیٰ کے الطاف کریمانہ کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ میں اپنے ماں باپ سے بھی پیار کروں.پس اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار اور اس کا حسن سلوک دیکھنے کی وجہ سے میرا دل کہتاہے کہ جب میرا محسن اور مربی خدامجھ سے اتنا پیار کرتاہے تو اسی کی رحمت کا ایک نمونہ میرے ماں باپ بھی ہیں پس میرا فرض ہے کہ میں اپنے والدین سے بھی حسن سلوک کروں.اسی لئے میں آپ کا اعزاز کرتاہوں اور آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہوں کہ وہ آپ کا گناہ معاف کرے اور آپ پر اپنا رحم نازل فرمائے.
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّيْ١ۖٞ اور (اے باپ ) میں تم کو اور جن (وجودوں ) کو تم اللہ کے سواپکارتے ہو سب کو چھوڑ دوںگا اور صرف اپنے رب کے عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّيْ شَقِيًّا۰۰۴۹ حضور دعائیں مانگوںگا (اور) یقیناً میں اپنے رب کے حضور دعا کرنے کی وجہ سے بدنصیب نہیں بنوں گا.تفسیر.آپ نے کہا ہے کہ مجھے چھوڑ کر چلے جائو آپ نے ٹھیک کہاہے.میرا گذارہ آپ کے ساتھ مشکل ہے آپ نے بتوں کو پوجنا ہے اور میں نے خدا کو پوجنا ہے آپ کو خدا کی پرستش پر غصہ آتاہے اور مجھے بتوں کی پرستش پر غصہ آتاہے.اَعْتَزِلُكُمْ کے یہ معنے نہیں کہ میں آئندہ بت نہیں پوجوں گا.کیونکہ وہ تو پہلے ہی بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے اَعْتَزِلُكُمْ کے معنے یہ ہیں کہ میں اس جگہ کو چھوڑدوں گا.وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اور ان بتوں کو بھی چھوڑدوں گا جن کی آپ پرستش کرتے ہیں وَ اَدْعُوْا رَبِّيْ اور میں ایسی جگہ چلا جائوںگا جہاں خداہی خدانظر آئے گا عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّيْ شَقِيًّا اس طرح بظاہر میں اپنے اوپر موت وارد کرلوں گا کیونکہ میرا ملک مجھ سے چھوٹ جائے گا میری قوم مجھ سے الگ ہوجائے گی میرا قبیلہ مجھ سے جداہوجائے گا مرے دوست اور ساتھی میرے ساتھ نہیں رہیں گے مگر میں امید کرتاہوں کہ جب میں اپنے محبت کرنے والے خدا کو پکاروں گا تواپنے مقاصد کو پالوں گا مجھے دوست بھی مل جائیں گے مجھے ساتھی بھی مل جائیں گے.مجھے ہمدرد بھی مل جائیں گے اور مجھے قوم بھی مل جائے گی.فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۙ وَهَبْنَا لَهٗۤ اور پھر جب (ابراہیم ) ان (یعنی اپنے ) لوگوں سے بھی اور جن کی وہ اللہ کے سواپوجا کرتے تھے (ان سے بھی) اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ١ؕ وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا۰۰۵۰ جداہوگیا تو ہم نے اسے اسحاق اور (اس کے بعد ) یعقوب عطافرمائے.اور ان سب کو ہم نے نبی بنایا.تفسیر.جب اس نے ان کو چھوڑدیا اور ان کو بھی چھوڑ دیا جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سواپرستش کرتے تھے تو
ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب دیا وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا اور پھر ہم نے ان سب کو نبی بنادیا.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ کُلًّا کا لفظ دو پر بھی بولا جاسکتاہے چنانچہ بعض اور مقامات پر بھیکُلًّا کا لفظ استعمال ہواہے مگر مراد صرف دو ہی ہیں.اس جگہ اسحاق ؑ اور یعقوبؑ کا ذکر ہے حضرت ابراہیم ؑ پہلے سے نبی ہوچکے تھے پس یہاں کُلًّا سے یہ دونبی مراد ہیں اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ.وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں سے ایک (وافر ) حصہ عطافرمایا اور ہم نے ان کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا ااعلیٰ عَلِيًّاؒ۰۰۵۱ درجہ کا ذکر خیر مقرر فرمایا.تفسیر.قرآنی محاورہ میں رحمت سے دو چیزیں مراد ہوتی ہیں.اول وہ چیزیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت عام کے نتیجہ میں ملتی ہیں.مثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرتاہے کہ خدایا مجھے رحم کرکے بیٹا دیجئے اور اسے بیٹامل جاتاہے اب اسے رحم کی وجہ سے کیا ملا ؟ بیٹاملا.یا ایک شخص دعاکرتاہے کہ خدایا تو اپنے رحم سے مجھے مقدمہ میں فتح دیجیئو اور اسے مقدمہ میں کامیابی ہوجاتی ہے اسے رحم کی وجہ سے کیا ملا ؟ اسے رحم کی وجہ سے مقدمہ میں کامیابی ملی.یا ایک اور شخص دعاکرتاہے کہ خدایا رحم کرکے میری تنگی دور کیجیئے اور اس کی مالی تنگی دور ہوجاتی ہے تو اسے رحم کی وجہ سے کیاملا ؟ رزق کی کشائش ملی اور اس کی تنگی دور ہوئی.یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا عام ظہور ہے.اور یہ سلوک کافر کے ساتھ بھی ہوتاہے ، منافق کے ساتھ بھی ہوتاہے اور مومن کے ساتھ بھی ہوتاہے مگر بعض انعامات ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور عام لوگ ان میں شریک نہیں ہو تے.یہاں بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص سلوک کا ذکر کرتاہے اورفرماتا ہے.ہم نے ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ اور یعقوبؑ کے ساتھ عام سلوک نہیںکیا بلکہ اپنی رحمت ہی ان کے حوالے کردی یہاں موہوب چیز بیٹانہیں، موہوب چیز روپیہ نہیں موہوب چیز کوئی عہدہ اور رتبہ نہیں بلکہ خود رحمت ہے فرماتا ہےوَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا ہم نے اپنی رحمت ہی ان کے قبضہ میں دے دی او ر کہہ دیا جو بھی مانگو گے تمہیں مل جائےگا.جیسے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا اور مجھے پہلی دفعہ خانہ کعبہ نظر آیا تو مجھے یاد آیا کہ حدیثوں میں آتاہے کہ خانہ کعبہ جب
پہلی دفعہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا بھی کی جائے وہ قبول ہوجاتی ہے اس وقت میں نے سوچنا شروع کیاکہ میں کون سی دعامانگوں.آخر مجھے خیال آیا کہ اگر آج میں کوئی دعامانگوں اور وہ قبول بھی ہوجائے تو ممکن ہے کل مجھے کوئی اور ضرورت پیش آجائے اس لئے کیوں نہ کوئی ایسی دعاکروں جو اپنی ذات میں میری ساری ضرورتوں کوپورا کرنے والی ہو.چنانچہ میں نے دعاکی کہ الٰہی جو بھی دعا میں تجھ سے مانگا کروں وہ قبول ہو جایا کرے میں نے بھی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی اتباع میں خانہ کعبہ کو دیکھ کر یہی دعا کی تھی کہ الٰہی جو بھی دعامیں تجھ سے کروں اسے تو اپنے فضل سے قبول فرما لیا کر.تو فرماتا ہے وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا ہم نے اپنی رحمت ہی ان کے حوالے کردی ہم نے کہا ایک ایک چیز کیا دینی ہے چلو ہم اپنی رحمت ہی تمہارے حوالے کرتے ہیںگویا انہیں عمر عیار کی زنبیل مل گئی کہ جس چیز کی ضرورت ہوئی ہاتھ ڈالا اور نکل آئی.وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا صدق کی طرف جب کسی شئے کو اضافت دی جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں صَادِقٌ وَ مَرْضِیٌّ یعنی ایسی چیز جو اپنے مفہوم میں کامل اور پسندیدہ ہو مثلاً اگر کہا جائے کہ آم صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ آم کی جس قدر خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں کامل طور پر پائی جاتی ہیں اور وہ نہایت ہی پسندیدہ اور مرغوب الطبع ہے یا اگر کہا جائے کہ خربوزہ صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ ایک اچھے خربوزہ میں جو لذت اور خوشبو اور ذائقہ پایا جانا چاہیے وہ اس میں کامل طور پر پایا جاتاہے اور اس کے کھانے سے لذت حاصل ہوتی ہے پس وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ کے یہ معنے ہوئے کہ (۱)ان کو وہ زبا ن ملی جو اپنی جگہ کامل اور پسندیدہ تھی یعنی خدا تعالیٰ نے ان کو ایسی توفیق دی کہ ان کی باتیں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوا کرتی تھیں ان میں تلخی نہیں ہوتی تھی.بغض اور کینہ کا اظہار نہیں ہوتا تھا اور پھر حکمت والا کلام ہوتاتھا ہر شخص جوان کی باتیں سنتاتھا کہتاتھا کہ یہ کیا ہی اچھی باتیں ہیں لیکن لسان کے معنے جس طرح ان کی اپنی زبان کے ہیں اسی طرح ان کے متعلق دوسرں کی زبان کے بھی ہوسکتے ہیں اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ(۲) ہم نے ان کو ایسی جماعتیں دیں یا ان کو ایسے افراد عطافرمائے جو ان کے متعلق ایسی باتیں کرتے تھے جو بڑی اچھی ہوتی تھیں بڑی پسندیدہ اور قابل تعریف ہوتی تھیں گویا خود ان کا کلام بھی بڑا اعلیٰ درجے کا تھا اور ان کو ایسے مطیع اور فرمانبردار لوگ بھی ملے جو ان کی سچی کامل اور پسندیدہ تعریفیں کرنے والے تھے.پھر صدق کی طرف اضافت کسی چیز کے قائم رہنے پر بھی دلالت کرتی ہے یعنی صدق کی طرف جب کسی شئے کو اضافت دی جائے تو اس کے معنے دائمی کے بھی ہوتے ہیں.
اس صورت میں وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ سے یہ مراد ہوگا کہ(۳) ان کو ایسی باتیں ملیں جو ہمیشہ قائم رکھی جائیں گی.اور اگر دوسرے معنے لیں یعنی لسان سے ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ اور یعقوبؑ کی زبان نہ ہو بلکہ دوسروں کی زبان ہو تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہمیشہ ہی (۴)ان کی تعریف کر نے والے لوگ دنیا میں موجود رہیں گے جو کہیں گے کہ ابراہیم ؑ بڑا اچھا تھا.اسحاق بڑا اچھا تھا یعقوب بڑا اچھا تھا گویا خدا تعالیٰ ہمیشہ دنیا میں ایسے لوگ پیدا کرتارہے گا جو ان کے نیک ذکر کو قائم رکھیں گے اور ان کی پرحکمت اور اعلیٰ درجہ کی باتیں لوگوں میں پھیلاتے رہیں گے.عَلِیًّالِسَانَ کی صفت ہے اور اس کے تین معنے ہیں اول اَلْمُرْتَفَعٌ یعنی بلند دوم الشَّرِیْفُ سوم الشَّدِیْدُ ان معنوں کے لحاظ سے وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا کے یہ معنے بن جائیں گے : اوّل (۵)ان کو بلند زبان ملی.یعنی وہ بڑی اعلیٰ درجہ کی باتیںکرتے تھے نہایت پرحکمت،ہر قسم کے بُغض اور کینہ سے پاک ، دلوں میں نورایمان پیداکرنے والی اور اخلاق اور پاکیزگی کو ترقی دینے والی یا ان کو بلند تعریف ملی یعنی لوگ ان کی تعریف کرتے تھے تو (۶)وہ بڑی بلند تعریف ہوتی تھی.جیسے امت محمد یہ کو بھی یہ دعا سکھائی گئی کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ گویا زبان بھی ملی تو بلند ملی اور تعریف بھی ملی تو بلند ملی.دوسرے معنوں کے لحاظ سے وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا کے یہ معنے ہوں گے کہ(۷) ان کو شریف زبان دی گئی یعنی ان کی زبان بڑی شستہ تھی ان کی باتوں میں گندنہیں تھا ان کی باتوں میں کینہ ،کپٹ اور بُغض نہیں تھا نہایت پاکیزہ اور شائستہ گفتگو کے وہ عادی تھے اور یا پھر اس کے یہ معنے ہوںگے کہ(۸) ہماری طرف سے ان کو شریف تعریف ملی یعنی لوگ ان کی تعریف کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ان کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں بڑے بزرگ اور مقدس انسان ہیں.عَلِیًّا کے تیسرے معنے شدید کے ہیں اس لحاظ سے وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا کے یہ معنے ہوںگے کہ (۹)ہم نے ان کو شدید زبان دی یعنی ایسی زبان جو صداقت کے اظہار کے لئے بڑی دلیر تھی.اگر کوئی مشرک یا خدا تعالیٰ کی ہتک کرنےوالا ان کے سامنے آتاتو وہ اسے صاف کہہ دیتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھ سکتے تمہارا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ.اور یا پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہماری طرف سے ان کو شدید تعریف ملی یعنی ان کو ایسے تعریف کرنے والے لوگ ملے کہ اگر ان کی گردنوں پر چھریاں بھی رکھ دی جائیں تو وہ یہی کہیں گے کہ
ابراہیم ؑ بڑا اچھا تھا.اسحاق ؑ بڑا اچھا تھا یعقوب ؑ بڑا اچھا تھا.چنانچہ دیکھ لو مسلمان جب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت اسحاق علیہ السلام یا حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام لیتے ہیں تو ہمیشہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں اسی طرح وہ ہر نماز کے آخر میں اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ پر اور اس کی اولاد پر بڑی سلامتی نازل کی تھی اور اس کو بہت برکت دی تھی گویا اس زمانہ میں یہ پیشگوئی صرف مسلمانوں کے ہاتھوں پوری ہورہی ہے.غرض لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّاً کے دس معنے ہوگئے.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١ٞ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ اور تو قرآن کے مطابق موسیٰ کا بھی ذکر کر وہ ہمارا منتخب بندہ تھا رَسُوْلًا نَّبِيًّا۰۰۵۲ او رسول (اور) نبی تھا.تفسیر.حضرت اسحٰق ؑاور یعقوبؑ کے ذکر کے بعد اب اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرماتا ہے.درحقیقت حضرت اسحٰق ؑ او ریعقوب ؑ کا ذکر صرف ضمناًکیا گیا تھا اصل مقصود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر تھا جس کی طرف وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ کے الفاظ بھی اشارہ کرتے ہیں حضرت اسحاق اور یعقوبؑ کا ذکر عہد ابراہیمی کے صرف اس حصہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا تھا جس کا تعلق بنو اسحاق کے ساتھ تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو لے لیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ابراہیمی نسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا اور جس کا ایک ظہور اسحاق اور اس کی اولاد کے ساتھ وابستہ تھا اس میں ایک خاص روحانی مقام کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جو موسوی مقام ہے کیونکہ اس عہد کا ایک نشان جیسا کی بائبل میں ذکر آتاہے کنعان پر قبضہ قرار دیا گیا تھا (استثناء باب ۱ آیت ۵ تا ۹)اور یہ قبضہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ ہی تشریعی نبوت کی بنیاد بنی اسرائیل میں پڑی غرض عیسوی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے پہلے ابراہیم ؑ کی طرف توجہ دلائی پھر اس طرف توجہ دلائی کہ ابراہیمؑ کی نسل میں سے اسحاق ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جووعدے تھے وہ پورے ہونے شروع ہوئے اور پھر انہی وعدوں کے سلسلہ میں موسیٰ آگئے اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ ابراہیمؑ اور اسحاق ؑاور یعقوبؑ کے ذکر کے بعد موسیٰ ؑ کا ذکر فرمایا ہے.
فرماتا ہے وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى توکتاب میں موسیٰ کو بھی یاد کر.اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا وہ ہمارا ایک مخلص بندہ اور ہمارا رسول اور نبی تھا.اَخْلَصَ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو خالص کرلینا اور تمام قسم کی ملونیوں اور خرابیوں سے بچالینا.ایک ہوتاہے مُخْلِصٌ اور ایک ہوتاہے مُخْلَصٌ.کہتے ہیں فلاں شخص بڑا مخِلص ہے مخلص وہ ہوتاہے جو اپنے تعلقات کے سلسلہ میں ہر قسم کی مداہنت اور نفاق کو اپنے دل سے دور کردے.اور مخلَص وہ ہوتاہے جسے خدا تعالیٰ ہر قسم کے بد خیالوں ،وہموں اور قسم قسم کے شبہات او روساوس سے خود باہر نکال لے گویا مخلَص وہ ہوتاہے جسے خدا تعالیٰ محض اپنے لئے انسانوں میں سے منتخب کرلیتا ہے اور اسے ہر قسم کی گندگی سے پاک کردیتاہے.یوں سمجھ لوکہ جیسے عورتیں آٹاپسوانے لگتی ہیں تو وہ آٹاپسوانے سے پہلے گندم کو صاف کرتی اور اس میں سے مٹی وغیرہ نکالتی ہیں یا جب گوشت پکانے لگتی ہیں تو اس کے چھیچھڑے وغیرہ دور کرتی ہیں اب جہاں تک گندم کا سوال ہے وہ ان کے گھر میں پہلے سے موجود ہوتی ہے گوشت بھی صبح سے آیا ہوا ہوتاہے.مگر جب وہ کسی خاص مقصد کے لئے ان چیزوں کو استعمال کرنے لگتی ہیں.تو ان کی صفائی کے لئے خاص توجہ سے کام لیتی ہیں.گندم پڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب پسوانے لگیں تو کنکر اور تنکے وغیرہ اس میں سے نکال دیتی ہیں یا جب آٹاپکانے لگتی ہیں تو اس وقت اسے چھانتی ہیں اسی طرح گوشت پہلے سے موجود ہوتاہے مگر جب گوشت پکانے کا وقت آئے تو اس وقت عورت اس کے چھیچھڑے وغیرہ دور کرتی ہے یا مثلا ًترکاری گھر میں پڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس پرمٹی وغیرہ لگی ہوئی ہوتی ہے.مگر جب ترکاری پکانے کا وقت آتاہے تو پھر عورتیں اسے پانی سے دھوتی اور چھیلتی ہیں اوراس کی مٹی وغیرہ دور کرتی ہیں تو مخلَص ہونے کا وقت وہ ہوتاہے جب کسی چیزکے استعمال کا وقت آجائے.یوں اچھی چیز ہمیشہ اچھی ہی ہوتی ہے.جو طیب ہے وہ طیب ہی ہوگی مگر اس کی پوری صفائی اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے استعمال کا وقت آئے.پس کان مُخْلَصًا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے وقت میں پیدا ہوجب خدا نے اسے انسانوں میں سے الگ کرلیا اور اسے اچھی طرح پاک کرلیا تاکہ وہ کام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد ہونے والا تھا اسے عمدگی کے ساتھ سرانجام دے سکے اس سے معلوم ہوا کہ نبی آپ ہی آپ اتفاقاً نہیں ہوجاتابلکہ الٰہی انتخاب سے ایک روح کو اس کے لئے الگ کیا جاتاہے گویا مخلَص کا لفظ دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خدمت کے لئے اسے مامور کرناچاہتاتھا.وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا پہلے مخلص بن گیا اور پھر کام کیا سپرد کیا ؟ کام صالحیت کا بھی سپرد ہوسکتاتھا.شہادت کا بھی
سپرد ہوسکتاتھا.صدیقیت کا بھی سپرد ہوسکتاتھا مگر ہم نے اسے چنا او رپھر رسالت اور نبوت کے مقام پر فائز کردیا.عام طور پر ہمارے مفسرین بھی یہی لکھتے ہیں اور ہمارے متکلمین بھی یہی لکھتے ہیں کہ رسول وہ ہوتاہے جو کتاب لاتاہے اورنبی وہ ہوتاہے جو کتاب نہیں لاتا.لیکن وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مامور ہوتاہے (فتح البیان).چنانچہ کوئی تفسیر اُٹھا کر دیکھ لو اس میں یہی لکھا ہوگا کہ رسول وہ ہوتاہے جو مامور ہو اور کتاب لائے.اب اگر رسول کے یہی معنے ہیں تو نَبِیًّا کے کیا معنے ہوئے نبی ان کے نزدیک وہ ہوتاہے جو مامور ہومگر کتاب نہ لائے اب جو مامور ہو ا اور کتاب لایا وہ جب رسول ہوگیا تو نبی تو آپ ہی آپ ہوگیا پھر رَسُوْلًا کہنے کے بعد نَبِیًّا کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے نزدیک نبی ہونے کے بعد رسول ہونا ضروری نہیں مگر رسول ہونے کے ساتھ تو نبی ہونا ضروری ہے.یہ نہیں ہوسکتاکہ ایک شخص مامور بھی ہو اور کتاب بھی لائے اور نبی نہ ہو مگر یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ایک شخص کے متعلق لفظ نبی بولیں مگر اس کے پاس کتاب نہ ہو مگر قرآن نے رُسُوْلًا کو پہلے رکھا ہے اور نَبِیًّاکو پیچھے رکھا ہے.اگر درجہ مراد ہوتاتو اللہ تعالیٰ کہتاکہ کَانَ نَبِیًّارَّسُوْلًا وہ نبی بھی تھا اورپھر ہم نے اسے کتاب بھی دی مگر وہ پہلے اسے رسول کہتاہے اور پھر نبی کہتاہے پس اگر رسول اور نبی کی وہی تعریف ہے جو عام مسلمان کرتے ہیں تو پھر اس کا مطلب کیا ہو ا.یہ تو جاہل آدمی کا طریق ہے کہ وہ کہے کہ صاحب یہ چالیس سال کے ہیں اور یہ دس سال کے بھی تھے.ہاں اگر کوئی کہنا چاہے تو یہ کہہ سکتاہے کہ ان کی عمر دس سال ہے اور مجھے خدا نے بتایا ہے کہ یہ چالیس سال کی عمر تک زندہ رہیں گے.قرآن تو ایک حکیم اور علیم ہستی کا کلام ہے.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس کے کلام میں یہ بات آجائے کہ فلاں شخص رسول بھی ہے اور نبی بھی جبکہ رسالت میں ہی نبوت بھی شامل ہے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک شخص مامور ہو اور کتاب بھی لائے مگر وہ نبی نہ ہو.پس معلوم ہوا کہ یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے یہاں بہر حال کوئی اور معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنے وہی ہیں جو ہماری جماعت کیا کرتی ہے کہ رسول کے معنے ہوتے ہیں بھیجاہوا.اور نبی کے معنے ہوتے ہیں خبر دینے والا.اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ پہلے انسان رسول ہوگااور پھر نبی ہوگا پہلے خدا اسے بھیجے گا اور پھر وہ لوگوں کو خدا کی باتیں بتائے گا پس رسالت پہلا مقام ہے اور نبوت اس کے بعد کا.کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتاجب تک وہ پہلے رسول نہ ہو مثلا ً جب خدا نے کہاکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھجواتاہوں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول بن گئے اورجب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ اے مکہ والو! میں تمہیں خدا کی طرف سے یہ خبر دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے.جب خدا نے یہ کہاکہ اے عیسیٰ میں تجھ کو بنی نوع انسان کی طرف بھیجتاہوں تو
عیسیٰ رسو ل بن گئے اورجب عیسیٰ نے یہ کہا کہ اے لوگومیں تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے کیونکہ رسول کے معنے ہیں بات سننے والا اورنبی کے معنے ہیں بات بتانے والا.پہلے وہ سنے گا تو پھر لوگوں کو کچھ بتائے گا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ سنے بعد میں اور پہنچائے پہلے.اسی لئے قرآن کریم نے جہاں بھی بیان کیاہے رسول کا لفظ پہلے رکھا ہے اور نبی کا بعد میں سورئہ احزاب میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ(الاحزاب:۴۱) اسی طرح سورئہ اعراف میں فرماتا ہے اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ(الاعراف:۱۵۸) پھر اسی سورئہ اعراف میں دوسری جگہ آتاہے فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(الاعراف:۱۵۹).غرض ہر جگہ رسول کا لفظ پہلے رکھا ہے اور نبی کا لفظ پیچھے آگے چل کر انہی آیات میں حضرت اسمٰعیل کے متعلق آتاہے کہ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا حالانکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق سب لوگ مانتے ہیں کہ انہیں کوئی کتاب نہیں ملی.وہ اسی شریعت پر چلتے تھے جو حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تھی اور حضرت ابراہیم ؑ پر ایمان لانے والے صرف اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ،لوط ؑ اور ان کے چند خادم ہی تھے.اگر حضرت ابراہیم کے معاًبعد حضرت اسماعیلؑ کو الگ کتاب مل گئی تھی تو ان کی شریعت پر عمل کس نے کیا پس حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق جو یہ الفاظ آئے ہیں یہ بھی غیر احمدیوں کے خیالات کی تردید کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ رسول اور نبی ایک ہی چیز ہے کیونکہ رسول کے معنے MESSANGER کے ہوتے ہیں اور نبی کے معنے بہت خبریں دینے والے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ MESSANGER بنا کر بھیجے گا لازماًاسے کوئی پیغام بھی دے گا اور جو شخص لوگوں پر امور غیبیہ کو ظاہر کرے گا وہ لازماًخدا تعالیٰ کا بھیجا ہواہوگا.پس درحقیقت ایک مامور من اللہ کا وہ نقطہ جو خدا سے ملتاہے اس کے لحاظ سے اسے رسول کہتے ہیں کیونکہ وہ خدا کا بھیجاہوا ہے لیکن اس کا وہ نقطہ جو بندوں سے ملتاہے اس کے لحاظ سے وہ خدا کا نبی کہلاتاہے یعنی ان کو خدا کی خبریں دیتاہے پس جو رسول ہو وہ نبی بھی ضرور ہوگا.کیونکہ خدا تعالیٰ بغیر پیغام کے کسی کو نہیں بھیج سکتا.اور جو نبی ہو وہ ضرور رسول بھی ہوگا کیونکہ اگر خدا نے اسے نہیں بھیجا تو وہ جھوٹاہوگا اور مامور من اللہ جھوٹے نہیں ہوتے.
وَ نَادَيْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَيْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا۰۰۵۲ اور ہم نے موسیٰ کو طور کی دائیں جانب سے پکارااور اس کو اپنے اسرار بتاتے ہوئے اپنے قریب کرلیا.حلّ لُغَات.جَانِبِ کے معنے پہلو اورکناراکے ہیں(اقرب).طُوْر ایک خاص پہاڑ کا بھی نام ہے جو سیناء میں ہے اور طور کے معنے عربی زبان میں صرف پہاڑ کے بھی ہوتے ہیں.(اقرب) الْاَیْمَن کے معنی الْیَمِیْنُیعنی دائیں کے بھی ہیںاور ذُوْالْیُمْنِ یعنی برکت والے کے بھی ہیں (اقرب).اَیْمَنُ کا لفظ اس جگہ جانب کی بھی صفت ہو سکتا ہے اور طور کی بھی اگر اَیْمَنُ کے معنے دائیں کے کئے جائیں تو جانب کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے طور پہاڑ کی دائیں جانب سے پکارا اور طور کی صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ طور سے جو اس کے دائیں جانب تھا ہم نے اسے آوازدی مگر چونکہ اس میں کوئی خاص حکمت نظر نہیں آتی اس لئے مبارک کے معنے زیادہ درست ہیں اس صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے طور پہاڑ کی برکت والی جانب سے اسے پکارا یعنی جہاں اللہ تعالیٰ کے ا لہامات پہلے نازل ہوچکے تھے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لوکہ ہم نے بابرکت طور سے اسے پکارا.تفسیر.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ الہٰی کلام جس جگہ نازل ہوتاہے وہ جگہ بھی بابرکت ہوجاتی ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب ہماری جماعت میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں اور وہ جماعت کے دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ میرے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا ہاتھوں کو بوسہ دینا شرک تو نہیں ؟ خصوصاً اہل حدیث میں سے جو لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں و ہ بعض دفعہ اس قسم کا سوال کردیتے ہیں حالانکہ حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ صحابہ ؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چوما کرتے تھے(ابن ماجہ کتاب الادب باب الرجل یقبل ید الرجل).وہ اہل حدیث کہلاتے ہیں مگر اس قسم کی حدیثوں کو بھول جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بے جان چیز بھی اگر کسی بابرکت وجود سے وابستہ ہوجائے.تو وہ برکت والی ہوجاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا کلام جب کسی جگہ پر نازل ہوتاہے تو وہ جگہ بھی بابرکت ہوجاتی ہے.گذشتہ فسادات کے دنوں میں میرے پاس گورنمنٹ کے بعض افسر پیغامات وغیرہ دینے یا چٹھیاں وغیرہ پہنچانے کے لئے آتے رہے ہیں وہ جب بھی میرے پاس آتے ہمیشہ معذرت کرتے کہ ہم مجبور ہوکر آپ کی خدمت
میں آئے ہیں کیونکہ گورنمنٹ نے ہمیں بھیجاہے.ہم شرمندہ بھی ہیں مگر کیاکریں گورنمنٹ نے یہ نازک ذمہ داری ہمارے سپرد کردی ہے اور اب ہم مجبور ہیں کہ اسی طرح کریں.ایک دفعہ ایک افسر نے جب اسی قسم کے الفاظ میں معذرت کی تو میں نے اسے کہا کہ بتائیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی برکت والی تھی یا نہیں ؟اس نے کہا کیوں نہیں وہ بڑی برکت والی تھی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں میں تھی میں نے کہا اب بتایئے کیا ابوجہل کی جوتی منحوس تھی یا نہیں ؟اس نے کہا یقیناً منحوس تھی کیونکہ وہ ابوجہل کے پائوں میں تھی.میں نے کہا اس جوتی کی اس میں کیا خوبی تھی جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں میں تھی اور اس جوتی کا اس میں کیا قصور تھا جو ابوجہل کے پائوں میں تھی کہ ایک جوتی کو ہم نے برکت والی بنادیا اور دوسری جوتی کو ہم نے منحوس کہہ دیا ؟ میں نے کہا بغیر کسی ارادہ کے بھی اگر کسی اچھے آدمی کا انسان ہتھیار بن جائے تواچھا ہو جاتا ہے اور کسی برے آدمی کا ہتھیاربن جائے تو برا ہو جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا الہام جب اس پہاڑ پر نازل ہوا تو وہ پہاڑ بھی بابرکت ہوگیاجیسے خانہ کعبہ میںکیا خصوصیت ہے کہ اسے برکت والا کہا جاتاہے خانہ کعبہ میںیہی خصوصیت ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوا اور خدا تعالیٰ کے نبیوں نے وہاں عبادتیں کیں اور دعائیں کیں اور ان پر اس کے انعامات نازل ہوئے اسی طرح جس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ کی برکت نازل ہوجائے وہ برکت ہمیشہ کے لئے چلتی چلی جاتی ہے.بلکہ جیسا کہ میں ایک دفعہ بتاچکا ہوں انسان کی برکت بدل سکتی ہے کیونکہ انسان جب نیکی کا رستہ ترک کرکے گنہگار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی برکت اٹھ جاتی ہے لیکن بے جان چیز چونکہ گناہ نہیں کرتی اس لئے جب وہ ایک دفعہ بابرکت ہو جاتی ہے تو ہمیشہ کے لئے مبارک رہتی ہے اور کبھی بھی اس کی برکت اس سے جدانہیں ہوتی ضمنی طور پر اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیاگیاہے کہ طور کی وحی موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے بڑی مبارک تھی.نَجِيًّاًکے تین معنے ہوتے ہیں.اوّل جس سے مخفی بات کی جائے.دوم جس سے بات کی جائے.سوم نَجِيًّا کے ایک معنے السَّرِیْعُ کے بھی ہیں النَّاقَۃُ النَّجِیَّةُ تیز چلنے والی اونٹنی کو کہتے ہیں.(اقرب) یہ تینوں معنے اس آیت پر چسپاں ہوجاتے ہیں یعنی (۱) ہم نے اس کو قریب کیا اس کے ساتھ اسرار کی بات کرتے ہوئے.یعنی علوم روحانیہ اور عرفانیہ اس پر ظاہر کئے شریعت چونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی جاتی ہے اس لئے اگر اس کے معنے مخفی بات کے کئے جائیں گے توتورات مراد نہیں ہوگی کیونکہ وہ کوئی مخفی چیز نہیں تھی بلکہ وہ
تو نازل ہی اسی لئے کی گئی تھی کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے پس نَجِيًّا سے صرف وہ پیغام مراد ہے جس میں موسیٰ ؑ کے علاوہ دوسرے لوگ شریک نہیں تھے اور عقلاً بھی وہی بات مخفی کہلا سکتی ہے جس میں دوسرے شریک نہ ہوں پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے موسیٰ کو قریب کیا اور اس سے وہ باتیں کیں جن میں دوسرے لوگ شریک نہیں تھے.اس پر ہم نے اپنے علوم روحانیہ نازل کئے اس سے محبت اور پیار کی باتیں کیں اور اسے اپنے خاص اسرار بتائے اس میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ جن لوگوں پر اپنی شریعت یاروحانیت کے رازکھولتاہے ان کو اپنا مقرب بنالیتا ہے.(۲) نَجِيًّا کے دوسرے معنے بات کرنے کے ہیں اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے اس کو قریب کیا بات کرتے ہوئے چنانچہ تورات نازل ہوئی جس سے دوہزار سال تک لوگوں نے فائدہ اٹھایا.(۳)نَجِيًّا کے تیسرے معنے سَرِیْعًا کے ہیں پہلے فرمایا تھا کہ كَانَ مُخْلَصًا موسیٰ کو ہم نے انسانوںمیں سے چن لیا اوراب فرماتا ہے کہ جب بات کرنےکا وقت آیا تو وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا ہم نے کہا موسیٰ آہستہ آہستہ نہیں تیز قدم کے ساتھ چل کر ہماری طرف آئو.چنانچہ موسیٰ دوڑتے ہوئے ہماری طرف آیا.جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ہی ذکر آتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا وَ عَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى(طہ:۸۵) یعنی اے میرے رب میں اس لئے تیرے پاس جلدی جلدی آیا ہوں تاکہ تو میرے اس فعل سے خوش ہوجائے.دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے اس کو قریب کیا جبکہ ہم سرعت کے ساتھ اس کی طرف چل رہے تھے یعنی موسیٰ کو بھی ہم نے کہا کہ تیز تیز ہماری طرف آاور ہم نے بھی اس کی طرف محبت میںدوڑنا شروع کردیا.گویا اس میں وہی مضمون بیان کیا گیاہے جو ایک حدیث میں آتاہے کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی طرف چل کرجاتاہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف دوڑکر آتاہے (مسلم کتاب الذکر والدعا و التوبة والاستغفار باب فضل الذکر و الدعا والتقرب الی اللہ و حسن انطن بہ ).یہاں بھی ایسا ہی ہوا.اُدھر سے موسیٰ خدا کی طرف دوڑا اور ادھر سے خداموسیٰ کی طرف دوڑا اور دونوں آپس میں مل گئے.وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا۰۰۵۴ اورہم نے اس (یعنی موسیٰ )کو اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون نبی بناکر (مددگار کے طورپر ) دیا.حل لغات.اَخَاہُ.وَھَبْنَا کا مفعول ہے.اور مراد یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو اس کا بھائی بخشا.
تفسیر.قرآن کریم میں دوسری جگہ سورئہ طٰہٰ میں آتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ (طہ:۳۰) میرے اہل میں سے مجھے ایک مدد گار عطافرمایا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ دعاسنی اور حضرت ہارون ؑ کو بھی نبوت کے مقام پر فائز کردیا.اس جگہ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا میں اس طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ اور انبیاء کا مقام نبوت ایک الگ رنگ رکھتاہے اور ہارون کا مقام نبوت اور رنگ رکھتاہے ہارون ہم نے موسیٰ کو اپنی رحمت سے عطا کیاتھا گویا وہ نبی تو تھا مگر موسیٰ کا ایک خادم اورآپ کے ماتحت کے طور پر تھا.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ اور تو قرآن کے مطابق اسماعیل کا بھی ذکر کر.وہ بھی یقیناً سچے وعدوں والا تھا كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّاۚ۰۰۵۵ اور رسول (او ر)نبی تھا.تفسیر.اب اللہ تعالیٰ اس تمام ذکر کو پھر اسماعیل ؑ کی طرف واپس لوٹاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتاہے کہ عیسوی سلسلہ کوئی الگ سلسلہ نہیں بلکہ موسوی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور موسوی سلسلہ کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہے جن کے دوبیٹے تھے اسماعیل اور اسحٰق.اسحاق کے متعلق بھی وعدہ تھا کہ خدااسے اور اس کی نسل کو ترقی دے گا اور اپنا عہد اس کے ذریعہ سے پوراکرے گا اور اسماعیل کے متعلق بھی وعدہ تھا کہ خدا اسے برکت دے گا اسے بڑھائے گا اور اسے ایک بڑی قوم بنائے گا لیکن بائبل سے یہ بھی ظاہر ہوتا کہ عہد ابراہیمی گو اسحاق کے ذریعہ شروع ہونا تھا مگر پورا ان کے دونوں بیٹوں کے ذریعہ سے ہونا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی حکمت کے ماتحت پہلے ابراہیم اور اسحاق کا ذکر کیا او رپھر موسیٰ کا ذکر کرکے بتایا کہ عیسیٰ تو نسل ابراہیمی کے دو سلسلوں میں سے صرف ایک سلسلہ کی آخری کڑی ہے اسے تم نے آسمان پر کیوں چڑھا رکھاہے اور کیوں یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کا جو آخری نجات دہندہ آناتھا وہ مسیح کی شکل میں آچکا.تم جانتے ہو کہ ہم نے ابراہیم ؑ سے اسحاق کے متعلق بھی وعدہ کیا تھا اور اسماعیل کے متعلق بھی وعدہ کیا تھا.اسحق اور اس کی نسل کے ساتھ ہمارا جو وعدہ تھا وہ پورا ہوا جس کی آخری کڑی کے طور پر مسیح دنیامیں آیا اب تم ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسمٰعیل کو بھی یاد کرو اس کے متعلق ہم نے ابراہیم سے جو وعدے کئے
تھے وہ وعدے بھی ہم نے پورے کرنے تھے یا نہیں ہم نے بنو اسحاق کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے موسیٰ جیسا عظیم الشان نبی ان میں پیدا کردیا.اب اسماعیلی وعدوںکے پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے اس کی نسل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیداکردیا.غرض اسماعیل کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی عہد کے دوسرے ظہور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا ہے اور عیسائیوں کو بتلایا ہے کہ جس قسم کا درجہ تم عیسیٰ ؑ کو دیتے ہو اگر وہ درست ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسماعیل کے متعلق جو وعدے کئے گئے تھے وہ بھی ختم ہوگئے ہیں اور ابراہیمی دعائیں بھی ضائع ہوگئی ہیں حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ دو وعدے کئے گئے تھے ایک اسحاق کے متعلق اور ایک اسماعیل کے متعلق گویا بتایا گیا تھا کہ نسل ابراہیمی سے برکتوں کے دو سلسلے جاری ہوں گے ایک سلسلہ اسحاق کے ذریعہ چلے گا اور ایک سلسلہ اسماعیل کے ذریعہ چلے گا اسماعیل اگر چہ بڑا لڑکا تھا مگر خدا نے فرمایا کہ میں اپنا عہد اسحاق سے شروعی کروں گا چنانچہ وہ سلسلہ شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے دوہزار سال تک بنواسحاق کو نبوت اور حکومت عطافرمائی اب اگر مسیح پر آکر یہ تمام سلسلہ ختم ہوجانا تھا تو اس کے معنے یہ تھے کہ اسماعیل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا وہ بالکل جھوٹ تھا.پس اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا یہ کہنا کہ عیسیٰ ایسے مقام پر تھا کہ جس کے بعد عہدابراہیمی ختم ہوگیا بائبل کے صریح خلاف ہے تمہیں اب اس دوسرے سلسلہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو ہم نے ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی نسل میں سے جاری کیا ہے.اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا ان الفاظ میں عیسائیوں اور یہودیوں پر ایک سخت چوٹ کی گئی ہے فرماتا ہے اسماعیل بڑے سچے وعدے کرنے والا تھا مگر تمہارے نزدیک مَیں ہی جھوٹے وعدےکرنے والا ہوں.وہ ہمارے لئے اپنی جان تک دینے کے لئے تیار رہتاتھا.خود بائبل میںلکھاہے کہ ’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اورسب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوںکے سامنے بسا رہے گا ‘‘ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲) یعنی اس کی زندگی ہمیشہ تلواروں کے سایہ تلے گذرے گی اور وہ دین کے لئے ہمیشہ اپنے بھائیوں سے نبرد آزما رہے گا.اسی طرح بائبل میں حضر ت اسماعیل کے متعلق آتاہے کہ ’’خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا ‘‘ (پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۰)
گویا بائبل کی شہادت بھی اس امر پر موجود ہے کہ حضرت اسماعیل خطرناک حالات میں سے بھی گذرے مگر پھر بھی انہوں نے خدا کو نہ چھوڑا.جب وہ دین کے لئے اس قدر فدائیت کی روح اپنے اندر رکھتاتھا اور خدا تعالیٰ کی خاطر خطرناک سے خطرناک حالات میں اپنے آپ کو ڈالنےکےلئے تیار رہتاتھا تو اے عیسیٰ کے ماننے والو! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اسے چھوڑدوں اور ان خبروں کو پورانہ کروں جو اس کی آئندہ نسل کے متعلق میں نے دی تھیں.حالانکہ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا اسے میں نے دنیا کی طرف بھیجا تھا اور پھر میں نے اسے خبریں بھی دی تھیں.گویا میں نے اسماعیل کے متعلق دوہری خبریں دیں.ایک دفعہ میں نے ابراہیم کے ذریعہ اسماعیل اور اس کی نسل کی ترقی کی خبردی اور دوسری دفعہ خود اسماعیل کو میں نے ا س بارہ میں الہامات کئے اور اسماعیل وہ تھاجو بڑے سچے وعدے کرنے والا تھا مگر اب تم یہ چاہتے ہوکہ میں ابراہیم کو بھی جھوٹا ثابت کروں اور اسماعیل جو بڑا راست باز انسان تھا اس کو بھی جھوٹاثابت کروں او رخود بھی جھوٹا بنوں.وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ اور اپنے اہل کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کرتارہتاتھا اور اپنے رب مَرْضِيًّا۰۰۵۶ کے نزدیک پسندیدہ وجود تھا.تفسیر.فرماتا ہے جب میں نے اس کو کہا کہ میں آئندہ تیر ی نسل میں سے ہدایت او ر رشد کا ایک سلسلہ جاری کرنے والا ہوں تو اس نے اس امید میں تہیہّ کر لیا کہ اب میں اپنی اولاد کو ہمیشہ نیکی کی باتیں سکھلائوں گا تاکہ خدائی وعدوں کے پورا ہونے میں آسانی ہو.چنانچہ وہ اپنی اولاد کو ہمیشہ نمازوں اور دعائوں کی تاکید کیا کرتاتھا اور زکوٰۃ دیا کرتا تھا او ر خدا نے جو کام اس کے سپرد کیا تھا اس کو وہ پوراکرنے والا تھا اور خدا اس سے بڑا خوش تھا.مگر ان ساری باتوں کے باوجود تم کہتے ہو کہ خدا نے حضرت مسیح کو اپنا بیٹا بنا کر بھیج دیا اور اب دنیا کی نجات کے لئے آئندہ کوئی نیا سلسلہ قائم نہیں ہوسکتا.کیا یہ عقل کی بات ہے کہ اتنے عرصہ سے ہماری پیشگوئیاں چلی آرہی ہوں اور پھر وہ پوری نہ ہوں.افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے اس حکمت کو نہیں سمجھا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے یہاں اسماعیل کا ذکر کیا ہے کیوں اس سے پہلے موسیٰ اور ہارون کا ذکر کیاہے پھر موسیٰ اور ہارون کے ذکر سے پہلے کیوں اسحق اور یعقوب کا ذکر
کیا ہے اور اسحاق اور یعقوب کے ذکر سے پہلے کیوں ابراہیم کا ذکر کیاہے.وہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ برسبیل تذکرہ ابراہیم کا ذکر آگیا بر سبیل تذکرہ موسیٰ کا ذکر آگیا برسبیل تذکرہ اسماعیل کا ذکر آگیا.گویا جس طرح ہم بعض دفعہ غلطی سے دوسروں کا آگے پیچھے ذکر کردیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی نعوذباللہ غلطی ہوگئی ہے کہ اس نے ترتیب سے ذکر کرنے کی بجائے ان نبیوں کا آگے پیچھے ذکر کردیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک نبی کا ذکر اپنے مقام پر ہے کسی ایک نبی کا ذکر بھی آگے پیچھے نہیں پہلے زکریا ؑ کاہی ذکر ہونا چاہیے تھا پھر یحییٰ کا ہی ذکر ہونا چاہیے تھا.پھر مسیح کا ہی ذکر ہونا چاہیے تھا پھر ابراہیم کا ہی ذکر ہونا چاہیے تھا پھر اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کا ہی ذکر ہونا چاہیے تھا پھر موسیٰ اور ہارون کی ہی ذکر ہونا چاہیے تھا اور پھر اسماعیل کا ہی ذکر ہونا چاہیے تھا یہ بتانے کے لئے کہ ایک سلسلہ تو مکمل ہوگیا.اب دوسرے سلسلہ کی طرف چلو جس خدا نے اتنا بڑا سلسلہ چلایا ہے کیا وہ دوسر اسلسلہ نہیں چلائے گا؟ وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاۗۙ۰۰۵۷ اور تو قرآن (کریم ) کے رو سے ادریس کا بھی ذکر کر وہ بھی صدیق نبی تھا.وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا۰۰۵۸ اور ہم نے اسے نہایت اعلیٰ مقام تک پہنچایا تھا تفسیر.اس آیت کے متعلق دو سوال پیدا ہوتے ہیں.اول یہ کہ ادریس ؑ کون تھا.اور دوسرایہ کہ ادریس ؑ کا ذکر اس جگہ کیوں آیا ؟ مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ادریس حنوک کانام تھااور حنوک حضرت آدم علیہ السلام کے پڑپوتے اور حضرت نوح علیہ السلام کے دادا تھے(فتح البیان زیر آیت ھذا) انگریزی میں حنوک کو (ENOCH ) لکھتے ہیں.بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ ا لیاس ہیں اور ان کے الیاس لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ا لیاس کے متعلق بھی یہ خیال پایا جاتاہے کہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.دوسرے حضرت مسیح کے متعلق یہ خبر تھی کہ ان کے آنے سے پہلے ایلیاہ نبی آسمان سے دوبارہ آئے گا.پس انہوں نے اس خیال سے کہ مسیح ؑ کے ساتھ الیاس کی مشابہت ہے یہ قیاس کیا ہے کہ اس جگہ ادریس سے الیا س ہی مراد ہے مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں اور یوں بھی یہ خیال اس وجہ سے غلط ہے کہ قرآن کریم میں الیاس کا نام آتاہے پس الیاس کا ہی کسی دوسرے نام سے ذکر کرنا غیر معقول تھا یا تو عرب لوگ
الیاس کا تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہوتے تب بے شک کہا جاسکتاتھا کہ اس جگہ ادریس سے الیاس مراد ہے مگر جب الیاس کانام قرآن کریم نے استعمال کیا ہے تو ادریس سے الیاس مراد لینا یقیناً غلط ہے اور اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.حنوک کے معنے اور ادریس کے معنے آپس میںملتے جلتے ہیں.حنوک کے معنے عبرانی زبان میں DEDICATIONیا INSTRUCTIONکے ہیں یعنی سکھانا یا کسی چیز کی طرف منسوب کردینا (انسائیکلوپیڈیا ببلیکا جلد ۲ زیر لفظ Enoch) اور ادریس کے معنے بھی اسی رنگ کے ہیں.دَرَسَ کے معنے ہیں پڑھااور دَرَّسَ کے معنے ہیں پڑھایا.پس ادریس کے معنے ہوئے بڑا پڑھنے والایا بڑا پڑھانے والا گویا INSTRUCTON کے معنے بھی اس میں آجاتے ہیں اور DEDICATION کے معنے بھی اس میں آجاتے ہیں کیونکہ جو شخص کسی کام میں لگا رہتاہے وہ اس میں ماہرہوجاتا ہے اور اسی کام کے لئے وقف ہو جاتا ہے.پس ادریس کے معنوں میں بھی یہ پایا جاتاہے کہ ’’بڑی مہارت رکھنے والا اور فن کے لئے وقف ہوجانے والا ‘‘ گویا جو معنے عبرانی میں حنوک کے پائے جاتے ہیں وہی ادریس کے عربی میں پائے جاتے ہیں.اقرب الموارد والا لکھتاہے کہ یہ لفظ عَلَم عجمی ہے یعنی عجمی نام ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غیر منصرف ہے اورغیر منصرف اگر علَم ہو تو اس کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ عجمی ہو چونکہ ادریس غیر منصرف ہے اس لئے بوجہ علَم ہونے کے یہ عجمی لفظ بھی ہے ورنہ یہ غیر منصرف نہ ہوتا.ابن السکیت کا خیا ل ہے کہ یہ غیر منصر ف ہے اور عربی ہے وہ کہتے ہیں کہ ادریس کے معنے عربی زبان میں پائے جاتے ہیں جیسے اَبلَسَ سے اِبلِیسہے اسی طرح اَدرَسَ سے اِدرِیس ہے.پس یہ لفظ عربی ہے اور انہوں نے اس پر اصرار کیا ہے اور کہاہے کہ جیسے یعقوب عقب سے اور اسرائیل اسرال سے نکلاہے اسی طرح ادریس اَدرَسَ سے نکلاہے اور گو انہوں نے یہ نہیں لکھا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض اور نام بھی ایسے پائے جاتے ہیں جوعربی زبان سے نکلے ہیں مثلاًاضحاق ضحک سے ہے اسماعیل سمع سے ہے پس ان کے نزدیک ادریس عربی لفظ ہی ہے لیکن جو دوسرے ماہرین زبان ہیں ان کے نزدیک یہ ناقابل قبول بات ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ عربی ہوتاتو غیر منصرف نہیں ہوسکتاتھا.اس صورت میں یہ عربی عَلَم قرار دیا جائے گا اور عربی عَلَم غیر منصر ف نہیں ہوتا.پس انہوں نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس لفظ کو عربی قرار دینے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ایک یہ کہ عَلَم ہو اور دوسری یہ کہ غیر منصر ف نہ ہو.اصمعی نے اور قرطبی نے اور صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جس زبان کا یہ لفظ ہے اس زبان میں
قریباًقریباً انہی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہو جن معنوں میں عربی میں استعمال ہوتاہے.اس وجہ سے ابن السکیت کو غلطی لگ گئی ہو اور انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ یہ عربی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ یہ عربی نہیں اگر عربی ہوتاتو غیر منصرف نہ ہوتالیکن ہم یہ سمجھیں گے کہ اس زبان میں بھی اس کے یہی معنے ہوںگے اس وجہ سے ابن السکیت کو دھوکہ لگ گیا مگر میرے نزدیک دونوں فریق کو دھوکہ لگا ہے.ابن السکیت نے جو یہ کہا ہے کہ یہ عربی لفظ ہے یہ غلط ہے (تفسیر قرطبی).اگر قاعدہ کی روسے یہ عربی ہوتا توغیر منصرف نہیں ہوسکتاتھا.اور جو دوسرے علماء نے کہا ہے کہ عجمی لفظ ہے اور عجمی لفظ ہونے کی وجہ سے غیر منصر ف ہوگیا ہے.انہوں نے بھی حقیقت کو پورے طور پر نہیں سمجھا اس لئے کہ وہ بھی مانتے ہیں کہ اس کانام حنوک تھا اور جب اس کا نام حنوک تھا تو پھر ادریس اس کا ترجمہ ہوا اور جب یہ ترجمہ ہوا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ اس میں علمیت نہ رہی اور اس کے غیر منصرف ہونے کی بھی کوئی وجہ نہ رہی کیونکہ غیر منصرف ہونے کےلئے ضروری ہے کہ اگر عَلَم ہوتو وہ عجمی ہو اگر ادریس ترجمہ ہے حنوک کا توپھر علمیت نکل گئی اور اگر یہعَلَم ہے تو پھر ادریس حنوک کا نہیں بلکہ کسی اور نبی کانام ہوگا.اور اگر وہ حنوک ہی ہے تو ادریس اس کا ترجمہ ہو ااور جب یہ ترجمہ ثابت ہوگیا تو علمیت سے بھی نکل گیا.پس جن لوگوں نے اسے غیر منصرف قرار دیا ہے انہیں بہر حال غلطی لگی ہے.ورنہ اسے غیر منصرف قرار دینے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.اب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ جب ادریس حنوک کا ترجمہ ہے تو پھر عربوں نے اسے غیر منصرف کیوں قرار دے دیا آخر عربوں میں ادریس کانا م پہلے بھی پایا جاتاتھا او روہ قرآن کریم کے نزول سے پہلے ہی اس کے غیر منصرف ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے.پس جب نزول قرآن سے پہلے ہی وہ اسے غیر منصرف قرار دے چکے تھے تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کو یہ غلطی کیوں لگی اور وہ اس دھوکہ میں کس طرح مبتلا ہوگئے.کہ یہ غیر منصرف ہے.واقعہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کو یہ دھوکہ رہا ہے کہ وہ عربی زبان کے بھی بڑے ماہر ہیں اور غیر زبانوں کا بھی بڑا مطالعہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ عربی زبان کے تو بے شک ماہر ہوںگے مگر غیر زبانوں کے متعلق ان کا مطالعہ بہت ہی محدود تھا.اورنہ صرف غیر زبانوں کے متعلق بلکہ غیر مذاہب کے متعلق بھی ان کے معلومات نہایت سطحی تھے ہم جب تفاسیر پڑھتے ہیں اور ان میں بائبل کے حوالے آتے ہیں تو ہمیں ان حوالوں کو پڑھ کر شرم آجاتی ہے کیونکہ وہ اتنے غلط اور خلاف واقعہ ہوتے ہیں کہ توراۃ او ر انجیل سے انہیں کوئی دور کی بھی نسبت نہیں ہوتی بالکل غلط اور سرتاپا غلط حوالہ جات ان تفسیروں میں آجاتے ہیں.اور لکھا ہوتاہے کہ یہ بات تورات میں ہے.یہ بات انجیل میں ہے.حالانکہ وہ با ت نہ توراۃ میں موجود ہوتی ہے نہ انجیل میں موجود ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محض یہودیوں سے
بات سن کر اپنی کتابوں میں درج کرلیتے تھے.اور یہودی ان سے کھیل کھیلتے تھے.وہ بالکل جھوٹی باتیں اپنی طر ف سے بنا کر انہیں بتادیتے تھے.اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ یہودی بڑے دیانتدار ہیں.جب انہوں نے اپنے مذہب کے متعلق ایک بات بتائی ہے تو وہ ضرور سچی ہوگی.چنانچہ جب بھی انہیں بائبل کے متعلق کوئی بات دریافت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ یہودی علماء کے پاس چلے جاتے.اور وہ انہیں با لکل من گھڑت قصے اور واقعات بتادیتے.اور یہ ان قصوں کو اپنی تفسیروں میں درج کرلیتے.جب یہودیوں کو اس کا علم ہوتاتو وہ اور زیادہ ہنسی اُڑاتے کہ دیکھو ہم نے توان سے مذاق کیا تھا اور انہوں نے اس کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا اب یہ لوگوں کی نگاہ میں خوب رسو ا ہوںگے.اس سے بے شک ہمارے علماء کی دیانتداری اور نیکی تو ثابت ہوتی ہے.مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ غیر مذاہب کے متعلق ان کا علم بہت محدود اور ناقص تھا.اگر خدا تعالیٰ کسی وقت مسلمانوں کو توفیق دے اور وہ تفاسیر میں سے تورات اور انجیل کا باب نکال دیں تو گو یہ ایک غیر معمولی با ت ہوگی مگر اس کے نتیجہ میں ہمیں غیر مذاہب والوں کے سامنے وہ ذلت محسوس نہیں ہوگی جو اب محسوس ہوتی ہے اتنی غلط باتیں تورات اور انجیل کے متعلق تفسیروں میں پائی جاتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں.حدیثوں میں آتاہے کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ فلاں بات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟انہوں نے کہا میں پھر بتاؤں گا.چنانچہ وہ شخص چلا گیا اس کے بعد راوی کہتاہے کہ حضرت ابن عباس ؓنے مجھے بلایا اور کہا کہ فلاں یہودی کے پاس جائو اور اس سے پوچھو کہ تمہاری کتابوں میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے.اُس نے ایک نہایت ہی لغو اور فضول اور بیہودہ قصہ بیان کردیا.دوسرے دن وہ شخص آیا تو راوی کہتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے وہی لغو اور بے ہودہ قصہ بتادیا جو اس یہودی نے بتایا تھا.اب اس میں حضرت ابن عباس ؓ کا قصورنہیں قصور اس یہودی کا ہی ہے مگر حضرت ابن عباسؓ کا اتنا قصور ضرور ہے کہ انہوں نے مومنانہ طور پر یہ یقین کرلیا کہ وہ خبیث اور بے ایمان یہودی جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے.مگر باوجود اس کے کہ حضرت ابن عباس نے جو کچھ کیا اپنی سادگی اور نیکی کے نتیجہ میں کیا ، پھر بھی ہماری کتابو ں میں ان باتوں کا موجود ہونا ہمارے لئے بڑی شرم کی بات ہے.آج کل ہم بھی تحقیقات کرتے ہیں.مگر اس تحقیق میں ہم عربی کی کتابوں سے مدد لیتے ہیں.عبرانی اور یونانی کتابیں دیکھتے ہیں.لغت کو مد نظر رکھتے ہیں تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اورپھر کوئی بات پیش کرتے ہیں ممکن ہے کہ کسی وقت ہماری تحقیق میں بھی کوئی غلطی ثابت ہوجائے.مگر بہرحال ہماری باتیں سچ کے گرد چکر لگارہی ہیں.کیونکہ ہماری بنیاد حقیقت لغت اور اسرار لغت اورتاریخی واقعات پر ہے.اور بعض مفسرین کی بنیاد محض جھوٹے واقعات اور جھوٹے قصوں پر ہے.اور ان دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے.ان
مفسرین میں سے بعض کا یہ طریق تھا کہ وہ یہودیوں کے پاس جاتے اور ان سے دریافت کرتے کہ فلاں بات کس طرح ہے اور یہودی ان سے مذاق کردیتے تھے.مثلاًرعد کا لفظ آیا تو وہ کسی یہودی عالم کے پاس چلے گئے اور اس سے پوچھا کہ بتایئے رعد کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ رعد ایک فرشتہ ہے جوآسمان پر ہوتاہے.اس کے اتنے پر ہوتے ہیں وہ اس طرح پر ہلاتاہے تو اس سے سیٹیوں کی آواز پیدا ہوتی ہے سیٹیوں کی آواز سے مورپیدا ہوتے ہیں.مور کے پروں سے ا ٓگ نکلتی ہے اور آگ سے کڑک اور چمک پیدا ہوجاتی ہے.اب اس شخص نے تو ایک مذاق کیا تھا مگر انہوں نے اپنی سادگی سے یہ سمجھ لیا کہ اس نے جو کچھ بکواس کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور یہی رعد کی تفسیر ہے.اس چیز نے ان تفاسیر کے علمی پایہ کو بہت گرادیاہے.بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ادریس کا نام اسلام سے پہلے عربوں میں پایا جاتاتھااورحنوک کامفہوم ادریس سے ملتاجلتاہے.اب سوال یہ ہے کہ جس کا نام حنوک تھا اسے ادریس کیوں کہتے تھے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ بعض لوگوںکے دونام بھی ہوتے ہیں.ہم نے کئی لوگ ایسے دیکھے ہیں جن کو بعض دفعہ دوسرے ناموں سے بھی بلایا جاتاہے اور جب پوچھا جائے کہ یہ کیا ؟ تو لوگ کہتے ہیں کہ ان کا فلاں نام بھی ہے.پس ہوسکتاتھا کہ یہ توجہیہ کرلی جاتی کہ حنوک کا ادریس بھی نام تھا.مگر اس میں ہمارے لئے دقت یہ ہے کہ یہودی لٹریچر میں کہیں بھی ادریس کانام نہیں آتا.یہودی نیم مسلمہ عہد نامہ قدیم یعنی ایپوکریفا (The Apocrypha The American Translation p.xi)میں ایک ایڈراس ESDRAS نام آتاہے مگر اس کی باتیں حنوک پر چسپاں نہیں ہوتیں.جو باتیں قرآن کریم نے حضرت ادریس کے متعلق بیان کی ہیں وہ حنوک پر ہی چسپاں ہوتی ہیں.ایڈراس(ESDRAS )پر نہیں.پس اس مسئلہ کو ہم اس طرح بھی حل نہیں کرسکتے کہ ادریس حنوک کا دوسرا نام تھا.میرے نزدیک اس کا ایک اور حل ہے اور وہ یہ کہ بعض دفعہ دوسری قوم کے لوگ سمجھانے کے لئے نام کا ترجمہ کردیتے ہیں یہی طریق حنوک کے بارہ میں بھی اختیار کیا گیاہے.معلوم ہوتاہے کسی یہودی نے اپنے کسی عرب دوست کے سامنے حنوک کانام لیا تو وہ حیران ہوا کہ یہ حنوک کیا چیز ہے.وہ یہودی کوئی ذہین شخص تھا اور عربی بھی جانتاتھا.خود مدینہ میں بھی یہود آباد تھے اس نے حنوک کا عربی میں ترجمہ کرکے بتادیا کہ حنوک کو تم ادریس سمجھ لو.یوں حنوک کانام بھی عربی میں موجود ہے مگر ایک اور شکل میں چنانچہ عربی زبان میں حنک کا لفظ پایا جاتاہے اور اس سے حنوک کا سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں تھا.مگر چونکہ یہ لفظ عربی میں اس شکل میں نہیں پایا جاتااس لئے اس کی طرف ذہن نہیں جاتا.بہرحال اس یہودی عالم نے عربوں کو سمجھانے کے لئے حنوک کا ترجمہ ادریس کردیا.اب یہ لازمی
بات ہے کہ جب ایک عرب اس نام کو سنے گا تو وہ خیال کرےگا کہ یہ عَلَم بھی ہے اور عجمی بھی ہے کیونکہ اس کا بتانے والا عجمی ہوگا.پس میرے نزدیک اس کو غیر منصرف اس لئے کہا گیا ہے کہ یہودیوں نے کسی زمانہ میں اسلام سے پہلے عربوں کو یہ بتانے کے لئے کہ حنوک کیا چیز ہے.ایسے الفاظ میں جو اہل عرب کے لئے قریب اِلی الفہم تھے اس کا ترجمہ کرکے ادریس بتادیا.جیسے اس شخص کو جو بڑے عزم اور ارادے والا ہو انگریزی میں ولیم (WILLIAM ) کہتے ہیں.ولیم مجموعہ ہے WILL او رHELM کا اورWILL کے معنے ارادہ اور HELM کے ایک معنےHELMET کے ہیں اور HELMET کے معنے لوہے کی خود کے ہوتے ہیں.پس ولیم کے معنے ہوئے زرہ جیسی یا خود جیسی نیت اور عزم رکھنے والا.اس کا عربی میں ترجمہ کریں گے تو اولوالعزم کہہ دیں گے.اب اگر کسی انگریز کے سامنے ہم اس کا ذکر کریں اور وہ ہم سے پوچھے کہ اولوالعزم کیا ہوتاہے؟ تو ہم کہیں گے ولیم.گویا اس کو سمجھانے کے لئے ہم اسی کی زبان میں اس کا ترجمہ کردیں گے اور یہ طریق نہ صرف دنیا میںرائج ہے بلکہ خدا تعالیٰ بھی اسی طرح کرتاہے.میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اس میں داخل ہوا ہوں اور میں اس وقت سمجھتاہوں کہ میں ولیم دی کنکررہوں (یہ رؤیا تفصیل کے ساتھ الفضل ۲۴جون ۱۹۲۴ ء میں چھپا ہوا ہے )چونکہ الہاموں میں میرا ایک نام اولوالعزم بھی آیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے اس کا ترجمہ کرکے دکھا دیا.تو اصل حقیقت یہ ہے کہ عربوں کو حنوک کا ترجمہ کرکے ادریس بتایا گیا.اور چونکہ ان کے سامنے اسے نام کے طور پر پیش کیا گیا.اس لئے انہوں نے سمجھا کہ یہ عَلَم ہے.اور چونکہ بتانے والا عجمی تھا انہوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ یہ عجمی ہے.اصل میں عربی اور عبرانی دونوں ایک ہی زبانیں ہیں مگر رفتہ رفتہ عرب بھی اس بات کو بھول گئے اوریہودی بھی بھول گئے کہ عربی اور عبرانی تو ایک ہی چیز ہیں.اس وجہ سے انہوں نے عبرانی کو بالکل غیر زبا ن سمجھ لیا.یہودیوں کے نزدیک عربی غیر زبان تھی اور عربوں کے نزدیک عبرانی غیر زبان تھی.حالانکہ عربی زبان اصل تھی اور عبرانی ایک قبیلہ کی زبان تھی باقی رہا عربی اور عبرانی کا اختلاف سو یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ہم تو دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ زبان ایک ہی ہوتی ہے مگر ایک علاقہ والا اور طرح بولتاہے اور دوسرے علاقہ والااور طرح بولتاہے.میں جب حج کے لئے گیا تو سیٹھ ابوبکر صاحب کے ہاں جدہ میں ٹھہر ا.اُن کا ایک یمنی نوکر تھا.میں اس سے عربی زبان میں گفتگو کرتارہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری باتوں کو خوب سمجھتاتھا مگر کسی کسی بات پر وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگ جاتااور اسے پتہ نہ لگتاکہ میں نے کیاکہا ہے آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میں بڑا بھاری فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ وہ آپ کی بات کو سمجھ
نہیں سکتاپھر اس نے لطیفہ سنایا کہ مکہ میں ایک امیر عورت تھی جس کا ایک یمنی ملازم تھا.یمن کے لوگ اکثر مکہ میں علم حاصل کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور چونکہ ان کی معاش کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اس لئے وہ گھر وں میں ملازم ہوجاتے ہیں.اسی وجہ سے مکہ میں یمنی نوکر بڑی کثرت کے ساتھ مل جاتے ہیں.بہرحال وہ اس عور ت کے ہاں ملازم تھا.وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی.یوں بھی مکہ والے حقہ پینے کے بڑے شائق ہوتے ہیں وہ بڑے بڑے خوبصور ت حقے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سو سو روپیہ میں خرید تے ہیں اورحقہ کے نیچے جو پانی والا برتن ہوتاہے وہ بھی مٹی کانہیں بلکہ شیشے کا ہوتاہے.ہمارا ملک چونکہ غریب ہے اس لئے یہاں لوگ معمولی حقہ پر گذارہ کر لیتے ہیں اور حقے کا برتن جس میںپانی ڈالا جاتاہے وہ بھی مٹی کا ہی ہوتاہے.مگر ان کے بڑے بڑے نفیس حقے ہوتے ہیں.شیشے کا برتن ہوتاہے جس میں سے پانی اُوپر کو اٹھتاہو انظر آتاہے اور لمبے لمبے پیچوان ہوتے ہیں جن میں پانچ پانچ چھ چھ گزکا چکر پڑا ہوا ہوتاہے.ایک دن جبکہ اس عورت نے حقہ کا پانی بدلنا چاہا تو اس نے اپنے نوکر کو بلایا اور کہا غَیّر الشَّیْشَۃَ.شیشہ کا پانی بدل دو.لفظی لحاظ سے تو اس کے اتنے ہی معنے ہیں کہ شیشہ بدل دو.مگر محاورہ میں ا س کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ شیشہ کا پانی بدل دو.لیکن یمنی زبان میں غَیِّرِ الشَّیْشَۃَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ شیشے کا برتن توڑ دو.جب اس عورت نے نوکر سے کہا کہ غَیِّرِ الشَّیْشَۃَ تو وہ حیران ہوکر کہنے لگا کہ ستِّی ھٰذَا طَیَّبُ.آقایہ تو بڑی اچھی چیز ہے.سِتِّیْ ، سَیّدتی سے بگڑا ہواہے.اسے غصہ آیا کہ میں کہہ رہی ہوں پانی بدل دے اور یہ کہتاہے کہ یہ تو بڑا اچھا ہے چنانچہ وہ اسے ناراض ہوئی کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشَّیْشَۃَ میں جو تجھ سے کہتی ہوں کہ شیشے کا پانی بدل دے پھر توکیوں نہیں بدلتا.اس نے پھر ڈرتے ڈرتے کہا سِتِّی ھٰذَا طَیَّبُ.بیگم صاحبہ ! یہ تو بڑا اچھا ہے اس پر عورت نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ جب میں تمہیں بار بار ایک بات کہہ رہی ہوں تو تم کیوں نہیںمانتے.اس پر اس نے شیشے کا برتن اٹھایا اور زور سے دیوار کے ساتھ مارکر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا.عورت نے شور مچادیا کہ کم بخت تونے یہ کیا کردیا.اتنا قیمتی برتن تونے ضائع کردیاہے.اس نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن بڑا اچھاہے اسے ضائع مت کریں مگر آپ ماننے میں ہی نہیں آتی تھیں.اب میں نے آپ کے حکم کو مان کر اسے توڑ دیا ہے تو آپ خفا ہورہی ہیں.اس پر عورت اور زیادہ خفا ہوئی.مگر آخر کسی یمنی زبان کے واقف نے اسے بتایاکہ اس میں نوکر کا کوئی قصور نہیں.یمن میں تَغْیِر کے معنے تَکْسِیْر یعنی توڑ دینے کے ہی ہوتے ہیں.تو زبان میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے ہی بڑے بڑے تغیرات پیدا ہوجاتے ہیں.عربی اور عبرانی میں بھی اسی وجہ سے فرق نظر آتاہے ورنہ اسماعیل اور اسحاق دونوں ابراہیم کی اولاد میں سے ہی تھے.مگر چونکہ اسماعیل اور
جگہ رہے اور اسحاق اور جگہ.اس لئے عربی اور عبرانی میں فرق پیدا ہوگیا.لیکن اس فرق کے باوجود کوئی لفظ نکال لو وہ عربی سے ضرور ملتاجلتاہوگا.مجھے تو بہت ہی کم کوئی ایسا لفظ نظر آیا ہے جو عربی سے نہ ملتاہو حنوک کو ہی دیکھ لو.عبرانی میں حنوک کہا جاتاہے اور عربی میں حنک کا لفظ موجود ہے یا مثلاًحضرت مسیح ؑ نے صلیب کے وقت کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی.یہ سبقتانی عربی کا سَبَقْتَنِیْ ہی ہے.صرف عبرانی میں ت کو لمبا کردیا گیا ہے.یا مثلا ً اسمٰعیل جو سمع اور ایل سے مرکب ہے اسے عبرانی میں یشمائیل کہتے ہیں(پیدائش باب ۶آیت ۱۵).پس عربی اور عبرانی دراصل ایک ہی زبانیں ہیں مگر سوال یہ نہیں کہ حقیقت کیاہے بلکہ سوال یہ ہے کہ عرب والے کیا سمجھتے ہیں.عرب والے عبرانی کو غیر زبان سمجھتے ہیں اور عبرانی زبان والے عربی کو غیر زبان سمجھتے ہیں پس چونکہ وہ شخص جس نے حنوک کا عربوں کو نام بتایا اور جس نے ان کی آسانی کے لئے اس کا عربی میں ترجمہ کردیا وہ ایک ہبرو تھا.اس لئے عربوں نے اس کو غیر منصرف بنالیا اور سمجھ لیا کہ یہ عَلَم عجمی ہے.بہر حال جس وجہ سے اسے غیر منصرف بنایا گیا وہ یہی تھی ورنہ ادریس ایک عربی لفظ ہے جو دَرَسَ سے نکلا ہے ابن السکیت نے تو صرف چند مثالیں دی ہیں اور کہا ہے کہ یعقوب عقب سے اور اسرائیل اسرال سے نکلا ہے.واقعہ یہ ہے کہ عربی اور عبرانی کے سارے ہی الفاظ آپس میں ملتے ہیں درحقیقت عربی اور عبرانی دوبہنیں ہیںیا یوں کہو کہ عربی ماں ہے اور عبرانی بیٹی.یوں تو سنسکرت وغیرہ بھی عربی زبان ہی کی بیٹی ہیں.مگر وہ زبانیں ایسی ہیں جیسے پڑپوتی ہوتی ہیں.اور عبرانی وہ زبان ہے جو عربی کے پیٹ میں سے نکلی ہوئی ہے.پس چونکہ عبرانیوں نے حنوک کا ادریس کی شکل میں ترجمہ کرکے عربوں کو بتایا.اس لئے عربوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ عَلَم بھی ہے اور عجمی بھی.اصمعی قرطبی اور صاحب کشاف کا یہ کہنا کہ وہ لوگ جو ادریس کو عربی لفظ قرار دیتے ہیں جاہل ہیں ،یہ دراصل ان کی اپنی ناواقفیت کا ثبوت ہے.حقیقت یہ ہے کہ یعقوب بھی عَقَبَ سے نکلا ہے.اسماعیل بھی سَمَع اِیل سے نکلا ہے ادریس بھی دَرَسَ سے نکلا ہے یسوع بھی سَاعَ یَسُوْعُ سے نکلا ہے جس کے معنے ہلاکت اور زوال کے ہیں چونکہ حضرت مسیح کے لئے صلیب مقدر تھی اس لئے پہلے سے ہی آپ کا یہ نام رکھ دیا گیا اور بتادیا گیا کہ یہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوگا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خدا تعالیٰ نے آپ کی والدہ اور داداسے محمد رکھوایا او رآپ کی کامیابی اور اعلیٰ درجہ کی زندگی کی طرف اس نام میں ہی اشارہ کردیا.غرض یہ ساری غلطی عربی اور عبرانی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کو عجمی قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ادریس کے کوئی معنے نہیں.جیسے ان کے نزدیک اسمٰعیل کے بھی کوئی معنے نہیں.اضحاق کے بھی کوئی معنے نہیں حالانکہ ادریس کے بھی معنے ہیں.اسمٰعیل کے بھی معنے ہیں.اضحاق کے بھی معنے ہیں اور اسرائیل کے بھی معنے
ہیں.ابن السکیت نے لکھا ہے کہ اسرائیل اسرال سے نکلا ہے مگر یہ درست نہیں.اسرائیل کا عبرانی تلفظ یسرائیل ہے جو یسر اور ایل سے مرکب ہے یسر کے معنے جنگجو اور بہادر سپاہی کے ہیں اور ایل کے معنے خدا کے ہیں.پس اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی حنوک جسے انگریزی میں اینوخ لکھتے ہیں اس کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے خوب سکھانے والے کے ہیں اور ادریس کے معنے خوب پڑھانے والے کے ہیں خوب پڑھانے والا اور سکھانے والا ہم معنے الفاظ ہیں.پس ادریس یقیناًحنوک کا عربی ترجمہ ہے.مگر عربوں کو جب حنوک کے معنے بتائے گئے تو انہوں نے ادریس کو نام سمجھا اور چونکہ انہوں نے یہ یہودیوں سے سنا تھا اس لئے انہوں نے اس کو عجمی نام سمجھا اور اس کو غیر منصرف قرار دے دیا.حنوک (یعنی) ادریس کا ذکر بائبل میں کتاب پیدائش میں آتاہے.چنانچہ پیدائش باب ۴میں اسے قائن کی نسل سے لکھا ہے (قائن وہی ہے جسے عربی میں قابیل کہتے ہیں اور جوہابیل کا قاتل تھا)گویا ایک حنوک قائن کا بیٹاتھا.اس کا بیٹاعیراد.اس کا بیٹا محویا ایل.اس کا بیٹا مقوسا ایل.اس کا بیٹالمک اس کے بیٹے یابل یوبل ایک بیوی سے اور دوسری سے توبلقائن.(آیت ۱۷ تا ۲۲) باب ۵میں لکھا ہے کہ جب ہابیل مارے گئے تو آدم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ سیت بیٹا دیا.سیت وہی ہیں جن کو ہمارے مفسرشیث ؑ کہتے ہیں سیت سے انوس.انوس سے قینان قینان سے محلل ایل اور محلل ایل سے یارد اور یارد سے حنوک اورحنوک سے متوسَلْح.متوسلح سے لمک پیداہوا اور لمک سے نوح پیدا ہوا.(پیدائش باب ۵آیت ۳ تا۲۹) ان روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی حنوک کا نام مقبول ہوگیا تھا چنانچہ آدم کی پانچ سات پشتوں میں ہی دو آدمیوں کا نام حنوک رکھا گیا.ایک قائن کا بیٹا تھا اور ایک سیت نبی کا پانچویں پشت میں پوتاتھا اور یہی حنوک ہے جسے ادریس کہا گیاہے جو حضرت نوح ؑ کے دادا تھے.اسلامی روایات کے مطابق آدم ؑ کے نسب نامہ میں پہلے نبی آدم تھے جو باپ تھے دوسرا نبی شیث تھا جو آدم کابیٹا تھا.تیسرا نبی حنوک تھا جو آدم کا پانچوں پڑپوتا تھا اور چوتھا نبی نوح تھا جو پانچویں پڑپوتے کا پوتاتھا.حنوک کے حالات.بائبل کی کتاب پیدائش باب ۵آیت ۲۱تا۲۴میں لکھاہے کہ حنوک ۳۶۵سال تک زندہ رہا اور متوسلح کی پیدائش پر جو اس کا پہلا بیٹاتھا او ر۶۵سال کی عمر میں پیدا ہوا حنوک خدا کا مقرب بنا اور تین سوسال تک اس مقام پر قائم رہا بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ تین سوسال تک خداکے ساتھ ساتھ چلتارہا.(یعنی خدا تعالیٰ کی معیت اسے حاصل ہوئی) پھر لکھاہے کہ خداکے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہی وہ غائب ہوگیا.اس لئے کہ
خدا نے اسے لے لیا.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ حنوک یعنی ادریس موت تک نیکی پر قائم رہا اور ایسی حالت میں اس پر موت آئی مگر الفاظ پرستی کا براہو بعض یہود اور مسلمانوں نے عجوبہ پرستی سے کام لےکر اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ گویاخدا تعالیٰ نے اسے آسمان پر اٹھالیا (ایسے مسلمانوںکے نزدیک وہ آسمان پر اٹھائے جانے والو ں کی فہرست میں شامل ہے جن میں الیاس اور مسیح ناصری کا وجود بھی ہے ) بائبل کہتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ساتھ چلتاتھا.اگر ’’لے لیا‘‘ کے معنے لفظی کئے جائیں تو ’’ساتھ ساتھ چلتاتھا‘‘کے معنے بھی لفظی کرنے ہوںگے.اور اس صورت میں یا تو ان آیات کا یہ ترجمہ کرنا ہوگا کہ ادریس آسمان میں ساری عمر رہا اوروہاں خدااور وہ ساری عمر چہل قدمی کرتے رہے اور یا یہ معنی کرنے ہوںگے کہ حنوک کے ۶۵سال کی عمر کو پہنچے پر خدا تعالیٰ زمین پر آگیا اور حنوک کے ساتھ رہتارہا بہرحال ۳۶۵سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے جانے کا مسئلہ یہاں سے نہیں نکلتایا یہ ثابت ہوتاہے کہ ۶۵سال کی عمر میں حنوک آسمان پرچلاگیا.اور اس کی بیوی بھی وہیں چلی گئی اور آسمان پر اس کے کئی بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئیں.(باب ۵آیت ۲۳)کیونکہ اسی وقت سے اس کے خداکے ساتھ ساتھ چلنے کا بھی ذکر ہے اور اس کے بیٹے بیٹیاں پیدا ہونے کا بھی ذکر ہے اوریاپھریہ ماننا پڑے گا کہ حنوک یا ادریس آسمان پر گیاہی نہیں بلکہ خداآسمان سے زمین پر اترکر اس کے پاس آگیا اور چونکہ خدا کا پھرآسمان پر جانا بائبل سے ثابت نہیں اس لئے یہی کہنا پڑے گا کہ خدا پھر زمین پر ہی رہا.خلاصہ یہ کہ غیر طبعی اور خلاف سنت الٰہیہ بائبل کی آیتوں کے معنے کرکے ایسا تمسخرانہ مضمون خدا تعالیٰ کی طر ف اور بائبل کی طرف منسوب کردیا گیا ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کرسکتی.سیدھی سادی بات تھی کہ حنوک آخری دم تک خدا تعالیٰ کا مقرب رہااور خدا تعالیٰ کا قرب اسے زندگی میں بھی حاصل رہا اور مرنے کے بعد بھی وہ اس کے مقربوں میں شمار ہو ا.یہی محاورہ خدا تعالیٰ کے ساتھ چلنے کا اور جگہوں میں بھی بائبل میں آیا ہے لیکن وہاں اس کے معنے آسمان پرجانے کے کوئی نہیں کرتا.مثلاًنوح علیہ السلام کے بارہ میں آتاہے ’’نوح خداکے ساتھ ساتھ چلتاتھا‘‘ (پیدائش باب ۶آیت ۹) پھر حضرت ابراہیم ؑ کے بارہ میں آتاہے ’’تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو ‘‘(پیدائش باب ۱۷آیت ۱)
اسی طرح تمام بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے آتاہے کہ اے انسان خدا تجھ سے کیاچاہتاہے یہی کہ ’’اپنے خدا کے ساتھ فروتنی سے چلے‘‘(میکاہ باب۶آیت ۸) اب کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام بنی اسرائیل سے یہ کہا گیا ہے کہ تم اپنا سر نیچا کرکے خداکے ساتھ ٹہلا کرو.پس خداکے ساتھ چلنے کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی مقام پر ہے جہاں انسان اس کے ساتھ چلتاہے اور نہ اٹھا لینے کے معنے مقام بدلنے کے ہیں بلکہ اس کے معنے بھی صرف نیک انجا م پانے اور موت کے بعد خدا تعالیٰ کا مقرب ہونے کے ہیں نئے عہد نامے میں بھی حنوک یا ادریس کا ذکر ہے مگر وہاں اپنی علمیت جتانے کے لئے ک کو ق سے بدل کرلکھا گیاہے.حالانکہ یہ غلط ہے میں بتاچکا ہوں کہ عربی میں بھی حنک کا لفظ موجود ہے.پس اس کا تلفظ حنوک ہی ہے.حنوق نہیں.بہرحال عبرانیوں باب ۱۱ آیت ۵میں لکھا ہے ’’ایمان کے سبب سے حنوق اٹھایا گیا تاکہ موت کو نہ دیکھے اور نہ ملا اس لئے کہ خدا نے اسے اٹھالیا تھا‘‘.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پولوس یہود کے ا س عام عقیدے سے متاثر تھا کہ حنوک بوجہ نیک ہونے کے موت سے بچ گیا اورآسمان پر اٹھالیا گیا.حالانکہ یہ عقیدہ مسیحی عقیدہ کے خلاف ہے.مسیحی عقیدہ کی بنیا د اس امر پر ہے کہ موت گناہ سے ہے اور گناہ ورثہ سے ہے اورآدم کے گناہ کی وجہ سے تمام بنوآدم گنہگارہیں انہیںمسیح نے کفارہ کے ذریعہ ورثہ کے گناہ سے نجات دی لیکن پولوس نے یہ نہ سوچا کہ حنوک مسیح کے بغیر موت سے نجات پاگیا اور نیک ہوگیا اور مسیحی بلکہ حواری بھی باوجود کفارہ پر ایمان لانے کے موت سے نجات نہ پاسکے.یادوسرے لفظوں میںنیک نہ ہوسکے.پس جب مسیحی کفارہ پر ایمان لانے کے باوجود موت سے نہیں بچے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ گناہوں سے پاک نہیں ہوئے اور حنوک مسیح پر ایمان لائے بغیر موت سے بچ گیا.اور نیک ہوگیاتو اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ کفارہ کی ساری تھیوری ہی باطل ہے.بائبل کے بعض ماہرین حزقیل باب ۱۴آیت ۱۴اور حزقیل باب ۲۸آیت ۳میں جو دانی ایل کانام آتاہے اسے درحقیقت حنوک یعنی ادریس قرار دیتے ہیں.حزقیل باب ۱۴آیت ۱۴میں لکھا ہے ’’ہرچند یہ تین شخص نوح اور دانی ایل اور ایوب اس میں موجود ہوتے تو خداوندیہوواہ کہتاہے کہ وے اپنی صداقت سے فقط اپنی ہی جانوں کوبچاتے.‘‘
یعنی یہود آج کل اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ اگر نوح اور دانی ایل اور ایوب بھی ان میں موجود ہوتے تب بھی خدا ان کی وجہ سے یہود کو اپنے عذاب سے نہ بچاتا وہ صرف اپنی ہی جانوں کو بچاسکتے تھے یہود ان کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے تھے.ان الفاظ پر بائبل کے عالم ہیلی وے (HELEVY )نے اور بعد میں شین (CHEYNE ) نے انسائیکلو پیڈیا ببلیکا کی جلد ۲ میں یہ ثابت کیاہے کہ دانی ایل اس جگہ پر غلط لکھ دیا گیاہے اصل میں اس جگہ پر حنوک (یعنی ادریس ) مراد ہے (زیر لفظ Enoch).کیونکہ کہا جاتاہے کہ حزقیل کا زمانہ مسیح سے قریباً پونے چھ سوسال سے چھ سو سال قبل تھا اور یہی زمانہ دانی ایل کا بھی ہے.پس ان علماء کا خیال ہے کہ چونکہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس جگہ پر سابق انبیا ء کا ذکر ہے اس لئے دانی ایل کا نام غلطی سے لکھا گیا ہے درحقیقت اس جگہ پر حنوک کا ذکر ہے ہمیں اس بحث میںپڑنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں دانی ایل کانام ہے یا حنوک کاہم اس بحث سے جو فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہودی علماء تسلیم کرتے ہیںبائبل میں غلط باتیں لکھی گئی ہیں.چنانچہ ایک معین غلطی یہ ہے کہ بائبل میں دانی ایل کانام لکھا ہے.لیکن یہودی اور عیسائی علماء کہتے ہیں کہ یہاں دانی ایل غلط لکھا گیا ہے اصل میں حنوک کانام چاہیے.اسی طرح حزقیل کی کتاب کے باب ۲۸کی آیت ۳میں لکھا ہے.’’دیکھ تو دانی ایل سے زیادہ دانشمند ہے ‘‘ یہاں بھی دانی ایل غلط لکھا گیاہے او راس جگہ بھی درحقیقت حنوک کا لفظ تھا اگر یہ استدلال درست ہے اور بظاہر حالات اس کی تائید میں ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ عہد نامہ قدیم کے انبیا ء کی زبانوں پر حنوک کا نام اپنی دانائی اور اپنے تقویٰ میں بطور ایک ضرب المثل کے جاری رہتاتھا یعنی علاوہ اس نتیجہ کے کہ بائبل میں دانی ایل کا نام آتاہے اور کہا جاتاہے کہ اس سے مراد دانی ایل نہیں بلکہ حنوک ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ بائبل میں دیدہ ودانستہ یاجہالت سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ایک یہ نتیجہ بھی نکلتاہے کہ جب بائبل دانی ایل کو دانشمندی میں نمونہ قرار دیتی ہے اور بائبل کے علماء کہتے ہیں کہ اس سے حنوک مراد ہے تو بائبل کے اصل الفاظ یہ ہوئے کہ ’’دیکھ تو حنوک سے زیادہ دانشمند ہے ‘‘ گویا حنوک کانام اپنی دانائی کی وجہ سے قدیم انبیاء کی زبانوں پر بطو ر ایک ضرب المثل کے جاری رہتاتھا.حنوک کا ذکر یہودی اور مسیحی احادیث ولٹریچر میں.یہودیوں کی مشہور مذہبی کتاب ٹارگم( TARGUM ) میں جو ان کی احادیث کا مجموعہ ہے جیسے ہمارے ہاں مشکوٰۃ ہے لکھا ہے کہ حنوک خدا کانیک بندہ تھااور اس کومتاترن
حنوک کا ذکر یہودی اور مسیحی احادیث ولٹریچر میں.یہودیوں کی مشہور مذہبی کتاب ٹارگم( TARGUM ) میں جو ان کی احادیث کا مجموعہ ہے جیسے ہمارے ہاں مشکوٰۃ ہے لکھا ہے کہ حنوک خدا کانیک بندہ تھااور اس کومتاترن (METATRON ) اور سفراربّہ(SAFRA RABBA ) یعنی بڑے عالم یا مذہبی علوم کے عالم کا خطاب دےکر خدا نے آسمان پر اٹھالیا.(جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Enoch) سفر کے معنے عربی زبان میں کتاب کے ہوتے ہیں اور اسفار اس کی جمع ہے.پس سفرا کے معنے ہوئے کتابیں او رسفراربہ کے معنے ہوئے خدائی علوم والا متاترن کے متعلق میں نے تحقیقات نہیں کی ،لیکن اس کے معنے بھی بڑے عالم کے ہی معلوم ہوتے ہیں.بہرحال ٹارگم میں لکھاہے کہ حنوک کو خدا تعالیٰ نے متاترن اور سفراربہ کا خطاب دے کر آسمان پر اٹھالیا.لیکن بعض یہودی کتابوں میں لکھا ہے کہ حنوک آخری عمر میں نیکی کے رستہ سے ہٹ گیا تھا اور خدا نے اسے اس لئے اٹھالیا تاکہ وہ بدکار ہوکر برا انجام نہ دیکھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ طاعون سے مرا تھا.(جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵.۱۷۸ Enoch) یہودی کتب میں یہ بھی آتاہے کہ لکھنے کاعلم حنوک نے ایجاد کیا تھا.اسی طرح علم ہیئت اور حساب بھی اسی نے ایجاد کیا تھا (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵صفحہ ۱۷۸ بحوالہ سفریوہاسین YUHASIN SEFER )مسلمانوں میں بھی اسی قسم کی روایات آتی ہیں(قصص الانبیاء از عبد الوہاب النجار) جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے یہودی کتب سے ہی یہ باتیں نقل کی ہیں.یہودیوں کی ابتدائی تاریخ میں حنوک کانام قریباً مٹ گیا تھالیکن کچھ صدیوں کے بعد حنوک کا ذکر ان کی کتابوں میں آنے لگا.چنانچہ بعد میںایک الہامی کتاب حنوک کی کتاب کے نام سے ان میں شائع ہوتی رہی.سفر حنوک (یعنی کتاب حنوک ) میں لکھاہے کہ لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے زمین کو چھوڑ دیا او رحنوک کو آسمان پر اٹھالیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران مقرر کردیا.اور فرشتوں کا سردار مقر کردیا اور خداکے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا.اس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اس کی پشت پر ہیں اور وہ خدا کامنہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتاہے وہ روحانی علوم سکھاتاہے وہ آرام کی جگہ پر روحوں کو لےجاتاہے اور خداکے منہ کا شہزادہ کہلاتاہے.اسی طرح اس کانام تورات کا شہزادہ ،دانائی کا شہزادہ، عقل کا شہزادہ اور شان و شوکت کا شہزاد ہ بھی ہے.،موسیؑ پر خدا کا پیغام لانے والا وہی تھا (گویا ایک طرح اسے جبریل کا عہدہ دیا گیا تھا ) سفر حکالوت( SEFER HEKALOT یعنی تذکرئہ انبیاء واولیاء)میں لکھاہے کہ ربّی اسماعیل جب آسمان پر گیا تو وہ ساتویں آسمان پر جاکے ادریس کو ملا جس کو متاترن کا عہد ہ دیا گیاہے.وہاں حنوک نے اپنے اٹھا ئے جانے کا قصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں اس سے بیان کیا.
زمین کی بدی کی وجہ سے جو شمہازائی (SHAMAZAI ) اور عزائیل (AZAEL) نے پیدا کی حنوک کو خدا نے آسمان پر اٹھایا تاکہ وہ دیکھ لے کہ خدا ظالم نہیں.یہ عزائیل وہی ہے جسے عربی میں عزازیل کہتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ جب شیطان نے دنیا میں شرارتیں شروع کیں اور لوگوں نے خدائی احکام کو نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے دیکھاکہ حنوک کو یہ برا لگاہے.چنانچہ اس نے حنوک کو آسمان پر اُٹھالیا وہاں اسے متاترن کا عہدہ دیا گیا او ر دانائی کے سب دروازے اس کے لئے کھولے گئے.اور سب فرشتوں کااسے سردار مقرر کیا گیا اور اس کے مادی جسم کو نورانی جسم میں تبدیل کردیا گیا.حئی حنوک (HAYYE HANOK ) نامی کتاب جسے عربی میں حیاۃ حنک کہیں گے یعنی حنوک کی زندگی کے حالات (حنک عربی میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی عمر کے مختلف کاموں سے تجربات حاصل کرلے گویا صاحب تجربہ آدمی )اس پہلی کتاب سے بعد میں لکھی گئی ہے.اس میں لکھا ہے کہ حنوک ایک نیک راہب تھا اسے آسمانی آواز نے دنیا کے لوگوں کی طرف بھیجا اور پھر اس نے ان کو آکر توبہ کی تعلیم دی بہت سے شاگرد اس کے گرد جمع ہوگئے اور دانائی میں ترقی کرتے کرتے وہ بادشاہ منتخب کیا گیا.۲۴۳سال تک اس نے دنیا میں امن قائم رکھا لیکن آخر اس نے خلوت کی خواہش کی اور اپنا تخت چھوڑ دیا مگر کبھی کبھی لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے ظاہر ہوجاتا تھا.کچھ عرصہ کے بعد خدا تعالیٰ نے اسے زمین چھوڑنے کا حکم دیا اور آسمان پر خداکے بیٹوں کی حکومت اس کے سپرد کی (خداکے بیٹوں سے یہودیوں کے نزدیک خداکے فرشتے مراد ہیں )وہ آسمان پر ایک گھوڑے پر سوار ہوکر گیا جس طرح ایلیا ہ نبی آسمان پر گیا تھا بہت سے لوگ اس کو آسمان پر چڑھتے ہوئے دیکھنے کے لئے جمع ہوئے اور انہوں نے اس کی سخت منتیں کیں کہ وہ آسمان پر نہ جائے اور ان میں رہے لیکن اس نے ان کی نہ سنی اور آسمان پر چلا گیا.بعض یہودیوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس نے موسوی قانون کے نازل ہونے پر اسے اختیار کر لیاگو قانوناًوہ صرف نوح کی شریعت کا پابند تھا جس میں صرف سات احکام تھے (جیوش انسائیکلوپیڈیا جد ۵ زیر لفظ Enoch) یہ ایسی ہی روایت ہے جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ؎ چہ خوش گفت است سعدی درزلیخا اَلآیٰا اَیُّہَا السَّاقِیْ اَدِرْکَاسًاوّنَاوِلِہَا یعنی سعدی نے زلیخامیں کیا ہی اچھا کہا ہے کہ ؎ اَلآیٰا اَیُّہَا السَّاقِیْ اَدِرْکَاسًاوّنَاوِلِہَا
حالانکہ زلیخا سعدی نے نہیں لکھی بلکہ ملاںجامی ؒنے لکھی ہے.اورپھر جو بات بیان کی ہے وہ نہ سعدی نے کہی ہے نہ ملاں جامی نے بلکہ حافظ شیرازی نے کہی ہے (دیوان حافظ).اسی طرح اس روایت میں کہا گیا ہے کہ وہ نوح ؑ کی شریعت کا پابند تھا.حالانکہ نوح ؑاس کا پوتا تھا.عیسائی لٹریچر میں سے کتاب عبرانیوں کا حوالہ پہلے درج کیا جاچکا ہے.اس کے علاوہ عیسائیوں میں حنوک کے متعلق دو کتابیں پائی جاتی ہیں جن کو الہامی صحیفے قرار دیا جاتاہے.کہا جاتاہے کہ یہ مسیح سے پہلے لکھی گئی تھیں مگر ان کا وجود صرف مسیحیوں میں ملتاہے.اس لئے اسے مسیحی لٹریچر کا حصہ ہی کہا جاسکتاہے.ان میں سے ایک صحیفہ حنوک مطابق حبشی کلیسیاء کے ہے اور ایک صحیفہ حنوک مطابق روسی کلیسیاء (SLAVONIC )کے ہے حبشی کتاب تو مختلف روایتوں کے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے.لیکن SLAVONIC یعنی روسی کتاب حنوک ایک زیادہ تفصیلی کتاب ہے ان دونوں کتابوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ حنوک اپنی زندگی میں ہی آسمان پر چلا گیا اور وہ خداکے فرشتوں کے ساتھ آسمان اور زمین میں چلتا پھرتا تھا.پھر وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس آیا اور اس نے ان کو وہ باتیں بتائیں جو اس نے آسمان پر دیکھی تھیں اور پھر آخر میں وہ آسمان پر اٹھالیا گیا.اپنے آسمانی سفر میں (۱)ا س نے آسمان اور زمین کے راز معلوم کئے اور (۲) طبیعات کے تمام قانون اس پر کھولے گئے (۳) اس نے خداکے بیٹوں یعنی فرشتوںکو بھی دیکھا جن کو کہ انسان کی بیٹیوں سے بدکاری کرنے کے جرم میں سزا دی گئی تھی (۴) اس نے ان سزایافتہ فرشتوں کی سفارش کی.(جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۵ زیر لفظ Enoch) حنوک کی کتاب کا ذکر یہودی اور عیسائی لٹریچر میں عام طور پر پایا جاتاہے گوکسی معین شکل میں اس کا ذکر نہیں.تیسری صدی عیسوی میں عیسائی علماء نے اس کتاب کو غلط قرار دینا شروع کیا نویں صدی عیسوی کے بعد اس کا ذکر بالکل ہی عیسائیت کے لٹریچر سے اڑ گیا لیکن ۱۷۷۳ء میں بروس (BRUCE )نامی سیاح نے ایبے سینیامیں اس کے دو نسخے دریافت کئے اور انیسویں صدی میں اس کے کئی اڈیشن شائع کئے گئے ان نسخوں کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حبشی نسخہ اصل میں عبرانی میں لکھا گیاتھا.اور پھر اس کا یونانی میں ترجمہ کیا گیا اس یونانی نسخے سے حبشی زبان میں اور پھر لاطینی زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا.۸۷.۱۸۸۶ء میںیونانی نسخہ کے بھی کچھ ٹکڑے مل گئے اور وہ چھاپے گئے.یہ کتاب عیسائی لٹریچر میں نہایت اہم سمجھی جاتی ہے.کیونکہ اس کتاب سے قبل از مسیح یہودی مذہبی تاریخ پر اور مذہبی خیالات پر اہم روشنی پڑتی ہے.(جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد۵زیر لفظ Enoch) سلافی زبان یعنی روسی زبان میں ایک کتاب حنوک کے رازوں کی کتاب کے نام سے ملتی ہے اس کتاب کا وجود صرف سلافی زبان میں پایا جاتاہے.لیکن اب اس کے جرمنی اور انگریزی میں ترجمے ہوگئے ہیں اس میں زیادہ
تفصیل کے ساتھ حنوک کے حالات بیان کئے گئے ہیں اور مختلف ٹکڑوں کو ایک ترتیب دے دی گئی ہے.یہ کتاب اصل میں یونانی میں لکھی گئی تھی اس کے بعد سلافی زبان میں اس کاترجمہ ہوا.کچھ حصے عبرانی سے ترجمہ کئے ہوئے بھی معلوم ہوتے ہیں.بائبل کے مشہور عالم چارلس (CHARLES )کاخیال ہے کہ اس کتاب کا اکثر حصہ ایک ہی مصنف کا لکھاہوا ہے.اور غالباًوہ مصر کا رہنے والا تھا کیونکہ مصری خیالات کا پرتو اس میں نظر آتاہے.یہ کتاب علماء کے نزدیک پچاس سے ستر سال قبل مسیح لکھی گئی ہے.اس کتاب میں ایک نئے خیال کابھی اظہا ر کیا گیا ہے.یعنی دوزخ کو بھی آسمان پر ہی قرار دیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ دوزخ تیسرے آسمان پر ہے اور گنہگار فرشتے دوسرے آسمان پر رکھے گئے ہیں.(The Lost Books of the Bible p.83,84) حنوک کے متعلق جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں یہ مختلف انبیاءکے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں.بلکہ مختلف قوموں کے بزرگوں کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں مثلاًالیاس کے واقعات سے اسی طرح حرقیول ( HERCULES) گینی میڈ(GENYMEDE ) سیمی رامیس (SEMIRAMIS)زی سو تھروس (XISUTHRUS ) اور بادشاہ اناکوس (ANNACUS )کے واقعات بھی اسی قسم کے بتائے جاتے ہیں (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۵ زیر لفظ Enoch)بابل کے بادشاہ ایمی دو ران کی EMMEDURANKI کے حالات بھی جو بابل کے ابتدائی بادشاہوں میں سے ساتواں تھا اسی طرح کے بتائے جاتے ہیں.بعض لوگوں نے کہاہے کہ حنوک اصل میں سورج دیوتاکا نام ہے.آہستہ آہستہ یہ ایک انسان کانام قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ اس کی عمر ۳۶۵سال بتائی گئی ہے.اور ۳۶۵دن سورج کے سال کے ہوتے ہیں (جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ Enoch).تعجب ہے کہ مسیحی مصنفوں کو ۳۶۵سال کی بنا ء پر حنوک کو سورج دیوتا قرار دینے کاخیال تو آگیا لیکن یہ خیال نہ آیا کہ حنوک کے بیٹوں بیٹیوں اور دادوں پڑدادوں کی عمریں نوسو او ر دس سو اِسی بائبل میں بیان کی گئی ہیں.پس بجائے اس کے کہ ۳۶۵کی بنا ء پر آدمی کو خیالی قرار دیا جائے دوسری لمبی عمروں کو دیکھتے ہوئے آدمیوں کی بجائے عمروں کو کیوں نہ خیالی قرار دیا جائے اگر ۳۶۵کا ایک عدد حنوک کو خیالی قرار دینے کے لئے کافی ہے تو وہ دس بارہ عمریں جو آٹھ سو ،نوسو اور ہزار سال کی بیان کی گئی ہیں ان کی بنا ء پر ان اعداد کو ہی کیوں نہ خیالی قرار دے دیا جائے ؟ اسلامی لٹریچر میں حنوک کا ذکر ادریس کے نام سے کیا گیا ہے.جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے ادریس اور حنوک کے معنے ایک ہی ہیں.اس لئے مفسرین قرآن کا یہ نظریہ کہ ادریس سے مراد حنوک ہی ہے بالکل درست معلوم ہوتاہے.اسی طرح ادریس کے حالات کی طرف جو اشارہ قرآن کریم میں پایا جاتاہے وہ بھی اس سے
ملتاجلتاہے.احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادریس کو اپنے معراج میں چوتھے آسمان پر دیکھا (ابن کثیر جلد ۶زیر آیت مریم ۵۶،۵۷)تفاسیر میں اسرائیلی روایتوں کے ذریعہ سے یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ ادریس ؑ اپنے ایک دوست فرشتہ کے ذریعہ سے چوتھے آسمان پر گئے اور وہاں عزرائیل نے ان کی جان نکالی.لیکن بعض دوسرے مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ ادریس ؑ کی جان نہیں نکالی گئی چنانچہ مجاہد کا قول ہے کہ ادریس ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور وہ مرے نہیں جس طرح کہ عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھالیا گیا.حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ان کو چھٹے آسمان پر اٹھالیا گیا حسنؓ کی روایت ہے کہ ان کو جنت کی طرف لےجایا گیا(ابن کثیر جلد ۶ زیر آیت مریم ۵۶و۵۷.روح المعانی زیر مریم آیت ۵۷) یہ تمام روایات اسرائیلی ہیںیعنی کوئی بھی روایت ایسی نہیںجو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو سوائے معراج کی حدیث کے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انہوں نے چوتھے آسمان پر ادریس ؑ کو دیکھا پس جہاں تک اسلامی روایتی لٹریچر کا سوال ہے بہت سی وہ لغو باتیں جو اسرائیلی لٹریچر میں پائی جاتی ہیں مسلمانوں نے بھی نقل کی ہیں لیکن جہاں تک اسلامی مذہبی لٹریچر کا سوال ہے حدیثوں میں صرف ادریس کے چوتھے آسمان پر ہونے کا ذکر ہے اور قرآن کریم میں صرف یہ ذکر ہے کہ وہ راست باز تھے اور نبی تھے اور ان کو بلند مقام پر خدا تعالیٰ نے اٹھا یا.اور حقیقتاً حنوک کے اتنے ہی حالات ہیں جن کو سچاکہا جاسکتاہے اور کتاب پیدائش سے بھی اتنا ہی پتہ لگتاہے کہ وہ خدا کے ساتھ چلتاتھا یعنی راستباز تھا اور یہ کہ خدا نے اس کو ایک بلند مقام پر اٹھا لیا یعنی اس کاانجام بخیر ہو ا.اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مرنے کے بعد بھی اعلیٰ درجات عطافرمائے.ادریس ؑ کے متعلق یہ جو ذکر آتاہے کہ ا ٓسمان سے ان کے لئے گھوڑا آیا اور اس پر وہ چڑھ کر گئے بعینہ ایسا ہی ذکر مسلمانوں کی معراج کی روایتوں میں بھی ہے مسلمانوں میں بھی یہ روایت پائی جاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سواری آسمان سے لائی گئی جس کا نام براق تھا اور آپ اس پر چڑھ کر آسمانوں پر گئے (بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائک).درحقیقت یہ آسمان پر جانا ایک اعلیٰ درجہ کا کشف ہے.انسان نورانی جسم کے ذریعہ سے آسمانوں پر بھی جاتاہے اور خدا تعالیٰ کو بھی دیکھتاہے لیکن یہ مادی جسم ان کاموں کے قابل نہیں ہے.نہ یہ آسمانوں پر جاتاہے نہ یہ خدا کو دیکھتاہے.عجوبہ پرست لوگ ان باتوں کو مادیات کی طرف لے جاتے ہیں اور غیرمعقول باتیں بنانے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا ایمان کمزور ہو جاتاہے اور وہ سائنس اور مذہب کے
اختلاف کی الجھنوں میں پڑ جاتے ہیں.کاش کہ یہ لوگ حقیقت کو اس کی حد تک رکھتے اور مذہب کو کھیل اور تمسخر نہ بنالیتے.حنوک کا خداکے ساتھ چلنا.حنوک کے متعلق جو یہ آتا ہے کہ وہ خدکے ساتھ ساتھ چلتاتھا اس کے مشابہ الفاظ حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی آتے ہیں لکھاہے کہ ’’خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا ‘‘ ( پیدائش باب ۲۱آیت ۲۰) بلکہ درحقیقت یہ ا لفاظ خداکے ساتھ چلنے سے بھی زیادہ زور دار ہیں.کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا ہر وقت اس کے ساتھ تھا.خواہ وہ چلتاتھا یا لیٹتا تھا یا سوتا تھا.یہی مشابہت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم میں اسماعیل اور ادریس کا ذکر اکٹھا آتا ہے.قرآن کریم میں دو جگہ پر ادریس ؑ کا ذکر ہے.ایک اسی جگہ سورئہ مریم میں اور دوسرا سورئہ انبیاء میں.سورئہ انبیا ء میں ان الفاظ میں ذکر ہے وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِدْرِيْسَ وَ ذَا الْكِفْلِ کُلٌّ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الانبیاء:۸۶) اور اس سورۃ میں حضرت اسماعیل ؑ کے ذکر کے معاًبعد حضرت ادریس کا ذرکر آتاہے.چنانچہ یہ آیات یوں ہیں.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا.وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا.وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا.وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (مریم :۵۵تا۵۸) ان آیات میں اسماعیل ؑ کو صادق الوعد اور ادریس کو صدیق اسماعیل کو بھی نبی اور ادریس کو بھی نبی قرار دیا گیاہے.غرض چونکہ الٰہی صحیفوں میں ان دونوں نبیوں کے لئے ’’خدا کے ساتھ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے.اس مشابہت کی وجہ سے قرآن کریم میں ان کا اکٹھا ذکر آتاہے.اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اسماعیل ؑ اور ادریس ؑ کا ذکرتو ان کی باہمی مشابہت کی وجہ سے اکٹھا ہوگیا.یہاں جس مضمون کو بیان کیا جارہا ہے اس کے لحاظ سے ادریس ؑ کی طرف توجہ دلانے میں کیا حکمت ہے ؟ ذکر یہ تھا کہ حضرت زکریا نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بیٹا عطافرمائے.چنانچہ اس دعا کے نتیجہ میں حضرت یحییٰ پیدا ہوئے جن کا مسیح سے پہلے ارہاص کے طور پر آنا ضروری تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مسیح کا ذکر کیا جو اصل مقصود تھا اور بتایا کہ مسیح کے متعلق عیسائی دنیا کے جو عقائد ہیں وہ غلط ہیں مسیح خدایا خدا کا بیٹا نہیں تھا بلکہ موسوی سلسلہ کی ایک کڑی تھا.پھر بتایا کہ موسوی سلسلہ پیدا ہوا تھا ابراہیم کی دعا سے او رابراہیم کے ساتھ دو وعدے تھے.ایک وہ جو اسماعیل ؑ اور اس کی نسل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور دوسرے وہ جو اسحاقؑ اور اس کی نسل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسیح ؑ
کے ذکر کے بعد پہلے ابراہیم کا ذکر کیا پھر اسحاق او ریعقوب کا ذکر کیا اور پھر موسیٰ ؑ کا ذکر کیا اور بتایا کہ بنو اسحاق کی ترقی کے متعلق میں نے ابراہیم کے ساتھ جو وعدے کئے تھے وہ پورے ہوگئے اس کے بعد اسماعیل کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ خیال کرلو کہ جس خدا نے اتنی دیر تک بنو اسحق کے ساتھ اپنے وعدے پورے کئے ہیں کیا وہ اسماعیل کے وعدوں کو پورا نہیں کرے گا جو بڑا راست باز اور صادق الوعد تھا اور جس کے کاموں کی وجہ سے خدااس سے بڑا خوش تھا جس شخص نے ہمارے ساتھ اتنی وفاداری کی کیا ہم اس کے ساتھ بے وفائی کریں گے اور اس کے متعلق اپنے وعدوں کو جھوٹا ہونے دیں گے.چنانچہ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون ؑ کے ذکر کے بعد اسماعیل ؑ کا ذکر کیا اور بتایا کہ ابراہیمی وعدوں کی ایک کڑی تو مسیح ؑ پر آکر ختم ہوگئی مگر اس کا ایک دوسرا وعدہ بھی ہے تم اس کو بھی یاد کرو چنانچہ وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے وہ اسماعیل والا وعدہ یاد دلادیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس جگہ نہیں کیا گیا کیونکہ آپ اسی اسماعیلی وعدہ میں آجاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اسماعیل کے ذکرکے بعد ادریس ؑ کا ذکر کیوں کیا گیا اور اس میں کیا حکمت مدنظر ہے ؟ سو یاد رکھناچاہیے کہ مسیح کے متعلق وہ خیال جس پر اس کی خدائی کی بنیاد رکھی جاتی ہے.اس کا آسمان پر چلے جانا ہے اور یہ ایک ایسا خیال ہے جس میں بدقسمتی سے مسلمان بھی عیسائیوں کے ساتھ متفق ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ زندہ ہیں اور آسمان پر بیٹھے ہیں.عیسائی مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی خدائی کا استدلال نہیں کرتے.خود عیسائیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ یوسف کا بیٹا تھا اور اس میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے.وہ کہتے ہیں اگر مریم کا بیٹا ہونے سے اس کی خدائی میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا تویوسف کا بیٹا ہونے سے اس کی خدائی میں کیا نقص واقع ہو سکتا ہے.پس وہ اس کی خدائی کی بنیا د واقعہ پیدائش پر نہیں بلکہ آسمان پر زندہ چلے جانے کے عقیدہ پر رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا نقطہ نگاہ ہے جس کی ابھی تک تردید نہیں کی گئی تھی.عیسائیوں کے باقی سب اعتراضات کی تردید کی جاچکی ہے مگر ان کے اس خیال کی تردید ابھی باقی تھی کہ مسیح ؑ آسمان پر زندہ چلاگیا.چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ادریس ؑ کا ذکر فرمایا اور اس طرف اشارہ کیا کہ انجیل میں حضرت مسیح ؑ کے آسمان پر جانے کے متعلق جو الفاظ پائے جاتے ہیں ویسے ہی الفاظ بلکہ ان سے بھی زیادہ شاندار الفاظ حضرت ادریس یا حنوک کے متعلق پائے جاتے ہیں.مسیح ؑ کے متعلق تو صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ ’’وہ انہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہواکہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا ‘‘ (لوقاباب ۲۴ آیت ۵۱) مگر ادریس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ
’’خداکے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھالیا.‘‘ (پیدائش باب ۵آیت ۲۴ ) پس اگر مسیح ؑ آسمان پر جانے کی وجہ سے خدایا خدا کا بیٹا کہلا سکتاہے تو ادریس ؑ کی الوہیت کا بھی مسیحی دنیا کو اقرار کرنا چاہیے کیونکہ بائبل کی رو سے وہ بھی آسما ن پر اٹھایا گیا تھا.بہر حال ادریس ایک ایساوجود ہے جس کے ذریعہ مسیحی دنیا کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جس پر مسیح کی الوہیت کی بنیاد رکھی گئی ہے یعنی مسیح ؑ کا آسمان پر زندہ چلے جانا.اور صرف یہی ایک حصہ تھا جس کی ابھی تک تردید نہیں ہوئی تھی.باقی سب باتوں کی خدا تعالیٰ نے تردید کردی تھی مگر عیسائیوں کے اس خیال کی ابھی تردید باقی تھی کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے.اور یہ ایک ایسی بات تھی جو پہلے کسی نبی میں تسلیم نہیںکی جاتی.نہ زکریا ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ یحيٰ ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ ابراہیم ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیںکہ وہ آسمان پر گئے نہ اسحاق ؑ اور یقوب ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیںکہ وہ آسمان پر گئے نہ موسیٰ ؑکے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ ہارون ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ اسماعیل ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے.صرف ادریس کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ آسمان پر گئے او رروایات کے مطابق جس شان سے ادریس ؑ کا آسمان پرجانا بتایا گیا ہے اس شان سے مسیح کا بھی آسمان پر جاناثابت نہیں.پس وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ١ٞ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا.وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا.میں بتایا کہ مسیح ؑ کے متعلق تم کہتے ہوکہ وہ آسما ن پر گیا.ہم تمہارے سامنے ادریس ؑ کو پیش کرتے ہیں.ادریس ؑ کے حالات مسیح کے حالات سے بہت زیادہ شاندار ہیں پس اگر ان حالات کی وجہ سے جو مسیح کو پیش آئے وہ الوہیت میں شریک ہو سکتا ہے تو ادریس اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی الوہیت میں شریک قرار دیاجائے.قرآن کریم میں بھی مسیح کے متعلق تو صرف اتناہی آتاہے کہ رَفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ (النساء :۱۵۹)خدا نے اسے اپنی طرف اٹھالیا مگر ادریس کے متعلق فرماتا ہے کہ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھالیا چنانچہ معراج کی حدیث میں بھی آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کو دوسرے آسمان پر اور ادریس ؑ کو چوتھے آسمان پر دیکھا(دلائل النبوة للبہیقی جلد ۲ باب الدلیل علی ان النبی عرج بہ الی السماء).گویا وہ مسیح سے بھی اونچا اٹھایا گیا.پس اگر ان الفاظ پر بنیا د رکھتے ہوئے تم مسیح کو خدا قرا دیتے ہو تو ادریس ؑ کو کیوں خدا قرار نہیں دیتے.
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جن پر خدا(تعالیٰ)نے نبیوں میں سے انعام کیا تھا.ان (نبیوں )میں سے جو آدم کی ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ١ۗ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ١ٞ وَّ مِنْ ذُرِّيَّةِ اولاد تھے او ر جو ان لوگوں کی اولاد تھے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں بچایا اور ابراہیم اور یعقوب کی (اولاد اِبْرٰهِيْمَ وَ اِسْرَآءِيْلَ١ٞ وَ مِمَّنْ هَدَيْنَا وَ اجْتَبَيْنَا١ؕ اِذَا تھے ) اور ان (لوگوں )میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور اپنے لئے منتخب کرلیا جب ان کے اوپر (خدائے تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِيًّاؑ۰۰۵۹ )رحمن کا کلام پڑھاجاتا تھا تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر)گرجاتے تھے.تفسیر.اب اوپر کی بحث کا اللہ تعالیٰ ایک نتیجہ نکالتاہے اور فرماتا ہے کہ باوجود ان انعامات کے جو زکریاؑ پر نازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو یحییٰ پر نازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو عیسیٰ پر نازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو ابراہیمؑ پرنازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو اسحاقؑ پر نازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو یعقوبؑ پرنازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جوموسیٰ ؑپرنازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو ہارونؑ پر نازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو اسمائیلؑ پرنازل ہوئے.باوجود ان انعامات کے جو ادریس ؑپر نازل ہوئے.اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ یہ سارے کے سارے انسان ہی تھے.بے شک یہ خداکے نبی تھے مگر خدا یا خداکے بیٹے نہیں تھے اگر تم مسیح کی زندگی کے حالات اور موسیٰ اور ابراہیم اور دوسرے انبیاء کے حالات پر غور کرو تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ یہ ذریت آدم میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا.اور ابراہیم کی اولاد میں سے تھے اور اسرائیل کی اولاد میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور انہیں برگزیدہ بنالیا.ان لوگوں پر جب خدائے رحمٰن کی آیتیںپڑھی جاتی تھیں تو یہ لوگ خدا تعالیٰ کے حضور میں گر جاتے تھے.سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے.کیونکہ وہ خدا کو ہی اپنا رب سمجھتے تھے.
مفسرین کہتے ہیں کہ ذریۃ آدم ؑسے ادریس ؑکی طرف اشارہ کیا گیاہے اور وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ سے ابراہیم کی طرف اشارہ کیا گیاہے.اورذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ سے اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح وہ اسرائیل سے پہلے وَ مِنْ ذُرِّيَّةِ کومحذوف سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ذُرِّیَّۃُ اِسْرَائِیْلَ سے موسیٰ اور ہارون ؑ اور زکریا ؑ اور یحییٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے.(صفوۃ التفاسیر زیر آیت ھذا)گویا ان الفاظ میں پچھلے انبیا ء کی ایک لسٹ بیان کردی گئی ہے.اور بتایا گیا ہے کہ یہ سب کے سب ہمارے بندے تھے.وَ مِمَّنْ هَدَيْنَا وَ اجْتَبَيْنَا اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اورجنہیں اپنے قرب کے لئے مخصوص کرلیا.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مِمَّنْ کاعطف کس پر ہے سو میرے نزیک یہمِنَ النَّبِيّٖنَ پرہے.یعنی وہ نبی ایسے تھے جن کو ہم نے ہدیت دی اور انہیں برگذیدہ بنالیا اس پراعتراض ہو سکتا ہے کہ کیا نبی ہدایت یافتہ نہیں ہوتے.جب خدا تعالیٰ نے انہیں نبی کہہ دیا تھا تو ان کا مہدی اور مجتبیٰ ہونا تو اسی میں آگیا تھا پھر اس کاعلیحدہ ذکر کیوں کیا گیا ؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی صفت ایک خاص خیال کے دور کرنے کے لئے بھی بیان کردی جاتی ہے.اسرائیلی اور مسیحی مذہب میں نبیوں کو عام طور پر گنہگار اور خطاکار بیان کیا گیا ہے.چنانچہ بائبل پڑھ کر دیکھ لو یہود نے حضرت نوح ؑ پر بھی الزام لگائے.حضرت لوط ؑ کی طرف بھی گندے افعال منسوب کئے.حضر ت داود ؑ کو بھی گنہگار ٹھہرایا حضرت ہارون ؑ کو بھی خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا قرار دیا.غرض کوئی نبی ایسانہیں جسے انہوں نے گنہگار نہ کہا ہو (پیدائش باب ۹ آیت ۲۴).اسی طرح عیسائی اللہ تعالیٰ کے سب ابنیاء کو گنہگار قرار دیتے ہیں بلکہ انجیل میں یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے کہا ’’جتنے مجھ سے آگے آئے چور اور بٹ مار ہیں ‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۸) گویا عیسائی اور یہودی دونوں قومیں انبیاء کو گنہگار قرار دیتی ہیں.یہودی تو اپنے گناہوںپر پردہ ڈالنے کے لئے ان کی طرف گناہ منسوب کرتے ہیں.اور عیسائی اس لئے ان کو گنہگار قرار دیتے ہیں.تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ چونکہ وہ گنہگار تھے اس لئے نجات کاموجب نہیں ہوسکتے.نجات صرف مسیح پرایمان لانے کے ساتھ وابستہ ہے.غرض انبیاء کو گنہگار ثابت کرنے کے لئے ایک ایک غرض ان دونوں قوموں کے مد نظر ہے.ایک غرض یہودیوں کے سامنے ہے جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کو گنہگار قراردیتے ہیں.اورایک غرض عیسائیوں کے سامنے ہے جس کی وجہ سے وہ سب انبیاء کو گنہگار قرار دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نےمِمَّنْ هَدَيْنَا وَ اجْتَبَيْنَا میں یہودیوں اور مسیحیوں کے انہی خیالات کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کو ہماری طرف سے صرف لفظی طورپر نبی کانام نہیں دیا گیا بلکہ وہ
الحقیقت خدا تعالیٰ کی طر ف سےہدایت یافتہ تھے.اور برگذیدہ بھی تھے تم کہتے ہو کہ وہ خداکے نافرمان تھے.حالانکہ ان کی حالت یہ تھی کہ جب رحمٰن خدا کی نشانیاں ان پرپڑھی جاتیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اورروتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور گرجاتے تھے.فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا پھران کے بعد ایک ایسی نسل آئی جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے.پس وہ الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاۙ۰۰۶۰اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عنقریب گمراہی کے مقام تک پہنچ جائیں گے.سوائے اس کے جو توبہ کرلے گااور ایمان لائے گا.اور نیک عمل عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا يُظْلَمُوْنَ کرے گا.یہ (لوگ )جنت میں داخل ہوںگے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا.(یعنی ان جنتوں میں )جو ہمیشہ شَيْـًٔاۙ۰۰۶۱جَنّٰتِ عَدْنِ ا۟لَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَيْبِ١ؕ رہنے والی ہیں اور جن کا (خدائے )رحمٰن نے اپنے بندوں سے ایسے وقت میں وعدہ کیا ہے جبکہ وہ ان کی نظروں اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِيًّا۰۰۶۲ سے ابھی پوشیدہ ہیں.یقیناًخدا کاوعدہ پورا ہوکر رہتاہے.حلّ لُغَات.غَیٌّ کے معنے ہیں (۱)الضَّلَالُ گمراہی (۲)الخَیْبُ ناکامی (۳)الْاِنْہِمَاکُ فِی الْجَہْل جہالت کی باتوں میں انہماک (۴)الہَلَاک ہلاکت.(اقرب الموارد) مفردات میں لکھا ہے ا لْغَیُّ جَھْلٌ مِنْ اِعْتَقَادٍ فَاسدٍ غیّ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط عقیدہ سے پیدا ہوتی ہے.تفسیر.اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی امتیں بگڑتے بگڑتے ایسی حالت پر پہنچ گئیں کہ نمازوںکی پابندی انہوں نے ترک کردی.یادعاؤں کی رغبت ان کے دلوں میں سے جاتی رہی.اور انہوں نے شہوات کی پیروی کی.
شہوات سے لازماًبدکاری مرادنہیں ہوتی.بے شک بعض جگہ بدکاری بھی معنے ہوتے ہیں اورہمیں ان معنوں کا انکار نہیں.مگر یہاں اس کے یہ معنے نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے غلط اجتہادات کے تابع ہوگئے اور کلام الہٰی کی وہ غلط تاویلات جو انہوں نے اپنی نفسانیت کے ماتحت کی تھیں.ان کے پیچھے چل پڑے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہ ہوگئے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسان خدا تعالیٰ کی کتاب کی تفسیر خود اس کتاب کے ذریعے نہیں کرتا بلکہ اپنے اجتہادات سے کام لینا شروع کردیتاہے.تو اس کاقدم غلط تاویلات کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتا ہے.اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے.کیونکہ ہدایت اور کامیابی اور علم اور نجات کادروازہ صر ف اس کتاب نے کھولا ہوتاہے اب کتاب خواہ موجود ہو لیکن انسان اپنی عقل اور اپنے اجتہاد سے اس میں نئی نئی باتیں داخل کرناشروع کردے تو خدا تعالیٰ کی ہدایت مشتبہ ہوجائے گی اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے نفس کے پیچھے چل رہا ہوگا ہلاکت اور بربادی ا س کا احاطہ کرلے گی.اِنْہِمَاکُ فِی الْجَہْلِ کی ایک یہ بھی قسم ہے کہ انسان ان باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے جن کاروحانیت کی اصلاح یا خدا تعالیٰ کے قرب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا محض نئے نئے لطیفے نکالنا اس کاکام رہ جاتاہے.حقیقت اور معرفت سے وہ زیادہ سے زیادہ دور ہوتاچلاجاتاہے.حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک مولوی صاحب آئے اورکہنے لگے مولوی صاحب میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ میر ا کام لوگوں میں وعظ کرنا ہے اور وعظ کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک المبکیات کی اورایک المضحکات کی.یعنی ایک ان باتوں کی جو لوگوں کو رلانے والی ہوں اور ایک ان باتوں کی جو لوگوں کو ہنسانے والی ہوں.آپ نے چونکہ بڑی بڑی کتابیں پڑھی ہوئی ہیں اس لئے اب مجھے کوئی ایسی کتاب بتائیں جس میں کچھ رلانے والی باتیں ہوں.اور کچھ ہنسانے والی باتیں ہوں تاکہ میں اس سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کو رلا یا ہنسا سکوں.غرض انسان جب گرتاہے تو پھر ایسی ہی لغو باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے.اسی طرح جب خدا تعالیٰ کی کتاب پر غور کرنے کی عادت نہیں رہے گی تو عجیب وغریب قصوں کی طرف توجہ ہوجائے گی.اور انہیں قصوں کو خدا تعالیٰ کی کتاب کی تفسیر سمجھ لیا جائے گا.میں نے بعض پرانے مفسرین کو دیکھا ہے ایسے ایسے لغو قصے وہ اپنی تفسیروں میں لاتے ہیں کہ یوں معلوم
ہوتاہےانہیں قرآن کریم پر غور کرنے کی عادت ہی نہیں.ان کا انہماک محض اِنْہِمَاکُ فِی الْجَہْلِ ہوتاہے اَلْاِنْہِمَاکُ فِی الْحِکْمَتِ نہیں ہوتا مثلاًایک نے لکھ دیا کہ فرشتے کے دس پَر ہوتے ہیں.اس پر دوسرا تلاش کرتاہے کہ کوئی پندرہ پَروں والی بھی روایت ہے یا نہیں.جب کوئی یہودی بتادیتاکہ ہاں پندرہ پَروں والی بھی ایک روایت ہے.تو وہ لکھتا کہ فرشتے کے دس نہیں پندرہ پَر ہوتے ہیں اور فلاں روایت سے ثابت ہے.پھر کوئی اور یہودی کہہ دیتا کہ فرشتے کے سو پَر بھی ہوتے ہیں اس پر وہ سو پَروں والا قصہ لے بیٹھتے ہیں.مگر پھر اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی.اورپوچھتے ہیں کہ کیا ہزار پَروں والی بھی کوئی روایت ہے اس پریہودی پھر ایک روایت گھڑ کربتادیتے.اور ہمارے مفسر بڑے خوش ہوتے کہ اب ہزار پَر ثابت ہوگئے ہیں.اور لوگ ہیںکہ مزے لے رہے ہیں.اورکہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ فلاں مولوی صاحب تو بڑے علامہ ہیں.انہوں نے ایک ہزار پَروں والی روایت بیان کی ہے.غرض حقیقت کو چھوڑ کرلغویا ت کے پیچھے پڑ گئے حالانکہ ان لغویات کا نہ مذہب سے تعلق ہے نہ ایمان سے تعلق ہے، نہ خدا سے تعلق ہے.محض جاہلانہ اور احمقانہ باتیں ہیں اگر مسلمان قرآن پر غو ر کرتے جیسے یہودی اگر تورات پر غور کرتے.عیسائی اگر انجیل پر غور کرتے.تو خواہ تورات اور انجیل اب بگڑی ہوئی حالت میں ہیں پھر بھی وہ اس جہالت سے بچ جاتے.مگر چونکہ مسلمانوں نے قرآن پر غور کرنا ترک کردیا اور عیسائیوں اور یہودیوں نے تورات اور انجیل پر غور نہ کیا اس لئے خدا کی کتاب ان کے لئے ہدایت کا موجب نہ ہوئی اور وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے.مفردات والوںنے بھی غیٌّ کی لطیف تفسیر کی ہے کہ اَلْغَیُّ جَہْلٌ مِنْ اِعْتِقَادٍ فَاسَدٍ یعنی جب انسان جھوٹے اعتقادات اور غلط روایات خدا تعالیٰ کی کتاب اور اس کے دین کی طرف منسوب کرتاہے تو اس کے نتیجہ میں جو جہالت پیدا ہوتی ہے اس کو غیّ کہتے ہیں.اگر یہ لوگ نمازیں پڑھتے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے دعاؤں اور انابت سے کام لیتے اور اپنے غلط اجتہادات کے پیچھے چلنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے کلام سے راہنمائی حاصل کرتے تو ان کا یہ انجام نہ ہوتا.مگر چونکہ انہوں نے دونوں باتیں چھوڑ دیں اس لئے ان حالات کانتیجہ گمراہی اور ناکامی اور جہالت دینی اور ہلاکت ہی پیدا ہونا تھا جو ہوگیا.حقیقت یہ ہے کہ نمازوں میں سستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کاوصال ہاتھ سے جاتاہے.اور اس کی صفات کاعلم انسان کو حاصل نہیں ہوتا.پس اس کے نتیجے میں ضلال پیدا ہوتاہے.دعا کی کمی کی وجہ سے ناکامی آتی ہے.اتباعِ شہوات سے علم اور دلیل سے رغبت کم ہوکر جہالت میں انہماک پیدا ہوتاہے.اور ان سب چیزوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہلاکت پیدا ہوتی ہے.
ہوتاہےانہیں قرآن کریم پر غور کرنے کی عادت ہی نہیں.ان کا انہماک محض اِنْہِمَاکُ فِی الْجَہْلِ ہوتاہے اَلْاِنْہِمَاکُ فِی الْحِکْمَتِ نہیں ہوتا مثلاًایک نے لکھ دیا کہ فرشتے کے دس پَر ہوتے ہیں.اس پر دوسرا تلاش کرتاہے کہ کوئی پندرہ پَروں والی بھی روایت ہے یا نہیں.جب کوئی یہودی بتادیتاکہ ہاں پندرہ پَروں والی بھی ایک روایت ہے.تو وہ لکھتا کہ فرشتے کے دس نہیں پندرہ پَر ہوتے ہیں اور فلاں روایت سے ثابت ہے.پھر کوئی اور یہودی کہہ دیتا کہ فرشتے کے سو پَر بھی ہوتے ہیں اس پر وہ سو پَروں والا قصہ لے بیٹھتے ہیں.مگر پھر اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی.اورپوچھتے ہیں کہ کیا ہزار پَروں والی بھی کوئی روایت ہے اس پریہودی پھر ایک روایت گھڑ کربتادیتے.اور ہمارے مفسر بڑے خوش ہوتے کہ اب ہزار پَر ثابت ہوگئے ہیں.اور لوگ ہیںکہ مزے لے رہے ہیں.اورکہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ فلاں مولوی صاحب تو بڑے علامہ ہیں.انہوں نے ایک ہزار پَروں والی روایت بیان کی ہے.غرض حقیقت کو چھوڑ کرلغویا ت کے پیچھے پڑ گئے حالانکہ ان لغویات کا نہ مذہب سے تعلق ہے نہ ایمان سے تعلق ہے، نہ خدا سے تعلق ہے.محض جاہلانہ اور احمقانہ باتیں ہیں اگر مسلمان قرآن پر غو ر کرتے جیسے یہودی اگر تورات پر غور کرتے.عیسائی اگر انجیل پر غور کرتے.تو خواہ تورات اور انجیل اب بگڑی ہوئی حالت میں ہیں پھر بھی وہ اس جہالت سے بچ جاتے.مگر چونکہ مسلمانوں نے قرآن پر غور کرنا ترک کردیا اور عیسائیوں اور یہودیوں نے تورات اور انجیل پر غور نہ کیا اس لئے خدا کی کتاب ان کے لئے ہدایت کا موجب نہ ہوئی اور وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے.مفردات والوںنے بھی غیٌّ کی لطیف تفسیر کی ہے کہ اَلْغَیُّ جَہْلٌ مِنْ اِعْتِقَادٍ فَاسَدٍ یعنی جب انسان جھوٹے اعتقادات اور غلط روایات خدا تعالیٰ کی کتاب اور اس کے دین کی طرف منسوب کرتاہے تو اس کے نتیجہ میں جو جہالت پیدا ہوتی ہے اس کو غیّ کہتے ہیں.اگر یہ لوگ نمازیں پڑھتے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے دعاؤں اور انابت سے کام لیتے اور اپنے غلط اجتہادات کے پیچھے چلنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے کلام سے راہنمائی حاصل کرتے تو ان کا یہ انجام نہ ہوتا.مگر چونکہ انہوں نے دونوں باتیں چھوڑ دیں اس لئے ان حالات کانتیجہ گمراہی اور ناکامی اور جہالت دینی اور ہلاکت ہی پیدا ہونا تھا جو ہوگیا.حقیقت یہ ہے کہ نمازوں میں سستی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کاوصال ہاتھ سے جاتاہے.اور اس کی صفات کاعلم انسان کو حاصل نہیں ہوتا.پس اس کے نتیجے میں ضلال پیدا ہوتاہے.دعا کی کمی کی وجہ سے ناکامی آتی ہے.اتباعِ شہوات سے علم اور دلیل سے رغبت کم ہوکر جہالت میں انہماک پیدا ہوتاہے.اور ان سب چیزوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہلاکت پیدا ہوتی ہے.
لیکن بِالْغَیْبِ کے ایک یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کے ایمان بالغیب کی وجہ سے خدا ئے رحمٰن نے یہ وعدہ کیا ہے.یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھاتھا.دلائل سنے تو کہا خداہے اور اس پر ایمان لے آئے.انہوں نے فرشتے نہیں دیکھے تھے.دلائل سنے تو کہا فرشتے ہیں اور ان پر ایمان لے آئے.انہوںنے حیات بعد المو ت کو نہیں دیکھاتھا.دلائل سنے تو کہا کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے.اور ایمان لے آئے پس فرماتا ہے چونکہ ایک غیب انہوں نے دکھایاہے.یعنی جوچیزیں ان کی نظروں سے پوشیدہ تھیں ان پر وہ ہماری خاطر ایمان لے آئے اس لئے ہم نے بھی ان کو وہ جنتیں دیں جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں ان لوگوں نے اپنی زندگیوں میں غیب کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا ہم نے کہا اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آو اور یہ لوگ ایمان لے آئے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کو انہوں نے نہیں دیکھاتھا.ہم نے کہا فرشتوں پر ایمان لے آؤ.او ر یہ لوگ ایمان لے آئے.حالانکہ فرشتے انہوں نے نہیں دیکھے تھے.ہم نے کہا جنت پر ایمان لے آؤ اور یہ لوگ ایمان لے آئے.حالانکہ جنت انہوں نے نہیں دیکھی تھی.پس چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی ان باتوں پر یقین کیا جو نظر نہیں آتی تھیں.خدا تعالیٰ نے بھی ان کو وہ جنتیںدیں جو انہیں نظر نہیں آتی تھیں.اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِيًّاحقیقت تو یہ ہے کہ اس کاوعدہ نظروں کے سامنے لاکے چھوڑ دیا جاتاہے.مَاْتِیًّا کے معنے ہوتے ہیں ’’لایا گیا ‘‘اور مراد یہ ہے کہ وہ وعدہ یعنی جنت ایسا ہے کہ اس کے پاس یہ لوگ لائے جائیں گے.گویا جنت انہیںجبراً دی جائے گی.یعنی وہ لو گ تو صرف خداکے وصال کے بھوکے ہوں گے.جنت کی خواہش ان کے دلوں میں نہیں ہوگی مگر چونکہ خدا نے وعدہ کیا تھا.اس لئے خدا نے کہاکہ تمہیں بہر حال جنت لینی پڑے گی.پس اس کا وعدہ سامنے لایا گیا اور انہیں جنت میں داخل کردیا گیا.یہ کلام احسان کے کمال پر دلالت کرتاہے اور بتاتاہے کہ ان میں جنت لینے سے انکار کرنےکی طاقت ہی نہیںہوگی.لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا١ؕ وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيْهَا وہ ان (جنتوں) میں کوئی لغو بات نہیں سنیںگے.بلکہ صرف سلامتی (اور امن کی باتیں سنیں گے ).اور
بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا۰۰۶۳تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا ان (جنتوں )میں ان کو صبح اور شام رزق ملے گا.یہ وہ جنت ہے جس کاوارث ہم اپنے بندوں میں مَنْ كَانَ تَقِيًّا۰۰۶۴ سے ان کو کریں گے جو متقی ہوںگے.تفسیر.اِلَّا سَلٰمًا استثناء متصل بھی ہو سکتا ہے او ر استثناء منقطع بھی.استثناء متصل کی صور ت میں اس کے یہ معنے ہوںگے کہ وہاں کا زائد کلام بھی اگر ہوگا تو وہ بھی سلامتی ہی ہوگا.لغو کے معنے ہوتے ہیں ایسا کام جو فضول ہو (مفردات) مثلاًاگر کوئی بات مَیں ایک منٹ میں کرسکتا ہوں لیکن اس پر مَیں دو منٹ خرچ کردیتاہوں تو ایک منٹ کی گفتگو لغو سمجھی جائےگی میں نے دیکھا ہے بعض لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ جس مقصد کے لئے وہ آئے ہیں اس کے متعلق گفتگو شروع کریں وہ آتے ہی ایک لغو اور بے ہودہ قصہ شروع کردیں گے.جس کا ان کے مقصد کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوگا.کہیں گے ہم میرٹھ گئے تھے.وہاں ہمارے فلاں شخص کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں.اس سے ایک روز میں ملنے کے لئے چلاگیا اور اس نے مجھ سے یہ یہ باتیں کیں پھر میرا فلاں شخص سے جھگڑاشروع ہوگیا اسی سلسلہ میں مجھے لاہور آنا پڑا یہاں آکر فلاں سے ملا پھر فلاں سے ملنے چلاگیا.اس کے بعد ایک ضرورت پیش آئی اور میں نے چاہا کہ آپ سے بھی ملاقات کرلوں.غرض اس طرح ایک لمبا قصہ بیان کرنا شروع کردیتے ہیں جس کا ان کی بات کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا.تو انسان جب باتیں کرتاہے تو خواہ وہ ضروری ہی ہوں ان کےساتھ بعض زائد باتیں بھی لگالیتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وہ اس میں کوئی بات ایسی نہیںسنیں گے جو لغو ہو کوئی کہے فرض کرو کوئی لغو بات ہوجائے تو اس کا جواب یہ دیا کہ اگر ایسا فرض بھی کرلیا جائے تو وہ بھی اچھی بات ہی ہوگی.بری بات نہیں ہوگی.گویا اگر کوئی زائد لفظ بھی ان کی زبان سے نکلے گا تو وہ خیر کا ہی ہوگا شر کانہیں ہوگا.یا یوں کہوکہ وہاں ضرورت سے زیادہ اگر کوئی شے ہوگی تو سلامتی ہی ہوگی.اور سلام ہی وہاں کا زائد کلام ہوگا.استثناء منقطع کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوںگے کہ لغو تو ان کے پاس بھی نہیں پھٹکے گا.ہاں سلامتی کی باتیں ہر جگہ ہوںگی کیونکہ خدائے سلام کے پاس ہوںگے دارالسلام میں ہوںگے.اور فرشتے سلام کہہ رہے ہوںگے.
اس آیت میں ایک اور نقطہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے.اور وہ یہ کہ اس جگہ لغو کام کرنا نہیں کہا.بلکہ لغو باتیں سننافرمایا ہے.اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ا نسان اپنی نسبت تو حسن ظنی سے کام لیتا ہے لیکن دوسرے کی نسبت عیب کو جلد سنتااور مشہور کرتاہے.مگر وہاںلوگوں کی نیکی اس قدر ترقی یافتہ ہوگی کہ کوئی شخص دوسرے پر بدظنی نہیں کرے گا.اور جس مقام پر کوئی شخص دوسرے کی نسبت ادنیٰ سے ادنیٰ بری بات بھی نہ سنے وہ جگہ یقیناً نیکی کا ایک اعلیٰ مقام ہو گی.وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا اور اُن کےلئے اس میں رزق ہوگا صبح بھی اور شام بھی.بعض نے اس کے یہ معنے کئے ہیںکہ چونکہ خدا تعالیٰ نے رزق کے متعلق اسراف منع کیا ہے اس لئے انہیں صرف دو وقت کھانا ملے گا ایک صبح کو اور ایک شام کو.مگر یہ صحیح نہیں.بُكْرَةً اور عَشِيًّا دونوں وسیع لفظ ہیں.بُكْرَةً کے معنی صرف صبح کے نہیں بلکہ اوّل النہار یعنی دن کے ابتدائی حصہ کے بھی ہیں (لسان) اور عَشِيًّا صرف شام کونہیں کہتے بلکہ زوال شمس سے صبح تک کے وقت کو کہتے ہیں(اقرب) پس بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا سے یہ مراد ہے کہ ہر وقت ان کو رزق ملے گا.ممکن ہے کوئی کہے کہ ہر وقت کوئی کس طرح کھا سکتاہے ؟.سو اس کا جواب یہ ہے کہ رزق کے معنے ہیں ’’دی جانے والی چیز ‘‘ اور وہ چیز جو انہیں وہاں ہروقت ملے گی وہ دیدار الٰہی کلام الٰہی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہے.اور کلام الٰہی یا دیدار الٰہی کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس سے کسی کو بدہضمی ہونے کا ڈر ہو.پھر یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وَ لَهُمُ الرِّزْقُ بلکہ فرمایا ہے وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ ان کو وہ رزق ملے گا جو ان کے مناسب حال ہوگا پس تم اس سے صر ف روٹی مراد نہ لو خدا تعالیٰ ان کے مناسب حال انہیں رزق عطافرمائے گا.اور وہ رزق صرف صبح شام نہیں دے گا بلکہ ہر وقت دے گا.تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا یہ وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے ان بندوں کو وارث کر دیں گےجو متقی ہیں.وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا وَ مَا اور فرشتے ان سے کہیں گے کہ ہم تو صرف تمہارے رب کے حکم سے اترتے ہیں اور جو کچھ ہمارے آگے اور ہمارے خَلْفَنَا وَ مَا بَيْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّاۚ۰۰۶۵ پیچھے ہے اور جوکچھ ان دونوں (جہالت) کے درمیان میں ہے سب کچھ خدا کا ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں.تفسیر.ہمارے مفسرین اس جگہ یہ معنے کرتے ہیں کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی کہ جب اصحاب کہف
اور ذوالقرنین اور روح کے متعلق لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے ان سوالات کے جلد جواب دینے کا وعدہ کیا مگر جبرائیل کے آنے میں دیر ہوئی جس سے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.جب کچھ مدت کے بعد وہ پھر آیا تو آپ نے اس سے شکایت کی کہ ارے میاں تم نے ہمیں کیوں چھوڑ دیا ؟اس نے کہا ہم اپنی مرضی سے تھوڑاآتے ہیں ہمیں خدا بھیجتاہے تو ہم آجاتے ہیں نہیں بھیجتا توہم نہیں آتے (روح المعانی زیر آیت ھٰذا).قطع نظر اس سے کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اس گفتگو کے ذکر کا یہ موقع کونسا ہے ؟ ذکر یہ تھا کہ عیسیٰ ؑ ہمارا ایک پیارا بندہ تھا مگر وہ خدایا خدا کا بیٹا نہیں تھا.اسی جیسی خوبیاں رکھنے والے اور بھی کئی انبیا ء دنیا میں آئے اورپھر عیسیٰ ؑ تو محض ایک کڑی تھا اس سلسلہ کی جو نسل اسحاق سے شروع ہوا اسے تم آخری نجات دہندہ کس طرح قرار دے سکتے ہو.اگر وہ آخری وجود تھا تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اسماعیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے کئے تھے وہ سب کے سب جھوٹے ہوگئے پھر بتایا کہ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ اور ہارون اور اسماعیل اور ادریس یہ سب کے سب ہمارے نیک اور برگزیدہ بندے تھے اور ہماری جنت کے محتاج تھے.اسی طرح عیسیٰ بھی ہماری جنت کا محتاج ہے مگر اس کے بعد ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ فرشتوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو خداکے حکم سے نازل ہوئے ہیں وہ اگر ہمیں نازل نہ کرے تو ہمارا اس میں کیا قصور ہے.حالانکہ اس کا پہلے مضمون سے کوئی جوڑ ہی نہیں بنتا.اگر وہ قرآن کریم پر غور کرتے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے اور قصے کہانیوں کے پیچھے نہ چلتے تو خدا ان کی راہنمائی کرتا اور ایسی خطرناک غلطیوںسے انہیں بچالیتا مگر مصیبت یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم پر غور کرنے کی بجائے قصوں اور کہانیوں کو اختیار کر لیا اور حقیقت سے دور ہوتے چلے گئے.میں جب سورہ کہف کا درس دینے لگا اور میں نے اس سورۃ پر غور کیا تو اور سورۃ تو سب حل ہوگئی مگر ایک آیت کی مجھے سمجھ نہ آئی.میں نے بہت سوچا اور غور کیا مگر وہ آیت مجھے بالکل بے جوڑ معلوم ہوتی تھی.آخر میں نے درس دینا شروع کردیا.جوں جوں وہ آیت قریب آتی جائے میری گھبراہٹ بڑھتی چلی جائے کہ اب اس آیت کے متعلق کیا ہوگا.یہاں تک کہ صرف دویاتین آیتیں رہ گئیں مگر پھر بھی وہ میری سمجھ میں نہ آئی اس وقت میری گھبراہٹ بہت زیادہ ہوگئی مگر جس وقت میں اس سے پہلی آیت پر پہنچا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ وہ آیت تو بالکل حل شدہ ہے اور اس کے نہایت صاف اور سیدھے معنے ہیں جن میں کسی قسم کی الجھن نہیں.تو حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی ترتیب کو مد نظر رکھا جائے اور اس پر غور اور تدبر کرنے کی عادت ڈالی جائے تو اس کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہوجاتی ہیں.مگر جو شخص قصوں اور کہانیوں کے پیچھے چل پڑتا ہے اور تدبر فی القرآن کو ترک کردیتاہے وہ خود بھی گمراہ ہوتاہے اور
خدا تعالیٰ کی طرف بھی ایسی باتیں منسوب کردیتاہے جو اس کی شان کے منافی ہوتی ہیں.اب میں بتاتاہوں کہ یہ کتنا سیدھا سادہ مضمون ہے جس کو ہمارے مفسرین نے اتنا بے جوڑ بنادیا.اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں بیان فرمایا تھاکہ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا یعنی لغو تو جنتیوں کے پاس بھی نہیں پھٹکے گاہاں سلام ہر جگہ ہوگا.یہ سلام کیا ہوتاہے ؟ ہر شخص جانتاہے کہ السلام علیکم کو سلام کہا جاتاہے.پس لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا کے یہ معنے تھے کہ انہیں کثرت کے ساتھ سلام پہنچایا جائے گا مگر یہاں یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کا سلام ہوگا.اس لئے ہم قرآن کریم کے دوسرے مقامات کو دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں اس کی تشریح نظر آتی ہے.سورئہ فرقان میں آتاہے يُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلٰمًا (الفرقان:۷۶) جنتیوں کو تحیہ اور سلام پہنچایا جائے گا.گویا وہی مضمون جو اس جگہ بیان کیا گیا ہے اسی کو ایک دوسرے پیرایہ میں سورئہ فرقان میں بیان کردیا گیاہے.اسی طرح سورئہ رعد میں آتاہے وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ.سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد:۲۴، ۲۵)یعنی وہاں ہردروازے سے ملائکہ جنت میں داخل ہوں گے اور انہیں کہیں گے کہ تم نے دنیا میں جو خدا تعالیٰ کے لئے صبر کیا تھا اس کے بدلہ میں ہم تمہیںسلامتی پہنچاتے ہیںاور یہ آخری گھر جو تم کو ملا ہے کیا ہی اچھا گھر ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے جنتیوں کے پاس آئیں گے اور انہیں سلام پہنچائیںگے اب جہاں تک یہ سوال تھا کہ سلام کون پہنچا ئے گا یہ تو حل ہوگیا اور پتہ لگ گیا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے مومنوں کو سلام پہنچائیں گے.مگر یہاں ایک نئی بات پیدا کردی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا یہ وہ جنتیں ہیں جن کا ہم اپنے متقی بندوں کو وارث بنائیںگے اور وارث ہمیشہ بیٹا ہوتاہے کوئی غیر نہیں ہوتا.پس درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بتایا ہے کہ ہر متقی خدا کا بیٹا ہے اور جنت خدا کا گھر ہے جس میں ان متقیوں کو اتارا جائےگا گویا یہاں ایک نیا مضمون بیان کیا گیا ہے.پہلے سلام کا ذکر کیا اور پھر بتایا کہ ہمارا مومن اور متقی بندہ مہمان کے طور پر جنت میں نہیں جائےگا.دوست کے طورپر جنت میں نہیں جائے گا.سائل کے طور پر جنت میں نہیںجائے گا بلکہ ہم اسے اپنا بیٹا قراردے کر اور وارث بنا کر جنت میں داخل کریںگے اورکہیں گے کہ جائو اور اس میں ہمیشہ کے لئے رہو.اس میں ایک طرف تو مسیح کے بیٹے ہونے کی خصوصیت کو رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہرمومن خدا تعالیٰ کا بیٹاہے.دوسرے اس طرف اشارہ کیاہے کہ جنت کی جو نعمتیں ملیںگی وہ بطور حق اور اکرام کے ہوں گی.ورنہ عطاء تو فقیر کو بھی ملتی ہے.پس یہ عطاءاپنے اندر صدقہ کا رنگ نہیںرکھے گی.بلکہ یہ عطاء میراث ہوگی اور اس کے لینے والے پر ظاہر
کیا جائے گا کہ یہ تمہارا حق ہے.جس طرح اولاد کا باپ کے مال پر حق ہوتاہے.صرف یہ فرق ہوگا کہ وہ اپنے باپ کی زندگی میں ہی وارث ہوں گے.پس چونکہ اس جگہ نُوْرِثُ کہہ کر ہر مومن کو خدا تعالیٰ کا بیٹا اور جنت کو عطاء میراث قرار دیا گیا تھا اس لئے جب خدا تعالیٰ نے یہ بتایاکہ وہاں مومنوں کو سلام پہنچایاجائے گا تو طبعاً ہر مومن کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ جب میں بیٹا بن گیا تو یہ سلام تو باپ کی طرف سے ہونا چاہیے.سو اس طبعی خیال کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان سلام پہنچانےوالے ملائکہ کی طرف سے یہ جواب دیا کہ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ اے مومن ہم یہ سلام تیرے باپ کی طرف سے ہی تجھے پہنچارہے ہیں ،ہم اپنی طرف سے نہیںکررہے.بے شک جنت میں سلام ہم پہنچائیں گے مگر ہوگا تمہارے باپ کی طرف سے ہی.کیونکہ ہم فرشتے تو خود کوئی بات کرہی نہیںسکتے پس تم نُوْرِثُ پر گھبراکر یہ خیال نہ کرو کہ جب خدا ہمارا باپ بن گیا اور ہم اس کے بیٹے بن گئے تو پھر فرشتے یہ سلام کیوں پہنچارہے ہیں.یہ سلام تو ہمارے باپ کی طرف سے آنا چاہیے ، یہ سلام تمہارے باپ کی طرف سے ہی ہے ہم تو صرف اس کا سلام پہنچانے والے ہیں.یہ مضمون ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے.یہاں اس ذکر کا کوئی موقع ہی نہیںکہ جبریل کچھ عرصہ نہ اُتراتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبراگئے اور اس پر آپ کو یہ الہام ہوا.یہ بالکل بے جوڑ بات ہے.اصل مضمون یہی ہے کہ جب فرشتے سلام لائیں گے تو مومنوںکے دلوں میں خیال پیدا ہوگاکہ یہ کیسا سلام ہے.آیا یہ ہمارے باپ کی طرف سے ہے یا کسی اورکی طرف سے.اس کا فرشتے یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ سلام تمہارے روحانی باپ نے ہی بھیجا ہے ہم تو صرف ایک پیغامبر ہیں.لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَيْنَ ذٰلِكَ اور یہ اتنا قیمتی تحفہ اس کی طرف سے آیا ہے کہ اس نے اس کی حفاظت کے لئے ہمارے آگے اور پیچھے پہریدار مقرر کردئیے ہیں تاکہ یہ ضائع نہ ہوجائے.وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا اور یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ خدا تعالیٰ اپنی روحانی اولاد کو اپنے گھر میں اتارے اور اس کو سلام بھجوانا بھول جائے جس طرح تم نے خدا سے محبت کی اور اسے نہیں بھلایا اسی طرح اس نے بھی تم کو یادرکھااور اپنے فرشتوں کو بھیجاکہ جائو اور میری طرف سے سلام پہنچاآئو.لیکن اس مضمون کے علاوہ ایک اور بھی مضمون ہے جس کی طرف ان آیات میںاشارہ کیاگیاہے اور وہ یہ کہ سورئہ مریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کران کی اولاد تک کے انبیاء کا ذکر ہے جن میں حضرت موسیٰ ؑبھی شامل ہیں جن کی کتاب میں علاوہ اپنی وحی کے حضرت ابراہیم ؑ اوران کی اولاد کے کوائف بھی درج ہیں.جب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو عیسائیوں اور یہودیوں نے اعتراض کیا کہ نبی تو بنی اسرائیل میں سے آنا چاہیے اور یعقوب کی نسل میں سے ہونا چاہیے.یہ نبی عربوںمیں سے کس طرح آگیا ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبانی دیا کہ ہم تو اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں.اس نے عرب کی طرف ہم کو بھیجا ہم ان کی طرف آگئے وہ اسرائیل کی طرف بھیجتا تھا تو ہم ادھر چلے جاتے تھے.پس یہ اعتراض کیاہے؟ یہ اعتراض توہوسکتاتھا کہ نبیوں والی باتیں اس میں نہیں پائی جاتیںلیکن یہ اعتراض نہیں ہوسکتاکہ ایک عرب پر کلام کیسے نازل ہوگیا.کیونکہ کلام خدا کے حکم سے اترتاہے اور جن پر خدا کا کلام اترتاہے ان کوجنات ارضی و اخروی عطا کی جاتی ہیں.چنانچہ حضرت موسیٰ کو کنعان ملا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا عرب بھی ملا فلسطین بھی ملا اور ساری دنیا بھی ملی.اس کے آگے فرمایا.’’ تیرا رب بھولنے والا نہیں ‘‘یعنی اس نے موسیٰ کے ذریعہ خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے بھی یعنی بنو اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجا جائے گا.اور یسعیاہ نبی کے ذریعہ سے اس نے کہا تھا کہ عرب میں بھی خدا کاکلام اترے گا پھر یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ خدا کی دونوں باتیںجھوٹی ہوتیں.خدا تعالیٰ بھولتانہیں.عیسائی اور یہودی بے شک بھول جائیں مگر خدا تعالیٰ نہیں بھولاکہ اس نے موسیٰ سے کیا کہا تھا.جب اس نے کہا تھا کہ ’’میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوںگا اور جو کچھ میں اسے حکم دوںگا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوںگا ‘‘(استثنا ء باب ۱۸آیت ۱۸و۱۹) تووہ اس کو کس طرح بھول سکتا تھا.اسی طرح وہ اس وحی کو نہیں بھول سکتا تھا جو یسیعاہ نبی پر نازل ہوئی کہ عرب میںبھی الہامی کلام اترے گا (یسیعاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا۱۷ ورباب ۹آیت ۶و۷ ) اسی طرح وہ اس وحی کو بھی نہیں بھول سکتاتھا جو اس نے عیسیٰ علیہ السلام کو کی اور جس کے مطابق انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گالیکن جو کچھ سنےگا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریںدےگا.’’ (یوحناباب۱۶آیت۱۲،۱۳) پس اس نبی کاآنا ضروری تھاجو سب روحانی راز دنیا کو بتادے.
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ (وہ )آسمانوں کا (بھی)رب (ہے )اور زمین کا بھی (رب)اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے.پس لِعِبَادَتِهٖ١ؕ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّاؒ۰۰۶۶ (اے مسلمان )اس کی عباد ت کر اور اس کی عبادت پر ہمیشہ قائم رہ کیا تو اس کا کوئی ہم صفت جانتاہے.تفسیر.عربی زبان میں اِصْطَبَرَعَلَیْہِ ایک محاورہ ہے جس کے معنے ہیں کسی با ت پر مضبوطی سے قائم رہنا.اور اس کے متعلق جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنامگر یہاں واصْطَبَرَعَلَی عِبَادَتِہٖ نہیں کہا کہ عبادت کر مضبوطی سے قائم رہ بلکہ یہ کہا ہے کہ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ تو اس کی عبادت کےلئے ہمت اور بہادری کا مظاہر ہ کر.اس میں بتایا گیاہے کہ لوگ تجھے عبادت خالص نہیں کرنے دیں گے.پس تو مخالفت کی پروا نہ کر بلکہ بہادری اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم رہ.اورپھر لِعِبَادَتِهٖ کہہ کر یہ بتایا کہ ان اوصاف کا مظاہرہ محض عبادت کی خاطرکر عبادت پر قائم تو انسان اور کئی وجوہ سے بھی ہو سکتا ہے.یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت کی خاطر جرأت اور عبادت کی خاطر بہادری اور عبادت کی خاطر استقلال دکھا.گویا عبادت کو دوسری اشیا ءکےلئے نہیں بلکہ دوسری اشیاء کو عبادت کے لئے پسند کر اور عبادت تیرے لئے ذریعہ کا کام نہ دے بلکہ تیرا مقصود اور مدعا بن جائے.پس وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ کے یہ معنے ہوئے کہ تو عبادت کی خاطر جرأت اور بہادری سے کام لے.یہ نہیں کہ عبادت پر قائم رہنے کے لئے جرأت دکھا بلکہ عبادت کی خاطر جرأت دکھا عبادت کی خاطر دلیری دکھا عبادت کی خاطر استقلال دکھا.تاکہ تیری عبادت زیادہ اعلیٰ سمجھی جائے اور عبادت تیرے لئے ایک ذریعہ نہ بنے.بلکہ عبادت ہی تیرامقصود بن جائے.اسی طرح رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کردیاہے کہ اب خدا رب العالمین کی حیثیت سے کلام کرے گا صرف بنی اسرائیل کو مخاطب نہیں کرے گا.
وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا۰۰۶۷اَوَ اور انسان ہمیشہ یہ کہتارہے گا کہ کیا جب میں مر جائوں گا تو پھر زندہ کرکے اٹھایا جائوںگا کیا انسان کو یہ بات یاد نہیں لَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ يَكُ شَيْـًٔا۰۰۶۸ کہ ہم نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا تھا.اور (اس وقت )وہ کوئی چیز نہیں تھا.تفسیر.مرنے کے بعد کی زندگی ہمیشہ ہی لوگوں کے لئے شبہات اور تردد کا موجب رہی ہے.کیونکہ وہ نظر نہیں آتی اورمرنےوالے لوگوں سے سوائے اس کے کہ کوئی اعلیٰ درجے کے روحانی انسان ہوںکسی قسم کا تعلق باقی نہیں رہتا.اس لئے خواہ کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق ان کے دلوں میں ہمیشہ شبہات قائم رہتے ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ جہاں سب سے زیادہ شبہ اس زندگی پرکیا جاتاہے وہاں سب سے زیادہ یقین بھی اسی زندگی کے متعلق پایا جاتاہے.چنانچہ عام طور پر لوگ مُردوں کے نام پر کھانا کھلاتے ہیں مُردوں کے نام پرکپڑے تقسیم کرتے ہیں.اور مُردوں سے ملنے کی خواہش ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے.ان کی اپنی زندگی دیکھو تو انہیں حیات بعد الموت پرکوئی یقین نہیں ہوتاکیونکہ اس زندگی پر ایمان رکھنے کا کوئی اثر ان کے اعمال میں نظر نہیں آتا.جب انسان کو سچے دل سے یہ یقین ہو کہ مرنے کے بعد اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہوناہے تو لازماًاس کی زندگی پر اس کا اثر پڑنا چاہیے اس کے اعمال میں اصلاح ہونی چاہیے.اس کے خیالات میں درستی ہونی چاہیے.لیکن جہاں ان کی اپنی زندگی پر اس کا کوئی اثر نظرنہیں آتا وہاں مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے لئے وہ کئی قسم کے کام کرتے بھی نظر آتے ہیں.مثلاًیہی کہ مردوں کے لئے غرباء کو روٹی کھلادی یا ان کے ثواب کی خاطر کپڑے تقسیم کردئیے یہ عجیب قسم کا متضاد مقام ہے.جو انسانی عمل سے ظاہر ہوتاہے.اور درحقیقت انسان کی یہ شبہ والی حالت ایسی ہے کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتااور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ یقین رکھتاہے.جب ہم اس کی اپنی زندگی کو دیکھتے ہیں تو مابعدا لموت زندگی کا جو اثر اس کے اعمال پر پڑناچاہیے وہ ہمیں نظر نہیںآتا.لیکن جب ہم مرنے والوں کے متعلق اس کے جذبات کودیکھتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ اپنے مرنے ولے رشتہ داروں کے متعلق اس کے دل میں اس قسم کی تڑپ اور تمنا پائی جاتی ہے.کہ وہ زندہ ہوں تو میں ان سے ملوں لیکن ایک طبقہ دنیا کا ایسا بھی
ہے جو کہتاہے کہ مرنے کے بعد ہم نے نہیں جینا اور ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتاہے کہ ہم نے جینا ہے.مگر جو طبقہ یہ کہتاہے کہ ہم نے مرنے کے بعد جینا ہے اس کی زندگی کے حالات میں کبھی کبھی اس خیال کی بھی جھلک آجاتی ہے.کہ ہم نے نہیں جینا.اور جو طبقہ یہ کہتاہے کہ ہم نے نہیں جینا اس کی زندگی کے حالات میں کبھی کبھی اس خیال کی بھی جھلک آجاتی ہے کہ ہم نے جینا ہے.گویا جو ہاں کہتاہے اس پرنہ کا زمانہ آتا رہتاہے اور جو نہ کہتاہے اس پرہاں کا زمانہ آتا رہتاہے.لیکن عام طور پر جہاں تک انسان کی اپنی زندگی کا سوال ہوتاہے وہ اسے اگلی زندگی کے خیالات سے متاثر کرنے کےلئے تیار نہیںہوتااور جہاں تک مرنےوالوں کے متعلق اپنے جذبات کے اظہار کا سوال ہوتاہے.وہ ان کے لئے قربانی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے.کیونکہ ان کےلئے اسے جو قربانی کرنی پڑتی ہے وہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی صرف اتناہی ہوتاہے کہ کوئی مرگیا تو اس کے نام پر غرباء کو روٹی کھلادی یا کپڑے تقسیم کردئیے یا خیرات دے دی لیکن اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے بہت بڑا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے.مثلاًسچ بولنا پڑتا ہے جھوٹ اور فریب سے بچنا پڑتا ہے.نفسانی خواہشات کو ترک کرنا پڑتا ہے.خدا تعالیٰ کے احکام کو ماننا پڑتا ہے.اور یہ کام ایسے ہیں جو قربانی چاہتے ہیں.پس وہ ان کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن روٹی یا کپڑا دے دینا چونکہ اتنا بڑاکام نہیںہوتا.اس لئے وہ ان کے لئے تیار ہو جاتا ہے.وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا میں جس انسان کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ کہتاہےمیں نے مرنے کے بعد زندہ نہیں ہونا بلکہ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا میں استفہامیہ رنگ اختیا ر کیا گیا ہے اور اس پر تعجب کا اظہا ر کیا گیا ہے.یہ نہیں کہ وہ مرنے کے بعد زندہ نہ ہونے پر متیقّن ہے.بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق وہ مترد د ہے اور کہتاہے کہ کیا جب میں مرجاوں گا تو ضرور زندہ کیاجائوںگا گویا اس کی شبہ والی کیفیت کو پیش کیا گیا ہے.اس سے یہ مضمون نہیںنکلتاکہ وہ لازماًقیامت کا منکر ہے.اوپر کی تمہید مَیں نے اسی لئے بیان کی تھی کہ دنیا کے عقائد دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا کلی انکار بہت کم پایا جاتا ہے.لیکن یقینی اقرار بھی بہت کم پایا جاتاہے.لوگوں کا بہت سا حصہ ایساہے کہ خواہبعث بعدالموت کو وہ مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں ان کی حالت ہمیشہ تردّد والی رہتی ہے.کہ ایسا ہونا ہے یا نہیں ہونا.عیسائیوں میں مذہباًیہ بات پائی جاتی ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی انسان کو حاصل ہوگی چنانچہ حضرت مسیح ؑ نے ایک دفعہ یہودیوں سے اس کے متعلق بحث بھی کی.یہودیوں میں دو گروہ پائے جاتے تھے.ایک وہ جن کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد زندگی ہوتی ہے.اور دوسرے وہ جن کا عقیدہ تھاکہ مرنے کے بعد زندگی نہیں ہوتی.وہ
گروہ جس کا عقیدہ تھا کہ مرنےکے بعد کوئی زندگی نہیں اس کے بعض افراد حضرت مسیح ؑ کے پاس آئے اور اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے انہیں فرمایا کیا تم نے تورات (خروج باب ۳ ،۶)میں نہیںپڑھا کہ خداوند کو ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خد ا اور یعقوب کا خدا کہاگیا ہے.اور تم جانتے ہوکہ ’’خدامردوں کا خدانہیں بلکہ زندوں کا ہے.کیونکہ اس کے نزدیک سب زندہ ہیں ‘‘(لوقاب ۲۰آیت ۳۸ومتی ب۲۲آیت ۳۲) یعنی تمہیں بائبل سے یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ ابراہیم ؑ او ر اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کی روحیںزندہ ہیں اور ان کے باپ دادا کی روحیں بھی زندہ ہیں ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ ہمار اخدا زندوں کا نہیں بلکہ مردوںکا خداہے.اسی طرح فرماتے ہیں ’’قیامت میں بیاہ شادی نہ ہوگی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہوںگے ‘‘ (متی باب ۲۲آیت ۳۰) پھر پولوس لکھتاہے.’’ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہا تھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے ‘‘.(۲کرنتھیوں باب ۵آیت ۱) اسی طرح لوقامیں ایک غریب اوردولت مند کا قصہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح ؑ مرنے کے بعد کی زندگی کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں.’’ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اورمہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان وشوکت سے رہتاتھا اور لعزر نام ایک غریب ناسوروںسے بھرا ہوا اس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھااسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے.بلکہ کتے بھی آکر اس کے ناسور چاٹتے تھے اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مرگیا.اور فرشتوں نے اسے لے جاکر ابراہام کی گودمیں پہنچادیا اور دولتمند بھی ہوا اور دفن ہوا اس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلاہوکر اپنی آنکھیں اٹھائیں اور ابراہام کو دور سے دیکھا اور اس کی گود میں لعزر کو اور اس نے پکار کر کہا کہ اے باپ ابراہام مجھ پر رحم کرکے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی میںبگھو کر میری زبان ترکرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑ پتاہوں ابراہام نے کہا بیٹا یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اپنی اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر
بری چیزیں.لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتاہے.اور تو تڑپتاہے.اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑاگڑھا واقع ہے.ایسا کہ جو یہاں سے تمہاری طرف پار جاناچاہیں نہ جاسکیں.اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آسکے.اس نے کہا پس اے باپ میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اسے میرے باپ کے گھر بھیج کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ ا ن کے سامنے ان باتوں کی گواہی دے ایسانہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں.ابراہام نے اس سے کہا ان کے پاس موسیٰ اور انبیا ء تو ہیں ان کی سنیں.اس نے کہا نہیں اے باپ ابراہام ہاں اگر کوئی مردوں میں سے ان کے پاس جائے.تو وہ توبہ کرلیںگے.اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے.‘‘ (لوقاباب ۱۶آیت ۱۹تا۳۱) ’’مکاشفہ ‘‘میں بھی لکھا ہے.’’پھر میں نے آسمان میں سے یہ آواز سنی کہ لکھ.مبارک ہیں وہ مردے جو اَب سے خداوند میں مرتے ہیں روح فرماتا ہے بے شک کیونکہ وہ اپنی محنتوں سے آرام پائیںگے اور ان کےاعمال ان کےساتھ ساتھ ہوتے ہیں ‘‘ (مکاشفہ باب ۱۴آیت ۱۳) غرض حضرت مسیح ؑنے بعث بعدا لموت کی تائید کی ہے اور عیسائی لٹریچر بھی سارے کاسار ا اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نئی زندگی حاصل ہوگی صرف اس قدر فرق ہے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے دوبارہ آنے پر اسی دنیا میں ساری روحیںآجائیںگی.اور یہیں ان کو جزاو سزا دی جائے.چنانچہ متی میں لکھاہے.’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہولئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کروگے اورجس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یابچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا.‘‘ (متی باب ۱۹آیت ۲۹) اسی طرح مکاشفہ میں لکھا ہے کہ وہ لوگ ’’جنہوں نے نہ اس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اس کے بت کی اور نہ اس کی چھاپ اپنے ہاتھوں اور ماتھے پر لی تھی وہ زندہ ہوکر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے اورجب تک یہ ہزار
برس پورے نہ ہولئے باقی مردے زندہ نہ ہوئے.پہلی قیامت یہی ہے.‘‘ (مکاشفہ باب ۲۰آیت ۴تا ۵) مگر باوجود اس کے کہ ہر مذہب نے اُخروی حیات کو تسلیم کیا ہے اس زمانے میں سب سے بڑا انکا ر بعث بعد الموت کا ہی کیا جاتاہے.اور اس زندگی کے متعلق ایک قسم کے تذبذب اور شک والی کیفیت لوگوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے.پس ’’الانسان ‘‘سے مراد عام انسان نہیں کیونکہ ان میں تو وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو اس زندگی پرکامل یقین ہے.اس جگہ ’’الانسان‘‘سے وہی انسان مراد ہے جو اُخروی حیات پر تعجب کا اظہار کرتاہے اور کہتاہے کہ کیا واقعہ میں مَیں نے مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور یا پھر ’’الانسان ‘‘سے مراد جنس انسان ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ شخص جو جنس انسان سے تعلق رکھتاہے.وہ یہ بات کہتاہے.اور یہ سخت قابل تعجب ہے کیونکہ انسان تو دو اُنسوںسے مرکب ہے اوراس کی فطرت بعث مابعد الموت پردلالت کرتی ہے.پھر انسان ہو کروہ یہ کیونکر کہہ سکتاہے.کہ کیا واقعہ میں مَیں نے مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے.جب ہم ’’کیا‘ ‘کا لفظ بولیں تواس میں دونوں باتیں آجاتی ہیں یعنی نامعلوم ایسا ہونا ہے یا نہیں ہونا.اَوَ لَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ يَكُ شَيْـًٔا فرماتا ہے کیا یہ انسان اس بات کو نہیں جانتاکہ اس سے پہلے ہم نے اس کو پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا.لَمْ يَكُ شَيْـًٔا سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھا جو قابل ذکر ہو.جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا (الدھر:۲) پس لَمْ يَكُ شَيْـًٔا سے یہ مراد ہے کہ وہ کسی ایسی حیثیت میں نہیں تھا جو قابل ذکر ہو.یا جس کو کوئی اہمیت دی جاسکے.یعنی وہ نطفہ کی حالت میں تھا.یا جمادات اور نباتات کی حالت میں تھا.گویا اس وقت ایک شئے تو تھی مگر شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا نہیںتھی.شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا وہ چیز ہوتی ہے جو اہمیت رکھتی ہواور توجہ کے قابل ہو.اگر ایک ذلیل اور حقیر اور ناقابل ذکر چیز کو ترقی دےکر اللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا تو وہی انسان اگر مرنے کے بعد مٹی ہو جاتا ہے تو اس مٹی سے دوبارہ انسان بنا دینا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوسکتی.
فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّيٰطِيْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ پس تیرے رب کی قسم ہم (جو تیرے رب ہیں )ان لوگوںکو (پھر ایک دفعہ )اٹھائیںگے اور شیطانوں کو بھی (اٹھائیں حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّاۚ۰۰۶۹ گے او ر) پھر اُن سب کو جہنم کے گرد ایسی صورت میں حاضر کریںگے کہ وہ زانووں کے بل گرے ہوئے ہوںگے.حل لغات.جِثیٌّ جَثَا الرَّجُلُ یَجْثُوْکے معنے ہوتے ہیں.جَلَسَ عَلٰی رُکْبَتَیْہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اَوْقَامَ عَلٰی اَطْرَافِ اَصَابِعِہٖ یااپنے پائوں کی انگلیوں پر کھڑاہوا جَثَا سے اسم فاعل جَاثٍ آتاہےیعنی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے والا جِثیٌّ جَاثٍ سے جمع کا صیغہ ہے (اقرب ) مفردات میں ہے کہ یہ مصدر بھی ہو سکتا ہے.تفسیر.فرماتا ہے ہم تیرے ہی رب کی قسم کھا کر کہتے ہیں لَنَحْشُرَنَّهُمْ کہ ہم ضرور ان کو اکٹھا کریں گے وَ الشَّيٰطِيْنَ اور ان شیطانوں کو بھی اکٹھا کریں گے جو ان کو ورغلارہے ہیں اس سے پتہ لگتاہے کہ انسان سے مراد وہی انسان ہے جس کا پہلے ذکر ہے ورنہ اگر اعلیٰ درجہ کے مومن اور صدیق اور شہداء اور انبیاء وغیرہ مراد ہوتے تو شیطانوں کا یہاں کیا ذکر تھا ؟ شیاطین کا ذکر کرنا صاف بتاتا ہے کہ ’’الانسان‘‘ سے وہی انسان مراد ہیں جو حیات بعد الموت پرپور ایمان نہیں رکھتے.فرماتا ہے ہم ان کو بھی اکٹھا کریں گے اور شیاطین کو بھی اکٹھا کریں گے یعنی وہ فلسفی لوگ جو حیات بعدا لموت کے متعلق ان کو شبہات میں مبتلا کرتے رہے ہیں ان سب کو اکٹھاکرکے لائیںگے ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا پھر ہم ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے اس حال میں کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوںگے.جہنم کے متعلق تمام مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے عربی زبان میں اس کا کوئی مادہ نہیںپایا جاتا(الاتقان زیر لفظ جہنم)اور عجمی زبانوں کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ارمیک( ARAMAIC ) لفظ ہے جو ’’مقام سزا بعد الموت ‘‘ کے لئے استعمال ہوتاہے.عبرانی زبان میں یہ لفظ جِھِّنَّہْ (GEHENNA ) استعمال ہوتاہے جو ارمیک زبان میں اصل میں ھِنُّوْم (HINNOM )تھا مگر پھر اسے جِھِنُّوْم (GE-HINNOM ) بنالیا گیا.یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ ھِنُّوْم کسی لمبے لفظ کا ٹکڑا ہے اور اس کے معنے ’’وادی خون ریزی ‘‘یا ’’قتل عام ‘‘ کے سمجھے جاتے ہیں (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ ھنوم ویلی کالم ۲۰۷۰)
جہاں تک میراخیال ہے یہ ’’جِھِنُّوْم ‘‘ (GEHINNOM )عربی زبان کا ہی ایک بگڑاہوا لفظ ہے.عربی میں ’’ھِنَمٌ‘‘ کے معنے چیتے کے ہوتے ہیں اور ’’ذُوْھِنَمٍ ‘‘کے معنے ہوتے ہیں چیتوں والی جگہ ارمیک والوں نے بھی کہا ہے کہ یہ کسی لمبے لفظ کا ٹکڑا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس کے معنے ’’وادی خونریزی ‘‘یا’’ قتل عام ‘‘ کے ہیں پس میرے نزدیک یہ اصل میں ’’ذُوْھِنَمٍ ‘‘تھا یعنی وہ جگہ جہاں چیتے رہتے ہیں اور لوگوں کو پھاڑتے اور زخمی کرتے ہیں.عجمی لوگ چونکہ عربی کی ذال کو عموماً جیم سے بدل دیا کرتے ہیں اس لئے ارمیک والوں نے ’’ذُوْھِنَمٍ‘‘ کو ’’جِھِنُّوْم ‘‘ بنالیا اور عربی والوں نے پھر اس لفظ کو عجمیوں سے لے کر جہنم بنالیا.اس قسم کی مثالیں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ایک زبان سے بعض دفعہ دوسری زبان میںکوئی لفظ گیا اور اس نے بگڑ کر کوئی اور شکل اختیار کرلی.پھر اس بگڑی ہوئی شکل کو اصل زبان والوںنے واپس لےکر ایک اور لفظ کا جامہ پہنالیا یہ لفظ بھی اصل میں ’’ذُوْھِنَمٍ‘‘ تھا یعنی چیتوں والی جگہ اور یہ عربی زبان کا لفظ تھا (المنجد).عربوں سے عجمیوں نے یہ لفظ لیا اور اس کو ’’ جِھِنُّوْم ‘‘ بنالیاپھر عربوں نے عجمیوں سے’’ جِھِنُّوْم‘‘ لفظ لے کر جہنم بنالیا.اس کے علاوہ میرے نزدیک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کا لفظ دو ثلاثی لفظوں کو ملاکر بنایا گیا ہو یعنی جہن اور جہم کو.جہن کے معنے عربی زبان میں قریب ہونے کے ہیں اور جہم کے معنے برا منہ بناکر ملنے کے ہیں.پس جہنم اصل میں جہن جہم ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ چیز جس کی طرف انسان شوق سے جاتاہے مگر جب پا س جاتا جاتاہے تو منہ بناتاہے.درحقیقت اس نام میں ہی جہنم کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ انسان پہلے دوزخ میں لےجانے والے افعال کا ارتکاب ان کو اچھا سمجھ کر کرتاہے مگر ان افعال کی وجہ سے جب وہ دوزخ کے قریب پہنچتاہے تو منہ بنا نے لگ جاتاہے کہ یہ تو بڑا برامقام ہے گویا اس کیفیت کے اظہار کے لئے جو دوزخ دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے اور ان کا موں کی وجہ سے جن کو بظاہر انسان اچھا سمجھتاہے مگر وہ اسے دوزخ کے قریب کرتے چلے جاتے ہیں اس مقام کا نام جہنم رکھا گیاہے.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی رنگ میںایک لفظ کی تشریح کی ہے.آپ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘میں تحریر فرماتے ہیںکہ خنزیر کا لفظ دراصل خنز اور ار سے مرکب ہے خنز کے معنے ہیں ’’بہت برا‘‘ اور اَر کے معنے ہیں ’’دیکھتا ہوں ‘‘.پس خنزیر کے معنے یہ ہیں کہ میںاس کو بہت برا ،فاسد اور خراب دیکھتا ہوں (روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۳۸).یعنی اس جانور کے اندر بعض ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اس کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے والی ہیں.اس شکل میں مَیں سمجھتاہوں کہ جہنم بھی جہن اور جہم سے مرکب ہے یعنی جہنم ایک ایسی چیز ہے جس کے قریب جانے کی انسان
کوشش کرتاہے یعنی وہ ایسے افعال پسند کرتاہے جو اسے جہنم کے قریب لے جانے کا موجب ہوتے ہیں.مگر جب جہنم اسے نظر آتاہے تو اس کی بری شکل ہوجاتی ہے اور وہ کہتاہے اوہو یہ تو بہت برا مقام ہے.جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے جَثَایَجْثُوْ کے معنے ہوتے ہیں گھٹنوں کے بل گرجانا یا انگلیوں کے بل کھڑاہوجانایعنی انسان جب کسی چیز کو اپنی ایڑیاں اٹھاکر اور انگلیوںکے بل کھڑے ہوکر دیکھنے کی کوشش کرتاہے تو اس حالت کو جِثِیًّا کہتے ہیںاور جب وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتاہے جیسے تشہد کی حالت میں بیٹھتے ہیں تو اس حالت کو بھی جِثِیًّاکہتے ہیں اس جگہ یہ دونوں معنے چسپاں ہوجاتے ہیں کیونکہ جہنم کا ذکر ہے اور انسانی فطرت میںیہ بات داخل ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو پہلے وہ اسے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور انگلیوں کے بل کھڑے ہو کر جھانگتاہے کہ کیا چیز آرہی ہے یا کونسی مصیبت ہے جس میں مَیں گرفتار ہونے والا ہوں مگر جب وہ مصیبت کو دیکھ لیتا ہے تو اس کی طاقت زائل ہوجاتی ہے اور وہ گھٹنوں کے بل گرجاتاہے.ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ پھر ہم ہر ایک گروہ میں سے ایسے لوگوں کو الگ کرلیں گے جو (خدائے ) رحمٰن کے سخت دشمن تھے.اور ہم عِتِيًّاۚ۰۰۷۰ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا۰۰۷۱ خوب جانتے ہیںکہ ان میں سے کون دوزخ میں جانےکے زیادہ قابل ہے.حلّ لُغَات.الشِّیْعَةُ کے معنے ہیں اَلْفِرْقَۃُ گروہ (اقرب).ثُمَّ حَرْفُ عَطْفٍ.یَدُلُّ عَلَی التَّرْتِیْبِ وَالتَّرَاخِی یعنی ثُمَّ حرف عطف ہے جو کبھی ترتیب کے بیان کرنے کے لئے آتاہے اور کبھی یہ بتانے کےلئے کہ یہ کام دیر سے ہوا ہے (اقرب) صِلِّیٌّ.صَلِیَ النَّارَ کے معنے ہوتے ہیں قَاسٰی حَرَّھَا وَ احْتَرَقَ بِھَا وَ دَخَلَ فِیْھَا کہ آگ کی گرمی برداشت کی اور اس میںجلا اور اس میں داخل ہوا (اقرب) صِلِیٌّمصدر ہے گویا اس کے معنے ہوںگے آگ میںجلنا یا اس کی گرمی برداشت کرنا.تفسیر.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہرگروہ کفار میں سے ان کے سرکردہ لوگوں کو خاص سزا دینے کے لئے الگ کرلیا جائے گا.اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا میں علیٰ کے معنے خلاف کے ہیں
تفسیر.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہرگروہ کفار میں سے ان کے سرکردہ لوگوں کو خاص سزا دینے کے لئے الگ کرلیا جائے گا.اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا میں علیٰ کے معنے خلاف کے ہیں یعنی وہ لوگ جو خدائے رحمٰن کے خلاف سب سے زیادہ سرکشی اور تمرد اختیار کرنے والے ہوں گے.اس کے بعدفرمایا ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا اورہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو آگ کے عذاب کے زیادہ مستحق ہیں.ان آیات میں پہلا ثُمَّ ترتیب کے لحاظ سے ہے اور دوسرا ثُمَّ خالص عطف پر دلالت کرتاہے اور یہ پہلے مضمون کی تشریح ہے کہ ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا یہ ثُمَّ ایسا ہی ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں کہ ’’اور بات یہ ہے ‘‘اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پہلی بات کے بعد یہ بات ہوئی بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ اس بات کے ساتھ ہی ایک یہ بات بھی ہے اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِيْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا ایک یہ بات بھی ہے کہ ہم سب سے زیادہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جو اس آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں.غرض پہلاثُمَّ یعنی ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ میں جو ثُمَّ آیاہے وہ ترتیب کے لحاظ سے ہے یعنی پہلے واقعہ کے بعد یہ ہوگا لیکن ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ میں درجہ مراد ہے کیونکہ ثُمَّ کا لفظ عربی زبان میں زمانہ ؔاور مکانؔ اور وضعؔ کی ترتیب کے لئے بھی آتاہے اور مراد یہ ہے کہ ہم خوب جانتے ہیںکہ ان کے مدارج کفر کیا ہیں اور کون کس مقام پر رکھے جانے کے قابل ہے.کیونکہ علم الٰہی نزوع کے بعد نہیں آتابلکہ وقت کے لحاظ سے علم عمل سے پہلے ہوتاہے.پس یہاں ثُمَّ سے مراد بعد نہیں ہوسکتا کیونکہ فرماتا ہےثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ پس یہ جاننا درجہ کے لحاظ سے ہے وقت کے لحاظ سے نہیں.پہلے فرمایا کہ ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا ہم کفار کے ہرگروہ میں سے ان کے بڑے بڑے لیڈروںکو نکال لیں گے.پھرکہا کہ بات تو یہ ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کون اس عذاب کا زیادہ مستحق ہے اور جاننا ہمیشہ کام سے پہلے ہوتاہے.تم پہلے ایک بات کو جانتے ہو اور پھر کام کرتے ہو.تم نے لاہور جانا ہے توپہلے تمہارے دل میں لاہور جانے کا خیال آئے گا اور پھر تم لاہور جائوگے.تم نے مدرسہ جانا ہے تو پہلے مدرسہ جانے کا خیال آئے گا اور پھر تم مدرسہ جائو گے.تم نے کھانا کھانا ہے تو پہلے تمہارے دل میںکھانا کھانے کاخیال آئے گا اورپھر کھانا کھائو گے.تو جب بھی انسان کوئی کام کرنے لگے گا علم پہلے ہوگا اورکام بعد میںہوگا.مگر یہاں علم سے پہلے ثُمَّ کالفظ ہے اور چونکہ علم ہمیشہ پہلے ہوتاہے اورکام بعد میں ہوتاہے اس لئے پتہ لگ گیا کہ یہ ثُمَّ درجہ کے لحاظ سے ہے یعنی ہم اس بات کو خوب جانتے ہیںکہ کون کس عذاب کا مستحق ہے.پس یہاں یہ مر اد نہیں کہ یہ بات پہلے فعل کے بعد ہوگی.بلکہ یہ مراد ہے کہ جولوگ درجہ کفر میں بڑے ہیں ان کو پہچاننا تو ہمارے علم کا حصہ ہے.اَيُّهُمْ اَشَدُّ کے متعلق مفسرین نے بحث کی ہے کہ یہاں اَیَّھُمْ چاہیے تھا لیکن آیااَيُّهُمْ ہے اس کے متعلق خلیل کہتاہے کہ یہ رفع حکایت کی وجہ سے آیا ہے اور مراد یہ ہے ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ الَّذِیْنَ یُقَالُ مِنْھُمْ اَيُّهُمْ اَشَدُّ یعنی ہم ایسے لوگوں کو جن کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ وہ سب سے زیادہ سرکش اور متمرد ہیں دوسروں سے علیحدہ کرلیں گے لیکن بعض نے کہا ہے کہ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ میں نَنْزِعَنَّ کا مفعول مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ آچکاہے اور اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا ایک زائد مستقل جملہ ہے.اور مراد یہ ہے کہ پوچھنے والا پوچھتا ہے ’’وہ کون ہیں ‘‘تو اس کا جواب ملتاہے اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا یعنی جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ ہم ہرگروہ کفار میں سے ایک جماعت کو الگ کرلیںگے تو پوچھنے والا پوچھتاہے وہ کو ن لوگ ہیں اس پر وہ کہتاہے اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا
خلیل کہتاہے کہ یہ رفع حکایت کی وجہ سے آیا ہے اور مراد یہ ہے ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ الَّذِیْنَ یُقَالُ مِنْھُمْ اَيُّهُمْ اَشَدُّ یعنی ہم ایسے لوگوں کو جن کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ وہ سب سے زیادہ سرکش اور متمرد ہیں دوسروں سے علیحدہ کرلیں گے لیکن بعض نے کہا ہے کہ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ میں نَنْزِعَنَّ کا مفعول مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ آچکاہے اور اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا ایک زائد مستقل جملہ ہے.اور مراد یہ ہے کہ پوچھنے والا پوچھتا ہے ’’وہ کون ہیں ‘‘تو اس کا جواب ملتاہے اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا یعنی جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ ہم ہرگروہ کفار میں سے ایک جماعت کو الگ کرلیںگے تو پوچھنے والا پوچھتاہے وہ کو ن لوگ ہیں اس پر وہ کہتاہے اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا بعض نے کہا ہے کہ اس کی ایک قرأت اَیَّھُمْ بھی آتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہرگروہ میں سے جو خداکے زیادہ منکر ہیں ان کو نکال لیاجائے گا.(تفسیر قرطبی زیر آیت ھٰذا) صِلِيًّاکے معنے صرف آگ میںجل جانے کے نہیں بلکہ جو شخص آگ کی گرمی سے متاثر ہو اس کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کرلیا جاتاہے چنانچہ کہتے ہیں صَلِیَ النَّارَ وَ بِھَا قَاسٰی حَرَّھَا اَوِ احْتَرَقَ یعنی صَلِیَ النَّارَ وَبِھَاکے یہ معنے ہوتے ہیںکہ اس نے آگ کی گرمی محسوس کی یا اس سے جل گیا.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ نے اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّا کیوں کہا اَوْلٰى بِهَا صِلِيًّاکے یہاں دو معنے ہوسکتے ہیں.ایک یہ کہ یہ لوگ دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں آگ میں پڑنے کے اور دوسرے یہ کہ بہ نسبت دوسری چیز وںکے یہ لوگ آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں یعنی اَوْلٰى بِالنَّارِ صِلِيًّا یا اَوْلی النّاس بِالنَّار بہ نسبت اور چیزوںکے یہ آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں یا بہ نسبت اور لوگوں کے یہ آگ کے عذاب کے زیادہ مستحق ہیں.پس سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ دوسرے کون ہیں جن کے مقابل پر یہ آگ کے زیادہ مستحق ہیں یا دوسری کونسی عذاب کی اقسام ہیں جن کے مقابل پر یہ آگ کے زیادہ مستحق ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اصحاب تثلیث کا ذکر ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ اصحاب تثلیث کی ترقی کا زیادہ تر تعلق آلات نار سے ہوگا اور وہ اپنے مخالفوںکو بھی زیادہ تر آلات نارسے ہی ڈرائیں گے.مثلاًبندوق ہے.توپ ہے، بم ہے، یا اب ایٹم بم نکل آیا ہے.ان سب میں آگ سے کام لیا جاتاہے.اس سے پہلے لوگ لوہے سے کام لیتے تھے مثلاًتلوار تھی ،نیزہ تھا ،ہتھوڑے تھے ، گرز تھے اور یا پھر پتھر اور غلیل وغیرہ سے کام لیتے تھے لیکن یاجوج وماجوج کا زمانہ آیا تو انہوں نے آگ سے کام لینا شروع کردیا.ان کے ناموں میں بھی اس طرف اشارہ کیاگیا تھا.چنانچہ یہ دونوںلفظ اَجَّ سے نکلے ہیں جس کے معنے آگ کے ہیں(اقرب) گویا یاجوج و ماجوج ان کا اس
لئے نام رکھا گیاتھا کہ انہوں نے آگ سے زیادہ کام لینا تھا اور آتشین اسلحہ کے استعمال سے ہی انہوں نے دنیا پر غلبہ پانا تھا چنانچہ دیکھ لو پستول.ریوالور.بندوق.رائفل.بم اور پھر ایٹم بم یہ سارے کے سارے آگ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مخالفوںکو مغلوب کرنے کا ان کے پاس یہی ایک ذریعہ ہے مسلمانوں کو بھی انہوں نے انہی آلات حرب سے مغلوب کیا ہے.بدقسمتی سے مسلمانوں نے یہ چیزیں استعمال نہ کیں.کیونکہ ان کے مولویوں نے ان کو خراب کیا اور کہا کہ آ گ سے کسی کو عذاب دینا سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے جائز نہیں.یا کہہ دیا کہ یہ کوئی جادوہے جس کے زور سے یکدم بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں.ورنہ ہتھیار ہوتا تو اس کے استعمال سے ایک ایک آدمی مرتا.پس چونکہ یہ جادو ہے اور جادو سیکھنے سے شیطان کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے اس لئے ان آلات کا استعمال جائز نہیں.پس مسلمانوںپر جو تباہی آئی اس کی زیادہ تر وجہ یامولویوں کے فتوے ہیں اور یا پھر مغربی اقوام کے آتشین اسلحہ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن جب ہماری سزاکا وقت آئے گا تو یہ لوگ دوسروں سے زیادہ آگ کے مستحق ہوںگے.کیونکہ باقی لوگوں نے آگ سے اتنا کام نہیں لیا جتنا ان لوگوں نے لیا ہے.میں سمجھتاہوں اگر باقی ساری دنیا کے آلات حرب جمع کرلئے جائیں تو وہ ان لوگوںکی ایک چھوٹی سے چھوٹی حکومت کے اسلحہ سے بھی کم ہوںگے.اگر ہندوستان ،پاکستان اورچین کی حکومتوں کے پاس جس قدر سامان حرب ہے وہ جمع کیا جائے تو میں سمجھتاہوں کہ جتنی بندوقیں اور گولیاں ان تینوںممالک کے پاس مجموعی طور پر ہوںگی وہ شائد فرانس کے برابر بھی نہیں ہوںگی پس چونکہ ان لوگوںنے سب سے زیادہ آگ کی کھیل کھیلی ہوگی اس لئے ہم بھی سب سے زیادہ انہی لوگوں کو آگ کا عذاب دیں گے اور اس دن انہیں معلوم ہوجائے گاکہ آگ کے عذاب کے یہ لوگ زیادہ مستحق ہیںیا دوسرے.عذاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوںگے کہ کئی قسم کے عذاب ہوسکتے ہیں.مثلاً پانی کا بھی عذاب ہو سکتا ہے.بیماریوں کا بھی عذاب ہو سکتا ہے.سردی کا بھی عذاب ہو سکتا ہے اور خوفناک نظاروںکا بھی عذاب ہو سکتا ہے.مگر انہوں نے چونکہ لوگوں کو آگ کا عذاب دیا ہوگااس لئے آگ کا عذاب ہی ان کے زیادہ مناسب ہوگایعنی ان پر ایسے عذاب نازل ہوں گے جن میں سوزش اور جلن اور آگ پائی جاتی ہوگی.اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی سوزش کا عذاب ان لوگوں کے لئے مقدر ہے.
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّاۚ۰۰۷۲ اور تم میں سے ہر شخص اس (یعنی دوزخ )میں جانےوالا ہے یہ خدا (تعالیٰ )کا ایسا پکا وعدہ ہے جو ہوکر رہے گا.ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا۰۰۷۳ اور ہم متقیوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیںگے.تفسیر.وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا کے لفظی معنے یہ ہیں کہ تم میں سے کو ئی شخص نہیںمگر وہ اس آگ میں داخل ہونے والا ہے.عام طور پر ہمارے مفسرین نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ ہر انسان دوزخ میں ڈالاجائے گا (تفسیر مجاھد زیر آیت ھذا)مگر یہ غلط ہے اس لئے کہ یہاں ذکر ہی کا فروں کا ہے مومنوں کا ذکر نہیںچنانچہ فرمایا تھا وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا انسان کہے گاکہ کیا جب میں مرجائوں گا توپھر زندہ کرکے اٹھایا جائوںگا اب کیا یہ مومن کہا کرتے ہیں کہ ہم نے مر کر نہیںاٹھنا.اس میں بہر حال انہی لوگوں کا ذکر ہے جو کہتے ہیںکہ ہم نے مرکرنہیںاٹھنا یا اس زندگی کے متعلق ان کے دلوں میں شبہ والی کیفیت پائی جاتی ہے اسی طرح فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَ الشَّيٰطِيْنَ میں بھی کفار کا ذکر ہے ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ اَيُّهُمْ اَشَدُّ عَلَى الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا میں بھی انہی کا ذکر ہے پس جبکہ اس جگہ پرذکر ہی کفار کا ہے تو اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا سے بھی کفار ہی مرادہوں گے اورانہی کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا یہ تیرے رب کا وعدہ ہے جوضرور پورا ہونے والا ہے حَتْمًا مَّقْضِيًّاکے معنے ہیں وعْدًا واجِبًا مقْضِیًّاایساوعدہ جو واجبی ہے اور لازمی ہے اور ضرور پورا ہو کررہے گا.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے عام تفسیری معنے قبول کئے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام (صفحہ۱۴۳و ۱۴۴)میں تحریر فرمایا ہے کہ اِنْ مِّنْكُمْ سے سب انسان مراد ہیں اورہر انسان دوزخ میںجائے گا لیکن معنے یہ کئے ہیں کہ دوزخ دو قسم کی ہے ایک اس دنیا کی اور ایک اگلے جہاں کی کفار تو اگلے جہان کی دوزخ میں گرائے جائیں گے مگر مومنوں کو اگلے جہان کی دوزخ میں نہیں گرایاجائے گا.بلکہ اسی دنیا میں ان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جو تکالیف پہنچتی ہیں وہ اس دوزخ کاقائم مقام ہوجائیں گی.گویا آپ نے اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا کو پچھلی آیات کے ساتھ ملاکر اس کے معنے نہیں کئے بلکہ مستقل طور پر اس آیت سے ایک نتیجہ نکالا ہے اور فرمایا ہے کہ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا
وَارِدُهَا کے یہ معنے ہیں کہ تم میں سے ہرشخص اس دوزخ میں داخل ہونے والا ہے.مگر کفار تو اگلے جہاں کی دوزخ میں ڈالے جائیں گے اورمومنوں کو اس دنیا میں جو تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں وہ اس جہنم کا قائم مقام ہوجائیںگی اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معنے بھی درست ہیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومنوں کو کافروں سے بہت زیادہ دنیاکی تکالیف پہنچتی ہیںبلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کاکو ئی شخص جتنا زیادہ پیا را ہوتاہے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا کی تکلیفیں پہنچتی ہیں پس یہ معنے بھی صحیح ہیں.احادیث میں بھی اس آیت پر بحث آئی ہے جس سے معلو م ہوتاہے کہ جو معنے میں نے کئے ہیں اور جو معنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے ہیں وہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں چنانچہ حضرت حفصہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بدراور حدیبیہ کے صحابہ ؓ میں سے کوئی شخص دوزخ میں نہیں جائے گا.حضرت حفصہؓ کہتی ہیں میں نے کہا یَارَسُوْلُ اللہِ وَ اَیْنَ قَوْلُ اللہِ تَعَالیٰ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا یعنی اگر یہ بات درست ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا یہ قول کہاں گیا کہ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا یعنی اس میں تو یہ ذکر ہے کہ سب لوگ دوز خ میں جائیںگے اس پرآپ نے فرمایا مَہْ یعنی بس بس! جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیںکہ چپ بھی کر وہ آیت کہاں گئی کہ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا (مسلم کتاب فضائل اصحابہ بحوالہ تفسیر جامع البیان ) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہاںثُمَّ کے معنے اورکے ہیں.ورنہ حضرت حفصہ ؓ کی بات کی تردید نہیں ہوتی بلکہ اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیںکہ پھر ہم متقیوںکو نجات دیں گے تواس کے معنے یہ بنتے ہیںکہ متقی بھی دوزخ میں ڈالے جائیںگے گویا وہی بات ثابت ہوجاتی ہے جو حضرت حفصہ ؓ نے کہی تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات کی تردید فرماتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے یہاںثُمَّ کے معنے اورکے کئے ہیں اور اسے ایک الگ جملہ قراردیاہے گویا نجات پانے والے وہ ہیں جو جہنم میں نہیں جائیںگے اور اگریہ الگ جملہ نہ ہو تو حضرت حفصہ ؓ کی بات ٹھیک ہوجاتی ہے.اس حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا کو ایک الگ قول قراردیاہے اوریہ مرادلی ہے کہ ہم دوزخیوںکو دوزخ میں ڈالیں گے اورمومن کودوزخ میں ڈالے بغیر جنت میں لے جائیںگے.زجاج کہتے ہیں کہ ایک دوسری آیت بھی اس مضمون کی تائید کرتی ہے کہ مومن دوزخ میں ڈالے بغیر جنت میں داخل کئے جائیں گے اور وہ آیت یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ (الانبیاء:۱۰۲)
یعنی وہ لوگ جن کے متعلق ہماری طرف سے یہ فیصلہ کیاجاچکا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے گا وہ دوزخ کے قریب بھی نہیں جائیںگے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف یہ کہ دوزخ میں نہیںڈالاجائے گا بلکہ دوزخ کے قریب بھی نہیںجائے گا.پس زجاج کہتے ہیں کہ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا سے یہی مراد ہے کہ کفار دوزخ میںجائیںگے اور ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا ایک الگ قول ہے اوراس کے معنے یہ ہیںکہ ہم مومنوں کو دوزخ میںڈالے بغیر جنت میںلے جائیںگے زجاج کے علاوہ مجاہد کا بھی یہی قول ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کی جو تشریح فرمائی ہے اس کی تصدیق بھی حدیثوں سے ہوتی ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بخار کے متعلق بتایا کہ یہ کیا چیز ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھِی نَارِیْ اُسَلِّطُہَا عَلَی عَبْدِی الْمُؤْمِنِ لِتَکُوْنَ حَظَّہُ مِنَ النَّارِ یہ میری آگ ہے جو میں اپنے مومن بندہ پر اس لئے مسلّط کرتاہوں کہ اگلے جہان کی دوزخ کا حصہ اس کو یہیں مل جائے.یہی حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیںکہ مومن کو اس دنیا میں جوتکلیفیں پہنچتی ہیںوہ درحقیقت اگلے جہان کی دوزخ کا ایک حصہ ہوتی ہیں.اسی طرح رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلْحُمَّی حَظُّ الْمُوْمِنِ مِنَ النَّارِ بخار دوزخ میں سے مومن کا حصہ ہے یعنی مومن اگلے جہان کی دوزخ میں تونہیں ڈالاجاتا لیکن جب یہاں اسے بخار چڑھ جاتاہے یا اور بیماریاں آجاتی ہیں تو اسے بھی اس آگ سے ایک حصہ مل جاتاہے.گویا کافراگلے جہان میں مرنے کے بعد آگ کے عذاب میں مبتلا کیا جائےگا اور مومن اسی دنیا میں مختلف تکالیف سے حصہ لےکر جو درحقیقت دوزخ کا ہی ایک حصہ ہے اگلے جہان میں جنت میں چلا جائے گا.یہ دونوں حدیثیں قرطبی نے تہذیب التہذیب اور طبری کے حوالہ سے بیان کی ہیں.اور یہ جو میں نے معنے کئے ہیں کہ یہاں اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاسے کافر مراد ہیں اور جودرحقیقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے(حقائق الفرقان جلد ۳ زیر آیت ھذا) حدیثوںسے بھی یہ معنے ثابت ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ بھی اسی کے قائل تھے اورکہتے تھے کہ ھٰذَ اخِطَابٌ لِلْکُفَّار(قرطبی) اس سے مومن مراد نہیں بلکہ کافرمراد ہیں اور وہ اس آیت کی تشریح اِنْ مِّنْکُمْ کی جگہ اِنْ مِّنْھُمْ پڑھ کر کیا کرتے تھے (قرطبی ) یعنی وہ کافر جن کا پہلے ذکر ہے ا ن میں سے ہر شخص دوز خ میں ڈالا جائے گا.عکرمہ اور ایک اورتابعین کی جماعت بھی اس قرأت کو جائز قراردیتی تھی کہ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا کی جگہ اِنْ مِّنْھُمْ اِلَّا وَارِدُھَا پڑھاجائے قرطبی کہتے ہیںکہ یہ جائز ہے کہ مِنْکُمْ ہو مگر ضمیر غائب مراد ہو جیسے قرآن کریم میںدوسری جگہ آتاہے کہ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا.اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا (الدھر:۲۲.۲۳) یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا
طَهُوْرًا اور پلائے گا ان کو ان کا رب ایک پاک کرنےوالا شربت مگر آگے فرماتا ہے اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً وَّ كَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزاء ہے اور تمہاری کوششوںکی قدر کی گئی ہے اس جگہ پہلے سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ کہہ کر غیب کی ضمیر استعمال گئی ہے اور پھر ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ اِنَّ هٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَآءً یہ تمہارے لئے جزاء ہے كَانَ سَعْيُكُمْ مَّشْكُوْرًا اور تمہاری سعی کی قدر کی گئی ہے اس مثال کوپیش کرکے علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا میں بھی غائب کی ضمیر کی طرف مِنْکُمْ کہہ کر اشارہ کیاگیا ہے اورمراد کافرہی ہیں مومن نہیں.غرض دونوںمعنے جومیں نے اوپر کئے ہیںوہ حدیثوں سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اقوال سے بھی ثابت ہیں.وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا او رجب انہیں ہماری کھلی کھلی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کافر مومنوںسے کہتے ہیں (بتاؤ تو) ہم دونوں فریق لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِيًّا۰۰۷۴ میں سے کون سا فریق درجہ کے لحاظ سے اور ہم جلیسوں کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے.حل لغات.النَّدِیُّ کے معنے ہیں النَّادِیْ.مجلس (اقرب) تفسیر.وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ کالوگ عموماًغلط ترجمہ کرتے ہیں.شاہ رفیع الدین صاحب نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے.کہ ’’جب پڑھی جاتی ہیں اوپر ان کے نشانیاں ہماری ظاہر ‘‘.حالانکہ یہ نہ اردو ہے اور نہ اس کے کوئی معنے ہیں تَلَاعَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں ’’اس کو پڑھ کر سنایا ‘‘جب انسان ایسی طرز پر پڑھے کہ اس کی غرض یہ ہوکہ دوسرا بھی سن سکے تو اس کے لئے عربی زبان میں تلاعلیہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں.پس وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ کاترجمہ یہ ہوگا کہ جب ہماری آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیںجو بَیِّنَاتٍ بھی ہوتی ہیں.عربی زبان اور قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ جو الفاظ وہ کسی مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کرتاہے ان میںنہ صرف اشارہ پایا جاتاہے بلکہ اس مضمون کی وضاحت بھی انہیں الفاظ میں موجود ہوتی ہے.مثلا ًاردو میں عام طور پر نشانات الہیہ کے متعلق معجزہ یا نشان وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیںحالانکہ ان میں سے کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو معجزات کی غرض وغایت اور ان کے حقیقی مقصد کو واضح کرنے والا ہو معجزہ بھی یوں تو عربی
زبان کا ہی لفظ ہے مگر قرآن کریم نے اس لفظ کو کہیں استعمال نہیں کیا.اسی طر ح حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال نہیںہوا.یہ لفظ لوگوں نے خود وضع کیاہے مگر یہ بھی اس مفہوم کو ادانہیںکرتاجس کے لئے اسے تجویز کیا گیا ہے.قرآن کریم نے اس کےلئے آیت کا لفظ استعمال کیاہے آیت کے معنے علامت اور نشان کے ہوتے ہیں.اسی سے نشان کالفظ بنایا گیاہے مگر نشان کا لفظ بھی وہ مضمون ادانہیں کرتاجو آیت کا لفظ اداکرتاہے آیت کالفظ اس بات پر دلالت کرتاہے.کہ کوئی چیز کسی دوسری چیز کی طر ف اشارہ کرتی اور اس کی طرف راہنمائی کرتی ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر کئے جاتے ہیں وہ بغیر کسی مقصد کے نہیںہوتے کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی غرض ان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے معجزہ کا لفظ صرف ایک طاقت کا اظہار کرتاہے جیسے کسی کو ڈنڈاماراجائے اور وہ بھاگ جائے تو اس ڈنڈامارنے والے کی طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن آیت یہ بتاتی ہے کہ کسی خاص مقصد کو سامنے رکھا گیاہے اور اس مقصد کو واضح کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کےلئے اسے ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیاہے.دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہر مذہب لوگوںکے سامنے بعض ایسی چیزیں بھی پیش کرتاہے جو نظر نہیں آتیں.اور چونکہ وہ پوشیدہ ہوتی ہیں ان کے ثبوت کےلئے بعض دوسری دلیلیں پیش کرنی پڑتی ہیں.ان میں سے بعض دلیلیں تو خالص عقلی ہوتی ہیں اور بعض دلیلیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت اور اس کے علم غیب کا بھی ثبوت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا سمجھنا لوگوںکے لئے زیادہ آسان ہوتاہے.مثلاًانبیاء کی نبوت کا مسئلہ ہے.آج تک دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا کہ آسمان سے فرشتہ آیا ہو اور اس نے کسی نبی سے باتیںکی ہوں.پس چونکہ یہ ایک مخفی چیز ہے اس لئے اس کی تصدیق آیات سے کی جاتی ہے جواس بات کی علامت ہوتی ہیں کہ یہ نبی جو کچھ کہہ رہا ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہا ہے اسی طر ح خدا تعالیٰ کا وجود آج تک کسی نے نہیں دیکھا.پس اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے بعض دلائل دیئے جاتے ہیں جن سے وہ وجود ہماری آنکھوں کے قریب آجاتاہے اور عقل قبول کر لیتی ہے کہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور اس کے اندر یہ یہ صفات پائی جاتی ہیں.ایسی دلیلیں قرآن کریم کی رو سے آیات کہلاتی ہیں.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے علم غیب یا اس کی قدرت یا اس کے حی وقیوم ہونے کے ثبوت کے طورپر ظاہر ہوتی ہیں.مثلاًایک نبی غیب کی خبر دیتاہے اور ساتھ ہی کہتاہے کہ خد انے مجھے یہ خبر بتائی ہے.اب ہرشخص جانتاہے کہ انسان میں غیب معلوم کرنے کی طاقت نہیں.اگر ہو تو یہ کبھی نہیں ہوسکتاکہ وہ اس طاقت کو اپنی طرف منسوب نہ کرے.ہم تو
دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی شہرت کے لئے دوسروں کی خوبیاں بھی اپنی طرف منسوب کرلیتے ہیں.کتاب پڑھیں گے اور اس کے مضامین اپنے نام پر شائع کرنے شروع کردیں گے مصنف کہیں بیٹھا ہوا ہوتاہے اور اس کی محنت اپنی طرف منسوب کرناشروع کردیتے ہیںبلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی اچھا کام ہو لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے اپنی طرف منسوب کرلیں.ہمارے سکول کی ٹیم ایک دفعہ امرتسر کھیلنے کے لئے گئی.میں اس وقت اگر چہ تعلیم سے فارغ ہوچکا تھا لیکن میرا مدرسہ سے ابھی تعلق قائم تھا کیونکہ میں نیا نیا نکلاتھا اس لئے میں بھی ساتھ چلاگیا.وہاں خالصہ کالج والوں سے میچ مقرر تھا.وہ دوست جنہوں نے کھیل میں حصہ لینا تھاوہ تو وہیںرہے اورمیں لاہور چلاآیا.جب واپس گیا تو بعض دوست جو مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے تھے وہ میرے استقبال کے لئے سٹیشن پرآگئے.ان میں سے ایک نے بتایاکہ ہمارا میچ بڑا شاندار رہا.لوگوں نے خوب داددی اورہم نے بڑی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے.اس خبر سے مجھے طبعاً خوشی ہوئی اور میں نے کہا الحمدللہ.پھر وہ کہنے لگایوں تو سب کی ہی تعریف ہوئی مگر ہمارے کیپٹن کی لوگوں نے اس قدرتعریف کی کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں.مجھے اس سے اورزیادہ خوشی ہوئی کیپٹن میاں بشیر احمد صاحب کے سالے تھے اور وہ واقعہ میں بہت اچھے کھلاڑی تھے.مگر اس کے بعد کہنے لگا ایک عجیب بات آپ کو یہ بتائوں کہ ٹیم کا کیپٹن سب لوگ مجھے سمجھتے تھے.گویا جس قدر کیپٹن کی تعریف ہوئی وہ سب اس نے اپنی طرف منسوب کرلی.تو دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی کی اچھی چیز لوگوں کو نظر آئے توان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنی طرف منسوب کرلیں لوگ شاعروں کے شعر چراکر اپنے نام سے شائع کروادیتے ہیں مگر ایسا کون بے وقوف ہوگا جو اعلیٰ درجہ کا شاعر ہو بڑے بڑے شاعروں اورادیبوں سے خراج تحسین حاصل کرنےوالا ہو اور پھر وہ اپنے شعر کے متعلق کہے کہ یہ میرا نہیں بلکہ فلاں شاعر کاہے.ہاں ادنیٰ درجہ کے لوگ ایسا کرلیتے ہیں کہ خود شعر بنایا اور لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کےلئے کہہ دیا کہ یہ انوری کاہے یا خاقانی کا ہے یاسعدی کیا ہے یا حافظ کا ہے.غرض یہ تو ہو جاتا ہے کہ دوسروں سے تعریف کروانے کے لئے بعض دفعہ اپنی چیز لوگ مشہور آدمیوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں مثلا ًحدیث خود بنائی اور کہہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے لیکن یہ مثال کہیں نظر نہیں آئے گی کہ کوئی قادر الکلام انسان اپنا کلام دوسرے کی طر ف منسوب کردے.خود اعلیٰ درجہ کا شعر کہے اور منسوب اسے کسی اور کی طرف کردے کیونکہ کوئی شخص ایسی بات دوسرے کی طر ف منسوب کرنےکے لئے تیارنہیں ہوسکتا جس سے اس کی اپنی شہرت میں اضافہ ہوتاہو.
اب اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کر و کہ ایک نبی جب دنیا میں آتاہے اور غیب کی خبریں لوگوں کو بتاتاہے تو وہ یہ نہیں کہتاکہ میں ایسا کہتا ہوں.بلکہ کہتاہے کہ خدا نے مجھے یہ بات کہی ہے.اگر اسے ذاتی طور پر غیب کا علم حاصل ہوتو غیب کی خبریں اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے.وہ اسی لئے ان خبروں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتاہے کہ اسے کامل یقین ہوتاہے کہ خدا نے ہی اسے یہ خبر یں بتائی ہیں ورنہ وہ اپنی خوبی کسی اور کی طرف کیوںمنسوب کرے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غیب کی خبریں پوری بھی ہوجاتی ہیں اور اس طرح جہاں اس کی اپنی نبوت کی سچائی دنیا پر ظاہر ہوجاتی ہے اور پتہ لگ جاتاہے کہ ا س کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے وہاں یہ بھی پتہ لگ جاتاہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جو علم غیب جانتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا حی و قیوم ہونا ہے.ایک بیمار مرنے لگتاہے.اس کی نبضیں چھوٹ جاتی ہیںکہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اسے ہاتھ لگاتاہے اور اس میں زندگی کے آثار از سر نو ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں.اس کا سانس درست ہو جاتاہے.اس کے حواس قائم ہوجاتے ہیں اوراس کی کھوئی ہوئی طاقت پھر واپس آجاتی ہے.دیکھنے والا دیکھتاہے اورا س بات پر ایمان لاتاہے کہ ہمارا خداحی وقیوم ہے.کیونکہ اس شخص میں طاقت نہیں تھی کہ اسے اچھا کرتالیکن اس کی دعااور توجہ سے ایک مردہ جسم میں بھی جان پڑگئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا خدا حی و قیوم ہے یا مثلاً ایک شخص کے ہاں اولاد نہیںہوتی تھی سالہاسال گذر گئے اوراس کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا.خدا تعالیٰ کے ایک نبی یا اس کے کسی برگزیدہ بندہ نے اس کے لئے دعاکی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا.یہ نشان اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہمارا خداخالق ہے پس آیات ان نشانات کو کہتے ہیں جو کسی اعلی شئے کے ثبوت کے لئے ظاہر ہوتے ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے لئے یانبوت انبیا ء وغیرہ کے سمجھانے کے لئے گویاکوئی اہم مقصد ان کے سامنے ہوتاہے.بے موقع اور لغو طور پروہ ظاہر نہیں ہوتے.جیسے لوگوںمیں مشہور ہے کہ مکہ میں گدھوں والے جب مکہ سے باہرجاتے ہیں تو گدھوں پرپتھر لاد کرلے آتے ہیں مگر جب مکہ میں پہنچتے ہیں تووہ پتھر تربوز بن جاتے ہیں اب پتھروں اور تربوز کا آپس میں کوئی جوڑ نظر نہیںآتا اورنہ اس نشان کی کوئی ضرورت نظر آتی ہے لیکن اس نشان میں ہمیں ضرور جوڑ نظر آتاہے کہ خدا نے کہا کہ خانہ کعبہ محفوظ رہے گا.ابرہہ آیا اور وہ اپنی ساری طاقت اورقوت کے باوجود شکست کھا گیا یارسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میںجبکہ کوئی بھی آپ کےساتھ نہیںتھاخبردی کہ میں جیت جائوںگا اور پھر مکہ والوں کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود آپ جیت گئے اور آپ کے دشمن ناکام ونامراد رہے یہ آیتیں ہیں جوبتاتی ہیں کہ خداہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیںاورایک طاقتور ہستی ان کی
مدد کررہی ہے.پھر آیتیں دنیا میں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نشان توہوتی ہیں لیکن وہ اپنی غر ض وغایت بیان نہیںکرتیں لیکن فرماتا ہے یہ وہ آیات ہیںجوبیّنات ہیں یعنی نہ صرف کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتی ہیں بلکہ اس مقصد کو کھول کر بیان بھی کرتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیںکہ وہ نشان اپنی ذات میں کیوں ظاہر ہوگا گویا وہ کوئی بے معنی کام نہیں ہوتا.بلکہ جو بھی نشان آتاہے وہ نہ صرف خدااور اس کے انبیا ء وغیرہ کے لئے ثبوت ہوتاہے بلکہ خود اپنی ذات میں بھی موقع کے مناسب اور برمحل ہوتاہے.پس آیت بینّہ وہ ہے جو (۱) کسی اعلیٰ شئے کو دکھانے اور قریب کرنےکے لئے ظاہر ہو.اور.(۲) وہ بے معنی نہ ہو بلکہ موقع کی مناسبت ہو اور کسی مفید مقصد کے لئے ظاہر ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے خسرصوفی احمد جان صاحب جو ایک مشہور پیر اور بزرگ انسان تھے اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’براہین احمدیہ ‘‘ بھی پڑھی ہوئی تھی.انہوں نے جب آپ کی تشریف آوری کی خبر سنی تو بڑے خوش ہوئے اور اپنے ایک مرید سے جوکابل کے شہزادوں میں سے تھے آپ کی دعوت کروائی.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب آپ کو مکان تک پہنچانے کے لئے آپ کے ساتھ ہی چل پڑے.صوفی احمد جان صاحب رتر چھتّر والوں کے مرید تھے (رتّر چھتّر گورداسپور کے علاقہ میں ہے ) حضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے راستہ میں دریافت فرمایا کہ صوفی صاحب سنا ہے رتّر چھتّر والوں کی آپ نے بارہ سال تک خدمت کی ہے کیا آپ بتاسکتے ہیںکہ آپ نے ان کی صحبت سے کیا فیض حاصل کیا ؟ انہوں نے کہا حضور! وہ بڑے بزرگ اور باخدا انسان تھے.میں بارہ سال ان کی صحبت میں رہااور بڑا فائدہ حاصل کیا.پھر انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو ان کے پیچھے آرہا تھا اور کہاحضور! ان کی برکت سے اب مجھ میں اتنی طاقت پید اہوچکی ہے کہ اگر میں اس شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھوں تو فوراً زمین پر گرپڑے اور تڑپنے لگ جائے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے.تھوڑی دیر خاموش رہے اورپھر اس سوٹی کوجوآپ کے ہاتھ میں تھی زمین پر رگڑتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میاں صاحب پھر اس کا آپ کو کیا فائدہ پہنچا اور اگر ایسا ہوجائے تو اس شخص کو کیا فائدہ پہنچے گا(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۴۹ تا ۵۳) وہ چونکہ اہل اللہ میں سے تھے اس لئے آپ نے ابھی اتنا ہی فقرہ کہا تھا کہ و ہ فوراً سمجھ گئے اور کہنے لگے حضور میں وعدہ کرتاہوں کہ آئندہ میں ایسا نہیں
کروں گا میں سمجھ گیا ہوںکہ یہ ایک بے فائدہ چیز ہے.اس کادین اور روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اب بظاہر یہ ایک آیت تو تھی کیونکہ طاقت ظاہر ہوئی اور ایک چلتے ہوئے آدمی کو گرالیا مگر اس کا نیکی کے ساتھ کیا تعلق ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو مکا مار کر گرالیا جائے.کیو نکہ جس طرح مکا مارنے سے دوسرا گرجاتاہے اسی طرح ایک مسمر یزم کی مشق رکھنے والا آدمی دوسرے پر نظر ڈال کر اسے گراسکتاہے.پس اس سے اتنا توثابت ہو جاتا ہے کہ جس نے نظر ڈالی ہے اس میں بڑی طاقت ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ جس نے نظر سے دوسرے کو گرالیاہے اس کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے پس یہ ایک آیت تو تھی مگر بیّنہ نہیںتھی.بیّنہ وہ آیت ہوتی ہے جو اپنی غرض بھی بیان کرتی ہے.اور بتاتی ہے کہ اس نشان کا مقصد کیاہے.زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ الٰہی معجزات خالی آیت نہیں ہوتے.بلکہ ساتھ ہی وہ بیّنات بھی ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کی غرض کیا ہے.ان سے کونسا فائدہ مدنظر ہے اور دنیا کو کیا نفع پہنچانا مقصود ہے مثلاًحضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان فرمایا کہ پنجاب میں طاعون آئے گی (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۱).اب یہ ایک آیت تو تھی مگر ساتھ ہی بینہ بھی تھی.کیونکہ آپ نے تشریح کردی کہ چونکہ ان لوگوں نے الٰہی تعلیم کو چھوڑ کر دوزخ کی طرف اپنا قدم بڑھالیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ان پر دنیا میں ہی اپنا عذاب نازل کرے گا تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہواور وہ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوسکیں.اگر اس کی بجائے آپ صرف یہ کہہ دیتے کہ طاعون آئے گی جس سے دشمن کے آدمی بھی مر جائیںگے اور کچھ میرے آدمی بھی مریں گے تو یہ ایک آیت توہوتی مگر بیّنہ نہ ہوتی.غرض ان دوالفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی معجزات کی حقیقت بیان کر دی ہے اور بتایا ہے کہ الٰہی آیات کسی اہم مقصد کےلئے ظاہر ہوتی ہیں اس مقصد کو خوب کھول کر بیان کرتی ہیںاور پھر وہ آیات موقع کے مناسب اور بر محل ہوتی ہیں.اب بتاتاہے کہ وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِيًّا جب ہماری آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیںتو کافرمومنوں سے کہتے ہیں کہ ’’ نونقد نہ تیرہ ادھار‘‘ تم خبریں دے رہے ہو ’’تیرہ ادھار ‘‘کی اور ہم خبریں دے رہے ہیں ’’نو نقد ‘‘کی تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے پیچھے چلو گے تو تمہیں جنت ملے گی.تمہیں بڑے بڑے انعامات ملیں گے.اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوگی اور ہم کہتے ہیں کہ جوتیاں تمہاری ٹوٹی ہوئی ہیں.کپڑے تمہارے پھٹے ہوئے ہیں کھانے کوتمہارے پاس کچھ نہیں اور ہم
میں سے ہر ایک کے پاس دس دس نوکر اور غلام ہیں.گھروں میں دولت بھری ہوئی ہے.عزت ہماری زیادہ ہے.اختیارات ہمارے زیادہ ہیں.تعداد ہماری زیادہ ہے.تم ان باتوں میں ہمارا مقابلہ کر کے دیکھو.آئندہ کے متعلق تم کیا وعدے کرتے ہو.یہ دلیل یقیناًایسی ہے کہ اگر اس کا کوئی توڑ نہ ہوتو دوسرے کو ساکت اور لاجواب کرنے کے لئے بالکل کافی.وہ کہتے ہیں تم اور باتوں کو جانے دو.تم یہ بتاو کہہ تمہارا گھر اچھا ہے یا ہمارا ؟ تمہارے پاس سامان زیادہ اچھاہے یا ہمارے پاس ؟ معزز لوگ ہماری مجلسوں میں آتے ہیں یا تمہاری مجلسوں میں ؟مدد حاصل کرنےکے لئے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں یا تمہارے پاس.اگر مال ہمارے پاس زیادہ ہے ،دولت ہمارے پاس زیادہ ہے اختیارات ہمارے پاس زیادہ ہیں ، تعداد میں ہم زیادہ ہیں ،معزز لوگ ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ،مدد حاصل کرنے کے لئے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں ، بڑے بڑے عہدے ہمارے پاس زیادہ ہیں ،ہر قسم کا سازو سامان ہمارے پاس موجود ہے.تو ہم اچھے ہوئے یا تم اچھے ہوئے.وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے زمانوںکے لوگوں کو ہلاک کیا ہے جوسامانوں کے لحاظ سے اور ظاہر ی وَّرِءْيًا۰۰۷۵ شان وشوکت کے لحاظ (ان لوگوں سے)اچھے تھے.حلّ لُغَات.اَلْاَثَاثُ اَلْاَثَاثُ کے معنے ہیں مَتَاعُ الْبَیْتِ گھر کاسامان.وَقِیْلَ ھُوَ مَا یُتَّخَذُ لِلْاِسْتِعْمَالِ وَ الْمَتَاعُ لِلتِّجَارَۃِ اور بعض اہل زبان یہ کہتے ہیںکہ اَثَاثٌ اس سامان کو کہتے ہیں جو استعمال میں آتاہے وَقِیْلَ الْمَالُ کُلُّہُ اور بعض اہل زبان کہتے ہیںکہ سارے گھر کے سامان کو خواہ وہ کیسا ہو اثاث کہتے ہیں.(اقرب) الرِّأْیُاَلرِّأْیُ کے معنے ہیںاَلْمَنْظِرُ.منظر (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ا گر تو دولت موجودہ کا تمہارے پاس ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آئندہ یہ حالات بدلیں گے نہیں تو پھر تو یہ دلیل ٹھیک ہے اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ چیزیں تمہارے پاس ہیں ،ہمارے پاس نہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ کبھی تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ہم تم سے پہلے کتنے قرن
ہلاک کرچکے ہیں.قرن کے معنے ایک صدی کے بھی ہوتے ہیں اور صدی کے قریب زمانہ یعنی اسی نوے سال کو بھی قرن کہہ دیتے ہیں.اسی طرح ایک زمانہ یا ایک نسل کے لوگوں کو بھی قرن کہتے ہیں زمانہ کے دور کو بھی قرن کہتے ہیں اور ہر ایسی قوم جو تمام کی تمام ہلاک ہوگئی اور اس میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اسے بھی قرن کہتے ہیں.(اقرب) رِءْيًاکے معنے منظر یا اچھے منظر کے ہوتے ہیں.فرماتا ہے اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہوگاکہ کتنے ہی قرن ایسے گذرے ہیں جن کو ہم نے ہلاک کردیا.یعنی دنیا میں اب تک کتنی ہی قومیں ایسی گذر چکی ہیں جوتمام کی تمام ہلاک ہوگئیں اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا.حالانکہ ان کے پاس ان سے زیادہ اچھے سامان تھے اور ان کی مجلسوں میں ان سے زیادہ قیمتی سامان ہوا کرتے تھے.گویا ان کی طاقت ان سے زیادہ تھی ان کی شوکت ان سے زیادہ تھی.ان کا دبدبہ اور رعب ان سے زیادہ تھا مگر پھر بھی وہ ہلاک ہوگئیں.جب ان سے زیادہ سامان اور زیادہ طاقت اور زیادہ شوکت رکھنے والی قومیںہلاک ہوچکی ہیں تو کم سے کم یہ لوگ یہ تونہیں کہہ سکتے کہ ہم ہلاک نہیںہوسکتے.یہ الگ سوال ہے کہ انہوں نے ہلاک ہوناہے یا نہیں ہونامگر بہرحال ہلاک نہ ہوسکنے والی بات غلط ہوگئی.کیونکہ ان سے زیادہ طاقتور اور شاندار قومیں اس سے پہلے ہلاک ہوچکی ہیں.اس جگہ چونکہ عیسائیوں کا ذکر ہے اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عیسائیوں سے زیادہ سامان رکھنے والے اور عیسائیوں سے زیادہ شان وشوکت کے مالک اور کون لوگ ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ جو سامان ان کے پاس ہیں اورجو طاقتیں اور قوتیں ان کو حاصل ہیں.نہ یہ سامان پہلی حکومتوں کے پاس تھے اور نہ ایسی طاقتیں اور قوتیں ان کو حاصل تھیں پھر وہ کون لوگ ہیں جنہیں زیادہ سازوسامان والااور زیادہ شان وشوکت رکھنے والا قراردیا گیاہے ؟ سو یادرکھنا چاہیے کہ طاقت اور قوت بھی ایک نسبتی امر ہے.مثلا ًایک شخص ایساہے جس کے پاس ہزارروپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس دوسوروپیہ ہے.اور ایک او رشخص ایساہے جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس ننانوے لاکھ ننانوے ہزار روپیہ ہے اب گواس کے پاس ہزارروپے والے سے بہت زیادہ روپیہ ہے مگر نسبتی طور پر یہ اس سے طاقت میں کمزور ہے.کیونکہ جس دشمن سے ہزار رپے والے کامقابلہ ہے اس سے وہ پانچ گناطاقتورہے اور جس دشمن سے اس کا مقابلہ ہے اس سے صرف ایک ہزار روپیہ اس کے پاس زیادہ ہے.پس گو اس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے سو دوسرے کے پاس ایک ہزار مگر دشمن کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے نسبتی لحاظ سے
جس کے پاس ایک ہزارروپیہ ہے وہ زیادہ طاقتور ہے اور جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے وہ کم طاقتور ہے.پس طاقتوں کامقابلہ ہمیشہ نسبتی طور پر ہوتاہے.صرف یہی نہیں دیکھا جاتاکہ کسی کے پاس روپیہ کی کتنی مقدار ہے.بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ اس کے دشمن کے پاس کتنا روپیہ ہے اور پھر نسبت کے مطابق فیصلہ کیا جاتاہے.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ جس زمانہ میںفرعون کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں دنیا میں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیںتھا جو فرعون کے مقابلہ میں کھڑا ہوسکتاجس زمانہ میں سکندر کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں کسی کو سکندر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی جس زمانہ میں چنگیز خاں کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں اور کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جوچنگیز خاں کا مقابلہ کرسکتی اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جہاں تک نقدی اور سامانوں کاسوال ہے یا جہاں تک فوج کی تنظیم کاسوال ہے آج امریکہ یقیناً چنگیز اور سکندر اور نپولین سے ہزاروں گنازیادہ طاقتورہے مگر اس کے مقابلہ میں امریکہ کے دشمن کو جو طاقت حاصل ہے وہ بھی سکندر اور چنگیز اور نپولین کے دشمنوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہے.سکندر یونان سے اٹھا اور چار ہزار میل کا سفر کرکے ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور کوئی حکومت اس کا مقابلہ نہ کرسکی مگر یہیں امریکہ والے کو ریا میں ہی گئے توجان چھڑانی مشکل ہوگئی.اس کے معنے یہ ہیں کہ آج چین اور روس کی طاقت بھی امریکہ کے برابر برابر ہوچکی ہے.پس امریکہ آج سارے سازو سامان کے باوجود نسبتی طور پرسکندر سے کمزور ہے.نسبتی طور پر وہ چنگیزسے بھی کمزور ہے.کیونکہ چنگیز اور سکندر کا مد مقابل امریکہ کے مد مقابل سے بہت زیادہ کمزور تھا.اسی طرح میداو رفارس کے بادشاہوں کو لے لو.بخت نصر کو لے لو.ہزاروں میل تک ان کامقابلہ کرنےوالا کوئی نہیں تھا جس طرف بھی یہ اپنی فوجوں کو بڑھادیتے تھے لوگ ان کے مقابلہ میں ہتھیار ڈالتے چلے جاتے تھے مگر اب امریکہ ذراقدم بڑھاتاہے توچین سامنے کھڑاہو جاتا ہے کچھ اور قدم بڑھاتا ہے توروس نکل آتاہے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں ایساتوازن قائم رہتاہے کہ یوں معلوم ہوتاہے یہ برابر کی ٹکر ہیں یا اگر کچھ فرق بھی ہے تو دواورپونے دوکا.لیکن پہلے زمانہ میںدواور پونے دو کافرق نہیں تھا.بلکہ دواور 1/10 کا تھا.پس بے شک ظاہری شان و شوکت ان میں زیادہ پائی جاتی ہے مگر نسبتی لحاظ سے یہ پہلوںکے مقابلہ میں کمزور ہیں سکند ر ساری دنیا میں نکل جاتاتو کوئی اس کے مقابلہ میں نہیں اٹھتاتھا اور اگر کوئی مقابلہ کےلئے کھڑاہوتا تو شکست کھاتا،مگر امریکہ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کر سکے پس فرماتا ہے جب تم سے زیادہ شان وشوکت رکھنے والی حکومتیںہم نے تباہ کردیں ہیں جب تم زیادہ سازوسامان رکھنے والی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہوکہ تم تباہ نہیں ہوگے.
قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا١ۚ۬ حَتّٰۤى تو کہہ دے کہ جو شخص گمراہی میں (پڑا) ہو (خدائے )رحمن اُسے ایک عرصہ تک ڈھیل دیتاجاتاہے یہاں تک کہ اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ١ؕ جب ایسے لوگوں کے سامنے وہ عذاب آجائےگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا (یعنی )یادنیوی عذاب یا (قومی ) فَسَيَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا۰۰۷۶ کاملتباہی.اس وقت وہ جان لیں گے کہ کون شخص مکان کے لحاظ سے بدتر ہے اور دوستوں کے لحاظ سے کمزور ہے.تفسیر.فرماتا ہے دنیا میں قائم رہنے کا ذریعہ یہ ہوتاہے کہ انسان سیدھے راستہ پر چل رہا ہو اگر وہ سیدھے راستے پر نہیں چلتا.تو ہر عقلمند سمجھ لیتا ہے کہ یہ آج گرا یاکل کیونکہ یہ ہونہیں سکتاکہ ایک شخص غلط راستے پرچل رہا ہو.تباہی اور ہلاکت کی طرف جارہا ہو اور پھر تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں نہ گرے.اگر کوئی شخص غلط راستے پر چل رہا ہے اورپھر بھی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیںکہ شیخ چلی ایک درخت پرچڑھ کر اسی شاخ کو کاٹنے لگ گیا جس پر وہ بیٹھاتھا.کوئی شخص نیچے سے گذرا تو اس نے کہا میاں یہ کیا کررہے ہو کہ جس شاخ پر تم بیٹھے ہو اسی شاخ کو تم کاٹ رہے ہو تم تو نیچے گرپڑو گے.اس نے کہا جائو جائو بڑانبی بن کر آیا ہے.تمہیںکیا پتہ کہ میں نیچے گروں گایانہیں.وہ کہنے لگاصاف نظر آرہاہے کہ جب تم اسی شاخ کوکاٹ رہے ہو جس پر بیٹھے ہوتو جب شاخ کٹی تو تم بھی نیچے آگرو گے.کہنے لگا جاو اور اپنا کام کرو ہم نے بہت لوگ ایسے دیکھے ہوئے ہیںجو اس قسم کے دعوے کیا کرتے ہیں.چنانچہ وہ چلاگیا.اب یہ سیدھی بات تھی کہ اس نے بہرحال نیچے گرناتھا چنانچہ جب شاخ کٹ گئی تو وہ نیچے آپڑا.اب وہ اس شخص کی طرف بھاگا جس نے کہا تھا کہ ایسامت کرو ورنہ گرجائوگے اوراسے کہنے لگا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے تمہاری بات نہ مانی.اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے نبی ہو اس نے کہا میں بالکل نبی نہیں.میں نے تواپنی عقل سے ایک قیاس کیا تھا کہ جب تم اسی شاخ کو کاٹ رہے ہو جس پر بیٹھے ہو تو ضرور گرو گے.کہنے لگا نہیں تم ضرور نبی ہو.اب تم مجھے یہ بتائو کہ میں کب مروں گا.اس نے کہا مجھے کیا پتہ کہ تم کب مرو گے مگر وہ پیچھے پڑ گیا کہ مجھے ضرور بتائو.آخر اس نے پیچھا چھڑانے کے لئے کہہ دیا کہ جس دن تمہارے منہ سے خون آیا اس دن تم مرجائو گے.وہ یہ سن کر واپس آگیا.وہ جلاہا تھا.ایک دن تانی تن رہا
تھا کہ سرخ تاگا اس کے دانتوں میں پھنس گیا.جس کا رنگ دانتوںپر لگ گیا اوراس نے یہ سمجھاکہ میرے منہ سے خون آگیا ہے چنانچہ وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ میں اب مرنے لگا ہوں میرے کفن دفن کی تیاری کرو.ایسی ہی جہالت ان لوگوں میں پائی جاتی ہے.جب واقعات نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ لوگ غلط راستے پرجارہے ہیں.تو یہ کہنا کہ اس غلط راستے پر چلنے کانتیجہ کس طرح نکلے گا.اور ہم ہلاک اور برباد کس طرح ہوسکتے ہیں.با لکل شیخ چلی والی بات ہے.ایک طرف روس کی طاقت دیکھی جائے اور دوسری طرف امریکہ کی طاقت دیکھی جائے توصاف پتہ لگتاہے کہ.یہ دونوںمقابل کی طاقتیں ہیں.اورجب ان میں ٹکر ہوئی تو یہ دونوں تباہ ہوکر رہیں گی.جس طرح گذشتہ جنگ میںجرمنی تباہ ہوا.اٹلی برباد ہوا فرانس ختم ہوااسی طرح اب جنگ ہوئی تو روس اور امریکہ ختم ہوجائیں گے اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ کرتاہے اور فرماتا ہے کہ جس کی گمراہی ثابت ہوچکی ہو اس کے انجام کے متعلق کوئی دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں.تم یہ دیکھو کہ تم میںضلالت پائی جاتی ہے یا نہیں اوراگر تم میں ضلالت پائی جاتی ہے تو پھر ہم ٹھیک کہتے ہیں کہ خواہ تمہاری کتنی بھی طاقت ہو تم ایک دن ختم ہوجائو گے.کیونکہ تم غلط راستہ پر جارہے ہو.فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا یہ امر کاصیغہ ہے یعنی چاہیے کہ رحمٰن اس کو اورمہلت دے مگر مراد یہ ہے کہ رحمٰن اس کو اور مہلت دے گا.یعنی امر اس جگہ خبر کے معنوں میں زور دینے کےلئے استعمال ہواہے.اوربتایا گیا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا.عربی زبان کا طریق ہےکہ اس میں بعض دفعہ امر کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے اور مراد زور دینا ہوتاہے.اس جگہ بھی امر کا صیغہ استعمال کرنے میں یہی حکمت مد نظر ہے یعنی بتایا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ضرور مہلت دے گا.اور پھر اسے سزادے گا تاکہ دنیا بڑی دیر تک اس کی شان وشوکت دیکھنے کے بعد اس کی عبرتناک تباہی کودیکھے.اور اس نشان کی اہمیت کی قائل ہو.فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا کے معنے یہ ہیں کہ چاہیے کہ رحمٰن اس کو اور مہلت دے مگر مردایہ ہے کہ شان معجزہ اسی طرح ظاہر ہوتی ہے.کہ خدائے رحمٰن ابھی اس کو اور ڈھیل دے.گویا بظاہر تو اس قوم کے حالات کو دیکھ کر یہ کہنا چاہیے کہ خدا اس قوم کوغارت کرے.خدا اس قوم کو تباہ اور برباد کرے.مگر اس نشان کی عظمت اور اہمیت اتنی عظیم الشان ہے کہ بجائے یہ کہنے کے کہ خدااس قوم کو غارت کرے.ایک عقلمنداور روحانی انسان یہ کہے گاکہ یہ قوم ابھی اور اونچی ہو.کیونکہ یہ جتنی زیادہ اونچی ہوگی اتنا ہی اس کاگرنا زیادہ عظیم الشان ہوگا.حَتّٰۤى اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ یہاںتک کہ جب وہ دیکھیںگے وہ چیز جس کاان سے وعدہ کیا جارہاہے یا عذاب کا اور پھر ساعت کا اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی شک کا اظہار کیا جارہا ہوکہ معلوم نہیں کیا چیز
دیکھیںگے ؟ عذاب دیکھیں گے یا ساعت دیکھیں گے بلکہ مراد یہ ہے کہ مختلف قوموںاورحکومتوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوعذاب آیا کرتے ہیں وہ خدائی سنت کے مطابق سب کےلئے ایک وقت میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ پہلے ایک قوم پر عذاب آتاہے پھرکچھ وقفہ کے بعد دوسری قوم پر آتا ہے پھر کچھ وقفہ کے بعد تیسری قوم پر آتاہے اور بعض قومیں ایسی ہوتی ہیں جن پرعذاب نہیں بلکہ ساعت کی گھڑی آجاتی ہے اور یہ دونوں سلسلے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں.پچھلی لڑائی قیصر جرمنی کے لئے ساعت تھی.مگر فرانس اور انگلستان کےلئے عذاب تھی.یہ دونوںبچ گئے.مگر کمزور بھی ہوگئے.پس اِمَّا الْعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَةَ کے یہ معنے نہیں کہ یا عذاب آئے گا اوریا پھر ساعت آئے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی قوم کےلئے ہمارا عذاب نازل ہوگا.اور کسی قوم پر ساعت آجائے گی.اوریہی دنیا میں ہوتا چلاآیا ہے.پہلی جنگ عظیم ہوئی تو اس میں قیصر جرمنی ختم ہوگیا.زار روس ختم ہوگیا.بادشاہ ٹرکی ختم ہوگیا.اور انگلستان ،فرانس اور بیلجئم پرعذاب آیا.اسی طرح دوسری جنگ عظیم ہوئی تو اس میں ہٹلر اور مسولینی پر ساعت آگئی اور وہ تباہ ہوگئے.لیکن فرانس اور انگلستان کے لئے عذاب آگیا.اور وہ کمزور ہوگئے.پس فرماتا ہے جس دن ہمارے وعدہ کی گھڑی آپہنچی اس دن کسی کےلئے عذاب کا وعدہ پورا ہوجائے گا.اور کسی کے لئے ساعت کاوعدہ پورا ہوجائے گا.ساعت کے معنے ہمیشہ قیامت یا آخری فیصلہ کے ہوتے ہیں.مگر یہاں قیامت مراد نہیں ہوسکتی.کیونکہ وہ عذاب کےساتھ متبادل نہیں یہاں مراد قومی فیصلہ ہی ہے.جو عذاب سے متبادل شئے ہے.کیونکہ سب قوموں کاایک وقت میں فیصلہ نہیں ہوتا.بعض ایک وقت میں عذاب دیکھیں گی اور بعض با لکل ختم ہوجائیں گی.اس طرح باری باری سب کا فیصلہ ہوجائے گا.اس سے معلوم ہوتاہے کہ جیسے دنیا کی باقی سب قوموں سے ہوتا چلا آیاہے.اسی طرح مسیحیوں سے بھی ہوگا اوربعض پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوگا اوربعض کی ساعت آجائے گی.فَسَيَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضْعَفُ جُنْدًا اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا مقام رہائش برا ہے.اور کون اپنے لشکروں کے لحاظ سے زیادہ کمزور ہے.یعنی اس وقت جب وہ مومنوں کے حق میں خدا تعالیٰ کی تائیدات دیکھیں گے تویہ اقرار کرنے پر مجبور ہوںگے کہ گو یہ کمزور تھے مگر ان میں ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا تھا.اور گو ہم طاقتور تھے مگر ہمارے اندر ہلاکت اور بربادی کا مادہ پایا جاتاتھا.ایک درخت ایسا ہوتاہے جو بظاہر بڑا پھیلاہوا نظر آتا ہے.مگر وہ سو سال کا بڈھاہوتاہے.اور اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوتاہے.اس کے مقابلہ میں ایک گٹھلی ہوتی ہے جس میں سے ایک کونپل نکل رہی ہوتی ہے.بظاہر وہ کونپل ایک حقیر سی چیز نظر آتی ہے اور درخت بڑا مضبوط دکھائی دیتاہے.مگر ہرعقلمند جانتا ہے کہ اب آئندہ یہ کونپل ہی ترقی کرے گی.کیونکہ ابھی سارا مستقبل اس کے سامنے
پڑا ہے.اور وہ درخت جو سو سال کابڈھا اور اند ر سے کھوکھلا ہوچکا ہے وہ آج نہیں تو کل گر جائے گا.پس اس دن جب نتائج ظاہر ہوںگے تویہ لوگ اقرار کریں گےکہ ہم تو مرنے والے تھے.بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ تو انہی لوگوں میں پایاجاتاتھا.اسی طرح فرماتا ہے اس دن ان پر یہ حقیقت بھی کھل جائے گی کہ کس کا لشکر کمزور تھا.آیا خدا کا لشکر کمزور تھا.یا ان کا لشکر کمزور تھا.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انہیں اپنے اعلیٰ درجے کے تمدن اور بڑے بڑے لشکروں پر ناز ہوگا.مومنوںکی طاقت اس وقت نظر نہیں آئے گی.وہ مشرقیوں کو اچھی رہائش نہ ہونےکا طعنہ دیںگے اور ساتھ ہی کہیںگے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے لشکر ہیں اورہماری طاقت تم سے بہت زیادہ ہے.مگر آخر ان کی یہ دولت بھی چھن جائے گی.کیونکہ خدا مومنوں کےابھارنے اور کافروں کے مٹانےکا فیصلہ کرچکا ہوگا.پس یہ دن بدن اونچے ہوتے چلے جائیںگے اور وہ دن بدن نیچے ہوتے چلے جائیںگے.اور آخر ایک دن دنیا یہ تسلیم کرلے گی کہ یہ لوگ ترقی کی طرف جارہے تھے.اور وہ تنزل کی طرف جارہے تھے.وَ يَزِيْدُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا هُدًى١ؕ وَ الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ اور اللہ (تعالیٰ ) ہدایت یافتہ لوگوںکو ہدایت میں بڑھاتاجائے گا.اور باقی رہنے والے (یعنی )نیک اعمال خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ مَّرَدًّا۰۰۷۷ خدا کی نظر میں سب سے بہتر شے ہیں جزا کے لحاظ سے بھی اور انجام کے لحاظ سے بھی.تفسیر.اس میں بتایا گیا ہے کہ جوںجو ں حالات میں تغیر پیدا ہوتاہے مومن کا ایمان بھی بڑھتا چلا جاتاہے گویا کوئی تغیر اس کے قدم کو سست اور اس کے ایمان کو کمزور نہیں کرتابلکہ ہر نیا تغیر اس کی طاقت اور قوت کو بڑھانے والا ہوتاہے.ہم اپنی جماعت میں بھی دیکھتے ہیںکہ جب بھی کوئی تغیر پیدا ہوا اس کے نتیجہ میں ہمیشہ جماعت نے ترقی کی ہے.کتنا بڑاصدمہ تھا جو قادیان سے نکلنے پر جماعت کو پہنچا.اول تو قادیان کے متعلق ہماری جماعت میں ایک قسم کاشرک پایاجاتاتھا اور و ہ سمجھتے تھے کہ ہم نے قادیان سے کبھی نہیںنکلنا اس شرک کے ٹوٹنے پر جماعت کو ایک بڑا دھکا لگا اور کئی کمزور ایمان والے متزلزل ہوگئے بعض لوگ بے شرمی سے اپنے منہ سے تو یہ کہتے تھے کہ احمدیت سچی ہے لیکن ان کے دل کہتے تھے کہ اگر احمدیت سچی ہوتی تو ہم قادیان سے کیوںنکلتے مگر اب دیکھو قادیان سے نکل کر ہماری جماعت کو کتنی بڑ ی طاقت حاصل ہوئی ہے.قادیان میں سالوں بعدکبھی کوئی غیر ملکی آیا
کرتا تھا مگر قادیان سے ہجرت کے بعد متواترکئی ممالک سے لوگوں نے یہاں تعلیم کے لئے آنا شروع کردیا.اب بھی دس بارہ غیر ممالک کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ابھی کئی لوگوںکی چٹھیاں آتی رہتی ہیں کہ ہمیں بھی وہاں آنے کی اجازت دی جائے مگربوجہ مالی تنگی کے ان کی درخواستوں کو رد کرنا پڑتا ہے اسی طرح قادیان میں ہمارے بہت تھوڑے مشن تھے مگر اب کئی نئے ممالک میں مبلغین بھجوائے جاچکے ہیں اور کثرت سے لوگ احمدیت سے روشناس ہورہے ہیں.اسی طرح قادیان کے بجٹ سے اب ہمارا یہاں کا بجٹ بھی بڑھ گیا ہے.غرض سلسلہ کے تمام کاموں میںجس قدر ترقی اور زیادتی ہوئی ہے وہ حیرت انگیز ہے.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ہم مومنوںکو ترقی دیتے چلے جاتے ہیںیہ نہیںکہ انہیں صدمات نہیںپہنچتے صدمات ان کوبھی پہنچیںگے مگر جس وقت مخالفت کے بادل چھٹیں گے دشمنِ صداقت کمزور نظر آئے گا اور مومن پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائےگا.وَ الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ مَّرَدًّا اور باقی رہنے والی نیک باتیں ہی تیرے رب کے نزدیک سب سے اچھی ہیں یعنی انسان کے وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کے حضور مقبول ہوجائیں وہی اس کا حقیقی سرمایہ ہیں یایوں سمجھ لو کہ باقیات الصالحات وہ چیزیں ہیں جو خدا تعالیٰ کے خزانہ میںچلی گئیں.حضرت مسیح ؑ نے کہا ہے کہ ’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتاہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کر و.جہاں نہ کیڑا خراب کرتاہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ‘‘ ( متی باب ۶آیت ۱۹.۲۰) پس چونکہ حضرت مسیح نے اپنی قوم سے یہی کہا کہ اپنے لئے زمین پر مال جمع نہ کرو بلکہ آسمان پر مال جمع کرو.اس لئے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم اپنی جس قدر طاقتیں پیش کرتے ہو وہ اسی زمین سے تعلق رکھنے والی ہیں.تمہاراایٹم بم بھی اسی دنیا کاہے.تمہاری توپیں بھی اسی دنیاکی ہیں.تمہارے گولے بھی اسی دنیا کے ہیں.تمہاری تجارتیں بھی اسی دنیا کی ہیں.تمہارے جتھے بھی اسی دنیا کے ہیں مگر مومن جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ وہ کمزور اور ناطاقت ہیں ان کا بینک آسمان پر کھلاہواہے.کیا مسیح ؑ کی بات تمہیں یاد نہیں رہی کہ جو چیز آسمان پر ہے وہی محفوظ ہے اور جو زمین پر ہے وہ غیر محفوظ ہے.ان کی باقیات الصالحات خدا کے بینک میں ہیں جس کا دیوالہ نہیںنکل سکتا.اور وہ بہت بہترہیںثواب کے لحاظ سے بھی اور پھر واپسی کے لحاظ سے بھی.یعنی اصل مال بھی انہیں وہیں سے ملے گا اور ثواب بھی وہیں سے ملے گا یایوں کہو کہ مول بھی وہیں سے ملے گااور بیاج بھی وہیں سے ملے گا
ثواب بیاج ہوگیااو رخیرٌ مرداًمول ہوگیا.گویا اس طرف اشارہ کیا کہ تمہیں اپنے بنکوں پر بڑاناز ہے اور تم سمجھتے ہو کہ تمہارا روپیہ بنکوں میں ضرور ہونا چاہیے کیونکہ تمہیں انٹرسٹ ملے گا لیکن تم اس حقیقت کو بھول گئے کہ اصل مال وہی ہے جوخدا تعالیٰ کے بنک میں محفوظ ہے اور اسی کا دیا ہوا انٹرسٹ حقیقی انٹرسٹ ہے.اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّ کیا تو نے اس شخص کی حالت پرکبھی غور نہیںکیا جس نے ہمارے نشانوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے یقیناً بہت سامال اور وَلَدًاؕ۰۰۷۸اَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۙ۰۰۷۹ بہت سے بیٹے دئے جائیں گے.کیا اس نے غیب (کاحال ) معلوم کرلیا ہے یا(خدائے )رحمٰن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے.تفسیر.فرماتا ہے ذرا بتائو تو سہی وہ شخص جو ہماری آیتوں کا انکار کرتاہے اور کہتا ہے کہ میرے مال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے بدلہ میںمجھے اور مال ملے گا.میں اسے تجارت پر لگائوں گا اور اپنے مال میں اضافہ کرتا چلا جائوں گا اور میرے بیٹوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میرا خاندان اور میری نسلیںترقی کریں گی.گویا افزائش نسل کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہے وہ میرے پاس ہیں تمہارے پاس نہیں.فرماتا ہے اَطَّلَعَ الْغَيْبَ تم بتاو کہ کیا اس نے غیب دیکھ لیا ہے.کیا پہلے لوگوں کے پاس مال نہیں تھا اور پھر وہ تباہ نہیں ہوگئے.کیا پہلے لوگوں کے پا س اولادیں نہیں تھیں اور کیا وہ اولادیں ان کے کام آئیں ؟ عاد کے پاس کتنی بڑی طاقت تھی سارے عرب اور عراق اور فلسطین اور شام پر ان کی حکومت تھی.،مگر اب زمینیں کھود کھود کر عاد قوم کے آثار تلاش کئے جاتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی نشان مل جاتاہے تو وہ بڑا خوش ہوتاہے.کہ میں نے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیاہے اسی طرح فراعنہ کو دیکھ لو ان کی کتنی بڑی طاقت تھی.لوگ ان کانام سن کر لرز تے تھے اور خود ان کی یہ حالت تھی کہ اگر وہ دربار میں آتے تو اپنے منہ پر نقاب ڈال لیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اتنی بڑی شان کے مالک ہیں کہ اگر کوئی شخص ہمارا چہرہ دیکھ لے گا تو وہ کوڑھی ہوجائے گا.مگر اب ان کی لاشیں نکال نکال کر عجائب گھروں میںرکھی جاتی ہیں اورکہا جاتاہے کہ یہ فلاں فرعون کی لاش ہے اور یہ فلاں فرعون کی لاش ہے.میں نے خود مصر کے عجائب گھر میں ایسی لاشیں دیکھی ہیں.فرانس کے عجائب گھر میں بھی لاشیں ہیں.اور اب امریکہ والے کوشش کررہے ہیں کہ وہ بھی کسی فرعون کی لاش لے جائیںگویا فراعنہ مصر
کی لاشوں کی اب ایسی ہی حیثیت رہ گئی ہے جیسے پرانے برتنوں کی ہوتی ہے کہ لوگ انہیں تماشہ کے طورپر عجائب گھروں میں رکھ دیتے ہیں.انہیں کیا خبر تھی کہ ایک زمانہ میں ہماری لاشوں کےساتھ یہ سلوک ہونے والا ہے.پس فرماتا ہے تم جو دعوے کرتے ہو کہ ہم تباہ نہیں ہوسکتے.ہمارے پاس مال ہے اور ہماری نسلیں خوب ترقی کررہی ہیں کیا تمہیں غیب کا علم حاصل ہے.اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا یا خدا نے تم سے کوئی عہد کیا ہوا ہے کہ وہ تمہیں ہلاک نہیںکرے گا ،یہی دوباتیں ہی جن پر تم اپنے اس دعویٰ کی بنیاد رکھ سکتے ہو لیکن اگر تمہیں غیب کا علم حاصل نہیں اور خدا نے تمہارے ساتھ کوئی عہد بھی نہیں کیا.تو صرف اموال اور اولاد کا تمہارے پاس ہونا تمہیں تباہی سے نہیں بچاسکتا کیونکہ دنیوی لحاظ سے بڑی بڑی طاقتیں آج تک تباہ ہوچکی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ غیب کی خبریں یا تو نجومی ، رمال اور ارڑ پوپو وغیرہ بتایا کرتے ہیں اوریا پھر اللہ تعالیٰ کے انبیاء بتایا کرتے ہیں.یوں تو بعض دفعہ بچے بھی ضد میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں چیز کا پتہ ہے.حالانکہ انہیں پتہ نہیں ہوتا.مگر بچوں کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.توجہ یا تو نجومیوں اور ارڑپوپوں کی بات کی طرف کی جاتی ہے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کے انبیا ء کی طرف کی جاتی ہے.پس چونکہ انہی دو ذرائع سے لوگ غیب کی خبریں حاصل کیا کرتے ہیں.اس لئے اس جگہ بھی انہی دونوں باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کرتاہے اور فرماتا ہے اَطَّلَعَ الْغَيْبَ کیا تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ نجومیوں اور ارڑ پوپوں کی پیشگوئی ہے.اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا یا خدا تعالیٰ کے کسی نبی نے ایسا کہا ہے ؟ كَلَّا١ؕ سَنَكْتُبُ مَا يَقُوْلُ وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاۙ۰۰۸۰ ایسا ہر گز نہیں ہوگا ہم اس کے اس قول کو محفوظ رکھیں گے اور اس کے عذاب کو لمباکردیںگے.حلّ لُغَات.مفردات میں لکھاہے کہ کَلَّا رَدْعٌ وَ زَجْرٌ وَ اِبْطَالٌ لِقَوْلِ الْقَائِلِ کے لئے آتاہے یعنی اس کے معنے دھتکار نے کے بھی ہوتے ہیں.زجر کے بھی ہوتے ہیں.اور یہ پہلے قول کو رد کرنے کےلئے بھی آتاہے.گویا جہاں کَلَّا کالفظ استعمال ہوگا وہاں مراد یہ ہوگی کہ پہلے جوکچھ کہا گیا ہے وہ غلط ہے.صحیح بات وہ ہے جو ہم آگے بیان کرتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے یہ بالکل غلط بات ہے نہ انہیں غیب کا علم حاصل ہے اور نہ خدا نے ان سے کو ئی عہد کیا
ہوا ہے.سَنَكْتُبُ مَا يَقُوْلُ ہم ضرور وہ بات لکھ لیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں.اور وہ کہتے یہ ہیں کہ لَاُوْتِیَیَّنَ مَالًا وَّ وَلَدًا ہمیں مال بھی ملے گا اور ہمیں اولاد بھی ملے گی.ان کایہ قول معاف نہیں ہوگا بلکہ ان کا حساب لینے کے لئے اسے یاد رکھا جائے گا اور ہم اس بات کو کبھی بھولیں گے نہیںکہ انہوں نے ہمارے بندوں کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا.اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بندوں کے سامنے ہی ان کو جھوٹاثابت کریں.وَ نَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا اور جس طرح ہم نے ان کے آرام کی مدت لمبی کردی اور انہوںنے مومنوں کو طعنہ دیا کہ ہمیں طاقت اور شوکت حاصل ہے اور تم ہمارے مقابلہ میں بالکل کمزور اور ذلیل ہو.اسی طرح اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے عذاب کو بھی لمبا کریں.ہم نے انہیں ایک لمبی مہلت دے کر اپنے مومن بندوںکو لمبے عرصہ تک شرمندہ کروایا اور وہ کمزوروں اور ناطاقتوں کی طرح ان کے سامنے کھڑے رہے.پس چونکہ ہم نے ہی ان لوگوں کو مہلت دے کر اپنے مومن بندوں کو شرمندہ کروایا تھا اور اسلام پر لوگوں کے لئے اعتراض کا موقع پیدا ہوا تھا اس لئے اب ہمارا ہی فرض ہے کہ ہم اس کے بدلہ میں ان کے عذاب کو بھی لمبا کریں تاکہ مومن کو یہ تسلی ہوکہ میرا بھی کوئی ہمدرد اور نگران ہے.وَّ نَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ وَ يَاْتِيْنَا فَرْدًا۰۰۸۱ اور جس (چیز)پروہ فخر کررہا ہے اس کے ہم وارث ہوجائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا ہی آئے گا.تفسیر.مَا يَقُوْلُ کی تشریح پہلی آیت میں موجود ہے.فرماتا ہے وقال لَاُوْتِیَیَّنَ مَالًا وَّ وَلَدًا وہ کہتاہے کہ مجھے مال بھی ملے گا اور اولاد بھی ملے گی.یہ دعویٰ تھا جو اس نے لوگوں کے سامنے کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ نَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ یعنی نَرِثُ مِنْہُ مَا یَقُوْل جو کچھ وہ کہا کرتا تھااس کے ہم وارث ہوجائیں گے یعنی وہ مال جو اس کوحاصل ہے اور وہ اولاد جس کی وجہ سے وہ دعوے کررہا ہے ہم یہ دونوں چیزیں اس سے چھین لیں گے.اسی طرح پہلی آیات میںیہ گذر چکا ہے کہ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤااَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِيًّا یعنی کافر مومنوں سے یہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں بتائو کہ مال اور دولت اور عزت اور رتبہ کس کو حاصل ہے اگر یہ چیز یں ہمیں حاصل ہیںتمہیں حاصل نہیں تو ہم دونوں میں سے کون اچھا ہوا پس مَا يَقُوْلُ سےمراد مال اور عزت اور رتبہ اور اولاد ہے.فرماتا ہے ہم ان چیزوں میںاس کے وارث ہوجائیںگے یعنی ان سے مال بھی چھین لیں گے.
ان کی دولت بھی چھین لیں گے ان کی عزت بھی چھین لیں گے.ان کا رتبہ بھی چھین لیں گے.ان کی اولاد یں بھی چھین لیںگے.وَ يَاْتِيْنَا فَرْدًا اور وہ ایک فرد کی حیثیت میں ہمارے پاس آئیں گے.يَاْتِيْنَا فَرْدًا میں مال کا ذکر نہیںکیا گیا.صرف اس کی ذاتی حیثیت کی طرف اشارہ کردیاگیاہے کیونکہ انسان کے دو قسم کے ساتھی ہوتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں جورشتہ داری کی وجہ سے انسان کے ساتھ ہوتے ہیں.جیسے ماں باپ ہوئے یااولاد ہوئی یا بہن بھائی ہوئے یا بیوی ہوئی.اور ایک وہ ہوتے ہیں جو حصول فائدہ کے خیال سے جو مال اور رتبہ کاایک لازمی نتیجہ ہوتاہے.انسان کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں.گویا وہ دولت اور عزت کے بھو کے ہوتے ہیں.یا شہرت کے خواہش مند ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ کسی کے پاس مال ہے اور وہ بڑا صاحب رسوخ انسان ہے تو مختلف قسم کے فوائد کے حصول کےلئے وہ اس کی خوشامدیں کرنے لگ جاتے ہیںاوراس کے ساتھی اور دوست بن جاتے ہیں.مگر فرمایا جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو وہ صرف ایک فرد کی حیثیت میں ہوگا کسی قسم کے ساتھی اس کے ساتھ نہیں ہوںگے.پہلے فرمایا تھا کہ ہم مال اور اولاد دونوں کے وارث ہوجائیں گے.اب بتاتاہے کہ چونکہ ہم ان کی اولادیں چھین لیںگے اس لئے وہ اکیلے رہ جائیںگے اور چونکہ ہم مال بھی لے لیں گے.اس لئے وہ لوگ جومال کی وجہ سے ان کے ارد گرد اکٹھے تھے اور جو را ت دن خوشامدیں کرتے رہتے تھے وہ بھی بھاگ جائیں گے.غرض يَاْتِيْنَا فَرْدًا میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ ہم ان کےمال اور اولاد دونوں لے لیں گے فرداً میں اولاد اور خدم ومصاحب سب کی نفی کردی اور جو حصول فائدہ کےلئے ساتھ ہوتے ہیںان کی نفی میں مال و دولت کی نفی خود بخود آگئی کیونکہ وہ لوگ تبھی ساتھ چھوڑتے ہیں جبکہ مال اور رتبہ نہ رہے.کفار مکہ کو ہی دیکھ لو ان لوگوں کو اپنی اولادوں پر کتنا بڑا ناز تھا مگر پھر وہی اولادیں خدا تعالیٰ نے ان سے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیں اور سردار انِ کفار ذلیل ہو کر رہ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنو مصطلق پرلشکر کشی کی تو وہاں انصار اورمہاجرین میں کنوئیں سے پانی نکالنے پر جھگڑاہوگیا اوراس جھگڑے نے اس قدر طول کھینچا کہ انصار اور مہاجرین نے تلواریں نکال لیںاور وہ ایک دوسرے سے لڑائی پر آمادہ ہوگئے.عبد اللہ بن ابی ابن سلول نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا چنانچہ وہ آگے بڑھا او راس نے کہا اے انصار !یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تمہیںیہ دن دیکھنا پڑا.میں تمہیں پہلے ہی سمجھاتاتھا کہ تم ان مہاجرین کو اپنے سرنہ چڑھائو ورنہ کسی دن تکلیف اٹھائو گے مگر تم نے میری بات نہ مانی.اب خدا کاشکر ہے کہ
تمہیں بھی اس حقیقت کا احساس ہوا.مگر گھبرائو نہیں اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو.پھردیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے معزز انسان یعنی وہ کمبخت خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل انسان یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ پھر کبھی سر نہیںاٹھائے گا جب اس نے یہ الفاظ کہے تو انصار اور مہاجرین دونوں سمجھ گئے کہ ہمارے جوش سے اس نے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا ہے.چنانچہ وہ سنبھل گئے اور انہوں نے آپس میں صلح کرلی.مگر اس دوران میں کسی نے دوڑکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ یا رسول اللہ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے آج اس اس طرح کہا ہے.آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول اور ا س کے دوستوں کو بلالیا اور فرمایا کہ کیابات ہوئی ہے انہوں نے اس واقعہ سے بالکل انکارکردیا اور کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن بات سچی تھی پھیلنی شروع ہوئی اور عبداللہ کے بیٹے تک بھی یہ بات جاپہنچی کہ آج اس کے باپ نے ایک جھگڑے کے موقع پر یہ کہا ہے کہ مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر وہاں کا معزز ترین انسان یعنی وہ خودمدینہ کے ذلیل ترین انسان یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال کر رہے گا.وہ ایک مخلص نوجوان تھاوہ یہ سنتے ہی بیتاب ہوگیا اور اسی وقت رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آج میرے باپ نے یہ الفاظ کہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میرے پاس بھی رپورٹ پہنچ چکی ہے اس نے کہا یا رسول اللہ اس جرم کی سزا سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ میرے باپ کو قتل کرنے کاحکم دے دیں.اور یہ بالکل جائز اور درست سزاہے مگر یارسول اللہ میں یہ درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرمائیں تو کسی اور کو قتل کرنے کا حکم نہ دیں بلکہ مجھے حکم دیںکہ میں اپنے باپ کو قتل کروں.کیونکہ اگر آپ نے کسی اور مسلمان کو حکم دیا اور اس نے میرے باپ کوقتل کر دیاتو ممکن ہے کہ شیطان کسی وقت مجھے ورغلادے کہ یہ میرے باپ کاقاتل ہے اور میںجوش میں اس پر حملہ کربیٹھوں.اس لئے آپ کسی اور کو حکم دینے کی بجائے مجھے ہی یہ حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کردوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں.ہم اسے کوئی سزا دینانہیں چاہتے اس نے کہا یا رسول اللہ یہ ٹھیک ہے کہ آپ اس وقت اسے کوئی سزا دینا نہیں چاہتے لیکن اگر پھر کسی وقت اسے سزا دینا مناسب سمجھیں تو میری درخواست ہے کہ آپ رحم فرما کر مجھے ہی حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کردوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ہمارا اسے سزاد ینے کا کوئی ارادہ نہیں ہم تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا ہی سلوک کریں گے وہ وہاں سے اٹھا اور خاموشی کے ساتھ چلا آیا مگر اس کا دل ان الفاظ کی وجہ سے جل رہا تھا اور اسے کسی پہلو قرار اور اطمینان نہیں آتا تھاجب لشکر مدینہ کی
طرف واپس لوٹا اور عبداللہ بن ابی ابن سلول اندر داخل ہونے لگا تو اس کا بیٹا اپنی سواری سے کود کر اپنے باپ کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا اور اس نے تلوار اپنی میان سے نکال لی اور باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیاا لفاظ کہے تھے تم نے کہا تھا کہ مدینہ کا معزز ترین انسان میں ہوں اور مدینہ کا ذلیل ترین انسان نعوذبا للہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت تک مدینہ میںداخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ مدینہ کا ذلیل ترین انسان میں ہوںاور مدینہ کا معزز ترین انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ورنہ میں اسی تلوار سے تمہارا سراڑادوں گا.عبداللہ نے جب یہ نظارہ دیکھا کہ اس کا بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑاہے اور وہ کہتا ہے کہ کہو میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے معززترین انسان ہیں تو اس کا دل لرز گیا اور اس نے سمجھ لیاکہ اگر آج میں نے یہ الفاظ نہ کہے تو میرے بیٹے کی تلوار میرا خاتمہ کئے بغیر نہ رہے گی.چنانچہ اس نے اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوںکے سامنے جن میں وہ اپنی بڑائی کے گیت گا یا کرتاتھا اقرارکیا کہ میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے معززترین انسان ہیں اور پھر اس نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے کے لئے رستہ دیا.اس سے زیادہ بھلا يَاْتِيْنَا فَرْدًا کی صداقت کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ بیٹے جن پر ناز کیا کرتے تھے وہ ان سے چھینے گئے اوران کے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے بن گئے اسی طرح ابو جہل کا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابیٹا بنا.عاص کا بیٹا(عمر وبن العاص)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا بنا.ولید کا بیٹا خالد آپ کا بیٹا بنا.ابوسفیان کا بیٹا معاویہ آپ کا بیٹا بنا.یہ وہ لوگ تھے جو اپنی اولادوں پر فخر کیا کرتے تھے.اپنے مال اوردولت پر فخر کیا کرتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کا مال بھی ان سے لے لیا اور ان کی اولادیں بھی ان سے لے لیں.اسی طرح فرماتا ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا.وَ نَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ وَ يَاْتِيْنَا فَرْدًا نہ مال ان کے پا س رہیں گے نہ اولادیں ان کے کام آئیںگی.نہ خوشامدی ان کے ارد گرد رہیں گے.یہ ساری چیزیںہم لےکر اپنے مومن بند وں کو دے دیںگے اور یہ لوگ لنڈورے کے لنڈورے رہ جائیںگے.
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّاۙ۰۰۸۲ اوران لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بہت سے معبود بنا چھوڑے ہیں اس امید سے کہ وہ ان لوگو ںکےلئے عزت کا موجب بنیں (گے).حل لغات.اَلْعِزُّ خَلَافُ الذُّلِّ (اقرب الموارد)عزت کا لفظ ہمیشہ ذلت کے مقابل میں استعمال ہوتاہے.پس ذلت کے مقابل جو چیز ہے اسے عزت کہا جائے گا.تفسیر.بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ بت بنانےکی ایک بڑی وجہ لوگوں میں عزت اور شہرت حاصل کرنے کی تمنا ہوا کرتی تھی وہ لوگ بڑے بڑے بت بناتے تھے جیسے مصریوں نے ابوالہول بنایا سینکڑوں فٹ اونچاہے اور ساری دنیا میں اس کی شہرت ہے.دور دور سے لوگ آتے اور اس کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں.گویا خالی بت نہیں بلکہ وہ ایسی شان کا بت بناتے تھے کہ اس کی طرف خود بخود توجہ پھر جاتی تھی اورلوگ کہتے تھے کہ فلاں بت بڑا عظیم الشان ہے یا ان کے ایسے ایسے شاندار معبد بناتے تھے کہ دیکھنے والے دیکھتے اور حیران ہوکر رہ جاتے.پھر ان بتوں پر میلے کئے جاتے.ہزاروں ہزارروپیہ خرچ کیا جاتا اوروہ اپنے ہمسایوں پر فخر کرتے کہ ہم نے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے.مثلا ً سومنات کا بت بنایا اور اس پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیا.اب ایک دیکھنے والا جب بت کو دیکھتاہے کہ اس کی آنکھیں ہیرے کی ہیں.اس کے سر پر تاج ہے.اس کے ہاتھ میں سونے کاگرز ہے اور اس کاقد اتنا بڑاہے کہ سر چھت سے لگاہوا ہے تو وہ مرعوب ہو جاتا ہے اور سمجھتاہے کہ جتنا سونا اور چاندی اور ہیرے اور جواہر اس بت کے پاس ہیں اتنی دولت تو میری سات پشتوں کے پاس بھی نہیں ہوسکتی پس اس پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے.اور بت بنانے والوں کی عظمت کا اسے قائل ہونا پڑتا ہے.پس چونکہ بت پرست بڑے بڑے بت بناتے تھے اور پھر اپنے ہمسایوں پر فخر کرتے تھے کہ ہم نے اتنا روپیہ خر چ کیا ہے اور جتنا زیادہ وہ روپیہ خرچ کرتے تھے اتنی ہی ان کی عزت بڑھتی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ خداکے بنانے پر توان کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتاکیونکہ وہ ازل سے موجود ہے.یہ لوگ صرف اپنی عزت او ر شہرت کےلئے بڑے بڑے بت بناتے ہیں ان پر سونا اور چاندی اور ہیرے اور جواہرات خرچ کرتے ہیںاور ان کے بڑے بڑے معبد بناتے ہیں تاکہ لوگوں میں فخر کر سکیںکہ ہمارا معبد اتنا شاندار ہے ہمارا بت اتنا بڑا ہے اور ہم نے اس پر اتنا روپیہ خرچ کیاہے.اس کے مقابلہ میں اسلامی مساجد کو
دیکھو کہ وہ کتنی سادہ ہوتی ہیں.خانہ کعبہ کتنی سادگی کا مظہر ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کتنی سادہ ہے.ہر انسان سمجھ سکتاہے کہ جو شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جائے گاوہ خالص خدا تعالیٰ کی عبادت کےلئے جائے گا.ہیرے اور جواہرات اور سونے اور چاندی کےلئے نہیں جائے گا.اسی طرح جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کرنے کے لئے جائے گا وہ صر ف عقیدت اور محبت کے جذبات کے ساتھ وہاں جائے گا.کوئی بلند و بالااور شاندار عمارت دیکھنے کے لئے وہاں نہیںجائے گا.افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی اب مساجد کو فخرو مباہات کا ذریعہ بنالیا ہے.مسجد کی ضرورت ہو یانہ ہو وہ محض اپنے نام اور نمود کے لئے بڑی بڑی مسجدیں بنادیتے ہیںاور پھر ہزاروں روپیہ خرچ کرکے ان پر نقش ونگار کرتے اور بڑے بڑے بیل بوٹے بناتے ہیں.حالانکہ ان کے اندر نماز پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا.میں مصرکی جامع مسجد دیکھنے کےلئے گیا تو میں نے دیکھا کہ محراب کو چھوڑ کر مسجد کے ایک کونہ میں چند آدمی نماز پڑھ رہے ہیں.امام سمیت غالباًوہ چار یا پانچ آدمی تھے جب وہ نماز پڑھ چکے تومیں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں نماز ہوچکی ہے اور آپ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ؟انہوں نے کہا نہیں یہی امام صاحب اس مسجد کے امام ہیں اور ہم ان کے مقتدی ہیں.میں نے کہا تو پھرآپ محراب چھوڑ کر ایک کونہ میں نماز کیوں پڑھ رہے تھے؟کہنے لگے کیا کریں شرم آتی ہے کہ اتنی بڑی مسجد میںہم صرف تین یاچار آدمی نماز پڑھنے والے ہیں.اسی شرم کے مارے ہم محراب میںکھڑے نہیں ہوتے ایک کونہ میں نماز پڑھ لیتے ہیں تاکہ اگر کوئی شخص ہمیں دیکھ لے تو وہ یہی سمجھے کہ یہ نماز سے پیچھے رہ گئے تھے.غرض مسلمانوں میں بھی آج کل یہ نقص پیدا ہوچکا ہے کہ وہ نماز کی طرف تو توجہ نہیںکرتے اور بڑی بڑی مسجدیں بنادیتے ہیں حالانکہ مسجد کی خوبی اس کی سادگی میں ہے اور اسلام نے اسے روحانی زینت کا موجب بنایا ہے اس لئے نہیں بنایا کہ اسے فخرو مباہات کاموجب بنالیاجائے.ہاں نمازیوں کے لئے صفائی اور گنجائش اور صحت کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ یہ زینت نہیں ضرور ت ہے.غرض فرماتا ہے وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا یہ لوگ بڑے بڑے بت بناتے ہیںان بتوں کے معبد بناتے ہیں ان پر میلے لگاتے ہیں تاکہ لوگوں میں ان کی شہرت ہو اوروہ تعریف کریںکہ فلاں کا بت بڑا شاندار ہے یافلاں نے بڑاشاندار میلہ لگایا ہے.اس کے علاوہ لِيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا میں ا س طرف بھی اشارہ کیاگیاہے کہ بت پرست بت کو ذریعہءِ شفاعت قرار دیتاہے اور اسے خدا تعالیٰ کے حضور میںقرب کا موجب بناتاہے اس کے نزدیک وہ خود حضور دربار کااہل نہیںاس
لئے و ہ کسی درباری کا درباری بن جاتاہے تاکہ اس کے خادموں میںشامل ہوکر خداکے دربار میں چلا جائے.وہ سمجھتاہے میں بہت گنہگار ہوں میں خدا کے دربار میں کہاں پہنچ سکتاہوں.یہ بت بڑی شان رکھتے ہیں میں ان کی عبادت کروں گا تو ان کے غلاموں اور خادموں میں شامل ہوکر میں بھی خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ جائوں گا.جیسے ڈپٹی کمشنر کہیںجاتاہے تو اس کاچپڑاسی بھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے افسروںتک پہنچ جاتاہے.بت پرست بھی سمجھتاہے کہ میںاس بت کی عبادت کرکے اس قابل ہوجائوںگا کہ خدا تعالیٰ کے دربار میںبیٹھ سکوں مگر خدا تعالیٰ جو حاضر وناظر ہے وہ اس کا حاجت مند نہیں اس کا دروازہ ہر اک کےلئے کھلاہے اسی مضمون کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ١ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِيْ مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ١ؕ۬ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ (الزمر:۴)یعنی دوسرںکی شرکت میں میں عبادت قبول کرنے کو تیار نہیں خدا تعالیٰ کے سوا جو لوگ دوسروں کو پوجتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم تو ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیںکہ ہمیں وہ خدا تعالیٰ کے قریب کردیں یعنی وہ خداکے مقرب ہیںجب ہم ان سے تعلق پیدا کریںگے تو ان کے ذریعہ سے ہم بھی خدا کے دربار میں چلے جائیںگے فرماتا ہے یہ اچھے درباری ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑائی ہورہی ہے اورایک بت کے نام پر دوسرے پرچڑھائی کی جارہی ہے.خداکے قرب میں تو وہ جائیںگے مگر درباری کے طورپر نہیں بلکہ ملزم کے طور پر اور خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا کہ ان کے دعوے کیا حقیقت رکھتے تھے اور یہ لوگ دوجرموں کے مرتکب ہیں.اول جھوٹے کہ اپنے منہ سے بتوں یا اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوںکی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیںجو ان میںنہیںہیں.دوسرے خدا تعالیٰ کے احسانوں کے سخت منکر ہیں کہ وہ توایسا بلند شان ہو کر ان کو نوازتاہے اوریہ جھوٹے معبودوں کی پناہ لیتے پھرتے ہیں.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ میں کاذب کہہ کر ان کو جھوٹا بتایا کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بتوں میں کوئی طاقت نہیںپائی جاتی اور پھر ان کی طرف خدائی طاقتیں منسوب کرتے ہیں اورکفار کہہ کر بتایا کہ وہ بڑے ناشکرے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے متواتر احسانات کو دیکھتے ہیں اورپھر خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بجائے اپنے جھوٹے معبووں کی پناہ ڈھونڈرہے ہیں.
كَلَّا١ؕ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّاؒ۰۰۸۳ ایسا ہرگزنہیں ہوگا وہ معبود ایک دن ان کی عبادتوں کا انکار کریںگے اور ان کےخلاف کھڑے ہو جائیں گے.حلّ لُغَات.ضِدٌّ کے معنے مخالف کے بھی ہیں اور ضد کے معنے معاون کے بھی ہیں مگر دونوں صورتوں میں معنے ایک ہی ہیں یعنی ان کے خلاف ان کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے یا ان کے خلاف سچائی کے مدد گار بن کر کھڑے ہوںگے.تفسیر.کَلَّا کہہ کربتایا کہ ان بت پرستوں کی بڑی غرض تو یہ ہے کہ انہیں عزت حاصل ہو مگر یہ بت ان کے لئے عزت کاموجب نہیں بلکہ ذلت کاموجب ہوں گے اور یہ لوگ خود اپنے منہ سے ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور یہ بھی کہ وہ معبود ان کی عبادت کا انکار کریں گے گویا سَيَكْفُرُوْنَ میں جو ضمیر استعمال کی گئی ہے یہ بتوں کی پرستش کرنےوالوںکی طرف بھی جاتی ہے اور ان کے معبودوں کی طرف بھی جاتی ہے اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ سَیَکْفُرُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں سَیَکْفُرُوْنَ الْمَعْبُوْدُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْیعنی بتوں کی عبادت کرنے والے خود اپنے منہ سے ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے ان کی کبھی عبادت نہیں کی یا یہ کہ معبود ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور کہیں گے یہ با لکل جھوٹ بولتے ہیں انہوں نے ہماری عبادت نہیںکی بلکہ ان کے سامنے ان کی اپنی اغراض اور شہر تیں تھیں جن کے لئے یہ عبادت کرتے رہے قرآن کریم میں یہ دونوں معنے استعمال کئے گئے ہیںچنانچہ سوئہ بقرہ میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ.وَ قَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا (البقرة:۱۶۷،۱۶۸) یعنی جس دن وہ لوگ جن کی فرمانبرداری اور اطاعت کی جاتی تھی ان لوگوں سے جوان کی اطاعت کا دم بھرتےتھے اپنی برات اور نفرت کا اظہار کریںگے اور وہ خدائی عذاب کواپنی آنکھوںسے دیکھ لیںگے اور ہر قسم کے اسباب کو منقطع پائیںگے تووہ لوگ جو اس دنیا میں ان کی اتباع کرتے رہے ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر کہیںگے کہ اگر ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹادیا جائے تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری اور نفرت کااظہار کریں جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہورہے ہیں.اسی طرح سورئہ قصص میںفرماتا ہے کہ معبود ان باطلہ کہیں گے تَبَرَّاْنَاۤ اِلَيْكَ١ٞ مَا كَانُوْۤا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ (القصص: ۶۴) یعنی اے خدا ہم تیرے سا منے اپنی برات کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری نہیں بلکہ اپنے نفسوں کی
عبادت کیا کرتے تھے.غرض اس آیت میں ضمائر دونوں طرف جاسکتی ہیں.یہ معنے بھی ہوسکتے ہیںکہ مشرک اپنی عبادت کا انکار کریںگے اور اپنے معبودوں کے خلاف کھڑے ہوجائیںگے اور ان کا انکار کریںگے جیسا کہ سورئہ اعراف میں آتاہے کہ جب فرشتے مشرکوں کی جان نکالتے ہیں توان سے پو چھتے ہیں کہ ماسوی اللہ معبود اب کہاں ہیں تو وہ کہتے ہیں ضَلُّوْا عَنَّا(الاعراف:۳۸)وہ تو کہیںبھاگ گئے ہیںآج ہمیں نظر نہیںآتے.اسی طرح یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ معبودان باطلہ ان لوگوں کی عبادت کا انکار کریں گے اور مشرکوں کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ سورئہ قصص ہی کی آیت اوپر لکھی جاچکی ہے.اسی طرح معبودوں کے متعلق قرآن کریم میں ایک اورجگہ آتاہے کہ وَ اِذَا رَاَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا شُرَكَآءَهُمْ قَالُوْا رَبَّنَا هٰؤُلَآءِ شُرَكَآؤُنَا الَّذِيْنَ كُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِكَ١ۚ فَاَلْقَوْا اِلَيْهِمُ الْقَوْلَ اِنَّكُمْ لَكٰذِبُوْنَ(النحل:۸۷) یعنی جب وہ مشرک لوگ جو شرک کیا کرتے تھے اپنے معبودان باطلہ کو دیکھیںگے تو کہیں گے کہ حضور !یہ ہیں وہ معبود جن کو ہم تیرے سوا پوجا کرتے تھے.انہوں نے ہم کو خراب کیا ہے.وہ معبود کہیں گے کہ یہ خبیث بالکل جھوٹ بولتے ہیںہم نے انہیں خراب نہیںکیا.یہ آپ اپنی اغراض کے لئے شرک کرتے رہے ہیں.گویا وہی معبود جن کو آج عزت کا موجب سمجھا جاتاہے اس دن ان کے لئے ذلت کا موجب ہوجائیںگے.اسی طرح سورئہ انعام میںآتاہے وَ يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ.ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ (الانعام :۲۳،۲۴)یعنی اس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے اور پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے معبود جن کے متعلق تم کہا کرتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں اس پر سوائے اس کے ان کااور کوئی جواب نہیں ہوگا کہ حضور ہم ان خبیثوں کو کیا جانتے ہیں ہم نے تو کبھی شرک نہیںکیا.اسی طرح سورئہ یونس میں آتاہے.وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ (یونس:۲۹) یعنی اس روز معبودان باطلہ ان سے کہیںگے کہ تم نے توہمار ی کبھی پرستش نہیںکی.سورئہ روم میں بھی مشرکوں کے متعلق آتاہے کہ وَکَانُوْا بِشُرَکَاءِھِمْکٰفِرِیْنَ (الروم:۱۴) مشرک اپنے معبودان باطلہ کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے ان کو کبھی اپنا خدا نہیں مانا.وَ يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا میں اوپر بتاچکا ہوںکہ ضد کے ایک معنے معاون کے بھی ہیں.پس اس آیت کے معنے
یہ ہوںگے کہ وہ معبود اس دن مشرکوں کے خلاف خدا تعالیٰ کے معاون ہوجائیںگے یا اس دن مشرک اپنے معبودوں کے خلاف خدا تعالیٰ کے معاون ہوجائیںگے.یعنی اس دن معبودان باطلہ او رمشرک جہاں ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیںگے وہاں وہ دونوں سچائی اور راستی کے معاون بھی ہوجائیں گے.مشرک کہیں گے کہ ہم معبودوں کی عبادت نہیں کرتے اور معبود کہیں گے کہ مشرک ہماری عبادت نہیں کرتے تھے.اس جگہ ایک اور امر بھی یادرکھنا چاہیے اوروہ یہ کہ يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا میں ضد کا لفظ جمع ہونا چاہیے تھا مگر آیا مفرد ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ مفرد کا لفظ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کے کمال اتحاد کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ گو وہ مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہوں گے مگر اس معاملہ میں ان کا اختلاف با لکل ختم ہوجائے گا اور وہ یک زبان ہوکر کہیں گے کہ ہمارا ان معبودان باطلہ سے کوئی تعلق نہیں.اور معبودان باطلہ بھی یک زبان ہوکر کہیںگے کہ ہمار ان مشرکوںسے کوئی تعلق نہیں.یعنی اس دن اس قسم کی حالت ہوگی کہ اس دن کی سختی کو دیکھ کر اور اس دن کی مایوسی کو دیکھ کر اور اس دن کے خطرات کو دیکھ کر مشرک بھی فرد واحد کی طرح یک زبان ہوکر کہیںگے کہ ہم ان معبودان باطلہ سے بیزار ہیں اور معبودان باطلہ بھی یک زبان ہوکر فرد واحد کی طرح کہیںگے کہ ہم ان مشرکوںسے بیزار ہیں.گویااس امر کے اظہار کے لئے کہ باوجود لاکھوںاور کروڑوںہونے کے وہ فرد واحد کی طرح متفقہ طور پر غیر اللہ کی عبادت کا انکار کریں گے.جمع کی بجائے مفرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مشرک بھی انکار کرکے اپنی جان بچاناچاہیںگے اور معبودان باطلہ بھی انکار کرکے اپنی جان بچانا چاہیںگے (املاء مامن بہ الرحمن زیر آیت ھذا) یہ عربی زبان کی کتنی بڑی خوبی ہے کہ اس تھوڑے سے فرق سے کہ جمع کی جگہ مفرد کا لفظ استعمال کیا گیاہے ایک وسیع مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کردیاہے اورنہ صرف یہ بتایا ہے کہ یہ بت جن کو وہ اپنے لئے عزت کاموجب سمجھ رہے ہیں ان کےلئے ذلت کاموجب ہوںگے بلکہ اس میں ان کی بے بسی بھی بیان کردی گئی ہے.خطرہ کی سختی بھی بیان کردی گئی ہے اور یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ خطرہ اس وقت اتنا قریب پہنچ چکا ہوگا کہ انہیں سوچنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوگی معبودان باطلہ کے دماغ بھی ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے اور مشرکوں کے دماغ بھی ایک ہی نتیجہ پرپہنچیں گے اور وہ بغیر سوچنے اور غور کرنے کے اور بغیر کسی قسم کا مشورہ کرنے کے یک زبا ن ہو کر ان کی عبادت سے انکار کردیں گے اور سمجھیں گے کہ یہی ایک راستہ ہے جس پرچل کرہم بچ سکتے ہیں.غرض بتایا کہ اس وقت خطرہ سخت ہوگا بے بسی انتہاء درجہ کی ہوگی اورمشرک بھی اور معبود ان باطلہ بھی سوائے
اس نتیجہ کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیںگے کہ وہ غیر اللہ کی پرستش کاانکار کردیں.وہ اس وقت تعداد کے لحاظ سے لاکھوں اور کروڑوں ہوںگے.مگر نتیجہ پر پہنچنے کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کرلیں گے اور یک زبان ہوکر مشرک معبودوں کی اور معبود مشرکوں کی تردید کریںگے.یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ اکثر معبود تو بے جان ہوتے ہیں پھر وہ کیسے بات کریں گے اس کے تین جواب ہیں.(۱)ایک تو یہ کہ کچھ معبود جو جاندار ہیں.جیسے ملائکہ اور مسیح ؑ وغیرہ وہ ایسا کریںگے بے جانوں کی طرف سے خود ہی جواب آجائے گا.(۲)دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ کبھی کبھی روحانی دنیا میں ایسا بھی ہوتاہے کہ بے جان چیزیں بھی متمثل ہو کر جواب دے دیتی ہیں.چنانچہ خوابوں اور کشوف میںکثرت کے ساتھ ایسا ہوتاہے.بعض دفعہ درخت بولنے لگ جاتے ہیں.بعض دفعہ مکان بولنے لگ جاتے ہیںبعض دفعہ دیوار بولنے لگ جاتی ہے اور انسان ان کے کلام سے ویساہی اثر قبول کرتاہے جیسے زندہ اور جاندار چیزوں کے کلام سے اثر قبول کرتاہے.حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکان مجھے کہتاتھا کہ یہاں سے جلدی نکلو میں گرنے والا ہوں.پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بے جان بت کس طرح کلام کریںگے.وہ بے شک بے جان ہیں مگر اس وقت متمثل ہو کر اُنہیں ذلیل کرنے کے لئے یہ جواب دیںگے.اور چونکہ اس وقت روحانیت تیز ہو جائے گی وہ سمجھ جائیںگے کہ حقیقت یہی ہے.(۳)تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ بت درحقیقت پرانے بزرگوں یا ملائکہ کے تمثیلی وجود ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ بت اصل میں پتھر نہیں بلکہ یہ قوم کے بزرگوں کی ایک تمثیل اور نقل ہیں (بخاری کتاب التفسیر سورة نوح باب ودا و لا سوا عا ولا یغوث و یعوق).جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قوم نے عزت کی تو ان کا ایک بت بنالیا.یا فرشتوں کی عزت کی توان کے نام پر بت بنالئے.پس چونکہ یہ بت ایک تمثیلی وجود ہیں.اس لئے جن کی وہ تمثیل ہیںوہ جواب دیںگے اور وہی جواب بتوںکا سمجھا جائے گا.اور چونکہ اصل معبود وہی ہیں اس لئے انہی کا جواب حقیقی جواب ہوگا.مثلاً جس فرشتے کا بت بناکر پوجا جاتاہے وہ فرشتہ کھڑا ہوگا اور سب کے سامنے انہیں ذلیل کرےگا یا حضرت اسماعیل علیہ السلام جن کابت بنا کر اس کی پرستش کی جاتی تھی کہیں گے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیںمیں توآپ خدا تعالیٰ کو ماننے والااور اس کی پرستش کرنے والا تھا.پس باوجود اس کے کہ بتوں کی
اکثریت بے جان ہے یعنی لوگ یا تو پتھروںکو پوجتے ہیں.یا درختوں کو بوجتے ہیںیادریائوں کوپوجتے ہیں.چونکہ وہ ان بتوں کو بعض پرانے بزرگوں یا ملائکہ وغیرہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں اورکہتے ہیںکہ یہ بت فلاںدیوتا کا قائم مقام ہے.یہ بت فلاںفرشتہ کی تمثیل ہے یہ بت فلاں بزرگ کا مجسمہ ہے.اس لئے وہی فرشتہ اور بزرگ ان کےسامنے آئیںگے اورکہیںگے کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے عبادت گذارتھے.مگر تم نے ہماری ہی پرستش شروع کردی.ہم تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اور تمہیںکسی قسم کی ہمدردی کامستحق نہیںسمجھتے اور چونکہ اصل معبود وہی ہیں اس لئے ان کے جواب میں سب کے سب بت بھی شریک ہوجائیںگے.اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ۰۰۸۴ کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کافروں کو اکساتے رہیں.حلّ لُغَات.اَ زٌُّّ کے اصل معنے ہنڈیا کے ابال کے ہوتے ہیں لیکن عام طور یہ کسی کو جوش دلانے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے.پس تَؤُزُّهُمْ اَزًّاکے معنے یہ ہیں کہ وہ ان کو خوب جوش دلاتے ہیں ھَزَّ کے معنے بھی ہلانے اور جوش دلانے کے ہوتے ہیںلیکن اَ زٌّ کا لفظ ھَزَّ سے معنوں میں زیادہ قوی ہوتاہے.(مفردات) اَرْسَلَ کے معنے عام طور پر بھیجنے کے ہوتے ہیں لیکن ا س کے ایک معنے علاوہ بھیجنے کے خَلّٰی کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو چھوڑ دیا اورا س کے ارادوں میں مزاحم نہ ہوا چنانچہ عربی میں کہتے ہیں اَرْسَلْتُ البَعِیْرَ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ خَلَّیْتُہٗ (قرطبی )یعنی جب اونٹ کے رسے کھول دیئے جائیںاورا سے آزادانہ طور پر بلاروک ٹوک پھر نے دیا جائے تو کہتے ہیں اَرْسَلْتُ البَعِیْرَ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ خَلَّیْتُہٗ میں نے اسے چھوڑ دیا ہے.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہمارا اصل کام تو یہ ہوتاہے کہ ہم شیطانوں سے اپنے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں.جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر:۴۳) ہم نے اپنے بندوں پرشیطان کے لئے غلبہ مقدر نہیں کیا لیکن یہ قسم کفار کی ایسی ہوتی ہے کہ اس میںہم اپنی حفاظت واپس لے لیتے ہیں اور شیطانوں کو ان پر حملہ کرنے کےلئے کھلاچھوڑ دیتے ہیںکہ اب تمہارا جوجی چاہے کروہم تمہارے معاملات میںکو ئی دخل دینے کے لئے تیا ر نہیں.گویا اَرْسَلَ کے یہ معنے نہیںکہ ہم ان پر حملہ کرنے کے لئے شیطانوںکو بھیجتے ہیںیا خود انہیں کفار کے پیچھے لگادیتے
ہیںبلکہ ا س کے معنے یہ ہیں کہ پہلے تو ہم شیطانوں کو باندھے رکھتے ہیںیا جب وہ حملہ کرتے ہیںتو ہم ان کے اور اپنے بندوںکے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں اوران کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن یہ قسم کفار کی ایسی ہے کہ جب شیطان حملہ کرتے ہیں تو ہم انہیںکہتے ہیںکہ جوکچھ تمہاری مرضی ہے کرو اور ہم ان دونوں کے درمیان سے اپنے وجود کو نکال لیتے ہیں کیونکہ دونوں میںایسی موانست ہوجاتی ہے کہ و ہ شوق سے ایک دوسرے کی طرف بھاگتے ہیں.غرض اس جگہ اَرْسَلَ کے یہ معنے نہیں کہ ہم انہیں حملہ کرنے کے لئے بھیجتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ پہلے تو ہم انہیں باندھے رکھتے ہیںیااگر وہ حملہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آجاتاہے کہ ہم ان دونوںکے درمیان آنے سے رک جاتے ہیں.کیونکہ ان دونوں میں ایسا اتحاد ہو جاتاہے اور اس قسم کی محبت باہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ انتہائی شوق سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کےلئے دوڑتے ہیں اس لئے ہم ان کے معاملات میں دخل دینے سے انکار کردیتے ہیں.توتَؤُزُّهُمْ اَزًّا کے تین معنے ہیں : اول یہ کہ وہ ان کو معاصی کی طرف رغبت دلاتے ہیں.کیونکہ بہر حال جب شیطان کسی کو اکسائے گا تو ایسے ہی کاموں پر اکسائے گا جو اس کی طبیعت کے مطابق ہوں اور چونکہ شیطان کا معاصی سے ہی تعلق ہے اس لئے شیطان کا کسی کو اکسانا یہی معنے رکھتاہے کہ وہ اسے معاصی کی رغبت دلائے گا.اگر یہ کہا جائے کہ استاد لڑکے کو بہت اکساتا ہے تو فوری طورپر انسانی ذہن اسی طرف جائے گا کہ وہ لڑکے کو تعلیم کی ترغیب دیتاہے اور اسے باربار اس طرف متوجہ کرتاہے.یا اگر کہا جائے کہ کرکٹ کا کپتان بہت اکساتاہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ لڑکوں کو کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دیتاہے شیطان چونکہ شیطانی کاموں پر ہی اکساسکتے ہیں اس لئے تَؤُزُّهُمْ اَزًّاکے ایک معنے یہ ہوں گے کہ وہ ان کو معاصی کی ترغیب دلاتے ہیں.دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ وہ ان کو اتنا اکساتے جاتے ہیں کہ آخر وہ جہنم میں جاگرتے ہیں یعنی وہ انہیں معاصی کی رغبت دلاتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ قدم بڑھاتے بڑھاتے وہ جہنم میںجاگرتے ہیں.تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ وہ ان کو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے جوش دلاتے ہیںکیونکہ شیطان اپنے مدمقابل کے خلاف ہی انہیںاکساسکتاہے.اور اس کااصل مقابلہ اسلام اور مسلمانوںسے ہی ہے شیطان چونکہ براہ راست حملہ نہیںکر سکتااس لئے وہ اپنے ساتھیوں کو ابھارتااور انہیںاکساتا ہے کہ اٹھو اور مسلمانوںپر حملہ کرو.
فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ١ؕ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّاۚ۰۰۸۵ پس تو ان کے خلاف جلدی میںکوئی قدم نہ اٹھا ہم نے ان کی تباہی کے دن گن رکھے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے جب حالات یہ ہیں تو تم کو کیا ضرورت ہے کہ تم ان کی سزا کے متعلق سکیمیں سوچو اور ان کے خلاف مختلف قسم کی تدابیر عمل میں لائو.ہماری ہدایت تمہیں یہی ہے کہ لَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ تم ان کے خلاف اپنے ارادوں میں یا ان کے خلاف اپنے حملوں میں یا ان کے خلاف اپنی تدبیروں میں یا ان کے خلاف اپنی دعائوں میں ہرگز جلدی نہ کرو اور چونکہ اس جگہ کسی خاص بات کی تعیین نہیںکی گئی.اس لئے جتنی باتیںدوسروں کے خلاف کی جاسکتی ہیں وہ ساری کی ساری اس جگہ مراد ہوسکتی ہیں.اس جگہ تدبیریں بھی مراد ہو سکتی ہیں خیالات بھی مراد ہوسکتے ہیں غم وغصہ اور رنج کے جذبات بھی مراد ہوسکتے ہیں.دعائیں بھی مراد ہوسکتی ہیں ا ن سب باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ تم کسی قسم کی تدبیر میں بھی ان کے خلاف جلد بازی مت کرو.کیوں ؟ اس لئے کہ پہلی آیت بتارہی ہے کہ خدا نے ان پر شیطانوں کو چھوڑا ہوا ہے.خدامیں طاقت تھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تواپنے بندوں کو ان کے حملہ سے بچالیتا.خدامیں طاقت تھی کہ وہ ان کے حملوں کوناکام کردیتامگر وہ خدا جس کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ جب شیطان حملہ کرنے کےلئے آتاہے تو وہ اس حملہ کامقابلہ کرنے کے لئے شیطان اور بندہ کے درمیان آکر کھڑا ہوتاہے جب اس نے اپنے آپ کودرمیان سے نکال لیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس میںکوئی خدائی حکمت ہے.اور جب خدائی حکمت ایک اور بات کا تقاضا کرتی ہے تومومن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اسی چیز کے مقابلہ کے لئے کھڑاہوجائے جسے خدائی مشیت کے ماتحت ڈھیل دی جارہی ہے.مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیںکہ دشمنانِ اسلام کے خلاف کسی قسم کی تدبیریں کرناجائز نہیں.یہ مطلب بھی نہیں کہ سچائی سے عناد رکھنے والوں کے خلاف کسی قسم کے جذبات غیرت جوش میںنہیںآنے چاہئیں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر کوئی جماعت اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کررہی ہوتو تم اس کی کوششوں کو باطل کرنے کے لئے کوئی جائز تدبیر نہ کرو.بلکہ صرف اس چیز کا مقابلہ کرنے سے روکاہے جس کا ذکر پہلی آیت میں آچکا ہے.اَلَمْ تَرَکہہ کراللہ تعالیٰ نے بتایاتھا کہ حالات ظاہر ہیں اوراگر تم غورکرو توتم سمجھ سکتے ہو کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ الٰہی مشیت کے ماتحت ہورہا ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی بات ایسی ہو کہ ہمیں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کے متعلق خدائی تدبیر کیا ہے یاوہ کوئی ایسا واقعہ ہو جو قانون قدرت کے عام قوانین کے ماتحت ہے تواس وقت ہمیں
اجازت ہے کہ ہم دشمن کے حملوں کا دفاع کریں.ہمیں اجازت ہے کہ ہم اس کے خلاف جائز اور مطابق قانون تدابیر اختیار کریں لیکن جب نظر آجائے کہ خدااپنی عام سنت کے خلاف ایک کام کررہا ہے تو اس وقت یہی حکم ہوتاہے کہ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ.اس وقت بددعا کرنا بھی منع ہوتاہے.اس وقت تدبیریں کرنابھی منع ہوتاہے.اس وقت صرف اتنا ہی حکم ہوتاہے کہ دشمن کے حملوں کو برداشت کرو اور صبر سے کام لو.حقیقت یہ ہے کہ دشمن جب شرارت میں حد سے بڑھ جاتاہے تومومن گھبراجاتے ہیںاور کبھی گھبراکر اظہار غیرت کرتے ہیں کبھی نبی یا اس کے خلفاء سے کہتے ہیں کہ دشمن کی تباہی کی دعامانگو کبھی جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں.لیکن بسا اوقات ان کی تباہی ایک سکیم کے ساتھ مقدر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تسلی دیتاہے کہ جلدی نہ کرو وقت پر سب کام ہوجائےگا اور ان کی سزا خدا تعالیٰ کی طرف سے آجائے گی.اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا تمہاری یہ حالت ہے کہ تم سو بھی جاتے ہو.تم دشمن سے غافل بھی ہوجا تے ہو لیکن ہمیں تو ان کی یہ باتیں اتنی بر ی لگ رہی ہیں کہ ہم خود ان کی تباہی کی گھڑیاں گن رہے ہیں.جب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم خود ان کی گھڑیاں گن رہے ہیں.کہ کب وقت آئے اور ہم ان کی گردن مروڑ کر رکھ دیں تو تم کیوں جلدی کرتے ہو.تم میںتو طاقت ہی نہیںکہ ان کامقابلہ کرسکو.دیکھو اس جگہ جہاد کے متعلق کیسی واضح اور اہم ہدایت دی گئی ہے اورکس طرح اس عظیم الشان نظر یہ کی تائید کی گئی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے موجود زمانہ میںجہاد کے متعلق پیش فرمایا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب مسلمانوںکا ایک حصہ یہ کہے گا کہ اسلام کی ترقی اب اسی طرح ہوسکتی ہے کہ ان کفار سے جہاد کیاجائے اور انہیں تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش کی جائے.مگر ان کی یہ رائے بالکل غلط ہوگی.صحیح اور درست راستہ یہی ہوگا کہ ان کے مقا بلہ میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور ان کے حملوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیاجائے اور صرف روحانی تدابیر اختیا رکی جائیںیعنی تبلیغ اسلام اور دعائیںوغیرہ.چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جو خدا تعالیٰ کی طر ف سے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے انہوں نے لوگوں کے سامنے یہی اعلان فرمایا کہ ؎ یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافر وں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۸)
آپ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے پاس کسی قسم کی طاقت ہی نہیں تو ان پر جہاد بالسیف کس طرح فرض ہو سکتا ہے.جب وہ وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا مسلمانوںکو ان کے مقابلہ کی طاقت عطافرمادے گا.بہرحال آپ نے جہاد کے متعلق مسلمانوں کے رائج الوقت خیالات کی تردید فرمائی اور یہی وہ حقیقت ہے جو لَا تَعْجَلْ میں بیان فرمائی گئی ہے.اصل با ت یہ ہے کہ اس سورۃ میں مسیحیوں کی جن ترقیات کا ذکر کیا گیاہے وہ آئندہ زمانہ میں ہونے والی تھیں بلکہ حدیثوں اور قرآن میں انہیں آخری زمانہ کے ساتھ وابستہ کیا گیاہے پس لَا تَعْجَلْ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود نہیں بلکہ آئندہ زمانہ کا مسلمان مراد ہے اور بتا یاگیا ہے کہ وہ ایک وقت مسیحیوں کی ترقی کو دیکھ کر ان سے جہاد کرنے کے شوق میں مبتلا ہوجائے گا چنانچہ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جس زمانہ میں مسیحیت مسلمانوں کا شکار تھی اور ان کو اس سے مقابلہ کرنےکی طاقت تھی اس وقت تک تو مسلمان ان کی طرف سے غافل رہے اور جب مسیحیت دنیا میں پھیل گئی تو انہیںجہاد کا خیال آیا حالانکہ اس وقت خدا کی مشیت نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا والی ظاہر ہوچکی تھی اور اس علم کے بعد مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ سابق غفلت پر استغفار کرتے اور آئندہ کےلئے اللہ تعالیٰ سے مجملا ًدعا کرتے کہ ان کے فتنہ سے مسلمانوں کو بچائے اور جہاد بالقرآن شروع کردیتے تاکہ سابق غفلت کا ازالہ ہوجاتا اور قرآن کریم کی برکت سے مسیحیت کی طاقت ٹوٹ جاتی مگر انہوں نے جہاد بالسیف کا بے موقع اظہار کرکے مسیحیوںکو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کاموقع دیا اور اس سے متاثر ہو کر ہزاروں مسلمان مسیحی ہوگئے.اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن.حضرت مسیح موعود ؑ ایک ہی شخص تھے جنہوں نے اس نقص کی طرف توجہ دلائی.مگر اس وجہ سے ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور کہا گیا کہ یہ شخص اسلامی ترقی کادشمن ہے (اشاعۃ السنۃ النبویۃ جلد ۱۳ نمبر ۴ تا ۱۲ ۱۸۹۰ء صفحہ ۵ تا ۱۴۸).حالانکہ اسلامی ترقی کاواحد ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کی صحیح تعلیم کی اشاعت تھا تاکہ خود مسیحیوں میں سے ایک حصہ کو جیتاجائے اورباقی حصہ کے دل سے غلط فہمیاں دور کی جائیںمگر افسوس کہ اس خدمت کی وجہ سے آپ کو اتنی گالیاں مسلمانوں نے دیں کہ شاید کسی مامور کو اتنی کثرت سے اوراس مقدار میںگالیاں نہ ملی ہوںگی.میں سمجھتاہوں کہ جتنی گالیاں اس زمانہ کے علماء نے ایک ایک دن اور ایک ایک جلسہ میں بانی ءِسلسلہ احمدیہ کو دی ہیںاس قدر گالیاں سابق ماموروں کو شاید دس دس سال میں بھی نہ ملی ہوںگی.بلکہ گذشتہ زمانہ کے علماء کی زبان پر ایسا گند کبھی آیا ہی نہ ہوگا.اس ظلم کا بدلہ قیامت کے دن ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے لیں گے.وہ خود ان ظالموں پراپنی ناراضگی کا اظہار کریں گے اورہمارے دلوں پر تسکین کا مرہم رکھیںگے.انشا ء اللہ تعالیٰ.
یہ امر بھی یادرکھنا چاہیے کہ فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ کے یہ معنے نہیںکہ ان کے خلاف کسی قسم کی دعا نہیںکرنی چاہیے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ مومنوں کو گھبرانا نہیں چاہیے اور مایوس نہیں ہوناچاہیے ورنہ بعض قسم کی دعائیں ایسی ہیں جو اصولی رنگ میں جائز ہیں.مثلاًیوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ عیسائیوں کی طاقت کو توڑدے بالکل جائز ہوگا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دعاکی اور فرمایا کہ ؎ یَارَبِّ سَحِّقْھُمْ کَسَحْقِکَ طَاغِیًا وَ اَنْزِلْ بِسَاحَتِھِمْ بِھَدْم مَکَانِہِمْ (نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۱۲۶) مگر یہ اصولی دعا ہے ان کے کسی خاص فعل کے متعلق نہیںکہ چونکہ انہوں نے فلاں حملہ کیا ہے اس لئے انہیں تباہ کیاجائے.محض اصولی رنگ میں خدا تعالیٰ سے اس خواہش کا اظہار کیاگیا ہے کہ وہ عیسائیوں کی طاقت کو توڑدے.اس رنگ میں عیسائیت کے خلاف دعائیںبھی کی جاسکتی ہیں مگر ان کے کسی خاص فعل پر بددعا کرنا جائز نہیں ہوگا.بہر حال فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ میں جہاد کے مسئلہ کو بالکل واضح کردیا گیاہے اوراللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اورہم ان کی ہلاکت کی گھڑیاں گن رہے ہیںجب وہ وقت آئے گا توہم خود پکڑ لیں گے تم ان کے مقابلہ میںکیا کرسکتے ہو تم سے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتاجو کچھ کرنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے.يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ۰۰۸۶ جس دن ہم متقیوں کو زندہ کرکے (خدائے )رحمٰن کے حضور میں اکٹھا کرکے لے جائیںگے.حلّ لُغَات.وَفْدٌ کی تشریح کرتے ہوئے مفردات والے لکھتے ہیںکہ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقْدَمُوْنَ عَلی الْمُلُوکِ مُسْتَنْجِزِیْنَ الْحَوَائِـجَ یعنی وفد سے وہ لوگ مراد ہوا کرتے ہیں جو بادشاہوں کے پاس اس غرض کے لئے جاتے ہیں کہ اپنی حوائج اور ضروریات ان سے پوری کروائیں.تفسیر.جہاں تک اگلے جہان کا سوال ہے اس میںکوئی شبہ نہیںکہ یہ آیت بھی اور اس سے اگلی آیات بھی اگلے جہان پر چسپاں ہوجاتی ہیں اوراس صورت میں ہم اس آیت کے یہ معنے لے لیں گے کہ قیامت کے دن سب مومن خدا تعالیٰ کے سامنے اجتماعی طور پر پیش ہوںگے لیکن سوال یہ ہے کہ اس جگہ ان دنیوی ترقیات کا ذکر ہے جو
عیسائیوںنے حاصل کیں اور دنیوی ترقیات کے متعلق ایک مومن کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جب یہ لوگ مر جائیںگے تو انہیںاگلے جہان میں عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے دل میں یہی خیال آتاہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کومیرے سامنے ذلیل کرے اور اسلام کوفتح عطافرمائے بیشک وہ معنے ہم نظر انداز نہیںکرسکتے لیکن جب ساری سورۃ میں عیسائیوںکے دنیوی عروج اور ان کی شان و شوکت کا ذکر کیا گیاہے تواس کے بعدیہ بات کتنی پھسپھسی نظر آتی ہے کہ الٰہی ان کا قیامت کے دن بیڑہ غرق ہو.اگر ان کا اگلے جہان میں ہی بیڑہ غرق ہونا ہے تو دنیا ہماری اس بات کو کس طرح مانے گی.وہ تو یہی کہتی رہے گی کہ انہوں نے بڑے مزے اٹھائے ہیں.پس لازماًہمیں اس کے ایسے معنے کرنے پڑیںگے جو اس دنیا پر بھی چسپاں ہوسکیں لیکن چونکہ الفاظ ایسے ہیں جو اگلے جہان پر بھی چسپاں ہوجاتے ہیں اس لئے ہم یہ معنے بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اس دن مومن خدا تعالیٰ کے حضور اجتماعی طور پر حاضر ہوںگے اور انعام واکرام سے نوازے جائیںگے لیکن پہلے ہمیں اسی دنیاپر اس آیت کو چسپاں کرنا پڑے گا اورجب ہم اس آیت کودنیاپر چسپاں کریں تو يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں ہوسکتے کہ جب ہمارے فیصلہ کا وقت آئے گا تو اس وقت ہم خود مومنوں کے دلوں میں القاء کریں گے کہ اب ان کی ہلاکت کے لئے اجتماعی طورپر دعائیں مانگو.ہم روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں جن میںتمام مومن اکٹھے ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوجاتےہیں یہی حشرہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایاگیا ہے کہ اس د ن ہم سب مسلمانوں کو خدائے رحمٰن کی طرف اکٹھا کرکے لے جائیں گے یعنی اس دن ان کے دلوںمیں ہم ایک آگ لگادیں گے اورانہیںکہیںگے کہ اب وہ وقت آگیاہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے.آئو اورہم سے دعائیں مانگو تاکہ ہم اس قوم کے خلاف اپنے فیصلہ کونافذ کردیں.وَفْدٌ کا لفظ عربی زبان میں اس وقت استعمال ہوتاہے جب کوئی جماعت کسی بادشاہ کے سامنے اپنی حاجات لے کر پیش ہو اور نماز میں روزانہ پانچ وقت مسلمان اجتماعی طور اپنی اغراض لےکر خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں گویا وفد کے اندر جتنی باتیں ضروری ہوتی ہیں وہ مسلمانوںکی نماز میں پائی جاتی ہیں وفد کا لفظ چاہتاہے کہ جماعت ہو.وفد کا لفظ چاہتاہے کہ اس جماعت کی کوئی غرض ہو اور پھر وفد کا لفظ اس بات کا بھی تقاضا کرتاہے کہ وفد میں شامل ہونےوالوں کا اچھالباس ہو.کیونکہ انہوں نے بادشاہ کے دربار میں پیش ہوناہوتاہے اور یہ ساری باتیں نماز میں پائی جاتی ہیں نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہے نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضوراپنی حاجات پیش کی جاتی ہیں اورپھر نماز کے متعلق یہ بھی حکم ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی چاہیے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ
وَفْدٌ کا لفظ عربی زبان میں اس وقت استعمال ہوتاہے جب کوئی جماعت کسی بادشاہ کے سامنے اپنی حاجات لے کر پیش ہو اور نماز میں روزانہ پانچ وقت مسلمان اجتماعی طور اپنی اغراض لےکر خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں گویا وفد کے اندر جتنی باتیں ضروری ہوتی ہیں وہ مسلمانوںکی نماز میں پائی جاتی ہیں وفد کا لفظ چاہتاہے کہ جماعت ہو.وفد کا لفظ چاہتاہے کہ اس جماعت کی کوئی غرض ہو اور پھر وفد کا لفظ اس بات کا بھی تقاضا کرتاہے کہ وفد میں شامل ہونےوالوں کا اچھالباس ہو.کیونکہ انہوں نے بادشاہ کے دربار میں پیش ہوناہوتاہے اور یہ ساری باتیں نماز میں پائی جاتی ہیں نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہے نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضوراپنی حاجات پیش کی جاتی ہیں اورپھر نماز کے متعلق یہ بھی حکم ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی چاہیے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف:۳۲) اے بنی نوع انسان ہر نماز کے وقت زینت کا خیال رکھاکرو اسی لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کیا جائے صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں.کوئی بودار چیز نہ کھائی جائے.پھر جب نماز میں انسا ن کھڑا ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ پس وفد کے طور پر پیش ہونےکی بہترین صورت نماز ہے.اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس دن ہم مومنوں کے دلوں میں خود تحریک پیداکریںگے کہ ان کی تباہی کے لئے ہم سے دعائیںکرو.اگر اس آیت کومرنے کے بعد کی زندگی پر چسپاں کیا جائے تو يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ بعث بعد الموت دو قسم کی ہے ایک بعثت فردی اور ایک بعثت اجتماعی.قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد ایک زندگی ملتی ہے مگر وہ فردی زندگی ہوتی ہے.اس کے علاوہ جیسا کہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور حدیثوں میں بھی اس کی تفصیل آتی ہے ایک ایسی بعثت ہوگی جس میں تمام کے تمام انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے کئے جائیںگے.اور وہ بعثت اجتماعی اس بعثت فردی سے کچھ فرق رکھتی ہوگی(ترمذی ابواب صفة القیامة باب ما جاء فی شان الحشر).وہ لوگ جنہوںنے پورا غور نہیں کیا ان کے دماغ مشوّش ہوجاتے ہیں کہ ادھر تو کہتے ہیںکہ موت کے معاًبعد ایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے اور اُدھر کہتے ہیںکہ ایک دن ساری دنیا اکٹھی ہوگی ان دونوںہاتھوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا؟ یہ اعتراض اسی لئے پید اہوتاہے کہ انہوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ بعثتیں دو قسم کی ہیں ایک بعثت وہ ہے جو موت کے معاً بعد شروع ہوجاتی ہے اور جس میں انسان اگلے جہان کے انعامات یا عذاب محسوس کرنے کے لئے نئی طاقتیں حاصل کرتاہے.مگر اس کی یہ حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی کی طفولیت یا بچپن کا زمانہ ہوتاہے اس کے بعد جب سارے انسانوں کومجموعی طور پر ایسی طاقت حاصل ہوجائے گی کہ وہ وہاں کے ثواب اور عذاب کو کامل طور پر محسوس کرسکیں اور ان کی حالت ایک جوان بالغ مرد کی سی ہوجائےگی جو دنیا کی نعمتوں سے پوری طرح حظ اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس وقت تمام انسانوں کا حشر ہوگا جس میں مومن بھی شامل ہوںگے اور کافربھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آل فرعون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا١ۚ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المومن:۴۷) یعنی آل فرعون پر صبح اور شام آگ پیش کی جاتی ہے لیکن جب قیامت کا دن آئے گاتو ہماری طرف سے حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو اس سے بھی زیادہ شدید عذاب میں داخل کردو.اسی طرح حدیثوں میں آتاہے کہ قیامت کے دن تمام لوگوں کو دوزخ پر سے گذرنا پڑےگا جہاں ایک پل بچھایاجائے گا جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا بعض لوگ تو اس پر سے بجلی کی طرح گذر جائیںگے.بعض ہوا کی سی تیزی اختیار کریں گے اور گذرجائیںگے بعض پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے گذر جائیںگے بعض گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہوئے گذرجائیںگے بعض گھسٹتے ہوئے لولوں لنگڑوں کی طرح گزر جائیں گے اور کافر اور منافق کٹ کر نیچے گریں گے اور جہنم میںجاپڑیں گے(مستدرک کتاب التفسیر).غرض ایک حشر اکٹھا ہوگااور ایک انفرادی ہوگا یہ آیت اجتماعی حشر پردلالت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ صرف انفرادی بعث ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بعث بھی مقدر ہے.
تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا بعض لوگ تو اس پر سے بجلی کی طرح گذر جائیںگے.بعض ہوا کی سی تیزی اختیار کریں گے اور گذرجائیںگے بعض پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے گذر جائیںگے بعض گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہوئے گذرجائیںگے بعض گھسٹتے ہوئے لولوں لنگڑوں کی طرح گزر جائیں گے اور کافر اور منافق کٹ کر نیچے گریں گے اور جہنم میںجاپڑیں گے(مستدرک کتاب التفسیر).غرض ایک حشر اکٹھا ہوگااور ایک انفرادی ہوگا یہ آیت اجتماعی حشر پردلالت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ صرف انفرادی بعث ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بعث بھی مقدر ہے.نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا کے متعلق مفسرین نے بحث کی ہے کہ کیا وہ جنت کی طرف جائیںگے یا اللہ تعالیٰ کی طرف.بعض نے کہا ہے کہ جنت کی طرف اور چونکہ وہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے اس لئے اِلٰی الرَّحْمٰنِ کے الفاظ استعمال کرلئے گئے ہیں اور مراد یہ ہے کہ جو جنت کی طرف گئے وہ ایسے ہی ہیں.گویا وہ خدا تعالیٰ کی طرف گئے اور اس کی مثال میں وہ سورئہ صافات میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول پیش کرتے ہیںکہ وَ قَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ(الصفت:۱۰۰) حضرت ابراہیم علیہ السلام کنعان کی طرف ہجرت کرکے جاتے ہیںمگر کہتے یہ ہیں کہ میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوںکیونکہ وہ مقام خدا نے ان کے لئے چنا تھا جس طرح خدا تعالیٰ کے منتخب کردہ مقام کی طرف ہجرت کرکے جانے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہاکہ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ اسی طرح ان کے جنت کی طرف جانے کو نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اسی طرح حدیث بخاری میں آتاہے کہ مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلی اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہ اِلَی اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ (بخاری کتاب الایمان والنذور باب النیۃ فی الایمان) یعنی جس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہے وہ اللہ اور رسول کی طرف جاتاہےحالانکہ درحقیقت وہ مدینہ کی طرف گیا ہوتاہے.اس سے معلوم ہوتاہے کہ کسی موعود مقام یا چنے ہوئے مقام کی طرف جانا بھی خدا کی طرف جانا کہلاتاہے پس وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت اس کے معنے جنت کی طرف جانے کے ہیں(تفسیر قرطبی زیر آیت ھذا و تفسیر بغوی).مگر چونکہ وہ خدا کا گھر ہے اس لئے ان کاجنت کی طرف جاناگویا خدا کی طرف جانا ہوگا.بعض نے کہاہے کہ نہیںوہ خدا تعالیٰ کی طرف ہی جائیںگے بعض احادیث میں یہ آتاہے کہ پہلے وہ خدا تعالیٰ کی طرف جائیںگے اور پھر جنت کی طرف (ترمذی کتاب صفة الجنة باب ما جاء فی خلود اہل الجنة اھل النار).یہ سب اختلاف اس وجہ سے ہے کہ خدا تعالیٰ کو مجسم مانا گیا ہے اور پھر اسے ایک مقام میں محدود کیا گیا ہے.آیات قرآنیہ اور احادیث دونوں سے ظاہر ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ ہر جگہ ہے.مدینہ کو ہجرت ہو تو وہ مدینہ میںہے.حبشہ کو ہجرت ہو تو وہ حبشہ میں ہے اور خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے جہاں جائیںوہیں خدا تعالیٰ موجود ہوتاہے بلکہ
کفار کے لئے بھی وہ ہر جگہ ہوتاہے قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ يَجِدْهُ شَيْـًٔا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ (النور:۴۰)یعنی کافروں کے اعمال سراب کی طرح ہوتے ہیں جیسے کسی وادی میں سراب نظر آئے تو پیاسا آدمی اسے پانی سمجھ لیتا ہے.مگر جب وہ پانی سمجھ کروہاں جاتاہے تو اسے پانی نہیں ملتالیکن اسے خدانظر آجاتاہے اور وہ اس سے سارا حساب لے لیتا ہے گویا اس کا تباہی اور بربادی کے مقام پر پہنچنا خدا کاملنا قرار دیاگیا ہے.اسی طرح مومنوں کے متعلق آتاہے کہ جہاں وہ جاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نظر آجاتاہے جیسے فرماتا ہے فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ(البقرۃ:۱۱۶) جس طرف بھی تم اپنا منہ کرو وہیں تم اللہ تعالیٰ کو موجود پاؤگے یا جیسے قرآن کریم میں ہی ہے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ (الفتح :۱۱) وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ کے اوپر ہے.اب وہ ہاتھ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا مگر اسے خدا نے اپنا ہاتھ قرار دےدیا.اس میں بھی درحقیقت وہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ مومن جہاں جاتاہے اسے خدا نظر آجاتاہے.اسی طرح کافر کو بھی خدا نظر آجاتاہے مگر وہ اسے عذاب کی شکل میں نظر آتاہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا وجود کسی خاص جگہ میں محدود نہیں اور پھر وہ مجسم بھی نہیں قرآن کریم میں ہی آتاہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ (قٓ:۱۷) کہ ہم انسان کی رگ جا ن سے بھی زیادہ قریب ہیں.پس وہ چیز جو ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہے اور جو تجسم سے پاک ہے اور غیر محدود ہے.اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کسی خاص جگہ پر بیٹھاہوا ہوگا اور مومن گھوڑوں پر چڑھ کر اس کی ملاقات کے لئے جارہے ہوںگے بالکل نامعقول بات ہے.احادیث میںآتاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے تو وفد سوارہی دیکھے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے وفد کیسے ہوںگے.یعنی جب بادشاہوں کی طرف ان کی ملاقات کے لئے وفد جاتے ہیں تو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں نہایت اچھے اور قیمتی لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑی شان کے ساتھ جاتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف جو لوگ وفد کی صورت میں جائیںگے وہ کس طرح جائیںگے ؟ آپ نے فرمایا کہ جنت کے اونٹ ان کی سواری کےلئے لائے جائیںگے.(قرطبی ) الثعلبی نے اسی روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کو مل کرمومن نکلیںگے توان کے لئے سواریاںلائی جائیںگی یعنی پہلے وہ سوار ہو کر نہیںجائیںگے بلکہ پیدل جائیںگے.لیکن جب ملاقات کرکے
نکلیںگے تو انہیںسواریاں دی جائیںگی (قرطبی).ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یٰٓااَیُّھا النَّاسُ اِنَّکُمْ لَتُحْشَرُوْنَ اِلٰی ا للہ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا (قرطبی بحوالہبخاری کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ عزو جل واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) کہ اے لوگو ! تم کو جب خداکے سامنے اٹھایا جائےگا تو تم ننگے ہوگے اپنے پائوں سے بھی او رننگے ہوگے جسم سے بھی اور بے ختنہ کے ہوگے اب جو بے ختنہ ننگے پائوں اور ننگے بدن ہوں گے ان کے لئے گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہو کر جانےکا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.بہرحال یہی تسلیم کرناپڑتا ہے کہ وہ پیدل جائیں گے.چنانچہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مومن جب خدا تعالیٰ کو مل کرنکلیں گے تو ان کے لئے سواریاں لائی جائیںگی وہ اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ جائیںگے ننگے اور پیدل اور آئیںگے سوار اور ملبوس.یہاں بھی وہی غلطی کی گئی ہے.یہ سب محاورے ہیںجن کو ظاہر پر محمول کیا گیا ہے.وہاں کے لباس اور روح کی سواریاں اس دنیا کی نہیں ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ بعث کے معاًبعد ایک گھبراہٹ ہوگی.اس کے بعد فوراً مومن سنبھل جائیںگے اور اکرام اور اعزازسے نوازے جائیں گے.اور حدیث شفاعت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس وقت لوگ سخت گھبرائے ہوئے ہوںگے مگر آہستہ آہستہ مومنوں کے دلوں میں ایک سکون اور اطمینان پیدا کردیا جائےگا اور انہیں تسلی دی جائےگی(بخاری کتاب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل باب قولہ تعالیٰ ذریة من حملنا مع نوح) اور خداکے ملنے سے مراد اسی طرح ملنا ہے جس طرح ایک محدود شے غیر محدود سے مل سکتی ہے یہ نہیں کہ خداعرش پر بیٹھا ہوا ہوگا اور مومن گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر اس سے ملنے کے لئے جائیں گے اس میں کوئی شبہ نہیںکہ مومن وہاں خدا تعالیٰ سے ملیں گے.مگر یہ ملاقاتیں اسی طرح کی ہوںگی جس طرح اللہ تعالیٰ کے خاص بندے اسی دنیا میں اس سے ملاقات کیا کرتے ہیںصرف اس قدر فرق ہوگا کہ اگلے جہان میں چونکہ ہمارامادی جسم نہیں ہوگا.اس لئے وہ ملاقات زیادہ مکمل اورشاندار ہوگی یہ نہیںہوگاکہ اگلے جہان میں خدامحدود ہوجائے.جب ہم جو محدود ہیں وہاں غیر محدود ہوجائیںگے تو خداجوغیر محدود ہے اس کے متعلق یہ خیال کرلینا کہ وہ محدود ہوجائےگایہ عقل کے بالکل خلاف ہے اگر ہم نے بھی وہاںان جسمانی بندشوںسے آزاد ہوجاناہے تو خدا تعالیٰ کومحدود سمجھ لینا عقل کے صریح خلاف ہے بے شک حُفَاۃً عُرَاۃً کےا لفاظ ایسے ہیں جن سے بظاہر شبہ پڑتا ہے کہ شاید وہاں مومن اسی طرح ملاقات کے لئے جائیںگے جس طرح یہاں پیدل اور سوار بادشاہوں کی ملاقات کے لئے لوگ جایا کرتے ہیں.مگر یہ شبہ بھی درست نہیں.رات کو انسان سویا ہوا ہوتاہے.اس وقت وہ ننگے پائوں ہوتاہے اور پھر کپڑے بھی اس نے
زیادہ تر اتارے ہوئے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اسے خدامل جاتاہے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تحریر میں نے ایک دفعہ دیکھی جس میں یہ لکھا تھا کہ اے خدا!لوگ کہتے ہیں کہ میں تجھے چھو ڑدوں مگر میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں جب ساری دنیا سورہی ہوتی ہے جب میرے دوست اور رشتہ دارمجھ سے علیحدہ ہوجاتے ہیں بلکہ میرانفس بھی مجھے چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے اس وقت تو میرے پاس آتاہے اورکہتاہے کہ گھبرانہیںمیں تیرے ساتھ ہوں.اگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ السلام کی سوئے ہوئے بھی خدا تعالیٰ سے ملاقات ہوجاتی تھی تو روحانی طورپر اس میں کون سی تعجب کی بات ہے کہ سب مومن خدا تعالیٰ سے اجتماعی طورپر ملیں اور وہ انہیں اپنے اکرام و انعام سے نوازے جب آدمی نیم بےہوشی یاغنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ سے مل سکتاہے تو ننگے بدن یا ننگے پیر ہونے کی حالت میں خدا تعالیٰ سے کیوںنہیں مل سکتا؟ روحانی نقطہ نگاہ سے ایک ہی وقت میں انسان کا ننگے پیر ہونا ننگے بدن ہونااوراس کانامختون ہونا بھی ممکن ہے.اور پھر خدا تعالیٰ سے اس کا اعزاز واکرام کے ساتھ ملنا بھی ممکن ہے.صرف اتنی بات ضرور ی ہے کہ ان امور کو ظاہر ی طورپر دیکھنے کی بجائے انسان روحانی طورپر دیکھنے اورسمجھنے کی کوشش کرے.بعض دفعہ انسان پیاسا لیٹتاہے اور کشف میں اسے محبت الٰہی کا پیالہ پلایا جاتاہے.جس سے اس کے ماد ی جسم میں بھی طراوت پیدا ہوجاتی ہے.اور اس کی پیاس دور ہوجاتی ہے.اب گو اسے ایک پیالہ پلایا گیا جس سے اس کی پیاس بھی بجھ گئی مگر روحانی نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے اس کے دل میں اپنی محبت پیداکردی ہے اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کشفی حالت میں پانی اور شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے گئے اور آپ نے صرف دودھ کا پیالہ لے لیا اورپانی اورشراب کا پیالہ رد کردیا.تو گو دودھ کے پیالہ کی یہ تعبیر تھی کہ آپ کی امت ہلاکت سے بچی رہے گی اوراسے الہٰی علوم سے ہمیشہ حصہ ملتارہے گا(دلائل النبوۃ للبہیقی جلد ۲ باب الاسراء برسول اللہ ) مگر ہم تمثیلی طورپر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے جسم نے اس وقت پیاس محسوس کی جس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کودودھ کا پیالہ دیاگیا اور اس کے پینے سے آپ کواس قدر سیری ہوئی کہ آپ کی پیاس بالکل جاتی رہی.سارے جھگڑے صرف اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان ان باتوں کوجسمانیات کی طرف لے آتاہے حالانکہ ان کا تعلق جسمانیات سے نہیں بلکہ روحانیات سے ہے.اگر انسان ہربات کوروحانی نقطہ نگاہ سے دیکھے اور سمجھے کہ ننگے پیر ہونابھی روحانی دنیا میں ایک مفہوم رکھتاہے.ننگے بدن ہونابھی ایک مفہوم رکھتاہے.نامختون ہونا بھی ایک مفہوم رکھتاہے گھوڑوں اور اونٹوںپر سوار ہونابھی ایک
مفہوم رکھتاہے تو خواہ اس سے بھی بڑھ کرعجیب وغریب حدیثیں آجائیں وہ فوراً سمجھ لیتا ہے کہ وہاں کی روحانی کیفیات کا یہ ایک ظاہری نقشہ صرف ہمیں سمجھانے کے لئے کھینچاگیاہے.ورنہ ہر ظاہر ایک باطن بھی رکھتاہے اور اصل چیز وہی باطن ہے جوخالص روحانی چیز ہے اور مادیات سے بہت بالا ہے.وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاۘ۰۰۸۷ اور مجرموں کو ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف لے جائیں گے.حلّ لُغَات.سَاقَ الْمَاشِیَةَ سَوْقًا وَ سِیَاقَۃً وَمَسَاقًا کے معنی ہوتے ہیں حَثَّھَا عَلٰی السَّیْرِ مِنْ خَلْفٍ (اقرب) اس نے سواری کوپیچھے کی طرف سے ہانکا یعنی اسے سونٹامارمار کر چلایا.اس لئے وہ شخص جو اس لئے مقرر کیا جاتاہے کہ مجرموںکے پیچھے پیچھے چلے اور ان کی نگرانی رکھے یا اونٹوں وغیرہ کے پیچھے چلے اسے سائق کہا جاتاہے.اور سَاقَ الْحَدِیْثَ کے معنے ہوتے ہیں سَرَدَہُ (المنجد)یعنی اس نے بے تحاشالمبی باتیں شروع کردیں.تفسیر.عربی زبان میں جرنیل کوقائد کہتے ہیں اور قائد وہ ہوتاہے جوفوج کے آگے آگے چلتاہے.یورپین افواج میں جرنیل کا مقام بالعموم پیچھے ہوتاہے پس عربی کے لحاظ سے وہ سائق کہلا ئےگا قائد نہیں سائق جانوروں کے لئے ہوتاہے یامجرموںکے لئے کیونکہ وہ آگے بڑھنے میں خوشی محسو س نہیں کرتے.جانور کی مرضی ہوتی ہے کہ میںجہاں جانا چاہوں جائوں اور آدمی کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس سے کام لے یااسے پانی وغیرہ پلانے کے لئے لے جائے.پس جانور اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اپنے مالک کی مرضی سے چلتاہے.اسی طرح مجرموں کا بھی جی نہیں چاہتاکہ وہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوں اس لئے ان کےلئے بھی ایک سائق ہوتاہے جو انہیں اپنی نگرانی میں مجسٹریٹ کی طرف لے جاتاہے.غرض مجرموںکے لئے اور یا پھر جانوروں کے لئے سَاقَ کا لفظ استعمال ہوتاہے چنانچہ سَائِقُ الْاِبِلِ.اونٹوں کے چرواہے کو کہاجاتاہے اسی طرح کمزوروں کےلئے بھی یہ لفظ استعمال ہوجاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جنگ کے احکام نازل ہوئے تومومنوں میں سے ایک گروہ کی یہ حالت تھی کہ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُوْنَ (الانفال:۷) وہ سمجھتے تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں.کیونکہ ان کے دلوں میں بار بار یہ خیال اٹھتاتھا کہ ہمیں کہا جاتا تھاکہ رحم کرو.ہر ایک سے محبت کے
ساتھ پیش آئو.حسن سلوک کرو.نرمی اور ملاطفت سے کام لومگر اب کہتے ہیںکہ جنگ کرو.پس اس وقت یہ انہیں ایسی چیز نظر آتی تھی جو عام تعلیم کے خلاف تھی اس لئے جب انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان کی طبیعتوں پرگراں گذرا.یہ نہیں کہ وہ نافرمانی کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ انہیں یہ عجیب چیز نظر آئی کیونکہ اس میں ان کے لئے بڑی تلخی تھی اور انہیں اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے ہی لڑنا پڑتاتھا جن سے لڑنا ان پر طبعاً گراں گذرتا تھا مگر اسی فعل کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی اور وہ جنت کی طرف دھکیل دئے گئے.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ قرآن کریم میں صرف مجرموں اور کمزوروں کےلئے نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی سَاقَ کالفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ سورۃ زمر میں ہے وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا (الزمر:۷۲) اگر سِیْقَ کے معنے زور سے اور دھکیل کر آگے کرنے کے ہیں تو اس کے کیا معنے ہوئے ؟ مفسرین نے تو یہ جواب دیا ہے کہ کفار کے لئے جونُسُوْقُ کا لفظ آیا ہے اس کے معنے کفار کو دھکیل کرلے جانے کے ہیںلیکن مومنوں کے لئے یہ لفظ ان کی سواریوں کودھکیلنے کی مناسبت سے ہے.یعنی خدا تعالیٰ ان کی آمد کا منتظر ہوگااور فرشتے ان کی سواریوں کو مارمار کر بھگارہے ہوں گے تا کہ جلد پہنچیں.(تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت زمر ۷۱) میرے نزدیک اس کے دوجواب اور ہیں.اول تو یہ کہ کفار کی نسبت اس سے پہلے آیا ہے کہ وَ سِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا (الزمر:۷۲) پس آگے جوار کے لحاظ سے وہی لفظ مومنوںکی نسبت بھی استعمال کردیا ہے پس اس جگہ اس کے معنے صرف چلانےکے ہیں آگے یاپیچھے کا ذکر نہیں.اور نہ اہانت عزت کی طرف اشارہ ہے صرف پہلے سیق کی متابعت میں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ کفار کی موجودہ حالت اور مومنوںکی سابق حالت کا اس لفظ سے نقشہ کھینچاگیا ہے کافرعذاب سے بھاگتاہے.مومن نعمتوں اور آسائشوں سے بچتاہے وہ تو صرف زیارت باری تعالیٰ کا خوہشمند ہوتاہے.پس مومنوں کی نسبت یہ لفظ رکھ کر بتایا ہے کہ جس طرح کافر تکلیف سے بچتاہے ، مومن آرام کی زندگی سے بچتاہے.مگر خدا تعالیٰ اسے زبردستی دیتاہے.یہ ویساہی ہے جیسا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اچھا کھانا یا کپڑااستعمال نہیںکرتاجب تک کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھاکرمجھے مجبور نہیں کرتاکہ میں اچھا کھانا کھائوں یا اچھا کپڑا پہنوں (قلائد الجواھر فی مناقب شیخ عبد القادر صفحہ ۳۶ از محمد بن یحیٰ).پس مومنوںکے دلوں کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچنے کے لئے یہ لفظ استعمال کیاگیاہے.نہ یہ کہ ظاہری طورپر ان کو دھکیل کر جنت کی طرف لےجایا جائے گا.
سائق کے مقابلہ میں قائد کا لفظ استعمال ہوتاہے قائد کا لفظ ایک طرف افسر کی بہادری پراو ردوسری طرف فوجوںکی بشاشت پر دلالت کرتاہے.تیسرے اچھا نمونہ دکھاکر دوسروں کو تحریص دلانےکی طرف اشارہ ہوتاہے.درحقیقت عمدہ لیڈر وہی ہوتاہے جس میں یہ تینوں باتیں پائی جائیںیعنی وہ اپنے نمونہ کے ساتھ فوج کو رغبت دلائے اور انہیں بتائے کہ میں بھی قربانی کرتاہوں تم بھی ہر قسم کی قربانی سے کام لو.پھر خود اس کے اندر ایسی بشاشت پائی جائے کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے میں ایک لذت محسوس کرے.کیونکہ قائد وہی ہوتاہے جواپنے ساتھیوں سے آگے دوڑ رہا ہوتاہے.سپاہی اس کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیںاور وہ دشمن سے مقابلہ کرنے کےلئے آگے آگے جارہا ہوتاہے.اسی طرح کامیاب جرنیل وہ ہوتاہے جس کے سپاہیوں میں بھی بشاشت پائی جائے.چنانچہ قائد کے لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہوتاہے کہ مجھے اپنے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں میرے ماتحت اپنے فرائض کا ایسا احساس رکھتے ہیں کہ وہ خود بخود میرے پیچھے چلے آئیں گے.غرض سائق اور قائد دو متقابل الفاظ ہیں.سائق پیچھے پیچھے چلتاہے او قائد فوج کے آگے آگے چلتاہے اور اپنے نمونہ سے سپاہیوں کی ہمت بڑھاتااور ان کے اندر ایک نیا ولولہ اور نئی زندگی پیدا کرتاہے.امریکن تاریخ میں ایک نہایت ہی لطیف واقعہ بیان ہواہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ کامیاب لیڈر کس طرح اپنے نمونہ سے اپنے ساتھیوں کے دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں.یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ پہلے انگریزوں کے ماتحت ہوا کرتاتھاایک عرصہ کی غلامی کے بعد ان میں آزادی کی تحریک پیدا ہوئی مگر اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس مقابلہ کے لئے فوجیں نہیںتھیں اور نہ ہی کافی مقدار میں سامان جنگ موجود تھا اور انگریزوں کے پاس فوجیںبھی تھیں اور ہرقسم کاسامان جنگ بھی تھا.بہرحال جب تحریک آزادی شروع ہوئی تو زمینداروں اور مزدوروں وغیرہ نے اپنے آپ کو والنٹیرزکے طور پر پیش کرنا شروع کردیا اورسارے ملک میںانگریزوں کے خلاف ایک آگ لگ گئی.جب یہ تحریک زیادہ مضبوط ہوگئی تو انہوں نے اپنے میں سے ایک افسر مقرر کیا جس کانام واشنگٹن تھا اسی کے نام پربعد میں امریکہ میں واشنگٹن شہر بنایا گیا ہے یہ ایک سیدھا سادہ آدمی تھا.جنگی فنون میںکچھ زیادہ مہارت نہیںرکھتاتھا مگر اخلاص اور درد قومی اس کے اندرموجود تھا.وہ سارے ملک میں چکر لگاتاتقریریں کرتا اور لوگوں کو ابھارتاکہ آزادی بڑی نعمت ہے اس کے لئے جدوجہد کرو.ایک دفعہ وہ اپنے ملک کاچکر لگارہا تھاکہ اس نے ایک جگہ پر دیکھا کہ کوئی قلعہ بن رہا ہے اور کارپورل نگرانی کے لئے پاس کھڑا ہے.کام کرنے والے صرف چار پانچ سپاہی تھے اتفاقاً ایک دوشہتیر ایسے آگئے کہ ان کا اوپر چڑھانا مشکل
ہوگیا.وہ زور لگالگاکر اوپر کھینچتے مگر وہ پھر نیچے گرجاتے اور وہ کارپورل پاس کھڑاانہیں کہتا جاتاکہ شاباش خوب زور لگائو.شاباش ہمت نہ ہارو مگر آگے بڑھ کر ان کی مدد نہیںکرتاتھا.اسی دوران میں واشنگٹن وہاں سے گذرا.وہ اس وقت ایک سفید گھوڑے پرسوار تھا.اس نے جب یہ نظارہ دیکھاتو اپناگھوڑاروک لیا اور پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے لوگوں نے بتایاکہ انگریزی فوج آرہی ہے اس کے مقابلہ کے لئے ہم یہ قلعہ بنارہے ہیں.تاکہ سپاہی اس میں ٹھہر سکیں اس نے کہا پھر اس قلعہ کے بننے میں دقت کیاہے ؟ انہوں نے کہا دقت یہ ہے کہ شہتیر بہت بھاری ہیںاورہم سے اوپرچڑھائے نہیںجاتے اس نے کارپورل سے پوچھاکہ تم ان کی کیوں مددد نہیںکرتے ؟ اس نے کہاکہ میں تو افسرہوں.میرافرض یہ ہے کہ میں ان سے کام لوں اور ان کی نگرانی کروں واشنگٹن نے یہ بات سنی.تو فوراً اپنے گھوڑے پرسے اترا.اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر اس نے کام کرناشروع کردیا.یہاں تک کہ شہتیر اوپر چڑھ گئے.جب کام ہوچکا اوروہ گھوڑے پرسوار ہو کرواپس جانے لگاتو کارپورل نے اسے کہا.کہ میں آپ کااپنی طرف اور اپنی قوم کی طرف سے شکریہ اداکرتاہوں.کہ آپ نے اس مشکل کام میں ہماری مدد کی.واشنگٹن نے جواب میں کہاآپ کی مہربانی میں صرف اس قدر کہناچاہتاہوںکہ جب کبھی آپ کسی ایسی مصیبت میں پھنس جائیںکہ آپ کو دوسرے کی مدد کی ضرورت ہو.تو اپنے کمانڈرانچیف واشنگٹن کوبلالیاکرنا.یہ قائد کی مثال ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر کام کے لئے پیش کردیتاہے اورقربانی کے وقت وہ دوسروں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے آگے آگے ہوتاہے اوراپنے نمونہ سے ان کے اندر کام کی تحریص پیداکرتاہے.اگر کسی اعلیٰ درجہ کے قائد کے ہوتے ہوئے بھی لوگ اس کے نمونہ سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہ ان کی بڑی بدقسمتی ہوتی ہے.ہم نے خدام کے افسروں کانام بھی قائد اسی لئے رکھا ہے کہ وہ اپنے نمونہ سے لوگوں کے دل فتح کریں.وِرْدًا کے معنے پانی پرآنے کے ہوتے ہیںچنانچہ لغت میںلکھاہے اَلْوِرْدُالْاَشْرَافُ عَلٰی الْمَاءِ اسی طرح اس کے معنے پیاس کے بھی ہوتے ہیں.اس کے معنے پانی کے حصہ کے بھی ہوتے ہیںاوروِرْدٌ کے معنے اس پانی کے گھاٹ کے بھی ہوتے ہیں جس پرلوگ آتے جاتے ہیںتاکہ پانی وغیرہ پئیں اوراس کے معنے اس قوم کے بھی ہوتے ہیں جوکسی پانی والی جگہ پرجمع ہوجاتی ہے(اقرب).اس آیت میںبتایا گیاہے کہ کفار کا حشر بھی اجتماعی ہوگا.مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہونے سے گھبرائیں گے.اس لئے ان کو مارمار کر اکٹھا رکھا جائےگا.اور آخر وہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیںگے اس حالت میں کہ وہ ایسی جگہ پر جانے کے محتاج ہوںگے جہاں ان کی پیاس بجھے.یہ الفاظ ان کے عذاب کی شدت پر دلالت کرتے ہیں
یعنی وہ ا س بات کے محتاج ہوںگے کہ ان کو کوئی ایسا مقام ملے جہاں وہ آرام کریں اور انہیں پینے کےلئے پانی ملے.مگر باوجود اس شدید احتیاج کے ان کومارمار کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ اتنا خطرناک اور تکلیف دہ مقام ہوگاکہ وہ اس کی طرف رخ کرنا بھی پسند نہیںکریں گے.لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ اس دن کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس نے (خدائے )رحمٰن سے عَهْدًاۘ۰۰۸۸ عہدلے چھوڑا ہے.حلّ لُغَات.لغت میں لکھا ہے الشَّفْعُ ضَمُّ الشَّیْءِ اِلی مِثْلِہٖ یعنی شفع اس بات کوکہتے ہیںکہ کسی چیز کو اپنی ہم جنس اور مشابہ چیز کے ساتھ ملالیا جائے وَقِیْلَ الشَّفْعُ الْمَخْلُوْقَاتُ اور شفع کے معنے مخلوقات کے بھی ہوتے ہیں مِنْ حَیْثُ اَنَّھامُرَکَّبَاتٌ کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ ساری کی ساری مرکب ہیں کَمَاقَالَ وَ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے.اسی طرح شفاعت کے متعلق لکھا ہے.الشَّفَاعَةُ الْاِنْضِمَامُ اِلٰی اٰخَرَنَا صِرًا لَّہٗ وَ سَائِلًا عَنْہُ وَ اَکْثرُ مَا یُسْتَعْمَلُ فِی اِنْضِمَامِ مَنْ ھُوَ اَعْلٰی حُرْمَةً وَّمَرْتَبَةً اِلٰی مَنْ ھُوَ اَدْنٰی وَ مِنْہُ الشَّفَاعَةُ فِی الْقِیَامَةِ قَالَ لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحمٰنِ عَھْدًا وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَقَوْلُہُ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِہٖ (مفردات) یعنی شفاعت کے معنے ہیں کسی شخص کا دوسرے کے ساتھ اس طرح پر مل جانا کہ وہ اس کا مددگار ہوجائے اور اس کے متعلق سوال کرنے والا بن جائے اور اس لفظ کا اکثر استعمال کسی اعلیٰ چیز کے ساتھ ادنیٰ چیز کو ملانے پرکیا جاتاہے.یعنی دوسری چیز جس کو ساتھ ملایا جاتاہے وہ مثل تو ہوتی ہے لیکن درجہ اور مقام کے لحاظ سے وہ ادنیٰ ہوتی ہے انہی معنوں میں وہ شفاعت بھی ہے جو قیامت کےدن ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا (الانبیاء :۲۹)یا فرماتا ہے لَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى (الانبیاء:۲۹) اسی طرح فرماتا ہے مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ(یونس:۴) تفسیر.اوپر کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاعت کی تھیوری بالکل حل ہوجاتی ہے.مسلمانوں میں
عام طور پر یہ خیال پایا جاتاہے کہ ہر مسلمان جس نے کلمہ پڑھ لیا اس کی قیامت کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیںگے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شفاعت ہے ہی گنہگاروں کے لئے اور وہ بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں.؎ کہ مستحق شفاعت گنہگار انند حالانکہ شفاعت کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل ہونا ضروری ہے.او ر وہی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہو سکتاہے جس نے پوری کوشش کی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بنے مگر بعض کوتاہیوں کی وجہ سے وہ اپنے اس ارادہ میں سوفی صدی کامیاب نہ ہوسکا اس کی اس کمی کو پوراکرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حضور درخواست فرمائیں گے کہ خدایا اس شخص نے میرا مثیل بننے کے لئے پوری کوشش کی ہے مگر بعض کمزوریوں نے اسے اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیا.میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ تو اس پر رحم فرما اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز فرماتے ہوئے اسے بھی اپنے قرب سے حصہ دے.پس شفاعت گنہگار کے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے بھی قانون مقرر ہیں.چنانچہ پہلا قانون یہی ہے کہ وہ شفاعت کرنے والے کامثیل ہو.اگر وہ مثیل نہیں ہوگا تو اس کی شفاعت نہیں کی جائے گی.دوسراقانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو.چنانچہ لَا يَشْفَعُوْنَ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى (الانبیاء:۲۹) میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ شفاعت کامستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہو.تیسرا قانون یہ ہے کہ شفاعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اذن حاصل ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ(یونس:۴)کوئی شخص اس وقت تک شفیع نہیں بن سکتاجب تک شفاعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن نہ ہو اگر محض گناہ شفاعت کا موجب ہوتاجیسا کہ مسلمانوں میں عام طورپر خیال پایا جاتاہے تو شفاعت کے لفظ اور رضا اور اذن کی شرط کی کیا ضرورت تھی پھر تو کہنا چاہیے تھاکہ جو بھی گنہگارہوگا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اس کی شفاعت فرما دیں گے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل نہ بن جائے اس وقت تک وہ آپ کی شفاعت کامستحق نہیں ہو سکتا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے تم بازار میں جائو اور دوکاندار سے کہو کہ مجھے اچھی قسم کے لنگڑے آم دو.وہ چند اچھے آم نکال کرتمہیںدے دیتاہے اور تم انہیں ٹوکری میں ڈال لیتے ہو.اب اگر تمہیں ضرورت زیادہ ہے اور ویسے آم تمہیں اورنہیںمل سکتے تو تم دوکاندار سے کہو گے کہ اس سے ملتے جلتے اگر کچھ چھوٹے سائز کے آم ہوں تو وہ بھی رکھ دو.چنانچہ باوجود اس کے کہ لنگڑے آم کا سائز اور ہوگا اس وجہ سے کہ تمہیںضرورت
ہوگی تم ذرا چھوٹے سائز کے آم بھی لے لو گے اور کہو گے کہ یہ آپس میں ملتے ہی ہیں اگر ان کا سائز کچھ چھوٹاہے تو کیا ہوا.لیکن تم اس کی جگہ کوئی ٹوٹی ہوئی جوتی نہیںرکھوگے تم اس کی جگہ کیلے کا چھلکا نہیں لے آئو گے.تم اس کی جگہ آم کی گٹھلیاں نہیںلے آئو گے تم بہر حال آم ہی لائو گے خواہ وہ سائیز میں کچھ کم ہی ہوں.اسی طرح شفاعت میںبھی ایک مشابہت کا پایاجانا ضروری ہے.شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایسے انسان جو کوشش کریں گے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل ہو جائیں لیکن ان کی تکمیل روحانی میں کچھ کمی باقی رہ جائے گی قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ خدایا انہوں نے میرامثیل بننے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے اعمال میں کچھ کمی رہ گئی اب اس کمی کوتو اپنے فضل سے پورا فرمادے.یہ نہیںکہ حرام کاری کررہے ہیں فساد کررہے ہیں.قتل کررہے ہیں جھوٹے نعرے لگارہے ہیں ناکردہ گناہ لوگوں پر الزام لگارہے ہیں.اور ساتھ ساتھ کہہ رہے ہیں ؎ کہ مستحق شفاعت گنہگار انند جوشخص پوری کوشش کرتاہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے جو شخص پوری کوشش کرتاہے کہ وہ صحابہ ؓ کے نقش قدم پر چلے لیکن باوجود اس کوشش اور جدوجہد کے اس کے اعمال میں کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس جدوجہد اور کوشش کا محمد رسول اللہ پر انکشاف فرمائے گا اور آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے لئے رحم کی درخواست کریںگے اور فرمائیںگے کہ اس شخص نے کوشش تو کی تھی لیکن پیچھے رہ گیا.اب تو اپنے فضل سے اس کی کمی کو پور افرمادے یہی لغت والے لکھتے ہیں کہ شفاعت کے لئے ہم مثل ہوناایک لازمی امر ہے.کیونکہ ایک قسم کی جب دوچیزیں ہوں جن میں سے ایک ادنیٰ ہو اور ایک اعلیٰ ،توادنیٰ کو اعلیٰ سے ملانے کوشفاعت کہاجاتاہے.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا اس دن کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا.سوائے اس کے جس نے خدائے رحمٰن سے عہد لے چھوڑاہے اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح ؑ جس کو عیسائی خدا کا بیٹاقرار د یتے ہیں اس کو شفاعت کا کوئی حق حاصل نہیںہوگا کیونکہ شفاعت کے ذکر کے ساتھ ہی یہ کہا گیاہے کہ خدا کابیٹاقرار دینابڑے گناہ کی بات ہے.پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس چیز کاخیال بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو وہی چیز جس شخص کی طرف منسوب کی جارہی ہو اسے شفاعت کاحق حاصل ہو.اس جگہ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو خدا کی وحی نے بتایا کہ قیامت کے دن ان کی شفاعت قبول کی جائے گی.
چنانچہ حضر ت جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ خصوصیتیں ایسی عطافرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی نبی کو نہیں ملیں (۱) مجھے ایسا رعب عطاء فرمایا گیا ہے کہ مہینہ بھر کی مسافت پر بھی دشمن مجھ سے لرزہ براندام رہتاہے.(۲) میرے لئے زمین کے چپہ چپہ پرخدائے واحد کی عبادت کرنا جائز قرار دیا گیاہے (۳) غنائم کے اموال میرے لئے حلال کئے گئے ہیں (۴)سابق انبیاء صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے مبعوث فرمایا ہے.(۵) اور مجھے قیامت کے دن شفاعت کا حق دیا گیا ہے.(بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجداو طہورا) اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب تمام انبیاء شفاعت سے انکار کریںگے اور میں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکا ہواہوںگا تومجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گاکہ اے محمد رسو ل اللہ سجدہ سے اپنا سر اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے مانگ کہ تجھے دیا جائے گا اور اس کے بندوں کی شفاعت کر کہ تیری شفاعت قبول کی جائےگی.(بخاری کتاب التفسیر سورة بنی اسرائیل باب ذریة من حلمنامع نوح) سورئہ زخرف میں بھی اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفیع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ تَبٰرَكَ الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ۚ وَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ١ۚ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ.وَ لَا يَمْلِكُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ(الزخرف:۸۶،۸۷) یعنی وہ بڑی ہی برکت والی ذات ہے جس کے قبضہ و تصرف میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے.اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کا بھی وہی بادشاہ ہے اور قیامت کا علم بھی صرف اسی کوحاصل ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا.اور وہ معبودان باطلہ جن کو یہ لوگ خدا کے سوا پکارتے ہیں ہرگز شفاعت کا اختیار نہیںرکھتے.صرف وہی شفاعت کا حق رکھتاہے جوسچ کی گواہی دے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار اس حقیقت کو اگر وہ غور کریں توخوب سمجھ سکتے ہیں اس آیت سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت کا مقام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا.اور کسی کو نہیںاور یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے.
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ۰۰۸۹ اور یہ (لوگ) کہتے ہیںکہ (خدائے )رحمٰن نے بیٹابنالیاہے تفسیر.فرماتا ہے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انہیں مسیح کی شفاعت حاصل ہوگی.حالانکہ ان کومسیح کی شفاعت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے مسیح ؑ تو ہمارا موّحد بندہ تھا اور یہ مسیح کو خدا تعالیٰ کا شریک ٹھہرارہے ہیں جب یہ ہمارے موحد مسیح ؑکے ساتھ مشابہت ہی نہیں رکھتے تو انہیںاس کی شفاعت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے.شفاعت مثیل کے لئے ہوسکتی ہے اوریہ اس کے مثیل نہیں.یہ لوگ مسیح کی تعلیم کے سراسر خلاف خدائے رحمٰن کی طرف ولد منسوب کررہے ہیں.حالانکہ رحمٰن اور ولد ہونا متضاد ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ رحمٰن ہے اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کو رحمٰن مانتے ہیں وہ ایسانہیںمانتے لیکن دلیل کا ایک طریق یہ بھی ہوتاہے کہ خواہ مخالف مانے یانہ مانے جب ایک واقعہ ظاہر ہو تو اس واقعہ ثابتہ کے ساتھ نتیجہ کو ملادیا جاتاہے.یہاں بھی اسی طرح کیا گیا ہے.بے شک وہ نہیں مانتے کہ خدارحمٰن ہے مگر چونکہ حقیقت یہی ہے کہ وہ رحمان ہے اور رحمن خداولد کا محتاج نہیں ہوسکتااس لئے عیسائیوں کا دعویٰ یقینا غلط ہے اور اس غلط ادّعا کے بعد یہ امید رکھنا کہ ہمارے حق میںشفاعت ہوگی بڑی بھاری غلطی ہے.لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّاۙ۰۰۹۰ (توکہہ دے ) تم ایک بڑی سخت بات کہہ رہے ہو.حلّ لُغَات.اِدًّا کے معنی ہیں اَمْرًا مُنْکَرًا یَقَعُ فِیْہ جَلْبَةٌ (مفردات) ایساناپسندیدہ امرجس پر لوگوںمیں شورمچ جائے.دنیا میں ناپسندیدہ اعمال کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک ناپسندیدہ امر ایساہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو ہنس کے چلے جاتے ہیں.ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیں تو اغماض کر لیتے ہیں.ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو گھورتے ہوئے چلے جاتے ہیں لیکن ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو شور مچادیتے ہیں کہ یہ کیا ہوا.اِدًّا کے معنے ایسے ہی ناپسندیدہ فعل کے ہیںجس کو فطرت تسلیم کرنے سے انکار کردے اور لوگوں میں شور برپا ہوجائے کہ یہ کیا ہوگیا.
تفسیر.شرک کی انتہائی برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ایک ایساکام کیا ہے جو فطرت صحیحہ کے خلاف ہے اورجس کے متعلق اپنی ناپسندیدہ گی کے جذبات کے اظہار سے کوئی شریف آدمی رک نہیں سکتا.یہ کسی فعل کی حددرجہ کی ناپسندیدگی کا ثبوت ہوتاہے کہ اس کے خلا ف ہر انسان بے تحاشا احتجاج کرنے پرتیار ہوجائے اور اسے کسی صورت میں بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہو.اس میں بتایا گیا ہے کہ شرک ایک ایسا فعل ہے جس کو ماننے سے فطرت انکار کرتی ہے اور یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے.یہی وجہ ہے کہ اب عیسائیت اسلام کے اعتراضات سے ڈرکر خود تثلیث کے اور معنے کرنے لگ گئی ہے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تو کہتاہے کہ اس کے خلا ف ہر انسان کو آواز اٹھانی چاہیے مگر اس زمانہ میںجو لوگ اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھار ہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے رات دن کو ششیں کررہے ہیں وہی مسلمان کہلانے والوں کی نگاہ میں کافراور بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں.وہ عیسائیوں کے ساتھ جو مسیح کو خدا کاشریک قرار دیتے ہیںتو محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں مگر جو توحید کے قیام کے لئے عیسائیوں کوتبلیغ کرتے ہیںان کو کافر قرار دیتے ہیں.تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ قریب ہے کہ (تمہاری بات سے )آسمان پھٹ کر گرجائیں اورزمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے.او پہاڑریزہ ریزہ الْجِبَالُ هَدًّاۙ۰۰۹۱اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاۚ۰۰۹۲ ہو کر زمین پر جاپڑیں.اس لئے کہ ان لوگوں نے (خدائے )رحمان کا بیٹاقرار دیا ہے.حلّ لُغَات.تَفَطَّرَ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کااپنے اندر سے ضعف کی وجہ سے ٹوٹ جانا.چنانچہ تَفَطّرَالشَّیْءُکے معنے ہوتے ہیں.اِنْشَقَّ وہ چیز پھٹ گئی اور تَفَطَّرَتِ الْاَرْضُ بِالنَّبَاتِ کے معنے ہوتے ہیںتَصَدَّعَتْ یعنی زمین پھٹ کر اندر سے سبزی نکل آئی اور تَفَطَّرَتِ الْقَضِیْبُ کے معنے ہوتے ہیںبَدَءَ نَبَاتُ وَ رَقِہٖ شاخ کے پتے نکلنے شروع ہوگئے (اقرب)گو یا کسی چیز کے اندر سے جب کوئی چیز باہر نکلنی شروع ہوجائے تو اس کیلئے تَفَطَّرَ کا لفظ استعمال کیا جاتاہے.اس کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ وہ چیز آپ ہی آپ پھٹ گئی ہے اورفَطَرَ کے معنی کسی چیز کو نئے سرے سے شروع کرنے کے ہوتے ہیں.ھَدًّا کے متعلق لغت میںلکھا ہے کہ الْھَدّۃُ صَوْتُ وَقْعِ الْحَائِطِ یعنی دیوار کااس زور سے گرناکہ اس کے
گرنے سے آواز پیدا ہو اسے ھدا کہتے ہیں اگر کوئی دیوار آہستگی سے گرجائے اور آواز پیدانہ ہو تو اس کے لئے ھَدًّا کالفظ استعمال نہیں ہوگا.ھدا کالفظ اسی وقت استعمال ہوگا جب وہ اس زور سے گرے کہ ساتھ ہی آواز بھی پیدا ہو.تفسیر.اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ شرک کے خلاف آسمانوں کے اندر ایسا جوش پیدا ہوگیا ہے کہ یوں معلوم ہوتاہے وہ اس جوش کی وجہ سے پھٹ جائیںگے اور زمین میں بھی ایسا اندرونی جوش پیدا ہوچکا ہے کہ اس کا سینہ چاک ہو جائے گا اور پہاڑوں پر بھی اس کا اتنا اثر ہے کہ قریب ہے کہ وہ بھی بیتاب ہوکر یکدم گرجائیںاور ان کے گرنے سے ایک شور برپا ہوجائے.یعنی یہ دعویٰ آسمان اور زمین اور پہاڑوںکے لئے گراں ہے آسمانوں کے لئے اس لئے گراں ہے کہ یہ آسمانی تقاضوں کے خلاف ہے.صفات الٰہیہ اور ملائکہ کا تصور سب اس کے متباعد ہیں اور زمین بھی اس کے خلاف ہے یعنی فطرت صحیحہ بھی اس کے خلاف ہے اور پہاڑوںکا وجود یعنی ترقی کے جذبات اور احساسات جوفطرت کا ایک اعلیٰ مقام ہے وہ بھی اس کے خلاف ہے.کیونکہ ابنیت کفار ہ کی مستلزم ہے اور کفارہ انسان کی اعلیٰ درجہ کی ترقیات کے خلاف ہے اور انسان کی پستی پردلالت کرتاہے.جوکچھ عیسائیت کفارہ اور ابنیت سے ثابت کرتی ہے اسلام اسے انسان کی اعلیٰ ترقیات سے قابل حصول قرار دیتاہے.پس جِبَالٌ بھی اس کے وجود کے خلاف ہیںگویا آسمان اور زمین اور جبال اپنے مطابق روحانی وجودوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آئے ہیں.او رجہاں بھی انسان کی اعلیٰ ترقیات کے حصول پر اعتراض کیاجائے گا اورجہاں بھی اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کے عفو اور اس کی مہربانی کی صفات کو نظر انداز کیا جائے گا لازماً اس سے آسمان بھی پھٹے گا کیونکہ خدابھی اسے ناپسند کرےگا اور فرشتے بھی اسے ناپسند کریںگے اور زمین بھی پھٹے گی کیونکہ انسان بھی اس کو ناپسند کرےگا اور جبال بھی پھٹیں گے کیونکہ انسانوں میں سے جو اعلیٰ درجہ کے انسان ہیںیعنی خدا تعالیٰ کے انبیاء وہ بھی اس کوناپسند کریںگے.عام انسان اس تعلیم کواس لئے ناپسند کرے گا کہ وہ کہے گایہ تعلیم میرے لئے ہرقسم کی ترقی کے راستہ کو بند کردیتی ہے.اعلیٰ انسان اس لئے اس تعلیم کوناپسند کرے گا کہ وہ کہے گا یہ تو میری تجربہ شدہ چیز ہے اورمجھے مل چکی ہے اب یہ کیا کہہ رہے ہیںکہ ایسی ترقی کسی انسان کو حاصل نہیںہوسکتی.اور اللہ اور اس کے فرشتے اس لئے ناراض ہوںگے کہ ہم تو اپنی نعمتیں ان کودے رہے ہیںاور یہ کہہ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسا نہیں کرسکتاپس انسان اس کی مخالفت کرے گااور کہے کہ عجیب بات ہے میرے لئے ایک ہی امید کا سہارا تھاوہ بھی اس تعلیم نے توڑ دیا.اعلیٰ انسان اس
تعلیم کی مخالفت کرے گا اورکہے گامیں نے تو ا پنی آنکھوںسے خدا تعالیٰ کے انعامات کو نازل ہوتے دیکھاہے یہ کیا بکواس ہے کہ ایسے انعامات کسی انسان کو حاصل نہیںہوسکتے اور پھر خدااور اس کے ملائکہ بھی ناراض ہوں گے کہ ہم تواپنی نعمتوں سے ا نہیں حصہ دے رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کرسکتا.کسی کی توبہ قبول کرکے اسے اپنے قرب میںجگہ نہیں دے سکتاپس آسمان اور زمین اور جبال تینوں اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے یعنی آسمانی ہستیاں اس کو ناپسند کریں گی اور ان کے دل پھٹ جائیںگے.اسی طرح انسان کی فطرت بھی اس کو دیکھ کرچلا اٹھے گی.وَتَخِرُّالْجِبَالُ ھَدًّا اور پھر اس صدمہ سے جو اعلیٰ درجہ کی روحانی ہستیاں ہیں وہ بھی گھبرا کر کہیں گی کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے ہمیں ایک چیز ملی ہوئی ہے اور یہ لوگ کہتے ہیںکہ وہ مل ہی نہیں سکتی.منکرین الہام سے جب بھی میری گفتگو ہوتی ہے میں انہیںکہاکرتاہو ںکہ میںتمہاری دلیلوں کو کیا کروں جبکہ خدا مجھ سے خود ہم کلام ہوتاہے اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر الہامات نازل نہ ہوتے توشاید میںخیال کرلیتاکہ تمہاری دلیلوں میں کچھ وزن ہوگا لیکن اب ان دلائل کا مجھ پر کیا اثر ہو سکتا ہے جبکہ خود مجھ پر الہامات نازل ہوتا ہیں.مجھے تویہ دلیلیں سنکر ہنسی آتی ہے کہ خداموجود ہے اس کاکلام ہم پرنازل ہوتاہے اوردلائل یہ دئیے جارہے ہیںکہ ایسا نہیںہوسکتا.پھر جو چیز میںنے دیکھ لی ہے حالانکہ میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے ہوںاس کے متعلق میں یہ کس طرح تسلیم کرسکتاہوں کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے نہیںدیکھی ہوگی جب نیچری کہتے ہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات عالیہ کانام قرآن ہے(تفسیر القرآن مع تحریر اصول التفسیر از سید احمد خان زیر آیت و ان کنتم فی..البقرۃ :۲۳) توسن کر ہنسی آتی ہے کہ جب ہمیں معین الفاظ میں الہام ہوتے ہیںتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو بہت بالا ہے.آپ پر خدائی الفاظ میں ہی قرآن کیوں نازل نہیں ہوسکتا تھا تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا میں اسی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جواعلیٰ درجہ کے روحانی لوگ ہیں اور جنہوںنے ان تمام انعامات کا مشاہدہ کیا ہوا ہے وہ اس بات کوسن کر ایسا محسوس کریں گے کہ گویا وہ سارے مقامات جو ان کو حاصل ہیں ان کو انہوںنے گرادیاہے.وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ۰۰۹۳ اور (خدائے)رحمن کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹابنائے.تفسیر.عیسائیوںکا عقیدہ ابنیّت خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے بالکل خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ
عیسائیت خدا تعالیٰ کو رحمٰن تسلیم نہیں کرتی اور وہ دنیا کی نجات کےلئے بیٹے کی قربانی کا تصور پیش کرتی ہے.اگر یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے گناہوںکو معاف نہیں کرسکتا تھا اور اس نے اپنے بیٹے کو قربان کرکے لوگوںکوبچالیا تو اس کی رحمانیت کہاں گئی.یہ بخشش کاکام تو اس کی رحمانیت نے کرناتھا اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ الَرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمٰن:۲،۳) یعنی کلام الٰہی جو بنی نوع انسان کی ہدیت کےلئے نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کاہی نتیجہ ہوتاہے.لوگوں کی گمراہی کودیکھ کر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش میں آتی ہے اور جس طرح ظاہری عالم میں بغیر مانگنے کے اس نے ہزاروں ہزارنعمتیں پیداکردی ہیں اسی طرح روحانی عالم میں وہ کلام الٰہی نازل کرتاہے جس پرعمل کرکے دنیانجات پاجاتی ہے.اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِي الرَّحْمٰنِ کیونکہ ہرایک جو آسمانوں اورزمین میں ہے وہ (خدائے )رحمٰن کے حضور میں غلام کی صورت عَبْدًاؕ۰۰۹۴ میں حاضر ہونےوالا ہے.تفسیر.یعنی جب ہرچیز اس کے تابع فرمان ہے توپھر بیٹے کی کیا ضرورت ہے بیٹا تو اس لئے ہوتاہے کہ وہ اپنے باپ کی مدد کرے یاباپ کی موت کے بعد اس کے نام کوزندہ رکھے جب خدتعالیٰ کی کسی کی مدد کی احتیاج نہیں اور ہر چیز پر اس کی دائمی حکومت ہے توپھر بیٹے نے کس پرحکومت کرنی ہے.لَقَدْاَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّاؕ۰۰۹۵ (خدا نے)ان کوگھیر رکھاہے اور گن رکھاہے.تفسیر.یہ پہلی آیت کی تشریح ہے اور مراد یہی ہے کہ جب ان میں سے ایک ایک کی گنتی خدا تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے تو اسے بیٹے کی کیاضرورت ہے بیٹے کی احتیاج تو تب ہوتی جب کوئی کام ایسا بھی ہوتاجسے وہ خود سرانجام نہ دے سکتا.
وَ كُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِفَرْدًا۰۰۹۶ اور وہ سب کے سب قیامت کے دن (فرداً) فرداً اس کی خدمت میں حاضرہوںگے.تفسیر.عیسائی کہتے ہیںکہ مسیح نے ہمارابوجھ اٹھالیاہے اللہ تعالیٰ اس کی تردیدکرتاہے اور فرماتا ہے کہ اس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کاقانون چل رہا ہے اور مرنے کے بعد بھی اسی کاقانو ن جاری ہوگا اور ہرشخص فرداًفرداً اس کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہوگا.پس یہ غلط خیال ہے کہ تمہاری جگہ مسیح ؑ صلیب پرلٹک گیا اور اس نے تمہارا بوجھ اٹھالیا ہرشخص کو اپنی صلیب آپ اٹھاکر چلنا پڑے گا جیساکہ مسیح ناصری نے بھی کہا ہے.’’جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ آئے وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا.‘‘ (لوقاباب ۱۴ آیت ۲۷ ) اسی طرح انہوں نے کہا.’’اگر کوئی میر ے پیچھے آناچاہے تواپنی خودی سے انکار کرے اوراپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے ‘‘ ( مرقس باب ۸آیت ۳۴ ) میں سمجھتاہوں کہ اس آیت میں اسی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ جب مسیح ؑ خود اس امر کی وضاحت کر چکاہے کہ ہر شخص کو اپنی صلیب آپ اٹھانی پڑےگی تو تم کسی طرح سمجھتے ہو کہ تمہارے سب بوجھ اس نے اٹھالئے ہیں.اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں (خدائے ) رحمٰن ان کے لئے الرَّحْمٰنُ وُدًّا۰۰۹۷ ود پیدا کردے گا.حل لغات.وُدٌّ اس محبت کوکہتے ہیںجو محبوب کے ساتھ گہرا اور مضبوط تعلق پیدا کردے اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوجائیںجس طرح جانور کو کیلے کے ذریعہ زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتاہے اسی طرح وُدٌّ میں یہ مفہوم پایا جاتاہے کہ خدا تعالیٰ کاانسان سے ایسا مضبوط تعلق قائم ہوجائے کہ وہ کٹ نہ سکے.یہ لفظ وَ دٌّ کی شکل میں
بھی استعمال ہوتاہے وِدٌّ کی شکل میںبھی استعمال ہوتاہے اور وُدٌّ کی شکل میں بھی استعمال ہوتاہے او تینوں شکلوںمیں محبت شدید کے معنوں میں ہی آتاہے.اس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وَدٌّ عربی زبان میں وَتَدٌ یعنی میخ کوبھی کہتے ہیں (مفردات) اس وجہ سے کہ اس کے ذریعہ جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتاہے.پس وُدٌّ ایسی محبت کانا م ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑدیتی ہے جیسے کیلا گاڑ کرجانور کو باندھ دیا جاتاہے اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے.بےشک رغبت اور انس کے الفاظ بھی عربی زبان میں اظہار محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیںمگر ان میں وہ شدت محبت نہیں پائی جاتی جو وُدٌّ میں پائی جاتی ہے رغبت کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیںکہ میرے دل میں شوق پیداہوگیا ہے اس میں یہ مفہوم داخل نہیں ہوتاکہ محبوب کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہوا ہے یا نہیں.اور انس میں یہ مفہوم پایا جاتاہے کہ میرے دل میں بھی شوق پید اہوگیا ہے اور میرے محبوب پر بھی میری محبت کااتنا اثر ہوا ہے کہ اس نے اپنا منہ میری طرف کرلیا ہے مگر ود میں یہ مفہوم داخل ہے کہ اس نے صرف منہ ہی نہیںکیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے او رہمیں ایک دوسرے سے وابستہ کردیا ہے قرآن کریم میںجو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں ان میں سے ایک بت کانام وَدٌّ بھی آیا ہے (نوح :۲۴) کیونکہ مشرکین کاخیال تھا کہ جیسے کیلے کازمین سے تعلق ہوتاہے ایسا ہی اس بت کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہے یہ لفظ مدارج محبت کے لحاظ سے رغبت اورا نس سے بڑھ کر لیکن خلۃ سے نچلے مقام پر ہے کیونکہ خلۃ کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ ایسی محبت جو جسم کے سوراخ سوراخ میںداخل ہوجائے.ود میںیہ کیفیت تو پیدا نہیں ہوتی لیکن ایسا مستقل تعلق ضرور پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کٹ نہیں سکتا.تفسیر.حضرت مسیح ؑکے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا کہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشان اور اپنی طرف سے رحمت کاذریعہ بنائیںگے گویا مسیح کے لئے رحمت کا لفظ آیا تھا مگر مسلمانوںکےلئے ود کالفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے اور جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکاہے ود اس محبت کو کہتے ہیں جو کیلے کی طرح گڑی ہوئی ہو.قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے ا لفاظ استعمال کرتاہے جن کوچکر دے کر کئی کئی مضامین نکل آتے ہیں یہاں بھی اسی قسم کاطریق اختیار کیا گیا ہے کیونکہ یہاں لھم کالفظ استعمال کیاگیا ہے جس کے معنے ہی ان کے فائدہ کے لئے کیونکہ لام فائدہ کے لئے آتا ہے مگر یہ کہ کس کس امر کے متعلق اللہ تعالیٰ ود پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ
نے مخفی رکھا ہے تاکہ جتنے معانی پیدا ہوسکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پید اہوجائیں.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیںتو سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے یوںبنتے ہیںکہ مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کیلے کی طرح گاڑدےگا یا یہ کہ اپنے دل میں مومنوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدےگا یا یہ کہ مومنوںکے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا یا یہ کہ بنی نو ع انسان کے دل میں مسلمانوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا یہ چار معنے ہیں جو اس آیت سے مستنبط ہوتے ہیں.(۱) پہلے معنے اس کے یہ ہیں کہ مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا چنانچہ دیکھ لو وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے انعامات پر غور کرے گا.اس کی رحمانیت کی وجہ سے فیضان کو دیکھے گا اور اس کے بے شمار احسانات کا مطالعہ کرے گااس کے دل میںلازمی طورپر خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی اور وہ اس کے قرب میںبڑھنے کی کوشش کرے گا.عیسائی کہتے ہیںکہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹادنیا کی نجات کے لئے بھیجا ہے اس لئے بنی نوع انسان کافرض ہے کہ وہ اس سے محبت کریں مگر خداکہتاہے کہ ہم تو آپ تم سے رات دن محبت کر رہے ہیں ہم رحمٰن ہیں اور اپنی صفت رحمانیت سے تم کو ہر وقت حصہ دے رہے ہیںکیا تم ہمارے ان انعامات کو دیکھ کر ہم سے محبت نہیں کر سکتے ؟ مسیح کو صلیب پرچڑھتے ہم نے نہیںدیکھا اور پھر ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیںکہ وہ ہماری خاطر صلیب پرچڑھا.لیکن خدا تعالیٰ کا سورج ہم ہر روز چڑھتاہیں.خدا تعالیٰ کا چاند ہم ہمیشہ آسمان پر چمکتا دیکھتے ہیں.خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ دریا ہمیں اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ نے ہمیں آنکھیں دیں جن سے ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں.یہ آنکھیںہمارے ماں باپ نے ہمیں نہیں دیں نہ ہم نے کہیں سے خریدی ہیں صرف خدا نے اپنی رحمانیت کے طفیل ہمیں عطا کی ہیں.اسی طرح اس نے ہمیں زبان دی ہے جس سے ہم بولتے ہیں.غلہ دیا ہے جو ہم رات دن کھاتے ہیںچاول دیئے ہیں.گوشت دیاہے ،ترکاریاں دی ہیں، مال دیا ہے ،صحت دی ہے عزت دی ہے.غرض خدا تعالیٰ کی رحمانیت کے ہزاروں ہزار نظارے ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں.اور ہمارادل انتہائی محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاتاہے مگر تعجب ہے عیسائی کہتے ہیںکہ ہم محبت الٰہی اس واقعہ کی بناپر کریں جو ہم نے نہیںدیکھا اور ان ہزاروں ہزار انعامات کی بنا پر نہ کریں جو ہم روزانہ دیکھتے ہیں.(۲) دوسرے معنے اس کے یہ ہیںکہ خدا تعالیٰ اپنے دل میں مومنوں کی محبت کے لئے کیلے کی طرح گاڑ دے گا اور ایسی محبت کرنے والوںسے خاص تعلق پیدا کرےگا یہ معنے بھی مسلمانوں کے وجود سے ظاہر ہوئے.چنانچہ
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں کا خدا تعالیٰ نے ایسا ساتھ دیا اور اپنی محبت اور پیار کا ان سے ایسا سلوک کیا کہ جس کی مثال دنیا میںاور کہیںنظر نہیںآتی.(۳) تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا.حضرت مسیح ؑنے بھی انجیل میں باربار یہی تعلیم دی ہے کہ دوسروں سے محبت کرو اور ان سے نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آئو (متی باب ۵ آیت ۴۳).مگر اس محبت کے پیدا کرنے کایہ ذریعہ نہیںکہ مسیح ؑ پر ایمان لایا جائے بلکہ حقیقی محبت بنی نوع انسان کی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان خود اپنے آپ کوایک رنگ میں خدا کا بیٹا سمجھ لے.مسیح کوخدا کا بیٹا سمجھنے سے یہ محبت پیدا نہیںہوسکتی.یہ محبت تب پیدا ہوتی ہے جب انسان وُد کا مقام حاصل کرلے.اور جس طرح جانورکیلے کے ذریعہ زمین کے ساتھ باندھ دیاجاتاہے اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے جب اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اس کے بندوں کی محبت بھی اس دل میں لازمی طورپر جاگزیں ہوجاتی ہے صرف مسیح پر ایمان لانے سے یہ محبت پید انہیںہوسکتی.(۴) چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے دل میں مسلمانوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدےگا.یہ بھی محبت کا ایک لازمی نتیجہ ہے کیونکہ جب کسی کی محبت ہوگی تو انسان اس کی خدمت بھی کرے گا اور اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کرےگا اور اس سے محبت اور پیار کے ساتھ بھی پیش آئے گا اور جب وہ ایسا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میںبھی اس کی محبت پیدا ہوجائے گی پس سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے ایک یہ بھی معنے ہیںکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی محبت بنی نوع انسان کے دل میں کیلے کی طرح گاڑدےگا.چنانچہ اس کی مثال ہمیںرومی فتوحات میںملتی ہے.ایک موقعہ پر جب عیسائی لشکر بڑی تعداد میںآگے بڑھا اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اب ہم ان کامقابلہ نہیںکرسکتے تو جو روپیہ مسلمانوں نے ملک کی حفاظت کے ٹیکس کے طور پر وصول کیا تھا وہ سب ملک کے لوگوں کو واپس کردیا اور اس کااثر عیسائیوں اور یہودیوں پر اتنا ہوا کہ وہ روتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر کو وداع کرنے گئے اور پادری بھی اور دوسرے لوگ بھی دعاکرتے جاتے تھے کہ خدامسلمانوں کو واپس لائے.اور یہودی اتنے متاثر تھے کہ وہ کہتے تھے کہ خدا کی قسم ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر عیسائی لشکر کو شہر میںداخل نہیںہونے دیںگے.(فتوح البیان ) محبت کا یہ عملی وعظ مسیح ؑکی محبت کی تعلیم سے کتنا زیادہ شاندار ہے.مسیح ؑ نے تو صرف منہ سے کہا تھا کہ خدامحبت ہے مگر مسلمانوںنے عملاًثابت کیا کہ خدا محبت ہے اور مسیح کےلئے تو رحمت کا لفظ استعمال ہوا تھا مگر قرآن نے مسلمانوں کےلئے ود کا لفظ استعمال کیا جواس سے بہت زیادہ شدید ہے کیونکہ وُدّ کے معنے ہیںکہ
محبت اتنی شدید ہوگئی کہ وہ کیلے کی طرح گڑگئی پس کجا انجیل کی محبت کی تعلیم اور کجا قرآن کی محبت کی تعلیم دونوں میں زمین و آسمان کافرق ہے.غور کرو کہ اس جگہ تھوڑے سے لفظوںمیں خدا تعالیٰ نے کتنا وسیع مضمون بیان کردیاہے اس مضمون کا اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے ساتھ یہ جوڑہے کہ (۱)ایمان اور (۲)مناسب حال عمل سے لوگ محبت کرتے ہیں.ایمان میں چونکہ امن دینے کے معنے پائے جاتے ہیںاس لئے مومن وہ ہے جو لوگوں کےلئے برکات اور امن کا موجب ہو اور عمل صالح کے معنے ہیںایسا عمل جو ضرورت کے مطابق اور مناسب حال ہو پس جس شخص میںیہ دو خوبیاں پائی جائیںگی کہ وہ لوگوں کے لئے امن کاباعث ہوگا اور اس کے تمام اعمال مناسب حال ہوںگے اس سے لوگ لازمی طور پر محبت کریںگے.(۲) پھر ایمان اور عمل صالح کاایک لازمی نتیجہ یہ بھی پیدا ہوگا کہ اس کے دل میںلوگوں کی محبت پیدا ہوجائے گی.کیونکہ جو شخص سب سے نیک سلوک کرتاہے لازمی طور پر اس کے دل میںبھی لوگوں کی محبت پیداہوتی ہے.(۳) اور پھر جو شخص لوگوں سے حسن سلوک کرےگا اور ان کے بوجھوںکوبٹائے گا اور ان کی ترقی میں حصہ لے گا اوران کے دکھوںکو دور کرےگا لازماً اس کی محبت بھی لوگوں کے دلوں میںپیداہوجائےگی.(۴) اسی طرح جو شخص بنی نوع انسان سے محبت کرتاہے اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت بھی پید اہوجاتی ہے جیسے وہ شخص جو کسی بچہ سے محبت رکھتاہے وہ اس کے ماں باپ سے بھی محبت کرتاہے یہ ناممکن ہے کہ وہ بچے سے محبت کرے اور ماںباپ سے نفرت رکھے.(۵) پھر جوشخص خدا تعالیٰ کے عیال سے محبت کرتاہے خدا تعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتاہے.غرض ایمان اورعمل صالح کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے.اور بنی نوع انسان کی محبت کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوتاہے کہ لوگ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیںپھر جو شخص بنی نوع انسان سے محبت کے ساتھ پیش آتاہے اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت بھی پیدا ہوجاتی ہے.تم یہ کس طرح کرسکتے ہو کہ ایک اچھی کتاب پڑھو تو کتاب سے تو تم محبت کرو اور کتاب لکھنے والے سے محبت نہ کرو.یا ایک تصویر کو تو تم پسند کرو لیکن مصور کو تم پسند نہ کرو جو شخص بنی نوع انسان سے محبت رکھتاہے اس کی محبت لازمی طورپر خدا تعالیٰ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اور وہ مخلوق کے بعد خالق سے بھی محبت کرنے لگ جاتاہے.یہی وہ چیز ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں عشق مجازی کہاجاتاہے یعنی انسانوںکی محبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت کا پیدا ہونا مگر بد قسمتی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ
ظاہری حسن کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی محبت پیداہوتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ظاہری حسن کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی محبت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر جو شخص خدا تعالیٰ کے عیال سے محبت کرتاہے.خدا تعالیٰ بھی اس کے لئے اپنی محبت کو مخصوص کردیتاہے اوران چاروں امور کے نتیجہ میںکسی کفارہ کی ضرورت نہیںرہتی.فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ پس ہم نے تو اس (قرآن )کو تیری زبان میںآسان کرکے اتاراہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے متقیوں کو قَوْمًا لُّدًّا۰۰۹۸ بشارت دے اور اس کے ذریعہ سے جھگڑا لو قوم کو ہوشیار کرے.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ شریعت لعنت نہیںہم نے اسے سلجھے ہوئے آسان الفاظ میں بیان کردیا ہے.لعنت تب ہوتی جب یہ قابل عمل نہ ہوتی یا ہم کوئی ایسا حکم دیتے جس پر عمل کرنا لوگوں کے لئے نقصان دہ ہوتا.اگر ہم نے ایسے ہی احکام دئے ہیں جن پر عمل ہو سکتاہے اورپھر ایسے احکام دیئے ہیںجن پر عمل کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے تو پھر شریعت لعنت کس طرح ہوئی ؟پسيَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ میں بتایا کہ ہم نے اسے سلجھے ہوئے آسان الفاظ میں بیان کردیا ہے جس کو مومن خوب سمجھ سکتے ہیں اور اسے قابل عمل یقین کرتے ہیں.اگر قابل عمل نہ ہو تو تبشیر نہیںانذار ہوتاہے.اور جب یہ بات ہے تو شریعت کو لعنت قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے.ہاں جو جھگڑالو ہوں وہ بے شک نہیں مانتے.مگر وہ تو شریعت کو لعنت کہو یا رحمت بہر حال نہیںمانیں گے.اس میں یہ بتایا گیاہے کہ قرآن کریم ہر صحیح الفطرت انسان کے نزدیک قابل عمل کتاب ہے اور وہ عمل کرنے والوں کے لئے رحمت اور بشارت ہے.لیکن جوشخص ارادہ کرلے کہ میںنے نہیںماننا اس کے لئے آسان یا مشکل کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا.اس کے سامنے توجوچیز بھی رکھی جائے گی اس کا وہ انکار کردے گا.کیونکہ اس کی فطرت میںمخالفت ہے.لیکن جس کی فطرت میںکجی نہیں اورجو فطرت صحیحہ رکھنے والا انسان ہے وہ جانتاہے کہ شریعت خدا تعالیٰ کی رحمت ہے اور اس کے تمام احکام بنی نوع انسان کے فائدہ کےلئے ہیں.اور خدا نے اس کو آسان اور قابل عمل بنایا ہے.
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ١ؕ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِّنْ اورکتنی ہی بستیاں ہیںجوان سے پہلے گذری ہیں (کہ ہم ان کوہلاک کرچکے ہیں)کیا تو ان میںسے کسی کو بھی کسی اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًاؒ۰۰۹۹ حس کے ذریعہ سے محسوس کرتاہے یا ان کی بھنک سنتاہے ؟ حلّ لُغَات.تُحِسُّ.حَسَّ الشَّیْءَ وَ بِالشَّیْءِ کے معنے ہوتے ہیںعَلِمَہٗ وَشَعَرَبِہٖ وَاَدْرَکَہُ یعنی کسی چیز کو جاننا اوراسے خوب اچھی طرح پہچاننا اور اَحَسَّ کے معنے ہوتے ہیں رَاٰی(اقرب) اس نے دیکھا اس جگہ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِنْ اَحَدٍ کے مقابلہ میں تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًا کے الفاظ آئے ہیںجن سے ظاہر ہوتاہے کہ اس جگہ تُحِسُّ میںرؤیت والے معنوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے.رکزاً رِکْزًاکے معنے ہیں اَلصَّوْتُ الْخَفِیُّ ایسی آواز جوبہت آہستہ ہو.تفسیر.فرماتا ہے عیسائیوں کا سارا غرور اس وجہ سے ہے کہ ان کو طاقت حاصل ہے شریعت کو لعنت قرار دینااور کفارہ وغیرہ مسائل کاایجاد کرنا سب غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ عیاشیاں کرنا چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے قانون پر عمل کرنا نہیںچاہتے انہیں اپنی طاقتوں پر گھمنڈ ہے اور یہ لوگ خیال کرتے ہیںکہ ان پر کبھی زوال نہیں آسکتا حالانکہ ان کو مغرور نہیںہونا چاہیے ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو تباہ کرچکے ہیں.کیا آج ان میں سے کسی قوم کے نشان تمہیںنظر آتے ہیں.یا ان کی ہلکی سی آواز بھی سنائی دیتی ہے ؟ یعنی آج ان کے نشان تک نظر نہیں آتے اُن کی تاریخ تک مشتبہ ہوگئی ہے اور ان کی آہٹ تک سنائی نہیںدیتی.یعنی ان کے کام بالکل مخفی ہوگئے ہیں.یہاں تک کہ ان کے وجود کے آثار تک مٹ گئے ہیں اگر پہلی قوموں کے لوگ اس طرح صفحہ ہستی سے ناپید ہوچکے ہیںتوان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری طرف سے ان کے لئے اماالعذب اما الساعۃ کااعلان ہوچکا ہے.جن کے لئے عذاب مقدر ہے وہ عذاب میںمبتلاہونے کے بعد خدائے واحد پر ایمان لائیں گے.اورجن کے لئے عذاب مقدر نہیں بلکہ کامل تباہی مقدر ہے وہ اس طرح تباہ کر دئے جائیںگے کہ نہ وہ خود نظر آئیںگے اور نہ ان کے آثار تک دکھائی دیں گے.ایمان غالب آجائےگا اور کفر دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا.ڑ ڑ ڑ ڑ
سُوْرَۃُ طٰہٰ مَکِّیَّۃٌ سورۃ طہ.یہ سورۃ مکی ہے وَ ھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ مِائَۃٌ وَّ سِتٌّ وَّ ثَلٰثُوْنَ اٰیَۃً وَّ ثَمَانِیَۃُ رُکُوْعَاتٍ اور بسم اللہ کو شامل کرکے اس کی ایک سو چھتیس (۱۳۶) آیات ہیں.اور آٹھ رکوع ہیں.سورۃ طہ مکی ہے یہ سورۃ بلااختلاف مکی ہے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اسے ابتدائی سورتوں میںسے قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیںکہ سب سے پہلے جو سورتیں میں نے حفظ کیں ان میں سے ایک یہ بھی سورۃ ہے اس کے ساتھ انہوں نے سورئہ بنی اسرائیل ، کہف ،مریم اور انبیا ء کو بھی گنا ہے (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الانبیاء ) وہیری نے اسے مکی زندگی کے تیسرے دور یعنی قبل از ہجرت کے سالوں میں شمار کیا ہے(تفسیر القرآن از وہیری) کیونکہ اس میں انبیاء بنو اسرائیل کے ذکر تفصیل سے آئے ہیں روایت اور تاریخ کی موجود گی میں محض انبیا ء کے ذکر کی وجہ سے جو سورئہ مریم میں بھی موجود ہےاور جسے ابتدائی کہا جاتاہے اسے آخری زمانہ کی مکی قرار دینا بہت بڑی جرأت ہے.ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جو ابتدائی صحابی ہیںاس سورۃ کو اپنی ابتدائی یاد کی ہوئی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں.تعلق وترتیب اس سورۃ کا سورئہ مریم سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورۃ مریم کے آخر میںیہ ذکر کیا گیا تھاکہ فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا یعنی یہ کلام تجھ پر تیری زبان میںاس لئے نازل کیا گیا ہے کہ تو آسانی سے اپنے گرد وپیش کےلوگوں کو تبلیغ کر سکے اور وہ تیری بات کو سمجھ سکیں اور شریروں پر حجت تمام ہو.اسی مضمون کو اس سورۃ کے شروع میں پھیلایا گیاہے اوراس میں حکمت یہ ہے کہ سورئہ مریم اصولی طورپر مسیحیت کے بارہ میںہے جن کا ایک نقطہ مرکزی یہ ہے کہ شریعت لعنت ہے.اس سورۃ میںاس مرکز ی نقطہ کا رد کیا ہے اور بتایاہے کہ شریعت رحمت ہوتی ہے لعنت نہیں.وہ بوجھ نہیںہوتی بلکہ انسان کےلئے سہولت پیدا کرتی ہے چنانچہ فرماتا ہےمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى یعنی قرآن کا نزول تجھے عزت بخشنے اور خدا تعالیٰ کا سپرد کردہ کام آسان کرنے کے لئے ہے تجھے تکلیف اور دکھ میں ڈالنے کے لئے نہیں.اس لئے لفظاً و معناً ہر قسم کی سہولتیں اس کتاب کے نزول میںمد نظر رکھی گئی ہیں.زبان تیری اپنی ہے عبارت سلیس ہے مطلب مطابق فطرت و عقل ہے اور عمل آسان
ہے غرض ہررنگ میںاس کتاب کو بوجھ ہونے سے بچایا گیاہے.سورۃ طٰہٰ کا سورۃ مریم سے تعلق اس سورۃ کاوسیع تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ سورۃمریم میںمسیحیت کی ابتدائی تاریخ بیان کی گئی تھی اور بتایاگیا تھاکہ مسیح ؑ کی آمد تو توحید کے قیام کے لئے تھی مگر مسیحیوں نے اسے شرک کاذریعہ بنا دیا اور شریعت کو اڑا دیا اور اسے لعنت قرار دے دیا.اب سورۃ طٰہٰ میںابتدائے اسرائیلیت کی طرف مضمون کو منتقل کیا گیاہے.اور بتایا ہے کہ موسیٰ ؑکا بڑاکارنامہ اس کی شریعت تھی.چنانچہ موسوی سلسلہ کی طرف اس سورۃ میںاللہ تعالیٰ نے تفصیل سے توجہ دلائی اور بتایا کہ موسوی سلسلہ شریعت اور توحید پر قائم تھا.اس کی شاخ عقلاًتوحید کے خلاف نہیں ہوسکتی.پس توحید کے خلاف مسیحی تعلیم بعد کی داخل شدہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑسے ابتدائے آفرینش تک شریعت اور گناہ کی حقیقت بیان کرنے کے لئے مضمون لے گیاہے جس کا نہ سمجھنا درحقیقت لاشرعیت اور شرک مسیحی کی جڑ اور منبع ہے.لاشرعیت کی اس لئے کہ اگر ابتدائے عالم سے وحی کو جاری نہ سمجھا جائے تویہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان کسی زمانہ میں بغیر شریعت کے بھی رہ سکتاہے اور شرک کامنبع اس لئے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں آئی توپھر انسان کو کوئی قانون اپنے لئے بنانا پڑےگا اور وہی خدا کاقائم مقام ہوجائےگا یعنی خدا کاشریک بن جائےگا.خلاصہ مضامین اس سورۃ کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن آسانیاں پیدا کرنے کےلئے آیا ہے نہ کہ تکلیف میں ڈالنے کے لئے اس کا سمجھنا آسان ہے مگر دل کی کھڑکی کھولنی ضروری ہے اس میںبنی نوع انسان کے ادنیٰ اوراعلیٰ احساسا ت اوران کی تمام ضرورتوںکا ذکر ہے اور خدا تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے انسانی پیدائش میں یہ بات مد نظر رکھی تھی کیونکہ وہ فطرت کے باریک رازوںسے واقف ہے اور ہر قسم کی ضرورتوں کے سامان مہیا کرنے اس کے اختیار میں ہیں.پس جو قانون خدا تعالیٰ دے وہ عذاب نہیں بلکہ رحمت ہے (آیت ۳تا ۹ ) مسیحیوں کو چاہیے کہ ان صداقتوں کے سمجھنے کے لئے موسیٰ ؑ کے حالات پر غور کریں اور سوچیں کہ کس طرح مایوسی کے وقت میںاللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کی اور اسے ہدایت بخشی اور اس پر اپناوجود ظاہر کیا جو توحید کے رنگ میںہی تھا.غرض موسیٰ ؑ کو برگزیدہ بنایا گیا اور وہ وحی الٰہی کا حامل ہوا اور اسے سب سے پہلا حکم شریعت توحید کا ہی دیا گیا اور کہا گیا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اَ نَا.یعنی تمام جہان میںصرف میں ہی ایک معبود ہوں.اور عبادت الٰہی کی تاکید کی گئی اور برے بھلے عمل کی جزا و سزا کاوعدہ دیا گیا اوربتایا گیا کہ جزا و سزامطابق اعمال ہوگی نہ کہ مطابق کفارہ.(آیت ۱۰تا۱۶)
پھر موسیٰ کو بتایا گیا کہ اصلاح قوم کاحقیقی ذریعہ صحبت صلحاء ہے (آیت ۱۷ تا ۲۴ ) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ ؑ کو اس کی قوم کے لئے صحیح ذریعہ اصلاح بتاکر اسے فرعون کی طرف جانے کاحکم د یا اور اس کے لئے دعا کا طریق سکھایا جو خدا تعالیٰ سے کی جاتی ہے نہ کہ کسی غیر اللہ سے اوراس کے بھائی کو اس کی درخواست پر اس کے ساتھ مقرر کیااور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میرا دوسرااحسان ہے.پہلااحسان وہ تھا کہ فرعونیوں سے بچانے کے لئے تجھے دریا میں ڈالا گیا اورمیں نے تجھے اس سے نجات دلوائی اور تیرے رشتہ داروں کو تیرے پاس جمع کردیا (آیت ۲۵ تا۴۱ ) پھر جب تیری جنگ فرعونی حکومت سے چھڑی تو ہم نے تجھے بچایا اور تجھے نجات دی.اور میںتیری روحانی پرورش کرتارہا یہاں تک کہ تو اصل کام کے قابل ہوگیا اور ہم نے کہا اب جا اور فرعون کو سمجھا اور اپنی قوم کو اس سے لے کرکنعان کے ملک کی طرف لے جا.چنانچہ وہ گئے او رفرعون کو سمجھایا (آیت ۴۱ تا۷۷ ) جب فرعون نے نہ مانا توہم نے موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے نکال لے جانے کاحکم دے دیا فرعون نے پیچھا کیا مگر سزاپائی (آیت ۷۸ تا۰۸ ) پھرطور پرکلام الٰہی کا سلسلہ شروع ہوا اورشریعت نازل ہوئی اورتوبہ کا دروازہ کھولا گیا (آیت ۸۱ تا۸۳ ) مگر باوجود اس کے بنی اسرائیل نے شرک کیا جس پر ان کو سزاملی اور توحید کی طرف ان کو کھینچ کر لایا گیا.(آیت ۸۴ تا۹۹) یہ مسیح ؑسے پہلے کے مذہبی حالات ہیںاور بعد میںتوآیا ہے.توبھی وہی تعلیم لایا ہے.پھر یہ درمیان میں بے جوڑ تعلیم کیسی آگئی جو شریعت کو لعنت کہتی ہے اور خداکے شریک قرار دیتی ہے.(آیت ۱۰۰تا ۱۰۳) اس کے بعد مسیحیوں کے عذاب اور ان کی ہزار سالہ ترقی کا ذکر کیا.یعنی چوتھی صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری تک جس میںسے تین صد اعلیٰ ترقی کے سال ہوںگے.جس طرح مسلمانوں کے ہزار سال میں تین صد اعلیٰ ترقی کے سال تھے.اس فرق سے کہ مسلمانوں کے پہلے تین صد اعلیٰ تھے او رمسیحیوںکے آخر ی تین صد اعلیٰ ہوں گے.اور اس فرق سے کہ عیسائیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے چھ سو سال مذہب کے قیام کے ملے اور مسلمانوںکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سوسال گذرنے کے بعد چھ سوسال اسلام کے روحانی استحکام کے ملیں گے.(آیت ۱۰۴و۱۰۵) فرماتا ہے اس وقت لوگ سوال کریںگے کہ یہ پہاڑ اڑیںگے کس طرح؟ یعنی یہ عیسائی حکومتیںجو اتنی
زبردست ہوگئی ہیںکس طرح تباہ ہوںگی ؟ مگر ہم بتاتے ہیں کہ وہ اڑجائیںگے اور مسلمان ترقی پا جائیں گے (آیت ۱۰۶ تا ۱۱۳ ) اس کے بعد پھر ابتدائے سورۃ کے مضمون کی طرف رجوع کیا کہ اس قرآن کا سمجھنا آسان ہے.کیونکہ یہ قرآن ملکی زبان میں ہے (غالباً مسیحیوںکوطعنہ ہے جو انجیل کے یونانی میں ہونے پر زور دیتے ہیں ) اور پھر اس میں مضمون بھی خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے اس لئے تمثیل والی مصیبت سے محفوظ ہے جس کا کثرت سے اور مبالغہ آمیز طورپر استعمال انجیل میں کیا جاتاہے.اس میں کوئی شبہ نہیںکہ قرآن کریم میں بھی مَثل کا لفظ استعمال ہوا ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ(بنی اسرائیل:۹۰) اور یہی مضمون سورۃ کہف رکوع ۸ میں بھی بیان ہوا ہے مگر وہاں مَثل کا لفظ تمثیل کے معنوں میںنہیں آتا بلکہ بیان کے معنوں میںاستعمال ہواہے اورمراد یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم میںہرقسم کے مضامین مختلف پیرایوں میںعمدگی کے ساتھ بیان کردیئے ہیں(آیت ۱۱۴ ) پھر بتایا کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے اس لئے احکام سماوی کے متعلق خود فیصلے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ وحی کاانتظار کرنا چاہیے (آیت۱۱۵) اس کے بعد موسیٰ ؑ سے اوپر عروج کیا اور بتایا کہ آدم کا وہ واقعہ جس پر مسیحیت کی ساری بنیاد ہے محض ایک غلط فہمی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیںاور اس سے زیادہ حقیقت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ آدم جس سے یہ واقعہ پیش آیا تھااس کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سکیم کے ماتحت تھی پھرکس طر ح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کی سکیم ناکام ہوجاتی.چنانچہ بائیبل میںبھی لکھاہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پرپیدا کیا ‘‘ (پیدائش باب ۱ تا آیت ۲۷ ) لیکن ساتھ ہی بائیبل یہ بھی کہتی ہے کہ آدم نے حوا کے ورغلانے پرگناہ کیا (پیدائش باب ۳آیت ۱۲ ) اس کے مقابلہ میںقرآن کہتاہے کہ آدم نے گناہ نہیںکیابلکہ صرف ایک لغزش تھی جوبغیر ارادہ کے اس سے ظہور میں آئی جیسا کہ فرماتا ہے کہ فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ:۱۱۶) پس قرآن کریم کامضمون عقل کے بھی مطابق ہے اور بائیبل کے بھی اس بیان کے مطابق ہے کہ آدم کو خدا کی شکل پرپیدا کیاگیا لیکن بائیبل کابیان آپس میں تضاد رکھتاہے بائیبل نے پہلے خود کہا کہ آدم خدا کی شکل پر پیدا کیا گیا تھالیکن بعد میںاس کے افعال کو شیطانی قرار دے دیا حالانکہ اگر آدم نے فی الواقعہ گناہ کیاتھا تو درحقیقت خدا تعالیٰ کی سکیم فیل ہو ئی ا ورنعوذ باللہ اس کی کمزوری ثابت ہوئی (آیت ۱۱۶ تا ۱۲۴ )
زبردست ہوگئی ہیںکس طرح تباہ ہوںگی ؟ مگر ہم بتاتے ہیں کہ وہ اڑجائیںگے اور مسلمان ترقی پا جائیں گے (آیت ۱۰۶ تا ۱۱۳ ) اس کے بعد پھر ابتدائے سورۃ کے مضمون کی طرف رجوع کیا کہ اس قرآن کا سمجھنا آسان ہے.کیونکہ یہ قرآن ملکی زبان میں ہے (غالباً مسیحیوںکوطعنہ ہے جو انجیل کے یونانی میں ہونے پر زور دیتے ہیں ) اور پھر اس میں مضمون بھی خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے اس لئے تمثیل والی مصیبت سے محفوظ ہے جس کا کثرت سے اور مبالغہ آمیز طورپر استعمال انجیل میں کیا جاتاہے.اس میں کوئی شبہ نہیںکہ قرآن کریم میں بھی مَثل کا لفظ استعمال ہوا ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ(بنی اسرائیل:۹۰) اور یہی مضمون سورۃ کہف رکوع ۸ میں بھی بیان ہوا ہے مگر وہاں مَثل کا لفظ تمثیل کے معنوں میںنہیں آتا بلکہ بیان کے معنوں میںاستعمال ہواہے اورمراد یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم میںہرقسم کے مضامین مختلف پیرایوں میںعمدگی کے ساتھ بیان کردیئے ہیں(آیت ۱۱۴ ) پھر بتایا کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے اس لئے احکام سماوی کے متعلق خود فیصلے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ وحی کاانتظار کرنا چاہیے (آیت۱۱۵) اس کے بعد موسیٰ ؑ سے اوپر عروج کیا اور بتایا کہ آدم کا وہ واقعہ جس پر مسیحیت کی ساری بنیاد ہے محض ایک غلط فہمی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیںاور اس سے زیادہ حقیقت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ آدم جس سے یہ واقعہ پیش آیا تھااس کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سکیم کے ماتحت تھی پھرکس طر ح ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ کی سکیم ناکام ہوجاتی.چنانچہ بائیبل میںبھی لکھاہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پرپیدا کیا ‘‘ (پیدائش باب ۱ تا آیت ۲۷ ) لیکن ساتھ ہی بائیبل یہ بھی کہتی ہے کہ آدم نے حوا کے ورغلانے پرگناہ کیا (پیدائش باب ۳آیت ۱۲ ) اس کے مقابلہ میںقرآن کہتاہے کہ آدم نے گناہ نہیںکیابلکہ صرف ایک لغزش تھی جوبغیر ارادہ کے اس سے ظہور میں آئی جیسا کہ فرماتا ہے کہ فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ:۱۱۶) پس قرآن کریم کامضمون عقل کے بھی مطابق ہے اور بائیبل کے بھی اس بیان کے مطابق ہے کہ آدم کو خدا کی شکل پرپیدا کیاگیا لیکن بائیبل کابیان آپس میں تضاد رکھتاہے بائیبل نے پہلے خود کہا کہ آدم خدا کی شکل پر پیدا کیا گیا تھالیکن بعد میںاس کے افعال کو شیطانی قرار دے دیا حالانکہ اگر آدم نے فی الواقعہ گناہ کیاتھا تو درحقیقت خدا تعالیٰ کی سکیم فیل ہو ئی ا ورنعوذ باللہ اس کی کمزوری ثابت ہوئی (آیت ۱۱۶ تا ۱۲۴ )
معنے یَارَجُلُ کے ہیں کلبی کہتے ہیں کہ اگر تم کسی عک قبیلہ کے شخص کو یَارَجُلُ کہہ کر پکارو تو وہ بالکل جواب نہیںدےگا ہاں اسے طٰہٰ کہو تو وہ بول پڑے گا قطرب جو ایک مشہور لغوی اور نحوی ہیںاور سیبویہ کے خاص شاگردوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ یہ لفظ طے قبیلہ میںبھی اسی مفہوم میںاستعمال ہوتاہے.لسان العرب میں بھی اس استعمال کا ذکر کیا گیاہے پس طٰہٰ کے معنے عرب کے مختلف قبیلوں میں چونکہ اے مردکامل القویٰ کے پائے جاتے ہیں.اس لئے ہم نے طٰہٰ کاترجمہ اسی نظریہ کے ماتحت کیا ہے اور اسی نظریہ کے ماتحت اب ہم سورئہ طٰہٰ کو سورئہ مریم کے مضمون کا تسلسل قرار دیتے ہیں.طٰہٰ کے لفظ سے آنحضرت ؐ کے کامل ہونے کی طرف اشارہ کامل قوتوں والے مرد سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مردانگی کی تمام اعلیٰ صفات یعنی شجاعت اور سخاوت اور بدی کا مقابلہ وغیرہ کامل طورپر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے تمام عالم انسانی میں صرف آپ ہی کامل انسان کہلانے کے مستحق ہیں.چنانچہ جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقتاً ایک کامل انسان تھے اور آپ میں وہ تمام اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے تھے جو ایک کامل قوتیں رکھنے والے مرد کے اندر پائے جانے چاہئیں.مثلاًبدی کے مقابلہ کی قوت کو ہی لے لو.اس نقطہ نگاہ سے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاجائزہ لیا جائے تو آپ ؐکے پاکیزہ و مطہر قلب میں ہمیں بدی کے مقابلہ کی اس قدر شدید تڑپ دکھائی دیتی ہے کہ جس کی دنیا میں اور کہیں نظیر نہیں آتی.آپ ابھی نبوت کے مقام پر فائز بھی نہیںہوئے تھے کہ آپ نے اس فطری جذبہ کے مطابق اس راستہ کی تلاش اور جستجو شروع کردی جس پر چل کر اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عرفان حاصل ہوسکتاہو اس وقت حالت یہ تھی کہ آپ کا گرد وپیش سارے کاسارا کفر اور شرک سے بھراہواتھا.کوئی قوم ایسی نہ تھی جو شرک اور بت پرستی میں مبتلا نہ ہو.ایک طرف آپ کے ملنے والے عیسائی اور یہودی لوگ تھے جو شرک میں مبتلا ہوچکے تھے اور دوسری طرف مکہ کے لوگ تھے جوسرتاپا شرک میں ملوث تھے آپ نے ان تینوںقوموںکو دیکھا اور آپ کو محسوس ہوا کہ ان قوموں کے اندر معرفت کے کوئی آثار نـظر نہیں آتے کفار مکہ شرک کے اندر سر سے پائوں تک غرق تھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی تین سو ساٹھ بتوںکی پرستش ہوتی تھی(بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی الرایة یو م الفتح).ادھر یہودی اور عیسائی بھی شرک میں مبتلاتھے اور خدا کا خانہ بالکل خالی ہوچکاتھا.یہودی لوگ یوں تو زبان سے شرک کے قائل نہ تھے مگر وہ ایک نبی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میںہی آتا ہے کہ یہودی کہتے تھے عُزِیْرُابْنُ اللّٰہِ (التوبۃ :۳۰) یعنی عزیر اللہ کابیٹاہے.بہرحال یہ تینوں قومیں یعنی
کفار مکہ اور یہودی اور عیسائی خدا تعالیٰ کی معرفت اور صداقت پر قائم نہ تھیں.یہود کوتو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی نافرمانیوں اور مخالفت کی وجہ سے مجرم قراردے دیاتھا.پس وہ قوم جو مجرم قرار پاچکی تھی وہ کس طرح کسی کی رہنمائی کرسکتی تھی عیسائی مشرک تھے کیونکہ وہ ایک خدا کی بجائے تین خدامانتے تھے اور مکہ والے بت پرست تھے پس جب آپؐ نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور تفرید ان تینوں قوموں کے ا ندر مفقود ہے اور یہ سارے کے سارے کفر اور شرک کے تاریک گڑھوں میںگر چکے ہیں توآپ کے دل میںتڑپ پیدا ہو ئی کہ میں کوئی ایسا رستہ تلاش کروں جو للہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو.یہ تڑپ آپ پر اتنی غالب آئی کہ آپ کو دنیا سے نفرت ہوگئی اور آپ نے اپنے گردوپیش کے شرک سے نفرت ظاہر کرتے ہوئے ان لوگوںکی مجالس میںشرکت سے پرہیز کرنا شروع کردیا جو دن رات بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے مگر چونکہ آپ کے چاروں طرف ایسے لوگ بستے تھے جوبتوںپر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور بتوںکی تعریف میںشعر کہتے تھے اور ان سے کلی علیحدگی ایک ناممکن امر تھا اس لئے آپ نے ارادہ کیاکہ کہیںالگ ہو کر خدائے واحد سے مدد طلب کی جائے تاکہ اس کی طرف سے ہدایت کے سامان پیدا ہوں چنانچہ آپ حضرت خدیجہ ؓ سے کئی کئی دن کا کھانا ساتھ لےکرمکہ سے باہر تین چار میل کے فاصلہ پرغارحرامیںتشریف لے جاتے اور وہاں یاد الٰہی میںمشغول رہتے اس زمانہ میں اور تو کوئی خاص کھانانہ ہوتاتھا صرف کچھ کھجوریں ستو اور سوکھاگوشت آپ اپنے ساتھ لے جاتے اور متواتر کئی کئی د ن اس غار میںعبادت الٰہی اور دعائوں میںمشغول رہتے تاکہ آپ کواور دوسرے بنی نوع انسان کو وہ رستہ مل جائے جوخداتک پہنچاتاہے.یہ تڑپ جو آپ کے دل میں پیدا ہوئی ایک غیر معمولی تھی اور پھر یہ ایسی تڑپ تھی جس میں کسی انسانی مدد کا کو ئی سوال نہ تھا کیونکہ دنیا کا کوئی انسان اس میںآپ کا ہاتھ نہیںبٹا سکتا تھا.دوسرے کاموں میںتو عزیزوںاور دوستوں کی مدد کام دے سکتی ہے یاروپیہ کام دے سکتاہے لیکن اس کام میں کوئی انسانی طاقت آپ کی ممد نہ ہوسکتی تھی اگر تو آپ کے زمانہ میں کوئی مذہب حقہ موجود ہوتا تو اس کی مدد ایک ذریعہ بن سکتی تھی.مگر آپ کے زمانہ میں کوئی مذہب حقہ موجود نہ تھا اور تمام کی تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں اس لئے وحدانیت کی تلاش کی تڑپ ایک ایسی چیز تھی جس میںسوائے خدا تعالیٰ کے دنیا کی کوئی طاقت آپ کی مدد نہ کر سکتی تھی.حضرت خدیجہؓ آپ کی وفادار اور غمگسار بیوی تھیں مگر وہ بھی اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد نہ کرسکتی تھیںآپ کے دوست بھی اس میںآپ کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے آپ کے اقرباء بھی اس میں آپ کی کو ئی مدد نہ کر سکتے تھے عیسائی راہب بھی اس میںآپ کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے اور مکہ کے کاہن بھی اس میں آپ کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے بلکہ وہ تو خود گم گشتہ راہ تھے انہوں نے آپ کی کیا مدد کرنی تھی ان سب سے بہتر خود
آپ کی اپنی فطرت تھی جوبچپن سے ہی ایسی تھی کہ شرک سے سخت متنفر تھی چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے چچا زیدبن عمرو جنہوںنے زمانہ جاہلیت میںہی شرک چھوڑدیا تھا اور جو اپنے آپ کوشرک کے خلاف ایک بڑے مقام پر سمجھتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے گفتگو کے بعد آپؐ نے ان سے فرمایا کہ آئو کھانا کھا لو.اس پر زید نے کہا میںمشرکوں کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا کرتا.یہ سن کررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیںنے کبھی شرک نہیںکیا(بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید ابن عمرو بن ثقیل).مگر زید نے تویہودیوں کی صحبت میںرہ کر شرک کی تھوڑی بہت مخالفت سیکھی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی فطرت میں پیدائشی طورپر یہ بات موجود تھی یوں احکام الٰہی اور شریعت کی تفاصیل الہام الٰہی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوئیں لیکن جہاںتک توحید سے محبت اور شرک سے انتہائی نفرت کا سوال ہے یہ چیز بچپن سے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں موجود تھی.آپ اتنا توجانتے تھے کہ خدا ایک ہے اور ایک ہی ہوناچاہیے لیکن خدا تک پہنچنے کے لئے اور معرفت کے حصول کے لئے رستہ کون ساہے یہ آپ کومعلو م نہ تھا.اسی چیز کی تلاش میںآپ غارحرامیںعبادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ایک دن آپ اپنے معمول کے مطابق عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ آپ پر ظاہر ہوا اور اس نے کہااقرء یعنی پڑھ آپ نے فرمایا.مَااَ نَا بِقَارِيءٍیعنی میںتو پڑھ نہیںسکتا فرشتے نے یہ سنا توآپ کو زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگاکر بھینچااور چھوڑ کر پھر کہا اِقْرَأْ مگر آپ نے پھر وہی جوب دیا کہ مَااَنَا بِقَارِيءٍ فرشتہ نے پھر آپ کو پکڑا اور زیادہ زور کے ساتھ سینہ سے لگاکر بھینچااور چھوڑکر کہااقرء مگر آپ نے پھر فرمایا مَااَنَا بِقَارِيءٍ اس پر فرشتہ نے تیسری بار پھر آپ کو پکڑا اور نہایت زور کے ساتھ سینہ سے لگاکر بھینچا اورکہا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ.الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے دنیا کی تمام اشیا ء کو پیدا کیا ہے اورجس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے.ہم پھر تجھے کہتے ہیںکہ پڑھ.تیرارب بڑاکریم ہے جس نے انسان کو قلم کے ساتھ سکھایا ہے اور اس نے انسان کووہ کچھ سکھایا ہے جووہ پہلے نہیںجانتاتھا.(بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء لوحی ) یہ آیا ت آپ پر پہلے دن غار حرامیں نازل ہوئیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کوبتایا گیا کہ اب آپ کو وہ علوم عطاکئے جانے والے ہیںجو اس سے پہلے دنیا میںکوئی انسان نہیںجانتا.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیںفرمایا کہ ہم تجھے وہ علوم عطاکریںگے جن کو انسان بھول چکا ہے.بلکہ فرمایا ہم تجھ پر وہ علوم ظاہر کریں گے جن کوپہلے کوئی نہیںجانتااگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتاکہ میںتجھے وہ علوم عطاکروںگا جو انسان بھول چکا تھا تو اس کے معنے یہ
ہوتے کہ میںتجھے و ہ علم اور ہدایت دے رہاہوں جو میںنے ابراہیم کو دی تھی اور اب انسان اس کو بھول چکاہے یا میںتجھے وہ علوم عطاکررہا ہو ںجو میںنے نوح کو دیئے تھے اوراب انسان ان کو بھول چکا ہے.یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے موسیٰ کو دئیے تھے اوراب انسان ان کو بھول چکا ہے.یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے عیسیٰ کو دئیے تھے اور اب انسان ان کوبھول چکا ہے.یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے اور انبیاء کوعطاکئے تھے اوراب انسان ان کوبھول چکا ہے بلکہ اس نے یہ فرمایا کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ میں تجھے وہ علوم عطا کرنے والا ہوں جو نہ آدم ؑ کو ملے نہ ابراہیمؑ کو ملے نہ موسیٰ کو ملے نہ عیسیٰ کو ملے اور نہ کسی اور نبی کو ملے.پس درحقیقت ان پہلی آیتوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھاکہ آپ خاتم النبیین کے مقام پر فائز ہونے والے ہیںاور آپ کواللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تعلیم ملنے والی ہے جو پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں تھی.گویا طٰہٰ میں جوحقیقت بیان کی گئی ہے اس کی طرف اس ابتدائی الہام میںبھی اشار ہ کردیا گیا اور بتادیا گیا کہ آپ روحانی نقطہ نگاہ سے اپنے اندر کامل قوتیں رکھنے والے ہیںاور اسی وجہ سے آپ کو ایک کامل اور غیرمتبدل تعلیم عطا کی جانے والی ہے.اب اس کے بعد ایک اور مرحلہ شروع ہوا جس نے ثابت کردیا کہ آپ حقیقۃً طٰہٰ تھے اور ایک کامل انسان میں جس قدر اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپ میں پائے جاتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اقرء یعنی جا اور دنیاکو میرا پیغام پہنچا دے تو یہ کوئی آسان کام نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہاکہ جا اور فرعون تک میرا پیغام پہنچا دے تو حضر ت مو سیٰ علیہ السلام نے گھبرا کر کہا کہ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَھْلِیْ اے خدا یہ ایسا بوجھ نہیںجس کو میں اکیلابرداشت کرسکوں اس لئے میری مدد کے لئے میرے ہی اہل میں سے ایک آدمی میرے ساتھ مقرر کردیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا.بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا کہ جا اور دنیا تک میرا پیغام پہنچا دے توا ٓپ نے اکیلے ہی اس بوجھ کو برداشت کرلیا اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے اپنے گھر کی طرف چل پڑے آپ نے گھر پہنچ کر حضرت خد یجہ ؓ کو یہ تمام واقعہ سنایا اور پھر کہا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ یعنی خدا تعالیٰ نے ایک بہت بڑا کام میرے سپرد کیا ہے.میں ڈرتاہوں کہ میں اس عظیم الشان کام کو سرانجام بھی دے سکوں گا یانہیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاجو آپ کی پاکیزہ زندگی کی شاہد تھیں انہوںنے یہ سنتے ہی کہا کلَّا وَاللہِ مَا یُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا نہیںنہیںایسا ہرگز نہیںہوسکتا.خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیںکرے گا.إِنَّكَ لَتِصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِيْ الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلٰى نَوَائِبِ الْحَقِّ کیونکہ آپ ہمیشہ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیںاور لوگوں کے بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ
اخلاق فاضلہ جو دنیا سے مٹ چکے ہیںان کوازسرنو قائم کررہے ہیںاور ہمیشہ مہمان نوازی کرتے ہیںاور اگر کوئی شخص بغیر کسی شرارت کے مصیبت میں پھنس جائے توآپ اس کی اعانت فرماتے ہیں.یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسے عظیم الشان اوصاف رکھنے والے انسان کو خداچھوڑ دے.(بخاری باب بدءالوحی) دنیا میں انسان کے اخلاق اور اس کے کردار کی سب سے بڑی گواہ اس کی بیوی ہوتی ہے.جو رات دن اس کے حالات کو دیکھتی رہتی ہے.پس یہ گوہی سب سے زیادہ معتبر گواہی ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میںطٰہٰ تھے یعنی ایک کامل مرد میں جو فضائل اور اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپ میں اپنی پوری شان کےساتھ پائے جاتے تھے.چنانچہ جب ہم رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی پر تفصیلی طورپرغور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے آپ میں وہ تمام اوصاف ودیعت فرمادئیے تھے جو ایک کامل القویٰ مرد میں پائے جانے چاہئیں تاکہ آپ ہرقسم کے لوگوں کے لئے نمونہ بن سکیں ہمیںاس سے انکار نہیںکہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ایک اعلیٰ درجہ کے نبی تھے لیکن وہ ہر زمانہ اور ہرقسم کے لوگوں کے لئے نمونہ نہیںتھے.مثلاًانجیل سے آپ کی شادی ثابت نہیں.اس لئے شادی شدہ لوگو ںکی متاہلانہ زندگی میں آپ کو ئی راہنمائی نہیںکرسکتے.اسی طرح آپ بادشاہ نہیںہوئے کہ ٓاج بادشاہ یہ کہہ سکیں کہ مسیح ؑ ہمارے لئے بھی نمونہ ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حالات میں سے گذرے جن کے نتیجہ میں آپ دنیا کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بن گئے اور پھرزندگی کے ہر مرحلہ میں آپ نے اپنے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور بلند کردار کا اظہا ر کرکے ثابت کردیا کہ آپ کے اندر کامل روحانی قوتیں ودیعت کی گئی ہیں.مثلاً ًرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد آپ کی پیدائش سے قبل ہی فوت ہوچکے تھے اور بہت چھوٹی عمر میں آپ کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا.مگر داداکی زیر نگرانی جو باپ کاقائم مقام تھاآپ نے بتادیا کہ اخلاق کیسے ہونے چاہئیں.یتیم کی حالت دو قسم کی ہوتی ہے.یا توبچہ بہت ہی سرچڑھ جاتاہے یا بہت ہی پژمردہ رہنے لگتاہے اگر اس کے نگران ایسے لوگ ہوں جو اس کی دلجوئی کے خیال سے ہر وقت پیارہی کرتے رہیں تو اس کی اخلاقی حالت بہت ہی گرجاتی ہے اور اگر وہ ایسے لوگوں کی تربیت میں ہو جوسمجھیں کہ ہمارا بچہ تو یہ ہے ہی نہیںتو یتیم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے مگر بچپن میںہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ آپ کے ہمجولی بیان کرتے ہیں کہ گھر میں کسی چیز کے لئے آپ چھیناجھپٹی نہیںکرتے تھے بلکہ وقار کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے حتیٰ کہ چچی خود بلاکر آپ کاحصہ دیتیں پھر آپ وقار کےساتھ ہی اس کا استعمال کرتے.آپ کی رضاعی والدہ کا بیان ہے کہ آپ میں ایسی سعادت
تھی کہ بچے بھی حیران رہ جاتے تھے.رضاعی بھائی بیان کرتے ہیںکہ آپ لغو کھیلیں نہیںکھیلتے تھے.مذاق کرلیتے تھے مگر جھوٹی باتوں سے سخت نفرت تھی اس زمانہ میں ایسی ہمدردی آپ کے اندرپائی جاتی تھی کہ چھوٹے بچے بھی آپ کو اپنا سردار سمجھتے تھے(تاریخ الخمس جلد ۱ زیر ذکر شق صدر صفحہ ۲۲۵) پھر جس قسم کا حسن سلوک آپ نے ابوطالب اور اپنی چچی سے کیا ہے اس کی نظیر سگے بیٹوں میںبھی نہیںملتی فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ !آپ کس مکان میں ٹھہریںگے اس پرآپ نے بغیر کسی قسم کے غصہ کے فرمایا عقیل نے کوئی مکان باقی چھوڑاہے کہ اس میں ٹھہریں یعنی چچازاد بھائیوںنے سب مکان بیچ دیئے ہیں.اب ہمارا کون سا مکان ہے جس میں ہم ٹھہریں.پھر آپ نے نہ صرف باپ کی محبت کوابوطالب کے متعلق قائم رکھابلکہ دوسروں کو بھی تعلیم دی کہ ماں باپ کواف بھی نہ کہو(بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی الرایة یوم الفتح).اس کے بعد آپ جوان ہوئے لوگ اس عمر میںکیاکچھ نہیںکرتے.عرب میں اس وقت کوئی قانون نہ تھا کوئی اخلاقی ضابطہ نہ تھا.لوگ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہمارا فلاں کی عورت یا لڑکی سے ناجائز تعلق ہے اس ماحول میںرہنے والے نوجوانوں سے کو ئی شخص بلند کردار کی توقع نہیں کر سکتامگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی گندی فضا کے باوجود جوانی میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ لوگ آپ کو امین اور صد وق کہتے تھے(سیرة النبی لابن ہشام جلد ۱ اختلاف قریش فی من یضع الحجر) یہ کہنا کہ آپ جھوٹ نہ بولتے تھے آپ کی ہتک ہے کیونکہ آپ صداقت کا یسا اعلیٰ نمونہ تھے کہ جس کی نظیر نہیںملتی.اور صداقت کا مقام جھوٹ نہ بولنے سے اوپر ہے پس آپ کا یہی کمال نہیںکہ آپ جھوٹ نہیںبولتے تھے بلکہ آپ کاکمال یہ ہے کہ آپ صدوق کہلاتے تھے.آپ کے کلام میںکسی قسم کا اخفاء اور پردہ دری یافریب نہ ہوتاتھا.یہی وجہ تھی کہ آپ جوکچھ کہہ دیتے تھے لوگ اسے تسلیم کرلیتے آپ نے اہل مکہ سے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑالشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیاتم یقین کر لو گے.سب نے کہاہاں ہم مان لیںگے (بخاری کتاب التفسیر سورۃالشعراءباب وانذر عشیر تک الاقربین) حالانکہ ویران علاقہ تھا اور صفا اور مروہ پر چڑھ کر دور دور نظر جاتی تھی ایسی حالت میں آپ کی بات ماننے کے صاف معنے یہی تھے کہ وہ اپنی آنکھوں کو جھوٹاسمجھتے حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوتے کہ کوئی لشکر نہیں مگر وہ سب کے سب اپنی آنکھوں کوجھوٹاسمجھنے کے لئے تیار تھے لیکن یہ کہنے کے لئے تیار نہیںتھے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیںاور جب سب نے یہ اقرار کرلیا تو آپ نے فرمایا.خدا نے مجھے تمہاری ہدایت و اصلاح کے لئے بھیجاہے.پھر آپ کی صداقت کے متعلق ایک شدید ترین دشمن کی گواہی موجود ہے اہل مکہ کو جب خیال ہوا کہ حج کے
موقعہ پرلوگ جمع ہوںگے تو عین ممکن ہے کہ آپ ان میں سے بعض کواپنے ساتھ ملالیںتو وہ لوگوںکو آپ سے بدظن کر نے کی تجویزیں سوچنے لگے کسی نے کہا یہ مشہور کردو کہ یہ شاعرہے کسی نے کہا یہ مشہور کردو کہ یہ مجنون ہے.اتنے میں ایک شخص بولا اور کہنے لگا اس میںگھبراہٹ کی کونسی بات ہے.ہم کہہ دیں گے کہ یہ جھوٹاہے اس پرانہی میں سے ایک مخالف نضربن الحارث بڑے جوش سے کھڑاہوگیا اور کہنے لگا.محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے درمیان جوان ہوا، اس کے اخلاق تم سب سے زیادہ اچھے تھے وہ تم سب سے زیادہ راستباز تھا.وہ تم سب سے زیادہ امین تھا مگر جب تم نے اس کی کنپٹیوں میںسفید بال دیکھے اور وہ تمہارے پاس وہ تعلیم لےکر آیا جس کا تم انکار کررہے ہوتو تم نے کہہ دیا کہ وہ جھوٹاہے خدا کی قسم وہ ہرگز جھوٹانہیں.(شفاء قاضی عیاض جزء اول صفحہ ۵۱) پھرہم آپ کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور غرباء کی امداد کو لیتے ہیںتو اس میں بھی ہمیں آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا.مکہ کے بعض اشخاص نے مل کرایک ایسی جماعت بنائی تھی جوغریب لوگوںکے حقوق کی حفاظت کرے اور چونکہ اس کے بانیوں میںسے اکثر کے نام میںفضل آتاتھا اس لئے اسے حلف الفضول کہا جاتاہے.اس میںآپ بھی شامل ہوئے یہ زما نہ نبوت سے بہت پہلے کی بات ہے.بعد میںصحابہ ؓ نے ایک دفعہ اس کے متعلق دریافت کیا.تو آپ نے فرمایا یہ تحریک جو مظلوموں کی امداد اور غرباء کے حقوق کے لئے جاری کی گئی تھی مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی شخص اس کی طرف بلائے تو میںاس میںشا مل ہونے کے لئے تیار ہوں (السیرة الحلبیة جزء اول باب شہودہ حلف الفضول).گویا غرباء کی امداد کے لئے دوسرں کی ماتحتی سے بھی آپ کو کوئی عار نہیںتھا.پھر آپ نے جب حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی تو اس وقت آپ کے پاس کوئی مال نہ تھا.بعض لوگوںنے روایت کی ہے کہ آپ کے والد نے چند بکریاں اور ایک دواونٹ آ پ کے لئے چھوڑے تھے (طبقات ابن سعدذکر وفات عبداللہ ابن عبد المطلب) مگر یہ جائیداد ایسی قلیل تھی کہ اس کاہونا نہ ہونابرابر ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل قوتوںکے ساتھ پیدا فرمایا تھااور آپ صحیح معنوں میںطٰہ ٰکے مصداق تھے اس لئے آپ کی طبیعت میں حرص بالکل نہ تھی اور سیرچشمی کمال کو پہنچی ہوئی تھی یہاںتک کہ آپ کی قوم نے آپ کو امین کا خطاب دے دیااور آپ کی دیانت وامانت کاسکہ تسلیم کرلیا.ایک دفعہ صدقات کاکچھ روپیہ آیا اور اسے تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی کو نے میںگرگیاجسے اٹھانے کاآپ کو خیال نہ رہا.نماز کے بعد یاد آیا تو لوگوں کے اوپرسے پھاندتے ہوئے آپ جلدی سے اپنے گھر تشریف لے گئے صحابہ ؓ نے دریافت کیا کہ یارسو ل اللہ ! کیابات تھی آپ نے فرمایا اس اس طرح ایک دینار تقسیم کرنے سے
رہ گیا تھا میںنے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اسے بھی تقسیم کردوں(بخاری کتاب الزکوة باب من احب تعجیل الصدقة من یومھا) غرض مال ودولت کے باوجود آپ نے ایسی سیرچشمی او ر استغناء ظاہر کی کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.جو کچھ آتا آپ خداتعا لیٰ کی را ہ تقسیم کردیتے حالا نکہ گھر کی یہ حالت تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیںکہ بعض دفعہ ایک ایک مہینہ تک ہمارے گھروں میںآگ نہیںجلتی تھی ہم اونٹنی کا دودھ پی لیتے یا کھجور یں کھا لیتے تھے یا بعض دفعہ کوئی ہمسایہ دودھ یا کوئی اور چیز بھیج دیتاتو وہ استعمال کرلیتے اور کبھی فاقہ سے ہی رہتے تھے (شمائل ترمذی باب ماجاء فی عیش النبی ) یہ اس زمانہ کی حالت ہے جب کثرت سے دولت آرہی تھی.غرض آپ نے ہرحالت میںاعلیٰ نمونہ دکھایا آپ کوروپیہ ملامگر پھر بھی آپ نےغربت کو قائم رکھا.آپ مجرد رہے اور ایسااعلیٰ نمونہ دکھایاکہ دنیاحیران ہے آپ نے پچیس برس کی عمر میںشادی کی جبکہ عرب میںسولہ سترہ برس کا لڑکا پورابالغ ہو جاتا ہے اور اس عمر میں بھی ایک بڑی عمر کی بیوہ کے ساتھ شادی کی.پھرشادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنی ساری دولت آپ کے حوالے کردی جو آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ سب غلاموں کوآزادکردیا.دشمنوں کے ظلم سہنے میںبھی آپ نے ایسا نمونہ دکھایا جوبے نظیر ہے طائف میںتبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے سر سے پائوں تک آپ زخمی ہوگئے مگرایسی حالت میں بھی جب خدا تعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہاکہ اگر چاہو تو ابھی ان لوگوں کوسزا دے دی جائے تو آپ نے فرمایا نہیں یہ لوگ نادانی سے ایسا کررہے ہیں(بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم امین).پھر جب کبھی ضرورت پیش آتی آپ فوراً ان دشمنوں کی امداد کرنے کے لئے تیار ہوجاتے جو آپ کی ایذا رسانی پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے.کوئی نہیںجو آپ کے پاس اپنی حاجت لے کرآیا ہو اور آپ نے اس کی حاجت روائی سے انکار کردیا ہو وہ شہر جہاں سے رات کے وقت چھپ کر آپ کو بھاگنا پڑا تھا اس شہر کے شدید ترین معاند جب مغلوب ہونے کے بعد آپ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے فرمایا لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں (زاد المعاد دخول النبی ؐ و المسلمین مکة).میں نے تم سب کو معاف کردیا ہے حالانکہ ان لوگوں میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے آپ کے صحابہ ؓ کو اونٹوں سے باندھ باندھ کر چیر ڈالا.بعض ایسے تھے جنہوں نے عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں شہید کر ڈالابعض ایسے تھے جنہوں نے صحابہ ؓ کو جلتی ریت پر لٹالٹا کر انہیں دُکھ دیا اور ان کا جینا دوبھر کردیا (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب باب السین سمیة ام عمار بن یاسر و اسد الغابة حرف الباء ،بلال).مگر آپ نے ان
سب کو معاف کر دیا اور اس طرح بتادیا کہ آپ کے اندر کتنا عدیم المثال عفو پایا جاتاہے.آپ نے تجارت بھی کی اور ایسی کہ حضرت خدیجہ ؓ کے غلام کہتے ہیں ہم نے ایسا ایماندار کوئی نہیںدیکھا.سب سے زیادہ نفع آپ کوہوتا تھا اور آپ کی چیز میںاگر کو ئی نقص ہوتاتو آپ خود ہی اس کو ظاہر کردیتے تھے.نتیجہ یہ ہوتاکہ گاہک تلاش کرکرکے آپ سے مال خریدتے تھے.آپ کا غریبوں سے معاملہ ایسااحسان کا تھاکہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی گردن میں پٹکا ڈال لیا اور کہا مجھے کچھ مال دو آپ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ صرف یہ جواب دیا کہ میں.بخیل نہیں ہوں اگر میرے پاس مال ہوتاتو میں ضرور دے دیتا.اس وقت دس ہزار آدمی آپ کے ہاتھ پر اپنی جان و مال کوقربان کرنے کا عہد کرچکا تھا.اگر آپ ذرابھی اشارہ کر دیتے تو وہ اس کی گردن اڑادیتے مگر آپ نے اس پر خفگی کا اظہار نہیںکیا(کتاب الشفا للقاضی جلد ۱ صفحہ ۴۱).پھر شجاعت اوردلیری آپ میں اس قدر تھی کہ مکہ کی مخالفت جب انتہا کو پہنچ گئی تو رئوسائے قریش نے ابو طالب کو دھمکی دی کہ اگر تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کونہ روکا تو تمہیں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا.اور ہم تمہیں اپنی سرداری سے الگ کردیںگے.ابوطالب اس دھمکی سے گھبراگئے اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے تو انہوں نے بلاکر کہا کہ مکہ کے ریئس اس اس طرح کہتے ہیںیہ ممکن نہیںکہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرلو جس سے ان کی بھی دلجوئی ہو جائے.رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.چچامیں ساری تکالیف برداشت کرلوںگا مگر میں خدا تعالیٰ کاپیغام پہنچانے سے کبھی رک نہیںسکتا.خدا کی قسم اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاورچاند کو میرے بائیںبھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید پھیلانے سے باز نہیںرہ سکتامیں اس کام میں مشغول رہوں گااور اس کے لئے اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہانے سے بھی دریغ نہیںکروں گا.(سیرة النبی ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۸۴ ،۲۸۵) غرض ایک کامل قوتوں والے انسان کے اندر جس قدر اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سارے کے سارے اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میںپائے جاتے تھے.آپ کے اندر شجاعت بھی پائی جاتی تھی سخاوت بھی پائی جاتی تھی احسان بھی پایا جاتا تھا،وفاداری بھی پائی جاتی تھی.تحمل بھی پایا جاتاتھا،ر حم بھی پایا جاتاتھا، حلم بھی پایاجاتاتھا، ایثار بھی پایا جاتاتھا ،دیانت بھی پائی جاتی تھی ،اخوت بھی پائی جاتی تھی ،تواضع بھی پائی جاتی تھی ،غیرت بھی پائی جاتی تھی ،شکر بھی پایا جاتاتھا ،استقلال بھی پایا جاتاتھا، وقاربھی پایا جاتا تھا ،بنی نوع انسان
کی خیر خواہی بھی پائی جاتی تھی ،بلند ہمتی بھی پائی جاتی تھی ،صبر بھی پایا جاتاتھا،رافت بھی پائی جاتی تھی ،بدی کے مقابلہ کی طاقت بھی پائی جاتی تھی.قوت برداشت بھی پائی جاتی تھی ،جفاکشی بھی پائی جاتی تھی ،سادگی بھی پائی جاتی تھی، صلہ رحمی بھی پائی جا تی تھی سچائی بھی پائی جاتی تھی ،غرباء پروری بھی پائی جاتی تھی ،مصیبت زدوں کی مدد کی خواہش بھی پائی جاتی تھی ،مہمان نوازی بھی پائی جاتی تھی ،بزرگوں کاادب اور چھوٹوں پر شفقت بھی پائی جاتی تھی ،محبت الٰہی بھی پائی جاتی تھی ،توکل بھی پایا جاتاتھا.عبادات کی محافظت بھی پائی جاتی تھی.غرض کونسی خوبی تھی جو آپ میںنہ پائی جاتی ہو.اور کون ساکمال تھا جو آپ میں موجود نہ ہو.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت سورئہ مریم کے بعد اس سورۃ کو رکھا گیا ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ جب حضرت مریم ؑ کے پیٹ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پڑے تھے تو گو جس فرشتے نے آپ کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی تھی وہ بَشَرًاسَوِیًّاکی شکل میںآیا تھا.یعنی ایک تندرست مرد کی شکل میںظاہر ہوا تھا جیسا کہ سوئہ مریم میںآتاہےفَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خبر کسی فرشتہ نے ایک تندرست بشر کی شکل میںظاہر ہوکر نہیںدی بلکہ آپ خود ایک کامل القویٰ مرد تھے جن کے اندر تمام مردانہ صفات اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر تھیں.گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو یہ صفات بالواسطہ اوروہ بھی نامکمل شکل میںملیںکیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خبر دینے والا فرشتہ بشر کہلاتا تھا رجل نہیں.اوربشر کا وجود متمدن انسان کے دورسے پہلے تھا یعنی بشر انسان کا پہلا درجہ تھا لیکن ’’رجل‘‘ انسان کاآخری درجہ ہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سورۃ مریم اور بائیبل کے بیان کے مطابق صرف بشری طاقتوں کے ظہور تھے اسی وجہ سے بقول انجیل جب ان پر جبریل نازل ہوا تووہ ایک کبوتر کی شکل میں نازل ہوا (متی باب ۳آیت ۱۶ ) جو ایک کمزور اور نحیف جانور ہے اور بلی بھی اس کوکھا جاتی ہے.مگر جب وہی جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمپرنازل ہوا تو ایک قوی ہیکل انسان کی صور ت میںنازل ہوا جس نے اپنی پوری طاقت سے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھینچا.چنانچہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم غارحراوالے واقعہ کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب فرشتہ میرے پاس آیااور میں نے مَااَنَابِقَارِيءٍ کہا تو فَغَطَّنِی حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْجَھْدَ(بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ) اس نے مجھے ایسابھینچاکہ میری مقابلہ کی طاقت بالکل جاتی رہی.یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک قوی ہیکل انسان کی صورت میںظاہر ہوا تھا جبکہ مسیح ؑ پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک کبوتر کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم خود کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے اور یہی وہ خصوصیت ہے جس کی طرف طٰہٰ میںاشارہ کیاگیا ہے.مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ۰۰۳ ہم نے تجھ پر(یہ)قرآن اس لئے نازل نہیںکیا کہ تو دکھ میںپڑجائے.حلّ لُغَات.تشقیٰ شَقِیَ سے مضارع واحد مخاطب کا صیغہ ہے اور شَقِیَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں کَانَ شَقِیًّاوہ شقی ہوگیادراصل شقاوة کالفظ سعادة کے مخالف معنے ظاہرکرنے کے لئے بولا جاتاہے.(اقرب)اور سعادۃکے معنے ہیںمُعَاوَنَۃُ الْاُمُوْرِ الْإِلٰھِیَّةِ لِلْاِنْسَانِ عَلٰی نَیْلِ الْخَیْرِ بھلائی اوربرکت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ اسباب کی امداد (مفردات ) پھر مفردات میں شقاء کے معنے کرتے ہوئے امام راغب ؒ لکھتے ہیں قَالَ بَعْضُہُمْ قَدْ یُوْضَعُ الشِقَاء مَوْضَعَ التَّعَبِ یعنی بعض اہل زبان کہتے ہیں کہ تھکان اور تکلیف کے معنوں میںبھی شقاوۃ کا لفظ استعمال ہوتاہے.پس لِتَشْقٰۤىکے معنے ہوںگے (۱)تجھ کو تھکان اور تکلیف لاحق ہو.(۲) تو اپنے مقصد کے حصول میں خدا تعالیٰ کے پیداکردہ اسباب کی امداد سے محروم رہے.تفسیر.یہ آیت اسی مضمون کی تصدیق کرتی ہے جو سورئہ مریم میںبیان کیاگیا تھا کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسان کرکے اتاراہے تاکہ متقیوں کے لئے بشارت ہو اور مسیحی قوم کے اس عقیدہ کی تردید کی گئی تھی کہ شریعت لعنت ہے.اب فرماتا ہے کہ قرآن کانزول اس لئے نہیںکہ تو مشقت میں پڑے بلکہ اس لئے ہے کہ تجھ کو تیر ے فرائض یاد کرائے جائیںاور جوشریعت انسان کو اس کی ذمہ واری یاد کراتی ہے وہ لعنت نہیںکہلا سکتی وہ تو ایک اچھا ساتھی ہے جو وقت پر انسان کو صحیح طریقہ بتاتا رہتاہے پس مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جتنی تعلیم نازل ہوئی ہے وہ انسان کے لئے رحمت اور برکت کا موجب ہے اس کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جواس کی فطرت کے خلاف ہو اوراس طرح اسے دکھ اور تکلیف میںڈالنے والی ہو.اسی طرح اس آیت میںاس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب تو کامل القویٰ انسان ہے جوہمارے سپرد کردہ فرائض کو اچھی طرح اداکرسکتاہے اور کر رہا ہے تو کس طرح ہوسکتاتھا کہ ہم تجھے تباہ کرتے کیونکہ کوئی شخص اپنی قیمتی چیزکوتباہ نہیںکیاکرتا.پس ہم نے یہ قرآن تجھے تباہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ تجھے اور تیری قوم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے نازل کیا ہے اور اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تم گمراہی سے بچ جائو.
اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى ۙ۰۰۴ (یہ تو) صرف (خدا سے )ڈرنے والے انسان کے لئے راہنمائی اور ہدایت (کے لئے )ہے حلّ لُغَات.یخشیٰ خَشِیَسے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور خشی کے معنے ہیںخَافَہ اس سے ڈرا (اقرب ) مفردات میںہے الْخَشْیَۃُ خَوْفٌ یَشُوْبُہ تَعْظِیْمٌ وَ اَکْثَرُ مَا یَکُوْنُ ذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ بِـمَا یُخْشٰی مِنْہُ کہ خشیت کا لفظ خوف کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن ایسے خوف کے لئے جو کسی کی عظمت کی وجہ سے لاحق ہو اور یہ عام طور پر اس لئے ہوتاہے کہ جس سے ڈراجاتاہے اس کی شخصیت اور اس کے مقام کا علم ہوتاہے کہ وہ کس مرتبہ کا ہے(مفردات ) پس یخشی کے معنے ہوںگے جو خدتعالیٰ کی عظمت سے ڈرتاہو.اور اس کے مقام اور مرتبہ کا خوف رکھتاہو.تفسیر.فرماتا ہے یہ قرآن دوسری کتابوں کی طرح محض انسان کے دل میں خدا کاڈرہی پیدا نہیںکرتابلکہ ڈر پیداکرنے کے بعد انسان کواور اوپر لے جاتاہے اورخدا سے ملادیتاہے.یعنی اس کادوست بنا دیتاہے.چنانچہ قرآن کریم کے شروع میںبھی فرمایا ہے کہ یہ کتاب هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ ہے یعنی جولوگ متقی ہوتے ہیںان کو مزید راستہ دکھاکر خدا تعالیٰ تک پہنچادیتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مقرب لوگ صرف ڈرا نہیں کرتے بلکہ انعامات کے امید وار بھی ہوتے ہیںاورمحبت کے شعلے ان کے دلوں میںبھڑک رہے ہوتے ہیں اوریہی وہ عالی مقام ہے جس کو قرآن کریم کے سواور کوئی کتاب پیش نہیںکرتی.تَنْزِيْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰى ؕ۰۰۵ (قرآن )اس کی طرف سے اتاراہوا ہے جس نے زمین اور اونچے آسمان کوپیدا کیاہے حل لغات.تَنْزِیْلًا نَزَّلَ کا مصدر ہے اور یہ اس لئے منصوب ہے کہ اس سے پہلے فعل محذوف ہے یعنی اَنْزَلْنٰہ تَنْزِیْلًا کہ ہم نے اس کو خوب اچھی طرح اتاراہے.العُلیٰ العُلْیَا.کی جمع ہے اور الْعُلْیَا الاعلیٰ کا مونث کا صیغہ ہے (مفردات ) پس السمٰوٰت العلیٰ کے معنے ہوں گے بلند آسمان.تفسیر.اس آیت میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس خدا نے مادہ کو پیدا کیا اور بے انتہا درجوں میں
پیدا کیا ہے یہاں تک کہ اس کے بالائی حصے نظر تک نہیںآتے وہ خدا اگر روحانی دنیا پیدا کرےگا تو اس کو بھی اسی شکل میں پیدا کرےگا یعنی ایسے ایسے بلند روحانی مقامات اس میںرکھے گا کہ وہ روحانی آسمان کہلانے کے مستحق ہوں گے.اور جس طرح یہ جسمانی آسمان دنیا کی خدمت میںلگاہوا ہے اسی طر ح و ہ روحانی آسمان دنیا کی روحانی خدمت میںلگارہے گا.اور لوگ اس کی مدد سے بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں گے.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ خادم حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ نے فرمایا کہ ؎ دمبدم روح القدس اندر معینے می دمد من نمی گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم یعنی جبریل ؑ ہر گھڑی معین الدین چشتی ؒ کے کان میں بول رہا ہے پس گو میں منہ سے نہیںکہتامگر واقعہ یہی ہے کہ میں عیسیٰ ؑ کا نظیر ہوگیا ہوں حضرت عیسٰی علیہ السلام نے تو پادری اور پوپ پیدا کئے جن میںہزاروں عیوب پائے جاتے ہیںلیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ جیسے وجود پیداکئے یعنی خود عیسیٰؑ پیدا کئے.اسی طرح آپؐ کے ایک اور خادم یعنی بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیںکہ الا اےمنکر از شان محمدؐ.ہم از نور نمایان محمدؐ کرامت گرچہ بے نام ونشاں است بیابنگر زغلمان محمدؐ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹ ) یعنی اے و ہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کے چمکتے ہوئے انوار کا منکر ہے کان کھول کر سن لے کہ اگر چہ کرامت اس زمانہ میںہر جگہ مفقود ہے مگر تو آاور اسے محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ۰۰۶ (وہ) رحمن (ہے جو)عرش پر مستحکم طورپر قائم ہوگیا ہے.حلّ لُغَات.العرش.سَرِیْرُ الْمَلِکِ.بادشاہ کا تخت.العِزُّ.عزت وغلبہ.قِوَامُ الأَمْرِ معاملات اور امور کی درستی کاذریعہ اور مدار.عَرْشٌ مِنَ الْبَیْتِ : سَقْفُہُ مکان کی چھت.اَلْعَرْشُ.الْمُلْکُ بادشاہت (اقرب ) مفردات میں ہے.وسُمِّیَ مَجْلِسُ الْسُلْطَانِ عَرْشًا اِعْتَبَارًا بِعُلُوِّہٖ بادشاہ کے بیٹھنے کی جگہ یعنی تخت کو
بھی عرش کہتے ہیںاس وجہ سے کہ وہ بلند ہوتاہے اور عرش میںبلندی کے معنے پائے جاتے ہیں.وَکُنِّیَ بِہِ عَنِ الْعِزِّ وَ الْسُّلْطٰنِ وَالْمَمْلِکَةِ اور عرش کے لفظ کو عزت اور غلبہ اور بادشاہت کے مفہوم کے اداکرنے کے لئے بھی استعمال کرلیا جاتاہے وَقَوْلُہ ذُوْالْعَرْشِ....وَمَا یَجْرِیْ مَجْرَاہُ قِیْلَ ھُوَ اِشَارَةٌ اِلٰی مَمْلِکَتِہٖ وَ سُلْطٰنِہٖ لَا اِلٰی مَقَرٍّ لَہ یَتَعَالٰی عَنْ ذٰلِکَ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لئے جو یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیںکہ وہ عرش والا ہے اس سے خدا تعالیٰ کی بادشاہت اور غلبہ کی طرف اشارہ کیا گیاہے نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کاکوئی خاص تخت ہے جس پر وہ قرار فرماہوتاہے کیونکہ اس سے تجسم لازم آتاہے اور اللہ تعالیٰ تجسم سے پاک ہے (مفردات ) استویٰ.اِسْتَوی الرَّجُلُ اِنْتَھٰی شَبَابُہُ وَ بَلَغَ اَشُدَّہُ اَوْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً وَاسْتَقَامَ اَمْرُہٗ یعنی جب استویٰ کا لفظ کسی انسان کے لئے استعمال کریں تو یہ معنے ہوں گے کہ وہ عین عنفوان شباب کو پہنچ گیا.اور اس عمر کو جاپہنچاجبکہ اس کی ساری طاقتیں اور قوتیں پختہ ہو کر ظاہر ہوگئیں اور کام کرنے لگیں.اور جب اِسْتَوٰیٰ عَلٰی سَرِیْرِ الْمُلْکِکہیں تو یہ معنے ہوںگے کہ وہ کسی جگہ کا مالک ہوگیا.تو وہ کسی خاص تخت پر نہ بیٹھا ہو.اور اسْتَوٰی عَلٰی الشَّیْء کے معنے ہوتے ہیںاِسْتَوْلٰی وَ ظَھَرَ وہ کسی چیز پر غالب آگیا (اقرب ) تفسیر.فرماتا ہے کلام الٰہی کا نزول صفت رحمٰن کے ماتحت ہوتاہے.یعنی خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوری دیکھ کر خود ہی ان کی ہدایت کے لئے جوش میں آتاہے.اس آیت میں عیسائیت کا رد کیا گیا ہے کیونکہ عیسائیت کفارہ کی قائل ہے اور کفارہ اور رحمانیت اکٹھے نہیںہوسکتے.کیونکہ کفارہ تبھی سچاہو سکتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ بغیر کسی کام کے کسی پر رحم نہ کرسکے لیکن رحمٰن کے معنے یہ ہیںکہ بغیر کسی سابقہ خدمت کے رحم کرنے ولی ہستی چنانچہ مسلمانوںکی سب کتابوں پر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم لکھاہوتاہے.لیکن عیسائی مصنف اپنی کتابوں سے پہلے اول تو کچھ لکھتے نہیں اور اگر بعض لوگ کچھ لکھتے بھی ہیں تو اپنی اپنی مرضی کے مطابق الفاظ منتخب کرکے لکھ لیتے ہیں.چنانچہ بعض لوگ تو ’’بِسْمِ الْاَبِ وَالْاِبْنِ وَالرُّوْحِ ‘‘ لکھتے ہیں (ستم ہا مان منظومہ منشی کیدارنارتھ صاحب ) بعض ’’بِسْمِ اللہِ الْہَادِی الْجَوَّادِ‘‘ لکھ دیتے ہیں (شہادۃ القرآن) اور بعض یہ الفاظ لکھ دیتے ہیںکہ ’’خدا تعالیٰ کے نام پر جوہادی لاشریک ہے ‘‘ (بہت بیش قیمت عطر کی شیشی مصنفہ پادری ٹسڈل صاحب ) گویا اور الفاظ تو وہ استعمال کرتے ہیں لیکن رحمٰن کا لفظ چھوڑ دیتے
ہیںکیونکہ رحمٰن کا لفظ ان کے مذہب کے خلاف ہے مگر دنیا کا ذرہ ذرہ بتارہا ہے کہ خدا رحمٰن ہے.بچہ پیدا ہوتا ہے تو کوئی نیکی کرکے تونہیںآتامگر خدتعالیٰ اس کی ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتاردیتاہے اور یہ انعام بغیر کسی نیکی کے ہوتاہے.اسی طرح جوانی تو پیدائش کے بڑے عرصہ بعد آتی ہے لیکن اس کے جسم کو سردی گرمی سے بچانے کے لئے کپڑے اور مکان کا سامان پہلے سے موجود ہوتاہے.پس دنیاکا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت پر دلالت کررہا ہے.اسی طرح ہر مذہب بھی اس کی رحمانیت کا ثبوت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام جب نازل ہوتاہے توکسی نیکی کے بدلہ میں نازل نہیںہوتابلکہ بطور احسان نازل ہوتاہے.چنانچہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی قرآن کریم کے نزول کا ذکر ہے یہی فرمایاگیا ہے کہ قرآن کریم کور حمٰن خدا نے نازل کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ تو نہیںجانتا تھا کہ ایمان کیا ہوتاہے اورکتاب کیا ہوتی ہے پس قرآن جو تجھ پر نازل ہواہے نہ کسی ایمان کے نتیجہ میں نازل ہواہے اور نہ کسی کتاب پر عمل کرنےکے نتیجہ میں نازل ہوا ہے.بلکہ محض اس محبت کی مخفی چنگاری کے بدلہ میںنازل ہواہے جوتیرے دل میں خدا کے لئے اس طرح سلگ رہی تھی جس طرح بچہ کے دل میںماں کے لئے محبت کی مخفی چنگاری سلگ رہی ہوتی ہے.عرش کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ عرش کوئی مادی چیز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات تنزلی کا نقطہء مرکزی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی جو صفات بندوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کو خدا تعالیٰ عرش پر سے ظاہر کرتاہے جس طرح بادشاہ اپنی رعایا کے لئے اپنے تخت حکومت پر سے احکام دیتے ہیں.(عرش کی مفصل بحث کے لئے دیکھیں سورۃ یونس آیت ۴) چونکہ کلام الٰہی خدا تعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے احکام پر مشتمل ہوتاہے اس لئے فرمایا اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى یہ قرآن ہے تورحمانیت کی صفت کے ماتحت یعنی انسانوںکی کسی خدمت کے نتیجہ میں نازل نہیںہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے غیر محدود رحم نے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کیاہے مگر خدا کے رحمٰن ہونے کی وجہ سے یہ دھوکا نہ کھالینا کہ اس کلام کو رد کردینا معمولی بات ہے بلکہ یاد رکھنا کہ رحمٰن خدا نے اپنے تخت شاہی پر بیٹھ کر یہ اعلان کیاہے اور اس کو رد کرنا اس کی بادشاہت کا انکار کہلائے گا اور تمہیںسزا کامستحق بنادےگا.
لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ آسمانوںاور زمین میں جو کچھ ہے او روہ بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اسی کاہے.نیز (وہ بھی ) جو الثَّرٰى ۰۰۷ گیلی مٹی کے نیچے ہے.حل لغات.الثریٰ التُّرَابُ النَّدِیُّ گیلی مٹی الارض زمین.(اقرب) تفسیر.اس میں عرش پرقائم ہونے کی تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بادشاہ جب اپنے تخت حکومت پر بیٹھتے ہیں توان کی حکومت محدود ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی حکومت آسمانوںپر بھی ہے زمیں پر بھی ہے اور زمین کے نچلے طبقوں پر بھی ہے پس اس کے احکام کورد کرنا دنیا کی چوٹی سے لے کر اس کے نچلوں سے نچلے طبقہ تک ساری مخلوقات کو اپنا مخالف بناناہے.اسی طرح اس میںیہ بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو اور جوکچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے اورجوکچھ زمین کے نچلے طبقات میں ہے سب کو ان کی تائید میںلگادیتاہے.وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى۰۰۸ اگر تو اونچی آوازسے بولے تو خداسکو بھی سنتاہے اور اگر آہستہ آواز سے بولے تو اس کو بھی سنتاہے.کیونکہ وہ پوشیدہ بات کو بھی جانتاہے اور جو بہت ہی پوشیدہ ہوتی ہے( اسے بھی جانتاہے ) حل لغات.تجھر تَجْھَرْ جَھَرَسے ہے اور جَھَرَ بِالْقَوْلِ کے معنے ہیں رَفَعَ بِہٖ صَوْتَہٗ بات کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کی (اقرب ) پس اِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ کے معنے ہوںگے اے مخاطب اگر تو بات کرتے وقت اپنی آواز بلند کرے.تفسیر.یہ آیت پہلی آیت کی مزید تشریح ہے.ظاہر ہے کہ جو بلندیوں کا مالک ہے وہ اونچی آواز کو بھی سنتاہے اورجوزمین کے نچلے طبقہ کامالک ہے وہ آہستہ آواز کو بھی سنتاہے.ورنہ ان دونوں حصوں پرحکومت کس طرح کرسکتاہے.
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى ۰۰۹ اللہ (وہ ذات ہے کہ اس )کے سوا کوئی معبود نہیں اسکی بہت سی اچھی صفات ہیں.حل لغات.الاسمائُ اَلْاَسْمَاءُاسم کی جمع ہے اور اسم کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابوالبقاء اپنی کتاب کلیات میںلکھتے ہیںأَ لْاِ سْم ذَاتُ الشَّیْءِ وَا لْاِسمُ اَیْضًا الصِّفَۃُ (اقرب) کہ اسم اس کو بھی کہیں گے کہ جو کسی چیز کی حقیقت اور ذات کوبیان کرے اوراس کوبھی کہیں گے جو اس چیز کی صفات کو بیان کرے.الحسنی.اَحْسَنُ.سے مونث کا صیغہ ہے اور الحسن کے معنے ہیں عِبارَۃٌ عَنْ کُلِّ مُبْھِجٍ مَرْغُوْبٍ فِیْہِ ہروہ چیز یاحالت جو خوش کرے اور انسان کے دل میں اس کے لینے کی خواہش پیدا ہو پھر لکھاہے کہ حسن کا لفظ عام لوگوں کے استعمال میںان چیزوں کی خوبصورتی کے لئے استعمال ہوتاہے جن کو آنکھ دیکھ سکتی ہے لیکن قرآن مجید میںجن چیزوں کے لئے حسن کا لفظ استعمال ہواہے اس سے بصیرت کے ساتھ معلوم کئے جانے والا حسن مراد ہے.(مفردات ) پس الاسماء الحسنیٰ کے معنے ہوںگے بہترین صفات.تفسیر.فرماتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہی آسمانوں کا مالک ہے اورخدا تعالیٰ ہی زمین کے نچلے طبقوں کابھی مالک ہے توپھر اور کوئی معبود ہو ہی نہیںسکتاکیونکہ اس کے سوااور کونسی جگہ رہ جائےگی جو اس معبود کی ملکیت ہوگی.وَ هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰىۘ۰۰۱۰ اور (اس کے ثبوت میںہم کہتے ہیںکہ ) کیا تیرے پاس موسیٰ کا واقعہ پہنچاہے (یانہیں) حلّ لُغَات.الحدیث الْحَدِیْثُ الْخَبَرُ یَاْتِیْ عَلٰی الْقَلِیْلِ وَ الْکَثیْرِ یعنی حدیث کے معنے خبرکے ہیںخواہ وہ چھوٹی ہویابڑی (اقرب) تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ایک صاحب شریعت نبی تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعہ کو یہ بتانے کے لئے پیش کیاہے کہ ان کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے عرش سے دنیاپر روحانی حکومت کی تھی اور ان پر بھی کلام الٰہی نازل ہواتھا.
اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّيْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْۤ ( یعنی) جب اس نے ایک آگ دیکھی تو اس نے اپنے اہل سے کہا(اپنی جگہ) ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى۰۰۱۱ ہے ممکن ہے کہ میں وہاں جاکر اس آگ میں سےکوئی انگارہ تمہارے لئے بھی لے آئوں یا آگ پر (اپنے لئے کوئی روحانی ) ہدایت حاصل کروں.حلّ لُغَات.اُمْکُثُوْا.أمْکُثُوْامَکَثَ.یَمْکُثُ سے امر کاجمع کاصیغہ ہے اور مَکَثَ بِا لْمَکَانِ کے معنے ہیںلَبِثَ وَ اَقَامَ.کسی جگہ پر ٹھہرا (اقرب ) مفردات میںہے المکث.ثُبَاتُ مَعَ اِنْتَظَارٍ.کسی جگہ پر ٹھہرکرکسی کا انتظار کرنا مکث کہلاتاہے.پس اِمْکُثُوْا.کے معنے ہوں گے تم ٹھہرو اور انتظار کرو.اٰنَسْتُ اٰنَسْتُ اٰنَسَ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے.اور اٰنَسَ الشَّیْءَ کے معنے ہیںاَبْصَرَ ہُ اس کو دیکھا (اقرب ) پس اٰنَسْتُ نارًاکے معنے ہوںگے میںنے آگ دیکھی ہے.قبس.قَبَسٌ شُعْلَةُ نَارٍ تُؤْخَذُ مِنْ مُعْظَمِ النَّارِ (اقرب)آگ کا وہ انگارہ جو بڑی آگ سے لیا جاتاہے.تفسیر.اس آیت میںجو یہ فرمایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے’’ ایک آگ ‘‘ دیکھی اس سے روحانی اور کشفی نظارہ مراد ہے نہ کہ کوئی ظاہری آگ.کیونکہ جسمانی آگ دیکھنے والا یہ نہیںکہا کرتا کہ میںنے ’’ایک آگ ‘‘ دیکھی ہے بلکہ وہ یہ کہتاہے کہ میں نے آگ دیکھی ہے.اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوئی جسمانی آگ دیکھی ہوتی تو عربی محاورہ کی روسے انہیںالنار یعنی آگ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا.مگر یہاں ناراً کا لفظ استعمال کیاگیا ہے جس کے معنے ایک آگ کے ہیں.پس ’’ایک آگ‘‘ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک روحانی نظارہ تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی سمجھتے تھے کہ یہ جسمانی لکڑیوں یا کوئلو ں کی آگ نہیں ہے.اور یہ جو فرمایا کہ میں شاید وہاں سے تمہارے لئے کوئی انگارہ لائوں.اس میں اس طرف اشارہ تھاکہ روحانی جلوے دو قسم کے ہوتے ہیںایک جلوے وہ ہوتے ہیںجو صرف اسی کی ذات تک محدود نہیںہوتے جس پر وہ ظاہر ہوتے ہیں.بلکہ اس کے دوستوں اور قوم کے لئے بھی ہوتے ہیںجیسا کہ جلوئہ نبوت اور جلوہ نزول شریعت اور ایک جلوہ وہ ہوتاہے جوصرف دیکھنے
والے کی ذات تک محدود ہوتاہے.جیسے جلوئہ ولایت.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین سے مصر واپس آتے ہوئے جب راستہ میںایک روحانی نظارہ دیکھا توانہوں نے اپنے اہل سے کہاکہ مجھے یوں معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کوئی جلوہ دکھانے والا ہے.اگر تو وہ ہدایت نبوت ہوئی اور وہ جلوہ شریعت والا ہوا اور مجھے حکم ہوا کہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تو میں اس میں سے کوئی انگارہ یعنی کوئی تعلیم اپنے خاندان یا اپنی قوم کے فائدہ کے لئے بھی لے آئوںگااوراگر یہ جلوہ شریعت والا نہ ہوا بلکہ صرف ہدایت ولایت ہوئی اورمیری ذات تک محدود ہوئی تو کم سے کم میںاپنی جان کے لئے ہی کوئی ہدایت اس سے حاصل کروںگا اوراس سے فائدہ اٹھا کرواپس چلا آئوں گا.زیر تفسیر آیت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعض واقعات کو بیان کرنا شروع کیاہے.اور ابتداءًبتایا ہے کہ کس طرح ان کااللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کاسلسلہ شروع ہوا.حضرت موسیٰ علیہ السلام مصرمیں پیدا ہوئے اورعمر کاابتدائی حصہ آپ نے مصرمیںہی گزارالیکن پھر بعض واقعات سے مجبور ہوکر مدین تشریف لے گئے اور دس سال وہاں قیام کیا اور وہیںشادی کی دس سال وہاں ٹھہرنے کے بعد اہل وعیال سمیت واپس مصر تشریف لارہے تھے کہ راستے میںآپ نے خدا تعالیٰ کی تجلی کا مشاہدہ آگ کی صورت میں کیا.بائیبل میں بھی اس واقعہ کا ذکر آتاہے.مگر بائیبل نے اس واقعہ کی جوتفصیل بیان کی ہے اس میںاور قرآن کریم کے اس بیان کردہ واقعہ میںکچھ اختلاف ہے جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.اس اختلاف کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے مصر کی طر ف واپس تشریف لارہے تھے توا للہ تعالیٰ کی وحی ان پر نازل ہوئی اوربائیبل بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونےکا واقعہ پہلے پیش آیا.اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین تشریف لے گئے اورپھر مدین سے اپنے اہل وعیال کو لےکرمصر روانہ ہوئے.چنانچہ خروج باب ۳آیت ۱،۲ میں لکھاہے.’’ اور موسیٰ اپنے خسریتروکی جومدیان کاکاہن تھا بھیڑبکریاں چراتاتھا اوروہ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتا ہوا ان کو بیابان کی پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک لے آیااور خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میںسے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا ‘‘ اور آخر میں لکھاہے.’’ تب موسیٰ لوٹ کراپنے خسریتروؔ کے پاس گیا اور اسے کہاکہ مجھے ذرااجازت دے کہ اپنے بھائیوں کے پاس جو مصرمیں ہیںجائوں اور دیکھوںکہ وہ اب تک جیتے ہیں کہ نہیںیترو نے موسیٰ سے
کہا.سلامت جا.اور خداوند نے مدیان میںموسیٰ سے کہاکہ مصر کو لوٹ جاکیونکہ وہ سب جو تیری جان کے خواہاں تھے مرگئے.تب موسیٰ اپنی بیوی اوربیٹوں کو لے کر اور ان کوایک گدھے پر چڑھاکر مصرکولوٹا‘‘ (خروج باب ۴آیت ۱۸ تا ۲۰ ) گویا بائیبل یہ بتاتی ہے کہ مدین میںہی ایک دن جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بھیڑ بکریوں کو چراتے ہوئے حورب کی چٹان کی طرف گئے تو وہاں ایک جھاڑی میںانہیںخدائی جلوہ دکھائی دیا.اس کے بعد وہ اپنے خسرکے پاس آئے اور ان سے اجازت حاصل کرکے اپنی بیوی اور بچوں کومصر لے گئے لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ یہ واقعہ انہیںمدین سے مصرجاتے ہوئے پیش آیا جبکہ ان کے اہل وعیال بھی ان کے ہمراہ تھے.اس اختلاف کے متعلق یہ امر یادرکھنا چاہیے کہ بائیبل کا غور سے مطالعہ کرنے والے یہ امر اچھی طرح جانتے ہیںکہ بائیبل میںآدمیوںکی تعداد اور وقت کے اندازے بالکل غلط دیئے گئے ہیںجن پر کوئی معقول انسان اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.چنانچہ جہاں تاریخی طور پر ہزاروں کی تعداد ہوتی ہےبائیبل اس تعداد کولاکھوں بیان کرتی ہے اور جہاںسینکٹروں میل کا فاصلہ ہوتاہےبائیبل اسے قریب کا مقام ظاہر کرتی ہے.اس وجہ سے بائیبل کا بیان ایسانہیںہوسکتاکہ اسے اس واقعہ کے متعلق یقینی او ر قطعی قرار دیا جاسکے.مثلاً اسی واقعہ میں خدائی تجلی ظاہر ہونے کا مقام حورب کاپہاڑ قرار دیا گیاہے جو دشت سینا میںہے اور مدین سے سینکڑوں میل کے فاصلہ پر ہے (قاموس الکتاب جلد ۴ زیر لفظ حورب) مگر اسے بیان اس رنگ میںکیا گیا ہے کہ گویا مدین سے میل آدھ میل کے فاصلہ پرکوئی مقام تھا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بکریوں کو چرانے لے گئے.اور وہاں ان پر خدائی کلام نازل ہوا اور اس کے بعد وہ پھراپنے خسر کے مکان پر آئے اوران سے اجازت چاہی کہ وہ اپنی بیوی اوربچوںکو مصرلے جائیں.حالانکہ اول تو یہ عقل کے بالکل خلاف ہے کہ سینکڑوں میل پر کوئی بکریاں چرانے کے لئے لے جائے اوراسی شام کو واپس آجائے پھر اگر انہوں نے ا پنے بیوی بچوں کو ساتھ ہی لے جاناتھا.تو وجہ کیا تھی کہ وہ پہلی دفعہ ہی ان کو ساتھ نہ لے گئے اور اتنالمبافاصلہ طے کرنے کے بعد دوبارہ واپس آئے اور ان کوساتھ لے گئے.اگر انہوں نے اپنے بیوی بچوں کولے جانا تھاتو عقلاً انہیںپہلی دفعہ ہی ساتھ لے جانا چاہیے تھا.نہ یہ کہ سینکڑوں میل اکیلے چلے جاتے اور پھر واپس آتے اوربیوی بچوں کوساتھ لے جاتے لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اہل وعیال ان کے ساتھ ہی تھے.یہ غلط ہے کہ وہ دوبارہ آئے اور اپنے بیوی بچوں کولے گئے.پس بائیبل کابیان عقل کے بالکل خلاف ہے لیکن جوبات قرآن نے کہی ہے وہ عقل کے مطابق ہے.اسی طرح بائیبل کا بیان جغرافیہ
کے بھی خلاف ہے.جہاں دومقامات میںسینکڑوں میل کافاصلہ ہو وہاں یہ کہنا کہ وہ بکریاں چراتے ہوئے وہاں چلاگیا کسی طرح درست نہیںمانا جاسکتا.پس قرآن کریم نے جو کچھ کہاعقل اور جغرافیہ کے مطابق ہے اوربائیبل جو کچھ کہتی ہے وہ عقل اور جغرافیہ کے خلاف ہے.پھر ایک اوربات بھی قابل غور ہے اوروہ یہ کہ اس نظارہ کے دورا ن میںان کے بیوی بچوں کے متعلق کوئی بات نہیںکہی گئی.اگر تو انہیں یہ کہاجاتاکہ تمہارا پنے بیوی بچوںکوبھی ساتھ لے جانا ضروری ہے تب توسمجھا جاسکتاتھاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سینکڑوں میل کافاصلہ دوبارہ اس لئے طے کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریںمگر اس قسم کاکوئی اشارہ بائیبل میںنہیںپایا جاتاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ کہاہو کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے جائو.پس اس نظارہ کے بعد ان کے مدین میںواپس آنےکی کوئی معقول وجہ سمجھ میںنہیںآتی.لیکن قرآن بتاتاہے کہ ان کے اہل وعیال اس وقت ساتھ ہی تھے کیونکہ وہ سینکڑوں میل کے سفر پر جارہے تھے اورکوئی وجہ نہیںتھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو مدین میں ہی چھوڑجاتے.پس قرآن کریم کا بیان عقل اور جغرافیہ کے بالکل مطابق ہے مگربائیبل کابیان کسی طرح بھی درست نہیںسمجھا جاسکتا.فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِيَ يٰمُوْسٰىؕ۰۰۱۲ پھر جب وہ اس (آگ ) کے پاس پہنچا تو اسے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ.تفسیر.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بظاہر آگ نظر آنے والی چیز کے پاس پہنچے.تو ان کو الہام ہواکہ اے موسیٰ ! میںتیرارب ہوں اس کایہ مطلب نہیںکہ وہ آگ موسیٰ کا رب تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جلوہ کو ظاہر کرنے والا موسیٰ ؑکا رب تھا کیونکہ آگ نہیںبولاکرتی.خدابولاکرتاہے.اِنِّيْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ١ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ؕ۰۰۱۳ میںتیرارب ہوں.پس تواپنی دونوں جوتیاں اُتار دے کیونکہ تو اس پاک وادی طوٰی میںہے.حلّ لُغَات.طُوًی.طَوَی (یَطْوِی ) الصَّحِیْفَةُ کے معنے ہوتے ہیں.کاغذ کولپیٹا (اقرب )اور تاج العروس میں طُوًی کے معنے الشَّیْءُ الْمَثْنِیُّ.کے بھی لکھے ہیںیعنی ایسی چیز جو ٹیڑھی ہو سیدھی نہ ہو.مفردات
میںہے.قِیْلَ ھُوَ اِسْمُ الْوَادِی کہتے ہیں طویٰ اس وادی کانام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوا تھا.وَقِیْلَ اِنَّ ذٰلِکَ جُعلَ اِشَارَةً اِلٰی حَالَةٍ حَصَلَتْ لَہٗ عَلٰی طَرِیْقِ الْاِجْتِبَاء فَکَاَنَّہ طَوَی عَلَیْہِ مَسَافَةً لَوْ احْتَاجَ اَنْ یَنَالَھَا فِیْ الْاجْتِھَادِ لَبَعُدَ عَلَیہِ اور بعض ماہرین لغت کے نزدیک طویً کے لفظ میںاس مفہوم کو ادا کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چن کر اس روْحانی مقام پر پہنچادیا جہاں عام حالات میں مجاہدات سے پہنچنا مشکل ہوتاہے (مفردات ) تفسیر.فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ کے لفظی معنے تو یہی ہیںکہ اپنی جوتیاں اتار دے مگر مراد یہ ہے کہ اپنے ہر قسم کے دنیوی تعلقات کو خدا کی خاطر توڑ دے او ر کلی طورپر اپنے خدا کا ہوجاکیونکہ رویا یا کشف کی حالت میں اگر جوتی دیکھی جائے.تو علم تعبیر الرویا کے لحاظ سے اس سے مراد انسان کے متعلقین کا وجود ہوتاہے جیسے اس کی بیوی ہوئی.یا بچے ہوئے یادوست او رشتہ دار وغیرہ ہوئے (تعطیر الانام از عبد الغنی النابلس زیر لفظ نعل)اور چونکہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَفرما کرانہیں یہ ہدایت دی کہ اپنے تمام مادی تعلقات کو اب خدا کی خاطر توڑدے کیونکہ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى اب تو ایک ایسی روحانی وادی میں داخل ہو چکا ہے جو دوطرف چکر کھاتی ہے یعنی ایک طرف تو اس کا خدا سے تعلق ہے اور دوسری طرف اس کا بندوںسے تعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا گیاہے اور یہ ایسا مقام ہے جہاں پر کھڑاہونے والا انسان دنیاسے کٹ کرخدا تعالیٰ کی طرف چلاجاتاہے.اور انسانی فطرت کارخ مادیات کو چھوڑ کرروحانیات کی طرف پھر تاہے اس لئے تیرافرض ہے کہ اب تواپنے تمام دنیوی تعلقات اور محبتوں کو ترک کرکے کامل طورپر اپنے خدا کا ہوجا اور اسی سے اپنا تعلق استوار رکھ.وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى۰۰۱۴ اور میںنے تجھے (اپنے لئے) چن لیاہے پس تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کو تو سن (اور اس پر عمل کر) حلّ لُغَات.اِخْتَرْتُکَ.اِخْتَرْتُکَ اِخْتَارَ.سے متکلم کاصیغہ ہے اور اِخْتَارَہ مِنَ الرِّجَاِل اِخْتِیَارًا کے معنے ہیںاِنْتَقَاہُ وَاصْطَفَاہُ مِنْ بَیْنِھِمْ.کہ اس کو تمام لوگوںمیںسے کسی کام کے لئے چن لیا اور خاص کرلیا (اقرب) پس اِخْتَرْتُکَ کے معنے ہوںگے میںنے تجھے تمام دوسرے لوگوں میںسے اپنے کام کے لئے
چن لیا ہے اور خاص کرلیاہے.تفسیر.اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ ٓاگ میں سے کوئی چیز نہیں بولی بلکہ خدا کی طرف سے وحی ہوئی تھی کیونکہ یہاں وضاحتاً اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اے موسیٰ !میں نے تجھے چن لیا ہے پس جوتیری طرف وحی کی جاتی ہے تواس کو سن اور اس پر عمل کر.اِنَّنِيْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ١ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ میں یقینا اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.پس تو میری ہی عبادت کر.اور میرے لِذِكْرِيْ۰۰۱۵ ذکر کے لئے نماز قائم کر حلّ لُغَات.اقم.اَقِمْ اَقَامَ سے امر کا صیغہ ہے اور اَقَامَ الشَّیْءَکے معنے ہوتے ہیں اَدَامَہُ کسی چیز کوہمیشہ کے لئے رکھا اور اَقَام الصَّلٰوۃَ کے معنے ہیںاَدَامَ فِعْلَھَا ہمیشہ نماز پڑھتارہا.اور اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہوتے ہیں نَادَی لَھَا نماز کے لئے دوسرںکوبلایا.(اقرب) تفسیر.اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ کے یہ معنے ہیںکہ خود بھی نماز پڑھ اور دوسروں سے بھی پڑھوا.گویا اقامت صلوٰۃ کے معنے باجماعت نماز اداکرنے کے ہیں.اور باجماعت نماز سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میںادانہیںکی جاتی ہاں رسمی طورپر لوگ عبادت کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں جیسے عیسائی گرجا میںاور یہودی صومعہ میںاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ میں لِذِكْرِيْ کے دو معنے ہوسکتے ہیںایک تو یہ کہ چونکہ میں نے تجھے یاد کیا ہے اس لئے تو میرے شکر کے طورپر نماز پڑھ.اور دوسرے یہ کہ میرے ذکر کے لئے نماز پڑھ.یعنی تیری نماز دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ صرف میرے ذکر کے لئے ہو.
اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا قیامت یقیناً آنے والی ہے.قریب ہے کہ میںاسے ظاہر کردوں.تاکہ نفس کے اپنے اعمال کے مطابق تَسْعٰى۰۰۱۶ جزادی جائے حلّ لُغَات.أُخْفِیْ.اَخْفیٰ سے متکلم کاصیغہ ہے اور اَخْفَی خَفَی سے باب افعال ہے جواپنے اندر متضاد معنے رکھتاہے یعنی اس کے معنے ظاہر کرنے کے بھی ہیں او رچھپانے کے بھی ہیں چنانچہ خَفَاہُ کے معنے ہوتے ہیں اَظْہَرہُ اس کوظاہر کردیا اور اس کے ایک معنے سَتَرَہُ کے بھی ہوتے ہیںیعنی چھپادیا (اقرب) اسی طرح اَخْفَی الشَّیْءَ کے معنے کرتے ہوئے لکھاہے اَ زَالَ خَفَاءَ ہُ اس کے پردے کودور کردیا(اقرب) یعنی اس کو ظاہر کردیا.تفسیر.اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا میں اُخْفِيْهَا کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ عذاب کی گھڑی آنےوالی ہے قریب ہے کہ میںاسے چھپا دوں اور یہ بھی کہ عذاب کی گھڑی آنےوالی ہے قریب ہے کہ میںاسے ظاہر کردوں.چنانچہ حل لغات میںبتایا جاچکاہے کہ أَخْفَی الشَّیءَ کے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہی کہ اَ زَالَ خَفَائَہُ اس کے پردہ کو دور کردیا یعنی اسے ظاہرکردیاعربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب کسی مجرد فعل کوباب افعال میں لے آئیںتو اس میںسلب کے معنے پیداہوجاتے ہیںجیسے کہتے ہیںشَکَانِیْ فَاَشْکَیْتُہکہ اس نے شکایت کی تو میںنے اس کی شکایت کا ازالہ کردیا پس اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْهَا کے دونوں معنے ہوسکتے ہیںیہ بھی کہ اسے چھپائے رکھوں اور یہ بھی کہ اسے ظاہر کردوں اگر اس کے معنے چھپائے رکھوں کے کئے جائیں تو اس آیت کایہ مفہوم ہوگاکہ یہ مخالف اتنے گندے لوگ ہیںکہ میںچاہتاہوں کہ ان سے اس عذاب کی گھڑی کو پوشیدہ رکھوں تاکہ عذاب ان پر اچانک آجائے اور انہیںاس کے ازالہ کا کوئی موقعہ نہ مل سکے اور اگر اس کے معنے ظاہر کرنے کے ہوں تو مراد ہوگی کہ وہ گھڑی جو تیری ترقی اور تیرے دشمنوںکی تباہی کے لئے مقدر ہے وہ آرہی ہے اور قریب ہے کہ میںاس کوظاہر کردوں یعنی عنقریب ایسے حالات پیدا ہونے والے ہیںکہ تیرے دشمنوں کی تباہی کے آثار ظاہر ہونے لگ جائیںگے اور میری ان آثار کو ظاہر کرنے سے غرض یہ ہوگی کہ ہرشخص اپنے اعمال کے مطابق جزاپالے جوماننے
والے ہیںوہ انعام حاصل کرلیں اور جو منکر ہیںوہ سزاپالیں بماتسعی میں باء کے معنے مطابق کے ہیںاور ما مصدر یہ ہے.مطلب یہ ہے کہ تاہر نفس اپنے عمل کے مطابق جزاپالے.فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ پس جو (شخص ) قیامت پرایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتاہے تجھے قیامت پر ایمان لانے فَتَرْدٰى۰۰۱۷ سے روک نہ دے جس کے نتیجہ میںتو ہلاک ہوجائے.حلّ لُغَات.تردیٰ رَدِیَ یَرْدٰیسے مخاطب کا صیغہ ہے اور رَدِیَ کے معنے ہوتے ہیں ہَلَکَ و ہ ہلاک ہوگیا (اقرب ) پس فَتَرْدیٰ کے معنے ہوںگے توہلاک ہوجائے.تفسیر.فرماتا ہے اے موسیٰ ؑ تجھے کسی ایسے شخص کی مخالفت خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض سے نہ روکے جو اس ساعت پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خوہشات کے پیچھے پڑاہو ا ہے ور نہ تو بھی مصیبت میںمبتلا ہو جائےگا.اس آیت میںبھی سورۃ کے اس پہلے حصہ کی تصدیق کی گئی ہے کہ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى یعنی قرآن اس لئے نازل نہیںہوا کہ تجھے تباہی میںڈالے اورکہاگیاہے کہ اے موسیٰ جو تیر ی تعلیم پرعمل کرےگا وہ تباہ نہیںہوگا بلکہ جو اس کو چھوڑےگا وہ تباہ ہوگا.چنانچہ بائیبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی پیغام دیا کہ ’’ اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جانفشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموںپر جو آج کے دن میںتجھ کو دیتاہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیراخدادنیاکی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرےگا اور اگر تو خداونداپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوںگی اور تجھ کو ملیںگی شہر میںبھی تو مبارک ہوگا اورکھیت میںبھی مبارک ہوگا.تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے چوپایوں کے بچے یعنی گائے بیل کی بڑھتی اورتیری بھیڑ بکر یوں کے بچے مبارک ہوںگے.تیرا ٹوکرا اور تیری کٹھوتی (یعنی اٹاگوندھنے کابرتن ) دونوںمبارک ہوںگے اور تو اندر آتے وقت مبارک ہوگا اور باہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا........لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خدا وند اپنے
خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتاہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی.شہر میںبھی تو لعنتی ہوگااور کھیت میںبھی لعنتی ہوگا.تیرا ٹوکرا اورتیری کٹھوتی دونوںلعنتی ٹھہریںگے.تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرےگائے بیل کی بڑھتی اورتیری بھیڑبکر یوں کے بچے لعنتی ہوںگے.تو اندر آتے لعنتی ٹھہرے گااور باہر جاتے بھی لعنتی ٹھہرے گا.‘‘ (استثناء باب ۲۸ آیت ۱تا ۲۰) گویاوہی مضمون جوقرآن کریم میںبیان کیا گیاہے تورات میںبھی موجود ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل تھے اس لئے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ کہا کہ اگر تو تورات کی تعلیم پرعمل کرےگا تو ’’تو اند رآتے وقت مبارک ہوگااورباہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا ‘‘ اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ دعاسکھائی گئی کہ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا(بنی اسرائیل:۸۱) یعنی اے میرے رب میرادوبارہ مکہ میںداخل ہونابھی مبارک ہو اورمیرامکہ سے نکلنابھی مبارک ہو گویا اس آیت کی رو سے بھی آپ کامثیل موسیٰ ہونا ثابت ہے.وَ مَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۰۰۱۸قَالَ هِيَ عَصَايَ١ۚ اور(ہم نے اس وقت موسیٰ سے کہا کہ ) اے موسیٰ یہ تیرے دائیںہاتھ میںکیاہے ؟ (اس نے)کہا.یہ میرا سونٹا اَتَوَكَّؤُا عَلَيْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِيْ وَ لِيَ فِيْهَا ہے.میںاس پر سہارا لیتاہوں اور اس کے ذریعہ سے اپنی بکریوں پر (درختوں کے)پتے جھاڑتاہوں اور مَاٰرِبُ اُخْرٰى۰۰۱۹ اس کے سوابھی اس میںمیرے لئے اور کئی فائدے پوشیدہ ہیں.حلّ لُغَات.أتَوَکَّؤُا.أَتَوَکَّؤُا تَوَکَّأَ سےمتکلم کاصیغہ ہے اور تَوَکّأَ عَلَی الْعَصَاکے معنے ہوتے ہیںتَحَمَّلَ وَ اَعْتَمَدَ عَلَیْھَا سونٹے پر سہارالیا (اقرب) پس أَتَوَکَّؤُا کے معنے ہو ںگے میںسہارا لیتاہوں.
قَالَ اَلْقِهَا يٰمُوْسٰى۰۰۲۰ (اس پر )اس (یعنی خدتعالیٰ )نے فرمایا.اے موسیٰ !اس عصاکو زمین پر پھینک دے.تفسیر.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے موسیٰ :اس عصاکو زمین پر پھینک دے.یعنی دیکھ کہ اگر تو اپنی قوم کی نگرانی چھوڑ دے تو اس کانتیجہ کیا نکلتاہے.فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعٰى۰۰۲۱ سو اس نے اسے زمین پرپھینک دیاجس کے بعد اس نے اچانک دیکھا کہ وہ سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے.تفسیر.فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعٰى انہوںنے اسے زمین پر پھینک دیا.تو اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایک سانپ ہے جودوڑ رہا ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی میںدیکھ لیا کہ قوم کی ذراسی بھی نگرانی چھوڑنے پر و ہ سانپ کی طرح زہریلی بن گئی مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام چند دنوںکے لئے ہی پہاڑ پرگئے تو اسی عرصہ میں وہ و ہ قوم بت پرست ہوگئی.اسی طر ح جب کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نگرانی میںرخنہ پڑا تو وہ قوم خراب ہوگئی.قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْ١ٙسَنُعِيْدُهَا سِيْرَتَهَا الْاُوْلٰى ۰۰۲۲ اس پر اس (یعنی اللہ تعالیٰ )نے فرمایا.اس کو پکڑلے اور ڈرنہیںہم اس کو پھر اس کی پہلی حال کی طرف لوٹادیںگے.حل لغات.السیرۃ کے معنے ہیںاَلْھَیْئَۃُ ہیئت (اقرب) تفسیر.سونٹے کو سانپ کی شکل میںدیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے کہا.ڈرو نہیں.یہ تمہاری قوم ہی ہے.اس کواچھی طرح پکڑلو.یہ پھر اصل حالت.کی طرف لوٹ آئے گی.اورایک مفید وجود بن جائے گی.یعنی تیری قوم تیری زندگی میںمستقل طورپر خراب نہیں ہوگی بلکہ جب بھی تو اس کی طرف توجہ کرے گاوہ ٹھیک ہو جائے گی.چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میںبے شک آپ کی قوم کاایک حصہ شرک میں مبتلا
ہوگیا.مگر جب آپ واپس آئے تو آپ کے ذریعہ اس قوم کی پھر اصلاح ہوئی او راس نے اپنے فعل سے توبہ کی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںان کی اس توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فَتَابَ عَلَیْکُمْ (البقرۃ :۵۵) اس واقعہ کے بعد پھرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوشش سے قوم درست ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے رحمت اورعفو کاسلوک کیا.گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے علیحدگی نقصان دہ ثابت ہوئی لیکن جونہی آپ نے قوم کی طرف توجہ کی وہ پھردرست ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہرقسم کی قربانیاں کرنے لگ گئی.وَ اضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ اور اپنے ہاتھ کوبغل میںدبالے.جب تو اسے نکالے گاتو وہ سفید ہوگا.مگر بغیر کسی بیماری کے اٰيَةً اُخْرٰىۙ۰۰۲۳ یہ ایک اور نشان ہوگا.حلّ لُغَات.اَلْیَدُ کے معنے ہیں الْکَفُّ.ہاتھ نیز اس ایک معنے الجماعۃ کے بھی ہیں یعنی جماعت (اقرب)تعطیر الانام میں ہے کہ اَلْیَدُ تَدُلُّ عَلٰی الْوَلَدِ وَ الْاَخِ والْمَالِ وَالزَّوْجَةِ وَالشَّرِیْکِ وَالصَّدِیْقِ اگر کوئی شخص ہاتھ دیکھے تو اس سے مراد لڑکا بھائی مال.بیوی.شریک اور دوست ہوتاہے.اَ لْجِنَاحُ الْجَنَاحُ کے معنے ہیںاَلْعَضْدُ بازوالْاِبْطُ بغل.الْجَانِبُ پہلو نَفْسُ الشَّیْء کسی چیز کی ذات اور جب اَنَافِی جُنَاحِ فُلَانٍ کا فقرہ کوئی شخص کہے تو معنے ہوںگے اَیْ فِی ذَرَاہُ وَ ظِلِّہٖ میںاس کی پناہ اور سایہ تلے ہوں (اقرب) تفسیر.خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اپنے ہاتھ کو اپنے پہلو کے ساتھ لگالو عربی زبان میںید کے معنے بھائی کے بھی ہوتے ہیںاور جب اس کے معنوں کو وسیع کیا جائے تو اس کے معنے قوم کے بھی ہوتے ہیں.کیونکہ قوم کے افراد بھی اعیان و مدد گار کے طور پر کام آتے ہیںپس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وَ اضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ کہہ کر توجہ دلائی کہ تیری قوم میں سے جو کار آمد لوگ ہیںاور تیرے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنے ساتھ چمٹالو.وہ بڑے نورانی وجود بن جائیںگے.اور بڑے بڑے روحانی کمالات ان سے ظاہر ہوںگے.
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھ کو سینہ سے لگاؤاور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی تو اس وقت وہ بالکل سفید اور نورانی تھا.اور یہ سفیدی کسی بیماری کے نتیجہ میں نہیں تھی.درحقیقت یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو آپ نے دیکھا اور ایک عظیم الشان تعبیر کا حامل تھا ،لیکن بائیبل اس کے متعلق یہ کہتی ہے کہ.’’اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پررکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کردیکھا تواس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا.‘‘ (خروج باب ۴آیت ۶) گویا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کاہاتھ اس وقت کوڑھ کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا.حالانکہ کوڑھ کی وجہ سے سفید ہونا ایک عذاب ہے اور یہ مقام الٰہی تجلی اور اس کی نشان نمائی کا تھا.ایسے موقعے پر کسی عذاب کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتاہے.پس بائیبل کی یہ بات بالبداہت غلط ہے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت اپنے آپ کو کوڑھی دیکھا تھا تو ان کا ایمان کیا بڑھا ہوگا.وہ تو غمزدہ ہوئے ہوںگے کہ مجھے کوڑھ ہوگیا.لیکن قرآن کہتاہے کہ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ اس کاہاتھ سفید تو تھا مگر کوڑھ سے اسے کوئی مشابہت نہ تھی.ہم نے بتایا ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا اور اس کی تعبیر یہ تھی کہ اپنی قوم کے کارآمد لوگوں کو اپنے ساتھ ملائوان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا تھا کہ ان لوگوں میںجونیکی پائی جائےگی وہ ایسی کامل ہوگی کہ اس میںکسی قسم کی خرابی نہیںہوگی.بعض لوگ ظاہر میںاچھے نظر آتے ہیںلیکن اندرونی طورپر نہایت خراب ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ جب تم ان لوگوں کو اپنے قریب رکھوگے تویہ کامل طور پر روحانی وجود بن جائیں گے خرابیاں اس میںاسی وقت پیدا ہوںگی جب یہ تجھ سے دور ہوجائیں گے.لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى ۚ۰۰۲۴ (اورہم یہ اس لئے کریںگے )تاکہ اس کے نتیجہ میںہم تجھ کو اپنے بڑے بڑے نشانات دکھائیں.تفسیر.اس میںبتایا گیاہے کہ ہم نے یہ نشان تجھے یہ یقین پیداکرنےکے لئے دکھائے ہیںکہ ہم تیرے ہاتھ پر اور بھی بڑے بڑےنشانات ظاہر کریں گے جن سے تیرامشن کامیاب ہوجائے گا.چانچہ سورئہ اعراف میںاللہ تعالیٰ نے ان نشانات کا ذکرکیاہے جو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر دکھائے گئے.وہ فرماتا ہے فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ
الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ(الاعراف:۱۳۴) یعنی جب فرعون اور اس کی قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کیاتو ہم نے ان پر کئی قسم کے عذاب بھیجے جن میں طوفان.ٹڈیوں جوئوں.مینڈکوں اور خون کا عذاب شامل تھا.اور یہ ایسے نشانا ت تھے جن کو ہر ایک مشاہدہ کرسکتا تھا لیکن ان نشانوں کے باوجود فرعو ن اور اس کی قوم ہماری بات ماننے پر آمادہ نہ ہوئی.اسی طرح فرماتا ہے وَ اَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ١۫ فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ(النمل:۱۳)یعنی ہم نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میںڈالو اور پھر نکالو تو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید نظر آئےگا.یہ معجزہ ان نو معجزات میںسے ایک ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر فرعون اور اس کی قوم کے لئے دکھائے گے لیکن انہوں نے ان معجزات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.بائیبل میںبھی ان نشانات کا ذکر آتاہے.چنانچہ پہلا نشان عصاکا ہے جس کا ذکر ان الفاظ میںکیاگیاہے :.’’ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میںکیا ہے اس نے کہالاٹھی پھر اس نے کہاکہ اسے زمین پر ڈال دے.اس نے اسے زمین پر ڈالا اور وہ سانپ بن گئی.اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا.تب خداوند نے موسیٰ سے کہاہاتھ بڑھاکر اس کی دم پکڑلے اس نے ہاتھ بڑھایا اوراسے پکڑلیا وہ اس کے ہاتھ میںلاٹھی بن گیا‘‘.(خروج باب ۴آیت ۲تا۴) ( ۲).پھر دوسرا نشان ہاتھ کی سفیدی کا ہے اس کے متعلق لکھاہے.’’ پھر خداوند نے اسے یہ بھی کہاکہ تواپنا ہاتھ اپنے سینہ پررکھ کر ڈھانک لے.اس نے اپناہاتھ اپنے سینے پررکھ کر اسے ڈھانک لیا اورجب اس نے اسے نکال کردیکھاتو اس کاہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا ‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۶،۷) (۳).تیسرا نشان دریا کے لہو ہوجانے کا ہے چنانچہ لکھاہے.’’موسیٰ اور ہارون نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور اس نے لاٹھی اٹھا کر اسے فرعون اور ا س کے خادموں کے سامنے دریاکے پانی پرمارا اور دریا کا پانی سب خون ہوگیا.اور دریا کی مچھلیاں مرگئیں اور دریا سے تعفن اٹھنے لگا.اور مصری دریاکا پانی نہ پی سکے.‘‘ (خروج باب ۷آیت ۲۰،۲۱ ) ( ۴).چوتھا نشان مینڈکوں کا ہے اس کے متعلق لکھاہے.’’خداوند نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے کر پنا ہاتھ دریاؤں اورنہروں اور
جھیلوں پر بڑھا.اور مینڈکوں کو ملک مصر پرچڑھا لا.چنانچہ جتنا پانی مصر میںتھا اس پر ہارون نے اپناہاتھ بڑھایا اور مینڈک چڑھ آئے اور ملک مصر کو ڈھانک لیا.‘‘ (خروج باب ۸آیت ۵تا۶) ( ۵).پانچواں نشان جوئوںکا ہے اس کے متعلق آتاہے:.’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی بڑھاکرزمین کی گرد کو مار تاکہ وہ تمام ملک مصر میںجوئیںبن جائے.انہوں نے ایسا ہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کراپناہاتھ بڑاھایا اورزمین کی گرد کو مارہ.اور انسان اور حیوان پرجوئیںہوگئیں اور تمام ملک مصر میںزمین کی ساری گرد جوئیںبن گئی.‘‘ (خروج باب ۸ تا آیت ۱۶تا۱۸ ) (۶).چھٹا نشان مچھروں کے عذاب کاہے چنانچہ لکھاہے :.’’ خداوند نے ایسا ہی کیا اور فرعون کے گھر اور اس کے نوکروں کے گھر وں اور سارے ملک مصر میںمچھروں کے غول کے غول بھر گئے.اور ان مچھروں کے غولوںکے سبب سے ملک کا ناس ہوگیا.‘‘ (خروج باب ۸ آیت ۲۴) (۷).ساتواں نشان مری کا ہے.چنانچہ لکھاہے.’’اور خداوند نے ایک وقت مقرر کردیا اور بتادیا کہ کل خداوند اس ملک میںیہی کام کرےگا.اور خداوند نے دوسرےدن ایسا ہی کیا اور مصریوں کے سب چوپائے مرگئے لیکن بنی اسرائیل کے چوپایوں میں سے ایک بھی نہ مرا.‘‘ (خروج باب ۹ آیت ۵ تا ۶ ) (۸ ).آٹھواں نشان جسموں پر پھوڑے نکلنے کاہے چنانچہ لکھا ہے :.’’اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ تم دونوں بھٹی کی راکھ اپنی مٹھیوں میں لےلو اور موسیٰ اسے فرعون کے سامنے آسمان کی طرف اڑادے اور وہ سارے ملک مصر میںباریک گرد ہوکر مصر کے آدمیوں اور جانوروں کے جسم پر پھوڑے اور پھپھولے بن جائےگی.سو وہ بھٹی کی راکھ لےکر فرعون کے آگے جاکھڑے ہوئے اور موسیٰ نے اسے آسمان کی طرف اڑادیا اوروہ آدمیوں اورجانوروں کے جسم پر پھوڑے اور پھپھولے بن گئی ‘‘ (خروج باب ۹ آیت ۸تا۱۰ ) ( ۹).نواں نشان اولوںکاہے.چنانچہ لکھا ہے کہ:.
’’ اور خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا کہ سب ملک مصر میںانسان اور حیوان اورکھیت کی سبزی پر جو ملک مصر میںہے اولے گریں.اور موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اٹھائی اور خداوند نے رعد اور اولے بھیجے.اور آگ زمین تک آنے لگی.اور خداوند نے ملک مصر پر اولے برسائے.پس اولے گرے اور اولوں کے ساتھ آگ ملی ہوئی تھی اور وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی ا یسے اولے ملک میںکبھی نہیںپڑے تھے ‘‘.(خروج باب ۹آیت ۲۲،۲۳،۲۴ ) ( ۱۰).دسواں نشان ٹڈیوں کا ہے.چنانچہ لکھ ہے.’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ملک مصر پر اپنا ہاتھ بڑھاتاکہ ٹڈیاں ملک مصر پر آئیں اور ہر قسم کی سبزی کو جو اس ملک میںاولوں سے بچ رہی ہے چٹ کرجائیں.پس موسیٰ نے ملک مصر پر اپنی لاٹھی بڑھائی.اور خداوند نے اس سارے دن اور ساری رات پُروا آندھی چلائی اور صبح ہوتے ہوتے پُروا آندھی ٹڈیاں لے آئی اور ٹڈیاں ساے ملک مصر پر چھا گئیں.اور وہیںمصر کی حدود میںبسیرا کیا اور ان کا دَل ایسا بھاری تھا کہ نہ تو ان سے پہلے ایسی ٹڈیاں کبھی آئیں.نہ ان کے بعد پھر آئیںگی.کیونکہ انہوں نے تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا.ایسا کہ ملک میںاندھیرا ہوگیا اورانہوں نے اس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے چٹ کرلیا.‘‘ (خروج باب ۱۰ آیت ۱۲ تا ۱۵ ) ( ۱۱).گیارھواں نشان تاریکی کا نشان ہے چنانچہ لکھاہے.’’پھرخداوند نے موسیٰ سے کہاکہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا.تاکہ ملک مصر میںتاریکی چھاجائے.ایسی تاریکی جسے ٹٹول سکیں اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا یا اور تین دن تک سارے ملک مصر میںگہر ی تاریکی رہی.تین دن تک نہ تو کسی نے کسی کو دیکھا اور نہ کوئی اپنی جگہ سے ہلا.‘‘ (خروج باب ۱۰ آیت ۲۱ تا۲۳ ) ( ۱۲).بارھوان نشان پلوٹھے بچوں کامرنا ہے چنانچہ لکھاہے.’’ اور آدھی رات کو خداوند نے ملک مصر کے سب پلوٹھوں کو فرعون جو اپنے تخت پر بیٹھا تھااس کے پلوٹھے سے لےکر وہ قیدی جو قید خانہ میںتھا اس کے پلوٹھے تک بلکہ چوپایوں کے پلوٹھوں کو بھی
ہلاک کردیا اور فرعون اور اس کے سب نوکر اور سب مصری رات ہی کو اٹھ بیٹھے اور مصر میں بڑاکہرام مچ گیا کیونکہ ایک بھی ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئی نہ مراہو ‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۲۹ تا ۳۰ ) ( ۱۳).تیرھواں نشان سمندر سے پار گذرنے کاہے چنانچہ لکھاہے.’’ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلاکر اور سمندر کو پیچھے ہٹاکر اسے خشک زمین بنادیا.اور پانی دوحصے ہوگیا اوربنی اسرائیل سمندر کے بیچ میںسے خشک زمین پرچل کر نکل گئے.اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا.‘‘ (خروج باب ۱۴ آیت ۲۱ ،۲۲ ) جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکاہے قرآن کریم نے صرف نونشانات کا ذکر کیاہے.یعنی ۱.عصا کا نشان ۲.یدبیضاء کا نشان ۳.طوفان کا نشان ۴.ٹڈیوں کا نشان ۵.جوئوں کا نشان ۶.مینڈکوں کا نشان ۷.خون کا نشان ۸.قحط کا نشان جیسے فرمایا.وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِيْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (الاعراف: ۱۳۱) ۹.سمندر سے پار گذرنے کا نشان.ان نشانات کے بیان کرنے میں قرآن کریم اوربائیبل میںاختلاف نظر آتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بائیبل نے ان نشانات کے بارے میںبڑے مبالغہ سے کام لیاہے.ورنہ قرآن کریم نے جن نشانوں کا نو کی تعداد میںذکر کیاہے اس میںبائیبل کے بیان کردہ تمام کے تمام نشانات آجاتے ہیں.چنانچہ طوفان میںاولوں اور تاریکی کا نشان شامل ہے لیکن بائیبل میںاس کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے.اسی طرح قرآن کریم نے خون کا نشان بیان کیا ہے لیکن بائیبل نے اسے دریا کے لہو ہوجانے اور جسموں پر پھوڑے اور پھنسیاں نکلنے میں تقسیم کردیا ہے.حالانکہ
دریا کے پانی کے خون ہوجانے کا مفہوم صر ف اس قدرہے کہ دریا کا پانی اس قدر خراب ہوگیا تھا کہ جو کوئی اس کوپیتاتھااس کاخون خراب ہوجاتاتھا.اسی طرح پلوٹھے بچوں کی موت کا نشان بائیبل نے علیحدہ بیان کیاہے حالانکہ اسے علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یا تو یہ نشان دم کے نشان کے ماتحت آجاتاہے اور یا پھرقمل کےنشان کے ماتحت آجاتا ہے کیونکہ جوؤں ،مکھیوں اور مچھروں سے بیماری پھیلتی ہے اور ان سے موت واقع ہوجاتی ہے.اسی طرح قمل کے ماتحت مچھروں کا نشان بھی آجاتاہے کیونکہ عربی زبان میںقمل کے معنے ان چھوٹے کیڑوں کے بھی ہوتے ہیںجن کے چھوٹے چھوٹے پر ہوتے ہیں(اقرب) غرض ان نشانات کے بارے میںقرآن کریم کا بیان بالکل صحیح اور درست ہے.اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ؒ۰۰۲۵قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ تو فرعون کی طرف جا.کیونکہ اس نے سرکشی اختیار کی ہے (اس پر موسیٰ نے ) کہا اے میرے رب میرا سینہ صَدْرِيْۙ۰۰۲۶وَ يَسِّرْ لِيْۤ اَمْرِيْۙ۰۰۲۷وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ کھول دے.اور جو فرض مجھ ہر ڈالا گیا ہے اس کو پورا کرنا میرے لئے آسان کر دے اور اگر میری زبان میں کوئی لِّسَانِيْۙ۰۰۲۸يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ۪۰۰۲۹ گرہ ہو تو اسے بھی کھول دے (حتی کہ ) لوگ میری بات کو آسانی سے سمجھنے لگیں تفسیر.فرماتا ہے.یہ نشان دکھا کر ہم نے موسیٰ سے کہا.کہ اب فرعون کی طرف جا.کیونکہ وہ سرکش ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا الٰہی میں جاتاتوہوں لیکن آپ میرے سینہ کو کھول دیجیئے اور میرے کام کو آسان کر دیجیئے اور میری زبان کو چلادیجئے اور اس کی ساری گرہیں کھول دیجئے تاکہ فرعون اور اس کے ساتھی میری بات کو سمجھ سکیں.کیونکہ جو پیغام مجھے دیا گیا ہے اس کا ان لوگوںکے لئے سمجھنا بڑا مشکل ہے.اس دعا میںحضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے یہ کہا ہے کہ اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے یعنی میرے اندر اس کام کے لئے ایک قسم کی دیوانگی جوش اور ولولہ پیدا فرمادے.اور میرے معاملہ میں میرے لئے آسانیاں پیدا کردے.یعنی ایسی تعلیم اور ایسے احکام مجھے دے کہ لوگ اس کو ماننے کے لئے تیار ہوں.اور اسی طرح وہ تعلیم
ایسی اعلیٰ درجہ کی ہو کہ جس کا پھیلانا آسان ہو اور پھر مجھے اس کے بیان کرنے کی بھی توفیق عطا فرماتامیں اسے عمدہ طریق سے پیش کرسکوں.اور اس کے بعد ا ے میرے خدا لوگوں کی طبائع اس طرف پھیر دے تاکہ وہ اس تعلیم کی طرف توجہ کرنے لگیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعاسے ظاہر ہے کہ ہدایت درحقیقت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے.تقریروں اور دلیلوں سے نہیںآتی اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعاکی کہ الٰہی جوتعلیم میںدوں اس پر خود بھی عمل کروں اور دوسرے لوگ بھی اس کو آسانی سے مان لیں.ان آیات میں تبلیغ کا یہ گر بتایا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعاکرتا رہے.پس ہمارے مبلغین کو یہ دعا باربار مانگتے رہنا چاہیے.وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْۙ۰۰۳۰هٰرُوْنَ اَخِيۙ۰۰۳۱اشْدُدْ اور میرے اہل میں سے میرا ایک نائب تجویز کر (یعنی ) ہارون کو جو میرا بھائی ہے.اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو بِهٖۤ اَزْرِيْۙ۰۰۳۲وَ اَشْرِكْهُ فِيْۤ اَمْرِيْۙ۰۰۳۳ مضبوط کر.اور اس کو میرے کام میں شریک کر.حلّ لُغَات.وزیر وزیرکے معنے مُعَاوِنٌ کے ہیں (اقرب) اَلْاَزْرُ کے معنے ہیں الظَّھْرُ.پیٹھ اَلْقُوَّۃُ.طاقت اور قوت (اقرب) تفسیر.اس آیت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکافرق ظاہر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ مجھے کوئی ساتھی بھی دے.اور اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو بڑھا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوتھوڑے سے وقفہ کے لئے انکساراً یہ ظاہر کیا کہ میںاتنا بڑابوجھ اٹھانے کے ناقابل ہوں.مگر پھر اکیلے ہی اس بوجھ کواٹھانے کے لئے تیار ہوگئے (فَدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَ جَسَدِیْ وَ رُوْحِیْ) تبھی قرآن کریم فرماتا ہے.وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا (الجن:۲۰) یعنی جب ہمارا بندہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکھڑاہوتا ہے تاکہ خدا کی عبادت کو دنیا میںقائم کرے تو لوگ اس پر حملہ کرنے کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں.پس محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) ساری عمر اکیلے کھڑے رہے اور ساری قوم کے حملے سہتے رہے.چنانچہ تاریخ میں آتاہے کہ جب اُحد کے موقعہ پر کفار کا ایک
تجربہ کا ر جرنیل آگے بڑھا اور صحابہ ؓ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے آگے کھڑے ہوگئے تو اس نے کہا.میرا صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ ہے آپ نے فرمایا میرے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائو پھر جب وہ حملہ کرتے ہوئے آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے صرف اپنانیزہ بڑھا کر اسے چھودیا.قتل کرنے کی پھر بھی کوشش نہیں کی اس پروہ شخص یہ چلاتاہوا دوڑ گیا کہ ہائے میںمر گیا.ہائے میںمر گیا.جب اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ تم تو اتنے بڑے جرنیل ہو اس تھوڑے سے زخم سے کیوں چلارہے ہو تو اس نے کہاتم کو معلوم نہیںاس شخص کے نیزہ کی انی میں سارے جہنم کی آگ بھری ہوئی تھی مجھے یوں معلوم ہورہا ہے کہ میرا سارا جسم جل رہا ہے.(سیرۃ الحبیبہ جلد ۲ صفحہ ۲۴۴) اسی طرح غزوہ حنین کے موقعہ پر جب دشمن دائیں بائیں کے ٹیلوں پر چڑھ کر تیر برسا رہا تھا اورمکہ کے نو مسلموں کے بھاگ جانے کی وجہ سے صحابہؓ کے پائوں بھی اکھڑ گئے تھے.آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی.اور اکیلے کافروں کے دورویہ لشکروں میںگھس گئے.اس وقت حضرت ابوبکر ؓ نے آگے بڑھ کر آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور کہا.یا رسول اللہ مسلمانوں کو لوٹنے دیجئے وہ تھوڑی دیر میں ہی آپ کے گرد جمع ہوجائیںگے اس پر آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو سختی سے ہٹادیا اور فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑدو اور گھوڑے کو ایڑلگاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ.اَنَاالنَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ (بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ ویوم حنین اذأعجبتکم کثر تکم) اے لوگو میںموعود نبی ہوں.میںجھو ٹا نہیں.تم مجھے مار نہیںسکتے مگر میرے اس نشان کو دیکھ کر مجھے خدا نہ بنالینامیںعبد المطلب کا بیٹا اور انسان ہوں.کتنا عظیم الشان فرق ہے مسیح ؑ میں اور مرے آقامیں وہ ساری رات یہ دعائیں مانگتارہا کہ ’’ اے میرے باپ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے‘‘ (متی باب ۲۶ آیت ۳۹ ) مگر پھر بھی اس کو لوگوں نے خدابنادیا وہ صرف دوگھنٹے صلیب پر لٹکا رہا اور اتنے عرصے میںہی خدا تعالیٰ سے شکایت کرنے لگاکہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۴۶) مگر میر ا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دشمن کے نرغہ میںگھر گیا جودوطرف پہاڑیوںپر چڑھاہواتھا.اور دونوں طرف سے اس پر تیراندازی کررہا تھا.اور اس کے ساتھی ایک فریب میں آکر بھاگ گئے تھے.مگر پھر بھی وہ اپنے خدا سے مایوس نہیں ہوا.اور پھر بھی اس نے یہی کہا کہ میںانسان
ہوں خدانہیں کیسی اندھی ہے وہ دنیا جو ان واقعات کے بعد بھی مسیح کو آسمان پر چڑھاتی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین میں دفن کرتی ہے.اگر آسمان پر کوئی چڑھ سکتاتھاتو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اگرزمین میں دفن ہونے کا کوئی مستحق تھا تو مسیح ؑ ناصری.مگر یہ طاقت اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو آنکھیں دے کہ وہ ہر ایک کا مقام پہچانیں.كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًاۙ۰۰۳۴وَّ نَذْكُرَكَ كَثِيْرًاؕ۰۰۳۵اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا تاکہ ہم (دونوں )کثرت سے تیری تسبیح کریں اور کثرت سے تیرا ذکر کریں.توہمیں بَصِيْرًا۰۰۳۶ خوب دیکھ رہاہے.تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام توکثرت سے تسبیح کرنے کے لئے ایک ساتھی مانگ رہے ہیںلیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی اس کام کوکرتے تھے.جیسا کہ سوۃ مزمل میںآتاہے اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ(المزمل:۲۱)یعنی تیرارب اس بات کو خوب جانتاہے کہ تو کبھی دوتہائی رات کے قریب.کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات نماز میںکھڑا رہتاہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بجالاتاہے اور تیری اقتدامیں مومنوں کا ایک بڑاگروہ بھی تیرے ساتھ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتاہے پس اس آیت سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام کا فرق ظاہر ہے.قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى۰۰۳۷وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ ( اللہ تعالیٰ) نے فرمایا.اے موسیٰ جو تونے مانگا تجھے دیا گیا.اور ہم (اس سے پہلے ) ایک بار اور بھی تجھ پر احسان مَرَّةً اُخْرٰۤىۙ۰۰۳۸اِذْ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ مَا يُوْحٰۤىۙ۰۰۳۹اَنِ کرچکے ہیں.جب ہم نے تیری ماں پر وحی کے ذریعہ وہ سب کچھ نازل کردیاجو( ایسے موقعہ) پر نازل کرنا ضروری
اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ تھا.(جس کی تفصیل یہ ہے ) کہ اس (یعنی موسیٰ) کو تابوت میںرکھ دے پھر اس (تابوت) کو دریا میں رکھ دے پھر بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّيْ وَ عَدُوٌّ لَّهٗ١ؕ وَ اَلْقَيْتُ عَلَيْكَ (اس کے بعد یوں ہو کہ) دریا (ہمارے حکم سے) اس( تابوت) کو ساحل تک پہنچا دے (تاکہ) اس کو وہ شخص لے مَحَبَّةً مِّنِّيْ١ۚ۬ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْۘ۰۰۴۰اِذْ تَمْشِيْۤ اُخْتُكَ جائے جو میرا بھی اوراس (یعنی موسیٰ) کابھی دشمن ہے اور تجھ پر میںنے اپنی طرف سے محبت نازل کی( یعنی تیرے فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى مَنْ يَّكْفُلُهٗ١ؕ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤى لئے لوگوں کے دلوں میںمحبت پیدا کی )اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے پالا گیا.(یہ اس اُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ١ؕ۬ وَ قَتَلْتَ نَفْسًا وقت ہوا ) جب تیری بہن (ساتھ ساتھ )چلتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اے لوگو کیا میں تمہیں اس عورت کا پتہ فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰكَ فُتُوْنًا١۫۬ فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْۤ بتائوں جو اس کو پال لےگی.اور اس طرح ہم نے تجھ کو تیری ماں کی طرف لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی اَهْلِ مَدْيَنَ١ۙ۬ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰى قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى ۰۰۴۱ وَ ہوجائیں اوروہ غم نہ کرے.اور (اے موسیٰ ) تونے ایک شخص کو قتل کردیا تھا پھر ہم نے تجھ کو اس غم سے نجات بخشی اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْۚ۰۰۴۲ اورہم نے تجھ کو اور کئی امتحانوںمیںڈال کر اچھی طرح آزمایا (جس کے بعد) تو کئی سال مدین کے لوگوں میںرہا پھر اے موسیٰ (ہوتے ہوتے) تو اس عمر کو پہنچ گیا جو ہمارےکام کے قابل ہوتی ہے.اورمیں نے تجھ کو اپنی ذات کے لئے (روحانی ترقی دیتے دیتے ) تیار کیا.حلّ لُغَات.لِتُصْنَعَ.الصُّنْعُ کے معنےہیں اِجَادَۃُ الفِعْلِ کسی کام کو اچھی طرح سے کرنا (مفردات)
اور عَلَی عَیْنِیْ کامحاورہ اس وقت استعمال کیا جاتاہے جب کسی کی حفاظت اور شفقت مطلوب ہو.(اقرب) پس لِتُصْنَعَ عَلٰى عَيْنِيْکے معنے ہوںگے تاکہ تو ہماری خاص شفقت اور رحمت میںپرورش پائے.اِصْطَنَعَ فُلَانًا لِنَفْسِہٖ کے معنے ہیں اِخْتَارَہُ لِنَفْسِہٖ اس کو اپنے لئے چن لیا (اقرب ) پس اِصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِی کےمعنے ہوںگے میںنے تجھ کو اپنے کام کے لئے چن لیا.تفسیر.اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اے موسیٰ !جو کچھ تو نے مانگاہے وہ سب کچھ ہم نے تجھے دیا.اس میں اشارۃً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وعدہ ہے کہ آپ کو بھی وہی کچھ دیا جائےگا جو آپ مانگیں گے.پھر ہم نے اسے کہا کہ یہ ہمارا دوسری دفعہ احسان ہے پہلی دفعہ وہ احسان تھا جب تیری ماںنے تجھے ہمارے حکم کے مطابق دریا میںپھینک دیا تھا اور ہم نے ایسا ذریعہ اختیار کیا تھا کہ جس کی وجہ سے تو پھر اپنی ماں کی طرف لوٹادیا گیا اور یہ نشان جو دریا سے بچانے کا تھا اس لئے ظاہر کیا گیاتاکہ تو میرے فضل کے نیچے پرورش پائے.اس جگہ بائیبل کے اس بیان کی طرف اشارہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں نے ٹوکرے میںرکھ کر دریا میں ڈال دیا اور وہ بہتے ہوئے اس جگہ پر جالگے جہاں فرعون کی بیٹی سیر کررہی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا تو اسے رحم آیا او رکہنے لگی کہ یہ کسی عبرانی کا بچہ ہے.اور اس نے کہا لائو ہم اس بچے کو پال لیںمگر اس کی سمجھ میںنہ آتاتھاکہ پالیں کس طرح اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن بہنا پے کی محبت سے بے تاب ہو کر دریا کے کنارے آتی ہوئی نظر آئی اور اس نے دیکھ لیا کہ موسیٰ کو فرعون کی لڑکی نے پسند کرلیا ہے اور اس کی پرورش کرنا چاہتی ہے مگر حیران ہے کہ کس طرح پرورش کرے تب وہ آگے بڑھی او راس نے اپنی ماں کا پتہ بتایا کہ وہ اس بچہ کو پال لے گی.اور اس طرح بیٹا اپنی ماں کی گودمیںآگیا.بائیبل نے اس واقعہ کو ان الفاظ میںبیان کیاہے کہ چونکہ فرعون کاحکم تھا کہ اسرائیلی بچوں کو مار دیاجائے (خروج باب ۱ آیت ۱۶ تا ۲۲) اس لئے اس خوف سے موسیٰ کی ماں نے ’’ سرکنڈوں کا ایک ٹوکرالیااوراس پر چکنی مٹی اور رال لگاکر لڑکے کواس میںرکھا اور اسے دریا کے کنارے جھائومیںچھوڑ آئی ‘‘(خروج باب ۲ آیت ۳ ) بائیبل کے اس بیان اور قرآن کریم کے اس بیان میںایک فرق ہے او روہ یہ کہ قرآن کریم تو بتاتاہے کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو یہ وحی کی کہ اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ یعنی اسے تابوت میںرکھ دے اور پھر اس کودریا
میںڈال دے لیکن بائیبل میں سرکنڈوں کے ٹوکرے میںڈالنے کا ذکر ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اختلاف کوئی حقیقت نہیںرکھتاکونکہ مختلف ملکوں میںسامان رکھنے کے لئے مختلف چیزوں سے برتن بنائے جاتے ہیں.دریا کے کنارے کے لوگ جھاڑیوں کی شاخوں سے ایسے بکس بنالیتے ہیںجن میں وہ چیزیں رکھتے ہیںعربی زبان میں ہم اس کو تابوت کہہ دیں گے.یہ ضرو ری نہیںکہ تابوت سے مراد لکڑی کابنا ہوا بکس ہو.پس یہ اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں.لیکن پھر بھی قرآنی الفاظ زیادہ درست ہیںاس لئے کہ جس چیز کو دریا میںڈالا جائےگا وہ بہر حال ایسی ہی ہوگی جس کے اندر پانی داخل نہ ہوسکے اسی لئےبائیبل بھی بتاتی ہے کہ سرکنڈے کے ٹوکرے پر چکنی مٹی اوررال لگاکر اس کے سوراخوں کوبند کیاگیا اورجب سرکنڈے کے ٹوکرے پرمٹی اور رال وغیرہ لگاکر اسے اچھی طرح بند کیا گیا تووہی ٹوکراتابوت بن گیا.ہم دیکھتے ہیں کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کے واقعہ سے بھی ایک مشابہت حاصل ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ موسیٰ ؑکو دودھ پلوانے کے لئے اس کی بہن نے کوشش کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودودھ پلانے والی عورت کو خدا تعالیٰ خود پکڑ کر آپ کے پاس لے آیا.چنانچہ تاریخوں میںلکھا ہے کہ مکہ کے ارد گرد کے گائوں کی عورتیںایک خاص موسم میںمکے میںجمع ہوجاتی تھیں تاکہ امیروں کے بچے دودھ پلانے کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چند ماہ کے ہوگئے اور وہ وقت آیا جب عورتیں باہر سے ا ٓتی تھیں تو باہر سے کچھ عورتیں آئیںجن میں آپ کی ہونے والی دائی حلیمہ بھی تھی.حلیمہ کا خاندان غریب تھا.اس لئے جن امیر گھروں میںبھی وہ گئی انہوں نے ا پنابچہ اسے دینے سے انکار کردیا یہ سمجھ کر کہ یہ غریب عورت بچے کو اچھی طرح سے پال نہیںسکے گے.حلیمہ سارا دن مکہ کے گھروں میںپھرتی رہی اور ردّ ہوتی رہی اور میرے آقاکی ماں بیوہ آمنہ اپنے گھر میں کسی مناسب دایہ کاانتظار کرتی رہی لیکن کسی مناسب دا یہ نے اس گھر میں جھانکنا تک پسند نہ کیا.اس خیال سے کہ آمنہ کے یتیم بچے کے پالنے کابدلہ کون دےگا جب سارادن مکہ کے ہرگھر سے حلیمہ دھتکاری گئی تو اس نے خیال کیا کہ اگر میںبغیر بچے کے گئی تو بدنام ہو جائوںگی.چلو اگر کسی امیر گھرانے کا بچہ نہیںملتاتو غریب گھرانہ کا یتیم محمد ہی ساتھ لیتی جائوں (السیرۃ الحلبیہ جلد او ل باب ذکر الرضاعۃ صلی اللہ علیہ وسلم وما اتصل بہ) گویا ساری دائیوں کا رد کردہ بچہ اس دایہ نے لیا جسے سب مکہ والوں نے رد کردیا تھا.اور اس طر ح وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو صحف سابقہ میںآچکی ہے کہ ’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا ‘‘ (متی باب ۲۱ آیت۴۲ )
دایہ بھی معمار ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی بچہ کی پرورش کرتی اور اسے کھڑاہونے کے قابل بناتی ہے.غر ض وہ تمام دائیوں کا رد کیا ہوا بچہ حلیمہ کے گھر گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک صحت افزامقام پرپرورش کا انتظام فرما دیا.مگر خدا تعالیٰ کی غیرت دیکھو کہ جس یتیم بچے کے لے جانے سے حلیمہ ڈرتی تھی اسی یتیم بچے کو خدا تعالیٰ نے ایک دن اس کی قوم سے لڑوادیا اور اس کوغالب کردیا.حلیمہ کی قوم کے بہت سے افراد غزوہ حنین میںقید ہوئے اور بہت سے جانور پکڑے گئے.حلیمہ کی قوم کے مالدار فرعون حلیمہ کے غریب بچوں سے سفارش کی خواہش کرنے سے گھبراتے تھے لیکن آخر مجبورہوکر ان کے پاس گئے.اور جاکر کہا کہ قوم کی نظر تو تمہیں پرہے.جائو اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی قوم کی سفارش کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک ان کاانتظارکرتے رہے تھے.آخر مجبور ہوکر آپ نے حلیمہ کی قوم کے اموال غنیمت کو فوجیوں میںتقسیم کردیا تھا.صرف غلام رہنے دئیے تھے جب حلیمہ کی ایک بچی آپ کے پاس سفارش کے لئے آئی توآپ نے فرمایا میںنے تمہارابہت انتظار کیا.آخر تنگ آکر مال تقسیم کر دیا.اب تم خود ہی پسند کرلو.آیامیںمال واپس لے کرتم کو دےدوں یاقیدی تم کودےدوں اس نے قوم سے مشورہ کیاا ور کہاہمیںقید ی چاہئیںمال نہیں چاہیے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلام کے سامنے یہ معاملہ رکھاانہوں نے کہا.یارسول اللہ ہم خوشی سے ا پنے اپنے قیدی آزاد کرنے کے لئے تیار ہیںچنانچہ اسی وقت بنو ہوازن کا چھ ہزار قیدی رہا کردیاگیا.(السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ باب ذکرمغاذیۃ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ الطائف ) اب موسیٰ ؑکی پرورش کے واقعہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برورش کے واقعہ کا مقابلہ کرکے دیکھو یہ دونوں واقعات آپس میں مشابہ بھی ہیںلیکن پھر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کا واقعہ موسیٰ ؑ کی پرورش کے واقعہ سے اپنی شان میںہزاروں گنازیادہ ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ و بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ.
اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَ لَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْۚ۰۰۴۳ (پس جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو میںنے تجھے کہا کہ )تو اور تیرا بھائی میرے نشان لے کر جائو اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۚۖ۰۰۴۴ اور میرے ذکر میں کوئی کوتاہی نہ کرو.تم دونوں ہی فرعون کے پاس جائو کیونکہ اس نے سرکشی اختیار کررکھی ہے.حلّ لُغَات.لَاتَنِیَا.لَا تَنِیَاوَنیٰسےنہی کاصیغہ ہے اور وَنَی الرَّجُلُ فِی الْاَمْرِ کے معنے ہیں فَتَرَ وَ ضَعُفَ کمزور ہوگیا اور سست ہوگیا (اقرب )پس لَاتَنِیَا کے معنے ہونگے.تم دونوں سستی نہ کرنا.تفسیر.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ میںبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مشابہت ہے.چنانچہ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرعون کی مشابہ قوم کی طرف بھیجااور فرمایا.اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل:۱۶) یعنی ہم نے تمہاری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تمہارا نگران بناکر بھیجاہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف موسیٰ ؑ کو بھیجا تھا.مگر فرق یہ ہے کہ گو فرعون کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کوقتل کرنے کی دھمکی دی مگر آپ ڈرے نہیں بلکہ بڑی جرات سے خدا تعالیٰ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہے اس کے بعد جب مکہ کے رئوساء نے دیکھا کہ ان کے اپنے گھروں میںایسے لوگ پیدا ہورہے ہیںجوبتوں میں خدائی طاقت تسلیم نہیںکرتے اور وہ کھلے طور پر خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیںتو یہ بات ان کی برداشت سے بالکل باہر ہوگئی اور وہ ا کٹھے ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی خاطر اب تک آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیںکہامگر اب معاملہ حد سے نکل چکا ہے اور یہ ہمارے بتوںکی تذلیل کررہا ہے اس لئے آپ یا تو اسے سمجھائیںاور اس طریق سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں ورنہ ہم صرف اس کا نہیں بلکہ آپ کا بھی مقابلہ کریں گے اور آپ کو اپنی قوم کی سرداری سے الگ کردیں گے.ابو طالب کے لئے اپنی ریاست کو چھوڑنا ایک نہایت ہی تلخ گھونٹ تھا.انہوں نے سرداران قریش سے وعدہ کر لیا کہ میںاپنے بھتیجے کو سمجھانے کی کوشش کروںگا.چنانچہ ان کے چلے جانے کے بعد ابو طالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری قوم تیرے خلاف سخت مشتعل ہوچکی ہے اور قریب ہے کہ وہ تجھے بھی اور ساتھ ہی مجھ کو بھی ہلاک کردیں.میں تجھے خیر خواہی اور ہمدردی سے کہتا ہوں کہ تو بتوں کو
اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَ لَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْۚ۰۰۴۳ (پس جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو میںنے تجھے کہا کہ )تو اور تیرا بھائی میرے نشان لے کر جائو اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۚۖ۰۰۴۴ اور میرے ذکر میں کوئی کوتاہی نہ کرو.تم دونوں ہی فرعون کے پاس جائو کیونکہ اس نے سرکشی اختیار کررکھی ہے.حلّ لُغَات.لَاتَنِیَا.لَا تَنِیَاوَنیٰسےنہی کاصیغہ ہے اور وَنَی الرَّجُلُ فِی الْاَمْرِ کے معنے ہیں فَتَرَ وَ ضَعُفَ کمزور ہوگیا اور سست ہوگیا (اقرب )پس لَاتَنِیَا کے معنے ہونگے.تم دونوں سستی نہ کرنا.تفسیر.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ میںبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مشابہت ہے.چنانچہ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرعون کی مشابہ قوم کی طرف بھیجااور فرمایا.اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزمل:۱۶) یعنی ہم نے تمہاری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تمہارا نگران بناکر بھیجاہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف موسیٰ ؑ کو بھیجا تھا.مگر فرق یہ ہے کہ گو فرعون کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کوقتل کرنے کی دھمکی دی مگر آپ ڈرے نہیں بلکہ بڑی جرات سے خدا تعالیٰ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہے اس کے بعد جب مکہ کے رئوساء نے دیکھا کہ ان کے اپنے گھروں میںایسے لوگ پیدا ہورہے ہیںجوبتوں میں خدائی طاقت تسلیم نہیںکرتے اور وہ کھلے طور پر خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیںتو یہ بات ان کی برداشت سے بالکل باہر ہوگئی اور وہ ا کٹھے ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی خاطر اب تک آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیںکہامگر اب معاملہ حد سے نکل چکا ہے اور یہ ہمارے بتوںکی تذلیل کررہا ہے اس لئے آپ یا تو اسے سمجھائیںاور اس طریق سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں ورنہ ہم صرف اس کا نہیں بلکہ آپ کا بھی مقابلہ کریں گے اور آپ کو اپنی قوم کی سرداری سے الگ کردیں گے.ابو طالب کے لئے اپنی ریاست کو چھوڑنا ایک نہایت ہی تلخ گھونٹ تھا.انہوں نے سرداران قریش سے وعدہ کر لیا کہ میںاپنے بھتیجے کو سمجھانے کی کوشش کروںگا.چنانچہ ان کے چلے جانے کے بعد ابو طالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری قوم تیرے خلاف سخت مشتعل ہوچکی ہے اور قریب ہے کہ وہ تجھے بھی اور ساتھ ہی مجھ کو بھی ہلاک کردیں.میں تجھے خیر خواہی اور ہمدردی سے کہتا ہوں کہ تو بتوں کو
برا بھلا نہ کہہ.ورنہ میںاپنی ساری قوم کامقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.جب ابو طالب نے یہ بات کہی تو اس وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہیں غمزدہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی آنکھوں میںبھی آنسو آگئے.مگر آپ نے فرمایا.خدا کی قسم اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاور چاند کو میرے بائیںبھی لاکر کھڑاکردیں تب بھی میںا س کام کو نہیںچھوڑ سکتاجس کے لئے خدا نے مجھے کھڑاکیا ہے.اور اے میرے چچا اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا احساس ہے تو بے شک مجھے اپنی پناہ میںرکھنے سے دست بردار ہو جائیں.میں خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت سے کسی صورت میںبھی نہیںرک سکتا.میںاس کام میں مشغول رہوں گا یہاں تک کہ خدامجھے موت د ے دے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے اس جواب کا ابوطالب پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا.اے میرے بھتیجے جا اور اپنے کام میںمشغول رہ اگر قوم مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بے شک چھوڑ دے.میںتجھے کبھی نہیںچھوڑ سکتا.(سیرۃ ابن ہشام وفد قریش یعاقب ابا طالب جلد اول صفحہ ۸۸ ) اسی طرح اُحد کی جنگ میںجب آپ زخمی ہوکر ایک گڑھے میںگر گئے اور لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اس سے دشمنوں میںخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.اور ابو سفیان نے سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا کہ بتائو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہے ؟ چونکہ اس وقت بہت سے مسلمان زخمی پڑے تھے اور لشکر منتشر ہوچکا تھا اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لوٹ کر مسلمانوں پر حملہ نہ کردیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے.جب اس نے دیکھا کہ مسلمان بالکل خاموش ہیں اور وہ کوئی جواب نہیںدے رہے جس کے معنے یہ ہیںکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں شہید ہوچکے ہیں.تو پھر اس نے کہاابوبکر ؓ کہاں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ کوئی نہ بولے جب اس سوال پر بھی ابوسفیان نے مسلمانوں کو خاموش دیکھا تو اس نے سمجھاکہ ابوبکر ؓ بھی مارے گئے ہیںاس پر پھر اس نے بلند آواز سے کہا کہ بتائو عمر ؓ کہاں ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایا کہ کوئی جواب نہ دے اس سے ابوسفیان کو یقین ہوگیا کہ عمر ؓ کو بھی ہم نے مارڈالا ہے اور اس نے بڑے جوش سے کہا اُعْلُ ھُبَلُ.اُعْلُ ھُبَلُ یعنی ہبل جو ہمارابڑابت ہے اس کی شان بلند ہو کیونکہ آج اس نے اپنے مخالفوں کوچن چن کر ہلاک کردیا ہے.جب اس نے یہ نعرہ لگایا تو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار صحابہؓ کو یہ ہدایت دے چکے تھے کہ خاموش رہو.اس لئے صحابہ ؓ پھر بھی خاموش رہے اوروہ بولے نہیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا جواب کیوں نہیںدیتے.کہو اللہُ اَعْلیٰ وَاَجَل.اللہُ اَعْلیٰ وَاَجَل.یعنی اللہ ہی اعلیٰ اوربلند شان والا ہے اللہ ہی اعلیٰ اوربلند شان والا ہے.صحابہؓ
نے یہ جواب دیا تو ابوسفیان کہنے لگا لَنَالْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ ہمارے پاس تو عزیٰ ہے مگر تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہو اللہُ مَوْلٰنَا وَلَامَوْلٰی لَکُمْ.ہمار االلہ ہماراحافظ و ناصر ہے مگر تمہارا کوئی حافظ و ناصر نہیں (السیرۃالحلیبیہ جلد ۲ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ احد) اب دیکھوباوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ یہ موقعہ انتہائی طور پر نازک ہے اور اگر اس وقت دشمن کو جواب دیا گیا تو ممکن ہے کہ وہ دوبارہ حملہ کردے.جب ابوسفیان نے اللہ تعالیٰ کی توحید پر حملہ کیا تو آپ سے برداشت نہ ہوسکا اور آپ نے بڑے جوش سے فرمایا تم غلط کہتے ہو ہبل اور عزیٰ میںکیا طاقت ہے اصل طاقت تو زمین و آسمان کے خدا میںہے جس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیںہل سکتا.غرض خطرناک سے خطرناک مواقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نڈر اور بہادر پہلوان کی طرح دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے تھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ڈراور خوف کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے تھے.فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۰۰۴۵قَالَا او ر تم دونوں اس سے نرم نرم کلام کرو.شائد کہ وہ سمجھ جائے یا (ہم سے ) ڈرنے لگے.دونوں نے عرض کیا.اے رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَاۤ اَوْ اَنْ يَّطْغٰى ۰۰۴۶قَالَ ہمارے رب ہم ڈرتے ہیںکہ وہ ہم پر زیادتی نہ کرے یا ہم پر حد سے زیادہ سختی نہ کرے.(اللہ تعالیٰ نے) لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِيْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَ اَرٰى ۰۰۴۷فَاْتِيٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا فرمایا تم دونوں بالکل نہ ڈرو میںتمہارے ساتھ ہوں (تمہاری دعائیں بھی ) سنتاہوں اور (تمہاری حالت بھی) رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ١ۙ۬ وَ لَا دیکھتا ہوں پس دونوں اس کے پاس چلے جائو اور اس سے کہو کہ ہم دونوں تیر ے رب کے رسول ہیں.پس تُعَذِّبْهُمْ١ؕ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰى ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور ان کو تکلیفیں مت دے.ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف
مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى۰۰۴۸اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى سے ایک بڑانشان لیکر آئے ہیںاور (تجھے بتاتے ہیںکہ ) جو (شخص ہماری لائی ہوئی ) ہدایت کے پیچھے مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰى۰۰۴۹ چلے گا(خدا کی طرف سے) اس پر سلامتی نازل ہوگی.ہم پر یہ وحی نازل کی گئی ہے.کہ جو کوئی(خداکے نشان کو )جھٹلائے گا.اور پیٹھ پھیرلے گا.اس پرعذاب نازل ہوگا حلّ لُغَات.یفرط.یَفْرطُ فَرَطَسے مضارع کاصیغہ ہے اور فَرَطَہُ کے معنے ہوتے ہیںاٰذَاہُ.اس کو تکلیف دی.پس اَنْ یَّفْرُطَ کے معنے ہوںگے کہ وہ ایذاء یا دکھ دے فَرَطَ فِی الْاَمْرِ کے معنے قَصَّرَ فِیْہِ کے بھی ہیںیعنی کسی معاملہ میںکمی کی(اقرب) پس اَنْ یَّفْرُطَ کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں.کہ وہ کمی کرے یعنی ہماری بات ہی نہ سنے.تفسیر.اس میںبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مشابہت پائی جاتی ہے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ فرعون سے نرم نرم باتیںکرنااور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ نڈر ہو کر خداکے متعلق باتیںسناتے ہیں بلکہ ان کے مرید بھی ایسے ہی ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ(القلم:۱۰) یعنی اے محمد رسول اللہ ؐ کفارچاہتے ہیں کہ تو اپنے دین کے متعلق ذرا نرمی کرے تو وہ بھی نرمی کرنے لگ جائیں مگر تو ایسا نہیںکرتا.اور مومنوں کے متعلق فرمایا.اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ(الفتح:۳۰) یعنی دشمن کتناہی ان سے نرمی کرکے ان کو دین کے معاملہ میںنرم کرناچاہے وہ کبھی دین کے معاملہ میںکوئی لچک نہیں دکھاتے.ہاں مومن اگر سختی بھی کریںتو اس کوبھلادیتے ہیں.لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى میںاللہ تعالیٰ فرعون کے متعلق کہتاہے کہ شاید وہ نصیحت پکڑے اور ڈرے یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا خدا تعالیٰ کو علم تھا یا نہیں کہ وہ مانے گا یا نہیں اگر تھا تو شاید کا لفظ کیوں رکھا اور اگر یہ شاید یقین کے معنوںمیں آیا ہے تو یہ بات غلط نکلی کیونکہ فرعون نے مانا نہیںپھر شایدکا کیا مطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لعل بے شک شک پردلالت کرتاہے لیکن ماہرین لغت کہتے ہیںکہ لعل میںامید کے معنے بھی پائے جاتے ہیںاور یہ ضروری نہیںکہ یہ امید قائل کی طرف سے ہو بلکہ کبھی قائل کی طرف سے ہوتی ہے کبھی سامع کی طرف سے اور کبھی
اس شخص کی طرف سے جس کے متعلق بات کہی گئی ہو(اقرب) آیت لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى میں لعل کالفظ موسیٰ ؑ اور ہارون ؑکے لئے ہے یعنی قُوْلَا لَہ قَوْلًا لَیِّنًا رَاجِعِیْنَ اَنْ یَّتَذَکَّرَ یعنی اس امید کے ساتھ فرعون کوتبلیغ کرنا کہ شاید وہ ہدایت پا جائے پس لعل کے لفظ سے کوئی غلط فہمی نہیںہونی چاہیے.خدا تعالیٰ کا کلام جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہوتاہے اس میںبالعموم یہی طریق اختیار کیا جاتاہے کہ اگر دوسراشخص اپنی اصلاح کرلے گا توبچ جائے گا اور اگر نہیں کرے گاتو ہلاک ہوگا.قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى۰۰۵۰قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ (اس پر فرعون نے )کہا اے موسیٰ ! تم دونوں کارب کون ہے ؟ (موسیٰ نے )کہا ہمارارب وہ ہے جس نے ہر شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ۰۰۵۱قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى۰۰۵۲ چیز کو ( اس کی ضرورت کے مطابق) اعضاء عطاکئے ہیںاورپھر ان (اعضاء) سے کام لینے کا طریقہ سکھایا ہے.قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ١ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَ لَا (فرعون نے )کہا (اگر یہ بات ہے )تو پہلے لوگوں کاکیا حال تھا (یعنی وہ تو ان باتوں کو نہیں مانتے تھے ان سے کیا يَنْسَىٞ۰۰۵۳ سلوگ ہوگا؟( موسیٰ نے )کہا ان (پہلے لوگوں )کا علم تومیرے رب کو ہے (ان سب کے حالات اس کی )کتاب میں محفوظ (ہیں) میرا رب نہ بھٹکتاہے اورنہ بھولتاہے.تفسیر.جب خدا تعالیٰ کی صفات اوراس کی وحی نازل کرنے کی عادت کا ذکر فرعون نے سنا تو چونکہ وہ ان باتوں سے ناواقف تھا اس نے حیران ہوکر موسیٰ ؑسے پوچھاکہ اے موسیٰ! یہ کیسا خداتونے پیداکر لیاہے جو پہلے لوگوں سے کبھی سنا نہ تھا.اس پر موسیٰ ؑنے کہاکہ کیا دیکھتے نہیںہو کہ دنیا میں ایک کامل نظام پایا جاتا ہے اور ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق اعضاء ملے ہیںاور ان اعضاء سے کام لینے کا طریق بھی وہ پیدائش سے سیکھ کر آتی ہے اس پر فرعون نے کہا کہفَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى اگر یہ بات ہے تو ہمارے باپ دادے جو ان باتوں سے ناواقف تھے ان
کا تو بُراحال ہوگا.اس طرح اس نے لوگوں کو اشتعال دلانا چاہا اور وہی حربہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے انبیا ء کے مخالف استعمال کرتے چلے آرہے ہیں دنیا میں عام طورپر سچائی کے مقابلہ میںلوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتاہے کہ اگر تم سچے ہو توپھر ہمارے باپ دادے تو جھوٹے اور جہنمی ہوئے اور جب کسی بات کے ساتھ جذبات مل جاتے ہیں تو دلیل لوگوں کی نگاہ سے غائب ہوجاتی ہے.مثلاً جب توحید کی تبلیغ کی جارہی ہو تو ایک بت پرست فوراً کھڑاہو جاتا ہے اور کہتاہے سنو یہ توحید کے پرستار کیا کہتے ہیں.یہ کہتے ہیںتمہارے باپ دادے بڑے جاہل تھے بڑے احمق اور نادان تھے جو بتوں کے آگے سر جھکاتے رہے اب کون شخص یہ ماننے کے لئے تیار ہو سکتا ہے کہ اس کے باپ دادا واقعہ میںجاہل تھے آخر کافر کو بھی اپنے ماں باپ سے محبت ہوتی ہے اس لئے وہ یہ برداشت نہیںکرسکتاکہ انہیںبرابھلا کہا جائے پس جب وہ ان کے سامنے شرک کو اس رنگ میں پیش کرتاہے کہ تمہارے باپ دادے اسے مانتے تھے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جاہل اور بے ایمان تھے.تو لوگوں میںاشتعال پیداہو جاتاہے.اور وہ کہتے ہیںیہ ہمارے باپ دادا کو برا بھلا کہتے ہیں انہیںقتل کردو.ان کامال و اسباب لوٹ لو اور انہیںاپنے ملک سے نکال دو ہم اپنے ماںباپ کی ہتک برداشت نہیں کرسکتے.غرض مخالف ہمیشہ اس اشتعال انگیز حربہ سے کام لیتے رہے ہیں.مگر یہ حربہ دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوا فطرت صحیحہ ہمیشہ غالب آتی رہی ہے اور یہ حربہ ناکامیاب ہوتارہا ہے.قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ١ۚ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَ لَا يَنْسَى حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے جواب میں کہا کہ باپ دادوں کا حال تو خدا کومعلوم ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کے حالات کے مطابق معاملہ کرتاہے مجھے کیا معلوم ہے کہ تمہارے باپ دادوںتک کون سی سچائی پہنچی تھی اور کون سی سچائی نہیںپہنچی یایہ کہ ان پر حجت تمام ہوئی تھی یا نہیں.جزاسزا تو پورے حالات کے علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور وہ صرف خدا کو ہے پھر میںاس بارہ میں کیا کہہ سکتاہوں جو حقیقت سے بے خبر ہوں.اسی امر کے متعلق بانی سلسلہ احمدیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ جزا سز ا اتمام حجت سے تعلق رکھتی ہے اور اتمام حجت کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے.بندہ اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا.چنانچہ جب آپ پر بعض شریروں نے الزام لگایا کہ آپ اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں.توآپ نے اس سے صاف انکار کیا اور فرمایا کہ میں تو خادم ہوں میرا عقیدہ تو اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ہے کہ ان کے نہ ماننے والوںمیںسے بھی وہی دوزخی ہوںگے جن پرحجت تمام ہوچکی ہوگی.چنانچہ آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میںتحریر فرمایا کہ.
’’ ڈاکڑ عبد الحکیم خان اپنے رسالہ المسیح الدجال وغیرہ میں میرے پر یہ الزام لگاتاہے کہ گویا میںنے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص میرے پر ایمان نہیںلائےگا گو وہ میرے نام سے بھی بے خبر ہوگا اور گووہ ایسے ملک میں ہوگا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی تب بھی وہ کافر ہوجائےگا اور دوزخ میں پڑے گا.یہ ڈاکٹر مذکور کاسراسر افتراء ہے.میں نے کسی کتاب یا کسی اشتہار میںایسا نہیں لکھا.اس پرفرض ہے کہ وہ ایسی کوئی میری کتاب پیش کرے جس میں یہ لکھا ہے.یاد رہے کہ اس نے محض چالاکی سے جیسا کہ اس کی عادت ہے یہ افتراء میرے پر کیا ہے.یہ تو ایسا امر ہے کہ بالبداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کرسکتی.جو شخص بکلی نام سے بھی بے خبر ہے اس پر مواخذہ کیونکر ہو سکتا ہے....ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی ہے کہ جس شخص کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپ کی بعثت سے مطلع ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارہ میں اس پرا تمام حجت ہوچکا ہے وہ اگر کفر پر مرگیا توہمیشہ کی جہنم کا سزاوار ہوگا اورا تمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے.ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر محمول ہیںاس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیںہوگا ‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۸۴،۱۸۵ ) الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا وَّ سَلَكَ لَكُمْ فِيْهَا (وہی ہے ) جس نے تمہارے لئے اس زمین کو فرش کے طورپر بنایا ہے.اور اس میںتمہارے لئے راستے بھی سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ؕ فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نکالے ہیں.اور آسمان سے پانی اتاراہے.پھر(تو ان سے یہ بھی کہہ دے کہ ) ہم نے اس پانی کے ذریعہ سے نَّبَاتٍ شَتّٰى ۰۰۵۴كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ مختلف قسم کی روئید گیوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں.(پس ) تم بھی کھاؤ او راپنے جانوروں کو بھی چرائو اس میں
لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى ؒ۰۰۵۵ عقل والے لوگوں کے لئے بہت سے نشان ہیں.حل لغات.شتّٰی.شَتَّی الشَّتِیْت کی جمع ہے جس کے معنے ہیں الْمُفَرَّقُ.مختلف اور متفرق (اقرب ) تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو یہ جواب دینے کے بعد کہ جزا سزا دینے والا تو صرف خداہے جس کو سب باتوں کا علم ہے پھر میںتمہیں کیا بتاسکتاہوں اسے سمجھانے کی کوشش کی اور فرمایا کہ دیکھو.اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ایسابنایا ہے کہ اس سے انسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکتاہے اور پھر سفر کے ایسے طریق نکالے ہیںکہ ان کے ذریعہ سے وہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک جاسکتاہے اور اس نے آسمان سے پانی اتارا ہےتاکہ زمین اپنی روئیدگی نکالے.پھر اس پانی سے وہ مختلف قسم کی روئیدگیا ں نکالتاہے.تاکہ تم بھی کھائواور تمہارے جانور بھی کھائیں.پھر تم کیوں نہیں سمجھتے کہ اسی طر ح خدا تعالیٰ آسمان سے روحانی پانی بھی اتارتاہے یعنی وحی اور اس سے مختلف روحانی علوم پیدا کرتاہے تاکہ جو اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیںوہ بھی اس سے فائدہ اٹھائیںاور جو ادنیٰ یعنی چارپایوں کی طر ح ہیںوہ بھی اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھائیں.اگر کوئی سوچنے والا ہو تو اس مثال سے وہ بہت کچھ فائدہ اٹھاسکتا ہے یعنی جس طرح مادی پانی آسمان سے نازل ہوتاہے اسی طرح روحانی پانی یعنی الہام الٰہی بھی آسمان سے نازل ہوتاہے اور اس کے ذریعہ سے بھی آدمیوں اورجانوروں کی غذامہیا کی جاتی ہے یعنی ان لوگوں کی غذابھی جو اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتے ہیںاوران لوگوں کی غذابھی جن کی روحانی حالت کمزور ہوتی ہے.فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ نباتات کے جوڑے ہیں.اس مسئلہ کاسوائے چند ایک چیزوں مثلاً کھجور کے آج سے سو سال قبل کسی کو علم نہیںتھا مگر اب بے شمار نباتی چیزوں کے جوڑے ثابت ہوچکے ہیںجو قرآن کریم کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے.مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً ہم نے اسی (زمین)سے تم کوپیدا کیاہے اور اسی میںتم کولوٹادیں گے.اور اسی میں سے تم کودوسری اُخْرٰى۰۰۵۶ دفعہ نکا لیں گے.تفسیر.گذشتہ آیات میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس مکالمہ کا ذکر ہے جوان کافرعون کے ساتھ ہوا
.اس مکالمہ کے دوران میںانہوں نے خدا تعالیٰ کے متعلق اپنا عقیدہ نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا اب اس کے بعد فرماتا ہے.مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى یعنی ہم نے تمہیںاسی زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی زمین میںتمہیںمرنے کے بعد لوٹائیں گے اورپھر اسی زمین سے تم کو دوبارہ نکال کر کھڑاکریںگے.یہ وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمائی کہ فرعون کی قوم ستارہ پرست تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ستاروں سے روحیں اترتی اورجنم لیتی ہیںاور پھر وہیںچلی جاتی ہیں(انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس زیر لفظ The Eygption Religion).اسی عقیدہ کے ماتحت ہند وستان میں سورج بنسی اور چندر بنسی قومیں بنیں جن کے ناموں میںاس طرف اشارہ تھا کہ چاند اور سورج سے جن روحوں نے اتر کر جنم لیا ان کے خاندانوں کے یہ نام ہیں.پس چونکہ ان کا عقیدہ تھاکہ دنیاکے کاروبار کا تعلق ستاروں سے ہے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے خداہی سب کچھ کرتاہے او ر اسی کے قبضہ و تصرف میں تمام ارواح ہیں.اس آیت سے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات بھی ثابت ہوتی ہے.کیوں کہ اس میںبتایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی اس کی موت اور اس کادوبارہ بعث اسی زمین سے وابستہ ہے.پس جب یہ ایک مسلمہ قانون ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں.وَ لَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ اَبٰى ۰۰۵۷قَالَ اَجِئْتَنَا اورہم نے اس (یعنی فرعون) کو اپنے ہر قسم کے نشان دکھائے مگر( باوجود ان کے )وہ جھٹلانے پر مصر رہا اور انکار لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى۰۰۵۸ کرتا چلاگیا اورکہنے لگا اے موسیٰ کیا تو اس لئے ہمارے پاس آیا ہے تاکہ اپنی سحربیانی کے ذریعہ سے ہم کو ہماری زمین سے نکال دے.تفسیر.اس میںفرعون موسیٰ کی ایک اور چالا کی کا ذکر کیا گیا ہے.وہ یہ نہیںکہتاکہ موسیٰ مجھ کوتخت حکومت سے الگ کر کے خود اس پرقبضہ کرناچاہتاہے بلکہ وہ اسے ایک قومی سوال بنا کر کہتاہے کہ کیا تو اس لئے آیاہے کہ اپنی چالوں سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال دے.گویا اس نے چاہا کہ ملک کے تمام باشندوں کو موسیٰ ؑکے خلاف بھڑکا دے اور انہیں جوش دلائے کہ موسیٰ تمہیںنکال کر اپنی قوم کی حکومت قائم کرنا چاہتاہے اس وقت فرعون کی حکومت مصر
پر اسی طرح تھی جس طرح انگریز ایک مدت تک ہندوستان پرحکمران رہے ہیں.اس لئے اس نے اصل باشندوں کو بھی بھڑکا نا ضروری سمجھا تاکہ موسیٰ ؑکی مخالفت ایک قومی مسئلہ بن جائے.فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ مَوْعِدًا (اگر یہ بات ہے) تو ہم بھی تیرے مقابلہ میں ویسا ہی جادو لائیں گے.پس ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَاۤ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۰۰۵۹ وقت اور مقام موعود مقرر کر نہ اس سے ہم پیچھے ہٹیں اور نہ تو ہٹے.وہ (ایک ایسا) مکان( ہو جو) ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہو.حلّ لُغَات.لَانُخْلِفُہُ.اَخْلَفَ سے ہے اور اَخلَفَہُ مَا وَعَدَہُ کے معنے ہیں قَالَ شَیْئًاوَلَمْ یَفْعَلْہُ یعنی کسی بات کے کرنے کا وعدہ کیا اور پھر نہ کیا (اقرب ) پس لَانُخْلِفُہُ کے معنے ہوںگے.ہم وعدہ کے خلاف نہیں کریںگے.سُوًی کے معنے ہیں اَلْعَدْلُ.برابر.الوسط.درمیانہ (اقرب) اور لَانُخْلِفُہ نَحْنُ وَلَااَنْتَ مَکَانًا سُوًی میں مَکَا نًا سُوًی کے معنے ہیں مُعْلَمًا ایْ ذَامَعْلَمٍ.یعنی ایسی جگہ جس تک پہنچنے کے نشانات کا سب کو علم ہو گویا ایسی مشہو رجگہ جس کو سب جانتے ہوں.(اقرب) تفسیر.معلوم ہوتاہے فرعون موسیٰ مکہ کے لوگوں کی نسبت زیادہ منصف تھا.اسی طرح آجکل کے بعض مولویوں کی نسبت بھی اس میںزیادہ انصاف پایا جاتا تھا.کیونکہ وہ موسیٰ ؑ کے مشورہ سے مقابلہ کے لئے ایسی جگہ مقرر کرتاہے جہاں فساد کا کوئی خطرہ نہ ہو اور موسیٰ ؑ اور فرعون کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں.لیکن آج کل کے مولوی یا پادری جس سے اختلاف ہوتا ہے اسے ایسی مجلس میںبلاتے ہیں جس میں ان کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو تاکہ فساد ہو اور وہ اپنے دشمنوں کو مار پیٹ سکیں.
قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَ اَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ۰۰۶۰ (اس پر موسیٰ نے) کہا کہ تمہارے (ہمارے) اکٹھے ہونے کا دن (تمہاری) عید کا دن ہو.اور نیز ہ بھر سورج چڑھے سب لوگوں کو جمع کیا جائے.تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسی جگہ تجویز ہو جوفریقین کے لئے مساوی ہو اس لئے انہوں نے کہا مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَ اَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى کہ زینت یعنی عید کا دن ہوناچاہیے.یہ ان کا ایک مقدس دن تھا جس میں کسی پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جیسے عربوں میں حج کے ایام مقدس سمجھے جاتے ہیں پھر صبح کا وقت مقرر کیا گیا یہ بھی بہت اچھا وقت تھا کیونکہ دن میں کام کرنے کی وجہ سے لوگوں کے دماغ تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور اچھی طرح توجہ پیدا نہیں ہوسکتی لیکن صبح کے وقت دماغ تازہ ہوتاہے اس لئے بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے.فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهٗ ثُمَّ اَتٰى ۰۰۶۱قَالَ لَهُمْ اس پر فرعون پیٹھ پھیر کر چلا گیا اور جو تدبیر یں اس سے ممکن ہوسکتی تھیں انکو مہیا کیا.اور پھر (موسیٰ کی طرف) لوٹا.مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ (تب) موسیٰ نے ان سے کہااے لوگو ! تم پر ہلاکت ہو.اللہ پر جھوٹ نہ باندھو.ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو عذاب کے بِعَذَابٍ١ۚ وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى۰۰۶۲فَتَنَازَعُوْۤا اَمْرَهُمْ ذریعہ سے پیس ڈالے.اور جوکوئی (خدا پر) افتراء کرتاہے وہ ناکام ہو جاتا ہے.یہ سن کر (فرعون اور اس کے ساتھی) بَيْنَهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰى ۰۰۶۳قَالُوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ آپس میں جھگڑنے لگے اور خفیہ منسوبے کرنے لگے.(اور) انہوں نے کہا یہ دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون) اور کچھ
يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ بھی نہیں صرف جادوگر ہیں(جو) یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہاری زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں.يَذْهَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ۠ الْمُثْلٰى ۰۰۶۴ اور تمہارے اعلیٰ درجہ کے مذہب کو تباہ کردیں.حلّ لُغَات.یُسْحِتَکُمْ.اَسْحَتَسے مضارع کا صیغہ ہے اور اَسْحَتَ کے معنے ہوتے ہیں اِسْتَأْصَلَہٗ اس کوجڑ سے اکھیڑدیا (اقرب ) پس یُسْحِتَکُمْ کے معنے ہوںگے تم کو ہلاک کردےگا.جڑ سے اکھیڑ دےگا.ألْمُثْلی کے معنے افضل.اعلیٰ (اقرب) تفسیر.قَالُوْۤا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یہ فرعون کے ساتھیوں کا قول ہے جنہوں نے لوگوں کو جوش دلانے کے لئے کہا کہ یہ تو چاہتے ہیں کہ تم کو اپنے فریب سے ملک سے نکال دیں اور تمہارا مذہب جو سب سے افضل ہے اس کو مٹادیں گویا دنیوی اور مذہبی دونوں طریق سے انہوں نے لوگوں کو اشتعال دلانا چاہا.فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا١ۚ وَ قَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ پس چاہیے کہ تم بھی اپنی تدبیریں سوچ لو پھر سب کے سب ایک جماعت کی شکل میں آئو اور جو( شخص) آج جیتے گا اسْتَعْلٰى ۰۰۶۵ وہ ضرور بامراد ہوگا.تفسیر.آج کل دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس غلط فہمی میںمبتلا ہے کہ اچھے مقصد کے لئے خواہ کیسے ہی ناجائز ذرائع استعما ل کرنے پڑیں جائز ہوتے ہیں حالانکہ ناجائز ذرائع کے ساتھ کسی چیز کے حصول کی کوشش ہی اس بات کاثبوت ہوتاہے کہ اس چیز کا صداقت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیںیہی حربہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے استعمال کیا اور لوگوں کو اکسایا کہ تم سے جو کچھ دھوکا اورفریب ممکن ہو اس سے کام لو اور جس قدر چالبازی کرسکتے ہوکرو تمہارا مقصد یہ ہے کہ تم نے موسیٰ پرغلبہ حاصل کرنا ہے پس یہ مت دیکھو کہ تمہاری تدابیر کیسی ہیں یہ دیکھو کہ تم نے کامیاب
ہونا ہے پس جس قدر تدابیر اختیار کر سکتے ہو اختیار کرو.قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِيَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ ( اس پر ان لوگوں نے جن کو موسیٰ کے مقابلہ کے لئے فرعون نے جمع کیا تھا) کہا کہ اےموسیٰ یاتو (اپنی تدبیر) پھنک اَلْقٰى ۰۰۶۶ یعنی ظاہرکر یاہم تجھ سے پہلے پھنکیں.تفسیر.ساحر موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے تو تیار ہوگئے.مگر باوجود اس کے کہ فرعون ان کے ساتھ تھا اور اس وجہ سے ان کے اندر کبر اور غرور ہونا چاہیے تھا انہوںنے نہایت ادب کے ساتھ کہا کہ اے موسیٰ بتایئے آپ ابتدا کریں گے یا ہم ابتداء کریں.مثنوی رومی والوں نے اس کے متعلق ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ان کایہی ادب تھا جو ان کے کام آیا اور اللہ تعالیٰ نے جونکتہ نوازہے انہیں دولت ایمان سے بہرہ ور فرما دیا.(مثنوی مولوی معنوی صفحہ ۱۸۵) قَالَ بَلْ اَلْقُوْا١ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ (تب موسیٰ نے) کہا (بہتر یہ ہے) کہ تم اپنی تدبیر پھینکو (یعنی ظاہر کرو) پس انہوں نے جو تدبیر کی اس کے نتیجہ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى۰۰۶۷ میں ان کی رسیاں اور ان کے سونٹے موسیٰ کو ان کے فریب کی وجہ سے یوں نظر آئے گویا کہ وہ دوڑ رہے ہیں.تفسیر.فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى سے معلوم ہوتاہے کہ جادو گروںکی ان رسیوں اور سونٹوں میں یا تو پارہ تھا یا لچک دار پیچ تھے جن کے دبانے کی وجہ سے وہ ہلنے لگ جاتے تھے.یورپ سے آجکل ایسی چیزیں بہت کثرت سے آتی ہیں.معلوم ہوتاہے کہ مصر میں بھی ایسی صنعت جاری تھی اور اسی کو جادوگروں نے مقابلہ کے لئے اختیار کیا.
فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى۰۰۶۸قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اور موسیٰ اپنے نفس میں پوشیدہ طور پر ڈرا.(تب) ہم نے وحی کی (اے موسیٰ) مت ڈر.کیونکہ تو ہی غالب آئے گا.اَنْتَ الْاَعْلٰى ۰۰۶۹وَ اَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا١ؕ اور جو کچھ تیرے دائیں ہاتھ میں ہے اس کو زمین پر ڈال دے جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس سب کو وہ نگل جائے گا اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ١ؕ وَ لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى ۰۰۷۰ (یعنی اس کا بھانڈا پھوڑ دیگا)انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ تو فریب کاروں کا ایک فریب ہے اور فریب کار جس طرف سے بھی آئے (خدا کے مقابلہ میں ) کامیاب نہیں ہو سکتا.حلّ لُغَات.اَوْجَسَ الرَّجُلُ اِیْجَاسًا کے معنے ہوتے ہیں اَحَسَّ وَاَضْمَرَ.محسوس کیا اور چھپایا.(اقرب) خِیْفَۃً کے معنے ہیں اَلْحَالَۃُالَّتِیْ یَکُوْنُ عَلَیْھَا الْاِنْسَانُ مِنَ الْخَوْفِ وہ حالت جوخوف کی وجہ سے انسان پرطاری ہوتی ہے (اقرب) تَلْقَفُ لَقِفَ سےہے اور لَقِفَ الشَیْءَکے معنے ہوتے ہیں تَنَاوَلَہ بِسُرْعَةٍ کسی چیز کو جلدی سے لے لیا (اقرب) پس تَلقَفُ کے معنے ہوںگے جلدی سے نگل لے گا.تفسیر.اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام کے ذریعہ بتادیا کہ ان چیزوں کے اندر پیچ ہیں اور کچھ نہیں.ان پر زور سے سونٹامار وہ پیچ ٹوٹ جائیں گے اوران کی حرکت بند ہوجائےگی اور اس طرح معنوی طورپر تیر ا سونٹاان کی رسیوں اور سانپوں کی نگل جائے گا.یعنی ان کافریب لوگوں پر ظاہر کردےگا.فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى۰۰۷۱ پس( جب موسیٰ کے سونٹاڈالنے کے بعد فرعون کے لائے ہوئے )چالباز (اپنی کمزوری سمجھ گئے تو وہ اپنی ضمیر کی آواز سے) سجدہ میںگرائے گئے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسی ٰکے رب پر ایمان لاتے ہیں.تفسیر.اُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا بڑامعنے خیز فقرہ ہے.جو بتاتاہے کہ جادو گروں کی شکست اتنی واضح تھی کہ
یوں معلوم ہوتاتھا کہ کسی خفیہ طاقت نے ان کے پائوں تلے سے زمین نکال لی ہے.چنانچہ وہ سجدہ میں گر گئے.اور چونکہ اپنی شکست سے ان کو یقین ہوگیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کا رب ان کی تائید میں ہے اس لئے فوراًکہہ اٹھے کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى.ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں.قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ١ؕ اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ (اس پر فرعون نے )کہا کیا تم میرے حکم سے پہلے ہی اس پر ایمان لاتے ہو (معلوم ہوگیا کہ ) وہ تمہارا سردار ہے الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ١ۚ فَلَاُقَطِّعَنَّ۠ اَيْدِيَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ جس نے تم کو یہ چالاکیاں سکھائی ہیں پس (اس فریب کی سزا میں)میں تمہارے ہاتھ اور پائوں( اپنی) اپنی خلاف ورزی مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ١ٞ وَ لَتَعْلَمُنَّ کی وجہ سے کاٹ دونگا.اور (میں تم کو )کھجور کے تنوں سے باندھ کر صلیب دے دوں گا.اور تم کو معلوم ہوجائے گا اَيُّنَاۤ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰى ۰۰۷۲ کہ ہم میںسے کون زیادہ سخت اور دیر پاعذاب دے سکتاہے.حلّ لُغَات.مِنْ خِلَا فٍ مِنْ خِلَافٍ کے معنے ہیں اِحْدَاھُمَا مِنْ جَانِبٍ وَالْاُخْرٰی یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کاپائوں (مفردات)اور مِنْ خِلَافٍ کے معنے مخالفت کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں.(مفردات) تفسیر.فرعون کا دعویٰ تو یہ تھا کہ ہم ایسے لوگ بلائیں گے جوموسیٰ ؑ سے بڑے ہوںگے مگر جب ساحر شکست کھا کر موسیٰ کے قدموں میں گر گئے تو فرعون کو سخت غصہ آیا اور اس نے اپنی ذلت چھپانے کے لئے ان سے کہا کہ تم میرے کہنے سے پہلے ہی کیوں ایمان لے آئے.اب میںتمہیںاس کی سزا دوںگا.مِّنْ خِلَافٍ کے یہ معنے ہیںکہ خلاف ورزی کی وجہ سے یا یہ کہ ایک ہاتھ اور ایک پائوں مختلف اطراف سے کاٹوں گا.مثلاً دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں یہ اس لئے کیا جاتاتھا تاکہ انسان بالکل ناکارہ ہوجائے.
قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَ الَّذِيْ اس پر انہوں نے (یعنی فرعون کے پہلے ساتھیوں یاساحروں نے) کہاہم تجھ کو ان نشانات پر فوقیت نہیںدے سکتے فَطَرَنَا فَاقْضِ مَاۤ اَنْتَ قَاضٍ١ؕ اِنَّمَا تَقْضِيْ هٰذِهِ جو (خدا کی طرف سے )ہمارے پاس آئے ہیںاور نہ اس( خدا)پر جس نے ہم کو پیدا کیا.پس جو تیرازور لگتاہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاؕ۰۰۷۳اِنَّاۤ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا وَ مَاۤ لگالے.تو صرف اس دنیا کی زندگی کو ختم کرسکتاہے.ہم( اب) اپنے رب پر ایمان لاچکے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوںکو اَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ١ؕ وَ اللّٰهُ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ۰۰۷۴اِنَّهٗ معاف کردے اور اس دھوکا بازی (کے مقابلہ) کو بھی معاف کردے جس کے لئے تو نے ہم کو مجبور کیا تھا.اور اللہ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ١ؕ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا سب سے بہتر اور سب سے زیادہ قائم رہنے والا ہے حقیقت یہ ہے کہ جوکوئی شخص اپنے رب کے پاس مجرم کی وَ لَا يَحْيٰى ۰۰۷۵وَ مَنْ يَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ حیثیت سے حاضرہوتاہے اسے یقیناً جہنم ملتی ہے.نہ وہ اس میںمرتاہے اور نہ زندہ رہتاہے.اور جو شخص فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰى ۙ۰۰۷۶جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مومن ہونے کی حالت میں جبکہ وہ ساتھ ساتھ مناسب حال عمل بھی کرتاہوگا اس( یعنی خدا تعالیٰ )کے پاس آئےگا مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تو ایسا ہر شخص اعلیٰ درجے پائےگا.(وہ درجے) ہمیشہ رہنے والے باغات (ہوںگے) جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی
تَزَكّٰى ؒ۰۰۷۷ (اور) وہ ان میںرہتے چلے جائیں گے اور یہ ان شخص کا مناسب بدلہ ہے جو پاکیزگی اختیار کرتاہے.تفسیر.وہی جادوگر جو پہلے فرعون سے بھیک مانگ رہے تھے ایمان نصیب ہوتے ہی اتنے دلیر ہوگئے کہ فرعون کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اسے کہہ دیا کہ ہم تیری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہم تو اسی بات کو مانیںگے جو ہمارے خد ا کی طرف سے آئےگی تو اگر کچھ کر سکتاہے تو یہی کہ دنیا کی زندگی کو منقطع کردے سو بے شک کردے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہمیں خوشی ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے ہمیں حق کی شناخت کی توفیق عطافرما دی ہے اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیںکفر کی طرف واپس نہیںلوٹاسکتی.حقیقت یہ ہے کہ اگر ایمان کامل کسی کو نصیب ہو جائے تو پھر دنیا کی مشکلات اور دنیا کی تکالیف اس کی نگاہ میںبالکل بے حقیقت ہوجاتی ہیںاحادیث میںایک واقعہ بیان ہوا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ ایمان کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور جب وہ کسی شخص کو سچے طور پر حاصل ہوجائے تو اس کی نگاہ میںدنیا کتنی بے حقیقت ہوجاتی ہے احد کی جنگ میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کے نتیجہ میںلوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں.تمام مدینہ میںایک کہرام مچ گیا.اور عورتیں اور بچے بلبلاتے اور چیختے ہوئے میدان جنگ کی طرف دوڑپڑے شہر سے نکلنے والی عورتوں میں ایک ستر سالہ بڑھیا بھی تھی اس کی بینائی اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ دور کی چیز کو وہ نہیںدیکھ سکتی تھی اور قریب آجانے پر بھی وہ زیادہ تر دوسرے کو اس کی آواز سے ہی پہچانتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت میدان جنگ سے بخیرت واپس تشریف لا رہے تھے اور آپ کی خاص طورپر حفاظت کرنے کے لئے ایک انصاری صحابی ؓ آپ کے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے.اور وہ اس فخر میں آپ کے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے تھے کہ ہم خداکے رسول کو میدان جنگ سے زندہ و سلامت لے آئے ہیں.ان کے ایک دوسرے بھائی اسی جنگ میں شہید ہوچکے تھے جب مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک ریلا روتا اور بلبلاتاہو انکل رہا تھا تو اس صحابیؓ نے دیکھا کہ ان کی سترسالہ بڑھیا ماں بھی بے تابی کے ساتھ چلی آرہی ہے اس نابینا بڑھیا کے قدم لڑکھڑارہے تھے اسے رستہ نظرنہیں آتا تھا.اور وہ پریشانی کے عالم میںادھر ادھر دیکھ رہی تھی.جب اس صحابی ؓ نے اپنی ماں کو دیکھاتو انہوں نے کہا.یارسول اللہ ! میری ماں یارسول اللہ !میری ماں ! مطلب یہ تھاکہ اس کا جوان بیٹااس بڑھاپے کی عمر اورکمزوری میں مارا گیا ہے.آپ اس کی طرف توجہ فرمائیں تاکہ اس کے دل کوتسکین حاصل
ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمبھی اس بات کو سمجھ گئے.وہ بڑھیا قریب آئی تو آپ نے فرمایا.میری اونٹنی کو کھڑاکرو.پھر آپ نے اس عورت کو مخاطب کیا اور فرمایا.اے خاتون !میں تمہارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتاہوں.کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے بیٹے کو شہادت کا مرتبہ دیا وہ تمہیںصبر دے اور تمہارے اس غم کو دور کرے.نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ عورت حیران ہوئی کہ یہ آواز مجھے کہاںسے آرہی ہے وہ تو یہی سمجھتی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں اور آواز تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھتے دیکھتے اس کی نظر آپ کے چہرہ پر پڑ گئی.اور اس نے پہچان لیا کہ آپ ہی ہیںاور آپ ہی اس وقت مجھ سے بول رہے ہیں.تو جیسے عورت خفگی میں بولتی ہے بڑی تنک کر کہنے لگی.یارسو ل اللہ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیںیارسول اللہ آپ زندہ آگئے میرے بیٹے کا یہاں کیا ذکر ہے.سوال تو آپ کی زندگی کا تھا.سو الحمدللہ کہ آپ خیریت سے آگئے.(سیرة النبی الابن ہشام جلد ۳ شأن المرأة الدیناریة ) تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کوخدامل جائے اور اگر اپنے ایمان کے نتیجہ میں اور ہرقسم کے خطرات کو مول لینے کے بعد خدا کا دامن ہمارے ہاتھ میںآجائے توہمیں بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیںہوسکتی رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ اگر کسی شخص کو سچے دل کے ساتھ حلاوت ایمان نصیب ہو جائے تو وہ اس کے بعد اگر اس کو آگ میںبھی ڈال دیا جائے تو وہ اس کو بہت زیادہ پسند کرےگا بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے عقیدہ کو چھوڑدے.(بخاری کتاب الایمان باب من کرہ ان یعود فی الکفر) ایک اور حدیث میںآتاہے کہ پرانے زمانہ کی امتوںمیںسے جن کو ایمان نصیب ہوتا تھا لوگ ان کے سروں پر آرے رکھ کر انہیںچیر دیتے تھے اور وہ کٹ کر دوٹکڑے ہوجاتے تھے لیکن اپنے ایمان پر قائم رہتے تھے(مسند احمد بن حنبل مسند البصر بین ).صحابہ ؓ میں بھی اس کی نظیریں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں.حضرت بلال ؓ کو ہی دیکھ لو.انہیںبھوکا رکھاجاتا تھا اس کے بعد ان کو تپتی ہوئی ریت پر لٹاتے.بڑا ساگرم پتھر ان کے سینہ پررکھتے اور پھر ایک آدمی ان کے سینہ پر چڑھ جاتااور کودتااور کہتاکہو محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں اورلات مناۃ اورعزیٰ خداکے شریک ہیں.زبان ان کی لٹک جاتی تھی گلاان کا خشک ہوجاتا تھا مگر وہ یہی کہتے جاتے تھے کہ اَشْھَدُاَنْ لَااِلَہَ اِلَّا اللہُ اور جب بالکل ہی بے دم ہو جاتے تو فرماتے اَحَدٌ اَحَدٌ یعنی خداایک ہی ہے(اسد الغابة معرفة الصحابة حضرت بلال بن رباح).غرض اس قربانی کا صحابہؓ نے جو نمونہ د کھایا تاریخ اس کے ذکر سے بھری پڑی ہے.یہی نمونہ ان جادوگروں نے دکھایا اور فرعون سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم تیری بات سننے کے لئے تیار
نہیں.ہم تو اسی بات کو مانیں گے جو ہمارے خدا کی طرف سے آچکی ہے اورجس کی صداقت کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہیں.وَ لَقَدْ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى١ۙ۬ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ اورہم نے موسیٰ کو وحی کی تھی کہ میرے بندوں (یعنی اپنی قوم) کو رات کے اندھیرے میں نکال کر لے جا پھر فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا١ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا ان کو سمندر میں ایک راستہ بتاجو خشک ہو.نہ تم کو یہ ڈر ہوگا کہ کوئی (شخص) آکر پیچھے سے پکڑلے اور نہ تم وَّ لَا تَخْشٰى۰۰۷۸فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِيَهُمْ (سمندر کی تباہی سے) ڈرو گے.(اس پرموسیٰ اپنی قوم کولےکر سمندر کی طرف گئے) اور فرعون اپنے لشکر لےکر ان کے مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْؕ۰۰۷۹وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهٗ وَ مَا پیچھے پیچھے چلا اورسمندر نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو بالکل ڈھانپ لیا.اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا هَدٰى ۰۰۸۰ اور ہدایت کا طریق نہ بتایا.تفسیر.فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ ہمارے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے نکال لے جائو.اور سمندر میں سونٹا مار کر ان کے لئے خشک راستہ بنادو تم اس طرح اس کو پار کرلو گے اور تعاقب سے اور ڈوبنے سے نہ ڈرو گے.پھر فرعون نے اپنے لشکروں سمیت بنی اسرائیل کا تعاقب کیا لیکن سمندر کا ایسا ریلا آیا کہ وہ غرق ہوگئے اور یوں فرعون نے اپنی قوم کو تباہی میںڈالا اور اس سے بچ نہ سکا.ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو فرعونیوں نے ان کا تعاقب کیا.جب وہ قریب پہنچے تو بنی اسرائیل گھبراگئے خدا تعالیٰ نے ان کو تسلّی دی اور موسیٰ ؑسے کہا کہ سمندر پر سونٹا ماریں.ان کے سونٹامارنے سے سمندر میں ایک راستہ ہوگیا اور دونوں طرف پانی اس طرح معلوم ہوتاتھا جس طرح ریت کے ٹیلے
جب وہ اس میں سے گذرگئے توان کے بعد فرعونیوں نے بھی گذرنا چاہا مگر اتنے میںپانی واپس آگیااور وہ سمندر میں غرق ہوگئے.قرآن کریم میں اس واقعہ کے متعلق دولفظ استعمال کئے گئے ہیں.ایک فَرَقَ(البقرۃ:۵۱) اور ایک اِنْفَلَقَ (الشعراء:۶۴).جس کے معنے جداہوجانے کے ہیںپس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق اس واقعہ کی یہی تفصیل ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گذرنے کے وقت سمندر کنارہ سے ہٹ گیا تھااور جوخشکی نکل آئی تھی اس میںسے بنی اسرائیل گذرگئے تھے.اور بحیرئہ احمر کے اس کنارہ پرجس پر سے موسیٰ ؑگذرے یہ نظارہ عموماً نظر آتارہتاہے چنانچہ لائف آف نپولین میں بیان کیا گیا ہے کہ جب نپولین مصر گیا تو وہ اس جگہ کو دیکھنے گیا جس کی نسبت روایت میںہے کہ وہاں سے مصری گزرے تھے اس وقت لہر پیچھے کو ہٹی ہوئی تھی.وہ ایشائی کنارہ کی طرف چلا گیا.اور مختلف چیزوں کے دیکھنے میں اس کا بہت سا وقت لگ گیا.جب وہ واپس لوٹنے لگا تو رات آگئی اور یہ جماعت راستہ بھول گئی.رات کی تاریکی بڑھ گئی اورگھوڑے زیادہ سے زیادہ پانی کی اونچی ہونے والی لہروں میں دھنسنے لگے.حتیٰ کہ پانی گھوڑوں کے تنگوں تک پہنچ گیا.اور ہلاکت یقینی ہوگئی.اس مصیبت سے نپولین نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو اسی نہ گھبرانے والی طبیعت کے ذریعے سےنکالا جو اسے کسی موقعہ پر بھی چھوڑتی نہ تھی.گھوڑے آد ھی رات کے وقت جاکر کہیں پانی سے باہر نکلے جب کہ وہ چھاتی تک پانی میں ڈوبے ہوئے تھے.اس کنارہ پر لہر بائیس فٹ تک اونچی اٹھتی ہے.نپولین نے باہر نکل کر کہا کہ.’’اگر میں اس طریق پر فرعون کی طرح غرق ہوجاتا توتمام مسیحی پادریوں کو میرے خلاف وعظ کرنے کا ایک اچھا مصالحہ مل جاتا.‘‘ (THE LIFE OF NEPOLEON BONAPART BY JEAN S.C.ABBOT P.96 97) اس واقعہ میں معجزہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزرکا وقت تھا اور اس نے مصریوں کے راستہ میں اس قسم کی رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں جن سے ان کی رفتار سست ہو گئی.یہاں تک کہ پانی کے لوٹنے کا وقت آگیا.بائیبل میں لکھا ہے کہ خدا نے ’’ ان کے رتھوں کے پہئیوں کو نکال ڈالا سو ان کا چلانا مشکل ہوگیا‘‘ (خروج باب ۱۴ آیت ۲۵ ) معلوم ہوتاہے کہ فرعون جب سمندر پر پہنچاہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا جس سے وہ گذر رہے تھے اکثر حصہ طے کر چکے تھے.فرعون نے ان کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اس میں اپنی
رتھیں ڈال دیں مگر سمندر کی ریت جو گیلی تھی اس کی رتھوں کے لئے مہلک ثابت ہوئی.اور اس کی رتھیں اس میں پھنسنے لگیں اور اس قدر دیر ہوگئی کہ مد کا وقت آگیا.اور پانی بڑھنے لگا اب نہ وہ آگے بڑھ سکتاتھا.اور نہ پیچھے ہٹ سکتاتھا.نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر نے اسے درمیان میں آلیا اور وہ اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق ہوگئے.يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَ اے بنی اسرائیل ! ہم تم کو تمہارے دشمن سے نجات دے چکے ہیںاور اس کے بعد ہم تم سے طور کے دائیں طرف وٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَ ایک بالمقابل وعدہ کر چکے ہیں.اور ہم نے تم پر ترنجبین اور بٹیر بھی اتارے تھے (تاکہ تمہارے لئے خوراک مہیا السَّلْوٰى ۰۰۸۱كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِيْهِ کریں)(اور کہا تھاکہ) جو کچھ ہم نے تمہیںدیا ہے اس میں سے پاک چیزیں کھائو اور اس (رزق) کے بارے میںظلم فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِيْ١ۚ وَ مَنْ يَّحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِيْ فَقَدْ سے کام نہ لیناتاایسانہ ہوکہ تم پر میرا غضب نازل ہوجائے اورجس پر میرا غضب نازل ہو وہ (بلند ی سے) هَوٰى ۰۰۸۲وَ اِنِّيْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا گرجاتاہے.اور جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اورپھر مناسب حال عمل( بھی) کرے اور ہدایت پا جائے ثُمَّ اهْتَدٰى ۰۰۸۳ تو میں اس کے (بڑے سے بڑے) گناہ معاف کردیا کرتاہوں.حلّ لُغَات.ألْمَنُّ.مَنَّ یَمُنُّ کا مصد ر ہے.چنانچہ کہتے ہیں مَنَّ عَلَیْہِ بِالْعِتْقِ وَ غَیْرِہٖ یَمُنُّ مَنًّا اَیْ اَنْعَمَ عَلَیْہِ بِہٖ مِنْ غَیْرِ تَعَبٍ وَ لَا نَصَبٍ وَ اصْطَنَعَ عِنْدَہٗ صَنِیْعَۃً وَاِحْسَانًا یعنی دوسرے کو اس کے کسی محنت طلب کام کے بغیر انعام دینا اور اس کے ساتھ نیکی اور احسان کاسلوک کرنا اسی طرح المن کے معنے ہیں
کُلُّ مَایَمُنُّ اللہُ بِہٖ مِمَّا لَا تَعَبٌ فِیْہٖ وَلَا نَصَبٌ یعنی ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو محنت اور مشقت کے بغیر محض اپنے فضل سے عطافرمائے.وہ مَنْ کہلاتی ہے.اسی طرح لکھاہے.کُلُّ طَلٍّ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ عَلیٰ شَجَرٍاَوْ حَجَرٍ وَ یَحْلُوْ وَ یَنْعَقِدُ عَسَلًا وَ یَجِفُّ جَفَافَ الصَّمْخِ کَالسِّیْرَ خُشْت وَالتَّرَنْجَبِیْنِ یعنی ہروہ رطوبت جو آسمان سے درختوں اورپتھروں پر گرتی ہے اور وہ میٹھی ہوتی ہے اور پھر شہد کی طرح گاڑھی ہوجاتی ہے اورگوند کی طرح سوکھ جاتی ہے جیسے شیرخشت اور ترنجبین اسے بھی من کہتے ہیں.(اقرب) السلویٰکے معنے ہیں اَلْعَسَلُ.شہد.کُلُّ مَا سَلَّاکَ ہر وہ چیز جو انسان کی تسلی کا موجب ہو.طَائِرٌ اَبْیَضُ مِثْلُ السُّمَانَی بٹیر یاتلیر کی مانند سفیدپرندے وقِیْلَ السَّلْویٰ اللَّحْمَ اور بعض نے کہا ہے کہ سلوٰی گوشت کو کہتے ہیں (اقرب).مفردات میں لکھاہے کہ السَّلْویٰ اَصْلُھَا مَا یُسَلِّی الْاِنْسَانَ یعنی سلویٰ کے اصل معنے اس چیز کے ہیں جو انسان کو تسلی دلادے.تفسیر.بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر کنعان کی طرف آئے تو جس علاقہ میں سے انہیں گذرنا پڑا وہ بہت غیر آباد تھا اور دور دراز فاصلہ پر بعض شہر آباد تھے.اب تک یہ علاقہ ایسا ہی ہے اور اب بھی اس علاقہ سے گذرنا کوئی آسان کام نہیں بے شک ا س علاقہ میں اب ریل جاری ہوگئی ہے اور سفر میں سہولتیں پیدا ہوگئی ہیںلیکن اس کی غیر آبادی میں اب بھی کوئی فر ق نہیںآیا.کیونکہ یہ علاقہ آبادی کے قابل زمینوں سے خالی ہے.اور بے آب وگیا ہ میدانوں پر مشتمل ہے.ترکوں نے جنگ عظیم میں بہت کوشش کی کہ کسی طرح مصر میں داخل ہوکر انگلستان اور ہندوستان کے تعلقات قطع کردیں لیکن پانی کی دقت اور سامان خوردو نوش کی کمی کی وجہ سے عقلوںکو حیرت میں ڈال دینے والی قربانی کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے.انگریزوں نے بھی شروع میں بہت زور مارا لیکن خشک اور چٹیل میدانوں کی وجہ سے وہ بھی سویز کے راستہ سے فلسطین میں داخل نہ ہوسکے.آخر جنرل ایلنبیؔ نے نیل سے پانی لے کر سویز کے اوپر سے نلوں کے ذریعہ سے پانی گذارا اور اس علاقہ کو جو بڑے شہر وں کے لئے ناقابل تھاقابل سکونت بنادیا.صلیبی جنگوں کے وقت جب فلسطین اورشام کے محاذپر یورپ کی تمام اقوام کے منتخب بہادر اس نیت سے ڈیرے ڈالے پڑے تھے کہ اسلام کے بڑھنے والے سیلاب کو روک دیں اس وقت بھی دشت سینا مسلمانوں اور مسیحیوں سے راستہ دینے کاٹیکس لیتارہا تھا.نویں صدی کے آخر اور دسویںصدی کے ابتدائی حصہ میں نہ معلوم کتنے اسلامی اور مسیحی لشکر پانی نہ ملنے اورکھانے کی کمی کے سبب اس دشت میں تباہ ہوگئے تھے.پانی کی کمی کے سبب گذرنے والے قافلوں کو لازماًان چشموں یا تالابوں کے پاس سے گذرنا پڑتا تھا جو کہیں
کہیں اس دشت میں پائے جاتے تھے اور اس وجہ سے جو فریق بھی غالب ہوتاتھا.اسے دوسرے فریق کے آدمیوں کو مارنے کاایک آسان بہانہ مل جاتاتھا.کیونکہ تھوڑے سے آدمی ان چشموں یاتالابوں پر مقرر کردینے سے بھی اس بات کی کافی ضمانت ہوجاتی تھی کہ حریف کے آدمی نقصان اٹھائے بغیر مصر سے فلسطین کی طرف نہیںجاسکتے.چنانچہ اسامہ بن منقذاپنی کتاب الاعتبار میں لکھتے ہیں کہ الجعفر نامی چشمہ جو مصر اور فلسطین کے درمیان تھا کسی وقت فرنگیوں سے خالی نہیںہوتاتھا.ہمیشہ اس جگہ سے لوگوں کو بچ کر جانا پڑتا تھا.ایک دفعہ انہیںسیف الدین ابن سالار وزیر مصر نے شاہ نورالدین کے پاس بھیجا کہ وہ طبریہ پر حملہ کریں تو ہم مصر سے غزہ پر حملہ کرکے فرنگیوں کو وہاں قلعہ بنانے سے روک دیں.وہ کہتے ہیںکہ ہم الجعفرچشمہ پر پہنچے تو اتفاقاً اس وقت فرنگی وہاں موجود نہ تھے.لیکن طے قبیلہ میں سے بنوابی خاندان کے کچھ لوگ وہاں تھے جن کے جسم پر چمڑے کے سوا گوشت کانام ونشان تک نہ تھا.آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور بالکل بدحال ہو رہے تھے وہ کہتے ہیںمیں نے ان سے پوچھاکہ تم لوگ یہاں کس طرح گذارہ کرتے ہو.انہوں نے جواب دیا کہ مردار کی ہڈیاں ابال کر اس پرگذارہ کرتے ہیں اور کوئی چیز کھانے کی یہاں نہیں ہے.ان کے کتے بھی اسی پر گذارہ کرتے تھے.ہاں گھوڑے چشمے کے ارد گرد کی گھاس پر گذارہ کرتے تھے.اسامہ لکھتے ہیںکہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں اس حالت میں کیوں پڑے ہو.دمشق کی طرف کیوں نہیںچلے جاتے.توانہوں نے جواب دیا کہ اس خیال سے کہ وہاں کی وبائوں سے ہمیں نقصان نہ پہنچے.اسامہ ؔ حیرت کا اظہار کرتے ہیںکہ کیسے بیوقوف لوگ تھے ان کی اس وقت کی حالت سے بڑھ کر وباء کیا نقصان پہنچاسکتی تھی.(کتاب الاعتبارلابن منکز ۶۰۷) غرض دشت سینا ایک ایسا خطرناک علاقہ ہے کہ بڑی جماعتوں کے لئے بھی بغیر خاص انتظام کے اس میں سے گذرنا مشکل ہے اور اس میں قیام کرنا تو اوربھی مصیبت ہے.پھر بنی اسرائیل جن کے بیس سال سے زائد عمر کے نوجوانوں میں سے جنگی خدمت کے قابل مردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے (خروج باب ۱۲ ٓیت ۳۷) (یہ تعدادبائیبل کی روسے ہے ورنہ ہم اس کو صریح غلط سمجھتے ہیں.قرآن کریم اس بارہ میں یہ فرماتا ہے کہ وَھُمْ اُلُوْفٌ (بقرۃ:۲۴۴) وہ ساری قوم اس وقت ہزاروں کی تعدادمیں تھی اور قرآنی بیان ہی عقل کے مطابق اور سچاہے )اور جو بے سروسامانی کی حالت میں مصر سے بھاگے تھے اس علاقہ میں سے کس طرح گذرے اور کس طرح اڑتیس سال تک اس علاقہ میں انہوں نے بسر کیا ؟ یہ ایک ایساسوال ہے جوصدیوں سے دنیا کو حیرت میں ڈال رہاہے.بائیبل نے اس کا جواب من کے نزول اور حورب کی چٹان میں بارہ چشموں کے پھوٹنے کے معجزہ سے دیاہے.وہ بتاتی ہے
کہ اس مظلوم قوم کی خدا تعالیٰ نے مدد کی اور اپنے فضل سے اس نے ان کے لئے کھانے اور پینے کا سامان مہیا کیا.میں اس وقت پانی کی تحقیقات کو چھوڑتاہوں اور صرف من کی تحقیق کی طرف متوجہ ہوتاہوں.بائیبل کا بیان پڑھنے کے بعد طبعاً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ (۱) من کیا چیز تھی ؟ (۲) کیا اس کاوجود معجزانہ تھا ؟ (۳) کیا بنی اسرائیل اسے کھاکر ایک طویل مدت تک زندگی بسر کرسکتے تھے پہلے.سوال کا جواب دیتے وقت خود بخود یہ سوال بھی پیدا ہوتاتھا.کہ اس غذا کو من کانام بنی اسرائیل نے دیا تھا.یا پہلے سے اس کا یہ نام تھا.اگر بنی اسرائیل نے اسے اس نام سے پکارا تو کیوں ؟ کیا اس غذاکی کسی اندرونی خاصیت کی وجہ سے یاکسی او روجہ سے خروج باب ۱۶ آیت ۱۵ میں من کاسب سے پہلے ذکر ہے اس میں لکھاہے کہ جب بنی اسرائیل ایلیم روانہ ہوئے تو راستہ میں خوراک نہ ملنے کے سبب انہوں نے شور مچایا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان سے گوشت اور روٹی کا وعدہ کیا شام کو بے شمار بٹیر جنگل میں آگئے جنہیں پکڑ کر انہوں نے گوشت کھایا اور صبح کے وقت ایک چیز زمین پر پڑی ملی جو چھوٹی چھوٹی سفید رنگ کی تھی جسے دیکھ کر بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے ’’من ‘‘ کیونکہ و ہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے.(عربی میں من کے معنے کون کے ہیں پس درحقیقت یہ بھی عربی لفظ ہےجو عبرانی نے استعمال کرلیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ عربی میںمن جاندار کے لئے بولا جاتاہے غیر جاندار کے لئے نہیں مگر معلوم ہوتاہے عبرانی میں یہ لفظ بے جان کے لئے بھی استعمال ہونے لگ گیا تھا ).تب موسیٰ ؑنے ان سے کہا یہ وہی روٹی ہے جو خداوند نے کھانے کو تم کودی ہے (خروج باب۱۶ آیت۱۳ تا ۱۵ ) اس آیت کی بنا پر بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ من کالفظ اس جگہ بطور استفہام استعمال ہواہے اور اس کے معنے یہ ہیںکہ یہ کیا چیز ہے بعد میں یہ لفظ نام کے طورپر بنی اسرائیل میں استعمال ہونے لگا.چنانچہ اسی بات کو آیت ۳۱ میں لکھا ہے.’’اور بنی اسرائیل نے اس کانام من رکھا.‘‘ بعض محققین جارج ایبرز کی اتباع میںاس تشریح کو غلط سمجھتے ہیں ان کاخیال ہے کہ لفظوں کی مشابہت سے مغالطہ ہوگیا ہے اصل میں یہ لفظ ’’منو‘‘ ہے اور قبطی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنے قبطی زبان میں کھانے کے ہیں.اس لئے بنی اسرائیل نے من سوال او ر استفہام کے طور پر نہیںکہا بلکہ چونکہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ موعودہ روٹی ہے انہوں نے اس کا نام منا(یعنی خوراک ) رکھ دیا.کیونکہ اس کا کوئی اور نام انہیں معلوم نہ تھا.ان کا خیال ہے کہ من استفہامیہ کا استعمال ارمیک زبان میں نہیں اور یہ قابل تعجب امر ہے کہ اس مفہوم میں جس میںارمیک زبان کا کوئی اور
لفظ استعمال نہیں ہوا یہ لفظ مستعمل ہوجاتا.مگر مسٹر فیلڈ نے اس حیرت کوبائیبل کے ایک قدیم یونانی نسخہ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے.نیز اس نسخہ میں خروج باب ۱۶آیت ۱۵کے الفاظ ’’من ‘‘ کی بجائے ’’کیا یہ من ہے ‘‘ کے الفاظ ہیں.اور اگر یہ فرق صحیح تسلیم کر لیا جائے تو من خوراک کے معنوں میں درست ثابت ہوتاہے.اور استفہام کے الفاظ کا علیحدہ موجود ہونا ثابت کردیتاہے کہ من کا لفظ اس جگہ استفہام کے طور پر استعمال نہیں ہوا تھا.اس میںکوئی شبہ نہیںکہ عبرانی کا لفظ جو اس جگہ استعمال ہوا ہے اس کے معنے استفہام کے بھی ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ لفظ بنی اسرائیل کی جلاوطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں ان معنوںمیں صرف عزراؔاور دانیال کی کتب میں استعمال ہوا ہے.جلاوطنی سے پہلے کے زمانہ میں اس کا استعمال ان معنوںمیں نظر نہیںآتااور اس وجہ سے بعض اہل نظر نے اسے ارمیک قرار دیا ہے.ہم جب اس لفظ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے تورات کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ بےجان چیزوں کے متعلق سوال کرنے کا کیا طریق ہے تو وہاں ہمیں ایک ایسی بات مل جاتی ہے جو اس سوال کو ہمارے لئے قطعی طور پر حل کردیتی ہے اور وہ یہ کہ تورات میں جہاںبے جان چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا ہے وہاں ’’مَنہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے نہ کہ من کا اور جہاں جاندار چیزوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے وہاں ـ’’ذی‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ خروج باب۴ آیت ۲میں ہے.’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے اس نے کہا لاٹھی ‘‘ (آیت ۲) اس جگہ عبرانی میں لفظ ’’مَ زِہ ‘‘ ہے.یعنی یہ کیا ہے.یہ الفاظ عربی کے الفاظ ’’ماذا ‘‘ سے ملتے ہیں ’’م زہ ‘‘ کا یہ استعمال غیر معمولی ہے ورنہ احبار باب ۲۵ آیت ۲۰.ا.سیموئیل باب ۳ آیت ۱۷.زبور باب ۱۲۰ آیت ۳ امثال باب ۳۰ آیت ۴ اور دیگر مقامات میں پرانی عبرانی زبان میں کیا کے لئے لفظ ’’ مَنہ‘‘ استعمال کیا گیا ہے.اس کے مقابلہ میںجاندار کے متعلق سوال کے موقع پر کون کے لئے پیدائش۱۸ / ۲۷ وپیدائش/ ۵ ۳۳ وخروج ۱۱ / ۱۵ اسموئیل ۱۰ / ۲۵ زبور۴/۶ وغیرہ عبرانی کالفظ ’’زی ‘‘ استعمال ہوا ہے اس فرق کو دیکھ کر صاف طورپر واضح ہو جاتا ہے کہ خروج باب ۱۶ میں جو ’’من ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ کیا کے معنوں میں نہیں.کیونکہ پرانی عبرانی زبان میںکیاکے لئے ’’من ‘‘ نہیں بلکہ ’’منہ ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جلاوطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں جب ’’من ‘‘ کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگاتو اس سےبے جان نہیں بلکہ جاندار کے متعلق سوال کیا جاتاتھا جیسا کہ عربی زبان میں ہے.چنانچہ عزرا ۵
اور دانیال ۲ میں ’’من ‘‘ کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن وہاں سوال جانداروں کے متعلق ہے.پس معلوم ہوا کہ اول تو تورات کے نزول کے وقت من کا لفظ سوال کے لئے استعمال نہیںہوتاتھا.دوم بنی اسرائیل کی جلاوطنی کے زمانہ سے جب یہ لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگا اس وقت بھی یہ لفظ قاعدہ کے طور پر جاندار چیزوں کے متعلق سوال کرنےکے لئے استعمال ہوتاتھا نہ یہ کہ بے جان چیزوں کے متعلق (معلوم ہوتاہے اس وقت بنی اسرائیل عربوں سے خلط ملط کرنے لگ گئے تھے اور عربی زبان کے صحیح محاورات ان میں استعمال ہونے لگ گئے تھے )اور استثناء کے طورپر اگر کہیں اس کے خلاف ا ستعمال ہواہے تو اسے بطور سند پیش نہیںکیاجاسکتا.لہٰذا خروج باب۱۵ آیت ۱۶ میں ’’من ‘‘ کے معنے کیا ہے کے کرنا اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ’’من ‘‘ کو من اس لئے کہاگیا تھا کہ بنی اسرائیل نے اسے پہچاننے کی وجہ سے من کے لفظ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا درست نہیں.یہ غلط فہمی یوروپین مصنفین کو اس لئے ہوئی ہے کہ وہ عبرانی جیسی مردہ زبان کی تحقیق کرتے وقت اس امر کو نظر انداز کردیتے ہیں.کہ عبرانی کی ماں عربی زبان زندہ موجود ہے.عبرانی الفاظ کی حقیقت کے سمجھنے میں جب مشکلات ہوں تو انہیں عربی زبان سے مدد لینی چاہیے.اس موقعہ پر اگر وہ عربی سے مدد لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتاکہ عربی زبان میں ما بے جان کے لئے اور من جاندار کے لئے استعمال ہوتاہے اور پھر اس علم کی روشنی میںبائیبل کے الفاظ کو دیکھتے تو ان پر واضح ہوجاتاکہ یہی قاعدہ بائیبل کی عبرانی میں بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور اس طرح اس لغزش سے بچ جاتے مگر اتنی تعریف ان کی ضرور کرنی پڑتی ہے کہ انہوں نے یہ فرق ضرور محسوس کیاہے کہ مَن کا لفظ سوال کے معنوں میں جلاوطنی کے زمانہ اور اس کے بعد استعمال ہوا ہے (دیکھو انسائکلوپیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر لفظ منا ) پہلے نہیں.اور اس کی بنا پر بعض نے من کے معنے استفہام کے سوا کچھ اورلینے کی کوشش کی ہے چنانچہ جیساکہ میںلکھ چکا ہوں جارج ایبرز نے اس لفظ کو قطبی لفظ منو سے ماخوذ قرار دیا ہے جس کے معنے خوراک کے ہیں.اسی طرح جی سنیس(JESENIUS )نے اپنی لغت میں من کی وجہ تسمیہ عربی لفظ من سے بیان کی ہے جس کے معنے فضل اور احسان کے ہیں اس مصنف کے خیال کے مطابق اس چیز کانام من اس لئے رکھا گیا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی تھی اور جہاں تک میںسمجھتاہوں یہ وجہ زیادہ قرین قیاس ہے.اب میں اس سوال کو لیتاہوں کہ من کیا چیز تھی ؟بائیبل سے معلوم ہوتاہے کہ وہ شبنم کے ساتھ گرتی تھی اور سفید سفید گول دھنئے کے بیجوں کی طرح ہوتی تھی اور لوگ اسے چکی میں پیس کر یا اوکھلی میں کوٹ کر توے پر پکاتے تھے یا پھلکیاں بناتے تھے اور اس کا مزہ تازہ تیل کا ساتھا.جب دھوپ نکل آتی تو من پگل جایا کرتاتھا.
(خروج باب ۱۶ آیت ۲۱ و ۳۱ وگنتی باب ۱۱ آیت ۷ تا ۱۰ ) یہ چیز سبت کے دن نہیںگرتی تھی اور اگر لوگ جمع کرتے تھے تو سڑجاتی تھی.سوائے اس کے جوسبت کے دن کے لئے جمع رکھی جاتی تھی.یہ من برابر چالیس سال تک بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا (خروج باب ۱۶ آیت ۳۵ ) اور اس وقت بند ہوا جب انہوں نے موعودہ زمین میں قدم رکھا اور وہاں کا دانہ کھایا (یشوع باب۵آیت ۱۲) اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جوبائیبل کی بیان کردہ صفات کے مطابق ہو اور سینا مقام میں پائی جاتی ہو.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر معجزانہ امور کو نظر انداز کردیں تو ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ فی الواقعہ ایک ایسی چیز سینا کے علاقہ میں پائی جاتی ہے جو شبنم کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور دھوپ کی گرمی میںپگل جاتی ہے اور تیل کا سا اس کا مزہ ہوتاہے اور سفید رنگ کی ہوتی ہے جس کی ایک قسم کوہمارے ملک میں شیر خشت کہتے ہیں.اور دوسری کو ترنجبین اور ہندی میں اسے یورس شرط کڑا یعنی جوانسہ کی شکر کہتے ہیںکیونکہ ہندوستان میں یہ چیز جو انسے کے درخت سے نکالی جاتی ہے(کتاب المفردات خواص الادویہ زیر لفظ Manna).لاطینی میں اسے منّا کہتے ہیںاور اس چیز کی ماہیت پوری طرح طبی کتب میں بھی درج ہے اور انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں بھی بیان ہے.یوروپین سیاحوں نے شہادت دی ہے کہ اب تک اس علاقہ میںمن ملتاہے.گو وہ شبنم کے ساتھ نہیںگرتا.بلکہ ٹیمر کس گیلیگا نامی درخت کا رس ہوتاہے جس کی چھال کو جب ایک کیڑا چھید تاہے تو اس سے یہ رس ٹپکتاہے.بغیر کیڑے کے انسانی طریقوںسے درخت کی چھال میںشگاف کرنے سے بھی یہ رس گر کر جم جاتاہے.اور مختلف ممالک میں اس درخت سے مختلف طریقوںسے اس کو جمع کیا جاتاہے.سسلی اور خراسان کا من مشہور ہے.ہندوستان میں بھی جوانسہ کے درخت سے وید من بناتے ہیں.مصر سے مصنوعی من بناہوا ٓتاہے لیکن اطباء اسے پہچان لیتے ہیں برنارڈٹ جرمن سیاح کا بیان ہے کہ سینا میں موجود ہ درختوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ سالانہ اڑھائی تین سو سیر تک من تیار ہو سکتا ہے(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Manna) مگر خیال کیا جاتاہے کہ پہلے زمانہ میںجنگل زیادہ وسیع ہوتا تھا اور اس سے بہت زیادہ من تیار ہوسکتا تھا.بائیبل میں بنی اسرائیل کی جو تعداد لکھی ہے اس کے مطابق انہیں روزانہ چھبیس ہزار سات سو پچاس (۲۶۷۵۰)منّ کے قریب من کی ضرورت ہوتی ہوگی.اور سالانہ ایک کروڑ من کے قریب لیکن اڑہائی تین سو سیر سالانہ جواب وہاں پیدا ہوتاہے اور ایک کروڑ من جس کی انہیںضرورت ہوتی تھی ان دونوں اندازوں میں اس قدر فرق ہے کہ خواہ قوت واہمہ کو کتنا ہی آزاد چھوڑدیا جائے خیال بھی نہیںکیا جاسکتاکہ کسی زمانہ میں اس علاقہ میں اس قدرجنگل تھاکہ ایک کروڑ من، مَن پیدا ہو جاتاتھا خصوصاً جب ہم اس امر کو مد نظر رکھیں
کہ اس علاقہ کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ اس میں درخت پیدا ہی نہیںہوسکتے.اس مشکل کا ایک حل تویہ ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ بائیبل میں جو تعداد بنی اسرائیل کی لکھی ہے.وہ مبالغہ آمیز ہے (خروج باب ۱۲ آیت ۱۳۷).گنتی باب ۱ سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمر کے لڑنے کے قابل مردوں کی تعداد بارھویں قبیلہ کو چھوڑکر جن کی گنتی نہیں کی گئی چھ لاکھ تین ہزار اور پانچ سو پچاس تھی.اگر بارھویں قبیلہ کا اندازہ کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل لڑنے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے عورتوں بچوں اور جنگ کے ناقابل بوڑھوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گنا زیادہ کر لیتے ہیںکیونکہ یہ ایک عام اندازہ ہے کہ چھ فیصدی سے لےکردس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل ہوتی ہے.ہم خیال کرلیتے ہیں کہ بنی اسرائیل سے سختی سے جنگی خدمت لی جاتی تھی اور کل تعداد بنی اسرائیل کی جنگی سپاہیوں سے صرف دس گناتھی یعنی ساٹھ لاکھ مگر عقل اس امر کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ تھے کیونکہ اتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میںنکل ہی نہیںسکتے تھے پھر یردنؔ پار کی بستی جس میںآکر وہ بسے ہیں اس قدر آبادی کی حامل نہیںہوسکتی فلسطین کی آبادی کا اندازہ ۱۹۲۶ ء میں آٹھ لاکھ باون ہزار دوسو اڑسٹھ (۸۵۲۲۶۸)تھا (انسائکلو پیڈیا برٹینیکا چودھواں ایڈیشن زیر لفظ Palestine) اور اس ملک کا کل رقبہ ۹ ہزار مربع میل ہے اور پھر اس کا ایک بڑاحصہ ناقابل سکونت ہے.صرف ریت کے میدان ہیں جنہیںآباد نہیں کیا جاسکتا بلکہ اب بھی جبکہ یہودیوں نے امریکہ کی مدد سے اسے آباد کیا ہے اس کی کل آبادی پندرہ لاکھ ہے.پس اس ملک میںجو پہلے سے آباد تھا ساٹھ لاکھ آدمیوں کا آکر بس جانا بالکل خلاف عقل ہے.ایک اور دلیل سے بھی یہ امر خلاف عقل معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ تودرکنار چند لاکھ بھی ہوں اور وہ اس طرح کہ حضرت اسحاق ؑ کی پیدائش سے لےکر حضرت یعقوب ؑ کے مصر میں داخل ہونے تک قریباً دوسو سال کا عرصہ بائیبل کے بیان کے مطابق گذراہے اس عرصہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے افراد۱۲ تک پہنچتے ہیںعیسو کی اولاد کو بھی اگر اس قدر فرض کرلیا جائے تو دوسو سال میں چوبیس افراد تک ان کی نسل پہنچتی ہے اس کے بعد مصر سے نکلنے کے زمانہ تک دوسو سال گذرے ہیں پس عام اندازہ تو یہی ہو سکتاہے کہ حضرت یعقوب ؑ کے بارہ بیٹوں کی نسل اس دوسوسال میں چھ سات سو افراد تک پہنچ گئی ہوگی لیکن اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ وہ بہت شادیاں کرتے تھے اور اولاد زیادہ ہوتی تھی تب بھی پندرہ بیس ہزار سے زائد تو کسی صورت میںبھی ان کی تعداد نہیںہوسکتی اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے.کہ بنی سرائیل اپنے سفر کے دوران میںمعمولی شہر کے آدمیوں سے بھی ڈرتے تھے اور ان
کامقابلہ نہیںکرسکتے تھے.یہ امر یقینی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دواڑہائی ہزار سپاہیوں سے زیادہ نہیںتھے اس اندازہ کے ماتحت من کی وہ مقدار جو بنی اسرائیل کے لئے ضروری ہوتی ہوگی بہت کم رہ جاتی ہے.لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتاہے کہ کیا بنی اسرائیل من پر گذارہ کر سکتے تھے ؟ من جیساکہ بتایا جاچکا ہے ایک گوندہے جو ہے بھی مسہل.اس غذاپر انسان چند دن سے زیادہ گزارا نہیں کر سکتاپھر بنی اسرائیل نے اڑتیس سال تک اس پر کیونکر گذارا کیا ؟ نئے یوروپین محققین بھی اس سوال کی معقولیت کے قائل ہوگئے ہیں اور اب ان کا یہ خیال ہے کہ من کی جو ماہیت بائیبل میں بتائی گئی ہے اس میں مبالغہ اور تداخل ہوگیا ہے.من ان کے نزدیک لچن LICHEN کے دانوں کا نام ہے جو قحط کے دنوں میں لوگ کھانے لگتے ہیں.لچن ایک بوٹی ہے جو سطح کے اوپر ہی اگ آتی ہے جڑکے لئے اسے زمین کی ضرور ت نہیںہوتی اس لئے چٹانوں کی سطح اور درختوں کی چھال پر بھی اگ آتی ہے اس کی بعض قسمیں پتھروں پر اگتی ہیں خصوصاً چونسے کے پتھروں پر اور جب اسے پتھر سے الگ کیا جائے تو جوار کے کچلے ہوئے دانے کے مشابہ ہوجاتی ہے جب یہ بوٹی پک جائے تو اس کے چھلکے جڑسے الگ ہو کر گول شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہلکا ہونے کی وجہ سے ہو ا ا نہیں اڑاکر دور دور لے جاتی ہے (انسائیکلوپیڈیا ببلیکاجلد۳زیر لفظ Manna).علماء نباتات کے نزدیک یہ بوٹی کھمب کی قسموں میں سے ہے(انسائیکلوپیڈیا ببلیکاجلد۳زیر لفظ Lichen).اگر نئے یوروپین محققین کی رائے تسلیم کرلی جائے تو پھر یہ سوال حل ہو جاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس کھانے پر گذاراہ کس طرح کیا ؟ لیکن وہ سوال پھر پیدا ہو جاتا ہے کہ بائیبل کی بیان کردہ من کی ماہیت کے ساتھ اس بوٹی کی کوئی مناسبت نہیںنہ یہ بوٹی میٹھی ہوتی ہے نہ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا ہوتاہے اور نہ یہ بوٹی دوپہر کو پگل جاتی ہے.میرے نزدیک اس سوال کا جواب بائیبل اور اس کی متعلقہ کتب سے نہیںمل سکتا.یوروپین محققین خواہ کتناہی زور لگائیں وہ اس سوال کاپوری طرح جواب نہیںدے سکتے کیونکہ وہ اس سرچشمہ سے دور ہیں جس سے حقیقی علم عطاہوتاہے.پس اگر ہمیں صحیح جواب کی ضرورت ہے تو ہمیں چاہیے کہ قرآن اور حدیث سے مدد حاصل کریں.قرآن کریم اور حدیث میں من کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق بیان ہوئے ہیں.(۱)اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْيَاهُمْ (البقرۃ:۲۴۴) کیاتجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیںجو اپنے گھروں سے موت کے ڈرسے اس حال میںنکلے تھے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میںتھے اس پر اللہ نے انہیں کہا کہ مرجائو پھر اس نے انہیں زندہ کردیا.
(۲)وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى ١ؕ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ(البقرۃ:۵۸)اور ہم نے تم پرمن اور سلویٰ اتارا تھا اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیاہے اس میںسے اعلیٰ اور پاکیزہ چیزوں کو کھائو.(۳) بخاری میں سعید بن زیدؓ کی روایت ہے قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسلّم الْکَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ وظللنا علیکم الغمام) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھمب بھی من کی اقسام میں سے ہے ترمذی میںابوہریرہ ؓ سے روایت ہے.اِنَّ نَاسًا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْا الْکَمْأَةُ جُدَرِیُّ الْاَرْضِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْکَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ (ترمذی ابواب الطب باب ما جاء فی الکمأة)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے بعض لوگ اعراب کے توہمات کے مطابق باتیں کر رہے تھے کہ کھمب زمین کی چیچک ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سن کر فرمایا کہ کھمب من کی اقسام میںسے ہے.اوپر کی آیات و احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ (۱) بنی اسرائیل لاکھوںکی تعداد میںمصر سے نہیں نکلے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے.(۲)جو چیزان کے کھانے کے لئے مہیا کی گئی تھی وہ غذاکے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تھی اور ایسی نہ تھی جو غذائیت یامزے کے لحاظ سے تکلیف دہ ہو.(۳) جو چیز بنی اسرائیل کو کھانے کے لئے ملی تھی وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزیں تھیں اور ان کئی چیزوں میں سے ایک کھمب بھی تھی.یہ ایک عجیب بات ہے کہ من کا ذکر قرآن کریم میںتین جگہ پر آیا ہے.ایک سورۃ بقرۃ میںایک سورۃ اعراف میں اور ایک سورۃ طٰہٰ میں اور تینوں جگہ اس کے ذکر کے بعد كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ کا فقرہ ہے جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اس خیال کی تردید کرنا مقصود ہے کہ وہ کھانا ایک ہی تھا اور طبیعت پر بوجھ ڈالنے والاتھا یا غذایت کے لحاظ سے ادنیٰ قسم کا تھا.جب ہم لچن کی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے تحقیق کرتے ہیںتو معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی کھمب کی قسم کا پوداہے چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے.’’لچن اور کھمب کے اقسام بالکل آپس میں ملتے جلتے ہیں.اوریہ امر ان اقسام کی مشابہت سے جوایک دوسر ے کی طبعی سرحد پر واقع ہیں بالکل ظاہر ہو جاتا ہے ‘‘ (زیر لفظ Lichen)
لیکن یہ امر ظاہر ہے کہ لچن خود کوئی اچھا کھانا نہیں ہے بلکہ قحط کے ایام میں مجبوراً اسے لوگ کھاتے ہیں.اس کے برعکس کھمب اعلیٰ درجہ کے کھانوں میں سے ہے اور گراں قیمت پر فروخت ہوتی ہے اور خاص طورپراسے امراء کے لئے بویاجاتاہے.اور فرانس میںتو اس کی اس قدر کھپت ہے کہ پیرس میںایک زمیندار دن میں تین ہزار پونڈ تک کھمب منڈی میں فروخت کرنےکے لئے بھیجتاہے اور پھر ہے بھی یہ جلداگنے والی چیز چنانچہ انگریزی میں اس چیز کو جو جلد ہوجانے والی ہو مشروم گروتھ یعنی کھمب کی طرح پیدا ہونے والی کہتے ہیںاور ایسے لوگوں کے لئے جو کھانے سے تنگ ہوں ایسی ہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جلد اگ آئیںاور جلد استعمال میںآسکیں اب کیا یہ صاحبان بصیرت کے لئے عجیب بات نہیں کہ بائیبل کے کثیر نسخوں اور علم طبیعات کے ماہروں کی امداد کے باوجودیورپ بیسویں صدی میں جس نتیجہ پر من کے متعلق پہنچاہے اور وہ بھی ناقص صورت میں.اس کی قرآن کریم میں آج سے تیرہ سو سال پہلے نہایت جامعیت کے ساتھ تو ضیح کردی گئی تھی.میں جہاں تک مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دشت سینا میں کھمب ترنجبین اور ایسی ہی اور چیزیں جو جلد تیار ہوجاتی تھیں پیدا کردیںجن سے بنی اسرائیل کو بآسانی غذاملنے لگی اسی طرح تلیئر وغیرہ کثرت سے آگئے کیونکہ ان علاقوں میں ٹڈی بہت ہوتی ہے اور تلیئر زیادہ تر ان مقامات کو پسند کر تاہے جن میںٹڈی ہو کیونکہ وہ ٹڈی بڑے شوق سے کھاتاہے اور چونکہ اس کے لئے انہیںکوئی محنت نہیںکرنی پڑتی تھی اس غذاکانام من یعنی احسان الٰہی سے ملنے والی غذارکھا گیا.وہ ایک قسم کی غذانہ تھی بلکہ کئی قسم کی غذائیں تھیں.کیونکہ حدیث کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ کئی طرح کامن تھا.ہاں سب میں ایک مشابہت تھی اور وہ یہ کہ غذائیں ہل چلاکر اور محنت کرکے بنی اسرائیل کو پیدا نہیں کرنی پڑتی تھیں.لیکن چونکہ غذائیں اور تلیئر وغیرہ جو اس وقت کثرت سے جنگل میں آگئے تھے شکم میں قبض پیدا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ترنجبین بھی کثرت سے پیداکردی جسے دوسری غذائوں میں ملا کر کھانے سے ان کی صحت درست رہتی تھی.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ من جس کا کثرت سے ان ایام میں پیدا ہونا ایک معجزہ تھا لیکن خود اس کا وجود اس دنیا کی چیزوں میں سے تھا.وہ ایسی غذا تھی جسے ایک عرصہ تک کھایا جاسکتاتھا.اور اس کی مصلح ترنجبین بھی ساتھ ہی پیدا کردی گئی تھی تاکہ جنگل کی خشک غذا صحت کو نقصان نہ پہنچائے.اس تشریح کے ساتھ سب سوال حل ہوجاتے ہیں یہ بھی کہ من کو لوگ دیر تک کس طرح کھاتے رہے ؟ اور یہ بھی کہ وہ سال بھر کس طرح ملتی رہتی تھی اور یہ بھی کہ وہ تیل کی طرح تھی اور اس سے روٹیاں بھی پکتی تھیں اور پھلکیاں
بھی بنائی جاتی تھیں کیونکہ وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزوں کانام من تھا.اور اس تشریح کو تسلیم کرکے کوئی خلاف عقل بات بھی تسلیم نہیںکرنی پڑتی کیونکہ تلیئر وغیرہ کی قسم کی چیزوںپر ایک ایسی قوم جس کااہم سیاسی اغراض کے لئے جنگل میں رہنا ضروری ہو گذارا کر سکتی ہے اور قرآن کریم کی بتائی ہوئی تعداد کے مطابق قوم کا اس جنگل میں آسانی سے بسراوقات کرسکنا ناممکنات میں سے نہیں ہے.سلوٰ ی کے معنے بھی من کی طرح ایک عام ہیں اور ایک خاص.اس کے عام معنے تو ہر اس چیز کے ہیں جو تسلی دینے والی ہو.اور خاص معنوں کے لحاظ سے وہ ایک پرندے کابھی نام ہے جو تلیئر کے مشابہ ہوتاہے.اور شہد کو بھی سلوٰی کہتے ہیںبائیبل میںاس کا ذکر گنتی باب ۱۱ آیت ۳۰ تا۳۲ میں اس طرح آتاہے.’’ پھر موسیٰ اور وہ اسرائیلی بزرگ لشکر گاہ میں گئے اور خداوند کی طرف سے ایک آندھی چلی اور سمندر سے بٹیریں اڑالائی اور ان کو لشکر گاہ کے برابر اور اس کے گرد اگرد ایک دن کی راہ تک اس طرف اور ایک ہی دن کی راہ تک دوسری طرف زمین سے قریباً دو دو ہاتھ اوپر ڈال دیا اور لوگوں نے اٹھ کر اس سارے دن اور اس ساری رات اور اس کے دوسرے دن بھی بٹیریں جمع کیں.‘‘ غرض سلوٰی میںپرندے شہد اور تمام ایسی غذائیں جو قلب کو تسکین دیتی ہیں شامل ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتاتھاکہ بنی اسرائیل کو جنگل میں آزاد رکھ کر ان میں جرأت اور بہادری کے اخلاق پیدا کرے اس لئے اس نے اپنے فضل سے ان کے لئے ایسی غذائیں مہیا فرما دیں جو بغیر محنت کے ملتی تھیں اور جن میں گوشت بھی شامل تھا.اور پھل اور سبزی ترکاری کی قسم کی غذائیں بھی شامل تھیں تاکہ ان کی غذ ئی ضرورت بھی پوری ہو اور ان کی صحت بھی اچھی رہے.اس کے بعد فرمایاكُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِيْهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِيْ کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاک چیزیں کھائو اور اس رزق کے بارے میں تم ظلم سے کام نہ لو یعنی چونکہ تمہیں جنگل میں رزق مل رہا ہے ایسا نہ ہو کہ زبردست سارارزق جمع کرلے اور غریب کومحروم کردے اگر ایسا کرو گے تو تم پر میرا غضب نازل ہوگا.
وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُوْسٰى۰۰۸۴قَالَ هُمْ اُولَآءِ (اور ہم نے کہا) اے موسیٰ تم اپنی قوم کو چھوڑ کر کس لئے جلدی جلدی آگئے ہو ؟(موسیٰ نے جواب میں) کہا کہ وہ عَلٰۤى اَثَرِيْ وَ عَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۰۰۸۵ (لوگ)میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں اور اے میرے رب میںاس لئے تیرے پاس جلدی سے آیا ہوں تاکہ تو (میرے اس فعل پر) خوش ہوجائے.تفسیر.پاک لوگ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کس طرح بیتاب رہتے ہیںاس کا ایک نمونہ ان آیات میں دکھائی دیتاہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایک وقت مقرر کیا تاکہ اس وقت میں ان سے کلام کرے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے آگے آگے تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے وہاں پہنچے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ !تیز تیز کیوں چل رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا.حضور مجھ پر اظہار خوشنودی فرمانے والے تھے ایسے وقت میں میں تیزی سے آگے نہ بڑھتاتو کیا کرتا اور میری قوم تو میرے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے اس لئے میراان کے ساتھ رہنا کوئی ضروری نہ تھا.قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَ اَضَلَّهُمُ ( اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا) ہم نے تیری قوم کو تیرے بعد ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے السَّامِرِيُّ۰۰۸۶فَرَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا١ۚ۬ ان کو گمراہ کردیا ہے.اس پر موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے سے بھرے ہوئے افسردہ لوٹ گئے قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا١ؕ۬ اَفَطَالَ (اور اپنی قوم سے )کہا اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیںکیا تھا؟ کیا اس وعدہ کے عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ پوراہونے میں کوئی دیر ہوگئی تھی ؟یا تم چاہتے تھے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی غضب نازل ہو.
مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِيْ۰۰۸۷قَالُوْا مَاۤ اَخْلَفْنَا سو تم نے میرے وعدے کو رد کردیا انہوں نے کہا ہم نے تیرے وعدہ کو اپنی مرضی سے رد نہیںکیا.مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ بلکہ (فرعون کی) قوم کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر لاددیا گیاتھا اس کو ہم نے پھینک دیا.اور اسی طرح سامری الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِيُّۙ۰۰۸۸ نے بھی اس کوپھینک دیاپھر اس نے ان کے لئے (یعنی ہمارے لئے) ایک بچھڑا تیار کیا جومحض جسم ہی تھا فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَاۤ اس سے ایک بے معنی آواز نکلتی تھی (یعنی حقیقی بچھڑا نہیںتھا) پھر( اس نے اور اس کے ساتھیوں نے) کہا کہ یہ تمہارا بھی اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى١۬ فَنَسِيَؕ۰۰۸۹اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اور موسیٰ کابھی خدا ہے اور وہ اسے بھول (کر پیچھے چھوڑ )گیاہے.(بیشک سامری اور اس کے ساتھیوں نے ایسا کیا) اِلَيْهِمْ قَوْلًا١ۙ۬ وَّ لَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًاؒ۰۰۹۰ مگر کیا وہخود نہیںدیکھتے تھے کہ وہ( بچھڑا )ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا.اور نہ ان کو کوئی ضرر پہنچاسکتاہے اور نہ نفع پہنچاسکتاہے تفسیر.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کو تو ہماری ملاقات کا اتناشوق ہے مگر تمہاری قوم کا یہ حال ہے کہ ادھر تم ہماری طرف آئے اور ادھر وہ سامری کے بہکانے سے بہک گئی اس پر موسیٰ غصہ اور افسوس کی حالت میں واپس لوٹے اور اپنی قوم سے کہا کہ کیا تمہار ے رب نے نہایت اعلیٰ اور شاندار وعدہ تم سے نہیںکیا تھا.یعنی تمہارے نبی کوہم کلام ہونے کے لئے نہیںبلایا تھا.کیا تم اتنے بے ایمان ہو کہ اتنی تھوڑی سی دیر میں تمہارا ایمان ضائع ہوگیایاتم کو اپنے رب کے غضب کے نازل ہونے کی خواہش ہے.جس کی وجہ سے اتنے تھوڑے عرصہ میں ہی تم خدا کو بھول گئے اور میری اطاعت کا جو تم نے اقرار کیا تھا اس کی تم نے خلاف ورزی شروع کردی.انہوں نے کہا ہم نے تیرے
وعدے کو اپنی مرضی سے نہیںجھٹلایا بلکہ فرعون کی قوم کے زیورات چلتے ہوئے ہم پر لاددیئے گئے تھے تیرے جانے کے بعد وہ زیورات ہم نے اٹھا کر ایک جگہ رکھ دیئے اور سامری نے بھی ایسا ہی کیا.پھر اس نے ان زیورات کو پگھلاکر ایک بے جان بچھڑابنا دیا جس میں سے ایک بے معنے آواز نکلتی تھی.جس پر موسیٰ ؑکی سب قوم بول اٹھی کہ اے لوگو !یہ تمہارامعبود ہے.اور موسیٰ کا بھی یہی معبود تھا.جو پہاڑ پرجانے کے شوق میں اسے بھول گیا.حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ زیورات مصریوں نے خود دیے تھے مگربائیبل کہتی ہے کہ بنی اسرائیل نے مصریوں سے سونے چاندی کے برتن عاریۃً لئے اور ان کو خوب لُوٹا اور وہ بھی دیتے چلے گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ یہاں سے نکل جائیںتاکہ ان کے سبب سے وہ ہلاک نہ ہوجائیں.چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۵.۳۶ میں لکھاہے.’’ او ر بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لئے اور خداوند نے ان لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزت بخشی کہ جو کچھ انہوںنے مانگا انہوں نے دے دیا سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا.‘‘ گویابائیبل حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ ان کے کہنے کے مطابق بنی اسرائیل نے مصریوں سے سونے چاندی کے زیورات اور کپڑے مانگ لئے اور انہوں نے مصریوں کو خوب لُوٹا.لیکن قرآن کریم اس کی تردید کرتاہے اور فرماتا ہے کہ انہوں نے وہ زیورات نہیںمانگے بلکہ مصریوں نے آپ ان کو دئیے.اور انسانی عقل اس کی تائید کرتی ہے کیونکہ نبی ڈاکو نہیںہوتامگربائیبل ایک طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کانبی قرار دیتی ہے اور دوسری طرف انہیںڈاکو ثابت کرتی ہے.حالانکہ خودبائیبل کی ایک اندرونی شہادت بتارہی ہے کہ موسیٰ ؑپر یہ الزام سراسر غلط ہے.چنانچہ گوبائیبل نے یہ کہاہے کہ بنی اسرائیل نے مصریوں سے خداکے حکم سے زیورات مانگے مگر خروج باب ۱۲ میں ہی لکھا ہے کہ جب مصریوں پر عذاب آیا اورسارے مصر میں پلوٹھے بچوں کی ہلاکت سے ایک کہرام مچ گیا تو فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلواکر کہا کہ تم بنی اسرائیل کو لے کر میری قوم کے لوگوں میں سے نکل جائو اور ’’مصری ان لوگوںسے بضد ہونے لگے (یعنی ان کے پیچھے پڑگئے) تاکہ ان کو ملک مصر سے جلد باہر چلتاکریںکیونکہ وہ سمجھے کہ ہم سب مر جائیںگے.‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۳۳) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مصر ی خود دل سے چاہتے تھے کہ وہ لوگ مصر سے نکل جائیں پس قرین قیاس یہی
ہے کہ انہوں نے خود ان کو زیورات دیئے تاکہ وہ عبادت کے لئے باہر جائیں اوران کا عذاب ٹل جائے.اور یہی بات قرآن کریم نے بیان کی ہے بلکہ ممکن ہے سامری نے بھی ان لوگوںسے یہی کہا ہو کہ اگر یہ لوگ باہر نکلیں گے تومیں ان کے لئے سونےکا بچھڑابنا دوںگا اور ان سے اس کی پوجا کروائوں گا اور یہ لوگ تمہارے مذہب میں واپس آجائیں گے.فَقَذَفْنٰهَا سے ظاہر ہوتاہے کہ ان لوگوں نے ان زیورات سے نفرت کرکے اسے پھینک دیا تھا مگر سامری نے اس سے بچھڑا تیار کرلیا اور بچھڑابھی ایسا جو بولتاتھا.چونکہ وہ مصرمیں بچھڑے کی پرستش ہوتی دیکھ آئے تھے اور فرعون بھی اس کے آگے سجدہ کرتاتھا.اس لئے ان کے خیال میں اس سے زیادہ اعلیٰ چیز اور کیا ہوسکتی تھی پس وہ کہتے ہیں کہ ایک تو بچھڑا دوسرا سونے کا اور تیسرابولنے والا اس کے بعد بھی اگر ہم اس کی عبادت نہ کرتے توکیا کرتے.گویا وہ اپنی مجبوری کا اظہار کررہے ہیں.اور موسیٰ ؑسے کہتے ہیں کہ آپ ہماری بھی تو مجبوری دیکھیںاگر اتنی باتوںکے بعد بھی ہم اس کی پرستش نہ کرتے توکیا کرتے.ان کی یہ مجبوری بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ اس نے ایک شادی شدہ عورت کاکسی دوسرے مرد سے نکا ح پڑھ دیاہے.فرماتے تھے مجھے اس سے سخت حیرت ہوئی اور میں نے اس مولوی کو بلواکر کہا کہ مولوی صاحب میں نے آپ کے متعلق ایک بات سنی ہے.مجھے اعتبار تونہیںآتاکہ وہ درست ہو مگر چونکہ میرے پاس اس کا ذکر کیا گیاہے اس لئے آپ سے بھی میں بیان کردیناچاہتاہوں میں نے سناہے کہ آپ نے ایک عورت کانکاح پرنکاح پڑھ دیاہے.وہ سن کر بڑے جوش سے کہنے لگا.مولوی صاحب آپ پہلے تحقیق تو کرلیا کریں.یونہی سنی سنائی باتوں میں نہ آ جایا کریں.یہ بھی تو دیکھیں کہ میری مجبوری کیا تھی آپ نے فرمایا اسی لئے تو میں نے آپ کو بلوایا ہے تاکہ آپ سے سارے حالات کاعلم ہوجائے.وہ کہنے لگا مولوی صاحب دوسرے فریق نے جب چڑے جتنا روپیہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا تو پھر میں نکاح نہ پڑھتاتو او رکیا کرتا یہی مثال موسیٰ ؑکی قوم کی ہے وہ کہتے ہیںہم نے تیرے عہد کو اپنی مرضی سے نہیں ٹلایا.ہم تو اس پر مجبور کردیئے گئے تھے اور وہ مجبوری یہ تھی کہ فرعون کی قوم کے زیورات کاجوبوجھ ہم پر لاد دیا گیا تھا.وہ ہم نے پھینک دیا اور اسی طر ح سامری نے بھی اس کوپھینک دیا مگر اس کے بعد سامری نے انہی زیورات کو ڈھال کر ایک عجیب وغریب بچھڑاتیار کردیا جس میںسے آواز بھی نکلتی تھی اب بتائیے ہم اس کی کس طرح پرستش نہ کرتے.اس بچھڑے کو دیکھنے کے بعد ہمارے لئے انکار کی کوئی صورت ہی نہ رہی.سامری کا یہ واقعہ ساحروں کے واقعہ کی حقیقت بھی کھول دیتاہے اور اس سے یہ پتہ لگ
جاتاہے کہ مصریوں میں اس قسم کی کرتب بازی کا رواج تھا اور وہ مکینیکل کھلونے بنایا کرتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم مصر سے آرہی تھی اورفرعون کی قوم میںبیل کی پوجاکاعام رواج تھابلکہ سب سے بڑامندر مصر کاوہی تھاجس میںایک بے عیب بیل بطور دیوتاکے رکھاجاتاتھا.چنانچہ انسائیلوپیڈیاآف ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۱ صفحہ ۵۰۷(زیر لفظ Animal)میںلکھا ہے کہ مصریوںمیںجانور کی پوجاکرنےکا جورواج تھاا س میں سب سے اہم مقام بیل کو حاصل تھاجب کوئی پرانا بیل مرجاتاتھا تو ایک نئے بیل کی تلاش کی جاتی تھی.اور جس گلّے میںسے یہ بیل ملتا تھا اس کے مالک کو بڑی عزت دی جاتی تھی اور جو شخص اس کو تلاش کرتاتھا اس کو بھی بہت بڑاانعام دیاجاتاتھا.اسی طرح نیو سٹنڈرڈ ڈکشنری میں ایپسؔ کے لفظ کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ایک مقدس بیل ہوتاتھا.جس کی مصری لوگ قدیم زمانہ میںپوجاکرتے تھے اس کی پیدائش کے دن کو ایک عام چھٹی کے طورپر ملک میں منایا جاتاتھا.اور اس کی موت پر تمام ملک میں ماتم کیا جاتاتھا.اور یہ ماتم اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک کہ ایک نیا ایپسؔ ان علامتوںکے مطابق نہ مل جاتاجن سے اس کے خدا کے مظہر ہونے کاثبوت حاصل ہوجاتا(نیو اسٹینڈرڈ ڈکشنری زیر لفظ Apis).غرض فرعون کی قوم چونکہ بیل کی پرستش کی عادی تھی.اس لئے محکوم قوم ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بھی مشرکانہ خیالات پیدا ہوگئے اور موسیٰ ؑ کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاکر سامری نے انہیںپھر شرک کے راستہ پرڈال دیا اور وہ بچھڑے کوبڑے ادب کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے.سامری جو درحقیقت دل سے کافر انسان تھااس نے قوم کی اس کمزوری ء ایمان سے فائدہ اٹھایا اوران سے کہا کہ اپنے زیورات لائو اورمیں بھی اپنا سونا ڈالتاہوں اس سے میں فرعونیوں کی طرح کا ایک بچھڑا تمہیں بنادوںگا.وہ سامری کی یہ بات سن کر خوش ہوگئے.کیونکہ بچھڑے کاادب فرعونیوں سے ا ن کو ورثہ کے طورپر ملاتھا.جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مصر کا بڑابت بچھڑاہی ہوتا تھا.اور تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ زمیندار ملکوں میں عام طور پر گائے کوخدا سمجھا جاتا تھا.چنا نچہ ہندوستان میں سب ہندو گائے کوخداسمجھتے ہیںاور ایک گائے کے ذبح کرنے پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل جائز اور درست جانتے ہیں.بلکہ ہندوئوں کے کئی مندر ایسے ہیں جن میں گائے یا بچھڑ ے کی شکل پر بت بنایا جاتاہے اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ گائے کو ایک جانور نہیں بلکہ دیوتا سمجھتے ہیں (انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس زیر لفظ Animal).اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سامری نے جو بچھڑابنایاتھا اس میں ایسی ترکیب رکھی تھی کہ اس میں سے ایک بے معنے آواز نکلتی تھی.معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سیٹیاں بنائی جاتی ہیںسامری نے بچھڑااسی طرح بنایا تھا.کہ اگر پیچھے سے
ہواداخل ہو تو منہ کی طرف سے آواز نکلتی تھی.بے وقوف یہودی جو قوم فرعون کے غلام تھے اور اس کے دین سے متاثر وہ اس دھوکا میںآگئے اور انہو ںنے سمجھاکہ موسیٰ ؑ جو کہتا تھاکہ مجھ سے خداکلام کرتاہے تو درحقیقت اس کے پاس کوئی ایسا ہی بچھڑاتھا جس کی بات سے وہ فال نکال لیا کرتاتھا.وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ اور ہارون نے (موسیٰ کےواپس آنے سے بھی) پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے قوم تم کو اس (بچھڑے) کے ذریعہ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ۰۰۹۱ آزمائش میںڈالا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمٰن( خدا)ہے پس میری اتباع کرو اور میرے حکم کو مانو (اور شرک نہ کرو) قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا (مگر اس ضدی قوم نے) کہا جب تک موسیٰ ہماری طرف واپس نہ آئے ہم برابر اس کی عبادت میں مشغول رہیں گے.مُوْسٰى۰۰۹۲قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ (جب موسیٰ واپس آئے تو انہوںنےہارون سے) کہااے ہارون جب تو نے اپنی قوم کوگمراہ ہوتے دیکھا تھا تو ضَلُّوْۤاۙ۰۰۹۳اَلَّا تَتَّبِعَنِ١ؕ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۰۰۹۴ تجھے کس نے منع کیا تھا کہ تو میرے نقش قدم پر نہ چلے ؟کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی.تفسیر.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ہارون علیہ السلام شرک میں شامل نہیںتھے بلکہ انہوں نے اپنی قوم کوشرک سے سختی کے ساتھ روکا تھا لیکن بائیبل کہتی ہے کہ وہ شرک میںشامل تھے چنانچہ تورات میں لکھا ہے.’’ اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوکر اس سے کہنے لگے کہ کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتابنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیںجانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا کیاہو گیا.ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں او رلڑکیوںکے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس
لے آئو چنانچہ سب لوگ ان کے کانوںسے سونے کی بالیاںاتار اتار کر ان کو ہارون کے پاس لے آئے او راس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لےکر ایک ڈھالا ہوا بچھڑابنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگا اے اسرائیل یہی تیراوہ دیوتاہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘‘ (خروج باب ۳۲آیت ۱تا۴) پھر لکھا ہے کہ ہارون نے اس بچھڑے کے لئے قربان گاہ بنائی اور اسے بنی اسرائیل کامعبود قرار دیا چنانچہ لکھاہے.’’یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کردیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی اور دوسرے دن صبح سویرے اٹھ کر انہوںنے قربانیاں چڑھائیں.اور سلامتی کی قربانیاں گذرانیں.پھر ان لوگوںنے بیٹھ کر کھایا پیا اور اٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے.‘‘ (خروج باب ۳۲آیت ۵،۶) ایک ادنیٰ سی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتاہے کہ جس سے خدا بولاکرتا تھا وہ ایک بچھڑے کو خدا کس طرح قرار دے سکتاہے.ایک شخص جو اپنے بھائی سے ہم کلام ہوتاہے وہ کبھی ایسی غلطی کر سکتاہے کہ ایک گیدڑ کو اپنا بھائی سمجھ لے مگربائیبل جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ موسیٰ پر نازل ہوئی تھی وہ کہتی ہے کہ ہارون شرک میں شامل ہوگیا تھا.لیکن عقل سلیم نے جب بھی اس پر غور کیا یہی فیصلہ کیا کہ اس بارہ میں موسیٰ ؑپر نازل ہونے والی بائیبل جھوٹی تھی.لیکن دوہزار سال بعد نازل ہونے والا قرآن سچاہے.بلکہ اگربائیبل کو ہی غور سے دیکھا جائے تو اس کی اندرونی شہادت بھی اس واقعہ کو غلط قرار دیتی ہے.چنانچہ بائیبل بتاتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے تو وہ سخت غیظ و غضب کی حالت میں پہاڑ سے واپس تشریف لائے اور بچھڑے کو آگ میں جلاکر اسے خاکستر کیا اور اس کی خاک پانی پر چھڑک کربنی اسرائیل کو پلوائی.چنانچہ بائیبل میں لکھا ہے.’’ اس نے اس بچھڑے کو جسے انہوں نے بنایا تھا لیا اور اسکو آگ میں جلا یا.اور اسے باریک پیس کر پانی پر چھڑکا اور اس میں سے بنی اسرائیل کو پلوایا.‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ) پھر موسیٰ ؑنے اس کی سزا میں حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قریبی کو قتل کرے اور اس طرح تین ہزار آدمی مارے گئے
چنانچہ بائیبل کہتی ہے.’’ اور اس نے ان سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدایوں فرماتا ہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میںاپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو.او ربنی لاوی نے موسی ٰکے کہنے کے موافق عمل کیاچنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریباًتین ہزار مرد کھیت رہے.‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۲۷،۲۸ ) پھرموسیٰ ؑنے خدا سے درخوست کی کہ.’’ ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کادیوتابنایا اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب میںسے جو تونے لکھی ہے مٹادے.‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۳۲ ) مگر ’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ جس نے میرا گناہ کیاہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میںسے مٹائوں گا.‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۳۳ ) اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پرگئے تو خدا تعالیٰ نے ان کوحکم دیاکہ ’’ہارون کو مقدس لباس پہنانا اور اسے مسح اور مقدس کرنا.تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے اور اس کے بیٹوں کو لاکر ان کو کرتے پہنانا اور جیسے ان کے باپ کو مسح کرے ویسے ہی ان کو بھی مسح کرنا تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دیں.اور ان کا مسح ہونا ان کے لئے نسل درنسل ابدی کہانت کا نشان ہوگا.اور موسیٰ نے سب کچھ جیسا خداوند نے اس کو حکم کیا تھا اس کے مطابق کیا.‘‘ (خروج باب ۴۰ آیت ۱۳ تا۱۶ ) اسی طرح گنتی باب ۳ میں بھی ذکر آتاہے کہ ہارون اور اس کے بیٹوں کو بنی لاوی کی کہانت سپرد کرکے ان کانام ہمیشہ کے لئے قائم کردیاگیا.بائیبل کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ جہاں اور لوگوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور مجرموں کو قتل کی سزائیں دی گئیں وہاں حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایاجائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کو بھی قابل اعزاز سمجھا جائے اور عبادت گاہوں کی نگرانی کاکام ان کے سپرد کیاجائے اب کیاایک مشرکانہ فعل کا یہی نتیجہ ہوا کرتاہے اور
کیا ہارون علیہ السلام اگر اسی فعل کے مرتکب ہوتے جس کابائیبل انہیںمرتکب قرار دیتی ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیاجاتا.جب اس شرارت کے تمام سرغنے قتل کردیئے گئے تھے تو حضرت ہارون علیہ السلام کو کیوںقتل نہ کیا گیا.اور جب خدا نے موسیٰ سے کہا تھا کہ’’ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اس کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹائوںگا.‘‘(خروج باب ۳۲ آیت ۳۳ ) تو اگر حضرت ہارون ؑ قصوروار تھے تو ان کانام کیوں نہ مٹایاگیا.بلکہ بائیبل تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہارون پر اظہارر ناراضگی کرنےکی بجائے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا.اور حکم دیا کہ آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کے بیٹوں کے سپرد کردیا جائے.اللہ تعالیٰ کا یہ انعام اور اس کی طرف سے خوشنودی کا اظہا ر بتارہا ہے کہ بچھڑا بنانا تو الگ رہا حضرت ہارون اس کے پجاریوں میں سے بھی نہیںتھے بلکہ جیساکہ قرآن کریم بتاتاہے انہوں نے بنی اسرائیل کو شرک سے روکا اور انہیںتوحید پر قائم رکھناچاہا مگر انہوں نے ہارون ؑ کی بات ماننے سے انکار کردیا.یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا والا بھی ہاورن ؑکے شرک کرنےکے واقعہ کو غلط قرار دیتاہے اور اس سے یہ استدلال کرتاہے کہ بائیبل میں کئی واقعات بعد میں بڑھا دیئے گئے ہیں (انسائکلوپیڈیا برٹینیکا جلد ۴ زیر لفظ CALF THE GOLDEN وجلد ۱۵ زیر لفظ موسیٰ).تورات کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ پرجاتے ہوئے بنی اسرائیل سے وقت کی کوئی تعیین نہیں کی تھی.بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ ’’جب تک ہم لوٹ کر تمہارے پاس نہ آجائیںتم ہمارے لئے یہیںٹھہرے رہو.‘‘ (خروج باب ۲۴ آیت ۱۴ ) اورپھر وہ ’’پہاڑ پر چالیس دن اور چالیس رات رہا.‘‘ (خروج باب ۲۴ آیت ۱۸ ) لیکن موسیٰ ؑکے پہاڑ پرجانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے ان کے آنے میں دیر محسوس کی تو انہوں نے ہارون سے اپنے لئے بچھڑا بنوالیا.قرآن کریم اس کے خلاف یہ کہتاہے کہ موسیٰ تیس راتوں کے وعدہ سے گئے تھے مگر بعد میں اللہ تعالی ٰنے ان پر احسان فرماکر دس راتیں اور اپنے ساتھ ہم کلام ہونےکا شرف عطافرما دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً (الاعراف :۱۴۳) یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس ر اتوں کاوعدہ کیا تھا.مگر پھر ہم نے دس راتیںاور بڑھاکر انہیں تکمیل تک پہنچا دیا.اور
یوں اس کے رب کاچالیس رات کا وعدہ اس سے پورا ہوا.ان دونوں بیانات میںسے قرآنی بیان صاف طورپر سچامعلوم ہوتاہے.کیونکہ تبھی تو بنی اسرائیل ان کی غیر حاضری میں گھبراگئے.ورنہ اگر غیر معین وقت ہوتا تو ایک مہینہ کچھ زیادہ وقت نہیںتھا کہ اس عرصہ میں وہ گھبرانے لگ جاتے.ان میں گھبراہٹ اسی لئے پیدا ہوئی کہ موسیٰ ؑ تیس راتوں کا وعدہ کرگئے تھے مگر تیس راتیں گذرنے کے بعد واپس نہیںآئے.معلوم نہیںوہ کہاں غائب ہوگئے ہیں.سامری نے موسیٰ ؑکی اس غیر حاضری سے فائدہ اٹھایا اور قوم میں فتنہ کھڑاکردیا.حضرت ہارون علیہ السلام نے اس موقعہ پر جو یہ کہا کہ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ یعنی اے میری قوم تمہیں اس بچھڑے کے ذریعہ ایک آزمائش میں ڈالا گیا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اصل آزمائش کا وقت اب آیا ہے گویا فرعون کے عذاب اس آزمائش کے مقابل پر بالکل ہیچ تھے کیونکہ و ہ آزمائش دشمن کی طرف سے تھی جس میں قدرتاً سب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیںلیکن جب اندرونی فتنہ کھڑاہو تو کئی کمز ور طبائع ڈانوانڈول ہوجاتی ہیں.پس حضرت ہارون علیہ السلام اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیںکہ بے شک پہلے بھی تمہارے سامنے مختلف آزمائشیںآتی رہی ہیںمگر اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ تمہاری آزمائش کا اصل وقت اب آیا ہے اور اب دنیاپرظاہر ہو جائےگا کہ تم میںسے کون سچے دل سے ایمان لایاتھااور کون اپنے دعویٰ ایمان میںجھوٹاتھا.اس سے معلوم ہوا کہ اندرونی فتنوں کوکبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ پوری تندہی سے ان کامقابلہ کرنا چاہیے.کیونکہ خطرے والا فتنہ وہی ہوتاہے.خواہ قوم کتنی بھی تھوڑی ہو اگر اندرونی فتنہ اس میں نہ ہو تو دشمن اسے مٹانہیںسکتالیکن اگر اندرونی فتنہ پیدا ہو تو پھرتباہی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.اس جگہ ایک مختصر سانوٹ سامری کے متعلق بھی دے دینا ضروری معلوم ہوتاہے میرے نزدیک سامری کسی خاص شخص کانام نہیں بلکہ یہ ایک صفاتی نام ہے جو اب آہستہ آہستہ عَلم بن گیا ہے.سمر اصل میں کیل ٹھونکنے کو کہتے ہیں.اور سامر اس شخص کوکہتے جوکیل ٹھونکتا ہے چنانچہ لغت میں لکھاہے سمر کے معنے ہوتے ہیں اَوْثَقَہٗ وَ شَدَّہٗ بِالْمِسْمَارِ اس نے کسی چیز کے بناتے وقت اس کی مضبوطی کا خاص خیال رکھا.اور اسے کیلوںسے جڑدیا پس لوہار ترکھان سنار اورمعمار وغیرہ سب سامر کہلائیں گے.معلوم ہوتاہے بنی اسرائیل میں آہن گر ی نجاری معمار ی اور سنار وغیرہ کاکام کرنےوالے کچھ لوگ تھے جن کو اپنے پیشہ کی مناسبت کے لحاظ سے سامرہ کہنے لگ گئے تھے انہی پیشہ وروں میں سے یہ کوئی فتنہ پرداز شخص تھاجس نے توحید کے خلاف ایک خطرناک فتنہ کھڑا کردیا.اس تحقیق کے
مطابق سامرہ اس قبیلے کانام تھاجویہ کام کرتے تھے اور سامر اسے کہا جاتا تھا جواس قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا.اب تو مختلف پیشے مختلف قوموںاور افراد میںپائے جاتے ہیں.مگراس زمانہ میں چونکہ ابھی میل جول کے ذرائع بہت محدود تھے اور پیشہ وروں کو کام کے حصول میںبہت دقت پیش آتی تھی اس لئے معلوم ہوتاہے کئی کئی پیشے ایک ہی قوم میں اکٹھے ہوتے تھے گویا یہ ایک پیشہ ور قبیلہ تھا جو لوہار ترکھان سنار اور معمار وغیرہ کاکام جانتے تھے اورانہی کے ایک فرد سے اس فتنہ کی ابتداء ہوئی بلکہ اگر تاریخ کازیادہ گہرا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ انہی لوگوںسے خفیہ سوسائٹیاں شروع ہوئی ہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں بھی اسی قوم نے فتنہ اٹھایا تھااور اس وقت ان کے ایک لیڈر ہیرام نے جوحضرت سلیمان ؑ کے تعمیر کردہ معبد کا سب سے بڑاکاریگر تھا آپ کامقابلہ کیا تھا.فری میسنز اپنے آپ کو اسی کی طرف منسوب کرتے ہیں.اسی طرح ہماری جماعت میںمستریوںکا فتنہ ایک مشہور فتنہ ہے.پس سامری ایک پیشہ ورقبیلہ کا فرد تھاجسے اپنے کام کی مناسبت کے لحاظ سے سامرہ کہا جاتا تھا اور سامری اس کا صفاتی نام تھا مگر آہستہ آہستہ یہی نام اس کا علم کے طورپرمشہور ہو گیا.معلوم ہوتاہے یہودیوں میں یہ قبیلہ دیر تک طاقتور رہا ہے.چنانچہ تاریخوںسے پتہ لگتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مدینہ منورہ میں بنو قریظہ سنار اور لوہار کاہی کام کرتے تھے.قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَ لَا بِرَاْسِيْ١ۚ اِنِّيْ (ہارون نے) کہا اے میری ماں کے بیٹے نہ میری داڑھی (کے بال) پکڑ او ر نہ میرے سر کے بال پکڑ میں تو اس خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ وَ لَمْ بات سے ڈرگیاتھا کہ تو یہ نہ کہے کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا اور میری بات کا خیال نہیں رکھا تَرْقُبْ قَوْلِيْ۰۰۹۵ (کہ قوم کی تنظیم قائم رہے.) حل لغات.ترقب تَرْقُبْ رَقَبَ سے ہے اور رَقَبَہُ کے معنے ہوتے ہیں اِنْتَظَرَہُ.اس کا انتظار کیا اور جب رَقبَ الشَّیْ ءَ کہیںتو معنے ہوںگے حَرَسَہُ اس کی نگہبانی کی.(اقرب)
تفسیر.اس جگہ حضرت ہارون علیہ السلام نے حقیقی عذرپیش کیاہے اور بتایا ہے کہ میں نے ان لوگوں کوروکا تو تھا لیکن زیادہ سختی اس لئے نہیںکی کہ کہیں یہ مقابل پر کھڑے نہ ہوجائیںاور تویہ الزام نہ دے کہ قوم میں بغاوت پیدا کردی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا.یا تو نے میرے اس حکم کاکہ امن رہے خیال نہیںرکھا رقب کے دونوں معنے ہوتے ہیں رَقَبَ کے معنے اِنْتَظَرَکے بھی ہوتے ہیں او ر رَقَبَ کے معنے حَرَسَ کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَنَااَرْقُبُ لَکَ ھٰذِۃِ اللَّیْلَۃ آج رات میں تیری نگہبانی کروںگا پس حضرت ہارون ؑ کہتے ہیںکہ میں نے صرف اس خیال سے ان پرزیادہ سختی نہیں کی کہ مبادا آپ یہ کہہ دیں کہ تونے قوم میں تفرقہ پیدا کردیا اور میرے حکم کاانتظار نہیں کیا.یا تو نے میرے اس حکم کاکہ امن رکھاجائے خیال نہیںرکھا.بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیںکہ نبی کسی دوسرے نبی کامطیع نہیں ہو سکتاوہ صرف مطاع ہوتاہے (محمدیہ پاکٹ پک صفحہ ۱۸۲).حالانکہ یہ تو درست ہے کہ نبی مطاع ہوتاہے مگر ان لوگوں کا جن کی طرف وہ مبعوث کیا جاتا ہے.یہ نہیںکہ وہ اور کسی کامطیع نہیں ہوتا.اس طرح تو کہناپڑےگاکہ نعوذبااللہ نبی خدا تعالیٰ کا بھی مطیع نہیںہو سکتا حالانکہ یہ بات بالبداہت باطل ہے انہی آیات کودیکھ لو.حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْتم میری اطاعت اختیار کرو اور میرے حکم کی نافرمانی مت کرو گویا انہوں نے اپنے آپ کو قوم کا مطاع قرار دیا.مگر دوسری طرف جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ سے واپس تشریف لائے تو انہوںنے حضرت ہارون ؑسے کہا کہ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْکیاتو نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون ؑاپنی قوم کے تو مطاع تھے لیکن حضرت موسیٰ ؑکے مطیع تھے اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ میں نے صرف اس خیال سے ان لوگوں پرزیادہ سختی نہیں کی کہ کہیں آپ مجھے یہ الزام نہ دیں کہ میں نے آپ کے حکم کاانتظار نہ کیا.او ربنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا.گویا وہ ہر اہم بات میں ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے اور اس بات کاخیا ل رکھتے تھے کہ کہیں موسیٰ ؑکی اطاعت میں کوئی فرق نہ آجائے.یہ بات بتاتی ہے کہ عوام الناس کایہ خیال کہ نبی کسی دوسرے نبی کا مطیع نہیں ہوتا قرآن کریم کےرو سے بالکل غلط ہے.
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ۰۰۹۶قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ ( اس پر موسیٰ سامری سے مخاطب ہوئے اور) کہا.اے سامری تیراکیا معاملہ ہے اس نے کہا میںنے وہ کچھ دیکھا يَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا تھا.اور میں نے اس رسول (یعنی موسیٰ )کی باتوں میںسے کچھ اختیار کرلیں (اور فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ۰۰۹۷قَالَ فَاذْهَبْ کچھ اختیار نہ کیں ) پھر (جب موقعہ آیا تو ) میں نے ان (ا ختیار کی ہوئی باتوں)کو بھی پھینک دیا اور میرے دل نے فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ١۪ وَ اِنَّ لَكَ یہی چیز مجھے اچھی کر کے دکھائی تھی.(موسیٰ نے ) کہا اچھا تو جا تیری اس دنیا میں یہی سزاہے کہ تو اس(دنیا) میں ہر مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰۤى اِلٰهِكَ الَّذِيْ ظَلْتَ ایک سے یہ کہتا رہے کہ (مجھے) چھو ئو نہیں (یعنی مجھ کوموسیٰ نے گندہ قرار دے دیا ہے) اور (موسیٰ نے سامری سے عَلَيْهِ عَاكِفًا١ؕ لَنُحَرِّقَنَّهٗ۠ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ فِي الْيَمِّ نَسْفًا۰۰۹۸ یہ بھی کہا کہ) تیرے لئے ایک وقت مقرر ہے (یعنی سزا کا) جس کو تو ٹلا نہیں سکے گا.اور تو اپنے معبود کی طرف دیکھ جس کے سامنے بیٹھ کر تو اس کی پرستش کیاکرتا تھا.ہم اس کو جلائیںگے اور پھر اس کو سمندر میں پھنک دیںگے.حلّ لُغَات.اَثَرٌ کے معنے حدیث کے ہیں یعنی بات (اقرب) اور الرَّسُوْلُ میں الف لام معہود ذہنی کا ہے یعنی وہ رسول جس کو سب مخاطب لوگ بھی جانتے ہیںاور میں بھی جانتا ہوں یعنی موسیٰ علیہ السلام.نَسَفَہُ کے معنے ہوتے ہیں عَضَّہُ اس کو کاٹا (اقرب) او ر نَسَفَ الشَّیْ ءَ کے معنی ہیں غَرْبَلَہٗ (لسان لعرب ) کسی چیز کو چھلنی سے چھانا.پس لَنَنْسِفَنَّهٗ کے معنے ہوںگے ہم اس کو کاٹیں گے اور پھر اس کو چھلنی میںچھانیں گے.تفسیر.اس آیت کایہ مطلب ہے کہ سامری نے کہا کہ اے موسیٰ تیری قوم تو بے وقوف تھی میںعقلمند تھا میں نے تیرے وہ حالات دیکھے جو تیری قوم نے نہیںدیکھے.یعنی وہ تو اندھادھند تجھے نبی مان رہی تھی میںنہیں مان
رہا تھا.سو میں نے تیری باتوں میںسے کچھ اختیار کرلیں اور کچھ پر ایمان نہ لایا اور جس باتوں پر میںایمان لایا وہ بھی اس لئے تاکہ تیری قوم دھوکا میںآکر مجھے اپنا لیڈر بنالے.اس کے بعد جب میں نے مصلحت اس کے خلاف دیکھی اور تیرے پہاڑ پر جانے کے بعد تیری قوم کو میں نے ڈگمگاتے پایا تو وہ تعلیم جو پہلے میں نے اختیار کرلی تھی اسے میں نے پھینک دیااور جس طرح پہلے تجھ پر ایمان لانا میرے نفس نے پسند کیا تھا اب اس نے مجھے یہ صلاح دی کہ اسے چھوڑدوں کیونکہ جب میںنے دیکھاکہ تیری قوم شرک کی طرف جھکی ہوئی ہے تو ایک بچھڑابناکر ان کے آگے پیش کردیا تاکہ وہ مجھے اپنا لیڈر بنالیں.یہ سب باتیں سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ تو نے قوم میںعزت حاصل کرنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا تھا.اب تیری سزایہی ہے کہ تجھے قوم میں ذلیل کیاجائے.پس جب تک تو زندہ رہے تیرافرض ہے کہ جب بھی بنی اسرائیل کے پاس سے گذرے تو کہتاجائے مجھے کوئی نہ چھوئے کیونکہ موسیٰ نے مجھ سے تعلق رکھنے سے منع کردیاہے مگر یہ سزا بہر حال دنیوی ہے.تیرے لئے ایک اور سزا بھی مقرر ہے جو ضرور پوری ہوکر رہے گی.لوگ کہتے ہیںکہ اپنی قوم کے نظام کے لئے بھی کسی سے کلام کرنے کو روکنا جائز نہیں.حالانکہ اگر اپنی قوم کا نظام قائم رکھنے کے لئے کسی سے کلام کرنے کو روکنا جائز نہیں تو سب سے پہلے مجرم حضرت موسیٰ ؑہیں جنہوں نے سامری کو حکم دے دیاکہ تو جب بھی بنی اسرائیل کے پاس سے گذرے تو یہ کہاکر کہ موسیٰ کے حکم کے مطابق میرے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھے.حقیقت یہ ہے کہ قومی نظام کے مطابق قطع تعلقی ایمان کے مظاہرہ کا نام ہے.اور اسے مقاطعہ نہیں کہاجاسکتا اگر یہ مقاطعہ ہے تو چاہیے کہ ہر مسلمان اپنے بچوں کوپنڈتوں کے پاس پڑھنے کے لئے بھیجاکرے تاکہ وہ وید کی باتیں سیکھیں یا عیسائی پادریوں کے پاس بھیجا کرے تاکہ وہ ان سے انجیل کی باتیں سیکھیں.سارے پاکستان اور مصر میں شور مچاہواہے کہ عیسائی سکولوں میں استادوں کو انجیل پڑھانے کی اجازت نہ ہو.ورنہ ایسے سکولوں میںمسلمان بچوں کو داخل کرنے سے منع کردیا جائے.اگر جوش ایمان کے ماتحت ان لوگوں سے جوظاہر میں قوم کے ساتھ شامل ہوکر فریب کرتے ہیںکسی قوم کااپنی مرضی سے انقطاع کرنا ناجائز ہے تو پھر تو کوئی قوم اپنے ایمان کی حفاظت کرہی نہیں سکتی اگر کسی کے باپ کو کوئی گالی دیتاہے تو وہ اس سے کلام نہیںکرتا.کیا اس کی نسبت کہاجاتاہے کہ وہ مقاطعہ کر رہا ہے.یا یہ کہاجاتاہے کہ وہ غیرت کاثبوت دیتاہے.اسی طرح اگر کو ئی شخص کسی گروہ میں شامل ہوکر اس گروہ کے عقاید کےخلاف آہستہ آہستہ اس کے نوجوانوں کو ورغلائے اور والدین اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے روکیں تو یہ بھی
بائیکاٹ نہیںغیرت ایمانی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے کہا کہ انقطاع تعلق کے علاوہ اس دنیامیں تجھے یہ روحانی سزابھی ملے گی کہ جس معبود کی تو پوجا کرتاتھا ہم اس کو جلادیں گے اور اس کی راکھ کودریا میں پھینک دیں گے تاکہ تجھ پر یہ بات کھل جائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.اس جگہ یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ بت توسونے کا تھا اس کو جلا کر اس کی راکھ سمندر میں پھینکنا ایک بے معنے بات ہے.سونا جل کر راکھ نہیںہوا کرتااور اگر کشتہ بناکر اس کو راکھ کی طرح بھی کردیتے ہیں تب بھی اس میں بہت سی دوائیں پڑتی ہیں اسی وجہ سے لوگ دو تین تولہ سونے کا کشتہ بناتے ہیں لیکن یہ سونا فرعون کے دارالخلافہ کے امراء کا سونا تھا اس کا کشتہ بنانا آسان کام نہیںتھا.عیسائی جوکہ یہودیت کے قائم مقا م ہیںاور جن کی کتابوں میں ابتدا ء ً یہ باتیں درج ہیںوہی یہ اعتراض کرتے ہیںکہ قرآن کریم میںلغو قصے درج ہیں(ینابیع الاسلام فصل سوم صفحہ ۴) حالانکہ قرآن کریم نے ان کی کتابوں کا لکھاہوا واقعہ درج کیا ہے اور اس صورت میں درج کیا ہے کہ وہ معقول ہوگیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ آواز نکالنے کے لئے لکڑی کو استعمال کیا جاتاہے کیونکہ اس میں آسانی کے ساتھ انسانی گلے کے مشابہ پردے پیدا کئے جاسکتے ہیں.جیسے مرلی میں.پس قرآن نے صرف اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بت میں سے اس نے کس طرح آواز پیدا کرلی یعنی اس کے منہ کی طرف اس نے کچھ لکڑی استعمال کی جس میں مرلی کی طرح کے پردے بنائے جب ہواا س میں سے نکلتی توآواز پیدا ہوتی جب بت کو آگ میں ڈالا گیا.تو سونا تو پگھلا مگر لکڑی جل کر راکھ ہوگئی جس راکھ کو بت سمیت اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا.لیکن چونکہ نسف کے معنے کاٹنے کے بھی ہیں اور دھاتوں کو ریتی کے ساتھ رگڑ کر کاٹاجاتاہے اور اسی طرح نسف کے معنی چھلنی میں ڈال کر چھاننے کے بھی ہیںاس لئے اس آیت کایہ مفہوم بھی ہے کہ ہم پہلے تو اس بت کو ریتی کے ذریعہ سے رگڑ کر اس کو ریزہ ریزہ کردیں گے.پھر لکڑی کی راکھ سمیت اس کو چھلنی میں ڈالیںگے اور اس کے بعد راکھ اور باریک ذرات تو سمندر میں پھینک دیں گے اور سونے کے ریزے جو اب بت کی شکل میں نہیں رہے اور جن سے شرک پیدا نہیں ہوسکتاان کو قومی ضرورت کے لئے استعمال کرلیںگے کیونکہ ہماری غرض صرف خدا کی واحدانیت ثابت کرنا ہے.
اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ تمہار ا معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ ہرایک چیز کوجانتاہے.عِلْمًا۰۰۹۹كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَ١ۚ اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے لوگوں کی خبریں بیان کرتے ہیں.اور ہم نے تجھے اپنے پاس سے وَ قَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًاۖۚ۰۰۱۰۰ ذکر (یعنی قرآن) عطافرمایا ہے.تفسیر.اس آیت میںیہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس واقعہ کی جو تفصیل ہم نے بیان کی ہے وہ صحیح ہے اور جوتفصیل اسرئیلی روایات میں آتی ہے وہ جھوٹی ہے کیونکہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ہے اور خدا تعالیٰ ہی ہرچیز کو جانتاہے.یہ واقعہ جس کا اوپر ذکر کیاگیا ہے مسلمان مفسرین نے اسرائیلی روایات کے مطابق یوں بیان کیاہے کہ ’’الرسول ‘‘سے مراد موسیٰ ؑنہیںتھے بلکہ جبرائیل تھے.اور ’’اثر ‘‘سے مراد’’ بات‘‘ نہیںتھی جیسا کہ لغت میں لکھا ہے بلکہ قدموں کے نشان تھے(درمنثور زیرآیت طٰہٰ ۸۳ تا ۸۹) اور سامری نے یہ کہا تھا کہ جب جبرائیل ترے پاس آیاکرتاتھا تو تیری قوم کو تو وہ نظر نہیںآتا تھالیکن مجھے نظر آتا تھا.میں نے ایک دن جبرائیل کے پائوں تلے کی مٹی اٹھالی پھر جب بچھڑا بنایا تو سونا پگھلا کر اس میں وہ مٹی ڈال دی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بچھڑا بولنے لگ گیا.یہ قصہ بالبداہت باطل او رغلط ہے اول تو یہ کہ اگر یہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس طرح ہم تجھے پرانی باتیںبتاتے ہیںاور تجھے اپنے پاس سے حقیقت کی تفصیل عطا کرتے ہیںپھرتو ساری کی ساری حقیقت پرانی کتابوں میں موجود تھی.کسی ایسے دعویٰ کی کیاضرورت تھی دوسرے اس بات کے ماننے کے لئے ہمارے مفسرین جیسے سادہ لوح آدمی چاہئیں کہ موسیٰ ؑکے اعلیٰ درجہ کے متبعین نے تو جبرائیل کو نہ دیکھا لیکن سامری جو کافرہی تھا اس نے دیکھ لیا.پھر اس بات کوماننا بھی بڑی سادگی کی بات ہے کہ جبرائیل کے پائوں کی مٹی ڈالنے سے سونے کابچھڑا بولنے لگ گیا.حالانکہ معمولی سنار بھی جانتے ہیں کہ اگر خول دار بت بنایا جائے اور اس کے منہ کی طرف ایک سوراخ کیاجائے اور اس میں مرلی کی طرح لکڑی کے پردے بنادئے جائیں اور ایک سوراخ اس کی پیٹھ کی طرف کیاجائے
تو جب پیٹھ کی طرف سے ہوا آئےگی تو منہ میں سے آواز نکلے گی.جیساکہ مریلی اور سیٹیوں میں ہوتاہے.پس واقعہ وہی صحیح ہے جو ہم نے لکھا ہے اور قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے مفسرین کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایک توانہوں نے اسرئیلی روایتوں کو سچ سمجھ لیا.دوسرے انہوں نے لغت پر غور نہیں کیا.اگر وہ لغت پرغور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ اثر کے معنے بات کے بھی ہیں اور الرسول کے معنے لغت کے مطابق معلوم رسول کے بھی ہیںنہ کہ جبرائیل کے.مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ فَاِنَّهٗ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وِزْرًاۙ۰۰۱۰۱ جو اس سے منہ پھیرے گا وہ قیامت کے دن ایک بہت بڑابوجھ اٹھائے گا ایسے لوگ اس حالت میں خٰلِدِيْنَ فِيْهِ١ؕ وَ سَآءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ حِمْلًاۙ۰۰۱۰۲يَّوْمَ بڑی دیر تک رہیںگے اور قیامت کے دن یہ بوجھ اور بھی تکلیف دہ ہوگا.جس دن کہ بگل میں پھونکا جائےگا يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًاۚۖ۰۰۱۰۳ اور اس دن مجرموں کو ہم اس حالت میںاٹھائیںگے کہ ان کی آنکھیںنیلی ہونگی وہ آپس میں يَّتَخَافَتُوْنَ۠ بَيْنَهُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا۰۰۱۰۴ آہستہ آہستہ باتیں کرینگے کہ تم توصرف دس( صدیاں اس دنیا میںحاکم )رہے ہو.تفسیر.یوم القیامۃ قرآن و حدیث سے دوثابت ہوتے ہیں ایک مرنے کا دن جس کے متعلق حدیث میںآتا ہے کہ مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ (مجمع الانوار جلد ۳ صفحہ ۱۸۳) یعنی جوشخص مرگیااس کی قیامت کادن آگیا اور ایک قیامت کادن وہ ہوگا جس دن سب اگلے پچھلے لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیںگے.اس آیت میںجوپہلا یوم القیامۃ آیاہے اس سے مراد انسانی موت کادن ہے اور جودوسرا یوم القیامۃ آیا ہے اس سے مراد تمام قوموںکے زندہ ہوکر اٹھائے جانے کادن ہے جب مشرکین کے انجام کا ساری قوموںکو پتہ لگ جائے گا اور سب قومیںشرک سے نفرت کرنے لگ جائیںگی.یہ موجود ہ زمانہ کے متعلق خبر ہے کہ اس میں ہر مشرک قوم دعویٰ کرنے لگ گئی ہے کہ درحقیقت وہ موحد ہے.کیا ہندو اور کیا عیسائی سب کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم تو ایک خدا کو مانتے ہیں.ہمارے متعلق لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے.
فرماتا ہے یہ پیشگوئی اس وقت پوری ہوگی جب تمام اقوام میںبیداری پیدا ہو جائے گی.اور مشر ک لوگ خصوصیت کے ساتھ نیلی آنکھوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے مطلب یہ کہ اس دن شرک زیادہ تر نیلی آنکھوں والی قوموں میں ہوگا یعنی یوروپین اور امریکن لوگوں میں سے اور گو وہ پہلے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہوںگے کہ ہم ہمیشہ دنیا پر حکومت کریںگے لیکن اس دن ان میں یہ کانا پھوسی شروع ہوجائےگی کہ تمہاری عمر تو صرف دس تھی یعنی دس صدیاں مراد یہ ہے کہ تمہاری ترقی کا زمانہ صرف ایک ہزار سال تھا.تم اسی پر اتراگئے اور خدا تعالیٰ کی توحید کو بھول گئے.نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ اِذْ يَقُوْلُ اَمْثَلُهُمْ طَرِيْقَةً اِنْ ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو وہ کہیں گے جب ان میںسے سب سے زیادہ ان کے مذہب پر چلنے والا کہے گا.لَّبِثْتُمْ اِلَّا يَوْمًاؒ۰۰۱۰۵ کہ تم ایک تھوڑی سی مدت ٹھہرے ہو.تفسیر.فرماتا ہے نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ ہم ان کی باتوں کوخوب جانتے ہیںجس وقت ا ن میںسے سب سے بڑالیڈر یہ کہے گا کہ اگر حقیقت دیکھی جائے تو تم نے بہت تھوڑا عرصہ اس دنیا میںبادشاہت کی ہے.لفظی طور پر تو اس آیت میں یہ کہاگیا ہے کہ تم نے ایک دن بادشاہت کی ہے لیکن یوم کے معنے چونکہ عربی زبان میں وقت کے بھی ہوتے ہیں اور یوم کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ اللہ تعا لیٰ کا ایک دن ہزار سال کا ہوتاہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(الحج:۴۸) خدا کا ایک دن ہزار سال کا ہوتاہے اور اس سے پہلے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم ’’دس ‘‘رہے ہو اور دس سے مراد دس صدیاں بھی ہوسکتی ہیںجو ہزار سال کے برابر بنتی ہیں اس لئے اِلَّایَوْمًاکے بھی دو معنےہو سکتے ہیںکہ تم ’’یوم‘‘ خداوندی رہے ہو یعنی دس صدیاں اور یہ بھی کہ جب آخر میں سزا مل گئی تو عیش کا زمانہ بہت چھوٹاہوگیا.اور یہی کہنا ٹھیک ہے کہ تم نے بہت تھوڑی دیر دنیا میں ترقی حاصل کی اور آخر میں تم کو ہلاک کر دیا گیا.
وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًاۙ۰۰۱۰۶ اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ ان کو میرارب اکھاڑ کر پھینک دےگا.اور ان فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًاۙ۰۰۱۰۷لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ کو ایک ایسے چٹیل میدان کی صورت میںچھوڑدے گا کہ نہ تو تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی اَمْتًاؕ۰۰۱۰۸يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهٗ١ۚ وَ اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے جس کی تعلیم میںکوئی کجی نہ ہوگی او ر رحمٰن( خدا کی آواز) خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا هَمْسًا۰۰۱۰۹ کے مقابلہ میں( انسانوں کی) آواز یں دب جائیں گی.پس تو سوائے کھسر پسر کے کچھ نہ سنےگا اس دن شفاعت يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ سوائے اس کے جس کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت رحمٰن( خدا)دے گا اور جس کے حق میں بات رَضِيَ لَهٗ قَوْلًا۰۰۱۱۰ کہنے کو وہ پسند کرے گا کسی کو نفع نہ دے گی.حلّ لُغَات.یَنْسِفُ نَسَفَ سے مضارع کاصیغہ ہے اور نَسَفَ کے معنے ہوتے ہیں قَلَعَہُ مِنْ أَصْلِہِ جڑھ سے اکھیڑ دیا.(اقرب)چنانچہ کہتے ہیں نَسَفَ الرَّیْحُ الشَّیْ ءَ یعنی ہوانے چیزوں کو جڑوںسے اکھیڑدیا.الجبل کے معنے ہوتے ہیں کُلُّ وَتِدٍ لِلْاَرْضِ، عَظُمَ وَطَالَ.پہاڑ سَیِّدُ الْقَوْمِ وَعَالِمُھُمْ.قوم کاسردار اور عالم (اقرب) الاَمْتُ کے معنے ہیں الْمَکَانُ المُرْتَفِعُ بلند مکان (اقرب) ھَمْسٌ کے معنے ہیںاَلصَّوْتُ الْخَفِیُّ.بالکل نیچی آواز (اقرب) تفسیر.اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جب نیلی آنکھوں والے یعنی یوروپین لوگ یہ
پیشگوئی پڑھیں گے تو کہیں گے کہ قرآن تو یہ کہتاہے کہ عیسائی حکومتیں تباہ ہوجائیں گی.لیکن اگر یہ صحیح ہے تو ہمارے ڈیوک اور ایمپرراور کنگ کہاں جائیںگے ؟ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس تباہی کے آنے سے پہلے ہی ان کو ختم کر دیا جائے گا.اور تمام ملکوں میں ڈیماکرسی قائم ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ آہستہ آہستہ لوگ قرآن لانے والے کی آواز سننے لگ جائیںگے جس کی تعلیم میں کوئی کجی نہیں.او رحمن خدا کی آواز بلند ہونے لگ جائے گی اور شرک کی آواز دھیمی پڑنے لگ جائے گی اور یا تو ترقی کے لیئے عیسائی ہونا بڑی سفارش سمجھا جاتاتھا اور یا اس زمانہ میں ترقی کے لئے مسلمان ہونا سفارش سمجھا جائے گا.مسلمان ہونے کانتیجہ ہم نے اس بات سے نکالا ہے کہ اس آیت میںکہا گیا ہے کہ شفاعت اسی کوفائدہ دے گی جس کے لئے رحمن خدا اجازت دے گا.اور جس کے متعلق بات کہنے پروہ راضی ہوگا اور قرآن کریم میں مسلمانوں کے متعلق آتاہے کہ ’’رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ‘‘(المجادلہ:۲۳) کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اوروہ اللہ سے راضی ہو گئے.پس وَ رَضِيَ لَهٗ قَوْلًا میں مسلمانوں کا ذکر ہے کہ اس وقت مسلمان ہونا ہی ترقی کا سب سے بڑا معیار سمجھا جائےگا.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ وہ جو کچھ ان کے آگے آنے والا ہے اس کو بھی جانتاہے اور جوکچھ ان کے پیچھے گذر چکا ہے اس کو بھی جانتاہے اور عِلْمًا۰۰۱۱۱ وہ اپنے علم کے ذریعہ سے اس (یعنی خدا)کا احاطہ نہیںکرسکتے.تفسیر.اس جگہ دعویٰ کی گیا ہے کہ یہ پیشگوئی ضرور پوری ہوکر رہے گی کیونکہ یہ خدائے علیم کی طرف سے ہے.
وَ عَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ١ؕ وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ اور( اس دن) زندہ اور قائم رہنے اور قائم رکھنے والے (خدا) کے سامنے سب بڑے لوگ (ادب سے) جھک ظُلْمًا۰۰۱۱۲ جائیںگے.اور جوظلم کرےگا وہ ناکام رہےگا.حلّ لُغَات.وَجْہٌ کے معنے ہوتے ہیں سَیِّدُالْقَوْمِ.قوم کا سردار (اقرب) القَیُّوْمُ کے معنے ہوتے ہیں الْقَائِمُ الْحَافِظُ لِکُلِّ شَیْءٍ وَ الْمُعْطِیْ لَہٗ مَا بِہٖ قِوَامُہٗ (مفردات ) یعنی ایسا وجود جو خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے.(مفردات) تفسیر.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخر وہ وقت آجائےگا جبکہ سب بڑے بڑے لوگ اور قومیں اور حکومتیں خدا تعالیٰ کے سچے دین کے سامنے جھک جائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیںگی.وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخٰفُ اور جس نے وقت کی ضرورت کے مطابق عمل کئے ہوںگے اور وہ مومن بھی ہوگا وہ نہ تو کسی قسم کے ظلم سے ڈرےگا ظُلْمًا وَّ لَا هَضْمًا۰۰۱۱۳ اور نہ کسی قسم کی حق تلفی سے حل لغات.ھَضْمٌ ھَضَمَ کا مصدر ہے.اور ھَضَمَ الشَّیْ ءَ کے معنے ہوتے ہیں کَسَرَہٗ اس کو توڑ دیا اور ھَضَمَ فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں ظَلَمَہٗ وَ غَضَبَہٗ اس پر ظلم کیا اور اس کی اشیا ء اور جائیداد پرقبضہ کرلیا.تفسیر.فرماتا ہے.اس زمانہ کے آنے سے پہلے وہ زمانہ تھاکہ مسلمان ظلم اور حق تلفی سے ڈرتے تھے مگر پھر وہ زمانہ آجائے گا جبکہ خود عیسائی بھی مسلمان ہوجائیںگے اور مسلمان ظلم اور حق تلفی سے محفوظ ہوجائیںگے.
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا وَّ صَرَّفْنَا فِيْهِ مِنَ اور اسی طرح ہم نے اس( کتاب) کوعربی زبان کے قرآن کی صورت میںاتاراہے اوراس میںہرقسم کے انذار الْوَعِيْدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ اَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا۰۰۱۱۴ کو کھول کھول کر بیان کیاہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں یا (یہ قرآ ن) ان کے لئے (خدا کی) یاد کاسامان (نئے سرے) سے پیدا کرے.تفسیر.عیسائیوں کے اسلام لانےکی یہ ترکیب کی گئی ہے کہ قرآ ن کو ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے کہ ہر غیر متعصب اس کو سمجھ سکتاہے پس جب عیسائیوں کی آنکھیں کھل جائیںگی تو وہ اس کو ماننے لگ جائیںگے.اور جو ضدی ہوںگے وہ اگر عقل سے نہیںمانیںگے تو عذابوں سے گھبراکر مان لیں گے.یا قسم قسم کے عذابوں سے تباہ کردیئے جائیںگے اور قرآن کریم خدا کی یاد پید اکرنے کے لئے نئے نئے مضامین عیسائیوں کے سامنے رکھے گا جو ان کی ہدایت کا موجب ہوںگے.اور ان کے دلوں میں نیکی کا مادہ پیدا کر دیںگے.اس آیت میں قرآن کالفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب کثرت سے پڑھی جائےگی اور عربیا ً کہہ کر یہ بتایاہے کہ اس کے مفہوم کا سمجھنا بھی آسان ہوگا کیونکہ یہ ہر بات دلیل کے ساتھ بیان کرے گی.فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ پس اللہ (تعالیٰ) جو بادشاہ ہے بڑی شان والا ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور تو قرآن کی وحی اترنے سے پہلے قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰۤى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ١ٞ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ اس کے بارے میںجلدی سے کام نہ لے اور (مجملاً) یہ کہتا رہ کہ اے میرے رب میرے علم کو بڑھا اور عِلْمًا۰۰۱۱۵وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَ لَمْ ہم نے اس سے پہلے آدم کو( ایک امر کی) تاکید کی تھی مگر وہ بھول گیا.اورہم نے خوب جانچ لیا کہ اس کے دل
نَجِدْ لَهٗ عَزْمًاؒ۰۰۱۱۶ میں ہمارا حکم توڑنے کے متعلق کوئی پختہ ارادہ نہیںتھا.تفسیر.اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ا نسان بہت سے امور میں اپنی عقل استعمال کرے لیکن وہ شخص جو اس حکمت کو نہیں سمجھتا وہ چاہتاہے کہ جھٹ خدا کی وحی نازل ہو کر تمام تفصیلات بیان کردے اور مجھے سوچنا نہ پڑے.فرماتا ہے یہ ٹھیک نہیںوحی جب مکمل ہو جائےگی تو جتنی ضروری باتیں ہیں اس میں بیان ہوجائیں گی.اور جن باتوں کے متعلق خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان خود سوچ کر فیصلہ کرے وہ اس میںبیان نہیں ہوں گی ان باتوں کے متعلق ہدایت حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان مجملا ً یہ دعا کرتارہے کہ الٰہی جن جن شخصی یاقومی کاموں کے لئے مجھے ہدایت کی ضرورت ہو تو میرے دل پر ان کے متعلق روشنی نازل کر دیا کر.تاکہ میں اور میر ی قوم گمراہ نہ ہوں اور میرے علم کو ہمیشہ بڑھاتا رہ.دنیا میں عام طور پریہ خیال کیا جاتاہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتاہے جوانی عمل کا زمانہ ہوتاہے اور بڑھاپا عقل کا زمانہ ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوںکو اپنے اندر جمع کرلیتا ہے اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کردیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرابھی ہولنے کے قابل ہوتاہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کردیتاہے اور پوچھتاہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لئے ہے.اور اس میںعلم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجود ہوتی ہے اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میںلگارہتاہے اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کوعلم کی تحصیل سے مستغنی نہیںسمجھتا.اس کی موٹی مثال ہمیں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی مقدس ذات میںملتی ہے آپ کو پچپن چھپن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاما ً فرماتا ہے کہ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا.یعنی اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچہ کے ساتھ ہوتاہے اس لئے بڑی عمر میںجہاں دوسرے لوگ بے کار ہوجاتے ہیں اورزائد علوم اور معارف حاصل کرنےکی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایساہوا ہی کرتاہے تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ تو ہمیشہ خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدایا میرا علم اور بڑھا.میرا علم اور بڑھا.پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا بلکہ اس میں وہ ایک لذت اور سرور محسو س کرتاہے.اس کے مقابلہ میںجب انسان پرایسا دور آجاتاہے جب وہ سمجھتاہے کہ میں نے جو کچھ سیکھنا تھاسیکھ لیا
ہے اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتا نہیں.تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتاہے.دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عمر کے آدمی تھے مگر پھر بھی کہتے ہیںرَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى (البقرۃ:۲۶۱) دنیا کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احیاء موتیٰ پر کبھی غورہی نہیںکرتے نہ انسانی زندگی انہیں اعجوبہ معلوم ہوتی ہے.نہ حیوانی زندگی انہیں اعجوبہ معلوم ہوتی ہے.ہزاروں سال سے زندگی کا دور چلاآرہا ہے مگر انہوںنے یہ کبھی نہیںسوچا کہ انسان کی زندگی کس طرح شروع ہوئی ہے.اس زمانہ میں صرف ڈارون کی ایک مثال ہے جس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ زندگی کس طرح ظاہر ہوئی ہے اور وہ کیا کیا مدارج ہیں جن میںسے انسان گذراہے اس کی تحقیق غلط تھی یا صحیح بہر حال اس کے دل میںخیال پیدا ہوا اور اس کے بعد ساری دنیا میںایک رو چل گئی کہ دیکھیں دنیا کس طرح پید اہوئی ہے ؟ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے سوال کیاکہ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى (بقرۃ:۲۶۱) گویا وہی خیال جو دنیوی اور مادی لوگوں کے دلوں میں ڈارون کے زمانہ میںپید اہو آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں بھی پید اہو ااور انہوںنے کہا اے میر ے رب یہ بے جان مادہ کس طرح زندہ ہو جایا کرتاہے؟ڈارون نے تو مادی احیاء کے متعلق جستجو کی تھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مادی زندگی سے کوئی غرض نہیں تھی انہیںروح کی زندگی مطلوب تھی اور انہوں نے چاہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ پتہ لگائوں کہ ارواح کسی طرح زندہ ہوا کرتی ہیںجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم تو تو پچاس ساٹھ سال کا ہوچکا ہے.اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے.بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں.پس ہر عمر میںعلم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ الٰہی میراعلم بڑھا.کیونکہ جب تک انسانی قلب میںعلوم حاصل کرنے کی ہروقت پیاس نہ ہو اس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کرسکتا.پھر آدم کی مثال دیتاہے اور بتاتاہے کہ تم نسل آدم میں سے ہو.آدم تم سے بڑاتھا چھوٹانہ تھا.وہ تمہارا باپ تھا اور مامور من اللہ تھا.اور اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی اطاعت کا جوش رکھتاتھا جب ہم نے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اس پر احکام نازل کئے تو گو وہ دل سے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا ارادہ کر چکا تھا مگر پھر بھی بعض باتوں کو وہ بھول گیایعنی ان کے بارہ میں اس سے غفلت ظاہر ہوئی تو تم جو ٓادم کے بیٹے ہو اور اس سے چھوٹے درجہ کے ہو کیوں ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ کے یقینی احکام مانگتے ہو.جو احکام آجائیںان پرعمل کرنے کی کوشش کرو.اور جو نہ آئیںان پر خود غور کرو اور خدا تعالیٰ کی مدد مانگتے رہو.اور اس سے ہمیشہ یہ دعاکرتے رہو کہ یا اللہ جو سچاعلم ہے اور ہمارے لئے
مفید ہے وہ ہم کو عطا کر تاکہ ہم اس کی روشنی میں ہدایت کے راستہ پرگامزن ہو سکیں.اس آیت میں لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًاکے الفاظ بتاتے ہیںکہ آدم سے صرف ایک اجتہادی غلطی ہوئی تھی جس میں اس کے عزم اور ارادہ کا کوئی دخل نہیں تھا.چنانچہ قرآن کریم نے سورئہ اعراف میںبتایا ہے کہ جب شیطان اخلاص کاجبہ پہن کر آدم کے پاس گیا تو قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ(الاعراف:۲۲) وہ آدم اور اس کے ساتھیوںکے سامنے قسمیں کھاکھا کر کہنے لگا کہ میںتو آپ لوگوں کا بڑاخیر خواہ ہوں.گویا ظاہری مخالفت کو چھوڑ کر وہ منافقانہ رنگ میں آدم کی جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا.اور اس نے اپنے اخلاص کاانہیںقسمیںکھا کھا کر یقین دلایا جیسا کہ سورئہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہی طرق بتایا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور قسمیںکھا کھا کر کہتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.خدتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ درست تو ہے کہ تو اللہ کارسول ہے مگر خدا تعالیٰ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنی قسموںمیں بالکل جھوٹے ہیں.اس لئے ان منافقوں سے ہمیشہ بچتے رہو.یہی طریق زمانہ آدم کے منافقین کے سردار نے اختیا رکیا.اور آدم کو اپنے اخلاص اور فدائیت کا یقین دلایا اس پر آدم نے یہ اجتہاد کیا کہ گو یہ شخص پہلے ابلیسی روح اپنے اندر رکھتاتھا مگر اب تو یہ مخالفت کاراستہ ترک کر چکا ہے اس لئے اب اس سے تعلق رکھنے میںکوئی ہرج نہیں.چنانچہ اس اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس حالت امن میں وہ رہتے تھے اس سے انہیںنکلناپڑا لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا میں ان کی اسی اجتہادی غلطی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شیطان نے آدم کو بغیراس کے کہ اس کا اپناارادہ ہوتا پھسلا دیا.وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اور (یہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم (کی پیدائش کے شکریہ میں خدا کو ) سجدہ کرو.اَبٰى ۰۰۱۱۷ تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کردیا.اس نے انکار کیا.تفسیر.بعض لوگ سوال کیاکرتے ہیںکہ سجدہ کا حکم تو ملائکہ کو دیا گیا تھا.اگر ابلیس نے سجدہ نہیںکیا تو اس کا قصور کیا ہوا ؟ اس سوال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بالکل حل کردیتی ہے آپ فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتاہے تو وہ جبریل کو کہتاہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتاہوں تو بھی اس
سے محبت کر.چنانچہ وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتاہے.پھر جبریل آسمان والوں میں منادی کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتاہے تم بھی اس سے محبت کرو.اس پر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتاچلا جاتاہے.یہاں تک کہ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ اس بندے کے لئے زمین میں بھی قبولیت پھیلادی جاتی ہے (بخاری جلد ۲ کتاب بدءالخلق باب ذکر الملائکۃ) اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبین سے محبت کرنے کا حکم فرشتوں کو دیتاہے اور پھر وہ اس حکم کو دنیا میںجاری کردیتاہے.پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم فرشتوں سے مخصوص نہیں ہوتا بلکہ اہل زمین بھی اس میںشامل ہوتے ہیں.اس حکم کی طرف اس آیت میںاشارہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سوائے ابلیس کے اور سب نے میرے حکم کی اطاعت کی اور وہ آدم کی تائید میں مشغول ہوگئے.اس تشریح سے قرآن کریم کی وہ آیت بھی حل ہوجاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ابلیس سے فرماتا ہے کہ.مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ(الاعراف:۱۳) کہ باوجود اس کے کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ تو آدم کی فرمانبرداری کر.پھر تجھے میرے اس حکم کی اطاعت سے کس چیز نے روکا ؟ اس جگہ بھی امرلمہء ملکی کا ہی نام رکھا گیا ہے.ورنہ یہ مراد نہیں کہ ابلیس کو کوئی علیحدہ حکم دیا گیا تھا.فَقُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا۠ اس پر ہم نے آدم سے کہا.اے آدم یہ (ابلیس) یقیناً تیرا اور تیرے ساتھیوں کا دشمن ہے پس تم دونوں (گروہوں) مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى۰۰۱۱۸اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا کو یہ جنت سے نہ نکال دے کہ اس کے نتیجہ میں تو( اور تیرا ہر ساتھی) مصیبت میں پڑجائے.یقیناً اس( جنت) میں تَعْرٰىۙ۰۰۱۱۹وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَ لَا تَضْحٰى۰۰۱۲۰ تیرے لئے یہ (مقدر) ہے کہ تو بھوکا نہ رہے (اور نہ تیرے ساتھی) اور تو ننگانہ رہے اور نہ تو پیاسارہے.اور نہ دھوپ فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى میں جلے اس پر شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا (اور کہا) اے آدم کیا میں تجھے ایک ایسے درخت کا پتہ
شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۰۰۱۲۱فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ دوں جو سدا بہار ہے.اور ایسی بادشاہی (کاپتہ دوں) جو کبھی فنا نہ ہوگی.پس ان دونوں نے (یعنی آدم اور اس کے لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ ساتھیوں نے )اس درخت میں سے کچھ کھایا (یعنی اس کا مزہ چکھا) جس پر ان دونوں کی کمزوریاں ان پرکھل گئیں الْجَنَّةِ١ٞ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰىۖ۰۰۱۲۲ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ اور وہ دونوں اپنے اوپر جنت کی زینت کے سامان (یعنی اعمال نیک) لپیٹنے لگ گئے.او رآدم نے اپنے رب کی فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى ۰۰۱۲۳ نافرمانی کی پس وہ صحیح راستہ سے بھٹک گیا.اس کے بعد اس کے رب نے اس کو چن لیا او راس پر رحم کی نظر ڈالی اور اسے صحیح طریق کار بتایا.تفسیر.ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہم نے آدم کو جنت میں رکھاتو شیطان ان کا مد مقابل بن کر کھڑاہوگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا کہ اے آدم! یہ تیر ا بھی دشمن ہے اور تیری بیوی یاتیرے ساتھیوں کا بھی دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال دے او رتم تکلیف میںمبتلاہوجائو.تیرے لئے خدا تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے کہ تو اس جنت میںنہ بھوکا رہے نہ ننگا نہ پیاسا رہے اور نہ گرمی کی تکلیف تجھے ستائے.اگر تو نے اس کی بات مانی تو یہ جنتی گھر جو مومن کے لئے مقرر ہے اس میں سے وہ تجھے نکال دے گا.یعنی اس کی بات ماننے سے تو جنت سے محروم رہ جائےگا.اس کے یہ معنے نہیںکہ وہ اس وقت اس جنت میں تھے جس کا موت کے بعد مومنوں سے وعدہ کیاگیا ہے.چنانچہ اگلی آیات اس امر کو بالکل واضح کردیتی ہیں.کیونکہ شیطان بھی آدم سے جنت کاوعدہ کرتاہے.اگر وہ اس وقت جنت میںتھے تو اس وعدہ سے دھوکا کیونکر کھا سکتے تھے ؟ صاف ظاہر ہے کہ شیطان کے قول سے انہوں نے یہی دھوکاکھایا کہ یہ ہمارے مقصد میں ممد ہے.پس اس جگہ جنت سے اخروی جنت مراد نہیں بلکہ دنیوی جنت مراد ہے.اور یہ جو بعض دوسرے مقامات پر آتاہے کہ انہیںجنت میںرکھا گیا تو درحقیقت اس سے مراد بھی دنیوی جنت ہے جو اخروی جنت کا پیش خیمہ ہوتاہے اور جس کے ملے بغیر انسان کو اخروی جنت بھی
نہیںمل سکتی.بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا.کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو شیطان نے اپنا بھیس بدلااور اس نے آدم کے پاس آکرکہا.کہ کیا میںآپ کو ایک ایسے درخت کا پتہ دوں جس کا پھل کھانے سے آپ کودائمی حیات مل سکتی ہے اور ایسی حکومت کاآپ کو پتہ دوں جو کبھی تباہ نہیںہوگی.جب اس طرح کی چکنی چپڑی باتیںاس نے کیں توآدم کو دھوکا لگ گیا.اور انہوں نے اور ان کی جماعت نے یاآدم اور اس کی بیوی نے اس درخت کا پھل کھالیا جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع کیا تھا یعنی انہوں نے وہ کام کر لیا جس سے انہیں روکا گیاتھا.اور چونکہ آدم کا یہ فعل خدائی منشاء کے خلاف تھا.اس لئے یکدم اس فعل کے برے نتائج ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور آدم کی آنکھیںکھل گئیںکہ اس نے خدائی منشاء کی خلاف ورزی کر کے سخت غلطی کا ارتکاب کیاہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا درخت کا پھل کھانے سے ان کا ننگ ظاہر ہونا شروع ہوگیا اور اس فعل کے برے نتائج ان پر روشن ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم ایک عیب کے مرتکب ہوئے ہیںجب آدم کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تو طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ انہوں نے اس غلطی کے ازالہ کے لئے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کوڈھانکنا شروع کردیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم نے خداکے حکم کی نافرمانی کی تھی جس سے وہ تکلیف میںمبتلا ہوا.مگر پھرخدا نے اسے بزرگی دی.اور جب اس نے ورق الجنۃ سے اپنے آپ کوڈھانکناشروع کردیا تو خدا تعالیٰ نے اسے وہ راستہ دکھادیا جو اسے اور اس کی جماعت کو کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والا تھا.عربی زبان میںورق کے معنے زینت کے بھی ہوتےہیں.اور ورق کے معنے نسل کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ لغت میںلکھاہے الْوَرْقُ جَمَالُ الدُّنْیَا وَ بَھْجَتُھَا یعنی دنیا کی خوبصورتی اور اس کی رونق کوورق کہتے ہیں.اسی طرح عربی زبان کا محاورہ ہے اَنْتَ طَیّبُ الْوَرْقِ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تو طیب النسل ہے ان دونوں محاوروں کے لحاظ سے طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ کے یہ معنے ہوئے کہ آدم نے جنت کی زینت اور اس کے جمال سے اپنے آپ کو ڈھانکناشروع کردیا.اور یہ ظاہر ہے کہ جنت کا جمال اس کے مومن اور پاکباز ساکن ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ آدم نے ایک پاکیزہ نسل کے ذریعہ شیطانی فریب کاازالہ کرنا شروع کر دیا اور وہ کامیاب ہوگیا.بائیبل نے اس واقعہ کو ان الفاظ میںبیان کیاہے.’’ سانپ کل دشتی جانوروںمیںسے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اس نے عورت
سے کہا.کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا.عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیںپر جودرخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہاہے کہ تم نہ تو اسے کھانااور نہ چھونا.ورنہ مرجائو گے تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خداجانتاہے کہ جس دن تم اسے کھائو گئے.تمہاری آنکھیں کھل جائیںگی اور تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جائو گے.عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتاہے.اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اس کے پھل میںسے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا.اور اس نے کھایاتب دونوں کی آنکھیںکھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیںاور انہوں نے انجیرکے پتوں کوسی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں.‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱تا۷ ) اس جگہ بائیبل نے ورق الجنۃ کی بجائے انجیر کے پتوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے انجیر کے پتے سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں.اب ہم دیکھتے ہیںکہ کیا انجیر اور ورق الجنۃ دو مختلف چیزیں ہیں یا ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں اس غرض کے لئے ہم علم تعبیر الرئویا کو دیکھتے ہیںتو ہمیں تعطیر الانام میںیہ لکھاہوا نظر آتاہے کہ اَلتِّیْنُ یُفَسَّرُ بِالصُّلَحَاءِ وَاَخْیَارِ النَّاسِ یعنی جب کوئی شخص رئویا یا کشف کی حالت میںانجیر دیکھے تو اس کے معنے صالح اور نیک لوگوں کے ہوتے ہیں.اوریہی ورق الجنۃ کے معنے ہیں کیونکہ ورق پاکیزہ نسل کو کہتے ہیںاور ورق الجنۃ کے معنے تھے جنت کی پاکیزہ نسل.پس قرآن اوربائیبل میں اس بارہ میںکوئی اختلاف نہ رہا.دونوں اس امرپر متفق ہیںکہ شیطان جب آدم کو دھوکا دے چکا توآدم نے اپنی غلطی کااحساس کرتے ہوئے مومنوںکی جماعت کو اپنے ساتھ ملاکر شیطانی تدابیر کو ناکام کردیا.شیطان نے چاہا تھا کہ اس ذریعہ سے وہ آدم کو شکست دےدے مگر بجائے اس کے کہ آدم کا یہ فعل ان کے لئے کسی مستقل نقصان یاخرابی کاباعث بنتاان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوگئی اور انہوں نے مومنوں کی پاکیزہ جماعت کو اپنے ساتھ ملاکر شیطان کے پھیلائے ہوئے فتنہ کو کچل کر رکھ دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کو چن لیا اور اس پررحم کی نظر ڈالی اور اسے صحیح طریقہء کار بتادیا اور اس نے شیطان کی تمام تدابیر کو خاک میں ملادیا.لوگوں نے غلطی سے قرآن کریم کی آیت اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا تَعْرٰى.وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَ لَا تَضْحٰى کے یہ معنے لئے ہیںکہ آدم ایسے مقام پررکھا گیا تھا جہاں نہ اسے بھوک ہی لگتی تھی نہ پیاس.حالانکہ اگر انہیں بھوک ہی نہیں لگتی تھی تو وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (بقرة:۳۶)کے کیامعنے ہوئے ؟ جب خدا نے ان کی بھوک ہی
اڑادی تھی تو اس کے بعد یہ کہنا اب خوب کھائو پیو عقل کے بالکل خلاف ہے.پس کلا کے لفظ نے بتادیا کہ انہیںبھوک اور پیاس لگتی تھی مگر پھرسوال پید اہوتاہے کہ اس آیت کے کیامعنے ہوئے ؟ سو یادرکھنا چاہیے کہ پہلا دور انسانی جو آدم کے ذریعہ قائم ہوا وہ صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی معلومہ دنیا میںحضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے ایک تمدنی حکومت قائم کی اور اس حکومت کی غرض یہ بتائی کہ ( ۱).ایک دوسرے کی کھانے کے معاملہ میں مدد کی جائے گی (۲).ایک دوسرے کی پینے کے معاملہ میں مدد کی جائےگی.(۳).ایک دوسرے کی عریانی کو دور کرنےکے معاملہ میں مدد کی جائے گی ( ۴ ).ایک دوسرے کی رہائش کے معاملہ میں مددکی جائے گی.گویا کھانا.پانی.کپڑا اورمکان یہ چار چیزیں انہیں اس تعاونی حکومت میں حاصل ہوںگی.پس اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا تَعْرٰى.وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَ لَا تَضْحٰى میں اللہ تعالیٰ نے دور تمدن کے حکومتی نظام کا ڈھانچہ بیان کردیا اور بتایا کہ اے آدم! اگر لوگ اعتراض کریں.تو تو انہیںکہہ دے کہ اس حکومت کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ تم بھوکے نہیں رہو گے گویا تمہاری خوراک کی حکومت ذمہ دار ہوگی.دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تم ننگے نہیںپھرو گے کیونکہ تمہارے کپڑوں کی بھی حکومت ذمہ دار ہوگی.تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تم پیاسے نہیں رہو گے کیونکہ تمہیںپانی مہیا کرنے کی بھی حکومت ذمہ دار ہو گی اور چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ تم بے گھر بھی نہیں رہو گے کیونکہ تمہارے لئے مکانات مہیا کرنے کی بھی حکومت ذمہ دار ہوگی.غر ض اس آیت میں اس نئے نظام کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا.اور لوگوں کو بتایا گیا کہ اگر اس نئے نظام کے ماتحت تم رہو گے تو تمہیںیہ یہ سہولتیں حاصل ہوںگی.قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ فَاِمَّا (اور خدا تعالیٰ نے ) کہا تم دونوں (گروہ) اس میںسے سارے کے سارے نکل جائو تم میں سے بعض بعض کے يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى١ۙ۬ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَ لَا دشمن ہوںگے.پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے.تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا
يَشْقٰى۰۰۱۲۳ و ہ کبھی گمراہ نہ ہوگا اور نہ کبھی ہلاکت میں پڑےگا.حلّ لُغَات.ھَبَطَھَبَطَ الْوَادِیَ کے معنے ہوتے ہیں نَزَلَہٗ اس وادی میںاترا اور ھَبَطَ مِنْ مَوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِع اٰخَرَکے معنے ہوتے ہیں اِنْتَقَلَ.ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا (اقرب )پس اِھْبِطَاکے معنے ہوںگے تم دونوں یہاں سے چلے جائو.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے کہا.تم دونوں یہاں سے چلے جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوںگے اس جگہ دونو ں سے آدم اور حوا مراد نہیں.کیونکہ اس صورت میںآیت کے یہ معنے بنیں گے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیںگے اور یہ بات بالبداہت باطل ہے دونوں سے مراد درحقیقت دو گروہ ہیں یعنی ایک وہ گروہ جو آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا اور ایک وہ گروہ جو شیطان کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے آدم اور شیطان سے تعلق رکھنے والے گروہو!تم دونو اس جگہ سے چلے جائو.اب تم دونوں گروہ آپس میںہمیشہ دشمن رہو گے.چنانچہ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اھبطا کے ساتھ جمیعاً کا لفظ بھی آتا ہے حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میںجمیعاً کبھی نہیں آتا.یہ جمیعاً کا لفظ اسی لئے بڑھایا گیا ہے کہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئے ساتھی تھے.اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم سب اس جگہ سے چلے جائو اسی طرح بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ میں بھی کُم کا لفظ جو تین یاتین سے زیادہ افراد کے لئے بولا جاتاہے بتارہا ہے کہ جن کو نکلنے کا حکم دیا گیا تھا وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دوافراد.وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّ اور جوشخص میرے یاد دلانے کے باوجود اعراض سے کام لے گا اسے تکلیف والی زندگی ملے گی.اور قیامت نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى ۰۰۱۲۵قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْۤ کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے.(جس پر )وہ کہے گا.اے میرے رب تو نے مجھے کیوں اندھا اٹھایا ؟
اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۰۰۱۲۶قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا حالانکہ میں تو خوب دیکھ سکتاتھا.(اس پر خدا تعالیٰ) فرمائے گا تیرے پاس بھی تو ہماری آیا ت آئی تھیں جن کو فَنَسِيْتَهَا١ۚ وَ كَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۰۰۱۲۷وَ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ تو نے بھلا دیا تھا سو آج تجھ کو بھی (خدا کی رحمت کی تقسیم کے وقت) ترک کردیا جائےگا.اورجو خدائی قانون سے مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ١ؕ وَ لَعَذَابُ باہرچلا جاتاہے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہیں لاتا اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے (اور یہ تو دنیوی سلوک ہے) الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى ۰۰۱۲۸ آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت اور بہت مدت تک جانےوالا ہے حلّ لُغَات.الضَنْکُ الْضِّیْقُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یعنی ضَنْک تنگی کو کہتے ہیں(اقرب) پس مَعِيْشَةً ضَنْكًا کے معنے ہوںگے تنگ زندگی.تفسیر.اس آیت میں منکروںکے لئے پہلے تو ایک دنیوی سزا کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کو اس دنیا میں ایک تکلیف دہ زندگی ملے گی اور پھر اخروی سزا کا ذکر کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ اندھے اٹھائے جائیںگے یہاں تک کہ ان میںسے ہرشخص چلا اٹھے گا کہ اے خدا میں تو اس دنیامیںاچھا سوجھ بوجھ والا آدمی تھا اس دنیامیں تو نے کیا کیا کہ مجھے اندھا اٹھایاجس سے معلوم ہوتاہے کہ اندھا اٹھانا اگلے جہان کا عذاب ہے اللہ تعالیٰ جواب میںفرماتا ہے کہ دنیامیں تو بھی ہمارے نشانوں کے پاس اندھا ہوکر آتاتھا.اور ان کو بھول جاتا تھا.اس لئے آج اس دنیا میںتجھ کو بھی بھلادیا گیاہے اور جوبھی اپنے رب کی آیات پرایمان نہ لائے اور حدسے بڑھ جائے اس کو ہم ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیںاور آخرت کا عذاب تو اس اندھے اٹھائے جانےکے عذاب سے بھی زیادہ ہوگا.اس آیت کے مفہوم میں ایک الجھن ہے جس کو اس جگہ دور کرنا ضروری ہے.اور وہ یہ کہ پہلے حصہ میں تو یہ کہاگیاہے کہ مجھے تونے اندھاکرکے کیوں اٹھایاجس کے معنے یہ ہیںکہ یہ اخروی زندگی کا ذکر ہے اس دنیا کی زندگی
کا ذکر نہیں قرآن بھی کہتاہے وَنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى اور کافربھی کہتاہے کہ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْۤ اَعْمٰى وَ قَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اورکافر بھی دونوں اس بات پر متفق ہیںکہ یہ اخروی زندگی کے عذاب کا ذکر ہے لیکن ان آیات کے معاً بعد پھر یہ فرماناکہ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰى کہ آخرت کاعذاب اس سے بھی سخت ہوگا ایک بالکل بے جوڑ فقرہ معلوم ہوتاہے اور انسان حیران ہوتاہے کہ جب پہلے بھی عذاب آخرۃ کا ذکر آچکا ہے تو پھر دوبارہ عذاب آخرۃ کا ذکر کیوں کیا گیا ہے.اور یہ کون سا عذاب آخرت ہے جو پہلے عذاب آخرت سے بھی زیادہ سخت ہوگا ؟ اس مشکل کاحل یہ ہے کہ قرآن و احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ یوم آخرت ایک لمباوقت ہے جس میں مختلف اوقات میں کفار کی مختلف حالتیں ہوںگی.چنانچہ سورۃ انعام رکوع ۱۱ (آیت ۹۵)میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ یعنی آج تو تم ہمارے پاس اس طرح اکیلے اکیلے آئے ہو جس طر ح ہم نے تمہیںپہلی مرتبہ پید اکیا تھا اور جو کچھ ہم نےتمہیںدیاتھا اسے تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو.اور پھریہ کیا بات ہے کہ ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان شفعاء کو نہیں دیکھتے جن کے بارہ میںتم بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور کہاکرتے تھے کہ وہ تم میں خداکے شریک ہیںبات یہ ہے کہ آج تمہارے آپس کے رشتے بالکل کٹ گئے ہیںاور جوکچھ تم کیا کرتے تھے وہ سب کچھ تم سے کھویا جاچکا ہے.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ یوم آخرت میںایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کافروں اور ان کے معبودوں کے درمیان تعلق منقطع ہوجائےگا اور وہ اپنے شرک کے دعویٰ کو بھول جائیں گے.یعنی دنیا میں تو ان کو اصرار تھا کہ جن بتوںکو ہم پوجتے ہیںوہ واقعہ میں خداکے شریک ہیںاور ہم اس دعوٰی میں سچے ہیںیعنی اپنے مذہب کی سچائی دیکھ رہے ہیں.لیکن قیامت کے دن ایک وقت آئے گا کہ وہ سب دعوے ان کو بھول جائیںگے اور وہ بت جن کو وہ دنیا میںپوجتے تھے ان کے دماغ سے اوجھل ہوجائیںگے گویاوہ ان کی خدائی سے منکر ہوجائیںگے اس وقت وہ اپنی دنیوی حالت کا مقابلہ اخروی حالت سے کریںگے اور کہیں گے کہ اے خدا یہ کیا ہوگیا کہ ہم دنیا میں تو اپنے بتوں کی خدائی دیکھ رہے تھے اور اسی لئے ان پر ایمان لائے تھے لیکن اب وہ سب دلیلیںغائب ہوگئیںاور اب ہمیںکچھ بھی نظر نہیں آتا.گویاہم دنیاکے مقابلہ میںبالکل اندھے ہو گئے ہیں.یہ حالت بھی ایک عذاب کی ہوگی کیونکہ ان کو معلوم ہو جائےگا کہ وہ دنیامیںجس چیز کو صحیح سمجھتے تھے وہ غلط تھی اس احساس کا پید اہوجانا خود ایک عذاب پیدا کرتاہے.اور اس آیت میںا سی طرف اشارہ ہے کہ مرنے کے بعدپہلا عذاب کافروں کو یہ ملے گا کہ ان کویقین ہو جائےگا کہ جن کو ہم خدا کا
شریک قرار دیتے تھے وہ اس کے شریک نہیںاور وہ یقین کرلیںگے کہ شاید ہمار ی روحانی بصیرت ماری گئی ہے کہ معبود ان الٰہی اب ہمیں معبود ان الٰہی نظر نہیں آتے.فرماتا ہے ضمیرکا یہ عذاب بھی بڑاعذاب ہے اور خصوصاً اس صورت میں جب کہ وہ دنیا کے عقیدہ کے بطلان کو صحیح سمجھیں گے اور دنیاکے عقیدہ کو غلط سمجھیںگے اور حیران ہوں گے کہ ہم ایسی بات کو کس طرح صحیح سمجھتے رہے.جب یہ بات اتنی واضح تھی تو کیا اب ہم اندھے ہوگئے ہیں کہ ہم کو اپنے معبودوں کی سچائی تک نظر نہیں آتی.اس کے بعد آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عذاب توکچھ بھی نہیںاصل عذاب تو وہ ہے جو بعد میںآنے والا ہے یعنی جہنم کا عذاب یہ ضمیر کاعذاب بھی بے شک گھبراہٹ پیدا کرتاہے اور یوں محسوس ہوتاہے کہ گویاتم اب اندھے ہوگئے ہو اور پہلے سوجا کھے تھے.مگر حقیقت یہ ہے کہ تم پہلے اندھے تھے اور اب بینا ہو.اور جب اس حقیقت کے مطابق تم پر عذاب آئےگا تب تم کو معلوم ہوگا کہ تم اندھے دنیا میںتھے کہ غلط چیزکو صحیح سمجھتے تھے لیکن بینا اب ہوکہ غلط کو غلط سمجھنے لگ گئے ہو اور صحیح کو صحیح.پس درحقیقت اس آیت میںایک طنزیہ کلام کیا گیا ہے جس سے کفار کے عقیدہ پر طنز کی گئی ہے کہ وہ بے وقوف شرک کرتے ہوئے بھی ا پنے آپ کو بینا سمجھتے ہیں.حالانکہ آخرت میںاس شرک کے منکر ہوجائیںگے اور حیران ہوںگے کہ کیا اب ہم اندھے ہیں یاپہلے اندھے تھے.یہ کیا حماقت ہے کہ جب ہم اندھے تھے تو اپنے آپ کوبیناسمجھتے تھے.اس آیت کے متعلق ایک اور سوال بھی قابل حل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا جوشخص میرے ذکرسے اعراض کرےگا اسے ایک تنگ زندگی میںسے گذرناپڑےگا.مگر ہمیںتو یہ دکھائی دیتا ہے کہ غیر مذاہب والوںکو معیشت کی کوئی تنگی نہیں بلکہ ان میں سے اکثریت ایسی ہے جن کی مالی حالت مسلمانوں سے بدرجہا بہتر ہے اور ہر قسم کے عیش اور آرام کے سامان انہیںمیسر ہیںاس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ معیشت کے معنے اس چیز کے ہوتے ہیںجس سے انسانی زندگی قائم رہے(اقرب) اور انسانی زندگی کے قیام کے لئے صرف کھانا پینا یامال و دولت کا میسر آجانا ہی ضروری نہیں ہوتابلکہ اور بھی ہزاروں چیزیں ہیںجوانسان کی مذہبی.تمدنی.اور روحانی زندگی کو سنوار نے والی ہیںاوریہی وہ چیزیں ہیںجوا لٰہی تعلیم سے اعراض کرنے والوںکو میسر نہیں آتیں اوراس لحاظ سے ان کی معیشت ان پرشدید طور پر تنگ ہوتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ وسعت عمل خدا تعالیٰ کی صفات پر ایمان لانے اور ان کے مطابق اپنے اندر تغیر پید اکرنے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور جو شخص صفات الٰہیہ پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کادائرئہ عمل نہایت محدود ہوتاہے.دائرئہ عمل ہمیشہ اعلیٰ مطمح نظر سے وسیع ہوتاہے اور جب کوئی اعلیٰ مطمح نظر سامنے نہ ہو تو اعمال بھی محدود ہوجاتے ہیں.یہی وجہ ہے
کہ انبیاء کے مقابلہ میںفلاسفروںکے اخلاق بالکل ہیچ ہوتے ہیں اور پھر ان کے اندر جوتھوڑے بہت اخلاق پائے بھی جاتے ہیں.ان کا دائرہ عمل محدود ہوتاہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھا جائے تو ہمیںآپ کے اندر تمام اخلاق دکھائی دیںگے آپ میں سچائی بھی شاندار طور پر نظرآئے گی آپ میں امانت بھی شاندار طورپر نظر آئے گی آپ میں سخاوت بھی شاندار طورپر نظر آئے گی.آپ میں رحم بھی شاندار طور پر نظر آئے گا.آپ میں غریبوں کی پرورش کامادہ بھی شاندار طورپر نظر آئے گا.آپ میںانصا ف بھی شاندار طورپر نظر آئےگا آپ میںتوکل بھی شاندار طورپر نظر آئےگا.اسی طرح تحمل.بردباری.دوسروں کے جذبات کا احترام.عورتوں سے حسن سلوک.بنی نوع انسان کی خدمت صبر چشم پوشی.تعاون باہمی.بہادری وفائے عہد اور اسی قسم کے سینکڑوں اخلاق آپ کے اندر شاندار طورپر دکھائی دیںگے.لیکن کوئی فلاسفر ایسا نہیں نکل سکتاجو تمام اخلاق فاضلہ کاجامع ہو بلکہ کسی میںکوئی ایک خوبی ہوگی اور کسی میںدو اور پھران کا دائرہ بھی محدود ہوگا.اس کی وجہ یہی ہے کہ جب تک کوئی اعلیٰ مطمح نظر نہ ہو اور جب تک کوئی ایساکامل نمونہ سامنے نہ ہو جس کی نقل کی جاسکے اس وقت تک اعمال ایک محدود دائرہ میںہی چکر کھاتے رہتے ہیںاوران میںوسعت پیدا نہیں ہوسکتی اور چونکہ کلام الٰہی کامنکر خدا تعالیٰ سے اعراض کرنے کی و جہ سے صفات الہٰیہ کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اس لئے قیامت کے دن بھی جب خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوگا تو وہ ان کو پہچان نہیں سکے گا اوراندھوں کی طرح کھڑارہے گا.جس طر ح وہ شخص جس نے کبھی خربوزہ نہیںدیکھا.خربوزے کو دیکھ کر بھی اسے پہچان نہیںسکتا اسی طرح وہ شخص جس نے صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا نہیں کیا وہ صفات الٰہیہ کے ظہو ر کو بھی پہچان نہیںسکے گا.او ر نابیناہونے کی حالت میںاٹھے گا اس پر وہ گھبرا کر کہے گا کہ میںتو بڑابصیر تھا مجھے آج اندھا کیوں پیدا کیا گیاہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائےگا کہ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا١ۚ وَ كَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى دنیا میں ہم نے اپنے رسولو ں کے ذریعہ بیسیوں نشانات و معجزات ظاہر کئے تھے مگر تم نےان کی طرف کبھی توجہ نہ کی اگر تم بینا ہوتے تو ہماری آیات کا انکار کیوں کرتے.پس چونکہ تم پہلے بھی اندھے تھے اس لئے آج بھی اندھے ہی اٹھے.اس سے معلوم ہوا کہ اخروی نابینائی درحقیقت روحانی ہی ہوگی.کیونکہ فرماتا ہے جس طرح اب تم روحانی امور کو نہیںدیکھ سکتے اسی طرح تم دنیامیں روحانی امور کو نہ دیکھ سکے تھے اگر روحانی نابینائی مراد نہ ہوتی تو کذالک کا لفظ استعمال نہ ہوتا.دوسری دفعہ کذالک اس لئے استعمال کیاکہ پہلے جہان میں بھی تیر ے عمل کی وجہ سے ہم نے تجھے چھوڑ دیاتھااور اب بھی چھوڑ دیا ہے تجھے ہم نے بیناکبھی قرار نہیں دیا.
اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ کیا ان لوگوںکو( اس بات سے )ہدایت حاصل نہ ہوئی کہ ان سے پہلی گذری ہوئی قوموں میں سے بہتوں يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي کو ہم نے ہلاک کردیا یہ( لوگ) ان کے گھروں میںچلتے پھرتے ہیں اس میں عقل والے لوگوں کے لئے النُّهٰى ؒ۰۰۱۲۹ بڑے نشان ہیں.تفسیر.فرماتا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جن گذری ہوئی قوموں کی وادیوں اور علاقوں میںیہ لوگ رہتے ہیںوہ بھی شرک میںمبتلا تھیںلیکن آخر تباہ ہوگئیں پھریہ کیوں اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے.وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَّ اَجَلٌ اور اگر ایک بات تیرے رب کی طرف سے پہلے نہ گذرچکی ہوتی اور مدت بھی مقرر نہ ہوتی تو عذاب (ان قوموں مُّسَمًّىؕ۰۰۱۳۰ کے لئے) دائمی بن جاتا.(اور ایک لمبے عرصہ تک جاری رہتا).تفسیر.لَوْ لَا كَلِمَةٌ سے مراد اس جگہ پر رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف:۱۵۷) والا قانون ہے.یعنی ہم یہ فیصلہ کرچکے ہیںکہ ہمارا رحم ہماری گرفت پرغالب رہتاہے اگر ہمارا یہ فیصلہ نہ ہوتااور گناہوںکی وجہ سے فوراً عذاب آجایا کرتاتو جس ملک پرعذاب آتاوہ اس کے لئے دائمی بن جاتااور ایک لمبے عرصہ تک جاری رہتااس عذاب سے نجات پانےکی کوئی راہ انہیںنظر نہ آتی.
فَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ پس جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس پرصبرکر( کیونکہ تیرے رب کی سنت یہی ہے کہ رحم سے کام لیاجائے) اور الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَا١ۚ وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَ سورج کے چڑھنے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بھی کیاکر اور رات کے مختلف حصوں اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۰۰۱۳۱ اور(اسی طرح) دن کے سب حصوں میں بھی اس کی تسبیح کیا کر( تاکہ اس کے فضل کو حاصل کرکے) تو خوش ہوجائے.تفسیر.مفسرین کاقول ہے کہ اس جگہ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَا سے صبح اور عصر اور اٰنَآئِ الَّيْلِ سے مغرب او ر عشاء اور اَطْرَافَ النَّهَارِ سے ظہر اور ضحٰی یعنی چاشت کی نمازیں مراد ہیں.کیونکہ وہ بھی نصف کے کناروں پر ہو تی ہیںایک زوال سے پہلے اور ایک زوال کے بعد یاخالی ظہر کہ وہ دونوں نصف کے کناروں پر واقع ہے.(درمنثور زیر آیت ھذا) وَ لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ اور ہم نے جو کچھ ان میںسے بعض لوگوںکو دنیوی زندگی کے زیبائش کے سامان دے رکھے ہیںتو اس کی زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ١ؕ وَ رِزْقُ رَبِّكَ طرف اپنی دونوںآنکھوں کی نظر کو پھیلا پھیلا کرمت دیکھ (کیونکہ یہ سامان ان کو اس لئے دیا گیا ہے) کہ ہم اس کے خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ۰۰۱۳۲ ذریعہ سے ان کی ازمائش کریں اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق سب سے اچھا اور باقی رہنے ولا ہے.حل لغات.زَھْرَۃٌ زَھْرَۃُ الدُّنْیَاکے معنے ہوتے ہیں بَھْجَتُھَا وَ غَضَارَتُھَا وَ حُسْنُھَا دنیاکی خوبصورتی اور حسن (اقرب)
لِنَفْتِنَھُمْ نَفْتِنُ فَتَنَ سے بنا ہے اور فَتَنَہٗ کے معنے ہیںخَبَرَہٗ.اس کی آزمائش کی نیز اس کے معنے ہیں اَضَلَّہٗ.اس کو گمراہ کیا اسی طرح جب یہ کہیںکہ فَتَنَ الصَّائِغُ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ تومعنے ہوتے ہیںاَذَابَہٗ بِالْبُوْتَقَۃِ وَ اَحْرَقَہٗ بِالنَّارِ لِیُبَیِّنَ الْجَیِّدُ مِنَ الرَّدِیْءِ وَ یُعْلَمَ اَنَّہُ خَالِصٌ اَوْ مَشُوْبٌ (اقرب)یعنی جب سنار کے لئے فتن کا لفظ استعمال ہو تو معنے یہ ہوتے ہیںکہ اس نے سونے کو آگ میں ڈال کر اس پر آگ تپائی تاکہ سونا پگھل جائے اور خالص سونا علیحدہ ہوجائے اور کھوٹ علیحدہ ہوجائے پس لِنَفْتِنَهُمْ کے معنے ہوںگے (۱)ہم معلوم کرلیں (۲)ہم اچھے اور برے کی تمیز کردیں.تفسیر.انسان بعض دفعہ دوسرے کی دولت دیکھ کر لالچ میںآجاتاہے اور چاہتا ہے کہ وہ دولت اس کو مل جائے لیکن اس آیت میںبتایاگیا ہے کہ جب یوروپین قومیںترقی کریں اور بہت دولت سمیٹ لیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی دولت دیکھ دیکھ کر لالچ میں نہ آئیںکیونکہ یہی دولت آخر ان کی تباہی کا موجب ہوگی جیسا کہ موجودہ زمانہ میںہورہاہے کہ یورپ اور امریکہ کی دولت کو دیکھ کر روس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے بھی ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ایجاد کرلئے تاکہ ان کی مدد سے مغربی ممالک کی دولت چھین لے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرما تاہے کہ تم اپنی دولت خداکے ہاں جمع کر و.کیونکہ جو دولت خداکے ہاں جمع ہوتی ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا.اور وہ بہتر بھی ہوتی ہے اور ہمیشہ قائم بھی رہتی ہے.وَ أْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا١ؕ لَا نَسْـَٔلُكَ اور تو اپنے اہل کو نماز کی تاکید کرتارہ.اور تو خود بھی اس حکم یعنی نماز پرقائم رہ ہم تجھ سے رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم رِزْقًا١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكَ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ۰۰۱۳۳ تجھے رزق دے رہے ہیںاور انجام تقوٰی ہی کابہتر ہوتاہے.تفسیر.فرماتا ہے کہ یہ قانون قدرت ہے کہ بچے ماں باپ کے پیچھے چلتے ہیںاس لئے عیسائیوں کی ترقی کے زمانہ میںہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کونماز کی تاکید کرتارہے اور خود بھی نمازوں کا پابند رہے تاکہ اس کی اولاد بھی اسی رنگ میںرنگین ہو کیونکہ جو شخص عبادت پر قائم رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرو ر حلال رزق دیتاہے اور اس سے رزق مانگتانہیں.بظاہر یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام انبیاء دین کی خدمت کے لئے چندے مانگتے چلے آئے
ہیںاور اسلام نے بھی زکوٰۃ اور صدقات پر خصوصیت سے زور دیاہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ یا صدقہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں انکا مال کم نہیںہوتابلکہ ہمیشہ بڑھتاہے.اور اس کافائدہ خود لوگوں کو ہی پہنچتاہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (الروم:۴۰) یعنی جولوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں.وہی اپنے مالوں کو بڑھانے والے ہوتے.پس چندے لینا یاصدقہ و زکوٰۃ وغیرہ اس آیت کے خلاف نہیں.وَ قَالُوْا لَوْ لَا يَاْتِيْنَا بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ اَوَ لَمْ تَاْتِهِمْ اور وہ کہتے ہیںکہ کیوں وہ ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشان نہیں لاتا.کیا ان کے پاس ویسا بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ۰۰۱۳۴ نشان نہیںآیاجیساکہ پہلی کتابوں میں بیان ہوچکا ہے.تفسیر.فرماتا ہے نشان جادوگری کا نام نہیں بلکہ پہلے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی نشان ہوتی ہیںاور محمدؐ رسول اللہ کے حق میںپہلے انبیا ء کی پیشگوئیاں موجود ہیں.پھر یہ کیوں ایمان نہیںلاتے.اگر محمدؐ رسول اللہ نہ آتے تو ان کا اعتراض ہوتا کہ ہماری طرف تو کوئی نبی آیا ہی نہیں ور نہ ہم مان لیتے لیکن نبی آگیا ہے اس لئے اب سزاکا انتظار کرنے کے سوا ان کے لئے کوئی چارہ نہیں آخر میں حق کھل جائے گامگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیںہوگا.وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اور اگر ہم ان کو اس( رسول) سے پہلے کسی عذاب کے ذریعہ سے ہلاک کردیتے تو وہ کہتے اے ہمارے رب اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا (اگر تو ایسا کرتا) توہم تیرے نشانون کے پیچھے چل پڑتے قبل اس کے
نَخْزٰى۰۰۱۳۵ کہ ہم ذلیل اور رسواہوجاتے.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی نو ع انسان کی تو جہ اس امر کی طرف منعطف کرتا ہے کہ اگر رسول کی بعثت سے پہلے ہم ان پر عذاب نازل کردیتے تو یہ لوگ ہم پر اعتراض کرتے کہ جب ہم گمراہ تھے اور ہدایت کے محتاج تھے تو تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی تیرے احکام کو قبول کرلیتے اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کو رد نہیںکرتا.بلکہ اسے تسلیم کرتاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے انبیا ء ورسل کی بعثت کا انتظام نہ ہوتا تو بندوںکا حق تھا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے کہ جب اس نے ان کے پاس کوئی ہادی ہی نہیں بھیجے تو وہ ان سے جواب طلبی کیوں کرتاہے افسوس ہے کہ اس زمانہ میںمسلمانوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ دنیا میںخواہ کتنی گمراہی پھیل جائے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کے لئے کسی مامور کو مبعوث نہیں کر سکتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں اسی بات کی تردید کرتاہے اور فرماتا ہے کہ اگر ہم دنیامیںاپنے مامور نہ بھیجیں تو لوگ بجا طور پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ جب اس نے ہدایت کا کوئی سامان ہی نہیں کیا تو وہ انہیں عذاب کیوں دیتاہے گویا مسلمان اپنے عمل سےاس اعتراض کو تقویت دے رہے ہیں جس اعتراض کو مٹانے کے لئے اس کی طرف سے ہمیشہ مامورین آتے رہے ہیں.قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا١ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ۠ مَنْ اَصْحٰبُ تو کہہ دے ہر ایک شخص اپنے انجام کی انتظار میںہے پس تم بھی اپنے انجام کاانتظار کرتے رہو.اور تم جلدی الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَ مَنِ اهْتَدٰى ؒ۰۰۱۳۶ ہی معلوم کرلو گے کہ کون شخص سیدھے راستہ پر چلنے والوں اور ہدایت پانے والوں میں سے ہے اور کون نہیں تفسیر.اس جگہ سیدھے راستہ کے لئے سَوِیٌّ کا لفظ استعمال کیاگیاہے.جس کے معنے ایسے راستہ کے ہیںجو افراط اور تفریط سے منزہ ہو (مفردات ) اسی طرح سَوِیٌّ کا لفظ کامل اور مضبوط کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ( لسان ا لعرب ).پس اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں جلدی پتہ لگ جائےگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
جو تعلیم لوگوںکے لئے لائے ہیں وہ افراط اور تفریط سے منزہ ہے اور ایسی کامل درجہ کی تعلیم ہے کہ خواہ زمانہ کے حالات کتنے بھی بدلیں.وہ کبھی متروک قرار نہیںدی جاسکتی یعنی دائمی اور غیر متبدل قانون ہے.اور تمہیںپتہ لگ جائےگا کہ کون شخص ہدایت پانے والوں میں سے ہے اور کون نہیںیعنی جس شخص کو ایسی شریعت ملے جو کبھی منسوخ نہ ہو سکتی ہو اور نہ زمانہ کے حالات سے کبھی بدل سکتی ہو.وہی شخص اور اس کے متعبین کامل ہدایت یافتہ کہلا سکتے ہیں.اور جو لوگ اس سے الگ ہوتے ہیں وہ کبھی بھی ہدایت یافتہ نہیں کہلا سکتے.کیونکہ جس شخص کو زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کو دیکھ کر ہمیشہ اپنا ایمان اور عمل بدلناپڑتا ہے اس کے متعلق یہ تسلیم نہیںکیا جاسکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی ہدایت ہوتی ہے جو قابل عمل ہو سوائے اس کے کہ وہ خود اس کو کسی زمانہ میںایک نئے الہام کے ذریعہ سے بدل دے بہر حال انسان اسکو نہیںبدل سکتا کیوں کہ کوئی انسان خدا کی تعلیم کا قائم مقام نہیں بناسکتا.ڑ ڑ ڑ ڑ